ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔
مسلمان کی طاقت کا اصلی منبع
دوسری صدی ہجری کی ابتدا کا واقعہ ہے کہ سجستان و رُ خَّج (موجودہ افغانستان )کے فرماں رواں نے جس کا خاندانی لقب رتبیل تھا، بنی امیہ کے عُمّال کو خراج دینا بند کر دیا۔ پیہم چڑھائیاں کی گئیں، مگر وہ مطیع نہ ہوا۔ یزید بن عبدالمالک اموی کے عہد میں جب اس کے پاس طلبِ خراج کے لیے سفارت بھیجی گئی تو اس نے مسلمانوں کے سفرا سے دریافت کیا:
وہ لوگ کہاں گئے جو پہلے آیا کرتے تھے؟ ان کے پیٹ فاقہ زدوں کی طرح پٹخے ہوئے ہوتے تھے۔ پیشانیوں پر سیاہ گٹے پڑے رہتے تھے اور کھجوروں کی چپلیں پہنا کرتے تھے۔
کہا گیا کہ وہ لوگ تو گزر گئے۔
رتبیل نے کہا: اگرچہ تمھاری صورتیں ان سے زیادہ شان دار ہیں‘ مگر وہ تم سے زیادہ عہد کے پابند تھے، تم سے زیادہ طاقت وَرتھے۔
مورخ لکھتا ہے کہ یہ کہہ کر رتبیل نے خراج ادا کرنے سے انکار کر دیا اور تقریباً نصف صدی تک اسلامی حکومت سے آزاد رہا۔
یہ اس عہد کا واقعہ ہے جب تابعین و تبع تابعین کثرت سے موجود تھے۔ ائمہ مجتہدین کا زمانہ تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کو صرف ایک صدی گزری تھی۔ مسلمان ایک زندہ اور طاقت وَر قوم کی حیثیت سے دنیا پر چھا رہے تھے‘ ایران‘ روم‘ مصر‘ افریقہ‘ اسپین وغیرہ ممالک کے وارث ہو چکے تھے اور ساز و سامان‘ شان و شوکت‘ اور دولت و ثروت کے اعتبار سے اس وقت دنیا کی کوئی قوم ان کی ہم پلہ نہ تھی۔ یہ سب کچھ تھا۔ دلوں میں ایمان بھی تھا، احکام شریعت کی پابندی اب سے بہت زیادہ تھی‘ سمع و طاعت کا نظام قائم تھا،پوری قوم میں ایک زبردست ڈسپلن پایا جاتا تھا، مگر پھر بھی جو لوگ عہد صحابہ کے فاقہ کش، خستہ حال صحرا نشینوں سے زور آزمائی کر چکے تھے، انھوں نے ان سروسامان والوں اور ان بے سروسامانوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق محسوس کیا۔ یہ کس چیز کا فرق تھا؟
فلسفہ تاریخ والے اس کو محض بداوت(دیہاتی (۲)شہری (۳)صحرائی) و حضریت(۲) کے فرق پر محمول کریں گے۔ وہ کہیں گے کہ پرانے بادیہ نشین(۳) زیادہ جفا کش تھے اور بعد کے لوگوں کو دولت اور تمدن نے عیش پسند بنا دیا تھا، مگر میں کہوں گا کہ یہ فرق دراصل ایمان‘ خلوص نیت‘ اخلاق اور اطاعت خدا اور رسولؐ کا فرق تھا۔ مسلمانوں کی اصلی قوت یہی چیزیں تھیں‘ ان کی قوت نہ کثرت تعداد پر مبنی تھی‘ نہ اسباب و آلات کی افراط پر‘ نہ مال و دولت پر‘ نہ علوم و صناعات کی مہارت پر‘ نہ تمدن و حضارت کے لوازم پر۔وہ صرف ایمان و عمل صالح کے بل پر ابھرے تھے۔ اسی چیز نے ان کو دنیا میں سربلند کیا تھا۔ اسی نے قوموں کے دلوں میں ان کی دھاک اور ساکھ بٹھا دی تھی۔ جب قوت و عزت کا یہ سرمایہ ان کے پاس تھا تو یہ قلت تعداد اور بے سروسامانی کے باوجود طاقت وَر اور معزز تھے، اور جب یہ سرمایہ ان کے پاس کم ہو گیا تو کثرت تعداد اور سروسامان کی فراوانی کے باوجود کمزور اور بے وقعت ہوتے چلے گئے۔
رتبیل نے ایک دشمن کی حیثیت سے جو کچھ کہا وہ دوستوں اور ناصحوں کے ہزار وعظوں سے زیادہ سبق آموز ہے۔ اس نے دراصل یہ حقیقت بیان کی تھی کہ کسی قوم کی اصلی طاقت اس کی آراستہ فوجیں‘ اس کے آلات جنگ‘ اس کے خوش رو، خوش پوش سپاہی‘ اور اس کے وسیع ذرائع و وسائل نہیں ہیں‘ بلکہ اس کے پاکیزہ اخلاق‘ اس کی مضبوط سیرت‘ اس کے صحیح معاملات‘ اور اس کے بلند تخیلات ہیں۔ یہ طاقت وہ روحانی طاقت ہے جو مادی وسائل کے بغیر دنیا میں اپنا سکہ چلا دیتی ہے۔ خاک نشینوں کو تخت نشینوں پر غالب کر دیتی ہے۔ صرف زمینوں کا وارث ہی نہیں بلکہ دلوں کا مالک بھی بنا دیتی ہے۔ اس طاقت کے ساتھ کھجور کی چپلیاں پہننے والے‘ سوکھی ہڈیوں والے‘ بے رونق چہروں والے، چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی تلواریں رکھنے والے لوگ دنیا پر وہ رعب‘ وہ سطوت و جبروت‘ وہ قدر و منزلت، وہ اعتبار و اقتدار جما دیتے ہیں جو اس طاقت کے بغیر شان دار لباس پہننے والے‘ بڑے ڈیل ڈول والے‘ بارونق چہروں والے‘ اونچی بارگاہوں والے‘ بڑی بڑی منجنیقیں اور ہولناک دبابے رکھنے والے نہیں جما سکتے۔ اخلاقی طاقت کی فراوانی مادی وسائل کے فقدان کی تلافی کر دیتی ہے، مگر مادی وسائل کی فراوانی اخلاقی طاقت کے فقدان( گم کرنا، کھو دینا (۲)آمادہ تیار (۳)چھت کا شہتیر) کی تلافی کبھی نہیں کرسکتی۔ اس طاقت کے بغیر محض مادی وسائل کے ساتھ اگر غلبہ نصیب ہو بھی گیا تو ناقص اور عارضی ہو گا۔ کامل اور پائدار نہ ہوگا۔ دل کبھی مسخر نہ ہوں گے۔ صرف گردنیں جھک جائیں گی، اور وہ بھی اکڑنے کے پہلے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے مستعد (۲)رہیں گی۔
کسی عمارت کا استحکام اُس کے رنگ و روغن‘ نقش و نگار‘ زینت و آرائش صحن و چمن اور ظاہری خوش نمائی سے نہیں ہوتا۔ نہ مکینوں کی کثرت‘ نہ ساز و سامان کی افراط اور اسباب و آلات کی فراوانی اس کو مضبوط بناتی ہے۔ اگر اس کی بنیادیں کمزور ہوں‘ دیواریں کھوکھلی ہوں‘ ستونوں کو گھن لگ جائے‘ کڑیاں(۳) اور تختے بوسیدہ ہو جائیں تو اس کو گرنے سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی‘ خواہ وہ مکینوں سے خوب معمور ہو‘ اور اس میں کروڑوں روپے کا مال و اسباب بھرا پڑا ہو‘ اور اس کی سجاوٹ نظروں کو لبھاتی اور دلوں کو موہ لیتی ہو۔ تم صرف ظاہر کو دیکھتے ہو۔ تمھاری نظریں مد نظر پر اٹک کر رہ جاتی ہیں۔ مگر حوادث زمانہ کا معاملہ نمائشی مظاہر سے نہیں بلکہ اندرونی حقائق سے پیش آتا ہے۔ وہ عمارت کی بنیادوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ دیواروں کی پختگی کا امتحان لیتے ہیں۔ ستونوں کی استواری کو جانچتے ہیں۔ اگرچہ یہ چیزیں مضبوط اور مستحکم ہوں تو زمانے کے حوادث ایسی عمارت سے ٹکرا کر پلٹ جائیں گے اور وہ ان پر غالب آجائے گی خواہ وہ زینت و آرائش سے یکسر محروم ہو، ورنہ حوادث کی ٹکریں آخر کار اس کو پاش پاش کرکے رہیں گی اور وہ اپنے ساتھ مکینوں اور اسبابِ زینت کو بھی لے بیٹھے گی۔
