ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔
اسلام میں قانون سازی کا دائرہ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
(یہ وہ مقالہ ہے جو ۳ جنوری ۱۹۵۸ئ کو مصنف نے بین الاقوامی مجلس مذاکرہ کے اجلاس لاہور میں پڑھا تھا)
اسلام میں قانون سازی کا دائرہ عمل کیا ہے اور اس میں اجتہاد کا کیا مقام ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے دو باتیں واضح طور پر ہماری نگاہ میں رہیں۔
حاکمیت ِالٰہی
اوّل یہ کہ اسلام میں حاکمیت خالصتاً اللہ تعالیٰ کی تسلیم کی گئی ہے۔ قرآن عقیدۂ توحید کی جو تشریح کرتا ہے‘ اس کی رُو سے خدائے وحدہ لا شریک صرف مذہبی معنوں میں معبود ہی نہیں ہے بلکہ سیاسی اور قانونی مفہوم کے لحاظ سے حاکمِ مطاع، امرونہی کا مختار، اور واضع قانون بھی ہے۔ خدا کی اس قانونی حاکمیت (Legal Sovereignty) کو قرآن اتنی ہی وضاحت اور اتنے ہی زور سے پیش کرتا ہے جس کے ساتھ اس نے خدا کی مذہبی معبودیت کا عقیدہ پیش کیا ہے۔ اس کے نزدیک خدا کی یہ دونوں حیثیتیں اس کی الوہیت کے لازمی تقاضے ہیں جن کو ایک دوسرے سے منفک نہیں کیا جا سکتا اور ان میں سے جس کا بھی انکار کیا جائے وہ لازماً خدا کی الوہیت کا انکار ہے۔ پھر وہ اس شبہے کے لیے بھی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا کہ شاید قانون خداوندی سے مراد قانون فطرت ہو۔ اس کے برعکس وہ اپنی ساری دعوت ہی اس بنیاد پر اٹھاتا ہے کہ انسان کو اپنی اخلاقی اور اجتماعی زندگی میں خدا کے اس قانونِ شرعی کو تسلیم کرنا چاہیے جو اس نے اپنے انبیا کے ذریعے سے بھیجا ہے۔ اسی قانون شرعی کو ماننے اور اس کے مقابلے میں اپنی خودمختاری سے دست بردار ہو جانے کا نام وہ ’’اسلام‘‘ (surrender) رکھتا ہے اور صاف صاف الفاظ میں انسان کے اس حق کا انکار کرتا ہے کہ جن معاملات کا فیصلہ خدا اور اس کے رسولؐ نے کر دیا ہو ان میں وہ خود اپنی رائے سے فیصلہ کرے۔
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۰ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًاo الاحزاب36:33
کسی مومن مرد یا عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر انھیں اپنے اس معاملے میں خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہ جائے اور جس نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کی وہ کھلّم کھلا گمراہ ہو گیا۔
نبوتِ محمدی
دوسری بات جو اسلام میں اتنی ہی بنیادی اہمیّت رکھتی ہے جتنی کہ توحید ِالٰہ‘ یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں۔ درحقیقت یہی وہ چیز ہے جس کی بدولت توحید کا عقیدہ مجرد تخیل سے ایک عملی نظام کی شکل اختیار کرتا ہے اور اسی پر اسلام کے پورے نظامِ زندگی کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ اس عقیدے کی رُو سے اللہ تعالیٰ کے تمام سابق انبیا کی لائی ہوئی تعلیمات ‘بہت سے اہم اضافوں کے ساتھ، اُس تعلیم میں جمع ہو گئی ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ اس لیے خدائی ہدایت اور تشریع کا مستند ماخذاب صرف یہی ایک ہے اور آیندہ کوئی مزید ہدایت اور تشریع آنے والی نہیں ہے جس کی طرف انسان کو رجوع کرنے کی ضرورت ہو۔ یہی محمدی تعلیم وہ بالاتر قانون (Supreme Law) ہے جو حاکم اعلیٰ کی مرضی کی نمایندگی کرتا ہے۔ یہ قانون محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم کو دو شکلوں میں ملا ہے۔ ایک قرآن جو لفظ بلفظ خداوند عالم کے احکام و ہدایات پر مشتمل ہے۔ دوسرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ، یا آپؐ کی سنت‘ جو قرآن کے منشا کی توصیح و تشریح کرتی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے محض نامہ بر نہیں تھے کہ اس کی کتاب پہنچا دینے کے سوا ان کا کوئی کام نہ ہوتا۔ وہ اس کے مقرر کیے ہوئے رہنما حاکم اور معلّم بھی تھے۔ آپؐ کا کام یہ تھا کہ اپنے قول اور عمل سے قانونِ الٰہی کی تشریح کریں۔ اس کا صحیح منشا سمجھائیں۔ اس کے منشا کے مطابق افراد کی تربیت کریں۔ پھر تربیت یافتہ افراد کو ایک منظم جماعت کی شکل دے کر معاشرے کی اصلاح کے لیے جدوجہد کریں، پھر اس اصلاح شدہ معاشرے کو ایک صالح و مصلح ریاست کی صورت دے کر یہ دکھا دیں کہ اسلام کے اصولوں پر ایک مکمل تہذیب کا نظام کس طرح قائم ہوتا ہے۔ آنحضرتؐ کا یہ پورا کام، جو ۲۳ سال کی پیغمبرانہ زندگی میں آپؐ نے انجام دیا، وہ سنّت ہے جو قرآن کے ساتھ مل کر حاکم اعلیٰ کے قانونِ برتر کی تشکیل و تکمیل کرتی ہے، اور اسی قانونِ برتر کا نام اسلامی اصطلاح میں ’’شریعت‘‘ ہے۔
قانون سازی کا دائرہ عمل
بادی النظر میں ایک آدمی ان بنیادی حقیقتوں کو سن کر یہ گمان کر سکتا ہے کہ اس صورت میں تو ایک اسلامی ریاست میں انسانی قانون سازی کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے، کیونکہ یہاں تو قانون ساز صرف خدا ہے اور مسلمانوں کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس پیغمبر کے دیئے ہوئے قانونِ خداوندی کی پیروی کریں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اسلام انسانی قانون سازی کی قطعی نفی نہیں کرتا بلکہ اسے خدائی قانون کی بالاتری سے محدود کرتا ہے۔ اس بالاتر قانون کے تحت اور اس کے قائم کیے ہوئے حدود کے اندر انسانی قانون سازی کا دائرہ عمل کیا ہے۔ اس کو میں یہاں مختصر الفاظ میں بیان کروں گا۔
تعبیر احکام
انسانی زندگی کے معاملات میں سے ایک قسم کے معاملات وہ ہیں جن میں قرآن اور سنّت نے کوئی واضح اور قطعی حکم دیا ہے یا کوئی خاص قاعدہ مقرر کر دیا ہے۔ اس طرح کے معاملات میں کوئی فقیہ، کوئی قاضی، کوئی قانون ساز ادارہ، شریعت کے دیئے ہوئے حکم یا اس کے مقرر کیے ہوئے قاعدے کو نہیں بدل سکتا۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ان میں قانون سازی کے لیے کوئی مجالِ کار ہے ہی نہیں۔ انسانی قانون سازی کا دائرہ عمل ان معاملات میں یہ ہے کہ سب سے پہلے ٹھیک ٹھیک معلوم کیا جائے کہ حکم فی الواقع ہے کیا؟ پھر اس کا منشا اور مفہوم متعیّن کیا جائے اور یہ تحقیق کیا جائے کہ یہ حکم کن حالات اور واقعات کے لیے ہے۔ پھر عملاً پیش آنے والے مسائل پر ان کے انطباق کی صورتیں اور مجمل احکام کی جزئی تفصیلات طے کی جائیں۔ اور ان سب امور کے ساتھ یہ بھی مشخّص کیا جائے کہ استثنائی حالات و واقعات میں ان احکام و قواعد سے ہٹ کر کام کرنے کی گنجائش کہاں اور کس حد تک ہے۔
قیاس
دوسری قسم کے معاملات وہ ہیں جن کے بارے میں شریعت نے کوئی حکم نہیں دیا ہے، مگر ان سے ملتے جلتے معاملات کے متعلق وہ ایک حکم دیتی ہے۔ اس دائرے میں قانون سازی کا عمل اس طرح ہو گا کہ احکام کی علّتوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر ان تمام معاملات میں ان کو جاری کیا جائے گا جن میں وہ علّتیں فی الواقع پائی جاتی ہوں اور ان تمام معاملات کو ان سے مستثنیٰ ٹھہرایا جائے گا جن میں درحقیقت وہ علّتیں نہ پائی جاتی ہوں۔
استنباط
ایک اور قسم ان معاملات کی ہے جن میں شریعت نے متعیّن احکام نہیں بلکہ کچھ جامع اصول دیئے ہیں۔ یا شارع کا یہ منشا ظاہر کیا ہے کہ کیا چیز پسندیدہ ہے جسے فروغ دینا مطلوب ہے اور کیا چیز ناپسندیدہ ہے جسے مٹانا مطلوب ہے۔ ایسے معاملات میں قانون سازی کا کام یہ ہے کہ شریعت کے ان اصولوں کو اور شارع کے اس منشا کو سمجھا جائے اور عملی مسائل میں ایسے قوانین بنائے جائیں جو ان اصولوں پر مبنی ہوں اور شارع کے منشا کو پورا کرتے ہوں۔
آزادانہ قانون سازی کا دائرہ
ان کے علاوہ ایک بہت بڑی قسم ان معاملات کی ہے جن کے بارے میں شریعت بالکل خاموش ہے، نہ براہِ راست ان کے متعلق کوئی حکم دیتی ہے اور نہ ان سے ملتے جلتے معاملات ہی کے متعلق کوئی ہدایت اس میں ملتی ہے کہ ان کو اس پر قیاس کیا جا سکے۔ یہ خاموشی خود اس بات کی دلیل ہے کہ حاکم اعلیٰ ان میں انسان کو خود اپنی رائے سے فیصلہ کرنے کا حق دے رہا ہے۔ اس لیے ان میں آزادانہ قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ مگر یہ قانون سازی ایسی ہونی چاہیے جو اسلام کی روح اور اس کے اصول عامہ سے مطابقت رکھتی ہو، جس کا مزاج اسلام کے مجموعی مزاج سے مختلف نہ ہو، جو اسلامی زندگی کے نظام میں ٹھیک ٹھیک نصب ہو سکتی ہو۔
اجتہاد
قانون سازی کا یہ سارا عمل جو اسلام کے قانونی نظام کو متحرک بناتا اور زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ اس کو نشوونما دیتا چلا جاتا ہے۔ ایک خاص علمی تحقیق اور عقلی کاوش ہی کے ذریعے سے انجام پا سکتا ہے۔ اور اسی کا نام اسلامی اصطلاح میں اجتہاد ہے۔ اس لفظ کے لغوی معنی تو ہیں ’’کسی کام کی انجام دہی میں انتہائی کوشش صرف کرنا۔‘‘ مگر اصطلاحاً اس سے مراد ہے ’’یہ معلوم کرنے کی انتہائی کوشش کہ ایک مسئلہ زیر بحث میں اسلام کا حکم یا اس کا منشا کیا ہے‘‘ بعض لوگ غلطی سے اجتہاد کو بالکل آزادانہ استعمال رائے کے معنی میں لے لیتے ہیں۔ لیکن کوئی ایسا شخص جو اسلامی قانون کی نوعیت سے واقف ہو۔ اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ اس طرح کے ایک قانونی نظام میں کسی آزاد اجتہاد کی بھی کوئی گنجائش ہو سکتی ہے۔ یہاں تو اصل قانون قرآن و سنّت ہے۔ انسان جو قانون سازی کر سکتے ہیں وہ لازماً یا تو اس اصل قانون سے ماخوذ ہونی چاہیے یا پھر ان حدود کے اندر ہونی چاہیے جن میں وہ استعمال رائے کی آزادی دیتا ہے۔ اس سے بے نیاز ہو کر جو اجتہاد کیا جائے وہ نہ اسلامی اجتہاد ہے اور نہ اسلام کے قانونی نظام میں اس کے لیے کوئی جگہ ہے۔
اجتہاد کے لیے ضروری اوصاف
اجتہاد کا مقصد چونکہ خدائی قانون کو انسانی قانون سے بدلنا نہیں بلکہ اس کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا اور اس کی رہنمائی میں اسلام کے قانونی نظام کو زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ متحرک کرنا ہے، اس لیے کوئی صحت مندانہ اجتہاد اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ ہمارے قانون سازوں میں حسب ذیل اوصاف موجود ہوں۔
(۱) شریعت الٰہی پر ایمان، اس کے برحق ہونے کا یقین ، اس کے اتباع کا مخلصانہ ارادہ، اس سے آزاد ہونے کی خواہش کا معدوم ہونا اور مقاصد، اصول اور اقدار (Values) کسی دوسرے ماخذ سے لینے کے بجائے صرف خدا کی شریعت سے لینا۔
(۲) عربی زبان اور اس کے قواعد اور ادب سے اچھی واقفیت، کیونکہ قرآن اسی زبان میں نازل ہوا ہے اور سنّت کو معلوم کرنے کے ذرائع بھی اسی زبان میں ہیں۔
(۳) قرآن اور سنّت کا علم جس سے آدمی نہ صرف جزوی احکام اور ان کے مواقع سے واقف ہو بلکہ شریعت کے کلیات اور اس کے مقاصد کو بھی اچھی طرح سمجھ لے۔ اس کو ایک طرف یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انسانی زندگی کی اصلاح کے لیے شریعت کی مجموعی اسکیم کیا ہے اور دوسری طرف یہ جاننا چاہیے کہ اس مجموعی اسکیم میں زندگی کے ہر شعبے کا کیا مقام ہے، شریعت اس کی تشکیل کن خطوط پر کرنا چاہتی ہے اور اس تشکیل میں اس کے پیش نظر کیا مصالح ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اجتہاد کے لیے قرآن و سنّت کا وہ علم درکار ہے جو مغز شریعت تک پہنچتا ہو۔
(۴) پچھلے مجتہدین امت کے کام سے واقفیت، جس کی ضرورت صرف اجتہاد کی تربیت ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ قانونی ارتقا کے تسلسل (continuity) کے لیے بھی ہے۔ اجتہاد کا مقصد بہرحال یہ نہیں ہے اور نہیں ہونا چاہیے کہ ہر نسل پچھلی نسلوں کی چھوڑی ہوئی تعمیر کو ڈھاکر یا متروک قرار دے کر نئے سرے سے تعمیر شروع کر دے۔
(۵) عملی زندگی کے حالات و مسائل سے واقفیت کیونکہ انھی پر شریعت کے احکام اور اصول و قواعد کو منطبق کرنا مطلوب ہے۔
(۶) اسلامی معیار اخلاق کے لحاظ سے عمدہ سیرت و کردار‘ کیونکہ اس کے بغیر کسی کے اجتہاد پر لوگوں کا اعتماد نہیں ہو سکتا اور نہ اس قانون کے لیے عوام میں کوئی جذبہ احترام پیدا ہو سکتا ہے جو غیر صالح لوگوں کے اجتہاد سے بنا ہو۔
ان اوصاف کے بیان سے مقصود یہ نہیں ہے کہ ہر اجتہاد کرنے والے کو پہلے یہ ثبوت پیش کرنا چاہیے کہ اس میں یہ اوصاف موجود ہیں بلکہ اس سے مقصود یہ ظاہر کرنا ہے کہ اجتہاد کے ذریعے سے اسلامی قانون کا نشوونما اگر صحیح خطوط پر ہو سکتا ہے تو صرف اسی صورت میں جب کہ قانونی تعلیم و تربیت کا نظام ایسے اوصاف کے اہل علم تیار کرے۔ اس کے بغیر جو قانون سازی کی جائے گی وہ نہ اسلامی قانون کے نظام میں جذب ہو سکے گی اور نہ مسلم سوسائٹی اس کو ایک خوشگوار غذا کی طرح ہضم کر سکے گی۔
اجتہاد کا صحیح طریقہ
اجتہاد اور اس کی بنا پر ہونے والی قانون سازی کے مقبول ہونے کا انحصار جس طرح اس بات پر ہے کہ اجتہاد کرنے والوں میں اس کی اہلیت ہو، اسی طرح اس امر پر بھی ہے کہ یہ اجتہاد صحیح طریقے سے کیا جائے۔ مجتہد خواہ تعبیرِ احکام کر رہا ہو یا قیاس و استنباط، بہرحال اسے اپنے استدلال کی بنیاد قرآن اور سنّت ہی پر رکھنی چاہیے۔ بلکہ مباحات کے دائرے میں آزادانہ قانون سازی کرتے ہوئے بھی اسے اس بات پر دلیل لانی چاہیے کہ قرآن و سنّت نے واقعی فلاں معاملے میں کوئی حکم یا قاعدہ مقرر نہیں کیا ہے اور نہ قیاس ہی کے لیے کوئی بنیاد فراہم کی ہے۔ پھر قرآن و سنّت سے جو استدلال کیا جائے وہ لازماً ان طریقوں پر ہونا چاہیے جو اہل علم میں مسلّم ہیں۔ قرآن سے استدلال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک آیت کے وہ معنی لیے جائیں جن کے لیے عربی زبان کی لغت، قواعد اور معروف استعمالات میں گنجائش ہو‘ جو قرآن کی عبارت کے سیاق و سباق سے لگتے ہوئے ہوں، جو اسی موضوع کے متعلق قرآن کے دوسرے بیانات سے متناقض نہ ہوں، اور جن کی تائید سنّت کی قولی اور عملی تشریحات سے بھی ملتی ہو، یا کم از کم یہ کہ سنّت ان معنوں کے خلاف نہ ہو۔ سنّت سے استدلال کرنے میں زبان اور اس کے قواعد اور سیاق و سباق کی رعایت کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جن روایات سے کسی مسئلے میں سند لائی جا رہی ہو وہ قواعد علم روایت کے لحاظ سے معتبر ہوں۔ اس موضوع سے متعلق دوسری معتبر روایات کو بھی نگاہ میں رکھا گیا ہو اور کسی ایک روایت سے کوئی ایسا نتیجہ نہ نکال لیا گیا ہو جو مستند ذرائع سے ثابت شدہ سنّت کے خلاف پڑتا ہو۔ ان احتیاطوں کو ملحوظ رکھے بغیر من مانی تاویلات سے جو اجتہاد کیا جائے اسے اگر سیاسی قوت کے بل پر قانون کا مرتبہ دے بھی دیا جائے تو نہ مسلمانوں کا اجتماعی ضمیر اس کو قبول کر سکتا ہے اور نہ وہ حقیقتاً اسلامی نظامِ قانون کا جزو بن سکتا ہے۔ جو سیاسی قوت اسے نافذ کرے گی اس کے ہٹتے ہی اس کا قانون بھی ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے گا۔
اجتہاد کو قانون کا مرتبہ کیسے حاصل ہوتا ہے
کسی اجتہاد کو قانون کا مرتبہ حاصل ہونے کی متعدد صورتیں اسلامی نظام قانون میں پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ تمام امت کے اہلِ علم کا اس پر اجماع ہو۔
دوسری یہ کہ کسی شخص یا گروہ کے اجتہاد کو قبولِ عام حاصل ہو جائے اور لوگ خودبخود اس کی پیروی شروع کر دیں جس طرح مثلاً فقہ حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی کو مسلمانوں کی بڑی بڑی آبادیوں نے قانون کے طور پر مان لیا۔
تیسری یہ کہ کسی اجتہاد کو کوئی مسلم حکومت اپنا قانون قرار دے لے، جیسے مثلاً عثمانی سلطنت یا ہندوستان کی مغل سلطنت نے فقہ حنفی کو اپنا قانونِ ملکی قرار دیا تھا۔
چوتھی یہ کہ سیاست میں ایک ادارہ دستوری حیثیت سے قانون سازی کا مجاز ہو اور وہ اجتہاد سے کوئی قانون بنائے۔ ان صورتوں کے ماسوا جتنے اجتہادات مختلف اہلِ علم کریں ان کا مرتبہ فتوے سے زیادہ نہیں ہے۔ رہے قاضیوں کے فیصلے، تو وہ ان خاص مقدمات میں تو ضرور قانون کے طور پر نافذ ہوتے ہیں جن میں وہ کسی عدالت نے کیے ہوں اور انھیں نظائر (Precedents) کی حیثیت بھی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن صحیح معنوں میں وہ قانون نہیں ہوتے۔ حتیٰ کہ خلفائے راشدین کے بھی وہ فیصلے اسلام میں قانون نہیں قرار پائے جو انھوں نے قاضی کی حیثیت سے کیے تھے۔ اسلامی نظامِ قانون میں قضاۃ کے بنائے ہوئے قانون (Judge Made Law) کا کوئی تصوّر نہیں پایا جاتا۔
(ترجمان القرآن۔ جنوری ۱۹۵۸ء)
٭…٭…٭…٭…٭
ایک منکر حدیث کے اعتراضات اور ان کا جواب
(مندرجہ بالا مقالے پر بین الاقوامی مجلس مذاکرہ کے اجلاس میں ایک منکر حدیث نے اٹھ کر چند اعتراضات پیش کیے تھے جن کا حسب ذیل جواب اسی مجلس مذاکرہ میں مصنف کی طرف سے دیا گیا)
اسلام میں قانون سازی اور اجتہاد کے موضوع پر میرے مقالے کے سلسلے میں جو اعتراضات کیے گئے ہیں میں یہاں ان کا جواب زیادہ سے زیادہ اختصار کے ساتھ دینے کی کوشش کروں گا۔
پہلا اعتراض اس پوزیشن پر ہے جو قرآن کے ساتھ سنّت کو دی گئی ہے۔ اس کے جواب میں چند باتیں میں ترتیب وار عرض کروں گا تاکہ مسئلہ پوری طرح آپ کے سامنے واضح ہو جائے۔
(۱) یہ ایک ناقابلِ انکار تاریخی حقیقت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت پر سرفراز ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف قرآن پہنچا دینے پر اکتفا نہیں کیا تھا، بلکہ ایک ہمہ گیر تحریک کی رہنمائی بھی کی تھی جس کے نتیجے میں ایک مسلم سوسائٹی پیدا ہوئی، ایک نیا نظام تہذیب و تمدن وجود میں آیا اور ایک ریاست قائم ہوئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن پہنچانے کے سوا یہ دوسرے کام جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیے، یہ آخر کس حیثیت سے تھے؟ آیا یہ نبی کی حیثیت سے تھے جس میں آپ اسی طرح خدا کی مرضی کی نمایندگی کرتے تھے جس طرح کہ قرآن؟ یا آپ کی پیغمبرانہ حیثیت قرآن سنانے کے بعد ختم ہو جاتی تھی اور اس کے بعد آپ عام مسلمانوں کی طرح محض ایک مسلمان رہ جاتے تھے جس کا قول و فعل اپنے اندر بجائے خود کوئی قانونی سند و حجت نہیں رکھتا؟ پہلی بات تسلیم کی جائے تو سنّت کو قرآن کے ساتھ قانونی سند و حجت ماننے کے سوا چارہ نہیں رہتا۔ البتہ دوسری صورت میں اسے قانون قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔
(۲) جہاں تک قرآن کا تعلق ہے وہ اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف نامہ بر نہیں تھے۔ بلکہ خدا کی طرف سے مقرر کیے ہوئے رہبر، حاکم اور معلّم بھی تھے جن کی پیروی و اطاعت مسلمانوں پر لازم تھی اور جن کی زندگی کو تمام اہلِ ایمان کے لیے نمونہ قرار دیا گیا تھا۔ جہاں تک عقل کا تعلق ہے وہ یہ ماننے سے انکار کرتی ہے کہ ایک نبی صرف خدا کا کلام پڑھ کر سنا دینے کی حد تک تو نبی ہو اور اس کے بعد وہ محض ایک عام آدمی رہ جائے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے وہ آغازِ اسلام سے آج تک بالاتفاق ہر زمانے میں اور تمام دنیا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونہ واجب الاتباع اور ان کے امرو نہی کو واجب الاطاعت مانتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ کوئی غیر مسلم عالم بھی اس امر واقعی سے انکار نہیں کر سکتا کہ مسلمانوں نے ہمیشہ آنحضرت کی یہی حیثیت مانی ہے اور اِسی بنا پر اسلام کے قانونی نظام میں سنّت کو قرآن کے ساتھ دوسرا ماخذ قانون تسلیم کیا گیا ہے۔ اب میں نہیں جانتا کہ کوئی شخص سنّت کی اس قانونی حیثیت کو کیسے چیلنج کر سکتا ہے جب تک وہ صاف صاف یہ نہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف تلاوتِ قرآن کی حد تک نبی تھے اور یہ کام کر دینے کے ساتھ ان کی حیثیت نبوت ختم ہو جاتی تھی۔ پھر اگر وہ ایسا دعویٰ کرے بھی تو اسے بتانا ہو گا کہ یہ مرتبہ وہ آنحضرت کو بطور خود دے رہا ہے یا قرآن نے حضور کو یہی مرتبہ دیا ہے؟ پہلی صورت میں اس کے قول کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں دوسری صورت میں اسے قرآن سے اپنے دعوے کا ثبوت پیش کرنا ہو گا۔
(۳) سنّت کو بجائے خود ماخذ قانون تسلیم کرنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے معلوم کرنے کا ذریعہ کیا ہے۔ میں اس کے جواب میں عرض کروں گا کہ آج پونے چودہ سو سال گزر جانے کے بعد پہلی مرتبہ ہم کو اس مسئلے سے سابقہ نہیں پیش آ گیا ہے کہ ڈیڑھ ہزار برس قبل جو نبوت مبعوث ہوئی تھی اس نے کیا سنّت چھوڑی تھی۔ دو تاریخی حقیقتیں ناقابلِ انکار ہیں۔ ایک یہ کہ قرآن کی تعلیم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت پر جو معاشرہ اسلام کے آغاز میں پہلے دن قائم ہوا تھا وہ اس وقت سے آج تک مسلسل زندہ ہے۔ اس کی زندگی میں ایک دن کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا ہے۔ اور اس کے تمام ادارے اس ساری مدت میں پیہم کام کرتے رہے ہیں۔ آج تمام دنیا کے مسلمانوں میں عقائد اور طرزِ فکر، اخلاق اور اقدار، عبادات اور معاملات، نظریۂ حیات اور طریق حیات کے اعتبار سے جو گہری مماثلت پائی جاتی ہے جس میں اختلاف کی بہ نسبت ہم آہنگی کا عنصر بہت زیادہ موجود ہے جو ان کو تمام روئے زمین پر منتشر ہونے کے باوجود ایک امت بنائے رکھنے کی سب سے بڑی بنیادی وجہ ہے، یہی اس امر کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ اس معاشرے کو کسی ایک ہی سنّت پر قائم کیا گیا تھا اور وہ سنّت ان طویل صدیوں کے دوران میں مسلسل جاری رہی ہے۔ یہ کوئی گم شدہ چیز نہیں ہے جسے تلاش کرنے کے لیے ہمیں اندھیرے میں ٹٹولنا پڑ رہا ہو۔ دوسری تاریخی حقیقت، جو اتنی ہی روشن ہے، یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے ہر زمانے میں مسلمان یہ معلوم کرنے کی پیہم کوشش کرتے رہے ہیں کہ سنّتِ ثابتہ کیا ہے اور کیا نئی چیز ان کے نظامِ حیات میں کسی جعلی طریقے سے داخل ہو رہی ہے۔ چونکہ ان کے لیے سنّت قانون کی حیثیت رکھتی تھی۔ اسی پر ان کی عدالتوں میں فیصلے ہونے تھے اور ان کے گھروں سے لے کر حکومتوں تک کے معاملات چلنے تھے، اس لیے وہ اس کی تحقیق میں بے پروا اور لا ابالی نہیں ہو سکتے تھے۔ اس تحقیق کے ذرائع بھی اور اس کے نتائج بھی ہم کو اسلام کی پہلی خلافت کے زمانے سے لے کر آج تک نسلاً بعد نسلٍ میراث میں ملے ہیں اور بلا انقطاع ہر نسل کا کیا ہوا کام محفوظ ہے۔ ان دو حقیقتوں کو اگر کوئی اچھی طرح سمجھ لے اور سنّت کو معلوم کرنے کے ذرائع کا باقاعدہ علمی مطالعہ کرے تو اسے کبھی یہ شبہ لاحق نہیں ہو سکتا کہ یہ کوئی لاینحل معما ہے جس سے وہ دوچار ہو گیا ہے۔
(۴) بلاشبہ سنّت کی تحقیق اور اس کے تعیّن میں بہت سے اختلافات ہوئے ہیں اور آیندہ بھی ہو سکتے ہیں لیکن ایسے ہی اختلافات قرآن کے بہت سے احکام اور ارشادات کے معنی متعیّن کرنے میں بھی ہوئے ہیں اور ہو سکتے ہیں۔ ایسے اختلافات اگر قرآن کو چھوڑ دینے کے لیے دلیل نہیں بن سکتے تو سنّت کو چھوڑ دینے کے لیے انھیں کیسے دلیل بنایا جا سکتا ہے۔ یہ اصول پہلے بھی مانا گیا ہے اور آج بھی اسے ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ جو شخص بھی کسی چیز کے حکم قرآن یا حکم سنّت ہونے کا دعویٰ کرے وہ اپنے قول کی دلیل دے۔ اس کا قول اگر وزنی ہو گا تو امت کے اہلِ علم سے یا کم از کم ان کے کسی بڑے گروہ سے اپنا سکہ منوا لے گا، اور جو بات دلیل کے اعتبار سے بے وزن ہو گی وہ بہرحال نہ چل سکے گی۔ یہی اصول ہے جس کی بنا پر دنیا کے مختلف حصّوں میں کروڑوں مسلمان کسی ایک مذہب فقہی پر مجتمع ہوئے ہیں اور ان کی بڑی بڑی آبادیوں نے احکامِ قرآنی کی کسی تفسیر اور سننِ ثابتہ کے کسی مجموعے پر اپنے اجتماعی نظام کو قائم کیا ہے۔
دوسرا اعتراض میرے مقالے پر یہ کیا گیا ہے کہ میرے کلام میں تناقض ہے، یعنی میرا یہ قول کہ قرآن و سنّت کے واضح اور قطعی احکام میں تبدیلی کا اختیار کسی کو نہیں ہے، معترض کے نزدیک میرے اس قول سے متناقض ہے کہ استثنائی حالات و واقعات میں ان احکام سے ہٹ کر کام کرنے کی گنجائش اور اس کے مواقع اجتہاد سے متعیّن کیے جا سکتے ہیں۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ اس میں کیا تناقض محسوس کیا گیا ہے۔ اضطرار اور مجبوری کی حالت میں عام قاعدے سے استثنا دنیا کے ہر قانون میں ہوتا ہے۔ قرآن میں بھی ایسی رخصتوں کی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور ان مثالوں سے فقہا نے وہ اصول متعیّن کیے ہیں جن کو رخصت کی حد اور اس کے مواقع متعیّن کرنے میں ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔ مثلاً
الضرورات تبیح المحظورات اور المشقۃ تجلب التیسیر
تیسرا اعتراض ان سب لوگوں پر کیا گیا ہے جنھوں نے یہاں اپنے مقالات میں اجتہاد کی کچھ شرائط بیان کی ہیں۔ چونکہ میں بھی ان میں سے ایک ہوں اس لیے اس کا جواب میرے ذمے بھی ہے۔ میں عرض کروں گا کہ براہِ کرم ایک دفعہ پھر ان شرطوں پر ایک نگاہ ڈال لیجیے جو میں نے بیان کی ہیں اور پھر بتایئے کہ آپ ان میں سے کس شرط کو ساقط کرنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ شرط کہ اجتہاد کرنے والوں میں شریعت کی پیروی کا مخلصانہ ارادہ پایا جاتا ہو اور وہ اس کے حدود کو توڑنے کے خواہش مند نہ ہوں؟ یا یہ شرط کہ وہ قرآن و سنّت کی زبان، یعنی عربی سے واقف ہوں؟ یا یہ کہ انھوں نے قرآن و سنّت کا کم از کم اس حد تک گہرا مطالعہ کیا ہو کہ وہ شریعت کے نظام کو اچھی طرح سمجھ چکے ہوں؟ یا یہ کہ پچھلے مجتہدین کے کیے ہوئے کام پر بھی ان کی نظر ہو؟ یا یہ کہ وہ دنیا کے معاملات اور مسائل سے واقفیت رکھتے ہوں؟ یا یہ کہ وہ بدکردار اور اسلامی معیارِ اخلاق سے گرے ہوئے نہ ہوں؟ ان میں سے جس شرط کو بھی آپ غیر ضروری سمجھتے ہوں اس کی نشان دہی کر دیں۔ یہ کہنا کہ ساری اسلامی دنیا میں دس بارہ آدمیوں سے زیادہ ایسے نہیں مل سکتے جو ان شرائط پر پورے اترتے ہوں، میرے نزدیک دنیا بھر کے مسلمانوں کے متعلق بہت ہی بری رائے ہے۔ غالباً ابھی تک ہمارے مخالفوں نے بھی ہم کو اتنا گرا ہوا نہیں سمجھا ہے کہ چالیس پچاس کروڑ مسلمانوں میں ان صفات کے اشخاص کی تعداد دس بارہ سے زیادہ نہ ہو۔ تاہم اگر آپ اجتہاد کا دروازہ ہر کس و ناکس کے لیے کھولنا چاہیں تو شوق سے کھول دیجیے۔ لیکن مجھے یہ بتایئے کہ جو اجتہاد بدکردار، بے علم اور مشتبہ نیت و اخلاص کے لوگ کریں گے اسے مسلمان پبلک کے حلق سے آپ کس طرح اتروائیں گے؟
(ترجمان القرآن۔ جنوری ۱۹۵۸ء)
٭…٭…٭…٭…٭
مسئلہ اجتہاد کے بارے میں چند شبہات
(جنوری ۱۹۵۸ئ کو بین الاقوامی مجلس مذاکرہ کے اجلاس لاہور میں دنیا کے مختلف حصّوں کے اہلِ علم حضرات شریک ہوئے تھے۔ ان میں مسلم و غیر مسلم، دونوں شامل تھے۔ مجلس مذاکرہ کے انعقاد کے دوران اور اس کے بعد یہ حضرات پاکستان کے اصحابِ فکر سے برابر ملتے رہے اور ایک دوسرے کے نقطہ نگاہ اور طریق کار کو سمجھنے سمجھانے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ اسی سلسلے میں بہت سے غیرملکی مفکرین مصنف سے بھی ملنے کے لیے وقتاً فوقتاً دفتر میں تشریف لاتے رہے۔ ان حضرات میں ایک نامور شخصیت ولفرڈ کینٹ ول سمتھ (Wilfered Cantwell Smith) کی تھی۔ ان کے نام اور کام سے ہمارے ملک کا انگریزی دان طبقہ بخوبی واقف ہے۔ یہ صاحب پہلے علی گڑھ کالج میں اسلامی تاریخ کے پروفیسر تھے۔ اس کے بعد ایف سی کالج، لاہور سے وابستہ ہوئے۔ اب یہ کینا ڈا کی مشہور یونیورسٹی میکگل (Mcgill) میں شعبۂ اسلامیات کے صدر ہیں۔ ذیل کا خط سمتھ صاحب کی مصنف سے ایک اہم ملاقات کی یادگار ہے۔ اصل خط انگریزی میں تھا یہاں اس کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے)
سمتھ صاحب کا خط
مخدومی!
تسلیم و آداب۔ یہ محض آپ کی ذرّہ نوازی تھی کہ آپ نے مجھے پچھلے ہفتے شرف باریابی بخشا۔ آپ کی اس کرم نوازی کا میں تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں نے اس بالمشافہ گفتگو سے بھرپور استفادہ کیا۔ سب سے زیادہ مجھے اس بات کی مسرت ہوئی کہ مجھے آپ سے بہ نفس نفیس ملنے کی سعادت نصیب ہوئی اور اس طرح میں آپ کے طرزِ فکر اور طرزِ استدلال کا زیادہ قریب سے مطالعہ کر سکا۔ یہ فوائد آپ کی کتب پڑھنے سے ممکن ہے اس حد تک حاصل نہ ہوتے۔
دوران گفتگو میں چونکہ آپ نے وعدہ فرمایا تھا کہ آپ مجھے اسلام اور اس کے بارے میں اپنی پیش کردہ تصریحات کے سمجھنے میں رہنمائی فرمائیں گے۔ اس لیے مجھے جرأت ہوئی کہ آپ سے چند عنایات کا مطالبہ کروں۔ آپ کو تکلیف نہ ہو تو آپ براہِ کرم مجھے اپنے اس مقالے کے اردو اور عربی تراجم بھیج دیں جو آپ نے مجلس مذاکرہ میں مسئلہ اجتہاد پر پیش کیا تھا۔ میں اس کے انگریزی ترجمے کا بنظر غائر مطالعہ کر چکا ہوں۔ جس طریق سے آپ نے قانونِ الٰہی کے معنی و مفہوم کا تعیّن کیا ہے اور اسلام کو اسی قانون کے سامنے سرنگوں ہونے کی حیثیت سے پیش کیا ہے وہ میرے نزدیک بڑا دلآویز اور دلکش ہے اور اس سے میں خاص طور پر متاثر ہوا ہوں۔ یہ نکتہ اتنا اہم ہے کہ میرے دل میں اب قدرتی طور پر یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ میں ان عربی اصطلاحات کو پورے غور سے دیکھوں جن میں اس نکتے کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہی حال مقالے کے دوسرے اہم مقامات کا بھی ہے۔ اگر آپ کے پاس اس مقالے کے اردو اور عربی تراجم کی زائد کاپیاں موجود ہوں تو ارسال فرمائیں تاکہ میں انھیں مطالعہ کر سکوں۔
اس سلسلے میں ایک دوسرا سوال بھی پیدا ہوتا ہے۔ انگریزی ترجمے میں آپ نے قانونِ الٰہی کے ماننے اور اس کے مقابلے میں اپنی خود مختاری سے دست بردار ہو جانے کا نام اسلام رکھا ہے۔ اس سے پیشتر میں اسلام سے مراد صرف خدا کے حضور میں سر نیاز خم کر دینے کو لیتا تھا۔ مگر آپ کے نزدیک یہ دونوں ایک ہی ہیں اور ان میں کوئی تعارض نہیں۔ کلو کیم میں میں نے جو مقالہ پڑھا تھا۔ اس میں میں نے انھیں دو الگ الگ چیزوں کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔ چونکہ میرے مقالے کے اردو اور عربی کے مترجمین میرے نقطۂ نظر کو اچھی طرح سمجھ نہ سکے۔ اس لیے میں نے جو کچھ عرض کیا ہے وہ صرف انگریزی مقالے کی بنا پر کہہ رہا ہوں۔ ممکن ہے یہ صراحت میری اس الجھن کو صاف کر دے جس کا اظہار میں نے آپ سے ملاقات کے وقت کیا تھا۔ اور اس ضمن میں گزارش کی تھی کہ میری رائے میں جماعت اسلامی انسان کےخدا سے تعلق پر توجہ دینے کی بجائے صرف مذہب کے خارجی مظاہر پر زور دیتی ہے۔ اس کا جو جواب آپ نے دیا اس نے مجھے سوچنے کے لیے مواد دیا ہے اور غوروخوض پر ابھارا ہے۔ تاہم آپ نے مطبوعہ مقالے میں جو موقف اختیار کیا ہے اس سے پھر یہی مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ کیا مسلمانوں کے دین کی اصل روح خدا کے ساتھ تعلق (جھکنا: اسلام) سے زیادہ شریعت کے ساتھ وابستگی میں ہے؟
اسی سے پھر ایک اور مسئلہ بھی سامنے آتا ہے۔ یعنی مسلم قوم کے دوسری مذہب پرست اقوام کے ساتھ تعلق کی صحیح نوعیت، میرے غوروفکر میں آپ کا یہ فقرہ سن کر ایک طرح کا تموّج پیدا ہوا کہ ایک مسیحی کے نزدیک خنزیر کا گوشت کھانا ایک معمولی بات ہے جس کی کوئی اہمیّت نہیں۔ میں اس کا مفہوم اچھی طرح سمجھنے سے قاصر ہوں۔ میں بحیثیت ایک عیسائی یہ اعتقاد رکھتا ہوں کہ اگر میں خنزیر کا گوشت کھانا چاہوں تو اس بارے میں مختار ہوں اور کوئی چیز اس راہ میں حائل نہیں ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر میں ایسا کروں تو آپ کو بطور مسلمان میری اس حرکت سے تکلیف ہو گی۔ کیونکہ آپ کے نقطۂ نظر کے مطابق شریعت، خدائی، ہمہ گیر اور آفاقی قانون ہے۔ کیا اللہ کے قانون کی پیروی سب پر واجب نہیں؟ اگرچہ صرف مسلمان ہی اسے پورے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ اگر میں جھوٹ بولوں تو آپ کو میرا یہ فعل ناگوار گزرے گا۔ کیا کوئی اخلاقی ضابطہ ایسا بھی ہے جو سارے انسانوں پر نافذ ہوتا ہے؟ اور اس کے علاوہ کچھ اصول و ضوابط ایسے ہیں جن کی پیروی صرف مسلمانوں پر لازم ہے؟
میں سگریٹ اور شراب پینے کا عادی نہیں۔ میرے اس طرزِ عمل سے میرے مسلمان دوست بڑے مسرور ہوتے ہیں کہ میں ان کے مذہب کے ان دو اصولوں پر کاربند ہوں۔ اگرچہ میں یہ کام خود اپنے ذاتی اعتقادات کے مطابق کرتا ہوں۔ میں نے زندگی بھر نہ تو کبھی سگریٹ کو چھوا ہے اور نہ کبھی شراب پی ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ بہتر ہے (اور اس بنا پر خدا کو زیادہ پسندیدہ ہے) کہ آدمی شراب نہ پئے اور یہ بات ایک مسلمان کے لیے اسی قدر صحیح ہے جتنی کہ ایک عیسائی، ہندو یا دہریے کے لیے۔ مگر مسلمان کے معاملے میں ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ ایک شرابی مسلمان نہ صرف اس فعل سے اپنی صحت کو تباہ کرتا ہے بلکہ وہ اپنے اندر ایک مجرم ضمیر کو بھی پالتا ہے۔ کیونکہ وہ شراب پی کر ایک ایسی حرکت کا مرتکب ہوتا ہے جس کو وہ اپنے عقیدے کی بنا پر حرام تسلیم کرتا ہے۔
اب حل طلب مسئلہ یہ ہے، کیا آ پ حضرات بحیثیت مسلمان اس بات سے زیادہ خوش نہ ہوں گے اگر میں یا میری طرح کے دوسرے غیر مسلم شریعت کے قانون کی پابندی کریں؟ اگرچہ مجھے یہ اعتراف ہے کہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے ہم اتباع شریعت کی ساری ذمہ داریوں سے کماحقہ، عہدہ برآ نہیں ہو سکتے۔ ممکن ہے آپ کا اس بارے میں جواب یہ ہو کہ میں بحیثیت عیسائی عیسائیت کے پیش کردہ قوانین و ضوابط کی پیروی کروں۔ لیکن آخر ایک ہندو اور ایک ملحد اس معاملے میں کون سا طرزِ عمل اختیار کرے؟ کیا ایک منکر خدا جو ایمان دار ہے۔ اُس خدا پر ایمان لانے والے فرد سے بہتر (اور اس وجہ سے خدا کی نظر میں زیادہ پسندیدہ) نہیں، جو بددیانت ہے؟
مجھے بڑا افسوس ہے کہ میں نے آپ کو بے جا تکلیف دی۔ اور شاید میں نے آپ کی مروّت سے اپنے حق سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔ مگر میں یہ جسارت صرف اسی لیے کر رہا ہوں کہ میں نے اپنی ساری زندگی ان مسائل کے سمجھنے میں صرف کی ہے۔ خصوصاً وہ مسائل جن کے حل ہو جانے سے قوموں کے درمیان صلح و آشتی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
آپ کا مخلص
ولفرڈ کینٹ ول سمتھ
مصنف کا جواب
محترمی! مسٹر اسمتھ‘
آپ کی یاد فرمائی کا میں بہت شکر گزار ہوں۔ آپ کے حسب طلب اپنے مقالے کی عربی اور اُردو کاپی ارسال کر رہا ہوں۔ اصل مقالہ اردو میں لکھا گیا تھا، عربی اور انگریزی، (versions) دونوں اس کے ترجمے ہیں۔ آپ چونکہ اردو سمجھتے ہیں اس لیے بہتر یہی ہو گا کہ آپ اردو مقالے ہی پر اعتماد کریں۔ اس کے ساتھ میں وہ نوٹ بھی بھیج رہا ہوں جو اپنے مقالے پر تنقیدوں کے جواب میں میں نے کلو کیم میں پیش کیا تھا۔
اسلام اور شریعت کا باہمی تعلق
آپ کے ذہن میں میرے مقالے کو دیکھ کر ’’اسلام‘‘ کے معنی کے متعلق جو سوال پیدا ہوا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کے معنی تو بے شک خدا کی اطاعت ہی کے ہیں لیکن اس اطاعت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ خدا کے قانون کی اطاعت کی جائے کیونکہ خدا کو ماننا اور اس کے قانون کو نہ ماننا دونوں باہم متناقض (Incompatible) ہیں۔ میں نے جس ترتیب سے اس مسئلے کو واضح کیا ہے آپ اسی ترتیب سے اس پر غور کریں تو صحیح پوزیشن آپ کے سامنے واضح ہو سکے گی۔ ترتیب یہ ہے-
(۱) قرآن خدا کو صرف معبود ہی نہیں قرار دیتا بلکہ قانونی حاکم (Sovereign) بھی قرار دیتا ہے۔
(۲) خدا کی خداوندی کے یہ دونوں لوازم تصوّرِ توحید کے لحاظ سے ایسے غیر منفک ہیں کہ ان میں سے جس کا بھی انکار کیا جائے وہ لازماً خدا کا انکار ہے۔
(۳) اس عقیدے کی رو سے خدا کے جس قانون کی اطاعت لازم آتی ہے اس سے مراد قوانین طبعی نہیں ہیں بلکہ وہ قانون ہے جو خدا اپنے رسولوں کے ذریعے سے دیتا ہے اور جس کا مقصد ہماری فکر و نظر اور انفرادی و اجتماعی زندگی میں ہمارے رویئے کو درست کرنا ہے۔
(۴) قرآن کی دعوت کی بنیاد ہی یہ ہے کہ انسان اس ہدایت اور اس قانون کے آگے سر تسلیم خم کریں جو خدا نے انبیا کے ذریعے سے عطا فرمائی ہے اور اس کے مقابلے میں اپنی خودمختاری سے دستبردار ہو جائیں۔ اسی چیز کا نام قرآن کی زبان میں ’’اسلام‘‘ ہے۔ (بالفاظ دیگر اگر کوئی شخص کہے کہ میں خدا کے آگے سر تسلیم خم کرتا ہوں، لیکن وہ خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کی دی ہوئی ہدایت اور ان کے پہنچائے ہوئے احکام کے آگے (submit) نہ کرے۔ نہ ان کے مقابلے میں اپنی خودمختاری کے دعوے سے دستبردار ہو‘ تو قرآن اس کو ’’مسلم‘‘ قرار دینے کے لیے تیار نہیں ہے)
اس ترتیب سے آپ معاملے کو سمجھنے کی کوشش کریں تو آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ یہ سوال جو آپ نے اٹھایا ہے کہ
(Does the heart of a Muslim’s faith not lie in his relation (Submission, Islam) to God rather than to his relation to the Shariah؎۱)
یہ سوال درحقیقت پیدا نہیں ہوتا، اس لیے کہ مسلمان کا خدا سے اسلام (Submission) کا تعلق آپ سے آپ خدا کے قانون (یعنی شریعت) سے ’’اسلام‘‘ کے تعلق کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اور یہ اس کا ایسا فطری تقاضا ہے کہ اگر خدا کے قانون سے اسلام کا تعلق باقی نہ رہے تو پھر خدا سے اسلام (Submission) کا تعلق باقی رہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔
روحِ اسلام کے تحفظ کے لیے شکل اِسلام کے تحفظ کی اہمیّت
عیسائیوں کے لحم خنزیر استعمال کرنے کے متعلق میں نے جو بات کہی تھی۔ وہ دراصل ایک دوسرے ہی سیاق و سباق میں تھی۔ میں آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ مسلمانوں کے لیے روحِ اسلام کے ساتھ شکلِ اسلام (form) کی اہمیّت کیا ہے، اور کیوں اس شکل سے بے پروائی یا انحراف کا قدرتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مسلمان پھر روحِ اسلام سے بھی بیگانہ ہو جاتا ہے۔ اس بات کو میں نے بہت سی مثالوں سے آپ کے سامنے واضح کیا تھا۔ مثلاً یہ کہ ایک مسلمان اگر نماز چھوڑ دے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ ان تمام فرائض سے منہ موڑتا چلا جائے گا جو خدا اور بندوں کے حق میں اس پر عائد ہوتے ہیں۔ چونکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اوّلین فرض جو اس پر عائد ہوتا ہے وہ نماز ہے، اس لیے اس کو فرض جانتے اور مانتے ہوئے جو شخص اسے چھوڑ دے اس سے پھر کسی حق شناسی و فرض شناسی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح جن چیزوں کو اسلام میں حرام اور سخت گناہ قرار دیا گیا ہے۔ ان کو حرام اور گناہ جاننے کے باوجود جو مسلمان ان کا ارتکاب کرے اس سے پھر آپ یہ امید نہیں کر سکتے کہ وہ کسی اخلاقی حد کو توڑنے اور کسی برائی کا ارتکاب کرنے سے باز رہ جائے گا۔ اس سلسلے میں میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ لوگ نماز چھوڑنے یا لحم خنزیر کھانے والے مسلمانوں کو اپنے اوپر قیاس کرتے ہیں اور اس بات کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ یہ مسلمان آ پ سے قریب تر ہو گئے۔ لیکن آپ یہ اندازہ نہیں کرتے کہ جن حدوں کو پھاند کر اور جن احترامات (sanctities) کو توڑ کر وہ آپ کے قریب پہنچا ہے۔ ان سے تجاوز کرنے کے باعث وہ آپ کی اخلاقی سطح سے بدرجہا زیادہ پست سطح پر گر چکا ہے۔ آپ لوگوں کے نزدیک نماز سرے سے فرض ہی نہیں ہے اور لحم خنزیر کھانا آپ کے ہاں ایک معمولی بات ہے۔ اس لیے آپ ترک نماز اور اکل خنزیر کے باوجود ان اخلاقی حدود پر قائم رہ سکتے ہیں اور ان اقدار (values) کا احترام کر سکتے ہیں جو آپ کے ہاں معتبر ہیں لیکن جو مسلمان یہ کام کرتا ہے وہ اتنی حدوں کو توڑ کر اور اتنی قیمتی اقدار کو پامال کرکے آپ کے مقام تک پہنچتا ہے کہ اس کے لیے پھر دنیا میں مشکل ہی سے کوئی چیز ایسی مقدس باقی رہ جاتی ہے جسے اپنی خواہش نفس ، یا اپنے ذاتی مفاد کی خاطر پائوں تلے روند دینے میں اسے کوئی تامل نہ ہو۔ اس لیے میں نے آپ سے گزارش کی تھی کہ آپ لوگ اسلام کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والوں کی ہمت افزائی کرنا چھوڑ دیں کیونکہ یہ مسلم سوسائٹی میں سخت اخلاقی زوال کا مظہر ہے اور کسی انسانی معاشرے کا اخلاقی زوال درحقیقت اسی معاشرے کا نقصان نہیں بلکہ پوری انسانیت کا نقصان ہے۔
اسلامی حکومت غیر مسلموں کو کن چیزوں کا پابند کر سکتی ہے؟
آپ کی یہ بات بجائے خود درست ہے کہ ہمارے نزدیک چونکہ ہر گناہ بجائے خود ایک برائی ہے۔ اس لیے جس چیز کو بھی شریعت الٰہی نے گناہ ٹھہرایا ہے۔ اس کو ہمیں کسی انسان کی زندگی میں بھی پسند نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری پوزیشن بالکل یہی ہے۔ ہم خدا کے تمام احکام کو تمام انسانوں کے لیے برحق مانتے ہیں اور جو انسان بھی ان کی خلاف ورزی کرتا ہے ہمیں اس پر رنج و افسوس ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک چاہے وہ گناہ ایک معمولی بات ہو، مگر ہمارے نزدیک وہ ایک معمولی بات نہیں ہے البتہ اگر ایک اسلامی حکومت میں کوئی غیر مسلم رہتا ہو تو ہم بعض احکام اسلامی کا اسے بالجبر پابند بنانے کی کوشش کریں گے اور بعض کے معاملے میں اسے آزاد رہنے دیں گے۔ مثلاً شرک ہمارے نزدیک سب سے بڑا گناہ ہے لیکن اگر اس کے عقیدے میں شرک ہی صحیح ہے تو ہم اسے نہیں روکیں گے۔ اسی طرح لحم خنزیر کا استعمال ہمارے نزدیک قطعی حرام ہے لیکن اگر وہ اسے حلال سمجھتا ہو تو ہم اسے اس چیز کے کھانے سے منع نہیں کریں گے۔ بخلاف اس کے ہم چوری سے، جھوٹی شہادت سے، غبن اور خیانت سے ضرور روکیں گے کیونکہ یہ تمام انسانیت کے نزدیک متفق علیہ برائیاں ہیں اور ان سے فساد فی الارض رونما ہوتاہے۔
مجھے آپ کی اس بات سے بھی اتفاق ہے کہ جو شخص جس حد تک بھی اخلاقی محاسن اور پسندیدہ اوصاف میں ہم سے قریب تر ہو اس پر ہمیں خوشی ہونی چاہیے۔ ایک آدمی کے غلط عقیدے کی برائی اپنی جگہ سہی، لیکن بدکار اور بددیانت آدمی کی بہ نسبت اچھے اخلاق کا راست باز آدمی بہرحال بہتر ہے اور اس سے ہم زیادہ اچھی طرح یہ توقع کر سکتے ہیں کہ کسی وقت وہ غلط عقیدے کی برائی بھی محسوس کرکے صحیح عقیدہ اختیار کرنے پر آمادہ ہو سکے گا۔
خاکسار
ابو الاعلیٰ مودودی
جمادی الاولیٰ ۱۳۷۷ہجری مطابق فروری ۱۹۵۸ئ
٭…٭…٭…٭…٭
اجتہاد اور اُس کے تقاضے
مسئلہ اجتہاد کے بارے میں ملک میں جو بحثیں چل رہی ہیں اسی سلسلے میں ایک صاحب دریافت کرتے ہیں۔
’’کیا ’اجتہاد‘ کے اس دروازے کو جسے صدیوں پیشتر بند کر دیا گیا تھا، آج کھولنے کی شدید ضرورت نہیں ہے؟ اور وہ اجتہادی اصول جو آج سے ہزار سال قبل بنائے گئے تھے کیا ان کو بڑی سختی سے آج بیسویں صدی کے مسائل پر بھی نافذ کیا جائے گا؟ حکومت اس صورتِ حال سے کس طرح نپٹے گی جب کہ ہر طبقہ ٔ فکر یعنی (Sub-sects) کے پیرو اپنے ائمہ کے اجتہادی احکام کو بدلنے کے خلاف ہیں اور نہایت شد و مد سے آج کے مسائل کے لیے بھی انھی کی تصریح و توضیح کرکے فیصلے کرنے کے حق میں ہیں؟ اگر ہر مکتب فکر کے علما کو اکثریت آراء سے اجتماعی طور پر ’’اجماع‘‘ کے لیے مامور کیا جائے تو کیا جو ’’اجتہاد‘‘ اس طرح کیا گیا ہو وہ تمام مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول ہو گا؟ کیا حکومت کو اس پر سختی سے عمل پیرا ہونے پر مجبور کیا جا سکے گا؟ خلاف ورزی اور مخالفت و نکتہ چینی کہاں تک برداشت ہو سکتی ہے؟ کیا حضرت علیؓ و جعفر صادقؒ و شیعہ ائمہ کا اجتہاد اور قوانین جو نہایت مناسب ہیں، تمام مسلمانوں کے لیے اسلامی حکومت نافذ کر سکتی ہے؟‘‘
یہ سوال بہت سے اصولی سوالات پر مشتمل ہے۔ میں اس کے ایک ایک جزو کا جواب نمبروار دوں گا۔
۱- اجتہاد کا دروازہ کن لوگوں کے لیے کھلا ہے؟
اجتہاد کا دروازہ کھولنے سے کسی ایسے شخص کو انکار نہیں ہو سکتا جو زمانے کے بدلتے ہوئے حالات میں ایک اسلامی نظام کو چلانے کے لیے اجتہاد کی اہمیّت و ضرورت اچھی طرح سمجھتا ہو۔ لیکن اجتہاد کا دروازہ کھولنا جتنا ضروری ہے اتنا ہی احتیاط کا متقاضی بھی ہے۔ اجتہاد کرنا ان لوگوں کا کام نہیں ہے جو ترجموں کی مدد سے قرآن پڑھتے ہوں۔ حدیث کے پورے ذخیرے سے نہ صرف یہ کہ ناواقف ہوں بلکہ اس کو دفتر بے معنی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہوں۔ پچھلی تیرہ صدیوں میں فقہائے اسلام نے اسلامی قانون پر جتنا کام کیا ہے اس سے سرسری واقفیت بھی نہ رکھتے ہوں اور اس کو بھی فضول سمجھ کر پھینک دیں، پھر اس پر مزید یہ کہ مغربی نظریات و اقدار کو لے کر ان کی روشنی میں قرآن کی تاویلیں کرنا شروع کر دیں۔ اس طرح کے لوگ اگر اجتہاد کریں گے تو اسلام کو مسخ کرکے رکھ دیں گے اور مسلمان‘ جب تک اسلامی شعور کی رمق بھی ان کے اندر موجود ہے، ایسے لوگوں کے اجتہاد کو ہرگز ضمیر کے اطمینان کے ساتھ قبول نہ کریں گے۔ اس طرح کے اجتہاد سے جو قانون بھی بنایا جائے گا وہ صرف ڈنڈے کے زور سے ہی قوم پر مسلّط کیا جا سکے گا اور ڈنڈے کے ساتھ ہی وہ رخصت ہو جائے گا۔ قوم کا ضمیر اس کو اس طرح اگل کر پھینک دے گا جس طرح انسان کا معدہ نگلی ہوئی مکھی کو اُگل کر پھینک دیتا ہے۔ مسلمان اگر اطمینان کے ساتھ کسی اجتہاد کو قبول کر سکتے ہیں تو وہ صرف ایسے لوگوں کا اجتہاد ہے جن کے علم دین اور خدا ترسی اور احتیاط پر ان کو اطمینان اور بھروسہ ہو اور جن کے متعلق وہ یہ جانتے ہوں کہ یہ لوگ غیر اسلامی نظریات و تصوّرات کو اسلام میں نہیں ٹھونسیں گے۔
۲- اصول اجتہاد اور ان کی اہمیّت
جو اجتہادی اصول آج سے ہزار سال پہلے بنائے گئے تھے وہ صرف اس لیے رد کر دینے کے قابل نہیں ہیں کہ وہ ہزار سال پرانے ہیں۔ معقولیت کے ساتھ جائزہ لے کر دیکھیے کہ وہ اصول تھے کیا اور اس بیسویں صدی میں ان کے سوا اور کچھ اصول ہو بھی سکتے ہیں یا نہیں؟ ان میں سے پہلا اصول یہ تھا کہ آدمی اس زبان کو اور اس کے قواعد اور محاوروں اور ادبی نزاکتوں کو اچھی طرح سمجھتا ہو جس میں قرآن نازل ہوا ہے۔ بتایئے کیا یہ اصول غلط ہے؟ انگریزی زبان میں قانون کی جو کتابیں لکھی گئی ہیں کیا ان کی تعبیر کا حق کسی ایسے شخص کو دیا جا سکتا ہے جو انگریزی زبان کی ایسی ہی واقفیت نہ رکھتا ہو؟ وہاں تو ایک کاما (comma) کے ادھر سے اُدھر ہو جانے سے معنی میں عظیم فرق پیدا ہو جاتا ہے، حتیٰ کہ بسا اوقات ایک کاما(Comma)کی تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ کو ایک قانون (act) پاس کرنا پڑتا ہے، مگر یہاں یہ مطالبہ ہے کہ قرآن کی وہ لوگ تعبیر کریں گے جو ترجموں کی مدد سے قرآن سمجھتے ہوں اور ترجمے بھی وہ جو انگریزی زبان میں ہیں۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ آدمی نے قرآن مجید کا اور ان حالات کا جن میں قرآن مجید نازل ہوا ہے گہرا اور وسیع مطالعہ کیا ہو۔ کیا اس اصول میں کوئی غلطی ہے؟ کیا موجودہ قوانین کی تعبیر کا حق کسی ایسے شخص کو دیا جا سکتا ہے جس نے قانون کی کسی کتاب کا محض سرسری مطالعہ کر لیا ہو یا اس کا محض ترجمہ پڑھ لیا ہو؟ تیسرا اصول یہ ہے کہ آدمی اس عمل درآمد سے اچھی طرح واقف ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور میں اسلامی قوانین پر ہوا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ قرآن خلا میں سفر کرتا ہوا براہِ راست ہمارے پاس نہیں پہنچ گیا ہے۔ اس کو خدا کی طرف سے ایک نبی لایا تھا۔ اس نبی نے اس کی بنیاد پر افراد تیار کیے تھے، معاشرہ بنایا تھا، ایک ریاست قائم کی تھی، ہزار ہا آدمیوں کو اس کی تعلیم دی تھی اور اس کے مطابق کام کرنے کی تربیت دی تھی۔ ان ساری چیزوں کو آخر کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ ان کا جو ریکارڈ موجود ہے۔ اس کی طرف سے آنکھیں بند کرکے صرف قرآن سے احکام کے الفاظ نکال لینا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے۔ چوتھا اصول یہ ہے کہ آدمی اسلامی قانون کی پچھلی تاریخ سے واقف ہو۔ وہ یہ جانے کہ قانون کس طرح ارتقا کرتا ہوا آج ہم تک پہنچا ہے۔ پچھلی تیرہ صدیوں میں صدی بہ صدی اس پر کیا کام ہوا ہے اور مختلف زمانوں میں وقت کے حالات پر قرآن اور سنّت کے احکام کو منطبق کرنے کے لیے کیا کیا طریقے اختیار کیے گئے ہیں اور تفصیلاً کیا احکام مرتّب کیے جاتے رہے ہیں۔ اس تاریخ اور اس کام سے واقف ہوئے بغیر اجتہاد کرکے ہم اسلامی قانون کے ارتقا کا تسلسل (continuity) آخر کس طرح برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ایک نسل اگر یہ طے کر لے کہ پچھلی نسلوں کے کیے ہوئے سارے کاموں کو چھوڑ دے گی اور نئے سرے سے اپنی عمارت بنائے گی تو ایسا ہی احمقانہ فیصلہ ہمارے بعد آنے والی نسلیں بھی کر سکتی ہیں۔ ایک دانش مند قوم اپنے اسلاف کے کیے ہوئے کام کو برباد نہیں کرتی بلکہ جو کچھ انھوں نے کیا ہے اس کو لے کر آگے وہ کام کرتی ہے جو انھوں نے نہیں کیا۔ اور اس طرح مسلسل ترقی جاری رہتی ہے۔ پانچواں اصول یہ ہے کہ آدمی ایمانداری کے ساتھ اسلامی اقدار اور طرزِ فکر اور خدا اور رسول کے احکام کی صحت کا معتقد ہو اور رہنمائی کے لیے اسلام سے باہر نہ دیکھے بلکہ اسلام کے اندر ہی رہنمائی حاصل کرے۔ یہ شرط ایسی ہے جو دنیا کا ہر قانون اپنے اندر اجتہاد کرنے کے لیے لازمی طور پر لگائے گا۔ درحقیقت اجتہاد کے یہی پانچ اصول ہیں۔ اگر کوئی صاحب معقول دلیل سے اس بیسویں صدی کے لیے کچھ اور اصول تجویز کر سکیں تو ہم ان کے ممنونِ احسان ہوں گے۔
۳- اسلامی حکومت میں فقہی اختلافات کے حل کا طریقہ
مسلمانوں میں فرقوں کے جتنے اختلافات ہیں ان کے بارے میں پہلے ہی پاکستان کے علما اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ جہاں تک پرسنل لا کا تعلق ہے ہر فرقے پر وہی احکام نافذ ہوں گے جو اس فرقے کے نزدیک مسلم ہیں اور جہاں تک ملکی قوانین کا تعلق ہے وہ اکثریت کے مسلک کے مطابق ہوں گے۔ کیا اس کے بعد وہ مشکلات باقی رہتی ہیں جن کا حوالہ دیا جاتا ہے؟ اگر مجلس قانون ساز میں ہمارے نمایندے احتیاط کے ساتھ اس اصول پر عمل کریں تو فرقہ وارانہ اختلافات آہستہ آہستہ کم ہوتے چلے جائیں گے اور ہمارے قوانین کا ارتقا بڑی اچھی طرح ہو سکے گا۔
۴- شیعی فقہ پاکستان میں ملکی قانون نہیں ہو سکتی
فقہ جعفری اور شیعہ علما کا اجتہاد اسی ملک میں نافذ کیا جا سکتا ہے جہاں شیعہ فرقے کی اکثریت ہو، چنانچہ ایران میں وہ نافذ ہے۔ لیکن پاکستان میں وہ شیعوں کے پرسنل لا کی حیثیت سے ہی رہ سکتا ہے، سنی اکثریت پر اس کو نافذ کرنے کی کیسے کوشش کی جا سکتی ہے؟
(ترجمان القرآن۔ دسمبر ۱۹۶۱ء)
٭…٭…٭…٭…٭
مسئلہ اجتہاد میں الفاظ اور رُوح کی حیثیت
ایک اور صاحب اسی سلسلے میں لکھتے ہیں۔
’’کیا ’اجتہاد‘ جو کیا جائے گا وہ قرآن و حدیث اور سابقہ اجتہادی احکام و قوانین جو خلفائے راشدین کے عہد میں نافذ کیے گئے تھے۔ ان کے محض الفاظ کو پیش نظر رکھ کر کیا جائے گا یا آیت و حدیث کی صحیح اسپرٹ کو مدنظر رکھ کر کہ کن اور کب اور کون سے حالات و ماحول اور رجحان کے تحت وہ احکام و قوانین جاری ہوں؟ آج موجودہ قانونی دفعات میں بھی الفاظ (Wording of the Section) کی بندش جتنی اہمیّت رکھتی ہے اس سے زیادہ دیباچہ قانون (Preamble) اہمیّت رکھتا ہے۔ جس کی روشنی میں آئین و قانون کی دفعات تک کالعدم قرار دے دی جاتی ہیں۔ فرض کیجیے جیسا کہ مسلمان روزہ طلوع آفتاب سے غروبِ آفتاب تک رکھتے ہیں لیکن نماز و روزہ کے لیے اوقات کا تعیّن قطبین (Pollars) پر رہنے والے مسلمانوں کے لیے کیا ہو گا جہاں مہینوں لمبی راتیں اور دن ہوتے ہیں؟ اور فرض کیجیے کہ کسی خطے میں قربانی کے لیے گائے، بیل، اونٹ، بھیڑ، بکری، دنبہ وغیرہ دستیاب نہ ہوتے ہوں اور مثلاً وہاں صرف سؤر، خرگوش، مچھلی، گینڈے، ہاتھی اور کتے وغیرہ موجود ہوں یا کچھ نہ ہو، تو وہاں قربانی کی کیا صورت ہو گی؟ کیا قربانی کی صحیح اسپرٹ اور اصل جذبے کے تحت جانور جتنی مالیت، رقم کی صورت میں ، حکومت وقت کے بیت المال میں اگر جمع کر دی جائے یا قوم کی فلاح وبہبود پر خرچ کر دی جائے تو کیا شریعت اس پر اکتفا کرے گی؟
اجتہاد کے لیے الفاظ اور سپرٹ دونوں ہی کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے لیکن اسپرٹ کا مسئلہ خاصا پیچیدہ ہے اگر اسپرٹ سے مراد وہ چیز ہے جو بحیثیت مجموعی قرآن کی تعلیمات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل، خلفائے راشدین کے عمل اور بحیثیت مجموعی فقہائے امت کے فہم سے ظا ہر ہوتی ہے، تو بلاشبہ یہ اسپرٹ ملحوظ رکھنے کے قابل ہے اور اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر الفاظ قرآن اور سنّت سے لیے جائیں اور اسپرٹ کہیں اور سے لائی جائے تو یہ سخت قابلِ اعتراض چیز ہے اور ایسی اسپرٹ کو ملحوظ رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم خدا اور رسول کا نام لے کر ان سے بغاوت کرنا چاہتے ہیں۔
قطبین کے متعلق روزے اور نماز کے معاملے میں ہمیں یہ دیکھنا ہو گاکہ قرآن اور حدیث کی رو سے اصل مقصود خدا کی عبادت ہے یا ان دونوں عبادتوں کو ان خاص اوقات کے اندر ادا کرنا جن کی علامات قرآن اور سنّت میں بتائی گئی ہیں؟ تمام دنیا کا یہ مسلّم قاعدہ ہے کہ کسی حکم سے جو اصل مقصود ہو وہ زیادہ اہمیّت رکھتا ہے اور اگر اس حکم کے متعلقات میں سے کوئی چیز ایسی آ جائے جس کی پابندی کرنے کے ساتھ حکم کے مقصد کو پورا نہ کیا جا سکتا ہو تو مقصد میں ترمیم کرنے کے بجائے ان متعلقات میں ترمیم کی جائے گی۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ قرآن مجید اور سنّت کی رو سے نماز ادا کرنا اور روزہ رکھنا اصل مقصد ہے اور جو اوقات ان عبادتوں کے لیے مقرر کیے گئے ہیں وہ زمین کی بہت بڑی آبادی کی سہولت کو ملحوظ رکھ کر مقرر کیے گئے ہیں۔ زمین کی آبادی کا بہت بڑا حصّہ ان علاقوں میں آباد ہے جہاں رات دن کا اُلٹ پھیر چوبیس گھنٹوں میں ہو جاتا ہے۔ اور ان علاقوں میں چونکہ اکثریت کے پاس ہر وقت گھڑی نہیں رہ سکتی۔ اس لیے ان کی سہولت کو مدنظر رکھ کر اوقاتِ عبادت کے لیے وہ علامات بیان کی گئی ہیں جو اُفق پر یا آسمان پر ظاہر ہونے والی ہیں تاکہ ہر انسان اپنی عبادت کے اوقات بآسانی معلوم کر لے۔ قطبین پر انسانی آبادی کا بہت چھوٹا حصّہ آباد ہے۔ اس آبادی کو نماز اور روزے کے احکام پر عمل کرنے کے لیے اپنے حالات کے لحاظ سے اوقاتِ مقررہ میں مناسب ترمیمیں کرنی ہوں گی کیونکہ ان اوقات کی پابندی اور عبادت کی ادائیگی دونوں ایک ساتھ نہیں ہو سکتیں۔ ظاہر ہے کہ عبادت کے حکم کو اوقات کے حکم پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔ قربانی کے حکم پر عمل کرنے کے لیے صرف دو اصول مدنظر رکھنے ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ جانور وہ ہو جو اسلام میں حرام نہیں کیا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ جانور وہ ہو جو کسی آبادی میں مویشی (cattle) کی حیثیت سے استعمال ہوتا ہو۔ اس طرح قربانی کے حکم پر دنیا کی ہر آبادی میں عمل کیا جا سکتا ہے۔ قربانی بہرحال جانور ہی کی ہونی چاہیے، اس کے بدلے میں کوئی مالی انفاق کی شکل اختیار نہیں کی جا سکتی۔ میں اس موضوع پر تفصیلی بحث اپنے رسالے ’’مسئلہ قربانی‘‘ میں کر چکا ہوں۔ (ترجمان القرآن۔ دسمبر ۱۹۶۱ئ)
٭…٭…٭…٭…٭
قانون سازی، شوریٰ اور اجماع
پاکستان میں اسلامی قانون کے نفاذ کے مطالبے سے اسلامی قانون سازی کے متعلق مختلف خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اسی سلسلے میں ایک دوست اپنی الجھنوں کی توضیح کے لیے رقمطراز ہیں۔
’’اسلام میں قانون سازی کی حقیقت و ماہیت اور اس کے دائرہ عمل کے تعیّن میں بہت افراط و تفریط سے کام لیا جاتا ہے۔ ایک طرف یہ بات کہی جاتی ہے کہ اسلام میں قانون سازی کی سرے سے گنجائش ہی نہیں ہے۔ قانون اللہ اور اس کے رسول نے بنا دیا ہے۔ مسلمانوں کا کام اس پر عمل کرنا اور اسے نافذ کرنا ہے۔ دوسری طرف اب کچھ لوگوں کے نزدیک قانون سازی کا دائرہ اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ مسلمان حکمرانوں کو اس بات کا بھی حق دے دیا گیا ہے کہ وہ عبادات سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مقررہ کردہ تفصیلات تک میں ترمیم و تنسیخ کر سکتے ہیں۔ مثلاً وہ نماز اور روزہ کی عملی شکلوں میں بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔
براہ کرم اس کی وضاحت فرمائیں کہ اسلام میں قانون سازی کے حدود اور اس کی مختلف نوعیتیں کیا کیا ہیں۔ نیز اسے بھی صاف کریں کہ خلفا کے انفرادی اور شورائی فیصلوں اور ائمہ فقہا و مجتہدین کی آرا کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ اس سلسلے میں اگر شوریٰ اور اجماع کی حقیقت پر بھی کچھ روشنی ڈال دی جائے تو مناسب ہے۔‘‘
قانون سازی کا بنیادی اصول
اسلام میں دائرہ عبادات کے اندر قانون سازی کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ البتہ عبادات کے علاوہ معاملات کے اُس دائرے میں قانون سازی کی گنجائش موجود ہے جس میں کتاب و سنّت خاموش ہے۔ اسلام میں قانون سازی کی بنیاد یہ اصول ہے کہ عبادات میں صرف وہی عمل کرو جو بتا دیا گیا ہے اور اپنی طرف سے کوئی نیا طریقہ عبادت ایجاد نہ کرو۔ اور معاملات میں جس چیز کا حکم دیا گیا ہے اس کے پابند رہو‘ جس چیز سے روک دیا گیا ہے اس سے رُک جائو اور جس چیز کے بارے میں شارع (اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم) نے سکوت اختیار کیا ہے اس میں تم اپنی صواب دید کے مطابق کام کرنے کے لیے آزاد ہو۔ امام شاطبی نے اپنی کتاب ’’الاعتصام‘‘ میں اس اصول کو یوں بیان کیا ہے۔
عبادات کا حکم عادات کے حکم سے مختلف ہے۔ عادات میں قاعدہ یہ ہے کہ جس چیز کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہے۔ اس میں گویا اپنی صوابدید پر کام کرنے کا اذن دے دیا گیا ہے۔ بخلاف اس کے عبادات میں کوئی ایسی بات استنباط سے نہیں نکالی جا سکتی جس کی اصل شرع میں موجود نہ ہو، کیونکہ عادات کے برعکس عبادات کا سر رشتہ حکمِ صریح اور اذنِ صریح سے بندھا ہوا ہے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ عادیات میں فی الجملہ ہماری عقلیں راہِ صواب معلوم کر سکتی ہیں اور عبادات میں ہم خود عقل سے یہ نہیں معلوم کر سکتے کہ اللہ سے تقرب کا راستہ کون سا ہے۔ (جلد دوم، صفحہ ۱۱۵)
قانون سازی کے چار شعبے
معاملات میں قانون سازی کے چار شعبے ہیں:
الف: تعبیر، یعنی جن معاملات میں شارع نے امر یانہی کی تصریح کی ہے ان کے بارے میں نص کے معنی یا ان کا منشا متعیّن کرنا۔
ب: قیاس، یعنی جن معاملات میں شارع کا کوئی براہِ راست حکم نہیں ہے، مگر جن سے ملتے جلتے معاملات میں حکم موجود ہے۔ ان میں علّت حکم مشخّص کرکے اس حکم کو اس بنیاد پر جاری کرنا کہ یہاں بھی وہی علّت پائی جاتی ہے جس کی بنا پر یہ حکم اس سے مماثل واقعہ میں دیا گیا تھا۔
ج: استنباط و اجتہاد‘ یعنی شریعت کے بیان کردہ وسیع اصولوں کو جزوی مسائل و معاملات پر منطبق کرنا اور نصوص کے اشارات، دلالتوں اور اقتضاء ات کو سمجھ کر یہ معلوم کرنا کہ شارع ہمارے زندگی کے معاملات کو کس شکل میں ڈھالنا چاہتا ہے۔
د: جن معاملات میں شارع نے کوئی ہدایت نہیں دی ہے ان میں اسلام کے وسیع مقاصد اور مصالح کو ملحوظ رکھ کر ایسے قوانین بنانا جو ضرورت کو بھی پورا کریں اور ساتھ ساتھ اسلام کے مجموعی نظام کی روح اور اس کے مزاج کے خلاف بھی نہ ہوں۔ اس چیز کو فقہا نے ’’مصالح مرسلہ‘‘ اور ’’استحسان‘‘ وغیرہ ناموں سے موسوم کیا ہے۔ مصالح مرسلہ کے معنی ہیں ’’وہ عمومی مصلحتیں جن کو ہماری صواب دید پر چھوڑا گیا ہے‘‘ اور استحسان سے مراد یہ ہے کہ ایک معاملہ میں بظاہر قیاس تو ایک حکم لگاتا ہے۔ مگر عظیم تر دینی مصلحتیں ایک دوسرے حکم کا تقاضا کرتی ہیں، اس لیے پہلے حکم کے بجائے دوسرے حکم کو ترجیح دے کر جاری کیا جائے۔
مصالح مرسلہ اور استحسان کی بحث
تعبیر، قیاس اور استنباط کے لیے تو کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں ہے، البتہ مصالح مرسلہ اور استحسان پر ہم کچھ مزید روشنی ڈالیں گے۔ امام شاطبی نے اپنی کتاب ’’الاعتصام‘‘ میں اس موضوع پر ایک مستقل باب لکھا ہے اور اس کی ایسی نفیس تشریح کی ہے جس سے بہتر اصولِ فقہ کی کسی کتاب میں نظر سے نہیں گزری۔ اس میں وہ مفصل دلائل دے کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ مصالح مرسلہ سے مراد قانون سازی کی بالکل کھلی چھوٹ نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے کہ بلکہ اس کے لیے تین شرطیں لازم ہیں۔
اوّل یہ کہ جو قانون اس طریقے پر بنایا جائے وہ مقاصد شریعت کے مطابق ہو نہ کہ ان کے خلاف۔
دوم یہ کہ جب وہ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے تو عام عقلیں اس کو قبول کریں۔
تیسرے یہ کہ وہ کسی حقیقی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے یا کسی حقیقی مشکل کو رفع کرنے کے لیے ہو۔ (الاعتصام جلد دوم صفحہ ۱۱۰ تا ۱۱۴)
پھر وہ استحسان پر بحث کرتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ اگر بظاہر کسی دلیل کی بنا پر قیاس یہ چاہتا ہو کہ ایک معاملے میں ایک خاص حکم لگایا جائے۔ مگر فقیہ کی نگاہ میں وہ حکم مصلحت کے خلاف ہو، یا اس سے کوئی ایسا نقصان یا حرج لازم آتا ہو جو اسلامی نقطۂ نظر سے رفع کرنے کے لائق ہے یا وہ عرف کے خلاف ہو، تو اسے چھوڑ کر دوسرا مناسب حکم لگا دینا استحسان ہے۔ بہرحال استحسان کے لیے شرط یہ ہے کہ ظاہر قیاس کو چھوڑ کر خلافِ قیاس حکم لگانے کے لیے کوئی قوی تر وجہ ہونی چاہیے جسے معقول دلائل کے ساتھ قابلِ لحاظ ثابت کیا جا سکے۔
(جلد دوم: صفحہ ۱۱۸-۱۱۹)
عدالتی فیصلوں اور ملکی قانون کا فرق
ان چاروں شعبوں کے متعلق کسی مجتہد یا امام کی انفرادی رائے اور تحقیق ایک ماہرانہ راے اور تحقیق نو ہو سکتی ہے جس کا وزن رائے دینے والے کی علمی شخصیت کے وزن کے مطابق ہی ہو گا، مگر بہرحال وہ ’’قانون‘‘ نہیں بن سکتی۔ قانون بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مملکت اسلامیہ کے اربابِ حل و عقد کی شوریٰ ہو اور وہ اپنے اجماع سے یا جمہوری فیصلے (یعنی اکثریت کے فیصلے) سے ایک تعبیر، ایک قیاس، ایک استنباط و اجتہاد، یا ایک استحسان و مصلحت مرسلہ کو اختیار کرکے قانون کی شکل دے دیں۔ خلافت راشدہ میں قانون سازی کی یہی شکل تھی۔ اس کی تشریح میں اپنے پمفلٹ ’’اسلامی دستور کی تدوین‘‘ میں کر چکا ہوں، لہٰذا یہاں اس کے اعادے کی ضرورت نہیں۔ ۱؎ یہاں میں صرف چند مثالیں دینے پر اکتفا کروں گا جن سے اندازہ ہو گا کہ خلافت راشدہ میں قومی و ملّی ضرورتیں پیش آنے پر قانون سازی کس طرح ہوتی تھی اور اس دور میں ’’قانون‘‘ اور عدالتی فیصلوں کے درمیان کیا فرق تھا۔
