ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔
عرضِ ناشر
فروری ۱۹۵۷ء کے تیسرے ہفتہ میں جماعت اسلامی پاکستان کے ارکان کا ایک اجتماع عام بہاول پور ڈویژن کے ایک غیرمعروف قریے ماچھی گوٹھ نامی میں اس غرض کے لیے منعقد ہوا تھا کہ جماعت کے پچھلے کام اور آیندہ لائحہِ عمل کے متعلق ایک واضح اور قطعی فیصلہ کیا جائے۔ اس موقع پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ایک مفصل قرار داد پیش کی تھی اور اس کی تشریح وتوضیح کرتے ہوئے ایک طویل تقریرکی تھی، تاکہ ارکانِ جماعت اس پالیسی کو بھی اچھی طرح سمجھ لیں جس پر ابتدا سے آج تک یہ جماعت چلتی رہی ہے اور اس لائحہِ عمل کے بھی ہر پہلو سے بخوبی واقف ہو جائیں جو آیندہ کے لیے تجویز کیا جا رہا تھا اور پھر علیٰ وجہ البصیرت ایک فیصلہ کریں۔ اس کے ساتھ ان تمام حضرات کو بھی اپنا نقطۂِ نظر اور اپنی تجاویز پیش کرنے کا پورا موقع دیا گیا جو اس سے مختلف رائے رکھتے تھے۔ تین دن کے غور وخوض اور ہر نقطۂ نظر کے متعلق تفصیلی بحث سن لینے کے بعد ارکان جماعت میں سے ۹۲۰ نے مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی پیش کردہ قرار داد کے حق میں اور صرف ۱۵ نے اس کے خلاف رائے دی۔ اس طرح یہ قرار داد جماعت کی ۹۸ فی صد سے بھی زیادہ اکثریت سے پاس کی گئی۔
اب وہ قرارداد اور اس پر مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی تقریر ایک مستقل رسالہ کی صورت میں شائع کی جا رہی ہے تاکہ ہر وہ شخص جو جماعتِ اِسلامی اور اس کے کام کو سمجھنا چاہے، اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ خود جماعت کے کارکنوں کے لیے بھی ان شاء اللّٰہ اس کا مطالعہ بہت مفید ہو گا۔
منیجنگ ڈائریکٹر
اِسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ لاہور
قرار داد
جماعتِ اسلامی پاکستان اس امر پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتی ہے کہ اب سے پندرہ سال قبل جس نصب العین کو سامنے رکھ کر اور جن اصولوں کی پابندی کا عہد کرکے اس نے سفر کا آغاز کیا تھا، آج تک وہ اسی منزلِ مقصود کی طرف انھی اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے بڑھتی چلی آ رہی ہے۔ اس طویل اور کٹھن سفر کے دوران میں اگر اس سے اقامتِ دین کے مقصد کی کوئی خدمت بن آئی ہے تو وہ سراسر اللّٰہ کا فضل ہے جس پر وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتی ہے اور اگر کچھ کوتاہیاں اور لغزشیں سرزد ہوئی ہیں تو وہ اس کے اپنے ہی قصورکا نتیجہ ہیں جن پر وہ اپنے مالک سے عفو درگزر اورمزید ہدایت وتوفیق کی دعا کرتی ہے۔
جماعتِ اِسلامی اس بات پر مطمئن ہے کہ تحریکِ اِسلامی کا جو لائحہ عمل نومبر ۱۹۵۱ء میں ارکان کے اجتماع عام منعقدہ کراچی میں امیرِ جماعت نے مجلسِ شُورٰی کے مشورے سے پیش کیا تھا اور وہ بالکل صحیح توازن کے ساتھ مقصدِ تحریک کے تمام نظری اور عملی تقاضوں کو پورا کرتا ہے‘ اور وہی آیندہ بھی اس تحریک کا لائحہ عمل رہنا چاہیے۔
اس لائحہ عمل کے پہلے تین اجزا (یعنی تطہیرِ افکار وتعمیرِ افکار، صالح افراد کی تلاش وتنظیم وتربیت اور اجتماعی اصلاح کی سعی) توجماعتِ اِسلامی کی تشکیل کے پہلے ہی دن سے اس کے لائحہ عمل کے اجزائے لازم رہے ہیں، البتہ انھیں عمل میں لانے کی صورتیں حالات وضروریات کے لحاظ سے اور جماعت کے وسائل وذرائع کے مطابق بدلتی رہی ہیں۔ ان کے بارے میں جماعت اب یہ طے کرتی ہے کہ آیندہ کوئی دوسرا جماعتی فیصلہ ہونے تک ان تینوں اجزا کو اس پروگرام کے مطابق عملی جامہ پہنایا جائے، جو اس قرار داد کے ساتھ بطور ضمیمہ شامل کیا جا رہا ہے۔ نیز جماعت کا یہ اجتماع عام مجلس شوریٰ اور تمام حلقوں، اضلاع اور مقامات کی جماعتوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ اس پروگرام پر اس حد تک زور دیں کہ لائحہِ عمل کے چوتھے جزو کے ساتھ جماعت کے کام کا ٹھیک توازن قائم ہو جائے اور قائم رہے۔
اس لائحہِ عمل کا چوتھا جز، جو نظام حکومت کی اصلاح سے متعلق ہے، دَرحقیقت وہ بھی ابتدا ہی سے جماعتِ اِسلامی کے بنیادی مقاصد میں شامل تھا۔ جماعت نے ہمیشہ اس سوال کو زندگی کے عملی مسائل میں سب سے اہم اور فیصلہ کن سوال سمجھا ہے کہ معاملاتِ زندگی کی زمامِ کار صالحین کے ہاتھ میں ہے یا فاسقین کے ہاتھ میں اور حیات دنیا میں امامت وراہ نُمائی کا مقام خدا کے مطیع فرمان بندوں کو حاصل ہے یا اس کی اطاعت سے آزاد رہنے والوں کو۔ جماعت کا نقطہ نظر ابتدا سے یہ ہے کہ اقامتِ دین کا مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک اقتدار کی کنجیوں پر دین کا تسلّط قائم نہ ہو جائے۔ اور جماعت ابتدا ہی سے یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رکھتی ہے کہ دین کا یہ تسلّط یک لخت کبھی قائم نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہ ایک تدریجی عمل ہے جو غیر دینی نظام کے مقابلے میں دینی نظام چاہنے والوں کی پیہم کش مکش اور درجہ بدرجہ پیش قدمی سے ہی مکمل ہوا کرتا ہے۔ جماعتِ اِسلامی نے اس مقصد کے لیے تقسیمِ ہند سے پہلے اگر عملاً کوئی اقدام نہیں کیا تھا تو اس کی وجہ مواقع کا فقدان اور ذرائع کی کمی بھی تھی اور یہ وجہ بھی تھی کہ اس وقت کے نظام میں اس مقصد کے لیے کام کرنے میں بعض شرعی موانع تھے۔ قیام پاکستان کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے مواقع اور ذرائع دونوں فراہم کر دیے اور شرعی موانع کو دور کرنے کے امکانات بھی پیدا کر دئیے توجماعت نے اپنے لائحہ عمل میں اس چوتھے جز کو بھی، جو اس کے نصب العین کا ایک لازمی تقاضا تھا، شامل کر لیا۔ اس میدان میں دس سال کی جدوجہد کے بعد اب غیر دینی نظام کی حامی طاقتوں کے مقابلے میں دینی نظام کے حامیوں کی پیش قدمی ایک اہم مرحلے تک پہنچ چکی ہے۔ ملک کے دستور میں دینی نظام کے بنیادی اصول منوائے جا چکے ہیں۔ اور ان منوائے ہوئے اصولوں کو ملک کے نظام میں عملاً نافذ کرانے کا انحصار اب قیادت کی تبدیلی پر ہے۔ اس موقع پر ایک صالح قیادت بروئے کار لانے کے لیے صحیح طریق کار یہ ہے کہ اس لائحہ عمل کے چاروں اجزا پر توازن کے ساتھ اس طرح کام کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے کہ ہر جز کا کام دوسرے جز کے لیے موجبِ تقویت ہو اور جتنا کام پہلے تین اجزا میں ہوتا جائے، اسی نسبت سے ملک کے سیاسی نظام میں دینی نظام کے حامیوں کا نفوذ واثر عملاً بڑھتا چلا جائے۔ مگر یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ توازن قائم نہ رہنے کو کسی وقت بھی اس لائحہ عمل کے کسی جز کو ساقط یا معطل یا موخر کر دینے کے لیے دلیل نہ بنایا جا سکے گا۔
علاوہ بریں چوں کہ جماعتِ اِسلامی اپنے دستور کی رو سے اپنے پیشِ نظر اصلاح وانقلاب کے لیے جمہوری وآئینی طریقوں پر کام کرنے کی پابند ہے اور پاکستان میں اس اصلاح وانقلاب کے عملاً رونما ہونے کا ایک ہی آئینی راستہ ہے اور وہ ہے انتخابات کا راستہ، اس لیے جماعتِ اِسلامی ملک کے انتخابات سے بے تعلق تو بہرحال نہیں رہ سکتی۔ خواہ وہ ان میں بلاواسطہ حصہ لے یا بالواسطہ یا دونوں طرح۔ رہا یہ امر کہ انتخابات میں کس وقت ان تینوں طریقوں میں سے کس طریقے سے حصہ لیا جائے، اس کو جماعت اپنی مجلسِ شُورٰی پر چھوڑتی ہے تاکہ وہ ہر انتخاب کے موقع پر حالات کا جائزہ لے کر اس کا فیصلہ کرے۔
ضمیمہ
وہ پروگرام جس کا ذکر اس قرار داد کے پیرا گراف نمبر ۳ میں کیا گیا ہے حسب ذیل ہے:
۱۔ جماعت کی اندرونی اصلاح کا پروگرام
۱۔ تمام مقامی جماعتیں اس امر کا خاص اہتمام کریں کہ اگر ان کے ارکان اور رفقائے جماعت کے درمیان کوئی نزاع پیدا ہو جائے تو اسے ہرگز پرورش پانے نہ دیا جائے بلکہ علم میں آتے ہیں فورًااسے دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
۲۔ جس حلقہ کی کسی ماتحت جماعت میں کوئی خرابی رونما ہو، اس کے نظم کو جلدی سے جلدی خود اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کو کسی بیرونی مدد کی ضرورت ہو تو ضلع اور حلقے کے نظم سے مدد طلب کرنی چاہیے۔
۳۔ ہر حلقہ کی جماعت اپنے حلقہ کے عمدہ کارکنوں کی ایک ٹیم مقرر کر لے جس سے بوقت ضرورت اصلاحِ حال اور کم زور علاقوں میں کام کو آگے بڑھانے کے لیے کام لیا جائے۔
۴۔ جہاں کسی حلقے کے نظم کی حالت خود قابل اصلاح ہو، وہاں مرکز کی ہدایات کے تحت اصلاحِ حال کے لیے باہر سے کارکن بھیجے جائیں جو حالات کا مطالعہ کرکے خرابی کے اسباب متعین اور اصلاح کی تدابیر تجویز کریں اور انھیں عملی جامہ پہنانے کی صورتیں اختیار کریں۔ اس غرض کے لیے ایک مرکزی ٹیم بھی مقرر کی جائے جس کے ارکان جہاں بھی اس طرح کی کوئی ضرورت پیش آئے، بروقت بھیج دئیے جائیں اور انھیں اصلاحِ حال کے لیے تمام مناسب اقدام کرنے کا پورا اختیار ہو۔
۵۔ جماعت کے اندر خرابیوں کے در آنے کی ایک بڑی وجہ محاسبہ کی کمی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مقامی، ضلعی اور حلقوں کے ہفتہ وار، سہ ماہی اور شش ماہی اجتماعات پابندی کے ساتھ منعقد کیے جائیں اور ان میں ارکان کی اَخلاقی ودینی حالت، ان کے معاملات اور جماعت کے نظم میں ان کے طرزِ عمل کا اچھی طرح محاسبہ کیا جاتا رہے۔ اور اگر کوئی کارکن اصلاح کی تمام کوششوں کے باوجود درست نہ ہو تو جماعت سے اس کے اخراج کی کارروائی میں بے جا تساہل سے کام نہ لیا جائے۔
۶۔ کارکنوں کی تربیت کے لیے تربیت گاہیں خاص اہتمام کے ساتھ برابر قائم کی جاتی رہیں اور تربیت گاہوں کے اختتام کے بعد بھی اس امر کا اہتمام کیا جائے کہ کارکنانِ جماعت قرآن وحدیث اور دینی لٹریچر کا برابر مطالعہ کرتے رہیں۔ تربیت کے طریقے میں اب تک کے تجربات کو ملحوظ رکھ کر جن اصلاحات کی ضرورت محسوس کی جائے وہ مختلف حلقوں کی مجالسِ شُورٰی کی طرف ۱۵، اپریل ۵۷ء تک مرکز میں بھیج دی جائیں تاکہ مرکزی مجلسِ شُورٰی ان پر غور کرکے تربیت کا ایک بہتر نظام تجویز کر سکے۔
۷۔ مشرقی پاکستان کے کارکنوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ کی جائے اور اس حد تک انھیں تیار کر دیا جائے کہ وہ اپنے حلقے میں تربیت کا کام خود سنبھال سکیں۔
۲۔ علمی وفکری میدان میں کام کا پروگرام
۱۔ جماعت کا تمام ضروری لٹریچر ۱۹۵۸ء کے اختتام تک انگریزی میں منتقل کر دیا جائے۔
۲۔ علمی تحقیقات کی تربیت کا ایک ادارہ قائم کیا جائے اور جب تک ایسا ادارہ قائم نہ ہو سکے، اس وقت تک جماعت کے ان کارکنوں سے جو اچھی علمی صلاحیتیں رکھتے ہوں، مختلف شعبوں میں کام لینے کی کوشش کی جائے اور ایسے کارکنوں پر جماعت کی دوسری سرگرمیوں کا بار نہ ڈالا جائے۔
۳۔ ایک ایسے ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے جو اِسلام سے متعلق ضروری کتابیں اردو میں منتقل کرے۔
۴۔ خواتین کے لیے ایک ایسے ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے جو تعلیم وتربیت کا کام بھی کرے اور اسی کا ایک شعبہ خواتین کے لیے لٹریچر بھی تیار کرے۔
۵۔ مسئلہِ قومیت، پردہ، تنقیحات، دعوت دین اور اس کا طریقِ کار، سود حصہ اوّل ودوم، اِسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی اور تفہیم القرآن جلد اوّل ودوم کو ۱۹۵۸ء کے آخر تک لازماً بنگلہ میں منتقل کرکے شائع کر دیا جائے (ان میں سے بعض کتابیں زیرِ تکمیل ہیں اور تفہیم القرآن کا ترجمہ بالاقساط ہفتہ وار توحید کھلنا میں شائع ہو رہا ہے)۔
۶۔ ترجمان القرآن کا بنگلہ ایڈیشن ڈھاکہ سے شائع کیا جائے۔ (سردست ’’جہانِ نو‘‘ کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار ڈھاکہ سے جاری کر دیا گیا ہے)
۷۔ ایک ایسا دارالعلوم قائم کیا جائے جس میں ضروری ترمیم اور علوم جدیدہ کے ضروری اضافے کے ساتھ درس نظامی کی تعلیم اور اَخلاقی تربیت کا انتظام ہو۔ (اس دارالعلوم کا افتتاح ۱۶ شوال ۱۳۷۵ھ مطابق ۲۷ مئی ۱۹۵۶ء کو ڈیپر ضلع حیدر آباد میں کر دیا گیا ہے)۔
۸۔ جہاں جہاں حالات ساز گار ہوں ایسے پرائمری اسکول قائم کیے جائیں جن میں محکمہ تعلیم کے مقرر کردہ نصاب کے ساتھ دینی تعلیم اور اَخلاقی تربیت کا عمدہ انتظام ہو۔ (اس طرح کے مدارس لاہور، لائل پور اور کوئٹہ میں اس وقت چل رہے ہیں)۔
۹۔ تعلیمِ بالغاں کے لیے جگہ جگہ مراکز قائم کیے جائیں۔ تعلیم یافتہ ارکان اور متفقین سے اس کام کے لیے وقت لیا جائے اور ۱۹۵۸ء کے اختتام تک کم از کم ۲۵ ہزار ناخواندہ آدمیوں کو خواندہ بنایا جائے۔ خواندگی کا کم از کم معیار یہ ہونا چاہیے کہ آدمی اردو لکھ پڑھ سکے، قرآن مجید ناظرہ پڑھنے کے قابل ہو جائے اور قرآن مجید کی کم از کم ان سورتوں کا ترجمہ سیکھ لے جو بالعموم نمازوں میں پڑھی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ یہ کوشش بھی کی جائے کہ ان بالغ طالب علموں کی دینی واَخلاقی حالت عملاً درست ہو اور ان میں اپنے گَرد وپیش کے معاشرے کی اصلاح کے لیے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوجائے۔ (تعلیمِ بالغاں کے سلسلے میں راہ نُمائی اور مفصل طریق کار تجویز کرنے کے لیے جوکمیٹی بنائی گئی تھی اس کی رپورٹ تمام جماعتوں کو آغاز کار کے لیے بھیجی جا چکی ہے۔ کئی مقامات پر تعلیم بالغاں کے مراکز قائم بھی ہو چکے ہیں)۔
۱۰۔ ۱۹۵۸ء کے آخر تک مغربی پاکستان میں دارالمطالعوں کی تعداد پانچ سو تک بڑھا دی جائے۔
۳۔ توسیعِ جماعت کا پروگرام
۱۹۵۸ء کے آخر تک مغربی پاکستان میں جماعتِ اِسلامی کے متفقین کی تعداد چالیس ہزار تک اور مشرقی پاکستان میں دس ہزار تک پہنچا دی جائے۔
۴۔ عوامی اصلاح وتربیت کا پروگرام
تمام جماعتوں، حلقہ ہائے متفقین اور دوسرے کارکنان جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے حالات اور وسائل کے مطابق حسبِ ذیل قسم کے کاموں کو اپنے ہاں زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کریں۔
۱۔ جماعت کی بنیادی دعوت کو وسیع پیمانے پر پھیلانا۔
(اس سلسلے میں تمام کارکنوں کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جماعتِ اِسلامی کا اصل کام جس پر تمام دوسری سرگرمیوں کی بِنا قائم ہوتی ہے، عوام الناس کو اطاعتِ خدا اور رسول کی طرف بلانا، آخرت کی باز پرس کا احساس دلانا، خیر وصلاح اور تقوٰی کی تلقین کرنااور اِسلام کی حقیقت سمجھانا ہے۔ یہ کام لٹریچر، تقریر، تعلیم، زبانی گفتگو اور تمام ممکنہ ذرائع سے وسیع پیمانے پر ہونا چاہیے)
۲۔ مساجد کی اصلاح حال
(اس میں مسجدوں کی تعمیر، ان کی مرمت، ان کے لیے فرش، پانی اور دوسری ضروریات اور آسائشوں کی فراہمی نیز اذان، نماز باجماعت، امام، درس وتدریس اور خطبات جمعہ وغیرہ جملہ امور کا اطمینان بخش انتظام شامل ہے۔ اگر لوگ مسجد کی اہمیت اور اس کے مقام کو سمجھنے لگیں تو بستی اور محلہ میں مسجد سے زیادہ دل کش جگہ اور کوئی نہ ہو۔)
۳۔ عوام میں علم دین پھیلانا۔
(ظاہر ہے کہ دین کے علم کے بغیر آدمی دین کی راہ پر نہیں چل سکتا۔ اگر اتفاق سے چل رہا ہے تو اس کے ہر آن بھٹک جانے کا اندیشہ ہے۔ اگر لوگ نہ دین کو جانیں اور نہ اس پر چلیں تو اِسلامی نظام کا خواب کبھی حقیقت کی شکل اختیار نہیں کر سکتا۔ اس لیے دین خود بھی سیکھئے اور دوسروں کو بھی سکھانے کا انتظام کیجئے۔ دوسروں تک اسے پہنچانے کے لیے گفتگو، مذاکرات، تقاریر، خطبات، درس، اجتماعی مطالعہ، تعلیم بالغاں، دارالمطالعوں اور اِسلامی لٹریچر کی عام اشاعت اور تقسیم کو ذریعہ بنائیے۔ یاد رکھیے کہ دین کا علم پھیلانا ان کاموں میں میں سے ہے جو صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔)
۴۔ غنڈہ گردی کے مقابلے میں لوگوں کی جان ومال اور آبرو کی حفاظت کرنا، عام طور پر لوگوں کو ظلم وستم سے بچانا، شہریوں کے اندر اَخلاقی فرائض اور ذمّہ داریوں کے احساس کو بیدارکرکے ان کی ادائیگی پر انھیں آمادہ کرنا اور شہروں اور دیہات کی اَخلاقی حالت کو درست کرنا۔
(صدیوں کے انحطاط کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں اب بدی اور برائی منظم، بے باک، جری اور ایک دوسرے کی پشت پناہ بن چکی ہے اور نیکی اور شرافت اب انتشار، پست ہمتی، بزدلی اور کم زوری کے ہم معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ اس صورتِ حال کو پھر سے بدلنا ہے اورنیکی اور شرافت کو منظم، بے باک اور نڈر بنا کر اسے معاشرے کے ہر گوشے میں حکمراں طاقت کی حیثیت دینا ہے)۔
۵۔ سرکاری محکموں اور اداروں سے عام لوگوں کی شکایات رفع کرانے میں ان کی امداد کرنا اور داد رسی حاصل کرنے میں ان کی راہ نُمائی کرنا۔
۶۔ بستی کے یتیموں، بیوائوں، معذوروں اورغریب طالب علموں کی فہرستیں تیار کرنا اور جن جن طریقوں سے ممکن ہو ان کی مدد کرنا۔ اس غرض کے لیے زکوٰۃ، عشر اور صدقات کی رقوم کی تنظیم اور بیت المال کے ذریعے ان کی تحصیل اور تقسیم کا انتظام کرنا چاہیے۔
۷۔ دیہات اور محلو ں میں تعلیم بالغاں کے مراکز اور دارالمطالعوں کا قیام اور عام لوگوں میں ان سے استفادہ کا شوق پیدا کرنا۔
۸۔ فواحش کی روک تھام اور ان کے خلاف عوامی ضمیر اور احساسِ شرافت کو بیدارکرنا۔
(فواحش کے سلسلے میں کسی ایک ہی گوشے پر نظر محدود نہیں کر دینی چاہیے۔ بلکہ اس کے تمام سرچشموں پر نگاہ رکھنی چاہیے۔ مثلاً قحبہ خانے، شراب خانے، سینما کی پبلسٹی، دکانوں پر عریاں تصاویر کے سائن بورڈ، ٹورنگ اور تھیٹریکل کمپنیاں، مخلوط تعلیم، اخبارات میں فحش اشتہارات اور فلمی مضامین، ریڈیو پر فحش گانوں کے پروگرام، دکانوں اور مکانوں پر فحش گانوں کی ریکارڈنگ، قمار بازی کے اڈے، رقص کی مجالس، فحش لٹریچر اور عریاں تصاویر، جنسی رسائل، آرٹ اور کلچر کے نام سے بے حیائی پھیلانے والی سرگرمیاں، مینا بازار، عورتوں میں روز افزوں بے پردگی کی وبا۔)
۹۔ رشوت وخیانت اور سفارش کی لعنت کے خلاف رائے عام کو منظم کرنا اور سرکاری حکام اور ماتحت کارکنوں میں خدا ترسی، فرض شناسی اور آخرت کی جواب دہی کا احساس بیدار کرنے کی کوشش کرنا۔
(اس غرض کے لیے ان حلقوں میں ’’اِسلامی ریاست میں کارکنوں کی ذمّہ داریاں اور اوصاف کی عام اشاعت کی جائے اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ عدالتوں، تھانوں اور دوسرے سرکاری دفاتر میں قرآن مجید اور حدیث شریف اور اِسلامی لٹریچر میں سے مناسب حال آیات، احادیث اور عبارتیں کتبوں کی شکل میں آویزاں کی جائیں)۔
۱۰۔ مذہبی جھگڑوں اور تفرقہ انگیزی کا انسداد۔
(اس کے لیے مختلف جماعتوں کے مذہبی پیشوائوں سے ملاقاتیں کرکے انھیں اس کے برے نتائج سے باخبر کیا جائے کہ یہ چیز کس طرح اس ملک سے اِسلام کی جڑیں اکھاڑ دینے والی ہے اور اسے کس طرح ملک کے ذہین طبقہ کے اندر علما اور مذہب کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے مخالفِ اِسلام عناصر کی طرف سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ نیز عام پبلک کو بھی مناسب مواقع پر اس کے نتائج سے باخبر کیا جائے اور ان سے اپیل کی جائے کہ وہ اس قسم کے فتنوں کی سرپرستی سے بالکل کنارہ کش رہیں)
۱۱۔ بستی کے عام لوگوں کے تعاون سے صفائی اور حفظانِ صحت کی کوشش کرنا۔
(اگر لوگ صحت وصفائی کے سلسلے میں معمولی احتیاط بھی برتنا شروع کر دیں تو وہ بہت سی وبائوں اور بیماریوں سے اپنے آپ کو اور دوسرے شہریوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ بہت سی احتیاط اور تدابیر ایسی ہیں جن پر یا تو کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا یا بہت معمولی خرچ ہوتا ہے۔ جماعت کے کارکنوں کو چاہیے کہ اس سلسلے میں بھی عوام کی اصلاح وتربیت کریں۔ اس بارے میں ضروری راہ نُمائی کے لیے وہ ناظم شعبہِ خدمتِ خلق جماعتِ اِسلامی پاکستان کی معرفت جماعتِ اِسلامی کراچی اور اپنے ضلع کے ہیلتھ افسر کی طرف رجوع کر سکتے ہیں)
اس پروگرام کے مطابق کام کرتے ہوئے جماعت کے کارکنوں کو یہ بات نگاہ میں رکھنی چاہیے کہ ہمیں ہر گوشہِ زندگی میں اِسلام کے مطابق پورے معاشرے کی اصلاح کرنی ہے اور اسی پروگرام کو بتدریج ہمہ گیر اصلاح کا پروگرام بنا دینا ہے۔ کارکنوں کو اس امر کی کوشش بھی کرنی چاہیے کہ وہ اصلاحِ معاشرہ کے اس کام میں اپنے اپنے علاقوں کے تمام اِسلام پسند اور اصلاح پسند عناصر کا تعاون حاصل کریں اور جو کوئی جس حد تک بھی ساتھ دے سکتا ہو اسے اس عام بھلائی کی خدمت میں شریک کریں۔
تقریر
مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ
حمد وثنا کے بعد
محترم رفقا…!
جماعتِ اِسلامی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ہم ایک قرار داد کی صورت میں ان خطوط کی وضاحت کر رہے ہیں جن پر ہمیں اپنی تحریک کو آگے چلانا ہے۔ اس سے پہلے پندرہ سال تک معمول یہ رہا ہے کہ اجتماعات کے موقع پر اس تحریک کے مقصد، لائحہِ عمل اور طریقِ کار کی وضاحت امیرِ جماعت اپنی تقریروں میں کرتا تھا اور وہی تقریریں جماعت کے لٹریچر میں شامل ہو کر تحریک کے لیے راہ نُمائی کا کام کرتی تھیں۔ اب اس پرانے معمول سے ہٹ کر ایک قرار داد کی صورت میں یہ چیز پیش کرنے اور متبادل تجویزوں اور ترمیموں کا موقع دینے کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی ہے کہ جماعت پوری بصیرت کے ساتھ اپنی پالیسی اور آیندہ طریقِ کار کا فیصلہ کرے اور جتنے ممکن راستے اس کے سامنے رکھے جائیں، انھیں اچھی طرح جانچنے اور پرکھنے کے بعد پورے اطمینان کے ساتھ ایک راستہ اختیار کرے۔
اسی ضرورت کی بنا پر میں اس قرار داد کی توضیح وتشریح میں غیر معمولی طور پر ایک مفصّل تقریر کر رہا ہوں۔ یہ تفصیل نہ صرف اس لیے ضروری ہے کہ ارکانِ جماعت قرار داد کے ہر پہلو کو خوب سمجھ کر علیٰ وجہ البصیرت اس کے بارے میں فیصلہ کر سکیں، بلکہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس وقت ارکان میں تین چوتھائی سے زیادہ تعداد ایسے رفقا کی ہے جو بیچ کے مراحل میں ہمارے ہم سفر ہوئے ہیں اور اس تحریک کا تدریجی ارتقا پوری طرح ان کے سامنے نہیں ہے۔ انھیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اب تک ہم کن مراحل سے گزرتے ہوئے آ رہے ہیں، ہر مرحلے میں کن حالات سے دوچار ہوتے رہے ہیں‘ ان حالات میں ہم نے کیا قدم اٹھائے ہیں اور کیوں اٹھائے ہیں اور اب ہم جس مقام پر کھڑے ہیں یہاں سے آگے بڑھنے کے لیے ہم کو کس طرح اپنا راستہ نکالنا ہے اور کن امور کوملحوظ رکھ کر کام کرنا ہے۔
قرارداد کے دس بنیادی نکات
اس غرض کے لیے زیر بحث قرار داد کا مدعا واضح کرنے کی خاطر یہ مناسب ہو گا کہ پہلے میں اس کا تجزیہ کرکے بتا دوں کہ یہ کن نکات پر مشتمل ہے، پھر ہر نکتے کی تشریح کرتے ہوئے اس کی صحت بھی ثابت کروں اور یہ بھی دکھائوں کہ دوسرے نکات کے ساتھ اس کا ربط کیا ہے۔
یہ قرارداد دراصل دس نکات پر مشتمل ہے:
اوّل یہ کہ جس نصب العین کے لیے یہ جماعت قائم ہوئی تھی اور جن اصولوں کی پابندی کا اس نے عہد کیا تھا، آج تک وہ اسی نصب العین کی طرف، انھی اصولوں کی پابندی میں بڑھتی چلی آ رہی ہے۔
دوم یہ کہ نومبر ۱۹۵۱ء میں اجتماعِ کراچی کے موقع پر اس تحریک کا جو لائحہِ عمل پیش کیا گیا تھا وہ بالکل صحیح توازن کے ساتھ، مقصد ِتحریک کے تمام نظری اور عملی تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور وہی آیندہ بھی اس کا لائحہ عمل رہنا چاہیے۔
سوم یہ کہ اس لائحہِ عمل کے پہلے تین اجزا کوئی نئی چیز نہیں ہیں بلکہ اس تحریک کے یومِ آغاز ہی سے وہ اس کے لائحہِ عمل کے اجزائِ لازم رہے ہیں۔
چہارم یہ کہ ان تینوں اجزا کے لیے اس وقت وہ پروگرام موزوں اور کافی ہے جو اس قرارداد کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔
پنجم یہ کہ اس لائحہ عمل کا چوتھا جز بھی ابتدا ہی سے جماعتِ اِسلامی کے بنیادی مقاصد میں شامل تھا، اس کے نصب العین کا لازمی تقاضا تھا اور اس کے لیے تقسیم ہند سے پہلے کوئی عملی اقدام نہ کرنا محض مواقع اور ذرائع کے فقدان اور شرعی موانع کے سبب سے تھا۔
ششم یہ کہ قیامِ پاکستان کے بعد مواقع اور ذرائع بھی بہم پہنچ گئے اور شرعی موانع کو دور کرنے کے امکانات بھی پیدا ہو گئے ہیں، اس لیے جماعت نے بالکل صحیح وقت پر اپنے عملی پروگرام میں اس جز کو شامل کر لیا۔
ہفتم یہ کہ دس سال کی جدوجہد سے جو نتائج حاصل ہوئے ہیں وہ اس لائحہ عمل میں کسی ردّوبدل کے متقاضی نہیں ہیں بلکہ صرف یہ تقاضا کرتے ہیں کہ اس کے چاروں اجزا پر صحیح توازن کے ساتھ یکساں کام کیا جائے۔
ہشتم یہ کہ اس لائحہ عمل پر کام کرنے میں توازن تو یقیناً مطلوب ہے مگر عدم توازن کو کسی وقت بھی اس کے کسی جز کے ساقط یا معطل یا مؤخر کرنے کے لیے دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔
نہم یہ کہ ہم انتخابات سے بے تعلق بہرحال نہیں رہ سکتے، خواہ ان میں بالواسطہ حصہ لیں یا بلاواسطہ، یا دونوں طرح۔
دہم یہ کہ اس معاملے کو مجلسِ شُورٰی پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ ہر انتخاب کے موقع پر یہ فیصلہ کرے کہ ہم ان تینوں طریقوں میں سے کس طریقے پر انتخابات میں حصہ لیں۔
اب میں سلسلہ وار ان نکات میں سے ایک ایک پر کلام کروں گا۔
نکتۂ اوّل
یہ قرارداد سب سے پہلے جماعت کے گزشتہ پندرہ سال کے کام کے متعلق اس اطمینان کا اظہار کرتی ہے کہ وہ ان تمام امکانی لغزشوں اور کوتاہیوں کے باوجود، جو بہرحال انسانی کام میں رہ ہی جاتی ہیں، ٹھیک اسی نصب العین کی راہ پر تھا جو اوّل روز سے جماعت کے پیش نظر رہا ہے اور انھی اصولوں کے مطابق تھا جن کی پابندی کا یہ جماعت ہمیشہ اقرار واعلان کرتی رہی ہے۔
قرارداد کا آغاز اس مضمون سے کیوں کیا گیا ہے؟ اس کے کئی وجوہ ہیں۔ اس کی پہلی وجہ تو وہی ہے جس کا قرار داد کے الفاظ میں اظہار کیا گیا ہے۔ یعنی یہ کہ ہم آگے چلنے سے پہلے اس فضل خاص پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر بجا لائیں کہ اس عام اور ہمہ گیر اَخلاقی انحطاط اور ذ ہنی انتشار کے ماحول میں جس کے اندر ہمیں کام کرنا پڑا ہے اور ان پے درپے آزمائشوں کے باوجود جن سے ہم کو اس پندرہ سال کی مدت میں گزرنا پڑا ہے، ہم اپنے نصب العین کی راہ پر ثابت قدم رہے ہیں اور ہم نے اپنے عمل سے اپنے آپ کو ایک بااصول جماعت ثابت کیا ہے۔ یہ بات ہم فخر کے طور پر نہیں بلکہ تحدیث نعمت کے طور پر کَہ رہے ہیں، اس بنا پر کَہ رہے ہیں کہ شکر ِنعمت ہم پر واجب ہے اور اس غرض کے لیے کَہ رہے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم کو مزید ہدایت اور توفیق سے نوازے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ایک محرک ومتحرک جماعت کو جس طرح ہمیشہ یہ دیکھتے رہنے کی ضرورت ہے کہ اس کے کام اور نظام میں خامیاں کیا ہیں جن کی اسے اصلاح کرنی ہے، اسی طرح اپنے اطمینان کی ضرورت بھی ہے کہ وہ واقعی اپنے مقصد ہی کی طرف بڑھ رہی ہے اور اپنے اصولوں پر قائم ہے۔ اس معاملے میں اگر کوئی شک اس کے دل میں پڑ جائے اور دس پندرہ برس ایک راہ پر چلنے کے بعد وہ ٹھیر کر یہ سوچنے لگے کہ کہیں ہم غلط راہ پر تو نہیں پڑ گئے ہیں، تو یہ ایک سخت حوصلہ شکن اور پریشان کن صورت حال ہو گی جو اس کی قوت عمل کو سرد اور اپنے اجتماعی فہم اور کردار پر اس کے اعتماد کو متزلزل کر دے گی۔ اس کے بعد وہ آگے بھی اطمینان کے ساتھ کوئی قدم نہ اٹھا سکے گی، کیوں کہ پھر تو اسے اپنے اوپر یہ بھروسا رہے گا ہی نہیں کہ وہ اپنے نصب العین کا اور اس کی طرف بڑھنے کی صحیح سمت کا کوئی شعور رکھتی بھی ہے یا نہیں اور اس میں اپنے اصولوں پر جمنے کی طاقت بھی ہے یا نہیں۔
آپ میرا مدعا سمجھنے میں غلطی نہ کریں۔ میرا مدعا یہ نہیں ہے کہ ہم غلط بھی جا رہے ہوں تو ضرور اپنے آپ کو صحیح سمجھتے رہیں تاکہ ہمارا حوصلہ برقرار رہے۔ اس کے برعکس میرا مدعا یہ ہے کہ ہمیں پوری بصیرت کے ساتھ اپنے نصب العین اور اس کی طرف پیش قدمی کی راہ کو سمجھ کر دیکھنا چاہیے کہ ہم ٹھیک اسی کی طرف جا رہے ہیں یا نہیں اور ان تمام اصولوں کو، جن کا آج تک ہم اقرار واعلان کرتے رہے ہیں، سامنے رکھ کر دیکھنا چاہیے کہ ہم من حیث الجماعت ان کی ٹھیک ٹھیک پابندی کی ہے یا نہیں۔ پھر اگر بے لاگ احتساب سے ہم کو یقین ہو جائے کہ ان اعتبارات سے ہم غلط رو اور غلط کار نہیں ہیں تو ہمیں اللّٰہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس پر مطمئن ہو کر آگے بڑھنا چاہیے اور اس کے بعد کسی شک کو اپنے دل میں راہ نہ دینی چاہیے۔ غلطی کو غلطی مان لینا تو ضرور ایک خوبی ہے، مگر صحیح کو خواہ مخواہ غلط مان لینا، یا ہر ٹوکنے والے کی ٹوک پر شک میں پڑ جانا کوئی خوبی نہیں ہے۔ اس حماقت میں ہم اسی وقت مبتلا ہو سکتے ہیں جب کہ یا تو ہم اتنے بلید الذہن ہوں کہ اپنے مقصد اور اپنے کام کو سمجھنا اور جانچنا ہمارے لیے مشکل ہو جائے، یا پھر ہم اس اَخلاقی کم زوری کے شکار ہو چکے ہوں کہ جب بھی کوئی ہمیں ٹوکے ہم ضرور انکسار کی نمائش کرتے ہوئے اعترافِ قصور کرنا شروع کر دیں، خواہ ٹوکنے والا اپنے ہی قصور فہم کی وجہ سے صحیح کو غلط کَہ رہا ہو۔
جماعتِ اِسلامی کا نصب العین کیا تھا؟
آئیے اب ہم دیکھیں کہ ہمارا وہ نصب العین تھا کیا جس کے لیے ہم کام کرنے اٹھے تھے۔ اب سے پندرہ برس پہلے جماعتِ اِسلامی کی تشکیل کا تخیل جس بنیاد پر پیدا ہوا تھا وہ یہ تھی کہ اس وقت مسلمانوں میں جو تحریکیں اور جماعتیں کام کر رہی تھیں وہ اِسلام کے نصب العین کو یا تو سمجھتی ہی نہیں تھیں، یا اس کو سمجھنے اور اپنا حقیقی مقصود کہنے کے باوجود ان راستوں پر چل رہی تھیں جو کسی طرح بھی اس تک پہنچانے والے نہ ہو سکتے تھے۔ اس غلطی کو ۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۱ء تک مسلسل اور پے دَرپے ان مضامین میں واضح کیا گیا جو بعد میں ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ حصہ سوم کے نام سے شائع ہوئے اور انھیں مضامین میں یہ بھی پوری وضاحت کے ساتھ بتایا گیا کہ اِسلام کا اصلی نصب العین ہے کیا اور اس کی طرف بڑھنے کا صحیح راستہ کونسا ہے۔ یہی مضامین تھے جنھوں نے بالاخر ۴۱ء میں چند انسانوں کو جماعتِ اِسلامی کے نام سے ایک جماعت بنانے کے لیے اکٹھا کر دیا تاکہ وہ اس نصب العین کے لیے اس خاص طریقے پر کام کریں۔ لہٰذا اس جماعت کے مبدائے تخلیق کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں ان مضامین کی طرف رجوع کرنا چاہیے، کیوں کہ وہ اس کی پیدائش کے اصل محرک ہیں۔ ان میں اِسلام کا نصب العین قرآن مجید کی اس آیت سے اخذ کیا گیا تھا۔
ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ o (التوبہ۹:۳۳)
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کر دے خواہ یہ کام مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
پھر اس کی تشریح یوں کی گئی تھی:
’’الھُدٰی سے مراد دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ ہے (یعنی یہ کہ) انفرادی برتائو، خاندانی نظام، سوسائٹی کی ترکیب، معاشی معاملات، ملکی انتظام، سیاسی حکمت عملی، بین الاقوامی تعلقات، غرض زندگی کے تمام پہلوئوں میں انسان کے لیے صحیح رویہ کیا ہونا چاہیے۔‘‘
’’دین حق یہ ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کی، خود اپنے نفس کی اور تمام مخلوقات کی بندگی واطاعت چھوڑ کر صرف اللّٰہ کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کرے اور اسی کی بندگی واطاعت کرے۔‘‘
’’پوری جنس دین سے مراد یہ ہے کہ انسان انفرادی یا اجتماعی طور پر جن جن صورتوں سے کسی کی اطاعت کر رہا ہے وہ سب جنس دین کی مختلف انواع ہیں۔ بیٹے کا والدین کی اطاعت کرنا، بیوی کا شوہر کی اطاعت کرنا، نوکر کا آقا کی اطاعت کرنا۔ ماتحت کا افسر کی اطاعت کرنا، رعیت کا حکومت کی اطاعت کرنا، پیروئوں کا پیشوائوں اور لیڈروں کی اطاعت کرنا، یہ اور ایسی دوسری بے شمار اطاعتیں بحیثیت مجموعی ایک نظام اطاعت بناتی ہیں (جسے اس آیت میں الدین یا جنس دین کہا گیا ہے)‘‘
’’اللّٰہ کی طرف سے رسول کے آنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ پورا نظام اطاعت اپنے تمام اجزا سمیت ایک بڑی اطاعت اور ایک بڑے قانون کے تحت ہوجائے۔ تمام اطاعتیں اللّٰہ کی اطاعت کے تابع ہوں۔ ان سب کو منضبط کرنے والا ایک اللّٰہ ہی کا قانون ہو۔ اور اس بڑی اطاعت اور اس ضابطہِ قانون کی حدود سے باہر کوئی اطاعت باقی نہ رہ جائے۔‘‘
’’شرک کرنے والے وہ سب لوگ ہیں جو اپنی انفرادی واجتماعی زندگی میں اللّٰہ کی اطاعت کے ساتھ دوسری مستقل بالذات (یعنی خدا کی اطاعت سے آزاد) اطاعتیں شریک کرتے ہیں… اللّٰہ کے رسول پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کی مزاحمت کے باوجود اپنے مشن کو پورا کرے۔
حصولِ نصب العین کا راستہ
یہ تھا وہ نصب العین جسے پیش کرکے جماعتِ اِسلامی کے قیام کی دعوت دی گئی تھی۔ اور اس تک پہنچنے کا راستہ جو پیش کیا گیا تھا وہ یہ تھا:
’’اس نصب العین کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے راہ راست وہی ہے جو اللّٰہ کے رسولؐ نے اختیار کی، یعنی یہ کہ لوگوں کو الہدیٰ اور دین حق کی طرف دعوت دی جائے۔ پھر جو لوگ اس دعوت کو قبول کرکے اپنی بندگی واطاعت اللّٰہ کے لیے خالص کر دیں، دوسری اطاعتوں کو اللّٰہ کی اطاعت کے ساتھ شریک کرنا چھوڑ دیں اور خدا کے قانون کو اپنی زندگی کا قانون بنا لیں، ان کا ایک مضبوط جتھا بنایا جائے۔ پھر یہ جتھا تمام ان اَخلاقی، علمی اور مادّی ذرائع سے جو اس کے امکان میں ہوں، دینِ حق کو قائم کرنے کے لیے، جہاد کبیر کرے۔ یہاں تک کہ اللّٰہ کے سوا دوسری اطاعتیں جن جن طاقتوں کے بل پر قائم ہیں ان سب کا زور ٹوٹ جائے اور پورے نظام اطاعت پر وہی الہدٰی اور دین حق غالب آ جائے۔‘‘
’’اس راہِ راست کا ہر جز قابل غور ہے۔ پہلا جز یہ ہے کہ انسان کو بالعموم اللّٰہ کی حاکمیت واقتدارِ اعلیٰ تسلیم کرنے اور اس کے بھیجے ہوئے قانون کو اپنی زندگی کا قانون بنانے کی دعوت دی جائے۔ یہ دعوت عام ہونی چاہیے‘ ہر وقت جاری رہنی چاہیے اور اس کے ساتھ دوسری غیر متعلق باتوں کی آمیزش نہ ہونی چاہیے۔ قوموں اور نسلوں اور ملکوں کے باہمی جھگڑے، خود اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کی بحثیں، غیر الٰہی نظامات میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا، یا کسی ایسے نظام فاسد کی خود غرضانہ حمایت کرنا، یا کسی نظام فاسد میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرنا، یہ سب چیزیں نہ صرف یہ کہ الہدیٰ اور دینِ حق کے ساتھ میل نہیں کھاتیں بلکہ صریح طور پر اس کے منافی اور اس کے لیے مضرت رساں ہیں۔ پس جب کسی شخص یا گروہ کو دعوت حق کی خدمت انجام دینی ہو تو اسے ان تمام جھگڑوں اور بحثوں سے الگ ہو جانا چاہیے اور اپنی دعوت کے ساتھ کسی دوسرے غیر متعلق اور بے جوڑ قضیے کو شامل نہ کرنا چاہیے۔
’’دوسرا جز یہ ہے کہ جتھا صرف ان لوگوں کا بنایا جائے جو اس دعوت کو جان کر اور سمجھ کر قبول کریں، جو بندگی واطاعت کو فی الواقع اللّٰہ کے لیے خالص کر دیں، جو دوسری اطاعتوں کو اللّٰہ کی اطاعت کے ساتھ شریک کرنا چھوڑ دیں اور حقیقت میں اللّٰہ کے قانون کو اپنا قانونِ زندگی بنا لیں۔ رہے دوسرے لوگ جو اس طرزِ خیال یا طرزِ زندگی کے محض معترف ہوں، یا اس سے ہم دردی رکھتے ہوں تو وہ مجاہدہ کرنے والے جتھے کے لیڈر کیا معنی، رکن بھی نہیں بن سکتے۔ اس میں شک نہیں کہ جو جس درجے میں بھی اس کا ہم درد یا بیرونی معاون بن جائے، بسا غنیمت ہے، مگر ارکان اور ہم دردوں کے درمیان جو حقیقی فرق وامتیاز ہے اسے کسی حال میں بھی نظر انداز نہ کرنا چاہیے‘‘۔
’’تیسرا جز یہ ہے کہ براہِ راست غیر الٰہی نظامِ اطاعت پر حملہ کیا جائے۔ تمام کوششوں کا مقصود صرف اس ایک بات کو بنایا جائے کہ اللّٰہ کی حاکمیت قائم ہو اور اس کے سوا کسی دوسری چیز کو مقصود بنا کر اس کے پیچھے قوتیں ضائع نہ کی جائیں۔‘‘{ FR 7691 }
یہ طریق کارِ تھا جس پر اِسلامی نصب العین کے لیے کام کرنے کی دعوت دی گئی تھی اور اسی دعوت پر آخر کار یہ جماعت وجود میں آئی۔ ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ حصہ سوم کے آخر میں جو دستور جماعت درج ہے اس کا دیباچہ ملاحظہ فرمائیے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’’اِسلام کا مقصد زندگی کے فاسد نظام کو بالکل بدل دینا ہے۔ یہ کلی واساسی تغیر صرف اسی طریقے پر ممکن ہے جو انبیا علیہم السلام نے اختیار کیا تھا۔ مسلمانوں میں اب تک جو کچھ ہوتا رہا ہے اور جو کچھ اب ہو رہا ہے وہ نہ اس مقصد کے لیے ہے اور نہ اس طریقے پر ہے۔ لہٰذا اب ایک ایسی جماعت کی ضرورت ہے جو صحیح معنوں میں اِسلامی جماعت ہو اور اِسلامی نصب العین کے لیے اِسلامی طریقے پر کام کرے۔ اسی بنا پر شعبان ۱۳۶۰ (اگست ۴۱ھ) میں ان لوگوں کا اجتماع منعقد کیا گیا جو صحیح اِسلامی اصول پر کام کرنے کے خواہشمند ہیں اور باہمی مشورے سے ’’جماعت اِسلامی‘‘ کی بنا ڈالی گئی۔‘‘
دستورِ جماعت میں نصب العین کی تشریح
تشکیل جماعت کے ساتھ پہلے ہی اجتماع میں جو دستور وضع کیا گیا اس میں جماعت کا نصب العین اور اس کی تمام سعی وجہد کا مقصود یہ قرار دیا گیا ہے کہ ’’دنیا میں حکومتِ الٰہیہ کا قیام اور آخرت میں رضائے الٰہی کا حصول‘‘ پھر حکومت الہیہ کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی کہ اس سے مراد اللّٰہ کی تکوینی حکومت نہیں بلکہ اس کی شرعی حکومت ہے، یعنی اس قانون کی حکومت جو رسولوں کے واسطے سے آتا ہے، جس کا تعلق عقائد، اَخلاق، معاشرت، تمدن اور سیاست وغیرہ سے ہے۔ اور مومن کی زندگی کا مشن یہ بیان کیا گیا کہ ’’جس طرح خدا کا قانونِ تکوینی تمام کائنات میں نافذ ہے اسی طرح خدا کا قانون شرعی بھی عالم انسانی میں نافذ ہو۔‘‘ نیز یہ بھی صراحت کر دی کہ یہ کام فی الاصل تو نصیحت، فہمائش، ترغیب اور تبلیغ ہی سے کرنے کا ہے، لیکن جو لوگ ملک خدا کے ناجائز مالک بن بیٹھتے ہیں وہ عموماً اپنی خداوندی سے محض نصیحتوں کی بنا پر دست بردار نہیں ہو جایا کرتے، اس لیے مجبورًا مومن کو جنگ کرنی پڑتی ہے تاکہ حکومت الٰہیہ کے قیام میں جو چیز سدِّ راہ ہو اسے راستے سے ہٹا دے۔‘‘ { FR 7692 }
یہ دستور ۱۱ سال تک جماعتِ اِسلامی کا دستور رہا پھر اگست ۱۹۵۲ء میں جماعتِ اِسلامی پاکستان نے اپنے لیے جو نیا دستور بنایا، اس کی دفعہ ۴ میں وہی نصب العین ان الفاظ میں درج کیا گیا:
’’عملاً اقامت دین (یعنی حکومت الٰہیہ، یا اِسلامی نظام زندگی کا قیام اورحقیقتاً رضائے الٰہی اور فلاحِ اخروی کا حصول۔‘‘
اور اس کی تشریح میں وہی مضمون جو سابق دستور میں تھا، یوں ادا کیا گیا:
’’اقامتِ دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، نماز ،روزے اور حج وزکوٰۃ سے ہو یا معیشت ومعاشرت اور تمدن وسیاست سے۔ اِسلام کا کوئی حصہ بھی غیر ضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اِسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے۔ اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہو سکتا‘‘ اہل ایمان کو مل کر اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔‘‘
’’اگرچہ مومن کا اصل مقصد زندگی رضائے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامتِ دین ا ور حقیقی نصب العین وہ رضائے الٰہی ہے جو اقامتِ دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہو گی۔‘‘
منشور جماعت میں نصب العین کی تشریح