ٹھیک یہی حال حیات قومی کا بھی ہے۔ ایک قوم کو جو چیز زندہ اور طاقت وَر اور سر بلند بناتی ہے وہ اس کے مکان‘ اس کے لباس‘ اس کی سواریاں‘ اس کے اسباب عیش‘ اس کے فنونِ لطیفہ‘ اس کے کارخانے‘ اس کے کالج نہیں ہیں‘ بلکہ وہ اصول ہیں جن پر اس کی تہذیب قائم ہوتی ہے‘ اور پھر ان اصولوں کا دلوں میں راسخ ہونا اور اعمال پر حکمران بن جانا ہے۔ یہ تین چیزیں یعنی: اصول کی صحت‘ ان پر پختہ ایمان اور عملی زندگی پر ان کی کامل فرماں روائی‘ حیاتِ قومی میں وہی حیثیت رکھتی ہیں جو ایک عمارت میں اس کی مستحکم بنیادوں‘ اس کی پختہ دیواروں اور اس کے مضبوط ستونوں کی ہے۔ جس قوم میں یہ تینوں چیزیں بدرجہ اتم موجود ہوں وہ دنیا پر غالب ہو کر رہے گی۔ اس کا کلمہ بلند ہوگا‘ خدا کی زمین میں اس کا سکہ چلے گا‘ دلوں میں اس کی دھاک بیٹھے گی‘ گردنیں اس کے حکم کے آگے جھک جائیں گی اور اس کی عزت ہوگی‘ خواہ وہ جھونپڑیوں میں رہتی ہو‘ پھٹے پرانے کپڑے پہنتی ہو‘ فاقوں سے اس کے پیٹ پٹخے(نیچے گرے ہوئے (۲)پائےبنیادیں (۳)جو تبدیل نہ ہو) ہوئے ہوں‘ اس کے ہاں ایک بھی کالج نہ ہو‘ اس کی بستیوں میں ایک بھی دھواں اڑانے والی چمنی نظر نہ آئے‘ اور علوم و صناعات میں وہ بالکل صفر ہو۔ تم جن چیزوں کو سامانِ ترقی سمجھ رہے ہو وہ محض عمارت کے نقش و نگار ہیں‘ اس کے قوائم(۲) و ارکان نہیں ہیں۔ کھوکھلی دیواروں پر اگر سونے کے پترے بھی چڑھا دو گے تو وہ ان کو گرنے سے نہ بچا سکیں گے۔
یہی بات ہے جس کو قرآن مجید بار بار بیان کرتا ہے۔ وہ اسلام کے اصولوں کے متعلق کہتا ہے کہ وہ اس اٹل اور غیر متغیر(۳) فطرت کے مطابق ہیں جس پر خدا نے انسان کو پیداکیا ہے۔ اس لیے جو دین ان اصولوں پر قائم کیا گیا ہے وہ دین قیم ہے۔ یعنی ایسا دین جو معاش و معاد کے جملہ معاملات کو ٹھیک ٹھیک طریقوں پر قائم کر دینے والا ہے:
فَاَقِـمْ وَجْہَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا۰ۭ فِطْرَتَ اللہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا۰ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللہِ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ۰ۤۙ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَo الروم 30:30
پس (اے نبیؐ اور نبیؐ کے پیروئو!) یک سو ہو کر اپنا رُخ اِس دین کی سمت میں جما دو، قائم ہوجائو اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
پھر وہ کہتا ہے کہ اس دین قیم پر مضبوطی کے ساتھ جم جائو‘ اس پر ایمان لائو اور اس کے مطابق عمل کرو۔ اس کا نتیجہ خود بخود ظاہر ہوگا کہ دنیا میں تم ہی سربلند ہو گے‘ تم ہی کو زمین کا وارث بنایا جائے گا‘ تم ہی خلعتِ خلافت سے سرفراز ہوگے:
۱۔ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ الانبیائ21:105
زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔
۲۔ وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ آل عمران3:139
تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔
۳۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ
النور24: 55
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ اُن کو زمین میں خلیفہ بنائے گا۔
۴۔ وَ مَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغٰلِبُوْنَ
المائدہ5: 56
اور جو اللہ اور اُس کے رسولؐ اور اہل ایمان کو اپنا رفیق بنالے اُسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے۔
بخلاف اس کے جو لوگ بظاہر دین کے دائرے میں داخل ہیں‘ مگر دین نہ تو ان کے دلوں میں بیٹھا ہے اور نہ ان کی زندگی کا قانون بنا ہے‘ ان کے ظاہر تو بہت شان دار ہیں: وَاِذَا رَاَیْتَہُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُہُمْ المنافقون63:4 اور ان کی باتیں بہت مزے دار ہیں: وَاِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ المنافقون63:4 ، مگر حقیقت میں وہ لکڑی کے کندے(لکڑی کا ٹکڑا) ہیں جن میں جان نہیں:کَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ المنافقون63:4 وہ خدا سے بڑھ کر انسانوں سے ڈرتے ہیں: یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَۃً النسائ4:77 ان کے اعمال سراب کی طرح ہیں کہ دیکھنے میں پانی نظر آئیں مگر حقیقت میں کچھ نہیں: اَعْمَالُہُمْ كَسَرَابٍؚبِقِيْعَۃٍ يَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً۰ۭ حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَہٗ لَمْ يَجِدْہُ شَـيْــــًٔـا النور24:39 ایسے لوگوں کو اجتماعی قوت کبھی نصیب نہیں ہوسکتی‘ کیونکہ ان کے دل آپس میں پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ خلوص نیت کے ساتھ کسی کام میں اشتراک عمل نہیں کرسکتے: بَاْسُہُمْ بَيْنَہُمْ شَدِيْدٌ۰ۭ تَحْسَبُہُمْ جَمِيْعًا وَّقُلُوْبُہُمْ شَتّٰى۰ۭ الحشر59:14 ان کو وہ قوت ہرگز ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی جو صرف مومنین صالحین کا حصہ ہے۔ لاَیُقَاتِلُوْنَکُمْ جَمِیْعًا اِلَّا فِیْ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ اَوْ مِنْ وَّرَآئِ جُدُرٍ الحشر59:14 ان کو دنیا کی امامت کا منصب کبھی نہیں ملے گا: قَالَ لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ البقرہ2:124 ان کے لیے بجز اس کے اور کوئی انجام نہیں کہ دنیا میں بھی ذلت و خواری اور آخرت میں بھی عذاب و عقاب(تکلیف (۲)زوال (۳)اصل نظام)
لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ البقرہ2:114
آپ تعجب کریں گے کہ قرآن نے مسلمانوں کی ترقی اور ان کے ایک حکمراں جماعت بننے اور سب پر غالب آجانے کا ذریعہ صرف ایمان و عمل صالح کو قرار دیا، اور کہیں یہ نہیں کہا کہ تم یونی ورسٹیاں بنائو‘ کالج کھولو‘ کارخانے قائم کرو‘ جہاز بنائو‘ کمپنیاں قائم کرو‘ بنک کھولو‘ سائنس کے آلات ایجاد کرو‘ اور لباس‘ معاشرت‘ انداز و اطوار میں ترقی یافتہ قوموں کی نقل کرو۔ نیز اس نے تنزل و انحطاط(۲) اور دنیا و آخرت کی ذلت اوررسوائی کا واحد سبب بھی نفاق کو ٹھہرایا، نہ کہ ان اسباب کے فقدان کو جنھیں آج کل دنیا اسباب ترقی سمجھتی ہے،لیکن اگر آپ قرآن کی اسپرٹ کو سمجھ لیں تو آپ کا یہ تعجب خود رفع ہو جائے گا۔
سب سے پہلی بات جس کا سمجھنا ضروری ہے یہ ہے کہ ’مسلمان‘ جس شے کا نام ہے اس کا قوام(۳) بجز اسلام کے اور کوئی چیز نہیں ہے۔ مسلم ہونے کی حیثیت سے اس کی حقیقت صرف اسلام سے متحقق ہوتی ہے۔ اگر وہ اس پیغام پر ایمان رکھے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اور ان قوانین کا اتباع کرے جن کو آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے سے نازل کیا گیا ہے‘ تو اس کا اسلام متحقق ہو جائے گا خواہ ان چیزوں میں کوئی چیز اس کے ساتھ شامل نہ ہو جو اسلام کے ماسوا ہیں۔ بخلاف اس کے اگر وہ ان تمام زیوروں سے آراستہ ہو جو زینتِ حیاتِ دنیا کے قبیل سے ہیں، مگر ایمان اس کے دل میں نہ ہو اور قوانین اسلامی کے اتباع سے اس کی زندگی خالی ہو تو وہ گریجویٹ ہوسکتا ہے‘ ڈاکٹر ہوسکتا ہے‘ کارخانہ دار ہوسکتا ہے‘ بینکر ہو سکتا ہے‘ جنرل یا امیر البحر ہوسکتا ہے‘ مگر مسلمان نہیں ہوسکتا۔ پس کوئی ترقی کسی مسلمان شخص یا قوم کی ترقی نہ ہوگی جب تک کہ سب چیزوں سے پہلے اس شخص یا قوم میں حقیقت اسلامی متحقق نہ ہو جائے۔ اس کے بغیر وہ ترقی خواہ کسی اورکی ترقی ہو مسلمان کی ترقی نہ ہوگی‘ اور ایسی ترقی ظاہر ہے کہ اسلام کا نصب العین نہیں ہوسکتی۔