چند مثالیں
الف : شراب کے متعلق قرآن میں صرف حرمت کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے لیے سزا کی کوئی ’’حد‘‘ مقرر نہیں کی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس کے لیے کوئی خاص سزا مقرر نہیں کی گئی، بلکہ آپ جس کو جیسی سزا مناسب سمجھتے تھے دے دیتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ نے اپنے زمانے میں ۴۰ کوڑوں کی سزا دی‘ لیکن اس کے لیے کوئی باقاعدہ قانون نہیں بنایا۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں جب شراب نوشی کی شکایات زیادہ بڑھیں تو انھوں نے صحابہ کی مجلس شوریٰ میں معاملہ پیش کیا۔ حضرت علیؓ نے ایک مختصر تقریر میں تجویز پیش کی کہ اس کے لیے ۸۰ کوڑوں کی سزا مقرر کر دی جائے۔ شوریٰ نے اس سے اتفاق کیا اور آیندہ کے لیے یہی قانون ’’اجماع‘‘ کے ساتھ بنا دیا گیا۔ (الاعتصام جلد دوم ص ۱۰۱)
ب: خلفائے راشدین کے زمانے میں یہ قانون بھی بنایا گیا کہ کاریگروں کو اگر کوئی چیز بنانے کے لیے دی جائے (مثلاً کپڑا سینے کے لیے یا سونا زیور بنانے کے لیے) اور وہ ضائع ہو جائے، تو انھیں اس کی قیمت کا تاوان دینا ہو گا۔ یہ فیصلہ بھی حضرت علیؓ کی اس تقریر پر ہوا کہ اگرچہ کاریگر کو ایسی صورت میں بظاہر قابلِ الزام قرار نہیں دیا جا سکتا جب کہ چیز کے ضائع ہونے میں اس کی غفلت کا دخل نہ ہو لیکن اگر ایسا نہ کیا جائے تو اندیشہ ہے کہ کاریگر لوگوں کی چیزوں کی حفاظت کرنے میں غفلت برتنے لگیں گے۔ اس لیے مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ انھیں ضامن قرار دے دیا جائے۔ چنانچہ یہ فیصلہ بھی اجماع سے ہوا۔(ایضاً، جلد دوم ، صفحہ ۱۰۲)
ج: حضرت عمرؓ نے اس امر کا فیصلہ کیا کہ اگر ایک آدمی کے قتل میں چند آدمیوں نے شرکت کی ہو تو سب سے قصاص لیا جائے۔ امام مالک اور شافعی نے اس فیصلے کو قبول کیا ہے، مگر اس کو قانون کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا گیا، کیونکہ یہ ایک عدالتی فیصلہ تھا، شوریٰ میں اجماع سے یا جمہوری رائے سے قانون نہیں بنایا گیا تھا۔
(ایضاً جلد دوم۔ صفحہ ۱۰۷)
د: مفقود الخبرکی بیوی اگر عدالت کی اجازت سے نکاح ثانی کر چکی ہو اور پھر اس کا سابق شوہر آ جائے تو آیا وہ پہلے شوہر کو ملے گی یا دوسرے شوہر کے پاس رہے گی؟ اس مسئلے میں خلفائے راشدین نے مختلف فیصلے کیے ہیں، مگر کسی فیصلے کو بھی ’’قانون‘‘ کی حیثیت حاصل نہیں ہے، کیونکہ اس مسئلے کو شوریٰ میں پیش کرکے اجماع سے یا جمہور کی رائے سے کوئی فیصلہ نہ ہوا تھا۔ (ایضاً ج ۲- ص ۱۲۶)
مذکورۂ بالا بحث سے یہ بات بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ اسلام میں عدالتی فیصلوں کی وہ حیثیت نہیں ہے جو انگریزی قانون میں ہے۔ انگریزی قانون میں ججوں کے فیصلوں کی نظیریں ’’قانون‘‘ کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں، مگر اسلام میں اگرچہ ایک جج کا وہ فیصلہ نافذ ضرور ہو گا جو اس نے کسی مقدمے میں نص کی ایک تعبیر اختیار کرکے یا اپنے قیاس یا اجتہاد سے کیا ہو، لیکن اس کو ایک مستقل ’’قانون‘‘ کی حیثیت حاصل نہ ہو گی۔ بلکہ ایک ہی جج ایک مقدمے میں ایک فیصلہ دینے کے بعد ہمیشہ کے لیے اپنے اس فیصلے کا پابند نہیں ہو جاتا۔ اس کے بعد اسی سے ملتے جلتے دوسرے مقدمے میں وہ دوسرا فیصلہ دے سکتا ہے اگر اس پر اپنی پچھلی رائے کی غلطی واضح ہو چکی ہو۔
خلافت راشدہ کے بعد جب شوریٰ کا نظام درہم برہم ہو گیا تو ائمہ مجتہدین نے جو فقہ کے مختلف نظام مرتّب کیے ان کو نیم قانونی حیثیت اس بنا پر حاصل ہو گئی کہ ایک علاقے کے باشندوں کی عظیم اکثریت نے کسی ایک امام کی فقہ کو قبول کر لیا۔ مثلاً عراق میں امام ابوحنیفہؒ کی فقہ، یا اندلس میں امام مالکؒ کی فقہ، یا مصر میں امام شافعیؒ کی فقہ وغیرہ۔ لیکن اس قبولیت عام نے کہیں بھی کسی فقہ کو صحیح معنوں میں ’’قانون‘‘ نہیں بنا دیا۔ وہ قانون جہاں بھی بنی ہے اس بنا پر بنی ہے کہ ملک کی حکومت نے اسے بطور قانون تسلیم کر لیا۔
اجماع کی تعریف
اجماع کی تعریف میں علما کے اقوال مختلف ہیں۔ امام شافعیؒ کے نزدیک اجماع اس چیز کا نام ہے کہ ایک مسئلے میں تمام اہلِ علم متفق ہوں اور کوئی ایک قول بھی اس کے خلاف نہ پایا جاتا ہو۔ ابن جریر ‘طبری اور ابوبکر رازی کی اصطلاح میں اکثریت کا قول بھی ’’اجماع‘‘ ہے۔ امام احمدؒ جب کسی مسئلے میں یہ کہتے ہیں کہ ہمارے علم میں اس کے خلاف کوئی قول نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ امام موصوف کے نزدیک اس مسئلے میں اجماع ہے۔
یہ امر سب کے نزدیک مسلّم ہے کہ ’’اجماع‘‘ حجت ہے۔ یعنی نص کی جس تعبیر پر یا جس قیاس و اجتہاد پر یا جس قانونِ مصلحت پر اجماع امت ہو گیا ہو اس کی پیروی لازم ہے۔ لیکن اختلاف جس امر میں ہے وہ اجماع کا وقوع و ثبوت ہے نہ کہ بجائے خود اجماع کا حجّت ہونا۔ جہاں تک خلافت راشدہ کے دور کا تعلق ہے چونکہ اس زمانے میں اسلامی نظامِ جماعت باقاعدہ قائم تھا اور شوریٰ پر نظام چل رہا تھا، اس لیے اس وقت کے اجماعی اور جمہوری فیصلے تو معلوم اور معتبر روایات سے ثابت ہیں لیکن بعد کے دور میں جب نظامِ جماعت درہم برہم اور شوریٰ کا طریقہ ختم ہو گیا تو یہ معلوم ہونے کا کوئی ذریعہ باقی نہ رہا کہ کس چیز پر فی الحقیقت اجماع ہے اور کس چیز پر نہیں ہے۔ اسی بنا پر خلافت راشدہ کے دور کا اجماع تو ناقابلِ انکار مانا جاتا ہے، مگر بعد کے دور میں جب کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ فلاں مسئلے پر اجماع ہے تو محققین اس کے اس دعوے کو رد کر دیتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمارے نزدیک یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کس بات پر اجماع ہے اور کس بات پر نہیں ہے اسلامی نظام کا قیام ضروری ہے۔
عام طور پر جو مشہور ہے کہ امام شافعیؒ یا امام احمد بن حنبلؒ سرے سے اجماع کے وجود ہی کے منکر تھے، یا کسی دوسرے امام نے اس کا انکار کیا ہے، یہ سب کچھ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ جب کسی مسئلے پر بحث کرتے ہوئے کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اس پر اجماع ہے، درآنحالیکہ اس کا کوئی ثبوت موجود نہ ہوتا، تو یہ لوگ اس کے اس دعوے کو ماننے سے انکار کرتے تھے۔ امام شافعیؒ نے اپنی کتاب ’’جماع العلم‘‘ میں اس مسئلے پر مفصل بحث کرکے یہ بتایا ہے کہ دنیائے اسلام کے پھیل جانے اور جگہ جگہ اہلِ علم کے منتشر ہو جانے اور نظامِ جماعت درہم برہم ہو جانے کے بعد اب کسی جزوی مسئلے کے متعلق یہ معلوم کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ اس میں تمام علما کے اقوال کیا ہیں۔ اس لیے جزئیات میں اب اجماع کا دعویٰ کرنا غلط ہے۔ البتہ اسلام کے اصولوں اور اس کے ارکان اور بڑے بڑے مسائل کے بارے میں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان پر اجماع ہے مثلاً یہ کہ نماز کے اوقات پانچ ہیں۔ یا روزے کے حدودیہ ہیں وغیرہ۔ اسی بات کو امام ابن تیمیہؒ یوں بیان کرتے ہیں-
اجماع کے معنی یہ ہیں کہ کسی حکم پر تمام علمائے مسلمین متفق ہو جائیں۔ اور جب کسی حکم پر تمام امت کا اجماع ثابت ہو جائے تو کسی شخص کو اس سے نکلنے کا حق نہیں رہتا، کیونکہ پوری امت کبھی ضلالت پر متفق نہیں ہو سکتی، لیکن بہت سے مسائل ایسے ہیں جن کے متعلق بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ان میں اجماع ہے حالانکہ دراصل وہ نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات دوسرا قول راجح ہوتا ہے۔(فتاویٰ ابن تیمیہ ج ۱ ص ۴۰۶)
مذکورہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر کسی مسئلے میں نص شرع کی کسی تعبیر پر، یا کسی قیاس یا استنباط پر، یا کسی تدبیر و مصلحت پر اب بھی اہلِ حل و عقد کا اجماع، یا ان کی اکثریت کا فیصلہ فی الواقع ہو جائے تو وہ حجت ہو گا اور قانون قرار پائے گا۔ اس طرح کا فیصلہ اگر تمام دنیائے اسلام کے اہلِ حل و عقد کریں تو وہ تمام دنیائے اسلام کے لیے قانون ہو گا اور کسی ایک اسلامی مملکت کے اہلِ حل و عقد کریں تو وہ کم از کم اس مملکت کے لیے تو قانون ہو نا چاہیے۔
(ترجمان القرآن شعبان ۱۳۷۴ھ۔ مئی ۱۹۵۵ء)
٭…٭…٭…٭…٭
نظامِ اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
قارئین تفہیم القرآن میں سے ایک صاحب نے آیت زیر بحث کے متعلق اپنی ایک الجھن کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلًاo النسائ 59:4
(اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِامر ہوں۔ پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو، اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک اچھا طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔)
اس آیت کی تفسیر میں آپ نے تفہیم القرآن میں فرمایا ہے: ’’وہ بات جو آیت زیر بحث میں مستقل اور قطعی اصول کے طور پر طے کر دی گئی ہے۔ یہ ہے کہ اسلامی نظام میں خدا کا حکم اور رسول کا طریقہ بنیادی قانون اور آخری سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان یا حکومت اور رعایا کے درمیان جس مسئلے پر بھی نزاع واقع ہو گی اس میں فیصلے کے لیے قرآن اور سنّت کی طرف رجوع کیا جائے گا اور جو فیصلہ وہاں سے حاصل ہو گا اس کے سامنے سب سر تسلیم خم کر دیں گے۔ اس طرح تمام مسائل زندگی میں کتاب اللہ و سنّتِ رسول اللہ کو سند اور مرجع اور حرفِ آخر تسلیم کرنا اسلامی نظام کی وہ لازمی خصوصیت ہے جو اسے کافرانہ نظامِ زندگی سے ممیز کرتی ہے۔‘‘ ۱؎
’’آپ کی اس تشریح سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ سارے نزاعی امور میں آخری اور فیصلہ کن چیز اللہ اور اس کے رسول کے احکام ہیں۔ اس ضمن میں ایک الجھن یہ پیش آتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں تو یہ بالکل ممکن تھا کہ جس وقت کوئی اختلاف رائے ہو اسی وقت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کر لیا، لیکن اب جب کہ حضورؐ ہمارے درمیان موجود نہیں بلکہ صرف ان کی تعلیمات ہمارے سامنے ہیں، اس وقت اگر اسلام کے کسی حکم کی تعبیر کا مسئلہ درپیش ہو تو ایک اسلامی نظام میں کس شخص یا ادارے کو اس امر کا فیصلہ کرنے کا آخری اختیار حاصل ہو گا کہ اس باب میں منشائے شریعت کیا ہے۔ امید ہے آپ اس معاملے میں رہنمائی فرما کر ممنون فرمائیں گے۔‘‘
رفع نزاع میں قرآن کی تین اصولی ہدایات
اس سوال میں جس الجھن کا ذکر کیا گیا ہے اس کو رفع کرنے میں قرآن، سنّت ، دورِ صحابہ کا تعامل، عقلِ عام، اور دنیا کا معروف طریق کار، سب مل جل کر ہماری مدد کرتے ہیں۔ سب سے پہلے قرآن کو دیکھیے۔ وہ اس معاملے میں تین اصولی ہدایات دیتا ہے۔
پہلی ہدایت اہلِ ذکر کی طرف رجوع:
اوّل یہ کہ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo النحل 43:16 اگر تم علم نہیں رکھتے تو اہل الذکر سے پوچھ لو۔ اس آیت میں ’’اہل الذکر‘‘ کا لفظ بہت معنی خیز ہے۔ ’’ذکر‘‘ کا لفظ قرآن کی اصطلاح میں مخصوص طور پر اس سبق کے لیے استعمال ہوا ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے کسی امت کو دیا ہو اور اہل الذکر صرف وہ لوگ ہیں جنھیں یہ سبق یاد ہو۔ اس لفظ سے محض علم (knowledge) مراد نہیں لیا جا سکتا، بلکہ اس کا اطلاق لازماً علم کتاب و سنّت پر ہی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا یہ آیت فیصلہ کرتی ہے کہ معاشرے میں مرجعیت کا مقام ان لوگوں کو حاصل ہونا چاہیے جو کتاب الٰہی کا علم رکھتے ہوں اور اس طریقے سے باخبر ہوں جس پر چلنے کی تعلیم اللہ کے رسول نے دی ہے۔
دوسری ہدایت اولی الامر کی طرف رجوع
دوم یہ کہ
وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ۰ۭ وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ۰ۭ النسائ 83:4
اور جب کبھی امن یا خوف سے تعلق رکھنے والا کوئی اہم معاملہ ان کو پیش آتا ہے تو وہ اس کو پھیلا دیتے ہیں حالانکہ اگر وہ اس کو رسول تک اور اپنے اولی الامر تک پہنچاتے تو اس کی کنہ جان لیتے وہ لوگ جو ان کے درمیان اس کی کنہ نکال لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ معاشرے کو پیش آنے والے اہم معاملات میں خواہ وہ امن کی حالت سے تعلق رکھتے ہوں یا جنگ کی حالت سے غیر اندیشناک نوعیت کے ہوں یا اندیشناک نوعیت کے، ان میں صرف وہی لوگ مرجع ہو سکتے ہیں جو مسلمانوں کے درمیان اولی الامر ہوں، یعنی جن پر اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہو، اور جو ’’استنباط‘‘ کی صلاحیت رکھتے ہوں، یعنی پیش آمدہ معاملے کی حقیقت بھی معلوم کر سکتے ہوں اور کتاب اللہ و طریق رسول اللہ سے بھی دریافت کر سکتے ہوں کہ اس طرح کی صورتِ حال میں کیا کرنا چاہیے۔ یہ آیت اجتماعی مہمّات اور معاشرے کے لیے اہمیّت رکھنے والے معاملات میں عام اہل الذکر کے بجائے ان لوگوں کو مرجع قرار دیتی ہے جو اولی الامر ہوں۔ لیکن بہرحال ان کو بھی ہونا چاہیے اہل الذکر ہی میں سے کیونکہ وہی اس قابل ہو سکتے ہیں کہ جس قضیّے سے ان کو سابقہ پڑا ہے۔ اس میں خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی دی ہوئی قولی و عملی ہدایات کو نگاہ میں رکھ کر صحیح راے قائم کر سکیں۔
تیسری ہدایت شوریٰ کا انعقاد
سوم یہ کہ
وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ۰۠ الشوریٰ 38:42
ان کا کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا آخری فیصلہ کس طرح ہونا چاہیے۔
ان تین اصولوں کو جمع کرکے دیکھا جائے تو تمام نزاعات میں فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ کا منشا پورا کرنے کی عملی صورت یہ سامنے آتی ہے کہ لوگوں کو اپنی زندگی میں عموماً جو مسائل پیش آئیں۔ ان میں وہ ’’اہل الذکر‘‘ سے رجوع کریں اور وہ انھیں بتائیں کہ ان معاملات میں خدا اور رسول کا حکم کیا ہے۔ رہے مملکت اور معاشرے کے لیے اہمیّت رکھنے والے مسائل، تو وہ اولی الامر کے سامنے لائے جائیں اور وہ باہمی مشاورت سے یہ تحقیق کرنے کی کوشش کریں کہ کتاب اللہ اور سنّت رسول کی رُو سے کیا چیز زیادہ سے زیادہ قرین حق و صواب ہے۔
مذکورہ اصولوں کا لحاظ عہد رسالت میں
اب دیکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور حضور کے بعد خلافت راشدہ کے دور میں عملدرآمد کیا تھا۔ حضور کی حیاتِ طیبہ میں جو معاملات براہِ راست آپ تک پہنچتے تھے ان میں تو اللہ اور رسول کا منشا بتانے والے اور اس کے مطابق نزاعات کا فیصلہ کرنے والے آپؐ خود تھے۔ لیکن ظاہر بات ہے کہ پوری مملکت اسلامیہ میں پھیلی ہوئی آبادی کو جو معاملات پیش آتے تھے وہ سب کے سب براہِ راست حضور ہی تک نہیں پہنچائے جاتے تھے اور نہ آپؐ ہی سے شخصاً ان کا فیصلہ حاصل کیا جاتا تھا۔ اس کے بجائے مملکت کے مختلف علاقوں میں آپؐ کی طرف سے معلّمین مامور تھے جو لوگوں کو دین سکھاتے تھے اور عام لوگ اپنے روزمرہ کے معاملات انھی سے معلوم کرتے تھے کہ کتاب اللہ کا حکم کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طریقے کی تعلیم دی ہے۔ اس کے علاوہ ہر علاقے میں امیر، عامل اور قاضی مقرر تھے جو اپنے اپنے دائرہ عمل سے تعلق رکھنے والے اکثر و بیشتر معاملات کے خود فیصلے کیا کرتے تھے۔ ان لوگوں کے لئے فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ کا منشا پورا کرنے کا جو طریقہ حضور نے خود پسند فرمایا تھا وہ حضرت معاذ بن جبلؓ کی مشہور حدیث میں بیان ہوا ہے۔
ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم بعث معاذًا الی الیمن فقال کیف تَقضی، قال اقضی بما فی کتاب اللّٰہ، قال فان لم یکن فی کتاب اللّٰہ قال فبسنۃ رسول اللّٰہ، قال فان لم یکن فی سنۃ رسول اللّٰہ، قال اجتہد رائی، قال الحمد للّٰہ الذی وفق رسول اللّٰہ یرضٰی بہ بما رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
(ترمذی ابواب الاحکام، ابودائود ، کتاب الاقضیہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ بن جبل کو یمن کی طرف قاضی بنا کر روانہ کیا تو ان سے پوچھا تم کس طرح فیصلہ کرو گے؟ انھوں نے عرض کیا اس ہدایت کے مطابق جو اللہ کی کتاب میں ہے۔ فرمایا: اگر کتاب اللہ میں نہ ملے۔ عرض کیا: پھر جو سنّت رسول اللہ میں ہو۔ فرمایا: اگر سنّت رسول اللہ میں بھی نہ ملے۔ عرض کیا: میں اپنی رائے سے (حق و صواب تک پہنچنے کی) پوری کوشش کروں گا۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا: شکر ہے اس خدا کا جس نے رسول اللہ کے فرستادہ شخص کو وہ طریقہ اختیار کرنے کی توفیق دی جو رسول اللہ کو پسند ہے۔
حضور نے اپنے عہد مبارک میں شوریٰ کے نظام کی بنا بھی ڈال دی تھی اور ہر ایسے معاملے میں جس کے متعلق آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص حکم نہ ملا ہو۔ آپ معاشرے کے اہل الراے لوگوں سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ اس کی ایک نمایاں مثال وہ مشاورت ہے جو آنحضور نے اس مسئلے پر فرمائی تھی کہ لوگوں کو نماز کے اوقات پر جمع کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے اور جس کے نتیجے میں بالآخر اذان کا طریقہ آپؐ نے مقرر فرمایا۔
مذکورہ اصولوں کا لحاظ خلافت راشدہ میں
قریب قریب یہی طریق کار عہد رسالت کے بعد خلافت راشدہ میں جاری رہا۔ فرق صرف یہ تھا کہ عہد رسالت میں حضور خود موجود تھے۔ اس لیے معاملات کا آخری فیصلہ آپ سے شخصاً حاصل کیا جا سکتا تھا اور بعد کے دور میں مرجع آپ کی ذات نہ رہی بلکہ وہ روایات ہو گئیں جو آپ کی سنّت کے متعلق لوگوں کے پاس محفوظ تھیں۔ اس دور میں تین ادارے الگ الگ پائے جاتے تھے جو اپنے اپنے مقام و موقف کے لحاظ سے فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ کا منشا پور اکرتے تھے۔
(۱) عام اہلِ علم جو کتاب اللہ کو جانتے تھے اور جن کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں یا حضور کے طریق عمل یا حضور کی تقریر ۱؎ کے بارے میں کوئی علم موجود تھا۔ ان سے صرف عوام الناس ہی اپنی زندگی کے معاملات میں فتوے نہیں لیتے تھے بلکہ خود خلفائے راشدین کو بھی جب کسی مسئلے کا فیصلہ کرنے میں یہ معلوم کرنے کی ضرورت پیش آتی تھی کہ حضور نے اس کے بارے میں کوئی حکم دیا ہے یا نہیں، تو انھی لوگوں کی طرف رجوع فرمایا کرتے تھے۔ بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ خلیفہ وقت نے علم نہ ہونے کی وجہ سے ایک مسئلے کا فیصلہ اپنی رائے سے کر دیا ہے اور بعد میں جب معلوم ہوا ہے کہ اس معاملے میں کوئی دوسری بات حضور سے ثابت ہے تو اس فیصلے کو بدل دیا ہے۔ ان اہلِ علم کی موجودگی کا فائدہ صرف یہی نہ تھا کہ فرداً فرداً وہ عوام اور اولی الامر کے لیے ایک ذریعہ علم کا کام دیتے تھے بلکہ اس سے بڑھ کر ان کا عظیم تر فائدہ یہ تھا کہ مجموعی طور پر وہ اس بات کی ضمانت تھے کہ کوئی عدالت اور کوئی حکومت اور کوئی مجلس شوریٰ کتاب اللہ و سنّت رسول اللہ کے خلاف فیصلہ نہ کر سکے۔ ان کی مضبوط رائے عام نظام اسلامی کی پشت پناہ تھی۔ ہر غلط فیصلے کو ٹوکنے کے لیے ان کا چوکنّا رہنا نظام کے صحیح چلنے کا ضامن تھا۔ کسی مسئلے میں ان کا اتفاق رائے اس بات کی دلیل تھا کہ اس مسئلہ خاص میں دین کی راہ متعیّن ہے جس سے ہٹ کر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، اور ان کا اختلافِ رائے یہ معنی رکھتا تھا کہ اس مسئلے میں دو یا زیادہ اقوال کی گنجائش ہے اگرچہ فیصلہ ایک ہی قول پر ہو چکا ہو۔ ان کی موجودگی میں یہ ممکن نہ تھا کہ امت کے اندر کوئی بدعت قبولِ عام حاصل کر لے جائے کیونکہ ہر طرف دین کے جاننے والے لوگ اس پر گرفت کرنے کے لیے موجود تھے۔
(۲) قضا یعنی عدلیہ جس کے ضابطے کی وضاحت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قاضی شریح کے نام اپنے ایک فرمان میں اس طرح کی ہے۔
اقض بما فی کتاب اللّٰہ، فان لم یکن فی کتاب اللّٰہ فسنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فان لم یکن فی کتاب اللّٰہ ولا فی سنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فاقض بِما قضٰی بہ الصالحون فان لم یکن فی کتاب اللّٰہ ولا فی سنۃ رسول اللّٰہ ولم یقض بہ الصالحون فان شیئت فتقدم و ان شئت فتاء خّرولا ارٰی التأخر الاخیرًا لک والسّلام علیکم۔ (النسائی، کتاب آداب القضاۃ)
فیصلہ اس حکم پر کرو جو کتاب اللہ میں ہو، اگر کتاب اللہ میں نہ ہو تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت پر، اگر نہ کتاب اللہ میں ہو اور نہ سنّت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو پھر صالحین نے جو فیصلے کیے ہوں ان کے مطابق فیصلہ کرو۔ لیکن اگر کسی معاملے کا حکم نہ کتاب اللہ میں ملتا ہو نہ سنّت رسول اللہ میں، اور نہ صالحین ہی کے فیصلوں میں ان کے متعلق کوئی نظیر موجود ہو تو تمھیں اختیار ہے چاہے خود پیش قدمی کرو یا رک جائو اور میرے نزدیک رک جانا تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے۔‘‘ ۱؎
اسی ضابطے کو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
قداتٰی علینا زمان ولسنا نقضی ولسنا ہنالک ثمَّ ان اللّٰہ عزوجل قدر علینا ان بلغنا ماترون فمن عرض لہٗ منکم قضاء بعد الیوم فلیقض بما فی کتاب اللّٰہ فان جاء امر لیس فی کتاب اللّٰہ فلیقض بما قضی بہ نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فان جاء امر لیس فی کتاب اللّٰہ ولا قضی بہ نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلیقض بما قضٰی بہ الصالحون فان جاء امر لیس فی کتاب اللّٰہ ولا قضی بہ نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا قضی بہ الصالحون فلیجتہد رأیہ ولا یقول انی اخاف انی اخاف فان الحلال بیّن والحرام بیّن وبین ذٰلک امور مشتبہات فدع ما یریبک الی مالا یریبک۔ (النسائی۔ کتاب مذکور)
وہ زمانہ گزر چکا ہے جب ہم نہ فیصلہ کرتے تھے اور نہ ہماری یہ حیثیت تھی کہ فیصلے کریں (یعنی سرکار رسالت مآبؐ کا دور) اب تقدیر الٰہی سے ہم اس حالت کو پہنچے ہیں جو تم لوگ دیکھ رہے ہو۔ پس اب تم میں سے جس کے سامنے کوئی معاملہ فیصلے کے لیے پیش ہو تو اسے چاہیے کہ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرے۔ اور اگر ایسا کوئی معاملہ آ جائے جس کا حکم کتاب اللہ میں نہ ہو تو اس کا فیصلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق کرے اور اگر معاملہ ایسا ہو کہ اس کا حکم نہ کتاب اللہ میں ہو اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ فرمایا ہو تو صالحین نے اس کا جو فیصلہ کیا ہو اس کی پیروی کرے لیکن اگر ایک معاملہ ایسا آ جائے جو نہ کتاب اللہ میں ہو، نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں میں اور نہ صالحین نے اس سے پہلے کبھی اس کا فیصلہ کیا ہو تو اپنی رائے سے (حق و صواب تک پہنچنے کی) پوری کوشش کرے اور یہ نہ کہے کہ میں ڈرتا ہوں، میں ڈرتا ہوں، کیونکہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح۔ اور ان دونوں کے درمیان کچھ اور امور مشتبہ ہیں، سو مشتبہ امور میں آدمی کو وہ فیصلہ کرنا چاہیے جو اس کے ضمیر کو نہ کھٹکے اور ایسا فیصلہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے جس کے متعلق خود اس کے ضمیر میں کھٹک ہو۔
یہ عدلیہ صرف عوام ہی کے باہمی نزاعات کا فیصلہ کرنے کی مجاز نہ تھی بلکہ انتظامیہ (Executive) کے خلاف بھی وہ لوگوں کے دعا وی سنتی اور ان کے فیصلے کرتی تھی۔ اس کے سامنے حاضر ہونے سے نہ کوئی گورنر مستثنیٰ تھا نہ خود خلیفہ ٔ وقت۔ اسی طرح انتظامیہ کے بڑے سے بڑے شخص حتیٰ کہ خلیفہ ٔ وقت کو بھی اور خود حکومت کو بھی اگر کسی کے خلاف کوئی ذاتی یا سرکاری دعویٰ ہوتا تھا تو اسے عدالت میں جانا ہوتا تھا اور عدالت ہی یہ طے کرتی تھی کہ خدا اور رسول کے قانون کی رو سے اس کا صحیح فیصلہ کیا ہے۔
(۳) اولی الامر، یعنی خلیفہ اور اس کی مجلس شوریٰ۔ یہ وہ آخری بااختیار ادارہ تھا جو قرآن کی ہدایت کے مطابق باہمی مشورے سے یہ طے کرتا تھا کہ معاشرے اور مملکت کو پیش آنے والے مختلف معاملات میں کتاب اللہ اور سنّت رسول اللہ سے کیا حکم ثابت ہے، اور اگر کسی معاملے کا حکم کتاب و سنّت میں نہیں ہے تو اس کے بارے میں کون سا طرزِ عمل دین کے اصول اور اس کی روح اور جماعت مسلمین کی مصلحت کے لحاظ سے اقرب الی الصواب ہے۔ اس ادارے کے بکثرت فیصلے احادیث و آثار اور فقہ کی کتابوں میں مستند ذرائع سے نقل ہوئے ہیں اور اکثر و بیشتر کے ساتھ وہ تفصیلی بحثیں بھی منقول ہوئی ہیں جو فیصلہ کرتے وقت صحابہ کی مجلس میں ہوئی تھیں۔ ان کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ادارہ پوری سختی کے ساتھ جس قاعدہ کلیہ کی پابندی کرتا تھا وہ یہ تھا کہ ہر معاملے میں سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کیا جائے، پھر یہ معلوم کیا جائے کہ اگر اس طرح کا کوئی معاملہ حضور کے زمانے میں پیش آیا ہے تو آپ نے اس کے بارے میں کیا فیصلہ فرمایا ہے اور اپنی صوابدید پر صرف اس صورت میں فیصلہ کیا جائے جب کہ یہ دونوں ماخذ ِہدایت خاموش ہوں۔ جس معاملے میں بھی اللہ کی کتاب سے کوئی آیت‘ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت سے کوئی نظیر ان کو مل گئی ہے، اس میں کبھی انھوں نے اس سے ہٹ کر کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ پورے دورِ صحابہ میں اس قاعدے کے خلاف ایک مثال بھی ہم کو نہیں ملتی۔ اگرچہ عملاً مملکت میں آخری فیصلے کے اختیارات اولی الامر ہی کو حاصل تھے۔ لیکن قانوناً وہ قرآن اور سنّت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری فیصلہ کن سند تسلیم کرتے تھے، اور مسلم معاشرہ بھی ان کے اقتدار کی اطاعت اسی اطمینان و اعتماد کی بنا پر کرتا تھا کہ وہ اپنے فیصلوں میں قرآن و سنّت کی پیروی سے تجاوز نہ کریں گے۔ ان میں سے کسی کے ذہن میں یہ وہم و گمان تک نہ تھا کہ وہ نص قرآن کے خلاف کوئی قانون بنانے یا حکم دینے کے مجاز ہیں۔ اسی طرح کسی کے حاشیۂ خیال میں بھی اس تصوّر نے کبھی راہ نہیں پائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانے کے صاحب امر تھے اور ہم اپنے زمانے کے صاحب امر ہیں، ہم اس کے پابند نہیں ہیں کہ حضور نے اپنے دورِ حکومت میں جو احکام دیئے ہوں ان کے نظائر کی پیروی کریں۔ حضور کی وفات کے بعد خلافت کا ادارہ جس روز وجود میں آیا اسی روز خلیفہ اوّل نے اپنے خطبے میں یہ اعلان کر دیا تھا کہ
اطیعونی ما اطعت اللّٰہ و رسولہ فان عصیت اللّٰہ و رسولہ فلا طاعۃ لی علیکم
میری اطاعت کرو جب تک کہ میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا رہوں اور اگر میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو میرے لیے کوئی اطاعت تم پر نہیں ہے۔
اس اعلان سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ خلافت کا یہ ادارہ قائم ہی اس معاہدے پر ہوا تھا کہ خلیفہ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اور امت خلیفہ کی اطاعت کرے گی۔ دوسرے الفاظ میں امت پر خلیفہ کی اطاعت اس شرط کے ساتھ مشروط تھی کہ وہ خدا اور رسول کے احکام کی پیروی کرے گا۔ اس شرط کے فوت ہوتے ہی امت پر سے خلیفہ کی اطاعت کا فریضہ آپ سے آپ ساقط ہو جاتا تھا۔
رفع نزاع میں عقل عام کا تقاضا
اس کے بعد ذرا عقل عام سے کام لے کر دیکھیے کہ قرآن مجید کی آیت زیر بحث کا منشا کیا ہے اور اس کے تقاضے عملاً کس طرح پورے ہو سکتے ہیں۔ یہ آیت پورے مسلم معاشرے کو خطاب کرکے اسے علی الترتیب تین اطاعتوں کا ملتزم قرار دیتی ہے۔ پہلے خدا کی، پھر رسول کی، پھر ان اولی الامر کی جو خود اس معاشرے میں سے ہوں۔ اور نزاعات کے بارے میں ہدایت کرتی ہے کہ فیصلے کے لیے خدا اور رسول کی طرف رجوع کرو۔ اس سے آیت کا جو منشا ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ معاشرے پر اصل اطاعت خدا اور رسول کی واجب ہے، اولی الامر کی اطاعت ِ خدا اور رسول کی اطاعت کے تابع ہے، نزاع صرف عوام کے درمیان ہی نہیں عوام اور اولی الامر کے درمیان بھی ہو سکتی ہے اور نزاع کی تمام صورتوں میں آخری فیصلہ کن اقتدار اولی الامر کا نہیں بلکہ خدا اور رسول کا ہے، ان کا جو حکم بھی ہو اس کے آگے عوام کو بھی سر جھکا دینا چاہیے اور اولی الامر کو بھی۔
اب پہلا سوال یہ ہے کہ فیصلہ کے لیےخدا اور رسول کی طرف رجوع کرنے کا مطلب کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ خدا کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا خود سامنے موجود ہو اور اس کے حضور مقدمہ پیش کرکے فیصلہ حاصل کیا جائے، بلکہ اس سے مرادخدا کی کتاب سے یہ معلوم کرنا ہے کہ معاملہ متنازع فیہ میں اس کا حکم کیا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کا مطلب بھی یہ نہیں ہو سکتا کہ ذاتِ رسولؐ سے براہِ راست رجوع کیا جائے بلکہ لا محالہ اس کا مطلب بھی یہی ہو سکتا ہے کہ حضور کی تعلیمات اور آپ کے قول و عمل سے ہدایت حاصل کی جائے۔ یہ بات تو خود حضور کی زندگی میں بھی ممکن نہ تھی کہ عدن سے لے کر تبوک تک اور بحرین سے لے کر جدہ تک ساری مملکت اسلامیہ کا ہر باشندہ اپنے ہر معاملے کا فیصلہ براہِ راست حضور ہی سے کراتا ہو۔ اس زمانے میں بھی سنّت رسول ہی کو احکام کا ماخذ ہونا چاہیے تھا۔
اس کے بعد دوسرا سوال یہ ہے کہ نزاعات میں خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی سنّت سے فیصلہ حاصل کرنے کی صورت کیا ہو سکتی ہے؟ ظاہر بات ہے کہ یہ فیصلہ انسان ہی دیں گے، کتاب اور سنّت خود تو نہیں بولیں گے لیکن لا محالہ یہ انسان وہی ہونے چاہییں جن کے پاس کتاب و سنّت کا قابلِ اعتماد علم ہو۔ اور کتاب و سنّت کی بنیاد پر فیصلہ کرنے والے بہرحال نزاع کے فریقین خود نہیں ہو سکتے، ان کے سوا کوئی تیسرا غیر جانب دار شخص یا ادارہ ایسا ہونا چاہیے جو ان کے درمیان فیصلہ کرے۔ اب یہ بات نزاعات کی نوعیت پر منحصر ہے کہ کس قسم کی نزاع میں فیصلہ دینے کے لیے کون موزوں ہو سکتا ہے۔ ایک قسم کی نزاع ایسی ہے جس کا فیصلہ ہر ذی علم آدمی کر سکتا ہے۔ دوسری قسم کی نزاع لازماً ایک عدالت چاہتی ہے اور بعض نزاعات اپنی نوعیت ہی کے لحاظ سے ایسی ہیں کہ ان کا حتمی فیصلہ اولی الامر کے سوا کوئی اور نہیں کر سکتا۔ مگر ان سب صورتوں میں فیصلے کا ماخذ کتاب و سنّت ہی کو ہونا چاہیے۔
یہ وہ بات ہے جو عقل عام کی مدد سے آیت کے الفاظ پر غور کرکے ہر شخص سمجھ سکتا ہے بشرطیکہ اس کے ذہن میں کوئی اینچ پینچ نہ ہو۔ اب ایک نظریہ بھی دیکھ لیجیے کہ دنیا کا معروف طریقہ اس آیت کے تجویز کردہ نظام اور اس کی عملی صورت کے سمجھنے میں ہماری کیا مدد کرتا ہے۔ دنیا میں آج قانون کی حکومت (Rule of Law) کا بڑا چرچا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ دنیا میں انصاف کے قیام کے لیے قانون کی بالاتری ناگزیر ہے جس کے آگے بڑے اور چھوٹے سب یکساں ہوں اور جسے عامی اور حاکم اور خود حکومت پر بے لاگ طریقے سے نافذ کیا جائے۔ اس قانون کو چاہے ایک پارلیمنٹ ہی بنائے۔ مگر جب وہ قانون بن جائے تو جب تک وہ قانون ہے خود پارلیمنٹ کو بھی اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ اس حاکمیت قانون کے نظریے کو جہاں بھی عملی جامہ پہنایا گیا ہے وہاں لازماً چار چیزوں کا ہونا ضروری سمجھا گیا ہے:
ایک‘ ایسا معاشرہ جو قانون کا احترام کرنے والا ہو اور اس کی پیروی کا حقیقی ارادہ رکھتا ہو۔
دوسرے، معاشرے میں بکثرت ایسے لوگوں کا پایا جانا جو قانون کو جانتے ہوں، لوگوں کو قانون کی پیروی میں مدد دے سکتے ہوں، اور جن کا مجموعی علم اور رسوخ و اثر اس بات کا ضامن ہو کہ نہ معاشرہ قانون کی راہ سے ہٹ سکے اور نہ سیاسی اقتدار کو اس سے ہٹنے کی جرأت ہو سکے۔
تیسرے، ایک بے لاگ عدلیہ جو عوام اور حکام اور حکومت کی باہمی نزاعات میں قانون کے مطابق ٹھیک ٹھیک فیصلے کرے۔
چوتھے ایک بلند ترین اختیارات رکھنے والا ادارہ جو معاشرے کو پیش آنے والے تمام مسائل و معاملات کا آخری حل تجویز کرے اور وہی حل معاشرے میں قانون کی حیثیت سے نافذ ہو۔
ان حقائق کو نگاہ میں رکھ کر جب آپ غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ قرآن مجید کی زیر بحث آیت دراصل اسلامی معاشرے میں قانون کی فرمانروائی ہی قائم کرتی ہے اور اس پر عمل درآمد کے لیے وہی چار چیزیں درکار ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ فرق اگر ہے تو یہ کہ وہ جس قانون کی فرمانروائی قائم کرتی ہے وہ فی الواقع اس کا مستحق ہے، اور دنیا میں جن قوانین کی بالاتری قائم کی جاتی ہے وہ اس کے مستحق نہیں ہیں۔ وہ خدا اور رسول کے قانون کو بالاتر قانون قرار دیتی ہے جس کے آگے سب کو سر تسلیم خم کر دینا چاہیے اور جس کے تابع ہونے میں سب یکساں ہوں۔ اس کا مخاطب ایک ایسا معاشرہ ہے جو اس قانون پر ایمان لائے اور اپنے قلب و ضمیر کے تقاضے سے اس کی اطاعت کرے۔ اس کا منشا پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں اہل الذکر کی ایک کثیر تعداد پائی جاتی ہو جن کی مدد سے افراد معاشرہ اپنی زندگی کے معاملات میں ہر جگہ ہر وقت اس بالاتر قانون کی رہنمائی حاصل کرتے رہیں اور جن کے ذریعے سے رائے عام اس نظام کی حفاظت کے لیے ہمیشہ بیدار رہے۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ایک نظام عدالت موجود ہو جو عوام ہی کے درمیان نہیں بلکہ عوام اور ان کے حاکموں کے درمیان بھی بالاتر قانون کے مطابق فیصلے کرے۔ اور وہ اولی الامر کے ایک ایسے ادارے کی طالب بھی ہے جو خود اس بالاتر قانون کا تابع ہو اور معاشرے کی اجتماعی ضروریات کے لیے اس کی تفسیر و تعبیر اور اس کے تحت اجتہاد کے آخری اختیارات استعمال کرے۔ (ترجمان القرآن۔ رجب ۱۳۷۷ھ۔ اپریل ۱۹۵۸ء)
٭…٭…٭…٭…٭
سنت ِرسول بحیثیت ِماخذ قانون
(ذیل میں جسٹس ایس اے رحمان صاحب کے ایک خط پر مصنف کا تبصرہ درج کیا جا رہا ہے۔ وہ خط دراصل اس مراسلت کا ایک حصّہ تھا جو ترجمان القرآن کے صفحات میں صاحب موصوف اور پروفیسر عبدالحمید صدیقی صاحب کے درمیان ہوئی تھی۔ ان صفحات میں اس بحث کو نقل کرنے کی غرض صرف یہ ہے کہ اس سلسلے میں سنّت کے متعلق جو اہم مسائل زیر بحث آ گئے ہیں ان سے عام ناظرین استفادہ کر سکیں۔ فاضل مکتوب نگار کے اصل خط کو یہاں درج کرنے کی حاجت نہیں ہے کیونکہ اس کا متعلقہ حصّہ خود ہمارے تبصرے میں آ گیا ہے)
فاضل مکتوب نگار نے اپنے موقف کی وضاحت فرماتے ہوئے نمبر وار جو اشارات فرمائے ہیں ان میں سے نمبر ۳ کچھ بحث طلب ہے ، کیونکہ اپنی موجودہ مختصر صورت میں وہ بہت سی غلط فہمیاں پیدا کر سکتا ہے۔ اس لیے میں اس کے متعلق کچھ باتیں اس توقع کے ساتھ ان کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ وہ ان پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور فرمائیں گے۔
صدیقی صاحب نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ائمہ سلف کی مرتّب کردہ فقہ پر نظرثانی اگر کی جا سکتی ہے تو صرف اس بنیاد پر کہ ان کا کوئی اجتہاد و استنباط قرآن و سنّت کے مطابق ہے یا نہیں۔ فاضل مکتوب نگار اس کے متعلق فرماتے ہیں:
’’جہاں تک قرآنِ حکیم کا تعلق ہے تفسیر و تعبیر کا حق برقرار رکھتے ہوئے ہر شخص اس سے اتفاق کرے گا لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں سنّت کا مسئلہ مختلف فیہ ہے۔‘‘
ان الفاظ سے یہ گمان ہوتا ہے کہ موصوف کے نزدیک قرآن تو اسلامی احکام معلوم کرنے کے لیے ضرور مرجع و سند ہے مگر وہ سنّت کو یہ حیثیت دینے میں اس بنا پر متأمل ہیں کہ اس کا مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ اب یہ بات ان کے بیان سے واضح نہیں ہوتی کہ اس مسئلے میں کیا چیز مختلف فیہ ہے؟
کیا سنّت کا ماخذ قانون ہونا مسلمانوں میں اختلافی مسئلہ ہے؟
اگر ان کا مطلب یہ ہے کہ بجائے خود سنّت (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل اور امرو نہی) کا ماخذ قانون اور مرجع احکام ہونا ہی مختلف فیہ ہے تو میں عرض کروں گا کہ یہ ایک خلافِ واقعہ بات ہے۔ جس روز سے امت مسلمہ وجود میں آئی ہے اس وقت سے آج تک یہ بات اہلِ اسلام میں کبھی مختلف فیہ نہیں رہی ہے۔ تمام امت نے ہمیشہ اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مطاع اور متبوع ہیں۔ ان کے حکم کی اطاعت اور ان کے امر و نہی کا اتباع ہر مسلمان پر واجب ہے۔ جس طریقے پر چلنے کی انھوں نے اپنے قول و عمل اور تقریر ۱؎ سے تعلیم دی ہے اس کی پیروی پر ہم مامور ہیں، اور زندگی کے جس معاملے کا بھی انھوں نے فیصلہ کر دیا ہے اس میں کوئی دوسرا فیصلہ کر لینے کے ہم مجاز نہیں ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ تاریخ اسلام کے گزشتہ ۱۳۸۱ سال میں کس نے اور کب اس سے اختلاف کیا ہے۔ نرالی اپچ نکالنے والے کچھ منفرد اور شاذ قسم کے خبطی تو دنیا میں ہمیشہ ہر گروہ میں پائے جاتے رہے ہیں۔ اس طرح کے افراد نے کبھی مسلّماتِ قوم کے خلاف کوئی بات کر دی ہو تو اس کی بنا پر یہ کہہ دینا صحیح نہیں ہے کہ ایک عالمگیر مسلّمہ مختلف فیہ ہو گیا ہے۔ اس لیے وہ مسلّمہ نہیں رہا۔ اس طرح تو خبطیوں کی تاخت سے قرآن بھی نہیں بچا ہے۔ کہنے والے تحریف قرآن تک کا دعویٰ کر بیٹھے ہیں۔ اب کیا ان کی وجہ سے ہم کلامِ الٰہی کے مرجع و سند ہونے کو بھی مختلف فیہ مان لیں گے؟
کیا اختلافات کی گنجائش ہونا سنّت کے ماخذ قانون ہونے میں مانع ہے؟
لیکن اگر مختلف فیہ سنّت کا بجائے خود مرجع و سند ہونا نہیں ہے بلکہ اختلاف جو کچھ بھی واقع ہوتا ہے اور ہوا ہے وہ اس امر میں ہے کہ کسی خاص مسئلے میں جس چیز کے سنّت ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہو وہ فی الواقع سنّت ثابتہ ہے یا نہیں، تو ایسا ہی اختلاف قرآن کی آیات کے مفہوم و منشا میں بھی واقع ہوتا ہے۔ ہر صاحب علم یہ بحث اٹھا سکتا ہے کہ جو حکم کسی مسئلے میں قرآن سے نکالا جا رہا ہے وہ درحقیقت اس سے نکلتا ہے یا نہیں۔ فاضل مکتوب نگار نے خود قرآن مجید میں اختلافِ تفسیر و تعبیر کا ذکر کیا ہے اور اس اختلاف کی گنجائش ہونے کے باوجود وہ بجائے خود قرآن کو مرجع و سند مانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسی طرح الگ الگ مسائل کے متعلق سنتوں کے ثبوت و تحقیق میں اختلاف کی گنجائش ہونے کے باوجود فی نفسہٖ ’’سنت‘‘ کو مرجع و سند تسلیم کرنے میں انھیں کیوں تامّل ہے۔
یہ بات ایک ایسے فاضل قانون دان سے جیسے کہ محترم مکتوب نگار ہیں، مخفی نہیں رہ سکتی کہ قرآن کے کسی حکم کی مختلف ممکن تعبیرات میں سے جس شخص، ادارے یا عدالت نے تفسیر و تعبیر کے معروف علمی طریقے استعمال کرنے کے بعد بالآخر جس تعبیر کو حکم کا اصل منشا قرار دیا ہو اس کے علم اور دائرہ کار کی حد تک وہی حکمِ خدا ہے اگرچہ یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ حقیقت میں بھی وہی حکم خدا ہے۔ بالکل اسی طرح سنّت کی تحقیق کے علمی ذرائع استعمال کرکے کسی مسئلے میں جو سنّت بھی ایک فقیہ، یا لیجسلیچر یا عدالت کے نزدیک ثابت ہو جائے وہی اس کے لیے حکم رسول ہے اگرچہ قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حقیقت میں رسول کا حکم وہی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں یہ امر تو ضرور مختلف فیہ رہتا ہے کہ میرے نزدیک خدا یا رسول کا حکم کیا ہے اور آپ کے نزدیک کیا، لیکن جب تک میں اور آپ خدا اور اس کے رسول کو آخری سند (final authority) مان رہے ہیں، ہمارے درمیان یہ امر مختلف فیہ نہیں ہو سکتا کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم بجائے خود ہمارے لیے قانونِ واجب الاتباع ہے۔ لہٰذا میں جناب ایس اے رحمان صاحب کی یہ بات سمجھنے سے معذور ہوں کہ احکامِ فقہ کی تحقیق میں وہ قرآن کو تو ان اختلافات کے باوجود مرجع و سند مانتے ہیں جو اس کے منشا کی تعیین میں واقع ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں، مگر سنّت کو یہ حیثیت دینے میں اس بنا پر تامّل کرتے ہیں کہ جزئیات مسائل کے متعلق سنتوں کے مشخّص کرنے میں اختلافات واقع ہوئے ہیں اور ہو سکتے ہیں۔
کیا احادیث موضوعہ کی موجودگی واقعی بے اطمینانی کی موجب ہے؟
آگے چل کر صاحب موصوف سنّت کو سند قرار نہ دینے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’متعدد احادیث موضوعہ متداولہ مجموعوں میں شامل ہو گئی ہیں‘‘۔ اور اس کے ساتھ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ’’اس موضوع پر ضخیم کتابیں بھی لکھی گئی ہیں‘‘۔ بظاہر اس ارشاد سے ان کا مدعا یہ متصوّر ہوتا ہے کہ سنّت ایک مشکوک چیز ہے۔ ممکن ہے کہ یہ شبہ اختصار بیان کی وجہ سے پیدا ہوتا ہو اور فی الواقع ان کا مدعا یہ نہ ہو لیکن اگر ان کا مدعا یہی ہے تو میں عرض کروں گا کہ وہ اس مسئلے پر مزید غور فرمائیں۔ ان شائ اللہ انھیں خود محسوس ہو گا کہ جس چیز کو وہ سنّت کے مشکوک ہونے کی دلیل سمجھ رہے ہیں وہی دراصل اس کے محفوظ ہونے کا اطمینان دلاتی ہے۔ میں تھوڑی دیر کے لیے اس سوال کو چھوڑ دیتا ہوں کہ وہ کون سے متداول مجموعے ہیں جن میں احادیث ِموضوعہ شامل ہو گئی ہیں۔ اگرچہ مختلف محدّثین نے جو مجموعے بھی مرتّب کیے ہیں ان میں اپنی حد تک پوری چھان بین کرکے انھوں نے یہی کوشش کی ہے کہ قابلِ اعتماد روایات جمع کریں۔ مگر اس معاملے میں صحاح ستّہ اور مؤطّا کا پایہ جس قدر بلند ہے وہ اہلِ علم سے پوشیدہ نہیں ہے تاہم تھوڑی دیر کے لیے ہم یہ مان بھی لیں کہ سب مجموعوں میں موضوعات نے کچھ نہ کچھ راہ پا لی ہے تو غور طلب بات یہ ہے کہ وہ ’’ضخیم کتابیں‘‘ جن کا ذکر فاضل مکتوب نگار کر رہے ہیں آخر ہیں کس موضوع پر۔ ان کا موضوع یہی تو ہے کہ کون کون سی حدیثیں وضعی ہیں، کون کون سے راوی کذّاب اور وضّاع حدیث ہیں، کہاں کہاں موضوع احادیث نے راہ پائی ہے۔ کس کتاب کی کون کون سی روایات ساقط الاعتبار ہیں، کن راویوں پر ہم اعتماد کر سکتے ہیں اور کن پر نہیں کر سکتے۔ ’’موضوع‘‘ کو ’’صحیح‘‘ سے جدا کرنے کے طریقے کیا ہیں، اور روایات کی صحت، ضعف، علّت وغیرہ کی تحقیق کن کن طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔ ان ضخیم کتابوںکی اطلاع پا کر تو ہمیں امن کا ویسا ہی اطمینان حاصل ہوتا ہے جیسا کسی کو یہ سن کر ہو کہ بکثرت چور پکڑ لیے گئے ہیں، بڑے بڑے جیل خانے ان سے بھر گئے ہیں۔ بہت سے اموال مسروقہ برآمد کر لیے گئے ہیں اور سراغ رسانی کا ایک باقاعدہ انتظام موجود ہے جس سے آیندہ بھی چور پکڑے جا سکتے ہیں۔ لیکن تعجب کی بات ہو گی اگر کسی کے لیے یہی اطلاع الٹی بے اطمینانی کی موجب ثابت ہو اور وہ اسے بدامنی کے ثبوت میں پیش کرنے لگے۔ بیشک بڑی مثالی حالت ِامن ہوتی اگر چوری کا سرے سے کبھی وقوع ہی نہ ہوتا۔ بلاشبہ اس طرح کی واردات ہو جانے سے کچھ نہ کچھ بے اطمینانی تو پیدا ہو ہی جاتی ہے۔ لیکن مکمل حالت ِامن زندگی کے اور کس معاملے میں ہم کو نصیب ہے جو یہاں ہم اسے طلب کریں۔ جس حالت پر ہم دنیا میں بالعموم مطمئن رہتے ہیں اس کے لیے اتنا امن کافی ہے کہ چوروں کی اکثریت پکڑ کر بند کر دی جائے اور جو قلیل تعداد بھی آزاد پھر رہی ہو اس کے پکڑے جانے کا معقول انتظام موجود ہو۔ کیا ہمارے سپریم کورٹ کے فاضل جج سنّت کے معاملے میں اتنے امن پر قانع نہیں ہو سکتے؟ کیا وہ اس مکمل امن سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہیں جس میں سرے سے چوری کے وقوع ہی کا نام و نشان نہ پایا جائے؟
روایات کی صحت جانچنے کے اصول
آخر میں فاضل محترم تحریر فرماتے ہیں:
’’میں اس معاملے میں بھی افراط و تفریط کا قائل نہیں۔ سنّنِ متوارث جن کا تعلق طریق عبادات مثلاً نماز یا مناسک حج وغیرہ سے ہے ان کی حیثیت مصوُن و مامون ہے لیکن باقی ماندہ موادِ احادیث روایت کے ساتھ درایت کے اصولوں پر پرکھا جانا چاہیے۔ پیشتر اس کے کہ اس کی حجیت قبول کی جائے۔ میں تاریخی تنقید کا قائل ہوں۔‘‘
یہ ایک حد تک صحیح نقطۂ نظر ہے لیکن اس میں چند امور ایسے ہیں جن پر میں آں محترم کو مزید غوروفکر کی دعوت دوں گا۔ جس تاریخی تنقید کے وہ قائل ہیں، فن حدیث اسی تنقید ہی کا تو دوسرا نام ہے۔ پہلی صدی سے آج تک اس فن میں یہی تنقید ہوتی رہی ہے اور کوئی فقیہ یا محدّث اس بات کا قائل نہیں رہا ہے کہ عبادات ہوں یا معاملات، کسی مسئلے کے متعلق بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت دی جانے والی کسی روایت کو تاریخی تنقید کے بغیر حجت کے طور پر تسلیم کر لیا جائے۔ یہ فن حقیقت میں اس تنقید کا بہترین نمونہ ہے اور جدید زمانے کی بہتر سے بہتر تاریخی تنقید کو بھی مشکل ہی سے اس پر کوئی اضافہ و ترقی (Improvement) کہا جا سکتا ہے۔ بلکہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ محدّثین کی تنقید کے اصول اپنے اندر ایسی نزاکتیں اور باریکیاں رکھتے ہیں جن تک موجودہ دور کے ناقدین تاریخ کا ذہن بھی ابھی تک نہیں پہنچا ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر میں بلاخوفِ تردید یہ کہوں گا کہ دنیا میں صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت و سیرت اور ان کے دور کی تاریخ کا ریکارڈ ہی ایسا ہے جو اس کڑی تنقید کے معیاروں پر کسا جانا برداشت کر سکتا تھا جو محدّثین نے اختیار کی ہے، ورنہ آج تک دنیا کے کسی انسان اور کسی دور کی تاریخ بھی ایسے ذرائع سے محفوظ نہیں رہی ہے کہ ان سخت معیاروں کے آگے ٹھہر سکے اور اس کو قابلِ تسلیم تاریخی ریکارڈ مانا جا سکے۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے جدید زمانے کے اہلِ علم اس فن کا تحقیقی مطالعہ نہیں کرتے اور قدیم طرز کے اہلِ علم جو اس میں بصیرت رکھتے ہیں وہ اس کو عصر حاضر کی زبان اور اسالیب ِبیان میں پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ اسی وجہ سے باہر والے تو درکنار خود ہمارے اپنے گھر کے لوگ آج اس کی قدر نہیں پہچان رہے ہیں۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ علوم حدیث میں سے اگر صرف ایک علل حدیث ہی کے فن کی تفصیلات سامنے رکھ دی جائیں تو دنیا کو معلوم ہو کہ تاریخی تنقید کس چیز کا نام ہے۔ تاہم میں یہ کہوں گا کہ مزید اصلاح و ترقی کا دروازہ بند نہیں ہے۔ کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ روایات کو جانچنے اور پرکھنے کے جو اصول محدّثین نے اختیار کیے ہیں وہ حرفِ آخر ہیں۔ آج اگر کوئی ان کے اصولوں سے اچھی طرح واقفیت پیدا کرنے کے بعد ان میں کسی کمی یا خامی کی نشان دہی کرے اور زیادہ اطمینان بخش تنقید کے لیے کچھ اصول معقول دلائل کے ساتھ سامنے لائے تو یقیناً اس کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ ہم میں سے آخر کون یہ نہ چاہے گا کہ کسی چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت قرار دینے سے پہلے اس کے سنّت ِ ثابتہ ہونے کا تیقّن حاصل کر لیا جائے اور کوئی کچی پکی بات حضور کی طرف منسوب نہ ہونے پائے۔
درایت کی حقیقت
احادیث کے پرکھنے میں روایت کے ساتھ درایت کا استعمال بھی، جس کا ذکر محترم مکتوب نگار نے کیا ہے، ایک متفق علیہ چیزہے۔ اگرچہ درایت کے مفہوم، اصول اور حدود میں فقہا و محدّثین کے مختلف گروہوں کے درمیان اختلافات رہے ہیں، لیکن بجائے خود اس کے استعمال پر تقریباً اتفاق ہے اور دورِ صحابہ سے لے کر آج تک اسے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ البتہ اس سلسلے میں جو بات پیش نظر رہنی چاہیے اور مجھے امید ہے کہ فاضل مکتوب نگار کو بھی اس سے اختلاف نہ ہو گا۔ وہ یہ ہے کہ درایت صرف انھی لوگوں کی معتبر ہو سکتی ہے جو قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کے مطالعہ و تحقیق میں اپنی عمر کا کافی حصّہ صرف کر چکے ہوں، جن میں ایک مدت کی ممارست نے ایک تجربہ کار جوہری کی سی بصیرت پیدا کر دی ہو اور خاص طور پر یہ کہ جن کی عقل اسلامی نظامِ فکر و عمل کے حدود اربعہ سے باہر کے نظریات، اصول اور اقدار لے کر اسلامی روایات کو ان کے معیار سے پرکھنے کا رجحان نہ رکھتی ہو۔ بلاشبہ عقل کے استعمال پر ہم کوئی پابندی نہیں لگا سکتے، نہ کسی کہنے والے کی زبان پکڑ سکتے ہیں۔ لیکن بہرحال یہ امر یقینی ہے کہ اسلامی علوم سے کورے لوگ اگر اناڑی پن کے ساتھ کسی حدیث کو خوش آیند پا کر قبول اور کسی کو اپنی مرضی کے خلاف پا کر ردّ کرنے لگیں، یا اسلام سے مختلف کسی دوسرے نظام فکر و عمل میں پرورش پائے ہوئے حضرات یکایک اٹھ کر اجنبی معیاروں کے لحاظ سے احادیث کے ردّ و قبول کا کاروبار پھیلا دیں تو مسلم ملت میں نہ ان کی درایت مقبول ہو سکتی ہے اور نہ اس ملت کا اجتماعی ضمیر ایسے بے تکے عقلی فیصلوں پر کبھی مطمئن ہو سکتا ہے۔ اسلامی حدود میں تو اسلام ہی کی تربیت پائی ہوئی عقل اور اسلام کے مزاج سے ہم آہنگی رکھنے والی عقل ہی ٹھیک کام کر سکتی ہے۔ اجنبی رنگ و مزاج کی عقل یا غیر تربیت یافتہ عقل بجز اس کے کہ انتشار پھیلائے کوئی تعمیری خدمت اس دائرے میں انجام نہیں دے سکتی۔
سنت کے معتبر ہونے کے دلائل
سنت کی جو تقسیم محترم مکتوب نگار نے ’’سنن متوارث جن کا تعلق طریق عبادات سے ہے‘‘ اور ’’باقی ماندہ موادِ احادیث‘‘ میں کی ہے اور ان میں سے مقدّم الذکر کو مصوُن و مامون اور موخر الذکر کو محتاجِ تنقید قرار دیا ہے، اس سے اتفاق کرنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ بظاہر اس تقسیم میں جو تصوّر کام کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ جو طریقے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادات کے متعلق سکھائے تھے وہ تو امت میں عملاً جاری ہو گئے اور نسل کے بعد نسل ان کی پیروی کرتی رہی، اس لیے یہ ’’متوارث‘‘ سنتیں محفوظ رہ گئیں، باقی رہے دوسرے معاملاتِ زندگی تو ان میں حضورؐ کی ہدایات نہ عملاً جاری ہوئیں، نہ ان پر کوئی نظامِ تمدن و معاشرت کام کرتا رہا، نہ وہ بازاروں اور منڈیوں میں رائج ہوئیں، نہ عدالتوں میں ان پر فیصلے ہوئے۔ اس لیے وہ بس متفرق لوگوں کی سینہ بسینہ روایات تک محدود رہ گئیں، اور یہی مواد ایسا ہے کہ اب اس میں سے بڑی دیدہ ریزی کے بعد قابلِ اعتبار چیزیں تلاش کرنی ہوں گی۔ فاضل مکتوب نگار کا تصوّر اگر اس کے سوا کچھ اور ہے تو میں بہت شکرگزار ہوں گا کہ وہ میری غلط فہمی رفع کر دیں۔ لیکن اگر یہی ان کا تصوّر ہے تو میں عرض کروں گا کہ یہ تاریخِ سنّت کی واقعی صورتِ حال سے مطابقت نہیں رکھتا۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عہد نبوت میں مسلمانوں کے لیے محض ایک پیرومرشد اور واعظ نہیں تھے بلکہ عملاً ان کی جماعت کے قائد، رہنما، حاکم، قاضی، شارع، مربی، معلّم سب کچھ تھے اور عقائد و تصوّرات سے لے کر عملی زندگی کے تمام گوشوں تک مسلم سوسائٹی کی پوری تشکیل آپ ہی کے بتائے سکھائے اور مقرر کیے ہوئے طریقوں پر ہوئی تھی۔ اس لیے یہ کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے نماز روزے اور مناسک حج کی جو تعلیم دی ہو بس وہی مسلمانوں میں رواج پا گئی ہو اور باقی باتیں محض وعظ و ارشاد میں مسلمان سن کر رہ جاتے ہوں۔ بلکہ فی الواقع جو کچھ ہوا وہ یہ تھا کہ جس طرح آپ کی سکھائی ہوئی نماز فوراً مسجدوں میں رائج ہوئی اور اسی وقت جماعتیں اس پر قائم ہونے لگیں ٹھیک اسی طرح شادی بیاہ اور طلاق و وراثت کے متعلق جو قوانین آپ نے مقرر کیے انھی پر مسلم خاندانوں میں عمل شروع ہو گیا، لین دین کے جو ضابطے آپ نے مقرر کیے انھی کا بازاروں میں چلن ہونے لگا، مقدمات کے جو فیصلے آپ نے کیے وہی ملک کا قانون قرار پائے، لڑائیوں میں جو معاملات آپ نے دشمنوں کے ساتھ اور فتح پا کر مفتوح علاقوں کی آبادی کے ساتھ کیے وہی مسلم مملکت کے ضابطے بن گئے اور فی الجملہ اسلامی معاشرہ اور اس کا نظامِ حیات اپنے تمام پہلوئوں کے ساتھ انھی سنتوں پر قائم ہوا جو آپ نے یا تو خود رائج کیں یا جنھیں پہلے کے مروّج طریقوں میں سے بعض کو برقرار رکھ کر آپ نے سنّت ِاسلام کا جُز بنا لیا۔ یہ وہ معلوم و متعارف سنتیں تھیں جن پر مسجد سے لے کر خاندان، منڈی، عدالت، ایوانِ حکومت اور بین الاقوامی سیاست تک مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے تمام ادارات نے حضورؐ کی زندگی ہی میں عملدرآمد شروع کر دیا تھا اور بعد میں خلفائے راشدین کے عہدے سے لے کر دورِ حاضر تک ہمارے اجتماعی ادارات کا ڈھانچہ انھی پر قائم ہے۔ پچھلی صدی تک تو ان ادارات کے تسلسل میں ایک دن کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد اگر کوئی انقطاع رونما ہوا ہے تو صرف حکومت و عدالت اور پبلک لا کے ادارات عملاً درہم برہم ہو جانے کی وجہ سے ہوا ہے۔ اگر آپ ’’متوارث‘‘ سنتوں کی محفوظیت کے قائل ہیں تو عبادات اور معاملات دونوں سے تعلق رکھنے والی یہ سب معلوم و متعارف سنتیں متوارث ہی ہیں۔ ان کے معاملے میں ایک طرف حدیث کی مستند روایات اور دوسری طرف امت کا متواتر عمل، دونوں ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ان میں مسلمانوں کی بے راہ روی سے جو الحاقی چیز بھی کبھی داخل ہوئی ہے، علمائے امت نے اپنے اپنے دور میں بروقت ’’بدعت‘‘ کی حیثیت سے اس کی الگ نشاندہی کر دی ہے اور قریب قریب ہر ایسی بدعت کی تاریخ موجود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کس زمانے سے اس کا رواج شروع ہوا۔ مسلمانوں کے لیے ان بدعات کو سنن متعارفہ سے ممیز کرنا کبھی مشکل نہیں رہا ہے۔
اخبار آحاد کی حیثیت
ان معلوم و متعارف سنتوں کے علاوہ ایک قسم سنتوں کی وہ تھی جنھیں حضورؐ کی زندگی میں شہرت اور رواجِ عام حاصل نہ ہوا تھا۔ جو مختلف اوقات میں حضورؐ کے کسی فیصلے، ارشاد، امر و نہی، تقریر و اجازت، یا عمل کو دیکھ کر یا سن کر خاص خاص اشخاص کے علم میں آئی تھیں اور عام لوگ ان سے واقف نہ ہو سکے تھے۔ یہ سنتیں عبادات اور معاملات دونوں ہی طرح کے امور سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ ان کا تعلق صرف معاملات سے تھا۔ ان سنتوں کا علم جو متفرق افراد کے پاس بکھرا ہوا تھا۔ امت نے اس کو جمع کرنے کا سلسلہ حضورؐ کی وفات کے بعد فوراً ہی شروع کر دیا۔ کیونکہ خلفاء، حکام، قاضی، مفتی اور عوام سب اپنے اپنے دائرہ کار میں پیش آمدہ مسائل کے متعلق کوئی فیصلہ یا عمل اپنی رائے اور استنباط کی بنا پر کرنے سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری سمجھتے تھے کہ اس معاملے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ہدایت تو موجود نہیں ہے۔ اسی ضرورت کی خاطر ہر اس شخص کی تلاش شروع ہوئی جس کے پاس سنّت کا کوئی علم تھا، اور ہر اس شخص نے جس کے پاس ایسا کوئی علم تھا خود بھی اس کو دوسروں تک پہنچانا اپنا فرض سمجھا۔ یہی روایت ِحدیث کا نقطہ آغاز ہے۔ اور ۱۱ھ سے تیسری چوتھی صدی تک ان متفرق سنتوں کو فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ موضوعات گھڑنے والوں نے ان کے اندر آمیزش کرنے کی جتنی بھی کوششیں کیں وہ قریب قریب سب ناکام ہو گئیں کیونکہ جن سنتوں سے کوئی حق ثابت یا ساقط ہوتا تھا، جن کی بنا پر کوئی چیز حرام یا حلال ہوتی تھی، جن سے کوئی شخص سزا پا سکتا تھا یا کوئی ملزم بری ہو سکتا تھا، غرض یہ کہ جن سنتوں پر احکام اور قوانین کا مدار تھا ان کے بارے میں حکومتیں اور عدالتیں اور افتا کی مسندیں اتنی بے پروا نہیں ہو سکتی تھیں کہ یوں ہی اٹھ کر کوئی شخص قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیتا اور ایک حاکم یا جج یا مفتی اسے مان کر کوئی حکم صادر کر ڈالتا۔ اسی لیے جو سنتیں احکام سے متعلق تھیں ان کے بارے میں پوری چھان بین کی گئی، سخت تنقید کی چھلنیوں سے ان کو چھانا گیا، روایت کے اصولوں پر بھی انھیں پرکھا گیا اور درایت کے اصولوں پر بھی، اور وہ سارا مواد جمع کر دیا گیا جس کی بنا پر کوئی روایت مانی گئی ہے۔ یا ردّ کر دی گئی ہے تاکہ بعد میں بھی ہر شخص اس کے ردّ و قبول کے متعلق تحقیقی رائے قائم کر سکے۔ ان سنتوں کا ایک معتدبہ حصّہ فقہاء اور محدّثین کے درمیان متفق علیہ ہے اور ایک حصّے میں اختلافات ہیں۔ بعض لوگوں نے ایک چیز کو سنّت مانا ہے اور بعض نے نہیں مانا۔ مگر اس طرح کے تمام اختلافات میں صدیوں اہلِ علم کے درمیان بحثیں جاری رہی ہیں اور نہایت تفصیل کے ساتھ ہر نقطہ ٔ نظر کا استدلال اور وہ بنیادی مواد جس پر یہ استدلال مبنی ہے فقہ اور حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ آج کسی صاحب علم کے لیے بھی یہ مشکل نہیں ہے کہ کسی چیز کے سنّت ہونے یا نہ ہونے کے متعلق تحقیق سے خود کوئی رائے قائم کر سکے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ سنّت کے نام سے متوحش ہونے کی کسی کے لیے بھی کوئی معقول وجہ ہو سکتی ہے۔ البتہ ان لوگوں کا معاملہ مختلف ہے جو اس شعبہ علم سے واقف نہیں ہیں اور جنھیں بس دور ہی سے حدیثوں میں اختلافات کا ذکر سن کر گھبراہٹ لاحق ہو گئی ہے۔
احکامی احادیث کی امتیازی حیثیت
اس سلسلے میں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ احادیث میں جو مواد احکام سے متعلق نہیں ہے بلکہ جس کی نوعیت محض تاریخی ہے یا جو فتن ِ، ملاحم، رِقاق، مناقب، فضائل اور اسی طرح کے دوسرے امور سے تعلق رکھتا ہے، اس کی چھان بین میں وہ عرق ریزی نہیں کی گئی ہے جو احکامی سنتوں کے باب میں ہوئی ہے۔ اس لیے موضوعات نے اگر راہ پائی بھی ہے تو زیادہ تر انھی ابواب کی روایات میں پائی ہے۔ احکامی سنتیں بے اصل اور جھوٹی روایتوں سے تقریباً بالکل ہی پاک کر دی گئی ہیں۔ ان سے تعلق رکھنے والی روایتوں میں ضعیف خبریں تو ضرور موجود ہیں مگر موضوعات کی نشاندہی مشکل ہی سے کی جا سکتی ہے اور اخبارِ ضعیفہ میں سے بھی جس کسی کو فقہ کے کسی اسکول نے قبول کیا ہے اس بنا پر کیا ہے کہ اس کے نزدیک وہ قرآن سے، سُننِ متعارفہ کے جانے پہچانے نظام سے اور شریعت کے جامع اصولوں سے مناسبت رکھتی ہے، یعنی روایتہ ضعیف ہونے کے باوجود درایتہ اس میں معنی کی قوت موجود ہے۔
محترم مکتوب نگار کی چند سطروں پر یہ تفصیلی تبصرہ میں نے صرف اس لیے کیا ہے کہ یہ سطریں کسی عام آدمی کے قلم سے نہیں نکلی ہیں بلکہ ایک ایسے بزرگ کے قلم سے نکلی ہیں جنھیں ہمارے سپریم کورٹ کے جج کی بلند پوزیشن حاصل ہے۔ سنّت کی شرعی و قانونی حیثیت کے متعلق اس پوزیشن کے بزرگوں کی رائے میں ذرّہ برابر بھی کوئی کمزور پہلو ہو تو وہ بڑے دوررس نتائج پیدا کر سکتا ہے۔ قریب کے زمانے میں سنّت کے متعلق عدلیہ کی بعض دوسری بلند پایہ شخصیتوں کے ایسے ریمارک بھی سامنے آئے ہیں جو صحیح علمی نقطۂ نظر سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ جو باتیں میں نے اس تبصرے میں عرض کی ہیں انھیں فاضل مکتوب نگار ہی نہیں ہمارے دوسرے حکام عدالت بھی اسی بے لاگ نگاہ سے ملاحظہ فرمائیں جس کی ہم اپنی عدلیہ سے توقع رکھتے ہیں۔(ترجمان القرآن۔ دسمبر۱۹۵۸ئ)
٭…٭…٭…٭…٭
اسلام میں ضرورت و مصلحت کا لحاظ اور اس کے اصول و قواعد
حکمت ِ عملی کے باب میں مصنف پر چند الزامات
مصنف کے ایک سابقہ مضمون جماعت کا موقف اور طریق کار کی اشاعت کے بعد ایک صاحب لکھتے ہیں-
’’آپ نے ربیع الثانی ۱۳۷۶ھ (دسمبر ۱۹۵۶ئ )کے ترجمان میں کسی صاحب کے دو مکتوبات کا جواب دیا ہے جن میں آپ نے لکھا ہے، ہم اپنی تحریک کو خلا میں نہیں چلا رہے ہیں بلکہ واقعات کی دنیا میں چلا رہے ہیں، اگر ہمارا مقصد محض اعلانِ حق ہوتا تو ہم ضرور صرف بے لاگ حق بات کہنے پر اکتفا کرتے، لیکن ہمیں چونکہ حق کو قائم بھی کرنے کی کوشش کرنی ہے اور اس کے لیے اسی واقعات کی دنیا میں سے راستہ نکالنا ہے اس لیے ہمیں نظریت (آئیڈیلزم) اور حکمت ِعملی کے درمیان توازن برقرار رکھتے ہوئے چلنا پڑتا ہے ‘‘… ۱؎ حکمت ِ عملی ہی یہ طے کرتی ہے کہ منزل ِمقصود تک پہنچنے کے لیے راستے کی کن چیزوں کو آگے پیش قدمی کا ذریعہ بنانا چاہیے، کن کن مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے، کن کن موانع کے ہٹانے کو مقصدی اہمیت دینی چاہیے اور اپنے اصولوں میں سے کن میں بے لچک ہونا اور کن میں اہم تر مصالح کی خاطر حسب ضرورت لچک کی گنجائش نکالنا چاہیے۔‘‘
آئیڈیلزم اور حکمت ِ عملی کے درمیان توازن برقرار رکھنے اور بعض اہم تر مصالح یا دینی مقاصد کی خاطر بعض اصولوں میں لچک پیدا کرنے کی مثال آپ نے سنّت نبویؐ سے یہ پیش کی ہے: ’’اسلامی نظام کے اصولوں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ تمام نسلی اور قبائلی امتیازات کو ختم کرکے اس برادری میں شامل ہونے والے سب لوگوں کویکساں حقوق دیئے جائیں … لیکن جب پوری مملکت کی فرمانروائی کا مسئلہ سامنے آیا تو آنحضورؐ نے ہدایت دی کہ الائمۃ من قریش (امام قریش میں سے ہوں)‘‘ اس استثنا کی توجیہ آپ نے یہ کی ہے کہ ’’اس وقت عرب کے حالات میں کسی غیر عرب تو درکنار کسی غیر قریشی خلیفہ کی خلافت بھی عملاً کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لیے حضورؐ نے خلافت کے معاملے میں مساوات کے اس عام اصول پر عمل کرنے سے صحابہ کو روک دیا کیونکہ اگر عرب ہی میں حضورؐ کے بعد اسلامی نظام درہم برہم ہو جاتا تو دنیا میں اقامت دین کے فریضے کو کون انجام دیتا؟ یہ اس بات کی صریح مثال ہے کہ ایک اصول کو قائم کرنے پر ایسا اصرار جس سے اس اصول کی بہ نسبت بہت زیادہ اہم دینی مقاصد کو نقصان پہنچ جائے، حکمت ِ عملی ہی نہیں حکمت دین کے بھی خلاف ہے۔‘‘ اس کے بعد آپ نے لکھا ہے ’’مگر یہ معاملہ اسلام کے سارے اصولوں کے بارے میں صحیح نہیں ہے، جن اصولوں پر دین کی اساس قائم ہے، مثلاً توحید اور رسالت وغیرہ، ان میں عملی مصالح کے لحاظ سے لچک پیدا کرنے کی کوئی مثال حضورؐ کی سیرت میں نہیں ملتی۔ نہ اس کا تصوّر ہی کیا جا سکتا ہے۔‘‘