دستور کے بعد ایک جماعت کی اہم ترین دستاویز اس کا منشور ہوتا ہے۔ ۱۹۵۱ء میں صوبائی انتخابات کے موقع پر جماعتِ اِسلامی نے اپنا جو منشور شائع کیاتھا اس کے پہلے ہی صفحہ پر وہ اپنے مقصدِ وجود کواس طرح پیش کرتی ہے:
’’یہ جماعت ان محدود معنوں میں کوئی سیاسی یا مذہبی یا اصلاحی جماعت نہیں ہے جن میں عام طور پر یہ الفاظ بولے جاتے ہیں، بلکہ وسیع معنوں میں ایک اصولی جماعت ہے جو پوری انسانی زندگی کے لیے ایک جامع اور عالم گیر نظریہ حیات پر یقین رکھتی ہے اور اپنے اس نظریہ کو انسانی عقائد وافکار میں، اَخلاق اور عادات میں، علوم وفنون میں، ادب اور آرٹ میں، تمدن وتہذیب میں، مذہب اور معاشرت میں، معاشی معاملات میں، سیاست اور نظم مملکت میں اور بین الاقوامی تعلقات وروابط میں عملاً نافذ کرنا چاہتی ہے۔ اس جماعت کے نزدیک دنیا کے بگاڑ کا حقیقی سبب خدا کی اطاعت سے انحراف، آخرت کی جوابدہی سے بے نیازی اور انبیا علیہم السلام کی راہ نُمائی سے روگردانی ہے … یہ جماعت نوعِ انسانی کے لیے فلاح کی صرف ایک ہی صورت دیکھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کا پورا نظام اپنے تمام شعبوں اور گوشوں سمیت خدائے واحد کی بندگی واطاعت کے اصول پر قائم ہو، اس بندگی واطاعت کے لیے انبیا علیہم السلام کی اس راہ نُمائی کو سند مانا جائے جو آج اپنی صحیح وکامل صورت میں صرف سیدنا محمدa کی تعلیم ہی میں موجود ہے اور افراد کی سیرتوں سے لے کر قوموں کے اجتماعی طرزِ عمل تک ہر چیز کو اس اَخلاقی رویے پر قائم کیا جائے جس کی بنیاد آخرت کی جواب دہی کے احساس پر رکھی گئی ہو۔‘‘
اجتماعاتِ عام میں نصب العین کی توضیحات
دستور اور منشور کے بعد تیسری اہم ترین سند وہ تصریحات ہیں جو ارکانِ جماعت کے عام اجتماعات میں کی جاتی ہیں، خواہ وہ کسی جماعتی قرارداد کی صورت میں ہوں یا خطبہِ امارت کی شکل میں۔ کیوں کہ ایسے مواقع پر امیرِ جماعت جوکچھ کہتا ہے وہ کسی شخص کی ذاتی رائے نہیں ہوتی بلکہ پوری جماعت اسے سند قبول عطا کرتی ہے۔ میں آپ کے سامنے جماعت کی رودادوں سے نصب العین کی وہ توضیحات پیش کروں گا جو پے درپے اجتماعات عام میں کی گئی ہیں۔
اگست ۱۹۴۱ء کا اولین اجتماع جس سے اس جماعت کے وجود کا آغاز ہوا، اس میں مقصدِ سعی یہ بیان کیا گیا تھا کہ ’’دین کو ایک تحریک کی صورت میں جاری کیا جائے۔‘‘ اور اس کی تشریح یہ کی گئی تھی کہ’’ہماری زندگی میں دین داری محض ایک انفرادی رویے کی صورت میں جامد وساکن ہو کر نہ رہ جائے بلکہ ہم اجتماعی صورت میں نظامِ دینی کو عملاً نافذ وقائم کرنے اور مانع ومزاحم طاقتوں کو اس کے راستے سے ہٹانے کے لیے جدوجہد بھی کریں۔‘‘ آگے چل کر اسی سلسلے میں کہا گیا تھا:۔
’’یہ بات ہر اس شخص کو جو جماعتِ اِسلامی میں آئے، اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو کام اس جماعت کے پیشِ نظر ہے وہ کوئی ہلکا اور آسان کام نہیں ہے۔ اسے دنیا کے پورے نظام زندگی کو بدلنا ہے۔ اسے دنیا کے اَخلاق، سیاست، تمدن، معیشت، معاشرت ہر چیز کو بدل ڈالنا ہے۔ دنیا میں جو نظام حیات خدا سے بغاوت پر قائم ہے اسے بدل کر خدا کی اطاعت پر قائم کرنا ہے اور اس کام میں تمام شیطانی طاقتوں سے اس کی جنگ ہے۔ ‘‘ { FR 7693 }
۴۵ء کے اجتماع دارالاِسلام میں ’’دعوتِ اِسلامی اور ا س کے طریقِ کار‘‘ کے عنوان پر ایک مفصّل تقریرکی گئی تھی۔ ا س میں جماعتِ اِسلامی کا مقصد یہ بیان ہوا تھا:
’’ہمارے پیشِ نظر صرف ایک سیاسی نظام کا قیام نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ پوری انسانی زندگی… انفرادی اور اجتماعی… میں وہ ہمہ گیر انقلاب رونما ہو جو اِسلام رونما کرنا چاہتا ہے، جس کے لیے اللّٰہ نے اپنے انبیا کو معبوث کیا تھا اور جس کی دعوت دینے اور جدوجہد کرنے کے لیے ہمیشہ انبیا علیہم السلام کی امامت و راہ نُمائی میں امت مسلمہ کے نام سے ایک گروہ بنتا رہا ہے۔‘‘
پھر اس دعوت کا خلاصہ حسبِ ذیل تین نکات کی شکل میں پیش کیا گیا تھا:
۱۔ یہ کہ ہم بندگانِ خدا کو بالعموم اور جو پہلے سے مسلمان ہیں انھیں بالخصوص اللّٰہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
۲۔ یہ کہ جو شخص بھی اِسلام قبول کر لے، یا اس کو ماننے کا دعوٰی اور اظہار کرے، اس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اورتناقض کو خارج کرے اور جب وہ مسلمان ہے یا بنا ہے تو مخلص مسلمان بنے اور اِسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہو جائے۔
۳۔ یہ کہ زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں اور فساق وفجار کی راہ نُمائی میں چل رہا ہے اور معاملات دنیا کی زمامِ کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آ گئی ہے، ہم دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور راہ نُمائی وامامت، نظری اور عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین صالحین کے ہاتھوں میں منتقل ہو۔
اس کے بعد ان تینوں نکات کی تشریح کی گئی تھی۔ اللّٰہ کی بندگی، جس کی طرف دعوت دینا جماعت کااوّلین کام بتایاگیا تھا، اس کا مطلب ان الفاظ میں بیان کیا گیا تھا:
’’انسان خدا کو پورے معنی میں الٰہ اور رب، معبود اور حاکم، آقا اور مالک، راہِ نما اور قانون ساز، محاسب اور مجازی (جزا دینے والا) تسلیم کرے اور اپنی پوری زندگی کو خواہ وہ شخصی ہو یا اجتماعی، اَخلاقی ہو یا مذہبی، تمدنی وسیاسی اور معاشی ہو یا علمی ونظری، اسی ایک خدا کی بندگی میں سپرد کر دے… بندگیِ حق کے اس مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سچے دل سے یہ چاہیں کہ جو طریقِ زندگی، جو قانونِ حیات، جو اصولِ تمدن واَخلاق، جو ضابطہ ومعاشرت وسیاست، جو نظامِ فکر و عمل اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے انبیا کے واسطے سے ہمیں دیا ہے، ہماری زندگی کا پورا کاروبار اسی کی پیروی میں چلے اور ہم ایک لمحے کے لیے بھی اپنی زندگی کے کسی چھوٹے سے چھوٹے شعبے کے اندر بھی، اس نظام حق کے خلاف کسی دوسرے نظام کے تسلط کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔‘‘
منافقت جسے زندگی سے خارج کرنا جماعتِ اِسلامی کی دعوت کا دوسرا نکتہ قرار دیا گیا تھا، اس کی تشریح یہ کی گئی تھی:
’’منافقانہ رویے سے ہماری مراد یہ ہے کہ آدمی جس دین کی پیروی کا دعوٰی کرے، اس کے بالکل برخلاف نظامِ زندگی کواپنے اوپر حاوی ومسلّط پا کر راضی اور مطمئن رہے، اس کو بدل کر اپنے دین کو اس کی جگہ قائم کرنے کی کوئی سعی نہ کرے، بلکہ اس کے برعکس اسی فاسقانہ وباغیانہ نظامِ زندگی کو اپنے لیے سازگار بنانے اور اس میں اپنے لیے آرام کی جگہ پیدا کرنے کی فکر کرتا رہے، یا اگر اس کو بدلنے کی کوشش بھی کرے تو اس کی غرض یہ نہ ہو کہ اس فاسقانہ نظامِ زندگی کی جگہ دین حق قائم ہو، بلکہ صرف یہ کوشش کرے کہ ایک فاسقانہ نظامِ زندگی کی جگہ دوسرا فاسقانہ نظام اسکی جگہ قائم ہو جائے… ہمارا ایک نظامِ زندگی پر ایمان رکھنا اور دوسرے نظامِ زندگی میں راضی رہنا بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ مخلصانہ ایمان کا اولین تقاضا ہے کہ جس طریق زندگی پر ہم ایمان رکھتے ہیں اسی کو ہم اپنا قانونِ حیات دیکھنا چاہیں… ایمان تو اس میں کسی چھوٹی سے چھوٹی رکاوٹ کو بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتا، کجا کہ پورا کا پورا دین کسی دوسرے نظامِ زندگی کا تابع مہمل بن کر رہ گیا ہو، دین کے کچھ اجزا پر عمل ہوتا بھی ہو تو صرف اس وجہ سے کہ غالب نظامِ زندگی نے اس کو بے ضرر سمجھ کر رعایتًا باقی رکھا ہو اور ان رعایات کے ماسِوا ساری زندگی کے معاملات دین کی بنیادوں سے ہٹ کر غالب نظامِ زندگی کی بنیادوں پر چل رہے ہوں اور پھر بھی ایمان اپنی جگہ نہ صرف خوش اور مطمئن ہو، بلکہ جو کچھ بھی سوچے، اِسی غلبہ ِکفر کو اصولِ موضوعہ کے طور پر تسلیم کرکے سوچے! اس قسم کا ایمان چاہے فقہی اعتبار سے معتبر ہو، لیکن دینی لحاظ سے تو اس میں اور نفاق میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘
اس کے بعد تیسرے نکتے، یعنی انقلابِ امامت، یا انقلابِ قیادت کی توضیح کرتے ہوئے کہا گیا تھا:
’’ہمارا اپنے آپ کو بندگی رب کے حوالے کر دینا اور اس حوالگی وسپردگی میں ہمارا منافق نہ ہونا بلکہ مخلص ہونا اور پھر ہمارا اپنی زندگی کو تناقضات سے پاک کرکے مسلم حنیف بننے کی کوشش کرنا لازمی طور پر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس نظامِ زندگی میں انقلاب چاہیں جو آج کفر ودہریت، فسق وفجور اور بداَخلاقی کی بنیادوں پر چل رہا ہے اور جس کے نقشے بنانے والے مفکرین اور جس کا انتظام کرنے والے مدبّرین سب کے سب خدا سے پھرے ہوئے اور اس کی شرائع کے قیود سے نکلے ہوئے لوگ ہیں۔ جب تک زمامِ کار ان لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی، جب تک علوم وفنون، آرٹ اور ادب، تعلیم وتدریس، نشرواشاعت، قانون سازی اور تنفیذِ قانون، مالیات، صنعت وحرفت اور تجارت، انتظامِ ملکی اور تعلقات بین الاقوامی ہر چیز کی باگ ڈور یہ سنبھالے رہیں گے، کسی شخص کے لیے دنیا میں مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا اور خدا کی بندگی کو اپنا ضابطہِ حیات بنا کر رہنا نہ صرف عملاً محال ہے، بلکہ اپنی آیندہ نسلوں کو اعتقاداً بھی اِسلام کا پیرو چھوڑ جانا غیرممکن ہے‘‘۔
’’اس کے علاوہ صحیح معنوں میں جو شخص بندہ رب ہو اس پر منجملہ دوسرے فرائض کے ایک اہم ترین فرض یہ بھی تو عائد ہوتا ہے کہ وہ خدا کی رضا کے مطابق دنیا کے انتظام کو فساد سے پاک اورصلاح پر قائم کرے۔ اور ظاہر بات ہے کہ یہ مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک زمامِ کار صالحین کے ہاتھ میں نہ ہو۔ فساق وفجار اور خدا کے باغی اور شیطان کے مطیع، دنیا کے امام وپیشوا اور منتظم بھی رہیں اور پھر دنیا میں ظلم وفساد اور بداَخلاقی وگمراہی کا دور دورہ بھی نہ ہو، یہ عقل اورفطرت کے خلاف ہے اور آج تجربہ ومشاہدہ سے کالشمس فی النہار یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ایسا ہونا غیر ممکن ہے‘‘۔
پھر جماعتِ اِسلامی کی تنظیم کا مدعا اس طرح بیان کیا گیا تھا:
’’ہماری دعوت صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ دنیا کی زمامِ کار فساق وفجار کے ہاتھوں سے نکلے اور مومنین صالحین کے ہاتھوں میں آئے، بلکہ ایجاباً ہماری دعوت یہ ہے کہ اہلِ خیر وصلاح کا ایک ایسا گروہ منظم کیا جائے جو نہ صرف اپنے ایمان میں پختہ، نہ صرف اپنے اِسلام میں مخلص ویک رنگ، نہ صرف اپنے اَخلاق میں صالح وپاکیزہ ہو، بلکہ اس کے ساتھ ان تمام اوصاف اور قابلیتوں سے بھی آراستہ ہو جو دنیا کی کارگاہ حیات کو بہترین طریقے پر چلانے کے لیے ضروری ہیں۔ اور صرف آراستہ ہی نہ ہو بلکہ موجودہ کار فرمائوں اور کارکنوں سے ان اوصاف اور قابلیتوں میں اپنے آپ کو فائق تر ثابت کر دے۔‘‘{ FR 7694 }
۴۵ء کے اسی اجتماع میں ایک دوسری تقریر بھی کی گئی تھی جو روداد جماعت حصہ سوم میں درج ہے اور ’’تحریک اِسلامی کی اَخلاقی بنیادیں‘‘ کے نام سے الگ بھی شائع ہو چکی ہے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ:
’’ہماری جدوجہد کا آخری مقصود انقلاب امامت ہے، یعنی دنیا میں ہم جس انتہائی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ فساق وفجار کی امامت وقیادت ختم ہو کر امامت صالحہ کا نظام قائم ہو اور اس سعی وجہد کو ہم رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں… دراصل فساق وفجار کی قیادت ہی نوعِ انسانی کے مصائب کی جڑ ہے اور انسان کی بھلائی کا سارا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ دنیا کے معاملات کی سربراہ کاری صالح لوگوں کے ہاتھوں میں ہو… اگر کوئی شخص دنیا کی اصلاح چاہتا ہو اور فساد کو صلاح سے، اضطراب کو امن سے‘ بد اَخلاقیوں کو اَخلاق صالحہ سے اور برائیوں کو بھلائیوں سے بدلنے کا خواہش مند ہو تو اس کے لیے محض نیکیوں کا وعظ اور خدا پرستی کی تلقین اور حسنِ اَخلاق کی ترغیب ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کا فرض ہے کہ نوعِ انسانی میں جتنے صالح عناصر اس کو مل سکیں انھیں ملا کر وہ اجتماعی قوت بہم پہنچائے جس سے تمدن کی زمامِ کار فاسقوں سے چھینی جا سکے اور امامت کے نظام میں تغیر کیا جا سکے۔‘‘
’’انسانی معاملات کے بنائو اور بگاڑ کا آخری فیصلہ جس مسئلے پر منحصر ہے وہ یہ سوال ہے کہ معاملاتِ انسانی کی زمامِ کار کس کے ہاتھ میں ہے۔ جس طرح گاڑی ہمیشہ اسی سمت میں چلا کرتی ہے جس میں ڈرائیور اس کو لے جانا چاہتا ہو اور دوسرے لوگ جو گاڑی میں بیٹھے ہوں خواستہ وناخواستہ اسی سمت میں جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جدھر گاڑی جا رہی ہو، اسی طرح انسانی تمدن کی گاڑی بھی اسی سمت پر سفر کیا کرتی ہے جس سمت وہ لوگ جانا چاہتے ہیں جن کے ہاتھ میں تمدن کی باگیں ہوتیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ زمین کے سارے ذرائع جن کے قابو میں ہوں، قوت واقتدار جن کے ہاتھ میں ہو، عام انسانوں کی زندگی جن کے دامن سے وابستہ ہو، خیالات وافکار اور نظریات کو بنانے اور ڈھالنے کے وسائل جن کے قبضے میں ہوں، انفرادی سیرتوں کی تعمیر، اجتماعی نظام کی تشکیل اور اَخلاقی قدروں کی تعیین جن کے اختیار میں ہو، ان کی راہ نُمائی وفرماں روائی کے تحت رہتے ہوئے انسانیت بحیثیت مجموعی اس راہ پر چلنے سے کسی طرح باز نہیں رہ سکتی جس پر وہ اسے چلانا چاہتے ہوں۔ یہ راہ نُما وفرماں روا اگر خدا پرست اور صالح لوگ ہوں تو لامحالہ زندگی کا سارا نظام خدا پرستی اور خیر وصلاح پر چلے گا، برے لوگ بھی اچھے بننے پر مجبور ہوں گے، بھلائیوں کو نشوونما ہو گا اور برائیاں اگر مٹیں گی نہیں تو پروان بھی نہ چڑھ سکیں گی۔ لیکن اگر راہ نُمائی وقیادت اور فرماں روائی کا یہ اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہو جو خدا سے برگشتہ اور فسق وفجور میں سرگشتہ ہوں تو آپ سے آپ سارا نظامِ زندگی خدا سے بغاوت اور ظلم وبداَخلاقی پر چلے گا۔ خیالات ونظریات، علوم و آداب، سیاست ومعیشت، تہذیب ومعاشرت، اَخلاق ومعاملات، عدل وقانون، سب کے سب بحیثیت مجموعی بگڑ جائیں گے۔ برائیاں خوب نشوونما پائیں گی اور بھلائیوں کو زمین اپنے اندر جگہ دینے سے اور پانی انھیں غذا دینے سے انکار کر دیں گے اور خدا کی زمین ظلم وجور سے لبریز ہو کر رہے گی ایسے نظام میں برائی کی راہ چلنا۔ آسان اور بھلائی کی راہ چلنا کیا معنی، اس پر قائم رہنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
اس کے بعد خود اسی ملک کی تاریخ کو مثال میں پیش کرکے بتایا گیا تھا کہ ’’جب انگریزوں کے ہاتھ میں زمامِ کار چلی گئی تو کس طرح ایک صدی کے اندر انھوں نے پورے ملک کے اَخلاق، اذہان، نفسیات، معاملات اور نظام تمدن کو بدل کر رکھ دیا۔ خیالات ونظریات بدلے، مذاق اور مزاج بدلے، سوچنے کے انداز اور دیکھنے کے زاویے بدلے، تہذیب واَخلاق کے معیار اور قدر وقیمت کے پیمانے بدلے، زندگی کے طور طریقے اور معاملات کے ڈھنگ بدلے، غرض کوئی چیز ایسی نہ رہ گئی جو بدل نہ گئی ہو اور ان کے مقابلے میں وہ لوگ روز بروز پسپا، عاجز اور شکست خوردہ ہوتے چلے گئے جن کے ہاتھ میں زمامِ کار نہ تھی۔ حتّٰی کہ مقدس ترین مذہبی پیشوائوں کی نسل سے وہ لوگ اٹھنے لگے جنھیں خدا کے وجود اور وحی ورسالت کے امکان اورآخرت کے وقوع میں شک لاحق ہو گیا اور انھوں نے اپنے آپ ہی کو نہیں، اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو بھی اس تہذیب کے رنگ میں رنگ لیا جو اقتدار کے سرچشموں پر قابض ہو چکی تھی‘‘۔
اِسی سلسلے میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ ’’دین کا مقصود لوگوں سے اللّٰہ کی اطاعت کرنا اور برائیوں کو مٹا کر بھلائیاں پھیلانا ہے اور یہ مقصد ایسی حالت میں کبھی پورا نہیں ہو سکتا جب کہ نوعِ انسانی کی قیادت وراہ نُمائی اور معاملات انسانی کی سربراہ کاری آئمہ کفر وضلال کے ہاتھوں میں ہو اور دین حق کے پیرومحض ان کے ماتحت رہ کر ان کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائشوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یاد خدا کرتے رہیں۔ اس لیے اِسلام کے نقطہِ نظر سے امامتِ صالحہ کا قیام مرکزی اور مقصدی اہمیت رکھتا ہے۔ جو شخص اس دین پر ایمان لایا ہو اس کا کام صرف اتنے ہی پر ختم نہیں ہو جاتا کہ اپنی زندگی کو حتی الامکان اِسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے، بلکہ عین اس کے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی تمام سعی وجہد کو اس ایک مقصد پر مرکوز کر دے کہ زمام کار کفار وفساق کے ہاتھ سے نکل کر صالحین کے ہاتھوں میں منتقل ہو اور وہ نظامِ حق قائم ہو جو اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق دنیا کے انتظام کو درست کر دے‘‘۔
یہی نصب العین ، قریب قریب اسی تشریح کے ساتھ مئی ۱۹۴۷ء کے اجتماع دارالاِسلام کی اس تقریر میں پیش کیا تھا جو ’’جماعتِ اِسلامی کی دعوت‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس میں جماعتِ اِسلامی کا مدعا واضح کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ ’’موجودہ تہذیب، جس پر آج دنیا کا پورا فکری، اَخلاقی، تمدنی، سیاسی اور معاشی نظام چل رہا ہے، دراصل تین بنیادی اصولوں پر قائم ہے: لادینی، قوم پرستی اور جمہوریت، جماعتِ اِسلامی جس مقصد کے لیے کام کر رہی ہے وہ یہ نہیں ہے کہ سارا نظامِ زندگی چلتا تو رہے انھی بنیادوں پر، مگر اس کے چلانے والے ہاتھ انگریز کے ہاتھ نہ رہیں بلکہ ہندوستانی یا مسلمان قوم کے ہاتھ ہو جائیں۔ اس کے برعکس جماعتِ اِسلامی یہ چاہتی ہے کہ اس پورے نظامِ زندگی کو ان بنیادوں سے اکھاڑ کر تین دوسری بنیادوں پر قائم کیا جائے: لادینی کے مقابلے میں خدا کی بندگی واطاعت، قوم پرستی کے مقابلے میں انسانیت اور جمہور کی حاکمیت کے مقابلے میں خدا کی حاکمیت اور جمہور کی خلافت، نیز یہ جماعت، نظام زندگی کو چلانے والے ہاتھ بدلنا تو ضرور چاہتی ہے، مگر مغربی ہاتھوں کے بجائے مشرقی ہاتھ نہیں، غیر ملکی ہاتھوں کے مقابلے میں ملکی ہاتھ بھی نہیں، بلکہ فاسق ہاتھوں کے مقابلے میں صالح ہاتھ۔ وہ چاہتی ہے کہ اس پورے نظام تمدن کی کارفرمائی اور اس کا انتظام ان لوگوں کے سپرد ہو جو خدا سے ڈرنے والے، اس کی اطاعت کرنے والے اور ہر کام میں اس کی رضا چاہنے والے ہوں، یہ نصب العین بیان کرنے کے بعد مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا تھا:
’’موجودہ زمانے کی بے دین قومی جمہوریت تمھارے دین وایمان کے قطعاً خلاف ہے۔ تم اس کے آگے سرتسلیم خم کرو گے تو قرآن سے پیٹھ پھیرو گے۔ اس کے قیام وبقا میں حصہ لو گے تو اپنے رسول سے غداری کرو گے۔ اس کا جھنڈا اڑانے کے لیے اٹھو گے تو اپنے خدا کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کرو گے۔ جس اِسلام کے نام پر تم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہو اس کی روح اس ناپاک نظام کی روح سے، اس کے بنیادی اصول اس کے بنیادی اصولوں سے اور اس کا ہر جز اس کے ہر جز سے برسر جنگ ہے۔ اِسلام اور یہ نظام کہیں ایک دوسرے سے مصالحت نہیں کرتے۔ جہاں یہ نظام برسر اقتدار ہو گا وہاں اِسلام نقش برآب رہے گا اور جہاں اِسلام برسر اقتدار ہو گا وہاں اس نظام کے لیے کوئی جگہ نہ ہو گی۔ تم اگر واقعی اسی اِسلام پر ایمان رکھتے ہو جسے قرآن اور محمدa لائے تھے تو تمھارا فرض ہے کہ جہاں بھی تم ہو اس قوم پرستانہ لادینی جمہوریت کی مزاحمت کرو اور اس کے مقابلے خدا پرستانہ انسانی خلافت قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرو۔ خصوصیّت کے ساتھ جہاں تک بحیثیت ایک قوم کے برسر اقتدار ہو وہاں تو اگر تمھارے ہاتھوں سے اِسلام کے اصلی نظام کے بجائے یہ کافرانہ نظام بنے اورچلے توحیف ہے تمھاری اس مسلمانی پر جس کا نام لینے میں تم اتنے بلند آہنگ اور جس کا کام کرنے سے تم اس قدر بیزار ہو۔‘‘
اس تقریر کا خاتمہ اس اعلان پر ہوا تھا اور یاد رکھیے کہ یہ اعلان امیرِ جماعت نے ارکان جماعت کے اجتماعِ عام میں کیا اور ارکان نے اس کو قبول کیا تھا کہ:
’’اب یہ بات تقریباً طے شدہ ہے کہ ملک تقسیم ہو جائے گا۔ ایک حصہ مسلمان اکثریت کے سپرد کیا جائے گا اور دوسرا حصہ غیر مسلم اکثریت کے زیر اثر ہو گا۔ پہلے حصے میں ہم کوشش کریں گے کہ رائے عام کو ہموار کرکے اس دستور وقانون پر ریاست کی بنیاد رکھیں جسے ہم مسلمان خدائی دستور وقانون مانتے ہیں۔‘‘
رفقائے عزیز! یہ تھا وہ نصب العین جو اوّل روز سے جماعتِ اِسلامی کے سامنے رکھا گیا تھا اور بار بار مختلف مواقع پر دہرایا جاتا رہا ہے۔ میں نے اس کو اتنی شرح و بسط کے ساتھ جماعت کے مستند ماخذ اور ہر دور کے ماخذ سے اس لیے نقل کیا ہے کہ آپ کے سامنے اس مقصد کی پوری تصویر اپنے تمام گوشوں سمیت آ جائے جس کے حصول کی جدوجہد کرنے کے لیے آپ اٹھے تھے۔ اب یہ آپ کا اپنا کام ہے کہ اس تصویر کو نگاہ میں رکھ کر اپنی جماعت کے پچھلے پانزدہ سالہ کام کو دیکھیں اور یہ رائے قائم کریں کہ آیا یہ کام اسی مقصد اور اسی نصب العین کی راہ میں تھا یا کسی اور چیز کی راہ میں۔ میں پوری دیانت کے ساتھ یہ رائے رکھتا ہوں کہ جماعتِ اِسلامی من حیث الجماعت اپنے نصب العین کے صحیح اور مکمل شعور سے کبھی غافل نہیں ہوئی ہے اور اس نے آج تک ایک ایک قدم، خوب سوچ سمجھ کر ٹھیک اپنی منزلِ مقصود کی سمت میں اٹھایا ہے۔ وہ صاف ذہن کے ساتھ سمجھتی رہی ہے کہ اس کا مطلوب ومقصود کیا ہے اور کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھتی رہی ہے کہ حالات وواقعات کے جنگل میں سے اس کی منزلِ مقصود کی طرف جانے والا راستہ کون سا ہے۔ اس کا حال ان لوگوں کا سا نہیں رہا ہے جن کا ذہن اپنے مقصد کے فہم ہی میں الجھا ہوا ہوتا ہے۔ اور وہ تاریکی میں اٹکل سے کسی طرف کو چل پڑتے ہیں، پھر چلتے چلتے بار بار ٹھیر کر سوچنے لگتے ہیں کہ ہم ٹھیک بھی جا رہے ہیں یا نہیں۔ یہ جماعت آسانی کے ساتھ اس حالت میں مبتلا نہیں ہو سکتی کہ پندرہ سال ایک راستے پر چلنے کے بعد یکایک اسے یہ شبہ لاحق ہو جائے کہ ہم غلط سمت میں آ گئے اور اب ہمیں الٹے پائوں پھر کر کسی اور طرف چلنا چاہیے۔ اپنے عمل کی کوتاہیاں اور خامیاں تو وہ جانتی اور مانتی ہے اور ان کی تلافی کے لیے کوشش کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے، لیکن اگر کوئی اسے اس بات کا قائل کرنا چاہے کہ وہ اپنے مقصد کے فہم ہی میں غلطی کر گئی ہے اور کسی غلط راستہ پر پڑ گئی ہے تو اسے مضبوط دلائل کے ساتھ اس کے فہم کی غلطی ثابت کرنی ہو گی اور یہ بھی دکھانا ہو گا کہ وہ صحیح راستہ کونسا تھا جسے چھوڑ کر جماعت غلط راستے پر آ نکلی۔
وہ اصول جن کے التزام کا عہد ہم نے کیا تھا
اب ایک نظر ان اصولوں پر بھی ڈال لیجیے جن کے التزام کا ہم نے اقرار واعلان کیا تھا۔ یہ اصول جماعت کے پرانے دستور میں عقیدہ، نصب العین اور نظامِ جماعت کے زیر عنوان درج تھے اور اب جدید دستور{ FR 7695 } میں انھیں عقیدہ، نصب العین، شرائطِ رکنیت کے تحت درج کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جدید دستور کی دفعہ ۱۰ میں جماعت کا مستقل طریقِ کار یہ بیان کیا گیا ہے کہ:
۱۔ ’’وہ کسی امرکا فیصلہ کرنے یا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھے گی کہ خدا اور رسولaکی ہدایت کیا ہے۔ دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اس حد تک پیش نظر رکھے گی جہاں تک اِسلام میں اس کی گنجائش ہوگی۔
۲۔ اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کو استعمال نہیں کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں، یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔
۳۔ جماعت اپنے پیشِ نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی، یعنی یہ کہ تبلیغ وتلقین اور اشاعتِ افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے جو جماعت کے پیش نظر ہیں۔
۴۔ جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔ ‘‘{ FR 7696 }
ان اصولوں کو نگاہ میں رکھ کر آپ خود یکھیں کہ پچھلے پندرہ سال کے دوران میں جماعت ان کی پابند رہی ہے یا نہیں، انفرادی لغزشوں اور کوتاہیوں سے تو بہرحال کوئی جماعت بھی خالی نہیں ہو سکتی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اجتماعی حیثیت سے جماعتِ اِسلامی ان اصولوں کی پوری پابندی کرتی رہی ہے اور یہ سراسر اللّٰہ کا فضل ہے کہ بے اصولی کے وہ انتہائی صبر آزما طوفان بھی جن کے درمیان اسے اس ملک میں برسوں کام کرنا پڑا ہے، اسے ایک بے اصول جماعت بنا دینے میں کبھی کام یاب نہیں ہو سکے ہیں۔ تدابیر کا ردّوبدل ایک دوسری چیز ہے جسے بعض لوگ غلطی سے اصول کا ردّوبدل قرار دے بیٹھتے ہیں۔ تدبیروں کا نام اصول نہیں ہے اور دنیا کی کوئی جماعت بھی ایک تدبیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پکڑ کر نہیں بیٹھ سکتی۔ خصوصیت کے ساتھ جن لوگوں کو سخت مخالف ومزاحم ماحول میں سے اپنا راستہ نکالنا ہو، ان کے لیے تو یہ ناگزیر بھی ہے اور دانائی کا تقاضا بھی کہ اگر ایک وقت انھوں نے ایک تدبیر کو صحیح ومناسب پا کر اختیار کیا ہو اور دوسرے وقت وہ تدبیر موزوں اور کارگر نہ رہے تو وہ بِلا تامل اس کو کسی بہتر اور حالات کے لحاظ سے مناسب تر تدبیر سے بدل دیں۔ اس ردوبدل کو اس وقت تک اصول شکنی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا جب تک یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ جن اصولوں کی پابندی کا ہم نے عہد کیا تھا ان کے حدود اربعہ میں اس ردّوبدل کی، یا ہماری اختیار کردہ کسی تدبیر کی گنجائش نہ تھی۔
……٭٭٭……
نکتۂ دوم
اب ہمیں قرارداد کے دوسرے نکتے پر غور کرنا ہے جس میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ جماعت کا آیندہ لائحہ عمل وہی رہنا چاہیے جو نومبر ۵۱ء کے اجتماع کراچی میں پیش کیا گیا تھا، کیوں کہ وہ بالکل صحیح توازن کے ساتھ مقصد تحریک کے تمام نظری اور عملی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔
قبل اس کے کہ قرارداد کے اس جزو کے متعلق آپ کوئی رائے قائم کریں، آپ کو دیکھنا چاہیے کہ وہ لائحہ عمل تھا کیا۔ ۱۹۵۱ء کے اجتماع میں اس کو کسی قرارداد کی شکل میں پیش نہیں کیا گیا تھا، بلکہ امیرِ جماعت نے اسے اپنی اس تقریر میں بیان کیا تھا جو ’’مسلمانوں کا ماضی وحال اور مستقبل کا لائحہ عمل‘‘ کے عنوان سے ایک مستقل پمفلٹ کی صورت میں شائع ہوئی ہے۔
۱۹۵۱ء کا چار نکاتی لائحہ عمل
اس پمفلٹ کے آخری حصے میں لائحہ عمل کے چار اجزا جس تشریح کے ساتھ بیان کئے گئے تھے میں اس کے ضروری اقتباسات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں،
۱۔ تطہیرِ افکار وتعمیرِ افکار
’’ہم کئی سال سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور ہماری اس کوشش کا سلسلہ برابر جاری ہے کہ ایک طرف غیر اِسلامی قدامت کے جنگل کو صاف کرکے اصلی اور حقیقی اِسلام کی شاہراہِ مستقیم کو نمایاں کیا جائے، دوسری طرف مغربی علوم وفنون اور نظامِ تہذیب پر تنقید کرکے بتایا جائے کہ اس میں کیا کچھ غلط اور قابلِ ترک ہے اور کیا کچھ صحیح اور قابل اخذ، تیسری طرف وضاحت کے ساتھ یہ دکھایا جائے کہ اِسلام کے اصولوں کو زمانہ حال کے مسائل ومعاملات پر منطبق کرکے ایک صالح تمدن کی تعمیر کس طرح ہو سکتی ہے اور اس میں ایک ایک شعبہ ِزندگی کا نقشہ کیا ہو گا۔ اس طریقہ سے ہم خیالات کو بدلنے اور ان کی تبدیلی سے زندگیوں کا رخ پھیرنے اور ذہنوں کو تعمیر نو کے لیے فکری غذا بہم پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔
۲۔ صالح افراد کی تلاش، تنظیم اور تربیت
’’ہم ان آبادیوں میں ان مردوں اور عورتوں کو ڈھونڈ رہے ہیں جو پرانی اور نئی خرابیوں سے پاک ہوں، یا اب پاک ہونے کے لیے تیار ہوں۔ جن کے اندر اصلاح کا جذبہ موجود ہو۔ جو حق کو حق مان کر اس کے لیے وقت، مال اور محنت کی کچھ قربانی کرنے پر بھی آمادہ ہوں۔ خواہ وہ نئے تعلیم یافتہ ہوں یا پرانے۔ خواہ وہ عوام میں سے ہوں یا خواص میں سے۔ خواہ وہ غریب ہوں یا امیر یا متوسط۔ ایسے لوگ جہاں کہیں بھی ہیں، ہم انھیں گوشہِ عافیت سے نکال کر میدان سعی وعمل میں لانا چاہتے ہیں۔ اگر وہ ہمارے مقصد، طریقِ کار اور نظامِ جماعت کو قبول کر لیں تو انھیں اپنی جماعت کا رکن بنا لیتے ہیں۔ اور اگر وہ رکنیت کی شرائط پوری کیے بغیر صرف تائید واتفاق پر اکتفا کریں تو انھیں اپنے حلقہِ متفقین میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو ایک بچا کھچا صالح عنصر موجود ہے، مگر منتشر ہونے کی وجہ سے یا جزوی اصلاح کی پراگندہ کوششیں کرنے کی وجہ سے کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر رہا ہے، اسے چھانٹ چھانٹ کر ایک مرکز پر جمع کیا جائے اور ایک حکیمانہ پروگرام کے مطابق اس کو اصلاح وتعمیر کی منظم سعی میں لگایا جائے۔ ہم صرف اس تنظیم ہی پر قناعت نہیں کر رہے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ ان منظم ہونے والوں کی ذ ہنی واَخلاقی تربیت کا بھی انتظام کر رہے ہیں تاکہ ان کی فکر زیادہ سے زیادہ سلجھی ہوئی اور ان کی سیرت زیادہ سے زیادہ پاکیزہ، مضبوط اور قابل اعتماد ہو۔ہمارے پیش نظر ابتداسے یہ حقیقت ہے کہ اِسلامی نظام محض کاغذی نقشوں اور زبانی دعوئوں کے بل پر قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کے قیام اور نفاذ کا سارا انحصار اس پر ہے کہ آیا اس کی پشت پر تعمیری صلاحیتیں اور صالح انفرادی سیرتیں موجود ہیں یا نہیں۔ کاغذی نقشوں کی خامی تو اللّٰہ کی توفیق سے علم اور تجربہ ہر وقت رفع کر سکتا ہے، لیکن صلاحیت اور صالحیت کا فقدان سرے سے کوئی عمارت اٹھا ہی نہیں سکتا اور اٹھا بھی لے تو سہار نہیں سکتا۔‘‘
۳۔ اجتماعی اصلاح کی سعی
’’اس میں سوسائٹی کے ہر طبقے کی اس کے حالات کے لحاظ سے اصلاح شامل ہے۔ اور اس کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہو سکتا ہے جتنے ہمارے ذرائع وسیع ہوں۔ ہم اپنے ارکان، کارکن اور متفقین کو ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے حلقوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر ایک کے سپرد وہ کام کرتے ہیں جس کے لیے وہ اہل تر ہو… یہ سب اگرچہ اپنے الگ حلقہائے کار رکھتے ہیں، مگر سب کے سامنے ایک مقصد اور ایک اسکیم ہے جس کی طرف وہ قوم کے سارے طبقوں کو گھیر کر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا متعین نصب العین یہ ہے کہ اس ذہنی، اَخلاقی اور عملی انار کی کو ختم کیا جائے جو پرانے جمودی اور نئے انفعالی رجحانات کی وجہ سے ساری قوم میں پھیلی ہوئی ہے اور عوام سے لے کر خواص تک سب میں صحیح اِسلامی فکر، اِسلامی سیرت اور سچے مسلمانوں کی سی عملی زندگی پیدا کی جائے… اس عمومی اصلاح کے پورے لائحہ عمل کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو شخص جس حلقے اور طبقے میں بھی کام کرے، مسلسل اور منظم طریقے سے کرے اور اپنی سعی کو ایک نتیجے تک پہنچائے بغیر نہ چھوڑے۔ ہم اس کے قائل نہیں ہیں کہ ہوا کے پرندوں اور آندھی کے جھکڑوں کی طرح بیج پھینکتے چلے جائیں۔ اس کے برعکس ہم کسان کی طرح کام کرنا چاہتے ہیں جو ایک متعین رقبے کو لیتا ہے، پھرزمین کی تیاری سے لے کر فصل کی کٹائی تک مسلسل کام کرکے اپنی محنتوں کو ایک نتیجے تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔ پہلے طریقے سے جنگل پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے طریقے سے باقاعدہ کھیتیاں تیار ہوا کرتی ہیں۔‘‘
۴۔ نظامِ حکومت کی اصلاح
’’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کے موجودہ بگاڑ کو درست کرنے کی کوئی تدبیر بھی کام یاب نہیں ہو سکتی، جب تک کہ اصلاح کی دوسری کوششوں کے ساتھ ساتھ نظام حکومت کو درست کرنے کی کوشش بھی نہ کی جائے۔ اس لیے کہ تعلیم اور قانون اور نظم ونسق اور تقسیم رزق کی طاقتوں کے بل پر جو بگاڑ اپنے اثرات پھیلا رہا ہو، اس کے مقابلے میں بنائو اور سنوار کی وہ تدبیریں جو صرف وعظ اور تلقین اور تبلیغ کے ذرائع پر منحصر ہوں‘کبھی کارگر نہیں ہو سکتیں۔ لہٰذا اگر ہم فی الواقع اپنے ملک کے نظامِ زندگی کو فسق وضلالت کی راہ سے ہٹا کر دینِ حق کی صراطِ مستقیم پر چلانا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ بگاڑ کو مسند اقتدار سے ہٹانے اور بنائو کو اس کی جگہ متمکن کرنے کی براہِ راست کوشش کریں۔ ظاہر ہے کہ اگر اہل خیر وصلاح کے ہاتھ میں اقتدار ہو تو وہ تعلیم اور قانون اور نظم ونسق کی پالیسی کو تبدیل کرکے چند سال کے اندر وہ کچھ کر ڈالیں گے جو غیر سیاسی تدبیروں سے ایک صدی میں بھی نہیں ہو سکتا‘‘۔
’’یہ تبدیلی کس طرح ہو سکتی ہے؟ ایک جمہوری نظام میں اس کا راستہ صرف ایک ہے اور وہ ہے انتخابی جدوجہد۔ رائے عام کی تربیت کی جائے۔ عوام الناس کے معیار انتخاب کو بدلا جائے۔ انتخاب کے طریقوں کی اصلاح کی جائے اور پھر ایسے صالح لوگوں کو اقتدار کے مقام پر پہنچایا جائے جو ملک کے نظام کو خالص اِسلام کی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں اور قابلیت بھی‘‘۔
’’ہمیں اطمینان ہے کہ ہم اس طریقے سے مسلسل کام کرکے اپنے ملک کی پبلک کو بتدریج چند سال کے اندر کافی تربیت دے سکیں گے اور ہر نئے انتخاب کے موقع پر خود بخود پیمائش ہوتی چلی جائے گی کہ اس تربیت کے اثرات کو پبلک نے کس حد تک قبول کیا۔ ہو سکتا ہے کہ نظامِ حکومت کی واقعی تبدیلی میں ۲۵ سال صرف ہو جائیں، یا اس سے بھی زیادہ۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ تبدیلی کا صحیح راستہ یہی ہے‘ اور جو تبدیلی اس طریقے سے ہو گی وہ ان شاء اللّٰہ پائدار اور مستحکم ہو گی۔‘‘
لائحہ عمل کی اہم خصوصیات
یہ تھا وہ لائحہ عمل جو ۱۹۵۱ء کے اجتماع میں پیش کیا گیا تھا۔ اس کے ہر جز کی تشریح میں جو کچھ اس وقت کہا گیا تھا، اس سے خود یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ کوئی نیا لائحہ عمل نہ تھا جو پہلی مرتبہ ۱۹۵۱ء ہی میں پیش کیا گیا ہو، بلکہ دراصل وہ پہلے سے جماعت کا لائحہ عمل چلا آ رہا تھا اور اس تقریر میں اسے صرف ایک ترتیب کے ساتھ بیان کر دیا گیا تھا تاکہ جماعت کے کارکن اور عام سامعین اس اسکیم کو سمجھ سکیں جس پر جماعتِ اِسلامی برسوں سے کام کر رہی تھی۔
اس لائحۂ عمل کو اگر آپ اس نصب العین کے ساتھ ملا کر دیکھیں جس کی تشریح ابھی میں آپ کے سامنے کر چکا ہوں تو آپ بیک نظر محسوس کر لیں گے کہ یہ لائحۂ عمل اس نصب العین کافطری تقاضا کرتا ہے، ہر ایک دوسرے سے تقویت پاتا ہے اور جس کو بھی ساقط کر دیا جائے اس کے سقوط سے ساری اسکیم خراب ہو جاتی ہے۔ جماعت کے نصب العین کا حصول اگر ممکن ہے تو ان چاروں اجزا پر بیک وقت متوازی کام اور متوازن طریقے پر کام کرنے ہی سے ممکن ہے۔ آپ اس کے جس جز کو بھی الگ کر دیں گے، باقی اجزا کا کام نہ صرف کم زور اور بے اثر ہو جائے گا، بلکہ اپنے نصب العین کے لیے آپ کی جدوجہد ہی لاحاصل ہو کر رہ جائے گی۔
اس کا پہلا جز اِسلام کی خالص دعوت کو نکھار کر پیش کرتا ہے، اس کی قبولیت کے لیے عوام اور خواص کو تیار کرتا ہے اور اس کی کام یابی کے لیے ذہنی فضا ہموار کرتا ہے، یہ اس تحریک کا اولین بنیادی کام ہے جس کے بغیر آگے کے کسی کام کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
اس کا دوسرا جز دعوت قبول کرنے والوں کو منظم کرتا ہے اور ان کی قوتوں کو دعوت کی توسیع میں اور اس کی کام یابی کے لیے جدوجہد کرنے میں استعمال کرتا ہے۔ یہ جز پہلے جز کا لازمی تقاضا ہے۔ دعوت دینے کے ساتھ ساتھ اگر آپ دعوت قبول کرنے والوں کو منظم نہ کرتے جائیں اور انھیں دعوت کے مقاصد کی تحصیل کے لیے تیار نہ کرتے رہیں اور انھیں عملاً اس کام میں لگاتے نہ چلے جائیں تو دعوت بجائے خود بے معنی ہو جاتی ہے۔ یہی کام تو اس مشینری کو تیار کرتا ہے جو دعوت کو کام یاب بنانے کے لیے درکار ہے۔ آخر دعوت کا حاصل کیا ہے اگر آپ صرف پکارتے رہیں اور ان لوگوں کو جو آپ کی پکار پر لبیک کَہ کر آئیں، اکٹھا کرکے کسی کام پر نہ لگائیں۔
اس کا تیسرا جز معاشرے کو اِسلامی نظامِ زندگی کے لیے عملی اور اَخلاقی حیثیت سے تیار کرنا ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے یہ کوئی الگ کام نہیں ہے جسے اس پروگرام میں شامل کرنے یا نہ کرنے کا کوئی سوال پیدا ہو سکے۔ دراصل یہ اسی کام کی تفصیل ہے جو لائحۂ عمل کے دوسرے جز میں بیان کیا گیا ہے۔ آپ دعوت قبول کرنے والوں کو منظم کرکے اور تربیت دے کر جس کام میں لگائیں گے اور معاشرے کی اصلاح کا جتنا کام آپ کریں گے، آپ کی دعوت وسیع ہو گی اور آپ کی تنظیم کے لیے مزید کارکن ملیں گے اور آپ کی دعوت وتنظیم جتنی وسیع ہو گی اتنا ہی معاشرے کی اصلاح کا دائرہ پھیلتا جائے گا اور اِسلامی نظامِ زندگی کے لیے زمین ہموار ہوتی چلی جائے گی۔ اس طرح یہ دونوں اجزا بالکل ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔ آپ کسی حال میں اس بات کا تصور تک نہیں کر سکتے کہ ان میں سے ایک آپ کے لائحۂ عمل میں شامل ہو اور دوسرا نہ ہو۔
اب چوتھے جز کو لیجیے۔ یہ چاہتا ہے کہ جیسے جیسے آپ کی دعوت مقبول ہو اور اس کے قبول کرنے والوں کی تنظیم قوت پکڑتی جائے اور معاشرہ اس کے لیے تیار ہوتا جائے، اسی نسبت سے آپ اِسلامی نظامِ زندگی کو عملاً برسراقتدار لانے اور جاہلیت کی پشت پناہ طاقتوں کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتے چلے جائیں۔ اپنے اصل نصب العین کو نگاہ میں رکھ کر اگرآپ اس لائحہ عمل کے پہلے تین اجزا پر غورکریں گے تو یہ چوتھا جز ان تینوں کاایسا فطری تقاضا نظر آئے گا کہ اگر یہ آپ کے پروگرام میں شامل نہ ہو تو وہ تینوں سراسر بے معنی ہو جائیں گے۔ آخر آپ دعوت کس چیز کی دیتے ہیں؟ اسی چیز کی نا کہ اِسلامِ نظامی زندگی قائم ہو۔ اس دعوت کے قبول کرنے والوں کو منظم کرنے اور حرکت میں لانے سے آپ کا مقصد کیا ہے؟ یہی نا کہ وہ اِسلامی نظامِ زندگی کے قیام کی جدوجہد کریں۔ معاشرے کو آپ کس غرض کے لیے تیار کرتے ہیں؟ اس کے سوا اور اس کی غرض کیا ہے کہ اِسلامی نظامِ زندگی کے لیے زمین ہموار ہو۔ اب خود سوچیے کہ یہ سارے کام کرنے کا فائدہ کیا ہے اگر آپ ان کاموں سے حاصل ہونے والے نتائج کو اصل مقصد کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے ساتھ ساتھ استعمال نہ کرتے چلے جائیں۔ آپ کا اصل مقصد آخر کار جس کام کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے وہ یہی چوتھا کام ہی تو ہے۔ یہ آپ کے پروگرام میں شامل نہ ہو تو پہلے تین کام ایک سعی بے حاصل کے سوا کچھ نہ ہوں گے اور انھیں کرکے آپ زیادہ سے زیادہ بس مبلغوں کی ایک جماعت بن کر رہ جائیں گے جن کی پہلے بھی اس ملک میں کوئی کمی نہ تھی۔ اس طرح کی تبلیغ وتلقین اور اصلاحِ اَخلاق کی کوششوں سے جاہلیت کا سیلاب نہ پہلے رکا تھا نہ اب رک سکتا ہے۔
اس تجزیہ وتشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس نتیجہ مطلو ب کے لیے جماعتِ اِسلامی کی یہ ساری اسکیم بنائی گئی تھی وہ لائحہ عمل کے ان چاروں اجزا پر بیک وقت کام کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر وہ نتیجہ فی الواقع آپ کو مطلوب ہے تو پھر اس پورے مرکب ہی پر آ پ کو ایک ساتھ کام کرنا ہو گا۔ اس کے اجزا کا باہمی ربط توڑ کر، یا اس میں کمی وبیشی کرکے، یا ان میں سے بعض کو مقدم اور بعض کو موخر کرکے آپ اپنی تحریک کی ناکامی کے سوا اور کچھ حاصل نہ کریں گے۔