پھر ایک بات تو یہ ہے کہ کوئی قوم سرے سے مسلمان نہ ہو‘ اور اس کے افکار و اخلاق اور نظامِ اجتماعی کی اساس اسلام کے سوا کسی اورچیز پر ہو۔ ایسی قوم کے لیے بلاشبہ یہ ممکن ہے کہ یہ ان اخلاقی‘ سیاسی‘ معاشی اور عمرانی اصولوں پر کھڑی ہوسکے جو اسلام سے مختلف ہیں‘ اور اس ترقی کے منتہیٰ(آخری حد ، عروج (۲)ترجیح دینا (۳)زیادتی) کو پہنچ جائے جس کو وہ اپنے نقطہ نظر سے ترقی سمجھتی ہو، لیکن یہ بالکل ایک امر دیگر ہے کہ کسی قوم کے افکار‘ اخلاق‘ تمدن‘ معاشرت‘ معیشت اور سیاست کی بنیاد اسلام پر ہو‘ اور اسلام ہی میں وہ عقیدے اور عمل دونوں کے لحاظ سے ضعیف ہو۔ ایسی قوم مادی ترقی کے وسائل خواہ کتنی ہی کثرت اور فراوانی کے ساتھ مہیا کرلے‘ اس کا ایک مضبوط اور طاقت وَر قوم کی حیثیت سے اٹھنا اور دنیا میں سربلند ہونا قطعاً غیر ممکن ہے کیونکہ اس کی قومیت اور اس کے اخلاق اور تہذیب کی اساس جس چیز پر ہے‘ وہی کمزور ہے اور اساس کی کمزوری ایسی کمزوری ہے جس کی تلافی محض اوپری زینت کے سامان کبھی نہیں کرسکتے۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ علوم و فنون اور مادی ترقی کے وسائل کی جائز اہمیت سے انکار ہے۔ مطلب صرف یہ ہے کہ مسلمان قوم کے لیے یہ تمام چیزیں ثانوی درجے پر ہیں۔ اساس کا استحکام ان سب پر مُقدّم(۲) ہے۔ وہ جب مستحکم ہو جائے تو مادی ترقی کے وہ تمام وسائل اختیار کیے جاسکتے ہیں اور کیے جانے چاہییں جو اس بنیاد کے ساتھ مناسبت رکھتے ہوں لیکن اگر وہی مضمحل ہو‘ دل میں اسی کی جڑیں کمزور ہوں اور زندگی پر اس کی گرفت ڈھیلی ہو‘ تو انفرادی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں سے قوم کے اخلاق کا فاسد ہونا سیرتوں کا بگڑ جانا‘ معاملات کا خراب ہو جانا‘ نظام اجتماعی کا سست ہونا اور قوتوں کا پراگندہ ہو جانا ناگزیر ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوسکتا ہے کہ قوم کی طاقت کمزور ہو جائے اور بین الملی قوتوں کے ترازو میں اس کا پلڑا روز بروز ہلکا ہوتا چلا جائے یہاں تک کہ دوسری قومیں اس پر غالب آجائیں۔ ایسی حالت میں مادی اسباب کی فراوانی اور سند یافتہ فضلا کی افراط (۳)اور خارجی زیب و زینت کی چمک دمک کسی کام نہیں آسکتی۔
ان سب سے بڑھ کر ایک اور بات بھی ہے۔ قرآن حکیم نہایت وثوق(مضبوطی، اعتماد کے ساتھ کہتا ہے کہ:
تم ہی سربلند ہوگے اگر تم مومن ہو، اور اللہ کی پارٹی والے ہی غالب ہوں گے اور جو لوگ ایمان اور عمل صالح سے آراستہ ہوں گے ان کو زمین کی خلافت ضرور ملے گی‘‘۔
(۳:۱۳۹۔۵:۵۶۔۲۴:۵۵)
اس وثوق کی بنیاد کیا ہے؟ کس بنا پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ دوسری قومیں خواہ کیسے ہی مادی وسائل کی مالک ہوں ان پر مسلمان صرف ایمان اورعمل صالح کے اسلحے سے غالب آئیں گے؟
اس عقدے کو خود قرآن حل کرتا ہے:
۱۔ يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ۰ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗ۰ۭ وَاِنْ يَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَـيْـــــًٔـا لَّا يَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ۰ۭ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُo مَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌo
الحج22:73- 74
لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے۔ اس کو غور سے سنو۔ خدا کو چھوڑ کر تم جن چیزوں کو پکارتے ہو، وہ ایک مکھی تک کو پیدا کرنے پر قادر نہیں ہیں اگرچہ وہ سب اس کام کے لیے مل کر زور لگائیں اور اگر ایک مکھی اُن سے کوئی چیز چھین لے تو اس سے وہ چیز چھڑا لینے کی قدرت بھی ان میں نہیں۔ مطلوب بھی ضعیف اور اس کا طالب بھی ضعیف۔ ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسی کرنی چاہیے تھی حالانکہ درحقیقت اللہ ہی قدرت اورعزت والا ہے۔
۲۔ مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْلِيَاۗءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ۰ۖۚ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا۰ۭ وَاِنَّ اَوْہَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ۰ۘ العنکبوت 41:29
جن لوگوں نے خدا کے سوا دوسروں کو کار ساز ٹھہرایا‘ ان کی مثال ایسی ہے جیسے مکڑی کہ وہ گھر بناتی ہے حالانکہ سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی کا گھرہے۔
مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مادی طاقتوں پر اعتماد کرتے ہیں‘ ان کا اعتماد دراصل ایسی چیزوں پر ہے جو بذاتِ خود کسی قسم کی بھی قوت نہیں رکھتیں۔ ایسے بے زوروں پر اعتماد کرنے کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی ویسے ہی بے زور ہو جاتے ہیں جیسے ان کے سہارے بے زور ہیں۔ وہ اپنے نزدیک جو مستحکم قلعے بناتے ہیں وہ مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہیں۔ ان میں کبھی یہ طاقت ہو ہی نہیں سکتی کہ ان لوگوں کے مقابلے میں سر اٹھا سکیں جو حقیقی قدر و عزت رکھنے والے خدا پر اعتماد کرکے اٹھیں:
فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا۰ۭ البقرہ 256:2
جوطاغوت کو چھوڑ کر اللہ پر ایمان لے آیا اس نے مضبوط رسی تھام لی جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں ہے۔
قرآن دعوے کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ جب کبھی اہل ایمان اور اہل کفر کا مقابلہ ہوگا تو غلبہ اہلِ ایمان کو حاصل ہوگا:
۱۔ وَلَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًاo سُـنَّۃَ اللہِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ۰ۚۖ وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًاo الفتح48: 22-23
اور اگر وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ہے تم سے جنگ کریں گے تو ضرور پیٹھ پھیر جائیں گے اور کوئی یارومددگار نہ پائیں گے۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے اور تم کبھی اللہ کی سنت میں تغیر نہ پائو گے۔
۲۔ سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَآ اَشْرَکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا
آل عمران3: 151