بعض لوگوں نے آپ کے ایسے اقتباسات نقل کرکے ان سے بعض نتائج اخذ کیے ہیں اور پھر آپ پر بعض اعتراضات وارد کیے ہیں۔ مثلاً ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ ’’جو فکر و فلسفہ تحریک اقامت دین کے نام سے سیّدالرسلؐ کی جانب منسوب کیا جا رہا ہے، اس کا تجزیہ کیجیے تو صورتِ واقعہ یوں بنتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی نظام قائم کرنے کی تحریک جاری فرمائی اور اس کے چند اصول بیان فرمائے۔ ان میں سے بعض تو وہ تھے جن کا تعلق ایمانیات سے تھا، مثلاً ایمان باللہ، ایمان بالرسالت وغیرہ … حضورؐ کی پوری زندگی میں کوئی مثال ایسی نہیں ملتی جس سے ان اصولوں میں لچک اور استثنا کا ثبوت پیش کیا جا سکے۔ لیکن ان کے ساتھ کچھ دوسری قسم کے اصول بھی آنحضورؐ نے پیش فرمائے۔ مثلاً جو اسلامی نظام میں قائم کروں گا اس میں ہر اسود و ابیض اور عربی و عجمی کا درجہ مساوی ہو گا، سب کو جان و مال اور عزت و آبرو کی آزادی حاصل ہو گی وغیرہ … لوگوں نے ان اصولوں کو مفید محسوس کیا اور اپنی خدمات اسلامی نظام کے قیام کے لیے پیش کر دیں … بالآخر وہ لمحہ آیا کہ یہ نظام عملاً قائم ہوگیا۔ اس مرحلے پر قائد تحریک (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے جو طرزِ عمل اختیار فرمایا وہ یہ تھا کہ آپ نے اپنی تحریک کے آغاز میں لوگوں کے سامنے جو آئیڈیل پیش فرمایا تھا، اس کے ان اصولوں کو جو اوّل الذکر قسم (ایمانیات) کے اصولوں سے الگ تھے (مثلاً مساوات، شخصی آزادی، جان و مال کی حفاظت وغیرہ) ان کے بارے میں طے فرمایا کہ ان میں سے جو اصول حکمت ِ عملی سے متصادم ہوں گے، یعنی جن پر عمل پیرا ہونے سے اقامت دین کی تحریک کو نقصان پہنچے گا، ان میں استثنا اور لچک پیدا کر لی جائے گی۔‘‘
مزید تحلیل و تجزیہ کرتے ہوئے آپ کا موقف یہ قرار دیا گیا ہے گویا کہ آپ نے اس اصول کو بطور فلسفہ و عقیدہ کے طے کر لیا ہے کہ اسلامی نظام کے دعوتی اور اشاعتی دور میں جو اصول بیان کیے جائیں اور جن پر لوگوں کو جمع کیا جائے، جب اسلامی نظام قائم کرنے کا وقت آئے گا تو اس تحریک کے قائد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ توحید و رسالت ایسے اساسی اصولوں کے سوا تحریک کے مفاد کے لیے جس اصول میں ضروری خیال کرے استثنا پیدا کر لے، اس پر عمل کرنے سے اپنی جماعت کو روک دے اور جو ضمانت اس تحریک نے عوام کو ابتدائی دور میں دی ہو، اس میں سے جس جزو کو وہ دین کی مصلحت کے لیے مضر خیال کرے، ساقط کردے۔‘‘
آپ کا یہ مسلک متعیّن کرنے کے بعد انھی مکتوبات سے آپ کا ایک دوسرا اقتباس بھی دیا گیا ہے جس میں آپ نے کہا ہے کہ ’’ہم اسلام کے موجد تو نہیں ہیں کہ اپنی مرضی سے جیسا چاہیں پروگرام بنائیں اور دعوتِ اسلامی کا مفاد جس طریقے میں ہم کو نظر آئے اس کو اختیار کر لیں۔‘‘ اس اقتباس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ کے بیان میں تضاد و تناقض ہے اور آپ کا رویہ ایک معمّا بن گیا ہے۔ پھر یہ حضرات اس معمّے کو حل کرنے اور بقولِ خویش اس کے پس منظر میں آپ کے ذہن کی گہرائیوں کو پڑھنے کی بھی کوشش کرتے ہیں اور آخرکار یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ آپ پہلے کبھی اسلام کے ساتھ اخلاص کا معاملہ کرتے رہے ہوں تو کرتے رہے ہوں مگر پاکستانی سیاسیات میں حصّہ لینے کے بعد آپ اسلام کو اپنی ذاتی اور جماعتی اغراض پر قربان کرنے کے در پے ہیں۔ چنانچہ ایک طرف آپ مکمل اسلامی دستور کے مطالبے کی کامیابی سے مایوس ہیں مگر دوسری طرف مسند حکومت پر پہنچنے کے بھی متمنّی ہیں، اس لیے اپنے اس اصول کو برقرار رکھنے کے لیے کہ ’’جس حکومت کا دستور ایسا اور ایسا نہ ہو اس میں حصّہ نہیں لیا جا سکتا۔‘‘ آپ نے اصولوں میں لچک پیدا کرنے کا نظریہ پیش کر دیا ہے۔ اسی طرح آپ کی جداگانہ انتخاب کی حمایت کا سبب بھی یہی بیان کیا گیا ہے کہ مخلوط انتخاب میں آپ کا اور آپ کی جماعت کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اس وجہ سے آپ اس معاملے میں اسلام کے اصولوں کا سہارا لیتے ہیں۔
جو لوگ حال ہی میں جماعت اسلامی سے الگ ہوئے ہیں ان کی علیحدگی کی اصل بنیاد بھی یہی بیان کی گئی ہے کہ ان کے احساس کے مطابق بھی آپ کے سامنے اب مسئلہ صرف اقتدار حاصل کرنے کا ہے اور اس مقصد کے لیے آپ جس وقت جو پالیسی مناسب سمجھیں اختیار کرنے پر آمادہ ہیں چاہے وہ اسلام کے اصولوں کے کتنے ہی خلاف ہو۔ نیز اگر ضرورت پڑے تو آپ اسلامی اصولوں کی من مانی تشریح کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ ان لوگوں کے بقول آپ کی اسلامی تحریک اور ان طالع آزما سیاست دانوں کی تحریکات کے مابین کوئی فرق نہیں ہے جو حصولِ اقتدار سے پہلے نہایت پاکیزہ اصول بیان کرتے ہیں لیکن جب انھیں اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تو وہ ان وعدوں اور اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور اسلام کے اصولوں میں وقتی مصالح کی بنا پر اپنی صوابدید کے مطابق ترمیم و تنسیخ جائز سمجھتے ہیں۔
بہرکیف اس طرح کی بحثیں اور اعتراضات چونکہ پیدا کیے جا رہے ہیں اور ان سے بکثرت لوگ غلط فہمیوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اس لیے یہ بہت مناسب بلکہ ضروری ہے کہ آپ ایک مرتبہ اچھی طرح وضاحت کر دیں کہ آپ کی زیر بحث تحریروں کا صحیح مدعا کیا ہے اور جماعت کی پالیسی کے خلاف جو اعتراضات پھیلائے گئے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔‘‘
مصنف کا جواب
میری مذکورہ بالا تحریروں پر جو حاشیہ آرائیاں کی گئی ہیں وہ سب میری نگاہ سے گزرتی رہی ہیں۔ مگر میں نے ان پر اسی طرح صبر کیا جس طرح اس سے پہلے بہت سے حضرات کے فتوئوں، اشتہاروں اور رسالوں پر صبر کرتا رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے جو تھوڑی سی مہلت عمر اور قوتِ تحریر و تقریر مجھے عطا فرمائی ہے اس کو میں کسی مفید کام میں صرف کرنا چاہتا ہوں تاکہ دنیا میں اس سے اﷲ کے دین کی کچھ خدمت ہو جائے اور آخرت میں وہ میرے گناہوں کا کفّارہ بن سکے۔ میرے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ اس ذرا سے وقت اور اس تھوڑی سی قوت کو ایسی بحثوں میں ضائع کر دوں جن کا کوئی حاصل دنیا میں دین اور اہلِ دین کی رسوائی اور آخرت میں لفظ لفظ پر اللہ تعالیٰ کی باز پرس کے سوا کچھ نظر نہ آتا ہو۔ اس وقت بھی میرے پیش نظر ان حاشیہ آرائیوں کا جواب دینا نہیں ہے جو میری ان تحریروں پر کی گئی ہیں‘ بلکہ صرف اپنا مدّعا واضح کرنا ہے تاکہ اگر کوئی اللہ کا بندہ ان سے کسی غلط فہمی میں مبتلا ہو گیا ہو تو اس کے دل کا وسوسہ دور ہو جائے۔
ان عبارتوں سے میرا مدعا جو کچھ ہے اسے سمجھنے کے لیے وہی ایک فقرہ کافی ہے جو خود ان نقل کردہ عبارتوں میں موجود ہے۔
’’ایک اصول کو قائم کرنے پر ایسا اصرار جس سے اس اصول کی بہ نسبت بہت زیادہ اہم دینی مقاصد کو نقصان پہنچ جائے، حکمت ِ عملی ہی نہیں حکمت دین کے بھی خلاف ہے۔‘‘
اس فقرے پر جو شخص بھی تعصّب اور نفسانیت سے بے لوث ہو کر غور کرے گا۔ وہ میرا مطلب سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ نظری حیثیت سے تو ہر صحیح اصول قائم کرنے کے لیے اور ہر غلط چیز ترک کرنے اور مٹا دینے کے لائق ہے لیکن عملی زندگی میں خیر و شر کی کشمکش کے درمیان انسان کو بہت سے مواقع پر ایسے حالات سے بھی سابقہ پیش آ جاتا ہے جن میں ایک چھوٹی بھلائی پر اصرار کرنے سے ایک بڑی بھلائی کا نقصان ہوتا ہے، یا ایک چھوٹی برائی ترک کرنے سے ایک بڑی برائی لازم آتی ہے۔ ایسے مواقع پر عقل بھی یہ چاہتی ہے کہ ایک کم قیمت چیز پر زیادہ قیمتی چیز کو قربان نہ کیا جائے، اور شریعت الٰہیہ میں جو حکمت معتبر ہے اس کا تقاضا بھی یہ ہے کہ بڑی برائی سے بچنے کے لیے چھوٹی برائی کو گوارا کیا جائے اور چھوٹی بھلائی کی خاطر بڑی بھلائی کو نقصان نہ پہنچنے دیا جائے۔ اس معاملے میں میں صرف عقل کو کسوٹی بنانے کا قائل نہیں ہوں کہ آدمی جب چاہے عملی ضروریات کی بنا پر اسلام کے اصول و قواعد اور احکام میں سے جس کی بندش سے چاہے نکل جائے۔بلکہ یہ بات میرے اسی فقرے سے ظاہر ہے کہ میں اس حکمت کا قائل ہوں جو خود اسلام کے دیئے ہوئے معیار سے جانچ کر یہ دیکھتی ہے کہ کس چیز کی خاطر کس چیز کو کہاں اور کس حد تک قربان کرنا ناگزیر ہے۔
اب دیکھیے کہ آیا یہ کوئی میری اپنی من گھڑت بات ہے یا فی الواقع شریعت کے نظام میں اس کے اپنے سکھائے ہوئے اصول و قواعد اور احکام کے درمیان قیمتوں کا فرق ہے اور کوئی ایسا قاعدہ پایا جاتا ہے جس کے لحاظ سے کم قیمت چیز کو بڑی قیمت کی چیز پر قربان کرنا جائز ہو۔ اس کی مثالیں اگر قرآن، حدیث، آثارِ صحابہ اور فقہا و محدّثین کی تصریحات میں تلاش کی جائیں تو ان کا شمار مشکل ہو گا۔ میں یہاں صرف چند مثالیں پیش کروں گا۔
مذکورہ بحث مثالوں کی روشنی میں
(۱) اسلام میں توحید کے اقرار کی جیسی کچھ اہمیّت ہے کسی جاننے والے سے پوشیدہ نہیں۔ یہ حق پرستی کا اوّلین تقاضا اور ہر مومن سے دین کا سب سے پہلا مطالبہ ہے۔ نظری حیثیت سے دیکھا جائے تو اس معاملے میں قطعاً کسی لچک کی گنجائش نہ ہونی چاہیے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ چاہے اس کے گلے پر چھری رکھ دی جائے اور خواہ اس کی بوٹیاں کاٹ ڈالی جائیں، وہ توحید کے اقرار و اعلان سے ہرگز نہ پھرے۔ مگر قرآن ایسے حالات میں جب کہ ایک شخص کو ظالموں سے جان کا خطرہ لاحق ہو جائے یا اسے ناقابلِ برداشت اذیت دی جائے، کلمہ ٔ کفر کہہ کر بچ جانے کی اجازت دیتا ہے، بشرطیکہ وہ دل میں عقیدۂ توحید پر قائم رہے (مَنْ كَفَرَ بِاللہِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُكْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَىِٕنٌّۢ بِالْاِيْمَانِ النحل106:16) یہ چاہے عزیمت کا مقام نہ ہو، مگر رخصت کا مقام ضرور ہے اور یہ رخصت اللہ تعالیٰ نے خود عطا فرمائی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شریعت کی نگاہ میں مسلمان کی جان کی قیمت اقرارِ توحید سے زیادہ ہے حتیٰ کہ اگر ان دونوں میں سے ایک کو قربان کرنا ناگزیر ہو جائے تو شریعت اقرار توحید کی قربانی گوارا کر سکتی ہے لیکن کیا جان بچانے کے لیے کفر کی تبلیغ بھی کی جا سکتی ہے؟ کسی دوسرے مسلمان کو قتل بھی کیا جا سکتا ہے؟ اسلامی حکومت کے خلاف جاسوسی کی خدمت بھی انجام دی جا سکتی ہے؟ اس کا جواب لازماً نفی میں ہے۔ کیونکہ یہ اپنی جان کی قربانی کی بہ نسبت بہت زیادہ قیمتی چیزوں کی قربانی ہو گی جس کی اجازت کسی حال میں نہیں دی جا سکتی۔
(۲) اسلام میں شراب، خنزیر، مردار، خون اور مَا اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ کو اسی طرح قطعاً حرام کیا گیا جس طرح زنا، چوری، ڈاکے اور قتل کو حرام کیا گیا ہے۔ لیکن اضطرار کی حالت پیدا ہو جائے تو جان بچانے کے لیے پہلی قسم کی حرمتوں میں شریعت رخصت کا دروازہ کھول دیتی ہے کیونکہ ان حرمتوں کی قیمت جان سے کم ہے، مگر خواہ آدمی کے گلے پر چھری ہی کیوں نہ رکھ دی جائے۔ شریعت اس بات کی اجازت کبھی نہیں دیتی کہ آدمی کسی عورت کی عصمت پر ہاتھ ڈالے، یا کسی بے قصور انسان کو قتل کر دے۔ اسی طرح خواہ کیسی ہی اضطرار کی حالت طاری ہو جائے‘ شریعت دوسروں کے مال چرانے اور رہزنی و ڈاکہ زنی کرکے پیٹ بھرنے کی رُخصت نہیں دیتی کیونکہ یہ برائیاں اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈالنے کی برائی سے شدید تر ہیں۔
(۳) راست بازی و صداقت شعاری اسلام کے اہم ترین اصولوں میں سے ہے اور جھوٹ اس کی نگاہ میں ایک بدترین برائی ہے، لیکن عملی زندگی کی بعض ضرورتیں ایسی ہیں جن کی خاطر جھوٹ کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ بعض حالات میں اس کے وجوب تک کا فتویٰ دیا گیا ہے۔ صلح بین الناس اور ازدواجی تعلقات کی درستی کے لیے اگر صرف صداقت کو چھپانے سے کام نہ چل سکتا ہو تو ضرورت کی حد تک جھوٹ سے بھی کام لینے کی شریعت نے صاف اجازت دی ہے۔ جنگ کی ضروریات کے لیے تو جھوٹ کی صرف اجازت ہی نہیں ہے بلکہ اگر کوئی سپاہی دشمن کے ہاتھ گرفتار ہو جائے اور دشمن اس سے اسلامی فوج کے راز معلوم کرنا چاہے تو ان کو بتانا گناہ اور دشمن کو جھوٹی اطلاع دے کر اپنی فوج کو بچانا واجب ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ظالم کسی بے گناہ کے قتل کے در پے ہو اور وہ غریب کہیں چھپا ہوا ہو تو سچ بول کر اس کے چھپنے کی جگہ بتا دینا گناہ اور جھوٹ بول کر اس کی جان بچا لینا واجب ہے۔ اس معاملے میں شریعت کے احکام ملاحظہ ہوں۔
عن ام کلثوم بنت عُقبۃ بن مُعَیط قالت سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم یقول لیس الکذاب الذی یصلح بین الناس فینمی خیراً (متفق علیہ) و فی روایۃ مسلم زیادۃ قالت و لم اسمعہ یرخص فی شیء مما یقولہ الناس الا فی ثلث یعنی الحرب والاصلاح بین الناس و حدیث الرجل امرأتہ و حدیث المرأۃ زوجہا۔
ام کلثوم بنت عقبہ بن معیط سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کراتا ہے اور اس غرض کے لیے خیر پہنچاتا اور خیر کہتا ہے (بخاری و مسلم) اور مسلم کی روایت میں اتنی بات اور زیادہ ہے کہ انھوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی معاملے میں وہ باتیں کرنے کی اجازت دیتے ہوئے نہیں سنا جو لوگ کیا کرتے ہیں، مگر تین معاملات اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ایک جنگ، دوسرے اصلاح بین الناس، تیسرے میاں اور بیوی کی باتیں۔
عن اسماء بنت یزید عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یحل الکذب الا فی ثلاث تحدث الرجل امراتہ لیرضیہا و الکذب فی الحرب و فی الاصلاح بین النّاس۔
(ترمذی)
اسماء بنت یزید نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ جھوٹ جائز نہیں ہے مگر تین چیزوں میں۔ مرد کی بات عورت سے تاکہ وہ اسے راضی کرے۔ جنگ اور اصلاح بین الناس۔
اس کی عملی مثالیں بھی احادیث میں موجود ہیں۔ کعب بن اشرف کے قتل کے لیے محمد بن مسلمہ کو جب حضورؐ نے مامور کیا تو انھوں نے اجازت مانگی کہ اگر کچھ جھوٹ بولنا پڑے تو بول سکتا ہوں؟ حضورؐ نے بالفاظ صریح انھیں اس کی اجازت دی۔ (بخاری، باب الکذب فی الحرب و باب الفتک باب الحرب) حجاج بن علاط نے غزوۂ خیبر کے موقع پر مکہ والوں کے قبضے سے اپنا مال نکال کر لے آنے کے لیے جھوٹ سے کام لینے کی اجازت مانگی اور حضورؐ نے ان کو بھی اس کی اجازت عطا فرمائی (احمد، نسائی، حاکم و ابن حبان)
ان نظائر کی بنا پر فقہا و محدّثین نے جو نتائج نکالے ہیں۔ وہ بھی ملاحظہ فرما لیے جائیں۔ علاّمہ ابن حجر لکھتے ہیں-
اتفقوا علی جواز الکذب عند الاضطرار کما لو قصد ظالم قتل رجل وہو مختف عندہ فلہ ان ینفی کونہ عندہ و یحلف عن ذالک ولا یاثم۔ (فتح الباری۔ ج ۵ ص۔ ۱۹)
علما اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ شدید ضرورت پیش آنے پر جھوٹ بولنا جائز ہے۔ مثلاً اگر ایک ظالم کسی شخص کو قتل کرنا چاہتا ہو اور وہ مظلوم کسی شخص کے پاس چھپا ہوا ہو تو اس کو حق پہنچتا ہے کہ اپنے پاس اس کے ہونے کا انکار کرے اور اس پر قسم کھا لے۔ ایسا کرنے میں وہ گناہ گار نہ ہو گا۔
علاّمہ ابن القیّم حجاج بن علاط سُلَمِی کا واقعہ نقل کرنے کے بعد اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں-
ومنہا جواز کذب الانسان علی نفسہ و علی غیرہ اذا لم یتضمن ضرر ذالک الغیر اذا کان یتوصل بالکذب الٰی حقہ۔
اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ آدمی کا اپنے متعلق یا کسی دوسرے کے متعلق جھوٹ بولنا ایسی حالت میں جائز ہے جب کہ دوسرے کا اس سے کوئی نقصان نہ ہو اور آدمی اس جھوٹ کے ذریعے سے اپنا ایک جائز حق حاصل کر لے۔(زاد المعاد، ج ۲- ص ۲۰۳)
علاّمہ نووِی ریاض الصالحین میں احادیث سے استدلال کرتے ہوئے یہ اصول بیان کرتے ہیں-
(کل مقصود محمود یمکن تحصیلہ بغیر الکذب یحرم الکذب فیہ وان لم یمکن تحصیلہ الا بالکذب جاز الکذب ثم ان کان تحصیل ذالک المقصود مباحا کان الکذب مباحا و ان کان واجبًا کان الکذب واجبًا ) (باب تحریم الکذب)
ہر اچھا مقصد جس کا حصول جھوٹ کے بغیر ممکن ہو اس کے لیے جھوٹ بولنا حرام ہے۔ لیکن اگر اس کا حصول جھوٹ کے بغیر ممکن نہ ہو تو جھوٹ جائز ہے۔ پھر اگر وہ مقصد ایسا ہو کہ اس کا حاصل کرنا مباح ہو تو اس کے لیے جھوٹ بھی مباح ہے۔ اور اگر اس کا حصول واجب ہو تو اس کے لیے جھوٹ بھی واجب ہے۔
غور سے دیکھا جائے تو یہاں بھی وہی قاعدہ کا ر فرما نظر آتا ہے کہ سچ بولنے اور جھوٹ سے اجتناب کرنے کی ایک اخلاقی قیمت ہے جس سے زیادہ قیمتی چیز کا نقصان ہو رہا ہو تو اس نسبتاً کمتر چیز کا نقصان گوارا کیا جا سکتا ہے، بلکہ بعض صورتوں میں گوارا کرنا چاہیے۔
(۴) غیبت کی حرمت اسلام میں جیسی کچھ شدید ہے وہ قرآن کے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْہِ مَيْتًا الحجرات12:49 (کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟)لیکن کون نہیں جانتا کہ محدّثین نے احادیث کی تحقیق کے لیے ہزارہا راویوں پر جرح کر ڈالی اور یہ سارا کام سراسر غیبت تھا۔ کیا اس کے لیے کوئی دلیلِ جواز اس کے سوا پیش کی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط باتوں کی نسبت اور دین میں حضورؐ کی سند سے ایسی باتوں کا رواج جو حضورؐ نے نہیں فرمائیں، غیبت کی بہ نسبت بہت بڑی برائی تھی۔ اس لیے اس بڑی برائی سے بچنے کے لیے اس چھوٹی برائی کو اختیار کرنا نہ صرف جائز بلکہ واجب تھا؟ اسی طرح اگر کوئی شریف آدمی کسی شخص کو بیٹی دے رہا ہو، یا کسی کے ساتھ شرکت کا معاملہ کر رہا ہو، اور آپ کو معلوم ہو کہ وہ شخص بداخلاق اور بد معاملہ ہے تو اس کی برائی بیان کرنا نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے، کیونکہ ایک غریب لڑکی کی زندگی برباد ہونا، یا ایک شریف آدمی کا ایک بے ایمان آدمی کے پھندے میں پھنس جانا غیبت کی برائی سے زیادہ بڑی برائی ہے۔
(۵) غیر محرم عورت کو برہنہ کرنا اسلام کے صریح احکام کی رُو سے قطعاً حرام ہے۔ لیکن فتح مکّہ سے پہلے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے جس عورت کے ذریعے سے اہلِ مکہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے کی اطلاع لکھ کر بھیجی تھی اسے حضرت علیؓ راستے میں گرفتار کرتے ہیں اور خط کی تلاشی کے لیے اس کے کپڑے اتارنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ ابن القیم نے اس سے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ مصلحت ِاسلام و مسلمین کی خاطر تفتیش کی ضرورت پیش آئے تو عورت کو برہنہ کیا جا سکتا ہے۔ (زاد المعاد، ج ۲ ص ۲۳۹)
(۶) اسلام میں نماز کی اہمیّت جیسی کچھ ہے، بیان کی حاجت نہیں لیکن بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ بنی عمرو بن عوف کے ہاں ایک جھگڑے میں صلح کرانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے، نماز کا وقت آیا اور حضورؐ اصلاح بین الناس کے کام میں مشغول رہے، آخرکار حضرت ابوبکرؓ کی امامت میں جماعت کھڑی ہو گئی اور حضورؐ بعد میں آ کر جماعت میں شریک ہوئے۔
(۷) انکارِ منکر شریعت حقّہ کے نہایت اہم واجبات میں سے ہے اور اس باب میں خدا اور رسول کے تاکیدی احکام کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں لیکن جب یہی چیز ایک منکر سے عظیم تر منکر رونما ہونے کی موجب ہوتی نظر آئے تو اس سے اجتناب واجب ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنا پر فاسق و فاجر امرا کے خلاف خروج کرنے سے منع فرما دیا اور حکم دیا کہ مَنْ رَأَیٰ مِنْ اَمِیْرِہٖ مَایَکْرَھُہٗ، فَلْیَصْبِرْ وَلَا یَنْزِ عَنَّ یَدًا مِّنْ طَاعَتِہٖ۔
(۸) اسلام میں اقامت ِحدود کے لیے‘ جیسے سخت تاکیدی احکام ہیں‘ ان سے کون صاحب ِعلم ناواقف ہے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے موقع پر چوروں کے ہاتھ کاٹنے سے منع فرما دیا (ابو دائود) اور حضرت عمرؓ نے فرمان جاری کیا کہ جب کوئی فوج دشمن کے علاقے میں جنگ کر رہی ہو اس وقت وہاں کسی مسلمان پر حد جاری نہ کی جائے کیونکہ اس سے اندیشہ تھا کہ کہیں کسی شخص پر حمیت جاہلیہ کا غلبہ نہ ہو جائے اور وہ دشمن سے نہ جا ملے (اعلام الموقعین جلد ۳ ص ۲۹- ۳۳) یہ معاملہ حالت جنگ تک ہی محدود نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ افک میں تین مخلص مومنوں پر حدِّ قذف جاری فرمائی مگر عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین کو چھوڑ دیا۔ ابن القیم اس کے وجوہ بیان کرتے ہوئے ایک وجہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ حضورؐ نے اس پر حد جاری کرنے سے اجتناب ایک ایسی مصلحت کی بنا پر کیا جو اقامت ِحد کی بہ نسبت زیادہ اہم تھی اور یہ وہی مصلحت تھی جس کی بنا پر حضور اس سے پہلے بھی اس کا نفاق کھل جانے اور اس کی بہت سی موجب قتل باتیں سننے کے باوجود اس کو سزا دینے سے اجتناب فرماتے رہے تھے۔ وہ مصلحت یہ تھی کہ یہ شخص اپنے قبیلے میں بااثر تھا، اس کی بات ان میں چلتی تھی۔ اندیشہ تھا کہ اس پر حد جاری کی گئی تو فتنہ برپا ہو جائے گا۔ اس لئے حضورؐ نے اس کے قبیلے کی تالیف ِقلب کرنا پسند فرمایا اور یہ مناسب نہ سمجھا کہ اس پر حد جاری کرکے ان لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کر دیا جائے۔ (زاد المعاد، ج ۲ ص ۱۶۱)
مالِ غنیمت میں تمام شرکائے جنگ کے حقوق یکساں ہیں اور وہ ان میں برابری کے ساتھ تقسیم ہونا چاہیے۔ اس معاملے میں شریعت کے احکام بالکل واضح ہیں اور یہی انصاف کا تقاضا بھی ہے لیکن غزوۂ اوطاس کے اموالِ غنیمت میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور دوسرے قبائل کے مؤلفۃ القلوب کو خوب دل کھول کر عطیے دیئے اور انصار کو کچھ نہ دیا۔ انصار نے اس کی سخت شکایت کی تو حضورؐ نے اپنے اس فعل کی مصلحت یہ بتائی کہ یہ لوگ تالیف قلب کے محتاج ہیں اس لیے یہ دولت دنیا ان میں لٹا دی گئی ہے۔ اَلَا تَرْضَوْنَ یَا مَعْشَرَ الْاَنْصَارِ اَنْ یَّذْھَبَ النَّاسُ بِالشَّاۃِ وَالْبَعِیْرِ وَتَرْجِعُوْنَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ اِلٰی رِحَالِکُمْ (اے گروہ انصار، کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے جائیں اور تم رسول اللہ کو لے کر اپنی اقامت گاہوں کی طرف پلٹو؟)
ان مثالوں سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ دین کے سارے اصول اور احکام اپنی قدروقیمت اور اپنے وزن میں یکساں نہیں ہیں بلکہ ان کے درمیان مراتب کا فرق ہے، اور دین کا ہر قاعدہ بے لچک نہیں ہے بلکہ اس کے بہت سے قواعد میں لچک کی گنجائش ہے۔ اس باب میں اصولی ضابطہ یہ ہے کہ ایک چھوٹی نیکی سے اگر بڑا گناہ لازم آتا ہو تو اس کا ترک اولیٰ ہے اور ایک چھوٹی برائی اگر کسی بڑی نیکی یا عظیم تر دینی مصلحت کے لیے ضروری ہو تو اسے اختیار کر لینا بہتر ہے اور دو برائیوں میں سے کسی ایک میں مبتلا ہونا بہرحال ناگزیر ہو جائے تو نسبتاً کم تر درجے کی برائی کو قبول کر لینا چاہیے۔ اس کے ساتھ انھی مثالوں سے یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ نظامِ شریعت میں قدروں کے درمیان فرقِ مراتب کا معیار کیا ہے، کس طرح کی چیزوں پر کس طرح کی چیزوں کو فوقیت دی گئی ہے اور کون سی قدریں ایسی ہیں جن سے بالاتر قدر کوئی نہیں ہے کہ اس پر انھیں قربان کیا جا سکتا ہو۔ میں نے زیر بحث عبارتوں میں جو کچھ لکھا تھا اس کی بنیاد یہی کچھ تھی۔ اب جن لوگوں نے اپنی طرف سے کچھ معنی آفرینیاں کی ہیں اور انھیں میرا مسلک قرار دے کر مجھ پر طرح طرح کے گھنائونے الزامات لگائے ہیں ان کی باتوں سے میں بری الذّمہ ہوں، اپنی ان باتوں کے لیے وہ خود ہی اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہیں۔
رہی وہ بحث جو اَلْاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ سے میرے استدلال پر کی گئی ہے تو اس کے متعلق میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ جو کچھ میں نے دسمبر ۱۹۵۶ئ کے ترجمان القرآن میں بالا جمال لکھا ۱؎ ہے اسے اپریل ۱۹۴۶ئ کے ترجمان القرآن میں بالتفصیل لکھ چکا تھا، اور وہ میری کتاب رسائل و مسائل جلد اوّل کے صفحات میں بھی ستمبر ۱۹۵۱ئ سے موجود تھا مگر اس میں سے وہ کیڑے کبھی برآمد نہ ہوئے تھے جو دسمبر ۱۹۵۶ئ کے ترجمان کی مختصر عبارت سے یکایک برآمد ہونے شروع ہو گئے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اسے عَالِمُ السَّرَائِرَ وَالْخَفَایَا ہی بہتر جانتا ہے اور اسی کا جاننا کافی ہے۔ بہر حال یہ بات تو سب طالبانِ علم کو معلوم ہونی چاہیے کہ آیا اُن احادیث کی صحت سے انکار ہے جن کی بنا پر حضورؐ کی وفات کے بعد آپ کی جانشینی کے لیے قریش کو ترجیح دی گئی تھی؟ اور کیا اس واقعہ سے انکار ہے کہ سقیفۂ بنی ساعدہ کے وقت سے لے کر صدیوں تک انھی احادیث کی بنا پر قریش کو خلافت کے لیے ترجیح دی جاتی رہی حتیٰ کہ ایک مدت دراز تک فقہائے اسلام قرشیت کو خلافت کے لیے شرط سمجھتے رہے؟ یا ان احادیث اور حقائق کی صحت تسلیم کرنے کے بعد وہ اعتراضات کیے گئے ہیں جو سائل نے اپنے سوال میں معترضین کے مضامین سے نقل کیے ہیں؟ اگر پہلی بات ہے تو ان احادیث اور تاریخی واقعات پر ایک علمی تنقید ہونی چاہیے تاکہ ہم جیسے ناواقف لوگوں کے علم میں بھی کچھ اضافہ ہو جائے اور اگر دوسری بات ہے تو پھر سوچ لینا چاہیے کہ ان اعتراضات کا ہدف دراصل کون ہے اور میری ضد میں یہ گندگی کے چھینٹے کس دامن پاک پر پھینکے جا رہے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک بات اور بھی قابلِ ذکر ہے۔ دراصل یہ بحث شروع اس طرح ہوئی تھی کہ جماعت اسلامی نے ۱۹۵۰ئ۔۱۹۵۱ئ کے انتخابات کے موقع پر ایک پالیسی کا اعلان کیا تھا اور وہ یہ تھی کہ امیدواری چونکہ اسلام میں ناجائز ہے۔ اس لیے ہم نہ خود امیدوار بن کر کھڑے ہوں گے نہ کسی امیدوار کو ووٹ دیں گے۔ بعد میں تجربات سے ہم کو معلوم ہوا کہ ہم ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ہر ضمنی اور عام انتخاب میں پورے ملک کی ہر نشست کے لیے اپنے معیارِ مطلوب کے مطابق موزوں آدمی کھڑے کر سکیں۔ اس حالت میں تین قسم کے آدمی بالعموم میدان میں آتے ہیں۔ ایک وہ جو سرے سے نظام اسلامی ہی کے مخالف ہیں اور پاکستان کو ایک لادینی ریاست بنا دینا چاہتے ہیں۔ دوسرے وہ جو نظام اسلامی کی مخالفت تو نہیں کرتے، مگر اس کی حمایت میں بھی مشکل ہی سے مخلص مانے جا سکتے ہیں اور اپنے اعمال کے لحاظ سے بھی ناقابلِ اعتماد ہیں۔ تیسرے وہ جن کے دامن بھی بداعمالیوں سے داغدار نہیں ہیں اور نظامِ اسلامی کے لیے جن کے اخلاص پر بھی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ’’امیدواری‘‘ کی صفت ان سب میں پائی جاتی ہے کیونکہ ہمارے ملک میں یہی طریقہ مدت سے رائج ہے اور یہاں کے علما تک امیدوار بن کر کھڑے ہونے میں مضائقہ نہیں سمجھتے، بلکہ بکثرت علما کو فقہی حیثیت سے بھی اس طرح کی امیدوار کے ناجائز ہونے میں کلام ہے۔ اب اگر ہم اس بات پر اصرار کریں کہ ان تینوں قسم کے امیدواروں کے ساتھ یکساں معاملہ کریں گے اور سب کے حق میں اپنے ووٹ استعمال کرنے سے مجتنب رہیں گے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم پہلی دو قسموں کے لوگوں کی کامیابی کے لیے راہ ہموار کر دیں گے اور تیسری قسم کے لوگوں کے ساتھ نظامِ اسلامی کے قیام کی کوشش میں ہمارا تعاون بھی مشکل ہی سے برقرار رہ سکے گا۔ اس طرح ہم ایک نسبتاً چھوٹے درجے کی اور ضمنی اصلاح (امیدواری کے عدم جواز) کی خاطر ایک بڑی چیز (پورے ملک میں نظامِ اسلامی کے قیام) کو نقصان پہنچانے کے مرتکب ہوں گے، حالانکہ اسلامی نقطہ ٔ نظر سے اصل مقصدی اہمیّت امیدواری کے طریقے کی اصلاح کو نہیں بلکہ نظامِ اسلامی کے قیام کو حاصل ہے جس کے قائم ہو جانے کے بعد تمام دوسری اصلاحات کے ساتھ امیدواری کے طریقے کی بھی اصلاح ہو سکتی ہے۔ اس بنا پر ہم نے اپنی سابق پالیسی میں یہ تغیّر کر دیا کہ ہم خود تو امیدوار بن کر کھڑے ہونے سے بدستور مجتنب رہیں گے، مگر فاسد عناصر کے شر کو دفع کرنے، اور ان کے مقابلے میں نسبتاً صالح اور اسلامی نظام کے حامی عناصر کو آگے بڑھانے کے لیے جن امیدواروں کی تائید ناگزیر محسوس ہو گی ان کو ووٹ دیں گے بھی اور دلوائیں گے بھی۔ اوپر میں نے اسلامی احکام کی جو تشریح کی ہے اسے دیکھ کر ہر معقول آدمی بیک نظریہ محسوس کر لے گا کہ ہماری یہ نئی پالیسی ٹھیک ٹھیک دینی مزاج کے مطابق ہے اور اس میں درحقیقت کوئی اصول شکنی نہیں کی گئی ہے جو دین میں ممنوع ہو مگر اس پر یہ طوفان اٹھا دیا گیا کہ تم اپنی خواہشات اور اغراض کے لیے خود اپنے ہی مانے ہوئے اصول توڑنے پر اتر آئے ہو اور تمھارے پیش نظر اب بس اقتدار ہے جس کے لیے تم سب کچھ کر گزرو گے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ باتیں علم اور فہم کی کمی کی وجہ سے کی جا رہی ہیں یا ان کے محرکات کچھ اور ہیں۔
(ترجمان القرآن شعبان ۱۳۷۷ھ مطابق مئی ۱۹۵۸ء)
٭…٭…٭…٭…٭
دین میں حکمت ِ عملی کا مقام
یہ بحث دراصل اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو مصنف اور بعض معترضین کے درمیان چلتی رہی ہے۔ چنانچہ ایک صاحب مصنف کو ایک خط میں لکھتے ہیں:-
’’دین میں حکمت ِ عملی کے مقام‘‘ سے متعلق ایک لمبا چوڑا مضمون رسالہ ’’الفرقان‘‘ لکھنو میں نکل رہا ہے جس کی آخری قسط تازہ الفرقان میں آ چکی ہے۔ پتہ نہیں مضمون مذکور آپ کی نظر سے گزر رہا ہے یا نہیں لیکن میں اس سے متعلقہ دو ایک باتوں پر آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔
گو کہ مضمون مذکور سے مجھے اکثر جگہ اختلاف رہا ہے لیکن ’’ائمتہ من قریش‘‘ اور مئی کے ترجمان میں ’’کیا دین کے سب ہی اصول بے لچک ہیں‘‘ والے مضمون کے تحت دی گئی ہوئی نو مثالوں پر تنقید جان دار معلوم ہوئی۔ فاضل مضمون نگار نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آپ کی دی ہوئی مثالیں محض شخصی اجازتیں، وقتی رخصتیں اور اضطراری دقتوں کے تحت آتی ہیں اور ان کا مساعی اقامت ِدین سے کوئی علاقہ نہیں۔
مضمون کی ایک اور بات سے مجھے اتفاق ہے وہ یہ کہ گو آپ نے حکمت ِ عملی والی بات چند جزئی امور جیسے ’’امیدواری سسٹم‘‘ اور دیگر جماعتوں سے تعاون وغیرہ کے سلسلے میں کہی ہے لیکن آپ نے جس انداز سے ان پر اسوۂ رسول سے دلائل دیئے ہیں (جو صاحب مضمون کے نزدیک تمام کی تمام غیر متعلق ہیں) ان سے غیر سنجیدہ، مفاد پرست طبقے کے لیے دین میں کتربیونت کا موقع ہاتھ آ جاتا ہے اور یہ بہت سے فتنوں کا دروازہ کھول دے گا۔ اپنے اس شبے کے ثبوت میں مضمون نگار نے رسالہ کے اسی شمارے میں ’’المنیر‘‘ کے حوالے سے ’’ووٹوں کی خریدی‘‘ سے متعلق ایک عملی مثال بھی دی ہے جس میں کہ ایک صاحب نے ’’المنیر‘‘ کے ایڈیٹر صاحب کو لکھا تھا کہ حضور ’’تالیف القلب‘‘ کے سلسلے میں جب لوگوں کے ایمان خریدتے تھے تو اسلامی نظام کے قیام کے سلسلے میں ووٹوں کی خریداری برحق ہے اور یہ کہ ان صاحب کو ایک خزانہ ہاتھ آ جائے تو تمام لوگوں کے ووٹ خرید کر اسلامی نظام کے قیام کی کوشش فرمائیں۔ … فاضل مضمون نگار کا کہنا ہے کہ آپ کے حکمت ِ عملی والے مضمون سے متاثر ہو کر لوگ اتنی پستی تک بھی گر سکتے ہیں تو … آیندہ ایسے فلسفے کی مختلف طریقے سے توجیہ کرکے دین کی کئی اہم قدروں کو منہدم کر سکتے ہیں۔
آپ یہ کہتے ہیں کہ اقامت دین کی جدوجہد میں توحید، رسالت اور دیگر اہم اصولوں کے استثنا سے دوسرے نسبتاً کم اہم اصولوں کو موقع کی نزاکت کے لحاظ سے قطع نظر کیا جا سکتا ہے جب کہ ان پر اصرار کرنے سے دیگر اہم اصولوں کو نقصان پہنچ رہا ہو … جماعت کے معترض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اگر دین کا قیام ہو گا تو اپنے پورے اصول برقرار رکھتے ہوئے ہو گا ورنہ ایسی کسی جدوجہد میں کسی بھی اصول کو قربان کیا گیا تو وہ اقامت دین کی جدوجہد نہیں ہے اور اگر یہ جدوجہد کامیاب ہو بھی گئی تو اسلامی نظام کے بجائے کسی کے خود ساختہ نظام کا قیام عمل میں آئے گا …… اور اگر حالات کا دبائو ایسا ہو بھی تو دعوتِ دین کے شیدائیوں کو چاہیے کہ دین کو اپنے تمام اصولوں کے ساتھ قائم کرنے پر مصر رہیں یا دعوتِ دین سے دستبردار ہوں۔ غرضیکہ صاحب مقالہ کا استدلال یہ ہے کہ احکامِ دین میں استثنا کی گنجائش شخصی اضطرار اور ذاتی مصالح کے لیے تو ہو سکتی ہے لیکن دینی مقاصد اور دینی مصالح کی خاطر اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
چونکہ مسئلے کا تعلق ’’دعوتِ دین اور اس کے طریقہ کار‘‘ کے بنیادی امور سے ہے۔ اس لیے بہت سے حضرات جو جماعت کے بے جا حامی ہیں نہ اس کے غالی مخالف، اس کو فی الواقع سمجھنا چاہتے ہیں۔ اس بارے میں آپ کے دسمبر اور مئی والے ترجمان کے رسائل و مسائل کے تحت دیئے ہوئے جوابات پوری طرح تشفّی بخش نہیں ہیں۔ اس لیے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ ایک مفصل مضمون جو قرآن، حدیث اور اسوۂ صحابہ کی مثالوں سے جو صرف اقامت دین کی جدوجہد سے علاقہ رکھتی ہوں منشرح ہو، ترجمان القرآن میں رقم کیا جائے تو جہاں یہ بہت سی غلط فہمیوں کے ازالے کا باعث ہو گا وہاں بہت سے تعلق خاطر رکھنے والے حضرات کے اضطراب کے لیے تشفی بخش ہو گا۔ جماعتی لحاظ سے ہٹ کر بھی اس کی خالص علمی لحاظ سے بھی بڑی اہمیّت ہے۔
’’الفرقان‘‘ کی جس بحث کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کے موقع و محل اور انداز سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اصل بنائے بحث بجائے خود یہ مسائل نہیں ہیں بلکہ دل کا ایک پرانا بخار ہے جو مدتوں سے موقع کی تلاش میں دبا پڑا تھا اور اب اس کو نکالنے کے لیے کچھ مسائل بطور حیلہ ڈھونڈ لیے گئے ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ ارادہ کرکے بیٹھ جائے کہ کسی کو متہّم کرنا ہے تو دنیا میں کوئی نہیں ہے جو ایسے شخص کی مار سے بچ جائے۔ آپ جس بڑے سے بڑے قدیم یا جدید مصنف کا نام چاہیں لے لیں، میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ متہّم کرنے کا ارادہ کر لینے کے بعد اس کے ہاں سے کیسے کیسے سخت الزامات کی بنیادیں برآمد کی جا سکتی ہیں۔ دوسروں کو چھوڑیئے، اگر خدا کا خوف اور ایک ایک لفظ پر اس کے حضور باز پرس کا خطرہ نہ ہوتا تو میں بطور نمونہ بتاتا کہ خود ان حضرات کو ضا ّل اور مضلّ ثابت کر دینا، بلکہ انہیں دین اور ملت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ٹھہرا دینا کتنا آسان ہے اور آدمی تقویٰ و خشیت کا لباسِ زُور پہن کر کیسی کچھ باتیں خود ان لوگوں کے خلاف بنا سکتا ہے۔
میرا قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی شخص کی تنقید میں مجھے اس طرح کے محرکات محسوس ہوتے ہیں تو میں اس کا جواب دینے سے پرہیز کرتا ہوں کیونکہ وہ تو اپنے مقصد کی خاطر ہر وادی میں بھٹکتا پھرے گا، میں اپنا مقصد چھوڑ کر اس کے پیچھے کہاں کہاں بھٹک سکتا ہوں اور آخر اس طرح کے لوگوں سے الجھ کر میں پھر اور کسی کام کے لیے وقت بھی کہاں سے لا سکتا ہوں۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ بعض حضرات پندرہ پندرہ سولہ سولہ برس سے مسلسل مجھ پر حملے کر رہے ہیں اور ابھی چند سال سے تو کچھ لوگوں نے میرے خلاف الزام تراشیاں کرنا اپنا مستقل مشغلہ ہی بنا رکھا ہے۔ مگر میں نے کبھی ان کی کسی بات کا جواب نہ دیا، یا حد سے حد اگر کبھی ضرورت سمجھی تو اپنی پوزیشن کی وضاحت کر دی اور اس کے بعد انھیں چھو ڑدیا کہ جب تک چاہیں اپنا نامہ اعمال سیاہ کرتے رہیں۔
آپ ’’الفرقان‘‘ اور ’’المنیر‘‘ کے مضامین سے اگر دھوکا کھاتے رہیں گے تو میرے لیے یہ سخت مشکل ہو گا کہ وہ آئے دن آپ کے دل میں ایک نیا وسوسہ ڈالیں اور میں اپنے سارے کام چھوڑ چھاڑ کر آپ کے وسوسے دور کرنے میں لگا رہوں۔ بہتر یہ ہے کہ آپ صبر کے ساتھ دونوں طرف کی چیزیں پڑھتے رہیں۔ اگر آپ کی سمجھ میں حقیقت حال آ جائے تو اچھا ہے، ورنہ جہاں اور بہت سے لوگ ان وسوسہ اندازیوں کے شکار ہوئے ہیں وہاں ایک آپ بھی سہی۔
تاہم چونکہ آپ نے پہلی مرتبہ مجھ کو ان کے ڈالے ہوئے وساوس کے بارے میں لکھا ہے اس لیے میں صرف ایک دو باتوں کی وضاحت کیے دیتا ہوں تاکہ بات سمجھنے میں آپ کو مدد مل سکے۔
(۱) اختیارِ اَھْوَن کے اصول کی وضاحت میں جو مثالیں میں نے دی ہیں ان کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ ان سے صرف شخصی مشکلات اور بندوں کو پیش آنے والی حاجات ہی میں اضطرار کے موقع پر رخصت کا ثبوت ملتا ہے۔ رہا اقامت دین کا کام تو اس میں اس قاعدے کے استعمال کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اب ذرا آپ خود سوچیں کہ اگر بات یہی ہے تو رواۃِ حدیث کی جرح و تعدیل کے سلسلے میں محدّثین نے بے شمار زندہ اور مردہ راویوں کی جو غیبت کر ڈالی، اس کا باعث آخر کون سا شخصی اضطرار تھا؟ دوسری مثالوں کو تھوڑی دیر کے لیے چھوڑ دیجیے۔ صرف یہی ایک مثال اس امر کے ثبوت میں کافی ہے کہ بڑے مفسدے سے بچنے کے لیے چھوٹے مگر ناگزیر مفسدے کو اختیار کر لینا، اور بڑی بھلائی کی خاطر چھوٹی بھلائی کا نقصان بقدرِ ضرورت گوارا کر جانا، صرف شخصی حاجات ہی کے لیے جائز نہیں بلکہ خالص دینی مصالح کے لیے بھی جائز ہے اور اس قاعدے کے معاملے میں بندوں کی ضروریات اور سعی اقامت ِدین کی ضروریات کے درمیان جو فرق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ محدّثین نے ہزار ہا راویوں کے عیوب کی پردہ کشائی اپنے ’’پیشے‘‘ کی ضروریات، یا اپنی تصنیف و تالیف کے مقاصد کی خاطر تو نہیں کی تھی۔ یہ صریح حرام، بلکہ قرآن کی تعبیر کے مطابق نہایت گھنائونا کام انھوں نے صرف اس دلیل کی بنا پر کیا تھا کہ اگر اس برائی کا ارتکاب نہ کیا جائے گا تو اس سے بہت زیادہ بڑی برائی یہ لازم آئے گی کہ دین میں بہت سی وہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے داخل ہو جائیں گی جو حضورؐ نے نہیں فرمائیں اور اس طرح دین کا حلیہ بگڑ کر رہ جائے گا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ خالصتاً اقامت دین کے سلسلے کا ایک نہایت اہم اور نمایاں کام نہ تھا۔ اس میں تو شخصی مصالح و حاجات کے کسی شائبے تک کی نشان دہی نہیں کی جا سکتی۔ اور یہ وہ کام ہے جسے ایک قابلِ معافی جرم نہیں بلکہ کارِ ثواب سمجھ کر امت کے اگلے پچھلے تمام فقہا اور محدّثین نے بالا تفاق کیا اور تمام امت نے بالا جماع اسے کارِ ثواب مانا، حالانکہ فی الاصل اس کے غیبت ہونے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
(۲) دین کے کسی قاعدے کو بیان کرنے میں یہ احتمال کہ اس سے مفاد پرست لوگوں کو ناجائز فائدہ اٹھانے کا موقع مل جائے گا، بظاہر بڑا اہم محسوس ہوتا ہے لیکن غور کیجیے، کیا اس اندیشے سے اللہ اور اس کے رسولؐ نے اور امت کے اہلِ علم نے کسی ضروری چیز کو بیان کرنے سے اجتناب کیا ہے؟ قرآن، حدیث اور فقہ کے صفحات میں بکثرت باتیں ایسی موجود ہیں جن سے اگر کوئی جاہل اور بد نیت آدمی ناجائز فائدہ اٹھانے پر اتر آئے تو فسق و فجور اور گمراہی کی آخری حدوں کو بھی پار کر جائے۔ لیکن ان اندیشوں سے نہ خدا نے ، نہ اس کے رسولؐ نے اور نہ علمائے امت نے کوئی ایسی بات کہنے سے پرہیز کیا جو اپنے صحیح محل میں درست ہو اور جس کا بیان کرنا دین کی پیروی کرنے والے نیک نیت لوگوں کی رہنمائی کے لیے ضروری ہو۔ اب اگر وہ باتیں جو میں نے زیر بحث مضامین میں کہی ہیں، بجائے خود درست ہیں اور ایک ایسے قاعدے کی نشان دہی کرتی ہیں جو واقعی دین میں موجود ہے، تو آپ خود سوچ لیں کہ ان لوگوں کی باتیں کیا وزن رکھتی ہیں اور مجھے ان کو کیا وزن دینا چاہیے جو ان پر مجھے متہم کرنے کے لیے یہ احتمال پیدا کرتے ہیں کہ ان امور کے بیان کرنے سے فتنوں کا دروازہ کھلے گا، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسے ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ میں خود فتنے میں پڑنے اور دین کے نام سے بے دینی کی خدمت کرنے کے لیے یہ دروازے کھول رہا ہوں۔ اس کا جواب تو یہی ہو سکتا ہے کہ آدمی صبر کے ساتھ اپنا کام کیے جائے اور ان لوگوں کو جو کچھ بھی یہ کہنا چاہیں کہنے دے۔
(۳) ’’ووٹوں کی خریداری‘‘ کے موضوع پر جو کچھ ’’المنیر‘‘ نے لکھا اور ’’الفرقان‘‘ نے اس کے صفحات سے نقل کیا، اس سے مقصود اس امر کا ثبوت بہم پہنچانا ہے کہ جس فتنے کے دروازے کھلنے کا وہ احتمال ظا ہر کرتے تھے وہ تو پہلے ہی کھل چکا ہے اور میرے ہی کھولے کھلا ہے۔ یہ کرتب جو کمال درجہ تقویٰ کے ساتھ دکھائے جا رہے ہیں میں صبر کے ساتھ ان پر خاموش ہی رہنا مناسب سمجھتا تھا، کیونکہ یہ الزام تراشیاں اور دوسرے کو متہم کرنے کے لیے یہ سرگرمیاں اور بے تابیاں اپنے اندر جو روح رکھتی ہیں میں ہر وقت اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں کہ ان کی مدافعت کی کوشش کہیں مجھے بھی اس کی چھوت نہ لگا دے۔ لیکن افسوس ہے کہ آپ جیسے سادہ دل حضرات آدمی کو صبر سے خاموش بھی نہیں بیٹھنے دیتے اور ان باتوں پر جواب طلبی شروع کر دیتے ہیں۔ اب دیکھیے کہ معاملے کی اصل حقیقت کیا ہے اور پھر خود مجھے بتایئے کہ ان چیزوں کی آخر کیا جواب دہی کی جا سکتی ہے۔
پہلے ’’المنیر‘‘ نے مجھ پر یہ سراسر جھوٹا الزام لگایا کہ میں روپے کے ذریعے سے ووٹ خریدنے کو جائز رکھتا ہوں اور اسے ’’مولفۃ القلوب‘‘ کی مد میں شمار کرتا ہوں (حالانکہ اس بیان میں صداقت کا شائبہ تک نہ تھا، یہ بات میری زبان پر آنا تو درکنار کبھی میرے حاشیہ خیال میں بھی نہ آئی تھی، اور اس چیز کو ’’المنیر‘‘ کے صفحات میں دیکھنے سے ایک سیکنڈ پہلے تک بھی میں نہ سوچ سکتا تھا کہ مجھ پر یہ الزام بھی کبھی لگایا جا سکتا ہے) پھر اسی المنیر نے کسی دوسرے صاحب کا ایک خط شائع کر دیا جس میں وہ اپنی دانست کے مطابق ووٹوں کی اس خریداری کے حق میں کچھ دلائل پیش کرتے ہیں (اور یہ بالکل ان کا اپنا ہی فعل ہے، مجھ سے اس معاملے میں نہ ان کا نہ کسی اور شخص کا، سرے سے کبھی کوئی تبادلہ خیال ہوا ہی نہیں اور ان کے استدلال یا خیالات کا مجھ سے قطعاً کوئی واسطہ نہیں ہے) اس کے بعد جنابِ ’’الفرقان‘‘ اس سارے معاملے کو میرے سر تھوپ کر لوگوں کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ دیکھو، یوں اس شخص کے خیالات سے متاثر ہونے والے لوگ اخلاقی قیود کو بالائے طاق رکھے دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ میں نے کب یہ کہا یا لکھا تھا کہ روپے سے ووٹ خریدنا جائز ہے؟ یہ ایک خالص بہتان تھا جو صاحب ’’المنیر‘‘ نے محض اپنے جذبۂ انتقام کی تسکین کے لیے خود ہی گھڑا اور شائع کر دیا۔ اب اگر ایک بالکل غیر متعلق شخص اس جھوٹی روایت پر اپنے کچھ خیالات پیش کرتا ہے تو کیا میں اس کی بھی جوا بدہی کرتا پھروں؟ صرف یہ بات کہ وہ شخص اپنے خیالات پیش کرنے کے ساتھ میری تعریف میں بھی کچھ کلمات لکھ دیتا ہے، کیا اس کے لیے کافی ہے کہ مجھے اس کی ہر بات کا ذمہ دار ٹھہرا دیا جائے؟ یہ طرزِ مواخذہ اختیار کیا جائے تو اگلے پچھلے علما و مشائخ اور بزرگان دین میں سے کون بچ جائے گا جس کے معتقدین و مدّاحین کی ہر غلطی اس کے سر چپیک کر اسے سرچشمۂ ضلالت ثابت نہ کیا جا سکے۔ شاید بگڑی ہوئی حکومتوں کے پراسیکیوٹنگ انسپکٹر بھی لوگوں کو ماخوذ کرنے میں یہ سرگرمی اور چابک دستی نہ دکھاتے ہوں گے۔
(۴) اَلْاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ کے متعلق جو مفصلّ بحث میں نے ’’رسائل و مسائل‘‘ حصّہ اوّل میں کی ہے اگر اسے آپ نے پڑھ لیا ہوتا تو شاید آپ ’’الفرقان‘‘ کی تنقید میں وہ وزن محسوس نہ کرتے جس کا اظہار آپ نے کیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر احادیث میں کوئی چیز تو ایسی تھی جس کی بنا پر صدر اوّل سے لے کر شاہ ولی اللہؒ کے دور تک بالعموم فقہائے اسلام خلافت کے لیے قرشیت کو قانونی شرط کے طور پر بیان کرتے رہے۔ اگر حضور کے ارشادات سے یہ منشا سرے سے ظاہر ہی نہ ہو رہا ہوتا کہ آپ کے بعد خلافت قریش کے لوگوں کو دی جائے تو کیا فقہا اتنے نادان تھے کہ محض پیشین گوئیوں کو بالا تفاق حکم سمجھ بیٹھتے اور موجودہ دور کے بعض حضرات سے پہلے کسی کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی کہ یہ تو محض خبریں ہیں۔ ان کا منشا یہ ہے ہی نہیں کہ خلیفہ قریش میں سے ہو۔
الائمۃ من قریش حکم ہے یا خبر، اس کے متعلق شاہ ولی اللہؒ کی رائے ملاحظہ ہو۔
’’دازانجملہ (یعنی من جملہ شرائط ِخلافت) آنست کہ قریشی باشد باعتبارِ نسبِ آباء خود، زیرا کہ حضرت ابوبکر صدیق صرف کردند انصار را از خلافت بایں حدیث کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمودہ انداَلْاَئِمَّۃَ مِنْ قُرَیْشٍ‘‘۔ (ازالۃ الخفاء، مقصد اوّل، صفحہ ۵)
اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ شاہ صاحب اس حدیث کے معنی ائمہ قریش میں سے ہوں گے سمجھ رہے ہیں یا قریش میں سے ہوں؟ اگر بالفرض اسے اور اس معنی کی دوسری احادیث کو لفظاً خبر بھی قرار دیا جائے تو فقہا و محدّثین نے عام طو رپر اس خبر کو امر ہی کے معنی میں لیا ہے۔ بخاری کی حدیث لَا یَزَالُ ہٰذَا الْاَمْرُ فِیْ قُرَیْشٍ کے متعلق علاّمہ قُرطبی کہتے ہیں کہ یہ حدیث مشروعیت کی خبر دیتی ہے، یعنی امامت کبریٰ منعقد نہ ہو گی مگر قرشی کے لئے۔ ابن المنیر کہتے ہیں کہ اس کا مقتضیٰ جنسِ امر کا قریش میں محصور ہونا ہے، گویا حضورؐ نے دراصل یہ فرمایا کہ لا امر الا فی قریش اور یہ ایسا ہی ہے جیسے حضورؐ کا یہ ارشاد کہ اَلشُّفْعَۃُ فِیْ مَالَمْ یُقَسَّم اور علاّمہ ابن حجر فرماتے ہیں یہ حدیث اگرچہ خبر کے الفاظ میں ہے مگر امر کے معنی میں ہے، گویا حضورؐ کا ارشاد یہ تھا کہ خاص طور پر قریش ہی کو امام بنائو۔ حدیث کے باقی طُرُق اسی معنی کی تائیدکرتے ہیں ، اور صحابہ نے بالا تفاق اس کو حصر ہی کے مفہوم میں لیا بخلاف ان لوگوں کے جو اس معنی کا انکار کرتے ہیں، اور اسی بات کی طرف جمہور اہلِ علم گئے ہیں کہ امام کے لیے قرشی ہونا شرط ہے۔ (فتح الباری جلد ۱۳- صفحہ ۹۶-۹۷)
علاوہ بریں علما کی اس رائے کا انحصار محض ان احادیث پر ہی نہ تھا جو خبر کے الفاظ و انداز میں ہیں یا جن کے اندر محض خبر ہونے کا احتمال ہے۔ بلکہ متعدد احادیث امر کے الفاظ میں بھی مروی ہیں مثلاً قَدِّمُوْا قُرَیْشًا وَّلاَ تُقْدِّمُوْہَا (قریش کو آگے کرو اور ان سے آگے نہ بڑھو) جسے بیہقی، طبرانی اور امام شافعی نے نقل کیا ہے، اور قُرَیْشٌ قَادَۃُ النَّاسِ (قریش لوگوں کے لیڈر ہیں) جسے امام احمد نے حضرت عمرو بن عاص سے روایت کیا ہے۔
دراصل اس مسئلے کے متعلق مختلف الفاظ میں کثرت سے جو ارشادات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہوئے ہیں ان کا مجموعی اثر یہ تھا کہ علمائے اسلام صدیوں تک بالا تفاق خلافت کے لیے قرشیت کو ایک قانونی شرط کی حیثیت سے بیان کرتے رہے ہیں اور خوارج و معتزلہ کے سوا کسی نے اس معاملے میں اختلاف نہیں کیا ہے۔ قاضی عیاض تو اس معاملے میں اجماع تک کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
امام کے لیے قرشیت کا شرط ہونا تمام علما کا مذہب ہے اور انھوں نے اسے اجماعی مسائل میں شمار کیا ہے۔ سلف میں سے کسی سے اس کے خلاف کوئی رائے منقول نہیں ہوئی ہے اور اسی طرح بعد کے ادوار میں بھی امصار مسلمین میں سے کہیں کے علما نے اس سے اختلاف نہیں کیا ہے۔ (فتح الباری، حوالہ مذکور)
اب اس کا کیا علاج کیا جائے کہ بات اطفالِ مکتب تک پہنچ چکی ہے جو بے تکلف دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ تو محض خبر تھی جس میں امر کا شائبہ تک نہ تھا۔ گویا پچھلی صدیوں میں جہالت اتنی عام تھی کہ خبر اور امر کا فرق بھی کسی کی سمجھ میں نہ آیا اور اس کے امر ہونے پر سب اتفاق کر بیٹھے اور صدیوں تک اتفاق کیے رہے! ان جسارتوں پر حال یہ ہے کہ یہی لوگ دوسروں پر الزام دھرتے ہیں کہ ان کی تحریروں سے سلف کا اعتماد و احترام ختم ہوا جا رہا ہے اور عوام اس غلط فہمی میں پڑ رہے ہیں کہ دین ان سے پہلے کسی نے نہ سمجھا۔
میری رائے اس مسئلے میں اب بھی وہی ہے جس کی وضاحت میں اس سے پہلے ’’رسائل و مسائل‘‘ میں کر چکا ہوں، اور اب تک کوئی ایسی عملی بحث میرے سامنے نہیں آئی ہے جس سے مجھ کو اس پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہو۔ میرے نزدیک یہ ثابت ہے کہ حضورؐ نے قریش ہی کو منصب خلافت دیئے جانے کی ہدایت فرمائی تھی۔ یقیناً یہ آپ کا حکم تھا۔ محض پیش گوئی نہ تھی۔ مگر اس حکم کی بنیاد یہ نہ تھی کہ شرعاً خلافت ایک خاص قبیلے کا حق تھی جس کے سوا کسی دوسرے قبیلے یا نسل کا کوئی شخص اس منصب کا سرے سے مستحق ہی نہ ہو سکتا تھا، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ عملی سیاست کے نقطۂ نظر سے حضورؐ کے بعد صرف قریش ہی کی خلافت کامیاب ہو سکتی تھی جس کے وجوہ حضورؐ نے خود اپنے متعدد ارشادات میں واضح فرما دیئے تھے۔ اس لیے آپ نے حکم دیا کہ خلافت قریش ہی میں رکھی جائے، تاکہ اسلامی نظامِ حکومت مشکلات میں مبتلا نہ ہو اور مسلمان محض اسلامی اصولِ مساوات کا مظاہرہ کرنے کے لیے کسی غیر قرشی کو خلیفہ بنا کر ان نتائج سے دوچار نہ ہو جائیں جو ایک بااثر گروہ کے مقابلے میں کسی بے اثر یا کم اثر گروہ کے آدمی کو خلیفہ بنا دینے سے پیش آ سکتے تھے۔
فقہائے اسلام نے اگر حضورؐ کے اس حکم کو مستقل دستوری قانون کے معنی میں لیا تو یہ بھی بے وجہ نہ تھا۔ حضورؐ کے بعد صدیوں تک قریش کی وہی پوزیشن برقرار رہی جس کی بنا پر آپ نے ابتدائً یہ حکم دیا تھا۔ اس لیے قرناً بعد قرنٍ فقہا اس بات کو کہ ’’خلیفہ قرشی ہونا چاہیے‘‘ ایک دستوری قاعدے کے طور پر بیان کرتے چلے گئے۔ لیکن حضورؐ کے وہ ارشادات اس زمانے میں بھی کسی سے پوشیدہ نہ تھے جن سے یہ ایما نکلتا تھا کہ یہ حکم قریش کے ایک خاص نسل سے ہونے کی بنا پر نہیں بلکہ چند اوصاف کی بنا پر ہے جو ان میں پائے جاتے تھے اور اس وقت تک کے لیے ہے جب تک ان میں اس منصب کی اہلیت باقی رہے مثلاً آپ کا یہ ارشاد کہ مَااَقَامُوالدِّیْنَ (جب تک وہ دین قائم کرتے رہیں) اور مَا اِذَا حَکَمُوْا فَعَدَلُوْا وَوَعَدُوْا فَوَفَّوْ اوَاسْتَرْحَمُوْا (جب تک وہ اپنے فیصلوں میں عدل کرتے رہیں اور اپنے وعدے وفا کرتے رہیں اور خلقِ خدا پر رحم کرتے رہیں) یہ ارشادات خود ظاہر کر رہے تھے کہ خلیفہ کے لیے قرشی ہونے کی شرط ایک دائمی دستوری قاعدہ نہیں ہے۔ اسی بات کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سقیفۂ بنی ساعدہ میں واضح فرمایا تھا کہ اِنَّ ہٰذَا الْاَمْرَ فِیْ قُرَیْشٍ مَآ اَطَاعُوا اللّٰہَ وَاسْتَقَامُوْا عَلٰی اَمْرِہ (یہ حکومت قریش ہی میں رہے گی جب تک وہ اللہ کی اطاعت کرتے رہیں اور اس کے حکم پر ٹھیک ٹھیک چلتے رہیں) مزید برآں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اس قول سے کہ اگر میری موت کے وقت ابوعبیدہ زندہ نہ ہوں تو میں معاذ بن جبل کو خلیفہ بنائوں گا۔ یہ بات کھول دی تھی کہ خلافت محض نسل و نسب کی بنا پر قریش کا کوئی مستقل قانونی حق نہیں ہے۔
(ترجمان القرآن۔ دسمبر ۱۹۵۸ئ)
٭…٭…٭…٭…٭
غیبت کی حقیقت اور اس کے احکام
(میرے پاس چند طویل سوالنامے آئے ہوئے ہیں جن میں بعض اصحاب کے اعتراضات کا ذکر کرکے ان کا جواب مانگا گیا ہے میرے لیے ان معترضین کا حریف بننا تو مشکل ہے۔ لیکن جب ذاتی بغض و عناد کی بنا پر شرعی مسائل میں کھینچ تان کی جانے لگے تو اس کی اصلاح ناگزیر محسوس ہوتی ہے تاکہ عوام الناس اور متوسط تعلیم یافتہ لوگ ان مسائل کو سمجھنے میں غلطی نہ کر جائیں۔ اس لیے میں ان سوال ناموں میں سے اصل بنیادی نکات بطور خلاصہ نکال کر صرف ان کا جواب دے رہا ہوں۔
ذیل میں صرف ان سوالات کا جواب دیا جا رہا ہے جو غیبت کے مسئلے سے متعلق ہیں۔
سوال- (۱) غیبت کی صحیح تعریف کیا ہے؟
(۲) غیبت کی یہ تعریف کہاں تک صحیح ہے:
’’آدمی کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی کسی واقعی برائی کا، اس کی تحقیر و تذلیل کی نیت سے چرچا کرے اور ساتھ ہی اس بات کا خواہش مند ہو کہ جس کی وہ برائی بیان کر رہا ہے اس کو اس کے اصل فعل کی خبر نہ ہو۔‘‘
واضح رہے کہ یہ تعریف اس دعوے کے ساتھ پیش کی گئی ہے کہ ’’حدیث میں حضور سے غیبت کی جو تعریف منقول ہے اس میں غایت درجہ ایجاز ہے جس کے سبب سے ایک آدمی کو غیبت کے حدود معین کرنے میں غلط فہمیاں پیش آ سکتی ہیں‘‘ اور یہ کہ حضور کی بیان کردہ تعریف ’’غیبت کی جامع و مانع منطقی تعریف‘‘ نہیں ہے۔
(۳) غیبت کی وہ کیا صورتیں ہیں جن کو شریعت میں جائز قرار دیا گیا ہے اور کیوں؟ ان کا جواز آیا اس بنیاد پر ہے کہ وہ سرے سے غیبت ہی نہیں ہیں، یا اس بنیاد پر کہ ضرورۃً ایک ناجائز چیز جائز کی گئی ہے؟
(۴) کیا یہ صحیح ہے کہ محدّثین نے رواۃ کی جرح و تعدیل کا کام قرآن مجید کی اس آیت کے تحت کیا ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا
(۵) محدّثین خود اپنے اس کام کے متعلق کیا کہتے ہیں؟
غیبت کی تعریف جو صاحب شریعت نے بیان فرمائی
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ غیبت کی صحیح تعریف وہی ہے جو خود صاحب شریعتؐ نے بیان فرمائی ہے۔ مسلم، ابودائود اور ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے وہ ان الفاظ میں منقول ہے:
ذِکْرَکَ اَخَاکَ بِمَا یَکْرَہُ، قِیْلَ اَفَرَأَیْتَ اِنْ کَانَ فِیْ اَخِیْ مَا اَقُوْلُ، قَالَ اِنْ کَانَ فِیْہِ مَا تَقُوْلُ فَقَدِ اِغْتَبْتَہٗ وَاِنْ لَّمْ یَکُنْ فِیْہِ مَاتَقُوْلُ فَقَدْ بَھَتَّہٗ۔
غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا ذکر ایسے طریقے سے کرے جو اس کو برا محسوس ہو۔ عرض کیا گیا کہ حضورؐ کا کیا خیال ہے اگر میرے بھائی میں واقعی وہ برائی موجود ہو؟ فرمایا اگر اس میں وہ برائی ہو جس کا تو ذکر کر رہا ہے تو تو نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ برائی موجود نہیں ہے جس کا تو نے ذکر کیا ہے تو تو نے اس پر بہتان لگایا۔
اسی مضمون کی ایک روایت امام مالک نے مؤطّاء میں مطلَّبِ بن عبداللہ سے نقل کی ہے۔
اَنَّ رَجُلاً سَئَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مَا الْغِیْبَۃُ فَقَالَ اَنْ تَذْکُرَ مِنَ الْمَرْئِ مَا یَکْرَہُ اَنْ یَّسْمَعَ قَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَاِنْ کَانَ حَقًّا، قَالَ اِذَا قُلْتَ بَاطِلاً فَذَالِکَ الْبُہْتَانُ۔
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا غیبت کیا چیز ہے۔ فرمایا یہ کہ تو کسی چیز کا ذکر اس طرح کرے کہ اگر وہ سنے تو اسے برا معلوم۱؎ ہو؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ اگرچہ وہ بات حق ہو؟ فرمایا اگر تو باطل کہے تو یہی بہتان ہے۔
علما کے نزدیک غیبت کا شرعی مفہوم
اس ارشادِ نبوی کے اتباع میں اکابر اہلِ علم غیبت کا شرعی مفہوم یہی بتاتے ہیں کہ وہ آدمی کی غیرموجودگی میں اس کا ذکر برائی کے ساتھ کرنا ہے۔
امام غزالی کہتے ہیں: حد الغیبۃ ان تذکر اخاک بما یکرہہٗ لو بلغہ۔غیبت کی تعریف یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرو کہ اگر اسے بات پہنچ جائے تو اس کو ناگوار ہو۔
ابن الاثیر نے حدیث کی مشہور لغت نہایہ میں اس کی تعریف یہ کی ہے:- ان تذکر الانسان فی غیبۃ بسوء وان کان فیہ ۔ کہ تم کسی شخص کا ذکر اس کے پیٹھ پیچھے برائی کے ساتھ کرو۔ اگرچہ وہ برائی اس میں ہو۔
امام نووِی اس کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ: ذکر المرء بما یکرھہ … سواء ذکرتہ باللفظ اور بالاشارۃ و الرمز۔ آدمی کا ذکر اس طرح کرنا کہ وہ اسے ناگوار ہو، خواہ یہ ذکر صراحتاً کیا جائے یا رمز و اشارے میں۔
راغب اصفہانی کہتے ہیں: ہی ان یذکر الانسان عیب غیرہ من غیر محوج الی ذکر ذالک۔ غیبت یہ ہے کہ آدمی کسی شخص کا عیب بیان کرے بغیر اس کے کہ اس ذکر کی کوئی حاجت ہو۔
بدر الدین عینی شارح بخاری کہتے ہیں: الغیبۃ ان یتکلم خلف انسان بما یغمہ لو سمعہ و کان صدقًا اما اذا کان کذبا فیسمی بہتانا۔ غیبت یہ ہے کہ آدمی دوسرے شخص کے پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی بات کہے جسے اگر وہ سنے تو اسے رنج پہنچے اور بات وہ سچی ہو۔ ورنہ اگر بات جھوٹی بھی ہو تو اس کا نام بہتان ہے۔
ابن التین کہتے ہیں: الغیبۃ ذکر المرء بما یکرھہ بظہر الغیب۔غیبت سے مراد ہے آدمی کے پیٹھ پیچھے اس کا ذکر اس طرح کرنا کہ اسے ناگوار ہو۔
کرمانی کی بیان کردہ تعریف یہ ہے: الغیبۃ ان تتکلم خلف الانسان بما یکرھہ لو سمعہ ولو کان صدقًا۔غیبت یہ ہے کہ تم آدمی کے پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی بات کہو جسے اگر وہ سن لے تو اسے برا محسوس ہو۔ اگرچہ بات وہ سچی ہو۔
ابن حجر غیبت اور نمیمہ (چغلی) کے متعلق کہتے ہیں: الغیبۃ توجد فی بعض صور النمیمۃ وھو ان یذکرہ فی غیبۃ بما فیہ مما یسوئُ ہ قاصدًا بذٰلک الافساد۔ غیبت چغلی کی بھی بعض صورتوں میں موجود ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کا واقعی عیب اس کی پیٹھ پیچھے بیان کرتا ہے جو اس کے لیے موجب ِرنج ہوتا ہے اور اس بیان سے اس کی غرض فساد ڈلوانا ہوتی ہے۔
ان ائمۂ لغت و حدیث و فقہ میں سے کسی نے بھی یہ جسارت نہیں کی ہے کہ ایک امر شرعی کی جو تعریف صاحب شریعت نے خود بیان کر دی تھی اس کو ناقص ٹھہرا کر جواب میں اپنی ایک تعریف پیش کرتا۔ درحقیقت شارع سے بڑھ کر کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ شریعت کی کسی اصطلاح کا مفہوم بیان کرے اور جبکہ شارع نے ایک واضح سوال کا بالکل واضح الفاظ میں جواب دے دیا ہے تو ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں یہی ماننا چاہیے کہ اس کا حقیقی مفہوم وہی ہے۔ مسلمان تو درکنار، ایک غیر مسلم بھی، اگر وہ کوئی معقول آدمی ہے، یہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ شریعت کی ایک اصطلاح کا صحیح مفہوم وہ نہیں ہے جو صاحب شریعت نے بیان کیا ہے بلکہ وہ ہے جو میں بیان کرتا ہوں۔ یہ ایسی ہی غیر معقول بات ہے جیسے ایک مجلس قانون ساز اپنے وضع کردہ قانون کی کسی اصطلاح کا مفہوم خود متعیّن کر دے اور کوئی صاحب اپنی قانون دانی کے زعم میں فرمائیں کہ قانون مذکور میں اس چیز کی اصل تعریف وہ نہیں ہے جو لیجسلیچر نے بیان کی ہے بلکہ یہ ہے جو میں عرض کرتا ہوں۔
معترضین کی بیان کردہ تعریف غیبت کی خامیاں
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ غیبت کی جو تعریف آپ نے نقل کی ہے وہ نہ جامع ہے نہ مانع۔ اس میں بعض ایسی غیبتیں داخل ہو جاتی ہیں جو بالا تفاق مباح ہیں اور بعض ایسی غیبتیں اس سے خارج ہو جاتی ہیں جو بالا تفاق حرام ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیے۔ ایک شخص کسی کے ہاں نکاح کا پیغام دیتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ یہ ایک بدخو، بدکردار آدمی ہے۔ آپ لڑکی کے باپ سے جا کر کہتے ہیں کہ یہ شخص ایسا اور ایسا ہے۔ آپ کی نیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اس شخص کو برا آدمی جان کر اپنی دامادی کے قابل نہ سمجھے۔ اور ساتھ ہی آپ لڑکی کے باپ سے بتا کید یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ دیکھنا، اس شخص کو خبر نہ ہو کہ میں نے اس کے حالات آپ کو بتائے ہیں۔ یہ چیز اگرچہ بربنائے ضرورت شریعت میں مباح کی گئی ہے لیکن یہ پوری طرح ’’غیبت محرّمہ فی الشرع‘‘ کی اس تعریف میں آ جاتی ہے جو آپ نے نقل فرمائی ہے۔ کیونکہ اس میں تحقیر کا ارادہ اور اخفا دونوں موجود ہیں۔ دوسری طرف ایک ایسا شخص ہے جو محض لذتِ کلام اور لطیفہ گوئی کی خاطر اپنے یار دوستوں میں بیٹھ کر بعض لوگوں کے عیوب بیان کرتا ہے۔ اس کی نیت ان کی تحقیر کی نہیں ہوتی (چاہے وہ لوگ حقیقت میں سننے والوں کی نگاہ سے گر ہی کیوں نہ جائیں) اور اسے اس بات کی بھی پروا نہیں ہوتی کہ ان لوگوں کو اس کی یہ باتیں پہنچ جائیں۔ یہ چیز شریعت میں بلاشبہ حرام ہے لیکن یہ غیبت حرام کی اس تعریف سے خارج رہتی ہے، کیونکہ اس میں نہ تحقیر کی نیت موجود ہے نہ اخفا کی خواہش و کوشش۔
یہی نہیں، جس چیز کو خود شارع نے بصراحت غیبت ِحرام قرار دیا ہے، وہ بھی اس تعریف کے حدود سے خارج ہو جاتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ماعِز بن مالک اسلمی کو زنا کے جرم میں جب رجم کر دیا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے راہ چلتے دو صاحبوں کو ایک دوسرے سے باتیں کرتے سنا۔ ان میں سے ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ اس شخص کو دیکھو، اللہ نے اس کا پردہ ڈھانک دیا تھا مگر اس کے نفس نے اس کا پیچھا اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک یہ کتے کی موت نہ مار دیا گیا۔ کچھ دور آگے جا کر راستے میں ایک گدھے کی لاش سڑتی ہوئی نظر آئی۔ حضورؐ رک گئے اور ان دونوں اصحاب کو بلا کر فرمایا اتریئے اور اس گدھے کی لاش تناول فرمایئے۔ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ اسے کون کھائے گا؟ فرمایا فَمَا نَلْتُمَا مِنْ عِرْضِ اَخِیْکُمَا اٰنِفًا اَشَدُّ مِنْ اَکْلٍ مِنْہ ابھی ابھی آپ لوگ اپنے بھائی کی عزت پر جو حرف زنی کر رہے تھے وہ اس گدھے کی لاش کھانے سے بہت زیادہ بری تھی۔ (ابو دائود۔ کتاب الحدود، باب رجم ماعز) اس واقعہ میں صاحب شریعت علیہ السّلام نے خود حرمت کی صراحت فرمائی ہے، حالانکہ اس میں سے غیبت محرّمہ کی وہ دونوں شرطیں غائب ہیں جو مذکورہ بالا تعریف میں بیان ہوئی ہیں۔ دونوں صاحبوں کی جو گفتگو روایت میں منقول ہوئی ہے اس کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ ان کی نیت حضرت ماعز کی تحقیر و تذلیل کی نہ تھی بلکہ وہ اس بات پر اظہارِ افسوس کرنا چاہتے تھے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کے جرم پر پردہ ڈال دیا تھا تو انھوں نے کیوں بار بار اصرار کرکے اقرارِ جرم کیا اور رجم کی ہولناک سزا میں جان دی۔ رہی اخفا کی خواہش و کوشش تو اس کا یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ جس شخص کا ذکر کیا جا رہا تھا وہ دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔
حرام و ممنوع اشیا کے جائز ہونے کا ضابطہ
تیسرے سوال کا جواب دینے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک بات اچھی طرح آپ کے ذہن نشین ہو جائے۔ شریعت میں جو چیزیں حرام و ممنوع کی گئی ہیں وہ اگر کسی حالت میں جائز ہوتی ہیں تو اس بنا پر نہیں کہ ان کی حقیقت میں کوئی تغیّر ہو جاتا ہے بلکہ اس بنا پر کہ ایک عظیم تر مصلحت و ضرورت ان کے جواز کا تقاضا کرتی ہے۔ وہ مصلحت و ضرورت داعی نہ ہوتی تو وہ حرام ہی رہتیں۔ جب تک اور جس حد تک اس مصلحت و ضرورت کا تقاضا رہتا ہے اس وقت تک اور اسی حد تک وہ جائز ہوتی اور جائز رہتی ہیں۔ اس کے مرتفع ہوتے ہی ان اشیا کی حرمت اپنی جگہ واپس آ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر مُردار، خون، سور، شراب اور ما اُھِلَّ لِغیر اللہ بہٖ کو اللہ نے حرام کیا ہے۔ انسانی جان بچانے کے لیے اگر ان میں سے کسی کو عارضی طور پر مباح کیا جاتا ہے تو اس بنا پر نہیں کہ اس وقت مردار مردار نہیں رہتا، یا خون غیر خون ہو جاتا ہے، یا سؤر بکرا ہو جاتا ہے۔ اس اباحت کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ انسانی جان کی ہلاکت ان حرام چیزوں کے استعمال سے زیادہ بڑی برائی ہے۔ اس برائی سے بچنے کے لیے جس وقت جس حد تک ان کا استعمال ناگزیر ہو جاتا ہے اسی وقت اور اسی حد تک ان کو کھا لینا مباح کر دیا جاتا ہے۔ مگر ان کی حرمت برابر یہ تقاضا کرتی رہتی ہے کہ حد ضرورت سے ذرّہ برابر تجاوز نہ کیا جائے۔
اس اصولی حقیقت کو نگاہ میں رکھ کر اب آپ تیسرے مسئلے پر غور کیجیے۔ صاحبِ شریعت کی بیان کردہ تعریف کی رو سے کسی شخص کی غیرموجودگی میں اس کا ذکر برائی کے ساتھ کرنا بجائے خود ایک برا کام ہے اور شرعاً ایک گناہ۔ بدی اگر کسی وقت جائز یا نیکی یا کارِ ثواب ہو سکتی ہے تو صرف اس بنا پر کہ ایک حقیقی ضرورت اس کے لیے داعی ہو۔ ایسی ضرورت جسے پورا نہ کرنے سے غیبت کی قباحت سے بڑی قباحت لازم آتی ہو۔ ایسی حالت میں اس کے جواز کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ سرے سے غیبت ہی نہیں ہے۔ یا وہ اصلاً حرام نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ صرف عملی زندگی کی وہ ضروریات ہیں جو شریعت کی نگاہ میں عظیم تر قدر رکھتی ہیں۔ ان ضروریات میں سے کوئی ضرورت داعی نہ ہو تو پیٹھ پیچھے بدگوئی کوئی بھلا کام نہیں ہے کہ شریعت اسے بلاضرورت مباحِ مطلق بنا کر رکھے۔
غیبت سے استثنا کی بنیاد
غیبت کی حرمت سے جو چیزیں مستثنیٰ ہیں ان کی اوّلین بنیاد صاحب شریعت کا یہ اصولی ارشاد ہے:
عَنْ سَعِیْدِ بْنِ زَیْدٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ مِنْ اَرْبَی الرِّبَا اَلْاِسْتِطَالَۃُ فِیْ عِرْضِ الْمُسْلِمِ بِغَیْرِ حَقٍّ۔ (ابو دائود، کتاب الادب)
سعید بن زید نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا کہ بدترین زیادتی مسلمان کی عزت پر حرف زنی کرنا ہے بغیر حق کے۔
یہ ’’بغیر حق کے‘‘ کی قید اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ بربنائے حق ایسا کرنا جائز ہے۔ پھر اس حق کی تشریح حضورؐ کی سنّت کے بعض نظائر اس طرح کرتے ہیں۔
ایک اعرابی آ کر حضورؐ کے پیچھے نماز میں شریک ہوا اور نماز ختم ہوتے ہی یہ کہتا ہوا چل دیا کہ خدایا مجھ پر رحم کر اور محمدؐ پر، اور ہم دونوں کے سوا کسی کو اس رحمت میں شریک نہ کر۔ حضورؐ نے صحابہ سے فرمایا: اَتَقُوْلُوْنَ ہُوَ اَضَلُّ اَمْ بَعِیْرَہٗ اَلَمْ تَسْمَعُوْا اِلٰی مَا قَالَ تم لوگ کیا کہتے ہو، یہ شخص زیادہ نادان ہے یا اس کا اونٹ؟ تم نے سنا نہیں یہ کیا کہہ رہا تھا۔ (ابودائود)
حضورؐ حضرت عائشہؓ کے ہاں تھے کہ ایک شخص نے آ کر ملاقات کی اجازت طلب کی۔ حضورؐ نے فرمایا: یہ اپنے قبیلے کا بہت برا آدمی ہے۔ پھر آپؐ باہر تشریف لے گئے اور اس سے بڑی نرمی کے ساتھ بات کی۔ گھر میں جب واپس تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے عرض کیا آپ نے تو اس سے بڑی نرمی کے ساتھ بات کی حالانکہ جاتے وقت آپ نے اس کے متعلق وہ کچھ کہا تھا۔ فرمایا: اِنَّ شَرَّ النَّاسِ مَنْزِلَۃً عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مَنْ وَدَّعَہٗ اَوْ تَرَکَہُ النَّاسُ اِتِّقَآئَ فُحْشِہخدا کے نزدیک قیامت کے روز بدترین مقام اس شخص کا ہو گا جس کی بدزبانی سے ڈر کر لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں۔ (بخاری و مسلم)
فاطمہ بنت قیس کی روایت ہے کہ حضرت معاویہؓ اور ابوالجہمؓ نے ان کو نکاح کا پیغام دیا۔ انھوں نے حضورؐ سے رائے پوچھی۔ فرمایا اَمَّا مَعَاوِیَۃُ فَصَعْلُوْکٌ لَا مَالَ لَہٗ وَاَمَّا اَبُوالْجُہْمِ فَضَرَّابٌ لِلنِّسَآئ معاویہ مفلس ہیں اور ابوالجہم بیویوں کو بہت مارا کرتے ہیں۔
(بخاری و مسلم)
ابو سفیان کی بیوی ہند نے آ کر حضورؐ سے عرض کیا کہ ابوسفیان بخیل آدمی ہیں مجھے اور میری اولاد کو اتنا نہیں دیتے جو ضروریات کے لیے کافی ہو۔(بخاری و مسلم)
غیبت ِمباحہ کی صورتیں
اس طرح کی نظیروں سے فقہا و محدّثین نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ جس ’’حق‘‘ کی بنا پر آدمی کی برائی کرنا جائز ہے اس سے مراد وہ حقیقی ضروریات ہیں جن کے لیے ایسا کرنے کے سوا چارہ نہ ہو۔ پھر اس قاعدے کی بنا پر وہ تعیُّن کے ساتھ چند صورتیں بیان کرتے ہیں کہ ان میں غیبت کی جا سکتی ہے یا کرنی چاہیے۔ علاّمہ ابن حجر اپنی شرح بخاری میں ان صورتوں کو یوں بیان فرماتے ہیں:
علما کہتے ہیں کہ غیبت ہر اس غرض کے لیے مباح ہے جو شرعاً صحیح ہو جب کہ اس غرض کے حصول کا راستہ صرف یہی ہو۔ مثلاً ظلم کے خلاف استغاثہ، کسی برائی کو دور کرنے کے لیے مدد طلب کرنا، کسی شرعی مسئلے میں استفتا‘ حصولِ انصاف کے لیے عدالت سے رجوع‘ کسی کے شر سے لوگوں کو خبردار کرنا اور اسی میں حدیث کے راویوں کی پردہ دری اور گواہوں پر جرح بھی آ جاتی ہے، کسی حاکم عام کو اس کے کسی ماتحت افسر کی بری سیرت سے آگاہ کرنا، نکاح اور معاملات میں مشورہ طلب کرنے والے کو صحیح حال بتانا، کسی متعلم فقہ کو کسی مبتدع اور فاسق کے پاس آتے جاتے دیکھ کر اس کی بری سیرت سے خبردار کرنا، اس کے علاوہ جن لوگوں کی غیبت جائز ہے وہ، وہ لوگ ہیں جو علانیہ فسق، ظلم اور بدعات کا ارتکاب کرتے ہوں۔ ( فتح الباری جلد ۱۰ ص ۳۶۲)
امام نووی نے شرحِ مسلم اور ریاض الصالحین میں اس مضمون کو اور زیادہ کھول کر بیان کیا ہے۔
غیبت کسی ایسی غرض کے لیے مباح ہے جو شرعاً صحیح ہو اور جس کا پور اہونا اس غیبت کے بغیر ممکن نہ ہو۔ اس نوعیت کی چھ اغراض ہیں جو علما نے بیان کی ہیں۔ ان میں سے اکثر پر اجماع ہے اور ان کے دلائل مشہور احادیث سے ماخوذ ہیں:
(۱) ظلم پر فریاد، مظلوم کے لیے جائز ہے کہ سلطان قاضی ، یا جو بھی ظالم سے اس کو انصاف دلوانے کی قدرت رکھتا ہو اس کے پاس فریاد لے کر جائے اور کہے کہ فلاں شخص نے مجھ پر یہ زیادتی کی ہے۔
(۲) کسی برائی کو دور کرنے یا کسی عاصی کو راہِ راست پر لانے کے لیے کسی ایسے شخص سے مدد طلب کرنا جس سے امید ہو کہ وہ اسے روک سکتا ہے۔ اس غرض کے لیے آدمی اس سے کہہ سکتا ہے کہ فلاں شخص ایسا اور ایسا کرتا ہے اسے روکیے۔ اس سے مقصود ازالۂ منکر ہونا چاہیے، ورنہ یہی فعل حرام ہے۔
(۳) استفتا- مثلاً کوئی مفتی سے کہے کہ فلاں شخص نے میرے ساتھ یہ زیادتی کی ہے، یا میرا باپ یا بھائی یا شوہر ایسا اور ایسا ہے، میرے لیے خلاص کی کیا راہ ہے۔ اگرچہ اس معاملے میں بہتر یہ ہے کہ شخص کا تعیّن کیے بغیر پوچھا جائے کہ ایسے شخص کے بارے میں کیا فتویٰ ہے جو یہ اور یہ کرتا ہو۔ لیکن تعیّن شخص کے ساتھ بھی سوال کیا جا سکتا ہے جس طرح ابوسفیان کے متعلق ہند نے سوال کیا تھا۔
(۴) مسلمانوں کو شر سے خبردار کرنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں مثلاً مجروح راویوں پر، گواہوں پر اور مصنّفین پر جرح، یہ بالا جماع جائز ہے بلکہ شریعت کو تحریف سے بچانے کی خاطر واجب ہے۔ اسی قبیل سے یہ بات ہے کہ کوئی شخص کسی سے شادی بیاہ کا رشتہ یا شرکت کا معاملہ کر رہا ہو یا کسی کے پاس امانت رکھوانا چاہتا ہو یا کسی کے پڑوس میں مکان لینا چاہتا ہو اور کسی سے اس کے متعلق مشورہ کرے۔ اس صورت میں مشاور کے لئے واجب ہے کہ خیر خواہی کی بنا پر اس شخص کا جو عیب اسے معلوم ہو وہ اسے بتا دے۔ اسی قبیل سے یہ ہے کہ تم کسی متعلم فقہ کو دیکھو کہ وہ کسی فاسق یا مبتدع کے پاس علم حاصل کرنے کے لیے جا رہا ہے اور تم کو اندیشہ ہو کہ وہ اس کے لیے نقصان دہ ہو گا تو تمھارے لیے لازم ہے کہ نصیحت کے ارادے سے اس کو خبردار کر دو۔ اسی طرح اگر کوئی حاکم نااہل یا فاسق ہو تو تم اس کے حاکم اعلیٰ سے اس کی حالت بیان کر سکتے ہو تاکہ وہ اس سے دھوکا نہ کھائے اور اپنا انتظام درست کرے۔
(۵) کوئی شخص علانیہ فسق اور بدعت کا مرتکب ہو، شراب نوشی کرے یا لوگوں کے مال ناروا طریقوں سے وصول کرے یا باطل کاموں پر کمربستہ ہو تو جائز ہے کہ علانیہ اس کی برائی کی جائے۔
(۶) کوئی شخص لنگڑے ، یا ٹھنگنے یا نابینا یا ایسے ہی دوسرے القاب سے معروف ہو تو یہ القاب اس کے لیے بغرض تعریف استعمال کرنے جائز ہیں نہ بغرض تنقیص۔ اور اگر اس کا ذکر اس کے بغیر ممکن ہو جس سے لوگ جان سکیں کہ تم کس کا ذکر کرنا چاہتے ہو تو پھر ان القاب سے اجتناب بہتر ہے۔۱؎
ا ن دونوں بزرگوں کے بیانات سے دو باتیں ظاہر ہیں۔ ایک یہ کہ غیبت کی جن صورتوں کو جائز یا واجب کہا گیا ہے ان کے جواز یا وجوب کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ سرے سے غیبت ہی نہیں ہیں بلکہ اس کی وجہ صحیح شرعی اغراض اور ضروریات ہیں جن کی خاطر ایک فی الاصل حرام چیز تا بحد ضرورت جائز یا واجب قرار دی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ سنّت سے جو نظائر ثابت ہیں علمائے اسلام نے اس حرام چیز کے جواز کو انھی کی حد تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ ان سے چند اصول عامہ اخذ کرکے متعدّد ایسی عملی ضرورتوں کے لیے اس کے جواز اور وجوب کا فتویٰ دیا ہے جن کی نظیر سنّت میں نہیں ہے۔
محدّثین کی جرح و تعدیل کی بنیاد
اب چوتھے سوال کو لیجیے۔ جس آیت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ محدّثین نے جرح و تعدیل کا سارا کام اسی کی بنیاد پر کیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَo الحجرات49:6
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لو (کہ خبر صحیح ہے یا نہیں) کہیں ایسا نہ ہو کہ ناواقفیت کی بنا پر تم کسی گروہ کو گزند پہنچا دو اور پھر اپنے کیے پر پچھتائو۔
اس آیت کا مفادیہ ہے کہ ’’جب کوئی فاسق آدمی خبر لائے تو اس پر کوئی کارروائی کرنے سے پہلے اس خبر کی تحقیق کرو کہ وہ صحیح ہے یا نہیں۔‘‘ حالانکہ محدّثین نے جرح و تعدیل کا جو کام کیا ہے وہ یہ ہے کہ ’’جب کوئی شخص تمھارے پاس کوئی خبر لائے تو خود اس شخص کی سیرت و کردار کا جائزہ لو اور اگر وہ بدکردار ہو تو نہ صرف اس کی خبر کو ردّ کردو بلکہ عام لوگوں میں اشتہار دے دو کہ یہ شخص بدکردار ہے۔ اس کی لائی ہوئی خبر نہ ماننا۔‘‘
ان دونوں باتوں کو آمنے سامنے رکھ کر دیکھیے، کیا آپ کی عقل یہی کہتی ہے کہ یہ مؤخر الذکر بات اس پہلی بات کے ٹھیک مطابق ہے اور اس کا کوئی حصّہ اس سے متجاوز نہیں ہے؟
دراصل یہ استدلال کرتے وقت اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ راویوں کی جرح و تعدیل میں محدّثین کے کام کی نوعیت کیا تھی۔ اس کام کا ایک حصّہ یہ تھا کہ جو لوگ جھوٹے، یا بدعقیدہ یا کسی حیثیت سے ساقط الاعتبار ہوں ان کی لائی ہوئی خبر تسلیم نہ کی جائے۔ دوسرا حصّہ یہ تھا کہ عام لوگوں اور خصوصیت کے ساتھ متعلمین حدیث کو ایسے راویوں سے خبردار کیا جائے اور کتابوں میں ان کے عیوب ثبت کر دیئے جائیں تاکہ آیندہ نسلیں بھی ان سے خبردار رہیں۔ مذکورہ بالا آیت اور دوسری متعدد نصوص صرف پہلے حصّے کی حد تک دلیل فراہم کرتی ہیں۔ چنانچہ امام مسلم نے مقدمۂ صحیح مسلم میں اسی حصّے کے حق میں ان سے استدلال کیا ہے۔ رہا دوسرا حصّہ تو خاص اس کے حق میں کوئی نص نہیں ہے، بلکہ اس کو غیبت مانتے ہوئے اس کے جواز اور وجوب کے حق میں تمام محدّثین نے یہی استدلال کیا ہے کہ اگر یہ کام نہ کیا جائے تو جھوٹے اور مبتدع اور ضعیف راویوں کی غلط روایات سے مسلمانوں کے دین کو نہیں بچایا جا سکتا۔ اس معاملے میں امام نَووی اور ابنِ حجر کے بیانات آپ ابھی ابھی اوپر دیکھ چکے ہیں۔ مزید تفصیل آگے آتی ہے۔
اس بارے میں محدّثین کی اپنی تصریحات
پانچویں سوال کا جواب یہ ہے کہ محدّثین میں سے کسی نے بھی اپنے کام کے دوسرے حصّے کے متعلق نہ تو یہ کہا ہے کہ یہ غیبت نہیں ہے اور نہ یہ دلیل پیش کی ہے کہ ہمارے اس کام کا حکم فلاں آیت یا فلاں حدیث میں دیا گیا ہے۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ دین کو تحریف سے بچانے اور عام مسلمانوں کو ناقابلِ اعتبار راویوں کے شر سے محفوظ کرنے کے لیے اس غیبت کا ارتکاب جائز بلکہ واجب ہے۔ جس زمانے میں جرح و تعدیل کا کام شروع ہوا ہے اس وقت بڑے زوروشور سے یہ سوال اٹھا تھا کہ یہ غیبت ہے جو زندہ اور مرے ہوئے لوگوں کی کی جا رہی ہے۔ اس پر ائمہ جرح و تعدیل نے اپنی پوزیشن صاف کرنے کے لیے خود جو کچھ کہا تھا وہ ملاحظہ فرما لیجیے۔
محمد بن بندار کہتے ہیں۔ میں نے امام احمد بن حنبل سے کہا مجھے یہ بیان کرتے ہوئے بڑا ڈر لگتا ہے کہ فلاں راوی ضعیف ہے اور فلاں کذّاب ہے۔ امام نے کہا:
اذا سکت انت و سکت انا فمتی یعرف الجاہل الصحیح من السقیم؟
اگر تم بھی چپ رہو اور میں بھی چپ رہوں تو ناواقف آدمی کیسے صحیح اور غلط احادیث میں تمیز کرے؟
عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ میرے والد احادیث اور رجال پر کلام کرتے ہوئے فرما رہے تھے فلاں ضعیف ہے اور فلاں ثقہ۔ ابوتراب بخشی نے کہا یا شیخ، علما کی غیبت تو نہ کرو۔ اس پر میرے والد نے کہا میں خیر خواہی کر رہا ہوں، غیبت نہیں کر رہا ہوں۔
عبداللہ بن مبارک نے ایک راوی کے متعلق کہا وہ جھوٹی حدیثیں بیان کرتا ہے۔ ایک صوفی نے اعتراض کیا یہ آپ غیبت کر رہے ہیں۔ ابن مبارک نے جواب دیا:
اسکت، اذا لم نبین کیف یعرف الحق من الباطل ۔
خاموش رہو اگر ہم یہ باتیں نہ کھولیں تو حق اور باطل میں تمیز کیسے ہو۔
یحییٰ بن سعید القَطَّان سے کہا گیا آپ کو ڈر نہیں لگتا کہ جن لوگوں کے عیوب آپ بیان کر رہے ہیں وہ قیامت کے روز آپ کا دامن پکڑیں گے۔ انھوں نے جواب دیا ان کا دامن پکڑنا میرے لیے اس سے ہلکی بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں میرا دامن پکڑیں اور فرمائیں تو نے وہ حدیث میری طرف کیوں منسوب ہونے دی جسے تو جانتا تھا کہ وہ جھوٹی ہے۔
شُعبہ بن الحجاج سے کہا گیا کہ تم نے کچھ لوگوں پر جرح کرکے ان کو رسوا کر دیا ہے، اچھا ہوتا کہ تم اس سے باز رہتے۔ انھوں نے کہا مجھے آج کی رات مہلت دو تاکہ میں اپنے اور اپنے خالق کے درمیان اس پر غور کروں کہ آیا یہ کام چھوڑ دینا میرے لیے جائز ہے۔ دوسرے روز وہ نکلے اور کہا:
قد نظرت بینی و بین خالقی فلا یسعنی دون ان ابین امورہم للناس وللاسلام۔
میں نے اپنے اور اپنے خالق کے درمیان اس پر غور کیا۔ میرے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ لوگوں کی بھلائی کے لیے اور اسلام کی خاطر ان راویوں کے حالات کھول دوں۔
عبدالرحمان بن مہدی کہتے ہیں میں اور شعبہ راستے سے گزر رہے تھے کہ دیکھا ایک شخص حدیث بیان کر رہا ہے۔ شعبہ نے کہا:
کذب واللّٰہ، لولا انہ لا یحل لی ان اسکت عنہ لسکتُّ۔
خدا کی قسم یہ جھوٹ کہہ رہا ہے۔ میرے لئے اس پر خاموش رہنا حلال نہیں ہے، ورنہ میں خاموش رہتا۔
انھی شعبہ کے متعدد شاگرد کہتے ہیں کہ وہ راویوں پر جرح کو ’’راہِ خدا میں غیبت‘‘ یا ’’خدا کی خاطر غیبت‘‘ کہتے تھے۔ سفیان بن عُیَنْیَہ کا بیان ہے کہ شعبہ کہا کرتے تھے تعالوا حتّٰی نغتاب فی اللّٰہ عزوجل۔آئو ذرا اللہ عزوجل کی خاطر کچھ غیبت کر لیں۔ ابوزید انصاری کہتے ہیں ایک روز ہم شعبہ کے پاس حاضر ہوئے تو وہ بولے:
آج حدیث بیان کرنے کا دن نہیں ہے، آج غیبت کا دن ہے آئو ذرا جھوٹوں کی غیبت کریں۔ ۱؎
امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمے میں جرح و تعدیل کے اس کام کی حمایت کرتے ہوئے لکھا ہے:
اہلِ علم نے جس بنا پر راویانِ حدیث اور ناقلین اخبار کے عیوب کھولنے کی ذمہ داری اپنے اوپر لی اور پوچھنے والوں کو اس فعل کے جواز کا فتویٰ دیا وہ یہ تھی کہ اس کے نہ کرنے میں بڑا خطرہ تھا کیونکہ دین کے معاملے میں جتنی خبریں بھی تھیں وہ کسی چیز کو حلال اور کسی کو حرام کرتی تھیں، کسی چیز کا حکم دیتی اور کسی کو منع کرتی تھیں، کسی چیز کی ترغیب دلاتی اور کسی سے ڈراتی تھیں۔ اب اگر کسی خبر کا راوی معدن صدق و امانت نہ ہو، پھر کوئی شخص جو اس آدمی کو جانتا ہو، اس کی روایت تو نقل کر دے مگر اس کا عیب ان لوگوں کو نہ بتائے جو اسے نہیں جانتے تو وہ اپنی اس خاموشی میں گناہ گار اور عامۂ مسلمین کو دھوکا دینے والا ہو گا۔ اس صورت میں اس امر کا سخت اندیشہ ہے کہ ان خبروں کو سننے والا کوئی شخص ان پر عمل کر بیٹھے درآنحالیکہ ان میں سے بعض یا اکثر جھوٹی اور بے اصل خبریں ہوں۔
یہ ہے اس جلیل القدر محدّث کا استدلال راویوں کے معائب کی پردہ دری کے حق میں اور اس کی شرح میں امام نووی جو کچھ لکھتے ہیں وہ یہ ہے:
جان لو کہ راویوں پر جرح کرنا بالا تفاق جائز ہے بلکہ واجب ہے کیونکہ شریعت مکرمہ کو بچانے کے لیے ضرورت اس کا تقاضا کرتی ہے۔ اور یہ کام غیبت محرّمہ نہیں ہے بلکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی خیر خواہی کے قبیل سے ہے۔ اور فضلائے ائمہ اور ان کے اخیار اور وہ لوگ جو ان میں سے بڑے پرہیز گار تھے یہ کام کرتے رہے ہیں۔۱؎
(ترجمان القرآن۔ جون ۱۹۵۹ء)
٭…٭…٭…٭…٭
غیبت کے مسئلے میں ایک دو ٹوک بات
غیبت کے بارے میں میرے گزشتہ مضمون کی اشاعت کے بعد ایک صاحب نے پھر لکھا کہ:
’’آپ نے جون ۱۹۵۹ئکے ترجمان میں غیبت اور اس کے احکام کی جو تشریح کی تھی وہ بڑی تشفی بخش تھی، مگر اس کے بعد پھر کچھ ایسی بحثیں دیکھنے میں آئیں جو ذہن میں الجھن پیدا کرنے والی ہیں۔ کیا آپ اس مسئلے میں کوئی ایسی دو ٹوک بات نہیں کہہ سکتے جو دو اور دوچار کی طرح صحیح شرعی پوزیشن کو کھول کر رکھ دے اور پھر آدمی کسی الجھن کا شکار نہ ہو؟‘‘
اس سلسلے کے بعض سوالات کا جواب اس سے پہلے سخت قلبی کراہت کے ساتھ دے چکا ہوں۔ اب اسی کراہت کے ساتھ دو مزید سوالات کا جواب دے کر اپنی حد تک اس بحث کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا چاہتا ہوں۔ جس نیچی سطح پر اتر کر یہ بحث کی جا رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ خلق خدا کو غلط فہمیوں سے بچانے کی خاطر بھی ایک شریف آدمی کے لیے ایسی بحثوں سے تعرض کرنا مشکل ہے۔
معترضین کی تعریف غیبت اور شارع کی تعریف غیبت کا بنیادی فرق اور اس کے نتائج
جون کے پرچے میں غیبت کی جو تعریف میں نے صحیح احادیث سے نقل کی تھی اسے نکال کر آپ پھر دیکھ لیں۔ بیک نظر آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی رو سے کسی شخص کے پیٹھ پیچھے اس کے واقعی عیوب بیان کرنا غیبت ہے۔ مگر اس کے برعکس ایک غیر شارع بزرگ اس کی جو تعریف بیان کرتے ہیں۔ اس کی رُو سے یہ بدگوئی صرف اس صورت میں غیبت ہو گی جب کہ تحقیر و تذلیل کی نیت سے کی جائے اور بدگوئی کرنے والے کی خواہش یہ ہو کہ جس کی بدگوئی وہ کر رہا ہے اسے اس کی خبر نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ تعریف دوسرے ائمہ اہلِ علم کی تعریفات کی طرح شارع کی بیان کردہ تعریف کی تشریح نہیں ہے، بلکہ ان دونوں میں کھلا کھلا اصولی فرق ہے جس کی وجہ سے غیبت کے احکام بدل جاتے ہیں۔
اولاً، شارع کی تعریف مطلقاً پیٹھ پیچھے کی بدگوئی کو حرام کرتی ہے۔ مگر غیر شارع کی مذکورہ بالا تعریف اس حرمت کو صرف اس بدگوئی تک محدود کر دیتی ہے جس میں تحقیر و تذلیل کی نیت اور اخفا کی خواہش پائی جاتی ہو۔ باقی تمام بدگوئیاں اس کی رُو سے مطلقاً مباح ہو جاتی ہیں۔
ثانیاً، شارع کی تعریف معاشرے کو غیبت کا ایک ایسا معیار دیتی ہے جس کی بنا پر ہر شخص اپنے ماحول میں اس برائی کی روک ٹوک کر سکتا ہے، کیونکہ بدگوئی، اور پیٹھ پیچھے، یہ دو اجزا جہاں بھی جمع ہوں وہاں پر سامع یہ طے کر سکتا ہے کہ یہ غیبت کا ارتکاب ہو رہا ہے۔ لیکن غیر شارع کی تعریف معاشرے کو اس معاملے سے بالکل بے دخل کر دیتی ہے۔ کیونکہ ایک شخص کی نیت اور خواہش کو دوسرا کوئی بھی نہیں جان سکتا۔ اس کا جج تو بدگوئی کرنے والا خود ہی ہو گا، یا پھر خدا ہو گا جس کا خوف کوئی کرے تو غیبت سے بچے ورنہ اپنی نیک نیتی اور خواہش اخفا سے بے نیازی کا دعویٰ کرکے جس کی غیبت چاہے کرتا پھرے۔ معاشرے میں کوئی اس کی زبان نہیں پکڑ سکتا۔
ثالثاً، شارع نے پیٹھ کی بدگوئی کو اصلاً حرام قرار دینے کے بعد اسے ان صورتوں میں مباح کیا ہے جب کہ ’’حق‘‘ کی خاطر اس کی ضرورت ہو یعنی کوئی ایسی ضرورت جو شرعاً ایک صحیح اور قابلِ لحاظ ضرورت قرار پاتی ہو۔ لیکن غیر شارع کی تجویز ایک نوعیت کی بدگوئی کو تو قطعی حرام کر دیتی ہے جس کے مباح ہونے کی کوئی صورت نہیں اور دوسری نوعیت کی بدگوئی کو مطلقاً حلال کر دیتی ہے جس پر ضرورت یا غرضِ صحیح کی کوئی قید نہیں۔
رابعاً، شارع کی عائد کردہ شرطِ اباحت پھر معاشرے ہی کو اس قابل بناتی ہے کہ اس کے ماحول میں جو بدگوئی بھی کی جائے اسے جانچ کر ہر شخص دیکھ سکے کہ وہ جائز نوعیت کی ہے یا نہیں۔ اس لیے کہ صحیح شرعی غرض یا ضرورت تو ایسی چیز ہے جسے جانچا اور متحقق کیا جا سکتا ہے۔ بدگوئی کرنے والے سے ہر سامع پوچھ سکتا ہے کہ کسی کے پیٹھ پیچھے اس کا ذکر جو تم برائی کے ساتھ کر رہے ہو اس کی کیا ضرورت ہے، یا اس سے کون سی جائز و معقول غرض اٹکی ہوئی ہے۔ اگر وہ ایک صحیح اور شرعاً معتبر ضرورت یا غرض ثابت کر دے۔ یا سننے والوں کی سمجھ میں خود آ جائے تو اسے گوارا کیا جا سکتا ہے ورنہ ہر سامع اس سے کہہ سکتا ہے کہ تمھیں اپنے دل کا بخار نکالنا ہے تو اپنے گھر میں جا کر نکالو، ہمیں اس غیبت کے گناہ میں کیوں شریک کرتے ہو۔ لیکن یہ غیر شارع بزرگ ایک طرف تو غیبت کے بضرورت مباح ہونے کا دروازہ بند فرما دیتے ہیں اور دوسری طرف آدمی کو ہر اس بدگوئی کی کھلی چھٹی دے دیتے ہیں جس کے متعلق وہ یہ دعویٰ کرے کہ میری نیت تحقیر و تذلیل کی نہیں ہے اور میں اخفا کی کوئی خواہش نہیں رکھتا۔ اس کے بعد معاشرے میں کوئی یہ سوال نہیں اٹھا سکتا کہ جناب یہ کام کس ضرورت سے کر رہے ہیں۔
خامساً، شارع کی عائد کردہ شرط اباحت کے تحت جو بدگوئی بھی کی جائے گی اس پر وہ تمام حدود و قیود لازماً عائد ہوں گی جو شریعت میں ان سب کاموں پر عائد ہوتی ہیں جو اصلاً حرام اور بضرورت مباح کیے گئے ہیں۔ یعنی یہ کہ
(۱) وہ صرف اسی صورت میں کیے جا سکتے ہیں جب کہ ان کی حقیقی ضرورت ہو اور اس ضرورت کے لیے ان کے ارتکاب کے سوا چارہ نہ ہو۔
(۲) وہ صرف اس حد تک کیے جا سکتے ہیں جس حد تک فی الواقع ان کی ضرورت ہو۔
(۳) ضرورت کے رفع ہونے کے ساتھ ہی ان کی اباحت ختم ہو جاتی ہے اور ان کی حُرمتِ اصلیہ اپنی جگہ واپس آ جاتی ہے۔ مثلاً سؤر اصلاً حرام ہے اور جان بچانے کے لیے شریعت اسے بضرورت مباح کرتی ہے۔ اس اباحت سے صرف بضرورت اور بقدر ضرورت اور تا بّحدِ ضرورت ہی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہر بھوک میں آدمی سؤر کھانے کے لیے تیار ہو جائے اور پیٹ بھر کر کھائے، اور دوسرے وقت کے لیے اس کے کباب بنوا کر رکھ لے۔ یا مثلاً قتلِ نفس اصلاً حرام اور بضرورت مباح ہے۔ اس کا ارتکاب شرعاً اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب کہ پوری احتیاط کے ساتھ اس کے ناگزیر ہونے کا تیقّن کر لیا جائے اور صرف اتنی ہی خون ریزی کی جا سکتی ہے جتنی فی الواقع ضروری ہو اور ضرورت کے ختم ہوتے ہی لازم ہو جاتا ہے کہ ہاتھ روک لیا جائے۔ ٹھیک یہی قیود غیبت پر بھی عائد ہوں گی جب کہ وہ اصلاً حرام اور بضرورت مباح ہو لیکن غیر شارع بزرگ جس چیز کو غیبت کی تعریف میں د اخل فرماتے ہیں اسے وہ کسی ضرورت کی بنا پر مباح نہیں کرتے، اور جسے وہ اس تعریف سے خارج کرتے ہیں اس پر مندرجہ بالا پابندیوں میں سے کوئی پابندی عائد نہیں ہوتی۔
یہ فرق ہیں جو شارع کی تشریع اور غیر شارع کی تشریع سے غیبت کی حقیقت اور اس کے احکام میں صریح طور پر واقع ہو رہے ہیں۔ اب جس کا جی چاہے شارع کی بات مانے اور جو چاہے غیر شارع کی پیروی کرے۔ اس سے پہلے (ماہ جون کی اشاعت میں) ابن حجر اور نووی کی جو عبارات میں نقل کر چکا ہوں ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں علمائے امت نے صحیح شرعی پوزیشن وہی سمجھی ہے جو میں نے بیان کی ہے۔ اور محدّثین نے بھی جرحِ رواۃ کا جو کام کیا ہے وہ یہ سمجھ کر نہیں کیا ہے کہ پاک نیت سے اخفا کی خواہش کے بغیر ہر شخص کے عیوب ڈنکے کی چوٹ بیان کرتے پھر نا ان کے لیے اصلاً اور مطلقاً مباح ہے، بلکہ انھوں نے اس کام کو اصلاً حرام اور بضرورت مباح مان کر ہی کیا ہے۔ اسی لیے انھوں نے اس کی ضرورت ثابت کی ہے۔ اسی لیے انھوں نے صرف بقدرِ ضرورت ان لوگوں پر جرح کی ہے جو احادیث روایت کرتے تھے اور ان کے بھی صرف وہ عیوب بیان کئے ہیں جن کا اثر احادیث کی صحت پر مترتب ہوتا تھا۔ اسی لیے وہ حدِّ ضرورت پر رُک گئے ہیں اس سے تجاوز بالعموم انھوں نے نہیں کیا ہے اور جس نے بھی تجاوز کیا اس پر دوسرے محدّثین نے نکیر کی ہے۔
رہا کسی شخص کا یہ استدلال کہ فلاں فلاں کاموں کا چونکہ حکم دیا گیا ہے اس لیے اس حکم کی تعمیل میں کسی شخص یا اشخاص کی جو بدگوئی بھی پیٹھ پیچھے کی جائے وہ آپ سے آپ حلال و طیب ہے، بلکہ وہ غیبت کی تعریف ہی سے خارج ہے تو آپ تھوڑا سا غور کرکے ہی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ سراسر ایک باطل استدلال ہے۔ شریعت کا کوئی ایجابی حکم اس کے کسی امتناعی حکم کو آپ سے آپ ختم نہیں کر دیتا۔ فرائض و واجبات ہوں یا مستحبات و معروفات، ان کی تعمیل بہرحال انھی طریقوں سے کی جا سکتی ہے جو شریعت نے جائز قرار دیئے ہوں۔ منکرات و ممنوعات کو محض اس دلیل سے مباح نہیں کیا جا سکتا کہ ایک ایجابی حکم کی تعمیل کے لیے یہ کام کیا جا رہا ہے اور نہ شریعت کے احکام امتناعی میں اس طرح کی کوئی ترمیم ہی کی جا سکتی ہے کہ جس فعل ممنوع کا ارتکاب کسی ایجابی حکم کی تعمیل کے لیے کیا جائے، وہ سرے سے فعل ممنوع کے دائرے ہی سے خارج ہے مثال کے طور پر انفاق فی سبیل اللہ کا حکم شریعت نے دیا ہے اور اطعام مسکین ایک بڑی نیکی ہے جو شریعت میں مطلوب ہے مگر کیا اس مقصد کے لیے چوری کرنا آپ سے آپ حلال ہو جائے گا اور یہ استدلال صحیح ہو گا کہ یہ فعل سرے سے چوری ہی نہیں ہے کیونکہ اس کا ارتکاب اطعام مسکین کے لیے کیا گیا ہے؟ بلاشبہ بعض معروفات کی خاطر ہر منکر کا نہیں بلکہ بعض منکرات کا ارتکاب بعض حالات میں جائز ہے مگر وہ اس بنیاد پر نہیں کہ اس منکر کا ارتکاب فلاں امر معروف کے لیے کیا جا رہا ہے بلکہ یہ فعل صرف اس صورت میں کیا جا سکتا ہے جب کہ ایک معروف کا حصول اسی منکر پر موقوف ہو اور اس کی مصلحت اس منکر کے مفسدے سے زیادہ بڑی ہو اور اس کا ارتکاب نہ کرنے سے اس معروف کی عظیم تر مصلحت فوت ہو جاتی ہو۔ یہی قاعدہ ہے جو بعض ضرورتوں اور صحیح اغراض کے لیے غیبت کی اباحت میں کام کر رہا ہے۔ شارع نے جہاں کہیں کسی کی غیرموجودگی میں خود اس کی مذمت کی ہے یا دوسروں کو اس کی اجازت دی ہے۔ وہاں یہی قاعدہ ملحوظ رکھا گیا ہے بلکہ یہ قاعدہ شارع کے ایسے ہی اقوال و افعال سے مستنبط ہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ جب غیبت کو خدا نے حرام کیا ہے اور اس کے رسول نے خود اس کی یہ تشریح کر دی ہے کہ کسی کی غیر موجودگی میں اس کے واقعی عیوب کا بیان، جو اسے ناگوار ہو۔ غیبت ہے تو یہ حرام فعل مجرد اس بنیاد پر مباح مطلق نہیں ہو سکتا کہ آپ شارع کے کسی دوسرے ایجابی حکم کی تعمیل کے لیے اس کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خاص طور پر راویان حدیث ہی کے عیوب بیان کرنے کا کوئی حکم اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہے۔ جیسا کہ ایک صاحب کو اصرار ہے، تب بھی ایک معمولی منطقی حس رکھنے والا آدمی بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ ایسا حکم لازماً غیبت کی حرمت کے حکم ہی میں ایک استثنا قرار پائے گا اور اس کی وجہ لازماً یہی ہو گی کہ چند زندہ اور مردہ آدمیوں کے عیوب بیان کرنے کا مفسدہ شارع کی نگاہ میں دین کی تحریف سے بچانے کی مصلحت سے کم تر وزن رکھتا تھا۔
(ترجمان القرآن۔ اکتوبر ۱۹۵۹ء)
٭…٭…٭…٭…٭
غیبت کے مسئلے میں بحث کا ایک اور رُخ
اسی مسئلے سے متعلق ایک اور صاحب نے لکھا۔
’’آپ نے ماہ جون ۱۹۵۹ئکے ترجمان میں غیبت کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے خطیب بغدادی کی کتاب الکفایہ فی علم الروایہ سے بعض ائمہ جرح و تعدیل کے جو اقوال نقل کئے ہیں ان کے سلسلے میں ایک بزرگ نے آپ پر بددیانتی کا الزام لگایا ہے۔ انھوں نے خطیب کی کتاب کے اسی باب کی عبارتیں نقل کرکے بتایا ہے کہ خطیب کا نقطۂ نظر تو آپ کی رائے کے بالکل خلاف ہے مگر آپ نے ان کی وہ ساری عبارات چھوڑ کر اس میں سے صرف اپنے مطلب کے بعض اقوال نکال لیے۔ اس معاملے میں آپ اپنی پوزیشن واضح کر دیں۔‘‘
میرے جس مضمون کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اسے پھر پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ اس میں میں نے کہیں بھی خطیب بغدادی کی آراء سے کوئی استناد نہیں کیا ہے اور نہ ان کو اپنا ہم خیال ظاہر کیا ہے۔ مجھے جب ایک مسئلے کا حکم صاف صاف حدیث میں ملتا ہو تو اس میں خطیب بغدادی یا ان سے بھی بڑے کسی شخص کی رائے کو آخر میں کیا وزن دے سکتا ہوں۔ میں نے صرف ایک راوی کی حیثیت سے بعض ائمۂ جرح و تعدیل کے اقوال ان کی کتاب سے نقل کئے ہیں۔ ان کی اپنی رائے کو میں سند کے طور پر پیش کرتا تو البتہ یہ بددیانتی ہوتی۔
مگر جو بزرگ دوسروں پر بددیانتی کا الزام عائد فرماتے ہیں ان کی اپنی دیانت کے صرف دو نمونے ملاحظہ ہوں۔ یہ دونوں نمونے اسی مضمون میں موجود ہیں جس کا حوالہ آپ دے رہے ہیں۔
انھوں نے علاّمہ ابن حجرؒ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ’’اس کے (یعنی غیبت کے) ایک اور پہلو کو کھولتے ہیں وہ یہ کہ:-
وہو ان یذکرہ فی غیبتہٖ بما فیہ مما یسوء ہ قاصداً بذالک الافساد۔
یعنی اس برائی کے ذکر سے مقصود درحقیقت فساد ڈلوانا ہو۔ دوسرے الفاظ میں اس کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ حافظ ابن حجر غیبت کے غیبت ہونے کے لیے یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کا محرک فاسد ہو۔‘‘
اب ذرا فتح الباری جلد دہم صفحہ ۳۶۱ ملاحظہ فرمایئے۔ اس میں علاّمہ ابن حجرؒ کی اصل عبارت یوں ہے:
الغیبۃ قد توجد فی بعض صور النمیمۃ وہو ان یذکرہ فی غیبۃ بما فیہ مما یسوء قاصدا بذالک الافساد
یعنی غیبت نمیمہ (چغلی) کی بھی بعض صورتوں میں پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے پیٹھ پیچھے اس کا کوئی واقعی عیب فساد ڈلوانے کی نیت سے بیان کرے جسے اگر وہ سنے تو اسے ناگوار ہو۔
اس عبارت میں علاّمہ موصوف غیبت کی نہیں چغلی کی تعریف بیان کر رہے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر آدمی کے پیٹھ پیچھے محض برائی کے ساتھ ذکر کیا جائے تو یہ غیبت ہے اور اگر فساد ڈلوانے کے ارادے سے ایسا کیا جائے تو یہ چغلی ہے۔
اس سے بھی زیادہ عجیب نمونۂ دیانت وہ ہے جو انھوں نے ماعز بن مالک اسلمی کے قصے میں پیش فرمایا ہے۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ ماعز کا قصہ مسلم کے جس باب (یعنی باب من اعترف علٰی نفسہٖ بالزنا) میں آیا ہے اس کی ساری احادیث انھوں نے ملاحظہ فرمائی ہیں۔ اور ان تمام احادیث کے ملاحظہ سے جو کچھ انھیں معلوم ہوا ہے وہ یہ ہے کہ واقعۂ رجم کے بہت پہلے سے ان کی شہرت بڑی خراب تھی اور وہ اپنی بعض شدید قسم کی کمزوریوں کے باعث نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی نگاہوں سے بالکل گر چکے تھے۔ لیکن بدکاری کی سزا اسلام میں چونکہ بڑی ہی سخت ہے اس وجہ سے جب تک یہ صاف طور پر قانون کی گرفت میں نہ آ گئے اس وقت تک ان کے خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
اب ذرا مسلم کے اسی باب کو نکال کر دیکھیے جس کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ اس میں ابوسعید خدریؒ روایت کرتے ہیں کہ جب ماعز نے حضورؐ کے سامنے چار مرتبہ زنا کا اقرار کیا تو آپ نے ان کی قوم سے پوچھا کہ یہ کیسا آدمی ہے۔ انھوں نے کہا :
مَا نَعْلَمُ بِہٖ بَاْسًا اِلاَّ اَنَّہٗ اَصَابَ شَیْئًا یَرَیٰ اَنَّہٗ لاَ یُخْرِجُہٗ مِنْہُ اِلَّا اَنْ یُّقَامَ فِیْہِ الْحَدَّ
اس کے اندر کوئی خرابی ہمارے علم میں نہیں ہے۔ بس اس سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو گیا ہے جس کے متعلق اس کا خیال یہ ہے کہ وہ اس کے وبال سے نہیں نکل سکتا جب تک کہ اس پر حد جاری نہ ہو جائے۔
اسی معاملے کے متعلق عبداللہ بن بُریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز کی قوم کے لوگوں سے ان کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا: مَا نَعْلَمُہٗ اِلَّا وَفَّی الْعقل مِنْ صَالِحِیْنَا فِیْمَا نَرٰی (ہم اس کے سوا کچھ نہیں جانتے کہ اس کی عقل بالکل درست ہے اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے یہ ہمارے صالح لوگوں میں سے ہے) دوسری مرتبہ پھر آپ نے ان سے دریافت کیا تو انھوں نے عرض کیا: لَا بَاْسَ بِہٖ وَلاَ بِعَقْلِہٖ (نہ اس میں کوئی خرابی ہے اور نہ اس کی عقل میں) سوال یہ ہے کہ آخر مسلم کی کس روایت سے صاحب ِموصوف کو یہ معلوم ہوا کہ ماعز بن مالک کی شہرت پہلے سے بڑی خراب تھی، اور وہ حضور کی اور صحابہ کی نگاہوں سے بالکل گر چکے تھے اور آپؐ انھیں سزا دینے کے لیے صرف اس بات کے منتظر تھے کہ یہ پوری طرح قانون کی گرفت میں آ جائیں؟
یہ پوری عمارت جس بنیاد پر کھڑی کی گئی ہے وہ صرف یہ ہے ’’اس سزا کے فوراً بعد حضورؐ نے ایک خطبہ دیا جس میں ان کے خراب کردار کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا اَوَکُلَّمَا اِنْطَلَقْنَا غُزَاۃً فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ تَخَلَّفَ رَجُلٌ فِیْ عَیَالِنَا لَہٗ نَبِیْبٌ النَّبِیْبُ التَّیْسُ … کم و بیش اسی مضمون کی چار روایتیں امام مسلم نے نقل کی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماعز کے اخلاق و کردار کے متعلق صحابہ رضی اللہ عنہم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں کیا باتیں موجود تھیں۔‘‘
اوّل تو یہ بات ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت اور مزاج کے خلاف ہے کہ کسی مسلمان کو موت کی سزا دے چکنے کے بعد فوراً ہی اٹھ کر مجمع عام میں اس کی مذمّت فرماتے۔ اس لیے سیرتِ پاک پر معمولی نظر رکھنے والا آدمی بھی حضورؐ کی تقریر کا وہ مطلب نہیں لے سکتا جو صاحب ِموصوف نے لیا ہے۔ پھر حدیث کے الفاظ بھی اس معاملے میں واضح نہیں ہیں کہ اس کلام سے مقصود ماعز کی مذمت تھی۔ مسلم کی جن چار روایتوں کا حوالہ دیا گیا ہے ان سب کو پڑھ کر دیکھ لیا جائے۔ ان میں سے کسی میں بھی اشارہ اس طرف نہیں ہے کہ ہر جہاد کے موقع پر ماعز بن مالک ہی وہ شخص تھے جو مجاہدین کے پیچھے ان کی عورتوں کو خراب کرنے کی فکر میں پھرتے رہتے تھے۔ بلکہ ان سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ زنا کے جرم میں رجم کی پہلی سزا دینے کے بعد حضورؐ نے اپنے خطبے میں مدینہ کے ان لوگوں کو متنبّہ کرنا چاہا تھا جو غزوات کے موقع پر مجاہدین کے چلے جانے کے بعد ان کے گھروں کے چکر کاٹا کرتے تھے۔ آپ نے اس نفسیاتی موقع پر جب کہ سارا مدینہ سنگ ساری کی اس ہولناک سزا پر لرز اٹھا تھا ان کو نوٹس دیا کہ اب یہاں یہ سخت فوجداری قانون نافذ ہو چکا ہے، آیندہ جو شخص بھی یہ حرکت کرے گا اسے وہی سزا دی جائے گی جو آج ماعز کو دی گئی ہے۔ صرف اتنی سی بات کہ حضورؐ نے تَحَلَّفَ رَجُلٌ کے الفاظ استعمال کیے تھے، یہ نتیجہ نکالنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ اس رَجُلٌ (ایک شخص) سے مراد ماعز ہی تھے۔ دوسری روایات میں مِنْ اَحَدِہِمْ یا مِنْ اَحَدِکُمْ (تم میں سے یا ان لوگوں میں سے کوئی شخص) کے الفاظ آئے ہیں اور ما عز کے متعلق پورے ذخیرۂ حدیث و رجال میں کہیں بھی یہ مذکور نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے اوباش لوگوں میں سے تھے۔ اس کے برعکس ان کے حق میں تو ان کی قوم کی مثبت شہادت یہ موجود تھی کہ وہ ایک صالح آدمی ہیں اور احیاناً ان سے ایک گناہ سرزد ہو گیا ہے۔ اسی بنا پر محدّثین نے ان کو صحابہ میں شمار کیا ہے اور ان کے سزا یافتہ ہونے کے باوجود عبداللہ بن ماعز کے واسطے سے ان کی روایت ِحدیث قبول کی ہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر وہ ایک اوباش آدمی ہوتے اور مجاہدین کے پیچھے ان کی عورتوں کی عصمت کے در پے رہنے والے ہوتے تو انھیں صحابی ماننے اور ان کی روایت قبول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔
آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے ’’ماعز کے رجم کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ کی رائے یہ تھی کہ اس شخص کے گناہوں نے اس کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ آخرکار یہ شخص تباہ ہو کے رہا۔ ان لوگوں کے نزدیک ماعز کے اقرارِجرم اور ان کے اظہارِ توبہ کی کوئی اہمیّت نہ تھی۔ اُن چیزوں کو یہ لوگ آب از سر گزشت کے بعد کی بے سود باتیں سمجھتے تھے اور ماعز کے خلاف ان لوگوں کو جو غصّہ تھا اس پر وہ بدستور قائم تھے۔‘‘
اس عمارت کی بنیاد حدیث کی جس عبارت پر رکھی گئی ہے۔وہ صاحب موصوف نے خود نقل فرمائی ہے کہ قَائِلٌ یَّقُوْلُ لَقَدْ ہَلَکَ لَقَدْ اَحَاطَتْ بِہٖ خَطِیْئَتُہٗ اس کا صحیح ترجمہ تو یہ ہے کہ ’’کوئی کہتا تھا یہ شخص ہلاک ہو گیا۔ اس کو اس کے گناہ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔‘‘ لیکن موصوف نے اس کا ترجمہ یہ فرمایا ہے ’’ایک گروہ کہتا تھا یہ شخص برباد ہو گیا۔ اس کو اس کے گناہوں نے اپنے گرداب میں لے لیا۔‘‘ خَطِیْئہٗ کا ترجمہ ’’گناہ‘‘ کیا جاتا تو یہ نظر یہ ٹھیر نہ سکتا تھا کہ ماعز پہلے سے سخت بدکار آدمی تھے اور صحابہ ان کے خلاف غصّے میں بھرے بیٹھے تھے اس لیے اس کو خطایا فرض کرکے ترجمہ ’’گناہوں‘‘ کر دیا گیا تاکہ اس جرم زنا کے بجائے بہت سے اس طرح کے جرائم اس صحابی کے ذمے ڈالے جائیں جس کے مغفور اور جنتی ہونے کی خبر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور جس غریب کو دنیا سے رخصت ہوئے آج پونے چودہ سو برس گزر چکے ہیں۔
اس کے بعد جن لوگوں نے ماعز کے بارے میں یہ رائے زنی کی تھی کہ ’’اس شخص کو دیکھو۔ اللہ نے اس کا پردہ ڈھانک دیا تھا مگر اس کے نفس نے اس کا پیچھا اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک یہ کتے کی موت نہ مار دیا گیا۔‘‘ ان کے بارے میں فرمایا جاتا ہے۔ ’’ان کی رائے زنی کی نوعیت ہمدردانہ اظہار افسوس کی نہیں تھی بلکہ یہ لوگ جیسا کہ عرض کر چکا ہوں، ماعز کی پچھلی خراب شہرت کی بنا پر ان کے بارے میں نہایت سخت رائے رکھتے تھے اور ان کے اعترافِ جرم کے معاملے کو کوئی اہمیّت نہ دیتے تھے۔ اس وجہ سے زیر بحث رائے زنی میں صرف تحقیر و تذلیل ہی کا جذبہ نہیں بلکہ نہایت شدید قسم کی نفرت و بیزاری کا جذبہ بھی موجود ہے۔‘‘
اُس زیر بحث رائے زنی کے الفاظ آپ کے سامنے موجود ہیں۔ کیا ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ماعز کی خراب شہرت کی بنا پر ان کے بارے میں نہایت سخت رائے رکھتے تھے اور ان سے سخت متنفر اور بیزار تھے، اور یہ سمجھتے تھے کہ ایسے برے آدمی کا یہی انجام ہونا چاہیے تھا؟ اگر ان کے جذبات یہی ہوتے تو انھیں یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اس شخص کا پردہ اللہ نے ڈھانک دیا تھا مگر یہ نہ مانا؟ ان الفاظ کا مطلب آخر اس کے سوا اور کیا ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ جب اللہ نے اس کا پردہ ڈھانک دیا تھا اور کوئی شہادت اس کے خلاف موجود نہ تھی تو یہ اس پردے کو ڈھکا رہنے دیتا اور خواہ مخواہ بار بار اعترافِ جرم کرکے سزا نہ پاتا۔ کیا اس شخص کے سزا سے بچ جانے کی یہ خواہش جو ان کے الفاظ سے ظاہر ہو رہی ہے ان لوگوں کے دل میں اس لیے تھی کہ وہ ماعز کی پچھلی بدکاریوں کے باعث ان سے سخت بیزار تھے اور مطمئن تھے کہ یہ شخص ٹھیک کیفر کردار کو پہنچ گیا؟
میں اس کارنامے پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ محض اپنے ایک نظریے کو سہارا دینے کے لیے کس طرح ایک پوری داستان گھڑد ی گئی ہے اور صحیح مسلم کو آلۂ کار بنا کر ایک صحابی تک کو بدترین الزامات کا ہدف بنا دینے میں تامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے بعد تو ہر اس الزام پر آدمی کو صبر کرنا ہی چاہیے جو صاحب موصوف کی طرف سے اس پر لگایا جائے۔
(ترجمان القرآن۔ اکتوبر ۱۹۵۹ء)
٭…٭…٭…٭…٭
دو اہم مبحث:
۱- خلافت کے لیے قرشیت کی شرط
۲- حکمت ِ عملی اور اختیار اَہْوَنُ الْبَلِیَّتین کی تشریح
حکمت ِ عملی کے موضوع پر مصنف نے کلام کرتے ہوئے حدیث اَلْاَئِمَّۃٌ مِّنْ قُرَیْشِ سے جو استدلال کیا تھا اس پر بعض حلقوں سے متعدد اعتراضات کیے گئے تھے۔ ذیل میں ان تمام اعتراضات کو نقل کرکے مصنف کی طرف سے ان کا جواب دیا گیا ہے۔
’’حدیث اَلْاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ کے متعلق آپ نے اپنے مضامین میں جو کچھ لکھا ہے۱؎ اور اس پر بعض حلقوں کی طر ف سے جو اعتراضات کیے گئے ہیں، ان دونوں بحثوں کو دیکھ کر حسب ذیل امور تنقیح طلب محسوس ہوتے ہیں جن پر خالص علمی حیثیت سے روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔
۱- کہا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نہ امر ہے نہ خبر نہ وصیت بلکہ یہ ایک قضیے کا فیصلہ تھا جو خلافت کے بارے میں قریش اور انصار کے درمیان حضور کی زندگی ہی میں ذہنوں کے اندر موجود تھا اور حضورؐ کو اندیشہ تھا کہ آپ کے بعد یہ ایک نزاع کی صورت اختیار کر لے گا، اس لیے آپ نے اپنی زندگی میں یہ فیصلہ فرما دیا کہ آپ کے بعد قریش اور انصار میں سے قریش ہی خلافت کے حق دار ہیں۔ بالفاظِ دیگر یہ محض ایک وقتی فیصلہ تھا جس سے مقصود حضور کے فوراً بعد رونما ہونے والی نزاع کو رفع کرنا تھا اور بس۔ کیا حدیث مذکور کی یہ تعبیر درست ہے؟
۲- یہ بھی کہا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیصلے سے مساوات کا اصول نہیں ٹوٹتا کیونکہ اسلام میں مساوات کا اصول مطلق نہیں ہے بلکہ اہلیت و قابلیت کی شرط سے مقیّد ہے اور یہ شرط اصولِ مساوات کی ضد نہیں ہے۔ مساوات کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہر شخص بلا لحاظِ اہلیت و صلاحیت ہر منصب کا مستحق ہو۔ اب چونکہ خلافت کے لیے اہلیت کی دوسری صفات کے ساتھ ساتھ سیاسی زورواثر بھی ایک ضروری صفت ہے۔ اور اس وقت یہ سیاسی زورواثر قریش ہی کو حاصل تھا، اس لیے انصار کے مقابلے میں ان کے استحقاقِ خلافت کو جو ترجیح دی گئی وہ اہلیت ہی کی بنا پر دی گئی۔ اس استدلال کی بنا پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس فیصلے سے اصول مساوات نہیں ٹوٹتا۔ کیا یہ استدلال صحیح ہے؟
۳- یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کبھی اس حدیث کو امر قرار دیتے ہیں اور کبھی اسے خبر ثابت کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک صاحب نے چراغ راہ کے اسلامی قانون نمبر (جلد اوّل صفحہ ۱۸۰) سے آپ کی ایک عبارت نقل کی ہے جس میں آپ نے اس حدیث کو محض ایک پیشین گوئی قرار دیا تھا اور اس کے حکم ہونے سے انکار کیا تھا۔ حالانکہ اب آپ اسے ایک حکم قرار دیتے ہیں۔ کیا اس سے یہ شبہ کرنے کی گنجائش نہیں نکلتی کہ یا تو آپ اس مسئلے کو سمجھے نہیں ہیں یا پھر آپ کبھی اپنے مطلب کے مطابق اس کا ایک مفہوم بناتے ہیں اور کبھی دوسرا؟
۴- اس سلسلے میں یہ امر بھی وضاحت طلب ہے کہ وہ اصول کیا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے آپ مستنبط کرتے ہیں اور اس کا انطباق آپ کے نزدیک کن امور پر کس طرح ہو گا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اگر آپ امورِ ذیل کی وضاحت بھی کر دیں تو مناسب ہو گا:
(الف) حکمت ِ عملی اور قاعدہ اہون البلیتین سے آپ کی کیا مراد ہے؟
(ب) کیا یہ قاعدہ دو ناگزیر برائیوں کی طرح دو ناگزیر بھلائیوں اور دو واجب الاطاعت احکام کے درمیان بھی استعمال ہو سکتا ہے؟
(ج) کیا آپ چاہتے ہیں کہ اب اقامت دین کی جدوجہد انبیا کے طریق عزیمت کو چھوڑ کر صرف رخصتوں اور حیلوں ‘ مصلحت پرستیوں ہی کے بل پر چلے اور سیاسی اغراض کے لیے دین کے جس اصول میں ترمیم کی ضرورت محسوس ہو اسے حدودِ شریعت کا لحاظ کیے بغیر دینی حکمت و مصلحت کے نام سے کر ڈالا جائے؟
(د) کیا آپ تحریک اقامت دین کے قائد کی حیثیت سے خود اپنے لیے اس اختیار کے مدعی ہیں کہ حکمت ِ عملی یا عملی سیاست یا اقامت دین کے مصالح کے تحت دین کے احکام و قوانین میں سے کسی کو ترک اور کسی کو اختیار کریں، کسی کو جائز اور کسی کو ناجائز ٹھہرائیں‘ اور کسی کو مقدّم اور کسی کو مؤخر کر دیں؟
(ھ)اگر یہ ڈھیلا ڈھالا اصول لوگوں کے ہاتھ میں پکڑا دیا جائے کہ تم دین کی مصلحتوں کو سامنے رکھ کر جس بات کو چاہو اختیار اور جسے چاہو ترک کر سکتے ہو تو کیا اس سے یہ خطرہ نہیں کہ دین کے معاملے میں بالکل امان ہی اٹھ جائے گی اور جس کے ہاتھ میں یہ نسخہ پکڑا دیا جائے گا وہ پورے دین کا تیا پانچا کرکے رکھ دے گا؟
(و)یہ امر تو مسلّم ہے کہ شارع کو خود اپنے احکام میں تغیّرّ و تبدل کرنے اور تقدیم و تاخیر کرنے یا ان میں رخصتیں دینے اور استثنا نکالنے کے اختیارات حاصل ہیں، مگر کیا شارع کے ان تصرّفات پر قیاس کرکے اور ان سے کچھ اصول مستنبط کرکے دوسرے بھی انھیں نئے پیش آمدہ مسائل پر چسپاں کرنے کا اختیار رکھتے ہیں؟ اور یہ اختیار آخر کس کو حاصل ہے؟‘‘
مصنف کا جواب
آپ کے سوالات کی ترتیب توڑ کر تیسرے سوال کا جواب میں پہلے دوں گا تاکہ ایک ضمنی بحث بیچ میں آ کر اصل مسائل سے توجہ نہ ہٹا سکے۔ چراغِ راہ کے اسلامی قانون نمبر سے میری جو عبارت نقل کی گئی ہے وہ دراصل آج سے ۲۰ سال پہلے اگست ۱۹۳۹ئ کے ترجمان القرآن میں ایک مستشرق کے مضمون ’’اسلامی قانون اور نظامِ معاشرت‘‘ پر مختصر نوٹ کی حیثیت سے لکھی گئی تھی۔ اس وقت تک مجھے اس مسئلے کی تحقیق کا موقع نہ ملا تھا اور میں نے مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کی تحقیق پر اعتماد کرکے ایک رائے ظاہر کر دی تھی۔ ۱؎ لیکن بعد میں جب میں نے خود تحقیق کی تو مجھے وہ رائے غلط محسوس ہوئی اور میں نے اپریل ۱۹۴۶ئ کے ترجمان القرآن میں اس کے خلاف اپنی اس راے کا اظہار کیا جسے آپ ’’خلافت کے لیے قرشیت کی شرط‘‘ کے زیر عنوان رسائل و مسائل جلد اوّل میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ علمی مسائل میں رائے بدلنا کوئی نیا اور نرالا واقعہ نہیں ہے۔ اس کو اگر کسی برے معنی پر کوئی شخص محمول کرنا چاہے تو اسے اپنے فعل کا اختیار ہے۔ میری تبدیلی رائے کے وجوہ آگے آپ خود دیکھ لیں گے۔
اب اصل مسائل کی طرف آیئے۔ آپ نے اپنے سوال نمبر ۱ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی جو توجیہ نقل کی ہے اس میں پہلی ناقابلِ فہم بات تو یہ ہے کہ کسی معاملے میں ایک حکم دینے اور کسی قضیے کا فیصلہ کر دینے میں آخر وہ کیا باریک فرق ہے جس کی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ یہ امر نہ تھا بلکہ ایک قضیے کا فیصلہ تھا۔ پھر یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آئی کہ حضورؐ نے خواہ انصار پر قریش کے حق خلافت کو ترجیح دی ہو یا تمام عرب و عجم پر، اس سے نفس مسئلہ زیر بحث پر آخر کیا اثر پڑتا ہے۔ لیکن ان دونوں باتوں کو تھوڑی دیر کے لیے نظرانداز کرکے اگر آپ بجائے خود اس توجیہ کا علمی جائزہ لیں تو آپ کو محسوس ہو گا کہ یہ محض ایک خانہ ساز توجیہ ہے جس کی پشت پر زعم اور ادّعاء کے سوا کوئی دلیل و ثبوت نہیں ہے۔ کیا فی الواقع حدیث، سیرت اور تاریخ کے پورے ذخیرے میں کوئی شہادت اس امر کی ملتی ہے کہ حضورؐ کے حینِ حیات انصار اور مہاجرین کے درمیان خلافت کے متعلق کوئی قضیہ پایا جاتا تھا؟ صحابہ کرام کا حال تو یہ تھا کہ وہ حضورؐ کی وفات کا تصوّر بھی برداشت نہ کرتے تھے، کجا کہ یہ جاں نثارانِ نبی آپؐ کے جیتے جی اپنی جگہ بیٹھ بیٹھ کر یہ سوچتے ہوں کہ آپ کی جانشینی ان میں سے کسے حاصل ہو‘ اور یہ سوچ اس حد تک پہنچ جائے کہ وہ انصار و مہاجرین کے درمیان ایک قضیے کی شکل اختیار کر گئی ہو۔ یہ ایک سراسر بے اصل بات ہے جو تاریخی ثبوت کے ادنیٰ شائبے کے بغیر گھر بیٹھے تصنیف کر ڈالی گئی ہے۔ پھر اس پر اس سے بھی زیادہ ایک ہوائی مفروضے کی عمارت یہ تعمیر کی گئی ہے کہ حضورؐ نے قریش کے استحقاقِ خلافت کے بارے میں جو کچھ بھی فرمایا اس سے مقصود دراصل اسی قضیے کا فیصلہ کرنا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آخر کس شخص کو حضورؐ کے اس منشا کا علم کس ذریعے سے حاصل ہو گیا؟ کیا حضورؐ نے خود اس کی صراحت فرمائی تھی؟ یا آپ کے کلام یا اس کے متعلقات میں کوئی قرینہ ایسا پایا جاتا ہے جس سے یہ منشا مترشح ہوتا ہو؟ یا حضورؐ کے بعد ائمۂ اہلِ علم میں سے کسی نے آپ کا یہ منشا سمجھا؟ اگر ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے تو آخر اس جسارت کی کوئی حد بھی ہے کہ آدمی جس چیز کو چاہے بلا دلیل و ثبوت شارع کا منشا قرار دے بیٹھے۔
امامت قریش کے بارے میں آنحضورؐ کے ارشادات
احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایک ہی قول اس مسئلے سے متعلق منقول نہیں ہے بلکہ حضورؐ نے متعدد مواقع پر اسے مختلف طریقوں سے ارشاد فرمایا ہے۔ ان ارشادات کو خود دیکھ لیجیے اور بتایئے کہ ان میں کہاں اس منشا کا کوئی سراغ ملتا ہے۔
بخاری میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ فِیْ قُرَیْشٍ لَایُعَادِیْہِمْ اَحَدٌ اِلَّا اَکَبَّہُ اللّٰہُ فِی النَّارِ عَلٰی وَجْہِہٖ مَا اَقَامُوا الدِّیْنَ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ یہ کام قریش میں رہے گا جو شخص بھی اس میں ان کی مخالفت کرے گا اسے اللہ اوندھے منہ آگ میں پھینک دے گا، جب تک کہ وہ دین کو قائم کرتے رہیں۔
مُسند احمد میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ حضورؐ کی ایک تقریر نقل کرتے ہیں جو آپ نے قریش کو خطاب کرکے ارشاد فرمائی، اَمَّابَعْدُ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ فَاِنَّکُمْ اَہْلَ ہٰذَا الْاَمْرِ مَا لَمْ تَعْصُوا اللّٰہَ فَاِذَا عَصَیْتُمُوْہُ بَعَثَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ مَنْ یَّلْحَاکُمْ کَمَا یُلْحٰی ہٰذَا اْلقَضِیْبَ ۔ امابعد، اے گروہِ قریش تم اس کام کے اہل ہو جب تک کہ اللہ کی نافرمانی نہ کرو۔ پھر اگر نافرمانی کرو گے تو اللہ تم پر کسی کو بھیجے گا جو تمھاری کھال اس طرح اتارے گا جیسے اس ٹہنی کی چھال اتار دی جائے۔
مسند احمد اور مسند ابودائود طیالسی میں حضرت ابوبرزہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: اَلْاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ مَا عَمِلُوْا بِثَلٰثٍ، مَا حَکَمُوْا فَعَدَلُوْا وَاْسَتْرَحُمْوا فَرَحِمُوْا وَعَاہَدُوْا فَوَفُوْا فَمَنْ لَّمْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ مِنْہُمْ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ۔ ائمہ قریش میں سے ہوں گے جب تک کہ وہ تین باتوں پر عمل کرتے رہیں۔ حکم کریں تو عدل کے ساتھ کریں۔ جب ان سے رحم طلب کیا جائے تو رحم کریں۔ جب عہد کریں تو وفا کریں۔ پھر جوان میں سے ایسا نہ کرے اس پر خدا اور فرشتوں اور انسانوں کی لعنت۔ قریب قریب یہی مضمون اس سے ملتے جلتے الفاظ میں ان دونوں ائمہ حدیث نے حضرت انس بن مالکؓ سے بھی نقل کیا ہے۔
امام شافعیؒ اور بیہقیؒ نے عطا کی مرسل روایت نقل کی ہے کہ حضورؐ نے قریش کو خطاب کرکے فرمایا:
اَنْتُمْ اَوْلَی النَّاسِ بِہٰذَا الْاَمْرِ مَا کُنْتُمْ عَلَی الْحَقِّ اِلَّا اَنْ تَعْدِ لْوا عَنْہُ فَتُلْحَوْنَ کَمَا تُلحٰی ہٰذِہِ الْجَرِیْدَۃُ ۔
تم اس کارِ حکومت کے سب لوگوں سے زیادہ مستحق ہو جب تک کہ حق پر قائم رہو لیکن اگر حق سے منہ موڑو گے تو تمھاری کھال اس طرح کھینچی جائے گی جیسے اس ٹہنی کی چھال اتار دی جائے۔
بیہقیؒ ، طبرانیؒ اور شافعیؒ نے مختلف سندوں سے حضورؐ کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ قَدِّمُوْا قُرَیْشًا وَلاَ تَقْدِمُوْہَا قریش کو آگے کرو اور ان سے آگے نہ بڑھو۔
مسند احمد میں حضرت عمرو بن العاصؓ کی روایت ہے کہ قُرَیْشٌ قَادَّۃُ النَّاسِ ۔ قریش لوگوں کے قائد و رہنما ہیں۔
ارشادات مذکورہ کا منشا
یہ تمام روایات صاف بتا رہی ہیں کہ حضورؐ نے محض اپنے فورًا بعد رونما ہونے والے کسی قضیہ خلافت کا فیصلہ نہیں فرمایا تھا بلکہ مستقل طور پر یہ طے فرما دیا تھا کہ جب تک قریش میں چند خاص صفات موجود ہیں اس وقت تک دوسروں کی بہ نسبت (چاہے ان دوسروں میں بھی یہ صفات موجود ہوں) خلافت پر ان کا حق مرّجح ہو گا۔ اس میں صرف انصار پر ترجیح کا مسئلہ نہ تھا بلکہ تمام عرب و عجم کے مسلمانوں پر اس قبیلے کی مشروط ترجیح کا فیصلہ تھا۔ یہی مطلب ان ارشادات کا تمام علمائے امّت نے بالا تفاق سمجھا ہے اور تاریخ میں بجز خوارج اور معتزلہ کے کسی کا اختلاف منقول نہیں ہوا ہے۔
امامت قریش کے بارے میں علمائے امت کا مسلک
عبدالقاہر بغدادی (متوفی ۴۲۹ھ) اپنی مشہور کتاب اَلْفَرق بَیْنَ الفِرَقِ کی تیسری فصل میں وہ پندرہ اصول بیان کرتے ہیں جن پر گمراہ فرقوں کے مقابلے میں اہل السنت کا اتفاق ہے۔ ان میں سے بارہواں اصول ان کے بیان کے مطابق یہ ہے:
امامت کا قیام امت پر فرض و واجب ہے … اس امت میں امامت منعقد ہونے کا طریقہ اجتہاد سے کسی شخص کا انتخاب ہے۔ … اور وہ سب اس بات کے قائل ہیں کہ امامت کے لیے قرشی النسب ہونا شرط ہے۔ (صفحہ ۳۴۰- ۳۴۱)
ابن حزم (متوفی ۴۵۶ھ) میں الفِصَل فی المِلَلْ و النَحل میں لکھتے ہیں:
اہل السنت اور تمام شیعہ اور بعض معتزلہ اور جمہور مُرجئہ کا مذہب یہ ہے کہ امامت جائز نہیں ہے مگر خصوصیت کے ساتھ قریش میں … اور تمام خوارج اور جمہور معتزلہ اور بعض مرحبۂ کا مذہب یہ ہے کہ یہ منصب ہر اس شخص کے لیے جائز ہے جو کتاب و سنّت پر قائم ہوخواہ قریشی ہو یا عام عرب یا کوئی غلام زادہ۔ اور ضرار بن عمرو غطفانی کہتا ہے کہ اگر حبشی و قرشی دو شخص کتاب و سنّت پر قائم ہوں تو واجب یہ ہے کہ حبشی کو آگے کیا جائے کیونکہ بد راہ ہو جانے کی صورت میں اسے ہٹانا آسان ہے۔ (اس کے بعد ابن حزم خود اپنی تحقیق بیان کرتے ہیں کہ) فہر بن مالک کی اولاد کے لیے امامت کو خاص کرنے کا وجوب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نص کی بنا پر مانتے ہیں کہ آپ نے امامت قریش ہی میں رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی اور یہ روایت تواتر کی حد کو پہنچی ہوئی ہے … اور اس روایت کی صحت پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انصار نے سقیفۂ بنی ساعدہ میں اس کے آگے سر تسلیم خم کر دیا حالانکہ شہر ان کا تھا، وہ سروسامان اور تعداد رکھتے تھے اور اسلامی خدمات میں کسی سے کم نہ تھے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نص سے یہ حجت قائم نہ ہو جاتی کہ اس معاملے میں دوسروں کا حق ان پر فائق ہے تو وہ اپنے اجتہاد کے مقابلے میں دوسرے کسی کا اجتہاد ماننے پر مجبور نہ تھے۔ (جلد ۴ ص ۸۹)
عبدالکریم شہر ستانی (متوفی ۵۴۸ھ) اپنی کتاب المِلَلْ والنّحِلَ میں لکھتے ہیں کہ: ان الامۃ اجتمعت علی انہالا تصلح لغیر قریش تمام امت اس بات پر متفق ہے کہ امامت قریش کے سوا کسی کے لیے درست نہیں ہے۔ (ج ۱ ص ۱۰۶)
امام نَسفِی (متوفی ۵۳۷ھ) عقائد نسفی میں لکھتے ہیں: وینبغی ان یکون الامام من قریش ولا یجوز من غیرہم ضروری ہے کہ امام قریش میں سے ہو اور ان کے سوا کسی دوسرے کو امام بنانا جائز نہیں ہے۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے علاّمہ تفتازانی شرح عقائد نسفی میں لکھتے ہیں کہ اس پر اجماع ہے اور بجز خوارج اور بعض معتزلہ کے کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا ہے۔
قاضی عیاض (متوفی ۵۴۴ھ) لکھتے ہیں کہ امامت کے لیے قرشیت کا شرط ہونا تمام علما کا مذہب ہے اور علما نے اس کو اجماعی مسائل میں شمار کیا ہے۔
(شرح مسلم للنووی، کتاب الامارہ)
امام نووی (متوفی ۷۷۶ھ) شرح مسلم میں لکھتے ہیں: یہ احادیث اور اسی معنی کی دوسری احادیث اس بات پر کھلی دلیل ہیں کہ خلافت قریش کے لیے خاص ہے اور ان کے سوا کسی اور کے لیے اس کا انعقاد جائز نہیں ہے۔ اس پر صحابہ کے زمانے میں اجماع ہو چکا تھا اور اسی طرح ان کے بعد بھی یہ اجماع قائم رہا۔ (کتاب الامارۃ باب الخلافتہ فی قریش)
یہ تمام اکابر اہلِ علم آٹھ صدیوں تک مسلسل اس مسئلے پر امت کا اجماع نقل کرتے چلے گئے ہیں۔ نویں صدی کے قریب پہنچ کر ابن خلدون یہ خبر دیتا ہے کہ یہ اجماع ٹوٹنا شروع ہو گیا مگر اس بنا پر نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نص کے کوئی نئے معنی اس وقت منکشف ہونے لگے تھے بلکہ اس بنا پر کہ:
جب قریش کا اثرو اقتدار کمزور پڑ گیا اور مسلسل عیش و عشرت میں رہتے رہتے ان کی عصبیت ختم ہو گئی اور سلطنت کے معاملات نے ان کو تمام روئے زمین پر منتشر کر دیا تو وہ بارِ خلافت اٹھانے سے عاجز ہو گئے اور عجمیوں کو ان پر اتنا غلبہ حاصل ہو گیا کہ تمام حل و عقد کے وہی مالک ہو گئے۔ اس وجہ سے بکثرت محققین پر ان کا معاملہ مشتبہ ہو گیا اور وہ یہ رائے قائم کرنے لگے کہ اب خلافت کے لیے قرشیت کی شرط باقی نہیں رہی ہے۔ (مقدمہ۔صفحہ۱۹۴)
یہی بنیاد تھی اس امر کی کہ آخر کار دسویں صدی میں علما کے ایک بڑے گروہ نے سلاطین آلِ عثمان کی خلافت تسلیم کر لی۔ اب آپ خود دیکھ لیں کہ آیا علمائے امت نے حضورؐ کے ارشادات کو انصار و مہاجرین کے کسی قضیے کا وقتی فیصلہ سمجھا تھا یا بعض اوصاف کی شرط کے ساتھ ایک مستقل دستوری حکم۔ کیا یہ بات باور کیے جانے کے لائق ہے کہ پوری امت کے علما بالا تفاق ایک نص کا مطلب سمجھنے میں غلطی کر جائیں اور صدیوں اس غلطی میں پڑے رہیں؟
خلافت کے لیے قرشیت کی شرط کی حقیقت
اس کے بعد دوسرے سوال کو لیجیے۔ یہ بات سمجھنے کے لیے کسی بڑی عقل و خرد کی ضرورت نہیں ہے کہ ’’اہلیت و قابلیت‘‘ کا اطلاق صرف انھی اوصاف پر ہوتا ہے جو ہر شخص کو حاصل ہونا ممکن ہوں‘ نہ کہ کسی ایسے وصف پر جو کسی شخص کو اس وقت تک نصیب نہ ہو سکے جب تک وہ کسی خاص قبیلے، خاندان، وطن یا رنگ و نسل میں پیدا نہ ہو۔ اصولِ مساوات کے ساتھ اگر مطابقت رکھتی ہے تو صرف پہلی قسم کے اوصاف کی شرط ہی رکھتی ہے۔ رہا دوسرا وصف تو چاہے آپ کھینچ تان کر اس پر بھی ’’اہلیت و قابلیت‘‘ کی اصطلاح استعمال کر ڈالیں، لیکن اس نوع کی ’’اہلیت‘‘ کو کسی منصب کے قابل ہونے کے لیے شرط قرار دے دینا اصولِ مساوات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مثال کے طور پر اگر آپ کہیں کہ پاکستان کے باشندوں میں سے جو شخص بھی عمدہ قانونی قابلیت رکھتا ہو وہ جج بنائے جانے کا اہل ہے تو یہ بات حقوق میں تمام پاکستانیوں کی مساوات کے اصول سے پوری طرح مطابق ہو گی۔ لیکن اگر آپ مثلاً یہ کہیں کہ صرف ایک قانون دان جاٹ ہی پاکستان میں جج بن سکتا ہے تو اسے کوئی صاحب عقل آدمی اصولِ مساوات سے مطابق نہیں مانے گا۔ اس پر آپ خواہ کتنی ہی منطق بگھاریں کہ عدالت کے لیے قانونی دھاک کی ضرورت ہے اور یہاں مدتوں سے جاٹوں ہی کی قانونی دھاک بیٹھی ہوئی ہے اس لیے جاٹ ہونا بھی قابلیت ہی کا ایک حصّہ ہے، مگر آپ کی کوئی سخن سازی بھی کسی سیدھی سادھی عقل کے آدمی کو اس بات پر مطمئن نہ کر سکے گی کہ اس خاص قسم کی ’’قابلیت‘‘ کو عدالتی مناصب کے لیے شرط ٹھہرانے پر بھی اس معاملے میں تمام پاکستانیوں کی مساوات کا اصول قائم رہتا ہے۔ وہ کہے گا کہ اگر آپ اپنے ہاں کے مخصوص حالات کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں تو صاف کہیے کہ ہم بربنائے مصلحت ایسا کر رہے ہیں، آخر یہ خواہ مخواہ محض زبان کے زور سے آپ اصولِ مساوات کے گول سوراخ میں اس نئے تصوّرِ اہلیت کی چوکھونٹی میخ کیوں ٹھونک رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی شریعت اپنی کسی بات کی صحت و صداقت ثابت کرنے کے لیے اس طرح کی لاطائل سخن سازیوں کی محتاج نہیں ہے۔ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ اسلام اپنے نظامِ زندگی میں بلا امتیاز نسل و وطن و رنگ تمام مسلمانوں کو برابر کے حقوق دینے کا قائل ہے۔ اس میں ہر شخص ہر منصب کا اہل ہے جب کہ وہ اس کی صلاحیت رکھتا ہو‘ خواہ وہ کالا ہو یا گورا، عربی ہو یا عجمی، سامی ہو یا حامی خلافت کے سوا باقی تمام مناصب کے معاملے میں یہ اصول اوّل روز ہی سے اسلام میں عملاً قائم کر دیا گیا تھا۔ اور خود خلافت کے معاملے میں بھی اسلام کا مطمح نظر یہی تھا کہ اِسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَلَوِ اسْتُعْمِلَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبْشِیٌّ۔سنو اور مانو خواہ تمھارے اوپر ایک حبشی غلام ہی امیر بنا دیا جائے۔ لیکن اس خاص منصب کے لیے اس وقت جس وجہ سے قرشیت کی شرط لگائی گئی وہ یہ تھی کہ خلافت اسلامیہ کے لیے عربوں ہی کو ایک طویل مدت تک ریڑھ کی ہڈی کا کام دینا تھا اور عربوں کے اندر سے قبائلی عصبیتیں اس حد تک عملاً نہیں نکل سکی تھیں کہ کوئی مسلمان بھی خلیفہ بنا دیا جاتا تو وہ اس کی قیادت میں پوری طرح مجتمع ہو کر کام کر سکتے، اس لیے ایک ایسے قبیلے کو خلافت کا علمبردار بنا دینا مناسب سمجھا گیا جس کی قیادت ایک مدت دراز سے عرب میں مسلّم چلی آ رہی تھی جس کی سربراہی عربوں کو متحد رکھ سکتی تھی اور جس کی طاقت انحراف کرنے والوں کو دبا سکتی تھی۔ یہ وہ مصلحت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے متعدد ارشادات میں واضح فرمائی ہے۔ مسند احمد میں سقیفہ بنی ساعدہ کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے صحابہ کی بھری مجلس میں حضرت سعد بن عُبادہ کو خطاب کرکے فرمایا۔
