”اسلام کی اصطلاحی زبان کے جو الفاظ کثرت سے زبان پر آتے ہیں ان میں سے ایک لفظ ”مجدد“بھی ہے۔ اس لفظ کا ایک مجمل مفہوم تو قریب قریب ہر شخص سمجھتا ہے، یعنی یہ کہ جو شخص دین کو از سر نو زندہ اور تازہ کرے وہ مجدد ہے لیکن اس کے تفصیلی مفہوم کی طرف بہت کم ذہن منتقل ہوتے ہیں۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ تجدید دین کی حقیقت کیا ہے، کس نوعیت کے کام کو تجدید سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ، اس کام کے کتنے شعبے ہیں، مکمل تجدید کا اطلاق کس کارنامے پر ہو سکتا ہے اور جزوی تجدید کیا ہوتی ہے؟
اسی ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ لوگ ان مختلف بزرگوں کے کارناموں کی پوری طرح تشخیص نہیں کر سکتے جن کو تاریخ اسلام میں مجدد قرار دیا گیا ہے۔ وہ بس اتنا جانتے ہیں کہ عمر ابن عبد العزیز بھی مجدد، امام غزالی بھی مجدد، ابن تیمیہ بھی مجدد، شیخ احمد سرہندی بھی مجدد اور شاہ ولی اللہ بھی مجدد، مگر ان کو یہ معلوم نہیں کہ کون کس حیثیت سے مجدد ہے اور اس کا تجدیدی کارنامہ کس نوعیت اور کس مرتبہ کا ہے۔
اس ذ ہول اور غفلت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جن ناموں کے ساتھ ”حضرت“، ”امام“، ”حجت الاسلام “، ”قطب العارفین“، ”زبدة السالکین“اور اسی قسم کے الفاظ لگ جاتے ہیں ان کی عقیدت مند ی کا اتنا بو جھ دماغوں پر پڑ جاتا ہے کہ پھر کسی میں یہ طاقت نہیں رہتی کہ آزادی کے ساتھ ان کے کارناموں کا جائزہ لے کر ٹھیک ٹھیک مشخص کر سکے کہ کس نے اس تحریک کے لیے کتنا اور کیسا کام کیا ہے اور اس خدمت میں اس کا حصہ کس قدر ہے۔ عموماً تحقیق کی نپی تلی زبان کے بجاے ان بزرگوں کے کارنامے عقیدت کی شاعرانہ زبان میں بیان کیے جاتے ہیں جن سے پڑھنے والے پر یہ اثر پڑتا ہے اور شاید لکھنے والے کے ذہن میں بھی یہی ہوتا ہے کہ جس کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ فرد کامل تھا اور اس نے جو کچھ بھی کیا وہ ہر حیثیت سے کمال کے آخری مرتبے پر پہنچا ہوا تھا۔ حالانکہ اگر اب ہم کو تحریک اسلامی کی تجدید و احیا کے لیے کوئی کوشش کرنی ہے تو اس قسم کی عقیدت مندی اور اس ابہام و اجمال سے کچھ کام نہ چلے گا۔ ہم کو پوری طرح اس تجدید کے کام کو سمجھنا پڑے گا۔ اور اپنی پچھلی تاریخ کی طرف پلٹ کر دیکھنا ہوگا کہ ان بہت سی صدیوں میں ہمارے مختلف لیڈروں نے کتنا کتنا کام کس کس طرح کیا ہے ، ان کے کارناموں سے ہم کس حد تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اور ان سے کیا کچھ چھوٹ گیا ہے جس کی تلافی پر اب ہمیں متوجہ ہو نا چاہیے۔ “
مولانا مودودیؒ نے اس کتاب کے مندرجہ بالا دیباچے ہی میں اس کتاب کی غرض وغایت بتادی ہے۔ سید مودودیؒ مزید لکھتے ہیں:
”یہ مضمون ایک مستقل کتاب چاہتا ہے۔ مگر کتاب لکھنے کی فرصت کہاں۔ یہی غنیمت ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب کا ذکر خیر چھڑ گیا جس کی وجہ سے اس مضمون کی طرف چند اشارے کرنے کا موقع نکل آیا۔ شاید کہ اِنھیں اشاروں سے کسی اللہ کے بندے کو تاریخ تجدید و احیاے دین کی تدوین کا راستہ مل جائے۔
یہ مقالہ جو اس وقت کتابی شکل میں شائع کیا جا رہا ہے، ابتدا جر یدہ”الفرقان“بریلی کے شاہ ولی اللہ نمبر کے لیے لکھا گیا تھا۔ اس لیے اس میں شاہ صاحب کے تجدیدی کارناموں پر نسبت زیادہ مفصل نگاہ ڈالی گئی ہے اور دوسرے مجد دین کے کام کا ذکر ضمنی طور پر کیا گیا ہے۔ اس مقالہ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ اس میں تمام مجد دین کے کارناموں کا احاطہ مقصود نہیں ہے بلکہ صرف ان بڑے بڑے مجددین کا ذکر کیا گیا ہے جو اسلام کی تاریخ پر اپنا ایک مستقل نشان چھوڑ گئے ہیں۔ نیز یہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ تجدید کا کام بہت لوگوں نے کیا اور ہر زمانہ میں بہت لوگ کرتے ہیں مگر ”مجدد“کا لقب پانے کے مستحق کم ہی ہوتے ہیں۔ “
عرض ناشر
مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ صاحب کی یہ بلند پایہ تالیف فنِ تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک ایسے نازک مسئلہ کو جس دِقّتِ نظر اور محققانہ بصیرت کے ساتھ آپ نے پیش فرمایا ہے وہ آپ ہی کا حصہ ہے۔ آپ نے تحریکِ تجدید و احیائے دین کا جیسا بے لاگ تجزیہ کیا ہے ٗ مجدّدین کی حقیقی عظمت جس طرح اُجاگر کی ہے اور ان کے عظیم کارناموں کی اہمیت جس انداز سے واضح کی ہے وہ نہ صرف آیندہ مؤرخین کے لیے ایک صحیح بنیاد فراہم کرے گی بلکہ دین کے خادموں کے دلوں میں ایک تازہ ولولہ، ایک نیا جوش اور دین کی سرفرازی کے لیے ایک نئی تڑپ اور لگن پیدا کرے گی۔
انگریزی داں طبقہ کو اس نادر تالیف سے مستفید کرنے کے لیے ہم ساتھ ہی ساتھ اس کا انگریزی ترجمہ بہ عنوان:
“A SHORT HISTORY OF REVNALIST MOVEMENT”
بھی پیش کیا ہے۔ اس سے پہلے اس کا عربی میں ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔
اپنے اعلیٰ طباعتی معیار کو قائم رکھتے ہوئے ہم اس کتاب کو بھی آفسٹ کی دیدہ زیب کتابت و طباعت کے ساتھ شائع کر رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے قارئین اس پیش کش کو بھی اسی گرم جوشی سے قبول فرمائیں گے جو ہماری دیگر مطبوعات کے لیے مخصوص رہی ہے۔
منیجنگ ڈائریکٹر
اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ لاہور
دیباچہ طبع اوّل
اِسلام کی اصطلاحی زبان کے جو الفاظ کثرت سے زبان پر آتے ہیں ان میں سے ایک لفظ ’’مجدّد‘‘ بھی ہے۔ اس لفظ کا ایک مجمل مفہوم تو قریب قریب ہر شخص سمجھتا ہے، یعنی یہ کہ جو شخص دین کو ازسر نو زندہ اور تازہ کرے وہ مجدّدہے۔ لیکن اس کے تفصیلی مفہوم کی طرف بہت کم ذہن منتقل ہوتے ہیں۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ تجدید دین کی حقیقت کیا ہے ٗ کس نوعیت کے کام کو ’’تجدید‘‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ٗ اس کام کے کتنے شعبے ہیں ٗ مکمل تجدید کا اطلاق کس کارنامے پر ہو سکتا ہے اور جزوی تجدید کیا ہوتی ہے۔ اسی ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ لوگ ان مختلف بزرگوں کے کارناموں کی پوری طرح تشخیص نہیں کر سکتے جنھیں تاریخ اسلام میں مجدد قرار دیا گیا ہے۔ وہ بس اتنا جانتے ہیں کہ عمربن عبدالعزیزؒ بھی مجدد،ٗ امام غزالیؒ بھی مجدد ، ابنِ تیمیہؒ بھی مجدد، شیخ احمد سرہندیؒ بھی مجدد اور شاہ ولی اللّٰہؒ بھی مجدد ، مگر انھیںیہ معلوم نہیں کہ کون کس حیثیت سے مجدد ہے اور اس کا تجدیدی کارنامہ کس نوعیت اورکس مرتبہ کا ہے؟ اس ذہول اور غفلت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جن ناموں کے ساتھ ’’حضرت‘‘، ’’امام‘‘ ، ’’حجۃ الاِسلام‘‘، ’’قطب العارفین‘‘، ’’زبدۃ السالکین‘‘ اوراسی قسم کے الفاظ لگ جاتے ہیں ان کی عقیدت مندی کا اتنا بوجھ دماغوں پر پڑ جاتا ہے کہ پھر کسی میں یہ طاقت نہیں رہتی کہ آزادی کے ساتھ ان کے کاموں کا جائزہ لے کر ٹھیک ٹھیک مشخص کر سکے کہ کس نے اس تحریک کے لیے کتنا اور کیسا کام کیا ہے، اور اس خدمت میں اس کا حصہ کس قدر ہے۔ عموماً تحقیق کی نپی تلی زبان کے بجائے ان بزرگوں کے کارنامے عقیدت کی شاعرانہ زبان میں بیان کیے جاتے ہیں جن سے پڑھنے والے پر یہ اثر پڑتا ہے ، اور شاید لکھنے والے کے ذہن میں بھی یہی ہوتا ہے کہ جس کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ فرد کامل تھا اور اس نے جو کچھ بھی کیا وہ ہر حیثیت سے کمال کے آخری مرتبے پر پہنچا ہوا تھا۔ حالانکہ اگر اب ہمیں تحریکِ اسلامی کی تجدید و احیا کے لیے کوئی کوشش کرنی ہے تو اس قسم کی عقیدت مندی اور اس ابہام و اجمال سے کچھ کام نہ چلے گا۔ ہمیںپوری طرح اس تجدید کے کام کو سمجھنا پڑے گا اور اپنی پچھلی تاریخ کی طرف پلٹ کر دیکھنا ہو گا کہ ان بہت سی صدیوں میں ہمارے مختلف لیڈروں نے کتنا کتنا کام کس کس طرح کیا ہے، ان کے کارناموں سے ہم کس حد تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور ان سے کیا کچھ چھوٹ گیا ہے جس کی تلافی پر اب ہمیں متوجہ ہونا چاہیے۔
یہ مضمون، ایک مستقل کتاب چاہتا ہے۔ مگر کتاب لکھنے کی فرصت کہاں۔ یہی غنیمت ہے کہ شاہ ولی اللّٰہ صاحب کا ذکر خیر چھڑ گیا جس کی وجہ سے اس مضمون کی طرف چند اشارے کرنے کا موقع نکل آیا۔ شاید کہ انھی اشاروں سے کسی اللّٰہ کے بندے کو تاریخ تجدید و احیائے دین کی تدوین کا راستہ مل جائے۔
یہ مقالہ جو اس وقت کتابی شکل میں شائع کیا جا رہا ہے ٗ ابتدائً جریدئہ ’’الفرقان‘‘ بریلی کے (شاہ ولی اللہ نمبر) کے لیے لکھا گیا تھا۔ اس لیے اس میں شاہ صاحبؒ کے تجدیدی کارناموں پر نسبتاً زیادہ مفصل نگاہ ڈالی گئی ہے اور دوسرے مجددین کے کام کا ذکر ضمنی طور پر کیا گیا ہے۔ اس مقالہ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ اس میں تمام مجددین کے کارناموں کا احاطہ مقصود نہیں ہے بلکہ صرف ان بڑے بڑے مجددین کا ذکر کیا گیا ہے جو اسلام کی تاریخ پر اپنا ایک مستقل نشان چھوڑ گئے ہیں۔ نیز یہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ تجدید کا کام بہت لوگوں نے کیا اور ہر زمانہ میں بہت لوگ کرتے ہیں مگر ’’مجدد‘‘ کا لقب پانے کے مستحق کم ہی ہوتے ہیں۔
ابو الاعلیٰ
محرم ۱۳۶۰ھ، فروری ۱۹۴۰ء
دیباچہ طبع پنجم
حال میں اس کتاب کو فتنہ جو حضرات نے خاص طور پر اپنی عنایات کا ہدف بنایا ہے۔ اس لیے مَیں نے نظرثانی کرکے اس کی اُن تمام عبارتوں کو واضح کر دیا ہے جن سے طرح طرح کے فتنے نکالے جا رہے تھے، اور ان تمام بیانات اور منقولہ عبارات کے حوالے درج کر دیے ہیں جنھیں یہ سمجھتے ہوئے نشانہ اعتراض بنایا گیا تھا کہ شاید یہ سب میرے طبع زاد ہیں۔ اس کے علاوہ آخر میں ضمیمے کے طور پر ان سب جوابات کو بھی شاملِ کتاب کر دیا ہے جو مَیں نے وقتاً فوقتاً ’’ترجمان القرآن‘‘ میں معترضین کو دیے ہیں۔ اگرچہ اس کے بعد بھی کہنے والی زبانیں بند نہ ہوں گی، مگر اُمید ہے کہ سننے والے کے کان دھوکا کھانے سے بڑی حد تک بچ جائیں گے۔
وما توفیقی الاّ باللّٰہ العلیّ العظیم۔
ابو الاعلیٰ
۱۳ ؍ ربیع الثانی ۱۳۸۰ھ ، ۵ ؍ اکتوبر ۱۹۶۰ء
اِسلام اور جاہلیّت کی اُصولی و تاریخی کش مکش
دُنیا میں انسان کی زِندگی کے لیے جو نظام نامہ بھی بنایا جائے گا اس کی ابتدا لا محالہ بعدالطبیعی یا الٰہیاتی مسائل سے ہو گی۔ زِندگی کی کوئی اسکیم بن نہیں سکتی جب تک کہ انسان کے متعلق اور اس کائنات کے متعلق جس میں انسان رہتا ہے واضح اور متعین تصور نہ قائم کر لیا جائے۔ یہ سوال کہ انسان کا برتائو یہاں کیا ہونا چاہیے اور کس طرح اسے دُنیا میں کام کرنا چاہیے، دراصل اس سوال سے گہرا تعلق رکھتا ہے کہ انسان کیا ہے ، اس کائنات میں اس کی حیثیت کیا ہے اور اس کائنات کا نظام کس ڈھنگ کا ہے جس سے انسان کی زِندگی کے ڈھنگ کو ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اس سوال کا جو حل بھی تجویز کیا جائے گا اسی کے لحاظ سے اخلاق کا ایک نظریہ قائم ہو گا۔ پھر اسی نظریہ اخلاقی کی نوعیت کے مطابق انسانی زِندگی کے مختلف شعبوں کی تشکیل ہو گی ، پھر اسی سانچے کے اندر انفرادی سیرت و کردار اور اجتماعی تعلقات و معاملات کے قوانین اپنی تفصیلی صورتیں اختیار کریں گے اور آخر کار تمدن کی پوری عمارت انھی بنیادوں پر تعمیر ہو گی۔ دُنیا میں اس وقت تک انسانی زِندگی کے لیے جتنے مذہب و مسلک بھی بنے ہیں ان سب کو بہرحال اپنا ایک بنیادی فلسفہ اور ایک اساسی نظریہ اخلاق مرتب کرنا پڑا ہے اور اصول سے لے کر چھوٹے چھوٹے جزئیات تک میں ایک مسلک کو دوسرے مسلک سے جو چیز ممتاز کرتی ہے وہ یہی فلسفہ اور یہی اخلاقی نقطہ نظر ہے۔ کیوں کہ ہر دستورِ زِندگی کا مزاج اسی چیز کی طبیعت کے مطابق بنتا ہے اور یہ اس کے قالب میں روح کی حیثیت رکھتی ہے۔
زِندگی کے چار نظریے
جزئیات و فروع سے قطع نظر، اُصولی حیثیت سے اگر دیکھا جائے تو انسان اور کائنات کے متعلق چار مابعدالطبیعی نظریے قائم ہو سکتے ہیں اور دُنیا میں جتنے دستورِ زِندگی پائے جاتے ہیں انھوں نے انھی چار میں سے کسی ایک کو اختیار کیا ہے۔
۱۔ جاہلیّت خالصہ
ان میں سے پہلے نظریے کو ہم جاہلیّتِ خالصہ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کا خلاصہ یہ ہے:
کائنات کا یہ سارا نظام ایک اِتفاقی ہنگامہ وجود و ظہور ہے جس کے پیچھے کوئی حکمت ، کوئی مصلحت اور کوئی مقصد کار فرما نہیں ہے۔ یوں ہی بن گیا ہے ، یوں ہی چل رہا ہے۔ اور یوں ہی بے نتیجہ ختم ہو جائے گا۔ اس کا کوئی خدا نہیں ہے اور اگر ہے تو اس کے ہونے یا نہ ہونے کا انسان کی زِندگی سے کوئی تعلق نہیں۔
انسان ایک قسم کا جانور ہے، جو دوسری چیزوں کی طرح شاید اتفاقاً یہاں پیدا ہو گیا ہے۔ ہمیں اس سے بحث نہیں کہ اسے کس نے پیدا کیااور کس لیے پیدا کیا۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ اس زمین پر پایا جاتا ہے ، کچھ خواہشیں رکھتا ہے جنھیں پورا کرنے کے لیے اس کی طبیعت اندر سے زور کرتی ہے ، کچھ قوٰی اور کچھ آلات رکھتا ہے۔ جو ان خواہشوں کی تکمیل کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور اپنے گرد و پیش زمین کے دامن پر بہت سا سامان پھیلا ہوا دیکھتا ہے جن پر یہ اپنے ان قوٰی اور آلات کو استعمال کرکے اپنی خواہشوں کی تکمیل کر سکتا ہے ، لہٰذا اس کی زِندگی کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ اپنی طبیعت ِحیوانی کے مطالبات پورے کرے اور اس کی انسانی استعدادوں کا مصرف اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ ان مطالبات کو پورا کرنے کے بہتر سے بہتر ذرائع فراہم کرے۔
انسان سے مافوق کوئی علم کا منبع اور ہدایت کا سرچشمہ موجود نہیں ہے جہاں سے اسے اپنی زِندگی کا قانون مل سکتا ہو ، لہٰذا اسے اپنے گرد و پیش کے آثار و احوال سے اور اپنی تاریخ کے تجربات سے خود ہی ایک قانونِ عمل اخذ کرنا چاہیے۔
بظاہر کوئی ایسی حکومت نظر نہیں آتی جس کے سامنے انسان جواب دہ ہو ، اس لیے انسان بجائے خود ایک غیر ذمہ دار ہستی ہے اور اگر یہ جواب دہ ہے بھی تو آپ اپنے ہی سامنے ہے ، یا پھر اس اقتدار کے سامنے جو خود انسانوں ہی میں سے پیدا ہو کر افراد پر مستولی ہو جائے۔
اعمال کے نتائج جو کچھ بھی ہیں اسی دنیوی زِندگی کی حد تک ہیں۔ اس کے ماسوا کوئی زِندگی نہیں ہے ، لہٰذا صحیح اور غلط ، مفید اور مضر ، قابل اخذ اور قابل ترک ہونے کا فیصلہ صرف انھی نتائج کے لحاظ سے کیا جائے گا جو دُنیا میں ظاہر ہوتے ہیں۔
انسان جب جاہلیّت محضہ کی حالت میں ہوتا ہے۔ یعنی جب اپنے محسوسات سے ماورا کسی حقیقت تک وہ نہیں پہنچتا یا بندگی نفس کی وجہ سے نہیں پہنچنا چاہتا تو اس کے ذہن پر یہی نظر یہ حاوی ہوتا ہے۔ دُنیا پرستوں نے ہر زمانے میں یہی نظریہ اختیار کیا ہے۔ قلیل مستثنیات کو چھوڑ کر بادشاہوں نے ، امیروں نے ، درباریوں اور اربابِ حکومت نے خوش حال لوگوں اور خوش حالی کے پیچھے جان دینے والوں نے عموماً اسی نظریہ کو ترجیح دی ہے۔ اور جن قوموں کی تمدنی ترقی کے گیت تاریخ میں گائے جاتے ہیں ، بالعموم ان سب کے تمدن کی جڑ میں یہی نظریہ کام کرتا رہا ہے۔ موجودہ مغربی تمدن کی بنیاد میں بھی یہی نظریہ کار فرما ہے ، اگرچہ اہل مغرب سب کے سب خدا اور آخرت کے منکر نہیں ہیں ، نہ علمی حیثیت سے سب مادہ پرستانہ اخلاق کے قائل ہیں۔ لیکن جو روح ان کے پورے نظامِ تہذیب و تمدن میں کام کر رہی ہے ، وہ اسی انکارِ خدا و آخرت اور اسی مادہ پرستانہ اخلاق ہی کی روح ہے اور وہ کچھ اس طرح ان کی زِندگی میں پیوست ہو گئی ہے کہ جو لوگ علمی حیثیت سے خدا اور آخرت کے قائل ہیں اور اخلاق میں ایک غیر مادہ پرستانہ نقطہ نظر اختیار کرتے ہیں وہ بھی غیر شعوری طور پر اپنی واقعی زِندگی میں دہریے اور مادہ پرست ہی ہیں۔ کیوں کہ ان کے علمی نظریہ کا ان کی عملی زِندگی سے بالفعل کوئی ربط قائم نہیں ہے۔
ایسی ہی کیفیت ان سے پہلے کے مترفین اور خدا فراموش لوگوں کی بھی تھی۔ بغداد ، دمشق ، دہلی اور غرناطہ کے مترفین مسلمان ہونے کی وجہ سے خدا اور آخرت کے منکر نہ تھے مگر ان کی زِندگی کا سارا پروگرام اس طرح بنتا تھا کہ گویا نہ خدا ہے نہ آخرت نہ کسی کو جواب دینا ہے ، نہ کہیں سے ہدایت لینی ہے۔ جو کچھ ہیں ہماری خواہشات ہیں ، ان خواہشات کی تکمیل کے لیے ہر قسم کے ذرائع اور ہر قسم کے طریقے اختیار کرنے میں ہم آزاد ہیں اور دُنیا میں جینے کی مہلت ملتی ہے اس کا بہترین مصرف بس یہ ہے کہ
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے ، اس نظریہ کی عین فطرت یہی ہے کہ اس کی بنیاد پر ایک خالص مادہ پرستانہ نظام اخلاق بنتا ہے ، خواہ وہ کتابوں میں مدوّن ہو یا صرف ذہنیتوں ہی میں مرتب ہو کر رہ جائے ، پھر اسی ذہنیت سے علوم و فنون اور افکار و آداب کی آبیاری ہوتی ہے اور پورے نظامِ تعلیم و تربیت میں الحاد و مادیت کی روح سرایت کر جاتی ہے۔ پھر انفرادی سیرتیں اسی سانچے میں ڈھلتی ہیں ، انسان اور انسان کے درمیان تعلقات و معاملات کی تمام صورتیں اسی نقشہ پر بنتی ہیں اور قوانین کا نشوونما اسی ڈھنگ پر ہوتا ہے۔ پھر اس طرز کی سوسائٹی میں سطح پر وہ لوگ ابھر آتے ہیں جو سب سے زیادہ مکار ، بددیانت ، جھوٹے ، دغا باز ، سنگ دل اور خبیث النفس ہوتے ہیں۔ تمام سوسائٹی کی سیادت و قیادت اور مملکت کی زمامِ کار انھی کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور وہ شتر بے مہار کی طرح ہر حساب سے بے خوف اور ہر مواخذہ سے بے پروا ہو کر خلقِ خدا پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ میکیادلی (machiavelli) کے اصول سیاست پر ان کی ساری حکمت عملی مبنی ہوتی ہے۔ ان کی کتابِ آئین میں زور کا نام حق اور بے زوری کا نام باطل ہوتا ہے۔ جہاں کوئی مادّی رکاوٹ حائل نہیں ہوتی وہاں کوئی چیز انھیں ظلم سے نہیں روک سکتی۔ یہ ظلم مملکت کے دائرے میں یہ شکل اختیار کرتا ہے کہ طاقت ور طبقے اپنی ہی قوم کے کم زور طبقوں کو کھاتے اور دباتے ہیں اور مملکت کے باہر اس کا اظہار قوم پرستی ، امپیریلزم اور ملک گیری و اقوام کشی کی صورت میں ہوتا ہے۔
۲۔ جاہلیّتِ مشرکانہ
دوسرا مابعدالطبیعی نظریہ شرک کے اصول پر مبنی ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات کا نظام اتفاقی تو نہیں ہے اور نہ بے خداوند ہے ، مگر اس کا ایک خداوند (master) نہیں بلکہ بہت سے خداوند ہیں۔
یہ خیال چوں کہ کسی علمی ثبوت (scientific proof) پر مبنی نہیں ہے۔ بلکہ محض خیال آرائی پر اس کی بِنا ہے ، اس لیے موہوم ، محسوس اور معقول اشیا کی طرف خداوندی والہٰیت کو منسوب کرنے میں مشرکین کے درمیان نہ کبھی اتفاق ہو سکتا ہے ، نہ کبھی ہوا ہے۔ اندھیرے میں بھٹکنے والوں کا ہاتھ جس چیز پر بھی پڑ گیا وہ خدا بنا لی گئی اور خدائوں کی فہرست ہمیشہ گھٹتی بڑھتی رہی ، فرشتے ، جن ، ارواح ، سیارے ، زِندہ اور مردہ انسان ، درخت ، پہاڑ ، جانور ، دریا ، زمین ، آگ ، سب دیوتا بنا ڈالے گئے۔ بہت سے معانی مجروہ (abstract idea) مثلاً مَحبّت ، شہوت ، قوتِ تخلیق ، بیماری ، جنگ ، لچھمی ، شکتی وغیرہ کو بھی خدائی کا مقام دیا گیا۔ طرح طرح کے خیالی مرکبات ، مثلاً شیر انسان ، ماہی انسان ، پرندہ انسان ، چہار سرا ، ہزار دستہ ، خرطوم بینی وغیرہ بھی مشرکین کے معبودوں میں جگہ پاتے رہے۔
پھر اس دیو مالا کے گرد اوہام و خرافات (mythology) کا ایک عجیب طلسم ہوش رباتیار ہوا ہے جس میں ہر جاہل قوم کی قوت واہمہ نے اپنی شادابی و نادرہ کاری کے وہ دل چسپ نمونے فراہم کیے ہیں کہ دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جن قوموں میں خداوند اعلیٰ یعنی اللّٰہ کا تصور نمایاں پایا گیا ہے وہاں تو خدائی کا انتظام کچھ اس طرز کا ہے کہ گویا اللّٰہ تعالیٰ بادشاہ ہے اور دوسرے خدا اس کے وزیر ، درباری ، مصاحب ، عہدہ دار اور اہل کار ہیں ، مگر انسان بادشاہ سلامت تک راہ نہیں پاسکتا۔ اس لیے سارے معاملات ماتحت خدائوں ہی سے وابستہ رہتے ہیں اور جن قوموں میں خداوند اعلیٰ کا تصور بہت دھندلایا تقریباً مفقود ہے ، وہاں ساری خدائی اربابِ متفرقین ہی میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔
جاہلیّت ِ خالصہ کے بعد یہ دوسری قسم کی جاہلیّت ہے جس میں انسان قدیم ترین زمانہ سے آج تک مبتلا ہوتا رہا ہے اور ہمیشہ گھٹیا درجہ کی دماغی حالت ہی میں یہ کیفیت رونما ہوئی ہے۔ انبیا علیہم السلام کی تعلیم کے اثر سے جہاں لوگ اللّٰہ واحد قہار کی خدائی کے قائل ہو گئے، وہاں سے خدائوں کی دوسری اقسام تو رخصت ہو گئیں ، مگر انبیا ، اولیا ، شہدا ، صالحین ، مجاذیب ، اقطاب ، ابدال ، علما ، مشائخ اور ظل اللّٰہوں کی خدائی پھر بھی کسی نہ کسی طرح عقائد میں اپنی جگہ نکالتی ہی رہی۔ جاہل دماغوں نے مشرکین کے خدائوں کو چھوڑ کر ان نیک بندوں کو خدا بنا لیا جن کی ساری زِندگیاں بندوں کی خدائی ختم کرنے اور صرف اللّٰہ کی خدائی ثابت کرنے میں صرف ہوئی تھیں۔ ایک طرف مشرکانہ پوجا پاٹ کی جگہ فاتحہ ، زیارات ، نیاز ، نذر ، عرس ، صندل ، چڑھاوے ، نشان ، علم ، تعزیے اور اسی قسم کے دوسرے مذہبی اعمال کی ایک نئی شریعت تصنیف کر لی گئی۔ دوسری طرف بغیر کسی ثبوتِ علمی کے ان بزرگوں کی ولادت و وفات ، ظہور و غیاب،کرامات و خوارق، اختیارات و تصرفات اور اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں ان کے تقرب کی کیفیات کے متعلق ایک پوری میتھالوجی تیار ہو گئی جو بت پرست مشرکین کی میتھالوجی سے ہر طرح لگا کھا سکتی ہے۔ تیسری طرف توسل اور استمدادِ روحانی اور اکتسابِ فیض وغیرہ ناموں کے خوش نُما پردوں میں وہ سب معاملات جو اللّٰہ اور بندوں کے درمیان ہوتے ہیں ، ان بزرگوں سے متعلق ہو گئے اور عملاً وہی حالت قائم ہو گئی جو اللّٰہ کے ماننے والے ان مشرکین کے ہاں ہے جن کے نزدیک پادشاہِ عالم انسان کی رسائی سے بہت دور ہے اور انسان کی زِندگی سے تعلق رکھنے والے تمام امور نیچے کے اہل کاروں ہی سے وابستہ ہیں ، فرق صرف یہ ہے کہ ان کے ہاں اہل کار علانیہ الٰہ ، دیوتا ، اوتاریا ابن اللّٰہ کہلاتے ہیں اور یہ انھیں غوث ، قطب ، ابدال ، اولیا اور اہل اللّٰہ وغیرہ الفاظ کے پردوں میں چھپاتے ہیں۔
یہ دوسری قسم کی جاہلیّت تاریخ کے دوران میں عموماً پہلی قسم کی جاہلیّت یعنی جاہلیّت خالصہ کے ساتھ تعاون کرتی رہی ہے۔ قدیم زمانہ میں بابل ، مصر ، ہندوستان ، ایران ، یونان ، روم وغیرہ ممالک کے تمدن میں یہ دونوں جاہلیتیں ہم آغوش تھیں اور موجودہ زمانہ میں جاپان کے تمدن کا بھی یہی حال ہے۔ اس موافقت کے متعدد اسباب ہیں جن میں سے چند کی طرف میں اشارہ کروں گا۔
اولاً: مشرکانہ جاہلیّت میں آدمی کا کوئی تعلق اپنے معبودوں کے ساتھ اس کے سو انھیں ہوتا کہ یہ اپنے خیال میں انھیں صاحب ِ اختیار اور نافع و ضارّ سمجھ لیتا ہے اور مختلف مراسم عبودیت کے ذریعہ سے اپنے دنیوی مقاصد میں ان کی مہربانی و اعانت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ باقی رہا یہ امر کہ وہاں سے اسے کسی قسم کی اخلاقی ہدایت یا زِندگی کا ضابطہ و قانون ملے ، تو اس کا کوئی امکان ہی نہیں ، کیوں کہ وہاں کوئی واقع میں خدا ہو تو ہدایت اور قانون بھیجے۔ پس جب ایسی کوئی چیز موجود نہیں ہے تو مشرک انسان لامحالہ خود ہی ایک اخلاقی نظریہ بناتا ہے اور خود ہی اس نظریہ کی بنیاد پر ایک شریعت تصنیف کرتا ہے۔ اس طرح وہی جاہلیتِ محضہ برسرِکار آجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خالص جاہلیّت کے تمدن اور مشرکانہ تمدن میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہوتا کہ ایک جگہ جاہلیّت کے ساتھ مندروں ، پجاریوں اور عبادات کا سلسلہ ہوتا ہے اور دوسری جگہ نہیں ہوتا۔ اخلاق اور اعمال جیسے یہاں ہوتے ہیں، ویسے ہی وہاں بھی ہوتے ہیں۔ یونانِ قدیم اور بت پرست روم کے اخلاقی مزاج اور موجودہ یورپ کے اخلاقی مزاج میں جو مشابہت پائی جاتی ہے اس کا یہی سبب ہے۔
ثانیاً ، عُلُوم وفُنُون ، فلسفہ و ادب اور سیاسیات و معاشیات وغیرہ کے لیے مشرکانہ نظریّہ کوئی الگ مستقل بنیاد فراہم نہیں کرتا۔ اس باب میں بھی مشرک انسان جاہلیّت ِمحضہ ہی کا رخ اختیار کرتا ہے اور مشرک سوسائٹی کا سارا دماغی نشوونما اُسی ڈھنگ پر ہوتا ہے جس پر خالص جاہلی سوسائٹی میں ہوا کرتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مشرکین کی قوتِ واہمہ حد سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے اس لیے ان کے افکار میں خیال آرائی کا عنصر بہت زیادہ ہوتا ہے اور ملاحدہ ذرا عملی قسم کے لوگ ہوتے ہیں، اس لیے نرے خیالی فلسفوں سے انھیں کوئی دل چسپی نہیں ہوتی ، البتہ جب یہ ملاحدہ خدا کے بغیر کائنات کے معمے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی استدلالی کھینچ تان بھی اتنی ہی غیر معقول ہوتی ہے جتنی مشرکین کی میتھالوجی۔ بہرحال علمی حیثیت سے شرک اور جاہلیّت ِ خالصہ میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہوتا اور اس کا روشن ثبوت یہ ہے کہ موجودہ یورپ اپنے موجودہ نظریات میں قدیم یونان و روم سے اس طرح سلسلہ جوڑتا ہے کہ گویا یہ بیٹا ہے اور وہ باپ۔
ثالثاً ، مشرک سوسائٹی ان تمام تمدنی طریقوں کو قبول کرنے کے لیے پو ری طرح مستعد رہتی ہے جنھیں خالص جاہلی سوسائٹی اختیار کرتی ہے ، اگرچہ سوسائٹی کی ترتیب و تعمیر میں شرک اور جاہلیتِ خالصہ کے ڈھنگ ذراایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ شرک کی مملکت میں بادشاہوں کو خدائی کا مقام دیا جاتا ہے ، روحانی پیشوائوں اور مذہبی عہدہ داروں کا ایک طبقہ مخصوص امتیازات کے ساتھ پیدا ہوتا ہے ، شاہی خاندان اور مذہبی طبقے مل کر ایک ملی بھگت قائم کرتے ہیں ، خاندانوں پر خاندانوں کے اور طبقوں پر طبقوں کے تفوق کا ایک مستقل نظریہ وضع کیا جاتا ہے اور اس طرح جاہل عوام پر مذہب کا جال پھیلا کر ظالمانہ تسلط قائم کر لیا جاتا ہے۔بخلاف اس کے خالص جاہلی سوسائٹی میں یہ خرابیاں نسل پرستی ، قوم پرستی ، قومی امپیریلزم ، ڈکٹیٹر شپ ، سرمایہ داری اور طبقاتی نزاع کی شکل اختیار کرتی ہیں۔ لیکن جہاں تک روح اور جوہر کا تعلق ہے ، انسان پر انسان کی خدائی مسلط کرنے ، انسان کو انسان سے پھاڑنے اور انسانیت کو تقسیم کرکے ایک ہی نوع کے افراد کو ایک دوسر کے لیے صیاد بنانے میں دونوں ایک سطح پر ہیں۔
۳۔ جاہلیّت ِراہبانہ
تیسرا مابعدالطبیعی نظریہ رہبانیت پر مبنی ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ دُنیا اور یہ جسمانی وجود انسان کے لیے ایک دارالعذاب ہے۔ انسان کی روح اس قفسِ عنصری میں دراصل ایک سزا یافتہ قیدی کی حیثیت رکھتی ہے۔ لذات و خواہشات اور تمام وہ ضروریات جو اس جسمانی تعلق کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوتی ہیں دراصل اس قید خانہ کے طوق و سلاسل ہیں۔ انسان اس دُنیا اور اس کی چیزوں سے جتنا تعلق رکھے گا اتنا ہی گندگی سے آلودہ ہو گا اور اِسی قدر مزید عذاب کا مستحق بن جائے گا۔ نجات کی صورت اس کے سِوا کوئی نہیں کہ اس زِندگی کے بکھیڑوں سے قطع تعلق کیا جائے ، خواہشات کو مٹایا جائے ، لذات سے کنارہ کشی کی جائے ، جسمانی ضروریات اور نفس کے مطالبات کو پورا کرنے سے انکار کیا جائے ، ان تمام محبتوں کو جو دنیوی اشیا اور گوشت و خون کی رشتہ داریوں کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں، دل سے نکال دیا جائے اور اپنے اس دشمن ، یعنی نفس و جسم کو مجاہدات و ریاضات کے ذریعہ سے اتنی تکلیفیں دی جائیں کہ روح پر اس کا تسلط قائم نہ رہ سکے۔ اس طرح روح ہلکی اور پاک صاف ہو جائے گی اور نجات کے بلند مقامات پر اڑنے کی طاقت حاصل کر لے گی۔
یہ نظریہ بجائے خود غیر تمدنی (anti-social)نظریہ ہے ، مگر تمدن پر یہ متعدد طریقوں سے اثر اندازہوتا ہے۔ اس کی بنیاد پر ایک خاص قسم کا نظام فلسفہ بنتا ہے جس کی مختلف شکلیں ویدانتزام ، مانویت ، اشراقیت (neo-platonism) یوگ ، تصوف ، مسیحی رہبانیت اور بدھ ازم وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں۔ اس فلسفہ کے ساتھ ایک ایسا نظامِ اخلاق وجود میں آتا ہے جو بہت کم ایجابی (positive) اور بہت زیادہ ، بلکہ تمام تر سلبی (negative) نوعیت کا ہے۔ یہ دونوں چیزیں مل جل کر لٹریچر ، عقائد ، اخلاقیات اور عملی زِندگی میں نفوذ کرتی ہیں اور جہاں جہاں ان کے اثرات پہنچتے ہیں وہاں افیون اور کوکین کا کام کرتے ہیں۔
پہلی دونوں قسم کی جاہلیتوں کے ساتھ اس تیسری قسم کی جاہلیّت کا تعاون عموماً تین صورتوں سے ہوتا ہے۔