ہم کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے کیونکہ انھوں نے خدائی میں اُن چیزوں کو شریک کرلیا ہے جن کو خدا نے کوئی تمکن نہیں بخشا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص خدا کی طرف سے لڑتا ہے اس کے ساتھ خدائی طاقت ہوتی ہے اور جس کے ساتھ خدائی طاقت ہو اُس کے مقابلے میں کسی کا زور چل ہی نہیں سکتا۔
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لاَ مَوْلٰی لَہُمْ محمد47:11
یہ اس لیے کہ ایمان داروں کا مددگار تو اللہ ہے اور کافروں کا مددگار کوئی نہیں۔
وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی الانفال8:17
جب تو نے تیر پھینکا تو وہ تو نے نہیں پھینکا بلکہ خدا نے پھینکا۔
یہ تو مومن صالح کی سطوت(شان و شوکت) کا حال ہے۔ دوسری طرف یہ بھی خدا کا قانون ہے کہ جو شخص ایمان دار ہوتا ہے‘ جس کی سیرت پاکیزہ ہوتی ہے، جس کے اعمال نفسانیت کی آلودگیوں سے پاک ہوتے ہیں‘ جو ہوائے نفس اور اغراضِ نفسانی کے بجائے خدا کے مقرر کیے ہوئے قانون کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتا ہے‘ اس کی محبت دلوں میں بیٹھ جاتی ہے‘ دل آپ ہی آپ اس کی طرف کھنچنے لگتے ہیں‘ نگاہیں اس کی طرف احترام سے اٹھتی ہیں، معاملات میں اس پر اعتماد کیا جاتا ہے‘ دوست تو دوست دشمن تک اُس کو صادق سمجھتے ہیں اور اس کے عدل‘ اُس کی عفت اور اس کی وفا شعاری پر بھروسہ کرتے ہیں:
۱۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا مریم19: 96
جو لوگ ایمان لے آئے اور جنھوں نے نیک عمل کیے‘ اللہ ان کی محبت دلوں میں ڈال دے گا۔
۲۔ يُثَبِّتُ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۰ۚ
ابراہیم 27:14
ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کے ساتھ جما دیتا ہے‘ دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی۔
۳۔ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَہُوَمُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہٗ حَيٰوۃً طَيِّبَۃً۰ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَo النحل 97:16
جو کوئی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور اس کے ساتھ وہ مومن بھی ہو تو ہم ضرور اس کو بہترین زندگی بسر کرائیں گے اور ان بہترین اعمال کا اجر دیں گے جو وہ کرتے رہے۔
مگر یہ سب کس چیز کے نتائج ہیں؟ محض زبان سے لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کہنے کے نہیں‘ مسلمانوں کے سے نام رکھ لینے اور معاشرت کے چند مخصوص اطوار اختیار کرنے اور چند گنی چنی رسمیات ادا کرلینے کے نہیں۔ قرآن حکیم ان نتائج کے ظہور کے لیے ایمان اور عمل صالح کی شرط لگاتا ہے۔ اس کا منشا یہ ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کی حقیقت تمھارے قلب و روح میں اس قدر جاگزیں ہوجائے کہ تمھارے تخیلات و افکاراور اخلاق و معاملات سب پر اسی کا غلبہ ہو‘ تمھاری ساری زندگی اسی کلمہ طیبہ کے معنوی(حقیقی ذاتی (۲)کچا تانبا (۳)چمکیلا دمکتا ہوا (۴)کنارے ستمیں) قالب میں ڈھل جائے‘ تمھارے ذہن میں کوئی ایسا خیال راہ نہ پاسکے جو اس کلمے کے معنی سے مختلف ہو اور تم سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہو جو اس کلمے کے مقتضی کے خلاف ہو۔ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کو زبان سے ادا کرنے کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ تمھاری زندگی میں اس کے ساتھ ایک انقلاب برپا ہو جائے۔ تمھاری رگ رگ میں تقویٰ کی روح سرایت کر جائے۔ اللہ کے سوا تمھاری گردن کسی طاقت کے آگے نہ جھکے۔ اللہ کے سوا تمھارا ہاتھ کسی کے آگے نہ پھیلے۔ اللہ کے سوا کسی کا خوف تمھارے دل میں نہ رہے۔ تمھاری محبت اور تمھارا بغض اللہ کے سوا کسی اور کے لیے نہ ہو۔ اللہ کے قانون کے سوا تمھاری زندگی پرکسی اور کا قانون نافذ نہ ہو۔ تم اپنے نفس اور اس کی ساری خواہشوں اور اس کے تمام مرغوبات و محبوبات کو اللہ کی خوش نودی پر قربان کر دینے کے لیے ہر وقت تیار رہو۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کے مقابلے میں تمھارے پاس سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا (ہم نے سنا اور اطاعت کی)کے سوا کوئی اور قول و فعل نہ ہو۔ جب ایسا ہوگا تو تمھاری قوت صرف تمھارے اپنے نفس اور جسم کی قوت نہ ہو گی، بلکہ اُس اَحْکَمُ الْحَاکَمِیْن کی قوت ہوگی جس کے آگے زمین و آسمان کی ہر چیز طوعاً و کرہاً سربسجود ہے اور تمھاری ذات اس نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ کے جلووں سے منور ہو جائے گی جو تمام عالم کا حقیقی محبوب و معشوق ہے۔
نبی کریمﷺ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے عہد میں یہی چیز مسلمانوں کو حاصل تھی۔ پھر اس کا نتیجہ جو کچھ ہوا‘ تاریخ کے اوراق اس پر شاہد ہیں۔ اس زمانے میں جس نے لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کہا اس کی کایا پلٹ گئی۔ مس خام(۲) سے یکایک وہ کندن(۳) بن گیا۔ اس کی ذات میں ایسی کشش پیدا ہوئی کہ دل اس کی طرف کھِنچنے لگے۔ اس پر جس کی نظر پڑتی وہ محسوس کرتا کہ گویا تقویٰ اور پاکیزگی اور صداقت کو مجسم دیکھ رہا ہے۔ وہ ان پڑھ‘ مفلس‘ فاقہ کش‘ پشمینہ پوش اور بوریا نشین ہوتا‘ مگر پھر بھی اس کی ہیبت دلوں میں ایسی بیٹھتی کہ بڑے بڑے شان و شوکت والے فرماں روائوں کو نصیب نہ تھی۔ ایک مسلمان کا وجود گویا ایک چراغ تھا کہ جدھر وہ جاتا اس کی روشنی اطراف و اکناف(۴) میں پھیل جاتی اور اس چراغ سے سیکڑوں ہزاروں چراغ روشن ہو جاتے۔ پھر جو اس روشنی کو قبول نہ کرتا اور اس سے ٹکرانے کی جرأت کرتا تو اس کو جلانے اور فنا کر دینے کی قوت بھی اس میں موجود تھی۔
ایسی ہی قوت ایمانی اور طاقت و سیرت رکھنے والے مسلمان تھے کہ جب وہ ساڑھے تین سو سے زیادہ نہ تھے تو انھوں نے تمام عرب کو مقابلے کا چیلنج دے دیا، اور جب وہ چند لاکھ کی تعداد کو پہنچے تو ساری دنیا کو مسخر کرلینے کے عزم سے اٹھ کھڑے ہوئے اور جو قوت ان کے مقابلے پر آئی پاش پاش(ٹکڑے ٹکڑے (۲)ساحل) ہوگئی۔