لَقَدْ عَلِمْتَ یَا سَعْدُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ وَاَنْتَ قَاعِدٌ، قُرَیْشٌ وَلَاۃُ ہٰذَا الْاَمْرِ فَبَرُّ النَّاسِ تَبْعٌ لِبَرِّہِمْ وَفَاجِرُہُمْ تَبْعٌ لِفَاجِرِہِمْ فَقَالَ سَعْدٌ صَدَقْتَ۔ (مرویات ابی بکر صدیق، حدیث ۱۸)
اے سعد تم کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا اور تم اس وقت بیٹھے تھے جب حضورؐ نے یہ فرمایا کہ قریش اس قیادت کے متولی ہیں۔ نیک لوگ ان کے نیک لوگوں کی پیروی کرتے ہیں اور بد ان کے بدوں کی۔ سعد نے کہا آپ سچ کہتے ہیں۔
پھر اسی تقریر میں حضرت ابوبکرؓ نے کہا:
وَلَمْ تَعْرِفِ الْعَرَبُ ہٰذَا الْاَمْرَ اِلاَّ لِہٰذَا الْحَیِّ مِنْ قُرَیْشٍ (مرویات عمر فاروق حدیث ۳۹۱)
اور عرب اس قبیلہ قریش کے سوا کسی اور کی قیادت کو نہیں جانتے۔
اسی مسند میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ
سَمِعْتُ اُذُنَایَ وَوَعَاہُ قَلْبِیْ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسُ تَبَعٌ لِقُرَیْشٍ صَالِحُہُمْ تَبْعٌ لِصَالِصَالِحِھِمْ وَشِرَارُہُمْ تَبَعٌ لِشِرَارِھِمْ (حدیث: ۷۹)
میرے ان دونوں کانوں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور میرے دل نے اسے یاد رکھا ہے کہ لوگ قریش کے پیچھے چلنے والے ہیں، ان کے صالح قریش کے صالحوں کی پیروی کرتے ہیں اور ان کے اشرار قریش کے اشرار کی۔
اسی مضمون کی روایات مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ اور جابر بن عبداللہ سے بھی منقول ہوئی ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس بنا پر قریش کے لیے خلافت مخصوص کرنے کی ہدایت فرمائی وہ یہ تھی کہ عرب میں ان کا اثرو اقتدار پہلے سے قائم چلا آ رہا تھا۔ اصولِ مساوات قائم کرنے کے لیے اگر اس وقت خلافت کا منصب ہر عربی و عجمی مسلمان کے لیے کھلا چھوڑ دیا جاتا اور کسی غیر قریشی عرب یا عجمی مسلمان یا غلام زادے کو خلیفہ منتخب کر لیا جاتا تو نہ صرف یہ کہ عرب قبائل اس کے قابو میں نہ رہتے بلکہ خود قریش کے اندر جو برے لوگ تھے ان کو بھی سر اٹھانے کا موقع مل جاتا اور قریش کی طاقت کا بڑا حصّہ خلافت اسلامیہ کی مزاحمت میں صرف ہوتا۔ اس طرح یہ خطرہ تھا کہ سرے سے وہ اسلامی نظام ہی مستحکم نہ ہو سکتا جس کے بے شمار اصولِ خیر میں سے صرف ایک یہ اصولِ مساوات تھا۔ اس لیے حضورؐ نے اولیٰ اور انسب یہی سمجھا کہ ان حالات میں قریش کے صالحین کو کام کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ اس قبیلے کی طاقت اسلامی خلافت کی مزاحم بننے کے بجائے اس کی پشت پناہ بنے۔ اس صورت میں یہ غالب توقع تھی کہ اسلامی نظامِ زندگی غالب اور مستحکم ہو کر رہے گا۔ اور جب وہ پوری طرح نافذ و مستحکم ہو گا تو جہاں اور بے شمار بھلائیاں قائم ہوں گی وہیں ایک روز خلافت کے معاملے میں بھی اصولِ مساوات قائم کرنے کے لیے سازگار حالات پیدا ہو جائیں گے۔
حدیث امامت قریش سے مستنبط ہونے والے اصول
یہ ہے صحیح توجیہ حضورؐ کے اس فیصلے کی۔ اس سے جو اصول مستنبط ہوتے ہیں وہ مختصراً یہ ہیں۔
اولاً، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظام زندگی جن لوگوں کو قائم کرنا اور چلانا ہو انھیں آنکھیں بند کرکے حالات کا لحاظ کیے بغیر پورا کا پورا نسخۂ اسلام یکبارگی استعمال نہ کر ڈالنا چاہیے بلکہ عقل اور بینائی سے کام لے کر زمان و مکان کے حالات کو ایک مومن کی فراست اور فقیہ کی بصیرت و تدبّر کے ساتھ ٹھیک ٹھیک جانچنا چاہیے۔ جن احکام اور اصولوں کے نفاذ کے لیے حالات سازگار ہوں انھیں نافذ کرنا چاہیے اور جن کے لیے حالات سازگار نہ ہوں ان کو موخر رکھ کر پہلے وہ تدابیر اختیار کرنی چاہییں جن سے ان کے نفاذ کے لیے فضا موافق ہو سکے۔ اسی چیز کا نام حکمت یا حکمت ِ عملی ہے جس کی ایک نہیں بیسیوں مثالیں شارع علیہ السّلام کے اقوال اور طرزِ عمل میں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت دین بدّھوئوں کے کرنے کا کام نہیں ہے۔
ثانیاً، اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب زمان و مکان کے حالات کی وجہ سے اسلام کے دو احکام یا اصولوں یا مقاصد کے درمیان عملاً تضاد واقع ہو جائے یعنی دونوں پر بیک وقت عمل کرنا ممکن نہ رہے تو دیکھنا چاہیے کہ شریعت کی نگاہِ میں اہم تر چیز کون سی ہے اور پھر جو چیز اہم تر ہو اس کی خاطر شرعی نقطۂ نظر سے کم تر اہمیّت رکھنے والی چیز کو اس وقت تک ترک کر دینا چاہیے جب تک دونوں پر ایک ساتھ عمل کرنا ممکن نہ ہو جائے لیکن اسی حد تک ایسا کرنا چاہیے جس حد تک یہ ناگزیر ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت اسلامیہ کے استحکام کو اصولِ مساوات کے قیام پر ترجیح دی کیونکہ خلافت کے استحکام پر پورے اسلامی نظام زندگی کا قیام و نفاذ موقوف تھا۔
اور یہ کل اسلام کی نگاہ میں ایک جز کی بہ نسبت عظیم تر اہمیّت رکھتا تھا لیکن آپ نے اس مقصد کے لیے اصولِ مساوات کو بالکلیہ نہیں بلکہ اس کے صرف اس حصّے کو معطل رکھا جو منصب خلافت سے متعلق تھا، کیونکہ صرف اسی حد تک اس کا تعطُّل ناگزیر تھا۔ یہ ایک مثال ہے قاعدہ اختیار اہون البلیتین کی۔ اس سے وہ موقع و محل بھی معلوم ہو جاتا ہے جس میں یہ قاعدہ جاری ہو گا اور اس کے حدود و شرائط پر بھی روشنی پڑتی ہے۔
ثالثاً، اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ جہاں قبائلیت اور برادریوں کے تعصبات یا دوسری گروہوی عصبیتیں زندہ و متحرک ہوں، وہاں ان سے براہِ راست تصادم کرنا مناسب نہیں ہے بلکہ جہاں جس قبیلے یا برادری یا گروہ کا زور ہو وہاں اسی کے نیک لوگوں کو آگے لانا چاہیے تاکہ زور آور گروہ کی طاقت اسلامی نظام کے نفاذ کی مزاحم بننے کے بجائے اس کی مددگار بنائی جا سکے اور بالآخر نیک لوگوں کی کار فرمائی سے وہ حالات پیدا ہو سکیں جن میں ہر مسلمان مجرد اپنی دینی و اخلاقی اور ذہنی صلاحیت کی بنا پر بلا لحاظ نسل و نسب و وطن سربراہی کے مقام پر آ سکے۔ یہ بھی اسی حکمت کا ایک شعبہ ہے جسے حکمت ِ عملی کے نام سے یاد کرنے کا گناہ مجھ سے سرزد ہو ا ہے۔
یہ اصول جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول و عمل سے میں نے مستنبط کیے ہیں اگر ان میں کوئی قباحت کسی کو نظر آتی ہو تو وہ دلیل کے ساتھ اس کی نشان دہی کرے۔ رہا اس پر کسی کا یہ اعتراض کہ اس نوع کے تصرفات کرنے کا حق صرف شارع کو پہنچتا تھا۔ دوسرا کوئی اس کا مجاز نہیں ہو سکتا، تو میں صاف عرض کروں گا کہ یہ بات اگر مان لی جائے تو فقہ اسلامی کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے۔ کیونکہ اس کا تو سارا نشووارتقا ہی اس بنیاد پر ہوا ہے کہ شارع کے زمانے میں جو حوادث اور معاملات پیش آئے تھے ان میں شارع کے احکام اور تصرفات اور طرزِ عمل کا گہرا مطالعہ کرکے وہ اصول اخذ کیے جائیں جو شارع کے بعد پیش آنے والے حوادث و معاملات پر منطبق ہو سکتے ہیں۔ اس کا دروازہ بند ہو جائے تو پھر فقہ اسلامی صرف انہی حوادث و معاملات کے لیے رہ جائے گی جو شارع کے زمانے میں پیش آئے تھے۔ بعد کے نئے حالات میں ہم بالکل بے بس ہوں گے۔
یہ آپ کے چوتھے سوال کا جواب ہے۔ اب میں آپ کے اس سوال کی ایک ایک شق پر الگ الگ کچھ عرض کروں گا۔
حکمت ِ عملی کیا ہے؟
الف- حکمت ِ عملی کی تشریح میں اوپر کر چکا ہوں۔ مختصراً اس سے مراد یہ ہے کہ دین کی اقامت اور احکامِ شرعیہ کی تنفیذمیں ان حالات پر نگاہِ رکھی جائے جن کے اندر ہم کام کر رہے ہوں۔ اور حالات کے تغیّر و تبدل سے فتوے اور طرزِ عمل میں ایسا تغیّر و تبدّل کیا جائے جس سے مقاصد شرعیہ ٹھیک ٹھیک حاصل ہو سکیں نہ کہ نا مناسب حالات پر احکام اور اصولوں کے انطباق سے وہ الٹے فوت کر ڈالے جائیں۔ لیکن یہ حکمت بے قید نہیں ہے ، بلکہ اس کے لیے تفقہ فی الدین اور مزاجِ شریعت پر گہری نظر درکار ہے تاکہ آدمی شارع کے منشا سے قریب ترین ممکن تدبیر اختیار کر سکے اور اس حکمت کے قابلِ تسلیم یا قابلِ ردّ ہونے کا انحصار اس پر ہے کہ آدمی کسی خاص معاملے میں جب اس کو استعمال کر رہا ہو تو وہ کتاب و سنّت سے اپنے فتوے یا فیصلے یا طرزِ عمل کا ماخذ پیش کرے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ وہ شارع کے کس تصرف پر قیاس، یا کس ارشاد سے استنباط کر رہا ہے۔
اختیار اہون البلیتین کا ضابطہ
قاعدہ اختیار اہون البلیتین یہ ہے کہ جب کبھی آدمی کو ایسے حالات سے سابقہ پیش آئے جن کے اندر دو برائیوں میں سے ایک کو اختیار کرنا ناگزیر ہو جائے تو وہ اس برائی کو اختیار کرے جو شریعت کی نگاہِ میں کم بری ہو۔ اسی طرح جب شریعت کی دو قدروں یا دو مقاصد کو بیک وقت حاصل کرنا ممکن نہ ہو، یا دو احکام پر ایک ساتھ عمل نہ ہو سکے تو ان میں سے اس چیز کو اختیار کیا جائے جس کی قدرو اہمیّت شریعت کی نگاہ میں زیادہ ہو اور کم تر قدرواہمیّت کی چیز کو زیادہ بیش قیمت چیز پر اس حد تک قربان کیا جائے جس حد تک کہ وہ اس موقع و محل میں واقعی ناگزیر ہو۔ اس قاعدے کے استعمال کی صحت کا انحصار بھی اس پر ہے کہ آدمی جس چیز کو جس چیز پر ترجیح دے رہا ہے اس کے اہم تر ہونے کی دلیل اس کے پاس کتاب و سنّت سے ہو اور وہ یہ ثابت کر سکے کہ اس وقت یہ ترجیح فی الواقع ناگزیر ہے۔
ب:- اس قاعدے کے متعلق جو شخص یہ کہتا ہے کہ یہ صرف دو برائیوں ہی کے معاملے میں جاری ہو گا اور دو بھلائیوں یا دو احکام کے معاملے میں جاری نہ ہو گا، وہ ایک غلط بات کہتا ہے۔ اوپر میں خود اسوۂ نبوی سے اس کی ایک مثال دے چکا ہوں۔ ایک دوسری مثال نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے عہد کی وہ ہے جو جنگ احزاب کے متصلاً بعد پیش آئی تھی۔ بخاری، مسلم، طَبرَانی، بیہقی، ابن سعد اور ابن اسحاق وغیرہ نے متعدد سندوں سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ جنگ احزاب سے فارغ ہوتے ہی حضورؐ نے صحابہ کی ایک جماعت کو بنی قریظہ کی بستی پر چڑھائی کرنے کا حکم دیا اور بتاکید فرمایا کہ تم میں سے کوئی عصر کی نماز (اور بعض روایات کے مطابق ظہر کی نماز) نہ پڑھے جب تک وہاں نہ پہنچ جائے۔ مگر ان لوگوں کو راستے میں دیر لگ گئی اور نماز کا وقت ختم ہونے لگا۔ اجتماعی طور پر وہ فیصلہ نہ کر سکے کہ آیا وقت پر نماز پڑھنے کے حکمِ عام کو چھوڑیں یا حضورؐ کے اس حکمِ خاص کو۔ آخرکار بعض لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ نماز پڑھ لیں گے اور پھر آگے جائیں گے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ حضورؐ تو دراصل یہ چاہتے تھے کہ ہم جلدی جلدی کوچ کرکے وہاں پہنچ جائیں۔ نہ یہ کہ ہم نماز ہی نہ پڑھیں۔ اور بعض نے فیصلہ کیا کہ ہم وہاں پہنچنے سے پہلے نماز نہ پڑھیں گے کیونکہ حضورؐ نے صاف الفاظ میں یہی حکم دیا ہے۔ بعد میں جب حضورؐ کے سامنے یہ معاملہ رکھا گیا تو آپ نے ان میں سے کسی کے فعل کو بھی غلط نہ کہا۔ اب دیکھ لیجیے یہاں دو واجب الاطاعت احکام میں جب عملاً تضاد واقع ہو گیا تو ان میں سے کسی ایک کو ترک اور دوسرے کو اختیار کرنے کا فیصلہ ہر سپاہی نے اپنی صوابدید کے مطابق بطورِ خود کیا اور یہ کام خود صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کیا گیا۔ اگر اس طرح کے فیصلے کا ان لوگوں کو حق نہ ہوتا تو حضورؐ صاف فرما دیتے کہ تم نے دین میں وہ اختیار استعمال کیا ہے جو شرعاً تمھیں حاصل نہ تھا۔ ۱؎
اسی طرح وہ شخص بھی بالکل ایک غلط بات کہتا ہے جو کہتا ہے کہ اس قاعدے کا استعمال شخصی حاجات و مشکلات رفع کرنے کی حد تک تو درست ہے مگر دین کے لیے یا اقامت ِدین کے کام میں اسے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سراسر ایک بے بنیاد دعویٰ ہے جس کے لیے کتاب و سنّت میں کوئی دلیل نہیں ہے اور اس کے خلاف دلائل کثرت سے موجود ہیں۔ خلافت و امامت سے بڑھ کر اقامت ِدین کا کام اور کون سا ہو سکتا ہے؟ اور آپ ابھی دیکھ چکے ہیں کہ اس کے قیام و استحکام کی خاطر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اہون البلیتین کے قاعدے کو استعمال فرمایا۔ جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر اقامت ِدین کا کام آپ کس کو کہہ سکتے ہیں؟ اور اس کی جنگی ضروریات کے لیے جہاں ناگزیر ہو وہاں جھوٹ کی اجازت حضورؐ نے خود دی ہے جیسا کہ مسلم اور ترمذی کی مستند احادیث سے ثابت ہے۔ اس چیز سے جس شخص کو انکار ہے اس سے میں پوچھتا ہوں کہ آج اگر آپ ایک حکومت خلافت علی منہاج النبوت کی بنیاد پر قائم کریں تو فرمایئے آپ کی حکومت دشمن ملکوں میں اپنے جاسوس بھیجے گی یا نہیں؟ اور اگر بھیجے گی تو انھیں بہت سے احکامِ شرعیہ کے معاملے میں ڈھیل دے گی یا نہیں؟ کیا وہ انھیں اس امر کا پابند بنائے گی کہ دشمن کے ملک میں پورے ناپ کی داڑھی رکھیں۔ تشبّہ بالکفار سے بچیں، کھانے پینے کے معاملے میں تمام شرعی قیود کا لحاظ رکھیں اور اپنا کام بس سیدھے سیدھے حلال و طیب ذرائع ہی سے انجام دیں؟ فرض کیجیے کسی قوم سے آپ کو لڑائی پیش آتی ہے اور آپ ایسے مواقع پاتے ہیں کہ دشمنوں میں روپیہ پھیلا کر پھوٹ ڈلوا سکیں۔ ان کے کام کے آدمیوں کو توڑ سکیں، ان کے جنگی راز معلوم کر سکیں اور ان میں اپنا ایک پانچواں کالم پیدا کر سکیں۔ آپ ان مواقع سے فائدہ اٹھائیں گے یا ان سے تنزّہ برتیں گے؟ فرض کیجیے آپ خود اللہ کی راہ میں لڑنے جاتے ہیں اور دشمن کے ہاتھ گرفتار ہو جاتے ہیں۔ دشمن آپ سے اسلامی حکومت کے جنگی راز معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ خاموش رہنا ممکن ہے نہ توریہ سے کام چلتا ہے۔ اس حالت میں آپ اپنی فوج اور حکومت کے راز بتا دیں گے یا دشمن کو قصداً جھوٹی اطلاعات دے کر خلافت اسلامیہ کو نقصان اور تباہی سے بچانے کی کوشش کریں گے؟ اس کا جواب نفی یا اثبات جس میں بھی ہو صاف صاف ہونا چاہیے تاکہ آپ کا صحیح موقف معلوم ہو سکے۔ اور ساتھ ساتھ یہ بھی وضاحت فرما دیں کہ خلافت علیٰ منہاج النبوت کا کام اور قتال فی سبیل اللہ بھی آپ کے ہاں ’’اقامت دین‘‘ میں شمار ہوتا ہے یا نہیں؟
مصنف پر بے بنیاد الزامات اور ان کا جواب
(ج) اس شق میں آپ نے جن اعتراضات و الزامات کا خلاصہ درج کیا ہے ان کی بنیاد تین صریح غلط بیانیوں پر ہے جنھیں نہ معلوم کس اضطرار کی حالت میں حلال کر لیا گیا ہے۔
اوّل یہ کہ میں اب اقامت دین کی جدوجہد طریقِ عزیمت کو چھوڑ کر صرف رخصتوں اور حیلوں اور مصلحت پرستیوں ہی کے بل پر چلانا چاہتا ہوں حالانکہ دراصل میرے نزدیک اصل شاہ راہ یہی طریقِ عزیمت ہے اور اسی پر چلنے اور اپنی جماعت کو چلانے کی میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے البتہ میں نے کبھی اپنی جماعت کو حالات کی تبدیلی کے ساتھ مباح و جائز تدابیر میں سے بعض کے ترک اور بعض کے اختیار کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے، اور کبھی بالکل مستثنیٰ مواقع پر دو ناگزیر برائیوں میں سے بڑی برائی کو دفع کرنے کے لیے ایک کم تر درجے کی برائی تابحدِّ ضرورت اختیار کرنے کی بھی رائے دی ہے۔ اسی چیز کو (خدا ہی جانے کن پاکیزہ جذبات کے ساتھ) الزام تراشیوں کا بہانہ بنا لیا گیا ہے اور شور مچایا جا رہا ہے کہ یہ شخص تو اب بس رخصتوں‘ حیلوں اور مصلحت پرستیوں ہی پر اتر آیا ہے۔
دوم یہ کہ میں اپنی کوئی سیاسی اغراض رکھتا ہوں اور انھی کی خاطر میں نے ایسا کیا ہے حالانکہ میں نے آج تک جو کچھ کیا ہے وہ صرف دین کو زندگی کا نظامِ غالب بنانے کی خاطر کیا ہے، میری کوئی سیاسی یا ذاتی غرض اس میں کار فرما نہیں رہی ہے۔
سوم یہ کہ میں دین کے جس اصول میں ترمیم کی ضرورت محسوس کرتا ہوں اسے حدود شرعیہ کا لحاظ کیے بغیر دینی حکمت و مصلحت کے نام سے کر ڈالنا چاہتا ہوں حالانکہ میں اس شخص کو خدا کی لعنت کا مستحق سمجھتا ہوں جو ایسا کرے یا اس کا قائل ہو۔ میرا مسلک اس باب میں جو کچھ ہے اسے میں اس مضمون میں جگہ جگہ واضح کر چکا ہوں۔ میں نہ دین کے کسی اصول میں ’’ترمیم‘‘ کا قائل ہوں، نہ حدودِ شرعیہ سے یک سرِمُو باہر جانے کو جائز رکھتا ہوں اور نہ دینی حکمت و مصلحت کے نام سے کوئی کام کرنا صحیح سمجھتا ہوں جب تک کہ میں دلائل شرعیہ سے واقعی اس کو دینی حکمت و مصلحت نہ ثابت کر سکوں اور اس کام کے جائز ہونے کی شرعی دلیل نہ دے سکوں۔
(د) اس شق میں جو الزام آپ نے نقل کیا ہے وہ بھی ایک قطعی جھوٹا الزام ہے جس کے ثبوت میں میری کسی تحریر یا تقریر کا حوالہ نہیں دیا جا سکتا۔ میں نے دراصل جو کچھ کہا ہے وہ یہ ہے کہ جس کو بھی اقامت دین کے لیے عملاً کام کرنا ہو، خواہ وہ کوئی ایک شخص ہو یا کوئی جماعت یا کوئی ریاست، اسے لازماً حالات پر نگاہ رکھ کر حکمت کے ساتھ ہی کام کرنا ہو گا اور اس راہ میں کام کرتے ہوئے ضرورت پیش آنے پر اس کو صرف جائز تدابیر ہی میں ردّوبدل نہیں کرنا ہو گا بلکہ بعض اوقات اس نوعیت کی رخصتوں سے بھی فائدہ اٹھانا پڑے گا جو شریعت نے دی ہیں جن سے استفادہ کرنے میں انبیا اور صحابہ کرام نے بھی تنزّہ نہیں برتا ہے۔ اس چیز کو یہ معنی پہنائے گئے ہیں کہ میں خود اپنے لیے دین کے احکام و قوانین میں سے کسی کو ترک اور کسی کو اختیار کرنے اور کسی کو جائز اور کسی کو ناجائز ٹھیرانے اور کسی کو مقدّم اور کسی کو موخر کرنے کے اختیارات کا مدعی ہوں۔
یہ ایک عجیب نفسیاتی کیفیت ہے کہ آپ منطق کے زور لگا لگا کر ایک شخص کی بات میں سے بدترین معنی نکالنے کی کوشش کریں، اور وہ چاہے کتنی ہی وضاحت کے ساتھ اپنا صحیح مدعا بیان کر دے مگر آپ یہی اصرار کیے چلے جائیں کہ نہیں تیرا اصل مدعا وہ نہیں ہے جو تو بیان کرتا ہے بلکہ وہ ہے جو ہم تیری طرف منسوب کر رہے ہیں۔ گویا آپ کوئی وکیل استغاثہ ہیں جس نے ملزم کو کسی نہ کسی طرح پھانسنے ہی کے لیے اپنے موکل سے فیس لی ہے۔ ستم یہ ہے کہ یہاں موکّل کوئی اور نہیں آپ کا اپنا نفس ہے۔ اس کی فیس لذتِ نفس کے سوا کچھ نہیں اور آپ کی ساری دلچسپی کا محور بس یہ ہے کہ جس سے آپ ناراض ہیں اسے جس طرح بھی ہو جہنم کا مستحق ثابت کر دیں۔ناخدا ترس حکّام جب کسی پر بگڑتے ہیں تو اسے قانون اور نظم و ضبط کا دشمن قرار دے کر پکڑتے ہیں۔ خود غرض سیاسی لیڈر جس کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں اسے ملک اور قوم کا دشمن قرار دے کر گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ایک خاص مزاج کے علما جب کسی پر غضب ناک ہوتے ہیں تو ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے ساتھ خدا اور رسول کو بھی فریق مقدمہ بنائیں اور یہ ثابت کریں کہ جس شخص سے ہم ناراض ہیں وہ کم بخت تو دین کا دشمن ہے، بڑی گمراہی کا فتنہ اٹھا رہا ہے اور ایک جھوٹا دعویٰ لے کر اٹھا ہے۔ اس لیے ہم یہ سارے پاپڑ صرف خدا کے دین کو بچانے کے لیے بیل رہے ہیں۔ کاش ان حضرات کا غیظ اور طیش انھیں یہ سوچنے کی مہلت دے کہ یہ باتیں کرکے وہ اپنی اور اہلِ دین کی عزت میں کیا اضافہ فرما رہے ہیں۔
(ھ) اپنے سوال کی اس شق میں جو اعتراض آپ نے نقل کیا ہے وہ بھی دوسرے کی بات کو زیادہ سے زیادہ مبالغہ کرکے برے معنی پہنانے کی کوشش کے سوا اور کچھ نہیں ہے میں جس اصول کا قائل ہوں وہ سرے سے یہ ہے ہی نہیں کہ ’’تم دین کی مصلحتوں کو سامنے رکھ کر جس بات کو چاہو اختیار اور جسے چاہو ترک کر سکتے ہو۔‘‘ اس لیے یہ ڈھیلا ڈھالا اصول جن لوگوں نے گھڑا ہو وہی اس کے بُرے نتائج کی تشریح فرماتے رہیں۔ مجھ پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
(و) اس شق کا جواب یہ ہے کہ بجز ان امور کے جو خصوصیات نبوی میں شمار کیے گئے ہیں، باقی تمام معاملات میں شارع کا قول، فعل، تقریر، غرض شارع کے جملہ تصرفات ایک ماخذ قانون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے نظائر پر قیاس کرکے نئے حوادث کے لیے حکم نکالنا اور ان سے اصول مستنبط کرکے پیش آمدہ مسائل پر انھیں منطبق کرنا ہی فقہ اسلامی کا مدارِ کار ہے۔ اس قیاس و استنباط کے اختیارات مختلف لوگوں کو ان کے دائرہ کار کے لحاظ سے حاصل ہوتے ہیں، مفتی اور قاضی، صدر ریاست اور مجلس وزرا‘ مجلس شوریٰ اور اس کی کمیٹیاں‘ محکمہ جنگ اور محکمہ مال‘ محکمہ خارجیہ اور محکمہ داخلیہ، غرض اسلامی نظام کا ہر شعبہ اپنے اپنے کام اور منصب سے متعلق امور میں انھیں استعمال کرے گا۔ فوج کے ایک کمانڈر کو میدان ِجنگ میں اور پولیس کے ایک سپاہی کو بازاروں اور محلوں میں جس وقت اچانک کسی معاملے سے سابقہ پیش آئے گا اسی وقت اور اسی جگہ اسے یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ میں شرعاً اس موقع پر کیا کچھ کرنے کا مجاز ہوں۔ یہی نہیں، ایک عام شہری بھی اگر مخمصے میں مبتلا ہو تو اس وقت کوئی مفتی نہیں بلکہ وہ شخص خود ہی یہ فیصلہ کرنے کا مجاز ہو گا کہ آیا یہ حالت وہ ہے یا نہیں جس میں اس کے لیے حرام چیز کھا لینا جائز ہو۔ اگر اس کی جان مال یا آبرو پر حملہ ہو رہا ہو تو اسی کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا حفاظت ِخود اختیاری میں اس کے لیے اس وقت کسی ایسی جان کو ہلاک کرنا جائز ہے یا نہیں جسے اﷲ نے حرام کیا ہے۔ اگر زچگی کے موقع پر ماں اور بچے کی جان ایک ساتھ بچا لینا ممکن نظر نہ آئے تو اس وقت ایک دایہ ہی یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا یہ وقت وہ ہے یا نہیں جس میں وہ ایک نفس کی ہلاکت کی ذمہ داری اپنے اوپر لے۔ غرض ایک نوعیت کے معاملات جس شخص سے متعلق ہوں ان میں فیصلہ کرنا اسی کا کام ہے اور اس طرح کے فیصلوں کی صحت کا مدار دو چیزوں پر ہے۔ ایک یہ کہ آدمی واقعی قانونِ الٰہی کے اتباع کی نیّت رکھتا ہو۔ دوسرے یہ کہ کتاب و سنّت میں اس کے فیصلے کے لیے کوئی ماخذ پایا جاتا ہو۔
یہ اصول بہت کسا ہوا ہے اگر اخلاص اور قواعد شرعیہ کی پابندی کے ساتھ اسے استعمال کیا جائے اور یہ بہت ڈھیلا ڈھالا ہے اگر جہالت اور بدنیّتی کے ساتھ کوئی اسے استعمال کرنے پر اتر آئے۔ بلکہ شریعت کا پورا نسخہ ہی ایسا ہے کہ اگر حدودِ شریعت سے آزادی کی خواہش رکھنے والوں کے ہاتھ میں وہ تھما دیا جائے تو وہ دین اور اخلاق کا تیا پانچا کرکے رکھ دیں۔ وہ بے وضو نماز پڑھا سکتے ہیں، کیونکہ شریعت نے کسی کو اس کا پابند نہیں کیا ہے کہ مقتدیوں کے سامنے وضو کرکے امامت کرائے۔ وہ ہر روز چار عورتوں سے نکاح کرکے انھیں طلاق دے سکتے ہیں کیونکہ شریعت نے ایک مرد کو چار تک نکاح کرنے اور جب چاہے طلاق دے دینے کی آزادی دی ہے۔ وہ اضطرار کے بہانے سے جب چاہیں حرام چیز کھا اور پی سکتے ہیں کیونکہ مضطر کو تو شریعت نے یہ اجازت دی ہی ہے۔ اس خطرے کا سدّباب کرنے کے لیے اگر کوئی شخص ان دروازوں کو بند کرنا چاہے جو شریعت نے خود ہی بندوں کی مصلحت اور بھلائی کے لیے رکھے ہیں تو اسے پوری شریعت کو بند کرنا پڑے گا کیونکہ یہ شریعت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اس کی پابندی کرنا چاہیں۔ خروج کی نیت رکھنے والوں کے لیے تو اس میں رخنے ہی رخنے ہیں۔
(ترجمان القرآن۔ جولائی ۱۹۵۹ء)
٭…٭…٭…٭…٭
اسلام اور عدل اجتماعی
(یہ مقالہ ۱۳۸۱ھ مطابق ۱۹۶۲ء) میں حج کے موقع پر موتمر عالم اسلامی کے اجتماع منعقدہ مکہ معظمہ میں پڑھا گیا تھا)
باطل حق کے بھیس ہیں
انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس احسن تقویم پر پیدا کیا ہے اس کے عجیب کرشموں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عریاں فساد اور بے نقاب فتنے کی طرف کم ہی راغب ہوتا ہے اور اس بنا پر شیطان اکثر مجبور ہوتا ہے کہ اپنے فتنہ و فساد کو کسی نہ کسی طرح صلاح وخیر کا دھوکا دینے والا لباس پہنا کر اس کے سامنے لائے۔ جنت میں آدم علیہ السّلام کو یہ کہہ کر شیطان ہرگز دھوکا نہ دے سکتا تھا کہ میں تم سے اﷲ کی نافرمانی کرانا چاہتا ہوں تاکہ تم جنت سے نکال دیئے جائو۔ بلکہ اس نے یہ کہہ کر انھیں دھوکا دیا کہ ہَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰىo طٰہٰ120:20 (کیا میں تمھیں وہ درخت بتائوں جو حیاتِ ابدی اور لازوال بادشاہی کا درخت ہے) یہی انسان کی فطرت آج تک بھی چل رہی ہے آج بھی جتنی غلطیوں اور حماقتوں میں شیطان اس کو مبتلا کر رہا ہے وہ سب کسی نہ کسی پر فریب نعرے اور کسی نہ کسی لباسِ زور کے سہارے مقبول ہو رہی ہیں۔
فریب اول- سرمایہ داری اور لادینی جمہوریت
انھی دھوکوں میں سے ایک بہت بڑا دھوکا وہ ہے جو موجودہ زمانے میں اجتماعی عدل (Social Justice) کے نام سے بنی نوع انسان کو دیا جا رہا ہے۔ شیطان پہلے ایک مدت تک دنیا کو حریت فرد (Individual Liberty) اور فراخ دلی (Liberalism) کے نام سے دھوکا دیتا رہا اور اس کی بنیاد پر اس نے اٹھارہویں صدی میں سرمایہ داری اور لادینی جمہوریت کا ایک نظام قائم کرایا۔ ایک وقت اس نظام کے غلبے کا یہ حال تھا کہ دنیا میں اسے انسانی ترقی کا حرفِ آخر سمجھا جاتا تھا اور ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو ترقی پسند کہلانا چاہتا ہو مجبور تھا کہ اسی انفرادی آزادی اور فراخ دلی کا نعرہ لگائے۔ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ حیاتِ انسانی کے لیے اگر کوئی نظام ہے تو بس وہ یہی سرمایہ داری نظام اور یہی لادینی جمہوریت ہے جو مغرب میں قائم ہے لیکن دیکھتے دیکھتے وہ وقت بھی آ گیا جب ساری دنیا یہ محسوس کرنے لگی کہ اس شیطانی نظام نے زمین کو ظلم وجور سے بھر دیا ہے۔ اس کے بعد ابلیس لعین کے لیے ممکن نہ رہا کہ اس نعرے سے مزید کچھ مدت تک نوعِ انسانی کو دھوکا دے سکے۔
فریب دوم- اجتماعی عدل اور اشتراکیت
پھر کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ وہی شیطان ایک دوسرا فریب اجتماعی عدل اور اشتراکیت کے نام سے بنا لایا اور اب اس جھوٹ کے لباس میں وہ ایک دوسرا نظام قائم کروا رہا ہے۔ یہ نیا نظام اس وقت تک دنیا کے متعدد ملکوں کو ایک ایسے ظلم عظیم سے لبریز کر چکا ہے جس کی کوئی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں پائی جاتی۔ مگر اس کے فریب کا یہ زور ہے کہ بہت سے دوسرے ملک اسے ترقی کا حرفِ آخر سمجھ کر قبول کرنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ ابھی اس فریب کا پردہ پوری طرح چاک نہیں ہوا ہے۔
تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ذہنی غلامی کی انتہا
مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ان کے پاس اﷲ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنّت میں ایک دائمی و ابدی ہدایت موجود ہے جو انھیں شیطانی وساوِس پر متنبّہ کرنے اور زندگی کے تمام معاملات میں ہدایت کی روشنی دکھانے کے لیے ابد تک کافی ہے، مگر یہ مساکین اپنے دین سے جاہل اور استعمار کی تہذیبی و فکری تاخت سے بری طرح مغلوب ہیں۔ اس لیے ہر وہ نعرہ جو دنیا کی غالب قوموں کے کیمپ سے بلند ہوتا ہے، اس کی صدائے باز گشت فوراً ہی یہاں سے بلند ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ جس زمانے میں انقلابِ فرانس کے اٹھائے ہوئے افکار کا زور تھا، مسلمان ملکوں میں ہر تعلیم یافتہ آدمی اپنا فرض سمجھتا تھا کہ انھی افکار کا موقع و بے موقع اظہار کرے اور انھی کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھالے۔ اس کے بغیر وہ سمجھتا تھا کہ اس کی کوئی عزت قائم نہ ہو گی اور وہ رجعت پسند سمجھ لیا جائے گا۔ یہ دور جب گزر گیا تو ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی سمت ِقبلہ بھی تبدیل ہونے لگی اور نیا دور آتے ہی اجتماعی عدل اور اشتراکیت کے نعرے بلند کرنے والے ہمارے درمیان پیدا ہونے لگے۔ یہاں تک بھی بات قابلِ صبر تھی۔ لیکن غضب یہ ہے کہ ایک گروہ ہمارے اندر ایسا بھی اٹھتا رہا ہے جو اپنے قبلے کی ہر تبدیلی کے ساتھ چاہتا ہے کہ اسلام بھی اپنا قبلہ تبدیل کرے۔ گویا اسلام کے بغیر یہ بیچارے جی نہیں سکتے۔ اس کا ان کے ساتھ رہنا ضروری ہے۔ لیکن ان کی خواہش یہ ہے کہ جس کی پیروی کرکے یہ ترقی کرنا چاہتے ہیں اس کی پیروی سے اسلام بھی مشرّف ہو جائے اور ’’دین رجعی‘‘ ہونے کے الزام سے بچ جائے۔ اسی بنا پر پہلے کوشش کی جاتی تھی کہ حریت فرد اور فراخ دلی اور سرمایہ داری اور بے دین جمہوریت کے مغربی تصوّرات کو عین اسلامی ثابت کیا جائے، اور اسی بنا پر اب یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ اسلام میں بھی اشتراکی تصوّر کی عدالت ِاجتماعیہ موجود ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں کی ذہنی غلامی اور ان کی جاہلیت کی طغیانی ذلّت کی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔
عدالت اجتماعیہ کی حقیقت
میں اس مختصر مقالے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ عدالت ِاجتماعیہ درحقیقت نام کس چیز کا ہے اور اس کے قیام کی صحیح صورت کیا ہے۔ اگرچہ اس امر کی امید بہت کم ہے کہ جو لوگ اشتراکیت کو عدالت ِاجتماعیہ کے قیام کی واحد صورت سمجھ کر اسے نافذ کرنے پر تلے ہوئے ہیں وہ اپنی غلطی مان لیں گے اور اس سے رجوع کر لیں گے، کیونکہ جاہل جب تک محض جاہل رہتا ہے اس کی اصلاح کے بہت کچھ امکانات باقی رہتے ہیں۔ مگر جب وہ حاکم ہو جاتا ہے تو مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ کا زعم اسے کسی سمجھانے والے کی بات سمجھنے کے قابل نہیں رہنے دیتا۔ لیکن عامۃ الناس خدا کے فضل سے ہر وقت اس قابل رہتے ہیں کہ معقول طریقے سے بات سمجھا کر انھیں شیطان کے فریبوں پر متنبہ کیا جا سکے۔ اور یہی عامۃ الناس ہیں جنھیں فریب دے کر گمراہ اور گمراہ کن لوگ اپنی ضلالتوں کو فروغ دیتے ہیں۔ اس لیے میرے اس مقالے کی غرض دراصل عام لوگوں کے سامنے حقیقت کو کھول کر بیان کر دینا ہے۔
اسلام ہی میں عدالت اجتماعیہ
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات جو میں اپنے مسلمان بھائیوں کو سمجھانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جو لوگ ’’اسلام میں بھی عدالت اجتماعیہ موجود ہے‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہیں وہ بالکل ایک غلط بات کہتے ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ اسلام ہی میں عدالت اجتماعیہ ہے۔ اسلام وہ دینِ حق ہے جو خالق کائنات اور رب کائنات نے انسان کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے اور انسانوں کے درمیان عدل قائم کرنا اور یہ طے کرنا کہ ان کے لیے کیا چیز عدل ہے اور کیا عدل نہیں ہے، انسانوں کے خالق و رب ہی کا کام ہے۔ دوسرا کوئی نہ اس کا مجاز ہے کہ عدل و ظلم کا معیار تجویز کرے اور نہ دوسرے کسی میں یہ اہلیت پائی جاتی ہے کہ حقیقی عدل قائم کر سکے۔ انسان اپنا آپ مالک اور حاکم نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے معیارِ عدل خود تجویز کر لینے کا مجاز ہو۔ کائنات میں اس کی حیثیت خدا کے مملوک اور رعیت کی ہے۔ اس لیے معیارِ عدل تجویز کرنا اس کا اپنا نہیں بلکہ اس کے مالک اور فرمانروا کا کام ہے۔ پھر انسان خواہ کتنے ہی بلند مرتبے کا ہو اور خواہ ایک انسان نہیں بہت سے بلند مرتبہ انسان مل کر بھی اپنا ذہن استعمال کر لیں۔ بہرحال انسانی علم کی محدودیت اور عقل انسانی کی کوتاہی و نارسائی اور انسانی عقل پر خواہشات و تعصبات کی دستبرد سے کسی حال میں بھی مفر نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ انسان خود اپنے لیے کوئی ایسا نظام بنا سکے جو درحقیقت عدل پر مبنی ہو۔ انسان کے بنائے ہوئے نظام میں ابتدائً بظاہر کیسا ہی عدل نظر آئے، بہت جلدی عملی تجربہ یہ ثابت کر دیتا ہے کہ فی الحقیقت اس میں عدل نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہر انسانی نظام کچھ مدت تک چلنے کے بعد ناقص ثابت ہو جاتا ہے اور انسان اس سے بیزار ہو کر ایک دوسرے احمقانہ تجربے کی طرف پیش قدمی کرنے لگتا ہے۔ حقیقی عدل صرف اسی نظام میں ہو سکتا ہے جو ایک عالم الغیب و الشہادہ اور سبوّح و قدوس ہستی نے بنایا ہے۔
عدل ہی اسلام کا مقصود
دوسری بات جو آغاز ہی میں سمجھ لینی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص ’’اسلام میں عدل ہے‘‘ کہتا ہے وہ حقیقت سے کم تر بات کہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عدل ہی اسلام کا مقصود ہے اور اسلام آیا ہی اس لیے ہے کہ عدل قائم کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۰ۚ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْہِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللہُ مَنْ يَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَيْبِ۰ۭ اِنَّ اللہَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌo الحدید25:57
ہم نے اپنے رسولوں کو روشن نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ انسان انصاف پر قائم ہو اور ہم نے لوہا نازل کیا جس میں سخت طاقت اور لوگوں کے لیے فوائد ہیں‘ تاکہ اللہ یہ معلوم کرے کہ کون بے دیکھے اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ یقیناً اللہ قوی اور زبردست ہے۔
یہ دو باتیں ہیں جن سے اگر ایک مسلمان غافل نہ ہو تو وہ کبھی عدالت ِاجتماعیہ کی تلاش میں اللہ اور اس کے رسول ؐ کو چھوڑ کر کسی دوسرے ماخذ کی طرف توجہ کرنے کی غلطی نہیں کر سکتا۔ جس لمحے اسے عدل کی ضرورت کا احساس ہو گا اسی لمحے اسے معلوم ہو جائے گا کہ عدل اللہ اور اس کے رسول ؐ کے سوا کسی کے پاس نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ اور وہ یہ بھی جان لے گا کہ عدل قائم کرنے کے لیے اس کے سوا کچھ کرنا نہیں ہے کہ اسلام، پورا کا پورا اسلام، بلاکم و کاست اسلام، قائم کر دیا جائے۔ عدل، اسلام سے الگ کسی چیز کا نام نہیں ہے۔ اسلام خود عدل ہے۔ اس کا قائم ہونا اور عدل کا قائم ہو جانا ایک ہی چیز ہے۔
عدلِ اجتماعی؟
اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ عدلِ اجتماعی درحقیقت ہے کس چیز کا نام اور اس کے قیام کی صحیح صورت کیا ہے؟
انسانی شخصیت کا نشوونما
ہر انسانی معاشرہ ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں افراد سے مل کر بنتا ہے۔ اس مرکب کا ہر فرد ذی روح ، ذی عقل اور ذی شعور ہے۔ ہر فرد اپنی ایک مستقل شخصیت رکھتا ہے جسے پھلنے پھولنے اور نشوونما پانے کے لیے مواقع درکار ہیں۔ ہر فرد کا اپنا ایک ذاتی ذوق ہے۔ اس کے اپنے نفس کی کچھ رغبات و خواہشات ہیں۔ اس کے اپنے جسم و روح کی کچھ ضروریات ہیں۔ ان افراد کی حیثیت کسی مشین کے بے روح پرزوں کی سی نہیں ہے کہ اصل چیز مشین ہو اور یہ پرزے اس مشین ہی کے لیے مطلوب ہوں‘ اور بجائے خود پرزوں کی کوئی شخصیت نہ ہو بلکہ اس کے برعکس انسانی معاشرہ جیتے جاگتے انسانوں کا ایک مجموعہ ہے۔ یہ افراد اس مجموعے کے لیے نہیں ہیں بلکہ مجموعہ ان افراد کے لیے ہے، اور افراد جمع ہو کر یہ مجموعہ بناتے ہی اس غرض کے لیے ہیں کہ ایک دوسرے کی مدد سے انھیں اپنی ضروریات حاصل کرنے اور اپنے نفس و جسم کے مطالبات اور تقاضے پورے کرنے کے مواقع ملیں۔
انفرادی جوابدہی
پھر یہ تمام افراد فرداً فرداً خدا کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ہر ایک کو اس دنیا میں ایک خاص مدتِ امتحان (جو ہر فرد کے لیے الگ مقرر ہے) گزارنے کے بعد اپنے خدا کے حضور جا کر حساب دینا ہے کہ جو قوتیں اور صلاحیتیں اسے دنیا میں دی گئی تھیں ان سے کام لے کر اور جو ذرائع اسے عطا کیے گئے تھے ان پر کام کرکے وہ اپنی کیا شخصیت بنا کر لایا ہے۔ خدا کے سامنے انسان کی یہ جواب دہی اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی ہے۔ وہاں کنبے اور قبیلے اور قومیں کھڑی ہو کر حساب نہیں دیں گی بلکہ دنیا کے تمام رشتوں سے کاٹ کر اللہ تعالیٰ ہر ہر انسان کو الگ الگ اپنی عدالت میں حاضر کرے گا اور فرداً فرداً اس سے پوچھے گا کہ تو کیا کرکے آیا ہے اور کیا بن کر آیا ہے۔
انفرادی آزادی
یہ دونوں امور … یعنی دنیا میں انسانی شخصیت کا نشوونما اور آخرت میں انسان کی جواب دہی … اسی بات کے طالب ہیں کہ دنیا میں فرد کو حرّیت حاصل ہو۔ اگر کسی معاشرے میں فرد کو اپنی پسند کے مطابق اپنی شخصیت کی تکمیل کے مواقع حاصل نہ ہوں تو اس کے اندر انسانیت ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔ اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ اس کی قوتیں اور قابلیتیں دب کر رہ جاتی ہیں اور اپنے آپ کو محصور و محبوس پا کر انسان جمود و تعطلّ کا شکار ہو جاتا ہے۔ پھر آخرت میں ان محبوس و محصور افراد کے قصوروں کی بیشتر ذمہ داریاں ان لوگوں کی طرف منتقل ہو جانے والی ہیں جو اس قسم کے اجتماعی نظام کو بنانے اور چلانے کے ذمہ دار ہوں۔ ان سے صرف ان کے انفرادی اعمال ہی کا محاسبہ نہ ہو گا بلکہ اس بات کا محاسبہ بھی ہو گا کہ انھوں نے ایک جابرانہ نظام قائم کرکے دوسرے بے شمار انسانوں کو ان کی مرضی کے خلاف اور اپنی مرضی کے مطابق ناقص شخصیتیں بننے پر مجبور کیا۔ ظاہر ہے کہ کوئی مومن بالآخرت یہ بھاری بوجھ اٹھا کر خدا کے سامنے جانے کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا۔ وہ اگر خدا سے ڈرنے والا انسان ہے تو لازماً وہ افراد کو زیادہ سے زیادہ حرّیت دینے کی طرف مائل ہو گا تاکہ ہر فرد جو کچھ بھی بنے اپنی ذمہ داری پر بنے، اس کے ایک غلط شخصیت بننے کی ذمہ داری اجتماعی نظام چلانے والے پر عائد نہ ہو جائے۔
اجتماعی ادارے اور ان کا اقتدار
یہ معاملہ تو ہے انفرادی آزادی کا۔ دوسری طرف معاشرے کو دیکھیے جو کنبوں، قبیلوں، قوموں اور پوری انسانیت کی شکل میں علی الترتیب قائم ہوتا ہے۔ اس کی ابتدا ایک مرد اور ایک عورت اور ان کی اولاد سے ہوتی ہے جس سے خاندان بنتا ہے۔ ان خاندانوں سے قبیلے اور برادریاں بنتی ہیں ان سے ایک قوم وجود میں آتی ہے، اور قوم اپنے اجتماعی ارادوں کی تنفیذکے لیے ایک ریاست کا نظام بناتی ہے۔ ان مختلف شکلوں میں یہ اجتماعی ادارے اصلاً جس غرض کے لیے مطلوب ہیں وہ یہ ہے کہ ان کی حفاظت اور ان کی مدد سے فرد کو اپنی شخصیت کی تکمیل کے وہ مواقع نصیب ہو سکیں جو وہ تنہا اپنے بل بوتے پر حاصل نہیں کر سکتا۔ لیکن اس بنیادی مقصد کا حصول اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ ان میں سے ہر ایک ادارے کو افراد پر اور بڑے ادارے کو چھوٹے اداروں پر اقتدار حاصل ہو،تا کہ وہ افرا دکی ایسی آزادی کو روک سکیں جو دوسروں پر دست درازی کی حد تک پہنچتی ہو اور افراد سے وہ خدمت لے سکیں جو بحیثیت ِمجموعی تمام افرادِ معاشرہ کی فلاح و ترقی کے لیے مطلوب ہو۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر عدالت ِاجتماعیہ کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور انفرادیت و اجتماعیت کے متضاد تقاضے ایک گتھی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ایک طرف انسانی فلاح اس بات کی مقتضی ہے کہ فرد کو معاشرے میں آزادی حاصل ہو،تا کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور اپنی پسند کے مطابق اپنی شخصیت کی تکمیل کر سکے اور اسی طرح خاندان، قبیلے، برادریاں اور مختلف گروہ بھی اپنے سے بڑے دائرے کے اندر اس آزادی سے متمتّع ہوں جو ان کے اپنے دائرہ عمل میں انھیں حاصل ہونی ضروری ہے۔ مگر دوسری طرف انسانی فلاح ہی اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ افراد پر خاندان کا، خاندانوں پر قبیلوں اور برادریوں کا اور تمام افراد اور چھوٹے اداروں پر ریاست کا اقتدار ہو، تاکہ کوئی اپنی حد سے تجاوز کرکے دوسروں پر ظلم و تعدّی نہ کر سکے اور یہی مسئلہ آگے چل کر پوری انسانیت کے لیے بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف ہر قوم اور ریاست کی آزادی و خودمختاری کا برقرار رہنا بھی ضروری ہے اور دوسری طرف کسی بالا تر قوتِ ضابطہ کا ہونا بھی ضروری ہے کہ یہ قومیں اور ریاستیں حد سے تجاوز نہ کر سکیں۔
اب عدالت ِاجتماعیہ در حقیقت جس چیز کا نام ہے وہ یہ ہے کہ افراد، خاندانوں، قبیلوں، برادریوں اور قوموں میں سے ہر ایک کو مناسب آزادی بھی حاصل ہو اور اس کے ساتھ ظلم و عدوان کو روکنے کے لیے مختلف اجتماعی اداروں کو افراد پر اور ایک دوسرے پر اقتدار بھی حاصل رہے اور مختلف افراد ومجتمعات سے وہ خدمت بھی لی جا سکے جو اجتماعی فلاح کے لیے درکار ہے۔
سرمایہ داری اور اشتراکیت کی خامیاں
اس حقیقت کو جو شخص اچھی طرح سمجھ لے گا وہ پہلی ہی نظر میں یہ جان لے گا کہ جس طرح حرّیت فرد، فراخ دلی، سرمایہ داری اور بے دین جمہوریت کا وہ نظامِ اجتماعی عدل کے منافی تھا جو انقلاب فرانس کے نتیجے میں قائم ہوا تھا۔ ٹھیک اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ اشتراکیت بھی اس کے قطعی منافی ہے جو کارل مارکس اور اینجلز کے نظریات کی پیروی میں اختیار کی جا رہی ہے۔ پہلے نظام کا قصور یہ تھا کہ اس نے فرد کو حد مناسب سے زیادہ آزادی دے کر خاندان، قبیلے، برادری، معاشرے اور قوم پر تعدّی کرنے کی کھلی چُھوٹ دے دی اور اس سے اجتماعی فلاح کی خدمت لینے کے لیے معاشرے کی قوتِ ضابطہ کو بہت ڈھیلا کر دیا اور اس دوسرے نظام کا قصور یہ ہے کہ یہ ریاست کو حد سے زیادہ طاقت ور بنا کر افراد، خاندانوں، قبیلوں اور برادریوں کی آزادی قریب قریب بالکل سلب کر لیتا ہے اور افراد سے مجتمع کی خدمت لینے کے لیے ریاست کو اتنا زیادہ اقتدار دے دیتا ہے کہ افراد ذی روح انسانوں کے بجائے ایک مشین کے بے روح پرزوں کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ بالکل جھوٹ کہتا ہے جو کہتا ہے کہ اس طریقے سے عدالت اجتماعیہ قائم ہو سکتی ہے۔
اشتراکیت ظلم اجتماعی کی بدترین شکل
درحقیقت یہ ظلمِ اجتماعی کی وہ بدترین صورت ہے جو کبھی کسی نمرود، کسی فرعون اور کسی چنگیز خاں کے دور میں بھی نہ رہی تھی۔ آخر اس چیز کو کون صاحب ِعقل اجتماعی عدل سے تعبیر کر سکتا ہے کہ ایک شخص یا چند اشخاص بیٹھ کر اپنا ایک اجتماعی فلسفہ تصنیف کر لیں، پھر حکومت کے غیر محدود اختیارات سے کام لے کر اس فلسفے کو زبردستی ایک پورے ملک کے رہنے والے کروڑوں افراد پر زبردستی مسلّط کر دیں۔ لوگوں کے اموال ضبط کریں، زمینوں پر قبضہ کریں، کارخانوں کو قومی ملکیت بنائیں اور پورے ملک کو ایک ایسے جیل خانے میں تبدیل کر دیں جس میں تنقید، فریاد، شکایت، استغاثے اور عدالتی انصاف کا ہر دروازہ لوگوں کے لیے مسدُود ہو۔ ملک کے اندر کوئی جماعت نہ ہو، کوئی تنظیم نہ ہو، کوئی پلیٹ فارم نہ ہو جس پر لوگ زبان کھول سکیں، کوئی پریس نہ ہو جس میں لوگ اظہارِخیال کر سکیں اور کوئی عدالت نہ ہو جس کا دروازہ انصاف کے لیے کھٹکھٹا سکیں۔ جاسوسی کا نظام اتنے بڑے پیمانے پر پھیلا دیا جائے کہ ہر ایک آدمی دوسرے آدمی سے ڈرنے لگے کہ کہیں یہ جاسوس نہ ہو حتیٰ کہ اپنے گھر میں بھی ایک آدمی زبان کھولتے ہوئے پہلے چاروں طرف دیکھ لے کہ کوئی کان اس کی بات سننے اور کوئی زبان اسے حکومت تک پہنچانے کے لیے کہیں پاس ہی موجود نہ ہو۔ پھر جمہوریت کا فریب دینے کے لیے انتخابات کروائے جائیں، مگر پوری کوشش کی جائے کہ اس فلسفے کے تصنیف کرنے والوں سے اختلاف رکھنے والا کوئی شخص ان انتخابات میں حصّہ نہ لے سکے اور نہ کوئی ایسا شخص ان میں دخیل ہو سکے جو خود اپنی کوئی رائے بھی رکھتا ہو اور اپنا ضمیر فروخت کرنے والا بھی نہ ہو۔
بالفرض اس طریقے سے اگر معاشی دولت کی مساوی تقسیم ہو بھی سکے … درآنحالیکہ آج تک کوئی اشتراکی نظام ایسا نہیں کر سکا ہے … تب بھی کیا عدل محض معاشی مساوات کا نام ہے؟ میں یہ سوال نہیں کرتا کہ اس نظام کے حاکموں اور محکوموں کے درمیان بھی معاشی مساوات ہے یا نہیں؟ میں یہ بھی نہیں پوچھتا کہ اس نظام کا ڈکٹیٹر اور اس کے اندر رہنے والا ایک کسان کیا اپنے معیارِ زندگی میں مساوی ہیں؟ میں صرف یہ پوچھتا ہوں کہ اگر ان سب کے درمیان واقعی پوری معاشی مساوات قائم بھی ہو جائے تو کیا اس کا نام اجتماعی عدل ہو گا؟ کیا عدل یہی ہے کہ ڈکٹیٹر اور اس کے ساتھیوں نے جو فلسفہ گھڑا ہے اس کو تو وہ پولیس اور فوج اور جاسوسی نظام کی طاقت سے بالجبر ساری قوم پر مسلّط کر دینے میں بھی آزاد ہو اور قوم کا کوئی فرد اس کے فلسفے پر، یا اس کی تنفیذ کے کسی چھوٹے سے چھوٹے جزوی عمل پر محض زبان سے ایک لفظ نکالنے تک میں آزاد نہ ہو؟ کیا یہ عدل ہے کہ ڈکٹیٹر اور اس کے چند مٹھی بھر حامی اپنے فلسفے کی ترویج کے لیے تمام ملک کے ذرائع و وسائل استعمال کرنے اور ہر قسم کی تنظیمات بنانے کے حق دار ہوں مگر ان سے مختلف رائے رکھنے والے دو آدمی بھی مل کر کوئی تنظیم نہ کر سکیں، کسی مجمع کو خطاب نہ کر سکیں، اور کسی پریس میں ایک لفظ بھی شائع نہ کرا سکیں؟ کیا یہ عدل ہے کہ تمام زمینداروں اور کارخانہ داروں کو بے دخل کرکے پورے ملک میں صرف ایک ہی زمیندار اور کارخانہ دار رہ جائے جس کا نام حکومت ہو، اور وہ حکومت چند گِنے چنے آدمیوں کے ہاتھ میں ہو اور وہ آدمی ایسی تمام تدابیر اختیار کر لیں جن سے پوری قوم بالکل بے بس ہو جائے اور حکومت کے اختیارات کا ان کے ہاتھ سے نکل کر دوسروں کے ہاتھوں میں چلا جانا قطعی ناممکن ہو جائے؟ انسان اگر محض پیٹ کا نام نہیں ہے اور انسانی زندگی اگر صرف معاش تک محدود نہیں ہے تو محض معاشی مساوات کو عدل کیسے کہا جا سکتا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں ظلم و جور قائم کرکے اور انسانیت کے ہر رُخ کو دبا کر صرف معاشی دولت کی تقسیم میں لوگوں کو برابر بھی کر دیا جائے، اور خود ڈکٹیٹر اور اس کے اذناب بھی اپنے معیار زندگی میں لوگوں کے برابر ہو کر رہیں، تب بھی اس ظلمِ عظیم کے ذریعے سے یہ مساوات قائم کرنا اجتماعی عدل قرار نہیں پا سکتا بلکہ یہ، جیسا کہ ابھی میں آپ سے عرض کر چکا ہوں، وہ بدترین اجتماعی ظلم ہے جس سے تاریخ انسانی کبھی اس سے پہلے آشنا نہ ہوئی تھی۔
عدل اسلامی
اب میں اختصار کے ساتھ آپ کو بتائوں گا کہ اسلام میں جس چیز کا نام عدل ہے وہ کیا ہے۔ اسلام میں اس امر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ کوئی شخص یا انسانوں کا کوئی گروہ انسانی زندگی میں عدل کا کوئی فلسفہ اور اس کے قیام کا کوئی طریقہ بیٹھ کر خود گھڑ لے اور اسے بالجبر لوگوں پر مسلّط کر دے اور کسی بولنے والی زبان کو حرکت نہ کرنے دے۔ یہ مقام ابوبکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ کو تو کیا، خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حاصل نہ تھا۔ اسلام میں کسی ڈکٹیٹر کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ صرف خدا ہی کا یہ مقام ہے کہ انسان اس کے حکم کے آگے بے چون و چرا سر جھکا دیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس کے حکم کے تابع تھے اور ان کے حکم کی اطاعت صرف اس لیے فرض تھی کہ وہ خدا کی طرف سے حکم دیتے تھے نہ کہ معاذ اللہ اپنے نفس سے گھڑ کر کوئی فلسفہ لے آتے تھے۔ رسول اور خلفائے رسول کے نظامِ حکم میں صرف شریعت ِالٰہیہ تنقید سے بالاتر تھی۔ اس کے بعد ہر شخص کو ہر وقت ہر معاملے میں زبان کھولنے کا پورا حق حاصل تھا۔
آزادیٔ فرد کے حدود
اسلام میں اللہ تعالیٰ نے خود وہ حدود قائم کر دیئے ہیں جن میں افراد کی آزادی کو محدود ہونا چاہیے۔ اس نے خود متعیّن کر دیا ہے کہ ایک فرد مسلم کے لیے کون کون سے افعال حرام ہیں جن سے اس کو بچنا چاہیے اور کیا کچھ اس پر فرض ہے جسے اس کو ادا کرنا چاہیے۔ کیا حقوق اس کے دوسروں پر ہیں اور کیا حقوق دوسروں کے اس پر ہیں۔ کن ذرائع سے ایک مال کی ملکیت کا اس کی طرف منتقل ہونا جائز ہے اور کون سے ذرائع ایسے ہیں جن سے حاصل ہونے والے مال کی ملکیّت جائز نہیں ہے۔ افرا دکی بھلائی کے لیے مجتمع پر کیا فرائض عائد ہوتے ہیں اور مجتمع کی بھلائی کے لیے افراد پر خاندانوں اور برادریوں پر اور پوری قوم پر کیا پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں اور کیا خدمات لازم کی جا سکتی ہیں۔ یہ تمام امور کتاب و سنّت کے اس مستقل دستور میں ثبت ہیں جس پر کوئی نظرثانی کرنے والا نہیں ہے اور جس میں کسی کو کمی و بیشی کر دینے کا حق نہیں ہے۔ اس دستور کی رو سے ایک شخص کی انفرادی آزادیوں پر جو پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں ان سے تجاوز کرنے کا تو وہ حق نہیں رکھتا لیکن ان حدود کے اندر جو آزادی اس کو حاصل ہے اسے سلب کر لینے کا بھی کسی کو حق نہیں ہے۔ کسب ِاموال کے جن ذرائع اور صرف ِمال کے جن طریقوں کو حرام کر دیا گیا ہے۔ ان کے وہ قریب نہیں پھٹک سکتا اور پھٹکے تو اسلامی قانون اسے مستوجب سزا سمجھتا ہے لیکن جو ذرائع حلال ٹھہراے گئے ہیں ان سے حاصل ہونے والی ملکیت پر اس کے حقوق بالکل محفوظ ہیں اور اس میں تصرّف کے جو طریقے جائز کیے گئے ہیں ان سے کوئی اس کو محروم نہیں کر سکتا۔ اسی طرح مجتمع کی فلاح کے لیے جو فرائض افراد پر عائد کر دیئے گئے ہیں ان کے ادا کرنے پر تو وہ مجبور ہے لیکن اس سے زائد کوئی بار جبراً اس پر عائد نہیں کیا جا سکتا الآیہ کہ وہ خود رضاکارانہ ایسا کرے اور یہی حال مجتمع اور ریاست کا بھی ہے کہ افراد کے جو حقوق اس پر عائد کیے گئے ہیں انھیں ادا کرنا اس پر اتنا ہی لازم ہے جتنا افراد سے اپنے حقوق وصول کرنے کے اسے اختیارات ہیں۔ اس مستقل دستور کو اگر عملاً نافذ کر دیا جائے تو ایسا مکمل عدل اجتماعی قائم ہوتا ہے جس کے بعد کوئی شے مطلوب باقی نہیں رہ جاتی۔ یہ دستور جب تک موجود ہے اس وقت تک کوئی شخص خواہ کتنی ہی کوشش کرے، مسلمانوں کو ہرگز اس دھوکے میں نہیں ڈال سکتا کہ جو اشتراکیت اس نے کسی جگہ سے مستعار لے لی ہے وہی عین اسلام ہے۔
اسلام کے اس دستور میں فرد اور مجتمع کے درمیان ایسا توازن قائم کیا گیا ہے کہ نہ فرد کو وہ آزادی دی گئی ہے جس سے وہ مجتمع کے مفاد کو نقصان پہنچا سکے اور نہ مجتمع کو یہ اختیارات دیئے گئے ہیں کہ وہ فرد سے اس کی وہ آزادی سلب کر سکے جو اس کی شخصیت کے نشوونما کے لیے ضروری ہے۔
انتقال دولت کے شرائط
اسلام ایک فرد کی طرف دولت کے انتقال کی صرف تین صورتیں معیّن کر دیتا ہے۔ وراثت، ہبہ، کسب، وراثت صرف وہ معتبر ہے جو کسی مال کے جائز مالک سے اس کے وارث کو شرعی قاعدے کے مطابق پہنچے۔ ہبہ یا عطیہ صرف وہ معتبر ہے جو کسی مال کے جائز مالک نے شرعی حدود کے اندر دیا ہو اور اگر یہ عطیہ کسی حکومت کی طرف سے ہو تو وہ اسی صورت میں جائز ہے جب کہ وہ کسی صحیح خدمت کے صلے میں یا مجتمع کے مفاد کے لیے املاکِ حکومت میں سے معروف طریقے پر دیا گیا ہو۔ نیز اس طرح کا عطیہ دینے کی حق دار بھی وہ حکومت ہے جو شرعی دستور کے مطابق شوریٰ کے طریقے پر چلائی جا رہی ہو اور جس سے محاسبہ کرنے کی قوم کو آزادی حاصل ہو۔ رہا کسب تو اسلام میں صرف وہ کسب جائز ہے جو کسی حرام طریقے سے نہ ہو۔ سرقہ، غصب، ناپ تول میں کمی بیشی، خیانت، رشوت، غبن، قحبہ گری، احتکار، ۱؎ سود، جوا، دھوکے کا سودا، مسکرات کی صنعت و تجارت‘ اور اشاعت فاحشہ کرنے والے کاروبار کے ذریعے سے کسب اسلام میں حرام ہے۔ ان حدود کی پابندی کرتے ہوئے جو دولت بھی کسی کو ملے وہ اس کی جائز مِلک ہے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ کم ہو یا زیادہ۔ ایسی ملکیت کے لیے نہ کمی کی کوئی حد مقرر کی جا سکتی ہے نہ زیادتی کی۔ نہ اس کا کم ہونا اس بات کو جائز کر دیتا ہے کہ دوسروں سے چھین کر اس میں اضافہ کیا جائے اور نہ اس کا زیادہ ہونا اس امر کے لیے کوئی دلیل ہے کہ اسے زبردستی کم کیا جائے۔ البتہ جو دولت ان جائز حدود سے تجاوز کرکے حاصل ہوئی ہو اس کے بارے میں یہ سوال اٹھانے کا مسلمانوں کو حق پہنچتا ہے کہ من این لک ہٰذا (یہ تجھے کہاں سے ملا) اس دولت کے بارے میں پہلے قانونی تحقیق ہونی چاہیے۔ پھر اگر ثابت ہو جائے کہ وہ جائز ذرائع سے حاصل نہیں ہوئی ہے تو اسے ضبط کرنے کا اسلامی حکومت کو پورا حق پہنچتا ہے۔
صرف دولت پر پابندیاں
جائز طریقے پر حاصل ہونے والی دولت پر تصرّف کے بارے میں بھی فرد کو بالکل کھلی چھوٹ نہیں دے دی گئی ہے بلکہ اس پر کچھ قانونی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں تاکہ کوئی فرد اپنی ملکیت میں کسی ایسے طریقے پر تصرف نہ کر سکے جو معاشرے کے لیے نقصان دہ ہو‘ یا جس میں خود اس فرد کے دین و اخلاق کا نقصان ہو۔ اسلام میں کوئی شخص اپنی دولت کو فسق و فجور میں صَرف نہیں کر سکتا۔ شراب نوشی اور قمار بازی کا دروازہ اس کے لیے بند ہے۔ زنا کا دروازہ بھی اس کے لیے بند ہے۔ وہ آزاد انسانوں کو پکڑ کر انھیں لونڈی غلام بنانے اور ان کی بیع و شریٰ کرنے کا بھی کسی کو حق نہیں دیتا کہ دولت مند لوگ اپنے گھروں کو خریدی ہوئی لونڈیوں سے بھر لیں۔ اسراف اور حد سے زیادہ ترفّہ اور تنعّم پر بھی وہ حدود عائد کرتا ہے اور وہ اسے بھی جائز نہیں رکھتا کہ تم خود عیش کرو اور تمھارا ہمسایہ رات کو بھوکا سوئے۔ اسلام صرف مشروع اور معروف طریقے پر ہی دولت سے متمتع ہو نے کا آدمی کو حق دیتا ہے اور اگر ضرورت سے زائد دولت کو مزید دولت کمانے کے لیے کوئی شخص استعمال کرنا چاہے تو وہ کسب مال کے صرف حلال طریقے ہی اختیار کر سکتا ہے۔ ان حدود سے تجاوز نہیں کر سکتا جو شریعت نے کسب پر عائد کر دی ہیں۔
معاشرتی خدمت
پھر اسلام معاشرے کی خدمت کے لیے ہر اس فرد پر جس کے پاس نصاب سے زائد مال جمع ہو زکوٰۃ عائد کرتا ہے۔ نیز وہ اموالِ تجارت پر ، زمین کی پیداوار پر، مواشی پر، اور بعض دوسرے اموال پر بھی ایک خاص شرح سے زکوٰۃ مقرر کرتا ہے۔ آپ دنیا کے کسی ملک کو لے لیجیے اور حساب لگا کر دیکھ لیجیے کہ اگر شرعی طریقے کے مطابق وہاں باقاعدہ زکوٰۃ وصول کی جائے اور اسے قرآن کے مقرر کیے ہوئے مصارف میں باقاعدہ تقسیم کیا جائے تو کیا چند سال کے اندر وہاں ایک شخص بھی حاجاتِ زندگی سے محروم رہ سکتا ہے۔
اس کے بعد جو دولت کسی ایک فرد کے پاس مرتکز ہو گئی ہو۔ اسلام اس کے مرتے ہی اس دولت کو وراثت میں تقسیم کر دیتا ہے تاکہ یہ ارتکاز ایک دائمی اور مستقل ارتکاز بن کر نہ رہ جائے۔
استیصال ظلم
اس کے علاوہ اسلام اگرچہ اس کو پسند کرتا ہے کہ مالک زمین اور مزارع، یا کارخانہ دار اور مزدور کے درمیان خود باہمی رضا مندی سے معروف طریقے پر معاملات طے ہوں اور قانون کی مداخلت کی ضرورت پیش نہ آئے۔ لیکن جہاں کہیں ان معاملات میں ظلم ہو رہا ہو وہاں اسلامی حکومت مداخلت کرنے کا پورا حق رکھتی ہے اور قانون کے ذریعے سے انصاف کے حدود قائم کر سکتی ہے۔
مصالح عامہ کے لیے قومی ملکیت کے حدود
اسلام اس امر کو حرام نہیں کرتا کہ کسی صنعت یا کسی تجارت کو حکومت اپنے انتظام میں چلائے اگر کوئی صنعت یا تجارت ایسی ہو جس کی اجتماعی مصالح کے لیے ضرورت تو ہو مگر افراد اس کو چلانے کے لیے تیار نہ ہوں، یا افراد کے انتظام میں اس کا چلنا اجتماعی مفاد کے خلاف ہو تو اسے حکومت کے انتظام میں چلایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی صنعت یا تجارت کچھ افراد کے ہاتھوں میں ایسے طریقوں سے چل رہی ہو جو اجتماعی مفاد کے لیے نقصان دہ ہو تو حکومت ان افراد کو معاوضہ دے کر وہ کاروبار اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے اور کسی دوسرے مناسب طریقے سے اس کے چلانے کا انتظام کر سکتی ہے۔ ان تدابیر کے اختیار کرنے میں کوئی مانع شرعی نہیں ہے۔ لیکن اسلام اس بات کو ایک اصول کی حیثیت سے قبول نہیں کرتا کہ دولت کی پیداوار کے تمام ذرائع حکومت کی ملک میں ہوں اور حکومت ہی ملک کی واحد صنّاع و تاجر اور مالک اراضی ہو۔
بیت المال میں تصرف کے شرائط
بیت المال کے بارے میں اسلام کا یہ قطعی فیصلہ ہے کہ وہ اللہ اور مسلمانوں کا مال ہے اور کسی شخص کو اس پر مالکانہ تصرف کا حق نہیں ہے۔ مسلمانوں کے تمام امور کی طرح بیت المال کا انتظام بھی قوم یا اس کے آزاد نمایندوں کے مشورے سے ہونا چاہیے۔ جس شخص سے بھی کچھ لیا جائے اور جس مصرف میں بھی مال صرف کیا جائے وہ جائز شرعی طریقے پر ہونا چاہیے اور مسلمانوں کو اس پر محاسبے کا پورا حق ہے۔
ایک سوال
اس کلام کو ختم کرتے ہوئے میں ہر سوچنے والے انسان سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر عدالت ِاجتماعیہ صرف معاشی عدل ہی کا نام ہے تو کیا یہ معاشی عدل جو اسلام قائم کرتا ہے، ہمارے لیے کافی نہیں ہے؟ کیا اس کے بعد کوئی ضرورت ایسی باقی رہ جاتی ہے جس کی خاطر تمام افراد کی آزادیاں سلب کرنا، لوگوں کے اموال ضبط کرنا اور ایک پوری قوم کو چند آدمیوں کا غلام بنا دینا ہی ناگزیر ہو؟ آخر اس میں کیا چیز مانع ہے کہ ہم مسلمان اپنے ملکوں میں اسلامی دستور کے مطابق خالص شرعی حکومتیں قائم کریں اور ان میں خدا کی پوری شریعت کو بلا کم و کاست نافذ کر دیں۔ جس روز بھی ہم ایسا کریں گے۔ صرف یہی نہیں کہ ہمیں اشتراکیت سے کسب فیض کی کوئی ضرورت باقی نہ رہے گی، بلکہ خود اشتراکیت زدہ ممالک کے لوگ ہمارے نظامِ زندگی کو دیکھ کر یہ محسوس کرنے لگیں گے کہ جس روشنی کے بغیر وہ تاریکی میں بھٹک رہے تھے وہ ان کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭
یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ
(’’اسلام میں یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ‘‘ ایک عرصے سے اخبارات میں موضوع بحث بنا ہوا تھا۔ منکرین حدیث کے لیے چونکہ اس مسئلے کی آڑ میں حدیث کے متعلق اپنے گمراہ کن خیالات پیش کرنے کا ایک نادر موقع ہے اس لیے انھوں نے اسے ایک جذباتی پس منظر میں رکھ کر اس پر خوب لے دے کی ہے۔ ان حالات میں اس امر کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ نہ صرف اس مسئلے پر سیر حاصل بحث کی جائے بلکہ اس کے مالہ و ماعلیہ پر بھی اظہارِ خیال کیا جائے۔ وقت کی اس اہم ضرورت کے پیش نظر مصنف نے ذیل کا مضمون لکھا جو دو خطوط کی صورت میں روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا۔ اس مضمون سے نہ صرف مسئلہ زیر بحث کو سمجھنے میں رہنمائی ملے گی بلکہ اس ذہن کی کجی کا بھی اندازہ ہو گا جو اس کے پیچھے کام کر رہا ہے۔)
پہلا خط
ایک مدت سے بعض حضرات نے یہ پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے کہ یتیم پوتے کا اپنے دادا کی میراث سے محروم ہونا قرآن کے خلاف ہے۔ چونکہ وراثت سے یتیم پوتے کی محرومی ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر صحابۂ کرام کے دور سے لے کر آج تک تمام امت کے فقہا متفق رہے ہیں اور اس میں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری، اہلِ حدیث، شیعہ وغیرہ گروہوں کے علما میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ اس لیے اس پروپیگنڈے کے اثرات بڑے دوررس ہیں۔ اگر ایک دفعہ یہ مان لیا جائے کہ یہ مسئلہ قرآن کے خلاف ہے اور دوسری طرف یہ دیکھا جائے کہ اس میں فقہائے امت کے درمیان ایسا مکمل اتفاق ہے تو پھر کوئی شخص بھی اس نتیجے تک پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ فقہائے اسلام یا تو قرآن کی سمجھ نہیں رکھتے تھے، یا پھر وہ سب جان بوجھ کر قرآن کی خلاف ورزی پر متفق ہو گئے تھے۔
اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اب سے چند سال پہلے ۱؎ چودھری محمد اقبال صاحب چیمہ نے سابق پنجاب اسمبلی میں ایک مسودہ قانون پیش کیا تھا جس کا مقصد اسلامی قانونِ وراثت میں ترمیم کرنا تھا اور اس کی تائید لاہور ہائیکورٹ کے ججوں سے لے کر اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں، ڈسٹرکٹ ججوں، سول ججوں، سرکاری محکموں کے اعلیٰ و ادنیٰ عہدے داروں، وکیلوں اور میونسپل کمشنروں کی ایک کثیر تعداد نے کی تھی۔ اس کے بعد سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں عبدالرشید صاحب کی صدارت میں عائلی کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی اور اس نے بھی اسی ترمیم کے حق میں رائے دی۔ اب آپ کے اخبار میں بعض حضرات نے ازسرنو یہ مسئلہ چھیڑا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس معاملے میں کوئی رائے زنی کرنے سے پہلے لوگ اس کی شرعی حیثیت کو اچھی طرح سمجھ لیں۔
میراث کے متعلق قرآن و سنّت کے اصولی احکام
۱- میراث کا سوال آدمی کی زندگی میں نہیں بلکہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ وہ کچھ مال چھوڑ کر مر گیا ہو۔ قرآن میں اس بنیادی قاعدے کو متعدد مقامات پر وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ایک جگہ فرمایا۔
مردوں کے لیے اس مال میں سے حصّہ ہے جو والدین اور قریب تر رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے اس مال میں سے حصّہ ہے جو والدین اور قریب تر رشتہ داروں نے چھوڑا ہو۔ (النساء۴:۷)
دوسری جگہ فرمایا:
اگر کوئی شخص ہلاک ہو جائے اور اس کے کوئی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو جو کچھ اس نے چھوڑا اس کا نصف بہن کے لیے ہے۔ (النساء۴:۱۷۶)
اسی طرح سورۂ نساء کی آیات ۱۱،۱۲ میں میراث کا قانون بیان کرتے ہوئے بار بار تَرَکَ اور تَرَکْتُمْ اور تَرَکْنَ کے الفاظ کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وراثت کا حکم صرف تر کے سے متعلق ہے۔
۲- مذکورہ بالا بنیادی قاعدے سے جو اصول نکلتے ہیں وہ یہ ہیں:
(الف) میراث کا کوئی حق مورث کی موت سے پہلے پیدا نہیں ہوتا۔
(ب) میراث کے حقوق صرف ان لوگوں کو پہنچتے ہیں جو مورث کی موت کے بعد فی الواقع زندہ موجود ہوں نہ کہ زندہ فرض کر لیے گئے ہوں۔