(۱) راہبانہ جاہلیّت انسانی جماعت کے نیک اور پاک باز افراد کو دُنیا کے کاروبار سے ہٹا کر گوشہ ِ عزلت میں لے جاتی ہے اور بدترین قسم کے شریر افراد کے لیے میدان صاف کر دیتی ہے۔ بدکار لوگ خدا کی زمین کے متولی بن کر آزادی کے ساتھ فساد پھیلاتے ہیں اور نیک لوگ اپنی نجات کی فکر میں تپسیا کیے چلے جاتے ہیں۔
(۲) اس جاہلیّت کے اثرات جہاں تک عوام میں پہنچتے ہیں وہ ان کے اندر غلط قسم کا صبر و تحمل اور مایوسانہ نقطہ نظر پیدا کرکے انھیں ظالموں کے لیے نرم نوالہ بنا دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمیشہ بادشاہ ، امرا اور مذہبی اقتدار رکھنے والے طبقے اس راہبانہ فلسفہ و اخلاق کی اشاعت میں خاص دل چسپی لیتے رہے ہیں اور یہ خوب آرام سے ان کی سرپرستی میں پھیلتا رہا ہے۔ تاریخ میں کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ امپیریلزم ، سرمایہ داری اور پاپائیت سے اس راہبانہ فلسفہ و اخلاق کی کبھی لڑائی ہوئی ہو۔
(۳) جب یہ راہبانہ فلسفہ و اخلاق انسانی فطرت سے شکست کھا جاتا ہے تو کتاب الحیل کی تصنیف شروع ہو جاتی ہے۔ کہیں کفارے کا عقیدہ ایجاد ہوتا ہے تاکہ دل کھول کر گناہ کیا جا سکے اور جنت بھی ہاتھ سے نہ جائے۔ کہیں ہوس رانی کے لیے عشق مجازی کا حیلہ نکالا جاتا ہے تاکہ دل کی لگی بجھا بھی لی جائے اور تقدس بھی جوں کا توں قائم رہے۔ اور کہیں ترک دُنیا کے پردے میں بادشاہوں اور رئیسوں سے سانٹھ گانٹھ کی جاتی ہے اور روحانی امارت کا وہ جال پھیلایا جاتا ہے جس کی بدترین مثالیں روم کے پاپائوں اور مشرقی دُنیا کے گدی نشینوں نے پیش کی ہیں۔
یہ تو اس جاہلیّت کا معاملہ اپنی ہم جنس بہنوں کے ساتھ ہے۔ مگر انبیا علیہم السلام کی امتوں میں جب یہ گھس آتی ہے تو کچھ اور ہی گل کھلاتی ہے۔ خدا کے دین پر اس کی پہلی ضرب یہ ہوتی ہے کہ یہ دُنیا کو دارالعمل ، دارالامتحان اور مزرعۃ الآخرۃ کی بجائے دارالعذاب اور ’’مایا کے جال‘‘ کی حیثیت سے آدمی کے سامنے پیش کرتی ہے نقطہ نظر کے اس بنیادی تغیر کی وجہ سے آدمی یہ حقیقت بھول جاتا ہے کہ وہ اس دُنیا میں خدا کے خلیفہ کی حیثیت سے مامور ہے۔ وہ یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ میں یہاں کام کرنے اور دُنیا کے معاملات کو چلانے نہیں آیا ہوں بلکہ گندگی و نجاست میں پھینکا گیا ہوں جس سے مجھے بچنا اور دور بھاگنا چاہیے۔ میرے لیے صحیح پوزیشن یہ ہے کہ میں یہاں نان کوآپریٹر کی طرح رہوں اور ذمہ داریوں کو قبول کرنے کی بجائے ان سے کنارہ کروں۔ اس تصور کے ساتھ آدمی دُنیا اور اس کے معاملات پر سہمی ہوئی نگاہ ڈالنے لگتا ہے اور بارِ خلافت کو سنبھالنا تو درکنار ، بارِ تمدن کو بھی اپنے سر لیتے ہوئے ڈرتا ہے۔ اس کے لیے پورا نظامِ شریعت بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ عبادات اور اوامر و نواہی کا یہ مفہوم بالکل ساقط ہو جاتا ہے کہ یہ حیاتِ دُنیا کی اصلاح اور فرائض خلافت کی انجام دہی کے لیے تیار کرنے والی چیزیں ہیں ، برعکس اس کے آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ عبادات اور چند خاص مذہبی اعمال اس گناہِ زِندگی کا کفارہ ہیں بس انھی کو پورے انہماک سے ٹھیک ناپ تول کے ساتھ انجام دیتے رہنا چاہیے تاکہ آخرت میں نجات حاصل ہو۔
اس ذہنیت نے انبیا کی امتوں میں سے ایک گروہ کو مراقبہ و مکاشفہ ، چلہ کشی و ریاضت، اورا وراد وظائف، احزاب و اعمال،({ FR 6683 }) سیر مقامات ({ FR 6684 }) اور حقیقت کی فلسفیانہ تعبیروں ({ FR 6685 }) کے چکر میں ڈال دیا اور مستحبات و نوافل کے التزام میں فرائض سے بھی زیادہ منہمک کرکے خلافتِ الٰہیہ کے اس کام سے غافل کر دیا جسے جاری کرنے کے لیے انبیا علیہم السلام آئے تھے۔ اور دوسرے گروہ میں تقشف ، تعمق فی الدین ، غلو ، موشگافی ، چھوٹی چھوٹی چیزوں کی ناپ تول اور جزئیات کے ساتھ غیر معمولی اہتمام کی بیماری پیدا کر دی ، حتّٰی کہ ان کے لیے خدا کا دین ایک ایسا نازک آبگینہ ہو گیا جو ذرا ذرا سی باتوں سے ٹھیس کھا کر پاش پاش ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان بے چاروں کا سارا وقت بس اسی دیکھ بھال کی نذر ہونے لگا کہ کہیں کچھ اونچ نیچ نہ ہو جائے اور یہ شیشے کا برتن جو سر پر رکھا ہے۔ کھیل کھیل ہو کر نہ رہ جائے۔ دین میں اتنی باریکیاں نکل آنے کے بعد ناگزیر ہے کہ جمود ، تنگ خیالی اور کم حوصلگی پیدا ہو۔ ایسے لوگوں میں کہاں یہ قابلیت باقی رہ سکتی ہے کہ نگاہِ جہاں بیں سے انسانی زِندگی کے بڑے بڑے مسائل پر نظر ڈالیں ، دین کے عالم گیر اصول و کلیات پر گرفت حاصل کریں اور زمانہ کی ہر نئی گردش میں دُنیا کی امامت و راہ نُمائی کے لیے مستعد ہوں۔
۴۔ اِسلام
چوتھا مابعدالطبیعی نظریہ وہ ہے جسے انبیا علیہم السلام نے پیش کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے:
یہ سارا عالم ہست و بودجو ہمارے گرد و پیش پھیلا ہوا ہے اور جس کا ایک جزو ہم خود ہیں، دراصل ایک بادشاہ کی سلطنت ہے۔ اسی نے اسے بنایا ہے ،وہی اس کا مالک ہے اور وہی اس کا واحد حاکم ہے۔ اس سلطنت میں کسی کا حکم نہیں چلتا۔ سب کے سب تابع فرمان ہیں اور اختیارات بالکلیہ اسی ایک مالک و فرماں روا کے ہاتھ میں ہیں۔
انسان اس مملکت میں پیدائشی رعیت ہے۔ یعنی رعیت ہونا یا نہ ہونا اس کی مرضی پر موقوف نہیں ، بلکہ یہ رعیت ہی پیدا ہوا ہے اور رعیت کے سوا کچھ اور ہونا اس کے امکان میں نہیں ہے۔
اس نظامِ حکومت کے اندر انسان کی خود مختاری و غیر ذمہ داری کے لیے کوئی جگہ نہیں ، نہ فطرتاً ہو سکتی ہے۔ پیدائشی رعیت اور ایک جزوِ مملکت ہونے کی حیثیت سے اس کے لیے کوئی راستہ اس کے سوا نہیں ہے کہ جس طرح مملکت کے تمام اجزا بادشاہ کے امر کی اطاعت کر رہے ہیں اسی طرح یہ بھی کرے۔ یہ خود اپنے لیے طریق زِندگی وضع کرنے اور اپنی ڈیوٹی آپ تجویز کر لینے کا حق نہیں رکھتا۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ مالک الملک کی طرف سے جو ہدایت آئے اس کی پیروی کرے۔ اس ہدایت کے آنے کا ذریعہ وحی ہے اور جن انسانوں کے پاس وہ آتی ہے وہ نبی ہیں۔
مگر انسان کی آزمائش کے لیے مالک نے یہ لطیف طریقہ اختیار کیا ہے کہ آپ بھی چھپ گیا اور اپنی سلطنت کا وہ پورا اندرونی انتظام بھی چھپا دیا، جس سے وہ تدبیر امر کرتا ہے۔ ظاہر میں سلطنت اس طرح چل رہی ہے کہ نہ اس کا کوئی حاکم نظر آتا ہے ، نہ کار پرداز دکھائی دیتے ہیں۔ انسان صرف ایک کارخانہ چلتا ہوا دیکھتا ہے ، اس کے درمیان اپنے آپ کو موجود پاتا ہے اور ظاہر حواس سے کہیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ میں کسی کا محکوم ہوں اور کسی کو مجھے حساب دینا ہے۔ اعیان و شہود میں کوئی ایسی نشانی نمایاں نہیں ہوتی کہ اس پر فرماں روائے عالم کی حاکمیت اور اپنی محکومیت و مسئولیت (responsibility) کا حال غیر مشتبہ طور پر کھل جائے ، یہاں تک کہ مانے بغیر چارہ نہ رہے۔ نبی بھی آتے ہیں تو اس طرح نہیں کہ ان کے اوپر عیاناً وحی اترتی دکھائی دے یا کوئی ایسی صریح علامت ان کے ساتھ اترے جسے دیکھ کر ان کی نبوت ماننے کے سوا چارہ نہ رہے۔ پھر آدمی ایک حد کے اندر اپنے آپ کو بالکل مختار پاتا ہے۔ بغاوت کرنا چاہے تو اس کی قدرت دے دی جاتی ہے ، ذرائع بہم پہنچا دیے جاتے ہیں اور بڑی لمبی ڈھیل دی جاتی ہے ، حتّٰی کہ شرارت و عصیان کی آخری حدود کو پہنچنے تک کوئی رکاوٹ اسے پیش نہیں آتی۔ مالک کے سوا دوسروں کی بندگی کرنا چاہے تو اس سے بھی زبردستی اسے نہیں روکا جاتا ، پوری آزادی دے دی جاتی ہے کہ جس جس کی بندگی ، عبادت ، اطاعت کرنا چاہے۔دونوں صورتوں ، یعنی بغاوت اور بندگیِ غیر کی صورتوں میں رزق برابر ملتا ہے ، سامانِ زِندگی ، وسائل کار ، اسبابِ عیش حسب حیثیت خوب دیے جاتے ہیں اور مرتے دم تک دیے جاتے رہتے ہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کسی باغی یا کسی بندئہ غیر سے محض اس جرم کی پاداش میں اسبابِ دُنیا روک لیے جائیں۔ یہ سارا طرزِ کارروائی صرف اس لیے ہے کہ خالق نے انسان کو عقل ، تمیز ، استدلال ، ارادہ و اختیار کی جو قوتیں دی ہیں اور اپنی بے شمار مخلوقات پر اسے ایک طرح کے حاکمانہ تصرف کی جو قدرت بخشی ہے ،اس میں وہ اس کی آزمائش کرنا چاہتا ہے۔ اسی آزمائش کی تکمیل کے لیے حقیقت پر غیب کا پردہ ڈالا گیا ہے تاکہ انسان کی عقل کا امتحان ہو۔ انتخاب کی آزادی بخشی گئی ہے تاکہ اس امر کا امتحان ہو کہ آدمی حق کو جاننے کے بعد کسی مجبوری کے بغیر خوداپنی رضا و رغبت سے اس کی پیروی کرتا ہے یا خواہشات کی غلامی اختیار کرکے اس سے منہ موڑ جاتا ہے۔ اسبابِ زِندگی کا سرمایہ ، وسائل اور کام کا موقع نہ دیا جائے تو اس کی لیاقت و عدم لیاقت کا امتحان نہیں ہو سکتا۔
یہ دنیوی زِندگی چوں کہ آزمائش کی مہلت ہے اس لیے یہاں نہ حساب ہے نہ جزانہ سزا۔ یہاں جو کچھ دیا جاتا ہے وہ کسی عملِ نیک کا انعام نہیں بلکہ امتحان کا سامان ہے۔ اور جو تکالیف ، مصائب ، شدائد وغیرہ پیش آتے ہیں وہ کسی عملِ بد کی سزا نہیں بلکہ زیادہ تر اس قانونِ طبعی کے تحت جس پر اس دُنیا کا نظام قائم کیا گیا ہے ، آپ سے آپ ظاہر ہونے والے نتائج ہیں({ FR 6686 }) اعمال کے اصلی حساب ، جانچ پڑتال اور فیصلہ کا وقت مہلت کی یہ زِندگی ختم ہونے کے بعد ہے اور اسی کا نام آخرت ہے۔ لہٰذا دُنیا میں جو کچھ نتائج ظاہر ہوتے ہیں وہ کسی طریقہ یا کسی عمل کے صحیح یا غلط ، نیک یا بد اور قابل اخذ یا قابل ترک ہونے کا معیار نہیں بن سکتے۔ اصلی معیار آخرت کے نتائج ہیں اور یہ علم کہ آخرت میں کس طریقہ اور کس عمل کا نتیجہ اچھا اور کس کا برا ہو گا ، صرف اس وحی کے ذریعہ سے حاصل ہو سکتا ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے انبیا پر نازل ہوئی ہے۔ جزئیات و تفصیلات سے قطع نظر ، فیصلہ کن بات جس پر آخرت کی فلاح یا خسران کا مدار ہے، یہ ہے کہ اولاً انسان اپنی قوت نظر و استدلال کے صحیح استعمال سے اللّٰہ تعالیٰ کے حاکم حقیقی ہونے اور اس کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کے من جانب اللّٰہ ہونے کو پہچانتا ہے یا نہیں۔ ثانیاً اس حقیقت سے واقف ہونے کے بعد وہ (آزادیٔ انتخاب رکھنے کے باوجود) اپنی رضا و رغبت سے اللّٰہ کی حاکمیت اور اس کے امرِ شرعی کے آگے سرِ تسلیم خم کرتا ہے یا نہیں۔
یہ وہ نظریہ ہے جسے ابتدا سے انبیا علیہم السلام پیش کرتے آئے ہیں۔ اس نظریہ کی بنیاد پر تمام واقعاتِ عالم کی مکمل توجیہ (explanation) ہوتی ہے ، کائنات کے تمام آثار (phenomena) کی پوری تعبیر ملتی ہے اور کسی مشاہدے یا تجربے سے یہ نظریہ ٹوٹتا نہیں۔ یہ ایک مستقل نظامِ فلسفہ پیدا کرتا ہے جو جاہلیّت کے فلسفوں سے بنیادی طور پر بالکل مختلف ہوتا ہے۔ کائنات اور خود وجودِ انسانی کے متعلق معلومات کے پورے ذخیرہ کو ایک دوسرے ڈھنگ پر مرتب کرتا ہے جس کی ترتیب جاہلی علوم کی ترتیب سے سراسر متباین ہوتی ہے۔ ادب اور ہنر (art and literature) کے نشوونما کا ایک الگ راستہ بناتا ہے جو جاہلی ادب و ہنر کے تمام راستوں سے متغائر ہوتا ہے۔ زِندگی کے جملہ معاملات میں ایک خاص زاویۂ نظر اور ایک خاص مقصد پیدا کرتا ہے جو جاہلی مقاصد و نقطہ ہائے نظر سے اپنی روح اور اپنے جوہر میں کسی طرح میل نہیں کھاتا۔ اخلاق کا ایک علیحدہ نظام بناتا ہے جسے جاہلی اخلاقیات سے کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ پھر ان علمی و اخلاقی بنیادوں پر جس تہذیب کی عمارت اٹھتی ہے ، اس کی نوعیت تمام جاہلی تہذیبوں کی نوعیت سے قطعاً مختلف ہوتی ہے اور اسے سنبھالنے کے لیے ایک اور ہی طرز کے نظامِ تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جس کے اصول جاہلیّت کے ہر نظامِ تعلیم و تربیت سے کامل تضاد کی نسبت رکھتے ہیں۔ فی الجملہ اس تہذیب کی رگ رگ اور ریشہ ریشہ میں جو روح کام کرتی ہے وہ اللّٰہ واحد قہار کی حاکمیت، آخرت کے اعتقاد اور انسان کے محکوم و ذمہ دار ہونے کی روح ہے۔ بخلاف اس کے ہر جاہلی تہذیب کے پورے نظام میں انسان کی خود مختاری ، بے قیدی و بے مہاری اور غیر ذمہ داری کی روح سرایت کیے ہوئے ہوتی ہے۔ اسی لیے انسانیت کا جو نمونہ انبیا علیہم السلام کی قائم کی ہوئی تہذیب سے تیار ہوتا ہے اس کے خدوخال اور رنگ و روغن جاہلی تہذیب کے بنائے ہوئے نمونہ سے ہر جزو اور ہر پہلو میں جدا ہوتی ہیں۔
اس کے بعد تمدن کی تفصیلی صورت جو اس بنیاد پر بنتی ہے اس کا سارا نقشہ دُنیا کے دوسرے نقشوں سے بدلا ہوا ہوتا ہے۔ طہارت ، لباس ، خوراک ، طرزِ زِندگی ، آداب و اطوار ، شخصی کردار ، کسبِ معاش ، صرفِ دولت ، ازدواجی زِندگی ، خاندانی زِندگی ، معاشرتی رسوم ، مجلسی طریقے ، انسان اور انسان کے تعلق کی مختلف شکلیں ، لین دین کے معالات ، دولت کی تقسیم ، مملکت کا انتظام ، حکومت کی تشکیل ، امیر کی حیثیت ، شوریٰ کا طریقہ ، سول سروس کی تنظیم ، قانون کے اصول ، تفصیلی ضوابط کا اصول سے استنباط ، عدالت ، پولیس ، احتساب ، مالگذاری ، فینانس ، امورِ نافعہ (public works) صنعت و تجارت ، خبر رسانی ، تعلیمات اور دوسرے تمام محکموں کی پالیسی ، فوج کی تربیت و تنظیم ، جنگ و صلح کے معاملات تک اس تمدن کا طور و طریق اپنی ایک مستقل شان رکھتا ہے اور ہر ہر جز میں ایک واضح خط ِ امتیاز اسے دوسرے تمدنوں سے الگ کرتا ہے۔ اس کی ہر چیز میں اوّل سے آخر تک ایک خاص نقطہ نظر ، ایک خاص مقصد اور ایک خاص اخلاقی رویہ کار فرما ہوتا ہے جس کا براہ راست تعلق خدائے واحد کی حاکمیت مطلقہ اور انسان کی محکومیت و مسئولیت اور دُنیا کے بجائے آخرت کی مقصودیت سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔
انبیا علیہم السلام کا مشن
اسی تہذیب و تمدن کو دُنیا میں قائم کرنے کے لیے انبیا علیہم السلام پے در پے بھیجے گئے تھے۔
رہبانی تہذیب کو مستثنیٰ کرکے ہر وہ تہذیب جو دُنیا کی زِندگی کے متعلق ایک جامع نظریہ اور کاروبارِ دُنیا کو چلانے کے لیے ایک ہمہ گیر طریقہ رکھتی ہو ، قطع نظر اس سے کہ وہ جاہلیّت کی تہذیب ہو یا اِسلام کی ، طبعاً اس بات کی طالب ہوتی ہے کہ حاکمانہ اختیارات پر قبضہ کرے ، زمامِ کار اپنے ہاتھ میں لے اور زِندگی کا نقشہ اپنے طرز پر بنائے۔ حکومت کے بغیر کسی ضابطہ و نظریہ کو پیش کرنا یا اس کا معتقد ہونا محض بے معنی ہے۔ راہب تو دُنیا کے معاملات کو چلانا ہی نہیں چاہتا بلکہ ایک خاص قسم کے ’’سلوک‘‘ سے اپنی خیالی نجات کی منزل تک باہر ہی باہر پہنچ جانے کی فکر میں لگا رہتا ہے ، اس لیے نہ اسے حکومت کی حاجت نہ طلب۔ مگر جو دُنیا کے معاملات ہی کو چلانے کا ایک خاص ڈھنگ لے کر اٹھے اور اسی ڈھنگ کی پیروی میں انسان کی فلاح و نجات کا معتقد ہو ، اس کے لیے تو بجز اس کے کوئی چارہ ہی نہیں کہ اقتدار کی کنجیوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے۔ کیوں کہ جب تک وہ اپنے نقشے پر عمل درآمد کرنے کی طاقت حاصل نہ کرلے ، اس کا نقشہ واقعات کی دُنیا میں قائم نہیں ہو سکتا۔ بلکہ کاغذ پر اور ذہنوں میں بھی زیادہ عرصہ تک باقی نہیں رہ سکتا۔ جس تہذیب کے ہاتھ میں زمامِ کار ہوتی ہے دُنیا کا سارا کاروبار اسی کے نقشہ پر چلتا ہے۔ وہی علوم و افکار اور فنون و آداب کی راہ نُمائی کرتی ہے ، وہی اخلاق کے سانچے بناتی ہے ، وہی تعلیم و تربیت عامہ کا انتظام کرتی ہے ، اسی کے قوانین پر سارا نظامِ تمدن مبنی ہوتا ہے اور اسی کی پالیسی ہر شعبہ زِندگی میں کار فرما ہوتی ہے۔ اس طرح زِندگی میں کہیں بھی اس تہذیب کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی جو اپنی حکومت نہ رکھتی ہو ، یہاں تک کہ جب ایک طویل مدت تک حکم ران تہذیب کا دور دورہ رہتا ہے تو غیر حکم ران تہذیب عمل کی دُنیا میں خارج ازبحث ہو جاتی ہے ، اس کی طرف ہم دردانہ نقطہ نظر رکھنے والوں کو بھی اس امر میں شبہ ہو جاتا ہے کہ یہ طریقہ دُنیا کی زِندگی میں چل سکتا ہے یا نہیں۔ اس کے نام نہاد علم بردار اور اس کی لیڈر شپ کے بزعم خود وارثین تک تہذیب مخالف سے مدارات (compromise) اور آدھے پونے کا مشترک معاملہ کرنے پر اتر آتے ہیں۔ حالانکہ حکم رانی میں دو بالکل مختلف الاصول تہذیبوں کے درمیان مقاسمت و مصالحت قطعی غیر ممکن العمل چیز ہے اور انسانی تمدن اس شرک کو برداشت نہیں کر سکتا۔ بٹائی کو ممکن العمل خیال کرنا عقل کی کمی پر دلالت کرتا ہے اور اس کے لیے راضی ہونا ایمان اور ہمت کی کمی پر۔
پس دُنیا میں انبیا علیہم السلام کے مشن کا منتہائے مقصود یہ رہا ہے کہ حکومت ِ الٰہیہ قائم کرکے اس پورے نظامِ زِندگی کو نافذ کریں جو وہ خدا کی طرف سے لائے تھے۔ ( { FR 6688 }) وہ اہل جاہلیّت کو یہ حق تو دینے کے لیے تیار تھے کہ اگر چاہیں تو اپنے جاہلی اعتقادات پر قائم رہیں اور جس حد کے اندر ان کے عمل کا اثر انھی کی ذات تک محدود رہتا ہے اس میں اپنے جاہلی طریقوں پر چلتے رہیں۔ مگر وہ انھیں یہ حق دینے کے لیے تیار نہ تھے اور فطرتاً نہ دے سکتے تھے کہ اقتدار کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں رہیں اور وہ انسانی زِندگی کے معاملات کو طاقت کے زور سے جاہلیّت کے قوانین پر چلائیں۔ اسی وجہ سے تمام انبیا نے سیاسی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی۔ بعض کی مساعی صرف زمین تیار کرنے کی حد تک رہیں ، جیسے حضرت ابراہیم ؑ۔ بعض نے انقلابی تحریک عملاً شروع کر دی مگر حکومت الٰہیہ قائم کرنے سے پہلے ہی ان کا کام ختم ہو گیا ، جیسے حضرت مسیح ؑ۔ اور بعض نے اس تحریک کو کام یابی کی منزل تک پہنچا دیا جیسے حضرت یوسف ؑ ، حضرت موسیٰ ؑ اور سیّدنا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
نبی کے کام کی نوعیت
فی الجملہ تمام انبیا کے کام پر مجموعی حیثیت سے جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو اس کام کی نوعیت یہ پائی جاتی ہے:
۱۔ عام انسانوں کے اندر فکری و ذہنی انقلاب برپا کرنا۔ خالص اسلامی نقطہ نظر و طرزِ فکر اور رویہ اخلاقی کو ان کے اندر اس حد تک پیوست کر دینا کہ ان کے سوچنے کا طریقہ ، زِندگی کا مقصد ، قدر و قیمت کا معیار اور عمل کا ڈھنگ بالکل اِسلام کے سانچے میں ڈھل جائے۔
۲۔ جو لوگ اس تعلیم و تربیت کا اثر قبول کر لیں ان کا ایک مضبوط جتھا بنا کر جاہلیّت کے ہاتھوں سے اقتدار چھیننے کی جدوجہد کرنا اور اس جدوجہد میں تمام اُن اسباب سے کام لینا جو وقت کے تمدن میں موجود ہوں۔
۳۔ اسلامی نظامِ حکومت قائم کرکے تمدن کے تمام شعبوں کو خالص اِسلام کی اساس پر مرتب کر دینا اور ایسی تدابیر اختیار کرنا کہ ایک طرف اسلامی انقلاب کا دائرہ روئے زمین پر وسیع ہوتا جائے اور دوسری طرف تبلیغ اور تناسل کے ذریعہ سے جماعتِ اِسلامی میں جتنی نئی بھرتی ہو اس کی ذہنی و اخلاقی تربیت پورے اسلامی طرز پر ہوتی رہے۔
خلافتِ راشدہ
خاتم النبیین سیّدنا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یہ سارا کام ۲۳ سال کی مدت میں پایۂ تکمیل کو پہنچا دیا۔ آپ کے بعد ابوبکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہما ، دو ایسے کامل لیڈر اِسلام کو میسر آئے جنھوں نے اسی جامعیت کے ساتھ آپؐ کے کام کو جاری رکھا۔ پھر زمامِ قیادت حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کی طرف منتقل ہوئی اور ابتدا ئً چند سال تک وہ پورا نقشہ بدستور جما رہا جو نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قائم کیا تھا۔
جاہلیّت کا حملہ
مگر ایک طرف حکومت اسلامی کی تیز رفتار وسعت کی وجہ سے کام روزبروز زیادہ سخت ہوتا جا رہا تھا اور دوسری طرف حضرت عثمان جن پر اس کار ِعظیم کا بار رکھا گیا تھا ، ان تمام خصوصیات کے حامل نہ تھے جو ان کے جلیل القدر پیش روئوں کو عطا ہوئی تھیں({ FR 6689 }) اس لیے ان کے زمانہ خلافت میں جاہلیّت کو اسلامی نظامِ اجتماعی کے اندر گھس آنے کا موقع مل گیا۔ حضرت عثمانؓ نے اپنا سر دے کر اس خطرے کا راستہ روکنے کی کوشش کی مگر وہ نہ رُکا۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ آگے بڑھے اور انھوں نے اِسلام کے سیاسی اقتدار کو جاہلیّت کے تسلط سے بچانے کی انتہائی کوشش کی مگر ان کی جان کی قربانی بھی اس انقلابِ معکوس (counter revolution) کو نہ روک سکی۔ آخرکار خلافت علی منہاج النبوۃ کا دَور ختم ہو گیا۔ ملکِ عضوض (tyrant kingdom) نے اس کی جگہ لے لی اور اس طرح حکومت کی اساس اِسلام کے بجائے پھر جاہلیّت پر قائم ہو گئی۔
حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد جاہلیّت نے مرضِ سرطان کی طرح اجتماعی زِندگی میں اپنے ریشے بتدریج پھیلانے شروع کر دیے ، کیوں کہ اقتدار کی کنجی اب اِسلام کے بجائے اس کے ہاتھ میں تھی اور اِسلام زورِ حکومت سے محروم ہونے کے بعد اس کے نفوذ و اثر کو بڑھنے سے نہ روک سکتا تھا۔ سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ جاہلیّت بے نقاب ہو کر سامنے نہ آئی تھی بلکہ ’’مسلمان‘‘ بن کر آئی تھی۔ کھلے دہریے یا مشرکین و کفار سامنے ہوتے تو شاید مقابلہ آسان ہوتا۔ مگر وہاں تو آگے آگے توحید کا اقرار ، رسالت کا اقرار ،صوم و صلوٰۃ پر عمل ، قرآن و حدیث سے استشہاد تھا اور اس کے پیچھے جاہلیّت اپنا کام کر رہی تھی۔ ایک ہی وجود میں اِسلام اور جاہلیّت کا اجتماع ایسی سخت پیچیدگی پیدا کر دیتا ہے کہ اس سے عہدہ برآ ہونا ہمیشہ جاہلیّت صریحہ کے مقابلہ کی بہ نسبت ہزاروں گنا زیادہ مشکل ثابت ہوا ہے۔ عُریاں جاہلیّت سے لڑئیے تو لاکھوں مجاہدین سر ہتھیلیوں پر لیے آپ کے ساتھ ہو جائیں گے اور کوئی مسلمان علانیہ اس کی حمایت نہ کر سکے گا۔ مگر اس مرکب جاہلیّت سے لڑنے جائیے تو منافقین ہی نہیں ، بہت سے اصلی مسلمان بھی اس کی حمایت پر کمربستہ ہو جائیں گے اور اُلٹا آپ کو موردِ الزام بنا ڈالیں گے۔ جاہلی امارت کی مسند اور جاہلی سیاست کی راہ نُمائی پر ’’مسلمان‘‘ کا جلوہ افروز ہونا ، جاہلی تعلیم کے مدرسے میں ’’مسلمان‘‘ کا معلم ہونا ، جاہلیّت کے سجادہ پر ’’مسلمان‘‘ کا مرشد بن کر بیٹھنا ، وہ زبردست دھوکا ہے جس کے فریب میں آنے سے کم ہی لوگ بچ سکتے ہیں۔
اس معکوس انقلاب کا سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہی تھا کہ اِسلام کا نقاب اوڑھ کر تینوں قسم کی جاہلیتوں نے اپنی جڑیں پھیلانی شروع کر دیں اور ان کے اثرات روزبروز زیادہ پھیلتے چلے گئے۔
جاہلیّت خالصہ نے حکومت اور دولت پر تسلط جمایا۔ نام خلافت کا تھا اور اصل میں وہی بادشاہی تھی جسے مٹانے کے لیے اِسلام آیا تھا۔ پادشاہوں کو الٰہ کہنے کی ہمت کسی میں باقی نہ تھی اس لیے السلطان ({ FR 6690 }) ظل اللّٰہ کا بہانہ اختیار کیا گیا اور اس بہانے سے وہی مطاعِ مطلق کی حیثیت پادشاہوں نے اختیار کی جو الٰہ کی ہوتی ہے۔ اس بادشاہی کے زیر سایہ امرا، حکام ، وُلاۃ ، اہل لشکر اور مترفین کی زِندگیوں میں کم و بیش خالص جاہلیّت کا نقطہ نظر پھیل گیا اور اس نے ان کے اخلاق اور معاشرت کو پوری طرح مائوف کر دیا۔ پھر یہ بالکل ایک طبعی امر تھا کہ اس کے ساتھ ہی جاہلیّت کا فلسفہ ، ادب اور ہنر بھی پھیلنا شروع ہو اور علوم و فنون بھی اسی طرز پر مرتب و مدون ہوں ، کیوں کہ یہ سب چیزیں دولت اور حکومت کی سرپرستی چاہتی ہیں اور جہاں دولت اور حکومت جاہلیّت کے قبضہ میں ہوں وہاں ان پر بھی جاہلیّت کا تسلط ناگزیر ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ یونان اور عجم کے فلسفے اور علوم و آداب نے اس سوسائٹی میں راہ پائی جو اِسلام کی طرف منسوب تھی اور اس لٹریچر کے اثر سے مسلمانوں میں ’’کلامیات‘‘ کی بحثیں شروع ہوئیں ، اعتزال کا مسلک نکلا ، زندقہ اور الحاد پر پرزے نکالنے لگا اور ’’عقائد‘‘ کی موشگافیوں نے نئے نئے فرقے پیدا کر دئیے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ رقص ، موسیقی اور تصویر کشی جیسے خالص جاہلی آرٹ بھی ازسرِ نو اُن قوموں میں بار پانے لگے جنھیں اِسلام نے ان فتنوں سے بچا لیا تھا۔ ({ FR 6692 })
جاہلیّت مشرکانہ نے عوام پر حملہ کیا اور توحید کے راستے سے ہٹا کر انھیں ضلالت کی بے شمار راہوں میں بھٹکا دیا۔ ایک صریح بت پرستی تو نہ ہو سکی ، باقی کوئی قسم شرک کی ایسی نہ رہی جس نے ’’مسلمانوں‘‘ میں رواج نہ پایا ہو۔ پرانی جاہلی قوموں کے جو لوگ اِسلام میں داخل ہوئے تھے وہ اپنے ساتھ بہت سے مشرکانہ تصورات لیے چلے آئے اور یہاں انھیں صرف اتنی تکلیف کرنا پڑی کہ پرانے معبودوں کی جگہ بزرگانِ اِسلام میں سے کچھ معبود تلاش کریں ، پرانے معبدوں کی جگہ مقابرِ اولیا سے کام لیں اور پرانی عبادات کی رسموں کو بدل کر نئی رسمیں ایجاد کر لیں۔ اس کام میں دُنیا پرست علما نے ان کی بڑی مدد کی اور وہ بہت سی مشکلات ان کے راستہ سے دور کر دیں جو شرک کو اِسلام کے اندر نصب کرنے پر پیش آسکتی تھیں۔ انھوں نے بڑی دیدہ ریزی سے آیات اور احادیث کو توڑ مروڑ کر اِسلام میں اولیا پرستی اور قبر پرستی کی جگہ نکالی ، مشرکانہ اعمال کے لیے اِسلام کی اصطلاحی زبان میں سے الفاظ بہم پہنچائے اور اس نئی شریعت کے لیے رسموں کی ایسی صورتیں تجویز کیں کہ شرکِ جلی کی تعریف میں نہ آسکیں۔ اس فنی امداد کے بغیر اِسلام کے دائرے میں شرک بے چارہ کہاں بار پا سکتا تھا؟
جاہلیّتِ راہبانہ نے علما ، مشائخ ، زُہاد اور پاک باز لوگوں پر حملہ کیا اور ان میں وہ خرابیاں پھیلانا شروع کیں جن کی طرف میں اس سے پہلے اشارہ کر آیا ہوں۔ اس جاہلیّت کے اثر سے اشراقی فلسفہ ، راہبانہ اخلاقیات اور زِندگی کے ہر پہلو میں مایوسانہ نقطہ نظر مسلم سوسائٹی میں پھیلا اور اس نے نہ صرف یہ کہ ادبیات اور علوم کو متاثر کیا بلکہ فی الحقیقت سوسائٹی کے اچھے عناصر کو مارفیا کا انجکشن دے کر سست کر دیا ، پادشاہی کے جاہلی نظام کو مضبوط کیا ، اسلامی علوم و فنون میں جمود اور تنگ خیالی پیدا کی اور ساری دین داری کو چند خاص مذہبی اعمال میں محدود کرکے رکھ دیا۔
مجددین کی ضرورت
انھی تینوں اقسام کی جاہلیتوں کے ہجوم سے اِسلام کو نکالنا اور پھر سے چمکا دینا وہ کام تھا جس کے لیے دین کو مجددین کی ضرورت پیش آئی ، اگرچہ یہ گمان کرنا صحیح نہ ہو گا کہ اس طغیانِ جاہلیّت میں اِسلام بالکل ختم ہو گیا تھا اور جاہلیّت کلیتہً غالب آگئی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ جو قومیں اِسلام سے متاثر ہو چکی تھیں یا بعد میں متاثر ہوئیں ان کی زِندگیوں میں اِسلام کا اصلاحی اثر تھوڑا یا بہت ہمیشہ موجود رہا۔ یہ اِسلام ہی کا اثر تھا کہ بڑے بڑے جبار وغیر ذمہ دار بادشاہ بھی کبھی کبھی خوف خدا سے کانپ اٹھتے تھے اور راستی و انصاف کا طریقہ اختیار کر لیتے تھے۔ یہ اِسلام ہی کی برکت ہے کہ بادشاہی کی سیاہ تاریخ میں ہمیں جگہ جگہ نیکی اور اخلاقِ فاضلہ کی روشنی چمکتی نظر آتی ہے۔ یہ اِسلام ہی کا طفیل ہے کہ جن شاہی خاندانوں میں خدائی کا رنگ جما ہوا تھا ان کی آغوش میں بہت سے دین دار ، عادل اور متقی انسان پیدا ہوئے اور انھوں نے شاہی اختیارات رکھنے کے باوجود حتی الامکان ذمہ دارانہ حکومت کی۔ اسی طرح امارت و ریاست کے ایوانوں میں ، فلسفہ و حکمت کے مدرسوں میں ، تجارت و صنعت کی کارگاہوں میں ، ترک و تجرید کی خانقاہوں میں اور زِندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی اِسلام اپنے بالواسطہ اثرات کم و بیش برابر پہنچاتا رہا اور عوام کے اندر بھی مشرکانہ جاہلیّت کی در اندازی کے باوجود اس نے اعتقاد ، اخلاق اور معاشرت میں اصلاحی اور انسدادی دونوں حیثیتوں سے اپنا نفوذ جاری رکھا جس کی وجہ سے مسلمان قوموں کا معیارِ اخلاق بہرحال غیر مسلم قوموں سے ہمیشہ بلند تر رہا۔ علاوہ بریں ہر زمانے میں ایسے لوگ بھی برابر موجود رہے جو اِسلام کی پیروی پر ثابت قدم تھے اور اسلامی علم و عمل کو اپنی زِندگی میں اور اپنے محدود حلقہ اثر میں زندہ رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن جو مقصد ِ اصلی انبیا علیہم السلام کی بعثت کا تھا اس کے لیے یہ دونوں چیزیں ناکافی تھیں۔ نہ یہ بات کافی تھی کہ اقتدار جاہلیّت کے ہاتھ میں ہو اور اِسلام محض ایک ثانوی قوت کی حیثیت سے کام کرے اور نہ یہی بات کافی تھی کہ چند افراد یہاں اور چند وہاں محدود انفرادی زِندگیوں میں اِسلام کے حامل بنے رہیں اور وسیع تر اجتماعی زِندگی میں اِسلام اور جاہلیّت کے مختلف النوع مرکبات پھیلے رہیں۔ لہٰذا دین کو ہر دور میں ایسے طاقت ور اشخاص ، گروہوں اور اداروں کی ضرورت تھی اور ہے جو زِندگی کی بگڑی ہوئی رفتار کو بدل کر پھر سے اِسلام کی طرف پھیر دیں۔
شرحِ حدیث ’’مَنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا‘‘
یہی وہ چیز ہے جس کی خبر مخبر صادق علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس حدیث میں دی ہے جو ابو دائود میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ:
