تنقیحات

سید ابو الاعلیٰ مو دودیؒ کی تحریروں کا اعجاز ہے کہ وہ حق کا راستہ محض دکھاتی ہی نہیں بلکہ اس پر چلنے اور دوسرے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی تڑپ بھی پیدا کرتی ہیں کہ یہ تحریریں کسی مسلک اور فرقے کی نہیں بلکہ خالص اسلام کی دعوت ہے۔
ترقی یافتہ مغرب کی بے خدا تہذیب نے افراد کو مادہ پرستی اور تنہائی کا شکار بھی کیا ہے اور معاشرتی مسائل میں بھی اُلجھایا ہے لیکن معاشرتی مسائل میں حوصلہ شکن اضافے کے سبب سے بے چین مغرب میں خود کشی اور قبول ِاسلام کے واقعات خود اس تہذیب کی نا پائیداری اور اسلام کی حقانیت کا زندہ اور واضح ثبوت ہیں۔
حقیقی اسلام کو جاننے کے لیے سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی تحروں کو پڑھیے کہ یہ کفر والحاد کی تندوتیز آندھیوں میں ایمان کی شمع کو روشن رکھنے کا ذریعہ ہیں۔

جی ہاں! ایمان، قوت اور زندگی سے آشنا کرنے والی تحریریں۔

تنقیحات میں سید مودودیؒ نے مغرب کی بے خدااور چکا چوند تہذیب سے مرعوب مسلمانوں کو اسلام کی اس فطری اور قابلِ فخر تہذیب کو اپنانے کی دعوت دیتے ہیں جو ایک ہزار برس تک دنیا پر حکمران رہی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ یہ بھی بتاتے ہیں کہ انحطاط اور تنزل سے پریشان مسلم معاشروں کی ترقی غیروں کی نقالی سے نہیں، بلکہ اسلام کے زرّیں اصولوں کو اپنانے ہی سے ممکن ہے۔ مسلم اُمّہ کو اقوام عالم میں اپنا تشخص قائم اور برقرار رکھنے کے لیے اسلام کی آغوش کی طرف پلٹنا ہوگا۔ جدید علوم سے استفادہ وقت کی ضرورت ہے لیکن غیروں کی غلامی بہر حال تباہی کا راستہ ہے۔

دیباچہ طبع اول

اس مجموعے میں وہ چھوٹے چھوٹے مضامین یک جا کر دیے گئے ہیں جو میں نے اسلام اور مغربی تہذیب کے تصادم سے پیدا شدہ مسائل پر مختلف اوقات میں لکھے ہیں۔ ان میں غیر اسلامی اثرات اور مسلمانوں کی کوتاہیوں پر تنقید بھی ہے‘ اور غلط فہمیوں میں اُلجھے ہوئے حقائق کی تحقیق بھی۔

جو علمی اور عملی مسائل آج کل شب و روز پیدا ہو رہے ہیں‘ ان کو حل کرنے کے لیے سب سے مقدّم ضرورت یہ ہے کہ لوگ ان کو صحیح روشنی میں دیکھیں اور خود ان کی اپنی بصیرت رنگین نہ رہے‘ اس لیے دارالاسلام کے علمی شعبے کی جانب سے یہ مجموعہ ابتدا ہی میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ خیالات کے صاف کرنے میں اس سے مدد لی جائے۔
اس مجموعے کو ایک مسلسل اور مربوط کتاب کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ اس کا ہر مضمون بجائے خود مستقل ہے‘ البتہ ان مختلف مضامین میں ایک مقصدی ربط ضرور پایا جاتا ہے اور اسی ربط کے لحاظ سے انھیں ایک جگہ جمع کیا گیا ہے۔

ابوالاعلیٰ
۸ ربیع الثانی ۱۳۵۸ھ
(۷ جون ۱۹۳۹ء)

 

عرضِ ناشر

 

تجدید و احیائے دین اور قیامِ نظامِ اسلامی کے مقصد کے پیش نظر بیسویں صدی کے تیسرے اور چوتھے عشرے میں متکلم اسلام اور مسلم حنیف مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے قلم سے اسلامی لٹریچر کا ایک عظیم اور بے بہا ذخیرہ تیار ہوا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جماعت اسلامی کے بانی تھے، ان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار خوبیوں‘ کمالات اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ ایک طرف انھوں نے اپنی سلیس اور عام فہم تحریروں میں اسلام کو ایک قابل فخر تہذیب اور ایک منفرد نظام زندگی کے طور پر پیش کیا تو دوسری طرف انھوں نے اس دین حق کو انسانی معاشرے کے تمام شعبوں اورپہلوئوں میں نافذ و جاری کرنے کے لیے زبردست سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ ان کی شخصیت کا یہ پہلو انھیں فی زمانہ مفکرین و سیاسی قائدین میں ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں کا اعجاز ہے کہ وہ حق کا راستہ محض دکھاتی ہی نہیں بلکہ اُس پر چلنے اور ____ دوسرے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی تڑپ ____ بھی پیدا کرتی ہیں کہ یہ تحریریں کسی مسلک اور فرقے کی نہیں بلکہ خالص اسلام کی دعوت ہے۔
ترقی یافتہ مغرب کی بے خدا تہذیب نے افراد کو مادہ پرستی اور تنہائی کا شکار بھی کیا ہے اور معاشرتی مسائل میں بھی اُلجھایا ہے، لیکن معاشرتی مسائل میں حوصلہ شکن اضافے کے سبب سے بے چین مغرب میں خود کشی اور قبولِ اسلام کے واقعات خود اُس تہذیب کی ناپائداری اور اسلام کی حقانیت کا زندہ اورواضح ثبوت ہیں۔
حقیقی اسلام کو جاننے کے لیے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں کو پڑھیے کہ یہ کفر و الحاد کی تندو تیز آندھیوں میں ایمان کی شمع کو روشن رکھنے کا ذریعہ ہیں۔
جی ہاں! ایمان، قوت اور زندگی سے آشنا کرنے والی تحریریں۔
زیر نظر تالیف تنقیحات دراصل مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے اُن مضامین کا مجموعہ ہے جو انھوں نے ۱۹۳۴ء سے ۱۹۳۷ء تک مختلف اوقات میں ماہنامہ ترجمان القرآن کے لیے لکھے تھے۔ اتنی طویل مدت گزر جانے کے باوجود اِن مضامین کی افادیت قائم ہے۔
ان تحریروں میں سید مودودیؒ مغرب کی بے خدا اور چکا چوند تہذیب سے مرعوب مسلمانوں کو اسلام کی اُس فطری اور قابل فخر تہذیب کو اپنانے کی دعوت دیتے ہیں جو ایک ہزار برس تک دنیا پر حکمران رہی۔ سید مودودیؒ یہ بھی بتاتے ہیں کہ انحطاط اور تنزل سے پریشان مسلم معاشروں کی ترقی ____ غیروں کی نقالی سے نہیں، بلکہ ____ اسلام کے زریںاصولوں ____ کو اپنانے ہی سے ممکن ہے۔ مسلم اُمہ کو اقوام عالم میں اپنا تشخص قائم اور برقرار رکھنے کے لیے اسلام کی آغوش کی طرف پلٹنا ہوگا۔ جدید علوم سے استفادہ وقت کی ضرورت ہے، لیکن غیروں کی غلامی اور اتباع بہرحال تباہی کا راستہ ہے۔
ہم اپنے قارئین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس اہم کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے جہاں کہیں طباعت و اشاعت کے حوالے سے کوئی کمی کوتاہی محسوس کریں تو اُس سے ہمیں ضرور آگاہ کریں۔ اسلامک پبلی کیشنز کی دیگر مطبوعات پر بھی اپنی رائے ہمیں ضرور پہنچائیں۔

نیاز کیش
منیجنگ ڈائریکٹر
اسلامک پبلی کیشنز، لاہور

۱۔ ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب

حکومت و فرماں روائی اور غلبہ و استیلا({ FR 997 }) کی دو قسمیں ہیں:
٭ ایک ذہنی اور اخلاقی غلبہ
٭ دوسرا سیاسی اور مادی غلبہ
پہلی قسم کا غلبہ یہ ہے کہ ایک قوم اپنی فکری قوتوں میں اتنی ترقی کر جائے کہ دوسری قومیں اسی کے افکار پر ایمان لے آئیں‘ اسی کے تخیلات‘ اسی کے معتقدات‘ اسی کے نظریات دماغوں پر چھا جائیں‘ ذہنیتیںاسی کے سانچے میں ڈھلیں‘ تہذیب اسی کی تہذیب ہو‘ علم اسی کا علم ہو‘ اسی کی تحقیق کو تحقیق سمجھا جائے اور ہر وہ چیز باطل ٹھہرائی جائے جس کو وہ باطل ٹھہرائے۔ دوسری قسم کاغلبہ یہ ہے کہ ایک قوم اپنی مادی طاقتوں کے اعتبار سے اتنی قوی بازو ہو جائے کہ دوسری قومیں اس کے مقابلے میں اپنی سیاسی و معاشی آزادی کو برقرار نہ رکھ سکیں اور کلی طور پر، یا کسی نہ کسی حد تک وہ غیر قوموں کے وسائل ثروت(۲) پر قابض اور ان کے نظم مملکت پر حاوی ہو جائے۔
اس کے مقابلے میں مغلوبیت اور محکومیت کی بھی دو قسمیں ہیں:
o ایک ذہنی مغلوبیت o دوسری سیاسی مغلوبیت
ان دونوں قسموں کی صفات کو اُن صفات کا عکس سمجھ لیجیے جو اوپر غلبے کی دو قسموں کے متعلق بیان کی گئی ہیں۔
یہ دونوں قسمیں ایک اعتبار سے الگ الگ ہیں۔ لازم نہیں ہے کہ جہاں ذہنی غلبہ ہو، وہاں سیاسی غلبہ بھی ہو، اور نہ یہ لازم ہے کہ جہاں سیاسی غلبہ ہو، وہاں ذہنی غلبہ بھی ہو، لیکن فطری قانون یہی ہے کہ جو قوم عقل و فکر سے کام لیتی اور تحقیق و اکتشاف(۳) کی راہ میں پیش قدمی({ FR 998 }) کرتی ہے‘ اس کو ذہنی ترقی کے ساتھ ساتھ مادی ترقی بھی نصیب ہوتی ہے اور جو قوم تفکر و تدبر(۲) کے میدان میں مسابقت(۳) کرنا چھوڑ دیتی ہے وہ ذہنی انحطاط(۴) کے ساتھ مادی تنزل(۵) میں بھی مبتلا ہو جاتی ہے۔ پھر چونکہ غلبہ نتیجہ ہے قوت کا اور مغلوبیت نتیجہ ہے کمزوری کا‘ اس لیے ذہنی و مادی حیثیت سے درماندہ(۶) اور ضعیف(۷) قومیں اپنی درماندگی اور ضعف میں جس قدر ترقی کرتی جاتی ہیں اُسی قدر وہ غلامی اور محکومیت کے لیے مستعد ہوتی چلی جاتی ہیں اور طاقت وَر ذہنی اور مادی دونوں حیثیتوں سے طاقت وَر قومیں ان کے دماغ اور ان کے جسم دونوں پر حکمراں ہو جاتی ہیں۔
مسلمان آج کل اسی دوہری غلامی میں مبتلا ہیں۔ کہیں دونوں قسم کی غلامیاں پوری طرح مسلط(۸) ہیں اور کہیں سیاسی غلامی کم اور ذہنی غلامی زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت کوئی اسلامی آبادی ایسی نہیں ہے جو صحیح معنوں میں سیاسی اور ذہنی اعتبار سے پوری طرح آزاد ہو۔ جہاں ان کو سیاسی استقلال اور خود اختیاری حاصل بھی ہے‘ وہاں وہ ذہنی غلامی سے آزاد نہیں ہیں۔ ان کے مدرسے‘ ان کے دفتر‘ ان کے بازار‘ ان کی انجمنیں‘ ان کے گھر‘ حتیٰ کہ ان کے جسم تک اپنی زبانِ حال سے شہادت دے رہے ہیں کہ ان پر مغرب کی تہذیب‘ مغرب کے افکار‘ مغرب کے علوم و فنون حکمران ہیں۔ وہ مغرب کے دماغ سے سوچتے ہیں، مغرب کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، مغرب کی بنائی ہوئی راہوں پر چلتے ہیں، خواہ ان کو اس کا شعور ہو یا نہ ہو‘ بہر صورت یہ مفروضہ اُن کے دماغوں پر مسلط ہے کہ حق وہ ہے جس کو مغرب حق سمجھتا ہے اور باطل وہ ہے جس کو مغرب نے باطل قرار دیا ہے۔ حق‘ صداقت‘ تہذیب‘ اخلاق‘ انسانیت‘ شائستگی‘ ہر ایک کا معیار ان کے نزدیک وہی ہے جو مغرب نے مقرر کر رکھا ہے۔ اپنے دین و ایمان‘ اپنے افکار و تخیلات‘ اپنی تہذیب و شائستگی اپنے اخلاق و آداب‘ سب کو وہ اسی معیار پر جانچتے ہیں۔ جو چیز اس معیار پر پوری اترتی ہے اسے درست سمجھتے ہیں‘ مطمئن ہوتے ہیں‘ فخر کرتے ہیں کہ ہماری فلاں چیز مغرب کے معیار پر پوری اترآئی اور جو چیز اُس معیار پر پوری نہیں اترتی اُسے شعوری یا غیر شعوری طور پر غلط مان لیتے ہیں۔ کوئی علانیہ اس کو ٹھکرا دیتا ہے‘ کوئی دل میں گھٹتا({ FR 999 }) ہے اور کوشش کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح کھینچ تان کر اُسے مغربی معیار کے مطابق کر دے۔
جب ہماری آزاد قوموں کا حال یہ ہے تو جو مسلمان قومیں مغربی اقوام کی محکوم ہیں اُن کی ذہنی غلامی کا حال کیا پوچھنا۔
اِس غلامی کا سبب کیا ہے؟ اس کی تشریح کے لیے ایک کتاب کی وسعت(۲) درکار ہے، مگر مختصراً اس کو چند لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔
ذہنی غلبے و استیلا کی بِنا دراصل فکری اجتہاد اور علمی تحقیق پر قائم ہوتی ہے۔ جو قوم اس راہ میں پیش قدمی کرتی ہے وہی دنیا کی رہنما اور قوموں کی امام بن جاتی ہے اور اسی کے افکار دنیا پر چھا جاتے ہیں اور جو قوم اس راہ میں پیچھے رہ جاتی ہے اسے مُقَلِّد(۳) و مُتَّبِع(۴) بننا پڑتا ہے۔ اُس کے افکار و معتقدات(۵) میں یہ قوت باقی نہیں رہتی کہ وہ دماغوں پر اپنا تسلط قائم رکھ سکیں۔ مجتہد و محقق قوم کے طاقت وَرافکار و معتقدات کا سیلاب اُن کو بہا لے جاتا ہے اور اُن میں اتنا بل بوتا(۶) نہیں رہتا کہ اپنی جگہ پر ٹھہرے رہ جائیں۔ مسلمان جب تک تحقیق و اجتہاد کے میدان میں آگے بڑھتے رہے تمام دنیا کی قومیں ان کی پَیرو اور مُقَلّد رہیں۔ اسلامی فکر ساری نوعِ انسانی کے افکار پر غالب رہی۔ حسن اور قبح‘ نیکی اور بدی‘ غلط اور صحیح کا جو معیار اسلام نے مقرر کیا وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر تمام دنیا کے نزدیک معیار قرار پایا اور قصداً(۷)یا اضطراراً (۸)دنیا اپنے افکار و اعمال کو اسی معیار کے مطابق ڈھالتی رہی، مگر جب مسلمانوں میں اربابِ فکر اور اصحابِ تحقیق پیدا ہونے بند ہوگئے‘ جب انھوں نے سوچنا اور دریافت کرنا چھوڑ دیا‘ جب وہ اکتسابِ علم اور اجتہادِ فکر کی راہ میں تھک کر بیٹھ گئے تو گویا انھوں نے خود دنیا کی رہنمائی سے استعفیٰ دے دیا۔ دوسری طرف مغربی قومیں اس میں آگے بڑھیں۔ انھوں نے غور و فکر کی قوتوں سے کام لینا شروع کیا‘ کائنات کے راز ٹٹولے اور فطرت کی چھپی ہوئی طاقتوں کے خزانے تلاش کیے‘ اس کا لازمی نتیجہ وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ مغربی قومیں دنیا کی رہنما بن گئیں اور مسلمانوں کو اسی طرح ان کے اقتدار کے آگے سرتسلیمِ خم کرنا پڑا جس طرح کبھی دنیا نے خود مسلمانوں کے اقتدار کے آگے خم کیا تھا۔
چار پانچ سو سال تک مسلمان اپنے بزرگوں کے بچھائے ہوئے بستر پر آرام سے سوتے رہے اور مغربی قومیں اپنے کام میں مشغول رہیں۔ اس کے بعد دفعتاً مغربی اقتدار کا سیلاب اٹھا اور ایک صدی کے اندر اندر تمام روئے زمین پر چھا گیا۔ نیند کے ماتے({ FR 1000 }) آنکھیں ملتے ہوئے اٹھے تو دیکھا کہ مسیحی یورپ قلم اور تلوار دونوں سے مسلح ہے اور دونوں طاقتوں سے دنیا پر حکومت کر رہا ہے۔ ایک چھوٹی سی جماعت نے مدافعت کی کوشش کی مگر نہ قلم کا زور تھا نہ تلوار کا۔ شکست کھاتی چلی گئی۔ رہا قوم کا سواد اعظم تو اس نے اسی سنت پر عمل کیا جو ہمیشہ سے کمزوروں کی سنت رہی ہے۔ تلوار کے زور‘ استدلال(۲) کی قوت‘ علمی شواہد(۳) کی تائید اور نظر فریب حسن و جمال کے ساتھ جو خیالات‘ نظریات اور اصول مغرب سے آئے‘ آرام طلب دماغوں اور مرعوب ذہنیتوں نے ان کو ایمان کا درجہ دے دیا۔ پرانے مذہبی معتقدات‘ اخلاقی اصول اور تمدنی آئین جو محض روایتی بنیادوں پر قائم رہ گئے تھے‘ اس نئے اور طاقت وَر سیلاب کی رو میں بہتے چلے گئے اور ایک غیر محسوس طریقے سے دلوں میں یہ مفروضہ(۴) جاگزیں(۵) ہوگیا کہ جو کچھ مغرب سے آتا ہے وہی حق ہے اور وہی صحت و درستی کا معیار ہے۔
مغربی تہذیب کے ساتھ جن قوموں کا تصادم ہوا اُن میں سے بعض تو وہ تھیں جن کی کوئی مستقل تہذیب نہ تھی۔ بعض وہ تھیں جن کے پاس اپنی ایک تہذیب تو تھی مگر ایسی مضبوط نہ تھی کہ کسی دوسری تہذیب کے مقابلے میں وہ اپنے خصائص(۶) کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی۔ بعض وہ تھیں جن کی تہذیب اپنے اصول میں اس آنے والی تہذیب سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہ تھی۔ ایسی تمام قومیں تو بہت آسانی سے مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ گئیں‘ اور کسی شدید تصادم(۷) کی نوبت نہ آنے پائی، لیکن مسلمانوں کا معاملہ ان سب سے مختلف ہے۔ یہ ایک مستقل اور مکمل تہذیب کے مالک ہیں۔ ان کی تہذیب اپنا ایک مکمل ضابطہ رکھتی ہے جو فکری اور عملی دونوں حیثیتوں سے زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ مغربی تہذیب کے اساسی اصول کلیتاً اس تہذیب کے مخالف واقع ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدم قدم پر یہ دونوں تہذیبیں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں اور ان کے تصادم سے مسلمانوں کی اعتقادی اور عملی زندگی کے ہر شعبے پر نہایت تباہ کن اثر پڑ رہا ہے۔
مغربی تہذیب نے جس فلسفے اور سائنس کی آغوش میں پرورش پائی ہے وہ پانچ چھ سو سال سے دہریت‘({ FR 1001 }) الحاد‘(۲) لا مذہبی اور مادہ پرستی کی طرف جارہے ہیں۔ وہ جس تاریخ پیدا ہوئی اسی تاریخ سے مذہب کے ساتھ اس کی لڑائی شروع ہوگئی‘ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مذہب کے خلاف عقل و حکمت کی لڑائی ہی نے اس تہذیب کو پیدا کیا۔ اگرچہ کائنات کے آثار(۳) کا مشاہدہ‘ اُن کے اسرار(۴) کی تحقیق‘ ان کے کلی قوانین کی دریافت‘ ان کے مظاہر پر غور و فکر‘ اور ان کو ترتیب دے کر قیاس و برہان(۵) کے ذریعے سے نتائج کا استنباط‘(۶) کوئی چیز بھی مذہب کی ضد نہیں ہے‘ مگر سوئے اتفاق سے نشاۃِ جدید (rennaissance) کے عہدمیں جب یورپ کی نئی علمی تحریک رونما ہوئی‘ تو اس تحریک کو ان عیسائی پادریوں سے سابقہ پیش(۷) آیا جنھوں نے اپنے مذہبی معتقدات کو قدیم یونانی فلسفہ و حکمت کی بنیادوں پر قائم کر رکھا تھا اور جو یہ سمجھتے تھے کہ اگر جدید علمی تحقیقات اور فکری اجتہاد سے ان بنیادوں میں ذرا سا بھی تزلزل(۸) واقع ہوا تو اصل مذہب کی عمارت پیوندِ خاک(۹) ہو جائے گی۔ اس غلط تخیل کے زیر اثر انھوں نے نئی علمی تحریک کی مخالفت کی اور اس کے روکنے کے لیے قوت سے کام لیا۔ مذہبی عدالتیں (Inquisitions)قائم کی گئیں جن میں اس تحریک کے علم برداروں کو سخت وحشیانہ اور ہولناک سزائیں دی گئیں، لیکن یہ تحریک ایک حقیقی بیداری کا نتیجہ تھی، اس لیے تشدد سے دبنے کے بجائے اور بڑھتی چلی گئی حتیٰ کہ حریتِ فکر(۱۰) کے سیلاب نے مذہبی اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔
ابتدا میں لڑائی حریت فکر کے علم برداروں اور کلیسا کے درمیان تھی مگر چونکہ کلیسا مذہب کے نام پر آزاد خیالوں سے جنگ کر رہا تھا‘ اس لیے بہت جلدی اس لڑائی نے مسیحی مذہب اور آزاد خیالی کے درمیان جنگ کی صورت اختیار کرلی۔ اس کے بعد نفس مذہب (خواہ وہ کوئی مذہب ہو) اس تحریک کا مد مقابل قرار دیا گیا۔ سائنٹفک طریقے پر سوچنے کے معنی یہ قرار پائے کہ یہ طریق فکر مذہبی طریق فکر کی عین ضد ہے۔ جو شخص سائنٹفک طریق سے کائنات کے مسائل پر غور کرے اس پر لازم ہے کہ مذہبی نظریے سے ہٹ کر اپنی راہ نکالے۔ کائنات کے مذہبی نظریے کا بنیادی تخیل یہ ہے کہ عالم طبیعت (physical world) کے تمام آثار اور جملہ مظاہر کی علت کسی ایسی طاقت کو قرار دیا جائے جو اس عالم سے بالاتر ہو۔ یہ نظریہ چونکہ جدید علمی تحریک کے دشمنوں کا نظریہ تھا اس لیے جدید تحریک کے علم برداروں نے لازم سمجھا کہ خدا یا کسی کو فوق الطبیعت (super natural)ہستی فرض کیے بغیر کائنات کے معمے کو حل کرنے کی کوشش کریں اور ہر اس طریقے کو خلافِ حکمت (unscientific)قرار دیں جس میں خدا کا وجود فرض کرکے مسائل کائنات پر نظر کی گئی ہو۔ اس طرح نئے دور کے اہل حکمت و فلسفہ میں خدا اور روح یا روحانیت اورفوق الطبیعت({ FR 1002 }) کے خلاف ایک تعصب پیدا ہوگیا جو عقل و استدلال کا نتیجہ نہ تھا بلکہ سراسر جذبات کی برانگیختی(۲) کا نتیجہ تھا۔ وہ خدا سے اس لیے تبریٰ (۳)نہ کرتے تھے کہ دلائل اور براہین سے اس کا عدمِ وجود اور عدمِ وجوب ثابت ہوگیا تھا‘ بلکہ اس سے اس لیے بیزار تھے کہ وہ ان کے اور ان کی آزادیٔ خیال کے دشمنوں کا معبود تھا۔ بعد کی پانچ صدیوں میں ان کی عقل و فکر اور ان کی علمی جدوجہد نے جتنا کام کیا اس کی بنیاد میں یہی غیر عقلی جذبہ کار فرما رہا۔
مغربی فلسفہ اور مغربی سائنس دانوں نے جب سفر شروع کیا تو اگرچہ ان کا رخ خدا پرستی کے بالکل مخالف سمت میں تھا، تاہم چونکہ وہ مذہبی ماحول میں گھرے ہوئے تھے اس لیے وہ ابتداء ً نیچریت (naturalism)کو خدا پرستی کے ساتھ ساتھ نباہتے رہے، مگر جوں جوں وہ اپنے سفر میں آگے بڑھتے گئے‘ نیچریت خدا پرستی پر غالب آتی چلی گئی حتیٰ کہ خدا کا تخیل‘ اور خدا کے ساتھ ہر اُس چیز کا تخیل جو عالم طبیعت سے بالاتر ہو‘ اُن سے بالکل غائب ہوگیا اور وہ اس انتہا پر پہنچ گئے کہ مادہ و حرکت کے سوا کوئی شے ان کے نزدیک حقیقی نہ رہی‘ سائنس نیچریت کا ہم معنی قرار پاگیا اور اہل حکمت و فلسفہ کا ایمان اس نظریے پر قائم ہوگیا کہ ہر چیز جو ناپی اور تولی نہیں جاسکتی اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔مغربی فلسفہ و سائنس کی تاریخ اس بیان کی شاہد ہے:
۱۔ ڈیکارٹ (Descartes،م: ۱۶۵۰ء) جو مغربی فلسفے کا آدم سمجھا جاتا ہے ایک طرف تو خدا کا زبردست قائل ہے‘ اور مادہ کے ساتھ روح کا مستقل وجود بھی مانتا ہے مگر دوسری طرف وہی ہے جس نے عالم طبیعت کے آثار کی توجیہ میکانکی (mechanical) طریق پر کرنے کی ابتدا کی اور اس طریق فکر کی بنیاد رکھی جو بعد میں سراسر مادہ پرستی (materialism) بن گیا۔
۲۔ ہابس (Hobbes،م:۱۶۷۹ء) اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر فوق الطبیعت (super natural)کی کھلم کھلا مخالفت کرتا ہے‘ نظام عالم اور اس کی ہر شے کو میکانکی توجیہہ کے قابل قرار دیتا ہے اور کسی ایسی نفسی یا روحی یا عقلی قوت کا قائل نہیں ہے جو اس مادی دنیا میں تصرف کرنے والی ہو مگر‘ اس کے ساتھ ہی وہ خدا کو بھی مانتا ہے۔ اس حیثیت سے کہ ایسی ایک علت العلل کا ماننا ایک عقلی ضرورت ہے۔
۳۔ اسی زمانے میں سپائنوزا (Spinoza،م:۱۶۷۷ء) اٹھا جو سترھویں صدی میں عقلیت (rationalism)کا سب سے بڑا علم بردار تھا۔ اس نے مادہ اور روح اور خدا کے درمیان کوئی فرق نہ رکھا‘ خدا اور کائنات کو ملا کر ایک کل بنا دیا اور اس کل میں خدا کے اختیار مطلق کو تسلیم نہ کیا۔
۴۔ لائبنیز (Leibnitz،م:۱۷۱۶ء) اور لاک (Locke،م: ۱۷۰۴ء) خدا کے قائل تھے‘ مگر دونوں کا میلان نیچریت کی جانب تھا۔
یہ سترھویں صدی کا فلسفہ تھا جس میں خدا پرستی اور نیچریت دونوں ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ اسی طرح سائنس نے بھی سترھویں صدی تک کامل الحاد کا رنگ اختیار نہیں کیا۔ کوپر نیکس (Copernicus)، کپلر (Kepler)، گیلیلو(Galileo)، نیوٹن اور سائنس کے دوسرے علم برداروں میں سے کوئی بھی خدا کا منکر نہ تھا، مگر یہ کائنات کے اسرار کی جستجو میں الٰہی نظریے سے قطع نظر کرکے ان قوتوں کو تلاش کرنا چاہتے تھے جو اس نظام کو چلا رہی ہیں اور ان قوانین کو معلوم کرنے کے خواہش مند تھے جن کے تحت یہ نظام چل رہا ہے۔ یہ الٰہی نقطہ نظر سے قطع نظر کرنا ہی دراصل اس دہریت اور نیچریت کا تخم({ FR 1128 }) تھا جو بعد میں حریتِ فکر کے درخت سے پیدا ہوئی، لیکن سترھویں صدی کے حکما کو اس کا شعور نہ تھا۔ وہ نیچریت اور خدا پرستی میں کوئی خطِ امتیاز نہ کھینچ سکے اور یہی سمجھتے رہے کہ یہ دونوں ایک ساتھ نبھ سکتی ہیں۔
اٹھارہویں صدی میں یہ حقیقت نمایاں ہوگئی کہ جو طریق فکر خدا کی ہستی کو نظر انداز کرکے، نظامِ کائنات کی جستجو کرے گا وہ مادیت‘ بے دینی اور الحاد تک پہنچے بغیر نہ رہ سکے گا۔ اس صدی میں جان ٹولینڈ (John Toland)، ڈیوڈہار ٹلے (David Hartley)، جوزف پریسٹلے (Josoph Priestley)،والٹیر (Voltaire)، میٹری (La Mettrie)، ہول باخ (Holbach)، کیبانیس (Cabanis)، ڈینس ڈائیڈیرو (Denis Diderot)،مانٹسیکو (Montisque)، روسو (Rosseau) اور ایسے ہی دوسرے آزاد خیال فلاسفر و حکما پیدا ہوئے جنھوں نے یا تو علانیہ خدا کے وجود سے انکار کیا، یا اگر بعض نے اسے تسلیم کیا بھی تو اس کی حیثیت ایک دستوری فرماں روا (constitutional monarch)سے زیادہ نہ سمجھی جو نظامِ کائنات کو ایک مرتبہ حرکت میں لے آنے کے بعد گوشہ نشین ہوگیا ہے اور اب اس نظام کے چلانے میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہ لوگ عالم طبیعت‘ اور دنیائے مادہ و حرکت کے باہر کسی چیز کے وجود کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے اور اِن کے نزدیک حقیقت صرف انھی چیزوں کی تھی جو ہمارے مشاہدے و تجربے میں آتی ہیں۔ ہیوم (Hume)نے اپنی تجربیت (empiricism) اور فلسفہ تشکیک (scepticism)سے اس طریق فکر کی زبردست تائید کی اور معقولات کی صحت کے لیے بھی تجربے ہی کو معیار قرار دینے پر زور دیا۔ برکلے (Berkeley) نے مادیت کی اس بڑھتی ہوئی رَو کا جان توڑ مقابلہ کیا مگر وہ اس کو نہ روک سکا۔ ہیگل (Hegal)نے مادیت کے مقابلے میں تصوریت (Idealism) کو فروغ دینا چاہا مگر ٹھوس مادے کے مقابلے میں لطیف تصور کی پرستش نہ ہوئی۔ کانٹ (Kant) نے بیچ کی یہ راہ نکالی کہ خدا کی ہستی‘ روح کابقا‘ اور ارادے کی آزادی ان چیزوں میں سے نہیں ہیں جو ہمارے علم میں آسکیں۔ یہ چیزیں مانی نہیں جاسکتیں۔ تاہم ان پر ایمان لایا جاسکتا ہے اور حکمت عملی (practical wisdom)اس کی مقتضی ہے کہ ان پر ایمان لایا جائے۔ یہ خدا پرستی اور نیچریت کے درمیان مصالحت کی آخری کوشش تھی، لیکن ناکام ہوئی کیونکہ جب عقل و فکر کی گمراہی نے خدا کو محض وہم کی پیداوار یا حد سے حد ایک معطل اور بے اختیار ہستی قرار دے لیا تو محض اخلاق کی حفاظت کے لیے اس کو ماننا‘ اس سے ڈرنا‘ اور اس کی خوش نودی چاہنا سراسر ایک غیر عاقلانہ فعل تھا۔
انیسویں صدی میں مادیت اپنے کمال کو پہنچ گئی‘ فوگت (Vogt)، بوخنر (Buchner)، سولبے (Czolbe)، کومت (Comte)، مولشات (Moleschotte) اور دوسرے حکما و فلاسفہ نے مادہ اور اس کے خواص کے سوا ہر شے کے وجود کو باطل قرار دیا۔ مل (Mill) نے فلسفے میں تجربیت اور اخلاق میں افادیت (Utilitarianism) کو فروغ دیا۔ اسپنسر (Spencer) نے فلسفیانہ ارتقائیت اور نظام کائنات کے خود بخود پیدا ہونے اور زندگی کے آپ سے آپ رونما ہو جانے کا نظریہ پوری قوت کے ساتھ پیش کیا۔ حیاتیات (biology)، عضویات (physiology)، ارضیات (geology) اور حیوانیات (zoology) کے اکتشافات({ FR 1003 }) و عملی سائنس کی ترقی اور مادی وسائل کی کثرت نے یہ خیال پوری پختگی کے ساتھ دلوں میں راسخ کر دیا کہ کائنات آپ سے آپ وجود میں آئی ہے‘ کسی نے اس کو پیدا نہیں کیا۔ آپ سے آپ لگے بندھے قوانین کے تحت چل رہی ہے‘ کوئی اس کو چلانے والا نہیں ہے۔ آپ سے آپ ترقی کے منازل طے کرتی رہی ہے‘ کسی فوق الطبیعت ہستی کا ہاتھ اس خود بخود حرکت کرنے والی مشین میں کام نہیں کر رہا ہے۔ بے جان مادے میں جان کسی کے امر سے نہیں پڑتی‘ بلکہ خود مادہ جب اپنے نظم میں ترقی کرتا ہے تو اس میں جان پڑ جاتی ہے۔ نمو‘ حرکتِ ارادی‘ احساس‘ شعور‘ فکر‘ سب اسی ترقی یافتہ مادے کے خواص ہیں۔ حیوان اور انسان سب کے سب مشینیں ہیں جو طبیعی قوانین کے تحت چل رہی ہیں۔ ان مشینوں کے پرزے جس طور سے ترتیب پاتے ہیں اسی طور کے افعال ان سے صادر ہوتے ہیں۔ ان میںکوئی اختیار اور کوئی آزاد ارادہ (free will) نہیں ہے‘ ان کے نظام کا درہم برہم ہو جانا‘ ان کی انرجی({ FR 1004 }) کا خرچ ہو جانا ہی ان کی موت ہے جو فنائے محض(۲) کی ہم معنی ہے۔ جب مشین ٹوٹ پھوٹ گئی تو اس کے خواص بھی باطل ہوگئے اب ان کے لیے حشر اور بارِدگر پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
ڈارون کے نظریۂ ارتقا نے اس نیچریت اور مادیت کو استحکام بخشنے اور ایک مدلل اور منظم علمی نظریے کی حیثیت دینے میں سب سے بڑھ کر حصہ لیا۔ اس کی کتاب اصل الانواع (origin of species) جو ۱۸۵۹ء میںپہلی مرتبہ شائع ہوئی‘ سائنس کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کرنے والی کتاب سمجھی جاتی ہے۔ اس نے ایک ایسے طریقِ استدلال سے جو انیسویں صدی کے سائنٹیفک دماغوں کے نزدیک استدلال کا محکم ترین طریقہ تھا‘ اس نظریے پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ کائنات کا کاروبار خدا کے بغیر چل سکتا ہے۔ آثار و مظاہر ِفطرت کے لیے خود فطرت کے قوانین کے سوا کسی اور علت کی حاجت نہیں۔زندگی کے ادنیٰ مراتب سے لے کر اعلیٰ مراتب تک موجودات کا ارتقا ایک ایسی فطرت کے تدریجی عمل کا نتیجہ ہے جو عقل و حکمت کے جوہر سے عاری ہے۔ انسان اور دوسری انواع حیوانی کو پیدا کرنے والا کوئی صانع حکیم نہیں ہے بلکہ وہی ایک جان دار مشین جو کبھی کیڑے کی شکل میں رینگا کرتی تھی‘ تنازع للبقا‘(۳) بقائے اصلح(۴) اور انتخابِ طبیعی(۵) کے نتیجے کے طور پر ذی شعور اور ناطق انسان(۶) کی شکل میں نمودار ہوگئی۔
یہی وہ فلسفہ اور سائنس ہے جس نے مغربی تہذیب کو پیدا کیا ہے۔ اس میں نہ کسی علیم و قدیر خدا کے خوف کی گنجائش ہے‘ نہ نبوت اور وحی و الہام کی ہدایت کا کوئی وزن‘ نہ موت کے بعد کسی دوسری زندگی کا تصور‘ نہ حیاتِ دنیا(۷) کے اعمال پر محاسبے(۸) کا کوئی کھٹکا‘ نہ انسان کی ذاتی ذمہ داری کا کوئی سوال‘ نہ زندگی کے حیوانی مقاصد سے بالاتر کسی مقصد اور کسی نصب العین کا کوئی امکان۔ یہ خالص مادی تہذیب ہے۔ اس کا پورا نظام خدا ترسی‘ راست روی‘ صداقت پسندی‘ حق جوئی‘ اخلاق‘ دیانت‘ امانت‘ نیکی‘ حیا‘ پرہیزگاری اور پاکیزگی کے اُن تصورات سے خالی ہے جن پر اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اس کا نظریہ اسلام کے نظریے کی بالکل ضد ہے۔ اس کا راستہ اُس راستے کی عین مخالف سمت میں ہے جو اسلام نے اختیار کیا ہے۔ اسلام جن چیزوں پر انسانی اخلاق اور تمدن کی بِنا رکھتا ہے ان کو یہ تہذیب بیخ و بن سے اکھاڑ دینا چاہتی ہے اور یہ تہذیب جن بنیادوں پر انفرادی سیرت اور اجتماعی نظام کی عمارت قائم کرتی ہے اُن پر اسلام کی عمارت ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ٹھہر سکتی۔ گویا اسلام اور مغربی تہذیب دو ایسی کشتیاں ہیں جو بالکل مخالف سمتوں میں سفرکر رہی ہیں۔ جو شخص ان میں سے کسی ایک کشتی پر سوار ہوگا اسے لامحالہ دوسری کشتی کو چھوڑنا پڑے گا اور جو بیک وقت ان دونوں پر سوار ہوگا اس کے دو ٹکڑے ہو جائیں گے۔
اس کو بدقسمتی کے سوا اور کیا کہیے کہ جس صدی میں یہ نئی تہذیب اپنی مادہ پرستی، الحاد اور دہریت کی انتہا کو پہنچی‘ ٹھیک وہی صدی تھی جس میں مراکش سے لے کر مشرق اقصیٰ تک تمام اسلامی ممالک مغربی قوموں کے سیاسی اقتدار اور حاکمانہ استیلا({ FR 1005 }) سے مغلوب ہوئے۔ مسلمانوں پر مغربی تلوار اور قلم دونوں کا حملہ ایک ساتھ ہوا۔ جو دماغ مغربی طاقتوں کے سیاسی غلبے سے مرعوب اور دہشت زدہ ہو چکے تھے اُن کے لیے مشکل ہوگیا کہ مغرب کے فلسفے و سائنس اور ان کی پروردہ(۲) تہذیب کے رعب(۳) داب سے محفوظ رہتے۔ خصوصیت کے ساتھ ان مسلمان قوموں کی حالت اور بھی زیادہ نازک تھی جو براہِ راست کسی مغربی سلطنت کے زیر حکم آگئیں تھیں۔ ان کو اپنے دنیوی مفاد کی حفاظت کے لیے مجبوراً مغربی علوم حاصل کرنے پڑتے اور چونکہ یہ تحصیل ِعلم خالص تحصیل ِعلم کی خاطر نہ تھی اور مزید براں ایک مرعوب ذہنیت کے ساتھ مغربی استادوں کے سامنے زانوئے ادب تہ کیا گیا تھا اس لیے مسلمانوں کی نئی نسلوں نے شدت کے ساتھ مغربی افکار اور سائنٹی فِک نظریات کا اثر قبول کیا۔ ان کی ذہنیتیں مغربی سانچے میں ڈھلتی چلی گئیں۔ ان کے دلوں میں مغربی تہذیب کا نفوذ(۴) بڑھتا چلا گیا۔ ان میں وہ ناقدانہ نظر پیدا ہی نہیں ہوئی جس سے وہ صحیح اور غلط کو پرکھتے اور صرف صحیح کو اختیار کرتے۔ ان میں یہ صلاحیت ہی پیدا نہ ہوسکی کہ آزادی اور استقلال کے ساتھ غور و فکر کرتے اور اپنے ذاتی اجتہاد سے کوئی رائے قائم کرتے۔ اسی کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی تہذیب جن بنیادوں پر قائم ہے وہ متزلزل ہوگئی ہیں۔ ذہنیتوں کا وہ سانچہ ہی بگڑ گیا ہے جس سے اسلامی طریق پر سوچا اور سمجھا جاسکتا تھا۔ مغربی طریق پر سوچنے اور مغربی تہذیب کے اصولوں پر اعتقاد رکھنے والے دماغ کی ساخت ہی ایسی ہے کہ اس میں اسلام کے اصول ٹھیک نہیں بیٹھ سکتے اور جب اصول({ FR 1006 }) ہی اس میں نہیں سما سکتے تو فروع(۲) میں طرح طرح کے شبہات اور نت نئے شکوک پیدا ہونا ہرگز قابل ِتعجب نہیں۔
اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کا سواد اعظم(۳) اب بھی اسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمان رہنا چاہتا ہے، لیکن دماغ مغربی افکار اور مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر اسلام سے منحرف(۴) ہو رہے ہیں اور یہ انحراف بڑھتا چلا جارہا ہے۔ سیاسی غلبہ واستیلا(۵) سے قطع نظر‘ مغرب کا علمی اور فکری داب(۶) و تسلط(۷) دنیا کی ذہنی فضا پر چھایا ہوا ہے اور اس نے نگاہوں کے زاویے اس طرح بدل دیے ہیں کہ دیکھنے والوں کے لیے مسلمان کی نظر سے دیکھنا اور سوچنے والوں کے لیے اسلامی طریق پر سوچنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ اشکال اُس وقت تک دور نہ ہوگا جب تک مسلمانوں میں آزاد اہل فکر پیدا نہ ہوں گے۔ اسلام میں ایک نشاۃِ جدید (rennaissance) کی ضرورت ہے۔ پرانے اسلامی مفکرین و محققین کا سرمایہ اب کام نہیں دے سکتا۔ دنیا اب آگے بڑھ چکی ہے۔ اس کو اب الٹے پائوں ان منازل کی طرف واپس لے جانا ممکن نہیں ہے جن سے وہ چھ سو برس پہلے گزر چکی ہے۔ علم و عمل کے میدان میں رہنمائی وہی کر سکتا ہے جو دنیا کو آگے کی جانب چلائے، نہ کہ پیچھے کی جانب۔ لہٰذا اب اگر اسلام دوبارہ دنیا کا رہنما بن سکتا ہے تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکر اور محقق پیدا ہوں جو فکر و نظر اور تحقیق و اکتشاف کی قوت سے اُن بنیادوں کو ڈھا دیں جن پر مغربی تہذیب کی عمارت قائم ہوئی ہے۔ قرآن کے بتائے ہوئے طریق فکر و نظر پر آثار(۸) کے مشاہدے اور حقائق کی جستجو سے ایک نئے نظامِ فلسفہ کی بِنا (۹)رکھیں جو خالص اسلامی فکر کا نتیجہ ہو۔ ایک نئی حکمت طبیعی (natural science) کی عمارت اٹھائیں جو قرآن کی ڈالی ہوئی داغ بیل پر اٹھے۔ ملحدانہ نظریے کو توڑ کر الٰہی نظریے پر فکر و تحقیق کی اساس قائم کریں اور اس جدید فکر و تحقیق کی عمارت کو اِس قوت کے ساتھ اٹھائیں کہ وہ تمام دنیا پر چھا جائے اور دنیا میں مغرب کی مادی تہذیب کے بجائے اسلام کی حقانی تہذیب جلوہ گر ہو۔
یہ جو کچھ کہا گیا ہے اس کے مقصد و مدّعا کو تمثیل({ FR 1007 }) کے پیرائے(۲) میں یوں سمجھیے کہ دنیا گویا ایک ریل گاڑی ہے جس کو فکر و تحقیق کا انجن چلا رہا ہے اور مفکرین و محققین اس انجن کے ڈرائیور ہیں۔ یہ گاڑی ہمیشہ اُسی رخ پر سفر کرتی ہے جس رخ پر ڈرائیور اس کو چلاتے ہیں۔ جو لوگ اس میں بیٹھے ہوئے ہیں وہ مجبور ہیں کہ اسی طرف جائیں جس طرف گاڑی جارہی ہے خواہ وہ اس طرف جانا چاہیں یا نہ چاہیں۔ اگر گاڑی میں کوئی ایسا مسافر بیٹھا ہے جو اس رُخ پر نہیں جانا چاہتا تو وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا کہ چلتی گاڑی ہی میں بیٹھے بیٹھے اپنی نشست کا رُخ آگے کے بجائے پیچھے یا دائیں یا بائیں پھیر دے، مگر نشست کا رُخ بدل دینے سے وہ اپنے سفر کا رُخ نہیں بدل سکتا۔ سفر کا رُخ بدلنے کی صورت اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ انجن پر قبضہ کیا جائے اور اس کی رفتار کو اس جانب پھیر دیا جائے جو مطلوب ہے۔ اس وقت جو لوگ انجن پر قابض ہیں وہ سب خدا سے پھرے ہوئے ہیں اور فکر اسلامی سے بے بہرہ(۳) ہیں، اس لیے گاڑی اپنے مسافروں کو لیے ہوئے الحاد اور مادہ پرستی کی طرف دوڑی چلی جارہی ہے اور سب مسافر طوعاً و کرھاً(۴) اسلام کی منزل مقصود سے دور، اور دور تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اب اس رفتار کو بدلنے کے لیے ضرورت ہے کہ خدا پرستوں میں سے کچھ باہمت مرد اٹھیں اور جدوجہد کرکے انجن کو اُن ملحدین کے ہاتھوں سے چھین لیں۔ جب تک یہ نہ ہو گا، گاڑی کا رُخ نہ بدلے گا اور ہمارے جھنجھلانے، بگڑنے اور شور مچانے کے باوجود، وہ اسی راہ پر سفر کرتی رہے گی جس پر ناخدا شناس(۵) ڈرائیور اس کو چلا رہے ہیں۔ (ترجمان القرآن، جمادی الاخری ۱۳۵۳ھ۔ اگست ۱۹۳۴ء)


۲۔ ہندستان میں اِسلامی تہذیب کا انحطاط

دنیائے اسلام کا بیش تر حصہ اُن ممالک پر مشتمل ہے جو صدرِ اوّل({ FR 1008 }) کے مجاہدین کی کوششوں سے فتح ہوئے ہیں۔ ان کو جن لوگوں نے فتح کیا تھاوہ ملک گیری اور حصول غنائم(۲) کے لیے نہیں بلکہ خدا کے کلمے کو دنیا میں بلند کرنے کے لیے سروں سے کفن باندھ کر نکلے تھے۔ وہ طلبِ دنیا کے بجائے طلبِ آخرت کے نشے میں سرشار تھا۔ اس لیے انھوں نے اپنے مفتوحین کو مطیع و باج گزار(۳) بنانے پر اکتفا نہ کیا، بلکہ انھیں اسلام کے رنگ میں رنگ دیا۔ ان کی پوری آبادی یا اس کے سوادِ اعظم کو ملتِ حنیفی(۴) میں جذب کرلیا۔ علم و عمل کی قوت سے ان میں اسلامی فکر اور اسلامی تہذیب کو اتنا راسخ(۵) کر دیا کہ وہ خود تہذیب اسلامی کے علم بردار اور علوم اسلامی کے معلم بن گئے۔ ان کے بعد وہ ممالک ہیں جو اگرچہ صدر اول کے بعد اُس عہد میں فتح ہوئے جب کہ اسلامی جوش سرد ہو چکا تھا اور فاتحین کے دلوں میں خالص جہاد فی سبیل اللہ کی روح سے زیادہ ملک گیری کی ہوس نے جگہ لے لی تھی‘ لیکن اس کے باوجود اسلام وہاں پھیلنے اور جڑ پکڑ لینے میں کامیاب ہوگیا اور اس نے ان ممالک میں کلیتاً ایک قوی مذہب اور قومی تہذیب کی حیثیت حاصل کرلی۔
بدقسمتی سے ہندستان کا معاملہ ان دونوں قسم کے ممالک سے مختلف ہے۔ صدرِ اوّل میں اس ملک کا بہت تھوڑا حصہ فتح ہوا تھا اور اس تھوڑے سے حصے پر بھی جو کچھ اسلامی تعلیم و تہذیب کے اثرات پڑے تھے‘ ان کو باطنیت کے سیلاب نے ملیا میٹ کر دیا۔ اس کے بعد جب ہندستان میں مسلمانوں کی فتوحات کا اصلی سلسلہ شروع ہوا تو فاتحوں میں صدر اوّل کے مسلمانوں کی خصوصیات باقی نہیں رہی تھیں۔ انھوںنے یہاں اشاعتِ اسلام کے بجائے توسیعِ مملکت میں اپنی قوتیں صرف کیں اور لوگوں سے اطاعتِ خدا و رسول کے بجائے اپنی اطاعت اور باج گزاری کا مطالبہ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صدیوں کی فرماں روائی کے بعد بھی ہندستان کا سوادِ اعظم({ FR 1009 }) غیر مسلم رہا۔ یہاں اسلامی تہذیب جڑ نہ پکڑ سکی‘ یہاں کے باشندوں میں سے جنھوں نے اسلام قبول کیا ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا کوئی خاص انتظام نہ کیا گیا‘ نو مسلم جماعتوں میں قدیم ہندوانہ خیالات اور رسم و رواج کم و بیش باقی رہے‘ اور خود باہر کے آئے ہوئے قدیم الاسلام مسلمان بھی اہل ہند کے میل جول سے مشرکانہ طریقوں کے ساتھ رواداری برتنے اور بہت سی جاہلانہ رسوم کا اتباع کرنے لگے۔
اسلامی ہند کی تاریخ اور اس کے موجودہ حالات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس زمانے میں اس ملک پر مسلمانوں کا سیاسی اقتدار پوری قوت سے چھایا ہوا تھا اُس زمانے میں بھی یہاں اسلام کے اثرات کمزور تھے اور یہاں کا ماحول خالص اسلامی ماحول نہ تھا۔ اگرچہ ہندوئوں کا مذہب اور تمدن بجائے خود ضعیف تھا اور محکوم و مغلوب قوم کا مذہب و تمدن ہونے کی حیثیت سے اور بھی زیادہ ضعیف ہوگیا تھا‘ لیکن پھر بھی مسلمان حکمرانوں کی رواداری اور غفلت کی بدولت وہ ملک کے سواد اعظم پر چھایا ہوا رہا، اور ہندستان کی فضا پر اس کے مستولی(۲) ہونے اور خود مسلمانوں کی اسلامی تعلیم و تربیت مکمل نہ ہونے کی وجہ سے، یہاںکے مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ اپنے عقائد اور اپنی تہذیب میں بھی کبھی اتنا صحیح اور پختہ اور کامل مسلمان نہ ہوسکا جتنا وہ خالص اسلامی ماحول میں ہوسکتا تھا۔
اٹھارہویں صدی عیسوی میں وہ سیاسی اقتدار بھی مسلمانوں سے چھن گیا جو ہندستان میں اسلامی تہذیب کا سب سے بڑا سہارا تھا۔ پہلے مسلمانوں کی سلطنت متفرق ہو کر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوئی، پھر مرہٹوں اور سکھوں اور انگریزوں کے سیلاب نے ایک ایک کرکے اِن ریاستوں میں سے بیش تر کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے بعد قضائے الٰہی(۳) نے انگریزوں کے حق میں اس ملک کی حکومت کا فیصلہ صادر کیا اور ایک صدی کا زمانہ نہ گزرا تھا کہ مسلمان اس سر زمین میںمغلوب و محکوم ہوگئے جس پر انھوں نے صدیوں حکومت کی تھی۔ انگریزی سلطنت جتنی جتنی پھیلتی گئی مسلمانوں سے اُن طاقتوں کو چھینتی چلی گئی جن کے بل پر ہندستان میں اسلامی تہذیب کسی حد تک قائم تھی۔ اس نے فارسی اور عربی کے بجائے انگریزی کو ذریعۂ تعلیم بنایا۔ اسلامی قوانین کو منسوخ کیا‘ شرعی عدالتیں توڑ دیں‘ دیوانی اور فوج داری معاملات میںخود اپنے قوانین جاری کیے‘ اسلامی قانون کے نفاذ کو خود مسلمانوں کے حق میں صرف نکاح و طلاق وغیرہ تک محدود کر دیا اوراس محدود نفاذ کے اختیارات بھی قاضیوں کے بجائے عام دیوانی عدالتوں کے سپرد کر دیے جن کے حکام عموماً غیرمسلم ہوتے ہیں‘ اور جن کے ہاتھوں ’محمڈن لا‘ روز بروز مسخ ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ ابتدا سے انگریزی حکومت کی پالیسی یہ رہی کہ مسلمانوں کو معاشی حیثیت سے پامال کرکے اُن کے اس قومی فخر و ناز کو کچل ڈالے جو ایک حاکم قوم کی حیثیت سے صدیوں تک ان کے دلوں میں پرورش پاتا رہا ہے۔ چنانچہ ایک صدی کے اندر اندر اس پالیسی کی بدولت اس قوم کو مفلس‘ جاہل‘ پست خیال‘ فاسد({ FR 1130 }) الاخلاق‘ اور ذلیل و خوار کرکے چھوڑا گیا۔
اس گرتی ہوئی قوم پر آخری ضرب وہ تھی جو ۱۸۵۷ء کے ہنگامے میں لگی۔ اس نے مسلمانوں کی صرف سیاسی قوت ہی کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ ان کی ہمتوں کو بھی توڑ دیا‘ ان کے دلوں پر مایوسی اور احساسِ ذلت کی تاریک گھٹائیں مسلط کر دیں‘ ان کو انگریزی اقتدار سے اتنا مرعوب کیا کہ ان میں قوی خودداری کا شائبہ تک باقی نہ رہا‘ اور ذلت و خواری کی انتہائی گہرائیوں میں پہنچ کر وہ ایسا سمجھنے پر مجبور ہوگئے کہ دنیا میں سلامتی حاصل کرنے کا ذریعہ انگریز کی اطاعت‘ عزت حاصل کرنے کا ذریعہ انگریز کی خدمت اور ترقی کرنے کا ذریعہ انگریز کی تقلید کے سوا اور کوئی نہیں ہے اور ان کا اپنا سرمایۂ علم و تہذیب جو کچھ بھی ہے ذلیل‘ سببِ ذلت اور موجبِ نکبت(۲) ہے۔
انیسویں صدی کے نصف دوم میں جب مسلمانوں نے سنبھل کر پھر اٹھنے کی کوشش کی تو وہ دو قسم کی کمزوریوں میں مبتلا تھے:
٭ ایک یہ کہ وہ فکر و عمل کے اعتبار سے پہلے ہی اسلامی عقائد اور تہذیب میں پختہ نہ تھے اور ایک غیر اسلامی ماحول اپنے جاہلی افکار اور تمدن کے ساتھ اُن کو گھیرے ہوئے تھا۔
٭ دوسرے یہ کہ غلامی اپنے تمام عیوب({ FR 1011 }) کے ساتھ نہ صرف ان کے جسم پر بلکہ ان کے قلب و روح پر بھی مسلط ہو چکی تھی اور وہ اُن تمام قوتوں سے محروم کر دیے گئے تھے جن سے کوئی قوم اپنے تمدن و تہذیب کوبرقرار رکھ سکتی ہے۔
اس دوہری کمزوری کی حالت میں مسلمانوں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو انھیں نظر آیا کہ انگریزی سلطنت نے اپنی ہوشیاری سے معاشی ترقی کے تمام دروازے بند کر دیے ہیں اور ان کی کنجی انگریزی مدرسوں اورکالجوں میں رکھ دی ہے۔ اب مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ انگریزی تعلیم حاصل کریں۔ چنانچہ مرحوم سرسید احمد خاں کی رہنمائی میں ایک زبردست تحریک اٹھی جس کے اثر سے تمام ہندستان کے مسلمانوں میں انگریزی تعلیم کی ضرورت کا احساس پیدا ہوگیا۔ پرانے لوگوں کی مخالفت بے کار ثابت ہوئی۔ دولت‘ عزت اور اثر کے لحاظ سے قوم کی اصلی طاقت جن لوگوں کے ہاتھ میں تھی انھوں نے اس نئی تحریک کا ساتھ دیا۔ ہندستان کے مسلمان تیزی کے ساتھ انگریزی تعلیم کی طرف بڑھے۔ قوم کا تلچھٹ(۲) پرانے مذہبی مدرسوں کے لیے چھوڑ دیا گیا تاکہ مسجدوں کی امامت اور مکتبوں کی معلمی کے کام آئے‘ اور خوش حال طبقوں کے بہترین نونہال انگریزی مدرسوں اور کالجوں میں بھیج دیے گئے تاکہ ان کے دل و دماغ کے سادہ اوراق پر فرنگی(۳) علوم و فنون کے نقوش ثبت کیے جائیں۔
یہ انیسویں صدی کے آخری چوتھائی کا زمانہ تھا۔ یورپ میں اس وقت مادیت انتہائی عروج پر تھی۔ اٹھارہویں صدی میں سائنس پوری طرح مذہب کو شکست دے چکی تھی۔ جدید فلسفے اور نئے علومِ حکمت کی رہنمائی میں سیاسیات‘ معاشیات‘ اخلاقیات‘ اور اجتماعیات کے پرانے نظریے باطل ہو کر نئے نظریے قائم ہو چکے تھے۔ یورپ میں ایک خاص تہذیب پیدا ہو چکی تھی جس کی بنیاد کلیتاً انھی جدید نظریوں پر قائم تھی۔ اس انقلابِ عظیم نے زندگی کے عملی معاملات سے تو مذہب اور ان اصولوں کو جو مذہبی رہنمائی پرمبنی تھے‘ کلی طور پر خارج کر ہی دیا تھا‘ البتہ تخیل کی دنیا میں مذہبی اعتقاد کی تھوڑی سی جگہ باقی رہ گئی تھی‘ سو اَب اس کے خلاف زبردست جنگ جاری تھی۔ اگرچہ علومِ حکمت میں سے کسی علم نے بھی کائنات کے الٰہی نظریے کے خلاف کوئی ثبوت (جس کو ثبوت کہا جاسکتا ہو) بہم نہیں پہنچایا تھا مگر اہلِ حکمت بغیر کسی دلیل کے محض اپنے رجحانِ طبیعت کی بنا پر خدا سے بیزار اور الٰہی نظریے کے دشمن تھے اور چونکہ انھی کو اس وقت دنیا کی عقلی و علمی امامت کا منصب حاصل تھا اس لیے ان کے اثر سے خدا سے بیزاری (theophobia) کا مرض ایک عام وبا کی طرح پھیل گیا۔ وجودِ باری کا انکار‘ کائنات کو آپ سے آپ پیدا ہونے والی اور آپ سے آپ قوانینِ طبیعی({ FR 1012 }) کے تحت چلنے والی چیز سمجھنا‘ خدا پرستی کو توہم (superstition) قرار دینا‘ مذہب کو لغو اور مذہبیت کو تنگ نظری و تاریک خیالی کہنا اور نیچریت (naturalism) کو روشن خیالی کا ہم معنی سمجھنا اُس وقت فیشن میں داخل ہو چکا تھا۔ ہر شخص خواہ وہ فلسفہ و سائنس میںکچھ بھی دست گاہ نہ رکھتا ہو اور اس نے خود ان مسائل کی تحقیق میں ذرہ برابر بھی کوشش نہ کی ہو‘ صرف اس بنا پر ان خیالات کا اظہار کرتا تھا کہ سوسائٹی میں وہ ایک روشن خیال آدمی سمجھا جائے۔ روحانیت (spiritualism)، یافوق الطبیعت (super naturalism) کی تائید میں کچھ کہنا اس وقت کفر کا درجہ رکھتا تھا۔ اگر کوئی بڑے سے بڑا سائنس دان بھی اس قسم کے کسی خیال کا اظہار کرتا تو سائنٹیفک حلقوں میں اس کی ساری وقعت(۲) جاتی رہتی‘ اس کے تمام کارناموں پر پانی پھر جاتا اوروہ اس قابل نہ رہتا کہ اسے کسی علمی جماعت کی رکنیت کا شرف بخشا جائے۔
۱۸۵۹ء میں ڈارون کی کتاب اصل الانواع (origin of species) شائع ہوئی جس نے نیچریت اور دہریت کی آگ پر تیل کاکام کیا۔ اگرچہ ڈارون کے دلائل جو اس نے اپنے مخصوص نظریۂ ارتقا کی تائید میں پیش کیے تھے‘کمزور اور محتاجِ ثبوت تھے۔ اس سلسلۂ ارتقا میں ایک کڑی نہیں بلکہ ہر موجود کڑی کے آگے اور پیچھے بہت سی کڑیاں مفقود تھیں۔ اہلِ حکمت اس وقت بھی اس نظریے سے مطمئن نہ تھے حتیٰ کے خود اس کا سب سے بڑا وکیل ہکسلے (huxley) بھی اس پر ایمان نہ لایا تھا مگر اس کے باوجود محض خدا سے بیزاری کی بنا پر ڈارونیت کو قبول کرلیا گیا۔ اس کی حد سے زیادہ تشہیر({ FR 1013 }) کی گئی اور مذہب کے خلاف ایک زبردست آلے کے طور پر اسے استعمال کیا گیا کیونکہ اس نظریے نے اہل ِحکمت کے زعمِ باطل(۲) میں اس دعوے کا ثبوت فراہم کر دیا تھا (حالانکہ دراصل اس نے ایک دعویٰ کیا تھا جو خود محتاجِ ثبوت تھا) کہ کائنات کا نظام کسی فوق الطبیعی(۳) قوت کے بغیر آپ سے آپ طبیعی قوانین(۴) کے تحت چل رہا ہے۔ اہلِ مذہب نے اس نظریے کی مخالفت کی اور برٹش ایسوسی ایشن کے جلسے میں بشپ آف اکسفورڈ اور گلیڈاسٹن نے اپنی خطابت کا پورا زور اس کے خلاف صَرف کیا‘ مگر شکست کھائی اور آخر کار اہلِ مذہب سائنٹیفک دہریت(۵) سے اس قدر مرعوب ہوئے کہ ۱۸۸۲ء میں جب ڈارون نے وفات پائی تو چرچ آف انگلینڈ نے وہ سب سے بڑا اعزاز اُس کو بخشا جو اس کے اختیار میں تھا یعنی اسے ویسٹ منسٹر(۶) ایبی میں دفن کرنے کی اجازت دی۔ حالانکہ وہ یورپ میں مذہب کی قبر کھودنے والوں کا سرخیل تھا اور اس نے افکار کو الحاد و زندقہ اور بے دینی کی طرف چلانے اور وہ ذہنیت پیدا کرنے میں سب سے زیادہ حصہ لیا تھا جس سے آخر کار بالشوزم(۷) اورفاشزم(۸) کو پھلنے پھولنے اور بار آورہونے کا موقع ملا۔
یہ زمانہ تھا جب ہماری قوم کے نوجوان انگریزی تعلیم اور فرنگی تہذیب سے استفادہ کرنے کے لیے مدرسوں(۹) اورکالجوںمیں بھیجے گئے۔ اسلامی تعلیم سے کورے‘ اسلامی تہذیب میں خام‘ انگریزی حکومت سے مرعوب‘ فرنگی تہذیب کی شان و شوکت پر فریفتہ پہلے ہی سے تھے اَب جو انھوں نے انگریزی مدرسے کی فضامیں قدم رکھا تو اس کا پہلا اثر یہ ہوا کہ اُن کی ذہنیت کا سانچہ بدلا اور ان کی طبیعت کا رخ مذہب سے پھِر گیا(۱۰) کیونکہ اس آب و ہوا کی اولین تاثیر یہ تھی کہ یورپ کے کسی مصنف یا محقق کے نام سے جو چیز پیش کی جائے اس پر وہ بے تامل آمٰنَّا وَصَدَّقْنَا کہیں اور قرآن و حدیث یا ائمہ دین کی طرف سے کوئی بات پیش ہو تو اس پر دلیل کا مطالبہ کریں۔ اس منقلب ذہنیت({ FR 1014 }) کے ساتھ انھوں نے جن مغربی علوم کی تعلیم حاصل کی، ان کے اصول و فروع اکثر و بیش تر اسلام کے اصول اور جزئیاتِ احکام(۲) کے خلاف تھے۔ اسلام میں مذہب کا تصور یہ ہے کہ وہ زندگی کا قانون ہے اور مغرب میں مذہب کا تصور یہ ہے کہ وہ محض ایک شخصی اعتقاد ہے جس کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام میں پہلی چیز ایمان باللہ ہے اور وہاں سرے سے اللہ کا وجود ہی مسلّم نہیں۔ اسلام کا پورا نظام تہذیب وحی و رسالت کے اعتقاد پر قائم ہے، اور وہاں وحی کی حقیقت ہی میں شک اور رسالت کے مِنْ جانب اللہ ہونے ہی میں شبہ ہے۔ اسلام میں آخرت کااعتقاد پورے نظامِ اخلاق کا سنگِ بنیاد ہے اور وہاں یہ بنیاد خود بے بنیاد نظر آتی ہے۔ اسلام میں جو عبادات اور اعمال فرض ہیں وہاں وہ محض عہد ِجاہلیت کے رسوم ہیں جن کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ اسی طرح اسلام کے اصولِ تمدن و تہذیب بھی مغربی تہذیب و تمدن کے اصول سے یکسر مختلف ہیں۔ قانون میں اسلام کا اصل الاصول یہ ہے کہ خود خدا واضعِ(۳) قانون ہے۔ رسولِ خدا شارح ِ(۴)قانون اور انسان صرف متبعِ(۵) قانون، مگر وہاں خدا کو وضعِ قانون کا سرے سے کوئی حق ہی نہیں۔ لیجسلیچر ( legislature ) واضعِ قانون ہے اور قوم لیجسلیچر کو منتخب کرنے والی ہے۔ سیاسیات میں اسلام کا مطمح نظر حکومت الٰہی ہے اور مغرب کا مطمحِ نظر حکومت قومی۔ اسلام کا رُخ بین الاقوامیت (Internationalism) کی طرف ہے اور مغرب کا کعبہ مقصود قومیت (nationalism)۔ معاشیات میں اسلام اکلِ حلال(۶) اور زکوٰۃ و صدقہ اور تحریمِ سود(۷) پر زور دیتا ہے اور مغرب کا سارا نظامِ معاشی ہی سود اور منافع پر چل رہا ہے۔ اخلاقیات میں اسلام کے پیش نظر آخرت کی کامیابی ہے اور مغرب کے پیش نظر دنیا کا فائدہ۔ اجتماعی مسائل میں بھی اسلام کا راستہ قریب قریب ہر معاملے میں مغرب کے راستے سے مختلف ہے۔ سترو حجاب‘(۸) حدود زن و مرد‘ تعدد(۹) ازدواج‘ قوانین نکاح و طلاق‘ ضبط ولادت‘(۱۰) حقوق ذوی الارحام‘(۱۱) حقوق زوجین({ FR 1015 }) اور ایسے ہی دوسرے بہت سے معاملات ہیں جن میں ان دونوں کا اختلاف اتنا نمایاں ہے کہ بیان کی حاجت نہیں، اور اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ دونوں کے اصول مختلف ہیں۔ ہمارے نوجوان نے مرعوب بلکہ غلامانہ ذہنیت اور پھر غیرمکمل اسلامی تعلیم و تربیت کے ساتھ جب ان مغربی علوم کی تحصیل کی اور مغربی تہذیب کے زیر اثر تربیت پائی تو نتیجہ جو کچھ ہونا چاہیے تھا وہی ہوا۔ ان میں تنقیدکی صلاحیت پیدا نہ ہوسکی۔ انھوں نے مغرب سے جو کچھ سیکھا اس کو صحت اور درستی کا معیار سمجھ لیا۔ پھر ناقص علم کے ساتھ اسلام کے اصول و قوانین کو اس معیار پر جانچ کر دیکھا اور جس مسئلے میں دونوں کے درمیان اختلاف پایا اُس میں کبھی مغرب کی، غلطی محسوس نہ کی بلکہ اسلام ہی کو برسرِ غلط سمجھا اور اس کے اصول و قوانین میں ترمیم و تنسیخ کرنے پر آمادہ ہوگئے۔
جدید تعلیم نے معاشی اور سیاسی حیثیت سے ہندستان کے مسلمانوں کو خواہ کتنا ہی فائدہ پہنچایا ہو، مگر ان کے مذہب اور ان کی تہذیب کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی کسی فائدے سے نہیں ہوسکتی۔ (ترجمان القرآن، رجب ۱۳۵۳ھ۔ اکتوبر ۱۹۳۴ء)



۳۔ دورِ جدید کی بیمار قومیں

مشرق ہو یا مغرب‘ مسلمان ہو یا غیر مسلم‘ بلا اِستثنا({ FR 1016 }) سب ایک ہی مصیبت میں گرفتار ہیں‘ اور وہ یہ ہے کہ ان پر ایک تہذیب مسلط ہوگئی ہے جس نے سراسر مادیت کے آغوش میں پرورش پائی ہے۔ اس کی حکمت نظری و حکمت عملی‘ دونوں کی عمارت غلط بنیادوں پر اٹھائی گئی ہے۔ اس کا فلسفہ‘ اس کا سائنس‘ اس کا اخلاق‘ اس کی معاشرت‘ اس کی سیاست‘ اس کا قانون‘ غرض اس کی ہر چیز ایک غلط نقطۂ آغاز سے چل کر ایک غلط رُخ پر ترقی کرتی چلی گئی ہے اور اب اس مرحلے پر پہنچ گئی ہے جہاں سے ہلاکت کی آخری منزل قریب نظر آرہی ہے۔
اس تہذیب کا آغاز ایسے لوگوں میں ہوا جن کے پاس درحقیقت حکمت الٰہی کا کوئی صاف اور پاکیزہ سرچشمہ نہ تھا۔ مذہب کے پیشوا(۲) وہاں ضرور موجود تھے‘ مگر ان کے پاس حکمت نہ تھی‘ ان کے پاس علم نہ تھا‘ ان کے پاس خدا کا قانون نہ تھا۔ محض ایک غلط مذہبی تخیل تھا جو فکر و عمل کی راہوں میں نوعِ انسانی کو سیدھے راستے پر اگر چلانا چاہتا بھی تو نہ چلا سکتا تھا۔ وہ بس اتنا ہی کر سکتا تھا کہ علم و حکمت کی ترقی میں سدِراہ(۳) بن جاتا۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور اس مزاحمت کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ ترقی کرنا چاہتے تھے وہ مذہب اور مذہبیت کو ٹھوکر مار کر ایک دوسرے راستے پر چل پڑے جس میں مشاہدے‘ تجربے اور قیاس و استقرا کے سوا کوئی اور چیز ان کی رہنما نہ تھی۔ یہی ناقابل اعتماد رہنما‘ جو خود ہدایت اور نور کے محتاج ہیں‘ ان کے معتمد علیہ(۴) بن گئے۔ ان کی مدد سے انھوں نے فکر و نظر‘ تحقیق و اکتشاف‘ اور تعمیر و تنظیم کی راہ میں بہت کچھ جدوجہد کی مگر ان کو ہر میدان میں ایک غلط نقطۂ آغاز نصیب ہوا، اور ان کی تمام ترقیات کا رُخ ایک غلط منزلِ مقصود کی طرف پھر گیا۔ وہ الحاد اور مادیت کے نقطے سے چلے۔ انھوں نے کائنات کو اس نظر سے دیکھا کہ اس کا کوئی خدا نہیں ہے۔ آفاق({ FR 1018 }) اور انفس(۲) میں یہ سمجھ کر نظر کی(۳) کہ حقیقت جو کچھ بھی ہے مشاہدات اور محسوسات کی ہے اور اس ظاہری پردے کے پیچھے کچھ بھی نہیں۔ تجربے اور قیاس سے انھوں نے قانون فطرت کو جانا اور سمجھا‘ مگر اس کے فاطر(۴) تک نہ پہنچ سکے۔ انھوں نے موجودات کو مسخر پایا اور ان سے کام لینا شروع کیا مگر اس تخیل سے ان کے ذہن خالی تھے کہ وہ بالاصل ان اشیاء کے مالک اور حاکم نہیں ہیں بلکہ اصلی مالک کے خلیفہ(۵) ہیں۔ اس جہالت و غفلت نے انھیں ذمہ داری اور جواب دہی کے بنیادی تصور سے بیگانہ(۶) کر دیا، اور اس کی وجہ سے ان کی تہذیب اور ان کے تمدن کی اساس ہی غلط ہو گئی۔ وہ خدا کو چھوڑ کر خودی کے پرستار بن گئے‘ اور خودی نے خدا بن کر ان کو فتنے میں ڈال دیا۔ اب یہ اسی جھوٹے خدا کی بندگی ہے جو فکر و عمل کے ہر میدان میں ان کو ایسے راستوں پر لیے جارہی ہے جن کی درمیانی منزلیں تو نہایت خوش آئند(۷) اور نظر فریب ہیں مگر آخری منزل بجز ہلاکت کے اور کوئی نہیں۔ وہی ہے جس نے سائنس کو انسان کی تباہی کا آلہ بنایا۔ اخلاق کو نفسانیت‘ ریا‘ خلاعت(۸) اور بے قیدی کے سانچوں میں ڈھال دیا۔ معیشت پر خود غرضی اور برادر کشی کا شیطان مسلط کر دیا۔ معاشرت کی رگ رگ اور ریشے ریشے میں نفس پرستی‘ تن آسانی اور خود کامی(۹) کا زہر اتار دیا۔ سیاست کو قوم پرستی و وطنیت‘ رنگ و نسل کے امتیازات‘ اور خداوند طاقت کی پرستاری سے آلودہ کرکے انسانیت کے لیے ایک بدترین لعنت بنا دیا۔ غرض یہ کہ وہ تخم خبیث(۱۰) جو مغرب کی نشاۃ ثانیہ(۱۱) کے زمانے میں بویا گیا تھا چند صدیوں کے اندر تمدن و تہذیب کا ایک عظیم الشان شجر خبیث بن کر اٹھا ہے جس کے پھل میٹھے مگر زہر آلود ہیں‘ جس کے پھول خوش نما مگر خار دار ہیں‘ جس کی شاخیں بہار کا منظر پیش کرتی ہیں مگر ایسی زہریلی ہوا اگل رہی ہیں جو نظر نہیں آتی اور اندر ہی اندر نوعِ بشری کے خون کو مسموم(۱۲) کیے جارہی ہے۔
اہل مغرب جنھوں نے اس شجر خبیث کو اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا‘ اب خود اس سے بیزار ہیں۔ اس نے زندگی کے ہر شعبے میں ایسی الجھنیں اور پریشانیاں پیدا کر دی ہیں جن کو حل کرنے کی ہر کوشش بہت سی الجھنیں پیدا کر دیتی ہے۔ جس شاخ کو کاٹتے ہیں اس کی جگہ بہت سی خاردار شاخیں نکل آتی ہیں۔ سرمایہ داری پر تیشہ چلایا تو اشتراکیت نمودار ہوگئی۔ جمہوریت پر ضرب لگائی تو ڈکٹیٹر شپ پھوٹ نکلی۔ اجتماعی مشکلات کو حل کرنا چاہا تو نسوانیت (feminism) اور برتھ کنٹرول کا ظہور ہوا۔ اخلاقی مفاسد کا علاج کرنے کے لیے قوانین سے کام لینے کی کوشش کی تو قانون شکنی اور جرائم پیشگی نے سر اٹھایا({ FR 1019 })۔ غرض فساد کا ایک لامتناہی(۲) سلسلہ ہے جو تہذیب و تمدن کے بداصل درخت سے نکل رہا ہے اور اس نے مغربی زندگی کو از سر تا پا مصائب وآلام(۳) کا ایک پھوڑا بنادیا ہے جس کی ہر رگ میں ٹیس(۴) اور ہر ریشے میں دُکھن(۵) ہے۔ مغربی قومیں درد سے بے تاب ہو رہی ہیں۔ ان کے دل بے قرار ہیں۔ ان کی روحیں کسی امرت رس(۶) کے لیے تڑپ رہی ہیں، مگر انھیں خبر نہیں کہ امرت رس کہاں ہے۔ ان کی اکثریت ابھی تک اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ مصائب کا سرچشمہ اس شجرِ خبیث کی محض شاخوں میں ہے اس لیے وہ شاخیں کاٹنے میں اپنا وقت اور اپنی محنتیں ضائع کر رہی ہے مگر نہیں سمجھتی کہ خرابی جو کچھ بھی ہے اس درخت کی جڑ میں ہے اور اصل فاسد سے فرع صالح نکلنے کی امید رکھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ دوسری طرف ایک قلیل جماعت ایسے صحیح العقل لوگوں کی بھی ہے جنھوںنے اس حقیقت کو پالیا ہے کہ ان کے شجرِ تہذیب کی جڑ خراب ہے مگر چونکہ وہ صدیوں تک اسی درخت کے سائے میں پرورش پاتے رہے ہیں اور اسی کے ثمرات سے ان کی ہڈی بوٹی بنی ہے‘ اس لیے ان کے ذہن یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس اصل کے بجائے کون سی دوسری اصل ایسی ہوسکتی ہے جو صالح برگ و بار(۷) لانے کی قوت رکھتی ہو۔ نتیجے میں دونوں جماعتوں کا حال ایک ہی ہے۔ وہ سب کے سب بے تابی کے ساتھ کسی چیز کے طالب ہیں جو اُن کے درد کا درماں(۸) کرے‘ مگر انھیںخبر نہیں ہے کہ ان کا مطلوب کیا اور کہاں ہے۔
یہ وقت ہے کہ مغربی قوموں کے سامنے قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو پیش کیا جائے اور انھیں بتایا جائے کہ یہ ہے وہ مطلوب جس کی طلب میں تمھاری روحیں بے قرار ہیں‘ یہ ہے وہ امرت رس جس کے تم پیاسے ہو‘ یہ ہے وہ شجر طیب جس کی اصل بھی صالح ہے اور شاخیں بھی صالح‘ جس کے پھول خوش بودار بھی ہیں اور بے خار بھی‘ جس کے پھل میٹھے بھی ہیں اور جاں بخش بھی‘ جس کی ہوا لطیف بھی ہے اور روح پرور بھی۔ یہاں تم کو خالص حکمت عملی ملے گی‘ یہاں تم کو فکر و نظر کے لیے ایک صحیح نقطۂ آغاز ملے گا‘ یہاں تم کو وہ علم ملے گا جو انسانی سیرت کی بہترین تشکیل کرتا ہے‘ یہاں تم کو وہ روحانیت ملے گی جو راہبوں({ FR 1020 }) اور سنیاسیوں(۲) کے لیے نہیں بلکہ کار زار(۳) دنیا میں جدوجہد کرنے والوں کے لیے سکونِ قلب اور جمعیت خاطر کا سرچشمہ ہے‘ یہاں تم کواخلاق اور قانون کے وہ بلند اور پائدار قواعد ملیں گے جو انسانی فطرت کے علم جامع پر مبنی ہیں اور خواہشات نفس کے اتباع(۴) میں بدل نہیں سکتے‘ یہاں تم کو تہذیب و تمدن کے وہ صحیح اصول ملیں گے جو طبقات کے جعلی امتیازات اور اقوام کی مصنوعی تفریقوں کو مٹا کر خالص عقلی بنیادوں پر انسانی جمعیت کی تنظیم کرتے ہیں اور عدل‘ مساوات‘ فیاضی اور حُسنِ معاملت کی ایسی پُر امن اور مناسب فضا پیدا کر دیتے ہیں جس میں افراد اور طبقات اور فرقوں کے درمیان حقوق کی کش مکش اور مفاد و مصالح کے تصادم اور اغراض و مقاصد کی جنگ کے لیے کوئی موقع باقی نہیں رہتا بلکہ سب کے سب باہمی تعاون کے ساتھ شخصی و اجتماعی فلاح کے لیے خوش دلی اور اطمینان کے ساتھ عمل کرسکتے ہیں۔ اگر تم ہلاکت سے بچنا چاہو تو قبل اس کے کہ تمھاری تہذیب ہول ناک صدمے سے پاش پاش ہو کر تاریخ کی برباد شدہ تہذیبوں میں ایک اور مٹی ہوئی تہذیب کا اضافہ کرے، تم کو چاہیے کہ اسلام کے خلاف ان تمام تعصبات کوجو تمھیں قرونِ وسطیٰ کے مذہبی دیوانوں سے وراثت میں ملے ہیں اور جن کو تم نے اس تاریک دور کی تمام دوسری چیزوں سے قطع تعلق کرنے کے باوجود ابھی تک نہیں چھوڑا ہے‘ اپنے دلوں سے نکال ڈالو اور کھلے دل کے ساتھ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو سنو‘ سمجھو اور قبول کرو۔
مسلمان قوموں کا حال مغربی قوموں کے حال سے مختلف ہے۔ مرض اور ہے‘ اسبابِ مرض بھی دوسرے ہیں‘ مگر علاج ان کا بھی وہی ہے جو اہل مغرب کا ہے۔ یعنی اس علم و ہدایت کی طرف رجوع جس کو اللہ نے اپنی آخری کتاب اور اپنے آخری نبی کے ذریعے سے بھیجا ہے۔
اسلام کے ساتھ مغربی تہذیب کا تصادم جن حالات میں پیش آیا وہ ان حالات سے بالکل مختلف ہیں جن میں اس سے پہلے اسلام اور دوسری تہذیبوں کے درمیان تصادم ہوئے ہیں۔ رومی‘ فارسی‘ ہندی اور چینی تہذیبیں اس وقت اسلام سے ٹکرائیں جب اسلام اپنے متبعین کی فکری و عملی قوتوں پر پورے زور کے ساتھ حکمران تھا۔ جہاد اور اجتہاد کی زبردست روح ان کے اندر کار فرما تھی‘ روحانی اور مادی دونوں حیثیتوں سے وہ دنیا میں ایک غالب قوم تھے اور تمام اقوام عالم کی پیشوائی کا منصب ان کو حاصل تھا۔ اس وقت کوئی تہذیب ان کی تہذیب کے مقابلے میں نہ ٹھہرسکی۔ انھوں نے جس طرف رُخ کیا‘ قوموں کے خیالات‘ نظریات‘ علوم‘ اخلاق و عادات اور طرز تمدن میں انقلاب پیدا کر دیا۔ ان میں تأثر کی قابلیت کم اور تاثیر کی قوت بہت زیادہ تھی۔ بلاشبہ انھوں نے دوسروں سے بہت کچھ لیا‘ مگر ان کی تہذیب کا مزاج اس قدر طاقت ور اور مضبوط تھا کہ باہر سے جو چیز بھی اس میں آئی وہ اس کی طبیعت کے مطابق ڈھل گئی اور کسی بیرونی اثر سے اس میں سوئے مزاج مختلف پیدا نہ ہو سکا۔ بخلاف اس کے انھوں نے جو اثرات دوسروں پر ڈالے وہ انقلاب انگیز ثابت ہوئے۔ بعض غیر مسلم تہذیبیں تو اسلام میں جذب ہو کر اپنی انفرادیت ہی کھوبیٹھیں‘ اور بعض جن میں زندگی کی طاقت زیادہ تھی وہ اسلام سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ ان کے اصول میں بہت کچھ تغیر واقع ہوگیا، مگر یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جواں تھا۔
مسلمان صدیوں تک قلم اور تلوار کے ساتھ فرماں روائی کرتے کرتے آخر کار تھک گئے۔ ان کی روح جہاد سرد پڑ گئی۔ قوتِ اجتہاد شل({ FR 1131 }) ہوگئی۔ جس کتاب نے ان کو علم کی روشنی اور عمل کی طاقت بخشی تھی اس کو انھوں نے محض ایک متبرک یادگار بنا کرغلافوں میں لپیٹ دیا۔ جس ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نے ان کی تہذیب کو ایک مکمل فکری و عملی نظام کی صورت بخشی تھی اس کی پیروی کو انھوں نے چھوڑ دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی ترقی کی رفتار رک گی۔ بہتا ہوا دریا یکایک جمود(۲) کی وادی میں ٹھہر کر تالاب بن گیا۔ امامت کے منصب سے مسلمان معزول ہوئے۔ دنیا کی قوموں پر ان کے افکار‘ ان کے علوم‘ ان کے تمدن اور ان کے سیاسی اقتدار نے جو قابو پالیا تھا‘ ان کی گرفت ڈھیلی ہوگئی۔ پھر اسلام کے بالمقابل ایک دوسری تہذیب نے جنم لیا۔ جہاد اور اجتہاد کا جھنڈا جس کو مسلمانوں نے پھینک دیا تھا‘ مغربی قوموں نے اٹھا لیا۔ مسلمان سوتے رہے اور اہل مغرب اس جھنڈے کو لے کر علم و عمل کے میدان میں آگے بڑھے‘ یہاں تک کہ امامت کا منصب جس سے یہ معزول ہوچکے تھے ان کو مل گیا۔ ان کی تلوار نے دنیا کے سوادِ اعظم کو فتح کیا۔ ان کے افکار و نظریات‘ علوم و فنون اور اصول تہذیب و تمدن دنیا پر چھا گئے‘ ان کی فرماںروائی نے صرف اجسام ہی کا نہیں‘ دلوں اور دماغوں کا بھی احاطہ کرلیا۔ آخر صدیوں کی نیند سے جب مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں تو انھوں نے دیکھا کہ میدان ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ دوسرے اس پر قابض ہو چکے ہیں۔ اب علم ہے تو ان کا ہے‘ تہذیب ہے تو ان کی ہے‘ قانون ہے تو ان کا ہے‘ حکومت ہے تو ان کی ہے‘ مسلمانوں کے پاس کچھ بھی نہیں۔ ع
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
اب اسلام اور مغربی تہذیب کا تصادم ایک دوسرے ڈھنگ پر ہو رہا ہے۔ یقیناً مغربی تہذیب کسی حیثیت سے بھی اسلام کے مقابلے کی تہذیب نہیں۔ اگر تصادم اسلام سے ہو تو دنیا کی کوئی قوت اس کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتی، مگر اسلام ہے کہاں؟ مسلمانوں میں نہ اسلامی سیرت ہے‘ نہ اسلامی اخلاق‘ نہ اسلامی افکار ہیں نہ اسلامی جذبہ۔ حقیقی اسلامی روح نہ ان کی مسجدوں میں ہے نہ مدرسوں میں‘ نہ خانقاہوں میں۔ عملی زندگی سے اسلام کا ربط باقی نہیں رہا۔ اسلام کا قانون نہ ان کی شخصی زندگی میں نافذ ہے نہ اجتماعی زندگی میں۔ تمدن و تہذیب کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کا نظم صحیح اسلامی طرز پر باقی ہو۔ ایسی حالت میں دراصل مقابلہ اسلام اور مغربی تہذیب کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی افسردہ‘ جامد({ FR 1132 }) اور پس ماندہ تہذیب کا مقابلہ ایک ایسی تہذیب سے ہے جس میں زندگی ہے‘ حرکت ہے‘ روشنیِ علم ہے‘ گرمیِ عمل ہے۔ ایسے نامساوی مقابلے کا جو نتیجہ ہوسکتا ہے وہی ظاہر ہو رہا ہے۔ مسلمان پسپا ہو رہے ہیں۔ ان کی تہذیب شکست کھا رہی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ مغربی تہذیب میں جذب ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ان کے دلوں اور دماغوں پر مغربیت مسلط ہو رہی ہے۔ ان کے ذہن مغربی سانچوں میں ڈھل رہے ہیں‘ ان کی فکری و نظری قوتیں مغربی اصولوں کے مطابق تربیت پارہی ہیں۔ ان کے تصورات‘ ان کے اخلاق‘ ان کی معیشت‘ ان کی معاشرت‘ ان کی سیاست‘ ہر چیز مغربی رنگ میں رنگی جارہی ہے۔ ان کی نئی نسلیں اس تخیل کے ساتھ اٹھ رہی ہیں کہ زندگی کا حقیقی قانون وہی ہے جو مغرب سے ان کو مل رہا ہے۔ یہ شکست دراصل مسلمانوں کی شکست ہے مگر بدقسمتی سے اس کو اسلام کی شکست سمجھا جاتا ہے۔
ایک ملک نہیں جو اس مصیبت میں گرفتار ہو۔ ایک قوم نہیں جو اس خطرے میں مبتلا ہو۔ آج تمام دنیائے اسلام اسی خوف ناک انقلاب کے دور سے گزر رہی ہے۔ درحقیقت یہ علما کاکام تھا کہ جب اس انقلاب کی ابتدا ہو رہی تھی اس وقت وہ بیدارہوتے‘ آنے والی تہذیب کے اصول و مبادی کو سمجھتے‘ مغربی ممالک کا سفر کرکے ان علوم کا مطالعہ کرتے جن کی بنیاد پر یہ تہذیب اٹھی ہے۔ اجتہاد کی قوت سے کام لے کر ان کار آمدعلمی اکتشافات({ FR 1022 }) اور عملی طریقوں کو اخذ کرلیتے جن کے بل پر مغربی قوموں نے ترقی کی ہے اور ان نئے کل پرزوں کو اصولِ اسلام کے ماتحت مسلمانوں کے تعلیمی نظام اور ان کی تمدنی زندگی کی مشین میں اس طرح نصب کر دیتے کہ صدیوں کے جمود سے جو نقصان پہنچا تھا اس کی تلافی ہو جاتی اور اسلام کی گاڑی پھر سے زمانے کی رفتار کے ساتھ چلنے لگتی، مگرافسوس کہ علما (اِلاَّ مَاشَائَ اللّٰہ)خود اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہو چکے تھے۔ ان میں اجتہاد کی قوت نہ تھی‘ ان میں تفقہ نہ تھا‘ ان میں حکمت نہ تھی‘ ان میں عمل کی طاقت نہ تھی‘ ان میں یہ صلاحیت ہی نہ تھی کہ خدا کی کتاب اور رسولؐ خدا کی علمی و عملی ہدایت سے اسلام کے دائمی اور لچک دار اصول اخذ کرتے اور زمانے کے متغیر حالات میں ان سے کام لیتے۔ ان پر تو اسلاف کی اندھی اور جامد تقلید کا مرض پوری طرح مسلط ہو چکا تھا جس کی وجہ سے وہ ہر چیز کو ان کتابوں میں تلاش کرتے تھے جو خدا کی کتابیں نہ تھیں کہ زمانے کی قیود(۲) سے بالاتر ہوتیں۔ وہ ہر معاملے میں ان انسانوں کی طرف رجوع کرتے تھے جو خدا کے نبی نہ تھے کہ ان کی بصیرت اوقات اور حالات کی بندشوں سے بالکل آزاد ہوتی۔ پھر یہ کیوں کر ممکن تھا کہ وہ ایسے وقت میں مسلمانوں کی کامیاب رہنمائی کرسکتے جب کہ زمانہ بالکل بدل چکا تھا اور علم و عمل کی دنیا میں ایسا عظیم تغیر واقع ہو چکا تھا جس کو خدا کی نظر تو دیکھ سکتی تھی‘ مگر کسی غیر نبی انسان کی نظر میں یہ طاقت نہ تھی کہ قرنوں({ FR 1133 }) اورصدیوں کے پردے اٹھا کر ان تک پہنچ سکتی۔ اس میں شک نہیں کہ علما نے نئی تہذیب کا مقابلہ کرنے کی کوشش ضرور کی‘ مگر مقابلے کے لیے جس سرو سامان کی ضرورت تھی وہ اُن کے پاس نہ تھا۔ حرکت کا مقابلہ جمود سے نہیں ہوسکتا۔ رفتارِ زمانہ کو منطق کے زور سے نہیں بدلا جاسکتا۔ نئے اسلحے کے سامنے فرسودہ(۲) اور زنگ آلود ہتھیار کام نہیں دے سکتے۔
علما نے جن طریقوں سے امت کی رہنمائی کرنی چاہی ان کا کامیاب ہونا کسی طرح ممکن ہی نہ تھا۔ جو قوم مغربی تہذیب کے طوفان میں گھِر چکی تھی وہ آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر اور حواس کو معطل کرکے کب تک طوفان کے وجود سے انکار کرتی اور اس کے اثرات سے محفوظ رہتی؟ جس قوم پر تمدن و تہذیب کا جدید نظام سیاسی طاقت کے ساتھ محیط ہو چکا تھا وہ اپنی عملی زندگی کو مغلوبی و محکومی کی حالت میں اس کے نفوذ و اثر سے کس طرح بچا سکتی تھی؟ آخر کار وہی ہوا جو ایسے حالات میں ہونا چاہیے تھا۔ سیاست کے میدان میں شکست کھانے کے بعد مسلمانوں نے علم اور تہذیب و تمدن کے میدان میں بھی شکست کھائی اور اب ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ دنیائے اسلام کے ہر خطے میں مغربیت کا طوفان بلا کی تیزی سے بڑھتا چلا آرہا ہے جس کی رَو میں بہتے بہتے مسلمانوں کی نئی نسلیں اسلام کے مرکز سے دور____ کوسوں دور نکل گئیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ علمائے اسلام کو اب تک اپنی غلطی کا احساس نہیں ہوا ہے۔ قریب قریب ہر اسلامی ملک میں علما کی جماعت اب بھی اسی روش پر قائم ہے جس کی وجہ سے ابتدا میں ان کو ناکامی ہوئی تھی۔ چند مستثنیٰ شخصیتوں کو چھوڑ کر علما کی عام حالت یہ ہے کہ وہ زمانے کے موجودہ رجحانات اور ذہنیتوں کی نئی ساخت کو سمجھنے کی قطعاً کوشش نہیں کرتے۔ جو چیزیں مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اسلام سے بیگانہ کر رہی ہیں اُن پر اظہارِ نفرت تو اُن سے جتنا چاہیے کرا لیجیے، لیکن اس زہر کا تریاق({ FR 1134 }) بہم پہنچانے کی زحمت وہ نہیں اٹھا سکتے۔ جدید حالات نے مسلمانوں کے لیے جو پیچیدہ علمی اور عملی مسائل پیدا کر دیے ہیں اُن کو حل کرنے میں ان حضرات کو ہمیشہ ناکامی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ ان مسائل کا حل اجتہاد کے بغیر ممکن نہیں، اور اجتہاد کو یہ اپنے اوپر حرام کر چکے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات اور اس کے قوانین کو بیان کرنے کا جو طریقہ آج ہمارے علما اختیار کر رہے ہیں وہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو اسلام سے مانوس کرنے کے بجائے الٹا متنفر(۲) کر دیتا ہے اور بسا اوقات ان کے مواعظ سن کر یا اُن کی تحریروں کو پڑھ کر بے اختیار دل سے یہ دُعا نکلتی ہے کہ خدا کرے کسی غیر مسلم یا بھٹکے ہوئے مسلمان کے چشم و گوش تک یہ صدائے بے ہنگام(۳) نہ پہنچی ہو۔ انھوں نے اپنے ارد گرد دو سو برس پرانی فضا پیدا کر رکھی ہے۔ اسی فضا میں سوچتے ہیں‘ اسی میں رہتے ہیں اور اسی کے مناسب حال باتیں کرتے ہیں۔
بلاشبہ علوم اسلامی کے جوہر آج دنیا میں انھی بزرگوں کے دم سے قائم ہیں اور جو کچھ دینی تعلیم پھیل رہی ہے انھی کے ذریعے سے پھیل رہی ہے، لیکن دو سو برس کی جو وسیع خلیج انھوں نے اپنے اور زمانہ حال کے درمیان حائل کر رکھی ہے وہ اسلام اور جدید دنیا کے درمیان کوئی ربط قائم نہیں ہونے دیتی۔ جو اسلامی تعلیم کی طرف جاتا ہے وہ دنیا کے کسی کام کا نہیں رہتا۔ جو دنیا کے کام کا بننا چاہتا ہے وہ اسلامی تعلیم سے بالکل بیگانہ رہتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس وقت دنیائے اسلام میں ہر جگہ دو ایسے گروہ پائے جاتے ہیں جو بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں:
٭ ایک گروہ اسلامی علوم اور اسلامی ثقافت کا علم بردار ہے مگر زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کی رہنمائی کے قابل نہیں۔
٭ دوسرا گروہ مسلمانوں کی علمی‘ ادبی اور سیاسی گاڑی کو چلا رہا ہے مگر اسلام کے اصول ومبادی سے ناواقف ہے‘اسلامی تہذیب کی اسپرٹ سے بیگانہ ہے‘ اسلام کے اجتماعی نظام اور تمدنی قوانین سے ناآشنا ہے۔ صرف دل کے ایک گوشے میں ایمان کا تھوڑا بہت نور رکھتا ہے‘ باقی تمام حیثیتوں سے اس میں اور ایک غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں، مگر چونکہ علمی و عملی طاقت جو کچھ بھی ہے اسی گروہ کے ہاتھ میں ہے اور اسی کے دست و بازو ہیں جو گاڑی چلانے کی طاقت رکھتے ہیں‘ اس لیے وہ ملت کی گاڑی کو لے کر گمراہی کی وادیوں میں بھٹکتا چلا جارہا ہے اورکوئی نہیں جو اس کو سیدھا راستہ بتائے۔
میں اس حالت کو دیکھ رہا ہوں اور اس کا خوف ناک انجام میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اگرچہ رہنمائی کے لیے جس علم و فضل اور جامعیت کی ضرورت ہے وہ مجھ کو حاصل نہیں۔ نہ اتنی قوت میسر ہے کہ ایسے بگڑے ہوئے حالات میں اتنی بڑی قوم کی اصلاح کر سکوں، لیکن اللہ نے دل میں ایک درد دیا ہے اوروہی دردمجبور کرتا ہے کہ جو تھوڑا سا علم اور نورِ بصیرت اللہ تعالیٰ نے بخشا ہے اس سے کام لے کر مسلمانوں کے ان دونوں گروہوں کو اسلامی تعلیم کے اصل منبع اور اسلامی تہذیب کے حقیقی سرچشمے کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دوں اور کامیابی و ناکامی سے بے پروا ہو کر اپنی سی کوشش کر دیکھوں۔ کام کی بزرگی اور اپنی کمزوری کو دیکھ کر اپنی کوششیں خود مجھ کو ہیچ میرز({ FR 1135 })معلوم ہوتی ہیںمگر کامیابی اور ناکامی جو کچھ بھی ہے اُس قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے۔ میرا کام کوشش کرنا ہے اور اپنی حد وسع(۲) تک میں اپنی کوشش کے دائرے کو پھیلانا چاہتا ہوں۔
(ترجمان القرآن، رجب ۱۳۵۴ھ۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء)



