ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔
مقدّمہ
از : مرتب
مسلمان اور غلامی … یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ جمع نہیںہو سکتیں۔ مسلمان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے‘ کہ وہ غلامی کی فضا میں اپنے دین کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ اسلام پر اسی وقت پوری طرح عمل ہو سکتا ہے‘ جب انسان ساری بندشوں کو توڑ کر صرف خدا کا مطیع ہو جائے۔ اسلام غلبہ اور حکمرانی کے لیے آیا ہے، دوسروں کی چاکری اور باطل نظاموںکے تحت جزوی اصلاحات کے لیے نہیں آیا۔
ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَo الصف 9:61
وہی ہے (ذات باری تعالیٰ) جس نے بھیجا اپنا رسول (a) ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ اس دین کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کر دے۔ خواہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
اسلام نے مسلمانوںکا مزاج یہ بنایا ہے‘ کہ طاغوت کی حکومت، خواہ، وہ کسی رنگ میں ہو، کھل کر اس کی مخالفت کی جائے، اسے کبھی ٹھندے پیٹوں برداشت نہ کیا جائے‘ اور خدا کی حاکمیّت کو سیاسی حیثیت سے عملاً قائم کرنے اور اس کے قانون کو زندگی کے ہر شعبے میں جاری و ساری کرنے کی کوشش کی جائے، مسلمانوں کی پوری تاریخ میں یہی کشمکش اور کوشش نظر آتی ہے۔
برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے سامنے یہ مسئلہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں بہت نمایاں ہو کر اُبھرا۔ سلطنت مغلیہ کے ختم ہونے تک صورت حال یہ تھی‘ کہ گو مجموعی طور پر ملک کا نظامِ اجتماعی اسلام کے مطابق نہ تھا‘ لیکن ایک طرف مسلم معاشرہ میں ہماری ثقافت کی روایات بڑی مضبوطی سے جاگزیںتھیں‘ اور دوسری طرف ساری خرابیوں کے باوجود ملک کا قانون شریعت اسلامی پر مبنی تھا۔ اس لیے مسلمانوں کی کوششوںکا محور مزید اصلاح و تبدیلی اور نظامِ اجتماعی کے بگاڑ کو دور کرنا تھا۔ برطانوی سامراج کی آمد نے مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کو ختم کر دیا اور نئے حکمرانوں کی تمام قوّت اسی کام پر صرف ہوئی کہ مسلمانوں کو ملی زندگی میں نظریاتی نقطۂ نظر سے جو بگاڑ آچکا تھا اس کو بڑھائیں اور اسے اس کی انتہا تک پہنچا دیں، تاکہ مسلمان سیاسی، معاشی،ذہنی، مذہبی، اخلاقی، ثقافتی، غرض ہر حیثیت سے غلام بن جائیں‘ اور ان کا جُدا گانہ وجود باقی نہ رہے۔
مسلمانوں نے اس نئی حیثیت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ زندہ رہنا چاہتے تھے‘ لیکن مسلمان کی حیثیت سے، محض ہندوستان میں بسنے والی ایک مخلوق کی حیثیت سے نہیں۔ انہوں نے آزادی کی کوشش کی۔ سیّد احمد شہیدؒ نے جہاد کا اعلان کیا اور تحریکِ مجاہدین نے آخری دم تک اعدائے اسلام کا مقابلہ کیا۔ فرائضی تحریک نے مشرقی ہند میں جہاد کا علم بلند کیا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی مسلمانوں ہی کے خون سے سینچی گئی اور اس طرح اپنی تمام خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود مسلمانوں نے اسلام کے اس مزاج کا بار بار اظہار کیا‘ کہ وہ غیر اللہ کی غلامی کو قبول نہیں کر سکتا‘ اور طاغوت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔
انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ’’سمجھوتہ بندی‘‘کی روش کو خاصی تقویت حاصل ہوئی۔ مسلمانوں کی حیثیت ایک ہاری ہوئی فوج کی سی تھی‘ اور جو لوگ ذہناً مغرب سے شکست کھا چکے تھے‘ انہوں نے جدید تہذیب و تمدّن سے سمجھوتہ کرنے اور اس کے رنگ میں اپنے کو رنگنے ہی کی روش کی طرف مسلمانوں کو بلایا۔ لیکن بحیثیت مجموعی قوم نے اس راستہ کو اختیار نہ کیا‘ اور پورے معاشرہ میں ایک کش مکش جاری رہی۔ ایک دوسرے گروہ نے نئے تقاضوں اور نئے حالات سے کلی طور پر صرف ِنظر کیا‘ اور اپنے کو ماضی کے حسین نظاروں میں گُم رکھا۔ لیکن یہ روش بھی چلنے والی نہ تھی۔ بیسویں صدی کے شروع ہی سے حالات نے ایک ایسا رخ اختیار کیا‘ جس میں ملکی معاملات میںمسلمانوں کی شرکت لابدی ہو گئی۔ نئی تحریکات اُبھریں۔ سیاسی اسٹیج پر بڑی گہما گہمی ہوئی۔ پرانی دوستیاں ٹوٹیں اور نئی دشمنیاں پیدا ہوئیں۔ وقتی اور ہنگامی طور پر بڑے بڑے کارنامے بھی انجام دئیے گئے۔ لیکن ابھی تک مسلمانوں کے سامنے وہ راہ واضح نہ ہو ئی تھی‘ جو ایک طرف انہیں غلامی سے نجات دلائے‘ اور آزادی کے وسیع میدانوں کو ان کے لیے مسخر کرے، اور دوسری طرف ان کے رشتہ کو ان کے دین اور ان کی ثقافت و تہذیب سے مستحکم تر کرکے ان تاریخی تقاضوں کو بر آنے کا موقع دے‘ جن کے اظہار کے لیے ملت اسلامیہ ہند کا اجتماعی ضمیر بے چین تھا۔ سیاست کی زمامِ کار بڑی حد تک ان لوگوں کے ہاتھوں میں تھی‘ جو ملت کے مزاج اور دین کے تقاضوں کا پورا شعور نہیں رکھتے تھے۔ علما جو ایک مدت سے قوم کی قیادت کر رہے تھے‘ اب آہستہ آہستہ ان میں سے اکثر اس مقام سے ریٹائر ہو رہے تھے۔ اس دوگونہ عدم مطابقت کی وجہ سے قوم کے ہاتھ وہ راہ نہیں آرہی تھی جسے اس کی روح تلاش کر رہی تھی۔
ان حالات میں مولانا سیّد ابوالا علیٰ مودودی صاحب نے احیائے اسلام کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ ایک طرف موصوف نے ۱۹۳۲ء میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کو عقلی دلائل کے ساتھ پیش کیا اور ذہنوں سے شکوک کے ان کانٹوں کو نکالا‘ جو الحاد، بے دینی اور اشتراکیت کی یلغار نے پیوست کر دئیے تھے۔ پھر انہوں نے ان تمدّنی، معاشرتی اور معاشی مسائل کا حل بھی اسلام کی روشنی میں بتایا‘ جو سوچنے سمجھنے والے طبقات کو پریشان کیے ہوئے تھے۔ تعمیر افکار کے ا س عمل کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی صاحب نے ملت کو ان اجتماعی مسائل کا احساس بھی دلایا‘ جن کے نرغہ میں وہ گھِر گئی تھی، ان خرابیوں کی نشاندہی بھی کی‘ جو اس کی سیاسی جدوجہد کو کمزور تر کر رہی تھیں‘ اور ان خطوط کو بھی واضح کیا‘ جن پر اپنی اجتماعی جدوجہد کو منظم کرکے‘ وہ آزادی اور اسلام دونوں کو حاصل کر سکتی تھی۔ یہ کام ابھی ایک تدریجی رفتار کے ساتھ جاری تھا‘ کہ ہندوستان میںیکایک حالات نے پلٹا کھایا اور وہ منزل بالکل قریب نظر آنے لگی ‘جہاں سے اقتدار برطانوی سامراج سے ہندو قوم پرستی کی طرف منتقل ہونے و الا تھا۔ اس موقعہ پر یہ مضامین مولانا مودودی صاحب نے ۱۹۳۷ء میں لکھنے شروع کیے اور ۳۹ء کے آغازتک ترجمان القرآن میں مسلسل شائع ہوتے رہے۔ اس کے بعد یہی مضامین ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ کے عنوان سے دو جلدوں میں شائع ہوئے اور اس کتاب کے نو دس ایڈیشن تقسیمِ ملک سے قبل نکل چکے تھے۔ بلا شبہ اس کتاب نے ایک نسل کو متاثر کیا، متحدہ قومیّت کے طلسّم کو چاک کیا‘ اور اسلامی قومیّت کے احساس کو پختہ کرکے اسے ایک سیاسی نصب العین کی شکل دی۔
(۲)
برطانوی ہند کے مسلمانوں کو انگریز کی غلامی کے دور میں جو سب سے بڑا خطرہ پیش آیا وہ ’’متحدہ قومیّت‘‘ کا تھا۔ یہ خطرہ ۱۹۲۵ء میں تحریکِ خلافت کے غیر مؤثر ہو جانے کے بعد سے شدید تر صورت اختیار کرتا چلا گیا۔ مسلمانوں کا حال یہ تھا‘ کہ ہر میدان میں شکست پر شکست کھانے سے ان پر شدید مایوسی کا غلبہ تھا۔ کوئی قومی تنظیم باقی نہیں رہی تھی۔ قومی لیڈر ایک ایک کرکے یا تو تھک گئے تھے، یا اللہ کو پیارے ہو گئے تھے، اور یا پھر قوم کا اعتماد کھو بیٹھے تھے۔ نِت نئے فتنے اُبھر رہے تھے‘ اور کوئی نہ تھا جو ان کا مقابلہ کرے۔ ان حالات میں کانگریس نے مسلمانوں کو نرم نوالہ سمجھ کر نگل لینا چاہا‘ اور اس غرض کے لیے متحدہ قومیّت کی تحریک کو تیز تر کر دیا۔ علمی میدان میں مغرب کی پوری سیاسی فکر کی بنا پر متحدہ قومیّت کے تصوّر کو پیش کیا جا رہا تھا‘ اور کوئی اس سیلاب کا مقابلہ کرنے والا نہ تھا۔ رابطہ عوام (mass contact) کے نام پر‘ مسلمانوں کو ان کی اپنی تنظیمات سے کاٹ کر‘ کانگریس میں ضم کرنے کی سعی بڑے وسیع پیمانے پر ہو رہی تھی۔ پھر مسلم نام رکھنے والے اہلِ قلم روٹی کے مسئلہ کو سب سے اہم مسئلہ قرار دے کر‘ اشتراکیت کی تبلیغ بالکل کھلے بندوںاور جمعیت العلماء کے اخبارات تک کے ذریعہ کر رہے تھے۔ علما کا ایک بڑا طبقہ انگریز کی مخالفت میں متحدہ قومیّت تک کی تائید پر اتر آیا تھا۔ ان حالات میں صاف نظر آرہا تھا‘ کہ ملت اسلامیہ ہند کی کشتی ڈانواں ڈول ہے‘ اور اگر حالات کو بدلنے کی فوری کوشش نہ کی گئی‘ تو اس کشتی کو بچانا ممکن نہ رہے گا۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں زیر نظر مضامین لکھے گئے۔ ان میں بتایا گیا ہے‘ کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ کیا ہے، ان کے زوال کے اسباب کیا ہیں، ان کی حقیقی کمزوریاں کیا ہیں، ان کو بے جا استعمال کرنے کی کیا کوششیں ہو رہی ہیں، انہیں کون کون سے خطرات درپیش ہیں، اور ان خطرات کا مقابلہ وہ کیوں کر‘ کر سکتے ہیں۔ پھر ان میں کانگریس کی متحدہ قومیّت کی تحریک کا پورا پس منظر اور اس میں مسلمانوں کے لیے پوشیدہ خطرات کا مفصّل جائزہ ہے۔ یہ وہ پہلی کوشش ہے‘ جس میں متحدہ قومیّت پر علمی اور عقلی تنقید کی گئی ہے‘ اور اتنے بلند علمی معیار سے کی گئی ہے‘ کہ آج تک اس کے پائے کی کوئی دوسری چیز ملک کے سامنے نہیں آئی۔ بلا شبہ برصغیر ہندو پاکستان سے شائع ہونے والے بیسویں صدی کے لٹریچر میں متحدہ قومیّت کے بارے میں علاّمہ اقبال اور مولانا مودودی کی تحریرات اپنی نظیر نہیں رکھتیں۔
پھر مولانا کے ان مضامین کی یہی خصوصیت نہیں ہے‘ کہ اپنے علمی اور منطقی طرز استدلال، تاریخی ا ستشہاد، حسن بیان اور قوّت اثر کی بناء پر یہ منفرد ہیں، بلکہ ان کا عظیم ترین کارنامہ یہ ہے‘ کہ ان کی وجہ سے اسلامی تصوّر قومیّت نے ایک سیاسی نصب العین کی شکل اختیار کی‘ اور مسلمانوں کے سامنے ایک جُدا گانہ قوم ہونے اور اپنی جُدا گانہ قومیّت اور تہذیب کو محفوظ رکھنے اور ترقی دینے کے لیے اپنی آزاد مملکت قائم کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ اور بالآخر قیام پاکستان پر منتج ہوا۔
تحریک پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ پر تھی۔ اس تصوّر کو پیش کرنے، اسے نکھارنے اور فروغ دینے میں مولانا مودودی صاحب کی تحریرات کا حصہ کیا تھا، اسے اس شخص کی زبان سے سُنیئے‘ جو قائد اعظم اور خان لیاقت علی خان کا دستِ راست تھا … یعنی آل انڈیا مسلم لیگ کے جائنٹ سیکرٹری، اس کی مجلس عمل (committee of action) اور مرکزی پارلیمانی بورڈ کے سیکرٹری، جناب ظفر احمد انصاری صاحب۔ وہ لکھتے ہیں :
’’اس موضوع پر مولانا ابوالا علیٰ مودودی صاحب نے ’’مسئلہ قومیّت‘‘ کے عنوان سے ایک سلسلہ مضامین لکھا جو اپنے دلائل کی محکمی، زورِاستدلال اور زور بیان کے باعث مسلمانوںمیں بہت مقبول ہوا اور جس کا چرچا بہت تھوڑے عرصے میں اور بڑی تیزی کے ساتھ مسلمانوں میں ہو گیا۔ اس اہم بحث کی ضرب متحدہ قومیّت کے نظریہ پر پڑی اور مسلمانوں کی جُدا گانہ قومیّت کا احساس بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا۔ قومیّت کے مسئلہ پر یہ بحث محض ایک نظری بحث نہ تھی بلکہ اس کی ضرب کانگریس اور جمعیت العلمائے ہند کے پورے موقف پر پڑتی تھی۔ ہندوؤں کی سب سے خطرناک چال یہی تھی‘ کہ مسلمانوں کے دلوں سے ان کی جُدا گانہ قومیّت کا احساس کسی طرح ختم کرکے ان کے ِملّی وجود کی جڑیں کھوکھلی کر دی جائیں۔ خود مسلم لیگ نے اس بات کی کوشش کی کہ اس بحث کا مذہبی پہلو زیادہ سے زیادہ نمایاں کیا جائے‘ تاکہ عوام کانگریس کے کھیل کو سمجھ سکیں‘ اور اپنے دین و ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوں‘‘۔ { FR 2877 }
آگے چل کر مولانا انصاری صاحب پھر لکھتے ہیں :
’’دراصل پاکستان کی قراردار سے پہلے ہی مختلف گوشوں سے ’’حکومتِ الٰہیہ‘‘، ’’مسلم ہندوستان‘‘ اور ’’خلافتِ ربانی‘‘ وغیرہ کی آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔ علاّمہ اقبال نے ایک ’’مسلم ہندوستان‘‘ کا تصوّر پیش کیا تھا۔ مودودی صاحب کے لٹریچر نے حکومتِ الٰہیہ کی آواز بلند کی تھی۔ چوہدری افضل حق نے اسلامی حکومت کا نعرہ بلند کیا تھا۔ مولانا آزاد سبحانی نے خلافت ربانی کا تصوّر پیش کیا تھا۔ جگہ جگہ سے اس آواز کا اٹھنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے‘ کہ مسلمان اپنے مخصوص طرزِفکر کی حکومت قائم کرنے کی ضرورت پوری شدّت سے محسوس کر رہے تھے‘ اور حالات کے تقاضے کے طور پر ان کے عزائم خفتہ اُبھر کر سامنے آرہے تھے۔‘‘۔ { FR 2878 }
علاّمہ اقبال مرحوم مولانا مودودی کی ان تحریرات سے بے حد متاثر تھے۔ بقول میاں محمد شفیع مدیر اقدام علاّمہ موصوف ’’‘ترجمان القرآن‘‘ کے ان مضامین کو پڑھوا کر سنتے تھے۔ انہی سے متاثر ہو کر علاّمہ اقبال نے مولانا مودودی کو حیدر آباد دکن چھوڑ کر پنجاب آنے کی دعوت دی‘ اور اسی دعوت پر مولانا ۱۹۳۸ء میں پنجاب آئے۔ میاں محمد شفیع ’لاہور کی ڈائری‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’مولانا سیّد ابو الا علیٰ مودودی تو درحقیقت نیشنلسٹ مسلمانوںکی ضد تھے‘ اور میں یہاں پوری ذمّہ داری کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ میں نے حضرت علاّمہ اقبالؒ کی زبان سے کم و بیش اس قسم کے الفاظ سنے تھے‘ کہ ’’مودودی ان کانگریسی مسلمانوںکی خبر لیں گے‘‘۔ جہاں علاّمہ اقبال ؒ بالکل واضح طور سے آزاد اور مدنی کے نقّاد تھے وہاں وہ مولانا کا ’’ترجمان القرآن‘‘ جستہ جستہ مقامات سے پڑھوا کر سننے کے عادی تھے۔ اور اس امر کے متعلق تو میں سو فی صدی ذمّہ داری سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ علاّمہ نے مولانا مودودی کو ایک خط کے ذریعے حیدر آباد (دکن) کے بجائے پنجاب کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کی دعوت دی تھی بلکہ وہ خط انہوں نے مجھ سے ہی لکھوایا تھا‘‘۔ { FR 2879 }
مارشل لا حکومت کے قائم کردہ دستوری کمیشن کے مشیر اور کمپنی لا کمیشن کے صدر سیّد شریف الدین پیرزادہ صاحب اپنی تازہ ترین کتاب ’’ارتقائے پاکستان‘‘ (evolution of pakistan) میں لکھتے ہیں:
’’مولانا مودودی نے ’’ترجمان القرآن‘‘ کے ایک سلسلہ مضامین کے ذریعے جو ۱۹۳۸ء اور ۱۹۳۹ء میں شائع ہوئے، کانگریس کے چہرے سے نقاب اتاری اور مسلمانوں کو متنبہ کیا۔ موصوف نے برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ کا جائزہ لیا، کانگریس کی لادینیت کی قلعی کھولی اور یہ ثابت کیا کہ ہندستان کے مخصوص حالات میں اس کے لیے جمہوریت نا موزوں ہے۔ اس لیے کہ اس میں مسلمانوں کو ایک ووٹ اور ہندوؤںکو چار ووٹ ملیں گے۔
انہوں نے ہندوؤں کے قومی استعمار کی بھی مذمت کی‘ اور اس رائے کا اظہار کیا‘ کہ محض مخلوط انتخاب اور اسمبلیوں میں کچھ زیادہ نمائندگی (weightage) اور ملازمتوں میں ایک شرح کا تعین‘ مسلمان قوم کے سیاسی مسائل کا حل نہیں ہے۔ جو تجویز انہوں نے پیش کی اس میں تین متبادل صورتوںکی نشاندہی کی گئی تھی‘‘۔{ FR 2881 }
ان صورتوں میں آخری صورت تقسیمِ ملک کی تھی۔ یہی وجہ ہے‘ کہ سیّد شریف الدین پیر زادہ صاحب ارتقائے پاکستان کے سلسلہ میں جس نتیجہ پر پہنچے ہیں اس میں اس امر کا اظہار کرتے ہیں‘ کہ :
’’وہ تجاویز اور مشورے جو سر عبد اللہ ہارون، ڈاکٹر لطیف، سر سکندر حیات، ’’ایک پنجابی‘‘، سیّد ظفر الحسن، ڈاکٹر قادری، مولانا مودودی، چودھری خلیق الزماں وغیرہ نے دئیے، وہ ایک معنی میں پاکستان تک پہنچنے والی سڑک کے سنگ ہائے میل ہیں‘‘۔ { FR 2882 }
ہمیں اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے مندرجہ بالا اقتباسات کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن صرف ان لوگوں کی سہولت کے لیے جو اس زمانہ کی پوری تاریخ سے واقف نہیں ہیں‘ ہم نے یہ چند تائیدی بیانات بھی شامل کر لیے تھے۔ ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے‘ کہ آزادی ہندکی جدوجہد ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ اور ’’مسئلہ قومیّت‘‘ نے کتنا اہم کردار اداکیا ہے۔
(۳)
قیام پاکستان کے لیے مسلم لیگ نے جو جدوجہد کی اس میں مولانا مودودی صاحب نے عملاً جس وجہ سے شرکت نہیں کی وہ مسلم لیگ کے طریق کار سے مولانا کا اختلاف تھا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ:
(الف) اگر ہمارے پیشِ نظر ایک اسلامی ریاست ہے‘ تو ضروری ہے‘ کہ ہم قوم کو اس مقصد کے حصول کے لیے اخلاقی حیثیت سے بھی تیار کریں، صرف سیاسی جنگ اس کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے علمی، فکری، اخلاقی، تہذیبی، سیاسی، غرض ہر میدان میں کام کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر اس مقصد کا حصول مشکل ہے۔
(ب) تحریک کی ہمہ گیر اور اس کے ہر شعبہ اور سطح کی قیادت کے انتخاب میں پوری احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ اشتراکیوں، ملحدوں اور بے دینوں، جاگیرداروںاور زمینداروں، سب کو بلا سوچے سمجھے ایک ساتھ جمع کر دینے سے جو بھیڑ جمع ہو جاتی ہے‘ وہ کبھی بھی قوم کی رہنمائی صحیح سمت میں نہیں کر سکتی۔ یہ تو ایک دوسرے کا گلا کاٹنے اور اپنے اپنے مقاصدکے لیے قوم کو استعمال کرنے کی کوشش کریں گے‘ اور نتیجتاً اصل منزل کھوٹی ہو جائے گی۔
(ج) مسلمانوںکی بنیاد ی حیثیت ایک اصولی جماعت اور داعی گروہ کی ہے‘ اور کسی قیمت پر بھی یہ حیثیت متاثر نہیں ہونی چاہیے۔
طریق کار کے اختلاف کو مولانا نے صاف طور پر ظاہر کر دیا تھا، چنانچہ آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عمل کے ایک خط کے جواب میں مولانا نے لکھا تھا :
’’آپ حضرات ہرگز یہ گمان نہ کریں کہ میں اس کام میں کسی قسم کے اختلافات کی وجہ سے حصہ لینا نہیں چاہتا۔ دراصل میری مجبوری یہ ہے‘ کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ حصہ لوں تو کس طرح۔ادھوری تدابیر میرے ذہن کو بالکل اپیل نہیں کرتیں۔ نہ داغ دوزی (patch work) سے ہی مجھ کو کبھی دلچسپی رہی ہے۔ اگر کُلّی تخریب اور کُلّی تعمیر پیشِ نظر ہوتی‘ تو میں بہ دل و جان اس میں ہر خدمت انجام دینے کے لیے تیار تھا۔ میرے لیے یہی مناسب ہے‘ کہ اس باب میں عملاً کوئی خدمت انجام دینے کے بجائے ایک طالب علم کی طرح دیکھتا رہوں‘ کہ سوچنے والے اس جزوی اصلاح و تعمیر کی کیا صورتیں نکالتے ہیں‘ اور کرنے والے اسے عمل میں لاکر کیا نتائج پیدا کرتے ہیں۔ اگر فی الواقع انہوں نے اس طریقہ سے کوئی بہتر نتیجہ نکال دکھایا‘ تو وہ میرے لیے ایک انکشاف ہو گا‘ اور ممکن ہے‘ کہ اس کو دیکھ کر میں مسلکِ کُلّی سے مسلک جزی کی طرف منتقل ہو جاؤ‘‘۔ (ترجمان القرآن، جولائی، اکتوبر ۱۹۴۴ء)
اندیشے صحیح ثابت ہوئے
یہ تھا طریق کار کے بارے میں مولانا کا اختلاف اور اس کی نوعیت۔{ FR 2883 } مولانا کی رائے کے بارے میں دو آراء ہو سکتی ہیں، لیکن مستقبل کا مؤرخ بمشکل ہی اس بات کو نظر انداز کر سکے گا کہ تقسیمِ ملک کے بعد پاکستان میں اسلامی نظام کو قائم کرنے کی راہ میں جو جو مشکلات پیش آئی ہیں‘اور آرہی ہیں‘ اور آزادی کے سولہ سال کے بعد بھی ملک ابھی تک صرف اصولاً ہی ایک اسلامی ریاست ہے،عملاً حقیقی اسلامی ریاست میں تبدیل نہیںہو سکا ہے، بلکہ اسلامی خطوط پر تبدیل کرنے و الوںکو جس طرح جیل، قتل اور پھانسی سے سابقہ پیش آرہا ہے اس کا پیشگی شعور مولانا مودودی صاحب کی تحریرات میں صاف پایا جاتا ہے‘ اور آنے والے واقعات نے ان کے اندیشوں کی تکذیب کرنے کے بجائے توثیق کی ہے۔
(۴)
یہ تھے وہ وجوہ جن کی بناء پر مولانا نے عملاً شرکت نہیں کی۔ لیکن علمی طور پر وہ نظریہ پاکستان کی برابر خدمت کرتے رہے۔ اسلام کے نظامِ حیات کے خدوخال واضح کرتے رہے‘ اور تصوّر پاکستان کی بھی تائید کرتے رہے۔ جب مسلمانوں کے ایک گروہ نے کہا کہ ہندوستان کی تقسیم اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کو کیسے گوارا کیا جا سکتا ہے‘ تو مولانا مودودی صاحب نے کہا :
’’مسلمان ہونے کی حیثیت سے میری نگاہ میں اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں کہ ہندوستان ایک ملک رہے‘ یا دس ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے۔ تمام روئے زمین ایک ملک ہے۔ انسان نے اس کو ہزاروں حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ یہ اب تک کی تقسیم اگر جائز تھی‘ تو آئندہ مزید تقسیم ہو جائے گی‘ تو کیا بگڑ جائے گا۔ اس بت کے ٹوٹنے پر‘ تڑپے وہ جو اسے معبود سمجھتا ہو۔ مجھے تو اگر یہاں ایک مربع میل کا رقبہ بھی ایسا مل جائے‘ جس میں انسان پر خدا کے سوا کسی حاکمیّت نہ ہو تو میں اس کے ایک ذرّہ خاک کو تمام ہندوستان سے قیمتی سمجھوں گا‘‘۔{ FR 2884 }
جس وقت پاکستان کے مطالبہ کو اسرائیل کے مطالبہ کے مثل قرار دیا گیا‘ تو مولانا مودودی صاحب نے اس کی پُر زور تردید کی‘ اور لکھا :
’’میرے نزدیک پاکستان کے مطالبہ پر یہودیوں کے قومی وطن کی تشبیہ چسپاں نہیں ہوتی۔ فلسطین فی الواقع یہودیوں کا قومی وطن نہیں ہے۔ یہودیوں کی اصل پوزیشن یہ نہیں ہے‘ کہ ایک ملک واقعی ان کا قومی وطن ہے‘ اور وہ اسے تسلیم کرانا چاہتے ہیں۔ بلکہ ان کی اصل پوزیشن یہ ہے‘ کہ ایک ملک ان کا قومی وطن نہیں ہے‘ اور ان کا مطالبہ یہ ہے‘ کہ ہم کو دنیا کے مختلف گوشوں سے سمیٹ کر وہاں لابسایا جائے‘ اور اسے بزور ہمارا قومی وطن بنا دیا جائے۔ بخلاف اس کے مطالبہ پاکستان کی بنیاد یہ ہے‘ کہ جس علاقہ میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے وہ بالفعل مسلمانوںکا قومی وطن ہے۔ مسلمانوں کا کہنا صرف یہ ہے‘ کہ موجودہ جمہوری نظام میں‘ ہندستان کے دوسرے حصوں کے ساتھ لگے رہنے سے ان کے قومی وطن کی سیاسی حیثیت کو جو نقصان پہنچتا ہے اس سے ان کو محفوظ رکھا جائے‘ اور متحدہ ہندستان کی ایک آزاد حکومت کے بجائے ’’ہندو ہندستان’‘‘ اور ’’مسلم ہندستان‘‘ کی دو آزاد حکومتیں قائم ہوں۔ بالفاظِ دیگر مسلمان یہ نہیں کہتے کہ ہمارے لیے ایک قومی وطن بنایا جائے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں‘ کہ ہمارا قومی وطن جو بالفعل موجود ہے اس کو اپنی آزاد حکومت الگ قائم کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔
یہ چیز وہی ہے‘ جو آج کل دنیا کی ہر قوم چاہتی ہے۔ ہم اصولاً اس بات کے مخالف ہیں‘ کہ دنیا کی کوئی قوم کسی دوسری قوم پر سیاسی و معاشی حیثیت سے مسلط ہو۔ ہمارے نزدیک اصولاً ہر قوم کا حق ہے‘ کہ اس کی سیاسی و معاشی باگیں اس کے اپنے ہاتھوں میں ہوں۔ اس لیے ایک قوم ہونے کی حیثیت سے‘ اگر مسلمان یہ مطالبہ کرتے ہیں‘ تو جس طرح دوسری قوموں کے معاملہ میں یہ مطالبہ صحیح ہے اسی طرح ان کے معاملہ میں بھی صحیح ہے ‘‘۔{ FR 2885 }
ریفرنڈم میںپاکستان کی حمایت
صوبہ سرحد اور سلہٹ کے ریفرنڈم کے موقع پر مولانا مودودی صاحب نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالنے کا مشورہ دیا اور لوگوںکو اس پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا:
’’اگر میںصوبہ سرحد کا رہنے والا ہوتا تو استصواب رائے میں میرا ووٹ پاکستان کے حق میں پڑتا۔ اس لیے کہ جب ہندستان کی تقسیم ہندو اور مسلم قومیّت کی بنیاد پر ہو رہی ہے‘ تو لامحالہ ہر اس علاقے کو جہاں مسلمان قوم کی اکثریت ہو اس تقسیم میں مسلم قومیّت ہی کے علاقے کے ساتھ شامل ہونا چاہے‘‘۔{ FR 2886 }
اسی موقع پر پاکستان کے آئندہ نظام کے سلسلہ میں مولانا نے فرمایا :
’’وہ نظام اگر فی الواقع اسلامی ہوا‘ جیسا کہ وعدہ کیا جا رہا ہے‘ تو ہم دل و جان سے اس کے حامی ہوں گے،ا ور اگر وہ غیر اسلامی نظام ہوا‘ تو ہم اسے تبدیل کرکے اسلامی اصولوں پر ڈھالنے کی جدوجہد اسی طرح کرتے رہیں گے‘ جس طرح موجودہ نظام میں کر رہے ہیں۔‘‘{ FR 2887 }
۹-۱۰ مئی ۱۹۴۷ء کے کل ہند اجتماع میں ۳ جون ۱۹۴۷ء کی تجویز تقسیم سے تقریباً ایک ماہ قبل، مولانا مودودی نے خطاب عام کے اختتام پر فرمایا:
’’اب یہ بات تقریبا طے شدہ ہے‘ کہ ملک تقسیم ہو جائے گا۔ ایک حصہ مسلمان اکثریت کے سپرد کیا جائے گا‘ اور دوسرا حصہ غیر مسلم اکثریت کے زیرِ اثر ہو گا۔ پہلے حصہ میںہم کوشش کریں گے‘ کہ رائے عامہ کو ہم وار کرکے اس دستور و قانون پر ریاست کی بنیاد رکھیں‘ جسے ہم مسلمان خدائی دستور و قانون مانتے ہیں۔ غیر مسلم حضرات وہاں ہماری مخالفت کرنے کے بجائے ہمیں کام کرنے کا موقع دیں‘ اور دیکھیں کہ ایک بے دین قومی جمہوریت کے مقابلہ میں‘ یہ خدا پرستانہ خلافت، جو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت پر قائم ہو گی، کہاں تک خود باشندگانِ پاکستان کے لیے اور کہاں تک تمام دنیا کے لیے رحمت و برکت ثابت ہوتی ہے‘‘ { FR 2888 }
یہ تھے وہ جذبات جن کا اظہار مولانا مودودی صاحب نے تقسیم سے قبل کیا اور اس طرح علمی حیثیت سے ایک محاذ کو مضبوط تر کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ جن مقامات پر علمی اور عملی تعاون ہو سکتا تھا اس سے کبھی گریز نہیں کیا۔
اسلامی تصوّر قومیّت پر ان کے مضامین مسلم لیگ کے حلقوںمیںبہت بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے رہے‘ اور سب سے بڑھ کر جب یو پی مسلم لیگ نے اسلامی نظام مملکت کا خاکہ تیار کرنے کے لیے علما کی ایک کمیٹی بنائی‘ تو مولانا مودودی صاحب نے اس کی رکنیت قبول کی‘ اور کام میں پوری دلچسپی لی۔ حال میں وہ مسوّدہ چھپا ہے‘ جو اس کمیٹی سے وابستہ ایک معاون تحقیق مولانا محمد اسحاق سندیلوی نے بطور ابتدائی خاکہ (working paper) تیار کیا تھا۔ اس کے پیش لفظ میں مولانا عبد الماجد دریا بادی صاحب تحریر فرماتے ہیں۔
’’غالباً ۱۹۴۰ء یا شاید اس سے بھی کچھ قبل جب مسلم لیگ کا طوطی ہندستان میں بول رہا تھا، اربابِ لیگ کو خیال پیدا ہوا کہ جس اسلامی حکومت (پاکستان) کے قیام کا مطالبہ شدّ و مد سے کیا جا رہا ہے‘ خود اس کا نظام نامہ یا قانونِ اساسی بھی تو خالص اسلامی بنانا چاہیے۔ اس غرض سے یو پی کی صوبہ مسلم لیگ نے ایک چھوٹی سی مجلس ایسے ارکان کی مقرر کر دی جو اس کے خیال میں شریعت کے ماہرین تھے‘ کہ یہ مجلس ایسا نظام نامہ مرتب کرکے لیگ کے سامنے پیش کرے۔ اس مجلس نظام اسلامی کے چار ممبران کے نام تو اچھی طرح یاد ہیں:
(۱) مولانا سیّد سلیمان ندوی
(۲) مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی
(۳) مولانا آزاد سبحانی
(۴) عبد الماجد دریا بادی { FR 2889 }
اس سلسلہ میں قمر الدین خاں صاحب ریڈر سنٹرل انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ کے ایک حالیہ مضمون کا اقتباس بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ موصوف نے لکھا ہے‘ کہ وہ مولانا مودودی صاحب کے ایماء پر ۱۹۴۱ء میں قائد اعظم سے ملے اور
’’راجہ آف محمود آباد کی مدد سے گلِ رعنا (دہلی) میں ہماری ملاقات کا انتظام کیا گیا۔ قائد اعظم پینتالیس منٹ تک بڑے صبر سے میری بات سنتے رہے‘ اور پھر کہا کہ مولانا (مودودی) کی خدمات کو وہ نہایت پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ریاست کا حصول ان کی زندگی اور کردار کی تطہیر سے زیادہ فوری اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اور لیگ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جماعت اگر ایک اعلیٰ مقصد کے لیے کام کر رہی ہے‘ تو لیگ اس فوری حل طلب مسئلے کی طرف متوجہ ہے‘ جسے اگر حل نہ کیا جا سکا تو جماعت کا کام مکمل نہ ہوسکے گا‘‘۔{ FR 2890 }
یہ ہے تحریک پاکستان کے بارے میں مولانا مودودی صاحب کی اصل پوزیشن، افسوس ہے‘ کہ کچھ نا عاقبت اندیش حضرات نے اصل حقائق کو جاننے اور سمجھنے کے بجائے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر ان کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ توقع ہے‘ کہ ہماری مندرجہ بالا گزارشات اصل حقیقت کو واضح کرنے میں مدد دیں گی۔
(۵)
اب آخر میں ہم چند معروضات اس کتاب کے بارے میں بھی پیش کرتے ہیں :
اس کتاب کی تاریخی اہمیت کے بارے میں دو آراء ممکن نہیں۔ لیکن یہ کتاب ایک عرصہ سے ناپید تھی‘ اور تحریک آزادی کے طلبا اور دوسرے عام لوگوں کو اسے حاصل کرنے میں سخت ترین دشواریاں پیش آرہی تھیں۔ ایک عرصہ سے اس بات کا مطالبہ کیا جارہا تھا‘ کہ اسے دوبارہ شائع کیا جائے‘ تاکہ ہمارے ماضی کا یہ آئینہ لوگوں کو آنکھوں کے سامنے رہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہم یہ کتاب دوبارہ شائع کر رہے ہیں۔
پھر تھوڑے دنوں سے مولانا مودودی صاحب پر بے بنیاد الزامات لگانے کی ایک ناپاک مہم جاری ہے۔ ان کی تحریرات کو توڑ مروڑ کر اور سیاق و سباق سے الگ کرکے ان کی طرف ایسی ایسی باتیں منسوب کی جا رہی ہیں‘ جن میں صداقت کا کوئی عنصر نہیں۔ ان تمام اتہامات کا بہترین جواب یہ کتاب ہے۔ ہم ا صل مضامین کو پبلک کے سامنے پیش کر رہے ہیں‘ تاکہ اسے معلوم ہو جائے‘ کہ حق پر کون ہے‘ اور جھوٹی الزام تراشیاں کون کر رہا ہے۔
ہمارا اصل پروگرام تو یہ تھا‘ کہ اشاعت نو کے وقت اس کتاب کو از سر نو ایڈٹ کریں گے‘ اور وہ چیزیں اس میں سے حذف کر دیں گے جن کا تعلق محض وقتی چیزوں سے تھا۔ لیکن الزامات کی حالیہ مہم کی وجہ سے ہم نے یہ تبدیلی نہیں کی ہے‘ اور تمام مضامین کو اسی طرح پیش کیا جا رہا ہے‘ جس طرح وہ اولاً لکھے گئے تھے۔ البتہ اگر کسی چیز کی وضاحت کی ضرورت محسوس کی گئی ہے‘ تو اس پر ضروری حواشی کا اضافہ کر دیا ہے۔
مرتّب نے صرف ان جملوں کو حذف کیا ہے‘ یا ان میں کچھ تبدیلی کی ہے‘ جن کا تعلق اصل مضمون سے نہیںبلکہ کتاب کی موجودہ شکل سے ہے۔ اس پہلو سے چند مقامات پر ایڈٹینگ کی گئی ہے۔ اسی طرح حصوں کی تقسیم اور مضامین کی ترتیب بھی جدید ہے۔ اس کتاب میں ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ حصہ اوّل اور حصہ دوم کے سارے مضامین اور ’’مسئلہ قومیّت‘‘ میں سے تین مضمون شامل کیے گئے ہیں۔ اسی طرح تحریک ِآزادی ہند کے بارے میں مولانا مودودی صاحب کے بیشتر مضامین اسی ایک جلد میں آگئے ہیں۔
کتاب کا نام بھی ہم نے نیا رکھا ہے‘ اور اس کی تین وجوہ ہیں:
اولاً : مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ کا عنوان اب ایک حد تک غیر موزوں ہو گیا ہے۔ اس لیے کہ اس کے ابتدائی نام میں ’’موجودہ‘‘ سے مراد ۱۹۳۷ء اور ۱۹۳۹ء کے حالات تھے نہ کہ آج کے۔ اس بناء پر ہم نے ضروری سمجھا کہ اس نام کے بجائے دوسرا نام رکھیں تاکہ کسی کو غلط فہمی نہ پیدا ہو۔
ثانیاً موجودہ مجموعہ میں ’’مسئلہ قومیّت‘‘ کے تین مضامین بھی شامل ہیں‘ جو ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ میں نہ تھے بلکہ الگ رسالہ کی حیثیت سے چھپے تھے۔
ثالثاً اب کتاب کی مستقل حیثیت کو جس نام سے زیادہ خوبی کے ساتھ ظاہر کیا جا سکتا ہے‘ اور جو اس کے مندرجات کی بہترین طریقے پر نشاندہی کر سکتا ہے، وہ وہی نام ہے‘ جو ہم نے اب دیا ہے، یعنی ’’تحریک ِآزادی ہند اور مسلمان‘‘ اس طرح یہ نئی کتاب ہماری تاریخی جدوجہد کے اس باب کو پیش کرتی ہے‘ اور اس برصغیر کی تاریخ کا طالب علم اس سے کبھی مستغنی نہیں ہو سکتا۔
ہمیں توقع ہے‘ کہ یہ کتاب ایک طرف بہت سی غلط فہمیوں کو دور کرے گی‘ اور دوسری طرف طلبائے تاریخ کے لیے بڑا قیمتی اور مفید مواد پیش کرے گی۔
۱۴ شعبان ۱۳۸۳ھ (دسمبر ۱۹۶۳ء) خورشید احمد
۱- نیو کوئنس روڈ، کراچی
خ خ خ
حصہ اوّل : ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک تاریخی جائزہ
یہ مضامین مولانا سیّد ابو الا علیٰ مودودی نے ۱۹۳۷ء میں لکھے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان تحریکِ خلافت کی ناکامی کے بعد ایک ہاری ہوئی اور منتشر فوج کی مانند تھے‘ جس کے باقی مادہ عناصر کو ہندو سامراج، متحدہ قومیّت اور آزادیٔ وطن کے نام پر اُچک لینے میں مصروف تھا۔ مسلمانوں پر سراسیمگی کی کیفیت طاری تھی‘ اور مستقبل ان کے لیے ایک تاریک اور ہیبت ناک رات کی مانند تھا۔ اس زمانہ میں مولانا مودودی صاحب نے مسلمانوں کی تاریخ کا جائزہ لے کر ان کو بتایا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ ان کے سامنے کون کون سے مختلف راستے ہیں۔ ان کی اپنی کمزوریاں اور مسائل کیا ہیں‘ اور بحیثیت قوم ان کی راہِ نجات کیا ہے۔ یہ مضامین مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش حصہ اوّل میں شائع ہو چکے ہیں۔
(مرتب)
٭٭٭٭٭
تقدیم{ FR 2891 }
آنکھیں بند کرکے چلنا ایک شخص کے لیے جتنا مہلک ہو سکتا ہے، اس سے بہت زیادہ مہلک ایک قوم کے لیے ہوتا ہے۔ آپ کھلے میدان میں بھی آنکھوں کے ساتھ چل کر ٹھوکر سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ لیکن سڑک پر جہاں آمدو رفت کا ہجوم ہو‘ اور رہ نوردوں کے درمیان کش مکش ہو رہی ہو، اگر آپ آنکھیں بند کرکے چلیں گے، تو یقینا آپ کو کسی مہلک حادثہ سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ایسی ہی حالت ایک قوم کی بھی سمجھ لیجئے۔ معمولی حالات میں جب کہ فضا میں کوئی غیر معمولی ہنگامہ نہ ہو، اس کے لیے آنکھیں… جسمانی نہیں عقل و بصیرت کی آنکھیں… بند کرکے چلنا محض نقصان اور مضرت کا موجب ہوتا ہے۔ مگر جب کوئی انقلاب درپیش ہو، جب قسمتوں کا فیصلہ ہو رہا ہو، جب زندگی و موت کا مسئلہ سامنے ہو، ایسے وقت میں اگر وہ آنکھیں بند کرکے چلے گی‘ تو اسے تباہی اور ہلاکت سے دوچار ہونا پڑے گا۔
تحریک خلاف کی ناکامی کے بعد سے کامل پندرہ برس تک مسلمان جس انتشارِ فکر وعمل میںمبتلا رہے۔اس کو دیکھ کر دل خون ہوا جاتا تھا۔ مگر ہمیشہ یہی خیال لب کشائی سے روکتا رہا کہ میدان میں مجھ سے زیادہ علم اور تجربہ اور قوّت واثر رکھنے والے موجود ہیں، وہ کبھی نہ کبھی حالات کی اصل خرابی کو محسوس کریں گے، اور اس کو رفع کرنے کے لیے متحد ہو کر وہ تدبیریں اختیار کریں گے، جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان کو اختیار کرنی چاہئیں۔ لیکن دن پر دن گزرتے چلے گئے‘ اور یہ اُمید بر نہ آئی، یہاں تک کہ وہ وقت آگیا جو ہندستانی مسلمان کے لیے قسمت کے فیصلے کا آخری وقت ہے۔ دل کی آنکھوں نے صاف دیکھ لیا کہ اب اگر اس قوم نے کوئی غلط قدم اٹھایا‘ تو سیدھی ہلاکت کے گڑھے کی طرف جائے گی‘ اور اس کے ساتھ چشم دل ہی نے نہیں، چشم سر نے بھی یہ دیکھا‘ کہ جن کی تدبیر و تدبر پر اس قوم کے مستقبل کا انحصار ہے‘ وہ ابھی حالات کو اس فراست کے ساتھ سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں جسے ’’فراست ِمومن‘‘ کہا گیا ہے، اور اسی کوتاہی کی بنا پر ایسے نازک وقت میںمسلمانوں کو ان مختلف راستوں کی طرف چلا رہے ہیں۔ جن میں سے کوئی بھی منزلِ نجات کی طرف نہیں جاتا۔ اس مرحلے پر پہنچ کر ضمیر نے آواز دی کہ یہ وقت خاموش بیٹھنے کا نہیںہے۔ اب دین و ملت کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے‘ کہ مسلمانوں کو، ان کے عوام اور خواص، علما اور زعما، سب کو ان حقیقی خطرات کی طرف توجہ دلائی جائے، جو ’’مسلم قوم‘‘ ہونے کی حیثیت سے ہمیں درپیش ہیں، اور اس کے ساتھ انہیں یہ بھی یاد دلایا جائے‘ کہ تمہارے لیے ہدایت کا اصلی سر چشمہ خدا کی کتاب اور اس کے رسولa کی سیرت پاک میں ہے‘ جسے چھوڑ کر محض اپنی فکر و تدبیر پر اعتماد کر لینا ہلاکت کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔
میرا نقطۂ نظر
میں نے ان مضامین میں اسلامی ہند کی گزشتہ تاریخ اور موجودہ حالت پر محض ایک مؤرخ یا ایک سیاسی آدمی کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے نظر ڈالی ہے۔ اس لیے بہت ممکن ہے‘ کہ ایک خالص تاریخی، یا سیاسی، یا معاشی نظر رکھنے والے آدمی کو میرے بیان سے اختلاف ہو۔ لیکن میںیہ گمان نہیں کرتا کہ جو شخص میری طرح ایک مسلمان کی نظر سے حالات کو دیکھے گا، اسے میرے بیان سے اختلاف ہو گا۔ اسی طرح میںنے ہندوستان کے موجودہ حالات اور ان کی کار فرما قوتوں کا جو تجزّیہ کیا ہے، اس میں بھی میرے پیشِ نظر اسلامی معیار تحقیق ہے، اور ان حالات میں مسلمانوں کے اصل قومی مسائل کو سمجھنے اور ان کا حل تلاش کرنے کی جو کوشش میں نے کی ہے، وہ بھی ایک مسلمان کی حیثیت سے کی ہے۔ درحقیقت اس تمام بحث میں میرے مخاطب صرف وہی لوگ ہیںجو اوّل بھی مسلمان ہیں‘ اور آخر بھی مسلمان ہیں‘ اور مسلمان کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ باقی رہے وہ لوگ جو صرف ’’ہندستانی‘‘ ہیں، یا پہلے ’’ہندستانی‘‘ اور پھر سب کچھ ہیں، تو ان سے مجھے سرو کار ہی نہیں۔ وہ ایک جہاز کے مسافر ہیں، اور میں دوسرے جہاز کا مسافر ہوں، ان کی منزلِ مقصود دوسری ہے‘ اور میری منزلِ مقصود دوسری، ان کو صرف ’’ہندستانی‘‘ ہونے کی حیثیت سے سیاسی آزادی اور معاشی استقلال درکار ہے، عام اس سے کہ مسلمان رہیں یا نہ رہیں۔ اور مجھے وہ آزادی درکار ہے‘ جس کے ذریعہ سے میں اپنی زوال پذیر اسلامی طاقت کو سنبھال لوں، اپنی زندگی کے مسائل کو مسلمان ہونے کی حیثیت سے حل کروں، اور ہندستان میں ’’مسلم قوم‘‘ کو پھر سے ایک خود مختار قوم دیکھوں۔ ان کے لیے ہندوستان کا سیاسی و معاشی استقلال بجائے خود ایک مقصد ہے‘ اور میرے لیے وہ حصولِ مقصد کا ایک ذریعہ ہے، جو اگر حصولِ مقصد میں مدد گار نہ ہو تو مجھے بجائے خود اس ذریعہ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ پس میرے اور ان کے درمیان مقصدی اختلاف ہے۔ اس لیے اُن سے بحث کرنا تو میرے نزدیک محض تضیع وقت ہے۔ البتہ جو لوگ اس مقصد میں مجھ سے متفق ہیں‘ ان کو میں دعوت دیتا ہوں کہ وہ ان مضامین کو غور سے ملاحظہ فرمائیں، جو کچھ حق پائیں اسے قبول کریں، اور جس چیز میں غلطی پائیں‘ اس کا غلط ہونا دلیل و حجت سے ثابت کر دیں، تاکہ میں بھی اپنے خیالات کی اصلاح کروں۔
میں جانتا ہوں کہ جولوگ مقصد میں مجھ سے اتفاق رکھتے ہیں ان میں سے بھی بہت سے حضرات میرے ان خیالات سے متفق نہیںہیں۔ جن کا اظہار میں نے اپنے مضامین میںکیا ہے۔ مگر اس قسم کے جن حضرات نے اخبارات میں اور پرائیویٹ خطوط میں میرے مضامین پر تنقیدیں کی ہیں، ان کی تنقیدوں کو دیکھ کر میں کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا۔ آخر انہیں اختلاف کس چیز سے ہے؟ عموما ان کی تحریروںکو دیکھ کر تو میں نے یہ اندازہ کیا ہے‘ کہ وہ محض سرسری نظر میں یہ دیکھ کر کہ ایک شخص ان کے طریق کار سے اختلاف کر رہا ہے، پوری طرح اس کے خیالات کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے، اور تنقید لکھنی شروع کر دیتے ہیں۔ اکثر حضرات نے میرے اوپر وہ اعتراض کیے ہیں‘ جن کا جواب میں خود ہی اپنے مضامین میں دے چکا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر انہوں نے ان مضامین کو پڑھا بھی ہے‘ تو دل کے دروازوں کو بند کرکے پڑھا ہے۔میں عرض کروں گا کہ یہ طریقہ اہلِ حق کے لیے مناسب نہیں ہے۔ ہم کوئی مجلس مناظرہ تو قائم نہیں کر رہے ہیں‘ جس کا مقصد محض دماغی زور آزمائی ہوتا ہے،ا ور جس میںہر فریق پہلے ہی سے یہ فیصلہ کرکے شریک ہوتا ہے‘ کہ دوسرے کی بات نہ مانے گا، اور اپنی بات پر اڑا رہے گا۔ ہمارا مقصد تواس ملت کی حفاظت اور سربلندی ہے، جو ہم میں سے ہر ایک کو یکساں عزیز ہے۔ اس مقصد کو پیشِ نظر رکھ کر جو شخص کچھ کہہ رہا ہے، اس کی بات کو کھلے دل کے ساتھ سُنیئے، پوری طرح سُنیئے، ٹھنڈے دل سے اس پر غور کیجئے، اور یہ فرض نہ کر لیجئے کہ جو طریقہ آپ نے اختیار کیا ہے، وہ وحی کے ذریعہ سے نازل ہوا ہے، اس لیے اس کے خلاف جو کچھ بھی کہا جائے وہ بہرحال باطل ہی ہونا چاہیے۔ وہ غریب آپ سے لڑنے کے لیے نہیں اُٹھا ہے، بلکہ غور و فکر کی دعوت دینے کے لیے اُٹھا ہے۔ وہ چاہتا ہے‘ کہ آپ قدم اٹھانے سے پہلے اپنی منزلِ مقصود معین کر لیں‘ اور اس منزل کی طرف جانے کے لیے‘ وہ راستہ معلوم کریں جو یقینا صحیح ہو،جس کی صحت اتنی ہی یقینی ہو جتنی ہدایت ِربانی کی صحت یقینی ہے۔ پس آپ جُویائے حق بن کر اس کے معروضات کا مطالعہ کریں‘ اور دوران مطالعہ میں صواب کو خطا سے ممیز کرتے چلے جائیں۔ جو کچھ صواب نظر آئے اسے قبول کر لیں۔ اور جس چیز میں خطا پائیں‘ اس کے متعلق واضح طور پر بتا دیں‘ کہ اسے کس بناء پر آپ خطا سمجھتے ہیں۔ آیا وہ کتابُ اللہ کے خلاف ہے؟ سنتِ رسول اللہa کے خلاف ہے؟ عقل کے خلاف ہے؟ یا کسی اور چیز کے خلاف ہے‘ جو تمیز حق و باطل کی معیار ہو؟ اس توضیح سے راقم کو بھی اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنے کا موقع ملے گا اور نیک نیتی کے ساتھ مباحثہ کرکے ہم سب ایک صحیح نتیجہ پر پہنچ سکیں گے۔ یا اگر اختلاف باقی بھی رہا تو کم از کم غلط فہمیاں باقی نہ رہیں گی۔
میں نے اس سلسلہ میں مضامین میں جو کچھ لکھا ہے‘ اس سے میرا مقصد مسلمانوں کے کسی گروہ کی حمایت کرنا اور کسی دوسرے گروہ کو جمہور مسلمین کے سامنے خطا کار ٹھہرانا نہیں ہے، اس لیے تمام ناظرین سے میری استدعا ہے‘ کہ وہ ان مضامین کو پڑھتے وقت اپنے ذہن کو گروہی تعصبات اور بد گمانی سے محفوظ رکھیں۔ میں گروہ بندی سے ہمیشہ دامن کش رہا ہوں‘ اور مجھے فطرتاً اس چیز سے نفرت ہے۔ میرا مقصد صرف یہ ہے‘ کہ مسلمانوں کے تمام گروہ اپنے احزابی تعصبات سے دل کو پاک کرکے‘ خالص اسلامی نقطۂ نظر سے اپنی قوم کو اور ہندوستان کے موجود حالات کو دیکھیں‘ اور اسلامی ذہنیت کے ساتھ اپنے لیے راہِ نجات تلاش کریں۔ میں یقین رکھتا ہوںکہ جب ایک نظر اور ایک ہی ذہنیت کے ساتھ مشاہدہ اور تفکر کیا جائے گا، اور نفسانیت کا شیطانی عنصر بیچ میں نہ رہے گا، تو یہ نزاعات جو عین خانہ بربادی کے موقع پر گھر والوں کے درمیان برپا ہیں‘ خود بخود ختم ہو جائیں گی۔
خ خ خ
باب ۱: آنے والا انقلاب اور مسلمان
ہندستان { FR 2892 }میں تیزی کے ساتھ ایک نیا انقلاب آرہا ہے‘ جو بلحاظ اپنے اثرات اور اپنے نتائج کے ۱۸۵۷ء کے انقلاب سے بھی زیادہ شدید ہو گا۔ پھر اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر ایک دوسرے انقلاب کا سامان تمام دنیا میں ہو رہا ہے، اور بہت ممکن ہے‘ کہ یہ وسیع تر انقلاب اس برِصغیر پر اثر انداز ہو کر ‘یہاں کے متوقع انقلاب کا رخ اچانک پھیر دے ا ور اس کو ہماری توقعات سے بہت زیادہ پُر خطر بنا کر رہے۔
جو لوگ خس و خاشاک کی طرح ہر رَو پر بہنے کے لیے تیار ہیں، اور جن کو خدا نے اتنی سمجھ بوجھ ہی نہیں دی ہے‘ کہ اپنے لیے زندگی کاکوئی راستہ متعین کر سکیں، ان کا ذکر تو قطعاً فضول ہے۔ انہیں غفلت میں پڑا رہنے دیجئے، زمانہ کا سیلاب جس رخ پر بہے گا وہ آپ سے آپ اسی رخ پر بہہ جائیں گے۔ اسی طرح ان لوگوں سے بھی قطع نظر کیجئے‘ جو آنے و الی انقلابی قوتوں پر سمجھ بوجھ کر ایمان لائے ہیں‘ اور بالا رادہ اسی رخ پر جانا چاہتے ہیں‘ جس پر زمانہ کا طوفانی دریا جا رہا ہے۔ اب صرف وہ لوگ رہ جاتے ہیں۔ جو مسلمان ہیں، مسلمان رہنا چاہتے ہیں، مسلمان مرنا چاہتے ہیں‘ اور یہ تمنا رکھتے ہیں‘ کہ ہندستان میں اسلامی تہذیب زندہ رہے‘ اور ہماری آئندہ نسلیںمحمد عربی a کی بتائی ہوئی راہِ راست پر قائم رہیں۔ ان لوگوں کے لیے یہ وقت روا روی سے گزار دینے کا نہیں‘ بلکہ گہری سوچ اور غایت درجہ کے غور و فکر کا ہے۔ وہ اگر اس نازک وقت میں غفلت اور بے پروائی سے کام لیں گے‘ تو ایک جرمِ عظیم کا ارتکاب کریں گے‘ اور اس جرم کی سزا صرف آخرت میں ہی نہ ملے گی بلکہ اسی دنیا کی زندگی میں ان پر چھا جائے گی۔ زمانہ کا بے درد ہاتھ ا ن کی آنکھوں کے سامنے تہذیب ِاسلامی کے ایک ایک نشان کو مٹائے گا ‘اور وہ بے بسی کے ساتھ اس کو دیکھا کریں گے۔ زمانہ ان کے قومی وجود کو ملیا میٹ کرے گا۔ ایک ایک کرکے ان امتیازی حدود کو ڈھائے گا‘ جن سے اسلام غیر اسلام سے ممیز ہوتا ہے۔ ہر اس خصوصیت کو فنا کر دے گا‘ جس پر مسلمان دنیا میں فخر کرتا رہا ہے۔ وہ یہ سب کچھ دیکھیں گے‘ اور کچھ نہ کر سکیں گے۔ ان کی آنکھیں خود اپنے گھروں میں اپنی نو خیز نسلوںکو خدا پرستی سے دور، اسلامی تہذیب سے بیگانہ اور اسلامی اخلاق سے عاری دیکھیں گی، ا ور آنسو تک نہ بہا سکیں گی۔ ان کی اپنی اولاد اس فوج کی سپاہی بن کر اٹھے گی‘ جسے اسلام اور اس کی تہذیب کے خلاف صف آراء کیا جائے گا۔ وہ اپنے جگر گوشوں کے ہاتھ سے تیر کھائیں گے‘ اور جواب میں کوئی تیر نہ چلا سکیں گے۔
یہ انجام یقینی ہے اگر کام کے وقت کو غفلت میں کھو دیا گیا۔ انقلاب کا عمل شروع ہو چکا ہے، اس کے آثا رنمایاں ہو چکے ہیں، اور اب فکر و عمل کے لیے بہت ہی تھوڑا وقت باقی ہے۔
ہندستان میں اسلام کی گزشتہ تاریخ پر ایک نظر
اسلامی ہند کی تاریخ پر جو لوگ نظر رکھتے ہیں‘ ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے‘ کہ اس ملک میں اسلامی تہذیب کی بنیاد ابتداء ہی سے کمزور ہے۔ صدرِ اوّل میں اور اس سے متصل بعد کی قرنوں میں اسلامی سیلاب کی جو لہریں ہندوستان تک پہنچیں‘ وہ زیادہ تر خس و خاشاک اور کثافتیں لے کر آئیں۔ اس لیے کہ اس زمانہ میں ہندستان دارالاسلام کی آخری سرحدوںپر تھا‘ اور وہ سب لوگ جو اسلام کے مرکزی اقتدار یا اصولی عقیدہ و مسلک کے خلاف بغاوت کرتے تھے، عموماً بھاگ بھاگ کر اسی طرف آجاتے تھے۔ چنانچہ سندھ اور کاٹھیا وار اور گجرات وغیرہ ساحلی علاقوں میں جو گمراہیاں آج تک پائی جاتی ہیں‘ وہ اسی زمانہ کی یادگار ہیں۔ اس کے بعد چھٹی صدی ہجری میں جب اصل دھارے نے ہندستان کی طرف رخ کیا تو وہ خود عجمی کثافتوں سے بہت کچھ آلودہ ہو چکا تھا۔ امرا میں روحِ جہاد اور علماء میں روحِ اجتہاد سرد ہو چکی تھی۔ ہمارے حکمران زیادہ تر وہ لوگ تھے‘ جن کو خراج اور توسیعِ مملکت کی فکر تھی۔ا ور ہمارے مذہبی پیشواؤں میں اکثریت ان حضرات کی تھی جن کی زندگی کا مقصد حکومت کے مناصب حاصل کرنا اور ہر قیمت پر اپنے مذہبی اقتدار کی حفاظت کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے‘ کہ نہ یہاں صحیح معنوں میں کبھی اسلامی حکومت قائم ہوئی۔ نہ حکومت نے پوری طرح وہ فرائض انجام دئیے‘ جو شرعاً اس پر عائد ہوتے تھے، نہ اسلامی علوم کی تعلیم کا کوئی صحیح نظام قائم ہوا، نہ اشاعت ِاسلام کی کوئی خاص کوشش کی گئی، نہ اسلامی تہذیب کی ترویج اور اس کے حدود کی نگہداشت جیسی ہونی چاہیے ویسی ہو سکی۔ علما اور صوفیہ کے ایک مختصر گروہ نے بلا شبہ نہایت زرّیں خدمات انجام دیں‘ اور انہی کی برکت ہے‘ کہ آج ہندستان کے مسلمانوں میں کچھ علم دین ا ور کچھ اتبّاعِ شریعت پایا جاتا ہے۔ لیکن ایک قلیل گروہ ایسی حالت میں کیا کر سکتا تھا‘ جب کہ قوم کے عوام جاہل، اور ان کے سردار اپنے فرائض سے غافل ہوں۔
اسلام کی عام کشش سے متاثر ہو کر ہندستان کے کروڑوں آدمی مسلمان ہوئے، مگر اسلامی اصول پر ان کی تعلیم و تربیت کاکوئی انتظام نہ کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس ملک کی اسلامی آبادی کا سوادِاعظم ان تمام مشرکانہ اور جاہلانہ رسوم و عقائد میں گرفتار رہا‘ جواسلام قبول کرنے سے پہلے ان میں رائج تھے۔
جو مسلمان باہر سے آئے تھے ان کی حالت بھی ہندستانی نو مسلموں سے کچھ زیادہ بہتر نہ تھی۔ا ن پر عجمیت پہلے ہی غالب ہو چکی تھی۔ نفس پرستی اور عیش پسندی کا گہرا رنگ ان پر چڑھ چکا تھا۔ اسلامی تعلیم و تربیت سے وہ خود پوری طرح بہرہ ور نہ تھے۔ زیادہ تر دنیا ان کو مطلوب تھی۔ خالص دینی جذبہ ان میں سے بہت کم، بہت ہی کم لوگوں میں تھا۔ وہ یہاں آکر بہت جلدی عام باشندوں میں گھل مل گئے، کچھ ان کو متاثر کیا اور کچھ خود ان سے متاثر ہوئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں مسلمانوںکا تمدّن اسلامیت، عجمیت اور ہندیت کی ایک معجون مرکب بن کر رہ گیا۔
عام طو رپر جو طرزِ تعلیم یہاں رائج ہوا‘ وہ اسی ڈھنگ کا تھا‘ جسے انگریزوں نے بعد میں اختیار کیا۔ اس کا بنیادی مقصد حکومت کی خدمات کے لیے لوگوںکو تیار کرنا تھا۔ قرآن اور حدیث کے علوم جن پر اسلامی تہذیب کی بنیاد قائم ہے، یہاں کے نظامِ تعلیمی میں بہت ہی کم بار پا سکے۔
طرز حکومت بھی قریب قریب اسی ڈھنگ کا رہا‘ جس کی تقلید بعد میں انگریزوں نے کی، بلکہ اپنی قومی تہذیب کی حفاظت اور ترویج اور اس کے حدود کی نگاہ داشت کا جتنا خیال انگریزوں نے رکھا ہے، اتنا بھی مسلمان حکمرانوں نے نہ رکھا۔ خصوصیت کے ساتھ مغل فرما رواؤں نے اس باب میں جس سہل انگاری سے کام لیا ہے‘ اس کی مثال تو شاید کسی حکمران قوم میں نہ مل سکے گی۔
ظاہر ہے‘ کہ جس قوم کی تعلیم اور سیاست دونوں اپنی تہذیب کی حفاظت سے دست کش ہو جائیں‘ اس کو زوال سے کوئی قوّت نہیں بچا سکتی۔
انحطاط کا آغاز اور اس کے ابتدائی آثار
گیارہویں صدی ہجری میں انحطاط اپنی آخری حدوں پر پہنچ چکا تھا۔ مگر عالم گیر کی طاقت ور شخصیت اس کو روکے ہوئے تھے۔ بارہویں صدی کے ابتداء میں جب قصر اسلامی کا یہ آخری محافظ دنیا سے رخصت ہوا‘ تو وہ تمام کمزوریاں یکایک نمودار ہو گئیں ‘جو اندر ہی اندر صدیوں سے پرورش پا رہی تھیں۔ تعلیم و تربیت کی خرابی اور قومی اخلاق کے اضمحلال اور نظامِ اجتماعی کے اختلال کا پہلا نتیجہ سیاسی زوال کی صورت میں ظاہر ہوا۔ مسلمانوں کی سیاسی جمعیت کا شیرازہ دفعۃً درہم برہم ہو گیا۔ قومی اور اجتماعی مفاد کا تصوّر ان کے دماغوں سے نکل گیا۔ انفرادیت اور خود غرضی پوری طرح ان پر مسلط ہو گئی۔ ان میں ہزار در ہزار خائن اور غدّار پیدا ہوئے‘ جن کا ایمان کسی نہ کسی قیمت پر خریدا جا سکتا تھا‘ اور جو اپنے ذاتی فائدے کے لیے بڑے سے بڑے قومی مفاد کو بے تکلف بیچ سکتے تھے۔ ان میں لاکھوں بندگان شکم پیدا ہوئے جن سے ہر دشمن اسلام تھوڑی سی رشوت یا حقیر سی تنخواہ دے کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بد سے بدتر خدمت لے سکتا تھا۔ ان کے سوادِاعظم سے قومی غیرت اور خودداری اس طرح مٹ گئی‘ کہ دلوں میں اس کا نام و نشان باقی تک نہ رہا۔ وہ دشمنوں کی غلامی پر فخر کرنے لگے۔ غیروں کے بخشے ہوئے خطابات اور مناصب میں ان کو عزت محسوس ہونے لگی۔ دین اور ملت کے نام پر جب کبھی ان سے اپیل کی گئی وہ پتھروں سے ٹکرا کر واپس آئی۔ اور جب کبھی کوئی غیرت مند شخص اقتدار قومی کے گرتے ہوئے قصر کو سنبھالنے کے لیے اٹھا، اس کا سر خود اس کی اپنی قوم کے بہادروں نے کاٹ کر دشمنوں کے سامنے پیش کر دیا۔
اس طرح ڈیڑھ صدی کے اندر اسلام کا اقتدار ہندوستان کی سر زمین میں بیخ و بُن سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ اور سیاسی اقتدار کے مٹتے ہی یہ قوم افلاس، غلامی، جہالت اور بد اخلاقی میں مبتلا ہو گئی۔
انگریزی حکومت کے دور میں مسلمانان ہند کی حالت
۱۸۵۷ء کا ہنگامہ دراصل ایک سیاسی انقلاب کی تکمیل اور ایک دوسرے انقلاب کی تمہید تھا۔ جن کمزوریوں نے مسلمانوں سے سیاسی اقتدار چھینا تھا، وہ سب علیٰ حالہٖ قائم تھیں۔ اور ان پر مزید کمزوریوں کا اضافہ ہو رہا تھا۔ ان کے اندر اسلامی تہذیب کی بنیاد پہلے سے کمزور تھی۔ اس کمزوری نے جب حکومت کے منصب سے ان کو ہٹا دیا اور اخلاص و غلامی کی دوہری مصیبت میں وہ گرفتار ہوئے، تو دوسری اور کمزوریاں روبکار آگئیں۔
دین اور اخلاق اور تہذیب اورتمدّن، یہ سب چیزیں بلند تر انسانیت سے تعلق رکھتی ہیں‘ اور ان کی قدر و عزت وہی لوگ کر سکتے ہیں‘ جو حیوانیت سے بالا تر ہوں۔ پیٹ اور روٹی اور کپڑا اور آسائشِ بدن اور لذات نفس وہ چیزیں ہیں‘ جو انسان کی حیوانی ضروریات سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور جب انسان مقامِ حیوانی سے قریب تر ہوتا ہے‘ تو اس کی نگاہ میں یہی چیزیں زیادہ اہم ہوتی ہیں۔ حتی کہ وہ ان کی خاطر بلند تر انسانیت کی ہر متاع گراں مایہ کو نہ صرف قربان کر دیتا ہے۔ بلکہ حیوانی زندگی کی آخری حدوں پر پہنچ کر اس میں یہ احساس بھی باقی نہیں رہتا کہ میرے لیے کوئی چیز ان چیزوں سے اعلیٰ و ارفع بھی ہو سکتی ہے۔ ہندستان کا مسلمان جب اپنا سیاسی اقتدار کھو رہا تھا، اس زمانہ میں اس کی انسانیت بالکل فنا نہیں ہوئی تھی، اس لیے وہ پیٹ اور بدن پر انسانیت کی گراں قدر متاعوں کو قربان تو کر رہا تھا، مگر اس کو یہ احساس ضرور تھا‘ کہ یہ متاعیں گراں قدر ہیں، اور کسی نہ کسی طرح ان کی بھی حفاظت کرنی چاہیے۔ لیکن جب وہ سیاسی اقتدار کھو چکا تو افلاس نے پیٹ اور بدن کے سوال کو ہزار گنا زیادہ اہم بنا دیا، اور غلامی نے غیرت اور خودداری کے تمام احساسات کو مٹانا شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی انسانیت روز بروز پست ہوتی چلی گئی، اور حیوانیت کا اثر بڑھتا اور چڑھتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ ابھی ایک صدی بھی پوری نہیں گزری ہے‘ اور حال یہ ہو گیا ہے‘ کہ مسلمانوں کی ہر نسل پہلی نسل سے زیادہ نفس پرست، بندہ شکم اور آسائشِ بدن کی غلام بن کر اُٹھ رہی ہے۔ ستر برس پہلے وہ مغربی تعلیم کی طرف یہ کہہ کر گئے تھے‘ کہ ہم صرف اپنی حیوانی ضروریات پوری کرنے کے لیے ادھر جا رہے ہیں، اپنے دین و اخلاق اور اپنی قومی تہذیب و تمدّن کو ہم کھونا نہیں چاہتے۔ اور واقعہ بھی یہ تھا‘ کہ اس وقت تک یہ چیزیں ان کی نگاہ میں کافی اہمیت رکھتی تھیں۔ لیکن جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا، وہ بنیادی کمزوریاں جنہوں نے ان کو حکومت کے منصب سے ہٹایا تھا‘ ان میں پہلے سے موجود تھیں، اور وہ نئی کمزوریاں جو غلامی و افلاس کی حالت میں فطرۃً پیدا ہوتی ہیں، ان کے اندر تیزی سے پیدا ہو رہی تھیں۔ ان دونوں قسم کی کمزوریوں کی بدولت ایک طرف دین و اخلاق کی اہمیت اور قومی تہذیب و تمدّن کی قدرو عزت روز بروز ان میں کم ہوتی چلی گئی۔ دوسری طرف خود غرضی و نفسانیت کے روز افزوں غلبہ نے ان کو ہر اس شخص کی غلامی پر آماہ کر دیا‘ جو ان کو کچھ مال اور جاہ اور اپنے ہم جنسوں میںکچھ سر بلندی عطا کر سکتا ہو‘ خواہ ان چیزوںکے بدلہ میں وہ انسانیت کے جس گوہرِ بے بہا کو چاہے خریدلے۔ تیسری طرف انفرادیت اور خود پرستی‘ جو ڈھائی سو برس سے ان کی قومیّت کو گھن کی طرح لگی ہوئی ہے، انتہائی حد کو پہنچ گئی۔ یہاںتک کہ اجتماعی عمل کی کوئی صلاحیّت ان میں باقی نہیں رہی،ا ور وہ تمام صفات ان سے نکل گئیں‘ جن کی بدولت ایک قوم کے افراد اپنے قومی مفاد کی حفاظت اور اپنے قومی وجود کی حمایت کے لیے مجتمع ہو سکتے اور مشترک جدوجہد کر سکتے ہیں۔
یہاں اتنا موقع نہیںکہ اس دوسرے انقلاب کے تمام پہلوؤں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا سکے۔ تاہم مختصراً اس کے چند نمایاں پہلوؤں کی طرف ہم اشارہ کریں گے تاکہ ہندوستان میں اسلام کی موجودہ پوزیشن واضح طور پر سامنے آجائے‘ اور یہ اندازہ کیا جا سکے کہ اب جو تیسرا انقلاب سامنے آرہا ہے، وہ ان حالات میں مسلمانوں پر کس طرح اثر انداز ہو گا۔
(الف) انگریزی حکومت کی پالیسی
جس روز سے برطانوی سامراج نے ہندستان میں قدم رکھا ہے، اسی روز سے اس کی یہ مستقل پالیسی رہی ہے‘ کہ مسلمانوں کا زور توڑا جائے۔ اسی غرض کے لیے مسلمان ریاستوں کو مٹایا گیا‘ اور اس نظامِ عدل و قانون کو بدلا گیا‘ جو صدیوں سے یہاں قائم تھا۔ اسی غرض کے لیے انتظامِ مملکت کے قریب قریب ہر شعبے میں ایسی تدبیریں اختیار کی گئیں‘ جن کا مآل یہ تھا‘ کہ مسلمانوں کو معاشی حیثیت سے تباہ و برباد کر دیا جائے‘ اور ان پر رزق کے دروازے بند کر دئیے جائیں۔ چنانچہ گزشتہ ڈیڑھ سو سال کے اندر اس پالیسی کے جو نتائج ظاہر ہوئے ہیں‘ وہ یہ ہیں‘ کہ جو قوم کبھی اسی ملک کے خزانوں کی مالک تھی وہ اب دو روٹیوں کی محتاج ہو چکی ہے۔ا س کو معیشت کے ذرائع سے ایک ایک کرکے محروم کر دیا گیا ہے‘ اور اب اس کی ۹۰ فیصد آبادی غیر مسلم سرمایہ دار کی معاشی غلامی میں مبتلا ہے۔ ساہو کار سے برطانوی سامراج کا مستقل اتحاد ہے‘ اور برطانوی نظام عدالت اس کے لیے وہی خدمت انجام دے رہا ہے‘ جو سود خوار پٹھان کے لیے اس کا ڈنڈا انجام دیتا ہے۔
(ب) مغربی تعلیم کا اثر
سیاسی اقتدار سے محروم ہونے کے بعد مسلمانوںمیں جاہ اور عزت کی بھوک پیدا ہوئی اور معاشی وسائل سے محروم ہونے کے بعد روٹی کی بھوک۔ ان دونوں چیزوں کے حصول کا دروازہ صرف ایک ہی رکھا گیا، اور وہ مغربی تعلیم کا دروازہ تھا۔روٹی اور عزت کے بھوکے لاکھوں کی تعداد میں ادھر لپکے۔ وہاں ہاتف ِغیب نے پکار کر کہا کہ آج روٹی اور عزت مسلمان کے لیے نہیں ہے۔ یہ چیزیں اگر چاہتے ہو تو نا مسلمان بن کر آؤ۔ اپنے دل کو، اپنے دماغ کو، اپنے دین اور اخلاق کو، اپنی تہذیب اور آداب کو، اپنے اصولِ حیات اور طرز معاشرت کو، اپنی غیرت اور خودداری کو قربان کرو، تب روٹی کے چندٹکڑے اور عزت کے چند کھلونے تم کو دئیے جائیںگے۔ انہوں نے خیال کیا کہ بہت ہی سستے داموں بہت ہی قیمتی چیز مل رہی ہے۔ بیچو اس کباڑ خانے کو۔ یہ چیزیں جو روٹی اور خطاب و منصب جیسی بے بہا چیزوں کے معاوضے میں مانگی جا رہی ہیں، آخر ہیں کس کام کی؟ انہیں تو رہن رکھ کر بنئے سے چار پیسے بھی نہیں مل سکتے۔
مسلمان جب مغربی تعلیم کی طرف گئے‘ تو یہی کچھ سمجھ کر گئے۔ زبانوں نے گو ایسا نہیں کہا، مگر جذبات اور تخیلات تو ایسے ہی کچھ تھے۔ یہی وجہ ہے‘ کہ کم و بیش ۹۰ فیصدی لوگوں پر اس تعلیم کے وہی اثرات ہوئے‘ جو ہم نے اوپر بیان کیے ہیں۔ اسلامی تعلیم سے وہ قطعی کورے ہیں۔ ان میں بیشتر ایسے ہیں‘ جو قرآن کو ناظرہ بھی نہیں پڑھ سکتے۔ اسلامی لٹریچر کی کوئی چیز ان کی نظروں سے نہیں گزرتی۔ وہ کچھ نہیں جانتے کہ اسلام کیا ہے‘ اور مسلمان کس کو کہتے ہیں‘اور اسلام اور غیر اسلام میں کیا چیز مابہ الامتیاز ہے۔ خواہشاتِ نفس کو انہوںنے اپنا معبود بنا لیا ہے‘ اور یہ معبود اس مغربی تہذیب کی طرف انہیں لیے جا رہا ہے‘ جس نے نفس کی ہر خواہش اور لذتِ نفس کی ہر طلب کو پورا کرنے کا ذمہ لے رکھا ہے۔ وہ مسلمان ہونے پر نہیں‘ بلکہ ماڈرن ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ وہ اہلِ فرنگ کی ایک ایک ادا پر جان نثار کرتے ہیں۔ لباس میں، معاشرت میں، کھانے اور پینے میں، میل جول اور بات چیت میں، حتیٰ کہ اپنے ناموں تک میں‘ وہ ان کا ہُو بہو چربہ بن جانا چاہتے ہیں۔ انہیں ہر اس طریقہ سے نفرت ہے‘ جس کا حکم مذہب نے ان کو دیا ہے۔ اور ہر اس کام سے رغبت ہے‘ جس کی طرف مغربی تہذیب انہیںبلاتی ہے۔ نماز پڑھنا ان کے ہاں معیوب ہے، اتنا معیوب کہ جو شخص نما زپڑھتا ہے ان کی سوسائٹی میں نکّو بنایا جاتا ہے‘ اور اگر بنانے کی جرأت نہیںہوتی‘ تو کم از کم حقارت آمیز حیرت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے‘ کہ آخر یہ کون سی مخلوق ہے‘ جو اب تک خدا کا نام لیے جا رہی ہے۔ بخلاف اس کے سینما جانا ان کے نزدیک نہ صرف مستحسن ہے‘ بلکہ ایک مہذب انسان کے لوازمِ حیات میں سے ہے‘ اور جو شخص اس سے اجتناب کرتا ہے، اس پر حیرت کی جاتی ہے‘ کہ یہ کس قسم کا تاریک خیال ملا ہے‘ جو بیسوی صدی کی اس برکت عظمیٰ سے محروم رہنا چاہتا ہے۔ ان میں اب وہ طبقہ سرعت سے بڑھ رہا ہے‘ جو مذہب اور خدا سے اپنی بیزاری کو چھپانے کی بھی ضرورت نہیں سمجھتا۔ اور صاف کہنے لگا ہے‘ کہ ہمیں اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ چیز اب تک ہمارے مردوں میں تھی، مگر اب عورتوں میںبھی پہنچ رہی ہے۔ جو طبقے ہماری سوسائٹی کے پیش رو اور مقتداء ہیں، وہ اپنی عورتوں کو کھینچ کھینچ کر باہر لارہے ہیں۔ ان کو بھی اسلام اور اس کی تہذیب سے بیگانہ اور مغربی تہذیب اور اس کے طور طریقوں اور اس کے تخیلات سے آراستہ کیا جارہا ہے۔ عورت میں انفعال اور تاثر کا مادہ فطری طور پر مردوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ جو راستہ مردوں نے ستر برس میں طے کیا ہے، عورتیں اس کو بہت جلد طے کر لیں گی‘ اور ان کی گودوں میں جو نسلیں پرورش پا کر اٹھیں گی ان میں شاید اسلام کا نام بھی باقی نہ رہے گا۔
(ج) قومی انتشار
خود غرضی، انفرادیت اور نفس پرستی کے غلبہ کا فطری نتیجہ یہ ہے‘ کہ مسلمانوں سے قومیّت کا احساس مٹتا جا رہا ہے‘ اور ان کی اجتماعی طاقت فنا ہو رہی ہے۔ پندرہ سال سے ان کے اندر سخت انتشار برپا ہے۔ان کی کوئی قومی پالیسی نہیں، کوئی ایک شخص نہیں جو ان کا لیڈر ہو، کوئی ایک جماعت نہیں جو ان کی نمائندہ ہو، کسی بڑی سے بڑی مصیبت پر بھی وہ جمع نہیں ہو سکتے، ایک بن سری فوج ہے‘ جو راس کماری سے پشاور تک پھیلی ہوئی ہے۔ ایک ریوڑ ہے‘ جس میں کوئی نظم نہیں۔ ایک بھیڑ ہے‘ جس میںکوئی رابطہ نہیں۔ ہر فرد آپ ہی اپنا لیڈر اور اپنا پیرو ہے۔ انجمنیں اور جمعیتیں ہزاروں ہیں، مگر حال یہ ہے‘ کہ ایک ہی انجمن کے ارکان باہم بر سر پیکار ہو جاتے ہیں، اور علانیہ ایک دوسرے کے مقابلہ پر آجاتے ہیں۔ اوّل اول ان کو اپنی اس طاقت کا گھمنڈ تھا جو کبھی ان میں پائی جاتی تھی۔ مگر ہمسایہ قوموںنے دس سال کے اندر ان کو بتا دیا کہ طاقت کس چیز کا نام ہے۔ یہ آپس میں لڑتے رہے‘ اور وہ منظم ہو گئیں۔ انہوں نے خود اپنے سرداروں میں سے ایک ایک کو کھینچ کر زمین پر گرا دیا، اور انہوں نے ایک سردار کی اطاعت کرکے اسے تمام ملک میں بے تاج و تخت کا بادشاہ بنادیا۔ یہ اپنی قوتیں اپنی تخریب میں ضائع کرتے رہے‘ اور وہ حکومت سے پیہم مقابلہ کرکے اپنا زور بڑھاتے رہے۔ انہوں نے ملک کے تازہ انتخابات{ FR 2893 } میں شخصی اغراض کو سامنے رکھا اور بیسیوں پارٹیاں بن کر اسمبلیوں میں پہنچے۔ انہوں نے اجتماعی اغراض کو مقدّم رکھ کر تمام ملک میں منضبط جدوجہد کی‘ اور ایک مستحکم جمعیت کی شکل میں حکومت کے ایوانوں پر قبضہ کر لیا۔ ان نتائج کو دیکھ کر مسلمانوں پر اب وہی اثر ہو رہا ہے‘ جو ایک باقاعدہ فوج کو دیکھ کر ایک منتشر انبوہ پر ہوا کرتاہے۔ ایک منظم جماعت کی کامیابیوں سے وہ مرعوب ہو گئے ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں‘ کہ حکومت کا اقتدار اب بہت جلد انگریز کے ہاتھ سے منتقل ہو کر اس نئی جماعت کے ہاتھ میں آنے والا ہے۔ لہٰذا اب وہ سمت قبلہ بدلنے کی تیاریاں کر رہے ہیں، اس کے سجدوں کا رخ وائسریگل لاج سے ہٹ کر آئند بھون کی طرف پھرنے لگا ہے، اور آج نہیں تو کل پھر کر رہے گا۔
آنے والے انقلاب کی نوعیت
یہ ہے مسلمانوںکی موجودہ پوزیشن۔ اب دیکھئے کہ جو انقلاب آرہا ہے‘ وہ کس نوعیت کا ہے۔
اب تک ہندستان کی حکومت ایک ایسی قوم کے ہاتھ میں رہی ہے‘ جو اس ملک کی آبادی میں آٹے میں نمک کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے اثرات تو وہ تھے جو اوپر آپ نے دیکھ لیے۔ اب جو جماعت بر سر اقتدار آرہی ہے، وہ ملک کی آبادی کا سوادِاعظم ہے۔ گزشتہ ڈھائی سو برس میں مسلمانوں نے جو زنانہ خصوصیات اپنے اندر پیدا کی ہیں، ان کو پیشِ نظر رکھ کراندازہ کیجئے‘ کہ ان کو جدید ہندی قومیّت میں جذب ہوتے کتنی دیر لگے گی۔
جدید ہندی قومیّت کا لیڈر وہ شخص { FR 2894 }ہے، جو مذہب کا علانیہ مخالف ہے۔ ہر اس قومیّت کا دشمن ہے‘ جس کی بنا کسی مذہب پر ہو۔ اس نے اپنی دہریت کو کبھی نہیں چھپایا۔ یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ وہ کمیونزم پر ایمان رکھتا ہے۔ اس امر کا بھی وہ خود اعتراف کر چکا ہے‘ کہ میں دل اور دماغ کے اعتبار سے مکمل فرنگی ہوں۔ یہ شخص ہندستان کی نوجوان نسل کا رہنما ہے، اور اس کے اثر سے وہ جماعت نہ صرف غیر مسلم قوموں میں، بلکہ خود مسلمانوں کی نو خیز نسلوں میں بھی روز افزوں تعداد میں پیدا ہو رہی ہے‘ جو سیاسی حیثیت سے ہندوستانی وطن پرستی اور اعتقادی حیثیت سے کمیونسٹ اور تہذیبی حیثیت سے مکمل فرنگی ہے۔ سوال یہ ہے‘ کہ اس ڈھنگ پر جو قومیّت تیار ہو رہی ہے‘ اس سے مغلوب اور متاثر ہو کر ہندستان کے مسلمان کتنی مدت تک اپنی قومی تہذیب کے باقی ماندہ آثار کو زندہ رکھ سکیں گے۔
مسلمانوں کے انتشار اور بد نظمی کو دیکھ کر اب ان کے مستقل قومی وجود کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کیا جا رہا ہے۔ جن لوگون کی عمریں عوام کی رہنمائی اور اقوام کی نبض شناسی میں گزری ہیں‘ ان سے یہ راز کب تک چھپا رہ سکتا تھا‘ کہ اس قوم کا شیرازہ قومیّت بڑی حد تک بکھر چکا ہے، وہ خصوصیات اس سے فنا ہو رہی ہیں‘ جو کسی جماعت کو ایک قوم بناتی ہیں‘ اور اب اس کے افراد کسی دوسری قومیّت میں جذب ہونے کے لیے کافی حد تک مستعد ہو چکے ہیں۔ یہی چیز ہے‘ جس کی بنا پر اب یہ سکیم بنائی جا رہی ہے‘ کہ مسلمانوں کی جماعتوں کو خطاب کرنے کے بجائے ان کے افراد کو خطاب کیا جائے‘ اور ان کو جدا جدا اکائیوں کی شکل میں رفتہ رفتہ اپنی طرف کھینچا جائے۔{ FR 2895 }یہ کس چیز کی تمہید ہے؟ جس شخص کو اللہ نے تھوڑی سی بصیرت بھی عطا کی ہے وہ اس کو سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔ مسلمان انگریزی اقتدار کے زمانہ میں جس کیرکٹر کا اظہار کرتے رہے ہیں اس کو سامنے رکھ کر غور کیجئے، کیا اسمبلیوں کی نشستوں اور آئندہ معاشی اور سیاسی فائدوں کا لالچ ان کے افراد کو فوج در فوج اس طرف کھینچ کر نہ لے جائے گا‘ جس طرف انہی کھینچا جا رہا ہے؟ اور کیا یہ وہی سب کچھ نہ کریں گے‘ جو انگریزی اقتدار کی غلامی میں کر چکے ہیں؟
مسلمانوںکی اصلی کمزوری کو تاڑ لیا گیاہے۔ آپ نے سنا کہ انہیں کھینچنے کے لیے جو صدا بلند کی جا رہی ہے وہ کون سی صدا ہے؟ وہی پیٹ اور روٹی کی ذلیل صدا جو ہمیشہ خود غرض اور شکم پرست حیوانات کو اپنی طرف کھینچتی رہی ہے۔ ان سے کہا جا رہا کہ تہذیب کیا ہے؟ اور تمہاری تہذیب کی خصوصیت بجز پاجامے اور ڈاڑھی اور لوٹے کے اور ہے ہی کیا{ FR 2896 } اس میں آخر کون سی اہمیت ہے؟ اصلی سوال تو پیٹ کا سوال ہے، اسی سوال کو حل کرنے کے لیے ہم اٹھے ہیں۔ اب اگر دہریت اور کمیونزم کا زہر بھی تھوڑا تھوڑا ہر نوالے کے ساتھ پیٹ میں اتر جائے‘ تو اس سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں۔ جو قوم اس سے پہلے انہی نوالوں کے ساتھ الحاد اور فرنگیت کا زہر بھی اتار چکی ہے، اس کے حلق میں ویسی ہی چند اور چٹنیاں کیوں پھنسنے لگیں۔
جدید انقلابی دور کی ابتدائی علامتیں
اس نوعیت کا ہے وہ انقلاب جو اب آرہا ہے۔ مسلمانوں میں سے جو لوگ اس انقلاب کے دامن سے وابستہ ہیں‘ ان کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں۔ ان کی صورتیں، ان کے لباس، ان کی بات چیت، ان کی چال ڈھال، ان کے آداب و اطوار، ان کے خیالات‘ سب کچھ ہمارے سامنے اس مسلمان کا نمونہ پیش کر رہے ہیں‘ جو اس آنے والے انقلاب میں پیدا ہو گا۔ ہم ابھی سے دیکھ رہے ہیں‘ کہ مسٹروں کے بجائے شری یت اور مسوں کے بجائے شریمتیاں ہمارے ہاں پیدا ہونے لگی ہیں۔ گڈ مارننگ کی جگہ ہاتھ جوڑ کر نمستے کیا جانے لگا ہے۔ ہیٹ کی جگہ گاندھی کیپ لے رہی ہے، اور بعض علمائے دین فتویٰ دے رہے ہیں‘ کہ یہ تشبُّہ کی تعریف سے خارج ہے۔ غرض دماغ اور دل اور جسم سب اپنا رنگ بدل رہے ہیں۔ اور کُوْنُوْا قِرَدَۃً خَاسِئِیْن{ FR 2897 }کی لعنت جو ان پر ستر سال پہلے نازل ہوئی تھی اب ایک دوسری شکل اختیار کر رہی ہے۔
انقلاب کی تیز رفتاری
دنیا میں انقلاب کی رفتار بہت تیز ہے‘ اور روز بروز تیز ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پہلے جو تغیرّات صدیوںمیں ہوا کرتے تھے، اب وہ برسوں میں ہو رہے ہیں۔ پہلے انقلاب بیل گاڑیوں اور ٹٹوؤں پر سفر کیا کرتا تھا، اب ریل اور تار اور اخبار اور ریڈیو پر حرکت کر رہا ہے۔ آج وہ حالت ہے‘ کہ
یک لحظہ غافل بودم و صد سالہ راہم دُور شد
اگر ہندستان کے باہر کوئی اچانک واقعہ نہ بھی پیش آیا‘ تب بھی اس متوقع انقلاب کے رونما ہونے میں کچھ زیادہ دیر نہ لگے گی، اور کوئی عالم گیر جنگ چھڑ گئی جو قضائے مبرم کی طرح دنیا کے سر پر لٹک رہی ہے، تو غالبا فیصلہ کا وقت اور بھی زیادہ قریب آجائے گا۔
خ خ خ
باب ۲ : حالات کا جائزہ اور آئندہ کے امکانات
پچھلے باب میں ہم نے محض سرسری طور پر مسلمانوں کو اس انقلاب سے آگاہ کیا تھا جو عنقریب ہندستان میں رونما ہونے والا ہے‘ اور جس کے آثار اب پوری طرح نمایاں ہو چکے ہیں، ہمارا اصل مقصد مسلمانوں کو اس نئے آنے والے انقلاب میں اپنے قومی تشخص اور اپنی تہذیب کی حفاظت کے لیے تیار کرنا ہے۔ مگر یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا‘ جب تک کہ وہ اپنی موجودہ پوزیشن اور اس جدید انقلاب کو اچھی طرح سمجھ نہ لیں، اور یہ نہ جان لیں کہ اس پوزیشن میں اس نوعیت کا انقلاب ان کی قومی تہذیب پر کس طرح اثر انداز ہو گا‘ اور اس کے نتائج کیا ہوں گے۔
مسلمانوں کی چار بنیادی کمزوریاں
پچھلی صحبت میں ہم مسلمانوں کی موجودہ پوزیشن پر جو سرسری تبصرہ کر چکے ہیں‘ اس سے آپ نے اندازہ کر لیا ہو گا‘ کہ اجتماعی حیثیت سے اس وقت مسلمانوں میں کس قسم کی کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ لیکن آگے جو کچھ ہم کو کہنا ہے اس کو پوری طرح سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے‘ کہ آپ واضح طور پر ان چار اہم ترین کمزوریوں سے واقف ہو جائیں‘ جو مسلمانوں کی قومی طاقت کی گھن کی طرح کھا گئی ہیں‘ اور درحقیقت انہی کی وجہ سے یہ سوال پیدا بھی ہوا ہے‘ کہ آنے والے انقلاب میں کیا مسلمان اپنی اسلامی تہذیب کی حفاظت کر سکیں گے۔ ورنہ اگر یہ کمزوریاں نہ ہوتیں تو کسی مسلمان کے دماغ میں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا۔
(۱) اسلام سے نا واقفیت
مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے‘ کہ ان کا سوادِاعظم اسلامی تہذیب اور اس کی اسلامی خصوصیات سے ناواقف ہے، حتیٰ کہ اس میں ان حدود کا شعور تک باقی نہیں رہا ہے‘ جو اسلام کو غیر اسلام سے ممیز کرتی ہیں۔ اسلامی تعلیم، اسلامی تربیت اور جماعت کا ڈسپلن تقریبا مفقود ہو چکا ہے، ان کے افراد منتشر طور پر ہر قسم کے بیرونی اثرات کو قبول کر رہے ہیں، اور جماعت اپنی کمزوری کی بنا پر بتدریج ان اثرات کو اپنے اندر جذب کرتی چلی جاتی ہے۔ ان کا قومی کیرکٹر اب مردانہ کیرکٹر نہیں رہا بلکہ زنانہ کیریکٹر بن گیا ہے‘ جس کی نمایاں خصوصیت تاثر اور انفعال ہے۔ ہر طاقت ور ان کے خیالات کو بدل سکتا ہے، ان کے عقائد کو پھیر سکتا ہے، ان کی ذہنیت کو اپنے سانچے میں ڈھال سکتا ہے، ان کی زندگی کو اپنے رنگ میں رنگ سکتا ہے، ان کے اصولِ حیات میں اپنی مرضی کے مطابق جیسا چاہے تغیّر و تبدل کر سکتا ہے۔ اوّل تو وہ اتنا علم ہی نہیں رکھتے کہ یہ امتیاز کر سکیں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم کس خیال اور کس عملی طریقے کو قبول کر سکتے ہیں‘ اور کس کو قبول نہیں کر سکتے۔ دوسرے ان کی قومی تربیت اتنی ناقص ہے‘ کہ ان کے اندر کوئی اخلاقی طاقت ہی باقی نہیں رہی۔ جب کوئی چیز قوّت کے ساتھ آتی اور گرد و پیش میں پھیل جاتی ہے، تو خواہ وہ کتنی ہی غیراسلامی ہو، یہ اس کی گرفت سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکتے‘ اور غیر اسلامی جاننے کے باوجود طوعاً و کرہاً اس کے آگے سپر ڈال ہی دیتے ہیں۔ اس پر مزید یہ کہ نظامِ جماعت حد سے زیادہ مضمحل ہو چکا ہے۔ ہماری سوسائٹی میں اتنی قوّت ہی نہیں رہی‘ کہ وہ اپنے افراد کو حدودِ اسلامی کے باہر قدم رکھنے سے باز رکھ سکے، یا اپنے دائرے میں غیر اسلامی خیالات اور طریقوں کی اشاعت کو روک سکے۔ افراد کو قابو میں رکھنا تو درکنار ہماری سوسائٹی تو اب افراد کے پیچھے چل رہی ہے۔ پہلے چند سرکش افراد اسلامی قانون کے خلاف بغاوت کرتے ہیں، سوسائٹی چند روز اس پر ناک بھوں چڑھاتی ہے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہی بغاوت ساری قوم میں پھیل جاتی ہے۔
(۲) قومی انتشار اور بدنظمی
انفرادیت اور لامرکزیت کی روز افزوں ترقی نے مسلمانوں کے شیرازئہ قومیّت کو پارہ پارہ کر دیا ہے،ا ور اجتماعی عمل کی کوئی صلاحیّت اب ان میں نہیں پائی جاتی۔ شخصی اغراض اور ذاتی مفاد کی بنا پر جماعتیں بنتی ہیں‘ اور پھر خود غرضی کی چٹان ہی سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہیں۔ کوئی بڑی سے بڑی قومی مصیبت بھی آج مسلمانوں کے رہنماؤں اور ان کے قومی کارکنوں کو اتحادِ عمل اور مخلصانہ اور بے غرضانہ عمل پر آمادہ نہیں کر سکتی۔ تحریک خلافت کی ناکامی کے بعد سے مسلسل مصیبتیں مسلمانوںپر نازل ہوئیں۔ پیہم خطرات ان کے سامنے آئے۔ مگر کوئی ایک چیز بھی ان کو اشتراکِ عمل کے لیے جمع نہ کر سکی۔ تازہ ترین واقعہ مسجد شہید گنج کا ہے‘ جس نے اس قوم کی کمزوری کا راز اپنوں سے زیادہ غیروں پر فاش کر دیا۔ ان کے اندر اتنی زندگی تو ضرور باقی ہے‘ کہ جب کوئی مصیبت پیش آتی ہے، تو تڑپ اٹھتے ہیں، مگر وہ اخلاقی اوصاف باقی نہیں ہیں جن کی بدولت یہ قومی مفاد کی حفاظت کے لیے اجتماعی کوشش کر سکیں۔ ان میں اتنی تمیز نہیں کہ صحیح رہنما کا انتخاب کر سکیں۔ ان میں اطاعت کا مادّہ نہیں کہ کسی کو رہنما تسلیم کرنے کے بعد اس کی بات کو مانیں اور اس کی ہدایت پر چلیں۔ ان میں اتنا ایثار نہیں کہ کسی بڑے مقصد کے لیے اپنے ذاتی مفاد، اپنی ذاتی رائے، اپنی آسائش، اپنے مال ا ور اپنی جان کی قربانی کسی حد تک بھی گوارا کر سکیں۔
(۳) نفس پرستی
افلاس، جہالت اور غلامی نے ہمارے افراد کو بے غیرت اور بندئہ نفس بنا دیا ہے۔ وہ روٹی ا ور عزت کے بھوکے ہو رہے ہیں۔ ان کا حال یہ ہو گیا ہے‘ کہ جہاں کسی نے روٹی کے چند ٹکڑے اور نام و نمود کے چند کھلونے پھینکے، یہ کتوں کی طرح ان کی طرف لپکتے ہیں، اور ان کے معاوضے میں اپنے دین و ایمان، اپنے ضمیر، اپنی غیرت و شرافت، اپنی قوم و ملت کے خلاف کوئی خدمت بجا لانے میں ان کو باک نہیں ہوتا، مسلمانوں کا ایمان جو کبھی سارے جہان کی دولت سے بھی زیادہ قیمتی تھا‘ آج اتنا سستا ہو گیا ہے‘ کہ ایک حقیر سی تنخواہ اُسے خرید سکتی ہے، ایک ادنیٰ درجہ کی کرسی پر وہ قربان ہو سکتا ہے، ایک آبرو باختہ عورت کے قدموں پر وہ نثار کیاجا سکتا ہے، ایک خطاب یا ذرا سی شہرت عطا کرکے‘ یا دو چار ’جے‘ کے نعرے لگا کر اس کو خرید لیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سو برس کا تجربہ بتا رہا ہے‘ کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دشمنوں نے جو کچھ کرنا چاہا، اس کے لیے خود مسلمانوںہی کی جماعت سے ایک دو نہیں ہزاروں اور لاکھوں خائن اور غداران کو مل گئے، جنہوں نے تقریر سے، تحریر سے، ہاتھ اور پاؤں سے، حتیٰ کہ تلوار اور بندوق تک سے اپنے مذہب اور قوم کے مقابلہ میں دشمنوں کی خدمت کی، یہ ناپاک اور ذلیل ترین وصف جب ہمارے افراد میں موجود ہے‘ تو جس طرح چھ ہزار میل دور کے رہنے والوں نے اس سے فائدہ اٹھایا، اسی طرح ہم سے ایک دیوار بیچ رہنے والے بھی اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، اور اگر ہماری فاش گوئی کسی کو بری نہ معلوم ہو تو ہم صاف کہہ دیں‘ کہ انہوں نے اس سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ پرانی مارکیٹ میں جب سے سرد بازاری کے آثار نمایاں ہوئے ہیں، نئی مارکیٹ میں ایمان کی خرید و فروخت کا بیوپار بڑھ رہا ہے۔ ہمارے کان خود اپنی قوم کے لوگوںکی زبان سے جب کمیونزم کا پروپیگنڈا سنتے ہیں، متحدہ ہندی قومیّت میں جذب ہو جانے کی دعوت سنتے ہیں، اور یہ آوازیں سنتے ہیں‘ کہ اسلامی کلچر کوئی جُدا گانہ کلچر نہیں ہے، تو ہمارا حافظہ ہم کو یاد دلاتا ہے‘ کہ کچھ اسی نوعیت کی آوازیں اس وقت بھی بلند ہونی شروع ہوئی تھیں جب سرکار برطانیہ کی غلامی کا زرّیں پھندا ہمارے گلوں میں پڑ رہا تھا۔
(۴) منافقت
ہماری قوم میں منافقین کی ایک بڑی جماعت شامل ہے، اور اس کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ بکثرت اشخاص، تعلیم یافتہ، صاحب ِقلم، صاحب ِزبان، صاحب ِمال و زر، صاحب ِاثر اشخاص ایسے ہیں‘ جو دل سے اسلام اور اس کی تعلیمات پر یقین نہیں رکھتے، مگر نفاق اور قطعی بے ایمانی کی راہ سے مسلمانوں کی جماعت میں شریک ہیں۔ اسلام سے عقیدۃً اور عملاً نکل چکے ہیں، مگر اس سے برأت کا صریح اعلان نہیں کرتے، اس لیے مسلمان ان کے ناموں سے دھوکہ کھا کر انہیں اپنی قوم کا آدمی سمجھتے ہیں، ان سے شادی بیاہ کرتے ہیں، ان سے معاشرت کے تعلقات رکھتے ہیں، اور ان زہریلے جانوروں کو اپنی جماعت میںچل پھر کر اور رہ بس کر زہر پھیلانے کا موقع دے رہے ہیں۔ نفاق کا خطرہ ہر زمانے میں مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ رہا ہے‘ مگر اس نازک زمانہ میں تو یہ ہمارے لیے پیامِ موت ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھیے کہ یہ منافقین کیسا مہلک زہر ہماری قوم میں پھیلا رہے ہیں۔ یہ اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس کی اساسی تعلیمات پر حملے کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو دہریت اور الحاد کی طرف دعوت دیتے ہیں، ان میں بے دینی اور بے حیائی اور قانون اسلامی کی خلاف ورزی کو نہ صرف عملاً پھیلاتے ہیں‘ بلکہ کھلم کھلا زبان و قلم سے اس کی تبلیغ کرتے ہیں۔ان کی تہذیب کو مٹانے کی ہر کوشش میں‘ آپ دیکھیں گے کہ یہ دشمنوں سے چار قدم آگے ہیں۔ ہر وہ اسکیم جو اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی کے لیے کہیں سے نکلی ہو‘ اس کو مسلمانوںکی جماعت میں نافذ کرنے کی خدمت یہی ناپاک گروہ اپنے ذمہ لیتا ہے{ FR 2898 } اور اسلامی قومیّت کا ایک جزو ہونے کی وجہ سے اس کو اپنا کام کرنے کا خوب موقع مل جاتا ہے۔
یہ حالت ہے اس وقت ہماری قوم کی،ا ور اس حالت میں یہ ایک بڑے انقلاب کے سرے پر کھڑی ہے۔انقلاب کی فطرت بحرانی اور طوفانی فطرت ہوتی ہے۔ وہ جب آتا ہے‘ تو آندھی اور سیلاب کی طرح آتا ہے۔اس کے زور کا مقابلہ اگر کچھ کر سکتی ہیں‘ تو مضبوط جمی ہوئی چٹانیں ہی کر سکتی ہیں۔ بوسیدہ عمارتیں جو اپنی جڑ چھوڑ کر محض فضا کے سکون و جمود کی بدولت کھڑی ہوں، ان کا کسی انقلابی طوفان میں ٹھہرنا غیر ممکن ہے۔اب جو کوئی صاحب ِبصیرت انسان اس وقت مسلمانوں کی حالت پر نگاہ ڈالے گا‘ وہ بیک نظر معلوم کر لے گا کہ ان کمزوریوںکے ساتھ یہ قوم ہرگز کسی انقلاب کا مقابلہ نہیںکر سکتی۔ اس کے لیے انقلابی دور میں اپنے قومی تشخص اور اسلامی تہذیب کے خصائص کو بچا لے جانا، ا ور اپنے آپ کو پامالی سے محفوظ رکھنا بہت ہی مشکل ہے۔ اوّل تو جہالت کی بنا پر وہ بہت سے اجنبی اثرات کو بے جانے بوجھے قبول کر لے گی۔ پھر زنانہ کیرکٹر اس کو بہت سی ایسی چیزوں سے متاثر کر دے گا‘ جن کو وہ جانتی ہو گی کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف اور اسلامی تہذیب کے منافی ہیں۔ اس طرح ایک بڑی حد تک تو بلا مقابلہ ہی شکست واقع ہو گی۔ اس کے بعد جو تھوڑے بہت احساسات باقی رہ جائیں گے‘ وہ اگر کسی شدید حملے پر بیدار بھی ہوئے، اور اس قوم نے اپنے وجود کی حفاظت کرنی بھی چاہی تو نہ کر سکے گی، کیونکہ اپنی بدنظمی اور انتشار کی بدولت اس کے لیے کوئی متحدہ جدوجہد کرنا مشکل ہو گا، اور اسی گروہ سے ہزارووں لاکھوں خائن، غدار اور منافق اس کے قومی وجود کو پامال کرانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔
قومی تحریک کی حقیقت
مسلمانوںکی حالت کا جائزہ آپ لے چکے۔ اب آئندہ انقلاب کے نتائج کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے ان قوتوں کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے‘ جو اس انقلابی تحریک میں کام کر رہی ہیں۔
ہندستان کی جدید وطنی حرکت دراصل نتیجہ ہے اس تصادم کا جو انگریزی اقتدار اور ہندستان کے درمیان گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے ہو رہا ہے۔ یہ تصادم محض سیاسی نہیں ہے، بلکہ فکری اور عمرانی بھی ہے، اور یہ عجیب بات ہے‘ کہ فکری اور عمرانی تصادم کا جو نتیجہ ہوتا ہے وہ سیاسی تصادم کے نتیجہ سے بالکل برعکس ہے۔ انگریزی سیاست کے جورواستبداد اور معاشی لوٹ نے تو ہندستان کے باشندوں کو آزادی کا سبق دیا ‘اور ان میں یہ جذبہ پیدا کیا کہ بند ِغلامی کو توڑ کر پھینک دیں۔ لیکن انگریزی علوم و فنون اور انگریزی تہذیب و تمدّن نے ان کو پوری طرح مغرب کا غلام بنا دیا، اور ان کے دماغوں پر اتنا زبردست قابو پا لیا‘ کہ اب وہ زندگی کا کوئی نقشہ ‘اس نقشہ کے خلاف نہیں سوچ سکتے‘ جو ان کے سامنے اہلِ مغرب نے پیش کیاہے۔ وہ جس قسم کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اس کی نوعیت صرف یہ ہے‘ کہ ہندستان سیاسی حیثیت سے آزاد ہو، اپنے گھر کا انتظام آپ کرے، اور اپنے وسائلِ معیشت کو خود اپنے مفاد کے لیے استعمال کرے۔ لیکن یہ آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنے گھر کے انتظام اور اپنی زندگی کی تعمیر کا جو نقشہ ان کے ذہن میں ہے‘ وہ ازسرتاپا فرنگی ہے۔ ان کے پاس جتنے اجتماعی تصوّرات ہیں، جس قدر عمرانی اصول ہیں سب کے سب مغرب سے حاصل کیے ہوئے ہیں۔ ان کی نظر فرنگی نظر ہے،ان کے دماغ فرنگی دماغ ہیں، ان کی ذہنیت پوری طرح فرنگیت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔ بلکہ انقلابیت کے بحران نے ان کو (یا کم از کم ان کے سب سے زیادہ پُرجوش طبقوں کو) فرنگیوں میں سے بھی اس قوم کا متبع بنا دیا ہے، جو انتہا پسندی میں تمام فرنگی اقوام کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ وہ پکّے مادہ پرست ہیں۔ ان کی نگاہ میں اخلاقی و روحانیت کی کوئی قیمت نہیں۔ ان کو خدا پرستی سے نفرت ہے۔ مذہب کو وہ شرو فساد کا ہم معنی سمجھتے ہیں۔مذہبی اور اخلاقی قدروں کو وہ پرِکاہ کے برابر بھی وقعت دینے کے لیے تیار نہیں۔ ان کو ہر ایسی قومیّت اور ہر ایسے قومی امتیاز سے چِڑ ہے‘ جس کی بنیاد مذہب پر ہو۔ وہ زیادہ سے زیادہ رواداری جو مذہب کے ساتھ برت سکتے ہیں‘ وہ صرف یہ ہے‘ کہ اس کی عبادت گاہوں اور اپنے مراسم میں جینے دیں۔ باقی رہی اجتماعی زندگی تو اس میں مذہب اور مذہبیت کے ہر اثر کو مٹانا ان کا نصب العین ہے، اور ان کے نزدیک اس اثر کو مٹائے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں۔ ہندستانی قومیّت کا جو نقشہ ان کے پیشِ نظر ہے، اس میں مذہبی جماعتوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔وہ تمام امتیازی حدود کو توڑ کر وطنیت کی بنیاد پر ایک ایسی قوم بنانا چاہتے ہیں‘ جس کی اجتماعی زندگی ایک ہی طرز پر تعمیر ہو‘ اور وہ طرز اپنے اصول و فروع میں خالص مغربی ہو۔
قومی تحریک میں شامل ہونے کے نتائج
چونکہ اس جماعت کے مقاصد میں سیاسی آزادی کا مقصد سب سے مقدّم ہے، اور وہی اس وقت حالات کے لحاظ سے نمایاں ہو رہا ہے، اس لیے مسلمانوں کے آزادی پسند طبقے اس کی طرف کھنچ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریز کی غلامی ہندوستان کے تمام باشندوں کے لیے ایک مشترک مصیبت ہے، اس مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لیے مشترک جدوجہد کرنا ہر آئینہ معقول ہے،ا ور جو گروہ اس جدوجہد میں سب سے زیادہ سرگرم ہو، اس کی طرف دلوں کا مائل ہونا اور اس کے ساتھ شریک عمل ہو جانا بظاہر ضروری نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے‘ کہ ہندستان کے علما اور سیاسی رہنماؤں میں سے ایک بڑی جماعت اور مخلص جماعت کانگریس کی طرف جا رہی ہے‘ اور عامہ مسلمین کو بھی ترغیب دے رہی ہے‘ کہ اس میں شریک ہو جائیں۔ لیکن عمل کی طرف قدم بڑھانے سے پہلے ایک مرتبہ اچھی طرح سوچ لینا چاہیے‘ کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔
مسلمانوں کی جو کمزوریاں ہم نے اوپر بیان کی ہیں‘ وہ سب آپ کے سامنے ہیں۔ ان کو پیشِ نظر رکھ کر غور کیجئے‘ کہ ان کمزوریوں کے ساتھ جب یہ قوم کانگریس میں شریک ہو گی‘ اور اس کے عوام سے کانگرسی کارکنوںکا رابطہ قائم ہو گا‘ تو آزادیٔ وطن کی تحریک کے ساتھ ساتھ اور کس کس قسم کی تحریکیں ان کے درمیان پھیلیں گی۔ کس کس طرح مسلمانوں کے عوام ان اجتماعی نظریات، ان ملحدانہ افکار اور ان غیر اسلامی طریقوں سے متاثر ہوں گے‘ جو اس جماعت میں شائع و ذائع ہیں۔ کس طرح اسلامی جماعت کے رگ و ریشہ میں اس فکری و عمرانی انقلاب کے عناصر پھیلائے جائیں گے‘ جو سیاسی انقلاب کے ساتھ ہم رشتہ ہے۔ کس طرح مسلمانوں کے اندر ایک ایسی رائے عام تیار کرنے کی کوشش کی جائے گی‘ جو علی رغمِ انف علماء و زعما، جدید ترین مغربی و اشتراکی بنیادوں پر اجتماعی زندگی کی تعمیر کے ہر نقشہ کی تائید کرنے و الی ہو۔ کس طرح مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے خود مسلمانوں کی جماعت سے وہ لوگ تیار کیے جائیں گے‘ جو اسلامی کلچر کے خلاف ہر قسم کے طریقے رائج کرنے اور ہر قسم کے قوانین وضع کرنے میں حصہ لیں گے۔ان حالات میں آپ کے پاس کون سی قوّت ہے‘ جس سے آپ اپنی قوم کو قابو میں رکھ سکیں گے؟ آپ نے اپنے عوام کو اسلامی تہذیب کے حدود میں رکھنے کا کیا بندوبست کیا ہے؟ آپ نے ان کو غیر اسلامی اثرات سے بچانے کا کیا انتظام کیا ہے؟ آپ نے اپنے غدّاروں اور منافقوںکے فتنے کا کیا علاج سوچا ہے؟ آپ کے پاس یہ اطمینان کرنے کا کون سا ذریعہ ہے‘ کہ کسی سخت دِقت میں آپ اسلامی مقاصد کی خدمت کے لیے مسلمانوں کو جمع کر سکیں گے‘ اور ان کی متحدہ طاقت آپ کی پشت پر ہو گی؟
باطل کی جگہ باطل
انگریز کے اقتدار کا خاتمہ کرنا یقینا ضروری ہے۔بلکہ فرض ہے۔، کوئی سچا مسلمان غلامی پر ہرگز راضی نہیں ہو سکتا۔ جس شخص کے دل میں ایمان ہو گا وہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ نہ چاہے گا کہ ہندوستان انگریز کے پنجۂ استبداد میں رہے۔ لیکن آزادی کے جوش میں یہ نہ بھول جائیے‘ کہ انگریزی اقتدار کی مخالفت میں مسلمان کا نظریہ‘ ایک وطن پرست کے نظریہ سے بالکل مختلف ہے۔ اگر آپ کو انگریز سے اس لیے عداوت ہے‘ کہ وہ انگریز ہے، چھ ہزار میل دور سے آیا ہے، آپ کے وطن کا رہنے والا نہیں ہے، تو یہ اسلامی عداوت نہیں‘ بلکہ جاہلی عداوت ہے۔ اور اگر آپ اس سے اس لیے عداوت رکھتے ہیں‘کہ وہ غیر صالح ہے،ناجائز طریقے سے حکومت کرتا ہے، عدل کے بجائے جور پھیلاتا ہے، اصلاح کی جگہ فساد کرتا ہے، تو یہ بلا شبہ اسلامی عداوت ہے۔ لیکن اس لحاظ سے آپ کو دوستی اور دشمنی کا معیار اصول کو قرار دینا پڑے گا نہ کہ وطنیت کو۔ جو کچھ انگریز کرتاہے، اگر وہی کچھ دوسرے کریں تو آپ محض اس بنا پر ان کی حمایت نہیں کر سکتے کہ وہ ہمارے ہم وطن ہیں۔ مسلمان کی نگاہ میں وطنی اور غیر وطنی کوئی چیز نہیں۔ وہ غیر ملک کے صُہَیب اور سلمان کو گلے لگا سکتا ہے‘ مگر اپنے وطن کے ابو جہل اور ابولہب سے دوستی نہیںکرسکتا۔ پس اگر آپ مسلمان ہیں‘ تو وطنیت کے ڈھنگ پر نہ سوچئے‘ بلکہ حق پرستی کے ڈھنگ پر سوچئے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے انگریز کی غلامی کے بند توڑنا ضرور آپ کا فرض ہے، مگر کسی ایسی حکومت کے قیام میں مدد گار بننا‘ آپ کے لیے ہرگز جائز نہیں‘ جس کی بنیاد انہی اصولوں پر ہو‘ جن پر انگریزی حکومت کی بنیاد قائم ہے، عام اس سے کہ وہ وطنی حکومت ہو یا غیر وطنی۔ آپ کا کام باطل کو مٹا کر دوسرے باطل اور بد تر باطل کو قائم کرنا نہیں ہے۔ آپ انگریزی حکومت کے خلاف ہر اس گروہ سے موالات کیجئے‘ جو اس کو مٹانا چاہتا ہو۔ مگر یہ بتائیے کہ اس ظالم حکومت کو مٹا کر ایک عادل حکومت قائم کرنے کے لیے آپ نے کیا انتظام کیا ہے؟ کون سی طاقت آپ نے فراہم کی ہے‘ جس سے آپ نے دوسری حکومت کی تشکیل حق کے اصولوں پر کرا سکیں؟ یہ نہیں تو جانے دیجئے، یہی بتا دیجئے کہ آپ نے خود اپنی قوم کو باطل کے اثرات سے بچانے کا کیا بندوبست فرمایا ہے؟
کیا آئینی ضمانتیں اور تحفظات کافی ہو سکتے ہیں؟
آپ کہتے ہیںکہ ہم اپنی تہذیب اور اپنے قومی طریقوں کی حفاظت کے لیے آئینی ضمانتیں لیں گے۔ ہم دستورِ اساسی میں ایسے تحفظات رکھوائیں گے‘ جن سے اسلامی مفاد پر آنچ نہ آنے پائے، بلا شبہ یہ سب کچھ آپ کر سکتے ہیں۔ مگر شاید آپ نے غور نہیں فرمایا کہ آئینی ضمانتیں اور دستور اساسی کے تحفظات اور دوسرے تمام کاغذی مواثیق صرف اسی قوم کے لیے مفید ہو سکتے ہیں‘ جس میں ایک طاقت ور رائے عام موجود ہو‘ جو اپنے آپ کو سمجھتی ہو، اپنی تہذیب کو جانتی ہو، اس کی خصوصیات کو پہچانتی ہو، اس کی حفاظت کا ناقابلِ تسخیر ارادہ رکھتی ہو‘ اور منفرداً و مجتمعاً اس کی طرف سے مدافعت کے لیے ہر وقت سینہ سپر ہو۔ یہ صفات اگر آپ کی قوم میں موجود ہیں‘ تو آپ کو کسی آئینی ضمانت اور کسی دستوری تحفظ کی بھی ضرورت نہیں، اور اگر آپ کی قوم ان صفات سے عاری ہے‘ تو یقین رکھیے کہ کوئی ضمانت اور کوئی تحفظ ایسی حالت میں کار آمد نہیں ہو سکتا۔ آپ دستور اساسی کی ضمانتوں کو زیادہ سے زیادہ خارجی حملوں کے مقابلہ میں استعمال کر سکتے ہیں۔ مگر اندرونی انقلاب کا آپ کے پاس کون سا علاج ہے؟ مثال کے طور پر فرض کیجئے‘ کہ کل مخلوط تعلیم شروع ہوتی ہے{ FR 2899 } اور آپ کی قوم کے افراد خود اپنی مرضی سے دھڑا دھڑا اپنی لڑکیوں اور لڑکوں کو مخلوط مدارس میں بھیجتے ہیں۔ کون سا دستوری تحفّظ اس تحریک کو اور اس کے زہریلے نتائج کو روکنے کے لیے استعمال کیا جائے گا؟ فرض کیجئے‘ کہ سول میرج کے طریقہ پر نکاحوںکا رواج پھیلتا ہے‘ اور آپ کی قوم خود اس تحریک سے متاثر ہو جاتی ہے، کونسی آئینی ضمانت اس کی روک تھام کر سکے گی؟ فرض کیجئے‘ کہ آپ کی اپنی قوم میں پروپیگنڈہ کی قوّت اور تعلیم کے وسائل سے ایک ایسی رائے عام تیار کر دی جاتی ہے‘ جو قوانینِ اسلامی میں ترمیم و تنسیخ پر راضی ہو‘ بلکہ مصر ہو، آپ کی اپنی قوم کے افراد ایسے قوانین کی حمایت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں‘ جو اصولِ اسلام کے خلاف ہوں، خود آپ ہی کے ووٹوں کی اکثریت سے ایسی تجویزیں پاس ہو جاتی ہیں‘ جو آپ کے تمدّن کو اسلامی مناہج سے ہٹا دینے والی ہوں۔ وہ کون سے ’’بنیادی حقوق‘‘ہیں جن کا واسطہ دے کر آپ ان چیزوں کو منسوخ کرا سکیں گے؟ فرض کیجئے‘ کہ آپ کی قوم بتدریج ہمسایہ قوم کے طرزِ معاشرت، آداب و اطوار، عقائد و افکار کو قبول کرنا شروع کرتی ہے، اور اپنے قومی امتیازات کو خود بخود مٹانے لگتی ہے۔ کون سا کاغذی میثاق اس تدریجی انجذاب کی روک تھام کر سکے گا‘ آپ اس کے جواب میں یہ نہیں کہہ سکتے‘ کہ یہ سب تمہارے خیالی مفروضات ہیں۔ اس لیے کہ جو مسلمان اس وقت وطنی تحریک میں شامل ہیں ان کے نمونے آپ کے سامنے موجود ہیں۔ دیکھ لیجئے کہ ان کا طرزِعمل انگریز کے غلاموں سے کچھ بھی مختلف نہیں۔ وہی ذہنی غلامی، وہی زنانہ انفعال و تاثر، وہی انجذابی کیفیت یہاں بھی نمایاں ہے‘ جو آستانۂ فرنگ کے طائفین وعا کفین میں نظر آتی ہے۔ پھر جب اپنی قوم کی کمزوری اور اس کی موجودہ مزاجی کیفیت کے کھلے ہوئے علائم اور آثار آپ کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں‘ تو آخر کس بھروسا پر آپ ساری قوم کو دَھرلے جانا چاہتے ہیں؟ فرمائیے تو سہی کہ آپ نے باطنی انقلاب اور تدریجی انجذاب کو روکنے کے لیے کون سا تحفظ کیا ہے؟
عوام کا جمود اور سیاسی جماعتوں کی بے راہ رویاں
مسلمانوں میں اس وقت زیادہ تر تین گروہ پائے جاتے ہیں۔ ایک گروہ آزادی وطن کے لیے بے چین ہے‘ اور کانگریس کی طرف کھنچ رہا ہے‘ یا کِھنچ گیا ہے۔ دوسرا گروہ اپنی قومی تہذیب اور اپنے قومی حقوق کی حفاظت کے لیے انگریز کی گود میں جانا چاہتا ہے‘ اور آئندہ انقلاب کے خطرات سے بچنے کی یہی صورت مناسب سمجھتا ہے‘ کہ سرکار برطانیہ کا معاون بن کر آزادی کی تحریک کو روکے۔ تیسرا گروہ عالمِ حیرت میں کھڑا ہے‘ اور خاموشی کے ساتھ واقعات کو دیکھ رہا ہے۔
ہمارے نزدیک یہ تینوں گروہ غلطی پر ہیں۔ پہلے گروہ کی غلطی ہم نے اوپر واضح کر دی۔ دوسرے گروہ کی غلطی بھی کچھ کم خطرناک نہیں۔ یہ لوگ اپنی کمزوریوں کی اصلاح کرنے کی بجائے دوسروں کی ترقی کو روکنا چاہتے ہیں‘ اور یہ سمجھ رہے ہیں‘ کہ ان کے ضُعف کی تلافی غیروں کے سہارے سے ہو جائیگی۔ ایسی ذلیل پالیسی دنیا میں نہ کبھی کامیاب ہوئی ہے نہ ہو سکتی ہے۔ جو قوم خود رہنے کی طاقت نہ رکھتی ہو، جس میں خود اپنے موقف پر کھڑے رہنے کا بل بوتا نہ ہو، وہ کب تک دوسروں کے سہارے جی سکتی ہے؟ کب تک کوئی سہارا اس کے لیے قائم رہ سکتا ہے؟ کب تک زمانے کے انقلابات اس کی خاطر رُکے رہ سکتے ہیں؟ انگریز قیامت تک کے لیے ہندستان پر حکومت کرنے کا پٹہ لکھوا کر نہیں لایا ہے۔ ہر قوم کے لیے ایک مدّت ہوتی ہے۔ انگریز کے لیے بھی بہرحال ایک مدت ہے، اور وہ آج نہیں تو کل پوری ہو گی۔ اس کے بعد وہی قوم بر سر اقتدار آئے گی جس میں ہمت اور طاقت ہو گی۔ حاکمانہ اوصاف ہوں تو وہ قوم تم ہو سکتے ہو، اور اگر تم ان سے عاری ہو تو بہرحال تمہاری قسمت میں محکومی کی ذلت اور ذلت کی موت ہی ہے۔ جو گھن کھائی ہوئی لاش‘ کسی عصا کے سہارے پر کھڑی ہو‘ وہ ہمیشہ کھڑی نہیں رہ سکتی۔ عصا کبھی نہ کبھی ہٹ کے رہے گا اور لاش کبھی نہ کبھی گِر کے رہے گی۔
تیسرے گروہ کی غلطی سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ یہ دنیا ایک عرصۂ جنگ ہے‘ جس میں تنازع للبقا کا سلسلہ جاری ہے۔ اس معرکہ میں ان کے لیے کوئی کامیابی نہیں جو زندہ رہنے کے لیے مقابلہ اور زحمت کی قوّت نہ رکھتے ہوں۔خصوصیت کے ساتھ ایک دور کے خاتمہ اور دوسرے دور کے آغاز کا وقت تو قوموں کی قسمتوں کے فیصلے کا وقت ہوتاہے۔ ایسے وقت میں سکون اور جمود کے معنی ہلاکت اور موت کے ہیں۔ اگر تم خود ہی مر جانا چاہتے ہو تو بیٹھے رہو‘ اور اپنی موت کی آمد کا تماشا دیکھے جاؤ۔ لیکن زندہ رہنے کی خواہش ہے ‘تو سمجھ لو کہ اس وقت کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ یہ سستی رفتار کا زمانہ نہیں ہے، صدیوں کے تغیّرات اب مہینوں اور برسوں میں ہو جاتے ہیں۔ جس انقلاب کے سامان اس وقت ہندستان اور ساری دنیا میں ہو رہے ہیں‘ وہ طوفان کی سی تیزی کے ساتھ آرہا ہے۔ اب تمہارے لیے زیادہ سے زیادہ دس پندرہ برس کی مہلت ہے۔ اگر اس مہلت میں تم نے اپنی کمزوریوں کی تلافی نہ کی‘ اور زندگی کی طاقت اپنے اند رپیدا نہ کی‘ تو پھر کوئی دوسری مہلت تمہیں نہ ملے گی۔ اور تم وہی سب کچھ دیکھو گے‘ جو دوسری کمزور قومیں اس سے پہلے دیکھ چکی ہیں۔ اللہ کا کسی قوم کے ساتھ رشتہ نہیں ہے‘ کہ وہ اس کی خاطر اپنی سنّت کو بدل ڈالے۔
جمود بہرحال ٹوٹنا چاہیے، حرکت کی ضرورت ہے‘ اور شدید ضرورت ہے۔ مگر نری حرکت کسی کام کی نہیں۔ حکمت اور تدبر کے ساتھ حرکت ہونی چاہیے۔ خصوصاً نازک اوقات میں تو حرکت ِبلا تدبر کے معنی خود اپنے پائوںچل کر خندق میں جا گرنے کے ہیں۔ یہ اندھے جوش اور ابلہانہ شتاب روی کا وقت نہیں۔ قدم اٹھانے سے پہلے ٹھنڈے دل و دماغ سے کام لے کر سوچئے کہ قدم کس سمت میں اٹھانا چاہیے؟ آپ کی منزلِ مقصود کیا ہے؟ اس کی طر ف جانے کا صحیح راستہ کون سا ہے؟ اس راستہ پرچلنے کے لیے آپ کو کس سامان کی ضرورت ہے؟ کن کن مرحلوں سے بسلامت گزر جانے کے لیے کیا تدبیریں اختیار کرنی پڑیں گی؟
خ خ خ
باب ۳ : ہمارا سیاسی نصب ُالعین
کسی راستہ پر چلنے سے پہلے منزلِ مقصود کا تعین ضروری ہے۔ ظاہر ہے‘ کہ حرکت اور سفر کو بذات خود تو مقصود نہیں بنایا جا سکتا۔ کم از کم ذی عقل و ہوش انسان کے لیے تو یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ محض چلنے کی خاطر چلیں‘ اور منتہائے نظر کوئی نہ ہو۔ لہٰذا مسلمانوں کے تمام سوچنے والے لوگوں کو سب سے پہلے یہ طے کرنا چاہیے‘ کہ ان کا منتہائے نظریا نصب العین کیا ہے۔ اس کے بعد طریق کار اور راہِ عمل کا انتخاب زیادہ آزاد ہو جائے گا۔ کیونکہ جب وہ مقام متعین ہو‘ جس تک ہمیں جانا ہے‘ تو وہ راستہ بڑی آسانی سے دریافت ہو سکتا ہے‘ جو اس مقام تک پہنچنے کا سب سے زیادہ سیدھا اور سب سے زیادہ اقرب راستہ ہو۔
عام طو رپر آزاد خیال مسلمان اپنی ’’قوم پرستی‘‘ کی نمائش کرنے کے لیے کہتے ہیں‘ کہ نصب العین ہندستان کی کامل آزادی ہے۔ لیکن یہ بات عموماً بغیر سوچے سمجھے کہہ دی جاتی ہے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہماری منزلِ مقصود محض آزادی ہی نہیں ہے‘ بلکہ ایسی آزادی ہے‘ جس کی وجہ سے ہندستان میں اسلام نہ صرف قائم رہے‘ بلکہ عزت اور طاقت والا بن جائے۔ آزادیٔ ہند ہمارے نزدیک مقصود بالذات نہیں ہے‘ بلکہ اصل مقصد کے لیے ایک ضروری اور ناگزیر وسیلہ ہونے کی حیثیت سے مقصود ہے۔ ہم صرف اس آزادی کے لیے لڑنا چاہتے ہیں، بلکہ صحیح تو یہ ہے‘ کہ اپنے مذہب کی رو سے لڑنا فرض جانتے ہیں‘ جس کا نتیجہ یہ ہو‘ کہ یہ ملک کلیۃً نہیں تو ایک بڑی حد تک دارالاسلام بن جائے۔ لیکن اگر آزادیٔ ہند کا نتیجہ یہ ہو‘ کہ یہ جیسا دارالکفر ہے ویسا ہی رہے‘ یا اس سے بدتر ہو جائے‘ تو ہم بلا کسی مداہنت کے صاف صاف کہتے ہیں‘ کہ ایسی آزادی وطن پر ہزار مرتبہ لعنت ہے۔ اور اس کی راہ میں بولنا، لکھنا، روپیہ صرف کرنا، لاٹھیاں کھانا اور جیل جانا سب کچھ حرام، قطعی حرام ہے۔
یہ ایسی صاف بات ہے‘ جس میں دو رائیں ہونے کی گنجائش ہی نہیں۔ خصوصاً جو شخص قرآن اور سنّت پر نظر رکھتا ہے‘ اور منافق نہیں ہے‘ وہ تو اس کے برحق ہونے میں چون و چرا نہیں کر سکتا۔
ہندستان میں آزادیٔ مسلم کا کم سے کم مرتبہ
منزلِ مقصود کا انتہائی مقام یعنی ہندوستان کو کلیۃً دارالاسلام بنانا تو اتنا بلند مقام ہے کہ آج کل کا کم ہمت مسلمان اس کا قصد کرنے کی جرأت اپنے اندر نہیں پاتا۔ خیر جانے دیجئے اس کو… اس سے فرو تر درجہ میں جس مقصد کے لیے ہمیں لڑنا ہے‘ وہ کم سے کم یہ ہے‘ کہ ہندوستان نہ تو بیرونی کفار کے تسلّط میں رہے‘ اور نہ اندرونی کفارکے تسلّط میں چلا جائے، بلکہ آزاد ہو کر شبہ دارالاسلام بن جائے۔
اب آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کو سمجھ لیجئے کہ شبہ دارالاسلام سے کیا مراد ہے۔اگر کوئی شخص اس کے معنی یہ سمجھتا ہے‘ کہ مسلمانوں کے سے نام رکھنے والوں کو اسمبلیوںاور کونسلوں کی نشستیں اور سرکاری عہدے مل جائیں‘ اور ہندستان کے معاشی ثمرات میں ان کو بھی متناسب حصہ ملے، اور آزاد ہندستان کی تمام عمرانی ترقیات سے (خواہ وہ ترقیات کسی صورت میں ہوں) انہیںبلا امتیاز مستفید ہونے کاموقع ملتا رہے، تو ہم کہیں گے کہ وہ غلطی پر ہے، ہم جس کو شبہ دارالاسلام سمجھتے ہیں، اور جو چیز درحقیقت اس نام سے موسوم ہو سکتی ہے، وہ یہ کہ ہندستان کی حکومت میں ہم محض ’’ہندستانی‘‘ ہونے کی حیثیت سے نہیں‘ بلکہ ’’مسلمان‘‘ ہونے کی حیثیت سے حصہ دار ہوں، اور ہمارا حصہ اس قدر طاقت ور ہو کہ
(۱) ہم اپنی قوم کی تنظیم اصولِ اسلامی کے مطابق کر سکیں۔ یعنی ہم کو حکومت کے ذریعہ سے اتنی قوّت حاصل ہو‘ کہ ہم مسلمانوں کے لیے اسلامی تعلیم و تربیت کا انتظام کر سکیں، ان کے اندر غیر اسلامی طریقوں کے رواج کو روک سکیں، ان پر اسلامی احکام جاری کر سکیں، اور اپنی قوم میں جو اصلاحات ہم خود اپنے طریق پر نافذ کرنے کی ضرورت سمجھیں‘ ان کو خود اپنی طاقت سے نافذ کر سکیں۔ مثلاً زکوٰۃ کی تحصیل، اوقاف کی تنظیم، قضائے شرعی کا قیام، قوانینِ معاشرت کی اصلاح وغیرہ۔
(۲) ہم اس ملک کے نظم و نسق اور اس کی تمدّنی و معاشی تعمیر جدید میں اپنا اثر اس طرح استعمال کر سکیں کہ وہ ہمارے اصول تمدّن و تہذیب کے خلاف نہ ہو۔ یہ ظاہر ہے‘ کہ وسیع پیمانہ پر تمام ملک کی اجتماعی زندگی اور معاشی تنظیم اور تدبیر مملکت کی مشین جو شکل بھی اختیار کرے گی‘ اس کا اثر دوسری قوموں کی طرح ہماری قوم پر بھی پڑے گا۔ اگر یہ تعمیر جدید اس نقشہ پر ہو‘ جو اپنے اصول و فروع میں کلیۃً ہماری تہذیب کی ضد ہے‘ تو ہماری زندگی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیںرہ سکتی۔ ایسی صورت میں ہمارے لیے ناگزیر ہو جائے گا‘ کہ یا تو ہم تمدّن و معیشت کے اعتبار سے غیر مسلم بن جائیں‘ یا پھر ہماری حیثیت اس ملک میں تمدّنی و معاشی اچھوتوں کی سی ہو کر رہ جائے۔ا س نتیجہ کو صرف اسی طرح روکا جا سکتا ہے‘ کہ ہند جدید کی تشکیل پر ہم اپنا اثر کافی قوّت کے ساتھ ڈال سکیں۔
(۳) ہندستان کی سیاسی پالیسی میں ہمارا اتنا اثر ہو‘ کہ اس کی طاقت کسی حال میں بیرون ہند کی مسلمان قوموں کے خلاف استعمال نہ کی جا سکے۔
کانگریس کے ’’بنیادی حقوق‘‘ ہمارے منتہائے نظرنہیںہو سکتے
یہ مقصد جس کی ہم نے توضیح کی ہے وہ کم سے کم چیز ہے‘ جس کے لیے ہم کو لڑنا چاہیے۔ مدافعت کا پہلو صرف کمزور اختیار کرتے ہیں‘ اور ان کا آخری انجام شکست ہے۔ اگر آپ اپنا مقصد صرف ان حقوق کے حصول کو بناتے ہیں‘جن کا اطمینان کانگریس نے اپنے ’’بنیادی حقوق‘‘ والے ریزولیوشن میں دلایا ہے‘ تو آپ دھوکے میں ہیں۔آپ کی تہذیب، زبان، پرسنل لا اور مذہبی حقوق کا تحفظ بھی (جسے آپ کافی سمجھے بیٹھے ہیں) دراصل اس کے بغیر ممکن نہیں‘ کہ آپ فارورڈ پالیسی اختیار کر کے حکومت کی تشکیل میں طاقت ور حصہ دار بننے کی کوشش کریں۔ اس میں اگر آپ نے غفلت کی‘ اور حکومت کا اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں چلا گیا‘ جو مسلمان نہیںہیں‘ تو یقین رکھیے کہ کوئی دستور آپ کو من حیث المسلم ہلاک ہونے سے نہ بچا سکے گا۔ انگریزی حکومت نے بھی آپ کے بہت سے حقوق تسلیم کر رکھے ہیں۔ مگر غور کیجئے وہ کیا چیز ہے‘ جس نے آپ کو خود اپنے حقوق سے دست بردار کرا دیا؟ انگریز نے آپ سے یہ کبھی نہیں کہا کہ اپنی زبان میں لکھنا، پڑھنا، بولنا سب چھوڑ دو، زکوٰۃ نہ دو، شراب پیو، اور اپنے مذہب کے سارے احکام کو نہ صرف بالائے طاق رکھ دو،بلکہ ان کا مذاق تک اڑاؤ۔ پھر کس چیز نے آپ کی قوم کے لاکھوںکروڑوں افراد کو ایک صدی کے اندر اپنے دین و ایمان سے عملاً منحرف کر ڈالا؟ انگریز نے آپ سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا تھا‘ کہ اپنی معاشرت بدل دو، اپنا لباس بدل دو، اپنے مکانوں کے نقشے بدل دو، اپنے آادب و اخلاق بدل دو، اپنی صورتیں بگاڑ لو، اپنے بچوں کو انگریز بناؤ، اپنی عورتوں کو میم صاحب بناؤ، اپنے تمدّن اور اپنی تہذیب کے سارے اصول چھوڑ کر پوری زندگی ہمارے نقشے پر ڈھال لو۔ پھر وہ کون سی چیز ہے‘ جس نے آپ سے یہ سب کچھ کرا ڈالا؟ ذرا دماغ پر زور ڈال کر سوچئے، کیا اس کا سبب غیر مسلم اقتدار کے سوا اور بھی کچھ ہے؟ ڈھائی تین لاکھ انگریز چھ ہزار میل دور سے آتے ہیں۔ آپ سے الگ تھلگ رہتے ہیں۔ قصداً آپ کے اندرونی معاملات اور آپ کے تمدّنی و معاشرتی مسائل میں دخل دینے سے پرہیز کرتے ہیں۔ پھر بھی ان کے اقتدار کایہ اثر ہوتاہے‘ کہ بیرونی جبر سے نہیں،بلکہ اندرونی انقلاب سے آپ کی کایا پلٹ جاتی ہے‘ اور آپ خود بخود اپنے ان بنیادی‘ اور فطری حقوق تک سے دست بردار ہو جاتے ہیں‘جن کو کوئی حکومت اپنی رعایا سے نہیں چھینتی اور نہیں چھین سکتی۔ اب ذرا اندزہ لگائیے کہ اگر آزاد ہندستان کی حکومت غیر اسلامی نقشہ پر بن گئی‘ اور اس کا اقتدار ان ہندستانیوںکے ہاتھ میں چلا گیا‘ جو مسلمان نہیں ہیں، تو اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ وہ انگریزوں کی طرح قلیل التعداد بھی نہیں، آپ سے الگ تھلگ رہنے والے بھی نہیں، اور پھر غیر ملکی بھی نہیںہیں کہ سیاسی پالیسی ان کو تمدّنی و معاشرتی مسائل میں دخل دینے سے روکے۔ ان کے اقتدار میں آپ کے اندرونی تغیّر و انقلاب کا کیا حال ہو گا‘ اور دستور مملکت کی کون کون سی دفعات آپ کو اپنے حقوق کی پامالی سے روکیں گی؟
مسلمانوں کے لیے صرف ایک راستہ ہے
پس جیساکہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں، مسلمانوں کے لیے ایسی آزادی وطن کی خاطر لڑنا تو قطعی حرام ہے‘ جس کا نتیجہ انگلستانی غیر مسلموں سے ہندوستانی غیر مسلموں کی طرف اقتدارِ حکومت کا انتقال ہو۔ پھر ان کے لیے یہ بھی حرام ہے‘ کہ وہ اس انتقال کے عمل کو بیٹھے ہوئے خاموشی سے دیکھتے رہیں۔ اور ان کے لیے یہ بھی حرام ہے‘ کہ اس انتقال کو روکنے کی خاطر انگلستانی غیر مسلموں کا اقتدار قائم رکھنے میں معاون بن جائیں۔ ا سلام ہم کو ان تینوں راستوںپر جانے سے روکتا ہے۔ اب اگر ہم مسلمان رہنا چاہتے ہیں۔ اور ہندستان میں اسلام کا وہ حشر دیکھنے کے لیے تیار نہیں‘ جو اسپین اور سسلی میں ہو چکا ہے‘ تو ہمارے لیے صرف ایک ہی راستہ باقی ہے، اور وہ یہ ہے‘ کہ ہم آزادی ہند کی تحریک کا رخ حکومت ِکفر کی طرف سے حکومت ِحق کی طرف پھیرنے کی کوشش کریں۔ اور اس غرض کے لیے ایک ایسی سرفروشانہ جنگ پر کم بستہ ہو جائیں‘ جن کا انجام یا کامیابی ہو یا موت
یا تن رسد بجاناں یا جاں زتن برآید{ FR 2900 }
ہم آزادی ہند کے مخالف نہیں‘ بلکہ ہر آزادی خواہ سے بڑھ کر اس کے خواہش مند ہیں۔ اور اس کے لیے جنگ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ لیکن وطن پرست کے نصب العین سے ہمارا نصب العین مختلف ہے۔ وہ صرف ایسی آزادی چاہتا ہے‘ جس کا نتیجہ ’’ہندستانی‘‘ کی نجات ہو‘ اور ہم وہ آزادی چاہتے ہیں‘ جس کا نتیجہ ’’ہندستانی‘‘ کے ساتھ ’’مسلم‘‘ کی نجات بھی ہو۔
خ خ خ
باب ۴ : راہِ عمل
اب ہم کو اس سوال پر غور کرنا ہے‘ کہ ہندوستان میں اسلامی قومیّت کا وہ نصب العین جس کو ہم نے پچھلے صفات میں بیان کیا تھا‘ کس طریقہ سے حاصل ہو سکتا ہے۔ جہاں تک ہم کو معلوم ہے‘ اس نصب العین سے کسی ’’‘مسلم‘‘ فرد یا گروہ کو اختلاف نہیں۔ اختلاف جو کچھ بھی ہے‘ ا س امر میں ہے‘ کہ ہمارے لیے صحیح راستہ کون سا ہے؟ اب ہمیں ان مختلف راستوںپر ایک تنقیدی نگاہ ڈالنی چاہیے‘ جو ہمارے سامنے ہیں۔ اس کے بعد راہِ راست خود بخود واضح ہو جائے گی۔
ہندستان میں مسلمانوں کی دو حیثیتیں
ہندستان میں ہماری دو حیثیتیںہیں۔ ایک حیثیت ہمارے ’’ہندستانی‘‘ ہونے کی ہے، اور دوسری حیثیت ’’مسلمان‘‘ ہونے کی۔
پہلی حیثیت میں ہم اس ملک کی تمام دوسری قوموں کے شریک ِحال ہیں۔ ملک قلاش اور فاقہ کشی میں مبتلا ہو گا‘ تو ہم بھی مفلس اور فاقہ کش ہو ں گے۔ ملک کو لُوٹا جائے گا تو ہم بھی سب کے ساتھ لُوٹے جائیں گے۔ ملک میں جور و ظلم کی حکومت ہو گی‘ تو ہم بھی اسی طرح پامال ہوں گے‘ جس طرح ہمارے اہلِ وطن ہوں گے۔ ملک پر غلامی کی وجہ سے بہ حیثیت مجموعی جتنی مصیبتیں نازل ہوں گی، جتنی لعنتیں برسیں گی، ان سب میں ہم کو برابر کا حصہ ملے گا۔ اس لحاظ سے ملک کے جتنے سیاسی و معاشی مسائل ہیں‘ وہ سب کے سب ہمارے اور دوسری اقوامِ ہند کے درمیان مشترک ہیں۔ جس طرح ان کی فلاح و بہبود ہندستان کی آزادی کے ساتھ وابستہ ہے، اسی طرح ہماری بھی ہے۔ سب کے ساتھ ہماری بہتری بھی اس پر منحصر ہے‘ کہ یہ ملک ظالموں کے تسلّط سے آزاد ہو۔ اس کے وسائل ثروت اسی کے باشندوں کی ترقی اور بہتری پر صرف ہوں۔ اس کے بسنے والوں کو اپنے افلاس، اپنی جہالت، اپنی اخلاقی پستی اور اپنی تمدّنی پسماندگی کا علاج کرنے میں اپنی قوتوں سے کام لینے کے پورے مواقع حاصل ہوں، اور کوئی جابر قوم ان کو اپنی ناجائز اغراض کے لیے آلۂ کار بنانے پر قادر نہ ہو۔
دوسری حیثیت میں ہمارے مسائل کچھ اور ہیں‘ جن کا تعلق صرف ہم ہی سے ہے۔ کوئی دوسری قوم ان میں ہماری شریک نہیں ہے۔ اجنبی استیلاء نے ہمارے قومی اخلاق کو، ہماری قومی تہذیب کو، ہمارے اصولِ حیات کو، ہمارے نظامِ جماعت کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ ڈیڑھ سو برس کے اندر غلامی ان تمام بنیادوں کو گھن کی طرح کھا گئی ہے‘ جن پر ہماری قومیّت قائم ہے۔ تجربے نے ہم کو بتادیا ہے‘ اور روز روشن کی طرح اب ہم اس حقیقت کو دیکھ رہے ہیں‘ کہ اگر یہ صورتحال زیادہ مدت تک جاری رہے‘ تو ہندستان کی اسلامی قومیّت رفتہ رفتہ گھل گھل کر طبعی موت مر جائے گی‘ اور یہ برائے نام ڈھانچہ جو باقی رہ گیا ہے یہ بھی نہ رہے گا، اس حکومت کے اثرات ہم کو اندر ہی اندر غیر مسلم بنائے جا رہے ہیں۔ ہمارے دل و دماغ کی تہوں میں وہ جڑیں سُوکھتی جا رہی ہیں‘جن سے اسلامیت کا درخت پیدا ہوتا ہے۔ ہم کو وہ حشیش پلایا جا رہا ہے‘ جو ہماری ماہیت کو بدل کر خود ہمارے ہی ہاتھوں سے ہماری مسجد کو منہدم کرا دے۔ جس رفتار کے ساتھ ہم میں یہ تغیّرات ہو رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے ایک مبصر اندازہ لگا سکتا ہے‘ کہ اس عمل کی تکمیل اب بہت قریب آلگی ہے۔ زیادہ سے زیادہ تیسری چوتھی پشت تک پہنچتے پہنچتے ہمارا سوادِاعظم خود بخود غیر مسلم بن جائے گا‘ اور شاید گنتی کے چند نفوس اس عظیم الشان قوم کے مقبرے پر آنسو بہانے کے لیے رہ جائیں گے۔ پس ہماری قومیّت کا بقاوتحفظ اس پر منحصر ہے‘ کہ ہم اس حکومت کے تسلّط سے آزاد ہوں‘ اور اس نظامِ اجتماعی کو از سرِنو قائم کریں جس کے مٹ جانے ہی کی بدولت ہم پر مصائب نازل ہو رہے ہیں۔
آزادی وطن کے دو راستے
ہماری یہ دونوںحیثیتیں باہم متلازم ہیں۔ ان کو نہ عقلاً منفک کیا جا سکتا ہے نہ عملاً۔
یہ بالکل صحیح ہے‘ کہ آزادی ان دونوں حیثیتوں سے ہماری مقصود ہے۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں‘ کہ ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے جتنے مسائل ہمارے اور تمام دوسرے باشندگانِ ہند کے درمیان مشترک ہیں‘ ان کو حل کرنے کے لیے مشترک طور پر ہی جدوجہد کرنی چاہیے‘ اور یہ بھی سرا سر درست ہے‘ کہ مسلم ہونے کی حیثیت سے جو آزادی ہم چاہتے ہیں وہ بھی بہر طور ہمیں اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے‘ جب کہ ہمیں ہندستانی ہونے کی حیثیت سے آزادی حاصل ہو جائے‘ لیکن یہ تماثل اور توافق جو بادی النظر میں دکھائی دیتا ہے‘ اس میں ایک بڑا دھوکا چھپا ہوا ہے‘ اور درحقیقت اسی مقام پر بہت سوں نے دھوکہ کھایا ہے۔
غائر نگاہ سے آپ دیکھیں گے‘ تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ کوئی سیدھی سڑک نہیں ہے‘ جس پر آپ آنکھیں بند کرکے بے تکان چلے جائیں۔ ٹھیک اسی مقام پر جہاں آپ آکر ٹھہرے ہیں‘ ایک دوراہا موجود ہے۔ دو سڑکیں بالکل مختلف سمتوںمیں جا رہی ہیں‘ اور آپ کو قدم اٹھانے سے پہلے عقل و تمیز سے کام لے کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے‘ کہ جانا کدھر ہے؟
(ا) وطن پرستی
آزادی وطن کا ایک راستہ وہ ہے‘ جس کو ہم صرف ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے اختیار کر سکتے ہیں۔ اس راہ کے بنانے والے اور اس پر ہندستانیوں کو چلانے والے وہ لوگ ہیںجن کے پیشِ نظر ’’وطنی قومیّت‘‘ کا مغربی تصوّر ہے، اور اس تصوّر کی تہ میں انسانیت کا ہندو تصوّر گہرا جما ہوا ہے۔ ان کا منتہائے مقصود یہ ہے‘ کہ ہندوستان میں مختلف قومی امتیازات جو مذہب اور تہذیب کی تفریق پر قائم ہیں‘ مٹ جائیں‘ اور سارا ملک ایک قوم بن جائے۔ پھر اس ’’قوم‘‘ کی زندگی کا جو نقشہ ان کے سامنے ہے‘ وہ اشتراکیت اور ہندویت سے مرکب ہے، اور اس میں مسلمانوں کے اصولِ حیات کی رعایت تو درکنار، اس کے لیے کوئی ہمدردانہ نقطۂ نظربھی ان کے پاس نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ رعایت جس کی گنجائش وہ اس ’’ہندی قومیّت‘‘ میں نکال سکتے ہیں وہ یہ ہے‘ کہ جن معاملات کا تعلق انسان اور خدا کے مابین ہے ان میں ہر گروہ کو اعتقاد اور عمل کی آزادی حاصل رہے۔ مگر جو معاملات انسان اور انسان کے درمیان ہیں ان کو وہ خالص وطنیت کی بنیاد پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ منظم مذہب (organized religion) یعنی ایسا مذہب ان کے نزدیک اصولا قابلِ اعتراض ہے‘ جو اپنے متبعین کو ایک مستقل قوم بناتا ہو‘ اور اس کو تعلیم، معیشت، معاشرت، تمدّن، اخلاق اور تہذیب میں دوسرے مذاہب کے متبعین سے الگ ایک ڈھنگ اختیار کرنے اور ایک ضابطہ کی پابندی کرنے پر مجبور کرتا ہو۔ وہ ہندستان کے موجودہ حالات کی رعایت ملحوظ رکھ کر کچھ مدت تک اس قسم کے ’’منظم‘‘مذہب کو ایک محدود اور دھندلی شکل میں باقی رکھنا گوارا کر لیں گے‘ چنانچہ اسی گوارا کر لینے کے انداز میں انہوں نے ہندوستان کے مختلف فرقوں کو ان کی زبان اور ’’پرسنل لا‘‘ کے تحفظ کا یقین دلایا ہے۔ مگر وہ کسی ایسے نظام کو برداشت نہیں کر سکتے‘ جو اس ’’منظم مذہب‘‘ کو مزید طاقت اور مستقل زندگی عطا کرنے والا ہو۔ بلکہ اس کے برعکس وہ ہندستانِ جدید کی تعمیر اس طرز پر کرنا چاہتے ہیں‘ جس میں یہ ’’منظم مذہب‘‘ رفتہ ر فتہ مضمحل ہو کر طبعی موت مر جائے‘ اور ہندستان کی ساری آبادی ایک ایسی قوم بن جائے‘جس میں سیاسی پارٹیوںاور معاشی گروہوں کی تفریق تو چاہے کتنی ہی ہو، مگر تعلیم و تہذیب، تمدّن و معاشرت، اخلاق و آداب اور تمام دوسری حیثیات سے سب ایک رنگ میں رنگے ہوئے ہوں۔ا ور وہ رنگ فطرۃً وہی ہونا چاہیے‘ جو اس تحریک کے محرکوں کا رنگ ہے۔
یہ راستہ جس کی خصوصیات کو آج ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے، ہم صرف اسی وقت اختیار کر سکتے ہیں‘ جب کہ ہم اپنی دوسری حیثیت کو قربان کرنے پر راضی ہو جائیں۔ اس راستہ پر چل کر ہم کو وہ آزادی حاسل نہیں ہو سکتی‘ جو ہمیں مسلمان ہونے کی حیثیت سے درکار ہے۔ بلکہ اس راستے میں سرے سے ہماری یہ حیثیت ہی گم ہو جاتی ہے۔ اس کو اختیار کرنے کے معنی یہ ہیں‘ کہ انگریزی حکومت کے ماتحت جس انقلاب کا عمل ڈیڑھ سو برس سے ہماری قوم میں ہو رہا ہے‘ وہ ہندستانی حکومت کے ماتحت اور زیادہ شدّت و سرعت کے ساتھ پایۂ تکمیل کو پہنچے اور اس کی تکمیل میں ہم خود مددگار بنیں۔اور وہ اتنا مکمل انقلاب ہو‘ کہ پھر اس کے ردّعمل کا کوئی امکان نہ رہے‘ انگریزی حکومت کے اثر سے مغربی تہذیب میں‘ خواہ ہم کتنے ہی جذب ہو جائیں، بہرحال انگریزی قومیّت میںجذب نہیں ہو سکتے۔ بہرحال ہمارا ایک الگ اجتماعی وجود باقی رہتا ہے‘ جس کا پھر اپنی سابقہ صورت پر واپس ہونا ممکن ہے۔ لیکن یہاں تو صورتحال ہی دوسری ہے۔ ایک طرف ہمارے ہر ’’امتیازی نشان‘‘ حتیٰ کہ ہمارے احساسِ قومیّت تک کو فرقہ پرستی (communalism) قرار دے کر اس کے خلاف نفرت انگیز پراپیگنڈا کیا جاتا ہے‘ جس کے معنی یہ ہیں‘ کہ مستقل جماعت (community) کی حیثیت سے ہمارا وجود ناقابلِ برداشت ہے۔ دوسری طرف ہماری قوم کے ان لوگوں کو قوم پرست (nationalist) کہا جاتا ہے‘ جو ہاتھ جوڑ کر نمستے کرتے ہیں، ’’بند ماترم‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں، مندروں میں پہنچ کر عبادت تک میں حصہ لے گزرتے ہیں، اپنی صورتوںاور لباسوںمیں پورا ہندویت کا رنگ اختیار کرتے ہیں، اور مسلمان قوم کے مفاد کا نام تک لیتے ہوئے انہیں ڈر لگتا ہے‘ کہ مبادا ان پر فرقہ پرستی (communalism) کا الزام نہ آجائے‘ جو ان کے نزدیک کفر کے الزام سے زیادہ بدتر ہے۔ تیسری طرف ہم سے صاف کہا جاتا ہے‘ کہ ایک جماعت بن کر نہ آؤ، بلکہ افراد بن کر آؤ‘ اور سیاسی پارٹیوں میں، مزدور اور سرمایہ دار کی تفریق میں، زمیندار اور انسان کی تقسیم میں، زروالے اور بے زر کے تنازع میں منقسم ہو جاؤ، بالفاظِ دیگر اس رشتے کو خود ہی کاٹ دو‘ جو مسلم اور مسلم میں ہوتا ہے‘ اور اس رشتہ میں بندھ جاؤ جو ایک پارٹی کے مسلم اور غیر مسلم ممبروں میں ہوتا ہے۔ا س کا نتیجہ جو کچھ ہے اسے سمجھنے کے لیے کچھ زیادہ عقل و فکر کی ضرورت نہیں۔اس کا کُھلا ہوا نتیجہ یہ ہے‘ کہ تحریک ِآزادیِ وطن کے دوران ہی میں ہمارا اجتماعی وجود فنا بھی ہو جائے، اور ہم جدا جدا قطروں کی شکل اختیار کرکے جدید نیشنلزم کی خاک میں جذب بھی ہو جائیں۔ پھر بحیثیت مسلمان قوم کے ہم نشاۃ ثانیہ کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔
جو لوگ صرف ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے آزادی چاہتے ہیں‘ اور جن کی نگاہ میں آزادی کے منافع اس قدر قیمتی ہیں‘ کہ اپنی اسلامی حیثیت کو وہ بخوشی ان پر قربان کر سکتے ہیں، وہ اس راستہ پر ضرور جائیں۔ مگر ہم یہ تسلیم کرنے سے قطعی انکار کرتے ہیں‘ کہ کوئی سچا مسلمان ایسی تحریک ِآزادیِ وطن میں جان بوجھ کر حصہ لینا گوارا کرے گا۔
(۲) مسلمانوں کی آزادی
آزادی ِوطن کے لیے دوسرا راستہ صرف وہی ہو سکتا ہے‘ جس میں کسی باشندہ ہند کے ہندوستانی ہونے کی حیثیت اور اس کے مسلم یا ہندو یا عیسائی یا سکھ ہونے کی حیثیت میں کوئی تناقض نہ ہو، جس میں ہر گروہ کو دونوں حیثیتوں سے آزادی حاصل ہو، جس کی نوعیت یہ ہو‘ کہ مشترک وطنی مسائل کی حد تک تو امتیاز مذہب و ملت کا شائبہ تک نہ آنے پائے مگر جُدا گانہ قومی مسائل میں کوئی قوم دوسری قوم سے تعرض نہ کر سکے، اور ہر قوم کو آزاد ہندستان کی حکومت میں اتنی طاقت حاصل ہو‘ کہ وہ اپنے ان مسائل کو خود حل کرنے کے قابل ہو۔
جیسا کہ ہم بار بار کہہ چکے ہیں، ہندستان کی آزادی کے لیے جنگ کرنا ہمارے لیے قطعاً ناگزیر ہے‘ لیکن ہم جس قوم کی آزادی کے لیے لڑ سکتے ہیں، اور لڑنا فرض جانتے ہیں وہ یہی ہے۔ رہی وہ آزادی جو ’’وطن پرستوں‘‘ کے پیشِ نظر ہے، تو اس کی حمایت میں لڑنا کیا معنی، ہم تو اسے انگریزوں کی غلامی سے بھی زیادہ ملعون سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس کے علمبردار مسلمانوںکے لیے وہی کچھ ہیں‘ جو کلائیو اور ولزلی تھے‘ اور ان کے پیرو مسلمانوںکی حیثیت بھی میر جعفر اور میر صادق سے مختلف نہیں۔ گو صورتیں اور حالات مختلف ہیں، مگر دشمنی اور غداری کی نوعیت میں کوئی فرق نہیں۔{ FR 2901 }
کانگریس کی طرف بلانے والوںکی غلطی
اب سوال یہ ہے‘ کہ یہ آزادی جس کو ہم اپنا مقصود بتا رہے ہیں‘ کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟ مسلمانوں میں آج کل دو گروہ نمایاں ہیں‘ جو مختلف تجویزیں پیش کر رہے ہیں۔
ایک گروہ کہتا ہے‘ کہ آزادی وطن کے لیے جو جماعت جدوجہد کر رہی ہے اس کے سامنے اپنے مطالبات پیش کرو‘ اور جب وہ انہیں منظور کر لے تو اس کے ساتھ شریک ہو جاؤ۔
دوسرا گروہ کہتا ہے‘ کہ بلا کسی شرط کے اس آزادی کی تحریک میں حصہ لو۔
ہمارے نزدیک یہ دونوں گروہ غلطی پر ہیں۔ پہلے گروہ کی غلطی یہ ہے‘ کہ وہ کمزوروں کی طرح بھیک مانگنا چاہتا ہے۔ بالفرض اگر اس نے مطالبہ کیا اور انہوں نے مان بھی لیا تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ جس قوم میں خود زندہ رہنے اور اپنی زندگی اپنے بل بُوتے پر قائم رکھنے کی صلاحیّت نہیں، اس کو دوسرے کب تک زندہ رکھ سکیں گے؟ رہا دوسرا گروہ تو وہ آزادی کے جوش میں اپنی قوم کی ان بنیادی کمزوریوں کوبھول جاتا ہے‘ جنہیں گزشتہ صفحات میں ہم تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے ہیں۔ اگر ثابت کر دیا جائے‘ کہ وہ کمزوریاں واقعی نہیں ہیں، اور مسلمان درحقیقت اس قدر طاقتور ہیں‘ کہ جدید نیشنلزم سے ان کی قومیّت اور قومی تہذیب کو کسی قسم کا خطرہ نہیں، تو ہم اپنی رائے واپس لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اگر یہ ثابت نہیں کیا سکتا‘ اور ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں‘ کہ نہیں کیا جا سکتا، تو پھر صاف سن لیجئے کہ اس مرحلہ پر مسلمانوں کو کانگریس کی طرف دعوت دینا دراصل ان کو خودکشی کا مشورہ دینا ہے۔ محض جذبات سے اپیل کر کے آپ حقائق کو نہیں بدل سکتے۔ جس مریض کی آدھی جان نکل چکی ہے اس کے سامنے سپہ سالار بن کر آنے سے پہلے آپ کو حکیم بن کر آنا چاہیے۔ پہلے اس کی نبض دیکھئے اور اس کے مرض کا علاج کیجئے، پھر اس کی کمر سے تلوار بھی باندھ لیجئے گا۔ یہ کہاں کی ہوش مندی ہے‘ کہ مریض تو بستر پر پڑا ایڑیاں رگڑ رہا ہے‘ اور آپ اس کے سرہانے کھڑے خطبہ دے رہے ہیں‘ کہ اُٹھ بہادر اپنی طاقت کے بل پر کھڑا ہو، باندھ کمر سے تلوار اور چل میدان کارزار میں!
یہ دونوںراستے جنہوں نے اختیار کیے ہیں، ان میں متعدّد حضرات ایسے ہیں‘ جن کے لیے ہمارے دل میں غایت درجہ کا احترام موجود ہے۔ ان کے خلوصِ ایمان میں ہم کو ذرّہ برابر شک نہیں۔ مگر ان کی جلالتِ شان کا پورا پورا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں‘ کہ وہ اس وقت مسلمانوں کی غلط رہنمائی کر رہے ہیں‘ اور اس غلط رہنمائی کا سبب یہ ہے‘ کہ انہوں نے مسلمانوں کی موجودہ پوزیشن اور مستقبل کے امکانات پر کافی غور و خوض نہیں کیا ہے۔
چند غور طلب حقائق
ہمارے رہنماؤں کو قدم اٹھانے سے پہلے حسب ذیل حقائق کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔
(۱) مسلمانوں کی حیاتِ قومی کو برقرار رکھنے کے لیے وہ چیز بالکل ناگزیر ہے‘ جس کو آج کل سیاسی اصطلاح میں سلطنت کے اندر ایک سلطنت کہا جاتا ہے۔ ان کی سوسائٹی جن بنیادوں پر قائم ہے وہ استوار ہی نہیں رہ سکتیں جب تک کہ خود ان کی اپنی جماعت میں کوئی قوتِ ضابطہ اور ہیئت حاکمہ موجود نہ ہو۔ ایسی ایک مرکزی طاقت کے بغیر کسی غیر مسلم نظامِ حکومت میں رہنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے‘ کہ ان کا اجتماعی نظام رفتہ رفتہ مضمحل ہو کر فنا ہو جائے‘ اور وہ بحیثیت ایک مسلم قوم کے زندہ ہی نہ رہ سکیں۔
(۲) اٹھارویں صدی کے سیاسی انقلاب نے ہم کو اس چیز سے محروم کر دیا‘ اور اس کی بدولت جو اضمحلال ہماری سوسائٹی میں رونما ہوا‘ اسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ڈیڑھ سو برس تک مسلسل اور پیہم انحطاط کی طرف لے جانے کے بعد یہ انقلاب ہم کو ایک ایسے مقام پر چھوڑ رہا ہے‘ جہاں ہماری جمعیت پراگندہ، ہمارے اخلاق تباہ، ہماری سوشل لائف ہر قسم کی بیماریوں سے زار و نزار اور ہمارے دین و اعتقاد تک کی بنیادیں متزلزل ہو چکی ہیں‘ اور ہم موت کے کنارے پر کھڑے ہوئے ہیں۔
(۳) اب ایک دوسرے انقلاب کی ابتداء ہو رہی ہے‘ جس میں دو قسم کے امکانات ہیں۔ اگر ہم نے اسی غفلت سے کام لیا‘ جس سے گزشتہ انقلاب کے موقع پر کام لیا تھا، تو یہ دوسرا انقلاب بھی اُسی سمت میں جائے گا‘ جس میں پہلا انقلاب گیا تھا‘ اور یہ اس نتیجہ کی تکمیل کر دے گا‘ جس کی طرف ہمیں اس کا پیش رو لے جا رہا تھا۔ اور اگر ہم غیر مسلم نظامِ حکومت کے اندر ایک مسلم نظامِ حکومت (خواہ وہ محدود پیمانہ ہی پر ہو) قائم کرنے میںکامیاب ہو گئے، تو انقلاب اپنا رخ بدل دے گا اور ہمیں اپنے نظمِ اجتماعی کو پھر سے مضبوط کر لینے کا ایک موقع ہاتھ آجائے گا۔
(۴) سلطنت کے اندر ایک سلطنت قائم کرنا کسی سمجھوتے اور کسی میثاق کے ذریعے سے ممکن نہیں۔ کوئی غیر مسلم سیاسی جماعت، خواہ وہ کیسی ہی فیاض اور وسیع المشرب ہو، اس کے لیے بخوشی آمادہ نہیں ہو سکتی، نہ اس کو بحث و مباحثہ کی طاقت سے کسی دستوری قانون میں داخل کرایا جا سکتا ہے۔ا ور بالفرض ہو بھی جائے‘ تو ایسی غیر معمولی چیز جس کی پشت پر کوئی طاقت ور رائے عام اور منظم قوّت موجود نہ ہو‘ عملی سیاست میں نقش بر آب سے زیادہ پائیدار نہیں ہوتی۔ درحقیقت یہ چیز اگر کسی ذریعہ سے پائیدار بنیادوں پر قائم ہو سکتی ہے‘ تو وہ صرف یہ ہے‘ کہ ہم خود اپنے نظام کی قوّت اور اپنے ناقابلِ تسخیر متحدہ ارادے سے اس کو بالفعل قائم کر دیں اور یہ ایک ایسا حاصل شدہ واقعہ بن کر ہندستان کے آئندہ نظامِ حکومت کا جزو بن جائے ‘جس کو کوئی طاقت واقعہ سے غیر واقعہ نہ بنا سکے۔
(۵) یہ کام اس طرح انجام نہیں پا سکتا کہ ہم سرِ دست انقلاب کو اسی رفتار پر جانے دیں‘ اور اس کی تکمیل ہونے کے بعد جب ہندستان میں مکمل طور پر ایک غیر مسلم نظامِ حکومت قائم ہو جائے، اس وقت سلطنت کے اندر ایک سلطنت بنانے کی کوشش کریں۔ اس چیز کو صرف وہی شخص قابلِ عمل خیال کر سکتا ہے‘ جس کو عملی سیاست کی ہوا تک چُھو کر نہ گزری ہو۔ ایک ہوش مند آدمی تو بادنیٰ تامل یہ سمجھ لے گا کہ انقلاب کا رخ صرف دوران انقلاب ہی میں بدلا جا سکتا ہے‘ اور سلطنت کے اندر سلطنت صرف اسی صورت میں بن سکتی ہے۔ جب کہ سلطنت کی تعمیر کے دوران میں اس کی بِنا ڈال دی جائے۔
(۶) جس قسم کی تنظیم اس مقصد کے لیے درکار ہے‘ وہ کانگریس کے فریم میں داخل ہو کر نہیں کی جا سکتی۔ کانگریس ایک منظم جماعت ہے‘ اور ہر منظم جماعت میں یہ خصوصیت ہوتی ہے‘ کہ وہ افراد کو اپنے دائرے میں لے کر اپنی فطرت اور اپنے مخصوص نفسیات کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔ مسلمانوں میں اگر مضبوط اسلامی کیرکٹر اور طاقت ور اجتماعی نظم موجود ہو تو البتہ وہ کانگریس کے فریم میں داخل ہو کر اس کے نفسیات اور اصول و مقاصد میں تغیّر پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن اس وقت وہ جن کمزوریوں میں مبتلا ہیں (جن کی تشریح پہلے کی جا چکی ہے) ان کولیے ہوئے منتشر افراد کی صورت میں ان کا ادھر جانا تو صرف ایک ہی نتیجہ پیدا کر سکتا ہے‘ اور وہ یہ ہے‘ کہ ہمارے جمہور پر کانگریسی نفسیات کا غلبہ ہو جائے، وہ اکابر کانگریس کی رہنمائی تسلیم کرکے ان کے اشارات پر چلنے لگیں‘ اور اسلامی مقاصد کے لیے مسلمانوں میں ایک رائے عام تیار کرنے کے جو امکانات ابھی باقی ہیں وہ بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں۔ ہر شخص جس کو خدا نے دیدئہ بینا عطا کیا ہے اس بات کو بآسانی سمجھ سکتا ہے‘ کہ نیشنلسٹ قسم کے مسلمان اگر کانگریس کے اندر کوئی بڑی قوّت پیدا کر لیں‘ اور حکومت کے اقتدار میں انہیں کوئی بڑا حصہ مل جائے تب بھی وہ مسلمانوں کے لیے کچھ مفید نہ ہوں گے، بلکہ غیر مسلموں سے کچھ زیادہ ہی نقصان رساں ثابت ہوں گے۔ اس لیے کہ وہ ہر معاملہ میں پالیسی اور طریق کار تو وہی اختیار کریں گے‘ جو ایک غیر مسلم کرے گا، مگر ایسا کرنے کے لیے ان کو ان سے زیادہ آزادی اور جرأت حاصل ہو گی‘ جو ایک غیر مسلم کو حاصل ہو سکتی ہے اس لیے کہ بد قسمتی سے ان کے نام مسلمانوں کے سے ہوں گے۔
اسلامی جماعت کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری تدابیر
مذکورہ بالا حقائق کو پیشِ نظر رکھ کر جب آپ غور کریں گے‘ تو معلوم ہو گا کہ ہمارے لیے اب صرف ایک ہی راستہ باقی ہے، اور وہ یہ ہے‘ کہ ہم ہندستان کی آزادی کے لیے جنگ میں شریک ہونے سے پہلے اپنی کمزوریوں کو دور کریں‘ اور اپنے اندر وہ طاقت پیدا کریں جس سے ہندستان کی آزادی کے ساتھ مسلمان کی آزادی کا حصول بھی ممکن ہو۔اس غرض کے لیے ہم کو اپنی قوتیں جن کاموں پر صرف کرنی چاہئیں وہ حسب ذیل ہیں:
(۱) مسلمانوں میں وسیع پیمانہ پر اصولِ اسلام اور قوانین شریعت کا علم پھیلایا جائے‘ اور ان کے اندر کم از کم اتنی واقفیت پیدا کر دی جائے‘ کہ وہ اسلام کے حدود کو پہچان لیں‘ اور یہ سمجھ سکیں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم کن خیالات اور کن عملی طریقوںکو قبول کر سکتے ہیں‘ اور کن کو قبول نہیں کر سکتے۔ یہ نشرو تبلیغ صرف شہروں ہی میں نہیں ہونی چاہیے بلکہ دیہات کے مسلمانوں کو شہری مسلمانوں سے زیادہ اس کی ضرورت ہے۔
(۲) علم کی اشاعت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو عملاً احکامِ اسلامی کا متبع بنانے کی کوشش کی جائے‘ اور خصوصیت کے ساتھ ان ارکان کو پھر سے استوار کیا جائے، جن پر ہمارے نظامِ جماعت کی بنیاد قائم ہے۔
(۳) مسلمانوں کی رائے عام کی اس طرح تربیت کیا جائے‘ کہ وہ غیر اسلامی طریقوں کے رواج کو روکنے پر مستعد ہو جائیں، اور ان کا اجتماعی ضمیر (social consciences) احکام اسلامی کے خلاف افراد کی بغاوت کو برداشت کرنا چھوڑ دے۔ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ جس چیز کے استیصال پر توجہ صرف کرنے کی ضرورت ہے‘ وہ تشبہ بالا جانب ہے، کیونکہ یہی وہ چیز ہے‘ جو ہم کو غیروںمیں جذب ہونے کے لیے تیار کرتی ہے۔
(۴) ہمیں اپنی اجتماعی قوّت اتنی مضبوط کرنی چاہیے‘ کہ اپنی جماعت کے ان غداروں اور منافقوں کا استیصال کر سکیں‘ جو اپنے دل کے چھپے ہوئے کفر و نفاق کی وجہ سے یا ذاتی اغراض کی خاطر اسلامی مفاد کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
(۵) ہمیں اس امر کی کوشش کرنی چاہیے‘ کہ جمہور مسلمین کی قیادت کا منصب نہ انگریز کے غلاموں کو حاصل ہو سکے، نہ ہندو کے غلاموں کو، بلکہ ایک ایسی جماعت کے قبضہ میں آجائے‘ جو ہندستان کی کامل آزادی کے لیے دوسری ہمسایہ قوموں کے ساتھ اشتراکِ عمل پر تو دل سے آمادہ ہو، مگر اسلامی مفاد کو کسی حال میں قربان کرنے پر آمادہ نہ ہو۔
(۶) مسلمانوں میں اس قدر اتحاد خیال اور اتحادِ عمل پیدا کر دیا جائے‘ کہ وہ تنِ واحد کی طرح ہو جائیں‘ اور ایک مرکزی طاقت کے اشاروں پر حرکت کرنے لگیں۔
اس وقت مسلمانوں کی جو حالت ہے‘ اس کو دیکھتے ہوئے شاید بعض لوگ یہ خیال کریں گے‘ کہ ایسا ہونا محال ہے۔ خود میرے متعدّد دوستوںنے کہا کہ تم خیالی پلاؤ پکا رہے ہو، یہ قوم اس قدر گر چکی ہے‘ کہ اب کوئی اعجازی قوّت ہی اس کو سنبھالے گی، مگر میں سمجھتا ہوں کہ ابھی اس قوم کو سنبھالنے کا موقع، آخری موقع باقی ہے۔ ہمارے خواص خواہ کتنے ہی بگڑ چکے ہوں، مگر ہمارے عوام میں ابھی ایمان کی دبی ہوئی ایک چنگاری موجود ہے‘ اور وہی ہمارے لیے آخری شُعاعِ اُمید ہے۔ قبل اس کے کہ وہ بُجھے، ہم اس سے بہت کچھ کام لے سکتے ہیں‘ بشرطیکہ چند مردِمومن ایسے اُٹھ کھڑے ہوں‘ جو خلوص نیت کے ساتھ خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے ہوں۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ
کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ ہم کانگریس سے تصادم چاہتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ ہندستانی ہونے کی حیثیت سے تو ہمارا مقصد وہی ہے‘ جو کانگریس کا ہے (یعنی ملک کی آزادی) اور ہم یہ سمجھتے ہیں‘ کہ اس مشترک مقصد (آزادی) کے لیے ہم کو بالآخر کانگریس کے ساتھ تعاون{ FR 2902 } کرنا ہے۔ لیکن سر دست ہم اس سے صرف اس لیے علیحدہ رہنا چاہتے ہیں‘ کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے‘ اپنے مفاد کا تحفظ کرنے کے لیے‘ ہم کو جس اخلاقی قوّت اور اجتماعی نظم کی ضرورت ہے‘ وہ ہم میں نہیں ہے۔ سب سے پہلے ہم اپنی کمزوریوںکو دور کرنا چاہتے ہیں‘ اور اس غرض کے لیے ہم کو ایسی فضا درکار ہے‘ جو مزاحمت اور تصادم سے پاک ہو۔ پس اگر کانگریس ہم سے تعرض کیے بغیر اپنا کام جاری رکھے تو ہمیں اس سے لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں‘ بلکہ اس کے برعکس ہماری ہمدردیاں مشترک ہندستانی مقاصد کی حد تک اس کے ساتھ رہیں گی۔ البتہ اگر وہ ہماری غیر منظم جماعت کو اپنے نظم میں جذب کرنے کی کوشش کرے گی،ا ور براہِ راست ہمارے عوام میں ’’وطن پرستی‘‘ اور ’’اشتراکیت‘‘ کی تبلیغ شروع کردے گی‘ اور اس غرض کے لیے ہماری قوم کے ان منافقوں سے کام لے گی‘ جن کی حیثیت ہماری نگاہ میں دوسری قسم کے منافقوں (یعنی انگریزی اقتدار کے ایجنٹوں) سے کچھ بھی مختلف نہیں‘ تو اس صورت میںہم کو مجبورا اس سے لڑنا پڑے گا، اور اس لڑائی کا تمام تر الزام خود اسی پر عاید ہو گا۔
پنڈت جواہر لال نہرو اپنی موجودہ پالیسی کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے یہ دلیل پیش کرتے ہیںکہ اپنے مسلک کی تبلیغ کرنا اور مخالف خیالات رکھنے والوں کو تبدیلِ خیال (conversion) پر آمادہ کرنے کی کوشش کرنا ہر جماعت کا حق ہے۔ ہم کہتے ہیں‘ کہ اگر آپ کو یہ حق حاصل ہے‘ تو ہم کو بھی جوابی تبلیغ کا حق پہنچتا ہے۔ وطن پرستی اور اشتراکیت کی تبلیغ ہماری نگاہ میں شدّھی کی تبلیغ سے کچھ بھی مختلف نہیں۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہے‘ اور دونوں کی مزاحمت ہمارے لیے ناگزیر ہے۔ اگر آپ اس تصادم کے لیے تیار ہیں‘ اور اس کو ہندستان کے مستقبل کے لیے مفید سمجھتے ہیں‘ تو یہ آپ کی سخت نادانی ہے۔
خ خ خ
حصہ دوم : اِصلاح کا راستہ قرآن و سنّت کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
حالات کا جائزہ لینے اور راہِ عمل کی نشاندہی کرنے کے بعد مولانا مودودی صاحب نے اس سلسلہ مضامین میں تفصیل کے ساتھ یہ بتایا کہ مسائل حاضرہ میں قرآن و سنّت کی راہنمائی کیا ہے‘ اور مسلمانوں کے ملّی و قومی عزائم کیا ہو سکتے ہیں۔ ان مضامین میں مولانا محترم مسلمانوںکے قومی نصب العین کو بیان فرماتے ہیں‘ اور بتاتے ہیں‘ کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ اپنی تہذیب، اپنے دین اور اپنی روایات کا تحفظ اور ان کی بنیاد پر ایک نئی زندگی کی تشکیل ہے۔ یہ مضامین بھی مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ اوّل میں شائع ہو چکے ہیں۔ (مرتب)
باب ۵ : مسائلِ حاضرہ میں
قرآن اور اُسوئہ رسولa کی رہنمائی
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۰ۭ الاعراف7:3
پیروی کرو اس ہدایت کی جو تمہاری طرف خدا کے پاس سے نازل کی گئی ہے۔ خدا کو چھوڑ کر دوسرے سر پرستوں کی پیروی نہ کرنے لگو۔
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۰ۭ
آل عمران 31:3
اے نبی کہہ دو اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ خدا تم کو دوست بنا لے گا اور تمہیں بخش دے گا۔
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللہَ كَثِيْرًاo الاحزاب 21:33
تمہارے لیے یقینا اللہ کے رسول میں عمل کا اچھا نمونہ موجود ہے۔ جو کوئی اللہ کی رحمت کا اُمیدوار ہو‘ اور آخرت کے آنے کی توقع رکھتا ہو، اور اللہ کو بہت یاد رکھنے والا ہو اس کے لیے (تو پیروی کا صحیح نمونہ وہی ہے)
جو لوگ قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں، یاجنہوںنے کبھی قرآن پڑھا ہے‘ ان کی نظر سے اس کتاب پاک میں یہ آیات ضرور گزری ہوں گی۔ بہت سوں کو ان کے معانی سے بھی واقفیت ہو گی۔ خصوصاً آخری آیت سے تو کوئی وعظ اور کوئی اصلاحی خطبہ خالی نہیں ہوتا، مگر آج ضرورت محسوس ہو رہی ہے‘ کہ ایک بار پھر یہ آیات نظروں کے سامنے لائی جائیں۔ کیونکہ ایسا گمان ہوتا ہے‘ کہ شاید ساری مسلمان قوم ان آیات کو بھول گئی ہے۔
مجملاً ہر مسلمان اس بات کو جانتا اور مانتا ہے‘ کہ بحیثیت مسلمان ہونے کے ہم کو قرآن اور اسوئہ رسولa ہی کا اتبّاع کرنا چاہیے‘ اور ہمارے لیے ہدایت انہی دو چیزوں میں ہے‘ لیکن سوال یہ ہے‘ کہ یہ ہدایت جس کے اتبّاع کا حکم اس قطعیت کے ساتھ تم کو دیا گیا ہے، آیا اس کا دائرہ صرف طہارت اور استنجا اور عبادات اور باصطلاحِ زمانہ حال ’’مذہبی‘‘ معاملات ہی تک محدود ہے‘ یا تمہاری زندگی کے چھوٹے اور بڑے، دینی اور دنیوی، قومی اور ملکی تمام معاملات پر حاوی ہے؟ نیز یہ ہدایت صرف اس زمانہ اور اس ملک کے لیے تھی جس میں قرآن نازل ہوا تھا‘ اور محمدa مبعوث ہوئے تھے، یادرحقیقت یہ زمانی و مقامی قیود سے مبرا ہے‘ اور اس میں ہر زمانے اور ہر ملک کے مسلمانوں کے لیے ویسی ہی سچی اور صحیح رہنمائی موجود ہے‘ جیسی ساڑھے تیرہ سو برس پہلے کے عربوں کے لیے تھی؟ اگر پہلی بات ہے تب تو نعوذ باللہ قرآن کا یہ مطالبہ ہی غلط ہے‘ کہ سب رہنماؤں کو چھوڑ کر صرف اسی کی پیروی کی جائے، اور تمام دنیا کے طریقوں کو ترک کرکے صرف اس ایک شخص کے اسوئہ کا اتبّاع کیا جائے‘ جو ہمارے پاس قرآن لایا تھا۔ اس صورت میں تو اتبّاع کرنے کے بجائے تم کو اپنے ایمان ہی پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔ لیکن اگر دوسری بات ہے‘ تو یہ کیا ماجرا ہے‘ کہ تم وضو اور غسل کے مسائل میں، نکاح اور طلاق کے معاملات میں، ترکے اور وراثت کے مقدّمات میں تو اس سر چشمہ ہدایت کی طرف رجوع کرتے ہو۔ لیکن جن مسائل کے حل پر تمہاری قوم کی زندگی و موت کا مدار ہے‘ ان میں نہیں دیکھتے کہ قرآن تمہیں کون سا راستہ دکھاتا ہے‘ اور محمد aکی زندگی کس طرف تمہاری رہنمائی کرتی ہے۔
انتشارِ خیال و تشتّت عمل
ہندستان میں ہر طرف ایک بے چینی نظر آتی ہے۔ ساری مسلمان قوم پر ایک پریشانی چھائی ہوئی ہے۔ مستقبل کا سوال ایک درشنی ہنڈی{ FR 2903 } کی طرح مسلمانوں کے سامنے آن کھڑا ہوا ہے، اور تقاضا کر رہا ہے‘ کہ یا تو میرا معاملہ صاف کر ویا دیوالہ نکالو، لیکن اس قوم کا حال کیا ہے؟ جس کا جدھر مُنہ اُٹھ رہا ہے چلا جا رہا ہے‘ اور جس کے ذہن میں جو بات آرہی ہے‘ کہہ رہا ہے‘ اور لکھ رہا ہے۔ کوئی مارکس اور لینن کے اسوے کو دانتوں سے پکڑے ہوئے ہے، کوئی ہٹلر اور مسولینی کی سنّت پر عمل کر رہا ہے، کوئی گاندھی اور جواہر لال کے پیچھے چلا جا رہا ہے، کوئی فرائض کی پرانی فہرست میں ایک نئے فرض (جنگِ آزادی) کا اضافہ کر رہا ہے، کسی پر نشستوںاور ملازمتوں کے فیصدی تناسب کا بھوت سوار ہے، کوئی حرکت اور عمل کا پجاری بنا ہو اہے‘ اور ہانکے پکارے کہہ رہا ہے‘ کہ اگر پشاور کی گاڑی نہیں چلتی تو راس کماری ہی کی طرف جانے والی گاڑی پر سوارہو جاؤ، اس لیے کہ منزلِ مقصود کوئی نہیں، حرکت ہی فی نفسہٖ موجود ہے۔ غرض ہر شخص جو کچھ بول سکتا ہے‘ ایک نئی تجویز قوم کو سنا دیتا ہے‘ اور ہر شخص جو کچھ لکھ سکتا ہے ایک ماہرانہ و مبصرانہ مقالہ لکھ کر شائع کر دیتا ہے۔ مگر اس تمام شور و شغب اور اس پورے ہنگامے میں کسی کو بھی یہ یاد نہیں آتا‘ کہ ہمارے پاس قرآن نامی بھی کوئی کتاب ہے‘ جس نے زندگی کے ہر مسئلہ میں ہماری رہنمائی کا ذمہ لے رکھا ہے‘ اور ہم سے کبھی یہ بھی کہا گیا تھا‘ کہ زندگی کے ہر معاملہ میں تمہارے لیے ایک عملی نمونہ موجود ہے۔
ہدایت صرف کتاب اللہ اور سنّت ِرسول اللہa میں ہے
مسلمانوں کو مختلف راستوں کی طرف بلایا جا رہا ہے۔ ہر راستہ کی طرف بلانے والوں میں بڑے بڑے مقدّس علماء ہیں۔ بڑے بڑے نامور لیڈر ہیں۔ بڑے بڑے زبان آور خطیب اور ماہرِ فن انشا پرداز ہیں۔ ہر وادی کے سرے پر ایسے لوگ کھڑے ہیں‘ جن کی آزمودہ کاری مسلّم، قومی خدمت ناقابلِ انکار، اور سیاسی مہارت و بصیرت معروف و مشہور۔
ہر رہنما بڑی قابلیت کے ساتھ اپنے اپنے راستے کے نشیب و فراز دکھا رہا ہے‘ اور دوسرے راستوں کے خدشات بیان کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ قابلِ قدر ہے۔ مگر مسلمان کی فطرت کہتی ہے۔ ایتونی شیئا من کتاب اللّٰہ وسنۃ رسولہٖ حق اقول۔ میرے سامنے شخصیتوں کو نہ لاؤ، کوئی شخص خواہ کتنا ہی بڑا آدمی ہو، عالم و فاضل ہو، مفسرِ قرآن ہو، معلمِ حدیث ہو، ماہر سیاست ہو، عمل اور قربانی کا نمونہ ہو، اس کی حرمت میرے سر اور آنکھوں پر، مگر جو ہدایت وہ دے رہا ہے، اگر وہ اس کے اپنے ذہن کی پیدوار ہے‘ تو میرے لیے لائق اِتبّاع نہیں، ہاں اگر وہ کتاب اللہ اور سنّت رسول اللہ میں کوئی دلیل اپنے پاس رکھتاہے ‘تو شخصی عظمت کی آمیزش سے الگ کرکے اس کو اور صرف اس کو سامنے لاؤ۔ اس لیے کہ وہی لائقِ اتبّاع ہے، اسی میںسچی ہدایت ہے، اور اسی کی پیروی میں فلاح و نجات ہے۔ اس کے بتائے ہوئے راستہ میں خواہ کتنی ہی دشواریاں ہوں، کتنے ہی خدشات اور کتنے ہی نقصانات ہوں، آخری اور دیرپا اور یقینی کامیابی اسی کے ذریعہ سے حاصل ہو سکتی ہے۔
آئیے آج اسی نقطۂ نظر سے قرآن اور سیرتِ محمد a پر غور کریں کہ ہمارے اس وقت کے قومی مسائل میں اس کے اندر کیا ہدایت ہے۔ کچھ پروا نہیں اگر کوئی اس بات کو دقیانوسیت اور رجعت پسندی کہہ کر ناک بُھوں چڑھائے۔ حالات جدید سہی، جغرافی ماحول مختلف سہی، مگر جس ہدایت کی طرف ہم رجوع کر رہے ہیں، ہمارا ایمان ہے‘ کہ وہ ہر زمانہ میں جدید ہے، ہر دور میں وقتی ہے‘ اور ہر جغرافی ماحول میں مقامی ہے۔
بعثت محمدیa کے وقت عرب کی حالت اور حضورa کا طرزِعمل
ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے‘ کہ رسول اللہ a کی بعثت کے وقت‘ آپؐ کے وطن کی سیاسی حالت کیا تھی‘ اور اس حالت میں آپؐ نے کیا طرزِعمل اختیار کیا۔ تاریخ سے ثابت ہے‘ کہ اس وقت عرب ہر طرف ظالم سلطنتوں سے گھرا ہوا تھا‘ اور خود ملک کے اندر ہمسایہ قوموں کا امپیریل ازم نفوذ کر چکا تھا۔ آپؐ کی پیدائش سے چند ہی روز قبل حبشی فوجیں یلغار کرتی ہوئی خاص اس شہر تک پہنچ گئی تھیں‘ جس میں آپؐ پیدا ہوئے۔ عرب کا سب سے زیادہ زرخیز صوبہ یمن پہلے حبشیوں کے اور پھر ایرانیوں کے تسلّط میں جا چکا تھا۔ عرب کے جنوبی اور مشرقی سواحل ایرانیوں کے زیرِ اثر تھے۔ عراقِ عرب کا علاقہ نجد کے حدود تک ایرانیوں کے اثر میںتھا۔ شمال میں عقبہ اور معان تک بلکہ تبوک تک سلطنت روم کے اثرات پہنچے ہوئے تھے۔ دونوں ہمسایہ سلطنتیںعرب کے قبائل کو اپنی اغراض کے لیے ایک دوسرے سے لڑاتی تھیں‘ اور اندرونِ عرب میں اپنے اثرات پھیلا رہی تھیں۔ متعدّد مرتبہ قسطنطنیہ کا قیصر‘ مکہ کی چھوٹی سی ریاست کے معاملات میں مداخلت کر چکا تھا۔ عربی قوم کو ہر ملک گیر طاقت اپنے قبضہ میں لانا چاہتی تھی، کیونکہ اس قوم کا ملک بنجر تھا، مگر قوم بنجر نہ تھی۔ جہانگیری کے لیے بہترین سپاہی اس سے فراہم ہو سکتے تھے۔
ان حالات میں جب نبی ﷺ مبعوث ہوئے تو آپؐ نے کیا کیا؟ اگرچہ آپؐ کو اپنے وطن اور اپنی قوم سے فطری محبت تھی۔ اور آپؐ سے بڑھ کر حریّت پسند کوئی نہ تھا، مگر آپؐ نے ایک قوم پرست (nationalist) یا وطن پرست (patriot) کی حیثیت اختیار نہ کی۔ بلکہ ایک حق پرست اور خدا پرست کی حیثیت اختیار کی۔ آپؐ کی نگاہ میں مقدّم کام یہ نہ تھا‘ کہ اپنے اہلِ وطن کی قوّت کو مجتمع کرکے‘ اجنبی استیلاء کی جڑیں خاک وطن سے اکھاڑ پھینکیں، بلکہ دوسرے ہر کام سے مقدّم یہ کام تھا‘ کہ حق پرستوں کا ایک جتھا بنائیں اور اس کے اندر ایسی طاقت پیدا کر دیں‘ کہ وہ عرب ہی میں نہیں، بلکہ خود روم و ایران میں بھی ظلم و عدوان کے استیلاء کا خاتمہ کر دے۔ آنحضرتؐ کے اہلِ وطن آپؐ کے بہترین اوصاف سے واقف تھے۔ انہوں نے عرب کی بادشاہی کا تاج آپؐ کے سامنے پیش کیا تھا، اس شرط پر کہ آپؐ اپنے اس جتھے کی توسیع و تنظیم سے باز آجائیں۔ اگر آپؐ وطن پرست ہوتے‘ تو خدمت ِوطن کا موقع اس سے بہتر اور کون سا ہو سکتا تھا؟ مگر آپؐ نے اس تاج کو ٹھکرایا، اور اسی کام میں لگے رہے‘ جس کے باور آور ہونے کی کم از کم اس وقت کوئی شخص اُمید نہ کر سکتا تھا۔ اس وقت آپ کی جمعیت دس بارہ آدمیوں سے زیادہ نہ تھی۔ تمام ملک میںکوئی قبیلہ اور کوئی گروہ آپؐ کا ساتھی نہ تھا۔ بلکہ سب مخالف اور سخت مخالف تھے۔ ظاہر اسباب کے لحاظ سے کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا تھا‘ کہ وہ اسکیم کب کامیاب ہو گی‘ جس کو آپؐ لے کر اُٹھے تھے۔ اس بات کا ہر وقت امکان تھا‘ کہ واقعہ فیل کی طرح کا کوئی دوسرا واقعہ پھر پیش آجائے‘ اور حجاز بھی یمن اور ارض غسّان کی طرح‘ اجنبی حکومت کا غلام بن جائے۔ مگر آپؐ نے ہر حال میں یہی ضروری سمجھا کہ پہلے حق پرستوں کی جمعیت کو بڑھائیں اور مضبوط کر لیں، پھر جیسی صورتحال ہو‘ اُس کے مطابق ملکیوں اور غیر ملکیوںکے ساتھ کوئی معاملہ کریں۔
اس کی کیا وجہ تھی؟ کیا آپؐ کمیونسٹ‘‘ تھے؟ کیا آپؐ نعوذ باللہ اپنے وطن کے غدار تھے؟ کیا خاکم بدہن آپؐ غیر ملکی امپیریل ازم کے ایجنٹ تھے؟ ہرگز نہیں۔ تاریخ کے ناقابلِ انکار حقائق گواہ ہیں‘ کہ کبھی کسی فرزند وطن نے اپنے وطن کو اتنی سر بلندی عطا نہیں کی جتنی محمد عربیa کی دولت عرب کو نصیب ہوئی۔ اور تاریخ ہی اس بات پر بھی گواہ ہے‘ کہ کسی داعی دین نے غیر مذہب والوں کے ساتھ اتنے تحمل، اتنی فیاضی، اتنی رواداری اور اتنی فراخی حوصلگی کا برتاؤ نہیںکیا۔ پھر یہ بھی دنیا کو معلوم ہے‘ کہ اللہ کے رسولa نے کبھی روٹیوں کی تقسیم اور منافع کے بٹوارے کا سوال نہیں اٹھایا۔ آپؐ نے نہ کبھی مکی زندگی میں اس بنیاد پر مصالحت کی کہ ریاست، قریش کے دارالندوہ اور جنگی و سیاسی عہدوںپر مسلمانوں کی اتنی نمائندگی ہو،ا ور نہ مدنی زندگی میں اس مسئلہ کو مدار صلح قرار دیا کہ یہود کے معاشی وسائل میں مسلمانوں کا اتنا حصہ ہو۔
اب غور کیجئے‘ کہ جب وہاں نہ کمیونزم تھا، نہ وطن دشمنی تھی، نہ اعدائے وطن سے ساز باز تھا، تو پھر کون سی چیز تھی جس کی بناء پر آپؐ نے عرب کی سیاسی نجات اور تمدّنی و معاشی فلاح پر اپنی بہترین قوتوں اور قابلیتوں کو صرف کرنے سے انکار کیا‘ اور ہر کام سے پہلے خدا کا نام لینے والوں کو ایک طاقتور جمعیت بنانا اور زمین میں اس کا دبدبہ قائم کرنا ضروری سمجھا؟ اس کا جواب ایک اور صرف ایک ہی ہو سکتا ہے‘ اور وہ یہ ہے‘ کہ رسول اللہ a کا نصب العین وطن پرست کے نصب العین سے بالکل مختلف تھا۔ اس نصب العین کی راہ میں باہر کے قیصر و کسریٰ اور گھر کے ابو جہل اور ابو لہب دونوں یکساںسدراہ تھے۔ اس نصب العین کو حاصل کرنے کے لیے ناگزیر تھا‘ کہ واقعات کی رفتار اور ملک کے مستقبل اور آئندہ کے امکانی خدشات، سب کی طرف سے بے پرواہ ہو کر ایک ایسی جماعت کو منظم کیا جائے‘ جو باطل کے غلبہ کو کسی صورت میں قائم نہ رہنے دے اور اپنی طاقت سے زمین میں ایسی حالت قائم کر دے جس میں خدا پرستانہ تہذیب امن کے ساتھ پھل پھول سکے۔ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ۰ۚ { FR 2904 }
وہی نصب العین رسول اللہ a مسلمان قوم کو دے گئے ہیں۔ مسلمان قوم ایک قوم ہی اس بنیاد پر بنی ہے‘ کہ یہ نصب العین اس کے تمام افراد کا مشترک اور واحد نصب العین ہے۔اس نصب العین کو سلب کر لیجئے، پھر مسلمان قوم کسی قوم کا نام نہیں۔ یہاں عرب اور عجم کی کوئی خصوصیت نہیں۔ زمان و مکان کا کوئی سوال نہیں۔ مسلمان اگر مسلمان ہے‘ تو ہر حال میں یہی اس کا نصب العین ہے۔
مسلمانوں کو کس طرح جمع کیا جا سکتا ہے؟
اب ایک دوسری نظر اسی کتاب ہدایت اور اسی سیرت پاک پر ڈالیے۔
یہ جتھا جو رسول اللہ a نے قائم کیا تھا، اس کی بنیاد کسی مادر وطن کی فرزندی، کسی نسل انسانی کے انتساب، کسی سیاسی و معاشی مفاد کے اشتراک پر نہ تھی، بلکہ ایک مخصوص عقیدے اور ایک مخصوص طرزِعمل پر تھی۔ اس کو جوڑنے والی طاقت خدا کی محبت اور بندگی تھی نہ کہ اغراض کی محبت اور مادّی مقاصد کی بندگی۔ اس کی طرف لوگوں کو بلانے والا نعرہ اذان کا نعرہ تھا، نہ کہ وطنیت کا نعرہ۔ اس کے اجزاء کو سمیٹ کر ایک بنیاد مرصوص بنانے والی چیز ایک ان دیکھے خدا کی عبادت تھی، نہ کہ کوئی محسوس مرئی علامت۔ اس کو حرکت میں لانے والی چیز رضائے الٰہی کی طلب تھی نہ کہ منافع عاری کی طلب۔ اس میں عمل کی گرمی پھونکنے والی قوّت اعلائے کلمۃ اللہ کی خواہش تھی نہ کہ نسل ووطن کو سر بلند کرنے کی تمنا۔
اس قوم کی نفسیات دنیا سے نرالی ہیں۔ جو چیزیں دنیا کو جمع کرنے و الی ہیں‘ وہ اس قوم کو منتشر کر دینے والی ہیں۔ جو صدائیں اپنے اندر دوسروں کے لیے غیر معمولی کشش رکھتی ہیں‘ وہ اس قوم کے دل میں الٹی نفرت پیدا کر دیتی ہیں۔ جن مرئی علامتوں پر دوسرے گرویدہ ہوتے ہیں‘ مسلمان ان کے لیے کوئی جذبہ عقیدت اپنے اندر نہیں پاتے۔ جن چیزوں میں دوسروں کو گرما دینے کی طاقت ہے‘ وہ ان کے دلوں میں الٹی سردی پیدا کر دینے کا اثر رکھتی ہیں۔ جو چیزیں دوسروں کو عمل پر ابھارنے والی ہیں وہی ان کو میدان عمل سے دور بھگانے والی ہیں۔
سارے قرآن کو اُٹھا کر دیکھ جاؤ، پوری سیرت نبویa پر نظر ڈال لو۔ خلافت راشدہ کے دور سے اس زمانہ تک کی اسلامی تاریخ پڑھ لو۔ تم کو معلوم ہو جائے گا کہ اسلام کی فطرت کیا ہے‘ اور مسلمان قوم کا مزاج کس قسم کا ہے۔
جو قوم اس سوال پر صدیوں سے جھگڑ رہی ہے‘ کہ نبیa پر سلام بھیجتے وقت بھی کھڑا ہونا چاہیے یا نہیں، کیا تم توقع رکھتے ہو‘ کہ وہ ’’بندے ماترم‘‘ کا گیت سننے کے لیے تعظیماً کھڑی ہو گی؟ جس قوم کے دل میں مرئیات سے عقیدت کے بجائے سخت نفرت بٹھائی گئی ہے، کیا تمہیں اُمید ہے‘ کہ وہ کسی جھنڈے کو سر جھکا کر سلامی دے گی؟ جو قوم تیرہ سو برس تک خدا کے نام پر بلائی جاتی رہی ہے، کیا تم سمجھتے ہو‘ کہ اب وہ بھارت ماتا کے نام پر پروانہ وار دوڑی چلی آئے گی؟ جس قوم کے دل میں عمل کی گرمی پیدا کرنے والا داعیہ اب تک محض اعلائے کلمۃ اللہ کا داعیہ رہا ہے، کیا تمہارا گمان ہے‘ کہ اب معدے اور بدن کے مطالبات اس میں حرارت پیدا کریں گے؟ یا کونسلوں کی نشستوں اور ملازمتوں کے تناسب کا سوال اس کے قلب و روح کو گرما دے گا؟ جس قوم کو عقیدے اور عمل کی وحدت پر جمع کیا گیا تھا، کیا تمہارا خیال ہے‘ کہ وہ سیاسی اور معاشی پارٹیوں میں تقسیم ہو کر کوئی طاقتور عملی قوم بن جائے گی؟ تخیل کی بنیادوں پرنظریات کی عمارتیں اٹھانے والے جو چاہیں کہیں، مگر جس کسی نے قرآن اور سنّت سے اسلام کے مزاج کو سمجھا ہے، وہ بادنیٰ تامل یہ رائے قائم کر سکتا ہے‘ کہ مسلمان قوم کی فطرت جب تک بالکل مسخ نہ ہو جائے، وہ نہ تو ان محرکات سے حرکت میں آسکتی ہے‘ اور نہ ان جامعات کے ذریعہ سے جمع ہو سکتی ہے۔ غیر مسلم بلا شبہ ان ذرائع سے جمع ہو جائیں گے‘ اور ان میں حرکت بھی ان محرکات سے پیدا ہو جائے گی، کیونکہ ان کو جمع کرنے اور حرکت میں لانے والی کوئی اور چیز نہیں ہے۔ ان کا مذہب ان کو منتشر کرتا ہے‘ اور صرف وطن کی خاک ہی ان کو جمع کرتی ہے۔ان کے معتقدات ان کے دلوں کو سرد کرنے و الے ہیں، ان میں حرارت صرف معدے ہی کی گرمی سے پیدا ہو سکتی ہے۔ مگر مسلمان جس کو خدا کے نام پر جمع کیا گیا تھا‘ اور جس میں ایمان کی گرمی پھونکی گئی تھی، آج تم اس کو ذلیل مادّی چیزوں کے نام پر جمع نہیں کر سکتے، اور نہ ادنیٰ درجہ کی خواہشات سے اس میں حرارت پیدا کر سکتے ہو۔ اس طریقہ میں اگر تم کو کامیابی نصیب ہو سکتی ہے‘ تو صرف اس وقت جب کہ تم مسلمان کو فطرت اسلام سے ہٹا دو اور اسے بلندیوں سے گرا کر پستیوں میں لے آؤ۔
اس کے معنی یہ نہ سمجھو کہ مسلمان وطن کا دشمن ہے۔ ہرگز نہیں۔ نبی a نے اپنے وطن کی اصلاح و ترقی کے لیے کیا کچھ نہیں کیا؟ خلفائے راشدین نے وطن اور ابنائے وطن کی کیا کچھ خدمت نہ کی؟ بعد کے مسلمان جس جس ملک میں گئے، انہوں نے اس کو جنت بنا کر نہیں چھوڑا؟ غیر مسلم قوموں کے ساتھ فیاضانہ معاملہ کرنے میںکیا کبھی کوئی کوتاہی کی گئی؟ پس اوپر ہم نے جو کچھ کہا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے‘ کہ مسلمان اپنے ملک یا اپنی قوم کے معاشی اور تمدّنی مسائل سے بالکل بے پروا ہے‘ بلکہ ہم یہ بات ذہن نشین کرنا چاہتے ہیں‘ کہ مسلمان کی اصلی قوّت محرکہ یہ چیزیں نہیں ہیں، اس کی جمعیت ان بنیادوں پر قائم نہیں ہوئی ہے، اس میں زندگی کی حرارت پیدا کرنے و الی آگ یہ نہیں ہے۔ وہ طاقتور اور منظم ہونے کے بعد ان سب مسائل کو حل کرنے میں حصہ لے سکتا ہے‘ اور دوسروں سے بڑھ کر حصہ لے سکتا ہے‘ مگر اس کو طاقتور اور منظم بنانے کے ذرائع یہ نہیںہیں بلکہ کچھ اور ہیں۔
مسلم قوم کس طرح بنائی گئی تھی
اب ایک قدم اور آگے بڑھیے۔ یہ دیکھئے کہ رسول اللہ a نے یہ نئی قوم کن طریقوں سے بنائی تھی‘ اور اس میں کن ذرائع سے وحدت اور قوّت عمل پیدا کی تھی۔
جس وقت آنحضرتa اپنی دعوت لے کر اٹھے تھے تو ساری دنیا میں تنہا آپؐ ہی ایک مسلم تھے۔ کوئی آپؐ کا ساتھی‘ اور ہم خیال نہ تھا۔ دنیوی طاقتوں میں سے کوئی طاقت آپؐ کو حاصل نہ تھی۔ گردو پیش جو لوگ آباد تھے۔ ان میں خود سری اور انفرادیت انتہا درجہ کو پہنچی ہوئی تھی۔ ان میں سے کوئی کسی کی بات سننے اور اطاعت کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ وہ نسل اور قبیلہ کی عصبیت کے سوا کسی اور عصبیت کا تصوّر ہی نہ کر سکتے تھے۔ ان کے ذہن ان خیالات اور مقاصد سے دور کا لگاؤ بھی نہ رکھتے تھے‘ جن کی تبلیغ کے لیے رسول اللہ a اُٹھے تھے، اس ماحول اور ان حالات میں کون سی طاقت تھی جس سے ایک تنہا انسان، بے یارو مدد گار اور بے وسیلہ انسان نے ان لوگوں کو اپنی طرف کھینچا؟ کیا آنحضرتؐ نے عربوںکو یہ لالچ دیا تھا‘ کہ میں تم کو زمین کی حکومت دلواؤں گا؟ رزق کے خزانے دلواؤں گا؟ دشمنوں پر فتح اور غلبہ بخشوں گا؟ بیرونی غاصبوں کو نکال باہر کروں گا۔ اور عرب کو ایک طاقت ور سلطنت بنا دوں گا؟ تمہاری تجارت اور صنعت و حرفت کو ترقی دوں گا؟ تمہارے وسائلِ معیشت بڑھاؤں گا اور تمہیں ایک ترقی یافتہ اور غالب قوم بنا کر چھوڑوں گا؟ ظاہر ہے‘ کہ ایسا کوئی لالچ آپؐ نے نہیں دلایا تھا۔ پھر کیا آپؐ نے امیروں کے مقابلہ میں غریبوں کی، اور سرمایہ داروں اور زمین داروں کے مقابلہ میں مزدوروں اور کاشت کاروں کی حمایت کا بیڑا اٹھایا تھا؟ سیرت نبویa گواہ ہے‘ کہ یہ چیز بھی نہ تھی۔ پھر کیا آپؐ نے کوئی سیاسی یا تعلیمی یا تمدّنی یا معاشی یا فوجی تحریک اٹھائی تھی‘ اور اس کی طرف لوگوں کو کھینچنے کے لیے نفسیاتی حربوں سے کام لیا تھا؟ واقعات شاہد ہیں‘ کہ ان میں سے بھی کوئی چیز نہ تھی۔ پھر غور کیجئے‘ کہ آخر وہ کس چیز کی کشش تھی جس نے عربی اور عجمی، امیر اور غریب، آقا اور غلام سب کو آپؐ کی طرف کھینچا؟ دنیا جانتی ہے‘ کہ وہ صرف دو چیزیں تھیں۔ ایک قرآن کی تعلیم۔ دوسرے محمدaکی سیرت۔ لوگوں کے سامنے یہ پیغام پیش کیا گیا تھا اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ۰ۭ{ FR 2905 }
ان کو اس بات پر جمع کیا گیا تھا‘ کہ اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۰ۭ { FR 2906 }
ان کو یہ تعلیم بھی دی گئی تھی‘ کہ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo { FR 2907 }
ان کے سامنے یہ نصب العین رکھا گیا تھا‘ کہ اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ { FR 2908 }
پھر جس شخص نے ان کو یہ د عوت دی تھی اس کا حال یہ تھا‘ کہ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ۔ وہ جو کچھ کہتا تھا سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر خود اس پر عمل کرکے دکھاتا تھا۔ وہ فضیلت اخلاق اور عمل صالح کا مجسمہ تھا‘ اور اس کی زندگی میں راست بازی اور راست روی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
یہی دو چیزیں تھیں جنہوں نے ہر طرف سے لوگوں کو کھینچا اور وہ قوم بنا دی جس کا نام مسلمان ہے۔ نوع انسانی کے مختلف طبقوں اور گروہوں میں سے جن جن لوگوں کے لیے ان دو چیزوں میں کشش تھی، وہ اس مرکز کی طرف کھنچتے چلے گئے‘ اور انہی سے مسلمان قوم وجود میں آئی۔ دوسرے الفاظ میں اس حقیقت کو یوں سمجھئے کہ اسلامی جمعیت نام ہی اس جمعیت کا ہے‘ جو قرآن اور سیرت نبوی کی کشش سے وجود میں آئی ہے۔ جہاں زندگی کے دو اصول اور مقاصد ہوں گے‘ جو قرآن نے پیش کیے ہیں‘ اور جہاں طرزِعمل وہ ہو گا جو محمدa کا تھا‘ وہاں ’’مسلمان‘‘ جمع ہو جائیں گے، اور جہاں یہ دونوں چیزیں نہ ہوں گی‘ وہاں ان لوگوں کے لیے قطعاً کوئی کشش نہ ہو گی‘ جو ’’مسلمان‘‘ ہیں۔
مسلمانوں کی قومی تحریکات کے ناکام ہونے کی وجہ
اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے‘ کہ ہماری قومی تحریکات میں بنیادی نقص کون سا ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمان کسی تحریک کی طرف بھی فوج در فوج نہیں کھنچتے اور داعی کی آوازبہرے کانوں سے سنتے ہیں؟ ان کی فطرت وہ آواز سننا چاہتی ہے‘ اور وہ طرزِعمل دیکھنا چاہتی ہے‘ جس کی کشش نے ان کو ساری دنیا سے الگ ایک قوم بنایا تھا۔ مگر افسوس کہ نہ وہ آواز کسی طرف سے آتی ہے‘ اور نہ وہ طرزِعمل کہیں نظر آتا ہے۔ بلانے والے ان کو ایسے مقاصد کی طرف بلاتے ہیں‘ جو ان کی زندگی کے اصل مقاصد نہیں ہیں۔ کوئی کہتا ہے‘ کہ علّو اور تمکّن فی الارض کی طرف آؤ۔ حالانکہ یہ مسلمان کا نصب العین نہیں ہے‘ بلکہ اپنے نصب العین (اعلائے کلمۃ اللہ) کے لیے اس کی بے غرضانہ جدوجہد کا طبعی نتیجہ ہے۔ کوئی ان کو وطن پرستی کی طرف بلاتا ہے،حالانکہ اسی چیز کو چھوڑ کر تو وہ محمدa کے گرد جمع ہوئے تھے۔ کوئی ان کو نہایت ادنیٰ درجہ کے مادّی فوائد کی طرف بلاتا ہے، حالانکہ مسلمانوں کی نگاہ میں ان کی حیثیت متاع غرور سے زیادہ نہیں۔ پھر جو لوگ مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے اٹھتے ہیں‘ ان کی زندگی میں محمدa کی زندگی کی ادنیٰ جھلک تک نظر نہیں آتی۔ کہیں مکمل فرنگیت ہے۔ کہیں نہرو اور گاندھی کا اتبّاع ہے۔ کہیں جبوں اور عماموں میں سیاہ دل اور گندے اخلاق لپٹے ہوئے ہیں۔ زبان سے وعظ اور عمل میں بدکاریاں، ظاہر میں خدمت دین اور باطن میں خیانتیں، غداریاں اور نفسانی اغراض کی بندگیاں۔ جمہور مسلمین بڑی بڑی اُمیدیں لے کر ہر نئی تحریک کی طرف دوڑتے ہیں۔ مگر مقاصد کی پستیاں اور عمل کی خرابیاں دیکھ کر ان کے دل ٹوٹ جاتے ہیں۔
خیر یہ ایک دوسری داستان ہے۔ اب رسول اللہ a کے طریقِ تنظیم پر غور کیجئے‘ کہ مسلمان قوم کی تنظیم اگر ہو سکتی ہے‘ تو اسی طریق پر ہو سکتی ہے۔
اسلامی تنظیم کے اصول
آنحضرت a نے اسلامی جمعیت اس ڈھنگ پر بنائی تھی‘ کہ پہلے تو آپؐ نے انسانی گروہ میں سے صرف ان لوگوں کو چھانٹ لیا جن کی فطرت میں ایک خالص صداقت اور ایک پاک زندگی کی طرف کھنچنے کی صلاحیّت تھی۔ پھر تعلیم و تربیت کے بہترین ذرائع سے کام لے کر ان میں سے ایک ایک فرد کی اصلاح فرمائی، اس کے دل میں زندگی کا ایک بلند مقصد بٹھا دیا، اور اس کے کیرکٹر میں اتنی مضبوطی پیدا کی کہ وہ اس مقصد کے لیے جم کر جدوجہد کرے ا ور کسی فائدہ کا لالچ یا کسی نقصان کا خوف اسے اس مقصد کی راہ سے نہ ہٹا سکے۔ا س کے بعد ان افراد کو ملا کر ایک جماعت بنا دی تاکہ افراد میں جو کچھ کمزوریاں باقی رہ جائیں، جماعت کی طاقت ان کو دور کر دے۔ اجتماعی ماحول ایسا بن جائے ‘جس میں نیکیاں پرورش پائیں اور برائیاں اُبھر نہ سکیں۔ افراد اپنے مقصدِ حیات کی تکمیل میں ایک دوسرے کے مد گار ہوں،ا ور اجتماعی طاقت سے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس تعمیر کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی ماہر فن انجینئر اینٹوں کے ڈھیر میں سے چھانٹ کر بہترین اینٹیں لے۔ پھر ان کو اس طرح پکائے کہ ایک ایک اینٹ بجائے خود پختہ ہو جائے۔ پھر ان سب کو نہایت عمدہ سیمنٹ سے جوڑ کر ایک مستحکم عمارت بنا دے۔
اس تنظیم کے بڑے بڑے اصول یہ تھے:
(۱) جماعت کے تمام افراد کم از کم دین کے جوہر سے واقف ہوں‘ تاکہ وہ کفرو اسلام میں تمیز کرکے اسلام کے طریقہ پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہ سکیں۔
(۲) اجتماعی عبادات کے ذریعے سے افراد میں اخوت، مساوات اور تعاون کی اسپرٹ پیدا کی جائے۔
(۳) جماعت کے تمدّن و معاشرت میں ایسے امتیازی خصائص اور حدود مقرر کیے جائیں جس سے وہ دوسری اقوام میں خلط ملط نہ ہو سکیں‘ اور باطنی و ظاہر ی دونوں حیثیتوں سے ایک الگ قوم بنے رہیں۔ اسی لیے تشبہ بالا جانب کی سختی کے ساتھ ممانعت کی گئی۔
(۴) تمام اجتماعی ماحول پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر چھایا رہے تاکہ جماعت کے دائرہ میں کوئی انحراف اور کوئی بغاوت راہ نہ پا سکے۔ سر کشی کا پہلا اثر ظاہر ہوتے ہی اس کا استیصال کر دیا جائے ا ور منافقین کے ساتھ غلظت اور شدّت کا ایسا برتاؤ ہو‘ کہ یا تو وہ جماعت سے نکل جائیں یا اگر رہیں تو کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں۔
(۵) پوری مسلمان قوم ایک انجمن ہو،اور ہر مسلمان مرد اور عورت کو مجرد اسلامی حق کی بنا پر اس کی رکنیت کا مساویانہ مرتبہ حاصل ہو۔ ایسے تمام انتسابات اور امتیازات کو مٹا دیا جائے‘ جو مسلم اور مسلم میں تفریق کرتے ہوں۔ ہر فرد مسلم کو قومی معاملات میں حصہ لینے اور رائے دینے کا پورا حق حاصل ہو، حتیٰ کہ ایک غلام بھی کسی کو امان دیدے تو وہ پوری قوم کی طرف سے امان ہو۔
(۶) جماعت کے تمام افراد ایک نصب العین پر متحد ہوں‘ اور اس کے لیے جدوجہد اور قربانی کرنے کا جذبہ ان میں موجود ہو۔ ایک گروہ صرف اسی نصب العین کی خدمت کے لیے وقف رہے۔ اور بقیہ افراد جماعت اپنی معاش کے لیے جدوجہد کرنے کے ساتھ ساتھ پہلے گروہ کی ہر ممکن طریقہ سے مدد کرتے رہیں‘ اور مجموعی طور سے پوری جماعت اور اس کے ہر ہر فرد کے دل میں یہ خیال بیٹھا ہوا ہو‘ کہ اس کی زندگی کا اصل مقصود روزی کمانا نہیں‘ بلکہ اسی ایک نصب العین کی خدمت کرنا ہے۔
تنظیم کے یہی اصول تھے‘ جن سے وہ زبردست جماعت پیدا ہوئی‘ جو دیکھتے ہی دیکھتے آدھی دنیا پر چھا گئی۔ اس طریقِ تنظیم کی رفتار ابتداء میں بہت سُست تھی، حتیٰ کہ پندرہ برس تک وہ چند سو سے زیادہ افراد کو اپنے دائرے میں نہ لاسکی۔ مگر اس میں یہ قاعدہ مد نظر رکھا گیا تھا‘ کہ توسیع (expansion) کے ساتھ استحکام (consolidation) بھی ہوتا رہے، اس لیے یہ نظامِ جماعت جتنا پھیلتا گیا اتنا ہی مضبوط ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ جب ایک معتد بہ جماعت اس طریق پر منظم ہو گئی‘ تو وہ اتنی طاقت کے ساتھ اٹھی کہ دنیا کی کوئی چیز اس کے سیل رواں کو نہ روک سکی۔ قرآن مجید میں اس کی چھوٹی سی ابتداء پھر تدریجی ترقی، پھر غیر معمولی شان و شوکت کے ساتھ اس کے ظہور کو کیسے بلیغ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰي سُوْقِہٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِہِمُ الْكُفَّارَ۰ۭ { FR 2909 }
مسلمان قوم کے مزاج کے ساتھ یہی طریق تنظیم مناسبت رکھتا ہے۔ یہ قوم تو پہلے ہی سے ایک جمعیت ہے۔اس جمعیت کے اندر کوئی الگ جمعیت الگ نام سے بنانا اور مسلمان اور مسلمان کے درمیان کسی دوری یا کسی ظاہری علامت یا کسی خاص نام یا کسی خاص مسلک سے فرق و امتیاز پیدا کرنا اور مسلمانوں کو مختلف پارٹیوں میں تقسیم کرکے ان کے اندر گروہ بندیوں اور فرقوں کی مصیبتیں پیدا کرنا یہ دراصل مسلمانوں کو مضبوط کرنا نہیں ہے،بلکہ ان کو اورکمزور کرنا ہے۔ یہ تنظیم نہیں تفرقہ پردازی اور گروہ بندی ہے۔ لوگوں نے آنکھیں بند کرکے جمعیت سازی کے یہ طریقے اہلِ مغرب سے لے لیے ہیں۔ وہ مسلمان قوم کے مزاج کو موافق نہیں آتیں۔ اس قوم کو اگر کوئی چیز راس آسکتی ہے‘ تو ایک ایسی جمہوری تحریک ہے‘ جو پوری قوم کو ایک انجمن سمجھ کر شروع کی جائے‘ اور جس میں توسیع و استحکام کے اسی تناسب کو ملحوظ رکھا جائے ‘جس کو رسول اللہ ﷺ نے ملحوظ رکھا تھا۔ آپ اگر کچے اور کمزور مسالے سے ریت کی سطح پر ایک عمارت کھڑی کر دیں گے‘ اور اس سے قلعے کا کام لینا چاہیں گے‘ تو لامحالہ وہ سیلِ حوادث کی ایک ٹکر بھی نہ جھیل سکے گی۔
خ خ خ
باب ۶ اسلام … ایک جامع تہذیب دین و دنیا کی علیحدگی کا جاہلی تصوّر اور ہماری قومی سیاست میں اس کے اثرات
محمد رسول اللہ a کی بعثت سے پہلے دنیا میں مذہب کا عام تصوّر یہ تھا‘ کہ زندگی کے بہت سے شعبوں میں سے یہ بھی ایک شعبہ ہے، یا دوسرے الفاظ میں یہ انسان کی دنیوی زندگی کے ساتھ ایک ضمیمہ کی حیثیت رکھتاہے تاکہ بعدکی زندگی میں نجات کے لیے ایک سرٹیفکیٹ کے طورپر کام آئے۔ اس کا تعلق کلیۃً صرف اس رشتہ سے ہے‘ جو انسان اور اس کے معبود کے درمیان ہے۔ جس شخص کو نجات کے بلند مرتبے حاصل کرنے ہوں اس کے لیے تو ضروری ہے‘ کہ دنیوی زندگی کے تمام دوسرے شعبوں سے بے تعلق ہو کر صرف اسی ایک شعبہ کا ہو جائے مگر جس کو اتنے بڑے مراتب مطلوب نہ ہوں بلکہ نجات مطلوب ہو، اور اس کے ساتھ یہ خواہش بھی ہو‘ کہ معبود اُن پر نظر عنایت رکھے اور ان کو دنیوی معاملات میں برکات عطا کرتا رہے‘ اس کے لیے بس اتنا کافی ہے‘ کہ اپنی دنیوی زندگی کے ساتھ اس ضمیمہ کو بھی لگائے رکھے۔ دنیا کے سارے کام اپنے ڈھنگ پر چلتے رہیں‘ اوروہ ان کے ساتھ چند مذہبی رسموں کو ادا کرکے معبود کو بھی خوش کیا جاتا رہے۔ انسان کا تعلق خود اپنے نفس سے، اپنے ابنائے نوع، اپنے گردو پیش کی ساری دنیا سے ایک الگ چیز ہے، اور اس کا تعلق اپنے معبود سے ایک دوسری چیز، ان دونوں کے درمیان کوئی ربط نہیں۔
یہ جاہلیت کا تصوّر تھا‘ اور اس کی بنیا دپر کسی انسانی تہذیب و تمدّن کی عمارت قائم نہ ہو سکتی تھی۔ تہذیب و تمدّن کے معنی انسان کی پوری زندگی کے ہیں، اور جو چیز انسان کی زندگی کا محض ایک ضمیمہ ہو، اس پر پوری زندگی کی عمارت ظاہر ہے‘ کہ کسی طرح قائم نہیںہو سکتی۔ یہی وجہ ہے‘ کہ دنیا میں ہر جگہ مذہب اور تہذیب و تمدّن ہمیشہ ایک دوسرے سے الگ رہے۔ ان دونوں نے ایک دوسرے پر تھوڑا یا بہت اثر ضرور ڈالا، مگر یہ اثر اس قسم کا تھا جو مختلف اور متضاد چیزوں کے یکجا ہونے سے مترتب ہوتا ہے۔ اس لیے یہ اثر کہیں بھی مفید نظر نہیں آتا۔ مذہب نے تہذیب و تمدّن پر جب اثر ڈالا تو اس میں رہبانیت، مادّی علائق سے نفرت، لذاتِ دنیوی سے کراہت، عالم اسباب سے بے تعلقی، انسانی تعلقات میں انفرادیت، تنافر اور تعصب کے عناصر داخل کر دئیے۔ یہ اثر کسی معنی میں بھی ترقی پر ور نہ تھا۔ بلکہ دنیوی ترقی کی راہ میں انسان کے لیے ایک سنگ گراں تھا۔ دوسری طرف تہذیب و تمدّن نے جس کی بنیاد سرا سر مادیت اور خواہشات نفس کے اتبّاع پر قائم تھی، مذہب پر جب کبھی اثر ڈالا اس کو گندا کر دیا۔ اس نے مذہب میں نفس پرستی کی ساری نجاستیں داخل کر دیں، اور اس سے ہمیشہ یہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی کہ ہر اس گندی‘ اور بد سے بد تر چیز کو جسے نفس حاصل کرنا چاہے، مذہبی تقدس کا جامہ پہنا دیا جائے، تاکہ نہ خود اپنا ضمیر ملامت کرے نہ کوئی دوسرا اس کے خلاف کچھ کہہ سکے۔ اسی چیز کا اثر ہے‘ کہ بعض مذاہب کی عبادتوں تک میں ہم کو لذت پرستی اور بے حیائی کے ایسے طریقے ملتے ہیں‘ جن کو مذہبی دائرے کے باہر خود ان مذاہب کے پیرو بھی بد اخلاقی سے تعبیر کرنے پر مجبور ہیں۔
مذہب اور تہذیب کے اس تعامل سے قطع نظر کرکے دیکھا جائے‘ تو یہ حقیقت بالکل نمایاں نظر آتی ہے‘ کہ دنیا میں ہر جگہ تہذیب و تمدّن کی عمارت غیر مذہبی اور غیر اخلاقی دیواروں پر قائم ہوئی ہے۔
سچے مذہبی لوگ اپنی نجات کی فکر میں دنیا سے الگ رہے‘ اور دنیا کے معاملات کو دنیا والوں نے اپنی خواہشات نفس اور اپنے ناقص تجربات کی بنا پر جن کو ہر زمانہ میں کامل سمجھا گیا‘ اور ہر زمانہ ما بعد میں ناقص ہی ثابت ہوئے۔ جس طرح چاہا چلایا اور اس کے ساتھ اگر ضرورت سمجھی تو اپنے معبود کو خوش کرنے کے لیے کچھ مذہبی رسمیں بھی ادا کر لیں۔ مذہب چونکہ ان کے لیے محض زندگی کا ایک ضمیمہ تھا اس لیے اگر وہ ساتھ رہا بھی تو محض ایک ضمیمہ ہی کی حیثیت سے رہا۔ ہر قسم کے سیاسی ظلم و ستم، ہر قسم کی معاشی بے انصافیوں، ہر قسم کی معاشرتی بے اعتدالیوں اور ہر قسم کی تمدّنی کج راہیوں کے ساتھ یہ ضمیمہ منسلک ہو سکتا تھا۔اس نے ٹھگی اور قزاقی کا بھی ساتھ دیا، جہاں سوزی اور غارت گری کا بھی، سُود خواری اور قارونیت کا بھی، فحش کاری اور قحبہ گری کا بھی۔
مذہب کا اسلامی تصوّر
محمد a جس غرض کے لیے بھیجے گئے وہ اس کے سوا کچھ نہ تھی‘ کہ مذہب کے اس جاہلی تصوّر کو مٹا کر ایک عقلی و فکری تصوّر پیش کریں‘ اور صرف پیش ہی نہ کریں بلکہ اسی کی اساس پر تہذیب و تمدّن کا ایک مکمل نظام قائم کرکے اور کامیابی کے ساتھ چلا کر دکھا دیں۔آپؐ نے بتایا کہ مذہب قطعاً بے معنی ہے اگر وہ انسان کی زندگی کا محض ایک شعبہ یا ضمیمہ ہے۔ ایسی چیز کو دین و مذہب کے نام سے موسوم کرنا ہی غلط ہے۔ حقیقت میں دین وہ ہے‘ جو زندگی کا ایک جزو نہیں‘ بلکہ تمام زندگی ہو۔ زندگی کی روح اور اس کی قوّتِ محرکہ ہو، فہم و شعور اور فکر و نظر ہو، صحیح و غلط میں امتیاز کرنے والی کسوٹی ہو، زندگی کے ہر میدان میں ہر ہر قدم پر راہِ راست اور راہ کج کے درمیان فرق کرکے دکھائے، راہِ کج سے بچائے، راہِ راست پر استقامت اور پیش قدمی کی طاقت بخشے، اور زندگی کے اس لامتناہی سفر میں جو دنیا سے لے کر آخرت تک مسلسل چلا جا رہا ہے، انسان کو ہر مرحلے سے کامیابی و سعادت کے ساتھ گزار دے۔