ان اللّٰہ یبعث لِھذہ الامّۃ علٰی رأس کل مأۃ سنۃ من یجددلھا دینھا۔
’’اللّٰہ ہر صدی کے سر پر اس امت کے لیے ایسے لوگ اٹھاتا رہے گا جو اس کے لیے اس کے دین کو تازہ کریں گے۔‘‘
مگر اس حدیث سے بعض لوگوں نے تجدید اور مجددین کا بالکل ہی ایک غلط تصور اخذ کر لیا۔ انھوں نے علیٰ رأس کل مأۃ سے صدی کا آغاز یا اختتام مراد لے لیا اور من یجددلھا کا مطلب یہ سمجھا کہ اس سے مراد لازماً کوئی ایک ہی شخص ہے۔ اس بنا پر انھوں نے تلاش کرنا شروع کر دیا کہ اِسلام کی پچھلی تاریخوں میں کون کون ایسے اشخاص ملتے ہیں جو ایک ایک صدی کے آغاز یا اختتام پر پیدا ہوئے یا مرے ہوں اور انھوں نے تجدید دین کا کام بھی کیا ہو۔ حالانکہ نہ رأس سے مراد سرا ہے اور من کا مفہوم فرد واحد تک محدود ہے۔ اس کے معنی سر کے ہیں اور صدی کے سر پر کسی شخص یا گروہ کے اٹھائے جانے کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ وہ اپنے دور کے علوم ، افکار اور رفتارِ عمل پر نمایاں اثر ڈالے گا۔ اور من کا لفظ عربی زبان میں واحد اور جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اس لیے من سے مراد ایک شخص بھی ہو سکتا ہے ، بہت سے اشخاص بھی ہو سکتے ہیں اور پورے پورے ادارے اور گروہ بھی ہو سکتے ہیں۔ حضورؐ نے جو خبر دی ہے اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ ان شاء اللّٰہ اسلامی تاریخ کی کوئی صدی ایسے لوگوں سے خالی نہ گزرے گی جو طوفانِ جاہلیّت کے مقابلے میں اٹھیں گے اور اِسلام کو اس کی اصلی روح اور صورت میں ازسرِ نو قائم کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ ضروری نہیں کہ ایک صدی کا مجدد ایک ہی شخص ہو۔ ایک صدی میں متعدد اشخاص اور گروہ یہ خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ تمام دُنیائے اِسلام کے لیے ایک ہی مجدد ہو۔ ایک وقت میں بہت سے ملکوں میں بہت سے آدمی تجدید دین کے لیے سعی کرنے والے ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ شخص جو اس سلسلے کی کوئی خدمت انجام دے ’’مجدد‘‘ کے خطاب سے نوازا جائے۔ یہ خطاب تو صرف ایسے اشخاص ہی کو دیا جا سکتا ہے جنھوں نے تجدید دین کے لیے کوئی بہت بڑا اور نمایاں کارنامہ انجام دیا۔
٭…٭…٭…٭…٭
کارِ تجدید کی نوعیت
اب قبل اس کے کہ ہم مجدّدینِ اُمت کے کارناموں کا جائزہ لیں ہمیں خود اس کار تجدید کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔
تجدُّد اور تجدید کا فرق
عموماً لوگ تجدد اور تجدید میں فرق نہیں کرتے اور سادہ لوحی سے ہر متجدد کو مجدد کہنے لگتے ہیں۔ ان کا گمان یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو نیا طریقہ نکالے اور اسے ذرا زور سے چلا دے وہ مجدد ہوتا ہے۔ خصوصاً جو لوگ کسی مسلمان قوم کو برسر انحطاط دیکھ کراسے دنیوی حیثیت سے سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے زمانہ کی برسر عروج جاہلیّت سے مصالحت کرکے اِسلام اور جاہلیّت کا ایک نیا مخلوطہ تیار کر دیتے ہیں ، یا فقط نام باقی رکھ کر اس قوم کو پورے جاہلیّت کے رنگ میں رنگ دیتے ہیں ، انھیں مجدد کے خطاب سے نواز دیا جاتا ہے حالانکہ وہ مجدد نہیں متجدد ہوتے ہیں اور ان کا کام تجدید نہیں تجدد ہوتا ہے۔ تجدید کا کام اس سے بالکل مختلف ہے۔ جاہلیّت سے مصالحت کی صورتیں نکالنے کا نام تجدید نہیں ہے اور نہ اِسلام اور جاہلیّت کا کوئی نیا مرکب بنانا تجدید ہے ، بلکہ دراصل تجدید کا کام یہ ہے کہ اِسلام کو جاہلیّت کے تمام اجزا سے چھانٹ کر الگ کیا جائے اور کسی نہ کسی حد تک اسے اپنی خالص صورت میں پھر سے فروغ دینے کی کوشش کی جائے۔ اس لحاظ سے مجدد جاہلیّت کے مقابلہ میں سخت غیر مصالحت پسند آدمی ہوتا ہے اور کسی خفیف سے خفیف جز میں بھی جاہلیّت کی موجودگی کاروادار نہیں ہوتا۔
مجدد کی تعریف
مجدد نبی نہیں ہوتا مگر اپنے مزاج میں مزاجِ نبوت سے بہت قریب ہوتا ہے۔ نہایت صاف دماغ ، حقیقت رس نظر ، ہر قسم کی کجی سے پاک ، بالکل سیدھا ذہن ، افراط و تفریط سے بچ کر توسط و اعتدال کی سیدھی راہ دیکھنے اور اپنا توازن قائم رکھنے کی خاص قابلیت ، اپنے ماحول اور صدیوں کے جمے اور رچے ہوئے تعصبات سے آزاد ہو کر سوچنے کی قوت ، زمانہ کی بگڑی ہوئی رفتار سے لڑنے کی طاقت و جرأت ، قیادت و راہ نُمائی کی پیدائشی صلاحیت ، اجتہاد اور تعمیر نو کی غیر معمولی اہلیت اور ان سب باتوں کے ساتھ اِسلام میں مکمل شرح صدر ، نقطہ نظر اور فہم و شعور میں پورا مسلمان ہونا، باریک سے باریک جزئیات تک میں اِسلام اور جاہلیّت میں تمیز کرنا اور مدتہائے دراز کی الجھنوں میں سے امرِ حق کو ڈھونڈ کر الگ نکال لینا۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جن کے بغیر کوئی شخص مجدد نہیں ہو سکتا اور یہی وہ چیزیں ہیں جو اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر نبی میں ہوتی ہیں۔
مجدد اور نبی کا فرق
لیکن وہ بنیادی چیز جو مجدد کو نبی سے جدا کرتی ہے ، یہ ہے کہ نبی اپنے منصب پر ا مرِ تشریعی سے مامور ہوتا ہے ، اسے اپنی ماموریت کا علم ہوتا ہے ، اس کے پاس وحی آتی ہے ، وہ اپنی نبوت کے دعوے سے اپنے کام کا آغاز کرتا ہے ، اسے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دینا پڑتی ہے اور اس کی دعوت ہی کو قبول کرنے یا نہ کرنے پر لوگوں کے کافر یا مومن ہونے کا مدار ہوتا ہے ، برعکس اس کے مجدد کو ان میں سے کوئی حیثیت بھی حاصل نہیں۔ وہ اگر مامور ہوتا ہے تو ا مرِ تکوینی سے ہوا کرتا ہے نہ کہ ا مرِ تشریعی سے۔ بسا اوقات اسے خود اپنے مجدد ہونے کی خبر نہیں ہوتی بلکہ اس کے مرنے کے بعد اس کی زِندگی کے کارنامے سے لوگوں کو اس کے مجدد ہونے کا علم ہوتا ہے۔ اس پر الہام ہونا ضروری نہیں اور اگر ہوتا ہے تو لازم نہیں کہ اسے الہام کا شعور ہو۔ وہ کسی دعوے سے اپنے کام کا آغاز نہیں کرتا ، نہ ایسا کرنے کا حق رکھتا ہے ، کیوں کہ اس پر ایمان لانے یا نہ لانے کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ اس کے زمانے کے تمام اہل صلاح و خیر رفتہ رفتہ اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور صرف وہی لوگ اس سے الگ رہتے ہیں جن کی طبیعت میں کوئی ٹیڑھ ہوتی ہے ، مگر بہرحال اسے ماننا مسلمان ہونے کی شرط نہیں ہوتا({ FR 6693 }) ان تمام فروق کے ساتھ مجدد کو فی الجملہ اسی نوعیت کا کام کرنا ہوتا ہے ، جو نبی کے کام کی نوعیت ہے۔
کارِ تجدید
اس کارِ تجدید کے مختلف شعبے حسب ذیل ہیں:
۱۔ اپنے ماحول کی صحیح تشخیص ، یعنی حالات کا پورا جائزہ لے کر یہ سمجھنا کہ جاہلیّت کہاں کہاں کس حد تک سرایت کر گئی ہے ، کن کن راستوں سے آئی ہے۔ اس کی جڑیں کہاں کہاں اور کتنی پھیلی ہوئی ہیں اور اِسلام اس وقت ٹھیک کس حالت میں ہے۔
۲۔ اصلاح کی تجویز ، یعنی یہ تعین کرنا کہ اس وقت کہاں ضرب لگائی جائے کہ جاہلیّت کی گرفت ٹوٹے اور اِسلام کو پھر اجتماعی زِندگی پر گرفت کا موقع ملے۔
۳۔ خود اپنے حدود کا تعین ، یعنی اپنے آپ کو تول کر صحیح اندازہ لگانا کہ میں کتنی قوت رکھتا ہوں اور کس راستہ سے اصلاح کرنے پر قادر ہوں۔
۴۔ ذہنی انقلاب کی کوشش ، یعنی لوگوں کے خیالات کو بدلنا ، عقائد و افکار اور اخلاقی نقطہ نظر کو اِسلام کے سانچے میں ڈھالنا ، نظامِ تعلیم و تربیت کی اصلاح اور علومِ اسلامی کا احیا کرنا اور فی الجملہ اسلامی ذہنیت کو ازسرنو تازہ کر دینا۔
۵۔ عملی اصلاح کی کوشش ، یعنی جاہلی رسوم کو مٹانا ، اخلاق کا تزکیہ کرنا ، اتباع شریعت کے جوش سے پھر لوگوں کو سرشار کر دینا اور ایسے افراد تیار کرنا جو اسلامی طرز کے لیڈر بن سکیں۔
۶۔ اجتہاد فی الدین ،یعنی دین کے اصولِ کلیہ کو سمجھنا ، اپنے وقت کے تمدنی حالات اور ارتقائے تمدن کی سمت کا اسلامی نقطہ نظر سے صحیح اندازہ لگانا اور یہ تعین کرنا کہ اصولِ شرع کے ماتحت تمدن کے پرانے متوارث نقشے میں کس طرح رد و بدل کیا جائے جس سے شریعت کی روح برقرار رہے ، اس کے مقاصد پورے ہوں اور تمدن کے صحیح ارتقا میں اِسلام دُنیا کی امامت کر سکے۔
۷۔دفاعی جدوجہد ، یعنی اِسلام کو مٹانے اور دبانے والی سیاسی طاقت کا مقابلہ کرنا اور اس کے زور کو توڑ کر اِسلام کے لیے ابھرنے کا راستہ پیدا کرنا۔
(۸)احیائے نظامِ اسلامی ، یعنی جاہلیّت کے ہاتھ سے اقتدار کی کنجیاں چھین لینا اور ازسر نو حکومت کو عملاً اس نظام پر قائم کر دینا جسے صاحب شریعت علیہ السلام نے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے نام سے موسوم کیا ہے۔
(۹)عالم گیر انقلاب کی کوشش ، یعنی صرف ایک ملک یا ان ممالک میں جہاں مسلمان پہلے سے موجود ہوں، اسلامی نظام کے قیام پر اکتفا نہ کرنا بلکہ ایک ایسی طاقت ور عالم گیر تحریک برپا کرنا جس سے اِسلام کی اصلاحی و انقلابی دعوت عام انسانوں میں پھیل جائے ، وہی تمام دُنیا کی غالب تہذیب بنے ، ساری دُنیا کے نظامِ تمدن میں اسلامی طرز کا انقلاب برپا ہو اور عالمِ انسانی کی اخلاقی ، فکری اور سیاسی امامت و ریاست اِسلام کے ہاتھ میں آجائے۔
ان شعبوں پر غائر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی تین مدات تو ایسی ہیں جو ہر اس شخص کے لیے ناگزیر ہیں جو تجدید کی خدمت انجام دے ، لیکن باقی چھ مدیں ایسی ہیں ، جن کا جامع ہونا مجدد ہونے کے لیے شرط نہیں ہے بلکہ جس نے ایک ، دو ، تین یا چار شعبوں میں کوئی نمایاں کارنامہ انجام دیا ہو وہ بھی مجدد قرار دیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس قسم کا مجدد جزوی مجدد ہو گا ، کامل مجدد نہ ہو گا۔ کامل مجدد صرف وہ شخص ہو سکتا ہے جو ان تمام شعبوں میں پورا کام انجام دے کر وراثت نبوت کا حق ادا کر دے۔
مجدد کامل کا مقام
تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اب تک کوئی مجدد کامل پیدا نہیں ہوا ہے۔ قریب تھا کہ عمربن عبدالعزیز اس منصب پر فائز ہو جاتے ، مگر وہ کام یاب نہ ہو سکے۔ ان کے بعد جتنے مجدد پیدا ہوئے ان میں سے ہر ایک نے کسی خاص شعبے یا چند شعبوں ہی میں کام کیا۔ مجددِ کامل کا مقام ابھی تک خالی ہے۔ مگر عقل چاہتی ہے، فطرت مطالبہ کرتی ہے اور دُنیا کے حالات کی رفتار متقاضی ہے کہ ایسا ’’لیڈر‘‘ پیدا ہو، خواہ اس دور میں پیدا ہو یا زمانے کی ہزاروں گردشوں کے بعد پیدا ہو۔ اسی کا نام الامام المہدی ہو گا جس کے بارے میں صاف پیشین گوئیاں نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام میں موجود ہیں۔ ({ FR 6694 })
آج کل لوگ نادانی کی وجہ سے اس نام کو سن کر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ انھیں شکایت ہے کہ کسی آنے والے مرد کامل کے انتظار نے جاہل مسلمانوں کے قوائے عمل کو سرد کر دیا ہے، اس لیے ان کی رائے یہ ہے کہ جس حقیقت کا غلط مفہوم لے کر جاہل لوگ بے عمل ہو جائیں وہ سرے سے حقیقت ہی نہ ہونی چاہیے۔ نیز وہ کہتے ہیں کہ تمام مذہبی قوموں میں کسی ’’مردے از غیب‘‘ کی آمد کا عقیدہ پایا جاتا ہے، لہٰذا یہ محض ایک وہم ہے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی طرح پچھلے انبیا نے بھی اگر اپنی قوموں کو یہ خوش خبری دی ہو کہ نوعِ انسان کی دنیوی زِندگی ختم ہونے سے پہلے ایک دفعہ اِسلام ساری دُنیا کا دین بنے گا اور انسان کے بنائے ہوئے سارے ’’ازموں‘‘ کی ناکامی کے بعد آخر کار تباہیوں کا مارا ہوا انسان اس ’’ازم‘‘ کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہو گا جسے خدا نے بنایا ہے اور یہ نعمت انسان کو ایک ایسے عظیم الشان لیڈر کی بدولت نصیب ہو گی جو انبیا کے طریقہ پر کام کرکے اِسلام کو اس کی صحیح صورت میں پوری طرح نافذ کر دے گا، تو آخر اس میں وہم کی کون سی بات ہے؟ بہت ممکن ہے کہ انبیا علیہم السلام کے کلام سے نکل کر یہ چیز دُنیا کی دوسری قوموں میں بھی پھیلی ہو اور جہالت نے اس کی روح نکال کر اوہام کے لبادے اس کے گرد لپیٹ دیے ہوں۔
الامام المہدی
مسلمانوں میں جو لوگ الامام المہدی کی آمد کے قائل ہیں وہ بھی ان متجد دین سے جو اس کے قائل نہیں ہیں، اپنی غلط فہمیوں میں کچھ پیچھے نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ امام مہدی کوئی اگلے وقتوںکے مولویانہ و صوفیانہ وضع و قطع کے آدمی ہوں گے۔ تسبیح ہاتھ میں لیے یکایک کسی مدرسے یا خانقاہ کے حجرے سے برآمد ہوں گے۔ آتے ہی انا المہدی کا اعلان کریں گے۔ علما اور مشائخ کتابیں لیے ہوئے پہنچ جائیں گے اور لکھی ہوئی علامتوں سے ان کے جسم کی ساخت وغیرہ کا مقابلہ کرکے انھیں شناخت کر لیں گے، پھر بیعت ہو گی اور اعلان جہاد کر دیا جائے گا۔ چلے کھینچے ہوئے درویش اور سب پرانے طرز کے ’’بقیتہ السلف‘‘ ان کے جھنڈے تلے جمع ہوں گے۔ تلوار تو محض شرط پوری کرنے کے لیے برائے نام چلانا پڑے گی۔ اصل میں سارا کام برکت اور روحانی تصرف سے ہو گا۔ پھونکوں اور وظیفوں کے زور سے میدان جیتے جائیں گے۔ جس کافر پر نظر مار دیں گے تڑپ کر بے ہوش ہو جائے گا اور محض بددعا کی تاثیر سے ٹینکوں اور ہوائی جہازوں میں کیڑے پڑ جائیں گے۔
عقیدۂِ ظہور مہدی کے متعلق عام لوگوں کے تصورات کچھ اسی قسم کے ہیں۔ مگر مَیں جو کچھ سمجھا ہوں اس سے مجھے معاملہ بالکل برعکس نظر آتا ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ آنے والا اپنے زمانہ میں بالکل جدید ترین طرز کا لیڈر ہو گا۔ وقت کے تمام علومِ جدیدہ پر اسے مجتہدانہ بصیرت حاصل ہو گی۔ زِندگی کے سارے مسائلِ مہمہ کو وہ خوب سمجھتا ہو گا۔ عقلی و ذہنی ریاست، سیاسی تدبر اور جنگی مہارت کے اعتبار سے وہ تمام دُنیا پر اپنا سکہ جما دے گا اور اپنے عہد کے تمام جدیدوں سے بڑھ کر جدید ثابت ہو گا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اس کی ’’جدتوں‘‘ کے خلاف مولوی اور صوفی صاحبان ہی سب سے پہلے شورش برپا کریں گے۔ پھر مجھے یہ بھی امید نہیں کہ اپنی جسمانی ساخت میں وہ عام انسانوں سے کچھ بہت مختلف ہو گا کہ اس کی علامتوں سے اسے تاڑ لیا جائے، نہ میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ اپنے مہدی ہونے کا اعلان کرے گا۔ بلکہ شاید اسے خود بھی اپنے مہدیٔ ِ موعود ہونے کی خبر نہ ہو گی اور اس کی موت کے بعد اس کے کارناموں سے دُنیا کو معلوم ہو گا کہ یہی تھا وہ خلافت کو منہاج النبوۃ پر قائم کرنے والا جس کی آمد کا مژدہ سنایا گیا تھا ۔ ({ FR 6709 }) جیسا کہ میں پہلے اشارہ کر چکا ہوں، نبی کے سوا کسی کا یہ منصب نہیں ہے کہ دعوے سے کام کا آغاز کرے اور نہ نبی کے سوا کسی کو یقینی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس خدمت پر مامور ہوا ہے۔ مہدویت دعوٰی کرنے کی چیز نہیں، کرکے دکھا جانے کی چیز ہے۔ اس قسم کے دعوے جو لوگ کرتے ہیں اور جو ان پر ایمان لاتے ہیں، میرے نزدیک دونوں اپنے علم کی کمی اور ذہن کی پستی کا ثبوت دیتے ہیں۔
مہدی کے کام کی نوعیت کا جو تصور میرے ذہن میں ہے وہ بھی ان حضرات کے تصور سے بالکل مختلف ہے مجھے اس کے کام میں کرامات و خوارق، کشوف و الہامات اور چلوں اور ’’مجاہدوں‘‘ کی کوئی جگہ نظر نہیں آتی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ انقلابی لیڈر کو دُنیا میں جس طرح شدید جدوجہد اور کش مکش کے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے انھی مرحلوں سے مہدی کو بھی گزرنا ہو گا۔ وہ خالص اِسلام کی بنیادوں پر ایک نیا مذہب فکر (school of thougt) پیدا کرے گا۔ ذہنیتوں کو بدلے گا، ایک زبردست تحریک اٹھائے گا جو بیک وقت تہذیبی بھی ہو گی اور سیاسی بھی، جاہلیّت اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ اسے کچلنے کی کوشش کرے گی، مگر بالآخر وہ جاہلی اقتدار کو الٹ کر پھینک دے گا اور ایک ایسی زبردست اسلامی اسٹیٹ قائم کرے گا جس میں ایک طرف اِسلام کی پوری روح کارفرما ہو گی اور دوسری طرف سائنٹیفک ترقی اوجِ کمال پر پہنچ جائے گی۔ جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہوا ہے ’’اس کی حکومت سے آسمان والے بھی راضی ہوں گے اور زمین والے بھی، آسمان دل کھول کر اپنی برکتوں کی بارش کرے گا اور زمین اپنے پیٹ کے سارے خزانے اگل دے گی۔‘‘
اگر یہ توقع صحیح ہے کہ ایک وقت میں اِسلام تمام دُنیا کے افکار، تمدن اور سیاست پر چھا جانے والا ہے تو ایسے ایک عظیم الشان لیڈر کی پیدائش بھی یقینی ہے جس کی ہمہ گیر و پُرزور قیادت میں یہ انقلاب رونما ہو گا۔ جن لوگوں کو ایسے لیڈر کے ظہور کا خیال سن کر حیرت ہوتی ہے مجھے ان کی عقل پر حیرت ہوتی ہے۔ جب خدا کی اس خدائی میں لینن اور ہٹلر جیسے آئمہ ضلالت کا ظہور ہو سکتا ہے تو آخر ایک امامِ ہدایت ہی کا ظہور کیوں مستبعد ہو؟
امت کے چند بڑے بڑے مجددین اَور اُن کے کارنامے
تاریخی ترتیب کو چھوڑ کر مستقبل کے مجددِ اعظم کا ذکر مَیں نے پہلے اس لیے کر دیا کہ لوگ پہلے مجدد کامل کے مرتبہ و مقام سے واقف ہو جائیں تاکہ کمالِ مطلوب کے مقابلے میں ان کے لیے جزوی تجدیدوں کے مرتبہ و مقام کا اندازہ کرنا آسان ہو جائے۔ اب میں ایک مختصر نقشہ اس تجدیدی کام کا پیش کروں گا جو اب تک انجام پا چکا۔
عمربن عبدالعزیز ؒ
اِسلام کے سب سے پہلے مجدد عمر بن عبدالعزیز ہیں۔({ FR 6711 }) شاہی خاندان میں آنکھ کھولی۔ ہوش سنبھالا تو اپنے باپ کو مصر جیسے عظیم الشان صوبہ کا گورنر پایا۔ بڑے ہوئے تو خود اموی سلطنت کے ماتحت گورنری پر مامور ہوئے۔ شاہانِ بنی امیہ نے جن جاگیروں سے اپنے خاندان کو مالا مال کیا تھا ان میں ان کا اور ان کے گھرانے کا بھی بہت بڑا حصہ تھا، حتّٰی کہ خاص ان کی ذاتی جائداد کی آمدنی پچاس ہزار اشرفی سالانہ تک پہنچتی تھی۔ رئیسوں کی طرح پوری شان سے رہتے تھے، لباس، خوراک، سواری، مکان، عادات و خصائل سب وہی تھے جو شاہی حکومت میں شاہ زادوں کے ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا ماحول اس کام سے دور کی مناسبت بھی نہ رکھتا تھا جو بعد میں انھوں نے انجام دیا۔ لیکن ان کی ماں حضرت عمرؓ کی پوتی تھیں۔ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی وفات کو پچاس ہی برس ہوئے تھے جب وہ پیدا ہوئے، ان کے زمانہ میں صحابہ اور تابعین بکثرت موجود تھے۔ ابتدا میں انھوں نے حدیث اور فقہ کی پوری تعلیم پائی تھی یہاں تک کہ محدثین کی صف اوّل میں شمار ہوتے تھے اور فقہ میں اجتہاد کا درجہ رکھتے تھے۔ پس علمی حیثیت سے تو ان کے لیے یہ جاننے اور سمجھنے میں کوئی دقت نہ تھی کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین مہدیین کے عہد میں تمدن کی اساس کن چیزوں پر تھی اور جب خلافت پادشاہی سے بدلی تو ان بنیادوں میں کس نوعیت کا تغیر واقع ہوا۔ البتہ جو چیز عملی حیثیت سے ان کے راستے میں رکاوٹ ہو سکتی تھی وہ یہ تھی کہ اس جاہلی انقلاب کا بانی خود ان کا اپنا خاندان تھا، اس کے تمام فائدے اور بے حد و حساب فائدے ان کے بھائی بندوں اور خود ان کی ذات اور ان کے بال بچوں کو پہنچتے تھے اور ان کی خاندانی عصبیت، ذاتی طمع اور اپنی آیندہ نسل کی دنیوی خیرخواہی کا پورا تقاضا یہ تھا کہ وہ بھی تخت شاہی پر فرعون بن کر بیٹھیں، اپنے علم اور ضمیر کو ٹھوس مادی فائدوں کے مقابلہ میں قربان کر دیں اور حق، انصاف، اخلاق اور اصول کے چکر میں نہ پڑیں۔ مگر جب ۳۷ سال کی عمر میں بالکل اتفاقی طور پر تخت شاہی ان کے حصے میں آیا اور انھوں نے محسوس کیا کہ کس قدر عظیم الشان ذمہ داری ان پر آن پڑی ہے تو دفعتاً ان کی زِندگی کا رنگ بدل گیا۔ انھوں نے اس طرح کسی ادنیٰ تامل کے بغیر جاہلیّت کے مقابلہ میں اِسلام کے راستے کو اپنے لیے منتخب کیا کہ گویا یہ ان کا پہلے سے سوچا ہوا فیصلہ تھا۔
تخت شاہی انھیں خاندانی طریق پر ملا تھا مگر بیعت لیتے وقت مجمع عام میں صاف کَہ دیا کہ مَیں اپنی بیعت سے تمھیں آزاد کرتا ہوں، تم لوگ جسے چاہو خلیفہ منتخب کر لو۔ اور جب لوگوں نے برضا و رغبت کہا کہ ہم آپ ہی کو منتخب کرتے ہیں، تب انھوں نے خلافت کی عنان اپنے ہاتھ میں لی۔
پھر شاہانہ کروفر، فرعونی انداز، قیصر و کسریٰ کے درباری طریقے، سب رخصت کیے اور پہلے ہی روز لوازمِ شاہی کو ترک کرکے وہ طرز اختیار کیا جو مسلمانوں کے درمیان ان کے خلیفہ کا ہونا چاہیے۔
اس کے بعد ان امتیازات کی طرف توجہ کی جو شاہی خاندان کے لوگوں کو حاصل تھے اور انھیں تمام حیثیتوں سے عام مسلمانوں کے برابر کر دیا۔ وہ تمام جاگیریں جو شاہی خاندان کے قبضہ میں تھیں، اپنی جاگیر سمیت بیت المال کو واپس کیں۔ جن جن کی زمینوں اور جائدادوں پر ناجائز قبضہ کیا گیا تھا وہ سب انھیں واپس دیں۔ ان کی اپنی ذات کو اس تغیر سے جو نقصان پہنچا اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ پچاس ہزار کی جگہ صرف دو سو اشرفی سالانہ کی آمدنی رہ گئی۔ بیت المال کے روپے کو اپنی ذات پر اور اپنے خاندان والوں پر حرام کر دیا، حتّٰی کہ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے تنخواہ تک نہ لی۔ اپنی زِندگی کا سارا نقشہ بدل دیا۔ خلیفہ ہونے سے پہلے شاہانہ شان کے ساتھ رہتے تھے، خلیفہ ہوتے ہی فقیر بن گئے۔({ FR 6712 })
گھر اور خاندان کی اس اصلاح کے بعد نظامِ حکومت کی طرف توجہ کی۔ ظالم گورنروں کو الگ کیا اور ڈھونڈ ڈھونڈ کرصالح آدمی تلاش کیے کہ گورنری کی خدمت انجام دیں۔ عاملینِ حکومت جو قانون اور ضابطہ سے آزاد ہو کر رعایا کی جان‘ مال اور آبرو پر غیر محدود اختیارات کے مالک ہو گئے تھے، انھیں پھر ضابطہ کا پابند بنایا اور قانون کی حکومت قائم کی، ٹیکس عائد کرنے کی پوری پالیسی بدل دی اور وہ تمام ناجائز ٹیکس جو شاہانِ بنی امیہ نے عائد کر دیے تھے، جن میں آبکاری تک کا محصول شامل تھا، یک قلم موقوف کیے۔ زکوٰۃ کی تحصیل کا انتظام ازسر نو درست کیا اور بیت المال کی دولت کو پھر سے عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر دیا۔ غیر مسلم رعایا کے ساتھ جو ناانصافیاں کی گئی تھیں ان سب کی تلافی کی، ان کے معابد جن پر ناجائز قبضہ کیا گیا تھا انھیں واپس دلائے، ان کی زمینیں جو غصب کرلی گئی تھیں پھر واگزاشت کیں اور ان کے تمام وہ حقوق بحال کیے جو شریعت کی رو سے انھیں حاصل تھے۔ عدالت کو انتظامی حکومت کے دخل سے آزاد کیا اور حکم بین الناس کے ضابطے اور اسپرٹ دونوں کو شاہی نظام کے اثرات سے پاک کرکے اسلامی اصول پر قائم کر دیا۔ اس طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ہاتھوں سے اسلامی نظام حکومت دوبارہ زندہ ہوا۔
پھر انھوں نے سیاسی اقتدار سے کام لے کر لوگوں کی ذہنی،اخلاقی اور معاشرتی زِندگیوں سے جاہلیّت کے اُن اثرات کو نکالنا شروع کیا جو نصف صدی کی جاہلی حکومت کے سبب سے اجتماعی زِندگی میں پھیل گئے تھے۔ فاسد عقیدوں کی اشاعت کو روکا۔ عوام کی تعلیم کا وسیع پیمانہ پر انتظام کیا۔ قرآن، حدیث اور فقہ کے علوم کی طرف اہل دماغ طبقوں کی توجہات کو دوبارہ منعطف کیا اور ایک ایسی علمی تحریک پیدا کر دی جس کے اثر سے اِسلام کو ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل رحمہم اللّٰہ جیسے مجتہدین میسر آئے۔ اتباعِ شریعت کی روح کو تازہ کیا۔ شراب نوشی، تصویر کشی اور عیش و تنعم کی بیماریاں جو شاہی نظام کی بدولت پیدا ہو چکی تھیں، ان کا انسداد کیا اور فی الجملہ وہ مقصد پورا کیا جس کے لیے اِسلام اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے، یعنی، اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ الحج 41:22
بہت ہی قلیل مدت میں اس انقلابِ حکومت کے اثرات عوام کی زِندگی پر اور بین الاقوامی حالات پر مترتب ہونا شروع ہو گئے۔ ایک راوی کہتا ہے کہ ولیدؓ کے زمانہ میں لوگ جب آپس میں بیٹھتے تو عمارات اور باغوں کے متعلق گفتگو کرتے۔ سلیمان بن عبدالملک کا زمانہ آیا تو عوام کا مذاق شہوانیت کی طرف متوجہ ہوا۔ مگر عمر بن عبدالعزیز حکم ران ہوئے تو حالت یہ تھی کہ جہاں چار آدمی جمع ہوتے نماز، روزہ اور قرآن کا ذکر چھڑ جاتا تھا۔ غیر مسلم رعایا پر اس حکومت کا اتنا اثر ہوا کہ ہزار در ہزار آدمی اس مختصر سی مدت میں مسلمان ہو گئے اور جزیہ کی آمدنی دفعتاً اتنی گھٹ گئی کہ سلطنت کے مالیات اس سے متاثر ہونے لگے۔ مملکتِ اسلامی کے اطراف میں جو غیر مسلم ریاستیں موجود تھیں، حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے انھیں اِسلام کی طرف دعوت دی اور ان میں سے متعدد ریاستوں نے اس دین کو قبول کر لیا۔ اسلامی حکومت کی سب سے بڑی حریف سلطنت اس وقت روم کی سلطنت تھی جس کے ساتھ ایک صدی سے لڑائیوں کا سلسلہ جاری تھا اور اس وقت بھی سیاسی کش مکش چل رہی تھی۔ مگر عمر بن عبدالعزیز کا جو اخلاقی اثر روم پر قائم ہوا اس کا اندازہ ان الفاظ سے کیا جا سکتا ہے جو ان کے انتقال کی خبر سن کر خود قیصر روم نے کہے تھے۔ اس نے کہا کہ:
’’اگر کوئی راہب دُنیا چھوڑ کر اپنے دروازے بند کرلے اور عبادت میں مشغول ہو جائے تو مجھے اس پر کوئی حیرت نہیں ہوتی۔ مگر مجھے حیرت ہے تو اس شخص پر جس کے قدموں کے نیچے دُنیا تھی اور پھر اسے ٹھکرا کر اس نے فقیرانہ زِندگی بسر کی۔‘‘
اِسلام کے مجدّدِ اوّل کو صرف ڈھائی سال کام کرنے کا موقع ملا اور اس مختصر سی مدت میں اس نے یہ انقلاب عظیم برپا کرکے دکھا دیا۔ مگر بنی امیہ سب کے سب اس بندئہ خدا کے دشمن ہو گئے۔ اِسلام کی زِندگی میں ان کی موت تھی۔ وہ اس تجدید کے کام کو کس طرح برداشت کر سکتے تھے۔ آخر کار انھوں نے سازش کرکے اسے زہر دے دیا اور صرف ۳۹ سال کی عمر میں یہ خادمِ دین و ملت دُنیا سے رخصت ہو گیا۔ جس کارِ تجدید کو اس نے شروع کیا تھا، اس کی تکمیل میں اب صرف اتنی کسر باقی رہ گئی تھی کہ خاندانی حکومت کو ختم کرکے انتخابی خلافت کا سلسلہ پھر سے قائم کر دیا جاتا۔ یہ اصلاح اس کے پیش نظر تھی اور اس نے اپنے عندیہ کا اظہار بھی کر دیا تھا، مگر اموی اقتدار کی جڑوں کو اجتماعی زِندگی سے اکھاڑنا اور عام مسلمانوں کی اخلاقی و ذہنی حالت کو خلافت کا بار سنبھالنے کے لیے تیار کرنا آسان کام نہ تھا کہ ڈھائی برس کے اندر انجام پا سکتا۔
ائمہ اربعہ
عمر ؒثانی کی وفات کے بعد اگرچہ سیاسی اقتدار کی کنجیاں پھر اِسلام سے جاہلیّت کی طرف منتقل ہو گئیں اور سیاسی پہلو میں اس پورے کام پر پانی پھر گیا جو انھوں نے انجام دیا تھا، مگر اسلامی ذہنیت میں جو بیداری انھوں نے پیدا کر دی تھی اور جس علمی حرکت کو اکسا گئے تھے اسے کوئی طاقت بارآور ہونے سے نہ روک سکی۔ بنی امیہ اور بنی عباس کے کوڑے اور اشرفیوں کے توڑے، دونوں ہی اس تحریک کے راستے میں حائل ہوئے، مگر کسی کی بھی اس کے آگے پیش نہ چلی۔ اس کے اثر سے قرآن و حدیث کے علوم میں تحقیق، اجتہاد اور تدوین کا بہت بڑا کام ہوا، اصولِ دین سے اِسلام کے قوانین کی تفصیلی شکل مرتب کی گئی اور ایک وسیع نظامِ تمدن کو اِسلام کے طرز پر چلانے کے لیے جس قدر ضوابط و مناہج عمل کی ضرورت تھی وہ تقریباً سارے کے سارے اپنی تمام جزئیات کے ساتھ مدون کر ڈالے گئے۔ دوسری صدی کے آغاز سے تقریباً چوتھی صدی تک یہ کام پوری قوت کے ساتھ چلتا رہا۔
اس دَور کے مجددین میں وہ چار بزرگ({ FR 6713 }) ہیں جن کی طرف آج فقہ کے چاروں مذاہب منسوب ہیں۔ اگرچہ مجتہد اُن کے سوا اور بھی کثیرالتعداد اصحاب تھے۔ مگر جس لحاظ سے ان حضرات کا مقام مجتہدین سے بلند ہو کر مجددین کے مرتبے تک پہنچتا ہے وہ یہ ہے:
اولاً ان حضرات نے اپنی گہری بصیرت اور غیر معمولی ذکاوت و ذہانت سے ایسے مذاہب فکر پیدا کیے جن کی زبردست طاقت سات آٹھ صدیوں تک مجتہدین پیدا کرتی رہی۔ انھوں نے کلیاتِ دین سے جزئیات مستنبط کرنے اور اصولِ شرع کو زِندگی کے عملی مسائل پر منطبق کرنے کے ایسے وسیع وہمہ گیر طریقے قائم کر دیے کہ آگے چل کر جس قدر اجتہادی کام ہوا انھی کے طریقوں پر ہوا اور آیندہ بھی جب کبھی اس سلسلہ میں کوئی کام ہو گا ان کی راہ نُمائی سے انسان بے نیاز نہ ہو سکے گا۔
ثانیاً، ان لوگوں نے یہ سارا کام شاہی نظامِ حکومت کی امداد کے بغیر، اس کی مداخلت سے بالکل آزاد ہو کر، بلکہ اس کی در اندازیوں کا سخت مقابلہ کرکے انجام دیا اور اس سلسلہ میں وہ تکلیفیں اٹھائیں جن کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ نے بنی امیہ اور بنی عباس دونوں کے زمانہ میں کوڑوں کی مار اور قید کی سزائیں بھگتیں۔ یہاں تک کہ زہر سے ان کا خاتمہ ہی کر دیا گیا۔
امام مالکؒ کو منصور عباسی کے زمانے میں ۷۰ کوڑوں کی سزا دی گئی اور اس بُری طرح ان کی مشکیں کسی گئیں کہ ہاتھ بازو سے اکھڑ گیا۔
امام احمد بن حنبل پر مامون، معتصم اور واثق تینوں کے زمانے میں مسلسل مصائب و شدائد کے پہاڑ ٹوٹتے رہے، اتنا مارا گیا کہ شاید اونٹ اور ہاتھی بھی اس مار کی تاب نہ لا سکیں اور پھر متوکل کے زمانے میں شاہی انعام و اکرام اور عقیدت و تعظیم کی وہ بارش ان پر کی گئی کہ گھبرا کر پکار اٹھے ھٰذا اَمْرٌ اَشَدُّ عَلَیَّ مِنْ ذاک ’’یہ مجھ پر اس مار اور قید سے زیادہ سخت مصیبت ہے۔‘‘