۴ ۔انسانی قانون اور الٰہی قانون

گزشتہ ماہ دسمبر ۱۹۳۳ء کی ابتدا میں امریکہ کے قانونِ تحریمِ خمر({ FR 1026 }) (prohibition law) کی تنسیخ کا باقاعدہ اعلان ہوگیا اور تقریباً چودہ برس کے بعد نئی دنیا کے باشندوں نے پھر ’’خشکی‘‘ سے ’’تری ‘‘کے حدود میں قدم رکھا۔ جمہوریہ امریکہ کی صدارت پر مسٹر روز ویلٹ کا فائز ہونا خشکی پر تری کی فتح کا اعلان تھا۔ اس کے بعد پہلے تو اپریل ۱۹۳۳ء میں ایک قانون کے ذریعے سے ۲‘۳ فی صدی الکحل کی شراب کو جائز کیا گیا‘ پھر چند مہینے نہ گزرے تھے کہ دستورجمہوریہ امریکہ کی اٹھارہویں ترمیم ہی منسوخ کر دی گئی جس کی رو سے ریاست ہائے متحدہ کے حدود میں شراب کی خرید و فروخت‘ درآمدو برآمد اور ساخت و پرداخت حرام قرار دی گئی تھی۔
قانون کے ذریعے سے اخلاق و معاشرت کی اصلاح کا یہ سب سے بڑا تجربہ تھا جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اٹھارہویں ترمیم سے پہلے کئی سال تک اینٹی سیلون لیگ (anti-saloon league) رسائل و جرائد‘ خطابات(۲) تصاویر‘ میجک لینٹرن‘(۳) سینما اور بہت سے دوسرے طریقوں سے شراب کی مضرتیں(۴) اہل امریکہ کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کرتی رہی اور اس تبلیغ میں اس نے پانی کی طرح روپیہ بہایا۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ تحریک کی ابتدا سے لے کر ۱۹۲۵ء تک نشر و اشاعت پر ساڑھے چھے کروڑ ڈالر صَرف ہوئے اور شراب کے خلاف جس قدر لٹریچر شائع کیا گیا وہ تقریباً ۹ ارب صفحات پر مشتمل تھا۔
اس کے علاوہ قانونِ تحریم کی تنفیذ(۵) کے مصارف(۶) کا جس قدر بار(۷) گذشتہ چودہ سال میں امریکی قوم کو برداشت کرنا پڑا ہے اس کی مجموعی مقدار ۴۵ کروڑ پونڈ بتائی جاتی ہے، اور حال میں ممالک متحدہ امریکہ کے محکمہ عدل نے جنوری ۱۹۲۰ء سے اکتوبر ۱۹۳۳ء تک کے جو اعداد و شمار شائع کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قانون کی تنفیذ کے سلسلے میں دو سو آدمی مارے گئے۔ ۵ لاکھ ۳۴ ہزار ۳ سو ۳۵ قید کیے گئے۔ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ پونڈ کے جرمانے عائد کیے گئے۔ چالیس کروڑ چالیس لاکھ پونڈ کی مالیت کی املاک ضبط کی گئیں۔
جان و مال کے یہ ہولناک نقصانات صرف اس لیے برداشت کیے گئے کہ بیسویں صدی کی اس ’’مہذب ترین‘‘ قوم کو جس کا آفتابِ علم نصف({ FR 1136 }) النہار پر پہنچا ہوا ہے، ام الخبائث(۲) کی بے شمار روحانی‘ اخلاقی‘ جسمانی اور مالی مضرتوں سے آگاہ کیا جائے، لیکن تحریم سے پہلے کئی سال کی مسلسل کوششیں‘ جن میں حکومت کی طاقت بھی شریک تھی‘ امریکی قوم کے عزم مے خواری(۳) کے آگے ناکام ہوگئیں اور ’’تاریخِ عالم کا بڑا اصلاحی جہاد‘‘ آخر کار بے سود ثابت ہوا۔
تحریمِ خمر کی یہ ناکامی اور قانونِ تحریم کی یہ تنسیخ کچھ اس وجہ سے نہیں ہے کہ شراب کی وہ مضرتیں جن کو دور کرنے کے لیے پروپیگنڈا اور قانون کی طاقت استعمال کی گئی تھی‘ اب منفعتوں(۴) سے بدل گئی ہیں‘ یا کسی نئے علمی اکتشاف نے ان خیالات کو غلط ثابت کر دیا ہے جو پہلے قائم کیے گئے تھے۔ برعکس اس کے آج پہلے سے بھی زیادہ وسیع و کثیر تجربات کی بنا پر یہ حقیقت تسلیم کی جاتی ہے کہ قحبہ گری‘(۵) زنا‘ عمل قومِ لوط‘ چوری‘ قمار بازی‘ قتل و خون اور ایسے ہی دوسرے اخلاقی مفاسد اس ام الخبائث کے قریب ترین رشتہ دار ہیں، اور مغربی اقوام کے اخلاق‘ صحت‘ معیشت اور معاشرت کی تباہی میں اس کا بڑا حصہ ہے، لیکن اس کے باوجود جس چیز نے آج حکومتِ امریکہ کو اپنا قانون واپس لینے اور حرام کو حلال کر دینے پر مجبور کر دیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ امتِ امریکیہ کی عظیم اکثریت کسی طرح شراب چھوڑنے پر راضی نہ ہوئی اور وہی پبلک جس کے ووٹ نے اب سے چودہ برس پہلے یہ چیز حرام کی تھی اب اس کو حلال کرنے پر اصرار کرنے لگی۔
جہاں تک ہم کو معلوم ہے مے خواری کے نقصانات سے کسی بڑے سے بڑے حامیِ شراب نے بھی کبھی انکار نہیں کیا اور نہ کبھی مخالفینِ تحریم نے شراب کے محاسن({ FR 1029 }) کی کوئی ایسی فہرست پیش کی جو ان قبائح(۲) کے مقابلے میں کچھ بھی وزن رکھتی ہو۔ جس وقت امریکن کانگریس میں رائے عام کی تائید سے دستور کی اٹھارہویں ترمیم پیش ہوئی تھی‘ اُس وقت خشکی اور تری کے درمیان ہر طرح موازنہ کرلیا گیا تھا اور انھی تمام مضرتوں اور خرابیوں کا لحاظ کرتے ہوئے کانگریس نے وہ ترمیم منظور کی تھی۔۴۶ ریاستوں نے اس ترمیم کی توثیق کی تھی‘ دارالمبعوثین (house of representatives) اور مجلس شیوخ (senate) نے اس ترمیم کے مطابق قانونِ تحریم (volstead act)پاس کیا تھا۔ یہ سب کچھ امریکی قوم کی مرضی سے ہوا اور جب تک تحریم کا معاملہ کاغذ اور زبان تک رہا قوم خوشی خوشی اس کی تائید کرتی رہی مگر جونہی کہ یہ تحریم عالمِ معاملہ(۳) میں آئی‘ تمام امتِ امریکیہ کا رنگ بدل گیا۔ ام الخبائث کے ہجر میں پہلی رات بسر کرتے ہی دنیا کی سب سے زیادہ متمدن‘ ذی علم‘ ذی ہوش‘ حقائق پسند اور ترقی یافتہ قوم دیوانی ہوگئی‘ اور اس نے جوشِ جنون میں وہ حرکتیں شروع کر دیں جن سے شبہ ہوتا تھا کہ یہ قوم مشرقی شاعری کے خیالی عاشقوں کی طرح فی الواقع اپنا سر پھوڑ ڈالے گی۔
اجازت یافتہ شراب خانوں کے بند ہوتے ہی تمام ملک میں لکھوکھا خفیہ شراب خانے (speakeasies and blind pigs) (۴) قائم ہوگئے جن میں قانون کی گرفت سے بچ کر شراب پینے پلانے بیچنے اور خریدنے کے عجیب عجیب طریقے اختیار کیے جاتے تھے۔ کسی شخص کا اپنے کسی دوست یا عزیز کو کسی خفیہ شراب خانے اور اس کے مقررہ اشارے (pass word) کاپتہ بتا دینا ایک خاص مہربانی کا فعل سمجھا جاتا تھا۔ پہلے تو حکومت لائسنس یافتہ شراب خانوں کی تعداد‘ ان کی شرابوں کی نوعیت اور ان میں آنے جانے والوں کے حالات کی نگرانی کرسکتی تھی‘ مگر اب یہ بدکاری کے اڈے اس کی نگرانی کے حدودسے آزاد تھے۔ ان کی تعداد قبلِ تحریم کے اجازت یافتہ شراب خانوں سے کئی گنا زیادہ ہوگئی۔ ان میں ہر قسم کی بدترین شرابیں فروخت ہونے لگیںجو صحت کے لیے غایت درجہ مضر تھیں۔ ان میں کمسن لڑکوں اور لڑکیوں کی آمد ورفت بہت بڑھ گئی جس کے ہولناک نتائج سے ریاست ہائے متحدہ کے اہلِ فکر میں عام اضطراب برپا ہوگیا۔ شراب کی قیمت پہلے سے کئی گنی زیادہ ہوگئی۔ مے فروشی کا پیشہ ایک بڑا پُر منفعت({ FR 1030 }) پیشہ بن گیا اور ہزاروں لاکھوں آدمی یہی کاروبار کرنے لگے۔ خفیہ مے خانوں کے علاوہ بکثرت پھیری لگانے والے مے فروش (boot leggers)پیدا ہو گئے جو گویا چلتے پھرتے مے خانے تھے۔ یہ لوگ مدرسوں‘ دفتروں‘ ہوٹلوں‘ تفریح گاہوں حتیٰ کہ لوگوں کے گھروں تک پہنچ کر شراب بیچنے اور نئے نئے گاہک پیدا کرنے لگے۔ کم سے کم اندازہ یہ ہے کہ زمانہ قبل تحریم کی بہ نسبت زمانہ بعد تحریم میں امریکہ کے مے فروشوں کی تعداد دس گنی زیادہ ہوگئی۔ شہروں سے گزر کر دیہات تک میں یہ کاروبار پھیل گیا۔ گائوں گائوں شراب کشید کرنے کے خفیہ کارخانے قائم ہوگئے۔ تحریم سے پہلے امریکہ میں عرق کشی کے اجازت یافتہ کارخانوں کی تعداد کل چار سو تھی۔ تحریم کے بعد سات سال کے اندر ۷۹ ہزار ۴ سو ۳۷ کارخانے دار پکڑے گئے‘ ۹۳ ہزار ۸ سو ۳۱بھٹیاں ضبط کی گئیں اور پھر بھی شراب فروشی کے کاروبار میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ محکمہ تحریم کے ایک سابق کمشنر کا بیان ہے کہ ہم کل کارخانوں اور بھٹیوں کا صرف دسواں حصہ پکڑ سکے ہیں۔ اسی طرح شراب کی مقدار میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا۔ تخمینہ کیا گیا ہے کہ تحریم کے زمانے میں امریکہ کے باشندے ہر سال ۲۰ کروڑ گیلن شراب پینے لگے تھے۔ یہ مقدارِ استعمال‘ قبل تحریم کی مقدار سے بہت زیادہ تھی۔
جو شراب اس قدر کثیر مقدار میں استعمال کی جانے لگی تھی وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بھی حد درجہ خراب اور مضرِ صحت تھی۔ اطبا کا بیان ہے کہ:
اس چیز کو شراب کے بجائے زہر کہنا زیادہ صحیح ہے۔ اس کے حلق سے اترتے ہی معدے اور دماغ پر اس کے زہریلے اثرات مرتب ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور دو دن تک اعصاب اس سے متاثر رہتے ہیں۔ اس کے نشے میں انسان کسی خوش باشی اور خوش فعلی کے مطلب کا نہیں رہتا بلکہ اس کی طبیعت شورش اور ہنگامہ آرائی اور ارتکابِ جرم کی جانب مائل ہو جاتی ہے۔
اس قسم کی شرابوں کی کثرتِ استعمال نے اہلِ امریکہ کی جسمانی صحت کو تباہ کر ڈالا۔ مثال کے طور پر شہر نیویارک کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریم سے پہلے ۱۹۱۸ء میں الکحل کے اثر سے بیمار ہونے والوں کی تعداد ۳۷۴۱ اور مرنے والوں کی تعداد ۲۵۲ تھی۔ ۱۹۲۶ء میں بیمار ہونے والوں کی تعداد گیارہ ہزار اور مرنے والوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار تک پہنچ گئی۔ ان کے علاوہ جو لوگ بالواسطہ شراب کے اثرات سے متاثر ہو کرہلاک یا زندہ درگور ہوگئے ان کی تعداد کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔
اسی طرح جرائم‘ خصوصاً بچوں اور نوجوانوں کے جرائم میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا۔ امریکہ کے ججوں کا بیان ہے کہ:
ہمارے ملک کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ کبھی اتنی کثیر تعداد میں بچے بحالت نشہ گرفتار ہوئے ہوں۔
جب کم سنی کے جرائم حد سے بڑھ گئے تو اس کی تحقیقات کی گئیں اور ثابت ہوا کہ ۱۹۲۰ء سے نوجوانوں کی مے خواری اور عربدہ جوئی({ FR 1031 }) میں سال بہ سال زیادتی ہوتی جارہی ہے‘ حتیٰ کہ بعض شہروں میں ۸ سال کے اندر دو سو فی صدی اضافہ ہوا۔ ۱۹۳۳ء میں امریکہ کی نیشنل کرائم کونسل (national crime council) کے ڈائریکٹر کرنل موس(col. moss)نے بیان کیا کہ اس وقت امریکہ کے تین آدمیوں میں سے ایک آدمی جرائم پیشہ ہے اور ہمارے ہاں قتل کے جرائم میں ساڑھے تین سو فی صدی اضافہ ہوا ہے۔
غرض چودہ سال کے اندر اندر امریکہ میں تحریمِ خمر کے جو نتائج ظاہر ہوئے اُن کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ قانون کا احترام دلوں سے اٹھ گیا اور سوسائٹی کے ہر طبقے میں خلاف ورزیِ قانون کی بیماری پھیل گئی۔
۲۔ تحریم خمر کا اصل مقصد بھی حاصل نہ ہوا‘ بلکہ اس کے برعکس یہ چیز حرام ہونے کے بعد اس سے بھی زیادہ استعمال ہونے لگی جتنی حلال ہونے کے زمانے میںاستعمال ہوتی تھی۔
۳۔ قانونِ تحریم کی تنفیذ میں حکومت کا اور خفیہ طریقے سے شراب خریدنے میں رعایا کا بے حساب مالی نقصان ہوا اور ایک ملک کے معاشی حالات تباہ ہونے لگے۔
۴۔ امراض کی کثرت‘ صحت کی بربادی‘ شرح اموات میں اضافہ‘ اخلاقِ عامہ کا فساد‘ سوسائٹی کے تمام طبقات اور خصوصاً نوخیز نسلوں میں ذمائم({ FR 1032 }) اور قبائح(۲) کا بکثرت شائع(۳) ہونا‘ اور جرائم میں غیر معمولی ترقی‘ یہ اس قانون کے تمدنی و اخلاقی ثمرات تھے۔
یہ نتائج اُس ملک میں حاصل ہوئے جو بیسویں صدی کے روشن ترین زمانے میں مہذب ترین ملک سمجھا جاتا ہے۔ جس کے باشندے اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ ہیں۔ جن کے دماغ علم و حکمت کی روشنی سے منور ہیں۔ جو اپنے نفع و نقصان کو سمجھنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ نتائج اس حالت میں ظاہر ہوئے جب کہ کروڑہا روپیہ صَرف کرکے اور کئی ارب رسالے اور کتابیں شائع کرکے تمام قوم کو شراب کے نقصانات سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔یہ نتائج اس کے باوجود ظاہر ہوئے کہ امریکی قوم کی ایک بڑی اکثریت تحریم کی ضرورت کو تسلیم کر چکی تھی اور تحریم کا قانون اس کی مرضی سے پیش اور پاس ہوا تھا۔پھر ان نتائج کا ظہور ایسی حالت میں ہوا جب کہ امریکہ کی عظیم الشان سلطنت بیسویں صدی کی بہترین تنظیم کے ساتھ کامل چودہ سال تک شراب نوشی اور شراب فروشی کا قلع قمع(۴) کرنے پر تلی رہی۔
جب تک یہ نتائج ظاہر نہ ہوئے تھے حکومت اور رعیت دونوں کی اکثریت شراب کو حرام قرار دینے پر متفق تھی اس لیے شراب حرام ہوگئی، مگر جب معلوم ہوا کہ قوم کسی طرح شراب چھوڑنے پر راضی نہیں ہے اور زبردستی شراب چھڑانے کا نتیجہ پہلے سے بھی خراب نکلا ہے‘ تو اسی حکومت اور رعیت کی اکثریت نے شراب کو حلال کرنے پر اتفاق کرلیا۔
اب ذرا ایک نظر اس ملک کی حالت پر ڈالیے جو اَب سے ساڑھے تیرہ سو برس(۵) پہلے کے تاریک ترین زمانے میں سب سے زیادہ تاریک ملک شمار ہوتا تھا۔ باشندے اَن پڑھ۔ علوم و فنون کا نام و نشان نہیں۔ تمدن و تہذیب کاپتہ نہیں‘ پڑھے لکھوں کی تعداد شاید دس ہزار میں ایک اور وہ بھی ایسے کہ آج کل کے کم سواد({ FR 1033 }) بھی ان سے زیادہ علم رکھتے ہوں گے۔ موجودہ زمانے کے تنظیم ادارات اور وسائل یکسر مفقود‘ حکومت کا نظام بالکل ابتدائی حالت میں اور اس کو قائم ہوئے چند سال سے زیادہ نہ ہوئے تھے۔ باشندوں کا حال یہ کہ شراب کے عاشق۔ اُن کی زبان میں شراب کے تقریًبا ڈھائی سو نام پائے جاتے ہیں جن کی مثال شاید دنیا کی کسی زبان میں نہ ملے گی۔ یہ شراب کے ساتھ ان کے غیر معمولی شغف کا ثبوت ہے، اور اس کا مزید ثبوت ان کی شاعری ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شراب ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی، اور لازمۂ حیات سمجھی جاتی تھی۔اس حالت میں وہاں شراب کا مسئلہ پیش ہوتا ہے اوررسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جاتا ہے کہ اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ خدا کا ارشاد ہے:
يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ۝۰ۭ قُلْ فِيْہِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ۝۰ۡوَاِثْـمُہُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا۝۰ۭ البقرہ 219:2
یہ تجھ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دو کہ ان دونوں میں بڑی خرابی ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں، مگر ان کا نقصان ان کے فائدے سے زیادہ ہے۔
یہ کوئی حکم نہ تھا بلکہ محض شراب کی حقیقت بتائی گئی تھی کہ اس میں اچھائی اور بُرائی دونوں موجود ہیں‘ مگر بُرائی کا پہلو غالب ہے۔ اس تعلیم کا اثر یہ ہوا کہ قوم کے ایک گروہ نے اُسی وقت سے مے خواری چھوڑ دی۔ تاہم اکثریت بدستور شراب کی خوگر(۲) رہی۔
پھر دوبارہ شراب کے بارے میں حکم پوچھا گیا کیونکہ بعض لوگ نشے کی حالت میں نماز پڑھتے اور غلطیاں کر جاتے تھے۔ اس پر رسول خدا نے اپنے خدا کی طرف سے یہ حکم سنایا:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ
النسائ4: 43
اے ایمان لانے والو! نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جائو۔نماز اُس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو۔
یہ حکم سنتے ہی لوگوں نے مے خواری کے لیے اوقات مقرر کرلیے اور عموماً فجر اور ظہر کے درمیان یا عشا کے بعد شراب پی جانے لگی تاکہ نشے کی حالت میں نماز پڑھنے کی نوبت نہ آئے، یا نشے کی وجہ سے نماز نہ ترک کرنی پڑے، مگر شراب کی اصلی مضرت ابھی باقی تھی، نشے کی حالت میں لوگ فساد برپا کرتے تھے اور خون خرابے تک نوبت پہنچ جاتی تھی، اس لیے پھر خواہش کی گئی کہ شراب کے بارے میں صاف اور قطعی حکم دیا جائے۔ اس پر ارشاد ہوا:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَ الْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَ عَنِ الصَّلٰوۃِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَo وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ احْذَرُوْا فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ المائدہ5: 90-92
اے ایمان لانے والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے یہ سب شیطان کی ساختہ و پرداختہ گندگیاں ہیں، لہٰذا تم ان سے پرہیز کرو۔ امید ہے کہ اس پرہیز سے تم کو فلاح نصیب ہوگی۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمھارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تم کو خدا کی یاد اور نماز سے روک دے۔ کیا یہ معلوم ہوجانے کے بعد اب تم ان سے باز آئو گے؟ اللہ کی اطاعت کرو‘ اور رسولؐ کی بات مانو اور باز آجائو، لیکن اگرتم نے سرتابی({ FR 1034 }) کی تو جان رکھو کہ ہمارے رسولؐ کاکام صرف اتنا ہی ہے کہ صاف صاف حکم پہنچا دے۔
یہ حکم آنا تھا کہ وہی شراب کے رسیا(۲) اور دخت رز(۳) کے عاشق جو اس چیز کے نام پر جان دیتے تھے‘ یکایک اس سے نفور ہوگئے۔ تحریمِ شراب کی منادی سنتے ہی شراب کے مٹکے توڑ دیے گئے۔ مدینے کی گلیوں میں شراب کے نالے بہہ گئے۔ ایک محفل میں مے نوشی ہو رہی تھی اور دس گیارہ اصحاب شراب کے نشے میں چُور تھے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی کی آواز کانوں میں پہنچی کہ شراب حرام کر دی گئی ہے۔ اسی نشے کی حالت میں حکمِ خدا کا یہ احترام کیا گیا کہ فورًا شراب کا دور روک دیا گیا اور مٹکے توڑ ڈالے گئے۔ ایک شخص کا واقعہ ہے کہ وہ شراب پی رہا تھا۔ منہ سے پیالا لگا ہوا تھا۔ کسی نے آکر تحریم خمر کی آیت پڑھی۔ فوراً پیالا اس کے لبوں سے الگ ہوگیا، اور پھر ایک قطرہ بھی حلق کے نیچے نہ اترا۔ اس کے بعد جس کسی نے شراب پی اس کو جوتوں‘ لکڑیوں‘ لات مکوں سے پیٹا گیا‘ پھر چالیس کوڑوں کی سزا دی جانے لگی۔ پھر اس جرم کے لیے ۸۰ کوڑوں کی سزا مقرر کر دی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عرب سے مے خواروں کا نام و نشان مٹ گیا۔ پھر اسلام جہاں پہنچا‘ اس نے قوموں کو آپ سے آپ ’’خشک‘‘ (پرہیزگار) بنا دیا حتیٰ کہ آج بھی جب کہ اسلام کا اثر بہت ضعیف ہو چکا ہے‘ دنیا میں کروڑوں انسان ایسے بستے ہیں جو کسی قانونِ تحریم اور کسی نظام تعزیری کے بغیر شراب سے بالکل مجتنب({ FR 1035 }) ہیں۔ مسلمان قوم میں اگر مردم شماری کرکے دیکھا جائے کہ مے خواروں کی تعداد کافی صدی اوسط کیا ہے تو شاید یہ قوم اب بھی دنیا کی تمام قوموں سے زیادہ پرہیز گار پائی جائے گی۔ پھر اس قوم میں جو لوگ شراب پیتے بھی ہیں وہ بھی اس کو گناہ سمجھتے ہیں‘ دل میں اپنے فعل پر نادم ہوتے ہیں‘ اور بسا اوقات خود بخود تائب(۲) ہو جاتے ہیں۔
عقل و حکمت کی مملکت میں آخری فیصلہ تجربے و مشاہدے پر منحصر ہوتا ہے۔ یہ شہادت کبھی جھٹلائی نہیں جاسکتی۔ اب آپ کے سامنے ایک تجربہ امریکہ کا ہے اور دوسرا تجربہ اسلام کا۔ دونوں کا فرق بالکل ظاہر ہے۔ اب یہ آپ کاکام ہے کہ ان کا تقابل کرکے اس سے سبق حاصل کریں۔
امریکہ میں برسوں تک شراب کے خلاف تبلیغ کی گئی۔ کروڑوں روپیہ اس کی مضرتوں کے اعلان و اشتہار پر صَرف کیا گیا۔ فنِ طب سے‘ اعداد شمار کی شہادتوں سے‘ عقلی استدلالات سے‘ اس کے جسمانی‘ اخلاقی‘ معاشی نقصانات اس طرح ثابت کیے گئے کہ ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تصویروں کے ذریعے سے شراب کی مضرتیں بِرَأْیِ العین مشاہدہ کرا دی گئیں اور پوری کوشش کی گئی کہ لوگ خوداس کی خرابیوں کے قائل ہو کر اس کو چھوڑ دینے پر آمادہ ہو جائیں۔ پھر قوم کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت (کانگریس) نے اکثریت کے ساتھ اس کی تحریم کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے قانون پاس کر دیا۔ پھر حکومت نے (اور اس حکومت نے جو اس وقت دنیا کی عظیم ترین طاقتوں میں سے ہے) اس کی خرید و فروخت‘ ساخت و پرداخت‘ درآمد و برآمد کو روکنے کے لیے اپنی ساری قوتیں صَرف کرڈالیں، مگر قوم (اور وہ قوم جو اس وقت تعلیم یافتہ اور روشن خیال قوموں کی صفِ اول میں ہے) اس کو چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئی۔ آخر کار چودہ پندرہ برس کی قلیل‘ مدت ہی میں قانون مجبور ہوگیا کہ حرام کو پھر حلال کر دے۔
دوسری طرف اسلام میں شراب کے خلاف کوئی پروپیگنڈہ نہیں کیا گیا۔ نشر و اشاعت پر ایک پیسہ بھی صَرف نہ ہوا۔ کوئی اینٹی سیلون لیگ قائم نہیں کی گئی۔ اللہ کے رسولﷺ نے بس اتنا کہا کہ اللہ نے تمھارے لیے شراب حرام کردی ہے‘ اور جونہی کہ یہ حکم اس زبان سے نکلا تمام قوم اور وہ قوم جو شراب کے عشق میں امریکہ سے بڑھ کر تھی مگر اصطلاحی علم و دانش میں ان سے کوئی نسبت نہ رکھتی تھی، شراب سے باز آگئی اور ایسی باز آئی کہ جب تک وہ اسلام کے دائرے میں ہے اس کی ’خشکی‘ سے ’تری‘ کی جانب تجاوز({ FR 1036 }) کرنا ممکن نہیں ہے۔ ’خشکی‘ کے حصار(۲) میں بند رہنے کے لیے وہ کسی حاکمانہ قوت‘ کسی احتساب اور کسی نظامِ تعزیری(۳) کی محتاج نہیں ہے۔ اگر کوئی قوتِ جابرہ(۴) موجود نہ ہو تب بھی اس سے باز رہے گی۔ پھر یہ تحریم ایسی تحریم نہیں ہے جس کو کسی طرح تحلیل سے بدلا جاسکتا ہو۔ اگر تمام عالم کے مسلمان بالاتفاق شراب کی تائید میں ووٹ دے دیں تب بھی یہ حرام کبھی حلال نہیں ہوسکتا۔
آپ اس عظیم الشان تفاوت(۵) کے اسباب پر غور کریں گے تو اس سے چند ایسی باتیں معلوم ہوں گی جو نہ صرف شراب کے معاملے میں‘ بلکہ قانون و اخلاق کے تمام مسائل میں اصولِ کلیہ کا حکم رکھتی ہیں۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ انسانی معاملات کی تنظیم میں اسلام اور دنیوی قوانین کے درمیان ایک بنیادی فرق ہے۔ دنیوی قوانین کا انحصار سراسر انسانی رائے پر ہے، اس لیے وہ نہ صرف اپنے کلیات بلکہ ہر ہر جزئیے میں عوام یا خواص کی رائے کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہیں‘ اور انسانی رائے کا (خواہ وہ عوام کی ہو یا خواص کی) حال یہ ہے کہ وہ ہر آن داخلی میلانات و رجحانات‘ خارجی اسباب و عوامل‘ اور علم و عقل کے تغیر پذیر احکام سے (جو ضروری نہیں ہے کہ ہمیشہ صحیح ہوں) متاثر ہوتی رہتی ہے۔ ان تاثرات سے آرا و افکار میں تغیر ہوتا ہے۔ اس تغیر سے لازمی طور پر اچھے اور برے‘ صحیح اور غلط‘ جائز اور ناجائز‘ حرام اور حلال کے معیارات بدلتے رہتے ہیں‘ اور ان کے بدلنے کے ساتھ ہی قانون کو بھی بدل جانا پڑتا ہے۔ اس طرح اخلاق اور تہذیب کا کوئی پائدار‘ مستقل‘ ناقابل تغیر معیار قائم ہی نہیں ہونے پاتا۔ انسان کا تَلَوُّنّ قانون پر حکمرانی کرتا ہے‘ اور قانون کا تَلَوُّنُّ انسانی زندگی پر۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی نو مشق({ FR 1037 }) موٹر چلا رہا ہو اور اس کے ناآزمودہ(۲) ہاتھ بے قاعدگی کے ساتھ اسٹیرنگ کوکبھی اِدھر اور کبھی اُدھر گھما رہے ہوں۔ اس کی ان بے قاعدہ گردشوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ موٹر کی حرکت بھی بے قاعدہ اور غیر مستقیم ہوگی‘ وہ استقلال کے ساتھ کسی ایک مُعَیّن راستے پر نہ چل سکے گی‘ اور جب وہ آڑی ترچھی(۳) رفتار سے چلے گی تو خود چلانے والے حضرت ہی پر اس کا اثر پڑے گا۔ کبھی وہ سیدھے راستے پر ہوں گے اور کبھی ٹیڑھے راستے پر۔ کہیں کسی گڑھے میں جاگریں گے‘ کہیں کسی دیوار سے ٹکرائیں گے‘ اور کہیں نشیب و فراز(۴) کے دھچکے کھائیں گے۔
بخلاف اس کے اسلام میں قانون و اخلاق کے کلیات تمام تر اور جزئیات بیش تر خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کیے ہوئے ہیں‘ انسانی رائے کو ان میں ذرہ برابر دخل نہیں ہے اور جزئیات میں کسی حد تک دخل ہے بھی تو وہ صرف اس قدر ہے کہ زندگی کے تغیر پذیر حالات کا لحاظ کرتے ہوئے ان کلی احکام اور جزئی نظائر(۵) سے حسبِ موقع نئے جزئیات مستنبط(۶) کرتے رہیں‘ جن کو لازماً اصولِ شرع(۷) کے مطابق ہونا چاہیے۔ اس الٰہی قانون سازی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اخلاق اور تہذیب کا ایک مستقل اور غیر تغیر پذیر معیار موجود ہے۔ ہمارے اخلاقی و مدنی قوانین میں تَلَوُّن({ FR 1038 }) کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ ہمارے ہاں کل کا حرام، آج حلال اورکل پھر حرام نہیں ہوسکتا۔ یہاں تو جو حرام کر دیا گیا وہ ہمیشہ کے لیے حرام ہے‘ اور جو حلال کر دیا گیا وہ قیامت تک حلال ہے۔ ہم نے اپنی موٹر کار کا اسٹیرنگ ایک ماہر کامل کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ اب ہم مطمئن ہیںکہ وہ موٹر کو سیدھے رستے پر چلائے گا:
یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ وَ یُضِلُّ اللّٰہُ الظّٰلِمِیْنَ ابراہیم14:27
ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قولِ ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت میں ثبات(۲) عطا کرتا ہے، اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے۔
اس میں ایک دوسرا اہم نکتہ بھی ہے۔ دنیوی طاقتیں انسانی زندگی کے لیے ضوابط بنانے اور اخلاق‘ معاشرت اور تمدن کی اصلاح کرنے کے لیے ہمیشہ اس کی محتاج رہتی ہیں کہ ہر جزئی معاملے میں پہلے عوام کو اصلاح کے لیے راضی کریں، پھر عمل کی جانب قدم بڑھائیں۔ ان کے قوانین کی ہر دفعہ اپنے نفاذ کے لیے عامۂ خلائق(۳) کی رضا پر منحصر ہوا کرتی ہے اور جس اصلاحی یا تنظیمی قانون کا نفاذ عوام کی رضا کے خلاف کر دیا گیا ہو اُسے بعد از خرابی ہائے بسیار(۴) منسوخ کرنا پڑتا ہے۔ یہ نہ صرف امریکہ کا تجربہ ہے، بلکہ دنیا کے تمام تجربات اس بات پر شہادت دے رہے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیوی قوانین درحقیقت اصلاحِ اخلاق و معاشرت کے معاملے میں قطعاً ناکارہ ہیں۔ وہ جن بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں انھی کی رضا پر ان قوانین کا منظور یا نامنظور ہونا اور نافذ یا منسوخ ہو جانا منحصر ہے۔
اسلام نے اس اشکال کو ایک دوسرے طریقے سے حل کیا ہے۔ آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اس مشکل کا کوئی حل بجز اس کے نہیں ہے۔ وہ تمدن‘ معاشرت اور اخلاق کے مسائل کو چھیڑنے اور قوانینِ شریعت کی اطاعت کا مطالبہ کرنے سے پہلے انسان کو دعوت دیتا ہے کہ خدا اور اس کے رسولﷺ اور اس کی کتاب پر ایمان لے آئے۔ یہ بات یقیناً انسان کی رضا پر منحصر ہے کہ وہ ایمان لائے یا نہ لائے، مگر جب وہ ایمان لے آیا تو اس کی رضا و عدم رضا کا کوئی سوال باقی نہ رہا۔ اب خدا کی طرف سے اس کا رسولﷺ جو حکم بھی دے اور خدا کی کتاب جو قانون بھی مقرر کرے وہ اس کے لیے واجب الاطاعت ہے۔ اس ایک اصل کے قائم ہو جانے کے بعد شریعتِ اسلامی کے تمام قوانین اس پر نافذ ہو جائیں گے اور کسی جزئی یا کلی مسئلے میں اس کی رضامندی یا نارضامندی کا دخل نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں جو کام کروڑوں بلکہ اربوں روپے کے صَرف اور بے نظیر تبلیغ و اشاعت اور حکومت کی زبردست کوششوں کے باوجود نہ ہوسکا وہ عالمِ اسلامی میں خدا کی جانب سے رسولؐ خدا کی صرف ایک منادی سے ہوگیا۔
تیسری سبق آموز بات یہ ہے کہ کوئی انسانی جماعت خواہ کتنی ہی علوم و فنون کی روشنی سے بہرہ ور ہو‘ اور خواہ عقلی ترقیات کے آسمان ہی پر کیوں نہ پہنچ جائے‘ اگر وہ الٰہی قوانین کی تابع فرمان نہ ہو، اور ایمان کی قوت نہ رکھتی ہو تو کبھی ہوائے نفس کے چنگل سے نہیں نکل سکتی۔ اس پر خواہشاتِ نفسانی کا غلبہ اتنا شدید رہے گا کہ جس چیز پر اس کا نفس مائل ہوگا اُس کی مضرتیں اگر آفتاب سے بھی زیادہ روشن کر کے دکھا دی جائیں‘ اگر اس کے خلاف سائنس (یعنی پرستارانِ عقل کے معبود) کو بھی گواہ بنا کر لاکھڑا کیا جائے‘ اگر اس کے مقابلے میں اعداد و شمار کی بھی شہادت پیش کر دی جائے (جو ارباب حکمت کی نگاہ میں ہرگز جھوٹی نہیں ہوسکتی)، اگر اس کی خرابیاں تجربے و مشاہدے سے بھی ثابت کر دی جائیں‘ تب بھی وہ کبھی اپنے نفس کے معشوق کو نہ چھوڑے گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان میں حاسّہ اخلاقی پیدا کرنا اور اس کے ضمیر کی تشکیل کرنا اور اس میں اتنی طاقت بھر دینا کہ وہ نفس پر غالب آجائے‘ فلسفہ و سائنس کے بس کی بات ہے اور نہ عقل و خرد کی۔ یہ کام بجز ایمان کے اور کسی چیز کے ذریعے سے انجام نہیں پاسکتا۔
(ترجمان القرآن، شوال ۱۳۵۲ھ۔ جنوری ۱۹۳۴ء)


۵ ۔مغربی تہذیب کی خود کشی

سیاست‘ تجارت‘ صنعت و حرفت اور علوم و فنون کے میدانوں میں مغربی قوموں کے حیرت انگیز اقدامات کو دیکھ کر دل اور دماغ سخت دہشت زدہ({ FR 1039 }) ہو جاتے ہیں۔ یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید ان قوموں کی ترقی لازوال ہے‘ دنیا پر ان کے غلبے اور تسلط کا دائمی فیصلہ ہو چکا ہے‘ رُبع مسکون(۲) کی حکومت اور عناصر کی فرماں روائی کا انھیں ٹھیکہ دے دیا گیا ہے، اور ان کی طاقت ایسی مضبوط بنیادوں پر قائم ہوگئی ہے کہ کسی کے اکھاڑے نہیں اکھڑ سکتی۔
ایسا ہی گمان ہر زمانے میں ان سب قوموں کے متعلق کیا جاچکا ہے جو اپنے اپنے وقت کی غالب قومیں تھیں۔ مصر کے فراعنہ‘ عرب کے عاد و ثمود‘ عراق کے کلدانی‘ ایران کے اکاسرہ‘ یونان کے جہانگیر فاتح‘ روم کے عالم گیر فرماں روا مسلمانوں کے جہاں کشا مجاہد‘ تاتار کے عالم سوز سپاہی‘ سب اس کرہ خاکی کے اسٹیج پر اسی طرح غلبہ و قوت کے تماشے دکھا چکے ہیں۔ ان میں سے جس جس کے کھیل کی باری آئی‘ اس نے اپنی چلت پھرت کے کرتب دکھا کر اسی طرح دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ہر قوم جب اٹھی ہے تو وہ اسی طرح دنیا پر چھا گئی ہے۔ اسی طرح اس نے چار دانگ عالم میں اپنی شوکت و جبروت کے ڈنکے بجائے ہیں۔ اسی طرح دنیا نے مبہوت(۳) ہو کر گمان کیا ہے کہ ان کی طاقت لازوال ہے، مگر جب ان کی اجل پوری ہوگئی اور حقیقت میں لازوال طاقت رکھنے والے فرماںروا نے ان کے زوال کا فیصلہ صادر کر دیا‘ تو وہ ایسے گرے کہ اکثر تو صفحۂ ہستی سے ناپید ہوگئے، اوربعض کا نام و نشان اگر دنیا میں باقی رہا بھی تو وہ اس طرح کہ وہ اپنے محکوموں کے محکوم ہوئے‘ اپنے غلاموں کے غلام بنے‘ اپنے مغلوبوں کے مغلوب ہو کر رہے:
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ آل عمران3:137
تم سے پہلے بہت سے دَور گزر چکے ہیں، زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ اُن لوگوں کا کیا انجام ہوا جنھوں نے (اللہ کے احکام و ہدایات کو) جھٹلایا۔
کائنات کا نظام کچھ اس طور پر واقع ہوا ہے کہ اس میںکہیں سکون اور ٹھہرائو نہیں ہے۔ ایک پیہم حرکت‘({ FR 1040 }) تغیر(۲) اور گردش(۳) ہے جو کسی چیز کو ایک حالت پر قرار نہیں لینے دیتی۔ ہر کون کے ساتھ ایک فساد ہے‘ ہر بنائو کے ساتھ ایک بگاڑ ہے‘ ہر بہار کے ساتھ ایک خزاں ہے‘ ہر چڑھائو کے ساتھ ایک اتار ہے‘ اور اسی طرح اس کا عکس(۴) بھی ہے۔ ایک ماشہ بھر کا دانہ آج ہوا میں اڑا اڑا پھرتا ہے‘ کل وہی زمین میں استحکام حاصل کرکے ایک تناور درخت بن جاتا ہے‘ پرسوں وہی سوکھ کر پیوندِ خاک ہو جاتا ہے اور فطرت کی نمو بخشنے والی قوتیں اسے چھوڑ کر کسی دوسرے بیج کی پرورش میں لگ جاتی ہیں۔ یہ زندگی کے اتار چڑھائو ہیں۔ انسان جب ان میں سے کسی ایک حالت کو زیادہ طویل مدت تک جاری رہتے ہوئے دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ یہ حالت دائمی ہے۔ اگر اتار ہے تو سمجھتا ہے کہ اتار ہی رہے گا۔ اگر چڑھائو ہے تو خیال کرتا ہے کہ چڑھائو ہی رہے گا، لیکن یہاں فرق جو کچھ بھی ہے دیر اور سویر کا ہے۔ دوام(۵) کسی حالت کو بھی نہیں ہے:
وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ۝۰ۚ آل عمران 140:3
یہ تو زمانے کے نشیب و فراز(۶) ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔
دنیا کے حالات ایک طرح کی دَوری حرکت(۷) میں گردش کر رہے ہیں۔ پیدائش اور موت‘ جوانی اور بڑھاپا‘ قوت اور ضُعف‘ بہار اور خزاں‘ شگفتگی اور پژمردگی‘ سب اسی گردش کے مختلف پہلو ہیں۔ اس گردش میں باری باری سے ہر چیز پر ایک دور اقبال کا آتا ہے جس میں وہ بڑھتی ہے‘ پھیلتی ہے‘ قوت اور زور دکھاتی ہے، حسن اور بہار کی نمائش کرتی ہے حتیٰ کہ اپنی ترقی کی انتہائی حد کو پہنچ جاتی ہے۔ پھر ایک دوسرا دور آتا ہے جس میں وہ گھٹتی ہے‘ مرجھاتی ہے‘ ضعف اور ناتوانی میں مبتلا ہوتی ہے‘ اور آخر کار وہی قوتیں اس کا خاتمہ کر دیتی ہیں جنھوں نے اس کی ابتدا کی تھی۔
یہ اپنی مخلوقات میں اللہ تعالیٰ کی سنت ہے‘ اور دنیا کی سب چیزوں کے مانند یہی سنت انسان پر بھی جاری ہے‘ خواہ اس کو فرد کی حیثیت سے لیاجائے یا قوم کی حیثیت سے‘ ذلت اور عزت‘ عُسر({ FR 1043 }) اور یُسر‘(۲) تنزل(۳) اور ترقی‘ اور ایسی ہی دوسری تمام کیفیات اسی دَوری حرکت کے ساتھ مختلف افراد اور مختلف قوموں میں تقسیم ہوتی رہتی ہیں۔ باری باری سے سب پر یہ دور گزرتے ہیں۔ ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اس تقسیم میں کلیتاً محروم رکھا گیا ہو‘ یا جس پر کسی ایک کیفیت کو دوام بخشا گیا ہو۔ عام اس سے کہ وہ اقبال(۴) کی کیفیت ہو یا ادبار(۵) کی:
سُـنَّۃَ اللہِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ۝۰ۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًاo الاحزاب 62:33
یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں چلی آرہی ہے اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پائو گے۔
روئے زمین کے چپے چپے پر ہم کو ان قوموں کے آثار ملتے ہیں جو ہم سے پہلے ہو گزری ہیں۔ وہ اپنے تمدن و تہذیب‘ اپنی صنعت و کاریگری‘ اپنی ہنر مندی و چابک دستی کے ایسے نشانات دنیا میں چھوڑ گئی ہیں جن کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج کل کی ترقی یافتہ اور غالب قوموں سے وہ کچھ کم نہ تھیں بلکہ اپنے ہم عصروں پر ان کا غلبہ کچھ ان سے زیادہ تھا:
کَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْھُمْ قُوَّۃً وَّ اَثَارُوا الْاَرْضَ وَ عَمَرُوْھَآ اَکْثَرَ مِمَّا عَمَرُوْھَا الروم30:9
وہ ان سے زیادہ طاقت رکھتے تھے، انھوں نے زمین کو خوب ادھیڑا تھا اور اُسے اتنا آباد کیا تھا جتنا انھوں نے نہیں کیا ہے۔
مگر پھر ان کا حشر کیا ہوا؟ اقبال(۶) سامنے دیکھ کر وہ دھوکا کھا گئے۔ نعمتوں کی بارش نے ان کو غرہ(۷) میں ڈال دیا۔ خوش حالی ان کے لیے فتنہ بن گئی۔ غلبے اور حکومت سے مغرور ہو کر وہ جبار و قہار بن بیٹھے۔ انھوں نے اپنے کرتوتوں سے اپنے نفس پر آپ ظلم کرنا شروع کر دیا:
وَ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَآ اُتْرِفُوْا فِیْہِ وَ کَانُوْا مُجْرِمِیْنَ ھود11:116
ظالم لوگ تو انھی مزوں کے پیچھے پڑے رہے جن کے سامان انھیں فراوانی کے ساتھ دیے گئے تھے اور وہ مجرم بن کر رہے۔
خدا نے ان کی سرکشی کے باوجود ان کو ڈھیل دی:
وَ کَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَمْلَیْتُ لَھَا وَ ھِیَ ظَالِمَۃ الحج22:48
کتنی ہی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں میں نے انھیں مہلت دی۔
اور یہ ڈھیل بھی کچھ معمولی ڈھیل نہ تھی۔ بعض قوموں کو صدیوں تک یوں ہی ڈھیل دی جاتی رہی:
وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَـنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَo الحج 47:22
تیرے رب کے ہاںکا ایک دن تمھارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہوا کرتا ہے۔
مگر ہر مہلت ان کے لیے ایک نیا فتنہ بن گئی۔ وہ سمجھے کہ خدا ان کی تدبیروں کے مقابلے میں عاجز آگیا ہے‘ اور اب دنیا پر خدا کی نہیں ان کی حکومت ہے۔ آخر کار قہر الٰہی بھڑک اٹھا۔ ان کی طرف سے نظر عنایت پھر گئی۔ اقبال کے بجائے ادبار کا دور آگیا۔ ان کی چالوں کے مقابلے میں خدا بھی ایک چال چلا، مگر خدا کی چال ایسی تھی کہ وہ اس کو سمجھ ہی نہ سکتے تھے، پھر اس کا توڑ کہاں سے کرتے؟
وَمَكَرُوْا مَكْرًا وَّمَكَرْنَا مَكْرًا وَّہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَo النمل 50:27
یہ چال تو وہ چلے اور پھر ایک چال ہم نے چلی جس کی انھیں خبر نہ تھی۔
خدا کی چال سامنے سے نہیں آتی‘ خود انسان کے اندرسے اس کے دماغ اور دل میں سرایت کرکے اپنا کام کرتی ہے‘ وہ انسان کی عقل‘ اس کے شعور‘ اس کی تمیز‘ اس کی فکر‘ اس کے حواس پر حملہ کرتی ہے‘ وہ اس کے سینے کی آنکھیں پھوڑ دیتی ہے۔ وہ اس کو آنکھوں کا اندھا نہیں بلکہ عقل کا اندھا بنا دیتی ہے:
فَاِنَّہَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِo الحج 46:22
حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔
اور جب اس کے دل کی آنکھیں پھوٹ جاتی ہیں تو ہر تدبیر جو اپنی بہتری کے لیے سوچتا ہے‘ وہ الٹی اس کے خلاف پڑتی ہے۔ ہر قدم جو وہ کامیابی کے مقصود کی طرف بڑھاتا ہے‘ وہ اس کو ہلاکت کے جہنم کی طرف لے جاتا ہے‘ اس کی ساری قوتیں خود اس کے خلاف بغاوت کر دیتی ہیں‘ اور اس کے اپنے ہاتھ اس کا گلا گھونٹ کر رکھ دیتے ہیں:
فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ مَکْرِہِمْ اَنَّا دَمَّرْنٰہُمْ وَقَوْمَہُمْ اَجْمَعِیْنَ النمل27:51
اب دیکھ لو کہ اُن کی چال کا انجام کیا ہوا، ہم نے تباہ کرکے رکھ دیا اُن کو اور اُن کی پوری قوم کو۔
اس اِقبال و اِدبار کا ایک مکمل نقشہ ہم کو آلِ فرعون اور بنی اسرائیل کے قصے میں ملتا ہے۔ اہل مصر جب ترقی کے انتہائی مدارج کو پہنچ گئے تو انھوں نے ظلم و سرکشی پر کمر باندھی۔ ان کے بادشاہ فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا‘ اور ایک کمزور قوم بنی اسرائیل کو جو حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں وہاں جاکر آباد ہوگئی تھی حد سے زیادہ جور و ستم({ FR 1044 }) کا تختۂ مشق بنایا۔ آخر کار اس کی اور اہل مصرکی سرکشی حد سے بڑھ گئی تو خدا نے ارادہ کیا کہ ان کو نیچا دکھائے اور اسی ضعیف قوم کو سربلند کرے جس کو وہ ہیچ سمجھتے تھے۔ چنانچہ اللہ کا وعدہ پورا ہوا۔ اُس ضعیف قوم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا کیے گئے۔ ان کو خود فرعون کے گھر میں خود اس کے ہاتھوں سے پرورش کرایا گیا اور انھیںاس خدمت پر مامور کیا گیا کہ اپنی قوم کو مصریوں کی غلامی سے نجات دلائیں۔ انھوں نے فرعون کو نرمی کی راہ سے سمجھایا مگر وہ باز نہ آیا۔ خدا کی طرف سے فرعون اور اس کی قوم کو مسلسل تنبیہیں کی گئیں، قحط پر قحط پڑے، طوفان پر طوفان آئے‘ خون برسا‘ ٹڈی دَل(۲) ان کے کھیتوں کو چاٹ گئے، جوئوں اور مینڈکوں نے ان کو خوب ستایا، مگر ان کے تکبر میں فرق نہ آیا:
فَاسْـتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَo الاعراف7:133
وہ سرکشی کیے چلے گئے، اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔
جب تمام حجتیں ایک ایک کرکے ختم ہو چکیں تو عذاب الٰہی کا فیصلہ نافذ ہوگیا۔ خدا کے حکم سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو لے کر مصر سے نکل گئے۔ فرعون اپنے لشکروں سمیت سمندر میں غرق کر دیا گیا اور مصر کی طاقت ایسی تباہ ہوئی کہ صدیوں تک نہ ابھر سکی:
فَاَخَذْنٰہُ وَ جُنُوْدَہٗ فَنَبَذْنٰھُمْ فِی الْیَمِّ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیْنَ
القصص28:40
آخر کار ہم نے اُسے اور اُس کے لشکروں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا۔ اب دیکھ لو کہ اُن ظالموں کا کیسا انجام ہوا۔
پھر بنی اسرائیل کی باری آئی۔ مصری قوم کو گِرانے کے بعد کائنات کے حقیقی فرماں روا نے اس قوم کو زمین کی حکومت بخشی جو دنیا میں ذلیل و خوار تھی:
وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَھَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا وَ تَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ بِمَا صَبَرُوْا
الاعراف7:137
اور اُن کی جگہ ہم نے اُن لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے، اُس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا۔ اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدۂ خیر پورا ہوا، کیونکہ انھوں نے صبر سے کام لیا تھا۔
اور اس کو دنیا کی تمام قوموں پر فضیلت عطا فرمائی:
وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ البقرہ2:47
اور میں نے تمھیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی۔
مگر یہ فضیلت اور وراثت ارضی حسن عمل کی شرط کے ساتھ مشروط تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے پہلے ہی کہلوا دیا گیا تھا کہ تم کو زمین کی خلافت دی تو ضرورجائے گی‘مگر اس بات پر بھی نظر رکھی جائے گی کہ تم کیسے عمل کرتے ہو:کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ الاعراف7:129، اور یہ وہ شرط ہے جو بنی اسرائیل کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ جس قوم کو بھی زمین کی حکومت دی جاتی ہے اس پر یہی شرط لگا دی جاتی ہے:
ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِہِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَo یونس 14:10
ان کے بعد ہم نے تم کو زمین میں اُن کی جگہ دی ہے تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔
پس جب بنی اسرائیل نے اپنے رب سے سرکشی کی‘ اس کے کلام میں تحریف({ FR 1045 }) کی‘ حق کو باطل سے بدل دیا‘ حرام خوری‘ جھوٹ‘ بے ایمانی اور عہد شکنی کا شیوہ اختیار کیا‘ زرپرست‘(۲) حریص‘ بزدل اور آرام طلب بن گئے‘ اپنے انبیا علیہم السلام کو قتل کیا، حق کی طرف بلانے والوں سے دشمنی کی‘ آئمۂ خیر سے منہ موڑا‘ آئمہ شر کی اطاعت اختیار کی تو رب العالمین کی نظر ان کی طرف سے پھر گئی۔ ان سے زمین کی وراثت چھین لی گئی۔ ان کو عراق‘ یونان اور روم کے جابر سلاطین سے پامال کرایا گیا۔ ان کو گھر سے بے گھر کر دیا گیا۔ ان کو ذلت و خواری کے ساتھ ملک ملک کی خاک چھنوائی گئی۔ انتظام ان سے چھین لیا گیا۔ دو ہزار برس سے وہ خدا کی لعنت میں ایسے گرفتار ہوئے ہیں کہ دنیا میں ان کو عزت کا ٹھکانا نہیں ملتا:(۳)
وَضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْكَنَۃُ۝۰ۤ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ۝۰ۭ البقرہ 61:2
ذلت و خواری اور پستی و بدحالی اُن پر مُسلّط ہو گئی اور اللہ کے غضب میں گھِر گئے۔
آج اسی سنت الٰہی کا اعادہ پھر ہماری نگاہوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ جس شامتِ(۴) اعمال میں پچھلی قومیں گرفتار ہوئی تھیں اسی شامت نے آج مغربی قوموں کو آن پکڑا ہے۔ جتنی تنبیہیں ممکن تھیں وہ سب ان کو دی جاچکی ہیں۔ جنگ عظیم کے مصائب‘ معاشی مشکلات‘ بے کاری کی کثرت‘ امراض خبیثہ کی شدت‘ نظام عائلی کی برہمی‘ یہ سب کھلی ہوئی روشن آیات ہیں جن سے وہ اگر آنکھیں رکھتے تو معلوم کرسکتے تھے کہ ظلم‘ سرکشی‘ نفس پرستی‘ اور حق فراموشی کے کیا نتائج ہوتے ہیں، مگر وہ ان آیات سے سبق نہیں لیتے۔ حق سے منہ موڑنے پر برابر اصرار کیے جارہے ہیں۔ ان کی نظر علتِ مرض تک نہیں پہنچتی۔ وہ صرف آثارِ مرض کو دیکھتے ہیں اور انھی کا علاج کرنے میں اپنی ساری تدابیر صرف کر رہے ہیں۔ اسی لیے جوں جوں دوا کی جاتی ہے مرض بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اب حالات کہہ رہے ہیں کہ تنبیہوں اور حجتوں کا دور ختم ہونے والا ہے اور آخری فیصلے کا وقت قریب ہے۔
قدرتِ الٰہی نے دو زبردست شیطان مغربی قوموں پر مسلط کر دیے ہیں جو ان کو ہلاکت اور تباہی کی طرف کھینچے لیے جارہے ہیں:
o ایک قطع نسل کا شیطان ہے o اور دوسرا قوم پرستی کا شیطان۔
پہلا شیطان ان کے افراد پر مسلط ہے اور دوسرا ان کی قوموں اور سلطنتوں پر۔ پہلے نے ان کے مردوں اور ان کی عورتوں کی عقلیں خراب کر دی ہیں۔ وہ خود ان کے اپنے ہاتھوں سے ان کی نسلوں کا استیصال({ FR 1047 }) کرا رہا ہے وہ انھیں منعِ حمل کی تدبیریں سجھاتا ہے۔ اسقاطِ حمل(۲) پر آمادہ کرتا ہے۔ عمل تعقیم (sterilization) کے فوائد بتاتا ہے جن سے وہ اپنی قوتِ تولید کا بیج ہی مار دیتے ہیں۔ انھیں اتنا شقی القلب بنا دیتا ہے کہ وہ بچوں کو آپ ہلاک کر دیتے ہیں۔ غرض یہ شیطان وہ ہے جو بتدریج ان سے خود کشی کرا رہا ہے۔
دوسرے شیطان نے ان کے بڑے بڑے سیاسی مدبروں اور جنگی سپہ سالاروں سے صحیح فکر اور صحیح تدبیر کی قوت سلب(۳) کرلی ہے۔ وہ ان میں خود غرضی‘ مسابقت‘ (۴)منافرت‘ عصبیت(۵) اور حرص و طمع کے جذبات پیدا کر رہا ہے۔ وہ ان کو مخاصم(۶) اور معاند(۷) گروہوں میں تقسیم کر رہا ہے۔ انھیں ایک دوسرے کی طاقت کا مزا چکھاتا ہے کہ یہ بھی عذابِ الٰہی کی ایک صورت ہے:
اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ الانعام6:65
یا تمھیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔
وہ ان کو ایک بڑی زبردست خود کشی کے لیے تیار کر رہا ہے‘ جو تدریجی نہیں بلکہ اچانک ہوگی۔ اس نے تمام دنیا میں بارود کے خزانے جمع کر دیے ہیں اور جگہ جگہ خطرے کے مرکز بنا رکھے ہیں۔ اب وہ صرف ایک وقت کا منتظر ہے۔ جونہی کہ اُس کا وقت آیا وہ کسی ایک خزانۂ بارود کو شتابا({ FR 1137 }) دکھا دے گا اور پھر آن کی آن میں وہ تباہی نازل ہوگی جس کے آگے تمام پچھلی قوموں کی تباہیاں ہیچ ہوجائیں گی۔
یہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اس میں کسی قسم کا مبالغہ نہیں ہے‘ بلکہ یورپ‘ امریکہ اور جاپان میں آئندہ جنگ کے لیے جس قسم کی تیاریاں کی جارہی ہیں ان کو دیکھ دیکھ کر خود ان کے اہلِ بصیرت لرز رہے ہیں‘ اور اس جنگ کے نتائج کا تصور کر کے ان کے حواس باختہ({ FR 1048 }) ہوئے جاتے ہیں۔ حال میں سرجل نیومان (sergel neuman) نے جو پہلے امریکہ کے ملٹری اسٹاف کا ایک رکن تھا‘ آئندہ جنگ پر ایک مضمون لکھا ہے۔ اس میں وہ کہتا ہے کہ آئندہ جنگ محض فوجوں کی لڑائی نہیں ہوگی بلکہ اسے ایک قتل عام کہنا چاہیے جس میں عورتوں اور بچوں تک کو نہ چھوڑا جائے گا۔ سائنس دانوں کی عقل نے جنگ کاکام سپاہیوں سے چھین کر کیمیاوی مرکبات اور بے روح آلات کے سپرد کر دیا ہے جو مقاتل (combatants) اور غیر مقاتل (non-combatants) میں تمیز کرنے سے قاصر(۳) ہیں۔ اب محارب(۴) طاقتوں کی لڑائی میدانوں اور قلعوں میں نہیں بلکہ شہروں اور بستیوں میں ہوگی کیونکہ جدید نظریے کے مطابق غنیم کی اصلی قوت فوجوں میں نہیں بلکہ اس کی آبادیوں‘ اس کی تجارتی منڈیوں اور صنعتی کارگاہوں میں ہے۔ اب ہوائی جہازوں سے طرح طرح کے بم برسائے جائیں گے جن سے آتش فشاں مادے‘ زہریلی ہوائیں‘ امراض کے جراثیم نکل کر وقت واحد میں ہزاروں لاکھوں کی آبادی کو نیست و نابود کردیں گے۔ ان میں سے ایک قسم کے بم (lewisite bombs) ایسے ہیں جن کا ایک گولہ لندن کی بڑی سے بڑی عمارت کو پارہ پارہ کرسکتا ہے۔({ FR 1049 }) ایک زہریلی ہوا (green cross gass)کے نام سے موسوم ہے جس کی خاصیت یہ ہے کہ جو اس کو سونگھے گا وہ ایسا محسوس کرے گا کہ گویا پانی میں ڈوب گیا ہے۔ ایک دوسری قسم کی زہریلی ہوا (yellow cross gass) میں سانپ کے زہر کی سی خاصیت ہے اور اس کے سونگھنے سے بالکل وہی اثرات ہوتے ہیں جو سانپ کے کاٹے سے ہوتے ہیں۔ اسی قسم کی بارہ زہریلی ہوائیں اور بھی ہیں جو تقریباً غیر مرئی(۲) ہیں۔ ان کے اثرات ابتداء ً بالکل محسوس نہیں ہوتے اور جب محسوس ہوتے ہیں تو تدبیر علاج کے امکانات باقی نہیں رہتے۔ ان میں سے ایک خاص ہوا ایسی ہے جو بہت بلندی پر پہنچ کر پھیل جاتی ہے اور جو ہوائی جہاز اس کے حلقے سے گزرتا ہے اس کا چلانے والا یکایک اندھا ہو جاتا ہے۔ اندازہ کیا گیا ہے بعض زہریلی ہوائیں اگر ایک ٹن کی مقدار میں شہر پیرس پر چھوڑ دی جائیں تو ایک گھنٹے کے اندر اُسے کلیتاً تباہ کیاجاسکتا ہے اور یہ ایسا کام ہے جس کو انجام دینے کے لیے صرف سو ہوائی جہاز(۳) کافی ہیں۔
حال میں ایک برقی آتش فشاں گولہ ایجادکیا گیا ہے جس کا وزن صرف ایک کلوگرام ہوتا ہے مگر اتنے سے گولے میں یہ قوت ہے کہ جب کسی چیز سے اس کا تصادم ہوتا ہے تو دفعتاً تین ہزار درجہ فارن ہیٹ کی حرارت پیدا ہوتی ہے اور اس سے ایسی آگ بھڑک اٹھتی ہے جو کسی چیز سے بجھائی نہیں جاسکتی۔ پانی اس کے حق میں پٹرول ثابت ہوا ہے اور ابھی تک سائنس اس کے بجھانے کا کوئی طریقہ دریافت نہیں کرسکا ہے۔ خیال یہ ہے کہ ان کو شہروں کے بڑے بڑے بازاروں پر پھینکا جائے گا تاکہ اِس سرے سے اُس سرے تک آگ لگ جائے۔ پھر جب لوگ سراسیمہ(۴) ہو کر بھاگنے لگیں گے تو ہوائی جہازوں سے زہریلی ہوائوں کے بم برسائے جائیں جن سے تباہی کی تکمیل ہو جائے گی۔
ان ایجادات کو دیکھ کر ماہرینِ فن نے اندازہ لگایا ہے کہ چند ہوائی جہازوں سے دنیا کے بڑے سے بڑے اور محفوظ دارالسلطنت کو دو گھنٹوں میں پیوندِ خاک کیا جاسکتا ہے۔ لاکھوں کی آبادی کو اس طرح مسموم({ FR 1051 }) کیا جاسکتا ہے کہ رات کو اچھے خاصے سوئیں اور صبح کو ایک بھی زندہ نہ اٹھے۔ زہریلے مادوں سے ایک پورے ملک میں پانی کے ذخائر کو مسموم‘ مواشی(۲) اور حیوانات کو ہلاک‘ کھیتوں اور باغوں کو غارت کیا جاسکتا ہے۔ ان تباہ کن حملوں کی مدافعت(۳) کا کوئی موثر ذریعہ ابھی ایجادنہیں ہوا ہے بجز اس کے کہ دونوں محارب(۴) فریق ایک دوسرے پر اسی طرح حملے کریں اور دونوں ہلاک ہو جائیں۔
یہ آئندہ جنگ کی تیاریوں کا ایک مختصر بیان ہے۔ اگر آپ تفصیلات معلوم کرنا چاہتے ہیں تو کتاب :What would be The Character of A New Warملاحظہ کیجیے جو جنیوا کی انٹر پارلیمنٹری یونین نے باقاعدہ تحقیقات کے بعد شائع کی ہے۔ اس کو پڑھ کر آپ اندازہ کرلیں گے کہ مغربی تہذیب نے کس طرح اپنی ہلاکت کا سامان اپنے ہاتھوں فراہم کیا ہے۔اب اس کی عمر کا امتداد(۵) صرف اعلان جنگ کی تاریخ تک ہے (۶)جس روز دنیا کی دو بڑی سلطنتوں کے درمیان جنگ چھڑی اسی روز سمجھ لیجیے کہ مغربی تہذیب کی تباہی کے لیے خدا کا فیصلہ صادر(۷) ہو چکا، کیونکہ دو بڑی سلطنتوں کے میدان میں اترنے کے بعد کوئی چیز جنگ کو عالم گیر ہونے سے نہیں بچا سکتی، اور جب جنگ عالم گیر ہوگی تو تباہی بھی عالم گیر ہوگی:
ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ الروم30:41
لوگوں کے اپنے ہاتھوں کیے ہوئے کرتوتوں سے خشکی اور تری میں فساد رونما ہوگیا ہے تاکہ انھیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے۔ شاید وہ اب بھی رجوع کریں۔
بہرحال اب قریب ہے کہ وراثتِ ارضی({ FR 1052 }) کا نیا بندوبست ہو، اور ظالمین و مسرفین(۲) کو گرا کر کسی دوسری قوم کو (جو غالبًا مستضعفین(۳) ہی میں سے ہوگی) زمین کی خلافت پر سرفراز کیا جائے۔ دیکھنا ہے کہ اس مرتبہ حضرتِ حق کی نظرِ انتخاب کس پر پڑتی ہے۔
ہمارے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ آئندہ کون سی قوم اٹھائی جائے گی۔ یہ اللہ کی دین ہے جس سے چاہتا ہے چھینتا ہے اور جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے:
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۝۰ۡ
آل عمران 26:3
مگر اس معاملے میں بھی اس کا ایک قانون ہے جسے اس نے اپنی کتاب عزیز میں بیان فرما دیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ایک قوم کو جب وہ اس کے برے اعمال کی وجہ سے گراتا ہے تو اس کی جگہ کسی ایسی قوم کو اٹھاتا ہے جو اس مغضوب(۴) قوم کی طرح بدکار اور اس کے مانند سرکش نہ ہو:
وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لاَ یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ محمد47:38
اگر تم نے روگردانی کی تو تمھارے بجائے کسی اور قوم کو اٹھائے گا پھر وہ لوگ تمھاری طرح نہ ہوں گے۔
اس لیے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج کل جو کمزور اور مغلوب النفس قومیں مغربی تہذیب کی نقالی کر رہی ہیں اور فرنگی اقوام کے محاسن(۵) کو (جو تھوڑے بہت ان میں باقی رہ گئے ہیں) اختیار کرنے کے بجائے ان کے معائب(۶) کو اختیار کر رہی ہیں (جو ان کے مغضوب ہونے کی علت ہیں) ان کے لیے آئندہ انقلاب میں کامیابی و سرفرازی کا کوئی موقع نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن، جمادی الاخری ۱۳۵۲ء۔ اگست ۱۹۳۳ء)