اسی مذہب کا نام اسلام ہے۔ یہ زندگی کا ضمیمہ بننے کے لیے نہیں آیا ہے، بلکہ اس کے آنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے‘ اگر اس کو بھی پرانے جاہلی تصوّر کے ماتحت ایک ضمیمہ زندگی قرار دیا جائے۔ یہ جس قدر خدا اور انسان کے تعلق سے بحث کرتا ہے‘ اسی قدر انسان اور انسان کے تعلق سے بھی کرتا ہے، اور اسی قدر انسان اور ساری کائنات کے تعلق سے بھی۔ اس کے آنے کا اصل مقصد انسان کو اسی حقیقت سے آگاہ کرنا ہے‘ کہ تعلقات کے یہ شعبے الگ الگ اور ایک دوسرے سے مختلف و بیگانہ نہیں ہیں، بلکہ ایک مجموعہ کے مربوط اور مرتب اجزاء ہیں‘ اور ان کی صحیح ترکیب ہی پر انسان کی فلاح کا مدار ہے۔ انسان اور کائنات کا تعلق درست نہیں ہو سکتا جب تک کہ انسان اور کائنات کا تعلق درست نہ ہو۔ پس یہ دونوں تعلق ایک دوسرے کی تکمیل و تصحیح کرتے ہیں، دونوںمل کر ایک کامیاب زندگی بناتے ہیں، اور مذہب کا اصل کام اسی کامیاب زندگی کے لیے انسان کو ذہنی و عملی حیثیت سے تیار کرنا ہے۔ جو مذہب یہ کام نہیں کرتا وہ مذہب ہی نہیں ہے‘ اور جو اس کام کو انجام دیتا ہے وہی اسلام ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا ہے‘ کہ
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ آل عمران 3:19
اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
اسلام ایک خاص طریقِ فکر (attitude of mind) اور پوری زندگی کے متعلق ایک خاص نقطۂ نظر (outlook on life) ہے۔ اور پھر وہ ایک خاص طرزِعمل ہے‘ جس کا راستہ اسی طریقِ فکر اور اسی نظریہ زندگی سے متعین ہوتا ہے۔ اس طریقِ فکر اور طرزِعمل سے جو ہیئت حاصل ہوتی ہے وہی مذہب اسلام ہے، وہی تہذیب اسلامی ہے، اور وہی تمدّن اسلامی ہے۔ یہاں مذہب اور تہذیب و تمدّن الگ الگ چیزیں نہیں ہیںبلکہ سب مل کر ایک مجموعہ بناتے ہیں۔ وہی ایک طریقِ فکر اور نظریہ حیات ہے‘ جو زندگی کے ہر مسئلہ کا تصفیہ کرتاہے انسان پر خدا کے کیا حقوق ہیں۔ خود اس کے اپنے نفس کے کیا حقوق ہیں۔ ماں باپ کے، بیوی بچوں کے، عزیزوں اور قرابت داروں کے،پڑوسیوں اور معاملہ داروں کے، ہم مذہبوں اور غیر مذہب والوں کے، دشمنوں اور دوستوں کے، ساری نوع انسانی کے، حتیٰ کہ کائنات کی ہر چیز اور قوّت کے کیا حقوق ہیں؟ وہ ان تمام حقوق کے درمیان کامل توازن اور عدل قائم کرتا ہے‘ اور ایک شخص کا مسلمان ہونا ہی اس امر کی کافی ضمانت ہے‘ کہ وہ ان تمام حقوق کو پورے انصاف کے ساتھ ادا کرے گا، بغیر اس کے کہ ظلم کی راہ سے ایک حق کو دوسرے حق پر قربان کرے۔
پھر یہی طریقِ فکر اور نظریہ حیات انسان کی زندگی کا ایک بلند اخلاقی نصب العین اور ایک پاکیزہ روحانی منتہائے نظر معین کرتاہے، اور زندگی کی تمام سعی و جہد کو، خواہ وہ کسی میدان میں ہو، ایسے راستوں پر ڈالنا چاہتا ہے‘ جو ہر طرف سے اسی ایک مرکز کی طرف راجع ہوں۔
یہ مرکز ایک فیصلہ کن چیز ہے۔اسی کے لحاظ سے ہر شے کی قدر (value) متعین کی جاتی ہے۔ اسی معیار پر ہر شے کو پرکھا جاتا ہے۔ جو شے اس مرکزی مقصد تک پہنچنے میں مدد گار ہوتی ہے اسے اختیار کر لیا جاتاہے، اور جو شے سدّ راہ ہوتی ہے اسے ردّکر دیا جاتا ہے۔ فرد کی زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے معاملات سے لے کر جماعت کی زندگی کے بڑے بڑے معاملات تک یہ معیار یکساں کار فرما ہے۔ وہ اس کا بھی فیصلہ کرتا ہے‘ کہ ایک شخص کو اکل و شرب میں، لباس میں، صنفی تعلقات میں، لین دین میں، بات چیت میں، غرض زندگی کے ہر معاملہ میں کن حدود کو ملحوظ رکھنا چاہیے، تاکہ وہ مرکز مقصود کی طرف جانے والی سیدھی راہ پر قائم رہے، اور ٹیڑھے راستوں پر نہ پڑ جائے۔ اس کا بھی فیصلہ کرتا ہے‘ کہ اجتماعی زندگی میں افراد کے باہمی روابط کن اصولوں پر مرتب کیے جائیں جن سے معاشرت، معیشت، سیاست، غرض ہر شعبہ زندگی کا ارتقاء ایسے راستوں پر ہو‘ جو اصل منزلِ مقصود کی طرف جانے والے ہوں، اور وہ راہیں نہ اختیار کرے جو اس سے دور ہٹانے والی ہوں۔ اس کا بھی فیصلہ کرتا ہے‘ کہ زمین و آسمان کی جن قوتوں پرانسان کو دسترس حاصل ہو‘ اور جو چیزیں اس کے لیے مسخر کی جائیں ان کو وہ کن طریقوں سے استعمال کرے، تاکہ وہ اس کے مقصد کی خادم بن جائیں، اور کن طریقوں سے اجتناب کرے تاکہ وہ اس کی کامیابی میں مانع نہ ہوں۔ اس کا بھی فیصلہ کرتا ہے‘ کہ اسلامی جماعت کے لوگوں کو غیر اسلامی جماعتوں کے ساتھ دوستی میں اور دشمنی میں، جنگ میں اور صلح میں، اشتراک اغراض میں اور اختلاف مقاصد میں، غلبہ کی حالت میں اور مغلوبی کے دور میں، علوم و فنون کے اکتساب میں اور تہذیب و تمدّن کے لین دین میںکن اصولوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے، تاکہ خارجی تعلقات کے ان مختلف پہلوؤں میں وہ اپنے مقصد کی راہ سے ہٹنے نہ پائیں بلکہ جہاں تک ممکن ہو۔ بنی نوع انسان کے ان نادان اور گمراہ افراد سے بھی طوعاً یا کرہاً، شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر اس مقصد کی خدمت لے لیں جو اصل فطرت کے اعتبار سے ان کا بھی ویسا ہی مقصد ہے جیسا کہ پیروانِ اسلام کا ہے۔
غرض وہ ایک ہی نقطۂ نظر ہے‘ جو مسجد سے لے کر بازار اور میدان کارزار تک، طریق عبادت سے لے کر ریڈیو اور ہوائی جہاز کے طریق استعمال تک، غسل و وضو اور طہارت و استنجا ء کے جزوی مسائل سے لے کر اجتماعیات، معاشیات، سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے بڑے سے بڑے مسائل تک، مکتب کی ابتدائی تعلیم سے لے کر آثارِ فطرت کے انتہائی مشاہدات اور قوانین طبعی کی بلند ترین تحقیقات تک، زندگی کی تمام مساعی اور فکر و عمل کے تمام شعبوں کو ایک ایسی وحدت بناتا ہے‘ جس کے اجزاء میں ایک مقصدی ترتیب اور ایک ارادی ربط پایا جاتاہے، اوران سب کو ایک مشین کے پرزوں کی طرح جوڑتا ہے‘ کہ ان کی حرکت اور تعامل سے ایک ہی نتیجہ برآمد ہو۔
مذہب کی دنیا میں یہ ایک انقلابی تصوّر تھا، اور جاہلیت کے خمیر سے بنے ہوئے دماغوں کی گرفت میں یہ تصوّر کبھی پوری طرح نہ آسکا۔ آج دنیا علم و عقل کے اعتبار سے چھٹی صدی عیسوی کے مقابلہ میں کس قدر آگے بڑھ چکی ہے، مگر آج بھی اتنی قدامت پرستی اور تاریک خیالی موجود ہے‘ کہ یورپ کی شہرہ آفاق یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ درجہ کی تعلیم پائے ہوئے لوگ بھی اس انقلاب انگیز تصوّر کے ادراک سے اسی طرح عاجز ہیں‘ جس طرح قدیم جاہلیت کے ان پڑھ اور کو دن لوگ تھے۔ ہزاروں برس سے مذہب کا جو غلط تصوّر وارثت میں منتقل ہوتا چلا آرہا ہے اس کی گرفت دماغوں پر ابھی تک مضبوط جمی ہوئی ہے۔ عقلی تنقید اور علمی تحقیق کی بہترین تربیت سے بھی اس کے بند نہیں کھلتے۔ خانقاہوں اور مسجدوں کے تاریک حجروں میں رہنے والے اگر مذہبیت کے معنی گوشہ عزلت میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے کے سمجھیں اور دین داری کو عبادات کے دائرے میں محدود خیال کریں تو جائے تعجب نہیں، کہ وہ تو ہیں ہی ’’تاریک خیال‘‘ جاہل‘ عوام اگر مذہب کو باجے، تعزیے اور گائے کے سوالات میں محدود سمجھیں تو یہ بھی مقام حیرت نہیں کہ وہ تو ہیں ہی جاہل۔ مگر یہ ہمارے پروردگانِ نورِ علم کو کیا ہو اکہ ان کے دماغوں سے بھی قدامت پرستی کی ظلمت دور نہیں ہوئی؟ وہ بھی مذہب اسلام کو انہی معنوں میں ایک مذہب سمجھتے ہیں‘ جن میں ایک غیر مسلم قدیم جاہلی تصوّر کے تحت سمجھتا ہے۔
ہماری سیاست میں جاہلی تصوّرات کے اثرات
فہم و ادراک کے اس تصوّر کی وجہ سے مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقہ کا ایک بڑا حصہ نہ صرف خود غلط روش پر چل رہا ہے، بلکہ دنیا کے سامنے اسلام اور اس کی تہذیب و تمدّن کی نہایت غلط نمائندگی کر رہا ہے۔ مسلم جماعت کے اصلی مسائل جن کے حل پر اس کی حیات و ممات کا مدار ہے سرے سے ان لوگوں کی سمجھ ہی میں نہیں آتے، اور یہ ضمنی غیر متعلق مسائل کو اصل مسائل سمجھ کر عجیب عجیب طریقوں سے ان کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ مـذہب کا پرانا محدود تصوّر ہی ہے‘ جو مختلف شکلوں میں ظہور کر رہا ہے۔
کوئی صاحب فرماتے ہیں‘ کہ میں پہلے ہندستانی ہوں، پھر مسلمان،ا ور یہ کہتے وقت ان کے ذہن میں مذہب کا یہ تصوّر ہوتا ہے‘ کہ اسلام جغرافی تقسیم قبول کر سکتا ہے۔ ترکی اسلام، ایرانی اسلام، مصری اسلام، ہندستانی اسلام اور پھر پنجابی، بنگالی، دکنی اور مدراسی اسلام الگ الگ ہو سکتے ہیں۔ ہر جگہ مسلمان اپنے اپنے مقامی حالات کے لحاظ سے ایک الگ طریقِ فکر اختیار کر سکتا ہے، زندگی کا ایک جُدا گانہ نقطۂ نظر اور نصب العین قبول کر سکتا ہے، ان تمام سیاسی، معاشی اور اجتماعی نظاموں میں جذب ہو سکتا ہے‘ جو مختلف قوموں نے مختلف اصولوں پر قائم کیے ہیں، اور پھر بھی وہ مسلمان رہ سکتا ہے، اس لیے کہ اسلام ایک ’’مذہبی ضمیمہ‘‘ ہے‘ جو دنیوی زندگی کے ہر ڈھنگ اور ہر طریقہ کے ساتھ چسپاں ہو سکتا ہے۔
ایک دوسرے صاحب فرماتے ہیں‘ کہ مسلمانوں کو دین اور دنیا کے معاملات میں واضح امتیاز کرنا چاہیے۔ دین کا تعلق ان معاملات میں سے ہے‘ جو انسان اور خدا کے درمیان ہیں، یعنی اعتقادات اور عبادات۔ ان کی حد تک مسلمان اپنی راہ پر چل سکتے ہیں، اور کوئی ان کو اس راہ سے نہ ہٹانا چاہتا ہے، نہ ہٹا سکتا ہے۔ رہے دنیوی معاملات تو ان میں دین کو دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جس طرح دنیا کے دوسرے لوگ ان کو انجام دیتے ہیں اسی طرح مسلمانوں کو بھی انجام دینا چاہیے۔
ایک تیسرے صاحب کا ارشاد ہے‘ کہ اپنے مذہبی، تمدّنی اور لسانی حقوق کے لیے مسلمانوں کو بلا شبہ ایک الگ نظام کی ضرورت ہے‘ مگر سیاسی اور معاشی اغراض کے لیے ان کو الگ جماعت بندی کی ضرورت نہیں۔ ان معاملات میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق بالکل غیر حقیقی اور مصنوعی ہے۔ یہاں مسلمانوںکے مختلف طبقوں کو اپنے اپنے مفاد اور اپنی اپنی اغراض کے لحاظ سے ان مختلف جماعتوں میں شامل ہونا چاہیے‘ جو غیر مذہبی اصولوں پر سیاسی و معاشی مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔
ایک اور صاحب جو مسلم قوم کے تن مردہ میں جان ڈالنے کے لیے اُٹھے ہیں ان کا خیال یہ ہے‘ کہ اصل چیز ایمان باللہ اور اعتقاد یوم آخر اور اتبّاع کتاب و سنّت نہیں ہے، بلکہ عناصر کی تسخیر اور قوانین طبعی کی دریافت اور نظم و ضبط کی طاقت سے ان عناصر مسخرہ و قوانین معلومہ کو استعمال کرنا ہے، تاکہ نتیجہ میں علو اور تمکّن فی الارض حاصل ہو۔ یہ صاحب مادّی ترقی کو مقصود بالذات قرار دیتے ہیں۔ اس لیے جو وسائل اس ترقی میں مدد گارہوں، وہی ان کے نزدیک اصلی اہمیت رکھتے ہیں۔ باقی رہا وہ ذہن جو علم و عقل کی تہ میں کام کرتا ہے، اور جو اپنے طریقِ فکر اور زاویۂ نظر کے لحاظ سے وسائل ترقی کے استعمال کا مقصد اور تہذیب و تمدّن کے ارتقاء کا راستہ اور تمکّن فی الارض کا مدعا متعین کرتاہے، سو وہ اس کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ وہ ذہن چاہے جاپانی ذہن ہو، یا جرمن، یا اطالوی یا فاروقی یا خالدی، ان کو اس سے کوئی بحث نہیں، ان کے نزدیک یہ سب یکساں ’’اسلامی‘‘ ذہن ہیں کیونکہ اب سب کے عمل کا نتیجہ ان کو ایک ہی نظر آتا ہے، یعنی علو اور تمکّن فی الارض ان کی نگاہ میں جس کو ’’زمین کی وراثت‘‘ حاصل ہے، وہی ’’صالح‘‘ ہے، اگرچہ وہ ابراہیم علیہ السلام کے مقابلہ میں نمرود ہی کیوں نہ ہو۔ جو غالب اور بالا دست ہے، وہی ’’مومن‘‘ ہے اگرچہ وہ ’’مسیح‘‘ کے مقابلہ میں بت پرست رومی فرمانروا ہی کیوں نہ ہو۔
ایک بڑا گروہ جو مسلمانوں کے قومی حقوق کی حفاظت صرف اس چیز کا نام ہے‘ کہ ان کے مذہب اور ’’پرسنل لاء‘‘ کی حفاظت کا اطمینان دلایا جائے، ان کی زبان کو اپنے رسم الخط سمیت ایک سرکاری زبان تسلیم کر لیا جائے، اور جن لوگوں کی شخصیت پر اسلام کا لیبل لگا ہوا ہو، صرف انہی کو مسلمانوں کی نمائندگی کا حق حاصل ہو۔ انتخابی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں متناسب نمائندگی ان کے نزدیک سب سے بڑی اہمیت رکھتی ہے، اور اگر یہ فیصلہ کر دیا جائے‘ کہ خالص اسلامی مسائل میں کوئی تصفیہ اس وقت تک نہ ہو گا جب تک خود مسلمان نمائندوں کی غالب اکثریت اس کو قبول نہ کرے تو ان کے نزدیک گویا اسلامی حقوق کا پور اپورا تحفظ ہو گیا۔
دیکھا آپ نے ! شکلیں کس قدر مختلف ہیں، مگر حقیقت ان سب میں ایک ہے۔ یہ سب مختلف مظاہر ہیں اسی جاہلی تصوّر مذہب کے جو اسلامی تصوّر مذہب کے خلاف ہر زمانہ میں نت نئی شکلوں کے ساتھ بغاوت کرتا رہا ہے۔
اگر یہ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں کہ مسلم کسے کہتے ہیں‘ اور حقیقی معنی میں اسلامی جماعت کا اطلاق کس گروہ پر ہوتاہے، تو ان کی تمام غلط فہمیاں دور ہو سکتی ہیں۔ قانونی حیثیت سے ہر وہ شخص ’’مسلم‘‘ ہے‘ جو کلمہ طیبہ کا زبانی اقرار کرے اور ضروریات دین کا منکر نہ ہو۔ لیکن اس معنی میں جو شخص ’’مسلم‘‘ ہے اس کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہے۔ ہم اس کو کافر نہیں کہہ سکتے، نہ وہ حقوق دینے سے انکار کرسکتے ہیں‘ جو مجرد اقرار اسلام سے اس کو مسلم سوسائٹی میں حاصل ہوتے ہیں۔ یہ اصل اسلام نہیں ہے‘ بلکہ اسلام کی سرحد میں داخل ہونے کا پروانہ ہے۔ اصل اسلام یہ ہے‘ کہ تمام ذہن اسلام کے سانچے میں ڈھل جائے، تمہارا طریقِ فکر وہی ہو‘ جو قرآن کا طریقِ فکر ہے۔ زندگی اور اس کے تمام معاملات پر تمہاری نظر وہی ہو، جو قرآن کی نظر ہے، تم اشیاء کی قدریں (values) اسی معیار کے مطابق معین کرو جو قرآن نے اختیار کیا ہے، تمہارا انفرادی و اجتماعی نصب العین وہی ہو‘ جو قرآن نے پیش کیا ہے۔ تم اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں مختلف طریقوں کو چھوڑ کر ایک طریقہ اسی معیار انتخاب کی بنا پر انتخاب کرو جو قرآن اور طریق محمدی کی ہدایت سے تم کو ملا ہے۔
اگر تمہارے ذہن کو یہ چیز اپیل نہیں کرتی اور تمہاری نفسیات قرآن کے نفسیات کے سانچے میں ڈھلنا قبول نہیں کرتے، تو کوئی تم کو دائرہ اسلام میں آنے یا رہنے پر مجبور نہیں کرتا۔ عقل اور راست بازی کا اقتضاء یہ ہے‘ کہ تم کو اس دائرے کے باہر اپنے لیے مناسب جگہ تلاش کرنی چاہیے۔ لیکن اگر تمہارا ذہن اس چیز کو قبول کرتا ہے‘ اور تم اپنے نفسیات کو قرآنی نفسیات کے ساتھ متحد کر لیتے ہو، تو پھر زندگی کے کسی معاملہ میں بھی تمہارا راستہ اس راستہ سے الگ نہیں ہو سکتا جسے قرآن سبیل المومنین کہتا ہے۔
اسلامی ذہن یا قرآنی ذہن، کہ حقیقت میں یہ ایک ہی چیز ہیں، جس نظریہ زندگی کے تحت چند اعتقادات پر ایمان لاتا ہے، چند عبادات تجویز کرتا ہے، چند شعائر (جو عام اصطلاح میں ’’مذہبی شعائر‘‘ کہے جاتے ہیں) اختیار کرتا ہے، ٹھیک اسی نظریہ کے تحت وہ کھانے کی چیزوں میں، پہننے کے سامان میں، لباس کی وضعوں میں، معاشرت کے طریقوں میں، تجارتی لین دین میں، معاشی بندوبست میں، سیاست کے اصولوں میں، تمدّن و تہذیب کے مختلف مظاہر میں، مادّی وسائل اور قوانین طبعی کے علم کو استعمال کرنے کے مختلف طریقوں میں بعض کو ردّکرتا ہے‘ اور بعض کو اختیار کرتاہے۔ یہاں چونکہ نقطۂ نظر ایک ہے، طریقِ فکر ایک ہے، نصب العین ایک ہے، ترک و اختیار کا معیار ایک ہے، اس لیے زندگی بسر کرنے کے طریقے، سعی و جدوجہد کے راستے، معاملات دنیا کی انجام دہی کے اصول الگ نہیں ہو سکتے۔ جزئیات میں عمل کی شکلیں الگ ہو سکتی ہیں، احکام کی تعبیروں اور فروعات پر اصول کے انطباق میں تھوڑا بہت اختلاف ہو سکتا ہے، ایک ہی ذہن کی کارفرمائی مختلف مظاہر اختیار کر سکتی ہے۔ لیکن یہ اختلاف عوارض کا اختلاف ہے، جوہری اختلاف ہرگز نہیں ہے۔ جس بنیاد پر اسلام میں زندگی کی پوری اسکیم مرتب کی گئی ہے‘ اور اس کے تمام شعبوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے وہ کسی قسم کا اختلاف قبول نہیں کرتی۔ آپ خواہ ہندوستانی ہوں یا ترکی، یا مصری، اگر آپ مسلمان ہیں‘ تو یہی اسکیم اپنی اسی اسپرٹ کے ساتھ آپ کو اختیار کرنی پڑے گی‘ اور اس سکیم کو ردّکر دینا پڑے گا جو اپنی اسپرٹ اور اپنے اصولوں کے لحاظ سے اس کے خلاف ہو۔
یہاں آپ ’’مذہبی‘‘ اور ’’دنیوی‘‘ شعبوں کو ایک دوسرے سے الگ کر ہی نہیں سکتے۔ اسلام کی نگاہ میں دنیا اور آخرت دونوں ایک ہی مسلسل زندگی کے دو مرحلے ہیں۔ پہلا مرحلہ سعی و عمل کا ہے، اور دوسرا مرحلہ نتائج کا، آپ زندگی کے پہلے مرحلے میں دنیا کو جس طرح برتیں گے، دوسرے مرحلے میں ویسے ہی نتائج ظاہر ہوں گے، اسلام کا مقصد آپ کے ذہن اور آپ کے عمل کو اس طرح تیار کرنا ہے‘ کہ زندگی کے اس ابتدائی مرحلے میں آپ دنیا کو صحیح طریقہ سے برتیں تاکہ دوسرے مرحلہ میں صحیح نتائج حاصل ہوں۔ پس یہاں پوری دنیوی زندگی ’‘’مذہبی‘‘ زندگی ہے، اور اس میں اعتقادات و عبادات سے لے کر تمدّن و معاشرت اور سیاست و معیشت کے اصول و فروع تک ہر چیز ایک معنوی اور مقصدی ربط کے ساتھ مربوط ہے۔ اگر آپ اپنے سیاسی و معاشی معاملات کو اسلام کی تجویز کردہ اسکیم کے بجائے کسی اور اسکیم کے مطابق منظم کرنا چاہتے ہیں، تو یہ جزوی ارتداد ہے، جو آخر کار کلی ارتداد پر منتہی ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں‘ کہ آپ اسلامی تعلیمات کا تجزیہ کرکے بعض کو ردّاور بعض کو قبول کرتے ہیں۔ آپ معتقدات دین اور عبادات دینی کو قبول کرتے ہیں، مگر اس نظام زندگی کو ترک کر دیتے ہیں‘ جس کی عمارت انہی عبادات کی بنیاد پر اٹھائی گئی ہے۔ اول تو یہ تجزیہ ہی اسلام کی رُو سے غلط ہے‘ اور کوئی مسلمان جو حقیقت میں اسلام پر ایمان رکھتا ہو اس کا ارادہ نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ۰ۚ{ FR 2910 }کا مصداق ہے، پھر اگر آپ نے یہ تجزیہ کرکے د ائرہ اسلام میں رہنے کا عزم کیا بھی تو آپ اس دائرے میں زیادہ مدت تک نہ رہ سکیں گے‘ کیونکہ نظام زندگی سے بے تعلق ہونے کے بعد معتقداتِ دین اور عباداتِ دینی سب بے معنی ہو جاتے ہیں۔ ان کا مقصد ہی فوت ہو جاتاہے۔ غیر اسلامی اصولِ حیات پر ایمان لانے کے بعد اس قرآن پر ایمان قائم ہی نہیں رہ سکتا جو قدم قدم پر ان اصولِ حیات کی تکذیب کرتا ہے۔
بخلاف اس کے اگر آپ اس اسکیم کے مطابق اپنی سیاسی و معاشی زندگی کے معاملات کو منظم کرنا چاہتے ہیں‘ جو اسلام نے تجویز کی ہے‘ تو آپ کو الگ پارٹیوں میں منقسم ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک ہی پارٹی، حزب اللہ، ان سب کاموں کے لیے کافی ہے، کیونکہ یہاں سرمایہ دار اور مزدور، زمین دار اور کاشت کار، راعی اور رعیت کے مفاد میں تنازع نہیں ہے، بلکہ ان کے درمیان موافقت اور اشتراکِ عمل پیدا کرنے و الے اصول موجود ہیں۔ کیوں نہ آپ ان اصولوں کے مطابق اپنی قوم کے مختلف طبقات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کریں؟ جن کے پاس یہ اصول موجود نہیں ہیں وہ اگر مجبوراً تنازع طبقات (class war) کی آگ میں کودتے ہیں‘ تو آپ کیوں ان کے پیچھے جائیں؟
اسی طرح اگر آپ مادّی ترقی چاہتے ہیں، علو اور تمکّن فی الارض چاہتے ہیں، تو اسلام خود اس باب میں آپ کی مدد کرتاہے۔ مگر وہ چاہتا ہے‘ کہ آپ فرعونی و نمرودی علو اور ابراہیمی و موسوی علو میں امتیاز کریں۔ ایک تمکّن وہ ہے‘ جو جاپان اور انگلستان کو حاصل ہے۔ دوسرا وہ تھا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے حاصل کیا تھا۔ تمکّن دونوں ہیں، اور دونوں تسخیر عناصر، استعمال اسباب اور قوانین طبعی کے علم اور ان سے استفادہ کرنے ہی کے نتائج ہیں۔ مگر زمین و آسمان کا فرق ہے دونوں گروہوں کے مقاصد اور نقطۂ نظر میں۔ آپ نتائج کے ظاہری اور نہایت سطحی تماثل کو دیکھتے ہیں۔ مگر ان کے درمیان جو روحی و اخلاقی بُعد، بعد المشرقین ہے اس کو نہیں دیکھتے۔ دنیا پرستوں کی ترقی اور ان کا تمکّن اس تسخیر عناصر اور استعمال اسباب کا نتیجہ ہے‘ جس کی تہہ میں زندگی کا حیوانی نصب العین کام کر رہا ہے۔ بخلاف اس کے قرآن جس علو اور تمکّن فی الارض کا وعدہ کرتاہے، وہ بھی اگرچہ تسخیر عناصر اور استعمال اسباب سے ہی حاصل ہو سکتا ہے، مگر اس کی تہہ میں زندگی کا بلند ترین اخلاقی و روحانی نصب العین ہونا چاہیے جس کا تحقق ہو نہیں سکتا جب تک کہ ایمان باللہ اور اعتقاد یوم آخر پوری طرح مستحکم نہ ہو‘ اور جب تک مضبوط زندگی کی ساری جدوجہد اس آہنی فریم کے اندر کسی ہوئی نہ ہو‘ جس کی گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے صوم و صلوٰۃ اور حج و زکوٰۃ کو آپ پر فرض کیا گیا ہے وہی ’’ارکان اسلام‘‘ جن کو آپ ’’مولوی کے غلط مذہب‘‘ کی ایجاد قرار دیتے ہیں۔
مسلمانوں کے حقوق کو سمجھنے اور ان کے تحفظ کے صحیح طریقے معلوم کرنے میں جو غلطی کی جا رہی ہے اس کی تہہ میں بھی وہی جہل کار فرما ہے‘ جس کے مظاہر آپ اوپر دیکھ چکے ہیں۔ اجتماعی زندگی کی پوری اسکیم اگر غیر اسلامی بنیادوں پر مرتب ہو جائے‘ تو جس چیز کو آپ ’’مذہب‘‘ کہتے ہیں‘ اور جسے ’’پرسنل لا‘‘ قرار دیتے ہیں اس کا اپنی اصل پر باقی رہ جانا اور آپ کی زبان کا اپنے رسم الخط کے ساتھ محفوط رہنا کچھ بھی مفید نہ ہو گا۔ اس لیے کہ اس غیر اسلامی مجموعہ میں یہ بے جوڑ اسلامی اجزا کسی طرح کھپ نہ سکیں گے‘ اور رفتہ رفتہ اپنی جگہ چھوڑتے چلے جائیں گے۔ پھر ان اجزا کی حفاظت جن نمائندوں کے ہاتھ میں آپ دینا چاہتے ہیں وہ اگر محض اصطلاحی و قانونی مسلمان ہوں تو وہ ان کی حفاظت بس اتنی ہی کر سکیں گے جتنی کہ غیر مسلم کر سکتے ہیں۔ ایسے مسلمان اگر اسلامی اصولوں کے خلاف ۴/۳ نہیں ۴/۴ کی اکثریت سے بھی کوئی فیصلہ کریں تو وہ اسلامی جماعت کے لیے اتنا ہی نقصان دہ ہو گا جتنا غیر مسلموں کا کوئی فیصلہ ہو سکتاہے۔
جاہلیت کا یہی تصوّر ہے‘ جس کے تحت کانگریس نے اپنا بنیادی حقوق (fundamental rights) والا ریزولیوشن مرتب کیا ہے اور اسی تصوّر جاہلیت کے تحت اپنی بجنور والی تقریر میں پنڈت جواہر لال نہرو نے فرمایا ہے‘ کہ ’’کانگریس کسی مذہبی عقیدے اور مذہبی روایات میں قطعاً دخل نہیں دیتی۔ کانگریس کو مذہب میں مداخلت کی کوئی ضرورت نہیں‘ اور نہ وہ ایسا کرے گی۔ کانگریس ہندستان کے مذاہب کی آزادی، مذہبی لوگوں کی تہذیب کی آزادی، تمدّن کی آزادی اور زبان کی آزادی کی حامی ہے۔{ FR 2911 } ’’پھر جاہلیت کا یہی تصوّر ہے‘ جس کے تحت مسلمانوںکا ایک گروہ اس قسم کے اعلانات کو کافی سمجھتا ہے اور مسلمانوں کو مشورہ دیتا ہے کہ ایسے اعلانات پر وہ مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں۔ کانگریسی رہنما تو خیر غیر مسلم ہیں‘ اور مذہب کے صرف اسی تصوّر سے واقف ہیں‘ جو انہیں وراثت میں ملا ہے،مگر مسلمانوں کے سیاسی رہنما (جن کے ساتھ بد قسمتی سے مذہبی رہنما بھی شریک ہوتے جاتے ہیں) اس سلسلہ میں جس نا واقفیت کا ثبوت دے رہے ہیں وہ حد درجہ افسوس ناک ہے۔ یہ حضرات اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں‘ کہ اگر مذہب، یعنی معتقدات دین اور مذہبی اعمال میں مداخلت نہ ہو، اگر مسلمانوں کے ’’پرسنل لا‘‘ یعنی قوانین نکاح و طلاق و وراثت کو، جیسے کہ وہ برٹش گورنمنٹ کے ماتحت ہیں، بدستور محفوظ رہنے دیا جائے، اگر مسلمانوں کی قدیم رسوم و عادات کو جیسی کہ وہ اس وقت پائی جاتی ہیں۔ ایک اجل مسمیٰ تک پرانے تبرکات relics کی حیثیت سے زندہ رہنے دیا جائے، تو بس مسلمانوںکا قومی مسئلہ حل ہو گیا،ا ور اس کے بعد مسلمانوںکو اپنے قومی مستقبل کی طرف سے مطمئن ہو جانا چاہیے۔ اگرچہ آزادی ا ور تحفظ کے یہ اعلانات بھی سراسر منافقانہ ہیں، جیسا کہ میں آگے کے ابواب میں خود کانگریس کی تحریروں سے اور کانگریس کے شعبہ اسلامیات کے شائع کردہ مضامین سے ثابت کروں گا، تاہم اگر ان کو خلوص و نیک نیتی پر بھی محمول کیا جائے، تب بھی یہ سمجھنا انتہا درجہ کی کم فہمی پر دلالت کرتاہے‘ کہ ان اعلانات سے ہمارا قومی مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ درحقیقت ایسی چیزوں پر اطمینان قلب ظاہر کرکے ہمارے سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے یہ راز فاش کیا ہے‘ کہ وہ ابھی یہ سمجھے ہی نہیں کہ مسلمانوںکا اصل قومی مسئلہ ہے کیا۔
مسلمانوں کا اصل قومی مسئلہ
اگرچہ میں گزشتہ صفحات میں اس مسئلہ کی کافی تشریح کر چکا ہوں، لیکن یہاں ایک مرتبہ پھر کوشش کروں گا کہ اس کو نہایت واضح صورت میںپیش کروں تاکہ یہ زمانہ کا جادو، جو جہلا اور علما سب کے دماغوں پر مسلط ہوتا جا رہا ہے، کسی طرح اترے اور مسلمانوں کے ارباب حل و عقد اپنی توجہات کو اس مسئلہ کے حل کی طرف منعطف کریں۔
اوپر میں بتا چکا ہوں کہ اسلام اس قسم کا کوئی مذہب نہیں ہے‘ جو دنیا کی زندگی سے الگ چند معتقدات اور چند مذہبی مراسم انسان کو دیتا ہوتا کہ وہ آخرت کی زندگی میں نجات کے لیے سرٹیفکیٹ کے طورپر کام آئیں۔ بلکہ وہ درحقیقت ایک جامع تہذیب و تمدّن ہے‘ جو دنیا کو مزرعۃ الآخرۃ (آخرت کی کھیتی) سمجھ کر، اور انسان کو زمین میں خلیفہ الٰہی قرار دے کر‘ زندگی کے جملہ معاملات کی تنظیم کرتا ہے، تاکہ انسان اس دنیا میں صحیح برتاؤ کرے اور اس کے نتیجہ میں آخرت کی کامیابی سے ہمکنار ہو۔ اس غرض کے لیے اسلام نے مسلمانوںکو ایک مکمل ضابطہ زندگی دیا ہے‘ جو دوسرے ضوابط زندگی، مثلاً کمیونزم، فاش ازم، کیپٹل ازم اور مٹیریل ازم وغیرہ سے بالکل مختلف صورت پر ان کے نظامِ اجتماعی کی تشکیل کرتاہے‘ اور ان کو علوم و آداب میں، اخلاق و معاملات میں، عادات و اطوار میں، تمدّن و معاشرت میں، معیشت و سیاست میں، غرض زندگی کے ہر شعبے میںبعض طریقوں کو ترک اور بعض کو اختیار کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اس ضابطہ کی اساس ایک خاص طریقہ فکر اور ایک خاص مقصد حیات پر رکھی گئی ہے‘ جو دوسری قوموں اور تہذیبوں کے طریقِ فکر و مقصد حیات سے بالکل مختلف ہے، جس کی رو سے اشیاء کی قدریں (values) دوسروں کی پسند کی ہوئی قدروں سے بالکل مختلف طور پر معین ہوتی ہیں‘ اور جس کے لحاظ سے زندگی میں مسلمان اپنا راستہ دوسروں کے انتخاب کیے ہوئے راستوں سے الگ انتخاب کرتاہے۔
ہر تہذیب کی طرح اس تہذیب کے بقا اور فروغ کا انحصار بھی دو چیزوں پر ہے۔
ایک یہ کہ مسلمانوں کا نظامِ تعلیم ایسا ہو‘ جو ان کے دل و دماغ میں اسلام کے طریقِ فکر اور مقصد حیات کو صحیح طور پر پیوست کر دے، اور ان کو اس قابل بنائے کہ وہ مسلمان کی حیثیت سے دیکھیں، مسلمان کی حیثیت سے سوچیں، اور اسلام کے بتائے ہوئے معیار کے مطابق زندگی کے ہر دوراہے پر ایک راستے کا انتخاب کریں۔
دوسرے یہ کہ یہ نظام تہذیب اپنی صحیح صورت میں عملاً قائم ہو، اجتماعی زندگی میں اس کے اصول عملاً نافذ ہوں،ا ور ایک ایسا اسلامی ماحول بن جائے ‘جس میں مسلمان خود بخود اسلامی اصولوں پر زندگی بسر کریں، اگرچہ ان کے بعض افراد کو علمی حیثیت سے ان اصولوں کا پورا شعور نہ ہو۔ا س غرض کے لیے مسلمانوں کے پاس سیاسی طاقت کا ہونا ضروری ہے کیونکہ کوئی سوسائٹی سیاسی طاقت کے بغیر اپنی مخصوص ہیئت کی حفاظت نہیں کر سکتی۔
انگریزی اقتدار کی غلامی میں ہم کو اصلی نقصان جو پہنچا ہے وہ یہی ہے‘ کہ اپنی تہذیب کو ایک زندہ تہذیب کی حیثیت سے باقی رکھنے کے لیے یہ دونوں ذرائع ہم سے چھن گئے۔ ایک طرف ہماری قوم پر ایک ایسا نظامِ تعلیم مسلط کر دیا گیا ہے‘ جو وسیع پیمانہ پر ہمارے افراد کے طریقِ فکر کو بدل رہا ہے، نظریہ زندگی اور مقصد حیات کو بدل رہا ہے، اور اس معیار کو بدل رہا ہے‘ جس سے وہ اشیاء کی قدریں متعین کرتے ہیں۔ دوسری طرف ایک غیر قوم کی سیاسی طاقت نے ہم پر ایک ایسا ماحول مسلط کر دیا ہے‘ جو ہمارے عوام ا ور خواص کی زندگی کو روز بروز اسلامی مناہج سے ہٹاتا چلا جاتاہے۔ اس نے ہمارے قوانین حیات کو بڑی حد تک معطل کر دیا ہے، اور ہم اس کی بدولت اس طاقت سے محروم ہو گئے ہیںجس سے ہم اپنی سوسائٹی کو اس مخصوص اسلامی ہیئت پر قائم و برقرار رکھ سکیں۔
پس ہمارا اصل قومی مسئلہ یہ ہے‘ کہ ہندستان میں جو انقلاب درپیش ہے، اس میں ہم اس نقصان کی تلافی کر سکیں‘ جو انگریزی اقتدار سے ہماری قومیّت اور ہماری تہذیب کو پہنچا ہے۔ ہمیں اتنی طاقت حاصل ہو‘ کہ ہم اپنے نظامِ تعلیم کو خود اپنی ضروریات کے مطابق بنا سکیں‘ اور ہمیں حکومت میں اتنا اقتدار حاصل ہو‘ کہ ہم اپنے تمدّنی معاشرتی اور معاشی مسائل کو خود اپنے اصولوں کے مطابق حل کر سکیں، اور اپنے اجتماعی نظام کو پھر سے اسلامی بنیادوں پر مرتب کر لیں، یہی وہ چیز ہے‘ جس کی تشریح میں نے اپنے ’’نصب العین‘‘ والے مضمون میں کی ہے۔ ہم ایک ایسی آزادی وطن کو صحیح معنوں میں پورے و طن کی آزادی نہیں کہہ سکتے‘ جس میں وطن کی ۴/۱ مسلمان آبادی کو یہ آزادی حاصل نہ ہو۔ نہ ہم کسی ایسی حکومت کو وطنی حکومت سمجھ سکتے ہیں‘ جس میں وطن کے آٹھ کروڑ مسلمانوں کو یہ اقتدار حاصل نہ ہو۔ نہ ہمیں کسی ایسی جنگِ آزادی سے کوئی دلچسپی ہو سکتی ہے‘ جس کے ذریعہ سے ہم اپنے مشترک وطنی نصب العین (یعنی حریّت و استقلال وطن) کے ساتھ ساتھ اپنے اس قومی نصب العین کو بھی حاصل نہ کر سکتے ہوں۔
یہ ’’قوم پرستی‘‘ کی تحریک جس کے تحت اس وقت آزادی وطن کے نام پر جنگ کی جا رہی ہے، درحقیقت ہم کو اپنے اس قومی مقصد کی تحصیل میں مدد نہیں دیتی، بلکہ اس کے برعکس ان نقصانات کو حد کمال پر پہنچانا چاہتی ہے‘ جو ہم کو انگریزی اقتدار سے پہنچے ہیں۔ ڈیڑھ سو برس تک ایک غیر قوم کی غلامی میں رہنے کی وجہ سے ہماری قوم میں جہالت، افلاس، اخلاقی انحطاط، اجتماعی بد نظمی، تمدّنی بے راہ روی، اور تہذیب اسلامی سے انحراف کی جتنی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں، انہیں دور کرنے میں ہماری مدد کرنا تو درکنار، وہ تو ان سے الٹا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے، اور ہماری ان اندرونی خرابیوں ہی کو اپنے لیے کامیابی کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ ایک طرف ایک تحریک کے علمبردار اپنا پورا زور اس بات پر صرف کر رہے ہیں‘ کہ جمہور مسلمین کے دلوں سے اسلامی قومیّت کا تخیل ہی مٹ جائے‘ اور وہ اپنی قومیّت کے رشتہ سے کٹ کر معاشی طبقوں میں منقسم ہو جائیں، اور آپس میں روٹیوں پر لڑنا شروع کر دیں۔ دوسری طرف ان لوگوں کے پاس تہذیب و تمدّن اور تنظیم حیات کے متعلق خود اپنے نظریات موجود ہیں‘ جو اسلام کے اصولوں سے بالکل مختلف ہیں، اور وہ مسلمانوں کی اجتماعی مزاحمت سے بے خوف ہو کر یہ چاہتے ہیں‘ کہ تمام ہندوستان کی اجتماعی زندگی کو انہی نظریات کے تحت مرتب کریں جس کی لپیٹ میں مسلمان بھی آجائیں۔ اس طرح یہ تحریک ہمارے قومی مقاصد کے بالکل خلاف واقع ہوئی ہے‘ اور اس کے ساتھ شریک ہونے کے معنی یہ ہیں‘ کہ ہم اپنی قومیّت اور اپنی تہذیب کو نیست و نابود کرنے میں خود حصہ لیں۔ وہ اپنے پروپیگنڈا کی طاقت سے یہ خیال پھیلا رہے ہیں‘ کہ جو لوگ ان کی اس تحریک سے اختلاف کرتے ہیں وہ انگریزی اقتدار کے حامی ہیں، ٹوڈی اور سامراج پرست ہیں۔ لیکن یہ ایک زبردست دجل و فریب ہے‘ جس کو دن کی روشنی میں فروغ دیا جا رہا ہے۔ دراصل سب سے بڑا ٹوڈی اور سامراج پرست تو وہ ہے‘ جو وطن کی نجات کے لیے ایسے طریقے اختیار کرتا ہے‘ جن سے وطن کی ۴/۱ آبادی کسی طرح اتفاق نہیں کر سکتی۔ اپنی اسی حماقت سے وہ خود انگریزی اقتدار کے قیام و بقاء میں مدد دیتا ہے، اور پھر اس حماقت کا الزام ان لوگوں پر رکھتا ہے‘ جو نجات وطن کے لیے سر فروشی کرنے پر تیار ہیں، مگر اپنی قومیّت اور اپنی قومی تہذیب کو فنا کرنے پر فطرۃً تیار نہیں ہو سکتے۔
میں آگے کے ابواب میں اس امر پر تفصیل سے بحث کروں گا کہ یہ تحریک وطن پرستی کن طریقوں پر چلائی جا رہی ہے، اور مسلمانوں کے لیے مسلمان رہتے ہوئے اس کے ساتھ اشتراکِ عمل کرنا کس درجہ مہلک ہے۔
خ خ خ
باب ۷ : شُبہات اور جوابات
میں نے اپنے گزشتہ مضامین میں حتی الامکان ہر پہلو کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن باوجود اس کے ان مضامین کو دیکھ کر مختلف اصحاب نے متعدّد شبہات کا اظہارکیا ہے‘ جن سے مجھے اندازہ ہوا کہ ابھی توضیح مقاصد میں بہت کچھ کمی رہ گئی ہے۔ ذیل میں چند اہم شبہات کو خود معترضین کے اپنے الفاظ میں نقل کرکے رفع کرنے کی کوشش کروں گا۔ اُمید ہے‘ کہ میرے جوابات سے بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی۔
ناقابلِ عمل
آپ نے سیاسی کام کرنے کے اکثر ان طریقوں کو غلط اور مسلمانوں کے لیے مضر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے‘ جن پر مسلمانوں کے مختلف گروہ آج کل عمل پیرا ہیں۔ لیکن نہایت طول طویل مباحث کے بعد اپنے مضمون ’’راہِ عمل‘‘ میں خود جو طریق کار مسلمانوں کے لیے تجویز کیا ہے‘ وہ بالکل ہی ناقابلِ عمل اور غیر ممکن الوقوع معلوم ہوتا ہے۔ بجائے خود مقاصد بہت ارفع و اعلیٰ ہیں‘ اور ہر مسلمان کو ان کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے اندازاً کتنی مدت درکار ہو گی؟ اگر یہ مقصد ایسے ہیں‘ کہ ان کے حاصل کرنے میں صدیاں لگ جائیں گی‘ تو کیا آپ سمجھتے ہیں‘ کہ ہندستان کی سیاسی جنگ اس وقت تک ملتوی رہے گی جب تک مسلمان ان مقاصد کے حصول میں کامیاب نہ ہو جائیں؟
جواب
فاضل معترض ایک طرف یہ تسلیم فرماتے ہیں‘ کہ مسلمانوں کی قومی طاقت کو مضبوط کرنے کے لیے جن تدابیر کو میں ضروری اور ناگزیر قرار دیتا ہوں وہ بہت ’’ارفع و اعلیٰ‘‘ ہیںا ور ہر مسلمان کو ان کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔ دوسری طرف وہ خود اپنے اس مسلمہ کو محض اس بنیاد پر ردّکر دیتے ہیں‘ کہ یہ ’تدابیر بالکل ہی ناقابلِ عمل، اور غیر ممکن الوقوع معلوم ہوتی ہیں۔ اور ان کے حصول کے لیے صدیاں بھی کم ہیں‘‘۔ اس سے مجھے شبہ ہوتا ہے‘ کہ غالباً انہوں نے نہ تو ان وجوہ کی اہمیت پر کافی غور فرمایا ہے‘ جن کی بنا پر میں ان تدابیر کو ناگزیر قرار دے رہا ہوں، اور نہ اس سوال پر زیادہ فکر صرف کی ہے‘ کہ ان تدابیر کو روبکار لانے اور جلد از جلد نتیجہ خیز بنانیکی عملی صورتیں کیا ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی‘ تو غالبا وہ نہ تو اس طرح سرسری طو رپر میری رائے سے اتفاق فرماتے اور نہ اس طرح سرسری نظر میں اسے ناقابلِ عمل سمجھ کر ردّکر دیتے۔چونکہ بحث کا اصلی اور اہم ترین نکتہ یہی ہے اس لیے میں چاہتا ہوں کہ صرف معترض صاحب ہی نہیں‘ بلکہ تمام وہ لوگ جو ان کے ہم خیال ہیں، اس کے اصولی اور عملی پہلوؤں پر پوری قوّت فکر صرف کریں۔
اس بحث کو اصولی طریق پر طے کرنے کے لیے ضروری ہے‘ کہ آپ میرے خیالات کا تجزیہ کیجئے اور ایک ایک جزو کے متعلق واضح طور پر فیصلہ کیجئے‘ کہ آپ کو اس سے اتفاق ہے‘ یا نہیں۔
(۱) میری نگاہ میں ہندستان کے مسلمانوں کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت اور دوسری ہندستانی ہونے کی حیثیت۔ ان میں سے پہلی حیثیت دوسری حیثیت پر مقدّم ہے، اس معنی میں اگر بالفرض ان دونوں حیثیتوں میں مصالحت ممکن نہ ہو،ا ور ہمارے سامنے یہ سوال پیش ہو جائے‘ کہ ہم کس حیثیت کو دوسری حیثیت پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوں گے، تو ہمارے ایمان کا تقاضا یہ ہے‘ کہ ہم اپنی مسلمان ہونے کی حیثیت کو برقرار رکھیں اور ہندوستانی ہونے کی حیثیت کو اس پر قربان کر دیں۔
یہ پہلا اور بنیادی مسئلہ ہے‘ جس کے فیصلے پر دو بالکل مختلف اور متضاد مسلکوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا انحصار ہے۔ جو شخص معنی مذکور الصدر میں دوسری حیثیت کو پہلی حیثیت پر مقدّم رکھتا ہے، اس کا راستہ میرے راستہ سے بالکل الگ ہے۔ اس لیے میں ایک ایسے مسئلہ میں جو صرف مسلمانوں سے تعلق رکھتا ہے اس کے ساتھ کوئی بحث کرنا نہیں چاہتا۔ میری بحث صرف ان لوگوں سے ہے‘ جو اس بنیادی امر میں مجھ سے متفق ہیں۔ (آگے چل کر میں لفظ مسلمان جہاں کہیں استعمال کروں گا، اس سے میری مراد اسی دوسرے گروہ سے ہو گی)
(۲) مسلم ہندستانیوں کی سیاسی پالیسی اصل الاصول میرے نزدیک یہ ہے‘ کہ ان کی مسلم ہونے کی حیثیت اور ہندستانی ہونے کی حیثیت میں کامل تو افق ہو۔ اس ملک کا سیاسی، معاشی اور تمدّنی ارتقاء کوئی ایسی راہ اختیار نہ کرنے پائے جس میں ہماری ان دونوں حیثیتوں کا ساتھ ساتھ نبھنا مشکل ہو جائے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس سے کسی مسلمان کو اختلاف ہو گا۔ تاہم اگر کسی کو اختلاف ہو تو وہ اپنے اختلاف کے وجوہ بیان کرے۔
(۳) مذکورہ بالا پالیسی کو مؤثر اور کامیاب بنانا صرف ہمارے عمل اور ہماری قوّت پر منحصر ہے۔ ہمارے غیر مسلم ہم وطن اور غیر مسلم حکمران اگر ہر قسم کے تعصب سے خالی ہوں‘ اور انتہا درجہ کی نیک نیتی کے ساتھ کام کریں، تب بھی وہ اس توازن و توافق کو قائم نہیںکر سکتے‘ جس کے قیام پر ہماری مذکورہ بالا دونوں حیثیتوں کے ساتھ ساتھ نبھنے کا انحصار ہے‘ اس لیے کہ وہ زندگی کا اسلامی نقطۂ نظر کہاں سے لائیں گے؟ اصولِ اسلام کا فہم انہیں کیسے نصیب ہو گا؟ تہذیب اسلامی کی اسپرٹ کو وہ کیونکر سمجھ سکیں گے؟ پس ہر قسم کے گروہی تعصبات سے قطع نظر کر لینے کے بعد بھی یہ ایک حقیقت ہے‘ کہ اسلامیت اور ہندستانیت کے جس توازن و توافق پر مسلم ہندستانی قوم کی زندگی کا مدا رہے‘ وہ اس قسم کی اپنی طاقت اور مؤثر طاقت کے بغیر نہ قائم ہو سکتا ہے، نہ قائم رہ سکتا ہے۔ کیا آپ اس کو تسلیم کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو وجوہ ارشاد ہوں۔ اگر تسلیم ہے‘ تو فرمائیے کہ آیا یہ حقیقت آپ کی نگاہ میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے، یا اسے آپ ایسی چیز سمجھتے ہیں‘ کہ حاصل ہو تو بہت خوب اورحاصل نہ ہو تو کچھ پرواہ نہیں، اس کے بغیر ہی آگے بڑھے چلو؟
(۴) جس طاقت سے اس پالیسی کو مؤثر اور کامیاب بنایا جا سکتا ہے، میرے نزدیک وہ مسلمانوں میں موجود نہیں ہے‘ بلکہ اس کے برعکس چند ایسی کمزوریاں جڑ پکڑ گئی ہیںجن کی وجہ سے وہ ہندستان کے سیاسی ارتقاء کی رفتار پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ تمام دوسرے کاموں سے پہلے ہمیں ان کمزوریوں کو دور کرنا چاہیے‘ اور اپنے اندر کم سے کم اتنی طاقت پیدا کر لینی چاہیے‘ کہ ہم اس ملک کے آئندہ نظامِ حکومت کی تشکیل میں مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنا اثر استعمال کر سکیں۔ اس کے بغیر جنگِ آزادی میں شریک ہونا یا نہ ہونا دونوں ہمارے لیے یکساں مہلک ہیں۔ آپ فرمائیں کہ اس بیان کے کس حصہ سے آپ کو اختلاف ہے؟ کیا آپ کا یہ خیال ہے‘ کہ مسلمانوں میں وہ کمزوریاں موجود نہیں ہیں‘ جنہیں میں نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے؟ یا آپ یہ سمجھتے ہیں‘ کہ ان کمزوریوں سے وہ نتائج بد پیدا نہیں ہو سکتے جن کا خطرہ میں نے ظاہر کیا ہے؟ یا آپ کی رائے یہ ہے‘ کہ ہمیں حب وطن یا حب نفس کی خاطر ان خطرات کو گوارا کر لینا چاہیے؟ ان میں سے کون سی شق آپ اختیار فرماتے ہیں؟
(۵) وہ طاقت جس کی ضرورت میں ثابت کر رہا ہوں میرے نزدیک اس تدابیر کے سوا کسی اور طریقہ سے حاصل نہیں ہو سکتی جنہیں اختصار کے ساتھ میں نے بیان کیا ہے۔ اگر آپ کو سرے سے اس کی ضرورت ہی تسلیم نہیں، تب تو میرے نزدیک تدابیر کی بحث لاحاصل ہے۔ البتہ اگر آپ کو اس کی ضرورت کا اتنا ہی شدید احساس ہے جتنا کہ مجھ کو ہے، تو آپ ایک مرتبہ پھر ان کا جائزہ لیجئے اور فرمائیے کہ ان کے سوا اور کون سی تدبیریں ہو سکتی ہیں‘ جو ہماری کمزوریوں کو دور کرکے ہم کو مسلم ہونے کی حیثیت سے ایک طاقت ور جماعت بنانے والی ہوں۔ اس نقطۂ نظر سے جب آپ غور فرمائیں گے‘ تو آپ کو محسوس ہو جائے گا کہ یہ محض چند خوش آئند تجویزیں نہیں ہیں‘ جن کی قدر افزائی کے لیے صرف اتنی سفارش کافی ہو‘ کہ ’’ہر مسلمان کو ان کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے‘‘، بلکہ درحقیقت مسلمانوں کی قومی زندگی کا تحفظ انہی تدابیر پر منحصر ہے‘ اور اب اگر ہم خود کشی نہیں کرنا چاہتے تو ہمیں بہرحال انہی کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
یہ تو تھی اصولی بحث۔ اب میں عملی پہلو کی طرف توجہ کرتا ہوں۔ فاضل معترض نے غالباً یہ سمجھا ہے‘ کہ میں بالکل ایک آئیڈیل حالت کی طرف مسلمانوں کو لے جانا چاہتا ہوں‘ اور میرے نزدیک علم و عمل، اتحاد و اتفاق اور نظم اجتماعی کے آخری و انتہائی مرتبہ کا حصول سیاسی جنگ میں حصہ لینے سے پہلے ناگزیر ہے، اسی بنا پر انہوں نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ کام تو شاید صدیوں میں بھی پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکے گا۔ اگرچہ ایسی ایک آئیڈیل حالت بھی اس سے پہلے ایک صدی کے چوتھائی حصہ میں ہندوستان کے موجودہ حالات سے بدرجہا زیادہ خراب، عرب جاہلیت کے حالات میں پیدا کی جا چکی ہے۔ لہٰذا اس کو ناممکن الوقوع کہنا درست نہیں۔ لیکن اگر اس کو ناممکن الوقوع تسلیم بھی کر لیا جائے‘ تو میں کہتا ہوں کہ جو کم سے کم طاقت اس وقت ہمیں درکار ہے اس کے لیے صدر اوّل کے سے مسلمانوں کی سی انتہائی دین داری اور اجتماعی تنظیم تک پہنچ جانا ضروری نہیں ہے صرف اس قدر کافی ہو سکتا ہے‘ کہ مسلمانوں میں اسلام کے اصولوں پر ایک ایسی رائے عام تیار کر دی جائے‘ جو غیر مسلم تہذیب کے اثرات کو اپنی جماعت میں پھیلنے سے روک سکتی ہو۔ جس کے سامنے ایک قومی نصب العین واضح طور پر موجود ہو‘ جو اپنے نصب العین کے لیے اجتماعی جدوجہد کر سکتی ہو۔ جس میں اتنا شعور ہو‘ کہ گمراہ کرنے والے رہبروں کو پہچانے اور ان کا اتبّاع کرنے سے انکار کر دے اور جس میں اتنی طاقت ہو‘ کہ منافقت اور غداری اس کے دائرے میں پھل پھول نہ سکے۔ یہ کام نہ غیر ممکن ہے، نہ صدیوں کی مدت چاہتا ہے۔ اگر مسلمان یہ سمجھ لیں کہ اس کے بغیر ہندستان میں ان کا بحیثیت ایک مسلم قوم کے زندہ رہنا مشکل ہے، اور اگر ان کے نوجوانوں میں سے ایک جماعت سچے جذبے کے ساتھ اس کام کے لیے جانفشانی اور پیہم عمل پر آمادہ ہو جائے‘ تو ایک قلیل مدت ہی میں ایک ایسی رائے عام تیار کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے‘ جب کہ ہم سہولت پسندی چھوڑ دیں۔ صحیح طریق کار کی دشواریاں دیکھ کر ہمت ہار دینا اور دوسروں کے ہموار کیے ہوئے راستوں کو آسان دیکھ کر ان کی طرف دوڑ جانا، ایک ایسی ذہنیت کا نتیجہ ہے‘ جس کے ساتھ دنیا کی کوئی قوم بھی اپنی زندگی کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ اگر خدانخواستہ یہی ذہنیت ہماری قوم پر غالب ہو گئی ہے‘ ہم اس درجہ تنزل کو پہنچ چکے ہیں‘ کہ اپنے قومی نصب العین کے لیے کوئی اجتماعی جدوجہد کرنا ہمیں غیر ممکن نظر آتا ہے، تب تو ہمیں خود اپنی قبر پر فاتحہ پڑھ لینی چاہیے۔
جنگِ آزادی اور مسلمان
آزادی کی جنگ کا شروع کرنا یا نہ کرنا ہم مسلمانوں پر منحصر نہیں ہے‘ کہ ہم جب چاہیں تب ہی جنگ شروع ہو، اور جب تک ہم نہ چاہیں وہ رکی رہے۔ سیاسی جنگ یا آزادی کی جنگ تو عرصہ ہوا کہ شروع ہو چکی اور برادرانِ وطن بہت سے معرکے سر بھی کر چکے اور نئے معرکے سر کرنے کی دھن میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسی حالت میں ہم مسلمان یہ کیسے کہہ سکتے ہیں، اور کس منہ سے کہہ سکتے ہیں‘ کہ ’’بھائیو! ذرا ٹھہر جاؤ ہمیں بھی تیار ہو لینے دو پھر جنگ شروع کرنا‘‘۔ ہماری ایسی آواز کو کون سن سکتا ہے، اور اس پر ایک لمحہ کے لیے بھی کان دھر سکتا ہے؟
جواب
یہ بات میں نے کبھی نہیں کہی کہ ہندستان کی سیاسی جنگ اس وقت تک کے لیے ملتوی ہو جائے گی یا ہو جانی چاہیے جب تک مسلمان ان مقاصد کے حصول میں کامیاب نہ ہو لیں۔ پچھلے واقعات اور موجودہ حالات پر نظر کرتے ہوئے اس بات کا تو خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ہندوستان کے سیاسی ارتقاء کی رفتار ہمارے شریک نہ ہونے سے رک جائے گی۔ میں نے جو کچھ کہا ہے وہ صرف اس قدر ہے‘ کہ منتشر اور مختلف الخیال افراد کی شکل میں مسلمانوںکا شریک جنگ ہونا فائدہ سے زیادہ نقصان کے امکانات رکھتا ہے‘ اور یہ نقصان اس نقصان سے بہت زیادہ ہے‘ جو کچھ مدت تک اس جنگ سے علیحدہ رہنے کی صورت میں پہنچے گا، لہٰذا مسلمانوں کو اپنی تمام تر توجہ اس طرف صرف کرنی چاہیے‘ کہ کم سے کم مدت میں اپنے اندر وہ طاقت پیدا کر لیں جو شریک جنگ ہونے کے لیے ضروری ہے۔ اس دوران میں اگر دوسرے ان سے معترض نہ ہوں تو انہیں بھی دوسروں سے معترض نہ ہونا چاہیے۔
ہر شخص جسے خدا نے تھوڑی سی عقل بھی دی ہے، خود سمجھ سکتا ہے‘ کہ جہاں ایک طرف اکثریت ہو‘ اور متحد و منظم ہو،ا ور دوسری طرف اقلیت ہو‘ اور متفرق اور پراگندہ ہو، تو ان دونوں کے ساتھ کا انجام کیا ہو گا؟ ہمارا حال اس وقت یہ ہے‘ کہ ہمارے درمیان کوئی چیز بھی متفق علیہ نہیں ہے۔ ایک گروہ کا نصب العین کچھ ہے‘ اور دوسرے کا کچھ اور … ایک گروہ جن امور کو قومی مفاد سے متعلق سمجھتا ہے،دوسرا گروہ کہتا ہے‘ کہ ان کو قومی مفاد سے کوئی تعلق نہیں‘ اور تیسرا گروہ ’’قومی مفاد‘‘ کا نام ہی سن کر ’’فرقہ پرستی‘‘، ’’ٹوڈیت‘‘ اور ’’رجعت پسندی‘‘ کے آوازے کسنے شروع کر دیتا ہے۔ ایک جماعت کسی مسئلے پر اسلامی حقوق کی حفاظت کے لیے جدوجہد کرتی ہے‘ اور دوسری جماعت غیر مسلموں کی فوج میں شامل ہو کر سب سے اگلی صفوں میں اس کا مقابلہ کرتی نظر آتی ہے۔ حد یہ ہے‘ کہ ایک جماعت کو نسلوں کے اجلاس یا کانگریس کے اجتماع سے نماز کے لیے اٹھتی ہے، اور اس سے دس گنی جماعت بیٹھی رہتی ہے،ا ور بیٹھنے ہی پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ اس کے بعض افراد غیر مسلموں سے تقرب حاصل کرنے کے لیے‘ علانیہ نماز پڑھنے والوں کی مذہبی دیوانگی پر طنز کرتے ہیں۔ غور کیجئے‘ کہ اس سے بڑھ کر اور کون سی چیز ہماری قوم کی اجتماعی طاقت کو نقصان پہنچانے والی، ہماری ہوا اکھاڑ دینے والی، اور ہندوستان کی سیاسی میزان میں ہم کو سبک کر دینے والی ہو سکتی ہے؟ اس بیماری کو ساتھ لیے ہوئے آپ جدھر جائیں گے آپ کا کوئی وزن نہ ہو گا‘ اور آپ کسی ایسی چیز کی حفاظت نہ کر سکیں گے، جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے آپ کو عزیز ہو۔
مگر اس کا یہ مفہوم لینا درست نہیں کہ ہم جو سیاسی جنگ میں کانگریس کے ساتھ شرکت کرنے سے انکار کر رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے‘ کہ ہم تعطل چاہتے ہیں۔ درحقیقت معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اپنی قوم کی منتشر طاقتوں کو جمع کرنا خود ایک جنگ ہے۔ یہ جنگ اگر ہم شروع کر دیں تو اس کے دوران میں ایک طرف ہمارے زنگ خوردہ ہتھیاروں پر صیقل بھی ہو گا‘ اور دوسری طرف ہماری منتشر طاقت جتنی جتنی مجتمع ہوتی جائے گی، ملک کی سیاسی میزان میں ہمارا وزن بھی اتنا ہی بڑھتا چلا جائے گا۔ بخلاف اس کے اگر ہم نے یہ دیکھ کر فلاں جماعت نے اتنے معرکے سر کر لیے ہیں، اور فلاں گروہ اتنا طاقت ور ہو چکا ہے، مرعوبانہ ذہنیت کے ساتھ کوئی طریق کار اختیار کیا، تو یہ مسلمانوں کی زندگی کا ثبوت نہ ہو گا بلکہ ان کی شکست خوردہ ذہنیت کا ہو گا۔
سیاسی جنگ اور جدید طبقہ
آپ نے اس مضمون ’’آنے والا انقلاب اور مسلمان‘‘ میں جدید تعلیم و تہذیب سے متاثر ہونے و الے مسلمانوں پر بہت سخت تنقید کی ہے‘ اور غالباً آپ کا مقصد یہ ہے‘ کہ یہ لوگ مسلمانوں کی طرف سے سیاسی جنگ میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہیں۔ میرے نزدیک یہ وقت ایسا نہیں ہے‘ کہ ہم اپنے میں سے کسی گروہ کو اس سیاسی جنگ سے خارج کرنے کی کوشش کریں، نہ اس کا موقع ہے‘ کہ پرانے تعلیم یافتہ لوگ نئے تعلیم یافتہ طبقہ کو اس سیاسی جنگ سے یہ کہہ کر خارج کر دیں‘ کہ تم اس کے اہل نہیں ہو، اور نہ اس کا موقع ہے‘ کہ جدید تعلیم یافتہ لوگ پرانے تعلیم یافتہ بزرگوں کو اس مدافعانہ جنگ سے خارج کرنے کی کوشش کریں۔ بلکہ ضرورت صرف اس امر کی ہے‘ کہ اس وقت سب مسلمان متفق، متحد، یک دل اور یک زبان ہو کر اس مدافعانہ جنگ میں حصہ لیں‘ اوركَاَنَّہُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌo { FR 2912 } کا مصداق بن کر دنیا پر ثابت کر دیں‘ کہ مسلمان ابھی زندہ ہیں‘ اور زندہ رہیں گے‘ اور دنیا کی کوئی طاقت، کوئی قوت، کوئی تدبیر اس نور الٰہی کو بجھا نہیں سکتی جس کے مسلمان حامل ہیں۔
جواب
یہ ارشاد بالکل بجا ہے‘ کہ اس وقت مسلمانوں کو بنیانِ مرصوص بننے کی ضرورت ہے‘ لیکن معترض کو میرے کن الفاظ سے یہ غلط فہمی ہوئی کہ میں مسلمانوں کو بنیانِ مرصوص دیکھنا نہیں چاہتا بلکہ ان کے درمیان پارٹیوں کا اختلاف پیدا کرنا چاہتا ہوں؟ حقیقت یہ ہے‘ کہ کسی قوم کو ایک ٹھوس جماعت صرف اسی طرح بنایا جا سکتا ہے‘ کہ اس کے افراد یک نصب العین پر متفق ہوں‘ اور جسم واحد بن کر اس کے لیے ایک طریق کار اختیار کریں۔ اس غرض کے لیے ہم کو نصب العین اور طریق کار دونوں کی توضیح کرنی پڑے گی‘ اور جس طرح ہمارا یہ فرض ہو گا کہ قوم کے ان تمام افراد کو اپنے ساتھ ملا لیں جو اس نصب العین اور اس طریق کار سے متفق ہوں،ا سی طرح ہمارے لیے یہ بھی ناگزیر ہو گا کہ ان افرادکے ساتھ غلظت و شدّت برتیں جو اپنی خود سری یا منافقت کی بنا پر جماعت کا ساتھ دینے سے انکار کریں، عام اس سے کہ وہ نئے تعلیم یافتہ ہوں یا پرانے تعلیم یافتہ … یہ بالکل بد یہی بات ہے‘ کہ مختلف مقاصد کے تحت مختلف متضاد راستوں کی طرف جانے و الے افراد کو کسی طرح ایک بنیان مرصوص نہیں بنایا جا سکتا۔
ہندو اور مسلمان
آپ نے بلا ضرورت جو ضمنی بخشیں چھیڑی ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے‘ کہ آپ کے نزدیک گزشتہ ستر سال میں مغربی تعلیم سے مسلمانوں کو نقصان ہی نقصان پہنچا ہے‘ اور مختصر یہ کہ وہ مسلمان نہیں رہے۔ یہ تسلیم ہے‘ کہ ہم میں کچھ نہ کچھ خرابیاں بھی پیدا ہوئیں، مگر یہ تسلیم نہیں ہے‘ کہ ہماری موجودہ حالت اب سے ڈیڑھ صدی پہلے کی حالت سے زبوں تر ہے‘ اور ہماری اخلاقی خرابیاں اور کمزوریاں پہلے سے زیادہ ہو گئی ہیں۔ اگر کسی قوم کا سیاسی زوال اور محکومیت اس میں اخلاقی خرابیاں پیدا کرنے کو مستلزم ہے‘ تو ہندوؤں کو تو محکومیت کی حالت میں رہتے ہوئے ایک ہزار برس ہو گئے مگر ہم دیکھ رہے ہیں‘ کہ ان کی موجودہ اخلاقی، تعلیمی اور اقتصادی حالت بمقابلہ ہزار برس پہلے کے بہت بہتر ہے۔
جواب
مسلمانوں کی حالت کو ہندوؤں پر قیاس کرنا میرے نزدیک قیاس مع الفارق ہے۔ ہندو قوم میں وحدت ملی کا کوئی تصوّر نہ تھا۔ اس کا سوشل سسٹم ان کو متفرق کرنے و الا تھا نہ کہ مجتمع۔ ان کے اندر ایسی رسمیں رائج تھیں جو گھن کی طرح ان کی قوم کو کھائے جا رہی تھیں۔ وہ دنیا کی دوسری قوموں سے بالکل الگ تھلک ہندستان میں پڑے ہوئے تھے‘ اور اسی کو دنیا سمجھتے تھے۔ اس حالت میں جب وہ مسلمانوں کے اور پھر انگریزوں کے زیر حکومت آئے تو اگرچہ غلامی کے ناگزیر نتائج سے محفوظ نہ رہ سکے، لیکن بحیثیت مجموعی ان کو نقصان سے بہت زیادہ فوائد حاصل ہوئے۔ ان میں وحدت قومی کا ایک تصوّر پیدا ہو گیا، ان کو اپنے سوشل سسٹم کی بہت سی خرابیوں کا احساس ہوا جس کی بدولت متعدّد اصلاحی تحریکیں وجود میں آئیں، اور باہر سے علم و تہذیب کی جو روشنی ان تک پہنچی اس نے ان کے خیالات کی دنیا کو بہت کچھ بدل دیا۔ علاوہ بریں اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے‘ کہ ’’ہندویت‘‘ کی اساس کسی عقیدے اور کسی اجتماعی عمل اور کسی نظام تہذیب پر قائم نہیںہے بلکہ نسل اور مرزبوم کی وحدت پر مبنی ہے، اس لیے بیرونی اثرات سے ان کے قدیم عقائد اور طرز معاشرت سے افکار و اعمال میں خواہ کتنا ہی تغیّر ہو جائے ان کی ’’ہندویت‘‘ بہرحال برقرار رہتی ہے۔ اس پر مزید یہ کہ ان کے اپنے مذہب و تمدّن میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے‘ جو ایک ترقی پذیر قومیّت کو وجود میں لاسکے۔ لہٰذا مغرب کے عمرانی و سیاسی تصوّرات، ان کے لیے بجائے مضر ہونے کے درحقیقت مفید ہیں۔ کیونکہ یہی چیز ان کے اندر زندگی اور حرکت پیدا کر سکتی ہے، اور اسی سے ان میں قومیّت کا نشوونما ہو سکتا ہے۔
مسلمانوں کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ یہ قوم اپنی ایک وحدت اور نہایت طاقت ور وحدت رکھتی تھی، اس کا سوشل سسٹم غایت درجہ صحیح و سالم تھا، جاہلانہ رسوم سے یہ بالکل پاک تھی، اس میں ایک اعلیٰ درجہ کی حضارت موجود تھی، اور یہ سب کچھ اسے صرف ایک چیز کی بدولت حاصل ہوا تھا جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔ ہندستان میں دوسری قوموں کے ساتھ جب یہ قوم خلط ملط ہوئی، تو اس کی بلندی تو دوسروں کو پستی سے اٹھانے کی موجب ہوئی، مگر دوسروں کی پستی نے خود اس کو بلندی سے گرانا شروع کر دیا۔ اس نے دوسروں سے نسلی و وطنی عصبیت لی، نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی وحدت پارہ پارہ ہونے لگی۔ا س نے دوسروں سے جاہلیت کی رسوم لیں، نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی قومی طاقت کو گھن لگ گیا۔ اس نے اپنے سوشل سسٹم میں دوسروں کے طریقے داخل کر لیے، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ توازن اور اعتدال بگڑتا چلا گیا جو اس سسٹم کا طرئہ امتیاز تھا۔ اس نے دوسروں کے عقائد و افکار کو بغیر سوچے سمجھے قبول کرنا شروع کیا، نتیجہ یہ ہوا کہ یہ اپنے مذہب سے دور ہٹتی چلی گئی، حالانکہ مذہب ہی اس کی قومیّت اور اس کے اخلاق، تہذیب اور تمدّن کا قوام تھا۔ یہی چیز آخر کار اس قوم کے سیاسی زوال کی باعث ہوئی اور اس نے حکومت کے مقام سے گراکر اسے غلامی کی لعنت میں مبتلا کر دیا۔ غلامی کے دور میں جو مزید خرابیاں اس قوم میں پیدا ہوئیں، ان کو میں تفصیل کے ساتھ بیان کر چکا ہوں، اگر آپ انصاف کی نظر سے دیکھیں گے‘ تو آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا، کہ مغربی استیلا سے مسلمانوں پر جو اثرات مرتب ہوئے وہ ان اثرات کے بالکل برعکس ہیں‘ جو ہندوؤں پر مرتب ہوئے ہیں۔ ہندوؤں کو اس نے پستی سے اٹھایا اور مسلمانوں کو اور زیادہ پستی میں گرا دیا۔ اس نے ہمارے اخلاق، عقائد، تہذیب و تمدّن اور نظامِ معیشت و معاشرت کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ ان جزوی فوائد کے مقابلہ میں بدرجہا زیادہ ہے‘ جو مغربی تعلیم و تہذیب سے ہمیں حاصل ہوئے ہیں۔
مسلمانوں پر مغربی تہذیب اور مغربی تعلیم کے اثرات کا ذکر میرے مضامین میں محض ایک ضمنی بحث کی حیثیت سے نہیں آیا ہے‘ بلکہ میں قومی امراض کی تشخیص اور ان کی شدّت کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ منجملہ دوسرے ا سباب زوال کے ان اثرات کا بھی پوری طرح جائزہ لیا جائے۔
مسلمانوں کی اصل ضرورت
نئی تعلیم اور پرانی تعلیم کی بحث دراصل دور ازکار ہے۔ نئے تعلیم یافتہ ہوں یا پرانے، وہ سب مل کر مسلمانوں کی کل آبادی کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ ہمارے سیاسی مستقبل کا دارو مدار زیادہ تر کاشت کاروں اور مزدوروں کے اس بے زبان طبقے پر ہے‘ جس نے نہ تو پرانی تعلیم حاصل کی ہے‘ اور نہ نئی۔ یہ لوگ مسلمانوں کی آبادی کا ۱۰/۹حصہ بلکہ ا س سے بھی زیادہ ہیں۔ اس لیے ہم سب کا خواہ پرانے تعلیم یافتہ ہوں یا نئے، یہ فرض ہے‘ کہ اس طبقہ کی اصلاح کریں، اس میں اپنے حقوق سمجھنے کا مادہ پیدا کریں، اور ان میں اس قسم کی استعداد پیدا کریں کہ وہ اپنے حق رائے دہندگی کو مسلمانوں کے مفاد کے لیے استعمال کر سکیں۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے‘ تو سمجھ لیجئے کہ ہم نے سیاسی جنگ جیت لی۔
جواب
درحقیقت یہی کام تو ہمارے پیشِ نظر ہے۔ ہم کو سب سے بڑا خطرہ یہ ہے‘ کہ ہمارے عوام جن کو اسلام کی تعلیمات سے کسی قسم کی واقفیت نہیں ہے، جو افلاس اور فاقہ کشی میں مبتلا ہیں، جن کو اسلامی تہذیب و تمدّن کی گرفت میں رکھنے کے لیے کوئی نظام موجود نہیں ہے، جن میں جاہلیت کی رسوم پھیلی ہوئی ہیں، اور جو اسلامی تہذیب و تمدّن کے اثر سے دور رہنے کی بدولت ہندوستان کی آبادی کے سوادِاعظم سے ہم رنگ ہو گئے ہیں، کہیں اشتراکیت اور نزاع طبقات کی اس تبلیغ کا شکار نہ ہو جائیں جو اس وقت ’’قوم پرست‘‘ جماعت کی طرف سے کی جا رہی ہے۔ ہمیںاندیشہ ہے‘ کہ ان مسلمانوں کے پست طبقات کو یہ تحریک اسلام کا علم اور شعور رکھنے والے طبقات سے جدا کر دے گی، معاشی کشمکش برپا کرکے ان کے درمیان عداوت ڈال دے گی، اور جب یہ طبقے اپنی قوم کے اہلِ دماغ گروہ کی رہنمائی سے محروم ہو جائیں گے، تو ان کی جہالت اور ان کے افلاس سے فائدہ اُٹھا کر انہیں اقتصادی مساوات کا سبز باغ دکھایا جائے گا، اور اس بہانے سے ان کو غیر مسلم عوام میں جذب کر لیا جائے گا۔ یہ اندیشہ اس وجہ سے اور زیادہ بڑھ گیا ہے‘ کہ اب تک ’’قوم پرست‘‘ تحریک کے مبلغین اور مسلم عوام کے درمیان جو دیوار حائل تھی، جس کی وجہ سے مسلم عوام ان کی تبلیغ کو سننے تک کے روا دار نہ تھے، اسے ہمارے علمائے کرام اپنی ناعاقبت اندیشی سے منہدم کر رہے ہیں۔ ان کے اس فعل کا نتیجہ یہ ہونا ہے‘ کہ مسلم عوام آہستہ آہستہ ان لوگوں کی باتیں کان دھر کے سننے لگیں گے، اور چونکہ یہ لوگ علانیہ تبدیلِ مذہب کی تلقین نہیں کرتے، بلکہ ان اشتراکی خیالات کی تبلیغ کرتے ہیںجو مفلس طبقوں کے دل و دماغ پر بڑی آسانی کے ساتھ چھا جاتے ہیں، اس لیے ہمارے عوام رفتہ رفتہ ان کے جال میں پھنستے چلے جائیں گے‘ اور آخر کار یہ چیز اُمت مسلمہ کو پارہ پارہ کر دینے، اور جمہور مسلمین کو غیر مسلم سوادِ اعظم میں مدغم کر دینے کی موجب ہو گی، علمائے کرام آج جس چیز کو سمجھانے سے بھی نہیں سمجھ رہے ہیں، کل وہ چیز حقیقت بن کر ان کے سامنے آئے گی‘ اور ایسی حالت میں آئے گی کہ اس کا علاج ان کی قدرت سے باہر ہو گا۔ اس وقت ان حضرات کی آنکھیں کھلیں گی‘ اور انہیں معلوم ہو گا کہ جو تیر انہوں نے اندھیرے میں چلایا تھا وہ انگریزی سامراج کے بجائے محمد رسول اللہﷺ کی اُمت کے سینے میں پیوست ہوا ہے۔
ان خطرات کا سد باب اگر کسی صورت سے ہو سکتا ہے‘ تو وہ صرف یہی ہے‘ کہ مسلمانوں میں ایک فعال جماعت ایسی اُٹھ کھڑی ہو‘ جو جمہور قوم میں جا کر ایک طرف تو ان کے اندر اسلام کی جوہری تعلیم پھیلائے، رسومِ جاہلیت کو مٹائے، ان کو اسلامی تہذیب و تمدّن کے اصولوں سے باخبر کرے، اور دوسری طرف ان کی روٹی کے مسئلہ کو اسلامی اصولوں کے مطابق حل کرے۔ ہم اشتراکی تحریک کی جو مخالفت کرتے ہیں اس کے معنی یہ نہیں ہیں‘ کہ ہم ظالمانہ سرمایہ داری اور ناجائز اغراض رکھنے والے طبقوں کے حامی ہیں۔ بلکہ دراصل اسلام کے متبع ہونے کی حیثیت سے ظالمانہ سرمایہ داری کو مٹانے اور مفلس طبقوں کی مصیبتوںکو حل کرنے کے لیے ہم خود اپنے اصول رکھتے ہیں‘ اور وہ اشتراکیت کے اصولوں سے بالکل مختلف ہیں۔ ہم اپنی قوم کے معاشی مسائل کو خود اپنے ہی اصولوں کے مطابق حل کرنا چاہتے ہیں‘ اور یہ گوارا نہیں کر سکتے کہ اشتراکیت کے علمبردار ہمارے جمہور پر قابض ہو کر اپنے طریقوں سے اُمت مسلمہ کو پارہ پارہ کر دیں۔ ہمارے سامنے اس وقت صرف معاشی اور سیاسی سوال ہی نہیں ہے‘ بلکہ اس سے بڑھ کر اپنی تہذیب کی حفاظت کا بھی سوال ہے، اس لیے ہم کو اپنے جمہور کی تنظیم کرنے میں اسلامی اصول اختیار کرنے چاہئیں۔ ہمارے لیے گاندھی اور جواہر لال کا اسوئہ قابلِ اتبّاع نہیں، بلکہ محمد رسول اللہ ﷺ کا اسوئہ ہے‘ جس کی پیروی ہم کو کرنی چاہیے۔ خدا پرستوں کی تنظیم کے جو اصول ساڑھے تیرہ سو برس پہلے استعمال کیے گئے تھے، وہ صرف اسی زمانہ کے لیے نہ تھے بلکہ تمام زمانوں اور علاقوں کے لیے تھے۔ ان کو عمل میں لانے کے طریقے اور وسائل زمانی و مکانی حالات کے لحاظ سے بدل سکتے ہیں۔ مگر وہ اصول بجائے خود اٹل ہیں۔ اور آپ جس ملک اور جس زمانہ میں بھی خدا پرست قوم کی تنظیم کرنا چاہیں گے آپ کو انہی اصولوں کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ باطل کا اقتدار جب پوری طرح چھایا ہوا ہوتا ہے اس وقت لوگوں کو شبہ ہونے لگتا ہے‘ کہ ان اصولوں پر عملدرآمد غیر ممکن الوقوع ہے‘ یا اگر ممکن بھی ہے‘ تو اس کے لیے صدیاں درکار ہیں۔ لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ غیر ممکن چیز ہر وقت ممکن ہو سکتی ہے، اور دیکھتے دیکھتے ہوا کا رخ بدل سکتی ہے، البتہ اس کے لیے ایک کڑی شرط یہ ہے‘ کہ اس مشین کو صرف وہی اخلاقی طاقت حرکت میں لاسکتی ہے‘ جو سیرتِ محمدیﷺ کے سر چشمہ سے ماخوذ ہو۔ جن لوگوں میں باطل سے مرعوب ہوجانے اور ہر بڑھتی ہوئی طاقت کے آگے سر جھکا دینے کی کمزوری موجود ہو، اور جو لوگ اتنی استقامت نہ رکھتے ہوں کہ سخت سے سخت طوفان میں بھی راہِ راست پر جمے رہ سکیں، ان کے ہاتھوں سے یہ مشین کبھی حرکت نہیں کر سکتی۔ مسلمانوں کے لیے تنظیم کے کسی نئے پروگرام کی ضرورت نہیں، پروگرام تو بنا بنایا موجود ہے۔ کمی صرف ایک ایسے رہنما اور چند ایسے کارکنوں کی ہے‘ جو اپنے مقصد میں اپنے نفس اور ہوائے نفس کو فنا کر سکتے ہوں، جن کے دل نام و نمود کی بھوک، ذاتی وجاہت کی پیاس، مال و زر کی حرص، اور نفاق و حسد کی آگ سے پاک ہوں، جن میں حق کو سر بلند کرنے کا ایسا ارادہ موجود ہو‘ جو کسی حالت میں ٹل نہ سکتا ہو‘ اور جن میں اتنی صلاحیّت ہو‘ کہ محمد رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے طریقہ پر نظم کے ساتھ کام کر سکیں۔
سلطنت در سلطنت
آپ اسلامی حقوق کی حفاظت کے لیے آئینی ضمانتوںکو بے فائدہ قرار دیتے ہیں۔ اس بنا پر کہ جب تک کہ ان ضمانتوں کی پشت پر کوئی (sanction) نہ ہو اکثریت ان کی پابندی کے لیے مجبور نہیں ہو سکتی۔ اس کے مقابلہ میں آپ چاہتے ہیں‘ کہ مسلمان سلطنت کے اندر ایک سلطنت بنانے کی کوشش کریں۔ مگر بعینہ وہی اعتراض آپ کی اس تجویز پر بھی تو ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کے پاس وہ کون سی طاقت ہو گی‘ جو اس ’’سلطنت در سلطنت‘‘ کے احکام کو اکثریت کی مرضی کے خلاف نافذ کر سکے گی؟ فرض کیجئے‘ کہ اکثریت یہ قانون نافذ کرتی ہے‘ کہ ہندوستان میں گائے کی قربانی یک قلم موقوف ہو جائے۔ مسلمانوں کی یہ ’’سلطنت در سلطنت‘‘ اس کو کیسے روک سکے گی؟ فرض کیجئے‘ کہ کوئی مسلمان مرتد ہو جائے۔ آپ اس کو رجم کی سزا کیسے دے سکیں گے؟ فرض کیجئے‘ کہ آپ حدِّ زنا جاری کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکر ممکن ہے‘ کہ آپ مرتکبینِ زنا کے ساتھ غیر مسلم زانیوں یا زانیات پر بھی حد جاری کر سکیں؟
جواب
’’سلطنت در سلطنت‘‘ ایک مبہم اصطلاح ہے، جس کا اطلاق ایک حکومت کے حدود اقتدار میںکسی دوسرے نظام کی قوّت و اثر کے مختلف مدارج پر ہوتا ہے۔ اس قوّت و اثر کے دائرے کا وسیع یا محدود ہونا دراصل منحصر ہے اس نظام کی مضبوطی اور اس کے حامیوںکی معنوی طاقت کے کم یا زیادہ ہونے پر۔ واقعات کی دنیا میںاقلیت و اکثریت کوئی اہم چیز نہیں ہے۔ اصل چیز نظم اور اجتماعی ارادہ کی طاقت ہے۔ اسی طاقت سے قلیل التعداد انگریز اپنے سے ہزار گنی اکثریت پر حکمران ہے۔ ایک جمہوری نظامِ حکومت میں بھی ’’اقتدار اکثریت (majority rule) کے قائدہ کو ایک منظم ا ور قومی الارادہ اقلیت بے اثر یا کم اثر بنا سکتی ہے۔ پس یہ سوال کہ وہ ’’سلطنت در سلطنت‘‘ جو میں تجویز کر رہا ہوں کن حدود تک وسیع ہو گی، اس حالت میں طے نہیں ہو سکتا جبکہ ہم سرے سے کوئی نظم اور کوئی اجتماعی ارادہ ہی نہیں رکھتے۔ پہلے ہم کو یہ طاقت فراہم کر نی چاہیے پھر ہم جتنی طاقت فراہم کر لیں گے،ا سی کی نسبت سے ’’سلطنت در سلطنت‘‘ کے حدود وسیع یا محدود ہوںگے۔
شبہ ِدارالاسلام
آپ کہتے ہیں‘ کہ اگر ہم دارالاسلام قائم نہیں کر سکتے تو کم از کم شبہ دارالاسلام ہی قائم کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ جو نظامِ حکومت اس وقت قائم ہے‘ یا جو آئندہ آئینی ضمانتوں کے تحت قائم ہو گا وہ بھی تو شبہ دارالاسلام ہو گا۔ کیونکہ ظاہر ہے‘ کہ موجودہ نظامِ حکومت دارالاسلام نہیںہے۔ اور دارالحرب بھی نہیں ہے، لہٰذا ان دونوں کے بین بین جو صورت بھی ہو گی، اس پر شبہ دارالاسلام ہی کا طلاق ہونا چاہیے۔
جواب
’’شبہ دارالاسلام‘‘ سے میری مراد ایک ایسا نظام سیاست ہے‘ جو خالص ’’دارالکفر‘‘بہ نسبت خالص ’’دارالاسلام‘‘ سے زیادہ اقرب ہو۔ ہندستان کی موجودہ حالت یہ نہیںہے، اس میں مسلمانوںکو بحیثیت ایک قوم کے کسی طرح کی بھی خود اختیار حاصل نہیں۔ جو برائے نام مذہبی اور تمدّنی آزادی ان کو دی گئی ہے وہ غیر مسلم حکمرانوں کی عطا کردہ چیز ہے‘ جس کے حدود کو کم یا زیادہ کرنا ان کے اپنے اختیار تمیزی پر موقوف ہے۔ ہمارے جن مذہبی احکام کو وہ اپنے اصول کے مطابق درست نہیں سمجھتے ان کے نفاذ کو روک دیتے ہیں‘ اور جو مذہبی احکام ان کی مصلحتوں کے خلاف ہیں ان کو بھی نافذ نہیں ہونے دیتے۔ اس کے بعد صرف وہ احکام رہ جاتے ہیں‘ جو ان کی نگاہ میں بے ضرر ہیں۔ ان کے نفاذ کی وہ ہمیں اجازت دے دیتے ہیں۔ لیکن اس آزادی کے دائرے میں بھی ہم ان کے اقتدار کے بلا واسطہ اثر سے محفوظ نہیں ہیں۔ انہوں نے تعلیم کا جو نظام قائم کیا ہے وہ ہمارے مذہب اور تہذیب کے اصولوں کا مخالف ہے‘ اور اس کے اثر سے ہماری نوجوان نسلوںکا ایک بڑا حصہ ان مذہبی احکام سے بھی روگردانی کرنے لگتا ہے‘ جن کی بجا آوری میں ہم آزاد چھوڑے گئے ہیں۔ انہوں نے جو نظامِ معیشت قائم کیا ہے اس کی گرفت میں ہم اس قدر بے بس ہو چکے ہیں‘ کہ ہمارے لیے اسلامی اصولِ معیشت کی پابندی قریب قریب محال ہو گئی ہے اگرچہ ظاہر میں کوئی قانون ایسا نہیں ہے‘ جو ہم کو اپنے اصولوں کی پابندی سے روکتا ہو۔ اسی طرح ان کا نظامِ عدل و قانون اور ان کا آئین حکومت ایسا ہے‘ جو ہمارے اخلاق، معاشرت، تمدّن، ہر چیز پر بلا واسطہ اثر ڈالتا ہے، اور اس کے مقابلہ میں ہم اس درجہ بے اختیار ہیں‘ کہ اپنی حفاظت کے لیے کوئی کارگر تدبیر عمل میں نہیں لاسکتے۔ ان سب پر مزید یہ کہ غیر مسلم طاقت کا اقتدار مطلق فی نفسہٖ ایک زبردست اثر رکھتا ہے۔جو طاقت کم از کم ظاہر کے اعتبار سے رزق کے خزانوں کی مالک اور عزت و ذلت بخشنے کی مختار نظر آتی ہو،محکوم قوم اس سے تقرب حاصل کرنے کے لیے اپنی وہ بہت سی چیزیں بھی اس کے قدموں میں لاکر ڈال دیتی ہے‘ جنہیں وہ اس سے بجبر نہیںمانگتی۔ ایسی حالت جس ملک کی ہو وہ اگر خالص دارالکفر نہیں تو اس سے اقرب ضرور ہے۔ا س لیے اسے شبہ دارالکفر کہنا چاہیے نہ کہ شبہ دارالاسلام۔
میں جس چیز کی طرف مسلمانوں کے سیاسی فکر رکھنے والے لوگوں کو توجہ دلا رہا ہوں وہ یہی ہے‘ کہ انہیں اس حالت کو بدلنے کے لیے اپنی قوتوں کو مجتمع کرنا چاہیے۔ اگر اس کو بدلنا ہے‘ تو اس کی تیاری کا یہی وقت ہے۔ انقلابی دور میں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف انتقال کا عمل جاری ہوتا ہے۔اس وقت ہم نسبتاً زیادہ آسانی کے ساتھ آنے والی حالت کی شکل معین کرنے میں اپنا اختیار استعمال کر سکتے ہیں۔ جب وہ ایک خاص صورت میں ڈھل جائے گی‘ اور پوری طرح مستحکم ہو جائے گی اس وقت ہمارے لیے اختیار استعمال کرنے کا شاید کوئی موقع باقی نہ رہے گا۔ گزشتہ صدی کے ابتدائی دور میںہم نے غفلت کی‘ اور اس شبہ دارالکفر کو نہ صرف قائم ہونے دیا، بلکہ اپنے ہاتھوں سے اس کے قائم ہونے میں مدد دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم بالکل بے بس ہو کر اس کی گرفت میں جکڑے گئے،ا ور آج ہر شخص دیکھ رہا ہے‘ کہ ہمارے لیے اس کی بندشوں میں سے کسی چھوٹی سے چھوٹی بندش کو توڑنا بھی کس قدر مشکل ہے۔ اسی سے سبق حاصل کرنا چاہیے‘ کہ اگر ہم نے ہندوستان کے سیاسی انقلاب کو موجود رفتار پر جانے دیا‘ اور کوئی ایسی منظم طاقت فراہم نہ کی جس سے ہم اس کی سمت متعین کر نے میں خود اپنا اختیار بھی استعمال کر سکیں، تو نتیجہ یہ ہو گا کہ اس شبہ دارالکفر کی جگہ ایک دوسرا شبہ دارالکفر لے لے گا، اور اس کے مستحکم ہو جانے کے بعد ہم اس کی گرفت میں بھی اتنے ہی بے بس ہوں گے جتنے اس وقت ہیں۔ یہ ایک ایسی کھلی ہوئی بات ہے‘ جس کو سمجھنے کے لیے کسی گہرے تفکر کی ضرورت نہیں۔ محض عقلِ عام (common sense) رکھنے والا ایک عامی بھی اس کو سمجھ سکتا ہے، مگر یہ نا مساعد حالات کی طاقت کا کرشمہ ہے‘ کہ ایسی واضح بات کو سمجھانے کے لیے بھی دلائل کی ضرورت پیش آرہی ہے‘ اور دلائل کے زور سے بھی اس کو دلوں میں اتارنا مشکل ہو رہا ہے۔ جو لوگ پہلے ہندستان اور پھر سب کچھ ہیں وہ اگر اسے ماننے سے انکار کریں تو جائے تعجب نہیں، اس لیے کہ ان کی نگاہ میں مسلمانوں کی قومی زندگی کا سوال کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا۔ ان کا ضمیر تو پہلے ہی فیصلہ کر چکا ہے‘ کہ شِبہ دارالکفر ہو یا خالص دارالکفر، ہمیں صرف آزاد ہندستان چاہیے جس میں ہمارے رزق کے خزانے خود ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہوں۔ لیکن جو لوگ پہلے مسلمان اور پھر سب کچھ ہیں‘ان پر مجھے سخت حیرت ہے‘ کہ وہ اس کو سمجھنے سے کیوں انکار کرتے ہیں۔
مصالحت کے امکانات
آئینی ضمانتوں پر تو بہرحال برطانوی حکومت اور ہندستان کی اکثریت کو راضی کیا جا سکتا ہے‘ اور یہ ایک قابلِ عمل چیز نظر آتی ہے، لیکن ’’سلطنت در سلطنت‘‘ کا تخیل تو ہے ہی ایسا جس پر نہ برطانوی حکومت راضی ہو سکتی ہے‘ اور نہ ہندستان کی اکثریت۔ یہ نام درمیان میں آجانے کے بعد تو مصالحت کا دروازہ ہی بند ہو جاتا ہے۔
جواب
اس سے پہلے میںجو کچھ بیان کر چکا ہوں اس کو غور سے پڑھنے کے بعد مجھے اُمید ہے‘ کہ معترض صاحب اپنی اس رائے پر نظر ثانی کریں گے۔ آئینی ضمانتیں اور ان پر اکثریت کی رضا مندی ایسی چیز نہیں ہے‘ جس کے بل پر کوئی قوم زندہ رہ سکتی ہو۔ اگر ان ضمانتوں کی پشت پر ہماری اپنی طاقت نہ ہو تو ان کا قائم رہنا یا نہ رہنا بہرحال اکثریت کی رضا مندی پر موقوف ہو گا، اور اس کے معنی یہ ہیں‘ کہ ہندستان کے آئندہ نظام سیاست میں اکثریت کے اقتدار کی وہی حیثیت ہو‘ جو اس وقت انگریزی اقتدار کی ہے، اس کے دست ِقدرت میں ہم ویسے ہی بے بس ہوں جیسے اب ہیں۔
اکثریت کے منظو ر کرنے یا نہ کرنے پر جس ’’سلطنت در سلطنت‘‘ کا مدار ہو وہ اس نام سے موسوم کیے جانے کے قابل ہی نہیں ہو سکتی۔یہ تو وہ چیز ہے‘ جس کو ایک جماعت کا طاقتور اجتماعی ارادہ قائم کرتا اور قائم رکھتا ہے، خواہ کوئی اس پر راضی ہو یا نہ ہو۔
ہندستان کی سیاسی ترقی
یہ سلطنت در سلطنت کاتخیل ہندستان کی سیاسی ترقی کے لیے بھی تو مفید نہیں ہے۔ اگر اسی طرح ہندستان کی ہر قوم سلطنت کے اندر ایک سلطنت بنانے کے لیے اُٹھ کھڑی ہو تو فی الواقع ہندستان میں کوئی سلطنت قائم ہی نہیںہو سکتی، بلکہ اس کی جگہ فرقہ وارانہ انارکی لے لے گی۔
جواب
میں نصب العین والے مضمون میںان کم سے کم حقوق اور اختیارات کی توضیح کر چکا ہوں‘ جو ہندستان میں مسلمانوں کی قومی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ ’’سلطنت در سلطنت‘‘ سے میری مراد مسلمانوں کا ایک ایسا اجتماعی نظام ہے‘ جو انہی حقوق اور اختیارات کو استعمال کرے اور جس میں اتنی طاقت ہو‘ کہ اگر کوئی ان حقوق اور اختیارات میں کمی کرنا چاہے بھی تو نہ کر سکے۔ آپ اس مضمون کو غور سے دیکھئے۔ اس میں جن حقوق اور اختیارات کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں کون سی چیز ایسی ہے‘ جو مشترک ہندستانی مفاد کے لیے ہم کو دوسری ہمسایہ اقوام کے ساتھ پورا پورا تعاون کرنے سے روکتی ہو؟
اگر ہندستان کی دوسری قومیں بھی اپنے مخصوص قومی مفاد کے لیے اس قسم کی خود اختیاری (autonomy) حاصل کر لیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں‘ اور ان سب کو ایسی خود اختیاری حاصل ہونے کے بعد بھی ہندوستان کا مشترک نظامِ حکومت بخوبی چل سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے‘ کہ جن حضرات نے صرف نظری سیاسیات (theoretical politics) کا مطالعہ کیا ہے وہ ’’سلطنت در سلطنت‘‘ کا نام سن کر کان کھڑے کرتے ہیں‘ اور سمجھتے ہیں‘ کہ یہ ایک ناقابلِ عمل چیز ہے، لیکن عملی سیاسیات میں وسیع یا محدود پیمانے پر ’‘’سلطنت در سلطنت‘‘ کا وجود قریب قریب ہر ترقی یافتہ ملک میں پایا جاتاہے‘ اور سیاسی انصاف کے لیے اس کا وجود ناگزیر ہے۔ جہاں سلطنت کا غلبہ اتنا بڑھ گیا ہے‘ کہ ملک کے تمام دوسرے طبقے ’’سلطنت در سلطنت‘‘ سے محروم ہو گئے ہیں۔ وہاں ظلم ا ور بے انصافی کا دور دورہ ہے۔ علاوہ بریں واقعات اس کا ثبوت دیتے ہیں‘ کہ ’’سلطنت در سلطنت‘‘ ناقابلِ عمل چیز نہیں ہے۔ ہندوستان کے آئندہ نظامِ حکومت کی ترقی میں یہ اگر حارج ہو سکتی ہے‘ تو صرف اس صورت میں جب کہ اس ملک کی مختلف قوموں کے اندرونی نظامات ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ طرزِعمل اختیار کریں، اور اپنی مرضی کو زبردستی دوسروں پر مسلط کرنا چاہیں۔ لیکن ہمیں اس نوعیت کی سلطنت در سلطنت مطلوب نہیں ہے‘ جو انار کی اورخانہ جنگی برپا کرنے والی ہو۔ خالص دارالاسلام سے کم جس چیز کو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے‘ کہ اولا ہمیں خود اپنے اصولوں کے مطابق اپنے گھر کی تنظیم و اصلاح کرنے کا اختیار و اقتدار حاصل ہو۔ ثانیاً ہندستان کی سیاسی زندگی میں ہم کو اتنا اثر حاصل ہو‘ کہ اس ملک کا سیاسی و تمدّنی ارتقاء ہمارے اصولِ تہذیب اور مصالح قومی کے خلاف راستہ اختیار نہ کرنے پائے۔ اور ثالثاً اگر یہ ارتقاء ایسا کوئی راستہ اختیار کر رہا ہو تو ہم اتنے بے بس نہ ہوں کہ اپنی اجتماعی طاقت سے اس کو روک نہ سکیں۔ یہی تین عناصر مل کر اس مفہوم کی تکمیل کرتے ہیں جسے میں ’’سلطنت در سلطنت‘‘ سے تعبیر کر رہا ہوں، اور یہ ایسی چیز ہے‘ کہ اگر مسلمانوں کے علاوہ ہندستان کی دوسری قوموں کو بھی یہ حاصل ہو، تو اس سے کوئی بد نظمی واقع نہیں ہو سکتی۔ اسلامی نقطۂ نظر کو چھوڑ کر اگر آپ محض عقل کی رو سے انصاف کا تقاضا معلوم کرنا چاہیں تو وہ صرف یہ ہے‘ کہ جب ہندستان تمام قوموں کا مشترک وطن ہے‘ اور اس کی خوش حالی و ترقی سب کے عمل اور سب کی محنتوں اور قابلیتوں کا نتیجہ ہے‘ تو یہاں کسی قوم کو بھی اتنا با اقتدار نہ ہونا چاہیے‘ کہ وہ اپنی مرضی کو دوسروں پر مسلط کر دے اور نہ کسی قوم کو اتنا بے بس ہونا چاہیے‘ کہ وہ اپنی ان چیزوں کی حفاظت بھی نہ کر سکے جنہیں وہ جان و مال سے زیادہ عزیز رکھتی ہو۔
خوف و ہراس
آپ کے انداز تحریر سے خوف و ہراس کی بُو آتی ہے۔ آپ ہندوؤں سے ڈرتے ہیں‘ کہ وہ مسلمانوںکو کھا جائیں گے۔ کیا یہ خوف محض اس وجہ سے ہے‘ کہ وہ کثیر التعداد ہیں‘ اور مسلمان ان کے مقابلہ میں قلیل التعداد ہیں؟ کیا قرآن آپ کو یہی سکھاتا ہے‘ کہ قوّت اور غلبہ کا مدار کثرت اور قلت پر ہے؟ کیا اس سے بڑھ کر بھی اور کوئی بزدلی ہو سکتی ہے‘ کہ مسلمان ان مشرکین سے ڈر جائیںجو ۳۳ کروڑ خداؤںکو پوجتے ہیں؟ مسلمان ایک موحّد قوم ہے، اس کے پاس قرآن جیسی کتاب ہے۔ اس کے اندر ایمان کی حرارت ہے کیونکر ممکن ہے‘ کہ کفار و مشرکین اس پر غالب ہو جائیں؟ مسلمانوں کو اپنی قوّت پر اعتماد ہونا چاہیے، اور اسی اعتماد پر آزادی کی جنگ میں شریک ہونا چاہیے۔ اگر ان میں عزم اور ہمت ہو تو کسی قوّت سے بھی انہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ان پر دوسروں کا رنگ کیا چڑھے گا۔ ان کے پاس تو صبغۃ اللہ ہے‘ جو تمام رنگوں پر غالب آنے والا ہے۔
جواب
یہ اعتراض چند در چند غلط فہمیوںکا نتیجہ ہے، اور زیادہ تر ان لوگوں کی طرف سے پیش کیا گیا ہے‘ جنہیں سوچنے سے پہلے بول دینے کی عادت ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے‘ کہ ہمیں خوف ہندوؤں کی طاقت سے نہیں‘ بلکہ مسلمانوں کی کمزوریوں، اور ان کمزوریوں سے ہے‘ جنہیں قرآن نے قوموں کے اسبابِ زوال وفنا میں شمار کیا ہے۔ قرآن کسی جگہ بھی یہ نہیں کہتا کہ مسلمان صرف اس بنا پر دنیا میں غالب ہوں گے کہ ان کے نام عبد اللہ اور عبد الرحمان ہیں‘ اور کفار صرف اس بنا پر ان سے مغلوب ہو جائیں گے کہ وہ شیام سندر یا رابرٹسن جیسے ناموں سے موسوم ہیں‘ اگر ایسا ہوتا تو قرآن اس تیرہ سو برس کی تاریخ میں نعوذ باللہ ہزاروںمرتبہ جھوٹا ثابت ہو چکا ہوتا‘ اگر ایسا ہوتا تو خصوصیت کے ساتھ گزشتہ دو سو برس کی تاریخ کا ایک ایک لمحہ اس کے ’’جھوٹ‘‘ کا زندہ ثبوت ہوتا (معاذ اللہ)۔ یہ قرآن رکھنے والے موّحد مسلمان جن کا آپ ذکر فرما رہے ہیں، چین سے لے کر مراکش تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ مگر کیا یہ چین کے بت پرستوں سے، روس کے ملحدوں سے، انگلستان، فرانس، ہالینڈ اوراٹلی کے تثلیث پرستوں سے مغلوب نہیں ہیں؟ یہی قرآن رکھنے والے موّحد مسلمان صقلیہ اور اندلس میں بھی تھے۔ مگر کیا یہ وہاں سے حرف غلط کی طرح مٹا نہیں دئیے گئے؟ یہی قرآن رکھنے والے موّحد فتنہ تا تار کے زمانہ میں بھی تھے۔ مگر کس چیز نے ان کی تہذیب اور ان کی عظیم الشان سیاسی طاقت کو مشرکینِ تاتار کے ہاتھوں تباہ ہونے سے بچا لیا؟ یہ دنیا حقائق کی دنیا ہے، خوابوں کی دنیا نہیں ہے۔ آپ کلمہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہِ پڑھ کرسمجھتے ہیں‘ کہ کوئی منتر آپ کو سکھا دیا گیا ہے‘ جسے پڑھتے ہی طلسّم کے پُتلے غیب سے پیدا ہوں گے‘ اور کفار کو تہ تیغ کر دیں گے۔ آپ قرآن اپنے گھر میں رکھ کر سمجھتے ہیںکہ کوئی تعویذ آپ کے پاس آیا ہوا ہے‘ جس کا بس گھر میں موجود ہونا ہی اسے تمام آفاتِ ارضی و سماوی سے محفوظ کر دے گا اور خدا اپنے قانون فطرت کو آپ کے لیے بدل ڈالے گا۔ وہ تمام اخلاقی عیوب اور وہ تمام قومی امراض اپنے اندر پالتے رہئے جو کفارو مشرکین اور منافقین کے خصائص میں سے ہیں۔ اور پھر یہ پندار بھی اپنے دماغ میںرکھیے کہ ہم وہی مومن ہیںجن سے اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ کا وعدہ کیا گیا تھا۔اور جب کوئی یاد دلائے کہ ان کمزوریوں کے ساتھ آپ کسی انقلاب کے طوفان میں زندہ نہیں رہ سکتے تو اس کو بزدلی کا طعنہ دیجئے۔ یہ اگر بہادری اور عقلمندی ہے‘ تو ایسی بہادری اور عقل مندی آپ ہی کو مبارک رہے۔ میں تو اسے خام خیالی اور طفل تسلّی سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک یہ زندگی کے نہیں تباہی کے لچھن ہیں۔ میں اس سپہ سالار کو احمق سمجھتا ہوں‘ جو اپنی فوج کے کمزور پہلوؤں سے آنکھیں بند کر لیتا ہے، جو شیلے الفاظ سے اس میں طاقت کا جھوٹا پندار پیدا کرتا ہے، اور اس خطابت کی شراب پلاتا ہے، تاکہ وہ مدہوش ہو کر تباہی کی خندقوں میں کود پڑے۔
بے شک کثرت و قلت پر غلبہ و قوّت کا مدار نہیںہے یقینا كَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِيْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً كَثِيْرَۃًۢ بِـاِذْنِ اللہِ۰ۭ { FR 2913 }
ایک حقیقت ہے۔ مگر کچھ سوچا بھی ہے‘ کہ وہ کون سی اقلیت ہے‘ جو اکثریت پر غالب آتی ہے؟ وہ اقلیت جس میںنظم ہو، جس میں اطاعت ِامر ہو، جس میں وحدت ہو، جس میں ایک نصب العین پر کامل اتفاق ہو، جس میں اپنے نصب العین کی خاطر اجتماعی جدوجہد کرنے اور جان و مال کی قربانیاں دینے کا جذبہ ہو، جس کے افراد میں سیرت کی مضبوطی اور اخلاق کی بلندی ہو، جس کے افراد اپنی تہذیب کے اصولوںپر سختی کے ساتھ عامل ہوں، اور جس میں منافقین کا وجود عنقاء ہو۔ ایسی اقلیت اگر آپ ہیں‘ تو ۲۲ کروڑ ہندو کیا چیز ہیں، تمام دنیا کے کفار مل کر بھی آپ کو مٹا نہیں سکتے۔ لیکن فی الواقع کیا آپ ایسی ہی اقلیت ہیں؟ ایسی اقلیت آپ تھے تو یہ تین لاکھ انگریز ۶ہزار میل کے فاصلے سے آکر آپ کے کروڑوں افراد کو غلام بنانے میں کیسے کامیاب ہو گئے۔ بچوںکی طرح خواب نہ دیکھئے۔ ہوش میں آکر اس دماغ سے بھی کچھ کام لیجئے۔ جو خدا نے آپ کو سوچنے اور سمجھنے ہی کے لیے دیا ہے۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیںکہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ پڑھ کر آپ نے خدا پر کوئی احسان کیا ہے‘ جس کے معاوضہ میںوہ آپ کے لیے تمام قوانین طبعی کو الٹ دے گا؟ آپ دیکھ رہے ہیںکہ اکثریت متحد ہو رہی ہے،ا س میں نظم پیدا ہو رہا ہے، وہ ایک مرکز کی اطاعت پر مجتمع ہو رہی ہے، وہ ایک نصب العین کی خدمت کے لیے قربانیوں پر آمادہ ہے، اس نے اپنے منافقین کا بڑی حد تک استیصال کر دیا ہے، وہ اپنے افراد میں سیرت کی مضبوطی پیدا کر رہی ہے۔اس کے مقابلہ میں آپ خود اپنا حال بھی دیکھ سکتے ہیں۔ آپ میں کوئی نظم نہیں، کوئی مرکزیت نہیں، کوئی متفق علیہ نصب العین نہیں، کوئی صاحب ِامر شخص یا جماعت نہیںجس کی آپ اطاعت کریں۔ آپ کی مختلف پارٹیاں ایک دوسرے کے مقابلہ میں صف آراء ہو رہی ہیں، کبھی جھانسی میں، کبھی بجنور میں، کبھی مراد آباد میں، خانہ جنگی کے لیے آپ کے اکھاڑے برپا ہوتے ہیں۔ خم ٹھونک ٹھونک کر بھائی کو بھائی چیلنج دیتا ہے،ا ور جب ایک بھائی دوسرے بھائی کو مار لیتا ہے،تو اغیار کے سامنے اپنی برادر کشی پہ سینہ تان تان کر فخر کا اظہار کرتاہے۔ آپ کے افراد کیرکٹر کی ایسی کمزوری کا اظہار کر رہے ہیں‘ جو ساری قوم کی ہوا اکھاڑے دیتی ہے۔ آج اس گروہ میں ہیں‘ تو کل دوسرے گروہ میں۔ آج یہ طاقت غالب ہے‘ تو اس کے ساتھ ہیں، کل دوسری طاقت اُبھرتی نظر آتی تو دفعتہً انہوں نے بھی اپنی وفاداریوں کا رخ بدل دیا۔ افراد تو درکنارآپ کی جمعیتوں تک کا یہ حال ہے‘ کہ ان میں کسی قسم کی استقامت رائے نہیں پائی جاتی۔ غیر مسلم خواہ کوئی طرزِعمل اختیار کریں، دو چار اسلامی جمعیتیں ان کی مخالف ہوں گی‘ تو دو چار ان کا ساتھ دینے کے لیے بھی کھڑی ہو جائیں گی، اور یہ حقیقت دنیا پر آشکارا کر دیں گی کہ مسلمانوں میں بہت آسانی سے تفرقہ ڈالا جا سکتا ہے، کیا یہی وہ قومی سیرت ہے‘ جس کو لے کر آپ کے لیے كَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِيْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً كَثِيْرَۃًۢ البقرہ249:2 کا معجزہ صادر ہو گا؟
قرآن اور سیرت رسول اللہ a کو دیکھئے۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ خدا کے قانون میں جانب داری کہیں نہیں ہے۔ جو اس قانون کے خلاف چلے گا، خواہ وہ مومن ہی کیوں نہ ہو، پیس ڈالا جائے گا، اور جو اس کی شرائط پوری کرے گا، خواہ وہ کافر و مشرک ہی کیوں نہ ہو، غالب اور فتح یاب ہو گا۔ صحابہ کرام کی جماعت سے بڑھ کر ایمان کی حرارت اور سیرت اسلامی کا استحکام رکھنے والی جماعت تو کوئی نہیں ہو سکتی۔ مگر ایسی کامل الایمان جماعت بھی مشرکین سے متعدّد مرتبہ شکست کھا گئی، اور وہ بھی کس حالت میں؟ جب کہ خود سرکار رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے درمیان موجود تھے‘ اور بنفس نفیس ان کی قیادت فرما رہے تھے۔ جنگ احد میں صرف اتنا ہی قصور تو ہوا تھا‘ کہ مومنین کے دلوں میں مال کی محبت آگئی اور انہوں نے اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کر ڈالی۔ نتیجہ کیا ہوا؟ پتھر کو پوجنے والے خدائے و احد کی عبادت کرنے والوں پر چیرہ دست ہو گئے‘ اور خود رسول اللہ a ان کے ہاتھوں زخمی ہوئے۔ حَتّٰٓي اِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَآ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ۰ۭ ……وَلَا تَلْوٗنَ عَلٰٓي اَحَدٍ وَّالرَّسُوْلُ يَدْعُوْكُمْ فِيْٓ اُخْرٰىكُمْ فَاَثَابَكُمْ غَمًّۢا بِغَمٍّ { FR 2914 } جنگ حنین میں صرف اتنی ہی کوتاہی تو ہو گئی تھی‘ کہ مسلمانوںکو اپنی کثرت پر ناز ہو گیا تھا۔ قانون فطرت نے اس کی سزا یہ دی کہ مشرکین کے مقابلہ میں ان کے پاؤں اکھاڑ دئیے۔ وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ۰ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُّدْبِرِيْنَo { FR 2915 } جو خدا ایسے بے لاگ قانون کے ساتھ اس کائنات پر حکومت کر رہا ہے اگر اس سے آپ یہ توقع رکھتے ہیںکہ اہلِ ایمان کی صفات سے عاری ہونے کے بعد بھی وہ آپ کی حمایت کرے گا اور ان مشرکین کے مقابلہ میں آپ کو ثابت قدمی بخشے گا جو اس کے قانون طبیعی کی شرائط آپ سے زیادہ بہتر طریقہ پر پوری کر رہے ہیں، تو میں آپ کی خدمت میں صرف اتنا ہی عرض کروں گاکہ آپ عقل سلیم اور علم قرآن دونوں سے محروم ہیں۔