مگر ان سب باتوں کے باوجود ان اللّٰہ کے بندوں نے علم دین کی ترتیب و تدوین میں نہ صرف خود شاہی نفوذ و اثر کو گھسنے کا راستہ نہ دیا بلکہ کچھ ایسی طرح ڈال گئے کہ ان کے بعد بھی سارا اجتہادی و تدوینی کام درباروں کے دخل سے بالکل آزاد ہی رہا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج اسلامی قوانین اور علومِ حدیث و قرآن کا جتنا معتبر و مستند ذخیرہ ہم تک پہنچا ہے وہ جاہلیّت کے ادنیٰ شائبہ سے بھی ملوث نہیں ہوا۔ یہ چیزیں ایسی پاک صاف صورت میں نسلاً بعد نسل منتقل ہوئی ہیں کہ صدیوں تک پادشاہوں اور اُمرا کی نفس پرستیوں اور عوام کے اخلاقی تنزل اور اعتقادی و تمدنی گم راہیوں کا جو دور دورہ رہا وہ گویا ان علوم کے لیے معدوم محض تھا، اس کا کوئی اثر ان علوم پر نہیں پایا جاتا۔
امام غزالی ؒ
عمر بن عبدالعزیز کے بعد سیاست و حکومت کی باگیں مستقل طور پر جاہلیّت کے ہاتھوں میں چلی گئیں اور بنی امیہ، بنی عباس اور پھر ترکی النسل پادشاہوں کا اقتدار قائم ہوا۔ ان حکومتوں نے جو خدمات انجام دیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک طرف یونان، روم اور عجم کے جاہلی فلسفوں کو جوں کا توں لے کر مسلمانوں میں پھیلا دیا اور دوسری طرف علوم و فنون اور تمدن و معاشرت میں جاہلیّت اولیٰ کی تمام گم راہیوں کو اپنی دولت اور طاقت کے زور سے شائع و ذائع کیا۔ عباسی خاندان کے تنزل نے مزید نقصان یہ پہنچایا کہ ابتدائی عباسی ’’خلفا‘‘ کے بعد دنیوی اقتدار کی باگیں جن لوگوں کے ہاتھوں میں آئیں وہ علومِ دینی سے بالکل ہی کورے تھے۔ ان میں اتنی صلاحیت بھی نہ تھی کہ قضا اور افتا کے عہدوں کے لیے اہل آدمیوں کو منتخب کر سکتے۔ اپنی جہالت اورسہولت پسندی کی وجہ سے وہ احکامِ شرعیہ کی تنفیذ کا کام ایسے لگے بندھے طریقوں پر کرنا چاہتے تھے جن میں کسی کدو کاوش کی ضرورت نہ ہو اور اس کے لیے تقلید ِجامد ہی کا راستہ موزوں تھا۔ مزید برآں دُنیا پرست علما نے انھیں مذہبی مناظروں کی چاٹ بھی لگا دی اور پھر شاہی سرپرستی میں یہ مرض اتنا پھیلا کہ اس نے تمام مسلم ممالک میں فرقہ بندی، اختلاف اور سر پھٹول کی وبا پھیلا دی۔ امرا و سلاطین کے لیے تو مذہبی مناظرے، مرغ بازی اور بیٹر بازی کی طرح محض ایک تفریح تھے، مگر عام مسلمانوں کے لیے یہ وہ قینچیاں تھیں جنھوں نے ان کی دینی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔ پانچویں صدی تک پہنچتے پہنچتے یہ حال ہو گیا کہ:
(۱) یونان فلسفے کی اشاعت سے عقائد کی بنیادیں ہل گئیں۔ محدثین و فقہا علومِ عقلیہ سے ناواقف تھے اس لیے نظامِ دین کو مقتضائے زمانہ کے مطابق معقولی انداز سے نہ سمجھا سکتے تھے اور زجر و توبیخ سے اعتقادی گم راہیوں کو دبانے کی کوشش کرتے تھے۔ علومِ عقلیہ میں جن لوگوں کے کمال کا شہرہ تھا وہ نہ صرف یہ کہ علومِ دینیہ میں کوئی بصیرت نہ رکھتے تھے بلکہ خود علومِ عقلیہ میں بھی انھیں کوئی مجتہدانہ نظر حاصل نہ تھی۔ وہ فلاسفۂ یونان کے بالکل غلام تھے، ان میں کوئی ایسا بالغ النظر آدمی نہ تھا جو تنقید کی نگاہ سے اس یونانی لٹریچر کا جائزہ لیتا۔ انھوں نے وحی یونانی کو اٹل سمجھ کر جوں کا توں تسلیم کر لیا اور وحی آسمانی کو توڑنا مروڑنا شروع کیا تاکہ وہ وحی یونانی کے مطابق ڈھل جائے۔ ان حالات کا عام مسلمانوں پر یہ اثر ہوا کہ وہ دین کو ایک غیر معقول چیز سمجھنے لگے، اس کی ہر چیز انھیں مشکوک نظر آنے لگی اور ان میں یہ خیال جاگزیں ہوتا چلا گیا کہ ہمارا دین ایک چھوئی موئی کا درخت ہے جو عقلی امتحان کی ایک ذرا سی ٹھیس ہی سے مرجھا جاتا ہے۔ امام ابو الحسن اشعری اور ان کے متبعین نے اس رَو کو بدلنے کی کوشش کی، مگر یہ گروہ متکلمین کے علوم سے تو واقف تھا لیکن معقولات کے گھر کا بھیدی نہ تھا، اس لیے وہ اس عام بے اعتقادی کی رفتار کو بدلنے میں پوری طرح کام یاب نہ ہو سکا بلکہ معتزلہ کی ضد میں اس نے بعض ایسی باتوں کا التزام کر لیا جو فی الحقیقت عقائدِ دین میں سے نہ تھیں۔
(۲) جاہل فرماں روائوں کے اثر سے اور علومِ دینی کو مادی وسائل کی تائید بہم نہ پہنچنے کے سبب سے اجتہاد کے چشمے خشک ہو گئے، تقلید ِجامد کی بیماری پھیل گئی، مذہبی اختلافات نے ترقی کرکے ذرا ذرا سے جزئیات پر نئے نئے فرقے پیدا کر دیے اور ان فرقوں کی باہمی لڑائیوں سے مسلمانوں کی یہ حالت ہو گئی کہ گویا عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّار ہیں۔
(۳) مشرق سے مغرب تک مسلم ممالک میں ہر طرف اخلاقی انحطاط رونما ہو گیا جس کے اثر سے کوئی طبقہ خالی نہ رہا۔ قرآن اور نبوت کی روشنی سے مسلمانوں کی اجتماعی زِندگی بڑی حد تک خالی ہو گئی۔ علما، امرا، عوام، سب بھول گئے کہ خدا کی کتاب اور رسولؐ کی سنت بھی کوئی چیز ہے جس کی طرف ہدایت و راہ نُمائی کے لیے کبھی رجوع کرنا چاہیے۔
(۴) شاہی درباروں، خاندانوں اور حکم ران طبقوں کی عیاشانہ زِندگی اور خود غرضانہ لڑائیوں کی وجہ سے عموماً رعایا تباہ حال ہو رہی تھی۔ ناجائز ٹیکسوں کے بارنے معاشی زِندگی کو نہایت خراب کر دیا تھا۔ تمدن کو حقیقی فائدہ پہنچانے والے علوم و صنائع روبہ تنزل تھے اور ان فنون کا زور تھا جو شاہی درباروں میں قدر و منزلت رکھتے تھے مگر اخلاق و تمدن کے لیے غارت گر تھے۔ آثار سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ عام تباہی کا وقت قریب آلگا ہے۔
یہ حالات تھے جب پانچویں صدی کے وسط میں امام غزالی ({ FR 6714 }) پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائً اسی طرز کی تعلیم حاصل کی جو اس زمانہ میں دنیوی ترقی کا ذریعہ ہو سکتی تھی۔ انھی علوم میں کمال پیدا کیا جن کی بازار میں مانگ تھی۔ پھر اس جنس کو لے کر وہیں پہنچے جہاں کے لیے تیار ہوئے تھے اور ان بلند ترین مراتب تک ترقی کی جن کا تصور اس زمانہ میں کوئی عالم کر سکتا تھا۔ دُنیا کی سب سے بڑی یونی ورسٹی… نظامیہ بغداد… کے ریکٹر مقرر ہوئے۔ نظام الملک طوسی، ملک شاہ سلجوقی اور ’’خلیفہ‘‘ بغداد کے درباروں میں اعتماد حاصل کیا۔ وقت کے سیاسیات میں یہاں تک دخیل ہوئے کہ سلجوقی فرماں روا اور عباسی ’’خلیفہ‘‘ کے درمیان جو اختلافات پیدا ہوتے تھے انھیں سلجھانے کے لیے ان کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ دنیوی عروج کے اس نقطہ پر پہنچ جانے کے بعد ان کی زِندگی میں انقلاب رُونما ہوا۔ اپنے زمانہ کی علمی، اخلاقی، مذہبی، سیاسی اور تمدنی زِندگی کو جتنی گہری نظر سے دیکھتے گئے اسی قدر ان کے اندر بغاوت کا جذبہ ابھرتا چلا گیا اور اسی قدر ان کے ضمیر نے زیادہ زور سے صدا لگانی شروع کی کہ تم اس گندے سمندر کی شناوری کے لیے نہیں ہو بلکہ تمھارا فرض کچھ اور ہے۔ آخرکار ان تمام اعزازات، فوائد و منافع اور مشاغل پر لات مار دی جن کے جنجال میں پھنسے ہوئے تھے۔ فقیر بن کر سیاحت کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ گوشوں اور ویرانوں میں غورو خوض کیا۔ چل پھر کر عام مسلمانوں کی زِندگی کا گہرا مشاہدہ کیا۔ مدتوں تک مجاہدات و ریاضات سے اپنی روح کو صاف کرتے رہے۔ ۳۸ سال کی عمر میں نکلے تھے، پورے دس برس کے بعد ۴۸ سال کی عمر میں واپس ہوئے۔ اس طویل غور و فکر و مشاہدہ کے بعد جو کام کیا وہ یہ تھا کہ بادشاہوں کے تعلق اور ان کی وظیفہ خواری سے توبہ کی، جدال و تعصب سے پرہیز کرنے کا دائمی عہد کیا، ان تعلیمی ادارات میں کام کرنے سے انکار کر دیا جو سرکاری اثر میں ہوں اور طوس میں خود اپنا ایک آزاد ادارہ قائم کیا۔ اس ادارہ میں وہ چیدہ افراد کو اپنے خاص طرز پر تعلیم و تربیت دے کر تیار کرنا چاہتے تھے مگر غالباً ان کی یہ کوشش کوئی بڑا انقلاب انگیز کام نہ کر سکی کیوں کہ پانچ چھے سال سے زیادہ انھیں اس طرزِ خاص پر کام کرنے کی اجل ہی نے مہلت نہ دی۔
امام غزالیؒ کے تجدیدی کام کا خلاصہ یہ ہے:
اولاً انھوں نے فلسفہ یونان کا نہایت گہرا مطالعہ کرکے اس پر تنقید کی اور اتنی زبردست تنقید کی کہ اس کا وہ رعب جو مسلمانوں پر چھا گیا تھا، کم ہو گیا اور لوگ جن نظریات کو حقائق سمجھے بیٹھے تھے، جن پر قرآن و حدیث کی تعلیمات کو منطبق کرنے کے سِوا دین کے بچائو کی کوئی صورت انھیں نظر نہ آتی تھی، ان کی اصلیت سے بڑی حد تک آگاہ ہو گئے۔ امام کی اس تنقید کا اثر مسلم ممالک ہی تک محدود نہ رہا بلکہ یورپ تک پہنچا اور وہاں بھی اس نے فلسفہ یونان کے تسلط کو مٹانے اور جدید دورِ تنقید و تحقیق کا بابِ فتح کرنے میں حصہ لیا۔
ثانیاً انھوں نے ان غلطیوں کی اصلاح کی جو فلاسفہ اور متکلمین کی ضد میں اِسلام کے وہ حمایتی کر رہے تھے جو علومِ عقلیہ میں گہری بصیرت نہ رکھتے تھے۔ یہ لوگ اسی قسم کی حماقتیں کر رہے تھے جو بعد میں یورپ کے پادریوں نے کیں، یعنی مذہبی عقائد کے عقلی ثبوت کو بعض صریح غیرمعقول باتوں پر موقوف سمجھ کر خواہ مخواہ انھیں اصولِ موضوعہ قرار دے لینا، پھر ان اصولِ موضوعہ کو بھی عقائد دین میں داخل کرکے ہر اس شخص کی تکفیر کرنا جو ان کا قائل نہ ہو اور ہر اس بُرہان یا تجربے یا مشاہدہ کو دین کے لیے خطرہ سمجھنا جس سے ان خود ساختہ اصولِ موضوعہ کی غلطی ثابت ہوتی ہو۔ اسی چیز نے یورپ کو بالآخر دہریت کی طرف دھکیل دیا اور یہی مسلم ممالک میں بھی شدت کے ساتھ کارفرما تھی اور لوگوں میں بے اعتقادی پیدا کر رہی تھی۔ مگر امام غزالی ؒنے بروقت اس کی اصلاح کی اور مسلمانوں کو بتایا کہ تمھارے عقائد دینی کا اثبات ان غیر معقولات کے التزام پر منحصر نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے معقول دلائل موجود ہیں۔ لہٰذا ان چیزوں پر اصرار فضول ہے۔
ثالثاً، انھوں نے اِسلام کے عقائد اور اساسیات (fundamentals) کی ایسی معقول تعبیر پیش کی جس پر کم از کم اس زمانہ کے اور بعد کی کئی صدیوں تک کے معقولات کی بنا پر کوئی اعتراض نہ ہو سکتا تھا۔ اس کے ساتھ انھوں نے احکامِ شریعت اور عبادات و مناسک کے اسرار و مصالح بھی بیان کیے اور دین کا ایک ایسا تصور لوگوں کے سامنے رکھا جس سے وہ غلط فہمیاں دور ہو گئیں جن کی بنا پر یہ گمان ہونے لگا تھا کہ اِسلام عقلی امتحان کا بوجھ نہیں سہار سکتا۔
رابعاً، انھوں نے اپنے وقت کے تمام مذہبی فرقوں اور ان کے اختلافات پر نظر ڈالی اور پوری تحقیق کے ساتھ بتایا کہ اِسلام اور کفر کی امتیازی سرحدیں کیا ہیں، کن حدود کے اندر انسان کے لیے رائے و تاویل کی آزادی ہے اور کن حدود سے تجاوز کرنے کے معنی اِسلام سے نکل جانے کے ہیں، اِسلام کے اصلی عقائد کون سے ہیں اور وہ کیا چیزیں ہیں جنھیں خواہ مخواہ عقائد دین میں داخل کر لیا گیا ہے۔ اس تحقیقات نے ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے اور تکفیر بازی کرنے والے فرقوں کی سرنگوں میں سے بہت سی بارود نکال دی اور لوگوں کے زاویہ نظر میں وسعت پیدا کی۔
خامساً، انھوں نے دین کے فہم کو تازہ کیا۔ بے شعور مذہبیت کو فضول ٹھہرایا۔ تقلید ِجامد کی سخت مخالفت کی۔ لوگوں کو کتاب اللّٰہ و سنت رسول اللّٰہ کے چشمہ فیض کی طرف پھر سے توجہّ دلائی، اجتہاد کی روح کو تازہ کرنے کی کوشش کی اور اپنے عہد کے تقریباً ہر گروہ کی گم راہیوں اور کم زوریوں پر تنقید کرکے اصلاح کی طرف عام دعوت دی۔
سادساً، انھوں نے اس نظامِ تعلیم پر تنقید کی جو بالکل فرسودہ ہو چکا تھا اور تعلیم کا ایک نیا نظام تجویز کیا۔ اس وقت تک مسلمانوں میں جو نظامِ تعلیم قائم تھا اس میں دو قسم کی خرابیاں پائی جاتی تھیں۔ ایک یہ کہ علومِ دُنیا و علومِ دین الگ الگ تھے اور اس کا نتیجہ لامحالہ تفریق دُنیا و دین کی صورت میں ظاہر ہوتا تھا جو اسلامی نقطہ نظر سے بنیادی طور پر غلط ہے۔ دوسرے یہ کہ شرعی علوم کی حیثیت سے بعض ایسی چیزیں داخلِ درس تھیں جو شرعی اہمیت نہ رکھتی تھیں۔ اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ دین کے متعلق لوگوں کے تصورات غلط ہو رہے تھے اور بعض غیر جنس کی چیزوں کو اہمیت حاصل ہو جانے کی وجہ سے فرقہ بندیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ امام غزالیؒ نے ان خرابیوں کو دور کرکے ایک سمویا ہوا نظام بنایا جس کی ان کے ہم عصروں نے سخت مخالفت کی مگر بالآخر تمام مسلم ممالک میں اس کے اصول تسلیم کر لیے گئے اور بعد میں جتنے نئے نظاماتِ تعلیم بنے وہ تمام تر انھی خطوط پر بنے جو امام نے کھینچ دیے تھے۔ اس وقت تک مدارسِ عربیہ میں جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے اس کی ابتدائی خط کشی امام غزالی ؒ ہی کی رہین منت ہے۔
سابعاً، انھوں نے اخلاقِ عامہ کا پورا جائزہ لیا۔ انھیں علما، مشائخ، امرا سلاطین، عوام، سب کی زِندگی کا مطالعہ کرنے کے خوب مواقع ملے تھے۔ خود چل پھر کر وہ مشرقی دُنیا کا ایک بڑا حصہ دیکھ چکے تھے۔ اسی مطالعے کا نتیجہ ان کی کتاب احیاء العلوم ہے جس میں انھوں نے ہر طبقہ کی اخلاقی حالت پر تنقید کی ہے، ایک ایک برائی کی جڑ اور اس کے نفسیاتی اور تمدنی اسباب کا کھوج لگایا ہے اور اِسلام کا صحیح اخلاقی معیار پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
ثامناً، انھوں نے اپنے عہد کے نظامِ حکومت پر بھی پوری آزادی کے ساتھ تنقید کی۔ براہِ راست حکامِ وقت کو بھی اصلاح کی طرف توجہ دلاتے رہے اور عوام میں بھی یہ روح پھونکنے کی کوشش کرتے رہے کہ منفعلانہ انداز سے جبر و ظلم کے آگے سر تسلیم خم نہ کریں بلکہ آزاد نکتہ چینی کریں۔ احیا میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’ہمارے زمانہ میں سلاطین کے تمام یا اکثر اموال حرام ہیں۔‘‘ ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ ’’ان سلاطین کو نہ اپنی صورت دکھانی چاہیے، نہ ان کی دیکھنی چاہیے۔ انسان کے لیے لازم ہے کہ ان کے ظلم سے بغض رکھے، ان کی بقا کو پسند نہ کرے، ان کی تعریف نہ کرے، ان کے حالات سے کوئی واسطہ نہ رکھے اور ان کے ہاں رسائی رکھنے والوں سے بھی دور رہے۔‘‘ ایک اور جگہ ان آدابِ پرستش و عبودیت پر نکتہ چینی کرتے ہیں جو درباروں میں رائج تھے، اس معاشرت کی مذمت کرتے ہیں جو بادشاہوں اور امرا نے اختیار کر رکھی تھی، حتّٰی کہ ان کے محلات، ان کے لباس، ان کی آرائش، ہر چیز کو نجس بتلاتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ انھوں نے اپنے عہد کے بادشاہ کو ایک مفصل خط لکھا جس میں اسے اسلامی طرزِ حکومت کی طرف دعوت دی، حکم رانی کی ذمہ داریاں سمجھائیں۔ اور اسے بتایا کہ تیرے ملک میں جو ظلم ہو رہا ہے، خواہ تو خود کرے یا تیرے عمال کریں، بہرحال اس کی ذمہ داری تجھ پر ہے۔ ایک دفعہ مجبورًا دربار شاہی میں جانا پڑا تو دورانِ گفتگو میں بادشاہ کے منہ دَر منہ کہا کہ:
’’تیرے گھوڑوں کی گردن سازِ زرّیں سے نہ ٹوٹی تو کیا ہوا، مسلمانوں کی گردن تو فاقہ کشی کی مصیبت سے ٹوٹ گئی۔‘‘
ان کے آخری زمانہ میں جتنے وزرا مقرر ہوئے، قریب قریب سبھی کو انھوں نے خطوط لکھے اور رعایا کی تباہ حالی کی طرف توجہ دلائی۔ ایک وزیر کو لکھتے ہیں:
’’ظلم حد سے گزر چکا ہے۔ چوں کہ مجھے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھنا پڑتا تھا اس لیے تقریباً ایک سال سے میں نے طوس کا قیام ترک کر دیا ہے تاکہ بے رحم و بے حیا ظالموں کی حرکات دیکھنے سے خلاصی پائوں۔‘‘
ابنِ خلدون کے بیان سے یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی سلطنت کے قیام کے خواہاں تھے جو خالص اسلامی اصول پر ہو، خواہ دُنیا کے کسی گوشے میں ہو۔ چنانچہ مغربِ اقصیٰ میں موحدین کی سلطنت انھی کے اشارہ سے ان کے ایک شاگرد نے قائم کی۔ مگر امامِ موصوف کے کارنامے میں یہ سیاسی رنگ محض ضمنی حیثیت رکھتا تھا۔ سیاسی انقلاب کے لیے انھوں نے کوئی باقاعدہ تحریک نہیں اٹھائی، نہ حکومت کے نظام پر کوئی خفیف سے خفیف اثر ڈال سکے۔ ان کے بعد جاہلیّت کی حکم رانی میں مسلمان قوموں کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ ایک صدی بعد تاتاری طوفان کے دروازے ممالک اسلامیہ پر ٹوٹ پڑے اور اس نے ان کے پورے تمدن کو تباہ کرکے رکھ دیا۔
امام غزالیؒ کے تجدیدی کام میں علمی و فکری حیثیت سے چند نقائص بھی تھے اور وہ تین عنوانات پر تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔ ایک قسم ان نقائص کی جو حدیث کے علم میں کم زور ہونے کی وجہ سے ان کے کام میں پیدا ہوئے، ({ FR 6715 }) دوسری قسم ان نقائص کی جو ان کے ذہن پر عقلیات کے غلبہ کی وجہ سے تھے۔ اور تیسری قسم ان نقائص کی جو تصوف کی طرف ضرورت سے زیادہ مائل ہونے کی وجہ سے تھے۔
ان کم زوریوں سے بچ کر امامِ موصوف کے اصل کام یعنی اِسلام کی ذہنی و اخلاقی روح کو زندہ کرنے اور بدعت و ضلالت کی آلائشوں کو نظامِ فکر و نظام تمدن سے چھانٹ چھانٹ کر نکالنے کے کام کو جس شخص نے آگے بڑھایا وہ ابن تیمیہؒ تھا۔
ابنِ تیمیہؒ
امام غزالی ؒکے ڈیڑھ سو برس بعد ساتویں صدی کے نصف آخر میں امام ابن تیمیہؒپیدا ہوئے۔({ FR 6716 }) یہ وہ زمانہ تھا کہ دریائے سندھ سے فرات کے کناروں تک تمام مسلمان قوموں کو تاتاری غارت گر پامال کر چکے تھے اور شام کی طرف بڑھ رہے تھے۔ مسلسل پچاس برس کی ان شکستوں نے، دائمی خوف اور بد امنی کی حالت نے اور علم و تہذیب کے تمام مرکزوں کی تباہی نے مسلمانوں کو اس مرتبہ پستی سے بھی بہت زیادہ نیچے گرا دیا تھا جس پر امام غزالی ؒنے انھیں پایا تھا۔ نئے تاتاری حملہ آور اگرچہ اِسلام قبول کرتے جا رہے تھے، مگر جاہلیّت میں یہ حکم ران اپنے پیش رو ترکی فرماں روائوں سے بھی کئی قدم آگے تھے۔ ان کے زیر اثر آکر عوام اور علما و مشائخ اور فقہا و قضاۃ کے اخلاق اور بھی زیادہ گرنے لگے۔ ({ FR 6718 }) تقلید ِجامد اس حد کو پہنچ گئی کہ مختلف فقہی و کلامی مذاہب گویا مستقل دین ({ FR 6719 })بن گئے۔ اجتہاد معصیت بن کر رہ گیا۔ بدعات و خرافات نے شرعی حیثیت اختیار کرلی۔ کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنا ایسا گناہ ہو گیا جو کسی طرح معاف نہیں کیا جا سکتا۔ اس دور میں جاہل و گم راہ عوام، دُنیا پرست یا تنگ نظر علما اور جاہل و ظالم حکم رانوں کی ایسی سنگت بن گئی تھی کہ اس اتحاد ثلاثہ کے خلاف کسی کا اصلاح کے لیے اٹھنا اپنی گردن کو قصاب کی چھری کے سامنے پیش کرنے سے کم نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گو اس وقت صحیح الخیال، وسیع النظر، حقیقت شناس علما ناپید نہ تھے، نہ ان سچے اور اصلی صوفیوں کی کمی تھی جو جادۂ حق پر گامزن تھے، مگر جس نے اس تاریک زمانہ میں اصلاح کا علم اٹھانے کی جرأت کی وہ ایک ہی اللّٰہ کا بندہ تھا۔
ابنِ تیمیہؒ قرآن میں گہری بصیرت رکھتے تھے، حتّٰی کہ حافظ ذہبی ؒنے شہادت دی کہ اما التفسیر فمسلّم الیہ: تفسیر تو ابن تیمیہ کا حصہ ہے، حدیث کے امام تھے۔ یہاں تک کہا گیا کہ کل حدیث لا یعرفہ ابن تیمیۃ فلیس بحدیث (جس حدیث کو ابن تیمیہؒ نہ جانتے ہوں وہ حدیث نہیں ہے)۔ تفقہ کی شان یہ تھی کہ بلاشبہ انھیں مجتہد مطلق کا مرتبہ حاصل تھا۔ علومِ عقلیہ، منطق، فلسفہ اور کلام میں اتنی گہری نظر تھی کہ ان کے معاصرین میں سے جن لوگوں کاسرمایۂ ناز یہی علوم تھے وہ ان کے سامنے بچوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ یہود اور نصاریٰ کے لٹریچر اور ان کے مذہبی فرقوں کے اختلافات پر ان کی نظر اتنی وسیع تھی کہ گولڈ زیہر کے بقول کوئی شخص جو تورات کی شخصیتوں سے بحث کرنا چاہے وہ ابن تیمیہؒ کی تحقیقات سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ اور ان سب علمی کمالات کے ساتھ اس شخص کی جرأت و ہمت کا یہ حال تھا کہ اظہارِ حق میں کبھی کسی بڑی سے بڑی طاقت سے بھی نہ ڈرا، حتّٰی کہ متعدد مرتبہ جیل بھیجا گیا اور آخرکار جیل ہی میں جان دے دی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ امام غزالیؒ کے چھوڑے ہوئے کام کو ان سے زیادہ خوبی کے ساتھ آگے بڑھانے میں کام یاب ہوا۔
ابن تیمیہؒ کے تجدیدی کام کا خلاصہ یہ ہے:
(۱) انھوں نے یونانی منطق و فلسفہ پر امام غزالیؒ سے زیادہ گہری اور زبردست تنقید کی اور اس کی کم زوریوں کو اس طرح نمایاں کرکے دکھایا کہ عقلیات کے میدان پر اس کا تسلط ہمیشہ کے لیے ڈھیلا ہو گیا۔ ان دونوں اماموں کی تنقید کے اثرات مشرق ہی تک محدود نہ رہے بلکہ مغرب تک بھی پہنچے۔ چنانچہ یورپ میں ارسطو کی منطق اور مسیحی متکلمین کے یونان زدہ فلسفیانہ نظام کے خلاف پہلی تنقیدی آواز امام ابن تیمیہؒ کے ڈھائی سو برس بعد اٹھی۔
(۲) انھوں نے اِسلام کے عقائد، احکام اور قوانین کی تائید میں ایسے زبردست دلائل قائم کیے جو امام غزالیؒ کے دلائل سے زیادہ معقول بھی تھے اور اِسلام کی اصل روح کے حامل ہونے میں بھی ان سے بڑھے ہوئے تھے۔ امام غزالیؒ کے بیان و استدلال پر اصطلاحی معقولات کا اثر چھایا ہوا تھا۔ ابن تیمیہؒ نے اس راہ کو چھوڑ کر عقلِ عام (common-sense) پر تفہیم و تبیین کی بنا رکھی جو زیادہ فطری، زیادہ مؤثر اور زیادہ قرآن و سنت کے قریب تھی۔ یہ نئی راہ پچھلی راہ سے بالکل الگ تھی۔ جو لوگ دین کے علم بردار تھے وہ فقط احکام نقل کر دیتے تھے، تفہیم نہ کر سکتے تھے اور جو کلام میں پھنس گئے تھے وہ تفلسُف اور اصطلاحی معقولات کو ذریعہ تفہیم بنانے کی وجہ سے کتاب و سنت کی اعلیٰ اسپرٹ کو کم و بیش کھو دیتے تھے۔ ابن تیمیہؒ نے عقائد و احکام کو ان کی اصل اسپرٹ کے ساتھ بے کم و کاست بیان بھی کیا اور پھر تفہیم کا وہ سیدھا سادہ فطری ڈھنگ اختیار کیا جس کے سامنے عقل کے لیے سر جھکا دینے کے سوا چارہ نہ تھا۔ اسی زبردست کارنامے کی تعریف امامِ حدیث علامہ ذہبی نے ان الفاظ میں کی ہے ولقد نصر السنۃ المحضۃ والطریقۃ السلفیۃ واحتج لھا ببراھین و مقدمات وامورلم یسبق الیھا۔ یعنی ابن تیمیہ نے خالص سنت اور طریقہ سلف کی حمایت کی اور اس کی تائید میں ایسے دلائل اور ایسے طریقوں سے کام لیا، جن کی طرف ان سے پہلے کسی کی نظر نہ گئی تھی۔
(۳) انھوں نے تقلید ِجامد کے خلاف صرف آواز ہی نہیں اٹھائی بلکہ قرونِ اولیٰ کے مجتہدین کے طریقہ پر اجتہاد کرکے دکھایا۔ براہِ راست کتاب و سنت اور آثار صحابہ سے استنباط کرکے اور مختلف مذاہب فقہ کے درمیان آزاد محاکمہ کرکے کثیرالتعداد مسائل میں کلام کیا۔ جس سے راہِ اجتہاد ازسر نوباز ہوئی اور قوتِ اجتہاد یہ کا طریق استعمال لوگوں پر واضح ہوا۔ اس کے ساتھ انھوں نے اور ان کے جلیل القدر شاگرد ابن قیم نے حکمت ِ تشریع اور شارع کے طرزِ قانون سازی پر اتنا نفیس کام کیا جس کی مثال ان سے پہلے کے شرعی لٹریچر میں نہیں ملتی۔ یہ وہ مواد ہے جس سے ان کے بعد اجتہادی کام کرنے والوں کو بہترین راہ نُمائی حاصل ہوئی اور آیندہ ہوتی رہے گی۔
(۴) انھوں نے بدعات اور مشرکانہ رسوم اور اعتقادی و اخلاقی گم راہیوں کے خلاف سخت جہاد کیا اور اس سلسلہ میں بڑی مصیبتیں اٹھائیں۔ اِسلام کے چشمہ صافی میں اس وقت تک جتنی آمیزشیں ہوئی تھیں، اس اللّٰہ کے بندے نے ان میں سے ایک کو بھی نہ چھوڑا، ایک ایک کی خبر لی اور ان سب سے چھانٹ کر ٹھیٹھ اِسلام کے طریقہ کو الگ روشن کرکے دُنیا کے سامنے رکھ دیا۔ اس تنقید و تنقیح میں اس شخص نے کسی کی رورعایت نہ کی۔ بڑے بڑے آدمی جن کے فضل و کمال اور تقدس کا سکہ مسلمانوں کی ساری دُنیا پر بیٹھا ہوا تھا، جن کے نام سن کر لوگوں کی گردنیں جھک جاتی تھیں، ان تیمیہؒ کی تنقید سے نہ بچ سکے۔ وہ طریقے اور اعمال جو صدیوں سے مذہبی حیثیت اختیار کیے ہوئے تھے، جن کے جواز بلکہ استحباب کی دلیلیں نکال لی گئی تھیں اور علما حق بھی جن سے مداہنت کر رہے تھے، ابن تیمیہؒ نے انھیں ٹھیٹھ اِسلام کے منافی پایا اور ان کی پُرزور مخالفت کی۔ اس آزاد خیالی اور صاف گوئی کی وجہ سے ایک دُنیا ان کی دشمن ہو گئی اور آج تک دشمن چلی آتی ہے۔ جو لوگ ان کے عہد میں تھے انھوں نے مقدمات قائم کرا کے انھیں کئی بار جیل بھجوایا۔ اور جو بعد میں آئے انھوں نے تکفیر و تضلیل کرکے اپنا دل ٹھنڈا کیا۔ مگر اسلامِ خالص و محض کے اتباع کا جو صور اس شخص نے پھونکا تھا، اس کی بدولت ایک مستقل حرکت دُنیا میں پیدا ہو گئی جس کی آوازِ بازگشت اب تک بلند ہو رہی ہے۔
اس تجدیدی کام کے ساتھ انھوں نے تاتاری وحشت و بربریت کے مقابلہ میں تلوار سے بھی جہاد کیا۔ اس وقت مصر و شام اس سیلاب سے بچے ہوئے تھے۔ امام نے وہاں کے عام مسلمانوں اور رئیسوں میں غیرت و حمیت کی آگ پھونکی اور انھیں مقابلہ پر آمادہ کیا۔ ان کے ہم عصر شہادت دیتے ہیں کہ مسلمان تاتاریوں سے اتنے مرعوب ہو چکے تھے کہ ان کا نام سن کر کانپ اٹھتے تھے اور ان کے مقابلہ میں جاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ کَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَی الْمَوْتِ مگر ابن تیمیہؒ نے ان میں جہاد کا جوش پھونک کر شجاعت کی سوئی ہوئی روح کو بیدار کر دیا۔ تاہم یہ واقعہ ہے کہ وہ کوئی ایسی سیاسی تحریک نہ اٹھا سکے جس سے نظامِ حکومت میں انقلاب برپا ہوتا اور اقتدار کی کنجیاں جاہلیّت کے قبضہ سے نکل کر اِسلام کے ہاتھ میں آجاتیں۔
شیخ احمد سرہندیؒ
ساتویں صدی میں فتنہ تاتار نے ہندوکش سے اُس پار کی دُنیا کو تو بالکل تاخت و تاراج کر دیا، مگر ہندوستان اس کی دست بُرد سے بچ گیا تھا۔ اس ڈھیل نے یہاں کے مترفین کو اسی غلط فہمی میں ڈال دیا جو ہمیشہ فریفتگانِ زینت دُنیا کو لاحق ہوتی ہے۔ یہاں وہ تمام خرابیاں پرورش پاتی رہیں جو خراسان و عراق میں تھیں۔ وہی پادشاہوں کی خداوندی، وہی امرا و اہل دولت کی عیش پسندی، وہی باطل طریقوں سے مال لینا اور باطل راستوں میں خرچ کرنا، وہی جبر و ظلم کی حکومت، وہی خدا سے غفلت اور دین کی صراط مستقیم سے بعد۔ رفتہ رفتہ نوبت اکبر بادشاہ کے دور حکومت تک پہنچی جس میں گم راہیاں اپنی حد کو پہنچ گئیں۔
اکبر کے دربار میں یہ رائے عام تھی کہ ملتِ اِسلام جاہل بدوئوں میں پیدا ہوئی تھی۔ کسی مہذب و شائستہ قوم کے لیے وہ موزوں نہیں۔ نبوت، وحی، حشر و نشر، دوزخ و جنت، ہر چیز کا مذاق اڑایا جانے لگا۔ قرآن کا کلام الٰہی ہونا مشتبہ، وحی کا نزول عقلاً مستبعد، مرنے کے بعد ثواب و عذاب غیر یقینی، البتہ تناسخ ہر آئینہ ممکن و اقرب الی الصواب۔ معراج کو علانیہ محال قرار دیا جاتا۔ ذاتِ نبوی پر اعتراضات کیے جاتے۔ خصوصاً آپ کی ازواج کے تعدد اور آپ کے غزوات و سرایا پر کھلم کھلا حرف گیریاں کی جاتیں۔ یہاں تک کہ لفظ احمد اور محمد سے بھی بے زاری ہو گئی اور جن کے ناموں میں یہ لفظ شامل تھا ان کے نام بدلے جانے لگے۔ دُنیا پرست علما نے اپنی کتابوں کے خطبوں میں نعت لکھنا چھوڑ دی۔ بعض ظالم اس حد تک بڑھے کہ دجّال کی نشانیاں ہادیٔ اعظم صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر چسپاں کرنے لگے العیاذ باللّٰہ، العیاذ باللّٰہ ۔ دیوان خانہ شاہی میں کسی کی مجال نہ تھی کہ نماز ادا کر سکے۔ ابو الفضل نے نماز، روزہ، حج اور دوسرے شعائر دینی پر سخت اعتراضات کیے اور ان کا مذاق اڑایا۔ شعرا نے ان شعائر کی ہجو لکھی جو عوام کی زبانوں تک بھی پہنچی۔
بہائی نظریہ کی بِنا بھی دراصل اکبری عہد ہی میں پڑی تھی۔ اس وقت یہ نظریہ قائم کیا گیا کہ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بعثت پر ایک ہزار سال گزر چکے ہیں اور اس دین کی مدت ایک ہزار سال ہی تھی، اس لیے اب وہ منسوخ ہو گیا اور اس کی جگہ نئے دین کی ضرورت ہے۔ اس نظریہ کو سکوں کے ذریعہ سے پھیلایا گیا کیوں کہ اس زمانہ میں نشر و اشاعت کا سب سے زیادہ قوی ذریعہ یہی تھا۔ اس کے بعد ایک نئے دین اور نئی شریعت کی طرح ڈالی گئی جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے مذہب کو ملا کر ایک مخلوط مذہب بنایا جائے تاکہ شاہی حکومت مستحکم ہو۔ دربار کے خوشامدی ہندوئوں نے اپنے بزرگوں کی طرف سے پیشین گوئیاں سنانا شروع کر دیں کہ فلاں زمانہ میں ایک گئور کھشک مہاتما بادشاہ پیدا ہو گا۔ اور اسی طرح بندئہ زر علما نے بھی اکبر کو مہدی اور صاحب زماں اور امامِ مجتہد وغیرہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ایک ’’تاج العارفین‘‘ صاحب یہاں تک بڑھے کہ اکبر کو انسانِ کامل اور خلیفۃ الزمان ہونے کی حیثیت سے خدا کا عکس ہی ٹھہرا دیا۔ عوام کو سمجھانے کے لیے کہا گیا کہ حق اور صدق (عالم گیر سچائیاں) تمام مذاہب میں موجود ہیں، کوئی ایک ہی دین حق کا اجارہ دار نہیں ہے، لہٰذا سب مذہبوں میں جو جو باتیں حق ہیں انھیں لے کر ایک جامع طریقہ بنانا چاہیے اور اس کی طرف لوگوں کو دعوتِ عام دینی چاہیے تاکہ ملتوں کے سب اختلافات مٹ جائیں۔ اسی طریق جامع کا نام ’’دین الٰہی‘‘ ہے، اس نئے دین کا کلمہ لا الہ الا اللّٰہ اکبر خلیفۃ اللّٰہ تجویز کیا گیا۔ جو لوگ اس دین میں داخل ہوتے انھیں ’’دین اِسلام مجازی و تقلیدی کہ از پدراں دیدہ و شنیدہ ام‘‘ سے توبہ کرکے ’’دینِ الٰہی اکبر شاہی‘‘ میں داخل ہونا پڑتا تھا اور داخل ہونے کے بعد انھیں لفظ ’’چیلا‘‘ سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ سلام کا طریقہ بدل کر یوں کر دیا گیا کہ سلام کرنے والا ’’اللّٰہ اکبر‘‘ اور جواب دینے والا ’’جل جلالہ‘‘ کہتا۔ یاد رہے کہ بادشاہ کا نام جلال الدین اور لقب اکبر تھا۔ چیلوں کو بادشاہ کی تصویر دی جاتی اور وہ اسے پگڑی میں لگاتے۔ بادشاہ پرستی اس دین کے ارکان میں سے ایک رکن تھی۔ ہر روز صبح کو بادشاہ کا درشن کیا جاتا اور بادشاہ کے سامنے جب حاضری کا شرف عطا ہوتا تو اس کے سامنے سجدہ بجا لایا جاتا۔ علما کرام اور صوفیائے باصفا دونوں اپنے اس قبلۂ حاجات اور کعبہ مرادات کو بے تکلف سجدہ فرماتے تھے اور صریح شرک کو ’’سجدئہ تحیہ‘‘ اور ’’زمیں بوسی‘‘ جیسے الفاظ کے پردے میں چھپاتے تھے۔ یہ وہی ملعون حیلہ بازی تھی جس کی پیشین گوئی نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب لوگ حرام چیز کا نام بدل کر اسے حلال کر لیا کریں گے۔