۶ ۔لارڈ لو تھین کا خطبہ

جنوری(۱۹۳۸ئ) کے آخری ہفتے میں علی گڑھ یونی ورسٹی کانووکیشن (جلسہ تقسیم اسناد) کے موقع پر لارڈ لوتھین نے جو خطبہ دیا ہے‘ وہ درحقیقت اس قابل ہے کہ ہندستان کے تعلیم یافتہ (جدید اور قدیم دونوں) اس کو گہری نظر سے دیکھیں اور اس سے سبق حاصل کریں۔ اس خطبے میں ایک ایسا آدمی ہمارے سامنے اپنے دل و دماغ کے پردے کھول رہا ہے جس نے علومِ جدیدہ اور ان کی پیدا کردہ تہذیب کو دور سے نہیں دیکھا ہے بلکہ خود اس تہذیب کی آغوش میں جنم لیا ہے اور اپنی زندگی کے ۵۶ سال اسی سمندر کی غواصی میں گزارے ہیں۔ وہ پیدائشی اور خاندانی یورپین ہے‘ آکسفورڈ کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ (round table) جیسے مشہور رسالے کا ایڈیٹر رہ چکا ہے اور قریب قریب ۲۱ سال سے سلطنتِ برطانیہ کے مہمات امور({ FR 1053 }) میں ذمہ دارانہ حصہ لیتا ہے۔ وہ کوئی بیرونی ناظر نہیں ہے بلکہ مغربی تہذیب کے اپنے گھر کا آدمی ہے اور وہ ہم سے بیان کرتا ہے کہ اس کے گھر میں اصل خرابیاں کیا ہیں‘ کس وجہ سے ہیں اور اس کے گھر کے لوگ اس وقت درحقیقت کس چیز کے پیاسے ہو رہے ہیں۔
ایک حیثیت سے یہ خطبہ ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے سبق آموز ہے کیونکہ اس سے ان کو معلوم ہوگا کہ مغربی علوم اور ان کی پیدا کردہ تہذیب نری تریاق ہی تریاق نہیں ہے بلکہ اس میں بہت کچھ زہر بھی ملا ہوا ہے۔ جن لوگوں نے اس معجون کو بنایا اور صدیوں استعمال کیا وہ آج خود آپ کو آگاہ کر رہے ہیں کہ خبردار اس معجون کی پوری خوراک نہ لینا۔ یہ ہمیں تباہی کے کنارے پہنچا چکی ہے اور تمھیں بھی تباہ کرکے رہے گی۔ ہم خود ایک تریاق خالص کے محتاج ہیں۔ اگرچہ ہمیں یقین کے ساتھ معلوم نہیں‘ مگر گمان ضرور ہوتا ہے کہ وہ تریاق تمھارے پاس موجود ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اپنے تریاق کو خاک میں ملا کر ہماری زہر آلود معجون کے مزے پر لگ جائو۔
دوسری حیثیت سے اس خطبے میں ہمارے علما اور مذہبی طبقوں کے لیے بھی کافی سامانِ بصیرت ہے۔ اس سے وہ اندازہ کرسکیں گے کہ اس وقت جس دنیا میں وہ زندگی بسر کر رہے ہیں اس کے سامنے اسلامی تعلیمات کے کن پہلوئوں کو روشنی میں لانے کی ضرورت ہے۔ یہ دنیا کئی صدیوں سے مادہ پرستی کی تہذیب کا تجربہ کر رہی ہے اور اب اس سے تھک چکی ہے۔ صدیوں پہلے روحِ تحقیق اور آزادیِ فکر کا جو تریاق ہم نے اہلِ فرنگ کو بہم پہنچایا تھا‘ اس کو خود انھوں نے محض نادانستگی میں لامذہبی اور مادیت کے زہر سے آلودہ کر دیا اور دونوں کی آمیزش سے ایک نئی تہذیب کی معجون تیار کی۔ اس معجون کا تریاق اپنے زور سے انھیں ترقی کے آسمان پر اٹھا لے گیا‘ مگر اس کا زہر بھی برابر اپنا کام کرتا رہا‘ یہاں تک کہ اب اس تریاق پر زہر کا اثر پوری طرح غالب ہو چکا ہے۔ اس کے تلخ نتائج کو خوب اچھی طرح بھگت لینے کے بعد اب وہ پھر تریاق کی مزید خوراک کے لیے چاروں طرف نظر دوڑا رہے ہیں۔ ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ ان کی معجون میں زہریلے اجزا کون کون سے ہیں۔ ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ ان اجزا کے ملنے سے ان کی زندگی پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ وہ اب یہ بھی صاف طور پر محسوس کر رہے ہیں کہ ان اثرات کو دور کرنے کے لیے کس قسم کا تریاق انھیں درکار ہے، مگر صرف یہ بات ان کو معلوم نہیں کہ جس تریاق کے وہ طالب ہیں‘ وہ اسلام کے سوا دنیا میں اور کسی کے پاس نہیں ہے اور یہ آخری خوراک بھی ان کو اسی دواخانے سے ملے گی جہاں سے پہلی خوراک ملی تھی۔
اس مرحلے پر پہنچ جانے کے بعد بھی اگر وہ تریاق کے لیے بھٹکتے رہیں اور اسے نہ پا کر زہر سے ساری دنیا کو مسموم کیے چلے جائیں‘ تو اس گناہِ عظیم میں ان کے ساتھ علمائے اسلام بھی برابر کے شریک ہوں گے۔ علما کے لیے اب یہ وقت نہیں ہے کہ وہ الٰہیات اور مابعد الطبیعیات({ FR 1141 }) اور فقہی جزئیات کی بحثوں میں لگے رہیں۔ رسول اللہﷺ کو علم غیب تھا یا نہ تھا؟ خدا جھوٹ بول سکتا ہے یا نہیں؟ رسولﷺ کا نظیر ممکن ہے یا نہیں؟ ایصالِ ثواب اور زیارتِ قبور کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آمین بالجہر و رفع یدین کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ مسجد میں منبر و محراب کے درمیان کتنا فاصلہ رکھا جائے؟ یہ اور ایسے ہی بیسیوں مسائل جن کو طے کرنے میں آج ہمارے پیشوایانِ دین اپنی ساری قوتیں ضائع کر رہے ہیں‘ دنیا کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور ان کے طے ہو جانے سے ہدایت و ضلالت کی اس عظیم الشان لڑائی کا تصفیہ نہیں ہوسکتا جو اس وقت تمام عالم میں چھڑی ہوئی ہے۔ آج اصلی ضرورت ان مسائل کے سمجھنے کی ہے جو ناخدا شناسی اور لا دینی کی بنیاد پر علم اور تمدن کے صدیوں تک نشوونما پاتے رہنے سے پیدا ہوگئے ہیں۔ ان کی پوری پوری تشخیص(۲) کر کے اصول اسلام کے مطابق ان کا قابل عمل حل پیش کرنا وقت کا اصلی کام ہے۔ اگر علمائے اسلام نے اپنے آپ کو اس کام کا اہل نہ بنایا‘ اور اسے انجام دینے کی کوشش نہ کی تو یورپ اور امریکہ کا جو حشر ہوگا، سو ہوگا، خود دنیائے اسلام بھی تباہ ہو جائے گی، کیونکہ وہی مسائل جو مغربی ممالک کو درپیش ہیں تمام مسلم ممالک اور ہندستان میں پوری شدت کے ساتھ پیدا ہو چکے ہیں اور ان کاکوئی صحیح حل بہم نہ پہنچنے کی وجہ سے مسلم اور غیر مسلم سب کے سب ان لوگوں کے الٹے سیدھے نسخے استعمال کرتے چلے جارہے ہیں جو خود بیمار ہیں۔ اب یہ معاملہ صرف یورپ اور امریکہ کا نہیں بلکہ ہمارے اپنے گھر اور ہماری آئندہ نسلوں کا ہے۔
ان وجوہ سے ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے جدید تعلیم یافتہ حضرات اور علمادونوں لارڈ لوتھین کے اس خطبے کو غور سے ملاحظہ کریں۔ بیچ میں حسبِ ضرورت ہم مطالب کی تشریح کرتے جائیں گے تاکہ مغزِ کلام تک پہنچنے میں مزید سہولت ہو۔
لارڈ لوتھین اپنی بحث کی ابتدا اِس طرح کرتے ہیں:
ایک اور امر تنقیح(۳) طلب ہے جس کی طرف آج میں آپ کی توجہ منعطف(۴) کرانا چاہتا ہوں۔ کیا ہندستان دور جدید کی سائنٹیفک اور عقلی تعلیم کے اس شدید نقصان سے بچ سکتا ہے جس میں یورپ اور امریکہ آج کل مبتلا ہیں؟
مغرب میں حکمتِ جدید سے دو بڑے نتیجے رونما ہوئے ہیں۔ ایک طرف تو اس نے فطرت اور اس کی طاقتوں پر انسان کی دست رس کو بہت زیادہ وسیع کر دیا۔ دوسری طرف اس نے یونی ورسٹیوں کے تعلیم پائے ہوئے لوگوں میں اور عموماً ساری دنیا میں متوارث مذہب({ FR 1140 }) کے اقتدار کو کمزور کر دیا۔ دنیائے جدید کی کم از کم آدھی خرابیاں انھی دو اسباب سے پیدا ہوئی ہیں۔ تہذیب یافتہ آدمی ان طاقتوں کے نشے سے چور ہوگیا ہے جو سائنس نے اس کو فراہم کر دی ہیں، مگر اس نے علم اور تمدن کی ترقی کے ساتھ اخلاص میں مساوی ترقی نہیں کی جو اس بات کی ضامن ہوسکتی تھی کہ یہ طاقتیں انسان کی تباہی کے بجائے اس کی بھلائی کے لیے استعمال ہوں۔
اس تمہید میں فاضل خطیب(۲) نے دراصل انسانی تہذیب و تمدن کے بنیادی مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سائنس مجرد سائنس ہونے کی حیثیت سے اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ تحقیق‘ اجتہاد اور تلاش و تجسس کی ایک لگن ہے جس کی بدولت انسان کو عالمِ طبیعی کی چھپی ہوئی قوتوں کا حال معلوم ہوتا ہے اور وہ ان سے کام لینے کے ذرائع فراہم کرتا ہے۔ اس علم کی ترقی سے جو نئی طاقتیں انسان کوحاصل ہوتی ہیں‘ ان کو جب وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں استعمال کرنے لگتا ہے تو یہ تمدن کی ترقی کہلاتی ہے، لیکن یہ دونوں چیزیں بجائے خود انسان کی فلاح کی ضامن نہیں ہیں۔ یہ جس طرح فلاح کی موجب ہوسکتی ہیں اسی طرح تباہی کی موجب بھی ہوسکتی ہیں۔ ہاتھ سے کام کرنے کے بجائے اگر انسان مشین سے کام کرنے لگا‘ جانوروں پر سفر کرنے کے بجائے اگر ریل اور موٹر اور بحری اور ہوائی جہازوں پر دوڑنے لگا‘ ڈاک چوکیوں کے بجائے اگر تار برقی اور لاسلکی سے خبررسانی ہونے لگی تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان پہلے سے زیادہ خوش حال ہوگیا۔ ان چیزوں سے جس قدر اس کی خوش حالی بڑھ سکتی ہے اسی قدر اس کی مصیبت اور تباہی بھی بڑھ سکتی ہے‘ کیونکہ جس دورِ تمدن میں انسان کے پاس صرف تیر و شمشیر کے آلات تھے‘ اس کے مقابلے میں وہ تمدن بدرجہا زیادہ مہلک ہوسکتا ہے جس میں اس کے پاس مشین گنیں اور زہریلی گیسیں‘ ہوائی جہاز اور تحت البحر({ FR 1138 }) کشتیاں ہوں۔ ترقیِ علم و تمدن کے موجب فلاح، یا موجب ہلاکت ہونے کا تمام تر انحصار اس تہذیب پر ہے جس کے زیر اثر علوم و فنون اور تمدن و حضارت(۲) کا ارتقا ہوتا ہے۔ ارتقا کا راستہ‘ انسانی مساعی کا مقصد اور حاصل شدہ طاقتوں کا مصرف متعین کرنے والی چیز دراصل تہذیب ہے۔ یہی انسان اور انسان کے باہمی تعلق کی نوعیت طے کرتی ہے‘ یہی اجتماعی زندگی کے اصول اور شخصی‘ قومی اور بین الاقوامی معاملات کے اخلاقی قوانین بناتی ہے اور فی الجملہ یہی چیز انسان کے ذہن کو اس امر کا فیصلہ کرنے کے لیے تیار کرتی ہے کہ علم کی ترقی سے جو طاقتیں اس کو حاصل ہوں انھیں اپنے تمدن میں کس صورت میں داخل کرے‘ کس مقصد کے لیے اور کس طرح ان کو استعمال کرے‘ مختلف استعمالات میں سے کن کو ترک اور کن کو اختیار کرے‘ عالم طبیعی (physical world) کے مشاہدات اور قوانین ِ طبیعی کے معلومات بجائے خود کسی اعلیٰ تہذیب کی بنیاد نہیں بن سکتے‘ کیونکہ ان کی رو سے تو انسان کی حیثیت ایک ذی عقل حیوان سے زیادہ نہیں ہے۔ ان کی مدد سے صرف وہی نظریہ حیات قائم کیا جاسکتا ہے جو مادہ پرستوں کا نظریہ ہے۔ یعنی یہ کہ انسان کے لیے زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے۔اس زندگی میں اپنی حیوانی خواہشات کو زیادہ سے زیادہ کمال کے ساتھ پورا کرنا اس کا منتہائے مقصود ہے اور کائنات میں جو تنازع للبقا(۳) اور انتخاب طبیعی(۴) اور بقائے اصلح(۵) کا قانون جاری ہے‘ ا س سے ہم آہنگ ہو جانا اور گرد و پیش کی تمام مخلوقات کو کچل کر خود سب پر غالب ہو جانا ہی طاقت کا اصلی مصرف ہے۔ یورپ نے جو تہذیب اختیار کی وہ اسی نظریۂ حیات پر مبنی تھی اور اسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ علم اور تمدن کی ترقی نے انسان کو جس قدر طاقتیں بہم پہنچائیں وہ سب انسانیت کی فلاح کے بجائے اس کی تباہی کے راستے میں صَرف ہونے لگیں۔ اب خود یورپ والوں کو محسوس ہونے لگا ہے کہ ان کو حیوانی تہذیب سے بلند تر ایک انسانی تہذیب کی ضرورت ہے اور اس تہذیب کی اساس مذہب کے سوا اور کوئی چیز نہیں بن سکتی۔
آگے چل کر لارڈ لوتھین فرماتے ہیں:
سائنٹی فِک اسپرٹ (روحِ تحقیق) نے یہ تو ضرور کیا کہ رفتہ رفتہ پُرانے توہمات کو دور کر دیا۔ علم کے دائرے کو پھیلا دیا اور اس طرح مردوں اور عورتوں کو ان بہت سی قیود سے آزاد کر دیا جن میں وہ پہلے جکڑے تھے، مگر اس کے ساتھ اس نے یہ بھی کیا کہ انسان کو روحانی اور مذہبی صداقت کا شدت کے ساتھ حاجت مند بنا کر چھوڑ دیا اور اس صداقت تک پہنچنے کاکوئی راستہ فراہم نہ کیا۔ اکثر اہلِ مغرب کا یہ حال ہے کہ وہ بچوں کی طرح تیز رفتاری اور عجوبہ گری({ FR 1059 }) اور حواس کی لذتوں کے شوق میں منہمک(۲) ہیں‘ سادہ زندگی بسر کرنے کی صلاحیت اُن سے سلب ہوگئی ہے اور عملاً ان کا کوئی ربط اس لامحدود ازلی و ابدی حقیقت سے باقی نہیں رہا جسے مذہب پیش کرتا ہے۔
مذہب جو انسان کا ناگزیر رہنما‘ اور انسانی زندگی کو اخلاقی مقصد‘ شرف اور معنویت حاصل ہونے کا واحد ذریعہ ہے‘ اس کے اقتدار میں زوال آجانے کا نتیجہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ مغربی دنیا اُن سیاسی مسلکوں کی گرویدہ ہوگئی ہے جو نسلی یا طبقاتی بنیادوں پر قائم ہیںاور سائنس کی اس صورت پر ایمان لے آئی ہے جو محض مادی ترقی کو منتہائے مقصود قرار دیتی اور زندگی کو روز بروز پیچیدہ اور گراں بار بنائے چلی جاتی ہے۔ پھر یہ بھی اس کا نتیجہ ہے کہ آج یورپ کے لیے اپنی روح اور اپنی زندگی میں اس اتحاد کا پیدا کرنادشوار ہو رہا ہے جو اس کو موجودہ دور کی سب سے بڑی مصیبت نیشنلزم سے نجات دلائے۔
اس کے بعد لارڈ لوتھین نے ہندستان کے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا ہے:
کیا ہندستان کے دو بڑے مذہب: ہندو ازم اور اسلام‘ جدید دور کی تنقیدی اور تحقیقی روح کا مقابلہ مغرب کی مذہبی عصبیت کی بہ نسبت زیادہ کامیابی کے ساتھ کرسکیں گے؟ یہ اہم ترین سوال ہے اور اگر ہندستان کو ان مصائب(۳) سے بچانا ہے جو مغرب پر نازل ہو چکے ہیں تو اس ملک کے علمی اور مذہبی لیڈروں کو اسی سوال پر توجہ مرکوز کر دینی چاہیے۔ اس میں تو شک نہیں کہ روحِ تحقیق رفتہ رفتہ توہّم اور جاہلیت کے ان عناصر کو فنا کر دے گی جو اَب تک ہندستان کے عوام میں پھیلے ہوئے ہیں اور یہ بہت اچھا ہوگا‘ مگر کیا یہ چیز دونوں مذہبوں کے اصولِ اخلاق اور روحانیت کو بھی ان لوگوں کے دل و دماغ سے نکال دے گی جو آگے چل کر ہندستان کی سیاسی‘ تمدنی اور صنعتی زندگی کے لیڈر بننے والے ہیں؟ میں ہندو ازم اور اسلام کی اندرونی زندگی سے واقفیت کا مدعی نہیں ہوں‘ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں اپنی اپنی جگہ ایسے عناصر رکھتے ہیں جو ان میں سے ہر ایک کو یونی ورسٹیوں میں تعلیم پانے والے مردوں اور عورتوں پر قابو رکھنے کے قابل بنا سکیں گے۔ عیسائیت تو اپنی بعض ایسی غلط اعتقادی بندشوں کی وجہ سے اس میں ناکام ہو چکی ہے جنھوں نے اس مذہب کے جلیل القدر بانی کی پیش کردہ صداقتوں کو چھپا لیا۔
جیسا کہ لارڈ لوتھین نے خود اعتراف کیا ہے‘ حقیقتاً ان کو ہندو ازم اور اسلام کے متعلق کچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ انھوں نے محض دور سے دیکھ کر چند چیزیں ہندو مذہب میں اور چند اسلام میں ایسی پائی ہیںجو اُن کے نزدیک جدید تنقید و تحقیق کی روح کے مقابلے میں تعلیم یافتہ لوگوں کو اخلاق و روحانیت کے بلند تر اصولوں پر قائم رکھنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں، لیکن جو لوگ ان دونوں مذاہب‘ بلکہ ہندستان کے تمام مذاہب کا اندرونی علم رکھتے ہیں ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ روحِ تنقید و تحقیق کے مقابلے میں اگر کوئی مذہب ٹھہر سکتا ہے‘ بلکہ صحیح تر الفاظ میں‘ اگر کوئی مذہب اس روح کے ساتھ اپنے پیروئوں کو لے کر آگے بڑھ سکتا ہے اور ترقی و روشنی کے دور میں پوری نوع انسانی کا مذہب بن سکتا ہے‘ تو وہ اسلام کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔
مسیحیت کیوں ناکام ہوئی۔ صرف اس وجہ سے کہ وہ کوئی اجتماعی (social) مسلک نہیں ہے بلکہ اجتماعیت کی عین نفی ہے۔ اس کو صرف فرد کی نجات سے بحث ہے اور اس کی نجات کا راستہ بھی اس نے یہ تجویز کیا ہے کہ دنیا سے منہ موڑ کر اپنا رُخ آسمانی بادشاہت کی طرف پھیر لے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کی قوموں نے ترقی کے راستے پر قدم بڑھایا تو مسیحیت ان کی مددگار ہونے کے بجائے مزاحم ہوئی اور انھیں اس کی بندشیں توڑ کر آگے بڑھنا پڑا۔ اسی سے ملتا جلتا حال ہندو ازم کا بھی ہے۔ اس کے پاس بھی کوئی ترقی پرور فلسفہ اور کوئی معقول قانون اخلاق‘ اور کوئی وسعت پذیر نظام اجتماعی نہیں ہے۔ سب سے بڑی طاقت جس نے اب تک ہندوئوں کو ایک سوشل سسٹم میں باندھے رکھا ہے اور دوسری تہذیبوں کا اثر قبول کرنے سے روکا ہے‘ وہ ان کا ورن آشرم (caste system) ہے، مگر موجودہ دور کی روحِ تنقید و تحقیق کے سامنے اس بندھن کا ٹوٹنا یقینی ہے اور یہ ٹوٹ کر رہے گی۔ اس کے بعد کوئی چیز ہندو سوسائٹی کو ٹوٹنے سے نہ بچا سکے گی اور اس کے مقفل({ FR 1060 }) دروازے بیرونی اثرات کے لیے چوپٹ کھل جائیں گے۔ پھر ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہندوئوں کے قدیم قوانین معاشرت و تمدن اور ان کے پرانے بت پرستانہ توہمات اور ان کے غیر عقلی اور غیر علمی فلسفیانہ قیاسات‘ دور جدید کی علمی ترقی اور اجتماعی بیداری کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے۔ اب ہندو روز بروز ایک ایسے دوراہے کے قریب پہنچتے جارہے ہیں جہاں ان کی اور بڑی حد تک تمام ہندستان کی قسمت کا فیصلہ ہوگا۔ یا تو وہ اسلام کے خلاف اسی تعصب میں گرفتار رہیں گے جس میں یورپ کی نشاۃ جدیدہ (rennaissance) کے موقع پر مسیحی اہل یورپ گرفتار تھے اور اسی طرح اسلام سے منحرف ہو کر مادہ پرستانہ تہذیب کا راستہ اختیار کریں گے جس طرح اہل یورپ نے اختیار کیا، یا پھر فوج در فوج اسلام میں داخل ہوتے چلے جائیں گے۔
اس فیصلے کا انحصار بڑی حد تک مسلمانوں اور خصوصاً ان کے قدیم و جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے طرزِ عمل پر ہے۔ اسلام اپنے نام سے تو کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتا۔ اس کے اصول اگر محض کتاب میں لکھے رہیں تو ان سے بھی کسی معجزے کا صدور ممکن نہیں۔ جس انتشار اور بے عملی کی حالت میں مسلمان اس وقت مبتلا ہیں‘ جو جمود ان کے علما پر طاری ہے اور جس زنانہ انفعال(۲) و تاثر(۳) کااظہار ان کی نئی تعلیم یافتہ نسلوں سے ہو رہا ہے‘ اس سے ہندستان کی روح کو فتح کرنا تو درکنار‘ یہ بھی توقع نہیں کی جا سکتی کہ اسلام کے نام لیوا خوداپنی جگہ ہی پر قائم رہ جائیں گے۔ انقلاب کے تیز رَو سیلاب میں کسی جماعت کا ساکن کھڑا رہنا غیر ممکن ہے، یا اس کو رو میں بہنا پڑے گا‘ یا پوری مردانگی کے ساتھ اٹھ کر سیلاب کا منہ پھیر دینا ہوگا۔ یہ دوسری صورت صرف اسی طرح رونما ہوسکتی ہے کہ اول تو عام مسلمانوں کی اخلاقی حالت درست کی جائے اور ان میں اسلامی زندگی کی روح پھونک دی جائے۔ دوسرے علمائے اسلام اور نئے تعلیم یافتہ مسلمان مل کر اصول اسلام کے مطابق زندگی کے جدید مسائل کو سمجھیں اور علمی و عملی دونوں صورتوں میں ان کواس طرح حل کرکے بتائیں کہ اندھے متعصبین کے سوا ہر معقول انسان کو تسلیم کرنا پڑ جائے کہ ایک ترقی پذیر تمدن کے لیے اسلامی تہذیب کے سوا اور کوئی اساس صحیح اور بے عیب نہیں ہوسکتی۔
ہندستان میں مذہب ({ FR 1061 }) اور سائنس کی نزاع(۲) کا وہ تصور اب تک چلا جارہا ہے جو یورپ میں اب سے پچاس ساٹھ برس پہلے تھا، لیکن یورپ میں نقشہ بدل چکا ہے اور یورپ کا پس خوردہ(۳) کھانے والے ہندستان میں بھی عن قریب نقشہ بدل جانے والا ہے۔ لہٰذا وہ وقت قریب آرہا ہے جب ’’مذہب کے‘‘ خلاف کم ازکم علمی اور عقلی حیثیت سے یہ تعصب باقی نہ رہے گا۔ بشرطیکہ ہم اس وقت سے فائدہ اٹھانے کے لیے پہلے سے تیار ہوں۔ اس حقیقت کی طرف لارڈ لوتھین نے مختصر الفاظ میں یوں اشارہ کیا ہے:
ساٹھ برس پہلے سائنس اور مذہب میں ایسا معرکہ جاری تھا جس کے ختم ہونے کی توقع نہ تھی۔ زندگی کے روحانی تصور اور مشینی تصور کے درمیان ایسی جنگ برپا تھی جس کے متعلق شبہ ہوتا تھا کہ یہ دونوں میں سے کسی ایک کی موت سے پہلے ختم نہ ہوگی، مگر آج دونوں فریقوں نے ڈگیں ڈال(۴) دی ہیں۔ نہ سائنس داں‘ اور نہ دین دار ‘ دونوں میں سے کوئی بھی آج اس تحکم کے ساتھ یہ دعویٰ نہیںکرتا کہ اس نے کائنات کا معمہ حل کرلیا ہے‘ بلکہ درحقیقت دل میں دونوں کے یہ شبہ پیدا ہو چکا ہے کہ آیا وہ اس معمے کے متعلق کچھ جانتے بھی ہیں یا نہیں۔ لہٰذا اب ایک ایسے امتزاج کا امکان ہو چکا ہے جو تحقیقِ علمی کے نئے نئے زور شور میں غیر ممکن نظر آتا تھا۔
لارڈ لوتھین بہرحال مذہب کے مسیحی تصور سے آزاد نہیں ہیں اور مذہب کا وہ عقلی تصور ان تک پہنچا ہی نہیں ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے‘ اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ صرف یہی سوچ سکتے ہیں کہ مذہب اور سائنس میں اب کوئی امتزاج ہوسکتا ہے۔ لیکن ہم مذہب و سائنس کے امتزاج({ FR 1142 }) کو بے معنی سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک تو حقیقی مذہب وہ ہے جو سائنس کی روح‘ اس کی رہنما طاقت بن جائے۔ اسلام درحقیقت ایسا ہی مذہب ہے اور آج اس کو سائنس کی روح بننے سے اگر کوئی چیز روکے ہوئے ہے تو وہ اس کا اپنا اندرونی نقص نہیں ہے بلکہ اس کے علم برداروں کی غفلت اور موجودہ سائنس کے علم برداروں کا جہل اور جاہلانہ تعصب ہے۔ یہ دو اسباب دور ہو جائیں‘ پھر یہ سائنس کے قالب میں جان ہی بن کر رہے گا۔
آگے چل کر فاضل خطیب(۲) نے اس امر پر بحث کی ہے کہ موجودہ دورکی علمی بیداری اورعقلی تنقید کے سامنے کس قسم کا مذہب ٹھہر سکتا ہے؟ انسان اس روشنی کے عہد میں جس مذہب کا طلب گار ہے اس کی خصوصیات کیا ہونی چاہییں؟ اور اس وقت انسان کی اصلی حاجات کیا ہیں جن کے لیے وہ مذہب کی رہنمائی ڈھونڈھ رہا ہے؟ یہ اس خطبے کا سب سے زیادہ قابل توجہ حصہ ہے:
اگر میں صورتِ حالات کا غلط اندازہ نہیں کر رہا ہوں تو یہ حقیقت ہے کہ جو امتحان اس وقت مذہب کو درپیش ہے‘ اس سے وہ صرف اسی صورت میں کامیابی کے ساتھ گزر سکتا ہے جب کہ نوخیز نسل اس کے اندرونی نظم کی جانچ پڑتال کرکے اس امر کا پورا اطمینان کرلے کہ زندگی میں جن عملی مسائل اور جن پریشانیوں اور پیچیدگیوں سے اس کو سابقہ پڑ رہا ہے ان کا بہترین حل اس مذہب میں موجود ہے۔ شخصی مذہب کا دور اب گزر چکا ہے۔ محض جذباتی مذہب کی بھی اب کسی کو حاجت نہیں۔ اس قسم کے مذہب کا زمانہ بھی اب نہیں رہا جو فرد کو صرف اس حد تک تسلی اور سہارا دے سکتا ہو کہ اس کے اخلاقی طرز عمل کے لیے کچھ ہدایات دے دے اور ایک ایسی نجات کی امید دلا دے جس کا حال مرنے کے بعد ہی کھل سکتا ہے۔ موجودہ زمانے کا سائنٹی فِک آدمی تو ہرچیز کو‘ حتیٰ کہ خود صداقت کو بھی بین نتائج کی کسوٹی پر پرکھ کردیکھنا چاہتا ہے۔ اگر اس کو مذہب کا اتباع کرنا ہے تو وہ مطالبہ کرتا ہے کہ مذہب اس کو یہ بتائے کہ وہ اس کی زندگی کے عملی مسائل کا اپنے پاس کیا حل رکھتا ہے۔ بہت سے جنموں کے بعد آخر کار نروان حاصل ہونے کی امید‘ یا موت کے دروازے سے گزر جانے کے بعد آسمانی بادشاہت میں پہنچ جانے کی توقع ایسی چیز نہیں ہے کہ صرف اسی کی بنیاد پر وہ مذہب کو قبول کرے۔ اس کی فلسفیانہ جستجو کے لیے مذہب کو سب سے پہلے تو وہ کلید({ FR 1143 }) فراہم کرنی چاہیے جس سے وہ کائنات کے معمے کا کوئی قابلِ اطمینان حل پاسکے۔ پھر اسے ٹھیک ٹھیک سائنٹیفک طریقے پر علت اور معلول‘ سبب اور نتیجے کا بَیّن تعلق ثابت کرتے ہوئے یہ دکھانا چاہیے کہ انسان ان طاقتوں کو کس طرح قابو میں لائے جو اس وقت بے قابو ہو کر نوعِ انسانی کو فائدہ پہنچانے کے بجائے تباہ کر دینے کی دھمکیاں دے رہی ہیں اور کس طرح وہ بے روزگاری‘ غیر معقول عدمِ مساوات‘ ظلم و ستم‘ معاشی لوٹ‘ جنگ‘ اور دوسری اجتماعی خرابیوں کا انسداد کرے اور افراد کی باہمی کشمکش اور خاندانی نظام کی برہمی کو کس طرح روکے جس نے انسان کی مسرتوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔
انسان آج صرف اس وجہ سے مذہب کی طرف دیکھ رہا ہے کہ سائنس نے اس کی مشکلات کو حل کرنے کے بجائے اور زیادہ بڑھا دیا ہے‘ اس لیے وہ مذہب سے اپنے شکوک اور اپنی مشکلات کا حل طلب کرنے میں اتنا بے چین ہے جتنا اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ اب اگر مذہب اپنے مقام کی حفاظت اور اپنے کھوئے ہوئے میدان کی بازیافت چاہتا ہے تو اسے ان سوالات کا روحانی مگر سائنٹیفک جواب دینا چاہیے جس کی صحت کو نتائج کے معیار پر اسی دنیا میں جانچا اور پرکھاجاسکے‘ موت کے بعد دوسری دنیا پر نہ اٹھا رکھا جائے۔ ہم اہلِ مغرب جانتے ہیں کہ یہ سب سے بڑا سوال ہے جو ہمارے اِس دور میں سامنے آیا ہے۔ کیا آپ ہندستان میں اس کا جواب دے سکتے ہیں؟
لارڈ لوتھین کی تقریر کا یہ حصہ پڑھتے وقت بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی پیاسا ہے جسے پانی کا علم تو نہیں مگر وہ اپنی پیاس کی کیفیات کو ٹھیک ٹھیک محسوس کر رہا ہے اور بتاتا جاتا ہے کہ میرے جگر کی آگ کوئی ایسی چیز مانگتی ہے جس میں یہ صفات موجود ہوں۔ اگر پانی اس کے سامنے لاکر رکھ دیا جائے تو اس کی فطرت فوراً پکار اٹھے گی کہ جس چیز کا وہ پیاسا ہے وہ یہی چیز ہے اور لپک کر اسے منہ سے لگا لے گا۔ یہ حال صرف ایک لارڈ لوتھین ہی کا نہیں بلکہ یورپ اور امریکہ اور تمام دنیا میں جو لوگ موجودہ تہذیب و تمدن کی گرمی سے خوب تپ چکے ہیں‘ اور فلسفہ و سائنس کے صحرا میں کنارے کی شادابیوں سے گزر کر وسط کی بے آب و گیاہ پہنائیوں تک پہنچ چکے ہیں‘ ان سب کو آج یہی پیاس محسوس ہو رہی ہے۔ سب انھی صفات کی ایک چیز مانگ رہے ہیں جن کا ذکر لارڈ لوتھین نے کیا ہے اور ان سب کا یہی حال ہے کہ پانی کا نام نہیں جانتے۔یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کہاں پایا جاتا ہے، مگر رہ رہ کر پکارتے ہیں کہ:
جگر کی آگ بجھے جس سے جلد وہ شے لا!
پانی کا نام انھوں نے سنا تو ضرور ہے مگر اس نام سے یہ محض اس لیے گھبراتے ہیں کہ اصل شے کو انھوں نے خود دیکھا نہیں ہے اور اپنے جاہل و متعصب اسلاف سے سنتے یہی چلے آرہے ہیں کہ خبردار! پانی کے پاس نہ پھٹکنا‘ یہ ایک بڑی زہریلی چیز کا نام ہے۔ لیکن اب یہ اس مرحلے پر پہنچ گئے ہیں کہ اگر نام کو چھپا کر نفس شے کو ان کے سامنے رکھ دیا جائے تو بے اختیار کہہ دیں گے کہ ہاں ٹھیک یہی وہ چیز ہے جس کے ہم پیاسے ہیں۔ اس کے بعد جب انھیں بتایا جائے گا کہ حضرت! یہ وہی ’پانی‘ ہے جس کے نام سے آپ گھبراتے تھے تو حیرت سے ان کا منہ کھلا رہ جائے گا اور کہیں گے کہ کیسا دھوکا تھا‘ جس میں ہم مبتلا تھے۔
’موجودہ زمانے کا سائنٹیفک آدمی‘ عیسائیت کو خوب چکھ اور پرکھ چکا ہے‘ اور یہ بات اس پر روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ وہ اس کے مرض کی دوا نہیں ہے۔ ہندو ازم اور بدھ ازم کے خیالی فلسفوں اور ان کی تاریخی قدامت پرستی کو دیکھ کروہ کبھی کبھی ان سے مسحور ہو جاتا ہے، مگر سائنٹیفک تنقید و تحلیل کے پہلے ہی امتحان میں ان کی ناکامی کھل کر رہتی ہے۔ بدھ مت تو قریب قریب عیسائیت کا بھارتی اڈیشن ہے۔ رہا ہندو ازم تو وہ خود ان مشکلات اور پیچیدگیوں کو پیدا کرتا ہے جن سے نکلنے ہی کے لیے موجودہ زمانے کا سائنٹیفک آدمی مذہب کی ضرورت محسوس کر رہا ہے۔ انسان اور انسان میں غیر معقول نامساوات سب سے زیادہ اسی کے دائرے میں پائی جاتی ہے۔ معاشی لوٹ کی سب سے بدتر صورت‘ یعنی مہاجنی و سود خواری اس کے سسٹم کا ایک غیر منفک({ FR 1145 }) جز بن چکی ہے۔ جنگ کی اصلی وجہ یعنی انسان کی نسلی تقسیم اور نسلی منافرت اس کے عین اساس(۲) میں پیوست ہے۔ اجتماعی زندگی کے لیے جو نظام اس نے قائم کیا ہے وہ انسانوں کو ملانے والانہیں بلکہ بے شمار طبقوں اورگوتروں(۳) میں تقسیم کرنے والا ہے‘ اس کے قوانین معاشرت اتنے بوسیدہ ہیں کہ موجودہ علمی و عملی بیداری کے دور میں خود ہزاروں برس کے خاندانی ہندو ان قوانین کو توڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں کیونکہ ان کی بنیاد علم اورعقل پر نہیں بلکہ تعصبات اور توہمات پر ہے۔ ان دنیوی مسائل سے اوپر‘ اخلاقیات اور الٰہیات کے دائرے میں وہ اس سے بھی زیادہ ناقص پایا جاتا ہے۔ کائنات کے معمے کو اطمینان بخش طریقے پر حل کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی کلید نہیں۔ اس کے عقائد اذعانی عقائد(۴) ہیں‘ علمی یا عقلی ثبوت ان میں سے کسی چیز کا نہیں دیاجاسکتا۔ اخلاقیات میں وہ دل خوش کن مفروضات کا ایک طلسم ضرور بناتا ہے‘ جیسا کہ مثال کے طور پر ایک طلسم مہاتما گاندھی نے بنا رکھا ہے مگر معقولات اور حکمت عملی (practical wisdom)سے اس کا دامن خالی ہے۔ موجودہ علمی بیداری کے دور میں اس کی ناکامی اگر کھلی نہیں تو عن قریب کھلی(۵) جائے گی۔
اس کے بعد میدان میں صرف اسلام رہ جاتا ہے‘ اور وہی ان معیاروں میں سے ایک ایک معیار پر پورا اترتا ہے جو آج کل کا ’’سائنٹیفک آدمی‘‘ اپنے مذہب مطلوب کے لیے پیش کر رہا، یا کرسکتا ہے۔
یہ بات کہ مذہب محض ایک شخصی معاملہ ہے اور محض انفرادی ضمیر ہی سے اس کا تعلق ہے اب ایک فرسودہ بات ہو چکی ہے۔ یہ انیسویں صدی کی بہت سی خام خیالیوں میں سے ایک تھی‘ جسے بیسویں صدی کی اس چوتھی دہائی میں بھی ہمارے ملک کے بعض وہ قدامت پسند اب تک رٹے جارہے ہیں جو ادعائے تجدد کے باوجود ہمیشہ دنیا سے پچاس برس پیچھے چلنے کے خوگر({ FR 1146 }) ہیں۔ اب قریب قریب یہ بات مُسَلَّم ہو چکی ہے کہ فرد کا تصور جماعت سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ہر شخص دوسرے سے بے شمار چھوٹے بڑے تعلقات میں جکڑا ہوا ہے اور سوسائٹی من حیث المجموع(۲) ایک جسم کاحکم رکھتی ہے جس میں افراد کی حیثیت زندہ جسم کے اعضا کی سی ہے۔ مذہب کی ضرورت اگر ہے تو وہ صرف فرد کو اپنے ضمیر کے اطمینان اور اپنی نجات بعد الموت ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ پوری جماعت کو اپنی تنظیم اور اپنی دنیوی زندگی کے سارے کاروبار چلانے کے لیے ہے، اور اگر اس چیز کی ضرورت نہیں ہے تو فرد کو بھی نہیں اور جماعت کو بھی نہیں۔ یہ تصور سراسر ایک طفلانہ تصور ہے کہ اجتماعی زندگی کا نظام کچھ اور ہو، اور اس نظام سے بے تعلق ہو کر افراد کے مذہبی عقائد اور ان کے مذہبی اعمال کچھ اور ہوں۔ مذہبی عقائد اور مذہبی اعمال کا کوئی ربط اگر اجتماعی زندگی سے نہ ہو تو ایسے عقائد اور اعمال محض بے کار ہیں اور صرف بے کار ہی نہیں ہیں بلکہ ایک ایسے اجتماعی نظام میں ان کا مضمحل ہو جانا یقینی ہے، جس کے دوسرے اجزا کے ساتھ وہ تعامل (Interaction) قبول نہ کرتے ہوں۔ لہٰذا دو صورتوں میں سے لامحالہ کوئی ایک ہی صورت ہوسکتی ہے، یا تو پوری جماعت کا نظام سراسر لامذہبی ہو، اور مذہب کو قطعی طور پر انسان کی زندگی سے خارج کر دیا جائے جیسا کہ اشتراکیوں کا مسلک ہے‘ یا پھر اجتماعی نظام پورے کا پورا مذہبی ہو، اور علم اور تمدن دونوں کے لیے مذہب کو رہنما تسلیم کیا جائے جیسا کہ اسلام کا مقتضا ہے۔
پہلی صورت کا تجربہ دنیا بہت طویل مدت تک کر چکی ہے۔ اس سے وہی کڑوے پھل پیدا ہوسکتے تھے‘ وہی پیدا ہوئے اور وہی آئندہ بھی پیدا ہوں گے جن کا ذکر لارڈ لوتھین نے کیا ہے۔ اب دنیا کی نجات صرف دوسری صورت میں ہے اور اس کے بر وئے کار آنے کے مواقع روز بروز پیدا ہوتے جارہے ہیں، مگر جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں‘ ان مواقع سے فائدہ اٹھانا، یا ان کو ہمیشہ کے لیے کھو دینا مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ واقعات کی رفتار دنیا کو‘ اور دنیا کا ایک جز ہونے کی حیثیت سے ہمارے ملک کو بھی ایک ایسے مقام پر لے آئی ہے جہاں سے اس کے سفر کا رخ اسلام کی طرف بھی مڑ سکتا ہے اور مادہ پرستی اور فساد اخلاق کے اسفل السافلین({ FR 1064 }) کی طرف بھی۔ طبعاً اس کا رخ ابھی تک دوسرے راستے کی طرف ہے کیونکہ اس راستے پر دنیا ایک مدتِ دراز سے بڑھتی چلی آرہی ہے۔ اگرچہ اس راستے کے مہالک(۲) دیکھ دیکھ کر وہ سہم(۳) رہی ہے اور چاروں طرف گھبرا گھبرا کر دیکھتی ہے کہ کوئی بچائو کی راہ بھی ہے یا نہیں‘ مگر بچائو کی راہ خود اس کی اپنی نگاہوں سے اوجھل ہے۔ وہ درحقیقت اس وقت ایسے لیڈروں کی محتاج ہے جو قوت کے ساتھ اٹھ کر اس کی نگاہوں پر سے پردہ اٹھا دیں اور اسلام کی صراط مستقیم کا واحد راہِ نجات ہونا ثابت و مُبرہن(۴) کر دیں۔ ایک ایسی مجاہد و مجتہد جماعت اگر مسلمانوں میں پیدا ہو جائے تو مسلمان تمام دنیا کے پیشوا(۵) بن سکتے ہیں۔ ان کو وہی مقامِ عزت پھر حاصل ہوسکتا ہے، جس پروہ کبھی سرفراز تھے اور جس پر مغربی قوموں کو متمکن(۶) دیکھ کر آج ان کے منہ میں پانی بھرا چلا آرہا ہے، لیکن اگر اس قوم کے جمہور اسی طرح دون ہمتی(۷) و پست حوصلگی کے ساتھ بیٹھے رہے اگر اُس کے نوجوان یونہی غیروں کا پس خوردہ کھانے کو اپنا منتہائے کمال سمجھتے رہے،اگر اس کے علما اپنی اپنی پرانی فقہ و کلام کی فرسودہ بحثوں میں الجھے رہے‘ اگر ان کے لیڈروں اور سیاسی پیشوائوں کی ذلیل ذہنیت کا یہی حال رہا کہ لشکرِ اغیار کے پیچھے لگ چلنے کو مجاہدانہ عزیمت(۸) کا بلند ترین مرتبہ سمجھیں اور بیسویں صدی کے سب سے بڑے فریب میں اپنی قوم کو مبتلا کرنا کمال دانش مندی خیال کریں‘ غرض اگر اس قوم کے دست و پا(۹) سے لے کر دل و دماغ تک سب کے سب تعطل(۱۰) یا خام کاری (۱۱)ہی میں گرفتار رہیں اور اس کروڑوں کے انبوہ(۱۲) سے چند مردانِ خدا بھی جہاد اور اجتہاد فی سبیل اللہ کے لیے کمر باندھ کر نہ اٹھ سکیں تو پھر دنیا جس اسفل السافلین کی طرف جارہی ہے، اسی طبقۂ جہنم میں یہ قوم بھی دنیا کی دم کے ساتھ بندھی بندھی جاگرے گی اور غضبِ خداوندی ایک مرتبہ پھر پکارے گا: فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِــمِيْنَo المومنون 41:23 ( دور ہوئی ظالم قوم) (ترجمان القرآن، محرم ۱۳۵۷ھ۔ مارچ ۱۹۳۸ء)


۷ ۔ترکی میں مشرق و مغرب کی کشمکش

خطباتِ خالدہ ادیب خانم
ترکی کی مشہور فاضل و مجاہد خاتون خالدہ ادیب خانم اب سے کچھ مدت قبل جامعہ اسلامیہ کی دعوت پر ہندستان تشریف لائی تھیں اور انھوں نے دہلی میں چند خطبات ارشاد فرمائے تھے جن کا اردو ترجمہ جامعہ کے فاضل پروفیسر ڈاکٹر سید عابد حسین صاحب نے ترکی میں مشرق و مغرب کی کشمکش کے نام سے کیا ہے۔ ان سطور میں ہم اس مجموعہ خطبات پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالیں گے۔
دنیائے اسلام میں اس وقت دو ملک ایسے ہیں جن کو دو مختلف حیثیتوں سے مسلمانان عالم کی پیشوائی کا مرتبہ حاصل ہے۔ ذہنی حیثیت سے مصر اور سیاسی حیثیت سے ٹرکی۔
مصر کے ساتھ اممِ اسلامیہ کے تعلقات نسبتاً زیادہ گہرے ہیں‘ کیونکہ اس کی زبان ہماری بین الملی زبان‘ عربی ہے‘ اس کالٹریچر تمام دنیا کے مسلمانوں میں پھیلتا ہے‘ اس کے ذہنی اثرات چین سے مراکش تک پہنچتے ہیں‘ اوروہی مسلمانوں کے درمیان ربط اور تفاہم(۲) اور واقفیت حالات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بخلاف اس کے ترکی قوم کی مجاہدانہ زندگی‘ اور مغربی تقدمات(۳) کے مقابلے میں اس کی شجاعانہ مدافعت‘ اور ناموسِ ملی کے لیے اس کی قربانیوں کا سکہ تو بلاشبہ تمام عالم اسلامی پر بیٹھا ہوا ہے، اور اسی وجہ سے اس کو مسلمانوں میں سرداری اور پیشوائی کا منصب حاصل ہے‘ لیکن زبان کی اجنبیت‘ اور ربط وتفاہم کے فقدان نے ٹرکی اور اکثر ممالکِ اسلامیہ کے درمیان ایک گہرا پردہ حائل کر دیا ہے جس کے سبب سے ترکی قوم کے ذہنی ارتقا اور اس کی دماغی ساخت اور اس کے تمدنی‘ سیاسی‘ مذہبی اور علمی تحولات(۴) کے متعلق ہماری واقفیت بہت محدود ہے۔ خصوصاً حال کے دس بارہ برسوں میں جو انقلاب ٹرکی میں رونما ہوئے ان کے باطنی اسباب اور ان کی اصلی روح کو جاننے اور سمجھنے کا موقع تو ہم کو بہت ہی کم ملا ہے۔ بہت سے لوگ ترکوں سے سخت ناراض ہیں‘ بعض ان کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہیں‘ بعض ان کی مغربیت کو اپنی مغربیت پرستی کے لیے برہان قاطع({ FR 1067 }) بنائے بیٹھے ہیں، مگر مستند معلومات کسی کے پاس بھی نہیں ہیں اور جو تھوڑی بہت معلومات ہیں بھی تو وہ ٹرکی جدید کی روح کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔
اس حالت میں ہم اس کو خوش قسمتی سمجھتے ہیں کہ خود ٹرکی جدید کے معماروں میں سے ایک ایسی ہستی نے یہاںآکر ہمارے سامنے اپنی قوم کے باطن کو ظاہر کیا ہے جو انقلاب کی اسٹیج پر محض ایکٹر ہی نہ تھی بلکہ اس انقلاب کی محرک طاقتوں میں سے ایک طاقت تھی۔ اس کے ساتھ وہ خدا کے فضل سے عالمانہ نظر‘ اور فلسفیانہ فہم‘ اور مفکرانہ تعمق(۲) بھی رکھتی ہے جس کی بدولت وہ خارجی واقعات کے اندرونی محرکات کو سمجھ بھی سکتی ہے اور سمجھا بھی سکتی ہے۔ ایسے مستند و معتبر ذریعے سے ہمیں اب پہلی مرتبہ ٹرکی کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس نے ٹرکی جدید کی روح کو ہمارے سامنے بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے اور پوری صداقت و دیانت کے ساتھ ہمیں بتایا ہے کہ جو قوم آج دنیائے اسلام کی نہ صرف سیاسی رہنمائی کر رہی ہے بلکہ ذہنی رہنمائی کے لیے بھی کوشاں ہے۔ درحقیقت وہ خود اپنے باطن میں کیا ہے‘ کن عناصر سے اس کی تعمیر ہوئی ہے‘ کون سی قوتیں اس میں کام کر رہی ہیں‘ کون سے اسباب اس کو موجودہ مقام تک کھینچ کر لائے ہیں اور اب کس رخ پر وہ جارہی ہے۔ اس کا صرف یہی ایک فائدہ نہیں ہے کہ ترکی قوم کا حقیقی حال ہم پر روشن ہوگیا‘ بلکہ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ ٹرکی سے جو رہنمائی اب ہماری جدید نسلوں تک پہنچ رہی ہے اس کی روح کو ہم زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں، اور دنیائے اسلام میں جو انقلاب اس وقت رونما ہو رہا ہے اس کے اندرونی اسباب کو سمجھنے کا ایک اور موقع ہم کو مل گیا ہے۔
قبل اس کے کہ ہم خالدہ خانم کے ذریعے سے ترکی جدید کو سمجھیں ہمیں خود ان کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ ان کا دل پورا پورا مسلمان ہے، ایمان سے لبریز ہے‘ اور ایمان بھی ایسا جس پر ہم کو رشک({ FR 1147 }) کرنا چاہیے‘ کیونکہ وہ ایک مجاہد عورت کا ایمان ہے۔ ( ۲) الحاد اور بے دینی کا شائبہ(۳) تک ان کے خیالات میں نہیں پایا جاتا۔ اسلام سے ان کو محبت ہے‘ ویسی ہی محبت جیسی ایک سچی مسلمان عورت کو ہونی چاہیے، لیکن ان کا دل جیسا مسلمان ہے‘ ان کا دماغ ویسا نہیں ہے۔ انھوں نے تمام تر مغربی طرز کی تعلیم پائی ہے‘ مغربی علوم ہی کا مطالعہ کیا ہے‘ مغربی عینک ہی سے دنیا اور اسلام اور خود اپنی قوم کو دیکھا ہے اور ان کی تمام فکری و نظری قوتیں مغربی سانچے ہی میں ڈھلی ہوئی ہیں۔ اگرچہ ان کے دل کی چھپی ہوئی اسلامیت اور مشرقیت نے مغربیت کے اس دماغی استیلا(۴)کی بہت مزاحمت کی ہے اور اسی مزاحمت کا نتیجہ ہے کہ ترکی قوم کے دوسرے انقلابی لیڈروں کی بہ نسبت ان کے خیالات میں بہت کچھ اعتدال پایا جاتا ہے‘ لیکن یہ مزاحمت ان کو مغربیت کے غلبے سے نہیں بچا سکی ہے۔
اسلام کے متعلق ان کی معلومات کچھ محدود معلوم ہوتی ہیں۔ قرآن اور سنت نبویﷺ اور تاریخ اسلام کے مطالعے میں انھوں نے شاید اس وقت کا دسواں حصہ بھی صَرف نہیں کیا جو مغربی فلسفے اور تاریخ اور عمرانیات کے مطالعے میں صَرف کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے متعلق ان کے خیالات کی جو جھلک ہم کو ان کے خطبات میں نظر آئی ہے‘ اس میں حسنِ عقیدت تو ضرور موجود ہے‘ مگر فہم اور تدبر اور بصیرت بہت کم ہے۔
اپنے آخری خطبے میں وہ فرماتی ہیں کہ:
گاندھی جی کی ذات جدید اسلام کا ایک مکمل نمونہ ہے۔
یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جو نہیں جانتا کہ اسلام کیا ہے‘ جدید اور قدیم کی نسبتوں سے کس قدر بالا و برتر ہے اور اس کا مکمل نمونہ کیسا ہوتا ہے۔ اسلامی سیرت کی خصوصیات پر جس شخص کی نظر ہو، اور جس نے اس سیرت کے اصل نمونوں کی ایک جھلک بھی دیکھی ہو‘ اس کی نگاہ میں گاندھی جی کی تو کیا حقیقت ہے‘ تاریخ عالم کے بڑے بڑے ہیرو بھی نہیں جچتے اور یہ کچھ قومی عصبیت کی بنا پر نہیں‘ ناقابل انکار تاریخی حقائق کی بنا پر ہے۔ ابوبکر صدیق ؓ، عمر فاروق ؓ، عثمان غنی ؓ، علی مرتضیٰؓ، حسین ابن علیؓ،ابوحنیفہؒ، احمد بن حنبلؒ اور عبدالقادر جیلانیؒ کی سیرتیں سامنے رکھیے اور پھر انصاف سے دیکھیے کہ انبیاء علیہم السلام کو چھوڑ کر تاریخِ عالم کی کون سی شخصیت اس قابل ہے کہ ان سیرتوں کے مقابلے میں لاکر رکھی جاسکے؟
عثمانی قوم کے سیاسی مزاج کی ترکیب میں ان کو ترکی قوم کی قدیم نسلی خصوصیات سے لے کر یونان‘ بائزنٹائن‘ روم‘ حتیٰ کہ افلاطون کی جمہوریت تک‘ سب کے اثرات نظر آتے ہیں‘ مگر نہیں نظر آتے تو قرآن اور محمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے اثرات۔ حالانکہ جس چیز نے وسط ایشیا کے بدوی ترکوں کو تہذیب و تمدن سے آراستہ کیا اور ان کے اندر جہاں کشائی کے ساتھ جہاںبانی کی استعداد پیدا کی اور ان کو نوع انسانی کی ایک تخریبی قوت کے بجائے ایک تعمیری طاقت بنا دیا، وہ یہی تعلیم تھی۔ خالدہ خانم زیادہ سے زیادہ اسلام کا جو اثر عثمانیت میں دیکھ سکی ہیں وہ محض اسلامی عدل و مساوات ہے مگر اس کا حال بھی یہ ہے کہ جب سلطان سلیم اپنی رعایا میں بزورِ شمشیر اسلام کو پھیلانا چاہتا ہے اور شیخ الاسلام جمال آفندی اس کو اس فعل سے باز رہنے کا حکم دیتا ہے اور سلیم جیسا قہار فرماںروا اس حکم کے آگے سر جھکا دیتا ہے تو اس عظیم الشان واقعے میں خالدہ خانم کو اسلامی عدل کے بجائے ’عثمانی قومیت‘ کا احساس اور عثمانی اصول سلطنت کی حمایت کا جذبہ ہی نظر آتا ہے۔ وہ نہیں سمجھتیں کہ جمال آفندی کے فتوے میں لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن کی روح تھی، اور وہ اسلامی حق پرستی کی طاقت تھی جس نے سلیم کو اس شرعی فتوے کے آگے سرجھکا دینے پر مجبور کر دیا۔
خالدہ خانم ٹرکی کے موجودہ حکمراں طبقے کی انتہا پسندی‘ استبدادیت‘({ FR 1069 }) معاشرت کی جبری تنظیم‘ حد سے بڑھتی ہوئی مغربیت‘ مادہ پرستانہ رجحانات اور مذہب کے متعلق اس کی روش سے بیزار معلوم ہوتی ہیں۔ وہ مغربیت اور مشرقیت کا معتدل امتزاج چاہتی ہیں۔مادیت اور روحانیت میں مصالحت کی خواہش مند ہیں‘ اور اس حقیقت کا بھی اعتراف کرتی ہیں کہ زندگی کے ان دونوں نظریوں میں جو امتزاج(۲) اسلام نے پیدا کیا ہے وہ سب سے بہتر ہے‘ مگر خود اسلام میں پوری بصیرت نہیں رکھتیں‘ اس لیے ان کو معلوم نہیں کہ اصولِ اسلام کے تحت امتزاج کی صحیح صورت کیا ہے اور افراط و تفریط({ FR 1070 }) کے درمیان توسط و اعتدال کا خط مستقیم کہاں واقع ہے۔ تاہم اگر ان کی ذاتی آرا سے قطع نظر کرکے دیکھا جائے تو ان کے خطبات میں ہم کو ترکی جدید کی ذہنیت اور اس کے رجحانات اور انقلاب کے تاریخی اسباب کا ایک صاف اور صحیح بیان مل جاتا ہے اور وہی ہم کو مطلوب ہے۔
ترکی قوم ({ FR 1071 }) اسلام میں اس وقت داخل ہوئی جب مسلمانوں کے ذہنی انحطاط کا آغاز ہو چکا تھا۔ روح جہاد اگرچہ زندہ تھی مگر روحِ اجتہاد مردہ ہو چکی تھی۔ اسلام میں بصیرت رکھنے والے مفکرین اور تفقہ سے بہرہ وافر (۳)رکھنے والے فقہا ناپید(۴) تھے۔ تہذیب اسلامی نیم جان اور فکر اسلامی قریب قریب بے جان ہو چکی تھی۔ شریعت میں تقلید جامد کا غلبہ تھا۔ تمدن میں عجمیت اور رومیت کے عناصر پیوست ہو چکے تھے۔ تصوف پر اشراقیت کا اور تفکر پر تفلسف کا اثر غالب آگیا تھا۔ قرآن اور سنت سے براہ راست اکتساب علم کی صلاحیت رکھنے والے مفقود(۵) تھے۔ علما زیادہ تر الفاظ کے گورکھ دھندوں میں پھنسنے والے، کلام کی پیچیدگیوں میں الجھنے والے اور متقدمین کے روندے ہوئے رستوں پر شرح و ایضاح(۶) کے چھکڑے چلانے والے تھے۔ امرا اکثر و بیش تر قیصر و کسریٰ کے ڈھنگ پر چلنے والے تھے۔ مُتَصَوِّفین اور روحانی پیشوا اسلام کے دورِ اوّل کی حقیقی صوفیت سے بیگانہ اور راہبوں اور جوگیوں کی پیروی کرنے والے تھے۔ علوم و فنون میں مسلمانوں کی ترقی رک گئی تھی۔ تحقیق و اکتشاف(۷) کی راہ میں ان کے تقدمات(۸) قریب قریب ختم ہوگئے تھے اور عروج کے بعد زوال کے آثار تمام ممالکِ اسلامیہ میں پیدا ہو چکے تھے۔
اس طرح اسلامی تاریخ میں ترکوں کی ابتدا ہی ایک بنیادی کمزوری کے ساتھ ہوئی۔ دولت عثمانیہ کا قیام تقریباً اسی زمانے میں ہوا ہے جب یورپ میں ذہنی ارتقا اور علمی نہضت(۹) کا آغاز ہو رہا تھا۔ اگرچہ عثمانیوں نے ابتدائی دو ڈھائی صدیوں میں یورپ کو پیہم شکستیں دے کر اسلام کی دھاک بٹھا دی تھی لیکن اس زمانے میں عام مسلمان قوموں کے ساتھ ساتھ ترک بھی رفتہ رفتہ تنزل کی طرف جارہے تھے اور ان کا مقابلہ جن مغربی قوموں سے تھا وہ تیز رفتاری کے ساتھ مادی اور ذہنی ترقی کی راہ پر گامزن تھیں۔ سترہویں صدی عیسوی میں حالات نے پلٹا کھایا۔ فرنگیوں کی عسکری تنظیم اور مادی و معنوی قوت اس حد تک بڑھ گئی کہ انھوں نے سینٹ گوتھرڈ({ FR 1072 }) کے معرکے میں پہلی مرتبہ تنزل پذیر ترکوںکو نمایاں شکست دی، مگر ترکوں کی آنکھیں نہ کھلیں۔ وہ برابر پستی میں گرتے رہے اور فرنگی برابر ترقی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اٹھارہویں صدی میں ترکوں کی اخلاقی‘ مذہبی‘ سیاسی، علمی اور تمدنی حالت انتہائی تنزل کو پہنچ گئی اور فرنگیوں کا غلبہ پوری طرح نمایاں ہوگیا۔
انیسویں صدی کے آغاز میں سلطان سلیم نے اس کمزوری کو محسوس کرلیا اور انتظام سلطنت کی اصلاح‘ علوم جدیدہ کی اشاعت‘ طرز جدید پر عسکری تنظیم‘ اور جدید مغربی آلات حرب(۲) کی ترویج(۳) شروع کی، لیکن جاہل صوفیوں اور تنگ نظر علما نے جو دین کے علم اور اس کی روح سے قطعاً بے بہرہ تھے‘ مذہب کے نام پر اصلاحات کی مخالفت کی۔ یورپین طرز پر فوج کی تنظیم کو بے دینی سے تعبیر کیا۔ جدید فوجی وردیوں کو تَشَبُّہ بِالنًّصَارٰیٰ(۴) قرار دیا۔ سنگین تک کے استعمال کی اس لیے مخالفت کی گئی کہ کافروںکے اسلحے استعمال کرنا ان کے نزدیک گناہ تھا۔ سلیم کے خلاف یہ کہہ کر نفرت پھیلائی گئی کہ وہ کفار کے طریقے رائج کرکے اسلام کو خراب کر رہا ہے۔ شیخ الاسلام عطاء اللہ آفندی نے فتویٰ دیا کہ ایسا بادشاہ جو قرآن کے خلاف عمل کرتا ہو‘ بادشاہی کے لائق نہیں۔ آخر کار ۱۸۰۷ء میں سلیم کو معزول کر دیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مذہبی پیشوائوں نے اپنی جہالت اور تاریک خیالی سے اسلام کے مانعِ ترقی(۵) ہونے کا غلط تخیل پیدا کیا۔
زمانے کے حالات تیزی کے ساتھ بدل رہے تھے۔ دوسرے مسلمانوں کی بہ نسبت ترکوں پر ان تغیرات کا زیادہ اثر پڑ رہا تھا۔ وہ یورپ کے مقابلے میں بالکل سینہ بسینہ کھڑے تھے اور برسرپیکار تھے۔ مغربی قوموں کے ساتھ ان کے سیاسی‘ تمدنی اور تجارتی تعلقات نہایت گہرے تھے‘ اور خود ان کی ماتحت یورپین اور عیسائی قومیں سرعت کے ساتھ مغرب کے اثرات قبول کر رہی تھیں، مگر ترکوں کے مذہبی پیشوائوں نے جو تفقہ اور اجتہاد سے بالکل عاری اور اسلام کی حقیقی تعلیمات سے قطعاً ناواقف تھے‘ ان تغیرات کی طرف سے آنکھیں بند کرلیں اور ترکی قوم کو مجبور کیا کہ سات سو برس قبل کی فضا سے ایک قدم آگے نہ بڑھیں۔ سلیم کے بعد محمود نے اصلاح کی کوششیں کیں اور علما و مشائخ نے پھر مخالفت کی۔ بڑی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے بعد ۱۸۲۶ء میں محمود اس قابل ہوسکا کہ جدید عسکری تنظیم کو رائج کرسکے، مگر علما اور درویش برابر یہی تبلیغ کرتے رہے کہ یہ اصلاحات بدعت ہیں‘ ان سے اسلام کو خراب کیا جارہا ہے‘ سلطان بے دین ہوگیا ہے اور طرز جدید کی فوج میں بھرتی ہونا مسلمانوں کے لیے خرابی ایمان کا موجب ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ترکوں کے اہل دماغ لوگوں میں اپنی قومی پستی کا عام احساس پیدا ہو چکا تھا۔ ان لوگوں نے مغربی قوموں کی ترقی کے اسباب پر غور کیا‘ ان کے علوم و آداب کا مطالعہ کیا‘ ان کی تنظیمات پر گہری نگاہ ڈالی اور اپنی سلطنت کے قوانین، انتظامی امور‘ تعلیمی ادارت اور حربی نظام میں ایسی اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش کی جن سے وہ مغربی قوموں کے دوش بدوش({ FR 1073 }) ترقی کرسکیں۔ خالدہ خانم کے بقول یہ وہ لوگ تھے جن کی رگ و پے میں اسلامیت بیٹھی ہوئی تھی۔ ان کے دل اور دماغ دونوںمسلمان تھے۔ ان میں اپنی کمزوری کا احساس ضرور تھا مگر مغرب کے مقابلے میں کمتری کا احساس ہرگز نہیں تھا۔ وہ مغرب سے مرعوب نہ تھے۔ بلا امتیاز اس کی ہر چیز کو قبول کرنے والے نہ تھے۔ ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ مغرب کی مفید چیزوں کو لے کر اپنی سلطنت اور اپنی قوم کی کمزوریوں کو دور کر دیں اور زندگی کے میدان میں یورپ کے ساتھ برابر کی مسابقت(۲) کرسکیں۔ انھوں نے سلطان عبدالمجید خاں کے زمانے میں نظامِ سلطنت کی اصلاح اور فوج کی تنظیم کی‘ اپنی قوم کے ادبیات میں زندگی کی روح پھونکی۔ نئے مدارس اور کالج قائم کیے اور چند سال کے اندر ایک ایسی نسل تیار کر دی جس میں اسلامی تہذیب کے تمام جوہروں کے ساتھ تفکر و تدبر کی اعلیٰ صلاحیتیں بھی موجود تھیں۔ سلطان عبدالعزیز کے عزل (۱۸۷۶ء) تک اس گروہ نے بے شمار خارجی و داخلی مشکلات کے باوجود تعمیر قومی کا بہترین کام انجام دیا اور اس کے ثمرات({ FR 1074 }) عمر پاشا جیسے جنرل‘ مدحت پاشا جیسے مدبر اور نامق کمال اور عبدالحق حمید جیسے سچے مسلمان اہل فکر و ادب کی صورت میں ظاہر ہوئے،لیکن سلطان عبدالحمید نے آکر دفعتاً حرکت کا رُخ بدل دیا۔ ۱۸۷۶ء سے لے کر ۱۹۰۹ء تک ۳۳ سال کا زمانہ جس میں ایک دوسری مشرقی قوم (جاپان) ترقی کرکے کہیں سے کہیں پہنچ گئی اس خود غرض سلطان نے محض اپنے شخصی اقتدار کی خاطر ترکی قوم کی علمی‘ ذہنی‘ تمدنی اور سیاسی و تنظیمی ترقی کو روکنے اور اس کی روح کو مُردہ کرنے میں صرف کر دیا۔ یہاں موقع نہیں کہ اس شخص کے اعمال پر کوئی تفصیلی تبصرہ کیا جاسکے۔ مختصر یہ ہے کہ اس نے تعمیر کے بہترین زمانے کو جس کی ایک ایک ساعت بیش قیمت تھی‘ تخریب میں کھو دیا۔ اس نے ترکی قوم کے بہترین دماغوں کو برباد کیا۔ جمال الدین افغانی جیسا بے نظیر آدمی اُسے ملا اور اس کو بھی اس شخص نے ضائع کر دیا، مگر سب سے بڑا نقصان جو اس کی بدولت نہ صرف ترکی قوم کو بلکہ دنیائے اسلام کو پہنچا وہ یہ ہے کہ اس نے خلافت کے مذہبی اقتدار اور رجعت پسند علما و مشائخ کے اثرات کو عہد تنظیمات کے ترکی مصلحین کی اٹھائی ہوئی بنیادیں اکھیڑنے اور ترکی قوم کے ادبی و ذہنی ارتقا کو روکنے اور سیاسی و تنظیمی اصلاحات کا استیصال(۲) کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس کی اس خود غرضانہ و ناعاقبت اندیشانہ حرکت سے ترکوں کی نئی نسل میں ایک انقلابی بحران پیدا ہوگیا۔ وہ مذہب کو مانعِ ترقی سمجھنے لگے۔ اسلامیت سے ان کے دماغ منحرف ہوگئے۔ تاریک خیال علما اور مشائخ سے بجا طور پر جو نفرت ان کے دلوں میں پیدا ہوئی تھی‘ انقلابیت کے جوش میں اس کارخ مذہب کی طرف پھر گیا۔ وہ سمجھے اور جاہل علما و مشائخ نے ان کو یہ سمجھنے پر مجبور کر دیا کہ اسلام ایک جامد مذہب ہے‘ زمانے کے ساتھ حرکت کرنے کی اس میں صلاحیت نہیں‘ اس کے قوانین تغیرات احوال کا ساتھ نہیں دے سکتے‘ اور بجز چند عقائد کے اس میں کوئی دوسری چیز ایسی نہیں جو اپنے اندر کوئی پائیداری رکھتی ہو۔
اس ۳۳ برس کے استبداد({ FR 1075 }) نے جو بدقسمتی سے مذہبی رنگ لیے ہوئے تھا‘ ترکوں کی نئی نسلوں میں مادہ پرستی‘ دہریت‘ مغرب سے کامل مرعوبیت‘ مغربی تخیلات کی اندھی تقلید‘ اپنے ماضی سے نفرت‘ ہر قدیم چیز سے بیزاری اور خلافت و وحدتِ اسلامی سے جس کو سلطان عبدالحمید نے اپنی اغراض کا آلہ کار بنایا تھا‘ کراہت تام پیدا کر دی‘ اور ان کے اندر یہ خیال راسخ کر دیا کہ دنیا میں سربلندی حاصل کرنے کے لیے تمام پچھلی بنیادوں کو ڈھا کر بالکل مغربی طرز پر ترکیت کا قصر تعمیر کرنا ضروری ہے۔
۱۹۰۸ء کے انقلاب نے سلطان عبدالحمید خان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا‘ اور سلطنت کی عنانِ اقتدار منحرف ذہنیت رکھنے والے جوشیلے اور مشتعل نوجوانوں کے ہاتھوں میں آگئی۔ خالدہ ادیب خانم کے بقول یہ لوگ عہد تنظیمات کے اصلاح پسندوں سے بالکل مختلف تھے۔ ان میں سے ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو علمی قابلیت‘ تدبر و فکر اور عالی دماغی میں دور تنظیمات کے مدبرین کی ٹکر کا ہو۔ نہ ان کے پیش نظر وہ بلند نصب العین تھا‘ نہ ان کی سیرتوں میں وہ مضبوطی تھی، نہ شائستگی اور تربیت کے لحاظ سے ان کا ان سے کوئی مقابلہ تھا‘ نہ قومی فخر و ناز کا وہ جذبہ ان میں موجود تھا‘ نہ تنقید کی وہ صلاحیت تھی کہ قدیم اور جدیدکے صحیح فرق کو سمجھ سکیں۔ یہ چند ایسے نوجوانوں کا مجمع تھا جو اسلامی علوم میں کورے تھے‘ اسلامی تربیت میں ناقص تھے‘ مغربی علوم میں بھی گہری نظر نہ رکھتے تھے‘ اپنے مذہب‘ اپنی تہذیب‘ اپنے علوم و آداب اور اپنی قدیم اجتماعی تنظیمات کے خلاف ان کے دل و دماغ میں تعصب کا گہرا جذبہ پیدا ہو چکا تھا‘ مغرب کے تقدمات سے مرعوبیت ان کے اندر بدرجہ اتم پیدا ہو گئی تھی اور یہ اپنی ہر چیز کو بدل دینے کے لیے بے چین تھے۔ جب سلطنت ان کے ہاتھوں میں آئی تو یہ بند پانی جس کو ۳۳ برس کی طویل بندش نے بہت کچھ فاسد کر دیا تھا، طوفان کی شکل میں پھوٹ نکلا۔ یہی وہ زمانہ ہے جس میں ترکوں پر نیشنلزم اور تورانی عصبیت کا جن سوار ہوا‘ وحدت اسلامی کی طرف سے سرد مہری(۲) ظاہر ہونی شروع ہوئی‘ مذہب پر نکتہ چینی کا آغاز ہوا‘ مغربی تہذیب کو بالکلیہ اختیار کرلینے پر زور دیا جانے لگا‘ ماضی سے تعلق منقطع کرنے اور مغرب سے قریب تر ہونے کے لیے لاطینی رسم الخط اختیار کرنے کی تجویز پیش ہوئی‘ جدید نظریات کے مطابق اسلام کو ڈھالنے کے لیے سرکاری علما کا ایک گروہ اٹھا جس کا سرغنہ ضیا کوک الپ جیسا شخص تھا۔ یہ وہی شخص ہے جس نے اتحاد اسلامی کے مقابلے میں اتحادِ تورانی کی زبردست تبلیغ کی‘ ترکوں کو عہد اسلامی کی تاریخ اور اس کے نام وَر بہادروں سے نفرت دلا کر قدیم وحشی تاتاریوں پر فخر کرنا سکھایا‘ (جن میں چنگیز اور ہلاکو کی شخصیتیں سب سے زیادہ نمایاں ہیں)۔ ترکی زبان کو اسلامی ادب کی خصوصیات سے پاک کرنے کی کوشش کی‘ اور تمدن‘ معاشرت‘ تہذیب و اطوار اور عملی زندگی کے تمام طریقوں میں مغرب کی پوری تقلید کرنے پر زور دیا۔ اس قسم کے خیالات رکھنے والا شخص‘ جدید انقلابی جماعت کا امام مجتہدبن کر اٹھا اور اس نے کوشش شروع کی کہ اپنے متبعین کے ساتھ مل کر اسلامی تعلیمات کی ایسی تعبیر کرے جس سے چند گنے چنے عقائد اور اخلاقی اصولوں کے سوا اسلام کی ہر چیز کو قابل تغیر ثابت کرکے مغربی سانچے میں ڈھال دیا جاسکے۔
ایک طرف ترکی قوم میں اتنے بڑے انقلاب کی ابتدا ہو رہی تھی۔ دوسری طرف ترکوں کے علما اور مشائخ تھے جو اَب بھی ساتویں صدی کی فضا سے نکلنے پر آمادہ نہ تھے۔ ان کے جمود‘ ان کی تاریک خیالی‘ ان کی رجعت({ FR 1148 }) پسندی‘ اور زمانے کے ساتھ حرکت کرنے سے ان کے قطعی انکار کا اب بھی وہی حال تھا جو سلطان سلیم کے زمانے میں تھا۔ وہ اب بھی کہہ رہے تھے کہ چوتھی صدی کے بعد اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے‘ حالانکہ ان کی آنکھوں کے سامنے الحاد کا دروازہ کھل رہا تھا۔ وہ ابھی تک فلسفہ و کلام کی وہی کتابیں پڑھنے پڑھانے میں مشغول تھے جن کو پھینک کر زمانہ پانچ سو برس آگے نکل چکا تھا۔ وہ اب بھی اپنے وعظوں میں قرآن کی وہی تفسیریں اور وہی ضعیف حدیثیں سنا رہے تھے جن کو سن کر سوبرس پہلے تک کے لوگ تو سردھنتے تھے مگر آج کل کے دماغ ان کو سن کر صرف ان مفسرین و محدثین ہی سے نہیں بلکہ خود قرآن و حدیث سے بھی منحرف ہو جاتے ہیں۔ وہ ابھی تک اصرار کر رہے تھے کہ ترکی قوم میں وہی فقہی قوانین نافذ کیے جائیں گے جو شامی اور کنزالدقائق میں لکھے ہوئے ہیں خواہ اس اصرار کا نتیجہ یہی کیوں نہ ہو کہ ترک ان قوانین کے اتباع سے بھی آزادہو جائیں جو قرآن اور سنت رسولﷺ میں مقرر کیے گئے ہیں۔
غرض ایک طرف علما اور مشائخ اپنی اس روش پر قائم رہے جو ترکی قوم کو سو برس کے اندر تنظیمات کے مقام سے ہٹا کر انقلابیت کے اس مقام تک کھینچ کر لائی تھی، اور دوسری طرف ترکی قوم کے انقلابی لیڈر دل سے مسلمان ہونے کے باوجود، دماغ اور فکر و عمل کی واقعی دنیا میں اسلام سے دور اور دور تر ہوتے چلے جارہے تھے۔ اسی زمانے میں جنگ عظیم پیش آئی جس میں عرب اور ہندستان کے بدقسمت مسلمانوں نے اعدائے اسلام({ FR 1076 }) کے ساتھ مل کر ترکوںکے گلے کاٹے۔ پھر جنگ عظیم کے بعد جب ترکوں نے اپنی حیاتِ قومی کو کامل تباہی سے بچانے کے لیے جدوجہد شروع کی تو اس میں سب سے زیادہ اُن کی مخالفت جنھوں نے کی وہ خلیفۂ وقت اور شیخ الاسلام تھے۔ یہ آخری ضربات انقلابی ترک کی نیم جاں اسلامیت کے لیے فیصلہ کن تھیں۔ انھی کا نتیجہ ہے جو آج ہم کو ترکی جدید کی غیر معتدل تجدد پسندی کی شکل میں نظر آرہا ہے۔ ۱۹۰۸ء میں جو انقلابی خیالات ابھی خام تھے اور جن کو جنگ ِطرابلس‘ جنگ ِبلقان‘ جنگ ِعظیم اور حملۂ یونان کی مشغولیتوں نے پختہ ہونے سے روک رکھا تھا وہ لوزان کانفرنس کے بعد پختگی کو پہنچ گئے اور عملی شکل اختیار کرنے لگے۔ تمدن و معاشرت میں کامل مغربیت، زبان اور ادب اور سیاست میں انتہا درجے کی نسلی عصبیت‘ الغائے خلافت کے بعد مذہب و سلطنت کی تفریق اور پھر خالدہ خانم کے بقول سلطنت کو مذہب سے آزاد کرکے مذہب کو سلطنت کا پابند بنا دیا، اسلامی قانون کے بجائے سوئٹزر لینڈ کا قانون اختیار کرنا، وراثت اور نکاح و طلاق وغیرہ مسائل میں قرآن کے صریح احکام تک کو بدل ڈالنا‘ عورتوں کو اسلامی تعلیم کے بالکل خلاف اس آزادی کی روش پر ڈال دینا جس پر جنگِ عظیم کے بعد یورپ کی عورتیں چل رہی ہیں‘ یہ سب قدرتی نتائج ہیں جاہل علما کے جمود‘ اور ہوا پرست(۲) صوفیا کی گمراہی‘ اور خلافت کے منصب سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے سلاطین کی خود غرضی‘ اور انقلابی لیڈروں کی قرآن اور سنت رسولﷺ کے علم سے کلی جہالت کے۔ افسوس کہ اس صدی میں ترکی قوم نے ایک بھی ایسا شخص پیدا نہیں کیا جو قرآن میں بصیرت رکھنے والا اور اسلامی تعلیم کی حقیقی روح کو سمجھنے والا ہوتا‘ اور زمانے کے متغیر حالات پر گہری نگاہ ڈال کر صحیح اجتہادی قوت سے کام لیتا‘ اور اصولِ اسلام کو ان حالات پر منطبق کرکے ایک ایسا سمویا ہوا نظام مرتب کر دیتا جس کی اساس کتاب و سنت پر ہوتی اور جس میں رفتار زمانہ کے ساتھ حرکت کرنے کی صلاحیت ہوتی۔
ترکی تاریخ کے ان تحولات({ FR 1077 }) سے جو لوگ واقف نہیں ہیں وہ عجیب عجیب غلطیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ پرانے مذہبی خیال کے لوگ نوجوان ترکوں پر کفر اور فسق کے فتوے لگا رہے ہیں، مگر ان کو خبر نہیں کہ نوجوان ترکوں سے زیادہ گناہ گار تو ٹرکی کے علما و مشائخ ہیں۔ انھی کے جمود نے ایک مجاہد قوم کو جو پانچ سو برس سے اسلام کے لیے تن تنہا سینہ سپر تھی اسلامیت سے فرنگیت کی طرف دھکیلا ہے اور اندیشہ ہے کہ ایسے ہی جامدین دوسری مسلمان قوموں کو بھی ایک روز اسی جانب دھکیل کر رہیں گے۔ دوسری طرف جدت پسند حضرات ہر اس وحی کو جو انقرہ سے نازل ہوتی ہے مسلمانوں کے سامنے اس طرح پیش کر رہے ہیں گویا قرآن منسوخ ہو چکا‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ختم ہوگئی‘ اب ہدایت ہے تو اتاترک کے اسوہ میں اور نور علم ہے تو آسمانِ انقرہ سے اتری ہوئی وحی میں۔ حالانکہ بے چارے اتاترک اور اس کے متبعین(۲) کا حال یہ ہے کہ:
مَا لَہُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ۝۰ۤ اِنْ ہُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَo الزخرف 20:43
یہ اس معاملے کی حقیقت کو قطعی نہیں جانتے، محض تیرتکے لڑاتے ہیں۔
(ترجمان القرآن، ذی القعدہ ۱۳۵۴ء۔ فروری ۱۹۳۶ء)


۸۔ عقلیت کا فریب (۱)