خ خ خ
حصہ سوم : کانگریس، متحدہ قومی تحریک اور مسلمان
پچھلے دو حصوں میں جو مضامین دیے گئے ہیں انہوں نے متحدہ ہندستان کے طول و عرض میں ایک ہلچل مچا دی‘ اور مسلمانوں کو ایک نئے طرز پر سوچنے کی دعوت دی۔ اس سے بجا طور پر اس امر کی پیاس پیدا ہوئی کہ رائج الوقت تحریکات کاتفصیلی جائزہ لیا جائے‘ اور مسلمانوں کو جو راستہ دکھایا جا رہاتھا اس پر مسلسل تنقید کرکے بتایا جائے‘ کہ متحدہ قومیّت کی راہ کتنی غلط اور تباہ کن تھی۔ نیز یہ بھی بتایاجائے کہ ہندستان کے سیاسی مسئلہ کے مختلف حل کیا ہو سکتے ہیں‘ اور ان میں مسلمانوں کے لیے نفع بخش راہ کون سی ہے۔ یہ مضامین ۱۹۳۸ء میں لکھے گئے‘ اور متحدہ قومیّت کی تحریک سے مسلمانوںکو کاٹنے اور حکومتِ الٰہیہ کی ضرورت کا احساس پیدا کرنے میں غیر معمولی طور پر مفید و مؤثر ہوئے۔ یہ مضامین مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش حصہ دوم کی شکل میں بار بار چھپ چکے ہیں۔ (مرتب)
تقدیم
کسی قوم کے لیے اس وقت سے زیادہ پریشانی و سراسیمگی کا اور کوئی وقت نہیںہوتا جب وہ دیکھتی ہے‘ کہ اس کے گرد و پیش سارا ماحول اس کے خلاف بدل گیا ہے، زندگی کے کارخانہ کو چلانے والی تمام طاقتیں ان اصول اور ان مناہج کے خلاف چل رہی ہیں‘ جن پر اعتقاداً و عملاً اس کے وجود قومی کی اساس قائم ہے، اور وہ اس درخت کی طرح ہو کر رہ گئی ہے‘ جس کے لیے زمین، ہوا، پانی، موسم، سب کے سب ناموافق و ناساز گار ہو گئے ہوں۔ بد قسمتی سے آج ہم ہندستان کے مسلمان اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ ڈیڑھ صدی سے زیادہ مدت ہم پر اسی حالت میں گزر گئی ہے،ا ور روز بروز یہ حالت شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔ ہندستان کی کسی دوسری قوم کو یہ پریشانی نہیں آئی۔ اس لیے دوسرے لوگ اس الجھن کو بآسانی نہیں سمجھ سکتے‘ جس میں ہم مبتلا ہیں۔ ان کے لیے ہر بدلی ہوئی صورت کے مطابق بدل جانا اور اپنی ہیئت کو ہر سانچے میں ڈھال لینا سہل ہے۔ ان کے اعتقادات اور اصولِ حیات ان کے وجود سے الگ ایک چیز ہیں‘ جن کے بدل جانے اور سرا سر الٹ جانے کے بعد بھی ان کا وجود جوں کا توں رہتا ہے۔ لیکن ہمارے اعتقادات اور اصول حیات عین ہمارا وجود ہیں، اور ان کے بدل جانے کے معنی یہ ہیں‘ کہ ہم ہم نہ رہے۔ یہی وجہ ہے‘ کہ جب سے ہندوستان کے حالات نے پلٹا کھایا ہے ہم ایک الجھن میں مبتلا ہیں، اور یہ الجھن بڑھتی جا رہی ہے، کیونکہ ہمارے گردو پیش ایک ایسا ڈھانچہ بن گیا ہے‘ اور بنتا جا رہا ہے‘ جس میں ہم کسی طرح ٹھیک نہیں بیٹھتے۔
انگریزی حکومت جب ہندوستان پر مسلط ہوئی تو اس کے ساتھ ہی ہمارے ماحول میں ایک ہمہ گیر تغیّر رونما ہونا شروع ہو گیا۔ ہم صرف مقام عزت و اقتدار ہی سے گرا نہیں دئیے گئے بلکہ ایک غیر مسلم غلبہ و استیلاء کا یہ نتیجہ روز بروز زیادہ شدّت کے ساتھ ہمارے سامنے آنے لگا کہ ہمارے گرد و پیش افکار، نظریات، اصول اخلاق، طرز تمدّن، معیار تہذیب، قوانینِ معاشرت و معیشت، نظامِ حکومت و سیاست،، غرض ایک دنیا کی دنیا بدلتی جا رہی ہے‘ اور اس کی ہر چیز ہمارے اجتماعی مزاج اور ہماری قومی طبیعت کے بالکل خلاف ہوتی جاتی ہے۔
اول اوّل ہم نے کوشش کی کہ پتھر کی ایک چٹان بن کر تغیّر و انقلاب کی اس رو کے مقابلہ میں ڈٹ جائیں۔ اس سے زیادہ اور کچھ کرنے کے ہم اہل بھی نہ تھے۔ صدیوں کے جمود نے ہم میں اتنی صلاحیّت ہی باقی نہ رہنے دی تھی‘ کہ ہم اس انقلاب کی حقیقت کو سمجھ سکتے، اور نہ اتنی طاقت باقی چھوڑی تھی‘ کہ سوچ سمجھ کر ان تدابیر کو عمل میں لاتے جو کسی انقلاب کے مقابلہ میں اختیار کرنی چاہئیں۔ اتنی صلاحیّت اور طاقت ہم میں ہوتی‘ تو یہ انقلاب رونما ہی کیوں ہوتا؟
ایک صدی تک خوب پسنے اور مادّی و اخلاقی حیثیت سے تباہ ہو جانے کے بعد یہ راز ہم پر کھلا کہ تغیّرات ِزمانہ کے سیلاب کا مقابلہ جامد چٹان بن کر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بعد ہمارے دانش مندوں نے ہمیں ایک اور پالیسی کی تلقین کی‘ اور وہ یہ تھی‘ کہ :
زمانہ باتو نسازد تو بازمانہ بساز{ FR 2917 }
ہم نے کہا کہ آؤ اسی کو آزما دیکھیں، شاید اپنے آپ کو کچھ بدل کر ہم اس نئے ڈھانچہ میں ٹھیک بیٹھ سکیں۔ چنانچہ ہم نے پہلے مغربی تعلیم کی طرف توجہ کی‘ اور اپنے آپ کو زمانے کی رو کے ساتھ بہنے کے لیے تیار کیا۔ پھر غیر مسلم حکومت کی بارگاہ میں درخور حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ اپنی کھوئی ہوئی مادّی طاقتوں میں سے کم از کم ایک معتدبہ حصہ بازیافت کر لیں۔ پھر اپنے ملک کے جدید سیاسی تغیّرات سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کی کہ زمانہ کا یہ سیلاب جس طرف جا رہا ہے اسی طرف سب کے ساتھ ہم بھی جائیں۔
یہ تغیّرات جو ہم نے اپنی پوزیشن میں کیے، ان سب میں ہمارے پیشِ نظریہ مسلک رہا کہ اپنی خودی کا تحفظ بھی کرو اور زمانے کے ساتھ بھی چلو۔ لیکن ستر برس کے تجربے پر ایک غائر نگاہ ڈال کر دیکھئے، کیا اس زمانہ سازی کے دور میں ہم اپنی خودی کو محفوظ رکھ سکے ہیں؟ واقعات کی ناقابلِ تردید شہادت ہے‘ کہ ایسا نہیںہوا، اور عقل اس کو محال کہتی ہے‘ کہ کبھی ایسا ہو سکتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ چوکھونٹے سانچے میں آپ ٹھیک بھی بیٹھیں اور اپنی ہیئت کی گولائی کو تبدیل بھی نہ کریں۔ دریا کے رخ پر بہیں بھی اور اپنی جگہ پر قائم بھی رہیں۔ یہ دو باتیں بالکل متضاد ہیں‘ اور ان کو جمع کرنا صریح عقل کے خلاف ہے۔
مغربی تعلیم کے تجربے سے کیا ثابت ہوا؟ یہ کہ جو ماحول ہم پر مسلط ہے اس میں سے ایک عنصر یعنی ’’تعلیم‘‘ کو ہم دوسرے عناصر سے الگ کرکے نہیں لے سکتے۔ دوسرے عناصر جن کے ساتھ اس عنصر کا غیر منفک رابطہ ہے، خود بخود اس کے ساتھ آتے ہیں۔ زندگی کا ایک اور نقطۂ نظر، اخلاق کے کچھ دوسرے اصول، اشیاء کی قدرو قیمت متعین کرنے کا ایک مختلف معیار، متمدّن زندگی کے کچھ نرالے ڈھنگ، جو سب کے سب اسلام سے بالکل بیگانہ ہیں، اس ایک چیز کو قبول کرتے ہی خواندہ و ناخواندہ آنے شروع ہو جاتے ہیں، اور ان سب کے جمع ہو جانے سے مسلمان خود بخودا مسلمان بنتا چلا جاتاہے۔
سرکار فرنگ کے دربار میں پہنچ کر ہمیںکیا سبق ملا؟ یہ کہ دین، ایمان، اخلاق، تہذیب تمدّن سب کچھ ایک روٹی کے عوض دے دو اور روٹی بھی پیٹ بھر نہ ملے۔ اپنی خودی کو قربان کیے بغیر وہاں سے تم کچھ نہیں پا سکتے۔ اور اس قربانی کے بعد بھی تمہاری حیثیت ایک خادم سے بڑھ کر نہیں ہوتی جو ایک متاع حقیر کی طرح آقا کے مفاد پر بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔
سیاسیات میں زمانہ سازی کا پھل کیا ملا؟ یہ کہ تمام سیاسی تغیّرات جو اب تک ہوئے اور آئندہ ہونے و الے ہیں، ہمارے نظریاتِ عمرانی کے بالکل خلاف اور خداوند انِ فرنگ کے نظریاتِ عمرانی کے عین مطابق ہیں۔ ان کا نظریہ قومیّت، ان کے اصولِ جمہوریت، ان کے تصوّرات حکومت و سلطنت، انہی چیزوں پر تمام جدید تغیّرات کی بنا رکھی گئی ہے‘ اور ہمارے لیے ایسے تغیّرات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کے معنی اپنے وجود کو ایک دوسرے وجود میں بالکل تحلیل کر دینے کے ہیں۔
ان تجربات کے بعد اب ضرورت ہے‘ کہ ہم اپنی دوسری پالیسی پر بھی نظر ثانی کریں۔ پہلی پالیسی قریب قریب سو برس کے تجربہ سے غلط ثابت ہوئی اور اسے بدلنا پڑا۔ دوسری پالیسی کو ستر برس کے تجربے نے غلط اور غلط ہی نہیں مہلک ثابت کر دیا۔ اس کو بھی بدلنا اور بہت جلدی بدل ڈالنا چاہیے۔ اب ہمارے لیے صرف تیسری پالیسی باقی رہ گئی ہے‘ اور وہ یہ ہے‘ کہ :
زمانہ باتو نسازدو تو باز مانہ ستیز{ FR 2918 }
جو ڈھانچہ تمہارے گردو پیش چھا گیا ہے اس سے تم الگ بھی نہیں رہ سکتے، اور اس میں اپنی خودی قربان کیے بغیر ٹھیک بھی نہیں بیٹھ سکتے، لہٰذا آؤ اب مردوں کی طرح لڑ کر اس ڈھانچے کو توڑ ڈالو اور اسے مجبور کرو کہ تمہاری ہیئت کے مطابق بنے۔ جس سیلاب میں تم گِھر گئے ہو اس کے ساتھ بہنے میں تمہارا وجود نمک کی طرح تحلیل ہوا جاتا ہے، اور اس کے مقابلہ میں جامد چٹان بن کر تم اپنی جگہ جم بھی نہیں سکتے، لہٰذا آؤ، اب بہادروں کی طرح اُٹھ کر اس سیلاب کا رخ پھیر دو اور اسے اس رخ پر بہنے کے لیے مجبور کرو جو تمہاری فطرت مسلمہ کے مقتضاء سے مطابقت رکھتا ہو۔ ہو سکتا ہے‘ کہ تمہیں اس میں کامیابی نہ ہو۔ بہت ممکن ہے‘ کہ تم خود ہی اس لڑائی میں ہلاک ہو جاؤ۔ مگر بکری کی زندگی کے سو برس سے شیر کی زندگی کا ایک دن بہرحال زیادہ قیمتی ہے۔
یہی انقلابی ذہنیت ہے‘ جسے میں اب مسلمانوں میں، خصوصاً ان کے نوجوانوں میں پیدا کرنا چاہتا ہوں۔انقلابی ذہنیت یکایک پیدا نہیںہوتی۔ زمانہ کی سخت ٹھوکریں کھا کھا کر آہستہ آہستہ دماغ درستی پر آتا ہے‘ اور ان ٹھوکروں کے ساتھ آہستہ آہستہ انقلابی ذہنیت اس کے اندر اترتی ہے۔ا س دوران میں آدمی کو بڑے سخت مرحلوں سے گزرنا پڑتاہے۔ باہر والوں سے پہلے گھر والوں سے لڑائی اور لڑائی بھی چومکھی لڑائی لڑنی پڑتی ہے۔ قدیم پالیسی جن دماغوں میں گہری جمی ہوئی ہوتی ہے وہ انقلاب کی دعوت سن کر اوّل تو اس کا مفہوم و مدعا ہی نہیں سمجھ سکتے۔ پھر کچھ کچھ سمجھتے بھی ہیں‘ تو اسے اپنے عادی تصوّرات کے خلاف پا کر مشتعل ہو جاتے ہیں۔ کوئی سمجھتا ہے‘ کہ یہ کوئی نیا دوکان دار آیا ہے‘ جو ہماری پرانی جمی ہوئی دوکانوں کے مقابلے میں اپنی دوکان جمانے کے لیے یہ باتیں کر رہا ہے۔ کوئی خیال کرتا ہے‘ کہ یہ کوئی گہری سازش ہے‘ جسے دشمنوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ تیار کیا ہے۔ کوئی تیوری بدل کر کہتا ہے‘ کہ جن لوگوں نے اپنے بال قومی خدمت میں سفید کیے ہیں ان کے مقابلہ میں نو خیز طفل مکتب ہو کر تمہیں زبان کھولتے شرم نہیں آتی۔ کوئی آواز کستاہے‘ کہ مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۰ۙ يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ۰ۭ { FR 2919 } اور کوئی نہنگ سال خوردہ سیلاب کے ساتھ بہتے ہوئے ایک پرستانہ نگاہ اس رو کے خلاف تیرنے والی مچھلی پر ڈالتا ہے‘ اور بس یہ کہہ کر آگے بہہ نکلتا ہے‘ کہ اس نے کوئی نئی بات نہیں کہی، ہم بھی پہلے کہہ چکے ہیں۔
پھر پرانے خیالات کی ایک دنیا ہوتی ہے‘ جسے انقلاب کے داعی کو توڑنا پھوڑنا ہوتا ہے‘ اور نئے خیالات کی ایک دنیا ہوتی ہے‘ جو اسے بنانی پڑتی ہے۔ لوگ پرانے خیالات سے ہٹ نہیں سکتے‘ جب تک کہ نہایت مضبوط دلائل کے ساتھ تنقید کرکے ان کی بنیادیںنہ ہلا دی جائیں۔ اور نئے خیالات قبول نہیں کر سکتے‘ جب تک کہ تعمیری افکار کو حکمت عملی کے ساتھ پیش کرکے انہیں قابلِ قبول نہ بنا دیا جائے‘ اور معقول دلائل کے ساتھ انہیں مطمئن نہ کر دیا جائے‘ کہ اس مضبوط ڈھانچے کو جس کی گرفت میں طوعاً یا کراہاً آگئے ہو، یوں توڑاجا سکتاہے‘ اور اس کی جگہ یہ ڈھانچہ بنانے کی ضرورت ہے‘ جس میں تم ٹھیک بیٹھ سکتے ہو، اور یہ دوسرا ڈھانچہ اس طرح بننا ممکن ہے۔ اس کام میں تخریبی تنقید اور جدید تعمیر دونوں ساتھ ساتھ کرنی پڑتی ہیں۔ جب تک یہ دونوں کام تکمیل کے قریب نہیں پہنچ جاتے، غلط فہمیوں، بد گمانیوں اور پریشان خیالیوں کا ایک گہرا غبار ہر طرف چھایا رہتا ہے‘ جس کی وجہ سے پرانے خیالات کے معتقدین اورجدید و قدیم کے درمیان بھٹکنے والے مذبذبین کے انبوہِ کثیر کو انقلابی نصب العین کا نقطہ صاف نظر نہیں آسکتا کہ وہ اس پر جمع ہو سکیں، اور جب تک یہ نقطہ واضح ہو کر اس قابل نہیں بن جاتا کہ قوم کی عملی قوتیں اس پر مجتمع ہوں اس وقت تک عملی جدوجہد کی راہ میںکوئی قدم آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پس یوں سمجھئے کہ ابتدائً سب سے بڑا عمل یہی ہے‘ کہ قدیم خیالات کا طِلسّم پیہم ضربوں سے توڑا جائے‘ اور جدید خیالات کے لیے راہ صاف کی جائے۔
تخریبی تنقید کے مرحلے میں ایک بڑی مشکل یہ پیش آتی ہے‘ کہ قدیم پالیسی کی غلطیاں اور مضرتیں ثابت کرنے کے لیے اس پالیسی پر چلنے اور چلانے والوں کو تنقید کا ہدف بنائے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔ اور یہ ایسا کام ہے‘ کہ جسے دل پر پتھر رکھ کر انجام دینا پڑتا ہے۔ا س میں آدمی کو بہت سی دوستیوں، بہت سی محبتوں، بہت سے پرانے تعلقات کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اور بہت سے ان بزرگوںکی ناراضی مول لینا ہوتی ہے‘ جن کا وہ تمام عمر احترام کرتا رہا ہے۔ اور جن کی بزرگی کے احترام سے اس کا دل کبھی خالی نہیں ہوتا۔ اس میں آدمی کو اس امر کا بھی اندیشہ ہوتا ہے‘ کہ کہیں تنقید کی شدّت سے وہ جواب میں ضد نہ پیدا کر دے، اور کہیں جوابی حملے خود اس کے ذہنی توازن کو نہ بگاڑ دیں۔ غرض اس خارزار سے اس کو بہت ہی سنبھل کر گزرنا پڑتا ہے‘ اور ہر وقت اپنے اعصاب کی بندش چست رکھنی ہوتی ہے۔
انقلابی ذہنیت پیدا کرنے کے لیے تدریج کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ لوگوں کی قوّت تحمل سے زیادہ خوراک دینا بھی مہلک ہے‘ اور جتنی خوراک کی طلب ان میں پیدا ہو چکی ہو اس سے کم دنیا بھی برے نتائج پیدا کرتا ہے۔ یہاں قدم قدم پر آدمی کی قوّت فیصلہ کا سخت امتحان ہوتا ہے،ا ور صرف خدا ہی کی مدد اس کو حالات کا صحیح اندازہ کرنے اور ٹھیک وقت پر ٹھیک قدم اٹھانے کی طاقت بخش سکتی ہے۔
میں اپنی کمزوریوں سے خوب واقف ہوں، اور انہی کمزوریوں کا احساس ہے‘ جو مجھے ہر وقت مجبور کرتا ہے‘ کہ میں خداوند عالم سے علمِ صحیح اور عقلِ سلیم کے لیے دعا کروں۔ محض فرض کی پکارنے مجھے مجبور کر کے اس کام پر آمادہ کیا ہے‘ جس کے دشوار گزار مرحلوں کو دیکھ کر ایک طرف اور اپنی کمزوریوں کو دیکھ کر دوسری طرف، میری روح لرز اٹھتی ہے۔ بہرحال محض خدا کے بھروسے پر میں نے اس میدان میں قدم رکھ دیا ہے‘ اور ان تمام حکمتوں کو پیشِ نظر رکھ کر جن کی طرف اوپر اشارہ کر چکا ہوں، اپنے انقلابی مشن کی تبلیغ شروع کر دی ہے۔
پچھلے دو حصوں میں جو مضامین پیش کیے گئے ان کو مرتب کرتے وقت میں نے خاص طور پر اس بات کو ملحوظ رکھا تھا‘ کہ ابھی محض لوگوں کو چونکانے اور ان کے دماغوں کو انقلابی تصوّرات کے لیے تیار کرنے کی ضرورت ہے، اس سے زیادہ کے وہ متحمل نہیں ہو سکتے، اس لیے میں نے مسلمانوں کی پچھلی تاریخ، ان کے موجودہ حالات اور ان کے گردوپیش کام کرنے والی قوتوں کے رجحانات پر ایک سرسری تبصرہ کرتے ہوئے یہ بتانے پر اکتفا کیا تھا‘ کہ تمہارے اندر کیا کمزوریاں ہیں، اور باہر سے کس قسم کے خطرات تم کو گھیرے ہوئے ہیں‘ اور تمہاری تہذیب کی فطرت سے تمہارے ماحول کی طاقتیں کس طرح متصادم ہو رہی ہیں۔ اس تبصرے کے ساتھ میں نے جدید انقلابی نصب العین کی طرف محض چند اشارات کیے تھے‘ اور انہیں قصداً زیادہ واضح نہیں کیا تھا تاکہ اچانک ایک نرالی آواز سن کر طبائع آمادئہ بغاوت نہ ہو جائیں۔
اب اس حصہ میں، میں ایک قدم اور بڑھا رہا ہوں۔ اب میں نے زیادہ وضاحت کے ساتھ ہندستان کے موجودہ سیاسی نظام اور اس کی بنیادوں کا تجزیہ کیا ہے‘ اور ایک ایک مقام پر انگلی رکھ کر بتایا ہے‘ کہ یہاں مسلمانوں کے لیے ہلاکت ہے،ا ور یہاں ان کے لیے نقصان ہے، اور یہ چیزیں ان کے مزاج قومی کے منافی ہیں۔ یہ ان لوگوں کا جواب ہے جنہوں نے یہ غلط فہمی پھیلا رکھی ہے‘ کہ مسلمانوں کو محض خیالی خطرات سے ڈرایا جا رہا ہے۔ اس کے بعد میں نے مسلمانوں کے ان رہنماؤں کی پالیسی پر تنقید کی ہے‘ جو اب تک ’’زمانہ باتو نسازد تو بازمانہ بساز‘‘ کے مسلک پر چلے جا رہے ہیں۔ جس قدر دلائل و شواہد میں فراہم کر سکتا تھا ان سب سے کام لے کر میں نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے‘ کہ یہ پورا نظامِ حکومت و سیاست جو ہم پر مسلط ہے اپنے اصول و فروع سمیت ان اصولوں سے متصادم ہو رہا ہے‘ جن پر ہماری قومی زندگی کی بنا قائم ہے، اور اس نظام کو انہی بنیادوں پر قائم رکھ کر اپنے آپ کو جوں کا توں یا کسی قدر تحفظ کے ساتھ اس میں فٹ کرنے کی کوشش کرنا سراسر ایک غیر دانش مندانہ طریق کار ہے،ا ور مسلمان اس طریق کار سے ہرگز، کسی فلاح کی، اور فلاح کیا معنی، اپنی بقا کی بھی اُمید نہیں کر سکتے۔ اس بحث سے میرا واضح مقصد یہ ہے‘ کہ خیالات، مقاصد اور پالیسیوں میں جو اشتباہ و التباس اور الجھاؤ اس وقت پایا جا رہا ہے اسے ختم کر دیا جائے، جو مختلف اور متضاد راستے اس وقت خلط ملط اور گڈ مڈ ہو گئے ہیں ان کو الگ الگ کرکے دین قیم کی راہ اور طاغوت کی راہ کو بالکل ایک دوسرے سے ممیز کر دیا جائے‘ اور لوگوں کو مجبور کر دیا جائے‘ کہ دونوں میں سے کسی ایک ہی راستہ کو اپنے لیے منتخب کریں۔ جو وطن پرست ہیں‘ اور ایک ہندستانی قومیّت میں جذب ہونا چاہتے ہیں وہ علی وجہ البصیرت اور علی رؤس الاشہاد اس راستے پر جائیں‘ اور یہ سمجھ کر جائیں کہ یہ راستہ اسلام کے راستہ کے خلاف جا رہا ہے‘ اور جو مسلمان ہیں‘ اور مسلمان رہنا چاہتے ہیں وہ قوم پرستی اور نیشنلزم کا نام لینا چھوڑ دیں اور اس تحریک سے الگ ہو جائیں جو اسلامی قومیّت کو وطنی قومیّت میں تحلیل کرنا چاہتی ہے۔ مختصر الفاظ میں یوں سمجھئے کہ میں ان لوگوں کے موقف کو ناممکن الوقوف بنا دینا چاہتا ہوں‘ جو بیک وقت دو کشتیوں میں پاؤں رکھنا چاہتے ہیں‘ اور نہیں سمجھتے کہ یہ مخالف سمتوں میں جانے والی کشتیاں ہیں۔ سب سے آخر میں میں نے زیادہ وضاحت کے ساتھ یہ بتایا ہے‘ کہ ہمارے لیے اب صحیح قومی پالیسی کیا ہے ا ور اس کو کس طرح عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ اس میں ان لوگوں کو پورا جواب مل جائے گا جو اس غلط خیال میں خرص و تخمین کے تِیر تُکے چلا رہے ہیں‘ کہ میرے پاس صرف سلب ہی سلب ہے، اثبات و ایجاب نہیں ہے۔
خ خ خ
باب ۸: مسلمانوں کی غلط نمائندگی اوراس کے نتائج
یہ سوال کہ ہندستان کے مسلمان کیوں بے چین اور غیر مطمئن ہیں، اور کیوں اپنے ملک کی اس سیاسی جدوجہد میں، جس کو ’’جنگِ آزادی‘‘ کہا جاتاہے، اپنے شایان شان حصہ نہیں لیتے، ایک ایسا معمہ بن گیا ہے‘ جسے سمجھنا صرف غیر مسلموں ہی کے لیے نہیں، بلکہ خود بہت سے مسلمانوں کے لیے بھی دشوار ہو گیا ہے۔ مسلمانوں کی حالت اس وقت اس شیر خوار بچے کی سی ہے‘ جو اپنی تکلیف پر روتا اور تڑپتا ہے، مگر ٹھیک ٹھیک یہ نہیںبتا سکتا کہ اس کوتکلیف کیا ہے‘ جس پر وہ رو اور تڑپ رہا ہے۔ حتیٰ کہ بسا اوقات غیر تو غیر، خود اس کی اپنی ماں کو یہ شبہ ہونے لگتا ہے‘ کہ اسے فی الواقع کوئی شکایت نہیں، محض ضد چڑھ گئی ہے۔ اس وقت ضرورت تھی‘ کہ مسلمان قوم کے ذہن کو ٹھیک ٹھیک پڑھ کر اس کی بے چینی اور بے اطمینانی کے حقیقی اسباب دریافت کیے جاتے، اس اصل مسئلے کو واضح اور منقح صورت میںپیش کیا جاتا جو ہندوستانی مسلم قوم کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے‘ اور یہ بتایا جاتاہے‘ کہ ہندوستان کا مسلمان فی الواقع چاہتا کیا ہے۔ نیز مسلمان کے نقطۂ نظر سے ہندوستان کے موجود حالات اور مستقبل کے رجحانات کا تجزیہ کرکے صاف صاف بیان کر دیا جاتاہے‘ کہ کس طرح یہاں ایسا ماحول پیدا ہو رہا ہے‘ اور ہوتا جا رہا ہے‘ جس کو مسلمان اپنی قومی زندگی کے لیے مہلک سمجھتا ہے۔ صرف یہی ایک صورت تھی جس سے مسلمانوں کی اپنی پراگندہ خیالی، اور غیر مسلموں کی حیرانی، بدگمانی اور بدتدبیری کا خاتمہ ہو سکتا تھا۔ بعض غیر مسلموںنے اس ضرورت کو محسوس کیا اور اس معمے کو سمجھنے اور مسلمانوںکے ذہن کو پڑھنے کی کوشش بھی کی مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے‘ اور نہ ہو سکے۔ یہ کام دراصل ایسے لوگوں کے کرنے کا ہے‘ جن کے احساسات جمہور مسلمین کے احساسات سے متحد الاصل ہیں‘اور اس کے ساتھ جن میں یہ قوّت بھی ہے‘ کہ اپنے اندر جو کچھ محسوس کر یں اس کی واضح تصویر خارج میں کھینچ کر رکھ دیں۔
مسلمانوں کے صاحبِ علم و صاحب ِفکر لوگوں نے اس باب میں جس غفلت سے کام لیا ہے اس کا نتیجہ ہم یہ دیکھ رہے ہیںکہ یہ مسئلہ بالکل نا اہل اور نا قابلِ اعتماد لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن گیا ہے‘ اور انہوں نے اس کو نہایت غلط طریقوں سے پیش کرکے دوسروں ہی کو نہیں، خود اپنی قوم کو بھی پریشان خیالیوں اور غلط فہمیوں میں مبتلا کر دیا ہے۔
ان میں سے ایک بڑی جماعت تو اسلام کا صحیح علم ہی نہیں رکھتی،اور نہ اس حقیقت کو سمجھ سکتی ہے‘ کہ مغربی علوم کے فروغ، غیر مسلم حکومت کے اقتدار، ا ور اب جدید نیشنل ازم کے بڑھتے ہوئے سیلاب سے مسلم قوم کے لیے فی الواقع کون سا بنیادی سوال پیدا ہو گیا ہے۔ یہی لوگ بغیر سمجھے بوجھے، محض چند سطحی اور حقیر سے جزئیات کو مسلمانوں کے قومی مسائل بنا کر پیش کرتے ہیں، اور ان پر مناسب حد سے زیادہ زور دے کر اپنی پوزیشن کو اور زیادہ مضحکہ خیز بنا دیتے ہیں۔ اس سے ہوشیار لوگوں کو یہ خیال پھیلانے کا اچھا موقع مل جاتا ہے‘ کہ مسلمانوں کا قومی مسئلہ چند بہت ہی چھوٹی چھوٹی باتوں سے مرکب ہے‘ جن کو محض جہالت، تنگ نظری اور نادانی کی وجہ سے اتنی اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔
ایک دوسری جماعت جس نے اس مسئلہ کی حمایت میں اپنے آپ کو بہت نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے، انگریزی سلطنت کے وفا دار غلاموں پر مشتمل ہے، اور ان کا فائدہ اسی میں ہے‘ کہ اصل مسئلہ کو فروعات میں گم کر دیا جائے‘ تاکہ مسلمان فضول چیزوں پر لڑکر اپنی قوّت ضائع کرتے رہیں‘ اور ان کی جان و مال کے خرچ پر سرکار برطانیہ کا کام بنتا رہے۔ان حضرات کی مداخلت سے اس مسئلہ کی عزت و وقعت اور بھی زیادہ کم ہو گئی ہے‘ اور مخالف گروہ کے چالاک لوگوں کو یہ مشہور کرنے کا بہت اچھا بہانہ ہاتھ آگیا ہے‘ کہ درحقیقت مسلمانوںکے قومی مسئلہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، یہ تو محض امپیریلسٹ پالیسی کاایک شاخسانہ ہے، اور صرف ٹوڈیوں، رجعت پسندوں اور سرکار پرستوں ہی کی اغراض نے اسے پیدا کیا ہے۔
ان دونوںگروہوں کی بدولت جو نقصان ہمارے مقدّمہ کو پہنچا ہے، اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے‘ کہ غیر تو غیر خود مسلمان بھی اب اس دھوکہ میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں‘ کہ درحقیقت ہمارا کوئی قومی مسئلہ نہیں ہے‘ اور اگر ہے بھی تو وہ ایسا اہم نہیں کہ آزادی وطن سے بڑھ کر ہم کو اس کی فکر ہو۔ چنانچہ مسلمانوں کے اپنے آدمیوں کی زبانوں پر اب وہی باتیں آنے لگی ہیں‘ جو کل تک غیر اخباروں اور لیڈروں کی زبان و قلم پر تھیں۔ یعنی مسلم مفاد کا نام لینا رجعت پسندی‘ اور ٹوڈیت اور فرقہ پرستی ہے۔ یہ جادو عوام سے گزر کر علماء پر بھی چڑھ رہا ہے‘ اور وہ لوگ اس سے متاثر ہو رہے ہیں‘ جن کا اصلی فرض یہ تھا‘ کہ جانشینانِ رسول ہونے کی حیثیت سے اس مسئلہ کو سمجھتے اور سمجھاتے اور جانشینانِ رسول ہونے کی حیثیت ہی سے اس کو حل کرنے کی کوشش کرتے۔ اب اگر ہماری قوم کے وہ چند اربابِ فکر جو حقیقت کو سمجھتے ہیںاور سمجھانے کی بھی اہلیت رکھتے ہیں‘ اور جن کا ذہن ابھی تک بیرونی اثرات سے آزاد ہے، مُہرِ خاموشی نہ توڑیں گے‘ اور صاف صاف حقیقت کو بیان نہ کریں گے‘ تو یقینا زمانے کی دو تین گردشیں بھی نہ گزرنے پائیں گی کہ مسلمانوں کی پوری قوم فریب میں مبتلا ہو جائے گی۔ اس میں شک نہیں کہ اب مسلمانوں کے مفاد کا نام لینا اپنے آپ کو بڑے خطرے میں ڈالنا ہے۔ کیونکہ اب غیروں ہی سے نہیں، خود اپنے بھائیوں سے بھی ایسے شخص کو گالیاں سننی پڑتی ہیں۔ اور انسان کے لیے غیروں کی گالیوں سے بدرجہا زیادہ دل شکن ان لوگوں کی گالیاں ہوتی ہیںجن کی بھلائی کے لیے وہ کام کرتا ہے۔ لیکن خواہ نتائج کیسے ہی تلخ ہوں، جن لوگوں کو اپنی قوم کا مفاد عزیز ہے، انہیںہر برے سے برے نتیجہ کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے‘ اور کم از کم تذکیر کا فرض بجا لانے سے ہرگز منہ نہ موڑنا چاہیے۔
اس کو مسلمانوں کی بد نصیبی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے‘ کہ وہ لوگ جو سب سے بڑھ کر ان کے قومی مزاج کو سمجھنے والے اور ان کے جذبات و داعیات کا صحیح حال جاننے والے اور ان کے قلب و روح کی سچی نمائندگی کرنے والے ہو سکتے تھے، اور جن سے یہ توقع کی جا سکتی تھی‘ کہ اس قوم کی حقیقی مشکلات کو سمجھ کر کوئی کارگر تدبیر اور علاج تجویز کریں گے، آج وہ بھی زمانہ کے غالب اثرات کی رو میں بہتے جا رہے ہیں، اور نادانستہ ان کی زبانوں سے وہ باتیں نکل رہیں ہیںجو کل تک زیادہ کھلے الزامات کی صورت میں غیروں کی زبان سے نکلا کرتی تھیں۔ مثال کے طور پر میں اس تقریر کا اقتباس نقل کرتا ہوںجو ابھی حال میں مولانا سیّد سلیمان ندوی نے مدراس میں ارشاد فرمائی ہے۔{ FR 2920 }مولانا کے علم و فضل، ان کی صداقت، ان کے تفکر و تدبر کا جیسا معترف میں ہمیشہ تھا ایسا ہی آج بھی ہوں، اور ان کی تقریر کا اقتباس نقل کرنے سے میرا مدعا ان کی ذات گرامی پر کوئی حرف لانا نہیں ہے۔ بلکہ دراصل میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وقت کے غالب خیالات نے ہماری قوم کے اتنے بڑے صاحب ِفکر و بالغ النظر عالم پر بھی کیا اثر کیا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں :
اس وقت تین ہی صورتیں ہیں۔ یا تو مسلمان اپنے گھروں کے دروازے بند کرکے بیٹھ رہیں‘ اور جب آزادی کی جنگ ختم ہو جائے‘ تو اپنے دروازے کھول کر باہر نکلیں اور گلیوں میں آزادی کی بھیک مانگتے پھریں۔ یا یہ کہ اپنا کیمپ الگ لگائیں اور یہ دیکھتے رہیں کہ آزادی کی فوج اپنی قوّت بازو سے کب میدان جیتتی ہے‘ اور مال غنیمت پر قبضہ کرتی ہے۔ ا س وقت وہ آگے بڑھیں اور فاتح فوج سے مال غنیمت میں جھگڑا کریں۔ یا یہ کہ وہ آزادی کی فوج میں شامل ہو کر آزادی کے لیے ان کے دوش بدوش کھڑے ہو کر جنگ کریں‘ اور اپنے لیے اپنی عظیم الشان قومیّت کی پوزیشن کے مطابق اپنی کوششوں سے اپنی جگہ حاصل کریں۔ (انصاری، مورخہ ۳ رمضان ۱۳۵۶ھ)
غور کیجئے ! یہ ارشاد گرامی کن مفروضات کا نتیجہ ہے۔ ’’مسلمان جو کئی سال تک آزادی کی جنگ سے الگ رہے‘ اور اب بھی ٹھٹکے کھڑے ہیں، اس کی وجہ کچھ اور نہیں، محض بزدلی ہے، اور یہ قوم بزدل ہونے کے ساتھ کمینہ بھی ہے۔ جب آزادی کی فوج کے سورما سپاہی، جو ظاہر ہے اکثر و بیشتر غیر مسلم ہی ہیں، شیروں کی طرح شکار مار لیں گے، تو یہ جنگل کے ذلیل جانوروں کی طرح آکر حصہ لڑانے کی کوشش کرے گی‘‘۔ یہ ہے مسلمانوں کی وہ تصویر جو ان الفاظ سے ذہن سامع میںبنتی ہے، اور اس کے ساتھ غیر مسلموں کی عظمت و بزرگی کا کیسا مرعوب کن نقشہ ذہن کے سامنے آتا ہے‘ کہ گویا وہ شیرانِ بیشہ حریّت ہیں‘ جو تمام ہندوستان کے لیے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پھر یہ ’’جنگِ آزادی‘‘ کس قدر پاک، کیسی بے عیب اور کتنی بے لوث چیز فرض کی گئی ہے‘ کہ اس میں کسی لوث کا شبہ کرنا تو گویا ممکن ہی نہیں۔ ایسی پاک جنگ، ایسے مقدّس جہاد میں حصہ لینے سے مسلمانوں کا احتراز کرنا کسی معقول وجہ پر تو مبنی ہو ہی نہیں سکتا۔ اب بس یہ ایک ہی وجہ رہ جاتی ہے‘ کہ مسلمان بزدل، دوں ہمت اور کمینہ ہیں۔
ایک دوسرے بزرگ جن کے علم، تقویٰ اور دیانت کا ا حترام میرے دل میں ان کے کسی شاگرد اور مرید سے کم نہیںہے،ا پنے ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں :
جس طرح آزادی کے لیے جدوجہد کرنا ہندوستان کی دوسری قوموں پر واجب ہے، اسی طرح مسلمانوںپر بھی واجب ہے، بلکہ ان کے لیے اسباب وجوب بہ نسبت دیگر اقوامِ ہند کے چند در چند زائد ہیں۔ پس مسلمانوںکا دوسری اقوام سے پیچھے رہنا انتہائی شرمناک اور ذلیل امر ہے۔
(مولانا حسین احمدؒ کا مکتوب’’آفتاب‘‘ لکھنؤ، مورخہ ۱۵، اپریل ۱۹۳۸ء)
یہاں بھی وہی نظریہ کام کر رہا ہے۔ حقائق سے آنکھیں بند کرکے یہ تسلیم کر لیا گیا کہ ہندوستان کی موجودہ سیاسی جدوجہد فی الواقع خالص آزادی وطن کی جدوجہد ہے‘ اور اس مفروضہ پر یہ حکم لگا دیا گیا کہ اس جدوجہد میں شریک ہونا مسلمانوں پر واجب ہے، اور اس سے ان کا علیحدہ رہنا کسی معقول وجہ پر مبنی نہیںبلکہ ’’انتہائی شرم ناک اور ذلیل امر ہے‘‘۔
میرے ایک نہایت محترم بھائی جو علم و فضل کے ساتھ خلوص نیت کی نعمت سے بھی مالا مال ہیں‘ اور عصر حاضر کے مشہور مفسر قرآن مولانا حمید الدین فراہمیؒ کی جانشینی کا شرف رکھتے ہیں، اپنے ایک تازہ مضمون میں تحریر فرماتے ہیں:
یہ ساری تنظیم صرف اکثریت کے خطروں اور اندیشوں پر مبنی ہے۔ یہ اندیشے واقعی ہیں یا غیر واقعی؟ ہم تھوڑی دیر کے لیے تسلیم کر لیتے ہیںکہ واقعی ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ امر بھی ظاہر کر دینا چاہتے ہیں‘ کہ یہ تنظیم کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ انگریزوں کے ہاتھوں بالکل انہی نعروں اور انہی ہنگاموں کے ساتھ ۵۷ء کے بعد شروع ہو گئی تھی‘ اور ۱۸۸۵ء کے بعد سے تو ہندوستان میں کوئی انگریز حکمراں ایسا نہیں آیا۔ جس نے اکثریت کی چیرہ دستیوں سے بچاؤ کے لیے مسلمانوں کی تنظیم اپنی حکومت کی مسلمہ پالیسی نہ قرار دی ہو‘ اور یہ تنظیم اس تھوڑے سے وقفے کے سوا جو تحریکِ خلافت نے پیدا کر دیا تھا، پورے استحکام کے ساتھ باقی رہی ہے۔ اور ہم سے زیادہ ہمارے مہربان حکام نے ا س کی رضاعت و تربیت کی ذمّہ داریاں محسوس کی ہیں‘ اور جب تک موجودہ سیاسی ضروریات باقی ہیں‘ اور حالات کوئی نئی کروٹ نہیں بدلتے، کوئی وجہ نہیںکہ وہ اپنے اس عظیم الشان انسانی و سیاسی فرض سے جو بحیثیت ہمارے فرمانروا ہونے کے ان پر عائد ہوتا ہے بے پروا ہو جائیں گے۔ پس جو چیز بنی بنائی موجود اور پورے استحکام و قوّت کے ساتھ موجود ہے اس پر مزید چونے گارے کے اسراف کی کیا ضرورت ہے؟ اگر اکثریت آپ کے حصن حصین میں سرنگ لگانے کی فکر میں ہے‘ تو نصیب اعدا آپ کیوںاس درجہ مضطرب و سراسیمہ ہوں؟ جو بیدار مغز حکومت ایک لاکھ روپیہ سرحد پر روزانہ خرچ کرکے محض فرضی خطروں کا سد باب کرتی ہے کیا وہ اتنی بیہوش اور بے خرد ہو گئی ہے‘ کہ وہ اپنے حفظ و بقا کی ریڑھ کی ہڈی کو یونہی اعدا کے حملوں کا ہدف بننے کے لیے چھوڑ دے گی؟
(مولانا امین احسن اصلاحی، الاصلاح، سرائے میر، مورخہ جولائی ۱۹۳۸ء)
آگے چل کر مولانا فرماتے ہیں :
اگر آپ سچ مچ مسلمانوں کو منظم کرنا چاہتے ہیں‘ تو ان کو کسی اکثریت و اقلیت کے خطروں سے ڈرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف اللہ سے ڈرائیے۔
پھر ایک طویل بحث کے بعد آیات قرآنی سے استدلال کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ:
تمہارے سامنے بھی ہمت آزمائی اور عمل کا ایک میدان (یعنی یہی ’’آزادی کی جنگ‘‘) ہے، جس میں اگر داخل ہو جاؤ تو فتح مندی تمہارے ہی لیے ہے۔ لیکن اکثریت کے خوف اور اس کے سامان اور روپیہ کی کثرت نے تم کو سراسیمہ کر دیا ہے۔ اس لیے عزم و ہمت سے محروم ہو کر تم پست ہمتی کی خاک ِمذلت پر لوٹ رہے ہو۔(حوالہ مذکور)
دیکھے !یہاں خود ہماری قوم کا ایک اہلِ قلم ہمارے مقدّمہ کی کس قدر غلط ترجمانی کر رہا ہے۔ جس عینک سے پنڈت جواہر لال نہرو مسلمانوں کے معاملہ کو دیکھتے ہیں، ٹھیک وہی عینک خود ہمارے ایک بھائی نے اپنی آنکھوں پر لگا لی ہے،ا ور لطف یہ ہے‘ کہ یہاں اس عینک پر روسی کارخانے کے بجائے قرآنی رصد گاہ کا لیبل لگا ہوا ہے تاکہ مسلمان بے چارا بچاؤ کی کوئی راہ نہ پا سکے، دنیا سے تو گیا ہی تھا، دین کی عدالت سے بھی گمراہی کا فتویٰ سنے!
جس حکومت کی مہربانیوں کا اس قدر لطیف پیرایہ میں اوپر ذکر فرمایا گیا ہے، اس کی سب سے بڑی مہربانی ہمارے حال زار پر یہ ہے‘ کہ اس ٹے ڈیمو کریسی کے انگریزی اصول ہندوستان میں رائج کیے ہیں، جن کی رو سے دو مسلمانوں کے مقابلہ میں ۶غیرمسلموں کی رائے بہرحال صحیح ہے، اور حکومت ہمیشہ اسی رائے کے مطابق چلے گی‘ جو ڈیمو کریسی کے اس قاعدے کی بنا پر صحیح قرار پائے۔ مہربان سرکار کی لائی ہوئی اس نعمت کو آگے بڑھ کر وہ غیر مسلم قبول کر لیتے یں جو ’’ہمت آزمائی اور عمل‘‘ کے میدان میں دادِمردانگی دے رہے ہیں کیونکہ اس میں سرا سر انہی کی ’’فتح مندی‘‘ ہے۔ مسلمان اس پر ناک بھوں چڑھاتا ہے‘ تو وہی غیر مسلم اپنی ’’فتح مندانہ‘‘ پوزیشن رکھنے کے لیے مسلمان پر یہ الزام عائد کرتے ہیںکہ یہ سب کچھ انگریز کے اشارے سے ہو رہا ہے۔خود غرضانہ نقطۂ نظر سے غیر مسلموں کا یہ کہنا بالکل حق بجانب، کیونکہ ان کو اپنے مفاد کی حفاظت کے لیے ہر ممکن تدبیر کرنی ہی چاہیے۔مگر یہ مسلمانوں کی بد قسمتی نہیں تو اور کیا ہے‘ کہ خود ان کے اپنے بہت سے ممتاز افراد بھی اس معاملہ میں غیر مسلموں کے ہم نوا بن جاتے ہیں۔ سرکار برطانیہ کی لائی ہوئی ڈیمو کریسی کی لعنت تو ان کو نعمت نظر آتی ہے۔ مگر اس لعنت سے بچنے کے لیے مسلمان اگر کوئی کوشش کرتے ہیں‘ تو ارشاد ہوتاہے‘ کہ اکثریت و اقلیت کا سوال چھیڑنے کے معنی انگریزی اقتدار کی حفاظت کے ہیں۔
پھر لطف یہ ہے‘ کہ ایک طرف تو ڈیمو کریسی کا یہ قاعدہ تسلیم کیا جاتا ہے‘ کہ دو مسلمان چاہے وہ موسیٰ و ہارون ہی کیوں نہ ہوں، باطل پر ہیں اگر ان کے مقابلہ میں فرعون یا سامری کی اُمت کے چھ آدمی مخالفانہ رائے دیں اور دوسری طرف یہ بھی ارشاد ہوتاہے‘ کہ ’’مسلمانوں کی اکثریت و اقلیت کے خطروں سے ڈرانے کی ضرورت نہیں، صرف اللہ سے ڈرانا چاہیے‘‘۔ اور یہ ہدایت بھی فرمائی جاتی ہے‘ کہ اگر ڈیمو کریسی کے اس قاعدے کو قبول کرکے تم ’’ہمت آزمائی اور عمل‘‘ کے میدان میں کود پڑو گے‘ تو ’’فتح مند‘‘ ہو گے، ورنہ یوں ہی ’’پست ہمتی کی خاکِ مذّلت‘‘ پر لوٹتے رہو گے۔ اس کے معنی یہ ہیں‘ کہ انگریز اور ہندو مل کر جو زہر تم کو کھلا رہے ہیں، ہمت کرکے اسے کھا جاؤ۔ان شاء اللہ تم کو شہادت کا درجہ نصیب ہو گا جو عین ’’فتح مندی‘‘ ہے، ورنہ اس زہر کو کھانے سے اگر تم نے انکار کیا اور لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَۃُ الْخَبِيْثِ۰ۚ{ FR 2921 } کے قرآنی اصول پر پست ہمتوں کی طرح اصرار کرتے رہے ‘تو ’’اُولُوالْاَلْبَاب‘‘ تم کو جواہر لال نہرو کے ساتھ مل کر طنز و تعریض کی لطیف زبان میں ’’سرکار برطانیہ کے ٹوڈی‘‘ کا طعنہ دیں گے۔
سب سے آخر میں مولانا ابوالکلام آزاد کی ایک تحریر ملاحظہ ہو جن کا انقلاب حال میرے نزدیک مسلمانوں کے لیے اس صدی کی سب سے بڑی ٹریجڈی ہے۔ پچھلے سال جب کانگریس کے ایوان سے مسلم ماس کانٹیکٹ (muslim mass contact) کا علم اٹھایا گیا‘ تو اس کے ساتھ ہی مولانا کا ایک سپہ سالارانہ خطبہ بھی اخبارات میں شائع ہوا۔ اس میں یہ ارشاد فرمانے کے بعد کہ ’’مسلمانوں کو اگر کانگریس میں شریک ہونا چاہیے تو صرف اس لیے کہ اداء فرض کا غیر مشروط تقاضا یہی ہے، مولانا اپنی تمام تقریر اس انداز میں فرماتے ہیں‘ کہ یا تو مسلمان اس تحریک میں آنکھیں بند کرکے شریک ہو جائیںجس کی اساس وطنی قومیّت اور ڈیمو کریسی کے انگریزی نمونہ پر رکھی گئی ہے، یا نہیں تو وہ بزدل ہیں، کم ہمت ہیں، اور ذلت کی موت مر جانے والے ہیں، پوری تحریر نقل کرنے کی یہاں گنجائش نہیں، مگر چند فقرے نقل کیے بغیر چارہ بھی نہیں:
ایک زمانہ تھا جب مسلمانوںنے کانگریس کی شرکت سے اس لیے انکار کر دیا تھا‘ کہ وہ سرے سے سیاسی اصلاح و تغیّر کے مخالف تھے۔ انہیںیہ بات سمجھائی گئی تھی‘ کہ ہندستان میں ہندوؤں کی اکثریت ہے اس لیے یہاں جو تبدیلی بھی جمہوری ونیابتی اداروں کے طریقہ پر کی جائے گی‘ ہندوؤں کے لیے مفید ہو گی‘ مسلمانوںکے لیے مضر ہو گی۔چنانچہ ۱۸۸۷ء میں لارڈ ڈفرن اور سر آکلینڈ کالون نے سر سیّد احمد خاںمرحوم کو یہی راہ دکھائی تھی‘ اور اسی بنا پر انہوں نے کانگریس کی مخالفت کا اعلان کیا تھا … اب ملک اصلاحات کے لیے نہیں‘ بلکہ کامل تبدیلی کے لیے لڑ رہا ہے۔ ظاہر ہے‘ کہ ان تغیّرّات کے بعد اب کانگریس کی عدم شرکت کے لیے ۱۸۸۷ء والی بات سود مند نہیں ہو سکتی۔ ناگزیر ہے‘ کہ کوئی دوسری ہی بات اختیار کی جائے۔ چنانچہ اب بعض حضرات نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے‘ کہ جب کبھی کانگریس کی تحریک میں شرکت کا سوال چھڑتا ہے‘ یا خود کانگریس کا کوئی رکن مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہے‘ تو فورا یہ حضرات فرقہ وارانہ حقوق اور تحفظّات کا سوال چھیڑ دیتے ہیں۔ انہیں خطرہ ہے‘ کہ اگر برطانی اقتدار ملک میں باقی نہیں رہے گا یا بالکل کمزور پڑ جائے گا تو ہندو اکثریت ان کے حقوق پامال کر دے گی…۔
خطروں اور تباہ حالیوں کی اس اندیشہ ناکی کا کن لوگوںکو یقین دلایا جا رہا ہے؟ ان لوگوں کو جو بلحاظ تعداد کے ہندستان کی سب سے بڑی دوسری اکثریت اور بلحاظ معنوی قوی کے سب سے پہلی طاقت ور جماعت ہیں ! اور پھر ان تمام خطروں کا انسداد کیونکر ہو سکتا ہے؟ صرف اس طرح کہ انڈین نیشنل کانگریس ایک رزولیوشن پاس کر دے، جوں ہی اس نے رزولیوشن پاس کر دیا، خطروں اور تباہ حالیوں کا تمام بادل، جو آٹھ کروڑ انسانوں کے سروںپر چھایا ہوا ہے، معاً چھٹ جائے گا‘‘۔ ’’انہیں اگر کانگریس میں شریک ہونا چاہیے تو صرف اس لیے کہ انہیں اپنے اوپر بھروسہ ہے۔اس لیے نہیں کہ دوسروں نے انہیں بھروسہ دلایا ہے، یا دوسرے انہیں بھروسہ دلا سکتے ہیں۔ اگر فی الحقیقت ان کی بے بسی اور بے چارگی اس حد تک پہنچ چکی ہے‘ کہ وہ سمجھتے ہیں‘ کہ خطروں اور تباہ حالیوں میں گھر گئے ہیں‘ اور تحفظ کی راہ اس کے سوا کچھ نہ رہی کہ یا تو انگریزی اقتدار کے سہارے جئیں یا کانگریس کے اطمینان دلانے پر، اور خود ان کے اندر خود اعتمادی و ہمت کی ایک چنگاری بھی نہیں رہی جو ان کی ٹھنڈی رگوں کو گرم کر سکے، تو میں کہوں گا ایسی زندہ نعشوں کے لیے یہی بہتر ہے‘ کہ جہاںپڑی ہیں پڑی رہیں…
مسلمانوں کی یہ تصویر وہ شخص کھینچ رہا ہے‘ جو ایک زمانہ میں اسلامی ہند کی نشاۃ ثانیہ کا سب سے بڑا لیڈر تھا۔ ان کی مظلومی کا اس سے زیادہ دردناک منظر اور کیا ہو سکتا ہے‘ کہ جو کبھی ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کا ایڈیٹر تھا وہ آج ان کی اس قدر غلط ترجمانی کرے۔ مولانا کے مفروضات جن پر اس پورے خطبہ کی بنا رکھی گئی ہے مختصر الفاظ میں حسب ذیل ہیں :
۱- سیاسی اصلاح و تغیّر کے معنی محض اس تبدیلی کے ہیں‘ جو انگریزوں کے رائج کیے ہوئے جمہوری دنیا بتی اداروں کے طریقہ پر کی جائے۔ ایسی تبدیلی کی مخالفت جس مسلمان نے کی اس نے گویا نفس سیاسی اصلاح و تغیّر کی مخالفت کی۔ یہ بات اس ہندو کے کہنے کی تھی‘ جو انگریزی اصول جمہوریت و نیابت کو اپنے لیے مفید پا کر قوم پرستانہ جوش کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ مگر وقت کی جادوگری کا تماشہ دیکھئے کہ اس نظریہ کو مولانا ابوالکلام بیان فرما رہے ہیں‘ اور محسوس تک نہیں کرتے کہ فی نفسہٖ یہ نظریہ کس قدر پوچ اور بے اصل ہے۔
۲- مسلمانوں کا یہ خیال غلط تھا‘ کہ ہندستان میں جو تبدیلی انگلستان کے جمہوری دنیابتی ادارت کے نمونہ پر کی جائے گی وہ بربنائے اکثریت ہندوؤں کے لیے مفید اور بربنائے اقلیت مسلمانوں کے لیے مضر ہو گی۔ سیاسیات کا طفلِ مکتب بھی بتا سکتا ہے‘ کہ مولانا کا یہ مفروضہ محض بے اصل ہے‘ اور بلا کسی غور و فکر کے انہوں نے اس بات کو قبول کر لیا ہے‘ جو ہندوؤں کے سیاسی لیڈر جان بوجھ کر ہمیں بیوقوف بنانے کے لیے کہا کرتے ہیں۔ انگریزوں نے اپنے ملک کے جن جمہوری دنیابتی اداروں کو یہاں ہمارے سر منڈھا ہے ان کی بنا ہی اکثریت کی حکومت (majority rule) پر ہے‘ اور ان کوجوں کا توں ایک ایسے ملک میںجہاں دو مختلف قومیں رہتی ہوں، رائج کرنے کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ اکثریت حکمران اور اقلیت محکوم ہو کر رہے۔ لہٰذا سر سیّد احمد خاں مرحوم کے دور میں جو رائے قائم کی گئی تھی وہ ہرگز غلط نہ تھی۔ البتہ اگر کسی چیز کو غلط کہا جا سکتا ہے‘ تو وہ ان کی وہ پالیسی ہے‘ جو اس مصیبت سے بچنے کے لیے انہوں نے اختیار کی اور اس کو بھی اس زمانے کے حالات سامنے رکھ کر غلط قرار دیتے ہوئے ایک صاحب ِفکر آدمی کو تامّل کرنا چاہیے۔
۳- مسلمانوں نے کانگریس سے علیحدگی کا فیصلہ اس بنا پر کیا تھا‘ کہ لارڈڈ فرن اور سر آکلینڈ کالون نے سر سیّد احمد خاں مرحوم کو یہ راہ دکھائی تھی۔ مولانا کو شائد خبر نہیں کہ کانگریس کا قیام اور وہ اصول و مقاصد جن پر آج تک کانگریس چل رہی ہے، سب کچھ اسی لارڈڈفرن کی رہنمائی کا نتیجہ ہے، اور اس میں لارڈر پن اور لارڈڈلہوزی اور اس عہد کے متعدّد دوسرے انگریز مدبرّین کے دماغوںنے بھی کام کیا ہے۔ کم از کم اپنے ورکنگ کمیٹی کے رفیق ڈاکٹر پتّا بھی ستیا رامیّا ہی کی ’’تاریخ کانگریس‘‘ مولانا نے پڑھ لی ہوتی‘ تو شائد اپنی قوم کے دامن پر دھبہ لگانے کے لیے ہندوؤں کے کارخانہ روشنائی سے یہ سیاہی مستعار لیتے ہوئے، ان کو کچھ نہ کچھ تامل ضرور ہوتا۔
۴- اب ملک اصلاحات کے لیے نہیں‘ بلکہ کامل تبدیلی کے لیے لڑ رہا ہے۔ یہ تحریر اس وقت لکھی گئی ہے‘ جب اصلاحات جدید کو قبول کرکے الیکشن لڑے جا چکے تھے، امپیریلسٹ گورنمنٹ کے تحت صوبوں کی حکومت کا انتظام کرنے کے لیے کانگریس اپنی خدمات پیش کر چکی تھی، اور اس اقدام میں خود جناب مولانا بھی شریک تھے۔ پھر جب اپنے عمل سے آپ نے ثابت کر دیا کہ آپ کامل تبدیلی کے لیے نہیں‘ بلکہ اصلاحات کے لیے اور ان اصلاحات کے لیے لڑ رہے ہیں‘ جو انگریز اپنے مفاد کے لیے دے رہا ہے‘ اور ہندو اپنے مفاد کے لیے لے رہا ہے، تو ’’کامل تبدیلی‘‘ کے لفظ بے معنی کو محض اس لیے دہرانا کہ اس کے بغیر مسلمانوں کا مُنہ کالا نہیں کیا جا سکتا، مہاسبھائی ہندوؤں کو تو ضرور زیب دیتا ہے‘ مگر مولانا کو زیب نہیں دیتا۔
۵- مسلمانوں کی موجودہ پوزیشن یہ ہے‘ کہ وہ یا تو انگریزی اقتدار کے سہارے جینا چاہتے ہیں‘ اور اس فکر میں ہیںکہ انگریز کی سنگینیں ان کی حفاظت کے لیے ہندوستان میں موجود رہیں، یا پھر یہ چاہتے ہیںکہ کانگریس ان کو تحفط کا زبانی اطمینان دلا دے۔ یہ بات ایک ہندو امپیریلسٹ کے کہنے کی تھی‘ اور کہہ رہے ہیں اسے مولانا ابوالکلام۔ حقیقت میں تو پوزیشن اس وقت یہ ہے‘ کہ دس سال کے بعد کانگریس اور ہندو مہاسبھا پھر اسی نقطہ پر جمع ہو گئی ہیں‘ جس پر یہ نہرو رپورٹ میں جمع ہوئی تھیں۔ ’’انقلاب‘‘ کا ڈرامہ ختم ہو چکا ہے‘ اور اس کی جگہ وہی دستوری ارتقاء کا نصب العین بر سر کار آگیا ہے‘ جو ابتداء سے ان کے پیشِ نظر تھا۔ ’’دستوری ارتقاء‘‘ کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں ہیں‘ کہ انگریز اپنی سنگین سے مسلمان کو اس وقت تک دبائے رکھے جب تک ہندو اس کی جگہ لینے کے لیے کافی طاقت ور اور کافی قابو یافتہ نہ ہو جائے۔ اب مسلمان جس فکر میں ہے وہ یہ نہیں ہے‘ کہ انگریز کی طرف جائے یا ہندو کی طرف، بلکہ پریشان ہو کر یہ دیکھ رہا ہے‘ کہ گھر کا ساتھی باہر کے غاصب کا اسسٹنٹ بن گیا ہے، باہر کا غاصب اس کو سنگین سے دبائے ہوئے ہے، اور گھر کا ساتھی اپنی رسیاں کھول کھول کر اس کے ہاتھ پاؤں باندھتا چلا جاتا ہے۔ یہ وقت ایسا تھا‘ کہ مولانا ابوالکلام جیسے لوگ اُٹھ کر مسلمانوں کو ان دونوں بلاؤں کے مشترک عمل سے بچانے کی تدبیر کرتے، مگر مولانا ان کو الٹا اس بات پر مطعون فرما رہے ہیں‘ کہ تم اس دام فریب میں پھنسنے سے دور کیوں بھاگے جا رہے ہو! ہمت کرکے اپنی گردن اور اپنے ہاتھ پاؤں اس کے پھندوں میں دے کیوں نہیں دیتے!
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے‘ کہ پروپیگنڈا کی طاقت کیسی زبردست طاقت ہے، اور جب کوئی قوم نامساعد حالات میں گھر جاتی ہے‘ تو اس پر باہر ہی سے نہیں اندر سے بھی کیسے مصائب نازل ہوتے ہیں۔ جو تصویر اپنی اغراض کے لیے غیروں نے کھینچی تھی، وہ اب خود ہماری اپنی قوم کے دماغوں میں بیٹھتی چلی جا رہی ہے‘ اور اس کو وہ لوگ ہماری اصلی تصویر کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں‘ جن سے ہم توقع رکھتے تھے‘ کہ وہ ہمارے سب سے بہتر نمائندے ہوں گے۔ کون کہہ سکتا ہے‘ کہ مولانا ابوالکلام یا مولانا حسین احمد یا مولانا سیّد سلیمان نے یہ باتیں جان بوجھ کر فرمائی ہیں؟ ہرگز نہیں۔ فضا جن خیالات سے بھر دی گئی ہے وہ غیر محسوس طور سے دماغوں میں نفوذ کر رہے ہیں‘ اور غیر ارادی طور سے زبانوں پر آرہے ہیں۔ یہ ایک جادو ہے‘ جو سروں پر چڑھ کے بول رہا ہے‘ اور کیا بتائیے کہ کیسے کیسے عالی مقام سروں پر چڑھ کر کیا کچھ بول رہا ہے۔ فرقہ پرستی کا لفظ جو مغربی تصوّر قومیّت کو پیشِ نظر رکھ کر وضع کیا گیا تھا، آج مسلمانوں کے علما اور بڑے بڑے لیڈر اس لفظ کو خود مسلمانوں پر استعمال کر رہے ہیں۔’’نیشنل ازم‘‘ یا ’’قوم پرستی کا لفظ آج بے تکلف افتخار کے انداز میں بولا جا رہا ہے۔ گویا یہ تسلیم کر لیا گیا کہ ہندستان ایک ’’قوم‘‘ ہے‘ اور مسلمان، ہندو، عیسائی وغیرہ اس قوم کے فرقے ہیں۔ ’’رجعت پسندی‘‘ اور ’’ٹوڈیت‘‘ کے الزامات اب خود مسلمانوں کی طرف سے مسلمانوں پر عائد کیے جانے لگے ہیں۔ اور یہ فرض کر لیا گیا ہے‘ کہ آزادی کے اس جہاد مقدّس میں کود پڑنے سے احتراز بلکہ اس میں ادنیٰ تامل بھی اگر کسی چیز کا نتیجہ ہو سکتا ہے‘ تو وہ بس رجعت پسندی و ٹوڈیت ہے، یا پھر بزدلی۔
اس طوفان کے شور و ہنگامہ سے دماغ اس قدر متاثر ہو چکے ہیں‘ کہ اب ان کو صبر و سکون کے ساتھ یہ سوچنے کی مہلت ہی نہیں ملتی آخر وہ کیا چیز ہے‘ جو مسلمان جیسی بہادر، عالی حوصلہ، حریّت پسند اور جنگ آزما قوم کو برابر دس سال سے اس جنگ میں اپنے شایان شان حصہ لینے سے روک رہی ہے؟ اور وہ کیا چیز ہے‘ جس کی وجہ سے اپنوں اور غیروں کے اتنے طعنے اور ایسے سخت الزامات آئے دن سنتے رہنے کے باوجود اس قوم کے خون میں جوش نہیں آتا؟ اگر اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے‘ کہ شائد یہ مسلمان کا قصور ہو، تو اس کی ایک دوسری ممکن وجہ یہ بھی تو ہو سکتی ہے‘ کہ شائد اس ’’جنگِ آزادی‘‘ میں کوئی کھوٹ ہو۔ شائد ’’یہ شیران بیشہ حریّت’‘‘ اس جنس کے شیر نہ ہوں جن سے ’’اسد اللہ‘‘ میل کر سکتاہے‘ اور کرتا رہا ہے۔ شائد اس ’’آزادی کی فوج‘‘ میں وہ خصوصیات ہوں جنہیں دیکھ کر مسلمان کا ضمیر یہ فیصلہ کر رہا ہو‘ کہ ان کے ساتھ چل کر میں اپنی منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکوں گا۔ کم از کم امکان تو دونوں پہلوؤںکا ہے پھر آخر یہ پروپیگنڈا کی طاقت اور نا مساعد حالات کی قہرمانی نہیں تو کیا ہے۔ جس کی بدولت رفتہ رفتہ دماغوں پر پہلی شق کا امکان حزم و یقین بن کر مسلط ہوتا جا رہا ہے‘ اور دوسری شق کے متعلق اب طوفان میں بہنے والی کشتی کے مسافروں اور کھوّیوں{ FR 2922 } میں سے کسی کو بھی یاد نہیں آتا کہ اس کا بھی کوئی امکان ہے۔
میں آئندہ ابواب میں ناقابلِ تردید واقعات و شواہد سے ثابت کروں گا کہ فی الواقع صورتحال یہی دوسری ہے، اور مسلمانوں کو اسی صورتحال نے اپنے اہلِ وطن کے ساتھ سیاسی جدوجہد میں حصہ لینے سے روک رکھا ہے۔ اس بحث سے میرا مقصد ایک طرف تو عام مسلمانوں کے تصوّرات کو واضح کرنا ہے، کیونکہ وہ حالات کو دیکھ دیکھ کر پریشان تو ہو رہے ہیں، مگر ابھی تک ان خطرات اور مشکلات کو پوری طرح سمجھے نہیں ہیں‘ جن میں وہ اس وقت گھر گئے ہیں، اور اسی وجہ سے انہیں اپنی نجات کا صحیح راستہ پانے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ دوسری طرف میں انصاف پسند غیر مسلموں کو بھی یہ بتانا چاہتا ہوںکہ مسلمانوں کے اصلی احساسات کیا ہیں، ان کا ذہن کس طرح کام کر رہا ہے‘ اور ہندوستان کی موجودہ سیاسی تحریکات کس طرح مسلمان کے مزاج، اس کے مفاد اور ان اصولوں کے خلاف چل رہی ہیں‘ جن پر وہ ایمان رکھتا ہے۔ ان باتوں کو اگر وہ سمجھ لیں تو انہیں معلوم ہو جائے‘ کہ مسلمان کا مقدّمہ ایسا مہمل نہیں ہے جیسا کہ اس کے غلط نمائندے پیش کر رہے ہیں، بلکہ درحقیقت وہ بالکل صحیح بنیاد پر لڑ رہا ہے‘ اور لڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ تیسری طرف اس بحث میں میرے پیشِ نظر یہ مقصد ہے‘ کہ ان حضرات علما کو ان کی غلطی پر متنبہ کروں جو مذہب کے نام سے مسلمانوں کی پشت بمنزل چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں ان کو اصل حقائق سے روشناس کرانا چاہتا ہوں۔ جس جنگِ آزادی کو وہ اتنا مقدّس سمجھ رہے ہیں میں بتانا چاہتا ہوں کہ وہ درحقیقت کس نوعیت کی جنگ ہے۔ جس آزادی کی فوج کو وہ سمجھ رہے ہیں‘ کہ راہ حق پر گامزن ہے۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ وہ دراصل کس راہ پر جاری ہے‘ اور مسلمان قوم بحیثیت مسلمان ہونے کے چند قدم سے زیادہ اس راہ پر اس کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ جس طریق کار کو وہ بالکل صحیح طریق کار سمجھ کر اختیار کر رہے ہیں میں بتانا چاہتا ہوں کہ وہ خدا اور رسولa کے بتائے ہوئے طریق کار کے بالکل خلاف ہے۔ یہ سب کچھ عرض کرنے کے بعد میں ان سے درخواست کروں گا کہ اس کو ٹھنڈے دل سے پڑھیں۔ انصاف کی نظر سے دیکھیں‘ اور اس نور علم و بصیرت سے جو خدا نے ان کو دیا ہے کام لے کر اپنے حال پر غور کریں کہ کیا وہ مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کر رہے ہیں؟ اگر ان کا ضمیر گواہی دے کہ یہ راہ نمائی غلط ہے‘ تو انہیں بلا لحاظ اس کے کہ غلط راستہ پر کتنی دور جا چکے ہیں، الٹے قدم واپس ہونا چاہیے۔ اور راہِ راست معلوم کرنے کے لیے کتاب اللہ ا ور سنّت رسول ا للہa اور عقل سلیم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ا ور اگر انہیں اس پر اصرار ہو‘ کہ وہی راستہ صحیح ہے‘ جس پر وہ چل رہے ہیں‘ اور مسلمانوں کو چلانا چاہتے ہیں‘ تو میں ان سے مطالبہ کروں گا کہ پہلے وہ دلائل سے اپنا حق بجانب ہونا ثابت کریں۔ محض شخصیتوں کے درمیان تقابل کرنا، یا سیاسی پارٹیوں کی گزشتہ و موجودہ روش کے درمیان موازنہ کرنا، یا نرے جذبات سے سپہ سالارانہ انداز میں اپیل کرنا کوئی ا ستدلال نہیںہے‘ اور نہ اس سے احقاقِ حق اور ابطالِ باطل ہوا کرتا ہے۔ براہ کرم حقائق اور واقعات کی دنیا میں آئیے۔ جو حقائق میں پیش کر رہا ہوں۔ یا تو یہ ثابت کر دیجئے کہ وہ حقائق نہیں ہیں، یا پھر ان حقائق کو تسلیم کرکے دلیل و حجت سے‘ حجت خواہ عقلی ہو یا نقلی، مگر بہرحال ہو حجت، ثابت کیجئے‘ کہ ان کے باوجود وہی راہ صحیح ہے‘ جو آپ نے اختیار کی ہے۔
یہ کوئی چیلنج نہیں ہے، بلکہ دراصل اس احساس ذمّہ داری سے ایک اپیل ہے‘ جو ہر مسلمان کے دل میں ہوتا ہے، جس کی بنا پر وہ اپنے آپ کو ہر عمل کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ سمجھتا ہے۔ پھر اس کا مقصد کسی گروہ کو ملزم بنانا اور قابلِ ملامت ٹھہرانے کی کوشش کرنا بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ ایک پارٹی کے لوگ دوسری پارٹی والوں کے مقابلے میں کیا کرتے ہیں۔ جو شخص یہ الفاظ لکھ رہا ہے وہ کسی پارٹی میں شامل نہیں‘ اور اس نے آج تک خدا کی پارٹی کے سوا کسی پارٹی کی طرف بھی مسلمانوں کو دعوت نہیںدی ہے۔ لہٰذا اس اپیل میں خواہ مخواہ پارٹی فیلنگ (party feeling) کی بو سونگھنے کی بھی کوشش نہ کی جائے۔ا س کے ساتھ ایک اور بات بھی صاف کہہ دینا چاہتا ہوں۔ میرا یہ خطاب ائمہ سیاست کے مقتدیوں سے نہیں‘ بلکہ خود اماموں سے ہے۔ ان جاہل مقتدیوں سے میں کسی بحث میں نہیں الجھنا چاہتا جو محض جواب دینے کی خاطر جواب دیا کرتے ہیں،بات کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور بس اوّل نظر میں یہ دیکھ کر کہ کہنے والا کچھ ان کی خواہشات کے خلاف کہہ رہا ہے، جوابی بحث اور بحث بھی نہیں‘ بلکہ بازاریوں کی طرح حملے شروع کر دیتے ہیں۔
خ خ خ
باب ۹: آزادی اور قومی تشخّص
مسلمانوں کے سامنے ’’آزادی‘‘ کا نام لے کر توقع کی جاتی ہے‘ کہ وہ اس دل فریب نام کو سن کر بے خود ہو جائیں گے‘ اور حقائق سے آنکھیں بند کرکے ہر اس راستہ پر چل کھڑے ہوں گے جسے ’’آزادی کا راستہ‘‘ کہہ دیا جائے۔
اس میں شک نہیں کہ مسلمان بھی آزادی کے اتنے ہی خواہش مند ہیں جتنے ہندستان کے دوسرے لوگ، بلکہ مسلمانوں میں اس چیز کی تڑپ دوسروں سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ان میں ایک قلیل جماعت ایسی ضرور ہو سکتی ہے‘ جو اپنی اغراض کے لیے ہندستان میں غیر ملکی اقتدار چاہتی ہو۔ ہندوؤں، سکھوں، پارسیوں اور ہندستان کی دوسری قوموں میں بھی ایسی قلیل التعداد جماعتیں موجود ہیں۔ لیکن جمہور مسلمین میں شائد کوئی ایک شخص بھی آپ کو نہ ملے گا جو ہندستان کو انگریزوںکا غلام دیکھنا چاہتا ہو۔ بلکہ اوسطاً ایک مسلمان دوسری تمام قوموں کی بہ نسبت انگریزیت اور اس کے اقتدار کو زیادہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس کا مذہب ہی اسے یہ سکھاتا ہے‘ کہ مادہ پرستی، شہوات کی بندگی اور ظلم و جور پر جس تہذیب اور جس سیاست کی بنا قائم ہو اس سے نفرت کرے۔ پھر اس کے دل میں آج تک یہ زخم تازہ ہے‘ کہ اس ملک کی حکومت اس سے چھینی گئی ہے‘ اور اسی کو سب سے زیادہ پامال کیا گیا ہے، اس لیے نہ صرف فطرتاً بلکہ تاریخی لحاظ سے بھی مسلمان سب سے بڑھ کر آزادی وطن کا خواہش مند ہے۔
آزادی کیوں؟
لیکن سوال یہ ہے‘ کہ آزادی وطن سے مراد کیا ہے؟ کوئی قوم آزادی کیوں چاہتی ہے؟ یہ چیز فی نفسہٖ مطلوب ہے، یا کسی غرض کے لیے ناگزیر وسیلہ ہونے کی حیثیت سے مطلوب ہے؟ اگر وہ غرض حاصل ہونے کے بجائے الٹی فوت ہوئی جاتی ہو تو کیا پھر بھی کسی قوم سے یہ توقع کی جا سکتی ہے‘ کہ وہ ’’آزادی‘‘کے نام پر دیوانہ وار دوڑی چلی آئے گی؟ کیا ایسی ’’آزادی‘‘ کو وہ قوم بھی اپنے لیے آزادی سمجھ سکتی ہے‘ جس کو حقیقت میں آزادی نہ مل رہی ہو؟ اور کیا اس قسم کی آزادی کے لیے جنگ اور قربانی کرنا عقل، فطرت، دین، کسی چیز کی رو سے بھی کسی قوم کا فرض ہو سکتا ہے؟ یہ سوالات ہیں‘ جن پر میدان جنگ میں قدم رکھنے سے پہلے ہر ذی عقل انسان غور کرنے پر مجبور ہے، اور مسلمان آخر ذوی العقول سے خارج تو نہیں ہے‘ کہ ان بنیادی سوالات کو نظر انداز کرکے خواہ مخواہ اس بگل کی آوازپر لفٹ رائٹ شروع کر دے جو شیو گاؤں یا سوراج بھون سے پھونکا جائے۔
یہ ظاہر ہے‘ کہ ’’آزادیٔ وطن‘‘ سے مراد ہمالیہ و گنگا جمنا اور مشرقی و مغربی گھاٹوں کی آزادی نہیںہے۔ یہ پہاڑ اور یہ دریا دس ہزار برس پہلے جیسے آزاد تھے ویسے ہی آج بھی ہیں‘ اور قیامت تک رہیں گے۔ دراصل غلام یہ پہاڑ اور یہ دریا نہیں‘ بلکہ ہندستان کے باشندے ہیں، اور آزادی وطن سے مراد حقیقت میں وطن کے باشندوں ہی کی آزادی ہو سکتی ہے۔
پھر یہ بھی ظاہر ہے‘ کہ وطن جب{ FR 2923 } ۳۵ کروڑ باشندوں سے آباد ہے‘ تو صحیح معنوں میں آزادی وطن، صرف اسی آزادی کو کہا جا سکتا ہے‘ جو ان پورے ۳۵ کروڑ باشندوں کے لیے آزادی ہو۔ اہلِ وطن میںسے بعض کی آزادی اور بعض کی غلامی کو پورے وطن کی آزادی سے ہرگز تعبیر نہیںکیا جا سکتا۔ عموماً لوگ محض سہولت پسندی کی بنا پر بہت سے ایسے ملکوں کو ’’آزاد‘‘ کہہ دیا کرتے ہیں‘ جن کے باشندوں کا ایک حصہ آزاد اور دوسرا حصہ خود اہلِ وطن کا غلام ہوتا ہے۔ مثلاً جس دور کے متعلق کہا جاتا ہے‘ کہ ہندستان آزاد تھا اس میں درحقیقت ’’ہندستان‘‘ آزاد نہ تھا بلکہ ہندستان کا آریہ آزاد تھا۔ شودر کی غلامی اس ملک کے باشندوں کی غلامی سے بھی ہزار درجہ زیادہ بد تر تھی جسے سے اصطلاحاً ہم غلام کہتے ہیں۔ آج امریکہ کو آزاد ملک کہا جاتا ہے۔ حالانکہ امریکہ کی آزادی محض اس کے سفید فام باشندوں کی آزادی ہے، سیاہ فام باشندے کسی آزادی سے متمتع نہیں۔ اسی طرح روس کی آزادی صرف اس کے کمیونسٹ باشندوں تک محدود ہے۔ مسلمان، عیسائی اور تمام غیر اشتراکی بلکہ غیر اسٹالینی باشندوں کے لیے قطعاً کوئی آزادی نہیں، بلکہ ہماری غلامی سے بھی بد تر غلامی ہے۔ جنوبی افریقہ کی آزادی محض اس کے فرنگی باشندوں کے حصہ میں آئی ہے۔وہاں کی دیسی آبادی‘ اور ہندستانی آبادی اس درجہ غلام ہے‘ کہ ہم اپنے آپ کو نسبتاً ان کے مقابلہ میں آزاد کہہ سکتے ہیں۔ جرمنی کی آزادی صرف آرین نسل کے لیے ہے، سامیوں کے لیے نہیں۔ چیکوسلواکیہ کی آزادی چند روز پہلے تک صرف چیک اور سلواک باشندوں کے لیے مخصوص تھی، دوسروں کے لیے نہیں۔{ FR 2924 } ایسے ممالک کو اگر عرف عام میں آزاد کہا جاتاہے ‘تو اس سے وہ تلخ حقیقت شیرینی نہیں بن جاتی جو ان کے غلام باشندوںکو رات دن زہر کے گھونٹوں کی طرح حلق کے نیچے اتارنی پڑتی ہے۔
یہ ایک عام غلط فہمی ہے‘ کہ محض غیر ملکی اقتدار سے آزاد ہو جانے کا نام ’’آزادی‘‘ رکھ دیا گیا ہے، حالانکہ یہ آزادی کی تمام حقیقت نہیں ہے، بلکہ صرف اس کا مقدّمہ ہے۔ آزادی کا اصلی جوہر تو حکومت خود اختیاری سے متمتع ہونا اور اپنی اجتماعی خواہشات و ضروریات کو پورا کرنے پر آپ قادر ہونا ہے۔ یہ چیز اگر ملک کے کسی گروہ کو حاصل نہ ہو، اگر اس کی نکیل اپنے ہی وطن کے کسی دوسرے گروہ کے ہاتھ میں رہے‘ کہ جس طرح وہ چاہے اسے اٹھائے اور جس طرف چاہے اسے چلائے اور جو کچھ چاہے اس پر لاد دے تو وہ حقیقت میں غلام ہی ہو گا، اس کے لیے ملک کی آزادی محض بے معنی ہو گی۔ غلامی اپنی حقیقت اور فطرت کے لحاظ سے بہرحال ایک ہی چیز ہے۔ اس لحاظ سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کہ وہ غیر ملک والوں کی غلامی ہے‘ یا اہلِ وطن کی۔ اگرچہ تجربہ سے یہی ثابت ہوا ہے‘ کہ کمیّت و کیفیت کے اعتبار سے اہلِ وطن کی غلامی بہ نسبت غیر ملکیوں کی غلامی کے زیادہ شدید ہوتی ہے۔ مثلا جو سلوک امریکہ کا سفید فام اپنے حبشی اہلِ وطن کے ساتھ کرتا ہے، یا جو برتاؤ روس کا اسٹالینی اپنے غیر اسٹالینی یا غیر اشتراکی اہلِ وطن سے کر رہا ہے، اس کو کوئی نسبت اس طرزِعمل سے نہیں جو ہندوستان میں انگریزوںنے ہمارے ساتھ اختیار کیا ہے۔ تاہم دونوں قسم کی غلامیوں میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے کا سوال ہرگز پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ غلامی بہرحال ایسی چیز ہے‘ کہ اسے دفع کرنے کی کوشش ہی کرنی چاہیے۔ پس جو شخص اہلِ وطن کی غلامی کو غیر ملکیوں کی غلامی پر ترجیح دیتا ہو‘ اور دوسری قسم کی غلامی کو محض پہلی قسم کی غلامی میں بدل لینے کا نام ’’جنگِ آزادی‘‘ رکھے، اور ایسی جنگِ آزادی میں شریک ہونے کو فرض قرار دے، وہ دراصل جنت الحمقاء کا باشندہ ہے۔ کوئی صاحب ِعقل انسان اس کی پیروی نہیں کر سکتا۔ نہ ایک پوری کی پوری قوم اتنی بیوقوف ہو سکتی ہے‘ کہ وہ صرف غیر ملکی اقتدار سے آزاد ہونے کے لیے میدان جنگ میں کود پڑے، اور یہ پوچھنے کی ضرورت نہ سمجھے کہ آزادی کے اصلی جوہر میں بھی اس کا کوئی حصہ ہے‘ یا نہیں۔
ایک وطن کے باشندوںکو مجرد اس واقعہ کی بنا پر کہ وہ ایک وطن کے باشندے ہیں، تمام حیثیات سے ایک سمجھ لینا، اور اس مفروضہ پر ملک کی آزادی کو ان سب کے لیے یکساں آزادی قرار دینا، یا تو جہالت ہے‘ یا پھر خطرناک قسم کی چالاکی، بہت سے لوگ اسی مفروضہ کو سامنے رکھ کر بے تکلف کہہ جاتے ہیں‘ کہ ’’بھائی ! جب ملک آزاد ہو گا‘ تو سب آزاد ہو جائیں گے‘‘ لیکن یہ مفروضہ ہر حال میں ہر جگہ صحیح نہیںہو سکتا۔ جہاں صرف ایک قوم رہتی ہو، مختلف گروہ اور ان گروہوں کے درمیان گروہی امتیازات نہ ہوں، اور سب باشندے اپنے عقائد، جذبات و احساسات (sentiments) رسوم و رواج، قوانینِ معاشرت اور طرز زندگی کے اعتبار سے ایک ہوں، یا کم از کم باہم متقارب ہوں، وہاں تو بلا شبہ کہا جا سکتا ہے‘ کہ محض ملک کا آزاد ہو جانا ہی تمام باشندگانِ ملک کا آزاد ہو جانا ہے کیونکہ وہاں اہلِ ملک کے درمیان الگ الگ گروہوں کا وجود ہی نہیں ہے‘ جس کی بنا پر اس امر کا امکان پیدا ہوتا ہو‘ کہ آزادی ایک گروہ کے پاس اٹک کر رہ جائے‘ اور دوسرے گروہ تک نہ پہنچ سکے۔ لیکن جس ملک کے باشندوں میں ایک سے زیادہ گروہ موجود ہوں، اور ان کے درمیان نسل یا رنگ، یا زبان، یا عقائد، جذبات اور طرز زندگی کے بین اختلافات موجود ہوں، وہاں اس امر کا امکان ہے‘ کہ آزادی کی دولت کو ایک گروہ اچک لے اور دوسرے گروہ یا گروہوں کو اس سے محروم کر دے۔ ایسی جگہ وہ مفروضہ نہیں چل سکتا جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ وہاں ہرگروہ کو یہ پوچھنے کا حق ہے، اور اگر وہ اپنے وجود کو عزیز رکھتا ہے‘ تو اسے پوچھنا چاہیے‘ کہ آزادی حاصل کرنے کا کون سا طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے، اور جس آزادی کے لیے جدوجہد کی جارہی ہے وہ کس نوع کی آزادی ہے۔ پھر اگر واقعات سے کسی گروہ پر یہ ثابت ہو جائے‘ کہ حصول آزادی کا وہ طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے‘ جو اس کے اجتماعی وجود کو نقصان پہنچانے والا ہے، اور ملک کی آئندہ حکومت ایسے اصولوں پر تعمیر ہو رہی ہے‘ جن کی بدولت حکمرانی کے اختیارات سے وہ لازمی طور پر محروم ہو جاتا ہے، تو اس سے ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ایسی جنگِ آزادی میں حصہ لے گا۔ ایسی آزادی کو ملک کی آزادی کہنا حقیقت کے خلاف ہے، جس گروہ کے لیے یہ آزادی نہیں‘ بلکہ غلامی ہے،ا ور جس گروہ کے لیے یہ زندگی نہیں‘ بلکہ موت ہے وہ آخر کیوں اس کے حاصل کرنے میں حصہ لے۔
اس مرحلے پر پہنچ کر ہم سے دو مختلف باتیں کہی جاتی ہیں، اور ضرورت ہے‘ کہ ہم ان پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔ کہا جاتا ہے‘ کہ ملک کی آزادی کا لازمی نتیجہ خوش حالی ہے، اور یہ خوش حالی جب آئے گی‘ تو تمام باشندے اس سے متمتع ہوں گے۔ تعلیم عام ہو گی، تمدّن ترقی کرے گا، صنعت و حرفت اور تجارت کو فروغ ہو گا۔ معیار زندگی بلند ہو گا۔ اور اقوام عالم کے درمیان اہلِ ملک کی عزت بڑھے گی۔ یہ فوائد ظاہر ہے‘ کہ ملک کے تمام باشندوں کو حاصل ہوں گے۔ پھر کیوں نہ ملک کے ہرگروہ کو ان فوائد سے یکساں دل چسپی ہو‘ اور کیوں نہ وہ ان کے حصول کے لیے مل کر جدوجہد کریں؟
یہ بھی کہا جاتا ہے‘ کہ ملک کی خوش حالی اور ترقی کے لیے آزادی ناگزیر ہے، اور آزادی کے حصول میں مختلف گروہوں کا وجود اور ان کے امتیازات مانع ہیں، لہٰذا کوشش کرنی چاہیے‘ کہ ان گروہوں کو اور ان کے امتیازات کو مٹا کر تمام اہلِ ملک کو ایک کر دیا جائے۔ کیونکہ جب تک یہ باقی رہیں گے ملک آزاد نہ ہو سکے گااور جب تک ملک آزاد نہ ہو گا، تمام اہلِ ملک خواہ وہ کسی گروہ سے تعلق رکھتے ہوں، یکساں بدحالی، افلاس، جہالت، اخلاقی اور ذہنی پستی میں مبتلا رہیں گے، کیا تم ان حالات کو دائماً برقرار رکھنا چاہتے ہو؟
یہ بھی کہا جاتا ہے‘ کہ ایک ملک کے باشندوں میں عقائد، جذبات، طرز زندگی، زبان، ادب اور تہذیب و تمدّن کے اختلاف غیر حقیقی اور مصنوعی ہیں۔ ان کو زندگی کے اہم تر مسائل سے کوئی علاقہ نہیں۔ زندگی کے اہم تر مسائل یہ ہیں‘ کہ لوگوں کو کھانے کے لیے مل رہا ہے‘ یا نہیں؟ ان کے لیے زندگی کی ضروریات پوری کرنے ا ور مزید برآں زندگی کی آسائشوں سے متمتع ہونے کے مواقع موجود ہیں یا نہیں؟ ان کے ملک میں دولت آفرینی کے جوو سائل موجود ہیں ان سے کس قدر فائدہ اٹھایا جا رہا ہے؟ اور جو دولت وہ پیدا کر رہے ہیں وہ کس طرح تقسیم ہو رہی ہے؟ ان اہم تر مسائل کا تعلق تمام باشندگانِ ملک سے یکساں ہے‘ اور ان میں ان سطحی اختلافات کا کچھ دخل نہیں جن کا تم ذکر کرتے ہو۔ لہٰذا یہ اختلاف اگر موجود بھی ہیں‘ تو انہیں نظر انداز کر دینا چاہیے‘ اور تمام باشندگانِ ملک کو ایک قوم فرض کرکے زندگی کے ان مسائل کو حل کرنا چاہیے۔
یہ بھی کہا جاتاہے‘ کہ تہذیب و تمدّن کے بقاء قیام اور عروج و ارتقاء کا انحصار بھی معاشی فلاح اور سیاسی آزادی پر ہے۔ یہ چیز اگر حاصل نہ ہو تو کوئی تہذیب زندہ نہیں رہ سکتی، کجا کہ ترقی کر سکے۔ لہٰذا تہذیب و تمدّن کا مفاد بھی اس امر کا مقتضی ہے‘ کہ ملک کے تمام گروہ مل کر پہلے سیاسی آزادی اور معاشی فلاح کے لیے جدوجہد کریں۔
یہ مختلف باتیں کبھی مختلف زبانوں سے اور کبھی ایک ہی زبان سے سننے میں آتی ہیں۔ لیکن جب ہم ان پر غور کرتے ہیں‘ تو ہمیں محسوس ہوتا ہے‘ کہ اگر یہ ہم کو دھوکا دینے کے لیے نہیں کہی جا رہی ہیں‘ تو ان کے کہنے والے خود دھوکے میں ہیں۔ وہ حقیقت کو طالب علم کی نظر سے نہیں دیکھتے، بلکہ مشنری کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ جو اپنی خواہش نفس کے اتبّاع میں گم ہو جاتا ہے۔
آج انسان اس دور سے آگے نکل چکا ہے‘ جس دور میں وہ محض ایک جانور ہونے کی حیثیت سے بس اپنی جسمانی ضروریات کی تکمیل کا خواہش مند ہوتا تھا، اور یہ امر اس کی نگاہ میں کوئی خاص اہمیت نہ رکھتا تھا‘ کہ یہ ضروریات کس ڈھنگ پر، کس صورت میں پوری ہوتی ہیں۔ اب اس کے لیے اپنی ہزار ہا برس کی طے کی ہوئی مسافت کو الٹے پاؤں دوبارہ طے کرنا اور یکایک اسی دور وحشت و حیوانیت کی طرف پسپا ہو جانا محال ہے۔ا س طویل مدت میں اس کی عقل، اس کے مذاق، اس کے علم ا ور اس کی قوّتِ اجتہاد و اکتساب کے ارتقا سے انسانیت کے مختلف نمونے (models) پیدا ہو چکے ہیں۔ ایک ایک قوم ایک ایک نمونے کو پسند کرکے اس پر اپنی اجتماعی شخصیت تعمیر کر چکی ہے‘ اور اس خاص نمونہ انسانیت کو اپنی قومی ہیئت (national type) بنا چکی ہے‘ جو صدیوں کے نشوونما سے اس کے اندر پختہ ہوا ہے۔ اب ایک قوم کی زندگی دراصل اس کے نیشنل ٹائپ کی زندگی ہے‘ اور اس کے نیشنل ٹائپ کا مر جانا خود اس قوم کا مر جانا ہے۔ اگرچہ ضروریات زندگی کا پورا ہونا، دولت حاصل کرنا اور اسے خرچ کرنا آج بھی ایک قوم کے لیے اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنی اہمیت آج سے دس ہزار برس پہلے رکھتا تھا۔ لیکن ان تمام معاملات کا دامن ہر قوم کے مخصوص نظریہ زندگی اس کے ضابطہ اخلاقی، اس کے اصول معاشرت و تمدّن، اور اس کے معیار قدرو قیمت کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ ہر قوم اپنی ضروریات کو اپنے ہی نیشنل ٹائپ کے مطابق پورا کرنا چاہتی ہے۔ آپ محض ’’ضروریات زندگی‘‘ کا نام لے کر کسی قوم سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے حصول کے لالچ میں وہ اپنے نیشنل ٹائپ کو تبدیل کر دے۔ کیونکہ اس کی تبدیلی دراصل قوم کی موت ہے۔ کوئی قوم جس کی قومی سیرت مستحکم ہو چکی ہو وہ محض آسائشوں کے لالچ سے اپنے نیشنل ٹائپ کو بدلنے پر آمادہ نہیں ہو سکتی، اور جو قوم اس پر آمادہ ہو جائے اس کے متعلق یہ یقین کے ساتھ جان لینا چاہیے‘ کہ یا تو اس کا کیریکٹر ابھی بنا نہیں ہے، یا پھر وہ ایک ذلیل اور موقع طلب (opportunist) قوم ہے‘ جس کی سیرت پر کوئی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
آزادی اور قومی وجود
اس بنیادی حقیقت کو ذہن نشین کرنے کے بعد غور کیجئے‘ کہ کوئی قوم آزادی کیوںچاہتی ہے۔ اس سوال کا صرف ایک ہی جواب ممکن ہے۔ اور وہ یہ کہ اپنے نیشنل ٹائپ کی حفاظت اور اس کے نشووارتقاء کی خواہش ہی دراصل آزادی کی طلب کا مبداء ہے۔ جو قوم غلام ہوتی ہے وہ اپنے نیشنل ٹائپ کو صرف یہی نہیں کہ ترقی نہیں دے سکتی بلکہ اس کے برعکس اس کا نیشنل ٹائپ مضمحل ہو جاتا ہے۔ اگر کسی قوم کو اپنا نیشنل ٹائپ عزیز نہ ہو تو اس میں سرے سے آزادی کی خواہش پیدا نہ ہو گی‘ اور جس قوم میں آزادی کے لیے تڑپ پائی جاتی ہے اس کی تڑپ کا کوئی سبب اس کے سوا نہیں کہ وہ اپنے نیشنل ٹائپ کو عزیز رکھتی ہے، اسے فنا نہیں ہونے دینا چاہتی، اور اس کو ترقی دینے کی خواہش مند ہے۔
جب حقیقت یہ ہے‘ تو وہ صرف ایک جاہل اور بے وقوف آدمی ہو گا جو آزادی حاصل کرنے کی خاطر کسی قوم کو اپنا نیشنل ٹائپ بدل دینے کے لیے کہے گا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا حماقت ہو سکتی ہے‘ کہ جس چیز کی خاطر آزادی کی خواہش ایک قوم میں پیدا ہوا کرتی ہے۔ اسی چیز کو مٹانے کا خیال ظاہر کیا جائے‘ اور پھر یہ توقع رکھی جائے‘ کہ آزادی کی پکار اس قوم کے دل و دماغ کو اپیل کرے گی۔ کیا کوئی شخص نقصان اٹھانے کی نیت سے تجارت کر سکتا ہے؟ کیا کوئی شخص مرنے کے لیے غذا کھا سکتا ہے؟ کیا کوئی شخص اس غرض کے لیے پانی کی طرف دوڑ سکتا ہے‘ کہ اس کی پیاس بجھنے کے بجائے اس کا سینہ جل جائے؟ اگر یہ ممکن نہیں تو یہ کس طرح ممکن ہے‘ کہ ایک قوم اپنے قومی وجود کو ختم کرنے کے لیے آزادی کی خواہش کرے حالانکہ آزادی اس کی مطلوب ہی صرف اس لیے ہو سکتی ہے‘ کہ اپنے قومی وجود کو زندہ رکھے اور ترقی دے۔
بلاشبہ یہ کہنا بالکل صحیح ہے‘ کہ کوئی قوم اپنے نیشنل ٹائپ کی حفاظت اور ترقی کے لیے کچھ نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ آزاد نہ ہو جائے لیکن اس کے ساتھ یہ سمجھ لینا بھی ضروری ہے‘ کہ جس ملک میں متعدّد قومیں مختلف قومی ہیئتوں کے ساتھ رہتی ہوں وہاں مجرد ملک کی آزادی کو ہر ہر قوم کی آزادی نہیں کہا جا سکتا۔ وہاں آپ کو صراحت کے ساتھ یہ بتانا پڑے گا کہ آزاد حکومت کی نوعیت کیا ہو گی۔ اگر آزاد حکومت کے لیے آپ کے پاس اس جمہوریت کے ا صول ہوں جس کے معنی محض اکثریت کی حکومت کے ہیں۔ تو لامحالہ یہ آنے والی آزادی صرف اس قوم کے لیے آزادی ہو گی‘ جو کثیر التعداد واقع ہوئی ہو، قلیل التعداد قوموں کے لیے اس کے معنی بجز اس کے کچھ نہ ہوں گے کہ وہ غیر ملکی اقتدار سے نکل کر خود اپنی ایک ہم وطن قوم کی تابع ہو جائیں۔ ایسی آزادی کو نہ تو قلیل التعداد قومیں اپنے لیے آزادی سمجھ سکتی ہیں‘ اور نہ یہ توقع کر سکتی ہیں‘ کہ اکثریت کی حکومت کے تحت رہ کر انہیں اپنے نیشنل ٹائپ کی حفاظت اور ترقی کا کوئی موقع مل سکے گا۔ آزادی کی جنگ میں ان کے لیے صرف اسی وقت کشش پیدا ہو سکتی ہے‘ جب کہ آزاد حکومت کا ایک ایسا نقشہ ان کے سامنے پیش کیا جائے ‘جس میں ان کے لیے بھی حکومت خود اختیار رکھی گئی ہو۔ اس لیے کہ صرف حکومت خود اختیاری ہی وہ چیز ہے‘ جس سے کوئی قوم اپنے نیشنل ٹائپ کی حفاظت و ترقی کے لیے کچھ کر سکتی ہے، اور نیشنل ٹائپ کی حفاظت و ترقی ہی وہ واحد غرض ہے‘ جس کے لیے کوئی قوم آزادی چاہتی اور آزادی کی خاطر لڑ سکتی ہے۔
رہا یہ قول کہ ملک کی خوشحالی میں تمام باشندگانِ ملک کا یکساں حصہ ہو گا خواہ ملک کا نظامِ حکومت بالکل اکثریت کے ہاتھوں میں ہی کیوں نہ ہو، تو یہ قطعاً غلط ہے۔ جہاں قومی امتیاز موجود ہو وہاں ترجیح ہم جنس لازماً موجود ہوتی ہے۔ اور جہاں ترجیح ہم جنس پائی جاتی ہو وہاں صرف عقائد، جذبات، طرز زندگی، زبان و ادب اور تہذیب و تمدّن ہی کے معاملہ میں ایک قوم کا مفاد دوسری قوم سے مختلف نہیںہوتا بلکہ معاشی، سیاسی اور انتظامی معاملات میں بھی لازما مختلف ہو جاتا ہے۔ وہاں جس طرح ایک قوم اپنی تعلیم، اپنی معاشرت اور اپنی تہذیب کے سوال کو بے خوف و خطر دوسری قوم کے ہاتھ میں نہیں دے سکتی،ا سی طرح وہ اپنی روٹی کے سوال کو بھی اس کے ہاتھ میں دے کر مطمئن نہیںہو سکتی، اور نہ انتظامی و تشریعی ادارت میں اپنی نمائندگی کے سوال کو ا س پر چھوڑ سکتی ہے۔ جس جگہ ایک شخص پانی پینے اور کھانا کھانے کے لیے بھی یہ دیکھتا ہو‘ کہ پانی لانے والا اور کھانا بیچنے والا اس کا ہم قوم ہے‘ یا نہیں، جہاں ایک شخص بازار میں خرید و فروخت کرتے وقت بھی دکاندار کی قومیّت پر نظر رکھتا ہو، جہاں ایک مزدور سے خدمت لیتے ہوئے یا کسی آدمی کو ملازم رکھتے ہوئے بھی دیکھا جاتا ہو‘ کہ اس مزدور یا اس اُمیدوار کا تعلق کس قوم سے ہے، وہاں یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کے سارے باشندوں کا معاشی یا سیاسی مفاد یکساں ہے، اور کسی ایک قوم کے ہاتھ میں حکومت کے اختیارات سمٹ جانے سے دوسری قوم کے پیٹ کو کوئی خطرہ نہیں۔
پھر جیسا کہ میں پہلے اشارہ کر چکا ہوں، یہ خیال کرنا بھی بالکل غلط ہے‘ کہ دولت آفرینی اور تقسیم دولت اور معیار زندگی کی ترقی اور ضروریات زندگی کی فراہمی کے مسائل کا کوئی تعلق تہذیب و تمدّن سے نہیں ہے۔ اس باب میں ہر جماعت اپنا الگ الگ مسلک اور الگ نقطۂ نظر رکھتی ہے‘ اور محض آسائش جسمانی کے لالچ سے اس بات پر آمادہ نہیں ہو سکتی کہ اپنے نقطۂ نظر کو دوسرے نقطۂ نظر سے بدل لے۔ آپ اشتراکی جماعت سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ اپنے نظریات معیشت و اجتماع کو کسی لالچ کی بنا پر سرمایہ دارانہ نظریات سے بدل لے گی۔ اسی طرح آپ کو ایک مسلمان سے بھی یہ توقع نہ کرنی چاہیے‘ کہ وہ ان مسائل کو حل کرنے میں اپنے مخصوص نقطۂ نظر کو بدل دے گا اور اپنے آپ کو دوسروں کے حوالہ کر دے گا کہ وہ جس طرح چاہیں اس کے لیے دولت کی پیدائش اور اس کی تقسیم کے سوال کو حل کر دیں، درآنحالیکہ یہ سوال اس کی تہذیب و تمدّن کے نقشے کو بنانے اور بگاڑنے میں فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے۔
اس بحث سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے‘ کہ جو لوگ ’’آزادی‘‘ کا لفظ زبان سے نکال کر یہ توقع رکھتے ہیں‘ کہ ہندوستان کے مسلمان اس نام کو سنتے ہی ان کی طرف دوڑے چلے آئیں گے،ا ور جب ان کی یہ توقع پوری نہیں ہوتی‘ تو مسلمانوں کو بزدلی اور رجعت پسندی‘ اور سامراج پرستی کے طعنے دیتے ہیں، وہ کس خام خیالی میںمبتلا ہیں۔ ہر قوم میں تھوڑے یا بہت افراد ایسے ضرور نکل آتے ہیں‘ جو اپنے تخیلات و اوہام میں گم ہو کر اپنے قومی مفاد کو بھول جاتے ہوں‘ اور ایسے افراد بھی ضرور پائے جا سکتے ہیں‘ جو دن کی روشنی میں بھی نمایاں حقائق کو نہ دیکھ سکتے ہوں۔ مگر ایک پوری کی پوری قوم نہ اندھی ہو سکتی ہے‘ اور نہ بیوقوف۔ وہ کسی آواز پر دوڑ پڑنے سے پہلے یہ ضرور دیکھے گی کہ اس کو کس طرف بلایا جا رہا ہے۔ وہ محض آزادی کی پکار پر فریفتہ نہیں ہو سکتی۔ بلکہ عین اس کی عقل اور فطرت کا اقتضا ہے‘ کہ اس پکار کی حقیقت پر غور کرے اور یہ تحقیق کرے کہ آزادی حاصل کرنے کے لیے کون سا طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے‘ اور پکارنے والے جس آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اس کی نوعیت کیا ہے۔
آئندہ صفات میں انہی دو سوالات کی تحقیق کی جائے گی۔
خ خ خ
باب ۱۰ : قوم پرستوں کے نظریات
خوش قسمتی سے ہمارے پاس ایک ایسی کتاب موجود ہے‘ جس میں ہندستان کے بین الاقوامی مسئلے اور اس کے حل، اور ہندستان کی آزاد حکومت کے نقشے اور اس کے طریقِ حصول کے متعلق ’’قوم پرست جماعت‘‘ کے نظریہ کی پوری تشریح مل جاتی ہے۔ یہ کتاب پنڈت جواہر لال نہرو کی تصنیف ہے، جو نہ صرف کانگریس کے صدر رہ چکے ہیں، بلکہ گاندھی جی کے متوقع جانشین سمجھے جاتے ہیں۔ اگرچہ آگے چل کر ہم اس قوم پرستی کے تمام اساطین سے استفادہ کرنے والے ہیں، مگر بحث کی ابتداء بھارت بھوشن پنڈت جواہر لال نہرو کے افادات سے کرنا ہر آئینہ مناسب ہے۔
پنڈت جی کو یہ فخر حاصل ہے‘ کہ انہوں نے ہندستان کے بین الاقوامی مسئلہ کا ایک نیا حل دریافت کیا ہے‘ جس کی گہرائیوں تک یا تو ان سے پہلے کے ہندستانی سیاستدانوں کی نظرنہ پہنچی تھی، یا ان میں ایسا انقلابی حل پیش کرنے کی جرأت نہ تھی۔اس حل کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ان نظریات کا تجزیہ کرنا ضروری ہے‘ جن کو پنڈت جی نے بطور اصول موضوعہ کے تسلیم کر لیا ہے‘ اور پھر انہی پر اس پالیسی کی بنیاد رکھی ہے‘ جسے وہ اس مسئلہ کا صحیح حل سمجھتے ہیں۔ میں ان نظریات کو ترتیب وار بیان کروں گا تاکہ اس پالیسی کی پیدائش اور اس کے ارتقاء کا پورا نقشہ آپ کے سامنے آجائے۔
اصولِ موضوعہ
پنڈت جی کے تصوّر کی ابتداء یہاں سے ہوتی ہے‘ کہ وہ ہندستان کی آبادی کو ایک قوم فرض کرتے ہیں۔ تاریخ یورپ اور سیاسیات یورپ کے مطالعہ سے ان کے ذہن میں قومیّت کا صرف ایک ہی تصوّر پیدا ہوا ہے،ا ور وہ یہ کہ ایک جغرافی رقبہ کی تمام آبادی ایک قوم ہے‘ اور اس کو ایک ہی قوم ہونا چاہیے۔ وہ دیکھتے ہیں‘ کہ فرانس ایک ملک اور ایک قوم ہے، جرمنی ایک ملک اور ایک قوم ہے۔ اٹلی، انگلستان، ہسپانیہ وغیرہ ایک ایک ملک اور ایک ایک قوم ہیں۔ اس مشاہدے کے دوران میں ان کی نظر اس حقیقت کی طرف نہیں جاتی کہ ان میں سے ہر ملک کے باشندے ایک اسپرٹ، ایک قسم کے تمدّن اور کم از کم قریبی دور کی حد تک ایک قسم کی تاریخی روایات کے حامل ہیں، اور وہ تمام عناصر ترکیبی جن سے ایک قومیّت وجود میں آتی ہے ان کے درمیان مشترک ہیں یا واقعات کی رفتار نے ان کو مشترک بنا دیا ہے‘ اور اس اشتراک ہی نے ان کے اندر یہ ہم آہنگی اور یگانگت پیدا کی ہے۔ا ن سب حقیقتوں کو نظر انداز کر کے وہ ایک نہایت سطح بین آدمی کی طرح یہ فرض کر لیتے ہیں‘ کہ ان سب ممالک میں قومیّت کی اساس رشتہ وطنیت کا اشتراک ہے، اور اسی طرح سے ہر خاک وطن کی پیداوار کو ایک ہی قوم ہونا چاہیے، یہی تصویر ہے‘ جس کے تحت ان کے قلم سے یہ الفاظ نکلے ہیں :
ہندستان میں مسلم اقلیت پر زور دینے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ بس یہی کہ ایک قوم کے اندر ایک دوسری قوم موجود ہے‘ جو یکجا نہیں ہے، منتشر ہے،مبہم ہے‘ اور غیر متعین ہے۔ اب سیاسی نقطۂ نظر سے اگر دیکھا جائے‘ تو یہ تخیل بالکل لغو معلوم ہوتا ہے‘ اور معاشی نقطۂ نظر سے یہ بہت دوراز کار ہے‘ اور بد قت قابلِ توجہ کہا جا سکتا ہے، مسلم قومیّت کا ذکر کرنے کے معنی یہ ہیں‘ کہ دنیا میں کوئی قوم ہی نہیں۔ بس مذہبی اخوت کا رشتہ ہی ایک چیز ہے، اس لیے جدید مفہوم میں کوئی قومیّت نشوونما نہ پاسکے۔
(میری کہانی، جلد دوم صفحہ ۳۳۱، مکتبہ جامعہ دہلی)
اس عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے‘ کہ پنڈت جی کے ذہن میں ہندستانی قومیّت کا تصوّر کیا ہے۔ممکن ہے‘ کہ یہ مطالعہ اور فہم کا قصور ہو، یا ہندستان کو ایک قوم دیکھنے کی آرزو نے ان کے ذہن کو روشن ترین حقائق کے ادراک سے عاجز کر دیا ہو۔ بہرحال یہ واقعہ ہے‘ کہ وہ قوم پرستی اور فرقہ پرستی کے الفاظ کو بالکل حقیقی معنوں میں لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہندستان میں ایک ہی قوم رہتی ہے، اور یہ مسلمان، ہندو، عیسائی وغیرہ محض اس قوم کے فرقے ہیں۔ اسی بنا پر وہ ہندستان کی ان جماعتوں کے اختلافات کو ’’فرقہ وارانہ‘‘ مسئلے سے تعبیر کرتے ہیں، اور یہ بنیادی حقیقت ان کے ذہن کی گرفت میں آتی ہی نہیں کہ یہ مسئلہ دراصل فرقہ وارانہ نہیں‘ بلکہ بین الاقومی ہے۔ آپ چاہیں تو اسے بد قسمتی کہیے اور بہت ہی ناگوار چیز سمجھئے، مگر ہے یہ حقیقت اور اس حقیقت کو نظر انداز کرنے میں پنڈت جی تنہا نہیں ہیں‘ بلکہ تمام ’’قوم پرست‘‘ ان کے شریک حال ہیں۔
تصوّر قومیّت کے بعد دوسرا تصوّر جو صاحب موصوف کے دماغ پر حاوی ہے وہ کارل مارکس کا فلسفہ تاریخ ہے۔ یہاں اس فلسفہ کی تشریح کا موقع نہیں۔ مختصر یہ کہ جس طرح کسی بھوکے سے پوچھا گیا کہ دو اور کتنے ہوتے ہیں‘ تو اس نے کہا تھا‘ کہ چار روٹیاں، اسی طرح معاشی مصائب کے مارے ہوئے اس فلسفی نے بھی دنیا کے تمام مسائل کا مرکز و محور صرف روٹی کے مسئلہ کو قرار دیا ہے۔ تاریخ کے تمام انقلابات میں اس کو معاشی طلب یا بھوک کے سوا کوئی قابلِ توجہ عامل(factor) نظر نہیں آتا۔ اس کے نزدیک جواہر لال نہرو کے الفاظ میں:
دنیا کی ساری تاریخ کا خلاصہ یہ ہے‘ کہ معاشی مفاد ہی وہ قوّت ہے‘ جو جماعتوں اور طبقوں کے سیاسی خیالات کی تشکیل کرتی ہے۔ (صفحہ ۴۵۷)
اگرچہ پنڈت جی بقول خود کسی اذعانی عقیدے (dogma) کے قائل نہیں ہیں۔ مگر مارکس کی اس تعبیرِ تاریخ کو انہوں نے وحی آسمانی کی طرح قبول کیا ہے‘ اور اس کے متعلق وہ فرماتے ہیں‘ کہ ’’اب میرے نزدیک تاریخ کے معنی ہی بدل گئے، مارکس کی تعبیر نے اسے کہیں زیادہ روشن اور واضح کر دیا‘‘۔ (صفحہ ۱۴۱)
اپنے تصوّر قومیّت کے ساتھ اس مارکسی فلسفہ کو ملا کر پنڈت جی یہ نظریہ قائم کرتے ہیں‘ کہ اوّل تو ہندستان کی تمام آبادی ایک قوم ہے۔ پھر اس قوم میں اگر کوئی حقیقی امتیاز و اختلاف ہو سکتا ہے‘ تو وہ صرف معاشی بنیاد ہی پر ہو سکتا ہے۔یہ ہندو اور مسلم اور عیسائی، یعنی مذہب کی بنیاد پر جو اختلافات ہیں، یہ کسی طرح معقول نہیں ہیں۔ اختلاف کی فطری اور معقول بنیاد یہ ہے‘ کہ قوم کے اندر جن کے پاس ایک روٹی ہو وہ سب ایک گروہ ہوں۔ اور جن کے پاس دو روٹیاں ہوں وہ دوسرا گروہ ہوں، وھلَّم جرّا، پھر اگر ان کو لڑنا ہو تو روٹیوں پر لڑیں۔ بلکہ ’’اگر‘‘ کیا معنی، ان کو اسی چیز پر لڑنا چاہیے۔
اسی نظریہ کی بنیاد پر ہندوستان جدید کا یہ لیڈر کہتا ہے :
معاشی نقطۂ نظر سے یہ (یعنی مسلم قومیّت کا تخیل) بہت دور ازکار ہے‘ اور بدّقت قابلِ توجہ کہا جا سکتا ہے۔(صفحہ ۳۳۱)
ایسے لوگ ابھی تک زندہ ہیںجو ہندستان کا ذکر اس طور پر کرتے ہیں گویا وہ ملتوں اور قوموں کے بارے میں گفتگو ہے۔ جدید دنیا میں اس دقیانوسی خیال کی گنجائش نہیں ہے۔ آج جماعتوں اور ملتوں کی بنیاد اقتصادی فوائد پر رکھی جاتی ہے۔
(جواہر لال کا خطبہ صدارت آل انڈیا نیشنل کنونشن منعقدہ مارچ ۱۹۳۷ء)
اس کے بعد یہ سوال سامنے آتا ہے‘ کہ جب سارے ہندستان کی آبادی ایک قوم ہے، اور اس قوم کے درمیان فرقے اور گروہ بننے کی وجہ محض معاشی اغراض ہی ہو سکتی ہیں، تو پھر یہ ہندو مسلم اور دوسرے فرقے پیدا کیسے ہو گئے؟ یہ معاملہ کیا ہے‘ کہ غیر معاشی چیزوں نے ہندوؤں کو ایک ’’فرقہ‘‘ اور مسلمانوں کا دوسرا ’’فرقہ‘‘ بنا دیا اور ان کے درمیان غیر معاشی وجوہ نے اختلاف پیدا کر دئیے؟ یہاں موقع تھا‘ کہ پنڈت جی خود اس نظریہ ہی پر نظر ثانی کرتے جسے انہوں نے مارکس کی ’’وحی‘‘ سے بے سوچے سمجھے اخذ کیا اور اذعانی عقیدے کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ ان کے سامنے واقعات کی دنیا میں ایک کھلی ہوئی حقیقت موجود تھی‘ جو شہادت دے رہی تھی‘ کہ انسان کے جسم میں صرف معاہدہ ہی ایک عضو رئیس نہیں ہے۔ صرف بھوک ہی وہ چیز نہیں ہے‘ جو اس کی ذہنیت اور اس کے خیالات کی تشکیل کرتی ہو۔ صرف معاشی عامل (economic factgor) ہی ایک عامل نہیں ہے‘ جو انسانوں کو قوموںاور گروہوں کی شکل میں مجتمع کرتا اور ان کے درمیان اختلاف پیدا کرتاہو۔ مگر انہوں نے تمام حقائق سے آنکھیں بند کرکے یہ رائے، عقلی و استدلالی نہیں‘ بلکہ رجحانی و وجدانی رائے قائم کر لی کہ یہ مذہبی تفریق ایک غیر فطری چیز ہے، اور اس مادئہ فاسد یعنی مذہب نے دخل انداز ہو کر ’’ہندستانی قوم‘‘ کو ایک صحیح بنیاد (یعنی روٹی کی بنیاد) کے بجائے، ایک غلط بنیاد (یعنی طرزِخیال اور طریقِ زندگی) کی بنیاد پر متفرق کر دیا ہے۔
اس تصوّر کے زیرِ اثر، جگہ جگہ وہ مذہب پر یوں غصہ اتارتے ہیں :