اس نئے دین کی بِنا تو یہ کَہ کر رکھی گئی تھی کہ اس میں بلا کسی تعصب کے ہر مذہب کی اچھی باتیں لی جائیں گی، مگر دراصل اس میں اِسلام کے سِواہر مذہب کی پذیرائی تھی اور نفرت و عداوت کے لیے صرف اِسلام اور اس کے احکام و قوانین ہی کو مختص کر لیا گیا تھا۔ پارسیوں سے آتش پرستی لی گئی، اکبری محل میں دائمی آگ کا الائو روشن کیا گیا اور چراغ روشن کرنے کے وقت قیامِ تعظیمی کیا جانے لگا۔ عیسائیوں سے ’’ناقوس نوازی‘‘ اور تماشائے صورتِ ’’ثالثِ ثلٰثہ‘‘ اور اسی قسم کی چند چیزیں لی گئیں۔ سب سے زیادہ نظرِ عنایت ہندویت پر تھی، کیوں کہ یہ ملک کی اکثریت کا مذہب تھا اور پادشاہی کی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے اس کی استمالت ضروری تھی۔ چنانچہ گائے کا گوشت حرام کیا گیا۔ ہندو تہوار، دیوالی، دسہرہ، راکھی، پونم، شیوراتری وغیرہ پوری ہندوانہ رسوم کے ساتھ منائے جانے لگے۔ شاہی محل میں ہَوَن کی رسم ادا کی جانے لگی۔ دن میں چار وقت آفتاب کی عبادت کی جاتی۔ اور آفتاب کے ایک ہزار ناموں کا جاپ کیا جاتا۔ آفتاب کا نام جب زبان پر آتا ’’جلت قدرتہ‘‘ کے الفاظ کہے جاتے، پیشانی پر قشقہ لگایا جاتا۔ دوش و کمر پر جنیو ڈالا جاتا اور گائے کی تعظیم کی جاتی۔ معاد کے متعلق عقیدئہ تناسخ تسلیم کر لیا گیا اور برہمنوں سے ان کے دوسرے بہت سے اعتقادات سیکھے گئے۔ یہ سارا معاملہ تو تھا دوسرے مذاہب کے ساتھ۔ رہا اِسلام تو اس کے معاملہ میں بادشاہ اور درباریوں کی ایک ایک حرکت سے ظاہر ہوتا تھا کہ انھیں اس سے ضد اور چڑ ہو گئی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے خلاف دوسرے مذاہب والوں کی طرف سے جو بات دربار کا رنگ دیکھ کر فلسفیانہ و صوفیانہ انداز میں پیش کر دی جاتی اسے وحی آسمانی سمجھ لیا جاتا اور اس کے مقابلہ میں اسلامی تعلیم رد کر دی جاتی۔ علما اِسلام اگر اِسلام کی طرف سے کوئی بات کہتے، یا کسی گم راہی کی مخالفت کرتے تو انھیں ’’فقیہ‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا جس کے معنی ان کی اصطلاح خاص میں احمق اور ناقابل التفات آدمی کے ہو گئے تھے۔ چالیس آدمیوں کی ایک کمیٹی مذاہب کی تحقیق کے لیے مقرر کی گئی تھی جس میں تمام مذاہب کا مطالعہ بڑی رواداری بلکہ عقیدت مندی کے ساتھ کیا جاتا تھا، مگر اِسلام کا نام آتے ہی اس کا مذاق اڑایا جانے لگتا تھا اور اگر اِسلام کا کوئی حامی جواب دینا چاہتا تو اس کی زبان بند کر دی جاتی تھی۔ یہ برتائو اسی حد تک نہ رہا بلکہ عملاً اِسلام کے احکام کی دل کھول کر ترمیم و تنسیخ کی گئی۔ سود، جوئے اور شراب کو حلال کیا گیا۔ شاہی مجلس میں نو روز کے موقع پر شراب کا استعمال ضروری تھا۔ حتّٰی کہ قاضی و مفتی تک پی جاتے تھے۔ ڈاڑھی منڈوانے کا فیشن عام کیا گیا اور اس کے جواز پر دلائل قائم کیے گئے۔ چچا زاد اور ماموں زاد بہن سے نکاح کو ممنوع قرار دیا گیا۔ لڑکے کے لیے ۱۶ سال اور لڑکی کے لیے ۱۴ سال عمر نکاح مقرر کی گئی۔ ایک بیوی سے زیادہ بیویاں رکھنے کی ممانعت کی گئی۔ ریشم اور سونے کے استعمال کو حلال کیا گیا۔ شیر اور بھیڑیے کو حلال کیا گیا۔ سور کو اِسلام کی ضد میں نہ صرف پاک بلکہ ایک مقدس جانور قرار دیا گیا۔ حتّٰی کہ صبح آنکھ کھولتے ہی اسے دیکھنا مبارک خیال کیا جاتا تھا۔ مُردوں کو دفن کرنے کے بجائے جلانا یا پانی میں بہانا احسن ٹھہرایا گیا اور اگر کوئی دفن ہی کرنا چاہے تو سفارش کی گئی کہ پائوں قبلہ کی طرف رکھے جائیں۔ اکبر خود اِسلام کی ضد میں قبلہ ہی کی طرف پائوں کرکے سونے کا التزام کرتا تھا۔ حکومت کی تعلیمی پالیسی بھی سراسر اِسلام کی مخالف تھی۔ عربی زبان کی تعلیم اور فقہ و حدیث کے درس کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا اور جو لوگ ان علوم کو حاصل کرتے وہ حقیر خیال کیے جاتے۔ علومِ دینی کی بجائے حکمت و فلسفہ، ریاضی و تاریخ اور اس نوع کے علوم کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی۔ زبان میں ہندیت پیدا کرنے کی طرف خاص میلان تھا اور عربی حروف کو زبان سے خارج کرنے کی بھی تجویزیں تھیں۔ ان حالات کی وجہ سے دینی مدرسے ویران ہونے لگے اور اکثر اہلِ علم ملک چھوڑ چھوڑ کر نکلنے لگے۔
یہ تو تھا حکومت کا حال اور عوام کا حال یہ تھا کہ جو لوگ باہر سے آئے تھے وہ ایران وخراسان کی اخلاقی و اعتقادی بیماریاں ساتھ لائے تھے اور جو لوگ ہندوستان ہی میں مسلمان ہوئے تھے ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا کوئی خاص انتظام نہ تھا، اس لیے وہ پرانی جاہلیّت کی بہت سی باتیں اپنے خیالات اور اپنی عملی زِندگی میں لیے ہوئے تھے۔ ان دونوں قسم کے مسلمانوں نے مل جل کر ایک عجیب مرکب تیار کیا تھا جس کا نام ’’اسلامی تمدن‘‘ تھا۔ اس میں شرک بھی تھا۔ نسلی اور طبقاتی امتیازات بھی تھے، اوہام و خرافات بھی تھے اور نو ایجاد رسموں کی ایک نئی شریعت بھی تھی۔ دُنیا پرست علما و مشائخ نے نہ صرف اس مخلوطہ سے موافقت کرلی تھی بلکہ وہ اس نئے ’’مت‘‘ کے پروہت بن گئے تھے۔ لوگوں کی طرف سے انھیں نذرانے پہنچتے اور ان کی طرف سے لوگوں کو فرقہ بندی کا تحفہ ملتا۔
پیرانِ طریقت کے ہاتھوں سے ایک اور بیماری پھیل رہی تھی۔ اشراقیت، رواقیت (stoicism) مانویت اور وید انتزم کی آمیزش سے ایک عجیب قسم کا فلسفیانہ تصوف پیدا ہو گیا تھا، جسے اِسلام کے نظامِ اعتقادی و اخلاقی میں ٹھونس دیا گیا تھا۔ طریقت و حقیقت، شرعِ اسلامی سے الگ اور اس سے بے نیاز قرار دی گئی تھیں۔ باطن کا کوچہ ظاہر سے جدا بنا لیا گیا تھا اور اس کوچہ کا قانون یہ تھا کہ حدودِ حلال و حرام رخصت، احکامِ دین عملاً منسوخ اور ہوائے نفس کے ہاتھ میں کلی اختیارات۔ جس فرض کو چاہے ساقط کرے اور جس چیز کو چاہے فرض بلکہ فرض الفرض بنا دے۔ جس حلال کو چاہے حرام کر دے اور جس حرام کو چاہے حلال کر دے۔ ان عام پیروں سے بہتر جس کی حالت تھی ان پر کم و بیش فلسفیانہ تصوف کے اثرات پڑے ہوئے تھے اور وحدۃُ الوجود کے ایک غلط تصور نے خصوصیت کے ساتھ تمام قوائے عمل کو بے کار کر دیا تھا۔
یہ حالات تھے جب اکبری سلطنت کے ابتدائی ایام میں شیخ احمد سرہندی({ FR 6720 }) پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم و تربیت ایسے لوگوں میں ہوئی تھی جو اس دور کے صالح ترین لوگ تھے، گو اپنے گرد و پیش کے فساد کا مقابلہ نہ کر سکتے تھے مگر کم از کم اپنے ایمان اور عمل کو بچائے ہوئے تھے اور جہاں تک ہو سکتا تھا دوسروں کی اصلاح بھی کر رہے تھے۔ خصوصیت کے ساتھ شیخ کو سب سے زیادہ فیض حضرت باقی باللّٰہ صاحب سے پہنچا تھا جو اپنے وقت کے ایک بڑے صالح بزرگ تھے۔ مگر خود شیخ کی ذاتی صلاحیتوں کا حال یہ تھا کہ جب حضرتِ موصوف کے ساتھ راہ و رسم کی ابتدا ہوئی تھی اسی وقت انھوں نے شیخ کے متعلق اپنے یہ خیالات ایک دوست کو لکھ کر بھیجے تھے:
’’حال میں سرہند سے ایک شخص شیخ احمد نامی آیا ہے۔ نہایت ذی علم ہے۔ بڑی عملی طاقت رکھتا ہے۔ چند روز فقیر کے ساتھ ہی اس کی نشست و برخاست ہوئی ہے۔ اس دوران میں اس کے حالات کا جو مشاہدہ ہوا اس کی بنا پر توقع ہے کہ آگے چل کر یہ ایک چراغ ہو گا جو دُنیا کو روشن کر دے گا۔‘‘
یہ پیشین گوئی پوری ہوئی۔ ہندوستان کے گوشوں میں بہت سے حق پرست علما اور سچے صوفیہ بھی اس وقت موجود تھے۔ مگر ان سب کے درمیان وہ ایک اکیلا شخص تھا جو وقت کے ان فتنوں کی اصلاح اور شریعت محمدی کی حمایت کے لیے اُٹھا اور جس نے شاہی قوت کے مقابلہ میں یکہ و تنہا احیائے دین کی جدوجہد کی۔ اس بے سر و سامان فقیر نے علی الاعلان اٹھ کر ان گم راہیوں کی مخالفت کی جنھیں حکومت کی حمایت حاصل تھی اور اس شریعت کی تائید کی جو حکومت کی نگاہ میں مبغوض تھی۔ حکومت نے اسے ہر طرح دبانے کی کوشش کی، حتّٰی کہ جیل بھی بھیجا، مگر بالآخر وہ فتنہ کا منہ پھیرنے میں کام یاب ہو گیا۔ جہاں گیر، جس نے سجدئہ تحیہ نہ کرنے پر شیخ کو گوالیار کے قید خانہ میں بھیج دیا تھا، آخرکار شیخ کا معتقد ہو گیا اور اپنے بیٹے خرم کو، جو بعد میں شاہ جہان کے لقب سے تخت نشین ہوا، ان کے حلقہ بیعت میں داخل کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اِسلام کے متعلق حکومت کی معاندانہ روش احترام سے بدل گئی۔ ’’دینِ الٰہی اکبر شاہی‘‘ ان تمام بدعتوں کے ساتھ ختم ہوا جو درباری شریعت سازوں نے گھڑی تھیں۔ اسلامی احکام کی جو ترمیم و تنسیخ کی گئی تھی وہ خود منسوخ ہو گئی۔ حکومت اگرچہ شاہی حکومت ہی رہی۔ مگر کم از کم اتنا ہوا کہ علومِ دینی اور احکامِ شرعی کی طرف اس کا رویہ کافرانہ ہونے کے بجائے عقیدت مندانہ ہو گیا۔ شیخ کی وفات کے تین چار سال بعد عالم گیر پیدا ہوا اور غالباً وہ شیخ ہی کے پھیلائے ہوئے اصلاحی اثرات تھے جن کی بدولت تیموری خاندان کے اس شاہ زادے کو وہ علمی اور اخلاقی تربیت مل سکی کہ اکبر جیسے ہادمِ شریعت کا پرپوتا خادمِ شریعت ہوا۔
شیخ کا کارنامہ اتنا ہی نہیں ہے کہ انھوں نے ہندوستان میں حکومت کو بالکل ہی کفر کی گود میں چلے جانے سے روکا اور اس فتنہ عظیم کے سیلاب کا منہ پھیرا جواب سے تین چار سو برس پہلے ہی یہاں اِسلام کا نام و نشان مٹا دیتا۔ اس کے علاوہ انھوں نے دو عظیم الشان کام اور بھی انجام دئیے۔ ایک یہ کہ تصوف کے چشمۂ صافی کو ان آلائشوں سے جو فلسفیانہ اور راہبانہ گم راہیوں سے اس میں سرایت کر گئی تھیں، پاک کرکے اِسلام کا اصلی اور صحیح تصوف پیش کیا۔ دوسرے یہ کہ ان تمام رسومِ جاہلیّت کی شدید مخالفت کی جو اس وقت عوام میں پھیلی ہوئی تھیں اور سلسلہ بیعت و ارشاد کے ذریعہ سے اتباعِ شریعت کی ایک ایسی تحریک پھیلائی جس کے ہزارہا تربیت یافتہ کارکنوں نے نہ صرف ہندوستان کے مختلف گوشوں میں بلکہ وسط ایشیا تک پہنچ کر عوام کے اخلاق و عقائد کی اصلاح کی کوشش کی۔ یہی کام ہے جس کی وجہ سے شیخ سرہندی کا شمار مجددین ملت میں ہوتا ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭
شاہ ولی اللّٰہ دہلویؒ کا کارنامہ
حضرت مجدد الف ثانی ؒکی وفات کے بعد اور عالم گیر بادشاہ کی وفات سے چار سال پہلے نواحِ دہلی میں شاہ ولی اللّٰہ صاحب پیدا({ FR 6722 }) ہوئے۔ ایک طرف ان کے زمانہ اور ماحول کو اور دوسری طرف ان کے کام کو جب آدمی بالمقابل رکھ کر دیکھتا ہے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس دَور میں اس نظر، ان خیالات، اس ذہنیت کا آدمی کیسے پیدا ہو گیا۔ فرخ سیر، محمد شاہ رنگیلے اور شاہ عالم کے ہندوستان کو کون نہیں جانتا۔ اس تاریک زمانہ میں نشوونما پاکر ایسا آزاد خیال مفکر و مبصر منظر عام پر آتا ہے جو زمانہ اور ماحول کی ساری بندشوں سے آزاد ہو کر سوچتا ہے، تقلیدی علم اور صدیوں کے جمے ہوئے تعصبات کے بند توڑ کر ہر مسئلہ زِندگی پر محققانہ و مجتہدانہ نگاہ ڈالتا ہے اور ایسا لٹریچر چھوڑ جاتا ہے جس کی زبان، انداز بیان، خیالات، نظریات، موادِ تحقیق اور نتائجِ مستخرجہ، کسی چیز پر بھی ماحول کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا، حتّٰی کہ اس کے اوراق کی سیر کرتے ہوئے یہ گمان تک نہیں ہوتا کہ یہ چیزیں اس جگہ لکھی گئی تھیں جس کے گرد و پیش عیاشی، نفس پرستی، قتل و غارت، جبر و ظلم اور بدامنی و طوائف الملوکی کا طوفان برپا تھا۔
شاہ صاحب تاریخ انسانی کے ان لیڈروں میں سے ہیں جو خیالات کے الجھے ہوئے جنگل کو صاف کرکے فکر و نظر کی ایک صاف، سیدھی شاہ راہ بناتے ہیں اور ذہن کی دُنیا میں حالاتِ موجودہ کے خلاف ایسی بے چینی اور تعمیر نو کا ایسا دل آویز نقشہ پیدا کرتے چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ناگزیر طور پر تخریب فاسد و تعمیر صالح کے لیے ایک تحریک اٹھتی ہے۔ شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ اس قسم کے لیڈر اپنے خیالات کے مطابق خود کوئی تحریک اٹھاتے ہوں اور بگڑی ہوئی دُنیا کو توڑ پھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے نئی دُنیا بنانے کے لیے میدان میں نکل آتے ہوں۔ تاریخ میں اس کی مثالیں بہت ہی کم ملتی ہیں۔ اس طرز کے لیڈروں کا اصلی کارنامہ یہی ہوتا ہے کہ وہ تنقید سے صدہابرس کی جمی ہوئی غلط فہمیوں کا غبار چھانٹ دیتے ہیں،اذہان میں نئی روشنی پیدا کرتے ہیں، زِندگی کے بگڑے ہوئے مگر پختہ بنے ہوئے سانچے کو عالم ذہنی میں توڑتے ہیں اور اس کے ملبے میں سے اصلی پائدار حقیقتوں کو نکال کر دُنیا کے سامنے رکھ جاتے ہیں۔ یہ کام بجائے خود اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اس کی مشغولیتوں سے آدمی کو اتنی فرصت مشکل ہی سے مل سکتی ہے کہ خود میدان میں آکر تعمیر کا عملی کام بھی کر سکے۔ اگرچہ شاہ صاحب تفہیماتِ الٰہیہ میں ایک جگہ اشارہ کرتے ہیں کہ اگر موقع و محل کا اقتضا ہوتا تو میں جنگ کرکے عملاً اصلاح کرنے کی قابلیت بھی رکھتا تھا۔({ FR 6723 }) مگر واقعہ یہی ہے کہ انھوں نے اس طرز کا کوئی کام نہیں کیا۔ ان کی ساری قوتوں کو تنقید و تعمیر افکار کے بھاری کام نے بالکل اپنے اندر جذب کر رکھا تھا اور انھیں اس کارِ عظیم سے اتنی مہلت بھی نہ تھی کہ اپنے قریب ترین ماحول کی طرف ہی توجہ کر سکتے۔ جیسا کہ آگے چل کر عرض کیا جائے گا، ان کے صاف کیے ہوئے راستے پر عملی جدوجہد کرنے کے لیے کچھ دوسرے لوگوں کی ضرورت تھی اور وہ نصف صدی کے اندر خود انھی کے حلقہ تعلیم و تربیت سے نشوونما پاکر اٹھے۔
شاہ صاحبؒ کے تجدیدی کارنامے کو ہم دو بڑے عنوانات پر تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک عنوان تنقید و تنقیح کا اور دوسرا عنوان تعمیر کا۔ میں ان دونوں کو الگ الگ بیان کروں گا۔
تنقیدی کام
پہلے عنوان کے سلسلہ میں شاہ صاحب نے پوری تاریخ اِسلام پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے، شاہ صاحب پہلے شخص ہیں جن کی نظر تاریخ اِسلام اور تاریخ مسلمین کے اصولی فرق اور باریک فرق تک پہنچی اور جس نے تاریخ مسلمین پر تاریخ اِسلام کے نقطہ نظر سے نقد و تبصرہ کرکے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ان بہت سی صدیوں میں اِسلام قبول کرنے والی اقوام کے درمیان فی الحقیقت اِسلام کا کیا حال رہا ہے۔ یہ ایک ایسا نازک مضمون ہے جس کی پیچیدگیوں میں پہلے بھی لوگ الجھے رہے ہیں اور اب تک الجھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ شاہ صاحب کے بعد کوئی ایسا صاحب نظر نہ اٹھا جس کے ذہن میں حقیقی تاریخ اِسلام کا، تاریخ مسلمین سے الگ کوئی واضح تصور ہوتا۔ شاہ صاحب کے کلام میں مختلف مقامات پر اس کے متعلق اشارات موجود ہیں۔ مگر خصوصیت کے ساتھ ازالۃ الخفا کی فصل ششم میں انھوں نے صفحہ ۱۲۲ سے صفحہ ۱۵۸ ({ FR 6724 }) تک مسلسل تاریخ مسلمین پر تبصرہ کیا ہے اور کمال یہ کیا ہے کہ ایک ایک دور کی خصوصیات اور ایک ایک زمانہ کے فتنوں کو بیان کرتے ہوئے آں حضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ان پیشین گوئیوں کو بھی نقل کرتے گئے ہیں جن میں ان حالات کی طرف صریح اشارات پائے جاتے ہیں۔ اس تبصرہ میں قریب قریب ان تمام جاہلی آمیزشوں کی نشان دہی ہو گئی ہے جو مسلمانوں کے عقائد، علوم، اخلاق، تمدن اور سیاست میں ہوتی رہیں۔
پھر شاہ صاحب نے خرابیوں کے اس ہجوم میں کھوج لگا کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان میں بنیادی خرابیاں کون سی ہیں جن سے باقی تمام خرابیوں کا شجرئہ نسب ملتا ہو اور آخر کار دو چیزوں پر انگلی رکھ دی ہے۔ ایک اقتدارِ سیاسی کا خلافت سے بادشاہت کی طرف منتقل ہونا۔ دوسرے روحِ اجتہاد کا مردہ ہو جانا اور تقلید ِ جامد کا دماغوں پر مسلّط ہو جانا۔
پہلی خرابی پر انھوں نے ازالہ میں پوری تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔ خلافت اور بادشاہی کے اصولی و اصطلاحی فرق کو جس قدر واضح صورت میں انھوں نے بیان کیا ہے اور جس طرح احادیث سے اس کی تشریح کی ہے، اس کی مثال ان سے پہلے کے مصنّفین کی تحریروں میں نہیں ملتی۔ اسی طرح اس انقلاب کے نتائج کو بھی جس صراحت کے ساتھ انھوں نے پیش کیا ہے وہ اگلوں کے کلام میں مفقود ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ارکانِ اِسلام کی اقامت میں فتورِ عظیم برپا ہو گیا… حضرت عثمانؓ کے بعد کسی فرماں روا نے حج قائم نہیں کیا بلکہ اپنے نائب ہی مقرر کرکے بھیجتے رہے، حالانکہ اقامت حج خلافت کے لوازم میں سے ہے۔ جس طرح تخت پر بیٹھنا، تاج پہننا اور شاہانِ گذشتہ کی شہ نشین میں بیٹھنا قیصر و کسریٰ کے لیے علامت پادشاہی تھا اسی طرح حج خود اپنی امارت میں قائم کرنا اِسلام میں علامت ِ خلافت ہے۔‘‘({ FR 6725 })
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’پہلے وعظ اور فتوٰی دونوں خلیفہ کی رائے پر موقوف تھے۔ خلیفہ کے بغیر نہ وعظ کہا جا سکتا تھا اور نہ کوئی فتوٰی دینے کا مجاز تھا مگر اس انقلاب کے بعد وعظ اور فتوٰی دونوں اس نگرانی سے آزاد ہو گئے بلکہ بعد میں تو فتوٰی دینے کے لیے جماعت صالحین کے مشورے کی قید بھی نہ رہی۔‘‘({ FR 6726 })
پھر فرماتے ہیں:
’’ان لوگوں کی حکومت مجوسیوں کی حکومت کے مانند ہی ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ نماز پڑھتے اور کلمہ شہادت زبان سے ادا کرتے رہے ہیں۔ ہم اسی تغیر کے دامن میں پیدا ہوئے ہیں، معلوم نہیں آگے چل کر خدا تعالیٰ کیا دکھانا چاہتا ہے۔‘‘({ FR 6727 })
رہی دوسری خرابی تو شاہ صاحب نے ازالہ میں، حجت میں، بدور بازغہ میں، تفہیمات میں، مسویٰ اور مصفی میں اور قریب قریب اپنی ہر تصنیف میں اس پر ماتم کیا ہے۔
ازالہ میں فرماتے ہیں:
’’دولت شام (اموی سلطنت) کے خاتمہ تک کوئی اپنے آپ کو حنفی یا شافعی نہ کہتا تھا، بلکہ سب اپنے اپنے ائمہ اور اساتذہ کے طریقہ پر دلائل شرعی سے استنباط کرتے تھے، دولتِ عراق (عباسی سلطنت) کے زمانہ میں ہر ایک نے اپنا ایک نام معین کیا اور یہ کیفیت ہو گئی کہ جب تک اپنے مذہب کے بڑوں کے نص نہ پاتے کتاب و سنت کی دلیل پر فیصلہ نہ کرتے۔ اس طرح وہ اختلافات جو تاویل کتاب و سنت کے مقتضیات سے ناگزیر طور پر پیدا ہوتے تھے، مستقل بنیادوں پر جم کر رہ گئے۔({ FR 6728 }) پھر جب دولت عرب کا خاتمہ ہو گیا یعنی ترکی اقتدار کا زمانہ آیا اور لوگ مختلف ممالک میں منتشر ہوئے، تو ہر ایک نے جو کچھ اپنے مذہب فقہی سے یاد کیا تھا اسی کو اصل بنا لیا۔ پہلے جو چیز مذہب مستنبط تھی اب وہ سنت مستقرہ بن گئی۔ اب ان کے علم کا مدار اس پر رہ گیا کہ تخریج پر تخریج کریں اور تفریع پر تفریع۔ ‘‘({ FR 6729 })
مصفّٰی میں لکھتے ہیں:
’’ہمارے زمانے کے سادہ لوح اجتہاد سے بالکل برگشتہ ہیں۔ اونٹ کی طرح ناک میں نکیل پڑی ہے۔ اور کچھ نہیں جانتے کہ کدھر جا رہے ہیں۔ ان کا کاروبار ہی دوسرا ہے۔ یہ بے چارے ان امور کی سمجھ بوجھ کے لیے مکلف ہی نہیں ہیں۔ ‘‘ ({ FR 6730 })
حجت کے مبحث ہفتم میں اور انصاف میں شاہ صاحب نے اس مرض کی پوری تاریخ بیان کی ہے اور ان خرابیوں کی نشان دہی کی ہے جو اس کی بدولت پیدا ہوتی ہیں۔
تاریخی تنقید کے بعد شاہ صاحب اپنے زمانہ کی حالت کا جائزہ لیتے ہیں اور ایک ایک کو نام بنام پکار کر اس کے نقائص بیان کرتے ہیں۔ تفہیمات میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’یہ وصی (یعنی خود شاہ صاحب) ایسے زمانہ میں پیدا ہوا ہے جبکہ لوگوں میں تین چیزیں خلط ملط ہو گئی ہیں:
(۱) دلیل بازی اور یہ یونانی علوم کے اختلاط کی بدولت ہے۔ لوگ کلامی مباحث میں مشغول ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ عقائد میں کوئی گفتگو ایسی نہیں ہوتی جو استدلالی مناظرات سے خالی ہو۔
(۲) وجدان پرستی اور یہ صوفیوں کی مقبولیت اور ان کی حلقہ بگوشی کی وجہ سے ہے جس نے مشرق سے مغرب تک لوگوں کو گھیر رکھا ہے، یہاں تک کہ ان حضرات کے اقوال و احوال لوگوں کے دلوں پر کتاب و سنت اور ہر چیز سے زیادہ تسلّط رکھتے ہیں۔ ان کے رموز و اشارات اس قدر دخل پا گئے ہیں کہ جو شخص ان رموز و اشارات کا انکار کرے یا ان سے خالی ہو وہ نہ مقبول ہوتا ہے، نہ صالحین میں شمار ہوتا ہے۔ منبروں پر کوئی واعظ ایسا نہیں جس کی تقریر اشاراتِ صوفیہ سے پاک ہو اور درس کی مسندوں پر کوئی عالم ایسا نہیں جو ان کے کلام میں اعتقاد اور خوض کا اظہار نہ کرے۔ ورنہ اس کا شمار گدھوں میں ہونے لگتا ہے۔ پھر امرا و روسا وغیرہ کی کوئی مجلس ایسی نہیں جن کے ہاں لطف ِکلام اور بذلہ سنجی اور تفنن کے لیے صوفیہ کے اشعار اور نکات کھلونا بنے ہوئے نہ ہوں۔
(۳) طاعت اور یہ اس بنا پر ہے کہ لوگ ملت اسلامیہ میں داخل ہیں۔
پھر اس زمانہ کی ایک بیماری یہ ہے کہ ہر ایک اپنی رائے پر چلتا ہے اور بگ ٹٹ چلا جا رہا ہے، نہ متشابہات پر جا کر رکتا ہے نہ کسی ایسے امر میں دخل دینے سے باز رہتا ہے جو اس کے علم سے بالاتر ہو۔ احکام کے معانی اور اسرار پر ہر ایک اپنی عقل سے کلام کر رہا ہے اور جو کچھ جس نے سمجھ لیا ہے اس پر دوسروں سے مناظرہ و مباحثہ کر رہا ہے۔ دوسری بیماری یہ ہے کہ فقہ میں حنبلی اور شافعی وغیرہ کے سخت اختلافات پائے جاتے ہیں، ہر ایک اپنے طریقہ میں تعصب برتتا ہے اور دوسروں کے طریقہ پر اعتراض کرتا ہے۔ ہر مذہب میں تخریجات کی کثرت ہے اور حق اس غبار میں چھپ گیا ہے۔‘‘
اسی کتاب میں ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’مَیں ان پیر زادوں سے جو کسی استحقاق کے بغیر باپ دادا کی گدیوں پر بیٹھے ہیں، کہتا ہوں کہ یہ کیا دھڑے بندیاں تم نے کر رکھی ہیں؟ کیوں تم میں سے ہر ایک اپنے طریقہ پر چل رہا ہے اور کیوں اس طریقہ کو سب نے چھوڑ رکھا ہے جسے اللّٰہ تعالیٰ نے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر اتارا تھا؟ تم میں سے ہر ایک امام بن بیٹھا ہے، اپنی طرف لوگوں کو بلا رہا ہے اور اپنے آپ کو ہادی و مہدی سمجھتا ہے، حالانکہ وہ ضال و مضل ہے ہم ہرگز ان لوگوں سے راضی نہیں جو دُنیا کے فوائد کی خاطر لوگوں سے بیعت لیتے ہیں، یا اس لیے علم حاصل کرتے ہیں کہ اغراضِ دنیوی حاصل کریں، یا لوگوں کو اپنی طرف دعوت دیتے ہیں اور اپنی خواہشاتِ نفس کی اطاعت ان سے کراتے ہیں۔ یہ سب راہ زن ہیں، دجال ہیں، کذاب ہیں، خود بھی دھوکے میں ہیں اور دوسروں کو بھی دھوکا دے رہے ہیں…
مَیں اُن طالبانِ علم سے کہتا ہوں جو اپنے آپ کو علما کہتے ہیں کہ بے وقوفو! تم یونانیوں کے علوم اور صرف و نحو و معانی میں پھنس گئے اور سمجھے کہ علم اس کا نام ہے، حالانکہ علم تو کتاب اللّٰہ کی آیت محکمہ ہے، یا پھر وہ سنت ہے جو رسولؐ سے ثابت ہو… تم پچھلے فقہا کے استحسانات اور تفریعات میں ڈوب گئے، کیا تمھیں خبر نہیں کہ حکم صرف وہ ہے جو اللّٰہ اور اس کے رسول نے فرمایا ہو؟ تم میں سے اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب کسی کو نبی کی کوئی حدیث پہنچتی ہے تو وہ اس پر عمل نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ میرا عمل تو فلاں کے مذہب پر ہے نہ کہ حدیث پر۔ پھر وہ حیلہ یہ پیش کرتا ہے کہ ’’صاحب! حدیث کا فہم اور اس کے مطابق فیصلہ تو کاملین و ماہرین کا کام ہے اور یہ حدیث ائمہ سلف سے چھپی تو رہی نہ ہو گی، پھر کوئی وجہ تو ہو گی کہ انھوں نے اسے ترک کر دیا، جان رکھو یہ ہرگز دین کا طریقہ نہیں ہے۔ اگر تم اپنے نبیؐ پر ایمان لائے ہو تو اس کا اتباع کرو خواہ کسی مذہب کے موافق ہو یا مخالف…
مَیں ان متقشف واعظوں، عابدوں اور خانقاہ نشینوں سے کہتا ہوں کہ اے زہد کے مدعیو!تم ہر وادی میں بھٹک نکلے اور ہر رطب و یا بس کو لے بیٹھے۔ تم نے لوگوں کو موضوعات اور اباطیل کی طرف بلایا۔ تم نے خلقِ خدا پر زِندگی کا دائرہ تنگ کر دیا، حالانکہ تم فراخی کے لیے مامور تھے نہ کہ تنگی کے لیے۔ تم نے مغلوب الحال عشاق کی باتوں کو مدارالیہ بنا لیا ہے حالانکہ یہ چیزیں پھیلانے کی نہیں لپیٹ کر رکھ دینے کی ہیں…
مَیں امرا سے کہتا ہوں کہ تمھیں خدا کا خوف نہیں آتا؟ تم فانی لذتوں کی طلب میں مستغرق ہو گئے اور رعیت کو چھوڑ دیا کہ ایک دوسرے کو کھا جائے۔ علانیہ شرابیں پی جا رہی ہیں اور تم نہیں روکتے۔ زنا کاری، شراب خواری اور قمار بازی کے اڈے برسر عام بن گئے ہیں اور تم ان کا انسداد نہیں کرتے۔ اس عظیم الشان ملک میں مدت ہائے دراز سے کوئی حد شرعی نہیں لگائی گئی۔ جسے تم ضعیف پاتے ہو اسے کھا جاتے ہو اور جسے قوی پاتے ہو اسے چھوڑ دیتے ہو۔ کھانوں کی لذت، عورتوں کے نازوانداز، کپڑوں اور مکانوں کی لطافت، بس یہ چیزیں ہیں جن میں تم ڈوب گئے ہو، کبھی خدا کا خیال تمھیں نہیں آتا…
مَیں ان فوجی آدمیوں سے کہتا ہوں کہ تمھیں اللّٰہ نے جہاد کے لیے، اعلائے کلمہ حق کے لیے، شرک و اہل شرک کا زور توڑنے کے لیے فوجی بنایا تھا۔ اسے چھوڑ کر تم نے گھوڑ سواری اور ہتھیار بندی کو پیشہ بنا لیا۔ اب جہاد کی نیت اور مقصد سے تمھارے دل خالی ہیں، پیسا کمانے کے لیے سپاہی گری کا پیشہ کرتے ہو، بھنگ اور شراب پیتے ہو، ڈاڑھیاں منڈاتے ہو اور مونچھیں بڑھاتے ہو، بندگانِ خدا پر ظلم ڈھاتے ہو اور تمھیں کبھی اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ حرام کی روٹی کما رہے ہو یا حلال کی۔ خدا کی قسم تمھیں ایک روز دُنیا سے جانا ہے پھر اللّٰہ تمھیں بتائے گا کہ کیا کرکے آئے ہو…
مَیں ان اہلِ حرفہ اور عوام سے کہتا ہوں کہ تم میں سے امانت و دیانت رخصت ہو گئی ہے۔ اپنے رب کی عبادت سے تم غافل ہو گئے ہو اور اللّٰہ کے ساتھ شرک کرنے لگے ہو۔ تم غیر اللّٰہ کے لیے قربانیاں کرتے ہو اور مدار صاحب اور سالار صاحب کی قبروں کا حج کرتے ہو۔ یہ تمھارے بدترین افعال ہیں۔ تم میں سے جو کوئی شخص خوش حال ہو جاتا ہے وہ اپنے لباس اور کھانے پر اتنا خرچ کرتا ہے کہ اس کی آمدنی اس کے لیے کافی نہیں ہوتی اور اہل و عیال کی حق تلفی کرنی پڑتی ہے، یا پھر وہ شراب نوشی اور کرایہ کی عورتوں میں اپنی معاش اور معاد دونوں کو ضائع کرتا ہے…
پھر مَیں مسلمانوں کی تمام جماعتوں کو عام خطاب کرکے کہتا ہوں۔ کہ اے بنی آدم! تم نے اپنے اخلاق کھو دیے، تم پر تنگ دلی چھا گئی اور شیطان تمھارا محافظ بن گیا۔ عورتیں مردوں پر حاوی ہو گئی ہیں اور مردوں نے عورتوں کو ذلیل بنا رکھا ہے اور حلال تمھارے لیے بدمزہ بن گیا ہے…
اے بنی آدم! تم نے ایسی فاسد رسمیں اختیار کرلی ہیں جن سے دین متغیر ہو گیا ہے۔ مثلاً روزِ عاشورا کو تم جمع ہو کر باطل حرکات کرتے ہو۔ ایک جماعت نے اس دن کو ماتم کا دن بنا رکھا ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ سب دن اللّٰہ کے ہیں اور سارے حوادث اللّٰہ کی مشیت سے ہوتے ہیں؟ اگر حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ اس روز شہید کیے گئے تو اور کون سا دن ہے جس میں کسی محبوبِ خدا کی موت واقع نہ ہوئی ہو؟ کچھ لوگوں نے اس دن کو کھیل تماشوں کا دن بنا رکھا ہے۔ پھر تم شب برات میں جاہل قوموں کی طرح کھیل تماشے کرتے ہو اور تم میں ایک گروہ کا یہ خیال ہے کہ اس روز مُردوں کو کثرت سے کھانا بھیجنا چاہیے۔ اگر تم سچے ہو تو اپنے اس خیال اور ان حرکات کے لیے کوئی دلیل لائو۔ پھر تم نے ایسی رسمیں بنا رکھی ہیں جن سے تمھاری زِندگی تنگ ہو رہی ہے۔ مثلاً شادیوں میں فضول خرچی، طلاق کو ممنوع بنا لینا، بیوہ عورت کو بٹھائے رکھنا۔ اس قسم کی رسموں میں تم اپنے مال اور اپنی زِندگیوں کو خراب کر رہے ہو اور ہدایاتِ صالحہ کو تم نے چھوڑ دیا ہے، حالانکہ بہتر یہ تھا کہ ان رسموں کو چھوڑ کر اس طریق پر چلتے جس میں سہولت تھی نہ کہ تنگی۔ پھر تم نے موت اور غمی کو عید بنا رکھا ہے، گویا تم پر کسی نے فرض کر دیا ہے کہ جب کوئی مرے تو اس کے اقربا خوب کھانے کھلائیں۔ تم نمازوں سے غافل ہو، کوئی اپنے کاروبار میں اتنا مشغول ہوتا ہے کہ نماز کے لیے وقت نہیں پاتا اور کوئی اپنی تفریحوں اور خوش گپیوں میں اتنا منہمک ہوتا ہے کہ نماز فراموش ہو جاتی ہے۔ تم زکوٰۃ سے بھی غافل ہو، تم میں کوئی مال دار ایسا نہیں جس کے ساتھ بہت سے کھانے والے لگے ہوئے نہ ہوں ‘ وہ ان کو کھلاتا اور پہناتا ہے مگر زکوٰۃ اور عبادت کی نیت نہیں کرتا۔ تم رمضان کے روزے بھی ضائع کرتے ہو اور اس کے لیے طرح طرح کے بہانے بناتے ہو۔ تم لوگ سخت بے تدبیر ہو گئے ہو۔ تم نے اپنی بسر اوقات کا انحصار سلاطین کے وظائف و مناصب پر کر رکھا ہے اور جب تمھارا بار سنبھالنے کے لیے سلاطین کے خزانے کافی نہیں ہوتے تو وہ رعیت کو تنگ کرنے لگتے ہیں…‘‘({ FR 6731 })