اسلامی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے نیم پختہ یا بالکل خام نوجوانوں کے مذہبی خیالات پر مغربی تعلیم اور تہذیب کا جو اثر ہوتا ہے اس کا اندازہ اُن تحریروں اور تقریروں سے ہوسکتا ہے جو اس قسم کے لوگوں کی زبان و قلم سے آئے دن نکلتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں صوبہ متحدہ کے ایک مسلمان گریجویٹ صاحب کا ایک مضمون ہماری نظر سے گزرا جس میں انھوں نے اپنی سیاحتِ چین و جاپان کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ہمارے ساتھ جو چینی مسافر ہیں وہ انتہا کے بلا نوش({ FR 1149 }) اور شراب خور ہیں۔ سور کا گوشت تو ان کی جان ہے۔ اب میں نے عیسائیت کی ترقی کا راز سمجھا۔ چینی اپنے قدیم مذہب کی پیروی کونئی تعلیم کے ساتھ عار(۲) پاتا ہے۔ اس کو اسلام قبول کرنے میں تامل نہ ہوتا، اگر وہ اس کو سمجھتا ہوتا، مگر اسلام اس کو اس کی تمام مرغوب غذائوں سے محروم کر دیتا ہے۔ چار و ناچار عیسائی ہو جاتا ہے ……… کچھ عجب نہیں کہ آئندہ چین کا سرکاری مذہب عیسائیت ہوجائے۔ میں سور کے گوشت کے معاملے میں اہل یورپ اور اہل چین کے نو مسلموں کے ساتھ ذرا ڈھیل دینا پسند کرتا ہوں۔ قرآن سے بھی مجھے اس کے قطعی حرام ہونے میں شک ہے۔ زیادہ بریں نیست(۳) کہ اہل عرب کے لیے کسی خاص وجہ سے حرام کر دیا گیا ہو، مگر ایسے ممالک میں جہاں اس کے بغیر (فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ) البقرہ 173:2 ہو جائے تو کیا ہرج ہے؟
بہرحال قرآن کا یہی ایک حکم ہے جس کی ممانعت عمومی کی علت میری سمجھ میں اب تک نہیں آئی، ورنہ اصولاً معدہ اور محرکاتِ اخلاق میں اس قدر بُعد ہے کہ مذہب ہمارے کھانے کا مینو (menu) بھی تیار کرے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ ہم کو آہن گری(۴) اور زرگری و خیاطی ({ FR 1079 })وغیرہ کاکام بھی کیوں نہ سکھائے۔ میرا خیال ہے کہ دنیا میں اسلام کے ترقی نہ کرنے کا راز اسی میں پنہاں ہے کہ وہ آدمی کے تمام حقوق انسانی سلب کرکے اس کو ایک لاشۂ بے جان اور ایسا بے حس بچہ بنا دیتا ہے کہ وہ اپنی دنیاوی ترقی کی راہیں سب بھول جاتا ہے ورنہ مذہب درحقیقت اسی قدر ہونا چاہیے جیسا کہ عیسائیوں نے سمجھ رکھا ہے۔
اس کے بعد وہ شنگھائی کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
خدا کی اس بے شمار خلقت کو خوش و خرم و خوش حال دیکھ کر دل گواہی نہیں دیتا کہ یہ تمام کے تمام چند سال کے بعد دوزخ کے ایندھن بنائے جائیں گے۔ گویا ان کی پیدائش کا یہی ایک مقصد خدا کے پاس رہ گیا ہے۔ پھروہ سب کے سب الاماشاء اللہ چند نفوس کے علاوہ اگر بت پرست اور کافر ہیں تو انھوں نے دوزخ میں رکھے جانے کے لیے کیا یہی قصور کیا ہے کہ انھوں نے خدا کی زمین کو معمور کر دیا ہے؟ نہ وہ حاجیوں کوقتل و غارت کرتے ہیں‘ نہ ان میں قوم لوط کا عمل ہے، نہ وہ کسی کے مال کو ہضم کرلیتے ہیں اور نہ اس کو جائز کرنے کے لیے تاویلیں کرتے ہیں۔ خاموشی سے اس زندگی کو بحسن و خوبی طے کر رہے ہیں۔ پھر بھی وہ مستحق دوزخ ہیں۔ آخر کیوں؟…… یقیناً مشرکانہ عقیدہ ایک سودائے خام ہے، لیکن یہ تو بتائو کہ اگر ایک شخص ایک ایسی ہستی کا فطرۃً قائل ہو جاتا ہے جو اس کو مارتی اور جلاتی ہے تو محض اس لیے کہ اس کی ماہیت اس کی سمجھ سے اتنی ہی باہر ہے جتنی ہماری سمجھ سے‘ یا وہ عربی کو خدا کی زبان نہیں سمجھتا‘ تم اس کے دشمن ہو، اور وہ تمھارا دشمن ہو جاتا ہے، مگر نہیں! تمھارے نزدیک یہ سب کچھ ضروری نہیں ہے۔ ضروری تو یہ ہے کہ پائجامہ ایک خاص وضع کا ہو، کرتے کی کاٹ ایسی ہو، فلاں قسم کا کھانا کھائے، منہ پر چار انگل کی داڑھی ہو، کبھی اپنے ملکی مدرسوں میں قدم نہ رکھے اس واسطے کہ وہاں مذہب کی زبان اور مذہب کا فن تم کو نہیں سکھایا جاتا۔
جاپان کی بندرگاہ کو بے کے متعلق فرماتے ہیں:
دو گھنٹے تک میں کوبے میں پھرتا رہا۔ ایک بھیک مانگنے والا مجھ کو نہ ملا، اور نہ کوئی پھٹے پرانے کپڑوں میں بدحال ملا۔ یہ ہے اُس قوم کی ترقی کا حال جو نہ مذہب کو جانتی ہے اور نہ خدا کو۔
پھر وہ بقول خود موعظہ حسنہ‘ شروع کرتے ہیں:
یادرکھو، کہ احسان اصل دین ہے اور احسان کسی زبان اور فن کا محتاج نہیں۔ اس کا فطری مقصود یہ ہے کہ ہم آئندہ زندگی میں یا خود اس زندگی میں اپنے اعمال کے جواب وہ ہیں اور ہوں گے۔ یہی دراصل مذہب اسلام ہے۔ اس سے زیادہ جس چیز کا تم نے مذہب نام دے رکھا ہے وہ محض تمھارے نفس کا دھوکا ہے، یا تمھارے دماغ کا خلل ہے۔ جس روز ان دونوں باتوں پر مذہب کو محدود کر دو گے اور اپنی ساری بیڑیاں شریعت کی توڑ ڈالو گے تم بھی قوموں کے ساتھ بام ترقی پر پہنچو گے بلکہ یوں کہو کہ تم قوموں میں ضمیر پیدا کر دو گے۔ جن کے ہاتھ سے اگر دنیا نہیں گئی ہے تو آسمانی بادشاہت بھی نہ جائے گی۔ تم خود کوئی قوم نہیں ہو بلکہ قوموں کے مصلح ہو، مگر خدارا، اس کے کہنے کا موقع تو نہ دو کہ فلاں قوم برسر اوج({ FR 1080 }) ہے مگر جو ان میں مسلمان ہیں ان کی حالت زبوں(۲) ہے‘ اور یقیناً اس زبونی کا ذمہ دار ان کا عجیب و غریب مذہب ہے۔
یہ تحریر ہماری نئی تعلیم یافتہ نسل کی عام دماغی حالت کا ایک واضح نمونہ ہے۔ مسلمان کے گھر پیدا ہوئے‘ مسلم سوسائٹی کے رکن کی حیثیت سے پلے بڑھے‘ مسلمانوں کے ساتھ معاشرت و تمدن کی بندشوں میں بندھے‘ اس لیے اسلام کی محبت‘ مسلمانوں کے ساتھ ہم دردی اور مسلمان رہنے کی خواہش گویا ان کی گھٹی میں پڑی اور ان کے دلوں میں اس طرح بیٹھ گئی کہ اس میں ان کے ارادے اور اپنی عقلی و فکری قوتوں کا دخل نہ تھا، مگر قبل اس کے کہ اس اضطراری وغیر شعوری اسلام کو تعلیم و تربیت کے ذریعے سے اختیاری اور شعوری اسلام بنایا جاتا‘ اور ان میں یہ صلاحیت پیدا کی جاتی کہ وہ اسلامی تعلیمات کو پوری طرح سمجھ کر مسلمان ہوتے اور عملی زندگی میں اس کے احکام و قوانین کو برت کر بھی دیکھ لیتے‘ انھیں انگریزی مدرسوں اور کالجوں میں بھیج دیا گیا جہاں ان کے قوائے ذہنی و فکری کی پرورش بالکل غیر اسلامی تعلیم و تربیت میں ہوئی اور ان کے دماغوں پر مغربی افکار اور مغربی تہذیب کے اصول اس طرح چھا گئے کہ ہر چیز کو وہ مغرب کی نظر سے دیکھنے اور ہر مسئلے پر مغرب ہی کے ذہن سے غور کرنے لگے‘ اور مغربیت کے اس استیلا({ FR 1081 }) سے آزاد ہو کر سوچنا اور دیکھنا ان کے لیے ناممکن ہوگیا۔ مغرب سے انھوں نے عقلیت (rationalism)کا سبق سیکھا‘ مگر خود عقل ان کی اپنی نہ تھی بالکل یورپ سے حاصل کی ہوئی تھی‘ اس لیے ان کی عقلیت دراصل فرنگی عقلیت ہوگئی نہ کہ آزاد عقلیت۔ انھوں نے مغرب سے تنقید (criticism) کا درس بھی لیا‘ مگر یہ آزاد تنقید کا درس نہ تھا بلکہ اس چیز کا درس تھا کہ مغرب کے اصولوں کو برحق مان کر ان کے معیار پر ہر اس چیز کو جانچو جو مغربی نہیں ہے‘ لیکن خود مغرب کے اصولوں کو تنقید سے بالاتر سمجھو۔ اس تعلیم و تربیت کے بعد جب یہ لوگ کالجوں سے فارغ ہو کر نکلے اور زندگی کے میدان عمل میں انھوں نے قدم رکھا تو ان کے دل اور دماغ میں بعدالمشرقین واقع ہو چکا تھا۔ دل مسلمان تھے اور دماغ غیرمسلم۔ رہتے مسلمانوں میں تھے‘ شب و روز کے معاملات مسلمانوں کے ساتھ تھے‘ تمدن و معاشرت کی بندشوں میں مسلمانوں کے ساتھ بندھے ہوئے تھے‘ اپنے گرد و پیش مسلمانوں کی مذہبی و تمدنی زندگی کے اعمال دیکھ رہے تھے‘ ہم دردی و محبت کے رشتے مسلمانوں سے وابستہ تھے‘ مگر سوچنے اور سمجھنے اور رائے قائم کرنے کی جتنی قوتیں تھیں وہ سب مغربی سانچوں میں ڈھلی ہوئی تھیں جن سے نہ اسلام کا کوئی قاعدہ مطابقت رکھتا تھا اور نہ مسلمانوں کا کوئی عمل۔ اب انھوں نے مغربی معیار کے مطابق اسلام اور مسلمانوں کی ہر چیز پر تنقید شروع کی اور ہر اس چیز کو غلط اور قابل ترمیم سمجھ لیا جسے اس معیار کے خلاف پایا‘ خواہ وہ اسلام کے اصول و فروع میں سے ہو‘ یا محض مسلمانوں کا عمل ہو۔ ان میں سے بعض نے تحقیق حال کے لیے کچھ اسلام کا مطالعہ بھی کیا، مگر تنقید و تحقیق کا معیار وہی مغربی تھا۔ ان کی ذہنیت کے ٹیڑھے سوراخ میں اسلام کی سیدھی میخ آخر بیٹھتی تو کیوں کر؟
مذہبی مسائل پر جب یہ حضرات اظہار خیال کرتے ہیں تو ان کی باتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے تقریر فرما رہے ہیں۔ نہ ان کے مقدمات درست ہوتے ہیں‘ نہ منطقی اسلوب پر ان کو ترتیب دیتے ہیں اور نہ صحیح نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ کلام کرتے وقت خود اپنی پوزیشن بھی متعین نہیں کرتے۔ ایک ہی سلسلۂ کلام میں مختلف حیثیتیں اختیار کر جاتے ہیں۔ ابھی ایک حیثیت سے بول رہے تھے کہ دفعتاً ایک دوسری حیثیت اختیار کرلی اور اپنی پچھلی حیثیت کے خلاف بولنے لگے۔ سستی فکر (loose-thinking)ان کے مذہبی ارشادات کی نمایاں خصوصیت ہے۔ مذہب کے سوا دوسرے جس مسئلے پر بھی بولیں گے ہوشیار اور چوکنے ہو کربولیں گے‘ کیونکہ وہاں اگر کسی قسم کی بے ضابطگی ہوگئی تو جانتے ہیں کہ اہل علم کی نگاہ میں کوئی وقعت باقی نہ رہے گی، لیکن مذہب چونکہ ان کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا‘ اور اس کو وہ اتنا وزن ہی نہیں دیتے کہ اس پر کلام کرتے وقت اپنے دماغ پر زور دینا ضروری سمجھیں‘ اس لیے وہ یہاں بالکل بے فکری کے ساتھ ڈھیلی ڈھالی گفتگو فرماتے ہیں‘ گویا کھانا کھا کر آرام کرسی پر دراز ہیں‘ اور محض تفریح کے طور پر بول رہے ہیں جس میں ضوابطِ کلام کو ملحوظ رکھنے کی کوئی حاجت ہی نہیں۔
دوسری بات جو ان کی تحریروں میں نمایاں نظر آتی ہے وہ خیالات کی سطحیت اور معلومات کی کمی ہے۔ مذہب کے سوا کسی اور مسئلے میں وہ اتنی کم معلومات اور اس قدر کم غور و فکر کے ساتھ بولنے کی جرأت نہیں کرسکتے کیونکہ وہاں اگر تحقیق کے بغیر ایک کلمہ منہ سے نکل جائے تو آبرو جاتی رہے، لیکن مذہب کے معاملے میں وہ تحقیق اور مطالعے اور غور و فکر کو ضروری نہیں سمجھتے۔ سرسری طور پر جو کچھ معلوم ہوگیا اس پر رائے قائم کرلی اور بے تکلف اس کو بیان کر دیا، اس لیے کہ کسی گرفت کا یہاں خوف ہی نہیں۔ گرفت اگر کرے گا تو مولوی کرے گا اور مولوی کے متعلق یہ بات پہلے ہی اصول موضوعہ( { FR 1086 })کے طور پر داخل مُسلَّمات(۲) ہو چکی ہے کہ وہ تاریک خیال‘ دقیانوسی اور تنگ نظر ہوتا ہے۔
فاضل مضمون نگار کی زیر نظر تحریر‘ چشم بد دور‘ ان دونوں خصوصیات کی حامل ہے۔ سب سے پہلے تو ان کے مضمون سے یہی نہیں معلوم ہوتا کہ وہ مسلم کی حیثیت سے کلام کر رہے ہیں یا غیر مسلم کی حیثیت سے۔ اسلام کے متعلق گفتگو کرنے والے کی دو ہی حیثیتیں ہو سکتی ہیں مسلم ہوگا، یا غیر مسلم۔ جو شخص مسلم کی حیثیت سے کلام کرے گا عام اس سے کہ وہ خوش عقیدہ (orthodox) ہو یا آزاد خیال‘ یا اصلاح طلب۔ بہرحال اس کے لیے لازم ہوگا کہ دائرہ اسلام کے اندر رہ کر کلام کرے یعنی قرآن کو منتہائے کلام (final authority) سمجھے اور ان اصول دین و قوانین شریعت کو تسلیم کرے جو قرآن نے مقرر کیے ہیں کیونکہ اگر وہ قرآن کی سند کو نہ مانے گا اور کسی ایسی بات میں کلام کی گنجائش سمجھے گا جو قرآن سے ثابت ہو‘ تو دائرہ اسلام سے باہر نکل آئے گا‘ اور اس دائرے سے نکلنے کے بعد اس کی مسلمانہ حیثیت باقی ہی نہ رہے گی کہ وہ اس میں کلام کرسکے۔ رہی دوسری حیثیت یعنی یہ کہ بولنے والا غیر مسلم ہو تو اس حیثیت میں اسے پورا حق ہوگا کہ قرآن کے اصول اور اس کے احکام پر جیسی چاہے تنقید کرے‘ اس لیے کہ وہ اس کتاب کو منتہائے کلام نہیں مانتا، لیکن یہ حیثیت اختیار کرنے کے بعد اسے مسلم کی حیثیت سے گفتگو کرنے اور مسلمان بن کر مسلمان کو اسلام کے معنی سمجھانے اور اسلام کی ترقی کے وسائل بتانے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ ایک صاحب عقل و شعور آدمی جب سوچ سمجھ کر اسلام کے متعلق گفتگو کرے گا تو وہ سب سے پہلے یہ فیصلہ کرے گا کہ وہ ان دونوں حیثیتوں میں سے کون سی حیثیت اختیار کرتا ہے۔ پھر وہ جو حیثیت بھی اختیار کرے گا اس کے عقلی شرائط کو ملحوظ رکھے گا کیونکہ بیک وقت اپنے آپ کو مسلمان بھی کہنا اور قرآن کے مقرر کیے ہوئے اصول و قوانین پر نکتہ چینی کا حق بھی استعمال کرنا‘ قرآن کی سند میں کلام بھی کرنا اور مسلمانوں کو موعظہ حسنہ بھی سنانا کسی عاقل کا فعل نہیں ہوسکتا۔ یہ نقیضین({ FR 1083 }) کو جمع کرنا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیںکہ ایک شخص بیک وقت مسلم بھی ہو اور غیر مسلم بھی‘ دائرہ اسلام کے اندر بھی ہو اور باہر بھی۔
مضمون نگار صاحب کی علمی قابلیت اور ان کی معقولیت کی طرف سے ہم اتنے بدگمان نہیں ہیں کہ ان سے یہ امید رکھیں کہ اگر وہ اسلام کے سوا کسی مسئلے پر کلام فرماتے تو اس میں بھی اس طرح دو مختلف حیثیتوں کو بیک وقت اپنے اندر جمع کر لیتے۔ ہم ان سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ قیصر ہند کی عدالت میں بیٹھ کر قیصر ہند کے منظور کیے ہوئے قوانین پر نکتہ چینی کرنے کا حق استعمال فرمائیں گے۔ نہ ہم ان سے اس جرأت کی امید رکھتے ہیں کہ وہ کسی مسلکِ فکر (school of thought) کی پیروی کا دعویٰ کرنے کے بعد ان اصولوں پر مخالفانہ نکتہ چینی کریں گے جن پر وہ مذہب قائم ہے، لیکن طُرفہ({ FR 1084 }) ماجرا ہے کہ اسلام کے معاملے میں انھوں نے دو بالکل مختلف حیثیتیں اختیار کی ہیں‘ اور یہ محسوس تک نہیں کیا کہ وہ بار بار اپنی پوزیشن بدل رہے ہیں۔ ایک طرف وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں‘ مسلمانوں کا سا نام رکھتے ہیں‘ مسلمانوں کی زبوں حالی پر رنج فرماتے ہیں‘ اسلام کی ترقی کی خواہش ظاہر کرتے ہیں‘ مسلمانوں کو احسان یعنی اصل دین کا وعظ سناتے ہیں۔ دوسری طرف اس کتاب کے مقرر کیے ہوئے اصول اور قوانین پر نکتہ چینی بھی کرتے ہیں جس پر اسلام کی بنیاد قائم ہے اور جس کو آخری سند تسلیم کرنا مسلمان ہونے کی لازمی شرط ہے۔ قرآن ایک نہیں چار جگہ بالتصریح(۲) سور کے گوشت کو حرام قرار دیتا ہے،(۳)مگر آپ اس معاملے میں ڈھیل دینا پسند فرماتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ ڈھیل دینے کی یہ خواہش بھی ترقیِ اسلام کے لیے ہے۔ گویا ترقیِ اسلام کی فکر آپ کو قرآن سے بھی زیادہ ہے، یا کوئی اسلام قرآن سے باہر بھی ہے جس کی ترقی آپ چاہتے ہیں۔ قرآن فی الواقع انسان کے لیے کھانے کا مینو (menu) تیار کرتا ہے‘ کھانے کی چیزوں میں حرام و حلال، خبیث و طیب کا فرق قائم کرتا ہے اور صاف کہتا ہے کہ تم اپنے اختیار سے کسی شے کو حلال اور حرام قرار دینے کا حق نہیں رکھتے،(۴)مگر آپ کو اپنے حق پر اصرار ہے اور خود قرآن کا یہ حق تسلیم کرنے میں تامل ہے کہ وہ کھانے پینے میں مذہب کو دخل دے۔ قرآن مذہب کو ان حدود میں نہیں رکھتا جن میں سینٹ پال (نہ کہ مسیحؑ)کے متبعین نے اس کو محدود کیا ہے۔ وہ لباس‘ اکل و شرب‘ (۵)نکاح و طلاق‘ وراثت‘ لین دین‘ سیاست‘ عدالت، تعزیرات وغیرہ کے قوانین وضع کرتا ہے، مگر آپ اس قسم کی قانون سازی کو غلط سمجھتے ہیں‘ اس کو ترقیِ اسلام میں مانع قرار دیتے ہیں‘ اس پر الزام رکھتے ہیں کہ وہ انسان کو ایک لاشۂ بے جان اور بے بس بچہ بنا دیتا ہے‘ اور تجویز کرتے ہیں کہ مذہب اسی قدر ہونا چاہیے جس قدر عیسائیوں (دراصل پولوسیوں) نے سمجھا ہے۔ قرآن نے خود قوانین شریعت بنائے ہیں اور ان کو حدود اللہ سے تعبیر کرکے ان کی پابندی کا حکم دیا ہے، مگر آپ شریعت کی ان حدود کو بیڑیوں سے تعبیر کرتے ہیں‘ اور سینٹ پال کی طرح مذہب کی توسیع و ترقی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ ان بیڑیوں کو توڑ ڈالا جائے۔ قرآن کے نزدیک ایمان نجات کی پہلی اور لازمی شرط ہے اور جو لوگ خدا پر ایمان نہیں رکھتے ان کے متعلق وہ بالفاظ صریح کہتا ہے کہ وہ دوزخ کا ایندھن بنائے جائیں گے({ FR 1087 })خواہ وہ بے شمار ہوں یا شمار میں آجائیں‘ خوش حال ہوں یا بدحال‘ مگر آپ کا یہ حال ہے کہ کافروں اور بت پرستوں کی بے شمار خلقت کو خوش و خرم و خوش حال دیکھ کر آپ کا دل گواہی نہیں دیتا کہ چند سال کے بعد وہ سب دوزخ کا ایندھن بنائے جائیں گے‘ اور آپ کی سمجھ میں نہیں آتا کہ انھوں نے خدا کی زمین کو معمور کر دینے کے سوا اور کون سا قصور کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن سے اتنا کھلا ہوا اختلاف رکھتے ہوئے آپ مسلمان کیسے رہ سکتے ہیں‘ اور مسلمان ہوتے ہوئے قرآن سے اختلاف کیوں کر کرسکتے ہیں؟ اگر آپ مسلمان ہیں تو قرآن سے اختلاف نہ فرمائیے اور اگر قرآن سے اختلاف کرنا چاہتے ہیں تو دائرہ اسلام سے باہر کھڑے ہوکراختلاف کیجیے۔
جو شخص کسی مذہب کے اصول اور احکام و قوانین سے مطمئن نہ ہو‘ جس کا دل ان کی صداقت پر گواہی نہ دیتا ہو‘ جو ان کی علت و مصلحت کو سمجھنے سے عاجز ہو‘ اور جس کے نزدیک ان میں سے بعض یا اکثر باتیں قابل اعتراض ہوں‘ اس کے لیے دو راستے کھلے ہوئے ہیں:
۱۔ یا تو وہ اس مذہب سے نکل جائے‘ پھر اس کو حق ہوگا کہ اس مذہب کے جس قاعدے اور جس حکم پر چاہے نکتہ چینی کرے۔
۲۔ یا اگر وہ اس عدم اطمینان کے باوجود اس مذہب میں رہنا چاہتا ہے تو اس کے خلاف مظاہرہ کرنے سے احتراز کرے اور مجتہد بن کر اس کے قواعد و ضوابط پر تیشہ چلانے کے بجائے، طالب علم بن کر اپنے شکوک و شبہات حل کرنے کی کوشش کرے۔
عقل و دانش کی رو سے تو اس حالت میں یہی دو طریقے ہوسکتے ہیں‘ اور مرد عاقل جب کبھی ایسی حالت میں مبتلا ہوگا تو انھی میں سے کسی ایک طریقے کو اختیار کرے گا، لیکن فاضل مضمون نگار اور ان کی طرح بہت سے فرنگی تعلیم و تربیت پائے ہوئے حضرات کا حال یہ ہے کہ پہلا طریقہ اختیار کرنے کی اخلاقی جرأت ان میں نہیں اور دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہوئے انھیں شرم آتی ہے‘ اس لیے انھوں نے بیچ کا ایک غیر معقول طریقہ اختیار کر رکھا ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ ایک طرف مسلمانوں میں شامل بھی ہوتے ہیں‘ ترقیِ اسلام کے آرزو مند بھی بنتے ہیں‘ اسلام اور مسلمانوں کے درد میں تڑپتے بھی ہیں‘ اور دوسری طرف اسلام کے خلاف وہ سب کچھ کہتے اور کرتے ہیں جو ایک غیر مسلم کہہ اور کرسکتا ہے‘ حدیث و فقہ تو درکنار قرآن تک پر نکتہ چینی کرنے سے باز نہیں رہتے‘ اور ان تمام بنیادوں پر ضرب لگا جاتے ہیں جن پر اسلام قائم ہے۔ ان حضرات کو دعویٰ ہے کہ ہم اربابِ عقل (rationalists)ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم کوئی ایسی بات نہیں مان سکتے جو عقل کے خلاف ہو۔ ملانوں پر ان کا سب سے بڑا الزام یہی ہے کہ وہ عقل سے کام نہیں لیتے، مگر خود ان کا حال یہ ہے کہ مذہب کے معاملے میں صریح متناقض({ FR 1088 }) باتیں کرتے ہیں‘ متضاد طرز عمل اختیار کرتے ہیں اور اپنی ایک بات کی تردید خود اپنی ہی دوسری بات سے کر جاتے ہیں۔ آخر یہ ریشنلزم کی کون سی قسم ہے جس کی ایجاد کا شرف ان روشن خیال محققین کو حاصل ہوا ہے۔
اب ذرا ان کی معلومات کی وسعت اور فکر کی گہرائی ملاحظہ فرمائیے۔
اسلام کی ترقی کے لیے آپ ضروری سمجھتے ہیں کہ مسیحیت کی طرح اسلام سے بھی شرعی حدود اٹھا دی جائیں اور اسلام صرف ایک عقیدے کی حیثیت میں رہ جائے‘ کیونکہ مسیحیت کی ترقی کا راز جو آپ نے سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں حرام و حلال کی قیود نہیں ہیں‘ اخلاقی پابندیاں نہیں ہیں‘ اس میں آدمی کے انسانی حقوق سلب کر کے اس کو ایک لاشۂ بے جان اور بے بس بچہ نہیں بنایا گیا ہے‘ بلکہ اس کو آزادی دے دی گئی ہے کہ مسیح پر ایمان رکھ کر جو چاہے کرے، مگر آپ نے یہ غور نہیں فرمایا کہ اسلام جس چیز کا نام ہے وہ قرآن میں ہے، اور قرآن نے ایمان و عمل صالح کے مجموعے کا نام اسلام رکھا ہے‘ عمل صالح کے لیے حدود قیودمقرر کیے ہیں‘ قوانین بنائے ہیں اور انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے ایک مکمل نظام عمل مقرر کیا ہے جس کے بغیر اسلام بحیثیت ایک دین اور ایک تہذیب کے قائم نہیں ہوسکتا۔ اس نظام اور اس کی حدود کو منسوخ کرنے کا اختیار کسی مسلمان کو نہیں ہے کیونکہ اس کا نسخ قرآن کا نسخ ہے‘ اور قرآن کا نسخ اسلام کا نسخ ہے‘ اور جب اسلام خود ہی منسوخ ہو جائے تو اس کی ترقی کے کیا معنی؟ آپ خود کسی مذہب کو ایجاد کرکے اس کی اشاعت فرما سکتے ہیں، مگر جو چیز قرآن کے خلاف ہے اس کو اسلام کے نام سے موسوم کرنے اور اس کی ترقی کو اسلام کی ترقی کہنے کا آپ کو کیا حق ہے؟
آپ اسلام صرف اُس عقیدے کا نام رکھتے ہیں کہ:
ہم آئندہ زندگی میں یا خود اس زندگی میں اپنے اعمال کے جواب دہ ہیںاور ہوں گے۔
یہ بات غالباً آپ نے اس امید پر فرمائی ہے کہ اگر اسلام اس حد میں محدود ہو جائے گا تو بالکل نرم اور آسان ہو جائے گا اور خوب پھیلتا چلا جائے گا، لیکن اگر آپ اس عقیدے کے معنی پر غور فرماتے تو آپ کو معلوم ہو جاتا کہ اس حد میں محدود ہونے کے بعد بھی اسلام آپ کی مرضی کے مطابق نہیں ہوسکتا۔ اس عقیدے کو مذہب قرار دینے کے لیے سب سے پہلے توحیات اخروی پر ایمان لانا ضروری ہے۔ پھر جواب دہی کا مفہوم تین باتوں کا متقاضی ہے۔
٭ ایک یہ کہ جس کے سامنے جواب دہی کرنی ہے اس کو متعین کر لیا جائے‘ اور اس کی بالادستی تسلیم کرلی جائے۔
٭ دوسرے یہ کہ جواب دہی کی نوعیت متعین کی جائے اور زندگی کے اعمال میں اس لحاظ سے امتیاز کیا جائے کہ کن اعمال سے اس جواب دہی میں کامیابی نصیب ہوگی اور کون سے اعمال ناکامی کے موجب ہوں گے۔
٭ تیسرے یہ کہ جواب دہی میںکامیابی اور ناکامی کے جدا جدا نتائج متعین کیے جائیں کیونکہ اگر ناکامی کا نتیجہ بھی وہی ہو جو کامیابی کا ہے‘ یا سرے سے دونوں کا کوئی نتیجہ ہی نہ ہو تو جواب دہی بالکل بے معنی ہے۔
یہ اس عقیدے کے عقلی لوازم ہیں جس کو آپ اصل دین قرار دے رہے ہیں۔ اگر آپ کی تجویز کے مطابق اسی عقیدے پر اسلام قائم کر دیا جائے تب بھی وہی مصیبت پیش آئے گی جس سے آپ بچنا چاہتے ہیں۔ پھر وہی خدا کو ماننا لازم آئے گا جس کے بغیر جاپان آپ کو ترقی کے بام پر چڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ پھر وہی شریعت کی بیڑیاں اور اخلاق کی زنجیریں تیار ہو جائیں گی جن کو آپ توڑنا چاہتے ہیں اور جن کے وجود میں آپ کے نزدیک اسلام کے ترقی نہ کرنے کا راز پوشیدہ ہے‘ پھر وہی عذاب و ثواب کا جھگڑا نکل آئے گا اور خدا کی بے شمار خلقت کو اس عقیدے کے بغیر خوش و خرم و خوش حال دیکھ کر آپ کا دل پھر اس بات پر گواہی دینے سے انکار کر دے گا کہ چند سال بعد یہ سب عذاب میں مبتلا ہوں گے۔
براہ کرم، اب ذرا غور کرکے کسی ایسی چیز کا نام اسلام رکھیے جس میں کسی قسم کی قید و بند نہ ہو‘ جس کو ماننے اور نہ ماننے کا نتیجہ یکساں ہو‘ جس میں صرف خدا کی زمین کو معمور کر دینا دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے کافی ہو‘ اور جس پر ایمان نہ لانے والی بے شمار خلقت کو خوش و خرم و خوش حال دیکھ کر آپ کا دل گواہی دے سکے کہ وہ سب جنت کی بلبلیں بنائی جائیں گی۔
قرآن کی رو سے سور کے گوشت کا قطعی حرام ہونا آپ کے نزدیک مُسَلَّم نہیں ہے۔ آپ شک فرماتے ہیں کہ شایداہل عرب کے لیے کسی خاص وجہ سے حرام کر دیا گیا ہوگا، لیکن اگر آپ اس رائے کو ظاہر کرنے سے پہلے قرآن کھول کر پڑھ لیتے تو اس شک کی تحقیق ہو جاتی۔ اس کتاب میں صاف لکھا ہوا ہے کہ:
قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗٓ اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْدَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ الانعام6:145
اے محمدؐ! ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اُس مَیں تو میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، اِلاَّیہ کہ وہ مردار ہو، یا بہایا ہو خون ہو، یا سور کا گوشت ہو کہ وہ ناپاک ہے، یا فسق ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں (کوئی چیز اِن میں سے کھالے) بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کا ارادہ رکھتا ہو، اور بغیر اس کے کہ وہ حد ضرورت سے تجاوز کرے، تو یقیناً تمھارا رب درگزر سے کام لینے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
اس آیت میں سور کے گوشت کو ہر ’طاَعمِ‘ یعنی کھانے والے کے لیے حرام قرار دیا گیا ہے‘ اور حرمت کی علت یہ قرار دی گئی ہے کہ وہ رِجس‘ (ناپاک) ہے۔ کیا یہاں طاَعِم سے مراد عرب کا طاعم ہے؟ اور کیا ایک ہی چیز عرب کے لیے رجس اور غیر عرب کے لیے طیب و طاہر ہوسکتی ہے؟ اور کیا اسی طریقے سے آپ مردار کھانے والوں کے لیے بھی ذرا ڈھیل دینا پسند فرمائیں گے؟ آپ سور کے معاملے میں ڈھیل چاہتے ہیں تو خود اپنی طرف سے دیجیے مگر قرآن کے صریح الفاظ کے خلاف آپ کو یہ کہنے کا کیا حق ہے کہ قرآن سے اس کی قطعی ممانعت مشکوک ہے؟
آج کل کے نئے مجتہدین نے اجتہاد کے جو اصول وضع کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسلام کے جس حکم کی خلاف ورزی کرنا چاہتے ہیں اس کے متعلق بلا تکلف کہہ دیتے ہیں کہ یہ خاص اہل عرب کے لیے تھا‘ خواہ قرآن میں اس تخصیص کی طرف کوئی ذرا سا اشارہ بھی نہ ہو، اور تخصیص کے لیے وہ کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہ رکھتے ہوں۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو بعید نہیں کہ ایک روز قرآن ہی کو اہل عرب کے لیے مخصوص کر دیا جائے۔
اور ’’فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ‘‘ البقرہ2:173 سے استدلال تو اتنا لطیف ہے کہ صاحب سفرنامہ کے علم و فضل کی داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ غالبًا اس آیت کا ترجمہ انھوں نے یہ کیا ہوگاکہ:
جب سور کا گوشت کھانے کو بے اختیار جی چاہے تو کھا لو مگر باغ میں بیٹھ کر نہ کھانا اور نہ اس کی عادت ڈالنا۔
سور کے گوشت کے معاملے میں اہل یورپ اور اہل چین کے ڈھیل دینے کی گنجائش اس آیت سے وہی شخص نکال سکتا ہے جو نہ اضطرار({ FR 1089 }) کے معنی جانتا ہو‘ نہ باغی(۲) کا مفہوم سمجھتا ہو‘ اور نہ عادی(۳) کا، ورنہ جاننے والے کے لیے تو اتنی جرأت کرنا بہت مشکل ہے۔ آیت کا مفہوم یہ نہیں کہ جن لوگوں کو مردار خوری یا خون آشامی کا چسکا لگا ہو، یا جو لوگ سور کے گوشت پر جان دیتے ہوں‘ یا جن کے ہاں وَمَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَيْرِ اللہِ۝۰ۚ البقرہ 173:2 (۴) کے کھانے کا عام دستور ہو‘ وہ سب مجبوروں میں داخل ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو تحریم({ FR 1090 }) کا حکم ہی بے معنی ہو جاتا کیونکہ اگر تحریم ان لوگوں کے لیے تھی جو ان چیزوں کے خوگر تھے‘ تو استثنا سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی عادت کے مطابق انھیں کھاتے رہتے‘ اور اگر تحریم ان لوگوں کے لیے تھی جو خود ہی ان سے مجتنب تھے تو ان کے لیے اس حکم کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اضطرار (مجبوری)کے ساتھ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ کی شرط لگا کر جو استثنا کیا گیا ہے اس کا مفہوم تو یہ ہے کہ جو شخص بھوک سے مر رہا ہو اور حرام چیز کے سوا کوئی چیز اُس کو نہ ملتی ہو، وہ محض جان بچانے کے لیے حرام چیز کھا سکتا ہے‘ بشرطیکہ حد رخصت سے تجاوز نہ کرے‘ یعنی جان بچانے کے لیے جتنی مقدار ناگزیر ہو اس سے زیادہ نہ کھائے اور حدود اللہ کے توڑنے کی خواہش اس کے دل میں نہ ہو۔
اسی بات کو ایک دوسری جگہ سور اور مردار وغیرہ چیزوں کی تحریم کا ذکر کرتے ہوئے اس طرح بیان کیا گیا ہے فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ المائدہ5:3 یعنی جو شخص بھوک کی شدت سے مجبور ہو جائے بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف کوئی میلان اس کے دل میں ہو، وہ ایسی حالت میں حرام چیز کھا سکتا ہے۔ کہاں یہ بات اور کہاں وہ کہ اہل یورپ اور اہل چین چونکہ سور کے گوشت پر جان دیتے ہیں لہٰذا فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ البقرہ 173:2 سے فائدہ اٹھا کر ان کے لیے سور کو جائز کر دیا جائے اور وہ بھی اس لیے کہ وہ اسلام میں داخل ہو سکیں۔ اگر کسی طریقے سے ہر قوم کی رغبتوں اور خواہشوں کا لحاظ کرکے اسلام کے قوانین میں ڈھیل دینے کا سلسلہ شروع ہو جائے تو شراب‘ جوا‘ زنا‘ سود اور ایسی ہی دوسری تمام چیزوں کو ایک ایک کرکے حلال کرنا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے احکام ماننے اور اس کے قائم کیے ہوئے حدود کی پابندی کرنے اور اس کے حرام کو حرام سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں ان کو اسلام میں داخل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اسلام ان کا محتاج کب ہے کہ وہ ان کو راضی کرنے کے لیے کم و بیش پر سودا کرے؟
پہلے تو صرف سور ہی کے حرام ہونے کی علت آپ کی سمجھ میں نہیں آئی تھی، مگر پھر جو آپ نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ اصولاً معدہ اور محرکات اخلاق میں بَونِ بعید({ FR 1091 }) ہے‘ لہٰذا آپ نے یہ رائے قائم فرمائی کہ مذہب کو کھانے پینے کی چیزوں میں حلال و حرام کا امتیاز قائم کرنے کا سرے سے کوئی حق ہی نہیں ہے۔ اس ارشاد سے یہ راز فاش ہوگیا کہ آپ جتنا قرآن کے متعلق جانتے ہیں، حکمتِ طبیعی (physical science)کے متعلق بھی اس سے کچھ زیادہ نہیں جانتے۔ قرآن سے ناواقف ہونا تو خیر’ ایک روشن خیال تعلیم یافتہ آدمی‘ کے لیے شرم ناک نہیں ہے، مگر سائنس سے اتنی بے خبری البتہ بہت شرم ناک ہے۔ آپ کو اب تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ انسان کے نفس اور اس کی ترکیب جسمانی کے درمیان کیا تعلق ہے‘ اور اس کی ترکیب جسمانی غذا سے کیا تعلق رکھتی ہے۔ جو چیز جسم کو اس کے ضائع شدہ اجزائے ترکیبی فراہم کرتی ہے‘ جس سے بدن کے تمام ریشے اور اعصاب از سر نو بنتے ہیں‘ جو چند سال کے اندر پرانے جسم کی جگہ نیا جسم پورے کا پورا بنا دیتی ہے‘ اس کی خصوصیات کا اثر نفس اور روح پر ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا قابل تعجب ہے۔ اس حقیقت سے سائنٹیفک دنیا پہلے عموماً غافل تھی، مگر فنِ تغذیہ (dieteties) پر حال میں جو تحقیقات ہوئی ہیں ان سے یہ راز منکشف ہوگیا ہے کہ انسان کے اخلاق اور اس کی ذہنی قوتوں پر اس کی غذا کا اثر ضرور مترتب ہوتا ہے۔ چنانچہ آج کل کے حکما اس تجسس میں لگے ہوئے ہیں کہ مختلف قسم کی غذائوں سے ہمارے نفس اور قوائے فکری پر کیا اثرات ہوئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے گریجویٹ دوست کی سائنٹیفک معلومات تازہ (up-to-date) نہیں ہیں‘ ورنہ وہ اتنی جرأت کے ساتھ یہ دعویٰ نہ کر دیتے کہ اصولاً معدہ اور محرکاتِ اخلاق میں بُعد ہے۔
(ترجمان القرآن، شعبان ۱۳۵۳ھ۔ اکتوبر ۱۹۳۴ء)


۹۔ عقلیت کا فریب (۲)

 

عقلیت (rationalism) اور فطریت (naturalism) یہ دو چیزیں ہیں جن کا اشتہار گذشتہ دو صدیوں سے مغربی تہذیب بڑے زور شور سے دے رہی ہے۔ اشتہار کی طاقت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ جس چیز کو پیہم اور مسلسل اور بکثرت نگاہوں کے سامنے لایا جائے اور کانوں پر مسلط کیا جائے اس کے اثر سے انسان اپنے دل اور دماغ کو کہاں تک بچاتا رہے گا۔ بالآخر اشتہار کے زور سے دنیا نے یہ بھی تسلیم کرلیا کہ مغربی علوم اور مغربی تمدن کی بنیاد سراسر عقلیت اور فطریت پر ہے۔ حالانکہ مغربی تہذیب کے تنقیدی مطالعے سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ اس کی بنیاد نہ عقلیت پر ہے نہ اصولِ فطرت کی متابعت({ FR 1093 }) پر‘ بلکہ اس کے برعکس اس کا پورا ڈھچر(۲) حِسّ اور خواہش اور ضرورت پر قائم ہے، اور مغربی نشاۃ جدیدہ(۳) دراصل عقل اور فطرت کے خلاف ایک بغاوت تھی۔ اس نے معقولات کو چھوڑ کر محسوسات اور مادیت کی طرف رجوع کیا۔ عقل کے بجائے حس پر اعتماد کیا۔ عقلی ہدایات اور منطقی استدلال اور فطری وجدان کو رد کرکے محسوس مادی نتائج کو اصلی و حقیقی معیار قرار دیا۔ فطرت کی رہنمائی کو مردود ٹھہرا کر خواہش اور ضرورت کو اپنا رہنما بنایا۔ ہر اُس چیز کو بے اصل سمجھا جو ناپ اور تول میں نہ آسکتی ہو۔ ہر اُس چیز کو ہیچ اور ناقابل اعتنا قرار دیا جس پر کوئی محسوس مادی منفعت مترتب نہ ہوتی ہو۔ ابتدا میں یہ حقیقت خود اہل مغرب سے چھپی ہوتی تھی‘ اس لیے وہ عقل اور فطرت کے خلاف چلنے کے باوجود یہی سمجھتے رہے کہ انھوںنے جس روشن خیالی کے دور جدید کا افتتاح کیا ہے اس کی بنیاد ’عقلیت‘ اور فطرت پر ہے۔ بعد میں اصل حقیقت کھلی، مگر اعتراف کی جرأت نہ ہوئی۔ مادہ پرستی‘ اور خواہشات کی غلامی‘ اور مطالباتِ نفس و جسد کی بندگی پر منافقت کے ساتھ عقلی استدلال اور ادعائے فطریت(۴) کے پردے ڈالے جاتے رہے، لیکن اب انگریزی محاورے کے مطابق ’بلی تھیلے سے بالکل باہر آچکی ہے‘ غیر معقولیت اور خلاف ورزی فطرت کی لے اتنی بڑھ چکی ہے کہ اس پر کوئی پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس لیے اب کھلم کھلا عقل اور فطرت دونوں سے بغاوت کا اعلان کیا جارہا ہے۔ علم اور حکمت کی مقدس فضا سے لے کر معاشرت‘ معیشت اور سیاست تک ہر جگہ بغاوت کا علم بلند ہو چکا ہے اور’قدامت پرست‘ منافقین کی ایک جماعت کو مستثنیٰ کر کے دنیائے جدید کے تمام رہنما اپنی تہذیب پر صرف خواہش اور ضرورت کی حکمرانی تسلیم کررہے ہیں۔
مشرقی مستغربین({ FR 1094 }) ومتفرنجین(۲) اپنے پیشوائوں سے ابھی چند قدم پیچھے ہیں۔ ان کا دماغی نشوونما جس تعلیم اور جس ذہنی فضا اور جن عواملِ تہذیب و تمدن کے زیر اثر ہوا ہے ان کا اقتضا یہی ہے کہ وہی محسوسات و مادیات کی پرستش اورخواہشات و ضروریات کی غلامی ان میں بھی پیدا ہو، اور فی الواقع ایسا ہی ہو رہا ہے، مگر ابھی تک یہ اس منزل پر نہیں پہنچے ہیں جہاں بلی تھیلے سے باہر آجائے۔ اپنی تحریر و تقریر میں یہ اب بھی کہے جارہے ہیں کہ ہم صرف عقل اور فطرت کی رہنمائی تسلیم کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے صرف عقلی استدلال پیش کرو۔ ہم کسی ایسی چیز کو نہ مانیں گے جو عقلی دلائل اور فطری شواہد سے ثابت نہ کر دی جائے، لیکن ان تمام بلند آہنگیوں(۳) کے تھیلے میں وہی بلی چھپی ہوئی ہے جو نہ عقلی ہے اور نہ فطری۔ ان کے مقالات کا تجزیہ کیجیے تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ معقولات اور فطری و جدانیات کے ادراک سے ان کے ذہن عاجز ہیں۔ جس کو یہ ’عقلی فائدہ‘ کہتے ہیں‘ اس کی حقیقت پوچھیے تو معلوم ہوگا کہ اس سے مراد’تجربی فائدہ‘ ہے اور تجربی فائدہ وہ ہے جو ٹھوس ہو‘ وزنی ہو‘ شمار اور پیمائش میں آسکے۔ کوئی چیز جس کا فائدہ ان کو حسابی اعداد سے گن کر‘ یا ترازو کے پلڑوں سے تول کر‘ یا گز سے ناپ کر نہ بتایا جاسکے‘ اس کو یہ مفید نہیں مان سکتے‘ اور جب تک اس معنی خاص میں اس کی افادیت ثابت نہ کر دی جائے اس پر ایمان لانا اور اس کا اتباع کرنا ان کے نزدیک ایسا فعل ہے جس کو یہ ’غیر معقولیت‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ فطرت کی رہنمائی جس کی پیروی کا ان کو دعویٰ ہے اس کی حقیقت بھی تھوڑی سی جرح میں کھل جاتی ہے۔ فطرت سے مراد ان کے نزدیک انسانی فطرت نہیں بلکہ حیوانی فطرت ہے۔ جووجدان اور شہادت قلبیہ سے خالی ہے اور صرف حس‘ خواہش اور مطالبات نفس و جسد ہی رکھتی ہے۔ ان کے نزدیک اعتبار کے قابل صرف وہی چیزیں ہیں جو حواس کو متاثر کرسکیں‘ خواہشات کو تسکین دے سکیں‘ جسمانی یا نفسانی مطالبات کو پورا کرسکیں‘ جن کا فائدہ فوراً مشاہدے میں آجائے اور جن کا نقصان نظروں سے اوجھل ہو یا فائدے کے مقابلے میں ان کو کم نظر آجائے۔ باقی رہیں وہ چیزیں جو فطرت انسانی کے مقتضیات({ FR 1095 }) سے ہیں‘ جن کی اہمیت کو انسان اپنے وجدان میں پاتا ہے‘ جن کے فوائد یا نقصانات مادی اور حسی نہیں بلکہ نفسی اور روحانی ہیں وہ اوہام اور خرافات ہیں‘ ہیچ اور ناقابل اعتنا(۲) ہیں‘ ان کو کسی قسم کی اہمیت دینا بلکہ ان کے وجود کو تسلیم کرنا بھی تاریک خیالی‘ وہم پرستی اور دقیانوسیت ہے‘ ایک طرف عقل و فطرت سے یہ انحراف ہے‘ دوسری طرف عقلیت و فطریت کا دعویٰ ہے‘ اور عقل کے دیوالیہ پن کا حال یہ ہے کہ وہ اس اجتماعِ ضدین(۳) کو محسوس تک نہیں کرتی۔
تعلیم اور تہذیبِ فکر کا کم سے کم اتنا فائدہ تو ہر انسان کو حاصل ہونا چاہیے کہ اس کے خیالات میں الجھائو باقی نہ رہے‘ افکار میں پراگندگی اور ژولیدگی(۴) نہ ہو۔ وہ صاف اور سیدھا طریق فکر اختیار کرسکے‘ مقدمات کو صحیح ترتیب دے کر صحیح نتیجہ اخذ کرسکے‘ تناقض اور خلط مبحث جیسی صریح غلطیوں سے بچ سکے، لیکن مستثنیات(۵) کو چھوڑ کر ہم اپنے عام تعلیم یافتہ حضرات کو دماغی تربیت کے ان ابتدائی ثمرات سے بھی محروم پاتے ہیں۔ ان میں اتنی تمیز بھی تو نہیں ہوتی کہ کسی مسئلے پر بحث کرنے سے پہلے اپنی صحیح حیثیت متعین کرلیں‘ پھر اس حیثیت کے عقلی لوازم کو سمجھیں‘ اور ان کو ملحوظ رکھ کر ایسا طریق استدلال اختیار کریں جو اس حیثیت سے مناسبت رکھتا ہو۔ ان سے گفتگو کیجیے، یا ان کی تحریریں دیکھیے۔ پہلی نظر ہی میں آپ کو محسوس ہو جائے گا کہ ان کے خیالات میں سخت الجھائو ہے۔ بحث کی ابتدا ایک حیثیت سے کی تھی‘ چند قدم چل کر حیثیت بدل دی‘ آگے بڑھے تو ایک دوسری حیثیت اختیار کرلی۔ اثباتِ مدعا کے لیے مقدمات کو سمجھ بوجھ کر انتخاب کرنا اور ان کو منطقی اسلوب پر مرتب کرنا تک نہ آیا۔ آغاز سے لے کر اختتام تک یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ دراصل آپ کا مدّعا کیا ہے‘ کس مسئلے کی تحقیق پیش نظر تھی اور کیا آپ نے ثابت کیا۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ موجودہ تہذیب اور اس کے اثر سے موجودہ تعلیم کا میلان زیادہ ترحسیات اور مادیات کی طرف ہے۔ وہ خواہشات کو تو بیدار کر دیتی ہے‘ مطلوبات اور ضروریات کے احساس کو بھی ابھار دیتی ہے‘ محسوسات کی اہمیت بھی دلوں میں بٹھا دیتی ہے‘ مگر عقل اور ذہن کی تربیت نہیں کرتی‘ تنقید اور تفکر کا پندار({ FR 1150 }) تو ضرور پیدا ہو جاتا ہے اور یہی پندار ان کو ہر چیز پر ’’عقلی‘‘ تنقید کرنے اور ہر اُس چیز سے انکار کر دینے پر آمادہ کرتا ہے جو اُن کی ’’عقل‘‘ میں نہ سمائے مگر درحقیقت ان کا ذہن عقلیت سے منحرف ہوتا ہے اور صحیح عقلی طریق پر کسی مسئلے کو سلجھانے، یا کسی امر میں رائے قائم کرنے کی صلاحیت اُن میں پیدا ہی نہیں ہوئی۔
اس غیر ’معقول عقلیت‘ کا اظہار سب سے زیادہ اُن مسائل میں ہوتا ہے جو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ یہی وہ مسائل ہیں جن کے روحانی و اخلاقی اور اجتماعی و عمرانی مبادی(۲) مغرب کے نظریات سے ہر ہر نقطہ متصادم ہوتے ہیں۔
آپ کسی انگریزی تعلیم یافتہ شخص سے کسی مذہبی مسئلے پر گفتگو کیجیے اور اس کی ذہنی کیفیت کا امتحان لینے کے لیے اس سے مسلمان ہونے کا اقرار کرا لیجیے‘ پھر اس کے سامنے مجرد حکم شریعت بیان کرکے سند پیش کیجیے۔ وہ فوراً اپنے شانے ہلائے گا اور بڑے عقل پرستانہ انداز میں کہے گا کہ یہ ملائیت ہے‘ میرے سامنے عقلی دلیل لائو‘ اگر تمھارے پاس معقولات نہیں صرف منقولات ہی منقولات ہیں تو میں تمھاری بات نہیں مان سکتا۔ بس انھی چند فقروں سے یہ راز فاش ہو جائے گا کہ اس شخص کو عقلیت کی ہوا بھی چھو کر نہیں گزری ہے‘ اس غریب کو برسوں کی تعلیم و تربیت علمی کے بعد اتنا بھی معلوم نہ ہوسکا کہ طلب حجت کے عقلی لوازم کیا ہیں اور طالب حجت کی صحیح پوزیشن کیا ہوتی ہے۔ اسلام کی نسبت سے عقلاً انسان کی دوہی حیثیتیں ہو سکتی ہیں‘ یا تو وہ مسلمان ہوگا، یا کافرہوگا۔ اگر مسلمان ہے تو مسلمان ہونے کی معنی یہ ہیں کہ وہ خدا کو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسولؐ تسلیم کر چکا ہے اوریہ بھی اقرار کرچکا ہے کہ خدا کی طرف سے اس کا رسولؐ جو کچھ حکم پہنچائے گا اُس کی اطاعت وہ بے چون و چرا کرے گا۔ اب فرداً فرداً ایک ایک حکم پر حجت عقلی طلب کرنے کا اسے حق ہی نہیں رہا۔ مسلم ہونے کی حیثیت سے اس کاکام صرف یہ تحقیق کرنا ہے کہ کوئی خاص حکم رسول خداؐ نے دیا ہے یا نہیں۔ جب حجت نقلی سے یہ حکم ثابت کر دیا گیا تو اس کو فوراً اطاعت کرنی چاہیے۔ وہ اپنے اطمینان قلب اور حصول بصیرت کے لیے حجت عقلی دریافت کرسکتا ہے مگر اس وقت جب کہ وہ اطاعت حکم کے لیے سرجھکا چکا ہو، اطاعت کے لیے حجت عقلی کو شرط قرار دینا، اور حجت نہ ملنے یا اطمینانِ قلب نہ ہونے پر اطاعت سے انکار کر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ دراصل رسولؐ خدا کی حاکمیت (اتھارٹی) کا انکار کر رہا ہے اور یہ انکار مستلزم({ FR 1097 }) کفر ہے‘ حالانکہ ابتدا میں اس نے خود مسلم ہونے کا اقرار کیا تھا۔ اب اگر وہ کافر کی حیثیت اختیار کرتا ہے تو اس کے لیے صحیح جائے قیام دائرۂ اسلام کے اندر نہیں بلکہ اس کے باہر ہے۔ سب سے پہلے اس میں اتنی اخلاقی جرأت ہونی چاہیے کہ جس مذہب پر در حقیقت وہ ایمان نہیں رکھتا اس سے نکل جائے۔ اس کے بعد وہ اس لائق سمجھا جائے گا کہ حجتِ عقلی طلب کرے اور اس کی طلب کا جواب دیا جائے۔
یہ قاعدہ عقلِ سلیم کے مقتضیات میں سے ہے اور دنیا میں کوئی نظم اور کوئی ضابطہ اس کے بغیر قائم نہیں ہوسکتا۔ کوئی حکومت ایک لمحے کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتی جس کی رعایا کا ہر فرد اس کے حکم پر حجت عقلی کا مطالبہ کرے اور حجت کے بغیر اطاعتِ امر سے انکار کردے۔ کوئی فوج درحقیقت ایک فوج ہی نہیں بن سکتی اگر اُس کا ہر سپاہی جنرل کے حکم کی وجہ دریافت کرے اور ہر معاملے میںاپنے اطمینان قلب کو اطاعت کے لیے شرط قرار دے۔ کوئی مدرسہ‘ کوئی کالج، کوئی انجمن غرض کوئی اجتماعی نظام اس اصول پر نہیں بن سکتا کہ ہر ہر فرد کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے‘ اور جب تک ایک ایک شخص کو اطمینان حاصل نہ ہو جائے اس وقت تک کسی حکم کی اطاعت نہ کی جائے۔ انسان جس نظام میں داخل ہوتا ہے اس ابتدائی اور بنیادی مفروضے کے ساتھ داخل ہوتا ہے کہ وہ اس نظام کے اقتدارِ اعلیٰ پر کلی حیثیت سے اعتقاد رکھتا ہے اور اس کی حکمرانی کو تسلیم کرتا ہے۔ اب جس وقت تک وہ اس نظام کا جز ہے اس کا فرض ہے کہ اقتدار اعلیٰ کی اطاعت کرے‘ خواہ کسی جزئی حکم پر اس کو اطمینان ہو یا نہ ہو۔ مجرمانہ حیثیت سے کسی حکم کی خلاف ورزی کرنا امر دیگر ہے۔ ایک شخص جزئیات میں نافرمانی کرکے بھی ایک نظام میں شامل رہ سکتا ہے، لیکن اگرکوئی شخص کسی چھوٹے سے چھوٹے جزئیے میں بھی اپنے ذاتی اطمینان کو اطاعت کے لیے شرط قرار دیتا ہے تو دراصل وہ اقتدار اعلیٰ کی حکومت تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے، اور یہ صریح بغاوت ہے۔ حکومت میں یہ طرز عمل اختیار کیا جائے گا تو اس پر بغاوت کا مقدمہ قائم کر دیا جائے گا‘ فوج میں اس کا کورٹ مارشل ہوگا‘ مدرسے اورکالج میں فوری اخراج کی کارروائی کی جائے گی‘ مذہب میں اس پر کفر کا حکم جاری ہوگا۔ اس لیے کہ اس نوع کے طلب حجت کا حق کسی نظام کے اندر رہ کر کسی شخص کو نہیں دیا جاسکتا۔ ایسے طالبِ حجت کا صحیح مقام اندر نہیں‘ باہر ہے۔ پہلے وہ باہر نکل جائے پھر جو چاہے اعتراض کرے۔
اسلام کی تعلیم میں یہ قاعدہ اصل اور اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ پہلے احکام نہیں دیتا بلکہ سب سے پہلے اللہ اور رسولﷺ پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے۔ جتنی حجتیں ہیں سب اسی ایک چیز پر تمام کی گئی ہیں۔ ہر عقلی دلیل اور فطری شہادت سے انسان کو اس امر پر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ خدائے واحد ہی اس کا الٰہ ہے‘ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسولؐ ہیں۔ آپ جس قدر عقلی جانچ پڑتال کرنا چاہتے ہیں، اس بنیادی مسئلے پر کر لیجیے۔ اگر کسی دلیل اور کسی حجت سے آپ کا دل اس پر مطمئن نہ ہو تو آپ کو داخل اسلام ہونے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اور نہ احکام اسلام میں سے کوئی حکم آپ پر جاری ہوگا۔ لیکن جب آپ نے اس کو قبول کرلیا تو آپ کی حیثیت ایک مُسلم‘ کی ہوگئی اور مسلم کے معنی ہی مطیع کے ہیں۔ اب یہ ضروری نہیں کہ اسلام کے ہر ہر حکم پر آپ کے سامنے دلیل و حجت پیش کی جائے اور احکام کی اطاعت کرنے کا انحصار آپ کے اطمینان قلب پر ہو۔ مسلم بن جانے کے بعد آپ کا اولین فرض یہ ہے کہ جو حکم آپ کو خدا اور رسول کی طرف سے پہنچے بے چون و چرا اس کی اطاعت میں سر جھکا دیں:
اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا النور24:51
ایمان لانے والوں کاکام تو یہ ہے کہ جب ان کو اللہ اور رسول کی طرف بلایا جائے تاکہ رسول ان کے درمیان حکم کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔
ایمان‘ اور ایسی طلبِ حجت جو تسلیم و اطاعت کے لیے شرط ہو‘ باہم متناقض ہیں‘ اور ان دونوں کا اجتماع صریح عقل سلیم کے خلاف ہے۔ جو مومن ہے وہ اس حیثیت سے طالب حجت نہیں ہوسکتا‘ اور جو ایسا طالبِ حجت ہے وہ مومن نہیں ہوسکتا:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۝۰ۭ الاحزاب33:36
کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی امر کا فیصلہ کر دے تو ان کو اپنے معاملے میں خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔
اسلام نے اصلاح اور تنظیم کا جو عظیم الشان کام انجام دیا ہے وہ سب اسی قاعدے کی وجہ سے ہے۔ دلوں میں ایمان بٹھا دینے کے بعد جس چیز سے روکا گیا تمام اہلِ ایمان اس سے رک گئے، اور جس چیز کا حکم دیا گیا وہ ایک اشارے پر لاکھوں کروڑوں انسانوں میں رائج ہوگئی۔ اگر ایک ایک چیز کے لیے عقلی حجتیں پیش کرنا ضروری ہوتا اورہر امر و نہی کی حکمتیں اور مصلحتیں سمجھانے پراطاعت احکام موقوف ہوتی تو قیامت تک انسانی اخلاق کی وہ اصلاح اور اعمال کی تنظیم نہ ہوسکتی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۳ سال کی مختصر مدت میں انجام دے دی۔
اس کے یہ معنی نہیں کہ اسلام کے احکام خلاف عقل ہیں، یا اس کا کوئی جزئی حکم بھی حکمت و مصلحت سے خالی ہے۔ اس کے معنی یہ بھی نہیں کہ اسلام اپنے پیروئوں سے اندھوں کی سی تقلید چاہتا ہے اور احکام کی عقلی و فطری بنیادوں کو تلاش کرنے اور ان کے مصالح و حکم({ FR 1098 }) کو سمجھنے سے روکتا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اسلام کی صحیح پیروی کے لیے تفقہ(۲) اور تدبر ضروری ہے۔ جو شخص احکام کی حکمتوں اور مصلحتوں کو جتنا زیادہ سمجھے گا وہ اتنا ہی صحیح اتباع کرسکے گا۔ ایسے فہم اور ایسی بصیرت سے اسلام روکتا نہیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، لیکن زمین و آسمان کا فرق ہے اس عقلی تجسس میں جو اطاعت کے بعد ہو‘ اور اُس عقلی امتحان میں جو اطاعت سے پہلے اوراطاعت کے لیے شرط ہو۔ مسلم سب سے پہلے غیر مشروط اطاعت کرتا ہے‘ پھر احکام کی مصلحتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے‘ اور یہ ضروری نہیں کہ ہر حکم کی مصلحت اس کی سمجھ میں آجائے۔ اس کو تو دراصل خدا کی خدائی اور رسولﷺ کی رسالت پر اطمینان کلی حاصل ہے۔ اس کے بعد وہ بصیرتِ تامہ حاصل کرنے کے لیے جزئیات پر مزید اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگر یہ اطمینان بھی حاصل ہو جائے تو خدا کا شکر ادا کرتا ہے لیکن اگر حاصل نہ ہو تو اطمینان کلی کی بنا پر جو اسے خدا اور رسولؐ پر ہے‘ بلا تامل احکام کی اطاعت کیے چلا جاتا ہے۔ اس قسم کی طلبِ حجت کو اس طلبِ حجت سے کیا نسبت جو ہر قدم پر پیش کی جائے اور اس داعیے کے ساتھ پیش کی جائے کہ اگر میرا اطمینان کرتے ہو تو قدم اٹھاتا ہوں ورنہ پیچھے پلٹا جاتا ہوں۔
حال میں ایک تحریر ہماری نظر سے گزری جو ایک مسلم جماعت کی طرف سے شائع ہوئی ہے۔ یہ جماعت اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مذہب سے منحرف بھی نہیں بلکہ اپنی دانست میں بڑی مذہبی خدمت انجام دے رہی ہے۔ مذہبی ’اصلاح‘ کے نام سے جن امور کی تبلیغ وہ کرتی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر سال بقر عید کے موقع پر مسلمانوں کو قربانی سے روکا جاتا ہے اور انھیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ جو روپیہ وہ جانوروں کو ذبح کرنے پر صَرف کرتے ہیں اسے قومی ادارات کی اعانت، یتیموں اور بیوائوں کی پرورش اور بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنے میں صَرف کریں۔ اس تبلیغ پر کسی مسلمان نے اعتراض کیا جس کی پوری عبارت ہم تک نہیں پہنچی ہے مگر اس اعتراض کے جواب میں جو کچھ کہا گیا وہ یہ ہے:
سوائے نقل و تقلید کے آج تک کسی صاحب نے قربانی کے عقلی و تجربی فوائد پر روشنی نہیں ڈالی …… اگر کوئی صاحب اس سے پہلے ہم کو اپنے عقیدۂ قربانی کے عقلی پہلو سے آگاہ فرمائیں تو ہمارے شکریے کے مستحق ہوں گے۔
یہ تحریر نمونہ ہے ان لوگوں کی دماغی حالت کا جو اپنے آپ کو’تعلیم یافتہ‘ کہتے ہیں۔ ایک طرف ’عقلیت‘ کا اس قدر زبردست دعویٰ ہے اور دوسری طرف ’’غیر عقلیت‘‘ کا ایسا شدید مظاہرہ ہے۔ صرف یہی دو فقرے جو قلم مبارک سے نکلے ہیں اس امر کی شہادت دے رہے ہیں کہ آپ نے اپنی صحیح حیثیت ہی متعین نہیں کی۔ اگر آپ مسلم کی حیثیت سے بول رہے ہیں تو آپ کو سب سے پہلے ’نقل‘ کے آگے سر جھکانا چاہیے۔ پھر عقلی حجت کا مطالبہ کرنے کا حق آپ کو ہوگا‘ اور وہ بھی شرط اطاعت کے طورپر نہیں بلکہ محض اطمینان قلب کے لیے، اور اگر آپ اطاعت سے پہلے حجت عقلی کے طالب ہیں اور یہ شرط اطاعت ہے تو آپ کو مسلم کی حیثیت سے بولنے کا ہی حق نہیں ہے۔ اس نوع کے طالب حجت کو پہلے ایک غیر مسلم کی حیثیت اختیار کرنی چاہیے۔ پھر اس کو یہ حق تو حاصل ہوگا کہ جس مسئلے پر چاہے اعتراض کرے‘ مگر یہ حق نہ ہوگا کہ مسلمانوں کے کسی امردینی میں مفتی اسلام بن کر فتویٰ صادر کرے۔ آپ ایک ہی وقت میں ان دونوں متضاد حیثیتوں کو اختیار کرتے ہیں اور ایک حیثیت کے بھی عقلی لوازم پورے نہیں کرتے۔ ایک طرف آپ نہ صرف ’مسلم‘ بلکہ مفتیِ اسلام بنتے ہیں، دوسری طرف آپ کا حال یہ ہے کہ ’نقل‘ کو آپ ہیچ سمجھتے ہیں۔ حکم کا حکم ہونا آپ کو نقل کے ذریعے سے ثابت کیا جاتا ہے تو آپ اس کی اطاعت سے انکار کر دیتے ہیں اور یہ شرط پیش فرماتے ہیں کہ پہلے اس حکم کے عقلی و تجربی فوائد پر روشنی ڈالی جائے۔ بالفاظ دیگر آپ کسی حکم کو محض حکم خدا اور رسولؐ ہونے کی حیثیت سے نہیں مانیں گے بلکہ اس کے عقلی و تجربی فوائد کی بنا پر مانیں گے۔ اگر ایسے فوائد معلوم نہ ہوسکیں، یا آپ کے معیار پر وہ فوائد ثابت نہ ہوں تو آپ حکم کو رد کردیں گے‘ اس کے خلاف پراپیگنڈا کریں گے‘ اس کو بے محل، بے معنی’ فضول‘ بلکہ مضر اور مسرفانہ({ FR 1099 }) رسم‘ قرار دیں گے اور مسلمانوں کو اس کے اتباع سے روکنے میں اپنی پوری قوت صَرف کریں گے۔ کون سی عقل ہے جو اس متناقض(۲) طرز عمل اور متضاد حیثیات کے اختلاط کو جائز رکھتی ہے؟ حجت عقلی کا مطالبہ بجا و درست ہے‘ مگر پہلے یہ تو ثابت کیجیے کہ آپ ذوی العقول(۳) میں سے ہیں۔
’عقلی‘ اور تجربی فائدہ کسی ایک مخصوص اور مُعیّن چیز کا نام نہیں ہے۔ یہ ایک نسبتی و اضافی چیز ہے۔ ایک شخص کی عقل ایک چیز کو مفید سمجھتی ہے۔ دوسرے کی عقل اس کے خلاف حکم لگاتی ہے۔ تیسرا شخص اس میں کسی نوع کا فائدہ تسلیم کرتا ہے مگر اس کو اہمیت نہیں دیتا اور ایک دوسری چیز کو اس سے زیادہ مفید ٹھہراتا ہے۔ تجربی فوائد میں اس سے بھی زیادہ اختلاف کی گنجائش ہے۔فائدے کے متعلق ہر شخص کا نظریہ الگ ہے‘ اور اسی نظریے کے لحاظ سے وہ اپنے یا دوسروں کے تجربات کو مرتب کرکے مفید یا غیر مفید ہونے کا حکم لگاتا ہے۔ ایک شخص نفع عاجل({ FR 1101 }) کا طالب ہے‘ اور صرف ضرر(۲) عاجل کو قابل حذر سمجھتا ہے۔ اس کا انتخاب ایسے شخص کے انتخاب سے یقیناً مختلف ہوگا جس کی نظر مآلِ کار(۳) پر ہو۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن میں ایک نوع کا فائدہ اور دوسری نوع کی مضرت ہے۔ ایک شخص ان کو اس لیے اختیار کرتا ہے کہ وہ فائدے کی خاطر مضرت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ دوسرا شخص ان سے اجتناب کرتا ہے کیونکہ اس کی رائے میں ان کی مضرت ان کے فائدے سے زیادہ ہے۔ پھر عقلی اور تجربی فوائد میں بھی بسا اوقات تخالف(۴) پایا جاتا ہے۔ ایک چیز تجربی حیثیت سے مضر ہے مگرعقل فیصلہ کرتی ہے کہ کسی بڑے عقلی فائدے کے لیے اس مضرت کو برداشت کرنا چاہیے۔ ایک دوسری چیز ہے جو تجربی حیثیت سے مفید ہے مگر عقل یہ فتویٰ دیتی ہے کہ کسی عقلی مضرت سے بچنے کے لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ایسے اختلافات کی موجودگی میں کسی چیز کے ’عقلی‘ اور ’تجربی‘ فوائد پر کوئی ایسی روشنی ڈالنی ممکن ہی نہیں جس سے تمام لوگ اس کے مفید ہونے پر متفق ہو جائیں‘ اور انکارکی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔ محض ایک قربانی پر کیا موقوف ہے، نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اور اوامر و نواہی شریعت میں سے کون سی چیز ایسی ہے جس کے عقلی اور تجربی فوائد پر ایسی روشنی ڈال دی گئی ہو کہ وہ کالشمس فی النہار(۵) نظر آنے لگے ہوں اور تمام لوگوں نے ان کو تسلیم کرکے ان کی پابندی اختیار کرلی ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو آج ایک شخص بھی دنیا میں تارک صوم و صلوٰۃ اور منکر حج و زکوٰۃ نہ ہوتا۔ اسی لیے اسلام نے احکام کو ہر شخص کی عقل اور تجربے کے فتوے پر موقوف نہیں رکھا بلکہ ایمان اور اطاعت کو اساس بنایا ہے۔
مسلم‘ عقلی اور تجربی فوائد پر ایمان نہیں لاتا، بلکہ خدا اور رسولؐ پر ایمان لاتا ہے۔ اس کا مذہب یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کافائدہ عقل و تجربے سے ثابت ہو جائے تب وہ اس کو قبول کرے‘ اور کسی چیز کی مضرت عقلی و تجربی حیثیت سے مبرہن({ FR 1102 }) ہو جائے تب وہ اس سے اجتناب کرے، بلکہ اس کا مذہب یہ ہے کہ جو حکم خدا اور رسولؐ سے ثابت ہو جائے وہ واجب الاتباع ہے اور جو ثابت نہ ہو وہ قابلِ اتباع نہیں۔
پس یہاں اصلی سوال یہی ہے کہ آپ کا ایمان عقل اور تجربے پر ہے، یا خدا اور اس کے رسولؐ پر؟ اگر پہلی بات ہے تو آپ کو اسلام سے کچھ واسطہ نہیں۔ پھر آپ کو مسلمان بن کر گفتگو کرنے اور مسلمانوں کو ’’ارض غیر ذی ذرع کی نام نہاد سنت‘‘ سے اجتناب کا مشورہ دینے کا کیا حق ہے اور اگر دوسری بات ہے تو مدار بحث عقلی و تجربی فوائد نہ ہونے چاہییں بلکہ یہ سوال ہونا چاہیے کہ آیا قربانی محض ایک رسم ہے جس کو مسلمانوں نے گھڑ لیا ہے، یا ایک عبادت ہے جس کو اللہ نے پسند فرمایا ہے اور اللہ کے رسولؐ نے اپنی امت میں جاری کیا ہے؟
(ترجمان القرآن، ربیع الاول ۱۳۵۵ھ۔ جون ۱۹۳۶ء)


۱۰۔ تجدد کا پائے چوبیں

ماہ جون ۱۹۳۳ء کے نگار میں حضرت نیاز فتح پوری نے ترجمان القرآن پر ایک مفصل تبصرہ فرمایا ہے جس کے لیے میں ان کا شکرگزار ہوں۔ اگرچہ عموماً رسائل و جرائد کے انتقادات({ FR 1103 }) پر بحث کرنے اور ان پر جوابی نقد کرنے کا دستور نہیں ہے لیکن چونکہ ناقد فاضل نے اپنے تبصرے میں ایسے خیالات کا اظہار کیا ہے جو اُن کے مذہب تجدد(۲) کے مخصوص اصول و مبادی سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کی اصلاح کرنا ترجمان القرآن کے اولین مقاصد میں سے ہے‘ اس لیے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ان پر اظہار خیال کے پہلے موقع سے فائدہ اٹھائوں۔ وہ لکھتے ہیں:
اس رسالے کا مقصود اس کے نام سے ظاہر ہے‘ یعنی مطالبِ قرآنی اور تعلیماتِ فرقانی کو ان کی صحیح روشنی میں لوگوں کے سامنے پیش کرنا۔ یقیناً اس مقصود کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا، لیکن جیسا کہ خود فاضل اڈیٹر نے ظاہر کیا ہے‘ عہد حاضر میں اس مدّعا کی تکمیل آسان نہیں۔ عہد ماضی میں جب مذہب نام صرف اسلاف پرستی و قدامت پرستی کا تھا‘ کسی شخص کا مبلغ یا مصلح بن جانا دشوار نہ تھا، لیکن اب جب کہ علوم جدیدہ اور اکتشافاتِ حاضرہ نے عمل و خیال کی بالکل نئی طرح ڈال کرحریت فکر و ضمیر کی دولت سے دماغوں کو مالا مال کردیا ہے‘ مذہب صرف اس دلیل کی بنیاد پر زندہ نہیں رہ سکتا کہ اس کے اسلاف کا طرز عمل بھی یہی تھا‘ اور وہ بھی وہی سوچتے تھے جو اَب بتایا جاتا ہے۔
پہلے اگر خدا کی وحدانیت سے بحث کی جاتی تھی تو اب سرے سے خدا کا وجود ہی محل نظر بتایا جاتا ہے۔ اگر پہلے رسولؐ کی ہدایت اس کے معجزوں سے ثابت کی جاسکتی تھی تو اب علوم مقناطیسیہ انھی معجزوں کی دلیل پر ہزاروں رسول و نبی پیدا کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ پہلے ایک واعظ آسمان کی طرف دیکھ کر عرش و کرسی والے خدا کو پکار سکتا تھا‘ لیکن آج جب کہ آسمان ہی کوئی چیز نہ رہا‘ اس کا ایسا کرنا کسی طرح مفید یقین نہیں ہو سکتا۔ الغرض اب زمانہ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ البقرہ 3:2 کا نہیں رہا بلکہ یُؤْمِنُوْنَ بِالتَّجْرِبَۃِ وَالشُّھُوْدِ کا ہے‘ اور ایسے نازک وقت میں کسی شخص کا مذہب کی حمایت کے لیے کھڑا ہو جانا آسان کام نہیں‘ جب کہ خود نفس مذہب کا خیال بھی اپنی جگہ چنداں قابل قبول نہیں۔
آگے چل کر وہ فرماتے ہیں:
قرآن پاک اپنے معنی کے لحاظ سے تین حصوں پر منقسم ہے:
۱۔ ایک وہ جس میں اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے۔
۲۔ دوسرا وہ جس میں اعتقادات پیش کیے گئے ہیں۔
۳۔ تیسرا وہ جو قصص و تمثیلات پر مشتمل ہے۔
حصہ اوّل کے متعلق نہ زیادہ لکھنے کی ضرورت ہے اور نہ کسی دلیل و برہان کے لانے کی کیونکہ تعلیم اخلاق تمام مذاہب کی تقریباً یکساں ہے اور ہر شخص یہ ماننے پر مجبور ہے کہ مذہب اسلام کی تعلیم دوسرے مذاہب کی تعلیم سے مختلف یا فروتر({ FR 1151 }) نہیں ہے۔ البتہ حصہ دوم اور حصہ سوم پر زیادہ توجہ کرنا چاہیے کیونکہ علوم جدیدہ اور اکتشافات حالیہ نے انھی دو حصوں کی طرف سے ریب و تذبذب(۲) کی کیفیات لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دی ہے اور واقعہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان شبہات کے دور کر دینے میں کامیاب ہو جائے تو وہ اس صدی کا مجدد کہلائے جانے کا مستحق ہوگا۔
اس لیے میں مشورہ دوں گا کہ ایک مستقل باب اس موضوع پر قائم کرکے تمام ان آیات قرآنی کا استقصاء(۳) کرنا چاہیے جو عقائد و قصص کے متعلق ہیں اور ان کا صحیح مفہوم و مدّعا متعین کرکے ان اعتراضات کو رفع کرنا چاہیے جو اس وقت اہل علم و تحقیق کی طرف سے وارد کیے جاتے ہیں۔
آخرمیں وہ لکھتے ہیں:
آئندہ کے لیے میں ان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ سب سے پہلے وحی و الہام کی حقیقت پر گفتگو کریں کہ اسی کے سمجھنے پر کلام اللہ کی حقیقت کا سمجھنا منحصر ہے، اور مسئلۂ معاد({ FR 1105 }) کو لیں کہ اسی کے حل ہونے پر انحصار مذہبیت و لا مذہبیت کا ہے۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کلام الٰہی اور معاد کا کیا مفہوم متعین کرتے ہیں۔ اس کے بعد میں اپنے شبہات و اعتراضات پیش کروں گا اور اگر ان کی کوشش سے وہ دور ہوگئے تو مجھے بڑی مسرت ہوگی کیونکہ ’ناچار مسلمان شو‘ کی جس لعنت میں بہت سے لوگ گرفتار ہیں‘ ان کا ایک بڑا سبب عقیدہ معاد بھی ہے۔
فاضل مبصر نے جن فروعی و جزئی مسائل کی طرف اشارے کیے ہیں ان کو چھوڑ کر میں صرف ان امور سے بحث کرنا چاہتا ہوں جن کا تعلق اصول سے ہے۔
انھوں نے قرآن مجید کے مباحث کی تقسیم تین حصوں پر کی ہے، لیکن ہم بآسانی ان کو صرف دو حصوں پر تقسیم کرسکتے ہیں:
o ایک وہ حصہ جن کا تعلق ان امور سے ہے جو ہمارے علم کی حدود سے باہر ہیں۔ ہمارے ادراک کی سرحد سے ماورا(۲) ہیں‘ جن کے متعلق ہم قطعیت کے ساتھ صحیح یا غلط ہونے کا کوئی حکم نہیں لگا سکتے اور جن میں قرآن ہم کو ایمان بالغیب لانے کی دعوت دیتا ہے۔
o دوسرے وہ امور جو ہمارے دائرہ علم سے باہر نہیں ہیں‘ اور جن میں قطعیت کے ساتھ کوئی حکم عقلی لگانا ہمارے لیے ممکن ہے۔
پہلے حصے میں وجود و صفات الٰہی ‘ فرشتے‘ وحی و کتب آسمانی حقیقت نبوت‘ بعث بعد الموت‘ عذاب و ثواب آخرت‘ اور ایسے ہی دوسرے مسائل کے علاوہ وہ تمام ماورائے سرحد علم و ادراک کی(۳) باتیں بھی آجاتی ہیں جو قصص اور تمثیلات کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔ عام اس سے کہ وہ بالذات عام انسانی ادراک کی سرحد سے ماورا ہوں‘ یا اس بنا پر ایسی ہوں کہ سردست ہم جس مرتبہ عقلی و علمی میں ہیں اس میں ہم ان کی صحت و صداقت کے متعلق کوئی حکم لگانے کے قابل نہیں ہیں۔ دوسرے حصے میں وہ تمام امور آجاتے ہیں جن کا تعلق اسلام کی تعلیم حکمت و تزکیۂ نفوس اور تنظیمِ حیات انسانی کے اصول سے ہے۔
ناقد فاضل کی رائے میں دوسرے حصے سے بحث کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ اس بارے میں جیسے اور مذاہب ہیں ویسا ہی اسلام بھی ہے، البتہ بحث صرف پہلے حصے سے کی جانی چاہیے، اس لیے کہ لوگوں میں ریب و تذبذب کی کیفیت انھی امور کے بارے میں پیدا ہوگئی ہے جو اس حصے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پھر یہ سوال کہ ان امور کے متعلق ریب و تذبذب کیوں پیدا ہو رہا ہے؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ عہد ماضی میں تو قدامت پرستی اور جہالت کی وجہ سے لوگ غیب کی باتوں پر ایمان لے آتے تھے‘ لیکن اب علوم جدیدہ اور اکتشافات حاضرہ نے عمل و خیال کی بالکل نئی طرح ڈال کر حریت فکرو ضمیر کی دولت سے دماغوں کو مالا مال کر دیا ہے، اس لیے اب يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ البقرہ 3:2کا زمانہ نہیں رہا بلکہ یُؤْمِنُوْنَ بِالتَّجْرِبَۃِ وَالشُّھُوْدِ کا زمانہ ہے۔
اس رائے کی بنیاد چند غلطیوں پر ہے جن میں پہلی غلطی گزشتہ اور موجودہ زمانے کے حقیقی فرق کو نہ سمجھنا ہے۔ بدقسمتی سے تنہا حضرت نیاز ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑا گروہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ مذہب کی شمع صرف گذشتہ زمانے کی تاریکی میں جل سکتی تھی۔ علومِ جدیدہ کا آفتاب طلوع ہونے کے بعد اس کا روشن ہونا مشکل ہے۔ حالانکہ علوم عقلیہ جن کو یہ لوگ روشنی سے تعبیر کرتے ہیں کچھ اس زمانے کی مخصوص متاع نہیں ہیں۔ گذشتہ زمانے میں بھی ان علوم کی روشنی نے آنکھوں کو اس طرح خیرہ کیا ہے اور گذشتہ زمانے میں بھی جن لوگوں کی آنکھیں ان سے خیرہ ہوئی ہیں‘ انھوںنے یہی سمجھا ہے کہ مذہب کی شمع اب روشن نہیں رہ سکتی۔ جو علوم اس زمانے کے علوم جدیدہ اور جو اکتشافات اس زمانے کے اکتشافاتِ حاضرہ تھے‘ وہ ان کے زعم میں عمل و خیال کی بالکل نئی طرحیں ڈال چکے تھے اور انھوں نے دماغوں کو حریت فکر و ضمیر کی دولت سے ایسا مالا مال کیا تھا کہ ان کے روشن زمانے میں يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ البقرہ 3:2 کی گنجائش ہی نہ تھی۔ کیا بالکل یہی حالت دوسری صدی ہجری سے چوتھی صدی تک نہیں گزری ہے‘ افلاطون‘ ارسطو‘ اپکیورس‘ زینو‘ برقلس اسکندر‘ فردوسی‘ فلاطینوس‘ اور دوسرے علمائے فلسفہ و حکمت کے خیالات جب اسلامی ممالک میں شائع ہوئے اور ان کی بدولت فلسفیانہ تفکر اور عقلی اجتہاد کا ایک نیا دور شروع ہوا تو کیا اس وقت بھی ایک گروہ نے بالکل یہی نہ سمجھا تھا جو اب ایک گروہ سمجھ رہا ہے؟ کیا اس زمانے کی حریت فکر و ضمیر اور ’’عمل و خیال کی نئی طرح‘‘ نے اسی طرح لوگوں کو مذہبی معتقدات کی طرف سے ریب و شک میں نہ ڈال دیا تھا؟ مگر پھر کیا ہوا؟ فلاسفہ کے بہت سے نظری و قیاسی مسائل جن پر اس وقت کے لوگ ایمان لے آئے تھے‘ بعد میں غلط ثابت ہوئے۔ وہ آفتابِ علم جن کے سامنے ان لوگوں کو مذہب کی شمع ٹمٹماتی({ FR 1153 }) نظر آرہی تھی زمانے کی ایک ہی گردش میں بے نور ہو کر رہ گیا۔ ان کے علوم جدیدہ فرسودہ ہوگئے۔ ان کے ’اکتشافاتِ حاضرہ‘ میں عمل و خیال کی نئی طرحیں ڈالنے کی قوت باقی نہ رہی‘ اور جو طَرحیں انھوں نے ڈالی تھیں وہ سب پرانی ہو گئیں۔ حتیٰ کہ اپنے زمانے کے اکتشافات پر کامل یقین و اذعان رکھتے ہوئے انھوں نے جو عقلی استدلالات کیے تھے اور ان پر جن مذاہب حکمت کی بنیاد رکھی تھی ان میں سے اکثر کو آج ایک معمولی طالب علم بھی لغو(۲) و مہمل(۳) قرار دینے میں تامل نہیںکرتا۔
اب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ گذشتہ زمانے کی تاریکی میں مذہب کی شمع جل سکتی تھی مگر اب اس روشنی کے زمانے میں نہیں جل سکتی‘ تو ہمیں بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ جن چیزوں کو آج علوم جدیدہ و اکتشافات حاضرہ کہہ کر وہی دعوے کیے جارہے ہیں جو پہلے کیے تھے‘ ان کے متعلق بھی ہم کو یقین ہے کہ ان میں سے بیش تر کا وہی حشر ہونا ہے جوگذشتہ لوگوں کے’’ علوم جدیدہ‘‘ اور ’’اکتشافات حاضرہ‘‘ کا ہو چکا ہے اور ’’عمل و خیال کی یہ نئی طرحیں‘‘ بھی زمانے کی گردش کے ساتھ پرانی اور فرسودہ ہو جانے والی ہیں۔ آپ ان تمام علوم و اکتشافات پر ایک غائر نظر ڈالیے جو آپ کا سرمایہ فخر و ناز ہیں‘ اور خود ان لوگوں سے جو ان علوم و اکتشافات کے اصلی محقق اور مکتشف ہیں دریافت کیجیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ گذشتہ علوم کی طرح ان میں بھی ایسے یقینیات بہت کم ہیں جن کے متعلق اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہو کہ ان کے غلط ثابت ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ باقی جتنی چیزیں ہیں سب ظنون،(۴) قیاسات، نظریات‘ ارتیابات(۵) اور تذبذبات ہیں جن کے متعلق یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ترقی کی جانب زمانے کا قدم جتنا جتنا آگے بڑھتا جائے گا یہ علوم جدیدہ اور اکتشافات حاضرہ قدامت کا لباس عار پہنتے جائیں گے اور عمل و خیال کی نئی طرحیں جو ان ناپائدار علوم و اکتشافات کے بھروسے پر پڑی ہیں‘ کچھ دوسری نئی طرحوں کے لیے جگہ خالی کرتی جائیں گی۔
پس جب حال یہ ہے تو ایک ہوش مند اور بالغ النظر آدمی کے لیے اس خیال سے ہیبت زدہ({ FR 1107 }) ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اب ’علوم جدیدہ‘ اور’ اکتشافات حاضرہ‘ نے عمل و خیال کی نئی طرحیں ڈال دی ہیں اور ’’حریت فکر و ضمیر‘‘ کی دولت سے دماغوں کو مالا مال کر دیا ہے‘ لہٰذا اب خدا جانے مذہب کا کیا حشر ہو۔ وہ تو ان علوم و اکتشافات پر ایک تحقیقی نظر ڈال کر یہ دیکھے گا کہ ان میں جو چیزیں مذہب سے متصادم ہو رہی ہیں وہ یقینی بھی ہیں یا نہیں۔ اگر فی الواقع وہ یقینیات ہوں اور مذہب کے حقیقی معتقدات سے متصادم بھی ہوں تو بلاشبہ اس کے لیے یہ سوال پیدا ہو جائے گا کہ مذہب پر ایمان لائے، یا ان یقینی نتائج تحقیق پر؟ لیکن اگر وہ محض قیاسات و نظریات ہوں یا محض شک اور تذبذب میں ڈالنے والی چیزیں ہوں تو وہ ان کے اور مذہب کے تصادم سے ہرگز نہ گھبرائے گا کیونکہ مذہب کی بنیاد اگر یقین و اذعان پر ہے تو یقین و اذعان کے مقابلے میں ظن و قیاس اور شک و تذبذب کو ہرگز کوئی ترجیح حاصل نہیں، اور اگر مذہب کوئی ظنی و قیاسی چیز ہے تو اس ظن و قیاس پر تو جدید علمی نظریات کی بنیاد بھی ہے۔ پھر دونوں میں وجہ ترجیح کیا چیز ہے؟
علومِ جدیدہ اور اکتشافات حاضرہ سے مرعوب ہو کر مذہب کی طرف ایک ترمیم طلب نگاہ ڈالنا تو صرف ان لوگوں کا شیوہ ہے جن کے دل میں یہ تخیل گھر کرگیا ہے کہ نئی چیز علم و اکتشاف ہے اور زمانے کا ساتھ دینے کے لیے اس کو قبول کرلینا، یا اس پر ایمان لے آنا ضروری ہے‘ خواہ اس کی حیثیت محض قیاسی و نظری ہو، اور خواہ اس کو انہوں نے گہری علمی بصیرت کے ساتھ نقد صحیح کی کسوٹی پر پرکھا بھی نہ ہو۔ ایسے ہی لوگوں میںعمل و خیال کی نئی طرحیں ڈالنے کا شوق پیدا ہوگیا ہے۔ حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ عمل و خیال کی نئی طرحیں کیوں کر پڑتی ہیں‘ اور کون سی طرحیں عاقلانہ ہوتی ہیںاور کون سی محض طفلانہ۔ اسی طرح حریتِ فکر و ضمیر کی دولت سے مالا مال ہونے کا ادّعا بھی ایسے ہی سطحی النظر لوگوں کا طرّۂ امتیاز بنا ہوا ہے مگر انھیں معلوم نہیں کہ مجرد حریت فکر و ضمیر ایک فتنہ اور ایک خطرناک حالت ہے‘ اگر اس کے ساتھ ایک وسیع اور پختہ علم‘ ایک عمیق اور بالغ نظر‘ ایک متوازن اور صحیح الفکر دماغ نہ ہو‘ اور یہ وہ چیز ہے جس کو عطا کرنے میں قدرت نے اتنی فیاضی سے کام نہیں لیا جتنی آج کل فرض کرلی گئی ہے۔
دوسرا نظریہ جو اسی پہلے نظریے سے نکلا ہے‘ یہ ہے کہ اب زمانہ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ البقرہ 3:2 کا نہیں رہا بلکہ یْوُمِنُوْنَ بِالتّجْربَۃِ وَالشُھُوْدِ کا ہے۔میں بہت غور کرنے کے بعد بھی نہیں سمجھ سکا کہ ان الفاظ سے قائل کا حقیقی مقصود کیا ہے۔ اگر مقصود یہ ہے کہ زمانے میں کوئی ایسی بات تسلیم نہیں کی جاتی جس پرغیب کا اطلاق ہوتا ہو اور جس کا تجربہ یا مشاہدہ نہ کیا گیا ہو تو یہ بالکل غلط ہے۔ ایسے کہنے کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہوگا کہ اس زمانے میں لوگوں نے صرف اسی حد کے اندر محدود رہنا قبول کرلیا ہے جس میں ان کا تجربہ و مشاہدہ ان کے لیے وسیلۂ اکتسابِ ({ FR 1108 }) علم بن سکتا ہے اور جس میں ان کے حواس کام دے سکتے ہیں‘ اور اس دائرے کے باہر جتنے امور ہیں ان کے بارے میں فکر کرنا اور قیاس و استقرا(۲)سے ان کے متعلق حکم لگانا انسان نے چھوڑ دیا ہے، مگر کوئی شخص جس نے علوم جدیدہ و اکتشافات کا سرسری مطالعہ بھی کیا ہے‘ اس بیان کو تسلیم نہ کرے گا۔ فلسفہ اور مابعد الطبیعیات کو چھوڑیے جس کی بحث تمام تر امور غیب سے ہے۔ خود سائنس اور اس کے امور طبیعیہ کو لے لیجیے جن کے اعتماد پر آپ ایمان بِالتّجْرِبَہِ و الشُہُودِ کا اعلان کر رہے ہیں۔ اس فن کا کون سا شعبہ ایسا ہے جس کی تحقیقات کا مدار قوت، انرجی،قانون فطرت مادہ، رشتہ علت و معلول اور ایسے ہی دوسرے امور کے اقرارو اثبات پر نہیں؟ کون سا عالم طبیعیات ایسا ہے جو ان چیزوں پر ایمان نہیں رکھتا۔ اب ذرا کسی بڑے سے بڑے حکیم سے جاکر پوچھیے کہ ان میں سے کس کی حقیقت وہ جانتا ہے؟ کس کی کنہ(۳) تک اس کے حواس پہنچ سکے ہیں؟ کس کے نفس وجود کا تجربہ و مشاہدہ اس نے کرلیاہے؟ اور کس کے موجود ہونے کا حقیقی ثبوت وہ پیش کرسکتا ہے؟ پھر یہ غیب پر ایمان نہیں تو کیا ہے؟
ان الفاظ کا ایک دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس زمانے میں صرف وہی بات مانی جاتی ہے جس کا تمام انسانوں نے تجربہ و مشاہدہ کیا ہے اور جو نوع انسانی کے تمام افراد کے لیے شہود و حضور کامرتبہ رکھتی ہے، لیکن یہ ایسی بات ہے جو کسی مرد عاقل کی زبان سے نہیں نکل سکتی اس لیے کہ یہ بالکل بدیہی({ FR 1109 }) امر ہے کہ تمام انسانی معلومات افراد انسانی کو فرداً فرداً حاصل نہیں ہیں بلکہ ان کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جس میں مخصوص جماعتوں اور مخصوص افراد کو اختصاص(۲) کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ ان خصوصی معلومات کاہر شعبہ صرف اپنے مختص عالموں کے لیے حاضر اور باقی تمام انسانوں کے لیے غائب ہوتا ہے اورجمہور کو اس شخص یا اس گروہ پر ایمان بالغیب لانا پڑتا ہے جو اس شعبے کا عالم ہو۔
تیسرا مفہوم اس قضیے کلیے کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس زمانے کا ہر شخص صرف وہی بات مانتا ہے جو اس کے ذاتی تجربے یا مشاہدے میں آئی ہو‘ اور ایسی کسی بات کو نہیں مانتا جو خود اس کے لیے غیب کا حکم رکھتی ہو۔ لیکن یہ ایسی بات ہے کہ اس سے زیادہ مہمل کوئی بات انسانی دماغ سے نکل نہیں سکتی۔ اس صفت کا نہ کوئی آدمی کبھی پایا گیا ہے‘ نہ آج پایا جاتا ہے‘ نہ قیامت تک اس کے پائے جانے کی امید ہے، اور اگروہ فی الواقع کہیں موجود ہے تو اس کی نشان دہی کرنے میں ہرگز تامّل نہ کرنا چاہیے، کیونکہ ’انکشافات حاضرہ‘ میں یہ انکشاف سب سے زیادہ اہم ہوگا۔
غرض آپ خواہ کسی پہلو سے اس فقرے کو دیکھیں اس میں کوئی صداقت آپ کو نظر نہ آئے گی۔ خود تجربہ و مشاہدہ ہی اس پر گواہ ہے کہ یہ زمانہ بھی اسی طرح یومنون بالغیب کا ہے جس طرح گذشتہ زمانہ تھا اور ایمان بالغیب جس چیز کا نام ہے اس سے انسان کو نہ کبھی چھٹکارا ملا ہے نہ مل سکتا ہے۔ ہرشخص اپنی زندگی کے ۹۹۹ فی ہزار بلکہ اس سے زیادہ معاملات میں ایمان بالغیب لاتا ہے اور لانے پر مجبور ہے۔ اگر وہ یہ عہد کرلے کہ صرف اپنے تجربے و مشاہدے پر ہی ایمان لائے گا تو اس کو معلومات کا وہ تمام ذخیرہ اپنے دماغ سے خارج کر دینا پڑے گا جسے دوسروں پر اعتماد کر کے اس نے مقام علم و یقین میں جگہ دی ہے‘ اکتساب علم کے ان تمام ذرائع کا مقاطعہ کر دینا پڑے گا جو خود اس کے اپنے تجربے و مشاہدے سے ماسوا ہیں‘ اور یہ ایسی حالت ہوگی جس میں وہ زندہ ہی نہ رہ سکے گا‘ کجا کہ دنیا کا کوئی کام کرسکے۔ درحقیقت ایمان بالغیب کی کلی نفی اور ایمان بالتجربہ والشہود کا کلی اثبات، نہ اس زمانے میں ممکن ہے اور نہ اس سے بھی زیادہ روشن کسی زمانے میں ہونے کی توقع ہے۔ لامحالہ ہر زمانے اور ہر حالت میں انسان مجبور ہے کہ اپنے ذاتی تجربے و مشاہدے کے بغیر بہت سی باتیں محض دوسروں کے اعتماد پر مان لے۔ کچھ باتیں اس کو خبر متواتر کی بنا پر ماننی پڑتی ہیں‘ جیسے یہ کہ سنکھیا کھانے سے آدمی مر جاتا ہے‘ در آنحالیکہ ہر شخص نے نہ خود سنکھیا کھا کر اس کا تجربہ کیا، نہ کسی کو کھا کر مرتے ہوئے دیکھا۔ کچھ باتوں کو ایک یا چند معتبر آدمیوں کی روایت سے مان لینا پڑتا ہے‘ جیسے عدالتوں کا شہادت پر اعتماد‘ کہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو قانون کی مشین ایک لمحے کے لیے بھی حرکت نہ کرسکے۔ کچھ باتیں صرف اس بنا پر تسلیم کرلینی پڑتی ہیں کہ ان کو ایک ماہر فن کہہ رہا ہے۔ یہ حالت ہر مدرسے اور ہر کالج میں ہر طالب علم پر گزرتی ہے۔ اگر وہ اپنے فن کے اکابر علما و ماہرین کی تحقیقات اور ان کے اکتشافات و نظریات پر ایمان بالغیب نہ لائے تو علم کے میدان میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا اور نہ کبھی ترقی کرکے اس مقام تک پہنچ سکتا ہے جہاں وہ خود ان علما و ماہرین کی طرح حقائق علمیہ کی تحقیق کرنے کے قابل ہو۔
اس سے ثابت ہوا کہ ہم ان تمام معاملات میں دوسروں پر ایمان بالغیب لاتے ہیں اور لانے پر مجبور ہیں جن میں ہم نے اپنے ذاتی تجربے و مشاہدے سے اکتسابِ علم نہیں کیا ہے اور دوسرے لوگوں نے کیا ہے۔ اب صرف یہ سوال باقی رہ جاتا ہے اور اسی پر فیصلے کا انحصار ہے کہ کس معاملے میں کس پر ایمان بالغیب لانا چاہیے؟ اصولاً یہ بات ہر شخص تسلیم کرتا ہے کہ ایسے ہر معاملے میں صرف اس شخص یا جماعت پر ایمان لانا چاہیے جس کے متعلق ہم کو یہ اطمینان ہو کہ اسے اس معاملے کا بہتر علم حاصل ہے اور اس کے پاس اس کے جاننے کے بہتر ذرائع موجود ہیں۔ اسی قاعدے کلیے کے ماتحت ایک مریض ڈاکٹر کو چھوڑ کر وکیل سے مشورہ نہیں کرتا‘ اور ایک اہل مقدمہ وکیل کو چھوڑ کر انجینئر کے پاس نہیں جاتا، لیکن الٰہیات و روحانیت کے مسائل میں یہ اختلاف واقع ہوتا ہے کہ آیا ان میں علمائے فلسفہ و ماہرین علوم عقلیہ کی رائے تسلیم کی جائے یا عالم انسانی کے مذہبی و روحانی پیشوائوں کی؟ خدا اور ملا ئکہ‘ وحی و الہام‘ روح اور حیات بعدالموت‘ عذاب و ثواب آخرت اور ایسے ہی دوسرے امورِ غیب میں کانٹ اور اسپنسر‘ آئن سٹائن اوربرگسان جیسے لوگوں کی بات مانی جائے یا ابراہیم‘ موسیٰ، عیسیٰ اور محمد علیہم السلام جیسے بزرگوں کی؟۔
’’حریت فکر و ضمیر‘‘ کے مدعیوں کا رجحان پہلے گروہ کی جانب ہے اور وہ انھی کی مہیا کی ہوئی کسوٹی پر گروہِ انبیاء علیہم السلام کی باتوں کو کس کر دیکھتے ہیں۔ جو باتیں اس کسوٹی پر کھری نکلتی ہیں انھیں مان لیتے ہیں‘ اس لیے نہیں کہ انبیاء علیہم السلام نے کہی ہیں‘ بلکہ اس لیے کہ حکما و فلاسفہ نے ان کو شرفِ قبول عطا کیا ہے اور بدقسمتی سے ایسی باتیں بہت ہی کم بلکہ بالکل نہیں ہیں۔ اور جو باتیں اس کسوٹی پر کھوٹی نکلتی ہیں ان کو وہ غیر معتبر قرار دے کر رد کر دیتے ہیں۔ برعکس اس کے ’قدامت پرستوں‘ اور ’اسلاف پرستوں‘ کا مسلک یہ ہے کہ نہ طبیعیات و عقلیات کی باتیں الٰہیات و روحانیات والوں سے پوچھو، اور نہ اس کے برعکس الٰہیات و روحانیت کی باتیں عقلیات و طبیعیات والوں سے۔ دونوں کے دائرے الگ الگ ہیں اور ایک علم میں دوسرے علم کے ماہر کی رائے دریافت کرنا پہلی بنیادی غلطی ہے۔ حکما و فلاسفہ اپنے عقلی علوم میں خواہ کتنی ہی اعلیٰ بصیرت رکھتے ہوں لیکن علومِ الٰہیہ میں ان کا مرتبہ ایک عامی سے زیادہ نہیں ہے اور وہ ان کے متعلق معلومات کے اتنے ہی ذرائع رکھتے ہیں جتنے ہر معمولی انسان رکھتا ہے۔ یہ علوم مخصوص ہیں انبیاء علیہم السلام کے ساتھ‘ وہی ان کے ماہر ہیں، انھی پر اِیَمانِ بِالْغَیْبِ لانا چاہیے۔ آپ کے لیے بحث و کلام کی اگر گنجائش ہے تو وہ صرف اس امر میں ہے کہ آیا فی الواقع وہ سچے اور علوم الٰہیہ میں صاحب ِبصیرتِ تامہ ہیں یا نہیں، مگر جب یہ بات ثابت ہو جائے یا ثابت کر دی جائے کہ فی الحقیقت وہ ایسے ہیں تو پھر جو باتیں اپنی بصیرت اور اپنے علم کی بنا پر انھوں نے بیان کی ہیں وہ سب آپ کو ماننی پڑیں گی۔ ان سے انکار کرنا اور ان کے خلاف دلیل و حجت لانا بالکل ایسا ہی ہوگا جیسے اندھا سورج کے وجود سے انکار کر دے اور آنکھوں والوں کو جھٹلانے کے لیے وجود شمس کے امتناع پر دلیلیں پیش کرے۔ ایسا شخص اپنے زعم میں خواہ کتنا ہی بڑا فلسفی ہو مگر جو اپنی آنکھوں سے سورج کو دیکھ رہا ہے وہ اس ’نابینا‘ کے متعلق جو کچھ رائے قائم کرے گا اس کے بیان کی حاجت نہیں۔
آپ کہیں گے کہ انبیاء علیہم السلام نے امور غیب کے متعلق جو کچھ کہا ہے اس کی تائید’علومِ جدیدہ‘ اور’اکتشافات حاضرہ‘ سے نہیں ہوتی‘ اس لیے لوگ ’ریب و تذبذب‘ میں مبتلا اور’ناچار مسلمان شو‘ کی لعنت میں گرفتار ہوگئے ہیں، مگر میں کہوں گا کہ ان علوم و اکتشافات میں وہ کون سے یقینیات ہیں جو اصول اسلام سے ٹکراتے ہیں؟ اگر ہیں تو انھیں پیش فرمائیے تاکہ ہم بھی غور کریں کہ آیا قرآن کو مانیں یا علوم جدیدہ و اکتشافات حاضرہ کو۔ اور اگر نہیں ہیں اور ہرگز نہیں ہیں جیسا کہ خود آپ کے الفاظ ’ریب و تذبذب‘ اور ’ناچار مسلماں شو‘ سے ظاہر ہوتا ہے تو پھر کیا علوم جدیدہ و اکتشافات حاضرہ کے اسلحہ خانے میں صرف ظنیات و قیاسات ہی کے وہ ہتھیار ہیں جن کے بل پر وہ مذہب کے خلاف اعلان جنگ کر رہے ہیں اور جن کی کاٹ نہیں‘ محض چمک دمک دیکھ کر آج کل کے ارباب ’’حریت فکر و ضمیر‘‘ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ مذہب ان کا نام سنتے ہی سہم جائے گا اور میدان چھوڑنے پر مجبور ہو جائے گا؟ آپ ان علوم و اکتشافات کو خواہ کتنی ہی اہمیت دیں‘ مگر یاد رکھیے کہ امور غیب میں وہ ہرگز مفید یقین نہیں ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ان کا یہ اثر ہوسکتا ہے کہ آپ ’ریب و تذبذب‘ میں پڑ جائیں اور کہیں کہ ہم وحی و الہام‘ بعث بعد الموت‘ عذاب و ثواب آخرت‘ فرشتوں کے وجود اور خود خدا کے وجود کے متعلق نفیاً یا اثباتاً کوئی حکم نہیں لگا سکتے، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ کو’ناچار مسلماں شو‘ کی لعنت سے نکالنے اور’کافرتوانی شد‘ ({ FR 1157 })کی ’’برکت‘‘ سے مالا مال ہونے میں یہ علوم کچھ بھی مدد دے سکیں کیونکہ امور مذکورہ بالا سے قطعی انکارکر دینے کے لیے یہ علوم کوئی حجت فراہم نہیں کرتے‘ اورکسی چیز کے عدم کا حکم لگانے کے لیے صرف اتنی حجت کافی نہیں ہے کہ اس کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں۔ پس ’ریب و تذبذب‘ کا مقام وہ آخری مقام ہے جہاں آپ کے ’علوم جدیدہ واکتشافات حاضرہ‘ آپ کو لے جاکر ٹھیرا دیتے ہیں مگر عقلی و ذہنی حیثیت سے یہ ایک بدترین مقام ہے۔ جو علوم انسان کو یقین نہ بخش سکیں‘ جو اسے ایک ایسے مقام پر معلق چھوڑ دیں جہاں اس کو کوئی جائے قرار نہ ملتی ہو‘ جو اسے ’کافر نتوانی شد،ناچار مسلمان شو‘ کی دلدل میں لے جاکر پھنسا دیں وہ یقیناً جہل سے بدتر ہیں۔
اس مشکل سے اگر کوئی چیز انسان کو بچا سکتی ہے تو وہ صرف ایمان بالغیب ہے۔ ایک دفعہ جب آپ نے ایک شخص کو نبی مان لیا اور یہ سمجھ لیا کہ وہ علوم الٰہیہ میں کامل بصیرت رکھتا ہے اور یہ تسلیم کرلیا کہ وہ ہرگز جھوٹ نہیں بولتا‘ تو پھر آپ کے لیے امور غیب میں کسی تذبذب و ریب کی گنجائش نہیں رہتی اور آپ کا اعتقاد یقین و اذعان کی ایک ایسی مضبوط بنیاد پر قائم ہو جاتا ہے جسے کسی علم جدیدہ و اکتشافِ حاضر اور عمل و خیال کی کسی نئی طرح اور حریت فکر و ضمیر کی کسی گرم بازاری سے کوئی صدمہ نہیں پہنچ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں صاف تصریح کر دی گئی ہے کہ یہ کتاب ہدایت ہے متقین کے لیے اور متقین کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ ایمان بالغیب لاتے ہیں:
ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ o الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ البقرہ2:2-3
ہدایت ہے اُن پرہیزگار لوگوں کے لیے جوغیب پر ایمان لاتے ہیں۔
ایمان بالغیب پر مذہب کی پوری عمارت قائم ہے۔ اگر آپ نے اس اصل الاصول کو منہدم({ FR 1154 }) کر دیا تو پھر مذہب کے ان بنیادی معتقدات کے متعلق جن کی حقیقت معلوم کرنے کا خود آپ کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے‘ آپ کسی ایسی رائے پر نہیں پہنچ سکتے جس کی صحت کا خود آپ کو یقین ہو، اور جس کی صداقت کا آپ دوسروں کو یقین دلا سکیں۔
اب آخری سوال یہ رہ جاتا ہے کہ ایک شخص کے پاس یہ دریافت کرنے کا کون سا ذریعہ ہے کہ وہ نبی ہے‘ اُس کو علوم الٰہیہ میں کامل بصیرت حاصل ہے اور وہ اس مرتبے کا صادق انسان ہے کہ اگر وہ امور غیب کے متعلق ہم کو ایسی باتیں سنائے جو ہماری عقل سے ماورا اور ہمارے دائرہ علم سے باہر ہوں تب بھی ہم اس کی بات پر ایمان لے آئیں اور یقین کے ساتھ کہہ سکیں کہ وہ ہرگز جھوٹا نہیں ہے؟ اس سوال کا تصفیہ منحصر ہے دو چیزوں پر:
٭ ایک یہ کہ ہم اس شخص کی سیرت کو اس سخت سے سخت معیار پر جانچ کر دیکھیں جس پر کسی انسان کی سیرت جانچی جاسکتی ہے۔
٭ دوسرے یہ کہ ہم اس کی پیش کی ہوئی ان باتوں پر نگاہ ڈالیں جو ہمارے دائرہ علم سے باہر نہیں ہیں اور جن میں قطعیت کے ساتھ ایک حکم عقلی لگانا ہمارے لیے ممکن ہے۔
جب ان دونوں امتحانوں سے یہ ثابت ہو جائے کہ وہ اپنے صادق القول ہونے میں بے مثل ہے اور اس کے ساتھ زندگی کے تمام عملی و فکری شعبوں میں خیر و صلاح و حکمت کی ایسی کامل تعلیم دیتا ہے جس میں انسانی عقل کہیں سے کوئی عیب نہیں نکال سکتی تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کو سچا نہ مانیں اور بدگمانی کریں کہ اس نے کسی علم و واقفیت کے بغیر محض دنیا کو دھوکا دینے کے لیے خدا اور فرشتوں اور عرش و کرسی اور وحی و الہام اور بعث بعد الموت اور دوزخ و جنت کا اتنا بڑا فریب گھڑ کر رکھ دیا ہے۔
پس حضرت نیاز کی تیسری غلطی یہ ہے کہ وہ قرآن کے پہلے حصے کو جسے ہم نے اپنی تقسیم میں دوسرا حصہ قرار دیا ہے‘ قابل بحث نہیں سمجھتے اور مزید برآں یہ خیال کرتے ہیں کہ:
اس معاملے میں تمام مذاہب تقریباً یکساں ہیں‘ اور مذہب اسلام کی تعلیم دوسرے مذاہب کی تعلیم سے مختلف یا فروتر نہیں ہے۔
برعکس اس کے ہم کہتے ہیں کہ ان کی تقسیم کے مطابق قرآن کے دوسرے اور تیسرے حصے (یا ہماری تقسیم کے مطابق پہلے حصے) کی صداقت کا فیصلہ منحصر ہی اس پر ہے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور قرآن مجید کے ان تمام حصوں کی ناقدانہ چھان بین کریں جن کا تعلق امورغیب سے نہیں ہے اور صرف اسی پر اکتفا نہ کریں کہ اسلام کی تعلیم کا یہ حصہ دوسرے مذاہب سے مختلف یا فروتر نہیں ہے بلکہ بدلائل یہ ثابت کریں کہ وہ تمام ان مذاہب سے جو غیر اسلام ہیں اعلیٰ و ارفع و اجل ہے۔ جب تک بحث کا یہ مرحلہ طے نہ ہو جائے دوسرے مرحلے (یعنی امور غیب کی بحث) میں قدم رکھنا اصولاً غلط ہے اور اس کے تصفیے کے بغیر ان کا تصفیہ ممکن نہیں ہے۔
حضرت نیاز چاہتے ہیں کہ ہم ’معاد‘ اور ’کلام الٰہی‘ اور ان آیات سے بحث کریں جو عقائد اور قصص سے تعلق رکھتی ہیں، لیکن ہمارے نزدیک اس بحث کے دو پہلو ہیں اور وہ دو گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں:
o ایک گروہ وہ ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان ہی نہیں رکھتا اور اس پر بنا پر ان میں شک کرتا ہے۔
o دوسرا گروہ وہ ہے جو آپؐ کی رسالت کو تسلیم کرتا ہے مگر امور غیب میں اس کو شکوک و شبہات ہیں۔
ان دونوں گروہوں سے بحث کرنے کے طریقے مختلف ہیں اور جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ معترض کس گروہ سے تعلق رکھتا ہے اس وقت تک ہم اس سے بحث نہیں کرسکتے۔
پہلے گروہ سے معاد اورکلام الٰہی اور دوسرے امور غیب پر بحث کرنا بالکل بے نتیجہ ہے کیونکہ اصل میں اختلاف رہتے ہوئے فروع پر بحث کرکے نتیجے پر پہنچنا ممکن نہیں۔ ہم معاد اور کلام الٰہی حتیٰ کہ خود وجود و صفات الٰہی کے متعلق بھی جن باتوں پر ایمان رکھتے ہیں ان پر ہمارا ایمان و یقین اس بنا پر نہیں ہے کہ ہماری اپنی عقلی تحقیق یا ہمارے اپنے ذاتی تجربے و مشاہدے نے ان کے متعلق ہمیں کوئی ایسا قطعی اور یقینی علم بخشا ہے جس کے خلاف ہم پر کوئی دلیل عقلی قائم نہ کی جاسکتی ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو بلاشبہ نبوت کی بحث سے بے نیاز ہو کر ان مسائل سے بحث کی جاسکتی تھی، لیکن ان امور پر ہمارے قطعی ایمان و اذعان کی بنیاد دراصل اس اعتقاد پر ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صادق القول ہیں اور اپنی رسالت اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے کے متعلق جو کچھ انھوں نے کہا وہ بالکل صحیح ہے۔ اسی اصل سے وہ بات متفرع ہوتی ہے کہ جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے منکر سے ہم اس بنیادی مسئلے کو تسلیم نہ کرالیں گے اس وقت تک کسی فروعی مسئلے سے بحث ہی نہ کریں گے۔
رہا دوسرا گروہ تو اس کے حق کو ہم تسلیم نہیں کرتے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو تسلیم بھی کرے اور پھر امور غیب پر اس جہت سے کلام بھی کرے کہ قرآن میں جو کچھ کہا گیا ہے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ خبریں دی ہیں وہ صحیح ہیں یا غلط؟ اس لیے کہ یہ پہلو اختیار کرتے ہی وہ پہلے گروہ میں شامل ہو جائے گا۔ اگر وہ حقیقت میں دوسرے گروہ کا آدمی ہے تو اسے ماننا پڑے گا کہ قرآن کا ہر لفظ صحیح ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ پیش کیا وہ غلطی سے مبرا ہے، البتہ وہ اس پر دو پہلوئوں سے کلام کرسکتا ہے:
٭ ایک یہ کہ آیا فی الواقع قرآن میں ایسا اور ایسا ارشاد ہوا ہے یا نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا اور ایسا فرمایا ہے یا نہیں؟
٭ دوسرے یہ کہ قرآن اور سنت میں جو کچھ فی الواقع ہے اس کا صحیح مفہوم کیا ہے؟
آخر میں ایک بات مجھے اور عرض کرنی ہے۔ حضرت نیاز نے رائے دی ہے کہ ترجمان القرآن میں ایک باب المناظرہ کھولا جائے اور ارادہ ظاہر فرمایا ہے کہ وہ اپنے شبہات و اعتراضات بھی پیش کریں گے۔ جہاں تک اصطلاحی مناظرے کا تعلق ہے میں نے ہمیشہ اس سے دامن بچایا ہے اور اب بھی بچانا چاہتا ہوں کیونکہ ایسی بحث کا میں ہرگز قائل نہیں ہوں جس کا مقصد محض دماغی ورزش اور عقلی کشتی ہو۔ رہا علمی مناظرہ جس کا مقصد احقاق({ FR 1110 }) و تحقیق ہو اور جس میں فریقین اس دلی خواہش کے ساتھ شریک ہوں کہ جو کچھ ان کے نزدیک حق ہے اس کا اظہار کریں گے اور جو کچھ حق ثابت ہو جائے گا اس کو تسلیم کرلیں گے‘ تو اس کے لیے میں ہر وقت آمادہ ہوں۔ نگار میں جن شبہات و اعتراضات کو پیش کیا جائے گا وہ بجنسہ ترجمان القرآن میں نقل کیے جائیں گے اور پھر جواب دیا جائے گا۔ اسی طرح امید ہے کہ ترجمان القرآن کے جواب پر اگر حضرت نیاز کوئی تنقید فرمائیں گے تو اصل جواب بھی اس کے ساتھ نقل فرمائیں گے‘ تاکہ دونوں رسالوں کے ناظرین بحث کے دونوں پہلوئوں سے واقف ہوں‘ اور خود بھی کوئی رائے قائم کرسکیں۔ صرف ایک پہلو کو پیش کرنا اور دوسرے پہلو کو پیش کرنے سے احتراز کرنا میرے نزدیک خود اپنی کمزوری کا اعتراف ہے۔
(ترجمان القرآن، ربیع الاول ۱۳۵۲ھ۔ جولائی ۱۹۳۳ء)