جیسا کہ کہا جاچکا ہے مسلمانوں کی اصلی طاقت یہی ایمان اور سیرت صالحہ کی طاقت ہے جو صرف ایک لا الہ الا اللہ کی حقیقت دل میں بیٹھ جانے سے حاصل ہوتی ہے، لیکن اگر یہ حقیقت دل میں جاگزیں نہ ہو‘ محض زبان پر یہ الفاظ جاری ہوں مگر ذہنیت اور عملی زندگی میں کوئی انقلاب برپا نہ ہو‘ لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد بھی انسان وہی کا وہی رہے جو اس سے پہلے تھا اور اس میں اور لاالہ الا اللہ کا انکار کرنے والوں میں اخلاقی و عملی حیثیت سے کوئی فرق نہ ہو‘ وہ بھی انھی کی طرح غیراللہ کے آگے گردن جھکائے اور ہاتھ پھیلائے‘ انھی کی طرح غیر اللہ سے ڈرے اور غیر خدا کی رضا چاہے اور غیر خدا کی محبت میں گرفتار ہو‘ انھی کی طرح ہوائے نفس کا بندہ ہو اور قانون الٰہی کو چھوڑ کر انسانی قوانین‘ یا اپنے نفس کی خواہشات کا اتباع کرے‘ اس کے خیالات اور ارادوں اور نیتوں میں بھی وہی گندگی ہو جو ایک غیر مومن کے خیالات‘ ارادات اور نیات میں ہوسکتی ہے اور اس کے اقوال و افعال و معاملات بھی ویسے ہی ہوں جیسے ایک غیر مومن کے ہوتے ہیں تو پھر مسلمان کو نا مسلمان پر فوقیت کس بنا پر ہو؟ اورروح ایمان اور روح تقویٰ نہ ہونے کی صورت میں ایک مسلمان ویسا ہی ایک بشر تو ہے جیسا ایک نامسلمان ہے۔ اس کے بعد مسلم اور غیر مسلم کا مقابلہ صرف جسمانی طاقت اور مادی وسائل ہی کے اعتبار سے ہوگا‘ اور اس مقابلے میں جو طاقت وَر ہوگا وہ کمزور پر غالب آجائے گا۔
ان دونوں حالتوں کا فرق تاریخ کے صفحات میں اتنا نمایاں ہے کہ ایک نظر میں دیکھا جاسکتا ہے، یا تو مٹھی بھر مسلمانوں نے بڑی بڑی حکومتوں کے تختے الٹ دیے تھے اور اٹک کے کنارے سے لے کر اٹلانٹک کے سواحل(۲) تک اسلام پھیلا دیا تھا، یا اَب کروڑوں مسلمان دنیا میں موجود ہیں اور غیر مسلم طاقتوں سے دبے ہوئے ہیں۔ جن آبادیوں میں کروڑوں مسلمان بستے ہیں اور ان کو بستے ہوئے صدیاں گزر چکی ہیں وہاں اب بھی کفر و شرک موجود ہے۔
(ترجمان القرآن، شوال ۱۳۵۳ھ۔ دسمبر ۱۹۳۴ء)
کیش مرداں نہ کہ مذہب گوسفنداں(بہادروں کا طرز عمل نہ کہ بزدلوں کا راستہ)
مسئلہ سود پر میرے مضامین کو دیکھ کر ایک خیال کا بار بار اظہارکیا گیا ہے کہ موجودہ زمانے میں سرمایہ داری نظام‘ سیاسی طاقت کے ساتھ ہمارے گرد و پیش کی پوری معاشی دنیا پر مسلط ہو چکا ہے۔ معیشت کی گاڑی اصول سرمایہ داری کے پہیوں پر چل رہی ہے‘ سرمایہ دار ہی اس کو چلا رہے اور وہی قومیں اس کے ذریعے سے منزلِ ترقی کی طرف بڑھ رہی ہیں جن کے لیے پیدایشِ دولت اور صَرفِ دولت کے باب میں کوئی مذہبی یا اخلاقی قیدنہیں ہے۔ دوسری طرف ہماری اجتماعی قوت منتشر ہے۔ دنیا کے نظم معیشت کو بدلنا تو درکنار ہم خود اپنی قوم میں بھی اسلامی نظمِ معیشت کو از سر نو قائم کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اب اگر ہماری مذہبی قیود ہم کو زمانے کے چلتے ہوئے نظام معاشی میں پورا پورا حصہ لینے سے روک دیں تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ ہماری قوم معاشی ترقی و خوش حالی کے ذرائع سے فائدہ اٹھانے میں دوسری قوموں سے پیچھے رہ جائے گی۔ ہم مفلس ہوتے جائیں گے اور ہمسایہ قومیں دولت مند ہوتی چلی جائیں گی۔ پھر ہماری یہ معاشی کمزوری ہم کو سیاسی‘ اخلاقی اور تمدنی حیثیت سے بھی ذلیل اور پست کرے گی۔ یہ محض وہم اور اندیشہ نہیں ہے بلکہ واقعات کی دنیا میں یہی نتیجہ ہم کونظر آرہا ہے‘ برسوں سے نظر آرہا ہے‘ اور مستقبل میں ہمارا جو کچھ انجام ہونے والا ہے اس کے آثار کچھ ایسے دھندلے نہیں ہیں کہ ان کو نہ دیکھا جاسکتا ہو۔ پس ہم کو محض شریعت کا قانون بتانے سے کیا فائدہ؟ اسلام کے معاشی اصول بیان کرنے سے کیا حاصل؟ ہم کو یہ بتائو کہ ان حالات میں اسلامی قانون کی پابندی کے ساتھ ہمارے لیے اپنی معاشی حالت کو سنبھالنے اور ترقی کی منزلیں طے کرنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟ اگر نہیں ہے تو دو صورتوں میں سے ایک صورت یقیناً پیش آئے گی:
۱۔ یا تو مسلمان بالکل تباہ ہو جائیں گے۔
۲۔ یا پھر وہ بھی دوسری قوموں کی طرح مجبور ہوں گے کہ ایسے تمام قوانین کی پابندی سے آزاد ہو جائیں جو زمانے کا ساتھ نہیں دے سکتے۔
یہ سوال صرف مسئلہ سود ہی تک محدود نہیں ہے۔ دراصل اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اگر زندگی کے تمام شعبوں میں سے محض معیشت ہی کا شعبہ ایسا ہوتا جس پر ایک غیر اسلامی نظام مسلط ہوگیا ہوتا تو شاید معاملہ نسبتاً بہت ہلکا ہوتا، مگر واقعات کی شہادت کچھ اور ہے۔ اپنے گرد و پیش کی دنیا پر نظر ڈالیے۔ خود اپنے حالات کا جائزہ لے کر دیکھیے۔ زندگی کا کون سا شعبہ ایسا پایا جاتا ہے جس پر غیر اسلام کا تسلط نہیں ہے؟کیا اعتقادات اور افکار و تخیلات(خیالات (۲)شک (۳)غلبہ (۴)طریقے، راستے) پر الحاد و دہریت یا کم از کم شک و ریب(۲) کا غلبہ نہیں؟ کیا تعلیم پر ناخدا شناسی کی حکومت نہیں؟ کیا تمدن و تہذیب پر فرنگیت کا استیلا(۳) نہیں؟ کیا معاشرت کی جڑوں تک میں مغربیت اتر نہیں گئی ہے؟ کیا اخلاق اس کے غلبے سے محفوظ ہیں؟ کیا معاملات اس کے تسلط سے آزاد ہیں؟ کیا قانون اور سیاست اور حکومت کے اصول و فروع نظریات اور عملیات میں سے کوئی چیز بھی اس کے اثر سے پاک ہے؟
جب حال یہ ہے تو آپ اپنے سوال کو معیشت اور اس کے بھی صرف ایک پہلو تک کیوں محدود رکھتے ہیں؟ اس کو وسیع کیجیے، پوری زندگی پر پھیلا دیجیے۔ یوں کہیے کہ زندگی کے دریا نے اپنا رُخ بدل دیا ہے۔ پہلے وہ اس راستے پر بہہ رہا تھا جو اسلام کا راستہ تھا، اب وہ اس راستے پر بہہ رہا ہے جو غیر اسلام کا راستہ ہے۔ ہم اس کے رُخ کو بدلنے کی قوت نہیں رکھتے۔ ہم میں اتنی قوت بھی نہیں کہ اس کی رو کے خلاف تیر سکیں۔ ہم کو ٹھہرنے میں بھی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ اب ہمیں کوئی ایسی صورت بتائو کہ ہم مسلمان بھی رہیں اور اس دریا کے بہائو پر اپنی کشتی کو چھوڑ بھی دیں‘ عازمِ کعبہ بھی رہیں اور اس قافلے کا ساتھ بھی نہ چھوڑیں جو ترکستان کی طرف جا رہا ہے۔ ہم اپنے خیالات‘ نظریات‘ مقاصدِ اصول حیات اور مناہج(۴) عمل میں نا مسلمان بھی ہوں اور پھر مسلمان بھی ہوں۔ اگر ان اضداد کو جمع کرنے کی کوئی صورت تم نے نہ نکالی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ یا تو ہم اسی دریا کے ساحل پر مر رہیں گے‘ یا پھر یہ اسلام کا لیبل جو ہماری کشتی پرلگا ہوا ہے ایک دن کھرچ ڈالا جائے گا اور یہ کشتی بھی دوسری کشتیوں کے ساتھ دریا کے دھارے پر بہتی نظر آئے گی۔