ایک اور جگہ تفہیم میں فرماتے ہیں:
’’جو لوگ حاجتیں طلب کرنے کے لیے اجمیر یا سالار مسعود کی قبریا ایسے ہی دوسرے مقامات پر جاتے ہیں وہ اتنا بڑا گناہ کرتے ہیں کہ قتل اور زنا کا گناہ اس سے کم تر ہے۔ آخر اس میں اور خود ساختہ معبودوں کی پرستش میں فرق کیا ہے؟ جو لوگ لات اور عُزّٰی سے حاجتیں طلب کرتے تھے اُن کا فعل ان لوگوں کے فعل سے آخر کس طرح مختلف تھا؟ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم اُن کے برعکس ان لوگوں کو صاف الفاظ میں کافر کہنے سے احتراز کرتے ہیں کیوں کہ خاص ان کے معاملہ میں شارع کی نص موجود نہیں ہے مگر اصولاً ہر وہ شخص جو کسی مردے کو زندہ ٹھہرا کر اس سے حاجتیں طلب کرتا ہے اس کا دل گناہ میں مبتلا ہے۔ ‘‘ ({ FR 6732 })
یہ اقتباسات بہت طویل ہو گئے ہیں، مگر تفہیمات جلد دوم کے چند فقرے اور تقاضا کر رہے ہیں کہ انھیں بھی اس سلسلہ میں ناظرین تک پہنچا دیا جائے۔ فرماتے ہیں:
’’نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ ’’تم بھی آخرکار اپنے سے پہلے کی اُمتوں کے طریقے اختیار کر لو گے۔ اور جہاں جہاں انھوں نے قدم رکھا ہے وہاں تم بھی رکھو گے حتّٰی کہ اگز وہ کسی گوہ کے بل میں گھسے ہیں تو تم بھی ان کے پیچھے جائو گے۔ صحابہؓ نے پوچھا یا رسول اللّٰہ پہلی اُمتوں سے آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں، فرمایا ’’اور کون؟‘‘ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
’’سچ فرمایا اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے وہ ضعیف الایمان مسلمان دیکھے ہیں جنھوں نے صلحا کو اَرْبَابٌ مِّنْ دُ وْنِ اللّٰہ بنا لیا ہے اور یہود و نصاریٰ کی طرح اپنے اولیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ہے، ہم نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو کلامِ شارع میں تحریف کرتے ہیں اور نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی طرف یہ قول منسوب کرتے ہیں کہ نیک لوگ اللّٰہ کے لیے ہیں اور گناہ گار میرے لیے۔ یہ اسی قسم کی بات ہے جیسی کہ یہودی کہتے ہیں کہ لَنْ تَمَسَّـنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَۃً۰ۭ البقرہ 80:2 (ہم دوزخ میں نہ جائیں گے اور گئے بھی تو بس چند روز کے لیے) سچ پوچھو تو آج ہر گروہ میں دین کی تحریف پھیلی ہوئی ہے۔ صوفیہ کو دیکھو تو ان میں ایسے اقوال زبان زد ہیں جو کتاب و سنت سے مطابقت نہیں رکھتے خصوصاً مسئلہ توحید میں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شرع کی انھیں بالکل پروا نہیں ہے۔ فقہا کی فقہ کو دیکھو تو اس میں اکثر وہ باتیں ملتی ہیں جن کے ماخذ کا پتا ہی نہیں۔ مثلاً دہ دردہ کا مسئلہ ({ FR 6733 })اور کنوئوں کی طہارت کا مسئلہ ({ FR 6734 }) رہے اصحابِ معقول اور شعرا اور اصحابِ ثروت اور عوام تو ان کی تحریفات کا ذکر کہاں تک کیا جائے۔‘‘({ FR 6735 })
ان اقتباسات سے ایک دھندلا سا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شاہ صاحب نے مسلمانوں کے ماضی اور حال کا کس قدر تفصیلی جائزہ لیا ہے اور کس قدر جامعیت کے ساتھ ان پر تنقید کی ہے۔
اس قسم کی تنقید کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سوسائٹی میں جتنے صالح عناصر موجود ہوتے ہیں، جن کے ضمیر و ایمان میں زِندگی اور جن کے قلب میں بھلے اور بُرے کی تمیز ہوتی ہے، انھیں حالات کی خرابی کا احساس سخت مضطرب کر دیتا ہے۔ ان کی اسلامی حِس اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ اپنے گرد و پیش کی زِندگی میں جاہلیّت کا ہر اثر انھیں کھٹکنے لگتا ہے۔ ان کی قوتِ امتیاز اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ زِندگی کے ہر پہلو میں اِسلام اور جاہلیّت کی آمیزشوں کا تجزیہ کرنے لگتے ہیں اور ان کی قوتِ ایمانی اس قدر بیدار ہو جاتی ہے کہ خارزارِ جاہلیّت کی ہر کھٹک انھیں اصلاح کے لیے بے چین کر دیتی ہے۔ اس کے بعد مجدد کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ ان کے سامنے تعمیر نو کا ایک نقشہ واضح صورت میں پیش کرے تاکہ حالت موجود کو جس حالت میں بدلنا مطلوب ہے اس پر وہ اپنی نظر جما سکیں اور تمام سعی و عمل اسی سمت میں مرکوز کر دیں۔ یہ تعمیری کام بھی شاہ صاحبؒ نے اسی خوبی اور جامعیت کے ساتھ انجام دیا جو ان کے تنقیدی کام میں آپ دیکھ چکے ہیں۔
تعمیری کام
تعمیر کے سلسلہ میں ان کا پہلا اہم کام یہ ہے کہ وہ فقہ میں ایک نہایت معتدل مسلک پیش کرتے ہیں جس میں ایک مذہب کی جانبداری اور دوسرے مذاہب پر نکتہ چینی نہیں پائی جاتی۔ ایک محقق کی طرح انھوں نے تمام مذاہب فقہیہ کے اصول اور طریق استنباط کا مطالعہ کیا ہے اور بالکل آزادانہ رائے قائم کی ہے۔ جس مذہب کی کسی مسئلہ میں تائید کی اس بنا پر کی کہ دلیل اس کے حق میں پائی، نہ اس بنا پر کہ وہ اس مذہب کی وکالت کا عہد کر چکے ہیں۔ اور جس سے اختلاف کیا اس بنا پر کیا کہ دلیل اس کے خلاف پائی، نہ اس بنا پر کہ انھیں اس سے عناد ہے۔ اسی وجہ سے کہیں وہ حنفی نظر آتے ہیں۔ کہیں شافعی کہیں مالکی اور کہیں حنبلی۔ انھوں نے ان لوگوں سے بھی اختلاف کیا ہے جو ایک مذہب کی پیروی کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لیتے ہیں اور قسم کھا لیتے ہیں کہ تمام مسائل میں اسی کا اتباع کریں گے اور اسی طرح وہ ان لوگوں سے بھی سخت اختلاف کرتے ہیں جنھوں نے ائمہ مذاہب میں سے کسی کی مخالفت کا عہد کر لیا ہے۔ ان دونوں کے بین بین وہ ایک ایسے معتدل راستہ پر چلتے ہیں جس میں ہر غیر متعصب طالب حق کو اطمینان حاصل ہو سکتا ہے۔ ان کا رسالہ انصاف اس مسلک کا آئینہ ہے۔ یہی رنگ مصفّٰی اور ان کی دوسری کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ تفہیمات میں ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’میرے دل میں ایک خیال ڈالا گیا ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ ابو حنیفہ اور شافعی کے مذہب امت میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ سب سے زیادہ پیرو بھی انھی دونوں کے پائے جاتے ہیں اور تصنیفات بھی انھی مذاہب کی زیادہ ہیں۔ فقہا، محدثین، مفسرین، متکلمین اور صوفیہ زیادہ تر مذہب شافعی کے پیرو ہیں۔ اور حکومتیں اور عوام زیادہ تر مذہب حنفی کے متبع ہیں۔ اس وقت جو امر حق ملا اعلیٰ کے علوم سے مطابقت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ ان دونوں کو ایک مذہب کی طرح کر دیا جائے۔ ان دونوں کے مسائل کو حدیث نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مجموعوں سے مقابلہ کرکے دیکھا جائے۔ جو کچھ ان کے موافق ہو وہ باقی رکھا جائے اور جس کی کوئی اصل نہ ملے اسے ساقط کر دیا جائے۔ پھر جو چیزیں تنقید کے بعد ثابت نکلیں، وہ دونوں مذہبوں میں متفق علیہ ہوں تو وہ اس لائق ہیں کہ انھیں دانتوں سے پکڑ لیا جائے اور اگر ان میں دونوں کے درمیان اختلاف ہو تو مسئلے میں دونوں قول تسلیم کیے جائیں اور دونوں پر عمل کرنے کو صحیح قرار دیا جائے۔ یا تو ان کی حیثیت ایسی ہو گی جیسی قرآن میں اختلاف ِقرات کی حیثیت ہے، یا رخصت اور عزیمت کا فرق ہو گا، یا کسی مخمصہ سے نکلنے کے دو راستوں کی سی نوعیت ہو گی جیسے تعدد کفارات ({ FR 6736 })یا دو برابر کے مباح طریقوں کا سا حال ہو گا۔ ان چار پہلوئوں کے باہر کوئی پہلو ان شاء اللّٰہ تعالیٰ نہ پایا جائے گا۔‘‘({ FR 6737 })
انصاف میں انھوں نے اپنی رائے اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ دی ہے۔ چنانچہ باب سوم میں واعلم ان التخریج علیٰ کلام الفقہا سے لے کر آخر باب تک جو کچھ لکھا ہے وہ اس لائق ہے کہ اہل حدیث اور اہل تخریج دونوں اسے غور کی نگاہ سے دیکھیں۔ اس بحث میں انھوں نے جس طریقہ کو ترجیح دی ہے وہ یہ ہے کہ طریق اہل حدیث اور طریق اہل تخریج دونوں کو جمع کیا جائے۔ اسی طرح حجت کے مبحث ہفتم میں فصل ومما یناسب ھٰذا المقام التبیہ علیٰ مسائل ضلت فی بوادیھا الافھام کے تحت جو بحث کی ہے وہ بھی دیکھنے کے لائق ہے۔
یہ مسلک معتدل اختیار کرنے سے فائدہ یہ ہے کہ تعصب اور تنگ نظری اور تقلید جامد اور لاطائل بحثوں میں تضیع اوقات کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور وسعت نظر کے ساتھ تحقیق و اجتہاد کا راستہ کھلتا ہے۔ چنانچہ اس کے ساتھ ہی شاہ صاحب اجتہاد کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور قریب قریب ان کی تمام کتابوں میں ایسی عبارتیں موجود ہیں جن میں کسی نہ کسی طرح تحقیق و اجتہاد پر اکسایا گیا ہے، مثال کے طور پر مصفّٰی کے مقدمہ سے چند فقرے انھی کے الفاظ میں نقل کرتا ہوں:
’’اجتہاد درہر عصر فرض بالکفایہ است۔ و مراد از اجتہاد و اینجا معرفت احکام شرعیہ از ادلہ تفصیلیہ و تفریع و ترتیب مجتہدانہ، اگرچہ بادشاہ صاحب مذہبے باشد۔ وآنکہ گفتیم اجتہاد درہر عصر فرض است بجہت آنست کہ مسائل کثیرۃ الوقوع غیر محصور اند و معرفت احکامِ الٰہی درآنہا واجب، وآنچہ مسطور و مدون شدہ است غیر کافی و در آنہا اختلاف بسیار کہ بدوں رجوع بادلہ حل اختلاف آں نتواں کرو،و طرق آں تامجتہدین غالباً منقطع، پس بغیر عرض برقواعد اجتہاد راست نیاید۔‘‘ (مصفّٰی جلد اول ص۱۱)
یہی نہیں کہ شاہ صاحب نے اجتہاد پر محض زور ہی دیا ہو، بلکہ انھوں نے پوری تفصیل کے ساتھ اجتہاد کے اصول و قواعد اور اس کی شرائط کو بیان بھی کیا ہے۔ ازالہ، حجت، عقدالجید، انصاف، بدورِ بازغہ، مصفیّٰ وغیرہ میں اس مسئلہ پر کہیں اشارات اور کہیں مفصل تقریریں موجود ہیں۔ نیز اپنی کتابوں میں جہاں بھی انھوں نے کسی مسئلہ پر گفتگو کی ہے ایک محقق اور مجتہد کی حیثیت سے کی ہے، گویا کہ ان کی کتابوں کے مطالعہ سے آدمی کو نہ صرف اجتہاد کے اصول معلوم ہو سکتے ہیں، بلکہ ساتھ ساتھ اس کی تربیت بھی ملتی جاتی ہے۔
مذکورئہ بالا دو کام تو ایسے ہیں جو شاہ صاحب سے پہلے بھی لوگوں نے کیے ہیں۔ مگر جو کام ان سے پہلے کسی نے نہ کیا تھا وہ یہ ہے کہ انھوں نے اِسلام کے پورے فکری، اخلاقی، شرعی اور تمدنی نظام کو ایک مرتب صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ وہ کارنامہ ہے جس میں وہ اپنے تمام پیش رووں سے بازی لے گئے ہیں۔ اگرچہ ابتدائی تین چار صدیوں میں بکثرت ائمہ گزرے ہیں جن کے کام کو دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذہن میں اِسلام کے نظامِ حیات کا مکمل تصور رکھتے تھے اور اسی طرح بعد کی صدیوں میں بھی ایسے محققین ملتے ہیں جن کے متعلق یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اس تصور سے خالی تھے۔ لیکن ان میں سے کسی نے بھی جامعیت اور منطقی ترتیب کے ساتھ اسلامی نظام کو بحیثیت ایک نظام کے مرتب کرنے کی طرف توجہ نہیں کی۔ یہ شرف شاہ ولی اللّٰہ ہی کے لیے مقدر ہو چکا تھا کہ اس راہ میں پیش قدمی کریں۔ ان کی کتابوں میں سے حجۃ اللّٰہ اور البدور البازغہ دونوں کا موضوع یہی ہے۔ پہلی کتاب زیادہ مفصل ہے اور دوسری زیادہ فلسفیانہ۔
ان کتابوں میں انھوں نے مابعدالطبیعی مسائل سے ابتدا کی ہے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص فلسفہ اِسلام کو مدون کرنے کی بنا ڈال رہا ہے۔ اس سے پہلے مسلمان فلسفہ میں جو کچھ لکھتے اور کہتے رہے اسے محض نادانی سے لوگوں نے ’’فلسفہ اسلام‘‘ کے نام سے موسوم کر رکھا ہے، حالانکہ وہ فلسفہ اِسلام نہیں، فلسفہ مسلمین ہے جس کا شجرئہ نسب یونان و روم اور ایران و ہندوستان سے ملتا ہے۔ فی الحقیقت جو چیز اس نام سے موسوم کرنے کے لائق ہے اس کی داغ بیل سب سے پہلے اسی دہلوی شیخ نے ڈالی ہے۔ اگرچہ اصطلاحات وہی قدیم فلسفہ و کلام یا فلسفیانہ تصوف کی زبان سے لی ہیں اور غیر شعوری طور پر بہت سے تخیلات بھی وہیں سے لے لیے ہیں، جیسا کہ اوّل اوّل ہر نئی راہ نکالنے کے لیے طبعاً ناگزیر ہے، مگر پھر بھی تحقیق کا ایک نیا دروازہ کھولنے کی یہ ایک بڑی زبردست کوشش ہے۔ خصوصاً ایسے شدید انحطاط کے دور میں اتنی طاقت ور عقلیت کے آدمی کا ظاہر ہونا بالکل حیرت انگیز ہے۔
اس فلسفہ میں شاہ صاحب کائنات اور کائنات میں انسان کا ایک ایسا تصور قائم کرنے کی سعی کرتے ہیں جو اِسلام کے نظامِ اخلاق و تمدن کے ساتھ ہم آہنگ و متحدالمزاج ہو سکتا ہو یا دوسرے الفاظ میں جسے اگر شجرئہ اِسلام کی جڑ قرار دیا جائے تو جڑ میں اور اس درخت میں جو اس سے پھوٹا، عقلاً کوئی فطری مباینت محسوس نہ کی جا سکتی ہو۔({ FR 6738 }) میں حیران رہ جاتا ہوں جب بعض لوگوں کی یہ رائے سنتا ہوں کہ شاہ صاحب نے ’’ویدانتی فلسفے اور اسلامی فلسفے کا جوڑ لگا کر نئی ہندی قومیت کے لیے فکری اساس فراہم کرنے کی کوشش کی تھی۔‘‘ مجھے ان کی کتابوں میں اس کوشش کا کہیں سراغ نہ ملا۔ اور اگر مل جاتا تو باللّٰہ العظیم کہ میں شاہ صاحب کو مجددین کی فہرست سے خارج کرکے متجد دین کی صف میں لے جا کر بٹھاتا۔
نظام اخلاق پر وہ ایک اجتماعی فلسفے (social philosophy) کی عمارت اٹھاتے ہیں جس کے لیے انھوں نے ارتفاقات کا عنوان تجویز کیا ہے اور اس سلسلہ میں تدبیر منزل، آدابِ معاشرت، سیاست مدن، عدالت، ضربِ محاصل (taxation) انتظام ملکی اور تنظیم عسکری وغیرہ کی تفصیلات بیان کی ہیں اور ساتھ ہی ان اسباب پر بھی روشنی ڈالی ہے جن سے تمدن میں فساد پیدا ہوتا ہے۔
پھر وہ نظامِ شریعت، عبادات، احکام اور قوانین کو پیش کرتے ہیں اور ہر ایک چیز کی حکمتیں سمجھاتے چلے جاتے ہیں۔ اس خاص مضمون پر جو کام انھوں نے کیا ہے وہ اسی نوعیت کا ہے جو ان سے پہلے امام غزالیؒ نے کیا تھا اور قدرتی بات ہے کہ وہ اس راہ میں امام موصوف سے آگے بڑھ گئے ہیں۔
آخر میں انھوں نے تاریخ ملل و شرائع پر بھی نظر ڈالی ہے اور کم از کم میرے علم کی حد تک وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اِسلام و جاہلیّت کی تاریخی کش مکش کا ایک دھندلا سا تصور پیش کیا ہے۔
نتائج
نظام اسلامی کے اس قدر معقول اور اتنے مرتب خاکے کا پیش ہو جانا بجائے خود اس امر کی پوری ضمانت ہے کہ وہ تمام صحیح الفطرت اور سلیم الطبع لوگوں کا نصب العین بن جائے اور جو لوگ ان میں سے زیادہ قوتِ عمل رکھتے ہوں وہ اس نصب العین کے لیے جان و تن کی بازی لگا دیں، خواہ اس نصب العین کو سامنے رکھنے والا خود عملاً ایسی کسی تحریک کی راہ نُمائی کرے یا نہ کرے۔ مگر جو چیز اس سے بھی زیادہ محرک ثابت ہوئی وہ یہ تھی کہ شاہ صاحب نے جاہلی حکومت اور اسلامی حکومت کے فرق کو بالکل نمایاں کرکے لوگوں کے سامنے رکھ دیا اور نہ صرف اسلامی حکومت کی خصوصیات صاف صاف بیان کیں، بلکہ اس مبحث کو بتکرار ایسے طریقوں سے پیش کیا جن کی وجہ سے اصحابِ ایمان کے لیے جاہلی حکومت کو اسلامی حکومت سے بدلنے کی جدوجہد کیے بغیر چین سے بیٹھنا محال ہو گیا۔ یہ مضمون ’’حجت‘‘ میں بھی کافی تفصیل کے ساتھ آیا ہے، مگر ’’ازالہ‘‘ تو گویا ہے ہی اسی موضوع پر۔ اس کتاب میں وہ احادیث سے ثابت کرتے ہیں کہ خلافت اسلامی اور پادشاہی، دو بالکل مختلف الاصل چیزیں ہیں۔ پھر ایک طرف پادشاہی کو اور ان تمام فتنوں کو رکھتے ہیں جو پادشاہی کے ساتھ مسلمان کی حیاتِ اجتماعی میں ازروئے تاریخ پیدا ہوئے اور دوسری طرف اسلامی خلافت کی خصوصیات اور شرائط کو اور ان رحمتوں کو پیش کر دیتے ہیں جو خلافت اسلامی میں فی الحقیقت مسلمانوں پر نازل ہو چکی ہیں۔ اس کے بعد کس طرح ممکن تھا کہ لوگ چین سے بیٹھ جاتے۔
٭…٭…٭…٭…٭
سید احمد بریلویؒ اور شاہ اسمٰعیل شہید
یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللّٰہ صاحب کی وفات پر پوری نصف صدی بھی نہ گزری تھی کہ ہندوستان میں ایک تحریک اٹھ کھڑی ہوئی جس کا نصب العین وہی تھا جو شاہ صاحب نگاہوں کے سامنے روشن کرکے رکھ گئے تھے۔ سید صاحب کے خطوط اور ملفوظات اور شاہ اسمٰعیل شہید کی منصب ِ امامت، عبقات، تقویۃ الایمان اور دوسری تحریریں دیکھئے۔ دونوں جگہ وہی شاہ ولی اللّٰہ صاحب کی زبان بولتی نظر آتی ہے۔ شاہ صاحب نے عملاً جو کچھ کیا وہ یہ تھا کہ حدیث اور قرآن کی تعلیم اور اپنی شخصیت کی تاثیر سے صحیح الخیال اور صالح لوگوں کی ایک کثیر تعداد پیدا کر دی۔ پھر ان کے چاروں صاحبزادوں نے، خصوصاً شاہ عبدالعزیز صاحب نے اس حلقہ کو بہت زیادہ وسیع کیا، یہاں تک کہ ہزارہا ایسے آدمی ہندوستان کے گوشے گوشے میں پھیل گئے جن کے اندر شاہ صاحب کے خیالات نفوذ کئے ہوئے تھے، جن کے دماغوں میں اِسلام کی صحیح تصویر اتر چکی تھی۔ اور جو اپنے علم و فضل اور اپنی عمدہ سیرت کی وجہ سے عام لوگوں میں شاہ صاحب اور ان کے حلقے کا اثر قائم ہونے کا ذریعہ بن گئے تھے۔ اس چیز نے اس تحریک کے لیے گویا زمین تیار کر دی، جو بالآخر شاہ صاحب ہی کے حلقے سے، بلکہ یوں کہیے کہ ان کے گھر سے اٹھنے والی تھی۔
سید صاحب اور شاہ اسمٰعیل صاحب دونوں روحاً و معنًی ایک وجود رکھتے ہیں اور اس وجودِ متحد کو میں مستقل بالذات مجدد نہیں سمجھتا بلکہ شاہ ولی اللّٰہ صاحب کی تجدید کا تتمہ سمجھتا ہوں۔ ان حضرات کے کارنامے کا خلاصہ یہ ہے۔
(۱) انھوں نے عامہ خلائق کے دین، اخلاق اور معاملات کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور جہاں جہاں ان کے اثرات پہنچ سکے وہاں زِندگیوں میں ایسا زبردست انقلاب رونما ہوا کہ صحابہؓ کرام کے دور کی یاد تازہ ہو گئی۔
(۲) انھوں نے اتنے وسیع پیمانے پر جو انیسویں صدی کے ابتدائی دور میں ہندوستان جیسے برسرِ تنزل ملک میں بمشکل ہی ممکن ہو سکتا تھا، جہاد کی تیاری کی اور اس تیاری میں اپنی تنظیمی قابلیت کا کمال ظاہر کر دیا۔ پھر غایت تدبر کے ساتھ آغازِ کار کے لیے شمال مغربی ہندوستان کو منتخب کیا جو ظاہر ہے کہ جغرافی و سیاسی حیثیت سے اس کام کے لیے موزوں ترین خطہ… ہو سکتا تھا۔ پھر اس جہاد میں ٹھیک وہی اصولِ اخلاق اور قوانین جنگ استعمال کیے جن سے ایک دُنیا پرست جنگ آزما کے مقابلہ میں ایک مجاہد فی سبیل اللّٰہ ممتاز ہوتا ہے اور اس طرح انھوں نے دُنیا کے سامنے پھر ایک مرتبہ صحیح معنوں میں روحِ اسلامی کا مظاہرہ کر دیا۔ ان کی جنگ ملک و مال، یا قومی عصبیت، یا کسی دنیوی غرض کے لیے نہ تھی بلکہ خالص فی سبیل اللّٰہ تھی۔ ان کے سامنے کوئی مقصد اس کے سوا نہ تھا کہ خلق اللّٰہ کو جاہلیّت کی حکومت سے نکالیں اور وہ نظامت حکومت قائم کریں جو خالق اور مالک الملک کے منشا کے مطابق ہے۔ اس غرض کے لیے جب وہ لڑے تو حسب قاعدہ اِسلام یا جزیہ کی طرف پہلے دعوت دی اور پھر اتمامِ حجت کرکے تلوار اٹھائی اور جب تلوار اٹھائی تو جنگ کے اس مہذب قانون کی پوری پابندی کی جو اِسلام نے سکھایا ہے، کوئی ظالمانہ اور وحشیانہ فعل ان سے سرزد نہیں ہوا۔ جس بستی میں داخل ہوئے مصلح کی حیثیت سے داخل ہوئے نہ کہ مفسد کی حیثیت سے۔ ان کی فوج کے ساتھ نہ شراب تھی، نہ بینڈ بجتا تھا، نہ بیسوائوں کی پلٹن ہوتی تھی، نہ ان کی چھائونی بدکاریوں کا اڈہ بنتی تھی اور نہ ایسی کوئی مثال ملتی ہے کہ ان کی فوج کسی علاقے سے گزری ہو اور اس علاقہ کے لوگ اپنے مال اور اپنی عورتوں کی عصمتیں لٹنے پر ماتم کناں ہوں۔ ان کے سپاہی دن کو گھوڑے کی پیٹھ پر اور رات کو جانماز پر ہوتے تھے۔ خدا سے ڈرنے والے، آخرت کے حساب کو یاد رکھنے والے اور ہر حال میں راستی پر قائم رہنے والے تھے، خواہ اس پر قائم رہنے میں انھیں فائدہ پہنچے یا نقصان۔ انھوں نے کہیں شکست کھائی تو بزدل ثابت نہ ہوئے اور کہیں فتح پائی تو جبار اور متکبر نہ پائے گئے۔ اس شان کے ساتھ خالص اسلامی جہاد ہندوستان کی سر زمین میں نہ ان سے پہلے ہوا تھا اور نہ ان کے بعد ہوا۔
(۳) انھیں ایک چھوٹے سے علاقہ میں حکومت کرنے کا جو تھوڑا سا موقع ملا، انھوں نے ٹھیک اس طرز کی حکومت قائم کی جسے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کہا گیا ہے۔ وہی فقیرانہ امارت۔ وہی مساوات، وہی شوریٰ۔ وہی عدل، وہی انصاف۔، وہی حدودِ شرعیہ۔ وہی مال کو حق کے ساتھ لینا اور حق کے مطابق صرف کرنا۔ وہی مظلوم کی حمایت اگرچہ ضعیف ہو اور ظالم کی مخالفت اگرچہ قوی ہو۔ وہی خدا سے ڈر کر حکومت کرنا اور اخلاقِ صالحہ کی بنیاد پر سیاست چلانا۔ غرض ہر پہلو میں انھوں نے اس حکم رانی کا نمونہ ایک مرتبہ پھر تازہ کر دیا جو صدیق ؓ و فاروق ؓ نے کی تھی۔
یہ لوگ بعض طبعی اسباب کی وجہ سے، جن کا ذکر آگے آتا ہے، ناکام ہوئے({ FR 6741 }) مگر خیالات میں جو حرکت وہ پیدا کر گئے تھے اس کے اثرات ایک صدی سے زیادہ مدت گزر جانے کے باوجود اب تک ہندوستان میں موجود ہیں۔
اسبابِ نکامی
اس آخری مجددانہ تحریک کی ناکامی کے اسباب پر بحث کرنا عموماً ان حضرات کے مذاق کے خلاف ہے جو بزرگوں کا ذکر عقیدت ہی کے ساتھ کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس لیے مجھے اندیشہ ہے کہ جو کچھ میں اس عنوان کے تحت عرض کروں گا وہ میرے بہت سے بھائیوں کے لیے تکلیف کا موجب ہو گا۔ لیکن اگر ہمارا مقصد اس تمام ذکر اذکار سے محض سابقین بالایمان کو خراجِ تحسین ہی پیش کرنا نہیں ہے، بلکہ آیندہ تجدید دین کے لیے ان کے کام سے سبق حاصل کرنا بھی ہے، تو ہمارے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ تاریخ پر تنقیدی نگاہ ڈالیں اور ان بزرگوں کے کارناموں کا سراغ لگانے کے ساتھ ان اسباب کا کھوج بھی لگائیں جن کی وجہ سے یہ اپنے مقصد کو پہنچنے میں ناکام ہوئے۔ شاہ ولی اللّٰہ صاحب اور ان کے صاحبزادوں نے علما حق اور صالحین کی جو عظیم القدر جماعت پیدا کی اور پھر سید صاحب اور شاہ شہیدؒ نے صلحا و اتقیا کا جو لشکر فراہم کیا، اس کے حالات پڑھ کر ہم دنگ رہ جاتے ہیں۔ ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قرنِ اوّل کے صحابہ و تابعین کی سیرتیں پڑھ رہے ہیں۔ اور یہ خیال کرکے ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ ہم سے اس قدر قریب زمانہ میں اس پایہ کے لوگ ہو گزرے ہیں۔ مگر ساتھ ہی ہمارے دل میں قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اتنی زبردست اصلاحی و انقلابی تحریک، جس کے لیڈر اور کارکن ایسے صالح و متقی اور ایسے سرگرم مجاہد لوگ تھے، انتہائی ممکن سعی و عمل کے باوجود ہندوستان پر اسلامی حکومت قائم کرنے میں کام یاب نہ ہوئی اور اس کے برعکس کئی ہزار میل سے آئے ہوئے انگریز یہاں خالص جاہلی حکومت قائم کرنے میں کام یاب ہو گئے، اس سوال کو عقیدت مندی کے جوش میں لاجواب چھوڑ دینے کے معنی یہ ہیں کہ لوگ صلاح و تقوٰی اور جہاد کو اس دُنیا کی اصلاح کے معاملہ میں ضعیف الاثر سمجھنے لگیں اور یہ خیال کرکے مایوس ہو جائیں کہ جب ایسے زبردست متقیانہ جہاد سے بھی کچھ نہ بنا تو آیندہ کیا بن سکے گا۔ میں اس قسم کے شبہات فی الحقیقت لوگوں کی زبان سے سن چکا ہوں، بلکہ حال میں جب مجھے علی گڑھ جانے کا اتفاق ہوا تو اسٹریچی ہال کے بھرے جلسے میں میرے سامنے یہی شبہ پیش کیا گیا تھا اور اسے رفع کرنے کے لیے مجھے ایک مختصر تقریر کرنی پڑی تھی۔ نیز مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس وقت علما صالحین کی جو جماعت ہمارے درمیان موجود ہے وہ بالعموم اس مسئلہ میں بالکل خالی الذہن ہے، حالانکہ اگر اس کی تحقیق کی جائے تو بہت سے ایسے سبق ہمیں مل سکتے ہیں جن سے استفادہ کرکے آیندہ زیادہ بہتر اور زیادہ صحیح کام ہو سکتا ہے۔
پہلا سبب
پہلی چیز جو مجھ کو حضرت مجدد الف ثانی کے وقت سے شاہ صاحب اور ان کے خلفا تک کے تجدیدی کام میں کھٹکی ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے تصوف کے بارے میں مسلمانوں کی بیماری کا پورا اندازہ نہیں لگایا اور نادانستہ انھیں پھر وہی غذا دے دی جس سے مکمل پرہیز کرانے کی ضرورت تھی۔ حاشا کہ مجھے فی نفسہٖ اس تصوف پر اعتراض نہیں ہے جو ان حضرات نے پیش کیا۔ وہ بجائے خود اپنی روح کے اعتبار سے اِسلام کا اصلی تصوف ہے اور اس کی نوعیت ’’احسان‘‘ سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ لیکن جس چیز کو میں لائق پرہیز کَہ رہا ہوں وہ متصوفانہ رموز و اشارات اور متصوفانہ زبان کا استعمال اور متصوفانہ طریقہ سے مشابہت رکھنے والے طریقوں کو جاری رکھنا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ حقیقی اسلامی تصوف اس خاص قالب کا محتاج نہیں ہے۔ اس کے لیے دوسرا قالب بھی ممکن ہے۔ اس کے لیے زبان بھی دوسری اختیار کی جا سکتی ہے۔ رموز و اشارات سے بھی اجتناب کیا جا سکتا ہے۔ پیری مریدی اور اس سلسلے کی تمام عملی شکلوں کو بھی چھوڑ کر دوسری شکلیں اختیار کی جا سکتی ہیں۔ پھر کیا ضرورت ہے کہ اسی پرانے قالب کو اختیار کرنے پر اصرار کیا جائے جس میں مدتہائے دراز سے جاہلی تصوف کی گرم بازاری ہو رہی ہے۔ اس کی کثرتِ اشاعت نے مسلمانوں کو جن سخت اعتقادی و اخلاقی بیماریوں میں مبتلا کیا ہے وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اب حال یہ ہو چکا ہے کہ ایک شخص خواہ کتنی ہی صحیح تعلیم دے، بہرحال یہ قالب استعمال کرتے ہی وہ تمام بیماریاں پھر عود کر آتی ہیں جو صدیوں کے رواجِ عام سے اس کے ساتھ وابستہ ہو گئی ہیں۔
پس جس طرح پانی جیسی حلال چیز بھی اس وقت ممنوع ہو جاتی ہے جب وہ مریض کے لیے نقصان دہ ہو، اسی طرح یہ قالب بھی مباح ہونے کے باوجود اس بنا پر قطعی چھوڑ دینے کے قابل ہو گیا ہے کہ اسی کے لباس میں مسلمانوں کو افیون کا چسکا لگایا گیا ہے اور اس کے قریب جاتے ہی ان مزمن مریضوں کو پھر وہی چنیا بیگم یاد آجاتی ہیں جو صدیوں انھیں تھپک تھپک کر سلاتی رہی ہیں۔ بیعت کا معاملہ پیش آنے کے بعد کچھ دیر نہیں لگتی کہ مریدوں میں وہ ذہنیت پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے جو مریدی کے ساتھ مختص ہو چکی ہے، یعنی ’’بمے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید‘‘ والی ذہنیت، جس کے بعد پیر صاحب میں اور اَرْبَابٌ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہ میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ فکر و نظر مفلوج، قوتِ تنقید مائوف، علم و عقل کا استعمال موقوف اور دل و دماغ پر بندگیِ شیخ کا ایسا مکمل تسلط کہ گویا شیخ ان کا رب ہے اور یہ اس کے مربوب۔ پھر جہاں کشف و الہام کی بات چیت شروع ہوئی، معتقدین کی ذہنی غلامی کے بند اور زیادہ مضبوط ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد صوفیانہ رموز و اشارات کی باری آتی ہے جس سے مریدوں کی قوت واہمہ کو گویا تازیانہ لگ جاتا ہے اور وہ انھیں لے کر ایسی اڑتی ہے کہ بے چارے ہر وقت عجائبات و طلسمات ہی کے عالم میں سیر کرتے رہتے ہیں، واقعات کی دُنیا میں ٹھہرنے کا موقع غریبوں کو کم ملتا ہے۔
مسلمانوں کے اس مرض سے نہ حضرت مجدد صاحب ناواقف تھے، نہ شاہ صاحب۔ دونوں کے کلام میں اس پر تنقید موجود ہے۔ مگر غالباً اس مرض کی شدت کا انھیں پورا اندازہ نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں بزرگوں نے ان بیماروں کو پھر وہی غذا دے دی جو اس مرض میں مہلک ثابت ہو چکی تھی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ دونوں کا حلقہ پھر اسی پرانے مرض سے متاثر ہوتا چلا گیا۔({ FR 6742 }) اگرچہ مولانا اسمٰعیل شہید رحمتہ اللّٰہ علیہ نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ کر ٹھیک وہی روش اختیار کی جو ابن تیمیہ کی تھی، لیکن شاہ ولی اللّٰہ صاحب کے لٹریچر میں تو یہ سامان موجود ہی تھا جس کا کچھ اثر شاہ اسمٰعیل شہید کی تحریروں میں بھی باقی رہا اور پیری مریدی کا سلسلہ بھی سیّد صاحب کی تحریک میں چل رہا تھا۔ اس لیے مرضِ صوفیت کے جراثیم سے یہ تحریک پاک نہ رہ سکی۔ حتّٰی کہ سیّد صاحب کی شہادت کے بعد ہی ایک گروہ ان کے حلقہ میں ایسا پیدا ہو گیا جو شیعوں کی طرح ان کی غیبوبت کا قائل ہوا اور اب تک ان کے ظہور ثانی کا منتظر ہے!