۱۱۔ ہمارے نظام تعلیم کا بنیادی نقص

مسلم یونی ورسٹی کورٹ نے اپنے گزشتہ سالانہ اجلاس (منعقدہ اپریل ۱۹۳۶ء) میں ایک ایسے اہم مسئلے کی طرف توجہ کی ہے جو ایک عرصے سے توجہ کا محتاج تھا‘ یعنی دینیات اورعلوم اسلامیہ کے ناقص طرز تعلیم کی اصلاح اور یونی ورسٹی کے طلبا میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کی ضرورت۔
جہاں تک جدید علوم و فنون اور ادبیات کی تعلیم کا تعلق ہے حکومت کی قائم کی ہوئی یونی ورسٹیوں میں اس کا بہتر سے بہتر انتظام موجود ہے۔ کم از کم اتنا ہی بہتر جتنا خود علی گڑھ میں ہے۔ محض اس غرض کے لیے مسلمانوں کواپنی ایک الگ یونی ورسٹی قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ ایک مستقل قومی یونی ورسٹی قائم کرنے کا تخیل جس بنا پر مسلمانوں میں پیدا ہوا اور جس بنا پر اس تخیل کو مقبولیت حاصل ہوئی وہ صرف یہ ہے کہ مسلمان جدید علوم سے استفادہ کرنے کے ساتھ ’مسلمان‘ بھی رہنا چاہتے ہیں۔ یہ غرض سرکاری کالجوں اور یونی ورسٹیوں سے پوری نہیں ہوتی۔ اسی کے لیے مسلمانوں کو اپنی ایک اسلامی یونی ورسٹی کی ضرورت ہے۔ اگر ان کی اپنی یونی ورسٹی بھی یہ غرض پوری نہ کرے، اگر وہاں سے بھی ویسے ہی گریجویٹ نکلیں جیسے سرکاری یونی ورسٹیوں سے نکلتے ہیں‘ اگر وہاں بھی محض دیسی صاحب لوگ یا ہندی وطن پرست یا اشتراکی ملاحدہ ہی پیدا ہوں‘ تو لاکھوں روپے کے صَرف سے ایک یونی ورسٹی قائم کرنے اور چلانے کی کون سی خاص ضرورت ہے۔
یہ ایسا سوال تھا جس پر ابتدا ہی میں کافی توجہ کرنے کی ضرورت تھی۔ جب یونی ورسٹی قائم کی جارہی تھی اس وقت سب سے پہلے اسی بات پر غور کرنا چاہیے تھا کہ ہم کو ایک علیحدہ یونی ورسٹی کی کیا ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کی کیا سبیل ہے، مگر کسی نقاد نے آج کل کے مسلمانوں کی تعریف میںشاید سچ ہی کہا ہے کہ یہ کام پہلے کرتے اورسوچتے بعدمیں ہیں۔ جن لوگوں کو یونی ورسٹی بنانے کی دھن تھی انھیں بس یونی ورسٹی ہی بنانے کی دھن تھی‘ اس کا کوئی نقشہ ان کے ذہن میں نہ تھا۔ یہ سوال سرے سے پیش نظرہی نہ تھا کہ ایک مسلم یونی ورسٹی کیسی ہونی چاہیے اورکن خصوصیات کی بنا پر کسی یونی ورسٹی کومسلم یونی ورسٹی کہا جا سکتا ہے۔ اس عمل بلا فکر کا نتیجہ یہ ہوا کہ بس ویسی ہی ایک یونی ورسٹی علی گڑھ میں بھی قائم ہوگئی جیسی ایک آگرہ میں اور دوسری لکھنؤ میں اور تیسری ڈھاکہ میں ہے۔ لفظ ’مسلم‘ کی رعایت سے کچھ دینیات کا حصہ بھی نصاب میں شریک کر دیا گیا تاکہ جب کوئی دریافت کرے کہ اس یونی ورسٹی کے نام میں لفظ ’مسلم‘ کیوں رکھا گیا ہے تو اس کے سامنے قُدُوْرِیْ اور مُنْیَۃُ الْمُصَلِّیْ اور ھِدَایَۃ بطور سند اسلامیت پیش کر دی جائیں، مگر درحقیقت یونی ورسٹی کی تاسیس و تشکیل میں کوئی ایسی خصوصیت پیدا نہیں ہوئی جس کی بنا پر وہ دوسری سرکاری یونی ورسٹیوں سے ممتاز ہو کر حقیقی معنوں میں ایک اسلامی یونی ورسٹی ہوتی۔
ممکن ہے کہ ابتدا میں تعمیر کے شوق اور جوش نے صحیح اور مناسب نقشے پر غور کرنے کی مہلت نہ دی ہو، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یونی ورسٹی قائم ہوئے پندرہ سال ہوگئے اور اس دوران میں ہمارے تعلیمی ناخدائوں نے ایک مرتبہ بھی یہ محسوس نہیں کیا کہ اس کی اصل منزل مقصود کیا تھی اور ان کا رہرو({ FR 1112 }) پشت بمنزل(۲) جاکدھر رہا ہے۔ ابتدا سے حالات صاف بتا رہے ہیں کہ یہ درس گاہ نہ اس ڈھنگ پر چل رہی ہے جس پر ایک اسلامی درس گاہ کو چلنا چاہیے اور نہ وہ نتائج پیدا کر رہی ہے جو دراصل مطلوب تھے۔ اس کے طلبہ اور ایک سرکاری یونی ورسٹی کے طلبہ میں کوئی فرق نہیں۔ اسلامی کریکٹر اسلامی اسپرٹ‘ اسلامی طرز عمل مفقود ہے۔ اسلامی تفکر اور اسلامی ذہنیت ناپید ہے۔ ایسے طلبہ کی تعداد شاید ایک فی صدی بھی نہیں جو اس یونی ورسٹی سے ایک مسلمان کی سی نظر اور مسلمان کا سا نصب العین لے کر نکلے ہوں اورجن میں یونی ورسٹی کی تعلیم و تربیت نے یہ قابلیت پیدا کی ہو کہ اپنے علم اور اپنے قوائے عقلیہ سے کام لے کر ملت اسلامیہ میں زندگی کی کوئی نئی روح پھونک دیتے‘ یا کم از کم اپنی قوم کی کوئی قابل ذکر علمی و عملی خدمت ہی انجام دیتے۔ نتائج کی نوعیت اگر محض سلبی(۳) ہی رہتی تب بھی بسا غنیمت ہوتا، مگر افسوس یہ ہے کہ یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل اورزیر تعلیم طلبہ میں ایک بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی پائی جاتی ہے جن کا وجود اسلام اور اسلامی تہذیب اور مسلمان قوم کے لیے نفع نہیں بلکہ الٹا نقصان ہے۔ یہ لوگ روحِ اسلامی سے ناآشنا ہی نہیں بلکہ قطعاً منحرف ہو چکے ہیں۔ ان میں مذہب کی طرف سے صرف سرد مہری نہیں بلکہ نفرت سی پیدا ہوگئی ہے۔ ان کے ذہن کا سانچہ ایسا بنا دیا گیا ہے کہ وہ تشکیک({ FR 1113 }) کی حد سے گزر کر انکار کے مقام پر پہنچ گئے ہیں‘ اور ان بنیادی اصولوں کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں جن پر اسلام کی عمارت قائم ہے۔
حال میں خود مسلم یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل نوجوانوں میں سے ایک صاحب نے جو محض اپنی سلامت طبع کی وجہ سے ’مرتد‘ ہوتے ہوتے رہ گئے‘ اپنے ایک پرائیویٹ خط میں وہاں کے حالات کی طرف چند ضمنی اشارات کیے ہیں۔ یہ خط اشاعت کے لیے نہیں لکھا گیا ہے اور نہ لکھنے والے کا مقصد خصوصیت کے ساتھ علی گڑھ کی کیفیت بیان کرنا ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ یونی ورسٹی کی باطنی کیفیت کا نہایت صحیح مرقع ہے۔ صاحبِ خط نے اپنے ذہنی ارتقا کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
علی گڑھ میں مجھے اسلامی دنیا کے خارجی فتنے یعنی تفرنج(۲) کی آخری ارتقائی منزل یعنی کمیونزم سے دو چار ہونا پڑا۔ میں پہلے مغربیت کو کوئی خطرناک چیز نہ سمجھتا تھا، لیکن علی گڑھ کے تجربات نے مجھے حقیقت سے روشناس(۳) کرا دیا۔ اسلامی ہند کے اس مرکز میں ایک خاصی تعدادایسے افراد کی موجود ہے جو اسلام سے مرتد ہو کر کمیونزم کے پُر جوش مبلغ بن گئے ہیں۔ اس جماعت میں اساتذہ میں سے کافی لوگ شامل ہیں، اور یہ اساتذہ تمام ذہین اور ذکی نووارد(۴) طلبہ کو اپنے جال میں پھانستے ہیں۔ ان لوگوں نے کمیونزم کو اس لیے اختیار نہیں کیا کہ وہ غریبوں اور کسانوں اور مزدوروں کی حمایت اور امداد کرنا چاہتے ہیں‘ کیونکہ ان کی عملی مسرفانہ(۵) زندگیاں ان کی بناوٹی باتوں پر پانی پھیر دیتی ہیں، بلکہ انھوں نے اسے اس لیے اختیار کیا ہے کہ وہ ایک عالمگیر تحریک کے سائے میں اپنی اخلاقی کمزوریوں اور اپنے ملحدانہ رجحانات طبع اور اپنی loose thinkingکو justifyکرسکیں۔ کمیونزم نے پہلے مجھے بھی دھوکا دیا۔ میں نے خیال کیا کہ یہ اسلام کا ایک un-authorised edition ہے لیکن بغور مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اسلام کے اور اس کے بنیادی نصب العین میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ مسلم یونی ورسٹی کی تعلیم و تربیت صرف ناقص ہی نہیں‘ بلکہ ان مقاصد کے بالکل برعکس نتائج پیدا کر رہی ہے جن کے لیے سرسید احمد خاں اور محسن الملک اور وقار الملک وغیرہم نے ایک مسلم یونی ورسٹی کی ضرورت ظاہر کی تھی اور جن کے لیے مسلمانوں نے اپنی بساط({ FR 1114 }) سے بڑھ کر جوش و خروش کے ساتھ اس درس گاہ کی تعمیر کا خیر مقدم کیا تھا۔
آپ اس انجینئر کے متعلق کیا رائے قائم کریں گے جس کی بنائی ہوئی موٹر آگے چلنے کے بجائے پیچھے دوڑتی ہو؟ اور وہ انجینئر آپ کی نگاہ میں کیا ماہر فن ہوگا جو اپنی بنائی ہوئی موٹر کو مسلسل اور پیہم الٹی حرکت کرتے دیکھتا ہے اور پھر بھی محسوس نہ کرے کہ اس کے نقشے میں کوئی خرابی ہے؟ غالبًا ان صفات کا کوئی مکینیکل انجینئر تو آپ کو نہ مل سکے گا‘ لیکن آپ کی قوم کے تعلیمی انجینئر جس درجے کے ماہر فن ہیں اس کا اندازہ آپ اس امر واقعہ سے کرلیجیے کہ وہ ایک ایسی تعلیمی مشین بنانے بیٹھے تھے جس کو اسلامی نصب العین کی جانب حرکت دینا مقصود تھا‘ مگر جو مشین انھوں نے بنائی وہ بالکل جانب مخالف میں حرکت کرنے لگی‘ اور مسلسل پندرہ سال تک حرکت کرتی رہی‘ اور ایک دن بھی ان کو محسوس نہ ہوا کہ ان کے نقشۂ تعمیر میں کیا غلط ہے‘ بلکہ کوئی غلط ہے بھی یا نہیں؟
بعد از خرابی بسیار(۲) اَب یونی ورسٹی کورٹ کو یادآیا ہے کہ:
مسلم یونی ورسٹی کے مقاصدِ اولیہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے طلبہ میں اسلامی روح پیدا کرے۔
اور اس غرض کے لیے اس نے سات اشخاص کی ایک کمیٹی مقرر کی ہے جس کے سپرد یہ خدمت کی گئی ہے کہ:
تمام صورت حال کا جائزہ لے اور دینیات اور علوم اسلامیہ کی تعلیم کے لیے ایسے جدید اور ترقی یافتہ ذرائع اختیار کرنے کی سفارش کرے جو ضروریاتِ زمانہ سے مناسبت رکھتے ہوں اور جن سے اسلامی تعلیمات کو زیادہ اطمینان بخش طریق پر پیش کیا جاسکے۔
بڑی خوشی کی بات ہے۔ نہایت مبارک بات ہے۔ صبح کا بھولا اگر شام کو واپس آجائے تو اسے بھولا ہوا نہیں کہتے۔ اگر اب بھی ہمارے تعلیمی انجینئروں نے یہ محسوس کرلیا ہو کہ ان کی تعلیمی مشین غلط نقشے پر بنی ہے اور اپنے مقصد ایجاد کے خلاف اس کے چلنے کی اصلی وجہ محض بخت و اتفاق نہیں بلکہ نقشۂ تأسیس({ FR 1115 }) و تشکیل کی خرابی ہے تو ہم خوشی کے ساتھ یہ کہنے کے لیے تیار ہیںکہ مضی‘ما مضی۔(۲) آئو اب اپنے پچھلے نقشے کی غلطیوں کو سمجھ لو اور ایک صحیح نقشے پر اس مشین کو مرتب کرو، لیکن ہمیں شبہ ہے کہ اب بھی اپنی غلطی کا کوئی صحیح احساس ان حضرات میں پیدا نہیں ہوا ہے۔ ابھی تک وہ اس امر کا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ان کے نقشے میں کوئی بنیادی خرابی ہے۔ محض نتائج کی خوف ناک ظاہری صورت ہی سے وہ متاثر ہوئے ہیں اور بالکل سطحی نگاہ سے حالات کو دیکھ رہے ہیں۔
خدا کرے ہمارا یہ شبہ غلط ہو، مگر پچھلے تجربات ہم کو ایسا شبہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
پچھلی صدی کے وسط میں جب دو صدیوں کا پیہم انحطاط(۳) ایک خوف ناک سیاسی انقلاب پر منتہی ہوا تھا‘ اس وقت مسلمانوں کے ڈوبتے ہوئے بیڑے کو سنبھالنے کے لیے پردہ غیب سے چند ناخدا(۴) پیدا ہوگئے تھے۔ وہ وقت زیادہ غور و خوض کا نہ تھا۔ یہ سوچنے کی مہلت ہی کہاں تھی کہ اس شکستہ جہاز کے بجائے ایک نیا اور پائدار جہاز کس نقشے پر بنایا جائے۔ اس وقت تو صرف یہ سوال درپیش تھا کہ یہ قوم جو ڈوب رہی ہے اس کو ہلاکت سے کیونکر بچایا جائے۔ ناخدائوں میں سے ایک گروہ نے فوراً اپنے اسی پرانے جہاز کی مرمت شروع کر دی‘ انھی پرانے تختوں کو جوڑا‘ ان کے رخنوں کو بھرا اور پھٹے ہوئے بادبانوں کو رفو کرکے جیسے تیسے بن پڑا ہوا بھرنے کے قابل بنا لیا۔
دوسرے گروہ نے لپک کر ایک نیا دخانی({ FR 1116 }) جہاز کرائے پر لے لیا اور ڈوبنے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کو اس پر سوار کرا دیا۔ اس طریقے سے دونوں گروہ اس اچانک مصیبت کو ٹالنے میں کامیاب ہوگئے، مگر یہ دونوں تدبیریں صرف اس حیثیت سے کامیاب تھی کہ انھوںنے فوری ضرورت کے لحاظ سے چارہ سازی(۲) کر دی اور ڈوبتوں کو ہلاکت سے بچا لیا۔ ان میں حکمت اور دانش مندی جو کچھ بھی تھی صرف اسی حد تک تھی۔ اب جو لوگ اس وقت کے ٹل جانے کے بعد بھی انھی دونوں تدبیروں کو ٹھیک ٹھیک انھی دونوں شکلوں پر باقی رکھنا چاہتے ہیں ان کا طرز عمل حکمت و دانش کے خلاف ہے۔ نہ تو پرانا بادبانی جہاز اس قابل ہے کہ مسلمان صرف اسی پر بیٹھ کر ان قوموں سے مسابقت(۳) کرسکیں جن کے پاس اس سے ہزار گنی زیادہ تیز رفتار سے چلنے والے کلدار(۴) جہاز ہیں۔ نہ کرائے پر لیا ہوا دخانی جہاز اس لائق ہے کہ مسلمان اس کے ذریعے سے اپنی منزل مقصود کو پہنچ سکیں‘ کیونکہ اس کا ساز و سامان تو ضرور نیا ہے اور اس کی رفتار بھی تیز ہے‘ اور وہ کلدار بھی ہے‘ مگر وہ دوسروں کا جہاز ہے‘ اس کا ڈیزائن انھی کے مقاصد اور انھی کی ضروریات کے لیے موزوں ہے‘ اور اس کے رہنما اور ناخدا بھی وہی ہیں‘ لہٰذا اس جہاز سے بھی کبھی یہ امید نہیں کرسکتے کہ ہمیں اپنی منزل مقصود کی طرف لے جائے گا‘ بلکہ اس کی تیز رفتاری سے الٹا خطرہ یہ ہے کہ وہ ہمیں زیادہ سرعت(۵) کے ساتھ مخالف سمت پر لے جائے گا اور روز بروز ہمیں اپنی منزل مقصود سے دور کرتا چلاجائے گا۔ فوری ضرورت کے وقت تو وہ لوگ بھی حق بجانب تھے جنھوں نے پرانے جہاز کی مرمت کی‘ اور وہ بھی غلطی پر نہ تھے جنھوں نے کرائے کے جہاز پر سوار ہو کر جان بچائی، مگر اب وہ بھی غلطی پر ہیں جو پرانے جہاز پر ڈٹے بیٹھے ہیں اور وہ بھی غلطی پر ہیں جو اسی کرائے کے جہاز پر جمے ہوئے ہیں۔
اصلی رہنما اور حقیقی مصلح کی تعریف یہ ہے کہ وہ اجتہادِ فکر سے کام لیتا ہے اور وقت اور موقع کے لحاظ سے جو مناسب ترین تدبیر ہوتی ہے اسے اختیار کرتا ہے، اس کے بعد جو لوگ اس کا اتباع کرتے ہیں وہ اندھے مقلد ہوتے ہیں۔ جس طریقے کو اس نے وقت کے لحاظ سے اختیار کیا تھا اسی طریقے پر یہ اس وقت کے گذر جانے کے بعد بھی آنکھیں بند کرکے چلے جاتے ہیں اور اتنا نہیں سوچتے کہ ماضی میں جو اَنْسَب({ FR 1117 })تھا حال میں وہی غیر اَنْسَب ہے۔ پچھلی صدی کے رہنمائوں کے بعد ان کے متبعین آج بھی اسی روش پر اصرار کر رہے ہیں جس پر ان کے رہنما انھیں چھوڑ گئے تھے‘ حالانکہ وہ وقت جس کے لیے انھوں نے وہ روش اختیار کی تھی‘ گزر چکا ہے۔ اب اجتہاد فکر سے کام لے کر نیا طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے ہم کو دونوں گروہوں میں ایک بھی مجتہد نظر نہیں آتا۔ انتہائی جرأت کرکے پرانے جہاز والوں میں سے کوئی اگر اجتہاد کرتا ہے تو بس اتنا کہ اپنے اسی پرانے جہاز میں چند بجلی کے بلب لگا لیتا ہے‘ کچھ نئے طرز کا فرنیچر مہیا کرلیتا ہے۔ اور ایک چھوٹی سی دخانی کل(۲)خرید لاتا ہے جس کاکام اس کے سوا کچھ نہیں کہ دور سے سیٹی بجا بجا کر لوگوں کو یہ دھوکا دیتی ہے کہ یہ پرانا جہاز اب نیا ہوگیا ہے۔ اس کے مقابلے میں نئے جہاز والے اگرچہ دوسروں کے جہاز پر بیٹھے ہیں اور تیزی کے ساتھ سمت مخالف پر بہے چلے جارہے ہیں‘ مگر دو چار پرانے بادبان بھی لے کر بیسویں صدی کے اس اپ ٹو ڈیٹ جہاز میں لگائے ہوئے ہیں تاکہ اپنے نفس کو اور مسلمانوں کو یہ دھوکہ دے سکیں کہ یہ جہاز بھی اسلامی جہاز ہے اور لندن کے راستے سے حج کعبہ کو چلا جارہا ہے۔ اندھی تقلید اور اس کے ساتھ اجتہاد کی یہ جھوٹی نمائش کب تک؟
ایک طوفان گزر گیا۔اب دوسرا طوفان بہت قریب ہے۔ ہندستان میں ایک دوسرے سیاسی انقلاب کی بِنا پڑ رہی ہے۔ ممالک عالم میں ایک اور بڑے انقلاب کے سامان ہو رہے ہیں جو بہت ممکن ہے کہ ہندستان میں متوقع انقلاب کے بجائے، ایک بالکل غیر متوقع اور ہزار درجہ خطرناک انقلاب برپا کر دیں۔ یہ آنے والے انقلابات ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کی بہ نسبت اپنی نوعیت اور اپنی شدت کے لحاظ سے بالکل مختلف ہوں گے۔ اس وقت مسلمانوں کی اعتقادی و ایمانی و اخلاقی و عملی حالت جیسی کچھ ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہم نہیں سمجھتے کہ وہ ان آنے والے طوفانوں کی ایک ٹکر بھی خیریت کے ساتھ سہ سکیں گے۔ ان کا پرانا جہاز دور جدید کے کسی ہولناک طوفان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ شاید ایک ہی تھپیڑے میں اس کے تختے بکھر جائیں اور اس کے بادبانوں کا تار تار الگ ہو جائے۔ رہا ان کا کرائے کا جہاز تو وہ پرانے جہاز سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جو لوگ اس پر سوار ہیں ہمیں خوف ہے کہ طوفانی دور کا پہلا ہی تھپیڑا ان کو ملت اسلامیہ سے جدا کرکے شاید ہمیشہ کے لیے ضلالت({ FR 1118 }) کے قعرِ عمیق(۲) میں لے جائے گا، لَاقَدَّرَ اللّٰہ۔(۳)
پس اب یہی وقت ہے کہ مسلمان پرانے جہاز سے بھی نکلیں اور کرائے کے جہاز سے بھی اتریں‘ اور خود اپنا ایک جہاز بنائیں جس کے آلات اور کل پرزے جدید ترین ہوں‘ مشین موجودہ دور کے تیز سے تیز جہاز کے برابر ہو‘ مگر نقشہ ٹھیٹھ اسلامی جہاز کا ہو، اور اس کے انجینئر اور کپتان اور دیدبان(۴) سب وہ ہوں جو منزل کعبہ کی راہ و رسم سے باخبر ہوں۔
استعارے کی زبان چھوڑ کر اب ہم کچھ صاف صاف کہیں گے۔ سرسید احمد خاں (خدا اُن کو معاف کرے) کی قیادت میں علی گڑھ سے جو تعلیمی تحریک اٹھی تھی اس کا وقتی مقصد یہ تھا کہ مسلمان اس نئے دور کی ضروریات کے لحاظ سے اپنی دنیا درست کرنے کے قابل ہو جائیں‘ تعلیم جدید سے بہرہ مند ہو کر اپنی معاشی اور سیاسی حیثیت کو تباہی سے بچالیں‘ اور ملک کے جدید نظم و نسق سے استفادہ کرنے میں دوسری قوموں سے پیچھے نہ رہ جائیں۔ اس وقت اس سے زیادہ کچھ کرنے کا شاید موقع نہ تھا۔ اگرچہ اس تحریک میں فوائد کے ساتھ نقصانات اور خطرات بھی تھے‘ مگر اُس وقت اتنی مہلت نہ تھی کہ غور و تفکر کے بعد کوئی ایسی محکم(۵) تعلیمی پالیسی متعین کی جاتی جو نقصانات سے پاک اور فوائد سے لبریز ہوتی۔ نہ اس وقت ایسے اسباب موجود تھے کہ اس نوع کی تعلیمی پالیسی کے مطابق عمل درآمد کیا جاسکتا۔ لہٰذا وقتی ضرورت کو پیش نظر رکھ کر مسلمانوں کو اسی طرز تعلیم کی طرف دھکیل دیا گیا جو ملک میںرائج ہو چکا تھا، اور خطرات سے بچنے کے لیے کچھ تھوڑا سا عنصر اسلامی تعلیم و تربیت کا بھی رکھ دیا گیا جس کو جدید تعلیم اورجدید تربیت کے ساتھ قطعاً کوئی مناسبت نہ تھی۔
یہ صرف ایک وقتی تدبیر تھی جو ایک آفت ناگہانی({ FR 1119 }) کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری طریق پر اختیار کرلی گئی تھی۔ اب وہ وقت گزر چکا ہے جس میں فوری تدبیر کی ضرورت تھی۔ وہ فائدہ بھی حاصل ہو چکا ہے جو اس تدبیر سے حاصل کرنا مقصود تھا‘ اور وہ خطرات بھی واقعہ کی صورت میں نمایاں ہو چکے ہیں جو اس وقت صرف موہوم(۲) تھے۔ اس تحریک نے ایک حد تک ہماری دنیا تو ضرور بنا دی‘ مگر جتنی دنیا بنائی اس سے زیادہ ہمارے دین کو بگاڑ دیا۔ اس نے ہم میں ’کالے فرنگی‘ پیدا کیے اس نے ہم میں’اینگلو محمڈن‘ اور’ اینگلو انڈین‘ پیدا کیے اور وہ بھی ایسے جن کی نفسیات میں’محمڈن‘ اور ’انڈین‘ کا تناسب بس برائے نام ہی ہے۔ اس نے ہماری قوم کے طبقہ علیا(۳) اور طبقہ متوسط(۴) کو جو دراصل قوم کے اعضائے رئیسہ ہیں‘ باطنی و ظاہری دونوں حیثیتوں سے یورپ کی مادی تہذیب کے ہاتھ فروخت کر دیا‘ صرف اتنے معاوضے پر کہ چند عہدے‘ چند خطابات‘ چند کرسیاں ایسے لوگوں کو مل جائیں جن کے نام مسلمانوں سے ملتے جلتے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دائماً (۵)ہماری یہی تعلیمی پالیسی رہنی چاہیے؟ اگر یہی ہماری دائمی پالیسی ہے تو اس کے لیے علی گڑھ کی کوئی ضرورت اب باقی نہیں رہی۔ ہندستان کے ہر بڑے مقام پر ایک علی گڑھ موجود ہے جہاں سے دھڑا دھڑ اینگلومحمڈن اور اینگلوانڈین نکل رہے ہیں۔ پھر یہ بِس بھری(۶) فصل کاٹنے کے لیے ہم کو اپنا ایک مستقل مزرعہ(۷) رکھنے کی حاجت ہی کیا ہے؟ اگر درحقیقت اس حالت کو بدلنا مقصود ہے تو ذرا ایک حکیم کی نظر سے دیکھیے کہ خرابی کے اصل اسباب کیا ہیں اور ان کو دور کرنے کی صحیح صورت کیا ہے۔
جدید تعلیم و تہذیب کے مزاج اور اس کی طبیعت پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ وہ اسلام کے مزاج اور اس کی طبیعت کے بالکل منافی(۸) ہے۔ اگر ہم اس کو بجنسہ لے کر اپنی نوخیز نسلوں میں پھیلائیں گے تو اُن کو ہمیشہ کے لیے ہاتھ سے کھو دیں گے۔ آپ اُن کو وہ فلسفہ پڑھاتے ہیں جو کائنات کے مسئلے کو خدا کے بغیر حل کرنا چاہتا ہے۔ آپ ان کو وہ سائنس پڑھاتے ہیں جو معقولات({ FR 1120 }) سے منحرف(۲) اور محسوسات کا غلام ہے۔ آپ ان کو تاریخ‘ سیاسیات‘ معاشیات‘ قانون اور تمام علوم عمرانیہ کی وہ تعلیم دیتے ہیں جو اپنے اصولوں سے لے کر فروع تک اور نظریات سے لے کر عملیات تک اسلام کے نظریات اور اصول عمران(۳) سے یکسر مختلف بلکہ متصادم ہے۔ آپ ان کی تربیت تمام تر ایسی تہذیب کے زیر اثر کرتے ہیں جو اپنی روح اور اپنے مقاصد اور اپنے مناہج(۴) کے اعتبار سے کلیتہً اسلامی تہذیب کی ضد واقع ہوئی ہے۔ اس کے بعد کس بنا پر آپ یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کی نظر اسلامی نظر ہوگی؟ ان کی سیرت اسلامی سیرت ہوگی؟ ان کی زندگی اسلامی زندگی ہوگی؟ قدیم طرز پر قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم اس نئی تعلیم کے ساتھ بے جوڑ ہے۔اس قسم کے عمل تعلیم سے کوئی خوش گوار پھل حاصل نہ ہوگا۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے فرنگی اسٹیمر میں پرانے بادبان محض نمائش کے لیے لگا دیے جائیں‘ مگر اُن بادبانوں سے فرنگی اسٹیمر قیامت تک اسلامی اسٹیمر نہ بنے گا۔
اگر فی الواقع علی گڑھ یونی ورسٹی کو مسلم یونی ورسٹی بنانا ہے تو سب سے پہلے مغربی علوم و فنون کی تعلیم پر نظرثانی کیجیے۔ ان علوم کو جوں کا توں لینا ہی درست نہیں ہے۔ طالب علموں کی لوحِ سادہ پر ان کا نقش اس طرح مرتسم(۵) ہوتا ہے کہ وہ ہر مغربی چیز پر ایمان لاتے چلے جاتے ہیں۔ تنقید کی صلاحیت اُن میں پیدا ہی نہیں ہوتی، اور اگر پیدا ہوتی بھی ہے تو فی ہزار ایک طالب علم میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد سالہا سال کے گہرے مطالعے سے‘ جب کہ وہ زندگی کے آخری مرحلوں میں پہنچ جاتا ہے اور کسی عملی کام کے قابل نہیں رہتا۔ اس طرز تعلیم کو بدلنا چاہیے۔ تمام مغربی علوم کو طلبہ کے سامنے تنقید کے ساتھ پیش کیجیے اور یہ تنقید خالص اسلامی نظر سے ہو، تاکہ ہر ہر قدم پر وہ ان کے ناقص اجزا کو چھوڑتے جائیں اور صرف کار آمد حصوں کو لیتے جائیں۔
اس کے ساتھ علوم اسلامیہ کو بھی قدیم کتابوں سے جوں کا توں نہ لیجیے بلکہ ان میں سے متأخرین(۶) کی آمیزشوں(۷) کو الگ کرکے، اسلام کے دائمی اصول اور حقیقی اعتقادات اور غیر متبدل قوانین لیجیے۔ ان کی اصلی اسپرٹ دلوں میں اتار یے اور ان کا صحیح تدبر دماغوں میں پیدا کیجیے۔ اس غرض کے لیے آپ کو بنا بنایا نصاب کہیں نہ ملے گا۔ ہر چیز از سر نو بنانی ہوگی۔ قرآن اور سنت رسولؐ کی تعلیم سب پر مقدم({ FR 1121 }) ہے‘ مگر تفسیر و حدیث کے پرانے ذخیروں سے نہیں۔ ان کے پڑھانے والے ایسے ہونے چاہییں جو قرآن اور سنت کے مغز کو پاچکے ہوں۔ اسلامی قانون کی تعلیم بھی ضروری ہے‘ مگر یہاں بھی پرانی کتابیں کام نہ دیں گی۔ آپ کو معاشیات کی تعلیم میں اسلامی نظم معیشت کے اصول‘ قانون کی تعلیم میں اسلامی قانون کے مبادی‘ فلسفے کی کتابوں میں حکمت اسلامیہ کے نظریات‘ تاریخ کی تعلیم میں اسلامی فلسفۂ تاریخ کے حقائق۔ اسی طرح ہر علم و فن کی تعلیم میں اسلامی عنصر کو ایک غالب اور حکمراں عنصر کی حیثیت سے داخل کرنا ہوگا۔
آپ کے تعلیمی سٹاف میں جو ملاحدہ(۲) اور متفرنجین(۳) بھر گئے ہیں ان کو رخصت کیجیے۔ خوش قسمتی سے ہندستان میں ایک جماعت ایسے لوگوں کی پیدا ہو چکی ہے جو علوم جدیدہ میں بصیرت رکھنے کے ساتھ دل و دماغ اور نظر و فکر کے اعتبار سے پورے مسلمان ہیں۔ ان بکھرے ہوئے جواہر کو جمع کیجیے تاکہ وہ جدید آلات سے اسلامی نقشے پر ایک اسٹیمر بنائیں۔
آپ کہیں گے کہ انگریز ایسی تعمیر کی اجازت نہ دے گا۔ یہ ایک حد تک صحیح ہے مگر آپ اس سے پوچھیے کہ تو پورے مسلمان اور پورے کمیونسٹ میں سے کس کو زیادہ پسند کرتا ہے؟ ان دونوں میں سے ایک کو بہرحال تجھے قبول کرنا ہوگا۔ ۱۹۱۰ء کا ’اینگلومحمڈن‘ مسلمان اب زیادہ مدت تک نہیں پایا جاسکتا۔ اب اگر تو مسلمانوں کی نئی نسلوں کو پوراکمیونسٹ دیکھنا چاہتا ہے تو اپنی قدیم اسلامی دشمنی پر جما رہ۔ نتیجہ خود تیرے سامنے آجائے گا۔ اگر یہ منظور نہیں تو نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ تمام ہندستان میں کمیونزم کی بڑھتی ہوئی وبا کا مقابلہ صحیح النسب سانڈوں اورریڈیو کے دیہاتی پروگرام سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس وبا کو صرف ایک طاقت روک سکتی ہے اور وہ اسلام کی طاقت ہے۔ (ترجمان القرآن، جمادی الاولیٰ ۱۳۵۵ھ۔ جولائی ۱۹۳۶ء)


۱۲۔ ملت کی تعمیر نو کا صحیح طریقہ

اصلاح اور انقلاب دونوں کا مقصد کسی بگڑی ہوئی حالت کا بدلنا ہوتا ہے، لیکن دونوں کے محرکات اورطریق کار میں اساسی فرق ہوا کرتا ہے۔ اصلاح کی ابتدا غور و فکر سے ہوتی ہے، ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچ بچار کرکے انسان حالات کا جائزہ لیتا ہے‘ خرابی کے اسباب پر غور کرتا ہے‘ خرابی کے حدود کی پیمائش کرتا ہے، اس کے ازالے کی تدبیریں دریافت کرتا ہے، اور اُس کو دور کرنے کے لیے صرف اسی حد تک تخریبی قوت استعمال کرتا ہے‘ جس حد تک اس کا استعمال ناگزیر ہو۔ بخلاف اس کے انقلاب کی ابتدا غیظ و غضب اور جوشِ انتقام کی گرمی سے ہوتی ہے۔ خرابی کے جواب میں ایک دوسری خرابی مہیا کی جاتی ہے، جس بے اعتدالی سے بگاڑ پیدا ہوا تھا اس کا مقابلہ ایک دوسری بے اعتدالی سے کیا جاتا ہے، جو برائیوں کے ساتھ اچھائیوں کو بھی غارت کر دیتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بسا اوقات ایک اصلاح پسند کو بھی وہی کرنا پڑتا ہے جو ایک انقلاب پسند کرتا ہے۔ دونوں نشتر لے کر جسم کے مائوف({ FR 1122 }) حصے پر حملہ آور ہوتے ہیں، مگر فرق یہ ہے کہ اصلاح پسند پہلے اندازہ کرلیتا ہے کہ خرابی کہاں ہے اور کتنی ہے۔ پھر نشتر کو اسی حد تک استعمال کرتا ہے جس حد تک خرابی کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے اور نشتر کے ساتھ ساتھ مرہم بھی تیار رکھتا ہے، لیکن انقلاب پسند اپنے جوشِ غضب میں آنکھیں بند کرکے نشتر چلاتا ہے‘اچھے برے کا امتیاز کیے بغیر کاٹتا چلا جاتا ہے‘ اور مرہم کا خیال اگر اس کے دل میں آتا بھی ہے تو اس وقت جب خوب قطع و برید(۲) کر لینے اور جسم کے ایک اچھے خاصے حصے کو غارت کر چکنے کے بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔
عموماً جہاں خرابیاں حد سے بڑھ جاتی ہیں‘ وہاں لوگ صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے کھو بیٹھتے ہیں‘ اور بگڑے ہوئے حالات سے جو تکلیف ان کو پہنچتی ہے وہ انھیں اتنی مہلت ہی نہیں دیتی کہ ٹھنڈے دل سے غور و فکر کرکے اصلاح کی کوشش کریں۔ اسی لیے ایسے حالات میں عام طور پر اصلاحی تحریکات کے بجائے انقلابی تحریکات کا زور ہوتا ہے۔ قدامت پسند اور انقلاب پسند جماعتوں میں سخت کشمکش برپا ہوتی ہے جس سے غضب و انتقام کی آگ کو زیادہ ایندھن مل جاتا ہے۔ دونوں فریق ضد اور ہٹ دھرمی کی انتہائی سرحدوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ دونوں حق و صداقت کا گلا کاٹتے ہیں۔ ایک طرف سے حق کے بجائے باطل کی مدافعت میں انتہائی قوت صَرف کی جاتی ہے۔ دوسری طرف حق اور باطل کا امتیاز کیے بغیر سب پر اندھا دھند حملے کیے جاتے ہیں۔ آخر کار جب انقلاب پسندوں کو فتح نصیب ہوتی ہے تو وہ ہر اس چیز کو تباہ کر دیتے ہیں جو قدامت پسندوں کے پاس تھی‘ خواہ وہ حق ہو یا باطل‘ صحیح ہو یا غلط۔ انقلاب ایک سیلاب کی طرح بڑھتا ہے‘ اور بلا امتیاز اچھے برے سب کو غارت کرتا چلا جاتا ہے۔ پھر کافی تخریب کر چکنے کے بعد جب عقل اپنے ٹھکانے پرواپس آتی ہے تو تعمیرکی ضرورت محسوس ہوتی ہے، مگر انقلابی ذہنیت اس میں بھی نرالے انداز ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالتی ہے۔ ہر اُس چیز کو چھوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے جو قدامت پسندوں کے پاس تھی، خواہ کوئی چیز بجائے خود صحیح ہو لیکن انقلاب کی نگاہ میں کسی چیز کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی عیب نہیں کہ وہ قدیم نظام کی طرف منسوب ہو۔ اس طرح ایک کافی مدت تک نئے انقلابی اصولوں پر زندگی کی عمارت قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور جب نئے نئے تجربوں اور ناکامیوں سے انقلابی دماغ تھک جاتا ہے‘ تب کہیں جاکر وہ اس اعتدال کے نقشے پر آتا ہے جو ابتدا ہی سے اصلاح پسند کے پیش نظر تھا:
آنچہ دانا کند کند ناداں
لیک بعد از خرابی بسیار({ FR 1123 })
موجودہ زمانے میں اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال بولشویک انقلاب ہے۔ نظام تمدن کی جو انتہائی بگڑی ہوئی حالت شہنشاہی روس میں قائم تھی وہ جب اہل ملک کے لیے ناقابل برداشت ہوگئی تو اس کے جواب میں ایک انقلابی تحریک رونما ہوئی۔ یورپ کے اشتراکی اور جمہوری نظریات نے روس میں فروغ پانا شروع کیا ۔ سلطنت اور اس کے پروردہ طبقوں نے اپنے ناجائز فوائد کی حفاظت کے لیے جابرانہ({ FR 1124 }) قوتیں استعمال کیں‘ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انقلاب پسندوں میں صرف شاہی مطلق العنانی(۲) اور دولت کی نا روا تقسیم ہی کے خلاف نہیں‘ بلکہ اس پورے نظام تمدن کے خلاف جو صدیوں سے متوارث(۳) چلا آرہا تھا‘ غضب کے جذبات بھڑکنے لگے۔ آخر کار مارکس کے ہیولیٰ نے لینن کی صورت اختیار کی۔ زار کی سلطنت کا تختہ الٹ دیا گیا‘ اور اس کے ساتھ ان تمام سیاسی‘ معاشی‘ تمدنی‘ اخلاقی‘ مذہبی اصولوں کو بھی یک قلم مٹا دیا گیا جن پر انقلاب سے پہلے کی سوسائٹی قائم تھی۔ اس کامل تخریب کے بعد بالکل نئے اشتراکی اصولوں پر ایک نئی سوسائٹی کی تعمیرشروع کی گئی‘ اور ان نئے معماروں نے اپنی تمام دماغی قوتیں اس کوشش میں صَرف کر دیں کہ بورژوا [bourgeoisie] طبقے کے ترکے میں سے ایک چیز بھی ان کی نئی عمارت میں شامل نہ ہونے پائے۔ حتیٰ کہ خدا کو بھی سویٹ روس سے باہر نکل جانے کا نوٹس دے دیا گیا، لیکن اب جتنا جتنا زمانہ گزرتا جاتا ہے تعمیری عقل انقلابی جنون کی جگہ لیتی جاتی ہے اوروہ انتہائی بولشویت جوانقلاب کی ابتدا میں کارفرما تھی اعتدال کے نقطے کی طرف واپس ہوتی جارہی ہے۔
ایسی ہی انتہا پسندی انقلاب فرانس کے زمانے میں بھی رونما ہوئی تھی۔ اس وقت بھی جوشِ انقلاب میں اچھے اور برے سب کو مٹانے کی کوشش کی گئی اور نئے نئے انقلابی اصول وضع کرکے ان کو رواج دیا گیا، لیکن اس شدید انقلابی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج تک فرانس کا سیاسی‘ تمدنی اور اخلاقی مزاج پوری طرح اعتدال پر نہیں آسکا ہے۔ آج اس کی قومی زندگی کو کسی شعبے میں بھی وہ استحکام(۴) نصیب نہیں ہے جو انگلستان کو حاصل ہے۔
ایک اور مثال ترکی انقلاب کی ہے جہاں اس انقلابی ذہنیت نے کوشش کی کہ ایک قوم کو جادو کے زور سے آن کی آن میں ایک دوسری قوم بنا دیا جائے۔ اس کوشش میں پھوڑوں اور پھنسیوں پر نشتر چلانے کے ساتھ جسم کے اچھے خاصے تندرست حصوں کو بھی کاٹ پھینکا گیا، اور ان کی جگہ یورپ سے کچھ نئے اعضا منگوا کر لگائے گئے‘ حتیٰ کہ پرانے دماغ کی جگہ بھی ایک نیا دماغ نئی ٹوپی کے ساتھ حاصل کیا گیا، لیکن اب مرورِ ایام({ FR 1125 }) کے ساتھ ساتھ انقلاب پسند ترکوں کو آہستہ آہستہ یہ سبق مل رہا ہے کہ ہر پرانی چیز کو برا اور ہر نئی چیز کو اچھا سمجھنے کا جو قاعدہ کلیہ انھوں نے بنا لیا تھا‘ وہ درست نہیں ہے۔ چنانچہ اکثر نئے تجربوں سے کافی نقصان اٹھانے کے بعد ان کو افراط سے اعتدال کی طرف پسپا ہونا پڑا ہے۔
یہ سب کچھ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس وقت ہندستانی مسلمانوں میں بھی ایک انقلابی بحران رُونما ہے اور اس بحران کے برے نتائج ظاہر ہونے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ قدامت پسند اور انقلاب پسند دونوں جماعتوں کو غور و فکر کی دعوت دیں۔
یہاں حالات کا بگاڑ وہی ہے جو ترکی اور دوسرے مسلم ممالک میں تھا اور ہے۔ صدیوں سے ہماری مذہبی رہنمائی جس گروہ کے ہاتھوں میں ہے اس نے اسلام کو ایک جامد و غیر متحرک چیز بنا دیا ہے۔ غالبًا چھٹی ساتویں صدی ہجری کے بعد سے اس گروہ کے ہاں جنتری بدلنی موقوف ہوگئی ہے۔ وہ اپنے فلسفے اور کلام کے مباحث میں تو یہی پڑھتے پڑھاتے ہیں کہ عالم متغیر(۲) ہے اور ہر متغیر حادث(۳) ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں عالم کے تغیر اور زمانے کی نیرنگی(۴) اور وقت کے سیلان و تجدد سے انھوں نے آنکھیں بند کرلی ہیں۔ دنیا بدل کر کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ دنیا کے حالات‘ خیالات، رجحانات‘ نظریات بدل کر کچھ سے کچھ ہوگئے۔ تمدن کے معاملات اور مسائل نے کتنے پلٹے کھا لیے، مگر ہمارے پیشوا (۵)اپنے آپ کو ابھی تک اسی ماحول میں سمجھ رہے ہیں جو پانچ چھ سو برس پہلے پایا جاتا تھا۔ انھوں نے زمانے کے ساتھ کوئی ترقی نہ کی۔ نئے تغیرات سے بے اثر رہے۔ زندگی کے نئے مسائل سے کوئی غرض نہ رکھی اور کوشش یہی کرتے رہے کہ اپنی قوم کو بھی زمانے کے ساتھ چلنے سے روک دیں، بلکہ مستقبل سے ماضی کی طرف کھینچ کر لے چلیں۔ یہ کوشش تھوڑی مدت تک کامیاب ہوسکتی ہے اور ہوئی، مگر دائماً(۶) ایسی کوششوں کا کامیاب ہونا مشکل ہے۔ جو قوم دنیا کے ساتھ میل جول اور معاملات رکھتی ہو وہ کب تک دنیا کے افکار اور زندگی کے نئے مسائل سے غیر متاثر رہ سکتی ہے؟ اگر اس کے رہنما اس کے آگے آگے چل کر نئی عقلی‘ علمی اور عملی راہوں میں اس کی رہبری نہ کریں گے تو یہ بالکل فطری بات ہے کہ وہ ان کی قیادت کا جوا اپنے کندھوں سے اتار پھینکنے پر آمادہ ہو جائے گی۔
اس خرابی کی جڑ دراصل ایک اور چیز ہے۔ ہمارے مذہبی رہنما فروع میں اس درجہ منہمک ہوئے کہ اصول ہاتھ سے چھوٹ گئے۔ پھر فروع نے اصول کی جگہ لے لی اور ان سے ہزار در ہزار فروع اور نکل آئے جو اصل اسلام قرار پا گئے۔ حالانکہ اسلام میں ان کی قطعاً کوئی اہمیت نہ تھی۔ ملت اسلامی کی عمارت دراصل اس ترتیب پر قائم ہوئی تھی کہ پہلے قرآن مجید‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت‘ پھر اہلِ علم و بصیرت کا اجتہاد، لیکن بدقسمتی سے اس ترتیب کو بالکل الٹ دیا گیا‘ اور نئی ترتیب یوں قرار پائی کہ پہلے ایک خاص زمانے کے اہل بصیرت کا اجتہاد‘ پھر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘ اور سب سے آخر میں قرآن۔یہی نئی ترتیب اس جمود کی ذمہ دار ہے جس نے اسلام کو ایک ساکن و غیر متحرک شے بنا دیا ہے۔
ائمہ فقہ‘ متکلمین‘ مفسرین‘ اور محدثین رحمہم اللہ اجمعین کے علم و فضل اور ان کی جلالت ِشان سے کون انکار کرسکتا ہے؟ مگر وہ انسان تھے۔ اکتسابِ علم کے وہی ذرائع رکھتے تھے جو عام انسانوں کو حاصل ہیں۔ ان کے پاس وحی نہیں آتی تھی بلکہ وہ اپنی عقل و بصیرت کے ساتھ کلام اللہ و سنت رسول اللہ میں غور و فکر کرتے تھے اور جو اصول ان کے نزدیک متحقق ہو جاتے تھے انھی سے وہ قوانین اورعقائد کے فروع مستنبط({ FR 1126 }) کرلیا کرتے تھے۔ ان کے یہ اجتہادات ہمارے لیے مددگار اور رہنما بن سکتے ہیں مگر بجائے خود اصل اور منبع نہیں بن سکتے۔ انسان خواہ سراسر اپنی رائے سے اجتہاد کرے، یا کسی الہامی کتاب سے اکتساب کرکے اجتہاد کرے‘ دونوں صورتوں میں اس کا اجتہاد دنیا کے لیے دائمی قانون اور اٹل قاعدہ نہیں بن سکتا کیونکہ انسانی تعقل اورعلم ہمیشہ زمانے کی قیود سے مقید ہوتا ہے۔
تمام زمانی و مکانی قیود سے آزاد اگر کوئی ہے تو وہ صرف خداوند عالم ہے جس کے پاس حقیقی علم ہے، اور جس کے علم میں زمانے کے تغیرات سے ذرہ برابر کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا اُس علم کا فیضان قرآن کی آیات اور اس کے لانے والے کے سینے میں ہوا تھا۔ وہی درحقیقت ایسا ماخذ اور سرچشمہ بن سکتا ہے جس سے ہمیشہ ہر زمانے کے لوگ اپنے مخصوص حالات اور اپنی ضروریات کے لحاظ سے علوم‘ افکار اور قوانین اخذ کرسکتے ہیں۔ جب تک علمائے اسلام اس ماخذ و منبع سے اکتساب علم کرتے رہے اور صحیح غور و فکر سے کام لے کر اپنے اجتہاد سے علمی و عملی مسائل حل کرتے رہے‘ اس وقت تک اسلام زمانے کے ساتھ حرکت کرتا رہا، مگر جب قرآن میں غور و فکر کرنا چھوڑ دیا گیا‘ جب احادیث کی تحقیق اور چھان بین بند ہوگئی‘ جب آنکھیں بند کرکے پچھلے مفسرین اور محدثین کی تقلید کی جانے لگی‘ جب پچھلے فقہا اور متکلمین کے اجتہادات کو اٹل اور دائمی قانون بنا لیا گیا‘ جب کتاب و سنت سے براہ راست اکتساب علم ترک کر دیا گیا‘ اور جب کتاب و سنت کے اصول کو چھوڑ کر بزرگوں کے نکالے ہوئے فروع ہی اصل بنا لیے گئے تو اسلام کی ترقی دفعتاً رک گئی‘ اس کا قدم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹنے لگا‘ اس کے حامل اور وارث علم و عمل کے نئے میدانوں میں دنیا کی رہنمائی کرنے کے بجائے پرانے مسائل اور علوم کی شرح و تفسیر میں منہمک({ FR 1155 }) ہوگئے‘ جزئیات اور فروع میں جھگڑنے لگے‘ نئے نئے مذاہب نکالنے اور دور از کار مباحث میں فرقہ بندی کرنے لگے‘ اور اس دریا دلی کے ساتھ مسلمانوں میں کفر و فسق تقسیم کیا گیا کہ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللہِ اَفْوَاجًاo النصر 2:110کی جگہ یَخْرُجُوْنَ عَنْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا کا تماشا دنیا نے دیکھا۔ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ الفتح 29:48کی جگہ رُحَمَائُ عَلَی الْکُفَّارِ اَشِدَّائُ بَیْنَھُمْ کے مناظر ہر طرف نمایاں ہوئے اور تَحْسَبُہُمْ جَمِيْعًا وَّقُلُوْبُہُمْ شَتّٰى۝۰ۭ الحشر 14:59 کی جو کیفیت منافقین اور کفار کے حق میں بیان ہوئی تھی وہ مسلمانوں کا حال بن گئی۔
یہ اسی حرکت کی رجعت ہے جسے آج ہم ایک خوف ناک انقلابی بحران کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ مسلمانوں نے جب دیکھا کہ ان کے مذہبی رہنما ان کی قیادت کا فرض انجام نہیں دیتے‘ بلکہ آگے بڑھانے کے بجائے انھیں الٹا پیچھے کھینچے لیے جاتے ہیں تو وہ ان کے قابو سے نکلنے لگے اور جیسا کہ ایک بن سری فوج کا حال ہوتا ہے انھوں نے ہر وادی میں بھٹکنا شروع کر دیا۔ ایک گروہ نے مذہب کے علم برداروں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا سارا الزام خود مذہب پر تھوپا‘ اپنی ترقی کی راہ میں اسی کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا‘ اور علانیہ کہنا شروع کیا کہ مذہب کو چھوڑو اور ترقی یافتہ قوموں کی تقلید کرو۔ ایک دوسرے گروہ نے علما اور مذہبی پیشوائوں کو گالیاں دینا اپنا شعار بنا لیا‘ گویا اب اسی سب و شتم اور زباں درازی میں مسلمانوں کی فلاح و ترقی کا راز چھپا ہوا ہے۔ ایک اور گروہ اٹھا اور اس نے مذہب کی قطع و برید شروع کر دی۔ کسی نے فقہا اور ائمہ پر زبان طعن دراز کی‘ کسی نے فقہ کے ساتھ حدیث کو بھی لپیٹ لیا‘ کسی نے قرآن کے احکام اور تعلیمات میں بھی ترمیم کی ضرورت سمجھی۔ کسی نے کہا کہ دین اور دنیا کو الگ الگ کر دو‘ دین کا تعلق صرف عقائد اور عبادات سے رہنا چاہیے، باقی رہے دنیوی معاملات تو ان میں مذہب اور اس کے قوانین کا کچھ دخل نہیں۔
اس طرح مختلف جماعتیں ان بگڑے ہوئے حالات کو بدلنے کے لیے کھڑی ہوگئی ہیں، مگر ان کا رجحان اصلاح کی جانب نہیں بلکہ انقلاب کی جانب ہے‘ انھوں نے ٹھنڈے دل سے غور نہیں کیا کہ اصل خرابی کیا ہے؟ کہاں سے پیدا ہوئی؟ کس حد تک خرابی ہے اور اس کی اصلاح کی صحیح صورت کیا ہے؟ محض تخمیناً یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ خرابی ہے اور اس کو دور کرنے کے لیے دیوانہ وار نشتر چلائے جارہے ہیں، چاہے اس سے مرض کے ساتھ مریض کا بھی کیوں نہ خاتمہ ہو جائے۔
آزاد ممالک میں تو کہا جاسکتا ہے‘ اور یہ کہنا ایک حد تک درست بھی ہے کہ کسی انقلابی حرکت کے بغیر چارہ نہیں، اس لیے کہ وہاں ایک گروہ کے ہاتھ میں حکومت کا عملی اقتدار ہوتا ہے اور دوسرا گروہ اس اقتدار کو مٹانے میں ایک شدید انقلابی حرکت کے بغیر مشکل سے کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ امر بھی قابل لحاظ رہے کہ انقلاب کے رہنمائوں پر جب عملاً انتظام سلطنت کی ذمہ داری آن پڑتی ہے تو زمانے کے تجربات بہت جلدی ان کی عقل درست کر دیتے ہیں اور انھیں مجبوراً افراط({ FR 1158 }) کی روش چھوڑ کر اعتدال کی طرف مائل ہونا پڑتا ہے، لیکن ہمیں یہ فراموش نہ کرنا چاہیے کہ ہم اس وقت غلامی کی حالت میں ہیں‘ اور ہمارے حالات آزاد ممالک سے بالکل مختلف ہیں۔ یہاں اول تو کسی انقلابی حرکت کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ کسی ایسی شدید اور طاقت وَر مزاحمت کا خوف نہیں ہے جس کے مقابلے میں ایک معتدل اصلاحی تحریک کامیاب نہ ہوسکتی ہو۔ دوسرے اگر کوئی انقلابی حرکت جاری ہو اور وہ کامیاب ہو جائے تو مدت ہائے دراز تک اس کے اعتدال پر آنے کی امید نہیں کی جاسکتی کیونکہ انقلاب کے علم برداروں پر سرے سے کسی ذمہ داری کا بوجھ ہی نہ ہوگا جو ان کی افراط پسندی کو اعتدال کی طرف مائل کرسکتا ہو۔لہٰذا یہاں کسی انقلابی حرکت بلکہ صحیح الفاظ میں بہت سی انقلابی حرکات کے دیر تک جاری رہنے کا نتیجہ بجز اس کے اور کچھ نہ ہوگا کہ مسلم سوسائٹی جن بنیادوں پر قائم ہے وہ سب کی سب متزلزل ہو جائیں گی اور ان کی جگہ کوئی ایسی مستحکم بنیاد قائم نہ ہوسکے گی جس پر از سر نو ایک نظام اجتماعی تعمیر کیا جاسکے۔ پھر غور کرنا چاہیے کہ جو قوم پہلے ہی غلامی اور کمزوری کی حالت میں ہے اس کے نظام اجتماعی کو اگر اس طرح منہدم کرکے پارہ پارہ کر دیا گیا تو وہ اخلاقی انحطاط کے کن گڑھوں میں جاگرے گی۔
یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات ہم قدامت پسندوں سے زیادہ انقلاب پسندوں کا سختی کے ساتھ مقابلہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، ورنہ جہاں تک بگڑے ہوئے حالات کا تعلق ہے‘ ان کو بدلنے کی ضرورت میں ہم بھی ان سے متفق ہیں۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ جو جمود اسلام میں پیدا کر دیا گیا ہے اس کو حرکت سے بدل دیا جائے، لیکن ہمارے نزدیک اس حرکت کے پیدا کرنے کی یہ کوئی صحیح تدبیر نہیں ہے کہ اسلامی شعار کو چھوڑ کر فرنگیت اختیار کی جائے‘ نہ اس کی یہ تدبیر ہے کہ علم و تحقیق اور غور و فکر کے بغیر مذہب کی قطع و برید شروع کر دی جائے‘ نہ اس کی یہ تدبیر ہے کہ گزشتہ زمانے کے مجتہدین نے اپنی محنتوں اور کاوشوں سے جو عمارتیں قائم کی تھیں ان کو خواہ مخواہ ڈھا دیا جائے‘ نہ اس کی یہ تدبیر ہے کہ حدیث کے سارے ذخیرے کو آگ میں جھونک دیا جائے‘ نہ اس کی یہ تدبیر ہے کہ کلام الٰہی میں انسان اپنی عقل سے ترمیم و تنسیخ کریں۔ یہ سب تدبیریں تو اصلاح کی نہیں بلکہ پہلے سے بھی زیادہ سخت فساد برپا کرنے کی تدبیریں ہیں۔ صحیح علاج بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ جس ترتیب کو الٹ دیا گیا ہے اسے پھر سے سیدھا کر دیا جائے۔ قرآن کو وہی پیشوائی کا مقام دیجیے جو دراصل اس کا مقام تھا۔ حدیث کو وہی مرتبہ دیجیے جو عہد رسالت میں خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحابؓ و اہل بیت آپؐ کے اقوال و اعمال کو دیتے تھے۔ فقہا‘ متکلمین‘ مفسرین اور محدثین کے کارناموں کو وہی مرتبہ دیجیے جو اُن بزرگوں نے خود دیا تھا۔ ان سے فائدہ اٹھائیے۔ جن چیزوں کے بدلنے کی ضرورت نہیں انھیں بدستور رہنے دیجیے‘ مگر کبھی یہ نہ سمجھیے کہ جو کچھ وہ لکھ گئے ہیں وہ اٹل قانون ہے‘ یا ان کی کتابوں نے ہم کو قرآن مجید میں غور و فکر اور احادیث نبوی کی تحقیق سے بے نیاز کر دیا ہے یا ان کے بعد کتاب و سنت سے براہ راست اکتسابِ علم کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔
یہ ترتیب اگر پھر سے قائم ہو جائے تو اسلام کی رکی ہوئی گاڑی پھر حرکت کرنے لگے گی کیونکہ جمود کی اصلی وجہ تو یہی ہے کہ انجن ریل سے کاٹ کر پیچھے کھڑا کر دیا گیا ہے‘ ڈرائیور کو بھی انجن سے الگ کرکے کہیں پیچھے کے ڈبوں میں بٹھا دیا گیا ہے اور سب سے آگے کے ڈبے پر بھروسہ کر لیا گیا ہے کہ وہ خود بھی چلے گا اور ساری ریل کو بھی چلائے گا، مگر اس کام میں غصے اور جوش کی ضرورت نہیں۔ غصہ تو وہاں ہو جہاں عمداً کوئی ظلم کیا گیا ہو‘ اور یہاں جو کچھ بھی ہوا ہے عمداً نہیں ہوا ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ علما نے کہیں کوئی کانفرنس کرکے طے کیا تھا کہ ہم اسلام پر جمود طاری کریں گے اور اس کی بڑھتی ہوئی گاڑی کو روکیں گے۔ یہ تو محض نتیجہ ہے اس انحطاط کا جو چھٹی ساتویں صدی سے مسلمان قوموں کی سیاسی‘ فوجی‘ معاشی‘ اور تمدنی قوتوں کے ساتھ ان کی علمی‘ عقلی‘ اور فکری قوتوں میں مسلسل رونما ہو رہا ہے۔ اس انحطاط نے جس طرح مسلمانوں کی روحِ جہاد کو پژمردہ کیا ہے اسی طرح ان کی روح اجتہاد کو بھی افسردہ کر دیا ہے۔ جس طرح زندگی کے جملہ مسائل کے متعلق مسلمانوں کے نظریے بدلے، اسی طرح امور دینی و علمی کے متعلق بھی ان کے نظریے بدل گئے اور رفتہ رفتہ غیر محسوس طور پر ان کی تمام ذہنی قوتوں پر مردنی چھاتی چلی گئی۔ اس کا الزام نہ علما کو دیا جاسکتا ہے نہ ان کے متبعین کو۔ اگر آپ چاہیں تو فطرت پر اس کا الزام رکھ دیجیے، مگر نہ الزام رکھنے سے کچھ حاصل ہوسکتا ہے اور نہ غضب اور اس کے تخریبی جوش سے۔ اصلاح کی صحیح صورت بس یہی ہے کہ ٹھنڈے دل سے خرابیوں کے اسباب اور ان کے حدود کو تلاش کیجیے اور حکمت کے ساتھ ان کو خوبیوں سے بدل دیجیے۔ (ترجمان القرآن، ربیع الاول ۱۳۵۳ھ مئی ۱۹۳۴ء)


۱۳۔ بغاوت کا ظہور

قوم دو طبقوں پر مشتمل ہوا کرتی ہے:
ایک: طبقہ عوام
دوسرا: طبقہ خواص۔
طبقۂ عوام اگرچہ کثیر التعداد ہوتا ہے‘ اور قوم کی عددی قوت اسی طبقے پر مبنی ہوتی ہے‘ لیکن سوچنے اور رہنمائی کرنے والے دماغ اس گروہ میں نہیں ہوتے۔ نہ یہ لوگ علم سے بہرہ ور({ FR 958 }) ہوتے ہیں‘ نہ ان کے پاس مالی قوت ہوتی ہے‘ نہ یہ جاہ و منزلت(۲) رکھتے ہیں‘ نہ حکومت کا اقتدار ان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے قوم کو چلانا ان لوگوں کاکام نہیں ہوتا‘ بلکہ محض چلانے والوں کے پیچھے چلنا ان کاکام ہوتا ہے۔ یہ خود راہیں بنانے اور نکالنے والے نہیں ہوتے بلکہ جو راہیں ان کے لیے بنا دی جاتی ہیں انھی پر چل پڑتے ہیں۔ راہیں بنانے اور ان پر پوری قوم کے چلانے والے دراصل خواص ہوتے ہیں جن کی ہر بات اور ہر روش اپنی پشت پر دماغ‘ دولت‘ عزت اور حکمت کی طاقتیں رکھتی ہے اور قوم کو طوعاً و کرہاً(۳)انھی کی پیروی کرنی پڑتی ہے۔ پس یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ قوم کی اصلی طاقت اس کے عوام نہیں بلکہ خواص ہوتے ہیں۔ انھی پر قوم کے بننے اور بگڑنے کا مدار ہوتا ہے۔ ان کی راست روی پوری قوم کی راست روی پر اور ان کی گمراہی پوری قوم کی گمراہی پر منتج(۴) ہوتی ہے۔ جب کسی قوم کی بہتری کے دن آتے ہیں تو ان میں ایسے خواص پیدا ہوتے ہیں جو خود راہ راست پر چلتے اور پوری قوم کو اس پر چلاتے ہیں:
وَ جَعَلْنٰھُمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْھِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ الانبیا21:73
اور ہم نے ان کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے انھیں وحی کے ذریعے نیک کاموں کی ہدایت کی۔
اورجب کسی قوم کی تباہی کا زمانہ آتا ہے تو اس کے بگاڑ کی ابتدا اُس کے خواص سے ہوتی ہے جن کی گمراہی اور فساد اخلاق سے آخر کار ساری قوم ضلالت({ FR 959 }) اور بدعملیوں میں مبتلا ہو جاتی ہے:
وَ اِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰھَا تَدْمِیْرًا بنی اسرائیل17:16
جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اُس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اُس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اُسے برباد کرکے رکھ دیتے ہیں۔(۲)
قرآن کی اصطلاح میں خواص قوم کو ’مترفین‘ کہا گیا ہے۔ یعنی وہ لوگ جن کو اللہ نے اپنی نعمتوں سے خوب سرفراز کیا ہو۔ خداوند کریم کی شہادت کے مطابق ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ پہلے یہ مترفین بستیوں میں فسق و فجور اور ظلم و عدوان(۳) اختیار کرتے ہیں‘ پھر ساری کی ساری بستیاں بدی کا شکار ہو جاتی ہیں۔
اس شہادت کے صادق ہونے میں کیا کلام ہے؟ ہماری اپنی قوم کا حال دیکھ لو۔ اس کا بگاڑ بھی ہمارے مترفین ہی سے ہوا ہے۔ ان لوگوں نے اُس طریقے کو جو احکام الٰہی کے مطابق ہدایت کرنے والے ائمہ کا طریقہ تھا چھوڑ دیا اور شیطانی طریقوں کی پیروی شروع کر دی۔ انھی نے نفس پرستی کے لیے شریعت کی بندشیں ڈھیلی کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ انھی نے فراعنہ اور قیاصرہ کی طرح خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرانی شروع کی اور اپنی قوم کو خدا پرستی کی جگہ بادشاہ پرستی اور امرا پرستی کا خوگر بنایا۔ انھی نے ان گردنوں کو بندوں کے آگے جھکنا سکھایا جنھیں صرف خدا کے آگے جھکنے کی تعلیم دی گئی تھی۔ انھی نے خوش نما لباسوں اور شان دار محلوں میں معاصی(۴) اور جرائم کا ارتکاب کرکے اپنی قوم کے لیے معاصی و جرائم کو خوش نما بنایا۔ انھی نے حرام کے مال کھا کر اپنی قوم کو حرام کھانے اور حرام کھلانے کی عادت ڈالی۔ انھی نے علم کو ضلالت کے لیے‘ عقل و فکر کو شرارت کے لیے‘ ذہانت کو مکر و فریب اور سازشوں کے لیے‘ دولت کو ایمان خریدنے کے لیے‘ حکومت کو ظلم و جور کے لیے اور طاقت کو استکبار({ FR 1026 }) کے لیے استعمال کیا۔ پھر یہی ہیں جنھوں نے حقوق اور منافع تک پہنچنے اور ترقی کرنے کے اکثر جائز راستے بند کر دیے اور لوگوں کو مجبور کر دیا کہ خوشامد‘ رشوت‘ جھوٹ‘ سازش اور ایسے ہی دوسرے ذلیل راستوں سے اپنے مقاصد کو پہنچیں۔ غرض اخلاق و اعمال کا کوئی فساد ایسا نہیں ہے جس کا آغاز ان مترفین سے نہ ہوا ہو۔ ان کو اللہ نے جو نعمتیں عطا کی تھیں ان کو انھوں نے غلط طریقوں سے استعمال کیا۔ خود بھی بگڑے اور اپنے ساتھ قوم کو بھی بگاڑا ، ضَلُّوْا فَاَضَلُّوْا۔
یہ سب کچھ صدیوں سے ہو رہا تھا اور اخلاقی فساد کا گھن مسلمانوں کی قومی طاقت کو اندر ہی اندر کھائے جارہا تھا، مگر اس کے باوجود دلوں میں کم از کم ایمان کی روشنی موجود تھی۔ احکام خدا اور رسولؐ کی پابندی چاہے نہ ہو مگر خدا اوررسولؐ کی عظمت دلوں میں باقی تھی‘ قانون اسلام کی خلاف ورزی چاہے کتنی ہی کی گئی ہو مگر قانون کے احترام سے دل خالی نہ ہوئے تھے‘ اسلام کی حکومت سے انحراف خواہ کتنا ہی بڑھ گیا ہو مگر اس کے مقابلے میں بغاوت کی جرأت کبھی نہ ہوئی تھی۔ جس کو اسلام نے حق کہا تھا‘ اس کو حق ہی مانا جاتا تھا اگرچہ اس کو چھوڑ کر باطل کی پیروی میں کتنا ہی غلو کیوں نہ کیا گیا ہو۔ یہ جسارت کسی میں نہ تھی کہ اسلام کے بتائے ہوئے حق کو باطل‘ باطل کو حق‘ فرض کو لغو و مہمل‘ جائز کو مکروہ‘ حرام کو حلال بلکہ مستحسن اور گناہ کو صواب کہا جاتا یا سمجھا جاتا۔ گناہوں کا ارتکاب بے شک ہوتا تھا۔ جرائم سے بلاشبہ دامن آلودہ ہوتے۔ شریعت کی حدود سے بہت کچھ تجاوز کیا جاتا۔ قوانین اسلام کی خلاف ورزی حد سے گزر جاتی، مگر دل ان پر شرم سار بھی ہوتے تھے‘ ندامت سے گردنیں جھک بھی جاتی تھیں‘ کم از کم دل اس کے معترف ہوتے تھے کہ وہ خدا اور رسولؐ کی نافرمانی کر رہے ہیں۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ عقائد کی کمزوری اور اعمال کی خرابی کے باوجود مسلمانوں کی تہذیب انھی قوائم(۲) و ارکان پر قائم تھی جو اسلام نے تعمیر کیے تھے۔ یونان و ایران کے افکار کی درآمد نے اگرچہ بہت کچھ گمراہی پھیلائی، لیکن انھیں کبھی اتنی کامیابی نہ ہوئی کہ مسلمانوں کے زاویۂ نگاہ ہی کو پھیر دیتے، ان کی ذہنیت کے سانچے کو اسلام سے بالکل ہی منحرف کر دیتے، اور اُن کی عقل و فکر و تمیز کی قوتوں کو یہاں تک متاثر کر دیتے کہ وہ مسلمان کی سی نظر سے دیکھنا اور مسلمان کے سے دماغ سے سوچنا بالکل چھوڑ ہی دیتے۔ اسی طرح تمدن و تہذیب کا ارتقا اگرچہ بیرونی اثرات کے تحت اسلام کی متعین کی ہوئی راہوں سے بہت کچھ منحرف ہوا لیکن جن اصولوں پر اس تہذیب و تمدن کی بنا رکھی گئی تھی وہ بدستور اس کی بنیاد میں موجود تھے‘ اور کسی دوسری مخالف تہذیب و تمدن کے اصولوں نے ان کی جگہ نہ لی تھی۔ مسلمانوں کی تعلیم کا نظام بہت کچھ بگڑا‘ مگر علوم دینی کو اس میں بہرحال ممتاز جگہ حاصل تھی اور کوئی تعلیم یافتہ مسلمان اسلامی عقائد اور احکام شریعت اور ملی روایات کے کم از کم ابتدائی علم سے بے بہرہ نہ ہوتا تھا۔ مسلمانوں کی عملی زندگی پر قانون اسلام کی بندشیں بہت کچھ ڈھیلی ہوئیں‘مگر پھر بھی مسلمانوں کے جملہ معاملات پر ایک ہی قانون نافذ تھا‘ اور وہ اسلام کا قانون تھا۔ غرض تمام خرابیوں کے باوجود مسلمانوں کے تخیلات‘ اخلاق‘ اور اعمال پر اسلام کا ایک گہرا اثر تھا‘ اس کے اصولوں پر وہ یکسوئی کے ساتھ ایمان رکھتے تھے‘ کم از کم ان کے ایمان کی سرحد میں مخالف اسلام اصولوں کو داخل ہونے کا موقع نہ ملا تھا‘ اور اخلاق و اعمال کی جو قدریں (values) اسلام نے متعین کی تھیں وہ اس حد تک متغیر نہ ہوئی تھیں کہ بالکل منقلب({ FR 961 }) ہو جاتیں اور ان کے خلاف کچھ دوسری قدریں ان کی جگہ لے لیتیں،لیکن انیسویں صدی میں حکومت کو ہاتھ سے کھو دینے کے بعد، جب ہماری قوم کے مترفین نے دیکھا کہ حکومت کے ساتھ جاہ و منزلت‘(۲)عزت و حرمت‘ مال و منال(۳) سب ہی کچھ ہاتھ سے نکلے جارہے ہیں اور غلامی کی حالت میں ان کو محفوظ رکھنے اور مافات(۴) کی تلافی کرنے کا کوئی ذریعہ، بجز مغربی تہذیب اور علوم سے آراستہ ہونے کے نہیں ہے‘ تو ان کی روش میں ایک دوسرا تغیر ہوا جو صحیح معنوں میں محض تغیر ہی نہیں بلکہ ایک انقلاب تھا۔
تغیر کے معنی محض بدلنے کے ہیں‘ مگر انقلاب الٹ جانے کو کہتے ہیں، اور فی الواقع دوسری کروٹ میں وہ ایسے الٹ گئے کہ ان کا قبلۂ مقصود الٹ گیا‘ ان کی ذہنیت الٹ گئی‘ ان کی نظریں الٹ گئیں اور ان کا رخ اسلام سے فرنگیت کی طرف پھر گیا جو اسلام کے عین مخالف سمت میںواقع ہوئی ہے۔
یہ انقلاب جب شروع ہوا تو وہ شرمساری اور ندامت آہستہ آہستہ رخصت ہونے لگی جو قوانین اسلامی سے انحراف کرتے وقت پہلے محسوس کی جاتی تھی‘ بلکہ سرے سے یہ احساس ہی مٹنے لگا کہ شریعت کی حدود سے تجاوز کرکے وہ کسی گناہ اور کسی جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ شرمندگی و ندامت کی جگہ ڈھٹائی اور بے حیائی نے لے لی۔ علانیہ ہر قسم کی قانون شکنی کی جانے لگی اور شرم کے بجائے اس پر فخر کا اظہار ہونے لگا، مگر انقلاب کی رَو اس حد پر بھی جا کر نہ رکی۔ اب جو باتیں فرنگیت مآب لوگوں کی مجلسوں میں سنی اور دیکھی جارہی ہیں وہ بے حیائی سے گزر کر اسلام کے خلاف صریح بغاوت کے آثار ظاہر کرتی ہیں۔ اب یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے کہ ایک شخص جو اسلامی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ اپنے جرم پر نادم ہونے کے بجائے الٹا اس شخص کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس پرانے قانون کی اب تک پابندی کیے جارہا ہے۔ گویا اب مجرم اور گناہ گار وہ نہیں ہے جو اسلامی قانون کو توڑتا ہے‘ بلکہ وہ ہے جو اس کی پیروی کرتا ہے۔ اب صرف نماز روزے سے پرہیز ہی نہیں کیا جاتا‘ بلکہ اس پر فخر بھی کیا جاتا ہے‘ ترکِ صوم و صلوۃ کی تبلیغ کی جاتی ہے‘ روزے رکھنے اور نمازیں پڑھنے والوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ پابند صوم و صلوٰۃ لوگ (خصوصاً جب کہ وہ تعلیم یافتہ ہوں) اپنے فعل پر الٹے شرمندہ ہوں گے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ نماز روزے کو چھوڑنا نہیں بلکہ اس کی پابندی کرنا وہ عیب ہے جس پر کسی کو شرمندہ ہونا چاہیے۔ حد یہ ہے کہ اگر کسی نمازی کا کوئی عیب ظاہر ہوتا ہے تو بڑے طنزیہ لہجے میں کہا جاتا ہے کہ آخر وہ حضرت نمازی ہیں نا‘ یعنی اس شخص سے عیب کے سرزد ہونے کا اصلی سبب کچھ اور نہیں بلکہ صرف وہ عمل ہے جس کو اللہ نے مانعِ فحشاء و منکر قرار دیا ہے اور جسے رسول اللہ نے تمام اعمال سے افضل ٹھہرایا ہے۔
یہ بغاوت صرف نماز روزے تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ قریب قریب زندگی کے تمام معاملات میں پھیل گئی ہے۔ اب اسلامی احکام کی پابندی کو’ملائیت‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ’ملائیت‘ ہمارے نئے زمانے کی اصطلاح میں تنگ نظری‘ تاریک خیالی‘ جہالت‘ دقیانوسیت اور بے عقلی کے سب سے زیادہ شدید مرکب کا نام ہے۔ گویا یوں سمجھیے کہ راسخ العقیدہ اور متبع شریعت مسلمان کا نام مُلاَّ ہے‘ اور مُلاَّ وہ ہے جو تہذیب اور روشن خیالی سے کوسوں دور ہو‘ مہذب سوسائٹی میں کسی طرح کھپ ہی نہ سکتا ہو۔ یہ سوگالیوں کی ایک گالی ہے‘ اور اظہار نفرت کے لیے بہت سے الفاظ بولنے کے بجائے ہمارے کالے فرنگی اپنے تمام جذبات کو سمیٹ کر صرف ایک لفظ مُلاَّ میں بھر دیتے ہیں جو تمام عیوب کا جامع ہے۔
آج کسی قول یا فعل کی تائید میں یہ دلیل کوئی دلیل ہی نہیں ہے کہ وہ قرآن و حدیث کے مطابق ہے۔ غیر مسلم نہیں بلکہ ایک مسلمان جو بدقسمتی سے ’’تعلیم یافتہ اور روشن خیال‘‘ ہوگیا ہے‘ بلا تکلف قرآن و حدیث کی سند کو رد کر دیتا ہے اور اس پر ذرا نہیں شرماتا، بلکہ توقع رکھتا ہے کہ اسلامی قانون کی سند لانے والے کو الٹا شرمندہ ہونا چاہیے۔ قرآن و حدیث کا مستند ہونا تو درکنار ہم نے تو یہ حال دیکھا ہے کہ جس بات کو اسلام کے نام سے پیش کیا جاتا ہے اس کے خلاف فوراً ایک تعصب سا پیدا ہو جاتا ہے۔ وہی بات اگر عقلی استدلال کے ساتھ پیش کی جائے‘ یا کسی مغربی مصنف کے حوالے سے بیان کی جائے تو آمَنَّا وَصَدَّقْنَا، لیکن اسلام کا نام آتے ہی ہمارے فرنگیت مآب مسلمانوں کے دماغوں میں اس کے خلاف طرح طرح کے شبہات پیدا ہونے لگتے ہیں اور انھیں شک ہو جاتا ہے کہ اس بات میں ضرور کوئی کمزوری ہو گی۔ گویا اب قرآن و حدیث کی سند ان لوگوںکی نظر میں کسی بات کو قوی نہیں کرتی بلکہ الٹا کمزور اور محتاج دلیل بنا دیتی ہے۔
چند سال پہلے یہ وبا صرف ہمارے مردوں میں پھیلی ہوئی تھی‘ اور ہماری عورتیں اس سے محفوظ تھیں۔ کم از کم اسلامی تہذیب کی حد تک ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’حرم‘ وہ آخری جائے پناہ ہے جہاں اسلام اپنے تمدن اور اپنی تہذیب کی حفاظت کرتا ہے۔ عورت کو جن مصلحتوں کی بنا پر اسلام نے حجابِ شرعی میں رکھا ہے ان میں سے ایک بڑی مصلحت یہ بھی ہے کہ کم از کم وہ سینہ تو نور ایمان سے منور رہے جس سے ایک مسلمان بچہ دودھ پیتا ہے‘ کم از کم وہ گود تو کفر و ضلالت اور فساد اخلاق و اعمال سے محفوظ رہے جس میں ایک بچہ پرورش پاتا ہے۔ کم از کم اس گہوارے کے اردگرد تو خالص اسلامی فضا چھائی رہے جس میں مسلمان کی نسل اپنی زندگی کی ابتدائی منزلوں سے گزرتی ہے۔ کم از کم وہ چار دیواری تو بیرونی اثرات سے محفوظ رہے جس میں مسلمان بچے کے سادہ دل و دماغ پر تعلیم و تربیت اور مشاہدات کے اولین نقوش ثبت ہوتے ہیں۔ پس ’حرم‘ دراصل اسلامی تہذیب کا سب سے زیادہ مستحکم قلعہ ہے جس کو اس لیے تعمیر کیا گیا تھا کہ یہ تہذیب اگر کبھی شکست کھا کر پسپا بھی ہو تو یہاں پناہ لے سکے، مگر افسوس کہ اب یہ قلعہ بھی ٹوٹ رہا ہے۔ فرنگیت کی وبا اب گھروں کے اندر بھی پہنچ رہی ہے۔ ہمارے فرنگیت مآب مترفین اب اپنی خواتین کو بھی کھینچ کھینچ کر باہر لا رہے ہیں تاکہ وہ بھی انھی زہریلے اثرات سے متاثر ہوں جن سے وہ خود مسموم({ FR 962 }) ہوچکے ہیں۔ ہماری قوم کی لڑکیاں اب ان تعلیم گاہوں میں گمراہی اور بد اعتقادی اور فسادِ اخلاق اور فرنگی تہذیب کے سبق لینے کے لیے بھیجی جارہی ہیں جو اس سے پہلے ہمارے لڑکوں کو یہ سب کچھ سکھا کر اسلام سے باغی بنا چکی ہے۔
یہ آخری حرکت ہمارے نزدیک اس انقلاب کی تکمیل کر دینے والی ہوگی جس کا ابھی ذکر کیا جاچکا ہے۔ یہ ہمارا صرف قیاس ہی نہیں ہے بلکہ تکمیلِ انقلاب کے آثار کو یہ بدنصیب آنکھیں دیکھ چکی ہیں، اور یہ بدقسمت کان سن چکے ہیں۔ اب یہ نوبت آ پہنچی ہے کہ ایک مسلمان عورت قرآن و حدیث کے صریح احکام کی خلاف ورزی کر کے اپنی زینت کا اظہار کرتی ہوئی نکلتی ہے‘ انگریزی ہوٹلوں میں جاکر لنچ اور ڈنر کھاتی ہے‘ سنیما ہال میں جاکر مردوں کے درمیان بیٹھتی ہے‘ بازاروں میں پھر کر شاپنگ کرتی ہے‘ اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ قانون اسلامی کے خلاف یہ تمام افعال کرنے پر شرمندہ اور نادم ہونے کے بجائے فخر کے ساتھ اپنے ان کاموں کو بیان کرتی ہے اور الٹا اس بے چاری عفیفہ کو قابل ملامت ٹھہراتی ہے جس نے پہلے تو قانون اسلام کی پیروی میں حجاب شرعی کو چھوڑنے سے انکار کیا‘اور جب اس کا شوہر زبردستی باہر کھینچ ہی لایا تو اس کو مردوں کے درمیان بے حجابانہ تماش بینی کرتے ہوئے شرم آئی‘ اور اسے بازاروں کے چکر لگانا‘ تاج اور گرین کے مزے چکھنا‘ سیرگاہوں کی ہوائیں کھانا اس چار دیواری کی بے لطفیوں کے مقابلے میں پسند نہ آیا جس کی حدود میں رہنے کا اس کے خدا اور اس کے رسول ﷺ نے حکم دیا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام کے خلاف بغاوت کی اسپرٹ مردوں سے گزر کر عورتوں تک میں بھی پہنچتی جا رہی ہے، اور وہ بھی اسلام کے قوانین کی خلاف ورزی کو نہیں بلکہ اس کی پیروی کو اس قابل سمجھنے لگی ہیں کہ ایک مسلمان عورت اس پر شرمندہ و نادم ہو۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَo البقرہ 156:2
خدارا، بتائو کہ پرانی دین دار خاتونوں کی گود میں پرورش پانے کے باوجود جب تمھارا یہ حال ہوا ہے تو جب تمھاری عورتیں بھی غیرتِ ایمانی سے بیگانہ اور اطاعت خدا اوررسولؐ کی حدود سے باہر ہو جائیں گی تو ان نسلوں کا کیا حشر ہوگا جو ان نئی فرنگیت مآب خواتین کی گودوں میں پرورش پاکر نکلیں گی؟ جو بچے آنکھ کھولتے ہی اپنے گرد و پیش فرنگیت ہی فرنگیت کے آثار دیکھیں گے‘ جن کی معصوم نگاہیں اسلامی تہذیب و تمدن کی کسی علامت سے آشنا ہی نہ ہوں گی‘ جن کے کانوں میں کبھی خدا اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں پڑیں گی ہی نہیں‘ جن کے دل و دماغ کی لوحِ سادہ پر ابتدا ہی سے فرنگیت کے نقوش ثبت ہو جائیں گے‘ کیا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے جذبات‘ خیالات‘ اخلاق‘ اعمال‘ غرض کسی حیثیت سے بھی مسلمان ہوں گے؟
٭ جرم کا پہلا مرتبہ یہ ہے کہ انسان جرم کرے مگر اس کو جرم سمجھے اور اس پر شرمندہ ہو۔ اس قسم کا جرم محض اپنی حیثیت کے لحاظ سے سزا کا مستوجب({ FR 963 }) ہوتا ہے بلکہ توبہ اور اظہارِ ندامت سے معاف بھی کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ایسا جرم صرف انسان کی کمزوری پر محمول(۲) کیا جائے گا۔
٭ جرم کا دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ انسان جرم کرے اور اس کو عیب کے بجائے خوبی سمجھے اور فخر کے ساتھ اس کا علانیہ اظہار کرے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس شخص کے دل میں اس قانون کا کوئی احترام نہیں ہے جو اس فعل کو جرم قرار دیتا ہے۔
٭ جرم کا آخری مرتبہ یہ ہے کہ انسان نہ صرف ایک قانون کے خلاف جرم کا ارتکاب کرے، بلکہ اس کے مقابلے میں ایک دوسرے قانون کے لحاظ سے اس جرم کو جائز اور عین ثواب سمجھے‘ اور جو قانون اس فعل کو جرم ٹھہراتا ہے اُس کا مذاق اڑائے اور اس کی پیروی کرنے والوں کو خطا کار سمجھے۔ ایسا شخص صرف قانون کی خلاف ورزی ہی نہیں کرتا‘ بلکہ اس کی تحقیر کرتا ہے اور اس کے خلاف بغاوت کا مرتکب ہوتا ہے۔
ہر شخص جس میں تھوڑی سی عقل سلیم بھی ہوگی‘ یہ تسلیم کرے گا کہ جب انسان اس آخری مرتبے پر پہنچ جائے تو وہ اس قانون کی حدود میں نہیں رہ سکتا جس کے خلاف اس نے علانیہ بغاوت کی ہے، مگر کس قدر مردود ہے وہ شیطان جو تم کو یقین دلاتا ہے کہ تم اسلامی قانون کی تحقیر کرکے‘ اس کا مذاق اڑا کر، اس کی پیروی کو عیب ٹھہرا کر‘ اور اس کی خلاف ورزی کو ثواب قرار دے کر بھی مسلمان رہ سکتے ہو۔ ایک طرف تو تمھارا یہ حال ہے کہ خدا اور رسولؐ جس کو اچھا کہیں اس کو تم برا کہو‘ وہ جس کو برا کہیں اس کو تم اچھا کہو‘ وہ جس کو گناہ ٹھہرائیں اس کو تم ثواب قرار دو‘ وہ جس کو ثواب ٹھہرائیں اس کو تم گناہ سمجھو‘ وہ جو حکم دیں اس کا تم مذاق اڑائو، وہ جو قانون بنائیں اس کی خلاف ورزی پر شرمانے کے بجائے تم الٹا اس شخص کو شرمانے کی کوشش کرو جو ان کے قانون کی پیروی کرتا ہے۔ دوسری طرف تمھارا یہ دعویٰ کہ تم خدا اور رسول پر ایمان رکھتے ہو‘ اور ان کی عظمت تمھارے دل میں ہے‘ اور ان کے پسندیدہ دین یعنی اسلام کے تم پیرو ہو۔ کیا کوئی صاحب عقل انسان تسلیم کرسکتا ہے کہ اس طرز عمل کے ساتھ یہ دعویٰ صحیح ہے؟ اگر ایمان کے ساتھ انکار جمع ہو سکتا ہے‘ اگر تعظیم کے ساتھ تحقیر جمع ہوسکتی ہے‘ اگر یہ ممکن ہے کہ کسی کا احترام بھی دل میں ہو، اور اُس کا مذاق بھی اڑایا جائے۔ اگر یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ خلاف ورزی پر فخر کرنے والا اور پیروی کوملامت کے قابل سمجھنے والا بھی پیرو اور مطیع ہو‘ تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ بغاوت ہی عین اطاعت ہے‘ اور تحقیر ہی عین تعظیم ہے‘ اور انکار ہی کا نام ایمان ہے۔ جو تمھیں ٹھوکر مارتا ہے وہی دراصل تمھاری تعظیم کرتا ہے‘ جو تمھارا مذاق اڑاتا ہے وہی دراصل تمھارا احترام کرتا ہے‘ اور جو تمھیں جھوٹا کہتا ہے وہی دراصل تمھاری تصدیق کرنے والا ہے۔
اسلام بجز اطاعت کے اور کسی چیز کا نام نہیں ہے‘ اور حقیقی اطاعت ایمان کے بغیر متحقق نہیں ہوتی اور ایمان کا اولین اقتضا یہ ہے کہ آدمی کو جب خدا اور رسول کا حکم پہنچے تو اس کی گردن جھک جائے اور وہ اس کے مقابلے میں سر نہ اٹھا سکے:
اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَہُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo النور 51:24
مومنوں کا کام تو یہ ہے کہ جب ان کو بلایا جائے اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف، تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
پھر یہ گردن جھکانا بھی بکراہت نہیں بطوع({ FR 964 }) و رغبت ہونا چاہیے‘ حتیٰ کہ حکمِ خدا و رسولؐ کے خلاف دل میں بھی کوئی تنگی اور ناراضی چھپی ہوئی نہ ہو۔ جس شخص کی گردن محض ظاہر میں جھک جائے، مگر دل میں اس کے خلاف تنگی محسوس کر رہا ہو وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے:
وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا۔۔۔۔۔فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا النسائ4: 61,65
اور جب ان سے کہا گیا کہ آئو اس حکم کی طرف جو اللہ نے اتارا ہے اور آئو رسولؐ کی طرف تو تم دیکھتے ہو کہ منافقین تمھاری طرف آتے ہوئے جی چراتے ہیں۔ پس قسم ہے تیرے پروردگار کی! وہ ہرگز مومن نہ ہوں گے، جب تک کہ وہ اپنے اختلافات میں تجھ کو فیصلہ کرنے والا تسلیم نہ کرلیں‘ پھر جو کچھ تو فیصلہ کرے اس پر اپنے دلوں میں تنگی بھی نہ پائیں بلکہ سر تسلیم خم کر دیں۔
لیکن جو شخص علانیہ حکم ماننے سے انکار کر دے اور خدا اور رسولؐ کے قانون کو چھوڑ کر دوسرے قوانین کی پیروی کرے اور انھی قوانین کو درست اور حق سمجھے اور ان کی پیروی کرتے ہوئے خدا اور رسولؐ کے قانون کا مذاق اڑائے اور اس کی اطاعت کو عیب ٹھہرائے وہ تو کسی طرح بھی مومن نہیں ہوسکتا‘ خواہ وہ زبان سے اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو اور مسلمانوں کے سے نام سے موسوم ہو، اور مردم شماری میں اس کو مسلمان لکھا گیا ہو۔ انسان گناہ کرکے مومن رہ سکتا ہے بشرطیکہ گناہ کو گناہ سمجھے اور اس پر نادم ہو، اور اس قانون کو تسلیم کرے جس کے خلاف محض اپنی فطری کمزوری سے اس نے ایک فعل کا ارتکاب کیا ہے، لیکن جب گناہ کے ساتھ بے شرمی اور ڈھٹائی بھی ہو‘ اور اس پر فخر بھی کیا جائے‘ اور اس کو ثواب ٹھہرا کر اس شخص کو ملامت بھی کی جائے جو اس کا ارتکاب نہیں کرتا‘ تو خدا کی قسم ایسے گناہ کے ساتھ ایمان کبھی باقی نہیں رہ سکتا۔ اس مرتبے میں داخل ہونے سے پہلے ہی آدمی کو فیصلہ کرلینا چاہیے کہ آیاوہ مسلمان رہنا چاہتا ہے، یا اسلام سے نکل کر اس قانون کی اطاعت میں داخل ہو جانا پسند کرتا ہے جس کی پیروی میں اس کو شرح صدر حاصل ہو رہا ہے۔
خدا کے فضل سے ابھی تک مسلمانوں کے عوام اس فرنگیت اور ملحدانہ بغاوت کی رَو سے محفوظ ہیں۔ ابھی تک ان کے دلوں میں خدا اور رسولؐ کے احکام کا احترام باقی ہے اور قوانینِ اسلامی کی پابندی تھوڑی بہت انھی میں نظر آتی ہے، لیکن خواص کی روش جس طرح پہلے ان کے اخلاق اور معاملات پر اثر انداز ہو چکی ہے اسی طرح اندیشہ ہے کہ نئی روش کہیں ان کے ایمان پر بھی رفتہ رفتہ اپنا مہلک اثر نہ ڈال دے۔ عامۃ مسلمین میں جس رفتار کے ساتھ ترکِ صوم و صلوۃ‘ منکرات({ FR 965 }) و منہیات(۲) کا ارتکاب(۳) فرنگی اطوار کی تقلید کا شوق اور فرنگی تہذیب کو خوش نما بنا کر دکھانے والے کھیل تماشوں کی طرف میلان بڑھ رہا ہے وہ دراصل اس آنے والے خطرے کا الارم ہے۔ اگر ہمارے مترفین کے خیالات کی اصلاح نہ ہوئی اور اسلام کی صراط مستقیم سے ان کا انحراف اسی طرح جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب ساری قوم اس ضلالت میں مبتلا ہو جائے گی اور اللہ کی یہ سنت پوری ہو کر رہے گی:
وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّہْلِكَ قَرْيَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْہَا فَفَسَقُوْا فِيْہَا فَحَـــقَّ عَلَيْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰہَا تَدْمِيْرًاo بنی اسرائیل 16:17
جب ہم کسی بستی کو ہلاک کر دینے کا ارادہ کرتے ہیں تو اُس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اُس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اُسے برباد کرکے رکھ دیتے ہیں ۔
(ترجمان القرآن، ذی القعدہ ۱۳۵۳ھ۔ فروری ۱۹۳۵ء)