……٭٭٭…
نکتۂ سوم
قرارداد کا تیسرا حصہ اس غلط فہمی کو رفع کرتا -ہے کہ جماعت کا لائحہ عمل پہلے شاید کچھ اور رہا ہو اور یہ چار نکاتی لائحہ عمل کوئی نیا پروگرام ہو جو پہلی مرتبہ ۱۹۵۱ء میں پیش کیا گیا ہو۔ اس حصے میں یہ بتایا گیا ہے کہ جہاں تک اس پروگرام کے پہلے تین اجزا کا تعلق ہے، یہ تو شروع ہی سے ہمارے لائحہ عمل کے اجزائے لازم رہے ہیں اور اول روز سے جماعت ان پر عمل کر رہی ہے۔
اس بات کی تصدیق کے لیے میں آپ کو جماعت کے بالکل ابتدائی دور کی کارروائیوں کی طرف توجہ دلائوں گا۔ ۱۹۴۱ء میں تشکیل جماعت کے ساتھ پہلے اجتماع میں اپنے کام کے لیے جو پروگرام ہم نے بنایا تھا وہ یہ تھا:
’’جماعت کا ابتدائی پروگرام اس کے سِواکچھ نہیں ہے کہ ایک طرف اس میں شامل ہونے والے افراد اپنے نفس اور اپنی زندگی کا تزکیہ کریں اور دوسری طرف جماعت سے باہر جو لوگ ہوں (خواہ وہ قومی مسلمان ہوں یا غیر مسلم) انھیں بالعموم حاکمیت غیر اللّٰہ کا انکار کرنے اور حاکمیت رب العالمین کو تسلیم کرنے کی دعوت دیں۔ اس دعوت کی راہ میں جب تک کوئی قوت حائل نہ ہو، انھیں بھی چھیڑ چھاڑ کی ضرورت نہیں۔ اور جب کوئی قوت حائل ہو، خواہ وہ کوئی قوت ہو، تو انھیں اس کے علی الرغم اپنے عقیدے کی تبلیغ کرنی ہو گی اور اس تبلیغ میں جو مصائب بھی پیش آئیں، ان کا مردانہ وار مقابلہ کرنا ہو گا۔ بعد کے مراحل کے متعلق اس وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جیسے حالات پیش آئیں گے انھی کے لحاظ سے قدم اٹھایا جائے گا۔ البتہ لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ ایک مضبوط جمے ہوئے اور زمین پر چھائے ہوئے دین (نظامِ اطاعت غیر اللّٰہ) کو اکھاڑ کر دوسرے دین (نظامِ اطاعت الٰہی) کو قائم کرنا بہرحال آسان کام نہیں ہے ۔{ FR 7697 }
اسی اجتماع میں جماعت کے کام کو چار شعبوں (علمی وتعلیم، تنظیم جماعت اور دعوت وتبلیغ) میں تقسیم کرکے جو خدمات ہر شعبے کے سپرد کی گئی تھیں وہ قریب قریب اسی نقشے پر تھیں جو دس سال بعد آپ کو ۱۹۵۱ء کے لائحہ عمل میں نظر آ رہا ہے{ FR 7698 }اور یہی نقشہ آپ مجلسِ شُورٰی کے اولین اجلاس (فروری ۴۲ء) کی تجاویز اور جماعت کے عارضی مرکز کی اسکیم (جولائی ۴۲ء) میں بھی پائیں گے{ FR 7699 } ان چیزوں کو دیکھ کر آپ یہ بات اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ جماعتِ اِسلامی ابتدا سے ایک سوچے سمجھے نقشے پر کام کر رہی ہے۔ اس نقشے کی تفصیلات تو ہمارے ذرائع ووسائل کی ترقی کے ساتھ ساتھ بڑھتی اور پھیلتی رہی ہیں، لیکن اس کے بنیادی خطوط وہی ہیں جو اول روز سے اس کام میں ہمارے پیش نظر تھے۔ اور اس یکسانیت کی وجہ یہ ہے کہ جس نصب العین کے لیے ہم کام کر رہے ہیں وہ اسی نقشہ کار کا متقاضی ہے۔
……٭٭٭…
نکتۂ چہارم
قرارداد کے چوتھے حصے میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ لائحۂ عمل کے پہلے تین اجزاء کے لیے فی الحال وہ پروگرام کافی ہے جو اس قرارداد کے ساتھ بطور ضمیمہ شامل کیا جا رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو یوں سمجھئے کہ جو ذرائع و وسائل اس وقت ہمیں میسر ہیں انھیں دیکھتے ہوئے ہم سرِدست اس قدر کام اپنے ذمّہ لے رہے ہیں جسے انجام دینے کی ان وسائل کے ساتھ ہم توقع رکھتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ ہمارے وسائل میں اضافہ کر دے تب بھی ہم اتنے ہی کام پر اکتفا کریں گے، یا موجودہ وسائل کے ساتھ اگر کوئی مزید خدمت بھی ہمارے لیے ممکن ہوئی جو اس پروگرام میںدرج نہیں ہے تو ہم اس سے منہ موڑ لیں گے۔
پروگرام کی تشریح
اب میں اس پروگرام کا تجزیہ کرکے بتائوں گا کہ لائحۂ عمل کے لیے اس میں کیا کچھ رکھا گیا ہے اور اس کا منشا پورا کرنے کے لیے آپ کو کیا کچھ کرنا ہے۔
علمی وفکری میدان میں کام کا پروگرام
ہمارے لائحۂ عمل کا پہلا جز تطہیرِ افکار وتعمیر افکار ہے۔ یہ بجائے خود اتنا وسیع میدانِ کار ہے جس میں اگر ساری جماعت اپنے اوقات کا ایک ایک لمحہ اور اپنے وسائل کا ایک ایک پیسہ بھی صرف کر ڈالے تو اس کے کسی ایک گوشے کا بھی احاطہ نہیں کر سکتی۔ لیکن ہمیں بہرحال اپنی ساری طاقت ایک ہی میدان میں صرف نہیں کر دینی ہے بلکہ توازن کے ساتھ وہ سارے کام کرنے ہیں جو ہمارے نصب العین کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ اس لیے علمی وفکری میدان کے مختلف گوشوں میں ہم نے صرف اہم ضروریات کو سامنے رکھ کر ۱۹۵۸ء کے اختتام تک کے لیے کام کا ایک منصوبہ بنایا ہے جو پانچ بڑے بڑے شعبوں پر مشتمل ہے۔
۱۔ شعبہ تعلیم
اس میں تین کام ہم نے اپنے ذمّے لیے ہیں (۱) علوم دینی کی تعلیم کا ایسا انتظام جس سے جدید زمانے کی ضرورت کے مطابق علما تیار ہو سکیں۔ (۲) ابتدائی تعلیم کے ایسے مدارس کا قیام جس میں دینی تعلیم کا انتظام بھی ہو اور اَخلاقی تربیت کا بھی۔ (۳)تعلیمِ بالغاں کے ایسے مراکز کا قیام جہاں اَن پڑھ عوام کو خواندہ بنانے کے ساتھ انھیں دین سے بھی واقف کرایا جائے اور اپنے طبقے کے دوسرے لوگوں کی اصلاح کا جذبہ بھی ان میں بیدار کیا جائے۔
۲۔ شعبہ ِتراجم
اس میں سابق کاموں کو جاری رکھتے ہوئے چار خاص کاموں کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ (۱)انگریزی زبان میں جماعت کے لٹریچر کا ترجمہ۔ (۲) بنگلہ زبان میں چند ایسی کتابوں کا ترجمہ جن کی مشرقی پاکستان میں فوری ضرورت ہے۔ (۳) ایک بنگلہ پرچے کی اشاعت (۴) اردو زبان میں اِسلام کے متعلق ضروری کتابوں کے ترجمے کرانے کے لیے ایک ادارے کا قیام۔
۳۔ شعبہ ِنشر افکار
اس میں دارالمطالعوں کی توسیع کا پروگرام رکھا گیا ہے۔
۴۔ شعبہ ِتحقیقاتِ علمی
اس میں ایک ایسے ادارے کا قیام تجویز کیا گیا ہے جو عمدہ ذہنی استعداد رکھنے والے نوجوانوں کو علمی تحقیقات کے لیے تیار کرے۔ اور جب تک ایسے ادارے کا قیام ممکن نہ ہو، اس وقت تک کے لیے کم از کم یہ پروگرام بنایا گیا ہے کہ جماعت کے کارکنوں میں جو لوگ اچھی صلاحیتیں رکھتے ہیں انھیں دوسری سرگرمیوں سے فارغ کر کے مختلف شعبوں میں علمی کام پر لگایا جائے۔
۵۔ شعبہ ِخواتین
اس میں ایک ایسے ادارے کا قیام تجویز کیا گیا ہے جو عورتوں کے لیے لٹریچر بھی تیار کرے اور تعلیم وتربیت کی خدمت بھی انجام دے۔
توسیع جماعت اور اندرونی اصلاح کا پروگرام
لائحۂ عمل کا دوسرا جز صالح افراد کی تلاش، تنظیم اور تربیت ہے۔ یہ کام دراصل نظامِ جماعت کی توسیع واستحکام کا کام ہے جسے ابتدا سے جماعت کرتی چلی آ رہی ہے اور آج ہماری جتنی کچھ بھی طاقت ہے اسی کام کی بدولت ہے۔ اب اس کے لیے جو پروگرام بنایا گیا ہے وہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔
پہلا حصہ توسیعِ جماعت کا ہے جس میں ۱۹۵۸ء کے اختتام تک متفقین کی تعداد مشرقی پاکستان میں دس ہزار اور مغربی پاکستان میں ۴۰ ہزار تک پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ غور سے دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ یہ محض توسیعِ جماعت ہی کا کام نہیں ہے بلکہ توسیعِ دعوت اورنشرِ افکار اور اصلاح معاشرہ کا کام بھی ہے۔ اس لیے کہ جب تک آپ لاکھوں آدمیوں تک اپنا پیغام نہ پہنچائیں گے، ہزاروں آدمیوں کو متفق بنا کر جماعت سے منسلک نہ کر سکیں گے اور جتنے آدمیوں کو آپ متفق بنائیں گے اتنے ہی اس معاشرے میں دعوتِ اِسلامی سے ذ ہنی واَخلاقی طور پر متاثر ہونے والے پیدا کر لیں گے اور سب نہیں تو ان میں سے ایک کثیر تعداد ایسی بھی نکل آئے گی جو اصلاحِ عمومی کی خدمت کے لیے کارکن بن سکے گی۔
دوسرا حصہ جماعت کی اندرونی اصلاح اور کارکنوں کی تربیت سے متعلق ہے۔ اس حصے میں ہم نے اپنے تجربات کی بِنا پر ان اسباب کو ٹھیک ٹھیک مشخص کیا ہے جو جماعت میں خرابیوں کی پیدائش کے موجب ہوتے ہیں اور ان کا علاج تجویز کر دیا ہے۔ ہمارے نزدیک جماعت کے اندر خرابی پیدا ہونے کے چار بڑے سبب ہیں۔
اوّل یہ کہ کارکنوں کے درمیان نزاعات رونما ہوں اور انھیں بروقت رفع نہ کیا جائے۔
دوم یہ کہ کسی مقام یا علاقے میں کسی وجہ سے جماعت کا کام بگڑ رہا ہو، یا سست پڑ رہا ہو اور اس کی طرف فورًا توجہ نہ کی جائے۔
سوم یہ کہ ارکانِ جماعت کی اَخلاقی ودینی حالت، ان کے معاملات اور نظمِ جماعت میں ان کے طرزِ عمل کا محاسبہ نہ ہوتا رہے، قابل اصلاح لوگوں کی اصلاح کے لیے کوشش نہ کی جائے، اورناقابلِ اصلاح لوگوں کو جماعت سے خارج کرنے میں بے جا تساہل برتا جائے۔
چہارم یہ کہ جماعت کے کارکنوں کی تربیت کا مناسب انتظام نہ ہو اور وہ اس عقیدے اور فکر اور جذبے سے غافل ہوتے چلے جائیں جو تحریک اِسلامی کے خادموں کو حرکت میں لانے والی اصل قوت محرکہ ہے۔
ہم نے جماعت کی اندرونی اصلاح کا جو پروگرام بنایا ہے وہ انھی چار اسباب کے علاج پر مرکوز کیا گیا ہے۔
جماعتِ اِسلامی نے ارکان کی کمیت کو کبھی اہمیت نہیں دی ہے۔ اس کی نگاہ ہمیشہ ارکان کی کیفیت پر رہی ہے۔ وہ اس بات کی قائل ہے کہ خام آدمیوں کی ایک بھیڑ جمع کر لینے سے کچھ حاصل نہیں۔ ہمارے پاس چاہے مٹھی بھر آدمی ہوں، لیکن اگر وہ سیرتِ صالحہ اور جذبہ ِصادق رکھتے ہوں، نظم میں مضبوط اور عمل میں سرگرم ہوں اور آپس میں بنیانِ مرصوص کی طرح جڑے ہوئے ہوں تو وہ اٹھ کر وقت کے سیلاب کا منہ موڑ سکتے ہیں اور واقعات کی رفتار کو اپنے عقیدے کے مطابق بدل جانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
ہم اس بات کے بھی کبھی قائل نہیں رہے کہ اگر ہمارے ساتھ دوچار یا دس بیس فی صدی بے کار آدمی آ گئے ہوں، یا اب بے کار ہو گئے ہوں تو ہم ان کی خاطر اپنی راہ کھوٹی کریں اور بیٹھ کر اپنے لائحہ عمل پر نظر ثانی شروع کر دیں۔ ہم پہلے بھی سینکڑوں بے کار ساتھیوں کو چھانٹ کر پھینک چکے ہیں اور اب بھی یہی کریں گے۔ ہمارا نقطہِ نظر یہ ہے کہ قافلے کو اپنے نصب العین کی طرف مسلسل پیش قدمی جاری رکھنی چاہیے۔ جو ساتھ چل سکتا ہو وہ چلے اور جو نہ چل سکتا ہو وہ الگ ہو جائے۔ یا خود الگ نہ ہو تو الگ کر دیا جائے۔ درماندگانِ راہ کو سنبھالنے اور آگے لے چلنے کی کوشش تو ہم ضرور کریں گے، مگر ان کی خاطر اپنی راہ کھوٹی نہ کریں گے اور نہ کوئی ایسا قدم اٹھانے سے باز رہیں گے جو ہمارے مقصد کے لیے ضروری ہو۔
عوامی اصلاح وتربیت کے لیے کام کا پروگرام
ہمارے لائحہ عمل کا تیسرا جز اجتماعی اصلاح کی سعی ہے۔ یہ کام بھی جماعت ہر دور میں اپنی قوت واستعداد کے مطابق کرتی رہی ہے اور جیسے جیسے ہمارے وسائل بڑھتے گئے ہیں، ہم اس کا دائرہ وسیع کرتے چلے گئے ہیں۔ اب اپنی موجودہ طاقت اور وسائل کو دیکھتے ہوئے ہم محسوس کرتے ہیں کہ معاشرے کی ہمہ گیر اصلاح کا ایک پروگرام لے کر ہم چل سکتے ہیں۔ اس پروگرام میں ہم نے ان کاموں کا ذکر نہیں کیا ہے جو پہلے سے ہمارے مستقل شعبوں کی شکل میں ہو رہے ہیں، مثلاً خدمتِ خلق اور شعبہ محنت کاراں وغیرہ۔ بلکہ اس میں صرف عمومی اصلاح کے کاموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلے یہ کام متفرق طور پر تھوڑے بہت کہیں کہیں ہو رہے تھے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ جماعت ایک منظم طریقے سے، باقاعدہ ایک مہم کے طور پر ایک منصوبہ بنا کر انھیں چلائے اور جن جن علاقوں میں اس کو کارکن اور ذرائع میسر آتے جائیں، وہاں ایک ترتیب کے ساتھ انھیں آگے بڑھاتی چلی جائے۔ اب ہر علاقے کی جماعتِ اِسلامی کو ان کاموں کا حساب اپنے کارکنوں سے لینا اور اپنے اوپر کے نظم کو دینا ہو گا۔ اب انھیں خود بھی یہ دیکھنا ہو گا اور بالائی نظم کو بھی یہ دکھانا پڑے گا کہ کن کن بستیوں میں اس سلسلے کا کیا کام ہو رہا ہے اور کس تدریج وترتیب کے ساتھ وہ دوسری بستیوں کی طرف پھیل رہا ہے۔
اس پروگرام میں سرِدست حیات اجتماعی کے مختلف گوشوں کے لیے کام کا جو نقشہ بنایا گیا ہے وہ یہ ہے۔
۱۔ مذہبی گوشے میں کارکنان جماعت کو یہ کام کرنے ہوں گے۔
(۱) عوام الناس کو اطاعتِ خدا اور رسول کی طرف بلانا، ان میں آخرت کی باز پرس کا احساس بیدار کرنا، انھیں نیکی اور بھلائی کی تلقین کرنا اور انھیں اِسلام کی حقیقت سمجھانا۔
(۲)عام لوگوں کو ان ضروری احکامِ دینی سے باخبر کرنا جن کا جاننا مسلمان کی سی زندگی بسر کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔
(۳)مساجد کی حالت درست کرنا اور ان کے لیے مسلم معاشرے میں مرکزی اہمیت پیدا کرنا۔
(۴)مذہبی جھگڑوں کو روکنا اور لوگوں کو اس کش مکش کے نقصانات کا احساس دلانا۔
۲۔ اَخلاقی گوشے میں ہمارے کارکنوں کو تین کاموں پر اپنی قوت صرف کرنی ہو گی:
(۱) غنڈہ گردی کا انسداد۔
(۲) ہر قسم کے فواحش کا انسداد۔
(۳) رشوت وخیانت کی روک تھام۔
ان اغراض کے لیے ہم صرف اَخلاقی تلقین ہی پراکتفا کرنا نہیں چاہتے بلکہ معاشرے کے شریف عناصر کو ان برائیوں کے مقابلے میں منظم کرکے ان کے خلاف عملی جدوجہد بھی کرنا چاہتے ہیں۔
۳۔ معاشی گوشے میں ہم کوشش کریں گے کہ تین طرح کی خدمات انجام دی جائیں۔
(۱) توخذ من اغنیاء ھم فترد علیٰ فقراء ھم کے شرعی اصول پر بستیوں کے غریبوں، محتاجوں اور معذوروں کی باقاعدہ اعانت کا انتظام اور اس کے لیے انھی بستیوں کے ذی استطاعت لوگوں سے مدد لینا۔
(۲)سرکاری محکموں اور اداروں سے عام لوگوں کی شکایات رفع کرانا اور داد رسی حاصل کرنے کے معاملے میں جس حد تک ممکن ہو ان کی مدد کرنا۔
(۳)بستیوں کے لوگوں میں اپنی مدد آپ کرنے کا جذبہ پیدا کرنا تاکہ وہ خود ہی مل جل کر اپنی بستیوں کی صفائی اور راستوں کی درستی اور حفظانِ صحت کا انتظام کر لیا کریں۔
۴۔ تعلیمی گوشے میں ہماری کوشش یہ ہو گی۔
(۱) بستیوں اور محلوں میں دارالمطالعے کھولنا۔
(۲) تعلیم بالغاں کے مراکز قائم کرنا۔
(۳) جہاں جہاں بستیوں کے لوگ مالی ذرائع فراہم کرنے پر تیار ہوں وہاں ایسے پرائمری اسکول قائم کرنا جن میں سرکاری نصاب پڑھانے کے ساتھ دینی تعلیم وتربیت کا انتظام بھی ہو۔
اس تفصیلی تجزیہ سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس پروگرام میں لائحہ عمل کے ابتدائی تین اجزا میں سے ہر ایک کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ ہمارے موجودہ وسائل کے لحاظ سے یہ پروگرام نہ بہت ہلکا ہے نہ بہت بھاری۔ اسی لیے قرارداد میں اسے ’’کافی‘‘ تعبیر کیا گیا ہے۔ تاہم اگر کوئی اورکام بھی ایسا ہو جو ہمارے نصب العین کے لیے زمین ہموارکرنے، یا اس کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے ضروری ہو اور ہمارے وسائل اس کے متحمل ہوں، تو ہم ہر وقت اس پروگرام میں اس کا اضافہ کر سکتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ اس پروگرام کی تفصیلات دیکھ کر بعض لوگوں پر یہ اثر بھی پڑے کہ یہ تو ایک بڑا لمبا چوڑاپروگرام بنا کر رکھ دیا گیا ہے جس پر عمل درآمد ہونا مشکل ہے۔ ایسا تاثر اگر کسی کا ہے تو درحقیقت یہ ایک سطحی تاثر ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص کھانا پکانے کے عمل کی جزئیات وتفصیلات کاغذ پر پڑھ کر یا کسی کی زبان سے سن کر ہول کھا جائے اور سمجھے کہ بھلا اتنے کام کون نمٹا سکتا ہے۔ حالانکہ کام کرنے والے ہاتھ روزانہ دو دو اور تین تین مرتبہ ان سارے کاموں کو نمٹاتے رہتے ہیں اور اپنے ایک ایک عمل میں ان بہت سی تفصیلات کو سمیٹتے چلے جاتے ہیں جو کاغذ پر بکھری ہوئی بہت نظر آتی ہیں۔
……٭٭٭……
نکتۂ پنجم
اب قرارداد کے اس حصے کی طرف آئیے جس میں کہا گیا ہے کہ اس لائحۂ عمل کا چوتھا جز (نظامِ حکومت کی اصلاح) بھی کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ ابتدا ہی سے یہ جماعت کا بنیادی مقصد اور اس کے نصب العین کا لازمی تقاضا تھا مگر اس کے لیے جماعت نے تقسیم ہند سے پہلے عملاً کوئی اقدام… اس نوعیت کا اقدام جیسا کہ تقسیم کے بعد کیا گیا… اس لیے نہیں کیا کہ اس وقت مواقع اور ذرائع کا فقدان تھا اور بعض شرعی موانع بھی ہمارے راستے میں حائل تھے۔
قیامِ پاکستان سے پہلے جماعت کے سیاسی کام کی تفصیل
یہ ایک اہم نکتہ ہے جسے جماعتِ اِسلامی کے تمام کارکنوں اور اس تحریک سے وابستگی رکھنے والوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے، کیوں کہ اسے سمجھے بغیر ان کے لیے جماعت کی روح اور اس کی حقیقت اور اس کی تاریخ کو سمجھنا مشکل ہو گا اور ممکن ہے کہ اس کے باعث آیندہ اپنے مقصود کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے قدم قدم پر انھیں ذہنی الجھنوں سے سابقہ پیش آئے۔ یہ اندیشہ اب خصوصیت کے ساتھ اس وجہ سے اور بھی زیادہ محسوس ہوتا ہے کہ جو لوگ اس تحریک کے درمیانی مراحل میں آئے ہیں، یا آیندہ آئیں گے وہ اسے صرف اس کے لٹریچر سے سمجھنے کی کوشش کریں گے اوران کے سامنے وہ حالات نہ ہوں گے جن میں مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے یہ لٹریچر پیدا ہوتا رہا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ کسی خاص دور کی لکھی ہوئی کسی عبارت سے کوئی شخص الٹے معنی برآمد کر بیٹھے اور الجھنوں میں مبتلا ہو جائے۔ حالانکہ ایک تحریک کے لٹریچر کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہر دور میں جو کچھ لکھا گیا اس کو پڑھتے ہوئے وہ حالات بھی آدمی کی نگاہ میں ہوں جن میں وہ لکھا گیا تھا۔ اس لیے میں طولِ کلام کی پرواکئے بغیر آپ کے سامنے پوری وضاحت کے ساتھ یہ بیان کروں گا کہ تقسیمِ ہند سے پہلے ہماری تحریک کو کن حالات سے سابقہ تھا۔ ان میں مواقع اور ذرائع کی کیا کمی تھی، ان میں کس نوعیت کے شرعی موانع ہمارے راستے میں حائل تھے اور ان حالات میں ہم تحریک کے آغاز سے اگست ۱۹۴۷ء تک کس تدریج کے ساتھ کس راستے سے اپنے نصب العین کی طرف بڑھ رہے تھے۔ پھر آگے چل کر قرارداد کے چھٹے نکتے کی توضیح کرتے ہوئے میں یہ بھی بتائوں گا کہ اگست ۴۷ء میں فی الواقع حالات کے اندر کس نوعیت کا تغیر رونما ہوا اور اس تغیر کے ساتھ کیا نئے موانع سامنے آئے، کیا نئے ذرائع بہم پہنچے، کیا امکانات شرعی مواقع کو دور کرنے کے لیے پیدا ہو گئے اور اس صورت حال کا بروقت بالکل صحیح اندازہ کرکے ہم نے کیا راہ عمل اپنے لیے تجویز کی۔
جماعتِ اِسلامی کی تحریک کا اصل ہدف کیا تھا؟
اس سلسلے میں آگے بڑھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر شخص کا ذہن اپنے اصل نصب العین کے معاملے میں اچھی طرح صاف ہو جائے۔ کسی شخص کو اس غلط فہمی میں نہ رہنا چاہیے کہ نظامِ حکومت کی اصلاح اور انقلاب قیادت کی جدوجہد، یعنی ’’سیاست‘‘ کوئی عارضہ تھا جو جماعتِ اِسلامی کو قیامِ پاکستان کے بعد کسی وقت یکایک لاحق ہو گیا۔ میں اپنی تقریر کی ابتدا میں اتنی تفصیل کے ساتھ جماعت کے نصب العین کی جو تشریح کر چکا ہوں اس سے یہ بات کسی اشتباہ کی گنجائش کے بغیر پوری طرح واضح ہو گئی ہے کہ زمامِ کار کی تبدیلی کو ہمارے نظامِ فکروعمل میں آغاز تحریک ہی سے بنیادی اور مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر میں بلا خوف تردید یہ بات کَہ سکتا ہوں کہ دراصل یہی وہ امتیازی وصف ہے جو زمانہِ قریب کی تاریخ میں، کم از کم برعظیم ہند کی حد تک، جماعتِ اِسلامی کی تحریک کو دوسری تحریکوں سے ممیّز کرتا ہے۔ اس جماعت نے محض اصلاحِ عقائد واَخلاق، محض اصلاحِ رسوم وعقائد، محض احیائے علومِ دین اور اسی طرح کے دوسرے اصلاحی وتعمیری کاموں پر اپنی فکر وعمل کو محدود ومرکوز نہیں کیا بلکہ ان سب کاموں کو ایک بڑے اور اصلی مقصد کا ذریعہ قرار دیا۔ اور وہ مقصد یہ تھا کہ فاسد نظامِ زندگی کو اقتدار کے مقام سے ہٹا کر اس کی جگہ دین حق کو ایک نظامِ زندگی کی حیثیت سے غالب وفرمانروا بنایا جائے۔ یہ جماعت وجود ہی میں اس طرح آئی تھی کہ پوری بصیرت اور واضح دلائل وشواہد کے ساتھ یہ بات بالکل دو اور دوچار کی طرح ایک ناقابلِ انکار حقیقت کے طور پر سامنے لا کر رکھ دی گئی تھی کہ:
اِسلام محض ایک مذہب نہیں ہے جو دوسرے مذاہب کی طرح ہر نظامِ زندگی کے اندر رہ سکتا ہو بلکہ وہ ایک پورانظامِ زندگی ہے جو تمام شعبہ ہائے حیات پر اپنا تسلّط چاہتا ہے۔
کسی غیر اِسلامی نظام کے غلبہ وتسلط میں اِسلام کے پنپنے کا کوئی امکان نہیں ہے، بلکہ جو کچھ بچا بچایا اِسلام موجود ہو، وہ بھی زیادہ دیر تک بچا نہیں رہ سکتا، خواہ اسے محفوظ رکھنے کے لیے وعظ وتبلیغ اور درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کے ذرائع سے کتنا ہی زور مار لیا جائے۔
اصل خرابی کی جڑ کفر وفسق کی امامت وراہ نُمائی اور قیادت وفرمانروائی ہے جس کی بدولت ایک خدا فراموش نظامِ زندگی قائم اور ہر شعبہ حیات پر حاوی ہوتا ہے، اس لیے جو لوگ بھی درحقیقت اِسلامی نظامِ زندگی کے معتقد اور عملاً اس کے رواج کے طالب ہوں ان کی تمام کوششوں کا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ کفر وفسق کو امامت کے مقام سے ہٹا کر ایمان وعمل صالح کو اس مقام پر لایا جائے اور اس کے لیے انھیں وہ تمام جائز ومعقول تدابیر استعمال کرنی چاہییں جن سے یہ اصلاحی انقلاب ممکن ہو۔ اس تخیل کو جن لوگوں نے قبول کیا تھا انھیں سے جماعتِ اِسلامی بنی تھی۔
اب اس سے زیادہ عجیب بات کوئی نہ ہو گی کہ انھیں لوگوں کے لیے اپنی تحریک کی اصل بنیاد مشتبہ ہو جائے اور وہ اسے بعد کے کسی دور کا عارضۂ لاحقہ سمجھ بیٹھیں جسے لاحق رکھنے کا مسئلہ آج ان کے لیے بحث طلب ہو۔ اس کا بحث طلب ہو جانا تو یہ معنی رکھتا ہے کہ ہمارے لیے جماعتِ اِسلامی کو جماعتِ اِسلامی رکھنا ہی بحث طلب ہو جائے، کیوں کہ اس مقصود کے بغیر تبلیغ واصلاح اور علمی تحقیقات کرنے والی جماعت، جماعتِ اِسلامی تو بہرحال نہیں ہو سکتی۔
تحریک کے تدریجی مراحل
اس ضروری تنبیہہ وتوضیح کے بعد میں آپ کے سامنے تاریخی ترتیب کے ساتھ یہ بیان کروں گا کہ آغاز تحریک سے تقسیم ملک تک مختلف ادوار میں اس مقصد کو سامنے رکھ کر کیا کام، کس تدریج کے ساتھ کیا گیا اور ہر دور کے کام کا واقعاتی پس منظر کیا تھا۔
پہلا دور
۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۷ء تک کا زمانہ وہ تھا جس میں ایک شخص کے محدود ذاتی ذرائع کے سوا کوئی ذریعہ کام کے لیے موجود نہ تھا اور مواقع بھی اس سے زیادہ کچھ نہ تھے کہ سخت پراگندہ خیالی کے ماحول میں ایک نہایت قلیل تعداد ایسے لوگوں کی فراہم ہو سکتی تھی جو اِسلام کے متعلق وہ باتیں پڑھنے اور سننے کے لیے تیار ہوں جو وہ شخص پیش کرنا چاہتا تھا۔ اس حالت میں کرنے کا کام یہی تھا اور اس کے سوا کچھ کیا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ حکمت کے ساتھ مسلسل تبلیغ سے کچھ لوگوں کو اس تخیل کا اس حد تک معتقد بنا دیا جائے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ اس کے لیے عملاً کچھ کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ اس دور کے کام کو اگر آپ سمجھنا چاہیں تو خصوصیت کے ساتھ الجہاد فی الاِسلام کا تیسرا باب (مصلحانہ جنگ) اِسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی اور تنقیحات کو بغور پڑھیں۔
ان میں سے پہلی کتاب میں وضاحت کے ساتھ یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ مسلمان دراصل نام ہی اس بین الاقوامی گروہ کا ہے جسے دنیا میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے لیے وجود میں لایا گیا ہے اور یہ فریضہ حکومت باطل کو مٹا کر اس کی جگہ حکومت الٰہیہ قائم کیے بغیر ادا نہیں ہو سکتا۔
دوسری کتاب میں اِسلامی نظام زندگی کا جامع تصوّر، اس کی فکری بنیادوں اور منطقی تقاضوں کے ساتھ پیش کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ایک ہمہ گیر تہذیب ہے جو حیات دنیا کے تمام گوشوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی اور تمام دنیا پر چھا جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تیسری کتاب میں اوّل سے آخر تک جو بات ذہن نشین کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کسی کافرانہ وفاسقانہ نظام زندگی کے ہمہ گیر فکری اور عملی تسلّط کے تحت محض عقائد اور عبادات کے بَل پر اِسلامی نظامِ زندگی پنپ نہیں سکتا، بلکہ خود عقائد اور عبادات کا بھی اپنی جگہ قائم رہ جانا ممکن نہیں ہے۔ اس ہمہ گیر تسلّط کو مٹا کر جب تک اِسلام کا ہمہ گیر تسلّط قائم کرنے کے لیے کام نہ کیا جائے گا، کسی مذہبی حرکت وعمل سے کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکے گا۔
یہ وہ بنیادی کام تھا جس سے بگاڑ کے اصل اسباب مشخص ہو کر نگاہوں کے سامنے آئے اور ذہنوں میں ایک ایسی تحریک کے لیے آمادگی پیدا ہوئی جس کا مقصد نظامِ زندگی میں اساسی تغیر پیدا کرنا ہو۔
دوسرا دور
۱۹۳۷ء اور ۱۹۳۸ء کے درمیانی زمانے میں ہندوستانی وطن پرستی کی تحریک کو وہ فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی جس سے یہ بات قریب قریب یقینی نظر آنے لگی کہ یہ تحریک بالآخر پورے ملک پر مسلّط ہو جائے گی۔ اس دور میں سب سے بڑا خطرہ جو سامنے آیا ہے وہ یہ تھا کہ یہ سیلاب کہیں ہندوستان کے مسلمانوں کو بہا نہ لے جائے اور اس رہے سہے سرمائے کو بھی ختم نہ کر دے جو یہاں اِسلامی نظام زندگی کے احیا کے لیے کام آ سکتا تھا۔ یہ دور جن لوگوں نے پورے شعور کے ساتھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے انھیں یاد ہو گا کہ اس وقت غیر منظم مسلمان کس بری طرح انڈین نیشنل کانگریس کی کام یابی سے مرعوب اور ہراساں ہو گئے تھے اور ان کے منتشر اجزا کو اپنے اندر جذب کر لینے کے لیے ہندی وطن پرستی کی تحریک نے بظاہر ’’ربطِ عوام‘‘ (Mass Contact) اور بباطن ’’شدھی‘‘ کی جو تحریک اٹھائی تھی وہ اس برعظیم میں اِسلام کے مستقبل کے لیے کیسے سخت خطرات کی حامل تھی۔ ہماری تحریک کے نقطہِ نظر سے اس وقت سب سے مقدم کام یہ تھا کہ اس سرزمین میں جو قوم اِسلام سے اعتقادی، جذباتی اور تاریخی وابستگی رکھتی ہے۔ جسے اِسلامی تہذیب کے احیا واعلا کے لیے استعمال کرنا تمام دوسرے عناصر کی بہ نسبت سب سے زیادہ ممکن اور متوقع ہے اور جس میں سے اس تحریک کے لیے کارکن اور مددگار حاصل ہونے کی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ امید کی جا سکتی ہے، اسے وطنی قومیت میں گم ہونے سے روکا جائے اور اِسلامی تہذیب کی حفاظت کا جذبہ اس کے اندر ابھار دیا جائے۔ ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ کے پہلے دونوں حصے اور ’’مسئلہ قومیت‘‘ اسی دور کی پیداوار ہیں۔
ان میں سے پہلی کتاب میں ہندوستان کے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا تھا کہ ۱۸۵۷ء کے انقلاب سے بدرجہا زیادہ شدید انقلاب طوفان کی سی تیزی کے ساتھ تمھارے سروں پر آ رہا ہے اور اب تمھارے لیے زیادہ سے زیادہ دس پندرہ سال کی مہلت ہے۔ پھر اس آنے والے انقلاب کی خصوصیات اور مسلمانوں کی کم زوریوں کا تجزیہ کرکے صاف صاف بتایا گیا تھا کہ ان کم زوریوں کی موجودگی میں اس نوعیت کے انقلاب کی آمد اس سرزمین میں اِسلام کے مستقبل پر کیا اثرات ڈال سکتی ہے۔ اس کے بعد یہ اصولی حقیقتیں ان کے ذہن نشین کی گئی تھیں۔
٭ باطل کی جگہ باطل قائم کرنا مسلمان کا کام نہیں ہے، اس لیے انگریزی قوم کا کافرانہ حکومت کو ہٹا کر’’ہندوستانی قوم‘‘ کی کافرانہ حکومت لے آنا کوئی ایسا پاکیزہ مقصد نہیں ہو سکتا جس کے لیے لڑنا مسلمان کو زیب دیتا ہو۔
٭ ایک کافرانہ نظام کے اندر محض وہ آئینی تحفظات، جن کا سبز باغ سیاسی لوگ تمہیں دکھاتے ہیں، اس سرزمین میں اِسلامی تہذیب کی بقا کے لیے کچھ بھی کام نہیں آ سکتے۔
٭ ہندی قوم پرستی کے سیلاب سے بچنے کے لیے انگریز کی گود میں پناہ لینا اور یہ چاہنا کہ اس سے تمہیں بچانے کے لیے انگریز کا اقتدار یہاں موجود رہے، غلط بھی ہے اور تمھارے لیے شرمناک بھی۔
٭ تمھارے لیے کوئی راستہ ا س کے سوا نہیں ہے کہ خود اپنے اندر زندگی کی طاقت پیدا کرو اور اس طاقت کو صحیح منزلِ مقصود کی طرف بڑھنے کے لیے استعمال کرو۔
٭ مسلمان ہونے کی حیثیت سے جو چیز کم از کم تمھاری مقصود بن سکتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ملک اگر کلیۃً نہیں تو بڑی حد تک دارالاِسلام بن جائے۔
دوسری کتاب میں اس لادینی جمہوری، قومی ریاست (Secular Democtatic National State) کا جسے انڈین نیشنل کانگریس ہندوستان میں قائم کرنا چاہتی تھی اور جسے مسلمانوں کے بہت سے نادان رہنما آزادی وطن کا نام دے کر مسلمانوں کے لیے بھی آزادی کی تحریک سمجھ رہے تھے، پورا تجزیہ کرکے یہ بتایا گیا تھا کہ اس کا ہر جز بجائے خود کیا معنی رکھتا ہے۔ خاص طور پر برعظیم ہند کے حالات میں ان اصولوں کا انطباق کیا اثرات پید کرسکتا ہے اور عملاً کانگریس کی تحریک جو طریقے اختیار کر رہی ہے انھیں اگر چل جانے دیا جائے تو وہ کس طرح بالآخر اس سرزمین سے اِسلام کے بچے کھچے آثار بھی مٹا کر چھوڑیں گے۔ اس ساری بحث کے بعد مسلمانوں کے سامنے پھر ایک نصب العین رکھا گیا جو پہلی کتاب کی بہ نسبت زیادہ واضح تھا مگر اس کتاب کے مقدمے ہی میں یہ اشارہ کر دیا گیا تھا کہ یہ بھی آخری مقصود نہیں بلکہ اصل مقصود کی طرف صرف ’’’ایک اور قدم‘‘ ہے۔
تیسری کتاب میں قومیّت کے تصوّر سے بحث کی گئی تھی جس نے اس دور میں خصوصیّت کے ساتھ بڑی اہمیت اختیار کر لی تھی۔ انڈین نیشنل کانگریس کی پوری تحریک جس مقصد کے لیے کام کر رہی تھی وہ یہ تھا کہ ہندوستان کے تمام باشندوں کو ایک قوم قرار دے کر لادینی اور جمہوریت کے اصولوں پر اس کی ایک قومی ریاست بنائی جائے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کے بعض بڑے بڑے مذہبی رہنما تک اس کی بنیادی قباحت اور اس کے حقیقی نتائج کو نہیں سمجھ رہے تھے اور مسلمانوں کو اس مقصد کے لیے اس طرح کی قومیت میں جذب ہو جانے کا نہ صرف مشورہ دے رہے تھے، بلکہ یہ بھی ثابت کر رہے تھے کہ اِسلام اس میں مانع نہیں ہے۔ اس کتاب میں ایک طرف ’’قومیت‘‘ کے اس جدید تصور کا اور دوسری طرف ان اصول ومقاصد کا جن پر اِسلام نے امت مسلمہ کی اجتماعیت قائم کی ہے، پورا علمی جائزہ لے کر واضح کیا گیا کہ یہ دونوں چیزیں بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں اور مسلمان کبھی مسلمان رہتے ہوئے نہ مغربی طرز کے نیشلزم کو اختیار کر سکتے ہیں، نہ غیر مسلموں کے ساتھ ایک قومیت بنا کر لادینی جمہوری قومی ریاست بنا سکتے ہیں۔
یہ تینوں کتابیں جماعتِ اِسلامی کی تحریک کے تاریخی ارتقا میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں، کیوں کہ ان کے ذریعہ سے پہلی مرتبہ وقت کے اہم ترین سیاسی واجتماعی مسائل میں براہِ راست دخل دے کر واقعات کی رفتار کو اپنے نصب العین کی طرف موڑنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اگر اس وقت بھی پہلے دور ہی کے طرز پر صرف علمی کام کے ذریعہ سے ذہن بنانے کی کوشش کی جاتی رہتی توشاید آج تک بھی وہ وقت نہ آتا کہ جماعتِ اِسلامی کے نظم میں اس تخیل کے حامیوں کو منسلک کرکے اصل مقصود کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے کوئی منظم تحریک کھڑی ہو سکتی۔ لیکن چوں کہ محدود ذاتی ذرائع ہی سے سہی، وقت کے بھڑکتے ہوئے مسائل میں دخل دیا گیا اور ان میں عوام کو ایک مدلّل اور معقول راہ نُمائی دینے کی کوشش کی گئی، اس لیے اس دعوت کو وسیع پیمانے پر لاکھوں آدمیوں تک پھیلا دینے اور ایک کثیر تعداد کو اس سے متاثر کر دینے کا موقع مل گیا اور اس کا فائدہ صرف یہی نہیں ہوا کہ آیندہ بننے والی جماعتِ اِسلامی کے لیے جو زبردست تحریک اس زمانے میں اٹھی وہ ان کتابوں سے مدد لینے پر مجبور ہو گئی اور اس کی رگ وپے میں وہ خیالات ابتدا ہی میں سرایت کر گئے جن کی وجہ سے آخر کار قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ کی قیادت کے لیے اس نئی ریاست کو لادینی جمہوری ریاست کے راستے پر ڈالنا مشکل ہو گیا۔
اس دور کے کام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان تین کتابوں کے ساتھ خطبات کا بھی مطالعہ کیا جائے جو اسی دور کی چیز ہے۔ اس کو اور خصوصیت کے ساتھ اس کے آخری دونوں خطبوں کو، جو جہاد کے موضوع پر ہیں، اگر آپ غور سے پڑھیں گے تو آپ کے سامنے یہ بات کھل کر آ جائے گی کہ اس وقت اگرچہ مسلمانوں کی قوتِ ہضم کو ملحوظ رکھتے ہوئے شبہ دارالاسلام اور ریاست اندر ریاست اور تہذیبی خود اختیاری وغیرہ کے ناموں سے کچھ درمیانی نصب العین ایک ہلکی خوراک کے طور پر انھیں دئیے گئے تھے، لیکن اصل مقصود کی طرف انھیں بتدریج دھکیلنے کی کوشش میں اس وقت بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی گئی تھی۔ ’’جہاد‘‘ کے ان دونوں خطبوں میں یہ بات وضاحت کے ساتھ ان کے سامنے رکھ دی گئی تھی کہ
٭ نظامِ حکومت کی اصلاح کے بغیر نہ منکر کو مٹایا جا سکتا ہے نہ اصلاح خلق کی کوئی اسکیم چل
سکتی ہے۔
٭ دین حقیقت میں اپنا غلبہ چاہتا ہے اور عملاً غالب نظامِ زندگی ہی کا نام ’’دین‘‘ ہے۔
٭ غالب نظام جو بھی ہو اس کے تحت مغلوب نظام نہیں چل سکتا۔
٭ اِسلام کا اصل تقاضا یہ ہے کہ وہی پورے نظامِ زندگی پر غالب ہو۔
٭ اور ایمان کی صداقت کا معیار یہ ہے کہ آدمی اس مقصد کے لیے اپنی جان لڑا دے۔
تیسرا دور
اس کے بعد منزل مقصود کی طرف پیش قدمی کا وہ دور شروع ہوا جو ۱۹۳۹ء سے تشکیلِ جماعت (اگست ۴۱ء) تک رہا ہے۔ یہ جماعتِ اِسلامی کی تاریخ کا نہایت اَہم دَور، اس کا دور تاسیس ہے جس میں پوری طرح کھول کر وہ راستہ لوگوں کے سامنے پیش کر دیا گیا جو اصل اِسلامی نصب العین کی طرف جاتا ہے اور تمام دوسرے راستوں سے جن پر لوگ اس وقت دوڑ رہے تھے، اس کا فرق نمایاں کرکے رکھ دیا گیا۔ یہی چیز بالاخر اس کی موجب ہوئی کہ اس سخت ہنگامے کے دور میں ایک گروہ اس راستے پر چلنے کے لیے تیار ہو گیا اور اس امر کے امکانات پیدا ہو گئے کہ نظام زندگی میں اساسی تغیر کے لیے عملاً ایک منظم تحریک شروع ہو جائے۔
اس دَور کے کام کو سمجھنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ حالات آپ کی نگاہ میں ہوںجن میں یہ کام کیا گیا تھا۔ ۱۹۲۲ء کے بعد ہندوستان میں ایک ایسا دور شروع ہوا تھا جس میں ایک طرف اس برعظیم کے مسلمان سخت انتشار، پراگندہ خیالی اور زیاں کاری میں مبتلا ہوتے چلے گئے اور دوسری طرف گاندھی جی کی قیادت میں ہندو قوم پرستی روز بروز ایک زبردست طاقت بن کر اس قابل ہوتی چلی گئی کہ انگریزی اقتدار کی جانشین بن سکے۔ دونوں طاقتوں کا یہ فرق یوماً فیوماً بڑھتا چلا جا رہا تھا، یہاں تک کہ پندرہ برس بعد ۱۹۳۷ء میں اس کا یہ نتیجہ ایک بم کی طرح پھٹ کر ظاہر ہوا کہ ہندوستان کے ایک بہت بڑے حصے پر کانگریس کی حکومت قائم ہو گئی۔ اس وقت یہ بات علانیہ نظر آنے لگی کہ انگریزی اقتدار اس کے مقابلے میں زیادہ دیر تک نہیں ٹھیر سکے گا۔ یہ صورت حال دیکھ کر مسلمان سوتے سوتے یکایک ہڑبڑا کر اٹھے اور ان میں ایک نئی قومی تحریک پیدا ہوئی جس نے دو تین سال کے اندر ان کے بہت بڑے حصے کو اپنے دائرے میں سمیٹ لیا۔ یہ تحریک گھبراہٹ میں شروع ہوئی تھی۔ فوری ہیجان کا نتیجہ تھی۔ کسی منظم فکر، کسی واضح مقصد، کسی سوچے سمجھے نقشے کی رہین منت نہ تھی۔ طرح طرح کے متضاد عناصر، متضاد رجحانات اور مقاصد کے ساتھ ساتھ اس میں شامل ہو گئے تھے اور ہوتے چلے جا رہے تھے۔ عام لوگوں کو جو چیز اس کی طرف کھینچ کر لا رہی تھی وہ اِسلام سے ان کی محبت تھی جس کی بنا پر وہ اِسلامی تہذیب کا احیا اور اِسلامی حکومت کا قیام چاہتے تھے۔ لیکن دوسری طرف اس تحریک کی قیادت جس طرز پر کی جا رہی تھی وہ خالص قوم پرستانہ تھا جس میں مشکل ہی سے دینی رجحان کا کوئی شائبہ پایا جاتا تھا ۔ایسی تحریک کے نتیجے میں اس سے زیادہ کچھ ممکن نہ تھا کہ اگر ملک تقسیم ہو (جس کا پرزور مطالبہ ۱۹۳۹ء میں شروع ہو چکا تھا) تو ایک ایسی لادینی جمہوری قومی ریاست قائم ہو جائے جس میں مسلمان عنصر غالب ہوں۔ یعنی وہی ہندوستان کا سا کافرانہ نظام، صرف اس فرق کے ساتھ کہ ایک جگہ کوئی رام پرشاد اس کو چلائے تو دوسری جگہ کوئی عبداللّٰہ اس کا منتظم ہو۔ ان دو رجحانات کے درمیان بہت سے جدید تعلیم یافتہ اور بہت سے دین دار لوگوں کا ایک گروہ ایسا تھا جو یہ استدلال کر رہا تھا کہ اِسلامی حکومت کے قیام کا راستہ یہی ہے کہ پہلے اس قوم پرستانہ تحریک کے ذریعہ سے مسلمانوں کی ایک قومی ریاست چاہے وہ لادینی ہی کیوں نہ ہو، بن جائے، پھر اسے اِسلامی ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس دلیل سے عام طور پر لوگ اطمینان کے ساتھ یہ سمجھ رہے تھے کہ واقعی اِسلامی نصب العین کی طرف یہی راستہ جاتا ہے۔
اس کے ساتھ اس زمانے میں مسلمانوں کے اندر ایک اچھا خاصا طاقتور عنصر ان لوگوں کا بھی موجود تھا جو کہتے تھے کہ ہم بھی اِسلامی حکومت ہی کا قیام چاہتے ہیں، مگر اس کا راستہ یہ ہے کہ پہلے ہندوستانی قوم پرستی کی تحریک میں شامل ہو کر انگریزی اقتدار سے آزادی حاصل کرو، پھر آزاد ہندوستان میں اس مقصد کے لیے جدوجہد شروع کرو۔ اس گروہ میں ملک کے نامور اور مقتدر علما کی موجودگی لوگوں کے لیے سخت فریب کا ذریعہ بنی ہوئی تھی۔
ایک اور تحریک بھی اس دور میں بڑے زور شور کے ساتھ چل رہی تھی جو اِسلامی حکومت ہی کو مقصود قرار دیتی تھی، مگر اس تک پہنچنے کے لیے صرف فوجی تنظیم کو کافی سمجھتی تھی۔ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد اس کی بھی گرویدہ بنی ہوئی تھی۔
ان حالات میں جو کام کیا گیا (اور یاد رکھئے کہ یہ کام بھی صرف ایک شخص کے ذاتی ذرائع کے ساتھ ہو رہا تھا۔ اور مواقع کا حال یہ تھا کہ وقت کی تمام تحریکوں سے اختلاف کرنے کے باعث یہ زمانہ اس کام کے لیے انتہائی ناسازگار تھا) اسے ہم تین بڑے بڑے عنوانات پر تقسیم کر سکتے ہیں:
ایک کام یہ تھا کہ اِسلامی حکومت کے بنیادی نظریّے اور اس کے نمایاں خدوخال کو لوگوں کے سامنے کھول کر رکھا گیا تاکہ وہ اس چیز کی نوعیت اچھی طرح سمجھ لیں جس کی صرف طلب ان کے اندر پیدا ہوئی تھی۔ یہ کام اس زمانے کے متعدد مقالات اور تقریروں میں کیا گیا تھا، جن میں سے ’’جہاد فی سبیل اللّٰہ‘‘ (مئی ۱۹۳۹ء) ’’اِسلام کا نظریہ سیاسی‘‘ (دسمبر ۱۹۳۹ء) اور ’’سلامتی کا راستہ‘‘ (اپریل ۱۹۴۰ء) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس سے مقصود یہ تھا کہ اوّل تو لوگ اپنی مطلوب شے کی صحیح نوعیت سمجھ کر اسے حاصل کرنے کے لیے وہ طریقہ اختیار کریں جو فی الواقع اس کے حصول کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو عام طور پر لوگوں میں اس کی واقفیت اس حد تک پیدا کر دی جائے کہ کوئی قیادت کل کسی وقت کوئی مذہبی کھلونا دے کر انھیں اس دھوکے میں نہ ڈال دے کہ جو کچھ وہ چاہتے تھے وہ انھیں حاصل ہو گیا ہے۔
دوسرا کام یہ تھا کہ تہذیبِ اِسلامی کے احیا کی جو مبہم سی خواہش لوگوں میں اس وقت ابھر آئی تھی، اس کے متعلق انھیں وضاحت کے ساتھ یہ بتایا گیا کہ یہ تہذیب دراصل ہے کیا چیز، اس میں اور دوسری تہذیبوں میں اصولی فرق کیا ہے اور اس کا احیا کس وسعت کے ساتھ، زندگی کے کن گوشوں میں، کس کس نوعیت کی مساعی چاہتا ہے۔ نیز یہ کہ ایک حقیقی اِسلامی نظامِ حکومت کا قیام اس تہذیب کے احیا اور بقا کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے۔ اور اس کے برعکس مسلمانوں کی جاہلی حکومت اس میں کتنی بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔ اس کام کے نشانات بھی اس دور کے متعدد مضامین اور تقریروں میں آپ کو ملیں گے۔ مگر خاص طور پر ’’تجدید واحیائے دین‘‘ (فروری ۱۹۴۰ء) اور ’’اِسلام اور جاہلیت‘‘ (فروری ۱۹۴۱ء) کا موضوع یہی تھا۔ اور اس سے مقصود یہ تھا کہ سنجیدہ اورمعاملہ فہم لوگ، جو خواہشات سے آگے بڑھ کر عملاً بھی کچھ کرنا چاہتے ہوں، یہ جان لیں کہ اگر واقعی یہی شے انھیں مطلوب ہے تو انھیں اس کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