ہمارے روشن خیال اور ’تجدد پسند‘ حضرات جب کسی مسئلے پر گفتگو فرماتے ہیں تو ان کی آخری حجت‘ جو اِن کے نزدیک سب سے قوی حجت ہے‘ یہ ہوتی ہے کہ زمانے کا رنگ یہی ہے‘ ہوا کا رخ اسی طرف ہے‘ دنیا میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ پھر ہم اس کی مخالفت کیسے کرسکتے ہیں اور مخالفت کرکے زندہ کیسے رہ سکتے ہیں۔اخلاق کا سوال ہو، وہ کہیں گے کہ دنیا کا معیارِ اخلاق بدل چکا ہے۔ مطلب یہ نکلا کہ مسلمان اس پرانے معیارِ اخلاق پر کیسے قائم رہیں؟ پردے پر بحث ہو، ارشاد ہوگا کہ دنیا سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ مراد یہ ہوئی کہ جو چیز دنیا سے اٹھ چکی ہے اس کو مسلمان کیسے نہ اٹھائیں۔ تعلیم پر گفتگو ہو، ان کی آخری دلیل یہ ہوگی کہ دنیا میں اسلامی تعلیم کی مانگ ہی نہیں۔ مدّعا یہ کھلا کہ مسلمان بچے وہ جنس بن کر کیسے نکلیں جس کی مانگ نہیں ہے اور وہ مال کیوں نہ بنیں جس کی مانگ ہے۔ سود پر تقریر ہو، ٹیپ کا بند یہ ہو گا کہ اب دنیا کاکام اس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ گویا مسلمان کسی ایسی چیز سے احتراز(پرہیز (۲)دلیل (۳)گرا دینا، کم کر دینا) کیسے کرسکتے ہیں جو اب دنیا کاکام چلانے کے لیے ضروری ہوگئی ہے۔ غرض یہ کہ تمدن‘ معاشرت‘ اخلاق‘ تعلیم‘ معیشت‘ قانون‘ سیاست اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں سے جس شعبے میں بھی وہ اصولِ اسلام سے ہٹ کر فرنگیت کا اتباع کرنا چاہتے ہیں‘ اس کے لیے زمانے کا رنگ اور ہوا کا رخ اور دنیا کی رفتار وہ آخری حجت ہوتی ہے جو اس تقلیدِ مغربی یادرحقیقت اس جزوی ارتداد کے جواز پر برہان(۲) قاطع سمجھ کر پیش کی جاتی ہے‘ اور خیال کیا جاتا ہے کہ عمارتِ اسلامی کے اجزا میں سے ہر اس جز کو ساقط(۳) کر دینا فرض ہے جس پر اس دلیل سے حملہ کیا جائے۔
ہم کہتے ہیں کہ شکست و ریخت کی یہ تجویزیں جن کو متفرق طور پر پیش کرتے ہو‘ ان سب کو ملا کر ایک جامع تجویز کیوں نہیں بنا لیتے؟ مکان کی ایک ایک دیوار، ایک ایک کمرے اور ایک ایک دالان کو گرانے کی علیحدہ علیحدہ تجویزیں پیش کرنے‘ اور ہر ایک پر فرداًفرداًبحث کرنے میں فضول وقت ضائع ہوتا ہے۔ کیوں نہیں کہتے کہ یہ پورا مکان گرا دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا رنگ زمانے کے رنگ سے مختلف ہے‘ اس کا رخ ہوا کے رخ سے پھرا ہوا ہے اور اس کی وضع اُن مکانوں سے کسی طرح نہیں ملتی جو اَب دنیا میں بن رہے ہیں۔
جن لوگوں کے حقیقی خیالات یہی ہیں اُن سے تو بحث کرنا فضول ہے۔ ان کے لیے تو صاف اور سیدھا سا جواب یہی ہے کہ اس مکان کو گرانے اور اس کی جگہ دوسرا مکان بنانے کی زحمت آپ کیوں اٹھاتے ہیں؟ جو دوسرا خوش وضع‘ خوش نما‘ خوش رنگ مکان آپ کو پسند آئے اس میں تشریف لے جائیے۔ اگر دریا کے دھارے پر بہنے کا شوق ہے تو اس کشتی کا لیبل کھرچنے کی تکلیف بھی کیوں اٹھائیے؟ جو کشتیاں پہلے سے بہہ رہی ہیں انھی میں سے کسی میں نقل مقام(جگہ بدل، نیچے (۲)عیاش، خواہش کا غلام) فرما لیجیے۔ جو لوگ اپنے خیالات‘ اپنے اخلاق‘ اپنی معاشرت‘ اپنی معیشت‘ اپنی تعلیم‘ غرض اپنی کسی چیز میں بھی مسلمان نہیں ہیں اور مسلمان رہنا نہیں چاہتے اُن کے برائے نام مسلمان رہنے سے اسلام کا قطعاً کوئی فائدہ نہیں بلکہ سراسر نقصان ہے۔ وہ خدا پرست نہیں‘ ہوا پرست(۲) ہیں۔اگر دنیا میں بت پرستی کا غلبہ ہو جائے تو یقیناً وہ بتوں کو پوجیں گے۔ اگر دنیا میں برہنگی کا رواج عام ہو جائے تو یقیناً وہ اپنے کپڑے اتار پھینکیں گے۔ اگر دنیا نجاستیں کھانے لگے تو یقیناً وہ کہیں گے کہ نجاست ہی پاکیزگی ہے اور پاکیزگی تو سراسر نجاست ہے۔ ان کے دل اور دماغ غلام ہیں اور غلامی ہی کے لیے گھڑے گئے ہیں۔ آج فرنگیت کا غلبہ ہے‘ اس لیے اپنے باطن سے لے کر ظاہر کے ایک ایک گوشے تک وہ فرنگی بننا چاہتے ہیں۔ کل اگر حبشیوں کا غلبہ ہو جائے تو یقیناً وہ حبشی بنیں گے۔ اپنے چہروں پر سیاہیاں پھیریں گے‘ اپنے ہونٹ موٹے کریں گے‘ اپنے بالوں میں حبشیوں کے سے گھونگھر پیدا کریں گے‘ ہر اس شے کی پوجا کرنے لگیں گے جو حبش سے ان کو پہنچے گی۔ ایسے غلاموں کی اسلام کو قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ بخدا اگر کروڑوں کی مردم شماری میں سے ان سب منافقوں اور غلام فطرت لوگوں کے نام کٹ جائیں اور دنیا میں صرف چند ہزار وہ مسلمان رہ جائیں جن کی تعریف یہ ہو کہ :
يُحِبُّہُمْ وَيُحِبُّوْنَہٗٓ۰ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ۰ۡيُجَاہِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَاۗىِٕمٍ۰ۭ المائدہ 54:5
وہ اللہ کے محبوب ہوں اور اللہ ان کا محبوب ہو‘ مسلمانوں کے لیے نرم اور کافروں پر سخت ہوں‘ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہوں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا انھیں خوف نہ ہو۔
تو اسلام اب سے بدرجہا زیادہ طاقت وَر ہوگا اور ان کروڑوں کا نکل جانا اس کے حق میں ایسا ہوگا جیسے کسی مریض کے جسم سے پیپ اور کچ لہو(پھوڑے کا کچا مواد، پیپ ملا ہوا خون (۲)کوڑا کرکٹ ) نکل جائے۔
نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَۃٌ۰ۭ المائدہ5:52
ہم کو خوف ہے کہ ہم پر مصیبت آجائے گی۔
یہ آج کوئی نئی آواز نہیں ہے۔ بہت پرانی آواز ہے جو منافقوں کی زبان سے بلند ہوتی رہی ہے۔ یہی آواز نفاق کی اس بیماری کا پتہ دیتی ہے جو دلوں میں چھپی ہوئی ہے۔ اسی آواز کو بلند کرنے والے ہمیشہ مخالفین اسلام کے کیمپ کی طرف لپکتے رہے ہیں۔ ہمیشہ سے انھوں نے اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کو پائوں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق ہی سمجھا ہے۔ ہمیشہ سے ان کو احکام خدا و رسولؐ کا اتباع گراں ہی گزرتا رہا ہے۔ اطاعت میں جان و مال کا زیاں اور نافرمانی میں حیاتِ دنیا کی ساری کامرانیاں ہمیشہ سے ان کو نظر آتی رہی ہیں۔ پس ان کی خاطر خدا کی شریعت کو نہ ابتدا میں بدلا گیا تھا‘ نہ اب بدلا جاسکتا ہے‘اور نہ کبھی بدلاجائے گا۔ یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اتری ہے، نفس کے بندوں اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اتری ہے‘ ہوا کے رخ پر اڑنے والے خس و خاشاک‘(۲) اور پانی کے بہائو پر بہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ یہ اُن بہادر شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہوں‘ جو دریا کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہائو کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہوں‘ جو صبغۃ اللہ(پیشوا، امام، راہنما) کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ مسلمان جس کا نام ہے وہ دریا کے بہائو پر بہنے کے لیے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی آفرینش(۲) کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریا کو اس راستے پر رواں کر دے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہ راست ہے‘ صراط مستقیم ہے۔ اگر دریا نے اپنا رخ اس راستے سے پھیر دیا ہے تو اسلام کے دعوے میں وہ شخص جھوٹا ہے جو اس بدلے ہوئے رخ پر بہنے کے لیے راضی ہو جائے۔ حقیقت میں جو سچا مسلمان ہے‘ وہ اس غلط رو دریا کی رفتار سے لڑے گا‘ اس کا رخ پھیرنے کی کوشش میں اپنی پوری قوت صَرف کر دے گا‘ کامیابی اور ناکامی کی اس کو قطعاً پروا نہ ہوگی‘ وہ ہر اس نقصان کو گوارا کرلے گا جو اس لڑائی میں پہنچے یا پہنچ سکتا ہو‘ حتیٰ کہ اگر دریا کی روانی سے لڑتے لڑتے اس کے بازو ٹوٹ جائیں، اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہو جائیں‘ اور پانی کی موجیں اس کو نیم جاں کرکے کسی کنارے پر پھینک دیں‘ تب بھی اس کی روح ہرگز شکست نہ کھائے گی‘ ایک لمحے کے لیے بھی اس کے دل میں اپنی اس ظاہری نامرادی پر افسوس یا دریا کی رو پر بہنے والے کافروں یا منافقوں کی کامرانیوں پر رشک کا جذبہ راہ نہ پائے گا۔