۱۴۔ اِجتماعی فساد

قرآن مجید میں ایک قاعدہ کلیہ یہ بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے کہ کسی قوم کو خواہ مخواہ برباد کردے، دراں حالیکہ وہ نیکوکار ہو:
وَ مَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّ اَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ ھود11:117
اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ظلم سے تباہ کر دے حالانکہ اس کے باشندے نیک عمل کرنے والے ہوں۔
ہلاک و برباد کر دینے سے مراد صرف یہی نہیں کہ بستیوں کے طبقے الٹ دیے جائیں‘ اور آبادیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے بلکہ اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ قوموں کا شیرازہ بکھیر دیا جائے‘ ان کی اجتماعی قوت توڑ دی جائے‘ ان کو محکوم و مغلوب اور ذلیل و خوار کر دیا جائے۔ قائدہ مذکورہ کی بنا پر بربادی اور ہلاکت کی جملہ اقسام میں سے کوئی قسم بھی کسی قوم پر نازل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ خیر و صلاح کے راستے کو چھوڑ کر شر و فساد اور سرکشی و نافرمانی کے طریقوں پر نہ چلنے لگے اور اس طرح خود اپنے اوپر ظلم نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قاعدے کو ملحوظ رکھ کر جہاں کہیں کسی قوم کو مبتلائے عذاب کرنے کا ذکر فرمایا ہے‘ وہاں اس کا جرم بھی ساتھ ساتھ بیان کر دیا ہے تاکہ لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہو جائے کہ وہ ان کی اپنی ہی شامتِ اعمال({ FR 966 }) ہے جو اُن کی دنیا اور آخرت دونوں کو خراب کرتی ہے:
فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِہٖ۝۰ۚ ۔۔۔۔ وَمَا كَانَ اللہُ لِيَظْلِمَہُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ يَظْلِمُوْنَo العنکبوت 40:29
ہر ایک کو ہم نے اس کے قصور ہی پر پکڑا…… اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہیں تھا بلکہ وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔
دوسری بات جو اس قاعدے سے نکلتی ہے‘ یہ ہے کہ ہلاکت و بربادی کا سبب انفرادی شروفساد نہیں ہے بلکہ اجتماعی اور قومی شر و فساد ہے۔ یعنی اعتقاد اور عمل کی خرابیاں اگر متفرق طور پر افراد میں پائی جاتی ہوں لیکن مجموعی طور پر قوم کا دینی و اخلاقی معیار اتنا بلند ہو کہ افراد کی برائیاں اس کے اثر سے دبی رہیں تو خواہ افراد علیحدہ علیحدہ کتنے ہی خراب ہوں‘ قوم بحیثیت مجموعی سنبھلی رہتی ہے اور کوئی فتنہ عام برپا نہیں ہوتا جو پوری قوم کی بربادی کا موجب ہو، مگر جب اعتقاد اور عمل کی خرابیاں افراد سے گزر کر پوری قوم میں پھیل جاتی ہیں اور قوم کا دینی احساس اور اخلاقی شعور اس درجہ مائوف ہو جاتا ہے کہ اس میں خیر و صلاح کے بجائے شر و فساد کوپھلنے اور پھولنے کا موقع ملنے لگے‘ تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت ایسی قوم سے پھر جاتی ہے اور وہ عزت کے مقام سے ذلت کی طرف گرنے لگتی ہے‘ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اللہ کا غضب اس پر بھڑک اٹھتا ہے‘ اور اس کو بالکل تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں اس کی بکثرت مثالیں بیان کی گئی ہیں۔
قوم نوح علیہ السلام کو اس وقت برباد کیا گیا جب اعتقاد و عمل کی خرابیاں اُن کے اندر جڑ پکڑ گئیں اور زمین میں پھیلنے لگیں‘ اور یہ اُمید ہی باقی نہ رہی کہ اس شجرِ خبیث({ FR 967 }) سے کبھی کوئی اچھا پھل بھی پیدا ہوگا۔ آخر کار مجبور ہو کر حضرت نوح علیہ السلام نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا کہ:
رَّبِّ لاَ تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا o اِنَّکَ اِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلاَ یَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا نوح71:26-27
میرے پروردگار! زمین پر ان کافروں میں سے ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑ۔ اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو پیدا ہوگا بدکار اور سخت کافر پیدا ہوگا۔
قوم عاد کو اس وقت تباہ کیا گیا جب شر اور فساد نے ان کے دلوں میں یہاں تک گھر کرلیا کہ شریر اور مفسد اور ظالم ان کی قوم کے لیڈر اور حاکم بن گئے، اور اہل خیر و صلاح کے لیے نظام اجتماعی میں کوئی گنجائش باقی نہ رہی:
وَ تِلْکَ عَادٌ جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَ عَصَوْا رُسُلَہٗ وَ اتَّبَعُوْٓا اَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ
ھود11: 59
اور یہ عاد ہیں جنھوں نے اپنے رب کے حکم سے انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر جبار دشمنِ حق کا اتباع کیا۔
قومِ لوط کو اس وقت ہلاک کیا گیا جب ان کا اخلاقی شعور اتنا کند ہوگیا اور ان میں بے حیائی یہاں تک بڑھ گئی کہ علانیہ مجلسوں اور بازاروں میں فواحش کا ارتکاب کیا جانے لگا‘ اور فواحش کے فواحش ہونے کا احساس ہی باقی نہ رہا:
اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ۝۰ۥۙ وَتَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ۝۰ۭ
العنکبوت 29:29
(لوط ؑنے کہا کہ) تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس جاتے ہو اور راستوں میں لوگوں کو چھیڑتے اور ستاتے ہو اور اپنی محفلوں میں بدکاریاں کرتے ہو۔
اہلِ مدین پر اُس وقت عذاب نازل ہوا جب پوری قوم خائن اور بد معاملہ اور بے ایمان ہوگئی۔ کم تولنا اور زیادہ لینا کوئی عیب نہ رہا اور قوم کا اخلاقی احساس یہاں تک فنا ہوگیا کہ جب ان کو اس عیب پر ملامت کی جاتی تو شرم سے سر جھکا لینے کے بجائے وہ الٹا اس ملامت کرنے والے کو ملامت کرتے‘ اور ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ ان میںکوئی ایسا عیب بھی ہے جو ملامت کے قابل ہو۔ وہ بدکاریوں کو برا نہ سمجھتے بلکہ جو ان حرکات کو برا کہتا اسی کو برسرِ غلط اور لائق ِسرزنش خیال کرتے:
وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَ ھُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ…… قَالُوْا یٰشُعَیْبُ مَا نَفْقَہُ کَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَ اِنَّا لَنَرٰکَ فِیْنَا ضَعِیْفًا وَ لَوْ لَا رَھْطُکَ لَرَجَمْنٰکَ ھود11:85-91
(شعیبؑ نے کہا) اور اے میری قوم کے لوگو! انصاف کے ساتھ ناپو اور تولو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلائو۔ انھوں نے جواب دیا: اے شعیب! تو جو باتیں کہتا ہے ان میں سے تو اکثر ہماری سمجھ ہی میںنہیں آتیں، اور ہم تو تجھے اپنی قوم میں کمزور پاتے ہیں اور اگر تیرا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم تجھے سنگ سار کر دیتے۔
بنی اسرائیل کو ذلت و مسکنت({ FR 968 }) اور غضب و لعنت الٰہی میں مبتلا کرنے کا فیصلہ اس وقت صادر ہوا جب انھوںنے بدی اور ظلم اور حرام خوری کی طرف لپکنا شروع کیا‘ ان کی قوم کے پیشوا مصلحت پرستی کے مرض میں مبتلا ہوگئے‘ ان میں گناہوں کے ساتھ رواداری پیدا ہوگئی‘ اور ان میں کوئی گروہ ایسا نہ رہا جو عیب کو عیب کہنے والا اور اس سے روکنے والا ہوتا:
۱۔ وَتَرٰى كَثِيْرًا مِّنْہُمْ يُسَارِعُوْنَ فِي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاَكْلِہِمُ السُّحْتَ۝۰ۭ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَo لَوْلَا يَنْھٰىہُمُ الرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِہِمُ الْاِثْمَ وَاَكْلِہِمُ السُّحْتَ۝۰ۭ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَo المائدہ 62-63:5
تو ان میں سے اکثر کو دیکھتا ہے کہ گناہ اور حدودِ الٰہی سے تجاوز اور حرام خوری کی طرف لپکتے ہیں۔ یہ کیسی بری حرکتیں تھیں جو وہ کرتے تھے۔ کیوں نہ ان کے مشائخ اور علما نے ان کو بری باتیں کہنے اور حرام کے مال کھانے سے منع کیا؟ یہ بہت برا تھا جو وہ کرتے ہیں۔
۲۔ لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَلٰي لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ۝۰ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَo كَانُوْا لَا يَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْہُ۝۰ۭ
المائدہ 78-79:5
بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر دائود اور عیسیٰ بن مریم علیہم السلام کی زبان سے لعنت کرائی گئی اس لیے کہ انھوں نے سرکشی کی اور وہ حد سے گزر جاتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو بُرے افعال سے نہ روکتے تھے۔
اس آخری آیت کی تفسیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو احادیث منقول ہیں وہ قرآن کریم کے مقصد کو اور زیادہ واضح کر دیتی ہیں۔ سب روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:
بنی اسرائیل میں جب بدکاری پھیلنی شروع ہوئی تو حال یہ تھا کہ ایک شخص اپنے بھائی یا دوست یا ہمسایہ کو برا کام کرتے دیکھتا تو اس کو منع کرتا اور کہتا کہ اے شخص خدا کاخوف کر، مگر اس کے بعد وہ اسی شخص کے ساتھ گھل مل کر بیٹھتا اور یہ بدی کا مشاہدہ اس کو اس بدکار شخص کے ساتھ میل جول اور کھانے پینے میں شرکت کرنے سے نہ روکتا۔ جب ان کا یہ حال ہوگیا تو ان کے دلوں پر ایک دوسرے کا اثر پڑ گیا اور اللہ نے سب کو ایک رنگ میں رنگ دیا اور ان کے نبی دائود اور عیسیٰ بن مریم علیہم السلام کی زبان سے اُن پر لعنت کی۔
راوی کہتا ہے کہ جب حضورؐ سلسلہ تقریر میں اس مقام پر پہنچے تو جوش میں آکر اٹھ بیٹھے اور فرمایا:
قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم پرلازم ہے کہ نیکی کا حکم کرو اور بدی سے روکو اور جس کو برا فعل کرتے دیکھو اس کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے راہِ راست کی طرف موڑ دو اور اس معاملے میں ہرگز رواداری نہ برتو ورنہ اللہ تمھارے دلوں پر بھی ایک دوسرے کا اثر ڈال دے گا اور تم پر بھی اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح بنی اسرائیل پر کی۔
اعتقاد اور عمل کے فساد کا حال وبائی امراض کا سا ہے۔ ایک وبائی مرض ابتدا میں چند کمزور افراد پر حملہ کرتا ہے۔ اگر آب و ہوا اچھی ہو‘ حفظانِ صحت کی تدابیر درست ہوں‘ نجاستوں اور کثافتوں کو دور کرنے کا کافی انتظام ہو‘ اور مرض سے متاثر ہونے والے مریضوں کا بروقت علاج کر دیا جائے تو مرض وبائے عام کی صورت اختیار کرنے نہیںپاتا اور عام لوگ اس سے محفوظ رہتے ہیں، لیکن اگر طبیب غافل ہو‘ حفظانِ صحت کا محکمہ بے پروا ہو۔ صفائی کے منتظم نجاستوں اور کثافتوں کے روا دار ہو جائیں‘ تو رفتہ رفتہ مرض کے جراثیم فضا میں پھیلنے لگتے ہیںاور آب و ہوا میں سرایت کرکے اس کو اتنا خراب کر دیتے ہیں کہ وہ صحت کے بجائے مرض کے لیے سازگار ہو جاتی ہے۔ آخر کار جب بستی کے عام افراد کو ہوا‘ پانی غذا‘ لباس‘ مکان غرض کوئی چیز بھی گندگی اور سُمِیَّت سے پاک نہیں ملتی تو ان کی قوت حیات جواب دینے لگتی ہے اور ساری کی ساری آبادی وبائے عام میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ پھر قوی سے قوی افراد کے لیے بھی اپنے آپ کو مرض سے بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ خود طبیب اور صفائی کے منتظم اورصحت عامہ کے محافظ تک بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور وہ لوگ بھی ہلاکت سے محفوظ نہیں رہتے جو اپنی حد تک حفظان صحت کی جملہ تدبیریں اختیار کرتے اور دوائیں استعمال کرتے رہتے ہیں کیونکہ ہوا کی سُمِیَّت‘ پانی کی گندگی‘ وسائل غذا کی خرابی‘ اور زمین کی کثافت کا ان کے پاس کیا علاج ہوسکتا ہے۔
اسی پر اخلاق و اعمال کے فساد اور اعتقاد کی گمراہیوں کو بھی قیاس کر لیجیے۔ علما قوم کے طبیب ہیں۔ حکام اور اہلِ دولت‘ صفائی اور حفظان صحت کے ذمہ دار ہیں۔ قوم کی غیرت ایمانی اور جماعت کا حاسّہ اخلاقی بمنزلہ قوتِ حیات (vitality) ہے۔ اجتماعی ماحول کی حیثیت وہی ہے جو ہوا‘ پانی‘ غذا اور لباس و مکان کی ہے، اور حیات قومی میں دین و اخلاق کے اعتبار سے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کاوہی مقام ہے جو صحت جسمانی کے اعتبار سے صفائی و حفظانِ صحت کی تدابیر کا ہے۔ جب علما اور اولی الامر اپنے اصلی فرض یعنی امربالمعروف و نہی عن المنکر کو چھوڑ دیتے ہیں اور شر و فساد کے ساتھ رواداری برتنے لگتے ہیں تو گمراہی اور بداخلاقی قوم کے افراد میں پھیلنی شروع ہو جاتی ہے اور قوم کی غیرتِ ایمانی ضعیف ہوتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ سارا اجتماعی ماحول فاسد ہو جاتا ہے‘ قومی زندگی کی فضا خیر و صلاح کے لیے نامساعد اور شر و فساد کے لیے سازگار ہو جاتی ہے‘ لوگ نیکی سے بھاگتے ہیں اور بدی سے نفرت کرنے کے بجائے اس کی طرف کھنچنے لگتے ہیں‘ اخلاقی قدریں الٹ جاتی ہیں، عیب ہنر بن جاتے ہیں اور ہنر عیب۔ اس وقت گمراہیاں اور بداخلاقیاں خوب پھلتی پھولتی ہیں اور بھلائی کا کوئی بیج برگ و بار({ FR 969 }) لانے کے قابل نہیں رہتا۔ زمین‘ ہوا اور پانی سب اس کو پرورش کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ ان کی ساری قوتیں اشجار خبیثہ کو نشوونما دینے کی طرف مائل ہو جاتی ہیں۔ جب کسی قوم کا یہ حال ہو جاتا ہے تو پھر وہ عذابِ الٰہی کی مستحق ہو جاتی ہے اور اس پر ایسی عام تباہی نازل ہوتی ہے جس سے کوئی نہیں بچتا خواہ وہ خانقاہوں میں بیٹھا ہوا رات دن عبادت کررہا ہو۔
اس کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
وَ اتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً الانفال8:25
بچو اس فتنے سے جو صرف انھی لوگوں کو مبتلائے مصیبت نہ کرے گا جنھوں نے تم میں سے ظلم کیا ہے۔
ابن عباسؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا منشا اس سے یہ ہے کہ بدی کو اپنے سامنے نہ ٹھہرنے دو‘ کیونکہ اگر تم بدی سے رواداری برتو گے اور اس کو پھیلنے دو گے تو اللہ کی طرف سے عذاب عام نازل ہوگا اور اس کی لپیٹ میں اچھے اور برے سب آجائیں گے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تشریح اس طرح فرمائی ہے کہ:
اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَا یُعَذِّبُ الْعَامَّۃَ بِعَمَلِ الْخَاصَّۃِ حَتّٰی یَرَوَ الْمُنْکَرَ بَیْنَ ظَھْرَا نِیْھِمْ وَھُمْ قَادِرُوْنَ عَلٰی اَنْ یُّنْکِرُوْہُ فَلاَ یُنْکِرُوْہُ فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَذَّبَ اللّٰہُ الْخَاصَّۃَ وَالْعَامَّۃَ۔ ( تفہیم الاحادیث،سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ، ج ۶، ص۳۱۱بحوالہ مسند احمد ج۴ص۱۹۲)
اللہ خاص لوگوں کے عمل پر عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا، مگر جب وہ اپنے سامنے بدی کو دیکھیں اور اس کو روکنے پر قدرت رکھنے کے باوجود اس کو نہ روکیں تو اللہ خاص اور عام سب کو مبتلائے عذاب کر دیتا ہے۔
قوم کی اخلاقی اور دینی صحت کو برقرار رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ اس کے ہر فرد میں غیرت ایمانی اور حاسّہ اخلاقی موجود ہو جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جامع لفظ ’حیا‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ حیا دراصل ایمان کا ایک جز ہے، جیسا کہ حضورؐ نے فرمایا ہے: اَلْحَیَائُ مِنَ الْاِیْمَانِ (مشکوۃ، ۴۸۴۷) بلکہ ایک موقع پر جب حضورؐ سے عرض کیا گیا کہ حیا دین کا ایک جز ہے۔ تو آپ نے فرمایا: بَلْ ھُوَ الذِّیْنُ کُلَّہ‘ یعنی وہ پورا ایمان ہے۔
حیا سے مراد یہ ہے کہ بدی اور معصیت سے نفس میں طبیعی طور پر انقباض({ FR 970 }) پیدا ہو، اور دل اس سے نفرت کرے۔ جس شخص میں یہ صفت موجود ہوگی وہ نہ صرف قبائح(۲) سے اجتناب کرے گا بلکہ دوسروں میں بھی اس کو برداشت نہ کرسکے گا۔ وہ برائیوں کو دیکھنے کا روادار نہ ہوگا۔ ظلم اور معصیت سے مصالحت کرنا اس کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ جب اس کے سامنے قبائح کا ارتکاب کیا جائے گا تو اس کی غیرتِ ایمانی جوش میں آجائے گی اور وہ اس کو ہاتھ سے یا زبان سے مٹانے کی کوشش کرے گا، یاکم از کم اس کا دل اس خواہش سے بے چین ہو جائے گا کہ اس برائی کو مٹا دے:
مَنْ رَاٰیٰ مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذَالِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ۔ (تفہیم الاحادیث، ج۶، ص ۴۰۸، بحوالہ مسلم کتاب البیان باب۲۰ترمذی، ابواب الفتن باب۱۲ابودائود و کتاب الملاحم باب ۱۷)
تم میں سے جو کوئی بدی کو دیکھے وہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دے اور اگر ایسا نہ کرسکتا ہو تو زبان سے اور اگر یہ بھی نہ کرسکتا ہو تو دل سے اور یہ ضعیف ترین ایمان ہے۔
جس قوم کے افراد میں عام طور پر یہ صفت موجود ہوگی اس کا دین محفوظ رہے گا اور اس کا اخلاقی معیار کبھی نہ گر سکے گا‘ کیونکہ اس کا ہر فرد دوسرے کے لیے محتسب اور نگراں ہوگا اور عقیدہ و عمل کے فساد کو اس میں داخل ہونے کے لیے کوئی راہ نہ مل سکے گی۔
قرآن مجید کا مقصد دراصل ایسی ہی ایک آئیڈیل سوسائٹی بنانا ہے جس کا ہر فرد اپنے قلبی رجحان اور اپنی فطری غیرت و حیا اور خالص اپنے ضمیر کی تحریک پر احتساب اور نگرانی کا فرض انجام دے اور کسی اجرت کے بغیر خدائی فوج دار بن کر رہے:
وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا البقرہ2:143
اور اسی طرح تو ہم نے تمھیں ایک ’امتِ وسط‘ ({ FR 971 }) بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو، اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔
اسی لیے بار بار مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ نیکی کا حکم دینا اور بدی سے روکنا تمھارا قومی خاصہ ہے جو ہر مومن مرد اور عورت میں متحقق ہونا چاہیے:
۱۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ آل عمران3:110
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم کرتے ہو، بدی سے روکتے ہو ،اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
۲۔ وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ التوبہ9:71
مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں۔ نیکی کا حکم کرتے اور بدی سے روکتے ہیں۔
۳۔ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ
التوبہ9: 112
وہ نیکی کا حکم کرنے والے اور بدی سے روکنے والے اور حدود الٰہی کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
۴۔ اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ الحج22:41
یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں حکومت بخشیں گے تو یہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم کریں گے اور بدی سے روکیں گے۔
اگر مسلمانوں کا یہ حال ہو تو ان کی مثال اس بستی کی سی ہوگی جس کے ہر باشندے میں صفائی اور حفظانِ صحت کا احساس ہو۔ وہ نہ صرف اپنے جسم اور اپنے گھر کو پاک صاف رکھے‘ بلکہ بستی میں جہاں کہیں غلاظت اور نجاست دیکھے اس کو دور کر دے‘ اور کسی جگہ گندگی و کثافت کے رہنے کا روادار نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسی بستی کی آب و ہوا پاک صاف رہے گی۔ اس میں امراض کے جراثیم پرورش نہ پا سکیں گے اور اگر شاذ و نادر کوئی شخص کمزور اور مریض الطبع ہوگا بھی تو اس کا بروقت علاج ہو جائے گا‘ یا کم از کم اس کی بیماری محض شخصی بیماری ہوگی‘ دوسروں تک متعدی ہو کر وبائے عام کی صورت نہ اختیار کرسکے گی،لیکن اگر مسلمانوں کی قوم اس بلند درجے پر نہ رہ سکے تو سوسائٹی کی دینی و اخلاقی صحت کوبرقرار رکھنے کے لیے، کم از کم ایک ایسا گروہ تو ان میں ضرور موجود رہنا چاہیے جو ہروقت اس خدمت پر مستعد رہے اور اعتقاد کی گندگیوں اور اخلاق و اعمال کی نجاستوں کو دور کرتا رہے۔
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ آل عمران3:104
تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلانے والی ہو‘ نیکی کا حکم دے اور بدی سے روکے۔
یہ جماعت علما اور اولوالامر کی جماعت ہے جس کا امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں منہمک رہنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا شہر کے محکمہ صفائی و حفظانِ صحت کا اپنے فرائض میں مستعد رہنا ضروری ہے۔ اگر یہ لوگ اپنے فرض سے غافل ہو جائیں اور قوم میں ایک جماعت بھی ایسی باقی نہ رہے جو خیر و صلاح کی طرف دعوت دینے والی اور منکرات سے روکنے والی ہو تو دین و اخلاق کے اعتبار سے قوم کی تباہی اسی طرح یقینی ہے جس طرح جسم و جان کے اعتبار سے اس بستی کی ہلاکت یقینی ہے جس میں صفائی و حفظانِ صحت کا کوئی انتظام نہ ہو۔ اگلی قوموں پر جو تباہیاں نازل ہوئی ہیں وہ اسی لیے ہوئی ہیں کہ ان میں کوئی گروہ بھی ایسا باقی نہ رہا تھا جو اُن کو برائیوں سے روکتا اور خیر و صلاح پر قائم رکھنے کی کوشش کرتا:
۱۔ فَلَوْ لَا کَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِکُمْ اُولُوْا بَقِیَّۃٍ یَّنْھَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّنْ اَنْجَیْنَا مِنْھُمْ ھود11:116
پھر کیوں نہ اُن قوموں میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں ایسے اہلِ خیر موجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم، جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچا لیا۔
۲۔ لَوْ لَا یَنْھٰھُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِھِمُ الْاِثْمَ وَ اَکْلِھِمُ السُّحْتَ
المائدہ5:63
کیوں نہ ان کے علما اور مشائخ نے ان کو بری باتیں کہنے اور حرام خوری کرنے سے باز رکھا؟
پس قوم کے علما و مشائخ اور اولوالامر کی ذمہ داری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ وہ صرف اپنے ہی اعمال کے جواب دہ نہیں بلکہ پوری قوم کے اعمال کی جواب دہی بھی ایک بڑی حد تک ان پر عائد ہوتی ہے۔ ظالم‘جفا کار اور عیش پسند امرا اور ایسے امرا کی خوشامدیں کرنے والے علما و مشائخ کا تو خیر کہنا ہی کیا ہے‘ ان کا جو کچھ حشر خدا کے ہاں ہوگا اس کے ذکر کی حاجت نہیں، لیکن جو امرا، اور علما و مشائخ اپنے محلوں اور اپنے گھروں اور اپنی خانقاہوں میں بیٹھے ہوئے زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت کی داد دے رہے ہیں وہ بھی خدا کے ہاں جواب دہی سے بچ نہیں سکتے کیونکہ جب ان کی قوم پر ہر طرف سے گمراہی اور بداخلاقی کے طوفان امڈے چلے آرہے ہوں تو ان کا کام یہ نہیں ہے کہ گوشوں میں سر جھکائے بیٹھے رہیں‘ بلکہ ان کاکام یہ ہے کہ مرد میدان بن کر نکلیں اور جو کچھ زور اور اثر اللہ نے ان کو عطا کیا ہے اس کو کام میں لا کر اس طوفان کا مقابلہ کریں۔ طوفان کو دور کرنے کی ذمہ داری بلاشبہ ان پر نہیں‘ مگر اس کے مقابلے میں اپنی پوری امکانی قوت صَرف کر دینے کی ذمہ داری تو یقیناً ان پرہے۔ اگر وہ اس میں دریغ کریں گے تو ان کی عبادت و ریاضت اور شخصی پرہیز گاری ان کو یوم الفصل({ FR 1027 }) کی جواب دہی سے بری نہ کر دے گی۔ آپ محکمہ صفائی کے اس افسر کو کبھی بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے جس کا حال یہ ہو کہ شہر میں وبا پھیل رہی ہو‘ اور ہزاروں آدمی ہلاک ہو رہے ہوں‘ مگر وہ اپنے گھر میں بیٹھا خود اپنی اور اپنے بال بچوں کی جان بچانے کی تدبیر کر رہا ہو۔ عام شہری اگر ایسا کریں تو چنداں قابلِ اعتراض نہیں لیکن محکمہ صفائی کا افسر ایسا کرے تو اس کے مجرم ہونے میں شک نہیں کیا جاسکتا۔
(ترجمان القرآن، ذی الحجہ ۱۳۵۳ھ۔ فروری ۱۹۳۵ء)


۱۵۔ ایمان اور اطاعت

اجتماعی نظم خواہ وہ کسی نوعیت کا ہو، اور کسی غرض و غایت کے لیے ہو‘ اپنے قیام و استحکام اور اپنی کامیابی کے لیے دو چیزوں کا ہمیشہ محتاج ہوتا ہے:
o ایک یہ کہ جن اصولوں پر کسی جماعت کی تنظیم کی گئی ہو وہ اس پوری جماعت اور اس کے ہر فردکے دل و دماغ میں خوب بیٹھے ہوئے ہوں اور جماعت کا ہر فرد اُن کو ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھتا ہو۔
o دوسرے یہ کہ جماعت میں سمع و طاعت کا مادہ موجودہو‘ یعنی اس نے جس کسی کو اپنا صاحب امر تسلیم کیا ہو‘ اس کے احکام کی پوری طرح اطاعت کرے‘ اس کے مقرر کیے ہوئے ضوابط کی سختی کے ساتھ پابند رہے‘ اور اس کی حدود سے تجاوز نہ کرے۔
یہ ہر نظام کی کامیابی کے لیے ناگزیر شرطیں ہیں۔ کوئی نظام خواہ وہ نظام عسکری ہو‘ یا نظام سیاسی‘ یا نظام عمرانی‘ یا نظام دینی‘ ان دونوں شرطوں کے بغیر نہ قائم ہوسکتاہے‘ نہ باقی رہ سکتا ہے اور نہ اپنے مقصد کو پہنچ سکتا ہے۔
دنیا کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ جائیے۔ آپ کو ایک مثال بھی ایسی نہ ملے گی کہ کوئی تحریک تھڑدلے‘ منافق ‘ نافرمان اور غیر مطیع پیروئوں کے ساتھ کامیاب ہوئی ہو‘ یا بدرجہ آخر چل سکی ہو۔ تاریخ کے صفحات میں بھی جانے کی ضرورت نہیں۔ خود اپنے گرد و پیش کی دنیا ہی پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ آپ اس فوج کے متعلق کیا رائے قائم کریں گے جو اپنی سلطنت کی وفادار اور اپنے سالار لشکرکی مطیع فرمان نہ رہے‘ جس کے سپاہی فوجی ضوابط کی پابندی سے انکار کریں‘ پریڈ کا بگل بجے تو کوئی سپاہی اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ کمانڈر کوئی حکم دے تو سپاہی سنی ان سنی کر جائیں؟ کیا آپ سپاہیوں کے ایسے انبوہ کوفوج کہہ سکتے ہیں؟ کیا آپ امید کرسکتے ہیں کہ ایسی بن سری فوج کسی جنگ میں کامیاب ہوگی؟ آپ اس سلطنت کے متعلق کیا کہتے ہیں جس کی رعایا میں قانون کا احترام باقی نہ رہے‘ جس کے قوانین علی الاعلان توڑے جائیں‘ جس کے محکموں میں کسی قسم کا ضبط و نظم باقی نہ رہے‘ جس کے کارکن اپنے مقتدرِ اعلیٰ کے احکام بجا لانا چھوڑ دیں۔ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایسی رعایا اور ایسے عمال کے ساتھ کوئی سلطنت دنیا میں قائم رہ سکتی ہے؟ آج آپ کی آنکھوں کے سامنے جرمنی اور اٹلی کی مثالیں موجود ہیں۔ ہٹلر اورمسولینی نے جو عظیم الشان طاقت حاصل کی ہے تمام دنیا اُس کی معترف ہے، مگر کچھ معلوم بھی ہے کہ اس کامیابی کے اسباب کیا ہیں؟ وہی دو‘ یعنی ایمان اور اطاعت امر۔نازی اور فاشست جماعتیں ہرگز اتنی طاقت ور اور اتنی کامیاب نہیں ہوسکتی تھیں اگر وہ اپنے اصولوں پر اتنا پختہ اعتقاد نہ رکھتیں اور اپنے لیڈروں کی اس قدر سختی کے ساتھ مطیع نہ ہوتیں۔
یہ قاعدہ کلیہ ایسا ہے جس میں کوئی استثنا نہیں۔ ایمان اور اطاعت دراصل نظم کی جان ہے۔ ایمان جتنا راسخ ہوگا اور اطاعت جتنی کامل ہوگی‘ نظم اتنا ہی مضبوط اور طاقت ور ہوگا اور اپنے مقاصد تک پہنچنے میں اتنا ہی زیادہ کامیاب ہوگا۔ بخلاف اس کے ایمان میں جتنا ضُعف اور اطاعت سے جتنا انحراف ہوگا اسی قدر نظم کمزور ہوگا اور اسی نسبت سے وہ اپنے مقاصدتک پہنچنے میں ناکام رہے گا۔ یہ قطعاً ناممکن ہے کہ کسی جماعت میں نفاق‘ بد عقیدگی‘ انتشارِ خیال‘ خود سری‘ نافرمانی اور بے ضابطگی کے امراض پھیل جائیں اور پھر بھی اس میں نظم باقی رہے اور وہ کسی شعبۂ حیات میں ترقی کی طرف رواں دواں نظر آئے۔ یہ دونوں حالتیں ایک دوسرے کی نقیض({ FR 972 }) ہیں۔ دنیا جب سے آباد ہوئی ہے اس وقت سے آج تک ان دونوں کا کبھی اجتماع نہیں ہوا، اور اگر قانونِ فطرت اٹل ہے تو اس قانون کی یہ دفعہ بھی اٹل ہے کہ دونوں حالتیں کبھی یک جا جمع نہیں ہوسکتیں۔
اب ذرا اُس قوم کی حالت پر نظر ڈالیے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہے۔ نفاق اور بدعقیدگی کی کون سی قسم ایسی ہے جس کا انسان تصورکرسکتا ہو اور وہ مسلمانوں میں موجود نہ ہو۔ اسلامی جماعت کے نظام میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اسلام کی بنیادی تعلیمات تک سے ناواقف ہیں اور اب تک جاہلیت کے عقائد پر جمے ہوئے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو اسلام کے اساسی اصولوں میں شک رکھتے ہیں اور شکوک کی علانیہ تبلیغ کرتے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو علانیہ مذہب اور مذہبیت سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو خدا اور رسولﷺ کی تعلیمات کے مقابلے میں کفار سے حاصل کیے ہوئے تخیلات و افکار کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو خدا و رسولﷺ کے قوانین پر جاہلیت کے رسوم یا کفار کے قوانین کو مُقدّم رکھتے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو خدا و رسولﷺ کے دشمنوں کو خوش کرنے کے لیے شعائرِ اسلامی کی توہین کرتے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو اپنے چھوٹے سے چھوٹے فائدے کی خاطر اسلام کے مصالح({ FR 973 }) کو بڑے سے بڑا نقصان پہنچانے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں، جو اسلام کے مقابلے میں کفر کا ساتھ دیتے ہیں‘ اسلامی اغراض کے خلاف کفار کی خدمت کرتے ہیں اور اپنے عمل سے ثابت کرتے ہیں کہ اسلام ان کو اتنا ہی عزیز نہیں کہ اس کی خاطر وہ ایک بال برابر بھی نقصان گوارا کرسکیں۔ راسخ الایمان اور صحیح العقیدہ مسلمانوں کی ایک نہایت قلیل جماعت کو چھوڑ کر، اس قوم کی بہت بڑی اکثریت اسی قسم کے منافق اور فاسد العقیدہ لوگوں پر مشتمل ہے۔
یہ تو تھا ایمان کا حال۔ اب سمع و طاعت کا حال دیکھیے۔ آپ مسلمانوں کی کسی بستی میں چلے جائیے۔ آپ کو عجیب نقشہ نظر آئے گا۔ اذان ہوتی ہے مگر بہت سے مسلمان یہ بھی محسوس نہیں کرتے کہ موذن کس کو بلارہا ہے اور کس چیز کے لیے بلا رہا ہے۔ نماز کا وقت آتا ہے اور گزر جاتا ہے، مگر ایک قلیل جماعت کے سوا کوئی مسلمان اپنے کاروبار یا لہو و لعب(۲) کو یاد خدا کے لیے نہیں چھوڑتا۔ رمضان کا زمانہ آتا ہے تو بعض مسلمانوں کے گھروں میں یہ محسوس تک نہیں ہوتا کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے۔ بہت سے مسلمان علانیہ کھاتے پیتے ہیں اور اپنے روزہ نہ رکھنے پر ذرہ برابر نہیں شرماتے‘ بلکہ بس چلتا ہے تو الٹا روزہ رکھنے والوں کو شرم دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر جو لوگ روزہ رکھتے بھی ہیں ان میں سے بھی بہت کم ہیں جو احساس فرض کے ساتھ ایساکرتے ہیں‘ ورنہ کوئی محض رسم ادا کرتا ہے‘ کوئی صحت کے لیے مفید سمجھ کر رکھ لیتا ہے اور کوئی روزہ رکھ کر وہ سب کچھ کرتا ہے جس سے خدا اور اس کے رسولؐ نے منع کیا ہے۔ زکوٰۃ اور حج کی پابندی اس سے بھی کم تر ہے۔ حلال اور حرام‘ پاک اور ناپاک کا امتیاز تو مسلمانوں میں سے اٹھتا ہی چلا جاتا ہے۔ وہ کون سی چیز ہے جس کو خدا اور رسولؐ نے منع کیا ہو، اور مسلمان اس کو اپنے لیے مباح({ FR 974 }) نہ کرلیتے ہوں۔ وہ کون سی حد ہے جو خدا اور رسولؐ نے مقرر کی ہو اور مسلمان اس سے تجاوز نہ کرتے ہوں۔ وہ کون سا ضابطہ ہے جو خدا اوررسولؐ نے قائم کیا ہو اور مسلمان اس کو نہ توڑتے ہوں۔ اگر مردم شماری کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مسلمان کروڑوں ہیں مگر ان کروڑوں میں دیکھیے کہ کتنے فی صدی نہیں‘ کتنے فی ہزار، بلکہ کتنے فی لاکھ خدا اوررسولؐ کے احکام کو ماننے والے، ٹھیک ٹھیک اسلامی ضوابط کی پابندی کرنے والے ہیں۔
جس قوم میں منافقت اور ضُعفِ اعتقاد کا مرض عام ہو جائے‘ جس قوم میں فرض کا احساس باقی نہ رہے‘ جس قوم سے سمع و طاعت اور ضابطے کی پابندی اٹھ جائے‘ اس کا جو کچھ انجام ہونا چاہیے ٹھیک وہی انجام مسلمانوں کا ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ آج مسلمان تمام دنیا میں محکوم و مغلوب ہیں۔ جہاں ان کی اپنی حکومت موجود ہے‘وہاں بھی وہ غیروں کے اخلاقی‘ ذہنی اور مادی تسلط سے آزاد نہیں ہیں۔ جہالت‘ مفلسی اور خستہ حالی میں وہ ضرب المثل ہیں۔ اخلاقی پستی نے ان کو حددرجہ ذلیل کر دیا ہے۔ امانت‘ صداقت اوروفائے عہد کی صفات جن کے لیے وہ کبھی دنیا میں ممتاز تھے‘ اب ان سے دوسروں کی طرف منتقل ہو چکی ہیں‘ اور ان کی جگہ خیانت‘ جھوٹ‘ دغا اور بدمعاملگی نے لے لی ہے۔ تقویٰ‘ پرہیزگاری اور پاکیزگی اخلاق سے وہ عاری ہوتے جاتے ہیں۔ جماعتی غیرت و حمیت روز بروز ان سے مفقود ہوتی جاتی ہے۔ کسی قسم کا نظم ان میں باقی نہیں رہا ہے۔ آپس میں ان کے دل پھٹے چلے جاتے ہیں اور کسی مشترک غرض کے لیے مل کر کام کرنے کی صلاحیت ان میں باقی نہیں رہی ہے۔ وہ غیروں کی نگاہوں میں ذلیل ہوگئے ہیں۔ قوموں کا اعتماد ان پر سے اٹھ گیا ہے اور اٹھتا جارہا ہے۔ ان کی قومی اور اجتماعی قوت کمزور ہوتی جارہی ہے۔ ان کی قومی تہذیب و شائستگی فنا ہوتی چلی جارہی ہے۔ اپنے حقوق کی مدافعت اور اپنے شرفِ قومی کی حفاظت سے وہ عاجز ہوتے جارہے ہیں۔ باوجودیکہ تعلیم ان میں بڑھ رہی ہے‘ گریجویٹ اورپوسٹ گریجویٹ اوریورپ کے تعلیم یافتہ حضرات کا اضافہ ہو رہا ہے۔ بنگلوں میں رہنے والے‘ موٹروں پر چڑھنے والے‘ سوٹ پہننے والے‘ بڑے بڑے ناموں سے یاد کیے جانے والے‘ بڑی سرکاروں میں سرفرازیاں پانے والے ان میں روز بروز بڑھتے جارہے ہیں، لیکن جن اعلیٰ اخلاقی اوصاف سے وہ پہلے متصف تھے اب ان سے عاری ہیں‘ اپنی ہمسایہ قوموں پر ان کی جو ساکھ اور دھاک پہلے تھی وہ اب نہیں ہے۔ جو عزت وہ پہلے رکھتے تھے وہ اب نہیں رکھتے‘ جو اجتماعی قوت و طاقت اُن میں پہلے تھی وہ اب نہیں ہے اور آئندہ اس سے بھی زیادہ خراب آثار نظر آرہے ہیں۔
کوئی مذہب ہو یا تہذیب یا کسی قسم کا نظام جماعت ہو‘ اس کے متعلق دو ہی طرز عمل انسان کے لیے معقول ہوسکتے ہیں:
۱۔ اگر وہ اس میں داخل ہو تو اس کے اساسی اصول پر پورا پورا اعتقاد رکھے اور اس کے قانون و ضابطے کی پوری پوری پابندی کرے۔
۲۔ اور اگر ایسا نہیں کرسکتا تو اس میں داخل نہ ہو، یا ہو چکا ہے تو علانیہ اس میں سے نکل جائے۔
ان دونوں کے درمیان کوئی تیسری صورت معقول نہیں ہے۔ اس سے زیادہ نامعقول کوئی طرز عمل نہیں ہوسکتا کہ تم ایک نظام میں شریک بھی ہو‘ اس کے ایک جز بن کر بھی رہو‘ اس نظام کے تابع ہونے کا دعویٰ بھی کرو اور پھر اس کے اساسی اصولوں سے کُلاًّ یا جزء اً انحراف بھی کرو‘ اس کے قانون کی خلاف ورزی بھی کرو‘ اپنے آپ کو اس کے آداب اور اس کے ضوابط کی پابندی سے مستثنیٰ بھی کرلو۔ اس طرز عمل کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تم میں منافقانہ خصائل پیدا ہوں‘ خلوص نیت سے تمھارے دل خالی ہو جائیں، تمھارے قلوب میں کسی مقصد کے لیے گرم جوشی اور رسوخِ عزم نہ پیدا ہوسکے‘ فرض شناسی‘ اتباعِ قانون اور باضابطگی کے اوصاف سے تم عاری ہو جائو‘ اور تم میں یہ صلاحیت باقی نہ رہے کہ کسی نظام جماعت کے کار آمد رکن بن سکو۔ ان کمزوریوں اور بدترین عیوب کے ساتھ تم جس جماعت میں بھی شریک ہوگے اس کے لیے لعنت بن جائو گے۔ جس نظام میں بھی داخل ہوگے اسے درہم برہم کردو گے۔ جس تہذیب کے جسم میں داخل ہوگے اس کے لیے جذام کے جراثیم ثابت ہوگے۔ جس مذہب کے پیرو بنو گے اس کو مسخ کرکے چھوڑو گے۔ ان اوصاف کے ساتھ تمھارے مسلمان ہونے سے بدرجہا بہتر یہ ہے کہ جس گروہ کے اصولوں پر تمھارا دل ٹھکے اور جس گروہ کے طریقوں کی تم پوری طرح پیروی کرسکو اسی میں جا شامل ہو۔ منافق مسلمان سے تو وہ کافر بہتر ہیں جو اپنے مذہب اور اپنی تہذیب کے دل سے معتقد ہوں اور اس کے ضوابط کی پابندی کریں۔
جو لوگ مسلمانوں کے مرض کا علاج تعلیم مغربی اور تہذیب جدید اور اقتصادی حالات کی اصلاح اور سیاسی حقوق کے حصول کو سمجھتے تھے وہ غلطی پر تھے‘ اور اب بھی جو ایسا سمجھ رہے ہیں وہ غلطی کر رہے ہیں۔ بخدا اگر مسلمانوں کا ہر فرد ایم اے اور پی ایچ ڈی اور بیرسٹر ہو جائے‘ دولت و ثروت سے مالا مال ہو‘ مغربی فیشن سے از سر تا قدم آراستہ ہو‘ اور حکومت کے تمام عہدے اور کونسلوں کی تمام نشستیں مسلمانوں ہی کو مل جائیں‘ مگر ان کے دل میں نفاق کا مرض ہو‘ وہ فرض کو فرض نہ سمجھیں‘ وہ نافرمانی، سرکشی اور بے ضابطگی کے خوگر ہوں‘ تو اسی پستی اور ذلت اور کمزوری میں اس وقت بھی مبتلا رہیں گے جس میں آج مبتلا ہیں۔ تعلیم‘ فیشن‘ دولت اور حکومت‘ کوئی چیز ان کو اس گڑھے سے نہیں نکال سکتی جس میں وہ اپنی سیرت اور اپنے اخلاق کی وجہ سے گر گئے ہیں۔ اگر ترقی کرنی ہے اور ایک طاقت وَر باعزت جماعت بننا ہے تو سب سے پہلے مسلمانوں میں ایمان اور اطاعت امر کے اوصاف پیدا کرو کہ اس کے بغیر نہ تمھارے افراد میں کس بل پیدا ہوسکتا ہے‘ نہ تمھاری جماعت میں نظم پیدا ہوسکتا ہے‘ اور نہ تمھاری اجتماعی قوت اتنی زبردست ہوسکتی ہے کہ تم دنیا میں سربلند ہو سکو۔ ایک منتشر جماعت جس کے افرادکی اخلاقی اور معنوی حالت خراب ہو‘ کبھی اس قابل نہیں ہوسکتی کہ دنیا کی منظم اور مضبوط قوموں کے مقابلے میں سر اٹھا سکے۔ پھوس({ FR 975 }) کے پولوں(۲) کا انبار خواہ کتنا ہی بڑا ہو‘ کبھی قلعہ نہیں بن سکتا۔
اسلام اور مسلمانوں کے بدترین دشمن وہ ہیں جو مسلمانوں میں بدعقیدگی اور نافرمانی پھیلا رہے ہیں۔ یہ منافقوں کی سب سے زیادہ بری قسم ہے جس کا وجود مسلمانوں کے لیے حربی کافروں سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہ باہر سے حملہ نہیں کرتے بلکہ گھر میں بیٹھ کر اندر ہی اندر ڈائنامائٹ بچھاتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کو دین اور دنیا دونوں میں رسوا کرناچاہتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ وہ تمھیں بھی اسی طرح کافر بنانا چاہتے ہیں جس طرح وہ خود ہوگئے ہیں: وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَآئً النسائ4:89 وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیںاسی طرح تم بھی کافر ہو جائو تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہو جائیں۔
ان کے شر سے بچنے کی کم سے کم تدبیر یہ ہے کہ جو لوگ دل سے مسلمان ہیں اور مسلمان رہنا چاہتے ہیں وہ ان سے قطع تعلق کرلیں: فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِیَآئَ۔ النسائ4:89، لہٰذا اُن میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بنائو ورنہ قرآن نے تو ان کی آخری سزا یہ قرار دی ہے کہ ان سے جنگ کی جائے:
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْھُمْ وَاقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ النسائ4:89
(ترجمان القرآن، رمضان ۱۳۵۳ھ۔ نومبر ۱۹۳۴ء)


۱۶۔ مسلمان کا حقیقی مفہوم

ہماری روز مرہ کی بول چال میں بعض ایسے الفاظ اور فقرے رائج ہیں جن کو بولتا تو ہر شخص ہے‘مگر سمجھتے بہت کم ہیں۔ کثرتِ استعمال نے ان کا ایک اجمالی مفہوم لوگوں کے ذہن نشین کر دیا ہے۔ بولنے والا جب ان الفاظ کو زبان سے نکالتا ہے تو وہی مفہوم مراد لیتا ہے، اور سننے والا جب انھیں سنتا تو اسی مفہوم کو سمجھتا ہے، لیکن وہ گہرے معانی جن کے لیے واضع نے ان الفاظ کو وضع کیا تھا‘ جہلا تو درکنار اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی معلوم نہیں ہوتے۔
مثال کے طور پر ’اسلام‘ اور ’مسلمان‘ کو لیجیے۔ کس قدرکثرت سے یہ الفاظ بولے جاتے ہیں اور کتنی ہمہ گیری کے ساتھ انھوں نے ہماری زبانوں پر قبضہ کرلیا ہے؟ مگر کتنے بولنے والے ہیں جو ان کو سوچ سمجھ کربولتے ہیں؟ اور کتنے سننے والے ہیں جو انھیں سن کر وہی مفہوم سمجھتے ہیں جس کے لیے یہ الفاظ وضع کیے گئے تھے؟ غیر مسلموں کو جانے دیجیے۔ خود مسلمانوں میں ۹۹فی صدی بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمی ایسے ہیں جو اپنے آپ کو’مسلمان‘ کہتے ہیں اور اپنے مذہب کو اسلام کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیںمگر نہیں جانتے کہ مسلمان ہونے کے معنی کیا ہیں اور لفظ ’اسلام‘ کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟ آئیے آج تھوڑا سا وقت ہم انھی الفاظ کی تشریح میں صَرف کریں۔
اعتقاد اور عمل کے لحاظ سے اگر آپ لوگوں کے احوال پر نگاہ ڈالیں گے تو عموماً تین قسم کے لوگ آپ کو ملیں گے:
٭ ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو علانیہ آزادیِ رائے اور آزادیِ عمل کے قائل ہیں۔ ہر معاملے میں خود اپنی رائے پر اعتماد کرتے ہیں۔ صرف اپنی عقل کے فیصلوں کو صحیح سمجھتے ہیں، اور وہی طریق کار اختیار کرتے ہیں جو ان کے اپنے خیال میں صحیح ہوتا ہے۔ کسی مذہب کی پیروی سے ان کو کچھ سروکار نہیں ہوتا۔
٭ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو بظاہر کسی مذہب کو مانتے ہیں مگر حقیقت میں پیروی اپنے ہی خیالات کی کرتے ہیں۔ وہ اپنے عقائد اور قوانین عمل کے لیے مذہب کی طرف رجوع نہیں کرتے بلکہ خود اپنی طبیعت کے رجحان یا دلچسپی یا اغراض و حاجات کے لحاظ سے کچھ عقائد اپنے ذہن میں جما لیتے ہیں‘ عمل کے کچھ طور طریقے اختیار کرلیتے ہیں اور پھر کوشش کرتے ہیں کہ مذہب کو ان کے مطابق ڈھال لیں‘ گویا درحقیقت وہ مذہب کے پیرو نہیں ہوتے بلکہ مذہب ان کا پیرو ہوتا ہے۔
٭ تیسری قسم میں وہ لوگ ہیں جو خود اپنی سمجھ بوجھ سے کام نہیں لیتے۔ اپنی عقل کو معطل رکھتے ہیں اور آنکھیں بند کرکے دوسروں کی تقلید کرنے لگتے ہیں، خواہ وہ ان کے باپ دادا ہوں‘ یا اُن کے ہم عصر۔
پہلا گروہ آزادی کے نام پر مرتا ہے مگر نہیں جانتا کہ اس کے صحیح حدود کیا ہیں۔ فکر و عمل کی آزادی بلاشبہ ایک حد تک صحیح ہے، مگر جب وہ اپنی حد سے تجاوز کر جاتی ہے تو گمراہی بن جاتی ہے۔ جو شخص ہر معاملے میں صرف اپنی رائے پر اعتماد کرتا ہے‘ ہر مسئلے میں صرف اپنی عقل کا حکم مانتا ہے‘ وہ دراصل اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ اس کے علم اور اس کی عقل نے دنیا بھر کے تمام امور کا احاطہ کرلیا ہے۔ کوئی حقیقت اور مصلحت اس کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ہر منزل کی راہ و رسم سے وہ باخبر ہے۔ ہر مسلک کی پیچیدگیوں کا اُسے علم ہے۔ ہر رستے کی انتہا کو بھی وہ اسی طرح جانتا ہے جس طرح اس کی ابتدا کو۔ یہ علم اور ہوش مندی کا زعم درحقیقت ایک زعمِ باطل ہے، اور اگر انسان صحیح معنوں میں خود اپنی عقل کو حَکم بنائے تو خود عقل ہی یہ کہہ دے گی کہ میرا اندھا مُقلّد مجھ کو جن صفات سے متصف سمجھتا ہے‘ حقیقتًا میں ان سے متصف نہیں ہوں۔ مجھ کو اپنا واحد رہنما سمجھنے والا‘ صرف میری رہنمائی میں زندگی کی راہ طے کرنے والا ٹھوکروں‘ لغزشوں‘ گمراہیوں اورہلاکتوں سے کبھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔
اس قسم کی حریتِ فکر و عمل‘ تمدن و تہذیب کے لیے بھی مہلک ہے۔ حریت کا اقتضا یہ ہے کہ ہر شخص وہی اعتقاد رکھے جو خود اس کے اپنے خیال میں صحیح ہو، اور اسی راہ پر چلے جو اس کی اپنی عقل کے مطابق درست ہو۔ تمدن و تہذیب کااقتضایہ ہے کہ ایک نظام تمدن میں جتنے لوگ ہیں وہ سب چند بنیادی عقائد و افکار میں متفق ہوں اور اپنی عملی زندگی میں ان مخصوص اطوار و آداب اور قوانین کی پیروی کریں جو حیات اجتماعی کی تنظیم کے لیے مقرر کر دیے گئے ہیں۔ پس حریت فکر و عمل اور تمدن و تہذیب میں کھلی ہوئی منافات ہے۔ حریت افراد میں خودسری‘ بے قیدی اور انار کی پیدا کرتی ہے۔ تمدن اُن سے اتباع‘ پیروی اور تسلیم و اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے۔ جہاں کامل حریت ہوگی وہاں تمدن نہ ہوگا، اور جہاں تمدن ہوگا وہاں افراد کو ایک بڑی حد تک حریت فکر و عمل سے دست کش ہونا پڑے گا۔
دوسرے گروہ کا حال پہلے گروہ سے زیادہ برا ہے۔ پہلا گروہ صرف گمراہ ہے۔ دوسرا گروہ اس کے ساتھ جھوٹا‘ منافق‘ دھوکے باز اور بدطینت({ FR 1028 }) بھی ہے۔ اگر تاویل کے جائز حدود میں رہ کر ایک شخص اپنے مذہب اور اپنے تخیلات و رجحانات میں موافقت پیدا کرسکتا ہو تو حریت فکر و عمل کے ساتھ مذہب کا اتباع ممکن ہے۔ اگر انسان کے اپنے رجحانات مذہب کے خلاف ہوں اور اس کے باوجود وہ مذہب کو صحیح اور اپنے رجحانات کو غلط سمجھتا ہو‘ تب بھی ایک حد تک اس کا یہ دعویٰ صحیح ہوگا کہ وہ واقعی اس مذہب کو مانتا ہے جس کی پیروی کا دعویٰ کر رہا ہے‘ لیکن اگر مذہب کی واضح تعلیمات سے اس کے عقائد اور اعمال صریحاً مختلف ہوں اور وہ اپنے خیالات کو صحیح اور مذہب کی تعلیم کو غلط سمجھتا ہو اور پھر وہ اپنے آپ کو مذہب کے دائرے میں شامل رکھنے کے لیے مذہبی تعلیمات کو اپنے خیالات اورطورطریقوں کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کرے تو ایسے شخص کو ہم کودن(۲) نہیں کہیں گے کیونکہ کودن سے اتنی ہوشیاری کاکام کہاں بن آتا ہے؟ ہمیں مجبوراً اس کو بے ایمان کہنا پڑے گا۔ ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ اس میں مذہب سے علانیہ بغاوت کرنے کے لیے کافی اخلاقی جرأت نہیں ہے اس لیے وہ منافقت کی راہ سے مذہب کا پیرو بنتا ہے‘ ورنہ کون سی چیز اس کے لیے ایک ایسے مذہب کو چھوڑ دینے میں مانع ہے جس کی تعلیمات اس کی عقل کے فیصلوں کے خلاف ہیں‘ اس کے حقیقی افکارو عقائد کی ضد واقع ہوئی ہیں، اور اسے ان طریقوں پر چلنے سے روکتی ہیں جن پر وہ سچے دل سے چلنا چاہتا ہے اورواقع میں چل بھی رہا ہے۔
تیسرا گروہ اپنے مرتبۂ عقلی کے لحاظ سے سب سے زیادہ فروتر(۳) ہے۔ پہلے دونوں گروہوں کی غلطی تو یہ ہے کہ وہ عقل سے اتنا کام لیتے ہیں جتنا وہ نہیں کرسکتی، اور اس گروہ کی غلطی یہ ہے کہ سرے سے عقل سے کام ہی نہیں لیتا، یا لیتا ہے تو اتنا کم کہ نہ لینے کے برابر۔ ایک صاحب عقل انسان کے لیے اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ کسی عقیدے کا معتقد ہو اور اس اعتقاد کے حق میں اس کے پاس اس کے سوا اور کوئی دلیل نہ ہو کہ اس کے باپ دادا بھی یہی اعتقاد رکھتے تھے، یا فلاں قوم جو بڑی ترقی یافتہ ہے‘ وہ بھی اسی عقیدے کی معتقد ہے۔ اسی طرح جو شخص اپنے دینی یا دنیاوی معاملات میں بعض طریقوں کی صرف اس لیے پیروی کرتا ہو کہ باپ دادا سے وہی طریقے چلے آرہے ہیں‘ یا بعض طریقوں کو صرف اس بنا پر اختیار کرتا ہو کہ اس کے عہد کی غالب قوموں میں وہی طریقے رائج ہیں‘ وہ دراصل اس امر کا ثبوت دیتا ہے کہ خود اس کے جمجمہ({ FR 1035 }) میں دماغ اور دماغ میں سوچنے کی قابلیت نہیں ہے۔ اس کے پاس خود کوئی ایسی قوت نہیں ہے جس سے وہ صحیح اور غلط میں تمیز کرسکتا ہو۔ اتفاقاً وہ ہندو گھرانے میں پیدا ہوگیا اس لیے ہندو مذہب کو صحیح سمجھتا ہے۔ اگر مسلمان گھر میں پیدا ہوتا تو اسلام کو برحق مانتا۔ اگر عیسائی کی اولاد ہوتا تو عیسائیت پر جان دیتا۔ اسی طرح یہ بھی اتفاق ہے کہ اس کے عہد میں فرنگی قومیں برسر اقتدار ہیں اس لیے وہ فرنگی طور طریقوں کو معیار تہذیب سمجھتا ہے۔ اگر چینی برسر اقتدار ہوتے تو یقیناً اس کے نزدیک چینی طور طریقے معیار تہذیب ہوتے اور اگر آج دنیا پر افریقہ کے حبشیوں کا تسلط ہو جائے تو کوئی شک نہیں کہ یہ خفیف العقل(۲) انسان حبشیت کو انسانیت کا عطر سمجھنے لگے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے صحیح یا برحق ہونے کے لیے یہ کوئی دلیل ہی نہیں ہے کہ بزرگوں سے ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے‘ یا دنیا میں آج کل ایسا ہی ہو رہا ہے۔ دنیا میں تو پہلے بھی حماقتیں ہوئی ہیں اور اب بھی ہو رہی ہیں۔ ہمارا کام ان حماقتوں کی اندھا دھند پیروی کرنا نہیں ہے۔ ہمارا کام یہ نہیں کہ آنکھیں بند کرکے قدیم یا جدید زمانے کے ہر طریقے کی پیروی کرنے لگیں اور ہر راہ رَو کے دامن سے دامن باندھ کر چل کھڑے ہوں، خواہ وہ کانٹوں کی طرف جارہا ہو، یا خندق کی طرف۔ ہمیں خدا نے عقل اسی لیے دی ہے کہ دنیا کے اچھے بُرے میں تمیز کریں‘ کھوٹے اور کھرے کو پرکھ کر دیکھیں‘ کسی کو رہنما بنانے سے پہلے اچھی طرح دیکھ لیں کہ وہ کدھر جانے والا ہے۔
اسلام ان تینوں گروہوں کو غلط کار ٹھہراتا ہے۔
پہلے گروہ کے متعلق وہ کہتا ہے کہ نہ تو یہ لوگ کسی روشنی والے کو ہادی اور رہنما مانتے ہیں‘ نہ ان کے پاس خود ہی حق کا نور ہے کہ اس کے اجالے میں راہ طے کریں۔ ان کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو اندھیرے میں محض اندازے اور اٹکل سے چل رہا ہو۔ ممکن ہے کہیں سیدھے رستے چلے‘ اور ممکن ہے کہیں گڑھے میں جا پڑے‘ اس لیے کہ اندازہ کوئی یقینی چیز نہیں ہے۔ اس میں صحت اور غلطی دونوں کا امکان ہے بلکہ زیادہ تر امکان غلطی ہی کا ہے:
۱۔ وَمَا يَتَّبِـــعُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ شُرَكَاۗءَ۝۰ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَo یونس 66:10
جو لوگ خدا کے سوا دوسروں کو خدائی کا حصہ دار ٹھہراتے اور ان کو پکارتے ہیں جانتے ہو کہ وہ کسی چیز کے پیرو ہیں؟ وہ صرف گمان کے پیرو ہیں اور محض اندازے پر چلتے ہیں۔
۲۔ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنَّ الظَّنَّ لاَ یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا النجم53:28
وہ محض گمان پر چلتے ہیں اور گمان کا حال یہ ہے کہ وہ حق کی ہدایت سے ذرہ برابر بھی بے نیاز نہیں کرتا۔
۳۔ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَی الْاَنْفُسُ وَلَقَدْ جَآئَ ہُمْ مِّنْ رَّبِّہِمُ الْہُدٰیo اَمْ لِلْاِنْسَانِ مَا تَمَنّٰی النجم53:23-24
وہ گمان اور اپنے نفس کی خواہشات کے سوا کسی اور چیز کی پیروی نہیں کرتے حالانکہ ان کے پروردگارکی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔ کیا انسان کے لیے وہی چیز حق ہے جس کی وہ تمنا کرے۔
۴۔ اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــہَہٗ ہَوٰىہُ وَاَضَلَّہُ اللہُ عَلٰي عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰي سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰي بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً۝۰ۭ فَمَنْ يَّہْدِيْہِ مِنْۢ بَعْدِ اللہِ۝۰ۭ الجاثیہ45:23
کیا تو نے دیکھا اس شخص کو جس نے اپنے نفس کی خواہشات کو اپنا خدا بنا لیا؟ باوجودیکہ وہ علم رکھتا ہے مگر اللہ نے اسے گمراہ کر دیا۔ اس کے کانوں اور اس کے دل پر مہر لگا دی۔ اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب اللہ کے بعد کون ہے جو اس کی رہنمائی کرے گا۔
۵۔ وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوٰہُ بِغَیْرِ ھُدًی مِّنَ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
القصص28: 50
اور اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوگا جس نے اللہ کی ہدایت کے بجائے اپنے نفس کی پیروی کی؟ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ کبھی ہدایت نہیں دیتا۔
نزولِ قرآن کے زمانے میں دوسرے گروہ کے نمائندے بنی اسرائیل تھے۔ اپنے آپ کو موسوی اور متبع تورات کہا کرتے تھے، مگرعقائد اور معاملات میں اکثر و بیش تر موسیٰ علیہ السلام کے طریقے اور تورات کی تعلیم کے خلاف تھے۔ اس پر لطف یہ تھا کہ اپنے اس انحراف پر نادم بھی نہ تھے۔ بجائے اس کے کہ اپنے خیالات اور اعمال کو تورات کے مطابق ڈھالتے وہ تورات میں لفظی و معنوی تحریفیں کرکے اس کو اپنے افکار و اعمال کے مطابق ڈھال لیا کرتے تھے۔ تورات کی اصلی تعلیمات کو چھپا کر اپنے خیالات کو اس طرح پیش کرتے تھے کہ گویا وہی دراصل تورات کی تعلیمات ہیں۔ خدا کے جو بندے انھیں اس گمراہی پر متنبہ کرتے اور ان کی خواہشات کے خلاف کلام الٰہی کے اتباع کی دعوت دیتے تھے‘ ان کو وہ گالیاں دیتے‘ جھوٹا قرار دیتے‘ حتیٰ کہ قتل تک کردیتے تھے۔ ان کے متعلق قرآن کہتا ہے:
۱۔ يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ۝۰ۙ وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِہٖ۝۰ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰي خَاۗىِٕنَۃٍ مِّنْہُمْ المائدہ 13:5
وہ الفاظ کو ان کے مواقع سے پھیر دیتے ہیں اور انھوں نے بہت سی ان نصیحتوں کو بھلا دیا ہے جو انھیں کی گئی تھیں۔ تمھیں برابر ان کی کسی نہ کسی چوری کی اطلاع ملتی رہتی ہے۔ اس خیانت سے ان کے بہت کم آدمی بچے ہوئے ہیں۔
۲۔ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo
آل عمران3: 71
اے اہل کتاب! تم کیوں حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کرتے ہو اور کیوں جانتے بوجھتے حق پر پردہ ڈالتے ہو۔
۳۔ كُلَّمَا جَاۗءَہُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَہْوٰٓى اَنْفُسُہُمْ۝۰ۙ فَرِيْقًا كَذَّبُوْا وَفَرِيْقًا يَّقْتُلُوْنَo
المائدہ5: 70
جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول ایسا پیغام لے کر آیا جو اُن کے نفس کی خواہشوں کے مطابق نہ تھا‘ تو کسی کو انھوں نے جھٹلایا اور کسی کو قتل کر دیا۔
اور پھر ان سے صاف کہہ دیتا ہے:
۴۔ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۭ
المائدہ 68:5
تم ہر گز راہ راست پر نہیں ہو‘ تاوقتیکہ تورات اور انجیل کوقائم نہ کرو اور اس کتاب کو نہ مانو جو تمھارے رب کے پاس سے تمھاری طرف اتاری گئی، (یعنی قرآن)
تیسرے گروہ کے متعلق قرآن کہتا ہے:
۱۔ وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۝۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَo البقرہ 170:2
اور جب ان سے کہا گیا کہ اس ہدایت پر چلو جو اللہ نے اتاری ہے تو انھوں نے کہا کہ نہیں ہم تو اسی طریقے پر چلیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا وہ اپنے باپ دادا ہی کی پیروی کریں گے چاہے وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں اور راہ راست پر نہ ہوں۔
۲۔ وَاِذَا قِيْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۝۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَo المائدہ 104:5
اور جب ان سے کہا گیا کہ آئو اس چیز کی طرف جو اللہ نے اتاری ہے‘ اور آئو رسول کی طرف تو انھوں نے کہا کہ ہمارے لیے کافی ہے جس پرہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا وہ طریقہ اس صورت میں بھی اُن کے لیے کافی ہے جب کہ ان کے باپ دادا کچھ نہ جانتے ہوں اور راہ راست پر نہ ہوں۔
۳۔ وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ہُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَo الانعام 116:6
اور اگرتو نے بہت سے ان لوگوں کی پیروی کی جو زمین میں ہیں تو وہ تجھے اللہ کے رستے سے بھٹکا دیں گے۔ وہ تو محض گمان پرچلتے ہیں اور ان کا طریقہ بالکل اٹکل اور اندازے پر ہے۔
جو لوگ خود اپنی عقل و فہم سے کام نہیں لیتے‘ خود کھوٹے اور کھرے کو نہیں پرکھتے‘ آنکھیں بند کرکے دوسروں کی تقلید کرتے ہیں۔ ان کو قرآن اندھا‘ گونگا‘ بہرہ بے عقل قرار دیتا ہے:
صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْيٌ فَہُمْ لَا يَعْقِلُوْنَo البقرہ 171:2
اور انھیں جانوروں سے تشبیہ دیتا ہے بلکہ ان سے بھی بدتر‘ کیونکہ جانور تو عقل رکھتا ہی نہیں اور وہ عقل رکھتے ہیں مگر اس سے کام نہیں لیتے:
اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَo الاعراف 179:7
ان تینوں گروہوں کو جن کے طریقے افراط و تفریط پر مبنی ہیں‘ رد کر دینے کے بعد قرآن ایسے لوگوں کا ایک گروہ بنانا چاہتا ہے جو اعتدال اور توسط({ FR 978 }) کی راہ پر ہوں‘ اُمَّۃً وَّسَطًا البقرہ 143:2 ہوں‘ قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ النسا135:4 ہوں۔
یہ اعتدال اور توسط کی راہ کیا ہے؟ یہ کہ پہلے تم ان سب پردوں کو چاک کر دو جو قدیم روایات اور جدید تعلیمات نے تمھاری آنکھوں کے سامنے ڈال رکھے ہیں‘ عقل سلیم کی صاف روشنی میں آنکھیں کھولو اور دیکھو کہ کیا چیز حق ہے اور کیا چیز باطل؟ دہریت صحیح ہے یا خدا پرستی؟ توحید صحیح ہے یا شرک؟ انسان راہ راست پر چلنے کے لیے خدا کی ہدایت کا محتاج ہے یا نہیں ہے؟ انبیاء علیہم السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے تھے یا معاذ اللہ جھوٹے؟ قرآن جس طریقے کو پیش کرتا ہے وہ سیدھا ہے یا ٹیڑھا؟ اگر تمھارا دل گواہی دے کہ خدا کو ماننا انسانی فطرت کا عین مقتضی ہے اور خدا حقیقت میں وہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے‘ اگر تمھارا ضمیر تسلیم کرے کہ انسان سیدھی راہ پانے کے لیے خدا کی بخشی ہوئی روشنی کا یقیناً محتاج ہے اور یہ روشنی وہی ہے جو نوعِ بشری کے سچے رہبر انبیاء علیہم السلام لے کر آئے ہیں۔اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کو دیکھ کر تم کو یقین آجائے کہ اس اعلیٰ سیرت کا انسان ہرگز دنیا کو دھوکہ نہیں دے سکتا اور انھوں نے جب رسول خداؐ ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو وہ ضرور اپنے دعوے میں سچے ہیں۔ اگر قرآن کا مطالعہ کرکے تمھاری عقل یہ فیصلہ کر دے کہ انسان کے لیے اعتقاد اور عمل کا سیدھا راستہ وہی ہے جو اس کتاب نے پیش کیا ہے اور یہ کتاب یقیناً کتاب الٰہی ہے‘ تو تمام دنیا کی ملامت و مخالفت سے بے خوف ہو کر ہر انسان کے ڈر اور فائدے کے لالچ سے دل کو پاک کر کے اس چیز پر ایمان لے آئو جس کی صداقت پر تمھارا ضمیر گواہی دے رہا ہے۔
پھر جب تم نے عقل سلیم کی مدد سے حق اور باطل میں تمیز کرلی‘ اور باطل کو چھوڑ کر حق پر ایمان لے آئے‘ تو عقل کے امتحان اور اس کی تنقید کاکام ختم ہوگیا۔ ایمان لانے کے بعد فیصلہ کرنے اور حکم دینے کا اختیار عقل سے خدا اور اس کے رسولؐ اور اس کی کتاب کی طرف منتقل ہوگیا۔ اب تمھارا کام فیصلہ کرنا نہیں بلکہ ہر اس حکم کے آگے سر جھکا دینا ہے جو خدا اور اس کے رسولؐ نے تم کو دیا ہے۔ تم اپنی عقل کو اُن احکام کے سمجھنے‘ اُن کی باریکیوں اور حکمتوں تک پہنچنے‘ اور اُن کو اپنی زندگی کے جزئیات پر منطبق کرنے میں استعمال کرسکتے ہو، مگر کسی حکم خداوندی میں چون و چرا کرنے کا حق تم کو نہیں ہے‘ خواہ کسی حکم کی مصلحت تمھاری سمجھ میں آئے یا نہ آئے‘ خواہ کوئی حکم تمھاری عقل کے معیار پر پورا اترے یا نہ اترے‘ خواہ اللہ کا ارشاد اور رسولؐ کا فرمان دنیا کے رسم و رواج اور طور طریقوں کے مطابق ہو یا منافی۔ تمھارا کام بہرحال اس کے آگے سر جھکا دینا ہے، کیونکہ جب تم نے خدا کو مان لیا‘ رسولؐ کو خدا کا رسولؐ تسلیم کرلیا اور یقین کرلیا کہ خدا کا رسولؐ جو کچھ پیش کرتا ہے خدا کی طرف سے پیش کرتا ہے‘ اپنے دل سے گھڑی ہوئی کوئی بات پیش نہیں کرتا وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰىo اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰىo النجم53:3-4 تو اس یقین و اذعان({ FR 979 }) کا عقلی تقاضا یہ ہے کہ تم خود اپنی عقل کے فیصلوں پر کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کے فیصلوں کو ترجیح دو، اور جو عقائد یا امر و نہی کے احکام خدا کی طرف سے خدا کے رسولؐ نے بیان کیے ہیں ان کو اپنی عقل‘ اپنے علم‘ اپنے تجربات‘ یا دوسرے اہل دنیا کے افکار و اعمال کے معیار پر جانچنا چھوڑ دو۔ جو شخص کہتا ہے کہ میں مومن ہوں اور پھر چون و چرا بھی کرتا ہے‘ وہ اپنے قول کی آپ تردید کرتا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ ایمان اور چون و چرا میں کھلا ہوا تضاد ہے۔ اس کو معلوم نہیں کہ ڈسپلن صرف ماننے اور اطاعت کرنے سے قائم ہوتا ہے۔ چون و چرا کا دوسرا نام انار کی(۲) ہے۔
اسی اعتدال اور تَوَسُّط کے طریقے کا نام اسلام ہے اور جو گروہ اس راستے پر چلتا ہو اُس کا نام مسلم ہے۔
اسلام کے معنی انقیاد‘ (۳)اطاعت اور تسلیم کے ہیں، اور مسلم وہ ہے جو حکم دینے والے کے امر اور منع کرنے والے کی نہی کو بلا اعتراض تسلیم کرے۔ پس یہ نام خود ہی اس حقیقت کا پتہ دے رہا ہے کہ ان تینوں گروہوں اور ان کے طریقوں کو چھوڑ کر یہ چوتھا گروہ ایک نئے مسلک کے ساتھ اسی لیے قائم کیا گیا ہے کہ یہ خدا اور رسولؐ کے حکم کو مانے اور اس کے آگے سر جھکا دے۔ اس گروہ کاکام یہ نہیں ہے کہ ہر معاملے میں صرف اپنی عقل کی پیروی کرے‘ نہ یہ ہے کہ احکام الٰہی میں سے جو کچھ اس کی اغراض کے مطابق ہو اس کو مانے اور جو اغراض کے خلاف ہو اس کو رد کر دے‘ نہ یہ کہ کتاب اللّٰہ اور سنت رسولؐ کو چھوڑ کر انسانوں کی اندھی تقلید کرے، خواہ وہ انسان مردہ ہوں یا زندہ۔
اب اس بات میں قرآن مجید کی تصریحات بالکل صاف ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ جب کسی معاملے میں خدا اور رسولؐ کا حکم آجائے تو مومنوں کو ماننے یا نہ ماننے کا اختیار باقی نہیں رہتا:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۝۰ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًاo الاحزاب 36:33
کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب کسی معاملے میں اللہ اور اس کا رسولؐ فیصلہ کر دے تو ان کے لیے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہے۔ جس نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کی وہ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔
وہ کہتا ہے کہ کتاب اللہ میں سے کچھ کو ماننا اور کچھ کو رد کر دینا‘ دنیا اور آخرت میںرسوا کن ہے:
اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ۝۰ۚ فَمَا جَزَاۗءُ مَنْ يَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يُرَدُّوْنَ اِلٰٓى اَشَدِّ الْعَذَابِ۝۰ۭ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَo البقرہ 85:2
کیا تم کتاب کی بعض باتوں کو مانتے ہو اور بعض کو نہیں مانتے؟ تم میں سے جو کوئی ایسا کرتا ہے اس کی سزا بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ دنیا کی زندگی میں اس کی رسوائی ہو اور آخرت میں ایسے لوگ شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں گے۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔
وہ کہتا ہے کہ فیصلہ صرف کتاب الٰہی کے مطابق ہونا چاہیے‘ خواہ وہ لوگوں کی خواہشات کے مطابق ہو یا نہ ہو:
فَاحْكُمْ بَيْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَہُمْ عَمَّا جَاۗءَكَ مِنَ الْحَقِّ۝۰ۭ
المائدہ 48:5
تُو ان کے درمیان اسی کتاب کے مطابق فیصلہ کر جو اللہ نے اتاری ہے اور جو حق تیرے پاس اللہ کی طرف سے آیا ہے اس کو چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کر۔
وہ کہتا ہے کہ جو شخص کتاب اللہ کے موافق فیصلہ نہیں کرتا وہ فاسق ہے:
وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ المائدہ5:47
اور ہر فیصلہ جو کتاب الٰہی کے خلاف ہے‘ جاہلیت کا فیصلہ ہے:
اَفَحُكْمَ الْجَاہِلِيَّۃِ يَبْغُوْنَ۝۰ۭ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَoالمائدہ 50:5
تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیںاُن کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
وہ کہتا ہے:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی، اور اطاعت کرو رسولؐ کی، اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں۔ پھر اگر تمھارے درمیان میں کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اُسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو ،اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
اے نبیؐ! تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اُس کتاب پر جو تمھاری طرف نازل کی گئی ہے اور اُن کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں، حالانکہ انھیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شیطان انھیں بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے، اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو اُس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آئو رسولؐ کی طرف تو اُن منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمھاری طرف آنے سے کتراتے ہیں……
(انھیں بتائو کہ) ہم نے جو رسولؐ بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اذنِ خداوندی کی بنا پر اُس کی اطاعت کی جائے……
نہیں، اے محمدؐ! تمھارے رب کی قسم! یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اُس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں،بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں۔
(النساء۴:۵۹۔۶۰۔۶۱،۶۴۔۶۵)
ان تصریحات سے ’اسلام‘ اور ’مسلم ‘کی وجہ تسمیہ معلوم ہوگئی۔ اب ہم سب لوگوں کو جنھوں نے مردم شماری میں اپنے آپ کو مسلم لکھوایا ہے غور کرنا چاہیے کہ ہم پر لفظ مسلم کا اطلاق کس حد تک ہوتا ہے اور جس طریقے پر ہم چل رہے ہیں اس کو اسلام سے تعبیر کرنا کہاں تک درست ہے؟ (ترجمان القرآن، رجب۱۳۵۲ھ۔ نومبر ۱۹۳۳ء)