تیسرا کام یہ تھا کہ مسلم قوم پرستی اور اِسلام کا مخلوطہ، جس کی بے شمار صورتوں نے اس وقت ذہنوں میں سخت گھپلا ڈال رکھا تھا، اس کا پورا تجزیہ کرکے یہ حقیقت لوگوں کے سامنے بے نقاب کر دی گئی کہ اِسلامی نظامِ زندگی کا احیا اور قیام فی الواقع کس نوعیت کی تحریک چاہتا ہے اور جو تحریکیں مسلمانوں میں چل رہی ہیں وہ کیوں اس نصب العین تک پہنچنے کا ذریعہ نہیں بن سکتیں۔ یہ کام اس سلسلہ مضامین کے ذریعہ سے کیا گیا جو جولائی ۳۹ء سے ۴۱ء کے آغاز تک مسلسل لکھے گئے تھے اور فروری ۴۱ء میں ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ حصہ سوم کے نام سے شائع ہوئے اور یہی کام اس تقریر میں بھی کیا گیا جو ستمبر ۴۰ء میں ’’اِسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘‘ کے عنوان پر علی گڑھ یونی ورسٹی میں کی گئی تھی۔ اس کام کا سب سے زیادہ نمایاں پہلو یہ تھا کہ اس میں ان دو بڑی غلط فہمیوں کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس میں مسلمان اس وقت شدت کے ساتھ مبتلا تھے۔ کانگریسی وطن پرستی سے بغاوت کرکے وہ ایک نئی جدوجہد کا آغاز کر رہے تھے جس کا مقصد کم از کم عام مسلمانوں کے نزدیک اِسلامی حکومت کا قیام تھا۔ مگر پہلی غلط فہمی جس میں وہ پڑ گئے تھے وہ یہ تھی کہ کیاایک خالص قوم پرستانہ تحریک‘ جو مسلم قومیت سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کو لے کر اٹھے اور دینی رجحانات ومحرکات کے بغیر محض نیشنلزم کے اصولوں پر چلے، وہ اِسلامی حکومت کے قیام کا ذریعہ بن سکتی ہے؟ اور دوسری غلط فہمی انھیں یہ لاحق تھی کہ پہلے مسلمانوں کی ایک لادینی جمہوری قومی ریاست بن جائے، پھر اسے اِسلامی حکومت کے قیام کا ذریعہ بنا لیا جائیگا۔ اس کے جواب میں انھیں یہ بتایا گیا کہ اگر فی الواقع آپ کا مقصد ایک حقیقی اِسلامی ریاست کا قیام ہے تو اس تک پہنچنے کا راستہ وہ نہیں ہے جو آپ اختیار کر رہے ہیں، بلکہ اس کے لیے ایک دوسری نوعیت کی تحریک درکار ہے جس کی یہ اور یہ خصوصیات ہوں۔ اور یہ کہ مسلمانوں کی ایک بے دین قومی حکومت اگرچہ وہ جمہوری ہی کیوں نہ ہو، اس مقصد کی راہ میں مدد گار ہونے کے بجائے الٹی مزاحم بن جاتی ہے، اس لیے آپ اس مقصد تک پہنچنے کے لیے یہ پھیر کا راستہ اختیار نہ کریں، بلکہ اس راہ سے اس کی طرف بڑھیں جو سیدھی اسی مقصود کی طرف جاتی ہے۔ ’’مسلمان اورموجودہ سیاسی کش مکش‘‘ حصہ سوم کا مضمون ’’اِسلام کی راہِ راست اور اس سے انحراف کی راہیں‘‘ اور ’’اِسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘‘ ان دونوں مقالات کا موضوع دراصل یہی تھا اور ان سے مقصود یہ تھا کہ آغاز ہی میں مسلمان جدوجہد کا صحیح رخ اختیار کریں۔
چوتھا دَور
لیکن جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے، وہ تحریک جو اس وقت قوم پرستی کے راستے پر چل پڑی تھی، اسی راستے پر بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ مسلمانوں کا سوادِ اعظم اس میں جذب ہو گیا اور اگست ۱۹۴۱ء میں جب اِسلامی تحریک کے نقشے پر منظم جدوجہد کرنے کے لیے دعوتِ عام دی گئی تو ۳۵ کروڑ انسانوں کی آبادی میں سے صرف ۷۵ آدمی اس کے لیے جمع ہوئے۔
یہاں سے ہماری تحریک کا چوتھا دور شروع ہوتا ہے، جب کہ وہ انفرادی سعی کے مراحل سے گزر کر اجتماعی سعی کے مرحلے میں داخل ہوئی۔ اس وقت سے ۱۹۴۷ء کے انقلاب تک ہم جن حالات میں اپنے نصب العین کے لیے کام کرتے رہے وہ مختصراً یہ تھے۔
ذرائع کے لحاظ سے دیکھیے تو ہماری قوت ۷۵، افراد سے شروع ہوئی اور ۶ سال میں ۶۲۵ افراد تک پہنچی۔ اس کے ساتھ اگر عملی ہم دردوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو وہ ڈیڑھ دو ہزار سے زیادہ نہ تھے۔ اور یہ تمام تر غریب یا نیم خوشحال متوسط طبقے کے لوگ تھے۔
مواقع کے لحاظ سے دیکھیے تو اس وقت ملک پر انگریزی حکومت قائم تھی جس کے ہٹنے کے آثار ۱۹۴۶ء تک دور دور بھی کہیں نہ پائے جاتے تھے۔ ملک میں دو زبردست تحریکیں انگریزی اقتدار کی جانشینی کے لیے کش مکش کر رہی تھیں جنھوں نے پوری آبادی کی توجہ کو جذب کر لیا تھا۔ ملک کی تین چوتھائی آبادی اِسلام کی نہ صرف منکر بلکہ اس کے خلاف سخت تعصب میں مبتلا تھی جس میں مسلمانوں سے قومی لڑائی کے باعث روز بروز اضافہ ہو رہا تھا اور اس پر مزید یہ کہ وہ اس وقت قوم پرستی کے نشے میں چور ہو رہی تھی۔ اس لیے یہ ماحول اس کے سامنے اِسلام کو ایک آئیڈیالوجی کی حیثیت سے پیش کرنے کے لیے انتہائی ناسازگار تھا۔ رہا ملک کی آبادی کا بقیہ ۴؍۱ جو اِسلام کا اقرار کرنے والا تھا، تو اس وقت اس پر مسلم قوم پرستی کی تحریک کا پورا غلبہ تھا اور وہ اپنی ساری پونجی ایک قومی ریاست کے قیام کی کوشش میں اس اعتماد پر لگا چکا تھا کہ اسے اِسلامی ریاست میں تبدیل کرنے کا کام بعد میں شروع کیا جائے گا۔
اس کے ساتھ شرعی موانع بھی ہمارے راستے میں حائل تھے، کیوں کہ نظام حکومت خالص لادینی جمہوریت کے اصولوں پر قائم تھا جس میں انقلاب قیادت بواسطہ انتخاب کا دروازہ ہمارے لیے بند تھا۔ اور کسی مسلح انقلاب یا خفیہ تحریک کا راستہ بھی ہم نہ اختیار کر سکتے تھے، کیوں کہ ایک جمہوری وآئینی نظام کی موجودگی میں، جبکہ کھلے بندوں تبلیغ واشاعت کے ذریعہ سے رائے عام کو ہموار کرکے تبدیلی لائی جا سکتی ہو، ان طریقوں کے لیے کوئی شرعی جواز موجود نہ تھا۔
ان حالات میں جس نقشے پر ہم کام کر رہے تھے وہ یہ تھا کہ توسیع دعوت کے جتنے وسائل بھی بہم پہنچیں انھیں استعمال کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہم خیال بنایا جائے، پھر ان میں سے جو لوگ بھی عملاً اس مقصد کے لیے کام کرنے پر آمادہ ہوں انھیں جمع کرکے اور تربیت دے کر ایک ایسا صالح گروہ منظم کر لیا جائے جو ایک متبادل قیادت کا بار اٹھانے کے لائق ہو سکے۔ اور آگے اس امر کا انتظار کیا جائے کہ اللّٰہ تعالیٰ منزلِ مقصود کی طرف پیش قدمی کے لیے مزید مواقع بہم پہنچائے۔
اس دَور میں سب سے زیادہ جو سوال سوچنے سمجھنے والے طبقے کو پریشان کرتا تھا وہ یہ تھا کہ آخر ایک ایسے ملک میں جہاں ایک منظم غیر اِسلامی ریاست… اور وہ بھی زمانہ ِجدید کی ریاست جس سے بڑھ کر زندگی کے تمام پہلوئوں پر حاوی اور مسلّط ہونے والی ریاستیں کسی سابق دور میں نہ پائی جاتی تھیں… موجود ہے اور غالب آبادی غیر مسلم ہے، وہ انقلاب عملاً کیسے رونما ہو گا جو ہم برپا کرنا چاہتے ہیں؟ فرض کیجئے کہ ہم غالب حصہ آبادی کے خیالات، ذہنیتیں، اَخلاقی معیارات، سب کچھ بدل دینے میں کام یاب ہو جائیں، تب بھی کفر کا اقتدار آپ سے آپ تو ختم نہیں ہو جائے گا۔ اسے بدلنے کے لیے بہرحال کوئی عملی صورت ہی اختیار کرنی ہو گی۔ اب اگر ہم انتخابات کے ذریعہ سے انقلاب قیادت کا راستہ اختیار نہیں کر سکتے، کیوں کہ لادینی ریاست کے اندر انتخابات میں حصہ لینا ہمارے عقیدے کے خلاف ہے، تو کیا ہم مسلح انقلاب برپا کریں گے؟ یا کہیں ہجرت کرکے مدینہ طیبہ کے طرز کی کوئی ریاست قائم کریں گے اور پھر جہاد کرکے اس ملک کو دارالاِسلام بنائیں گے؟ یا پھر کیا پیروانِ مسیح کی طرح ہم دو تین سو برس تک اس انتظار میں تبلیغ واشاعت اور تحمل مصائب وشدائد کا طویل دور گزاریں گے کہ کوئی قسطنطین مسلمان ہو کر خود ہی یہاں اِسلامی حکمت قائم کر دے؟
یہ سوالات اس زمانے میں میرے سامنے بار بار پیش کیے جاتے تھے۔ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں میں نے ترجمان القرآن میں ایک دفعہ لکھا تھا۔
’’اصولی طریق کار یہی ہے کہ پہلے ہم اپنی دعوت پیش کریں گے۔ پھر ان لوگوں کو جو ہماری دعوت قبول کریں، منظم کرتے جائیں گے۔ پھر اگر رائے عام کی موافقت سے، یا حالات کی تبدیلی سے کسی مرحلے پر ایسے آثار پیدا ہو جائیں کہ موجود الوقت دستوری طریقوں ہی سے نظام حکومت کا ہمارے ہاتھوں میں آ جانا ممکن ہو اور ہمیں توقع ہو کہ ہم سوسائٹی کے اَخلاقی، تمدنی اور سیاسی ومعاشی نظام کو اپنے اصول پر ڈھال سکیں گے تو ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں کوئی تامل نہ ہو گا۔ اس لیے کہ ہمیں جو کچھ بھی واسطہ ہے اپنے مقصد سے ہے نہ کہ کسی خاص طریقے (Method) سے۔ لیکن اگر پرامن ذرائع سے جو ہر اقتدار (Substance of Power) ملنے کی توقع نہ ہو تو پھر ہم عام دعوت جاری رکھیں گے اور تمام جائز شرعی ذرائع سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش کریں گے۔ ‘‘{ FR 7700 }
اس سلسلے میں ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے اسی زمانے میں لکھا گیا تھا ’’الیکشن لڑنا اور اسمبلی میں جانا اگر اس غرض کے لیے ہو کہ ایک غیر اِسلامی دستور کے تحت ایک لادینی (Secular) جمہوری (Democratic) ریاست کے نظام کو چلایا جائے تو یہ ہمارے عقیدہِ توحید اور ہمارے دین کے خلاف ہے۔ لیکن اگر کسی وقت ہم ملک کی رائے عام کو اس حد تک اپنے عقیدہ ومسلک سے متفق پائیں کہ ہمیں یہ توقع ہو کہ عظیم اکثریت کی تائید سے ہم ملک کا دستورِ حکومت تبدیل کر سکیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس طریقے سے کام نہ لیں۔ جو چیز لڑے بھڑے بغیر سیدھے طریقے سے حاصل ہو سکتی ہو اس کو خواہ مخواہ ٹیڑھی انگلیوں ہی سے نکالنے کا ہم کو شریعت نے حکم نہیں دیا ہے۔ مگر خوب سمجھ لیجیے کہ یہ طریقِ کار ہم صرف اس صورت میں اختیار کریں گے جب کہ
اولاً ملک میں ایسے حالات پیدا ہو چکے ہوں کہ محض رائے عام کا کسی نظام کے لیے ہموار ہو جانا ہی عملاً اس نظام کے قائم ہونے کے لیے کافی ہو سکتا ہو۔
ثانیاً ، ہم اپنی دعوت وتبلیغ سے باشندگانِ ملک کی بہت بڑی اکثریت کو اپنا ہم خیال بنا چکے ہوں اور اِسلامی نظام قائم کرنے کے لیے ملک میں عام تقاضا پیدا ہو چکا ہو۔
ثالثاً، انتخابات غیر اِسلامی دستور کے تحت نہ ہو بلکہ بِنائے انتخاب ہی یہ مسئلہ ہو کہ ملک کا آیندہ نظام کس دستور پر قائم کیا جائے۔‘‘{ FR 7701 }
اس کے ساتھ ایک اور ضروری اقتباس جو ہماری اس دور کی پالیسی کو سمجھنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ ۱۹۴۳ء کی اس تقریر میں ملاحظہ فرمائیے جو اجتماع دربھنگہ میں کی گئی تھی۔ اس میں عرض کیا گیا تھا۔
’’ہمیں عوام میں ایک عمومی تحریک (Mass Movement) چلانے سے پہلے ایسے آدمیوں کو تیار کرنے کی فکر کرنی ہے جو بہترین اِسلامی سیرت کے حامل ہوں اور ایسی اعلیٰ درجے کی دماغی صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں کہ تعمیرِ افکار کے ساتھ اجتماعی قیادت کے دہرے فرائض کو سنبھال سکیں، یہی وجہ ہے کہ میں عوام میں تحریک کو پھیلا دینے کے لیے جلدی نہیں کر رہا ہوں بلکہ میری تمام تر کوشش اس وقت یہ ہے کہ ملک کے اہلِ دماغ طبقوں کو متاثر کیا جائے اور انھیں کھنگال کر صالح ترین افراد کو چھانٹ لیا جائے جو آگے چل کر عوام کے لیڈر بھی بن سکیں اور تہذیبی وتمدنی معمار بھی۔ یہ کام چوں کہ ٹھنڈے دل سے کرنے کا ہے اور ایک عمومی تحریک کی طرح فوری ہلچل اس میں نظر نہیں آ سکتی ہے ، اس وجہ سے نہ صرف ہمارے ہم درد وہم خیال لوگ، بلکہ خود ہمارے ارکان تک بددل ہونے لگتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ارکان جماعت کام کے اس نقشے کو اچھی طرح سمجھ لیں اور اپنی قوتیں بدولی کی نذر کرنے کے بجائے کسی مفید کام میں استعمال کریں۔ یہ اعتراض بجا ہے کہ کثیر تعداد عوام کو اس نقشے کے مطابق بلند سیرت بنانے کے لیے مدت مدید درکار ہے، مگر ہم اپنے انقلابی پروگرام کو عوام کی اصلاح ہو چکنے کے انتظار میں ملتوی کرنا نہیں چاہتے ہمارے پیشِ نظر صرف یہ نقشہ ہے کہ عوام کی سربراہ کاری کے لیے ایک ایسی مختصر جماعت فراہم کر لی جائے جس کا ایک ایک فرد اپنے بلند کریکٹر کی جاذبیت سے ایک ایک علاقے کے عوام کو سنبھال سکے۔ اس کی ذات عوام کا مرجع بن جائے اور بالکل فطری طریقے سے عوام کی لیڈر شپ کا منصب اسے حاصل ہو جائے۔ مگر صرف مرجعیت سے بھی کام نہیں چلتا۔ اس سے کام لینے کے لیے دماغی صلاحیتیں بھی ہونی چاہییں تاکہ ان مرکزی شخصیتوں کے ذریعے سے عوام کی قوتیں مجتمع اور منظم ہو کر اِسلامی انقلاب کی راہ میں صرف ہوں۔ ایک ٹھوس، پائدار اور ہمہ گیر انقلاب کا لازمی ابتدائی مرحلہ یہی ہے۔ اس مرحلے کو صبر سے طے کرنا ہی پڑے گا۔ ورنہ تحریک کی تباہی ناگزیر ہے۔ اگر موجودہ حالات میں عوام کو اکسا دیا جائے جب کہ انھیں سنبھال کر لے چلنے والے مقامی رہنما (Local Leaders) نہیں ہیں، تو عوام بالکل بے راہ روی پر اتر آئیں گے اور اپنے آپ کو نااہل لوگوں کے حوالے کر دیں۔‘‘
اس ساری بحث سے آپ یہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اقامت دین کے نصب العین کے ساتھ زمامِ کار کی تبدیلی اور انقلابِ امامت وقیادت توبالکل لازم وملزوم کی طرح آغاز ہی سے اس تحریک کے بنیادی تخیل میں شامل تھی اور اس کے لیے ہر زمانے میں ذرائع اور مواقع اور حالات کے لحاظ سے مسلسل جدوجہد بھی کی جاتی رہی۔ البتہ اس نوعیت کا اقدام، جیسا کہ تقسیم کے بعد پاکستان میں شروع کیا گیا، اس وقت عملاً ممکن نہ تھا، کیوں کہ اس کے لیے نہ ہمارے پاس ذرائع تھے، نہ وقت کے حالات میں اس کا کوئی موقع مل رہا تھا اور نہ شرعی موانع کے باعث ہم ایسا کر ہی سکتے تھے۔
ایک غلط فہمی کی اصلاح
آج بعض لوگ حالات کے سیاق وسباق کو نظر انداز کرکے ’’سیاسی کش مکش‘‘ حصہ سوم اور ’’اِسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘‘ کے بعض اقتباسات پیش کرکے ان سے چند بالکل غلط نتائج نکال رہے ہیں، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ قبل تقسیم کے حالات کی بحث کے سلسلے ہی میں اس اصل غلط فہمی کو، جس میں وہ مبتلا ہیں، صاف کردوں تاکہ آگے کی بحثوں میں یہ ذہنی الجھن بار بار تنگ نہ کرے۔ یہ دونوں مضامین جن کا وہ حوالہ دیتے ہیں، ۱۹۴۰ء کے لکھے ہوئے ہیں۔ اس وقت بحث یہ نہیں تھی کہ مسلمانوں کی لادینی قومی جمہوری ریاست تو وجود میں آ گئی ہے، اب اسے اِسلامی ریاست وحکومت میں تبدیل کیسے کیا جائے۔ بلکہ یہ بحث تھی کہ ہم داراالکفر میں رہتے ہوئے ایک اِسلامی نظام حکومت قائم کرنے کی جدوجہد کا آغاز کس طرح کریں۔ اس کے لیے ایک گروہ یہ راستہ تجویز کر رہا تھا کہ پہلے ایک قوم پرستانہ تحریک کے ذریعہ سے قوم پرستی ہی کے معروف اور چلتے ہوئے طریقوں پرکام کرکے مسلمانوں کی ایک لادینی ہی سہی، قومی وجمہوری ریاست قائم کر دینی چاہیے، پھر اسے ہم اِسلامی نظامِ حکومت کے قیام کا ذریعہ بنائیں گے اور جمہوری انتخابات کے واسطے سے اس کو اِسلامی ریاست و حکومت میں تبدیل کر لیں گے۔ میرا استدلال اس کے جواب میں یہ تھا کہ:
۱۔ یہ پھیر کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے آپ آغاز ہی میں براہ راست اِسلامی حکومت قائم کرنے کا وہ راستہ کیوں نہ اختیار کریں جو اس مقصد تک پہنچنے کا فطری راستہ ہے۔
۲۔ یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ مسلمانوں کی قومی حکومت کا قیام اِسلامی نظامِ حکومت کے قیام میں مددگار ہو سکتا ہے، یا اس کا مفید ذریعہ بن سکتا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس یہ چیز الٹی مانع ومزاحم ہوتی ہے اور بسا اوقات کافروں کی حکومت سے زیادہ کام یاب مزاحمت کرتی ہے۔
۳۔ یہ خیال کرنا بھی صحیح نہیں ہے کہ اس وقت انتخابات کے ذریعہ سے نظامِ حکومت کو تبدیل کرنا نسبتاً کوئی آسان کام ہو گا۔ دراصل اس وقت بھی اصلاح کے لیے وہی سارے پاپڑ بیلنے پڑیں گے جو آج یعنی ۴۰ء میں براہِ راست اِسلامی نظامِ حکومت کے قیام کی کوشش میں بیلنے ہوں گے اور اس وقت بھی اس راہ میں ویسی ہی مزاحمتیں ایک بگڑا ہوا مسلمان برسراقتدار طبقہ کرے گا جیسی آج کفار کر رہے ہیں۔ اس لیے اگر یہ سب کچھ اس وقت بھی پیش آنا ہے تو ہم آج ہی سے وہ اصل کام کیوں نہ شروع کر دیں جس سے دراصل اِسلامی حکومت قائم ہوا کرتی ہے اور اس درمیانی چیز کے قیام میں اپنی قوتیں کیوں صرف کریں جب کہ اسے مددگار نہیں بلکہ مزاحم ہی بننا ہے۔
ان تینوں نکات کو نگاہ میں رکھ کر آپ ’’اِسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘‘ اور ’’اِسلام کی راہِ راست اور اس سے انحرا ف کی راہیں‘‘ کا اور بغورمطالعہ کریں تو آپ کے سامنے وہ اصل مسئلہ واضح ہو جائے گا جو اس وقت زیر بحث تھا اور یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ اس وقت میرا موقف کیا تھا۔
خصوصیّت کے ساتھ مقدم الذکر مضمون کی یہ عبارت قابلِ توجہ ہے:
’’حکومت کا نظام اجتماعی زندگی میں بڑی گہری جڑیں رکھتا ہے۔ جب تک اجتماعی زندگی میں تغیر واقع نہ ہو کسی مصنوعی تدبیر سے نظامِ حکومت میں کوئی مستقل تغیر پیدا نہیں کیا جا سکتا… میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو قومی اسٹیٹ جمہوری طرز پر تعمیر ہو گا وہ اس بنیادی اصلاح میں آخر کس طرح مددگار ہو سکتا ہے۔ جمہوری حکومت میں اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں آتا ہے جن کو ووٹروں کی پسندیدگی حاصل ہو۔ ووٹروں میں اگر اِسلامی ذہنیت اور اِسلامی فکر نہیں ہے، اگر وہ صحیح اِسلامی کیریکٹر کے عاشق نہیں ہیں اور اگر وہ اس بے لاگ عدل اور بے لچک اصولوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جن پر اِسلامی حکومت چلائی جاتی ہے، تو ان کے ووٹوں سے کبھی ’’مسلمان‘‘ قسم کے آدمی منتخب ہو کر پارلیمنٹ یا اسمبلی میں نہیں آ سکتے۔ اس ذریعہ سے تو اقتدار انھی لوگوں کو ملے گا جو مردم شماری کے رجسٹر میں چاہے مسلمان ہوں، مگر اپنے نظریات اور طریقِ کار کے اعتبار سے جن کو اِسلام کی ہوا بھی نہ لگی ہو۔ اس قسم کے لوگوں کے ہاتھوں میں اقتدار کے آنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اسی مقام پر کھڑے ہیں جس مقام پر غیر مسلم حکومت میں تھے، بلکہ اس سے بھی بدتر مقام پر، کیوں کہ یہ قومی حکومت، جس پراِسلام کا نمائشی لیبل لگا ہو گا، اِسلامی انقلاب کا راستہ روکنے میں اس سے بھی زیادہ جری اور بے باک ہو گی جتنی غیر مسلم حکومت ہوتی ہے۔ غیر مسلم حکومت جن کاموں پر قید کی سزا دیتی ہے، وہ ’’مسلم قومی حکومت‘‘ ان کی سزا پھانسی اور جلاوطنی کی صورت میں دے گی اور پھر بھی اس حکومت کے لیڈر جیتے جی غازی اور مرنے پر رحمۃ اللّٰہ علیہ ہی رہیں گے۔ پس یہ سمجھنا غلطی ہے کہ اس قسم کی قومی حکومت کسی معنی میں بھی اِسلامی انقلاب لانے میں مددگار ہو سکتی ہے۔ اگر ہم کو اس حکومت میں بھی اجتماعی زندگی کی بنیادیں بدلنے ہی کی کوشش کرنی پڑے گی اور اگر یہ کام حکومت کی مدد کے بغیر بلکہ اس کی مزاحمت کے باوجود اپنی قربانیوں ہی سے کرنا ہو گا، تو ہم آج ہی سے یہ راہِ عمل کیوں نہ اختیار کریں؟‘‘
اسی بات کو موخر الذکر مضمون میں یوں بیان کیا گیا تھا:
’’اس میں شک نہیں کہ عوام کی اَخلاقی وذہنی تربیت کرکے، ان کے نقطہِ نظر کو تبدیل کرکے اور ان کے نفسیات میں انقلاب برپا کرکے ایک جمہوری نظام کو الٰہی حکومت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس اَخلاقی ونفسیاتی انقلاب کے برپا کرنے میں کیا مسلمانوں کی کافرانہ حکومت کچھ بھی مددگار ہو گی؟ کیا وہ لوگ جو موجودہ بگڑی ہوئی سوسائٹی کے مادی مفاد سے اپیل کرکے اقتدار حاصل کرنے میں کام یاب ہوں گے ان سے آپ یہ امید کر سکتے ہیں کہ وہ حکومت کا روپیہ، اس کے وسائل اور اس کے اختیارات کسی ایسی تحریک کی اعانت میں صرف کریں گے جس کا مقصد عوام کی ذہنیت تبدیل کرنا اور انھیں حکومت الٰہیہ کے لیے تیار کرنا ہو؟ اس کا جواب عقل اور تجربے کی روشنی میں نفی کے سوا کچھ نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ یہ لوگ اس انقلاب میں مدد دینے کے بجائے الٹی اس کی مزاحمت کریں گے۔ کیوں کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ اگر عوام کے نفسیات میں تغیر واقع ہو گیا تو اس بدلی ہوئی سوسائٹی میں ان کا چراغ نہ جل سکے گا۔ یہی نہیں بلکہ اس سے زیادہ خوفناک حقیقت یہ ہے کہ نام کے مسلمان ہونے کی وجہ سے یہ لوگ کفار کی بہ نسبت زیادہ جسارت وبے باکی کے ساتھ ایسی ہر کوشش کو کچلیں گے اور ان کے نام ان کے ظلم کی پردہ پوشی کے لیے کافی ہوں گے۔ جب صورت معاملہ یہ ہے تو کیا وہ شخص نادان نہیں ہے جو اِسلامی انقلاب کا نصب العین سامنے رکھ کر ایسی جمہوری حکومت کے قیام کی کوشش کرے جو ہر کافرانہ حکومت سے بڑھ کر اس کے مقصد کی راہ میں حائل ہو گی؟‘‘
اب یہ بات آخر آپ میں سے کسی سے چھپی ہوئی ہے کہ ۴۰ء سے ۴۷ء تک پہنچتے پہنچتے واقعات کی دنیا کسی قدر بدل گئی؟ ۴۰ء میں جو راستہ اِسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے میں نے پیش کیا تھا، مسلمانوں نے بحیثیت مجموعی اس کو اختیار نہ کیا۔ وہ اسی ’’درمیانی چیز‘‘ کے لیے کوشاں رہے جسے میں نے پھیر کا راستہ کہا تھا۔ حتی کہ بالآخر وہ لادینی جمہوری قومی ریاست پاکستان قائم ہو گئی جس کے متعلق میں نے یہ کہا تھا کہ وہ اِسلامی نظام حکومت کے قیام میں مددگار ہونے کے بجائے سخت مزاحم ہو گی اور اسے جمہوری طریقوں سے اِسلامی ریاست میں تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہ ہو گا۔ یہ سب کچھ پیش آ جانے کے بعد اگر کوئی شخص مجھ سے یہ کہے کہ اس کے پیش آنے سے پہلے جن خطرات کا میں نے ذکر کیا تھا، اب مجھے انھیں دفع کرنے کے بجائے انھیں سچ کر دکھانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اس کی معاملہ فہمی کی داد دوں یا سخن فہمی کی۔ بے شک میں نے کہا تھا کہ جاہلیت کے اصول پر مسلمانوں کی قومی ریاست بن جانا اِسلامی حکومت کے قیام کا ذریعہ نہیں ہے اس لیے اس درمیانی چیز کے لیے کوشش کرنے کے بجائے اصل مقصد کے لیے براہ راست کوشش کرو۔ مگر کیا اس کا یہ مطلب تھا، یا اب لینا درست ہے، کہ وہ درمیانی چیز جب قائم ہو جائے تو ہمیں اس کو اِسلام کی راہ میں اتنا ہی اور ویسا ہی سخت مزاحم بن جانے دینا چاہیے جس کا خدشہ ہم نے ظاہر کیا تھا اور اسے اِسلامی نظام کے قیام کا ذریعہ بنانے کی کوشش نہ کرنی چاہیے؟ بے شک میں نے یہ بھی کہا تھا کہ مسلمانوں کی قومی جمہوری ریاست کو اِسلامی ریاست میں بدلنا سخت مشکل کام ہو گا، کیوں کہ عام رائے دہندوں کو گمراہ کرکے نہایت بدکردار لوگ برسر اقتدار آ جائیں گے اور وہ کفار سے بھی زیادہ جسارت کے ساتھ اِسلام کی راہ روکنے کی کوشش کریں گے۔ مگر کیا اس سے یہ استدلال کرنا درست ہے کہ جب اس طرح کی ریاست وجود میں آ جائے تو ہمیں بدکرداروں ہی کے ہاتھ میں اسے چھوڑ دینا چاہیے اور جمہوری طریقوں سے اس کی قیادت تبدیل کرنے کی کوشش کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے؟ بے شک میں نے ۱۹۴۰ء میں اِسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے ایک طریق کار پیش کیا تھا، مگر کیا یہ کوئی عقلمندی ہوتی کہ ۴۷ء تک پہنچتے پہنچتے حالات میں جو عظیم تغیر رونما ہو گیا تھا اس کا ہم کوئی نوٹس نہ لیتے اوربدلے ہوئے حالات کوسمجھ کر اپنے ابتدائی طریق کار میں کوئی ردّوبدل نہ کرتے؟ بے شک میں نے اس طریقِ کار کو انبیا کا طریقہ کہا تھا اور آج بھی کہتا ہوں، مگر کسی صاحب ِعقل آدمی سے میں یہ توقع نہیں رکھتا کہ وہ ایک طریقِ کار کے بنیادی اصولوں اور حالات پر ان کے عملی انطباق کی مختلف اشکال کے درمیان فرق نہ کرے گا۔ اس طریقِ کار کے بنیادی اصول ہم نے کبھی نہ بدلے، نہ انھیں بدلنے کے ہم قائل ہیں۔ لیکن جو شخص حالات اور مواقع اور ذرائع کی تبدیلی کے ساتھ ان اصولوں پر عملدرآمد کی شکلیں نہ بدل سکے اس کی مثال میرے نزدیک اس عطائی طبیب کی سی ہے جو کسی حکیم کی بیاض کا ایک نسخہ لے کر بیٹھ جائے اور آنکھیں بند کرکے تمام مریضوں پر اسے جوں کا توں استعمال کرتا چلا جائے۔
۱۹۴۷ء کے انقلاب کا دَور
درحقیقت میں تو اسے اللّٰہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل سمجھتا ہوں کہ جونہی ۴۷ء میں یکایک ہم ایک نئی صورت حال سے دوچار ہوئے، اس نے عین وقت پر ہماری راہ نُمائی فرمائی اور ہمیں اس قابل کر دیا کہ حالات کا صحیح اندازہ کرکے‘ اور جس رخ پر وہ جا رہے تھے انھیں ٹھیک سمجھ کر اپنی تحریک کے لیے ایک نئی پالیسی بنا سکیں۔ تقسیمِ ملک کی اسکیم سامنے آتے ہی اس کے نتائج بالکل اس طرح ہمارے سامنے آ گئے جیسے ریاضی کے کسی سوال کا جواب ہوتا ہے۔ ہم نے فورًا یہ سمجھ لیا کہ اب ہندوستان اور پاکستان میں ایک طریق کار کسی طرح نہیں چل سکتا۔ ہمیں یہ سمجھنے میں بھی ایک لمحہ کی دیر نہ لگی کہ ہندوستان میں اِسلام اور مسلمانوں کو اس سے بھی بدرجہا زیادہ سخت حالات سے سابقہ پیش آنے والا ہے جن کا اندیشہ ۳۷ء اور ۳۸ء میں ’’سیاسی کش مکش‘‘ حصہ اوّل ودوم میں ظاہر کیا گیا تھا اور پاکستان میں وہ صورت حال پوری شدت کے ساتھ سامنے آنے والی ہے جس کی طرف ۳۹ء اور ۴۰ء میں ’’سیاسی کش مکش‘‘ حصہ سوم میں کھلے کھلے اشارات کیے جا چکے تھے۔ ہم کو خدا کے فضل سے یہ رائے قائم کرنے میں بھی کوئی مشکل پیش نہ آئی کہ ان دونوں ملکوں میں اس تحریک کے طریقِ کار کو کس طرح نئے حالات کے مطابق ڈھالا جائے۔
اس چیز کو سمجھنے کے لیے آپ ایک طرف روداد جماعت حصہ پنجم میں امیرِ جماعت کی وہ تقریر بغور پڑھیں جو اپریل ۱۹۴۷ء کے اجتماع مدرا س میں کی گئی تھی اور دوسری طرف مئی ۱۹۴۷ء کے اجتماع دارالاسلام کی وہ تقریر ملاحظہ فرمائیں جو ’’جماعتِ اِسلامی کی دعوت‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ پہلی تقریر میں پوری وضاحت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں مسلم اقلیت کا مستقبل کیا ہے{ FR 7702 } اور ان کے مقابلے میں ہندو اکثریت کس مستقبل سے دوچار ہونے والی ہے{ FR 7703 }۔ ان حالات میں اِسلام کے لیے کام کرنے کی راہ کیسے کھلے گی{ FR 7704 }۔ دوسری تقریر اس کے برعکس بالکل ہی ایک دوسرے انداز کی ہے جس کے موضوع اورمضمون کو پہلی تقریر سے بجز مقصد کی یگانگت کے اور کوئی مناسبت نہیں ہے اس میں وضاحت کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ ہندوستان کے جس حصے میں مسلم اکثریت حکمراں ہونے والی ہے اس میں ہم کن اصولوں پر ایک نیا نظام قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔
دونوں تقریروں کا متقابل مطالعہ آپ پر یہ بات اچھی طرح واضح کر دے گا کہ ایک تحریک جو برسوں تک ایک مقصد کے لیے ایک طریقِ کار پر چلتی رہی تھی، اس کے لیے دو نئے ملک بنتے ہی آیندہ پیش آنے والے حالات کا بروقت اندازہ کرکے کس طرح دونوں ملکوں میں کام کے دو مختلف پروگرام تجویز کیے گئے، حالانکہ مقصد وہی ایک رہا، یعنی نظامِ جاہلیت کو ہٹا کر اِسلامی نظامِ زندگی کو غالب کرنا اور طریقِ کار کے بنیادی اصول بھی جوں کے توں رہے، یعنی دعوت، تنظیم اور توسیع نفوذ کے ذریعہ سے جاہلی قیادت کے مقابلے میں ایک اِسلامی قیادت کو ابھارنا اور پھر جو ذرائع ومواقع بھی بہم پہنچیں انھیں استعمال کرکے حصولِ مقصد کی جدوجہد کرنا۔
……٭٭٭…
نکتۂششم
اب مجھے قرارداد کے چھٹے نکتے کی تشریح کرتے ہوئے آپ کو یہ بتانا ہے کہ تقسیم کے موقع پر اور اس کے فورًا بعد حالات میں کتنا عظیم اور بڑی حد تک غیر متوقع تغیر واقع ہو گیا، ان بدلے ہوئے حالات کے تقاضے قبل تقسیم کے حالات سے کس قدر مختلف تھے، اِسلامی تحریک کے نقطہِ نظر سے ان کے موافق اور مخالف پہلو کیا تھے، ان میں کام کرنے کے لیے کیا نئے مواقع ہمارے سامنے آئے اور کیا نئے ذرائع ہمیں بہم پہنچے، تقسیم سے پہلے ہمارے لیے آئینی ذرائع سے نظامِ حکومت کو بدلنے اور قیادت میں انقلاب لانے کے جو دروازے شرعی موانع کی وجہ سے بالکل بند تھے انھیں کھولنے کے کیا نئے امکانات پیدا ہو گئے اور اس پوری صورت حال کا بروقت اوربالکل ٹھیک اندازہ کرکے ہم نے اپنے سابق طریقِ کار میں جو تغیر کیا اس کی حقیقی نوعیت کیا تھی اور وہ کیوںنہ صرف صحیح اور نہ صرف ناگزیر تھا بلکہ اگر ہم ان حالات میں قبل تقسیم کے طریقے ہی پر کام کرتے رہتے تو اپنے مقصد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیتے۔
تقسیم ہند کے وقت حالات کا تغیر اور اس کے تقاضے
جیسا کہ میں پہلے بیان کر آیا ہوں، پاکستان بننے سے پہلے ہم جن حالات میں کام کر رہے تھے وہ یہ تھے کہ ملک پر بیرونی کفار کی حکومت پوری طاقت کے ساتھ قائم تھی‘ملک میں وطنی قومیت کی بنیاد پر لادینی جمہوریت کا نظام مستقل بنیادوں پر جما ہوا تھا، ملک کی آبادی کا تین چوتھائی سے زیادہ حصہ غیر مسلموں پر مشتمل تھا اور اِسلام کے ماننے والے ایک چوتھائی سے بھی کم تھے، غیر مسلم اکثریت ایک زبردست قوم پرستانہ تحریک میں جذب ہوچکی تھی اور اس امید سے لبریز تھی کہ عنقریب وہی انگریزی اقتدار کی وارث ہو گی، مسلم اقلیت ایک جوابی قوم پرستانہ تحریک میں مستغرق تھی جس کا اوّلین ہدف یہ تھا کہ ملک تقسیم ہو اور اس کے مسلم اکثریت والے علاقے میں کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کی ایک قومی ریاست قائم ہوجائے۔ اِسلامی انقلاب کے لیے ہماری اصولی تحریک عملاً اس وقت شروع ہوئی تھی جب کہ یہ دونوں قوم پرستانہ تحریکیں نہ صرف یہ کہ پورے میدان پر قابض ہو چکی تھیں بلکہ ایک سخت معرکے میں ایک دوسرے سے گتھ بھی چکی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں ہمارے لیے اس کے سوا کوئی اور طریقِ کار ممکن ہی نہ تھا جس پر ہم اس زمانے میں کام کر رہے تھے۔
پاکستان کی ابتدائی سکیم، جسے کام یاب کرنے کے لیے اس وقت مسلم لیگ زور لگا رہی تھی، اس کا نقشہ یہ تھا کہ اس میں مسلم اکثریت کے علاقے تو ضرور شامل ہونے والے تھے، لیکن ان میں غیر مسلم اقلیت قریب قریب ۴۰ فیصدی تھی اور اس بھاری اقلیت کے ساتھ خود مسلمانوں کے فرنگیت زدہ گروہ اور مادی مفاد کے پرستار طبقوں سے بھی یہ عین متوقع تھا کہ وہ اِسلام کی راہ روکنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے۔ اس لیے مشکل ہی سے اس وقت یہ امید کی جا سکتی تھی کہ تقسیم ملک واقع ہونے کی صورت میں اِسلامی تحریک کے نقطہ نظر سے ہندوستان اور پاکستان کے حالات ایک دوسرے سے کچھ زیادہ مختلف ہوں گے اور ہم پاکستان میں اس طریقِ کار سے آگے کوئی قدم بڑھا سکیں گے جو انگریزی دور کے متحدہ ہندوستان میں ہمارا تھا۔
لیکن جب تقسیم واقع ہوئی تو حالات میں پے درپے ایسے تغیرات رونما ہوئے جو پہلے کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھے اور انھوں نے دیکھتے دیکھتے سارا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔
صوبوں کی تقسیم اورتبادلہ آبادی
اولین تغیر یہ تھا کہ پنجاب اور بنگال اور آسام کی تقسیم عمل میں آئی جس کی وجہ سے پاکستان اپنی ابتدائی اسکیم کی بہ نسبت بہت بڑی مسلم اکثریت پر مشتمل ہو گیا۔
اس کے بعد عین تقسیم کے موقع پر اس سے بھی بڑا اور دورس تغیر یہ رونما ہوا کہ واقعۃً جبری تبادلہِ آبادی عمل میں آ گیا جس نے مغربی پاکستان کو ۹۸ فیصدی اور مشرقی پاکستان کو تقریباً ۸۰ فی صدی مسلم آبادی کا علاقہ بنا دیا۔
اس تغیر عظیم کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان کے نظامِ زندگی کی شکل کا تعیّن بالکل مسلمانوں کی رائے عام پر منحصر ہو گیا، درآں حالیکہ متحدہ ہندوستان میں وہ غیر مسلموں کی رائے پر منحصر تھا۔ اور اس فرق عظیم کے واقع ہو جانے کے بعد یہ ضروری ہو گیا کہ ہم اِسلامی نظامِ زندگی کے لیے اس غالب مسلم آبادی کے ملک میں کام کرنے کا ڈھنگ اس ڈھنگ سے مختلف اختیار کریں جو ہم کو غالب غیر مسلم آبادی کے ملک میں اس کام کے لیے اختیار کرنا پڑ رہا تھا۔ اگرچہ مسلمانوں کی اعتقادی اور اَخلاقی کم زوری کو نظر انداز کرکے محض ’’مسلمان‘‘ ہونے کے مفروضے پر ایک عمارت کھڑی کر دینا بڑی حماقت ہے، لیکن اس سے کچھ کم درجے کی حماقت یہ بھی نہیں ہے کہ اِسلام کے لیے ان کی عقیدت اور اس کے ساتھ ان کی جذباتی وابستگی اور اس کی طرف ان کے فطری میلان ورجحان کو نظر انداز کرکے آدمی ان کے درمیان اس طرح کام کرنے لگے جس طرح کسی منکرِ اِسلام یا مخالفِ اِسلام آبادی میں کیا جاتا ہے۔
کسی ملک میں ایک غالب مسلم آبادی کی موجودگی، اِسلامی نظام کے حق میں رائے عام تیار کرنے کے جو مواقع بہم پہنچاتی ہے، ان سے فائدہ نہ اٹھانا اورزمامِ کار کی تبدیلی کے لیے جدوجہد کے جو راستے اس میں کھل سکتے ہیں انھیں بند سمجھ لینا، کسی صاحبِ عقل آدمی کا کام نہیں ہو سکتا۔ کم از کم فائدہ جو اس چیز سے اٹھایا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ جس دوران میں معاشرے کو ذہنی اور اَخلاقی حیثیت سے نظامِ حق اور امامت صالح کے لیے تیار کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہوں، عوامی جذبات کو ان کوششوں کی پشت پناہ بنائے رکھا جائے تاکہ قیادتِ فاسقہ انھیں روکنے اور برباد کرنے کے لیے کوئی طوفان نہ اٹھا سکے اور نظام باطل کی جڑیں جمنے نہ پائیں۔ لیکن اگر عقل سے کام لیا جائے تو اس کا یہ فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ تعمیری مساعی اور عوامی تحریک، دونوں متوازی چلتی رہیں تاکہ عوامی تائید جتنی بڑھتی جائے اسی رفتار سے نظامِ باطل کو پیچھے ہٹانے اور نظامِ حق کو آگے بڑھانے کا تدریجی عمل جاری رکھا جا سکے اور بالآخر یہ دونوں قسم کی کوششیں ایک نتیجہ پر تمام ہوں۔
اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی مقام پر آپ ایک مسجد بنا رہے ہیں اور آپ کے پیش نظر یہ ہے کہ اس مسجد ہی کو پورے علاقے کا مرکز بنانا ہے لیکن ایک سیلاب کا خطرہ ہر وقت آپ کے سر پر منڈلا رہا ہے جو اس تعمیر کوکسی وقت بھی آ کر روک سکتا ہے بلکہ تباہ وبرباد بھی کر سکتا ہے۔ اب اگر آپ کے گردوپیش کوئی مسلم آبادی ایسی موجود ہے جوچاہے نماز نہ پڑھتی ہو، مگر مسجد کا احترام کرتی ہو اور تعمیرمسجد کے مقصد سے ہم دردی رکھتی ہو تو آپ اس سے اتنا فائدہ تواٹھا ہی سکتے ہیں کہ تھوڑا سا جذباتی اپیل کرکے اسے سیلاب کے آگے بند باندھنے پر آمادہ کر لیں۔ لیکن یہی اپیل اگر حکمت ودانش کے ساتھ ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ تعمیر مسجد کی حفاظت کا جذبہ پیدا کرتے کرتے آپ اسی آبادی میں سے وہ لوگ بھی زیادہ سے زیادہ تعداد میں نہ نکالتے جائیں جو نماز بھی پڑھنے لگیں اور اس تعمیر کے کام میں معمار اور کاریگر بننے کے لیے بھی تیار ہو جائیں۔ اگر آپ کے پیش نظر یہی مقصد ہے کہ اس مسجد کو آخر کار پورے علاقے کا مرکز بنانا ہے تو جس روز تعمیر مسجد مکمل ہو گی اسی روز وہ علاقے کا مرکز بھی بنی ہوئی ہو گی۔ اس کے بجائے یہ تجویز غالباً معقول نہ ہو گی کہ پہلے آپ چند سال تعمیر مسجد میں صرف کریں۔ پھر اسے علاقے کا مرکز بنانے کے لیے نکلیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس دوران میں سیلاب آپ کو تعمیر کرنے ہی نہ دے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس درمیانی مدّت میں گردوپیش کی آبادی کسی گرجا یا کسی مندر کی عقیدت میں گرفتار ہو چکی ہو۔
سابق لادینی دستور کا عارضی قرار پانا
دوسرا بنیادی تغیر یہ تھا کہ برطانوی پارلیمنٹ کے جس قانون (Indian Independence Act) نے ہندوستان وپاکستان کی طرف آزادی کے اختیارات منتقل کئے تھے اس کی رو سے انگریزی دور حکومت کا لادینی دستور آپ سے آپ عارضی قرار پا گیا اور ملک کے لیے ایک نئے دستور کا سوال پیدا ہو گیا۔
اس صورتِ حال کا تقاضا یہ تھا کہ ملک کا نیا دستور وطنی قومیت کا لادینی جمہوریت کے اصولوں پر نہ بننے دیا جائے اور اِسلامی اصولوں پر اس کی تاسیس کرانے کے لیے بلاتاخیر کام شروع کر دیا جائے۔ ایسا کرنا نہ صرف اس غرض کے لیے ضروری تھا کہ وہ شرعی موانع دور ہو جائیں جو انقلاب قیادت کے لیے آئینی طریقہ اختیار کرنے کی راہ میں ایک لادینی جمہوریت کا دستور حائل کر دیتا ہے۔ بلکہ یہ اس لیے اور بھی زیادہ ضروری تھا کہ غیر مسلموں کی لادینی قومی ریاست کی بہ نسبت مسلمانوں کی قومی لادینی ریاست اِسلام کی راہ میں جتنی بڑی اور خطرناک رکاوٹ بنتی ہے اس سے ہم خوب واقف تھے { FR 7705 } ۔ علاوہ بریں یہ کوئی عقل مندی نہ ہو سکتی تھی کہ جس وقت ایک نوخیز مملکت کے لیے نئے دستور کی تدوین اور حقیقتاً مستقبل کے نظامِ زندگی کی تلاش کا سوال درپیش ہو، اس وقت تو ہم لادینی دستور کی مخالفت اور کافرانہ نظام کی مزاحمت اور اِسلامی اصولوں پر نئی عمارت کی تعمیر کے لیے کوئی مؤثر جدوجہد نہ کریں اور جب لادینی نظام از سرنو یہاں خوب جڑ پکڑ لے اور صاف راستہ پا کر پوری تیزی کے ساتھ معاشرے کو فکر وعمل کے لحاظ سے کفروفسق کے سانچوں میں ڈھالنا شروع کر دے تو ہم اس کو بدلنے کی دعوت لے کر اٹھیں۔
اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ اگر فی الواقع ہمارے پیشِ نظر یہی مقصد ہے کہ یہاں ایک اِسلامی ریاست قائم ہو، تو اس کے لیے اولین ضرورت بہرحال یہ ہو گی کہ ہم یہاں کے زیادہ سے زیادہ باشندوں کو اِسلامی ریاست کے نظریے سے واقف اور اس کا قائل اور اس کا طالب بنانے کی کوشش کریں۔ اس کی ایک شکل تو یہ ہے کہ ہماری ایک اکیڈمی ہو جو اِسلامی ریاست کے موضوع اور اس سے متعلق مسائل پر بہترین علمی کتابیں شائع کرے اور ہم سالہا سال کی کوشش سے علومِ سیاست واجتماع میں اپنے نظریّے کا سکہ جما دیں۔ دوسری شکل یہ ہے کہ جس وقت ہمارے ملک میں یہ سوال فیصلہ طلب ہو کہ ریاست کا نیا نظام کن بنیادوں پر تعمیر کیا جائے، اس وقت ہم میدان میں آ کر عوام اور خواص سب کے سامنے اپنا نظریہ پیش کریں اور ہر ایک کو اس کی استعداد کے مطابق اِسلامی ریاست کا محض تصوّر ہی نہ دیں بلکہ اسے اس کا قائل اور حامی اور طالب بنانے کی بھی کوشش کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں صورتوں کے درمیان جو شخص بھی موازنہ کرکے دیکھے گا اس کے لیے یہ ماننے کے سوا چارا نہ ہو گاکہ ہمارے مقصد کے لیے دوسرا طریقہ زیادہ کارگر ہے۔ آپ ہزار کتابیں لکھ کر بھی اتنا کام نہیں کر سکتے جتنا اس صورت میں کر سکتے ہیں کہ جس وقت کوئی اہم مسئلہ لوگوں کے سامنے درپیش ہو اس وقت میدان میں آ کر اس مسئلے میں انھیں صحیح راہ نُمائی دیں۔ ایسے مواقع پر چند جملے بڑی بڑی کتابوں سے زیادہ کام کرتے ہیں اور ذہنوں میں اچھی طرح جذب ہو جاتے ہیں۔
قومی زندگی کا خلا
تیسرا بڑا تغیر یہ تھا کہ مسلم قومی پرستی کی وہ تحریک جو تقسیم سے پہلے مسلمانوں کے ذہن پر غلبہ پائے ہوئے تھی، اپنی منزلِ مقصود، پاکستان کو پہنچ کر یک لخت ٹھنڈی پڑ گئی اور وہ کوئی ایسا ایجابی نظام اور پروگرام نہ لا سکی جو مسلم عوام کو تقسیم کے بعد بھی اس کے ساتھ وابستہ رکھتا۔ مزید برآں اس تحریک کی علمبردار جماعت نے تقسیم کے وقت اور اس کے بعد جس کردار کا مظاہرہ کیا اس نے چند مہینوں کے اندر اس کے وقار اور اَخلاقی اثر کے فلک بوس قصر کو زمین بوس کر دیا۔