(ج) مورث کی زندگی ہی میں جو لوگ وفات پا چکے ہوں ان کا کوئی حق اس کے ترکے میں نہیں ہے، کیونکہ وہ اس وقت مر چکے تھے جب کہ سرے سے کوئی حق وراثت پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا کوئی شخص ان پہلے کے فوت شدہ لوگوں کا وارث یا قائم مقام ہونے کی حیثیت سے مورث کے ترکے میں اپنے کسی حق کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ البتہ اگر وہ بجائے خود اپنا کوئی شرعی حق اس کی میراث میں رکھتا ہو تو وہ اسے پا سکتا ہے۔
۳- مورث کے وفات پا جانے پر جو لوگ زندہ ہوں ان کے درمیان میراث تقسیم کرنے کے لیے قرآن جو قاعدہ مقرر کرتا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ جو حاجت مند یا قابل رحم ہو اس کو دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ جو رشتے میں مورث سے قریب تر ہو یا بالفاظ دیگر مورث جس سے رشتے میں قریب تر ہو، وہ حصّہ پائے اور قریب تر رشتہ دار کی موجودگی میں بعید تر حصّہ نہ پائے۔ یہ قاعدہ سورۂ نساء کی آیت ۷ کے ان الفاظ میں بیان ہوا ہے۔
اس مال میں سے جو چھوڑا ہو والدین اور قریب تر رشتہ داروں نے۔
۴- ایک آدمی کے قریب ترین رشتہ دار کون ہیں، اس کو قرآن خود بیان کر دیتا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی بتا دیتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا کتنا حصّہ ہے۔ اس کے بیان کی رو سے وہ رشتہ دار یہ ہیں۔
باپ اور ماں
بربنائے حق والدیت
بیوی یا شوہر میت جس کی میراث کا سوال درپیش ہے بہن بھائی
بربنائے حق زوجیت بربنائے حق اخوت
بیٹے اور بیٹیاں
بربنائے حق ولدیت
۵- تقسیم وراثت کی اس اسکیم میں جس رشتہ دار کو بھی کوئی حصّہ ملتا ہے میت کے ساتھ خود اپنے قریبی تعلق کی بنا پر ملتا ہے۔ کوئی دوسرا نہ تو قریبی حق دار کی موجودگی میں اس کے حق کا شریک بن سکتا ہے اور نہ اس کی غیرموجودگی میں اس کا قائم مقام بن کر اس کا حصّہ لے سکتا ہے۔
(الف) حق مادری و پدری میت کے حقیقی ماں اور باپ کو پہنچتا ہے، ان کی موجودگی میں کوئی دوسرا اس حق کو نہیں پا سکتا۔ البتہ اگر باپ نہ ہو تو حق پدری دادا کو اور دادا بھی نہ ہو تو پر دادا کو پہنچے گا۔ اسی طرح اگر ماں نہ ہو تو حق مادری دادی اور نانی کو اور دادی اور نانی بھی نہ ہوں تو پردادی اور پرنانی کو پہنچ جائے گا۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ حقیقی ماں باپ کے قائم مقام ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ باپ کی غیرموجودگی میں باپ کا باپ اور ماں کی غیر موجودگی میں ماں کی ماں اور باپ کی ماں خود حق پدری و مادری رکھتے ہیں۔
(ب) حق ولدیت صرف انھی بیٹوں اور بیٹیوں کو پہنچتا ہے جو میت کے نطفے یا اس کے بطن سے پیدا ہوئے ہوں۔ ان کی موجودگی میں یہ حق کسی طرح بھی اولاد کی اولاد کو نہیں پہنچ سکتا۔ البتہ اگر ان میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو حق ولدیت اولاد کی اولاد کو پہنچ سکتا ہے۔ باپ اور ماں کے برعکس ایک آدمی کے بچے چونکہ بہت سے ہو سکتے ہیں اس لیے یہ بات اکثر پیش آتی ہے کہ ایک یا چند بچے آدمی کی زندگی میں مر جائیں اور ایک یا چند بچے اس کے مرنے کے بعد زندہ رہیں۔ اسی وجہ سے حق والدیت کے برعکس حق ولدیت کے معاملے میں یہ صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ اولاد کی موجودگی میں اولاد کی اولاد کو میراث نہیں پہنچتی۔ اس معاملے کی اصولی نوعیت کو جو لوگ نہیں سمجھتے وہ اس صورتِ حال کو دیکھ کر یہ اعتراض جڑ دیتے ہیں کہ جب باپ کے مرنے پر حق والدیت دادا کو پہنچ جاتا ہے تو بیٹے کے مر جانے کی صورت میں حق ولدیت پوتے کو کیوں نہیں پہنچتا؟ حالانکہ یہ اعتراض اگر صحیح ہو سکتا تھا تو صرف اس صورت میں جب کہ ایک آدمی بیک وقت تین چار آدمیوں کا بیٹا ہوتا اور پھر ان میں سے کسی ایک کے مر جانے پر دادا کو حصّہ پہنچ جاتا، یا پھر ایک آدمی کی زندگی میں اس کی ساری اولاد کے مر جانے کے باوجود اس آدمی کے پوتوں پوتیوں کو حصّہ نہ دیا جاتا۔ پھر یہ لوگ اس پر مزید ایک غلطی یہ کرتے ہیں کہ باپ کی غیر موجودگی میں دادا کے حق پدری پانے کو ’’قائم مقامی‘‘ (Representation) کے قاعدے پر مبنی سمجھ لیتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ جس طرح باپ کے سر کتے ہی دادا اس کی جگہ آ کھڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح بیٹے کے سرکتے ہی پوتے کو اس کی جگہ آ کھڑا ہونے کی اجازت دی جائے حالانکہ یہ معاملہ راشن ڈپو کے خریداروں کی قطار کا نہیں ہے بلکہ اصول قرب و بعد کا ہے۔ جب تک وہ شخص موجود ہے جس کا ایک آدمی براہِ راست نطفہ ہے اس وقت تک حق پدری کسی ایسے شخص کو نہیں پہنچ سکتا جس کا وہ بالواسطہ نطفہ ہو اسی طرح جب تک وہ اولاد موجود ہے جو آدمی کی صلب سے براہِ راست پیدا ہوئی ہے اس وقت تک بالواسطہ اولاد کبھی ’’اولاد‘‘ کا حق لینے کی مستحق نہیں ہو سکتی۔ باپ کے نہ ہونے کی صورت میں دادا اس بنا پر حق پدری نہیں پاتا کہ وہ باپ کی جگہ آ کھڑا ہوا ہے بلکہ اس بنا پر پاتا ہے کہ بلاواسطہ پدر کی غیر موجودگی میں بالواسطہ پدر خود یہ حق رکھتا ہے۔
ج۔ حق زوجیت صرف اس شخص کو پہنچ سکتا ہے جس سے میت کا اپنا ازدواجی رشتہ ہو اور چونکہ یہ رشتہ بالواسطہ نہیں ہو سکتا اس لیے مورث کی زندگی میں شوہر یا بیوی کے مر جانے سے اس کا حق میراث بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ قائم مقامی کا اصول یہاں بھی نہیں پایا جاتا کہ شوہر کے حینِ حیات اگر بیوی مر چکی ہو تو اس کے وارثوں میں سے کوئی اس کا قائم مقام ہونے کی حیثیت سے شوہر کے ترکے میں سے حق زوجیّت مانگ سکے، یا شوہر بیوی کی زندگی میں مر چکا ہو تو اس کے وارثوں میں سے کوئی عورت کے مال میں سے حق زوجیت کا طلب گار ہو سکے۔
د۔ حقِ اخوت اولاد اور باپ کے نہ ہونے کی صورت میں صرف بھائی بہنوں ہی کو پہنچتا ہے۔ خواہ وہ حقیقی ہوں یا علاتی (یعنی باپ کی طرف سے) یا اخیافی (یعنی ماں کی طرف سے) قائم مقامی کا اصول یہاں بھی نہیں ہے کہ بھائی کی غیرموجودگی میں اس کی اولاد قائم مقام ہونے کی حیثیت سے اس کا حصّہ پائے۔ بھتیجوں کو اگر حصّہ پہنچے گا تو ذوی الفروض کے نہ ہونے کی صورت میں، یا ذوی الفروض کے حصّے ادا ہوجانے کے بعد عصبات ہونے کی حیثیت سے اپنے ذاتی حق کی بنا پر پہنچے گا نہ کہ کسی کا قائم مقام ہونے کی حیثیت سے۔
۶- قرآن مجید نے صرف ان رشتہ داروں کے حقوق بیان کیے ہیں جو مذکورہ بالا چار حقوق میں سے کوئی حق رکھتے ہوں اور ان کے حصّے اس نے خود مقرر کر دیئے ہیں۔ اس کے بعد دو سوالات کا جواب باقی رہ جاتا ہے۔ اوّل یہ کہ قرآن نے جو حصّے مقرر کر دیئے ہیں ان کو ادا کرنے کے بعد جو کچھ بچے وہ کہاں جائے گا؟ اور دوم یہ کہ قرآن نے جن رشتہ داروں کے حقوق مقرر کیے ہیں وہ اگر نہ ہوں تو کن کو وراثت پہنچے گی؟ ان دونوں سوالات کا جواب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مستند شارحِ قرآن ہونے کی حیثیت سے خود قرآن ہی کے اشارات کی بنا پر یہ دیا ہے کہ قریب ترین رشتہ داروں کے حق ادا ہو چکنے کے بعد یا ان کی غیرموجودگی میں حق میراث ان قریب تر جدّی رشتہ داروں کو پہنچے گا جو ایک آدمی کے فطرتاً پشتیبان اور حامی و ناصر ہوتے ہیں۔ یہی معنی ہیں ’’عصبات‘‘ کے یعنی آدمی کے وہ اہلِ خاندان جو اس کے لیے تعصب کرنے والے ہوں۔ اور اگر وہ موجود نہ ہوں تو پھر یہ حق ’’ذوی الارحام‘‘ (رحمی رشتہ داروں مثلاً ماموں، نانا، بھانجے اور بیٹی یا پوتی کی اولاد) کو دیا جائے گا۔ یہاں بھی نہ تو قائم مقامی کا اصول کام کرتا ہے اور نہ یہ اصول کہ جو محتاج اور قابلِ رحم ہو اس کو میراث دی جائے۔ بلکہ قرآن کے بتائے ہوئے چار اصول اس معاملے میں کار فرما ہیں:
ایک یہ کہ قریب ترین کے بعد حصّہ قریب تر کو پہنچے گا اور قریب ترکی موجودگی میں بعید تر حصّہ نہ پائے گا۔ (مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْاَقْرَبُوْنَ)
دوسرے یہ کہ غیر ذوی الفروض کو وارث قرار دینے میں یہ دیکھا جائے گا کہ میت کے لیے نفع کے لحاظ سے قریب تر، یعنی اس کی حمایت و نصرت میں فطرتاً زیادہ سرگرم کون ہو سکتے ہیں۔ (اَیُّہُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا)
تیسرے یہ کہ عورتوں کی بہ نسبت مرد فطرۃً عصبہ ہونے کے زیادہ اہل ہوتے ہیں۔ اسی لیے قرآن ماں اور باپ میں سے عصبہ باپ کو قرار دیتا ہے اور اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فرض حصّے ادا کرنے کے بعد مابقی ترکہ قریب ترین مرد کو دو لیکن بعض حالات میں عورت بھی عصبہ ہو سکتی ہے مثلاً یہ کہ میت کی وارث بیٹیاں ہی ہوں اور کوئی مرد عصبہ موجود نہ ہو تو بیٹیوں کا حصّہ فرض ادا کرنے کے بعد مابقی میت کی بہن کو دیا جائے گا کیونکہ وہ اس کی پشتیبان ہوتی ہے۔
چوتھا اصول قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے کہ اُولُو الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ (رحمی رشتہ دار اجنبیوں کی بہ نسبت ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں) اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَلْخَالُ وَارِثُ مَنْ لاَّ وَارِثَ لَہٗ (جس کا کوئی اور وارث نہ ہو اس کا وارث اس کا ماموں ہے)
یہ ہیں تقسیم میراث کے اسلامی اصول جن کو سمجھنے میں کوئی ایسا شخص غلطی نہیں کر سکتا جس نے کبھی قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہو اور اس کے مضمرات پر غور کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عصبات کی تعیین اور ذوی الارحام کی میراث کے مسائل کو چھوڑ کر قانونِ وراثت کے بنیادی اصولوں میں تمام امت کے علما شروع سے آج تک متفق رہے ہیں اور زمانۂ حال سے پہلے کبھی اسلامی تاریخ کے دوران میں یہ آواز نہیں سنی گئی کہ قرآن کے اس قانون کو سمجھنے میں ساری امت کے علما بالاتفاق غلطی کر گئے ہیں۔
قائم مقامی کے اصول کی غلطی
اب میں یہ بتائوں گا کہ فوت شدہ بیٹے اور بیٹی کی اولاد کو وارث قرار دینے پر اصولاً کیا اعتراضات وارد ہوتے ہیں اور یہ تجویز ایک معقول اور منظم قانونِ میراث کو کس طرح غیر معقول اور پراگندہ کرکے رکھ دیتی ہے۔
اس پر پہلا اعتراض یہ ہے کہ یہ اسلامی قانونِ میراث میں ’’قائم مقامی‘‘ کا ایک بالکل غلط نظریہ داخل کر دیتی ہے جس کا کوئی ثبوت قرآن میں ہم کو نہیں ملتا۔ قرآن کی رُو سے جو شخص بھی میراث کا کوئی حصّہ پاتا ہے خود میت کا اقرب ہونے کی حیثیت سے پاتا ہے نہ کہ کسی دوسرے اقرب کے قائم مقام کی حیثیت سے۔ اولاد کی غیرموجودگی میں اولاد کی اولاد اور والدین کی غیرموجودگی میں والدین کے والدین اس لیے میراث نہیں پاتے کہ وہ کسی کے قائم مقام ہیں بلکہ اس لیے پاتے ہیں کہ بلا واسطہ اولاد اور بلاواسطہ والدین کی غیرموجودگی میں بالواسطہ اولاد اور بالواسطہ والدین کو آپ سے آپ حقِ ولدیت اور حقِ والدیت پہنچ جاتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ بیوی اور شوہر کے وارث چونکہ کوئی بالواسطہ یا بلاواسطہ حق زوجیت نہیں رکھتے۔ اس لیے ایک مرد کے مرنے پر اس کی فوت شدہ بیوی یا ایک عورت کے مرنے پر اس کے فوت شدہ شوہر کا حصّہ کسی حال میں بھی اس کے وارثوں کو نہیں ملتا۔ ورنہ اگر قائم مقامی کا اصول واقعی اسلامی قانون میں موجود ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ساس اور خسر اور سالے اور سوتیلے بچے میراث میں حصّہ نہ پاتے۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ قائم مقامی کا اصول تسلیم کر لینے کے بعد یہ تجویز اس کو صرف بیٹے، بیٹیوں کی اولاد تک محدود رکھتی ہے حالانکہ اس کے لیے کوئی معقول دلیل موجود نہیں ہے۔ اگر قائم مقامی کا اصول واقعی کوئی صحیح اصول ہے تو پھر قانون یہ ہونا چاہیے:
’’ہر ایسا شخص جو مورث کی وفات کے بعد زندہ موجود ہونے کی صورت میں شرعاً وارث ہوتا وہ اگر مورث کی زندگی ہی میں مر گیا ہو تو اس کے تمام شرعی وارثوں کو اس کا قائم مقام مانا جائے گا اور وہ مورث کی وفات کے بعد میراث میں سے حصّہ پائیں گے۔‘‘
مثلاً ایک شخص کی بیوی اس کی زندگی میں مر چکی تھی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اب شوہر کے ترکے میں اس فوت شدہ بیوی کے وارث اس کے قائم مقام نہ مانے جائیں؟ ایک شخص کا باپ اس کی زندگی میں مر گیا تھا۔ قائم مقامی کا اصول تسلیم کر لینے کے بعد کون سی معقول دلیل ایسی ہے جس کی بنا پر اس متوفی باپ کے تمام وارثوں کو اس کا قائم مقام مان کر سب کو اس شخص کے ترکے میں حصّہ دار نہ بنایا جائے؟ ایک شخص کے چار چھوٹے بچے اس کی زندگی میں مر چکے تھے۔ کیا وجہ ہے کہ ان بچوں کی ماں ان کی قائم مقام نہ مانی جائے اور شوہر کے مرنے پر حق زوجیت کے علاوہ اسے ان مرے ہوئے بچوں کا حصّہ بھی بحیثیت قائم مقام نہ ملے؟ ایک شخص کا ایک شادی شدہ لڑکا اس کی زندگی میں لاولد مر گیا تھا۔ کیا وجہ ہے کہ اس کی بیوہ اس کی قائم مقام ہو کر خسر کے ترکے میں سے حصّہ نہ لے؟ صرف اولاد کی اولاد تک اس قائم مقامی کے اصول کو محدود رکھنا اور دوسرے سب لوگوں کو اس سے مستثنیٰ کر دینا اگر کسی قرآنی دلیل پر مبنی ہے تو اس کی نشان دہی کی جائے اور اگر کسی عقلی دلیل پر مبنی ہے تو اسے بھی چھپا کر نہ رکھا جائے۔ ورنہ پھر سیدھی طرح یہ کہہ دیا جائے کہ جس طرح قائم مقامی کا اصول خود ساختہ ہے اسی طرح اس کا انطباق بھی من مانے طریقے پر کیا جائے گا۔
تیسرا اعتراض یہ ہے کہ یہ تجویز ان اصولوں کے بالکل خلاف ہے جو قانونی سمجھ بوجھ رکھنے والا کوئی آدمی قرآن مجید کے احکام میراث سے سمجھ سکتا ہے۔ قرآن کی رو سے کوئی حق وراثت مورث کی زندگی میں پیدا نہیں ہوتا مگر یہ تجویز اس مفروضے پر قائم ہے کہ یہ حق مورث کی زندگی ہی میں قائم ہو جاتا ہے اور صرف اس کا نفاذ مورث کے مرنے تک ملتوی رہتا ہے۔ قرآن کی رو سے میراث میں صرف ان لوگوں کا حصّہ ہے جو مورث کی وفات کے وقت زندہ موجود ہوں مگر یہ تجویز ان لوگوں کا حق بھی ثابت کرتی ہے جو اس کی زندگی میں مر چکے ہوں۔
چوتھا اعتراض یہ ہے کہ قرآن بعض رشتہ داروں کے حصّے قطعی طور پر مقرر کر دیتا ہے جن میں کمی بیشی کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے، مگر قائم مقامی کا اصول خود قرآن کے مقرر کیے ہوئے بعض حصّوں میں کمی اور بعض میں بیشی کر دیتا ہے۔ مثلاً فرض کیجیے کہ ایک شخص کے دو ہی لڑکے تھے اور دونوں اس کی زندگی میں وفات پا گئے۔ ایک لڑکا اپنے پیچھے چار بچے چھوڑ کر مرا۔ دوسرا لڑکا صرف ایک بچہ چھوڑ کر مرا۔ قرآن کی رُو سے یہ پانچوں پوتے حق ولدیت میں بالکل برابر ہیں۔ اس لیے دادا کے ترکے میں سے ان سب کو برابر حصّہ ملنا چاہیے، مگر قائم مقامی کے اصول پر اس کی جائداد میں سے آٹھ آنے ایک پوتے کو ملیں گے اور باقی چار پوتوں کے حصّے میں صرف دو دو آنے آئیں گے۔
ایک اور غلط تجویز
حال میں بعض لوگوں نے وراثت کے متعلق اپنی تجویز اس طرح مرتّب کی ہے:
’’مورث کا کوئی ایسا نسبی رشتہ دار جو اس کے ترکے میں سے اس کی وفات کے بعد حصّہ پاتا، لیکن جو مورث کی وفات سے پہلے ہی فوت ہو گیا ہو، اس کی جگہ اس کا قریب ترین نسبی رشتہ دار لے لے گا اور مورث کی وفات کے وقت وہی حصّہ پائے گا جو اس فوت شدہ کو ملتا۔ اگر وہ متعدد ہیں تو وہ حصّہ ان میں قرآنی قانونِ وراثت کے مطابق تقسیم کر دیا جائے گا۔‘‘
اس تجویز میں دو مرحلے پر ’’نسبی رشتہ دار‘‘ کی قید لگائی گئی ہے۔ پہلے مرحلے میں مورث کے وفات یافتہ ممکن وارثوں میں سے صرف اس کے نسبی رشتہ داروں کو حصّہ پانے کے لیے منتخب کر لیا جاتا ہے اور دوسروں کو یونہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں ان مردہ حصّہ داروں کے بھی صرف نسبی رشتہ داروں کو میراث پانے کے لیے چھانٹ لیا جاتا ہے اور باقیوں کو محروم کر دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دو دو مرحلوں پر ’’نسبی رشتہ دار‘‘ کی یہ قید قرآن کے کس حکم سے اخذ کی گئی ہے؟ اگر قرآن واقعی یہ اجازت دیتا ہے کہ ایک شخص کے جو ممکن وارث اس کی زندگی میں مر چکے ہوں انھیں اس کی وفات کے بعد میراث وصول کرنے کی خاطر قانونی زندگی عطا کی جائے تو پھر یہ انعام سارے ممکن وارثوں پر عام ہونا چاہیے۔ ان میں سے صرف نسبی رشتہ داروں کو چھانٹ لینے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے۔ پھر ان نسبی رشتہ داروں کو بھی قانونی زندگی عطا کرکے آپ ان کے صرف نسبی رشتہ داروں کو وراثت دیتے ہیں اور دوسرے حق داروں کو محروم الارث کر دیتے ہیں۔ کیا آپ قرآن سے یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ایک شخص اگر مورث کی وفات کے وقت قانونی مفروضے کے طور پر نہیں بلکہ واقعی زندہ ہوتا اور مورث کی وراثت میں سے حصّہ پانے کے بعد مرتا تو اس کے صرف نسبی رشتہ دار ہی اس کی میراث پاتے؟
اچھا تھوڑی دیر کے لیے ان اصولی اعتراضات کو بھی جانے دیجیے۔ اس تجویز میں ’’نسبی رشتہ دار‘‘ سے ماں باپ تو خارج نہ ہوں گے۔ فرض کیجیے کہ ایک شخص کی زندگی میں اس کے باپ کا انتقال ہو جاتا ہے۔ باپ کی ایک دوسری بیوی بھی تھی جس سے اولاد موجود ہے اور باپ کی اس بیوی سے بھی اولاد ہے جس کے بطن سے یہ شخص پیدا ہوا ہے اس شخص کے اپنے بیٹے بیٹیاں بھی موجود ہیں۔ اب اس شخص کا انتقال ہوتا ہے۔ آپ اپنے قاعدے کے مطابق اس کے فوت شدہ باپ کا حصّہ نکالنے پر مجبور ہیں اور وہ کُل میراث کا ۶۔۱ وصول کر لیتا ہے۔ پھر اس حصّے کو آپ اس کے نسبی رشتہ داروں میں تقسیم کرتے ہیں یعنی اس کے وہ سب بیٹے بیٹیاں جو اس کی دونوں بیویوں کے بطن سے پیدا ہوئے تھے اور اس کے وہ پوتے اور پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی جن کے ماں باپ اس کی زندگی میں مر چکے تھے۔ اس طرح میت کی اولاد کے ساتھ اس کے سگے اور سوتیلے بھائی بہن ہی نہیں بلکہ بھتیجے اور بھانجے تک بھی ترکے میں حصّہ دار بن جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ صریح احکامِ قرآن کے خلاف ہے۔ قرآن کی رُو سے جس شخص کی اولاد موجود ہو اس کے سگے اور سوتیلے بھائیوں کو میراث کا کوئی حصّہ نہیں پہنچتا اور نہ اس کے مرے ہوئے بھائی بہنوں کی اولاد کوئی حصّہ پانے کی حق دار ہے، مگر آپ نے اس کے فوت شدہ باپ کو حصّہ دار قرار دے کر اس کی زندہ اولاد کی حق تلفی کر دی۔
یہ صرف ایک مثال ہے۔ ایسی اور بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جن سے معلوم ہو گا کہ مرے ہوئے باپ، ماں، دادا، دادی، نانی وغیرہ کو جو سب ’’نسبی رشتہ دار‘‘ کی تعریف میں آتے ہیں۔ قانونی طور پر زندہ وارثوں کی طرح میراث کا حق دار قرار دینے اور پھر ان کے نسبی رشتہ داروں میں یہ حصّہ تقسیم کرنے سے کیا پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔
اس مختصر بحث سے میں صرف یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ علمائے اسلام کے متفق علیہ قانونِ میراث میں آج جو ترمیمات تجویز کی جا رہی ہیں ان کی علمی و عقلی حیثیت کیا ہے۔ باقی رہا یہ سوال کہ یتیم بچوں کے معاملے میں پیچیدگی پیدا ہونے کا اصل سبب کیا ہے اور اس کا حل کیسے ہو، تو اس کا جواب بھی کچھ ایسا مشکل نہیں ہے۔ اہلِ علم کے مشورے سے ایسی صورتیں تلاش کی جا سکتی ہیں جن کی اصولِ شریعت کے اندر گنجائش بھی ہے اور جن سے یہ مسئلہ بھی مجوزہ ترمیمات کی بہ نسبت زیادہ بہتر طریقے سے حل ہو سکتا ہے۔
————
دوسرا خط
’’نوائے وقت‘‘ میں یتیم پوتے کی وراثت کے متعلق میرے سابق مضمون کی اشاعت کے بعد تونسہ شریف سے ایک صاحب نے مجھے مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کے ایک خط کا تراشا بھیجا ہے اور خواہش ظاہر کی ہے کہ میں اس پر اظہار رائے کروں۔نیز اس سلسلے میں کچھ سوالات بھی کیے ہیں۔ میں ان کا خط اور اس کے جواب میں ان کو جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ آپ کے پاس بغرض اشاعت بھیج رہا ہوں۔ کیونکہ اس میں ان بیشتر قابلِ لحاظ اعتراضات کا جواب آ گیا ہے جو میرے مضمون کی اشاعت کے بعد نوائے وقت میں بعض اصحاب نے اٹھائے ہیں۔
صرف ایک دو باتیں وضاحت طلب باقی رہ جاتی ہیں جو آپ کے ہاں شائع شدہ مراسلات میں کہی گئی ہیں۔ ایک صاحب نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ میں نے پہلے تو کبھی یہ لکھا تھا کہ قرآن و حدیث میں یتیم پوتے کی محرومی کے متعلق کوئی صریح حکم موجود نہیں ہے اور اب اسے قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ لیکن میں گزارش کروں گا کہ انھوں نے میرا مدعا سمجھنے کی کوشش نہیں فرمائی۔ میرا مطلب صرف یہ تھا کہ قرآن و حدیث میں صراحتہً تو کہیں یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ بیٹوں کی موجودگی میں پوتوں کو وراثت نہ دی جائے (اور اسی طرح قرآن و حدیث میں کوئی صریح حکم یہ بھی نہیں ہے کہ پوتوں کو وراثت ضرور دی جائے) لیکن تقسیم میراث کی اس اسکیم پر اگر غور کیا جائے جو کتاب و سنّت میں بیان ہوئی ہے تو نتیجہ یہی مستنبط ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں پوتوں کو وراثت نہ دی جائے اور یہ استنباط تمام علمائے امت کا متفق علیہ ہے۔ ایک تازہ خط میں خلافت کے قریش تک محدود ہونے پر فقہائے سلف کے اجماع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ اس اجماع سے بعد کے علما نے اختلاف کیا ہے۔ اس لیے پوتے کی وراثت کے معاملے میں بھی اجماع کی خلاف ورزی کی جا سکتی ہے۔ مگر اس معاملے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ اجماع جن ارشاداتِ نبویؐ پر مبنی تھا انھی ارشادات میں یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ قریش میں خلافت اس وقت تک رہے گی جب تک کہ وہ ’’دین کو قائم کرتے رہیں‘‘ اسی بات کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی سقیفہ بنی ساعدہ میں واضح کر دیا تھا کہ ’’یہ حکومت قریش میں رہے گی جب تک وہ اللہ کی اطاعت کرتے رہیں اور اس کے حکم پر ٹھیک ٹھیک چلتے رہیں۔‘‘ پس بعد کے ادوار میں غیر قریش کی خلافت کے جواز کا فتویٰ اجماعِ سلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہیں دیا گیا بلکہ ان اوصاف کے فقدان کی وجہ سے دیا گیا ہے جو قریش میں خلافت کے رہنے کے لیے شرط کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس لیے اس معاملے میں یہ استدلال صحیح نہیں ہے کہ بعد کے علما نے سابق اجماع کو توڑ دیا۔ اس سلسلے میں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ کسی اجماع کا ماخذ اگر قرآن و سنّت میں سرے سے موجود ہی نہ ہو تب تو اس پر نظرثانی ہو سکتی ہے لیکن اگر اس کا ماخذ قرآن و سنّت میں ہو تو پھر اس پر نظرثانی خود قرآن و سنّت کے دلائل کی بنیاد پر ہی ممکن ہے جیسا کہ اوپر میں نے قریش کے استحقاقِ خلافت کے معاملے میں واضح کیا ہے۔
اب میں تونسہ شریف سے آمدہ خط کا ضروری حصّہ اور اس کا جواب ذیل میں نقل کرتا ہوں۔
(۱) وراثت کے متعلق مولانا آزاد مرحوم کے خط سے جس نئے نظریۂ فکر کی نشان دہی ہوتی ہے کیا آپ اس پر کچھ روشنی ڈال سکیں گے۔؟
(۲) اس عبارت سے تو یہ مطلب پایا جاتا ہے کہ لڑکا باپ کے گھر پیدا ہونے سے مالکِ ورثہ قرار پایا البتہ قابض ترکہ باپ کے مرنے کے بعد ہو گا (اس لیے لڑکے کے مرنے سے پوتا دادا کی جائداد سے محجوب الارث نہیں)
(۳) اگر یہ نظریہ غلط ہے تو باپ کے خبطی یا اوباش ہو جانے کی صورت میں لڑکا اپنی جدّی جائداد کا تحفظ یا (کورٹ آف وارڈ) کرانے کا حق کس طرح رکھتا ہے؟‘‘
مصنف کا جواب
(۱) مولانا آزاد مرحوم کے مطبوعہ مکتوب سے کس نئے نظریۂ فکر کی نشان دہی نہیں ہوتی۔ ان کے خط میں پہلے تو یتیم پوتے کے محجوب الارث ہونے کے حق میں فقہا کی ایک دلیل نقل کی گئی ہے اور پھر اس دلیل کا ردّ کیے بغیر محض یہ فرمایا گیا ہے کہ ’’فقہا کی نظر صرف ایک علّت کی طرف گئی ہے اور تمام علل و اصول جو اس باب میں ثابت و معلوم ہیں نظرانداز کر دیئے گئے ہیں۔‘‘ لیکن وہ تمام، علل و اصول جو مولانا کے نزدیک ’’ثابت و معلوم‘‘ تھے ان کی کچھ تفصیل انھوں نے بیان نہیں فرمائی۔ اس لیے نہ تو یہی معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ علل و اصول کیا تھے جنھیں نظرانداز کر دیا گیا ہے اور نہ یہی پتہ چل سکتا ہے کہ وہ علل و اصول فی الواقع ثابت و معلوم ہیں بھی یا نہیں۔
(۲) آپ نے مولاناؒ کے مکتوب کی کس عبارت سے یہ مطلب اخذ کیا ہے کہ لڑکا باپ کے گھر پیدا ہونے سے مالک ورثہ قرار پاتا ہے۔ البتہ قابض ترکہ باپ کے مرنے کے بعد ہو گا؟‘‘ اس مطلب کا تو کوئی اشارہ تک مجھے اس خط میں نظر نہیں آیا۔ درحقیقت یہ خیال قرآن کے بالکل خلاف ہے جیسا کہ میں اپنے اس مضمون میں بیان کر چکا ہوں جو نوائے وقت میں آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے۔ قرآن کی رُو سے کوئی حق وراثت مورث کی زندگی میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ مورث کی موت کے ساتھ یہ حق صرف ان رشتہ داروں کے لیے ثابت ہوتا ہے جو اس وقت زندہ موجود ہوں۔ آپ جس نظریے کا ذکر کررہے ہیں وہ تو دراصل اس ہندوانہ رواجی قانون میں پایا جاتا ہے جو مدتوں تک یہاں مسلمانوں میں بھی رائج رہا ہے۔ ہندوئوں کے ہاں تصوّر یہ ہے کہ موروثی جائداد دراصل خاندان یا پوری نسل کی مشترک ملکیت ہے۔ خاندان کے افراد یکے بعد دیگرے جائداد کے محدود مالک بنتے ہیں اور ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ جائداد کو بجنسہٖ ایک سے دوسرے کی جانب منتقل کرتے چلے جائیں۔ ان کے ہاں گویا تمام موجود اور آیندہ نسل بیک وقت شریک ورثہ ہے۔ اسی اصول کے تحت رواجی قانون میں لڑکوں کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ اگر ان کا باپ جدّی جائداد کو تلف کرنے یا کسی اجنبی کی جانب منتقل کرنے کی کوشش کرے تو وہ ’’وارثانِ باز گشت‘‘ کی حیثیت سے استقرار حق کا دعویٰ دائر کرکے باپ کے خلاف حکم امتناعی حاصل کر سکتے ہیں۔ اسلام میں نہ تو موروثی اور غیر موروثی جائداد کے درمیان کوئی امتیاز قائم کیا گیا ہے اور نہ مالک کے اختیارات مشروط و محدود ہی رکھے گئے ہیں۔ ازروئے اسلام ایک مالک اپنی زندگی میں اپنی جائداد کا مالک ِکامل ہے خواہ اس نے وہ جائداد خود پیدا کی ہو یا آبائو اجداد سے وراثت میں لی ہو اور وہ حینِ حیات اس میں بیع، ہبہ، وصیت، وقف، ہر طرح کے تصرف کے جملہ اختیارات رکھتا ہے۔
(۳) بے شک اسلامی قانون میں اس کی گنجائش موجود ہے کہ صاحب ِجائداد کے فاتر العقل یا سفِیہ ہونے کی صورت میں قاضی جائداد کو اپنی تحویل میں لے لے۔ لیکن اس معاملے میں بھی نہ تو جدّی جائداد کی کوئی تمیز روا رکھی گئی ہے اور نہ یہی ضروری قرار دیا گیا ہے کہ صاحب جائداد کی اولاد یا کوئی دوسرا متوقع وارث ہی عدالت میں استغاثہ دائر کرے۔ بلکہ اس معاملے سے تعلق رکھنے والا ہر شخص عدالت کو متوجہ کر سکتا ہے۔ قانونِ اسلامی میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہو کہ کوئی شخص وراثت میں حقدار ہونے کی وجہ سے زندہ مالک ِ جائداد کے خلاف شکایت کا خصوصی استحقاق رکھتا ہے۔ اسلامی قانون کی اس شق کا مقصد کسی وارث کے ورثے کو محفوظ کرنا نہیں بلکہ اسراف و تبذیر اور ضیاع اموال کو روکنا ہے اور اس کا ماخذ آیت لَا تُؤْتُو السُّفَہَآئَ اَمْوَالَکُمْ ہے۔ اس قانون کی رو سے ایسے مالک کے تصرفات پر بھی پابندی عائد کی جا سکتی ہے جس کا سرے سے کوئی متوقع وارث موجود ہی نہ ہو۔
جو لوگ پوتے کی وراثت کے معاملے میں بہت زیادہ مضطرب ہیں انھیں چاہیے کہ وہ آخر کوئی اصول تو متعیّن کریں جس کی بنا پر بیٹوں کی موجودگی میں پوتے کو وراثت دی جا سکے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پوتا اولاد ہونے کی حیثیت سے بجائے خود میراث کا حق رکھتا ہے اور وہ اپنے دادا کی اسی معنی میں اولاد ہے جس معنی میں بیٹا باپ کی اولاد ہے تو پھر جس پوتے کا باپ زندہ ہو اسے بھی اپنے باپ سمیت اپنے دادا کے تمام بیٹوں کے ساتھ برابر حق وراثت میں شریک ہونا چاہیے مثلاً اگر ایک شخص کے چار بیٹے ہیں اور آٹھ پوتے ہیں تو وراثت چار کے بجائے بارہ برابر حصّوں میں تقسیم ہونی چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہے اور کوئی اس کا قائل نہیں ہے تو پھر محض یُوْمِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلاَدِکُمْ والی آیت کو پوتے کے حق وراثت میں پیش کرنا یا عربی اشعار کی مدد سے پوتے کو بمنزلہ اولاد قرار دے کر اسے دادا کا وارث بنانا کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ پوتا اپنے باپ کی زندگی میں نہیں بلکہ اپنے باپ کے مرنے کی صورت میں چچائوں کے ساتھ دادا کی وراثت کا حق دار ہوتا ہے۔ تو اوّل تو قرآن میں اس کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ہے لیکن تھوڑی دیر کے لیے دلیل کے سوال کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تب بھی ولدیت کی بنا پر زندہ بیٹوں کے ساتھ یتیم پوتے کو حق دار قرار دینے کے معنی یہ ہیں کہ اسے بیٹوں کے ساتھ مساوی حصّہ ملے۔ مثلاً ایک شخص کے اگر تین بیٹے زندہ ہیں اور ایک بیٹا چار لڑکے چھوڑ کر مرا ہے تو اس شخص کی جائداد سات برابر حصّوں میں تقسیم ہونی چاہیے۔ لیکن اگر اس بات کا بھی کوئی قائل نہیں ہے تو پھر پوتے کی وراثت لا محالہ اس بنیاد پر ہو گی کہ اس کا وفات یافتہ باپ اپنے باپ کی زندگی میں ورثے کا حق دار ہو چکا تھا اور اب یہ یتیم پوتا اپنے دادا کی نہیں بلکہ اپنے باپ کی میراث پا رہا ہے۔ اب اگر یہ اصول مان لیا جائے کہ باپ کی زندگی میں مر جانے والے لڑکے کا حق باقی رہتا ہے تو پھر یہ صرف صاحب ِاولاد لڑکے کی حد تک محدود نہیں رہ سکتا بلکہ جو بیٹے لاولد مر گئے ہوں یا کمسنی اور شیر خوارگی کی حالت میں مر گئے ہوں ان کا حق بھی باقی رہنا چاہیے اور ان کے شرعی وارثوں (مثلاً ان کی بیوی، ماں، یا ماں کی عدم موجودگی میں بہن بھائیوں) کو لازماً ملنا چاہیے ۱؎ صرف صاحب ِاولاد لڑکے کی اولاد تک اس قاعدے کو محدود رکھنے کے لیے کوئی شرعی یا عقلی دلیل پیش نہیں کی جا سکتی۔ بعض لوگ مرے ہوئے بیٹے کی محض اولاد تک ورثے کو محدود رکھنے کے لیے نسبی و غیر نسبی یا خونی و غیر خونی رشتہ داروں کی تمیز قائم کرتے ہیں حالانکہ اوّل تو اس تمیز کی بنا پر بعض حق داروں کو محروم کرنا خلافِ قرآن اور خالص ہندوانہ ذہنیت ہے۔ اور دوسرے یہ بات قطعی ناقابلِ فہم بلکہ لغو ہے کہ نسبی رشتہ داروں کی صف میں صرف اولاد کو شامل کیا جائے اور والدہ اور بھائی بہنوں کو خارج کر دیا جائے۔
(ترجمان القرآن۔ جنوری ۱۹۵۹ء)
٭…٭…٭…٭…٭
عائلی قوانین کے کمیشن کا سوالنامہ اور اُس کا جواب
(ذیل میں وہ سوال نامہ مع جواب نقل کیا جا رہا ہے جو حکومت کے مقرر کردہ کمیشن برائے قوانین عائلہ کی طرف سے ۱۹۵۵ئ کے اواخر میں جاری کیا گیا تھا)
نکاح
سوال- کیا نکاح خوانی کا کام صرف حکومت کے مقرر کردہ نکاح خوانوں کے ذریعے ہونا چاہیے؟
جواب: جی نہیں۔ اسلامی معاشرے میں کسی قسم کی کہانت (Priesthood) کے لیے جگہ نہیں ہے۔ ہر مسلمان جس طرح نماز پڑھا سکتا ہے اسی طرح نکاح بھی پڑھا سکتا ہے بلکہ زوجین خود بھی دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کر سکتے ہیں۔ نکاح خواں کا ایک نیا عہدہ ازروئے قانون اگر مقرر کر دیا جائے تو لا محالہ دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار کرنی پڑے گی۔ یا تو ہر اس نکاح کو باطل قرار دیا جائے جو سرکاری ’’پادری‘‘ کے بغیر کر لیا گیا ہو۔ یا پھر اسے جائز تسلیم کیا جائے۔ پہلی صورت میں شریعت اور قانون کے درمیان تضاد واقع ہو جائے گا، کیونکہ شرعاً وہ نکاح صحیح ہو گا۔ اور دوسری صورت میں یہ قاعدہ مقرر کرنا فضول ہو گا۔
سوال- کیا نکاح کا رجسٹری کرانا لازمی ہونا چاہیے؟ اگر ایسا ہو تو اس کے لئے کیا طریق کار ہونا چاہیے اور اس کی خلاف ورزی کے لیے کیا اور کسے سزا ہونی چاہیے؟
جواب: نکاحوں کو ایک پبلک رجسٹر میں درج کرانے کا انتظام مفید تو ضرور ہے مگر اسے لازم نہ ہونا چاہیے۔ شریعت نے نکاح کے لیے جو قواعد مقرر کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نکاح کم از کم دو گواہوں کے سامنے ہو اور اس کو علی الاعلان کیا جائے تاکہ زوجین کے رشتہ داروں اور قریب کے حلقہ تعارف میں ان کا رشتہ معلوم و معروف ہو جائے۔ نزاعات کی صورت میں اس طریقے سے نکاح کی شہادتیں بہم پہنچنا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہتا۔ تاہم قیام شہادت میں مزید سہولتیں دو طریقوں سے پیدا ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ ایک معیاری نکاح نامہ مرتّب کرکے عام طور پر شائع کر دیا جائے تاکہ لوگ نکاح سے متعلق تمام ضروری امور اس میں درج کرکے شہادتیں ثبت کرا لیا کریں۔ دوسرے یہ کہ ہر محلے اور بستی میں نکاحوں کا ایک رجسٹر رکھ دیا جائے تاکہ جو بھی اس میں نکاح کا اندراج کرانا چاہے کرا دے۔ لوگ بالعموم خود ہی اپنے مفاد کی حفاظت کے لیے ان دونوں سہولتوں سے فائدہ اٹھائیں گے۔ لیکن اسے لازم کرنے میں دو قباحتیں ہیں۔ ایک یہ کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو کوئی نہ کوئی سزا دینی ہو گی اور اس طرح خواہ مخواہ ایک نئے جرم کا اضافہ ہو گا۔ دوسرے یہ کہ غیر رجسٹری شدہ نکاحوں کو تسلیم کرنے سے عدالتوں کو انکار کرنا ہو گا، حالانکہ جو نکاح گواہوں کے سامنے کیا جائے گا وہ شرعاً منعقد ہو جاتا ہے اور عدالت اس کے وجود سے انکار کرنے کا حق نہیں رکھتی۔ پھر یہ بھی غور طلب ہے کہ آیا آپ غیر رجسٹری شدہ نکاحوں سے پیدا ہونے والے بچوں کو ناجائز اولاد قرار دیں گے اور انھیں پدری جائداد کی وراثت سے بھی محروم کریں گے؟ اگر یہاں تک آپ نہیں جانا چاہتے تو رجسٹری کو قانوناً لازم کرنا آخر کیا معنی رکھتا ہے۔
سوال- یہ معلوم کرنے کے لیے کہ زوجین میں سے ہر ایک نے کسی دبائو کے بغیر اپنی رضامندی سے ایجاب و قبول کیا ہے کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟
جواب- قانونی اغراض کے لیے ایجابی طور پر یہ معلوم ہونا ضروری نہیں ہے کہ نکاح کے فریقین نے اپنی رضامندی سے نکاح کیا ہے۔ جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ کسی فریق نے دبائو کے تحت بلا رضا و رغبت مجبوراً ایجاب و قبول کیا ہے۔ اس وقت تک ہر نکاح کے متعلق یہی فرض کیا جائے گا کہ وہ برضا و رغبت ہوا ہے۔ اسلام میں ایجاب و قبول لازماً دو گواہوں کے سامنے ہوتا ہے۔ بالغ لڑکے کا نکاح اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک وہ گواہوں کے سامنے بالفاظ صریح اسے قبول نہ کرے۔ لڑکی کے لیے (اگر وہ باکرہ ہو) زبانی اقرار ضروری نہیں ہے، لیکن اگر وہ بآوازِ بلند روئے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسے نکاح منظور نہیں۔ اس طرح شریعت نے خودرضامندی متحقق کرنے کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے، اور یہ بالکل کافی ہے۔ پس پردہ اگر لڑکے یا لڑکی پر کوئی دبائو ڈالا گیا ہو تو اس کا ثبوت مدعی کو لانا چاہیے۔ قانون ایسے کسی دبائو کے عدم کے لیے ثبوت کا طالب نہیں ہے بلکہ اس کے وجود کا ثبوت مانگتا ہے اگر کوئی اس کا دعویٰ کرے۔ دبائو کے عدم کا ثبوت لازم کر دینے سے نہ صرف یہ کہ قانون کا منشا الٹ جائے گا بلکہ اس سے عملاً سخت مشکلات رونما ہوں گی۔
سوال- کیا آپ کے نزدیک کمسنی کی شادیوں کو روکنے کے لیے یہ قانون بنانا ضروری ہے کہ شادی کے وقت مرد کی عمر ۱۸ سال سے کم اور عورت کی ۱۵ سال سے کم نہ ہو۔
جواب- کم سنی کی شادیاں روکنے کے لیے کسی قانون کی حاجت نہیں۔ اور اس کے لیے ۱۸ سال اور ۱۵ سال کی عمر مقرر کر دینا بالکل غلط ہے۔ ہمارے ملک میں ۱۸ سال کی عمر سے بہت پہلے ایک لڑکا جسمانی طور پر بالغ ہو جاتا ہے اور لڑکیاں بھی ۱۵ سال سے پہلے جسمانی بلوغ کو پہنچ جاتی ہیں۔ ان عمروں کو ازروئے قانون نکاح کی کم سے کم عمر قرار دینے کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اس سے کم عمر والے لڑکوں اور لڑکیوں کی صرف شادی پر اعتراض ہے۔ کسی دوسرے طریقے سے جنسی تعلقات پیدا کر لینے پر کوئی اعتراض نہیں۔ شریعت اسلام نے اس طرح کی مصنوعی حد بندیوں سے اسی لیے احتراز کیا ہے کہ یہ درحقیقت بالکل غیر معقول ہیں۔ اس کے بجائے یہ بات لوگوں کے اپنے ہی اختیارِ تمیزی پر چھوڑ دینی چاہیے کہ وہ کب نکاح کریں اور کب نہ کریں۔ لوگوں میں تعلیم اور عقلی نشوونما کے ذریعے سے جتنا زیادہ شعور پیدا ہو گا اسی قدر زیادہ صحیح طریقے سے وہ اپنے اس اختیارِ تمیزی کو استعمال کریں گے، اور کم سنی کے نا مناسب نکاحوں کا وقوع‘ جو اب بھی ہمارے معاشرے میں کچھ بہت زیادہ نہیں ہے روز بروز کم تر ہوتا چلا جائے گا۔ شرعاً ایسے نکاحوں کو جائز صرف اس لیے رکھا گیا ہے کہ بسا اوقات کسی خاندان کی حقیقی مصلحتیں اس کی متقاضی ہوتی ہیں۔ اس ضرورت کی خاطر قانوناً اسے جائز ہی رہنا چاہیے اور اس کے نامناسب رواج کی روک تھام کے لیے قانون کے بجائے تعلیم اور عام بیداری کے وسائل پر اعتماد کرنا چاہیے۔ معاشرے کی ہر خرابی کا علاج قانون کا لٹھ ہی نہیں ہے۔
سوال- کیا آپ کے نزدیک نکاح کے لیے عمروں کا یہ تعیّن ازروئے قرآنِ کریم یا ازروئے حدیث ِصحیح ممنوع ہے؟
جواب- نکاح کے لیے عمروں کے تعیّن کی کوئی صریح ممانعت تو قرآن و حدیث میں نہیں ہے مگر کم سنی کے نکاح کا جواز سنّت سے ثابت ہے اور احادیث ِصحیحہ میں اس کے عملی نظائر موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو چیز شرعاً جائز ہے اس کو آپ قانوناً حرام کس دلیل سے کرتے ہیں؟ آپ کا ایک عمر ازروئے قانون مقرر کر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس عمر سے کم میں اگر کوئی نکاح کیا جائے تو آپ اسے باطل قرار دیں گے اور ملکی عدالتیں اس کو تسلیم نہ کریں گی۔ کیا اسے ناجائز اور باطل ٹھہرانے کے لیے کوئی اجازت قرآن یا حدیث ِصحیح میں موجود ہے؟ دراصل یہ طرزِ سوال بہت ہی مغالطہ آمیز ہے۔ تعیین عمر صرف ایک ایجابی پہلو ہی نہیں رکھتی بلکہ ساتھ ساتھ ایک سلبی پہلو بھی رکھتی ہے۔ اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آپ نکاح کے لیے محض ایک عمر مقرر کرنا چاہتے ہیں، بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ اس عمر سے پہلے نکاح کرنے کو آپ حرام بھی کرنا چاہتے ہیں۔ اس منفی پہلو کو نظر انداز کرکے صرف یہ پوچھنا کہ کیا اس کا مثبت پہلو ممنوع ہے، سوال کو ادھوری شکل میں پیش کرنا ہے۔ سوال کی تکمیل اس وقت ہو گی جب آپ ساتھ ساتھ یہ بھی پوچھیں کہ کیا ایک عمر خاص سے پہلے نکاح کو ناجائز ٹھہرانے کے حق میں کوئی دلیل قرآن یا کسی حدیث صحیح میں ملتی ہے؟
سوال- کیا آپ اس سے متفق ہیں کہ معاہدۂ ازدواج میں ہر ایسی شرط درج ہو سکتی ہے جو اسلام اور اخلاق کے بنیادی اصولوں کے خلاف نہ ہو اور عدالت اس کے ایفا پر مجبور کرے؟
جواب- اس سوال کے دو حصّے ہیں۔ پہلا حصّہ یہ ہے کہ کیا ایسی شرطیں معاہدۂ ازدواج میں درج ہو سکتی ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہو سکتی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسی کچھ شرائط ازروئے قانون معاہدۂ نکاح کا لازمی جز بنا دی جائیں اور حکومت کی طرف سے شائع کردہ معیاری نکاح نامے میں ان کو شامل کر دیا جائے۔ شریعت نے اس معاملے کو ہر انفرادی نکاح کے فریقین پر چھوڑا ہے اور انھیں اختیار دیا ہے کہ جو مباح شرطیں بھی وہ چاہیں آپس میں طے کر لیں۔ اس حد سے تجاوز کرکے بعض شرطوں کو قانون یا رواج کی حیثیت دے دینا اصول کے بھی خلاف ہے اور عملاً بھی اس سے بہت سی خرابیاں رونما ہو سکتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جو بات تجربے سے ثابت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ بالعموم کامیاب ازدواجی رشتے وہی ہوتے ہیں جن میں فریقین نے باہمی اعتماد پر معاملہ کیا ہو اور طرح طرح کی شرطوں سے ایک دوسرے کو باندھنے کی کوشش نہ کی ہو۔ شرطوں کی بندشیں عام طور پر الٹی خرابی پیدا کر تی ہیں۔ کیونکہ ان کی بدولت رشتے کا آغاز ہی بے اعتمادی سے ہوتا ہے۔ مصنوعی شرطوں کو رائج کرنے کے لیے صرف یہ دلیل کافی نہیں ہے کہ وہ اسلام اور اصولِ اخلاق کے خلاف نہیں ہیں۔ کسی چیز کے خلافِ اسلام اور خلافِ اخلاق نہ ہونے سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ اسے ضرور کرنا چاہیے۔
سوال کا دوسرا حصّہ یہ ہے کہ کیا عدالتیں ایسی شرطوں کے ایفا پر حکماً مجبور کر سکتی ہیں جو معاہدۂ ازدواج میں درج ہوں اور خلافِ اسلام و اخلاق نہ ہوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شریعت کی مقرر کردہ شرطوں کے سوا جتنی شرطیں بھی معاہدۂ ازدواج میں درج کی گئی ہوں انھیں نافذ کرتے وقت عدالت کو صرف یہی نہیں دیکھنا چاہیے کہ وہ خلافِ اسلام و اخلاق نہیں ہیں بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ طرفین کے انفرادی حالات میں وہ معقول اور منصفانہ بھی ہیں۔
سوال- کیا آپ اس سے متفق ہیں کہ ازروئے قانون یہ تسلیم کیا جائے کہ معاہدۂ ازدواج میں یہ شرط ہو سکتی ہے کہ عورت کو بھی اعلانِ طلاق کا وہی حق حاصل ہو گا جو مرد کو حاصل ہے؟
جواب- اگر ایجاب و قبول کے وقت عورت یہ کہے کہ میں اپنے آپ کو تیرے نکاح میں اس شرط کے ساتھ دیتی ہوں کہ میں جب چاہوں اپنے اوپر طلاق وارد کرنے کی مختار ہوں گی اور مرد اسے قبول کر لے تو قانوناً اس شرط کو صحیح تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ یہ صورت تفویض طلاق کی ہے اور فقہا نے اسے جائز رکھا ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تفویض طلاق کا قانوناً جائز ہونا اور چیز ہے اور اسلامی معاشرے میں اسے رواج دینے کی کوشش کرنا اور چیز۔ اس کا قانونی جواز تو صرف اس بنا پر ہے کہ مرد کو شریعت نے طلاق کا جو اختیار دیا ہے اسے وہ اپنی طرف سے نیابتہً یا وکالتہً جسے چاہے سونپ سکتا ہے اور عورت کو بھی وہ تفویض کر سکتا ہے لیکن اس کی ترویج اور ہر معاہدۂ نکاح میں اس شرط کو شامل کرنے کی کوشش قطعاً اسلام کے منشا کے خلاف ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان حقوق و اختیارات کا جو تناسب قائم کیا ہے اس کا یہ فطری اور منطقی تقاضا ہے کہ زوجین میں سے صرف مرد ہی طلاق کا مختار ہو۔ اس نے مہر اور زمانہ عدت کا نفقہ اور چھوٹے بچوں کے زمانۂ رضاعت و حضانت کا خرچ کلیتہً مرد پر ڈالا ہے۔ اس لیے مرد مجبور ہے کہ طلاق کا اختیار استعمال کرنے میں احتیاط سے کام لے، کیونکہ اس کا پورا مالی نقصان اسی کو برداشت کرنا ہو گا۔ بخلاف اس کے عورت پر کوئی مالی ذمہ داری اس نے عائد نہیں کی ہے بلکہ طلاق کے نتیجے میں اسے کچھ لینا ہی ہوتا ہے۔ دینا کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ اختیارِ طلاق کے استعمال میں سخت بے احتیاطی کر سکتی ہے بلکہ ذرا سے اشتعال پر بھی بے تکلف طلاق دے سکتی ہے۔ ان وجوہ سے عورت کی طرف اس اختیار کو منتقل کر دینا اس اسکیم کے بالکل خلاف ہے جو اسلام نے اپنے ازدواجی قانون میں پیش نظر رکھی ہے۔ اس غلط طریقے کو اگر رائج کیا گیا تو معاشرے میں اس کے بہت برے نتائج رونما ہوں گے اور ہم کثرتِ طلاق کی ایک ایسی وبا سے دو چار ہو جائیں گے جس سے اب تک ہمارا معاشرہ محفوظ رہا ہے۔
سوال- ہمارے معاشرے کے بعض طبقوں میں دختر فروشی کا مکروہ رواج پایا جاتا ہے۔ اس کے انسداد کے لیے آپ کے نزدیک کس قسم کا اقدام مناسب ہو گا تاکہ والدین یا ولی لڑکی کو نکاح میں دیتے ہوئے رقمیں وصول نہ کر سکیں؟
جواب- یہ ایک نہایت مکروہ رسم ہے۔ اسے قانوناً جرم ٹھہرا دینا چاہیے اور ان لوگوں کے لیے قید یا جرمانے کی سزا تجویز کرنی چاہیے جو لڑکیوں کو اس طرح فروخت کرتے ہیں۔
سوال- کیا آپ کے نزدیک مناسب ہو گا کہ ایک معیاری نکاح نامہ مرتّب کیا جائے اور نکاح کے تمام اندراجات اس کے مطابق ہوں؟
جواب- یہ عین مناسب ہے۔ ماہرین فقہ کے مشورے سے اس طرح کا ایک نکاح نامہ ضرور مرتّب ہونا چاہیے بلکہ اس کے ساتھ ازدواجی قانون کے ضروری احکام بھی منسلک ہونے چاہییں جن کے نہ جاننے کی وجہ سے لوگ بالعموم غلطیاں کرتے ہیں۔
طلاق
سوال: اگر کوئی شوہر بیک وقت تین طلاقیں دے تو کیا آپ کے نزدیک اسے قطعی طلاق مغلّظہ شمار کیا جائے یا تین طُہروں میں تین طلاقوں کے اعلان کے بغیر جیسا کہ قرآن میں ہدایت کی گئی ہے یہ مغلّظہ شمار نہ ہو؟
جواب- ائمہ اربعہ اور جمہور فقہا کا مسلک یہ ہے کہ تین طلاق اگر بیک وقت دیئے جائیں تو وہ تین ہی طلاق شمار ہوں گے۔ اور میرے نزدیک یہی صحیح تر بات ہے، اس لیے میں یہ مشورہ نہیں دے سکتا کہ اس قاعدے میں کوئی تغیّر کیا جائے۔ لیکن یہ امر مسلّم ہے کہ ایسا کرنا گناہ ہے کیونکہ یہ اس صحیح طریقے کے خلاف ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے طلاق دینے کے لیے سکھایا ہے۔ اس لیے اس غلط طریقے کی روک تھام ضرور ہونی چاہیے۔ میری رائے میں اس غرض کے لیے حسب ِذیل تدابیر مناسب ہوں گی:
الف- مسلمانوں کو عام طور پر طلاق کے صحیح طریقے سے واقف کرایا جائے، اس کی حکمتیں اور اس کے فوائد سمجھائے جائیں، اور اس کے مقابلے میں طلاق بدعی کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے، نیز یہ بھی بتایا جائے کہ اس غلط طریقے سے طلاق دینے والا گناہ گار ہوتا ہے۔ یہ چیز تعلیم کے نصاب میں بھی شامل ہونی چاہیے، ریڈیو اور پریس کے ذریعے سے بھی نشر ہونی چاہیے اور نکاح ناموں کے ساتھ جو احکام منسلک ہوں ان میں بھی اسے درج ہونا چاہیے۔
ب- دستاویز نویسوں کو حکماً تین طلاق کی دستاویز لکھنے سے منع کر دیا جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے جرمانہ مقرر کر دیا جائے۔
ج- بیک وقت تین طلاق دینے والوں کے لیے بھی سزائے جرمانہ مقرر کر دی جائے۔ اس کے لیے ہمارے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کی نظیر موجود ہے۔ ان کا طریقہ یہ تھا کہ جب کبھی مجلس واحد میں تین طلاق دینے کا مقدمہ ان کے سامنے پیش ہوتا وہ طلاق کو نافذ کرنے کے ساتھ طلاق دینے والے کو سزا بھی دیتے تھے۔
سوال- کیا طلاقوں کا رجسٹری کرانا لازمی قرار دیا جائے؟
جواب- طلاق کی رجسٹری کا انتظام تو ضرور ہونا چاہیے مگر وہ صرف اختیاری ہونی چاہیے۔ لازم قرار دینے میں متعدد قباحتیں ہیں۔ عدالتوں میں ہر اس طلاق کو تسلیم کیا جانا چاہیے جس کی شہادت بہم پہنچے، یا طلاق دینے والا جس کا اقرار کرے قطع نظر اس سے کہ وہ رجسٹری شدہ ہو یا نہیں۔
سوال- اگر طلاق کی رجسٹری نہ ہو تو آپ کے نزدیک اس کی کیا سزا ہونی چاہیے؟
جواب- رجسٹری نہ کرانے کے لیے کسی سزا کی حاجت نہیں۔
سوال- کیا مختلف علاقوں کے لیے مصالحتی مجالس مقرر کی جائیں اور کسی طلاق کو اس وقت تک صحیح تسلیم نہ کیا جائے جب تک کہ فریقین ان مجالس کی طرف رجوع نہ کر چکے ہوں جن میں زوجین کے خاندانوں کی طرف سے بھی ایک ایک حَکَم شامل ہو؟
جواب- اس طرح کی مصالحتی مجالس تو ضرور قائم ہونی چاہییں اور عدالتوں کے لیے بھی یہ قاعدہ مقرر کرنا چاہیے کہ وہ ازدواجی نزاعات کا فیصلہ کرنے سے پہلے قرآنِ مجید کے مقرر کردہ طریقہ تحکیم پر عمل کریں، لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کہ جس طلاق کا معاملہ مصالحتی مجالس یا خاندانی حَکَموں کے سامنے نہ گیا ہو اس کو سرے سے تسلیم ہی نہ کیا جائے۔ شریعت کی رُو سے ہر وہ طلاق واقع ہو جاتی ہے جس میں طلاق کے ارکان و شروط پائے جائیں۔ اس کے وقوع کی شرائط میں شرعاً یہ چیز شامل نہیں ہے کہ آدمی کسی حَکَم یا مصالحتی مجلس سے رجوع کرے۔ اب اگر ایسی طلاق جو شرعاً واقع ہو چکی ہو، عدالتیں تسلیم نہ کریں تو لوگ سخت پیچیدگی میں پڑ جائیں گے اور یہ قاعدہ اسلامی شریعت سے متناقض ہو جائے گا۔
سوال- کیا ازدواجی و عائلی عدالت کو مطلّقہ کے مطالبے پر یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ مطلّقہ کو تاحینِ حیات یا تا عقدِ ثانی نفقہ دلوائے؟
جواب- یہ بات شریعت کے خلاف بھی ہو گی اور انصاف کے خلاف بھی۔ قرآن اور حدیث میں وہ صورتیں معین کر دی گئی ہیں جن میں ایک مطلّقہ عورت طلاق دینے والے شوہر سے نفقہ پانے کی حق دار ہوتی ہے۔ اور یہ بھی طے کر دیا گیا ہے کہ ان مختلف صورتوں میں وہ کتنی مدت کے لیے حق دار رہتی ہے۔ تاحینِ حیات یا تا عقدِ ثانی نفقہ پانے کا استحقاق اس شرعی ضابطے کے خلاف ہو گا اور عقل بھی یہ نہیں مانتی کہ ایک شخص جو ایک عورت کو طلاق دے چکا ہے اور جو اس سے اب کسی قسم کا فائدہ اٹھانے کا حقدار نہیں ہے۔ مدت العمر یا تا عقدِ ثانی اس کے مصارف کا بار اٹھانے پر مجبور کیا جائے۔ یہ چیز خود عورتوں کی اخلاقی پوزیشن کو بھی گرا دینے والی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی خوددار اور شریف عورت یہ بات کبھی گوارا کر سکتی ہے کہ وہ ایک غیر شخص سے جس کی بیوی وہ نہیں رہی ہے اپنے مصارف کی کفالت کرائے۔ ایسا ضابطہ اپنے قوانین میں درج کرکے ہم اپنے معاشرے کے طبقہ اناث کی عزت پر بری طرح حرف لائیں گے اور اس کا فائدہ صرف وہ چند عورتیں ہی اٹھائیں گی جو اپنے اخلاقی وقار کی بہ نسبت مال کو زیادہ اہمیّت دینے والی ہوں۔
عورت کی طرف سے مطالبہ طلاق
سوال- کیا آپ ڈیسولیوشن آف میرج ایکٹ ۱۹۳۹ء (انفساخِ نکاح مسلمین ۱۹۳۹ء) کی تمام دفعات کو جامع اور تشفی بخش سمجھتے ہیں۔ یا آپ کے نزدیک اس میں اضافہ و ترمیم ہونی چاہیے؟
جواب- مذکورہ ایکٹ میرے سامنے نہیں ہے اس لیے میں اس پر کوئی اظہار رائے نہیں کر سکتا۔ اچھا ہوتا کہ اس سوال نامے کے ساتھ اس ایکٹ کی نقل بھی شامل ہوتی۔
سوال- کیا آپ کے نزدیک یہ مناسب ہو گا کہ خلع کے متعلق مجلس آئین ساز واضح اور غیر مبہم قانون وضع کرے؟
جواب- مناسب یہ ہو گا کہ صرف خلع ہی کے متعلق نہیں بلکہ تمام ازدواجی معاملات کے متعلق اسلامی احکام ایک کتابچے کی صورت میں مدون (codify) کر دیئے جائیں اور اس غرض کے لیے علما اور تجربہ کار قانون دانوں کی ایک کمیٹی بنا دی جائے۔
تعددِ ازواج
سوال- قرآن کریم میں تعدد ازواج کی بابت ایک ہی آیت (۴:۴) ہے جو حقوق یتامیٰ کی حفاظت کے ساتھ وابستہ ہے۔ کیا آپ کے نزدیک جہاں حقوق یتامیٰ کا سوال نہ ہو وہاں تعدّد ازواج کو ممنوع کیا جا سکتا ہے؟
جواب- یہ خیال غلط ہے کہ قرآن مجید کی مذکورہ آیت کا حکم حقوقِ یتامیٰ کی حفاظت کے ساتھ وابستہ ہے اور یہ رائے بھی غلط ہے کہ جہاں حقوق یتامیٰ کا سوال نہ ہو وہاں تعددّ ازواج کو ممنوع کیا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید میں بکثرت مثالیں ایسی موجود ہیں جن میں ایک حکم بیان کرنے کے ساتھ ان حالات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن میں اس حکم کے بیان کی حاجت پیش آئی ہے۔ یا جن میں اس کی ضرورت پیش آ سکتی ہے، یا جن سے وہ حکم متعلق ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا اور کسی قانون دان آدمی سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس سے یہ نتیجہ نکالے گا کہ ایسا ہر حکم صرف انھی حالات کے ساتھ ’’وابستہ‘‘ ہے جن کا ذکر کر دیا گیا ہے اور دوسرے تمام حالات میں اس حکم پر عمل کرنا یا اس اجازت سے فائدہ اٹھانا ممنوع ہے۔ مثال کے طور پر سورۂ بقرہ کی آیت ۲۸۳ میں فرمایا گیا ہے کہ اگر تم سفر پر ہو اور (قرض کی دستاویز لکھنے کے لیے) تم کو کاتب نہ ملے تو پھر رہن باقبضہ ہونا چاہیے۔ کیا قانون کی سمجھ رکھنے والا کوئی آدمی اس کا یہ مطلب لے سکتا ہے کہ اسلامی شریعت میں رہن بالقبض کا جواز صرف سفر اور کاتب نہ ملنے کی حالت کے ساتھ وابستہ ہے؟ اسی طرح سورۂ نساء کی آیت ۲۳ میں جن عورتوں کے ساتھ نکاح حرام کیا گیا ہے ان میں سوتیلی بیٹی کی حرمت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: اور تمھاری وہ پروردہ لڑکیاں جو تمھاری گودوں میں ہیں تمھاری ان بیویوں سے جن کے ساتھ تم ہم بستر ہو چکے ہو۔ کیا اس کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ سوتیلی بیٹی کی حرمت صرف اس حالت کے ساتھ وابستہ ہے جب کہ اس نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہو؟ ان مثالوں سے یہ بات بآسانی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ تعددّ ازواج کی اجازت جس آیت میں بیان ہوئی ہے اس کے ساتھ حقوقِ یتامیٰ کی حفاظت کا ذکر کرنے کا مقصد اس اجازت کو صرف اسی حالت کے ساتھ وابستہ کر دینا نہیں ہے جب کہ یتامیٰ کا کوئی معاملہ درپیش ہو۔ بلکہ اگر اس موقع و محل کو دیکھا جائے جس میں یہ آیت آئی ہے تو نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلتا ہے۔ تعددّ ازواج اس آیت کے نزول سے پہلے عرب میں رائج تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود متعددّ بیویاں رکھتے تھے، اور بکثرت صحابہ کرام کے گھروں میں ایک سے زائد بیویاں موجود تھیں۔ قرآن میں اس کی کوئی ممانعت نہ آنا بجائے خود اس رواج کے جواز کے لیے کافی دلیل تھا۔ اس لیے یہ آیت دراصل تعددّ ازواج کی اجازت دینے کے لیے نازل ہی نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ جنگ احد کے بعد اس کے نزول کا مقصد مسلمانوں کو یہ رہنمائی دینا تھا کہ جنگ اُحد کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کی شہادت سے یتامیٰ کی پرورش کا جو مسئلہ پیدا ہوگیا ہے اس پر پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘ اس مسئلے کو تم لوگ تعددّ ازواج کے طریقے سے حل کر سکتے ہو جو پہلے ہی سے تمھارے لیے جائز ہے۔ اس طرح اس آیت نے کوئی نئی اجازت نہیں دی ہے بلکہ پہلے سے جو اجازت عملاً چلی آ رہی تھی اس سے ایک خاص اجتماعی مسئلے کو حل کرنے میں مدد لینے کی تلقین کی ہے۔ البتہ نئی بات اس میں صرف یہ تھی کہ پہلے تعددّ ازواج غیر مقیّد تھا اور اب اس کو زیادہ سے زیادہ چار کی حد کے ساتھ مقیّد کر دیا گیا۔ اس پس منظر سے جو شخص واقف ہو وہ کبھی اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ اس آیت میں تعددّ ازواج کی پہلی مرتبہ اجازت دی گئی تھی اور اس اجازت کو صرف اس حالت کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا تھا جب کہ یتامیٰ کے حقوق کی حفاظت کے لیے اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پیش آئے۔
سوال- کیا آپ کے نزدیک یہ لازمی ہونا چاہیے کہ عقدِ ثانی کا ارادہ رکھنے والا شخص عدالت سے اجازت حاصل کرے؟
جواب: شریعت نے عقد اوّل اور عقد ِ ثانی و ثالث و رابع میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ ان سب کی کھلی اجازت ہے۔ اگر عقد اوّل کسی عدالت کی اجازت کے ساتھ مشروط نہیں ہو سکتا تو ثانی کیا، ثالث و رابع بھی نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کی تجویزیں صرف اسی صورت میں قابلِ غو رہو سکتی ہیں جب کہ پہلے یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ایک سے زائد نکاح کرنا ایک برائی ہے جس کو اگر روکا نہ جا سکے تو کم از کم اس پر پابندیاں ہی عاید ہونی چاہییں۔ یہ نقطۂ نظر رومن لا کے فلسفہ قانون کا ہے نہ کہ اسلام کے فلسفہ قانون کا۔ اس لیے اسلامی قانون کی بحث میں ایسی تجویزیں لانا جن کا بنیادی تصوّر ہی اسلام کے تصوّر سے مختلف ہو اصولاً بالکل غلط ہے۔
سوال- کیا آپ کے نزدیک یہ قانون ہونا چاہیے کہ عدالت یہ اجازت اس وقت تک نہیں دے سکتی جب تک اسے یہ اطمینان نہ ہو کہ درخواست دہندہ دونوں بیویوں اور ان کی اولاد کی اس معیارِ زندگی کے مطابق کفالت کر سکتا ہے جس کے وہ عادی ہیں؟
جواب- اوپر کے جواب کے بعد یہ سوال آپ سے آپ خارج از بحث ہو جاتا ہے۔ تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس تجویز کی بعض کمزوریوں کی طرف اشارہ کر دیا جائے۔ اس میں یہ خیال پیش کیا گیا ہے کہ عدالت عقدِ ثانی کی اجازت صرف اس صورت میں دے جب کہ ایک شخص دو بیویوں اور ان کی اولاد کی کفالت کر سکتا ہو۔ سوال یہ ہے کہ جو شخص ایک بیوی اور اس کی اولاد کی بھی کفالت نہ کر سکتا ہو اسے نکاح کی کھلی چھٹی کیوں ملی رہے؟ کیوں نہ ہر شخص کے عقد اوّل کا معاملہ بھی عدالت کی اجازت سے مشروط ہو اور اس کے لیے بھی یہ قید نہ لگا دی جائے کہ جب تک نکاح کا ہر خواہش مند عدالت کو اپنی مالی پوزیشن کے متعلق اطمینان نہ دلا دے اس وقت تک کسی کو نکاح کی اجازت نہ دی جائے؟ پھر یہ عجیب بات ہے کہ محبت اور سنجوگ اور خاندانی زندگی کے لطف و اطمینان کا ہر سوال نظر انداز کرکے صرف اس ایک سوال کو نکاح ثانی کے معاملے میں اہمیّت دی گئی ہے کہ یہ کام کرنے والا دو بیویوں اور ان کی اولاد کے مالی بار کا متحمل ہو سکے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عقدِ ثانی غریب اور متوسط طبقے کے لیے تو ممنوع ہو‘ مگر اونچے طبقے کے لیے یہ حق پوری طرح محفوظ رہے۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ کمزوری اس میں یہ ہے کہ عدالت صرف یہ دیکھ کر ایک شخص کو نکاح ثانی کی اجازت دے دے گی کہ وہ دو بیویوں اور ان کی اولاد کا متکفل ہو سکتا ہے حالانکہ محض متکفل ہو سکنا عملاً متکفل ہونے کے لیے کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ہمارے سامنے بکثرت مثالیں ایسے لوگوں کی موجودہیں جو بڑی بڑی آمدنیاں رکھتے ہیں اور ایک بیوی کو نذرِ تغافل کیے رکھتے ہیں۔ عدالتوں کی اجازت کی قید ان خرابیوں کا آخر کیا سدّباب کرتی ہے؟ ایسی خام تجویزوں کے بجائے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم شریعت کے اس قاعدے ہی پر اکتفا کریں کہ ایک شخص ایک سے زائد نکاح کرنے کے معاملے میں اپنی مرضی کا مختار ہو اور جس بیوی کو بھی اس سے کسی نوع کی بے انصافی کا شکوہ ہو اس کی دادرسی کے لیے عدالت کا دروازہ کھلا رہے۔
سوال- کیا یہ قانون ہونا چاہیے کہ دوسری شادی کرنے والے کی کم از کم نصف تنخواہ پہلی بیوی اور اس کی اولاد کو عدالت دلوائے؟
سوال- (۲) اور جو لوگ تنخواہ دار نہیں بلکہ دوسرے ذرائع آمدنی رکھتے ہیں ان سے عدالت ضمانت لے کہ وہ اپنی آمدنی کا کم از کم نصف پہلی بیوی اور اس کی اولاد کو دیتے رہیں گے؟
جواب: یہ تجویز بالکل غلط ہے۔ ایک آدمی لازماً صرف اپنے ہی بال بچوں کا کفیل نہیں ہوتا بلکہ والدین، چھوٹے بہن بھائی اور دوسرے مستحق اعزہ بھی بہت سے لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں جن کی انھیں خدمت اور کفالت کرنی ہوتی ہے۔ اس صورت میں یہ ضابطہ بنا دینا کہ دوسری شادی کرنے والے کی کم از کم نصف آمدنی ضرور پہلی بیوی کو دلوائی جائے سراسر بے انصافی ہے۔ پھر اگر پہلی بیوی بے اولاد ہو اور دوسری صاحبِ اولاد تو یہ کس اصولِ انصاف کا تقاضا ہے کہ شوہر کی آدھی آمدنی بے اولاد بیوی کے لیے مخصوص کر دی جائے اور دوسری بیوی اولاد سمیت بقیہ نصف میں گزر کرے؟ شریعت ایسے اندھے ضابطے بنانے کے بجائے یہ قاعدہ مقرر کر تی ہے کہ بیویوں کے درمیان شوہر خود عدل کرے اور اگر کسی بیوی کی طرف سے بے انصافی کی شکایت عدالت میں آئے تو قاضی اس خاندان کے حالات کو دیکھ کر انصاف کی مناسب صورت تجویز کر دے۔
مہر
سوال- کیا آپ کے نزدیک یہ قانون بن جانا چاہیے کہ معاہدۂ ازواج میں جو مہر مقرر کیا گیا ہے خواہ اس کی مقدار کتنی ہی کثیر کیوں نہ ہو وہ شوہر کے لیے واجب الادا ہے؟
جواب:مہر تو شرعاً ہے ہی واجب الادا چیز۔ اس کے لیے الگ قانون بنانے کی کیا حاجت ہے؟ البتہ اگر اس کا مطلب ایسا قانون بنانا ہے کہ ہر مقدار مہر لازماً ہر حال میں واجب الادا ہو تو یہ قرآن کے بھی خلاف ہے اور عقل و انصاف کے بھی خلاف۔ قرآن عورت کو مہر معاف کرنے کا حق بھی دیتا ہے اور مہر میں کمی قبول کرنے کا حق بھی۔ نیز اگر مہر شوہر کی حیثیت سے بہت زیادہ ہو یا بعد میں کسی وقت شوہر کے مالی حالات ایسے ہو جائیں کہ وہ کسی طرح ایک گراں قدر مہر ادا کرنے کے قابل نہ رہے یا کسی عقد نکاح میں ایسا مہر بندھوا لیا گیا ہو جسے کوئی شخص بھی معقول نہ تسلیم کر سکتا ہو، تو ایسی صورتوں میں عدالت یا پنچوں کے لیے مناسب رقم پر راضی نامہ کرا دینے کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے۔
سوال- کیا آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ مطالبۂ مہر کے لیے ازروئے قانون کسی مدت کی تحدید نہ ہو؟
جواب- مہر کی وصولی کے لیے مدت کا تعیّن اور عدم تعیّن فریقین کی باہمی قرارداد پر منحصر ہے۔ اس معاملے میں قانون کو کسی مداخلت کی ضرورت نہیں۔
سوال- اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کہ اگر نکاح نامے میں ادائے مہر کی صورت کا کوئی تعیّن نہ ہو تو نصف مہر معجل (عندالطلب) اور نصف غیر مؤجل (بعد انفساخِ نکاح یا وفات شوہر یا بصورتِ طلاق) شمار ہو؟
جواب- ایسی صورت میں سارا مہر عند المطالبہ واجب الادا ہونا چاہیے۔ البتہ اگر عدالت یہ دیکھے کہ مقدار مہر فی الواقع شوہر کی حیثیت سے بہت زیادہ رکھی گئی ہے تو وہ انصاف کو ملحوظ رکھ کر ادائیگی مہر کے لیے کوئی مناسب صورت تجویز کر سکتی ہے۔ اس معاملے میں قانون بنا کر عدالتوں کے ہاتھ باندھ دینا ٹھیک نہیں ہے۔
حضانت
سوال- موجودہ قانون کی رو سے بچوں کی حضانت کا حق ماں کو خاص عمروں تک حاصل ہے۔ یعنی لڑکا ہو تو سات سال اور لڑکی ہو تو بلوغ تک۔ حضانت کے لیے عمروں کا یہ تعیّن نہ قرآن میں ہے اور نہ کسی حدیث میں، بلکہ یہ بعض فقہا کا اجتہاد ہے۔ کیا آپ کے نزدیک اس میں کوئی ترمیم ہو سکتی ہے؟
جواب- اس معاملے میں صحیح بات یہ ہے کہ بچوں کا مفاد ہر دوسری چیز پر مقدم ہے۔ ہر انفرادی مقدمے میں حالات کو دیکھتے ہوئے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ماں اور باپ میں سے جس کی حضانت بھی زیادہ موزوں نظر آئے اسے ترجیح دی جائے۔ کسی ایک کے حق میں قانون بنا دینا مناسب نہیں ہے۔ البتہ قانوناً یہ لازم ہونا چاہیے کہ جس فریق کی حضانت میں بھی بچے دیئے جائیں وہ دوسرے فریق سے ان کے ملنے میں مزاحم نہ ہو۔ مشہور فقہا میں سے علاّمہ ابن تیمیہ اور ابن قیم کی رائے بھی وہی ہے جو میں نے اوپر عرض کی ہے۔
بیوی بچوں کا گزارہ
سوال- کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ کوئی شوہر کسی معقول وجہ کے بغیر بیوی کو گزارہ نہ دے تو بیوی کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ خاص ’’ازدواجی و عائلی عدالت‘‘ میں اس پر دعویٰ دائر کر سکے؟
جواب- جی ہاں!