 

 

۱۷۔ مسلمان کی طاقت کا اصلی منبع

دوسری صدی ہجری کی ابتدا کا واقعہ ہے کہ سجستان و رُ خَّج ({ FR 980 })کے فرماں رواں نے جس کا خاندانی لقب رتبیل تھا، بنی امیہ کے عُمّال کو خراج دینا بند کر دیا۔ پیہم چڑھائیاں کی گئیں، مگر وہ مطیع نہ ہوا۔ یزید بن عبدالمالک اموی کے عہد میں جب اس کے پاس طلبِ خراج کے لیے سفارت بھیجی گئی تو اس نے مسلمانوں کے سفرا سے دریافت کیا:
وہ لوگ کہاں گئے جو پہلے آیا کرتے تھے؟ ان کے پیٹ فاقہ زدوں کی طرح پٹخے ہوئے ہوتے تھے۔ پیشانیوں پر سیاہ گٹے پڑے رہتے تھے اور کھجوروں کی چپلیں پہنا کرتے تھے۔
کہا گیا کہ وہ لوگ تو گزر گئے۔
رتبیل نے کہا: اگرچہ تمھاری صورتیں ان سے زیادہ شان دار ہیں‘ مگر وہ تم سے زیادہ عہد کے پابند تھے، تم سے زیادہ طاقت وَرتھے۔
مورخ لکھتا ہے کہ یہ کہہ کر رتبیل نے خراج ادا کرنے سے انکار کر دیا اور تقریباً نصف صدی تک اسلامی حکومت سے آزاد رہا۔
یہ اس عہد کا واقعہ ہے جب تابعین و تبع تابعین کثرت سے موجود تھے۔ ائمہ مجتہدین کا زمانہ تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کو صرف ایک صدی گزری تھی۔ مسلمان ایک زندہ اور طاقت وَر قوم کی حیثیت سے دنیا پر چھا رہے تھے‘ ایران‘ روم‘ مصر‘ افریقہ‘ اسپین وغیرہ ممالک کے وارث ہو چکے تھے اور ساز و سامان‘ شان و شوکت‘ اور دولت و ثروت کے اعتبار سے اس وقت دنیا کی کوئی قوم ان کی ہم پلہ نہ تھی۔ یہ سب کچھ تھا۔ دلوں میں ایمان بھی تھا، احکام شریعت کی پابندی اب سے بہت زیادہ تھی‘ سمع و طاعت کا نظام قائم تھا،پوری قوم میں ایک زبردست ڈسپلن پایا جاتا تھا، مگر پھر بھی جو لوگ عہد صحابہ کے فاقہ کش، خستہ حال صحرا نشینوں سے زور آزمائی کر چکے تھے، انھوں نے ان سروسامان والوں اور ان بے سروسامانوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق محسوس کیا۔ یہ کس چیز کا فرق تھا؟
فلسفہ تاریخ والے اس کو محض بداوت({ FR 981 }) و حضریت(۲) کے فرق پر محمول کریں گے۔ وہ کہیں گے کہ پرانے بادیہ نشین(۳) زیادہ جفا کش تھے اور بعد کے لوگوں کو دولت اور تمدن نے عیش پسند بنا دیا تھا، مگر میں کہوں گا کہ یہ فرق دراصل ایمان‘ خلوص نیت‘ اخلاق اور اطاعت خدا اور رسولؐ کا فرق تھا۔ مسلمانوں کی اصلی قوت یہی چیزیں تھیں‘ ان کی قوت نہ کثرت تعداد پر مبنی تھی‘ نہ اسباب و آلات کی افراط پر‘ نہ مال و دولت پر‘ نہ علوم و صناعات کی مہارت پر‘ نہ تمدن و حضارت کے لوازم پر۔وہ صرف ایمان و عمل صالح کے بل پر ابھرے تھے۔ اسی چیز نے ان کو دنیا میں سربلند کیا تھا۔ اسی نے قوموں کے دلوں میں ان کی دھاک اور ساکھ بٹھا دی تھی۔ جب قوت و عزت کا یہ سرمایہ ان کے پاس تھا تو یہ قلت تعداد اور بے سروسامانی کے باوجود طاقت وَر اور معزز تھے، اور جب یہ سرمایہ ان کے پاس کم ہو گیا تو کثرت تعداد اور سروسامان کی فراوانی کے باوجود کمزور اور بے وقعت ہوتے چلے گئے۔
رتبیل نے ایک دشمن کی حیثیت سے جو کچھ کہا وہ دوستوں اور ناصحوں کے ہزار وعظوں سے زیادہ سبق آموز ہے۔ اس نے دراصل یہ حقیقت بیان کی تھی کہ کسی قوم کی اصلی طاقت اس کی آراستہ فوجیں‘ اس کے آلات جنگ‘ اس کے خوش رو، خوش پوش سپاہی‘ اور اس کے وسیع ذرائع و وسائل نہیں ہیں‘ بلکہ اس کے پاکیزہ اخلاق‘ اس کی مضبوط سیرت‘ اس کے صحیح معاملات‘ اور اس کے بلند تخیلات ہیں۔ یہ طاقت وہ روحانی طاقت ہے جو مادی وسائل کے بغیر دنیا میں اپنا سکہ چلا دیتی ہے۔ خاک نشینوں کو تخت نشینوں پر غالب کر دیتی ہے۔ صرف زمینوں کا وارث ہی نہیں بلکہ دلوں کا مالک بھی بنا دیتی ہے۔ اس طاقت کے ساتھ کھجور کی چپلیاں پہننے والے‘ سوکھی ہڈیوں والے‘ بے رونق چہروں والے، چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی تلواریں رکھنے والے لوگ دنیا پر وہ رعب‘ وہ سطوت و جبروت‘ وہ قدر و منزلت، وہ اعتبار و اقتدار جما دیتے ہیں جو اس طاقت کے بغیر شان دار لباس پہننے والے‘ بڑے ڈیل ڈول والے‘ بارونق چہروں والے‘ اونچی بارگاہوں والے‘ بڑی بڑی منجنیقیں اور ہولناک دبابے رکھنے والے نہیں جما سکتے۔ اخلاقی طاقت کی فراوانی مادی وسائل کے فقدان کی تلافی کر دیتی ہے، مگر مادی وسائل کی فراوانی اخلاقی طاقت کے فقدان({ FR 982 }) کی تلافی کبھی نہیں کرسکتی۔ اس طاقت کے بغیر محض مادی وسائل کے ساتھ اگر غلبہ نصیب ہو بھی گیا تو ناقص اور عارضی ہو گا۔ کامل اور پائدار نہ ہوگا۔ دل کبھی مسخر نہ ہوں گے۔ صرف گردنیں جھک جائیں گی، اور وہ بھی اکڑنے کے پہلے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے مستعد (۲)رہیں گی۔
کسی عمارت کا استحکام اُس کے رنگ و روغن‘ نقش و نگار‘ زینت و آرائش صحن و چمن اور ظاہری خوش نمائی سے نہیں ہوتا۔ نہ مکینوں کی کثرت‘ نہ ساز و سامان کی افراط اور اسباب و آلات کی فراوانی اس کو مضبوط بناتی ہے۔ اگر اس کی بنیادیں کمزور ہوں‘ دیواریں کھوکھلی ہوں‘ ستونوں کو گھن لگ جائے‘ کڑیاں(۳) اور تختے بوسیدہ ہو جائیں تو اس کو گرنے سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی‘ خواہ وہ مکینوں سے خوب معمور ہو‘ اور اس میں کروڑوں روپے کا مال و اسباب بھرا پڑا ہو‘ اور اس کی سجاوٹ نظروں کو لبھاتی اور دلوں کو موہ لیتی ہو۔ تم صرف ظاہر کو دیکھتے ہو۔ تمھاری نظریں مد نظر پر اٹک کر رہ جاتی ہیں۔ مگر حوادث زمانہ کا معاملہ نمائشی مظاہر سے نہیں بلکہ اندرونی حقائق سے پیش آتا ہے۔ وہ عمارت کی بنیادوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ دیواروں کی پختگی کا امتحان لیتے ہیں۔ ستونوں کی استواری کو جانچتے ہیں۔ اگرچہ یہ چیزیں مضبوط اور مستحکم ہوں تو زمانے کے حوادث ایسی عمارت سے ٹکرا کر پلٹ جائیں گے اور وہ ان پر غالب آجائے گی خواہ وہ زینت و آرائش سے یکسر محروم ہو، ورنہ حوادث کی ٹکریں آخر کار اس کو پاش پاش کرکے رہیں گی اور وہ اپنے ساتھ مکینوں اور اسبابِ زینت کو بھی لے بیٹھے گی۔
ٹھیک یہی حال حیات قومی کا بھی ہے۔ ایک قوم کو جو چیز زندہ اور طاقت وَر اور سر بلند بناتی ہے وہ اس کے مکان‘ اس کے لباس‘ اس کی سواریاں‘ اس کے اسباب عیش‘ اس کے فنونِ لطیفہ‘ اس کے کارخانے‘ اس کے کالج نہیں ہیں‘ بلکہ وہ اصول ہیں جن پر اس کی تہذیب قائم ہوتی ہے‘ اور پھر ان اصولوں کا دلوں میں راسخ ہونا اور اعمال پر حکمران بن جانا ہے۔ یہ تین چیزیں یعنی: اصول کی صحت‘ ان پر پختہ ایمان اور عملی زندگی پر ان کی کامل فرماں روائی‘ حیاتِ قومی میں وہی حیثیت رکھتی ہیں جو ایک عمارت میں اس کی مستحکم بنیادوں‘ اس کی پختہ دیواروں اور اس کے مضبوط ستونوں کی ہے۔ جس قوم میں یہ تینوں چیزیں بدرجہ اتم موجود ہوں وہ دنیا پر غالب ہو کر رہے گی۔ اس کا کلمہ بلند ہوگا‘ خدا کی زمین میں اس کا سکہ چلے گا‘ دلوں میں اس کی دھاک بیٹھے گی‘ گردنیں اس کے حکم کے آگے جھک جائیں گی اور اس کی عزت ہوگی‘ خواہ وہ جھونپڑیوں میں رہتی ہو‘ پھٹے پرانے کپڑے پہنتی ہو‘ فاقوں سے اس کے پیٹ پٹخے({ FR 983 }) ہوئے ہوں‘ اس کے ہاں ایک بھی کالج نہ ہو‘ اس کی بستیوں میں ایک بھی دھواں اڑانے والی چمنی نظر نہ آئے‘ اور علوم و صناعات میں وہ بالکل صفر ہو۔ تم جن چیزوں کو سامانِ ترقی سمجھ رہے ہو وہ محض عمارت کے نقش و نگار ہیں‘ اس کے قوائم(۲) و ارکان نہیں ہیں۔ کھوکھلی دیواروں پر اگر سونے کے پترے بھی چڑھا دو گے تو وہ ان کو گرنے سے نہ بچا سکیں گے۔
یہی بات ہے جس کو قرآن مجید بار بار بیان کرتا ہے۔ وہ اسلام کے اصولوں کے متعلق کہتا ہے کہ وہ اس اٹل اور غیر متغیر(۳) فطرت کے مطابق ہیں جس پر خدا نے انسان کو پیداکیا ہے۔ اس لیے جو دین ان اصولوں پر قائم کیا گیا ہے وہ دین قیم ہے۔ یعنی ایسا دین جو معاش و معاد کے جملہ معاملات کو ٹھیک ٹھیک طریقوں پر قائم کر دینے والا ہے:
فَاَقِـمْ وَجْہَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا۝۰ۭ فِطْرَتَ اللہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا۝۰ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللہِ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ۝۰ۤۙ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَo الروم 30:30
پس (اے نبیؐ اور نبیؐ کے پیروئو!) یک سو ہو کر اپنا رُخ اِس دین کی سمت میں جما دو، قائم ہوجائو اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
پھر وہ کہتا ہے کہ اس دین قیم پر مضبوطی کے ساتھ جم جائو‘ اس پر ایمان لائو اور اس کے مطابق عمل کرو۔ اس کا نتیجہ خود بخود ظاہر ہوگا کہ دنیا میں تم ہی سربلند ہو گے‘ تم ہی کو زمین کا وارث بنایا جائے گا‘ تم ہی خلعتِ خلافت سے سرفراز ہوگے:
۱۔ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ الانبیائ21:105
زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔
۲۔ وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ آل عمران3:139
تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔
۳۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ
النور24: 55
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ اُن کو زمین میں خلیفہ بنائے گا۔
۴۔ وَ مَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغٰلِبُوْنَ
المائدہ5: 56
اور جو اللہ اور اُس کے رسولؐ اور اہل ایمان کو اپنا رفیق بنالے اُسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے۔
بخلاف اس کے جو لوگ بظاہر دین کے دائرے میں داخل ہیں‘ مگر دین نہ تو ان کے دلوں میں بیٹھا ہے اور نہ ان کی زندگی کا قانون بنا ہے‘ ان کے ظاہر تو بہت شان دار ہیں: وَاِذَا رَاَیْتَہُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُہُمْ المنافقون63:4 اور ان کی باتیں بہت مزے دار ہیں: وَاِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ المنافقون63:4 ، مگر حقیقت میں وہ لکڑی کے کندے({ FR 1029 }) ہیں جن میں جان نہیں:کَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ المنافقون63:4 وہ خدا سے بڑھ کر انسانوں سے ڈرتے ہیں: یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَۃً النسائ4:77 ان کے اعمال سراب کی طرح ہیں کہ دیکھنے میں پانی نظر آئیں مگر حقیقت میں کچھ نہیں: اَعْمَالُہُمْ كَسَرَابٍؚبِقِيْعَۃٍ يَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً۝۰ۭ حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَہٗ لَمْ يَجِدْہُ شَـيْــــًٔـا النور24:39 ایسے لوگوں کو اجتماعی قوت کبھی نصیب نہیں ہوسکتی‘ کیونکہ ان کے دل آپس میں پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ خلوص نیت کے ساتھ کسی کام میں اشتراک عمل نہیں کرسکتے: بَاْسُہُمْ بَيْنَہُمْ شَدِيْدٌ۝۰ۭ تَحْسَبُہُمْ جَمِيْعًا وَّقُلُوْبُہُمْ شَتّٰى۝۰ۭ الحشر59:14 ان کو وہ قوت ہرگز ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی جو صرف مومنین صالحین کا حصہ ہے۔ لاَیُقَاتِلُوْنَکُمْ جَمِیْعًا اِلَّا فِیْ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ اَوْ مِنْ وَّرَآئِ جُدُرٍ الحشر59:14 ان کو دنیا کی امامت کا منصب کبھی نہیں ملے گا: قَالَ لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ البقرہ2:124 ان کے لیے بجز اس کے اور کوئی انجام نہیں کہ دنیا میں بھی ذلت و خواری اور آخرت میں بھی عذاب و عقاب({ FR 984 })
لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ البقرہ2:114
آپ تعجب کریں گے کہ قرآن نے مسلمانوں کی ترقی اور ان کے ایک حکمراں جماعت بننے اور سب پر غالب آجانے کا ذریعہ صرف ایمان و عمل صالح کو قرار دیا، اور کہیں یہ نہیں کہا کہ تم یونی ورسٹیاں بنائو‘ کالج کھولو‘ کارخانے قائم کرو‘ جہاز بنائو‘ کمپنیاں قائم کرو‘ بنک کھولو‘ سائنس کے آلات ایجاد کرو‘ اور لباس‘ معاشرت‘ انداز و اطوار میں ترقی یافتہ قوموں کی نقل کرو۔ نیز اس نے تنزل و انحطاط(۲) اور دنیا و آخرت کی ذلت اوررسوائی کا واحد سبب بھی نفاق کو ٹھہرایا، نہ کہ ان اسباب کے فقدان کو جنھیں آج کل دنیا اسباب ترقی سمجھتی ہے،لیکن اگر آپ قرآن کی اسپرٹ کو سمجھ لیں تو آپ کا یہ تعجب خود رفع ہو جائے گا۔
سب سے پہلی بات جس کا سمجھنا ضروری ہے یہ ہے کہ ’مسلمان‘ جس شے کا نام ہے اس کا قوام(۳) بجز اسلام کے اور کوئی چیز نہیں ہے۔ مسلم ہونے کی حیثیت سے اس کی حقیقت صرف اسلام سے متحقق ہوتی ہے۔ اگر وہ اس پیغام پر ایمان رکھے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اور ان قوانین کا اتباع کرے جن کو آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے سے نازل کیا گیا ہے‘ تو اس کا اسلام متحقق ہو جائے گا خواہ ان چیزوں میں کوئی چیز اس کے ساتھ شامل نہ ہو جو اسلام کے ماسوا ہیں۔ بخلاف اس کے اگر وہ ان تمام زیوروں سے آراستہ ہو جو زینتِ حیاتِ دنیا کے قبیل سے ہیں، مگر ایمان اس کے دل میں نہ ہو اور قوانین اسلامی کے اتباع سے اس کی زندگی خالی ہو تو وہ گریجویٹ ہوسکتا ہے‘ ڈاکٹر ہوسکتا ہے‘ کارخانہ دار ہوسکتا ہے‘ بینکر ہو سکتا ہے‘ جنرل یا امیر البحر ہوسکتا ہے‘ مگر مسلمان نہیں ہوسکتا۔ پس کوئی ترقی کسی مسلمان شخص یا قوم کی ترقی نہ ہوگی جب تک کہ سب چیزوں سے پہلے اس شخص یا قوم میں حقیقت اسلامی متحقق نہ ہو جائے۔ اس کے بغیر وہ ترقی خواہ کسی اورکی ترقی ہو مسلمان کی ترقی نہ ہوگی‘ اور ایسی ترقی ظاہر ہے کہ اسلام کا نصب العین نہیں ہوسکتی۔
پھر ایک بات تو یہ ہے کہ کوئی قوم سرے سے مسلمان نہ ہو‘ اور اس کے افکار و اخلاق اور نظامِ اجتماعی کی اساس اسلام کے سوا کسی اورچیز پر ہو۔ ایسی قوم کے لیے بلاشبہ یہ ممکن ہے کہ یہ ان اخلاقی‘ سیاسی‘ معاشی اور عمرانی اصولوں پر کھڑی ہوسکے جو اسلام سے مختلف ہیں‘ اور اس ترقی کے منتہیٰ({ FR 985 }) کو پہنچ جائے جس کو وہ اپنے نقطہ نظر سے ترقی سمجھتی ہو، لیکن یہ بالکل ایک امر دیگر ہے کہ کسی قوم کے افکار‘ اخلاق‘ تمدن‘ معاشرت‘ معیشت اور سیاست کی بنیاد اسلام پر ہو‘ اور اسلام ہی میں وہ عقیدے اور عمل دونوں کے لحاظ سے ضعیف ہو۔ ایسی قوم مادی ترقی کے وسائل خواہ کتنی ہی کثرت اور فراوانی کے ساتھ مہیا کرلے‘ اس کا ایک مضبوط اور طاقت وَر قوم کی حیثیت سے اٹھنا اور دنیا میں سربلند ہونا قطعاً غیر ممکن ہے کیونکہ اس کی قومیت اور اس کے اخلاق اور تہذیب کی اساس جس چیز پر ہے‘ وہی کمزور ہے اور اساس کی کمزوری ایسی کمزوری ہے جس کی تلافی محض اوپری زینت کے سامان کبھی نہیں کرسکتے۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ علوم و فنون اور مادی ترقی کے وسائل کی جائز اہمیت سے انکار ہے۔ مطلب صرف یہ ہے کہ مسلمان قوم کے لیے یہ تمام چیزیں ثانوی درجے پر ہیں۔ اساس کا استحکام ان سب پر مُقدّم(۲) ہے۔ وہ جب مستحکم ہو جائے تو مادی ترقی کے وہ تمام وسائل اختیار کیے جاسکتے ہیں اور کیے جانے چاہییں جو اس بنیاد کے ساتھ مناسبت رکھتے ہوں لیکن اگر وہی مضمحل ہو‘ دل میں اسی کی جڑیں کمزور ہوں اور زندگی پر اس کی گرفت ڈھیلی ہو‘ تو انفرادی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں سے قوم کے اخلاق کا فاسد ہونا سیرتوں کا بگڑ جانا‘ معاملات کا خراب ہو جانا‘ نظام اجتماعی کا سست ہونا اور قوتوں کا پراگندہ ہو جانا ناگزیر ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوسکتا ہے کہ قوم کی طاقت کمزور ہو جائے اور بین الملی قوتوں کے ترازو میں اس کا پلڑا روز بروز ہلکا ہوتا چلا جائے یہاں تک کہ دوسری قومیں اس پر غالب آجائیں۔ ایسی حالت میں مادی اسباب کی فراوانی اور سند یافتہ فضلا کی افراط (۳)اور خارجی زیب و زینت کی چمک دمک کسی کام نہیں آسکتی۔
ان سب سے بڑھ کر ایک اور بات بھی ہے۔ قرآن حکیم نہایت وثوق(۴) کے ساتھ کہتا ہے کہ:
تم ہی سربلند ہوگے اگر تم مومن ہو، اور اللہ کی پارٹی والے ہی غالب ہوں گے اور جو لوگ ایمان اور عمل صالح سے آراستہ ہوں گے ان کو زمین کی خلافت ضرور ملے گی‘‘۔
(۳:۱۳۹۔۵:۵۶۔۲۴:۵۵)
اس وثوق کی بنیاد کیا ہے؟ کس بنا پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ دوسری قومیں خواہ کیسے ہی مادی وسائل کی مالک ہوں ان پر مسلمان صرف ایمان اورعمل صالح کے اسلحے سے غالب آئیں گے؟
اس عقدے کو خود قرآن حل کرتا ہے:
۱۔ يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗ۝۰ۭ وَاِنْ يَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَـيْـــــًٔـا لَّا يَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ۝۰ۭ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُo مَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌo
الحج22:73- 74
لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے۔ اس کو غور سے سنو۔ خدا کو چھوڑ کر تم جن چیزوں کو پکارتے ہو، وہ ایک مکھی تک کو پیدا کرنے پر قادر نہیں ہیں اگرچہ وہ سب اس کام کے لیے مل کر زور لگائیں اور اگر ایک مکھی اُن سے کوئی چیز چھین لے تو اس سے وہ چیز چھڑا لینے کی قدرت بھی ان میں نہیں۔ مطلوب بھی ضعیف اور اس کا طالب بھی ضعیف۔ ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسی کرنی چاہیے تھی حالانکہ درحقیقت اللہ ہی قدرت اورعزت والا ہے۔
۲۔ مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْلِيَاۗءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ۝۰ۖۚ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا۝۰ۭ وَاِنَّ اَوْہَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ۝۰ۘ العنکبوت 41:29
جن لوگوں نے خدا کے سوا دوسروں کو کار ساز ٹھہرایا‘ ان کی مثال ایسی ہے جیسے مکڑی کہ وہ گھر بناتی ہے حالانکہ سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی کا گھرہے۔
مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مادی طاقتوں پر اعتماد کرتے ہیں‘ ان کا اعتماد دراصل ایسی چیزوں پر ہے جو بذاتِ خود کسی قسم کی بھی قوت نہیں رکھتیں۔ ایسے بے زوروں پر اعتماد کرنے کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی ویسے ہی بے زور ہو جاتے ہیں جیسے ان کے سہارے بے زور ہیں۔ وہ اپنے نزدیک جو مستحکم قلعے بناتے ہیں وہ مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہیں۔ ان میں کبھی یہ طاقت ہو ہی نہیں سکتی کہ ان لوگوں کے مقابلے میں سر اٹھا سکیں جو حقیقی قدر و عزت رکھنے والے خدا پر اعتماد کرکے اٹھیں:
فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا۝۰ۭ البقرہ 256:2
جوطاغوت کو چھوڑ کر اللہ پر ایمان لے آیا اس نے مضبوط رسی تھام لی جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں ہے۔
قرآن دعوے کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ جب کبھی اہل ایمان اور اہل کفر کا مقابلہ ہوگا تو غلبہ اہلِ ایمان کو حاصل ہوگا:
۱۔ وَلَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًاo سُـنَّۃَ اللہِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ۝۰ۚۖ وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًاo الفتح48: 22-23
اور اگر وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ہے تم سے جنگ کریں گے تو ضرور پیٹھ پھیر جائیں گے اور کوئی یارومددگار نہ پائیں گے۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے اور تم کبھی اللہ کی سنت میں تغیر نہ پائو گے۔
۲۔ سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَآ اَشْرَکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا
آل عمران3: 151
ہم کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے کیونکہ انھوں نے خدائی میں اُن چیزوں کو شریک کرلیا ہے جن کو خدا نے کوئی تمکن نہیں بخشا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص خدا کی طرف سے لڑتا ہے اس کے ساتھ خدائی طاقت ہوتی ہے اور جس کے ساتھ خدائی طاقت ہو اُس کے مقابلے میں کسی کا زور چل ہی نہیں سکتا۔
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لاَ مَوْلٰی لَہُمْ محمد47:11
یہ اس لیے کہ ایمان داروں کا مددگار تو اللہ ہے اور کافروں کا مددگار کوئی نہیں۔
وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی الانفال8:17
جب تو نے تیر پھینکا تو وہ تو نے نہیں پھینکا بلکہ خدا نے پھینکا۔
یہ تو مومن صالح کی سطوت({ FR 986 }) کا حال ہے۔ دوسری طرف یہ بھی خدا کا قانون ہے کہ جو شخص ایمان دار ہوتا ہے‘ جس کی سیرت پاکیزہ ہوتی ہے، جس کے اعمال نفسانیت کی آلودگیوں سے پاک ہوتے ہیں‘ جو ہوائے نفس اور اغراضِ نفسانی کے بجائے خدا کے مقرر کیے ہوئے قانون کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتا ہے‘ اس کی محبت دلوں میں بیٹھ جاتی ہے‘ دل آپ ہی آپ اس کی طرف کھنچنے لگتے ہیں‘ نگاہیں اس کی طرف احترام سے اٹھتی ہیں، معاملات میں اس پر اعتماد کیا جاتا ہے‘ دوست تو دوست دشمن تک اُس کو صادق سمجھتے ہیں اور اس کے عدل‘ اُس کی عفت اور اس کی وفا شعاری پر بھروسہ کرتے ہیں:
۱۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا مریم19: 96
جو لوگ ایمان لے آئے اور جنھوں نے نیک عمل کیے‘ اللہ ان کی محبت دلوں میں ڈال دے گا۔
۲۔ يُثَبِّتُ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ
ابراہیم 27:14
ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کے ساتھ جما دیتا ہے‘ دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی۔
۳۔ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَہُوَمُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہٗ حَيٰوۃً طَيِّبَۃً۝۰ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَo النحل 97:16
جو کوئی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور اس کے ساتھ وہ مومن بھی ہو تو ہم ضرور اس کو بہترین زندگی بسر کرائیں گے اور ان بہترین اعمال کا اجر دیں گے جو وہ کرتے رہے۔
مگر یہ سب کس چیز کے نتائج ہیں؟ محض زبان سے لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کہنے کے نہیں‘ مسلمانوں کے سے نام رکھ لینے اور معاشرت کے چند مخصوص اطوار اختیار کرنے اور چند گنی چنی رسمیات ادا کرلینے کے نہیں۔ قرآن حکیم ان نتائج کے ظہور کے لیے ایمان اور عمل صالح کی شرط لگاتا ہے۔ اس کا منشا یہ ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کی حقیقت تمھارے قلب و روح میں اس قدر جاگزیں ہوجائے کہ تمھارے تخیلات و افکاراور اخلاق و معاملات سب پر اسی کا غلبہ ہو‘ تمھاری ساری زندگی اسی کلمہ طیبہ کے معنوی({ FR 987 }) قالب میں ڈھل جائے‘ تمھارے ذہن میں کوئی ایسا خیال راہ نہ پاسکے جو اس کلمے کے معنی سے مختلف ہو اور تم سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہو جو اس کلمے کے مقتضی کے خلاف ہو۔ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کو زبان سے ادا کرنے کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ تمھاری زندگی میں اس کے ساتھ ایک انقلاب برپا ہو جائے۔ تمھاری رگ رگ میں تقویٰ کی روح سرایت کر جائے۔ اللہ کے سوا تمھاری گردن کسی طاقت کے آگے نہ جھکے۔ اللہ کے سوا تمھارا ہاتھ کسی کے آگے نہ پھیلے۔ اللہ کے سوا کسی کا خوف تمھارے دل میں نہ رہے۔ تمھاری محبت اور تمھارا بغض اللہ کے سوا کسی اور کے لیے نہ ہو۔ اللہ کے قانون کے سوا تمھاری زندگی پرکسی اور کا قانون نافذ نہ ہو۔ تم اپنے نفس اور اس کی ساری خواہشوں اور اس کے تمام مرغوبات و محبوبات کو اللہ کی خوش نودی پر قربان کر دینے کے لیے ہر وقت تیار رہو۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کے مقابلے میں تمھارے پاس سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا (ہم نے سنا اور اطاعت کی)کے سوا کوئی اور قول و فعل نہ ہو۔ جب ایسا ہوگا تو تمھاری قوت صرف تمھارے اپنے نفس اور جسم کی قوت نہ ہو گی، بلکہ اُس اَحْکَمُ الْحَاکَمِیْن کی قوت ہوگی جس کے آگے زمین و آسمان کی ہر چیز طوعاً و کرہاً سربسجود ہے اور تمھاری ذات اس نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ کے جلووں سے منور ہو جائے گی جو تمام عالم کا حقیقی محبوب و معشوق ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے عہد میں یہی چیز مسلمانوں کو حاصل تھی۔ پھر اس کا نتیجہ جو کچھ ہوا‘ تاریخ کے اوراق اس پر شاہد ہیں۔ اس زمانے میں جس نے لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کہا اس کی کایا پلٹ گئی۔ مس خام({ FR 988 }) سے یکایک وہ کندن(۲) بن گیا۔ اس کی ذات میں ایسی کشش پیدا ہوئی کہ دل اس کی طرف کھِنچنے لگے۔ اس پر جس کی نظر پڑتی وہ محسوس کرتا کہ گویا تقویٰ اور پاکیزگی اور صداقت کو مجسم دیکھ رہا ہے۔ وہ ان پڑھ‘ مفلس‘ فاقہ کش‘ پشمینہ پوش اور بوریا نشین ہوتا‘ مگر پھر بھی اس کی ہیبت دلوں میں ایسی بیٹھتی کہ بڑے بڑے شان و شوکت والے فرماں روائوں کو نصیب نہ تھی۔ ایک مسلمان کا وجود گویا ایک چراغ تھا کہ جدھر وہ جاتا اس کی روشنی اطراف و اکناف(۳) میں پھیل جاتی اور اس چراغ سے سیکڑوں ہزاروں چراغ روشن ہو جاتے۔ پھر جو اس روشنی کو قبول نہ کرتا اور اس سے ٹکرانے کی جرأت کرتا تو اس کو جلانے اور فنا کر دینے کی قوت بھی اس میں موجود تھی۔
ایسی ہی قوت ایمانی اور طاقت و سیرت رکھنے والے مسلمان تھے کہ جب وہ ساڑھے تین سو سے زیادہ نہ تھے تو انھوں نے تمام عرب کو مقابلے کا چیلنج دے دیا، اور جب وہ چند لاکھ کی تعداد کو پہنچے تو ساری دنیا کو مسخر کرلینے کے عزم سے اٹھ کھڑے ہوئے اور جو قوت ان کے مقابلے پر آئی پاش پاش({ FR 1030 }) ہوگئی۔
جیسا کہ کہا جاچکا ہے مسلمانوں کی اصلی طاقت یہی ایمان اور سیرت صالحہ کی طاقت ہے جو صرف ایک لا الہ الا اللہ کی حقیقت دل میں بیٹھ جانے سے حاصل ہوتی ہے، لیکن اگر یہ حقیقت دل میں جاگزیں نہ ہو‘ محض زبان پر یہ الفاظ جاری ہوں مگر ذہنیت اور عملی زندگی میں کوئی انقلاب برپا نہ ہو‘ لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد بھی انسان وہی کا وہی رہے جو اس سے پہلے تھا اور اس میں اور لاالہ الا اللہ کا انکار کرنے والوں میں اخلاقی و عملی حیثیت سے کوئی فرق نہ ہو‘ وہ بھی انھی کی طرح غیراللہ کے آگے گردن جھکائے اور ہاتھ پھیلائے‘ انھی کی طرح غیر اللہ سے ڈرے اور غیر خدا کی رضا چاہے اور غیر خدا کی محبت میں گرفتار ہو‘ انھی کی طرح ہوائے نفس کا بندہ ہو اور قانون الٰہی کو چھوڑ کر انسانی قوانین‘ یا اپنے نفس کی خواہشات کا اتباع کرے‘ اس کے خیالات اور ارادوں اور نیتوں میں بھی وہی گندگی ہو جو ایک غیر مومن کے خیالات‘ ارادات اور نیات میں ہوسکتی ہے اور اس کے اقوال و افعال و معاملات بھی ویسے ہی ہوں جیسے ایک غیر مومن کے ہوتے ہیں تو پھر مسلمان کو نا مسلمان پر فوقیت کس بنا پر ہو؟ اورروح ایمان اور روح تقویٰ نہ ہونے کی صورت میں ایک مسلمان ویسا ہی ایک بشر تو ہے جیسا ایک نامسلمان ہے۔ اس کے بعد مسلم اور غیر مسلم کا مقابلہ صرف جسمانی طاقت اور مادی وسائل ہی کے اعتبار سے ہوگا‘ اور اس مقابلے میں جو طاقت وَر ہوگا وہ کمزور پر غالب آجائے گا۔
ان دونوں حالتوں کا فرق تاریخ کے صفحات میں اتنا نمایاں ہے کہ ایک نظر میں دیکھا جاسکتا ہے، یا تو مٹھی بھر مسلمانوں نے بڑی بڑی حکومتوں کے تختے الٹ دیے تھے اور اٹک کے کنارے سے لے کر اٹلانٹک کے سواحل(۲) تک اسلام پھیلا دیا تھا، یا اَب کروڑوں مسلمان دنیا میں موجود ہیں اور غیر مسلم طاقتوں سے دبے ہوئے ہیں۔ جن آبادیوں میں کروڑوں مسلمان بستے ہیں اور ان کو بستے ہوئے صدیاں گزر چکی ہیں وہاں اب بھی کفر و شرک موجود ہے۔
(ترجمان القرآن، شوال ۱۳۵۳ھ۔ دسمبر ۱۹۳۴ء)


۱۸۔ کیش مرداں نہ کہ مذہب گوسفنداں

مسئلہ سود پر میرے مضامین کو دیکھ کر ایک خیال کا بار بار اظہارکیا گیا ہے کہ موجودہ زمانے میں سرمایہ داری نظام‘ سیاسی طاقت کے ساتھ ہمارے گرد و پیش کی پوری معاشی دنیا پر مسلط ہو چکا ہے۔ معیشت کی گاڑی اصول سرمایہ داری کے پہیوں پر چل رہی ہے‘ سرمایہ دار ہی اس کو چلا رہے اور وہی قومیں اس کے ذریعے سے منزلِ ترقی کی طرف بڑھ رہی ہیں جن کے لیے پیدایشِ دولت اور صَرفِ دولت کے باب میں کوئی مذہبی یا اخلاقی قیدنہیں ہے۔ دوسری طرف ہماری اجتماعی قوت منتشر ہے۔ دنیا کے نظم معیشت کو بدلنا تو درکنار ہم خود اپنی قوم میں بھی اسلامی نظمِ معیشت کو از سر نو قائم کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اب اگر ہماری مذہبی قیود ہم کو زمانے کے چلتے ہوئے نظام معاشی میں پورا پورا حصہ لینے سے روک دیں تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ ہماری قوم معاشی ترقی و خوش حالی کے ذرائع سے فائدہ اٹھانے میں دوسری قوموں سے پیچھے رہ جائے گی۔ ہم مفلس ہوتے جائیں گے اور ہمسایہ قومیں دولت مند ہوتی چلی جائیں گی۔ پھر ہماری یہ معاشی کمزوری ہم کو سیاسی‘ اخلاقی اور تمدنی حیثیت سے بھی ذلیل اور پست کرے گی۔ یہ محض وہم اور اندیشہ نہیں ہے بلکہ واقعات کی دنیا میں یہی نتیجہ ہم کونظر آرہا ہے‘ برسوں سے نظر آرہا ہے‘ اور مستقبل میں ہمارا جو کچھ انجام ہونے والا ہے اس کے آثار کچھ ایسے دھندلے نہیں ہیں کہ ان کو نہ دیکھا جاسکتا ہو۔ پس ہم کو محض شریعت کا قانون بتانے سے کیا فائدہ؟ اسلام کے معاشی اصول بیان کرنے سے کیا حاصل؟ ہم کو یہ بتائو کہ ان حالات میں اسلامی قانون کی پابندی کے ساتھ ہمارے لیے اپنی معاشی حالت کو سنبھالنے اور ترقی کی منزلیں طے کرنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟ اگر نہیں ہے تو دو صورتوں میں سے ایک صورت یقیناً پیش آئے گی:
۱۔ یا تو مسلمان بالکل تباہ ہو جائیں گے۔
۲۔ یا پھر وہ بھی دوسری قوموں کی طرح مجبور ہوں گے کہ ایسے تمام قوانین کی پابندی سے آزاد ہو جائیں جو زمانے کا ساتھ نہیں دے سکتے۔
یہ سوال صرف مسئلہ سود ہی تک محدود نہیں ہے۔ دراصل اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اگر زندگی کے تمام شعبوں میں سے محض معیشت ہی کا شعبہ ایسا ہوتا جس پر ایک غیر اسلامی نظام مسلط ہوگیا ہوتا تو شاید معاملہ نسبتاً بہت ہلکا ہوتا، مگر واقعات کی شہادت کچھ اور ہے۔ اپنے گرد و پیش کی دنیا پر نظر ڈالیے۔ خود اپنے حالات کا جائزہ لے کر دیکھیے۔ زندگی کا کون سا شعبہ ایسا پایا جاتا ہے جس پر غیر اسلام کا تسلط نہیں ہے؟کیا اعتقادات اور افکار و تخیلات({ FR 992 }) پر الحاد و دہریت یا کم از کم شک و ریب(۲) کا غلبہ نہیں؟ کیا تعلیم پر ناخدا شناسی کی حکومت نہیں؟ کیا تمدن و تہذیب پر فرنگیت کا استیلا(۳) نہیں؟ کیا معاشرت کی جڑوں تک میں مغربیت اتر نہیں گئی ہے؟ کیا اخلاق اس کے غلبے سے محفوظ ہیں؟ کیا معاملات اس کے تسلط سے آزاد ہیں؟ کیا قانون اور سیاست اور حکومت کے اصول و فروع نظریات اور عملیات میں سے کوئی چیز بھی اس کے اثر سے پاک ہے؟
جب حال یہ ہے تو آپ اپنے سوال کو معیشت اور اس کے بھی صرف ایک پہلو تک کیوں محدود رکھتے ہیں؟ اس کو وسیع کیجیے، پوری زندگی پر پھیلا دیجیے۔ یوں کہیے کہ زندگی کے دریا نے اپنا رُخ بدل دیا ہے۔ پہلے وہ اس راستے پر بہہ رہا تھا جو اسلام کا راستہ تھا، اب وہ اس راستے پر بہہ رہا ہے جو غیر اسلام کا راستہ ہے۔ ہم اس کے رُخ کو بدلنے کی قوت نہیں رکھتے۔ ہم میں اتنی قوت بھی نہیں کہ اس کی رو کے خلاف تیر سکیں۔ ہم کو ٹھہرنے میں بھی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ اب ہمیں کوئی ایسی صورت بتائو کہ ہم مسلمان بھی رہیں اور اس دریا کے بہائو پر اپنی کشتی کو چھوڑ بھی دیں‘ عازمِ کعبہ بھی رہیں اور اس قافلے کا ساتھ بھی نہ چھوڑیں جو ترکستان کی طرف جا رہا ہے۔ ہم اپنے خیالات‘ نظریات‘ مقاصدِ اصول حیات اور مناہج(۴) عمل میں نا مسلمان بھی ہوں اور پھر مسلمان بھی ہوں۔ اگر ان اضداد کو جمع کرنے کی کوئی صورت تم نے نہ نکالی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ یا تو ہم اسی دریا کے ساحل پر مر رہیں گے‘ یا پھر یہ اسلام کا لیبل جو ہماری کشتی پرلگا ہوا ہے ایک دن کھرچ ڈالا جائے گا اور یہ کشتی بھی دوسری کشتیوں کے ساتھ دریا کے دھارے پر بہتی نظر آئے گی۔
ہمارے روشن خیال اور ’تجدد پسند‘ حضرات جب کسی مسئلے پر گفتگو فرماتے ہیں تو ان کی آخری حجت‘ جو اِن کے نزدیک سب سے قوی حجت ہے‘ یہ ہوتی ہے کہ زمانے کا رنگ یہی ہے‘ ہوا کا رخ اسی طرف ہے‘ دنیا میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ پھر ہم اس کی مخالفت کیسے کرسکتے ہیں اور مخالفت کرکے زندہ کیسے رہ سکتے ہیں۔اخلاق کا سوال ہو، وہ کہیں گے کہ دنیا کا معیارِ اخلاق بدل چکا ہے۔ مطلب یہ نکلا کہ مسلمان اس پرانے معیارِ اخلاق پر کیسے قائم رہیں؟ پردے پر بحث ہو، ارشاد ہوگا کہ دنیا سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ مراد یہ ہوئی کہ جو چیز دنیا سے اٹھ چکی ہے اس کو مسلمان کیسے نہ اٹھائیں۔ تعلیم پر گفتگو ہو، ان کی آخری دلیل یہ ہوگی کہ دنیا میں اسلامی تعلیم کی مانگ ہی نہیں۔ مدّعا یہ کھلا کہ مسلمان بچے وہ جنس بن کر کیسے نکلیں جس کی مانگ نہیں ہے اور وہ مال کیوں نہ بنیں جس کی مانگ ہے۔ سود پر تقریر ہو، ٹیپ کا بند یہ ہو گا کہ اب دنیا کاکام اس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ گویا مسلمان کسی ایسی چیز سے احتراز({ FR 993 }) کیسے کرسکتے ہیں جو اب دنیا کاکام چلانے کے لیے ضروری ہوگئی ہے۔ غرض یہ کہ تمدن‘ معاشرت‘ اخلاق‘ تعلیم‘ معیشت‘ قانون‘ سیاست اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں سے جس شعبے میں بھی وہ اصولِ اسلام سے ہٹ کر فرنگیت کا اتباع کرنا چاہتے ہیں‘ اس کے لیے زمانے کا رنگ اور ہوا کا رخ اور دنیا کی رفتار وہ آخری حجت ہوتی ہے جو اس تقلیدِ مغربی یادرحقیقت اس جزوی ارتداد کے جواز پر برہان(۲) قاطع سمجھ کر پیش کی جاتی ہے‘ اور خیال کیا جاتا ہے کہ عمارتِ اسلامی کے اجزا میں سے ہر اس جز کو ساقط(۳) کر دینا فرض ہے جس پر اس دلیل سے حملہ کیا جائے۔
ہم کہتے ہیں کہ شکست و ریخت کی یہ تجویزیں جن کو متفرق طور پر پیش کرتے ہو‘ ان سب کو ملا کر ایک جامع تجویز کیوں نہیں بنا لیتے؟ مکان کی ایک ایک دیوار، ایک ایک کمرے اور ایک ایک دالان کو گرانے کی علیحدہ علیحدہ تجویزیں پیش کرنے‘ اور ہر ایک پر فرداًفرداًبحث کرنے میں فضول وقت ضائع ہوتا ہے۔ کیوں نہیں کہتے کہ یہ پورا مکان گرا دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا رنگ زمانے کے رنگ سے مختلف ہے‘ اس کا رُخ ہوا کے رُخ سے پھرا ہوا ہے اور اس کی وضع اُن مکانوں سے کسی طرح نہیں ملتی جو اَب دنیا میں بن رہے ہیں۔
جن لوگوں کے حقیقی خیالات یہی ہیں اُن سے تو بحث کرنا فضول ہے۔ ان کے لیے تو صاف اور سیدھا سا جواب یہی ہے کہ اس مکان کو گرانے اور اس کی جگہ دوسرا مکان بنانے کی زحمت آپ کیوں اٹھاتے ہیں؟ جو دوسرا خوش وضع‘ خوش نما‘ خوش رنگ مکان آپ کو پسند آئے اس میں تشریف لے جائیے۔ اگر دریا کے دھارے پر بہنے کا شوق ہے تو اس کشتی کا لیبل کھرچنے کی تکلیف بھی کیوں اٹھائیے؟ جو کشتیاں پہلے سے بہہ رہی ہیں انھی میں سے کسی میں نقل مقام({ FR 994 }) فرما لیجیے۔ جو لوگ اپنے خیالات‘ اپنے اخلاق‘ اپنی معاشرت‘ اپنی معیشت‘ اپنی تعلیم‘ غرض اپنی کسی چیز میں بھی مسلمان نہیں ہیں اور مسلمان رہنا نہیں چاہتے اُن کے برائے نام مسلمان رہنے سے اسلام کا قطعاً کوئی فائدہ نہیں بلکہ سراسر نقصان ہے۔ وہ خدا پرست نہیں‘ ہوا پرست(۲) ہیں۔اگر دنیا میں بت پرستی کا غلبہ ہو جائے تو یقیناً وہ بتوں کو پوجیں گے۔ اگر دنیا میں برہنگی کا رواج عام ہو جائے تو یقیناً وہ اپنے کپڑے اتار پھینکیں گے۔ اگر دنیا نجاستیں کھانے لگے تو یقیناً وہ کہیں گے کہ نجاست ہی پاکیزگی ہے اور پاکیزگی تو سراسر نجاست ہے۔ ان کے دل اور دماغ غلام ہیں اور غلامی ہی کے لیے گھڑے گئے ہیں۔ آج فرنگیت کا غلبہ ہے‘ اس لیے اپنے باطن سے لے کر ظاہر کے ایک ایک گوشے تک وہ فرنگی بننا چاہتے ہیں۔ کل اگر حبشیوں کا غلبہ ہو جائے تو یقیناً وہ حبشی بنیں گے۔ اپنے چہروں پر سیاہیاں پھیریں گے‘ اپنے ہونٹ موٹے کریں گے‘ اپنے بالوں میں حبشیوں کے سے گھونگھر پیدا کریں گے‘ ہر اس شے کی پوجا کرنے لگیں گے جو حبش سے ان کو پہنچے گی۔ ایسے غلاموں کی اسلام کو قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ بخدا اگر کروڑوں کی مردم شماری میں سے ان سب منافقوں اور غلام فطرت لوگوں کے نام کٹ جائیں اور دنیا میں صرف چند ہزار وہ مسلمان رہ جائیں جن کی تعریف یہ ہو کہ :
يُحِبُّہُمْ وَيُحِبُّوْنَہٗٓ۝۰ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ۝۰ۡيُجَاہِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَاۗىِٕمٍ۝۰ۭ المائدہ 54:5
وہ اللہ کے محبوب ہوں اور اللہ ان کا محبوب ہو‘ مسلمانوں کے لیے نرم اور کافروں پر سخت ہوں‘ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہوں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا انھیں خوف نہ ہو۔
تو اسلام اب سے بدرجہا زیادہ طاقت وَر ہوگا اور ان کروڑوں کا نکل جانا اس کے حق میں ایسا ہوگا جیسے کسی مریض کے جسم سے پیپ اور کچ لہو({ FR 995 }) نکل جائے۔
نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَۃٌ۝۰ۭ المائدہ5:52
ہم کو خوف ہے کہ ہم پر مصیبت آجائے گی۔
یہ آج کوئی نئی آواز نہیں ہے۔ بہت پرانی آواز ہے جو منافقوں کی زبان سے بلند ہوتی رہی ہے۔ یہی آواز نفاق کی اس بیماری کا پتہ دیتی ہے جو دلوں میں چھپی ہوئی ہے۔ اسی آواز کو بلند کرنے والے ہمیشہ مخالفین اسلام کے کیمپ کی طرف لپکتے رہے ہیں۔ ہمیشہ سے انھوں نے اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کو پائوں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق ہی سمجھا ہے۔ ہمیشہ سے ان کو احکام خدا و رسولؐ کا اتباع گراں ہی گزرتا رہا ہے۔ اطاعت میں جان و مال کا زیاں اور نافرمانی میں حیاتِ دنیا کی ساری کامرانیاں ہمیشہ سے ان کو نظر آتی رہی ہیں۔ پس ان کی خاطر خدا کی شریعت کو نہ ابتدا میں بدلا گیا تھا‘ نہ اب بدلا جاسکتا ہے‘اور نہ کبھی بدلاجائے گا۔ یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اتری ہے، نفس کے بندوں اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اتری ہے‘ ہوا کے رخ پر اڑنے والے خس و خاشاک‘(۲) اور پانی کے بہائو پر بہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ یہ اُن بہادر شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہوں‘ جو دریا کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہائو کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہوں‘ جو صبغۃ اللہ(۳) کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ مسلمان جس کا نام ہے وہ دریا کے بہائو پر بہنے کے لیے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی آفرینش({ FR 996 }) کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریا کو اس راستے پر رواں کر دے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہ راست ہے‘ صراط مستقیم ہے۔ اگر دریا نے اپنا رخ اس راستے سے پھیر دیا ہے تو اسلام کے دعوے میں وہ شخص جھوٹا ہے جو اس بدلے ہوئے رُخ پر بہنے کے لیے راضی ہو جائے۔ حقیقت میں جو سچا مسلمان ہے‘ وہ اس غلط رو دریا کی رفتار سے لڑے گا‘ اس کا رخ پھیرنے کی کوشش میں اپنی پوری قوت صَرف کر دے گا‘ کامیابی اور ناکامی کی اس کو قطعاً پروا نہ ہوگی‘ وہ ہر اس نقصان کو گوارا کرلے گا جو اس لڑائی میں پہنچے یا پہنچ سکتا ہو‘ حتیٰ کہ اگر دریا کی روانی سے لڑتے لڑتے اس کے بازو ٹوٹ جائیں، اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہو جائیں‘ اور پانی کی موجیں اس کو نیم جاں کرکے کسی کنارے پر پھینک دیں‘ تب بھی اس کی روح ہرگز شکست نہ کھائے گی‘ ایک لمحے کے لیے بھی اس کے دل میں اپنی اس ظاہری نامرادی پر افسوس یا دریا کی رو پر بہنے والے کافروں یا منافقوں کی کامرانیوں پر رشک کا جذبہ راہ نہ پائے گا۔
قرآن تمھارے سامنے ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی سیرتیں تمھارے سامنے ہیں۔ ابتدا سے لے کر آج تک کے علم بردار ان اسلام کی زندگیاں تمھارے سامنے ہیں۔ کیا ان سب سے تم کو یہی تعلیم ملتی ہے کہ ہوا جدھر اڑائے ادھر اڑ جائو؟ پانی جدھر بہائے ادھر بہہ جائو؟ زمانہ جو رنگ اختیار کرے اسی رنگ میں رنگ جائو؟ اگر مدعا یہی ہوتا تو کسی کتاب کے نزول اور کسی نبی ؑکی بعثت کی ضرورت ہی کیا تھی؟ ہوا کی موجیں تمھاری ہدایت کے لیے اور حیاتِ دنیا کا بہائو تمھاری رہنمائی کے لیے اور زمانے کی نیرنگیاں(۲) تمھیں گرگٹ کی روش سکھانے کے لیے کافی تھیں۔ خدا نے کوئی کتاب ایسی ناپاک تعلیم دینے کے لیے نہیں بھیجی اور نہ اس غرض کے لیے کوئی نبی مبعوث کیا۔ اس ذات حق کی طرف سے تو جو پیغام بھی آیا ہے اس لیے آیا ہے کہ دنیا جن غلط راستوں پر چل رہی ہے ان سب کو چھوڑ کر ایک سیدھا راستہ مقرر کرے‘ اس کے خلاف جتنے راستے ہوں ان کو مٹائے‘ اوردنیا کو ان سے ہٹانے کی کوشش کرے‘ ایمان داروں کی ایک جماعت بنائے جو نہ صرف خود اس سیدھے راستے پر چلیں بلکہ دنیا کو بھی اس کی طرف کھینچ لانے کی کوشش کریں۔ انبیاء علیہم السلام اور ان کے متبعین نے ہمیشہ اسی غرض کے لیے جہاد کیا ہے۔ اس جہاد میں اذیتیں اٹھائی ہیں۔ نقصان برداشت کیے ہیں اور جانیں دی ہیں۔ ان میں سے کسی نے مصائب کے خوف یا منافع کے لالچ سے رفتار زمانہ کو کبھی اپنا مقتدا({ FR 997 }) نہیں بنایا۔ اب اگر کوئی شخص یا کوئی گروہ ہدایت ِآسمانی کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے میں نقصان اورمشکلات اور خطرات دیکھتا ہے اور ان سے خوف زدہ ہو کر کسی ایسے راستے پر جانا چاہتا ہے جس پر چلنے والے اس کو خوش حال‘ کامیاب اور سربلند نظر آتے ہیں‘ تو وہ شوق سے اپنے پسندیدہ راستے پر جائے، مگر وہ بزدل اور حریص انسان اپنے نفس کو اور دنیا کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کیوں کرتا ہے کہ وہ خدا کی کتاب اور اس کے نبی کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کربھی اس کا پیرو ہے؟ نافرمانی خود ایک بڑا جرم ہے۔ اس پر جھوٹ اور فریب اور منافقت کا اضافہ کرکے آخر کیا فائدہ اٹھانا مقصود ہے؟
یہ خیال کہ زندگی کا دریا جس رخ بہہ گیا ہے اس سے وہ پھیرا نہیں جاسکتا عقلاً بھی غلط ہے اور تجربہ و مشاہدہ بھی اس کے خلاف گواہی دیتا ہے۔ دنیا میں ایک نہیں سیکڑوں انقلاب ہوئے ہیں اور ہر انقلاب نے اس دریا کے رُخ کو بدلا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال خود اسلام ہی میں موجود ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو زندگی کا یہ دریا کس رخ پر بہہ رہا تھا؟ کیا تمام دنیا پر کفر و شرک کا غلبہ نہ تھا؟ کیا استبداد اور ظلم کی حکومت نہ تھی؟ کیا انسانیت کو طبقات کی ظالمانہ تقسیم نے داغ دار نہ بنا رکھا تھا؟ کیا اخلاق پر فواحش‘ معاشرت پر نفس پرستی‘ معیشت پر ظالمانہ جاگیرداری و سرمایہ داری‘ اور قانون پر بے اعتدالی کا تسلط نہ تھا؟ مگر ایک تنِ واحد نے اٹھ کر تمام دنیا کو چیلنج دے دیا۔ تمام اُن غلط خیالات اور غلط طریقوں کو رد کر دیاجو اس وقت دنیا میں رائج تھے۔ ان سب کے مقابلے میں اپنا ایک عقیدہ اور اپنا ایک طریقہ پیش کیا‘ اور چند سال کی مختصر مدت میں اپنی تبلیغ اور جہاد سے دنیا کے رخ کو پھیر کر اور زمانے کے رنگ کو بدل کر چھوڑا۔
تازہ ترین مثال اشتراکی تحریک کی ہے۔ انیسویں صدی میں سرمایہ داری کا تسلط اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ کوئی بزدل مرغ بادنما({ FR 998 })اُس وقت یہ تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ جو نظام ایسی ہولناک سیاسی اور جنگی قوت کے ساتھ دنیا پر مسلط ہے اُس کو الٹ دینا بھی ممکن ہے، مگر انھی حالات میں ایک شخص کارل مارکس نامی اٹھا اور اس نے اشتراکیت کی تبلیغ شروع کی۔ حکومت نے اس کی مخالفت کی۔ وطن سے نکالا گیا۔ ملک ملک کی خاک چھانتا پھرا۔ تنگ دستی اور مصیبت سے دوچار ہوا، مگر مرنے سے پہلے اشتراکیوں کی ایک طاقت وَر جماعت پیدا کرگیا۔ جس نے چالیس سال کے اندر نہ صرف روس کی سب سے زیادہ خوف ناک طاقت کو الٹ کر رکھ دیا بلکہ تمام دنیا میں سرمایہ داری کی جڑیں ہلا دیں اور اپنا ایک معاشی اور تمدنی نظریہ اس قوت کے ساتھ پیش کیا کہ آج دنیا میں اس کے متبعین کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے، اور ان ممالک کے قوانین بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں جن پر سرمایہ داری کی حکومت گہری جڑوں کے ساتھ جمی ہوئی ہے، مگر انقلاب یا ارتقا ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے‘ اورقوت ڈھل جانے کا نام نہیں ڈھال دینے کا نام ہے‘ مڑجانے کو قوت نہیں کہتے‘ موڑ دینے کو کہتے ہیں۔ دنیا میں کبھی نامردوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا‘ جو لوگ اپنا کوئی اصول‘ کوئی مقصد حیات‘ کوئی نصب العین نہ رکھتے ہوں‘ جو بلند مقصد کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں‘ جو خطرات و مشکلات کے مقابلے کی ہمت نہ رکھتے ہوں‘ جن کو دنیا میں محض آسائش اور سہولت ہی مطلوب ہو‘ جو ہر سانچے میں ڈھل جانے اور ہر دبائو سے دب جانے والے ہوں‘ ایسے لوگوں کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ تاریخ بنانا صرف بہادر مردوں کاکام ہے۔ انھی نے اپنے جہاد اور اپنی قربانیوں سے زندگی کے دریا کارخ پھیرا ہے، دنیا کے خیالات بدلے ہیں، مناہجِ عمل میں انقلاب برپا کیا ہے، زمانے کے رنگ میں رنگ جانے کے بجائے زمانے کو خود اپنے رنگ میں رنگ کر چھوڑا ہے۔
پس یہ نہ کہو کہ دنیا جس راستے پر جارہی ہے اس سے وہ پھیری نہیں جاسکتی اور زمانے کی جو روش ہے اس کا اتباع کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔ مجبوری کا جھوٹا دعویٰ کرنے کے بجائے تم کو خود اپنی کمزوری کا سچا اعتراف کرنا چاہیے، اور جب تم اس کا اعتراف کرلو گے تو تم کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ کمزور کے لیے دنیا میں نہ کوئی مذہب ہوسکتا ہے‘ نہ کوئی اصول اور نہ کوئی ضابطہ۔ اس کو تو ہرزور آور سے دبنا پڑے گا۔ ہر طاقت وَر کے آگے جھکنا پڑے گا۔ وہ کبھی اپنے کسی اصول اور کسی ضابطے کا پابند نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی مذہب اس کے لیے اپنے اصول بدلتا چلا جائے تو وہ سرے سے کوئی مذہب ہی نہ رہے گا۔
یہ بھی ایک دھوکا ہے کہ اسلام کی قیود تمھاری خوش حالی اورترقی میں مانع ہیں۔ آخر تم اسلام کی کس قید کی پابندی کر رہے ہو؟ کون سی قید ہے جس سے تم آزاد نہیں ہوئے؟ اورکون سی حد ہے جس کو تم نے نہیں توڑا؟ تم کو جوچیزیں تباہ کر رہی ہیں ان میں سے کس کی اجازت اسلام نے تم کو دی تھی؟ تم تباہ ہو رہے ہو اپنی فضول خرچیوں سے جن کے لیے کروڑوں روپے کی جایدادیں تمھارے قبضے سے نکلتی جا رہی ہیں۔ کیا اسلام نے تم کو اس کی اجازت دی تھی؟ تم کو خود تمھاری بری عادتیں تباہ کر رہی ہیں۔ اس مفلسی کی حالت میں بھی سینما اور کھیل تماشے تمھاری آبادی سے بھرے رہتے ہیں۔ ہر شخص لباس اور زینت و آرائش کے سامانوں پر اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ تمھاری جیبوں سے ہر مہینے لکھو کھا روپیہ بے ہودہ رسموں اور نمائشی افعال اور جاہلانہ اشغال میں صَرف ہو جاتا ہے۔ ان میں سے کس کو اسلام نے تمھارے لیے حلال کیا تھا؟ سب سے بڑی چیز جس نے تم کو تباہ کر دیا ہے وہ ادائے زکوٰۃ میں غفلت اور آپس کی معاونت سے بے پروائی ہے۔ کیا اسلام نے یہ چیز تم پر فرض نہ کی تھی؟ پس حقیقت یہ ہے کہ تمھاری معیشت کی بربادی اسلامی قیود کی پابندی کا نتیجہ نہیں بلکہ ان سے آزادی کا نتیجہ ہے۔ رہی ایک سود کی پابندی تو وہ بھی کہاں قائم ہے؟ کم ازکم ۹۵ فی صدی مسلمان بغیر کسی حقیقی مجبوری کے سود پر قرض لیتے ہیں۔ کیا اسلامی احکام کی پابندی اسی کا نام ہے؟ مال دار مسلمانوں میں سے بھی ایک بڑا حصہ کسی نہ کسی شکل میں سود کھا ہی رہا ہے۔ باقاعدہ ساہوکاری نہ کی تو کیا ہوا‘ بینک اور بیمہ اور سرکاری بانڈز اور پراویڈنٹ فنڈز کا سود تو اکثر و بیش تر ما ل دار مسلمان کھاتے ہیں۔ پھر وہ حرمتِ سود کی قید کہاں ہے جس پر تم اپنی معاشی خستہ حالی کا الزام رکھتے ہو؟
عجیب پر لطف استدلال ہے کہ مسلمانوں کی عزت اور قومی طاقت کا مدار دولت مندی پر ہے‘ اور دولت کا مدار سود کے جواز پر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو ابھی تک یہی خبر نہیں کہ عزت اور طاقت کا مدار دراصل ہے کس چیز پر۔ محض دولت ہرگز وہ چیز نہیں ہے جو کسی قوم کو معزز اور طاقت وَر بناتی ہو۔ تمھارا ایک ایک شخص اگر لکھ پتی اور کروڑ پتی بن جائے مگر تم میں کیریکٹر کی طاقت نہ ہو تو یقین رکھو کہ دنیا میں تمھاری کوئی عزت نہ ہوگی۔ بخلاف اس کے اگر تم میں درحقیقت اسلامی سیرت موجود ہو‘ تم صادق اور امین ہو‘ لالچ اور خوف سے پاک ہو‘ اپنے اصول میں سخت اور اپنے معاملات میں کھرے ہو‘ حق کو حق اور فرض کو فرض سمجھنے والے ہو‘ حرام و حلال کی تمیز کو ہر حال میں ملحوظ رکھنے والے ہو‘ اور تم میں اتنی اخلاقی قوت موجود ہو کہ کسی نقصان کا خوف اور کسی فائدے کی طمع تم کو راستی سے نہ ہٹا سکے اور کسی قیمت پر تمھارا ایمان نہ خریدا جاسکے‘ تو دنیا میں تمھاری ساکھ قائم ہو جائے گی‘ دلوں میں تمھاری عزت بیٹھ جائے گی۔ تمھاری بات کا وزن لکھ پتی کی پوری دولت سے زیادہ ہوگا‘ تم جھونپڑیوں میں رہ کر اور پیوند لگے کپڑے پہن کر بھی دولت سرائوں میں رہنے والوں سے زیادہ احترام کی نظر سے دیکھے جائو گے اور تمھاری قوم کو ایسی طاقت حاصل ہوگی جس کو کبھی نیچا نہیں دکھایا جاسکتا۔ عہد صحابہؓ کے مسلمان کس قدر مفلس تھے۔ جھونپڑیوں اورکمبل کے خیموں میں رہنے والے‘ تمدن کی شان و شوکت سے ناآشنا‘ نہ ان کے لباس درست‘ نہ غذا درست‘ نہ ہتھیار درست‘ نہ سواریاں شان دار، مگر ان کی جو دھاک اور ساکھ دنیا میں تھی وہ نہ اموی عہدمیں مسلمانوں کو نصیب ہوئی‘ نہ عباسی عہدمیں اور نہ بعد کے کسی عہد میں۔ ان کے پاس دولت نہ تھی مگر کریکٹر کی طاقت تھی جس نے دنیا میں اپنی عزت اورعظمت کا سکہ بٹھا دیا تھا۔ بعد والوں کے پاس دولت آئی‘ حکومت آئی، تمدن کی شان و شوکت آئی، مگر کوئی چیز بھی کریکٹر کی کمزوری کا بدل فراہم نہ کرسکی۔
تم نے تاریخ اسلام کا سبق تو فراموش ہی کر دیا ہے‘ مگر دنیا کی جس قوم کی تاریخ چاہو اٹھا کر دیکھ لو‘ تم کو ایک مثال بھی ایسی نہ ملے گی کہ کسی قوم نے محض سہولت پسندی اور آرام طلبی اور منفعت پرستی سے عزت اور طاقت حاصل کی ہو۔ تم کسی ایسی قوم کو معزز اور سربلند نہ پائو گے جو کسی اصول اورکسی ڈسپلن کی پابند نہ ہو‘ کسی بڑے مقصد کے لیے تنگی اور مشقت اور سختی برداشت نہ کرسکتی ہو‘ اور اپنے اصول و مقاصد کے لیے اپنے نفس کی خواہشات کو اور خود اپنے نفس کو بھی قربان کر دینے کا جذبہ نہ رکھتی ہو۔ یہ ڈسپلن اور اصول کی پابندی اوربڑے مقاصد کے لیے راحت و آسائش اور منافع کی قربانی کسی نہ کسی رنگ میں تم کو ہرجگہ نظر آئے گی۔ اسلام میں اس کا رنگ کچھ اور ہے اور دوسری ترقی یافتہ قوموں میں کچھ اور۔ یہاں سے نکل کر تم کسی اور نظام تمدن میں جائو گے تو وہاں بھی تم کو اس رنگ میں نہ سہی، کسی دوسرے رنگ میں ایک نہ ایک ضابطے کا پابند ہونا پڑے گا‘ ایک نہ ایک ڈسپلن کی گرفت برداشت کرنی ہوگی۔ چند مخصوص اصولوں کے شکنجے میں بہرحال تم جکڑے جائو گے‘ اور تم سے کسی مقصداور کسی اصول کی خاطر قربانی کا مطالبہ ضرور کیا جائے گا۔ اگر اس کا حوصلہ تم میں نہیں ہے‘ اگر تم صرف نرمی اور کشادگی اور مٹھاس ہی کے متوالے ہو اورکسی سختی‘ کسی کڑواہٹ کو گوارا کرنے کی طاقت تم میں نہیں ہے تو اسلام کی قید و بند سے نکل کر جہاں چاہو جاکر دیکھ لو۔ کہیں تم کو عزت کا مقام نہ ملے گا، اور کسی جگہ طاقت کا خزانہ تم نہ پاسکو گے۔ قرآن نے اس قاعدے کلیے کو صرف چار لفظوں میں بیان کیا ہے اور وہ چار لفظ ایسے ہیں جن کی صداقت پر پوری تاریخ عالم گواہ ہے:
اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا الم نشرح96:6 یُسر کا دامن ہر حال میں عُسر کے ساتھ وابستہ ہے۔ جس میں عُسر کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں وہ کبھی یُسر سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔
(ترجمان القرآن، صفر ۱۳۵۵ھ۔ اپریل ۱۹۳۶ء)