اس وقت کوئی دوسری منظم تحریک ایسی موجود نہ تھی جو اس خالی میدان پر قبضہ کر سکتی۔ اس خلا نے یہ موقع خود بخود پیدا کر دیا کہ ایک ایسی اصولی تحریک آگے بڑھ کر عوام کے ذہن پر اپنا اثر قائم کرنے کی کوشش کرے جس کی تائید کے لیے مسلمانوں کے مذہبی عقائد، دینی جذبات، صدیوں کی روایات اور سلف سے خلف تک کا پیدا کیا ہوا بے شمار لٹریچر موجود تھا اور جو خود بھی تقسیم سے پہلے خیالات وسیع پیمانے پر پھیلا چکی تھی۔ ہم سخت نادان ہوتے اگر اس موقع کو ہاتھ سے کھو دیتے اور اپنے آپ کو قبل تقسیم ہی کی پوزیشن میں سمجھے بیٹھے رہتے۔
اس وقت عوام کے جذبات ہر رخ پر مڑ سکتے تھے اور موڑے جا سکتے تھے۔ اِسلامی نظام کے مطالبے کی طرف ان کے مڑنے کی سب سے زیادہ امکانات تھے، کیوں کہ وہ مذہباً اِسلام کے معتقد تھے اور انھوں نے نیک نیتی کے ساتھ پاکستان کے قیام کی جدوجہد اسی لیے کی تھی کہ یہاں اِسلامی حکومت قائم ہو۔ لیکن اگر اس رخ پر انھیں موڑنے کی کوشش نہ کی جاتی تو وہ انار کی کی طرف بھی مڑ سکتے تھے۔ پاکستان کے نئے حکمرانوں کی زیادتیوں نے اس کے لیے اچھے خاصے امکانات پیدا کر دئیے تھے۔ وہ اشتراکیت کی طرف بھی مڑ سکتے تھے۔ مہاجرین کی حالتِ زار، عام معاشی بدحالی، نظم ونسق کی خرابی اور ظالم طبقوں کی لوٹ کھسوٹ نے وہ خشک گھاس فراہم کر دی تھی جس میں یہ آگ خوب پھیل سکتی تھی اور ہماری سرحد سے متصل روس کی موجودگی یہاں وہی حالات پیدا کر سکتی تھی جو روس کے دوسرے طفیلی ملکوں میں آج آپ دیکھ رہے ہیں۔ وہ قوم پرستی کی طرف بھی مڑ سکتے تھے۔ ہندئوں اور سکھوں کے تازہ مظالم کی یاد نے، ہندوستان اور پاکستان کی کش مکش نے اور سب سے بڑھ کر کشمیر کے معاملے نے اس کے لیے میدان تیار کر رکھا تھا اور اگر اس چیز کوجڑ پکڑنے کا موقع مل جاتا تو یہاں ہر وہ شخص قومی غدار اورعوام کا دشمن (Peoples Enemy) قرار پا سکتا تھا جو لادینی قومی حکومت کی مرضی کے خلاف دینی نظام کے لیے آواز اٹھاتا۔ خود ہمارے مطالبہ نظامِ اِسلامی کو شکست دینے کے لیے مسئلہ کشمیر کے متعلق عوام کے جذباتی اشتعال کا رخ ہماری طرف موڑنے کی جو کوشش ۱۹۴۸ء میں کی گئی تھی وہ اتنی پرانی تاریخ کی بات نہیں ہے کہ آپ اسے بھول گئے ہوں۔ اس سے آپ یہ سبق لے سکتے ہیں کہ اگر عوام کے جذبات کو اِسلامی تحریک کی پشت پناہی کے لیے تیار کرنے میں ہم سے کچھ بھی تساہل ہو جاتا تو کچھ مدت کے بعد یہ سرزمین اس تحریک کے لیے کیسی شوریلی اور خارزار بن جانے والی تھی۔
اِسلامی ریاست کے ناقص تصوّرکا ظہور
اس وقت عوام کے ذہن میں یہ بات تازہ تھی کہ سات آٹھ سال سے جس پاکستان کے لیے ہم لڑتے رہے ہیں اور جس کی تعمیر لاکھوں مسلمانوں کے خون اور ہزاروں عورتوں کی عصمت اور اربوں روپے کے اموال واملاک کی قربانی پر ہوئی ہے، وہ اِسلام کے نام پر بنا ہے اور اسے اِسلامی ریاست بنانے ہی کا وعدہ ہم سے کیا گیا تھا۔ لیکن انھیں ٹھیک معلوم نہ تھا کہ اِسلامی ریاست چیز کیا ہے اور کیا اس کی خصوصیات ہوتی ہیں۔ عوام تو درکنار اچھے خاصے نامور علما تک اِسلامی ریاست کا بس یہ تصوّر رکھتے تھے کہ حکومت چاہے جیسی اور جس اصول پر بھی ہو، اس میں ایک شیخ الاِسلامی کا منصب قائم ہو جائے اور نکاح وطلاق کے مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے قضائے شرعی کا انتظام کر دیا جائے۔ ہمارے مذہبی طبقوں کی طرف سے جو مطالبات اس وقت پیش ہونے شروع ہو گئے تھے وہ محض شراب کی بندش، قحبہ خانوں کے سدِّ باب، بیت المال کے قیام اور ایسے ہی چند جزئیات پر مشتمل تھے۔ اس اہم تاریخی موقع پر اِسلامی حکومت کے مطالبے کا اٹھنا تو ایک فطری امر تھا، حالات کا قدرتی تقاضا تھا اور کسی نہ کسی طرف سے اس کو اٹھنا ہی تھا، بلکہ وہ اٹھنا شروع ہو بھی چکا تھا۔ لیکن اس وقت اگر مسلمانوں کا عام ذہن اِسلامی حکومت کا مفہوم اور تصوّر وہی کچھ سمجھ لیتا جو مذہب کے نمائندوں کی طرف سے پیش کیا جا رہا تھا اور اسی پر مسلمانوں کے سارے مطالبات مرکوز ہو جاتے تو بعد میں کسی وقت اس کے بنیادی نظریے اور جامع اور ہمہ گیر تصوّر کو لوگوں کے ذہن نشین کرنا سخت مشکل ہو جاتا۔ اس نفسیاتی موقع کو ہاتھ سے کھو دینے کے بعد ہم مدتِ دراز تک اس قابل نہ ہو سکتے تھے کہ پاکستان کی آبادی کے عوام اور خواص کو وسیع پیمانے پر اِسلامی حکومت کے صحیح معنی سے آشنا کر سکتے اور اس کے محدود تصوّرات کو ان کے ذہن سے نکال کر اصل چیز کی طلب ان کے اندر پیدا کر سکتے۔
مسلم قوم کے افراد ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض
اس وقت ایک مسلمان قوم نئی نئی آزاد ہوئی تھی اور اسے یہ اختیارملا تھا کہ اپنے لیے ایک نظامِ زندگی کا خود انتخاب کرے اور اپنی حیاتِ قومی کے لیے مختلف ممکن راستوں میں سے کسی ایک راستے کو چن لے۔ تقسیم سے پہلے کافروں کی غلامی کے دور میں اور کافر آبادی کی اکثریت کے دبائو میں رہتے ہوئے اگر وہ انفرادی ایمان کے ساتھ اجتماعی کفر کی راہ پر چل رہی تھی تواس کے لیے کچھ نہ کچھ عذر کا موقع تھا۔ لیکن تقسیم کے بعد پوری طرح اپنی راہ کے انتخاب میں مختار ہو کر بھی اگر وہ اس راہ کو انتخاب کرتی یا اس پر راضی رہتی تو یہ اضطراری نہیں بلکہ اختیاری کفر ہوتا جس کے بعد انفرادی ایمان کی بھی خیر نہ تھی۔ یہ خدا کی طرف سے بڑی سخت اور نازک آزمائش کی گھڑی تھی۔ ہم اجنبی بھی ہوتے تو ہمارے ایمان کا یہ تقاضا تھا کہ آگے بڑھ کر اس مسلمان قوم کو اس آزمائش سے بخیریت نکالنے کی کوشش کریں لیکن ہم تو اجنبی بھی نہ تھے۔ اسی قوم کے فرد اور اس کی بھلائی اور برائی میں اس کے شریک حال تھے۔ ہم اگر اس فرض کو ادا کرنے کے لیے نہ اٹھتے تو کونسا دوسرا عمل ہمیں اس قصور پر خدا کی پکڑ سے بچانے والا ہو سکتا تھا؟ ہمارے مطالبہ دستور کا عوام اورخواص کی بھاری اکثریت نے جس طرح ساتھ دیا اور اِسلامی حکومت کے محدود تصوّر کو چھوڑ کر اس کے بنیادی نظریے اور جامع تصوّرکو جتنے جلدی اور جس قدر وسیع پیمانے پر لوگوں نے قبول کیا، یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ یہ قوم سیرت واَخلاق میں چاہے کتنی ہی کوتاہ ہو، اِسلام پر اعتقاد رکھنے میں منافق نہیں ہے۔ اور یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ یہ قوم اس آزمائش کے موقع پر خود ایک صحیح راہ نُمائی کی طالب تھی۔ اس کے بعد تو اس امر میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا فرض عوام کو یہی راہ نُمائی دینا تھا۔ اس میں ہم کو تاہی برتتے تو سخت گنہگار ہوتے۔
نئی فاسق قیادت کا خطرہ
اس وقت پرانے ذی اقتدار گروہ (انگریز) کی جمی ہوئی طاقت اکھڑ چکی تھی اور خود مسلمانوں میں ایک نیاذی اقتدار طبقہ ابھر رہا تھا جس کی فرمانروائی ابھی جمی نہ تھی۔ یہ طبقہ اپنے رجحانات کے راستے پر ساری قوم اورمملکت کو لے کر جانا چاہتا تھا اور اس غرض کے لیے اس نے پاکستان بنتے ہی ایک طرف اِسلام کے بارے میں سخت انتشار خیال پیدا کر دینے کی مہم شروع کر دی تھی اور دوسری طرف تمام اختیارات اور طاقتوں اور وسائل سے کام لے کر قوم کو اس اَخلاقی بگاڑ کی راہ پر دھکیلنا شروع کر دیا تھا جس میں غرق ہو جانے کے بعد اس کے اندر اِسلام کی طرف پلٹنے کی مشکل ہی سے کوئی سکت باقی رہ سکتی تھی۔ اس حالت کا تقاضا یہ تھا کہ ابتدائی مرحلے ہی میں اس طبقے کی مزاحمت کے لیے ایک عوامی تحریک اٹھ کھڑی ہو جو فکری انتشار وپراگندگی کی اس مہم کا مداوا بھی کرے اور اس کے ساتھ اس فاسق وفاجر قیادت کا نفوذ واثر بھی کسی مضبوط بنیاد پر نہ جمنے دے۔ آج آپ پاکستان میں ان دونوں بیماریوں کو جس حال میں پا رہے ہیں وہ ان کوششوں کے باوجود ہے جو پچھلے دس سال میں ان کے مقابلے کے لیے کی گئی ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ اگر یہ کوششیں نہ ہوتیں اور قبل تقسیم ہی کا طریقِ کار ٹھنڈا ٹھنڈا چلتا رہتا تو ذہنی پراگندگی کہاں تک پہنچتی اور فسق کیسی کچھ محفوظ اور تسلیم شدہ پوزیشن حاصل کر چکا ہوتا۔
برعظیم ہند میں اِسلام کے مستقبل کا مسئلہ
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس وقت برِّعظیم ہند میں اِسلام کی ہزار سالہ تاریخ ایک فیصلہ کن لمحے سے دوچار تھی۔ صدیوں تک ہمارے اسلاف کرام نے اس سرزمین میں خدا کا کلمہ پھیلانے کی جو کوششیں کی تھیں ان کا سارا ماحصل اس نتیجے پر ختم ہوتا نظر آ رہا تھا کہ ہندوستان کے بہت بڑے حصے میں، جسے ہم خود پاکستان کی قیمت کے طور پر دے چکے تھے، اِسلام دوسروں کے مٹائے مٹے اور دو چھوٹے چھوٹے حصوں میں جنھیں ہم نے بھاری قیمت پرحاصل کیا تھا، وہ ہمارے اپنے فاسقین وفجار کے ہاتھوںمٹ جائے۔ اندلس کے بعد یہ دوسرا اور اس سے عظیم ترالمیہ تھا جو ۱۹۴۷ء میں ہمارے سامنے شروع ہو رہا تھا اور اس وقت کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ اس کو روکنے کے لیے جو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے کیا جائے۔ میرے تاثرات اس وقت جو کچھ تھے انھیں میں نے اپنی ان تقریروں میں بار بار بیان کیا تھا جو مطالبہ نظامِ اِسلامی کے موضوع پر میں نے ۴۸ء کے آغاز میں مغربی پاکستان کے تمام مرکزی مقامات پر کی تھیں۔
’’ہمارے اسلاف نے ہندوستان میں جو اِسلام صدیوں کی لگاتار کوششوں سے پھیلایا تھا وہ اب آٹھ سو سال کے بعد پاکستان کے دو خطوں میں سکڑ کر رہ گیا ہے۔ اب اگر ہم نے ایک قدم بھی غلط سمت میں اٹھا دیا تو ہندوستان میں اِسلام کی ایک ہزار سال کی تاریخ پر پوری طرح پانی پھر جائے گا۔ اس برعظیم کے تین چوتھائی حصے سے تو اِسلام دوسروں کے مٹائے مٹ رہا ہے۔ یہاں یہ ہمارے اپنے مٹائے مٹے گا، اس لیے اب ہمیں اگلا قدم خوب سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے۔ اب صرف ایک ٹھوکر ہی ہمارے اوراِسلام کے مٹنے میں حائل ہے۔ اگر ہم نے اس موقع پر ٹھوکر کھائی تو ہمارے اسلاف کے دینی کارنامے کی ساری تاریخ حرف غلط کی طرح مٹ جائے گی۔‘‘{ FR 7706 }
اور یہ ٹھوکر کھا جانے کا اندیشہ، جسے میں نے اس وقت بیان کیا تھا محض ایک خیالی اندیشہ نہ تھا، بلکہ وہ آثار علانیہ نظر آ رہے تھے جن کی بنا پر حقیقت میں یہ صحیح اور قوی اندیشہ تھا کہ اگر مسلمانوں کو اس سے بچانے کی کوشش نہ کی گئی تو یہ قوم یہ آخری ٹھوکر بھی کھا جائے گی۔ میں نے ’’جماعت اِسلامی‘‘ اس کا مقصد تاریخ اور لائحہ عمل‘‘ میں تفصیل کے ساتھ ان آثار کی نشان دہی کی ہے اور اس بحث کو ان فقروں پر ختم کیا ہے جن سے اس وقت صورت حال آپ کے سامنے آ سکتی ہے۔
’’جس روز تقسیم ملک کا اعلان ہوا، اسی وقت ہم نے سمجھ لیا کہ جیسی بُری یا بھلی تعمیری سعی بھی آج تک ہم کر سکتے ہیں، اب اسی پر اکتفا کرنا ہو گا اور اس قوم کو سنبھالنے کی فورًا کوشش کرنی پڑے گی جو کسی واضح نصب العین کے بغیر اور کسی اَخلاقی طاقت اور اجتماعی اصلاح کے بغیر یک لخت بااختیار ہو گئی ہے۔ اس فور ی اقدام کی ضرورت کا احساس ان حالات کو دیکھ کر اور بھی زیادہ شدید ہو گیا جو عین تقسیم کے وقت اس کے معاً بعد پیش آئے۔ ہندوستان کے بعض حصوں سے مسلمانوں کا خروج جس شان سے ہوا، پاکستان سے غیر مسلموں کی نکاسی جس طرح عمل میں آئی، غیر مسلموں کی چھوڑی ہوئی دولت کے ساتھ جو معاملہ کیا گیا اور مسلمان مہاجرین پاکستان میں جن حالات سے دوچار ہوئے، یہ سب کچھ ایک ایسا آئینہ تھا جس میں پوری قوم کی، اس کے عوام اور خواص کی، اس کے لیڈروں اور پیشوائوں کی، اس کے حکام اورعمال کی، اس کے اہل دین اور اہل دنیا کی، غرض سب ہی کی اَخلاقی اور اجتماعی تصویر بالکل برہنہ نظر آ گئی۔ پھر اختیارات ہاتھ میں لیتے ہی ہماری قوم کے قائدین نے، جواب قائد ہی نہیں، حاکم بھی تھے، ملک کے آیندہ نظام کے متعلق جیسی الجھی الجھی اور متضاد باتیں کرنی شروع کیں اور قوم جس طرح ابتدائی چند مہینوں میں ٹھنڈے دل سے انھیں سنتی رہی، اسے دیکھ کر صاف معلوم ہو گیا کہ اس وقت ایک بے شعور قوم کی باگیں ایک بے فکر گروہ کے ہاتھ میں ہیں، یہ وقت خاموش بیٹھ کر تعمیری کام میں لگے رہنے کا نہیں ہے، اب اگر ایک لمحہ بھی ضائع کیا گیا تو بعید نہیں کہ جو لوگ منزل کا تعین کیے بغیر بے سوچے سمجھے چل پڑے تھے وہ یکایک کسی غلط نظریے کو اس مملکت کی بنیاد بنا بیٹھیں اور پھر اِس فیصلے کو بدلوانا موجودہ حالت کی بہ نسبت ہزار گنی زیادہ قربانیوں کے بغیر ممکن نہ رہے‘‘ (صفحہ ۶۱‘۶۲)
تقسیم کے وقت جماعتِ اِسلامی کی پوزیشن
یہ تھے وہ حالات‘ اور ان کے تقاضے اور موافق ومخالف امکانات‘ جن سے ہمیں تقسیم کے بعد سابقہ پیش آیا۔ جماعتِ اِسلامی کو اس وقت کام کرتے ہوئے چھ سال ہو چکے تھے۔ ہمارے سامنے کام کا جو نقشہ تھا اس کے لحاظ سے ہم کسی عوامی تحریک کے آغاز سے پہلے یہ چاہتے تھے کہ ہمارے پاس ایسے کارکنوں کا ایک گروہ موجود ہو جو نظم وضبط کے اعتبار سے خوب پختہ اور سیرت واَخلاق کے اعتبار سے پوری طرح قابلِ اعتماد ہو، ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے ہر میدان میں مخالف نظریات وافکار کو شکست دینے اور ایک نیا نظام تعمیر کرنے کے لائق ہو اور ان میں قیادت کی صلاحیتیں بھی اس حد تک پائی جاتی ہوں کہ ان میں کا ایک ایک آدمی ایک ایک علاقے کا لیڈر بن سکے اور عوام کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق باقاعدگی کے ساتھ ابھار سکے اور منظم طریقے سے ساتھ لے کر چل سکے۔ ان اعتبارات سے ہم ابھی اپنے اندر بہت کچھ کمی محسوس کرتے تھے اوراپنی جماعت کو تیار کرنے کے لیے مزید وقت کے طالب تھے۔ لیکن ہمارے سامنے اس وقت اصل سوال یہ نہیں تھا کہ ہم اس کمی کو پورا کریں یا نہ کریں، بلکہ اصل سوال یہ تھا کہ آیا ہم جماعتی حیثیت سے اس وقت حالات کے اس چیلنج کا جواب دینے کے قابل ہیں یا نہیں؟ دوسرے الفاظ میں اس وقت ہمارے سامنے معاملے کی نوعیت یہ نہ تھی کہ کام کے جو مواقع اور راہ کی رکاوٹیں دور کرنے کے جو امکانات اور مخالف حالات کی وجہ سے جو خطرات ہمارے لیے آج پیدا ہوئے ہیں وہ سب اس انتظار میں ٹھیرنے کے لیے تیار ہیں کہ ہم اپنی تیاریوں کی تکمیل کر کے میدان میں آئیں، بلکہ وقت یہ صورت حال لے کر ہمارے سامنے آیا تھا کہ ہر موقع ہاتھ سے جانے کے لیے اور ہر امکان ختم ہونے کے لیے اور ہر خطرہ واقع ہو جانے کے لیے پر تولے کھڑا ہے۔ لہٰذا اس وقت ہمیں فورًا اور بروقت یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیا ہم فی الحقیقت اس درجہ کم زور اور ناقابل کار ہیں کہ پیش آمدہ مواقع اور امکانات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے اور ان خطرات کو روکنے کے لیے بھی کچھ نہیں کر سکتے، جو علانیہ آتے نظر آ رہے ہیں اور اگر حقیقتہً ہماری طاقت ایسی گئی گزری نہیں ہے بلکہ سوال صرف مزید تکمیل کی سعی کا ہے تو آیا ہمارے مقصد کے لیے یہ زیادہ مفید ہے کہ ہم اس تکمیل کی سعی میں لگے رہیں اور تمام مواقع کھودیں، سارے امکانات ضائع کر دیں، ہر ممکن خطرے کو نازل ہو جانے دیں؟ یا یہ زیادہ بہتر ہے کہ جتنی اور جیسی کچھ طاقت بھی اللّٰہ نے ہمیں بخشی ہے اسے لے کر کام کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور تکمیل کی مساعی جہاں تک بھی ممکن ہو اس کے ساتھ ساتھ کرتے رہیں۔
پہلے سوال کا جواب اس وقت ہمارے نزدیک قطعی نفی میں تھا اور آج دس برس کے تجربات نے ثابت کر دیا ہے کہ اسے نفی میں ہی ہونا چاہیے تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ جماعتِ اِسلامی اپنی طاقت اور اپنے ذرائع کے اعتبار سے ہرگز ایسی ناکارہ نہ تھی کہ اس وقت کے مواقع وامکانات سے فائدہ اٹھانے اور خطرات کے مقابلے میں اٹھنے کے قابل ہی نہ ہوتی۔{ FR 7725 } ایسی رائے اپنے متعلق ہم قائم کرتے تو سخت نادان ہوتے اور اس نادانی کا جو خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑتا اس کا پورا اندازہ ممکن ہے کہ آج آپ نہ کر سکیں، کیوں کہ خدا کے فضل سے یہ نادانی ہم سے سرزد نہیں ہوئی، لیکن اس وقت کے حالات کا جو تجزیہ ابھی ابھی میں آپ کے سامنے پیش کر چکا ہوں اس سے آپ اس غلطی کے نتائج کا کچھ نہ کچھ تصور ضرور کر سکتے ہیں۔
دوسرے سوال کے بارے میں اس وقت ہمارے درمیان دورائیں نہ تھیں بلکہ پوری جماعت اس پر متفق اور مطمئن تھی کہ ہمیں اپنی موجودہ طاقت اور ذرائع ہی کو لے کر ایک لمحہ ضائع کیے بغیر پیش قدمی کر دینی چاہیے ورنہ ہمارے مقصد کو اتنا بڑا نقصان پہنچ جائے گا کہ ہم مزید تیاری کی کسی کوشش سے اس کی تلافی نہ کر سکیں گے بلکہ شاید کچھ مدت کے بعد وہ گوشے بھی نہ پا سکیں گے جن میں یہ تیاری کا کام کیا جا سکے۔ علاوہ بریں جماعت کے نزدیک اس وقت خود اس تیاری کا راستہ بھی یہی تھا کہ ہم خدا کے بھروسے پر آگے بڑھیں اور میدان عمل میں اتر کر براہِ راست اپنے نصب العین کے لیے جدوجہد شروع کر دیں۔ ہو سکتا ہے کہ آج اس باب میں ہمارے درمیان دورائیں ہو جائیں اور کوئی شخص اٹھ کر بے تکلف یہ کَہ دے کہ ہمیں اس وقت مزید تیاری ہی میں لگا رہنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ معاملہ اب محض ایک تاریخی حکم لگانے کا ہے، فیصلے کی گھڑی سامنے دیکھ کر رائے قائم کرنے کا نہیں ہے اور یہ بات اب کسی کے بس میں بھی نہیں ہے کہ ایسے تاریخی احکام لگانے والوں کی آنکھوں کے سامنے وہ نتائج لا کر رکھ دے جو ان کی اس رائے پر عمل کرنے کی صورت میں رونما ہوتے۔
طریق کار میں تغیر اور اس کی حقیقی نوعیت
اس طرح حالات کا جائزہ لینے اور اپنی طاقت اور ذرائع کا اندازہ کرنے کے بعد ہم نے اِسلامی نظام کے مطالبے سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور یوں ہماری تحریک نے ایک نئے دور میں قدم رکھا۔ اس دور میں ہم نے جو کچھ کیا، اس کی تفصیل اور تاریخ بیان کرنے کی حاجت نہیں ہے، کیوں کہ وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ البتہ جس بات کے سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ وہ کیا تغیر تھا جو اس دور میں ہم نے اپنے سابق طریقِ کار میں کیا اور اس کی حقیقی نوعیت کیا تھی اور نئے حالات میں اس خاص نوعیت کا تغیر کیوں مناسب ترین تھا۔
تقسیم سے پہلے جس طریقِ کار پر ہم کام کر رہے تھے اس کی عملی صورتوں سے قطع نظر، اصولاً وہ اس نقشے پر مبنی تھا: ایک ایسی تحریک اٹھائی جائے جو اپنے بنیادی نظریے، اپنے مزاج، اپنی قیادت اور اپنے کارکنوں کی سیرت کے اعتبار سے صحیح معنوں میں اِسلامی ہو۔ یہ تحریک ایک طرف معاشرے کی ذہنیت اور اس کی اَخلاقی روح کو اِسلام کے مطابق بدلنے کی کوشش کرے، دوسری طرف ایسے اصحابِ فکر تیار کرے جو نظامِ باطل کی نظری بنیادوں کو توڑنے اور نظام حق کی بنیاد پر نئی عمارت اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور تیسری طرف نظامِ باطل کے خلاف عملاً کش مکش برپا کرکے اسے پیچھے دھکیلنے اور خود آگے بڑھنے کی سعی کرتی چلی جائے، یہاں تک کہ ان تین راستوں سے ایک ساتھ پیش قدمی کرتے ہوئے وہ منزل آ پہنچے جب معاشرے کی بدلی ہوئی آب وہوا میں نظامِ باطل کا چلنا مشکل ہو جائے، نظامِ حق کے لیے جگہ چھوڑ دینے پر وہ مجبور ہو اور اس نئے نظام کو سنبھالنے کے لیے موزوں آدمی بھی تیار پائے جائیں ۔{ FR 7707 }
اس طریق کار کے مطابق ہم اس طرح کی ایک تحریک اٹھا دینے میں کام یاب ہو گئے تھے جو ہمارے مقصد کے لیے مطلوب تھی۔ معاشرے کی ذہنیت بدلنے کے لیے کوششوں کا آغاز بھی ہم نے کر دیا تھا۔ لیکن متحدہ ہندوستان میں صرف مسلم معاشرے کی تبدیلی فیصلہ کن چیز نہ تھی، بلکہ آخری نتائج کا انحصار اس پر تھا کہ غیر مسلم معاشرے پر اِسلامی اثرات ڈالنے میں ہم کہاں تک کام یاب ہوتے ہیں۔ اصحاب فکر کی تیاری کے لیے ہم نے دو راستوں سے کوشش شروع کر دی تھی۔ ایک یہ کہ تعلیم یافتہ لوگوں کے طرزِ فکر کو تبدیل کرکے ان کی ذہنی صلاحیتوں کو اِسلامی نقطہ نظر کے مطابق تنقید وتعمیر کی راہ پر ڈالا جائے۔ دوسرے یہ کہ جو لوگ رائج الوقت نظام کے تحت تعلیم پا رہے ہیں ان کے اندر اِسلامی فکر پیدا کر دی جائے۔ تیسرا راستہ جو اس مقصد کے لیے ہم اختیار کرنا چاہتے تھے وہ یہ تھا کہ خود اپنا ایک نظامِ تعلیم وتربیت قائم کریں، مگر اس میں ہم کام یاب نہ ہو سکے تھے۔ اب رہی نظامِ باطل سے عملاً کش مکش، تو جیسا کہ میں آپ کو بتا چکا ہوں، اس کے لیے کوئی موقع ہمیں اس وقت حاصل نہ تھا، اس لیے ہم مناسب موقع کے انتظار میں تھے اور اس کی تیاری میں لگے ہوئے تھے۔
تقسیم کے بعد اس اصولی طریق کار میں درحقیقت کوئی بنیادی تغیر نہیں کیا گیا۔ ہماری تحریک کی اساس وہی رہی جو پہلے تھی۔ معاشرے کے ذہنیت اور اس کے اَخلاقی روح کو بدلنا اسی طرح ہمارے پروگرام کا ایک لازمی جزو رہا جس طرح پہلے تھا۔ اصحابِ فکر کی تیاری کے لیے بھی ہم انھی دو راستوں سے کام کرتے رہے جن سے پہلے کام کر رہے تھے۔ اور نظامِ باطل کے خلاف کش مکش جس کا اب ہم نے آغاز کیا وہ بھی نئی چیز نہ تھی بلکہ پہلے سے ہمارے طریق کار میں شامل تھی۔ اب جس چیز کو تغیر کہا جا سکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہم نے حالات کی تبدیلی کے ساتھ اس طریق کار پر عمل درآمد کی شکل تبدیل کر دی۔ اس تبدیلی کی تھوڑی سی تشریح میں آپ کے سامنے کروں گا جس سے آپ اس کی صحیح نوعیت اچھی طرح سمجھ جائیں گے۔
پہلی تبدیلی ہم نے اپنے اپیل کے طریقے میں کی، کیوں کہ اب ہم ایک ایسے ملک میں کام کر رہے تھے جس کی غالب آبادی، قریب قریب ۹۰ فی صد مسلمانوں پر مشتمل تھی اور جس میں نظام زندگی کے بننے اور بگڑنے کا انحصار مسلمانوں ہی کی عام خواہش پر تھا۔ ظاہر ہے کہ یہاں اپیل کا بعینہ وہ طریقہ موزوں نہ ہو سکتا تھا جو غالب غیر مسلم آبادی کے ملک میں اختیار کیا جا رہا تھا۔
دوسری تبدیلی ہم نے اپنے کام کے ڈھنگ میں کی۔ پہلے ہم مواقع کے فقدان کی وجہ سے دعوت، توسیع نظام جماعت اور اصلاحِ معاشرہ کا کام صرف چند متعین طریقوں سے بہت محدود پیمانے پر کر رہے تھے۔ اب موقع بہم پہنچتے ہی ہم نے یہ تینوں کام وسیع پیمانے پر کرنے شروع کر دئیے اور مطالبہ نظامِ اِسلامی کی جدوجہد کو ان کا وسیلہ بنایا۔ اس جدوجہد نے ہمارے لیے یہ راستہ کھول دیا کہ لاکھوں آدمیوں تک اپنی دعوت پہنچائیں، ان میں سے ہزاروں کو اپنی تحریک کے ساتھ رکن یا متفق یا ہم درد ومتاثر کی حیثیت سے وابستہ کر لیں اور معاشرے میں اِسلامی نظام کی حمایت اور اس کی طلب کا عام جذبہ پیدا کرتے چلے جائیں، جس کا لازمی نتیجہ غیر اِسلامی قدروں کے مقابلے میں اِسلامی قدروں کا فروغ ہے۔ لیکن اس تبدیلی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ پہلے طریقے کو ہم نے بالکل ترک کرکے صرف اس دوسرے طریقے ہی پر اعتمادکر لیا۔ اس توسیعی کوشش کے ساتھ ہم اپنے سابق طریقے کے مطابق استحکام کی سعی بھی کرتے رہے ہیں۔ اور اس کی اہمیت وضرورت ہماری نگاہ میں علیٰ حالہٖ قائم ہے۔ البتہ جن نئے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم کو تقسیم کے بعد اٹھنا پڑا تھا ان سے عہدہ برآ ہونا اس مستحکم توسیع کے ذریعہ سے ممکن نہ تھا جو دھیمی رفتار سے محدود پیمانے پر ہی ہو سکتی ہے۔ اور یہ بات صحیح بھی نہ تھی کہ بڑے پیمانے پر توسیع کے جو مواقع ہمیں حاصل ہوئے تھے انھیں ہم چھوڑ دیتے اور بجائے خود اس توسیع کے جو فوائد ہیں انھیں نظر انداز کر دیتے۔
تیسری تبدیلی ہم نے اپنی پیش قدمی کی رفتار میں کی۔ پہلے جس اسکیم پر ہم کام کر رہے تھے اس میں نظامِ باطل کی کارفرما طاقتوں سے براہ راست کش مکش کا مرحلہ بہت دیر میں آنا تھا اور اس مرحلے میں بھی ہم کو آہستگی کے ساتھ بتدریج داخل ہونا تھا۔ خود ہماری جماعتی مشینری بھی اس سکیم کے لحاظ سے کش مکش کے تدریجی ارتقاء ہی کے لیے تیار ہوئی تھی۔ لیکن نئے حالات سے سابقہ پیش آتے ہی ہم نے دفعۃً جدوجہد کے مرحلے میں قدم رکھ دیا اور یہ جدوجہد بھی آہستگی کے ساتھ بتدریج بڑھنے والی نہ تھی، بلکہ یک لخت ملک گیر ہو جانے والی اور مختلف محاذوں پر پھیل جانے والی تھی۔ ہمارا اندازہ تھا اور الحمد للہ کہ ہم اپنے اس اندازے میں غلط ثابت نہ ہوئے کہ ہماری جماعتی مشینری اس اچانک تبدیلی کو سہار لے جائے گی۔ دراصل وقت کی نزاکت کو سامنے رکھ کر اپنے مقصد عظیم کی خاطر ہم نے یہ ایک بڑا خطرہ محض اللّٰہ تعالیٰ کے بھروسے پر مول لیا تھا۔ اس میں اس امر کا پورا امکان تھا کہ ہمارا اندازہ غلط ثابت ہو اور یہ چھوٹی سی مشین، جو ابھی پایہ تکمیل کو بھی نہ پہنچی تھی۔ اتنے بڑے کام کا بار پڑ جانے پر کسی وقت بھی ٹوٹ پھوٹ جائے۔ لیکن جس خدا کے بھروسے پر ہم نے یہ خطرہ مول لیا تھا اس نے ہماری مدد فرمائی اور ضائع ہونے کے بجائے محض اس کے فضل سے یہ اتنی ہی قوت اور وسعت پکڑتی چلی گئی جتنا اس پر کام کا بار بڑھتا چلا گیا۔
دستورِ اِسلامی کا مطالبہ، ایک شاہ ضرب
چوتھی اور بڑی اہم تبدیلی، جسے دراصل تبدیلی کے بجائے اجتہاد کہنا زیادہ صحیح ہے، ہم نے اپنی پیش قدمی کے نقشے میں کی۔ اس کو میں تبدیلی کے بجائے اجتہاد کہنا اس لیے صحیح سمجھتا ہوں کہ ہمارے پاس ایسی کوئی اسکیم پہلے سے بنی ہوئی نہ تھی اور ہو بھی نہیں سکتی تھی کہ نظامِ باطل کے خلاف ہماری کش مکش کا نقطہ آغاز کیا ہو گا، پھر اس سے کش مکش کرتے ہوئے ہم کس راستے سے، یا کن کن راستوں سے اقامت ِحق کی جدوجہد میں پیش قدمی کریں گے اور اس پیش قدمی کے دوران میں مزاحم طاقتوں کو پیچھے ہٹانے کے لیے ہمیں کیا کچھ کرنا ہو گا۔ یہ سب کچھ بہرحال حالات پر منحصر تھا۔ کوئی بھی اس کے لیے پیشگی مفصّل نقشہ نہ بنا سکتا تھا اور نہ تمام حالات میں ایسے کسی نقشے پر لگی بندھی جدوجہد کی جا سکتی تھی۔ اگر ہم قبل تقسیم کے حالات میں ہوتے تو نہیں کَہ سکتے تھے کہ ہمارا نقطہ آغاز کیا ہوتا اور نقشہ جنگ کیا بنتا۔ اگر ہم تقسیم کے بعد ان حالات میں ہوتے جو آج بھارت میں ہیں تو نہیں کہا جا سکتا کہ کش مکش کا مرحلہ دس سال بعد بھی آتا یا نہ آتا اور آتا تو وہ کیسے شروع ہوتی۔ پاکستان قائم ہونے پر جو صورت حال رونما ہوئی اس کو دیکھ کر ہی یہ فیصلہ کیا جا سکتا تھا کہ جس جماعت کا مقصد نظامِ کفر وفسق کی جگہ نظام دینِ حق اور امامت فاجرہ کی جگہ امامت صالحہ کا قیام ہو، اسے اپنے مقصد کے لیے ان حالات میں کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ ہم نے وقت کے تقاضوں کو سمجھ کر ٹھیک موقع پر یہ رائے قائم کی کہ کش مکش کا آغاز کرنے کے لیے اِسلامی دستور کے مطالبے سے زیادہ موزوں کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ اس ایک چیز کو جدوجہد کا مدار بنا کر ہم اس قابل ہوگئے کہ اپنے نصب العین کی طرف پیش قدمی کا راستہ بھی نکالیں، اُن تمام مواقع سے فائدہ بھی اٹھائیں جو ہماری تحریک کے حق میں مختلف اسباب سے اُس وقت پیدا ہو گئے تھے اور ان تمام خطرات کا مقابلہ بھی کریں جونئے ماحول میں ہمارے مقصد کے خلاف ابھر سکتے تھے اور ابھرنے شروع ہوئے۔ اس کے سوا جس دوسری چیز کوبھی ہم نقطہ آغاز بناتے وہ اس طرح ضرب کا کام نہ دے سکتا تھا۔
مطالبہ دستور کے متعلق ایک عجیب غلط فہمی
اس مطالبہ ِدستورِ اِسلامی پر آج دس سال کے بعد ہمارے بعض پرانے رفقا یہ اعتراض لے کر اٹھے ہیں کہ ہم نے اس طرح فطری طریقِ انقلاب کو چھوڑ کر مصنوعی طریقے سے ایک اِسلامی ریاست بنانے کی کوشش شروع کر دی۔ برسوں اس کام کے خود علمبردار رہنے کے بعد وہ اس کو ایسے عجیب وغریب معنی پہنا رہے ہیں جو کبھی نہ ان کی زبان سے سنے گئے تھے، نہ کسی کو یہ توقع تھی کہ جماعت کے حلقوں میں وہ سنے جائیں گے۔ ان کی تعبیر کے مطابق ہماری اس جدوجہد کا منشا بس یہ تھا کہ دستور ساز اسمبلی ہمارے بتائے ہوئے چند اِسلامی اصولوں پر ملک کا ایک دستور بنا دے اور جب وہ ایسا کر دے گی تو وہ مطلوب چیز وجود میں آ جائے گی جسے ہم اِسلامی ریاست وحکومت کہتے ہیں، خواہ معاشرہ اسی جاہلیت میں مبتلا رہے جس میں وہ پہلے مبتلا تھا۔ اس غلط تعبیر کی بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس موقع پر نظامِ حکومت کی اصلاح کے لیے جو قدم اٹھایا وہ بالکل غلط سمت میں تھا اور طریقِ انقلاب کے بھی خلاف تھا جو ہم خود تقسیم سے پہلے بیان کیا کرتے تھے۔ اس طریقِ انقلاب کے مطابق تو نظامِ حکومت کی صحیح اور حقیقی تبدیلی صرف وہی ہو سکتی تھی جو معاشرے کی ذہنی واَخلاقی تبدیلی کے نتیجہ میں رونما ہو۔ لیکن اب ہم معاشرے کی تبدیلی کے بغیر ہی نظامِ حکومت محض ایک دستور ساز اسمبلی کے ذریعہ سے تبدیل کرانے پر آمادہ ہو گئے، حالانکہ یہ اسمبلی معاشرے کے بگاڑ کی نمائندہ تھی اور ان بگڑے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں کسی اصلاح کا امکان نہ تھا، نہ اس امر کا کوئی امکان تھا کہ اس جمہوری نظام میں فاسد معاشرے سے صالح لوگ منتخب ہو کر آئیں اور اصلاح کا کوئی کام کر سکیں۔
یہ بعینہٖ وہی اعتراض ہے جس کا ہمیں مطالبہ نظامِ اِسلامی کے آغاز میں لادینی ریاست کے حامیوں کی طرف سے سابقہ پیش آیا تھا۔ ۱۹۴۸ء کے اوائل میں جب پہلی مرتبہ یہ آواز اٹھائی گئی کہ پاکستان کو ایک اِسلامی ریاست ہونا چاہیے، تو ان سب لوگوں نے جو اسے ایک لادینی ریاست دیکھنا اور بنانا چاہتے تھے، طرح طرح کے بہانوں اور اعتراضات سے اس آواز کو دبانے کی کوشش کی۔ مثلاً انھوں نے کہا کہ اگر یہاں اِسلامی قانون جاری ہو گا تو لاکھوں آدمیوں کے ہاتھ کٹ جائیں گے، اگر یہاں ہم اپنی مذہبی حکومت قائم کریں گے تو ہندوستان میں ہندو بھی اپنی مذہبی حکومت قائم کر دیں گے، اگر یہاں ہم نے ایک مذہبی حکومت قائم کی تو ہم دنیا بھر میں نکوبن جائیں گے۔ لیکن سب سے زیادہ زور دار بہانہ جو لوگ بنا کر لائے تھے، وہ یہ تھا کہ، پہلے معاشرہ تو اِسلامی ہو، پھر حکومت بھی آپ سے آپ اِسلامی ہو جائے گی، اس بگڑے ہوئے معاشرے میں تم اِسلامی حکومت کہاں قائم کرنے چلے ہو، اس موقع پر میں آپ کو وہ مکالمہ یاد دلائوں گا جو مئی ۴۸ء میں خود مجھ سے ریڈیو پر کیا گیا۔ اس میں لادینی نظریے کا استدلال یہ تھا۔
’’ہر ملک کا سیاسی نظام اس کے باشندوں کے رسم ورواج، اَخلاق، عادات، خصائل اور اعتقادات وتوہمات کا پرتو ہوتا ہے۔ ریاستی نظام بجائے خود کسی فلسفے یا مذہب کا حامل نہیں ہو سکتا۔ اگر اسے ایسا بنانے کی کوشش کی جائے تو وہ ایک مصنوعی اور عارضی کوشش ہو گی… اگر ہم اِسلامی ریاست کی تعمیر چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ پاکستان کے باشندوں میں صحیح اِسلامی اسپرٹ پیدا کریں اور انھیں دین کی اصلی اقدار سے روشناس کرائیں۔ جب یہ اقدار مضبوط ہو جائیں گی اور ہمارے قومی کیرکٹر میں اِسلامی تصورات پوری طرح سرایت کرجائیں گے، اس وقت ہمارا سیاسی نظام خود بخود اِسلامی رنگ اختیار کرے گا۔ ہم اس وقت تک اِسلامی ریاست کی داغ بیل نہیں ڈال سکتے جب تک ہماری روحانی، شخصی اور سماجی زندگی میں اِسلامی روایات پوری تابندگی سے جلوہ گرنہ ہوں۔ میری نظر میں وہ وقت ابھی بہت دور ہے جب ہم مکمل اِسلامی تصورات قبول کر لیں گے۔ اس لیے اِسلامی ریاست کو قائم کرنے کی کوششیں پیش از وقت ہیں۔‘‘{ FR 7708 }
یہ وہ سب سے زیادہ دلفریب پھندا تھا جس میں ہمیں پھانسنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ۴۰ء میں ان لوگوں کا استدلال یہ تھا کہ پہلے مسلمانوں کی ایک قومی ریاست قائم ہو جانے دو، پھر اسے اِسلامی ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش کر لینا۔ اس دلیل سے انھوں نے فطری انقلاب کے اس راستے کو قبول کرنے سے انکار کیا جس پر چل کر مسلمانوں کی قومی ریاست کا قیام اور اِسلامی ریاست کا قیام آپ سے آپ ایک ساتھ واقع ہوتا۔ اب جبکہ وہ قومی ریاست قائم ہو گئی تو ان کا دوسرا استدلال یہ تھا کہ اس وقت چوں کہ معاشرہ اِسلامی نہیں ہے، اس لیے یہاں ایک لادینی جمہوری ریاست ہی قائم ہونی چاہیے۔ تم اِسلامی ریاست چاہتے ہو تو معاشرے کو بدلنے کی کوشش کرو۔ جب وہ بدل جائے گا تو ریاست بھی بدل جائے گی۔ بالفاظ دیگر ان کا مطلب یہ تھا کہ اس قومی ریاست کو تو معاشرے کی تعمیر لادینی اصولوں پرکرنے دو اور تم اسی طرح اختیارات اور وسائل کے بغیر اِسلامی معاشرہ تیار کرتے رہو جس طرح قومی ریاست کے وجود میں آنے سے پہلے اجنبی تسلّط کے دَور میں کر رہے تھے۔ تعجب یہ ہے کہ اس وقت تو لادینی کے حامی ہمیں اس پھندے میں پھانسنا چاہتے تھے۔ مگر اب خود دینی نظام کے بعض حامی ہم سے کہتے ہیں کہ تم اس پھندے میں پھنس کیوں نہ گئے؟ تم اِسلامی دستور کا ایک مصنوعی مطالبہ لے کر کیوں کھڑے ہو گئے؟ تم نے یہاں ایک لادینی ریاست کیوں نہ قائم ہو جانے دی؟ تم کو تو اپنی ساری کوشش صرف ذہنی انقلاب اور اصلاحِ معاشرہ پر صرف کرنی چاہیے تھی۔ جب یہ کا م پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا تو ریاست خود بخود اِسلامی ہو جاتی۔
اس معاملے میں ساری غلط فہمیوں کی بنیاد یہ ہے کہ یہ لوگ نہ تقسیم سے پہلے کی پوزیشن اچھی طرح سمجھتے ہیں ،نہ تقسیم کے بعد کی پوزیشن اور نہ یہی جانتے ہیں کہ ان دونوں زمانوں میں ہم نے جو کچھ کہا اور کیا اس کا حاصل اور مدعا کیا تھا۔
تقسیم سے پہلے ہم نے فطری انقلاب کا راستہ ایک ایسی مسلمان قوم کے سامنے پیش کیا تھا جو حکومت کے اختیارات نہیں رکھتی تھی، بلکہ حصولِ اختیار کے لیے کوشش کرنے اٹھ رہی تھی۔ نیز وہ اپنی منزلِ مقصود اِسلامی ریاست بتاتی تھی مگر غلط راستے سے اس کی طرف جانا چاہتی تھی۔ ہم نے اسے بتایا کہ اس منزل تک جانے کا فطری راستہ یہ ہے۔ اس راستے سے آگے بڑھو گے تو اختیارات کا حصول اور اِسلامی ریاست کا قیام، دونوں بیک وقت واقع ہوں گے، بالکل اسی طرح جیسے درخت کا بلوغ اور اس میں پھل آنا، دونوں ایک ساتھ طبیعی نتیجے کے طور پر واقع ہوتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے اس وقت ہماری یہ تجویز مقبول نہ ہو سکی، مسلمان اپنی پوری اجتماعی طاقت صرف حصول اختیار کی کوشش پر صرف کرتے رہے اور بس ہم چند آدمی ہی اس فطری راستے سے انقلاب لانے کی سعی کے لیے رہ گئے۔
تقسیم کے بعد جس چیز سے ہم دوچار ہوئے وہ یہ تھی کہ وہی بے اختیار قوم، جسے ہم نے فطری انقلاب کا وہ راستہ دکھانا چاہا تھا، ایک مصنوعی انقلاب کے ذریعہ سے یک لخت بااختیار ہو گئی بغیر اس کے کہ اس کے سامنے کوئی واضح نصب العین ہوتا اور اس نصب العین کے مطابق سیاسی انقلاب کے ساتھ کوئی ذہنی، اَخلاقی اور اجتماعی انقلاب بھی رونما ہوا ہوتا۔ اب لامحالہ بااختیار ہو جانے کے بعد اس قوم کواپنے لیے ایک نظریہِ زندگی اختیارکرنا تھا جس پر وہ اپنی تعمیر نو کا آغاز کرتی، جس کے مطابق وہ اپنی تعمیر کے کام میں ملک کے وسائل اور حکومت کے اختیارات استعمال کرتی، جس کے لحاظ سے مردانِ کار تیار کرنے کے لیے وہ تعلیم وتربیت کا انتظام کرتی، جس کے نقشے پر وہ اپنی حیاتِ اجتماعی کی تشکیل اور معاملاتِ زندگی کی انجام دہی کے لیے قوانین بناتی۔ یہ اس قوم کے استعمالِ اختیارات کا وقتِ آغاز تھا اور اسے طے کرنا تھا کہ وہ اپنے ان اختیارات کو کس مقصد کے لیے کس چیز کی تعمیر اور کس چیز کی تخریب میں استعمال کرے۔
اس وقت دو طرح کے امکانات قریب قریب مساوی حیثیت میں موجود تھے۔ ایک امکان اس امر کا تھا کہ یہ مسلمان قوم لادینی قومی ریاست کے راستے پر مڑ جائے اور اس مصنوعی انقلاب کی تکمیل اس بدترین شکل میں ہو جس کا نقشہ کھینچ کھینچ کر ہم تقسیم سے پہلے اپنی قوم کو اس راستے کے خطرات سے آگاہ کیا کرتے تھے۔ ایک طاقت ور گروہ جس کے ہاتھ میں اختیارات کی کنجیاں بھی تھیں، اس قوم کو اسی راستے پر ڈالنے کے لیے زور لگا رہا تھا اور اس کوشش میں تھا کہ جس طرح بھی ہو سکے، دوسرے امکان کے دروازے جلدی سے جلدی بند کر دئیے جائیں۔ دوسرا امکان یہ تھا اور اس کے لیے اچھے خاصے مواقع موجود تھے کہ اس قوم کو اِسلامی ریاست کے راستے پر ڈالا جائے اور لادینی کی جڑیں اس کے معاشرے میں نہ جمنے دی جائیں۔
اس پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر اب ملاحظہ فرمائیے کہ جس وقت ہم ۴۸ء میں دستور اِسلامی کی جدوجہد کے لیے اٹھ رہے تھے اس وقت ہم نے ان لوگوں کے استدلال کا کیا جواب دیا تھا جو کہتے تھے کہ سرِدست تو ایک لادینی جمہوری ریاست بن جانے دو، پھر جوں جوں معاشرہ اِسلامی بنتا جائے گا، ریاست بھی اِسلامی ہوتی چلی جائے گی۔ ابھی ریڈیو کے جس مکالمے کا میں نے ذکر کیا ہے، اس میں جانبِ مخالف کی بات کا جواب دیتے ہوئے میں نے عرض کیا تھا:
’’آپ نے سچ فرمایا کہ ایک ملک کا نظام اس کے باشندوں کی اَخلاقی و ذہنی حالت کا پرتو ہوتا ہے۔ اب اگر پاکستان کے باشندے اِسلام کی طرف ایک پرزور میلان رکھتے ہیں اور ان کے اندر اِسلام کے راستے پر آگے بڑھنے کی خواہش موجود ہے تو آخر ان کی قومی ریاست ان کے اس میلان اور خواہش کا پرتو کیوں نہ ہو؟ آپ کا یہ ارشاد بھی بالکل درست ہے کہ اگر ہم پاکستان کو ایک اِسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں پاکستان کے باشندوں میں اِسلامی شعور، اِسلامی ذہنیت اور اِسلامی اَخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مگر میں نہیں سمجھا کہ آپ اس کوشش میں حصہ لینے سے خود ریاست کو کیوں مستثنیٰ رکھنا چاہتے ہیں۔ ۱۵ ؍ اگست ۴۷ء سے پہلے کی صورت حال تو یہ تھی کہ ہمارے اوپر ایک غیر مسلم اقتدار مسلّط تھا، اس وجہ سے ہم اِسلامی خطوط پر اپنی ملت کی تعمیر میں ریاست اور اس کی طاقتوں اور اس کے ذرائع سے کوئی مدد نہیں پا رہے تھے، بلکہ درحقیقت اس وقت ریاست کا پورا ادارہ اپنے زور سے ہمیں دوسری طرف کھینچے لیے جا رہا تھا اور ہم انتہائی ناسازگار حالات میں اِسلامی زندگی کی تعمیر کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ اب جو سیاسی انقلاب ۱۵؍ اگست کو رونما ہوا ہے اس کے بعد ہمارے سامنے یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ آیا ہماری قومی ریاست اِسلامی زندگی کی تعمیر میں وہ حصہ لے گی جو ایک معمار کا حصہ ہوتا ہے، یا وہ طرز عمل اختیار کرے گی جو ایک بے نیاز غیر جانبدار کا ہوا کرتا ہے، یا اب بھی وہی پچھلی صورت حال برقرار رہے گی کہ ہمیں حکومت کی مدد کے بغیر بلکہ اس کی مزاحمت کے باوجود اِسلامی تعمیر کا کام کرنا ہو گا‘؟ اس وقت چوں کہ پاکستان کا آیندہ نظام زیر تشکیل ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ایسی ریاست بن جائے جو اِسلامی زندگی کی معمار بن سکے۔ ہماری یہ خواہش اگر پوری ہو گئی تو ریاست کے وسیع ذرائع اور طاقتوں کو استعمال کرکے پاکستان کے باشندوں میں ذہنی اور اَخلاقی انقلاب برپا کرنا بہت زیادہ آسان ہو جائے گا۔ پھر جس نسبت سے ہمارا معاشرہ بدلتا جائے گا اسی نسبت سے ہماری ریاست بھی ایک مکمل اِسلامی ریاست بنتی چلی جائے گی۔‘‘
اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ اس کا جواب میں نے اپنی اس تقریر میں دیا تھا جو فروری ۴۸ء میں لا کالج لاہور میں کی گئی تھی۔ میں نے اس میں کہا تھا:
’’میں ان سے پوچھتا ہوں کہ یہ ماحول (یعنی اِسلامی ماحول جس کے تیار ہونے پر اِسلامی ریاست کی بنا ڈالنا موقوف قرار دیا جاتا ہے)، تیار کون کرے گا؟ کیا ایک بے دین ریاست جس کی باگیں فرنگیت زدہ حکام اور لیڈروں کے ہاتھ میں ہوں؟…… اگر ان کا مطلب یہی ہے تو انسانی تاریخ میں یہ پہلا اور بالکل نرالا تجربہ ہو گا کہ بے دینی خود دین کو پروان چڑھا کر اپنی جگہ لینے کے لیے تیار کرے گی! اور اگر ان کا مطلب کچھ اور ہے تو وہ ذرا صاف صاف اس کی توضیح فرمائیں کہ اِسلامی ماحول کی تیاری کا کام کون، کس طاقت اورکن ذرائع سے کرے گا اور اس دوران میں بے دین ریاست اپنے ذرائع اور اقتدار کو کس چیز کی تعمیر میں صرف کرتی رہے گی؟…… اِسلامی نظامِ زندگی کی تعمیر ہو یا غیر اِسلامی زندگی کی، اگرچہ وہ ہوتی تو بتدریج ہی ہے لیکن تدریجاً اس کی تعمیر صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب کہ ایک معمار طاقت اپنے سامنے ایک مقصد اور ایک نقشہ رکھ کر مسلسل اس کے لیے کام کرے… یہ پاکستان جب اِسلام کے نام سے اور اِسلام کے لیے مانگا گیا ہے اور اسی بنا پر ہماری یہ مستقل ریاست قائم ہوئی ہے، تو ہماری اس ریاست ہی کو وہ معمار طاقت بننا چاہیے جو اِسلامی زندگی کی تعمیر کرے۔ اور جب کہ یہ ریاست ہماری اپنی ریاست ہے اور ہم اپنے تمام قومی ذرائع ووسائل اس کے سپرد کر رہے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس تعمیر کے لیے کہیں اور سے ذرائع اور معمار فراہم کرتے پھریں۔‘‘