جس چیز کو مذہب یا منظم مذہب کہتے ہیں اسے ہندوستان میں اور دوسری جگہ دیکھ دیکھ کر میرا دل ہیبت زدہ ہو گیا ہے۔ میں نے اکثر مذہب کی مذّمت کی ہے‘ اور اسے اکثر مٹا دینے کی آرزو تک ظاہر کی ہے، قریب قریب ہمیشہ ایسا معلوم ہوتا ہے‘ کہ یہ اندھے یقین اور ترقی دشمنی کا، بے دلیل عقیدت اور تعصب کا، توہم پرستی اور لوگوں سے بے جا فائدہ اٹھانے کا، قائم شدہ حقوق اور مستقل اغراض رکھنے والے کے بقا کا حمایتی ہے۔ (صفحہ ۱۶۱)
مذہب کے خلاف نفرت و غضب کا اظہار ’’ہندستانی قوم‘‘ کے اس لیڈر نے اتنی کثرت کے ساتھ کیا ہے‘ کہ تمام تحریروں کو نقل کرنا ایک طول عمل ہے۔ وہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں ہر اس موقع پر جہاں ہندو مسلم کا نام آتا ہے، چیں بجیں ہو کر کہتے ہیں‘ کہ ’’مذہب کو بیچ میں کیوں لاتے ہو‘‘؟ اس ارشاد سے ان کی مراد یہی ہوتی ہے‘ کہ سیاسی، اجتماعی اور معاشی گروہوں میں مذہب کی بنیاد پر تفریق کرنا سرے سے غلط ہے۔ اس غلط بنیاد کو ڈھانا چاہیے، نہ کہ اس کو سامنے لاکر ایک قابلِ لحاظ چیز قرار دینا۔
ہندستانی ’’قوم‘‘ میں فرقوں کے وجود اور ان کے باہمی اختلاف کی یہی ایک توجیہ ہمارے وطنی لیڈر کے پاس نہیں ہے۔ دوسری توجیہ اس سے بھی زیادہ دل چسپ ہے۔ وہ اس کو برطانوی امپیریل ازم کی پیدا کردہ چیز سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ خیال ہے‘ کہ انگریزوں کو اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے ہندوستانی قوم میں اختلاف پیدا کرنے کی ضرورت تھی اسی لیے اور صرف اسی لیے یہ اختلافات موجود ہیں۔
دیکھیے، یہاں نظر کا کتنا بڑا پھیر ہو گیا ہے۔ اگر پنڈت جی ذرا سمجھ سے کام لیتے تو یہ بات بآسانی ان پر واضح ہو سکتی تھی‘ کہ ہندوستان میں حقیقی اختلافات موجود تھے، انگریزوں نے ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی‘ اور اس کوشش میں دو قسم کے لوگوں سے ان کو مدد ملی۔ ایک وہ خود غرض لوگ جو اپنے ذاتی فائدے کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نزاعات کو بھڑکاتے اور پیچیدہ تر بناتے ہیں۔ جنہوں نے نہایت چالاکی سے اپنے آپ کو ان دونوں کا سرپرست اور نمائندہ بنا لیا ہے، نہ اس لیے کہ ان کے اختلافی مسائل کو اطمینان بخش طریقہ پر حل کریں، بلکہ محض اس لیے کہ ان اختلافات کو دائما برقرار رکھ کر اپنے ذاتی مفاد اور برطانی سلطنت کے مفاد کی خدمت کرتے ہیں۔ دوسرے وہ بے وقوف لوگ جو ان اختلافات کی حقیقت کو سمجھنے اور انہیں دانش مندی کے ساتھ حل کرنے سے انکار کرتے ہیں‘ اور اس طرح ان کے برقرار رکھنے میں مدد گار بنتے ہیں۔ اگر پنڈت جی اس مسئلے کو دیکھتے تو انہیں راستہ صاف نظر آتا۔ لیکن وہ اپنے تخیل کی آنکھ سے اس کو دیکھتے ہیں‘ اور محض یہ دیکھ کر کہ ملک کے چند خود غرض اور ترقی دشمن لوگ انگریزی حکومت کے ساتھ مل کر ہندو مسلمانوں کے اختلافی مسائل سے ناجائز فائدہ اُٹھا رہے ہیں، یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں‘ کہ درحقیقت ان اختلافی مسائل کی کوئی اصلیت نہیں ہے، بلکہ یہ صرف برطانوی امپیریل ازم اور اس کے ہندستانی ایجنٹوں کی پیدا کردہ چیز ہے۔ اس بنا پر وہ جگہ جگہ ’’فرقہ وارانہ‘’‘ مسئلے کے متعلق اس قسم کے خیالات کا اظہار فرماتے ہیں :
ان کا (انگریزوں کا) ترپ کا پتہ فرقہ وارانہ مسئلہ تھا‘ اور اسے انہوں نے خوب کھیلا۔
(صفحہ ۲۰)
فرقہ پروروی کے پردہ میں دراصل ترقی دشمنی نہاں ہے۔ (صفحہ ۲۳)
اور اغراض کے اس ہجوم میں برطانوی ہند کے نمائندوں کی سرداری عموماً آغا خان کے حصہ میں آئی تھی۔ (صفحہ ۲۱)
اصل دقّت فرقہ پروری نہیں ہے۔ اصل میں سیاسی ترقی دشمنی راہ میں حائل تھی۔ اور فرقہ وارانہ مسائل کی آڑ میں کام کر رہی تھی۔ (صفحہ ۲۴)
حکومت روز بروز معاشرتی خرابیوں کی پشت پناہ بنتی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے‘ کہ اس کا میل جول ہندستان کی سب سے زیادہ رجعت پسند جماعتوں سے رہتا ہے۔ جوں جوں اس کی سیاسی مخالفت بڑھتی جاتی ہے اسے عجیب عجیب حمایتی ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ آج کل برطانوی حکومت کے سب سے بڑے حامی انتہائی فرقہ پرست، مذہبی رجعت پسند اور اصلاح و ترقی کے دشمن لوگ ہیں۔ مسلمانوں کی فرقہ پرست جماعتیں سیاسی، معاشی اور سماجی اعتبار سے انتہائی رجعت پسند ہیں۔ ہندو مہاسبھا بھی ان سے کچھ کم نہیں۔ (صفحہ ۱۷۵)
فرقہ پرست رہنماؤں کا اتحاد ان لوگوں کے ساتھ ہو گیا ہے‘ جو ہندوستان اور انگلستان میں سب سے زیادہ رجعت پسند لوگ کہے جا سکتے ہیں، اور یہ لوگ فی الحقیقت سیاسی اور سیاسی سے بھی زیادہ تمدّنی اصلاح و ترقی کے دشمن ہیں۔ ان کے جملہ مطالبات میں سے ایک بھی عوام النّاس کے فائدے کے لیے نہیں ہے۔ (صفحہ ۳۳۱)
یہ اور ایسی ہی بہت سی تحریریں پنڈت جی کے اندازِفکر پر صاف روشنی ڈالتی ہیں۔ ان کا اندازِفکریہ ہے‘ کہ بیمار کا خود غرض طبیبوں اور عطاروں کے پھندے میں پھنس جانا اس بات کی دلیل ہے‘ کہ وہ دراصل بیمار ہی نہیں۔ ان کی رائے میںیہ تحقیق کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ آخر کیا چیز ہے‘ جس کی وجہ سے ان مکار طبیبوں اور عطاروں کو اس بیمار پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ سبب پر غور کرنے اور غلط معالجوں کے پھندے سے نکال کر خود صحیح علاج کرنے کی زحمت کوئی اٹھائے۔ اس کا علاج بس یہی ہے‘ کہ مرض کے وجود سے انکار کر دیا جائے۔
ہندستان کے بین الاقوامی مسئلہ کی یہ دو توجیہیں کرنے کے بعد پنڈت جی ان دونوں کے درمیان رشتہ جوڑتے ہیں۔ ان کا نظریہ ترقی کرکے یہ صورت اختیار کرتاہے‘ کہ مذہب نے ہندستانی’’قوم‘‘ کو ’’فرقوں’‘‘ میں تقسیم کیا ہے، انگریزی امپیریل ازم (سامراج) کے لیے یہ تقسیم مفید ہے‘ اور سرمایہ دارانہ، زمیندارانہ اور تمام مستقل اغراض (vested Interests) رکھنے والے طبقے سامراج کے ساتھ سازش کرکے اس تقسیم کو اپنی اور سامراج کی مشترک اغراض کے لیے استعمال کر رہے ہیں، لہٰذا مذہب، اور سامراج اور خود غرض طبقے، تینوں باہمی قریبی رشتہ دار ہیں، تینوں قابلِ نفرت ہیں‘ اور تینوں کو مٹا دینا چاہیے۔ اسی نظریہ کے تحت یہ ارشادات جگہ جگہ پنڈت جی کے قلم سے نکلے ہیں :
’’منظم مذہب (organized religion) بلا استثناء مستقل اغراض سے وابستہ ہو جاتا ہے‘ اور یوں لازمی طور پر ایک ترقی دشمن قوّت بن کر تغیّر اور ترقی کی مخالفت کرتا ہے۔ حق ملکیت اور موجودہ نظام معاشرت کے متعلق اس کا روّیہ یہی ہے۔ (صفحہ ۶۸-۱۶۷)
جیل میںبرطانوی افسر صرف دو قسم کی کتابیںپڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ مذہبی کتابیں اور ناول، یہ عجیب بات ہے‘ کہ حکومت برطانیہ مذہب کی بڑی قدر دان ہے‘ اور بڑی بے تعصبی کے ساتھ ہر قسم کے مذہب کی ہمت افزائی کرتی ہے۔ (صفحہ ۱۱۸)
مذہب امن کا وعظ کہتا ہے‘ لیکن اس کے باوجود ایسے نظام کی تائید کرتاہے جس کا دارو مدار ظلم پر ہے۔ (صفحہ ۳۹۴)
اشتراکیت
ان تینوںدشمنوں کی سازش سے ہندستان کو نجات دلانے اور اس ملک کو پھر جنت نشاں بنا دینے کی جو صورت پنڈت جی کے پیشِ نظر ہے وہ حسب ذیل ہے:
پھر پھر کر ہم اسی چیز پر پہنچ جاتے ہیں جس کے سوا اس مسئلہ کا اور کوئی حل نہیں۔ یعنی ایک اشتراکی نظام کا قیام، پہلے قومی دائرے میں اور پھر ساری دنیا میں۔ ایسا نظام جس میں دولت کی پیدائش اور تقسیم ریاست کی نگرانی میں مفاد عامہ کے لحاظ سے کی جائے۔ یہ انقلاب کس طرح ہونا چاہیے؟ یہ ایک جُدا گانہ سوال ہے۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے‘ کہ جس چیز میں پوری قوم بلکہ کل نوعِ انسانی کی بھلائی ہو وہ محض اس وجہ سے نہیں روکی جا سکتی کہ کچھ لوگ جو موجودہ نظام سے فائدہ اٹھاتے ہیں اس تغیّر کے مخالف ہیں۔ا گر سیاسی یا تمدّنی ادارے{ FR 2925 }اس تبدیلی کی راہ میں حائل ہیں‘ تو ان کو مٹا دینا چاہیے۔
(صفحہ ۲۰-۲۰۹)
جب تک ہمیں تھوڑی بہت سیاسی آزادی حاصل نہ ہو گی، ہمارے لیے قوم پرستی کا تخیل ہی سب سے بڑا محرکِ عمل رہے گا، یہاں تک کہ لوگوں کے دل میں قوم پرستی کے جذبہ کی جگہ تمدّنی و اجتماعی انقلاب (social revolution) کا جذبہ{ FR 2927 } پیدا ہو جائے۔ (صفحہ ۱۴۵)
بعض لوگ جو عدم تشدد کا عقیدہ رکھنے کے مدعی ہیں، کہتے ہیں‘ کہ شخصی ملکیت کو اس کے مالکوں کی مرضی کے خلاف قومی ملکیت بنانے کی کوشش کرنا جبر ہے، اس لیے یہ عدم تشدد کے خلاف ہے۔ یہ کافی نہیں سمجھا جاتا کہ اکثریت موجودہ نظام میں تبدیلی چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ شرط لگائی جاتی ہے‘ کہ جن لوگوں کو اس تبدیلی سے نقصان پہنچنے والا ہے انہیں بھی راضی کر لینا چاہیے۔ یہ اُمید رکھنا کہ ایک پورے طبقے یا پوری قوم کے عقائد بدلے جا سکیں گے یا اپنے حریفوں کو عقلی دلائل سے قائل کرنے یا ان کے جذبہ انصاف کو ابھارنے سے باہمی مخالفت دور ہو جائے گی، اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔یہ محض ایک فریب خیال ہے‘ کہ مؤثر دباؤ ڈالے بغیر، یعنی جبرو تشدد سے کام لیے بغیر کوئی حاکم قوم محکوم ملک سے قبضہ اُٹھا لے گی، یا کوئی طبقہ اپنے اقتدار یا امتیازی حقوق سے دستبردار ہو جائے گا۔{ FR 2928 } (صفحہ ۵۸، ۴۵۶)
دراصل جمہوری حکومت کے معنی یہ ہیں‘ کہ اکثریت، اقلیت کو ڈرا کر اور دھمکا کر اپنے قابو میں رکھتی ہے۔{ FR 2929 } (صفحہ ۴۴۵)
سوسائٹی کی موجودہ کش مکش یعنی قومی جنگ اور پھر طبقات کی جنگ کا تصفیہ جبر کے سوا کسی اور صورت سے ممکن نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ پہلے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کا کام بہت بڑے پیمانہ پر کرنا پڑے گا۔ کیونکہ جب تک بہت بڑی جماعت ہم خیال نہ ہو جائے اس وقت تک نظام تمدّن کو بدلنے کی کوئی تحریک مضبوط بنیاد پر قائم نہ ہو سکے گی۔ لیکن اس کے بعد تھوڑے لوگوں پر جبر کرنے کی ضرورت ہو گی۔ (صفحہ ۷۰-۴۶۹)
یہ ہے وہ نقشہ جو ہندستان کی نجات کے لیے اس کے سب سے بڑے لیڈر کے ذہن میں ہے۔ قومی حکومت (یعنی وہ حکومت جو مذہبی قومیّتوں کو مٹا کر ’’قومی‘ بنائی جائے) آخری منزلِ مقصود نہیں ہے، بلکہ پہلا مرحلہ ہے، دوسرا مرحلہ یہ ہے‘ کہ مذہبی عقائد کے بجائے معاشی عقائد کی تبلیغ کرکے ایک عظیم اکثریت کو ہم خیال بنایا جائے۔اس کے بعد تیسرا مرحلہ یہ ہے‘ کہ جو اقلیت اس معاشی مذہب کی پیروی قبول نہ کرے اس کو ڈرا کر، دھمکا کر، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کرکے، وسیع پیمانہ پر اجتماعی ڈاکہ زنی کرکے نظام تمدّن میں انقلاب پیداکیا جائے۔ پھر آخری مرحلہ یہ ہے‘ کہ تھرڈ انٹرنیشنل کے اصول پر تما م دنیا میں کمیو نزم کی اشاعت اور اس کے قیام کا بیڑا اٹھایا جائے ‘جس طرح تھوڑی مدت قبل روس نے اُٹھا رکھا تھا۔ ظاہر ہے‘ کہ ہندستان سے جس بین الاقوامی اشتراکیت کا علم بلند کیا جائے گا اس کی ٹکر سب سے پہلے اس بین الاقوامی نظامِ اجتماعی سے ہو گی‘ جو ہندستان کے ہمسایہ ممالک میں پھیلا ہوا ہے، یعنی اسلام۔
پنڈت جواہر لال سمجھتے ہیں‘ کہ مسلمان بہادر ہیں، بھوکے ہیں، اور اس کے ساتھ ان کے اندر اشتراکیت کے عناصر پہلے سے موجود ہیں۔ لہٰذا ہندوؤں کی بہ نسبت وہ اشتراکی انقلاب کے لیے زیادہ اچھے سپاہی بن سکتے ہیں۔ مزید برآں وہ یہ بھی سمجھتے ہیںکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وہی لوگ زیادہ کامیابی کے ساتھ لڑ سکیں گے جن کے نام اور لباس مسلمانوں کے سے ہوں۔ لہٰذا وہ اشتراکیت کی لاگ{ FR 2930 } سے مسلمانوں کو اپنی فوج میںبھرتی کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ اسی بنا پر ارشاد ہوتا ہے :
میرے خیال میں عام مسلمان، عام ہندوؤں سے زیادہ صلاحیّت رکھتے ہیں، اس لیے کہ ان کے نظامِ اجتماعی میں ایک حد تک آزادی پائی جاتی ہے‘ اور اگر ان میں ایک مرتبہ بے داری پیدا ہو جائے‘ تو غالبا وہ اشتراکیت کی راہ پر تیزی سے قدم بڑھائیں گے۔
(صفحہ ۵۰۶)
ان الفاظ میں پنڈت جی نے اپنے اصل مقصد کو پوری طرح واضح کر دیا ہے۔ لیکن انہیں خوب معلوم ہے‘ کہ مسلمانوں کو قوم پرستی اور پھر بین الاقوامی اشتراکیت کے نظام میں جذب کرنا آسان کام نہیں ہے، سب سے پہلے تو اسلامی قومیّت کا تخیل اس راہ میں حائل ہے‘ جس کی وجہ سے مسلمان، غیر مسلموں کے ساتھ ایک قومیّت بنانے اور اس میں جذب ہو جانے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے۔ پھر اسلامی تہذیب کے ساتھ مسلمانوں کی شیفتگی ایک دوسری رکاوٹ ہے۔ کیونکہ مسلمان اپنی تہذیب کو تمام تہذیبوں سے بہتر سمجھتے ہیں‘ اور اس کو کسی دوسری تہذیب سے بدل لینے پر آسانی کے ساتھ راضی نہیں ہو سکتے۔ اس کے بعد آخری اور اہم ترین روک یہ ہے‘ کہ اسلام کا اجتماعی نظام (سوشل سسٹم) زندگی کے سارے شعبوں پر حاوی ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمان کسی دوسرے اجتماعی نظام کو اپنی زندگی کے کسی شعبے میںبھی اس وقت تک جگہ نہیں دے سکتے‘ جب تک کہ وہ خود اسلام سے منحرف نہ ہو جائیں۔ ان مشکلات کو اچھی طرح سمجھ کر پنڈت جی نے اپنا نقشہ جنگ بنایا ہے۔
ان کا پہلا حملہ اسلامی قومیّت پر ہے۔ وہ مسلمانوں سے کہتے ہیں‘ کہ تم سرے سے کوئی قوم ہی نہیں ہو۔ یہ محض برطانوی سامراج کا ایک داؤں اور چند سامراجی ایجنٹوں کا پروپیگنڈا ہے‘ جس نے تمہارے دماغ میں یہ ہوا بھر دی ہے‘ کہ تم ایک قوم ہو۔ حالانکہ سیاسی اور معاشی نقطۂ نظر سے ہندستان میں صرف ’’ہندستانی قوم‘‘ ہی پائی جاتی ہے‘ اور اس قوم کے اندر ایک دوسری قوم کا موجود ہونا سرا سر ایک لغو تخیّل ہے :
ہندستان میںمسلم قومیّت پر زور دینے کا مطلب کیا ہوتاہے؟ بس یہی کہ ایک قوم کے اندر ایک دوسری قوم موجود ہے‘ جو یکجا نہیں ہے، منتشر ہے، مبہم ہے‘ اور غیر متعین ہے۔ اب سیاسی نقطۂ نظر سے اگر دیکھا جائے‘ تو یہ تخیل بالکل لغو معلوم ہوتا ہے‘ اور معاشی نقطۂ نظر سے یہ بہت دورازکار ہے‘ اور بدقت قابلِ توجہ کہا جا سکتا ہے۔{ FR 2931 } (صفحہ ۲۳۱)
مسلم قوم کا تخیل تو صرف چند لوگوںکو من گھڑت اور محض پرواز خیال ہے اگر اخبارات اس کی اس قدر اشاعت نہ کرتے تو بہت تھوڑے لوگ اس سے واقف ہوتے، اور اگر زیادہ لوگوں کو اس پر اعتقاد ہوتا بھی تو حقیقت سے دوچار ہونے کے بعد اس کا خاتمہ ہو جاتا۔
(صفحہ ۳۳۲)
اسلامی تہذیب کیا ہے؟
اس کے بعد وہ اسلامی تہذیب کی طرف بڑھتے ہیں‘ اور مسلمانوں کو یہ سمجھاتے ہیں‘ کہ حقیقت میں تمہاری کوئی خاص تہذیب ہی نہیں ہے:
لیکن یہ اسلامی تہذیب ہے کیا چیز؟ کیا عربوں، ایرانیوں اور ترکوں وغیرہ کے بڑے بڑے کارناموں کی ایک یاد ہے‘ جو نسلی تعلق کی وجہ سے اب تک باقی ہے؟ یا اس کا مطلب زبان، آرٹ، موسیقی اور رسم و روایات ہیں؟ مجھے تو یاد نہیں آتا کہ کوئی شخص آج کل اسلامی موسیقی یا اسلام آرٹ کا بھی ذکر کرتا ہو۔{ FR 2932 } (صفحہ ۳۳۳)
میں نے یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ یہ اسلامی تہذیب ہے کیا چیز، مگر میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں اس میںکامیاب نہ ہوا۔ میں دیکھتا ہوں کہ شمالی ہند میں متوسط طبقہ کے مٹھی بھر مسلمان اور انہی کی طرح کے ہندو بھی فارسی زبان اور روایات سے متاثر ہوئے ہیں۔ جب عوام النّاس پر نظر ڈالتا ہوں تو اسلامی تہذیب کی نمایاں ترین علامتیں یہ نظر آتی ہیں۔ ایک خاص قسم کا پاجامہ نہ زیادہ لمبا نہ زیادہ چھوٹا۔ ایک خاص طریقہ سے مونچھوں کو مونڈنا یا ترشوانا مگر ڈارھی کو بڑھنے کے لیے چھوڑ دینا۔ اور ایک قسم کا ٹونٹی دار لوٹا۔ بالکل اسی کے جواب میں ہندوؤں کے بھی چند رسمی طریقے ہیں، یعنی دھوتی باندھنا، سر پر چوٹی رکھنا اور مسلمانوںکے لوٹے سے مختلف طرز کی لٹیا رکھنا۔ یہ امتیازات بھی دراصل زیادہ تر شہروں میں پائے جاتے ہیں‘ اور مفقود ہوتے جا رہے ہیں۔ ہندو اور مسلم کاشت کاروں اور مزدوروں میں مشکل ہی سے فرق کیا جا سکتا ہے تعلیم یافتہ مسلمان شاید ہی ڈاڑھی رکھتے ہیں۔ علی گڑھ والے البتہ سرخ ٹوپی کے گرویدہ ہیں (اس کا نام ترکی ہے حالانکہ خود ترکی میں اب اسے کوئی نہیں پوچھتا)
مسلمان عورتیں ساڑھی پہننے لگی ہیں‘ اور آہستہ آہستہ پردہ سے باہر نکل رہیں ہیں۔{ FR 2933 }
(صفحہ ۳۳۵)
یہاں تک تو صرف یہ وعظ تھا‘ کہ ’’اسلامی تہذیب‘‘ حقیقت میں کسی چیز کا نام ہی نہیں ہے۔ اس کے بعد دوسرا پہلو اختیار کیا جاتا ہے‘ اور یوں ارشاد ہوتا ہے‘ کہ مسلمان جس چیز کو اپنی تہذیب کہہ رہے ہیں وہ اب زندہ نہیں رہ سکتی۔ زمانے کے انقلاب اس کو مٹا دیتے ہیں، مٹا دیں گے‘ اور خود مسلمان قومیں آج اس کو چھوڑ رہی ہیں:
اب تو پوری تہذیبوں کا زمانہ بھی بہت تیزی سے گزر رہا ہے‘ اور پوری دنیا ایک تہذیبی وحدت بنتی جا رہی ہے۔ اس ناگزیر رجحان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ (صفحہ۳۳۲)
اس زمانہ میں ہندی مسلمانوں کو پیہم صدمات پہنچے ہیں‘ اور ان کے بہت سے خیالات جن کی پرورش بڑی تمنا سے کی گئی تھی پاش پاش ہو گئے۔ اسلام کے مرد غازی، ترک نے نہ صرف یہ کہ اس خلافت ہی کو ختم کر دیا جس کے لیے ہندستان ۱۹۲۰ء میں اتنا لڑا تھا، بلکہ یکے بعد دیگرے ایسے قدم اٹھائے ہیں‘ جو مذہب سے اس کو دور لیے جا رہے ہیں۔ مصر بھی اسی راستہ پر جا رہا ہے … یہی حال عربی ممالک کا ہے سوائے ملک عرب کے جو بہت پیچھے ہے۔ ایران کی نظریں اپنے تمدّنی احیاء کے لیے تاریخ قبل از اسلام پر پڑتی ہیں۔ غرض ہر جگہ مذہب بالکل پس پشت ڈالا جا رہا ہے‘ اور وطنیت جنگ آزما لباس میں ظاہر ہو رہی ہے۔{ FR 2934 } (صفحہ ۳۳۶)
مطلب یہ ہے‘ کہ مسلمانو! یہ تم کس چیز کو لیے بیٹھے ہو؟ جو چیز فنا ہو رہی ہے، جس کا فنا ہونا یقینی ہے‘ جس کو سب مسلمان قومیں چھوڑ رہی ہیں، اسے تم کیوں پکڑے ہوئے ہو؟ چھوڑ دو اسے، اور آؤ اس راستہ کی طرف جدھر ہم بلا رہے ہیں۔
یہ سب کچھ کہنے کے بعد پھر بھی دل میں تردّد باقی رہتا ہے‘ کہ یہ کم بخت مذہب پرست مسلمان، اپنی تہذیب اور قومیّت پر جان دینے والے متعصب لوگ، اتنا سمجھانے پر بھی نہ مانیں گے لہٰذا ایک آخری حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ مسلمان کے دل میں انگریز اور اس کی غلامی سے جو نفرت ہے اسے مدد پر بلایا جاتا ہے‘ اور اس سے یوں کام لیا جاتا ہے :
ہندستان میں مسلم قوم اور اسلامی تہذیب پر اور ہندو و مسلم تہذیبوں کے انتہائی اختلاف پر بڑا زور دیا جاتا ہے، پھر اس سے یہ لازمی نتیجہ نکالا جاتا ہے‘ کہ برطانیہ کا ہندستان میںہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنا ضروری ہے تاکہ دونوں میں توازن قائم رکھے اور بیچ بچاؤ کر سکے۔ (صفحہ ۳۳۰)
(مسلم قومیّت کا ذکر کرنے کا) مطلب یہ ہے‘ کہ مطلق العنان حکومت یہاں رہنی چاہیے یا بدیسی حکومت۔ (صفحہ ۳۳۱)
ہاں اب مسلم قوم اور اسلامی تہذیب کا کیا ہو گا؟ کیا یہ دونوں آئندہ صرف شمالی ہند میں برطانیہ کی شفیق حکومت کے تحت پھلتی پھولتی رہیں گی؟ (صفحہ ۳۲۷)
یہاں پہنچ کر ہندستان کے ’’قومی‘‘ لیڈر نے اپنی سیاست دانی کے جوہر پوری طرح نمایاں کیے ہیں۔ وہ کہتا ہے‘ کہ اسلامی تہذیب اور اسلامی قومیّت صرف سرکار برطانیہ ہی کے سہارے جی سکتی ہے۔ لہٰذا جو لوگ ان دونوں کو باقی رکھنا چاہتے ہیں وہ سب ٹوڈی اور سرکار پرست ہیں‘ اور ان کا مقصد یہ ہے‘ کہ بدیسی حکومت یہاں ہمیشہ قائم رہے۔ اب اگر اس ملعون سامراج سے نجات چاہتے ہو، اگر آزادی کی خواہش ہے‘ تو اس قومیّت اور تہذیب کے تحفظ کا نام لینا چھوڑ دو۔ ورنہ جو کوئی یہ نام لے گا، ٹوڈی قرار دیا جائے گا، یہ آخری ضرب بڑی کاری ضرب ہے۔ ہماری قوم کے بہت سے حریّت پسندوںکو یہی ضرب ’’آزادی کی فوج‘‘ میں کھینچ لے گئی ہے‘ اور بہت سے ان لوگوں کی زبانوں پر اس نے مہر لگا دی ہے‘ جو حریّت پسند کہلانا چاہتے ہیں‘ اور ٹوڈیت کے گھناؤنے خطاب سے بچنا چاہتے ہیں۔
نیا حربہ
قومیّت اور تہذیب کی خبر لینے کے بعد پنڈت جی اسلام کے نظامِ اجتماعی کی طرف بڑھتے ہیں تاکہ اس کو درہم برہم کرکے جمہور مسلمین کو جدید ہندستانی قومیّت میں جذب کر لیا جائے۔
پنڈت جی کو خوب معلوم ہے‘ کہ مسلمانوں کے ہوش مند لوگ، جو اسلام سے واقف ہیں، جن میں اپنی قومیّت کا شعور پوری طرح موجود ہے، جو اپنی قومی تہذیب کو ہر چیز سے زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں، وہ تو قیامت تک اس پوزیشن کو قبول کرنے پر راضی نہ ہوں گے۔ ان کے لیے قطعی ناممکن ہے‘ کہ اسلامی قومیّت کو چھوڑ کر ہندوستانی قومیّت میں اپنے آپ کو ضم کر دیں، اور ان کو ایک لمحہ کے لیے بھی یہ گوارا نہیں ہو سکتا کہ اس تہذیب کو خیر باد کہہ دیں جسے وہ اس گئی گزری حالت میں بھی اپنی عزیز ترین متاع سمجھتے ہیں۔ قومیّت کو چھوڑنا، تہذیب سے دست بردار ہونا، جدید ہندی قومیّت اور اشتراکی تہذیب و تمدّن میں جذب ہو جانا، یہ تو بہت دور کی چیزیں ہیں۔ مسلمانوں کے اس گروہ سے تو الٹا یہ خطرہ ہے‘ کہ ہندستان کے آزاد نظامِ حکومت میں وہ اپنی قومیّت اور اپنی تہذیب کو زیادہ مضبوطی کے ساتھ قائم کرنے کی کوشش کرے گا اور اس غرض کے لیے حکومت کے اقتدار میں برابر کی شرکت حاصل کرنا چاہے گا۔
اس خطرے کو اچھی طرح محسوس کرکے پنڈت جی نے یہ تدبیر نکالی ہے‘ کہ مسلمانوں کی قومی جمعیتوں سے اب خطاب ہی نہ کیا جائے بلکہ ان کے افراد تک براہِ راست پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ یہ افراد چونکہ منتشر ہیں، مفلس ہیں، اسلام اور اس کی تہذیب کے اصولوں سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں، اسلامی نظامِ اجتماعی کا شیرازہ درہم برہم ہو جانے کی وجہ سے ان کا شعور اسلامیت بڑی حد تک مضمحل ہو چکا ہے، اس لیے ان کو بآسانی توڑ لیا جا سکتا ہے۔ قبل اس کے کہ مسلمانوں کا ’’بورژوا‘‘ طبقہ… اشتراکی زبان میں قوم کے اہلِ دماغ اور متوسط طبقوں کا یہی نام ہے۔ …بیدار ہو کر اپنی قوم کو سنبھالنے کی فکر کرے، قوم کو اس کے قابو سے نکال لیا جائے، یا زیادہ صحیح الفاظ میں اس کی ’’شدھی‘‘ کر لی جائے۔
یہی حقیقت ہے اس پالیسی کی جس کو مسلم عوام کے ساتھ ربط قائم کرنے mass contact) (muslim کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ پنڈت جی نے آل انڈیا نیشنل کنونشن کے خطبہ صدارت میں اس پالیسی کی تشریح ان الفاظ میں فرمائی تھی :
ہم نے عام لوگوں سے نگاہ ہٹا کر مدتوں فرقوں وارانہ لیڈروں کی باہمی مصالحت اور گفت و شنید میں وقت گنوایا ہے۔ یہ طریقہ نکما ہے‘ اور میں چاہتا ہوں کہ دوبارہ ادھر نگاہ بھی نہ ڈالیں۔ ایسے لوگ ابھی تک زندہ ہیں‘ جو ہندو مسلمانوں کا ذکر اس طور پر کرتے ہیں گویا دو ملتوں اور قوموں کے بارے میں گفتگو ہے۔ جدید دنیا میں اس دقیانوسی خیال کی کوئی گنجائش نہیں۔ آج جماعتوں اور ملتوں کی بنیاد معاشی مفاد پر رکھی جا رہی ہے‘ اور اس لحاظ سے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی ہب ملتوںکا بھلا اسی میں ہے‘ کہ اپنی بے کاری اور غریبی کو سامنے رکھ کر سب مل کر قومی آزادی کے لیے آگے بڑھیں۔ جب کبھی ہم اوپر کے لوگوں سے منہ موڑ کر عام لوگوں کی طرف نگاہ ڈالیں گے‘ تو ہمیں ان معاشی مصیبتوں کا حل تلاش کرنا پڑے گا۔ جو سوال ایک زمانہ سے فرقہ وارانہ مسئلہ بن گیا ہے اس کا صحیح حل یہی ہے۔
کیسے معصوم، کیسے بے ضرر ہیںیہ الفاظ! مگر کتنے زہریلے ہیں! اس سے پہلے جو تصریحات خود پنڈت جی کی زبان سے میں نقل کر چکا ہوں ان کو سامنے رکھ کر جب آپ اس نئی پالیسی کو دیکھیں گے‘ تو صاف نظر آجائے گا کہ یہ دراصل شدھی کی تحریک ہے ایک دوسری شکل میں، یہ مذہبی شدھی نہیں، سیاسی اورو معاشی شدھی ہے‘ اور اس کا نتیجہ عملاً وہی ہے‘ جو مذہبی شدھی کا تھا۔ فرق صرف یہ ہے‘ کہ وہ کھلی ہوئی تحریک ِارتداد تھی جس پر مسلمانوں کے جاہل اور عالم سب چوکنّے ہو گئے تھے‘ اور یہ ایسی خفی تحریک ِارتداد ہے‘ کہ جہلا تو درکنار علماء تک اس کی کنہ کو پہنچنے میں دقّت محسوس کر رہے ہیں۔ اس تحریک کے بانیوںنے پھوہڑ پن سے کام لیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ تم اپنی قومیّت اور اپنے مذہب کو چھوڑ کر ہندو قومیّت اور مذہب میں آجاؤ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں کوئی کو دن سے کودن آدمی بھی ایسا نہ تھا جو اس پر بھڑک نہ اُٹھا ہو۔ بخلاف اس کے اس تحریک کا بانی ایک ہوشیار شخص ہے۔ یہ کہتا ہے‘ کہ تم کوئی قوم ہی نہیں ہو۔ تمہاری کوئی تہذیب ہی نہیں ہے۔ لہٰذا کسی چیز کے چھوڑنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں۔ دراصل تم ایک قوم یعنی ’’ہندستانی قوم‘‘ کے فرد ہو مگر سامراج کے ایجنٹوں نے تم کو اس قوم سے جدا کر رکھا ہے۔ آؤ اپنی قوم میں مل جاؤ۔ آزادی حاصل کرو اور اشتراکی تہذیب کے قائم کرنے میں حصہ لو جس میں تم کو خوب روٹیاں ملیں گی … ہے یہ بھی زہر ہی کا گھونٹ، مگر دیکھیے کیسے ہوش گوش کے لوگ اسے شیر مادر سمجھ کر نوش فرما رہے ہیں۔
خ خ خ
باب ۱۱ : آزادی کی فوج کے مسلمان سپاہی
پنڈت جواہر لال کے جو خیالات گزشتہ صفحات میں پیش کئے گئے ہیں ان کو محض ایک شخص کے ذاتی خیالات سمجھ کر سرسری طور پر نظر انداز کر دینا صحیح نہیں ہے۔اوّل تو یہ اس شخص کے خیالات ہیں‘ جو گاندھی جی کے بعد کانگریس میں سب سے زیادہ با اثر ہے‘ اوردومرتبہ کانگریس کا صدر رہ چکا ہے۔ دوسرے یہ کہ جواہر لال کے بعد انہی کے ہم خیال بلکہ ان سے زیادہ سخت خیالات رکھنے والے شخص، سوباش چندر بوس کا صدر منتخب ہونا اس امر کی کھلی ہوئی دلیل ہے‘ کہ کانگریس پر ان خیالات کا پورا غلبہ ہے۔ان سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے‘ کہ اب یہ خیالات لیڈروں کے ذاتی خیالات نہیں رہے ہیں‘ بلکہ درحقیقت کانگریس کی سرکاری پالیسی کی حیثیت اختیارکر چکے ہیں۔ کانگریس نے مارچ ۱۹۳۷ء کے بعد جمہور مسلمین کے ساتھ ربط قائم کرنے کی جو تحریک (muslim mass contact) کے نام سے شروع کی ہے وہ ٹھیک ٹھیک انہی راستوں پرچل رہی ہے‘ جو پنڈت جی نے تجویز کئے ہیں۔پورا غیرمسلم پریس جو کانگریس کے زیرِ اثر ہے۔ مسلمانوں میںاسلامی قومیّت اور اسلامی تہذیب کے خلاف بغاوت پھیلانے میںلگا ہوا ہے۔ جس گوشے سے اس بغاوت کا کوئی اثر ظاہرہوتا ہے، اس کا بڑے جوش کے ساتھ خیر مقدّم کیا جاتا ہے‘ اور ہر اس آواز کو جو اسلامی شعور کے تحت کسی مسلمان کی زبان سے بلند ہوتی ہے۔ ’’فرقہ پرستی‘‘ اور’’رجعت پسندی‘‘ کے آوازے کس کر دبا دیا جاتا ہے۔
اس طرزِعمل کی توضیح کے لیے میں صرف دو مثالیں پیش کروں گا‘ جن سے اس تحریک کے رجحانات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
پچھلے سال لکھنؤ یونی ورسٹی کے ایک مسلمان نژاد طالب علم نے بر ملا اعلان کیا تھا‘ کہ میں مسلمان نہیں ہوں۔مسلمانوںنے اس پر اعتراض کیا کہ جو شخص خود اسلام سے منکر ہے وہ کسی انتخاب میں مسلمان ہونے کی حیثیت سے اُمیدوار بننے کا حق دار کیسے ہو سکتا ہے۔ اس واقعہ پر اظہار رائے کرتے ہوئے ایک کانگریسی اخبار (ہندوستان ٹائمز) لکھتا ہے :
اگر ووٹروںکی فہرست میں نام درج ہونے اور انتخابات کے لیے بحیثیت اُمیدوار کھڑے ہونے سے پہلے لوگوں کے عقائد کی تحقیقات شروع ہو گئی‘ تو ہمارا موجودہ انتشار و اختلال اورزیادہ پریشان کن ہو جائے گا۔ اس سے تو یہ بات بالکل عیاں ہو گئی کہ ہمارا یہ سارا انتخابی نظام جس کو ہمارے آقاؤں نے اس قدر کامل غور و فکر کے بعد مرتب کیا ہے، اس وقت بے کار ہو کر رہ جائے گا جب کہ لوگ صرف ہندو یا مسلمان نہ رہیں گے بلکہ فردا فرداً اپنے مخصوص عقائد اور شبہات پیدا کر لیں گے۔مسٹر نقوی کو مستبقل کے لیے ایک فال نیک سمجھنا چاہیے‘ اور کیا خبر کہ وہ آنے والی صبح صادق کے ایک پیغمبر ہوں۔
آگے چل کر اس مضمون میں انگلستان کے ان ملاحدہ کو مثالاً پیش کیا گیا ہے، جنہوں نے حریّت فکر کا علم بلند کیا تھا‘ اور اپنی مذہب پرست قوم کے ہاتھوں تکلیفیں اٹھائی تھیں مثلاً چارلس بریڈلا، مارلے اور رابرٹ انگرسول۔ پھر اسلام سے بغاوت کرنے والے اس نوجوان کو ان ’’بہادروں کی صف میں جگہ دے کر اس کی ہمت و جرأت پر تحسین و آفرین کے پھول برسائے گئے ہیں۔
ایک دوسرا کانگریسی اخبار (تیج) اپنی ۱۴؍اگست ۱۹۳۷ء کی اشاعت میںایک مسلمان عورت کا خط شائع کرتا ہے‘ جس کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
جب میرٹھ میںپوجیہ پنڈت جواہر لال نہرو تشریف لائے تو میں اپنے خاوند سے چھپ کر جلسہ دیکھنے گئی۔ اس وقت سے میرا دل بے چین رہنے لگا۔ میں نے اپنے مکان پر قومی جھنڈا لگا دیا۔ لیکن جب میرے خاوند نے اسے پھاڑ ڈالا تو میں نے سارا دن نہ کھانا کھایا اور نہ رات کو سوئی بلکہ تمام رات اور دن برابر روتی رہی۔ جب میرے خاوند نے میرے پیارے پنڈت جواہر لال کو گالیاں دینی شروع کیں تو میں نے کہا اگر ان کی شان میں کچھ کہا تو جان کھو دوں گی۔ چنانچہ میں اسی دن سے لڑ کر اپنے باپ کے گھر چلی آئی ہوں۔ اب جب تک میرا خاوند معافی نہ مانگے گا، اپنے مکان پر کانگریس کا جھنڈا نہ لگائے گا، اور کانگریس کا ممبر نہ بنے گا میںاس کی شکل بھی نہ دیکھوں گی۔
ایڈیٹر صاحب ! میں نے پچاس مسلمان عورتیں تیار کر رکھی ہیںجو پردے کو چھوڑکر ہر وقت کانگریس کا کام کرنے کو تیار ہیں۔ مگر ہمارے گھر والے ہم کو تنگ کر تے ہیں۔ اب آپ بتائیں میں کیا کروں؟ اور ہمارے پوجیہ پنڈت جواہر لال سے کہیے کہ ہم مسلمان عورتیںکیا کریں‘‘؟
بہت ممکن ہے‘ کہ یہ خط فی الواقع کسی مسلمان عورت کا لکھا ہوا نہ ہو، اور محض ایک جعل ہو۔ لیکن اگر یہ جعل ہے‘ تو یہ اور بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ ’’لشکر ِآزادی’‘‘ کے ان نقیبوں کے مافی الضمیر پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے‘ کہ ’’قوم پرستی‘‘کے یہ علمبردار مسلمان مردوں اور عورتوں کو کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ’’آزادی کی فوج‘‘ کے لیے کس قسم کے سپاہی ان کو مسلمانوںمیں درکار ہیں۔ اور کم از کم کس حد تک اصولِ اسلام سے منحرف ہونا ضروری ہے‘ جس کے بعد وہ کسی مسلمان کو ’’قوم پرست‘‘ تسلیم کرتے ہیں۔
یہ بغاوت صرف غیر مسلموں ہی کی زبان و قلم کے ذریعہ سے نہیں پھیلائی جا رہی ہے‘ بلکہ خود مسلمان بھی اس کی اشاعت کے لیے آلۂ کار بنائے جا رہے ہیں۔ مسلمان لیڈر، مسلمان اہلِ قلم اور مسلمان رسائل و جرائد انہی تمام خیالات کو مسلمانوں میں پھیلانے کا وسیلہ بن گئے ہیں‘ اور بنتے جا رہے ہیں‘ جو پنڈت جواہر لال نہرو کی زبان سے آپ سن چکے ہیں۔اور یہ بالکل ظاہر ہے‘ کہ مسلمانوں کو بہکانے کے لیے غیر مسلموںکی بہ نسبت خود مسلمان زیادہ کار گر ذریعہ بن سکتے ہیں۔اس کے لیے آپ کو جتنی مثالوںکی ضرورت ہو میں پیش کر سکتا ہوں۔ مگر یہاں صرف ان حضرات کی تحریروں سے استناد کروں گا، جو کانگریس میںکوئی نہ کوئی ’’سرکاری‘‘ ذمّہ دار حیثیت رکھتے ہیں۔
بہار کے مشہور کانگریسی لیڈر ڈاکٹر سیّد محمود صاحب، جو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے سیکرٹری رہ چکے ہیں‘ اور اس وقت صوبہ بہار کی وزارت میںواحد مسلمان وزیر ہیں، اپنے ایک مضمون میں فرماتے ہیں:
مختصر یہ کہ اخلاقی، سیاسی اور دوسرے تمام حکیمانہ تصوّرات کوقطعیت اور عملیت کا جامہ پہنا کر مسلمانوں کے تخیل کو عمل کا آئینہ بنا دیا۔ بعض نے اپنے ولولہ و جوش سے مجبور ہو کر ہندوستان میں متحدہ قومیّت کی آفرنیش کے پیشِ نظر ایک ایسے جدید نظام مذہبی کی نشوونما کرنی چاہی جو ہندستان میں سب کے مناسب حال ہو۔ یہ ان لوگوں کی معمولی خدمات نہیں کہی جا سکتیں، اجنبی تھے، لیکن انہوں نے جلد ہی اپنی قسمتوں کو اہلِ ملک کے ساتھ ہمیشہ کے لیے وابستہ کر لیا۔ (جامعہ اکتوبر ۱۹۳۶ء)
آپ سمجھے کہ یہ ’’جدید نظام مذہبی‘‘ کا اشارہ کس چیز کی طرف ہے؟ یہ اشارہ اکبر کے دینِ الٰہی کی طرف ہے۔ کتنا مختصر اشارہ ہے،مگر ’’قوم پرست مسلمان‘‘ مجموعہ ضدین کی معراجِ تخیل کو کتنی صاف روشنی میں پیش کرتا ہے۔ اکبر کا دور اسلامی ہند کی تاریخ میںپہلا دور ہے، جس میں سیاسی اغراض پر مذہب کو قربان کرنے کی ابتداء ہوئی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے ’’تذکرہ‘‘ میں اس نا مبارک دور کے جو حالات بیان فرمائے ہیں ان کو پڑھیئے تو آپ کو اس کی فتنہ سامانیوںکا اندازہ ہو گا۔ یہ پہلا فتنہ عظیم تھا جس نے پوری طاقت کے ساتھ الحاد و بے دینی پھیلا کر ہندوستان کے مسلمانوں کو وطنی قومیّت میںجذب کرنے کی کوشش کی۔ اس دور کے تمام صلحاء اُمت اس فتنے پر چیخ اٹھے تھے۔ حضرت شیخ احمد مجدد سرہندی رحمۃ اﷲ علیہ نے اسی کے خلاف عَلم جہاد بلند کیا تھا۔ اسی ناپاک دور کے اثرات تھے جنہوںنے داراشکوہ کی صورت میں جنم لیا۔ اسی زہر کو دور کرنے کے لیے عالمگیر پچاس برس جدوجہد کرتا رہا۔ اور یہی زہر آخر کار مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو گھن کی طرح کھا گیا۔ مسلمانوں میں قوم پرستی کی جدید تحریک دراصل اسی پرانی تحریک کی نشاۃ ثانیہ ہے۔ لہٰذا یہ لوگ اس فتنہ عظیم کو فتنے کی حیثیت سے نہیں‘ بلکہ ’’خیر القرون‘‘ کی حیثیت سے دیکھتے ہیں‘ اور وسوسہ (inspiration) حاصل کرنے کے لیے اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک متحدہ قومیّت کی آفرینش کا یہ پہلا تجربہ ہندستانی مسلمان کی ’’خدمات‘‘ میں شمار ہونے کے لائق ہے۔ان کے ذہن میں ’’متحدہ قومیّت‘‘ کا تصوّر یہی ہے‘ کہ ہندستان کے مسلمان اپنی قسمتوں کو اسی طرح اہلِ ملک کے ساتھ ہمیشہ کے لیے وابستہ کر لیں۔ پنڈت جواہر لال بھی اس کے سوا کچھ نہیں چاہتے۔
آگے چل کر ڈاکٹر صاحب اپنے اس مضمون میں فرماتے ہیں :
سوال یہ ہے‘ کہ ہندستان میں آخر ہمارا نصب العین اور مقصد کیا ہے؟ کیا ہم اس سمت میں قدم اٹھانے کو آمادہ ہیں‘ کہ ایک مشترک قومیّت کی معہ تمام لوازم کے تشکیل کریں؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے‘ تو یہ بالکل ظاہر ہے‘ کہ ہندستان صرف ایک جغرافیائی نام ہے‘ جس میں ایک سے زیادہ ’’اقوام‘‘ بستی ہیں۔ کیا ہم یہ چاہتے ہیںکہ ہر ’’قوم‘‘ علیحدہ علیحدہ اپنے مسائل کو حال کرے اور مشترکہ دولت ہند (common wealth) میں صرف انسانی اور مادّی امداد کیا کرے؟ اگر مسئلہ ہند کا یہی حل ہے‘ تو ہماری اس وقت کی کوششیں اس کے برعکس بالکل ناکام رہی ہیں …
لیکن اگر ہمارے سوال کا جواب اثبات میں ہے‘ اور ہم واقعی یہ چاہتے ہیں‘ کہ ہم اسی راہ پر گامزن ہوںجو اکبر اور دوسرے ازمنہ وسطیٰ کے حکمرانوں نے بنا دی تھی،تب تو ہمیں عزم و استقلال کے ساتھ ہمیشہ نہ صرف اسی راہ پر چلنا چاہیے بلکہ ہمارے پیشوں اور رسوم میں بھی یکسانیت ہونی چاہیے۔ بعض کے نزدیک تو اس حل میں بھی مسلم اقلیت کے لیے ایک مضرت ہے۔ لیکن اس کا کوئی چارہ کار نہیں۔ اب چونکہ کوئی تیسرا حل موجود نہیں ہے اس لیے مسلمانوں کو ملک کی خاطر اور اپنی خاطر اسے قبول کرنا چاہیے۔
یہاں ما فی الضمیر بالکل واضح ہو گیا۔ صوبہ بہار کے چالیس لاکھ مسلمانوں کی قسمتیں جس شخص کے ساتھ وابستہ ہیں، جسے بہار کی وزارت میں ہماری آئندہ نسلوں کی تعلیم کا نگراں بنایا گیا ہے، وہ سرے سے اس تخیل ہی کا مخالف ہے‘ کہ ہندستان میں مسلمانوں کی کوئی مستقل ’’قومیّت‘‘ باقی رہے‘ اور آزاد ہندستان میں ان کو ایک ممتاز اجتماعی وجود کی حیثیت سے اپنے مسائل خود حل کرنے کا موقع حاصل ہو۔ اس کا نصب العین ہمارے نصب العین سے بالکل مختلف اور جواہر لال نہرو کے نصب العین سے بالکل متحد ہے۔ ہم آزادی کے لیے چاہتے ہیں‘ کہ ڈیڑھ سو برس کے غیر مسلم اقتدار نے ہماری قومیّت اور ہماری تہذیب کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی کر سکیں۔اور وہ آزادی اس لیے چاہتا ہے‘ کہ اب تک جو نقصان ہمیںپہنچا ہے، آگے چل کر وہ اپنے طبعی نتیجہ کو پہنچ جائے، یعنی ہماری مضمحل شدہ قومیّت ہندستان کی مشترک قومیّت میں جذب ہو جائے، ہماری تہذیب کی کوئی امتیازی شان باقی نہ رہے، ہمارے مختلف پیشوںکے لوگ اپنے اپنے ہم پیشہ غیر مسلموں کے ساتھ گھل مل جائیں‘ اور ان کے درمیان پیشوںکے ساتھ ’’رسوم میںبھی یکسانیت‘‘ پیدا ہو جائے۔ ہندستان کی مختلف قوموں کے لیے لفظ ’’اقوام‘‘ کا استعمال ہی فاضل ڈاکٹر کے نزدیک قابلِ اعتراض ہے۔ وہ ہندستان کو ایک جغرافیائی نام نہیں، بلکہ ایک قومی وحدت بنانا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسئلہ ہند کا یہ حل بالکل غلط ہے‘ کہ ہر ’’قوم علیحدہ علیحدہ اپنے مسائل کو حل کرے اور مشترکہ دولت ہند میں صرف انسانی اور مادّی امداد کرے‘‘۔ برعکس اس کے صحیح حل یہ ہےکہ ’’مسلمان اسی راستہ پر گامزن ہوں‘ جو اکبر اور از منہ وسطیٰ کے حکمرانوں نے بنا دی تھی، یعنی ہندستان کی کانِ نمک میں نمک بننے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اور یہ سب کچھ مسلمانوںکو کیوں کرنا چاہیے؟خدا اور رسولa کی خاطر نہیں، بلکہ ملک کی خاطر اور اپنی خاطر۔ غالباً یہاں ’’اپنے پیٹ کی خاطر‘‘ لکھنے میں ڈاکٹر صاحب کو شرم محسوس ہوئی ہو گی۔ ایں ہم غنیمت است!
کیا جواہر لال نہرو کا تصوّر قومیّت اس سے کچھ بھی مختلف ہے!
مسلمانوںکو اپنے نام ’’مسلم‘‘ پر بڑا فخر ہے۔خدا کا رکھا ہوا نام، اور وہ نام جس سے بڑھ کر عزت و افتخار کا نام آج تک دنیا کی کسی قوم کو نصیب نہیں ہوا، مگر ڈاکٹر سیّد محمود صاحب کے نزدیک اس علیحدہ نام سے مسلمانوں کا موسوم ہونا قابلِ اعتراض ہے۔ ہندو، مسلمان، عیسائی، پارسی اور اس قسم کے دوسرے تمام اسماء ان کے نزدیک محو ہو جانے چاہئیں اور صرف ایک نام ’’ہندی‘‘تمام باشندگانِ ہند کے لیے استعمال ہونا چاہیے تاکہ جُدا گانہ قومیّتوں کا احساس باقی نہ رہے۔فرماتے ہیں :
’’ہندی‘‘ کو زبان کے لیے نہیں‘ بلکہ ’’اہلِ ہند‘‘ کے لیے اختیار کرنا چاہیے۔دنیا بھر میں صرف ہمارا ملک ہی ایک ایسا ملک ہے‘ جس میںلوگ مختلف مذاہب سے شناخت میںآتے ہیں۔ صرف اس کا اظہار ہی ہماری دماغی کیفیت کا آئینہ بن جاتا ہے‘ اور ہمارے متعلق یہ بات ثابت کر دیتا ہے‘ کہ ’’ہم اس براعظم کی علیحدہ علیحدہ مذہبی اقوام ہیں‘‘۔ اسی لیے اب وقت آگیا ہے‘ کہ ہم سب ایک مشترکہ نام اختیار کر لیں۔
’’ہم علیحدہ علیحدہ مذہبی اقوام ہیں‘‘ یہ گویا ہمارے دامن پر ایک شرم ناک دھبا ہے‘ جسے مٹا دینے کی ضرورت ہے! وہ دماغی کیفیت ہی لائق صد شرم و ندامت ہے‘ جس کے تحت دنیا کے اس اکیلے ملک ہندوستان دوزخ نشان کے باشندے مختلف مذاہب سے شناخت میں آتے ہیں! یہ ثابت ہو جانا کہ ہم دور وحشت کی یادگار ہیں‘ اور اس تلخ حقیقت کو شیرینی یا کم از کم فریب شیرینی سے بدل دینے کے لیے اب ناگزیر ہو گیا ہے‘ کہ ہم ان ناموں کو بدل ڈالیں جو ’’علیحدہ مذہبی اقوام ہونے کے احساس کوزندہ رکھتے ہیں‘‘۔ یہ ہیں اس زعیمِ قوم کے خیالات جس کو مولانا ابوالکلام آزاد نے صوبہ بہار کی وزارت میں ۴۰ لاکھ مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے منتخب فرمایا ہے۔{ FR 2935 }
یہ تو صرف ایک نظیر تھی۔ کہیں آپ یہ نہ سمجھ لیں کہ یہ بس ایک ہی نظیرہے۔
آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے حال ہی میں ایک مستقل شعبہ اسلامیات قائم کیا ہے، جس کے کارکن مسلمان ہیں‘ اور نشرو اشاعت کے آلۂ کار سب کے سب مسلمان اخبارات ہیں۔مسلمانوںکے لیے کانگریس نے جو بیش بہا خدمات انجام دیں ہیں‘ ان کی فہرست میں اس شعبہ اسلامیات کے قیام کو بھی ایک نمایاں جگہ دی جاتی ہے۔ چنانچہ جمعیت علمائے ہند کا واحد ترجمان ’’الجمعیت‘‘ اس خدمت جلیلہ کا ذکر ان الفاظ میں کرتاہے :
دور جدید میں مسلمانوں نے شکایت کی کہ کانگریس عام مسلمانوں سے ربط نہیں رکھتی۔ اسلامی جرائد نے اس شکایت کو پیش کیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اس کی معقولیت کو تسلیم کیا۔ اور محض مسلمانوں کی دل دہی اور سہولت کار کے لیے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے ماتحت اسلامیات کا ایک مستقل شعبہ کھول دیا۔ (الجمعیت مورخہ ۵ رمضان ۵۶ھ)
بے چارے ناواقف عوام جب ان الفاظ کو دیکھیں گے‘ تو کہیں گے کہ کیسی مہربان ہے یہ کانگریس۔اس نے آج تک کوئی شعبہ ہندویات و سکھیات و پارسیات نہیں کھولا۔مگر ہماری ’’دلدہی‘‘اس کو یہاں تک منظور ہے‘ کہ خاص ہمارے لیے ایک شعبہ اسلامیات کھول دیا۔ اب ذرا اس شعبہ کی کارگزاری ملاحظہ ہو۔
ڈاکٹر محمد اشرف صاحب (معتمد شعبہ اسلامیات) کا ایک مضمون الجمعیت ہی میں۱۸ رجب ۵۶ھ کی اشاعت میں درج ہوا ہے، اور ادارہ کی جانب سے اس پر کوئی تردیدی نوٹ یا اختلافی اشارہ تک نہیں ہے، اس میں ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں :
ہندستان میں سیاسی یا اقتصادی حالات اس درجہ ترقی کرگئے ہیں‘ اور فضا کا تقاضا اس درجہ شدید انقلاب انگیز ہے‘ کہ رجعت پسندوں اور سامراج پرستوں کی یہ ہمت نہ ہوئی کہ علانیہ کانگریس یا آزادی کی جدوجہد کی مخالف کریں اس لیے ملک کو پیچھے لے جانے والی طاقتیں اور سامراج کی حامی جماعتیں کسی تعصب کی آڑ لیتی ہیں۔ گزشتہ سات آٹھ سال میں جب کبھی سیاسی یا سماجی ترقی کے لیے قدم بڑھایا گیا، ہندو مسلم سوال ضرور چھیڑ دیا گیا۔مجھے یاد ہے‘ کہ جب ابتدائی تعلیم کے متعلق کانگریسیوں نے صوبہ متحدہ کی کونسل میں ایک زمانہ میں سوال چھیڑا، تو رجعت پسند مسلمانوں نے فورا مذہبی تعلیم و تربیت کا سوال شروع کر دیا اور ڈاکٹر ضیاء الدین اور دوسرے لوگ اس موقع پر کونسل چھوڑ کر چل دئیے۔ ساردا ایکٹ کے خلاف ہندو اور مسلمان قدامت پسندوں نے جو ہنگامہ کیا وہ سب کو معلوم ہے۔ ترقی پسندی کی طرح رجعت پسندی بھی ہماری پبلک زندگی کے ہر پہلو پر محاذ قائم کرنا چاہتی ہے‘ اور ظاہر ہے‘ کہ کوئی بوسیدہ خود فنا نہیں ہوتا۔بڑھتی ہوئی سماجی قوتیں جدوجہد کے بعد اسے معزول کر دیتی ہیں۔
غور فرمائیے مسلمان بچوں کے لیے تعلیم کی اسکیم میں مذہبی تعلیم و تربیت کا مطالبہ کرنا رجعت پسندی ہے۔سامراج کی حمایت ہے۔ ملک کو پیچھے لے جانے والی طاقتوں کا کام ہے۔ فضا کا انقلاب انگیز تقاضا اب یہ ہے‘ کہ اس ’’بوسیدہ‘‘ چیز کو بڑھتی ہوئی سماجی قوتیں جدوجہد کے بعد معزول کر دیں۔
آگے چل کر ڈاکٹر صاحب یہ بحث شروع کرتے ہیں‘ کہ کانگریس کی شرکت کے سلسلہ میں مسلمانوںکی تہذیب اور روایات کا سوال جو اٹھایا جا رہا ہے، یہ دراصل ترقی پسند اور انحطاط پذیر قوتوں کی کشمکش کا ایک عکس ہے ’’ترقی پسند‘‘ اور ’’انحطاط پذیر‘‘ ان دو اصطلاحوں کا مفہوم پنڈت جواہر لال اور ان کے ’’شعبہ اسلامیات‘‘ کی لغت میں جو کچھ ہے اس کی تشریح میںبعد میںکروں گا، یہاں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ’’ترقی پسند‘‘ قوتیں اسلامی تہذیب کے سوال کو کس نظر سے دیکھتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:
یہ صحیح ہے‘ کہ مسلمان ایک مخصوص تہذیب کے حامل رہے ہیں۔ باوجود اختلافات اور تنوّع کے ان میں ایک قسم کی یگانگت اور یکسانیت پائی گئی ہے، یہ کہنا تو مشکل ہے‘ کہ مسلمانوں کی زبان ایک تھی یا تمدّن کے مظاہر ایک سے تھے، لیکن تاریخی طور پر کسی حد تک یہ صحیح ہے‘ کہ مسلمان حکمران طبقہ کے رجحانات ایک سمت کی طرف دکھائی پڑتے ہیں۔لوگ اسلامی تہذیب پر بحث کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں‘ کہ اس تمدّن اور تہذیب نے ایک خاص ماحول میں تربیت پائی تھی‘ اور بہر صورت مسلمانوںکی حکمران حیثیت سے وابستہ تھی۔ جو لوگ بے صبری کے ساتھ اسلامی تہذیب کی خصوصیات گناتے وقت یہ حدیث سناتے ہیں‘ کہ کلکم راعٍ و کلکم مسئول عن رعیتہٖ، وہ اکثر یہ واقعہ بھول جاتے ہیںکہ یہ حدیث یا اس قسم کے دوسرے اقوال اس زمانہ کے سماجی حالات کا عکس ہیں جب انسانوں کی تقسیم حاکم اور محکوم، راعی اور رعیت میں ہوتی تھی‘ اور مسلمان من حیث القوم حکمران { FR 2936 }تھے … البتہ اسلامی تمدّن اور تہذیب کا مفہوم اس درجہ محدود نہ تھاجیسا کہ آج کل ہو گیا ہے۔ آج اسلامی تہذیب کی زندگی خطرہ میںپڑ جاتی ہے اگر مسلمان بجائے کلاہ اور عمامہ کے گاندھی ٹوپی پہننے لگتے ہیں یا ہندی رسم الخط کے پرچار کے لیے دو چار ہندو اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک خاص قسم کا لباس اگر نہ پہنیے یا اگر فصیح و بلیغ اردو نہ بولیے تو آپ کو تمدّنی حیثیت ہی سے نہیں‘ بلکہ مذہبی حیثیت سے بھی مسلمان رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے‘ کہ معیاری اور ٹکسالی مسلمان صرف وہ خوش نصیب لوگ ہیں‘ جو دہلی اور لکھنؤ کی فضا میں پلے اور بڑھے ہیں۔ (چاہے وہ کائستھ اور کشمیری برہمن ہی کیوں نہ ہوں) یا پھر دیو بند اور فرنگی محل کا لباس پہننے والے علماء کی وضع کے پابند لوگ۔
دیکھئے ! ’’ترقی پسندوں‘‘ کے علم و فضل اور ان کی دانش و بینش کا معیار کس قدر بلند ہے۔ ان کے ارشادات جب ہم پڑھتے ہیں‘ تو بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی آواز کو ایک ریکارڈ میں بھر دیا ہے‘ اور وہی ریکارڈ جگہ جگہ بجتا پھر رہا ہے۔ اپنے شیخ طریقت پنڈت جواہر لال کی طرح یہ لوگ بھی اسلامی تہذیب و تمدّن کے مسئلہ پر اظہار خیال کرکے درحقیقت اپنی بے علمی کا راز فاش کرتے ہیں‘ اور اس سے معلوم ہوتا ہے‘ کہ یہ صرف اسلامی تہذیب و تمدّن ہی سے نابلد نہیں ہیں،بلکہ نفسِ تہذیب و تمدّن کے مفہوم سے ناآشنا ہیں یا اگر نا آشنا نہیں ہیں‘ تو عمداً خلط مبحث کرکے مسلمانوںکو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ تہذیب نام رکھتے ہیں تمدّنی مظاہر کا، حکمران طبقے کے آداب و اطوار کا، لباس کی وضعوں اور کھانوں اور مٹھائیوں کا، موسیقی اور سنگ تراشی اور مصوّری کا، اور اظہار ما فی الضمیر کے وسائل کا۔ پھر ان تمدّنی مظاہر میں گردش ایام کے ساتھ جو تغیّرات رونما ہوتے ہیں ان میں یہ اس حیثیت سے کوئی امتیاز نہیں کرتے کہ کون سے تغیّرات ایک تہذیب کے زیرِ اثر ہوئے اور کون سے دوسری تہذیب کے زیرِ اثر۔ بس سطح پر چند تغیّرات دیکھ کر یہ تقریر شروع کر دیتے ہیں‘ کہ دیکھو، تاریخ کے دوران میں تمہارا تمدّن بار بار بدل چکا ہے۔ا ور جب تمدّن بدلا ہے‘ تو گویا تہذیب بدل گئی ہے۔لہٰذا اسلامی تہذیب و تمدّن کسی متعین حقیقت کا نام نہیں ہے۔جس طرح پہلے تم بہت سے تغیّرات قبول کر چکے ہو اسی طرح اب بھی ان تغیّرات کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ جن کا تقاضا، فضا کے انقلاب انگیز حالات یا بالفاظِ دیگر جواہر لال اور ان کی اُمت کے رجحانات کر رہے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ علانیہ ایسی صریح جاہلانہ باتیں لکھنے اور شائع کرنے کی جرأت کیسے کرتے ہیں۔ کیا انہوں نے یہ فرض کر لیا ہے‘ کہ سارا ہندستان بس جہلا ہی سے آباد ہے‘ اور یہاں کوئی پڑھا لکھا آدمی نہیں رہتا؟
اگرچہ یہاں تفصیل کا موقعہ نہیں ہے‘ مگر میں عام ناظرین کی واقفیت کے لیے بطور جملہ معترضہ صرف اتنا عرض کیے دیتا ہوں کہ دراصل تہذیب اس طریقِ فکر، اس نظریہ حیات اور اس معیار امتیاز و انتخاب کا نام ہے‘ جو انسانوں کی کسی معتدبہ جماعت کے دل و دماغ پر حاوی ہو جاتا ہے‘ اور اس کے زیرِ اثر وہ جماعت دنیا میں زندگی بسر کرنے کے مختلف طریقوں سے کسی خاص طریقے کو اختیار کرتی ہے۔ اور تمدّن اس خاص طرز زندگی کا نام ہے‘ جو اس تہذیب کے زیرِ اثر اختیار کیا جائے۔ ہم جس چیز کو اسلامی تہذیب کہتے ہیں وہ لکھنؤ اور دلی کی فصیح و بلیغ اردو اور دیو بند و فرنگی محل کے علما کا لباس نہیں ہے،بلکہ وہ اس ذہنیت، اس طرز خیال اور اس اصولِ حیات پر مشتمل ہے‘ جو قرآن اور سیرت رسولa سے ماخوذ ہیں۔ جب تک کوئی تمدّن اس تہذیب کے حدود کے اندر ہے، وہ اسلامی تمدّن ہے، خواہ اس کی زبان، اس کے لٹریچر، اس کے آداب و اطوار، اس کے کھانوں اور مٹھائیوں، اس کے لباس و طرز معاشرت‘ اس کے فنون لطیفہ میں کتنے ہی تغیّرات واقع ہو جائیں۔ مظاہر کا تغیّر بجائے خود کسی تمدّن کو اسلامی تہذیب کے دائرے سے خارج نہیں کر دیتا۔ البتہ جب وہ اس نوعیت کا تغیّر ہو‘ کہ اسلامی تہذیب کے اصول و قواعد میں اس کے لیے کوئی سند جوا زنہ ہو، تو یقینا وہ تمدّن کو غیر اسلامی تمدّن بنانے کا موجب ہو گا۔ مثال کے طور پر مسلمان مشرق سے لے کر مغرب تک بیسیوں طرح کے لباس پہنتے ہیں، مگر ان سب میں ستر عورت کے انہی حدود کا لحاظ رکھا جاتا ہے‘ جو اسلامی تہذیب نے مقرر کر دیے ہیں۔لہٰذا یہ سب اپنے تنوّعات کے باوجود اسلامی تمدّن ہی کے لباس کہے جائیں گے۔ مگر جب کوئی لباس ان حدود سے قاصر ہو گا‘ تو ہم اسے غیر اسلامی لباس کہیں گے۔ اسی طرح غذا کے متعلق حلال و حرام کے جو حدود اسلامی تہذیب نے مقرر کیے ہیں، ان کے تحت خواہ کتنی ہی انواع و اقسام کے کھانے مسلمانوں کے گھروں میں پکتے ہوں‘ اور تاریخ کے دوران میںان کی نوعیتیں کتنی ہی بدل جائیں‘ اور کھانے کے طریقوں میںکتنا ہی تغیّر رونما ہو جائے، ان سب کو اسلامی تمدّن ہی کے دائرے میں جگہ ملے گی۔ا لبتہ جب مسلمانوں کی غذا حدود حلت سے متجاوز ہو گی‘ تو ہم کہیں گے کہ وہ اسلامی تہذیب و تمدّن سے بغاوت کر رہے ہیں۔ اسی پر زندگی کے تمام معاملات کو قیاس کر لیجئے۔ عرب، ہندستان، ایران، ترکستان اور شمالی افریقہ کے تمدّنوں میںبظاہر خواہ کتنا ہی فرق ہو، بہرحال جب تک ان کے اندر اسلامی تہذیب کی روح موجود ہو گی، اور جب تک یہ شریعت اسلامی کے ضابطہ میں رہیں گے، ان پر یکساں ’’اسلامی تمدّن‘‘ کا اطلاق ہو گا۔ مگر جب یہ کسی دوسری تہذیب کا اثر قبول کریں گے‘ اور ایسی چیزیں اپنے اندر داخل کر لیں گے‘ جو اسلامی تہذیب کی روح یا شریعت اسلام کے خلاف ہوں، تو بلا شبہ یہ کہا جائے گا کہ ان ممالک میں اسلامی تمدّن مسخ ہو رہا ہے۔
اب آپ غور فرمائیں کہ پنڈت جواہر لال اور ان کے یہ مسلمان متبعین اسلامی تہذیب و تمدّن کے مسئلے کو کیسی غلط روشنی میںپیش کر رہے ہیں۔ یہ دنیا کو اور خود ناواقف مسلمانوں کو باور کرانا چاہتے ہیں‘ کہ :
اسلامی تہذیب و تمدّن فی نفسہٖ کوئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ صدیوںپہلے مغلوں اور پٹھانوں کے دور حکومت میں جو طور طریقے مسلمانوں میں رائج ہو گئے تھے انہی کا نام اسلامی تہذیب و تمدّن رکھ دیا گیا ہے۔آج جو مسلمان اسلامی تہذیب و تمدّن کے تحفظ کا شور مچا رہے ہیں، ان کامقصد محض اس گزرے ہوئے تاریخی دور کی میراث کو اس بدلے ہوئے زمانہ میںجوں کا توںبرقرار رکھنا ہے، اس لیے یہ رجعت پسند اور ترقی دشمن ہیں۔
ایک پوری قوم کے نقطۂ نظر کی اس قدر غلط ترجمانی اور اتنی جسارت کے ساتھ شاید یورپ کے سیاسی بازی گروں سے بھی بن نہ آتی۔ یہ ہمارے ہم وطن اور ہم قوم اس معاملہ میںان سے بھی بازی لے گئے۔
ان کو اگر معلوم نہیں ہے‘ تو ہم انہیں بتانا چاہتے ہیںکہ ہم اس تمدّن کی حفاظت کے لیے نہیں اٹھے ہیںجو کسی زمانہ میں حکمران طبقہ کے رجحانات سے پیدا ہوا تھا۔ بلکہ اس لیے اٹھے ہیںکہ ہماری قوم کا تمدّنی ارتقاء قرآنی تہذیب کے راستہ سے منحرف نہ ہونے پائے۔ ہمیں دلی اور لکھنؤ کی ٹکسالی اردو کو بچانے کی فکر نہیں ہے، بلکہ اس ذہن کو اسلامی ذہن رکھنے کی فکر ہے‘ جس نے اپنی شخصیت ظاہر کرنے کے لیے اس زبان کو وسیلہ بنایا ہے۔ ہم دیو بند اور فرنگی محل کے لباس کو محفوظ رکھنے کے لیے نہیں لڑ رہے ہیں، بلکہ اس لیے لڑنا چاہتے ہیں‘ کہ ہمارے مرد اور ہماری عورتیںاس لباس حیا سے خارج نہ ہو جائیں جو اسلامی تہذیب نے انہیں پہنایا ہے۔ اور اس لڑائی کی ضرورت ہمیں اس لیے پیش آئی ہے‘ کہ ہم ہندوستان کی سیاست پر تم جیسے لوگوں کو غالب آتے دیکھ رہے ہیں‘ جن میں ہماری تہذیب کو سمجھنے کی صلاحیّت نہیں،جن میں اتنی راست بازی و انصاف پسندی نہیں کہ دوسروں کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں‘ اور جن میں ان کمزوریوں کے ساتھ ہٹلر اور مسولینی کی فاشستی روح گھس گئی ہے‘ کہ اپنی مرضی کو دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے کسی طاقت کے استعمال سے دریغ نہیں کرتے خواہ اس کے استعمال میں صداقت، انسانیت اور اخلاق کو قربان ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
خیر یہ ایک ضمنی بحث تھی۔ یہاں میں صرف یہ بتانا چاہتا تھا‘ کہ کانگریس کا یہ شعبہ اسلامیات جو ہماری ’’دلدہی‘‘ اور ’’سہولت کار‘‘ کے لیے قائم کیا گیا ہے، دراصل کیا خدمات انجام دے رہا ہے۔ اسلامی تہذیب و تمدّن کے متعلق پنڈت جواہر لال نہرو کے جو نظریات آپ پڑھ چکے ہیں، ان کو مسلمان مضمون نگاروں اور مسلمان اخباروںکے ذریعہ سے مسلمانوںکے دلوںمیں اتارنا اس کا مقصد ہے، اور آپ نے دیکھ لیا کہ یہ شعبہ جو ہماری ’’دلدہی‘‘ کے لیے قائم کیا گیا ہے اس مقصد کو کس خوبی کے ساتھ پورا کر رہا ہے۔ وہ ہمیں سمجھا رہا ہے‘ کہ یہ تہذیب جس کی حفاظت کا تم دعویٰ کر رہے ہو، کوئی چیز بھی تو نہیں ہے۔ مسلمان حکمران طبقہ کے رجحانات تھے سو وہ طبقہ ہی ختم ہو گیا۔ ایک خاص ماحول میں اس تہذیب نے تربیت پائی تھی، سو وہ ماحول ہی اب باقی نہیں۔اب لے دے کے تمہاری تہذیب یہ رہ گئی ہے‘ کہ ایک خاص وضع کا لباس پہن لیتے ہو‘ اور ٹکسالی اردو بول لیتے ہو، تو وہ بھی دلی اور لکھنؤ تک محدود ہے‘ اور دلی و لکھنؤ میں بھی وہی کوئی خاص تمہاری چیز نہیں ہے، بلکہ کالئستھ اور کشمیری برہمن بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں۔ کیا اسی مہمل چیز کو تم فضا کے انقلاب انگیز تقاضوں اور سیاسی و اقتصادی حالات کی ترقی کے مقابلہ میں بچانا چاہتے ہو؟ یہ تو عین رجعت پسندی ہے کیونکہ وہ دور گزر چکا جس میںیہ تہذیب پیدا ہوئی تھی۔ اور یہ سامراج پرستی بھی ہے۔ کیونکہ فضا کے انقلاب انگیز تقاضوں کے مقابلہ میں اس بوسیدہ چیز کی حفاظت صرف اسی طرح ہوسکتی ہے‘ کہ تم سامراج کی حمایت کرو اور سامراج تمہاری حمایت کرے! مسلمانوں کو شکایت تھی‘ کہ کانگریس عام مسلمانوں سے ربط نہیں رکھتی۔اس شکایت کی معقولیت تسلیم کر کے کانگریس نے کیسے معقول طریقہ سے اسے دور کیا ہے!
ڈاکٹر اشرف صاحب کا وعظ ابھی ختم نہیں ہوا۔ آگے سنیے !
جاگیرداری اور عہد بادشاہت کے زمانہ میں با عتبار زبان، لباس، تمدّن، بلکہ مذہبی عقائد کے لحاظ سے بھی،مسلمانوں میںکوئی یکسانیت نہ تھی۔ عربی، فارسی،ترکی، تاتاری،چینی سب مسلمانوں کی زبانیں تھیں۔مغربی، مشرقی، ایرانی، رومی، ہندی ہر طرح کے لباس مسلمانوں کے ہر طبقہ میں رائج ہو چکے تھے۔ چنانچہ جب ہمایوں ہندوستان سے جلا وطن ہو کر ایران پہنچا تو شاہِ ایران نے بجائے ایرانی کھانوںکے اپنے مہمان کے لیے خاص طور پر ہندستانی مٹھائیاں اور کھانے تیار کرائے۔عقائد کی یکسانیت کا تو مسلمانوںمیں سرے سے کوئی سوال ہی نہیں،بہتر فرقے ضرب المثل ہیں۔
کچھ غور بھی کیا آپ نے کہ یہ تنوّع کی تمام مثالیں کس مقصد کے لیے پیش کی جا رہی ہیں؟ اس کا مقصد یہ ہے‘ کہ جب اتنی زبانیںبول کر، اتنے مختلف لباس پہن کر، ایران میں ہندستانی مٹھائی کھا کر، بہتر فرقوں میں بٹ کر اور عقائد میںیکسانیت سے محروم ہو کر بھی تم مسلمان رہے ‘تو اب اگر تم گاندھی کیپ اور دھوتی پہن لو، تمہاری عورتیں سماجی خدمت (social service)کے لیے گھروں سے باہر نکل آئیں، تم نئی ’’ہندستانی‘‘ زبان بولنی اور لکھنی شروع کر دو، مخلوط تعلیم گاہوں میں تمہارے لڑکے اور تمہاری لڑکیاں ’’جدید طرزِ تعلیم‘‘ حاصل کرنے لگیں، سیاسی، معاشرتی اور معاشی انقلاب کی جدیدتحریکات تم میں پھیلنے لگیں تو اس میں کون سا مضائقہ ہو جائے گا؟ اسی مقصد کو چھپا کران الفاظ میں ظاہر کیا گیا ہے:
اس عتبار سے آج ہم ایک نئے اور زندہ تمدّن کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ ہماری سیاسی اور سماجی جدوجہد اس نئے تمدّن کا پیش خیمہ ہے۔ ضرورت اس کی ہے‘ کہ ہم اس نئی تاریخی منزل اور اس کے تقاضے سے باخبر ہوں۔
اب آپ کو معلوم ہو گیا کہ یہ ساری دماغ سوزی اس سماجی انقلاب (social revolution) کے لیے مسلمانوں کو تیار کرنے کی خاطر کی گئی ہے‘ جس کا نقشہ پنڈت جواہر لال نہرو کے خیالات میں آپ دیکھ چکے ہیں‘ اور یہ دعوت کس اخبار کے ذریعہ سے پھیلائی جا رہی ہے؟ اس اخبار کے ذریعہ سے جو جمعیت علمائے ہند کا واحدترجمان ہے۔ کیسے صحیح راستہ پر جا رہی ہے ’’یہ آزادی کی فوج‘‘ شردھانند کی شدھی پر شور قیامت برپا تھا۔ جواہر لال نہرو کی شدھی شربت کے گھونٹوں کی طرح اتاری جا رہی ہے۔
’’آزادی کی فوج‘‘ اپنے مسلمان سپاہیوں سے جو خدمت لے رہی ہے ان میں سے دو صاحبوں کے کارنامے آپ نے ملاحظہ فرما لیے۔ ایک صاحب نے اسلامی قومیّت پر تیشہ چلایا۔ دوسرے صاحب نے اسلامی تہذیب پر ضرب لگائی۔اب تیسرے سپاہی کا کارنامہ ملاحظہ ہو۔
اسی ’’شعبہ اسلامیات‘‘ کے ایک ذمّہ دار کارکن منظر رضوی{ FR 2937 }صاحب کا ایک طویل مضمون ’’مسٹر جناح کی کھوکھلی قیادت‘‘ کے عنوان سے اخبار ’’مدینہ‘‘بجنورنے نومبر ۱۹۳۷ء کی کئی اشاعتوں میں درج کیا ہے‘ جس میں وہ فرماتے ہیں :
ہمارا دوسرا حربہ حکومت اور اس کے حاشیہ بردار زمین داروں، تعلق داروں، جاگیرداروں کی مال گزاری اور لگان بند کرنا ہے۔لیکن یاد رہے‘ کہ ان پایوں کو گراتے وقت ایک بہت بڑی کرانتی (انقلاب) مچے گی، بلوے اور فساد ہوں گے۔ اس میںخوں ریزیاں بھی ہوں گی، خون کی ندیاںبہیں گی‘ اور سب کچھ ہو گا۔ اس وقت یہ جتنے زمین دار، سرمایہ دار، پونجی اور کانوں کے مالک، تعلقوں اور جاگیروں کے آقا یہی راجہ محمود آباد، نواب چھتاری،سر سکندر حیات، راجہ نریندر ناتھ، گھنشام داس برلا، بھائی پرمانند، سیٹھ دالمیا جو مسلم ملت اور ہندو جاتی کے نعرے لگائے جاتے ہیں، اپنی اپنی غریب اور دکھی جنتا اور غریب اور فاقہ مست عوام کو چھوڑ کر برٹش سامراج کے ساتھ ہوںگے‘ اور اِن پر گولے اور بم برسائیں گے۔ دوسری طرف غریبوں کی طاقت ہوگی‘ اور ان کی جیون ساتھی کانگریس۔
ہماری آنے والی لڑائی دراصل امیری اور غریبی کی لڑائی ہو گی۔ اس میں ہندستان بھر کے امیر چاہے وہ کسی مذہب اور فرقے کے کیوں نہ ہوں بدیسی سامراج کے ساتھ ہوںگے۔ اور وہ ہم غریبوں اور مفلسوں کو توڑنے اور تباہ کرنے کے لیے ہر ہتھیار کو استعمال کریں گے۔ پھر کسانوں اور مزدوروں کی جاگ سے امیروں کو، راجہ محمود آباد، نواب چھتاری اور سر سکندر جیسے لوگوں کو بہت بڑا خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ وہ یہ سمجھ رہے ہیںکہ زمانہ پلٹا کھانے کو ہے، دولت اور امیری ہاتھ سے نکلنے کو ہے۔ امیروں کو نیچے آنا ہے، غریبوں کو اوپر جانا ہے۔ان سب باتوں کے ڈر سے ہندو جاتی اور مسلم ملت کے یہ ہندو مسلم نام لیوا اپنے اپنے مذہب کے لوگوں کو سامراج مخالف تحریک سے ہٹا کر رکھنا چاہتے ہیں تاکہ یہ لوگ مل کر آخری لڑائی نہ لڑنے پائیں۔ اس لیے قرآن اور حدیث کی آئتیں اور وید اور شاستر کے اشلوک پڑھے جا رہے ہیں۔
جنگِ آزادی کی نوعیت کو اس طرح واضح کرنے کے بعد فاضل مضمون نگار فرماتے ہیں:
مسٹر جناح نے پکار کہا ’’ہندستان بھر کے مسلمانو مل جاؤ‘‘ سوال یہ ہے‘ کہ ہندستان بھر کا مسلمان آپس میں کیوں ملے؟ اس اتحاد کی ضرورت کیا؟ اس کا مقصد کیا؟ جہاں تک توحید رسالت، مذہبی معتقدات، اور مذہبی حرکت و عمل کا تعلق ہے وہ آپس میں ملے ہوئے ہیں۔بالکل متحد ہیں۔ ان میںکوئی اختلاف نہیں۔ اور مسٹر جناح کو یقین دلاتے ہیںکہ آئندہ بھی کوئی اختلاف نہ ہو گا۔ لیکن سیاسی اور اقتصادی اغراض و مفاد کے لیے مسلمانوں کاآپس میں ملنا نا ممکن ہے۔ وہ ہرگز متحد نہیں ہو سکتے اور نہ ان کو متحد ہونا چاہیے۔مسلمانوںکے اغراض اور فائدے بالکل ایک سے نہیں ہیں۔
ہندستان میں امیر و غریب کے دو طبقے ہیں۔ امیروں کی غرض یہ ہے‘ کہ امیری کے جتنے بھی وسائل ہیں ان پر ان لوگوں کا قبضہ رہے‘ اور غریبوں کی محنت سے وہ فائدہ اٹھاتے رہیں۔ غریبوں کا فائدہ اس میں ہے‘ کہ امیر کے وسیلے ان کے ہاتھ سے چھن جائیں‘ اور ان کا انتظام اس طرح ہو‘ کہ ملک سے غربت دور ہو۔ غربت کے دور کرنے کا سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ دولت کے ان محدود پہلوؤں کو ان کے چنگل سے نکال لیا جائے۔ شخصی ملکیت کو ختم کیا جائے۔ یہ عام اور اصولی بات ہے۔اب ہندستان کے آٹھ کروڑ مسلمانوں کا فائدہ کیا ہے؟ مسلمانوں میں بھی کچھ امیر ہیں‘ اور کچھ غریب، سب کی ایک ہی حالت نہیں ہے۔ مسلمانوں کے تھوڑے سے لوگ امیر ہیں‘ جو زیادہ سے زیادہ ایک کروڑ ہوں گے۔ سات کروڑ مسلمان محنت سے روٹی حاصل کرتے ہیں۔ جب تک پونجی شاہی دولت کی پیداوار اور تقسیم کے طریقوں کو ہم متذکرہ بالا انقلابات سے غارت نہیں کرتے‘ ان کے روزگار کا کوئی انتظام نہیں ہو سکتا۔ اس کیخلاف وہ ایک کروڑ مسلمان بھی ہیں‘ جن کے پاس زمین،جائیداد، کارخانے اور کانیں ہیں۔ان کی جیبوںمیں بڑی بڑی سرکاری ملازمتیں ہیں۔ وہ سکھ اور چین کی زندگی بسر کرتے ہیں‘ اور مزے اڑاتے ہیں۔ اب ان سات کروڑ غریب مسلمانوں کو ایک کروڑ امیر مسلمانوں سے ملنے کے لیے کہا جاتا ہے۔
خیر تو عام مسلمانوں کے حقوق اور مفاد عام ہندوؤں سے جدا نہیںہیں۔ خود مسلم ملت کے حقوق و مفاد باہم دگر متضاد اور مختلف ہیں۔ ان میں کوئی یگانگت نہیں۔ مختصر یہ کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے بھی ہمارے مفاد آپس ہی میں بالکل مختلف ہیں۔
یہی منظر صاحب اپنے ایک دوسرے مضمون (مدینہ مورخہ ۱۳ دسمبر ۱۹۳۷ء) میں فرماتے ہیں:
غریبوں، مفلسوں اور غلاموںکا کوئی مذہب اور کوئی تمدّن نہیں۔ اس کا سب سے بڑا مذہب روٹی کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس کا سب سے بڑا تمدّن ایک پھٹا پرانا کپڑا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ایمان موجودہ افلاس اور نکبت سے چھٹکارا پا لینا ہے۔ وہی روٹی اور کپڑا جس کے لیے وہ چوری کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ آج افلاس اور غلامی کی دنیا میں اس کا کوئی مذہب اور کوئی تمدّن نہیں … اس پیٹ کے لیے اسے انقلاب اور کرانتی کرنی پڑے گی۔
چند اور فقرے اسی مضمون کے ملاحظہ ہوں:
اس وقت ہندستان میں دو ہی سوال اس اعتبار سے ہیں۔ سرمایہ داری کا استحصال اور غلامی یا ترقی، اشتراکیت اور آزادی، بیچ کی کوئی راہ نہیں۔ ہمارا کوئی درمیانی مسلک نہیں ہو سکتا۔
اسی ردّعمل کا نتیجہ روس کی نئی حکومت ہے، جو زمین پر ایک جنت ہے۔ وہاں بے روزگاری، بھوک، جہالت اور تنگدستی کام نام نہیں۔
مذہب اور عقائد کو ان باتوں سے کیا خطرہ؟ مذہب تو ہمیشہ اگر اس میں اخلاق اور روحانی طاقت رہی ہے، زندہ، تابندہ اور پائندہ ہی رہا ہے، مذہب کی سب سے بڑی فکر ہمارے فقیہوں اور محدثوںکو ہو سکتی ہے نہ کہ عیاش رئیسوں کو۔ سو ہمارے فقیہہ اور محدث اور علما آج ہی نہیںبلکہ اسی وقت سے، جب سے قومی تحریک کی شروعات ہوئی ہے، ہمارے ساتھ رہے ہیں۔ لیکن آج ہمارا نصب العین مذہبی نہیں ہے، بلکہ محض اقتصادی‘ اور سیاسی ہے۔ ہمیں تو آج کے حالات میں رہ کر، آج کے حالات سے اپنی قیادت قائم کرنی ہے۔ علما کا ایک طبقہ ایک ہی چیز کو حرام قرار دیتا ہے‘ اور دوسرا حلال۔ آج انہی کا ایک طبقہ تحریک کانگریس کو شجر ممنوعہ سمجھتا ہے‘ اور دوسرا خیر و برکت کا مجموعہ۔ اورپھر اس کا کیا یقین ہے‘ کہ جب ہم ایک ہی سماج اور نئے نظام معاش کی تاسیس کرنے لگیں گے، جب ہم شخصی ملکیت کو خارج اور ختم کرکے ملک کی دولت اور اس کی پیداوار کو نئے طریقوں پر تقسیم کرنے لگیں گے، تو اس وقت بھی یہ طبقہ ہمارے ساتھ ہو گا۔{ FR 2938 }
۱۳ دسمبرہی کے ’’مدینہ‘‘ میں پنجاب پراونشل ماس کانٹیکٹ کمیٹی کے سیکرٹری منشی احمد دین صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے‘ جس میں وہ فرماتے ہیں:
ہم تو دیانت داری کے ساتھ یہ سمجھ چکے ہیں‘ کہ ہندستان کے آنے والے انقلاب میں جو جنگِ آزادی لڑی جائیگی وہ محنت اور سرمایہ، غریب اور امیر، بالفاظِ دیگر ظالم اور مظلوم کی جنگ ہو گی، جس میں ہندو اور مسلمان مظلوم ایک طرف ہوں گے۔ گویا اس لڑائی میں ہندو اور مسلمان عوام دونوں برابر ہوں گے۔ لہٰذا فرقہ وارانہ جنگ، طبقہ وارانہ جنگ میں تبدیل ہو گی۔
ان طویل اقتباسات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے‘ کہ آزادی کی فوج کے مسلمان سپاہی کس وفاداری کے ساتھ اس مشن کو مسلمانوں میںپھیلا رہے ہیں‘ جو ان کے غیر مسلم لیڈروں نے ان کے سپرد کیا ہے۔
خ خ خ
باب ۱۲ : حصول آزادی کا طریقہ
پچھلے دونوں ابواب پر تبصرہ کرنے سے پہلے میں ناظرین کو ان تنقیحات کی طرف دوبارہ توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں‘ جو میں نے اس سلسلہ کے تمہیدی مباحث میں قائم کی تھیں۔ ان تنقیحات میں سے اولین تنقیح یہ تھی‘ کہ :
’’ہمیںجنگِ آزادی میںشریک ہونے سے پہلے یہ دریافت کرنا چاہیے‘ کہ آزادی حاصل کرنے کے لیے طریقہ کون سا اختیار کیا جا رہا ہے۔ اگر تحقیق سے معلوم ہو‘ کہ حصول آزادی کا وہ طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے‘ جو ہماری تہذیب اور ہمارے نظامِ اجتماعی کے اصولوں سے متصادم ہوتا ہو، تو ہم اس کے ساتھ تعاون نہیں کر سکتے‘‘۔
اس تنقیح کو پیشِ نظر رکھ کر دیکھیے کہ کانگریس کے مسلم اور غیر مسلم لیڈروں اور کارکنوںکی جو تحریریں پچھلے دو ابواب میں نقل کی گئی ہیں اس سے حصول آزادی کے کس راستے کا نشان ملتا ہے۔
اسلامی قومیّت اور تہذیب پر حملہ
ان کے نزدیک ہندستان کو آزاد کرانے کے لیے ضروری ہے‘ کہ اس ملک کی تمام قومیّتوں اور قومی امتیازات کو مٹا کر پوری آبادی کو ایک قوم بنا دیا جائے۔
اس غرض کے لیے وہ سب سے پہلے اسلامی قومیّت پر حملہ کرتے ہیں کیونکہ جب تک مسلمانوںکے ذہن میںیہ خیال موجود ہے‘ کہ پیروان اسلام ایک قوم ہیں‘ اور منکرین اسلام دوسری قوم، اس وقت تک آٹھ کروڑ کی اس عظیم الشان آبادی کا ہندستانی قومیّت میں تحلیل ہو جانا محال ہے۔ اسی لیے تمام قوم پرست یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ’’مسلمان‘‘ کسی قوم کا نام نہیں ہے‘ اور اسی لیے ان کی تعلیم یہ ہے‘ کہ ہندستان کے مسلمان اپنے آپ کو ’’مسلم‘‘ کہنے کے بجائے ’’ہندی‘‘ کہیں۔
ان کا دوسرا حملہ اسلامی تہذیب و تمدّن پر ہے۔ ہندستان کی آبادی ایک قوم نہیں بن سکتی جب تک کہ سب ایک تہذیب اور ایک تمدّن نہ اختیار کر لیں۔ عقائد، جذبات و احساسات، لباس، طرز زندگی، زبان، ادب اور قوانینِ معاشرت و تمدّن کے لحاظ سے جب تک مسلمانوں میں یک جہتی باقی ہے اس وقت تک بہرحال وہ اپنے آپ کو ایک قوم ہی سمجھتے رہیں گے‘ اور جب تک ان امور میں وہ ہندستان کے دوسرے باشندوں سے مختلف ہیں، اس وقت تک بہرحال ان کا قومی تشخص دوسروں سے الگ ہی رہے گا۔ اس علیحدگی کو مٹانے کے لیے مسلمانوں میں پورے زور شور کے ساتھ یہ تبلیغ کی جا رہی ہے‘ کہ ان کی نہ کوئی خاص تہذیب ہے‘ اور نہ کوئی مخصوص تمدّن ’’زمانے کے شدید انقلاب انگیز تقاضوں‘‘ سے جو تہذیب پیدا ہو رہی ہے‘ اور ہندستان کے دوسرے باشندوں میں جو تمدّن نشوونما پا رہا ہے، اسے ان کو بے تکلف قبول کرنا چاہیے تاکہ وہ سب کے ساتھ ہمرنگ ہو جائیں۔
اسلام کے نظامِ اجتماعی پر حملہ
ان کا تیسرا حملہ اسلام کے نظامِ اجتماعی پر ہے۔ مسلمانوں میں اشتراکیت کی تبلیغ جو کی جا رہی ہے اس کا مقصد دراصل یہی ہے‘ کہ صرف اسی ذریعہ سے اسلامی سوسائٹی کے نظام کو پارہ پارہ کیا جا سکتا ہے‘ اور مسلمانوں کی جماعت کے افراد کو ایک دوسرے سے الگ کرکے فرداً فرداً غیر مسلم آبادی میں جذب کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی دوسری تدبیر نہیںہے۔ کانگریس کے متعلق یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے‘ کہ اس کا نصب العین اشتراکی نہیںہے۔نہ وہ سرمایہ داروں سے بگاڑنا چاہتی ہے نہ سرمایہ داری نظام کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ نہ اس سماجی (تمدّنی)انقلاب کی حامی ہے‘ جس کا ذکر پنڈت جواہر لال اور بابو سوبھاش چندر بوس بار بار کیا کرتے ہیں۔
ہری پورہ کانگریس میں جواہر لال کے سامنے اور سوباش چندر بوس کی صدارت میں سردار ولبھ بھائی پٹیل نے سوشلسٹ جماعت کو بری طرح ڈانٹا تھا‘ اور یہ الفاظ کہے تھے کہ:
تم کانگریس میں دستِ راست اور دست چپ کی جماعتیں پیدا کرنے کے ذمّہ دار ہو، حالانکہ کانگریس ہمیشہ سے ایک وحدت رہی ہے۔ ہم برابر دو سال سے تمہارے وجود کو برداشت کر رہے ہیں، مگر وقت آرہا ہے‘ جب ہم تمہیں برداشت نہ کر سکیں گے۔
(ٹائمز آٔف انڈیا مورخہ ۲۲ فروری ۱۹۳۸ء)
اس زجرو توبیخ پر ہندستانی اشتراکیت کے ان دونوں اُقنوموں{ FR 2939 } میں سے ایک نے بھی دم نہ مارا۔ کانپور، احمد آباد اور دوسرے مقامات پر مزدوروں کا سر خود کانگریسی وزارتیںہی کچلتی رہی ہیں۔ مدارس اور صوبہ سرحد اور دوسرے صوبوں میں جہاں کہیں اشتراکیوں نے چادر سے پاؤں نکالا، وہاں کانگریسی حکومتوں ہی نے اس کی سرکوبی کی ہے۔ ابھی چند ہی روز ہوئے ہیں‘ کہ حکومت مدارس نے اشتراکیت کی تبلیغ کے خلاف ایک کمیونکے شائع کیا ہے‘ جس میں وہ لکھتی ہے‘ کہ :
چند پمفلٹ جو ہندستان کی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے شائع کیے جا رہے ہیں، حال میں حکومت کے ہاتھ آئے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے‘ کہ یہ پارٹی حد سے گزرتی جا رہی ہے‘ اور اس ملک میں ابتری پھیلانا چاہتی ہے۔اس لیے حکومت اپنا فرض سمجھتی ہے‘ کہ پبلک کو اس سے متنبہ کر دے تاکہ عام باشندگانِ ملک نادانستگی میں ایسی تحریک سے متاثر نہ ہو جائیں جس کا فلسفہ اور طریقِ کار بالکلیہ اس ملک کی تہذیب اور روایات کے خلاف ہے۔
اس کے بعد اس کمیونکے میں اشتراکی پمفلٹوں کا خلاصہ دیا گیا ہے‘ جس کے یہ الفاظ خاص طور پر غور طلب ہیں:
محنت کش طبقوں کی انقلابی فوج، یعنی ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی اس ملک میں طبقہ وارانہ جنگ برپا کرے گی‘ اور قومی انقلابی ہڑتال کا اعلان کرے گی۔ کاریگر اپنے اوزار رکھ دیں گے۔ دماغی کام کرنے و الے دفتروں سے نکل آئیں گے۔طلبہ مدرسوں سے سڑکوں پرآجائیں گے۔ کسان مال گزاری اور لگان دینے سے انکار کر دیں گے۔ ریلیں کھڑی ہو جائیں گی۔ کارخانے اور مل اور بجلی گھر بند ہو جائیں گے…
(ملاحظہ ہو اخبار ہریجن مورخہ ۲۰؍ اگست ۱۹۳۷ء)
یہ ٹھیک وہی خیالات ہیں جوکانگریس سکریٹریسٹ کے دفتر سے منظر رضوی صاحب شائع کر چکے ہیں۔ مگر یہ عجیب بات ہے‘ کہ جب یہ خیالات مسلمانوں میں پھیلائے جاتے ہیں‘ تو ان کو جائز رکھا جاتا ہے، اور جب حقیقت میں ملک کے اندر اشتراکی انقلاب برپا کرنے کے لیے اس کی اشاعت کی جاتی ہے‘ تو کانگریسی حکومت ان کو ہندستان کی تہذیب اور روایات کے منافی قرار دیتی ہے‘ اور ان کے خلاف تنبیہی کمیونکے نشر کرنا ضروری سمجھتی ہے۔ا س سے صاف ظاہر ہے‘ کہ اشتراکیت فی الواقع کانگریس کی سرکاری پالیسی نہیںہے۔ بلکہ خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں میںاس مسلک کو صرف اس غرض سے پھیلایا جا رہا ہے‘ کہ اصلاحی سوسائٹی کو درہم برہم کرنے کی اس کے سوا کوئی تدبیر نہیں۔ حال میں بنگال کے کانگریسی مسلمانوں کا اجتماع بابو سوباش چندر بوس کے زیر صدارت منعقد ہوا تھا۔ زیر بحث یہ سوال تھا‘ کہ عامۂ مسلمین میںکانگریس کے خیالات اور اصول کامیابی کے ساتھ کس طرح پھیلائے جا سکتے ہیں‘ اور جو مشکلات اس راہ میں حائل ہیںانکا حل کیا ہے۔ طویل بحث و تمحیص کے بعد جو بات باتفاق طے ہوئی وہ یہ تھی‘ کہ:
مسلمانوں میںکانگریس کو مقبول بنانے کے لیے ایک معاشی پروگرام پیش کرنا ناگزیر ہے۔ اور پروگرام ایسا ہونا چاہیے‘ جو محنت پیشہ عوام کو اپیل کر سکے۔
(نیشنل کال، مورخہ ۱۳ اگست ۱۹۳۸ء)
معاشی پروگرام کے لفظ کو خاص طور پر نوٹ کیجئے۔اس چھوٹے سے مرکّب لفظ میں وہ تمام معانی بھرے ہوئے ہیں جنکی تشریح آپ پنڈت جواہر لال نہرو اور منظر رضوی اور کامریڈ احمد دین صاحبان کی زبانوں سے سن چکے ہیں۔ یہ لوگ خوب جانتے ہیں‘ کہ عام مسلمان خواہ کتنے ہی جاہل ہوں، مگر پھر بھی انہیں اسلام سے گہری محبت و عقیدت ہے، اور کوئی شخص اپنی جان کو خطرے میں ڈالے بغیر ان سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم اسلام چھوڑ دو۔ اس لیے ان میں علانیہ الحاد و بے دینی کی تبلیغ کرنا کسی طرح ممکن نہیں۔ البتہ اگر ان کے سامنے ’’روٹی‘‘ پیش کی جائے‘ اور اس میں بے دینی کو لپیٹ کر رکھ دیا جائے‘ تو یہ بھوک کے مارے ہوئے غریب لوگ لپک کر اسے لے لیں گے‘ اور بے تکلف حلق کے نیچے اتار جائیں گے۔ ادھر سے مطمئن ہو جانے کے بعد پھر وہ ہر زہر کو خوشی سے ہضم کر سکتے ہیں۔
یہی کچھ سمجھ کر یہ لوگ خستہ حال مسلمانوں کے دلوں پر قبضہ کرنے کے لیے پیٹ کی طرف سے راستہ پیدا کر رہے ہیں‘ جو بھوکے آدمی کے جسم کا سب سے زیادہ نازک حصہ ہوتا ہے۔ یہ ان سے کہتے ہیں‘ کہ ’’آؤ ہم وہ طریقہ بتائیںجس سے امیری اور غریبی مرتی ہے‘ اور آسودہ حالی آتی ہے‘‘۔ پھر جب بیچارہ بھوکا مسلمان دو روٹیوں کی اُمید پر ان کی طرف دوڑتا ہے‘ تو یہ اسے خدا پرستی کے بجائے شکم پرستی کے مذہب کی تلقین کرتے ہیں‘ اور اس سے کہتے ہیں‘ کہ ’’غریب اور مفلس کا کوئی مذہب اور کوئی تمدّن نہیں۔ اس کاسب سے بڑا مذہب روٹی کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس کا سب سے بڑا تمدّن ایک پھٹا پرانا کرتہ ہے۔ اس کا سب سے بڑا ایمان اس موجودہ افلاس اور نکبت سے چھٹکارا پا لینا ہے‘‘۔ مذہب اشراکیت کا یہ ابتدائی سبق جس آن اس بیچارے جاہل مسلمان کو دیا جاتا ہے، اسی آن اسے یہ پٹی بھی پڑھائی جاتی ہے‘ کہ ’’مذہب اور عقائد کو ان باتوں سے کیا خطرہ؟ کیا تعلق؟مذہب تو ہمیشہ، اگر اس میں اخلاقی اور روحانی طاقت رہی ہے، زندہ تابندہ اور پائندہ ہی رہا ہے‘‘۔ اور پھر مزید ضمانت کے طور پر اس سے یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے‘ کہ ’’بھائی مذہب کی سب سے بڑی فکر توفقیہوں اور محدثوں ہی کو ہو سکتی ہے، سو دیکھ لو کہ یہ فقیہ اور محدث اور علماء ہمارے ساتھ ہیں‘‘
روٹی کو دین اور روٹی ہی کو ایمان قرار دینے کے بعد آگے بڑھتے ہیں‘ اور ان پڑھ مفلس مسلمان سے کہتے ہیں‘ کہ دیکھو میاں، تمہارے اصلی بھائی وہ غیر مسلم عوام ہیںجو تمہاری ہی طرح بھوک اور افلاس میں مبتلا ہیں۔تمہیںجو کچھ ملے گا انہی کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے سے ملے گا۔ اور تمہارے اصلی دشمن وہ مسلمان ہیںجو کسی زمین یا مکان یا کارخانے کے مالک ہیںیا جن کے پاس تم سے زیادہ وسائلِ معیشت موجود ہیں۔تمہیں جو کچھ مل سکتا ہے، انہی سے لڑ کر مل سکتا ہے۔ پس آؤ اپنے غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ مل کر اپنے ان مسلمان دشمنوں سے لڑو۔
کانگریس کے طریق کار کے نتائج
اس تبلیغ کا نتیجہ کیا ہو گا؟ اس کا پہلا نتیجہ یہ ہو گا کہ جوں جوں یہ خیالات عام مسلمانوں کے دلوںمیں گھر کریں گے، اسلامی سوسائٹی پارہ پارہ ہوتی چلی جائیگی۔ اسلام میں سوسائٹی کا نظام دین کی وحدت پر قائم ہے۔ تمام وہ لوگ جو توحید اور رسالتِ محمدی کے قائل ہیں، ایک ہی ہیئت ِاجتماعی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ خواہ ان میں سے ایک عثمان غنیؓ کی طرح سرمایہ دار ہو‘ اور دوسرا ابو ذر غفاریؓ کی طرح قلانچ اسی دینی وحدت کی بنا پر ان میں نماز کی جماعت سے لے کر شادی بیاہ تک ہر قسم کے معاشرتی اور تمدّنی تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ اور انہی تعلقات سے یہ سب مل کر ایک سوسائٹی بناتے ہیں۔ اس کے برعکس اشتراکی تبلیغ ان کو معاشی حیثیت سے الگ الگ طبقوں میںتقسیم کرتی ہے‘ اور ان کو یہ سکھاتی ہے‘ کہ ایک معاشی طبقہ کا مسلمان دوسرے معاشی طبقہ کے مسلمان سے لڑے اور اس کو اپنا دشمن سمجھے۔ ظاہر ہے‘ کہ اس کے بعد یہ ایک سوسائٹی کے ممبر نہیں رہ سکتے طبقہ وارانہ جنگ ان کے درمیان صرف معاشرتی تعلقات ہی کو منقطع نہ کرے گی بلکہ خالص دینی حرکت و عمل میں بھی ان کا آپس میں ملنا غیر ممکن ہو جائے گا۔یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں کہ جن کے درمیان روٹی کی جنگ چھڑ گئی ہو وہ ایک دوسرے کے ساتھ مسجدوں میں جمع ہوں یا وہ مال دار مسلمان اپنے اس غریب مسلمان بھائی کو زکوٰۃ دے جس کے متعلق اسے یقین ہے‘ کہ وہ اس کا گھر لوٹنے کی فکر میں لگا ہوا ہے۔ا سی طرح یہ بھی ناممکن ہے‘ کہ جو لوگ معاشی اغراض کے لیے ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہوں‘ اور جن کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف بغض اور حسد کی آگ بھڑک چکی ہو وہ ایک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھیں اور ان کے درمیان انما المومنون اخوۃ کا رشتہ قائم رہ جائے۔
اس کا دوسرا نتیجہ یہ ہو گا کہ مسلمانوں کے عوام مذہب سے قطعی بیگانہ ہوتے چلے جائیں گے۔ معاشی طبقات کی جنگ عامہ مسلمین کو صرف بڑے تعلقہ داروں اور جاگیرداروں اور لکھ پتیوں ہی سے الگ نہ کرے گی بلکہ متوسط طبقہ کے ان تمام مسلمانوں سے بھی کاٹ دے گی‘ جو نسبتاً خوش حال ہیں۔ منظر رضوی صاحب کے اپنے اندازے کے مطابق متوسط طبقہ کے مسلمان تقریباً ایک کروڑ ہیں‘ اور عام مفلس مسلمان سات کروڑ۔ طبقہ واری جنگ کے معنی ان ایک کروڑ مسلمانوں سے سات کروڑ مسلمانوں کے بر سر پیکار ہو جانے کے ہیں۔ اب یہ ظاہر ہے‘ کہ اپنے دین کا علم، اپنی تہذیب کا شعور، احکام شرعیہ کی واقفیت، جو کچھ بھی ہے اسی تعلیم یافتہ متوسط طبقہ ہی میںپائی جاتی ہے۔ یہی طبقہ اس ملک میں اسلامی تہذیب کو کسی نہ کسی حد تک سنبھالے ہوئے ہے۔ عوام انہی سے دین سیکھتے ہیں، انہی سے احکام معلوم کرتے ہیں، اور انہی کے اثر سے تھوڑے یا بہت اسلامی نظام تہذیب و تمدّن کی گرفت میں رہتے ہیں۔جب طبقہ واری جنگ کی بدولت سات کروڑ عام مسلمان ان ایک کروڑ متوسط طبقہ کے مسلمانوں سے کٹ کر الگ ہو جائیںگے تو وہ اسلام سے بالکل بے گا نہ ہو کر رہ جائیں گے، خود ان کے پاس کوئی علم نہ ہو گا۔ اور جب متوسط طبقہ کے لوگ ان کو دین کے احکام سنائیں گے‘ تو اشتراکیت کا مبلغ فورا پکار کر کہے گا کہ ہوشیار! پھر وہی مذہب کی افیون تمہیں کھلائی جا رہی ہے، اور پھر اسی ’’منظم مذہب‘‘ کے پھندے میں تم کو پھانسا جا رہا ہے جو’’اندھے یقین اور ترقی دشمنی کا بے دلیل عقیدت اور تعصب کا، تو ہم پرستی اور لوگوں سے فائدہ اٹھانے کا، قائم شدہ حقوق اور مستقل اغراض رکھنے والوں کا حمائتی ہے؟
اس کا آخری اور فیصلہ کن نتیجہ یہ ہو گا کہ عامہ مسلمین جب اسلامی قومیّت کے تخیّل سے خالی الذہن ہو کر فرد فرد بن جائیںگے، اور جب وہ اسلامی تہذیب و تمدّن کو ایک لفظ بے معنی سمجھ کر اس غیر اسلامی تہذیب و تمدّن کو قبول کرتے چلے جائیںگے جو ’’زمانے کے شدید انقلاب انگیز تقاضوں‘‘ سے پیدا ہو رہا ہے، اور جب تعلیم یافتہ متوسط طبقہ کے مسلمانوں سے کٹ کر وہ اپنے معاشی طبقہ کے غیر مسلموں میں جا ملیں گے‘ تو خود بخود ان کو شدّھی ہو جائے گی‘ اور وہ آہستہ آہستہ غیر اسلامی قومیّت میں اس طرح جذب ہو جائیں گے جیسے نمک کی ڈلی پانی میں گھل گھل کر آخر کار غائب ہو جاتی ہے، رہے متوسط طبقہ کے مٹھی بھر مسلمان جو اسلام کے خلاف کسی سماجی اور معاشی نظام کو قبول کرنے سے انکار کریں گے‘ تو ان کے حق میں پنڈت جواہر لال نے پہلے ہی فیصلہ کر دیا ہے‘ کہ جو ’’سیاسی یا تمدّنی ادارے ا س تبدیلی کی راہ میںحائل ہوں انہیں مٹا دینا چاہیے‘‘ اور یہ کہ ’’اکثریت نظام تمدّن کو بدلنے کی خواہش مند ہو تو ضروری نہیںکہ اقلیت کو اس پر راضی کرنے کی کوشش کی جائے بلکہ اس پر مؤثر دباؤڈالنا چاہیے، اور جبرو تشدد سے کام لینا چاہیے‘‘۔ اور یہ کہ ’’جمہوری حکومت کے معنی ہی یہ ہیں‘ کہ اکثریت، اقلیت کو ڈرا کر اور دھمکا کر اپنے قابو میں رکھے‘‘
یہ ہے وہ راستہ جو آزادی حاصل کرنے کے لیے قوم پرستوںنے تجویز کیا ہے‘ اور جس پر وہ عملاً چل رہے ہیں۔ ان کے نزدیک آزادی حاصل نہیںہو سکتی جب تک کہ ملک کی پوری آبادی کو ایک قوم نہ بنا دیا جائے، اور ملک کی پوری آبادی کو ایک قوم نہیںبنایا جا سکتا جب تک کہ مسلمان قوم کا وجود کلیۃً ہندستانی قومیّت میں تحلیل نہ ہو جائے۔لامحالہ اس سے نتیجہ یہ نکلا کہ حصول آزادی کے اس طریقہ کو اختیار کرنے سے مسلمان قوم پہلے ختم ہو گی‘ اور آزادی اس کے بعد حاصل ہو گی۔اب میں علمائے دین اور مفتیان اُمت سے اور ہر اس مسلمان سے جو اسلام اور قوم پرستی کا بیک وقت دم بھرتا ہے، دریافت کرتاہوںکہ کیا اسلام اور یہ قوم پرستی صریحا ایک دوسرے کی ضد نہیںہیں؟ اور کیا اس طریقہ سے آزادی حاصل کرنا، قرآن،حدیث، عقل، غرض کسی چیز کی رُو سے بھی مسلمانوں کا فرض ہے؟ بلکہ فرض کیا معنی میںپوچھتا ہوں کہ آزادی کے لیے قومی خود کشی کا یہ طریقہ اختیار کرنا کسی مسلمان کے لیے جائز بھی ہے؟ اور کیا اس طریقہ سے آزادی کی جنگ لڑنے والوںکے ساتھ موالات کرنا صریح تعلیمات قرآنی کے خلاف نہیں ہے؟
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں‘ اور اب پھر کہتا ہوں کہ یہ تحریک قطعی طور پر ’’شدھی‘‘ کی تحریک ہے۔اس میں اور شردھا نند والی شدھی میں حقیقت اور نتیجہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ مسلمان جب اسلام سے منحرف اور اسلامی جماعت سے خارج ہو گیا‘ تو خواہ وہ ہندو مت میں جائے یا بے مت ہو جائے، دونوں صورتیں یکساں ہیں۔ البتہ دونوں شدھیوںمیں فرق صرف یہ ہے‘ کہ ایک کھلی ہوئی شدھی تھی، اور دوسری دامِ ہمرنگ زمین کا حکم رکھتی ہے۔اس کے ساتھ کوئی مسلمان تعاون کا نام بھی نہ لے سکتا تھا، اور اس کی فوج میں فقیہ اور محدث اور مفسر تک سر گرم عمل نظر آرہے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ تحریک اپنی پیش رو تحریک سے ہزار درجہ زیادہ خطرناک ہے۔
پھر جیساکہ میں پہلے کہہ چکا ہوں، اس طریقہ سے جو آزادی حاصل ہو گی وہ ان آٹھ کروڑ یا سات کروڑ جسموںکے لیے تو آزادی ہو سکتی ہے‘ جو مسلمانوں کی نسل سے پیدا ہوئے ہیں۔ مگر اس قوم کے لیے آزادی نہیں ہو سکتی‘ جو ’’مسلمان‘‘ ہے۔ مسلمانوں کے لیے مسلمان ہونے کی حیثیت سے وہ آزادی نہ ہو گی بلکہ ان کی قومیّت، ان کی تہذیب اور ان کے نظامِ اجتماعی کی کامل بربادی‘ اور اس کام کی تکمیل ہو گی جس کو انگریزی امپیریل ازم نے ڈیڑھ سو برس پہلے شروع کیا تھا۔ حقیقت میں یہ ایک ایسا حربہ ہے جو انگریزی سلطنت سے پہلے اسلام پر حملہ کرتا ہے‘ اور اس سے پہلے اس کو ختم کر دینا چاہتا ہے۔ میں تصوّر نہیں کر سکتا کہ کوئی صاحب عقل مسلمان جو مسلمان رہنا چاہتا ہو اس حربے کو خود اپنے دین اور اپنی قوم پر چلانے میں کسی طرح حصہ لے سکتا ہے۔
طرفہ ماجرا یہ ہے‘ کہ وہی جواہرلال اور وہی ان کے قوم پرست ساتھی جنہوں نے حصول آزادی کے اس طریقہ کو کھلم کھلا اختیار کیا ہے، ہم مسلمانوں کو آزادی کی مخالفت اور سامراج پرستی کا طعنہ بھی دے رہے ہیں کیونکہ ہم اپنی قبر کھودنے میں ان کا ہاتھ بٹانے سے انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ درحقیقت آزادی کے دشمن اور سامراج پرستی کے مجرم وہ خود ہیں۔ انہوں نے خود ہی آزادی حاصل کرنے اور سامراج سے لڑنے کا وہ طریقہ اختیار کیا ہے‘ جس کوہندستان کی ۴/۱ آبادی کسی طرح قبول کر ہی نہیں سکتی۔ اس غلط اور احمقانہ طریقہ سے وہ خود ملک کی آزادی کو دورپھینک رہے ہیں‘ اور سامراج کی مدد کر رہے ہیں۔ اور پھر طعنہ ہم کو دیتے ہیں‘ کہ تم آزادی کی جنگ سے الگ رہ کر بر طانوی سامراج کو مدد دے رہے ہو، اگر ان کے پاس عقل ہے‘ تو انہیں سمجھنا چاہیے‘ کہ کوئی جماعت اپنے جماعتی وجود کو فنا کرنے کے لیے آزادی نہیں چاہا کرتی اور نہیں چاہ سکتی۔ آزادی کی ضرورت قومی زندگی کے لیے ہوتی ہے نہ کہ قومی موت کے لیے۔ لہٰذا آزادی کی خاطر ہر چیز قربان کی جا سکتی ہے‘ مگر قومی زندگی قربان نہیں کی جا سکتی۔ تم جب کسی قوم کے سامنے آزادی کا وہ راستہ پیش کرتے ہو‘ جس میں اس کی قومیّت کی موت ہو تو اس کے معنی یہ ہیں‘ کہ تم خود اس کو مجبور کر رہے ہو‘ کہ وہ تمہاری تحریک آزادی سے لڑے۔ اس کا یہ لڑنا عین مقتضائے فطرت ہے۔ خواہ دنیا کی کوئی قوم بھی ہو،ا یسی حالت میں بہرحال لڑے گی۔اور اگر اس لڑنے کا یہ نتیجہ ہو‘ کہ بیرونی اقتدار کو اس سے فائدہ پہنچے تو اس کی کچھ پرواہ نہ کرے گی۔اس لیے کہ بیرونی اقتدار کا نقصان بھی زیادہ سے زیادہ وہی ہو سکتا ہے‘ جو اس نام نہاد تحریک آزادی کا ہے۔ یعنی اس کی قومیّت کی موت، پھر ایک موت اور دوسری موت میں آخر وجہ ترجیح کیا ہے؟