سوال- موجودہ کریمینل پروسیجر کوڈ (ضابطۂ فوجداری) کی دفعہ ۴۸۸ کے مطابق بیوی عدالت فوجداری میں نفقے کا دعویٰ کر سکتی ہے لیکن عدالت فوجداری زیادہ سے زیادہ سو روپے ماہانہ دلوا سکتی ہے۔ کیا آپ اس مقدار کے اضافے کے حق میں ہیں؟
جواب- جی ہاں۔ عدالت کو یہ حق ہونا چاہیے کہ زوجین کی حیثیت کے مطابق نفقہ دلوائے۔ کسی خاص مقدار کا تعیّن ازروئے قانون کر دینا مناسب نہیں۔
سوال- کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ ایک بیوی گزشتہ تین سال تک کے نفقے کا مطالبہ کر سکے؟
جواب- تین سال کی قید صحیح نہیں ہے جب سے شوہر نے بیوی کو نفقہ سے محروم کر رکھا ہو اسی وقت سے اس کا نفقہ دلوانا چاہیے۔
سوال- کیا آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ اگر بیوی نے نکاح نامے میں میعادِ نفقہ کے متعلق خاص شرط لکھوا لی ہو تو اسے محض مدتِ عدت تک ہی نہیں بلکہ مدت مشروطہ تک نفقہ ملے؟
جواب- نکاح کے وقت اکثر ایسا ہوتا ہے کہ برادری اور خاندان کے دبائو سے، یا لحاظ مروت کی بنا پر غیر معقول شرائط تسلیم کر لی جاتی ہیں۔ اس طرح کی شرطوں کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیے۔ نفقے کا جائز حق ایک عورت کو جس حد تک حاصل ہے اس سے زیادہ کی کوئی شرط اگر معاہدہ نکاح میں لکھوا لی گئی ہو تو اسے ازروئے قانون نافذ نہیں ہونا چاہیے۔
تولیت املاک
سوال- کیا آپ اس سے متفق ہیں کہ باپ کی عدم موجودگی میں عدالت ماں کو بچوں کی املاک کی متولیہ قرار دے بشرطیکہ عدالت کے نزدیک اس کا تقرر بچوّں کی بہبود اور املاک کے تحفظ کے منافی نہ ہو؟
جواب: یہ اس صورت میں ہونا چاہیے جب کہ بچوں کے مفاد کی حفاظت کے لیے ماں کو متولی بنانا ضروری ہو، مثلاً خاندان میں کوئی ایسا مرد موجود نہ ہو جو متولی بن سکتا ہو، یا موجود تو ہو مگر اس کے ہاتھ میں تولیت دینے سے بچوں کے مفاد کو خطرہ ہو۔
سوال- کیا آپ یہ قانون بنانے کے حق میں ہیں کہ نابالغوں کی املاک کے متولی کو یہ اختیار حاصل نہ ہو کہ وہ عدالت کی اجازت کے بغیر املاک کو فروخت یا رہن کر سکے؟
جواب- یہ تجویز بالکل مناسب ہے۔
وراثت اور وصیّت
سوال (۱) کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ اگر پاکستان کے کسی حصّے میں ابھی تک وراثت اور وصیت کے با رے میں شرعی قوانین پر عمل نہیں ہو رہا تو بلا تاخیر ایسا قانون وضع کیا جائے کہ اس بارے میں شرعی قوانین ہر حصۂ ملک پر عائد ہوں؟
سوال (۲) موجودہ قانونی ضابطے کی پیچیدگی کے پیش نظر عورتوں کی مجبوریوں کو رفع کرنے کے لیے کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ جب کبھی وراثت کے معاملے میں عورت مدعیہ ہو تو معمولی سول کورٹ اس کا مقدمہ عجلت ِانفصال کے لیے ازدواجی و عائلی عدالت میں منتقل کر دے؟
جواب- دونوں تجویزیں مناسب ہیں۔
سوال- کیا قرآن کریم میں کوئی نص صریح موجود ہے یا کسی صحیح حدیث میں یہ تعلیم ملتی ہے کہ یتیم پوتے، پوتی یا نواسے نواسی کو بہرحال محروم الارث کر دیا جائے؟
جواب- یہ مسئلہ ان اصولی احکام سے خودبخود نکلتا ہے جو قرآن و حدیث میں تقسیم میراث کے متعلق دیئے گئے ہیں اور اس کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس میں ردّوبدل کرکے یتیم پوتے پوتی یا نواسے نواسی کو وارث بنانے کی جو صورت بھی تجویز کی جائے اس سے قانون میراث کا وہ سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے جو قرآن و سنّت کے اصولی احکام پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہائے اسلام شروع سے آج تک اس پر متفق رہے ہیں۔ یہاں چونکہ اس مسئلے کی پوری توضیح ممکن نہیں ہے اس لئے میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ جماعت اسلامی کے شائع کردہ پمفلٹ ’’پوتے کی وراثت کا مسئلہ‘‘ صفحہ ۹ تا ۴۰ ملاحظہ فرمائیں۔ اس کی ایک کاپی اس جواب کے ساتھ ارسال کی جا رہی ہے۔
سوال- کیا ایسا قانون بنانا جائز ہو گا کہ ایک مسلمان کسی جائداد کو کسی کے نام اس شرط پر منتقل کر دے کہ جسے منتقل کی گئی ہے اس کی وفات کے بعد وہ جائداد منتقل کرنے والے یا اس کے ورثا کی طرف عود کر آئے گی؟
جواب- اسلامی فقہ میں اس کے لیے ’’عمریٰ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور اس کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ،ؒ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا مذہب یہ ہے کہ جو جائداد اس طرح منتقل کی گئی ہو وہ پھر منتقل کرنے والے یا اس کے ورثا کی طرف عود نہیں کر سکتی خواہ انتقال کی دستاویز میں صریح طور پر یہ شرط درج ہی کیوں نہ کر دی گئی ہو کہ وہ مُعَمر کی وفات کے بعد مُعِمر یا اس کے ورثا کو واپس مل جائے گی۔ بخلاف اس کے امام مالکؒ کہتے ہیں کہ جو جائداد مُعِمر کو صرف حینِ حیات کے لیے دی گئی ہو وہ آپ سے آپ اس کی وفات کے بعد معمر یا اس کے وارثوں کی طرف منتقل ہو جائے گی۔ الاّیہ کہ معمر نے تصریح کر دی ہو کہ وہ اسے اور اس کے وارثوں کو دی گئی ہے۔ اس بارے میں احادیث زیادہ تر پہلے ہی قول کے حق میں ہیں اور غائر نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی قول صحیح ہے۔ جس جائداد کے ساتھ ایک شخص کا مفاد صرف حینِ حیات تک وابستہ ہو وہ آخر عمر میں آ کر اس سے دلچسپی لینا چھوڑ دیتا ہے اور اس کی اولاد بھی جانے والی چیز سے غفلت برتنے لگتی ہے۔ اس طرح حینِ حیات کا ہبہ ضیاعِ مال کا موجب ہوتا ہے اور جب اصل مالک یا اس کی اولاد کو جائداد تباہ شدہ حالت میں ملتی ہے تو اسے بھی شکایت پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے شریعت کا منشا یہ ہے کہ ہبہ کیا جائے تو مستقل طور پر کیا جائے ورنہ حینِ حیات کے ہبہ سے نہ کرنا بہتر ہے۔ اس منشا کی توضیح اس حدیث سے ہوتی ہے کہ
اَمْسِکُوْا عَلَیْکُمْ اَمْوَالَکُمْ وَلاَ تُفْسِدُوْہَا ، فَمَنْ اَعْمَرَ عُمْرٰی فَہِیَ لِلَّذِیْ اُعْمِرَ حَیًّا وَّمَیِّتًا وَّ لِعَقَبِہٖ (احمد۔ مسلم)
اپنے اموال اپنے ہی پاس رکھو اور ان کو برباد نہ کرو جو شخص کسی کو حینِ حیات کے لئے کچھ دے تو وہ چیز اسی کی ہے جس کو وہ دی گئی، اس کی زندگی میں بھی اور اس کے مرنے کے بعد بھی، اور وہ اس کے بعد اس کے پس ماندوں کے پاس رہے گی۔
سوال- کیا آپ کی رائے میں وقف علی الاولادایکٹ ۱۹۱۳ء میں بغرض اصلاح اس ترمیم کی ضرورت ہے کہ وقف شدہ جائداد کے اضافہ قیمت یا دیگر مفاد کی خاطر بہ اِجازتِ عدالت اسے فروخت یا تبدیل کیا جائے یا کسی اور مفید طریق پر عمل ہو سکے؟
جواب- یہ ایکٹ اگر بالکل ہی ختم کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ مختلف اعتبارات سے یہ مضر اور پیچیدگیوں کا موجب ہے اور اسلامی شریعت میں اس کے لیے کوئی مضبوط بنیاد بھی نہیں ہے۔
انفساخِ نکاح بذریعہ عدالت
سوال- قانون انفساخِ نکاح کے سیکشن (۲) میں جو وجوہِ انفساخ درج ہیں کیا آپ کے نزدیک ان میں اضافے یا کمی کی ضرورت ہے؟
جواب- یہ قانون میرے سامنے نہیں ہے اس لیے اس سوال کا جواب دینے سے معذور ہوں۔ بہتر ہوتا کہ سوال نامے کے ساتھ اس کی متعلقہ دفعہ بھی منسلک ہوتی۔
سوال:۔ کیا ایسا قانون وضع ہونا چاہیے کہ اگر عورت انفساخِ نکاح کا مطالبہ کرے اور عدالت کی رائے میں قصور وار شوہر ہو تو طلاق حاصل کرتے ہوئے عورت سے نہ مہر واپس دلوایا جائے اور نہ دوسری چیزیں جو خاوند اسے دے چکا ہو؟
جواب- خلع کے شرعی قواعد میں اس کی گنجائش موجود ہے۔ اس لیے میں اس تجویز کی تائید کرتا ہوں۔ مگر شرط یہ ہے کہ شوہر کے قصور کا جدید تصوّر مغرب سے برآمد نہ کیا جائے بلکہ اسی تصوّر پر قناعت کی جائے جو اسلام میں پایا جاتا ہے۔
سوال- کیا زوجین کا ایسا اختلافِ مزاج جس کی وجہ سے ازدواجی زندگی ناخوش گوار ہو جائے جائز طور پر وجہِ فسخِ نکاح ہو سکتا ہے؟
جواب: اختلافِ مزاج کی صورت میں عدالت کو پہلے تحکیم کے قرآنی قاعدے پر عمل کرنا چاہیے تاکہ زوجین کے خاندان ہی کے دو معتبر آدمی اس اختلاف کو رفع کرنے کی کوشش کریں۔ پھر اگر وہ ناکام ہو جانے کی رپورٹ عدالت کو دیں تو عدالت کا کام وجوہ اختلاف کی تحقیق کرنا تو نہیں ہے، مگر یہ تحقیق اس کو ضرور کرنی چاہیے کہ آیا ان زوجین کے درمیان نباہ ممکن نہیں رہا ہے۔ اس کے بعد عدالت دو شکلوں میں سے کوئی ایک شکل اختیار کر سکتی ہے۔ یا تو عورت کے حق میں خلع کا فیصلہ کرے اگر وہ اس کی طالب ہو۔ یا شوہر کو مجبور کرے کہ وہ اسے معلّق رکھنے کے بجائے طلاق دے دے۔
سوال- قانون انفساخ نکاح کے کلاز (۳) سیکشن (۳) میں سات سال کی قید کی بنا پر نکاحِ فسخ ہو سکتا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں یہ بہتر نہ ہو گا کہ اس مدت میں کمی کرکے چار سال کر دیا جائے؟
جواب- طویل قید کی صورت میں فسخ نکاح کا قانون کچھ صحیح نہیں ہے۔ نیز عورت کو یہ حق دینے سے اصل مسئلہ حل بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے معاشرے میں عورت کا مزاج یہ نہیں ہے کہ شوہر اگر لمبی مدت کے لیے قید ہو گیا ہو تو بیوی فسخ نکاح کا مطالبہ لے کر عدالت میں پہنچ جائے۔ خصوصاً صاحب ِاولاد عورت تو مشکل ہی سے اس کا خیال کر سکتی ہے۔ اس لیے کثیر التعداد عورتیں اس قانون کے ہوتے ہوئے بھی اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھائیں گی اور ان کے مصائب جوں کے توں رہیں گے۔ میرے نزدیک اس مسئلے کا صحیح حل یہ ہے کہ جیل کے قواعد میں حسب ذیل تین اصلاحات کی جائیں۔
الف- چار سال یا اس سے کم مدت کے قیدیوں کو سال میں کم از کم دو مرتبہ کم از کم پندرہ دن کے لیے پیرول پر گھر جانے کی اجازت دی جایا کرے۔
ب- چار سال سے زیادہ مدت کے قیدیوں کو جیل میں رکھنے کے بجائے ان بستیوں میں رکھا جائے جو طویل المیعاد قیدیوں کے لیے مخصوص ہوں، اور وہاں انھیں اپنے بال بچوں کے ساتھ رہنے کا موقع دیا جائے۔
ج- قیدیوں سے جیل میں جو کام لیا جائے اس کی اجرت بازار کی شرحوں کے مطابق ان کے حساب میں جمع کی جائے اور وہ یا اس کا ایک مناسب حصّہ ان کی بیویوں اور بچوں کے نفقے میں ادا کیا جاتا رہے۔
ازدواجی اور عائلی عدالت
سوال: (۱) کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ ہر کمشنری میں ڈسٹرکٹ اور سیشن جج کے مرتّبے کا جج ایسی عدالتوں میں مقرر کیا جائے جہاں ازدواجی و عائلی مقدمات دائر ہوں؟
(۲) کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ ایسے مقدمات جو ازدواجی و عائلی قوانین کے تحت آتے ہوں اور جہاں عورت مدعیہ ہو فقط ایسی مخصوص عدالتوں میں دائر ہو سکیں؟
(۳) کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ ایسی عدالتوں کے ضوابط موجودہ دیوانی اور فوجداری ضوابط سے الگ ہوں اور یہ قانون وضع کر دیا جائے کہ ایسی عدالت ہر مقدمے کا فیصلہ تین ماہ کے اندر اندر کر دے؟
(۴) کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ ایسی عدالتوں میں کورٹ فیس یا دوسرے عدالتی اخراجات نہ ہوں؟
(۵) کیا آپ اس کے حق میں ہیں کہ ایسی عدالتوں میں فریقین اپنے کسی نمایندے یا اقارب کے ذریعے پیروی کر سکیں اور کسی باقاعدہ سند یافتہ وکیل کا ہونا لازمی نہ ہو؟
(۶) کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ کم از کم ایک مرد اور ایک عورت بطورِ مشیر جج کے ساتھ ہوں؟
(۷) کیا آپ اس کے حق میں ہیں کہ ایسی عدالت مختلف اضلاع میں باری باری سے اپنا اجلاس طلب کرے؟
(۸) کیا آپ اس کے حق میں ہیں کہ فریقین کو ایک سے زیادہ اپیل کی اجازت نہ ہو؟
(۹) کیا آپ اس کے حق میں ہیں کہ اپیل براہِ راست ہائی کورٹ میں ہونی چاہیے اور اپیل کا فیصلہ بھی تین ماہ کے اندر ہو جانا چاہیے؟
جواب- نمبر ۱ تا ۹ کا جواب یہ ہے کہ یہ سب تجاویز بالکل درست ہیں۔
سوال- ایسی عدالت کے فیصلے سے واجب الادا رقوم کی وصولی اور دیگر احکام کی بجا آوری کے لیے آپ کیا مناسب تجاویز پیش کرتے ہیں؟
جواب- اس کے لیے وہی طریقہ ہونا چاہیے جو عام عدالتی فیصلوں کے نفاذ اور سرکاری مطالبات کی وصولی میں استعمال ہوتا ہے۔
سوال- ایسے مقدمات میں اخراجات ِمتفرقہ کو پورا کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب- جو فریق زیادتی کرنے والا ثابت ہو، یا جس نے بیجا مقدمہ بازی کرکے عدالت اور فریق ثانی کا وقت ضائع کیا ہو اس پر مناسب خرچہ ڈالا جائے جس کا ایک حصّہ فریق ثانی کو ملے اور ایک حصّہ عدالت کے مصارف میں وضع کیا جائے۔ علاوہ بریں حدِّ اعتدال سے زیادہ مقدار کے مہر کا دعویٰ اسٹامپ ڈیوٹی کے بغیر قبول نہ کیا جائے اور مہر جتنا حد سے متجاوز ہو اسی تناسب سے اسٹامپ ڈیوٹی زیادہ بھاری لگائی جائے۔ یہ تدبیریں معاشرے کی اصلاح میں بھی مددگار ہوں گی اور ان سے عدالت کا پورا خرچ نہیں تو اس کا ایک معتدبہ حصّہ ضرور حاصل ہو جائے گا۔ کچھ کمی اگر رہ جائے تو اسے سرکاری خزانے سے ادا ہونا چاہیے۔
(ربیع الثانی ۱۳۷۵ھ مطابق دسمبر ۱۹۵۵ء)
٭…٭…٭…٭…٭
اہلِ کتاب کے ذبیحہ کی حِلّت و حُرمت
ہمارے ملک سے جو لوگ تعلیم یا تجارت یا دوسری اغراض کے لیے یورپ اور امریکہ جاتے ہیں ان کو بالعموم اس مسئلے سے سابقہ پیش آتا ہے کہ وہاں اسلامی نقطۂ نظر سے حلال غذا بمشکل میسر آتی ہے۔ کچھ لوگ تو حلال و حرام کی حس ہی نہیں رکھتے۔ اس لیے وہ بلاتکلف ہر طرح کا کھانا وہاں کھا لیتے ہیں۔ کچھ اور لوگ کھانے پینے کی مشکلات سے تنگ آ کر وہی سب کچھ کھانے لگتے ہیں جو وہاں ملتا ہے مگر دل میں یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ یہ حرام غذا ہے جو ہم کھا رہے ہیں۔ البتہ ایک اچھی خاصی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو حلال کی پابندی اور حرام سے پرہیز کرنا چاہتے ہیں۔ انھی کی طرف سے اکثر یہ سوالات آتے رہتے ہیں کہ ان ممالک میں غذا کی حرمت و حلّت کے حدود کیا ہیں اور ہم کیا کھائیں اور کن چیزوں سے پرہیز کریں۔ اس سے پہلے میرے پاس اس سلسلے میں جو سوالات وقتاً فوقتاً آئے ہیں ان کے مختصر جوابات نجی طور پر بھی اور ترجمان القرآن میں بھی دیئے جاتے رہے ہیں۔ لیکن اب اس مسئلے نے ایک دوسرا رخ اختیار کیا ہے۔ بعض دوسرے مسلمان ملکوں سے جو لوگ مغربی ممالک میں جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں کے نوجوان ان کو بے تکلف وہ گوشت کھاتے دیکھتے ہیں جو خدا کا نام لیے بغیر مشینوں سے کٹ کر آتا ہے۔ اس پر ان کے درمیان بحثیں چھڑ جاتی ہیں اور وہ دلیل میں اپنے علما کے فتوے پیش کر دیتے ہیں جنھوں نے اس گوشت کو حلال قرار دیا ہے۔ اس کی ایک تازہ نظیر مندرجہ ذیل خط ہے جو ایک پاکستانی نوجوان کی طرف سے حال میں میرے نام آیا ہے۔ یہ خط اور علمائے عراق کے وہ فتوے جن کی نقل مراسلہ نگار نے ارسال کی ہے، دیکھنے کے بعد شدت کے ساتھ یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اس مسئلے کی پوری علمی تحقیق شائع کر دی جائے تاکہ ہمارے ہاں کے لوگ ان بحثوں سے متاثر ہو کر کوئی غلط روش نہ اختیار کر بیٹھیں اور اگر ممکن ہو تو خود بیرونی مسلم ممالک کے لوگوں کی بھی اصلاحِ خیال ہو سکے۔
پاکستانی نوجوان کا خط
یہ پاکستانی نوجوان جو آج کل لندن میں زیر تعلیم ہیں، لکھتے ہیں:
’’گوشت کا مسئلہ میرے اور مشرق وسطیٰ کے طلبہ کے مابین بہت باعثِ نزاع ہے۔ اس پر بہت بحثیں ہو چکی ہیں۔ رسائل و مسائل میں آپ نے جو دلائل بیان کیے ہیں وہ ان کے سامنے مختلف طریقوں سے بار بار پیش کر چکا ہوں۔ لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ اب دو اسلام پسند دوستوں نے عراق سے دو فتوے منگوائے ہیں۔ انھیں اصرار ہے کہ آپ تک پہنچائوں اور آپ ان میں دیئے ہوئے دلائل کو شق وار ردّ کریں۔ لہٰذا دونوں کی نقول منسلک ہیں۔ ان کو آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔
گوشت کے سلسلے میں ایک چیز جس کا علم مجھے نہیں ہے وہ یہ ہے کہ کیا حلال کرنے کی کوئی متعیّن صورت قرآن یا حدیث میں دی گئی ہے؟ یا اللہ کا نام لے کر مشین سے ذبح کیا جا سکتا ہے؟
چونکہ مختلف مغربی ممالک میں ذبح کرنے کے مختلف طریقے رائج ہیں لہٰذا جب تک ہر طریقے کی تفصیل نہ معلوم ہو اس وقت تک ان کے ہر ذبیحے کو مُردار کہنا بہت مشکل ہے۔ اس بنا پر میں مُردار کو وجہِ حرام بنا کر گفتگو نہیں کرتا بلکہ ان دو آیات کو مرکز گفتگو بناتا ہوں جن میں اللہ کا نام نہ لیے ہوئے گوشت سے منع کیا گیا ہے اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے کو حرام کیا گیا ہے۔‘‘
اس کے ساتھ علمائے عراق کے جو فتوے انھوں نے بھیجے ہیں ان کا لفظ بلفظ ترجمہ حسب ِذیل ہے۔
فتویٰ نمبر ۱
ذبیحہ اہلِ کتاب کے بارے میں آپ کے استفسا رکا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے … جس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں۔ مسلمانوں کے لیے اہلِ کتاب کا کھانا حلال کرتے ہوئے یہ نہیں فرمایا کہ ’’اہلِ کتاب کا ذبیحہ تمھارے لیے حلال ہے‘‘ بلکہ یہ فرمایا ہے کہ ’’اہلِ کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے۔‘‘ (وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ حِلٌّ لَّکُمْ) اس کا یہ مطلب ہوا کہ یہود و نصاریٰ کے پادری اور اہلِ دین جو کھانا بھی کھاتے ہیں‘ بجز لحمِ خنزیر‘ وہ مسلمانوں کے لیے حلال ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کے ذبیحہ پر یہ شرط عائد نہیں کی گئی کہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو یا وہ اہلِ اسلام کے طریقے پر ذبح کیا گیا ہو۔
سورۂ المائدہ (رکوع ۱) میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دین کو مکمل کرکے اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے واضح ہے کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ اس سلسلے میں لطیف بات یہ ہے کہ جس آیت میں طعامِ اہلِ کتاب کی اباحت کا حکم دیا گیا ہے وہ مذکورہ تکمیل دین والی آیت سے صرف چند سطور کے فاصلے پر وارد ہے جس کا قریبی تعلق یہ بتایا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا دین مکمل اور دائمی ہے اور اس کے دوسرے احکام ابدی اور ناقابلِ تنسیخ و تغیّر ہیں اسی طرح طعامِ اہلِ کتاب کی حِلّت کا حکم بھی اٹل ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے کسی خاص زمانے کے ساتھ وابستہ نہیں رکھا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ حکم نازل کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ آیندہ چل کر اہلِ کتاب کے ہاں جانوروں کو سر میں میخ مار کر ذبح کرنے کا طریقہ جاری ہو گا۔ علاوہ ازیں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل موجود ہے کہ ایک بار ایک یہودی عورت نے آپؐ کو زہر آلود بکری دعوت میں پیش کی۔ اور آپؐ نے یہ دریافت کیے بغیر اسے تناول فرما لیا کہ اس بکری کو اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہے یا نہیں یا اس کے ذبح کرنے میں کون سا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ چنانچہ اسی ضمن میں آپؐ کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جس چیز کو حلال ٹھہرا دیا ہے وہ حلال ہے اور جسے حرام قرار دے دیا ہے وہ حرام ہے اور جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے‘ جس کی ذات نسیان سے پاک ہے، محض اپنی رحمت سے سکوت فرمایا ہے تم اس کے متعلق کرید مت کرو۔‘‘ … نیز آپؐ نے فرمایا: جس چیز کی صراحت میں نے تم سے نہیں کی اُس کے بارے میں تم مجھ سے نہ پوچھو۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگ بھی انبیا سے بکثرت سوالات کرنے اور اختلافات کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ پس جب میں کسی چیز سے تمھیں روک دوں تم اس سے رک جائو اور جب کسی کام کا حکم دوں تو اسے جہاں تک کر سکتے ہو کرو۔
امام ابن العزّی المعافری نے بدلائل ثابت کیا ہے کہ اگر عیسائی مرغی کی گردن تلوار سے اڑا دیتا ہے تو مسلمان کے لیے اس کا کھا لینا جائز ہے۔ یہی حکم ان بند ڈبوں کے گوشت کے بارے میں اختیار کیا جائے جنھیں یہودی اور عیسائی تیار کرتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کے بارے میں یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ ان کے جن افراد پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور دعوت کی حجّت تمام ہو چکی ہے وہ اگر خدا کا ذکر بھی کریں تو ان کا ذکر اللہ اس وقت تک اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہو گا جب تک وہ اسلام نہ قبول کر لیں۔ اس لیے ذبح کرتے وقت ایسے افراد کا اللہ کا نام لینا یا نہ لینا یکساں ہے۔ البتہ جن تک دعوت نہیں پہنچی اور حجت قائم نہیں ہوئی وہ اپنے پہلے دین پر قائم ہیں اور وہ صحیح ہے۔
جس جانور کو مشرک ذبح کرے جو یہودی یا عیسائی نہیں ہے، تو اس نے بوقت ذبح خواہ ہزار مرتبہ بھی اللہ کا نام لیا ہو اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔ اس کے برعکس مسلمان کا وہ ذبیحہ جس پر اللہ کا نام لینا اسے یاد نہ رہا ہو حلال ہے اور اس کا کھانا جائز ہے کیونکہ ہر مومن کے دل میں اللہ کا ذکر ہر حالت میں موجود ہے۔ ابودائود کی ایک روایت میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے گوشت کے بارے میں دریافت کیا گیا جو اہلِ بادیہ شہر لے کر آتے تھے اور جس کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا تھا کہ انھوں نے جانوروں کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں۔ آپؐ نے فرمایا اُذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہَا اَنْتُمْ وَکُلُوْہَا (تم خود اللہ کا نام لے لو اور اسے کھا لو) اسی طرح ایک مرتبہ آپؐ سے رومی پنیر کے بارے دریافت کیا گیا اور آپؐ کو بتایا گیا کہ اس پنیر کو اہلِ روم خنزیر کے بچوں کے چُستے سے بناتے ہیں۔ آپؐ نے جواب میں صرف اتنا فرمایا کہ ’’اِنِّیْ لَا اُحَرِّمُ حَلاَلاً (میں ایک حلال چیز کو حرام نہیں کر سکتا) اور مزید سائل کی بات کی طرف دھیان نہ دیا۔ ۱؎
اس موضوع پر فقہا نے جو قواعد مستنبط کیے ہیں ان میں سے ایک قاعدہ یہ ہے کہ ان الطعام لا یُطرح بالشک (محض شک کی بنا پر طعام کو ردّ نہیں کیا جائے گا) نیز یہ قاعدہ بھی قابلِ لحاظ ہے کہ دِیْنُ اللّٰہِ یُسْرٌ فَیَسِّرُوْہُ وَلاَ تُعَسِّرُوْا وَلاَ تُنَفِّرُوْا (اللہ کے دین میں آسانی ہے تم اسے آسان ہی رکھو۔ سخت نہ بنائو اور لوگوں کو اس سے متنفر نہ کرو)
فتویٰ نمبر ۲
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ ، وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ حِلٌّ لَّکُمْ …… یہ حکم اس امر کی صریح دلیل ہے کہ اہلِ کتاب کا طعام جس میں ان کا ذبیحہ اور غیر ذبیحہ سب شامل ہے، مسلمانوں کے لیے حلال ہے۔ اہلِ کتاب ذبیحہ پر اللہ کا نام لیتے ہیں یا نہیں، یہ اللہ کے علم میں ہے، ہمارے لئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کا کھانا حلال قرار دیا ہے خواہ وہ تسمیہ کے ساتھ ہو یا بغیر تسمیہ کے۔ شیخ زادہ ؒ تفسیر سورۂ انعام میں ص ۳۰۴ پر لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کا قول وَلاَ تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ۔ (جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھائو۔ ایسا کرنا فسق ہے) بظاہر ان تمام اشیا کی تحریم پر دلالت کرتا ہے جن پر اللہ کا نام لینا عمداً یا نسیاناً ترک ہو گیا ہو۔ دائود ظاہری کا یہی مذہب ہے۔ امام احمدؒ سے بھی اسی طرح کا مسلک مروی ہے۔ امام مالکؒ اور شافعیؒ نے اس سے اختلاف کیا ہے وہ ذبیحۂ مسلم کو ہر صورت میں حلال قرار دیتے ہیں خواہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو یا نہ۔ ان کا استدلال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر مبنی ہے کہ ’’ذَبِیْحَۃُ الْمُسْلِمِ حَلَالٌ وَاِنْ لَّمْ یُذْکَرِاسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہَا۔ امام ابوحنیفہؒنے عمداً تسمیہ نہ کرنے اور نسیاناً تسمیہ ترک ہو جانے میں فرق کیا ہے۔
جس طعام پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو علما نے اسے فسق قرار دیا ہے (جیسا کہ قرآن میں آتا ہے اَوْفِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ) علما کی یہ تاویل اس صورت میں ہے جب کہ اِنَّہٗ لَفِسْقٌ کی ضمیر مِمَّا لَمْ یُذْکَرْ میں کلمہ مَا کی جانب راجع ہو۔ اور یہ بھی درست ہے کہ ضمیر کا مرجع وَلاَ تَاْکُلُوْا میں مصدر اکل کو بنا لیا جائے۔ (اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ جس طعام پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو اس کا کھانا فسق ہے)
اس کے بعد شیخ زادہؒ اس مجمل کلام کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
یہ رائے کہ آیت ’’وَلاَ تَاْکُلُوْا… الخ ‘‘ ان تمام اشیا کی تحریم پر دلالت کرتی ہے جن پر اللہ کا نام قصداً یا نسیاناً متروک ہو گیا ہو اس وجہ سے ہے کہ آیت عمومی مفہوم رکھتی ہے اور کھانے پینے کی تمام اشیا کو شامل ہے۔ چنانچہ عطا نے اسی عمومی مفہوم کو لیا ہے۔ ان کے نزدیک ہر وہ چیز حرام ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے۔ خواہ وہ ماکولات میں سے ہو یا مشروبات میں سے۔ لیکن جمہور فقہا کا اجماع ہے کہ آیت کا اطلاق صرف اس جانور پر ہے جس کی جان اللہ کا نام لیے بغیر زائل ہو گئی ہو۔ ایسے جانور کی تین حالتیں ہو سکتی ہیں۔
(۱) اسے ذبح نہ کیا گیا ہو بلکہ کسی دوسرے طریقے سے اس کی موت واقع ہوئی ہو۔
(۲) اسے ذبح کیا گیا ہو لیکن غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔
(۳) یا اس پر اللہ یا غیر اللہ، کسی کا نام نہ لیا گیا ہو۔ پہلی دونوں شکلوں میں بلا اختلاف اس کا گوشت حرام ہے۔ تیسری قسم مختلف فیہ ہے اور اس میں تین قول ملتے ہیں۔
(۱) وہ مطلق حرام ہے جیسا کہ آیت وَلاَ تَاْکُلُوْا … الخ کے عموم سے واضح ہوتا ہے جو تینوں شکلوں کو شامل ہے۔
(۲) مطلق حلال ہے۔ یہ امام شافعیؒ کا مسلک ہے ان کے نزدیک متروک التسمیہ ذبیحہ ہر صورت میں حلال ہے۔ تسمیہ کا ترک خواہ عمداً ہوا ہو یا نسیاناً، بشرطیکہ اسے اہل الذبح نے ذبح کیا ہو۔ امام موصوف آیت کے عموم کو المیتہ اور اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ والی آیات کے ساتھ خصوص میں تبدیل کرکے اس کی دلالت کو صرف اوّل الذکر دو شکلوں تک محدود کرتے ہیں۔ تیسری شکل کے جواز میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہر مومن کے دل میں ہر حالت میں اللہ کا ذکر موجود ہے۔ اس پر عدم ذکر کی کبھی حالت طاری نہیں ہوتی۔ اس لیے اس کا ذبیحہ بھی ہر صورت میں حلال ہے۔ اس کی حلّت اس وقت حرمت میں تبدیل ہو گی جب کہ ذبیحہ پر غیر اللہ کا نام لے لیا گیا ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ذبیحہ بغیر تسمیہ کو فسق فرمایا ہے۔ بہرحال اہلِ اسلام کا اتفاق ہے کہ جس جانور کو مسلمان نے ذبح کیا ہو اور اس پر ذکر اللہ ترک کر دیا ہو اس کا گوشت کھانا فِسق کے حکم میں نہیں ہے۔ کیونکہ آدمی کسی اجتہادی حکم کی خلاف ورزی سے فسق کا مرتکب نہیں ہوتا۔ خلاصہ یہ کہ بِمَا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ کا اطلاق صرف پہلی دونوں شکلوں پر ہو گا۔ اس کی تائید اگلی آیت وَاِنَّ الشَّیَاطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰی اَوْلِیَآئِ ہِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ (شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں) سے بھی ہوتی ہے۔ کیونکہ اولیاء الشیاطین کا مجادلہ صرف دو مسئلوں پر تھا۔ پہلا مردار کے مسئلے پر تھا جس کے بارے میں وہ مسلمانوں پر یہ اعتراض کرتے تھے کہ جسے باز اور کُتا مارے اسے تم کھا لیتے ہو اور جسے اللہ مارے اسے نہیں کھاتے ہو۔ اور دوسرا جھگڑا غیر اللہ … یعنی بتوں وغیرہ … کے نام پر ذبح کرنے کے بارے میں کرتے تھے۔ اور مسلمانوں سے کہتے تھے تمھارا بھی خدا ہے اور ہمارے بھی خدا ہیں۔ تم اپنے خدا کے نام پر جو ذبح کرتے ہو ہم اسے کھا لیتے ہیں لیکن جسے ہم اپنے خدائوں کے نام پر ذبح کرتے ہیں تم اسے کیوںنہیں کھاتے ہو۔ چونکہ انھی دونوں مسئلوں پر ان کا مجادلہ تھا اس لیے وَلاَ تَاْکُلُوْا کی نہی انھی دونوں صورتوں کے لیے مخصوص ہے۔ نیز آیت کے اختتام میں اللہ کا ارشاد ہے: وان اطعتموہم انکم لمشرکون (اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کر لی تو یقیناً تم مشرک ہو گئے) اس ارشاد کی رو سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ اطاعت ِکفارو مشرکین متروک التسمیہ طعام کے کھا لینے سے نہیں ہو گی بلکہ مردار کو مباح ٹھہرانے اور بتوں پر جانوروں کی قربانی دینے اور ذبح کرنے سے ہو گی۔
(۳) تیسرا قول یہ ہے کہ اگر ذبح کرنے والے نے اللہ کا نام عمداً ترک کیا ہے تو اس کا ذبیحہ حرام ہے اور اگر اس سے سہواً ترک ہوا ہے تو ذبیحہ حلال ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کا یہی قول ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ اگرچہ آیت وَلاَ تَاْکُلُوْا میں تینوں شکلیں داخل ہیں اور تینوں کی حرمت ثابت ہوتی ہے لیکن سہواً متروک التسمیہ ذبیحہ اس آیت کے حکم سے دو وجوہ کی بنا پر خارج ہے۔ اولاً اس لیے کہ اِنَّہٗ لَفِسْقٌکی ضمیر لم یذکر اسم اللہ کی جانب راجع ہے۔ کیونکہ یہ قریب ہے اور ضمیر کو قریبی مرجع کی جانب لوٹانا اولیٰ ہے۔ پس بلاشبہ تسمیہ کو قصداً نظرانداز کرنے والا فاسق ہے۔ لیکن جو سہو کا شکار ہو گیا ہو وہ غیر مکلف ہے اور خارج از حکم ہے۔ اس لیے آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ جس جانور پر عمداً اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھائو اور ناسی خود بخود حکم سے مستثنیٰ قرار پائے گا۔ دوسری دلیل امام صاحب یہ دیتے ہیں کہ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے دریافت کیا کہ اگر جانور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا بھول جائے تو اس کے گوشت کا کیا حکم ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اس کا گوشت کھا لو۔ اللہ کا نام ہر مومن کے دل میں موجود ہے۔
اُوْتُو الْکِتَابَ میں یہود اور نصاریٰ دونوں شامل ہیں۔ اس لیے بحکم آیت وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُو الْکِتَابَ یہود و نصاریٰ کے ذبائح ہمارے لیے حلال ہیں خواہ انھوں نے غیر اللہ کا نام لے کر ذبح کیے ہوں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اگر نصاریٰ مسیح کے نام پر جانور ذبح کریں تو اس کا گوشت کھانا ہمارے لیے حلال نہیں ہے۔ لیکن علما کی اکثریت یہ رائے رکھتی ہے کہ مسیح کے نام پر بھی ذبح کیا ہوا جانور حلال ہے۱؎۔ ایک بار امام شعبی اور عطا سے دریافت کیا گیا کہ اگر نصاریٰ مسیح کے نام پر ذبح کریں تو کیا اس جانور کا گوشت مسلمانوں کے لیے حلال ہے؟ تو ان دونوں نے جواب دیا کہ نصاریٰ کا ذبیحہ ہمارے لیے حلال ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کے ذبائح کو ہمارے لیے جب حلال کیا ہے تو اس کے علم میں تھا کہ نصاریٰ بوقت ذبح کس کا نام لیں گے۔
تحقیق مسئلہ از مصنّف
علمائے عراق کے یہ دونوں فتوے کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔ ان سے پہلے فضیلۃ الشیخ حسنین محمد مخلوف صاحب اور ان سے بھی پہلے مفتی محمد عبدہٗ اور علاّمہ رشید رضا تسمیہ اور تذکیہ کے بغیر نصاریٰ کے ذبیحوں کو حلال قرار دے چکے ہیں۔ اس معاملے میں ان سب حضرات کے دلائل قریب قریب یکساں ہیں۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم ان دلائل پر کوئی بحث کریں، ہمیں دیکھنا چاہیے کہ یہ مسئلہ بجائے خود کیا ہے۔
حیوانی غذائوں کے متعلق قرآن کی عائد کردہ قیود
قرآن مجید میں گوشت کے استعمال پر جو حدود و قیود عائد کی گئی ہیں اور پھر احادیث صحیحہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جو تشریحات فرمائی ہیں وہ حسب ذیل ہیں:-
وہ اشیا جن کا کھانا حرام ہے
اوّلین قید، جسے قرآن میں چار جگہ صاف صاف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے یہ ہے کہ مردار، خون، سؤر کا گوشت اور وہ جانور جسے اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو حرام ہے۔ یہ حکم مکّی سورتوں میں سے سورۂ انعام (آیت ۱۴۵) اور سورۂ نحل (آیت ۱۱۵) میں وارد ہوا ہے اور مدنی سورتوں میں سے سورۂ بقرہ (آیت ۱۷۳) اور سورۂ مائدہ (آیت ۳) میں اس کا اعادہ کیا گیا ہے۔
سورۂ مائدہ جو آخری احکامی سورہ ہے، اس پر دو باتوں کا مزید اضافہ کرتی ہے۔ اوّل یہ ہے کہ صرف وہی مردار حرام نہیں ہے جو طبعی موت مرا ہو بلکہ وہ جانور بھی حرام ہے جو گلا گُھٹ کر، یا چوٹ لگ کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو۔ دوم یہ کہ جو جانور مشرکین کی قربانِ گاہوں پر ذبح کیا جائے وہ بھی حرمت کے حکم میں مَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ کے ساتھ شریک ہے خواہ اس پر غیر اللہ کا نام لیا جائے یا نہ لیا جائے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حرام اشیا میں گدھے اور کچلیوں والے درندوں اور پنجوں والے شکاری پرندوں کو بھی شامل فرمایا ہے جیسا کہ بکثرت احادیث ِصحیحہ سے ثابت ہے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو نیل الاوطار ، کتاب الاطعمہ و الصید و الذبائح)
ذبح کے لیے تذکیہ کی شرط
دوسری قید قرآن مجید یہ بیان کرتا ہے کہ صرف وہی جانور حلال ہے جس کا تذکیہ کیا گیا ہو۔ سورہ مائدہ میں ارشاد ہوا ہے:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّيَۃُ وَالنَّطِيْحَۃُ وَمَآ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ۰ۣ المائدہ 3:5
حرام کیا گیا تم پر مرا ہوا جانور …… اور گلا گھونٹا ہوا اور چوٹ کھایا ہوا اور گرا ہوا اور ٹکر کھایا ہوا اور جس کو درندے نے پھاڑا ہو، بجز اس کے جس کا تم نے تذکیہ کیا ہو۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس جانور کی موت تذکیہ سے واقع ہو صرف وہی حرمت کے حکم سے مستثنیٰ ہے، باقی تما م وہ صورتیں جن میں تذکیہ کے بغیر موت واقع ہو جائے حرمت کا حکم ان سب پر جاری ہو گا۔ تذکیہ کے مفہوم کی کوئی تشریح قرآن میں نہیں کی گئی ہے اور نہ لغت اس کی صورت متعیّن کرنے میں کچھ زیادہ مدد کرتی ہے۔ اس لئے لامحالہ اس کے معنی متعیّن کرنے کے لیے ہم کو سنّت کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ سنّت میں اس کی دو شکلیں بیان کی گئی ہیں۔
ایک شکل یہ ہے کہ جانور ہمارے قابو میں نہیں ہے، مثلاً جنگلی جانور ہے جو بھاگ رہا ہے یا اُڑ رہا ہے یا وہ ہمارے قابو میں تو ہے مگر کسی وجہ سے ہم اس کو باقاعدہ ذبح کرنے کا موقع نہیں پاتے۔ اس صورت میں جانور کا تذکیہ یہ ہے کہ ہم کسی تیز چیز سے اس کے جسم کو اس طرح زخمی کر دیں کہ خون بہ جائے اور جانور کی موت ہمارے پیدا کردہ زخم کی وجہ سے خون بہنے کی بدولت واقع ہو۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس صورت کا حکم ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں۔ اُمْرُرِ الدَّمَ بِمَا شِئْتَ جس چیز سے چاہو خون بہا دو۔ (ابو دائود۔ نسائی)
دوسری شکل یہ ہے کہ جانور ہمارے قابو میں ہے اور ہم اس کو اپنی مرضی کے مطابق ذبح کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں باقاعدہ تذکیہ کرنا ضروری ہے اور اس کا طریقہ سنّت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اونٹ اور اس کے مانند جانور کو نحر کیا جائے اور گائے بکری یا اس کے مانند جانوروں کو ذبح۔ نحر سے مراد یہ ہے کہ جانور کے حلقوم میں نیزے جیسی تیز چیز زور سے چبھوئی جائے تاکہ اس سے خون کا فوارہ چھوٹے اور خون بہ بہ کر جانور بالآخر بے دم ہو کر گر جائے۔ اونٹ ذبح کرنے کا یہ طریقہ عرب میں معروف تھا، قرآن میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ (فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ) اور سنّتِ نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طریقے سے اونٹ ذبح کیا کرتے تھے۔ رہا ذبح تو اس کے متعلق احادیث میں حسب ذیل احکام وارد ہوئے ہیں:
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بُدَیْلَ بْنَ وَرْقَائَ الْخُزَاعِیَّ عَلٰی جَمَلٍ اَوْرَقٍ فِیْ فِجَاجِ مِنٰی اَلاَ اِنَّ الزَّکَاۃَ فِی الْحَلْقِ وَاللَّبَّۃِ وَلاَ تَعْجِلُوا الْاَنْفُسَ اَنْ تُزْھَقَ۔ (دارقطنی)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر بدیل بن ورقاء خزاعی کو ایک خاکستری رنگ کے اونٹ پر بھیجا تاکہ منیٰ کے پہاڑی راستوں پر یہ اعلان کر دیں کہ ذبح کی جگہ حلق اور لبلبہ کے درمیان ہے ۱؎ اور ذبیحہ کی جان جلدی سے نہ نکال دو۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الذَّبِیْحَۃِ اَنْ تُفْرَسَ (طبرانی)
ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ ذبح کرتے ہوئے آدمی نُخاع تک کاٹ ڈالے۔
اسی مضمون کی روایت امام محمد نے سعید بن المسیّب سے بھی مرسلاً روایت کی ہے جس کے الفاظ ہیں اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی اَنْ تُنْخَعَ الشَّاۃُ اِذَا ذُبِحَتْ ۲؎ ان احادیث کی بِنا پر اور عہد نبوی و عہد ِصحابہ کے معمول بہ عمل کی شہادتوں پر حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک ذبح کے لیے حلقوم اور مَری (غذا کی نالی) کو اور مالکیہ کے نزدیک حلقوم اور ودجین (گردن کی رگوں) کو کاٹنا چاہیے۔ (الفقہ علی المذاہب الاربعہ۔ ج ۱- ص ۷۲۵ تا ۷۳۰)
اضطراری اور اختیاری ذکات کی یہ تینوں صورتیں جو قرآن کے حکم کی تشریح کرتے ہوئے سنّت میں بتائی گئی ہیں اس امر میں مشترک ہیں کہ ان میں جانور کی موت یک لخت واقع نہیں ہوتی بلکہ اس کے دماغ اور جسم کا تعلق آخری سانس تک باقی رہتا ہے۔ تڑپنے اور پھڑپھڑانے سے اس کے ہر حصّہ جسم کا خون کھچ کر باہر آ جاتا ہے اور صرف سَیلان خون ہی اس کی موت کا موجب ہوتا ہے۔ اب چونکہ قرآن نے اپنے حکم کی خود کوئی تشریح نہیں کی ہے، اور صاحب ِقرآن سے اس کی یہی تشریح ثابت ہے، اس لیے ماننا پڑے گا کہ اِلاَّ مَا ذَکَّیْتُمْ سے یہی ذکات مراد ہے اور جس جانور کو یہ شرطِ ذکات پوری کیے بغیر ہلاک کیا گیا ہو وہ حلال نہیں ہے۔
ان صورتوں کے علاوہ قرآن مجید میں تذکیہ کی ایک اور شکل بھی بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی جانور کو سدھائے ہوئے شکاری درندے نے مارا ہو بشرطیکہ یہ سدھایا ہوا درندہ اپنے مالک کے لیے شکار کو روک رکھے۔ اس صورت میں اگر جانور درندے کے پھاڑنے سے مر بھی جائے تو وہ مذ کی شمار ہوگا۔
وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ تُعَلِّمُوْنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللہُ۰ۡفَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ المائدہ5:4
اور جن شکاری جانوروں کو تم سدھاتے ہو جنھیں تم شکار کی وہ تعلیم دیتے ہو جو اﷲ نے تمھیں سکھائی ہے وہ جس جانور کو تمھارے لیے روک رکھیں اس کا گوشت کھائو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم کی یہ تشریح فرماتے ہیں:
فَاِنْ اَمْسَکَ عَلَیْکَ فَاَدْرَکْتَہٗ حَیًّا فَاذْبَحْہُ وَاِنْ اَدْرَکْتَہٗ قَدْ قَتَلَ وَلَمْ یَاْکُلْ مِنْہُ فَکُلْہُ وَاِنْ اَکَلَ فَلاَ تَاْکُلْ۔ (بخاری۔ مسلم)
اگر وہ جانور کو تیرے لیے روک کر رکھے اور تو اسے زندہ پا لے تو ذبح کر۔ اور اگر جانور تجھے اس حالت میں ملے کہ تیرے کُتّے نے اسے ہلاک کر دیا ہو لیکن اس میں سے کچھ کھایا نہ ہو تو اسے کھا لے۔ لیکن اگر کُتّے نے کھایا ہو تو پھر اسے نہ کھا۔
وَاِنْ اَکَلَ مِنْہُ فَلاَ تَاْکُلْ فَاِنَّمَا اَمْسَکَ عَلٰی نَفْسِہٖ (بخاری، مسلم، احمد)
اگر کتے نے اس میں سے کچھ کھا لیا ہو تو اس جانور کو نہ کھا، کیونکہ اس نے وہ شکار اپنے لیے پکڑا تھا۔
وَمَا صَدْتَّ بِکَلْبِکَ غَیْر مُعَلَّمٍ فَاَدْرَکْتَ ذَکَاتَہ فَکُلْ (بخاری و مسلم)
اور جو شکار تو نے بے سدھے کُتّے سے کیا ہو اسے اگر زندہ پا کر تو نے ذبح کر لیا ہو تو اسے کھا لے۔
اس سے معلوم ہوا کہ سدھائے ہوئے شکاری درندے کا کسی جانور کو مالک کے لیے مارنا قرآن کی رو سے شرطِ ذکات پوری کر دیتا ہے اس لیے یہ مَا اَکَلَ السَّبُعُ کی حرمت سے خارج ہو کر اِلاَّ مَاذَکَّیْتُمْ کے حکم استثنا میں آ جاتا ہے لیکن قرآن یہ حکم صرف سدھائے ہوئے شکاری درندے ہی کے لیے بیان کرتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم سے اس درندے کو بھی خارج کر دیتے ہیں جو پالا ہوا ہو مگر شکار کے لیے سدھا ہوا نہ ہو‘ لہٰذا اس پر کسی دوسری چیز کو قیاس کرکے اس کے چیرے پھاڑے ہوئے جانور کے جواز کا پہلو نہیں نکالا جا سکتا۔ حدیث کے یہ الفاظ کہ بے سدھے کُتّے کا مارا ہوا شکار اگر تو نے زندہ پا کر ذبح کر لیا ہو تو اسے کھا لے، اس امر کا قطعی فیصلہ کر دیتے ہیں کہ تذکیہ کے سوا جس دوسری صورت سے بھی کوئی جانور مرا ہو وہ مردار کے حکم میں ہے۔
ذبیحہ کی حلّت کے لیے تسمیہ کی شرط
تیسری قید قرآن میں یہ لگائی گئی ہے کہ جانور کو قتل کرنے کے وقت اس پر اللہ کا نام لیا جائے۔ اس حکم کو متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ ایجابی طور پر فرمایا گیا-
فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰيٰتِہٖ مُؤْمِنِيْنَo الانعام118:6
پس کھائو اس جانور کا گوشت جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اگر تم اس کی آیات پر ایمان لانے والے ہو۔
سلبی طریقے سے فرمایا گیا:
وَلَاتَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ۰ۭ الانعام 121:6
اور نہ کھائو اس جانور کا گوشت جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یقیناً یہ (یعنی اللہ کا نام لیے بغیر ذبح کرنا یا ایسے جانور کا گوشت کھانا) فسق ہے۔
سدھائے ہوئے درندوں کے ذریعے سے شکار کے معاملے میں بھی ہدایت فرما دی گئی:
فَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَيْہِ۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ۰ۭ اِنَّ اللہَ سَرِيْعُ الْحِسَابِo المائدہ5:4
پس کھائو اس جانور کا گوشت جسے وہ تمھارے لیے روک رکھیں اور اس پر اللہ کا نام ۱؎ لو اور اللہ سے ڈرو وہ جلدی حساب لینے والا ہے۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن بہت سے مقامات پر لفظ ذبح استعمال ہی نہیں کرتا بلکہ اس کی جگہ ’’جانور پر اللہ کا نام لینے‘‘ کے الفاظ بطور اصطلاح استعمال کرتا ہے-
لِّيَشْہَدُوْا مَنَافِعَ لَہُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ۰ۚ الحج28:22
تاکہ وہ اپنے لیے فائدے دیکھیں اور چند مخصوص دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انھیں بخشے ہیں (یعنی ان کو ذبح کریں)
وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ۰ۭ
الحج 34:22
ہر اُمت کے لیے ہم نے ایک قربانی مقرر کی ہے تاکہ وہ اللہ کا نام لیں ان مویشی جانوروں پر جو اس نے ان کو بخشے ہیں (یعنی ان کو ذبح کریں)
فَاذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَيْہَا صَوَاۗفَّ۰ۚ الحج36:22
پس ان اونٹوں پر اللہ کا نام لوکھڑا کرکے (یعنی انھیں نحر کرو)
فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ الانعام118:6
پس کھائو اس میں سے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ (یعنی جسے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو)
وَلَاتَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ الانعام121:6
اور نہ کھائو اس میں سے جس پر نہیں لیا گیا اللہ کا نام (یعنی جسے اللہ کا نام لیے بغیر ذبح کیا گیا ہو)
ذبح کے لیے تسمیہ کی اصطلاح کا یہ مسلسل اور پے در پے استعمال اس امر کی صریح دلیل ہے کہ قرآن کی نگاہ میں ذبیحہ اور تسمیہ ہم معنی ہیں، کسی ذبیحہ حلال کا تصوّر تسمیہ کے بغیر نہیں کیا جا سکتا اور تسمیہ ذبیحہ حلال کی عین حقیقت میں شامل ہے۔
اب دیکھیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو روایات صحیح اور قوی سندوں کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں وہ ذبح کے لیے تسمیہ کی شرعی حیثیت کیا ظاہر کرتی ہیں۔ حاتم طائی کے صاحب زادے عدی بن حاتم وہ شخص ہیں جنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اکثر شکار کے مسائل پوچھے ہیں۔ ان کو حضورؐ نے جو احکام اس سلسلے میں بتائے وہ یہ ہیں۔
اِذَا اَرْسَلْتَ کَلْبَکَ فَاذْکُرِ اسْمَ اللّٰہَ فَاِنْ اَمْسَکَ عَلَیْکَ فَاَدْرَکْتَہٗ حَیًّا فَاذْبَحْہُ وَاِنْ اَدْرَکْتَہٗ قَدْ قَتَلَ وَلَمْ یَاْکُلْ مِنْہُ فَکُلُہُ … وَاِذَا رَمَیْتَ سَہْمَکَ فَاذْکُرِ اسْمَ اللّٰہِ (بخاری و مسلم)
جب تم شکار پر اپنا کتا چھوڑنے لگو تو اللہ کا نام لے لو، پھر اگر کتا اس جانور کو تمھارے لیے روک رکھے اور تم اسے زندہ پا لو تو ذبح کر لیا کرو اور اگر تم اسے اس حال میں پائو کہ کتے نے اسے مار ڈالا ہے مگر اس میں سے کچھ کھایا نہیں ہے تو تم اسے کھا سکتے ہو … اور شکار پر تیر چھوڑتے وقت بھی اللہ کا نام لے لو۔
وَمَا صَدْتَّ بِقَوْسِکَ فَذَکَرْتَ اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ فَکُلْ وَمَا صَدْتَّ بِکَلْبِکَ الْمُعَلَّمِ فَذَکَرْتَ اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ فَکُلْ۔
جس جانور کا شکار تم نے تیر کمان سے کیا ہو اور اس پر اللہ کا نام لے لیا ہو اسے کھا لو اور جس کا شکار تم نے سدھے ہوئے کُتّے کے ذریعے سے کیا ہو اور اس پر اللہ کا نام لے لیا ہو اسے بھی کھا لو۔
اُمْرُرِ الدَّمَ بِمَ شِئْتَ وَاذْکُرِ اسْمَ اللّٰہِ (ابو دائود، نسائی)
خون بہا دو جس چیز سے چاہو اور اللہ کا نام لے لو۔
مَا عَلَّمْتَ مِنْ کَلْبٍ اَوْ بَازٍ ثُمَّ اَرْسَلْتَہٗ وَذَکَرْتَ اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ فَکُلْ مِمَّا اَمْسَکَ عَلَیْکَ۔ (ابو دائود۔ احمد)
جو کتا یا باز تمھارا سدھایا ہوا ہو پھر تم اسے شکار پر چھوڑ و اور چھوڑتے وقت اللہ کا نام لے لو تو جس جانور کو وہ تمھارے لیے روک رکھے اس کا گوشت تم کھا سکتے ہو۔
عدی بنِ حاتم کہتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اگر میں خدا کا نام لے کر اپنا کُتا چھوڑوں، پھر جب شکار کے پاس پہنچوں تو وہاں ایک اور کُتا بھی کھڑا نظر آئے اور پتہ نہ چل سکے کہ دونوں میں سے کس نے یہ شکار مارا ہے تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ فرمایا:
فَلَا تَاْکُلْ فَاِنَّمَا سَمَّیْتَ عَلٰی کَلْبِکَ وَلَمْ تُسَمِّ عَلٰی غَیْرِہٖ۔ (بخاری، مسلم، احمد)
اسے نہ کھائو کیونکہ تم نے اﷲ کا نام اپنے کُتّے پر لیا تھا، دوسرے کُتّے پر تو نہیں لیا تھا۔
خدا اور رسول ؐ کے ان صاف اور قطعی احکام کے بعد اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ شریعت میں ذبیحہ کی حلّت کے لیے تسمیہ شرط ہے اور جس جانور کو اللہ کا نام لیے بغیر مارا گیا ہو اس کا کھانا حرام ہے۔ اگر ایسی صریح آیات اور احادیث سے بھی کوئی حکم ثابت نہ ہوتا تو پھر ہمیں بتایا جائے کہ آخر کسی حکم کے ثبوت کے لیے کس قسم کی نصّ درکار ہے؟
تسمیہ کے بارے میں فقہا کے مسالک
مذاہب فقہ میں سے حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ اس پر متفق ہیں کہ جس جانور پر قصداً خدا کا نام لینے سے احتراز کیا گیا ہو اس کا کھانا حرام ہے، البتہ اگر بھولے سے تسمیہ چھوٹ گیا ہو تو مضائقہ نہیں ہے۔ حضرت علیؓ، ابن عباسؓ، سعید بن المسیّبؓ، زہری، عطاء، طائوس، مجاہد، حسن بصری ، ابومالک ، عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ، جعفر بن محمد اور رَبِیْعَہ بن ابی عبدالرحمان کا بھی یہی مسلک منقول ہے۔
دوسرا گروہ کہتا ہے کہ تسمیہ عمداً چھوٹا ہو یا بھولے سے ، دونوں صورتوں میں ذبیحہ حرام ہو جائے گا۔ ابنِ عمر، نافع، شعبی اور محمد بن سیرین کی یہی رائے ہے اور اسی کو ابوثَور اور دائود ظاہری نے اختیار کیا ہے۔ ابراہیم نخعی سہواً چھوٹ جانے پر جانور کو مکروہ تحریمی سمجھتے ہیں۔
امام شافعیؒ کا مسلک یہ ہے کہ ذبیحہ کی حلّت کے لیے تسمیہ سرے سے شرط ہی نہیں ہے۔ ذبح کے وقت خدا کا نام لینا ایک مشروع اور مسنون طریقہ تو ضرور ہے، تاہم اگر نہ لیا جائے خواہ قصداً یا سہواً، دونوں صورتوں میں ذبیحہ حلال ہو گا۔ صحابہ میں سے حضرت ابوہریرہؓ اور مجتہدین میں سے امام اَوزاعی کے سوا کسی کا یہ مسلک نہ تھا۔ اگرچہ بعض روایات میں ابن عباس، عطاء بن ابی رباح، امام احمد اور امام مالک کی طرف بھی یہ رائے منسوب کی گئی ہے لیکن ان کا ثابت شدہ مسلک اس کے خلاف ہے۔
عدم وجوب تسمیہ کے بارے میں شافعیہ کے دلائل اور ان کی کمزوری
اس رائے کے حق میں شافعیہ کی پہلی دلیل یہ ہے کہ آیت لَا تَاْکُلُوْا مِمَّالَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ میں وائو کو عطف کے معنی میں لینا بلاغت کے خلاف ہے کیونکہ آیت کا پہلا ٹکڑا جملہ فعلیہ انشائیہ ہے اور دوسرا اسمیہ خبریہ۔ ایسے دو مختلف جملوں کے درمیان عطف درست نہیں ہو سکتا۔ اس دلیل سے وہ اس وائو کو حالیہ قرار دے کر معنی یہ کرتے ہیں کہ ’’نہ کھائو اس جانور میں سے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس حال میں کہ وہ فسق ہو۔‘‘ پھر اس فسق کی تشریح وہ سورۂ انعام کی آیت ۱۴۵ سے کرتے ہیں جس میں ارشاد ہوا ہے کہ اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ (یا وہ فسق ہو کہ اللہ کے سوا دوسرے کا نام اس پر لیا گیا ہو) اس طرح وہ آیت کا مطلب یہ بنا دیتے ہیں کہ صرف غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا گوشت ہی حرام ہے۔ اللہ کا نام نہ لینے سے کوئی حرمت واقع نہیں ہوتی۔
لیکن یہ ایک بہت ہی کمزور تاویل ہے جس پر متعدد قوی اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔
اولاً، آیت کے متبادر معنی ہرگز وہ نہیں ہیں جو اس تاویل سے بنائے گئے ہیں۔ آیت کو پڑھ کر اس معنی کی طرف ذہن خودبخود منتقل نہیںہوتا، البتہ اگر آدمی پہلے یہ ارادہ کر لے کہ تسمیہ کے بغیر ذبح کیے ہوئے جانور کو حلال قرار دینا ہے تب بہ تکلف اس آیت کے یہ معنی بنا سکتا ہے۔
ثانیاً، جملہ فعلیہ انشائیہ پر جملہ اسمیہ خبریہ کا عطف اگر بلاغت کے خلاف ہے تو حالیہ فقرے میں اِنَّ اور لامِ تاکید کا استعمال ہی کون سا بلاغت کے مطابق ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کو وہی بات کہنی ہوتی جو شوافع کہتے ہیں تو وَہُوَ فِسْق (اس حال میں کہ وہ فسق ہو) فرماتا، نہ کہ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ (اس حال میں کہ یقیناً وہ ضرور فسق ہو)
ثالثاً،استدلال کے جوش میں جملہ فعلیہ انشائیہ پر خبر یہ کے عطف کو بلاغت کے خلاف کہتے ہوئے ان حضرات کو پوری آیت بھی یاد نہ رہی۔ پوری آیت یہ ہے:
وَلَاتَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ۰ۭ وَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـــِٕــہِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ۰ۚ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَo اس آیت میں اگر وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ کے واو کو حالیہ مان بھی لیا جائے تو جملہ فعلیہ انشائیہ پر اسمیہ خبریہ کے عطف سے پیچھا نہیں چھوٹتا، کیونکہ اس کے بعد کا فقرہ لا محالہ خبر یہ ہے جسے کسی طرح بھی حالیہ نہیں بنایا جا سکتا، اور اس کا عطف لا محالہ جملہ انشائیہ پر پڑ رہا ہے۔ پھر قرآن میں اس طرزِ کلام کی یہی ایک مثال نہیں ہے۔ بکثرت مقامات پر اسی طرح فعلیہ انشائیہ پر اسمیہ خبریہ کو معطوف کیا گیا ہے مثلاً فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا۰ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَo النور24:4 وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ۰ۭ وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ۰ۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا۰ۭ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكُمْ۰ۭ البقرہ221:2 اب یا تو اپنے بلاغت کے اصولوں پر نظرثانی کر لیجیے یا پھر کھل کر کہہ دیجیے کہ قرآن کا کلام بلاغت کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ ہر جگہ جہاں قرآن میں جملہ فعلیہ انشائیہ اور جملہ اسمیہ خبریہ کے درمیان واو ہے وہاں عاطفہ کو حالیہ بنانا ممکن نہیں ہے۔
رابعاً اس تاویل سے آیت کے معنی یہ بنتے ہیں کہ نہ کھائو اس جانور میں سے جس پر نہ لیا گیا ہو اللہ کا نام اس حال میں کہ یقیناً وہ ضرور فسق ہو کہ لیا گیا ہو اس پر غیر اللہ کا نام۔ سوال یہ ہے کہ اگر اصل مقصود صرف اس جانور کو حرام کرنا تھا جسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو تو کیا آیت کا پہلا حصّہ بالکل مہمل، فضول اور لا یعنی نہیں ہو گیا؟ اس صورت میں یہ کہنے کے تو سرے سے کوئی معنی ہی نہیں رہتے کہ جس جانور پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس میں سے نہ کھائو۔ اس کے بجائے مدعا صرف یہ کہنے سے حاصل ہو جاتا ہے کہ ’’نہ کھائو اس جانور میں سے جس پر لیا گیا ہو اللہ کے سوا کسی اور کا نام‘‘ … کیا کوئی صاحب عقل آدمی اس بات کی کوئی معقول توجیہہ کر سکتا ہے کہ آخر یہاں لَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کہنے کی حاجت ہی کیا تھی؟
خامسا ً، اگر واو کو حالیہ بھی مان لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ کی تفسیر ایک دور دراز کی آیت کے الفاظ اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ سے کریں۔ آخر کیوں نہ ہم اس آیت کے لفظ فسق کو اسی معنی میں لیں جو ازروئے لغت اس کے معنی ہیں، یعنی نافرمانی اور خروج ازطاعت۔ اس صورت میں آیت کا سیدھا سادھا مفہوم یہ ہو گا کہ نہ کھائو اس جانور کا گوشت جس کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس حالت میں جب کہ وہ فسق ہو (یعنی جب کہ جان بوجھ کر اللہ کا نام لینے سے احتراز کیا گیا ہو، اس لیے کہ فسق کا اطلاق حکم کی دانستہ خلاف ورزی پر ہی ہوتا ہے نہ کہ سہواً چھوٹ جانے پر) یہ تاویل شافعیہ کی تاویل کے مقابلے میں زیادہ قابلِ ترجیح ہے کیونکہ ایک طرف تو یہ ان تمام آیات اور احادیث سے مطابقت رکھتی ہے جو اس مسئلے کے متعلق وارد ہوئی ہیں اور دوسری طرف یہ تاویل اختیار کرنے سے آیت کا ایک پورا فقرہ (وَلَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ ) بے معنی ہو نے سے بچ جاتا ہے۔
دوسری دلیل حضرات شافعیہ یہ دیتے ہیں کہ ایک گروہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا تھا کہ کچھ لوگ (جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے) باہر سے ہماری بستی میں گوشت بیچنے آتے ہیں۔ ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ وہ جانور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیتے ہیں یا نہیں۔ کیا ہم یہ گوشت کھا سکتے ہیں؟ حضورؐ نے اس کے جواب میں فرمایا: سَمُّوْا عَلَیْہِ اَنْتُمْ وَکُلُوْا۔تم خود ہی اس پر اللہ کا نام لے لیا کرو اور کھائو۔ (یہ روایت بخاری، ابودائود، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے) اس سے شافعیہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ تسمیہ واجب نہیں۔ کیونکہ اگر یہ واجب ہوتا تو حضورؐ شک کی حالت میں اس گوشت کے کھانے کی اجازت نہ دیتے۔ حالانکہ دراصل یہ حدیث ان کے مدعا کے خلاف پڑتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تسمیہ کا واجب ہونا عہد نبوی میں مسلمانوں کے درمیان ایک معلوم و معروف مسئلہ تھا۔ اسی وجہ سے تو لوگ اس گوشت کے متعلق پوچھنے آئے جو نئے نئے مسلمان ہونے والے دیہاتی کاٹ کر لاتے تھے۔ ورنہ یہ سوال پیدا ہی کیوں ہوتا اور پوچھنے کا تکلف ہی کیوں کیا جاتا۔ پھر ان کے سوال کا جو جواب حضورؐ نے دیا وہ بھی اس خیال کی توثیق کرنے والا تھا۔ اگر ان لوگوں کا یہ خیال صحیح نہ ہوتا اور گوشت کے حلال یا حرام ہونے میں تسمیہ اور عدمِ تسمیہ کا درحقیقت کوئی اثر نہ ہوتا تو حضورؐ صاف صاف ان سے یہی فرما دیتے کہ ذبیحہ کی حلّت کے لیے تسمیہ شرط نہیں ہے، تم لوگ ہر قسم کا گوشت کھا لیا کرو خواہ ذبح کے وقت خدا کا نام لیا گیا ہو یا نہ لیا گیا ہو۔ لیکن اس کے بجائے حضورؐ نے فرمایا تو یہ کہ تم خود خدا کا نام لے کر کھا لیا کرو۔ اس کا معقول مطلب جو بہ ادنیٰ تامّل آدمی کی سمجھ میں آ جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اوّل تو مسلمان کے ذبح کیے ہوئے گوشت کے متعلق تمھیں یہی سمجھنا چاہیے کہ وہ قاعدے کے مطابق ٹھیک ذبح کیا گیا ہو گا اور اطمینان کے ساتھ اسے کھا لینا چاہیے، لیکن اگر تمھارے دل میں کوئی شک رہ ہی جاتا ہے تو رفعِ وسواس کے لیے خود بسم اللہ کہہ لیا کرو۔ ظاہر ہے کہ مسلمان کے ہر ذبیحے کے متعلق جو شہروں اور دیہات کی دکانوں پر ملتا ہے، آدمی کہاں یہ تحقیق کرتا پھر سکتا ہے، اور شریعت کب اس کو اس تحقیق کا مکلف کرتی ہے کہ اس نے حلال جانور کاٹا ہے یا حرام، تذکیہ کیا ہے یا نہیں، اور وہ نیا مسلمان ہے یا پرانا، تمام قواعد شریعہ سے واقف ہے یا نہیں۔ بادی النظر میں آدمی کو مسلمان کی ہر چیز کو صحیح ہی سمجھنا چاہیے۔ الایہ کہ اس کے غلط ہونے کا کوئی ثبوت سامنے آ جائے۔ ثبوت کے بغیر جو شک دل میں پیدا ہوا اُسے وجہ اجتناب بنانے کے بجائے اس طرح کے شکوک کو بسم اللہ یا استغفر اللہ کہہ کر دفع کر دینا چاہیے۔ یہ تعلیم ہے جو اس حدیث سے ملتی ہے۔ تسمیہ کے عدم وجوب کی کوئی دلیل اس میں نہیں ہے۔