’’یہ بات اگر صحیح ہے تو پھر اس تعمیر کی راہ میں پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ہم اس ریاست کو جو ابھی تک انگریز کی چھوڑی ہوئی کافرانہ بنیادوں پر قائم ہے، مسلمان بنائیں… اس کے بعد ہی صحیح طورپر ہمارے رائے دہندوں کو یہ معلوم ہو گا کہ اب انھیں کس مقصد اور کس کام کے لیے اپنے نمائندے منتخب کرنے ہیں… دوسرا قدم یہ ہے کہ جمہوری انتخاب کے ذریعہ سے اس ریاست کی زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہو جو اِسلام کو جانتے بھی ہوں اور اس کے مطابق ملک کے نظامِ زندگی کو ڈھالنا چاہتے بھی ہوں۔ اس کے بعد تیسرا قدم یہ ہے کہ اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی ہمہ گیر اصلاح کا ایک منصوبہ بنایا جائے اور اسے عمل میں لانے کے لیے ریاست کے تمام ذرائع ووسائل استعمال کئے جائیں۔‘‘ { FR 7709 }
اسی زمانے میں مولانا امین احسن صاحب نے اپنی ایک تقریر میں وضاحت کے ساتھ یہ بتایا تھا کہ اگر پاکستان کی قومی ریاست ایک لادینی ریاست بن گئی تو اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ انھوں نے فرمایا تھا:
’’جہاں تک مذہب کا تعلق ہے، ایک لادینی جمہوری ریاست کی طرف سے اس کے ساتھ دو ہی طرح کے سلوک کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یا تو وہ چشم پوشی اور اغماض کا سلوک کرے گی، یا عناد کی پالیسی اختیار کرے گی۔ تجربہ بتاتا ہے کہ یہ دونوں طرح کے سلوک لادینی حکومتیں دو مختلف طرح کے حالات میں اختیار کرتی ہیں۔ جن ملکوں میں مذہبی احساس کم زور ہوتا ہے وہاں لادینی حکومتیں بالعموم چشم پوشی کی پالیسی اختیار کرے گی اور پیش نظریہ بات ہوتی ہے کہ نظامِ غالب کے تحت یہ خفیف مذہبی جڑیں اکھاڑ نہ دی جائیں، وہاں وہ پوری طاقت کے ساتھ اس بات کی کوشش کرتی ہے کہ مذہب کا نام ونشان بھی باقی نہ چھوڑے۔ میرا اندازہ ہے کہ پاکستان کے حالات اسی طرح کے ہیں۔ اس وجہ سے اگر اس ملک میں کسی لادینی ریاست کے قیام کا فیصلہ ہوا تو اس کی تعمیر مذہب کی تخریب کے بعد ہی ممکن ہو سکے گی اور لادینیت کے آئمہ مجبور ہوں گے کہ اس سرزمین کو تمام مذہبی آثار اور محرکات سے اسی طرح صاف کر دیں جس طرح کمال اتاترک اور ان کے ساتھیوں نے ترکی کو تمام مذہبی باقیات سے صاف کر دیا تھا۔‘‘ { FR 7710 }
اس تشریح سے آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ جن حالات میں ہم نے اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے مطالبہ دستورِ اِسلامی کو نقطہ آغاز کی حیثیت سے منتخب کیا تھا ان حالات میں پیش قدمی کا یہی ایک راستہ صحیح تھا۔ فطری طریق انقلاب کا یہ تصوّر کہ وہ کوئی ایسا لگا بندھا طریقہ ہے جو ہر جگہ ہر طرح کے حالات میں ایک ہی ڈھنگ پر چلنا چاہیے، سراسر ایک غیر معقول تصور ہے۔ ایک نئی نئی آزاد ہونے والی مسلمان قوم کے اندر انقلاب لانے کا فطری اور معقول راستہ وہ نہ تھا جس پر قبل تقسیم کے حالات میں ہم کام کر رہے تھے، بلکہ یہ تھا کہ ہم آگے بڑھ کر اسے اپنی آزادی وخود مختاری کے استعمال کی صحیح صورت بتائیں، اس کو دوسری گمراہ کن تحریکوں کے اثر میں جانے سے روکیں، اس ملک میں ایک غلط اور تباہ کن نظام تعمیر نہ ہونے دیں اور اس امر کی پوری کوشش کریں کہ اس کے نئے اختیارات اور ذرائع ووسائل ایک تعمیر صالح میں صرف ہوں۔ ہمارے لیے قبل تقسیم کے طریق کار کی طرف پلٹنا اگر جائز ہو سکتا تھا تو صرف اسی صورت میں جب کہ ہم اپنے ان مقاصد میں ناکام ہو جاتے اور ہماری کوششوں کے باوجود ایک بے دین قیادت یہاں قدم جما کر ٹھیٹھ لادینی نظام قائم کر دیتی۔
اب اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ ہماری یہ جدوجہد بس حکمرانوں سے اِسلامی دستور بنا دینے کے مطالبے تک ہی محدود تھی اور اس کے ساتھ معاشرے کی تیاری کا کوئی عنصر شامل نہ تھا، تو یہ اس کے اپنے ہی فہم کا قصور ہے۔ وہ آنکھیں کھول کر دیکھے تو اسے نظر آ سکتا ہے کہ اس جدوجہد کے ذریعہ سے ہم نے پچھلے دس سال کے اندر معاشرے کو کس حد تک فاسد قیادتوں کے بالمقابل ایک صالح قیادت ابھارنے کے لیے تیار کیا ہے اور سلبی اور ایجابی دونوں حیثیتوں سے مخالف دین اثرات کی روک تھام اور موافق دین اثرات کو پھیلانے کی کتنی خدمت انجام دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مطالبہ دستور کی جدوجہد کے اصل مخاطب حکمران گروہ کے لوگ تھے ہی نہیں۔ اس کے مخاطب تو اس ملک کے عوام تھے اور انھی کی رائے کو نظام اِسلامی کے حق میں ہموار کرکے ہم لادینی کے ان طوفانوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں جو آپ سب کی آنکھوں کے سامنے کیسی کیسی قوت کے ساتھ اٹھ کر اس ملک پر چھا جانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اگر ملک کی رائے عام کو اس حد تک تیار کر دینا کہ بے دینی اپنی ساری سیاسی طاقت اور اپنے سارے ذرائع کے باوجود یہاں فیصلہ کن اقتدار حاصل نہ کر سکے اور اگر اقتدار کی ساری مزاحمتوں کے علی الرغم اِسلامی نظام کی حمایت میں ایک ایسی منظم طاقت پیدا کر دینا جو دفاع اور ہجوم دونوں کا بل بوتا رکھتی ہو اور جس کے ساتھ ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے عناصر وابستہ ہوں، اس کا نام معاشرے کی تیاری نہیں ہے تو میں اس طرح کے خیالات رکھنے والوں سے گزاش کروں گا کہ براہ کرم وہ ہمیں وضاحت کے ساتھ بتائیں کہ معاشرے کی تیاری کا تصور ان کے ذہن میں آخر ہے کیا اور اس تصور کے لحاظ سے کس چیز کو معاشرے کی تیاری کہا جا سکتا ہے اور کسے نہیں کہا جا سکتا۔
معاشرہ پر ہماری دستوری جدوجہد کے اثرات
مجھے ہمیشہ اس بات سے نفرت رہی ہے کہ جماعتِ اِسلامی کے کارناموں کو گنایا جائے۔ میں ہمیشہ اس بات کو ترجیح دیتا ہوں کہ جو کچھ ہم سے نہیں ہو سکا ہے اسے ہم نمایاں کرکے اپنے کارکنوں کے سامنے رکھیں تاکہ ان میں مزید محنت وسعی کرنے کا ولولہ پیدا ہو اور اس چیز کی حوصلہ شکنی کرتا ہوں کہ جو کچھ ہم نے کیا ہے اسے فخر کے ساتھ بیان کیا جائے اور اس کا نتیجہ یہ ہو کہ کارکن اپنی جگہ مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں۔ لیکن جب ہمیں سابقہ اس طرز بحث سے پیش آ جائے کہ جو کچھ جماعت نے فی الواقع کیا ہے اس کی نفی کی جا رہی ہو اور اس نفی سے بھی مقصود محض نفی نہ ہو، بلکہ استدلال یہ ہو کہ تقسیم کے بعد ہماری جدوجہد سرے سے غلط راستے پر پڑ گئی اور اس پر مزید استدلال یہ ہو کہ ہم اس وقت تک کے سارے نتائج عمل کو مہمل قرار دے کر قبل تقسیم کے حالت کی طرف الٹی زقند لگائیں، تو مجھے مجبورًااس کام کو پیش کرنا پڑتا ہے جو پچھلے دس سال میں اس نئی پالیسی کے تحت انجام دیا گیا ہے۔
تقسیم کے وقت ارکان جماعت کی کل تعداد ۳۸۵ تھی۔ آج ۱۲۷۲ ہے{ FR 7711 }۔ جماعت میں ارکان کے داخلہ کا جو طریق کار ہے اسے دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انسانوں کی کتنی کثیر تعداد تک پہنچ کر اور انھیں کس حد تک متاثر کر دینے کے بعد یہ مزید ۹۰۰ آدمی اس تحریک میں رکن کی حیثیت سے کام کرنے کے لیے ہمیں حاصل ہوئے ہوں گے۔
متفقین کی تعداد اس وقت ہزار بارہ سو سے زیادہ نہ تھی۔ آج ۲۵ ہزار کے لگ بھگ ہے۔{ FR 7712 } جماعت میں متفقین کی بھرتی کا جو طریقہ ہے اسے نگاہ میں رکھئے تو حساب لگا کر آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ کتنے لاکھ آدمیوں تک یہ دعوت پہنچائی گئی ہو گی، تب کہیں ۲۵ ہزار آدمی ایسے نکلے جنھوں نے باقاعدہ متفق بننا قبول کیا۔
متاثرین آج لاکھوں کی تعداد میں ہیں اور معاشرے کاکوئی عنصر ایسا نہیں رہا ہے جس میں وہ کم یا زیادہ نہ پائے جاتے ہوں۔ سرکاری محکموں کے ملازمین، تجّار، اہل صنعت، وکلا، طلبہ، اساتذہ اور پروفیسر، کاشت کار اور مزدور، شہری اور دیہاتی عوام، غرض کسی شعبہ ِحیات سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اب ان اثرات سے خالی نہیں رہے ہیں۔ اور ان میں ایک کثیر تعداد ایسی ہے جو جماعت کے مقصد اور اس کے کام سے صرف گہری دل چسپی ہی نہیں رکھتی بلکہ اس کا اَخلاقی اثر بھی قبول کر رہی ہے۔
دیہات تک میں یہ تحریک پھیل گئی ہے اور پھیلتی جا رہی ہے۔ پہلے دیہاتی علاقے اس سے بالکل خالی تھے۔ آج ان میں مضبوط حلقہائے متفقین منظم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
قریبی دَور کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنے وسیع پیمانے پر عوام اور خواص کو اِسلامی زندگی کی خصوصیات اور اِسلامی ریاست کے واضح تصوّرسے آشنا کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ اس ملک کے عوام کو اس کثرت کے ساتھ ان امور کی تعلیم دی گئی ہو۔ اور نہ دنیا کے کسی دوسرے مسلمان ملک ہی میں آج اس کی مثال پائی جاتی ہے۔ بلکہ عوام الناس میں دستوری مسائل کا شعور پیدا کرنے کی اتنے بڑے پیمانے پر کوشش تو مغربی ممالک میں بھی کم ہی کبھی کی گئی ہے۔
علمی حلقوں پر ہماری تحریک جس حد تک اثر انداز ہوئی ہے اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ پچھلے چند سال میں اِسلام کے تصور ریاست، نظریہ سیاسی، نظریہ معاشی ، نظام قانون اور نظام حیات سے جتنی کچھ بحث بھی ہوئی ہے وہ زیادہ تر انھی خطوط پر ہوئی ہے جو ہمارے لٹریچر میں پائے جاتے ہیں۔{ FR 7713 } اب کوئی علمی اور تعلیمی ادارہ ایسا نہیں رہ گیا ہے جس میں مغربی مذہب فکر کے مقابلے میں اِسلامی مذہب فکر کے حامی بھی موجود نہ ہوں اور افکار کی دنیا میں ایک کش مکش رونما نہ ہو چکی ہو۔
مشرقی پاکستان، جو تقسیم کے وقت تک اس تحریک سے قطعاً غیر متاثر تھا، اس دس سال کی جدوجہد کے نتیجے میں اس حد تک تیار ہو چکا ہے کہ آج اشتراکیت اور بنگالی قوم پرستی کے مقابلے کا بل بوتا اگر کسی تحریک میں ہے تو وہ جماعتِ اِسلامی کی تحریک ہی ہے۔
دستور میں اِسلامی ریاست کے بنیادی اصولوں کا تسلیم کر لیا جانا ایک صریح پیمانہ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ اس دس سال کی مدت میں رائے عام کو کس حد تک اِسلامی نظام کے حق میں ہموار کیا گیا ہے، غیر اِسلامی رجحانات کی حامی اور علمبردار طاقتیں اپنے سیاسی اقتدار اور وسیع ذرائع کے باوجود کسی حد تک پیچھے ہٹی ہیں اور اِسلامی رجحان کی طاقت کسی حد تک آگے بڑھی ہے۔ جو لوگ اس چیز کو حقیر ثابت کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ یہ دو رجحانات کی طاقت آزمائی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ صرف ایک طفل تسلی ہے، یا سیاسی پارٹیوں کے جوڑ توڑ سے پیدا ہو جانے والی ایک صورت حال کا اتفاقی نتیجہ ہے، یا بعض سیاسی لیڈروں کے اپنے ہی مذہبی رجحان کا ثمرہ ہے، وہ دراصل سخن پروری کے جوش میں حقائق کا انکار کرتے ہیں۔ پورے ۹ سال تک اس مسئلہ پر جو کش مکش علانیہ سارے ملک میں برپا رہی ہے اور سیکولرزم کی حامی طاقتیں دستور میں اِسلامی اصولوں کے اندراج کی مزاحمت جس طرح قدم قدم پر کرتی رہی ہیں اس کی تاریخ کچھ اتنی زیادہ پرانی تو نہیں ہے کہ آج کسی ہٹ دھرم آدمی کے دو چار فقرے اس کو جھٹلا دینے کے لیے کافی ہو جائیں۔ اس تاریخ کا ایک ایک ورق گواہ ہے کہ سیکولرزم کے طوفان کس طرح باربار اٹھ کر اِسلامی رجحان کو دبانے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور کس طرح اِسلامی رجحان نے آخر کار رائے عام کی حمایت سے ان کا منہ پھیرا ہے۔ پھر میں نہیں سمجھتا کہ آخر کون سی سخن آرائی اس امر واقعہ کو جھٹلا سکتی ہے کہ دستور کی تدوین کے آخری مرحلے میں ملک کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک معاشرے کے ہر طبقے اور ہر عنصر نے بے نظیر اتفاق کے ساتھ اِسلامی دفعات کے اندراج کی پرزور تائید کی تھی اور اسی نے ان لوگوں کو یہ کڑوا گھونٹ حلق سے اتارنے پر مجبور کیا جو اسے پینے کی بہ نسبت زہر پی لینا زیادہ پسند کرتے تھے۔
دنیا بھر کے مسلم ممالک پر ہماری دعوت کا اچھا خاصا اثر پڑا ہے۔ ہمارے لٹریچر نے ان کے صرف افکار ہی پراثر نہیں ڈالا ہے بلکہ ان کی تحریکات کو بھی عملاً متاثر کیا ہے اور متعدّد نئے آزاد ہونے والے مسلمان ملکوں میں اِسلامی ریاست کے قیام اور اِسلامی دستور کی تدوین کا مطالبہ اسی طرز پر اٹھا ہے۔ میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آیا یہ امور واقعہ ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں اور سچائی کے ساتھ ان کی واقعیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تو آخر اس کام پر بھی ’’معاشرے کی تیاری‘‘ کے الفاظ کا کچھ اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟ صرف ۳۸۵ آدمیوں کی ابتدائی طاقت سے کام شروع کرکے صرف دس سال کی مدّت میں اور اتنی سخت مزاحم طاقتوں کے مقابلے میں آپ کس دوسرے طریقے سے اتنا کام کر سکتے تھے؟ اور اگر ہر جہت میں اتنے بڑے پیمانے پرکام نہ کیا گیا ہوتا تو کیا آج آپ ٹرکی سے کچھ بہتر پوزیشن میں ہوتے جہاں تیس سال کے بعد اب اس چیز کو غنیمت سمجھا جا رہا ہے کہ ہ درسگاہوں میں مذہبی تعلیم کی اجازت مل گئی ہے اور کچھ مذہبی رسالوں کی اشاعت بھی گوارا کی جانے لگی ہے۔
……٭٭٭……
نکتۂ ہفتم
اس کے بعد مجھے قرارداد کے ساتویں نکتے پر بحث کرنی ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ اس دس سال کی جدوجہد سے جو نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ ان کے بعد لائحہِ عمل کے کسی جز کو ساقط یا معطل یا مؤخر کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ دستور میں دینی نظام کے جو بنیادی اصول اس قدر طویل کش مکش کے بعد منوائے گئے ہیں اب اصل کام انھیں ملک کے نظام میں عملاً نافذ کرانا ہے اور ان کا نفاذ بہرحال قیادت کی تبدیلی پر منحصر ہے۔ اس موقع پرایک صالح قیادت صرف اسی طرح بروئے کار لائی جا سکتی ہے کہ ہم اپنے لائحہ عمل کے چاروں اجزا پر بیک وقت کام کریں اور توازن کے ساتھ ان چاروں گوشوں میں کام کرتے ہوئے اس طرح آگے بڑھیں کہ افکار کی تعمیر وتطہیر، صالح افراد کی تنظیم اور معاشرے کی اصلاح کا جتنا جتنا کام ہوتا جائے اسی نسبت سے ملک کے سیاسی نظام میں دین کے حامی عنصر کا نفوذ واثر بھی بڑھتا جائے اور سیاسی نظام میں حامی دین عنصر کا نفوذواثر جتنا جتنا بڑھتا جائے اسی قدر زیادہ قوت کے ساتھ تطہیر وتعمیر افکار اور تنظیم عناصر صالحہ اور اصلاح معاشرہ کا کام انجام دیا جائے۔ اس مرحلے پر لائحہِ عمل کے کسی جزو کو ساقط کرنا کیا معنی، مؤخر کرنا بھی قابلِ تصور نہیں ہے۔
بحث کو مختصر کرنے کے لیے ابتدا ہی میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جہاں تک لائحہِ عمل کے پہلے تین اجزا کا تعلق ہے جماعت میں کسی ایک شخص کا بھی یہ خیال نہیں ہے کہ ان میں سے کسی کو ساقط یا معطّل یا مؤخر کیا جائے اس لیے اس پر گفتگو کرنے کی سرے سے کوئی حاجت نہیں ہے۔ البتہ بعض لوگ جماعت میں ایسے پائے جاتے ہیں، جن کی خواہش یہ ہے کہ ایک اچھی خاصی طویل مدت کے لیے اس کے چوتھے جز (زمامِ کار کی تبدیلی) کو چھوڑ کر صرف پہلے تین اجزا پر کام کیا جائے۔ بلکہ بسا اوقات ان میں سے بعض حضرات کے طرزِ بحث سے تو یوں مترشح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس چوتھے جز پر سرے سے کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، صرف پہلے تین اجزا پر ہی کام کرکے معاشرے کو اس طرح تیار کرنا چاہیے کہ نظامِ حکومت میں تغیر بالکل ایک طبعی نتیجے کے طور پر خود بخود ہوجائے۔ لہٰذا ہمیں اپنی بحث اسی نقطہِ نظر کی تنقیح وتنقید پر مرکوز رکھنی چاہیے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ بجائے خود یہ نقطہِ نظر کہاں تک معقول ہے اور اپنی تحریک کے اس مرحلہ پر اگر ہم اپنے پروگرام کے سیاسی حصے کو ساقط یا معطّل یا مؤخر کر دیں تو اس کے نتائج کیا ہوں گے۔
’’خود بخود تبدیلی‘‘ کا نظریہ
اس سلسلے میں پہلی بات میں یہ عرض کروں گا کہ نظامِ سیاسی میں خود بخود تغیر ہو جانے اور قیادت کے آپ سے آپ بدل جانے کا عجیب وغریب تخیل تو میری فہم سے بالکل ہی بالاتر ہے۔ معاملہ اگر بخت واتفاق کا ہو تو آدمی ہر حادثے کے ظہور کو ممکن مان سکتا ہے۔ لیکن جہاں معاملہ مطلوب نتائج کے حصول کا ہو، میری ناقص فہم میں کسی نتیجۂ مطلوب کا بھی خود بخود برآمد ہوجانا ممکن نہیں ہے جب تک کہ انسان بالا رادہ اس کے لیے کوشش نہ کرے اور خاص طور پر ان تدابیر کو استعمال نہ کرے جو اس مخصوص نتیجے کے لیے عقل اور فطرت اور دنیا کے تجربات کی رو سے ضروری ہیں۔ آپ اگر کسی قلعہ کو مسخر کرنا چاہتے ہوں تو بلاشبہ قلعہ شکن آلات فراہم کرنا، حملہ آور فوجوں کو تیار کرنا، لوگوں میں اس کی تسخیر کی خواہش پیدا کر دینا، سب کچھ اس کے لیے ضروری ہے۔ لیکن یہ خیال کرنا کہ اس کام کے یہ مقدمات جب جمع ہو جائیں گے تو قلعہ خود ٹوٹ جائے گا یا قلعہ پر جو لوگ قابض ہیں وہ خود ایک روز آ کر اس کی کنجیاں حوالے کر دیں گے، محض تخیل کی بلند پردازی ہے۔ قلعہ تو جب بھی مسخر ہو گا اسی طرح ہو گا کہ جو لوازم اور مقدمات اس کی تسخیر کے لیے آپ نے فراہم کیے ہیں ان کوعملاً اس کام میں استعمال بھی کریں۔ جو خواہش آپ نے اس کو مسخر کرنے کے لیے لوگوں میںپیدا کی ہے اسے واقعی تسخیر کے راستے پر لگائیں بھی۔ جو آلات آپ نے قلعہ کے سامنے لا کر جمع کر دئیے ہیں ان سے فی الواقع قلعہ شکنی کا کام بھی لیں۔ اورجو فوجیں آپ نے تیار کی ہیں، انھیں لے کر حملہ آور بھی ہوں اور اہلِ قلعہ سے زور آزمائی بھی کریں۔ یہ کام اگر سرے سے آپ کی اسکیم ہی میں نہ ہو، بلکہ پہلے ہی سے دنیا کو یہ معلوم ہو کہ آپ ’’تیاریاں‘‘ کرنے اور ’’خواہشات‘‘ ابھار دینے سے آگے کچھ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور قلعہ پر حملہ آور ہونا آپ کے پروگرام ہی سے خارج ہے، تو میں نہیں سمجھتا کہ وہ سادہ لوح حریف آپ کو دنیا میں کہاں ملیں گے جو کسی وقت قلعہ خود بخود چھوڑ بھاگنے پر تیار ہو جائیں گے۔ بلکہ میرے علم میں تو ایسی سیدھی سادھی آبادی بھی دنیا میں کسی جگہ نہیں پائی جاتی جو ان خالی خولی تیاریوں کے کام میں سنجیدگی کے ساتھ آپ سے تعاون کرے گی اور آپ کے ابھارے کوئی خواہش اس کے اندر تسخیر قلعہ کے لیے ابھر سکے گی۔
بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ تقسیم سے پہلے اس خود بخود تبدیلی کا کوئی نسخہ جماعتِ اِسلامی کے پاس تھا جسے تقسیم کے بعد یہ جماعت گم کر بیٹھی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس چیز کو وہ اس نوعیت کا نسخہ سمجھ بیٹھے ہیں اس میں تو نظامِ باطل کے خلاف کش مکش اورفاسد قیادت کو ہٹانے کی جدوجہد کا جزو پوری طرح شامل تھا۔ اس تخیل کا کوئی نشان اس میں نہیں پایا جاتا کہ اس جز کے بغیر نسخے کے دوسرے چند اجزا ہی استعمال کرنے سے نظامِ باطل خود بخود جگہ چھوڑ دے گا اور اس کو چلانے والی قیادت آپ سے آپ مسند اقتدار سے ہٹ جائے گی۔
لائحۂ عمل کے سیاسی جز کو معطّل کرنے کے نتائج
اس نظریے کو خارج از بحث کر دینے کے بعد زیادہ سے زیادہ جو تجویز قابل غور قرار پا سکتی وہ یہ ہے کہ ہم کسی معین یا غیر معین مدت کے لیے اپنے لائحہ عمل کے سیاسی جز، یعنی تبدیلی قیادت کی براہ راست کوشش کو معطل یا مؤخر کر دیں۔ لیکن ایسا کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ہمیں یہ اچھی طرح دیکھ لینا چاہیے کہ اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں اور اس کی فی الواقع کوئی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔
میرے نزدیک اس کا اوّلین نتیجہ یہ ہو گا کہ ہمارے اس فیصلے کو سنتے ہی ملک کے وہ سب عوام اور خواص جو جماعتِ اِسلامی سے اصلاح احوال کی کچھ امیدیں رکھتے ہیں، یک لخت مایوس ہوجائیں گے۔ سیاسی میدان سے پسپا ہونے کے بعد ان کی نگاہ میں یہ صرف ایک تبلیغی قسم کی جماعت بن کر رہ جائے گی اور ایسی کسی جماعت کو عوام تو درکنار، خواص بھی کچھ زیادہ قابل اعتنا نہیں سمجھتے جو ان کو صرف اصلاح کے وعظ سنائے مگر آج جن مسائل سے وہ عملاً دوچار ہیں ان میں نہ دخل دے اور نہ ان کے حل کی ذمہ داری لے کر اٹھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کام کو جتنی مدت کے لیے آپ ملتوی کریں گے، اتنی ہی مدت کے لیے لوگ بھی آپ کی باتوں کی طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ کرنا ملتوی کر دیں گے۔ بلکہ بعید نہیں کہ وہ آپ کے اس فیصلے کا یہ اثر لیں کہ یہ کوئی مراقی جماعت ہے جس پرکبھی ایک دورہ پڑتا ہے تو میدان میں آ کھڑی ہوتی ہے اور کبھی کوئی دوسرا دورہ پڑ جاتا ہے تو یک لخت پسپا ہو جاتی ہے۔ اس صورت میں مشکل ہی سے پھر کبھی عوام کا اعتماد آپ پر جم سکے گا۔
دوسرا نتیجہ اس فیصلے کا یہ ہو گا کہ خود جماعت کے ارکان اور متفقین کی بہت بڑی تعداد بد دل ہو جائے گی۔ میرا اندازہ ہے کہ اس طرح کا فیصلہ صرف ایک مخصوص مذاق کے دو تین فی صد آدمی ہی کو مطمئن کر سکتا ہے، باقی وہ عظیم اکثریت جو اس عزم وارادے کے ساتھ اس جماعت سے وابستہ ہوئی ہے کہ حق وباطل کی اس کش مکش کو آخری فیصلے کی حد تک پہنچا کر ہی دم لینا ہے، اس کو بددلی میں مبتلا ہونے سے ہم کسی طرح نہ بچا سکیں گے۔{ FR 7714 }
تیسرا نتیجہ اس کا یہ ہو گا کہ اس ملک میں حامیِ اِسلام محاذ کم زور پڑ جائے گا۔ یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ اس محاذ پر کتنی اور کس کس قسم کی طاقتیں موجودہ ہیں، ان میں سے ہر ایک کا حال بلحاظ فکر وفہم، بلحاظ نظم، بلحاظ صلاحیتِ عمل، بلحاظ عزم وثبات واستقامت کیا ہے اور ان کے درمیان جماعتِ اِسلامی کا مقام کیا ہے؟ اب اگر یہ جماعت سیاسی میدان میں موجودہ قیادت کے راستے سے ہٹ جائے تو اس امر کا اندازہ کرنے کے لیے کسی بہت بڑی قوتِ فکر کی حاجت نہیں ہے کہ اس سے بحیثیت مجموعی حامیِ اِسلام اور مخالفِ اِسلام قوتوں کے توازن پر کیسا شدید اثر پڑے گا۔
اس کا چوتھا نتیجہ جو تیسرے نتیجے کے ساتھ لازم وملزوم کی حیثیت رکھتا ہے، یہ ہو گا کہ مخالف اِسلام طاقتیں فورًا ہمت پکڑ جائیں گی۔ آپ سب اس بات کو جانتے ہیں کہ اب تک کی کش مکش نے زیادہ سے زیادہ ان کو تھوڑا سا پسپا ہی کیا ہے‘ شکست نہیں دی ہے۔ حکومت کی مشینری پر انھی کا قبضہ ہے۔ پریس اور نشرواشاعت کے ذرائع پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ معاشی زندگی پر بھی وہی چھائی ہوئی ہیں۔ رائے دہندوں کو دھوکے اور دھونس اور دھاندلی سے استعمال کرنے اور دھن سے خریدنے پر وہ پوری طرح قادر ہیں۔ ایک نیا اِسلام گھڑنے کے لیے وہ مختلف اشخاص اور اداروں کی ہمت افرائی کیے جا رہی ہیں۔ اور مخلوط انتخاب کے ذریعہ سے انھوں نے دستور کے اِسلامی گوشے میں نقب لگا دی ہے۔ ایک طویل کش مکش کے بعد آخر کار جو کچھ بھی مفید چیزیں اِسلامی اغراض کے لیے دستورِ مملکت میں شامل کرائی گئی ہیں ان کے کار آمد ہونے کا انحصار اب اس پر ہے کہ رہنما اصولوں پر عمل ہو، قانونی کمیشن ٹھیک کام کرے اور انتخابات کے ذریعے سے ایسے لوگ اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں جائیں جو بے دینی کے لیے کم از کم کھلی چھٹی تو نہ رہنے دیں۔ یہ تینوں باتیں سخت جدوجہد اور موجودہ سیاسی قیادت پر پیہم دبائو چاہتی ہیں۔ اگر جماعتِ اِسلامی اس میدان سے ہٹ جائے اور اِسلام کا حامی محاذ کم زور پڑ جائے تو اب تک کے سارے کیے دھرے پر پانی پھر جائے گا اور دستور کا اِسلامی حصہ محض ایک کاغذ کا پرزہ رہ جائے گا۔ بلکہ عجیب نہیں کہ وہ سرے سے حذف ہی کر دیا جائے۔ اس کے بعد بے دین قیادت خوب کھل کھیلے گی اور جماعت کی طرف سے عوام کی سرد مہری دیکھ کر وہ اس امر کی ہر ممکن کوشش کرے گی کہ یہ جماعت پھر اس مقام پر واپس نہ آ سکے جہاں سے وہ خود ایک مرتبہ پیچھے ہٹ چکی ہے۔ اس وقت اگر جماعت یہ چاہے بھی کہ اِسلامی نظام کے حق میں کوئی تحریک اٹھا کر اس رو کا رخ پھیرے تو اس میں مشکل ہی سے وہ کام یاب ہو سکے گی۔ کیوں کہ عوام کو اپنے تدبر اور معاملہ فہمی کا یہ نمونہ دکھا چکنے کے بعد ہمارا منہ کیا ہو گا کہ پھر ان کے سامنے اپیل کرنے کے لیے جائیں۔
علاوہ بریں میں جتنا بھی غور کر سکا ہوں میری سمجھ میں تو اب تک یہ بات آ نہیں سکی ہے کہ آخر اس کی مصلحت وضرورت کیا ہے۔ دعوت وتبلیغ اور اصلاح معاشرہ کی کوششوں کا حاصل کیا ہو گا اگر ساتھ ساتھ اسی کے متوازی یہ کوشش بھی نہ ہوتی رہے کہ غیر اِسلامی نظام کی حامی طاقتوں کو پیچھے دھکیل کر اِسلامی نظام کی حامی طاقتیں امر ونہی کے اختیارات پر تسلط حاصل کریں۔ اس کوشش کے نہ کرنے کا فائدہ کیا ہے اور اس کے کرنے کا نقصان کیا ہے؟ پھر یہ بات بھی میں نہیں سمجھ سکا ہوں کہ زمامِ کار کی تبدیلی کی خاطر سیاسی جدوجہد کے میدان میں اترنے کے لیے آپ اصلاح معاشرہ کے کتنے کام کی مقدار بطورِ شرط مقرر کریں گے اور کس پیمانے سے ناپیں گے کہ اس مقدار میں کام ہو چکا ہے یا نہیں ہوا؟
سیاسی جز کو معطّل کرنے کے دلائل ووجوہ ٗکا جائزہ
جہاں تک میں معلوم کر سکا ہوں، وہ وجوہ جن کی بِنا پر بعض ذہنوں میں لائحۂ عمل کے سیاسی جز کو معطل یا مؤخر کرنے کا تخیل پیدا ہوا ہے، صرف تین ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ آپ ان کا بھی اچھی طرح جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ آیا وہ ایسی کسی تجویز کے لیے واقعی معقول وجوہ ہیں۔
پہلی وجہ
پہلی اور سب سے بڑی، بلکہ اصلی وجہ جو مختلف مواقع پر میں نے سنی ہے، یہ ہے کہ ان کے نزدیک جماعت کی دینی واَخلاقی حالت گر گئی ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ پہلے سیاسی جدوجہد سے ہٹ کر کارکنوں کے اَخلاق بنائے جائیں، پھر اس میدان میں واپس آیا جائے۔
اس کے متعلق یہ عرض کروں گا کہ اگر ساری جماعت بحیثیت مجموعی بگڑ گئی ہے تو اسے توڑ دیجئے، کیوں کہ ہم بگاڑ کو سنوارنے کے لیے اٹھے تھے، بگڑی ہوئی جماعتوں میں ایک اور جماعت کا اضافہ کرنے کے لیے نہیں اٹھے تھے۔ لیکن اگر پورے مجموعے پر یہ ہمہ گیر حکم محض مبالغہ ہے اور امر واقعی صرف اس قدر ہے کہ جماعت میں کچھ افراد معیار سے گرے ہوئے پائے جاتے ہیں، تو اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ سارا قافلہ ان چند افراد کی خاطر رک کر کھڑا ہو جائے اور جب تک وہ درست نہ ہو جائیں، آگے کا سفر ملتوی رہے۔ بلکہ اسکا صحیح علاج یہ ہے کہ جماعت کے معروف طریقے کے مطابق ایسے ناکارہ لوگوں کو یا تو درست کیجئے یا پھر جماعت سے خارج کر دیجئے، مگر قافلہ کی راہ ایک لمحہ کے لیے بھی کھوٹی نہ کیجئے۔ جماعتِ اِسلامی کی تاریخ آپ کے سامنے ہے۔ یہ جماعت آخر کب اس طریقے پر عامل رہی تھی کہ جو لوگ ایک دفعہ اس کے نظام میں آ گئے ہوں وہ خواہ معیار پر قائم رہیں یا اس سے گر جائیں، ان کو ہر حال میں اپنے سینے سے چمٹائے رکھا جائے اور ناکارہ لوگوں کو نکالنے کے بجائے جماعت اپنے پروگرام ان کی وجہ سے بدل دیا کرے؟ اس نے تو اول روز سے اپنے ہاں تنقید اور محاسبہ کا طریقہ اختیار کیا تھا، تاکہ ہمیشہ کارکنوں کی حالت کا جائزہ لے کر دیکھا جاتا رہے کہ وہ کم از کم معیار جو رکنیت کے لیے مطلوب ہے، ان میں پایا جاتا ہے یا نہیں، پھر جسے بھی معیار سے گرتے دیکھا جائے اس کے تمام رفقا اسے سنبھالنے کی فکر کریں اور اگر وہ نہ سنبھلے تو پھر بادلِ نخواستہ اسے رخصت کر دیا جائے۔ اس قاعدے کے مطابق ابتدا سے جماعت میں داخلے کا سلسلہ جس طرح چلتا رہا ہے اسی طرح اخراج کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے، حتّٰی کہ ۴۴۔۴۵ء میں ایک سال کے اندر تین سو ارکان کا اخراج تک عمل میں آ چکا ہے۔{ FR 7715 } یہ قاعدہ آج بھی آپ کی جماعت میں موجود ہے اور آپ اس پر عمل کرکے جماعت کو ایسے تمام عناصر سے خالی کر سکتے ہیں جن کی دینی واَخلاقی حالت گر گئی ہو۔ ایسے لوگ اگر آپ کے اندر آج پائے جا رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی جماعت کے اس معروف قاعدے پر عمل کرنے میں کوتاہی کی ہے۔ اب یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اسے تازہ کرنے اور اس پر ٹھیک ٹھیک عملدرآمد کرنے کے بجائے ہمارے سامنے الٹی یہ تجویز لائی جاتی ہے کہ جماعت ان لوگوں کو اپنے اندر رکھنے کی خاطر اس پروگرام میں ردّوبدل کر ڈالے جو اس کے نصب العین کا لازمی تقاضا ہے۔
پھر کہتا ہوں کہ اگر اس پروگرام کے سیاسی جز کومعطّل کرنا اس لیے ناگزیر ہو گیا ہے کہ جماعت میں کچھ عناصر دینی واَخلاقی حیثیت سے گر گئے ہیں تو اس سے زیادہ ناگزیر یہ ہے کہ دعوت وتبلیغ اور اصلاحِ معاشرہ اور توسیعِ جماعت کے کام کو بھی معطّل کر دیا جائے، کیوں کہ گری ہوئی دینی واَخلاقی حالت کے ساتھ دعوتِ الی اللّٰہ کیسی اور معاشرے کی اصلاح کے کیا معنی اور صالح افراد کی تلاش وتنظیم کا کیا موقع؟ اس دلیل سے تو جماعت کا پروگرام اب صرف اپنے موجودہ ارکان کی تربیت تک محدود رہنا چاہیے اور یہ طے ہو جانا چاہیے کہ جب تک سارے ارکان پورے معیاری رکن نہ ہو جائیں، پبلک میں جا کر کوئی دعوتی یا اصلاحی یا سیاسی کام نہ کیا جائے۔ نیز یہ بھی طے ہو جانا چاہیے کہ جب بھی ارکان کی حالت کا جائزہ لینے کے بعد یہ پتہ چلے کہ تربیت کی ساری کوششوں کے باوجود پھر کچھ لوگ جماعت میں دینی واَخلاقی حیثیت سے گرے ہوئے پائے جاتے ہیں تو پھر اسی طرح سارے پروگرام معطّل کرکے جماعت تربیت گاہوں کی طرف پلٹ جایا کریگی۔ اس کے بعد یہ سوال خارج از بحث فرما دیجیے کہ یہ جماعت کبھی کوئی کام کر بھی سکے گی یا نہیں۔ میرے علم میں ایسا کوئی طریق تربیت اب تک نہیں آیا ہے جو معیارِ مطلوب کے آدمی تیار کرنے کی سو فی صدی ضمانت دیتا ہو۔ اس کی آپ جتنی چاہیں کوشش کر دیکھیں، ہر جائزہ آپ کو یہی رپورٹ دے گا کہ آپ کے درمیان ایک ناقابلِ اطمینان عنصر موجود ہے۔ بلکہ بحیثیت مجموعی پوری جماعت کے متعلق بھی ہر پہلو سے کامل اطمینان کی رپورٹ شاید آپ کبھی نہ پا سکیں گے۔ اب اگر یہ بات آپ ایک دفعہ طے کر لیں کہ ایسے جائزوں کا نتیجہ ہمیشہ آپ کے پروگراموں کو معطل کرنے ہی کی صورت میں نکلنا چاہیے تو میرے نزدیک اس کے بعد عقلمندی یہ ہے کہ آپ نظامِ زندگی کے انقلاب کی داستان لپیٹ کر رکھ دیں اور خانقاہیں بنانے کی تجویزیں سوچیں۔ اس کروفر کے ساتھ آپ اجتماعی زندگی میں کبھی کوئی مؤثر کام نہیں کر سکتے۔
یہ تو ہے اس طرز فکر کا ایک کم زور پہلو۔ دوسرا اس سے بھی زیادہ کم زور پہلو یہ ہے کہ اس تجویز میں اَخلاق بنانے اور مردانِ کار تیار کرنے کا ایک ایسا تصوّر کام کر رہا ہے جو بنیادی طور پر غلط ہے اور میرے لیے یہ بات سخت حیرانی ہی کی نہیں، پریشانی کی موجب بھی ہے کہ سالہا سال سے ہم سیرت واَخلاق کی تیاری کے جس تصوّر کی اصلاح کے لیے کوشش کر رہے ہیں وہ ہمارے دائرے میں کیسے راہ پا گیا۔ یہ کہنا کہ جماعتِ اِسلامی سیاسی جدوجہد کے میدان سے ہٹ کر پہلے کارکنوں کا اَخلاق بنائے پھر اس میدان میں قدم رکھے، اپنے پیچھے اَخلاق کی تیاری کا یہ تصوّر رکھتا ہے کہ ایک کام کے لیے جس قسم کے اَخلاق کی ضرورت ہے وہ اس کام میں پڑے بغیر کہیں باہر سے تیار کر کے لائے جا سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ تصوّر اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ خیال غلط ہے کہ کوئی آدمی پانی میں اترے بغیر بھی تیراک ہو سکتا ہے۔ عقل اس کو غلط کہتی ہے۔ بارہا کے تجربات اس کو غلط ثابت کر چکے ہیں۔ ہمارا شب وروز کا مشاہدہ اس کی تردید کر رہا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ہر کام کے لیے جس قسم کے اَخلاق مطلوب ہوتے ہیں وہ اسی کام میں پڑ کر بنتے ہیں۔ دعوت وتبلیغ کے لیے جو اَخلاق درکار ہیں وہ دعوت وتبلیغ ہی میں بنیں گے اور تجارت کے لیے جو اخلاق درکار ہیں وہ دکان اور منڈی ہی میں تیار ہونگے۔ حجروں میں بیٹھ کر آپ دس برس بھی مشق وتمرین کر لیں، دعوت وتجارت کے میدان میں قدم رکھتے ہی آپ کو محسوس ہو گا کہ یہاں جن آزمائشوں سے سابقہ ہے ان کے مقابلے میں اَخلاقی حیثیت سے آپ بالکل مبتدی کے مقام پر ہیں۔ ایسا ہی معاملہ سیاست اور انتخابات کا بھی ہے۔ اس کام کی اَخلاقی مشکلات اور اس میں اترنے کے خطرات ونقصانات کو دیکھ کر آپ یہ فیصلہ کرنا چاہیں تو کر لیجیے کہ ہمیں اس میدان سے ہمیشہ کے لیے ہٹ جانا ہے۔ مگر یہ محض ایک خام خیالی ہے کہ آپ کا ارادہ تو اس میدان میں واپس آنے ہی کا ہو، لیکن آج آپ اس لیے ہٹ جائیں کہ چند سال تک آپ کہیں وہ اَخلاق تیار کرتے رہیں گے جو سیاسی کام اور انتخابات میں حصہ لینے کے لیے درکار ہیں۔
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جتنے سال بھی آپ چاہیں اس میدان سے باہر تیاری کرتے رہیں۔ آخر کار جب آپ پلٹ کر ادھر آئیں گے تو اپنے آپ کو آج کی حالت سے کچھ بھی بہتر نہ پائیں گے۔ یہاں جو اَخلاقی قوت درکار ہے وہ باہر کسی جگہ سے بنا کر نہیں لائی جا سکتی۔ اس کا نشوونما اسی میدان میں شیطانی قوتوں سے نبرد آزمائی کرکے ہو سکتا ہے۔ اس کے ارتقا کی صورت صرف یہ ہے کہ آپ اپنے کارکنوں کو ایک نصب العین اور ایک ضابطہ اَخلاق دے کر سیاسی جدوجہد کے عرصہ کار زار میں لائیں اور پھر سخت سے سخت نازک مواقع پر انھیں اس نصب العین اور ضابطہ اَخلاق سے ہٹنے نہ دیں۔ انھیں انتخابی معرکے میں ان پارٹیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آگے بڑھائیں جو اَخلاق ودیانت کے سارے اصولوں کو توڑ کر بازی جیتنے کی کوشش کرتی ہیں اور پھر اس امر کی پوری نگرانی کرتی ہیں کہ انتخابی جنگ کی انتہائی گہما گہمی میں بھی آپ کے کارکن اَخلاق کے کسی ضابطے اور دیانت کی کسی حد کو توڑنے نہ پائیں۔ ان آزمائشوں میں جن لوگوں سے کسی لغزش کا صدور ہو، ان پر گرفت کیجئے، جو قابلِ اصلاح ہوں ان کی اصلاح کی کوشش کیجئے اوردیکھیے کہ بعد کی آزمائشوں میں وہ کیسے ثابت ہوتے ہیں اور جن کی حالت ناقابلِ اصلاح پائی جائے انھیں ہٹا کر پھینک دیجئے۔ یہ عملی تربیت اسی تربیت گاہ میں مل سکتی ہے۔ باہر کہاں آپ یہ تربیت دیں گے اور کیسے آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ اَخلاق جو اس کام کے لیے مطلوب ہیں، تیار ہوئے یا نہیں؟
جماعتِ اِسلامی کے لیے یہ کوئی نیا طریقِ تربیت نہیں ہے جو آج پہلی مرتبہ اس کے سامنے پیش کیا جا رہا ہو، بلکہ ۱۹۵۱ء کے انتخابات میں وہ اس کو آزما چکی ہے اور اس کے نتائج کا جائزہ بھی آپ کی مجلسِ شُورٰی نے لے کر جو تبصرہ ایک طویل قرارداد کی شکل میں جماعت کے انتخابی کام پرکیا تھا اس کے یہ فقرے ملاحظہ ہوں:
’’اس انتخابی جدوجہد کے دوران میں عام پبلک میں سے سترہ سو (۱۷۰۰) ایسے نئے آدمی اٹھ کھڑے ہوئے جنھوں نے ہمارے کارکنوں کا پوری طرح سے ہاتھ بٹایا اور بغیر کسی ذاتی غرض یا لالچ کے ان تمام اَخلاقی پابندیوں کے ساتھ جو ہم نے اپنے کارکنوں پر عائد کر رکھی تھیں، پوری طرح جان لڑا کر کام کیا‘‘۔
’’باوجودیکہ پنجاب کے اتنے وسیع رقبوں میں جماعت کے تین چار ہزار کارکنوں نے اتنے وسیع پیمانے پر انتخابی جدوجہد کی اور اس میں مخالف جماعتوں اور امیدواروں کی شدید بداَخلاقیوں اور بے ضابطگیوں کا ان کو مقابلہ کرنا پڑا، تاہم پولنگ کے انتہائی بحرانی زمانے میں بھی جماعت کے کارکنوں نے بحیثیت مجموعی اَخلاقی طہارت وضابطہ وقانون کی پابندی کا ایسا بے نظیر نمونہ پیش کیا جس کا اعتراف حکومت کے عمال اور مخالف پارٹیوں کے کارکنوں تک کو کرنا پڑا۔ الیکشن کے پورے کام کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ دو چار ہفتوں کے سوا پورے پنجاب میں کہیں جماعت کے کارکنوں سے کسی اَخلاقی کم زوری، یا قانون وضابطہ کے خلاف ورزی کا ارتکاب نہیں ہوا اور ان دو چار حلقوں میں بھی جماعت کے کارکن بحیثیت مجموعی اس میں ملوث نہیں ہوئے بلکہ چند منفرد کارکنوں… اور زیادہ تر نئے کارکنوں… سے اس کا صدور ہوا۔‘‘
’’خصوصیّت کے ساتھ جو چیز ہمارے لیے قابلِ اطمینان ہے وہ یہ ہے کہ اس انتخابی جدوجہد میں جتنی خواتین نے پنچایتی نمائندوں کے لیے کام کیا، انھوں نے ہر جگہ شرعی پردے کے تمام حدود کی پوری طرح پابندی کی، درآنحالیکہ ایک آدھ پولنگ اسٹیشن کے سوا پورے پنجاب کا کوئی پولنگ اسٹیشن ایسا نہیں تھا جہاں زنانہ پولنگ کے وقت حکومت اور سیاسی پارٹیوں اور مخالف امیدواروں نے پردے کے حدود کا کچھ بھی لحاظ کیا ہو۔‘‘
’’جماعت کے کارکن پہلی مرتبہ انتخاب کے میدان میں اترے تھے۔ اکثر وبیشتر کو پہلے سے انتخاب کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ اور اَخلاقی قیود اور قانون وضابطہ کی پوری پابندی کے ساتھ الیکشن لڑنے کا تو موجودہ جمہوریت کی تاریخ میں شاید یہ پہلا تجربہ تھا۔‘‘{ FR 7716 }
’’آیندہ ہر انتخاب کے موقع پر یہ بات نہ صرف کارکنانِ جماعت پر، بلکہ جماعت کی حمایت میں جو لوگ کام کریں ان پر بھی اچھی طرح واضح کر دی جائے کہ جماعتِ اِسلامی انتخاب میں کوئی نشست جیتنے کی بہ نسبت زیادہ اور بدرجہا زیادہ اہمیت اس امر کودیتی ہے کہ انتخابات کو بداَخلاقیوں اور بے ضابطگیوں سے پاک کیا جائے اور انتخابی جنگ میں اَخلاقی حدود اور قانون وضابطے کی پوری پوری پابندی کا نمونہ پیش کیا جائے۔ کیوں کہ سیاست کو صداقت اور دیانت پر قائم کرنا جماعتِ اِسلامی کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے اور اس مقصد کو ہم کسی بڑے سے بڑے وقتی فائدے پر بھی قربان کرنے کے لیے تیارنہیں ہیں۔ اس بِنا پر مجلسِ شُورٰی نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ آیندہ کسی ایسے رکن جماعت کو ہرگز معاف نہ کیا جائے جو کبھی انتخابی جدوجہد میں اَخلاق اور ضابطے کی حدود سے تجاوز کرے اور جماعت سے باہر کے جن لوگوں سے اس طرح کی حرکات کا صدور ہو آیندہ کے لیے ان کا تعاون قبول کرنے سے انکار کر دیا جائے۔‘‘{ FR 7717 }
یہ ہے وہ طریقِ تربیت جس کا آپ پہلے تجربہ کر چکے ہیں اور یہ ہیں اس کے نتائج جو آپ کی مرکزی مجلسِ شُورٰی کے ۱۷، آدمیوں نے پورے انتخابی کام کا جائزہ لینے کے بعد ایک باقاعدہ قرارداد کی شکل میں بیان کیے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں، کیا یہ نتائج واقعی ایسے دل شکن اورمایوس کن ہیں کہ انھیں دیکھ کر آپ اس طریقے کو ناکام کَہ سکیں؟ اور کیا آپ سیاست اور انتخابات کے معرکے میں اترنے کے لیے یہ شرط لگانا چاہتے ہیں کہ تین چار ہزار آدمی اگر آپ میدان میں لائیں تو ان میں سے ایک کا کام بھی معیار سے گِرا ہوا نہ پایا جا سکے؟ اور کونسا دوسرا طریقہ آپ تجویز کرتے ہیں جو اس میدان سے باہر آدمی تیار کرتا ہو اور پھر اس امر کی ضمانت دے کر انھیں میدان میں لا سکتا ہو کہ ہزار میں ایک آدمی بھی عملی تجربے میں ناقص نہ نکلے گا؟