اب جس کسی کو تجدید دین کے لیے کوئی کام کرنا ہو اس کے لیے لازم ہے کہ متصوفین کی زبان و اصطلاحات سے، رموز و اشارات سے، لباس و اطوار سے، پیری مریدی سے اور ہر اس چیز سے جو اس طریقہ کی یاد تازہ کرنے والی ہو، مسلمانوں کو اس طرح پرہیز کرائے جیسے ذیابیطس کے مریض کو شکر سے پرہیز کرایا جاتا ہے۔
دوسرا سبب
دوسری چیز جو مجھے تنقیدی مطالعہ کے دوران میں محسوس ہوئی وہ یہ ہے کہ سید صاحب اور شاہ شہید نے جس علاقہ میں جا کر جہاد کیا اور جہاں اسلامی حکومت قائم کی، اس علاقہ کو اس انقلاب کے لیے پہلے اچھی طرح تیار نہیں کیا تھا، ان کا لشکر تو یقینا بہترین اخلاقی و روحانی تربیت پائے ہوئے لوگوں پر مشتمل تھا، مگر یہ لوگ ہندوستان کے مختلف گوشوں سے جمع ہوئے تھے اور شمال مغربی ہندوستان میں ان کی حیثیت مہاجرین کی سی تھی۔ اس علاقہ میں سیاسی انقلاب برپا کرنے کے لیے ضروری تھا کہ خود اس علاقہ ہی کی آبادی میں پہلے اخلاقی و ذ ہنی انقلاب برپا کر دیا جاتا، تاکہ مقامی لوگ اسلامی نظام حکومت کو سمجھنے اور اس کے انصار بننے کے قابل ہو جاتے۔ دونوں لیڈر غالباً اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ سرحد کے لوگ چوں کہ مسلمان ہیں اور غیر مسلم اقتدار کے ستائے ہوئے بھی ہیں، اس لیے وہ اسلامی حکومت کا خیر مقدم کریں گے۔ اسی وجہ سے انھوں نے جاتے ہی وہاں جہاد شروع کر دیا اور جتنا ملک قابو میں آیا اس پر اسلامی خلافت قائم کر دی۔ لیکن بالآخر تجربہ سے ثابت ہو گیا کہ نام کے مسلمانوں کو اصلی مسلمان سمجھنا اور ان سے وہ توقعات رکھنا جو اصلی مسلمانوں ہی سے پوری ہو سکتی ہیں، محض ایک دھوکا تھا۔ وہ خلافت کا بوجھ سہارنے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ جب ان پر یہ بوجھ رکھا گیا تو وہ خود بھی گرے اور اس پاکیزہ عمارت کو بھی لے گرے۔
تاریخ کا یہ سبق بھی ایسا ہے جسے آیندہ ہر تجدیدی تحریک میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ جس سیاسی انقلاب کی جڑیں اجتماعی ذہنیت، اخلاق اور تمدن میں گہری جمی ہوئی نہ ہوں وہ نقش بر آب کی طرح ہوتا ہے۔ کسی عارضی طاقت سے ایسا انقلاب واقع ہو بھی جائے تو قائم نہیں رہ سکتا اور جب مٹتا ہے تو اس طرح مٹتا ہے کہ اپنا کوئی اثر چھوڑ کر نہیں جاتا۔ ({ FR 6743 })
تیسرا سبب
اب یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ان بزرگوں کے مقابلہ میں کئی ہزار میل دور سے آئے ہوئے انگریزوں کو کس قسم کی فوقیت حاصل تھی جس کی وجہ سے وہ تو یہاں جاہلی حکومت قائم کرنے میں کام یاب ہو گئے اور یہ خود اپنے گھر میں اسلامی حکومت قائم نہ کر سکے؟ اس کا صحیح جواب آپ نہیں پا سکتے جب تک کہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی کے یورپ کی تاریخ آپ کے سامنے نہ ہو۔ شاہ صاحب اور ان کے خلفا نے اِسلام کی تجدید کے لیے جو کام کیا، اس کی طاقت کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھیے اور دوسرے پلڑے میں اس طاقت کو رکھیے جس کے ساتھ ان کی ہم عصر جاہلیّت اٹھی تھی، تب آپ کو پورا اندازہ ہو گا اس عالم اسباب میں جو قوانین کارفرما ہیں ان کے لحاظ سے دونوں طاقتوں میں کیا تناسب تھا۔ میں مبالغہ نہ کروں گا اگر یہ کہوں کہ ان دونوں قوتوں میں ایک تولے اور من کی نسبت تھی۔ اس لیے جو نتیجہ فی الحقیقت رونما ہوا اس کے سوا اور کچھ نہ ہو سکتا تھا۔
جس دور میں ہمارے ہاں شاہ ولی اللّٰہ صاحب، شاہ عبدالعزیز صاحب اور شاہ اسمٰعیل شہیدؒ پیدا ہوئے، اسی دور میں یورپ قرون وسطیٰ کی نیند سے بیدار ہو کر نئی طاقت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا تھا اور وہاں علم دفن کے محققین، مکتشفین اور موجدین اس کثرت سے پیدا ہوئے تھے کہ انھوں نے ایک دُنیا کی دُنیا بدل ڈالی۔ وہی دور تھا جس میں ہیوم، کانٹ، فشتے (Fishte) ہیگل، کو مت (Comte)، شلائر ماشر (Schlier Macher) اور مل جیسے فلاسفہ پیدا ہوئے جنھوں نے منطق و فلسفہ، اخلاقیات و نفسیات اور تمام علومِ عقلیہ میں انقلاب برپا کیا۔ وہی دور تھا جب طبیعیات میں گیلوینی (Galvani) اور وولٹا (Volta) علم الکیمیا میں لاوویزیر (La-Voisier) پریسٹلے (Priestley)، ڈیوی (Dayy) ہایوی اور برزیلیس، حیاتیات میں لینے (Linne) ہالر (Haller)، بیشات (Bichat) اور وولف (Wolff) جیسے محققین اٹھے جن کی تحقیقات نے صرف سائنس ہی کو ترقی نہیں دی بلکہ کائنات اور انسان کے متعلق بھی ایک نیا نظریہ پیدا کر دیا۔ اسی دور میں کوئسنیے (Quisney) ٹرگوٹ (Turgot) آدم سمتھ اور مالتھس کی دماغی کاوشوں سے سے معاشیات کا نیا علم مرتب ہوا۔ وہی دور تھا جب فرانس میں روسو، والٹیر، مونٹسیکو، ڈینس ڈائڈیرو (Denis Diderot) لامیٹری (La-Mattrie) کیباٹیس (Cabartis) بفون (Butfen) روبینہ (Robinea) انگلستان میں ٹامس پین (Thomas Poune) ولیم گوڈون (William Godwin) ڈیوڈ ہارٹلے، جوزف پریسٹلے، اراسمس ڈارون اور جرمنی میں گویتھے، ہرڈر، شیلر، ونکلمان (Wincklmann) لسنگ (Lessing) اور بیرن ڈی ہولباش (Baronde Holbach) جیسے لوگ پیدا ہوئے جنھوں نے اخلاقیات، ادب، قانون، مذہب، سیاسیات اور تمام علوم عمران پر زبردست اثر ڈالا اور انتہائی جرأت و بے باکی کے ساتھ دُنیائے قدیم پر تنقید کرکے نظریات و افکار کی ایک نئی دُنیا بنا ڈالی۔
پریس کے استعمال، اشاعت کی کثرت، اسالیب بیان کی ندرت اور مشکل اصطلاحی زبان کے بجائے عام فہم زبان کو ذریعہ اظہار خیال بنانے کی وجہ سے ان لوگوں کے خیالات نہایت وسیع پیمانے پر پھیلے۔ انھوں نے محدود افراد کو نہیں بلکہ قوموں کو بحیثیت مجموعی متاثر کیا۔ ذہنیتیں بدل دیں، اخلاق بدل دیے، نظامِ تعلیم بدل دیا، نظریۂ حیات اور مقصد ِ زِندگی بدل دیا اور تمدن و سیاست کا پورا نظام بدل دیا۔
اسی زمانہ میں انقلاب ِفرانس رونما ہوا جس سے ایک نئی تہذیب پیدا ہوئی۔ اسی زمانہ میں مشین کی ایجاد نے صنعتی انقلاب برپا کیا جس نے ایک نیا تمدن، نئی طاقت اور نئے مسائل زِندگی کے ساتھ پیدا کیا۔ اسی زمانہ میں انجینئرنگ کو غیر معمولی ترقی ہوئی جس سے یورپ کو وہ قوتیں حاصل ہوئیں کہ پہلے دُنیا کی کسی قوم کو حاصل نہ ہوئی تھیں۔ اسی زمانہ میں قدیم فن جنگ کی جگہ نیا فن جنگ نئے آلات اور نئی تدابیر کے ساتھ پیدا ہوا۔باقاعدہ ڈرل کے ذریعہ سے فوجوں کو منظم کرنے کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ جس کی وجہ سے میدانِ جنگ میں پلٹنیں مشین کی طرح حرکت کرنے لگیں اور پرانے طرز کی فوجوں کا ان کے مقابلہ میں ٹھیرنا مشکل ہوگیا۔ فوجوں کی ترتیب اور عسا کر کی تقسیم اور جنگی چالوں میں بھی پیہم تغیرات ہوئے اور ہر جنگ کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر اس فن کو برابر ترقی دی جاتی رہی ۔ آلاتِ حرب میں بھی مسلسل نئی ایجادیں ہوتی چلی گئیں ۔ رائفل ایجاد ہوئی۔ ہلکی اور سریع الحرکت میدانی توپیں بنائی گئیں ۔ قلعہ شکن تو پیں پہلے سے بہت زیادہ طاقت ورتیار کی گئیں اور کارتوس کی ایجاد نے نئی بندوقوں کے مقابلہ میں پرانی توڑے دار بندوقوں کو بے کار کر کے رکھ دیا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ یورپ میں ترکوں کو اور ہندوستان میں دیسی ریاستوں کو جدید طرز کی فوجوں کے مقابلہ میں مسلسل شکستیں اٹھانی پڑیں اور عالم اِسلام کے عین قلب پر حملہ کر کے نپولین نے مٹھی بھر فوج سے مصر پر قبضہ کر لیا۔
معاصر تاریخ کے اس سر سری خاکہ پر نظر ڈالنے سے بآسانی یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ ہمارے ہاںتو چند اشخاص ہی بیدار ہوئے تھے مگر وہاں قومیں کی قومیں جاگ اٹھی تھیں۔ یہاں صرف ایک جہت میں تھوڑا سا کام ہوا اور وہاں ہر جہت میں ہزاروں گنا زیادہ کام کر ڈالا گیا۔ بلکہ کوئی شعبہ زِندگی ایسا نہ تھا جس میں تیز رفتار پیش قدمی نہ کی گئی ہو۔ یہاں شاہ ولی اللّٰہ صاحب اور ان کی اولاد نے چند کتابیں خاص خاص علوم پر لکھیں جو ایک نہایت محدود حلقے تک پہنچ کر رہ گئیں اور وہاں لائبریریوں کی لائبریریاں ہر علم و فن پر تیار ہوئیں جو تمام دُنیا پر چھا گئیں اور آخر کار دماغوں اور ذہنیتوں پر قابض ہو گئیں۔ یہاں فلسفہ،اخلاقیات، اجتماعیات،سیاسیات اور معاشیات وغیرہ علوم پر طرحِ نو کی بات چیت محض ابتدائی اور سرسری حد تک ہی رہی جس پر آگے کچھ کام نہ ہوا اور وہاں اس دوران میں ان مسائل پر پورے پورے نظامِ فکر مرتب ہو گئے۔ جنھوں نے دُنیا کانقشہ بدل ڈالا ۔ یہاں علومِ طبیعیہ اور قوائے مادیہ کا علم وہی رہا جو پانچ سو سال پہلے تھا اور وہاں اس میدان میں اتنی ترقی ہوئی اور اس ترقی کی بدولت اہل مغرب کی طاقت اتنی بڑھ گئی کہ ان کے مقابلہ میں پرانے آلات و وسائل کے زور سے کا میاب ہونا قطعاً محال تھا۔
حیرت تو یہ ہے کہ شاہ ولی اللّٰہ صاحب کے زمانہ میں انگریز بنگال پر چھا گئے تھے اور الٰہ آباد تک ان کا اقتدار پہنچ چکا تھا، مگر انھوں نے اس نئی ابھرنے والی طاقت کا کوئی نوٹس نہ لیا، شاہ عبدالعزیز صاحب کے زمانہ میں دہلی کا بادشاہ انگریزوں کا پنشن خوار ہو چکا تھا اور قریب قریب سارے ہی ہندوستان پر انگریزوں کے پنجے جم چکے تھے مگر ان کے ذہن میں بھی یہ سوال پیدا نہ ہوا کہ آخر کیا چیز اس قوم کو اس طرح بڑھا رہی ہے اور اسی نئی طاقت کے پیچھے اسباب ِطاقت کیا ہیں۔ سید صاحب اور شاہ اسمٰعیل شہید جو عملاً اسلامی انقلاب بر پا کرنے کے لیے اٹھے تھے، انھوں نے سارے انتظامات کیے مگر اتنا نہ کیا کہ اہل نظر علما کا ایک وفد یورپ بھیجتے اور یہ تحقیق کراتے کہ یہ قوم جو طوفان کی طرح چھاتی چلی جا رہی ہے اور نئے آلات، نئے وسائل،نئے طریقوں اور نئے علوم و فنون سے کام لے رہی ہے، اس کی اتنی قوت اور اتنی ترقی کا کیا راز ہے۔ اس کے گھر میں کِس نوعیت کے ادارات قائم ہیں، اس کے علوم کس قسم کے ہیں۔ اس کے تمدن کی اساس کن چیزوں پر ہے۔ اور اس کے مقابلہ میں ہمارے پاس کس چیز کی کمی ہے۔ جس وقت یہ حضرت جہاد کے لیے اٹھے ہیں، اس وقت یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہ تھی کہ ہندوستان میں اصل طاقت سکھوں کی نہیں، انگریزوں کی ہے اور اسلامی انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی مخالفت اگر ہو سکتی ہے تو انگریز ہی کی ہو سکتی ہے ۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح ان بزرگوں کی نگاہِ دور رس سے معاملہ کا یہ پہلو بالکل ہی اوجھل رہ گیا کہ اِسلام و جاہلیّت کی کش مکش کا آخری فیصلہ کرنے کے لیے جس حریف سے نمٹنا تھا اس کے مقابلہ میں اپنی قوت کا اندازہ کرتے اور اپنی کم زوری کو سمجھ کر اسے دور کرنے کی فکر کرتے۔بہر حال جب ان سے یہ چوک ہوئی تو اس عالم اسباب میں ایسی چوک کے نتائج سے وہ نہ بچ سکتے تھے۔
خاتمہ
مغربی جاہلیّت کے مقابلہ میں اسلامی تجدید کی اس تحریک کو جو ناکامی ہوئی اس سے پہلا سبق تو ہمیں یہ ملتا ہے کہ تجدید دین کے لیے صرف علومِ دینیہ کا احیا اور اتباعِ شریعت کی روح کو تازہ کر دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ایک جامع اور ہمہ گیر اسلامی تحریک کی ضرورت ہے جو تمام علوم و افکار، تمام فنون و صنا عات اور تمام شعبہ ہائے زِندگی پر اپنا اثر پھیلادے اور تمام امکانی قوتوں سے اِسلام کی خدمت لے۔ اور دوسرا سبق جو اسی سے قریب الما ٔخذ ہے، یہ ہے کہ اب تجدید کا کام نئی اجتہادی قوت کا طالب ہے۔ محض وہ اجتہادی بصیرت جو شاہ ولی اللّٰہ صاحب ؒ یا ان سے پہلے کے مجتہدین و مجددین کے کارناموں میں پائی جاتی ہے، اس وقت کے کام سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے کافی نہیںہے۔ جاہلیّت جدیدہ بے شمار نئے وسائل کے ساتھ آئی ہے اور اس نے بے حساب نئے مسائل زِندگی پیدا کر دیے ہیں جن کاوہم تک شاہ صاحبؒ اور دوسرے قدما کے ذہن میں نہ گزرا تھا۔ صرف اللّٰہ جل جلالہ،کے علم اور اس کی بخشش سے رسول اللّٰہ ﷺ کی بصیرت ہی پر یہ حالات روشن تھے۔ لہٰذا کتاب اللّٰہ اور سنت رسول اللّٰہ ہی وہ تنہا ما ٔ خذ ہے جس سے اس دور میں تجدید ملت کا کام کرنے کے لیے راہ نُمائی حاصل کی جا سکتی ہے اور اس راہ نُمائی کو اخذ کر کے اس وقت کے حالات میں شاہراہِ عمل تعمیر کرنے کے لیے ایسی مستقل قوتِ اجتہادیہ درکارہے جو مجتہدین سلف میں سے کسی ایک کے علوم اور منہاج کی پابند نہ ہو، اگر چہ استفادہ ہر ایک سے کرے اور پر ہیز کسی سے بھی نہ کرے۔
٭…٭…٭…٭…٭
ضمیمہ
جیسا کہ دیباچہ طبع پنجم میں عرض کیا جا چکا ہے، اس کتاب کے ساتھ یہ ضمیمہ اس غرض کے لیے لگایا جا رہا ہے کہ ناظرین کو ان شبہات و اعتراضات کا جواب بر وقت اور یک جا مل جائے جو اس کتاب کے موضوع سے متعلق میری تصر یحات پر وقتاً وقتاً پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ ذیل میں وہ سوالات جو مختلف اوقات میں مختلف اصحاب کی طرف سے میرے پاس آئے ہیں مع جواب درج کیے جا رہے ہیں۔ امید ہے کہ ان کا مطالعہ بڑی حد تک ان دوسرے حضرات کے لیے بھی تشفی بخش ثابت ہوگا جن کے ذہن میں اسی طرح کے اعتراضات و شبہات موجود ہوں۔
٭…٭…٭…٭…٭
منصب تجدید اور امام مہدی کے متعلق چند تصریحات
سوال : ’’کتاب ’’تجدید واحیائے دین ‘‘ جس قدر بلند پایہ ہے اس کا اندازہ تو ’’ کارِ تجدید کی نوعیت‘‘ کے عنوان سے تحریر شدہ مضمون اور مختلف مجددین امت کے کارناموں کی تفصیل سے ایک صاحب بصیرت بخوبی کر سکتا ہے۔ تاہم چند پہلو تشریح کے محتاج ہیں اور وہ درج ذیل ہیں:
(۱) امام غزالی ؒکے تذکرے کے آخر میں تین کم زوریاں جو آپ نے بیان کی ہیں،یعنی (الف)علم حدیث میں امام کا کم زور ہونا۔ (ب) عقلیات کا غلبہ اور (ج) تصوف کی طرف ضرورت سے زیادہ مائل ہونا، کیا ان کا ثبوت امام کی مشہور کتب احیاء العلوم اور کیمیائے سعادت سے ملتا ہے ؟ اور کیا وہ تصوف جس کا بیان انھوں نے ان کتابوں میں کیا ہے ایک مستحسن چیز نہیں ہے؟ نیز کیا مجددِ وقت کو تمام ہم عصروں کے مقابلہ میں علم صحیح زیادہ نہیں دیا جاتا؟ اگر نہیں تو زمانے بھر میں اسے ایک امتیاز خاص کیوں حاصل ہوتا ہے؟
(۲) مجدد الف ثانی ؒ اور شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒ کے متعلق آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ پہلی چیز جو مجھ کو حضرت مجد د الف ثانی کے وقت سے شاہ ولی اللّٰہ صاحب اور ان کے خلفا تک کے تجدید ی کام میں کھٹکی ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے تصوف کے بارے میں مسلمانوں کی بیماری کا پورا اندازہ نہیں لگایا اور انھیں پھر وہی غذا دے دی جس سے مکمل پر ہیز کرانے کی ضرورت تھی۔ اس کے متعلق بھی یہ باور کرنا مشکل ہے کہ حضرت مجدد اور شاہ صاحب اتنے ناقص البصیرت تھے کہ تصوف کی بیماری کا پورا اندازہ نہ لگا سکے۔ یہ حضرات علومِ ظاہری کے ساتھ علومِ باطنی (بطریق کشف والہام ) سے بھی بہرۂ وافر رکھتے تھے۔ پھر ان حضرات نے مجدد ہونے کا دعوٰی بھی کیا ہے جس کا ذکر مولانا آزاد نے اپنے تذکرے میں کیا ہے۔ خود حضرت مجد د نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ دورِ نبوت سے ہزار سال بعد جو مجدد آیا ہے وہ آپ کی ذات گرامی ہے۔ ان باتوں کے پیش نظر قدرتی طور پر حسب ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں:
(الف )کیا ان دونوں حضرات کا اعلان مجددیت حکم خداوندی کے تحت نہ تھا، نیز کشف والہامات جن کا ذکر ان کی تصانیف میں ملتا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟ آخر وہ مجدد امر شرعی سے ہوئے یا امر تکوینی سے!
(ب) کیا لوگوں کا یہ خیال صحیح ہے کہ مجدد لازماً انپے دور کاوہ ممتاز انسان ہوتا ہے جو شریعت کے علوم کا مع اسرارِ دین،سب سے بڑا عالم ہواور اقرب الی اللّٰہ ہو؟ اگر ایسا نہیں ہے تو دوسروں کو چھوڑکر اس کا رِاہم کے لیے اسے کیوں مامور کیا جاتا ہے؟
(ج)مبشرات کی حقیقت کیا ہے؟
(د) کیا یہ حدیث صحیح نہیں کہ صدی کے سرے پر ایک مجدد آئے گا۔ اور کیا اسے مجددیّت کا شعور ہونا ضروری نہیں؟
(۳) الامام المہدی کے متعلق آپ نے تحریر فر مایا ہے کہ وہ عام علما کے بیان سے بہت مختلف ہوں گے،حالانکہ علما سے یہ سنا ہے کہ امام کا نام اور نسب تک علاوہ دیگر علامات کے احادیث میں مذکور ہے۔ وہ خاص ماحول میں اور خاص علامات کے ساتھ نمودار ہوں گے،لوگ انھیں پہچان لیں گے اور زبردستی بیعت کر کے حاکم بنائیں گے اور اسی دوران میں آسمان سے آواز آئے گی کہ ’’یہ اللّٰہ تعالیٰ کے خلیفہ الامام المہدی ہیں۔ لیکن آپ فرماتے ہیں کہ نبی کے سِوا کسی کا یہ منصب ہی نہیں ہے کہ دعوے سے کام کا آغاز کرے اور نہ نبی کے سِوا کسی کو یقینی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس خدمت پر مامورہؤا ہے۔ مہدویت دعوے کرنے کی چیز نہیں،کر کے دکھا جانے کی چیز ہے۔ اس قسم کے دعوے جو لوگ کرتے ہیں اور جوان پر ایمان لاتے ہیں میرے نزدیک دونوں اپنے علم کی کمی اور اپنے ذہن کی پستی کا ثبوت دیتے ہیں۔‘‘
میرا سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالاعلامات و کوائف جو اکثر اہل علم (مثلاًمولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب بہشتی زیور ملاحظہ ہو) نے بیان کیے ہیں کیا احادیث صحیحہ پر مبنی نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو آپ کے بیان کی پشت پر کون سے دلائل موجود ہیں؟
جواب : آپ کے سوالات کا جواب دینے کے بجائے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ چندامور کی توضیح کردوں جنھیں سمجھ لینے سے آپ کی بہت سی الجھنیں خود بخود صاف ہو جائیںگی۔
اولؔیہ کہ ہمارے پاس کوئی ذریعہ ایسا نہیں جس سے ہم یقین کے ساتھ یہ کَہ سکیں کہ فلاں شخص مجدد تھا اور فلاں شخص نہ تھا۔ یہ تو ایک شخص کے کام کو دیکھ کر بعد کے لوگ،یا خود اس کے ہم عصر لوگ یہ رائے قائم کرتے رہے ہیں کہ وہ مجدد تھا یا نہ تھا۔اس میں اختلافات بھی بہت کچھ ہوئے ہیں ۔پچھلے زمانے کے متعدد لوگوں کے متعلق بہت سے اہل علم کی یہ رائے ہے کہ وہ مجد د تھے مگر بعض نے انھیں مجدد نہیں مانا ہے۔ کوئی خاص علامت کسی کے ساتھ بھی لگی ہوئی نہیں ہے جس سے اس کے مرتبے کا تعین ہو سکے۔
دومؔیہ کہ تجدید کسی دینی منصب کا نام نہیں ہے جس پر کوئی شخص اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے بامر شرعی مامور ہوتا ہو اور اسے مجدد ماننے یا نہ ماننے سے کسی شخص کے عقیدۂ دینی پر کوئی اچھا یا برا اثر پڑتا ہو۔ یہ تو ایک لقب ہے جو کسی آدمی کو اس کے کارنامے کے لحاظ سے دیا جاتا ہے۔ ہمارے علم میں جس شخص نے بھی دین کو ازسر نو تازہ کرنے کی کوئی خدمت انجام دی ہو، ہم اسے مجدد کَہ سکتے ہیں۔ اور دوسرے شخص کی رائے میں اگر اس کا کارنامہ اس مرتبے کا نہ ہو تو وہ اسے اس لقب کا مستحق ٹھہرانے سے انکار کر سکتا ہے۔ نادان لوگوں نے اس معاملے کو خواہ مخواہ اہم بنا دیاہے۔ نبیؐ نے جو خبر دی تھی وہ صرف یہ تھی کہ اللّٰہ تعالیٰ اس دین کو مٹنے نہیں دے گا کہ بلکہ ہر صدی کے سرے پر ایسے شخص یا اشخاص کو اٹھاتا رہے گا جو اس کے دھندلے ہوتے ہوئے آثار کو پھر سے تازہ کردے گا یا کردیں گے۔ حدیث میں مَنْ کا لفظ عربیت کے لحاظ سے اس بات کا متقاضی نہیں ہے کہ ضرور وہ کوئی ایک ہی شخص ہو۔ اس کا اطلاق متعدد اشخاص پر بھی ہو سکتا ہے۔ اور حدیث میں کوئی لفظ ایسا بھی نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکے کہ مجد د کو اپنے مجدد نہ ہونے کا شعور بھی ہونا چاہیے یا یہ کہ لوگوں کے لیے مجدد کا پہچاننا بھی ضروری ہے۔
سومؔ،کسی شخص کے مجدد ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ ہر لحاظ سے مردِ کامل ہے اور اس کا کام نقائص سے پاک ہے۔ اسے مجدد قرار دینے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ اس کا مجموعی کا رنامہ تجدیدی خدمت کی شہادت دیتا ہو۔ لیکن ہم سخت غلطی کریں گے اگر کسی کو مجدد قرار دینے کے بعد اسے بے خطا سمجھ لیں اور اس کی ہر بات پر ایمان لے آئیں۔ نبی کی طرح مجدد معصوم نہیں ہوتا۔
چہارمؔ، مجددین امت کے کام پر میں نے جو تبصرہ کیا ہے وہ بہر حال میری اپنی رائے ہے۔ ہر شخص کو اختیار ہے کہ میری جس رائے سے چاہے اختلاف کرے۔ میں نے جن دلائل کی بنا پر کوئی رائے قائم کی ہے ان پر آپ کا اطمینان ہو تو اچھا ہے۔ نہ اطمینان ہو تو مضائقہ نہیں۔ البتہ میں یہ ضرور چاہوں گا کہ آپ کسی رائے کو ردّ یا قبول کرنے کا انحصار دلیل اور تحقیق پر رکھیں،اکابر پرستی کے جذبے سے متاثر نہ ہوں ۔
پنجم، پچھلے زمانے کے بعض بزرگوں نے بلاشبہ اپنے متعلق کشف و الہام کے طریقے سے یہ خبر دی ہے کہ وہ اپنے دور کے مجدد ہیں،لیکن انھوں نے اس معنی میں کوئی دعوٰی نہیں کیا کہ انھیں مجدد تسلیم کرنا لوگوں کے لیے ضروری ہے اور جوان کو نہ مانے وہ گم راہ ہے۔ دعوٰی کر کے اسے ماننے کی دعوت دینا اور اسے منوانے کی کوشش کرنا سرے سے کسی مجدد کا منصب ہی نہیں ہے۔ جو شخص یہ حرکت کرتا ہے وہ خود اپنے اس فعل ہی سے یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ فی الحقیقت مجدد نہیں ہے۔
ششم،کشف والہام وحی کی طرح کوئی یقینی چیز نہیں ہے۔ اس میں وہ کیفیت نہیں ہوتی کہ صاحب کشف کو آفتابِ روشن کی طرح یہ معلوم ہو کہ یہ کشف یا یہ الہام خدا کی طرف سے ہو رہا ہے۔ اس میں غلط فہمیوں کا کم و بیش امکان ہوتا ہے۔ اسی لیے اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ کشف والہام کے ذریعے سے کوئی حکم شرعی ثابت نہیں ہوتا، نہ اس ذریعہ علم سے حاصل کی ہوئی کوئی چیز حجت ہے،نہ خود صاحب کشف کے لیے یہ جائز ہے کہ کتاب اللّٰہ اور سنت رسولؐ اللّٰہ پر پیش کیے بغیر کسی کشفی والہامی چیز کی پیروی کرے۔
ہفتم،امام مہدی کے بارے میں جو کچھ میں نے لکھا ہے اس کی مزید تو ضیح اپنی کتاب’’رسائل و مسائل‘‘ میں کر چکا ہوں۔ براہ کرم ان سب تو ضیحات کو ملا حظہ فرمالیں۔ ان سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ان روایات کے بارے میں میری تحقیق کیا ہے جن کی بنا پر علما نے اتنی تفصیلات مرتب کر دی ہیں۔ میں ان تمام علما کا دل سے احترام کرتا ہوں مگر کسی عالم کی ہر بات کو مان لینے کی عادت مجھے کبھی نہیں رہی۔
(ترجمان القرآن،جنوری،فروری ۱۹۵۱ء)
٭…٭…٭…٭…٭
کشف و الہام کی حقیقت اور چند مجدد ین کے دعاوی
سوال: ’’آپ نے اپنے رسالہ ترجمان القرآن بابت ماہ جنوری،فروری ۱۹۵۱ء میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ:
’’پچھلے زمانہ کے بعض بزرگوں نے بلاشبہ اپنے متعلق کشف و الہام کے طریقہ سے خبر دی ہے کہ وہ اپنے زمانہ کے مجددہیں لیکن انھوں نے اس معنیٰ میں کوئی دعوٰی نہیں کیا کہ انھیں مجدد تسلیم کرنا لوگوں کے لیے ضروری ہے اور جوان کو نہ مانے گم راہ ہے۔ آپ کا یہ قول درست معلوم نہیں ہوتا ۔ کیوں کہ حضرت شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒ دہلوی نے بڑے دھڑلے سے یہ دعوٰی فرمایا ہے کہ مجھے اللّٰہ تعالیٰ نے مطلع فرمایا ہے کہ تو اس زمانہ کا امام ہے۔ چاہیے کہ لوگ تیری پیروی کو ذریعہ نجات سمجھیں ۔ مثال کے طور پر ملا حظہ ہو تفہیماتِ الہٰیہ جلددوم صفحہ ۱۲۵۔ کیا جناب شاہ صاحبؒ کا یہ دعویٰ درست تھا یا نہیں ؟ اگر ان کا دعوٰی درست تھا تو پھر آپ کا یہ قول درست نہیں جو آپ نے عبارت مذکورہ بالا کے آگے تحریر فرمایا ہے:
’’دعوٰی کر کے اس کے ماننے کی دعوت دینا اور اسے منوانے کی کوشش کرنا سرے سے کسی مجدد کا منصب ہی نہیں؟‘‘
پھر جناب نے مذکورہ بالا عبارت کے آگے لکھا ہے کہ: ’’جو شخص یہ حرکت کرتا ہے وہ خود اپنے فعل ہی سے یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ فی الحقیقت مجدد نہیں ہے۔‘‘
آپ کے ان ارشاداتِ عالیہ کی بنیاد قرآن کریم ہے،یا احادیث نبویہ،یا جناب نے اپنے اجتہاد کی بنا پر یہ فتوٰی دیا ہے؟ رسالہ مذکور کے اسی صفحہ پر فقرہ نمبر ۶کے ماتحت آپ نے لکھا ہے کہ: ’’کشف والہام وحی کی طرح کوئی یقینی چیز نہیں۔ اس میں وہ کیفیت نہیں ہوتی کہ صاحب کشف والہام کو آفتابِ روشن کی طرح یہ معلوم ہو کہ یہ کشف والہام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو رہا ہے۔‘‘ جناب کا یہ ارشاد بھی اپنے ذاتی تجربہ کی بنا پر ہے یا آپ کا اجتہاد ہے؟ یا قرآن مجید اور احادیث کے ارشاداتِ عالیہ کی بنا پر ہے؟
اگر امت محمدیہ کے کاملین کے الہام وکشوف کی یہ حقیقت ہے تو پھر ان کے خیر امت ہونے کی حالت معلوم شد۔ حالانکہ پہلی امتوں میں عورتیں تک وحی یقینی سے مشرف ہوتی رہی ہیں۔ اور خدا کے ایسے بندے بھی ہوتے رہے کہ جن کے کشف والہام کا یہ عالم تھا کہ ایک اولوالعزم نبی ؑکوبھی سوال کر کے ندامت اٹھانی پڑی۔ مگر سبحان اللّٰہ امت محمدیہ کے کاملین کے کشوف والہامات عجیب قسم کے تھے کہ انھیں خود یقین نہ تھا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں یا نہیں۔ پھر اللّٰہ تعالیٰ کوان کو اس قسم کے الہام و کشوف دکھانے کی ضرورت کیا پڑ گئی، جن سے نہ کوئی دینی فائدہ متصور تھا اور نہ ہی صاحب ِ کشف و الہام کے لیے وہ موجب ازدیا د ایمان تھے، بلکہ الٹا موجب تردد ہونے کے باعث ایک قسم کی مصیبت ہی تھے۔
جواب: آپ کی غلطی یہ ہے کہ آپ نے وحی والہام کے مختلف مفہومات کو گڈمڈ کر دیا ہے۔ ایک قسم کی وحی وہ ہے جسے وحی جبلی یا طبیعی کہا جا سکتا ہے، جس کے ذریعہ سے اللّٰہ ہر مخلوق کو اس کے کرنے کا کام سکھاتا ہے۔ یہ وحی انسانوں سے بڑھ کرجانوروں اور شایدان سے بھی بڑھ کر نباتات و جمادات پر ہوتی ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جسے وحی جزئی کہا جا سکتا ہے،جس کے ذریعے سے کسی خاص موقع پر اللّٰہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو امورِ زِندگی میں سے کسی امر کے متعلق کوئی علم،یا کوئی ہدایت، یا کوئی تدبیر سجھا دیتا ہے۔ یہ وحی آئے دن عام انسانوں پر ہوتی رہتی ہے۔ دُنیا میں بڑی بڑی ایجادیں اس وحی کی بدولت ہوئی ہیں۔ بڑے بڑے اہم علمی انکشافات اسی وحی کے ذریعے سے ہوئے ہیں۔بڑے بڑے اہم تاریخی واقعات میں اسی وحی کی کارفرمائی نظر آتی ہے جب کہ کسی شخص کو کسی اہم موقع پر کوئی خاص تدبیر بلا غور وفکر اچانک سوجھ گئی اور اس نے تاریخ کی رفتار پر ایک فیصلہ کن اثر ڈالا دیا۔ ایسی ہی وحی حضرت مو سیٰ ؑکی والدہ پر بھی ہوئی تھی۔ ان دونوں قسم کی وحیوں سے بالکل مختلف نوعیت کی وحی وہ ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو حقائق غیبیہ پر مطلع فرماتا ہے۔ اور اسے نظامِ زِندگی کے متعلق ہدایت بخشتا ہے تا کہ وہ اس علم اور اس ہدایت کو عام انسانوں تک پہنچائے اور انھیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائے۔ یہ وحی انبیا کے لیے خاص ہے۔ قرآن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس نوعیت کا علم،خواہ اس کا نام القا رکھیے، کشف رکھیے،الہام رکھیے یا اصطلاحا ً اسے وحی سے تعبیر کیجیے، انبیا ورسل کے سوا کسی کو نہیں دیا جاتا۔ اور یہ علم صرف انبیا ہی کو اس طور پر دیا جاتا ہے کہ اس کے من جانب اللّٰہ ہونے،اور شیطان کی دراندازی سے بالکل محفوظ ہونے اور خود اپنے ذاتی خیالات، تصورات اور خواہشات کی آلائشوں سے بھی پاک ہونے کا پورا یقین ہوتا ہے۔ نیز یہی علم حجت ِ شرعی ہے، اس کی پابندی ہر انسان پر فرض ہے۔ اور اسے دوسرے انسانوں تک پہنچانے اور اس پر ایمان کی دعوت سب بندگان خدا کو دینے پر انبیا علیہم السلام مامور ہوتے رہے ہیں۔
انبیا کے سوا دوسرے انسانوں کو اگر اس تیسری قسم کے علم کا کوئی جزو، نصیب بھی ہوتا ہے، تو وہ ایسے دھندلے اشارے کی حدتک ہوتا ہے جسے ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے وحی نبوت کی روشنی سے مدد لینا (یعنی کتاب و سنت پر پیش کر کے اس کی صحت و عدم صحت کو جا نچنا اور بصورتِ صحت اس کا منشا متعین کرنا) ضروری ہے۔ اس کے بغیر جو شخص اپنے الہام کو ایک مستقل با لذات ذریعہ ہدایت سمجھے اور وحی نبوت کی کسوٹی پر اس معاملے کو پر کھے بغیر اس پر عمل کرے اور دوسروں کو اس کی پیروی کی دعوت دے اس کی حیثیت ایک جعلی سکہ ساز کی سی ہوتی ہے جو شاہی ٹکسال کے مقابلہ میں اپنی ٹکسال چلاتا ہے۔ اس کی یہ حرکت خودہی ثابت کرتی ہے کہ فی الحقیقت خدا کی طرف سے اسے الہام نہیں ہوتا ۔
یہ جو کچھ میں عرض کر رہا ہوں،قرآن میں اسے متعدد مقامات پر صاف صاف بیان کیا گیا ہے۔ خصوصاً سورئہ جن کی آخری آیت میں تو اسے با لکل ہی کھول کر فرما دیا گیاہے:
عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْہِرُ عَلٰي غَيْبِہٖٓ اَحَدًاo اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًاo لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْہِمْ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًاo الجن26-28:72
آپ اگر اسبات کو سمجھنے کی کوشش فرمائیں تو آپ کو خود معلوم ہو جائیگا کہ امت کے صالح و مصلح آدمیوں کو نبی کا ساکشف والہام نہ دینے اور اس سے کم تر ایک طرح کا تا بعانہ کشف والہام دینے میں کیا مصلحت ہے۔ پہلی چیز عطا نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہی چیز نبی اور امتی کے درمیان بنائے فرق ہے، اسے دور کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اور دوسری چیز دینے کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ بنی کے بعد اس کے کام کو جاری رکھنے کی کوشش کریں وہ اس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ دین میں انھیں حکیمانہ بصیرت اور اقامت دین کی سعی میں انھیں صحیح راہ نُمائی اللّٰہ کی طرف سے حاصل ہو۔ یہ چیز غیر شعوری طور پر تو ہر مخلص اور صحیح الفکر خادمِ دین کو بخشی جاتی ہے، لیکن اگر کسی کو شعوری طور پر بھی دے دی جائے تو یہ اللّٰہ کا انعام ہے۔ دوسری بنیادی غلطی جو آپ نے کی ہے، یہ ہے کہ آپ مقامِ نبی اور مقامِ غیر نبی کے اصولی فرق کو سرے سے سمجھے ہی نہیں ہیں۔ قرآن کی رو سے یہ حیثیت صرف ایک نبی ہی کو حاصل ہوتی ہے کہ وہ امرِ تشریعی سے مامور من اللّٰہ ہوتا ہے اور خلق کو یہ دعوت دینے کا مجاز ہوتا ہے کہ وہ اس پر ایمان لائیں اور اس کی اطاعت قبول کریں، حتّٰی کہ جو اس پر ایمان نہ لائے وہ خدا کو ماننے کے باوجود کافر ہوتا ہے۔ یہ حیثیت نبی کے سِوا کسی کو بھی نظامِ دین میں حاصل نہیں ہے۔ اگر کوئی اس حیثیت کا مدعی ہو تو ثبوت اسے پیش کرنا چاہیے، نہ یہ کہ ہم اس کے دعوے کی نفی کا ثبوت پیش کریں۔ وہ بتائے کہ قرآن و حدیث میں کہاں نبی کے سوا کسی کا یہ منصب مقرر کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اس منصب پر مامور کیے جانے کا دعوٰی کرے اور اپنے اس دعوے کو ماننے کی لوگوں کو دعوت دے اور جو اس کا دعوٰی تسلیم نہ کرے وہ مجرد اس بنا پر کافر اور جہنمی ہو کہ اس نے مدعی کے اس دعوے کو تسلیم نہیں کیا۔
اس کے جواب میں اگر کوئی شخص حدیث من یجدد لھا دینھا کا حوالہ دے یا ان احادیث کو پیش کرے جو مہدی کی آمد کے متعلق ہیں، تو میں عرض کروں گا کہ ان میں کہیں بھی مجدد یا مہدی کے منصب کی وہ حیثیت نہیں بیان کی گئی ہے،جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے۔ آخر ان میں کہاں یہ لکھا ہے کہ یہ لوگ اپنے مجدد اور مہدی ہونے کے دعوے کریں گے اور جو ان کے دعوے کو مانے گا وہی مسلمان رہے گا، باقی سب کا فر ہو جائیں گے؟
نیز اس کے جواب میں یہ بحث چھیڑنا بھی خلط مبحث ہے کہ جو شخص تجدید و احیائے دین اور اقامت دین کا برحق کام کر رہا ہو اس کا ساتھ نہ دینا یا اس کی مخالفت کرنا کسی طرح موجب نجات نہیں ہو سکتا ۔اس میں شک نہیں ہے کہ اس طرح کاکام جب بھی ہوتا ہے وہ فارق بین الحق والباطل ہو جاتا ہے اور آدمی کے حق پرست ہونے کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ وہ ایسے کام کا ساتھ دے۔ لیکن اس فرق و امتیاز کی بنیاد دراصل یہ ہوتی ہے کہ دین کی تجدید و اقامت میں سعی کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے،نہ یہ کہ کسی مدعی کے دعوٰی کو ماننا اس کے ایمان کا تقاضا ہو اور مجرد اس بنا پر وہ نجات سے محروم ہو جائے کہ اس نے ایک شخص کے دعوائے مجددیت یا مہدویت کو نہیں مانا ۔
اب شاہ ولی اللّٰہ صاحب اور مجدد سر ہندی رحمہما اللّٰہ کے دعووں کو لیجیے ۔ میں اس لحاظ سے بہت بدنام ہوں کہ اکابر سلف کو معصوم نہیں ما نتا اور ان کے صحیح کو صحیح کہنے کے ساتھ ان کے غلط کو غلط بھی کَہ گزرتا ہوں۔ ڈرتا ہوں کہ اس معاملہ میں بھی کچھ صاف صاف کہوں گا تو میری فردِ قرار دادِ جرم میں ایک جریمہ کا اور اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن آدمی کو دُنیا کے خوف سے بڑھ کر خدا کا خوف ہونا چاہیے۔ اس لیے خواہ کوئی کچھ کہا کرے، میں تو یہ کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ ان دونوں بزرگوں کا اپنے مجدد ہونے کی خود تصریح کرنا اور بار بار کشف والہام کے حوالہ سے اپنی باتوں کو پیش کرنا ان کے چند غلط کاموں میں سے ایک ہے اور ان کی یہی غلطیاں ہیں جنھوں نے بعد کے بہت سے کم ظرفوں کو طرح طرح کے دعوے کرنے اور امت میں نت نئے فتنے اٹھانے کی جرأت دلائی۔ کوئی شخص اگر تجدید دین کے لیے کسی قسم کی خدمت انجام دینے کی توفیق پاتا ہو تو اسے چاہیے کہ خدمت انجام دے اور یہ فیصلہ اللّٰہ پر چھوڑے کہ اس کا کیا مقام اس کے ہاں قرار پاتا ہے۔ آدمی کا اصل مقام وہ ہے جو آخرت میں اس کی نیت و عمل کو دیکھ کر اور اپنے فضل سے اسے قبول کر کے اللّٰہ تعالیٰ اسے دے،نہ کہ وہ جس کا وہ خود دعوٰی کرے یا لوگ اسے دیں۔ اپنے لیے خود القاب و خطابات تجویز کرنا اور دعووں کے ساتھ انھیں بیان کرنا اور اپنے مقامات کا ذکر زبان پر لانا کوئی اچھا کام نہیں ہے۔ بعد کے ادوار میں تو صوفیا نہ ذوق نے اسے اتنا گواراکیا کہ خوشگوار بنا دیا،حتّٰی کہ بڑے بڑے لوگوں کو بھی اس فعل میں کوئی قباحت محسوس نہ ہوئی مگر صحابہ کرام اور تابعین وتبع تابعین وائمہ مجتہدین کے دور میں یہ چیز با لکل نا پید نظر آتی ہے۔ میں شاہ صاحب اور مجدد صاحب کے کام کی بے حد قدر کرتا ہوں اور میرے دل میں ان کی عزت ان کے کسی معتقد سے کم نہیں ہے ۔ مگر ان کے جن کا موں پر مجھے کبھی شرحِ صدر حاصل نہیں ہوا ان میں سے ایک یہ ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ میں نے ان کی کسی بات کو بھی اس بنا پر کبھی نہیں مانا کہ وہ اسے کشف یا الہام کی بنا پر فرمارہے ہیں،بلکہ جو بات بھی مانی ہے اس وجہ سے مانی ہے کہ اس کی دلیل مضبوط ہے، یا بات بجائے خود معقول و منقول کے لحاظ سے درست معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح میں نے جوان کو مجدد مانا ہے تو یہ ایک رائے ہے جو ان کاکام دیکھ کر میں نے خود قائم کی ہے،نہ کہ ایک عقیدہ ہے جو ان کے دعوئوں کی بنا پر اختیار کر لیا گیا ہے۔