خ خ خ
باب ۱۳ : جنگ ِ آزادی کا مطمح نظر
اب ہمیں اپنی دوسری تنقیخ کی طرف توجہ کرنی چاہیے، اور وہ یہ کہ جس آزادی کے لیے یہ قوم پرست حضرات لڑ رہے ہیں اس کی نوعیت کیا ہے، اور کیا مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس نوعیت کی آزادی کس درجہ میں بھی ہمارے لیے مطلوب یا مفید ہو سکتی ہے؟ اس تنقیخ کو ہم دو حصوںمیں تقسیم کریں گے۔ ایک یہ کہ اس آزادی کا مطمح نظر کیا ہے؟ یعنی موجودہ حکومت کو ہٹا کر یہ کس قسم کی حکومت کن اصولوں پر قائم کرنا چاہتی ہے۔ دوسرے یہ کہ خود اس جنگ ِ آزادی کی نوعیت کیا ہے؟ یعنی یہ انقلابی ذرائع سے کامل انقلاب چاہتی ہے‘ یا نیم انقلابی نیم دستوری ذرائع سے بتدریج ایک نظامِ حکومت کو گرانا اور دوسرا نظامِ حکومت تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ پہلے حصہ کو ہم مقدّم رکھیں گے‘ اور دوسرے حصہ سے آخر میں بحث کریں گے۔
جو لوگ اس وقت آزادی وطن کے علم بردار بنے ہوئے ہیں ان کے مطمح نظر کو سمجھنے کے لیے تمہید کے طور پر ایک مختصر تاریخی بیان ضروری ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ان کے تخیلات کا اصلی ماخذ اور ان کے جذبات حریّت طلبی کا اصلی محرک کیا ہے۔
یہ ہر شخص جانتا ہے‘ کہ ہندستان کی موجودہ وطنی تحریک براہِ راست انگریزی تعلیم سے پیدا ہوئی ہے۔ مخالف اور موافق دونوں اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ انگریزی حکومت کی قائم کی ہوئی یونی ورسٹیوں میں ہندستانیوں نے تعلیم حاصل کی۔ وہاں یہ تاریخ، سیاسیات اور معاشیات سے روشناس ہوئے۔ا نگریزی زبان کے توسط سے مغربی افکار ان تک پہنچے اور ان میں آہستہ آہستہ وہ سیاسی شعور پیدا ہوا جو حکومت خوداختیاری کی خواہش کا مورث ہوا کرتاہے۔ تقریبا پچاس سال تک ان جدید اثرات کے تحت پرورش پانے کے بعد جب ان کے اندر سیاسی اختیارت حاصل کرنے کا جذبہ اُبھرنے لگا، تو خود ان کے انگریز مربیوں ہی نے اس جذبہ کے خروج کا راستہ پیدا کیا۔ پہلا شخص جس کے دماغ میں ’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘ قائم کرنے کا خیال آیاوہ ایک انگریز مسٹر ہیوم (Hume)تھا۔ ابتداً اس کے پیشِ نظر محض ایک ایسی انجمن بنانے کا تصوّر تھا جس میں ہندستان کے سیاسی دماغ مجتمع ہو کر تبادلہ خیالات کیا کریں‘ اور اس طرح حکمرانوں کو اپنے محکموں کے داعیات سے واقف ہونے کا موقع ملتا رہے۔اس غرض کے لیے اس کی تجویز تھی‘ کہ جس صوبہ میں اس انجمن کا اجتماع ہو وہیں کا گورنر اس کی صدارت کرے مگر لارڈ ڈفرن نے، جو اس وقت ہندستان کا وائسرائے تھا، اس کے خیالات کو بدل کر ایک دوسری راہ پر ڈال دیا۔ اس نے یہ رائے دی کہ:
ہندستان میںایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جس کی حیثیت یہاں وہی ہو‘ جو انگلستان میں حزب الاختلاف (opposition) کی ہے تاکہ وہ حکومت پر نکتہ چینی کرکے اس کے نقائص کو دور کرتی رہے۔ نیز اس جماعت کو مستقل بالذات ہونا چاہیے۔ گورنر کی صدارت اس کی آزادی رائے میں خلل انداز ہو گی۔
انگلستان میںلارڈرپن، لارڈ ڈلہوزی، سر جیمز کیرڈ (caird)، جان برائٹ، مسٹر ریڈ، مسٹر سلیگ (Slagg) اور دوسرے سیاسی مبصرین نے بھی لارڈ ڈفرن کی اس رائے کو پسند کیا اور اس طرح ۱۸۸۵ء میں کانگریس کی تاسیس{ FR 2940 } ہوئی۔
سیاسی عمل کی یہ ابتدا جس طرح انگریزی افکار اور انگریزی تدبر کی رہنمائی میںہوئی، اسی طرح مقاصد اور ان کے حصول کی صورت کا تعین بھی آپ سے آپ انگریزی اثرات کے تحت اور انگریزی دستور حکومت کے نمونے پر ہوتا رہا۔ کانگریس کو اوّل یوم پیدائش ہی میں ’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا، گویا کہ ’’انڈین نیشن‘‘ کے نام سے کوئی قوم موجود تھی‘ اور یہ اس کی ایک اجتماعی ہیئت (کانگریس) بنائی جا رہی تھی۔ انگریزی تعلیم کے جو اثرات ان لوگوں کے دماغ پر پڑے تھے، ان کا اثر اتنا گہرا تھا‘ کہ انہوں نے ایک ملک کی آبادی کا ایک قوم ہونا، بطور ایک بدیہی کلیہ کے تسلیم کر لیا تھا، اور اس کے لیے وہ واقعات کی شہادت کو بھی غیر ضروری سمجھتے تھے۔ کانگریس کے پہلے اجلاس میںجو مقاصد اس جمعیت کے لیے تجویز ہوئے تھے ان میں سے دوسرا مقصد یہ تھا:
قومی وحدت کے ان داعیات کا نشوو ارتقا اور استحکام جو ہمارے محبوب لارڈرپن کے ہمیشہ یادگار رہنے والے عہد حکومت میںپیدا ہوئے ہیں۔{ FR 2941 }
دوسرے اجلاس کے خطبہ صدارت میں ہم کو یہ الفاظ ملتے ہیں :
ایک قومی کانگریس کو ان امور تک اپنے تئیں محدود رکھنا چاہیے جن میں پوری قوم براہِ راست حصہ دار ہو‘ اور اصلاح معاشرت اور دوسرے طبقہ وار مسائل کو طبقات کی کانگریسوں کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔{ FR 2942 }
یہ وطنی قومیّت اور واحد قومیّت کا تخیل اس تحریک کے مایہ خمیر کا پہلا عنصر ہے۔ جس طرح ۱۸۸۵ء میں بینر جی اور نورو جی ’’ہندوستانی قوم‘‘ کا ذکر کرتے تھے، اسی طرح آج گاندھی جی اور نہرو جی بھی کرتے ہیں، بلکہ وہ محض ذکر کرتے تھے‘ اور یہ اس کو زبردستی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔گاندھی جی استفہام انکاری کے لہجہ میں پوچھتے ہیں‘ کہ
ہندستان ایک ملک اور ایک قوم ہے‘ یا بہت سے ملک اور بہت سی قومیں؟ { FR 2943 }
اور خود ہی اس کا جواب دیتے ہیں‘ کہ جو لوگ اس کو ایک ملک اور ایک قوم سمجھتے ہیںانہیں اس پر اعتراض نہ ہونا چاہیے‘ کہ اگر مدراس کا وزیر اعظم ایک قوم کے لیے ایک زبان بنانے میںکرنمیل لاامنڈمنٹ ایکٹ کی جابرانہ طاقت استعمال کرے۔ نہرو جی استفہام کی بھی ضرورت نہیں سمجھتے اور قطعی طور پر اعلان کرتے ہیں‘ کہ ہندستان میں صرف ایک قوم بستی ہے‘ جس کا نام ہندستانی ہے۔ جدا جدا مستقل قوموں کا یہاں وجود ہی نہیںہے۔
دوسرا بنیادی تصوّر جو انگریزی تعلیم اور انگریزی مربیوں کی سیاسی تربیت سے اخذ کیا گیا وہ قومی جمہوریت (national democracy) کا تصوّر تھا۔ جمہوری ادارت کی مختلف صورتیں جو دنیا میں رائج ہیں‘ اور رائج رہی ہیں، ان میں ایک نہایت ناقص اور قدامت پرستانہ صورت وہ ہے‘ جو انگلستان میں قائم ہے۔ لیکن ہمارا ہندستانی وطن پرست چونکہ انگریز کا شاگرد ہے، اسی سے جمہوریت کا نام اس نے سنا ہے،اور اسی کے جمہوری نظام کا نقشہ اس نے دیکھا ہے،اس لیے یہ جب ’’جمہوریت‘‘ کا لفظ بولتا ہے‘ تو اس کے سامنے جمہوری دستور کے وہی اصول اور وہی طریقے ہوتے ہیں‘ جو انگلستان میں رائج ہیں۔ نمائندگی، انتخاب، ذمّہ دار حکومت اور دستور سلطنت کی ساری تفصیلات کو یہ جوں کا توں انگلستان سے ہندستان اُٹھا لانا چاہتا ہے۔ یہ اس حقیقت کو نہیں جانتا کہ قوموں اور ملکوںکے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ جس قسم کے ادارات ایک ملک کے مناسب حال ہوں، لازم نہیں کہ وہ دوسرے ملک کے قامت پر بھی راست آسکیں۔ قوّتِ تمیز اور اجتہادِ فکر کے بغیر محض دوسروں کی نقّالی کرنا اصولاً بھی غلط ہے‘ اور عملاً بھی مشکل، بلکہ مضرت رساں، مگر مختلف اسباب ایسے پیدا ہو گئے ہیں‘ جو اس حقیقت کے بار بار سامنے لائے جانے پر بھی ہمارے وطن پرستوں کو اس کے ادراک سے روکتے ہیں۔ ایک گروہ غلامانہ ذہنیت اور محدود واقفیت کی بنا پر یہ سمجھتا ہے‘ کہ ’’جمہوری ادارت‘‘کا اطلاق صرف انگریزی طرز کے ادارات پر ہی ہوتا ہے‘ اور ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اس طرز کی مخالفت کرنا نفس جمہوری ادارت کی مخالفت کرنا ہے۔د وسرا گروہ انگریزی نمونہ کی جمہوریت کو غلط سمجھتا ہے، مگر اس پر شکست خوردہ ذہنیت کا غلبہ ہے‘ اور وہ سمجھتا ہے‘ کہ جمہوری نظام، جو ہمارے برطانوی آقا اپنے ملک سے لائے ہیں‘ اور جس کی پشت پر مشین گن کی طاقت ہے، ہندستان میں رائج ہونا ہے‘ اور ہو کر رہے گا۔ لہٰذا عافیت اسی میں ہے‘ کہ اس کے آگے سپر رکھ دو۔ تیسرا گروہ جو کانگریس کا اصلی کار فرما اور کارکن گروہ ہے، غلامانہ ذہنیت کے ساتھ خود غرضانہ ذہنیت سے بھی ماؤف ہے۔انگریزی طرز جمہوریت کوقبول کرنے میں سراسر اسی کا فائدہ ہے، کیونکہ یہ طرز جمہوریت اکثریت کو مالک الملک لاشریک لہا بنا دیتا ہے۔ اور اتفاق سے یہی گروہ یہاں اکثریت میں ہے۔ لہٰذا یہ کہتا ہے‘ کہ ہندستان میں واحد قومیّت کی بنیاد پر ایک ’’ڈیمو کریٹک اسٹیٹ‘‘ قائم ہونا چاہیے۔۱۸۸۵ء سے ۱۹۳۸ء تک ۵۳ سال کی مدت میں کانگریس کے مطالبات کی صورتیں بہت کچھ بدلی ہیں۔ پہلے سرکار سے مطالبہ کیا جاتا تھا‘ کہ ہمارے لیے ایک ایسا دستور حکومت بنا دو جس میں گورنمنٹ اہلِ ملک کے سامنے جوابدہ ہو۔ اب یہ مطالبہ ہے‘ کہ ہم خود اپنا دستور بنائیں گے۔ بظاہر پہلے موقف سے دوسرا موقف بہت آگے بڑھا ہوا ہے۔ مگر اصولی حیثیت سے ’’ڈیمو کریسی‘‘ کا جو تصوّر ۱۸۸۵ء میںتھا، بعینہ آج بھی وہی ہے۔ خواہ دستور حکومت سرکار بنائے یا یہ خود بنائیں۔
وطن پرستی کی اس تحریک میں انگریزی آقاؤں کا اثر محض علمی و نظری حیثیت سے ہی نہیں ہے‘ بلکہ تقریبا ۸۰ سال سے جو سیاسی تربیت ہندوستانیوںکو ان کے یہ آقا دے رہے ہیں۔ وہ عملاً بھی انہی اصولوں پر مبنی ہے۔ ۱۸۶۱ء سے ۱۹۳۵ء تک جتنے دستوری تغیّرات اس ملک میں ہوئے ہیں‘ اور نظم و نسق حکومت میں ہندوستانیوں کو شریک کرنے کی جتنی صورتیں اختیار کی گئی ہیں، ان سب میں انگریز کی اس فطری کمزوری کا اثر نمایاں نظر آتا ہے‘ کہ وہ اپنے ملک کے جمہوری ادارات کو آئیڈیل سمجھتا ہے‘ اور اس میں اتنی اجتہادی صلاحیّت نہیںہے‘ کہ مختلف حالات کے لیے مختلف اصول وضع کر سکے۔ اگرچہ ابتداء سے اب تک ہر زمانہ میں انگریز مدبرین نے اس بات کواصولاً تسلیم کیا ہے‘ کہ ہندوستان انگلستان نہیں ہے‘ اور یہاں آنکھیں بند کرکے انگریزی طرز کے جمہوری ادارت قائم کرنا درست نہیں۔ مگر وہ سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود اپنی فطرت سے مجبور ہیںکہ ان کے ذہن میںہر طرف سے پھر کر جمہوریت کے وہی تصوّرات اور وہی رنگ ڈھنگ آجاتے ہیں‘ جن کے ماحول میں خود انہوں نے پرورش پائی ہے۔ وہ غیر شعوری طور پر اہلِ ہند کو ایک قوم فرض کر لیتے ہیں‘ جس طرح اہلِ انگلستان ایک قوم ہیں۔ وہ جائز سمجھتے ہیںکہ یہاں ڈیمو کریسی کے وہی اصول اختیار کیے جائیں جو واحد قومیّت ہی کے لیے موزوں ہو سکتے ہیں۔ حالات کی رعایت زیادہ سے زیادہ ان کو جس چیز کے لیے آمادہ کر سکتی ہے۔ وہ بس جُدا گانہ انتخاب ہے، یعنی یہ کہ ہندستان کی مختلف قوموں کو جنہیں وہ ایک قوم کے مختلف فرقے سمجھتے ہیں۔ اپنے ہی منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعہ سے اپنی خواہشات کے اظہار کا موقع مل جائے۔ مگر کوئی شخص کسی دلیل سے بھی یہ بات ان کے ذہن میں نہیں بٹھاسکتا کہ جداگانہ انتخاب اس وقت بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے‘ جب ان مختلف قوموںکے مجموعہ کو ایک قرار دے کر اکثریت کی حکومت کا جمہوری قاعدہ نافذ کر دیا جائے۔ انہوں نے میونسپلٹیوں اور ڈسٹرکٹ بورڈوں سے لے کر صوبوں اور مرکز کی قانون سازمجالس تک جتنے جمہوری ادارے اس ملک میں قائم کیے، ان سب میں کثرت رائے کے غلبہ کا اصول یکساں طور پر رائج کر دیا۔ اور اس کا نتیجہ صرف یہی نہیں ہوا کہ ہندستان میں جو قوم کْثیر التعداد واقع ہوئی ہے وہ زیادہ سے زیادہ سیاسی طاقت کی مالک ہوتی چلی گئی، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس کا بدترین نتیجہ یہ ظاہر ہوا کہ کثیر التعداد قوم اس سیاسی غلبہ کو اپنا فطری اور اخلاقی حق سمجھنے لگی اور قلیل التعداد قومیں اس فریب میں مبتلا ہو گئیں کہ جمہوریت کا مفہوم غلبہ اکثریت کے سوا اور کچھ نہیں، ان کو خود بھی اپنی مغلوبیت پر راضی ہونا چاہیے، کیونکہ انگلستان سے جو چیز آئے اس کے عین حق ہونے میں تو کلام ہی نہیں ہو سکتا۔
جس ملک میں ذہنی غلامی اس حد تک پہنچ چکی ہو‘ کہ کسی چیز کے بجا و درست ہونے کے لیے محض صاحب بہادر کے قول و فعل کی سند کافی سمجھی جائے، حتیٰ کہ کسی ریلوے اسٹیشن پر صاحب بہادر چائے میں برف ڈال کر پیتے ہوئے دیکھے جائیں تو غلام ہندستانی گھر پہنچ کر برف زدہ چائے پینے لگے، وہاں یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ صاحب نے جمہوریت کا جو مفہوم بتایا ہے اس کے درست ہونے میں شک کیا جائے گا۔ یہاں آزادی کے مدعی ایک سے ایک بڑھ کر موجود ہیں، مگر دماغوں کی غلامی ان سب کا مشترک سرمایہ ہے۔ جو لوگ یہاں آزاد خیالوں کے سر تاج سمجھے جاتے ہیں، ان کی غلام فطرتی بھی یہاںتک بڑھی ہوئی ہے‘ کہ جب تک ایک وزیر ہند (لارڈ آلیویر) نے جُدا گانہ انتخاب کو جمہوریت و قومیّت کے منافی نہ قرار دیا تھا اس وقت تک یہ غریب اس حقیقت سے بالکل ناواقف تھے‘ کہ واقعی یہ چیز اس درجہ منافی قومیّت و جمہوریت ہے، اور جب یہ بات صاحب کی زبان سے سن لی گئی‘ تو ڈاکٹر مونجے سے لے کر پنڈت جواہر لال نہرو تک ہر ایک اس زعم کے ساتھ اس کا اعلان کرنے لگا کہ جس قول کو سرکار والاتبار کی سند حاصل ہے اس کے برحق ہونے میں کس کو کلام کی جرأت ہو سکتی ہے۔ پھر جو صاحب یہاں آزاد خیالوں کے امام ہیں ان کا حال بھی یہ ہے‘ کہ سرکار کے قائم کیے ہوئے جمہوری ادارات کو جمہوریت کی ایک ہی فطری و بر حق صورت سمجھتے ہیں، اور ان ادارات کے اصول سے اختلاف کرنا ان کے نزدیک سیاسی اصلاح و ترقی کی مخالفت کرنا ہے، کیونکہ سیاسی اصلاح و ترقی کی صراط مستقیم ایک ہی ہے‘ جس کی طرف غلاموں کے ہادی برحق صاحب بہادر نے ان کی رہنمائی کی ہے، اور وہ بس یہ ہے‘ کہ مختلف قوموں کو ایک مجموعہ قرار دے کر اس میں غلبہ اکثریت کا جمہوری اصول نافذ کر دیا جائے۔ صاحب کے دئیے ہوئے اس علم پر غلام دماغوں کا یقین واذعان اور انشراح و اطمینان اتنا بڑھا ہوا ہے‘ کہ وہ ریاضی کے اصول موضوعہ کی طرح اسے بیان کرتے ہیں‘اور اپنی ذہنی غلامی کے راز کو چھپانے کی بھی کوشش نہیں کرتے۔ اس لیے کہ انہیں اپنی ذہنی غلامی کا احساس تک نہیں رہا۔
قومیّت اور جمہوریت کے ساتھ ایک تیسرا اساسی تخیل بھی ہے‘ جو انہوں نے صاحب کی تعلیم و تربیت سے حاصل کیا ہے‘ اور وہ یہ کہ اسٹیٹ کو دنیوی (secular) یعنی غیر دینی ہونا چاہیے۔
غیر دینی کا ایک سادہ مفہوم یہ ہے‘ کہ اسٹیٹ کا اپنا کوئی مذہب نہ ہو۔ وہ بجائے خود دنیوی ہو۔ اس کی اساس کسی مخصوص شریعت پر نہ ہو۔ وہ کسی خاص مذہب کی نصرت و حمایت نہ کرے مگر اس کے ساتھ ہی وہ مخالف دین (anti religious) بھی نہ ہو بلکہ اپنے دائرے میں مذہبی نظامات کو تسلیم کرے اور ان کو حکومت کے اختیارات میں سے کم از کم اتنے اختیارات تفویض کر دے جو اندرونی تنظیم کے لیے ضروری ہیں۔ مثلا اپنے پیروؤں پر ٹیکس عائد کرنا، مذہبی قوانین کو ان پر نافذ کرنا اور ان کی دینی تعلیم کا انتظام کرنا، عام اس سے کہ وہ علیحدہ مدارس کی شکل میں ہو یا مشترک تعلیمی نظام کے ماتحت ہو۔ نازی دور سے پہلے تک جرمنی میں غیر دینی اسٹیٹ کا یہی مفہوم تھا‘ اور اب بھی یوگوسلیویا، پولینڈ، لتھوانیا، فن لینڈ، اور ایستھونیا میں یہی مفہوم ہے۔ غیر دینی اسٹیٹ کا۔ دوسرا مفہوم یہ ہے‘ کہ وہ دین کی نفی (negation) پر قائم ہو، مخالف ِدین ہو، اس میں کسی دینی نظام کو تسلیم نہ کیا جائے۔ باشندوں کی اس حیثیت کو کہ وہ کسی خاص دین کے پیرو ہیں بالکل نظر انداز کر دیا جائے‘ اور عمومی حاکمیّت (popular sovereignty) کی تعبیر یہ کی جائے‘ کہ باشندگانِ ملک ہونے کی حیثیت سے تو سب باشندے حاکمیّت میں حصہ دار ہیں، مگر ایک مذہب کے پیرو ہونے کی حیثیت سے اس حاکمیّت میں ان کا کوئی حصہ نہیں، لہٰذا وہ خود اپنی حکومت سے بھی اپنے دینی نظام کی ترقی و استحکام کے لیے کوئی طاقت حاصل نہیں کر سکتے۔ لادینی کے اس مفہوم نے یورپ میں دو مختلف صورتیں اختیار کی ہیں۔ ایک ظالمانہ (aggressive) جس میں حکومت کا ارادہ یہ ہوتا ہے‘ کہ مذہبی لوگوں کو لامذہب بنایا جائے۔ اس کی مثال روس ہے۔ دوسری صورت معتدل ہے‘ جس میں حکومت کی پالیسی یہ ہوتی ہے‘ کہ مذہبی نظامات کو زندگی کی طاقت پیدا کرنے والے تمام وسائل سے محروم کر دیا جائے‘ تاکہ وہ خود سوکھ سوکھ کر مر جائیں، اس کی مثال چیکو سلواکیا ہے، جہاں تعلیم کا نظام کلیۃً حکومت کے ہاتھ میں ہے، اور اس سے دینی عنصر کو قطعاً خارج کر دیا گیا ہے، اور حکومت سرکاری طور پر کسی قوم کے دینی نظام کو تسلیم نہیں کرتی۔
ہندستان میںہمارے آقاؤں نے جو طریق کار اختیار کیا ہے وہ ایک عجیب قسم کی معجون مرکب ہے۔بادشاہ سلامت حامی دین (defender of the faith) بھی ہیں‘ اور اسٹیٹ کی طرف سے ایک مذہبی محکمہ (ecclesiastical department) بھی قائم ہے۔اس کے ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے‘ کہ سلطنت کا کوئی مذہب نہیں ہے‘ اور اس کا مذہب نہ ہونے کے معنی یہ ہیں‘ کہ وہ مذہبی رواداری کے اصول پر قائم ہے۔ (یعنی لادینی کا پہلا مفہوم) مگر عملاً باشندگانِ ملک کے مذہب سے وہ برتاؤ کیا جاتا ہے‘ جو چیکو سلواکیا کی روش سے ملتا جلتا ہے۔ اس عجیب مکسچر کی تحلیل اگر سائنٹفک طریقہ سے کی جائے‘ تو اس کے تین اجزاء برآمد ہوں گے۔
۱- مذہبی رواداری کا اعلان و اظہار
۲- ایک خاص عقیدہ و مسلک کی طرف نظرِ عنایت
۳- دوسرے تمام عقائد و مسلک کے ساتھ سنگدلانہ سرد مہری
ہندوستان میں’’دنیوی‘‘ اسٹیٹ کا یہ مرکب تصوّر فکر و عمل دونوں حیثیتوں میںڈیڑھ سو برس سے پرورش پا رہا ہے‘ اور ہمارے وطن پرستوں نے بھی شعوری یا غیر شعوری طور پر اسی تصوّر کو اپنے اندر جذب کر لیا ہے۔ ان کا ادعا یہ ہے‘ کہ ہماری تحریک غیر دینی ہے‘ اورہم ایسا دنیوی اسٹیٹ چاہتے ہیں‘ جس کی بنا کسی مذہب پر نہ ہو گی، مگر اس میں مذہبی رواداری ہو گی۔ یہ آقایان نامدار کے بنائے ہوئے مکسچر کا پہلا جزو ہے۔ا ور دوسرا جزو یہ ہے‘ کہ ان کا لیڈر({ FR 2944 })ایک ’’مہاتما‘‘ ہے، جو صداقت (truth) اور اہمسا (non-violence) کے خالص ہندوانہ تصوّرات کا علم بردار اور مبلغ بن کر اُٹھا ہے۔ جس کے تصورات، جنگ ِ آزادی کی فکری بنیاد ہیںجو صاف کہتا ہے‘ کہ عدم تشدد پالیسی نہیں‘ بلکہ دین و ایمان ہے۔ اس کی رہنمائی میں تمام باشندگانِ ہند کے لیے سرکاری طور پر عمومی تعلیم کے خاکے بنائے جاتے ہیں‘ اور ان سب میں اس کے دین و ایمان کو ا ساسی حیثیت دی جاتی ہے۔{ FR 2945 } اب رہ گیا تیسرا جزو تو اس کی بھی پوری مقدار اس معجون میں شریک کی گئی ہے۔ صاف صاف کہا جا چکا ہے‘ کہ باشندوں کی مذہبی تعلیم کا انتظام کرنا اسٹیٹ کے فرائض سے خارج ہے، اور اس کے برعکس یہ چیز اسٹیٹ کے فرائض میں داخل ہے‘ کہ باشندوں کو جبراً ایسی تعلیم دے جو ان کے ذہن سے اپنے مذہب کی برتری کا خیال نکال دے۔ خود مہاتما گاندھی جنہوں نے اپنے مذہب کو بہ اصرار واردھا اسکیم کا جزو لاینفک بنوایا ہے، اپنے مذہب کے سوا دوسرے تمام مذاہب کو نظامِ تعلیم سے خارج کر دینے کے لیے یہ دلیل ارشاد فرماتے ہیں :
تمام مذاہب کا یکساں لحاظ رکھنے کی تعلیم دینا ایک ایسی ضرورت ہے‘ جس کے حق میں میرے خیالات بہت سخت ہیں۔ جب تک ہم اس خوش گوار حالت (یعنی سب مذاہب کو ایک نظر سے دیکھنے اور سب کو مساوی طور پر برحق سمجھنے کی حالت) کو نہ پہنچ جائیں گے، اس وقت تک مختلف فرقوں میں حقیقی وحدت پیدا ہونے کی مجھے کوئی توقع نظر نہیں آتی۔میرے نزدیک یہ بات مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے بچوں کے درمیان دوستانہ اسپرٹ کے نشوونما کو غارت کرنے و الی ہو گی اگر ان کو یہ سکھایا جائے‘ کہ ان کا مذہب دوسرے مذاہب سے بہتر ہے‘ یا یہ کہ وہی ایک سچا مذہب ہے۔ اگر قوم (؟ ہندستانی قوم) پر یہی اختصاصی جذبہ مستولی رہے ‘تو اس سے لازم آئے گا کہ یا تو ہر مذہب والوں کے الگ الگ مدرسے ہوںجن میں ہر ایک کو دوسرے پر طعن کرنے کی آزادی حاصل رہے، یا پھر مذہب کا نام لینے ہی کو کلیۃً ممنوع قرار دے دیا جائے۔ا س قسم کا طرزِعمل اختیار کرنے کے نتائج اتنے خوفناک ہیںکہ ان کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اخلاق کے بنیادی اصول تمام مذاہب میں مشترک ہیں۔ وہ ضرور بچوں کوسکھائے جانے چاہئیں اور جہاں تک واردھا اسکیم کے تحت مدارس کا تعلق ہے۔ان میں بس اتنی ہی مذہبی تعلیم کو کافی سمجھنا چاہیے۔{ FR 2946 }
اسی خیال کی ترجمانی ایک دوسرے ذمّہ دار شخص مسٹر سمپور نانند (یو پی کے وزیر تعلیم) نے اپنی ایک تقریر میںکی ہے‘ جو انہوں نے ۴ اپریل ۱۹۳۸ء کو یو پی، کی لیجسلیٹو اسمبلی میں ارشاد فرمائی تھی :
ہر وہ شخص جو ہندو یا مسلم تہذیب کے قائم رکھنے اور اس کو مدارس میں جاری کرنے پر زور دیتا ہے، وہ یقینی طور پر ملک کو نقصان پہنچاتا ہے۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ موجودہ ہندستان میں یہ چیز مفقود ہونی چاہیے۔ ہم ایک ہندستانی تہذیب چاہتے ہیںجو ہندوؤں اور مسلمانوں اور دوسروں کے لیے جو اس ملک میں آئے ہیں‘ اور جنہوں نے اس کو اپنا گھر بنا لیا ہے بالکل ایک ہے۔اگر کوئی شخص واقعی ملک کی ترقی میں کوشاں رہے ‘تو اس کو ایسی بات پر زور دینا چاہیے جس سے ہم میں تفرقے پیدا نہ ہوں‘ جو سب کے لیے ضرر رساں ہیں۔ بلکہ ایسے امور ہوں جن سے ہندستانی تہذیب کی تعمیر و ترکیب ہوتی ہو۔ تمام وہ باتیں جن سے ہم میں تفرقہ اور کشیدگی پیدا ہوتی ہے یقینا ملک کے ساتھ دشمنی کرتی ہیں۔ اس لیے ملک کا عام مفاد مد نظر رکھتے ہوئے مجھے اُمید ہے‘ کہ وہ لوگ جو لڑکوں اور لڑکیوں کے مدارس میںہندو اور مسلم تہذیب قائم رکھنا چاہتے ہیں اس بات پر زور نہ دیں گے۔{ FR 2947 }
اسی تقریر کا ایک فقرہ یہ بھی ہے :
جب ہندو مسلم تہذیبیں مٹ جائیں گی تب ہی ہندوستانی تہذیب زندہ { FR 2949 }رہ سکے گی۔
ان تحریروں اور تقریروں سے صاف طور پرواضح ہوتا ہے‘ کہ ہندستانی وطن پرست جو اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں وہ ایک معنی میں دینی اسٹیٹ ہے اگر دین سے مراد مہاتما گاندھی کا دین لیا جائے،ا ور ایک معنی میں لادینی بلکہ مخالف دین (anti religious) اسٹیٹ ہے اگر دین سے مراد ہندستان کے ان باشندوں کا دین لیا جائے‘ جو دینِ گاندھی کے پیرو نہیں ہیں۔ان کے حق میں اس اسٹیٹ کا روّیہ غیر جانب دارانہ رواداری کا نہ ہو گابلکہ چیکو سلواکیہ کی طرح غیر ہم دردانہ اور ایک حد تک مخالفانہ ہو گا۔ اس کا مطمح نظر صریحاً یہ بتایا جا رہا ہے‘ کہ مختلف قوموں کی تہذیبیں کسی نہ کسی طرح فنا ہو جائیں، ان کا مذہبی زاویۂ نظر بدل جائے، اور وہ تمام مذاہب کو برابر سمجھنے لگیں، یعنی کسی مذہب کے پیرو نہ رہیں، کیونکہ ایک مذہب کی پیروی کے لیے اس کو سب سے بہتر اور صحیح تر جاننا فطری طور پر ناگزیر ہے۔ا س کے بعد یہ خیال کرنے کاکوئی موقع ہی نہیں رہتا کہ ایسا اسٹیٹ کسی مذہبی نظام کو قانوناً تسلیم کرے گا اور اس کو تعلیم اور اندرونی تنظیم کے لیے وہ حقوق اور اختیارات دے گا‘ جن کی مثالیں ہم نے اوپر یورپ کے متعدّد ممالک سے پیش کی ہیں۔
ان تشریحات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے‘ کہ ہمارے وطن پرست ہندستان کے لیے جس قسم کی آزاد حکومت حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کی بنیادی خصوصیات تین ہیں:
۱- ’’نیشنل اسٹیٹ‘‘ اس معنی میںکہ باشندگانِ ہندستان کی پوری آبادی کو ایک قوم قرار دیا جائے‘ اور جُدا گانہ قومیّتوں کی نفی کر دی جائے۔
۲- ’’جمہوری اسٹیٹ‘‘ اس معنی میںکہ باشندگانِ ہند کو ایک مجموعہ قرار دے کر اس میں غلبہ اکثریت کا اصول نافذ کیا جائے۔
۳- ’’دنیوی اسٹیٹ‘‘ اس معنی میں کہ جہاں تک ہندستان کی مختلف قوموں کے مذہب کا تعلق ہے۔ ان کے لحاظ سے وہ ایک لادینی اسٹیٹ ہو۔{ FR 2950 }
اب ہم کو دیکھنا چاہیے‘ کہ اس نوعیت کا اسٹیٹ دراصل کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم اس کو اپنا مطمح نظر بنا سکتے ہیں؟ کیا ایسے اسٹیٹ میں ہمارے مسلمان ہونے کی حیثیت برقرار بھی رہ سکتی ہے؟ کیا ہمارے لیے یہ جائز ہے‘ کہ ہم اس کو قائم کرنے کی جدوجہد میں حصہ لیں، یا صبر و سکون کے ساتھ اس کے قیام کو گوارا کریں؟ آئندہ باب میں ہم ان سوالات پر بحث کریں گے۔
خ خ خ
باب ۱۴ : قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟
اس بحث کو شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے‘ کہ عام ناظرین کی سہولت کے لیے چند اصلاحات کی تشریح کر دی جائے۔
لفظ اسٹیٹ جس کا مترادف ہماری زبان میں ’’ریاست‘‘ کا لفظ ہے علم سیاست کی اصطلاح میں اس نظام کو کہتے ہیں‘ جو ایک متعین رقبہ زمین میں رہنے والی آبادی کو قاہرانہ طاقت (coercive power) سے ضبط میں رکھتا ہو۔ قوّتِ قاہرہ کا وجود ایک طرف، اور اطاعت کا پایا جانا دوسری طرف، ان دو چیزوں کے بہم ہو جانے سے وہ نظمی ہیئت بن جاتی ہے‘ جسے اسٹیٹ یا ریاست کہا جاتا ہے۔
اسٹیٹ کی اس تعریف کو سمجھنے کے بعد قدرتی طور پر یہ سوال سامنے آتا ہے‘ کہ وہ قوّت قاہرہ جس کی اطاعت ایک آبادی کر رہی ہے خود اس آبادی کے اندر اس کے مجموعہ میں سے اُبھرتی ہے‘ یا کہیںباہر سے آتی ہے؟ اگر اس کے اجتماعی وجود سے الگ کوئی طاقت ایسی ہے‘ جو اس پر حاکمانہ اختیار استعمال کرتی ہے‘ تو وہ غلام ہے۔ اور اگر وہ آبادی خود حاکمیّت (sovereignty) کی مالک ہے‘ اور اپنی رضا مندی سے ایک نظمی ہیئت کو قوّتِ قاہرہ فراہم کرکے دیتی ہے تاکہ وہ اس کے معاملات کی تنظیم کرے تو وہ خود مختار جماعت ہے۔ کسی آبادی کا اس طور پر اپنے اوپر حکمراں ہونا، یا بالفاظِ دیگر حاکمیّت سے متمتع ہونا، جمہوریت کا اصل الاصول ہے۔ جب ہم کسی اسٹیٹ کو ’’جمہوری اسٹیٹ‘‘ کہتے ہیں‘ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے‘ کہ یہ اسٹیٹ جن باشندوں سے مرکب ہے وہی اس کی حاکمیّت کے مالک ہیں۔ گورنمنٹ جو ان کے اسٹیٹ کا انتظام کرتی ہے، ان کی اجتماعی رضا مندی کی تابع ہے، اور اس کا منصب اس کے سوا کچھ نہیں ہے‘ کہ ان کی خواہشات کو وضع قوانین اور تنقید قوانین میں رو بعمل لائے۔
مغرب کے جمہوری نظام کا عمل اس کے نظریہ سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ نظری حیثیت سے تو اسٹیٹ کے ہر فرد کو حاکمیّت حاصل ہے‘ اور وہ اس کے استعمال کا حق رکھتا ہے۔ لیکن عملاً یہ ممکن نہیں ہے‘ کہ ہر ہر شخص کی خواہش کے مطابق قوانین بنیں اور حکومت کی جائے۔ لہٰذا عملی اغراض کے لیے جمہوریت کا قاعدہ یہ قرار دیا گیا کہ حکومت ہمیشہ اکثریت کی خواہشات کے مطابق ہو گی۔ یہی وہ مقام ہے‘ جہاں سے مشکلات کا آغاز ہوتا ہے۔ جمہوری حکومت جن خوش نما نظریات سے شروع ہوتی ہے،عمل کی سرحد میں آکر وہ رخصت ہو جاتے ہیں‘ اور ان سب کا خلاصہ یہ نکلتا ہے‘ کہ مملکت کے باشندوں کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو حاکمیّت سے عملاً محروم کرکے ان پر اپنی خواہشات مسلط کر دے۔ ہر ملک میں مختلف گروہ مختلف قسم کے مفاد، مذاق، خواہشات اور اغراض رکھنے والے ہوتے ہیں۔ ان سب کے اشتراکِ عمل ہی سے تمدّن کی مشین چلتی ہے۔ ان میں سے ہر ایک مملکت کی اجتماعی خوش حالی اور فلاح و بہبود میںکسی نہ کسی حیثیت سے اپنا حصہ ادا کرتاہے۔ ہر ایک کے لیے اس کی اغراض اور خواہشات اتنی ہی اہمیت رکھتی ہیں جتنی دوسرے کے لیے اس کی اغراض و خواہشات، لیکن جمہوری نظام میں جب اکثریت کی حکومت کا اصول اختیار کیا جاتا ہے‘ تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیںکہ جو گروہ کثیر تعداد میں ہے وہ حاکم بن جائے‘ اور حکومت کے زور سے اپنی اغراض و خواہشات حاصل کرے اور جو گروہ قلیل تعداد میں ہے وہ غلام بنا لیا جائے‘ اور اکثریت کی اغراض و خواہشات پر اس کی اغراض و خواہشات اسی طرح قربان کی جائیں جس طرح کسی زاریا کسی قیصر کی انتہائی ظالمانہ حکومت میں کی جا سکتی ہیں۔ یہی چیز ہے‘ جس کو اکثریت کا استبداد (tyranny of the majority) کہتے ہیں‘ اور جو اس زمانہ کی جمہورتیوں کے چہرے پر سب سے زیادہ بد نما داغ ہے۔
اکثریت کی حکومت کا اصول صرف اس جگہ صحیح ہو سکتا ہے‘ جہاں کے باشندے اساسی امور (fundamentals) میںمتفق ہوں‘ اور ان کے درمیان اختلاف محض آراء کا ہو، نہ کہ اغراض کا۔ ایسی جگہ تو یہ ممکن ہے‘ کہ آج کی اقلیت کل اکثریت بن جائے‘ اور آج کی اکثریت کل اقلیت بن جائے۔ رائے عام اگر محض رائے عام ہے‘ تو وہ بدل سکتی ہے‘ اور بدلی جا سکتی ہے۔ کل رائے عام لبرل پارٹی کی موید تھی‘ تو آج وہ لیبر پارٹی کے حق میں ہموار ہو سکتی ہے۔ ایسی حالت میں کوئی اکثریت نہ مستقبل اور دائمی اکثریت ہو گی نہ کبھی ظلم و جور کا طریقہ اختیار کر سکے گی، اور نہ اقلیت کو اس سے یہ اندیشہ ہو گا کہ وہ اساسی امور پر ضرب لگائے گی لیکن اغراض یا خود غرضی کا اختلاف، اور مذہبی اصولوں کا، یا قومی جذبات کا، یا طرز زندگی کا اختلاف وہ چیز نہیں ہے‘ جو دلائل سے دور کیا جا سکے۔اس اعتبار سے جو گروہ اکثریت میںہے وہ مستقل طور پر اکثریت میں رہے گا۔ ایسی اکثریت کو حکومت کا حق دینے کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک زار کی جگہ لاکھوں زار اور ایک قیصر کی جگہ کروڑوں قیصر پیدا ہو جائیں‘ اور محض اس بنا پر کہ ان کے سروں کی تعداد زیادہ ہے، ان کے لیے یہ جائز ہو جائے‘ کہ اپنے ہی ہم وطن لوگوں کی ایک معتدبہ جماعت پر جس طرح چاہیں ظلم و ستم کریں۔ یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی صریح اور کلی نفی ہے۔ اس چیز پر لفظ جمہوریت کا اطلاق ہی غلط ہے۔ا سے بڑے پیمانہ پر چنگیزیت کہنا چاہیے۔
جن ممالک میں باشندوں کے درمیان قومی تفریق موجود ہے، یعنی مذہب، نسل، زبان، رنگ وغیرہ امور میں اختلاف پایا جاتا ہے، اور اسی طرح جہاں نظریات ااور اصولِ زندگی کا اساسی اختلاف ہے، یا باشندوں کے مختلف گروہوں کی اغراض باہم متصادم ہیں، وہاں مختلف عناصر کو ملا کر ایک اسٹیٹ بنانے اور اس میں جمہوریت کا اصول نافذ کر دینے کا نتیجہ ظلم کے سوا کچھ نہیں نکلا، اور ہمیں دنیا کی پوری تاریخ میںایک مثال بھی نہیں ملی جس کو مستثنیٰ قرار دیا جا سکتا ہو۔
روس میںمزدوروں کی حکومت قائم ہونے کے بعد متوسط طبقہ کے لوگ، چھوٹے زمین دار، تجارت پیشہ اور دکان دار، اور ان سب سے زیادہ مذہبی گروہ جس بری طرح پیسے گئے‘ اور آج بھی جس طرح وہ غلام بنا کر رکھے گئے ہیں، اس حالت کا تقابل اگر زار کی حکومت کے مظالم سے کیا جائے‘ تو شاید زاریت ہی کو اشتراکیت کے آگے سر نیاز جھکا دینا پڑے۔ یہ اس امر کا کھلا ہوا ثبوت ہے‘ کہ جہاں خود غرضی بنائے اختلاف ہو وہاں ایک قسم کی اغراض رکھنے والوں کا حکمران بن جانا یہ معنی رکھتا ہے‘ کہ وہ دوسرے تمام گروہوں کا خون چوس لیں‘ اور ان کو اپنی خود غرضی کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیں۔
مغرب میں وطنیت کے تجربات
چیکوسلواکیہ میں اب سے ۲۰ سال قبل مختلف چھوٹی اور بڑی قوموں کو ملا کر ایک جمہوری اسٹیٹ بنایا گیا تھا۔ اس سیاسی حماقت کا جو انجام ہوا آج اسے ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ سب سے بڑھ کر جن قوموں سے توقع تھی‘ کہ ان سے مل کر ایک قوم بن جائے گی انہی نے مصنوعی قوم سازی کے نظریہ کی دھجیاں بکھیر دیں۔ اس نئی ریاست کے اصل اجزائے ترکیبی دو ہیں۔ ایک چیک (czech)، دوسرے سلاوک (slavaks) نسل اور قومی روایات کے لحاظ سے دونوں بالکل مختلف ہیں۔ گزشتہ ہزار برس کی تاریخ میں کہیں ان کے درمیان کسی اور ارتباط کا نشان نہیں ملتا۔ صرف ایک چیز ان کے درمیان مشترک تھی۔ اور وہ یہ تھی‘ کہ دونوں آستریا ہنگری کے غلام تھے۔ا ور دونوں کو ظالم سلطنت کی نفرت اور آزادی کی خواہش نے ایک دوسرے سے قریب تر کر دیا تھا۔ سیاسی مدبرین یہ سمجھے کہ مشترک دشمن کی عداوت اور اس کے پنجہ سے آزادی حاصل کرنے کا مشترک جذبہ دو قوموں کو ایک قوم بنا دینے کے لیے کافی بنیاد ہے۔چنانچہ انہوں نے ان دونوںکو ملا کر ایک نئی قوم ’’چیکوسلاوک‘‘ وضع کر دی‘ اور اس کو بالفعل موجود فرض کرکے ان کی ایک قومی جمہوری ریاست بھی بنا دی۔ لیکن اس جدید ریاست کی تشکیل پر کچھ زیادہ زمانہ نہ گزرا تھا‘ کہ تجربہ نے ثابت کر دیا کہ دو قوموں کو ساتھ ملا کر باندھ دینے سے ایک قوم نہیں بن جایا کرتی۔ مصنوعی قومیّت آزمائش کی کسوٹی سے رگڑ کھاتے ہی کھوٹی ثابت ہو گئی۔چیک کثیر التعداد تھے، زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ سرمایہ دار تھے، اور آسٹریا ہنگری کے مظالم نے ان کو سلطنت کے ساتھ مذہب سے بھی متنفر کر دیا تھا۔ ان کے برعکس سلاوک لوگ سخت پابند مذہب، تعلیم میں بہت پیچھے، زیادہ تر زراعت پیشہ اور خستہ حال، اور تعداد میں بھی چیکوں کی بہ نسبت ۳/۱، اس تفاوت سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر چیک اکثریت نے دستورِ حکومت میں یہ طے کر لیا کہ ’’قومی اسٹیٹ بالکل ایک دنیوی اسٹیٹ (secular state) ہو گا۔ اس میں تمام مذاہب کے ساتھ رواداری تو ضرور برتی جائے گی، مگر کسی مذہب یا مذہبی نظام کو سرکاری طور پر تسلیم نہ کیا جائے گا۔ تعلیم کا پورا نظام اسٹیٹ کے ہاتھ میںہو گا۔ اور ایسی تعلیم دی جائے گی‘ جو سائینٹی فک تحقیقات کے نتائج سے متصادم نہ ہوتی ہو‘‘۔{ FR 2952 } دستور العمل کی ان دفعات سے فائدہ اُٹھا کر چیک اکثریت کی حکومت نے سلاوک علاقے کے مدارس میں لامذہب اسکول ماسٹر بھیجنے شروع کر دئیے اور نظامِ تعلیم سے مذہبی تعلیم کو قطعی خارج کر دیا۔ سلاوک لوگوں نے اپنی مذہبی تعلیم کے لیے بطور خود کوئی انتظام کرنا چاہا تو اسے سرکاری امداد دینے سے انکار کر دیا گیا۔ حکومت کے نظم و نسق اور خصوصا بڑے ذمّہ داری کے مناصب کو چیکوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا‘ اور خود سلاوک علاقوں میں چیک افسر حکمران بن کر آنے لگے۔انہی باتوں نے آخر کار سلاوک لوگوں کو اس بات کا قائل کردیا کہ ایک چھوٹی اور ایک بڑی قوم کو ملا کر ایک قومی جمہوری اسٹیٹ بنانا دراصل چھوٹی قوم کو بڑی قوم کی غلامی میں دینا ہے۔چنانچہ اب وہ کئی سال سے اپنے علاقے کے لیے حکومت خود اختیاری (autonomous self government) کا مطالبہ کر رہے ہیں۔{ FR 2953 }
اسی ’’قومی جمہوری ریاست‘‘ میں تقریبا ۳۵ لاکھ جرمن بھی شامل کر دئیے گئے تھے (یعنی کل آبادی کا ۲/۱ حصہ) جن کی قومیّت، نسل، زبان، تاریخی روایات چیک اور سلاوک دونوں قوموں سے بالکل مختلف تھیں، بلکہ صدیوں سے چیک اور جرمن نسل میں کھلی عداوت چلی آتی تھی۔ مدارس میں، کارخانوں میں، کلیساؤں میں، جہاں کہیں چیک اور جرمن جمع ہوتے وہاں اکثر ہنگامے ہو جایا کرتے تھے۔ ایک دوکان میں دونوں سے یکجا کام لینا مشکل تھا۔ حتیٰ کہ ایک اسٹیشن سے ان کا ریل پر سوال ہونا بھی دشوار تھا جس کی وجہ سے اکثر چھوٹے چھوٹے مقامات پر بھی دو اسٹیشن بنائے جاتے تھے تاکہ ایک سے چیک سوار ہوں‘ اور دوسرے سے جرمن ۔{ FR 2954 } اس قدر شدید اختلافات کے باوجود ان دونوں کو ایک قومیّت میں شامل کرکے ایک قومی جمہوری اسٹیٹ بنا دیا گیا جس میں چیک اپنی اکثریت کی بنا پر حاکم اور جرمن اپنی اقلیت کی بنا پر محکوم تھے، حالانکہ صدیوں تک اسی سر زمین میں جرمن حاکم اور چیک محکوم رہ چکے تھے۔ اس کا نتیجہ جو کچھ ہوا اسے ابھی حال ہی میں ساری دنیا دیکھ چکی ہے۔ ثابت ہو گیا کہ محض ایک قومی اسٹیٹ بنا دینے سے دو مختلف قومیں ایک قوم نہیں بن سکتیں اور نہ ان میں ایک جمہوری اسٹیٹ بنا دینے سے جمہوریت کی حقیقی روح پیدا ہو سکتی ہے۔البتہ مصنوعی طور پر دو قوموں کی ایک قومیّت اور ایک جمہوریت بنا دینے کا یہ اور صرف یہی نتیجہ نکلتا ہے‘ کہ کثیر التعداد قوم عملاً قلیل التعداد قوم کو غلام، اور جمہوری نظام میں اس کو حاکمیّت کے فطری حقوق سے محروم کر کے رکھ دے۔ چیک اکثریت نے جرمن اقلیت کے ساتھ یہی کیا۔ تعلیم کے ذریعہ سے جرمنوں کو چیک قومیّت میں جذب کرنے کی کوشش کی گئی۔ جرمن زبان و ادب کو مٹانے اور دبانے میں کوئی کثر اُٹھا نہ رکھی گئی۔ سرکاری ملازمتوں میں جرمن اور چیک کا قومی امتیاز کبھی نہ بھولا گیا‘ اور ہمیشہ چیکوں کو جرمنوں پر ترجیح دی گئی۔ تجارتی کاروبار اور سرکاری کام کے ٹھیکوں تک میں جرمنوں کو دبانے اور چیکوں کو بڑھانے کا ہر ممکن طریقہ اختیار کیا گیا۔ حتیٰ کہ خاص ان علاقوں میں جہاں ۸۰ اور ۶۰ فیصد جرمن آبادی تھی، سرکاری ضروریات کے لیے چیکوں کو ٹھیکے دئیے جانے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سڈٹین جرمنوں کی معاشی حالت روز بروز گرنی شروع ہو گئی اور ان کے کاروبار بیٹھنے لگے۔ یہ سب کچھ اس قومی جمہوری اسٹیٹ میں ہوا جس کی ’’متحدہ وطنی قومیّت‘‘ کا ایک جزیہ جرمن بھی تھے۔ جس کے جمہوری نظام میں ان کو دستور کی رو سے پورے شہری حقوق عطا کیے گئے تھے‘ اور جس کی دولت مشترکہ (common wealth) کی ملکیت میں وہ بھی ازروئے دستور یکساں حصہ دار تھے۔ لیکن ۲۰ سال کے تجربے نے بتا دیا کہ ’’قومی‘‘ اور ’’جمہوری‘‘ کے معنی لغت میں کچھ اور ہوتے ہیں‘ اور حقیقت میں کچھ اور، آخر جرمنوں میںوہ عظیم الشان ہیجان رونما ہوا جو قریب تھا‘ کہ تمام دنیا کے امن و امان کو پھونک دیتا اگر عین وقت پر عقل مندی سے کام لے کر جرمنوںکو جرمنی کے حوالہ نہ کر دیا جاتا۔
اسی قسم کے حالات ان دوسرے ممالک کے بھی ہیں جہاں مختلف قوموں کو ایک قومیّت فرض کرکے ایک جمہوری اسٹیٹ میں ضم کر دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر یوگوسلافیا کو لیجئے۔ انیسویں صدی کے آخری دور میں آسٹریا ہنگری کے ظالمانہ تسلّط سے نجات حاصل کرنے کے لیے کروٹ (croats) اور سلافینی (slovenes) قوموں میں آزادی کا زبردست جذبہ پیدا ہوا اور انہوں نے اپنے ہمسایہ سربیوں (serbs) سے اتحاد کر لیا۔ ان مختلف عناصر کے درمیان آسٹریا کی عداوت اور آزادی کی مشترک خواہش کے سوا اور کوئی وجہ اتحاد نہ تھی۔ نسل میں اختلاف، مذہب میں اختلاف، زبان میں اختلاف، اور طرز زندگی میں اختلاف، مگر طلب آزادی کے نشے میں ان سب اختلافات کو نظر انداز کرکے یہ سب گھل مل گئے، اپنی متحدہ قومیّت کا نام انہوں نے ’’یوگوسلافیا‘‘ رکھ لیا، اور اپنی الگ زبانوں کے نام ملا کر ایک متحدہ قومی زبان کا عجیب و غریب نام (serbo-croation solovene) رکھا، جس کا مسمیٰ کہیں دنیا میں موجود نہ تھا بلکہ تین الگ الگ زبانیں مختلف رسم الخطوں اور مختلف لسانی خصوصیات کے ساتھ موجود تھیں‘ اور ’’ہندوستانی‘‘ کی طرح بس ان کا ایک متحد نام رکھ دیا گیا۔ جنگ عظیم کے دوران میں جب یہ تینوں قومیں آسٹریا ہنگری کے خلاف بر سر پیکار ہوئیں تو جولائی ۱۹۱۷ء میں سربیا کے وزیر اعظم اور جوگو سلا کمیٹی کے صدر کا ایک مشترک بیان اس مضمون کا شائع ہوا کہ :
سرب کروٹ اور سلافینی ایک قوم ہیں۔ آئندہ کے لیے یہ اپنا ایک قومی اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں‘ جو جمہوری اسٹیٹ ہو گا۔ اس متحدہ اسٹیٹ کا جھنڈا الگ ہو گا‘ اور تینوں شرکاء کے جھنڈے الگ الگ ہوں گے جن کی حیثیت مساویانہ ہو گی۔ اسی طرح سریلک (cyrillic) اور لیٹن (latin) دونوں رسم الخط سرکاری طور پر مساوی ہوں گے‘ اور مذاہب یعنی آرتھوڈوکس کیتھولک اور اسلام کا درجہ بھی مساویانہ تسلیم کیا جائے گا۔
مگر جنگ ختم ہونے کے بعد جب آزادی ملی اور نومبر ۱۹۲۰ء میں نئی ریاست کی بنا رکھی گئی‘ تو صورت حال کچھ اور ہی تھی۔ ریاست کی ایک کروڑ بیس لاکھ آبادی میں پچاس لاکھ کے قریب سرب تھے، تیس لاکھ کیتھولک کروٹس اوردس لاکھ سلافینی، ان کے علاوہ جرمن، مگیار، رومانی، بلغاری اور البانوی بھی کئی کئی لاکھ کی تعداد میں شامل ہو گئے تھے۔ اگرچہ ان سب کو ملا کر سربی گروہ اقلیت میں تھا، لیکن الگ الگ ہر گروہ کے مقابلہ میں اس کی بڑی اکثریت تھی، اور ان اقلیتوں کے درمیان کامل اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے اس کی پوزیشن اور زیادہ مضبوط ہو گئی تھی۔ا س پوزیشن سے فائدہ اُٹھا کر سربیوں نے عملاً حاکم قوم کی حیثیت اختیار کر لی، تمام اقلیتوں کو محکوم بنا لیا، متحدہ قومیّت کا تخیل ہوا میں اڑ گیا، اور حکومت کے زور سے سربی قومیّت تمام قلیل التعداد جماعتوں پر مسلط کی جانے لگی۔ تاسیس ریاست کے بعد پہلی مرتبہ جب ملک کا دستور بنانے کے لیے نیشنل کونسل منعقد ہوئی تو سربی قوم پرستوں نے یوگوسلانی قومیّت کا لبادہ اتار کر پھینک دیا اورخود مختار صوبوں کا ایک وفاق بنانے کے بجائے ایک مضبوط مرکزی طاقت رکھنے والی بادشاہی کی بنا رکھ دی جس کا فرماں روا سربیا کا بادشاہ تھا‘ اور جس کا پایہ تخت سربیا کا پایہ تخت تھا۔ آج اس ’’قومی جمہوری حکومت‘‘ کا کھلا ہوا مسلک یہ ہے‘ کہ اقلیتوں کی قومیّت کے ایک ایک نشان کو مٹائے اور تمام اقلیتیں تقریبا ۱۸ سال سے پیہم کوشش کر رہی ہیں‘ کہ اس پھندے سے، جس کو خود انہوں نے خوشی خوشی پہنا تھا، کسی طرح بچ نکلیں۔ { FR 2955 }
جمہوریّت کے بڑے مرکز
ان چھوٹی ریاستوں کو چھوڑ کر ان بڑے ممالک کو لیجئے جو آج جمہوریت اور دستوریت کے ابوآلاباء سمجھے جاتے ہیں۔ان میں بھی جہاں کہیں مختلف مذاہب یا مختلف نسلی قومیّتوں کو ملا کر ایک قومیّت بنی ہے، جبر اور ظلم ہی سے بنی ہے‘ اور قومی جمہوری اسٹیٹ وہاں اسی طرح بنا ہے‘ کہ آبادی کے ایک کثیر التعداد اور منظم گروہ نے چھوٹے گروہوں پر زبردستی اپنی خواہشات اور اپنے اصولوں کو مسلط کیا اور ان کے امتیازی وجوہ کو مٹا کر رکھ دیا۔
سوئس قوم اور اس کی جمہوری وفاقی ریاست کس طرح بنی؟ ابتداً ۲۲ آزاد جمہوری ریاستوں کامحض ایک تحالُف (confederation) تھا۔ انیسویں صدی کی ابتداء میں مذہبی آزاد خیالی کے اثرات سوئٹزر لینڈ پہنچے اور مذہب کو تعلیم اور سیاست دونوں سے خارج کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ سات کیتھولک ریاستوں نے اس کی مخالفت کی۔ ۱۵ آزاد خیال ریاستوں نے ان پر زبردستی اپنے خیالات کو مسلط کرنا چاہا، جس کا انہیں ازروئے آئین کوئی حق نہ تھا۔ آخر ۱۸۴۷ء میں ساتوں کیتھولک ریاستیں تحالُف سے الگ ہو گئیں اور تحائف کے اصول کی رو سے وہ پوری طرح اس کی مجاز تھیں۔ مگر آزاد خیال ریاستوں نے اپنی غالب اکثریت سے ان کے اس فعل کو ناجائز ٹھہرایا اور ان کے علاقوں پر حملہ کرکے انہیں زبردستی ایک وفاقی اسٹیٹ میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا۔ پھر ۱۸۴۸ء میں جو نیا دستور بنایا گیا۔ اس میں وفاقی ریاستوں کے اختیارات محدود کرکے مرکز کے اختیارات نہایت وسیع کر دئیے گئے، تاکہ اکثریت پوری طرح اقلیت پر اپنی مرضی اور اپنے اصولوں کو نافذ کر سکے اور اقلیت مجبور ہو کر اس واحد قومیّت میں اپنے آپ کو گم کر دے جسے آزاد خیال لوگ (radicals) وجود میں لانا چاہتے تھے۔{ FR 3052 }
برطانیہ میں کیا ہوا؟ انیسویں صدی کے ثلث اوّل تک برطانیہ عظمی میں انتخاب کا قانون اس قسم کا تھا‘ کہ انگلینڈ کو، اسکاٹ لینڈ، ویلز ا ور آئرلینڈ، تینوںکی مجموعی طاقت سے قریب قریب تین گنی زیادہ اکثریت پارلیمنٹ میں حاصل ہوتی تھی۔ انگلستان کی صرف ایک کاؤنٹی (کارنوال) کے نمائندے پورے اسکاٹ لینڈ کے نمائندوں کے برابر تھے حالانکہ اسکاٹ لینڈ کی آبادی کارنوال سے آٹھ گنی تھی۔ کوئی یہودی‘ اور کوئی ایسا شخص جو اینگلیکن چرچ کو نہ مانتا ہو، ازروئے قانون نہ تو پارلیمنٹ کا ممبربن سکتا تھا، نہ کسی سرکاری عہدے پر مامور ہو سکتا تھا‘ اور نہ کسی میونسپلٹی میں داخل ہو سکتا تھا۔ ان سب فرقوں کو چرچ آف انگلینڈ کے لیے عُشر دینا پڑتا تھا۔ نکاح کے لیے چرچ آف انگلینڈ کے پادری کے پاس جانا ہوتا تھا۔ اپنی عبادت گاہ کو چرچ آف انگلینڈ میں رجسٹر کرانا پڑتا تھا۔آکسفورڈ اور کیمرج میں داخلہ کے لیے ایسی مذہبی شرائط رکھی گئی تھیں جنہیں اینگلیکن چرچ کے پیروؤں کے سوا کوئی پورا نہ کر سکتا تھا اس لیے ان دونوںیونی ورسٹیوں کے دروازے گویا دوسرے فرقوں کے لیے بند تھے۔ چرچ آف انگلینڈ کو نہ ماننے والے لوگ ووٹ دینے کے حق دار تو تھے، مگر وہ اپنے ہم مذہب لوگوں کو ووٹ نہ دے سکتے تھے، کیونکہ انہیں پارلیمنٹ میں داخل ہونے کی اجازت ہی نہ تھی۔ ۱۸۲۸ء میں ان قیود کو اٹھانے اور نرم کرنے کا میلان پیدا ہوا اور قریب قریب ۶۰ برس کی مسلسل اور تدریجی اصلاح نے بالآخر ان کو بالکلیہ منسوخ کیا۔ اس قسم کی تھی وہ جابرانہ طاقت، اور اس قسم کا تھا وہ مادّی و اخلاقی غلبہ جس سے انگلینڈ کے لوگوں نے برطانیہ عظمیٰ کی مختلف قوموں اور مختلف مذہبی جماعتوںکومغلوب کرکے اپنی تہذیب اور اپنی قومیّت میں جذب کیا اور وہ واحد قومیّت بنائی جسے آج ’’ایک ملک اور ایک قوم‘‘ کا نعرہ بلند کرنے والے سب سے پہلے مثال میں پیش کرتے ہیں۔ شاید کہ ان کے پیشِ نظربھی ایک قوم بنانے کے ایسے ہی طریقے ہوں گے۔
یہاں مثالوںکا استقصاء مقصود نہیں ہے۔ اگرچہ عہد حاضر کی تاریخ اور خود ہمارے موجود دور کے واقعات سے ایسی ہی بکثرت مثالیں اور بھی پیش کی جا سکتی ہیں۔ مگر جو بات میں ثابت کرنا چاہتا ہوں اس کے لیے یہی مثالیں بہت کافی ہیں۔ ان سے بآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے‘ کہ مختلف قوموں کو ایک قوم قرار دے کر ایک جمہوری اسٹیٹ بنانے کے معنی کیا ہیں۔ اور یہ بات جو بظاہر نہایت معصوم الفاظ میں بیان کی جاتی ہے اس میں کس قدر غیر معصوم مقصد پوشیدہ ہوتا ہے۔
اب ذرا ہندستان کے حالات پر ایک نظر ڈالئے اور دیکھئے کہ یہاں ایک قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ بنانے کے معنی کیا ہو سکتے ہیں۔
ہندستان اور قومی ریاست
جمہوری اسٹیٹ کے معنی یہ ہیں‘ کہ تمام باشندگانِ ہند کو اسٹیٹ میں حاکمیّت حاصل ہو مگر عملاً اس حاکمیّت کو وہ جماعت استعمال کرے جو اکثریت میں ہو۔
جمہوری کے ساتھ ’’قومی‘‘ کی قید لگانے سے یہ نتیجہ نکلا کہ یہاں مختلف قومیّتوں کے وجود کی نفی کر دی جائے‘ اور تمام باشندوں کو ایک قوم قرار دیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہندستان کی حکومت میں کسی شخص کا حصہ اس حیثیت سے نہ ہو گا کہ وہ ہندو یا مسلمان ہے۔ اسٹیٹ کی رکنیت میں شامل ہونا خود بخود اس امر کو مستلزم ہو گا کہ وہ اپنے ہندو یا مسلمان ہونے کی حیثیت کی خود نفی کر دے۔ اس کی جُدا گانہ قومی حیثیت خواہ بالفعل برقرار رہے، مگر وہ اس حیثیت میں اسٹیٹ سے کسی چیز کا مطالبہ نہ کر سکے گا، بلکہ اسے ان فیصلوں کو قبول کرنا ہو گا جو مجموعی طور پر ملک کے باشندوں کی اکثریت ملک کی مجالس قانون ساز میں طے کر دے۔
لادینی کی قید اس میں ایک اور چیز کا اضافہ کرتی ہے۔ا س کے معنی یہ ہیں‘ کہ کوئی شخص اور کوئی گروہ وہ کسی مذہب کا پیرو ہونے کی حیثیت سے اسٹیٹ میں حصہ دار نہیں ہے۔وہ اسٹیٹ کے دائرے میں اپنی اس حیثیت کو لے کر بھی نہیں آسکتا۔ اس دائرے میں اس کوخود اپنی اس حیثیت کی نفی کرنی ہو گی۔ اخلاق، تمدّن، معاشرت، معیشت، تعلیم اور زندگی کے دوسرے مسائل کے متعلق اس کے اپنے نظریات خواہ کچھ ہوں، وہ ان سب کو اس وقت بھلا دینے پر مجبور ہو گا جب باشندوں کی اکثریت ان مسائل میں کوئی دوسرا نظریہ اختیار کرے گی، وہ اس وقت یہ نہ کہہ سکے گا کہ میرے مذہب اور میری تہذیب کا نظریہ دوسرا ہے‘ اور میں اکثریت کے نظریہ کو قبول نہیں کر سکتا۔ اگر وہ ایسا کہے گا تو اس کو جواب دیا جائے گا کہ اسٹیٹ میں جناب کا حصہ اس حیثیت سے ہے ہی کہاں کہ آپ فلاں مذہب اور فلاں تہذیب کے پیرو ہیں۔ مجلسِ قانون ساز میں آپ ایک مذہبی آدمی کی حیثیت سے آئے کب ہیں‘ کہ آپ کو اس قسم کے عذرات پیش کرنے کا حق حاصل ہو۔ یہاں تو آپ کی حیثیت محض ہندستانی ہونے کی ہے‘ اور جمہوریت کا اصول آپ تسلیم کر چکے ہیں۔ لہٰذا ہندستانیوں کی اکثریت جو نظریہ رکھتی ہے اسے طوعاً و کرہاً آپ کو قبول ہی کرنا ہو گا۔ اس پر مزید یہ کہ اگر وہ اپنے گروہ کی حد تک اپنی مذہبی تنظیم کرنے کے لیے حکومت کے وسائل و ذرائع میں سے کوئی حصہ مانگے گا تو اس سے کہہ دیا جائے گا کہ جناب یہ کوئی مذہبی اسٹیٹ نہیں ہے، ایک دنیوی لادینی اسٹیٹ ہے۔ اس کی حاکمیّت میں جب آپ کا کوئی حصہ مذہبی آدمی ہونے کی حیثیت سے ہے ہی نہیں تو آپ کو مذہبی تنظیم کے لیے حکومت کے اختیارات اور وسائل و ذرائع میں سے کوئی حصہ کیسے مل سکتا ہے۔ آپ کو یہ کام کرنا ہے‘ تو جائیے، خود اپنے مذہبی گروہ کے وسائل سے کیجئے۔
یہ نتائج تو محض ان تین اصطلاحوں کے معانی پر غور کرنے سے حاصل ہوتے ہیں۔ اب عملی حیثیت سے دیکھیے تو یہ تصویر اور زیادہ خوف ناک ہو جاتی ہے۔ اوپر میں بیان کر چکا ہوں کہ جمہوری نظام کے صحیح یا غلط ہونے کا تمام تر انحصار اس سوال پر ہے‘ کہ اس میں اکثریت اور اقلیت کس طرح بنتی ہے، اگر باشندوں کے درمیان زندگی کے بنیادی مسائل (fundamentals) میں اتفاق ہے، اور صرف وسائل و طریقہ ہائے کار (means and methods)میں اختلاف آرا پایا جاتا ہے، تب تو اکثریت اقلیت میں اور اقلیت اکثریت میں تبدیل ہوتی رہے گی۔ نہ کوئی اکثریت مستقل اور دائمی ہو گی نہ اقلیت۔ ایسی حالت میں اس امر کا کوئی خطرہ نہیں کہ اکثریت ظلم و استبداد کا طریقہ اختیار کرے اور اقلیت کو حاکمیّت سے محروم کرکے اسے غلام اور محکوم بنا لے۔ لیکن اگر صورت حال برعکس ہو۔ اگر باشندوں کے درمیان زندگی کے اساسی امور میں اختلاف ہو، اور اس اختلاف نے ان کو الگ الگ ممتاز گروہوں میں تقسیم کر دیا ہو، اور ان گروہوں میں ترجیح ہم جنس کی اسپرٹ پائی جاتی ہو، اور اس گروہ بندی نے ان کی دنیوی اغراض کو بھی بڑی حد تک ایک دوسرے سے متصادم کر دیا ہو، تو ایسی جگہ اکثریت دائمی اکثریت ہو گی‘ اور اقلیت دائمی اقلیت ہو گی۔ وہاں رائے عام کو ہموار کرکے اقلیت کا اکثریت بن جانا غیر ممکن ہے۔ وہاں سب باشندوں کو ایک قوم قرار دینے اور اس بنیاد پر جمہوری لادینی اسٹیٹ بنانے کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ اکثریت کو اقلیت پر ظلم کرنے اور اس کو غلام بنا کر رکھنے اور تباہ و برباد کرنے کا لائسنس دیا جائے۔ وہاں قومی اسٹیٹ دراصل اکثریت کی قوم کا اسٹیٹ ہو گا‘ اور لادینی ہو گا۔ اس میں اکثریت کو نہیں‘ بلکہ صرف اقلیت کو اپنی جُدا گانہ قومی حیثیت اور اپنی مذہبیت کی نفی کرنی ہو گی۔ اکثریت اپنی ان سب حیثیتوں کو برقرار رکھ کر سب کچھ کر سکے گی، مگر اقلیت اپنے مذہب کا یا اپنی تہذیب یا زبان و ادب و فلسفہ کا نام نہ لے سکے گی۔ ایسی جگہ تمام باشندوں کو ایک قوم قرار دینے کے معنی یہ نہیں کہ وہ فی الواقع ایک قوم ہے، بلکہ اس کے معنی دراصل یہ ہیں‘ کہ جو قوم کثیر التعداد ہے وہ جمہوری اسٹیٹ کی تمام طاقتوں پر قابض ہو کر قلیل التعداد جماعتوںکی قومیّتوں کو مٹانا اور اپنی قومیّت میں جذب کرکے ایک قوم بنانا چاہتی ہے۔
آنکھیں کھول کر انصاف کی نظر سے دیکھئے۔ کیا ہندستان میں فی الواقع یہی صورتحال موجود نہیں ہے؟{ FR 2957 }
۱- ہر شخص دیکھ سکتا ہے‘ کہ یہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان قومیّت کا اختلاف اس اختلاف سے بھی زیادہ نمایاں پایا جاتا ہے‘ جو یورپ میں جرمن اور فرنچ اور انگریز اور اطالوی قوموں کے درمیان ہے۔ وہاں کم از کم اخلاقی شعور ایک سا ہے، تہذیب کے بنیادی اصول ایک ہیں، اور آداب و اطوار اور طرز زندگی میںبھی اساسی اختلافات موجود نہیں ہیں، یا اگر ہیں بھی تو بہت خفیف، مگر یہاں آٹھ سو برس تک ایک آب و ہوا اور ایک خطّہ زمین میں پہلو بہ پہلو رہنے کے باوجود قوموں کی زندگی کے دھارے الگ الگ بہہ رہے ہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو دیہاتی ہندوؤں اور مسلمانوں کو کچھ ایک جیسے لباس پہنتے دیکھ کر اور معیشت کے میدان میں ایک ساتھ محنت مزدوری کرتے دیکھ کر حکم لگا سکتے ہیں‘ کہ یہ ایک قوم ہیں۔ وہ ہندستان میں پیدا تو بیشک ہوئے ہیں مگر ان کا دماغ انگلستان میں بنا ہے‘ اور اس پر روسی وارنش تازہ تازہ چڑھا ہے۔ اس لیے وہ رات دن ہندستانیوں میں رہ کر بھی ان کو صرف اوپر سے اور باہر سے ہی دیکھ سکتے ہیں‘ جس طرح کوئی امریکن سیاح دیکھ سکتا ہے۔ وہ ان کے دل میں اتر کر اور ان کی زندگی میں گُھس کر نہیں دیکھ سکتے کہ ان کے درمیان کتنا بڑا اور گہرا تفاوت ہے۔د ونوں قوموں کے جذبات و احساسات ایک دوسرے سے اس قدر مختلف بلکہ باہم متصادم ہیں‘ کہ ہندو جس چیز کو الٰہی تقدیس و احترام کی نظر سے دیکھتا ہے، مسلمان اس کو شوق سے کھاتا ہے۔ا ور یہ فرق گاندھی جی اور مولانا ابوالکلام سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے گاؤں کے جلا ہے‘ اور پاسی تک کے درمیان یکساں ہے۔بلکہ مہاتما اور مولاناتو اس باب میں مدارات سے بھی کام لے سکتے ہیں، لیکن گاؤں والے اس پر لٹھ چلا بیٹھتے ہیں۔ شہری ہندو اور مسلمان تو کبھی کبھار ایک میز پر کھا بھی لیتے ہیں، مگر دیہاتی ہندو تو مسلمانوں کا ہاتھ لگا ہوا پانی تک نہیں پیتا۔ وہ ریل میں بھی اس تختہ پر جہاں مسلمان کھانا کھا رہا ہو، بادل نخواستہ ہی بیٹھتا ہے‘ اور دل میں چھی چھی کرتا رہتا ہے۔ ان دونوں کی زندگی کے اندر داخل ہونے والے دروازے ایک دوسرے کے لیے بالکل بند ہیں۔ پیدائش سے لے کر موت تک ہر رسم، ہر تہوار، ہر خوشی اور ہر غمی میں ہندو ہندو کے ساتھ ہوتا ہے‘ اور مسلمان مسلمان کے ساتھ۔ ان بین اختلافات کے ہوتے ہوئے کون انہیں ایک کہہ سکتا ہے؟
۲- منڈی اور دفتر اور کارخانے میں یہ دونوں یکجا ضرور ہوتے ہیں، مگر کیا ان کے قومی اختلاف کا اثر ان کے معاشی مفاد اور کاروباری اغراض میں ظاہر نہیں ہوتا؟ تخیل کی بلندیوں پر پہنچ کر کہنے والا جو چاہے‘ کہہ دے اور لکھنے والا جو چاہے لکھ دے، مگر روز مرہ کے کاروبار میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے کاروباری زندگی کے اندر اتر کر دیکھئے اور جو لوگ یہاں کام کر رہے ہیں ان سے پوچھئے، کیا آدمی کو ملازم رکھنے میں اور مزدور سے خدمت لینے میں اور دوسرے چھوٹے اور بڑے معاملات میں ہندو اور مسلمان کی تمیز نہیں کی جاتی؟ کیا دیہاتی آبادیوں تک میں مسلمانوں کا تمدّنی اور اقتصادی بائیکاٹ نہیں ہو رہا ہے؟ کیا یہ واقعہ نہیں ہے‘ کہ جو پیشے مسلمانوں کے ہاتھ میں تھے ان کے لیے ہندو تیار کیے جاتے ہیں تاکہ مسلمانوں سے کام نہ لینا پڑے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے‘ کہ آڑھت کے کاروبار میں مسلمانوں کا گھسنا قریب قریب نا ممکن کر دیا گیا ہے، اور اگر کوئی مسلمان آڑھتیہ منڈی میںآتا ہے‘ تو پوری ہندو برادری اس کا دیوالہ نکلوانے کے لیے متحد ہو جاتی ہے؟ پھر کیا ابھی حال ہی میں سارے ہندستان نے یہ نہیں دیکھا کہ پنجاب کے جدید زرعی قوانین پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے معاشی مفاد صریحاً ایک دوسرے کی ضد نکلے۔ سود خواروں کے غاصبانہ تسلّط سے زمینداروں کا نکلنامسلمانوں کے نزدیک رحمت تھا تو ہندو کے نزدیک لعنت، اور اس تقسیم میں ہندو اور مسلمان اس طرح ایک دوسرے کے مقابل آکھڑے ہوئے کہ بہت سے کانگریسی خیال کے مسلمان مسلمانوں کے ساتھ تھے‘ اور قریب قریب تمام کانگریسی ہندو… بھولا بھائی ڈیسائی تک… ہندوؤں کے ساتھ‘ کیا یہ اس امر کا صریح ثبوت نہیں ہے‘ کہ معاشی معاملات میں بھی دونوں قوموں کی اغراض بری حد تک متصادم ہیں؟
۳- پھر کیا کسی سیاسی معاملہ میں یہ لوگ قومی امتیاز اور ترجیحِ ہم جنس کا طریقہ برتنے سے بچے ہوئے ہیں؟ بے شمار مثالوں کو چھوڑ کر میں صرف کانگریس کے حدود عمل سے چند کھلی ہوئی مثالیں پیش کرتا ہوں، اس لیے کہ یہی جماعت ہندستانی قومیّت کی مدعی ہے‘ اور اس لیے بھی کہ اس کے دائرے میںجو قومی امتیاز پایا جاتا ہے اس کا الزام برطانوی سامراج کے سر تھوپنے کی جرأت شاید پنڈت جواہر لال بھی نہیں کر سکتے۔
۱- بہار اسمبلی میں ۲۹ اپریل ۱۹۳۸ء کو خود کانگریسی حکومت نے سوال نمبر ۶۶۹ کا جواب دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ صوبہ بہار کی ۲۴ میونسپل کمیٹیوں میں مخلوط انتخاب کے ذریعہ ۲۹۹ نشستوں میں سے ۴۷ نشستیںمسلمانوں کو ملنی چاہیے تھیں، کیونکہ ان میونسپلٹیوں کے حدود میں مسلمانوں کی آبادی تقریبا ۳۳ فیصدی ہے۔ یہ تو انتخابی نشستوں کا حال تھا۔خود اس کانگریسی حکومت نے نامزدگی سے جو نشستیں پر کیں ان کے متعلق خود اس کا اپنا اعتراف ہے‘ کہ ۵۷ میں سے ۶۱غیر مسلموںکو اور صرف ۱۵مسلمانوںکو دی گئیں، حالانکہ تناسب آبادی کے لحاظ سے ۲۵ نشستیں مسلمانوں کو ملنی چاہیے تھیں ۔
(ملاحظہ ہو سوال نمبر ۲۷۰ کا جواب، مورخہ ۲۹ اپریل ۱۹۳۸ء)
۲- سی پی کے ضلع بلڈانہ میں تعلقہ بورڈ کے ۷۲ حلقے ہیں‘ اور ان میںسے کسی حلقہ میں بھی مخلوط انتخاب کے ذریعہ سے کوئی مسلمان منتخب نہ ہو سکا۔ (ملاحظہ ہوقاضی سیّد محمود علی صاحب ملکا پوری کا خط مہاتما گاندھی کے نام جو ۲۵ ستمبر ۱۹۳۸ء کے اخبار ’’مدینہ‘‘ میں شائع ہواہے)
۳- سی پی میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے ارکان کا جو انتخاب ہوا اس میں مخلوط انتخاب کی وجہ سے ایک مسلمان بھی منتخب نہ ہو سکا اور نہ کسی اچھوت پر کانگریسی ہندوؤں کی نظرِ انتخاب پڑ سکی۔
(ملاحظہ ہو سی پی کے کانگریسی مسلمانوں کا شکایت نامہ ‘مدینہ۲۸ جولائی ۹۳۸ء)
۴- اسی صوبہ متوسط میں ایک درجن سے زیادہ میونسپل کمیٹیاں ایسی ہیں‘ جن میں ایک مسلمان بھی مخلوط انتخاب کی وجہ سے منتخب نہیں ہوا۔ یہی حال اکثر لوکل اور ڈسٹرکٹ بورڈوں کا ہے‘ کہ وہ منتخب شدہ مسلمان نمائندوں سے بالکل خالی ہیں۔
(ملاحظہ ہو مسٹر تاج الدین کا مراسلہ۔ اسٹار آف انڈیا مورخہ ۲ جولائی ۱۹۳۸ء، نیز یہ خیال رہے‘ کہ صاحب ِمراسلہ صوبہ متوسط کے مشہور نیشنلسٹ مسلمان ہیں)
۵- خود کانگریس ہائی کمانڈ انتخاب کے معاملہ میں جو ذہنیت رکھتی ہے اس کا حال کانگریسی صوبوں کی وزارتوں پر ایک نظر ڈالنے ہی سے کھل جاتا ہے، جن صوبوں میں ہندو اکثریت ہے وہاں ہندو وزیر اعظم ہیں‘ اور جہاں مسلمان اکثریت ہے وہاں مسلمان کو وزیر انتخاب کیا گیا ہے۔ ہندو اکثریت کے کسی صوبہ میںکوئی کٹّے سے کٹّا وطن پرست بھی اسلامی نام سے موسوم ہونے اور اسلامی سوسائٹی کے تعلق سے متہم ہونے کی بدولت وزارت عظمیٰ پر بار نہ پا سکا۔ حتیٰ کہ بچارے ڈاکٹر سیّد محمود بھی اس شرف سے محروم رہے حالانکہ اگر ان کا نام محمود کے بجائے سنہا ہوتا تو یقینا ان کی وطن پرستانہ خدمات ایسی تھیں کہ وہی وزیر اعظم بنائے جاتے۔ اس کے بعد وزیروں اور پارلیمنٹری سیکرٹریوں کی فہرست اُٹھا کر دیکھئے تو معلوم ہو گا کہ زیادہ تر اسی تناسب آبادی کا لحاظ کیا گیا ہے‘ جس کے متعلق کہا جاتا ہے‘ کہ صرف فرقہ پرست ہی اس کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ بلکہ بعض جگہ تناسب آبادی سے بھی کم مسلمان لیے گئے ہیں۔
کیا یہ کھلی ہوئی علامات اس امر کی نہیں ہیں‘ کہ سیاسیات کے دائرے میں بھی خود متحدہ قومیّت کے علم برداروں کے ہاں قومی امتیاز اور ترجیحِ ہم جنس کی اسپرٹ پوری طرح موجود ہے؟ ایسی حالت میں واحد قومیّت کے اصول پر جمہوری اسٹیٹ بنانے کے معنی اس کے سوا کیا ہو سکتے ہیں‘ کہ جہاں مسلمان کثیر التعداد ہیں وہاں وہ ہندوؤں کو اور جہاں ہندو کثیر التعداد ہوں وہاں مسلمانوں کو اسٹیٹ کے کاروبار سے بے دخل کر دیں، اور چونکہ مجموعی طور پر ہندوؤں کی اکثریت ہے اس لیے وہ قومی اسٹیٹ کو ہندو قوم کا اسٹیٹ بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔
۶- متحدہ قومیّت کے اس سراسر جھوٹے دعوے پر جو قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ بنایا جائے گا وہ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں مسلمانوں کے لیے تو بلا شبہ غیر مسلم اسٹیٹ ہو گا، مگر ہندوؤں کے لیے لازم نہیں کہ وہ غیر ہندو اسٹیٹ ہو، بلکہ اپنی اکثریت کے بل پر وہ اس کو ایک ہندو اسٹیٹ بنا سکتے ہیں، اور واقعات سے روز بروز عیاں ہوتا جا رہا ہے‘ کہ وہ ایسا ہی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے لیے بھی میں صرف ایک صوبہ کے چند واقعات بطور نمونہ پیش کروں گا۔
(الف) سی پی کی کانگریسی حکومت کے تعلقہ بورڈ چاندور کا ہندو چیئرمین ۲۴ ستمبر ۱۹۳۸ء کو تمام مدارس کے نام سر کلر (نمبر ۴۴۶) جاری کرتا ہے‘ جس میں حکم دیا جاتاہے‘ کہ ۲ اکتوبر کو مہاتما گاندھی کی سالگرہ کے دن بچے اور استاد سب مل کر ان کی پوجا کریں۔ یہ سر کلر بلا امتیاز ہندو مسلم سب مدارس کو سرکاری طورپر بھیجا جاتا تھا‘ اور اس پر کوئی باز پرس نہیں ہوتی۔
(ب) اسی صوبہ کی کانگریسی حکومت محکمہ پولیس کے حکام کو (جن میںہندو اور مسلمان سب شامل ہیں) ہدایت نامہ بھیجتی ہے‘ کہ جس جلسہ یا تقریب میں ’’بندے ماترم‘‘ کا گیت گایا جائے‘ اور وہ وہاں موجود ہوں تو انہیں بھی عام حاضرین کے ساتھ قیامِ تعظیمی کرنا چاہیے۔ اس واقعہ کو خود وزیر اعظم نے اپنے ایک پریس نوٹ میں تسلیم کیا ہے (ٹائمز آف انڈیا مورخہ ۲۸ ؍جون۱۹۳۸ء)
(ج) ساگر (صوبہ متوسط) کی میونسپل کمیٹی کا صدر مسلمان طلبہ کو تنبیہہ کرتا ہے‘ کہ اگر وہ بندے ماترم گانے میں شریک نہ ہوں گے‘ تو انہیں مدرسے سے نکال دیا جائے گا۔ اس واقعہ کو بھی خود سی پی کے وزیر اعظم نے مذکور بالا پریس نوٹ میں تسلیم کیا ہے۔
(د) اسی صوبہ کے ایک سرکاری مدرسہ میں انجمن ترقی اردو کے نمائندے نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مسلمان بچے ہندو بچوں کے ساتھ سرسوتی کی پوجا کر رہے تھے، اور ان کوسلام کرنے کے بجائے ہاتھ جوڑ کر ’’جے رام جی کی‘‘ کہنا سکھا دیا گیا تھا (ملاحظہ ہو مولوی عبد الحق صاحب سیکرٹری انجمن ترقی اردو کا خط گاندھی جی کے نام، اخبار ’’پیام‘‘ مورخہ یکم ستمبر ۱۹۳۸ء)
(ہ) خود کانگریسی کانسٹی ٹیوشن میں برار کو اس کا مشہور و معروف نام چھوڑ کر ’’وِدْربَھا‘‘ اور صوبہ متوسط کو ’’مہاکوشُل‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے۔ گویا کہ اب رامائن کا عہد ہندستان میں واپس آرہا ہے۔
(و) مسٹر شریف، وزیر صوبہ متوسط کا واقعہ ابھی سب کے حافطہ میں موجود ہے۔ انہوں نے ایک مسلمان کو رہا کر دیا تھا‘ جسے ایک ہندو لڑکی کے ساتھ زنا کرنے کے الزام میں عدالت سے سزا ہوئی تھی۔ اس جرم کی پاداش میں کانگریس ہائی کمانڈ نے ان کو وزارت سے معزول کر دیا۔ مگر فسادات جبل پور کے سلسلہ میں جو ہندوملزمین ۴ مسلمانوں کے قتل کے الزام میں ماخوذ تھے، ان کو سی پی کی ہندو وزارت نے حکماً رہا کر دیا اور اس پر ڈسپلن کے ان دیوتاؤں کو جن سے ہائی کمانڈ مرکّب ہے، کسی باز پرس کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ حال ہی میں ہوشنگ آباد کے ایک ہندو و بابو سنگھ کو جسے ایک جوان لڑکی کو زہر دے کر مار ڈالنے کی پاداش میںہائی کورٹ سے سزائے موت کا حکم ہوا تھا۔ سی پی کے ہندو وزیر مسٹر ڈی کے مہتا نے رہا کر دیا اور اس پر بھی ہائی کمانڈکو کسی تحقیقات اور کسی تادیبی کارروائی کا خیال نہ آیا۔
(ز) اسی صوبہ میںمحض اکثریت کے زور پر ودیا مندر اسکیم نافذ کی جا رہی ہے‘ اور مسلمانوں کی مخالفت کا استخفاف کرنے میں گاندھی اور شکلا اور ہائی کمانڈ سب متفق ہیں۔
ان واقعات کے علاوہ بہار، یو پی، مدراس اور سی پی میں قربانی گاؤ کو حکماً بند کرنے اور ہندی کو ’’ہندستانی‘‘ کے پر فریب نام کی آڑ میں بزور رائج کرنے اور زبان سے عربی و فارسی زبان زد عام الفاظ کو نکال کر نئے غیر مانوس الفاظ گھڑنے، اور سرکاری ملازمتوں میں کُھلا کُھلا امتیاز برتنے کے واقعات اس قدر کثیر ہیںکہ ان سب کو یہاں نقل کرنا موجب تطویل ہو گا۔ جو کچھ ہمیں ثابت کرنا تھا اس کے لیے مذکورہ بالا شواہد کافی ہیں۔
اب ہر شخص خود دیکھ کر فیصلہ کر سکتا ہے‘ کہ جس ’’جنگ ِ آزادی‘‘ کی منزلِ مقصود مسلمانوں کے قومی مفاد بلکہ ان کی قومی ہستی ہی سے منافات کی نسبت رکھتی ہو‘ اس میں کوئی مسلمان کس طرح حصہ لے سکتا ہے۔ مسلمانوں کو آخر اتنا بے وقوف کیوں فرض کیا گیا ہے‘ کہ وہ اس نوعیت کے اسٹیٹ کو خود اپنے سر پر مسلط کرنے کے لیے جنگ کریں گے؟ کہیں وہ لوگ خود ہی تو عقل باختہ و ہوش ربودہ{ FR 2958 } نہیں ہو گئے ہیں‘ جو ایک قوم سے توقع رکھتے ہیں‘ کہ وہ جانتے بوجھتے اپنی قبر آپ کھودنے میں جانفشانی دکھائے گی؟
خ خ خ
باب ۱۵: بنیادی حقوق
کہا جاتا ہے‘ کہ اس قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ میں مسلمانوں کے مفاد کی حفاظت کے لیے وہ بنیادی حقوق (fundamental rights) بالکل کافی ہوں گے جن کا اعلان کراچی کانگریس میںکیا گیا تھا۔ مگر کیا یہ حقیقت ہے؟
بنیادی حقوق کاماخذ ۱۶۸۹ء کا اعلان اہلِ انگلستان سے ہے‘ جسے ایک طویل نزاع اور کش مکش کے بعد رعایا کے نمائندوں کی ایک مجلس (convention) نے وضع کیا تھا تاکہ حکومت کے مستبدانہ افعال کی روک تھام کی جائے‘ اور حکومت ورعیت کے درمیان کچھ حدود متعین کر دئیے جائیںجنہیںتوڑا نہ جا سکے۔ اس کے بعد امریکہ کے ’’اعلان آزادی‘‘ اور ’’اعلان حقوق انسانی‘‘ میں انہیں حقوق کو بطور اصول عامہ کے درج کیا گیا۔ پھر ۱۸۳۱ء کے دستور نامہ بلجیم میں ان کو شامل کیا گیا، اور اس کے بعد سے یہ گویا ایک قاعدہ سا بن گیا ہے‘ کہ ہر دستور میں باشندوںکے ان حقوق کی تصریح کر دی جاتی ہے۔ چنانچہ جدید زمانہ کا کوئی دستور ان سے خالی نہیں ہوتا، بلکہ ہر بعد کے دستور میں چند حقوق کا اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ خلاصہ ان سب کا یہ ہے‘ کہ :
قانون کی نگاہ میںسب باشندے مساوی ہیں۔ کسی شخص کو کسی قسم کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ جب تک کہ وہ قانون کی خلاف ورزی نہ کرے، اور سزا قانون ہی کے مطابق دی جا سکتی ہے۔ حکومت رعایا کی شخصی آزادی اور جائیداد میں صرف قانون ہی کے ذریعے سے مداخلت کر سکتی ہے۔ تقریر اور نشرو اشاعت کی عام آزادی ہو گی۔ بشرطیکہ وہ قانون قذف (low of libel) کے خلاف نہ ہو۔ ڈاک اور تار کے پیغامات میں رازداری قائم رکھی جائے گی۔ باشندوں کو اجتماع کا حق حاصل ہو گا۔ بشرطیکہ غیر مسلح ہوں‘ اور امنِ عام کو نقصان نہ پہنچائیں۔ انتخابات آزاد ہوں گے۔ پارلیمنٹ کے ارکان باز پرس سے محفوظ رہیں گے۔ ان کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا اِلاّ یہ کہ کوئی ممبر قانون کی خلاف ورزی کرتا ہوا پکڑا جائے۔
اس کے علاوہ جدید زمانہ کے دستوروں میںجن باتوں کا اضافہ کیا گیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے‘ کہ :
’’عورت اورمرد مساوی ہیں‘‘۔
یہ حقوق دراصل اس لیے وضع کیے گئے تھے‘ کہ جب کبھی حکومت اپنی حدود سے تجاوز کرنے لگے تو رعایا کے پاس اپنی آزادی اور اپنے ذاتی حدود کی حفاظت کے لیے کوئی قانونی بنیاد رہے جس کی بنا پر وہ حکومت سے اپنے حقوق کا مطالبہ کر سکے، یا اگر حکومت نہ مانے اور رعایا کو لڑنا پڑے تو حکومت کا اخلاقی پہلو کمزور ہو۔ لیکن اوّل تو زمانہ حال میں سیاسی تصوّرات کے انقلاب نے حکومت اور رعایا کے درمیان ہر اس حد بندی کو توڑ دیا ہے‘ جس کا خیال کیا جا سکتا ہے، حتیٰ کہ اب یہ بتانا قریب قریب محال ہو گیا ہے‘ کہ حکومت کے حدود کہاں جا کر ختم ہوتے ہیں‘ اور افراد رعیت کے حدود کہاں سے شروع ہوتے ہیں۔ ثانیاً یہ اعلان حقوق صرف اس صورت میں کام آسکتا ہے‘ جب کہ جمہور قوم کی مرضی کے خلاف حکومت کی طرف سے کوئی ناروا مداخلت ہو‘ اور باشندوں کی ایک کثیر تعداد اپنے حقوق کی حفاظت کے کے لیے کھڑی ہو جائے۔ مگر جہاں اکثریت کی حکومت ہو۔ اور وہ اقلیت کے حقوق میں مداخلت کرے وہاں یہ اعلان حقوق قطعی بیکار ثابت ہوتا ہے۔ ثالثاً کراچی کے ریزولیوشن میں جن بنیادی حقوق کا ذکر کیا گیا ہے ان کا تجزیہ کرکے دیکھئے تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ بجائے خود بھی ہمارے کسی مرض کی دوا نہیں۔
ان تینوں نکات کی مختصر تشریح ضروری ہے تاکہ عام ناظرین اس بحث کو بآسانی سمجھ سکیں۔
۱- دور جدید میں حکومت کا دائرہ عمل
حکومت کے حدود عمل کیا ہیں؟ اس باب میں دنیا کے نظریات اور عملیات اٹھارویں اور انیسویں صدی میں جو کچھ تھے، آج ان سے بالکل مختلف ہیں۔ اٹھارہویں صدی میں شخصی حکومتوں کا دور دورہ تھا، اور لوگ ان کے استبداد سے نجات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ اس لیے لوگوں کے ذہن پر حکومت اور رعیت کے تعلق کا مشینی نظریہ (mechanical theory) مستولی تھا، یعنی ان کاتصوّر یہ تھا‘ کہ افراد کا مجموعہ ایک الگ چیز ہے اور اسٹیٹ ایک دوسری چیز، اور ان دونوں میں باہم کچھ اس طور پر معاملہ ہوتا ہے جیسے بائع اور مشتری یا اجیر اور مستاجر کے درمیان ہوا کرتا ہے، اسی خیال نے اسٹیٹ کے حدود عمل کا انفرادی نظریہ (Individualism) پیدا کیا جس کا منشا یہ ہے‘ کہ اصل چیز فرد کی آزادی ہے، اسی کی حفاظت کے لیے فرد اس معاہدہ عمرانی میں social contract)) میںشریک ہوتا ہے‘ جس کی بدولت اسٹیٹ وجود میں آیا ہے۔ لہٰذا اسٹیٹ کا کام اس کے سوا کچھ نہیںکہ افراد کی شخصی آزادی کی حفاظت کرے اور ایک فرد کی آزادی میں دوسرے کی مداخلت کو روکے۔ جان و مال کی حفاظت، امن قائم کرنا، انصاف کرنا، اورحدود مملکت کو بیرونی حملوں سے بچانا، بس یہ اس کے فرائض ہیں۔ ان حدود سے آگے بڑھ کر اشخاص کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرنا، خواہ وہ اشخاص کی بھلائی ہی کے لیے ہو‘ اور کیسی ہی نیک نیتی کے ساتھ ہو، بہرحال ناجائز ہے۔ اٹھارہویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے آغاز میں یہ عام خیال تھا‘ اور اسی بنا پر بعض علمائے سیاست نے ان کاموں کی ایک فہرست بھی بنا دی تھی‘ جو حکومت کے دائرہ عمل میں آسکتے ہیں۔
یہ تخیلات اس زمانے میں بھی قائم رہے، اور کافی مدت تک چلتے رہے، جب شخصی حکومتوںکی جگہ جمہوری حکومتیں لے رہی تھیں۔ مدتوں تک لوگوں کو محسوس نہ ہو سکا کہ جمہوریت اور دائرہ حکومت کی حد بندی دونوں باہم متضاد ہیں۔ جب سوسائٹی خود اسٹیٹ بناتی ہے‘ تو وہ اپنے اوپر خود کس طرح پابندی عائد کر سکتی ہے؟ اور اس کو اپنے اوپر پابندی عائد کرنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ وہ اسٹیٹ کو اسی لیے تو وجود میں لاتی ہے‘ کہ جبروز ور اور تنظیم کی طاقت سے اپنی ان اجتماعی ضروریات کو پورا کرے‘ جن کے لیے تنظیمی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر آخر کون سی معقول وجہ ہے‘ کہ وہ اس تنظیمی طاقت کے استعمال کو اپنی بعض ضروریات کے لیے جائز اور بعض کے لیے ناجائز ٹھہرائے؟ اس حد بندی کی ضرورت تو اس وقت تھی جب حکومت سوسائٹی سے بالکل الگ ایک چیز ہوتی تھی‘ اور کہیں اوپر سے آکر مسلط ہو جایا کرتی تھی۔ مگر جب خود سوسائٹی ہی سے حکومت پیدا ہو تو ایسی صورت میں اس حد بندی کی کیا جاجت؟
فرد، سوسائٹی اور اسٹیٹ کو ایک زندہ نظام جسمانی کی طرح سمجھنے کا تخیل (organic theory of state and society) جمہوری افکار کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ برابر ترقی کرتا چلا گیا‘ اور سوشل ازم نے آکر اسے پایۂ تکمیل کو پہنچا دیا۔ اب دنیا میں ہر جگہ حکومت کے دائرہ عمل کی حدیں ٹوٹ کر پوری اجتماعی زندگی پر پھیل رہی ہیں۔ تمدّن، معاشرت اور معیشت کی جڑوںتک میں اترتی جا رہی ہیں، اور جزئی سے جزئی معاملات تک کو اپنی لپیٹ میں لیتی چلی جاتی ہیں۔ باشندوں کی روٹی کا بندوبست کرنا، ان کے لیے کام مہیا کرنا، ان کے معیار زندگی کو بلند کرنا، اور ان کے لیے زیادہ سے زیادہ آسائش بہم پہنچانا، یہ ہیں اب حکومت کے فرائض، ان فرائض کو انجام دینے کے لیے وہ ملک کے معاشی ذرائع کو زیادہ سے زیادہ بہتر طریقہ سے استعمال کرنے پر مجبور ہے، اور اس طرح گویا پوری معاشی زندگی اپنی صنعتی تجارتی اور مالی شعبوں سمیت حکومت کے دائرے میں آجاتی ہے۔ پھر وہ اپنے ان فرائض کی انجام دہی کے لیے تعلیم کا بھی پورا انتظام اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہے تاکہ باشندوں کو ان اغراض کے لیے کارآمد بنا سکے۔ مزید برآں ان فرائض کی بجا آوری میں یہ بھی ممکن نہیں ہے‘ کہ افراد یا افراد کے مختلف مجمعوں کی شخصی آزادی یا ان کی انفرادی خواہشات، یا ان کے مخصوص حقوق کا ہر حال میں لحاظ کیا جاسکے۔ ان سب چیزوں کا صرف اسی حد تک خیال رکھا جا سکتا ہے‘ اور اسی شرط کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے‘ کہ وہ حکومت کے فرائض کی ادائیگی میں حائل نہ ہوں۔ جہاں وہ حائل ہوں گے وہاں ان کی انفرادیت کو پامال کر دیا جائے گا۔ اب یہ ممکن نہیں ہے‘ کہ کوئی شخص یا کوئی گروہ اس فیصلہ میں خود مختار ہو کر اپنے بچوں کو کس قسم کی تعلیم دلائے۔ یہ حکومت کا کام ہے‘ کہ اجتماعی فلاح کے نقطۂ نظر سے جس طرح مناسب سمجھے ان کو تیار کرے۔ تمدّنی اور معاشرتی معاملات میں بھی اب انفرادی آزادی کا حق مسلم نہیں ہے۔حکومت اجتماعی فلاح کے لیے تمدّن اور معاشرت میںجس قسم کا تغیّر ضروری سمجھے کر سکتی ہے حتیٰ کہ وہ یہ بھی کہہ سکتی ہے‘ کہ فلاں طرز کا لباس پہنو اور فلاں طرز کا لباس نہ پہنو۔ فلاں رسم الخط استعمال کرو اور فلاں کو چھوڑ دو۔ اس عمر میں شادی کرو اور اور اس عمر میں نہ کرو، دھلم جرا۔ اسی طرح جب کہ وہ باشندوں کی معاشی فلاح و ترقی کی ذمّہ دار ہے‘ تو وہ تجارت، صنعت و حرفت، زراعت اور اموال و املاک کے باب میں بھی لوگوں کے شخصی حقوق کی رعایت ہمیشہ ملحوظ نہیں رکھ سکتی۔ وہ مجبور ہے‘ کہ معیشت کی پوری مشین کو اجتماعی مقصد کے مطابق چلائے اور جو شخصی حقوق اس راہ میں حائل ہوں انہیں پامال کر دے۔ چنانچہ جنگ ِعظیم کے بعد جتنے جمہوری دساتیر بنائے گئے ہیں قریب قریب ان سب میں اس قسم کی دفعات رکھی گئی ہیں‘ جن کی بنا پر حکومت کو شخصی املاک اور شخصی کاروبار میں دخل دینے کے نہایت وسیع اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ مثلاً تاجر کے مال کو جبراً فروخت کرا دینا۔ شخصی املاک پر بمعاوضہ یا بلا معاوضہ قبضہ کر{ FR 2959 } لینا۔ باشندوں کی سکونت یا نو آبادکاری یا ترقی زراعت کے لیے اگر ضرورت ہو تو زمینوں کو بلا معاوضہ ضبط کر لینا ۔{ FR 2960 } موروثی جائیداد اگر ایک حد خاص سے زیادہ ہو تو اسے چھین کر تقسیم کر دینا ۔{ FR 2961 } وراثت میں اسٹیٹ کا حصہ مقرر کرنا{ FR 2962 }حتیٰ کہ پرائیویٹ کاروبار کی تنظیم اور مراسلت و مخابرت میں بھی مداخلت کرنا اگر اجتماعی مفاد کے لیے اس کی حاجت ہو۔{ FR 2963 }
حکومت کے دائرے کی اس وسعت اور لامحدودیت نے اوّل تو بنیادی حقوق کو محض بے معنی بنا دیا ہے۔ کیونکہ جن حقوق کو انسان کے بنیادی‘ اور پیدائشی حقوق کہا جاتا ہے، ان سب کو آج کی حکومت اجتماعی فلاح کے نام سے سلب کر سکتی ہے۔ دوسری اور زیادہ اہم بات یہ ہے‘ کہ جمہوری نظام میں حکومت کے قوانین بنانے اور نافذ کرنے والی چیز اکثریت ہوتی ہے، اور یہ فیصلہ کرنا بھی اکثریت کا کام ہوتا ہے‘ کہ اجتماعی فلاح کیا ہے‘ اور اس کا اقتضاکیا ہے۔ لہٰذا اب اکثریت کے ظلم و جور اور استبداد کی کوئی حد نہیں رہ جاتی۔ اقلیت کی پوری زندگی کے دروازے اس کی قاہرانہ مداخلت کے لیے کھل جاتے ہیں، وہ اس کے تمدّن، اس کی معیشت و معاشرت اور اس کے مذہبی قوانین میں اجتماعی مفاد کے نام سے جس طرح اور جتنی چاہے مداخلت کر سکتی ہے‘ اور تعلیم کے نظام کو اپنے ہاتھ میں لے کراس کی قومیّت کو بالکل مٹا دینے کی بھی کوشش کر سکتی ہے۔
۲-بنیادی حقوق کی افادیت
بنیادی حقوق اگر کسی حد تک کام آسکتے ہیں‘ تو صرف اس صورت میں جب کہ باشندگانِ ملک کی بڑی اکثریت ان کی حفاظت کا ارادہ رکھتی ہو‘ اور اتفاقاً کوئی ایسی حکومت ملک پر مسلط ہو گئی ہو‘ جو ان حقوق کو سلب کرنا چاہتی ہو۔ رہی یہ صورت کہ خود وہ اکثریت ہی ظلم پر اتر آئے جو حکومت جمہوریہ کو چلا رہی ہو، تو ایسی صورت میںبنیادی حقوق کی کوئی لمبی سے لمبی فہرست بھی اقلیت کے کام نہیں آسکتی۔
خود برطانیہ عظمیٰ کی مثال لے لیجئے‘ جہاں سے ان بنیادی حقوق کی ابتداء ہوئی ہے۔ ۱۸۲۸ء تک وہاں پارلیمنٹ اور مجالس بلدیہ اور سرکاری ملازمتوں میں داخل ہونے کے لیے چرچ آف انگلینڈ کے طریقہ پر عشائے ربانی (lord”s supper) لینا لازم تھا۔ ۱۸۲۹ء تک کیتھولکس ہر قسم کی نمائندگی سے محروم تھے۔ ۱۸۶۷ء تک یہودی پارلیمنٹ میں نہ جا سکتے تھے۔ ۱۸۵۴ء تک آکسفورڈ اور کیمبرج کے دروازے ان لوگوں کے لیے بند تھے‘ جو پراٹسٹنٹ مذہب کے ’’۳۹‘‘ اصولوں پر ایمان نہ لاتے ہوں‘ اور ۱۸۷۱ء تک ان دونوں یونی ورسٹیوں میں ایسے کسی شخص کو کسی قسم کا عہدہ یا امتیاز یا وظیفہ تعلیمی نہ مل سکتا تھا۔ ۱۸۸۱ء تک چرچ آف انگلینڈ کی پیروی نہ کرنے والوں کے لیے دفن اموات کے بارے میں طرح طرح کی قیود موجود تھیں۔ ۱۸۸۸ء تک عدالت میں شہادت دینے والوں کے حلف کی ناروا قیود پائی جاتی تھیں۔ اور آئنر لینڈ کی اقلیت کے ساتھ تو ۱۹۲۰ء تک جو کچھ ہوتا رہا وہ ساری دنیا پر عیاں ہے۔
ممالک متحدہ امریکہ کی مثال اس سے بھی زیادہ سبق آموز ہے۔ وہاں ایک کروڑ ۲۰ لاکھ حبشی آباد ہیں‘جن کا تناسب کل آبادی میں ۹ فیصدی سے کچھ زیادہ ہے۔ دستور کی رو سے ان کو سفید فام امریکنوں کے برابر پورے شہری حقوق حاصل ہیں۔جمہوری دولت مشترکہ میں وہ بھی برابر کے حصہ دار ہیں‘ اور قانون میںکوئی چیز ایسی نہیں جس کی بنا پر سفید فام اور سیاہ فام میں امتیاز کیا جا سکتا ہو۔ مگر عملاً کیا ہو رہا ہے؟ سفید فاموں کی اکثریت ان کے ساتھ کھلا کھلا امتیازی برتاؤ کر رہی ہے۔ شہری حقوق تو درکنار ان کے معمولی انسانی حقوق تک علانیہ سلب کیے جا رہے ہیں‘ اور دستور کے عطا کردہ بنیادی حقوق ان کے کسی کام نہیں آتے۔ سفید فاموں کے کلیساؤں میں وہ گھس نہیں سکتے۔ ان کے ہوٹلوں، ریسٹورانوں اور تھیٹروں میں وہ قدم نہیں رکھ سکے۔ ان کی تفریح گاہوںمیںکوئی حبشی اگر چلا جاتا ہے‘ تو سخت ذلت کے ساتھ نکالا جاتا ہے۔ موٹر بسوں اور ریل کے ڈبوں میں بھی سفید فام کے ساتھ حبشی کا بیٹھنا جائز نہیں رکھا جاتا۔سفید فاموںکے محلوں میںکوئی حبشی مکان نہیں لے سکتا۔ ان کے بچوں کے ساتھ حبشی بچہ ایک مدرسہ میں بیٹھ نہیں سکتا۔ ان کی جان، مال، عزت، آبرو، کسی چیز کی کوئی قیمت نہیں۔ حتیٰ کہ ان کے ساتھ انتہائی وحشیانہ برتاؤ کرنے سے بھی مہذب گوروں کا ضمیر اِبا نہیںکرتا۔ اور بہت ہی کم کبھی ایسا ہوتا ہے‘ کہ کسی حبشی کی خاطر کسی گورے کے خلاف قانون کی مشین حرکت میں آتی ہو۔
یہاں اس برتاؤ کی تفصیلات بیان کرنے کا موقع نہیں جو امریکہ کی اکثریت حبشی اقلیت کے ساتھ کر رہی ہے۔ مگر میں اختصار کے ساتھ یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جہاں اکثریت اور اقلیت کونسل یا رنگ یا مذہب یا کسی اور چیز نے حقیقۃً ایک دوسرے سے جدا کر رکھا ہو وہاں اکثریت کی حکومت کیا رنگ ڈھنگ اختیار کرتی ہے‘ اور دستور اور اس کے بنیادی حقوق اور قانون اور اس کی کاغذی دفعات کا کیا حشر ہوا کرتا ہے۔
امریکہ میں حبشیوں کے متعلق بغیر کسی سائنٹی فِک بنیاد کے یہ نظریہ قائم کیا گیا تھا‘ کہ حیاتی نقطۂ نظر سے (biologiclaly) وہ تعلیم کے لیے نا اہل ہیں‘ اور عمرانی نقطۂ نظر سے (socially) ان کو تعلیم دینا انہیں ناکارہ بنا دیتا ہے، یعنی پھر وہ خدمت گار بننے کے بجائے برابر والے بننے لگیں گے۔ اس بنا پر بعض ریاستوں میں انہیں تعلیم دینا حکماً ممنوع تھا‘ اور بعض ریاستوں میں اسے بُرا سمجھا جاتا تھا۔ کئی سال تک حبشی خود اپنی کوششوں سے اپنے روپے میںمدارس قائم کرتے اور اپنے بچوں کو تعلیم دلواتے رہے۔ یہاں تک کہ جب انہوں نے اپنی دماغی قابلیت دنیا پر ثابت کر دی تب ۱۹۰۵ء سے ان کے مدارس کو سرکاری امداد ملنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
قانون کی نگاہ میں حبشی اور سفید امریکن عملاً برابر نہیںہیں اگرچہ لفظاً برابر ہیں۔ حبشی کے لیے قید کی مدت ہمیشہ زیادہ رکھی جاتی ہے۔ ۱۹۱۰ء کے اعدادو شمار سے معلوم ہوتاہے‘ کہ حبشیوں کو اوسطاً ۱۷ مہینہ اور سفید فاموں کو اوسطاً ۵ مہینہ کی سزائیںدی گئیں۔ آبادی میں تو حبشیوں کا تناسب ۹ فیصدی ہے‘ مگر جیل خانوں کی آبادی میںان کا تناسب ۳۱ فیصدی۔
۱۸۸۰ء میں حبشی قیدی فی لاکھ آبادی میں ۲۴۴ تھے‘ اور سفید فام۹۶
۱۸۹۰ء ” ” ۲۶۴ ” ۸۴
۱۸۹۰ء ” ” ۲۷۸ ” ۷۷
۱۹۱۰ء ” ” ۲۸۴ ” ۷۹
۱۸۹۰ء ” ” ۳۲۷ ” ۷۷
اسی طرح سفید فاموں کی تعداد تو جیل خانوںکی آبادی میںبرابر کم ہوتی جا رہی ہے‘ مگر حبشیوں کی تعداد بڑھ { FR 3053 }رہی ہے۔اس کی وجہ یہ نہیں ہے‘ کہ حبشی زیادہ جرائم کرتے ہیں۔شکاگو میں ایک کمیشن نسلی تعلقات کی تحقیق کے لیے مقرر کیا گیا تھا جو (chicago commission of racial relations) کے نام سے مشہور ہے۔{ FR 2965 } اس کمیشن کے سامنے ایک جج نے بیان دیتے ہوئے کہا ’‘’جس شہادت کو جیوری ایک حبشی کومجرم قرار دینے کے لیے کافی سمجھتی ہے وہی شہادت ایک سفید فام کو سزا دینے کے لیے ناکافی سمجھی جاتی ہے‘‘۔ ایک دوسرے جج نے کہا کہ ’’ایک ہی طرح کے حالات اور واقعات میں سیاہ فام کو سزا دینا آسان ہے‘ اور سفید فام کو سزا دینا مشکل۔ حبشیوں اور سفید فاموں کے فسادات میں پولیس تمام تر حبشیوں کو پکڑتی ہے‘ اور سفید فام پر شاذو نادر ہی ہاتھ ڈالا جاتاہے۔‘’‘شکاگو کمیشن اپنی تحقیقات کے نتائج بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے :
تمام شہادتیں قریب قریب متفق ہیں‘ کہ حبشی بہ نسبت سفید فاموں کے زیادہ پکڑے جاتے ہیں، کیونکہ پولیس کا عام مفروضہ یہ ہے‘ کہ حبشی زیادہ جرائم پیشہ ہوتے ہیں، اور پولیس یہ بھی جانتی ہے‘ کہ حبشی کو گرفتار کر لینے میں کوئی خطرہ نہیں، رہا سفید فام تو اس پر ذرا احتیاط سے ہاتھ ڈالنا چاہیے … ایک ایک جرم میں بہت سے حبشی پکڑ لیے جاتے ہیں۔ لہٰذا محض قید خانوں میں حبشیوں کی آبادی زیادہ دیکھ کر یہ نہ سمجھ لینا چاہیے‘ کہ وہ زیادہ جرم کرتے ہیں۔ سفید فاموں کی نسبت حبشی کم ہی گرفتاری سے بچ سکتا ہے۔
یہ قانون کا حال ہوا۔ اور وہ اکثریت جو جمہوری نظام کو چلا رہی ہے۔ اس کا کیا حال ہے؟ حق رائے دہی پر عملاً ایسی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں‘ کہ حبشیوں کی ایک بڑی تعداد شہری (citizens) ہونے کے باوجود خود بخود ووٹ دینے کے حق سے محروم ہو جاتی ہے۔ سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان کے لیے گویا بند ہیں۔ آج تک کوئی حبشی کسی ذمّہ داری کے منصب پر فائز نہ ہو سکا۔ البتہ جنگ میں توپوں کا ایندھن بننے کے لیے وہ ضرور بھیج دئیے گئے تھے۔ اور اب بھی اس کام کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں۔