اس طرز فکر کا ایک کم زور پہلواور بھی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جو حضرات یہ بات کہتے ہیں کہ اس وقت سیاست کے میدان سے ہٹ جائیے اور پھر چند سال اَخلاق بنانے میں صرف کرکے پوری تیاری کے ساتھ واپس آئیے، انھوں نے غالباً یہ فرض کر لیا ہے کہ ہم خلا میں کام کر رہے ہیںاور یہاں یہ بالکل آسان ہے کہ ہم جب چاہیں ایک جگہ سے ہٹ جائیں اور پھر جب چاہیں اسی جگہ آن کھڑے ہوں۔ حالانکہ امرِ واقعی جس سے ہم دوچار ہیں وہ یہ ہے کہ دس برس سے ہم سخت مزاحمتوں کے مقابلے میں اپنے نصب العین کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں، بہت سی طاقتیں ہیں جن سے ایک ایک قدم پر کش مکش کرتے ہوئے ہم اپنے موجودہ مقام پر پہنچے ہیں اور وہ مخالف طاقتیں ہر وقت ہم کو ہٹانے اور دور پھینک دینے کے لیے زور لگا رہی ہیں۔ یہ کوئی خالی میدان نہیں ہے جس میں ہم ٹہلتے ہوئے آئے ہوں اور پھر ٹہلتے ہوئے ہی واپس آ سکتے ہوں۔ یہ تو مقابلے اور کش مکش کا میدان ہے جس میں ایک قدم بھی پیچھے ہٹ جائیے تو کھوئی ہوئی جگہ پر پلٹ کر آنا آسان نہیں ہوتا۔ اس لیے یہاں سے عام پسپائی کا فیصلہ محض خیالات کی چند لہروں سے متاثر ہو کر رواداری میں نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اوّل تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ سیاسی میدان میں کام کرنے سے وہ کونسا نقصانِ عظیم ہماری تحریک کو پہنچا ہے جس کے مقابلے میں یہ پورا میدان مخالف دین اور مخربِ اَخلاق طاقتوں کے لیے خالی چھوڑ دینا کم تر درجے کا نقصان سمجھا جا سکے اور اس نقصان کو گوارا کرنا ہمارے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ دوسری یہ بات ہمارے سامنے واضح ہونی چاہیے کہ یہاں سے ہٹ کر ہم پھر یہاں واپس آ بھی سکیں گے؟ اس لیے کہ جو چند سال ہم اَخلاقی تیاریوں میں صرف کریں گے، ان میں مخالف طاقتیں بے کار نہیں بیٹھی رہیں گی ، بلکہ یہی چند برس وہ اپنی جڑیں مضبوط کرنے اور آپ کی واپسی کا دروازہ بند کرنے میں صرف کریں گی اور ان کی کوشش یہ ہو گی کہ اس ملک میں دینی نظام کے لیے جدوجہد کرنے کے مواقع حتی الامکان بالکل ختم کر دیے جائیں۔ ان دو سوالات کا کوئی اطمینان بخش جواب جب تک نہ ملے، سیاسی میدان سے پسپائی کی کوئی تجویز ہمارے لیے لائق غور بھی نہیں ہو سکتی، کجا کہ آنکھیں بند کرکے اسے صرف اس لیے قبول کر لیا جائے کہ جماعت کی اَخلاقی حالت گر جانے کا ایک خطرہ ہمارے سامنے پیش کر دیا گیا ہے جو بجائے خود واقع کے اعتبار سے بھی نہایت مبالغہ آمیز ہے۔
دوسری و جہ
دوسری وجہ اس تجویز کے حق میں یہ پیش کی جاتی ہے کہ ہمارے پاس وہ لوگ تیار نہیں ہیں جو نظامِ حکومت کو اِسلامی طرز پر چلانے کے لائق ہوں۔ اس حالت میں اگر محض سیاسی جدوجہد سے قیادت میں کوئی تبدیلی ہو بھی جائے تو آخر وہ لوگ ہم کہاں سے لائیں گے جو ریاست کے مختلف شعبوں کی صورت گری وراہ نُمائی اِسلامی اصولوں کے مطابق کر سکیں؟ اس لیے ہمیں پہلے وہ تدابیر اختیار کرنی چاہییں جن سے ہر شعبہِ زندگی کے لیے موزوں معماروں اور لیڈروں کی ایک کھیپ تیار ہو جائے۔ پھر تبدیلی قیادت کی جدوجہد باموقع بھی ہو گی اور نتیجہ خیز بھی۔
یہ استدلال خود ظاہر کر رہا ہے کہ اس سارے معاملے کو بڑے ہی سطحی انداز میں سوچا گیا ہے۔ اس کی پشت پر کئی غلط مفروضے کام کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کے ذہن میں یہ استدلال پیدا ہوا ہے انھوں نے یہ فرض کر لیا ہے کہ یہاں صرف تبدیلی قیادت کے لیے ایک سیاسی جدوجہد ہی کی جا رہی ہے، اس کے ساتھ کوئی تحریک، ذہنی وفکری اور اَخلاقی تبدیلی کے لیے کام کرنے والی نہیں ہے۔ انھوں نے یہ بھی فرض کر لیا ہے کہ سیاسی جدوجہد سے انقلابِ قیادت اچانک رونما ہو جائے گا اور یکبارگی یہ سوال عملاً ہمارے سامنے آ کھڑا ہو گا کہ زمامِ کار تو اِسلامی نظام کے حامیوں کے ہاتھ میں آ گئی ہے، اب اس نظام کے مطابق تعمیر نو کے لیے آدمی کہاں سے لائے جائیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے ایک تیسری بات یہ بھی فرض کر لی ہے کہ نظامِ زندگی کی تبدیلی کے لیے جو تحریک کسی ملک میں کام کر رہی ہو اسے پہلے کہیں الگ بیٹھ کر اپنے نظامِ مطلوب کے لیے آدمی تیار کرنے چاہییں اور جب اس کے پاس مختلف شعبوں کو چلانے کے لیے ڈائریکٹروں، مدبروں، سپہ سالاروں اور دوسرے ماہرین کی ایک کافی تعداد تیار ہو جائے تب اسے نظامِ مملکت کا چارج لینے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ تین مفروضے جب تک صحیح نہ ہوں، ان پر تعمیر کردہ استدلال صحیح نہیں ہو سکتا اور میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص تھوڑے سے غور وفکر سے بھی کام لے گا وہ محسوس کرے گا کہ یہ تینوں ہی مفروضے غلط ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اچانک تبدیلی تو خفیہ سازشی تحریکوں اور مسلح انقلاب کے ذریعہ سے بھی کم ہی رونما ہوتی ہے، کجا کہ جمہوری طریقوں سے رونما ہو جائے۔ اصول اور نظریات کی بنیاد پر نظامِ زندگی کی تبدیلی کے لیے جو تحریکیں جمہوری اور آئینی طریقوں سے جدوجہد کرتی ہیں ان کے نتیجے میں ہر تبدیلی بتدریج اور رفتہ رفتہ ہوتی ہے اور کبھی یکبارگی یہ سوال ان کے لیے پیدا نہیں ہوتا کہ نظام تو بدل گیا ہے مگر اس کے چلانے والے آدمی موجود نہیں ہیں۔ واقعات کی دنیا میں صورتِ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ یعنی نظام بدلتا ہی اس وقت ہے جبکہ آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کی رائے، ذہنیت، طرز ِفکر اور معیارِ پسند وناپسند میں تغیر رونما ہو جاتا ہے اور یہ تغیر آپ سے آپ اس بات کی ضمانت ہوتا ہے کہ اسی آبادی میں سے، جس نے یہ تغیر قبول کیا ہے، نئے نظام کو چلانے والے آدمی فراہم ہوجائیں گے۔
اس تغیر کی رفتار بہت سست ہوتی ہے جبکہ اس کے لیے کوشش کرنے والی تحریک زندگی کے بھڑکتے ہوئے مسائل ومعاملات میں دخل دینے اور مخالف تحریکوں اور طاقتوں کے ساتھ زور آزمائی کرنے سے گریز کرے۔ کیوں کہ اس صورت میں تھوڑے لوگ ہی اس کو مجرد اس کے خیالات اور اس کی ٹھنڈی ٹھنڈی تعمیری کوششوں کی بنا پر قابل اعتنا سمجھتے ہیں۔ لیکن جب وہ اپنے نظریات کی تبلیغ ودعوت کے ساتھ آگے بڑھ کر ہر عملی مسئلے میں دخل دیتی ہے، اس میں اپنا نقطہ نظر دلائل کے ساتھ پیش کرتی ہے، مخالف قوتوں کی فکر وعمل پر مدلّل تنقید کرتی ہے اور عملاً ان کے مقابلہ میں کش مکش شروع کر دیتی ہے، تو روز بروز آبادی کا زیادہ سے زیادہ حصہ اس کی طرف متوجہ ہوتا چلا جاتا ہے اور اگر اس کی تنقید اور تعمیری فکر اور سیرت وکردارمیں کوئی جان ہوتی ہے تو ہر شعبہِ زندگی میں کام کرنے والے لوگ اس کے ہم خیال بنتے چلے جاتے ہیں۔ کش مکش اور خصوصاً جبکہ وہ زندگی کے عملی مسائل پر ہو، لمبی چوڑی کتابوں کے بغیر خود لوگوں کو یہ سمجھا دیتی ہے کہ آپ جس چیز کو توڑنا چاہتے ہیں اس میں کیا خرابی ہے اور جو کچھ بنانا چاہتے ہیں وہ کیا ہے اور کن اصول ونظریات پر مبنی ہے۔ اس کا کم از کم ایک واضح خلاصہ ہر اس شخص کا ذہن اخذ کر لیتا ہے جو ماحول میں سانس لے رہا ہو اور کش مکش جتنی بڑھتی جاتی ہے اتنے ہی زیادہ لوگ اس سے متاثر ہو کر اپنی اپنی استعداد کے مطابق تبدیلی قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔
اس طرح کی ایک تحریک کو کبھی اس کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ کہیں باہر سے آدمی تیار کرکے لائے۔ وہ اپنی تبلیغ اور اپنی جدوجہد کی تاثیر سے بنے بنائے آدمیوں کو تبدیل (Convert) کرکے اپنا ہم خیال وہم نوا بنا لیتی ہے اور اس کی یہ تبلیغ اور جدوجہد چوں کہ کسی خلا میں نہیں ہوتی بلکہ اسی معاشرے میں ہوتی ہے، اس لیے کوئی شعبہِ حیات ایسا نہیں رہ جاتا جس میں کام کرنے والے لوگ اس کے پھیلائے ہوئے اثرات سے کم وبیش متأثر نہ ہوتے ہوں۔ یہ متاثرین اس وقت کام آتے ہیں جب تحریک کی تدریجی ترقی سے ایک وقت عملاً قیادت تبدیل ہو جاتی ہے۔
پھر یہ خیال بھی غلط ہے کہ کسی نظام کو چلانے والے لوگ کہیں الگ سے تیارکر کے لائے جا سکتے ہیں۔ یہ چیز کسی کارخانے میں ڈھلنے والی یا کسی معمل (لیبارٹری) میں تیار ہونے والی نہیں ہے۔ برسوں کے تجربے اور عملی کام سے اس طرح کے لوگ تیار ہوا کرتے ہیں۔ اس سوال کو تھوڑی دیر کے لیے جانے دیجیے کہ آپ وہ وسائل کہاں سے فراہم کریں گے جن سے اعلیٰ درجے کے مدبرین ومنتظمینِ مملکت تیار کرنے والے ادارے قائم کر سکیں۔ اس کو ممکن تسلیم کرکے بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ان اداروں میں تعلیم وتربیت پائے ہوئے لوگ کیا پہلا ہی قدم ہر شعبے اور محکمے کی مسندِ صدارت پر رکھنے کے قابل ہوں گے؟
مزید برآں ہمارا ملک جس جمہوری طرز پر چل رہا ہے، اس میں نظامِ زندگی کی تبدیلی لانے کے لیے بہرحال یہ ناگزیر ہے کہ ہمارے ارکان اور متفقین کی ایک کثیر تعداد عملاً اس جمہوری طرزِ حکومت کی پوری مشینری سے واقف ہو اور اس کے کام چلانے میں مہارت پیدا کرے۔ یہ واقفیت اور مہارت کہیں باہر سے حاصل کرکے نہیں لائی جاسکتی، اسی کام میں پڑ کر بتدریج پیدا کی جا سکتی ہے۔ انتخابی کام کے تجربہ کار خود انتخابات ہی میں تیار ہوں گے۔ پارلیمنٹرین، پارلیمنٹ میں جا کر ہی بنیں گے۔ حکومت کے مختلف شعبوں میں بصیرت اسی وقت پیدا ہو گی جبکہ ایوانِ ریاست میں جا کر آپ کے کارکنوں کو براہِ راست ملک داری کے مسائل ومعاملات سے دوچار ہونے کا موقع ملے۔ اس کام کو جتنی مدت بھی آپ چاہیں ملتوی کر لیں، بہرحال جب بھی آپ اس طرح آئیں گے بسم اللّٰہ ہی سے آپ کو آغاز کرنا پڑے گا۔ کوئی وقت ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ ساری مہارتیں اور بصیرتیں کہیں سے پیدا کئے ہوئے آئیں اور آتے ہی بس مملکت کا چارج لے لیں۔
اب رہ جاتا ہے یہ مفروضہ کہ یہاں محض سیاسی جدوجہد ہی سے قیادت کی تبدیلی چاہی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ کوئی متوازی کوشش ذہنی وفکری اور اَخلاقی تبدیلی کے لیے نہیں ہو رہی ہے، تو اس کے متعلق میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ خلافِ حقیقت باتوں پر استدلال کی عمارت اٹھانا اس نقطہِ نظر کی کم زوری کا پہلا نشان ہے، جس کے حق میں استدلال کا یہ طریقہ اختیار کیا جائے۔ آخر کون آدمی، جو جماعتِ اِسلامی کے حالات سے واقف ہے، انصاف کے ساتھ یہ کَہ سکتا ہے کہ ہم آج تک محض سیاسی جدوجہد کے ذریعہ سے تبدیلی قیادت کے لیے کوشاں رہے ہیں؟ اور کون ہمارے اس چار نکاتی لائحۂـ عمل کو، جو اس وقت زیر ِبحث ہے، یہ معنی پہنا سکتا ہے کہ آیندہ کے لیے ہم ایسا کوئی نقشہ کار بنا رہے ہیں؟ ہمارا تو سارا منصوبہ یہی ہے کہ ایک طرف منظم طریقے سے وسیع پیمانے پر ذہنی وفکری اور اَخلاقی تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے، دوسری طرف قیادت بدلنے کے لیے سیاسی میدان میں لادینی نظام کی ان طاقتوں کے خلاف کش مکش کی جائے جو اس وقت زمامِ کار پر قابض ہیں یا آیندہ قابض ہونا چاہتی ہیں۔ اور یہ منصوبہ ہم نے اختیار ہی یہ سمجھتے ہوئے کیا ہے کہ اس طرح جس تدریج کے ساتھ زمامِ کار تبدیل ہو گی اسی کے مطابق ساتھ کے ساتھ نئے نظام کے چلانے والے بھی تیار اور فراہم ہوتے چلے جائیں گے۔ اب اگر کوئی شخص اس منصوبے سے سیاسی جدوجہد کے عنصر کو نکالنا چاہتا ہو تو اسے سیدھی طرح یہ بتانا چاہیے کہ وہ کیسے اور کہاں وہ مردان کار تیار کرے گا جن کی تیاری وفراہمی اس کی رائے میں سیاسی جدوجہد شروع کرنے کے لیے شرط مقدم ہے۔ یہ سیدھی راہ چھوڑ کر ایک بالکل خلافِ واقعہ مفروضے کا سہارا لینا کسی طرح درست نہیں ہے۔
تیسری وجہ
ایک اور وجہ اس تجویز کے لیے یہ بیان کی جاتی ہے کہ ابھی تو ہم نے علمی میدان میں اس درجے اور پیمانے کا کوئی کام کیا ہی نہیں ہے جو فکری ونظری قیادت بدلنے کے لیے کافی ہو سکے۔ اور فکری ونظری قیادت بدلے بغیر سیاسی قیادت بدلنا نہ تو ممکن ہی ہے اور نہ مفید۔ اس لیے ہمیں سیاسی قیادت کی تبدیلی کاخیال چھوڑ کر اپنی پوری قوت علمی کام پر صرف کرنی چاہیے۔ آخر کار جب ہم علوم وفنون کی وہ ساری بنیادیں ڈھا دیں گے جو موجودہ لادینی تہذیب کی اساس بنی ہوئی ہیں اور اس سے خود بخود ایک انقلاب رونما ہو گا جو سیاست سمیت ہر شعبہِ زندگی میں قیادت کو تبدیل کر دے گا۔
یہ دراصل ایک دوسری ہی نوعیت کا نقشہِ کار ہے جسے اگر اختیار کرنا ہو تو آپ کو اپنی تحریک کے لائحہ عمل سے اس کا صرف چوتھا جز ہی خارج نہیں کرنا ہو گا، بلکہ باقی تینوں اجزا کو بھی ختم کر دینا ہو گا۔ کیوں کہ اس نقشے کی رو سے تو دعوتِ عام، تنظیم افراد صالح اور اصلاحِ معاشرہ کا کام بھی قبل از وقت اور محض لاحاصل ہے۔ یہی نہیں، بلکہ پچھلے پندرہ بیس سال میں ہم اپنے نصب العین کے لیے جو کچھ بھی کرتے رہے ہیں وہ سب فضول تھا اور محض ناسمجھی کی وجہ سے ہم ایک غلط راستے پر پڑ گئے تھے۔ اس کے بجائے جو کچھ ہمیں کرنا چاہتے تھا اور جو کچھ اب کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ایک عظیم الشان اکیڈیمی قائم کریں جو علوم کی تحقیق وتنقید اور تدوینِ جدید کا کام شروع کرے، پھر جب یہ اکیڈیمی اپنے نتائجِ عمل سے ہم کو اس حد تک مسلح کر دے کہ ہم ایک یونی ورسٹی قائم کر سکیں تو ہمیں دوسرا قدم اس کی تاسیس کا اٹھانا چاہیے۔ اس کے بعد جو کچھ کرنا ہو گا اسے ابھی سے سوچنے کی کوئی حاجت نہیں، کیوں کہ ۶۰۔۷۰ برس تک کے لیے تو یہ پروگرام ہمارے پاس موجود ہی ہے! رہی یہ بات کہ ایک نظام کی گود میں بیٹھ کر دوسرے نظام کے لیے یہ انقلاب انگیز تعمیری ادارے کہاں اور کن وسائل سے قائم ہوں گے اور غالب نظام کا ہمہ گیر استیلا ان کو کام کرنے کا موقع کس حد تک دے گا اور خود اس نظام غالب کے اپنے وسیع وعمیق علمی وفکری اثرات اس مدت میں کس پیمانے پر اپنا کام کر چکے ہوں گے، تو یہ دو سوالات ہیں جو اس عالمِ خیال میں سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے جہاں بیٹھ کر یہ نقشہ کار سوچا گیا ہے۔
دراصل یہ محض ایک سرسری تخیل ہے جسے اچھی طرح سمجھے بغیر اور پھر غور وفکر کی زحمت اٹھائے بغیر ناپختہ حالت میں پیش کر دیا گیا ہے۔ میں چند الفاظ میں اس پر تنقید کرکے بتائوں گا کہ اس میں خامی کیا ہے’ اور جس چیز کی ضرورت کا اس میں اظہار کیا جا رہا ہے وہ ہماری تحریک میں پہلے ہی کس طریقے سے پوری ہو رہی ہے۔
اس میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ کسی نظریہ حیات کے مطابق سیاسی انقلاب رونما ہونے کی واحد صورت یہ ہے کہ اس سے پہلے اس نظریّے کے مطابق فکری انقلاب رونما ہو جائے۔ حالانکہ ایسا ہونا کچھ ضروری نہیں ہے۔ خود ہمارے ملک میں انگریزوں نے آ کر پہلے خالص سیاسی تدبیروں سے اقتدار پر قبضہ کیا، پھر اسی ملک کے ذرائع ووسائل سے کام لے کر اپنے نظریہِ حیات کے مطابق افکار، اَخلاق، اطوار، تہذیب، تمدن، ہر چیز کی دنیا بدل ڈالی۔ یہاں یہ فکری وتہذیبی انقلاب سیاسی انقلاب کی علّت نہیں بلکہ اس کا نتیجہ تھا۔ اِسلام کی اپنی تاریخ بتاتی ہے کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ابتداً صرف ایک مٹھی بھر جماعت، اِسلامی طرزِ فکر کی حامل تیار کی تھی۔ اس کے بعد سیاسی انقلاب فکری واَخلاقی انقلاب کے ساتھ اس طرح متوازی چلتا رہا کہ دونوں کی تکمیل ایک ساتھ واقع ہوئی۔ وہاں ان دونوں قسم کی مساعی کو ہم ایک دوسرے کا ایسا مددگار پاتے ہیں کہ ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا سیاسی انقلاب، فکری واَخلاقی انقلاب کا نتیجہ تھا یا فکری واَخلاقی انقلاب، سیاسی انقلاب کا نتیجہ۔ اس لیے یہ بات ایک کلیہ کے طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ سیاسی انقلاب کے لیے فکری انقلاب لازماً ایک شرط مقدّم ہے۔ درحقیقت جس چیز کو شرط مقدم کہا جا سکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ایک ایسا منظم گروہ موجود ہو یا پیدا ہو جائے جو ایک فکر کا حامل بھی ہو اور اس فکر کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ ایسا گروہ جب وجود میں آ جائے تو پھر یہ امر حالات اور مواقع پر منحصر ہے کہ وہ اپنے مقصود کی طرف کس راستے سے بڑھے۔ اگر سیاسی تغیر ممکن ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ محض ایک خیالی نظریہ کی بنا پر وہ اس امکان سے فائدہ اٹھانے میں تامل کرے۔ وہ ایسا کر سکتا ہے کہ اقتدار اور وسائل کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد پورے نظامِ زندگی کو اپنے نقطہِ نظر کے رخ پر موڑنے کی ویسی ہی کوشش کرے جیسی انگریز یہاں بڑی کام یابی کے ساتھ کرکے دکھا چکے ہیں اور انبیائے کرام میں بھی اس طریق کار کی مثال حضرت یوسف علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ میں ملتی ہے اسی طرح وہ یہ بھی کر سکتا ہے کہ فکری انقلاب اور سیاسی تغیر کی ایک ساتھ کوشش کرے، یعنی جس قدر فکری طاقت دعوت پھیلانے سے حاصل ہو اسے سیاسی تغیر کے لیے استعمال کرے اور جتنی طاقت سیاسی تغیر کی سعی وجہد سے حاصل ہو اس سے فکری انقلاب کو اور زیادہ وسیع وعمیق کرنے کی کوشش کرتا چلا جائے۔ یہ وہ طریقِ کار ہے جو ہجرت کے بعد نبی a نے اختیار فرمایا۔
دوسری ایک غلط بات اس خیالی نقشہِ کار میں یہ فرض کی گئی ہے کہ فکری انقلاب برپا کرنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم تحقیق وتدوینِ علوم کے ادارے قائم کرکے اپنے نظریہ حیات کے مطابق ایک پورا نظام فکر تفصیلاً مرتب کر دیں، پھر اپنے تعلیمی ادارے قائم کرکے ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی پیدا کریں جو اس نظامِ فکر کے مطابق ذہنی تربیت پائے ہوئے ہوں۔ حالانکہ اس مقصد کے حصول کا یہی ایک طریقہ نہیں ہے۔ اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم جس نظام کو بدلنا چاہتے ہیں اس کی خرابیاں اور جس نظام کو لانا چاہتے ہیں اس کے امتیازی خدوخال مجمل مگر واضح اور مدلل وموثر طریقے سے پیش کرکے ایک عملی جدوجہد کا آغاز کر دیں۔ پھر زندگی کے تمام اہم مسائل، جو وقتاً فوقتاً ملک کو درپیش ہوں، بروقت دخل دے کر اپنے نقطۂ نظر کی ترجمانی کریں اور اسی بنیاد پر مخالف نظریات کے مقابلے میں اپنے نظریّے کو غالب کرنے کی کوشش کرتے چلے جائیں، یہاں تک کہ یہ کش مکش اس قدر عام، اس قدر سنجیدہ اور اس قدر نمایاں ہو جائے کہ معاشرے کا کوئی طبقہ اس کی طرف توجہ کئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس طریقے سے لازماً ایک عام فکری حرکت رونما ہو گی جس سے معاشرے کے دوسرے طبقات کی طرح اہل علم، اہل قلم، اصحاب درس وتدریس اور زیر تعلیم نوجوان بھی متاثر ہوں گے۔ یہ حرکت جہاں کچھ لوگوں کو ہماری مخالفت پر ابھارے گی، کچھ دوسرے لوگوں کا زاویہ فکر ونظر ہماری موافقت میں بھی تبدیل کرے گی۔ اور یہی بدلے ہوئے ذہن آخر کار خود اپنی افتاد طبع سے وہ علمی اور تعلیمی خدمت انجام دینا شروع کر دیں گے جس کی ضرورت ظاہر کی جا رہی ہے۔ ان میں سے جو جس شعبہ علم سے متعلق ہو گا اور جس پوزیشن میں بھی کام کر رہا ہو گا، وہاں اس کی قابلیتیں اسی سمت میں کام کریں گی جس پر ایک ابتدائی فکری حرکت اسے موڑ چکی ہو گی، اس کے بعد جب یہ کش مکش اور زیادہ ترقی کرکے ملک کے سیاسی نظام میں تغیر پیدا کرنا شروع کر دے گی تو ہمیں اپنے ادارے الگ قائم کرنے کی حاجت نہ رہے گی۔ یہی محکمہ تعلیم یہی مدرسے، یہی کالج، یہی یونی ورسٹیاں اور مختلف قسم کی تربیتوں کے یہی سرکاری ادارے جو آج موجودہیں وہ کام کرنے لگیں گے جس کے لیے ایک ادارہِ تحقیقات اور ایک درس گاہ کی ضرورت ظاہر کی جا رہی ہے۔
اب یہ کہنے کی حاجت نہیں کہ ہم کئی سال سے اسی دوسرے طریقے پر فکری انقلاب لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہماری یہ کوشش ایک طرف عمومی اصلاح اور دوسری طرف سیاسی تغیر کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ متوازی چل رہی ہے۔ اگر عملاً یہ ممکن ہوتا اور اس کے لیے ذرائع ووسائل بہم پہنچتے تو ہم ضرور ایک نہیں، متعدد تحقیقی اور تعلیمی ادارے اب تک قائم کر چکے ہوتے۔ آج بھی اس کے مواقع ہمیں مل جائیں تو ہم یہ کام کرنے میں ایک لمحہ کے لیے بھی تامّل نہ کریں۔ کیوں کہ یہ کام ہماری اسکیم میں شامل ہے اور اس کی ضرورت اور اس کے فائدے سے ہم نہ کبھی غافل تھے، نہ اب غافل ہیں۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ کام اسی صورت میں مفید ہے جبکہ یہ اس ہمہ گیر اصلاح وتغیر کی جدوجہد کے ساتھ چلے جس میں ہم کئی سال سے منہمک ہیں۔ اس کو روک کر صرف ایک علمی کام ہی پر اپنی مساعی کو مرکوز کر دینا ہماری نگاہ میں ایک بڑی نادانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ صرف یہ کہ جو کچھ ہم نے اب تک کیا ہے وہ بھی ضائع ہو اور جو کچھ ہم آگے بنانا چاہیں وہ بھی شاید نہ بنا سکیں۔
یہ ہے ان وجوہ ودلائل کی کل کائنات جو تحریک اِسلامی کے لائحہ عمل میں سے اس کے سیاسی جز کو خارج یا سردست ملتوی رکھنے کے حق میں اب تک مجھے معلوم ہو سکے ہیں۔ ان کے سوا اگر اور بھی کچھ وجوہ ہوں تو ہم سب ضرور ان کو معلوم کرنا چاہیں گے اور ٹھنڈے دل سے ان پر غور کریں گے۔ لیکن یہ وجوہ جن پر ابھی میں نے آپ کے سامنے تبصرہ کیا ہے، ایسی کسی تجویز کے لیے میرے نزدیک کسی پہلو سے بھی کافی نہیں ہیں۔ بہرحال آخری فیضلہ اجتماع ارکان کے اختیار میں ہے کہ وہ انھیں کافی تسلیم کرتا ہے یا نہیں۔
……٭٭٭……
نکتۂ ہشتم
اس بحث کے بعد قرار داد کے آٹھویں نکتے پر کچھ زیادہ گفتگو کرنے کی حاجت نہیں رہتی جس میں دو باتوں پر یکساں زور دیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ لائحہِ عمل کے ان چاروں اجزا پر توازن کے ساتھ کام کرنا ضروری ہے۔ دوسرے یہ کہ توازن قائم نہ رہنے کو کسی حالت میں اس امرکے لیے دلیل نہ بنایا جا سکے گا کہ ان اجزا میں سے کسی جز کو ساقط یا مؤخر کر دیا جائے۔
توازن کی اہمیت
ان میں سے پہلی بات کے متعلق صرف یہ کہنا کافی ہے کہ یہ لائحہ عمل جس اسکیم پر مبنی ہے اس کی کام یابی کا سارا انحصار ہی اس کے توازن پر ہے۔ اس کا ہر جز دوسرے اجزا کا مددگار ہے، اس سے تقویت پاتا ہے اور اس کو تقویت بخشتا ہے۔ آپ کسی جز کو ساقط یا معطّل کریں گے تو ساری اسکیم خراب ہو جائے گی۔ اور اس کے اجزا کے درمیان توازن برقرار نہ رکھیں گے تب بھی یہ اسکیم خراب ہو کر رہے گی۔ کام یابی کی صورت صرف یہ ہے کہ ایک طرف دعوت وتبلیغ جاری رکھئے تاکہ ملک کی آبادی زیادہ سے زیادہ آپ کی ہم خیال ہوتی چلی جائے۔ دوسری طرف ہم خیال بننے والوں کو منظم اور تیار کرتے جائیے تاکہ آپ کی طاقت اسی نسبت سے بڑھتی جائے جس نسبت سے آپ کی دعوت وسیع ہو۔ تیسری طرف معاشرے کی اصلاح وتعمیر کے لیے اپنی کوششوں کا دائرہ اتنا ہی بڑھاتے چلے جائیے جتنی آپ کی طاقت بڑھے۔ تاکہ معاشرہ اس نظامِ صالح کو لانے اور سہارنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار ہوجائے جسے آپ لانا چاہتے ہیں۔ اور ان تینوں کاموں کے ساتھ ساتھ ملک کے نظام میں عملاً تغیر لانے کے آئینی ذرائع سے بھی پورا پورا کام لینے کی کوشش کیجئے تاکہ ان تغیرات کو لانے اور سہارنے کے لیے آپ نے معاشرے کو جس حد تک تیار کیا ہو اس کے مطابق واقعی تغیر رونما ہو سکے۔ ان چاروں کاموں کی مساوی اہمیت آپ کی نگاہ میں ہونی چاہیے۔ ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کا غلط خیال آپ کے ذہن میں پیدا نہ ہونا چاہیے۔
ان میں سے کسی کے بارے میں غلو کرنے سے آپ کو برہیز کرنا چاہیے۔ آپ کے اندر یہ حکمت موجود ہونی چاہیے کہ اپنی قوتِ عمل کو زیادہ سے زیادہ صحیح تناسب کے ساتھ ان چاروں کاموں پر تقسیم کریں۔ اور آپ کو وقتاً فوقتاً یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ہم کہیں ایک کام کی طرف اس قدر زیادہ تو نہیں جھک پڑے ہیں کہ دوسرا کام رک گیا ہو، یا کم زور پڑ گیا ہو۔ اسی حکمت اور متوازن فکر اور متناسب عمل سے آپ اس نصب العین تک پہنچ سکتے ہیں جسے آپ نے اپنا مقصدِ حیات بنایا ہے۔
عدم توازن کے دعوے کو لائحہِ عمل کی تبدیلی کے لیے دلیل نہیں بنایا جا سکتا
اب رہی دوسری بات جو اس نکتے میں کہی گئی ہے، تو اسے سمجھنے کے لیے کچھ بہت زیادہ غور و فکر کی بھی حاجت نہیں ہے۔ ایک سیدھی اور صاف بات ہے جسے سیدھے اور صاف طریقے سے ہر صاحب عقل آدمی آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے۔ توازن ایک عقلی چیز ہے، کوئی مادی چیز نہیں ہے جسے ناپ تول کر فیصلہ کیا جا سکے کہ وہ برقرار رہا یا نہ رہا۔ ایک شخص جماعت کے حالات اور کام کو دیکھ کر یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ برقرار نہیں رہا ہے۔ دوسرا شخص یہی سب کچھ دیکھ کر رائے قائم کر سکتا ہے کہ وہ پوری طرح برقرارہے، یا اس سے زیادہ نہیں بگڑا ہے جتنا اجتماعی کاموں میں اس کا بگڑ جانا ایک فطری امر ہے۔ ایسی ایک چیز کو، جس کا مدار اندازوں پر ہو اور جس میں مختلف لوگوں کے اندازے مختلف ہو سکتے ہیں، اس حد تک اہمیت دینا صحیح نہیں ہو سکتا کہ جماعت میں ہر وقت اس کی بنیاد پر لائحہ عمل کی شکست وریخت کا دروازہ کھلا رہے اور آئے دن اس کے بدلنے اور نئے سرے سے بنانے کی بحثیں اٹھتی رہیں۔ تاہم اگر توازن کے متعلق ناپ تول کر کوئی ایسا فیصلہ کرنا ممکن بھی ہو جس میں دو رایوں کی گنجائش نہ رہے، تب بھی ایک قسم کے عدم توازن کو دوسری قسم کا عدم توازن پیدا کرنے کے لیے دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے وہ بس یہی ہے کہ اگر توازن بگڑ گیا ہے تو اس کو پھر سے قائم کرنے کی کوشش کی جائے، نہ یہ کہ اگر اب تک ایک رخ پر توازن بگڑا رہا ہے تو اب اسے دوسرے رخ پر بگاڑ دیا جائے۔
اس معاملے کو آپ ایک مثال سے بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ ایک نسخہ ہے جس میں چار اجزا مساوی الوزن رکھے گئے ہیں۔ کچھ مدت کے بعد آپ پر منکشف ہوتا ہے کہ آپ ایک جز کی مقدار بہت زیادہ استعمال کرتے رہے ہیں اور بقیہ تین اجزا کا تناسب آپ کے زیر استعمال مرکب میں کم ہو گیا ہے۔ اب کوئی اناڑی طبیب ہی ہو گا جو آپ کو یہ مشورہ دے گا کہ آیندہ چھ مہینے تک آپ صرف وہی تین اجزا استعمال کرتے رہیں جو مقررہ مقدار سے کم استعمال ہوئے ہیں اور چوتھے جز کو سرے سے ساقط کر دیں۔
توازن کی بحث میں ایک بڑی غلط فہمی
اس توازن کی بحث میں غلط فہمی کی ایک اور وجہ بھی ہے جسے نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ عموماً جب کوئی صاحب یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جماعت کے کام میں لائحہ ِعمل کے چاروں اجزا کا توازن قائم نہیں رہا ہے تو ان کی گفتگو سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس کے ہر جز پر عمل صرف وہی ہے جو اس خاص جز کے نام سے کیا جائے۔ مثلاً دعوت کا کام وہ صرف اس کوشمار کریں گے جس پر ’’دعوت‘‘ کا عنوان لگا ہوا ہو اور اصلاح معاشرہ کا کام ان کے خیال میں صرف وہ ہو گا جو اس مخصوص نام کے ساتھ کیا گیا ہو۔ رہے وہ کام جن پر ’’سیاست‘‘ کا عنوان چسپاں ہو تو وہ اسے ’’سیاسی کام‘‘ کے خانے میں ڈال دیں گے اور یہ تسلیم نہ کریں گے کہ اس عنوان کے تحت دعوت، توسیعِ نظام اور اصلاحِ معاشرہ کا بھی کوئی کام ہوا ہے۔ اس طرح بعض لوگوں نے مختلف عنوانات کے خانوں میں جماعت کے کام کو تقسیم کر رکھا ہے اور زیادہ تر یہی چیز ان کے اس دعوے کی بنیاد ہے کہ جماعت کا سیاسی کام اس کے دوسرے کاموں سے بہت بڑھ گیا ہے۔ حالانکہ ہم جو اپنے لائحہِ عمل میں چار عنوانوں پر کام کو تقسیم کرکے بیان کرتے ہیں تو وہ صرف یہ سمجھانے کے لیے ہے کہ زندگی کے کن کن گوشوں میں ہمیں کن مقاصد کے لیے سعی کرنی ہے، اس کا یہ مطلب کبھی نہیں ہوتا اور نہیں ہو سکتا کہ عملاً بھی یہ الگ الگ کام ہوں گے۔ واقعہ کے اعتبار سے تو ان میں سے ہر کام ایسا ہے جس میں آپ سے آپ بقیہ سارے کام بھی شامل ہوتے ہیں۔ جب آپ دعوت کا کام کریں گے تو وہ مذہبی واعظوں کے طرز پر صرف دعوت ہی نہ ہو گی بلکہ توسیعِ دعوت نظام اور اصلاحِ معاشرہ کا مقصد بھی اس کے ساتھ خود بخود پورا ہو گا اور یہی آپ کا کام، سیاسی پارٹیوں کے طرز پر محض سیاسی کام ہی نہ ہو گا، بلکہ اس کا افتتاح ہی دعوت دین سے کیا جائے گا اور اس کے اندر لازماً توسیعِ دعوت اور اصلاحِ معاشرہ کے عناصر بھی شامل ہوں گے۔
مثال کے طور پر اسی انتخابی کام کو لیجیے جو ۵۱ء میں ہم نے کیا تھا۔ اس کے متعلق اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ صرف سیاسی کام تھا تو یہ اس کی اپنی سمجھ کا قصور ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس انتخابی مہم میں دعوت دین پھیلانے کا کام جتنے وسیع پیمانے پر کیا گیا تھا اس کی کوئی دوسر ی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس وقت جو منشور شائع کیا گیا تھا اسے پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ اگر اس پر دعوت کا اطلاق نہ ہوتا ہو تو میں نہیں سمجھتا کہ پھر کس چیز پر اس نام کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ اور اس وقت جو تقریریں کی گئی تھیں ان کے مضامین پر بھی غور کر لیجیے۔ آخر ان میں سے کونسی تقریر دین کی بنیادی دعوت سے خالی تھی؟ اسی طرح اس وقت انتخابی مہم کی بدولت نظامِ جماعت کی توسیع کا جو کام ہوا وہی تو آخر کار دور درازکے دیہاتی علاقوں تک میں مستقل حلقائے متفقین کی تنظیم کا ذریعہ بنا۔ پھر اصلاحِ معاشرہ کا اس سے بڑا کام اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس انتخابی مہم میں سابق پنجاب کی ڈیڑھ ہزار بستیوں کے پچاس ہزار باشندوں کو اس بنیاد پر منظم کر لیا گیا کہ وہ اِسلامی نظام کے قیام کا مقصد سامنے رکھ کر اپنی نمائندگی کے لیے نیک آدمی تلاش کریں، تقریباً ۱۷ سو بالکل نئے کارکن انھی بستیوں میں سے نکال لیے گئے جنھوں نے اَخلاق اور ضابطے کی پوری پابندیوں کے ساتھ ایک خالص اصولی اور مقصدی سعی انتخاب میں بے غرضانہ جانفشانی سے کی اور کم از کم ڈیڑھ لاکھ آدمیوں کو اس بات پر آمادہ کر لیا گیا کہ حکومت کے دبائو، زمین داروں کے دبائو، برادری کے تعصّب اور روپے کے لالچ سے آزاد ہو کر خالص اصول کی خاطر اچھے آدمیوں کے حق میں رائے دیں۔
معاملے کے اس پہلو کو نگاہ میں رکھا جائے تو ان لوگوں کی رائے اور بھی زیادہ کم وزن رہ جاتی ہے جو توازن وعدم توازن کے سوال پر لائحہ عمل کی شکست وریخت کا دروازہ مستقلاً کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔
……٭٭٭……
نکتۂ نہم ودہم
اب مجھے اس قرار داد کے صرف آخری دو نکات پر بحث کرنی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ ہم انتخابات سے بے تعلق بہرحال نہیں رہ سکتے، خواہ ان میں بلاواسطہ حصہ لیں یا بالواسطہ یا دونوں طرح، البتہ یہ امر کہ ہمیں کس وقت، کس طرح، یا کس کس طرح ان میں حصہ لینا ہے، جماعت کی مرکزی مجلسِ شُورٰی پر چھوڑ دینا چاہیے تاکہ وہ ہر انتخاب کے موقع پر حالات کا جائزہ لے کر اس کا فیصلہ کرے۔
تبدیلی قیادت کا واحد راستہ، انتخابات
اس معاملے میں صحیح رائے قائم کرنے کے یے تین حقیقتیں واضح طور پر آپ کی نگاہ میں رہنی چاہئیں:
پہلی یہ کہ آپ اس ملک میں اِسلامی نظامِ زندگی عملاً قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے قیادت کی تبدیلی ناگزیر ہے۔
دوسری یہ کہ آپ جس ملک میں کام کر رہے ہیں وہاں ایک آئینی وجمہوری نظام قائم ہے اور اس نظام میں قیادت کی تبدیلی کا ایک ہی آئینی راستہ ہے… انتخابات
تیسری یہ کہ ایک آئینی وجمہوری نظام میں رہتے ہوئے تبدیلیِ قیادت کے لیے کوئی غیر آئینی راستہ اختیار کرنا شرعاً آپ کے لیے جائز نہیں ہے اور اسی بِنا پر آپ کی جماعت کے دستور نے آپ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ آپ اپنے پیش نظر اصلاح وانقلاب کے لیے آئین وجمہوری طریقوں ہی سے کام کریں۔
ان تین حقیقتوں کو ملا کر جب آپ غور کریں گے تو بالکل منطقی طور پر ان سے وہی نتیجہ نکلے گا جو قرارداد میں بیان کیا گیا ہے۔ آپ انتخابات میں آج حصہ لیں یا دس، بیس، پچاس برس بعد بہرحال، اگر آپ کو یہاں کبھی اِسلامی نظام زندگی قائم کرنا ہے تو راستہ آپ کو انتخابات ہی کا اختیار کرنا پڑے گا۔
انتخابات عام میں حصہ لینے کے ہر موقع سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے
اس کے ساتھ اگر یہ حقیقت بھی آپ کی نگاہ میں رہے کہ جس ملک میں آئینی وجمہوری نظام کار فرما ہو اور جہاں مختلف نظریات ومقاصد کے لیے کام کرنے والی طاقتیں بھی اپنا کام کر رہی ہوں اور جہاں پہلے سے ایک طرز خاص کی قیادت اپنی جڑیں جمائے ہوئے ہو، وہاں ایک نئی قیادت کا ابھرنا کبھی یک لخت نہیں ہو سکتا بلکہ وہاں یہ تبدیلی لازماً بتدریج ہی ہو گی، تو آپ کو یہ ماننے میں کوئی تامل نہ رہے گا کہ اس تدریجی عمل کو آج ہی سے شروع ہونا چاہیے۔ اس کی ابتدا آپ آج سے کریں تو دس بیس سال میں آخری منزل آپ کے سامنے ہو گی۔ دس بیس سال بعد کریں تو اس کی تکمیل کے لیے آپ کو دس بیس ہی سال اور انتظار کرنا پڑے گا۔ یہ امید کرنا غلط ہے کہ کسی وقت بھی آپ اس پوزیشن میں ہوں گے کہ انتخابات کے میدان میں اترتے ہی آپ کا پہلا قدم آخری منزل پر پڑے۔ لہٰذا دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ جو کام آپ کو کسی نہ کسی وقت کرنا ہے اور اپنے نصب العین تک پہنچنے کے لیے جسے کئے بغیر چارہ نہیں ہے، اسے آپ پہلا موقع ملتے ہی شروع کر دیں اور ہر بعد کے موقع پر اپنے پچھلے کام سے فائدہ اٹھا کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔
وجوہ اختلاف اور ان کی کم زوریاں
اس کے جواب میں جو باتیں کہی جاتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ موجودہ بگڑے ہوئے معاشرے میں انتخابات کے ذریعہ سے تبدیلیِ قیادت کی کوشش کرنا گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنا ہے۔ آپ کو پہلے معاشرے کی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ اس میں صالح نظام کی پیاس اورصالح لوگوں کی طلب اور ان کو تلاش کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہو گا کہ انتخابات میں ایسے لوگ کام یاب ہوں جو اِسلامی نظامِ زندگی برپا کرنے کی اہلیّت بھی رکھتے ہوں اور برسر اقتدار آ کر وہ اس مقصد کے لیے عملاً کچھ کر بھی سکیں۔ ورنہ اگر معاشرہ یہی رہے جس کے بگاڑ کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں، تو محض انتخابات کے ذریعہ سے ایک صالح قیادت کا ابھر آنا کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ اس لیے صحیح ترتیبِ کار یہ ہے کہ ہم ایک مدت تک انتخابات کے میدان میں اترنے سے پرہیز کریں اور اپنی تمام مساعی صرف اصلاحِ معاشرہ کے لیے وقف رکھیں۔ پھر جب یہ اطمینان ہو جائے کہ معاشرے میں ایک صالح قیادت کی مانگ اور اسے ابھارنے کی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے، تب انتخابات میں حصہ لیں، کیوں کہ وہی اس کا صحیح وقت ہو گا۔
بظاہر یہ بات بڑی وزنی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اس کا تجزیہ کرکے دیکھیے تو معلوم ہوتا کہ اس کی ساری بنیاد چند غلط مفروضات پر رکھی گئی ہے اور پھر ان مفروضات سے ایک غلط نتیجہ نکال کر جو ترتیب ِکار تجویز کی گئی ہے وہ عقلی اور عملی دونوں پہلوئوں سے نہایت خام ہے۔
غلط مفروضات
پہلی غلط بات جو اس میں فرض کی گئی ہے، یہ ہے کہ یہاں کوئی شخص اصلاحِ معاشرہ کا کام چھوڑ کر صرف انتخابات کے ذریعہ سے تبدیلی قیادت کی کوشش کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ یہ بات امرِ واقعہ کے خلاف ہے۔ ہم جس لائحۂِ عمل پر برسوں سے کام کر رہے ہیں اور اب اس پورے کام کی جو اسکیم آپ کے سامنے رکھی گئی ہے، اس کے چار میں سے تین اجزا اصلاح معاشرہ ہی کی تدابیر پر مشتمل ہیں۔ یہ ہمارا دائمی پروگرام ہے جس پر ہمیں سال کے تین سو پینسٹھ دن کام کرنا ہے، خواہ انتخابات ہوں یا نہ ہوں۔ اس لیے یہاں اصل بحث یہ نہیں ہے کہ آیا تبدیلیِ قیادت کے لیے اصلاح معاشرہ کا کام کیا جائے یا صرف انتخابات لڑے جائیں۔ بلکہ بحث دراصل یہ ہے کہ آیا اصلاح معاشرہ کی یہ ساری کوشش جاری رکھنے کے ساتھ انتخابات میں بھی حصہ لیا جائے یا نہیں۔ ہماری اسکیم یہ ہے کہ یہ دونوں کام ایک ساتھ ہونے چاہئیں۔ اب جو شخص یہ رائے رکھتا ہو کہ ان میں سے صرف ایک کام ہونا چاہیے اور دوسرا نہ ہونا چاہیے، وہ اپنی اس رائے کے حق میں معقول دلیل لائے۔ اسے بتانا چاہیے کہ صرف اصلاح معاشرہ ہی کے کام پرکیوں اکتفا کیا جائے اور انتخابات کے موقع پر اس کام کے نتائج کا فائدہ اٹھانے سے کیوں گریز کیا جائے؟
معاشرے کے بنائو اور بگاڑ سے انتخابات کا گہرا تعلق
دوسری غلط بات اس میں یہ فرض کی گئی ہے کہ انتخاب صرف ووٹ لینے اور دینے کا کام ہے، معاشرے کے بنائو اور بگاڑ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ حالانکہ دراصل معاشرے کو بنانے اور بگاڑنے میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے اور کوئی ایسا شخص جو ’’اصلاحِ معاشرہ‘‘ کا محض لفظ ہی نہیں بلکہ اس کے معنی بھی جانتا ہو، ان اثرات کو نظر انداز نہیں کر سکتا جو انتخابات میں رائے دہندگی بالغاں کا اصول رائج ہو، وہاں تو ووٹر اور معاشرہ درحقیقت ایک ہی چیز کیے دو نام ہیں، کیوں کہ معاشرے کا ہر بالغ شخص اس میں ووٹر ہوتا ہے، ان ووٹروں سے اگر روپے کے عوض ووٹ خریدے جائیں، یا طرح طرح کے دبائو ڈال کر، یا لالچ دے کر ان کے ووٹ حاصل کیے جائیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے گرد وپیش ایک ضمیر فروش، لالچی اور دبو معاشرہ تیار ہو رہا ہے اور ساتھ کے ساتھ اسی معاشرے میں ان دلالوں، غنڈوں اور بدکردار طالبین اقتدار کی تربیت بھی ہو رہی ہے جو اپنی قوم کی ان اَخلاقی کم زوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے ہوں۔ دوسری طرف اگر ان ووٹروں سے برادریوں اور قبیلوں اور صوبوںکے نام پر بھی ووٹ لیے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے معاشرے کو تنگ نظر، جاہلانہ تعصب اور افتراق وانتشار کی تربیت بھی دی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ آپ ہی کی قوم کے کچھ ذہین اوربااثر عناصر کو یہ تعلیم مل رہی ہے کہ اپنی ذاتی ترقی کے لیے وہ ہتھکنڈے استعمال کریں۔ تیسری طرف اگر ان ووٹروں سے روٹی اور کپڑے کے نام پر، معاشی مفادات کے نام پر، یا کچھ دوسرے لادینی اصولوں اور نظریات کی تبلیغ کرکے بھی ووٹ لیے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پورے معاشرے کو، اس کے ایک ایک بالغ مرد اور عورت کو، مادہ پرستی، دنیا پرستی اور لادینی نظریہ حیات کے حق میں رائے دینے کے لیے بھی تیار کیا جا رہا ہے۔
انتخابات میں یہ تینوں قسم کے عناصر معاشرے کے اندر سے اپنا اپنا حصہ لیں گے اور انتخابات کا نتیجہ ٹھیک ٹھیک ناپ تول کر آپ کو بتا دے گا کہ ان میں سے ہر ایک نے اس کو کس قدر بگاڑنے میں کام یابی حاصل کی ہے۔ ان عناصر کو اس تخریب معاشرہ کے لیے کھلی چھٹی دے دینا اور یہ کہنا کہ ہم تو انتخابات کو چھوڑ کر صرف اصلاح معاشرہ کریں گے، آخر کیا معنی رکھتا ہے؟
ووٹروں کو صحیح انتخابات کے لیے تیار کرنا اصلاح معاشرہ کا سب سے بڑا کام ہے