قرآن تمھارے سامنے ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی سیرتیں تمھارے سامنے ہیں۔ ابتدا سے لے کر آج تک کے علم بردار ان اسلام کی زندگیاں تمھارے سامنے ہیں۔ کیا ان سب سے تم کو یہی تعلیم ملتی ہے کہ ہوا جدھر اڑائے ادھر اڑ جائو؟ پانی جدھر بہائے ادھر بہہ جائو؟ زمانہ جو رنگ اختیار کرے اسی رنگ میں رنگ جائو؟ اگر مدعا یہی ہوتا تو کسی کتاب کے نزول اور کسی نبی ؑکی بعثت کی ضرورت ہی کیا تھی؟ ہوا کی موجیں تمھاری ہدایت کے لیے اور حیاتِ دنیا کا بہائو تمھاری رہنمائی کے لیے اور زمانے کی نیرنگیاں(۳) تمھیں گرگٹ کی روش سکھانے کے لیے کافی تھیں۔ خدا نے کوئی کتاب ایسی ناپاک تعلیم دینے کے لیے نہیں بھیجی اور نہ اس غرض کے لیے کوئی نبی مبعوث کیا۔ اس ذات حق کی طرف سے تو جو پیغام بھی آیا ہے اس لیے آیا ہے کہ دنیا جن غلط راستوں پر چل رہی ہے ان سب کو چھوڑ کر ایک سیدھا راستہ مقرر کرے‘ اس کے خلاف جتنے راستے ہوں ان کو مٹائے‘ اوردنیا کو ان سے ہٹانے کی کوشش کرے‘ ایمان داروں کی ایک جماعت بنائے جو نہ صرف خود اس سیدھے راستے پر چلیں بلکہ دنیا کو بھی اس کی طرف کھینچ لانے کی کوشش کریں۔ انبیاء علیہم السلام اور ان کے متبعین نے ہمیشہ اسی غرض کے لیے جہاد کیا ہے۔ اس جہاد میں اذیتیں اٹھائی ہیں۔ نقصان برداشت کیے ہیں اور جانیں دی ہیں۔ ان میں سے کسی نے مصائب کے خوف یا منافع کے لالچ سے رفتار زمانہ کو کبھی اپنا مقتدا( ابن الوقت، بے اصول کسی جگہ ہوا کا رخ معلوم کرنے کے لیے رکھا گیا پرندہ) نہیں بنایا۔ اب اگر کوئی شخص یا کوئی گروہ ہدایت آسمانی کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے میں نقصان اورمشکلات اور خطرات دیکھتا ہے اور ان سے خوف زدہ ہو کر کسی ایسے راستے پر جانا چاہتا ہے جس پر چلنے والے اس کو خوش حال‘ کامیاب اور سربلند نظر آتے ہیں‘ تو وہ شوق سے اپنے پسندیدہ راستے پر جائے، مگر وہ بزدل اور حریص انسان اپنے نفس کو اور دنیا کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کیوں کرتا ہے کہ وہ خدا کی کتاب اور اس کے نبی کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کربھی اس کا پیرو ہے؟ نافرمانی خود ایک بڑا جرم ہے۔ اس پر جھوٹ اور فریب اور منافقت کا اضافہ کرکے آخر کیا فائدہ اٹھانا مقصود ہے؟
یہ خیال کہ زندگی کا دریا جس رخ بہہ گیا ہے اس سے وہ پھیرا نہیں جاسکتا عقلاً بھی غلط ہے اور تجربہ و مشاہدہ بھی اس کے خلاف گواہی دیتا ہے۔ دنیا میں ایک نہیں سیکڑوں انقلاب ہوئے ہیں اور ہر انقلاب نے اس دریا کے رُخ کو بدلا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال خود اسلام ہی میں موجود ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو زندگی کا یہ دریا کس رخ پر بہہ رہا تھا؟ کیا تمام دنیا پر کفر و شرک کا غلبہ نہ تھا؟ کیا استبداد اور ظلم کی حکومت نہ تھی؟ کیا انسانیت کو طبقات کی ظالمانہ تقسیم نے داغ دار نہ بنا رکھا تھا؟ کیا اخلاق پر فواحش‘ معاشرت پر نفس پرستی‘ معیشت پر ظالمانہ جاگیرداری و سرمایہ داری‘ اور قانون پر بے اعتدالی کا تسلط نہ تھا؟ مگر ایک تنِ واحد نے اٹھ کر تمام دنیا کو چیلنج دے دیا۔ تمام اُن غلط خیالات اور غلط طریقوں کو رد کر دیاجو اس وقت دنیا میں رائج تھے۔ ان سب کے مقابلے میں اپنا ایک عقیدہ اور اپنا ایک طریقہ پیش کیا‘ اور چند سال کی مختصر مدت میں اپنی تبلیغ اور جہاد سے دنیا کے رخ کو پھیر کر اور زمانے کے رنگ کو بدل کر چھوڑا۔
تازہ ترین مثال اشتراکی تحریک کی ہے۔ انیسویں صدی میں سرمایہ داری کا تسلط اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ کوئی بزدل مرغ بادنما()پیشوا، امام، راہنما)اُس وقت یہ تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ جو نظام ایسی ہولناک سیاسی اور جنگی قوت کے ساتھ دنیا پر مسلط ہے اُس کو الٹ دینا بھی ممکن ہے، مگر انھی حالات میں ایک شخص کارل مارکس نامی اٹھا اور اس نے اشتراکیت کی تبلیغ شروع کی۔ حکومت نے اس کی مخالفت کی۔ وطن سے نکالا گیا۔ ملک ملک کی خاک چھانتا پھرا۔ تنگ دستی اور مصیبت سے دوچار ہوا، مگر مرنے سے پہلے اشتراکیوں کی ایک طاقت وَر جماعت پیدا کرگیا۔ جس نے چالیس سال کے اندر نہ صرف روس کی سب سے زیادہ خوف ناک طاقت کو الٹ کر رکھ دیا بلکہ تمام دنیا میں سرمایہ داری کی جڑیں ہلا دیں اور اپنا ایک معاشی اور تمدنی نظریہ اس قوت کے ساتھ پیش کیا کہ آج دنیا میں اس کے متبعین کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے، اور ان ممالک کے قوانین بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں جن پر سرمایہ داری کی حکومت گہری جڑوں کے ساتھ جمی ہوئی ہے، مگر انقلاب یا ارتقا ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے‘ اورقوت ڈھل جانے کا نام نہیں ڈھال دینے کا نام ہے‘ مڑجانے کو قوت نہیں کہتے‘ موڑ دینے کو کہتے ہیں۔ دنیا میں کبھی نامردوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا‘ جو لوگ اپنا کوئی اصول‘ کوئی مقصد حیات‘ کوئی نصب العین نہ رکھتے ہوں‘ جو بلند مقصد کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں‘ جو خطرات و مشکلات کے مقابلے کی ہمت نہ رکھتے ہوں‘ جن کو دنیا میں محض آسائش اور سہولت ہی مطلوب ہو‘ جو ہر سانچے میں ڈھل جانے اور ہر دبائو سے دب جانے والے ہوں‘ ایسے لوگوں کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ تاریخ بنانا صرف بہادر مردوں کاکام ہے۔ انھی نے اپنے جہاد اور اپنی قربانیوں سے زندگی کے دریا کارخ پھیرا ہے، دنیا کے خیالات بدلے ہیں، مناہجِ عمل میں انقلاب برپا کیا ہے، زمانے کے رنگ میں رنگ جانے کے بجائے زمانے کو خود اپنے رنگ میں رنگ کر چھوڑا ہے۔