۱۹۔ مسلمانوں کے لیے جدید تعلیمی پالیسی اور لائحہ عمل

یہ وہ نوٹ ہے جو مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کی مجلسِ اصلاحِ نصابِ دینیات کے استفسارات کے جواب میں بھیجا گیا تھا۔ اگرچہ اس میںخطاب بظاہر مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے ہے‘ لیکن دراصل اس کے مخاطب مسلمانوں کے تمام تعلیمی ادارات ہیں۔ جس تعلیمی پالیسی کی توضیح اس نوٹ میں کی گئی ہے‘ اسے اختیار کرنا مسلمانوں کے لیے ناگزیر ہے۔ علی گڑھ ہو یا دیوبند یا ندوہ یا جامعہ ملیہ‘ سب کا طریقۂ کار اب زائد المیعاد ہوچکا ہے‘ اگر یہ اس پر نظرثانی نہ کریں گے تو اپنی افادیت بالکل کھودیں گے۔
مسلم یونی ورسٹی کورٹ اس امر پر تمام مسلمانوں کے شکریے کا مستحق ہے کہ اس نے اپنے ادارے کے بنیادی مقصدیعنی طلبہ میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کی طرف توجہ کی، اور اس کو روبعمل لانے کے لیے آپ کی مجلس کاتقرر کیا۔ اس سلسلے میں جو کاغذات یونی ورسٹی کے دفتر سے بھیجے گئے ہیں ان کو میں نے پورے غور و خوض کے ساتھ دیکھا۔ جہاں تک دینیات اورعلوم اسلامیہ کے موجودہ طریق تعلیم کا تعلق ہے اس کے ناقابل اطمینان ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ جو نصاب اس وقت پڑھایا جا رہا ہے وہ یقیناً ناقص ہے، لیکن مجلس کے معزز ارکان کی جانب سے جو سوالات مرتب کیے گئے ہیں‘ ان کے مطالعے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مجلس کے پیش نظر صرف ترمیمِ نصاب کا سوال ہے‘ اور غالبًا یہ سمجھا جارہا ہے کہ چند کتابوں کو خارج کر کے چند دوسری کتابیں رکھ دینے سے طلبہ میں ’اسلامی اسپرٹ‘ پیدا کی جاسکتی ہے۔ اگر میرا قیاس صحیح ہے تو میں کہوں گا کہ یہ اصلی صورت حال کا بہت ہی نامکمل اندازہ ہے۔ دراصل ہم کو اس سے زیادہ گہرائی میں جاکر یہ دیکھنا چاہیے کہ قرآن‘ حدیث‘ فقہ اورعقائد کی اس تعلیم کے باوجود جو اس وقت دی جارہی ہے‘طلبا میں ’’حقیقی اسلامی اسپرٹ‘‘ پیدا نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟ اگر محض موجودہ نصاب دینیات کا نقص ہی اس کی وجہ ہے تو اس نقص کو دور کرنا بلاشبہ اس خرابی کو رفع کر دینے کے لیے کافی ہو جائے گا، لیکن اگر اس کے اسباب زیادہ وسیع ہیں‘ اگر آپ کی پوری تعلیمی پالیسی میں کوئی اساسی خرابی موجود ہے تو اصلاح حال کے لیے محض نصاب دینیات کی ترمیم ہرگز کافی نہ ہوگی۔ اس کے لیے آپ کو اصلاحات کا دائرہ زیادہ وسیع کرنا ہوگا۔ خواہ وہ کتنا ہی محنت طلب اور مشکلات سے لبریز ہو۔ میں نے اس مسئلے پر اسی نقطہ نظر سے غور کیا ہے‘ اور جن نتائج پر میں پہنچا ہوں انھیں امکانی اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔
میرا یہ بیان تین حصوںپر مشتمل ہوگا:
٭ پہلے حصے میں یونی ورسٹی کی موجودہ تعلیمی پالیسی پر تنقیدی نظر ڈال کر اس کی اساسی خرابیوں کو واضح کیا جائے گا اور یہ بتایا جائے گا کہ مسلمانوں کے حقیقی مفاد کے لیے اب ہماری تعلیمی پالیسی کیا ہونی چاہیے۔
٭ دوسرے حصے میں اصلاحی تجاویز پیش کی جائیں گی۔
٭ اور تیسرے حصے میں ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی تدابیر سے بحث کی جائے گی۔
اس وقت مسلم یونی ورسٹی میں جو طریق تعلیم رائج ہے وہ تعلیمِ جدید اور اسلامی تعلیم کی ایک ایسی آمیزش پر مشتمل ہے جس میں کوئی امتزاج اور کوئی ہم آہنگی نہیں۔ دو بالکل متضاد اور بے جوڑ تعلیمی عنصروں کو جوں کا توں لے کر ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہے۔ ان میں یہ صلاحیت پیدا نہیں کی گئی کہ ایک مرکب علمی قوت بن کر کسی ایک کلچر کی خدمت کرسکیں۔ یک جائی و اجتماع کے باوجود یہ دونوں عنصر نہ صرف ایک دوسرے سے الگ رہتے ہیں‘ بلکہ ایک دوسرے کی مزاحمت کرکے طلبہ کے ذہن کو دو مخالف سمتوں کی طرف کھینچتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے قطع نظر‘ خالص تعلیمی نقطہ نگاہ سے بھی اگر دیکھا جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ تعلیم میں اس قسم کے متبائن({ FR 999 }) اور متزاحم(۲) عناصرکی آمیزش اصلاً غلط ہے‘ اور اس سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔
اسلامی نقطہ نظر سے یہ آمیزش اور بھی زیادہ قباحت کا سبب بن گئی ہے‘کیونکہ اول تو خود آمیزش ہی درست نہیں ہے‘پھر اس پر مزید خرابی یہ ہے کہ آمیزش بھی مساویانہ نہیں ہے۔ اس میں مغربی عنصر بہت طاقت ور اور اسلامی عنصر اس کے مقابلے میں بہت کمزور ہے۔ مغربی عنصر کو پہلا فائدہ تو یہ حاصل ہے کہ وہ ایک عصری عنصر ہے جس کی پشت پر رفتار زمانہ کی قوت اور ایک عالم گیر حکمراں تمدن کی طاقت ہے۔ اس کے بعد وہ ہماری یونی ورسٹی کی تعلیم میں ٹھیک اسی شان اور اسی طاقت کے ساتھ شریک کیا گیا ہے جس کے ساتھ وہ ان یونی ورسٹیوں میں ہے اور ہونا چاہیے جو مغربی کلچر کی خدمت کے لیے قائم کی گئی ہیں۔ یہاں مغربی علوم و فنون کی تعلیم اس طور پر دی جاتی ہے کہ ان کے تمام اصول اور نظریات مسلمان لڑکوں کے صاف اور سادہ لوح دل پر ایمان بن کر ثبت ہو جاتے ہیں اور ان کی ذہنیت کلیتاً مغربی سانچے میں ڈھل جاتی ہے‘ حتیٰ کہ وہ مغربی نظر سے دیکھنے اور مغربی دماغ سے سوچنے لگتے ہیں‘ اور یہ اعتقاد ان پر مسلط ہو جاتا ہے کہ دنیا میں اگر کوئی چیز معقول اور باوقعت ہے تو وہی ہے جو مغربی حکمت کے اصول و مبادی سے مطابقت({ FR 1000 }) رکھتی ہو۔ پھر ان تاثرات کو مزید تقویت اس تربیت سے پہنچتی ہے جو ہماری یونی ورسٹی میں عملاً دی جارہی ہے۔ لباس‘ معاشرت‘ آداب و اطوار‘ رفتار و گفتار‘ کھیل کود‘ غرض کون سی چیز ہے جس پر مغربی تہذیب و تمدن اور مغربی رجحانات کا غلبہ نہیں ہے۔ یونی ورسٹی کا ماحول اگر پورا نہیں تو ۹۵ فی صدی یقیناً مغربی ہے اور ایسے ماحول کے جو اثرات ہوسکتے ہیں اور ہوا کرتے ہیں ان کو ہر صاحب نظر خود سمجھ سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی عنصر نہایت کمزور ہے۔ اول تو وہ اپنی تمدنی و سیاسی طاقت کھوکر ویسے ہی کمزور ہو چکا ہے۔ پھر ہماری یونی ورسٹی میں اس کی تعلیم جن کتابوں کے ذریعے سے دی جاتی ہے وہ موجودہ زمانے سے صدیوں پہلے لکھی گئی تھیں۔ ان کی زبان اور ترتیب و تدوین ایسی نہیں جو عصری دماغوں کو اپیل کرسکے۔ ان میں اسلام کے ابدی اصولوں کو جن حالات اور جن عملی مسائل پر منطبق کیا گیا ہے‘ ان میں سے اکثر اب در پیش نہیں ہیں‘ اور جو مسائل اب درپیش ہیں ان پر ان اصولوں کو منطبق کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ مزید براں اس تعلیم کی پشت پر کوئی تربیت‘ کوئی زندہ ماحول‘ عملی برتائو اور چلن بھی نہیں۔ اس طرح مغربی تعلیم کے ساتھ اسلامی تعلیم کی آمیزش اور بھی زیادہ بے اثر ہو جاتی ہے۔ ایسی نامساوی آمیزش کا طبیعی نتیجہ یہ ہے کہ طلبا کے دل و دماغ پر مغربی عنصر پوری طرح غالب آجائے اور اسلامی عنصر محض ایک سامان مضحکہ بننے کے لیے رہ جائے‘ یا زیادہ سے زیادہ اس لیے کہ زمانہ ماضی کے آثار باقیہ کی طرح اس کا احترام کیا جائے۔
میں اپنی صاف گوئی پر معافی کا خواستگارہوں‘ مگر جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں اس کو بے کم و کاست بیان کر دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ میری نظر میں مسلم یونی ورسٹی کی دینی و دنیاوی تعلیم بحیثیت مجموعی بالکل ایسی ہے کہ آ پ ایک شخص کو از سر تا پا غیر مسلم بناتے ہیں۔ پھر اس کی بغل میں دینیات کی چند کتابوں کا ایک بستہ دے دیتے ہیں‘ تاکہ آپ پر اسے غیر مسلم بنانے کا الزام عائد نہ ہو‘ اور اگر وہ اس بستے کو اٹھا کر پھینک دے (جس کی وجہ دراصل آپ ہی کی تعلیم ہوگی) تو وہ خود ہی اس فعل کے لیے قابل الزام قرار پائے۔ اس طرز تعلیم سے اگر آپ یہ امید رکھتے ہیں کہ یہ مسلمان پیدا کرے گا تو یہ یوں سمجھنا چاہیے کہ آپ معجزے اور خرقِ عادت کے متوقع ہیں کیونکہ آپ نے جو اسباب مہیا کیے ہیں ان سے قانونِ طبیعی کے تحت تو یہ نتیجہ کبھی برآمد نہیں ہوسکتا۔ فی صدی ایک یا دو چار طالب علموں کا مسلمان (کامل اعتقادی و عملی مسلمان) رہ جانا کوئی حجت نہیں۔ یہ آپ کی یونی ورسٹی کے فیضانِ تربیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کا ثبوت ہے کہ جو اس فیضان سے اپنے ایمان و اسلام کو بچا لے گیا وہ دراصل فطرت ابراہیمی پر پیدا ہوا تھا۔ ایسے مستثنیات جس طرح علی گڑھ کے فارغ التحصیل اصحاب میں پائے جاتے ہیں، اسی طرح ہندستان کی سرکاری یونی ورسٹیوں، بلکہ یورپ کی یونی ورسٹیوں کے مُتَخَرِجِیْن میں بھی مل سکتے ہیں جن کے نصاب میں سرے سے کوئی اسلامی عنصر ہے ہی نہیں۔
اب اگر آپ ان حالات اور اس طرز تعلیم کو بعینہٖ باقی رکھیں اور محض دینیات کے موجودہ نصاب کو بدل کر زیادہ طاقت ور نصاب شریک کر دیں تو اس کا حاصل صرف یہ ہوگا کہ فرنگیت اور اسلامیت کی کشمکش زیادہ شدید ہو جائے گی۔ ہر طالب علم کا دماغ ایک رزم گاہ({ FR 1031 }) بن جائے گا جس میں یہ دو طاقتیں پوری طاقت کے ساتھ جنگ کریں گی اور بالآخر آپ کے طلبہ تین مختلف گروپوں میں بٹ جائیں گے:
٭ ایک وہ جن پر فرنگیت غالب رہے گی‘ عام اس سے کہ وہ انگریزیت کے رنگ میں ہو‘ یا ہندی وطن پرستی کے رنگ میں، یا ملحدانہ اشتراکیت کے رنگ میں۔
٭ دوسرے وہ جن پر اسلامیت غالب رہے گی‘ خواہ اس کا رنگ گہرا ہو یا فرنگیت کے اثر سے پھیکا پڑ جائے۔
٭ تیسرے وہ جو نہ پورے مسلمان ہوں گے، نہ پورے فرنگی۔
ظاہر ہے کہ تعلیم کا یہ نتیجہ بھی کوئی خوش گوار نتیجہ نہیں۔ نہ خالص تعلیمی نقطہ نظر سے اس اجتماعِ نقیضین({ FR 1001 }) کو مفید کہا جاسکتا ہے‘ اور نہ قومی نقطہ نظر سے ایسی یونی ورسٹی اپنے وجود کو حق بجانب ثابت کرسکتی ہے جس کے نتائج کا۳ / ۲ حصہ قومی مفاد کے خلاف اور قومی تہذیب کے لیے نقصانِ کامل کا مترادف ہو۔ کم از کم مسلمانوں کی غریب قوم کے لیے تو یہ سودا بہت ہی مہنگا ہے کہ وہ لاکھوں روپے کے خرچ سے ایک ایسی ٹکسال جاری رکھے جس میں سے ۳۳ فی صدی سکے تو مستقل طور پر کھوٹے نکلتے رہیں‘ اور ۳۳ فی صدی ہمارے خرچ پر تیار ہو کر غیروں کی گود میں ڈال دیے جائیں‘ بلکہ بالآخر خود ہمارے خلاف استعمال ہوں۔
مذکورہ بالا بیان سے دو باتیں اچھی طرح واضح ہو جاتی ہیں:
٭ اولاً: تعلیم میں متضاد عناصر کی آمیزش اصولی حیثیت سے غلط ہے۔
٭ ثانیاً: اسلامی مفاد کے لیے بھی ایسی آمیزش کسی طرح مفید نہیں‘ خواہ وہ اس قسم کی غیرمساوی آمیزش ہو۔ جیسی اب تک رہی ہے‘ یا مساوی کر دی جائے‘ جیسا کہ اب کرنے کا خیال کیا جارہا ہے۔
ان امور کی توضیح کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میری رائے میں یونی ورسٹی کی تعلیمی پالیسی اب کیا ہونی چاہیے۔
یہ ظاہر ہے کہ ہر یونی ورسٹی کسی کلچر کی خادم ہوتی ہے۔ ایسی مجرد تعلیم جو ہر رنگ اور ہر صورت سے خالی ہو، نہ آج تک دنیا کی کسی درس گاہ میں دی گئی ہے‘ نہ آج دی جاری ہے۔ ہر درس گاہ کی تعلیم ایک خاص رنگ اور ایک خاص صورت میں ہوتی ہے اور اس رنگ و صورت کا انتخاب پورے غور و فکر کے بعد، اس مخصوص کلچر کی مناسبت سے کیا جاتا ہے جس کی خدمت وہ کرنا چاہتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ کی یونی ورسٹی کس کلچر کی خدمت کے لیے قائم کی گئی ہے۔ اگر وہ مغربی کلچر ہے تو اس کو مسلم یونی ورسٹی نہ کہیے‘ نہ اس میں دینیات کا ایک نصاب رکھ کر خواہ مخواہ طالب علموں کو ذہنی کش مکش میں مبتلا کیجیے، اور اگر وہ اسلامی کلچر ہے تو آپ کو اپنی یونی ورسٹی کی پوری ساخت بدلنی پڑے گی اور اس کی ہیئتِ ترکیبی کو ایسے طرز پر ڈھالنا ہوگا کہ وہ بحیثیت مجموعی اس کلچر کے مزاج اور اس کی اسپرٹ کے مناسب ہو‘ اور نہ صرف اس کا تحفظ کرے بلکہ اس کو آگے بڑھانے کے لیے ایک اچھی طاقت بن جائے۔
جیسا کہ میں اوپر ثابت کر چکا ہوں کہ موجودہ حالت میں تو آپ کی یونی ورسٹی اسلامی کلچر کی نہیں بلکہ مغربی کلچر کی خادم بنی ہوئی ہے۔ اس حالت میں اگر صرف اتنا تغیر کیا جائے کہ دینیات کے موجودہ نصاب کو بدل کر زیادہ طاقت ور کر دیا جائے اور تعلیم و تربیت کے باقی تمام شعبوں میں پوری مغربیت برقرار رہے تو اس سے بھی یہ درس گاہ اسلامی کلچر کی خادم نہیں بن سکتی۔ اسلام کی حقیقت پر غور کرنے سے یہ بات خود بخود آپ پر منکشف ہو جائے گی کہ دنیوی تعلیم و تربیت اور دینی تعلیم کو الگ کرنا اور ایک دوسرے سے مختلف رکھ کر ان دونوں کو یک جا جمع کر دینا بالکل لا حاصل ہے۔ اسلام مسیحیت کی طرح کوئی ایسا مذہب نہیں ہے جس کا دین دنیا سے کوئی الگ چیز ہو۔ وہ دنیا کو دنیا والوں کے لیے چھوڑ کر صرف اعتقادات اور اخلاقیات کی حد تک اپنے دائرے کو محدود نہیں رکھتا۔اس لیے مسیحی دینیات کی طرح اسلام کے دینیات کو دنیویات سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کا اصل مقصد انسان کو دنیا میں رہنے اور دنیا کے معاملات انجام دینے کے لیے ایک ایسے طریقے پر تیار کرنا ہے‘ جو اس زندگی سے لے کر آخرت کی زندگی تک سلامتی‘ عزت اور برتری کا طریقہ ہے۔ اس غرض کے لیے وہ اس کی فکر و نظر کو درست کرتا ہے۔ اس کے اخلاق کو سنوارتا ہے‘ اس کی سیرت کو ایک خاص سانچے میں ڈھالتا ہے، اس کے لیے حقوق و فرائض متعین کرتا ہے اور اس کو اجتماعی زندگی کا ایک خاص نظام وضع کر کے دیتا ہے۔
افراد کی ذہنی و عملی تربیت‘ سوسائٹی کی تشکیل و تنظیم اور زندگی کے تمام شعبوں کی تربیت و تعدیل({ FR 1002 }) کے باب میں اس کے اصول و ضوابط سب سے الگ ہیں۔ انھی کی بدولت اسلامی تہذیب ایک جداگانہ تہذیب کی شکل اختیار کرتی ہے‘ اور مسلمان قوم کا بحیثیت ایک قوم کے زندہ رہنا انھی کی پابندی پر منحصر ہے۔ پس جب حال یہ ہے تو ’اسلامی دینیات‘ کی اصلاح ہی بے معنی ہو جاتی ہے اگر زندگی اور اس کے معاملات سے اس کا ربط باقی نہ رہے۔ اسلامی کلچر کے لیے وہ عالم دین بے کارہے جو اسلام کے عقائد اور اصول سے واقف ہے مگر ان کو لے کر علم و عمل کے میدان میں بڑھنا اور زندگی کے دائم التغیر احوال(۲) و مسائل میں ان کو برتنا نہیں جانتا۔ اسی طرح اس کلچر کے لیے وہ عالم دین بھی بے کار ہے جو دل میں تو اسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے، مگر دماغ سے غیراسلامی طریق پر سوچتا ہے‘ معاملات کو غیر اسلامی نظر سے دیکھتا ہے اور زندگی کو غیر اسلامی اصولوں پر مرتب کرتا ہے۔ اسلامی تہذیب کے زوال اور اسلامی نظام تمدن کی ابتری کا اصل سبب یہی ہے کہ ایک مدت سے ہماری قوم میں صرف انھی دو قسموں کے عالم پیدا ہو رہے ہیں‘ اور دنیوی علم و عمل سے علم دین کا رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔
اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ اسلامی کلچر پھر سے جوان ہو جائے اور زمانے کے پیچھے چلنے کے بجائے آگے چلنے لگے‘ تو اس ٹوٹے ہوئے رابطے کو پھر قائم کیجیے، مگر اس کو قائم کرنے کی صورت یہ نہیں ہے کہ دینیات کے نصاب کو جسم تعلیمی کی گردن کا قلادہ(۳) یا کمر کا پشتارہ(۴) بنا دیا جائے۔ نہیں، اس کو پورے نظام تعلیم و تربیت میں اس طرح اتار دیجیے کہ وہ اس کا دوران خون‘ اس کی روح رواں، اس کی بینائی و سماعت‘ اس کا احساس و ادراک‘ اس کا شعور و فکر بن جائے‘ اور مغربی علوم و فنون کے تمام صالح اجزا کو اپنے اندر جذب کرکے اپنی تہذیب کا جز بناتا چلا جائے۔ اس طرح آپ مسلمان فلسفی‘ مسلمان سائنس دان‘ مسلمان ماہرین معاشیات‘ مسلمان مقنن‘ مسلمان مدبرین‘ غرض تمام علوم و فنون کے مسلمان ماہر پیدا کرسکیں گے جو زندگی کے مسائل کو اسلامی نقطۂ نظر سے حل کریں گے‘ تہذیب حاضر کے ترقی یافتہ اسباب و وسائل سے تہذیب اسلامی کی خدمت لیں گے‘ اور اسلام کے افکار و نظریات اور قوانین حیات کو روح عصری کے لحاظ سے از سر نو مرتب کریں گے‘ یہاں تک کہ اسلام از سر نو علم و عمل کے ہر میدان میں اسی امامت و رہنمائی کے مقام پر آجائے گا جس کے لیے وہ درحقیقت دنیا میں پیدا کیا گیا ہے۔
یہ ہے وہ تخیل جو مسلمانوں کی جدید تعلیمی پالیسی کا اساسی تخیل ہونا چاہیے۔ زمانہ اس مقام سے بہت آگے نکل چکا ہے جہاں سرسید ہم کو چھوڑ گئے تھے۔ اب اگر زیادہ عرصے تک ہم اس پر قائم رہے تو بحیثیت ایک مسلم قوم کے ہمارا ترقی کرنا تو درکنار‘ زندہ رہنا بھی مشکل ہے۔
(۲)
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اوپر جس تعلیمی پالیسی کا ہیولیٰ({ FR 1003 }) میں نے پیش کیا ہے اس کو صورت کالباس کس طرح پہنایا جاسکتا ہے۔
۱۔ مسلم یونی ورسٹی کے حدود میں ’فرنگیت‘ کا کلی استیصال(۲) کر دینا نہایت ضروری ہے۔ اگر ہم اپنی قومی تہذیب کو اپنے ہاتھوں قتل کرنا نہیں چاہتے تو ہمارا فرض ہے کہ اپنی نئی نسلوں میںفرنگیت کے ان روز افزوں رجحانات کا سدباب کریں۔ یہ رجحانات دراصل غلامانہ ذہنیت اور باطنی احساسِ دنائت (Inferiority complex)کی پیداوار ہیں۔ پھر جب ان کا عملی ظہور‘ لباس‘ معاشرت‘ آداب و اطوار اور بحیثیت مجموعی پورے ماحول میں ہوتا ہے تو یہ ظاہر اور باطن دونوں طرف سے نفس کا احاطہ کر لیتے ہیں‘ اور اس میں شرفِ قومی کا رمق(۳) برابر احساس نہیں چھوڑتے۔ ایسے حالات میں اسلامی تہذیب کا زندہ رہنا قطعی ناممکن ہے۔ کوئی تہذیب محض اپنے اصولوں اور اپنے اساسی تصورات کے مجرد ذہنی وجود سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ عملی برتائو سے پیدا ہوتی ہے اور اسی سے نشوونما پاتی ہے۔ اگر عملی برتائو مفقود ہو جائے تو تہذیب اپنی طبیعی موت مرجائے گی‘ اور اس کا ذہنی وجود بھی برقرار نہ رہ سکے گا۔ پس سب سے مقدم اصلاح یہ ہے کہ یونی ورسٹی میں ایک زندہ اسلامی ماحول پیدا کیا جائے۔ آپ کی تربیت ایسی ہونی چاہیے جو مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اپنی قومی تہذیب پر فخر کرنا سکھائے‘ ان میں اپنی قومی خصوصیات کا احترام بلکہ عشق پیدا کرے‘ ان میں اسلامی اخلاق اور اسلامی سیرت کی روح پھونک دے‘ ان کو اس قابل بنا دے کہ وہ اپنے علم اور اپنی تربیت یافتہ ذہنی صلاحیتوں سے اپنے قومی تمدن کو شائستگی کے بلند مدارج کی طرف لے چلیں۔
۲۔ اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کا انحصار بڑی حد تک معلمین کے علم و عمل پر ہے۔ جو معلم خود اس روح سے خالی ہیں‘ بلکہ خیال اورعمل دونوں میں اس کے مخالف ہیں ان کے زیر اثر رہ کر متعلمین میں اسلامی اسپرٹ کیسے پیدا ہوسکتی ہے؟ آپ محض عمارت کا نقشہ بنا سکتے ہیں‘ مگر اصلی معمار آپ نہیں، آپ کے تعلیمی اسٹاف کے ارکان ہیں۔ فرنگی معماروں سے یہ امید رکھنا کہ وہ اسلامی طرز تعمیرپر عمارت بنائیں گے‘ کریلے کی بیل سے خوشۂ انگور کی امید رکھنا ہے۔ محض دینیات کے لیے چند ’مولوی‘ رکھ لینا ایسی صورت میں بالکل فضول ہوگا جب کہ دوسرے تمام یا اکثر علوم کے پڑھانے والے غیر مسلم یا ایسے مسلمان ہوں جن کے خیالات غیر اسلامی ہوں، کیونکہ وہ زندگی اور اس کے مسائل اور معاملات کے متعلق طلبا کے نظریات اور تصورات کو اسلام کے مرکز سے پھیر دیں گے‘ اور اس زہر کا تریاق محض دینیات کے کورس سے فراہم نہ ہوسکے گا۔ لہٰذا خواہ کوئی فن ہو‘ فلسفہ ہو یا سائنس‘ معاشیات ہو یا قانون‘ تاریخ ہو یا کوئی اور علم‘ مسلم یونی ورسٹی میں اس کی پروفیسری کے لیے کسی شخص کا محض ماہر فن ہونا کافی نہیں ہے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ پورا اورپکا مسلمان ہو۔ اگر مخصوص حالات میں کسی غیر مسلم ماہر فن کی خدمات حاصل کرنی پڑیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن عام قاعدہ یہی ہونا چاہیے کہ ہماری یونی ورسٹی کے پروفیسر وہ لوگ ہوں جو اپنے فن میں ماہر ہونے کے علاوہ یونی ورسٹی کے اساسی مقصد یعنی اسلامی کلچر کے لیے خیالات اور اعمال دونوں کے لحاظ سے مفید ہوں۔
۳۔ یونی ورسٹی کی تعلیم میں عربی زبان کو بطور ایک لازمی زبان کے شریک کیا جائے۔ یہ ہمارے کلچر کی زبان ہے۔ اسلام کے مآخذ اصلیہ تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے۔ جب تک مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ قرآن اور سنت تک بلاواسطہ دسترس حاصل نہ کرے گا‘ اسلام کی روح کو نہ پاسکے گا‘ نہ اسلام میں بصیرت حاصل کرسکے گا۔ وہ ہمیشہ مترجموں اور شارحوں کا محتاج رہے گا‘ اور اس طرح کی روشنی اس کو براہِ راست آفتاب سے کبھی نہ مل سکے گی، بلکہ مختلف قسم کے رنگین آئینوں کے واسطے ہی سے ملتی رہے گی‘ آج ہمارے جدید تعلیم یافتہ حضرات اسلامی مسائل میں ایسی ایسی غلطیاں کر رہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کی ابجد تک سے ناواقف ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ قرآن اور سنت سے استفادہ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں رکھتے۔آگے چل کر پراونشل اٹانومی({ FR 1004 }) کے دور میں جب ہندستان کی مجالس مقننہ کو قانون سازی کے زیادہ وسیع اختیارات حاصل ہوں گے اور سوشل ریفارم(۲) کے لیے نئے نئے قوانین بنائے جانے لگیں گے۔ اس وقت اگر مسلمانوں کی نمائندگی ایسے لوگ کرتے رہے جو اسلام سے ناواقف ہوں اور اخلاق‘ معاشرت اور قانون کے مغربی تصورات پر اعتقاد رکھتے ہوں‘ تو جدید قانون سازی سے مسلمانوں میں سوشل ریفارم ہونے کے بجائے انٹی سوشل ڈیفارم ہوگی اور مسلمانوں کا اجتماعی نظام اپنے اصولوں سے اور زیادہ دور ہوتا چلا جائے گا۔ پس عربی زبان کے مسئلے کو محض ایک زبان کا مسئلہ نہ سمجھیے‘ بلکہ یوں سمجھیے کہ یہ آپ کی یونی ورسٹی کے اساسی مقصد سے تعلق رکھتا ہے اور جو چیز اساسیات (funadamentals)سے تعلق رکھتی ہو اس کے لیے سہولت کا لحاظ نہیں کیا جاتا‘ بلکہ ہر حال میں اس کی جگہ نکالنی پڑتی ہے۔
۴۔ ہائی اسکول کی تعلیم میں طلبہ کو حسب ذیل مضامین کی ابتدائی معلومات حاصل ہونی چاہییں۔
الف۔ عقائد: اس مضمون میں عقائد کی خشک کلامی تفصیلات نہ ہونی چاہییں، بلکہ ایمانیات کو ذہن نشین کرنے کے لیے نہایت لطیف انداز بیان اختیارکرنا چاہیے جو فطری وجدان اورعقل کو اپیل کرنے والا ہو۔
طلبہ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کے ایمانیات دراصل کائنات کی بنیادی صداقتیں ہیں اور یہ صداقتیں ہماری زندگی سے ایک گہرا ربط رکھتی ہیں۔
ب۔ اسلامی اخلاق: اس مضمون میں مجرد اخلاقی تصورات نہ پیش کیے جائیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام اور انبیاء علیہم السلام کی سیرتوں سے ایسے واقعات لے کر جمع کیے جائیں جن سے طلبہ کو معلوم ہو کہ ایک مسلمان کے کریکٹر کی خصوصیات کیا ہیں اور مسلمان کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔
ج۔احکام فقہ: اس مضمون میں حقوق اللہ اور حقوق العباد اور شخصی کردار کے متعلق اسلامی قانون کے ابتدائی اور ضروری احکام بیان کیے جائیں جن سے واقف ہونا ہر مسلمان کے لیے ناگزیر ہے، مگر اس قسم کے جزئیات اس میں نہ ہونے چاہییں جیسے ہماری فقہ کی پرانی کتابوں میں آتے ہیں کہ مثلاً کنویں میں چوہا گر جائے تو کتنے ڈول نکالے جائیں۔ ان چیزوں کے بجائے عبادات اور احکام کی معنویت‘ ان کی روح اور ان کے مصالح طلبہ کے ذہن نشین کرنے چاہییں۔ ان کو یہ بتانا چاہیے اسلام تمھارے لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کیا پروگرام بتاتا ہے اور یہ پروگرام کس طرح ایک صالح سوسائٹی کی تخلیق کرتا ہے۔
د۔ اسلامی تاریخ: یہ مضمون صرف سیرت رسولؐ اور دور صحابہؓ تک محدود رہے۔ اس کے پڑھانے کی غرض یہ ہونی چاہیے کہ طلبہ اپنے مذہب اور اپنی قومیت کی اصل سے واقف ہو جائیں اور ان کے دلوں میں اسلامی حمیت کا صحیح احساس پیدا ہو۔
ر۔عربیت: عربی زبان کا محض ابتدائی علم جو ادب سے ایک حد تک مناسبت پیدا کر دے۔
س۔قرآن: صرف اتنی استعداد کہ لڑکے کتاب اللہ کو روانی کے ساتھ پڑھ سکیں۔ سادہ آیتوں کو کسی حد تک سمجھ سکیں اور چند سورتیں بھی ان کو یاد ہوں۔
۵۔ کالج کی تعلیم میں ایک نصاب عام ہونا چاہیے جو تمام طلبہ کو پڑھایا جائے۔ اس نصاب میں حسب ذیل مضامین ہونے چاہییں۔
الف۔ عربیت: انٹرمیڈیٹ میں عربی ادب کی متوسط تعلیم ہو۔ بی اے میں پہنچ کر اس مضمون کو تعلیم قرآن کے ساتھ ضم کر دیا جائے۔
ب۔قرآن: انٹرمیڈیٹ میں طلبہ کو فہم قرآن کے لیے مستعد کیا جائے۔ اس مرحلے میں صرف چند مقدمات ذہن نشین کرا دینے چاہییں۔ قرآن کا محفوظ اور تاریخی حیثیت سے معتبر ترین کتاب ہونا۔ اس کا وحی الٰہی ہونا۔ تمام مذاہب کی اساسی کتابوں کے مقابلے میں اس کی فضیلت۔ اس کی بے نظیر انقلاب انگیز تعلیم۔ اس کے اثرات نہ صرف عرب پر بلکہ تمام دنیا کے افکار اور قوانینِ حیات پر۔ اس کا انداز بیان اور طرزاستدلال۔ اس کا حقیقی مدعا۔
بی۔ اے میں اصل قرآن کی تعلیم دی جائے۔ یہاں طرز تعلیم یہ ہونا چاہیے کہ طلبہ خود قرآن کو پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کریں اور استاد ان کی مشکلات کو حل اور ان کے شبہات کو رفع کرتا جائے۔ اگر مفصل تفسیر اور جزئی بحثوں سے اجتناب ہو، اور صرف مطالب کی توضیح پر اکتفا کیا جائے تو دو سال میں با آسانی پورا قرآن پڑھایا جاسکتا ہے۔
ج۔ تعلیمات اسلامی: اس مضمون میں طلبہ کو پورے نظام اسلامی سے روشناس کرا دیا جائے۔ اسلام کی بنیاد کن اساسی تصورات پر قائم ہے۔ ان تصورات کی بنا پر وہ اخلاق اور سیرت کی تشکیل کس طرح کرتا ہے۔ پھر اس سوسائٹی کی زندگی کو وہ معاشرت‘ معیشت‘ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں کن اصولوں پر منظم کرتا ہے۔ اس کے اجتماعی نظام میں فرد اور جماعت کے درمیان حقوق و فرائض کی تقسیم کس ڈھنگ پر کی گئی ہے۔ حدود اللہ کیا ہیں۔ ان حدود کے اندر مسلمان کو کس حد تک فکرو عمل کی آزادی حاصل ہے اور ان حدود کے باہر قدم نکالنے سے نظام اسلامی پر کیا اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ یہ تمام امور جامعیت کے ساتھ نصاب میں لائے جائیں اور اس کو چار سال کے مدارج تعلیمی پر ایک مناسبت کے ساتھ تقسیم کر دیا جائے۔
۶۔ نصاب عام کے بعد علوم اسلامیہ کو تقسیم کرکے مختلف علوم و فنون کی اختصاصی تعلیم میں پھیلا دیجیے اور ہر فن میں اسی فن کی مناسبت سے اسلام کی تعلیمات کو پیوست کیجیے۔ مغربی علوم و فنون بجائے خود سب کے سب مفید ہیں‘ اور اسلام کو ان میں سے کسی کے ساتھ بھی دشمنی نہیں‘ بلکہ جواباً میں یہ کہوں گا کہ جہاں تک حقائق علمیہ کا تعلق ہے اسلام ان کا دوست ہے اور وہ اسلام کے دوست ہیں۔ دشمنی دراصل علم اور اسلام میں نہیں بلکہ مغربیت اور اسلام میں ہے۔ اکثر علوم میں اہل مغرب اپنے چند مخصوص اساسی تصورات‘ بنیادی مفروضات (hypothesis)،نقطہ ہائے آغاز(starting points)اور زاویہ ہائے نظر رکھتے ہیں جو بجائے خود ثابت شدہ حقائق نہیں ہیں بلکہ محض ان کے اپنے وجدانیات ہیں۔ وہ حقائق علمیہ کو اپنے ان وجدانیات کے سانچے میں ڈھالتے ہیں‘ اور اس سانچے کی مناسبت سے ان کو مرتب کرکے ایک مخصوص نظام بنا لیتے ہیں۔ اسلام کی دشمنی دراصل انھی وجدانیات سے ہے۔ وہ حقائق کا دشمن نہیں بلکہ اس وجدانی سانچے کا دشمن ہے جس میں ان حقائق کو ڈھالا اور مرتب کیا جاتا ہے۔ وہ خود اپنا ایک مرکزی تصور‘ ایک زاویۂ نظر‘ ایک نقطۂ آغاز فکر، ایک وجدانی سانچہ رکھتا ہے جو اپنی اصل اور فطرت کے اعتبار سے مغربی سانچوں کی عین ضد واقع ہوا ہے۔
اب یہ سمجھ لیجیے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے ضلالت({ FR 1005 }) کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ آپ مغربی علوم و فنون سے حقائق لیتے ہیں‘ بلکہ یہ ہے کہ آپ مغرب ہی سے اس کا وجدانی سانچہ بھی لے لیتے ہیں۔ فلسفہ‘ سائنس‘ تاریخ‘ قانون‘ سیاسیات‘ معاشیات اور دوسرے علمی شعبوں میں آپ خود ہی تو اپنے نوجوان اور خالی الذہن طلبہ کے دماغوں میں مغرب کے اساسی تصورات بٹھاتے ہیں‘ ان کی نظر کا فوکس مغربی زاویۂ نظر کے مطابق جماتے ہیں‘ مغربی مفروضات کو مسلمات بناتے ہیں۔ استدلال و استشہاد(۲) اور تحقیق و تفحیص(۳) کے لیے صرف وہی ایک نقطۂ آغاز ان کو دیتے ہیں جو اہل مغرب نے اختیار کیا ہے اور تمام علمی حقائق اور مسائل کو اسی طرز پر مرتب کرکے ان کے ذہن میں اتار دیتے ہیں جس طرز پر اہل مغرب نے ان کو مرتب کیا ہے۔ اس کے بعد آپ چاہتے ہیں کہ تنہا دینیات کا شعبہ انھیں مسلمان بنا دے۔ یہ کس طرح ممکن ہے؟ وہ شعبہ دینیات کیا کرسکتا ہے جس میں مجرد تصورات ہوں۔ حقائقِ علمیہ اور مسائلِ حیات پر ان تصورات کا انطباق نہ ہو بلکہ طلبہ کے ذہن میں جملہ معلومات کی ترتیب ان تصورات کے بالکل برعکس ہو۔ یہی گمراہی کا سرچشمہ ہے۔ اگر آپ گمراہی کا سدباب کرنا چاہتے ہیں تو اس سرچشمے کے مصدر({ FR 1033 }) پر پہنچ کر اس کا رخ پھیر دیجیے اور تمام علمی شعبوں کو وہ نقطہ آغاز‘ وہ زاویۂ نظر‘ وہ اساسی اصول دیجیے جو قرآن نے آپ کودیے ہیں۔ جب اسی وجدانی سانچے میں معلومات مرتب ہوں گی اور اس نظر سے کائنات اور زندگی کے مسائل کو حل کیا جائے گا تب آپ کے طلبہ ’مسلم طلبہ‘ بنیں گے اور آپ کہہ سکیں گے کہ ہم نے ان میں اسلامی سپرٹ پیدا کی، ورنہ ایک شعبے میں اسلام اور باقی تمام شعبوں میں غیر اسلام رکھ دینے کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ آپ کے فارغ التحصیل طلبہ فلسفے میں غیر مسلم‘ سائنس میں غیر مسلم‘ قانون میں غیر مسلم‘ سیاسیات میں غیر مسلم‘ فلسفۂ تاریخ میں غیر مسلم‘ معاشیات میں غیر مسلم ہوں گے اور ان کا اسلام محض چند اعتقادات اور چند مذہبی مراسم کی حد تک محدود رہ جائے گا۔
۷۔ بی‘ ٹی‘ ایچ اور ایم‘ ٹی‘ ایچ کے امتحانات کو بند کر دیجیے۔ نہ ان کی کوئی ضرورت، نہ فائدہ۔ جہاں تک علوم اسلامیہ کے مخصوص شعبوں کا تعلق ہے ان میں سے ہر ایک شعبے کو اسی کے مماثل(۲) علم کے مغربی شعبے کے انتہائی کورس میں داخل کر دیجیے۔ مثلاً فلسفے میں حکمت اسلامیہ اور اسلامی فلسفے کی تاریخ اور فلسفیانہ افکار کے ارتقا میں مسلمانوں کا حصہ۔ تاریخ میں تاریخ اسلام اور اسلامی فلسفہ تاریخ‘ قانون میں اسلامی قانون کے اصول اور فقہ کے وہ ابواب جو معاملات سے متعلق ہیں۔ معاشیات میں اسلامی معاشیات کے اصول اور فقہ کے وہ حصے جو معاشی مسائل سے متعلق ہیں۔ سیاسیات میں اسلام کے نظریات سیاسی اور اسلامی سیاسیات کے نشووارتقا کی تاریخ اور دنیا کے سیاسی افکار کی ترقی میں اسلام کا حصہ۔ (قس علیٰ ھذا)
۸۔ اس کورس کے بعد علوم اسلامیہ میں ریسرچ کے لیے ایک مستقل شعبہ ہونا چاہیے جو مغربی یونی ورسٹیوں کی طرح اعلیٰ درجے کی علمی تحقیق پر سند فضیلت (doctrate)دیا کرے۔ اس شعبے میں ایسے لوگ تیار کیے جائیں جو مجتہدانہ طرز تحقیق کی تربیت پا کر نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے تمام دنیا کی نظری و فکری رہنمائی کے لیے مستعد ہوں۔
(۳)
حصہ دوم میں جس طرز تعلیم کا خاکہ میں نے پیش کیا ہے وہ بظاہر ناقابل عمل معلوم ہوتا ہے لیکن میں کافی غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوںکہ توجہ اور محنت اور صَرف مال سے اس کو بتدریج عمل میں لایا جاسکتا ہے۔
یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ آپ کسی راہ میں پہلا قدم اٹھاتے ہی منزل کے آخری نشان پر نہیں پہنچ سکتے۔ کام کی ابتدا کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کی تکمیل کا پورا سامان پہلے سے آپ کے پاس موجود ہو۔ ابھی تو آپ کو صرف عمارت کی بنیاد رکھنی ہے‘ اور اس کا سامان اس وقت فراہم ہوسکتا ہے۔ موجودہ نسل میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس طرز تعمیر پر بنیادیں رکھ سکتے ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت سے جو نسل اٹھے گی وہ دیواریں اٹھانے کے قابل ہوگی۔ پھر تیسری نسل ایسی نکلے گی جس کے ہاتھوں یہ کام ان شاء اللہ پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ جو درجہ کمال کم از کم تین نسلوں کی مسلسل محنت کے بعد حاصل ہوسکتا ہے‘ اس کو آج ہی حاصل کرلینا ممکن نہیں، لیکن تیسری نسل میں عمارت کی تکمیل تب ہی ہوسکے گی کہ آپ آج اس کی بنیاد رکھ دیں، ورنہ اگر اس کے درجۂ کمال کو اپنے سے دور پاکر آپ نے آج سے اس کی ابتدا ہی نہ کی، حالانکہ ابتدا کرنے کے اسباب آپ کے پاس موجود ہیں‘ تو یہ کام کبھی انجام نہ پائے گا۔
چونکہ میں اس اصلاحی اقدام کا مشورہ دے رہا ہوں اس لیے یہ بھی میرا فرض ہے کہ اس کو عمل میں لانے کی تدابیر بھی پیش کروں۔ اپنے بیان کے اس حصے میں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس طرز تعلیم کی ابتدا کس طرح کی جاسکتی ہے اور اس کے لیے قابل عمل تدبیریں کیا ہیں:
۱۔ ہائی اسکول کی تعلیم کے لیے عقائد‘ اسلامی اخلاق اور احکام شریعت کا ایک جامع کورس حال ہی میں سرکار نظام کے محکمہ تعلیمات نے تیار کرایا ہے اس کو ضروری ترمیم و اصلاح سے بہت کار آمد بنایا جاسکتا ہے۔
عربی زبان کی تعلیم قدیم طرز کی وجہ سے جس قدر ہولناک ہوگئی تھی الحمد للہ کہ اب وہ کیفیت باقی نہیں رہی ہے۔ اس کے لیے جدید طریقے مصر و شام اور خود ہندستان میں ایسے نکل آئے ہیں جن سے بآسانی یہ زبان سکھائی جاسکتی ہے۔ ایک خاص کمیٹی ان لوگوں کی مقرر کی جائے جو عربی تعلیم کے جدید طریقوں میں علمی و عملی مہارت رکھتے ہیں اور ان کے مشورے سے ایک ایسا کورس تجویز کیا جائے جس میں زیادہ تر قرآن ہی کو عربی کی تعلیم کا ذریعہ بنایا گیا ہو۔ اس طرح تعلیم قرآن کے لیے الگ وقت نکالنے کی بھی ضرورت نہ رہے گی، اور ابتدا ہی سے طلبہ کو قرآن سے مناسبت پیدا ہو جائے گی۔
اسلامی تاریخ کے بکثرت رسالے اردو زبان میں لکھے جاچکے ہیں۔ ان کو جمع کر کے بنظر غور دیکھا جائے اور جو رسائل مفید پائے جائیں ان کو ابتدائی جماعتوں کے کورس میں داخل کرلیا جائے۔
مقدم الذکر دونوں مضامین کے لیے روزانہ صرف ایک گھنٹہ کافی ہوگا۔ رہی اسلامی تاریخ تو یہ مضمون کوئی الگ وقت نہیں چاہتا۔ تاریخ کے عمومی نصاب میں اس کو ضم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ ہائی اسکول کی تعلیم کے موجودہ نظم میں کوئی زیادہ تغیر کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ تغیر کی ضرورت جو کچھ بھی ہے نصاب تعلیم اور تعلیمی اسٹاف میں ہے۔ دینیات کی تدریس اور اس کے مدرس کا جو تصور آپ کے ذہن میں اب تک رہا ہے اس کو نکال دیجیے۔ اس دور کے لڑکوں اور لڑکیوں کی ذہنیت اور ان کے نفسیات کو سمجھنے والے مدرس رکھیے۔ ان کو ایک ترقی یافتہ نصاب تعلیم دیجیے اور اس کے ساتھ ایسا ماحول پیدا کیجیے جس میں ’اسلامیت‘ کے بیج کو بالیدگی({ FR 1007 }) نصیب ہوسکے۔
۲۔ کالج کے لیے نصاب عام کی جو تجویز میں نے پیش کی ہے اس کے تین اجزا ہیں:
(الف)عربیت، (ب) قرآن، (ج) تعلیمات اسلامی
ان میں سے عربیت کو آپ ثانوی لازمی زبان کی حیثیت دیجیے۔ دوسری زبانوں میں سے کسی کی تعلیم اگر طلبہ حاصل کرنا چاہیں تو ٹیوٹرز کے ذریعے سے حاصل کرسکتے ہیں، مگر کالج میں جو زبان ذریعۂ تعلیم ہے‘ اس کے بعد صرف عربی زبان ہی لازم ہونی چاہیے۔ اگر نصاب اچھا ہو اور پڑھانے والے آزمودہ کار ہوں تو انٹرمیڈیٹ کے دو سالوں میں طلبہ کے اندر اتنی استعداد پیدا کی جاسکتی ہے کہ وہ بی ۔ اے میں پہنچ کر قرآن کریم کی تعلیم خود قرآن کی زبان میں حاصل کرسکیں۔
قرآن کے لیے کسی تفسیر کی حاجت نہیں۔ ایک اعلیٰ درجے کا پروفیسر کافی ہے جس نے قرآن کا بہ نظر غائر({ FR 1008 }) مطالعہ کیا ہو اور جو طرز جدید پر قرآن پڑھانے اور سمجھانے کی اہلیت رکھتا ہو۔ وہ اپنے لیکچروں سے انٹرمیڈیٹ میں طلبہ کے اندر قرآن فہمی کی ضروری استعداد پیدا کرے گا۔ پھر بی۔ اے میں ان کو پورا قرآن اس طرح پڑھا دے گا کہ وہ عربیت میں بھی کافی ترقی کر جائیں گے اور اسلام کی روح سے بھی بخوبی واقف ہو جائیں گے۔
تعلیمات اسلامی کے لیے ایک جدید کتاب لکھوانے کی ضرورت ہے جو ان مقاصد پر حاوی ہو جن کی طرف میں نے حصہ دوم کے نمبر ۵ ضمن (ج) میں اشارہ کیا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا کہ میں نے خود اِن مقاصد کو پیش نظر رکھ کر ایک کتاب اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی کے عنوان سے لکھنی شروع کی تھی جس کے ابتدائی تین باب ترجمان القرآن میں محرم ۱۳۵۲ھ سے شعبان ۱۳۵۲ھ(۲) تک کے پرچوں میں شائع ہوئے ہیں۔ اگر اس کو مفید سمجھا جائے تو میں اس کی تکمیل کرکے یونی ورسٹی کی نذر کردوں گا۔
ان مضامین کے لیے کالج کی تعلیم کے موجودہ نظم میں کسی تغیر کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ عربیت کے لیے وہی وقت کافی ہے جو آپ کے ہاں ثانوی زبان کے لیے ہے۔ قرآن اور تعلیمات اسلامیہ دونوں کے لیے باری باری سے وہی وقت کافی ہوسکتا ہے جو آپ کے ہاں دینیات کے لیے مقرر ہے۔
۳۔ زیادہ تر مشکل اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے میں پیش آئے گی جسے میں نے حصہ دوم کے نمبر۶‘ ۷ میں پیش کیا ہے۔ اس کے حل کی تین صورتیں ہیں جن کو بتدریج(۳) اختیار کیا جاسکتا ہے:
الف۔ ایسے پروفیسر تلاش کیے جائیں (اور وہ ناپید نہیں ہیں) جو علوم جدیدہ کے ماہر ہونے کے ساتھ قرآن اور سنت میں بھی بصیرت رکھتے ہوں‘ جن میں اتنی اہلیت ہو کہ مغربی علوم کے حقائق کو ان کے نظریات اور ان کی وجدانی اساس سے الگ کر کے اسلامی اصول و نظریات کے مطابق مرتب کرسکیں۔
ب۔ اسلامی فلسفۂ قانون‘ اصول قانون و فلسفہ تشریع‘ سیاسیات‘ عمرانیات‘ معاشیات‘ تاریخ و فلسفہ تاریخ وغیرہ کے متعلق عربی‘ اردو‘ انگریزی‘ جرمن اور فرنچ زبانوں میں جس قدر لٹریچر موجود ہے اس کی چھان بین کی جائے۔ جو کتابیں بعینہٖ لینے کے قابل ہوں ان کا انتخاب کرلیا جائے اور جن کو اقتباس یا حذف و ترمیم کے ساتھ کار آمد بنایا جاسکتا ہو ان کو اسی طریق پر کام میں لایا جائے۔ اس غرض کے لیے اہل علم کی ایک خاص جمعیت مقرر کرنی ہوگی۔
ج۔ چند ایسے فضلا کی خدمات حاصل کی جائیں جو مذکورہ بالا علوم پر جدید کتابیں تالیف کریں۔ خصوصیت کے ساتھ اصول فقہ‘ احکام فقہ‘ اسلامی معاشیات‘ اسلام کے اصول عمران‘ اور حکمت قرآنیہ پر جدید کتابیں لکھنا نہایت ضروری ہے‘ کیونکہ قدیم کتابیں اب درس و تدریس کے لیے کارآمد نہیں ہیں‘ ارباب اجتہاد کے لیے تو بلاشبہ ان میں بہت اچھا مواد مل سکتا ہے مگر ان کو جوں کا توں لے کر موجود زمانے کے طلبہ کو پڑھانا بالکل بے سود ہے۔
اس میں شک نہیں کہ سردست ان تینوں تدبیروں سے وہ مقصد بدرجہ کمال حاصل نہ ہوگا جو ہمارے پیش نظر ہے۔ بلاشبہ اس تعمیر جدید میں بہت کچھ نقائص پائے جائیں گے لیکن اس سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ صحیح راستے پر پہلا قدم ہوگا۔ اس میں جو کوتاہیاں رہ جائیں گی ان کو بعد کی نسلیں پورا کریں گی یہاں تک کہ اس کے تکمیلی ثمرات کم از کم پچاس سال بعد ظاہر ہوں گے۔
۴۔ اسلامی ریسرچ کا شعبہ قائم کرنے کا ابھی موقع نہیں۔ اس کی نوبت چند سال بعد آئے گی۔ اس لیے اس کے متعلق تجاویز پیش کرنا قبل از وقت ہے۔
۵۔ میری تجاویز میں فرقی اختلافات کی گنجائش بہت کم ہے۔ تاہم اس باب میں علمائے شیعہ سے استصواب({ FR 1009 }) کیا جائے کہ وہ کس حد تک اس طرز تعلیم میں شیعہ طلبہ کو سنی طلبہ کے ساتھ رکھنا پسند کریں گے۔ اگر وہ چاہیں تو شیعہ طلبہ کے لیے خود کوئی اسکیم مرتب کریں‘ مگر مناسب یہ ہوگا کہ جہاں تک ہوسکے تعلیم میں فروعی اختلافات کو کم سے کم جگہ دی جائے اور مختلف فرقوں کی آئندہ نسلوں کو اسلام کے مشترک اصول و مبادی کے تحت تربیت کیا جائے۔
۶۔ سر محمد یعقوب کے اس خیال سے مجھے پورا اتفاق ہے کہ وقتاً فوقتاً علماو فضلا کو اہم مسائل پر لیکچر دینے کے لیے دعوت دی جاتی رہے۔ میں چاہتا ہوں کہ علی گڑھ کو نہ صرف ہندستان کا بلکہ تمام دنیائے اسلام کا دماغی مرکز بنا دیا جائے۔ آپ اکابر ہندستان کے علاوہ مصر‘ شام‘ ایران‘ ٹرکی اور یورپ کے مسلمان فضلا کو بھی دعوت دیجیے کہ یہاں آکر اپنے خیالات‘ تجربات اور نتائجِ تحقیق سے ہمارے طلبہ میں روشنی فکر اورروح حیات پیدا کریں۔ اس قسم کے خطبات کافی معاوضہ دے کر لکھوائے جانے چاہییں تاکہ وہ کافی وقت محنت اور غور و فکر کے ساتھ لکھے جائیں اور ان کی اشاعت نہ صرف یونی ورسٹی کے طلبہ کے لیے بلکہ عام تعلیم یافتہ پبلک کے لیے بھی مفید ہو۔
۷۔ اسلامی تعلیم کے لیے کسی ایک زبان کو مخصوص کرنا درست نہیں۔ اردو‘ عربی اور انگریزی تینوں زبانوں میں سے کسی ایک زبان میں بھی اس وقت نصاب کے لیے کافی سامان موجود نہیں ہے، لہٰذا سردست ان میں سے جس زبان میں بھی جو مفید چیز مل جائے اس کو اسی زبان میں پڑھانا چاہیے۔ دینیات اور علوم اسلامیہ کے معلمین سب کے سب ایسے ہونے چاہییں جو انگریزی اور عربی دونوں زبانیں جانتے ہوں۔ اب کوئی یک رخا آدمی صحیح معلم دینیات نہیں ہوسکتا۔
میں اپنے اس بیان کی اس طوالت پر عذر خواہ ہوں‘ مگر اتنی تطویل({ FR 1010 }) و تفصیل میرے لیے ناگزیر تھی‘ کیونکہ میں بالکل ایک نئے راستے کی طرف دعوت دے رہا ہوں جس کے نشانات کو پہچاننے میں خود مجھے غور و فکر کے کئی سال صَرف کرنے پڑے ہیں۔ میں حتماً اس نتیجے پر پہنچ چکا ہوں کہ مسلمانوں کے مستقل قومی وجود اور ان کی تہذیب کے زندہ رہنے کی اب کوئی صورت بجز اس کے نہیں ہے کہ ان کے طرز تعلیم و تربیت میں انقلاب پیدا کیا جائے اور وہ انقلاب ان خطوط پر ہو جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیے ہیں۔ میں اس سے بے خبر نہیں ہوں کہ ایک بڑی جماعت ایسے لوگوں کی موجود ہے‘ اور خود علی گڑھ میں ان کی کمی نہیں‘ جو میرے ان خیالات کو ایک دیوانے کا خواب کہیں گے۔ اگر ایسا ہو تو مجھے کوئی تعجب نہ ہوگا۔ پیچھے دیکھنے والوں نے آگے دیکھنے والوں کو اکثر دیوانہ ہی سمجھا ہے، اور ایسا سمجھنے میں وہ حق بجانب ہیں لیکن جو کچھ میں آج دیکھ رہا ہوں‘ چند سال بعد شاید میری زندگی ہی میں وہ اس کو بچشم سر دیکھیں گے اور ان کو اس وقت اصلاحِ حال کی ضرورت محسوس ہوگی جب طوفان سر پر ہوگا اور تلافی ِ مافات({ FR 1011 }) کے مواقع کم تر رہ جائیں گے۔
(ترجمان القرآن، جمادی الاخری ۱۳۵۵ھ۔ اگست ۱۹۳۶ء)



 

 

 

 

 

 

۲۰۔ مرض اور اس کا علاج

اسلام محض ایک عقیدہ نہیں ہے‘ نہ وہ محض چند ’’مذہبی‘‘ اعمال اوررسموں کا مجموعہ ہے‘ بلکہ وہ انسان کی پوری زندگی کے لیے ایک مفصل اسکیم ہے۔ اس میں عقائد‘ عبادات اورعملی زندگی کے اصول و قواعد الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ سب مل کر ایک ناقابل تقسیم مجموعہ بناتے ہیں‘ جس کے اجزا کا باہمی ربط بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ ایک زندہ جسم کے اعضا میں ہوتا ہے۔
آپ کسی زندہ آدمی کے ہاتھ اور پائوں کاٹ دیں‘ آنکھیں اور کان اور زبان جدا کر دیں‘ معدہ اور جگر نکال دیں‘ پھیپھڑے اور گردے الگ کر دیں‘ دماغ بھی پورا یا کچھ کم و بیش کاسۂ سر(۲) سے خارج کر دیں اور بس ایک دل اُس کے سینے میں رہنے دیں۔ کیا یہ باقی ماندہ حصۂ جسم زندہ رہ سکے گا؟ اور اگر زندہ بھی رہے تو کیا وہ کسی کام کا ہوگا؟
ایسا ہی حال اسلام کا بھی ہے۔ عقائد اس کا قلب ہیں۔ وہ طریق فکر (attitude of mind)، نظریہ حیات (view of life)، مقصد زندگی اور معیار قدر (standard of values)جوان عقائد سے پیدا ہوتا ہے اس کا دماغ ہے‘ عبادات اس کے جوارح(۳) اور قوائم (۴)ہیں جن کے بل پر وہ کھڑا ہوتا ہے اور کام کرتا ہے۔ معیشت‘ معاشرت‘ سیاست اور نظم اجتماعی کے تمام وہ اصول جو زندگی کے لیے اسلام نے پیش کیے ہیں وہ اس کے لیے معدے اور جگر اور دوسرے اعضائے رئیسہ(۵) کا حکم رکھتے ہیں۔ اس کو صحیح و سالم آنکھوں اور بے عیب کانوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ زمانے کے احوال و ظروف کی ٹھیک ٹھیک رپورٹیں دماغ تک پہنچائیں اور دماغ ان کے متعلق صحیح حکم لگائے۔ اس کو اپنے قابو کی زبان درکار ہے تاکہ وہ اپنی خودی کا کما حقہ اظہار کرسکے۔ اس کو پاک صاف فضا کی حاجت ہے جس میں وہ سانس لے سکے۔ اس کو طیب و طاہر غذا مطلوب ہے جو اس کے معدے سے مناسبت رکھتی ہو اور اچھا خون بنا سکے۔
اس پورے نظام میں اگرچہ قلب (یعنی عقیدہ)بہت اہمیت رکھتا ہے‘ مگر اس کی اہمیت اسی لیے تو ہے کہ وہ تمام اعضا و جوارح کو زندگی کی طاقت بخشتا ہے۔ جب اکثر و بیش تر اعضا کٹ جائیں، جسم سے خارج کر دیے جائیں یا خراب ہو جائیں تو اکیلا قلب تھوڑے بہت بچے کھچے خستہ و بیمار اعضا کے ساتھ کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟ اور اگر زندہ بھی ہے تو اس زندگی کی کیا وقعت({ FR 1013 }) ہوسکتی ہے؟
اب آپ غور فرمائیں کہ اس وقت آپ اپنی اسی ہندستان کی دنیا میں اسلام کو کس حال میں دیکھ رہے ہیں۔ قوانین اسلامی قریب قریب معطل ہیں‘ اخلاق میں‘ معاشرت میں‘ معیشت میں اور زندگی کے سارے معاملات میں اصول اسلامی کا نفاذ ۵ فی صدی سے زیادہ نہیں ہے۔ غیر اسلامی ماحول‘ غیر اسلامی تربیت‘ اور غیر اسلامی تعلیم نے دماغ کو کہیں بالکل اور کہیں کچھ کم و بیش غیر مسلم بنادیا ہے۔ آنکھیں دیکھتی ہیں مگر زاویہ نظر بدل گیا ہے‘ کان سنتے ہیں مگر ان کے پردے متغیر(۲) ہو چکے ہیں‘ زبان بولتی ہے مگر اس کی گویائی میں فرق آگیا ہے۔ پھیپھڑوں کو صاف ہوا میسر نہیں کہ ایک زہریلی فضا چاروں طرف محیط ہے۔ معدے کو پاک غذا نہیں ملتی کہ رزق کے خزانے مسموم ہو چکے ہیں۔ عبادات جو اس جسم کے جوارح اور قوائم ہیں قریب قریب ۶۰فی صدی تو مفلوج(۳) ہیں اور ۴۰ فی صدی جو باقی ہیں وہ بھی کوئی اثر نہیں دکھا رہے ہیں کیونکہ دوسرے اعضائے رئیسہ سے ان کا تعلق باقی نہیں رہا، اسی لیے فالج کا مادہ ان میں پھیلتا جارہا ہے۔ ایسی حالت میں کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ پورا اسلام ہے جو آپ کے سامنے ہے؟ کتنے ہی اعضا کٹ گئے‘ کتنے مفلوج ہوگئے‘ کتنے موجود ہیں مگر بیمار ہیں اور ٹھیک کام ہی نہیں کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک قلب باقی ہے‘ اور وہ بیمار ہو رہا ہے کیونکہ جس طرح وہ ان اعضا کو زندگی کی طاقت بخشتا تھا اسی طرح خود بھی تو ان سے طاقت حاصل کرتا تھا۔ جب دماغ اور پھیپھڑوں اور معدہ و جگر سب کا فعل خراب ہوگیا تو قلب کیسے صحیح و سالم رہ سکتا ہے؟ یہ محض اس زبردست قلب کی غیر معمولی طاقت ہے کہ نہ صرف خود زندہ ہے بلکہ بچے کھچے اعضا کو بھی کسی نہ کسی طرح چلائے جارہا ہے، مگر کیا اس میں یہ طاقت ہے کہ ہندستان کی زندگی میں اپنا کوئی اثر قائم کرسکے؟ بلکہ خاکم بدہن({ FR 1014 }) میں تو یہ پوچھوں گا کہ اس نوبت پر کیا یہ ان حوادث(۲) کے مقابلے میں جن کا سیلاب روز افزوں تیزی کے ساتھ آرہا ہے اپنے بقیہ اعضا کو مزید قطع و برید(۳) سے اور خود اپنے آپ کو موت سے بچا سکتا ہے؟
اسی کا نتیجہ ہے کہ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا النصر110:2 کے برعکس اب خود مسلمانوں کے گروہ میں اسلام سے بغاوت اور انحراف کی وبا پھیل رہی ہے۔ سارے ہندستان میں اور اس کے اطراف و اکناف(۴) میں کہیں بھی نظام اسلامی اپنی پوری مشینری کے ساتھ کام کرتا ہوا نظر نہیں آتا کہ لوگ اس کے جمال و کمال کو دیکھیں اور درخت کو اس کے پھلوں سے پہچانیں۔ وہ جس چیز کو دیکھتے ہیں وہ یہی اعضا بریدہ اسلام ہے اور سمجھتے ہیں کہ بس اسلام یہی ہے۔ اس کو دیکھ کر بعض تو علانیہ کہہ رہے ہیں کہ ہم مسلمان نہیں ہیں‘ بہت سے ایسے ہیں کہ مسلمان ہونے سے بس انکار نہیں کرتے باقی تمام باتیں ایسی کرتے ہیں کہ ان میں اور منکرین اسلام میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ بہت سوں کے دل پھر گئے ہیں‘ مگر چونکہ ابھی صریح بغاوت برپا نہیں ہوئی ہے اس لیے وہ منافقت کے ساتھ مسلمانوں میں شامل ہیں اور بغاوت کے جراثیم پھیلا رہے ہیں تاکہ جب عام بلوا(۵) شروع ہو جائے تب خود بھی اپنا جھنڈا لے کر کھڑے ہوں۔ کچھ لوگ صاف نہیں کہتے مگر دبی زبان سے کہہ رہے ہیں کہ نئی قومیت اور نئی تہذیب میں جذب ہونے کے لیے تیار ہو جائو‘ کیونکہ یہ تن مردہ جسے تم لیے بیٹھے ہو‘ نہ خود تمھیں کوئی فائدہ پہنچاتا ہے اور نہ ان فوائد ہی سے متمتع(۵) ہونے دیتا ہے جو دوسروں میں جذب ہونے سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ بعض حضرات کے نزدیک اب مسئلے کا صحیح حل یہ ہے کہ اسلام کا باضابطہ مثلہ کر دیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف مذہبی حرکت و عمل کی حد تک مسلمان رہنا چاہیے‘ باقی زندگی کا سارا پروگرام وہی اختیار کرلینا چاہیے جو غیرمسلموں نے سکھایا ہے اور جس کو غیر مسلم اختیار کر رہے ہیں۔ معلوم نہیں کہ یہ لوگ خود دھوکے میں ہیں یا دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ بہرحال یہ حقیقت ہے جس کو یہ لوگ بھول گئے ہیں یا بھلا رہے ہیں کہ تمام معاملات زندگی میں غیر اسلامی نظریات اختیار کرنے اور غیر اسلامی اصول پر عامل ہوجانے کے بعد مذہبی عقائد اور مذہی حرکت و عمل قطعاً بے زور ہو جاتے ہیں۔ نہ ان پر زیادہ مدت تک ایمان باقی رہ سکتا ہے اور نہ عمل جاری رہ سکتا ہے اس لیے کہ یہ عقائد اور یہ عبادات تووہ بنیادیں ہیں جن کو اس لیے قائم کیاگیا ہے کہ زندگی کی پوری عمارت ان پر تعمیر ہو۔ جب یہ عمارت دوسری بنیادوں پر تعمیر ہوگئی تو ان آثار قدیمہ سے بے فائدہ و بے ضرورت دل چسپی کب تک باقی رہ سکے گی؟ نئے نظام زندگی میں جو بچہ پرورش پا کر جوان ہوگا وہ پوچھے گا کہ چند لا حاصل عقیدتوں اور چند بے نتیجہ رسموں کا یہ قلادہ کیوں میرے گلے میں ڈال رکھا ہے؟ میں کیوں اس قرآن کو پڑھوں اور کیوں اس پر ایمان رکھوں جس کے سارے احکام اب بے کار ہو چکے ہیں؟ ساڑھے تیرہ سو برس پہلے جو انسان گزر چکا ہے آج اس کو میں کس لیے خدا کا رسول مانوں؟ جب اس زندگی میں وہ میری رہنمائی ہی نہیں کرتا تو محض اس کی رسالت تسلیم کرلینے سے فائدہ کیا اور نہ تسلیم کرنے سے نقصان کیا؟ یہ نظام حیات جس میں عمل کر رہا ہوں اس میں نماز پڑھنے اور نہ پڑھنے‘ روزہ رکھنے اور نہ رکھنے سے کیا فرق واقع ہو جاتا ہے؟ کیا رابطہ ہے ان اعمال اور اس زندگی کے درمیان؟ یہ بے جوڑ پیوند میری زندگی میں آخر کیوں لگا رہے؟
یہ منطقی نتیجہ ہے دین اور دنیا کی علیحدگی کا اور جب یہ علیحدگی اصولاً اور عملاً مکمل ہو جائے گی تو یہ نتیجہ رونما ہو کر رہے گا۔ جس طرح نظام جسمانی سے الگ ہو جانے کے بعد قلب بے کار ہو جاتا ہے اسی طرح زندگی سے بے تعلق ہو جانے کے بعد عقائد اور عبادات کی بھی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ عقائد اور عبادات اسلامی زندگی کو قوت حیات دیتے ہیں اور اسلامی زندگی عقائد اور عبادات کو طاقت بہم پہنچاتی ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کر چکا ہوں ان دونوں میں ایک زندہ نظام جسمانی کے اعضا کا تعلق ہے جسے منقطع کر دینے کا لازمی نتیجہ دونوں کی موت ہے۔ غیر اسلامی زندگی میں اسلامی عقائد اور عبادات کا پیوند بالکل ایسا ہی ہوگا جیسے گوریلے کے جسم میں انسانی دماغ اور انسانی دست و پا۔
یہ نہ سمجھ لیجیے کہ اسلام کی موجودہ حالت کا یہ اثر صرف نئے تعلیم یافتہ طبقے کے ایک مختصر گروہ پر ہی مترتب ہو رہا ہے۔ نہیں آج جو لوگ سچے دل سے مسلمان ہیں‘ جن کے دلوں میں اس کی محبت اور عزت موجود ہے‘ خواہ نئے گروہ کے لوگ ہوں یا پرانے گروہ کے‘ ان سب پر کم و بیش ان حالات کا اثر پڑ رہا ہے۔ اسلامی نظام زندگی کا درہم برہم ہو جانا ایک عام مصیبت ہے جس کے طبیعی نتائج سے کوئی مسلمان بھی محفوظ نہیں ہے اور نہ محفوظ رہ سکتا ہے۔ اپنی اپنی استعداد کے مطابق ہم سب کو اس میں سے حصہ مل رہا ہے، اور ہمارے علما و مشائخ بھی اس میں اتنے ہی حصہ دار ہیں جتنے مدرسوں اورکالجوں سے نکلے ہوئے لوگ،لیکن سب سے زیادہ خطرے میں ہمارے وہ عوام ہیں جو کروڑوں کی تعداد میں ۱۶ لاکھ مربع میل کے وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں، اُن کے پاس صرف اسلام کا نام باقی ہے جس سے ان کو غیر معمولی محبت ہے۔ نہ علمی حیثیت سے یہ غریب اس چیز سے واقف ہیں جس پر یہ اس طرح جان دے رہے ہیں اور نہ عملی حیثیت سے کوئی ایسا نظام زندگی موجود ہے جو انھیں غیر اسلامی اثرات سے محفوظ رکھ سکے۔ ان کی جہالت سے فائدہ اٹھا کر ہر گمراہ کرنے والا، ان کے عقائد اور ان کی زندگی کو اسلام کی صراط مستقیم سے ہٹا سکتا ہے۔ بس انھیں یہ اطمینان دلا دینا کافی ہے کہ یہ ضلالت جو ان کے سامنے پیش کی جارہی ہے یہی عین ہدایت ہے یا کم از کم اسلام کے مخالف نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ جس راستے پر چاہیں انھیں بھٹکالے جاسکتے ہیں‘ خواہ وہ قادیانیت کا راستہ ہویا اشتراکیت کا‘ یا فسطائیت کا۔ ان کے روز افزوں افلاس اور ان کی ہولناک معاشی خستہ حالی نے جو مسائل پیدا کر دیے ہیں ان کو موجودہ بے نظمی کی حالت میں اصول اسلام کے مطابق حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی ہے۔
مسلمانوں میں کوئی منظم جماعت ایسی موجود نہیں جو اشتراکیت کے مقابلے میں اسلام کے معاشی و تمدنی اصولوں کو لے کر اٹھے اور ان مسائل کو حل کرکے دکھادے جو عام لوگوں کے لیے فی الواقع بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کروڑوں مفلس و فاقہ کش مسلمانوں کی یہ بھیڑ اشتراکی مبلغین کے لیے نہایت سہل الحصول({ FR 1015 }) شکار بن گئی ہے۔ بورژوا طبقے کے جن لوگوں میں حوصلہ مندی اور اقتدار کی حرص ذرا اعتدال سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے وہ ہمیشہ سیاسی طاقت حاصل کرنے کے لیے نئی نئی تدبیریں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اب روسی انقلاب نے اس طبقے کے ایک گروہ کو ایک اور تدبیر سکھا دی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسان اور مزدور کے حامی بن کر غریب عوام کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ ان کے اندر خود غرضی‘ حرص اور حسد کی آگ بھڑکائیں‘ ان کے جائز حقوق سے بڑھ کر انھیں دولت میں حصہ دلوانے کا لالچ دلائیں‘ خوش حال طبقوں کی جائز دولت تک چھین کر ان میں تقسیم کر دینے کا وعدہ کریں‘ اور اس طرح ملک کے سواد اعظم کو اپنی مٹھی میں لے کر وہ اقتدار حاصل کریں جو سرمایہ داری نظام کے بادشاہوں‘ ڈکٹیڑوں اور کروڑ پتیوں کو حاصل ہے۔ یہ لوگ غیر مسلم عوام سے بڑھ کر مسلم عوام سے توقعات رکھتے ہیں کیونکہ معاشی حیثیت سے مسلمان زیادہ خستہ حال ہیں۔ یہ ان کے دلوں پر قبضہ کرنے کے لیے پیٹ کی طرف سے راستہ پیدا کر رہے ہیں جو بھوکے آدمی کے جسم کا سب سے زیادہ نازک حصہ ہوتا ہے۔ یہ ان سے کہتے ہیں کہ آئو ہم وہ طریقہ بتائیں جس سے امیری اور غریبی مرتی ہے اور آسودہ حالی آتی ہے۔ پھر جب بے چارہ بھوکا مسلمان دو روٹیوںکی امید پر ان کی طرف دوڑتا ہے تو یہ اسے خدا پرستی کے بجائے شکم پرستی کے مذہب کی تلقین کرتے ہیں اور یہ جذبہ اس کے دل میں پیدا کرتے ہیں کہ دین اور ایمان کوئی چیز نہیں‘ اصل چیز روٹی ہے‘وہ جس طریقے سے ملے وہی دین ہے اور اسی میں نجات ہے۔
’’غریبوں مفلسوں اور غلاموں کا کوئی مذہب اور کوئی تمدن نہیں۔ اس کا سب سے بڑا مذہب روٹی کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس کا سب سے بڑا تمدن ایک پھٹا پرانا کُرتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ایمان اس موجودہ افلاس اور نکبت({ FR 1016 }) سے چھٹکارا پالینا ہے۔ وہی روٹی اورکپڑا جس کے لیے وہ چوری تک کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ آج افلاس اور غلامی کی دنیا میں اس کا کوئی مذہب نہیں۔‘‘
یہ ابتدائی سبق ہے مذہب اشتراکیت کا اور جس آن یہ سبق بے چارے جاہل و مفلس مسلمانوں کو دیا جاتا ہے اسی آن انھیں اس امر کا اطمینان بھی دلایا جاتا ہے کہ ہم تمھارے مذہب کو ہاتھ نہیں لگاتے۔
’’مذہب اورعقائد کو ان باتوں سے کیا خطرہ؟ کیا تعلق؟ مذہب تو ہمیشہ اگر اس میں اخلاقی اور روحانی طاقت رہی ہے‘ زندہ، تابندہ اور پائندہ ہی رہا ہے۔‘‘
یہ دونوں فقرے جو یہاں نقل کیے گئے ہیں ایک مسلمان صاحب کے مضمون سے ماخوذ ہیں جو ایک کثیر الاشاعت مسلم اخبارکے کالموں میں شائع ہوا ہے۔
گزشتہ ۲۰ سال کے اندر روسی اشتراکیت کے جو اثرات مسلمانانِ روس کی نوخیز نسلوں پر مترتب ہوئے ہیں وہ جاننے والوں سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ یہی مستقبل مسلمانانِ ہند کے سامنے بھی دھمکیاں دیتا ہوا آرہا ہے۔ پیٹ کی آگ متاع ایمان کو خاکستر کر دینے کے لیے بڑھ رہی ہے۔ ابھی تک سرچشمہ({ FR 1017 }) اتنا چھوٹا ہے کہ اسے ایک سلائی سے بند کیاجاسکتا ہے، لیکن اگر غفلت کے چند سال یوں ہی گزار دیے گئے تو یہ اتنا بڑا سیلاب بن جائے گا کہ اس کے مقابلے میں ہاتھیوں کے پائوں اکھڑ جائیں گے۔
ان حالات میں محض عیسائی مشنریوں کے ڈھنگ پر اسلام کی تبلیغ کر دینا لاحاصل ہے۔ عقائد کی اصلاح کے لیے ایک رسالہ نہیں ہزاروں رسالے، اگر لاکھوں کی تعداد میں بھی شائع کر دیے جائیں تو یہ حالات روبراہ نہیں آسکتے۔ محض زبان اور قلم سے اسلام کی خوبیوں کو بیان کردینے سے کیا فائدہ؟ ضرورت تو اس کی ہے کہ ان خوبیوں کو واقعات کی دنیا میں سامنے لایا جائے۔ محض یہ کہہ دینے سے کہ اس اسلام کے اصولوں میں زندگی کے مسائل کا حل موجود ہے‘ سارے مسائل خود بخود حل نہیں ہو جائیں گے۔ اسلام میں بالقوۃ(۲) جو کچھ موجود ہے اس کو بالفعل بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ دنیا کشمکش اور جدوجہد کی دنیا ہے‘ اس کی رفتار محض باتوں سے نہیں بدلی جاسکتی۔ اس کو بدلنے کے لیے انقلاب انگیز جہاد کی ضرورت ہے۔ اگر اشتراکی اپنے غلط اصولوں کو لے کر نصف صدی کے اندر دنیا کے ایک بڑے حصے میں اپنا اثر و اقتدار قائم کر سکتے ہیں۔ اگر فاشست اپنے غیر معتدل طریقوں کو لے کر دنیا پر اپنی دھاک بٹھا سکتے ہیں۔ اگر گاندھی کی اھنساایک غیر فطری چیز ہونے کے باوجود محض جدوجہد کے بل پر فروغ پا سکتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان جن کے پاس حق اور عدل کے غیر فانی اصول ہیں‘ ایک مرتبہ پھر دنیا میں اپنا سکہ نہ جما سکیں، مگر یہ سکہ نرے وعظ و تلقین سے نہیں جم سکتا۔ اس کے لیے سعی و عمل کی ضرورت ہے اور انھی طریقوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے جن سے سنت اللہ کے مطابق دنیا میں سکہ جما کرتا ہے۔
’انقلاب انگیز جدوجہد‘ ایک مبہم لفظ ہے۔ اس کی عملی صورتیں بہت سی ہیں اور بہت سی ہوسکتی ہیں۔ جس قسم کا انقلاب برپا کرنا مقصود ہو اُس کے لیے وہی صورت اختیار کرنی پڑے گی جو اس انقلاب کی فطرت سے مناسبت رکھتی ہو۔
ہم جو انقلاب چاہتے ہیں اس کے لیے ہمیں کوئی نئی صورت تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ انقلاب اس سے پہلے برپا ہو چکا ہے۔ جس پاک انسان(صلی اللہ علیہ وسلم) نے پہلی مرتبہ یہ انقلاب برپا کیا تھا وہی اس کی فطرت کو خوب جانتا تھا‘ اور اسی کے اختیارکیے ہوئے طریقے کی پیروی کرکے آج بھی یہ انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ اس پاک ہستی کی سیرت ایک لحاظ سے معجزہ ہے‘ مگر دوسرے لحاظ سے اسوہ بھی ہے۔ وہ اخلاق‘ وہ تقویٰ ‘ وہ حکمت‘ وہ عدالت‘ وہ طاقت وَر شخصیت، وہ انسانیت کبریٰ کی عظیم الشان خصوصیات اب کوئی انسان کہاں سے لاسکتا ہے؟ اس لیے اب کوئی انسان اتنا کمال درجے کا انقلاب بھی کہاں برپا کرسکتا ہے؟ اس لحاظ سے وہ معجزہ ہے اور قیامت تک کے لیے معجزہ ہے،لیکن اس انسان اکبر نے جو نمونہ چھوڑا ہے اس کا طبعی خاصہ وہی انقلاب انگیزی ہے، جس کی نظیر ساڑھے تیرہ سو برس پہلے دنیا کے سامنے آچکی ہے۔ اس نمونے کی جتنی زیادہ پیروی کی جائے گی اور جس قدر زیادہ اس سے مماثلت پیدا کی جائے گی‘ اسی قدر زیادہ انقلاب انگیز نتائج بھی ظاہر ہوں گے اور وہ اس پہلے انقلاب سے اتنے ہی زیادہ اقرب({ FR 1018 }) ہوں گے جو اصل نمونے کی طاقت سے برپا ہوا تھا۔ اس لحاظ سے وہ اسوہ ہے، اور قیامت تک کے لیے اسوہ ہے۔ بیسویں صدی ہو یا چالیسویں صدی‘ ہندستان ہو‘ یا امریکہ یا روس جہاں اور جس وقت چاہیں آپ اسی نوعیت کا انقلاب برپا کرسکتے ہیں بشرطیکہ اسی اسوہ حسنہ کو سامنے رکھ کر کام کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طریقے سے ساڑھے تیرہ سو برس پہلے کی دنیا میں انقلاب برپا کیا تھا اس کی تفصیلات یہاں بیان کرنے کا موقع نہیں۔ یہاں صرف اس امرکی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ادارہ دارالاسلام ({ FR 1019 })کا تخیل اسی اسوہ پاک کے غائر(۲) مطالعے سے پیدا ہوا ہے۔
آنحضرتﷺ جب مبعوث ہوئے تو روئے زمین پر ایک شخص بھی مسلم نہ تھا۔ آپؐ نے اپنی دعوت دنیا کے سامنے پیش کی اور آہستہ آہستہ متفرق طور پر ایک ایک دو دو چار چار آدمی مسلمان ہوتے چلے گئے۔ یہ لوگ اگرچہ پہاڑ سے زیادہ مضبوط ایمان رکھتے تھے‘اور ایسی فدویت ان کو اسلام کے ساتھ تھی کہ دنیا ان کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے‘ مگر چونکہ متفرق تھے‘ کفارکے درمیان گھرے ہوئے تھے، بے بس اور کمزور تھے اس لیے اپنے ماحول سے لڑتے لڑتے ان کے بازو شل ہو جاتے تھے اور پھر بھی وہ ان حالات کو نہ بدل سکتے تھے جن کو بدلنے کے لیے وہ اور ان کے ہادی و مرشد (فِدَاہُ اُمِّیْ وَ اَبِیْ) کوشش فرما رہے تھے۔ ۱۳ سال تک حضورﷺ اسی طرح جدوجہد کرتے رہے اور اس مدت میں سرفروش اہل ایمان کی ایک مٹھی بھر جماعت آپؐ نے فراہم کرلی۔ اس کے بعد اللہ نے دوسری تدبیرکی طرف آپؐ کی ہدایت فرمائی اور وہ یہ تھی کہ ان سرفروشوں کو لے کر کفر کے ماحول سے نکل جائیں‘ ایک جگہ ان کو جمع کرکے اسلامی ماحول پیدا کر دیں‘ اسلام کا ایک گھر بنائیں جہاں اسلامی زندگی کا پورا پروگرام نافذ ہو‘ ایک مرکز بنائیں جہاں مسلمانوں میں اجتماعی طاقت پیدا ہو‘ ایک ایسا پاور ہائوس بنا دیں جس میں تمام برقی طاقت ایک جگہ جمع ہو جائے اور پھر ایک منضبط(۳) طریقے سے وہ پھیلنی شروع ہو۔ یہاں تک کہ زمین کا گوشہ گوشہ اس سے منور ہوجائے۔ مدینہ طیبہ کی جانب آپؐ کی ہجرت اسی غرض کے لیے تھی۔ تمام مسلمان جو عرب کے مختلف قبیلوں میں منتشر تھے‘ ان سب کو حکم دیا گیا کہ سمٹ کر اس مرکز پر جمع ہو جائیں۔ یہاں اسلام کو عمل کی صورت میں نافذ کرکے بتایا گیا۔ اس پاک ماحول میں پوری جماعت کو اسلامی زندگی کی ایسی تربیت دی گئی کہ اس جماعت کا ہر شخص ایک چلتا پھرتا اسلام بن گیا جسے دیکھ لینا ہی معلوم کرنے کے لیے کافی تھا کہ اسلام کیا ہے اور کس لیے آیا ہے۔ ان پر اللہ کا رنگ (صِبْغَۃَ اللہِ۝۰ۚ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ صِبْغَۃً)البقرہ 138:2 اتنا گہرا رنگ چڑھایا گیا کہ وہ جدھر جائیں دوسروں کا رنگ قبول کرنے کے بجائے اپنا رنگ دوسروں پر چڑھائیں۔ ان میں کیرکٹر کی اتنی طاقت پیداکی گئی کہ وہ کسی سے مغلوب نہ ہوں اور جو ان کے مقابلے میں آئے ان سے مغلوب ہو کر رہ جائے۔ ان کی رگ رگ میں اسلامی زندگی کا نصب العین اس طرح پیوست کر دیا گیا کہ زندگی کے ہر عمل میں وہ مقدم ہو اور باقی تمام دنیوی اغراض ثانوی درجے میں ہوں۔ ان کو تعلیم اور تربیت دونوں کے ذریعے سے اس قابل بنا دیا گیا کہ جہاں جائیں زندگی کے اسی پروگرام کو نافذ کرکے چھوڑیں جو قرآن و سنت نے انھیں دیا ہے اورہر قسم کے بگڑے ہوئے حالات کو منقلب({ FR 1020 }) کرکے اسی کے مطابق ڈھال لیں۔
یہ حیرت انگیز تنظیم تھی جس کا ایک ایک جز گہرے مطالعے اورغور و فکر کا مستحق ہے۔ اس تنظیم میں کام کو چار بڑے بڑے شعبوں میں تقسیم کیا گیا تھا:
۱۔ ایک گروہ ایسے لوگوں کا تیار کیا جائے جو دین میں تفقہ حاصل کریں اور جن میں یہ استعداد ہو کہ لوگوں کو دین اور اس کے احکام بہترین طریقے پر سمجھا سکیں:
فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ التوبہ9:122
ایسا کیوں نہ ہوا کہ اُن کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے۔
۲۔ کچھ لوگ ایسے تیار کیے جائیں جن کی زندگیاں اسلام کے نظام عمل کو قائم کرنے اور پھیلانے کی سعی وجہد کے لیے وقف ہوں۔ جماعت کا فرض ہے کہ ان کو کسب معیشت سے بے نیاز کر دے لیکن خود انھیں اس کی پرواہ نہ ہو‘ چاہے معیشت کا کوئی انتظام ہو یا نہ ہو‘ بہرحال وہ اپنے دل کی لگن سے مجبور ہوں اور ہر قسم کی مصیبتیں برداشت کرکے اس کام میں لگے رہیں جو اُن کی زندگی کا واحد نصب العین ہے:
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ آل عمران3:104
تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔
۳۔ پوری جماعت میں یہ جذبہ پیدا کیا جائے کہ ہر ہر شخص اعلائے کلمۃ اللہ کو اپنی زندگی کا اصل مقصد سمجھے۔ وہ اپنے دنیا کے کاروبار چلاتا رہے مگر ہر کام میں یہ مقصد اس کے سامنے ہو۔ تاجر اپنی تجارت میں‘ کسان اپنی زراعت میں‘ صَنَّاع({ FR 1021 }) اپنے پیشے کے کام میں اور ملازم اپنی ملازمت میں اس مقصد کو نہ بھولے۔ وہ ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھے کہ یہ سب کام جینے کے لیے ہیں اور جینا اس کام کے لیے ہے۔ وہ زندگی کے جس دائرے میں بھی کام کرے‘ اپنے اقوال و افعال اور اپنے اخلاق اور معاملات میں اسلام کے اصول کی پابندی کرے اور جہاں دنیوی فوائد میں اور اصول اسلام میں نقیض(۲) واقع ہو جائے وہاں فوائد پر لات مار دے اور اصول کو ہاتھ سے دے کر اسلام کی عزت کو بٹہ نہ لگائے۔ پھر وہ جتنا مال اور جتنا وقت اپنی ذاتی ضروریات سے بچا سکتا ہو اس کو اسلام کی خدمت میں صَرف کر دے، اور ان لوگوں کا ہاتھ بٹائے جنھوں نے اپنی زندگیاں اس کام کے لیے وقف کی ہیں:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ آل عمران 110:3
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
۴۔ باہر کے لوگوں کو موقع دیا جائے کہ دار الاسلام میں آئیں اور ایسے ماحول میں رہ کر کلام اللہ کا مطالعہ کریں جہاں کی ساری زندگی اس کلام پاک کی عملی تفسیر ہو۔ کفر کے ماحول کی بہ نسبت اسلام کے ماحول میں وہ قرآن کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھیں گے اور زیادہ گہرا اثر لے کر واپس جائیں گے:
وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ التوبہ9:6
اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمھارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اُسے پناہ دے دو، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے پھر اُسے اُس کے مَاْمَن (ٹھکانے) تک پہنچا دو۔
اس طرح صرف آٹھ برس کی قلیل مدت میں دنیا کے اس سب سے بڑے ہادی و رہبر نے مدینہ کے پاور ہائوس میں اتنی زبردست طاقت بھر دی کہ دیکھتے دیکھتے اس نے سارے عرب کو منور کر دیا اور پھر عرب سے نکل کر اس کی روشنی روئے زمین پر پھیل گئی۔ حتیٰ کہ آج ساڑھے تیرہ سو برس گزر چکے ہیںمگر وہ پاور ہائوس اب بھی طاقت کے خزانوں سے بھرا ہوا ہے۔
خلافت راشدہ کے بعد جب نظام اسلامی میں بہت کچھ برہمی پیدا ہوگئی تو صوفیائے اسلام نے بھی اسی طریقے کی پیروی میں جگہ جگہ خانقاہیں قائم کی تھیں۔ آج خانقاہ کا مفہوم اس قدر گر گیا ہے کہ یہ لفظ سنتے ہی انسان کے ذہن میں ایک ایسی جگہ کا تصور آجاتا ہے جہاں ہوا اور روشنی کا گزر نہ ہو، اور صدیوں تک جنتری کا ورق نہ پلٹے، مگر اصل میں یہ خانقاہ بھی اسی نمونے کی ایک نقل تھی جسے سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں قائم کیا تھا۔ صوفیائے کرام جن لوگوں میں استعداد پاتے تھے ان کو بیرونی دنیا کے گندے ماحول سے نکال کر کچھ مدت تک خانقاہ میں رکھتے تھے اور وہاں اعلیٰ درجے کی تربیت دے کر انھیں اسی کام کے لیے تیار کرتے تھے جس کے لیے مرشد اعظمؐ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو تیار کیا کرتے تھے۔
اب جو لوگ اسلامی طرز کا انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں ان کو پھر اسی طریقے کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اگر ہم ہندستان سے نکل کر کہیں آزاد فضا نہیں پاسکتے جہاں مدینہ طیبہ کی طرح دارالاسلام بنایا جاسکے تو کم از کم ہم کو اسی ملک میں ایسی تربیت گاہیں بنانی چاہییں جہاں خالص اسلامی ماحول پیدا کیا جائے۔ جہاں اخلاق اسلامی ہوں‘ معاشرت اسلامی ہو‘ عملی زندگی مسلمانوں کی سی ہو‘ گرد و پیش ہر طرف اسلام اپنی روح اور اپنی صورت کے ساتھ نمایاں ہو۔ جہاں کسی چیز کے صحیح ہونے کے لیے صرف یہ دلیل کافی ہو کہ خدا اوررسول نے اس کی اجازت دی ہے، یا اس کا حکم دیا ہے‘ اور کسی چیز کا غلط ہونا صرف اس دلیل سے تسلیم کیا جائے کہ خدا اور رسول نے اس سے منع کیا ہے، یا اسے ناپسند کیا ہے۔ جہاں یہ بغاوت اورسرکشی کا ماحول‘ یہ غیر اسلامی فضا نہ ہو جس نے ہر طرف سے ہمارا احاطہ کر رکھا ہے۔ جہاں ہم کو کم از کم اتنا اختیار تو ہو کہ بیرونی اثرات میں سے جن کو ہم روح اسلامی کے موافق پائیں صرف انھی کو داخل ہونے دیں اور جن کو منافی پائیں ان کو اپنی زندگی پر مسلط ہونے اور اپنے دل و جان میں نفوذ کرنے سے روک سکیں۔ جہاں ہم کو ایسی فضا میسر آسکے کہ مسلمان کی طرح سوچ سکیں‘ مسلمان کی سی نظر اپنے اندر پیدا کرسکیں‘ ان اسلامی صفات کو نشوونما دے سکیں جو اس دار الکفر کی مسموم آب و ہوا میں فنا ہوتی چلی جا رہی ہیں‘ ان گندگیوں اور آلائشوں سے اپنی زندگی کو پاک کر سکیں جو غیر اسلامی ماحول میں آنکھیں کھولنے اور نشوونما پانے کی وجہ سے ہمارے افکار اور اعمال میں گھس گئی ہیں‘ جن کا شعور تک بسا اوقات ہمیں نہیں ہوتا اور جن کو اگر ہم محسوس کر بھی لیتے ہیں تو ماحول کی طاقت اتنی جابر و قاہر ثابت ہوتی ہے کہ باوجود کوشش کرنے کے ہم اپنے آپ کو ان سے نہیں بچا سکتے۔ اس قسم کی تربیت گاہوں میں ایسے لوگوں کو جمع کیا جائے جو سچے دل سے اسلام کی خدمت کے لیے تیار ہو جائیں۔ وہاں کے کام کا نقشہ وہی ہو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کا نقشہ تھا۔ اسی طرح کام کو شعبوں میں تقسیم کیا جائے‘ اور اسی طرح ہر شعبے میں آدمیت کو اسلامیت کے سانچے میں ڈھالنے کی تدبیر کی جائے:
٭ ایک شعبہ ایسا ہو کہ جس میں اعلیٰ درجے کی علمی استعداد کے لوگ شامل ہوں۔ ان میں سے جو لوگ علوم دینیہ میں دستگاہ رکھتے ہوں انھیں مغربی زبانوں سے اورعلوم جدیدہ سے روشناس کیا جائے‘ اور جن حضرات نے علوم جدیدہ کی تحصیل کی ہو انھیں عربی زبان اور اسلامی علوم کی تعلیم دی جائے۔ پھر یہ لوگ قرآن اور سنت کا گہرا مطالعہ کرکے دین میں تفقہ اور بصیرت حاصل کریں۔ اس کے بعد ان کے مختلف گروپ بنا دیے جائیں۔ ہر گروپ ایک ایک شعبہ علم کو لے کر اس میں اسلام کے اصول و نظریات کوجدید طرز پر مرتب کرے‘ زندگی کے جدید مسائل کو سمجھے اور اصول اسلام کے مطابق ان کا حل تلاش کرے‘ علوم کی بنیاد میں جو مغربی نقطۂ نظر پیوست ہو گیا ہے اس کو نکال کر اسلام کے نقطۂ نظر سے علوم کو از سر نو مدون کرے اور اپنی تحقیقات سے ایسا صالح لٹریچر پیدا کرے جو اسلام کی موافقت({ FR 1022 }) میں ایک ذہنی انقلاب برپا کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔
۲۔ دوسرا شعبہ ایسا ہو جس میں خدمت اسلام کے لیے اچھے کارکن تیارکرنے کی کوشش کی جائے۔ پاکیزہ اخلاق‘ مضبوط سیرت‘ دھن کے پکے اور اپنے نصب العین کے لیے سب کچھ قربان کر دینے والے لوگ، جو ایک زبردست انقلابی پارٹی کی صورت میں منظم ہوں‘ جن کی زندگی سادہ ہو‘ جن میں جفا کشی ہو‘ جن میں پورا ضبط و نظم پایا جائے‘ اور جن کی عملی سیرت ٹھیٹھ مسلمان کی سی ہو۔ یہ پارٹی اسلام کے اصولوں پر ایک نئے اجتماعی نظام (social order)اور ایک نئی تہذیب (civilization)کی تعمیر کا پروگرام لے کر اٹھے اور عامہ خلائق کے سامنے اپنے پروگرام کو پیش کرکے، زیادہ سے زیادہ سیاسی طاقت فراہم کرے اور بالآخر حکومت کی مشین پر قابض ہو جائے تاکہ ظلم و جور کی حکومت کو عدل کی حکومت میں تبدیل کیا جاسکے۔
۳۔ تیسرے شعبے میں ایسے لوگ ہوں جو صرف تھوڑی مدت کے لیے تربیت گاہ میں رہ کر واپس جانا چاہتے ہوں۔ انھیں صحیح علم اور اخلاقی تربیت دے کر چھوڑ دیا جائے کہ جہاں چاہیں رہیں مگر مسلمان کی طرح رہیں۔ دوسروں سے متاثر ہونے کے بجائے ان پر اپنا اثر ڈالیں۔ اپنے اصولوں میں سخت ہوں۔ اپنے عقائد میں مضبوط ہوں‘ بے مقصد زندگی نہ بسر کریں۔ ایک نصب العین ہر حال میں ان کے سامنے ہو۔ پاک طریقوں سے روزی کمائیں اور ان لوگوں کو ہر ممکن طریقے سے مدد دینے کے لیے تیار رہیں جو شعبہ نمبر۲ کے تحت کام کر رہے ہوں۔ یہ ان کو مالی مدد بھی دیں‘ ان کے کاموں میں شریک بھی رہیں، اور جہاں رہیں وہاں کی فضا کو انقلابی پارٹی کی موافقت میں تیار بھی کرتے رہیں۔
۴۔ چوتھا شعبہ ایسے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے ہو جو محض عارضی طور پر تربیت گاہ میں آکر کچھ علمی استفادہ کرنا چاہیں، یا وہاں کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے خواہش مند ہوں۔ ان لوگوں کو ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچائی جائیں تاکہ وہ اسلام اور اس کی تعلیم کا گہرا نقش لے کر واپس جائیں۔
یہ ایک سرسری سا خاکہ ہے اس نظام کا جو ہمارے نزدیک اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے ایک ضروری مقدمے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نظام کی کامیابی کا انحصار تمام تر اس پر ہے کہ یہ اپنی روح اور اپنے جوہر میں مدینہ طیبہ کے اس مثالی نظام کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مماثلت پیدا کرے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا تھا۔
مدینہ طیبہ سے مماثلت پیدا کرنے کا مفہوم کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ہم ظاہری اشکال میں مماثلت پیدا کرنا چاہتے ہیں اور دنیا اس وقت تمدن کے جس مرتبے پر ہے اس سے رجعت کرکے اس تمدنی مرتبے پر واپس جانے کے خواہش مند ہیں جو عرب میں ساڑھے تیرہ سو برس پہلے تھا۔ اتباع رسولؐ و اصحاب کا یہ مفہوم ہی سرے سے غلط ہے‘ اور اکثر دین دار لوگ غلطی سے اس کا یہی مفہوم لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک سلف صالح کی پیروی اس کا نام ہے کہ جیسا لباس وہ پہنتے تھے ویسا ہی ہم پہنیں‘ جس قسم کے کھانے وہ کھاتے تھے اسی قسم کے کھانے ہم بھی کھائیں‘ جیسا طرز معاشرت ان کے گھروں میں تھا بعینہٖ وہی طرز معاشرت ہمارے گھروں میں بھی ہو۔ تمدن و حضارت({ FR 1023 }) کی جو حالت ان کے عہد میں تھی اس کو ہم بالکل متحجر(۲) (foscilised)صورت میں قیامت تک باقی رکھنے کی کوشش کریں‘ اور ہمارے اس ماحول سے باہر کی دنیا میں جو تغیرات واقع ہو رہے ہیں ان سب سے آنکھیں بند کر کے ہم اپنے دماغ اور اپنی زندگی کے ارد گرد ایک حصار کھینچ لیں جس کی سرحدمیں وقت کی حرکت اور زمانے کے تغیر کو داخل ہونے کی اجازت نہ ہو۔ اتباع کا یہ تصور جو دور انحطاط کی کئی صدیوں سے دین دار مسلمانوں کے دماغوں پر مسلط رہا ہے درحقیقت روح اسلام کے بالکل منافی ہے۔ اسلام کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ ہم جیتے جاگتے آثار قدیمہ بن کر رہیں اور اپنی زندگی کو قدیم تمدن کا ایک تاریخی ڈراما بنائے رکھیں۔ وہ ہمیں رہبانیت اور قدامت پرستی نہیں سکھاتا۔ اس کا مقصد دنیا میں ایک ایسی قوم پیدا کرنا نہیں ہے جو تغیر و ارتقا کو روکنے کی کوشش کرتی رہے، بلکہ اس کے بالکل برعکس وہ ایک ایسی قوم بنانا چاہتا ہے‘ جو تغیر و ارتقا کو غلط راستوں سے پھیر کر صحیح راستے پر چلانے کی کوشش کرے۔ وہ ہم کو قالب نہیں دیتا بلکہ روح دیتا ہے‘ اور چاہتا ہے کہ زمان و مکان کے تغیرات سے زندگی کے جتنے بھی مختلف قالب قیامت تک پیدا ہوں ان سب میں یہی روح بھرتے چلے جائیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے دنیا میں ہمارا مشن یہی ہے۔ ہم کو ’خیرِامت‘ جو بنایا گیا ہے تو اس لیے نہیں کہ ہم ارتقا کے راستے میں آگے بڑھنے والوں کے پیچھے عقب لشکر (rear guard) کی حیثیت سے لگے رہیں‘ بلکہ ہمارا کام امامت و رہنمائی ہے۔ ہم مقدمۃ الجیش بننے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور ہمارے خیرِ امت ہونے کا راز اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِمیں پوشیدہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب کا اصلی اسوہ جس کی پیروی ہمیں کرنی چاہیے‘ یہ ہے کہ انھوں نے قوانینِ طبیعی کو قوانینِ شرعی کے تحت استعمال کرکے، زمین میں خدا کی خلافت کا پورا پورا حق ادا کر دیا۔ ان کے عہد میں جو تمدن تھا، انھوں نے اس کے قالب میں اسلامی تہذیب کی روح پھونکی۔ اس وقت جتنی طبیعی قوتوں پر انسان کو دسترس حاصل ہو چکی تھی ان سب کو انھوں نے اس تہذیب کا خادم بنایا‘ اور غلبہ و ترقی کے جس قدر وسائل تمدن نے فراہم کیے تھے ان سے کام لینے میں وہ کفار و مشرکین سے سبقت({ FR 1025 }) لے گئے تاکہ خدا سے بغاوت کرنے والوں کی تہذیب کے مقابلے میں خدا کی خلافت سنبھالنے والوں کی تہذیب کامیاب ہو۔ اسی چیز کی تعلیم خدا نے اپنی کتاب میں ان کو دی تھی کہ وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ الانفال8:60 اور تم لوگ، جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت…… مہیا رکھو۔
ان کو یہ سکھایا گیا تھا کہ خدا کی پیدا کی ہوئی قوتوں سے کام لینے کا حق کافر سے زیادہ مسلم کو پہنچتا ہے بلکہ اس کا اصلی حق دار مسلم ہی ہے۔ پس نبیؐ و اصحاب نبیؐ کا صحیح اتباع یہ ہے کہ تمدن کے ارتقا اور قوانین طبیعی کے اکتشافات سے اب جو وسائل پیدا ہوئے ہیں ان کو ہم اس طرح تہذیب اسلامی کا خادم بنانے کی کوشش کریں جس طرح صدر اوّل میں کی گئی تھی۔ نجاست اور گندگی جو کچھ ہے وہ ان وسائل میں نہیں ہے بلکہ اس کافرانہ تہذیب میں ہے جو ان وسائل سے فروغ پا رہی ہے۔ ریڈیو بجائے خود ناپاک نہیں ہے، ناپاک وہ تہذیب ہے جو ریڈیو کے ڈائریکٹر کو داروغۂ({ FR 1034 }) ارباب نشاط(۲) یا ناشر کذب و افترا بناتی ہے۔ ہوائی جہاز ناپاک نہیں ہے‘ ناپاک وہ تہذیب ہے جو ہوا کے فرشتے سے خدائی قانون کے بجائے شیطانی اغوا کے تحت خدمت لیتی ہے۔ سینما ناپاک نہیں ہے، ناپاک دراصل وہ تہذیب ہے جو خدا کی پیدا کی ہوئی اس طاقت سے فحش اور بے حیائی کی اشاعت کاکام لیتی ہے۔ آج کل کی ناپاک تہذیب کو فروغ اسی لیے ہو رہا ہے کہ اس کو فروغ دینے کے لیے خدا کی بخشی ہوئی تمام ان طاقتوں سے کام لیا جارہا ہے جو اس وقت تک انسان پر منکشف ہوئی ہیں۔ اب اگر ہم اس فرض سے سبک دوش ہونا چاہتے ہیںجو الٰہی تہذیب کو فروغ دینے کے لیے ہم پر عائد ہوتا ہے تو ہمیں بھی انھی طاقتوں سے کام لینا چاہیے۔ یہ طاقتیں تو تلوار کی طرح ہیں کہ جو اس سے کام لے گا وہی کامیاب ہوگا‘ خواہ وہ ناپاک مقصد کے لیے کام لے یا پاک مقصد کے لیے۔ پاک مقصد والا اگر اپنے مقصد کی پاکی ہی کو لیے بیٹھا رہے اور تلوار استعمال نہ کرے تو یہ اس کا قصور ہے اور اس قصور کی سزا اسے بھگتنی پڑے گی کیونکہ اس عالم اسباب میں خدا کی جو سنت ہے اسے کسی کی خاطر نہیں بدلا جاسکتا۔
اس تصریح سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تحریک جسے میں پیش کر رہا ہوں، نہ تو کوئی ارتجاعی (reactionary) تحریک ہے اور نہ اس قسم کی ارتقائی تحریک ہے جس کے پیش نظر صرف مادی ارتقا ہو۔ میرے پیش نظر جو تربیت گاہ ہے اس کے لیے گرو کل کانگڑی‘ ستیہ گرہ آشرم‘ شانتی نکیتن اور دیال باغ میں کوئی نمونہ نہیں ہے‘ اور اسی طرح جس انقلابی پارٹی کا تصور میرے ذہن میں ہے اس کے لیے اٹلی کی فاشست اور جرمنی کی نیشنل سوشلسٹ پارٹی میں بھی کوئی نمونہ نہیں ہے۔ اس کے لیے اگر کوئی نمونہ ہے تو وہ صرف مدینۃ الرسول اور اس حزب اللہ میں ہے جسے نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتب کیا تھا۔
(ترجمان القرآن‘ شوال۱۳۵۶ھ۔ دسمبر ۱۹۳۷ء)