عامۃ النّاس ان کو صرف ملیچھ ہی نہیں سمجھتے بلکہ بات بات پرفساد ہوتے ہیں‘ اور ان کو نہایت بے دردی سے قتل کیا جاتاہے۔ ۱۹۱۹ء کا واقعہ ہے‘ کہ شکاگو میں یکایک افواہ اڑی کہ کسی حبشی نے ایک اٹالین لڑکی کو مار ڈالا ہے۔ اس پر سفید فام لوگوں کا ایک مجمع اکٹھا ہو گیا‘ اور اس نے ایک راہ چلتے حبشی پر حملہ کر دیا۔ کارونر کی عدالت میں جب اس کی لاش پیش ہوئی تو ۱۴ گولیاں اس کے جسم سے نکلیں، کھوپڑی چور چور پائی گئی اور پسلیوں کے ٹکڑے ہو چکے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اٹالین لڑکی کے واقعہ کی کوئی اصلیت نہ تھی۔{ FR 2966 }پریذیڈنٹ ولسن جب پیرس میںبیٹھے ہوئے جرمنوں کے مظالم پر محاکمہ فرما رہے تھے اس وقت شکاگو میں ایک حبشی زندہ آگ پر بھونا جا رہا تھا۔ امریکہ میں انصاف کا ایک نرالا طریقہ رائج ہے‘ جسے لِنش کرنا (lynching) کہتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں‘ کہ عوام جب عدالت کے فیصلہ سے مطمئن نہ ہوں یا قانون کی سست رفتار مشین کو آہستہ چلتے دیکھ کر صبر نہ کر سکیں تو قانون کو خود اپنے ہاتھ میںلے لیں‘ اور جس شخص کو وہ مجرم سمجھتے ہوں اسے اپنے نزدیک جو منصفانہ سزا چاہیں دے دیں۔اس طریق انصاف کا وار عموماً حبشیوں پر ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ ’’نیو یارک ورلڈ‘‘نے ۱۸۸۵ء سے ۱۹۲۶ء تک کے جو اعدادو شمار شائع کیے ہیں،ان سے معلوم ہوتا ہے‘ کہ ۴۱ سال کی مد ت میں ۳۲۰۵ حبشی برسرِ عام لِنش کیے گئے۔ لنشنگ عموماً اس قصور میںہوتا ہے‘ کہ کسی گوری عورت سے کسی حبشی کا تعلق پایا جائے یا ایسے تعلق کا شبہ کیا جائے۔ لیکن سفید فام امریکن کا ضمیر صرف اسی وقت آمادہ شورش ہوتاہے‘ جب کالا مرد گوری عورت کے پاس پایا جائے۔ رہی کالی عورت تو اس پر گوروں کے پیدائشی حقوق ہیں۔حبشی کے متعلق عام رائے گورے صاحبان کی یہ ہے‘ کہ وہ وحشی جانور(brute) ہوتا ہے۔ اس کا معیار اخلاق بہت پست ہوتا ہے۔ بلکہ اس میں اخلاقی احساس ہوتا ہی نہیں۔ عورتوں اور بچوں پر حملہ آور ہونا اور بد معاشی کرنا اس کی سرشت میں داخل ہے۔ گویا ہمارے ملک کے ہندو اخبارات کی زبان میں وہ ایک پیدائشی ’’غنڈا‘‘ ہوتا ہے۔ لیکن شکاگو کمیشن نے باقاعدہ تحقیقات کرکے ثابت کیا ہے‘ کہ حبشی کا معیار اخلاق صاحب لوگوں سے بہت بلند ہوتاہے‘ اور صاحب لوگ خود اپنی قوم کی عورتوں پر حملہ کرنے میں جس قدر بے باک ہیں۔ حبشی غریب اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔البتہ حبشی سے جب یہ قصور ہو جاتا ہے (اور وہ بھی زیادہ ترمیم صاحبات ہی کی دعوت اور اشتعال کا نتیجہ ہوتا ہے) تو صاحب لوگوںمیں اس پر شور مچ جایا کرتا ہے۔ اور یہی حبشی کے بدنام ہونے کی اصلی وجہ ہے۔ کمیشن کے سامنے ایک جج نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ نابالغ لڑکیوں کے ساتھ زنا بالجبر کرنے والا حبشی تو میری عدالت میں کبھی آیا ہی نہیں۔ البتہ سفید فام بہت سے آئے۔ ایک دوسرے جج نے بیان کیا کہ میری کُل مدت ملازمت میں صرف ایک حبشی اس جرم میں ماخوذ ہو کر آیا ہے،حالانکہ سفید فام اکثر پکڑے ہوئے آتے ہیں۔
۱۸۶۵ء سے امریکہ میں ایک خفیہ جماعت کام کر رہی ہے‘ جس کا نام کو کلکس کلاں (ku klux klan) ہے۔ اس کے قیام کا مقصد یہ ہے‘ کہ سیاہ فاموں پر سفید فاموں کے تفوّق کی حفاظت کی جائے‘ اور امریکہ میں کالی نسل کے مسئلہ (negroe problem) کو اس طرح حل کیا جائے‘ کہ ریڈ انڈین قوم کی طرح یہ قوم بھی رفتہ رفتہ فنا{ FR 2967 } ہو جائے۔ یہ امریکہ کی سب سے زیادہ طاقت ور سنگھٹن ہے‘ جس کے ارکان کی تعداد ۱۹۲۳ء میں پندرہ لاکھ تھی۔ ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ، اونچی سوسائٹی والے، اور حکومت کے حلقوں سے قریبی تعلق رکھنے والے لوگ اس میں شریک ہیں۔ صوبوں کے گورنر، پولیس اور جیل اور عدالت کے حکام تک ان سے ساز باز رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ بڑے بڑے ہولناک جرائم کر جاتے ہیں‘ اور قانون کی مشین ساکت و صامت کھڑی رہتی ہے۔امریکہ کَمز آف ایج (America comes of age) کا مصنف لکھتا ہےکہ ’’وہی مہذب و شائستہ جنٹل مین جس سے آپ گفتگو کر رہے ہیں، ہو سکتا ہے‘ کہ رات کو وہ جنگل میں کسی آدمی کو قتل کر کے آیا ہو‘ اور اس کے ساتھ اس جرم میں بہت سے وہ لوگ شریک ہوں جنہیں آپ دن کے وقت نہایت عزت و افتخار سے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ چند ہولناک جرائم کے سلسلہ میں ریاست ٹکساس (taxes) کے گورنر نے تحقیقات کرائی تو پتہ چلا کہ مجرموں میں ایک تو پادری صاحب تھے‘ اور متعدّد ایسے لوگ تھے جو خود گورنر صاحب کے احباب سے تعلق رکھتے تھے۔
یہ مہذب لوگ حبشیوں کے مسئلہ کو کس طرح حل کر رہے ہیں؟ چند مثالیںملاحظہ ہوں:
ایک حبشن کو مارتے مارتے بیہوش کر دیا اور ننگا کرکے جنگل میں چھوڑ آئے تاکہ سردی میں مر جائے۔ ایک حبشی کی ہنٹروں سے کھال ادھیڑ دی، یہاں تک کہ مجبور ہو کر اس نے اپنی زمین کم قیمت پر ایک سفید فام شخص کے ہاتھ بیچ دی۔ ایک حبشی کو پکڑ کر جنگل لے گئے، رسیوں اور خاردار تاروں سے اسے باندھا۔ ہنٹر مار مار کر اس کی کھال ادھیڑی۔ پھر اس کے زخموں پر کریا زوٹ چھڑک کر چل دئیے اور وہ گھنٹوں تڑپ تڑپ کر مرا۔ ایک حبشن اور اس کے لڑکے کو پکڑ لے گئے‘ اور دونوںکو ایک ریل کے پل سے باندھ دیا۔ ایک غریب کو ہسپتال سے اُٹھا کر لے گئے‘ اور اس کو زندہ آگ پر بھون ڈالا۔ ایک بے چارےکو ٹیلی فون کے کھمبے سے باندھا اور مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔{ FR 2968 }
حبشی کا سب سے بڑاقصور جسے معاف نہیں کیا جا سکتا، یہ ہے‘ کہ وہ سفید فام آبادی میں یا اس کے قریب جائیداد رکھتا ہو، یا سکونت اختیار کرے، ۱۹۱۷ء اور ۱۹۲۱ء کے درمیان صرف شہر شکاگو میں ۵۸ مرتبہ ایسے مکانات کو بم سے اڑایا گیا جو حبشیوں نے خریدے تھے یا جو کسی سفید فام نے حبشی کو کرایا پر دئیے تھے۔ ایک حبشی بینکر (binga) کے مکان اور دفتر پر ایک سال کے اندر ۶ مرتبہ بم پھینکا گیا صرف اس قصور میںکہ وہ حبشیوں کے لیے مالی تقویت کا موجب بن گیا ہے، اس کے بینک سے حبشیوں کو اچھی شرائط پر روپیہ مل جاتا ہے،ا ور اس کی بدولت حبشی لوگ جائیدادیں خریدنے لگے ہیں، یہ واقعات ہیں‘ جن کا نتیجہ یہ ہے‘ کہ جو حبشی ۱۷۹۰ء میں ممالک متحدہ امریکہ کی آبادی کا ۱۹ فیصدی حصہ تھے وہ آج ۹ فیصدی رہ گئے ہیں ۔{ FR 2969 } اور لطف یہ ہے‘ کہ امریکہ کے کانسٹیٹیوشن میںحبشی اقلیت کے بنیادی حقوق بالکل محفوظ ہیں۔
جرمنی کی ایک اور مثال آپ کے سامنے ہے۔ جرمن کانسٹیٹیوشن کی رو سے تمام باشندگانِ ملک کے بنیادی حقوق مسلم ہیں۔ مگر آج وہاں کی غیر آریہ نسل کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا ہے{ FR 2970 }وہ کس سے پوشیدہ ہے۔ ان کے لیے جرمنی کی حدود میں عزت کی روٹی کمانا قریب قریب محال ہو گیا ہے‘ اور وہاں سے نکل جانا بھی اتنا ہی محال ہے۔ سرکاری اور خانگی دونوں قسم کی ملازمتوں کے دروازے ان کے لیے بند ہیں۔ تجارت بھی وہ آزادی سے نہیں کر سکتے۔ دوسرے آزاد پیشوں سے بھی ان کو نکالا جا رہا ہے۔ عدالتوں میں ان کے ساتھ کھلم کھلا نسلی امتیاز برتا جاتا ہے۔ ان کے لیے انصاف کا نظریہ یہ قائم کیا گیا ہے‘ کہ ہر غیر آریہ ناپاک اور پیدائشی مجرم ہے تاوقتیکہ وہ اپنے آپ کو غیر مجرم نہ ثابت کر دے۔ عام باشندے اگر ان سے لین دین یا کسی قسم کا معاملہ کرتے ہیں‘ تو ان پر حکومت کا عتاب ہوتا ہے۔ ملک کے مدارس میں ان کے بچوں پر ناقابلِ برداشت پابندیاں ہیں‘ اور اگر وہ ملک سے باہر تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں‘ تو ان کو صرف ہجرت کا پاسپورٹ دیا جاتا ہے تاکہ واپس نہ آسکیں۔ ان کے والدین اگر ان سے ملنے کے لیے باہر جانا چاہیں تو انہیں بھی مہاجر کی حیثیت سے جانے کی اجازت دی جاتی ہے‘ اور مہاجر کے لیے یہ قانون بنا دیا گیا ہے‘ کہ وہ اپنے مال و دولت کا صرف دس فیصدی حصہ جرمنی سے باہر لے جا سکتا ہے، باقی سب ضبط۔
یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی کون سا ایسا ملک ہے‘ جس کے دستور اساسی میں بنیادی حقوق موجود نہیں ہیں؟ اور کون سا ملک ایسا ہے‘ جہاں دستور کے بنیادی حقوق نے اقلیت کو اکثریت کے ظلم سے بچایا ہو۔ ہر جگہ ملک کی پوری آبادی کو ایک قوم فرض کرکے ایک جمہوری اسٹیٹ بنا دیا گیا‘ اور دستور اساسی میں بنیادی حقوق مقرر کر دئیے گئے۔ مگر جہاں بھی اکثریت اور اقلیت کے درمیان مذہب یا نسل یا زبان کی بنیاد پر قومی امتیاز موجود ہے،و ہاں اکثریت کی یہی کوشش ہے‘ کہ یا تو اقلیت اپنے قومی وجود کو اکثریت کی قومیّت میں گم کر دے، یا پھر اسے شودر بنا کر رکھا جائے یا مختلف طریقوں سے اس کو فنا کر دیا جائے۔ یوگو سلیویا میں جب کروٹس نے مطالبہ کیا کہ ان کی قوم کا ایک الگ صوبہ بنایا جائے‘ اور اسے اٹانومی (حکومت خود اختیاری) دے دی جائے، تو آپ کو معلوم ہے‘ کہ سربیوں نے ان کو کیا جواب دیا؟ اس جواب کو لفظ بلفظ سن لیجئے۔
سرب، کروٹ اور سلافینی درحقیقت ایک قوم ہیں۔ غیر ملکی سامراج نے ان کو زبردستی الگ کر رکھا تھا۔ اب جب کہ بیرونی جُوأ ہمارے کندھوں پر سے اتر گیا ہے‘ تو قومی وحدت کا احساس فتح یاب ہو کر اُبھر آیا ہے‘ اور اس نے ان تمام حد بندیوں کو توڑ دیا ہے‘ جو سیاسی ادارات اور زبان اور مذہب نے پیدا کر دی تھیں۔ وحدت کے اس احساس کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کے لیے ضروری ہے‘ کہ قدیم جغرافی تقسیم، جس کے ذریعے سے غیر ملکی حکمرانوں نے قوم کو تقسیم کر دیا تھا، منسوخ کر دی جائے۔ مقامی نظم و نسق کے لیے صوبوں کی بالکل نئی تقسیم ہونی چاہیے تاکہ پرانے صوبوں کی حد بندیاں نسلی حلقے (racial groups) نہ بنا سکیں ۔{ FR 3054 }
بالکل یہ معلوم ہوتاہے یا نہیں کہ آزاد ہندستان میں جواہر لال نہرو تقریر فرما رہے ہیں؟ یہ گویا ایک قاعدہ کلیہ سا بن گیا ہے‘ کہ واحد قومیّت کا جوشیلا وعظ وہی قوم کیا کرتی ہے‘ جس کا سو فیصدی فائدہ اسی وعظ میں ہوتا ہے، اور وہ بے وقوف لوگ بعد میں پچھتاتے ہیں‘ جو آزادی کے جوش میں تو ’’ایک قوم ایک ملک‘‘ کی صدائیں بلند کیا کرتے ہیں‘ مگر جب آزادی کے بعد واحد قومیّت اژدھے کی طرح ان کو نگلنا شروع کرتی ہے‘ تو غیظ و غضب کے مارے بل کھاتے ہیں‘ اور قدرت کا بے لاگ قانون ان احمقوں سے پکار کر کہتا ہے‘ کہ موتوا بغیظکُم۔ جس وقت یوگوسلیویا کی نیشنل اسمبلی میں کروٹس کے اعتراضات کا مذکورہ بالا جواب دیا گیا‘ تو سنا ہے‘ کہ کروٹ نمائندے احتجاجاً اسمبلی سے اُٹھ گئے‘ اور جانے کے بعد سربی اکثریت نے اور زیادہ آسانی کے ساتھ وہ سب کچھ پاس کر لیا جو پاس کرنا چاہتی تھی۔ا س وقت بنیادی حقوق دور کھڑے ہنستے رہے‘ اور کہتے رہے‘ کہ ’’کہو ! کیسا بیوقوف بنایا!‘‘
۳- کراچی ریزولیوشن کا تجزیہ
اب ذرا ان بنیادی حقوق کا بھی تجزیہ کر دیکھیے جو کراچی ریزو لیوشن میں تجویز کیے گئے ہیں‘ اور جن کی بنا پر ہمارے بہت سے سادہ لوح بھائی ملک بھر میں مسلمانوں کو سمجھاتے پھرتے ہیں‘ کہ بھائیو ! کانگریس تو پہلے ہی تمہارے حقوق کی حفاظت کا ذمہ لے چکی ہے، اب تم کیوں متحدہ قومیّت کی بنیاد پر ایک آزاد جمہوری اسٹیٹ کی تعمیر میں حصہ نہیں لیتے؟
پہلی دفعہ میں ہندستان کے ہر باشندے کو اظہار رائے اور اجتماع کی آزادی دی گئی ہے، بشرطیکہ وہ ایسے مقاصد کے لیے ہو‘ جو قانون اور اخلاق کے خلاف نہ ہوں۔ قانون اور اخلاق کی شرط اس آزادی کو ہر وقت باطل کر سکتی ہے۔ اصول جمہوریت کی بنا پر قانون بنانا اور اخلاق کا معیار مقرر کرنا مطلقاً اکثریت کے اختیار میں ہو گا، اور اکثریت ہی کی حکومت اس کو نافذ کرے گی۔ لہٰذا اقلیت کی آزادی کے حدود گھٹانا یا بڑھانا محض ان کے اختیار تمیزی پر موقوف ہو گا۔
دوسری دفعہ میں ہر باشندہ ہند کو ضمیر کی آزادی، اور اپنے مذہب پر اعتقاد رکھنے اور اس پر عمل کرنے کی آزادی عطا کی گئی ہے، بشرطیکہ وہ امن عام اور اخلاق کے خلاف نہ ہو، یہاں پھر وہی شرط ہے‘ اور یہ شرط اس آزادی کو ہر وقت سلب کر سکتی ہے۔ تاہم اگر اکثریت نے بڑی فیاضی سے کام لیا اوریہ آزادی ہم کو پوری طرح بخش بھی دی، تو اس سے ہمارا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ ایسی آزادی تو انگریزی حکومت نے بھی ہم کو دے رکھی ہے، مگر اس کے باوجود ڈیڑھ سو برس کے اندر ہماری مذہبیت مضمحل اور ہماری تہذیب نیم مردہ ہو کر رہ گئی۔ جب کہ حکومت کے اختیارات ہمارے ہاتھ میں نہ ہوں، اور ایک ایسی جماعت ان اختیارات کو استعمال کرے جو ہمارے اصول تہذیب سے قطعاً ناآشنا اور بالکل مختلف قسم کے نظریاتِ تہذیب و اخلاق و تمدّن کی گرویدہ ہو،تو اس حکومت کے ماتحت ہمیں مذہبی آزادی حاصل ہونے کا فائدہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ ہمیں زبردستی نماز پڑھنے سے نہیں روکا جائے گا بلکہ ہمارے اندر وہ ارتداد آہستہ آہستہ اتارا جائے گا‘ جس سے ہم خود نماز پڑھنا چھوڑ دیں۔ ہماری مسجدیں توڑی نہیں جائیں گی بلکہ ہمارے دل و دماغ کو اندر سے بدلا جائے گا تاکہ یہ مسجدیں ویران ہو کر خود بخود آثار قدیمہ میں تبدیل ہو جائیں۔ ہماری عورتوں کے چہروں سے پولیس کے سپاہی زبردستی نقاب نہ نوچیں گے بلکہ مدرسہ کے معلّم نہایت شفقت و رحمت کے ساتھ ان کے ذہن میں وہ معیار اخلاق پیوست کریں گے‘ جس کی بِنا پر وہ گھر کی ملکہ بننے کے بجائے اسٹیج کی رقاصہ بننا زیادہ پسند کریں گی۔ یہ آزادی محض ایک افیون ہے تاکہ اس کی پینک میں ہم پڑے سوتے رہیں، اور ہمارے گردو پیش زمین و آسمان بدلتے چلے جائیں۔ اس آزادی کے پروانے کو لے کر جو حضرات یہ سمجھ رہے ہیں‘ کہ آئندہ کے قومی جمہوری لادینی اسٹیٹ میں ان کے مذہب اور ان کی تہذیب کا پورا تحفظ ہو گا، انہیں معلوم ہونا چاہیے‘ کہ یہ تحفظ اسی نوعیت کا تحفظ ہے جیسا کہ پرانی تاریخی عمارتوں کا ہوا کرتا ہے۔ یہ محض اس امر کی ضمانت ہے‘ کہ موجودہ نسل کے جو لوگ اپنی مذہبیت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں‘ ان کی گردن پر چھری رکھ کر زبردستی کلمہ کفر نہیں کہلوایا جائے گا۔ مگر یہ اس امر کی ضمانت نہیں ہے‘ کہ ان کی آئندہ نسل کو غیر مسلم بنانے والی تعلیم و تربیت نہ دی جائے گی۔ اس تحفظ کے معنی صرف یہ ہیں‘ کہ آپ اگر چاہیں تو قال اللّٰہ وقال الرسول میں مشغول رہیں۔ آپ کی داڑھی زبردستی نہیں مونڈی جائے گی۔ نہ آپ کی عبا ضبط کی جائے گی۔ نہ آپ کی تسبیح چھینی جائے گی۔ نہ آپ کی زبان درسِ حدیث و قرآن سے روکی جائے گی۔ مگر اس کے معنی یہ نہیںہیں کہ آئندہ نسل کو بھی اس ’’غلط فہمی‘‘ میں مبتلا رہنے دیا جائے گا کہ اسلام ہی سچا دین ہے‘ اور تمام مذاہب سے برتر اور اصلح ہے۔ مذہبی آزادی کا یہ پروانہ لے کر جو صاحب خوش ہونا چاہتے ہیں، وہ خوش ہو لیں۔ ہمیں تو اس پروانہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے مذہب اور ہماری تہذیب کی فطرت تو مفعولانہ نہیں‘ بلکہ فاعلانہ آزادی مانگتی ہے۔ ہم تو استقلالِ وطن اس لیے اور صرف اس لیے چاہتے ہیں‘ کہ ہماری حکومت ہمارے اپنے ہاتھ میں ہو، اپنا نظامِ تعلیم ہم خود بنائیں، اپنی تہذیب و تمدّن کے مسخ شدہ نظام کو ہم خود اپنی طاقت سے درست کر سکیں۔ اگر یہ نہیں تو ہمارے لیے یکساں ہے، چاہے حکومت باہر کے کفار کی ہو یا گھر کے کفار کی۔
تیسری دفعہ اس امر کا اطمینان دلاتی ہے‘ کہ قلیل التعداد جماعتوں اور مختلف لسانی علاقوں کی کلچر، زبان اور رسم الخط کی حفاظت کی جائے گی، حکومت کے روپے اور اس کی طاقت سے ہندی کو ہندوستان کی ’’قومی‘‘ زبان بنانا اس دفعہ کے خلاف نہیںہے۔ اگر نظامِ تعلیم ایسا بنایا جائے‘ کہ اقلیتوں کی تہذیب کا رنگ اس سے بالکلیہ خارج کر دیا گیا ہو، بلکہ اگر نظامِ تعلیم کو اس قصد کے ساتھ ایسے نقشہ پر مرتب کیا جائے‘ کہ اقلیتوں کی تہذیب اپنی موت آپ مر جائے، تو ایسا کرنابھی اس دفعہ کے خلاف نہیں۔ درحقیقت اس دفعہ کا یہ مطلب ہے ہی نہیں کہ اقلیتوں کی زبان اور ان کے کلچر کو حکومت کے رسد خانے سے زندگی کی غذا دی جائے گی۔ بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے‘ کہ ان کو زبردستی قتل نہ کیا جائے گا۔ باقی رہی یہ بات کہ کمی غذا سے وہ خود سوکھ سوکھ کر مر جائیں تو حکومت پر اس کی کوئی ذمّہ داری نہیں، بلکہ یو-پی کے وزیر اعظم کی زبان سے ہم کو بتایا جاتا ہے‘ کہ ان کا سوکھ سوکھ کر مر جانا ہی مطلوب ہے تاکہ ان کی راکھ سے ’’ہندستانی تہذیب‘‘ کا قُقنس پیدا ہو سکے۔ ظاہر ہے‘ کہ اس نوعیت کا بنیادی حق بھی ہم کو انگریزی حکومت میں حاصل ہے۔ا س نے بھی ہم کو اردو بولنے اور لکھنے سے نہیں روکا (بلکہ ورما کیولر اسکول قائم کیے) اور کوئی ایسا آرڈی ننس پاس نہیںکیا کہ ہم اپنے کلچر کے مطابق زندگی بسر نہ کریں۔ لیکن اس بنیادی حق نے ہماری زبان اور ہمارے کلچر کو زندگی کی طاقت نہیں بخشی۔ اگر یہی اس حکومت میں بھی ہو‘ جس کو ’’قومی حکومت‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے‘ تو ہمارے لیے ایسی ’’قومی حکومت‘‘ بعینہٖ غیر قومی حکومت ہو گی۔ ہمیں قومی حکومت کی ضرورت تو اس لیے ہے‘ کہ ہم حکومت کے وسیع ذرائع سے اپنی زبان اور اپنے کلچر کو اس طرح غذا دے سکیں جس طرح آزاد قومیں دیا کرتی ہیں۔ ورنہ بطور خود اپنی ضروریات کا انتظام کر لینے کی آزادی تو ہمیں اب بھی حاصل ہے۔ اس کے لیے ہمیں کسی جنگ ِ آزادی کی کیا ضرورت ہے۔
چوتھی دفعہ کہتی ہے‘ کہ قانون کی نظر میں تمام شہری مساوی ہیں۔ ذات پات، مذہب اور صنف کا کوئی امتیاز ان کے درمیان نہ ہو گا۔ یہ نہایت عمدہ دفعہ ہے۔ لیکن مساوات کا تصوّر ہر تہذیب میں مختلف ہو تا ہے۔ اگر جمہوری اصول پر کل کوئی اکثریت میراث میں عورت اور مرد کا حصہ برابر کرنے کا قانون پاس کر دے اور اس کی مخالفت کرنے و الی اقلیت کا اسی طرح مذاق اڑائے جس طرح مسٹرد اس کے بل کی مخالفت کرنے والوں کا مذاق سنٹرل اسمبلی میں اڑایا جا چکا ہے‘ تو یہ دفعہ ہمارے کس کام آئے گی۔
پانچویں دفعہ اس امر کی ضمانت دیتی ہے‘ کہ کسی باشندہ ملک پر اس کے مذہب، یا ذات پات، یا عقیدہ و مسلک، یا کسی جنس کی وجہ سے ایسی پابندی عائد نہ کی جائے گی کہ وہ سرکاری ملازمت یا عزت و اقتدار کے کسی منصب یا کسی پیشے اور کاروبار میں داخل نہ ہو سکے۔ اس دفعہ کے اچھے اور برے دونوں پہلو ہیں۔ اگر نظامِ حکومت کسی ایسی جماعت کے ہاتھ میں ہو‘ جو ہماری تہذیب سے کوئی ہمدردی نہ رکھتی ہو تو اس دفعہ کے عطا کردہ حقوق شریف مسلمان بہو بیٹیوں کو فلم ایکٹرس کے مرتبہ عالی تک بھی پہنچا سکتے ہیں۔
چھٹی دفعہ باشندوں کو سٹرکوں اور تالابوں اور کنوؤں اور مدرسوں وغیرہ سے استفادہ کا مساوی حق دیتی ہے۔ یہاں ’’بشرطیکہ امن عام اور اخلاق کے خلاف نہ ہو‘‘ کی قید نہیں لگائی گئی جس طرح پہلی اور دوسری دفعہ میں لگائی گئی ہے۔د وسری دفعہ کی رو سے گائے کی قربانی بند کی جا سکتی ہے۔مگر چھٹی دفعہ سڑکوں کے استعمال پر کوئی ایسی پابندی عائد نہیں کرتی کہ نماز کے وقت باجا بجا کر مسلمانوں کو پریشان نہ کیا جائے۔
یہ ہیں وہ بنیادی حقوق جن کے اعلان کو ایک نعمت عظمیٰ قرار دیا جاتا ہے‘ اور ہم سے کہا جاتا ہے‘ کہ اس اعلان کے معاوضہ میں ایک ایسی حکومت کو خود اپنے اوپر مسلط کرنے کے لیے جنگ کریں جس کی پالیسی کی تشکیل، جس کے قوانین کی تشریع، اور جس کے احکام کی تنقید میں ہم واحد قومیّت اور اصول جمہوریت کی بنیاد پر کسی طرح اپنا اثر استعمال نہیں کر سکتے۔ دوسرے الفاظ میں ہماری خدمات اس لیے حاصل کی جا رہی ہیں‘ کہ بس فرعون کی جگہ اس کے بیٹے کو تخت نشین کرا دیں، رہا ہمارا اپنا حال تو جو بنی اسرائیل کی سی پوزیشن ہمیں فرعون کے عہد میں حاصل ہے، ابن فرعون اطمینان دلاتا ہے‘ کہ وہ میرے عہد میں بھی حاصل رہے گی۔
خ خ خ
باب ۱۶ : متحدہ قومیّت اور اسلام
اس عنوان سے جناب مولانا حسین احمد صاحب صدر دارالعلوم دیوبند کا ایک رسالہ حال میں شائع ہوا ہے{ FR 2972 } ایک نامور عالم دین اور ہندستان کی سب سے بڑی دینی درسگاہ کے صدر ہونے کی حیثیت سے مصنف کا جو مرتبہ ہے،ا س کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہمیں توقع تھی‘ کہ اس رسالہ میں ’’قومیّت‘‘ کے اہم اور نہایت پیچیدہ مسئلہ کی تنقیح و تحقیق خالص علمی طریقہ پر کی گئی ہو گی، اور اس باب میں اسلام کا نقطۂ نظر پوری طرح واضح کردیا گیا ہو گا۔ لیکن ہمیں افسوس ہے‘ کہ ہم نے اس رسالہ کو اپنی توقعات سے اور مصنف کی ذمّہ دارانہ حیثیت سے بہت فروتر پایا۔ یہ ایسا زمانہ ہے‘ جس میں جاہلی تصوّرات نے ہر طرف سے اسلامی حقائق پر نرغہ کر رکھا ہے‘ اور اسلام اپنے گھر ہی میں غریب ہو رہا ہے۔ خود مسلمان کا یہ حال ہے‘ کہ وہ خالص اسلامی نگاہ سے مسائل کو نہیں دیکھتے اور قلتِ علم کی وجہ سے نہیں دیکھ سکتے۔ پھر قومیّت کا مسئلہ اتنا اہم ہے‘ کہ اس کے صاف اور واضح فہم و ادراک ہی پر ایک قوم کی زندگی کا مدار ہوتا ہے۔ اگر کوئی قوم اپنی قومیّت کے ا ساسیات ہی کو اجنبی اصول و مبادی میں خلط ملط کر دے تو وہ قوم سرے سے قوم ہی نہیں رہ سکتی۔ ایسے نازک مسئلہ پر قلم اٹھاتے ہوئے مولانا حسین احمد صاحب جیسے شخص کو اپنی ذمّہ داری کا پورا احساس ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ وہ امانت انبیاء کے امین ہیں، اور جب اسلامی حقائق جاہلیت کے گردو غبار میں چھپ رہے ہوں، تو ان ہی جیسے لوگوں کا کام ہے‘ کہ انہیں صاف اور منقح کر کے روشنی میں لائیں۔ان کو یہ سمجھنا چاہیے تھا‘ کہ اس فتنہ کے دور میں ان کی ذمّہ داری عام مسلمانوں کی ذمّہ داری سے زیادہ سخت ہے‘ اور اگر مسلمان کسی گمراہی میںمبتلا ہوں تو سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر وہی ماخوذ ہونے والے ہیں۔ لیکن ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے‘ کہ مولانا کا یہ سارا رسالہ اس ذمّہ داری کے احساس سے بالکل خالی ہے۔
غیر علمی زاویۂ نظر
ایک مصنف کی تصنیف میں سب سے پہلے جس چیز کو تلاش کرنا چاہیے وہ اس کا زاویۂ نظر ہے۔ اس لیے کہ اپنے موضوع کے ساتھ مصنف کا برتاؤ، اور اس کا صحیح یا غلط نتائج پر پہنچنا، تمام تر اس کے زاویۂ نظر ہی پر منحصر ہوتا ہے۔ سیدھا اور صحیح زاویۂ نظریہ ہے‘ کہ آدمی محض امرِ حق کا طالب ہو‘ اور مسئلہ کو، جیسا کہ وہ فطرۃً و حقیقۃً ہے، اس کے اصلی رنگ میں دیکھے، اور حقیقت کا یہ مشاہدہ جس نتیجہ پر پہنچاتا ہو اس پر پہنچ جائے، بلا اس لحاظ کے کہ وہ کس کے خلاف پڑتا ہے‘ اور کِس کے موافق۔، یہ بحث و تحقیق کا فطری اور علمی زاویۂ نظر ہے‘ اور اسلامی زاویۂ نظر بھی اس کے سوا کوئی نہیں کہ اسلام کی روح ہی الحب فی اللّٰہ والبغض فی اللّٰہ ہے۔ اس سیدھے زاویۂ نظر کے علاوہ بہت سے ٹیڑھے زاویۂ ہائے نظر بھی ہیں۔مثلاً ایک یہ کہ آپ کسی کی محبت میں مبتلا ہیں اس لیے صرف اسی نتیجہ پر جانا چاہتے ہیں‘ جو اس کے موافق ہو۔ اور دوسرا یہ کہ آپ کو کسی سے بغض و عداوت ہے اس لیے آپ کو تلاش صرف ان ہی چیزوں کی ہے‘ جو آپ کے مبغوض کی مخالف ہوں۔ اس قسم کے ٹیڑھے زاویے جتنے بھی ہیں سب کے سب خلاف حق ہیں۔ انہیں اختیار کرکے کوئی بحث کسی صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتی۔ کسی عالم اور متقی انسان کے لیے زیبا نہیںکہ ایسے کسی زاویہ سے کسی مسئلہ پر نگاہ ڈالے، اس لیے کہ یہ اسلامی نہیں‘ بلکہ جاہلی زاویۂ نظر ہے۔
اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے‘ کہ مولانا نے اس رسالہ میں کون سا زاویۂ نظر اختیار فرمایا ہے۔ اپنی بحث کے آغاز میں وہ فرماتے ہیں :
ضروری معلوم ہوا کہ ان غلطیوں کا ازالہ کر دوں جو اس قسم کی قومیّت متحدہ سے مخالفت اور اس کو خلافِ دیانت قرار دینے کے مطابق شائع ہوئی ہیں، یا شائع کی جا رہی ہیں، کانگریس ۱۸۸۵ء سے اہلِ ہندوستان سے بنا بر وطنیت اس اتحاد قومی کا مطالبہ کرتی ہوئی بیش از بیش جدوجہد عمل میں لارہی ہے۔ اور اس کی مقابل و مخالف قوتیں اس کے غیر قابلِ قبول ہونے بلکہ ناجائز اور حرام ہونے کی انتہائی کوششیں عمل میں لارہی ہیں۔ یقینا برٹش شہنشاہیت کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی خطرناک چیز نہیں ہے۔ یہ چیز میدان میں آج سے نہیں‘ بلکہ تقریبا ۱۸۸۷ء یا اس سے پہلے سے لائی گئی ہے‘ اور مختلف عنوانوں سے اس کی وحی ہندستانیوں کے دل و دماغ پر عمل میں لائی جاتی ہے۔ (ص۵-۶)
پھر چند سطروں کے بعد فرماتے ہیں :
اگرچہ بہت سے ان لوگوں سے جن کو برطانیہ سے گہرا تعلق ہے‘ یا جن کے دماغ اور قلب برطانوی مدبّرین کے سحر سے ماؤف ہو چکے ہیں اُمید نہیں ہے‘ کہ وہ اس کو قبول کریں گے۔
اسی سلسلہ میں ڈاکٹر اقبال مرحوم کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’ان کی ہستی کوئی معمولی ہستی نہ تھی۔ وہ ایسے اور ایسے تھے مگر‘‘باوجود کمالات گوناگوں کے ساحرین برطانیہ کے سحر میں مبتلا ہو گئے تھے‘‘۔
پھر ایک طویل بحث کے بعد اپنے زاویۂ نظر کا صاف صاف اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
ہندستانیوںکا وطنیت کی بنا پر متحدہ قومیّت بنا لینا انگلستان کے لیے جس قدر خطرناک ہے وہ ہماری اس شہادت سے ظاہر ہے‘ جو ہم نے پروفیسر سیلے کے مقالہ سے نقل کی ہے‘ جس سے معلوم ہوتا ہے‘ کہ یہ جذبہ ضعیف سے ضعیف بھی اگر ہندستانیوں میں پیدا ہو جائے‘ تو اگرچہ ان میں انگریزوں کے نکالنے کی طاقت موجود نہ بھی ہو مگر فقط اس وجہ سے کہ ان میں یہ خیال جا گزیں ہو جائے گا کہ اجنبی قوم کے ساتھ ان کے لیے اشتراکِ عمل شرمناک امر ہے، انگریزی شہنشاہیت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ (ص۳۸)
آگے چل کر ایک حیرت انگیز رائے کا اظہار فرماتے ہیں جسے پڑھ کر آدمی ششدر رہ جاتا ہے‘ کہ کیا یہ کسی متقی عالم کی تحریر ہو سکتی ہے:
اگر قومیّت ایسی ہی ملعون اور بدترین چیز ہے‘ تو چونکہ یورپ نے اس کو استعمال کرکے اسلامی پادشاہوں اور عثمانی خلافت کی جڑ کھو دی ہے، مسلمانوں کو چاہیے تھا‘ کہ اسی ملعون ہتھیار کو برطانیہ کی جڑ کھودنے کے لیے استعمال کرتے۔ (ص۳۸)
اسی بحث کے دوران میں مولانا پہلے تو اس امر کا اعتراف فرماتے ہیں‘ کہ پچھلی دو صدیوں میں مسلمان سلطنتوں کو جس قدر بھی نقصان پہنچا ہے اسی وجہ سے پہنچا ہے‘ کہ یورپ نے اسلامی وحدت کے خلاف سخت پراپیگنڈا کیا ’’اور مسلمانوں میں نسلی، وطنی، لسانی امتیاز و افتراق پیدا کر دیا‘‘ اور ان میں یہ اسپرٹ پیدا کی کہ ’’جہاد مذہبی و روحانی نہ ہو بلکہ نسلوں اور اوطان کے لیے کیا جائے‘ اور مذہبیت کی اسپرٹ درمیان سے نکال دی جائے‘‘ (صفحہ ۳۵-۳۶) لیکن امرِ حق کے اس قدر قریب پہنچ جانے کے بعد پھر وہی برطانیہ کا ہوّا مولانا کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے‘ اور وہ فرماتے ہیں:
افسوس مسلمانوں میں اس وقت کوئی شخص مسلمانوں کی متحدہ قومیّت اور الغائے وطنیت، نسل و لسان وغیرہ کا واعظ کھڑا نہ ہوا۔ اور نہ یورپ کے اخبار و رسائل اور لکچراروں کی بے حد و بے شمار آندھیوں کا مقابلہ کیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پان اسلام ازم ایک قصہ پارینہ ہو کر فنا کے گھاٹ اتر گیا‘ اور ممالک اسلامیہ یورپین اقوام کے لیے لقمہ تر بن کر رہ گئے۔ اب جب کہ مسلمانوں کو افریقہ، یورپ، ایشیاء وغیرہ میں پارہ پارہ کرکے فنا کی گود میں ڈال دیا گیا ہے‘ تو ہم کو کہاجاتا ہے‘ کہ اسلام صرف ملی اتحاد کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ کسی غیر مسلم جماعت سے متحد نہیں ہو سکتا‘ اور نہ کسی غیر مسلم قوم کے ساتھ متحدہ قومیّت بنا سکتا ہے‘‘۔ (ص۳۶-۳۷)
مندرجہ بالا عبارات سے صاف ظاہر ہے‘ کہ مولانا کی نگاہ میں حق اور باطل کا معیار صرف برطانیہ بن کر رہ گیا۔ وہ مسئلہ کو نہ تو علمی زاویۂ نظر سے دیکھتے ہیں‘ کہ حقائق اپنے اصلی رنگ میں نظر آسکیں، نہ وہ مسلمانوں کی خیر خواہی کے زاویۂ نظر سے اس پر نگاہ ڈالتے ہیں‘ کہ جو کچھ مسلمانوں کے لیے زہر ہے وہ انہیں زہر دکھائی دے سکے۔ ان دونوں زاویوںکے بجائے ان پر فقط برطانیہ کی عداوت کا زاویۂ نظر مستول ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر وہ چیز ان کو تریاق نظر آتی ہے‘ جس کے متعلق کسی طرح ان کو معلوم ہو جائے‘ کہ وہ برطانیہ کے لیے زہر ہے۔ اب اگر کوئی شخص اسی چیز کو مسلمانوں کے لیے زہر سمجھتا ہو‘ اور اس بنا پر اس کی مخالفت کرے تو وہ ان کے نزدیک برطانیہ پرست کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ ان کو مسلمانوں کی زندگی سے اتنی دلچسپی نہیں جتنی برطانیہ کی موت سے ہے‘ اور جب یہ بات ان کے دل میں بیٹھ چکی ہے‘ کہ ’’متحدہ قومیّت‘‘برطانیہ کے لیے مہلک ہے‘ تو جو شخص اس کی مخالفت کرتا ہے وہ ’’برطانیہ پرست‘‘ کے سوا اور ہو ہی کیا سکتا ہے۔خیریت ہو گئی کہ کسی نے مولانا کو برطانیہ کی ہلاکت کا ایک دوسرا نسخہ نہ بتا دیا جو متحدہ قومیّت سے بھی زیادہ کارگر ہے، یعنی یہ کہ ہندستان کی ۳۵ کروڑ آبادی یک بارگی خود کشی کر لے جس سے برطانوی سلطنت آن کی آن میں ختم کی جا سکتی ہے۔ یہ تیر بہدف تدبیر اگر مولانا کے دل میں بیٹھ جاتی تو وہ بے تکلف فرماتے کہ جو شخص ہندستان کے باشندوں کو خود کشی سے روکتا ہے وہ برطانیہ پرست ہے۔ خود کشی اگرچہ ’’ملعون‘‘اور ’’بدترین‘‘ فعل سہی مگر جب کہ اس سے برطانیہ کی جڑ کھو دی جا سکتی ہے‘ تو فرض ہو جاتا ہے‘ کہ اس فعلِ قبیح کا ارتکاب کیا جائے۔ ایسی ہی باتوں سے یہ راز سمجھ میں آتا ہے‘ کہ دین میںالحب فی اللّٰہ والبغض فی اللّٰہ کو معیار حق کیوں قرار دیا گیا ہے۔ اگر خدا کا واسطہ درمیان سے ہٹ جائے‘ اور بجائے خود کوئی شے محبوب یا مبغوض بن جائے‘ تو عصبیت جاہلیہ کی سرحد شروع ہو جاتی ہے، جس میں وہ تمام ذرائع و وسائل جائز کر لیے جاتے ہیں‘ جن سے انسان کے جذبات ِمحبت و عداوت کی تشفی ہو سکے، قطع نظر اس سے کہ وہ قانون الٰہی کے مطابق ہوں یا اس کے خلاف، اسی لیے کہنے والے نے کہا کہ ذاتی عداوت تو شیطان سے بھی نہ ہونی چاہیے۔ا س میں بھی خدا کا واسطہ بیچ میں رہنا ضروری ہے، ورنہ وہ خود ایک قانون بن جائے گی‘ اور تم شیطان کی دشمنی میں خدا کے حدود توڑو گے، یعنی اپنے دشمن شیطان ہی کا کام کرو گے۔
اثبات مدعا کے لیے حقائق سے چشم پوشی
اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے‘ کہ مولانا اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے تاریخ کے مشہور اور بیّن واقعات کو بھی صاف نظر انداز کر جاتے ہیں۔ یورپ جب مسلمانوں میں نسلی، وطنی اور لسانی قومیّتوں کی تبلیغ کر رہا تھا تو کیا مسلمانوں میں کوئی اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کھڑا نہیں ہوا؟ کیا ٹیپو سلطان، جمال الدین افغانی، مفتی محمد عبدہٗ، مصطفی کامل مصری، امیر شکیب ارسلان، انور پاشا، جلال نوری بے، شبلی نعمانی، سیّد سلیمان ندوی، محمود الحسن، محمد علی، شوکت علی، اقبال، ابوالکلام مرحوم کسی کا نام بھی مولانا نے نہیں سنا؟ کسی کے کارنامے ان تک نہیں پہنچے؟ کیا ان میں سے کسی نے بھی مسلمانوں کو متنبہ نہیں کیا کہ یہ جاہلیت کی تفریق تم کو تباہ کر نے کے لیے برپا کرائی جا رہی ہے؟ شاید مولانا اب سوالات کا جواب نفی میں نہ دیں گے مگر دوران سب واقعات کی طرف سے آنکھیں بند کرکے فرماتے ہیںکہ ’’افسوس مسلمانوں میں اس وقت کوئی مسلمانوں کی متحدہ قومیّت کا واعظ کھڑا نہ ہوا‘‘ ایسا غلط دعویٰ کرنے کی آخر ضرورت کی تھی؟ مقصود صرف یہ ثابت کرنا تھا‘ کہ پہلے مسلمانوں کی قومی وحدت برطانوی مفاد کے خلاف تھی اس لیے سب مسلمان نسلی، وطنی اور لسانی امتیازات پھیلانے میں لگے ہوئے تھے، اور اب اسلامی وحدت برطانوی اغراض کے لیے مفید ہو گئی ہے، اس لیے اس کا وعظ ابھی ابھی شروع ہوا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ وطن پرستی کے مخالف سب کے سب برطانیہ پرست ہیں‘ اور محض ساحر برطانیہ کا سحر ان کے اندر بول رہا ہے! یہ ہے نتیجہ عصبیت ِجاہلیہ کا۔ چونکہ حق و باطل کا معیار ’’برطانیہ‘‘ ہو گیا ہے اس لیے خلافِ واقعہ باتوں کی تصنیف بھی جائزہو گئی اگر ان سے برطانیہ کے خلاف کوئی کام لیا جا سکے۔
یہی ذہنیت ہے‘ جو ہمیں پورے رسالہ میں کارفرما نظر آتی ہے، لُغت کو، آیات قرآنی کو، اخبار و احادیث کو، تاریخی واقعات کو، غرض ہر چیز کو توڑ مروڑ کر اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے،ا ور ہر اس چیز کو بلا تکلف نظر انداز کر دیا گیا ہے‘ جو مدعا کے خلاف ہو، چاہے وہ کیسی ہی ظاہر و باہر حقیقت کیوں نہ ہو۔ حد یہ کہ لفظی مغالطے دینے اور قیاس مع الفارق اور بناء فاسد علی الفاسد کا ارتکاب کرنے میں بھی تامّل نہیں فرمایا گیا۔ ایک عالم اور متقی عالم کا یہ کارنامہ دیکھ کر آدمی انگشت بدنداں رہ جاتا ہے‘ کہ اسے کیا کہیے۔
قومیں او طان سے کہاں بنتی ہیں؟
مولانا فرماتے ہیں کہ ’’فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘ لیکن یہ ایک قطعی غلط اور سرا سر بے بنیاد و دعویٰ ہے۔ پوری انسانی تاریخ سے ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جا سکتی کہ کوئی قوم محض وطن سے بنی ہو۔ آج اس زمانہ میں بھی دنیا کی تمام قومیں مولانا کے سامنے موجود ہیں۔ وہ فرمائیں کہ ان میں سے کون سی قوم وطن سے بنی ہے؟ کیا امریکہ کے حبشی اور ریڈ انڈین اور سفید فام ایک قوم ہیں؟ کیا جرمنی کے یہودی‘ اور جرمن ایک قوم ہیں؟ کیا پولینڈ، روس، ٹرکی، بلغاریہ، یونان، یوگوسلاویہ، چیکوسلواکیہ، لتھوانیا، فن لینڈ، کسی جگہ بھی خاکِ وطن کے اشتراک نے ایک قوم بنائی؟ کیا انگلستان، فرانس، اٹلی اور جاپان میں وحدت کا رنگ محض خاک ِوطن نے پیدا کیا ہے؟ کیا ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ یہودی جو روئے زمین کے اطراف و اکناف میں منتشر ہیں، کسی جگہ بھی وطنی قومیّت میں جذب ہو گئے ہیں؟ کیا یورپ کے مختلف ممالک میں جرمن، مگیار، سلافی، مورا وِین وغیرہ مختلف قومی اقلیتیں کسی جگہ بھی وطنی رشتہ اشتراک میں گم ہوئیں؟ واقعات تو بہرحال واقعات ہیں۔ آپ ان کو اپنی خواہشات کا تابع نہیں بناسکتے۔ آپ کو یہ کہنے کا حق ہے، اگر آپ ایسا کہنا چاہیں‘ کہ اب قوموں کو اوطان سے بننا چاہیے۔ لیکن آپ کو ثبوت اور شہادت سے بے نیاز ہو کر دنیا کو یہ غلط خبر دینے کا کیا حق ہے‘ کہ اب قومین اوطان سے بننے لگی ہیں؟
ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَo البقرہ 111:2
اگر (اپنے دعویٰ میں) سچے ہو تو اس کی دلیل لاؤ۔
اس میں شک نہیںکہ ایک ملک کے باشندوں کو باہر والے ان کے ملک کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مثلاً امریکن، خواہ حبشی ہو یا فرنگی، باہر والے اس کو امریکن ہی کہیں گے۔ مگر کیا اس سے یہ حقیقت بدل جاتی ہے‘ کہ امریکہ میں دو الگ الگ قومیں ہیں نہ کہ ایک قوم؟ یہ بھی صحیح ہے‘ کہ بین الاقوامی تعلقات میں ایک شخص اصطلاحاً اس سلطنت کا ’’نیشنل‘‘ کہلاتا ہے‘ جس کی وہ رعایا ہو۔ مثلاً اگر مولانا حسین احمد صاحب بیرون ہند تشریف لے جائیں تو ان کو ’’برٹش نیشنلٹی‘‘(برطانوی قومیّت) سے منسوب کیا جائے گا۔ لیکن کیا یہ اصطلاحی قومیّت حقیقت میں بھی مولانا کی قومیّت بدل دے گی؟ پھر بھلا علمی حیثیت سے اس استدلال کی کیا وقعت ہو سکتی ہے‘ کہ ’’اس وطن کے رہنے والے کی حیثیت سے سب (یعنی ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی وغیرہ) ایک ہی قوم شمار ہوتے ہیں؟‘‘ شمار ہونے اور فی الواقع ہونے پر بڑا فرق ہے۔ ایک کو دوسرے کے لیے نہ تو دلیل بنایا جا سکتا ہے، اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے‘ کہ ان کو فی الواقع وہی ہونا چاہیے جیسے وہ شمار کیے جاتے ہیں۔
لغت اور قرآن سے غلط استدلال
اس کے بعد مولانا لغت ِعربی کی طرف رجوع فرماتے ہیں‘ اور شواہد سے یہ ثابت کرتے ہیں‘ کہ عربی زبان میں قوم کے معنی ہیں’’مردوں کی جماعت‘‘ یا ’’مردوں اور عورتوں کا مجموعہ‘‘یا ’’ایک شخص کے اقربا‘‘ یا ’’دشمنوں کی جماعت‘‘ اس کا ثبوت انہوں نے آیات قرآنی سے بھی پیش فرمایا ہے۔ مثلاً وہ آیات جن میں کفّار کو نبی کی یا ’’مسلمانوں کی قوم‘‘ قرار دیا گیا ہے‘ جو صریحاً تیسرے اور چوتھے معنی پر دلالت کرتاہے۔ یا وہ آیات جن میں لفظ ِ’’قوم‘‘ پہلے یا دوسرے معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ لیکن اس پوری بحث میں مولانا کو ایک مرتبہ بھی یہ خیال نہ ا ٓیا کہ اس وقت جو بحث درپیش ہے وہ لفظ قوم کے لغوی معنی یا قدیم معنی سے متعلق نہیں ہے‘ بلکہ موجودہ زمانہ کی اصطلاح سے تعلق رکھتی ہے۔ جواہر لال اور سیّد محمود لغت عرب اور قرآنی زبان میں کلام نہیں کرتے۔ نہ کانگریس کی کارروائیوں میں یہ پرانی زبان استعمال ہوتی ہے۔ ان کے الفاظ کا تو وہی مفہوم ہے‘ اور وہی ہو سکتا ہے‘ جو آج کل ان سے مراد لیا جاتا ہے۔ آج کل اردو زبان میں ’’قوم‘‘ اور ’’قومیّت‘‘ کے الفاظ انگریزی زبان کے الفاظ (nation) اور (nationality) کے مقابلہ میںبولے جاتے ہیں‘ جن کی تشریح لارڈ برائس نے اپنی کتاب ’’بین الاقوامی تعلقات‘‘ (international relations) میںبدیں الفاظ کی ہے :
ایک قومیّت سے مراد اشخاص کا ایسا مجموعہ ہے‘ جن کو چند مخصوص جذبات (sentiments) نے ملا کر باہم مربوط کر دیا ہو۔ ان میں سے بڑے اور طاقتور جذبے تو دو ہیں۔ ایک جذبہ نسل، دوسرا جذبہ دین، لیکن ایک مشترک زبان کے استعمال اور مشترک لٹریچر سے دلچسپی اور زمانہ ماضی کے مشترک قومی کارناموں اور مشترک مصائب کی یاد اور مشترک رسوم و عوائد، مشترک تخیلات و افکار اور مشترک مقاصد اور حوصلوں کا بھی اس احساسِ جمعیت کی پیدائش میں بہت کچھ دخل ہوتاہے کبھی یہ سب رابطے یک جا موجود ہوتے ہیں‘ اور مجموعۂ افراد کو بستہ و پیوستہ رکھتے ہیں۔ اور کبھی ان میں سے بعض رابطے موجود نہیں ہوتے لیکن قومیّت پھر بھی موجود ہوتی ہے۔ (صفحہ ۱۱۷)
اسی کی تشریح اخلاق و ادیان کی دائرۃ المعارف (encyclopaedia of religionand ethics) میں یوں کی گئی ہے :
قومیّت وہ وصف ِعام یا متعدّد اوصاف کا ایسا مرکب ہے‘ جو ایک گروہ کے افراد میں مشترک ہو‘ اور اس کو جوڑ کر ایک قوم بنا دے۔ ہر ایسی جماعت ان افراد پر مشتمل ہوتی ہے‘ جو نسل، مشترک روایات، مشترک مفاد، مشترک عادات و رسوم اور مشترک زبان کے رابطوں سے باہم مربوط ہوتے ہیں، اور ان سب سے اہم رابطہ ان کے درمیان یہ ہوتا ہے‘ کہ وہ باہم ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، بلا ارادہ ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں، اور ان کے درمیان مختلف حیثیات سے الفت و موانست ہوتی ہے۔ غیر قوم کا آدمی ان کو غیر اور اجنبی محسوس ہوتا ہے اس لیے کہ اس کی دل چسپیاں اور اس کی عادات انہیں نرالی معلوم ہوتی ہیں‘ اور ان کے لیے اس کے انداز طبیعت اور اس کے خیالات و جذبات کو سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ا سی وجہ سے قدیم زمانہ کے لوگ غیر قوم والوں کو شُبہ کی نظر سے دیکھتے تھے، اور اسی وجہ سے آج کا مہذب آدمی بھی غیر قوم والے کی عادات اور طرزِ زندگی کو اپنے مذاق کے خلاف پا کر ناک بُھوں چڑھاتا ہے۔
کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے‘ کہ قرآن مجید نے اس معنی میں کفار و مشرکین اور مسلمانوں کا ایک قومیّت میں جمع ہونا جائز رکھا ہے؟ یا کوئی نبی دنیا میں کبھی اس غرض کے لیے بھی بھیجا گیا ہے‘ کہ مومن اور غیر مومن سب کو اس معنی میں ایک قوم بنائے؟ اور اگر نہیں تو یہ فضول لغوی بحث آخر کیوں چھیڑی جاتی ہے؟ لفظ اپنے معنی تاریخ کے دوران میں بار ہا بدلتا ہے۔ کل ایک لفظ کسی معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ آج کسی اور معنی میں ہوتا ہے۔ اب یہ لفظی مغالطہ نہیں تو اور کیا ہے‘ کہ آپ معنوی تغیّرات کو نظر انداز کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش فرمائیںکہ قرآن کی رُو سے ’’قومیّت میں اشتراک مسلم اور کافر کا ہو سکتا ہے‘‘ دراں حالیکہ قومیّت کا جو مفہوم قرآن کی زبان میں تھا اس کو آج کے مفہوم سے ذرّہ برابر کوئی علاقہ نہیں۔ متقدمین نے ’’مکروہ’‘‘ اور ’’حرام‘‘میں اصطلاحی فرق نہیںکیا تھا اس لیے اکثر مقامات پر ان کی عبارتوں میں مکروہ بمعنی حرام مستعمل ہوا ہے، لیکن اب کہ ممنوعیت کے ان دونوں مدارج کے لیے الگ اصطلاحیں بن چکی ہیں اگر کوئی شخص کسی حرام کو محض مکروہ بمعنی اصطلاحی ٹھہرائے اور حجت کے طور پر سلف کی کوئی عبارت پیش کرے تو کیا یہ مغالطہ کے سوا کچھ اور ہو گا؟ اسی طرح لفظ قومیّت بھی اب اصطلاح بن چکا ہے۔ اب مسلم و کافر کے لیے مشترک قومیّت کا لفظ استعمال کرنا، اور معترض کا منہ بند کرنے کے لیے اس لفظ کے پرانے استعمالات کو حجت میں پیش کرنا بھی محض ایک مغالطہ ہے‘ اور اس کے سوا کچھ نہیں۔
ایک اور لفظی مغالطہ
آگے چل کر مولانا دعویٰ فرماتے ہیںکہ نبی a نے مدینہ طیبہ میں یہود اور مسلمانوں کی متحدہ قومیّت بنائی تھی۔ اور اس کے ثبوت میںوہ معاہدہ پیش کرتے ہیں‘ جو ہجرت کے بعد حضور اکرمa اور یہودیوں کے درمیان ہوا تھا۔ اس معاہدہ میں کہیں یہ فقرہ مولانا کے ہاتھ آگیا کہ:
وان یہود بنی عوف امۃ مع المومنین۔
بنی عوف کے یہودی مسلمانوںکے ساتھ ’’ایک امت‘‘ ہوں گے۔
بس یہ فقرہ کہ ’’یہودی‘ اور مسلمان ایک اُمت ہوں گے‘‘ یہ دعویٰ کرنے کے لیے کافی سمجھ لیا گیا کہ آج بھی مسلمانوں اور غیر مسلموں کی متحدہ قومیّت بن سکتی ہے‘ لیکن یہ پھر لفظی مغالطہ ہے۔ لغت ِعرب میں اُمت سے مراد وہ جماعت ہے‘ جس کو کوئی چیز جمع کرتی ہو، عام اس سے کہ وہ زمانہ ہو، مقام ہو، دین ہو یا کوئی اور چیز، اس لحاظ سے اگر دو مختلف قومیں کسی ایک مشترک مقصد کے لیے عارضی طور پر متفق ہو جائیں تو ان کو بھی ایک اُمت کہاجا سکتا ہے۔ چنانچہ صاحب لسان العرب لکھتے ہیں :
وقولہ فی الحدیث ان یہود بنی عوف امۃ من المومنین یرید انہم بالصلح الذی وقع بینھم و بین المومنین کجماعۃ منھم کلمتھم وایدیھم واحدۃ۔
حدیث میں رسول اللہ a کا یہ ارشاد کہ ان یہود بنی عوف امۃ من المومنین اس سے مراد یہ ہے‘ کہ یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان جو صلح واقع ہوئی ہے اس کی وجہ سے وہ گویا مسلمانوںہی کی ایک جماعت ہو گئے ہیں‘ اور ان کا معاملہ واحد ہے۔
اس لغوی ’’امت‘‘ کو آج کی اصطلاحی ’’متحدہ قومیّت‘‘سے کیا واسطہ؟ زیادہ سے زیادہ اس کو آج کل کی سیاسی زبان میں فوجی اتحاد (miitary alliance) کہہ سکتے ہیں۔ یہ محض ایک تحالف تھا جس کا خلاصہ یہ تھا‘ کہ یہود اپنے دین پر رہیں گے، دونوں کی تمدّنی و سیاسی ہیئتیں الگ الگ رہیں گی، البتہ ایک فریق پر جب کوئی حملہ کرے گا تو دونوں فریق مل کر لڑیں گے، اور دونوں اس جنگ میں اپنا اپنا مال خرچ کریں گے۔ دو تین سال کے اندر ہی اس تحالف کا خاتمہ ہو گیا‘ اور مسلمانوں نے کچھ یہودیوں کو جلا وطن کیا اور کچھ کو ہلاک کر دیا۔ کیا اسی کا نام ’’متحدہ قومیّت‘‘ ہے؟ کیا کسی معنی میں بھی یہ چیز اس ’’متحدہ قومیّت‘‘ سے مماثلت رکھتی ہے‘ جو اس وقت معرض بحث میں ہے؟ کیا وہاں کوئی مشترک اسٹیٹ بنایا گیا تھا؟ کیا وہاں کوئی مشترک مجلسِ قانون ساز بنائی گئی تھی اور یہ طے ہوا تھا‘ کہ یہودی‘ اور مسلمان ایک مجموعہ ہوں گے‘ اور اس مجموعہ میں سے جس کی اکثریت ہو گی وہی مدینہ پر حکومت کرے گا اور اسی کے منظور کیے ہوئے قوانین مدینہ میں نافذ ہوں گے؟ کیا وہاں مشترک عدالتیں قائم ہوئی تھیں جن میں یہودیوں اور مسلمانوں کے قضا یا کایک جا اور ایک ہی ملکی قانون کے تحت فیصلہ ہوتا ہو؟ کیا وہاںکوئی وطنی کانگرس بنائی گئی تھی جس میں یہودی اکثریت کا منتخب کیا ہوا ہائی کمانڈ اپنی انگلیوں پر یہودی‘ اور مسلمان سب کو رقص کراتا ہو؟ کیا وہاں رسول اللہa سے معاہدہ کرنے کے بجائے کعب بن اشرف اور عبد اللہ بن ابی براہِ راست افراد مسلمین سے ماس کانٹیکٹ (muslim mass contact) کرنے آئے تھے؟ کیا وہاں بھی واردھا سکیم کے طرز کی کوئی تعلیمی اسکیم تصنیف کی گئی تھی تاکہ مسلمان اور یہودی بچے ایک مشترک سوسائٹی بنانے کے لیے تیار کیے جائیں‘ اور ان کو یہودیت اور اسلام کی صرف مشترک سچائیاں ہی پڑھائی جائیں؟ کیا وہاں بھی کسی ابو رافع نے کوئی ’’صومعہ اسکیم‘‘ تمام اہلِ مدینہ کے لیے بنائی تھی‘ اور رسول اللہ a نے ان تعلیمی صومعوں میں مسلمان بچوں کا بھیجا جانا قبول فرما لیا تھا؟ مولانا آخر فرمائیں تو کہ جس ’’متحدہ قومیّت‘‘ کو وہ رسولِ خداa کی طرف منسوب کر رہے ہیں اس میںآج کل کی ’’متحدہ قومیّت‘‘ کے عناصر ترکیبی میں سے کون سا عنصر پایا جاتا تھا؟ اگر وہ کسی ایک عنصر کا بھی پتہ نہیں دے سکتے، اور میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہرگز نہیں دے سکتے، تو کیا مولانا کو خدا کی باز پرس کا خوف نہیںکہ محض امۃ المؤمنین یا امۃ مع المومنین کے الفاظ معاہدئہ نبویa میں دیکھ کر وہ مسلمانوں کو باور کرانا چاہتے ہیں‘ کہ جیسی متحدہ قومیّت آج کانگریس بنا رہی ہے، وہی متحدہ قومیّت کل نبی a بھی بنا چکے ہیں، لہٰذاآؤاور اطمینان سے اس میںجذب ہوجاؤ، الفاظ کا سہارا لے کر مولانا نے اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش تو بہت خوبی کے ساتھ کر دی، مگر انہیں یہ خیال نہ آیا کہ حدیث کے الفاظ کو مفہوم نبویa کے خلاف کسی دوسرے مفہوم پر چسپاں کرنا، اور اس مفہوم کو نبی کی طرف مسنوب کر دینا من کذب علی متعمدا کی زد میں آجاتا ہے۔ مولانا خود ایک جلیل القدر عالم اور محدث ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص حدیث عائشہ رضی اللہ عنھا کان النبی یقبل و یباشر وھو صائم کے لفظ مباشرت کو اردو کے معروف معنوں میں لے لے اور اس سے یہ استدلال کرے کہ روزے میں مباشرت کرنا نعوذ باللہ سنّت سے ثابت ہے، لہٰذا سب مسلمانوں کو روزے میں مباشرت کرنی چاہیے، تو آپ اس پر کیا حکم لگائیں گے؟ دونوں استدلالوں کی نوعیت ایک ہے لہٰذا ان کا حکم بھی ایک ہی ہونا چاہیے‘ اور کوئی وجہ نہیںکہ مستدل کی شخصیت کو دیکھ کر اس باب میں رعایت کی جائے۔ بلکہ اگر مُستدِلّ ان لوگوں میں سے ہے‘ جن کی طرف مسلمان اعتماد اور بھروسے کے ساتھ اپنے دین کا علم حاصل کرنے کے لیے رجوع کرتے ہیں، تو معاملہ اورزیادہ اشد ہو جاتا ہے۔ جب شفاء خانہ ہی سے زہر تقسیم ہونے لگے، تو امرت کہاں تلاش کیا جائے؟
بناء فاسد علی الفاسد
پھر مولانا اس متحدہ قومیّت کے جواز میں ایک اور دلیل پیش کرتے ہیں‘ اور وہ یہ ہے:
ہم روزانہ مفاد ہائے مشترکہ کے لیے ہئیات ِاجتماعیہ بناتے ہیں‘ اور ان میں نہ صرف شریک ہوتے ہیں‘ بلکہ ان کی ممبری اور شرکت کے لیے انتہائی جدوجہد کرتے ہیں … ٹاؤن ایریا، نوٹیفائڈ ایریا، میونسپل بورڈ، ڈسٹرکٹ بورڈ، کونسلات، اسمبلیاں، ایجوکیشنل ایسوسی ایشن اور اس قسم کی سینکڑوں ایسوسی ایشنیں اور انجمنیں ہیں‘ جو کہ انہی اصولوں اور قواعد سے عبارت ہیں‘ جو کہ خاص مقصد کے ماتحت ہیئت ِاجتماعیہ کے لیے بنائے گئے ہیں۔ تعجب ہے‘ کہ ان میں حصہ لینا اور مکمل یا غیر مکمل جدوجہد کرنا ممنوع قرار نہیںدیا جاتا۔ مگر اسی قسم کی کوئی انجمن آزادیٔ ملک اور برطانوی اقتدار کے خلاف قائم ہو تو وہ حرام، خلاف دیانت، خلاف تعلیمات اسلامیہ اور خلاف عقل و دانش وغیرہ ہو جاتی ہے۔
(صفحہ ۴۱)
یہ بنا فاسد علی الفاسد ہے۔ ایک گناہ کو جائز فرض کرکے اس کی حجت پر مولانا اسی قسم کے دوسرے گناہ کو جائز ثابت کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ دونوں میں ایک ہی علت حرمت پائی جاتی ہے‘ اور مقیس و مقیس علیہ دونوں ناجائز ہیں تاوقتیکہ یہ علت ان سے دور نہ ہو۔ علماء کرام مجھے معاف فرمائیں، میں صاف کہتا ہوں کہ ان کے نزدیک کونسلوں اور اسمبلیوں کی شرکت کو ایک دن حرام اور دوسرے دن حلال کر دینا ایک کھیل بن گیا ہے، اس لیے کہ ان کی تحلیل و تحریم حقیقت نفس الامری کے ادراک پر تو مبنی ہے نہیں، محض گاندھی جی کی جنبشِ لب کے ساتھ ان کا فتویٰ گردش کیا کرتاہے۔ لیکن میں اسلام کے غیر تغیر پذیر اصولوں کی بنا پر یہ کہتا ہوں کہ ہر اس اجتماعی ہیئت کو تسلیم کرنا مسلمانوں کے لیے ہمیشہ گناہ تھا، آج بھی گناہ ہے‘ اور ہمیشہ گناہ رہے گا‘ جس کا دستور انسانوں کو اس امر کا اختیار دیتا ہو‘ کہ وہ ان مسائل کے متعلق قانون بنائیں یا ان مسائل کا تصفیہ کریں، جن پر خدا اور اس کا رسول پہلے اپنا ناطق فیصلہ دے چکا ہے، اور یہ گناہ اس صورت میں اور زیادہ شدید ہو جاتا ہے‘ جبکہ ایسے اختیارات رکھنے والی اجتماعی ہیئیت میں اکثریت غیر مسلموں کی ہو‘ اور فیصلہ کا مدار کثرتِ رائے پر ہو۔ ان اجتماعی ہیئتوں کے حدود اختیار و عمل کو خدا کی شریعت کے حدود سے الگ کر دینا مسلمانوںکا اولین فرض ہے‘ اور اصلی جنگِ آزادی ان کے لیے یہی ہے۔ اگر یہ حدود الگ ہو جائیںتو البتہ کسی ایسی جماعت سے دوستی یا معاہدہ اور تعاون کرنا مسلمانوں کے لیے جائز ہو گا جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کی مشترک اغراض کے لیے بنائی جائے، عام اس سے کہ وہ کسی مشترک دشمن کے مقابلہ میں مدافعت کے لیے ہو، یا کسی معاشی یا صنعتی کاروبار کے لیے۔ لیکن جب تک حدود ایک دوسرے سے گڈ مڈ ہیں، اشتراک و تعاون و درکار، ایسے دستور کے تحت زندگی بسر کرنا بھی مسلمانوں کے لیے گناہ ہے۔ا ور یہ اجتماعی گناہ ہے‘ جس میں من وتو کی تمیز نہیں۔ ساری قوم اس وقت تک گناہ گار رہے گی جب تک کہ وہ ا س دستور کو پارہ پارہ نہ کر دے۔ا ور اس میں ان لوگوں کا گناہ شدید تر ہو گا جو اس دستور پر راضی ہوں گے‘ اور اسے چلانے میں حصہ لیں گے۔ اور اس شخص کا گناہ شدید ترین ہو گا جو خدا کی شریعت اور اس کے رسولﷺ کی سنّت کو اس کے لیے دلیل جواز بنائے گا۔ کائناً من کان۔
میرے نزدیک یہ نہ تفقہ ہے‘ اور نہ تقویٰ کہ جس چیز میں ایک علت حرمت کی‘ اور دوسری علت جواز کی بیک وقت پائی جاتی ہو اس میں سے محض علت جواز کو الگ نکال کر حکم لگا دیا جائے‘ اور علت حرمت کی طرف سے آنکھیںبندکر لی جائیں۔ آپ آزادیٔ ملک اور برطانوی اقتدار کے خلاف جدوجہد کا نام تو جھٹ لے دیتے ہیں‘ کہ اسے کون نا جائز بلکہ فرض کہے گا۔ لیکن یہ نام لیتے وقت آپ کو یہ یاد نہیں آتا کہ جو انجمن اس زُعم کے مطابق آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، وہی انجمن، اس دستور کو قبول کرتی ہے، اسے چلاتی ہے‘ اور اسی کو درجہ کمال تک پہنچانے کے لیے لڑ رہی ہے‘ جو انسانی مجلس قانون ساز کو خدا کے قانون میں ترمیم کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ جس کی رو سے خدا کا قانون اگر نافذ ہو بھی سکتا ہے‘ تو صرف اس وقت جبکہ اسے لیجس لیچر (legistlature) کی منظوری حاصل ہو جائے، جس کے تحت غیر مسلم اکثریت کو مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا نقشہ بنانے اور بگاڑنے کے پورے اختیارات حاصل ہوتے ہیں‘ اور وہ ان کے اخلاق، ان کی معاشرت اور ان کی آئندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت پر ہر قسم کے اثرات ڈال سکتی ہے۔ ایسے دستور کے ساتھ جو آزادیٔ ملک حاصل ہوتی ہو آپ اس کے پیچھے دوڑ سکتے ہیں، کیونکہ آپ کو صرف برطانوی اقتدار کا زوال مطلوب ہے، عام اس سے کہ وہ کسی صورت میںہو، اسی لیے آپ ایسی انجمن کے معاملہ میں صرف علت جواز ہی ڈھونڈتے ہیں‘ اور علت حرمت جو سامنے منہ کھولے کھڑی ہے، آپ کو کسی طرح نظر نہیں آتی۔ لیکن ہم مجبور ہیںکہ ان دونوں پہلوؤں کو ساتھ ساتھ دیکھیں‘ اور علت حرمت کو دفع کیے بغیر علت جواز کوقبول نہ کریں۔ اس لیے کہ ہم کو برطانوی اقتدار کا زوال اوراسلام کا بقا دونوں ساتھ ساتھ مطلوب ہیں۔ اس کا نام اگر کوئی برطانیہ پرستی رکھتا ہے‘ تو رکھے، ہمیں اس کے طعن کی ذرّہ برابر پرواہ نہیں۔
افسوناک بے خبری
مولانا ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں :
(متحدہ وطنی قومیّت) کی مخالفت کا فتویٰ صرف اس بنا پر کہ وطنیت کا مفہوم مغرب کی اصطلاح میں آج ایسے اصولوں پر اطلاق کیا جاتا ہے‘ جو کہ ہیئت ِاجتماعیہ انسانیہ سے تعلق رکھتے ہیں‘ اور وہ یکسر مخالف ِمذہب ہیں، اسی مفہوم مصطلح سے مخصوص ہو گا۔ مگر یہ مفہوم نہ عام طور پر لوگوں کے ذہن نشین ہے‘ اور نہ اس کا کوئی مسلمان دیانت دار قائل ہو سکتا ہے‘ اور نہ ایسے مفہوم کی اس وقت تحریک ہے۔ کانگریس اور اس کے کارکن اس کے محرک نہیں ہیں‘اور نہ اس کو ہم ملک کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ (صفحہ۴۱)
اس دعوے کے ثبوت میں وہی پامال چیز پھر سامنے لائی گئی ہے‘ جس کی حقیقت ایک سے زیادہ مرتبہ کھولی جا چکی ہے، یعنی ’’بنیادی حقوق کا اعلان‘‘ اور اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے‘ کہ :
خود کانگریس بھی جس متحدہ قومیّت کو ہندستان میںپیدا کرنا چاہتی ہے اس میںکوئی ایسی بات نہیں چاہتی جس سے اہلِ ہند کے مذاہب یا ان کے کلچر و تہذیب اور پرسنل لاء پر کسی قسم کا ضرر رساں اثر پڑے۔ وہ فقط انہی امور کو درست کرنا اور سلجھانا چاہتی ہے‘ جو کہ مشترکہ مفاد اور ضروریات ملکیہ سے تعلق رکھتے ہیں‘ اور جن کو پردیسی حکومت نے اپنے قبضہ میں لے کر عام باشندگانِ ہند کو فنا کے گھاٹ اتار دیا ہے۔عموماً یہ امور وہی ہیں‘ جو کہ نو ٹائیفائیڈ ایریا، میونسپل بورڈوں، ڈسٹرکٹ بورڈوں، کونسلوں، اسمبلیوں وغیرہ میں داخلی اور خارجی حیثیات سے طے کیے جاتے ہیں۔ ان میں کسی قوم کا مذہب میں جذب ہو جانا ملحوظ نظر نہیں ہے۔ (صفحہ ۷۵)
یہ تحریر ایک روشن نمونہ ہے اس امر کا کہ اس نازک وقت میں کیسی سطح بینی اور سہل انگاری کے ساتھ مسلمانوں کی پیشوائی کی جا رہی ہے۔ جن مسائل پر آٹھ کروڑ مسلمانوں کے صلاح و فساد کا انحصار ہے، جن میں ایک ذرا سی چوک بھی ان کی آئندہ صورتِ اجتماعی و اخلاقی کو بگاڑ کر کچھ سے کچھ کر سکتی ہے، ان کے تصفیہ کو ایسا ہلکا اور آسان کام سمجھ لیا گیا ہے‘ کہ اس کے لیے اتنے مطالعہ اور غور و خوض اور تدبر کی بھی ضرورت نہیں سمجھی جاتی جس کا اہتمام ایک فرد واحد کو طلاق اور وراثت کا کوئی جزئی مسئلہ بتانے میںکیا جاتا ہے۔ عبارت کا ایک ایک لفظ شہادت دے رہا ہے‘ کہ مولانا نہ تو قومیّت کے اصطلاحی مفہوم کو جانتے ہیں، نہ کانگریس کے مقصد و مدعا کو سمجھتے ہیں، نہ بنیادی حقوق کے معنی پر انہوں نے غور کیا ہے، نہ ان کو خبر ہے‘ کہ جن اجتماعی مجلسوں کا وہ بار بار اس قدر سادگی کے ساتھ ذکر فرما رہے ہیں ان کے حدود اختیار و عمل موجودہ دستور کے تحت کن کن راہوں سے اس دائرے میں نفوذ کرتے ہیںجن کو تہذیب و تمدّن اور عقائد و اخلاق کا دائرہ کہا جاتا ہے۔ حد یہ ہے،اورمیں یہ بات میں خوب سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں، کہ مولانا بایں ہمہ علم و فضل کلچر، تہذیب، پرسنل لا، وغیرہ الفاظ بھی جس طرح استعمال کر رہے ہیں‘ اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے‘ کہ وہ ان کے معنی و مفہوم سے نا آشنا ہیں۔ میری یہ صاف گوئی ان حضرات کو یقینا بُری معلوم ہو گی‘ جو رجال کو حق سے پہچاننے کے بجائے حق کو رجال سے پہچاننے کے خوگر ہیں، اور اس کے جواب میں چند اور گالیاں سننے کے لیے میں نے اپنے آپ کو پہلے ہی تیار کر لیا ہے۔ مگر میں جب دیکھتا ہوں کہ مذہبی پیشوائی کی مسند مقدّس سے مسلمانوں کی غلط رہنمائی کی جا رہی ہے، ان کو حقائق کے بجائے اوہام کے پیچھے چلایا جا رہا ہے، اور خندقوں سے بھری ہوئی راہ کو شاہراہ مستقیم بنا کر انہیں اس کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، تو میں کسی طرح اس پر صبر نہیں کر سکتا، کوشش بھی کروں تو میرے اندر اس پر صبر کی طاقت نہیں ہے۔ لہٰذا مجھے اس پر راضی ہو جانا چاہیے‘ کہ جو کوئی میری صاف گوئی پر ناراض ہوتا ہو تو ہو جائے وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللّٰہِ۔ میں اپنا کام اللہ کو سونپتا ہوں۔
وطنی قومیّت کا حقیقی مدعا
معنی قومیّت کی تشریح کے لیے ان عبارات پر پھر ایک نظر ڈال لیجئے جو اسی مضمون میں لارڈ برائس کی کتاب ’’بین الاقوامی تعلقات‘‘ اور ’’اخلاق و ادیان کی دائرۃ المعارف‘‘ سے نقل کی گئی ہیں۔ اس معنی کے اعتبار سے افراد کو قوم بنانے والی چیز اصلاً اور ابتدائً ایک ہی ہے‘ اور وہ کوئی ایسا جذبہ ہے‘ جو ان سب میں روح بن کر پھیل جائے‘ اور ان کو ایک دوسرے سے مربوط کر دے۔ لیکن محض اس جذبہ کا موجود ہونا قوم بنانے کے لیے کافی نہیں ہے‘ بلکہ اس کو اتنا طاقتور ہونا چاہیے کہ وہ تمام ان داعیات کو دبا دے جو افراد کو یا افراد کے چھوٹے چھوٹے مجموعوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے والے ہیں۔ اس لیے کہ علیحدہ کرنے والی چیزیں اگر جوڑنے والے جذبہ کی مزاحمت کرنے کے لیے کافی مضبوط ہوں تو وہ جوڑنے کے عمل میں کامیاب نہیں ہو سکتا، یا بالفاظِ دیگر ’’قوم‘‘ نہیں بن سکتا۔ علاوہ بریں تشکیل قومیّت کے لیے زبان، ادب، تاریخی روایات، رسوم و عادات، معاشرت اور طرز زندگی، افکار و تخیلات، معاشی مفا داور مادّی اغراض کی مدد بھی درکار ہوتی ہے۔ یہ سب چیزیں ایسی ہونی چاہئیں جو اس جوڑنے والے جذبے کی فطرت سے مناسبت رکھتی ہوں، یعنی ان کے اندر کوئی عنصر ایسا نہ ہو‘ جو علیحدگی کے احساس کو زندہ رکھنے والا ہو۔ا س لیے کہ یہ سب کی سب ایسی طاقتیں ہیں‘ جو افراد کومجتمع کرنے میں اثر رکھتی ہیں‘ اور یہ جوڑنے کے عمل میں اس کلمہ جامعہ کی مدد گار صرف اسی طرح ہو سکتی ہیں‘ کہ ان سب کا میلان اسی مقصود کی طرف ہو‘ جو اس کلمہ جامعہ کا مقصود ہے، ورنہ بصورت دیگر یہ دوسرے ڈھنگ پر جماعت سازی کریں گے‘ اور قوم بنانے کا عمل ناقص رہے گا۔
اب غور کیجئے‘ کہ جس ملک میں اس معنی کے لحاظ سے مختلف قومیں رہتی ہوں ان کو متفق کرنے کی کیا صورتیں ممکن ہیں۔ آپ جتنا بھی غور کریں گے، آپ کو صرف دو ہی ممکن العمل صورتیں نظر آئیں گی :
ایک یہ کہ ان قوموں کو ان کی قومیّتوں کے ساتھ برقرار رکھ کر ان کے درمیان واضح اور متعین شرائط کے ساتھ ایک ایسا وفاقی معاہدہ ہو جائے ‘جس کی رو سے وہ صرف مشترک اغراض و مقاصد کے لیے مل کر عمل کریں‘ اور باقی امور میں بالفعل مختار ہوں۔ کیا کانگریس نے فی الواقع یہ طریقہ اختیار کیا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔
دوسری صورت یہ ہے‘ کہ ان قوموں کو ’’ایک قوم‘‘ بنا دیا جائے۔ یہی دوسری صورت کانگریس چاہتی ہے۔
سوال یہ ہے‘ کہ یہ قومیں ایک قوم کس طرح بن سکتی ہیں؟ لامحالہ ان کے لیے سب سے پہلے تو ایک مشترک جذبہ، ایک کلمہ جامعہ درکار ہے، اور وہ جذبہ یا کلمہ صرف تین چیزوں ہی سے مرکب ہو سکتا ہے :
وطن پرستی، بیرونی دشمن سے نفرت اور معاشی مفاد سے دلچسپی۔ پھر جیسا کہ میں اوپر کہہ چکا ہوں، قوم بنانے کے لیے شرط لازم یہ ہے‘ کہ یہ جذبہ اتنا قوی ہو‘ کہ دوسرے تمام جذبے جنہوں نے ان قوموں کو الگ الگ اقوام بنا رکھا ہے اس کے سامنے دب جائیں۔ کیونکہ اگر مسلمان کو اسلام سے، ہندو کو ہندویت سے، سکھ کو سکھیت سے اتنی دل چسپی ہو‘ کہ جب مذہب یا قومیّت کا معاملہ سامنے آئے تو مسلمان، مسلمان کے ساتھ اور ہندو ہندو کے ساتھ اور سکھ سکھ کے ساتھ جُڑ جائے‘ اور اس وقت (یا وطن پرستوں کی زبان میں فرقہ وارانہ) معاملہ کی حمایت کے لیے ایک جماعت بن کر اُٹھ کھڑا ہو، تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جذبہ وطن نے ان کو ایک قوم نہیںبنایا۔ یہ امر دیگر ہے‘ کہ مسلمان اسلام کا قائل رہے‘ اور نماز بھی پڑھ لیا کرے، اور ہندو ہندویت کا معتقد رہے‘ اور مندر بھی چلا جایا کرے، لیکن ایک قوم بننے کے لیے شرط اوّل یہ ہے‘ کہ اس کی نگاہ میں وطنیت کی کم از کم اتنی اہمیت ضرور ہو‘ کہ اسلام کو اور ہندویت یا سکھیت کو وہ اس پر قربان کر سکتا ہو۔ اس کے بغیر ’’وطنی قومیّت‘‘ قطعاً بے معنی ہے۔
یہ تو وطنی قومیّت کا تخم ہے۔ مگر یہ تخم بار آور نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے لیے مناسب آب و ہوا اور مناسب موسم نہ ہو۔ اوپر عرض کیا جا چکا ہے‘ کہ جذبہ قومی کی مدد کے لیے ضروری ہے‘ کہ زبان، ادب، تاریخی روایات، رسوم و عادات، معاشرت اور طرز زندگی، افکار و تخیلات، معاشی اغراض اور مادّی مفاد، غرض تمام وہ چیزیں جو انسانی جماعتوں کی تالیف و ترکیب میں فی الجملہ اثر رکھتی ہیں، اسی ایک جذبۂ قومی کی فطرت میں دھلی ہوئی ہوں۔ اس لیے کہ افراد کو جوڑنے والی ان مختلف طاقتوںکا میلان اگر علیحدگی کی جانب ہو تو یہ جذب اور تالیف اور اجتماع کے عمل میں اس جاذبہ کی الٹی مزاحمت کریں گی‘ اور متحدہ قوم نہ بننے دیں گی۔ لہٰذا ایک وطنی قوم بنانے کے لیے یہ بالکل ناگزیر ہے‘ کہ ان سب چیزوں میں سے ان عناصر کو نکالا جائے‘ جو مختلف قوموں کے اندر جُدا گانہ قومیّت کی روح پیدا کرتے اور زندہ رکھتے ہیں‘ اور ان کے بجائے ایسے رنگ میں ان کو ڈھالا جائے‘ کہ وہ آہستہ آہستہ تمام افراد اور طبقوں اور گروہوں کو ہمرنگ کر دیں، ان کو ایک سوسائٹی بنا دیں، ان کے اندر ایک طرح کے جذبات و احساسات پھونک دیں، اور ان کو ایسا بنا دیں‘ کہ ان کی معاشرت ایک ہو، طرز زندگی ایک ہو، ذہنیت اور اندازِفکر ایک ہو، ایک ہی تاریخ کے سر چشمے سے وہ افتخار کے جذبات اور روح کو حرکت میں لانے والے محرکات حاصل کریں‘ اور ان کے درمیان ایک دوسرے کے لیے کسی چیز میں بھی کوئی نرالا پن باقی نہ رہے۔
اسی مقصد کے لیے وردھا اسکیم بنائی گئی ہے‘ اور یہی مقصد ودیا مندر اسکیم کا ہے، جیسا کہ دونوں اسکیموںمیں صاف صاف لکھ بھی دیا گیا ہے۔ مگر مولانا نے ان اسکیموں اور ان کے نصاب کو نہیں دیکھا۔ اس قومیّت کا صور برسوں سے پنڈت جواہر لال پھونک رہے ہیں مگر ان کی بھی کوئی تحریر و تقریر مولانا کی سماعت و بصارت تک پہنچنے کا موقع نہ پا سکی۔ یہی چیز کانگریس کا ایک ایک ذمّہ دار آدمی کہہ رہا ہے، لکھ رہا ہے، اور اس کے لیے ان حاکمانہ طاقتوں سے کام لے رہا ہے‘ جو نئے دستور نے عطا کی ہیں، مگر نہ مولانا کے کان ان باتوں کو سنتے ہیں‘ اور ان کی آنکھیں ان چیزوں کو دیکھتی ہیں۔ اسی چیز کے لیے ان تمام اجتماعی ہیئتوں اور مجلسوں سے کام لیا جا رہا ہے‘ جن کی فہرست مولانا بار بار گنایا کرتے ہیں، اور یہ مجالس محض اس وجہ سے اس کام میں ان کی مدد گار بن گئی ہیں‘ کہ ان کا دائرہ عمل ان تمام معاملات پر چھایا ہوا ہے‘ جن کو آپ تہذیب، کلچر، پرسنل لا وغیرہ ناموں سے یاد فرماتے ہیں۔ مگر یہ عمل جو ہر آن ہندستان کے ہر حصہ میں ہو رہا ہے، اس کی بھی کسی جنبش کو مولانا کے حواسِ خمسہ تک رسائی حاصل نہ ہو سکی۔ اس پورے مواد میں سے صرف ایک ہی دستاویزان تک پہنچی ہے‘ جس کا نام ’’بنیادی حقوق‘‘{ FR 2973 }ہے‘ اور بس اسی کے اعتماد پر مولانا اس ’’متحدہ قومیّت‘‘ کو رسول اللہa کے اسوئہ حسنہ سے تشبیہ دینے کی جرأت فرما رہے ہیں، حالانکہ ان بنیادی حقوق کی حیثیت ملکہ وکٹوریہ کے مشہور اعلان سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے‘ اور مغربی ڈپلومیسی کی ایسی چالوں کا رشتہ رسول پاکa کے عمل سے جوڑنے کی جسارت ہم جیسے گناہ گاروں کے بس کی تو بات نہیں۔ ہاں جن کے پاس تقویٰ کا زاد راہ اتنا زیادہ ہے‘ کہ وہ ایسی جسارتیں کرنے پر بھی بخشے جانے کی اُمید رکھتے ہیں، انہیں اختیار ہے‘ کہ جو چاہیں کہیں‘ اور جو چاہیں لکھیں۔
اشتراک لفظی کا فتنہ
مولانا نے اپنے ذہن میں ’’متحدہ قومیّت‘‘ کا ایک خاص مفہوم متعین کر رکھا ہے‘ جس کے حدود انہوں نے تمام شرعی شرائط کو ملحوظ رکھ کر اور تمام امکانی اعتراضات سے پہلو بچا کر خود مقرر فرمائے ہیں، اور ان کو وہ ایسی پُر احتیاط مفتیانہ زبان میں بیان فرماتے ہیں‘ کہ قواعد شرعیہ کے لحاظ سے کوئی اس پر حرف نہ لاسکے۔ لیکن اس میں خرابی بس اتنی ہی ہے‘ کہ اپنے مفہوم ذہنی کو مولانا کانگریس کا مفہوم و مدعا قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ کانگریس اس سے بمراحل دور ہے۔ اگر مولانا صرف اتنا کہنے پر اکتفا کرتے کہ ’’متحدہ قومیّت‘‘ سے میری مرا دیہ ہے‘ کہ تو ہمیں ان سے جھگڑا کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن وہ آگے قدم بڑھا کر فرماتے ہیں‘ کہ نہیں، کانگریس کی مراد بھی یہی ہے‘ اور کانگریس بالکل نبی a کے اسوئہ پر چل رہی ہے‘ اور مسلمانوں کو مامون و مطمئن ہو کر اپنے آپ کو اس متحدہ قومیّت کے حوالے کر دینا چاہیے جسے کانگریس بنانا چاہتی ہے۔ یہیں سے ہمارے اور ان کے درمیان نزاع کا آغاز ہوتا ہے۔ فرض کیجئے‘ کہ ’’پانی ڈالنے‘‘ سے آپ کا مفہوم ذہنی ’’پانی ڈالنا‘‘ ہی ہو، لیکن دوسرے نے ’’آگ لگانے‘‘ کا نام ’’پانی ڈالنا‘‘ رکھ چھوڑا ہو، تو آپ کتنا ظلم کریں گے‘ اگر اختلاف معنی کو نظر انداز کرکے لوگوں کو مشورہ دینے لگیں کہ اپنا گھر اس شخص کے حوالے کر دو جو ’’پانی ڈالنے’‘‘ کے لیے کہتا ہے۔ ایسے ہی موقع کے لیے تو قرآن مجید میں ہدایت کی گئی تھی‘ کہ جب ایک لفظ ایک صحیح معنی اور ایک غلط معنی میں مشترک ہو جائے‘ اور تم دیکھو کہ اعدائے دین اس اشتراک لفظی سے فائدہ اُٹھا کر فتنہ برپا کر رہے ہیں‘ تو ایسے لفظ ہی کو چھوڑ دو۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا۰ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِــيْمٌo البقرہ 104:2
اے ایمان لانے والو ! راعنا نہ کہا کرو بلکہ اُنْظُرْنَا کہا کرو اور توجہ سے بات سنو، کافر تو عذاب الیم کے مستحق ہیں۔
لہٰذا مولانا کو اپنے مفہوم ذہنی کے لیے تحالُف یا وفاق یا اسی قسم کا کوئی مناسب لفظ اختیار کرنا چاہیے تھا، اور اس وفاق یا تحالُف کو بھی اپنی تجویز کی حیثیت سے پیش کرنا چاہیے تھا، نہ اس حیثیت سے کہ یہ کانگریس کا عمل ہے۔ کم از کم اب وہ اُمت پر رحم فرما کر اپنی غلطی محسوس فرما لیں ورنہ اندیشہ ہے‘ کہ ان کی تحریریں ایک فتنہ بن کر رہ جائیں گی‘ اور اس پرانی سنّت کا اعادہ کریں گی کہ ظالم امرا اور فاسق اہلِ سیاست نے جو کچھ کیا اس کو علما کے ایک گروہ نے قرآن و حدیث سے درست ثابت کرکے ظلم و طغیان کے لیے مذہبی ڈھال فراہم کر دی۔
رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِــمِيْنَo یونس 85:10
اے ہمارے رب! ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا۔
مولانا کے اس رسالہ کی اشاعت کے بعد یہ ضروری ہو گیا ہے‘ کہ خالص علمی حیثیت سے ’’قومیّت‘‘ کے مسئلہ کی تحقیق کی جائے‘ اور اس باب میں اسلامی نظریات اور غیر اسلامی یا جاہلی نظریات کے درمیان جو اصولی فرق ہے اسے پوری طرح نمایاں کر دیا جائے، تاکہ جو لوگ غلط فہمی کی بنا پر دونوںکو خلط ملط کرتے ہیں ان کے ذہن کا الجھاؤ دور ہو‘ اور وہ دونوں راستوں میں سے جس راستے کو بھی اختیار کریں علیٰ وجہ البصیرت کریں۔ اگرچہ یہ کام علمائے کرام کے کرنے کا تھا۔ مگر جب ان کے سر خیل تک ’’متحدہ قومیّت ا ور اسلام‘‘ لکھنے میں مصروف ہوں‘ اور ان میں سے کوئی بھی اپنے اصلی فرض کو انجام دینے کے لیے آگے نہ بڑھے، تو مجبوراً ہم جیسے عامیوں ہی کو یہ خدمت اپنے ذمہ لینی پڑے گی۔
(ترجمان القرآن، ذی الحجہ ۱۳۵۷ھ(فروری ۱۹۳۹ء)
خ خ خ
باب ۱۷ : کیا ہندستان کی نجات نیشل ازم میں ہے؟
جناب مولانا عبید اللہ سندھی ایک طویل مدّت کی جلا وطنی کے بعد جب ہندستان واپس تشریف لائے تو جمعیت علمائے بنگال نے ان کو اپنے کلکتہ کے اجلاس میں خطبۂ صدارت ارشاد فرمانے کی دعوت دی، اور اس خطبہ کے ذریعہ سے ہندستان میں پہلی مرتبہ لوگ ان کے مخصوص نظریات سے روشناس ہوئے۔خصوصیت کے ساتھ ان کے جن فقروں پر مسلمانوںمیں عموماً ناراضی پھیلی وہ حسب ذیل ہیں :
۱- اگر میرا وطن اس انقلاب کے نقصان سے بچنا چاہتا ہے‘ جو اس وقت دنیا پر چھا گیا ہے‘ اور روز بروز چھاتا جا رہا ہے‘ تو اسے یورپین اصولوں پر نیشنل ازم کو ترقی دینا چاہیے۔ پچھلے زمانہ میں ہمارا ملک جس قدر نامور رہا ہے اسے دنیا جانتی ہے‘ مگر اس سے ہم کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے‘ جب تک ہم آج کی قوموں میں اپنا وقار ثابت نہ کر سکیں۔
۲- میں سفارش کرتا ہوں کہ ہمارے اکابر مذہب و ملّت برٹش گورنمنٹ کے دو صد سالہ عہد سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کی کوشش کریں۔ جس طرح ہم نے یورپ سے تنفّربرت کر اپنی ترقی کو محدود کر لیا ہے اسے اب خیر باد کہیں اس معاملہ میں میں نے ترکی قوم کے اس انقلاب کا پوری طرح مطالعہ کیا ہے‘ جو سلطان محمود سے شروع ہو کر مصطفی کمال کی جمہوریت پر ختم ہوتا ہے … میں چاہتا ہوں کہ یورپ کے انٹرنیشنل اجتماعات میں ہمارا وطن ایک معزز ممبر مانا جائے۔ اس کے لیے ہمیں اپنی معاشرت میں انقلاب کی ضرورت محسوس ہوگی۔
اس معاشرتی انقلاب کی تشریح آگے چل کر مولانا نے اپنے اس انقلابی پروگرام میں کی ہے، جو انہوں نے صوبہ سندھ کے لیے تجویز کیا ہے۔ چنانچہ اس میں فرماتے ہیں:
سندھی اپنے وطن کا بنا ہوا کپڑا پہنے گا مگر وہ کوٹ پتلون کی شکل میں ہو گا یا کالر دار قمیص اور نِکّر کی صورت میں۔ مسلمان اپنا نِکّر گھٹنے سے نیچے تک استعمال کر سکتے ہیں۔ ہیٹ دونوں صورتوں میں بے تکلف استعمال کیا جائے گا۔ جب مسلمان مسجد میں آئے گا ہیٹ اتار کر ننگے سر نماز پڑھ لے گا۔
مولانا سندھی ایک تجربہ کار اور جہاں دیدہ عالمِ دین ہیں۔انہوںنے جو قربانیاں اپنے اصول اور مشن کی خاطر سالہا سال تک دی ہیں وہ ان کے خلوص کو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ثابت کرتی ہیں۔ لہٰذا اگر ان جیساایک مخلص اور جہاں دیدہ عالم ہمارے سامنے بعض اجتماعی مسائل پر اپنے کچھ نظریات، جو ظاہر ہے‘ کہ ان کے طویل تجربات اور برسوںکے غور و فکر پر مبنی ہیں، پیش کرتا ہے، تو ہمارے لیے مناسب تر بات یہ ہے‘ کہ اپنے ذہن کو شکوہ و شکایت یا شبہات میں الجھانے کے بجائے ان کے نظریات کو علمی حیثیت سے جانچ کر دیکھیں، اور سنجیدگی کے ساتھ ان پر تنقید کریں۔ ایک ذی علم اور فہیم آدمی جو نیک نیت بھی ہو، اس سے ہم بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں‘ کہ جب اس کی غلطی اس پر واضح ہو جائے گی‘ تو وہ اس سے رجوع کر لے گا۔ اور بالفرض اگر وہ اپنی غلطی کا معترف نہ بھی ہو، تب بھی اس کے غلط نظریے کو زمین میںجڑ پکڑنے سے صرف سنجیدہ علمی تنقید ہی روک سکتی ہے۔ شکوہ و شکایت اور طنز و تعریض سے اس کا سدّباب نہیں کیا جا سکتا۔
نیشنل ازم بربنائے مصلحت
یورپین اصول پر نیشنل ازم کو ترقی دینے کا مشورہ مولانا نے جن وجوہ و دلائل کی بناپر دیا ہے وہ خود ان کے الفاظ میں یہ ہیں :
۱- ’’اگر میرا وطن اس انقلاب کے نقصان سے بچنا چاہتا ہے‘ جو اس وقت دنیا پر چھا گیا ہے‘ اور چھاتا چلا جا رہا ہے‘ تو …‘‘ اسے ایسا کرنا چاہیے۔
۲- پچھلے زمانہ میںہمارا ملک جس قدر نامور رہا ہے اسے دنیا جانتی ہے‘ مگر اس سے ہم کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے‘ جب تک ہم آج کی قوموں میں اپنا وقار ثابت نہ کر سکیں …‘‘۔اور وقار اسی طرح قائم ہو سکتا ہے جس طرح آج کل مغربی اقوام نے قائم کیا ہے۔
۳- ہماری ہندستانی تہذیب کا عہد ِقدیم جو ہندو تہذیب کہلاتا ہے‘ اور عہد ِجدید جسے اسلامی تہذیب سمجھا جاتا ہے، دونوں مذہبی اسکول ہیں۔ لیکن آج کل کا یورپین اسکول مذہب سے قطعی نا بلد ہے، اس کا مدار صرف سائنس اور فلسفہ پر ہے، اس لیے ہمارے وطن میں اگر اس انقلاب کو سمجھنے کی استعداد پیدا نہ ہوئی تو سر بسر نقصان ہمارے حصہ میں آئے گا۔
سمجھنے سے مراد غالباً صرف سمجھنا نہیں‘ بلکہ سمجھ کر اختیار کر لینا بھی ہے۔ کیونکہ مولانا کے سابق مقدّمات اسی نتیجہ کی طرف لے جاتے ہیں۔
ان تینوں وجوہ پر غور کیجئے۔ ایک چیز کو اختیار کرنے کا مشورہ اس بنا پر نہیں دیا جا رہا ہے‘ کہ وہ حق اور صداقت ہے‘ یا اخلاقاً بجا اور درست ہے، بلکہ محض مصلحت اور ضرورت (expediency) کی بنا پر دیا جا رہا ہے۔ اس کے بعدایک مسلمان کی نگاہ میں، بلکہ کسی با اصول شخص کی نگاہ میں بھی مولانا کے مشورے کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی ہے؟ کسی مسلک یا کسی اصول کو اس دلیل سے قبول کرنا کہ فلاں نقصان سے بچنا ہے، اور فلاں فائدہ حاصل کرنا ہے، اور فلاں چیز اب دنیا میں نہیں چل رہی ہے‘ بلکہ اس کی جگہ یہ چیز چل پڑی ہے، کسی ایسے شخص کا کام نہیںہو سکتا جو خود اپنا کوئی اخلاقی اور عقلی نظریہ رکھتا ہو‘ اور اپنے ضمیر کے تقاضے سے اپنے آپ کو اس کے پھیلانے اور قائم کرنے پر مامور سمجھتا ہو۔ یہ تو نری مصلحت پرستی اور ابن الوقتی (opportunism) ہے۔ اس کو عقلیت اور اخلاقیت سے کیا واسطہ؟ عقلیت اور اخلاقیت کا تقاضا تو یہ ہے‘ کہ تحقیق سے جس اصول کو ہم نے حق پایا ہے‘ اور اخلاقاً جس کے برحق ہونے کا ہم یقین رکھتے ہیں اس پر سختی کے ساتھ قائم رہیں۔ اگر دنیا میں اس کے خلاف کوئی غلط اصول چل پڑا ہے‘ تو ہمارا کام دنیا کے پیچھے دوڑنا نہیں ہے‘ بلکہ دنیا کو کھینچ کر اپنے اصول کی طرف لانا ہے۔ اپنے اعتقاد میں ہماری راستی کا امتحان اسی میں ہے‘ کہ دنیا کے پیچھے نہ چلنے سے جو نقصان ہمیں پہنچتا ہو اسے صبر و ثبات کے ساتھ برداشت کریں۔ اگر دنیا ہماری وقعت اس لیے نہیں کرتی کہ ہم اس کے پیچھے نہیں چلتے تو ایسی دنیا کو ہمیں ٹھوکر مارنی چاہیے۔ وقار ہمارا معبود نہیں ہے‘ کہ اس کی خوشامد کرتے ہوئے ہم ہر اس راستے پر دوڑتے پھریں جس پر اس کی جھلک نظر آئے۔ اگر اس چیز کا زمانہ گزر گیا ہے‘ جو ہمارے اعتقاد میں حق ہے‘ تو ہم میں اتنا بل بوتا ہونا چاہیے‘ کہ زمانہ کا کان پکڑ کر اسے پھر سے حق کی طرف کھینچ لائیں۔ یہ سوچنا پست ہمت، شکست خوردہ لوگوں کا کام ہے‘ کہ اب زمانہ میں فلاں چیز کا چلن ہے‘ تو چلو، اس کو سمجھیں اور سمجھتے سمجھتے حلق سے نیچے بھی اتار لیں۔
اس باب میں مسلمان کو اتنی استقامت تو دکھانی چاہیے جتنی مارکس کے پیروؤں نے جنگ عظیم کے موقع پر دکھائی تھی۔ ۱۹۱۴ء میں جب جنگ چھڑی تھی‘ تو سکینڈ انٹرنیشنل کے ارکان میں اسی نیشنل ازم کے سوال پر زبردست اختلاف برپا ہوا تھا۔ بہت سے وہ سوشلسٹ جو اشتراکیوںکے بین الاقوامی محاذ پر مجتمع تھے، اپنی اپنی قوموں کو میدان جنگ میں کودتے دیکھ کر قوم پرستی کے جذبہ سے مغلوب ہو گئے‘ اور انہوں نے جنگ میں اپنی قوم کا ساتھ دینا چاہا۔ مگر مارکس کے پیروؤں نے کہا کہ ہم ایک ایسے اصول کے لیے جنگ کرنے اٹھے ہیں‘ جس کے لحاظ سے تمام قوموں کے سرمایہ دار ہمارے دشمن اور تمام قوموں کے مزدور ہمارے دوست ہیں۔ پھر ہم کس طرح اس نیشنل ازم کو قبول کر سکتے ہیں‘ جو مزدوروں کو تقسیم کرتاہے‘ اور انہیں سرمایہ دار کے ساتھ ملا کر ایک دوسرے کے مقابلہ میں لڑاتا ہے۔اس بنا پر مارکسیوں نے اپنے سالہا سال کے پرانے رفیقوں سے تعلقات منقطع کر لیے۔ انہوں نے سکینڈ انٹرنیشنل کا ٹوٹ جانا گوارا کر لیا مگر اپنے اصول سے دستبردار ہونا گوارا نہ کیا۔ صرف یہی نہیں‘ بلکہ جو سچے کمیونسٹ تھے‘ انہوں نے عملاً خود اپنے ہاتھوں سے قوم پرستی کے بت کو توڑا۔ جرمن کمیونسٹ نے اپنے اصول کی خاطر جرمنی کے خلاف اور روسی کمیونسٹ نے اپنے اعتقاد کی خاطر روس کے خلاف اور اسی طرح ہر ملک کے کمیونسٹ نے اپنے مسلک کی خاطر اپنے ملک کی حکومت کیخلاف کام کیا۔
جس طرح کمیونسٹ اپنا ایک نظریہ رکھتا ہے، اسی طرح مسلمان بھی اپنا ایک نظریہ رکھتا ہے۔ پھر وہ کیوں اتنا ادنیٰ اور پست ہو جائے‘ کہ کسی نقصان سے بچنے یا کسی کی نگاہ میں وقار قائم کرنے کے لیے اپنے مقام سے ہٹ جائے؟ اور اگر وہ اپنے مقام سے ہٹتا ہے‘ تو اس میں کم از کم اس بات کا شعور تو ہونا چاہیے‘ کہ وہ کس چیز سے ہٹ رہا ہے ا ور کس چیز کی طرف جا رہا ہے، کیونکہ اپنی جگہ چھوڑنا تو محض کمزوری ہے۔ مگر ایک جگہ سے ہٹ جانے کے باوجود اپنے آپ کو اسی جگہ سمجھنا کمزوری کے ساتھ بے شعوری بھی ہے۔ میں ’’مسلمان‘‘ صرف اس وقت ہوں جب تک میں زندگی کے ہر معاملہ میں اسلامی نظریہ رکھتا ہوں۔ جب میں اس نظریہ سے ہٹ گیا‘ اور کسی دوسرے نظریہ کی طرف چلا گیا‘ تو میری جانب سے یہ سرا سر بے شعوری ہو گی اگر میں یہی سمجھتا رہوں‘ کہ اس نئے مقام پر بھی مسلمان ہونے کی حیثیت میرے ساتھ لگی چلی آئی ہے۔ مسلمان ہوتے ہوئے غیر اسلامی نظریہ اختیار کرنا صریح بے معنی بات ہے۔ ’’مسلمان نیشنلسٹ‘‘ اور ’’مسلمان کمیونسٹ‘‘ ایسی ہی متناقض اصطلاحیں ہیں جیسے ’’کمیونسٹ فاشسٹ‘‘ یا ’’جینی قصائی‘‘ یا ’’اشتراکی مہاجن‘‘ یا ’’موّحد بُت پرست‘‘۔
نیشنل ازم اور اسلام
سرسری نظر میں جو شخص نیشنل ازم کے معنی اور اس کی حقیقت پر غور کرے گا اس سے یہ بات چھپی نہیں رہ سکتی کہ اسلام اور نیشنل ازم، دونوں اسپرٹ اور اپنے مقصد کے لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اسلام کا خطاب انسان من حیث الانسان سے ہے۔ وہ سارے انسانوں کے لیے ایک اعتقادی و اخلاقی بنیاد پر عدل اور تقویٰ کا ایک اجتماعی نظام پیش کرتا ہے‘ اور سب کو اس کی طرف بلاتا ہے۔ پھر جو اس نظام کو قبول کر لے اسے مساویانہ حقوق کے ساتھ اپنے دائرہ میں لے لیتا ہے۔ اس کی عبادات میں، اس کی معیشت میں، اس کی سیاست میں، اس کی معاشرت میں، اس کے قانونی حقوق اور فرائض میں، غرض اس کی کسی چیز میںبھی ان لوگوں کے درمیان کسی قسم کی قومی یا نسلی یاجغرافی یا طبقاتی تفریقات کی گنجائش نہیں ہے‘ جو اسلام کے مسلک کی پیروی اختیار کر لیں۔ اس کا منتہائے نظر ایک ایسا جہانی معاشرہ اور ریاست (world state) ہے‘ جس میں نسلی اور قومی تعصبات کی زنجیریں توڑ کر تمام انسانوں کو مساوی حقوق اور مساوی مواقع ترقی کے ساتھ ایک تمدّنی و سیاسی نظام میں حصہ دار بنایا جائے‘ اور مخالفانہ مقابلہ کی جگہ دوستانہ تعاون پیدا کیا جائے‘ تاکہ لوگ ایک دوسرے کی مادّی خوش حالی اور روحانی ترقی میں مدد گار ہوں۔ اسلام انسانی فلاح کے لیے جو اصول اور نظامِ حیات پیش کرتا ہے وہ عام انسانوں کو اپیل ہی اس وقت کر سکے گا جب کہ ان کے اندر جاہلیت کے تعصبات نہ ہوں، اور وہ اپنی قومی روایات کی وابستگی سے، نسلی تفاخر کے جذبات سے، خونی اور خاکی رشتوں کی محبت سے پاک ہو کر محض انسان ہونے کی حیثیت سے یہ جانچنے کی لیے تیار ہوں کہ حق کیا ہے، عدل و انصاف اور راستی کس چیز میں ہے، ایک طبقہ یا ایک قوم یا ایک ملک کی نہیں‘ بلکہ مجموعی حیثیت سے انسانیت کی فلاح کا راستہ کون سا ہے۔
برعکس اس کے نیشنل ازم انسان اور انسان کے درمیان اس کی قومیّت کے لحاظ سے تمیز کرتا ہے۔ نیشنل ازم کے معنی ہی یہ ہیں‘ کہ ہر قوم کا نیشنلسٹ اپنی قومیّت کو دوسری تمام قومیّتوں پر ترجیح دے۔ اگر وہ جفا کار قوم پرست (aggressive nationalist) نہ بھی ہو تب بھی قوم پرستی کا کم سے کم تقاضا یہ ہے‘ کہ وہ تمدّنی، سیاسی اور قانونی حیثیت سے ’’قومی‘‘ اور غیر قومی میں فرق کرے، اپنی قوم والوں کے لیے زیادہ سے زیادہ فوائد محفوط کرے، قومی مفاد کے لیے معاشی امتیازات کی دیواریں کھڑی کرے، جن تاریخی روایات اور روائتی تعصبات پر اس کی قومیّت قائم ہے ان کی سختی کے ساتھ حفاظت کرے اور اپنے اندر قومی تفاخر کے جذبات پرورش کرے۔ وہ دوسری قومیّت کے لوگوں کو مساوات کے اصول پر زندگی کے کسی شعبہ میں بھی اپنے ساتھ شریک نہ کرے گا۔ جہاں اس کی قوم دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ فوائد و منافع سے متمتع ہو رہی ہو یا ہو سکتی ہو، وہاں عدل و انصاف کے لیے اس کا دل اندھا ہو جائے گا۔ اس کا منتہائے نظر جہانی ریاست کے بجائے قومی ریاست (national state) ہو گا۔ اور اگر وہ کوئی جہانی نظریہ اختیار کرے گا بھی تو اس کی صورت لازماً امپیریل ازم یا قیصریت کی صورت ہو گی، کیونکہ اس کے اسٹیٹ میں دوسری قومیّتوں کے لوگ کسی طرح برابر کے حصہّ دار کی حیثیت سے داخل نہیں ہو سکتے، بلکہ صرف غلام کی حیثیت ہی سے داخل ہو سکتے ہیں۔
ان دونوںمسلکوں کے اصول، مقاصد اور روح کا یہ محض ایک سرسری سا خاکہ ہے‘ جس کو دیکھ کر بآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے‘ کہ یہ دونوں مسلک ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جہاں نیشنل ازم ہے وہاں اسلام کبھی پھل پھول نہیں سکتا، اور جہاں اسلام ہے وہاں نیشنل ازم کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ نیشنل ازم کی ترقی کے معنی یہ ہیں‘ کہ اسلام کے لیے پھیلنے کا راستہ بند ہو جائے، اور اسلام کی ترقی کے معنی یہ ہیں‘ کہ نیشنل ازم جڑ بنیاد سے اُکھاڑ دیا جائے۔ا ب یہ ظاہر ہے‘ کہ ایک شخص ایک وقت میں ان دونوں میں سے کسی ایک ہی کی ترقی کا حامی ہو سکتا ہے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ بیک وقت دونوں کشتیوں پر سوار رہ سکے۔ ایک مسلک کی پیروی کا دعویٰ کرنا اور پھر ساتھ ہی اس کے بالکل مخالف مسلک کی حمایت و وکالت کرنا صاف طورپر نظر کے الجھاؤ اور ذہن کی پراگندگی کا پتہ دیتا ہے، اور جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں ان کے متعلق مجبورا ہمیں یہ رائے قائم کرنی پڑتی ہے‘ کہ وہ یا تو اسلام کو نہیں سمجھتے یا نیشنل ازم کو یا دونوں سے ناواقف ہیں۔
یورپین نیشنل ازم کی حقیقت
یہ تو وہ بات تھی‘ جو نیشنل ازم کے بالکل ابتدائی مفہوم پر غور کرنے سے نکلتی ہے۔ اب ہمیں ذرا آگے بڑھ کر یہ دیکھنا چاہیے‘ کہ وہ’’یورپین نیشنل ازم‘‘ کیا چیز ہے‘ جس کے اصول پر مولانا سندھی ہندوستان میںنیشنل ازم کی ترقی چاہتے ہیں۔
قدیم جاہلیت میں قومیّت کا تصوّر اچھی طرح پختگی کو نہیں پہنچا تھا۔ قوم کی جگہ انسان کے جذبات زیادہ تر نسل یا قبیلہ کے ساتھ وابستہ ہوتے تھے۔ا س لیے اس زمانہ میں قوم پرستی کے بجائے نسل پرستی کا زور تھا، اور اس نسلی عصبیت میں بڑے بڑے عالی دماغ فلسفی اور حکیم تک اندھے ہو جاتے تھے۔ ارسطو جیسا بلند پایہ مفکر اپنی کتاب ’’السیاست‘‘ میں یہ خیال ظاہر کرتا ہے‘ کہ ’’فطرت نے وحشی قوموںکو صرف اس لیے پیدا کیا ہے‘ کہ وہ غلام بن کر رہیں ‘‘۔{ FR 2975 } اس کے نزدیک دولت حاصل کرنے کے لیے فطری اور جائز ذرائع میں سے ایک یہ بھی ہے‘ کہ ’’نوع انسانی کے ایسے طبقات کو غلام بنانے کے لیے جنگ کی جائے جنہیں فطرت نے اسی غرض کے لیے پیدا کیا ہے‘‘۔{ FR 2976 }یہ نظریہ اور زیادہ بھیانک ہو جاتا ہے‘ جب ہم اس کے ساتھ اس حقیقت کو بھی پیشِ نظر رکھتے ہیں‘ کہ یونانیوں کے نزدیک وحشی (barbarians) کے معنی محض ’’غیر یونانی‘‘ کے تھے‘ اور ان کا بنیادی تصوّر یہ تھا‘ کہ یونانی لوگوں کے اخلاق اور انسانی حقوق دوسرے انسانوں سے بالکل مختلف ہیں۔
یہ نیشنل ازم کا ابتدائی جرثومہ تھا جس نے بعد کو یورپ میں ترقی کی۔ اس جرثومہ کے نشوونما کو جو طاقت ایک مدت تک روکتی رہی وہ مسیحیت کی طاقت تھی۔ ایک نبی کی تعلیم، اگرچہ کیسی ہی بگڑی ہوئی صورت میں موجود ہو، بہرحال نسل پرستی اور قوم پرستی کی جگہ ایک وسیع انسانی نقطۂ نظر ہی لیے ہوئے ہو سکتی تھی‘ اس کے ساتھ رومن ایمپائر (roman empire) کے عالمگیر سیاسی نظام نے بھی کم از کم اتنا کام کیا کہ بہت سی چھوٹی قوموں کو ایک مشترک اقتدار کا مطیع و فرماں بردار بنا کر قومی اور نسلی تعصبات کی شدّت کو کم کر دیا۔ اس طرح صدیوں تک یورپ کا روحانی اور شہنشاہ کا سیاسی اقتدار، دونوں مل جل کر عالم مسیحی کو ایک رشتے میں باندھے رہے۔ مگر یہ دونوں طاقتیں ظلم و ستم میں اور علمی و عقلی ترقی کی مخالفت میں ایک دوسرے کی مدد گار تھیں۔ اور دنیوی اقتدار اور مادّی فوائد کی تقسیم میں باہم حریف و معاند تھیں۔ا یک طرف ان کی آپس کی کش مکش نے، دوسری طرف ان کی بداعمالیوں اور ظلم و ستم نے اور تیسری طرف جدید علمی بیداری نے سولہویں صدی میں وہ سیاسی اور مذہبی تحریک پیدا کی جسے تحریک اصلاح (reformation) کہتے ہیں۔