پھر اصلاح معاشرہ سے اگر آپ کی مراد معاشرے کو اِسلامی نظامِ زندگی قائم کرنے کے لیے تیار کرنا ہے تو ووٹر کو صحیح انتخابات کے لیے تیار کرنا اس کے دائرہ ِعمل سے خارج کیسے ہو سکتا ہے؟ اور یہ کام کئے بغیرکس طرح ممکن ہے کہ آپ کا معاشرہ کبھی فاسد قیادتوں کو ہٹا کر کوئی صالح قیادت برپا کرنے کے قابل ہو سکے؟ آپ کو اس کے لیے ووٹر کی اَخلاقی قدریں بدلنی ہوں گی، اسے اِسلامی نظام سے روشناس کرانا ہو گا۔ اس میں اِسلامی نظام کی طلب پیدا کرنی ہو گی۔ اس کو صالح اور غیر صالح کی تمیز دینی ہو گی۔ اس کو یہ احساس دلانا ہو گا کہ اس ملک کی بھلائی اور برائی کا ذمّہ دار براہِ راست وہ خود ہے۔ اس میں اتنی اَخلاقی طاقت اور سمجھ بوجھ پیدا کرنی ہو گی کہ نہ دھن کے عوض اپنا ووٹ بیچے، نہ دھونس میں آ کر اپنے ضمیر کے خلاف کسی کو ووٹ دے، نہ دھوکا دینے والوں کے دھوکے میں آئے اور نہ دھاندلیوں سے بد دل ہو کر گھر بیٹھ رہے۔ یہی کام تو ہم انتخابات میں حصہ لے کر کرنا چاہتے ہیں{ FR 7718 } کیا کوئی صاحبِ عقل آدمی یہ کَہ سکتا ہے کہ یہ اصلاحِ معاشرہ کا کام نہیں ہے؟ اور کیا کسی دانش مند کا یہ خیال ہے کہ اپنے ملک کے ووٹروں کو اس حیثیت سے تیار کیے بغیر یہاں کبھی انقلابِ قیادت ہو سکے گا؟
انتخابات سے الگ رہ کر آپ معاشرے کی اصلاح کے لیے جو تدبیریں اختیار کریں گے وہ لوگوں کے عقائد، طرزِ فکر، اَخلاق، عادات اور معاملات کو دوسرے تمام پہلوئوں سے تو ضرور سنوار سکیں گے، مگر ان کے ذہن اور اَخلاق کا یہ خاص پہلو کہ وہ اپنے ملک کی زمام اقتدار کس کو سونپنا پسند کرتے ہیں اور فاسد قیادتوں کے مقابلے میں صالح قیادت کو اوپر لانے کے لیے کتنے عزم وجزم سے کام لیتے ہیں، اس کی اصلاح وتربیت انتخابات کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے نہیں کی جا سکتی اور ظاہر ہے کہ انقلابِ قیادت کے معاملے میں فیصلہ کن چیز افرادِ معاشرہ کے ذہن واَخلاق کا یہی پہلو ہے۔
انتخابات اصلاح معاشرہ کا صرف ذریعہ ہی نہیں، اس کا پیمانہ بھی ہیں
تیسری ایک غلط بات اس تجویز میں اور بھی فرض کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم انتخابات سے الگ اصلاح معاشرہ کا کام کرتے ہوئے کسی خاص مرحلے پر پہنچ کر بآسانی یہ معلوم کر لیں گے کہ اب ہمارے معاشرے میں صالح قیادت برپا کرنے کی خواہش اور صلاحیت پیدا ہو چکی ہے اور اس علم کی بنا پر ہم اطمینان کے ساتھ یہ فیصلہ بھی کر سکیں گے کہ انتخابات میں حصہ لینے کا صحیح وقت آ گیا ہے۔
میرے نزدیک یہ محض ایک خوش فہمی ہے جو معاملات کو نہایت سطحی نظر سے دیکھنے کی وجہ سے بعض لوگوں کو لاحق ہو گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کا نمازی، پرہیز گار، صحیح العقیدہ اور اصلاح پسند ہو جانا اور چیز ہے اور ان کا عملاً اس ارادے میں مضبوط ہو جانا کہ فیصلے کے وقت ہر تعصب، ہر لالچ، ہر خوف اور ہر فریب سے غیر متاثر رہ کر اپنا وزن اِسلامی نظام کے پلڑے میں ڈالیں گے، بالکل ہی ایک دوسری چیزہے۔ پہلی نوعیت کی عام اصلاح آپ جتنی چاہیں اور جتنے بڑے پیمانے پر چاہیں کرتے رہیں، مگر یہ بات کہ فی الواقع کتنے لوگوں نے اس فیصلہ کن حد تک اصلاح قبول کی ہے، صرف فیصلے کے وقت ہی معلوم ہو سکتی ہے اور وہ فیصلے کا وقت انتخابات کے موقع پر ہی آتا ہے۔ یہ وہ پیمانہ ہے جو ہر چند سال کے بعد معاشرے کے ذہن واَخلاق کی حقیقی حالت اور اس کی بھلائی اور برائی کا ایک ایک پہلو ناپ کر دکھا دیتا ہے۔ یہ ایک مردم شماری ہے جو گن کر بنا دیتی ہے کہ آپ کے معاشرے میں کتنے ووٹ بیچنے والے ہیں، کتنے دبائو میں آنے والے ہیں، کتنے فریب کھانے والے ہیں، کتنے تعصبات میں مبتلا ہیں، کتنے غیر اِسلامی نظریات سے متاثر ہوئے ہیں، کس قدر دھاندلیاں یہاں چلتی ہیں اور ان سب کے درمیان کتنے لوگوں کو آپ واقعی اِسلامی نظام کی حمایت کے لیے تیار کرنے میںکام یاب ہوئے ہیں۔ اس میزان کا سامنا کئے بغیر آخر کس ذریعے سے آپ یہ معلوم کریں گے کہ چند سال تک آپ نے معاشرے کی اصلاح کے لیے جو محنت کی ہے اس سے حقیقت میں کتنی اصلاح ہوئی اور کتنی ابھی کرنی باقی ہے۔{ FR 7719 }
انتخابات سے الگ رہنے کے نتائج
ان غلط مفروضات پر جس تجویز کی بِنا رکھی گئی ہے، اب ذرا خود اس کا جائزہ لے کر دیکھیے کہ اگر ہم اس پر عمل کریں تو اس کے نتائج کیا ہوں گے۔
انتخابات کے موقع پر اگر ہم خودمیدانِ مقابلہ میں آ کر ووٹر کی عملی راہ نُمائی نہ کریں تو ہماری محض تبلیغ اور اَخلاقی تلقین اس کے لیے بے معنی ہو گی۔ اس کے سامنے تو اس وقت یہ عملی سوال درپیش ہو گا اور یہی سوال وہ ہمارے سامنے بھی رکھے گا کہ ’’میں ووٹ استعمال کروں یا نہ کروں اور کروں تو کس کے حق میں؟‘‘ اس کے جواب میں ہمارا صرف یہ کَہ کر رہ جانا کہ تم ایمان داری کے ساتھ صالح آدمی کو ووٹ دو اور غیر صالح کو نہ دو، اس کے سوال کا درحقیقت کوئی جواب نہ ہو گا۔ وہ تو یہ کہے گا کہ کوئی صالح آدمی ہے تو اسے سامنے لائو۔ یا جو لوگ انتخاب کے لیے کھڑے ہوئے ہیں ان میں سے کسی کا بتائو کہ میں اس کو ووٹ دوں۔ اگر ہم اس کے مسئلے کو حل نہیں کرتے تو وہ ہم سے مایوس ہوجائے گا۔ وہ سمجھ لے گا کہ یہ اس وقت میرے کسی کام نہیں آ سکے۔ ہماری تبلیغ وتلقین اس پر بے اثر ہو گی اور بالعموم اس کا ووٹ غلط جگہ ہی استعمال ہو گا۔ یا حد سے حد اگر اس تبلیغ کا کوئی اثر اس نے قبول کیا بھی تو وہ اس شکل میں ہو گا کہ وہ سرے سے کہیں ووٹ ہی نہ دے گا، یعنی محض ایک منفی اثر۔ جو طاقت مثبت طور پر ایک صحیح مقصد کے لیے استعمال کی جا سکتی تھی وہ صرف رائیگاں چلی جائے گی اور انتخاب پر کچھ بھی اثر انداز نہ ہو گی۔
یہ معاملہ تو عام ووٹر کے ساتھ پیش آئے گا۔ رہے جماعتِ اِسلامی کے ارکان، متفقین، متاثرین اور وہ لوگ جو راہ نُمائی کے لیے اس کی طرف دیکھتے ہیں، تو یقینا ان کی بہت بڑی اکثریت کو انتخابات میں اپنا ووٹ استعمال کرنے سے احتراز ہی کرنا پڑے گا، کیوں کہ اس ملک کے طول وعرض میں کم ہی مقامات ایسے ہوں گے جہاں کسی شخص کو ووٹ دینے کا فیصلہ ہم کر سکیں۔
اب ذرا حساب لگا کر دیکھیے کہ جماعتِ اِسلامی کے اپنے حلقہ اثر کے ووٹ پورے پاکستان میں کس قدر ہیں اور عوام میں اپنی تبلیغ اور جدوجہد سے وہ کتنے ووٹروں کو بالفعل متاثر کر سکتی ہے۔ آپ کسی مبالغہ کے بغیر یہ تسلیم کریں گے کہ مجموعی طور پر یہ تعداد کئی لاکھ تک پہنچتی ہے{ FR 7720 } اس چیز کو نگاہ میں رکھ کر آپ خود اندازہ کیجئے کہ یہ منفی پالیسی اختیارکرکے ہم کتنی بڑی طاقت ضائع کریں گے۔ یہ وزن ہے جو خیر کے پلڑے میں ڈالا جا سکتا ہے اور جسے کسی شر کا پلڑا ہلکا کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آخرکیا معقول وجہ ہے کہ ہم اس کو یوںضائع کریں۔
اس پالیسی کا نقصان صرف یہی نہ ہو گا کہ ہم خیر کے لیے کام آنے والی ایک طاقت کو معطّل کریں گے، بلکہ درحقیقت یہ پالیسی متعدّد وجوہ سے شر کے لیے مثبت طور پر مددگار ہو گی۔
اس کی بدولت انتخابات کا یہ نتیجہ تو بہرحال سارے ملک کے سامنے آئے گا کہ یہاں غیر اِسلامی نظریات سے متاثر ہونے والے، یا تعصبات اور خوف اور لالچ کے زیر اثر رائے دینے والے کتنے ہیں۔ لیکن یہ بات مبہم ہی رہے گی کہ اس آبادی میں کتنے لوگ اِسلامی نظامِ زندگی کے حامی ہیں اور اس کی خاطر ایمان داری کے ساتھ اپنا ووٹ دے سکتے ہیں۔ یہ چیز بگاڑ کی طاقتوں کے لیے حوصلہ افزا اور اصلاح کی کوشش کرنے والوں کے لیے ہمت شکن ہو گی اور عام طور پر پبلک کے نفسیات پر بھی اس کا تباہ کن اثر پڑے گا۔
اس سے عام لوگوں میں مایوسی پیدا ہو جائے گی کہ موجودہ قیادت سے نجات کی کوئی صورت نہیں ہے، اس لیے وہ دل چھوڑ کر اس کے آگے ہتھیار ڈال دیں گے۔
لوگ اس بات سے بھی مایوس ہو جائیں گے کہ یہاں اِسلامی نظامِ زندگی قائم کرنے کے لیے عملاًکچھ کیا جا سکتا ہے۔ وہ دیکھیں گے کہ جو لوگ اسی کام کا بیڑا اٹھا کر نکلے تھے وہ فیصلے کے وقت پیچھے ہٹ گئے۔ اس سے یقینا عام ذہن یہی اثر لے گا کہ اِسلامی نظام کی باتیں محض وعظوں کے لیے ہیں، کرکے دکھا دینے والا کوئی نہیں ہے۔
…میدان میں صرف وہ عناصر رہ جائیں گے جو معاشرے کے ذہن اور اَخلاق کو بگاڑنے والے اور فاسد قیادتوں کو بروئے کار لانے کی کوششیں کرنے والے ہیں۔ یہ لوگ اس ملک کی پوری بالغ آبادی میں اپنی فکری اور اَخلاقی گمراہیاں پھیلائیں گے اور ایک ایک ووٹر تک اپنے ناپاک اثرات پہنچا دیں گے۔ جواب میں کوئی طاقت ایسی نہ ہو گی جو اس زہر کا مداوا کر سکے۔ جماعتِ اِسلامی، انتخابات میں محض بھلائی کا وعظ کہنے کے لیے خواہ کتنا ہی بڑا پروگرام بنائے‘ میدانِ مقابلہ میں اترے بغیر فطرتاً یہ کسی طرح ممکن نہ ہو گا کہ کارکن ہر ووٹر تک پہنچیں اور ہر انتخابی حلقے میں برائی کے بالمقابل بھلائی کا عملی مظاہرہ کر سکیں۔
…ووٹر کوعملاً صرف فاسد ومفسد عناصر ہی سے سابقہ ہو گا۔ اس کے سامنے ان کا کوئی بدل سرے سے ہو گا ہی نہیں کہ وہ اس کے سوا کسی اور کو ووٹ دینے کی سوچ سکے۔ جو شخص بھی اپنا ووٹ استعمال کرے گا اس کا ووٹ لامحالہ انھی میں سے کسی کو جائے گا۔ اور جو نہ کرے گا اس کا وزن کسی پلڑے میں پڑے گا ہی نہیں کہ اس کا کوئی اچھا یا بُرا اثر مرتب ہو۔
…اس طرح ہم یہاں غیر اِسلامی اور غیر اَخلاقی طاقتوں کو چھا جانے کا کھلا موقع دے دیں گے۔ وہ ایوان حکومت کے اندر بھی اس طرح چھائیں گی کہ کوئی دینی عنصر ان کو اور ان کی باتوں کو چیلنج کرنے والا نہ ہو گا۔ اور باہر پبلک کے ذہن پر بھی مسلّط ہو جائیں گی، کیوں کہ اِسلامی نظام زندگی کی حمایت کرنے والا عنصر اس کو عملاً مایوس کر چکا ہو گا۔
یہ ہیں اس پالیسی کے لازمی نتائج جن سے ہم کسی طرح نہیں بچ سکتے، اب جو شخص ہم سے یہ کہنا چاہتا ہو کہ ہمیں پھر بھی انتخابات سے الگ ہی رہنا چاہیے؟ اسے یہ بتانا ہو گا کہ انتخابات میں حصہ لینے کے وہ کون سے نقصانات ہیں اور الگ رہنے کے وقت کون سے فوائد ہیں جنھیں وہ ان نتائج کے مقابلے میں زیادہ وزنی ثابت کر سکتا ہو۔
کچھ اور وجوہِ اختلاف
اس سلسلے میں جو باتیں مجھے اس خیال کے حامیوں سے سننے کا موقع ملا ہے ان میں زیادہ سے زیادہ قابل لحاظ باتیں صرف تین ہیں۔
ایک یہ کہ انتخابات میں حصہ لے کر جماعت کے اَخلاق کا ستیاناس ہو جائے گا۔ وہ بے لگام سیاسی کھلاڑیوں کے مقابلے میں کش مکش کرنے کے لیے آگے بڑھے گی تو انھی کی سی باتیں کرنے لگے گی اور انھی کے سے کھیل کھیلنے لگے گی۔
دوسرے یہ کہ جہاں انتخابات میں وہ ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہوں جو پنجاب، سرحد اور بہاول پور کے انتخابات میں استعمال کیے گئے تھے، اورجہاں عوام الناس صرف غفلت ہی کے شکار نہ ہوں بلکہ اپنی مختلف کم زوریوں کی بِنا پر ان کی بڑی اکثریت ووٹ کا حق غلط جگہ استعمال کرتی ہو، وہاں کام یابی کے امکانات بہت کم ہیں اورناکامی کا نتیجہ یقینا انتہائی دل شکن ہو گا۔
تیسرے یہ کہ اگر مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں میں چند نشستیں حاصل کر بھی لی گئیں تو اس کا حاصل کیا ہو گا؟
اَخلاقی دیوالہ کا خدشہ
پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ جماعتِ اِسلامی آج تک برائیوں کے مقابلے میں کش مکش کرکے بھلائی کو نشوونما دینے کی قائل رہی ہے اور اس کے اندر اچھے یا برے، جو کچھ بھی اَخلاق بنے ہیں، اسی نظریّے پرکام کرنے سے بنے ہیں۔ اب اگرکش مکش اور مقابلے سے ہٹ کر گوشوں میں اَخلاق بنانے کا نظریہ اختیار کرنا ہو، تو جماعت کے لوگوں کو سوچ سمجھ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ میرا اپنا نقطہ نظر جسے تفصیل کے ساتھ بیان کر چکا ہوں، یہ ہے کہ میدانِ مقابلہ سے ہٹ کر جواَخلاق گوشوں میں بنائے جائیں گے وہ کبھی کار زار میں کام آنے کے قابل نہ ہوں گے۔
پھر یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ اگر پندرہ سولہ سال کی اَخلاقی تنظیم کے باوجود جماعتِ اِسلامی کے اَخلاق ایسے ہی بودے ہیں کہ سیاسی کھلاڑیوں کے مقابلے میں آتے ہی یہ بھی وہی سب کچھ کرنے لگے گی جو وہ کرتے ہیں، تو آگے کیا امید کی جا سکتی ہے کہ ہم کبھی اس فیصلہ کن معرکے میں قابل اطمینان سیرت وکردار لے کر آ سکیں گے؟ اس کے لیے آپ کتنی مدت تجویز کرتے ہیں؟ حصول اطمینان کی کیا صورت اور اس کا کیا معیار آپ کے سامنے ہے؟ اس سیرت وکردار کو پیدا کرنے کے لیے وہ کونسا کورس آپ کی نگاہ میں ہے جو آپ عملی آزمائشوں کا سامنا کئے بغیر آپ کے کارکنوں میں یہ چیز قابل اطمینان حد تک پیدا کر دے گا؟ اور اگر ساری کوششوں کے بعد پہلی آزمائش پیش آتے ہی یہ بات کھلے کہ آپ سو فیصدی معیاری آدمی فراہم کرنے میں ناکام ہوئے ہیں تو آپ کا کیا ارادہ ہے؟ ان سیاسی کھلاڑیوں کو نظامِ زندگی کی فرمانروائی سے ہٹانے کے لیے آگے بڑھیں گے یا پھر میدان ان کے ہاتھ چھوڑ کر تربیت گاہوں کی طرف پلٹ جائیں گے؟ میرا خیال یہ ہے کہ اس وہمی پن اور چھوئی موئی کی سی ذہنیت اور اس غیر عملی طرزِ فکر کے ساتھ آپ اس معرکے میں کبھی نہ اتر سکیں گے۔ اس لیے لامحالہ آپ کو دو باتوں میں سے ایک کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ یا تو سوچنے کا یہ انداز بدلئے، یا پھر اس خیال کو چھوڑیے کہ یہاں اِسلامی نظام زندگی کو عملاً قائم کرنے کے لیے آپ کو کچھ کرنا ہے۔ کیوں کہ یہ کام جب بھی آپ کرنا چاہیں گے، لازماً انھی سیاسی کھلاڑیوں کے مقابلے میں آ کر انتخابی جنگ آپ کو لڑنی پڑے گی اور اس جنگ کے میدان میں اترنے کا جب بھی آپ ارادہ کریں گے، یہ خدشہ آپ کو ضرور لاحق ہو گا کہ جماعت کہیں اپنا سارا اَخلاقی سرمایہ اس میں نہ لٹا بیٹھے۔
اس موقع پر آپ مجھ سے پوچھ سکتے ہیں کہ تم اس خدشے کو وہمی پن، چھوئی موئی کی سی ذہنیت اور غیر عملی انداز فکر سے کیوں تعبیر کرتے ہو؟ میں عرض کروں گا کہ میرے پاس اس کے معقول وجوہ ہیں۔
جماعتِ اِسلامی آج گہوارے سے نکل کر نئی نئی میدان عمل میں نہیں آئی کہ ہم من حیث الجماعت اس کی قوت وضعف اور اس کے حسن وقبح کا کوئی اندازہ نہ کر سکتے ہوں۔ دس سال سے وہ پاکستان میں ان طاقتوں سے عملاً نبرد آزما ہے جو سارے اَخلاقی حدود کو بالائے طاق رکھ کر اس کا راستہ روکتی رہی ہیں اور اس مدت میں وہ ان اکثر وبیشتر آزمائشوں سے گزر چکی ہے جو کسی انسانی گروہ کو پیش آ سکتی ہیں۔ اس کے خلاف جھوٹ کے طوفان بھی اٹھے ہیں۔ اس پر فتووں کی مار بھی پڑی ہے۔ اسے گالیوں سے بھی نوازا گیا ہے۔ اس کو طرح طرح کی سازشوں سے بھی سابقہ پیش آیا ہے۔ اس کی راہ میں قدرتی اور مصنوعی دونوں قسم کی رکاوٹوں کے پہاڑ حائل ہوئے ہیں۔ اس کی تاریخ میں کئی مرتبہ سخت اشتعال انگیز مواقع بھی آئے ہیں۔ وہ لالچ سے بھی آزمائی گئی ہے اور خوف سے بھی۔ اس کو سیاسی پارٹیوں سے ملنے کا بھی اتفاق ہو چکا ہے اور لڑنے کا بھی۔ اس کو انتہائی دل شکن اور مایوس کن حالات کا بھی بارہا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور سیاسی جوڑ توڑ کی اس فضا میں، جو برسوں سے اس ملک میں طاری ہے، ہر وقت ایسے مواقع بھی موجود رہے ہیں کہ اگر اس کی اجتماعی سیرت میں ذرا سا جھول بھی ہوتا تو وہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو سکتی تھی جس میں دوسرے بہت سے لوگ آج غوطے لگا رہے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں، کیا دس سال کے اس مسلسل امتحان نے جماعت کو واقعی اتنا ہی کم زور ثابت کیا ہے جتنا اسے فرض کیا جا رہا ہے۔
پھر انتخابات بھی اس کے لیے کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔ وہ اس سے پہلے اس امتحان سے بھی گزر چکی ہے۔ اس کے کارکنوں نے جعلی ووٹوں کی ایسی بوچھاڑ کا سامنا کیا ہے، وہ دھاندلیاں دیکھی ہیں، ضمیر بیچنے اور خریدنے کی وہ گرم بازاری دیکھی ہے، سیاسی کھلاڑیوں کے درمیان وہ سودے بازیاں دیکھی ہیں اور جھوٹ کے ان طوفانوں کا مقابلہ کیا ہے، جن کی نظیر اس ملک میں، بلکہ شاید کسی دوسرے ملک میں بھی نہیں دیکھی گئی۔ ان کو بغیر کسی سابق تجربے کے پہلی مرتبہ اس نوعیت کی انتخابی جنگ میں جھونکا گیا تھا اور ذرائع کی انتہائی قلت کے ساتھ انھیں حکومت کی پیدا کردہ مشکلات سے بھی سابقہ تھا، برادریوں کے تعصبات بھی ان کی راہ روک رہے تھے اور بعض مذہبی طبقوں نے بھی انھیں تنگ کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔ کیا کوئی بندہِ خدا انصاف کے ساتھ یہ کَہ سکتا ہے کہ جماعت اس امتحان میں اَخلاقی حیثیت سے دیوالیہ ہی ثابت ہوئی تھی؟
یہاں سوال رائے اور اندازوں کا نہیں، واقعہ اور حقیقت کا ہے۔ اور سوال بعض افراد کے شخصی کرداد کا بھی نہیں، جماعت کے مجموعی کردار کا ہے۔ کیا کوئی شخص جماعت کے دامن پر اس پورے دس سال کی تاریخ میں کوئی اَخلاقی داغ دکھا سکتا ہے؟ اگر نہیں دکھا سکتا تو پھر ماننا پڑے گا کہ اس وقت اِسلام اور جاہلیت کے معرکے میں قدم آگے بڑھانے کے لیے جو کم از کم اَخلاقی طاقت کافی ہے اور جیسی کچھ قابل اعتماد اَخلاقی طاقت اس بگڑے ہوئے معاشرے کے اندر سے فراہم ہو سکتی ہے، وہ تو ہمارے پاس موجود ہے۔ اس کو لے کر ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اجتماعی کوشش سے اسی جدوجہد کے دوران میں مزید اَخلاقی طاقت پیدا کی جا سکتی ہے۔ تجربات اور آزمائشوں سے جو کم زوریاں سامنے آئیں انھیں رفع کرنے کی تدبیریں بھی عمل میں لائی جا سکتی ہیں۔ معیار سے گر جانے والوں کو سنبھالا بھی جا سکتا ہے اور بدرجہ آخر نکالا بھی جا سکتا ہے۔ ان ساری باتوں کو نظر انداز کرکے جو لوگ کچھ خیال خطرے ہمارے سامنے رکھتے ہیں، کچھ انفرادی واقعات کوجوڑ جاڑ کر جماعت کی مجموعی حالت کا ایک بھیانک نقشہ ہمارے سامنے کھینچتے ہیں اور کام کرنے کے لیے شرط کے طور پر ایسے اَخلاقی معیار کا مطالبہ کرتے ہیں جس کو وہ خود متعین بھی نہیں کر سکتے، ان کے متعلق آخر میں اس کے سِوا اور کیا کَہ سکتا ہوں کہ وہ غیر عملی انداز فکر میں مبتلا ہیں، ان کے تخیلات کی دنیا واقعات کی دنیا سے باہر کہیں واقع ہے اور ان کی طرح اگر مختلف افراد کی انفرادی کم زوریوں کو ہم جماعت کی مجموعی کم زوری ٹھیرا کر پوری جماعت کو ناقابل کار سمجھنے لگیں تو ایسا وقت آنے کی کبھی امید نہیں کی جا سکتی کہ یہ جماعت کیا، کوئی انسانی جماعت بھی قابلِ کار قرار پا سکے۔ پھر تو بہتر یہی ہے کہ ٹھنڈے دل سے اس دنیا کو فساق وفجار کے سپرد کیجئے اور صرف وعظ وتبلیغ کرکے اپنے دل کو تسلی دے لیجیے کہ یہاں اقامتِ دین کا فریضہ بس اسی حد تک انجام دیا جا سکتا ہے۔
ناکامی کا خطرہ
اب دوسری وجہ کو لیجیے۔ اس میں استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ سیاسی گروہ اور اصحابِ اقدار جو انتخابی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں ان کے مقابلے میں کام یاب ہونا بہت مشکل ہے اور مزید مشکل یہ ہے کہ عوام الناس غافل بھی ہیں اور ان کی بڑی اکثریت جان بوجھ کر بھی غلط جگہ ووٹ دیتی ہے۔ اس حالت میں اگر ہم انتخابات میں حصہ لیں گے تو زیادہ تر امکان اس امر کا ہے کہ ناکام ہوں گے۔ اور اس ناکامی کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ کارکن بد دل ہوں گے، تحریک اِسلامی سے دل چسپی رکھنے والوں میں مایوسی پھیلے گی اور پبلک میں بھی اس تحریک کی ہوا اکھڑ جائے گی۔ لہٰذا ہمیں انتخابات سے الگ رہ کر وہ حالات پیدا کرنے چاہییں جن میں کام یابی اگر یقینی نہ ہو تو کم از کم کسی بڑی ناکامی کا خطرہ تو نہ ہو۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ ان حالات میں واقعی کام یابی کے امکانات بہت کم ہیں۔ یہ بھی مانتا ہوں کہ ناکامی کااثر پبلک کے ذہن پر بھی برابر پڑتا ہے، تحریک کے حامی بھی دل شکستہ ہوتے ہیں اور خود ہمارے کارکنوں میں بھی اس سے کچھ نہ کچھ بددلی ضرور پیدا ہوتی ہے۔ مگر اس کے باوجود میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ انتخابات سے الگ رہنے کے لیے یہ کوئی صحیح اور معقول وجہ ہے۔ کیوں کہ ناکامی کے جو اسباب بیان کئے جا رہے ہیں ان میں سے کسی سبب کو بھی انتخابات میں حصہ لیے بغیر دور نہیں کیا جا سکتا۔ الگ رہنے سے یہ اسباب گھٹیں کے نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھتے چلے جائیں گے۔ ان کے علاج کی صورت اگرکوئی ہے تو یہی کہ ہم پے درپے اس معرکہ میں گھس کر ان کا مقابلہ کرتے رہیں اور ان کا زور توڑتے چلے جائیں۔
آپ خود غور کرکے دیکھیں۔ یہ انتخابی ہتھکنڈے جو سیاسی پارٹیاں استعمال کرتی ہیں اور جن کے استعمال میں زمامِ کار کے موجودہ مالک طاق بھی ہیں اور بے باک بھی، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ خود بخود متروک ہو جائیں گے؟ کیا آپ کا خیال یہ ہے کہ رفتہ رفتہ یہ لوگ آپ ہی اتنے نیک ہو جائیں گے کہ ان ہتھکنڈوں کے استعمال سے انھیں شرم آنے لگے گی؟ اور کیا آپ زمام کار کی تبدیلی کے لیے اس ساعت سعید کا انتظار کرنا چاہتے ہیں جب مقابلہ صرف شریف آدمیوں سے رہ جائے اور برے لوگ میدان سے ہٹ جائیں؟ اگر یہ آپ کی امیدیں ہیں اور یہ وہ شرطیں ہیں جن کے پورا ہونے پر ہی آپ قیادت بدلنے کے اس واحد آئینی وسیلہ سے کام لے سکتے ہیں، تو میں نہیں سمجھتا کہ کبھی آپ کی یہ امیدیں اور یہ شرطیں پوری ہوں گی اور آپ اس کارِ خیر کے لیے آگے بڑھ سکیں گے۔ تبدیلیِ قیادت کے لیے آپ واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی صورت صرف یہ ہے کہ اس گندے کھیل میں پاکیزگی کے ساتھ آئیے۔ تمام برے ہتھکنڈوں کا مقابلہ صحیح طریقوں سے کیجئے۔ جعلی ووٹ کے مقابلے میں اصل ووٹ لائیے۔ دھن سے ووٹ خریدنے والوں کے مقابلے میں اصول اور مقصد کی خاطر ووٹ دینے والے لا کر دکھائیے۔ دھوکے اور فریب اور جھوٹ سے کام لینے والوں کے مقابلے میں سچائی اور راستبازی کا مظاہرہ کیجئے۔ دھونس اور زبردستی سے ووٹ لینے والوں کے مقابلے میں ایسے ووٹر پیش کیجئے جو بے خوف ہو کر اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں۔ دھاندلیوں کے مقابلے میں ٹھیٹھ ایمان داری برت کر دکھائیے۔ ایک دفعہ نہیں، دس دفعہ ناکامی ہو تو ہو۔ آپ کوئی تبدیلی یہاں لا سکتے ہیں تو اسی طریقے سے لا سکتے ہیں۔ اسی طرح آخر کار وہ وقت آئے گا جبکہ سارے ہتھکنڈوں کے باوجود غلط کار لوگ شکست کھا جائیں گے۔ اسی طرح یہاں کے انتخابی نظام کی برائیاں بے نقاب ہوں گی۔ اسی طرح ان برائیوں کے خلاف عام نفرت اور بیزاری پیدا کی جا سکے گی۔ اسی طرح انتخاب کے طریقوں کی اصلاح کا راستہ کھلے گا۔
پھر جس پبلک کی غفلت، بے حسی اور اَخلاقی کم زوریوں کا آپ رونا روتے ہیں، اس کی اصلاح بھی آپ کے اسی عمل سے ہو سکے گی۔ اسی سے اس کا ضمیر بیدار ہو گا۔ اس سے لوگوں کو یہ امید بندھے گی کہ یہاں بھلے طریقوں سے بھی کام کیا جا سکتا ہے۔ اس سے لوگوں کا خوف بھی دور ہو گا، ووٹ فروشی کا مرض بھی کم ہوتا جائے گا اور رائے عام کی اتنی تربیت بھی ہوتی چلی جائے گی کہ ہمارے عام ووٹر اغراض اور تعصبات کی بنا پر ووٹ دینے کے بجائے اصول اور نظریات کی بنا پر بے لاگ طریقے سے ووٹ دینے کے قابل ہو جائیں گے۔
بِلاشبہ یہ ایک دشوار گزار گھاٹی ہے، اس میں ٹھوکریں لگیں گی، ناکامیاں ہوں گی، کم زور دل کے لوگ دل شکستہ بھی ہوں گے، تحریک سے دل چسپی رکھنے والوں میں سے بھی بہت سے لوگ مایوسی سے دوچار ہوں گے اور ظاہر میں پبلک کا بھی ایک اچھا خاص حصہ اِن ابتدائی ناکامیوں کا غلط مطلب لے گا۔ لیکن منزل مقصود تک پہنچنے کا کوئی راستہ اس گھاٹی کے سوا نہیں ہے۔ اور مجھے اس میں اتنی بڑی ناکامی کا خطرہ بھی نہیں ہے جس کا ہوا ہمیں دکھایا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم ساری ناجائز تدبیروں کے مقابلے میں، اسی غافل اور کم زور پبلک کے اندر سے، ٹھیٹھ اصولی طریق کار برت کر، چند لاکھ ووٹ ضرور لے کر دکھا دیں گے اور یہ چیز ان شاء اللّٰہ اس ملک کے تمام اصلاح پسند اور دین پسند طبقوں میں یاس کے بجائے امید کی شمع روشن کر دے گی۔ پھر میں یہ بھی توقع رکھتا ہوں کہ ایک انتخاب میں ایسے ووٹوں کا جو تناسب ہو گا وہ بعد کے انتخابات میں گھٹے گا نہیں، بلکہ ان شاء اللّٰہ العزیز برابر بڑھتا ہی چلا جائے گا، یہاں تک کہ آخر کار میزان کا رخ پلٹ کر رہے گا۔
صرف چند نشستوں کا حاصل؟
رہی یہ بات کہ اس وقت اگر صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں میں چند نشستیں حاصل کر بھی لی گئیں تو ان کا حاصل کیا ہو گا، تو میں عرض کروں گا کہ اس سے کچھ نہیں‘بہت کچھ حاصل ہو گا۔
اس وقت جماعتِ اِسلامی صرف پبلک میں کام کر رہی ہے۔ جو بااختیار ادارے ملک کے نظام کو چلانے کی اصل طاقت رکھتے ہیں، ان میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اسی لیے وہ اپنے تمام اَخلاقی اور ذہنی اثرات کے باوجود یہاں کے حالات پر براہِ راست اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ انتخابات میں چند نشستیں حاصل کر لینے کے بعد یہ پوزیشن بدلنی شروع ہو جائے گی۔ ایک مرتبہ آپ اس ملک کی سیاسی تصویر میں جگہ پا لیں، پھر آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ آپ کی بات کا وزن کتنا بڑھ گیا ہے۔
اب تک آپ صرف پبلک میں اپنی آواز اٹھاتے رہیں ہیں۔ ایوان حکومت میں، جو فیصلے کی جگہ ہے، آپ کی کوئی آواز نہیں ہے۔ وہاں پہنچ کر آپ کی آواز دونوں جگہ بلند ہو گی اور ان لوگوں سے زیادہ وزنی ہو گی جن کی آواز صرف ایوانِ حکومت ہی میں ہے، یا باہر کچھ ہے بھی تو پبلک کی کوئی قابلِ لحاظ تائید اس کو حاصل نہیں ہے۔
وہاں ایک ایسے گروہ کی موجودگی جو اربابِ اقتدار اور تمام سیاسی پارٹیوں کے سامنے ہر موقع پر کلمہ حق کہے، صاف صاف اور بے لاگ طریقے سے غلط چیزوں پر تنقید کرے، دلیل کے ساتھ صحیح بات پیش کرے اور اِسلام کے مطابق جو اصلاحات اس ملک کے نظام اور قوانین میں ہونی چاہییں ان کو معقول تجویزوں اور مسودہ ہائے قوانین کی شکل میں مرتّب کرکے قبول یا رد کرنے کے لیے رکھ دے، درحقیقت ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ہو گی۔ اس کی قوت کا اندازہ آپ صرف ان لوگوں کی تعداد کے لحاظ سے نہ لگائیے جو اس گروہ میں شامل ہوں گے۔ اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ جب حق بات کَہ دی جائے گی تو رو در رو اسے جھٹلانا اور جب اِسلام کا مطالبہ ایک قرارداد یا مسودہِ قانون کی صورت میں رکھ دیا جائے گا تو اسے رد کر دینا کس قدر مشکل ہو گا اور رد کرنے والوں کی پوزیشن کیا بنے گی۔
پھر وہ گروہ جو ایوانِ حکومت میں پہنچ کر ایک خالص اصولی پارٹی کی حیثیت سے کام کرے، کسی سیاسی جوڑ توڑ میں حصہ نہ لے، کسی سے سودے بازی نہ کرے، کسی عہدہ ومنصب کے لیے ضمیر نہ بیچے، اربابِ اقتدار سے کوئی ناجائز فائدہ حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے اور جس کے ممبروں کو توڑنا پہاڑ توڑنے سے زیادہ مشکل ثابت ہو، اس کا وجود اس ملک کی سیاسی زندگی میں ایک ایسا وزن اور وقار پیدا کرے گا جو کسی بڑی سے بڑی پارٹی کو بھی حاصل نہ ہو گا، اس کے وزن کا اندازہ بھی آپ صرف ان ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے نہیں لگا سکتے جو اسمبلیوں میں بالفعل اس گروہ کو حاصل ہوں گے۔ اس کی رائے دہی کی طاقت خواہ کتنی ہی کم ہو، اس کا اَخلاقی اثر اسمبلیوں کے باہر بھی بہت زیادہ ہو گا اور ان کے اندر بھی۔ درحقیقت وہ اپنے عمل سے اس ملک میں ان تمام لوگوں کی امیدوں کا مرجع بن جائے گا جو یہاں کی سیاسی پارٹیوں کا کردار دیکھ دیکھ کر مایوس ہو رہے ہیں اور دوسرے انتخابات عام کی نوبت آنے تک آپ خود دیکھ لیں گے کہ اس سے جماعتِ اِسلامی کے اثر اور قوت میں کتنا اضافہ ہو گیا ہے۔
یہ خیال کرنا بھی درست نہیں ہے کہ یہ گروہ جتنی تعداد میں اندر جائے گا، وہی اس کی تعداد اسمبلی کی عمر تمام ہونے تک رہے گی۔ میں اس کے برعکس یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہاں اس کی تعداد برابر بڑھتی چلی جائے گی۔ ا س کی وجہ یہ ہے کہ اسمبلیوں میں جو لوگ دوسرے مختلف راستوں سے پہنچتے ہیں وہ سب بالکل بے ضمیر ہی نہیں ہوتے۔ ان میں ایک اچھی خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن کے اندر کہیں نہ کہیں ضمیر نام کی ایک چیز بھی دبی چھپی موجود ہوتی ہے۔ وہ وہاں کے گندے کھیل دیکھ دیکھ کر وقتاً فوقتاً سخت بیزاری کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ مگر نہ خود کوئی پارٹی بنانے کی ہمت رکھتے ہیں، نہ کوئی ایسی پارٹی موجود ہوتی ہے جس کا دامن ان گندگیوں سے پاک ہو اور وہ اس سے جا ملیں۔ اگر ایک بااصول اور ایمان دار گروہ وہاں کام کرنے کے لیے پہنچ جائے اور اپنے عمل سے اپنا اعتماد قائم کر دے، تو یہ ہمیشہ ممکن رہے گا کہ جب کبھی کسی ایم ایل اے کا ضمیر جاگ اٹھے، تو وہ اس گروہ سے آ ملے۔
آخری بات اس سلسلے میں یہ بھی سمجھ لیجیے کہ پارلیمنٹری نظام میں ایک پارٹی کی طاقت صرف اس کے ممبروں کی تعداد کے مطابق ہی نہیں ہوا کرتی۔ متعدد پارٹیوں کے ایوان میں بارہا ایسا ہوتا ہے کہ توازنِ قوت ایک قلیل التعداد گروہ کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ ابن الوقت اور غرض پرست گروہ ایسے مواقع کو سودے بازی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ایسا منظم گروہ وہاں موجود ہو جو اپنے سامنے ایک بلند مقصد رکھتا ہو اور صرف اپنے مقصد ہی کی خاطر اختلاف اور اتفاق کر سکتا ہو، تو وہ قلیل التعداد ہونے کے باوجود بڑی بڑی پارٹیوں سے اپنی بات منوا سکتا ہے اور اس کی متعدد مثالیں آپ خود اپنے ملک میں دیکھ چکے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت سیاسی پارٹیوں کے جو رنگ ڈھنگ ہیں اور اسمبلیوں میں پہنچ کر وہ جس طرح آپس میں اقتدار کے لیے کش مکش اور ایک دوسرے کے خلاف جوڑ توڑ کرتی ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ مضبوط سیرت رکھنے والے چند آدمیوں کا ایک چھوٹا سا بلاک بھی اگر ان کے درمیان موجود ہو تو وہی ان سب پر حکمرانی کر سکتا ہے۔
’’بالواسطہ‘‘ اور ’’بلاواسطہ‘‘
اس بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرارداد میں انتخابات کے متعلق جو پالیسی تجویز کی گئی ہے، وہ بالکل درست ہے‘ اور اپنے لائحۂ ِعمل کے سیاسی پہلو کی تکمیل کے لیے ہمیں لازماً اسی پالیسی پر عمل کرنا چاہیے۔
اس کے بعد صرف اس امر کی تشریح باقی رہ جاتی ہے کہ انتخابات میں بلاواسطہ کے ساتھ بالواسطہ حصہ لینے کا مطلب کیا ہے اور وہ کیا مصالح ہیں جن کی بنا پر یہ دوسرا طریقہ بھی اس پالیسی میں شامل کیا گیا ہے۔
جہاں تک بالواسطہ کے مفہوم کا تعلق ہے، اس میں بجائے خود کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم براہِ راست اپنے اہتمام سے کچھ لوگوں کو بھیجنے کے ساتھ ایسے عناصر کو بھی کام یاب کرانے کی کوشش کریں گے جو اِسلامی نظام کے مقصد میں ہم سے متفق ہیں اور جن سے ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اس کے قیام کی کوشش میں مددگار بن سکیں گے۔ لیکن اصل پیچیدگی ان مصالح کو سمجھنے میں پیش آتی ہے جن کی بنا پر ہم اپنی پالیسی میں اس چیز کو شامل کر رہے ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان حالات پر ایک نگاہ ڈالنی چاہیے جن میں ہم کو یہ دشوار گزار گھاٹی طے کرنی ہے۔
حالات کا ایک رخ یہ ہے کہ نئے دستور کی رو سے سارے ملک کی صوبائی اورمرکزی اسمبلیوں کی ۹۰۰ سے کچھ زیادہ نشستیں ہیں، جن پر بیک وقت انتخابی مقابلہ درپیش ہو گا۔ہمارے پاس اس وقت اتنے ذرائع موجود نہیں ہیں کہ ہم ان تمام نشستوں پر، یا ان کی اکثریت پر بلاواسطہ مقابلہ کر سکیں۔ صرف اس کے مصارف ہی کا آپ اندازہ کریں تو آپ کی سمجھ میں آ جائے گا کہ یہ کام ہمارے لیے کس قدر مشکل ہے۔
دوسرا رخ یہ ہے کہ جماعت کے اثرات سارے ملک میں یکساں نہیں ہیں۔ کچھ حلقے ایسے ہیں جن میں ہم اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ براہِ راست خود اپنے انتخابی نظام کے تجویز کردہ آدمیوں کو کام یاب کرا لینا ہمارے لیے ممکن ہے۔ لیکن بہت سے حلقے ایسے بھی ہیں جن میں ہماری طاقت اس پیمانے کی تو نہیں ہے، البتہ اتنی ضرور ہے کہ ہماری تائید کسی اچھے اور مفید آدمی کی کام یابی کے لیے اور ہماری مخالفت کسی برے آدمی کو روکنے کے لیے مؤثر ہو سکتی ہے۔ ایسے حلقوں میں اپنی اس طاقت کو معطّل رکھنا اور اسے کسی مصرف میں نہ لانا کوئی دانش مندی نہیں ہے۔
تیسرا رخ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جماعتِ اِسلامی سے باہر بھی ایسے گروہ اور افرا د موجود ہیں جو لادینی کے مخالف اور دینی نظام کے حامی ہیں۔ ہماری پہلے بھی یہ خواہش اور کوشش رہی ہے اور اب بھی یہ ہونی چاہیے کہ لادینی کی حامی طاقتوں کے مقابلہ میں ان تمام عناصر کے درمیان اتفاق اور باہمی تعاون ہو اور ان کی قوتیں ایک دوسرے کی مزاحمت میں صرف ہو کر مخالف دین عناصر کے لیے مددگار نہ بنیں۔ یہی کوشش ہمیں آیندہ انتخابات میں بھی کرنی ہے تاکہ آیندہ اسمبلیوں میں اِسلامی نقطہ نظر کی وکالت کرنے کے لیے ہماری پارلیمنٹری پارٹی تنہا نہ ہو بلکہ ایک اچھی خاصی تعداد دوسرے ایسے لوگوں کی بھی موجود رہے جو اس خدمت میں اس کا ساتھ دینے والے ہوں۔ اس لیے ہم دل سے یہ چاہیں گے کہ جن حلقوں میں ہم براہ راست انتخابی مقابلہ نہیں کر رہے ہیں وہاں ہماری طاقت بے کار ضائع ہونے کے بجائے کسی حامیِ دین گروہ یا فرد کے حق میں استعمال ہو۔ بلکہ ہم اس حد تک بھی جائیں گے کہ جہاں ایسا کوئی گروہ یا فرد نہیں اٹھ رہا ہے وہاں کسی نیک اور موزوں آدمی کو خود اٹھنے کا مشورہ دیں اور اپنی تائید سے اس کو کام یاب کرانے کی کوشش کریں، بشرطیکہ اس کے اپنے اثرات بھی اس کے حلقے میں کافی ہوں اور اس کی انتخابی جدوجہد کا سارا بار ہم پر نہ آ پڑے۔
حالات کے ان تینوں پہلوئوں کو نگاہ میں رکھ کر جب آپ غور کریں گے تو آپ کو پوری طرح اطمینان ہو جائے گا کہ اس قرارداد کی تجویز کردہ انتخابی پالیسی میں بلاواسطہ کے ساتھ بالواسطہ کی گنجائش ٹھیک رکھی گئی ہے۔ یہ دراصل ایک خلا تھا جو ہماری سابق پالیسی میں پایا جاتا تھا۔ تجربے اور حالات کے مشاہدے نے ہم کو یہ احساس دلایا کہ اس کو بھرنا حکمت کا تقاضا ہے۔ میرے نزدیک کوئی گروہ اسی زمانے میں نہیں، کسی زمانے میں بھی جاہلیت سے لڑ کر اِسلامی نظام زندگی قائم کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ تجربات سے سبق سیکھ کر اور حالات کو سمجھ کر اپنی پالیسیوں میں ایسا ردّوبدل نہ کرتا رہے جس کی حدودِ شرع کے اندر گنجائش ہو۔ آپ کو اگر فی الواقع یہ کام کرنا ہے اور صرف تبلیغ کا فرض انجام دے کر نہیں رہ جانا ہے تو اپنے اوپر ان پابندیوں کو کافی سمجھئے جو خدا اور رسول کی شریعت نے آپ پرعائد کی ہیں اور اپنی طرف سے کچھ زائد پابندیاں عائد نہ کر لیجیے۔ شریعت پالیسی کے جن تغیرات کی وسعت عطا کرتی ہو اور عملی ضروریات جن کی متقاضی بھی ہوں، ان سے صرف اس بنا پر اجتناب کرنا کہ پہلے ہم اس سے مختلف کوئی پالیسی بنا چکے ہیں، ایک بے جا جمود ہے۔ اس جمود کو اختیار کرکے آپ ’’اصول پرستی‘‘ کا فخر کرنا چاہیں تو کر لیں، مگر یہ حصول مقصد کی راہ میں چٹان بن کر کھڑا ہو جائے گا اور اس چٹان کو کھڑا کرنے کے آپ خود ذمّہ دار ہوں گے، کیوں کہ اللّٰہ اور اس کے رسول نے اسے کھڑا نہیں کیا ہے۔
وسیع پالیسی کی ضرورت
قرارداد صرف یہ چاہتی ہے کہ اجتماع وسیع بنیادوں پر ایک پالیسی بنا کر جماعت کو دے دے جس میں حالات اور ضروریات کے مطابق کام کرنے کی کافی گنجائش ہو۔ اس کے بعد یہ چیز اپنی مجلسِ شُورٰی پر چھوڑ دیجیے کہ وہ موقع ومحل کا لحاظ کرکے ان حدود کے اندر جس طریقے سے مناسب سمجھے کام کرنے کا فیصلہ کرے۔ آپ کو قطعی طور پر جو فیصلہ دینا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جماعت اس ملک کے انتخابات سے بے تعلق نہیں رہے گی، تاکہ اس معاملے میں تذبذب ختم ہو اور جماعت کے اندر ان بحثوں کا دروازہ بند ہو جائے جو سیاسی کام کرنے یا نہ کرنے اورانتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کے متعلق چھڑ گئی ہیں اور کارکنوں کے ذہن پراگندہ کئے دے رہی ہیں۔ رہی یہ بات کہ آپ انتخابات میں کس طرح حصہ لیں، تو اس کے لیے ایک وسیع پالیسی بنا کر مجلسِ شُورٰی کو دے دیجیے اور اس کی تفصیلات اس اجتماع عام میں طے کرکے اپنے ہاتھ نہ باندھ لیجیے، کیوں کہ جتنے جزئیات کا فیصلہ کرکے آپ چلے جائیں گے انھیں بدلنے کی اگر کبھی ضرورت پیش آ گئی تو پھر اجتماع عام ہی بلانا پڑے گا اور آپ جانتے ہیں کہ بات بات پر اتنا بڑا اجتماع منعقد کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
خاتمہ ِ کلام
رفقائے عزیز! میں نے اپنی عادت کے خلاف اور اپنی قوت برداشت سے بڑھ کر، اس قرارداد پر چھ گھنٹے کی یہ لمبی تقریر اس لیے کی ہے کہ آپ جو فیصلہ بھی کریں خوب سوچ سمجھ کر اور ہر پہلو پر نگاہ رکھ کر کریں۔ یہ قرارداد آپ کے آج تک کے پورے کام کے متعلق بھی ایک فیصلہ دے رہی ہے اور آیندہ کے لیے وہ لائحہِ عمل بھی طے کر رہی ہے جس پر آپ کو ایک مدت دراز تک کام کرنا ہو گا۔ اس کو قبول یا رد کرنے سے پہلے آپ کو ا س کے ہر نکتے اور ہر مضمون کے متعلق پوری بصیرت حاصل ہونی چاہیے۔
مجھے اس کی تشریح کرتے ہوئے بہت سی ایسی تفصیلات میں بھی جانا پڑا ہے جنھیں ایک شخص بادی النظر میں غیر ضروری قرار دے سکتا ہے۔ لیکن، جیسا کہ میں اپنی تقریر کے آغاز میں اشارہ کر چکا ہوں، میرے نزدیک یہ جماعت کی ایک تعلیمی ضرورت تھی جسے پورا کرنے کی میں نے کوشش کی ہے۔ جماعت میں اب ایسے لوگوں کی تعداد کم رہ گئی ہے جو اس تحریک کی ابتدا سے آج تک کے تمام مراحل سے خود گزرے ہیں اور ہر چیز کی ’’شانِ نزول‘‘ سے براہِ راست واقف ہیں۔ کثیر تعداد ایسے رفقا کی ہے جو بیچ کے مختلف مراحل میں آئے ہیں اور پہلے کے مرحلے ان کے لیے صرف تاریخ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پھر آگے وہ لوگ آنے والے ہیں جن کے لیے یہ سب کچھ تاریخ ہو گا۔ ان کو یہ سمجھنے میں کہ آج تک مختلف مواقع پر ہم کیا کچھ کرتے رہے ہیں اور کیوں کرتے رہے ہیں، مشکلات پیش آ سکتی ہیں، بلکہ فی الواقع پیش آ رہی ہیں اور اچھی خاصی الجھنوں کی موجب بن رہی ہیں۔ یہ الجھنیں ان کے اطمینان ہی میں خلل انداز نہیں ہوتیں بلکہ اپنے مستقبل کا صحیح رخ متعین کرنے میں بھی ان کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہیں اور آگے اور زیادہ پیدا کریں گی۔ مجھ پر تمام دوسرے رفقا سے بڑھ کر یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ میں ان مشکلات کو رفع کرنے کی کوشش کروں۔ اس لیے کہ اس تحریک کے آغاز سے آج تک میں ہی اس کی ہنمائی کرتا رہا ہوں اور ہر مرحلے میں ایک ایک قدم جو اٹھایا گیا ہے اس کی مصلحت اور ضرورت اور اس کے حالات سے اچھی طرح واقف ہوں۔ میں نے اس کام کو اندھا دھند نہیں چلایا ہے بلکہ شب وروز کے غور وفکر کے بعد ایک ایک قدم خوب سوچ سمجھ کر اٹھاتا رہا ہوں۔ میرے ذمّے جماعت کا یہ قرض تھا کہ پچھلے سارے کام کا پورا حساب کھول کر اس کے سامنے رکھ دوں۔ مگر اس قرض کو ادا کرنے کے لیے یہ باربار چھ چھ گھنٹے کی تقریریں نہیں کر سکتا تھا۔ اب پوری جماعت سامنے موجود ہے۔ میں اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ جس مقصد کے لیے میں نے یہ محنت کی ہے وہ پورا ہو اور میری اس تقریر سے جماعت کے کارکنوں کو اپنی تحریک کے سمجھنے میں وہ مدد ملے جو اطمینان وبصیرت کے ساتھ کام کرنے کے لیے درکار ہے۔
واخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العلمینo
……٭٭٭……
زبان: اُردو
صفحات: 154
اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، منصورہ ملتان روڈ، لاہور۔