تصوف اور تصور شیخ
سوال: ’’میں نے پورے اخلاص و دیانت کے ساتھ آپ کی دعوت کا مطالعہ کیا ہے۔ باوجود سلفی المشرب ہونے کے آپ کی تحریک اسلامی کا اپنے آپ کو ادنیٰ خادم اور ہم درد تصور کرتا ہوں اور اپنی بساط بھر اسے پھیلانے کی جدوجہد کرتا ہوں۔ حال میں چند چیزیں تصوف اور تصور شیخ سے متعلق نظر سے گزریں جنھیں پڑھ کر میرے دل و دماغ میں چند شکوک پیدا ہوئے ہیں۔ آپ عجمی بدعات کو مباح قرار دے رہے ہیں، حالانکہ اب تک کا سارا لٹریچر ان کے خلاف زبردست احتجاج رہا ہے جب کہ ہماری دعوت کا محور ہی فریضہ اقامت دین ہے تو اگر ہم نے خدانخواستہ کسی بدعت کو انگیز کیا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ساری بدعات کو تحریک میں گھس آنے کا موقع دے دیا گیا۔ آپ براہ کرم میری ان معروضات پر غور کرکے بتائیے کہ کتاب و سنت کی روشنی میں تصوف اور تصور شیخ کے متعلق آپ کے کیا خیالات ہیں اورفی نفسہٖ یہ مسلک کیا ہے۔ امید ہے کہ ’’ترجمان‘‘ میںپوری وضاحت کرکے ممنون فرمائیں گے۔
جواب: آپ کو میرے کسی ایک فقرے سے جو شبہات لاحق ہو گئے ہیں وہ کبھی پیدا نہ ہوتے اگر اس مسئلے کے متعلق میرے دوسرے واضح بیانات آپ کی نگاہ میں ہوتے۔ بہرحال اب میں واضح الفاظ میں آپ کے سوالات کا مختصر جواب عرض کیے دیتا ہوں۔
(۱) تصوف کسی ایک چیز کا نام نہیں ہے، بلکہ بہت سی مختلف چیزیں اس نام سے موسوم ہو گئی ہیں۔ جس تصوف کی ہم تصدیق کرتے ہیں وہ اور چیز ہے، جس تصوف کی ہم تردید کرتے ہیں وہ ایک دوسری چیز ہے اور جس تصوف کی ہم اصلاح چاہتے ہیں وہ ایک تیسری چیز ہے۔
ایک تصوف وہ ہے جو اِسلام کے ابتدائی دور کے صوفیہ میں پایا جاتا تھا۔ مثلاً فضیل بن عیاض، ابراہیم ادھم، معروف کرخی وغیرہم رحمہم اللّٰہ اس کا کوئی الگ فلسفہ نہ تھا، اس کا کوئی الگ طریقہ نہ تھا، وہی افکار اور وہی اشغال و اعمال تھے جو کتاب و سنت سے ماخوذ تھے اور ان سب کا وہی مقصود تھا جو اِسلام کا مقصود ہے، یعنی اخلاص للہ اور توجہ الی اللّٰہ، وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ البینہ98:5
اس تصوف کی ہم تصدیق کرتے ہیں اور صرف تصدیق ہی نہیں کرتے بلکہ اسے زندہ اور شائع کرنا چاہتے ہیں۔
دوسرا تصوف وہ ہے جس میں اشراقی اور رواقی اور زردشتی اور ویدانتی فلسفوں کی آمیزش ہو گئی ہے، جس میں عیسائی راہبوں اور ہندو جوگیوں کے طریقے شامل ہو گئے ہیں، جس میں مشرکانہ تخیلات و اعمال تک خلط ملط ہو گئے ہیں۔ جس میں شریعت اور طریقت اور معرفت الگ الگ چیزیں… ایک دوسرے سے کم و بیش بے تعلق، بلکہ بسا اوقات باہم متضاد … بن گئی ہیں اور جس میں انسان کو خلیفۃ اللّٰہ فی الارض کے فرائض کی انجام دہی کے لیے تیار کرنے کے بجائے اس سے بالکل مختلف دوسرے ہی کاموں کے لئے تیار کیا جاتا ہے اسے مٹانا خدا کے دین کو قائم کرنے کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا جاہلیّت جدیدہ کو مٹانا۔
ان دونوں کے علاوہ ایک اور تصوف بھی ہے جس میں کچھ خصوصیات پہلی قسم کے تصوف کی اور کچھ خصوصیات دوسری قسم کے تصوف کی ملی جلی پائی جاتی ہیں۔ اس تصوف کے طریقوں کو متعدد ایسے بزرگوں نے مرتب کیا ہے جو صاحب علم تھے، نیک نیت تھے، مگر اپنے دور کی خصوصیات اور پچھلے ادوار کے اثرات سے بالکل محفوظ بھی نہ تھے۔ انھوں نے اِسلام کے اصلی تصوف کو سمجھنے اور اس کے طریقوں کو جاہلی تصوف کی آلودگیوں سے پاک کرنے کی پوری کوشش کی، لیکن اس کے باوجود ان کے نظریات میں کچھ نہ کچھ اثرات جاہلی فلسفہ تصوف کے اور ان کے اعمال و اشغال میں کچھ نہ کچھ اثرات باہر سے لیے ہوئے اعمال و اشغال کے باقی رہ گئے جن کے بارے میں انھیں یہ اشتباہ پیش آیا کہ یہ چیزیں کتاب و سنت کی تعلیم سے متصادم نہیں ہیں، یا کم از کم تاویل سے انھیں غیر متصادم سمجھا جا سکتا ہے۔ علاوہ بریں اس تصوف کے مقاصد اور نتائج بھی اِسلام کے مقصد اور اس کے مطلوبہ نتائج سے کم و بیش مختلف ہیں۔ نہ اس کا مقصد واضح طور پر انسان کو فرائض خلافت کی ادائیگی کے لیے تیار کرنا اور وہ چیز بنانا ہے جسے قرآن نے لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ البقرہ143:2 کے الفاظ میں بیان کیا ہے اور نہ ان کا نتیجہ ہی یہ ہو سکا ہے کہ اس کے ذریعہ سے ایسے آدمی تیار ہوتے جو دین کے پورے تصور کو سمجھتے اور اس کی اقامت کی فکر انھیں لاحق ہوتی اور وہ اس کام کو انجام دینے کے اہل بھی ہوتے۔ اس تیسری قسم کے تصوف کی نہ ہم کلی تصدیق کرتے ہیں اور نہ کلی تردید۔ بلکہ اس کے پیروئوں اور حامیوں سے ہماری گذارش یہ ہے کہ براہِ کرم بڑی بڑی شخصیتوں کی عقیدت کو اپنی جگہ رکھتے ہوئے آپ اس تصوف پر کتاب و سنت کی روشنی میں تنقیدی نگاہ ڈالیں اور اسے درست کرنے کی کوشش کریں نیز جو شخص اس تصوف کی کسی چیز سے اس بنا پر اختلاف کرے کہ وہ اسے کتاب و سنت کے خلاف پاتا ہے، تو قطع نظر اس سے کہ آپ اس کی رائے سے موافقت کریں یا مخالفت، بہرحال اس کے حق تنقید کا انکار نہ فرمائیں اور اسے خواہ مخواہ نشانہ ملامت نہ بنانے لگیں۔
(۲) تصور شیخ کے بارے میں میرا موقف یہ ہے کہ اس پر دو حیثیتوں سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔ ایک بجائے خود ایک فعل ہونے کی حیثیت، دوسرے ایک ذریعہ تقرب الی اللّٰہ ہونے کی حیثیت۔
پہلی حیثیت میں اس فعل کے صرف جائز یا ناجائز ہونے کا سوال پیدا ہوتا ہے اور اس کے فیصلے کا انحصار اس پر ہے کہ آدمی کس نیت سے یہ فعل کرتا ہے؟ ایک نیت ایسی ہے جس کا لحاظ کرتے ہوئے اسے حرام کہنے کے سوا چارہ نہیں ہے۔ دوسری نیت ایسی ہے جس کا لحاظ کرتے ہوئے یہ مشکل ہے کہ کوئی فقیہ اسے ناجائز کَہ سکے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے میں کسی شخص کو کسی اجنبیہ کے حسن کا نظارہ کرتے ہوئے دیکھوں اور اس حرکت کی غرض دریافت کرنے پر وہ مجھے بتائے کہ میں اپنے ذوقِ جمالِ کو تسکین دے رہا ہوں۔ ظاہر ہے کہ مجھے کہنا پڑے گا کہ تو یقینا ایک ناجائز کام کر رہا ہے۔ دوسرے کو یہی حرکت کرتے دیکھوں اور میرے پوچھنے پر وہ مجھے جواب دے کہ میں اس سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ اس صورت میں مجھے مجبوراً یہ کہنا پڑے گا کہ تیرا یہ فعل ناجائز نہیں ہے اس لیے کہ وہ اپنے فعل کی ایک ایسی وجہ بیان کر رہا ہے جسے شرعاً میں غلط نہیں کَہ سکتا۔
اب رہی اس تصور شیخ کی دوسری حیثیت۔ تومجھے اس امر میں نہ کبھی شک رہا ہے اور نہ آج تک شک ہے کہ اس حیثیت سے یہ فعل قطعی غلط ہے خواہ اس کی نسبت کیسے ہی بڑے لوگوں کی طرف کی گئی ہو۔ میں کہتا ہوں کہ اللّٰہ سے تعلق پیدا کرنے اور بڑھانے کے ذرائع بتانے میں خود اللّٰہ اور اس کے رسولؐ نے ہرگز کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔ پھر کیوں ہم ان کے بتائے ہوئے ذرائع پر قناعت نہ کریں اور ایسے ذرائع ایجاد کرنے لگیں جو بجائے خود بھی مخدوش ہوںاور جن کے اندر ذرا سی بے احتیاطی آدمی کو قطعی اور صریح ضلالتوں کی طرف لے جا سکتی ہو؟
اس معاملہ میں یہ بحث پیدا کرنا اصولاً غلط ہے کہ جب دوسرے تمام معاملات میں ہم مقاصدِ شریعت کو حاصل کرنے کے لیے وہ ذرائع اختیار کرنے کے مجاز ہیں جو مباحات کے قبیل سے ہوں، تو آخر تزکیہ ِ نفس اور تقرب الی اللّٰہ کے معاملہ میں ہم کیوں انھیں اختیار کرنے کے مجاز نہ ہوں؟ یہ استدلال اصولاً اس لیے غلط ہے کہ دین کے دو شعبے ایک دوسرے سے الگ نوعیت رکھتے ہیں۔ ایک شعبہ تعلق باللّٰہ کا ہے اور دوسرا شعبہ تعلق بالنّاس اور تعلق بالدُّنیا کا۔ پہلے شعبے کا اصول یہ ہے کہ اس میں ہمیں انھی عبادات اور انھی طریقوں پر انحصار کرنا چاہیے جو اللّٰہ اور اس کے رسول نے بتا دیے ہیں، ان میں کوئی کمی کرنے، یا ان پر کسی نئی چیز کا اضافہ کرنے کا ہمیں حق نہیں ہے۔ کیوں کہ اللّٰہ کی معرفت اور اس کے ساتھ تعلق جوڑنے کے ذرائع کی معرفت کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ کتاب اللّٰہ و سنت رسول اللّٰہ کے سوا نہیں ہے۔ اس معاملہ میں جو کمی یا بیشی بھی کی جائے گی وہ بدعت ہو گی اور ہر بدعت ضلالت ہے۔ یہاں یہ اصول نہیں چل سکتا کہ جو کچھ ممنوع نہیں ہے وہ مباح ہے۔ بلکہ اس کے برعکس یہاں اصول یہ ہے کہ جو کچھ منصوص نہیں ہے وہ بدعت ہے۔ یہاں اگر قیاس سے بھی کوئی مسئلہ نکالا جائے گا تو لازماً اس کا کوئی مبنیٰ کتاب و سنت میں موجود ہونا چاہیے۔ بخلاف اس کے تعلق بالنّاس اور تعلق بالدُّنیا کے شعبے میں مباحات کا باب کھلا ہوا ہے۔ جو حکم دے دیا گیا ہے اس حکم کی اطاعت کیجیے، جو کچھ منع کیا گیا ہے اس سے رک جائیے اور جس معاملہ میں حکم نہیں دیا گیا ہے اس میں اگر کسی ملتے جلتے معاملے پر کوئی حکم ملتا ہو تو اس پر قیاس کر لیجیے، یا قیاس کا بھی موقع نہ ہو تو اِسلام کے اصولِ عامہ کے تحت مباحات میں سے جس چیز اور جس طریقے کو نظامِ اور اسلامی کے مزاج سے مطابق پائیے اسے قبول کر لیجیے۔ اس شعبے میں یہ آزادی ہمیں اس لیے دی گئی ہے کہ دُنیا اور انسان اور دنیوی معاملات کے متعلق مصلحت کو جاننے کے عقلی اور علمی ذرائع کم از کم اس حد تک ہمیں ضرور حاصل ہیں کہ کتاب اللّٰہ و سنت رسول اللّٰہ کی راہ نُمائی سے مستفید ہونے کے بعد ہم خیر کو شر سے اور صحیح کو غلط سے ممیز کر سکتے ہیں۔ پس یہ آزادی صرف اسی شعبے تک محدود رہنی چاہیے۔ اسے پہلے شعبے تک وسیع کرکے اور جو کچھ ممنوع نہیں ہے، اسے مباح سمجھ کر، تعلق باللّٰہ کے معاملے میں نئے نئے طریقے نکالنا یا دوسروں سے اخذ کرکے اختیار کر لینا بنیادی طور پر غلط ہے۔ اسی غلطی میں مبتلا ہو کر نصاریٰ نے رہبانیت ایجاد کرلی تھی جس کی قرآن میں مذمت کی گئی۔
(ترجمان القرآن۔ جمادی الاول ۱۳۷۱ھ فروری ۱۹۵۲ء )
ایک بے بنیاد تہمت اور اس کا جواب
سوال: آپ پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ آپ دراصل خود مجددیا مہدی ہونے کے مدعی ہیں، یا درپردہ اپنے آپ کو مجدد یا مہدی یا تسلیم کرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس الزام کی حقیقت کیا ہے؟
جواب: اس الزام کا جواب متعدد مرتبہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں دیا جا چکا ہے، اس لیے اب کوئی نیا جواب دینے کے بجائے میں اپنے سابق جوابات ہی کو نقل کیے دیتا ہوں۔
سب سے پہلے ۱۹۴۱ء میں جناب مولانا مناظر احسن صاحب گیلانی نے ازراہِ عنایت دبی زبان سے میرے متعلق اس شبہ کا اظہار فرمایا تھا۔ اس پر میں نے اپنے مضمون ’’رفعِ شبہات‘‘ میں عرض کیا:
’’آپ کو میرے جرأت آمیز الفاظ سے شاید یہ گمان گزرا ہو گا کہ میں اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتا ہوں اور کسی بڑے مرتبے کی توقع رکھتا ہوں۔ حالانکہ میں جو کچھ کر رہا ہوں صرف اپنے گناہوں کی تلافی کے لیے کر رہا ہوں اور اپنی حقیقت خوب جانتا ہوں۔ بڑے مراتب تو درکنار اگر صرف سزا سے بچ جائوں تو بھی میری امیدوں سے بہت زیادہ ہے۔‘‘
(ترجمان القرآن۔ ستمبر، اکتوبر و نومبر ۵۱ء)
اس کے بعد اسی زمانہ میں جناب مولانا سید سلیمان ندویؒ نے میری ایک عبارت کو توڑ مروڑ کر اس سے یہ معنی نکالے کہ میں مجدد ہونے کا مدعی ہوں، حالانکہ میں نے اس عبارت میں اپنی حقیر کوششوں کو تجدید دین کی مساعی میں سے ایک سعی قرار دیا تھا۔ ان کے اس صریح الزام کے جواب میں میں نے عرض کیا تھا:
’’کسی کام کو تجدیدی کام کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ جو تجدیدی کام کرے وہ مجدد کے لقب سے بھی ملقب ہو، صدی کا مجدد ہونا تو اس سے بلند تر بات ہے۔ اینٹیں چن کر دیواربنانا بہرحال ایک تعمیری کام ہے، مگر کیا یہ لازم ہے کہ جو چند اینٹیں چن دے وہ انجینئربھی کہلائے اور پھر انجینئربھی معمولی نہیں بلکہ اپنی صدی کا انجینئر؟ اسی طرح کسی کا اپنے کام کو تجدیدی کام یا تجدیدی کوشش کہنا، جبکہ فی الحقیقت وہ تجدید دین حق ہی کی غرض سے یہ کام کر رہا ہو، محض ایک امر واقعہ کا اظہار ہے اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ مجدد ہونے کا دعوٰی کر رہا ہے اور اس صدی کا مجدد بننا چاہتا ہے۔ کم ظرف لوگ بیشک تھوڑا سا کام کرکے اونچے اونچے دعوے کرنے لگتے ہیں، بلکہ کام کا ارادہ ہی دعوے کی شکل میں کرتے ہیں۔ لیکن کسی ذی فہم آدمی سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ کام کرنے کے بجائے دعوے کرے گا۔ تجدید دین کا کام ہندوستان میں اور دُنیا کے دوسرے حصوں میں بہت سے لوگ کر رہے ہیں۔ خود مولانا (حضرت معترض) کو بھی ہم انھی میں شمار کرتے ہیں۔ میں نے بھی اپنی حد استطاعت تک اس خدمت میں حصہ لینے کی سعی کی ہے اور اب ہم چند خدام دین ایک جماعت کی صورت میں اسی کے لیے کوشش کرنا چاہتے ہیں۔ اللّٰہ جس کے کام میں بھی اتنی برکت دے کہ واقعی اس کے ہاتھوں دین حق کی تجدید ہو جائے وہ فی الحقیقت مجدد ہو گا۔ اصل چیز نہ آدمی کا اپنا دعوٰی ہے، نہ دُنیا کا کسی کو مجدد کے لقب سے یاد کرنا۔ بلکہ اصل چیز آدمی کا ایسی خدمت کرکے اپنے مالک کے حضور پہنچنا ہے کہ وہاں اسے مجدد کا مرتبہ حاصل ہو۔ میں مولانا کے حق میں اسی چیز کی دعا کرتا ہوں اور بہتر ہو کہ وہ بھی ’’عنقارا بلند است آشیانہ‘‘ کہنے کے بجائے دوسروں کے حق میں دعا فرمائیں کہ اللّٰہ ان سے اپنے دین کی ایسی خدمت لے لے۔ مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ بعض اسلامی الفاظ کو خواہ مخواہ ہوا بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ دُنیا میں کوئی رومی عظمت کی تجدید کا داعیہ لے کر اٹھتا ہے۔ اور رومیت کے پرستار اسے مرحبا کہتے ہیں، کوئی ویدک تہذیب کی تجدید کا عزم لے کر اٹھتا ہے اور ہندویت کے پرستار اس کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں۔ کوئی یونانی آرٹ کی تجدید کے ارادہ سے اٹھتا ہے اور آرٹ کے پرستار اس کی ہمت افزائی کرتے ہیں۔ کیا ان سب تجدیدوں کے درمیان صرف ایک اللّٰہ کے دین کی تجدید ہی ایسا جرم ہے کہ اس کا نام لیتے ہوئے آدمی شرمائے اور اگر اس کا خیال ظاہر کر دے تو اللّٰہ کے پرستار اس کے پیچھے تالی پیٹ دیں؟
(ترجمان القرآن۔ دسمبر ۱۹۴۱ء و جنوری و فروری ۱۹۴۲ء)
ان تصریحات کے بعد بھی ہمارے بزرگانِ دین اپنے پروپیگنڈے سے باز نہ آئے کیوں کہ میرے خلاف مسلمانوں کو بھڑکانے کے لیے من جملہ اور ہتھکنڈوں کے ایک یہ ہتھکنڈا بھی ضروری تھا کہ مجھ پر کسی دعوے کا الزام چسپاں کیا جائے۔ چنانچہ ۴۵ء اور ۴۶ء میں مسلسل یہ شبہ پھیلایا جاتا رہا کہ یہ شخص مہدویت کا دعوٰی کرنے والا ہے۔ اس پر میں نے جون ۴۶ء کے ترجمان القرآن میں لکھا:
’’جو حضرات اس قسم کے شبہات کا اظہار کرکے بندگانِ خدا کو جماعتِ اِسلامی کی دعوتِ حق سے روکنے کی کوشش فرما رہے ہیں،میں نے انھیں ایک ایسی خطرناک سزا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے جس سے وہ کسی طرح رہائی حاصل نہ کر سکیں گے۔ اور وہ سزا یہ ہے کہ ان شاء اللّٰہ میں ہر قسم کے دعوئوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے اپنے خدا کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور پھر دیکھوں گا کہ یہ حضرات خدا کے سامنے اپنے ان شبہات کی اور انھیں بیان کر کرکے لوگوں کو حق سے روکنے کی کیا صفائی پیش کرتے ہیں۔‘‘
اگر ان لوگوں کے دلوں میں خدا کا کچھ خوف اور آخرت کا کوئی یقین موجود ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ میرے اس جواب کے بعد پھر بھی ان کی زبان پر یہ الزام آتا۔ لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج کس جرأت کے ساتھ اسے ازسر نو پھیلایا جا رہا ہے اور ترجمان القرآن کی قریبی اشاعتوں میں اس کے متعلق جو کچھ لکھ چکا ہوں اسے دیکھ لینے کے باوجود ان میں سے کسی کی زبان میں لکنت تک نہیں آتی۔ آخرت کا فیصلہ تو اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے، مگر مجھے بتائیے، کیا دُنیا میں ایسی ہی حرکتوں سے علما کا وقار قائم ہونے کی توقع ہے؟
لطف یہ ہے کہ میری کتاب ’’تجدید و احیائے دین‘‘ جس کی بعض عبارتوں پر ان شبہات کی بنا رکھی گئی ہے اور جس کے اقتباسات طرح طرح کی رنگ آمیزیوں کے ساتھ پیش کرکرکے لوگوں کو بہکایا جا رہا ہے، اسی میں میرے یہ الفاظ موجود ہیں:
’’نبی کے سوا کسی کا یہ منصب نہیں ہے کہ دعوے سے کام کا آغاز کرے اور نہ نبی کے سوا کسی کو یقینی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس خدمت پر مامور ہوا ہے۔ مہدویت دعوٰی کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ کرکے دکھا جانے کی چیز ہے۔ اس قسم کے دعوے جو لوگ کرتے ہیں اور جو ان پر ایمان لاتے ہیں، میرے نزدیک دونوں ہی اپنے علم کی کمی اور اپنے ذہن کی پستی کا ثبوت دیتے ہیں۔‘‘
آج جو لوگ میری اس کتاب کے اقتباسات پیش کر رہے ہیں ان سے پوچھیے کہ انھیں یہ عبارت نظر نہیں آئی یا انھوں نے دانستہ اسے چھپایا ہے؟
(ترجمان القرآن۔ ذی القعدہ، ذی الحجہ ۷۰ھ، ستمبر ۵۱ء)
٭…٭…٭…٭…٭
المہدی کی علامات اور نظامِ دین میں اس کی حیثیت
سوال: ’’ظہور مہدی کے متعلق آپ نے رسالہ تجدید و احیائے دین میں جو کچھ لکھا ہے اس میں اختلاف کا پہلو یہ ہے کہ آپ مہدی موعود کے لیے کوئی امتیازی و اختصاصی علامات تسلیم نہیں کرتے، حالانکہ احادیث میں واضح طور پر علاماتِ مہدی کا تذکرہ موجود ہے۔ آخر اس سلسلۂ روایات سے چشم پوشی کیسے کی جا سکتی ہے؟
جواب: ظہورِ مہدی کے متعلق جو روایات ہیں، ان کے متعلق ناقدین حدیث نے اس قدر سخت تنقید کی ہے کہ ایک گروہ سرے سے اس بات کا قائل ہی نہیں رہا ہے کہ امام مہدی کا ظہور ہو گا۔ اسماء الرجال کی تنقید سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان احادیث کے اکثر رواۃ شیعہ ہیں۔ تاریخ سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر گروہ نے سیاسی و مذہبی اغراض کے لیے ان احادیث کو استعمال کیا ہے اور اپنے کسی آدمی پر ان کی مندرجہ علامات کو چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان وجوہ سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ نفس ظہورِ مہدیٔ کی خبر کی حد تک تو یہ روایات صحیح ہیں لیکن تفصیلی علامات کا بیشتر بیان غالباً وضعی ہے اور اہلِ غرض نے شاید بعد میں ان چیزوں کو اصل ارشادِ نبوی پر اضافہ کیا ہے۔ مختلف زمانوں میں جن لوگوں نے مہدی موعود ہونے کے جھوٹے دعوے کیے ہیں، ان کے لٹریچر میں بھی آپ دیکھیں گے کہ ان کی ساری فتنہ پردازی کے لیے مواد انھی روایات نے بہم پہنچایا ہے۔
میں نے جہاں تک نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیوں پر غور کیا ہے ان کا انداز یہ نہیں ہوتا کہ کسی آنے والی چیز کی علامات و تفصیلات اس طریقے سے کبھی آپؐ نے بیان کی ہوں جس طرح ظہور مہدی کی احادیث میں پائی جاتی ہیں۔ آپ بڑی بڑی اصولی علامات تو ضرور بیان فرما دیا کرتے تھے لیکن جزئی تفصیلات بیان کرنا آپ کا طریقہ نہ تھا۔
سوال: ضرورتِ بعثت مہدی کو ’’تجدید و احیائے دین‘‘ میں تسلیم تو کر لیا گیا ہے، لیکن مہدی کا کیا کام ہو گا، اس مسئلہ کو نقلی تائید کے بغیر محض اپنے لفظوں میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ احادیث شریفہ کی روشنی میں اس بیان کی تفصیل کی جائے تو مناسب ہے۔ نیز مہدی موعود کے مراتب و خصوصیاتِ اور ضرورتِ اطاعت مہدی وغیرہ پر کوئی بحث نہیں کی گئی ہے، بلکہ عام مجددین میں شمار کر لیا گیا ہے۔ اگرچہ مجدد کامل اور مجدد ناقص کی تقسیم سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ غالباً یہاں ’’مجدد‘‘ کا لفظ بر بنائے لغت استعمال ہوا ہے، اصطلاحاً نہیں۔ تاہم جبکہ مجدد معصوم عن الخطا نہیں ہوتا اور مہدیٔ موعود کو معصوم عن الخطا ہونا ضروری ہے تو پھر اس بین فرق کے ہوتے ہوئے مہدی ٔموعود کو مجدد کی فہرست میں کیسے شمار کیا جا سکتا ہے؟
جواب: اول تو خود لفظ ’’مہدی‘‘ پر غور کرنا چاہیے جو حدیث میں استعمال کیا گیا ہے۔ حضورؐ نے مہدی کا لفظ استعمال فرمایا ہے، جس کے معنی ہیں ہدایت یافتہ کے۔ ’’ہادی‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے۔ مہدی ہر وہ سردار، لیڈر اور امیر ہو سکتا ہے جو راہِ راست پر ہو۔ ’’المہدی‘‘ زیادہ سے زیادہ خصوصیت کے لیے استعمال ہو گا جس سے آنے والے کی کسی خاص امتیازی شان کا اظہار مقصود ہے۔ اور وہ امتیازی شان حدیث میں اس طرح بیان کر دی گئی ہے کہ آنے والا خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظام درہم برہم ہو جانے اور ظلم و جور سے زمین کے بھر جانے کے بعد ازسر نو خلافت کو منہاجِ نبوت پر قائم کرے گا اور زمین کو عدل سے بھر دے گا۔ بس یہی چیز ہے جس کی وجہ سے اسے مختص و ممتاز کرنے کے لیے ’’مہدی‘‘ پر ’’الف ل ‘‘ داخل کیا گیا ہے۔ لیکن یہ سمجھنا بالکل غلط ہے کہ مہدی کے نام سے دین میں کوئی خاص منصب قائم کیا گیا ہے جس پر ایمان لانا اور جس کی معرفت حاصل کرنا ویسا ہی ضروری ہے جیسا انبیا پر ایمان لانا، اور اس کی اطاعت بھی شرطِ نجات اور شرطِ اِسلام و ایمان ہو۔ نیز اس خیال کے لیے بھی حدیث میں کوئی دلیل نہیں ہے کہ مہدی کوئی امامِ معصوم ہو گا۔ دراصل یہ معصومیت غیر انبیا کا تخیل ایک خالص شیعی تخیل ہے جس کی کوئی سند کتاب و سنت میں موجود نہیں ہے۔
یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جن چیزوں پر کفر و ایمان کا مدار ہے اور جن امور پر انسان کی نجات موقوف ہے انھیں بیان کرنے کا اللّٰہ تعالیٰ نے خود ذمہ لیا ہے۔ وہ سب قرآن میں بیان کی گئی ہیں۔ اور قرآن میں بھی انھیں کوئی اشارۃً و کنایتہ بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ انھیں کھول دیا گیا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدیٰ۔ لہٰذا جو مسئلہ بھی دین میں یہ نوعیت رکھتا ہو اس کا ثبوت لازماً قرآن ہی سے ملنا چاہیے۔ مجرد حدیث پر ایسی کسی چیز کی بنا نہیں رکھی جا سکتی جسے مدارِ کفر و ایمان قرار دیا جائے۔ احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی ہوئی آئی ہیں جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تو وہ گمانِ صحت ہے نہ کہ علم یقین۔ اور ظاہر ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس خطرے میں ڈالنا ہرگز پسند نہیں کر سکتا کہ جو امور اس کے دین میں اتنے اہم ہوں کہ ان سے کفر و ایمان کا فرق واقع ہوتا ہو انھیں صرف چند آدمیوں کی روایت پر منحصر کر دیا جائے۔ ایسے امور کی تو نوعیت ہی اس امر کی متقاضی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ انھیں صاف صاف اپنی کتاب میں بیان فرماتے، اللّٰہ کا رسول انھیں اپنے پیغمبرانہ مشن کا اصل کام سمجھتے ہوئے ان کی تبلیغ عام کرے اور وہ بالکل غیر مشتبہ طریقے سے ہر ہر مسلمان تک پہنچا دیے گئے ہوں۔
اب ’’مہدی‘‘ کے متعلق خواہ کتنی ہی کھینچ تان کی جائے، بہرحال ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ اِسلام میں اس کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ اس کے جاننے اور ماننے پر کسی کے مسلمان ہونے اور نجات پانے کا انحصار ہو۔ یہ حیثیت اگر اس کی ہوتی تو قرآن میں پوری صراحت کے ساتھ اس کا ذکر کیا جاتا اور نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بھی دو چار آدمیوں سے اسے بیان کر دینے پر اکتفا نہ فرماتے بلکہ پوری امت تک اسے پہنچانے کی سعی بلیغ فرماتے اور اس کی تبلیغ میں آپ کی سعی کا عالم وہی ہوتا جو ہمیں توحید اور آخرت کی تبلیغ کے معاملے میں نظر آتا ہے۔ فی الحقیقت جو شخص علومِ دینی میں کچھ بھی نظر اور بصیرت رکھتا ہو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ باور نہیں کر سکتا کہ جس مسئلہ کی دین میں اتنی بڑی اہمیت ہو اسے محض اخبارِ آحاد پر چھوڑا جا سکتا تھا اور اخبارِ آحاد بھی اس درجہ کی کہ امام مالکؒ اور امام بخاریؒ اور امام مسلم جیسے محدثین نے اپنے حدیث کے مجموعوں میں سرے سے انھیں لینا ہی پسند نہ کیا ہو۔
(ترجمان القرآن، ربیع الاول، جمادی الآخر ۶۴ھ مارچ، جون ۴۵ء)
٭…٭…٭…٭…٭
مسئلہ مہدی
سوال: چند حضرات نے جو نہایت دین دار و مخلص ہیں، تجدید و احیائے دین کی ان سطور کے متعلق جو آپ نے امام مہدی کے متعلق تحریر فرمائی ہیں، احادیث کی روشنی میں اعتراضات پیش فرمائے ہیں، جنھیں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ یہ میں اس احساس کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ دعوتِ اقامتِ دین کے پورے کام میں شریعت کی پابندی ضروری ہے، پس لازم ہے کہ ہر وہ چیز جو آپ کے قلم سے نکلے، عین شریعت کے مطابق ہو اور اگر کبھی کوئی غلط رائے تحریر میں آئے تو اس سے رجوع کرنے میں کوئی تامّل نہ ہونے پائے۔
امام مہدی کے متعلق جو سطور آپ نے ص ۳۱ تا ۳۳ تحریر فرمائی ہیں وہ ہمارے فہم کے مطابق احادیث کے خلاف ہیں۔ اس سلسلہ میں، میں نے ترمذی اور ابو دائود کی تمام روایات کا مطالعہ کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض روایات کے راوی ضرور خارجی یا شیعہ ہیں، لیکن ابو دائود و ترمذی وغیرہ کے ہاں ایسی احادیث بھی موجود ہیں جن کے راوی ثقہ اور صدوق ہیں اور وہ آپ کی رائے کی تصدیق نہیں بلکہ تردید کرتی ہیں۔ مثلاً ابو دائود کی روایت ملاحظہ ہو:
حدثنا محمد بن المثنٰی… عن امّ سلمۃ زوج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال یکون اختلاف عند موت خلیفۃ فیخرج رجل من اھل المدینۃ ھارباً الٰی مکۃ فیاتیہ ناس من اھل مکۃ فیخرجونہ وھو کارہ فیبا یعونہ بین الرکن والمقام… (کتاب المہدی)
اس روایت سے لے کر اخیر روایت تک ملاحظہ ہو، تمام راوی ثقہ ہیں۔ نیز بیہقی کی بھی ایک روایت مشکوٰۃ کی کتاب الفتن میں تحریر ہے:
عن ثوبان قال اذا رأیتم الرأیات السود قد جاء ت من قِبَل خراسان فاتوھا فان فیھا خلیفۃ اللّٰہ المھدی۔
مندرجہ بالا احادیث سے آپ کے اس بیان کی تردید ہوتی ہے کہ المہدی کو اپنے مہدی موعود ہونے کی خبر نہ ہو گی۔ خصوصاً یہ الفاظ ملاحظہ ہوں۔
وجب علٰی کل مومن نصرہ اوقال اجابتہ۔
نیز ترمذی کی ایک روایت کے یہ الفاظ بھی دیکھئے:
قال فیجیٔ الیہ الرجل فیقول یامہدی! اعطنی! اعطنی! قال فیحثی لہ فی ثوبہ ما استطاع ان یحملہ۔
(۲) جناب نے فرمایا ہے کہ مہدی موعود جدید ترین طرز کا لیڈر ہو گا… وغیرہ! آپ کے ان الفاظ کی کوئی سند احادیث میں نہیں ہے۔ اگر ہو تو تحریر فرمائیں۔ جو لوگ آپ کے برعکس خیالات رکھتے ہیں ان کی واقعاتی دلیل یہ ہے کہ اب تک جتنے مجددین امت گزرے ہیں وہ عموماً صوفیائے کرام کے طبقہ میں ہوئے ہیں۔
(۳) جناب کی ان سطور سے کہ وہ جدید ترین طرز کا لیڈر ہو گا، یہ شبہ کیا جا رہا ہے کہ آپ خود امام مہدی ہونے کا دعوٰی کریں گے۔
(۴) کتاب ’’علامات قیامت‘‘ (مولفہ مولانا شاہ رفیع الدین صاحب و مترجمہ مولوی نور محمد صاحب) میں امام مہدی کے متعلق مسلم و بخاری کے حوالہ سے چند روایات درج ہیں، لیکن تحقیق کرنے پر مسلم و بخاری میں مجھے اس قسم کی کوئی حدیث نہ مل سکی۔ اسی کتاب میں ایک روایت یہ بھی درج ہے کہ بیعت مہدی کے وقت آسمان سے یہ ندا آئے گی کہ ھٰذا خلیفۃ اللّٰہ المھدی فاستمعوا لہ واطیعوا۔‘‘ اس روایت کے متعلق آپ کی تحقیق کیا ہے؟
جواب: (۱) امام مہدی کے متعلق جو احادیث مختلف کتب حدیث میں مروی ہیں ان کے متعلق میں اپنی تحقیق کا خلاصہ اس سے پہلے عرض کر چکا ہوں۔ جو لوگ امام مہدی کے متعلق کسی روایت کو ماننے کے لیے اتنی بات کو کافی سمجھتے ہیں کہ وہ حدیث کی کسی کتاب میں درج ہے، یا تحقیق کا حق ادا کرنے کے لیے صرف اس مرحلہ تک پہنچ سکتے ہیں کہ راویوں کے متعلق یہ معلوم کر لیں کہ وہ ثقہ ہیں یا نہیں، ان کے لیے یہ درست ہے کہ اپنا وہی عقیدہ رکھیں جو انھوں نے روایات میں پایا ہے۔ لیکن جو لوگ ان روایات کو جمع کرکے ان کا باہمی مقابلہ کرتے ہیں اور ان میں بکثرت تعارضات پائے ہیں،نیز جن کے سامنے بنی فاطمہ اور بنی عباس اور بنی امیہ کی کش مکش کی پوری تاریخ ہے اور وہ صحیح طور پر دیکھتے ہیں کہ اس کش مکش کے فریقوں میں سے ہر ایک کے حق میں متعدد روایات موجود ہیں اور راویوں میں سے بھی اکثر و بیشتر وہ لوگ ہیں جن کا ایک نہ ایک فریق سے کھلا ہوا تعلق تھا، ان کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ ان روایات کی ساری تفصیلات کو صحیح تسلیم کر لیں۔ خود آپ نے جو احادیث نقل کی ہیں ان کے اندر بھی ’’رایات السود‘‘ یعنی کالے جھنڈوں کا ذکر موجود ہے اور تاریخ سے معلوم ہے کہ کالے جھنڈے بنی عباس کا شعار تھے۔ نیز یہ بھی تاریخ سے معلوم ہے کہ اس قسم کی احادیث کو پیش کر کرکے خلیفہ مہدی عباسی کو مہدی موعود ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اب اگر کسی کو ان چیزوں کے ماننے پر اصرار ہے تو وہ مانے اور تجدید و احیائے دین میں جس رائے کا میں نے اظہار کیا ہے اسے ردّ کر دے۔ کچھ ضرور نہیں ہے کہ ہر تاریخی، علمی اور فقہی مسئلہ میں میری ایک بات سب لوگوں کے لیے قابل تسلیم ہو۔ اور یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ ان مسائل میں میری کوئی تحقیق کسی کو پسند نہ آئے تو اصل دین کی سعی اقامت میں بھی میرے ساتھ تعاون کرنا اس کے لیے حرام ہو جائے۔ آخر یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے کہ حدیث، تفسیر، فقہ وغیرہ علوم میں اہل علم کی رائیں مختلف ہوئی ہوں۔
(۲) میں نے یہ بات جو کہی ہے کہ مہدیٔ موعود جدید ترین طرز کا لیڈر ہو گا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ڈاڑھی منڈوائے گا، کوٹ پتلون پہنے گا اور اپ ٹودیٹ فیشن میں رہے گا۔ بلکہ اس سے میرا مطلب یہ ہے کہ وہ جس زمانہ میں بھی پیدا ہو گا اس زمانہ کے علوم سے، حالات سے اور ضروریات سے پوری طرح واقف ہو گا، اپنے زمانہ کے مطابق عملی تدابیر اختیار کرے گا اور ان تمام آلات و وسائل سے کام لے گا جو اس کے دور میں سائنٹیفک تحقیقات سے دریافت ہوئے ہوں۔ یہ تو ایک صریح عقلی بات ہے جس کے لیے کسی سند کی ضروریات نہیں ہے۔ اگر نبی اکرمؐ اپنے زمانہ کی تدابیر مثلاً خندق، دبابہ، منجنیق وغیرہ استعمال فرماتے تھے تو کوئی وجہ نہیں کہ آیندہ کسی دور میں جو شخص حضورؐ کی جانشینی کا حق ادا کرنے اٹھے گا وہ ٹینک اور ہوائی جہاز سے، سائنٹیفک معلومات سے اور اپنے زمانہ کے احوال و معاملات سے بے تعلق ہو کر کام کرے گا۔ کسی جماعت کے حصول مقصد اور کسی تحریک کے غلبہ کا فطری راستہ ہی یہی ہے کہ وہ قوت کے تمام جدید ترین وسائل کو قابو میں لائے اور اپنا اثر پھیلانے کے لیے جدید ترین علوم و فنون اور طریقہ ہائے کار کو استعمال کرے۔
(۳) یہ ارشاد کہ ’’اس سے شبہ کیا جا رہا ہے کہ تو خود امام مہدی ہونے کا دعوٰی کرے گا۔‘‘ اس کے جواب میں بجز اس کے میں کچھ عرض نہیں کر سکتا کہ اس قسم کے شبہات کا اظہار کرنا کسی ایسے آدمی کا کام تو نہیں ہو سکتا جو خدا سے ڈرتا ہو، جسے خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری کا احساس ہو اور جسے اللّٰہ تعالیٰ کی یہ ہدایت بھی یاد ہو کہ اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ۰ۡاِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ الحجرات12:49 جو حضرات اس قسم کے شبہات کا اظہار کرکے بندگانِ خدا کو جماعتِ اِسلامی کی دعوتِ حق سے روکنے کی کوشش فرما رہے ہیں، میں نے انھیں ایک ایسی خطرناک سزا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے جس سے وہ کسی طرح رہائی حاصل نہیں کرسکیں گے اور وہ سزا یہ ہے کہ ان شاء اللّٰہ میں ہر قسم کے دعوئوں سے اپنا دامن بچائے ہوئے اپنے خدا کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور پھر دیکھوں گا کہ یہ حضرات خدا کے سامنے اپنے ان شبہات کی اور انھیں بیان کرکرکے لوگوں کو حق سے روکنے کی کیا صفائی پیش کرتے ہیں۔
(۴) کتاب ’’علاماتِ قیامت‘‘ میں جس روایت کا ذکر ہے، اس کے متعلق میں نفیاً یا اثباتاً کچھ نہیں کَہ سکتا۔ اگر وہ صحیح ہے اور فی الحقیقت حضورؐ نے یہ خبر دی ہے کہ مہدی کی بیعت کے وقت آسمان سے ندا آئے گی کہ ’’ھٰذا خلیفۃ اللّٰہ المھدی فاستمعوا لہ واطیعوا‘‘ تو یقینا میری وہ رائے غلط ہے جو تجدید و احیائے دین میں، میں نے ظاہر کی ہے۔ لیکن مجھے یہ توقع نہیں ہے کہ حضورؐنے ایسی بات فرمائی ہو گی۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نبی کی آمد پر بھی آسمان سے ایسی ندا نہیں آئی۔ خود حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم، جو آخری نبی تھے اور نوعِ انسانی کے لیے جن کے بعد کفر و ایمان کے فیصلہ کا کوئی دوسرا موقع آنے والا نہ تھا، آپ کی آمد پر بھی ایسی کوئی ندا آسمان سے نہ سنی گئی۔ مشرکین مکہ مطالبہ کرتے ہی رہے کہ آپ کے ساتھ کوئی فرشتہ ہونا چاہیے جو ہمیں خبردار کرے کہ آپ خدا کے نبی ہیں یا اور کوئی صریح بات ایسی ہونی چاہیے جس سے یقینی اور غیر مشتبہ طور پر ہمیں آپ کا نبی ہونا معلوم ہو جائے، لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے ان سارے مطالبوں کو ردّ فرما دیا اور انھیں قبول نہ کرنے کی یہ وجہ بھی متعدد مقامات پر قرآن میں ظاہر کر دی کہ حقیقت کو بالکل بے نقاب کر دینا جس سے عقلی آزمائش و امتحان کا کوئی موقع باقی نہ رہے، حکمت خداوندی کے خلاف ہے۔ اب یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنی اس سنت کو صرف امام مہدی کے معاملہ ہی میں بدل دے گا اور ان کی بیعت کے وقت آسمان سے منادی کرائے گا کہ ’’یہ ہمارا خلیفہ مہدی ہے، اس کی سنو اور اطاعت کرو!‘‘ (ترجمان القرآن، رجب ۶۵ھ جون ۴۶)
٭…٭…٭…٭…٭
زبان: اُردو
صفحات: 120
اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، منصورہ ملتان روڈ، لاہور۔