اس تحریک کا یہ فائدہ تو ضرور ہوا کہ یورپ اور شہنشاہ کے اس اقتدار کا خاتمہ ہو گیا جو ترقی اور اصلاح کا دشمن تھا۔ لیکن اس سے یہ نقصان بھی ہوا کہ جو قومیں ایک رشتہ میں بندھی ہوئی تھیں وہ بکھر گئیں۔ ریفارمیشن اس روحانی رابطہ کا بدل فراہم نہ کر سکا‘ جو مختلف مسیحی اقوام کے درمیان قائم تھا۔ مذہبی اور سیاسی وحدت کا تعلق ٹوٹنے کے بعد جب قومیں ایک دوسرے سے الگ ہوئیں تو ان کی جدا جدا خود مختار قومی ریاستیں وجود میں آنے لگیں۔ ہر قوم کی زبان اور لٹریچر نے الگ الگ ترقی کرنی شروع کی۔ اور ہر قوم کے معاشی مفاد دوسری ہمسایہ قوموں سے مختلف ہوتے گئے۔ اس طرح نسلی، سیاسی، معاشی اور تہذیبی بنیادوں پر قومیّت کا ایک نیا تصوّر پیدا ہوا جس نے نسلی عصبیت کے قدیم جاہلی تصوّر کی جگہ لے لی۔ پھر مختلف قوموں میں نزاع، چشمک اور مسابقت (competition) کا سلسلہ شروع ہوا۔ لڑائیاں ہوئیں۔ ایک قوم نے دوسری قوموں کے حقوق پر ڈاکے ڈالے۔ ظلم اور شقاوت کے بدترین مظاہرے کیے گئے جن کی وجہ سے قومیّت کے جذبات میں روز بروز تلخی پیدا ہوتی چلی گئی، یہاں تک کہ قومیّت کا احساس رفتہ رفتہ ترقی کرکے قوم پرستی (نیشنل ازم) میں تبدیل ہو گیا۔
یہ قوم پرستی جس کا نشوونما اس طور پر یورپ میں ہوا ہے، چونکہ ہمسایہ قوموں کے ساتھ مطابقت اور تصادم سے پیدا ہوئی ہے، اس لیے اس میں لازماً چار عناصر پائے جاتے ہیں۔
(۱) قومی افتخار کا جذبہ جو اپنی قومی روایات اور خصوصیات کی محبت کی پرستش کی حد تک بڑھالے جاتا ہے، اور تمام قوموں کے مقابلہ میں اپنی قوم کو ہر لحاظ سے بالا وبرتر قرار دیتا ہے‘ اور ہر طرح کے اصلی اور جعلی مفاخر اپنی قوم کے لیے مخصوص کرتاہے۔{ FR 2977 }
(۲) قومی حمیت کا جذبہ جو حق اور انصاف کے سوال کو نظر انداز کرکے آدمی کو ہر حال میں اپنی قوم کا ساتھ دینے پر آمادہ کرتا ہے خواہ وہ حق پر ہو یا نا حق پر۔
(۳) قومی تحفظ کا جذبہ جو قوم کے واقعی اور خیالی مفادات کی حفاظت کے لیے ہر قوم کو ایسی تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ کرتاہے جو مدافعت سے شروع ہو کر حملہ پر ختم ہوتی ہیں۔ مثلاً معاشی مفاد کی حفاظت کے لیے محصولات درآمد و برآمد کو گھٹانا بڑھانا، غیر قوتوں کی مہاجرت پر پابندیاں عائد کرنا، اپنے حدود میں دوسروں کے لیے کسب معاش اور شہری حقوق کے دروازے بند کرنا، دفاع ملکی کے لیے دوسروں سے بڑھ چڑھ کر فوجی طاقت فراہم کرنا اور دوسروں کے ملک میں اپنی قوم والوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے دوڑ جانا۔
(۴) استیلا و استکبار (national aggrendisment) کا جذبہ جو ہر ترقی یافتہ اور طاقت ور قوم کے اندر یہ داعیہ پیدا کرتا ہے‘ کہ وہ دنیا کی دوسری قوموں پر غالب اور برتر ہو، دوسروں کے خرچ پر اپنی خوش حالی بڑھائے، اپنے آپ کو پسماندہ قوموں میں تہذیب پھیلانے کی خدمت پر خود بخود مامور سمجھے اور دوسرے ممالک کی قدرتی دولت سے استفادہ کرنے کو اپنا پیدائشی حق قرار دے۔
یہی ہے وہ یورپ کا نیشنل ازم جس کے نشہ میں سرشار ہو کر کوئی پکارتا ہے۔ ’’جرمنی سب سے اوپر‘‘ کوئی نعرہ بلند کرتا ہے ’’امریکہ خدا کا اپنا ملک ہے‘‘کوئی اعلان کرتا ہے ’’اٹلی ہی مذہب ہے‘‘۔ کسی کی زبان سے دنیا کو یہ پیغام دیا جاتا ہے‘ کہ ’’حکومت کرنا برطانیہ کا حق ہے‘‘۔ اور ہر قوم پرست اس مذہبی عقیدے پر ایمان لاتا ہے‘ کہ ’’میرا ملک ! خواہ حق پر ہو یا ناحق پر‘‘ یہ قوم پرستی کا جنون آج دنیا میں انسانیت کے لیے سب سے بڑی لعنت ہے۔ انسانی تہذیب کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ یہ انسان کو اپنی قوم کے سوا ہر دوسری قوم کے لیے درندہ بنا دیتا ہے۔
اس نیشنل ازم کے معنی صرف یہی نہیں ہیں‘ کہ آدمی اپنی قوم سے محبت رکھتا ہے‘ اور اس کو آزاد، خوش حال اور بر سر ترقی دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ ایک شریف جذبہ ہوتا۔ لیکن درحقیقت محبت سے زیادہ عداوت، نفرت اور انتقام کے جذبات اس کو جنم دیتے اور پرورش کرتے ہیں۔ اس کا مادہ حیات دراصل وہ آگ ہے‘ جو قومیّت کے مجروح جذبات اور کچلے ہوئے قومی حوصلوں سے دل میں بھڑک اٹھتی ہے۔ اور یہ آگ، یہ حمیت ِجاہلیہ، قومی محبت کے شریفانہ جذبہ کو بھی حد سے بڑھا کر ایک ناپاک چیز بنا دیتی ہے۔ بظاہر اس کا آغاز ان بے انصافیوں کی تلافی کرنے کی غرض سے ہوتا ہے‘ جو کسی قوم کے ساتھ کسی دوسری قوم یا قوموں نے، واقعی یاخیالی طور پر کی ہوں۔لیکن چونکہ کوئی اخلاقی ہدایت، کوئی روحانی تعلیم، کوئی الٰہی شریعت اس کی رہنمائی کرنے والی اور اس کو ضابطہ میں رکھنے والی نہیں ہوتی، اس لیے یہ اپنی حد سے گزر کر قیصریت (imperialims)، معاشی قوم پرستی (economic nationalism)، نسلی منافرت، جنگ اور بین الاقوامی بد امنی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ زمانہ حال کا ایک مصنف فرانسِس کوکر (Francis, W, Coker) لکھتا ہے :
بعض قوم پرست اہلِ قلم دعویٰ کرتے ہیں‘ کہ آزادانہ زندگی بسر کرنے کا حق دنیا کی صرف ترقی یافتہ قوموں کو ہے۔ ان قوموں کو جو ایسا اعلیٰ درجہ کا تہذیبی اور روحانی سرمایہ رکھتی ہیں‘ جو اس کا مستحق ہے‘ کہ دنیا میں باقی رکھا جائے‘ اور پھیلایا جائے۔ ان کا استدلال یہ ہے‘ کہ ایک اعلیٰ درجہ کی مہذب قوم کا حق اور فریضہ صرف یہی نہیں ہے‘ کہ وہ اپنی آزادی کی حفاظت کرے اور اپنے اندرونی معاملات کو دوسروں کی مداخلت کے بغیر سر انجام دے، بلکہ اس کا حق اور فرض یہ بھی ہے‘ کہ اپنے دائرہ اثر کو ان قوموں پر پھیلائے جو نسبتاً پس ماندہ ہیں، خواہ اس کے لیے قوّت ہی کیوں نہ استعمال کرنی پڑے۔ وہ کہتے ہیں‘ کہ ایک اونچے درجے کی قوم اپنا ایک عالمگیر منصب رکھتی ہے، اسے اپنی قابلیتوں کو صرف اپنی ہی سر زمین میں مدفون کر دینے یا خود غرضی کے ساتھ صرف اپنی ہی ترقی کے لیے استعمال کرنے کا حق نہیںہے۔ یہی نظریہ اور یہی استدلال تھا‘ جسے عموماً انیسویں صدی کے آخری دور میں ملک گیری کی تائید کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اسی حجت کو پیش کرکے افریقہ اور بحرالکاہل کی ’’نیم مہذّب‘‘ قوموں کو یورپ اور امریکہ کی سلطنتوںکا تابع فرمان بنایا گیا تھا…۔
آگے چل کر وہ لکھتا ہے :
یہ بھی کہا جاتا ہے‘ کہ ایک بڑی قوم صرف یہی حق نہیں رکھتی کہ براہِ راست جو حملہ اس پر کیا جائے اس کی مدافعت کرے، بلکہ یہ بھی اس کا حق ہے‘ کہ ہر اس چیز کی مزاحمت کرے جس سے اس کے ایسے مفاد پر زد پڑتی ہو‘ جو اس کی خود مختارانہ زندگی اور خوش حالی کے لیے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کی زندگی کے لیے صرف یہی کافی نہیںہے‘ کہ بس اپنی سرحدوں کی حفاظت کرے، اور اپنے مادّی وسائل پر خود قابو یافتہ رہے، اور اپنی عزت کو پامال نہ ہونے دے۔ نہیں، اگر اسے زندہ رہنا ہے‘ تو اس سے زیادہ بھی کچھ کرنا پڑے گا۔ اس کو بڑھنا چاہیے، پھیلنا چاہیے، اپنی فوجی طاقت بڑھانی چاہیے، اپنا قومی دبدبہ قائم کرنا چاہیے، ورنہ وہ رفتہ رفتہ گرتی چلی جائے گی‘ اور بالآخر قوموں کی مسابقت میں اس کا وجود محو ہو کر رہ جائے گا۔ جو قومیں اپنے مفاد کی حفاظت کرنے اور اپنے سیاسی و معاشی نفوذ و اثر کا دائرہ بڑھانے میں زیادہ کامیاب ہوتی ہیں وہی زندہ رہنے کی زیادہ حق دار ہیں۔ جنگ قومی توسیع کا فطری ذریعہ ہے، اور جنگ میں فتح یاب ہونا قوم کے اصلح (fittest) ہونے کی دلیل ہے۔ ڈاکٹر بیج ہاٹ کے بقول وہ جنگ ہی ہے‘ جو قوموں کو بناتی ہے‘‘۔
اس کے بعد وہ لکھتا ہے :
ڈارون کے نظریہ ارتقا کو بھی ان خیالات کی تائید میں غلط طور پر استعمال کیا گیا ہے) ارنسٹ ہیکل(Earnest Haekeel) جو جرمنی میں ڈاروینیت کا پہلا اور سب سے پہلا با اثر پیغمبر گزار ہے،ا ور جس نے اپنے علم الحیات کے(biological) نظریات کو نہایت ہوشیاری کے ساتھ فلسفہ اور اجتماعیات (socialogy) میں استعمال کیا ہے، خود غرضی و خود پرستی کو عالم گیر قانون حیات قرار دیتا ہے‘ اور کہتا ہے‘ کہ یہ قانون انسانی سوسائٹی کے اندر ایک طرح کی نسلی مردم خوری کی صورت میں جاری ہوتا ہے۔ اس کی رائے میں زمین ان تمام نسلی گروہوںکے لیے کافی سامان زندگی نہیں رکھتی جو اس کی آغوش میں جنم لیتے ہیں۔ لہٰذا کمزور گروہ فنا ہو جاتے ہیں، نہ صرف اس وجہ سے کہ زمین کے محدود وسائل زندگی سے فائدہ اٹھانے کے لیے جو عام تنازع برپا ہوتا ہے اس میں وہ دوسرے گروہوںکاکامیاب مقابلہ نہیںکر سکتے، بلکہ اس وجہ سے بھی کہ زیادہ طاقت ور گروہوں کے فاتحانہ اقدامات کی مدافعت کا کس بل ان میں نہیںہوتا۔ اسی طرح کارل پیرسن (Karl Pearson) بین الاقوامی کشمکش کو ’’نوع انسانی کی فطری تاریخ کا ایک شعبہ‘‘ قرار دیتا ہے۔ اس کا دعویٰ یہ ہے‘ کہ زندگی کے علمی تصوّر (scientific view of life) کی رو سے انسانی تہذیب و تمدّن کا ارتقاء دراصل اس نزاع و جدال کی وجہ سے ہوتا ہے‘ جو صرف افراد ہی کے درمیان نہیں‘ بلکہ قوموں کے درمیان بھی دائماً برپا رہتی ہے۔ جب ایک اعلیٰ درجہ کی قوم اپنی کمزور نسلوں کو مٹانے اور صرف طاقت ور نسلیں پیدا کرنے کا انتظام کرکے اندرونی حیثیت سے اپنی صلاحیّت بڑھا لیتی ہے،تب وہ دوسری قوموں سے مقابلہ کرکے بیرونی حیثیت سے اپنی صلاحیّت (fitness) کو ترقی دینا شروع کرتی ہے۔ اس نزاع میں کمزور (غیر صالح) قومیں… (صالح) قومیں باقی رہتی ہیں۔ اور اس طرح مجموعی حیثیت سے پوری نوع انسانی کا قدم ترقی کی طرف بڑھتا ہے۔ ایک قوم دوسری عالی مقام قوموں کے ساتھ اپنی برابری کا ثبوت اسی طرح دے سکتی ہے‘ کہ وہ ان سے تجارتی راستوںاور خام پیداوار کے وسائل اور سامان غذا کے ذخائر کے لیے پیہم مجاہدہ کرتی رہے۔ فرو تر درجہ کی قوموں (کمزور قوموں) سے واسطہ پڑنے کی صورت میں اگر وہ ان کے ساتھ مساوات کا برتاؤ کرتی اور ان سے گھلتی ملتی تو گویا خود ہی اپنے دعوائے بالا تری سے دست بردار ہو جاتی ہے۔ اوراگر وہ انہیں زمین سے نکال کر خود قبضہ کر لیتی ہے، یا انہیں زمین میںباقی رکھ کر اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے‘ تو اپنی بالا تری ثابت و قائم کر دیتی ہے ۔{ FR 3055 }
ایک دوسرا مصنف جوزف لیٹن (Joseph Lighten) لکھتا ہے :
پندرہویں صدی سے دنیا کی تاریخ زیادہ تر قومی ریاستوں کے درمیان معاشی رقابتوں کی د استان ہے۔ معاشی قوم پرستی روز بروز قوموں کے درمیان تصادم کا سبب بنتی چلی گئی ہے۔پہلے تجارت کے میدان میں مزاحمت کا سلسلہ چلتا ہے، پھر جنگ ہوتی ہے، امریکہ، افریقہ، سات سمندروں کے جزائر، اور ایشیا کے ایک بڑے حصے پر تسلّط، نو آبادیوں کا قیام اور ان ممالک کے معاشی وسائل سے انتفاع (exploitation)، یہ سب کچھ اسی داستانِ قزاقی کے مختلف ابواب ہیں۔ اگرچہ یہی سب ذرا چھوٹے پیمانہ پر اس وقت بھی ہوا تھا جب زوالِ روما کے بعد وحشی قومیں تاخت و تارج کرتی ہوئی پھیل گئی تھیں۔ مگر فرق یہ ہے‘ کہ رومن ایمپائر کے باقیات میں سے تو مذہبی، اخلاقی اور تہذیبی بنیادوں پر ایک بین الاقوامی نظام تعمیر ہو گیا تھا، لیکن دنیائے جدید میں یہ نہ ہو سکا۔{ FR 3056 }
جب ایک ایسی قوم جو تہذیبی وحدت رکھتی ہو، سیاسی حیثیت سے خود مختار، اور معاشی حیثیت سے متحد الاغراض ہوتی ہے، اور اس تہـذیبی و سیاسی اور معاشی قومیّت میں اپنی عظمت اور برتری کے احساسات اُبھر آتے ہیں، تب معاشی قوم پرستی اپنی شدید تر صورت میں رونما ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ کیونکہ دنیا کی مختلف قوموں کے درمیان مسابقت و مزاحمت کا جو سسٹم اس وقت قائم ہے اس کا لازمی نتیجہ یہی قوم پرستی ہے۔ اوریہ قوم پرستی بہت جلدی معاشی امپریل ازم میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ قومیں تجارتی فوائد کے لیے ایک دوسرے کے خلاف جدوجہد کرتی ہیں‘ اور بیرونی ممالک کی منڈیوں اور پس ماندہ ممالک کی معاشی دولت پر قبضہ کرنے کے لیے ان کے درمیان کشمکش ہوتی ہے…۔
سیاسی اور معاشی نیشنل ازم کی گتھی (جس کو سلجھانے کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوئی) یہ ہے‘ کہ ایک طرف قومی ریاست کا وجود ایک قوم کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے، اور اس کی محض معاشی خوش حالی ہی نہیں‘ بلکہ اس کی تہذیبی ترقی، اس کی تعلیم، اس کے سائنس، اس کے فنون، غرض اس کی ہر چیز کے نشوونما کا انحصار قومی ریاست کے پھلنے پھولنے ہی پر ہے، لیکن دوسری طرف موجودہ مسابقت کے ماحول میں خود بخود معاشی نیشنل ازم پیدا ہو جاتاہے۔ ہر قوم دوسری قوموں کے نقصان پر پھلنے پھولنے کی کوشش کرتی ہے‘ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے‘ کہ قوموں کے درمیان رقابت، شبہات، خوف اور نفرت کے جذبات پرورش پاتے ہیں۔ معیشت کے میدان میں بین الاقوامی مسابقت سے لے کر کھلے میدان میں فوجی تصادم تک سیدھا راستہ جاتا ہے۔ اوریہ بہت قریب کا راستہ ہے۔{ FR 2980 }
مغربی نیشنل ازم اور خدائی تعلیم کا بنیادی اختلاف
میں نے مغربی نیشنل ازم اور اس کے اندازِفکر اور طریق کار کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کے بجائے خود اہلِ مغرب کے الفاظ میں نقل کرنا زیادہ پسند کیا ہے تاکہ اس کی پوری تصویر خود گھر والوں کے موقلم سے کھنچی ہوئی آپ کے سامنے آجائے، اوپر کے اقتباسات اس امر کی بیّن شہادت پیش کرتے ہیںکہ یورپ میں جن تخیلات اور جن اصولوں پر نیشنل ازم کا نشوونما ہوا ہے وہ انسانیت کی عین ضد ہیں۔ انہوں نے انسان کو حیوانیت بلکہ درندگی کے مقام تک گرادیا ہے۔ وہ خدا کی زمین کو فساد، ظلم اور خونریزی سے بھرنے والے اور انسانی تہذیب کے پر امن نشوو ارتقاء کو روکنے والے اصول ہیں۔ ابتداء سے خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر دنیا میں جن پاک مقاصد کے لیے سعی کرتے رہے ہیں، یہ اصول ان سب پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ الٰہی شریعتیںجن اغراض کے لیے دنیا میں آئی ہیں، اور آسمانی کتابیںجن اخلاقی و روحانی تعلیمات کو لے کر نازل ہوئی ہیں، یہ شیطانی اصول ان کے مدّمقابل، ان کے مزاحم اور معاند واقع ہوئے ہیں۔ یہ انسان کو تنگ دل، تنگ نظر{ FR 2981 }اور متعصب بناتے ہیں۔ یہ قوموں اور نسلوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا کر حق اور انصاف اور انسانیت کی طرف سے اندھا کر دیتے ہیں۔ یہ مادّی طاقت اور حیوانی زور کو اخلاقی حق کا قائم مقام قرار دے کر شرائع الٰہیہ کی عین بنیاد پر ضرب لگاتے ہیں۔
الٰہی شریعتوں کا مقصد ہمیشہ سے یہ رہا ہے‘ کہ انسانوں کے درمیان اخلاقی و روحانی رشتے قائم کرکے انہیں وسیع پیمانے پر ایک دوسرے کا معاون بنایا جائے۔ مگر نیشنل ازم نسلی اور وطنی امتیاز کی قینچی لے کر ان رشتوں کو کاٹ دیتا ہے‘ اور قومی منافرت پیدا کرکے انسانوںکو ایک دوسرے کا معاون بنانے کے بجائے مزاحم اور دشمن بنا دیتا ہے۔{ FR 2982 }
الٰہی شریعتیں چاہتی ہیں‘ کہ انسان اور انسان کے درمیان آزادانہ ربط کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں کیونکہ انہی پر انسانی تہذیب و تمدّن کی ترقی کا انحصار ہے۔ مگر نیشنلزم اس ترقی کی راہ میں ہر قسم کی رکاوٹیں پیدا کرتا ہے، حتیٰ کہ ایک قوم کے حلقہ اثر میں دوسری قوم والوں کے لیے سانس لینا تک مشکل کر دیتا ہے۔
الٰہی شریعتوں کا منشاء یہ ہے‘ کہ ہر فرد ہر قوم اور ہر نسل کو اپنی طبعی خصوصیات اور پیدائشی قابلیتوں کے نشوونما کا پورا موقع ملے تاکہ وہ مجموعی حیثیت سے انسانیت کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کر سکے۔ مگر نیشنل ازم ہر قوم اور ہر نسل میں یہ داعیہ پیدا کرتا ہے‘ کہ وہ طاقت حاصل کرکے دوسری قوموں اور نسلوںکو ادنیٰ اور ذلیل اور بے قدرو قیمت قرار دے، اور انہیں غلام بنا کر ان کی پیدائشی قابلیتوں کو بڑھنے اور کام کرنے کا موقع ہی نہ دے۔ بلکہ ان سے زندگی کا حق ہی سلب کرکے چھوڑے۔
الٰہی شریعتوں کا اساسی اصول یہ ہے‘ کہ طاقت کے بجائے اخلاق پر انسانی حقوق کی بنیاد قائم ہو۔ حتیٰ کہ ایک طاقت ور شخص یا گروہ کمزور شخص یا گروہ کے حق کو بھی ادا کرے جبکہ قانون اخلاق اس کی تائید میں ہو۔ لیکن نیشنل ازم اس کے مقابلہ میں یہ اصول قائم کرتا ہے‘ کہ طاقت ہی حق ہے‘ اور کمزور کا کوئی حق نہیں، اس لیے کہ وہ اسے حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
شرائع الٰہیہ جس طرح اخلاقی حدود کے اندر نفس پروری کی مخالف نہیں ہیں اسی طرح وہ قوم پروری کی بھی مخالف نہیں ہیں۔ درحقیقت وہ اس کی تائید کرتی ہیں، کیونکہ ایک ایک قوم کے اپنی اپنی جگہ ترقی کرنے ہی پر مجموعی حیثیت سے انسانیت کی ترقی کا مدار ہے۔ لیکن آسمانی شریعتیں ایسی قوم پروری چاہتی ہیں‘ جو انسانیت عامہ (humanity at large) کی طرف ہمدردی، معاونت اورخیر خواہی لیے ہوئے بڑھے اور وہ خدمت انجام دے جو سمندر کے لیے زمین کے دریا انجام دیتے ہیں۔ برعکس اس کے نیشنلزم انسان کے اندر یہ ذہنیت پیدا کرتا ہے‘ کہ وہ اپنی تمام قوتیں اور قابلیتیں صرف اپنی قوم کی بڑائی کے لیے مخصوص کرے اور انسانیت عامہ کا نہ صرف یہ کہ مدد گار نہ ہو بلکہ اپنی قوم کے مفاد پر انسانیت کے عمومی مفاد کی قربانی چڑھا دے۔ انفرادی زندگی میں جو حیثیت ’’خود غرضی‘‘ کی ہے، اجتماعی زندگی میں وہی حیثیت ’’قوم پرستی‘‘ کی ہے۔ ایک قوم پرست فطرۃً تنگ دل ہوتا ہے۔ وہ دنیا کی ساری خوبیاں صرف اپنی قوم یا اپنی نسل ہی میں دیکھتا ہے۔ دوسری قوموں یا نسلوں میں اسے کوئی چیز ایسی قابلِ قدر نظر نہیں آتی جو زندگی اور بقا کی مستحق ہو۔ اس ذہنیت کا مکمل نمونہ ہم کو جرمنی کے نیشنل سوشل ازم میں نظر آتا ہے۔ ہٹلر کی زبان میںنیشنل سوشلسٹ کی تعریف یہ ہے‘ کہ :
ہر وہ شخص جو قومی نصب العین کو اس حد تک اپنانے کے لیے تیار ہو‘ کہ اس کے نزدیک اپنی قوم کی فلاح سے بالا تر کوئی نصب العین نہ ہو، اور جس نے ہمارے قومی ترانے ’’جرمنی سب سے اوپر‘‘ کے معنی و مقصود کو اچھی طرح سمجھ لیا ہو، یعنی اس وسیع دنیا میں جرمن قوم اور جرمنی سے بڑھ کر کوئی چیز اس کی نگاہ میں عزیز اور محترم نہ ہو، ایسا شخص نیشنل سوشلسٹ ہے۔{ FR 3057 }
اپنی کتاب’’میری جدوجہد‘‘ میں ہٹلرلکھتا ہے :
’’اس زمین میں جو کچھ قابلِ قدر ہے۔ سائنس، آرٹ، فنی کمالات اور ایجادات، وہ سب کا سب چند گِنی چُنی قوموں کی تحقیقی قابلیتوں کا نتیجہ ہے۔ اور یہ قومیں اصل میں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتی ہیں … اگر ہم نوعِ انسانی کو تین قسموں میں تقسیم کریں، کلچر بنانے والے، اس کی حفاظت کرنے والے، اس کو غارت کرنے و الے، تو صرف آریہ نسل ہی کا شمار پہلی قسم میںکیا جا سکے گا ۔{ FR 3058 }
اس نسلی تفاخر کی بنیاد پر جرمنی میں غیر آریہ لوگوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے‘ اور اسی بنیادپر جرمنی کی جہاں گیری کا نظریہ قائم ہے۔ ایک نیشنل سوشلسٹ کے نزدیک دنیا میںجرمن قوم کا مشن یہ ہے‘ کہ وہ ’’ادنیٰ درجہ‘‘ کی قوموں کوغلام بنا کر ’’تہذیب‘‘ پھیلانے میں آلہ کے طور پر استعمال کرے۔ اور یہ محض جرمنی ہی کی خصوصیت نہیں ہے۔ جمہوریت پسند امریکہ میں بھی رنگ کاامتیاز اسی بنیاد پر ہے۔ سفید فام امریکن سیاہ فام حبشی کو انسان سمجھنے کے لیے کسی طرح تیار نہیں‘ اور یہی مسلک یورپ کی ہر قوم کا ہے، خواہ وہ برطانیہ ہو یا فرانس یا اٹلی یا ہالینڈ۔
پھر اس قوم پرستی کی ایک لازمی خصوصیت یہ ہے‘ کہ یہ انسان کو مطلب پرست بناتی ہے۔ شرائع الٰہیہ تو دنیا میں اس لیے آئی ہیں‘ کہ آدمی کو اصول پرست بنائیں اور اس کے طرزِعمل کو ایسے مستقل اصولوںکا پابند بنا دیں جو اغراض اور خواہشات کے ساتھ بدلنے والے نہ ہوں۔ لیکن قوم پرستی اس کے برعکس آدمی کو بے اصولا بنا دیتی ہے۔ قوم پرست کے لیے دنیا میں کوئی اصول اس کے سوا نہیں ہے‘ کہ وہ اپنی قوم کا فائدہ چاہتا ہے۔ اگر اخلاق کے اصول، مذہب کے احکام اور تہذیب کے نظریات اس مقصد میں اس کے مدد گار ہوں تو وہ ان پر ایمان لانے کا خوشی سے دعویٰ کرتا رہے گا۔ اور اگر وہ اس کے ر استے میں حائل ہوں تو ان سب کو بالائے طاق رکھ کر کچھ دوسرے اصول و نظریات اختیار کر لے گا۔ مسولینی کی سیرت میں ہم کو ایک قوم پرست کے کیرکٹر کا پورا نمونہ ملتا ہے۔ جنگ عظیم سے پہلے وہ اشتراکی تھا۔ جنگ عظیم میں اس لیے اشتراکیوں سے الگ ہو گیا کہ اٹلی کے شریک جنگ ہونے میں اس کو قومی فائدہ نظر آتا تھا۔ پھر جب غنائم جنگ میں اٹلی کو مطلوبہ فوائد حاصل نہ ہوئے تو اس نے جدید فاشستی تحریک کاعلم بلند کیا۔ اس نئی تحریک میں بھی وہ برابر اپنے اصول بدلتا چلا گیا۔ ۱۹۱۹ء میں وہ لبرل سوشلسٹ تھا۔ ۱۹۲۰ء میں انارکسٹ بنا۔۱۹۲۱ء میں چند مہینہ تک سوشلسٹ اور جمہوری طبقوں کا مخالف رہا۔ چند مہینہ ان کے ساتھ اتحاد کی کوشش کرتا رہا۔ اور بالآخر ان سے کٹ کر اس نے ایک نئی پالیسی وضع کر لی۔ یہ تلّون، یہ بے اصولی اور یہ ابن الوقتی مسولینی کے لیے مخصوص نہیںہے بلکہ یہ نیشنلزم کی فطرت کا طبعی خاصہ ہے۔ انفرادی زندگی میں جو کچھ ایک خود غرض آدمی کرتا ہے وہی قومی زندگی میں قوم پرست کرتا ہے۔ کسی اصول اور نظریہ پر مستقل ایمان رکھنا اس کے لیے ناممکن ہے۔
مگر نیشنل ازم اور الٰہی شریعتوں میں سب سے زیادہ کُھلا ہوا تصادم ایک اور صورت سے ہوتاہے۔ یہ ظاہر ہے‘ کہ خدا کی طرف سے جو نبی بھی آئے گا وہ بہرحال کسی ایک قوم اور کسی ایک سر زمین ہی میں پیدا ہو گا۔ اسی طرح جو کتاب اس نبی کو دی جائے گی وہ بھی لامحالہ اسی ملک کی زبان میں ہو گی جس میں وہ مبعوث ہوا ہے۔ پھر اس نبوت کے مشن سے تعلق رکھنے و الے جن مقامات کو عزت و احترام اور تقدیس کی حیثیت حاصل ہو گی وہ بھی زیادہ تر اسی ملک میں واقع ہوں گے۔ مگر ان سب محدودیتوں کے باوجود وہ صداقت اور تعلیم ہدایت جو ایک نبی خدا کی طرف سے لے کر آتا ہے،کسی قوم اور ملک کے لیے محدود نہیں ہوتی بلکہ تمام انسانوں کے لیے عام ہوتی ہے۔ پوری نوعِ انسانی کو اس نبی پر اور اس کی لائی ہوئی صداقت پر ایمان لانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ خواہ کسی نبی کا مشن محدود ہو جیسا کہ ہود اور صالح علیہما السلام اور بہت سے پیغمبروں کا تھا، یا اس کا مشن عام ہو جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور سیّدنا محمد a کا تھا، بہر صورت ہر نبی پر ایمان لانے اور اس کا احترام کرنے کے لیے تمام انسان مامور ہیں۔ اور جب کہ کسی نبی کا مشن عالم گیر ہو تو یہ قدرتی بات ہے‘ کہ اس کی لائی ہوئی کتاب کو بین الاقوامی حیثیت حاصل ہو گی۔ اس کی زبان کا تہذیبی اثر بین الاقوامی ہو گا۔ اس کے مقدّس مقامات ایک ملک میں واقع ہونے کے باوجود بین الاقوامی مرکزیت حاصل کریں گے۔اور نہ صرف وہ نبی بلکہ اس کے حواری اور اس کے مشن کی اشاعت میں نمایاں حصہ لینے والے ابتدائی لوگ بھی ایک قوم سے تعلق رکھنے کے باوجود تمام قوموں کے ہیرو قرار پائیں گے۔ یہ سب کچھ ایک نیشنلسٹ کے مذاق، اس کی افتادِ طبع، اس کے جذبات اور اس کے نظریات کے خلاف ہے۔نیشنلسٹ کی غیرت قومی اس کو کسی طرح گوارا نہیںکر سکتی کہ وہ ایسے لوگوں کو ہیرو بنائے جو اس کی اپنی قوم کے نہیںہیں، ایسے مقامات کی مرکزیت اور تقدس و احترام قبول کرے جو اس کے اپنے وطن کے نہیں ہیں، ایسی زبان کا تہذیبی اثر قبول کرے جو اس کی اپنی زبان نہیں ہے۔ان روایات سے روحانی تحریک (Inspiration) حاصل کرے جو باہر سے آئی ہوں۔ وہ ان سب چیزوں کو نہ صرف اجنبی (foreign) قرار دے گا بلکہ انہیں اس نفرت اور ناگواری کی نگاہ سے دیکھے گا‘ جس سے بیرونی حملہ آوروں کی ہر چیز دیکھی جاتی ہے، اور ان تمام خارجی اثرات کو اپنی قوم کی زندگی سے نکال دینے کی کوشش کرے گا۔ اس کے جذبہ قومیّت کا فطری اقتضا یہ ہے‘ کہ اپنے جذباتِ تقدیس و احترام کو اپنے ہی وطن کی سر زمین سے وابستہ کرے، اپنے ہی وطن کے دریاؤں اور پہاڑوں کی حمد میں گیت گائے، اپنی ہی قوم کی پرانی تاریخی روایات کو (انہی روایات کو جنہیں یہ باہر سے آنے والا مذہب ’’عہد ِجاہلیت‘‘ سے تعبیر کرتاہے) زندہ کرے اور ان پر فخر کرے، اپنے حال کا رشتہ اپنے ہی ماضی سے جوڑے اور اپنی ثقافت کا تسلسل اپنے اسلاف ہی کی ثقافت کے ساتھ قائم کرے، اپنی ہی قوم کے تاریخی یا افسانوی بزرگوں کو اپنا ہیرو بنائے اور انہی کے خیالوں یا واقعی کارناموں سے روحانی تحریک حاصل کرے، غرض یہ بات نیشنل ازم کی عین طبیعت میں شامل ہے‘ کہ وہ ہر اس چیز سے جو باہر کی ہو، منہ موڑ کر ان چیزوںکی طرف رخ کرے جو اس کے اپنے گھر کی ہوں۔ یہ راستہ جس آخری منزل پر پہنچتا ہے وہ یہ ہے‘ کہ باہر سے آئے ہوئے مذہب کو بھی کلّی طورپر چھوڑ دیا جائے‘ اور ان مذہبی روایات کو زندہ کیا جائے‘ جو خود اپنی قوم کے عہد جاہلیت سے کسی نیشنلسٹ کو پہنچی ہوں۔ ممکن ہے‘ کہ بہت سے نیشنلسٹ اس آخری منزل تک نہ پہنچے ہوں، اور ابھی بیچ ہی کی کسی منزل میں ہوں، مگر جس راستے پر وہ گامزن ہیں وہ جاتا اسی طرف ہے۔
آج{ FR 2985 } جرمنی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نیشنل ازم کے اس فطری خاصہ کی مکمل توضیح و تبیین ہے۔ نازیوں میں سے ایک گروہ تو علانیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بیزاری کا اظہار کر رہا ہے۔ اس لیے کہ وہ یہودی النسل تھے‘ اور کسی شخص کا یہودی ہونا اس بات کے لیے کافی وجہ ہے‘ کہ ایک آریہ نسل پرست اس کی تمام تہذیبی، اخلاقی اور روحانی قدرو قیمت سے انکار کر دے۔ چنانچہ اس گروہ کے لوگ بلا تکلف کہتے ہیں‘ کہ ’’مسیح ایک پرولتاری یہودی تھا، مارکس کا پیشرو، اسی لیے تو ا س نے کہا کہ جو مسکین ہیں وہی زمین کے وارث ہوں گے‘‘۔ اس کے برعکس جن نازیوں کے دل میں ابھی تک مسیح کے لیے جگہ باقی ہے وہ ان کو نارڈک نسل کا ثابت کرتے ہیں۔ گویا ایک جرمن قوم پرست یاتو مسیح کو مانے گا نہیں، کیونکہ وہ یہودی تھے، یا اگر مانے گا تو اسرائیلی مسیح کو نہیں‘ بلکہ نارڈک نسل کے مسیح کو مانے گا۔ بہر صورت اس کا مذہب اس کی نسل پرستی کے تابع ہے۔ کسی غیر آریہ کو روحانی و اخلاقی تہذیب کا پیشوا ماننے کے لیے کوئی جرمن قوم پرست تیار نہیں۔{ FR 2986 } حدیہ ہے‘ کہ جرمن قوم پرستوںکے لیے وہ خدا بھی قابلِ قبول نہیں جس کا تصوّر باہر سے درآمد ہوا ہے۔ بعض نازی حلقوں میں کوشش ہو رہی ہے‘ کہ ان دیوتاؤں کو پھر زندہ کیا جائے جنہیںپرانے ٹیوٹن قبائل پوجا کرتے تھے۔چنانچہ تاریخ قدیم کی چھان بین کرکے پوری دیو مالا تیار کر لی گئی ہے‘ اور ووٹا (wotan) نامی دیوتا کو، جسے عہد ِجاہلیت کے ٹیوٹن لوگ ’’طوفان کاخدا‘‘ کہتے تھے، مہادیو قرار دیا گیا ہے۔ یہ مذہبی تحریک تو ابھی نئی نئی شروع ہوئی ہے۔ لیکن سرکاری طور پر نازی نوجوانوں کو آج کل جس عقیدہ کی تعلیم دی جا رہی ہے اس میں بھی خدا کو رب العالمین کی حیثیت سے نہیں‘ بلکہ محض رب الالمانین کی حیثیت سے خدا تسلیم کیا گیا ہے۔ اس عقیدے کے الفاظ یہ ہیں :
ہم خدا پر اس حیثیت سے ایمان رکھتے ہیں‘ کہ وہ قوّت و حیات کا ازلی مظہر ہے،زمین میں اور کائنات میں خدا کا خیال جرمن انسان کے لیے فطری ہے۔ خدا اور ازلیت کے متعلق ہمارا تصوّر کسی دوسرے مذہب یا عقیدے کے تصوّرات سے کسی قسم کی مماثلت نہیں رکھتا۔ ہم جرمن قوم اور جرمنی کی ازلیت پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ قوّت و حیات کی ازلیت پر ہمار ایمان ہے۔ ہم زندگی کے نیشنل سوشلسٹ تصوّر پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہم اپنے قومی مقاصد کی حقانیت پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہم اپنے قائد اڈولف ہٹلر پر ایمان رکھتے ہیں۔
یعنی خدا اس قوّت و حیات کا نام ہے‘ جو جرمن قوم میں حلول کر گئی ہے۔ جرمن قوم اس خدا کا ارضی ظہور ہے۔ ہٹلر اس کا رسول ہے‘ اور ’’قومی مقاصد‘‘ اس رسول کا لایا ہوا مذہب ہے۔ ایک قوم پرست کی ذہنیت سے اگر کوئی مذہبی تصوّر مناسبت رکھتا ہے‘ تو وہ بس یہی ہے۔
مغربی نیشنل ازم کا انجام
یورپین اصول پر جب نیشنل ازم کی ترقی دی جائے گی‘ تو وہ بالآخر اسی مقام پر پہنچ کر دم لے گی، جو لوگ ابھی بیچ کی منزلوں میں ہیں‘ اور اس حد تک نہیں پہنچے ہیں، ان کے نہ پہنچنے کی وجہ صرف یہ ہے‘ کہ ابھی تک ان کے جذبات قومیّت کو ویسی سخت ٹھیس نہیں لگی ہے‘ جیسی جرمنی کو گزشتہ جنگ عظیم میں لگی تھی۔ لیکن یقین رکھیے کہ جب وہ نیشنل ازم کے راستہ پر گامزن ہوئے ہیں‘ تو ان کی آخری منزلِ مقصود بہرحال وہی کمال درجہ کی جاہلی عصبیت ہے‘ جو خدا اور مذہب تک کو قومی بنائے بغیر مطمئن نہیں ہوتی۔ یہ نیشنل ازم کی فطرت کا تقاضا ہے۔ نیشنل ازم اختیار کرکے اس کے فطری تقاضے سے کون بچ سکتا ہے؟ غور کیجئے، آخر وہ کیا چیز ہے‘ جو قوم پرستانہ طرزِفکر اختیار کرتے ہی ایک مصری نیشنلسٹ کا رخ خود بخود عہد ِفراعنہ کی طرف پھیر دیتی ہے؟ جو ایرانی کو شاہنامے کی افسانوی شخصیتوں کا گرویدہ بنا دیتی ہے؟ جو ہندستانی کو ’’پراچین سمے‘‘ کی طرف کھینچ لے جاتی ہے ا ور گنگ وجمن کی تقدیس کے ترانے اس کی زبان پر لاتی ہے؟ جو ترک کو مجبور کرتی ہے‘ کہ اپنی زبان، اپنے ادب اور اپنی تمدّنی زندگی کے ا یک ایک شعبے سے عربی اثرات کو خارج کرے اور ہر معاملہ میں عہد ِجاہلیت کی تُرکی روایات کی طرف رجوع کرے؟ اس کی نفسیاتی توجیہ بجز اس کے آپ اور کیا کر سکتے ہیں‘ کہ نیشنل ازم جس دل و دماغ میں پیدا ہوتا ہے اس کی تمام دل چسپیاں قومیّت کے دائرے میں محدود ہو جاتی ہیں‘ اور اس دائرے سے باہر کی ہر چیز سے اس کا رخ پھر جاتا ہے۔
میرے سامنے اس وقت انقرہ کے ڈائریکٹر جنرل آف پریس کا ایک مضمون رکھا ہے‘ جس کا عنوان ہے ’’ترکی عورت تاریخ میں‘‘ اس کے ابتدائی فقرے حسب ذیل ہیں:
قبل اس کے کہ ہم اس بلند اور معزز رتبے سے بحث کریں جو ہماری نوخیز جمہوریت نے ترکی عورتوں کو دینا پسند کیا ہے، ہمیں ایک نظریہ دیکھ لینا چاہیے‘ کہ تاریخ کے مسلسل ادوار میں ترکی عورت کی زندگی کیسی رہی ہے۔ اس مختصر تبصرے سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ آج ترکی مردوں اور عورتوں میں جو مساوات پائی جاتی ہے وہ ہماری قومی تاریخ میں نئی چیز نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو گا کہ جب ترکی خاندان اور ترقی نظام تمدّن بیرونی اثرات سے آزاد تھا، ترکی عورت ہمیشہ ہر تمدّنی تحریک میں حصہ لیتی تھی۔ ہمارے مشہور ماہر اجتماعیات ضیاء گوک الپ نے اس مضمون کو خوب تحقیق کی ہے،ا ور ا س کی تحقیقات سے ان بہت سے حقوق کا پتہ چلا ہے‘ جو ترکی عورت کو پرانی ترکی تہذیب (ترکی کے عہد جاہلیت)میں حاصل تھے۔ ان شہادتوںسے یہ بات صاف ہو جاتی ہے‘ کہ قدیم ترکی عورت اور آج کی ترکی عورت کے درمیان تمدّنی اور سیاسی اٹھان (emancipation) کے اعتبار سے گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔
ان فقروںکو دیکھیے۔ قوم پرست ترک کس طرح اپنی تاریخ کے اس دور سے منہ موڑتا ہے‘ جس میں اس کی قوم اس ’’بیرونی اثر‘‘میں آگئی تھی، اور کس طرح اپنے حال کے لیے اپنے اس ماضی کو ’’اسوئہ حسنہ‘‘ بناتا ہے‘ جب کہ اس کی قوم اس بیرونی اثر سے آزاد تھی۔ یوں یہ نیشنل ازم آدمی کے دماغ کو اسلام سے جاہلیت کی طرف پھیر دیتا ہے۔ گوک الپ ضیاء جو دراصل تمدّنی اور تہذیبی اعتبار سے ترکی جدید کا بانی ہے، اور جس کے بنائے ہوئے راستے پر آج ترکی قوم چل رہی ہے، وہ خالدہ ادیب کے الفاظ میں :
ایک نئی ترکی بنانا چاہتا تھا جو عثمانی ترکوں اور ان کے تورانی اسلاف کے درمیان کی خلیج کو پر کر سکے … وہ اس مواد کی بنا پر تمدّنی اصلاح کرنا چاہتا تھا جو اس نے ترکوں کے زمانہ قبل اسلام کی سیاسی و تمدّنی تنظیمات کے متعلق فراہم کیا تھا۔ اسے یقین تھا‘ کہ عربوں کا قائم کیا ہوا اسلام ہمارے مناسب حال نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم اپنے ’’عہد جاہلیت‘‘ کی طرف رجعت نہ کریں تو پھر ہمیں ایک مذہبی اصلاح (reformation) کی ضرورت ہے‘ جو ہماری طبائع سے مناسبت رکھتی ہو۔
یہ الفاظ کسی مغربی پروپیگنڈسٹ کے نہیں ہیں‘ جو ترکوں کو بدنام کرنا چاہتا ہو، بلکہ خود ایک قوم پرست ترک عورت کے ہیں۔ ان میں آپ صاف طور پر یہ منظر دیکھ سکتے ہیں‘ کہ مسلمان کے دل و دماغ میں جب ایک راستہ سے قوم پرستی گھسنی شروع ہوتی ہے‘ تو کس طرح دوسرے راستے سے اسلام نکلنے لگتا ہے۔ا ور یہ چیز کچھ بے چارے ترکوں ہی کے ساتھ مخصوص نہیںہے۔ جس مسلمان نے بھی نیشنل ازم کے شیطان سے بیعت کی ہے،اسلام کے فرشتوں سے اس کا رخصتی مصافحہ ہو گیا ہے۔ ابھی حال میں ہندستان کے ایک ’’مسلمان‘‘ شاعر نے ترانہ وطن کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے، جس میں وہ اپنی بھارت ماتا کو خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے
جس کا پانی ہے امرت وہ مخزن ہے تو
جس کے دانے ہیںبجلی وہ خرمن ہے تو
جس کے کنکر ہیں ہیرے وہ معدن ہے تو
جس سے جنت ہے دنیا وہ گلشن ہے تو
دیویوں دیوتاؤں کا مسکن ہے تو
تجھ کو سجدوں سے کعبہ بنا دیں گے ہم
آخری بیت کو پڑھ کر اس امر میں کیا شبہ باقی رہ جاتا ہے‘ کہ نیشنل ازم اور اسلام، دو بالکل الگ اور قطعی متضاد ذہنیتوں سے تعلق رکھتے ہیں‘ اور ان دونوں کا ایک جگہ جمع ہو جانا محالات سے ہے۔ درحقیقت نیشنل ازم خود ایک مذہب ہے‘ جو شرائع الٰہیہ کا مخالف ہے۔ بلکہ عملی حیثیت سے بھی وہ انسان کی زندگی کے ان تمام پہلوؤں پر ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے‘ جنہیں شرائع الٰہیہ اپنی گرفت میں لینا چاہتی ہیں۔{ FR 2987 }اب ایک مرد عاقل کے لیے صرف یہی ایک صورت باقی ہے‘ کہ دل و دماغ اور جسم و جان کا مطالبہ کرنے والے ان دونوں مدعیوں میں سے کسی ایک کو پسند کرکے اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دے اور جب ایک کی آغوش میں چلا جائے‘ تو دوسرے کا نام تک نہ لے۔
دنیا نیشنل ازم کی لعنت میںکیوں مبتلا ہے؟
اس میں شک نہیں کہ موجودہ زمانہ میں آزادی اور ترقی اور وقار و شرف حاصل کرنے کا ایک ہی مجرّب نسخہ دنیا کی قوموں کو معلوم ہے، اور وہ یہی نیشنل ازم کا نسخہ ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے‘ کہ ہر وہ قوم جو اُبھرنا چاہتی ہے، اس نسخہ کی طرف دوڑنے لگتی ہے۔ مگر قبل اس کے کہ دوسروں کو اس کی طرف دوڑتے دیکھ کر ہم بھی اسی کی طرف دوڑ جائیں، ہمیں سوچنا چاہیے‘ کہ دنیا کی یہ حالت کیوں ہے۔ دنیا اس حالت میں صرف اس لیے مبتلا ہے‘ کہ انفرادی‘ اور اجتماعی خواہشات کو ضابطہ میں لانے والی، حوصلوں اور تمناؤں کو جائز حدود میں رکھنے والی، سعی و عمل کی قوتوں کو سیدھا راستہ دکھانے و الی، اور آزادی، ترقی اور عزت و وقار کے حصول کا صحیح طریقہ بتانے والی کوئی تعلیم حکمت و اخلاق دنیا کے پاس نہیں ہے۔ اسی چیز نے قوموں کو بھٹکا دیا ہے۔ یہی محرومی اور یہی فقدان ہے‘ جس نے قوموں کو جاہلیت اور ظلم و عدوان کی طرف دھکیل دیا ہے۔ خود ہمارے اپنے ملک کے ہندو اور سکھ اور پارسی وغیرہ بھی جس وجہ سے مغرب کے قوم پرستانہ خیالات قبول کر رہے ہیں، وہ یہی ہے‘ کہ یہ بے چارے اس ہدایت و رہنمائی سے محروم ہیں۔ اس مصیبت کا علاج اور گم راہی کی اصلاح اگر کہیں ہے‘ تو وہ شرائع الٰہیہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ دراصل یہ مسلمان کا کام تھا‘ کہ وہ آگے بڑھ کر اس عصبیت ِجاہلیہ کی جڑیں کاٹتا جو اکاس بیل کی طرح دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، اور دنیا کی ہر قوم کو بتاتا کہ تمہارے لیے نہ صرف آزادی، ترقی اور وقار و شرف کا، بلکہ اس کے ساتھ سلامتی، امن اور حقیقی خوش حالی کا راستہ بھی وہی ہے‘ جو خدا کی طرف سے اس کے رسول لائے ہیں،نہ کہ وہ جو شیطان کی طرف سے فتنہ و شر کے امام تمہیں دکھا رہے ہیں۔ لیکن یہ دور حاضر کا سب سے زیادہ دردناک المیہ ہے‘ کہ دنیا کو تباہی اور گم راہی سے بچانے والی وہ ایک ہی جماعت، مسلمان،جس کو اللہ نے زمین پر انبیاء علیہم السلام کا مشن قائم کرنے اور پھیلانے پر مامور کیا تھا،ا پنے فرائض منصبی کو فراموش کر بیٹھی ہے،اور اب بجائے اس کے کہ وہ ہدایت کی شمع لے کر تاریکیوں میں بھٹکنے والی دنیا کو روشنی دکھائے،و ہ خود ان بھٹکنے والوں ہی کے پیچھے پیچھے چلنے پر آمادہ ہو رہی ہے۔ افسوس اس بیمارستان میں ایک ہی ڈاکٹر تھا‘ اور وہ بھی بیماروں میں شامل ہوا جاتا ہے۔
مژدہ باد اے مرگ عیسیٰ آپ ہی بیمار ہے
نیشنل ازم ہندوستان میں
پچھلے صفحات میں یہ بات اصولی حیثیت سے ہم ثابت کر چکے ہیں‘ کہ اجتماعیات میں نیشنل ازم کا نقطۂ نظر اسلام کے نقطۂ نظر سے کلّی طور پر متناقض ہے۔لہٰذا مسلمان اگر اس شخص کا نام ہے‘ جو زندگی کے ہر معاملہ میں اسلامی نقطۂ نظر رکھتا ہو، اور اگر اس کے سوا لفظ مسلمان کا کوئی دوسرا مفہوم نہیں ہے، تو یہ بات آپ سے آپ لازم ہو جاتی ہے‘ کہ مسلمان جہاں اور جس حال میں بھی ہو، اسے بھی نیشنل ازم کی مخالفت کرنی چاہیے۔ یہ اصول طے ہو جانے کے بعد درحقیقت اس سوال میں کوئی خاص اہمیت باقی نہیںرہتی کہ کسی خاص ملک کی تحریک قوم پرستی میں مسلمان کا روّیہ کیا ہو۔ لیکن جب ہم سے یہ کہا جاتا ہے‘ کہ ہندوستان میں نیشنل ازم کو فروغ دینا چاہیے، اور یہ کہ اسی چیز کے فروغ پانے پر اس ملک کی نجات مضمر ہے، تو ضرورت محسوس ہوتی ہے‘ کہ مخصوص طو رپر ہندستان کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ دیکھیں کہ یہاں نیشنل ازم کے فروغ پانے کا نتیجہ کیا ہے، یا کیا ہو سکتا ہے، اور یہ کہ آیا فی الواقع ہندستان کی نجات اسی طریقہ میں ہے؟
نیشنل ازم کے لوازم
کسی ملک میں نیشنل ازم پیدا ہونے کے لیے ضروری ہے‘ کہ وہاں پہلے سے ایک قومیّت موجود ہو‘ اور اگر وہ پہلے سے موجود نہیں ہے‘ تو اب وجود میں آئے۔ کیونکہ جہاں قومیّت ہی سرے سے موجود نہ ہو وہاں قوم پرستی کسی طرح پیدا نہیں ہو سکتی۔ قوم پرستی تو قومیّت کے اشتعال ہی کا دوسرا نام ہے۔ جب شعلہ ہی موجود نہ ہو گا‘ تو اشتعال کیسے ہو گا۔
اب دیکھنا چاہیے‘ کہ قوم پرستی کا شعلہ بھڑکنے کے لیے کس قسم کی قومیّت درکار ہے۔قومیّت کی ایک قسم وہ ہے‘ جسے سیاسی قومیّت (poltical nationality) کہتے ہیں، یعنی جو لوگ ایک سیاسی نظام سے وابستہ ہوں وہ محض اس وحدت سیاسی کے لحاظ سے ایک قوم سمجھے جاتے ہیں۔ اس نوع کی قومیّت کے لیے یہ ضروری نہیں ہے‘ کہ جو لوگ اس میں شریک ہوں ان کے جذبات و حسّیات،ان کے خیالات و نظریات، ان کے اخلاقی خصائص، ان کی روایات، ان کی زبان اور لٹریچر اور ان کے طرز زندگی میں کسی قسم کی یکسانی پائی جائے۔ ان تمام حیثیات سے بالکل مختلف ہونے کے باوجود ان کی ایک سیاسی قومیّت ہوتی ہے‘ اور اس وقت تک رہتی ہے‘ جب تک کہ وہ ایک سیاسی نظام سے وابستہ رہیں۔ اگر ان کے مختلف گروہ آپس میں مختلف ہی نہیں‘ بلکہ مخالف بھی ہوں، حتیٰ کہ اگر ان کے مقاصد اور قومی حوصلے باہم متضاد ہوں‘ اور وہ ایک دوسرے کے خلاف عملاً جدوجہد کر رہے ہوں، تب بھی ان کی سیاسی قومیّت ایک ہی رہتی ہے۔ قومیّت کا لفظ ایسی وحدت کے لیے بولا ضرور جاتا ہے، مگر ظاہر ہے‘ کہ یہ وہ قومیّت نہیں ہے‘ جس کی بنیاد پر کہیں قوم پرستی پیدا ہو سکتی ہو۔
دوسری قسم کی قومیّت وہ ہے‘ جسے تہذیبی قومیّت (cultrual natioanlity) کہا جاتا ہے۔ یہ قومیّت صرف ان لوگوں میں پائی جاتی ہے‘ جن کا مذہب ایک ہو، جن کے خیالات و نظریات اور جذبات و حسیات یکساں ہوں۔ جن میں ایک ہی طرح کے اخلاقی اوصاف پائے جاتے ہوں۔ جو زندگی کے تمام اہم معاملات میں ایک مشترک زاویہ نگار رکھتے ہوں‘ اور اسی زاویہ نگاہ کے اثر سے ان کی زندگی کے تہذیبی و تمدّنی مظاہر میں بھی یک رنگی پیدا ہو گئی ہو۔ جو پسندیدگی و ناپسندیدگی اور حرمت و حلت اور تقدیس و استکراہ کے مشترک معیار رکھتے ہوں۔ جو ایک دوسرے کے احساسات کو سمجھتے ہوں۔ جو ایک دوسرے کی عادات و خصائل اور دلچسپیوں سے مانوس ہوں۔ جن میں آپس کی شادی بیاہ اور مشترک معاشرت کی وجہ سے خونی اور قلبی رشتے پیدا ہو گئے ہوں۔ جنہیں ایک ہی قسم کی تاریخی روایات حرکت میں لاسکتی ہوں۔ مختصر یہ کہ جو ذہنی، روحانی، اخلاقی اور تمدّنی و معاشرتی حیثیت سے ایک گروہ، ایک جماعت، ایک وحدت بن گئے ہوں۔ قوم پرستی اگر پیدا ہو سکتی ہے‘ تو صرف اسی قومیّت کی بنیاد پر ہو سکتی ہے۔ جن لوگوں میں یہ قومیّت پائی جاتی ہے صرف انہی کے درمیان ایک مشترک نیشنل ٹائپ (joint national type) اور ایک مشترک نیشنل آئیڈیا (joint national idea) کا نشوونما ہوتا ہے۔ اسی نیشنل ٹائپ کے عشق اور نیشنل آئیڈیا کے استحکام سے نیشنل ازم کا آغاز ہوتا ہے۔ یہی چیز آگے بڑھ کر وہ قومی خودی (national self) پیدا کر دیتی ہے‘ جس میں فرد اپنی انفرادی خودی کو جذب کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ پھر جب قومی خودی کے ارتقا میں کوئی واقعی یا خیالی چیز مانع ہوتی ہے‘ تو اس کو دفع کرنے کے لیے وہ جذبہ مشتعل ہوتا ہے‘ جس کا نام نیشنل ازم ہے۔
کیا ہندستان کی نجات نیشنل ازم میں ہے؟
اس تجزیہ کو سامنے رکھ کر ہندستان کے حالات پر نظر ڈالیے۔ کیا فی الواقع یہاں نیشنل ازم کی بنیاد موجود ہے؟ بلا شبہ سیاسی قومیّت یہاں ضرور پائی جاتی ہے، کیونکہ یہاں کے باشندے ایک سیاسی نظام کے تابع ہیں، ایک قسم کے قوانین ان کی تمدّنی و معاشی زندگی پر حکمران ہیں، اور ایک فولادی ڈھانچہ ان سب کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ مگر جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں محض سیاسی قومیّت، قوم پرستی پیدا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ یہ قومیّت آسٹریا ہنگری، برطانیہ و آئر لینڈ، سلطنت روس، سلطنت عثمانیہ، چیکوسلواکیا، یوگوسلاویا، اور بہت سی دوسری سلطنتوں میں بھی پائی جاتی تھی، اور اب بھی بکثرت ملکوں میں پائی جاتی ہے۔ مگر کہیں بھی اس نے نیشنل ازم پیدا نہیں کیا۔ آزادی کے جذبہ میں مشترک ہونا، یا مصائب و خطرات میں مشترک ہونا بھی نیشنل ازم کی پیدائش کے لیے ناکافی ہے۔ نیشنل ازم اگر پیدا ہو سکتا ہے‘ تو صرف تہذیبی قومیّت ہی سے پیدا ہو سکتا ہے‘ اور ہر وہ شخص جو آنکھیں رکھتا ہو اس حقیقت کو دیکھ سکتا ہے‘ کہ ہندستان کے باشندوں میں تہذیبی قومیّت موجود نہیں ہے۔
پھر جب امر واقعی یہ ہے‘ تو یہاں نیشنل ازم کا ذکر کرنا کیا معنی رکھتاہے؟ جہاں سرے سے ماں ہی نہیں ہے وہاں بچے کا ذکر کرنا ظاہر ہے‘ کہ نادانی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ جو لوگ اس ملک میں نیشنل ازم کو فروغ دینے کا خیال ظاہر کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے‘ کہ یہ بچہ تہذیبی قومیّت ہی کے بطن سے پیدا ہو سکتا ہے۔ا ور اس کے پیدا ہونے سے پہلے اس کی ماں کا پیدا ہونا ضروری ہے۔اس حقیقت کو جب وہ اچھی طرح جان لیں گے‘ تو انہیں اپنے دعوے میں ترمیم کرنی پڑے گی۔ قبل اس کے کہ وہ ہندستان میں نیشنل ازم کو فروغ دینے کا نام لیں، انہیں یہ کہنا پڑے گا کہ یہاں ہم ایک تہذیبی قومیّت پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہندستانی نیشنل ازم فروغ پا سکے۔
ہندستانی نیشنل ازم کس طرح پیدا ہو سکتا ہے؟
اچھا اب اس سوال پر غور کیجئے‘ کہ یہاںایک تہذیبی قومیّت کس طرح پیدا ہو سکتی ہے‘ اور اس کے امکانی نتائج کیا ہوں گے؟
جس ملک میں مختلف تہذیبی قومیّتیں پائی جاتی ہوں، وہاں ایک قومیّت کی پیدائش دو ہی صورتوں میں ممکن ہے:
(۱) ایک قوم کی تہذیب باقی سب قوموں کو فتح کرلے یا
(۲)سب کے اختلاط اور امتزاج سے ایک مشترک تہذیب پیدا ہو جائے۔
پہلی صورت یہاں خارج از بحث ہے، کیونکہ ہندستانی نیشنل ازم کے حامی اس کو اپنا نصب العین نہیں بنا سکتے۔ یہ چیز اگر نصب العین بن سکتی ہے‘ تو ’’ہندو نیشنل ازم‘‘ یا ’’مسلم نیشنل ازم‘‘۔{ FR 2988 }کے حامیوں کی بن سکتی ہے۔ رہے ہندستانی نیشنلسٹ تو ان کے درمیان اتفاق صرف دوسری صورت پر ہی ہو سکتا ہے، چنانچہ ان کے حلقوں میں اکثر اس مسئلہ پر بحث بھی ہوتی ہے‘ کہ اس ملک کی مختلف قوموں کے امتزاج سے کسی طرح ایک قومیّت پیدا کی جائے۔ لیکن ا س سلسلہ میں وہ ایسی طفلانہ باتیں کرتے ہیں‘ جن سے صاف معلوم ہوتا ہے‘ کہ نہ تو وہ تہذیبی قومیّت کے حقیقی مفہوم کو سمجھتے ہیں، نہ انہیں یہ خبر ہے‘ کہ اس قسم کی قومیّتوں کا امتزاج کس طرح کن قوانین کے تحت ہوتا ہے، اور نہ انہوں نے کبھی اس پہلو پر غور کیا ہے‘ کہ ایسے امتزاج سے کس شان کی قومیّت بنتی ہے۔وہ اسے بچوں کا کھیل سمجھتے ہیں‘ اور بچوں ہی کی طرح اس کھیل کو کھیلنا چاہتے ہیں۔
تہذیبی قومیّت دراصل نام ہے ایک قوم کے مزاج عقلی اور نظام اخلاقی کا۔ اوریہ چیز مصنوعی طور پر ایک دو دن میں نہیںبن جاتی، بلکہ صدیوں میںاس کا نشوونما فطری تدریج کے ساتھ ہوتا ہے۔ صد ہا برس تک جب کچھ لوگ نسلاًبعد نسل ایک قوم کے عقائد اور رسوم و عادات کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں،تب کہیںجا کر ان میں ایک مشترک روح پیدا ہوتی ہے،مشترک اخلاقی اوصاف مستحکم ہوتے ہیں، ایک مخصوص مزاج عقلی بنتا ہے، وہ روایات جڑ پکڑتی ہیںجن سے ان کے جذبات وحسیات (sentiments) وابستہ ہوتے ہیں،وہ لٹریچر پیدا ہوتا ہے‘ جو ان کے دل و دماغ کا ترجمان ہوتاہے‘ اور وہ ذہنی و روحانی یک رنگی رونما ہوتی ہے‘ جس سے ان میںباہمی انس اور تفاہم (mutual intelligibility) پیدا ہوتا ہے۔ پھر جب ان گہرے اور مضبوط اثرات کے تحت کسی گروہ کی مستقل قومیّت بن جاتی ہے، یا دوسرے الفاظ میںجب اس کا اخلاقی اور عقلی مزاج مستحکم ہو جاتا ہے، تو اس کے لیے کسی دوسرے گروہ کے ساتھ خلط ملط ہو کر کسی دوسری قومیّت میں تبدیل ہوجانا تقریبا محال ہوتا ہے۔بسا اوقات ایسے گروہ سیکڑوں برس تک ایک ہی آب و ہوا اور ایک ہی سر زمین میں پہلو بہ پہلو رہتے ہیں، مگر کسی قسم کا امتزاج واقع نہیںہوتا۔ یورپ میں جرمن، مگیار، پول، چیک، یہودی، سلافی اور ایسی دوسری قومیںمدتوں سے ایک جگہ زندگی بسر کر رہی ہیں مگر آج تک ان کے درمیان امتزاج پیدا نہیںہوا۔ انگریز اور آئرش صدیوں ایک ساتھ رہے مگر کسی طرح مل کر ایک نہ ہو سکے۔ کہیںکہیں ایسے گروہوں کی زبانیں بھی مشترک ہوتی ہیں۔ مگر زبان کے اشتراک سے دل و دماغ کا اشتراک رونما نہیں ہوتا۔الفاظ مشترک ہوتے ہیں مگر وہ ہر قوم کے دل میں جو جذبات و خیالات پیدا کرتے ہیں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔
یک جا بود و باش اور طویل مدت تک باہمی اختلاط سے مختلف تہذیبی گروہوںکا مل کر ایک صحیح قسم کی مکمل اور متحدہ قومیّت پیدا کرنا اس صورت میں ممکن ہے‘ اور صرف اسی صورت میں وہ اعلیٰ درجہ کے تمدّنی نتائج پیدا کر سکتا ہے، جب کہ ایسے گروہوں کے نظام اخلاقی اور مزاج عقلی میںکوئی بڑا اور اہم تفاوت نہ ہو، بلکہ وہ بڑی حد تک متشابہ الاخلاق ہوں۔ اس صورت میں ان کی الگ الگ خصوصیات اور ان کے جداگانہ قومی تشخصات مٹ جاتے ہیں‘ اور ایک متحد نظام اخلاق بن جاتا ہے۔ مگر یہ عمل بھی اس طرح نہیں ہوتا جیسے ہتھیلی پر سرسوں جمائی جائے، بلکہ مدت ہائے دراز تک کسرو انکسار ہوتا رہتا ہے۔ تب کہیں مختلف اجزا میں گھل مل کر ایک مزاج پیدا ہوتا ہے۔ انگلستان میں برائٹن، سیکسن اور نارمنڈی قوموں نے ایک قوم بنتے بنتے سینکڑوںبرس لیے ہیں۔ فرانس میں دس صدیوںسے یہ عمل جاری ہے‘ اور اب تک قومیّت کا خمیر پوری طرح تیار نہیں ہو سکا ہے۔ اٹلی میں اس وقت تک کوئی قومی روح پیدا نہیںہو سکی ہے۔ حالانکہ وہ مختلف عناصر جن سے اطالوی قومیّت کی ترکیب ہوئی ہے اخلاقی حیثیت سے باہم کوئی بیّن تفاوت نہیں رکھتے۔ ممالک متحدہ امریکہ میں ایک قومیّت صرف ان عناصر کے امتزاج سے بن سکی ہے‘ جو بہت کچھ متشابہ الاخلاق تھے‘ اور جن کو مشترک اغراض نے مجبور کر دیا تھا‘ کہ اپنے خفیف سے اختلاف و تفاوت کو جلدی سے دفن کرکے یکجان ہو جائیں۔ تاہم اس عمل نے بھی پایۂ تکمیل کو پہنچتے پہنچتے ڈھائی تین سو برس لیے ہیں۔
متشابہ الاخلاق قوموں کے امتزاج سے ایک صحیح اور عمدہ قسم کی قومیّت بننا صرف اس لیے ممکن ہوتا ہے‘ کہ انہیں اس عمل امتزاج کے دوران میں اپنے عقائد و نظریات اور اپنے اخلاقی معیاروں کو طلاق دینے اور اپنے اعلیٰ درجہ کے اخلاقی اوصاف کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ یہ چیزیں ان کے درمیان پہلے ہی سے مشترک ہوتی ہیں۔ صرف روایات کے ردّو بدل اور جذبات و حیات اور مقاصد و اغراض کی جدید تنصیب (readjustment) سے ہی ان کی نئی قومیّت بن جاتی ہے۔بخلاف اس کے جہاں مختلف الاخلاق قوموں میں کسی مصنوعی دباؤ، کسی جعلی کوشش اور بعض ادنیٰ درجہ کے محرکات سے امتزاج واقع ہوتا ہے وہاں ایک نہایت ذلیل قوم کی قومیّت پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں ان کے عقائد کی جڑیں ہل جاتی ہیں، ان کے اعلیٰ درجہ کے اخلاقی خصائص (جو ان کے امتیازی اوصاف تھے‘ اور جن کی موجودگی میں امتزاج ممکن نہ تھا) مٹ جاتے ہیں، ان کے حسیّات ملی (جن پر ان کی قومیّت کی اساس قائم تھی) فنا ہو جاتے ہیں، ان میں سے ہر قوم کو اپنے اپنے معیارات فضل و شرف بدلنے پڑتے ہیں، اور ان کی نئی قومیّت ان میں سے ہر ایک کے رذائل اخلاق کا مجموعہ بن کر رہ جاتی ہے۔ اس نوعیت کا امتزاج قوموں کے نظام اخلاق کو درہم برہم کر دیتا ہے‘ اور نیا نظام اخلاق بننے کے لیے ایک طویل مدت درکار ہوتی ہے۔ اپنی اپنی سابق روایات سے ان کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے، اور نئی روایات بننے میں بہت دیر لگتی ہے۔اپنے اپنے نیشنل ٹائپ کو وہ خود مسمار کر دیتے ہیں‘ اور نیا ٹائپ ڈھلنے کے لیے بڑا وقت لیتا ہے۔ اس خطرناک حالت میں جو لوگ مبتلا ہو جاتے ہیںان کی سیرت میں کوئی مضبوطی نہیںہوتی۔ وہ دنیٔ الاخلاق، کم ظرف، تنگ حوصلہ، چھچھورے، متلون اور بے اصول ہوتے ہیں۔ ان کی حالت اس پتے کی سی ہوتی ہے‘ جو درخت سے ٹوٹ کر میدان میںجا پڑا ہو‘ اور ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ اڑتا پھرتا ہو، کہیں اس کو قرار نہ ہو۔ براذیل (جنوبی امریکہ) میں مختلف الاخلاق قوموں کے اختلاط و امتزاج کا حال جن لوگوں نے دیکھا ہے وہ گواہی دیتے ہیں‘ کہ یہ بلا تمام ان قوموں کے محاسن کو یکساں طور پر برباد کر رہی ہے‘ جو اس کے زیرِ اثر آگئی ہیں، اور اس کی بدولت وہاں عقلی اور جسمانی حیثیت سے نہایت گھٹیا درجہ کی نسل پیدا ہو رہی ہے۔
ہندستان میں جو تہذیبی قومیّتیںپائی جاتی ہیں انہیں کوئی ایسا شخص متشابہ الاخلاق نہیں کہہ سکتاجو اجتماعیات میںکچھ بھی بصیرت رکھتا ہو، اور جو سیاسی خواہشات سے قطع نظر کرکے محض حقائقِ نفس الامری کی بنا پر رائے قائم کرتا ہو۔ ان قوموں کے درمیان اس سے زیادہ گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں جتنے یورپ کی مختلف تہذیبی قومیّتوں کے درمیان موجود ہیں۔ یہاں عقائد میں بعد المشرقین ہے۔اصولِ تہذیب ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ نظام اخلاق میں بیّن تفاوت ہے۔ روایات کے سر چشمے قطعی طور پر الگ الگ ہیں۔ جذبات و حسیات باہم متناقض ہیں۔ اور ایک کا نیشنل ٹائپ اپنے خط و خال میں دوسرے کے نیشنل ٹائپ سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا۔ یہاں محض سیاسی و معاشی اغراض کی خاطر ان مختلف قومیّتوں کو مٹا کر ایک ممزوج و مخلوط قومیّت پیدا کرنے کی کوشش لامحالہ وہی نتیجہ پیدا کرے گی جس کی طرف ہم نے پہلے اشارہ کیا ہے۔بد قسمتی سے ڈیڑھ سو سال کے انگریزی اقتدار نے ان قوموں کو پہلے ہی اخلاقی انحطاط میں مبتلا کر دیا ہے۔غلامی کا گُھن ان کے جوہر شرافت کو پہلے ہی کھا چکا ہے۔ان کی سیرتیں کمزور ہو چکی ہیں۔ ان کے عقائد جڑوں سے ہل چکے ہیں۔ ان کا تعلق اپنی ر وایات سے بہت کچھ ٹوٹ گیا ہے۔ان کے نیشنل ٹائپ مضحمل ہو گئے ہیں۔ ان کا معیار اخلاق پست ہو گیا ہے۔ ان کے اخلاقی خصائص میں استحکام باقی نہیں رہا۔ اور نئی نسلوں میں اس تنزل و انحطاط کے نہایت مکروہ نتائج دیکھے جا رہے ہیں۔ اس حالت میں قوم سازی کا عمل جاری کرنے کے لیے جب ان کی رہی سہی تہذیبی بنیادوں پر ضرب لگائی جائے گی‘ تو یقین رکھیے کہ پورے ملک کا نظام اخلاق درہم برہم ہو جائے گا‘ اور اس کے نتائج نہایت ہولناک ہوں گے۔
کیا ہندستان کا کوئی بہی خواہ یہاں نیشنل ازم کا خواہش مند ہو سکتا ہے؟
وہ محض طفلانہ خام خیالی ہے‘ جس کی بنا پر اس ملک کے سیاسی لیڈر بغیر سوچے سمجھے رائے قائم کر لیتے ہیں‘ کہ اجنبی طاقت کے تسلّط سے نجات حاصل کرنے کے لیے یہاں نیشنل ازم پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اور نیشنل ازم پیدا کرنے کے لیے ایک قومیّت بنا ڈالو۔ حالانکہ اگر ان لوگوں میں صحیح بصیرت موجود ہو‘ اور یہ مغرب کی ذہنی غلامی سے آزاد ہو کر خود سوچنے سمجھنے کی کوشش کریں تو انہیں معلوم ہو جائے‘ کہ یہ راستہ ہندستان کی نجات کا نہیں، اس کی تباہی کا ہے۔
اولاً اس راستے سے آزادی حاصل کرنا درحقیقت نہایت دیر طلب کام ہے۔ سینکڑوں ہزاروں برس کی روایات پر جو تہذیبی قومیّتیں قائم ہیں ان کا مٹنا، ان کی جگہ ایک نئی قومیّت کا وجود میں آنا، اور پھر اس قومیّت کا مستحکم اور مشتعل ہو کر نیشنل ازم کی حد تک پہنچنا کھیل نہیں ہے۔ا س کے لیے بہرحال ایک طویل مدت درکار ہے، اور اگر آزادی کا حصول اسی پر موقوف ہے‘ تو ہندستان کو کم از کم ابھی دو تین نسلوں تک اس کا انتظار کرنا پڑے گا۔
ثانیاً اگر اس راستے سے آزادی حاصل ہو بھی جائے‘ تو جیسا کہ ہم اوپر لکھ چکے ہیں، اس میں خطرہ یہ ہے‘ کہ آخر کار تمام ملک اخلاقی انحطاط کے ہاویہ میں گر جائے گا۔
ثالثاً یہ ایک یقینی امر ہے‘ کہ جن قوموںکو اپنی انفرادیت سے کچھ بھی لگاؤباقی ہے وہ اس نوعیت کی قوم سازی کے خلاف پوری جدوجہد کریں گی، اور اس کش مکش میں آزادیٔ وطن کے لیے کوئی متحدہ کوشش نہ کی جا سکے گی۔لہٰذا اجنبی تسلّط سے نجات حاصل کرنے کے لیے شاید یہ دور کا راستہ بھی نہیں ہے، کجا کہ قریب کا راستہ ہو، اگر اس راستہ کو اختیار کرنے پر یوں ہی اصرار کیا جاتا رہا تو کچھ بعید نہیں کہ سیاسی آزادی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر ہو ہی نہ سکے۔
ان وجوہ سے میرے نزدیک وہ لوگ سخت نادان ہیں‘ جو محض مغربی قوموں کی تقلید میں یہ سمجھے بیٹھے ہیں‘ کہ ملکی آزادی کے لیے بس نیشنل ازم ہی ایک کار گر آلہ ہے۔ میں پہلے بھی بار ہا کہہ چکا ہوں‘ اور اب پھر کہتا ہوں کہ ہندستان کی آزادی اور سیاسی و معاشی ترقی کے لیے سرے سے قومی وحدت اور نیشنل ازم کی حاجت ہی نہیںہے۔ جہاں مختلف تہذیبی قومیّتیں موجود ہوں وہاں قومی وحدت قائم کرنے کی کوشش کرنا نہ صرف یہ کہ غیرضروری ہے، نہ صرف یہ کہ اصولاً غلط ہے، بلکہ نتائج کے اعتبار سے بھی مفید ہونے کے بجائے الٹا نقصان دہ ہے۔ ایسی جگہ وحدت نہیں‘ بلکہ صرف وفاق کے اصول (federal principles) ہی چل سکتے ہیں۔ ہر قوم کی مستقل حیثیت تسلیم کی جائے‘ اور صرف مشترک وطنی اغراض کی حد تک تمام قوموں کے درمیان اشتراکِ عمل(joint action)کامعاہدہ ہو جائے۔ بس یہی ایک صورت ہے‘ جس سے ملک کی تمام جماعتوں میں اپنی انفرادیت کے بقاء و تحفظ کا اطمینان پیداہو سکتا ہے، اور یہی چیز ملک کی تمام قوتوں کو سیاسی ترقی کی جدوجہد میں ایک محاذ جنگ پر مجتمع کر سکتی ہے۔
فرنگی لباس
اب مجھے چند الفاظ مولانا سندھی کے اس آخری فقرے کے متعلق بھی عرض کرنے ہیںجس میں انہوں نے نِکّر اور پتلون اور ہیٹ کے استعمال کا مشورہ دیا ہے۔
یہ مشرقی قوم پرست بھی کچھ عجیب قسم کی مخلوق ہیں۔ ایک طرف یہ بڑے زور و شور کے ساتھ قوم پرستی کا پرچار کرتے ہیں، دوسری طرف انہیں غیر قوم اور غیر ملک کا لباس اور تمدّن اختیار کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ اور اس پر بھی بس نہیں، یہی اس اجنبی لباس و تمدّن کو اپنی قوم میں رواج دینے کی اس طرح کوشش کرتے ہیںکہ گویا یہ بھی قوم پرستی کے پروگرام کا کوئی حصہ ہے۔ حتیٰ کہ جہاں ان کا بس چلتا ہے وہاں یہ زبردستی اس کو لوگوں کے سر منڈھنے میں بھی دریغ نہیں کرتے۔ ہندوستان، ایران، مصر، ترکی ہر جگہ ان حضرات کی یہی روش ہے۔ حالانکہ قوم پرستی، اگر اس لفظ کے مفہوم میں قومی غیرت کا بھی کچھ حصہ ہو، اس بات کی فطری طورپر متقاضی ہے‘ کہ آدمی خود اپنی قوم کے لباس اور طرز تمدّن پر قائم رہے، اسی میں عزت اور شرف محسوس کرے، اور اسی پر فخر کرنا سیکھیے۔ جہاں سرے سے یہ چیز بالکل ہی مفقود ہے وہاںقوم پرستی خدا جانے کہاں سے آجاتی ہے؟ غیرتِ اسلامی کا فقدان اور قوم پرستی، دونوںصریح طورپر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ مگر ہمارے مشرقی قوم پرست اضداد کو جمع کرنے میںکمال رکھتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے‘ کہ خیالات اور اعمال میں تناقض سے محفوظ رہنے کے لیے ذہن سلیم اور نظرِسدید درکار ہے، اور یہ چیز اگر حاصل ہو تو آدمی فطرت کی سیدھی صاف راہ چھوڑ کر قوم پرستی ہی کیوں اختیار کر لے؟
اسلام اس معاملہ میں بھی ان حضرات کا ساتھ دینے سے انکار کرتا ہے۔ زندگی کے ہر معاملہ میں سیدھا صاف، معقول اور فطری راستہ جو ہو سکتا ہے اسی کا نام اسلام ہے‘ اور وہ جس طرح قومیّت کے مبالغے اور اس کی افراط (یعنی قوم پرستی) کا ساتھ نہیں دیتا اسی طرح کسی ایسی چیز کا ساتھ بھی نہیں دیتا جو قومیّت کی جائز فطری حد بندیوںکو توڑنے والی، اور قوموں کی انفرادیت (Individuality) یا ان کے امتیازی خصائص کو مٹانے اور ان کے اندر رذائلِ اخلاق پیدا کرنے و الی ہو۔
قرآن مجید ہمیںیہ بتاتاہے‘ کہ انسان اگرچہ سب ایک ہی اصل سے ہیںمگر اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان دو قسم کے امتیاز رکھے ہیں۔ ایک عورت اور مرد کا امتیاز، دوسری نسب اور قبیلہ اور قومیّت کا امتیاز۔
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۰ۭ الحجرات 13:49
لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔
وَاَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰىo النجم 45:53
اور اللہ نے مرد اور عورت دو صنفیں پیدا کیں۔
یہ دونوں قسم کے امتیازات انسانی تمدّن اور اجتماعی زندگی کی بنیاد ہیں۔ اور فطرت الٰہی کا تقاضا یہ ہے‘ کہ ان کو صحیح حدود کے ساتھ باقی رکھا جائے۔ عورت اور ہر مرد کا امتیاز اس لیے ہے‘ کہ ان کے درمیان نفسیاتی کشش ہو، لہٰذا ضروری ہوا کہ تمدّن و معاشرت میں دونوں کے اوصاف امتیازی پوری طرح محفوظ رکھے جائیں۔ اور قوموں کا امتیاز اس لیے ہے‘ کہ تمدّنی اغراض کے لیے انسانوں کے ایسے اجتماعی دائرے اور حلقے بن سکیں جن کے درمیان آسانی کے ساتھ باہمی تعاون ہو سکے۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ ہرگروہ یا ہر تمدّنی و اجتماعی حلقے کے کچھ امتیازی اوصاف ہوں جن کے ذریعہ سے ایک حلقہ کے آدمی ایک دوسرے کو پہچان سکیں، باہم مانوس ہوں، ایک دوسرے کو سمجھ سکیں، اور دوسرے حلقوں کے آدمیوں میں فرق کر سکیں۔ اس قسم کے امتیازی اوصاف ظاہر ہے‘ کہ زبان، لباس، طرزِ زندگی، اور شان تمدّن ہی ہو سکتے ہیں۔ پس یہ عین فطرت کا تقاضا ہے‘ کہ ان کی حفاظت کی جائے۔
اسی بنا پر اسلام میں تشبّہ کی ممانعت کی گئی ہے۔ حدیث میں آتا ہے‘ کہ نبی a نے لعنت فرمائی ہے اس عورت پر جو مرد کا سا لباس پہنے اور اس مرد پر جو عورت کا سا لباس پہنے۔{ FR 2989 } دوسری حدیث میں ہے‘ کہ آپؐ نے ملعون قرار دیا ان مردوںکو جو عورتوں کے مشابہ بنیں اور ان عورتوں کو جو مردوں کے مشابہ بنیں۔{ FR 2990 } یہ اس لیے کہ عورت اور مرد کے درمیان جو نفسیاتی کشش اللہ نے رکھی ہے، یہ تشبہ اس کو دباتا اور گھٹاتا ہے۔ اور اسلام اس کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔اسی طرح قوموں کے لباس و تمدّن اور شعائر کو بھی مٹانا اور انہیں خلط ملط کرنا، اجتماعی مفاد و مصالح کے خلاف ہے۔لہٰذا اسلام اس کی بھی مخالفت کرتا ہے۔ قومی امتیاز کو جب فطری حدود سے بڑھا کر قوم پرستی بنایا جائے گا تو اسلام اس کے خلاف جہاد کرے گا،کیونکہ اس مادے سے جاہلانہ حمیت، ظالمانہ تعصب اور قیصریت کی تخلیق ہوتی ہے۔ لیکن اسلام کی دشمنی قوم پرستی سے ہے نہ کہ قومیّت سے، قوم پرستی کے برعکس قومیّت کو وہ برقرار رکھنا چاہتا ہے‘ اور اسے مٹانے کا بھی وہ ویسا ہی مخالف ہے جیسا کہ اس کو حد سے بڑھانے کا مخالف ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں جو متوسط اور متوازن روّیہ اسلام نے اختیار کیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل آثار بغور ملاحظہ فرمائیے:
(۱) ایک صحابی نے پوچھا کہ عصبیت کیا چیز ہے؟ کیا آدمی کا اپنی قوم سے محبت کرنا عصبیت ہے؟ رسول اللہ a نے فرمایا، ’’نہیں، عصبیت یہ ہے‘ کہ آدمی ظلم میںاپنی قوم کا ساتھ دے‘‘۔ (ابن ماجہ)
(۲) فرمایا ’’جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ اسی قوم میں شمار ہو گا‘‘۔
(ابو داؤد)
(۳) حضرت عمررضی اللہ عنہ نے آذربائجان کے گورنر عُتبہ بن فَرْقَد کو لکھا کہ کہ ’’خبردار اہلِ شرک (یعنی باشندگان آذربائجان) کے لباس اختیار نہ کرنا‘‘ (کتاب اللباس والزینۃ)
(۴) حضرت عمرؓ نے اپنے تمام گورنروں کو عام احکام دئیے تھے‘ کہ غیر مسلم باشندوں کو اہلِ عرب کے لباس اور وضع و ہیئت اختیار کرنے سے روکیں۔ حتیٰ کہ بعض علاقوں کے باشندوں سے صلح کرتے وقت باقاعدہ معاہدہ میں ایک مستقل دفعہ اس مضمون کی داخل کر دی گئی تھی‘ کہ تم ہمارے جیسے لباس نہ پہننا۔ (کتاب الخراج، امام ابو یوسف)
(۵) جو اہلِ عرب فوجی یا ملکی خدمات کے سلسلہ میں عراق و ایران وغیرہ ممالک میں مامور تھے، ان کو حضرت عمرؓ اور حضرت علی ؓ بار بار تاکید کرتے تھے‘ کہ اپنی زبان اور لہجہ کی حفاظت کریں‘ اور عجمی بولیاں نہ بولنے لگیں۔ (بیہقی)
ان روایات سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے‘ کہ اسلام جس بین الاقوامیت کا علم بردار ہے اس کا منشاء یہ ہرگز نہیں ہے‘ کہ قوموں کی امتیازی خصوصیات کو مٹا کر انہیں خلط ملط کر دیا جائے۔بلکہ وہ قوموں کو ان کی قومیّت اور خصوصیات کے ساتھ برقرار رکھ کر ان کے درمیان تہذیب و اخلاق اور عقائد و افکار کا ایک ایسا رشتہ پیدا کرنا چاہتا ہے‘ جس سے بین الاقوامی کشیدگیاں، رکاوٹیں، ظلم اور تعصبات دور ہو جائیں‘ اور ان کے درمیان تعاون و برادری کے تعلقات قائم ہوں۔
تشبہ کا ایک اور پہلو بھی ہے‘ جس کی بنا پر اسلام اس کا سخت مخالف ہے۔ اور وہ یہ ہے‘ کہ ایک قوم کے لوگ اپنی قومی خصوصیات کو صرف اسی وقت چھوڑتے ہیں جب ان کے اندر کوئی نفسی کمزوری اور اخلاقی ڈھیل پیدا ہو جاتی ہے۔ جو شخص دوسروں کا اثر قبول کر کے اپنا رنگ چھوڑ دے اور ان کے رنگ میں رنگ جائے، لامحالہ اس کے اندر تلوّن، چھچھورپن، سرعت ِانفعال اور خفیف الحرکتی کا مرض ضرور ہو گا۔ اگر اس کی روک تھام نہ کی جائے گی‘ تو یہ مرض ترقی کرے گا۔ اگر بکثرت لوگوں میں یہ پھیل گیا‘ تو ساری قوم نفسیاتی ضعف میں مبتلا ہو جائے گی۔اس کے اخلاق میں کوئی پختگی باقی نہ رہے گی۔ا س کے ذہن کی چولیں اتنی ڈھیلیں ہو جائیںگی کہ ان پر اخلاق اور خصائص کی مستحکم بنیادیں قائم ہی نہ ہو سکیں گی۔ لہٰذا اسلام کسی قوم کو بھی یہ اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہے‘ کہ وہ اپنے اندر اس نفسیاتی بیماری کی پرورش کرے۔ مسلمانوںہی کو نہیں، بلکہ جہاںاس کا بس چلتا ہے، وہ غیر مسلموں کو بھی اس سے بچانے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ وہ کسی انسان میںبھی اخلاقی کمزوری دیکھنا نہیں چاہتا۔
خصوصیت کے ساتھ مفتوح و مغلوب لوگوں میں یہ مرض زیادہ پھیلتا ہے۔ان کے اندر محض اخلاقی ضعف ہی نہیں ہوتا بلکہ درحقیقت وہ اپنی نگاہوں میں آپ ذلیل ہو جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو خود حقیر سمجھتے ہیں‘ اور اپنے حکمرانوںکی نقل اتار کر عزت اور فخر حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ عزت، شرافت، بزرگی، تہذیب، شائستگی، غرض جس چیز کا بھی وہ تصوّر کرتے ہیں اس کا مثالی نمونہ انہیں اپنے آقاؤں کی صورت ہی میں نظر آتا ہے۔ غلامی ان کے جوہر آدمیت کو اس طرح کھا جاتی ہے‘ کہ وہ علانیہ اپنی ذلت اور پستی کا مجسم اشتہار بننے پر آمادہ ہو جاتے ہیں‘ اور اس میں شرم محسوس کرنے کے بجائے فخر محسوس کرتے ہیں۔{ FR 2991 }اسلام جو انسان کو پستیوں سے اُٹھا کر بلندی کی طرف لے جانے آیا ہے۔ ایک لمحہ کے لیے بھی اس کو جائز نہیں رکھتا کہ کوئی انسانی گروہ ذلت نفس کے اس اسفل السافلین میں گر جائے‘ جس سے نیچے پستی کا کوئی اور درجہ ہے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے‘ کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں عجمی قومیں اسلامی حکومت کے زیر نگیں آئیں تو آپ نے ان کو سختی کے ساتھ اہلِ عرب کی نقّالی سے روکا۔ اسلامی جہاد کا مقصد ہی باطل ہو جاتا اگر ان قوموں میں غلامانہ خصائل پیدا ہونے دئیے جاتے۔ رسول اللہa نے عربوں کو اسلام کا پرچم اس لیے نہیں دیا تھا‘ کہ وہ قوموں کے آقا بنیں اور قومیںان کے ماتحت غلامی کی مشق بہم پہنچائیں۔
ان وجوہ سے اسلام اس بات کا مخالف ہے‘ کہ کوئی قوم دوسری قوم کا ہو بہو چربہ بننے کی کوشش کرے اور اس کے لباس و طرز معاشرت کی نقّالی کرنے لگے۔ رہا تہذیب و تمدّن کا وہ لین دین جو ایک دوسرے سے میل جول رکھنے والی قوموں میں فطری طور پر واقع ہوتا ہے‘ تو اسلام اس کو نہ صرف جائز رکھتا ہے‘ بلکہ فروغ دینا چاہتا ہے۔ وہ قوموںکے درمیان تعصبات کی ایسی دیواریں کھڑی کرنا نہیں چاہتا کہ اپنے تمدّن میں ایک دوسرے کی کوئی چیز سرے سے لیں ہی نہیں۔رسول اللہ a نے شامی جبہ پہنا جو یہودیوں کے لباس کا جزو تھا، چنانچہ حدیث میں ہے فتوضا وعلیہ جبۃ شامیۃ۔ آپؐ نے تنگ آستینوں والا رومی جُبّہ بھی پہنا ہے‘ جسے رومن کیتھولک عیسائی پہنتے تھے۔ نوشیروانی قبا بھی آپؐ کے استعمال میں رہی ہے‘ جسے حدیث میں جبۃ طیالسۃ کسروانیۃ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے برنس پہنی ہے‘ جو ایک قسم کی اونچی ٹوپی ہوتی تھی‘ اور عیسائی درویشوں کے لبا س کا جزو تھی۔ اس قسم کی متفرق چیزوںکا استعمال تشبہ سے بالکل مختلف چیز ہے۔ تشبہ یہ ہے‘ کہ آدمی کی پوری وضع قطع کسی دوسری قوم کی مانند ہو‘ اور اس کو دیکھ کر یہ تمیز کرنا مشکل ہو جائے‘ کہ وہ کس قوم سے تعلق رکھتا ہے۔ بخلاف اس کے جسے ہم ’’‘لین دین‘‘کے لفظ سے تعبیر کر رہے ہیں وہ یہ ہے‘ کہ ایک قوم دوسری قوم کی کوئی اچھی یا مناسب حال چیز لے کر اسے اپنے وضع قطع کا جُزو بنا لے، اور اس جُزو کے شامل ہونے پر بھی اس کی قومی وضع بحیثیت مجموعی قائم رہے ‘‘ ۔{ FR 2992 }
(ترجمان القرآن ۵۸ھ، ۱۹۳۹ء)
خ خ خ
باب ۱۸ : اسلامی قومیّت کا حقیقی مفہوم
زمانہ حال میں مسلمانوں کی جماعت کے لیے لفظ ’’قوم‘‘ کا استعمال کثرت کے ساتھ کیا گیا ہے‘ اور عموماً یہی اصطلاح ہماری اجتماعی حیثیت کو ظاہر کرنے کے لیے رائج ہو چکی ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے‘ اور بعض حلقوں کی طرف سے اس کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کی گئی ہے‘ کہ قرآن اور حدیث میں مسلمانوں کے لیے لفظ ’’قوم‘‘ (یا نیشن کے معنی میں کسی دوسرے لفظ کو) اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ میں مختصراً یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان الفاظ میں اصلی قباحت کیا ہے‘ جس کی وجہ سے اسلام میں ان سے پرہیز کیا گیا، اور وہ دوسرے الفاظ کون سے ہیں‘ جن کو قرآن و حدیث میں استعمال کیا گیا ہے۔یہ محض ایک علمی بحث نہیں ہے، بلکہ اس سے ہمارے ان بہت سے تصوّرات کی غلطی واضح ہو جاتی ہے‘ جن کی بدولت زندگی میں ہمارا روّیہ بنیادی طور پر غلط ہو کر رہ گیا ہے۔
لفظ ’’قوم‘‘ اور اس کا ہم معنی انگریزی لفظ(nation)، یہ دونوں دراصل جاہلیت کی اصطلاحیں ہیں۔ اہلِ جاہلیت نے ’’قومیّت‘‘ (nationality) کو کبھی خالص تہذیبی بنیاد (cultural basis) پر قائم نہیں کیا، نہ قدیم جاہلیت کے دور میں اور نہ جدید جاہلیت کے دور میں۔ ان کے دل و دماغ کے ریشوں میں نسلی اور روائتی علائق کی محبت کچھ اس طرح پلا دی گئی ہے‘ کہ وہ نسلی روابط اور تاریخی روایات کی وابستگی سے قومیّت کے تصوّر کو کبھی پاک نہ کر سکے۔ جس طرح قدیم عرب میں قوم کا لفظ عموماً ایک نسل یا ایک قبیلہ کے لوگوں پر بولا جاتا تھا اسی طرح آج بھی لفظ ’’نیشن‘‘ کے مفہوم میں مشترک جنسیت (common descent) کا تصوّر لازمی طورپر شامل ہے۔ اور یہ چیز چونکہ بنیادی طور پر اسلامی تصوّر اجتماع کے خلاف ہے،ا س وجہ سے قرآن میں لفظ قوم اور اس کے ہم معنی دوسرے عربی الفاظ مثلاً شعب وغیرہ کو مسلمانوں کی جماعت کے لیے اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ ایسی اصطلاح اُس جماعت کے لئے کیونکر استعمال کی جا سکتی تھی جس کے اجتماع کی اساس میں خون اور خاک اور رنگ اور اس نوع کی دوسری چیزوںکا قطعاً کوئی دخل نہ تھا، جس کی تالیف و ترکیب محض اصول اور مسلک کی بنیاد پر کی گئی تھی،ا ور جس کا آغاز ہی ہجرت اور قطعِ نسب اور ترکِ علائق مادّی سے ہوا تھا۔
قرآن نے جو لفظ مسلمانوں کی جماعت کے لیے استعمال کیا ہے وہ ’’حزب‘‘ہے جس کے معنی پارٹی کے ہیں۔ قومیں نسل و نسب کی بنیاد پر اٹھتی ہیں، اور پارٹیاں اصول و مسلک کی بنیاد پر۔ا س لحاظ سے مسلمان حقیقت میں قوم نہیں‘ بلکہ ایک پارٹی ہیں۔ کیونکہ ان کو تمام دنیا سے الگ، اور ایک دوسرے سے وابستہ صرف اس بنا پر کیا گیا ہے‘ کہ یہ ایک اصول اور مسلک کے معتقد اورپیرو ہیں۔ اور جن سے ان کا اصول و مسلک میں اشتراک نہیںوہ خواہ ان سے قریب ترین مادّی رشتے ہی کیوں نہ رکھتے ہوں،ان کے ساتھ ان کا کوئی میل نہیں ہے۔ قرآن روئے زمین کی اس پوری آبادی میں صرف دو ہی پارٹیاں دیکھتا ہے۔ ایک اللہ کی پارٹی (حزب اللہ)، دوسرے شیطان کی پارٹی (حزب الشیطان) شیطان کی پارٹی میں خواہ باہم اصول و مسلک کے اعتبار سے کتنے ہی اختلاف ہوں،قرآن ان سب کو ایک سمجھتا ہے، کیونکہ ان کا طریقِ فکر اور طریقِ عمل بہرحال اسلام نہیںہے‘ اور جزئی اختلافات کے باوجود بہرحال وہ سب شیطان کے ا تباع پر متفق ہیں۔ قرآن کہتا ہے:
اِسْتَحْوَذَ عَلَيْہِمُ الشَّيْطٰنُ فَاَنْسٰـىہُمْ ذِكْرَ اللہِ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ الشَّيْطٰنِ۰ۭ المجادلہ 58:19
شیطان ان پر غالب آگیا اور اس نے خدا سے انہیں غافل کر دیا۔ وہ شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں‘ اور جان رکھو کہ شیطان کی پارٹی آخر کار نامراد ہی رہنے والی ہے۔
برعکس اس کے اللہ کی پارٹی والے خواہ نسل اور وطن اور زبان اور تاریخی روایات کے اعتبار سے باہم کتنے ہی مختلف ہوں، بلکہ چاہے ان کے آباؤ اجداد میں باہم خونی عداوتیں ہی کیوں نہ رہ چکی ہوں، جب وہ خدا کے بتائے ہوئے طریق فکر اور مسلک حیات میں متفق ہو گئے‘ تو گویا الٰہی رشتے (حبل ا للہ) سے باہم جڑ گئے‘ اور اس نئی پارٹی میں داخل ہوتے ہی ان کے تمام تعلقات حزب الشیطان والوں سے کٹ گئے۔
پارٹی کا یہ اختلاف باپ اور بیٹا تک کا تعلق توڑ دیتا ہے، حتیٰ کہ بیٹا باپ کی وراثت تک نہیںپا سکتا۔ حدیث کے الفاظ ہیں لایتوارث اھل ملتین۔ دو ملتوں کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیںہو سکتے۔
پارٹی کا یہ اختلاف بیوی کو شوہر سے جدا کر دیتا ہے حتیٰ کہ اختلاف رونما ہوتے ہی دونوں پر ایک دوسرے کی مواصلت حرام ہو جاتی ہے، محض اس لیے کہ دونوں کی زندگی کے راستے جدا ہو چکے۔قرآن میں ہے۔ لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ يَحِلُّوْنَ لَہُنَّ۰ۭ الممتحنہ10:60 نہ وہ ان کے لیے حلال، نہ یہ ان کے لیے حلال۔
پارٹی کا یہ اختلاف ایک برادری، ایک خاندان کے آدمیوں میں پورا معاشرتی مقاطعہ کرا دیتا ہے حتیٰ کہ حزب اللہ والے کے لیے خود اپنی نسل برادری کے ان لوگوں میں شادی بیاہ کرنا حرام ہو جاتا ہے‘ جو حزب الشیطان سے تعلق رکھتے ہوں۔ قرآن کہتا ہے :
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ۰ۭ وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ۰ۚ البقرہ 221:2
مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں۔مومن لونڈی مشرک بیگم سے بہتر ہے، خواہ وہ تمہیں کتنی ہی پسند ہو، اور اپنی عورتوں کے نکاح بھی مشرک مردوں سے نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں۔ مومن غلام مشرک آزاد شخص سے بہتر ہے چاہے وہ تمہیں کتنا ہی پسند ہو۔
پارٹی کا اختلاف نسلی ووطنی قومیّت کا تعلق صرف کاٹ ہی نہیں دیتا بلکہ دونوں میں ایک مستقل نزاع قائم کر دیتا ہے‘ جو دائما قائم رہتی ہے تاوقتیکہ وہ اللہ کی پارٹی کے اصول تسلیم نہ کر لیں۔ قرآن کہتا ہے :
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ فِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗ۰ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰہِيْمَ لِاَبِيْہِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ الممتحنہ60:4
تمہارے لیے بہترین نمونہ ابراہیم اور اس کے ساتھیوںمیں ہے۔ ان لوگوںنے اپنی (نسل) قوم والوں سے صاف کہہ دیا تھا‘ کہ ہمارا تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کی تم خدا کو چھوڑ کر بندگی کرتے ہو، کوئی واسطہ نہیں۔ ہم تم سے بے تعلق ہو چکے اور ہمارے تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت پڑگئی تاوقتیکہ تم خدائے واحد پر ایمان نہ لاؤ۔ مگر تمہارے لیے ابراہیم کے اس قول میں نمونہ نہیںہے‘ کہ اس نے اپنے کافر باپ سے کہا کہ میں تیرے لیے بخشش کی دعا کروں گا۔
وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِيْمَ لِاَبِيْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاہُ۰ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ۰ۭ التوبہ 114:9
ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش کی دعا کرنا محض اس وعدے کی بنا پر تھا جو وہ اس سے کر چکا تھا۔ مگر جب اس پر کھل گیا کہ اس کا باپ خدا کا دشمن ہے‘ تو وہ اس سے دست بردار ہو گیا۔
پارٹی کا یہ اختلاف ایک خاندان والوں اور قریب ترین رشتہ داروںکے درمیان بھی محبت کا تعلق حرام کر دیتا ہے، حتیٰ کہ اگر باپ اور بھائی اور بیٹے بھی حزب الشیطان میں شامل ہوں تو حزب اللہ والا اپنی پارٹی سے غداری کرے گا اگر ان سے محبت رکھے۔ قرآن میں ارشاد ہے:
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِيْرَتَہُمْ۰ۭ… … … اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللہِ۰ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo المجادلہ 22:58
تم ایسا ہرگز نہ پاؤ گے کہ کوئی جماعت اللہ اور یوم آخر پر ایمان بھی رکھتی ہو‘ اور پھر اللہ اور رسول کے دشمنوں سے دوستی بھی رکھے خواہ وہ ان کے باپ، بیٹے، بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں‘ اور جان رکھو کہ آخر کار اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔
دوسرا لفظ جو پارٹی ہی کے معنی میں قرآن نے مسلمانوں کے لیے استعمال کیا ہے وہ لفظ ’’امت‘‘ ہے۔ حدیث میں بھی یہ لفظ کثرت سے مستعمل ہوا ہے۔ اُمت اس جماعت کو کہتے ہیںجس کو کسی امر جامع نے مجتمع کیا ہو۔ جن افراد کے درمیان کوئی اصل مشترک ہو ان کو اسی اصل کے لحاظ سے ’’امت‘‘ کہا جاتا ہے۔ مثلا ایک زمانہ کے لوگ بھی ’’امت‘‘ کہے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو جس اصلِ مشترک کی بنا پر اُمت کہا گیا ہے وہ نسل یا وطن یا معاشی اغراض نہیں ہیں‘ بلکہ وہ ان کی زندگی کا مشن اور ان کی پارٹی کا اصول اور مسلک ہے۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے :
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۰ۭ آل عمران 110:3
تم وہ بہترین اُمت ہو‘ جسے نوع انسانی کے لیے نکالا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو۔ بدی سے روکتے ہو‘ اور خدا پر ایمان رکھتے ہو۔
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۰ۭ البقرہ 143:2
اور اس طرح ہم نے تم کو ایک بیچ کی اُمت بنایا ہے تاکہ تم نوع انسانی پر نگران رہو اور رسولؐ تم پر نگران ہو۔
ان آیات پر غور کیجئے۔ ’’بیچ کی امت‘‘ سے مراد یہ ہے‘ کہ ’’مسلمان‘‘ ایک بین الاقوامی جماعت (international party) کا نام ہے۔ دنیا کی ساری قوموں میں سے ان اشخاص کو چھانٹ کر نکال لایا گیا ہے‘ جو ایک خاص اصول کوماننے، ایک خاص پروگرام کو عمل میں لانے ا ور ایک خاص مشن کو انجام دینے کے لیے تیار ہوں۔ یہ لوگ چونکہ ہر قوم میں سے نکلے ہیں‘ اور ایک پارٹی بن جانے کے بعد کسی قوم سے ان کا تعلق نہیں رہا ہے اس لیے یہ بیچ کی اُمت ہیں۔ لیکن ہر ہر قوم سے تعلق توڑنے کے بعد سب قوموں سے ان کا ایک دوسرا تعلق قائم کیا گیا ہے‘ اور وہ یہ ہے‘ کہ دنیا میں خدائی فوج دار کے فرائض انجام دیں۔ ’’تم نوع انسانی پر نگران ہو‘‘کے الفاظ بتا رہے ہیں‘ کہ مسلمان خدا کی طرف سے دنیا میں فوج دار مقرر کیا گیا ہے۔اور ’’نوع انسانی کے لیے نکالا گیا ہے‘‘کا فقرہ صاف کہہ رہا ہے‘ کہ مسلمان کا مشن ایک عالم گیرمشن ہے۔ اس مشن کا خلاصہ یہ ہے‘ کہ ’’حزب‘‘ کے رہبر سیّد نا محمدa کو فکر و عمل کا جو ضابطہ خدا نے دیا تھا اس کو تمام ذہنی، اخلاقی اور مادّی طاقتوں سے کام لے کر دنیا میں نافذ کیا جائے‘ اور اس کے مقابلہ میں ہر دوسرے طریقہ کو مغلوب کر دیا جائے۔ یہ ہے وہ چیز جس کی بنیاد پر مسلمان ایک اُمت بنائے گئے ہیں۔
تیسرا اصطلاحی لفظ جو مسلمانوں کی اجتماعی حیثیت ظاہر کرنے کے لیے نبی a نے بکثرت استعمال کیا ہے وہ لفظ ’’جماعت‘‘ ہے۔ اور یہ لفظ بھی ’’حزب‘‘ کی طرح پارٹی کا ہم معنی ہے۔ علیکم بالجماعۃ اور ید اللہ علی الجماعۃ اور ایسی ہی بکثرت احادیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے‘ کہ رسول اللہ a نے لفظ ’’قوم‘‘ یا ’’شعب‘‘ یا اس کے ہم معنی دوسرے الفاظ استعمال کرنے سے قصداً احتراز فرمایا اور ان کے بجائے ’’جماعت‘‘ ہی کی اصطلاح استعمال کی۔آپؐ نے کبھی یہ نہ فرمایا کہ ’’ہمیشہ قوم کے ساتھ رہو‘‘ یا ’’قوم پر خدا کا ہاتھ ہے‘‘ بلکہ ایسے تمام مواقع پر آپؐ جماعت ہی کا لفظ استعمال فرماتے تھے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے‘ اور یہی ہو سکتی ہے‘ کہ مسلمانوں کے اجتماع کی نوعیت ظاہر کرنے کے لیے ’’قوم‘‘کے بجائے جماعت، حزب اور پارٹی ہی کے الفاظ ہی زیادہ مناسب ہیں۔ قوم کا لفظ جن معنوں میں عموماً مستعمل ہوتا ہے ان کے لحاظ سے ایک شخص خواہ وہ کسی مسلک اور کسی اصول کا پیرو ہو، ایک قوم میں شامل رہ سکتا ہے‘ جب کہ وہ اس قوم میں پیدا ہوا ہو‘ اور اپنے نام، طرز زندگی اور معاشرتی تعلقات کے اعتبار سے اس قوم کے ساتھ منسلک ہو۔ لیکن پارٹی، جماعت اور حزب کے الفاظ جن معنوںمیں مستعمل ہوتے ہیں، ان کے لحاظ سے اصول اور مسلک ہی پر پارٹی میں شامل ہونے یا اس سے خارج ہونے کا مدار ہوتا ہے۔ آپ ایک پارٹی کے اصول و مسلک سے ہٹ جانے کے بعد ہرگز اس میں شامل نہیں رہ سکتے، نہ اس کا نام استعمال کر سکتے ہیں، نہ اس کے نمائندے بن سکتے ہیں، نہ اس کے مفاد کے محافظ بن کر نمودار ہو سکتے ہیں‘ اور نہ پارٹی والوں سے آپ کا کسی طور پر تعاون ہو سکتا ہے۔ اگر آپ یہ کہیںکہ میں پارٹی کے اصول و مسلک سے تو متفق نہیں ہوں۔لیکن میرے والدین اس پارٹی کے ممبر رہ چکے ہیں، اور میرا نام اس کے ممبروں سے ملتا جلتا ہے،اس لیے مجھ کو بھی ممبروں کے سے حقوق ملنے چاہئیں تو آپ کا یہ استدلال اتنا مضحکہ انگیز ہو گا کہ شاید سننے والوں کو آپ کی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگے گا۔ لیکن پارٹی کے تصوّر کو قوم کے تصوّر سے بدل ڈالیے۔ اس کے بعد یہ سب حرکات کرنے کی گنجائش نکل آتی ہے۔
اسلام نے اپنی بین الاقوامی پارٹی کے ارکان میں یکجہتی اور ان کی معاشرت میں یکسانی پیدا کرنے کے لیے اور ان کو ایک سوسائٹی بنادینے کے لیے حکم دیا تھا‘ کہ آپس ہی میں بیاہ شادی کرو۔ اس کے ساتھ ہی ان کی اولاد کے لیے تعلیم و تربیت کا ایسا انتظام تجویز کیا گیا تھا‘ کہ وہ خود بخود پارٹی کے اصول و مسلک کے پیرو بن کر اٹھیں اور تبلیغ کے ساتھ ساتھ افزائش نسل سے بھی پارٹی کی قوّت بڑھتی رہے۔ یہیں سے اس پارٹی کے قوم بننے کی ابتداء ہوتی ہے، بعد میں مشترک معاشرت، نسلی تعلقات اور تاریخی روایات نے اس قومیّت کو زیادہ مستحکم کر دیا۔
اس حد تک جو کچھ ہوا درست ہوا۔ لیکن رفتہ رفتہ مسلمان اس حقیقت کو بھولتے چلے گئے کہ وہ دراصل ایک پارٹی ہیں، اور پارٹی ہونے کی حیثیت ہی پر ان کی قومیّت کی اساس رکھی گئی ہے۔ یہ بھلاوا بڑھتے بڑھتے اب یہاں تک پہنچ گیا ہے‘ کہ پارٹی کا تصوّر قومیّت کے تصوّر میں بالکل ہی گم ہو گیا۔ مسلمان اب صرف ایک قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ اسی طرح کی قوم جیسی کہ جرمن ایک قوم ہے‘ یا جاپانی ایک قوم ہے‘ یا انگریز ایک قوم ہے۔ وہ بھول گئے ہیں‘ کہ اصلی چیز وہ اصول اور مسلک ہے‘ جس پر اسلام نے ان کو ایک اُمت بنایا تھا، وہ مشن ہے‘ جس کو پورا کرنے کے لیے اس نے اپنے پیروؤں کو ایک پارٹی کی صورت میں منظم کیا تھا۔ اس حقیقت کو فراموش کرکے انہوں نے غیر مسلم قوموں سے ’’قومیّت‘‘ کا جاہلی تصوّر لے لیا ہے۔ یہ ایسی بنیادی غلطی ہے‘ اور اس کے قبیح اثرات اتنے پھیل گئے ہیں‘ کہ احیائے اسلام کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھ سکتا جب تک کہ اس غلطی کو دور نہ کر دیا جائے۔
ایک پارٹی کے ارکان میں باہمی محبت، رفاقت اور معاونت جو کچھ بھی ہوتی ہے شخصی یا خاندانی حیثیت سے نہیں ہوتی۔ بلکہ صرف اس بنا پر ہوتی ہے‘ کہ وہ سب ایک اصول کے معتقد اور ایک مسلک کے پیرو ہوتے ہیں۔ پارٹی کا ایک رکن اگر جماعتی اصول اور مسلک سے ہٹ کر کوئی کام کرے تو صرف یہی نہیں کہ اس کی مدد کرنا پارٹی والوں کا فرض نہیں ہوتا، بلکہ اس کے برعکس پارٹی والوں کا فرض یہ ہوتا ہے‘ کہ اس کو ایسے غدارانہ اور باغیانہ طرزِعمل سے روکیں، نہ مانے تو اس کے خلاف جماعتی ضوابط کے تحت سخت کارروائی کریں، پھر بھی نہ مانے تو جماعت سے نکال باہر کریں۔ ایسی مثالیں بھی دنیا میں نا پید نہیں ہیں‘ کہ جو شخص پارٹی کے مسلک سے شدید انحراف کرتا ہے اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔{ FR 3059 } لیکن ذرا مسلمانوں کا حال دیکھیے کہ اپنے آپ کو پارٹی کے بجائے قوم سمجھنے کی وجہ سے یہ کیسی شدید غلط فہمی میںمبتلا ہو گئے ہیں۔ ان میں سے جب کوئی شخص اپنے فائدے کے لیے غیر اسلامی اصولوں پر کوئی کام کرتا ہے‘ تو دوسرے مسلمانوں سے توقع رکھتا ہے‘ کہ اس کی مدد کریں گے۔ اگر مدد نہیں کی جاتی تو شکایت کرتا ہے‘ کہ دیکھو، مسلمان مسلمان کے کام نہیں آتے۔ سفارش کرنے والے ان کی سفارش ان الفاظ میں کرتے ہیں‘ کہ ایک مسلمان بھائی کا بھلا ہوتا ہے، اس کی مدد کرو، مدد کرنے و الے بھی اگر اس کی مدد کرتے ہیں‘ تو اس فعل کو اسلامی ہمدردی سے موسوم کرتے ہیں۔ اس سارے معاملہ میں ہر ایک کی زبان پر اسلامی ہمدردی،اسلامی برادری، اسلام کے رشتہ دینی کا نام بار بار آتا ہے۔ حالانکہ درحقیقت اسلام کے خلاف عمل کرنے میں خود اسلام ہی کا حوالہ دینا اور اس کے نام سے ہمدردی چاہنا یا ہمدردی کرنا صریح لغویات ہے۔جس اسلام کایہ لوگ نام لیتے ہیں اگر حقیقت میں وہ ان کے اندر زندہ ہو تو جوں ہی ان کے علم میںیہ بات آئے کہ اسلامی جماعت کا کوئی شخص کوئ