پس یہ نہ کہو کہ دنیا جس راستے پر جارہی ہے اس سے وہ پھیری نہیں جاسکتی اور زمانے کی جو روش ہے اس کا اتباع کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔ مجبوری کا جھوٹا دعویٰ کرنے کے بجائے تم کو خود اپنی کمزوری کا سچا اعتراف کرنا چاہیے، اور جب تم اس کا اعتراف کرلو گے تو تم کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ کمزور کے لیے دنیا میں نہ کوئی مذہب ہوسکتا ہے‘ نہ کوئی اصول اور نہ کوئی ضابطہ۔ اس کو تو ہرزور آور سے دبنا پڑے گا۔ ہر طاقت وَر کے آگے جھکنا پڑے گا۔ وہ کبھی اپنے کسی اصول اور کسی ضابطے کا پابند نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی مذہب اس کے لیے اپنے اصول بدلتا چلا جائے تو وہ سرے سے کوئی مذہب ہی نہ رہے گا۔
یہ بھی ایک دھوکا ہے کہ اسلام کی قیود تمھاری خوش حالی اورترقی میں مانع ہیں۔ آخر تم اسلام کی کس قید کی پابندی کر رہے ہو؟ کون سی قید ہے جس سے تم آزاد نہیں ہوئے؟ اورکون سی حد ہے جس کو تم نے نہیں توڑا؟ تم کو جوچیزیں تباہ کر رہی ہیں ان میں سے کس کی اجازت اسلام نے تم کو دی تھی؟ تم تباہ ہو رہے ہو اپنی فضول خرچیوں سے جن کے لیے کروڑوں روپے کی جایدادیں تمھارے قبضے سے نکلتی جا رہی ہیں۔ کیا اسلام نے تم کو اس کی اجازت دی تھی؟ تم کو خود تمھاری بری عادتیں تباہ کر رہی ہیں۔ اس مفلسی کی حالت میں بھی سینما اور کھیل تماشے تمھاری آبادی سے بھرے رہتے ہیں۔ ہر شخص لباس اور زینت و آرائش کے سامانوں پر اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ تمھاری جیبوں سے ہر مہینے لکھو کھا روپیہ بے ہودہ رسموں اور نمائشی افعال اور جاہلانہ اشغال میں صَرف ہو جاتا ہے۔ ان میں سے کس کو اسلام نے تمھارے لیے حلال کیا تھا؟ سب سے بڑی چیز جس نے تم کو تباہ کر دیا ہے وہ ادائے زکوٰۃ میں غفلت اور آپس کی معاونت سے بے پروائی ہے۔ کیا اسلام نے یہ چیز تم پر فرض نہ کی تھی؟ پس حقیقت یہ ہے کہ تمھاری معیشت کی بربادی اسلامی قیود کی پابندی کا نتیجہ نہیں بلکہ ان سے آزادی کا نتیجہ ہے۔ رہی ایک سود کی پابندی تو وہ بھی کہاں قائم ہے؟ کم ازکم ۹۵ فی صدی مسلمان بغیر کسی حقیقی مجبوری کے سود پر قرض لیتے ہیں۔ کیا اسلامی احکام کی پابندی اسی کا نام ہے؟ مال دار مسلمانوں میں سے بھی ایک بڑا حصہ کسی نہ کسی شکل میں سود کھا ہی رہا ہے۔ باقاعدہ ساہوکاری نہ کی تو کیا ہوا‘ بینک اور بیمہ اور سرکاری بانڈز اور پراویڈنٹ فنڈز کا سود تو اکثر و بیش تر ما ل دار مسلمان کھاتے ہیں۔ پھر وہ حرمتِ سود کی قید کہاں ہے جس پر تم اپنی معاشی خستہ حالی کا الزام رکھتے ہو؟
عجیب پر لطف استدلال ہے کہ مسلمانوں کی عزت اور قومی طاقت کا مدار دولت مندی پر ہے‘ اور دولت کا مدار سود کے جواز پر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو ابھی تک یہی خبر نہیں کہ عزت اور طاقت کا مدار دراصل ہے کس چیز پر۔ محض دولت ہرگز وہ چیز نہیں ہے جو کسی قوم کو معزز اور طاقت وَر بناتی ہو۔ تمھارا ایک ایک شخص اگر لکھ پتی اور کروڑ پتی بن جائے مگر تم میں کیریکٹر کی طاقت نہ ہو تو یقین رکھو کہ دنیا میں تمھاری کوئی عزت نہ ہوگی۔ بخلاف اس کے اگر تم میں درحقیقت اسلامی سیرت موجود ہو‘ تم صادق اور امین ہو‘ لالچ اور خوف سے پاک ہو‘ اپنے اصول میں سخت اور اپنے معاملات میں کھرے ہو‘ حق کو حق اور فرض کو فرض سمجھنے والے ہو‘ حرام و حلال کی تمیز کو ہر حال میں ملحوظ رکھنے والے ہو‘ اور تم میں اتنی اخلاقی قوت موجود ہو کہ کسی نقصان کا خوف اور کسی فائدے کی طمع تم کو راستی سے نہ ہٹا سکے اور کسی قیمت پر تمھارا ایمان نہ خریدا جاسکے‘ تو دنیا میں تمھاری ساکھ قائم ہو جائے گی‘ دلوں میں تمھاری عزت بیٹھ جائے گی۔ تمھاری بات کا وزن لکھ پتی کی پوری دولت سے زیادہ ہوگا‘ تم جھونپڑیوں میں رہ کر اور پیوند لگے کپڑے پہن کر بھی دولت سرائوں میں رہنے والوں سے زیادہ احترام کی نظر سے دیکھے جائو گے اور تمھاری قوم کو ایسی طاقت حاصل ہوگی جس کو کبھی نیچا نہیں دکھایا جاسکتا۔ عہد صحابہؓ کے مسلمان کس قدر مفلس تھے۔ جھونپڑیوں اورکمبل کے خیموں میں رہنے والے‘ تمدن کی شان و شوکت سے ناآشنا‘ نہ ان کے لباس درست‘ نہ غذا درست‘ نہ ہتھیار درست‘ نہ سواریاں شان دار، مگر ان کی جو دھاک اور ساکھ دنیا میں تھی وہ نہ اموی عہدمیں مسلمانوں کو نصیب ہوئی‘ نہ عباسی عہدمیں اور نہ بعد کے کسی عہد میں۔ ان کے پاس دولت نہ تھی مگر کریکٹر کی طاقت تھی جس نے دنیا میں اپنی عزت اورعظمت کا سکہ بٹھا دیا تھا۔ بعد والوں کے پاس دولت آئی‘ حکومت آئی، تمدن کی شان و شوکت آئی، مگر کوئی چیز بھی کریکٹر کی کمزوری کا بدل فراہم نہ کرسکی۔
تم نے تاریخ اسلام کا سبق تو فراموش ہی کر دیا ہے‘ مگر دنیا کی جس قوم کی تاریخ چاہو اٹھا کر دیکھ لو‘ تم کو ایک مثال بھی ایسی نہ ملے گی کہ کسی قوم نے محض سہولت پسندی اور آرام طلبی اور منفعت پرستی سے عزت اور طاقت حاصل کی ہو۔ تم کسی ایسی قوم کو معزز اور سربلند نہ پائو گے جو کسی اصول اورکسی ڈسپلن کی پابند نہ ہو‘ کسی بڑے مقصد کے لیے تنگی اور مشقت اور سختی برداشت نہ کرسکتی ہو‘ اور اپنے اصول و مقاصد کے لیے اپنے نفس کی خواہشات کو اور خود اپنے نفس کو بھی قربان کر دینے کا جذبہ نہ رکھتی ہو۔ یہ ڈسپلن اور اصول کی پابندی اوربڑے مقاصد کے لیے راحت و آسائش اور منافع کی قربانی کسی نہ کسی رنگ میں تم کو ہرجگہ نظر آئے گی۔ اسلام میں اس کا رنگ کچھ اور ہے اور دوسری ترقی یافتہ قوموں میں کچھ اور۔ یہاں سے نکل کر تم کسی اور نظام تمدن میں جائو گے تو وہاں بھی تم کو اس رنگ میں نہ سہی، کسی دوسرے رنگ میں ایک نہ ایک ضابطے کا پابند ہونا پڑے گا‘ ایک نہ ایک ڈسپلن کی گرفت برداشت کرنی ہوگی۔ چند مخصوص اصولوں کے شکنجے میں بہرحال تم جکڑے جائو گے‘ اور تم سے کسی مقصداور کسی اصول کی خاطر قربانی کا مطالبہ ضرور کیا جائے گا۔ اگر اس کا حوصلہ تم میں نہیں ہے‘ اگر تم صرف نرمی اور کشادگی اور مٹھاس ہی کے متوالے ہو اورکسی سختی‘ کسی کڑواہٹ کو گوارا کرنے کی طاقت تم میں نہیں ہے تو اسلام کی قید و بند سے نکل کر جہاں چاہو جاکر دیکھ لو۔ کہیں تم کو عزت کا مقام نہ ملے گا، اور کسی جگہ طاقت کا خزانہ تم نہ پاسکو گے۔ قرآن نے اس قاعدے کلیے کو صرف چار لفظوں میں بیان کیا ہے اور وہ چار لفظ ایسے ہیں جن کی صداقت پر پوری تاریخ عالم گواہ ہے:
اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا الم نشرح96:6 یُسر کا دامن ہر حال میں عُسر کے ساتھ وابستہ ہے۔ جس میں عُسر کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں وہ کبھی یُسر سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔
(ترجمان القرآن، صفر ۱۳۵۵ھ۔ اپریل ۱۹۳۶ء)
زبان: اُردو
صفحات: 32
اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، منصورہ ملتان روڈ، لاہور۔