ایسا ہی کمزور استدلال وہ ایک تابعی بزرگ کی اس مرسل روایت سے کرتے ہیں جسے ابودائود نے مراسیل میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذَبِیْحَۃُ الْمُسْلِمِ حَلَالٌ ذَکَرَ اسْمَ اللّٰہِ اَوَلَمْ یَذْکُرْ اِنَّہٗ اِنْ ذَکَرَ لَمْ یَذْکُرُ اِلاَّ اسْمَ اللہِ ۔مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے خواہ اس نے اللہ کا نام لیا ہو یا نہ لیا ہو، وہ نام لے گا بھی تو ظاہر ہے کہ اللہ ہی کا لے گا۔ یہ حدیث اوّل تو ایک غیر معروف تابعی کی مرسل روایت ہے جس کا یہ وزن کبھی نہیں ہو سکتا کہ متعدد آیات اور مرفوع متصل احادیث سے جس چیز کا وجوب ثابت ہو رہا ہو اسے یہ غیر واجب ثابت کر سکے۔ پھر دیکھنا یہ ہے کہ اگر یہ روایت قطعی صحیح بھی ہو تو کیا واقعی اس سے تسمیہ کا عدم وجوب ظاہر ہوتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ جو بات اس سے ظاہر ہوتی ہے وہ تو بس یہ ہے کہ کوئی مسلمان اگر خدا کا نام لیے بغیر جانور ذبح کر بیٹھا ہو تو اسے عمداً ترکِ تسمیہ پر محمول کرنے کے بجائے نسیان پر محمول کیا جائے، اور یہ سمجھا جائے کہ اگر وہ نام لیتا تو اللہ ہی کا لیتا غیر اللہ کا نہ لیتا اور اس بنا پر اس کے ذبیحہ کو حلال سمجھ کر کھا لیا جائے۔ اس سے یہ مضمون کہاں نکلتا ہے کہ جو لوگ ذبیحہ پر خدا کا نام لینے کے سرے سے قائل ہی نہ ہوں اور جن کا نظریہ ہی اس کے خلاف ہو، ان کا ذبیحہ بھی حلال ہے اور سرے سے ذبیحہ پر خدا کا نام لینا ہی ضروری نہیں ہے۔ اس حدیث کے الفاظ کو چاہے کتنا ہی کھینچا اور تانا جائے، اس میں اس مفہوم کی گنجائش نہیں نکلتی۔
یہ ہے کل کائنات ان دلائل کی جو فقہائے شافعیہ تسمیہ کے غیر واجب ہونے پر لاتے ہیں۔ کوئی شخص تقلید کی قسم کھا کر بیٹھ گیا ہو تو ممکن ہے کہ وہ انھیں اٹل دلائل سمجھے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ جو شخص ان کا تنقیدی جائزہ لے وہ کبھی یہ محسوس کیے بغیر رہ سکتا ہے کہ وجوبِ تسمیہ کے دلائل کے مقابلے میں یہ کس قدر بے وزن دلائل ہیں۔
پس جانوروں کے گوشت کی حلّت کے بارے میں جو شرائط قرآن اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں وہ یہ ہیں کہ:
(۱) وہ ان اشیا میں سے نہ ہو جنھیں اللہ اور اس کے رسول نے فی نفسہٖ حرام قرار دیا ہے۔
(۲) ان کا تذکیہ کیا گیا ہو، اور
(۳) ان کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہو۔
جس گوشت میں یہ تینوں شرائط پوری نہ ہوتی ہوں وہ طیّبات سے خارج اور ان خبائث میں داخل ہے جن کا استعمال اہلِ ایمان کے لیے جائز نہیں ہے۔
ذبیحہ اہلِ کتاب کا مسئلہ
اب دیکھنا چاہیے کہ خاص طور پر ذبائح اہلِ کتاب کے بارے میں قرآن و سنّت سے کیا حکم ثابت ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے۔
اَلْيَوْمَ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ۰ۭ وَطَعَامُ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ۰۠ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّہُمْ۰ۡ المائدہ5:5
آج تمھارے لیے طیبات حلال کر دیئے گئے اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے ان کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کے لیے حلال۔
اس آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ اہلِ کتاب کے دستر خوان پر جو کھانا ہمارے لیے حلال کیا گیا ہے وہ لازماً صرف وہی ہے جو طیبات میں سے ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے اور نہیں ہو سکتا کہ جو چیزیں ہمارے لیے قرآن و احادیث صحیحہ کی رُو سے خبائث ہیں، جن کو ہم اپنے گھر میں یا کسی مسلمان کے گھر میں نہ خود کھا سکتے ہیں نہ کسی دوسرے کو کھلا سکتے ہیں، وہی چیزیں جب عیسائی یا یہودی کے دستر خوان پر ہمارے سامنے رکھی جائیں تو وہ ہمارے لیے حلال ہو جائیں۔ اس سیدھی اور صاف تاویل کو چھوڑ کر اگر کوئی شخص دوسری تاویلیں کرنا چاہے تو زیادہ سے زیادہ چار باتیں کہہ سکتا ہے۔
ایک یہ کہ اس آیت نے تمام ان آیات کو منسوخ کر دیا جو گوشت کی حلّت و حرمت کے متعلق سورۂ نحل، انعام، بقرہ اور خود اس سورۂ مائدہ میں وارد ہوئی ہیں۔ یعنی بالفاظ دیگر یہ کہ ایک ایسی آیت قرآن میں آ گئی ہے جس نے جھٹکے ہی کو نہیں مردار، سؤر، خون، نذر لغیر اللہ، سب کو مطلقاً حلال کر دیا۔ مگر اس نسخ کے لیے کوئی دلیل، عقلی یا نقلی قیامت تک پیش نہیں کی جا سکتی۔ سب سے زیادہ کھلا ہوا ثبوت اس دعوے کی لغویت کا یہ ہے کہ گوشت کے بارے میں وہ تینوں قیود جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے خود اسی سورۂ مائدہ میں، اسی سلسلہ کلام میں، اس آیت سے بالکل متصل بیان کی گئی ہیں۔ کون صاحب ِعقل یہ کہہ سکتا ہے کہ ایک عبارت کے تین مسلسل و متصل فقروں میں سے آخری فقرہ پہلے دو کانا سخ ہوا کرتا ہے۔
دوسری تاویل یہ کی جا سکتی ہے کہ اس آیت نے صرف تذکیہ اور تسمیہ کے احکام کو منسوخ کیا ہے، سؤر اور مردار اور خون اور مَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ کی حرمت کا حکم منسوخ نہیں کیا۔ مگر ہمیں نہیں معلوم کہ ان دونوں قسم کے احکام میں تفریق کے لیے اور ان میں سے ایک کے نسخ اور دوسرے کے بقا کے لیے بجز ایک خالی خولی ادعاء کے کوئی دلیل بھی کسی کے پاس ہے۔ اگر دلیل کوئی صاحب رکھتے ہوں تو بسم اللہ وہ اسے پیش فرمائیں۔
تیسری تاویل یہ کی جا سکتی ہے کہ اس آیت نے مسلمانوں کے دستر خوان اور اہلِ کتاب کے دستر خوان میں فرق کر دیا ہے۔ مسلمان کے دستر خوان پر تو کھانے پینے کے معاملے میں وہ تمام قیود باقی رہیں گی جو قرآن میں مختلف مقامات پر بیان کی گئی ہیں، لیکن اہلِ کتاب کے دستر خوان پر وہ سب ختم ہو جائیں گی اور ہمیں آزادی ہو گی کہ جو کچھ بھی وہ ہمارے سامنے لا رکھیں اسے ہم کھالیں۔ اس تاویل کے حق میں بڑی سے بڑی دلیل جو دی جا سکتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اہلِ کتاب کیا کچھ کھاتے ہیں، پس جب یہ جانتے ہوئے اس نے ہمیں ان کے ہاں کھانے کی اجازت دی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ بھی وہ کھاتے ہیں وہ سب ہم ان کے ہاں کھا سکتے ہیں خواہ وہ سؤر ہو یا مردار یا غیر اللہ کے نام کی قربانی یا جھٹکا۔ لیکن اس استدلال کی جڑ خود وہی آیت کاٹ دیتی ہے جس سے یہ دلیل نکالی گئی ہے۔ اس میں صاف کہا گیا ہے کہ اہلِ کتاب کے ہاں تم صرف طیّبات کھا سکتے ہو، اور طیبات کے لفظ کو مبہم بھی نہیں رہنے دیا گیا ہے بلکہ اس سے پہلے دو مفصل آیتوں میں کھول کر بتایا جا چکا ہے کہ طیبات کیا ہیں۔
چوتھی تاویل یہ ہو سکتی ہے کہ اہلِ کتاب کے ہاں بس سؤر نہیں کھایا جا سکتا۔ باقی سب کچھ کھایا جا سکتا ہے۔ یا سور، مردار، خون اور مَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ تو ہم نہیں کھا سکتے مگر تذکیہ اور تسمیہ کے بغیر جو گوشت فراہم کیا گیا ہو اسے ہم کھا سکتے ہیں۔ مگر تاویل نمبر ۲ کی طرح یہ بھی محض ایک بے دلیل دعویٰ ہے۔ کوئی معقول یا منقول دلیل اس معاملے میں پیش نہیں کی جا سکتی کہ قرآن کے احکام میں یہ فرق کس بنا پر کیا گیا ہے اور اہلِ کتاب کے دستر خوان پر ایک حکم کیوں باقی رہتا ہے اور دوسرے کیوں مرتفع ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ تفریق اور یہ استثنا قرآن سے ماخوذ ہے تو بتایا جائے کہ کس جگہ سے ماخوذ ہے۔ اگر حدیث سے نکالا گیا ہے تو معلوم ہو کہ کس حدیث سے اور اگر کوئی عقلی دلیل اس کی بنیاد ہے تو وہی سامنے لے آئی جائے۔
ذبیحہ اہلِ کتاب کے معاملے میں فقہا کے مسالک
اس مسئلے میں حنفیہ اور حنابلہ کا مسلک یہ ہے کہ اہلِ کتاب کے دستر خوان پر بھی ہمارے لیے کھانے پینے کے معاملے میں وہی قیود ہیں جو خود اپنے گھر میں کھانے کے لیے قرآن و سنّت میں بیان کی گئی ہیں۔ تذکیہ اور تسمیہ کے بغیر ہم کوئی گوشت نہ اپنے ہاں کھا سکتے ہیں نہ یہود و نصاریٰ کے ہاں۔ (الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘ جلد اوّل صفحہ ۷۲۶-۷۳۰)
شافعیہ کہتے ہیں کہ یہودی اور نصرانی اگر غیر اللہ کے نام پر ذبح کریں تو اس کا کھانا حرام ہے، لیکن اگر وہ اللہ کا نام لیے بغیر ذبح کریں تو ان کا ذبیحہ ہم کھا سکتے ہیں، کیونکہ تسمیہ سرے سے واجب ہی نہیں ہے، نہ مسلم کے لیے نہ کتابی کے لیے (کتاب مذکور، جلد دوم ص ۲۳) اس مسلک کی کمزوری ہم اوپر واضح کر چکے ہیں۔ اس لیے اس پر بحث کی حاجت نہیں۔
مالکیہ اگرچہ ذبیحہ کی حِلّت کے لیے تسمیہ کو شرط مانتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ اہلِ کتاب کے لیے یہ شرط نہیں ہے، ان کا ذبیحہ خدا کا نام لیے بغیر بھی حلال ہے (کتاب مذکور، جلد دوم، ص ۲۲) اس کے حق میں صرف یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خیبر کے موقع پر یہودی عورت کا بھیجا ہوا گوشت کھا لیا تھا اور یہ نہیں پوچھا تھا کہ وہ خدا کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہے یا نہیں۔ لیکن یہ واقعہ تسمیہ کے حکم سے اہلِ کتاب کے استثنا کی دلیل اگر بن سکتا تھا تو صرف اس صورت میں جب کہ یہ بات ثابت ہوتی کہ اس زمانے میں عرب کے یہودی اللہ کا نام لئے بغیر ذبح کرتے تھے اور پھر بھی حضورؐ نے اس امر سے واقف ہوتے ہوئے ان کا ذبیحہ نوش فرما لیا۔ محض اتنی سی بات کہ آپؐ نے وہ گوشت تناول فرماتے وقت تسمیہ اور عدمِ تسمیہ کے متعلق کچھ دریافت نہیں فرمایا، وجوب تسمیہ کے حکم سے اہلِ کتاب کے مستثنیٰ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی۔ ممکن ہے کہ حضورؐ کو اپنے زمانے کے یہودیوں کے متعلق یہ معلوم ہو کہ وہ اللہ کا نام لے کر ہی ذبح کرتے ہیں، اس لیے آپ نے بلا تامّل ان کا لایا ہوا گوشت کھا لیا ہو۔
ابن عباس کا قول یہ تھا کہ آیت طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُو الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ نے آیت لاَ تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ کو منسوخ کر دیا اور اہلِ کتاب اس حکم سے مستثنیٰ کر دیئے گئے (ابو دائود، کتاب الاضاحی) لیکن یہ ابن عباسؓ کی ذاتی تاویل ہے، کوئی حدیث مرفوع نہیں ہے۔ اور ابن عباسؓ بھی اس رائے میں منفرد ہیں۔ کوئی دوسرا صحابی اس تاویل و تفسیر میں ان کا ہم خیال نہیں ہے۔ پھر کوئی معقول وجہ بھی انھوں نے اس بات کی بیان نہیں کی ہے کہ اس آیت نے اُس آیت کو کیوں منسوخ کر دیا، اور صرف اسی آیت کو منسوخ کرکے کیوں رہ گئی، کھانے پینے کے متعلق باقی ساری قیود کو بھی اس نے کیوں نہ منسوخ کر ڈالا۔
عطا اور اَوزاعی اور مکحول اور لَیث بن سعد کا مسلک یہ تھا کہ اس آیت نے مَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ کو حلال کر دیا ہے۔ عطا کہتے ہیں کہ اہلِ کتاب کے ہاں ہم غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا گوشت کھا سکتے ہیں۔ اَوزاعی کہتے ہیں کہ اگر تم اپنے کان سے بھی سن لو کہ عیسائی نے مسیح کے نام پر کُتا چھوڑا ہے تب بھی اس کا مارا ہوا شکار کھا لو۔ مکحول کہتے ہیں کہ اپنے کنیسوں اور اپنی مذہبی تقریبات کے لیے اہلِ کتاب جو قربانیاں کریں ان کے کھانے میں مضائقہ نہیں ہے۔ (احکام القرآن للجصّاص ج ۲ ص ۳۹۵) مگر اتنی بڑی بات کی دلیل صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اہلِ کتاب غیر اللہ کے نام کی قربانیاں کرتے ہیں اور پھر بھی اس نے فرما دیا کہ اہلِ کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کو تو یہ بھی معلوم تھا کہ اہلِ کتاب میں سے نصاریٰ سؤر کھاتے ہیں اور شراب پیتے ہیں۔ پھر کیوں نہ ساتھ ساتھ سؤر اور شراب کی حلّت کا حکم بھی اسی آیت سے نکال ڈالا جائے؟
ان مختلف مذاہب میں سے صحیح اور قوی مذہب ہمارے نزدیک صرف حنفیہ اور حنابلہ کا ہے۔ باقی مذاہب میں سے کسی مذہب کی پیروی اگر کوئی کرنا چاہے تو اپنی ذمہ داری پر کرے لیکن جیسا کہ اوپر کی بحث میں دکھایا جا چکا ہے، ان کے وجوہ و دلائل اس قدر کمزور ہیں کہ ان کی بنیاد پر کسی حرام کا حلال اور کسی واجب کا غیر واجب ثابت ہونا بہت مشکل ہے۔ اس لیے میں کسی خدا ترس آدمی کو یہ مشورہ نہیں دے سکتا کہ وہ ان مذاہب میں سے کسی کا سہارا لے کر یورپ اور امریکہ میں جھٹکے کا گوشت کھانا شروع کر دے۔ آخر میں دو باتوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے:-
اوّل یہ کہ بسا اوقات چھوٹے جانور، مثلاً مرغ، کبوتر وغیرہ ذبح کرتے ہوئے یہ صورت پیش آ جاتی ہے کہ ذرا سی بے احتیاطی سے جانور کی گردن کٹ کر سر دھڑ سے فوراً الگ ہو جاتا ہے۔ فقہا کے ایک گروہ نے کہا ہے کہ اس طرح کے ذبیحہ کو کھا لینے میں مضائقہ نہیں۔ اب اس چیز کو بنیاد بنا کر موجودہ زمانے کے بعض علما نے یہ فتویٰ دے دیا ہے کہ جہاں تمام جانوروں کے لیے ذبح کا طریقہ ہی یہ ہو کہ ایک مشین بیک ضرب سر کاٹ کر پھینک دے وہاں بھی تذکیہ کی شرط پوری ہو جاتی ہے لیکن فقہا کے اقوال کو نصّ بنا کر ان سے ایسے احکام مستنبط کرنا جو بجائے خود منصوص احکام میں ترمیم کر ڈالیں، کوئی صحیح طریقہ نہیں ہے۔ تذکیہ کے متعلق شریعت کے احکام ہم اوپر نقل کر چکے ہیں اور وہ احکام جن نصوص پر مبنی ہیں وہ بھی ہم نے درج کر دیئے ہیں۔ اب یہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے کہ اگر کچھ فقہا نے احیاناً بلا ارادہ ان احکام کے خلاف کوئی واقعہ پیش آ جانے کی صورت میں لوگوں کو کوئی سہولت دے دی ہے تو اسے اصل قانون قرار دے لیا جائے اور شریعت کے احکام تذکیہ عملاً منسوخ کر دیئے جائیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ فقہا نے یہ کہا ہے اور بالکل صحیح کہا ہے کہ مسلم اور اہلِ کتاب کے ہر ذبیحہ کے متعلق یہ کھوج لگانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے یا نہیں البتہ اگر ایجاباً یہ معلوم ہو کہ کسی ذبیحہ پر قصداً خدا کا نام نہیں لیا گیا ہے تو اس کے کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس کی بنیاد پر بھی یہ رائے ظاہر کی گئی ہے کہ یورپ اور امریکہ میں جو گوشت ملتا ہے اس کے بارے میں کھوج لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ اہلِ کتاب کا ذبیحہ ہے، اس کو اسی اطمینان کے ساتھ کھائو جس طرح مسلم ممالک میں مسلمان قصائیوں سے گوشت خرید کر کھاتے ہو، لیکن یہ بات صرف اسی صورت میں صحیح ہو سکتی ہے جب کہ ہمیں اہلِ کتاب کے کسی گروہ یا ان کی کسی آبادی کے متعلق یہ معلوم ہو کہ وہ اصولاً و عقیدۃً اللہ کا نام لے کر ذبح کرنے کے قائل ہیں۔ رہے وہ لوگ جن کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ وہ حرام و حلال کی ان قیود کے سرے سے قائل ہی نہیں ہیں اور جو اصولاً یہ نہیں مانتے کہ جانور کے حلال اور حرام ہونے میں اللہ یا غیر اللہ کا نام لینے اور نہ لینے کا بھی کوئی دخل ہے، ان کے ذبیحہ پر یہ اطمینان کرنے کی آخر کیا معقول وجہ ہو سکتی ہے؟
(ترجمان القرآن۔ اپریل ۱۹۵۹ء)
٭…٭…٭…٭…٭
انسان کے بنیادی حقوق
(یہ تقریر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے روٹری کلب لاہور میں کی تھی جس کو جناب خلیل حامدی صاحب نے قلم بند کیا … مرتّب)
بنیادی حقوق کوئی نیا تصوّر نہیں
جہاں تک ہم مسلمانوں کا تعلق ہے، انسان کے بنیادی حقوق کا تصوّر ہمارے لیے کوئی نیا تصوّر نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دوسرے لوگوں کی نگاہ میں ان حقوق کی تاریخ، یو این او کے چارٹر سے شروع ہوتی ہو، یا انگلستان کے میگنا کارٹا (Magna Carta) سے اس کا آغاز ہوا ہو لیکن ہمارے لیے اس تصوّر کا آغاز بہت پہلے سے ہے۔ اس موقع پر میں انسان کے بنیادی حقوق پر روشنی ڈالنے سے پہلے مختصر طور پر یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ انسانی حقوق کے تصوّر کا آغاز کیونکر ہوا ہے۔
بنیادی حقوق کا سوال کیوں؟
درحقیقت یہ کچھ عجیب سی بات ہے کہ دنیا میں ایک انسان ہی ایسا ہے جس کے بارے میں خود انسانوں ہی کے درمیان بار بار یہ سوال پیدا ہوتا رہا ہے کہ اس کے بنیادی حقوق کیا ہیں۔ انسان کے سوا دوسری مخلوقات جو اس کائنات میں بس رہی ہیں ان کے حقوق خود فطرت نے دیئے ہیں اور آپ سے آپ انھیں مل رہے ہیں بغیر اس کے کہ وہ اس کے لیے سوچ بچار کریں۔ لیکن صرف انسان وہ مخلوق ہے جس کے بارے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے حقوق کیا ہیں اور اس کی ضرورت پیش آتی ہے کہ اس کے حقوق متعیّن کیے جائیں۔
اتنی ہی عجیب بات یہ بھی ہے کہ اس کائنات کی کوئی جنس ایسی نہیں ہے جو اپنی جنس کے افراد سے وہ معاملہ کر رہی ہو جو انسان اپنے ہم جنس افراد سے کر رہا ہے بلکہ ہم تو دیکھتے ہیں کہ حیوانات کی کوئی نوع ایسی نہیں جو کسی دوسری نوع کے حیوانات پر بھی محض لطف و لذت کے لیے یا ان پر حکمران بننے کے لیے حملہ آور ہوتی ہو۔
قانونِ فطرت نے ایک حیوان کو دوسرے حیوان کے لیے اگر غذا بنایا ہے تو وہ صرف غذا کی حد تک ہی اس پر دست درازی کرتا ہے۔ کوئی درندہ ایسا نہیں ہے جو غذائی ضرورت کے بغیر یا اس ضرورت کے پورا ہو جانے کے بعد بلا وجہ جانوروں کو مارتا چلا جاتا ہو۔ خود اپنے ہم جنسوں کے ساتھ نوعِ حیوانی کا وہ سلوک نہیں ہے جو انسان کا اپنے افراد کے ساتھ ہے۔ یہ غالباً اس فضل و شرف کا نتیجہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ذہانت اور قوتِ ایجاد کا کرشمہ ہے کہ انسان نے دنیا میں یہ غیرمعمولی روش اختیار کر رکھی ہے۔
شیروں نے آج تک کوئی فوج تیار نہیں کی۔ کسی کُتّے نے آج تک دوسرے کُتّوں کو غلام نہیں بنایا۔ کسی مینڈک نے دوسرے مینڈکوں کی زبان بندی نہ کی۔ یہ انسان ہی ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات سے بے نیاز ہو کر جب اس کی دی ہوئی قوتوں سے کام لینا شروع کیا تو اپنی ہی جنس پر ظلم ڈھانے شروع کر دیئے۔ جب سے انسان زمین پر موجود ہے اس وقت سے آج تک تمام حیوانات نے اتنے انسانوں کی جان نہیں لی ہے جتنی انسانوں نے صرف دوسری جنگ عظیم میں انسان کی جان لی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو فی الواقع دوسرے انسانوں کے بنیادی حقوق کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ صرف اللہ ہی ہے جس نے انسان کی رہنمائی اس باب میں کی ہے اور اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسانی حقوق کی واقفیت بہم پہنچائی ہے۔ درحقیقت انسانی حقوق متعیّن کرنے والا انسان کا خالق ہی ہو سکتا ہے چنانچہ اس خالق نے انسان کے حقوق نہایت تفصیل سے بتائے ہیں۔
دورِ حاضر میں انسانی حقوق کے شعور کا ارتقا
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حقوق انسانی کے اسلامی منشور کے نکات پر گفتگو کرنے سے قبل دورِ حاضر میں انسانی حقوق کے شعور کی ارتقائی تاریخ پر اجمالی نظر ڈال لی جائے۔
(۱) انگلستان میں کنگ جان نے ۱۲۱۵ء میں جو میگنا کارٹا جاری کیا تھا وہ دراصل اس کے امرا (Barons) کے دبائو کا نتیجہ تھا۔ اس کی حیثیت بادشاہ اور امرا کے درمیان ایک قرارداد کی سی تھی اور زیادہ تر امرا ہی کے مفاد میں وہ مرتّب کیا گیا تھا۔ عوام الناس کے حقوق کا اس میں کوئی سوال نہ تھا۔ بعد کے لوگوں نے اس کے اندر وہ معنی پڑھے جو اس کے اصل لکھنے والوں کے سامنے بیان ہوتے تو وہ حیران رہ جاتے۔ سترھویں صدی کے قانون پیشہ لوگوں نے اس میں یہ پڑھا کہ تحقیق جرم رو بروئے مجلس قضا (Trial By Jury) حبس بے جا کے خلاف دادرسی (Right of Habeas Corpus) اور ٹیکس لگانے کے اختیارات پر کنٹرول کے حقوق انگلینڈ کے باشندوں کو اس میں دیئے گئے ہیں۔
(۲) ٹام پین (Tom Paine) (۱۷۳۷ئ تا ۱۸۰۹ئ) کے پمفلٹ ’’حقوق انسانی‘‘ (Rights of Man) نے اہلِ مغرب کے خیالات پر بہت بڑا انقلابی اثر ڈالا اور اسی کے پمفلٹ (۱۷۹۱ء) نے مغربی ممالک میں حقوق انسانی کے تصوّر کی عام اشاعت کی۔ یہ شخص الہامی مذہب کا قائل نہ تھا اور ویسے بھی وہ دور الہامی مذہب سے بغاوت کا دور تھا۔ اس لیے مغربی عوام نے یہ سمجھا کہ الہامی مذہب حقوقِ انسانی کے تصوّر سے خالی ہے۔
(۳) انقلاب فرانس کی داستان کا اہم ترین ورق ’’منشور حقوقِ انسانی‘‘ (Declaration of the Rights of Man) ہے جو ۱۷۸۹ء میں نمودار ہوا۔ یہ اٹھارہویں صدی کے اجتماعی فلسفے اور خصوصاً رُوسو کے نظریۂ معاہدۂ عمرانی (Social Contract Theory) کا ثمرہ تھا۔ اس میں قوم کی حاکمیت، آزادی، مساوات اور ملکیت کے فطری حقوق کا اثبات کیا گیا تھا۔ اس میں ووٹ کے حق، قانون سازی اور ٹیکس عائد کرنے کے اختیارات پر رائے عام کے کنٹرول، تحقیق جرم روبروئے مجلس قضا (Trial By Jury) وغیرہ کا اثبات کیا گیا۔
اس منشورِ حقوق انسانی کو فرانس کی دستور ساز اسمبلی نے انقلاب فرانس کے عہد میں اس غرض کے لیے مرتّب کیا تھا کہ جب دستور بنایا جائے تو اس وقت اسے اس کے آغاز میں درج کیا جائے اور دستور میں اس کی سپرٹ کو ملحوظ رکھا جائے۔
(۴) امریکہ (U.S.A) کی دس ترامیم میں بڑی حد تک وہ تمام حقوق گنوائے گئے ہیں جو برطانوی فلسفۂ جمہوریت پر مبنی ہو سکتے تھے۔
(۵) انسانی حقوق و فرائض کا وہ منشور بھی بڑی اہمیّت رکھتا ہے جسے بگوٹا کانفرنس میں امریکی ریاستوں نے ۱۹۴۸ء میں منظور کیا۔
(۶) پھر جمہوری فلسفے کے تحت یو این او نے تدریجاً بہت سے مثبت اور بہت سے تحفظاتی حقوق کے متعلق قراردادیں پاس کیں اور بالآخر ’’عالمی منشور حقوق انسانی‘‘ منظرعام پر آیا۔
دسمبر ۱۹۴۶ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک ریزولیشن پاس کیا جس میں انسانوں کی نسل کشی (Genocide) کو بین الاقوامی قانون کے خلاف ایک جرم قرار دیا گیا۔
پھر دسمبر ۱۹۴۸ء میں نسل کشی کے انسداد اور سزا دہی کے لیے ایک قرارداد پاس کی گئی اور ۱۲ جنوری ۱۹۵۱ء کو اس کا نفاذ ہوا۔ اس میں نسل کشی کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا کہ حسب ذیل افعال میں سے کوئی فعل اس غرض سے کرنا کہ کسی قومی، نسلی یا اخلاقی (Ethical) گروہ (Group) یا اس کے ایک حصّے کو فنا کر دیا جائے۔
(۱) ایسے کسی گروہ کے افراد کو قتل کرنا۔
(۲) ان کو شدید نوعیت کا جسمانی یا ذہنی ضرر پہنچانا۔
(۳) اس گروہ پر بالا رادہ زندگی کے ایسے ماحول کو مسلّط کرنا جو اس کی جسمانی بقا کے لیے کلاًیا جزاً تباہ کن ہوں۔
(۴) اس گروہ میں سلسلہ تولید کو روکنے کے لیے جبری اقدامات کرنا۔
(۵) جبری طور پر اس گروہ کی اولادوں کو کسی دوسرے گروہ کی طرف منتقل کرنا۔
۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو جو ’’عالمی منشور حقوقِ انسانی‘‘ پاس کیا گیا تھا اس کے دیباچے میں من جملہ دوسرے عزائم کے ایک یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ:
’’بنیادی انسانی حقوق میں، فرد انسانی کی عزت و اہمیّت میں مردوں اور عورتوں کے مساویانہ حقوق میں اعتقاد کو موثق بنانے کے لیے۔‘‘
نیز اس میں اقوام متحدہ کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی بیان کیا گیا تھا کہ
’’انسانی حقوق کا احترام قائم کرنے، اور نسل و صنف یا زبان و مذہب کا امتیاز کیے بغیر تمام انسانوں کو بنیادی آزادیاں دلوانے کے کام میں بین الاقوامی تعاون کا حصول۔‘‘
اسی طرح دفعہ ۵۵ میں اقوام متحدہ کا یہ منشور کہتا ہے
’’مجلس اقوامِ متحدہ انسانی حقوق اور سب کے لیے اساسی آزادیوں کے عالمگیر احترام اور ان کی نگہداشت میں اضافہ کرے گی۔‘‘
اس پورے منشور کے کسی جز سے کوئی اختلاف کسی بھی قوم کے نمایندوں نے نہیں کیا۔ اختلاف نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ صرف عام اصولوں کا اعلان و اظہار تھا۔ کسی نوعیت کی پابندی کسی پر بھی عائد نہ ہوتی تھی۔ یہ کوئی معاہدہ نہیں ہے جس کی بنا پر دستخط کرنے والی تمام حکومتیں اس کی پابندی پر مجبور ہوں اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ان پر قانونی وجوب عائد ہوتا ہو۔ اس میں واضح طور پر یہ بتا دیا گیا ہے کہ یہ ایک معیار ہے جس تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پھر بھی بعض ملکوں نے اس کے حق میں یا اس کے خلاف ووٹ دینے سے اجتناب کیا۔
اب دیکھ لیجیے کہ اس منشور کے عین سائے میں انسانیت کے بالکل ابتدائی حقوق کا قتل عام دنیا میں ہو رہا ہے اور خود مہذب ترین اور سرکردہ ممالک کے اپنے ہاں ہو رہا ہے جو اسے پاس کرنے والے تھے۔
اس مختصر بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اوّل تو مغربی دنیا میں انسانی حقوق کا تصوّر ہی دو تین صدیوں سے پہلے اپنی کوئی تاریخ نہیں رکھتا۔ دوسرے اگر آج ان حقوق کا ذکر کیا بھی جا رہا ہے تو ان کے پیچھے کوئی سند (Authority) اور کوئی قوتِ نافذہ (Sanction) نہیں ہے۔ بلکہ یہ صرف خوشنما خواہشات ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلام نے حقوقِ انسان کا جو منشور قرآن میں دیا اور جس کا خلاصہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر نشر فرمایا وہ اس سے قدیم تر بھی ہے اور ملت اسلام کے لیے اعتقاد، اخلاق اور مذہب کی حیثیت سے واجب الاتباع بھی۔ پھر ان حقوق کو عملاً قائم کرنے کی بے مثل نظیریں بھی حضور پاکؐ اور خلفائے راشدین نے چھوڑی ہیں۔
اب میں ان حقوق کا مختصر تذکرہ کرتا ہوں جو اسلام نے انسان کو دیئے ہیں۔
حرمت ِجان یا جینے کا حق
قرآن مجید میں دنیا کے سب سے پہلے واقعۂ قتل کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا اوّلین سانحہ تھا جس میں ایک انسان نے دوسرے انسان کی جان لی۔ اس وقت پہلی مرتبہ یہ ضرورت پیش آئی کہ انسان کو انسانی جان کا احترام سکھایا جائے اور اسے بتایا جائے کہ ہر انسان جینے کا حق رکھتا ہے۔ اس واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد قرآن کہتا ہے۔
مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا۰ۭ وَمَنْ اَحْيَاہَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا۰ۭ المائدہ32:5
جس نے کسی متنّفس کو ، بغیر اس کے کہ اس نے قتلِ نفس کا ارتکاب کیا ہو یا زمین میں فساد انگیزی کی ہو، قتل کر دیا، اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے اسے زندہ رکھا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا۔
اس آیت میں قرآن کریم نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانی دنیا کا قتل بتایا ہے اور اس کے مقابلے میں ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ٹھہرایا ہے۔’’احیاء‘‘ کے معنی ہیں زندہ کرنا۔ دوسرے الفاظ میں اگر کسی شخص نے انسانی زندگی کو بچانے کے لیے کوشش کی اس نے انسان کو زندہ کرنے کا کام کیا۔ یہ کوشش اتنی بڑی نیکی ہے کہ اسے ساری انسانیت کے زندہ کرنے کے برابر ٹھہرایا گیا ہے۔ اس اصول سے صرف دو حالتیں مستثنیٰ ہیں۔
ایک یہ کہ کوئی شخص قتل کا مرتکب ہو اور اسے قصاص کے طور پر قتل کیا جائے۔
دوسری یہ کہ کوئی شخص زمین میں فساد برپا کرے تو اسے قتل کیا جائے۔ ان دو حالتوں کے ماسوا انسانی جان کو ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ ۱؎
انسانی جان کے تحفظ کا یہ اصول اللہ تعالیٰ نے تاریخ انسانی کے ابتدائی دور میں واضح کر دیا تھا۔ انسان کے بارے میں یہ خیال کرنا غلط ہے کہ وہ تاریکی میں پیدا ہوا ہے اور اپنے ہم جنسوں کو قتل کرتے کرتے کسی مرحلے پر اس نے یہ سوچا کہ انسان کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔ یہ خیال سراسر غلط ہے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں بد گمانی پر مبنی ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شروع سے انسان کی رہنمائی کی ہے اور اسی رہنمائی میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ اس نے انسان کو انسان کے حقوق سے آشنا کیا۔
معذوروں اور کمزوروں کا تحفظ
دوسری بات جو قرآن سے معلوم ہوتی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے واضح ہے، یہ ہے کہ عورت، بچے، بوڑھے، زخمی اور بیمار کے اوپر کسی حال میں بھی دست اندازی جائز نہیں ہے … خواہ وہ اپنی قوم سے تعلق رکھتے ہوں یا دشمن قوم سے … اِلاّیہ کہ جنگ کی صورت میں یہ افراد خود برسرِ پیکار ہوں۔ ورنہ دوسری ہر صورت میں ان پر دست اندازی کی ممانعت ہے۔ یہ اصول اپنی قوم کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ پوری انسانیت کے ساتھ یہی اصول برتا جائے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے میں بڑی واضح ہدایات دی ہیں۔ خلفائے راشدین کا یہ حال تھا کہ وہ جب دشمنوں سے مقابلے کے لیے فوجیں روانہ کرتے تھے تو وہ پوری فوج کو یہ صاف ہدایات دیتے تھے کہ دشمن پر حملے کی صورت میں کسی عورت، بچے، بوڑھے، زخمی اور بیمار پر ہاتھ نہ ڈالا جائے۔
تحفظ ناموس خواتین
ایک اور اصولی حق جو ہمیں قرآن سے معلوم ہوتا ہے اور حدیث میں بھی اس کی تفصیلات موجود ہیں، یہ ہے کہ عورت کی عصمت ہر حال میں واجب الاحترام ہے، یعنی جنگ کے اندر دشمنوں کی عورتوں سے بھی اگر سابقہ پیش آئے تو کسی مسلمان سپاہی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ان پر ہاتھ ڈالے۔ قرآن کی رُو سے بدکاری مطلقاً حرام ہے خواہ وہ کسی عورت سے کی جائے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ عورت مسلمان ہو یا غیر مسلم، اپنی قوم کی ہو یا غیر قوم کی، دوست ملک کی ہو یا دشمن ملک کی۔
معاشی تحفظ
ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ بھوکا آدمی ہر حالت میں اس کا مستحق ہے کہ اسے روٹی دی جائے، ننگا ہر حالت میں اس کا مستحق ہے کہ اسے کپڑا دیا جائے، زخمی اور بیمار آدمی ہر حالت میں اس کا مستحق ہے کہ اسے علاج کی سہولت فراہم کی جائے، قطع نظر اس سے کہ وہ بھوکا، ننگا، زخمی یا مریض شخص دشمن ہو یا دوست۔ یہ عمومی (Universal) حقوق میں سے ہے، دشمن کے ساتھ بھی ہم یہی سلوک کریں گے۔ اگر دشمن قوم کا کوئی فرد ہمارے پاس آ جائے گا تو ہمارا فرض ہو گا کہ اسے بھوکا ننگا نہ رہنے دیں اور زخمی یا بیمار ہو تو اس کا علاج کرائیں۔ ۱؎
عادلانہ طرز معاملہ
قرآن کریم کا یہ اٹل اصول ہے کہ انسان کے ساتھ عدل و انصاف کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۰ۭ اِعْدِلُوْا۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۰ۡ المائدہ 8:5
کسی گروہ کی دشمنی تمھیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو۔ یہ خدا ترسی سے زیادہ قریب ہے۔
اس آیت میں اسلام نے یہ اصول متعیّن کر دیا کہ انسان کے ساتھ … ایک فرد کے ساتھ بھی اور ایک قوم کے ساتھ بھی … بہرحال انصاف کو ملحوظ رکھنا پڑے گا۔ اسلام کے نزدیک یہ قطعا ً درست نہیں ہے کہ دوستوں کے ساتھ تو ہم عدل و انصاف برتیں اور دشمنوں کے ساتھ اس اصول کو نظرانداز کر دیں۔
نیکی میں تعاون اور بدی میں عدم تعاون
ایک اور اصول جو قرآن معین کرتا ہے، یہ ہے کہ نیکی اور حق رسانی کے معاملے میں ہر ایک کے ساتھ تعاون کیا جائے اور برائی اور ظلم کے معاملے میں کسی کے ساتھ تعاو ن نہ کیا جائے۔ برائی خواہ بھائی کر رہا ہو تو بھی ہم اس کے ساتھ تعاون نہ کریں۔ اور نیکی اگر دشمن بھی کر رہا ہو تو اس کی جانب دست ِتعاون بڑھائیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۰۠ المائدہ5:2
جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں، ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔
بِرّ کے معنی صرف نیکی ہی نہیں بلکہ عربی زبان میں یہ لفظ حق رسانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی دوسروں کو حقوق دلوانے میں اور تقویٰ اور پرہیز گاری میں ہم ہر ایک کی مدد کریں۔ قرآن کا یہ مستقل اور دائمی اصول ہے۔
مساوات کا حق
ایک اور اصول جسے قرآن کریم نے بڑے زوروشور کے ساتھ بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ تمام انسان یکساں ہیں۔ اگر کسی کو فضیلت حاصل ہے تو وہ اخلاق کے اعتبار سے ہے۔ اس معاملے میں قرآن کا ارشاد ہے۔
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۰ۭ الحجرات 13:49
اے لوگو، ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھیں گروہوں اور قبیلوں میں اس لیے بانٹا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک تم میں سے زیادہ معزز وہ ہے جو زیادہ متقی ہے۔
اس میں پہلی بات یہ بتائی گئی کہ تمام انسان ایک ہی اصل سے ہیں۔ یہ مختلف نسلیں، مختلف رنگ، مختلف زبانیں درحقیقت انسانی دنیا کے لیے کوئی معقول وجہ تقسیم نہیں ہیں۔
دوسری بات یہ بتائی کہ ہم نے قوموں کی یہ تقسیم صرف تعارف کے لیے کی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک برادری، ایک قوم اور ایک قبیلے کو دوسرے پر کوئی فخر و فضیلت نہیں ہے کہ وہ اپنے حقوق تو بڑھا چڑھا کر رکھے اور دوسروں کے کم۔ اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی یہ تفریقیں کی ہیں، شکلیں ایک دوسرے سے مختلف بنائی ہیں یا زبانیں ایک دوسرے سے الگ رکھی ہیں تو یہ سب چیزیں فخر کے لیے نہیں ہیں بلکہ صرف اس لیے ہیں کہ باہم تمیز پیدا کر سکیں۔ اگر تمام انسان یکساں ہوتے تو تمیز نہ کی جا سکتی۔ اس لحاظ سے یہ تقسیم فطری ہے لیکن دوسروں کے حقوق مارنے اور بے جا امتیاز برتنے کے لیے نہیں ہے۔ عزت و افتخار کی بنیاد اخلاقی حالت پر ہے۔ اس بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے طریقے سے بیان فرمایا ہے۔ آپ نے فتح مکہ کے بعد جو تقریر ارشاد فرمائی، اس میں فرمایا۔
لَا فَضْلَ لِعَرَبِیِّ عَلٰی اَعْجَمِیٍّ وَّلاَ لِاَعْجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیِّ وَلاَ لِاَحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ وَلاَ لِاَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی وَلاَ فَضْلَ لِلْاَنْسَابِ۔
کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کسی گورے کو کالے پر اور نہ کالے کو گورے پر … ماسوا تقویٰ کے۔ اور نسبی بنیادوں پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔
یعنی فضیلت دیانت اور تقویٰ پر ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی شخص چاندی سے پیدا کیا گیا ہو اور کوئی پتھر سے اور کوئی مٹی سے۔ بلکہ سب انسان یکساں ہیں۔ ۱؎
معصیت سے اجتناب کا حق
ایک اور اصول یہ ہے کہ کسی شخص کو معصیت کا حکم نہیں دیا جا سکتا۔ اور نہ کسی پر یہ واجب یا اس کے لیے یہ جائز ہے کہ اس کو اگر معصیت کا حکم دیا جائے تو وہ اطاعت کرے۔ قانونِ قرآن کی رو سے اگر کوئی افسر اپنے ماتحت کو ناجائز کارروائیوں کا حکم دیتا ہے یا کسی پر بے جا دست درازی کا حکم دیتا ہے تو ماتحت کے لیے اس معاملے میں اپنے افسر کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ جن چیزوں کو خالق نے ناجائز ٹھہرایا ہے اور معصیت بتایا ہے کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ ان کے ارتکاب کا کسی کو حکم دے۔ نہ حکم دینے والے کے لیے معصیت کا حکم دینا جائز ہے اور نہ کسی دوسرے شخص کے لیے ایسے حکم کی تعمیل جائز ہے۔
ظالم کی اطاعت سے انکار کا حق
اسلام کا ایک عظیم الشان اصول یہ ہے کہ کسی ظالم کو اطاعت کا حق نہیں ہے۔ قرآن کریم میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو امام مقرر کیا اور فرمایا کہ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا‘ تو حضرت ابراہیم ؑنے اللہ سے سوال کیا کہ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ (کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟) تو اللہ نے جواب میں ارشاد فرمایا: لَا یَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِیْنَ البقرہ 124:2 (میرا وعدہ ظالموں کے متعلق نہیں ہے) عہد کا لفظ یہاں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ انگریزی زبان میں ’’لیٹر آف اپواینٹ منٹ‘‘ (Letter of Appointment) کا مفہوم ہے۔ اردو میں پروانۂ امر کہیں گے۔
اس آیت میں اللہ نے صاف بتا دیا کہ ظالموں کو اللہ کی طرف سے کوئی ایسا پروانہ امر نہیں کہ وہ دوسرے سے اطاعت کا مطالبہ کریں۔ ۱؎ چنانچہ امام ابوحنیفہؒفرماتے ہیں کہ کوئی ظالم اس امر کا مستحق نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کا امام ہو۔ اگر ایسا شخص امام بن جائے تو اس کی اطاعت واجب نہیں ہے‘ اسے صرف برداشت کیا جائے گا۔
سیاسی کار فرمائی میں شرکت کا حق
انسان کے بنیادی حقوق میں سے ایک بڑا حق اسلام نے یہ مقرر کیا ہے کہ معاشرے کے تمام افراد حکومت میں حصّہ دار ہیں۔ تمام افراد کے مشورے سے حکومت ہونی چاہیے۔ قرآن نے فرمایا … لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ ۲؎ (اللہ تعالیٰ ان کو … یعنی اہلِ ایمان کو … زمین میں خلافت دے گا) یہاں جمع کا لفظ استعمال کیا اور فرمایا کہ ہم بعض افراد کو نہیں بلکہ پوری قوم کو خلافت دیں گے۔ حکومت ایک فرد کی یا ایک خاندان کی یا ایک طبقے کی نہیں بلکہ پوری ملت کی ہو گی اور تمام افراد کے مشورے سے وجود میں آئے گی۔ قرآن کا ارشاد ہے: وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ ۳؎ یعنی یہ حکومت آپس کے مشورے سے چلے گی۔ اس معاملے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاف الفاظ موجود ہیں کہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مسلمانوں کے مشورے کے بغیر ان پر حکومت کرے۔ مسلمان راضی ہوں تو ان پر حکومت کی جا سکتی ہے۔ اور راضی نہ ہوں تو نہیں کی جا سکتی۔ اس حکم کی رو سے اسلام ایک جمہوری و شورائی حکومت کا اصول قائم کرتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہماری بدقسمتی سے تاریخ کے ادوار میں ہمارے اوپر بادشاہیاں مسلّط رہی ہیں۔ اسلام نے ہمیں ایسی بادشاہیوں کی اجازت نہیں دی بلکہ یہ ہماری اپنی حماقتوں کا نتیجہ ہیں۔
آزادی کا تحفظ
ایک اور اصول یہ ہے کہ کسی انسان کی آزادی عدل کے بغیر سلب نہیں کی جا سکتی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ لا یوسر رجل فی الاسلام الابحق ۱؎ اس کی رو سے عدل کا وہ تصوّر قائم ہوتا ہے جسے موجودہ اصطلاح میں باضابطہ عدالتی کارروائی (Judicial Process of Law) کہتے ہیں۔ یعنی کسی کی آزادی سلب کرنے کے لیے اس پر متعیّن الزام لگانا، کھلی عدالت میں اس پر مقدمہ چلانا اور اسے دفاع کا پورا پورا موقع دینا۔ اس کے بغیر کسی کارروائی پر عدل کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ یہ بالکل معمولی عقل (Common Sense) کا تقاضا ہے کہ ملزم کو صفائی کا موقع دیئے بغیر انصاف نہیں ہو سکتا۔ اسلام میں اس امر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ایک شخص کو پکڑا جائے اور اسے صفائی کا موقع دیئے بغیر بند کر دیا جائے۔ اسلامی حکومت اور عدلیہ کے لیے انصاف کے تقاضے پورے کرنا قرآن نے واجب ٹھہرایا ہے۔ ۲؎
تحفظ ملکیت
ایک بنیادی حق یہ ہے کہ قرآن واضح طور پر انفرادی ملکیت کا تصوّر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ البقرہ 188:2
تم باطل طریقے سے ایک دوسرے کے مال نہ کھائو۔
اگر قرآن و حدیث اور فقہ کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ دوسرے کے مال کو کھانے کے کون کون سے طریقے باطل ہیں۔ اسلام نے ان طریقوں کو مبہم نہیں رکھا ہے۔ اس اصول کی رو سے کسی آدمی سے ناجائز طریقے سے کوئی مال حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ کسی شخص کو یا کسی حکومت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قانون توڑ کر اور ان متعیّن شکلوں کے علاوہ جو خود اسلام نے واضح کر دی ہیں، کسی کی ملکیت پر دست درازی کرے۔
عزت کا تحفظ
انسان کا یہ بھی بنیادی حق ہے کہ اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے۔ سورہ حجرات میں اس حق کی پوری تفصیل موجود ہے مثلاً ارشاد ہوتا ہے کہ:
۱- لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ
تم میں سے کوئی گروہ کسی دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے۔
۲-وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ۰ۭ
اور تم ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو۔
۳- وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا۰ۭ الحجرات11-12:49
اور تم ایک دوسرے کی برائی پیٹھ پیچھے بیان نہ کرو۔
یعنی جتنی شکلیں بھی انسان کی عزت و آبرو پر حملہ کرنے کی ہو سکتی ہیں ان سے منع کر دیا گیا۔ وضاحت سے کہہ دیا کہ انسان خواہ موجود ہو خواہ موجود نہ ہو اس کا نہ مذاق اڑایا جا سکتا ہے، نہ برے القاب دیئے جا سکتے ہیں اور نہ اس کی برائی کی جا سکتی ہے۔ ہر شخص کا یہ قانونی حق ہے کہ کوئی اس کی عزت پر ہاتھ نہ ڈالے اور ہاتھ سے یا زبان سے اس پر کسی قسم کی زیادتی نہ کرے۔
نجی زندگی کا تحفظ
اسلام کے بنیادی حقوق کی رُو سے ہر آدمی کو (Privacy) یعنی نجی زندگی کو محفوظ رکھنے کا حق حاصل ہے۔ اس معاملے میں سورۂ نور میں وضاحت کر دی گئی کہ لَاتَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا النور 27:24 اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو، جب تک کہ ان سے اجازت نہ لے لو۔ سورہ حجرات میں فرما دیا گیا لَا تَجَسَّسُوْا الحجرات 12:49 (تجسّس نہ کرو) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ ایک آدمی کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنے گھر سے دوسرے آدمی کے گھر میں جھانکے۔ ایک شخص کو پورا پور اآئینی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے گھر میں دوسروں کے شورو شغب سے، دوسروں کی تاک جھانک سے اور دوسروں کی مداخلت سے محفوظ و مامون رہے۔ اس کی گھریلو بے تکلّفی اور پردہ داری برقرار رہنی چاہیے۔ مزید برآں یہ کہ کسی شخص کو دوسرے کا خط اوپر سے نگاہ ڈال کر دیکھنے کا حق بھی نہیں ہے۔ کجا کہ اسے پڑھا جائے۔ اسلام انسان کی پرائیویسی کا پورا پورا تحفظ کرتا ہے اور صاف ممانعت کرتا ہے کہ گھروں میں تاک جھانک نہ کی جائے اور کسی کی ڈاک نہ دیکھی جائے۔ الایہ کہ کسی شخص کے متعلق معتبر ذریعے سے یہ اطلاع مل جائے کہ وہ کوئی خطرناک کام کر رہا ہے ورنہ خواہ مخواہ کسی کے حالات کا تجسّس کرنا شریعت اسلامی میں جائز نہیں ہے۔
ظلم کے خلاف احتجاج کا حق
اسلام کے بنیادی حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
لَايُحِبُّ اللہُ الْجَــہْرَ بِالسُّوْۗءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ۰ۭ النسائ 148:4
اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے، اِلاّیہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو۔
یعنی مظلوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ظالم کے خلاف آواز اٹھائے۔
آزادیٔ اظہار رائے
ایک اور اہم چیز جسے آج کے زمانے میں آزادیٔ اظہار (Freedom of Expression) کہا جاتا ہے قرآن اسے دوسری زبان میں بیان کرتا ہے۔ مگر دیکھیے مقابلتاً قرآن کا کتنا بلند تصوّر ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ ’’امر بالمعروف ۱؎ ‘‘ اور ’’نہی عن المنکر‘‘ نہ صرف انسان کا حق ہے بلکہ یہ اس کا فرض بھی ہے۔ قرآن کی رو سے بھی اور حدیث کی ہدایات کے مطابق بھی۔ انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ بھلائی کے لیے لوگوں سے کہے اور برائی سے روکے۔ اگر کوئی برائی ہو رہی ہو تو صرف یہی نہیں کہ بس اس کے خلاف آواز اٹھائے بلکہ اس کے انسداد کی کوشش بھی فرض ہے۔ اور اگر اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی جاتی اور اس کے انسداد کی فکر نہیں کی جاتی تو الٹا گناہ ہو گا۔ مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اسلامی معاشرے کو پاکیزہ رکھے۔ اگر اس معاملے میں مسلمان کی آواز بند کی جائے تو اس سے بڑا کوئی ظلم نہیں ہو سکتا۔ اگر کسی نے بھلائی کے فروغ سے روکا تو اس نے نہ صرف ایک بنیادی حق سلب کیا بلکہ ایک فرض کی ادائیگی سے روکا۔ معاشرے کی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو ہر حالت میں یہ حق حاصل رہے۔ قرآن نے بنی اسرائیل کے تنزل کے اسباب بیان کیے ہیں۔ ان میں سے ایک سبب یہ بیان کیا ہے کہ كَانُوْا لَا يَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْہُ۰ۭ المائدہ 79:5 (وہ برائیوں سے ایک دوسرے کو باز نہ رکھتے تھے) یعنی کسی قوم میں اگر یہ حالات پیدا ہو جائیں کہ برائی کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہ ہو تو آخرکار رفتہ رفتہ برائی پوری قوم میں پھیل جاتی ہے اور وہ پھلوں کے سڑے ہوئے ٹوکرے کے مانند ہو جاتی ہے جس کو اٹھا کر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس قوم کے عذابِ الٰہی کے مستحق ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہتی۔
ضمیر و اعتقاد کی آزادی کا حق
اسلام نے لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ البقرہ 256:2 کا اصول انسانیت کو دیا اور اس کے تحت ہر شخص کو آزادی عطا کی کہ وہ کفر و ایمان میں سے جو راہ چاہے اختیار کرے۔ قوت کا استعمال اسلام میں اگر ہے تو دو ضروریات کے لیے ہے۔ ایک یہ کہ اسلامی ریاست کے وجود اور اس کے استقلال کی سلامتی کے لیے میدان جہاد میں دشمنوں کا مقابلہ کیا جائے اور دوسرے یہ کہ نظم و نسق اور امن و امان کے تحفظ کے لیے جرائم اور فتنوں کا سدباب کرنے کے لیے عدالتی اور انتظامی اقدامات کیے جائیں۔
ضمیر و اعتقاد کی آزادی ہی کا قیمتی حق تھا جسے حاصل کرنے کے لیے مکہ کے سیزدہ سالہ دورِ ابتلا میں مسلمانوں نے ماریں کھا کھا کر کلمہ حق کہا اور بالآخر یہ حق ثابت ہو کے رہا۔ مسلمانوں نے یہ حق جس طرح اپنے لیے حاصل کیا تھا۔ اسی طرح دوسروں کے لیے بھی اس کا پورا پورا اعتراف کیا۔ اسلامی تاریخ اس بات سے خالی ہے کہ مسلمانوں نے کبھی اپنی غیر مسلم رعایا کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا ہو یا کسی قوم کو مار مار کر کلمہ پڑھوایا ہو۔
مذہبی دلآزاری سے تحفظ کا حق
اسلام اس امر کا روادار نہیں کہ مختلف مذہبی گروہ ایک دوسرے کے خلاف دریدہ دہنی سے کام لیں اور ایک دوسرے کے پیشوائوں پر کیچڑ اچھالا کریں۔ قرآن میں ہر شخص کے مذہبی معتقدات اور اس کے پیشوایانِ مذہب کا احترام کرنا سکھایا گیا ہے۔ ہدایت یہ ہے کہ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ الانعام108:6 (ان کو برا بھلا نہ کہو جنھیں یہ لوگ اللہ کے ماسوا معبود بنا کر پکارتے ہیں) یعنی مختلف مذاہب اور معتقدات پر دلیل سے گفتگو کرنا اور معقول طریق سے تنقید کرنا یا اظہار اختلاف کرنا تو آزادیٔ اظہار کے حق میں شامل ہے۔ مگر دلآزاری کے لیے بدگوئی کرنا روا نہیں۔
آزادیٔ اجتماع کا حق
آزادیٔ اظہار کے عین منطقی نتیجے کے طور پر آزادیٔ اجتماع کا حق نمودار ہوتا ہے۔ جب اختلاف آراء کو انسانی زندگی کی ایک اٹل حقیقت کے طور پر قرآن نے بار بار پیش کیا ہے تو پھر اس امر کی روک تھام کہاں ممکن ہے کہ ایک طرح کی رائے رکھنے والے لوگ آپس میں مربوط ہوں۔ ایک اصولی اور نظریئے پر مجتمع ہونے والی ملت کے اندر بھی مختلف مدارسِ فکر ہو سکتے ہیں اور ان کے متوسلین بہرحال باہم دگر قریب تر ہوں گے۔ قرآن کہتا ہے۔
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ
آل عمران 104:3
اور تم میں سے ایک گروہ تو ایسا ضرور ہونا چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائیں، معروف کا حکم دیں اور منکر سے روکیں۔
عملی زندگی میں جب ’’خیر‘‘ ’’معروف‘‘ اور ’’منکر‘‘ کے تفصیلی تصوّرات میں فرق واقع ہوتا ہے تو ملت کی اصولی وحدت کے قائم رہتے ہوئے بھی اس کے اندر مختلف مدارس فکر تشکیل پاتے ہیں اور … یہ بات معیار مطلوب سے کتنی بھی فروتر ہو، گروہوں اور پارٹیوں کا ظہور ہوتا ہی ہے۔ چنانچہ ہمارے ہاں کلام میں بھی، فقہ و قانون میں بھی اور سیاسی نظریات میں بھی اختلافِ آراء ہوا اور اس کے ساتھ مختلف گروہ وجود میں آئے۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی دستور اور منشورِ حقوق کے لحاظ سے کیا مختلف اختلافی آراء رکھنے والوں کے لیے آزادیٔ اجتماع کا حق ہے؟ یہ سوال سب سے پہلے حضرت علیؓ کے سامنے خوارج کے ظہور پر پیش آیا اور آنجنابؓ نے ان کے لیے آزادیٔ اجتماع کے حق کو تسلیم کر لیا۔ انھوں نے خارجیوں سے فرمایا:جب تک تم تلوار اٹھا کر زبردستی اپنا نظریہ دوسروں پر مسلّط کرنے کی کوشش نہ کرو گے، تمھیں پوری آزادی حاصل رہے گی۔
عملِ غیر کی ذمہ داری سے بریّت
اسلام میں آدمی صرف اپنے اعمال اور اپنے جرائم کے لیے جواب دہ ہے۔ دوسروں کے اعمال اور دوسروں کے جرائم میں اسے پکڑا نہیں جا سکتا۔ قرآن نے اصول یہ قرار دیا ہے کہ
وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰي۰ۚ الانعام 164:6
اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ اٹھانے پر مکلف نہیں ہے۔
اسلامی قانون میں اس کی گنجائش نہیں کہ کرے داڑھی والا اور پکڑا جائے مونچھوں والا۔
شبہات پر کارروائی نہیں کی جائے گی
اسلام میں ہر شخص کو یہ تحفظ حاصل ہے کہ تحقیق کے بغیر اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے گی۔ اس سلسلے میں قرآن کی واضح ہدایت ہے کہ کسی کے خلاف اطلاع ملنے پر تحقیقات کر لو تاکہ ایسا نہ ہو کہ کسی گروہ کے خلاف لاعلمی میں کوئی کارروائی کر بیٹھو۔ ۱؎ علاوہ بریں قرآن نے یہ ہدایت بھی دی ہے اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ الحجرات 12:49
اجمالاً یہ ہیں وہ بنیادی حقوق جو اسلام نے انسان کو عطا کیے ہیں۔ ان کا تصوّر بالکل واضح اور مکمل ہے جو انسانی زندگی کے آغاز ہی سے انسان کو بتا دیا گیا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس وقت بھی دنیا میں انسانی حقوق کا جو اعلان (Declaration of Human Rights) ہوا ہے اسے کسی قسم کی سند اور قوتِ نافذہ حاصل نہیں ہے۔ بس ایک بلند معیار پیش کر دیا گیا ہے۔ اس معیار پر عمل درآمد کی کوئی قوم پابند نہیں ہے نہ اور کوئی ایسا موثر معاہدہ ہے جو ان حقوق کو ساری قوموں سے منوا سکے۔ لیکن مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی ہدایت کے پابند ہیں۔ خدا اور رسول ؐ نے بنیادی حقوق کی پوری وضاحت کر دی ہے۔ جو مملکت اسلامی ریاست بننا چاہے گی اسے یہ حقوق لازماً دینے ہوں گے۔ مسلمانوں کو بھی یہ حقوق دیئے جائیں گے اور دوسری اقوام کو بھی۔ اس معاملے میں کسی ایسے معاہدے کی حاجت نہیں ہو گی کہ فلاں قوم اگر ہمیں یہ حق دے گی تو ہم اسے دیں گے بلکہ مسلمانوں کو بہرحال یہ حقوق دینے ہوں گے۔ دوستوں کو بھی اور دشمنوں کو بھی۔
٭…٭…٭…٭…٭
مسئلہ خلافت میں امام ابوحنیفہؒ کا مسلک حاکمیت
ریاست کا خواہ کوئی نظریہ بھی زیر بحث ہو، اس میں اوّلین سوال یہ ہوتا ہے کہ وہ نظریہ حاکمیت کس کے لیے ثابت کرتا ہے۔ اس حاکمیت کے باب میں امام ابوحنیفہؒکا نظریہ وہی تھا جو اسلام کا مسلّم بنیادی نظریہ ہے یعنی اصل حاکم خدا ہے، رسول اس کے نمایندے کی حیثیت سے مطاع ہیں اور خدا اور رسول کی شریعت وہ قانونِ برتر ہے جس کے مقابلے میں اطاعت و اتباع کے سوا اور کوئی طرزِ عمل اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ امام اصلاً ایک قانونی آدمی تھے اس لیے انھوں نے اس مضمون کو علم سیاست کے بجائے قانون کی زبان میں بیان کیا ہے۔
مجھے جب کوئی حکم خدا کی کتاب میں مل جاتا ہے تو میں اسی کوتھام لیتا ہوں اور جب اس میں نہیں ملتا تو رسول اللہ کی سنّت اور آپؐ کے ان صحیح آثار کو لیتا ہوں جو ثقہ لوگوں کے ہاں ثقہ لوگوں کے واسطے سے معروف ہیں۔ پھر جب نہ کتاب اللہ میں حکم ملتا ہے نہ سنّت رسول اللہ میں تو میں اصحابِ رسول کے قول (یعنی ان کے اجماع) کی پیروی کرتا ہوں اور (ان کے اختلاف کی صورت میں) جس صحابی کا قول چاہتا ہوں قبول کرتا ہوں اور جس کا چاہتا ہوں چھوڑ دیتا ہوں مگر ان سب کے اقوال سے باہر جا کر کسی کا قول نہیں لیتا …… رہے دوسرے لوگ تو جس طرح اجتہاد کا انھیں حق ہے مجھے بھی حق ہے۔ ۱؎
ابن حزم کا بیان ہے:
تمام اصحابِ ابوحنیفہؒاس پر متفق ہیں کہ ابوحنیفہؒکا مذہب یہ تھا کہ ضعیف حدیث بھی اگر مل جائے تو اس کے مقابلے میں قیاس اور رائے کو چھوڑ دیا جائے۔ ۲؎
اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ وہ قرآن اور سنّت کو آخری سند (Final Authority) قرار دیتے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ قانونی حاکمیت (Legal Sovereignty) خدا اور اس کے رسول کی ہے اور ان کے نزدیک قیاس و رائے سے قانون سازی کا دائرہ صرف ان حدود تک محدود تھا جن میں خدا اور رسول کا کوئی حکم موجود نہ ہو۔ صحابہ رسول کے انفرادی اقوال کو دوسروں کے اقوال پر جو ترجیح وہ دیتے تھے اس کی وجہ بھی دراصل یہ تھی کہ صحابی کے معاملے میں یہ امکان موجود ہے کہ اس کے علم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم ہو اور وہی اس کے قول کا ماخذ ہو۔ اسی لیے امام ابوحنیفہؒ اس بات کا التزام کرتے تھے کہ جن مسائل میں صحابہ کے درمیان اختلاف ہوا ہے ان میں کسی صحابی کے قول ہی کو اختیار کریں اور اپنی رائے سے کوئی ایسا فیصلہ نہ کریں جو تمام صحابیوں کے اقوال سے مختلف ہو کیونکہ اس میں نادانستہ سنّت کی خلاف ورزی ہو جانے کا اندیشہ تھا۔ البتہ وہ قیاس سے یہ رائے قائم کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ ان میں سے کس کا قول سنّت سے قریب تر ہو سکتا ہے۔ اگرچہ امام پر ان کے زمانۂ حیات ہی میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ قیاس کو نصّ پر ترجیح دیتے ہیں مگر انھوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا-
بخدا اس شخص نے جھوٹ کہا اور ہم پر افترا کیا جس نے کہا کہ ہم قیاس کو نصّ پر مقدّم رکھتے ہیں۔ بھلا نصّ کے بعد بھی قیاس کی کوئی حاجت رہتی ہے؟ ۱؎
خلیفہ المنصور نے ایک مرتبہ ان کو لکھا کہ میں نے سنا ہے آپ قیاس کو حدیث پر مقدم رکھتے ہیں۔ انھوں نے جواب میں لکھا۔
امیر المومنین جو بات آپ کو پہنچی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ میں سب سے پہلے کتاب اللہ پر عمل کرتا ہوں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت پر، پھر ابوبکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم کے فیصلوں پر، پھر باقی صحابہ کے فیصلوں پر، البتہ جب ان میں اختلاف ہو تو قیاس کرتا ہوں۔ ۲؎
خلافت کے انعقاد کا صحیح طریقہ
خلافت کے متعلق امام ابوحنیفہؒکی رائے یہ تھی کہ پہلے بزور اقتدار پر قبضہ کرنا اور بعد میں دبائو کے تحت بیعت لینا اس کے انعقاد کی کوئی جائز صورت نہیں ہے۔ صحیح خلافت وہ ہے جو اہل الرائے لوگوں کے اجتماع اور مشورے سے قائم ہو۔ اس رائے کو انھوں نے ایک ایسے نازک موقع پر بیان کیا جب کہ اسے زبان پر لانے والے کا سر اس کی گردن پر باقی رہنے کا احتمال نہ تھا۔ المنصور کے حاجب ربیع بن یونس کا بیان ہے کہ منصور نے امام مالک، ابن ابی ذِئب اور امام ابوحنیفہؒکو بلایا اور ان سے کہا: یہ حکومت جو اللہ تعالیٰ نے اس امت میں مجھے عطا کی ہے، اس کے متعلق آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟ کیا میں اس کا اہل ہوں؟ امام مالک نے کہا:اگر آپ اس کے اہل نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ اسے آپ کے سپرد نہ کرتا۔ ابن ابی ذئب نے کہا:دنیا کی بادشاہی اللہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے، مگر آخرت کی بادشاہی اسی کو دیتا ہے جو اس کا طالب ہو اور جسے اللہ اس کی توفیق دے۔ اللہ کی توفیق آپ سے قریب ہو گی اگر آپ اس کی اطاعت کریں۔ ورنہ اس کی نافرمانی کی صورت میں وہ آپ سے دور رہے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ خلافت اہلِ تقویٰ کے اجتماع سے قائم ہوتی ہے اور جو شخص خود اس پر قبضہ کر لے اس کے لیے کوئی تقویٰ نہیں ہے۔ آپ اور آپ کے مددگار توفیق سے خارج اور حق سے منحرف ہیں۔ اب اگر آپ اللہ سے سلامتی مانگیں اور پاکیزہ اعمال سے اس کا تقرّب حاصل کریں تو یہ چیز آپ کو نصیب ہو گی ورنہ آپ خود ہی اپنے مطلوب ہیں۔ امام ابوحنیفہؒکہتے ہیں کہ جس وقت ابن ابی ذئب یہ باتیں کہہ رہے تھے، میں نے اور مالک نے اپنے کپڑے سمیٹ لیے کہ شاید ابھی ان کی گردن اڑا دی جائے گی اور ان کا خون ہمارے کپڑوں پر پڑے گا۔ اس کے بعد منصور امام ابوحنیفہؒکی طرف متوجہ ہوا اور بولا آپ کیا کہتے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا:اپنے دین کی خاطر راہ راست تلاش کرنے والا غصّے سے دور رہتا ہے۔ اگر آپ اپنے ضمیر کو ٹٹولیں تو آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ آپ نے ہم لوگوں کو اللہ کی خاطر نہیں بلایا ہے بلکہ آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے ڈر سے آپ کے منشا کے مطابق بات کہیں اور وہ عوام کے علم میں آ جائے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آپ اس طر ح خلیفہ بنے ہیں کہ آپ کی خلافت پر اہلِ فتویٰ لوگوں میں سے دو آدمیوں کا اجتماع بھی نہیں ہوا، حالانکہ خلافت مسلمانوں کے اجتماع اور مشورے سے ہوتی ہے۔ دیکھیے، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چھ مہینے تک فیصلے کرنے سے رکے رہے جب تک کہ اہلِ یمن کی بیعت نہ آ گئی۔ یہ باتیں کرکے تینوں صاحب اٹھ گئے۔ پیچھے منصور نے ربیع کو تین توڑے درہموں کے دے کر ان تینوں اصحاب کے پاس بھیجا اور اس کو ہدایت کی کہ اگر مالک لے لیں تو ان کو دے دینا، لیکن اگر ابوحنیفہؒاور ابن ابی ذئب انھیں قبول کر لیں تو ان کا سراتار لانا۔ امام مالک نے یہ عطیہ لے لیا۔ ابن ابی ذئب کے پاس جب ربیع پہنچا تو انھوں نے کہا میں اس مال کو خود منصور کے لیے بھی حلال نہیں سمجھتا، اپنے لیے کیسے حلال سمجھوں۔ ابوحنیفہؒنے کہا خواہ میری گردن ہی کیوں نہ مار دی جائے میں اس مال کو ہاتھ نہ لگائوں گا۔ منصور نے یہ روداد سن کر کہا:اس بے نیازی نے ان دونوں کا خون بچا دیا۔ ۱؎
اہلیت خلافت کی شرائط
امام ابوحنیفہؒکے زمانے تک اہلیت خلافت کی شرطیں اس تفصیلی طریقے سے بیان نہیں کی جاتی تھیں جس طرح بعد کے محققین، مَاوَرْدِیْ اور ابن خَلْدون وغیرہ نے انھیں بیان کیا ہے۔ کیونکہ ان میں سے اکثر اس وقت گویا بلا بحث مسلم تھیں۔ مثلاً آدمی کا مسلمان ہونا، مرد ہونا، آزاد ہونا، ذی علم ہونا، سلیم الحواس اور سلیم الاعضا ہونا۔ البتہ دو چیزیں ایسی تھیں جو اس زمانے میں زیر بحث آ چکی تھیں اور جن کے متعلق صراحت مطلوب تھی۔ ایک یہ کہ ظالم و فاسق جائز خلیفہ ہو سکتا ہے یا نہیں دوسرے یہ کہ خلافت کے لیے قرشی ہونا ضروری ہے یا نہیں۔
فاسق و ظالم کی امامت
پہلی چیز کے متعلق امام کی رائے کے دو پہلو ہیں جن کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ جس زمانے میں انھوں نے اس مسئلے پر اظہارِ خیال فرمایا ہے، وہ عراق میں خصوصاً، اور دنیائے اسلام میں عموماً، دو انتہا پسندانہ نظریات کی سخت کشمکش کا زمانہ تھا۔ ایک طرف نہایت زوروشور سے کہا جا رہا تھا کہ ظالم و فاسق کی امامت قطعی ناجائز ہے اور اس کے ماتحت مسلمانوں کا کوئی اجتماعی کام بھی صحیح نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف کہا جا رہا تھا کہ ظالم و فاسق خواہ کسی طرح بھی ملک پر قابض ہو جائے، اس کا تسلّط قائم ہو جانے کے بعد اس کی امامت و خلافت بالکل جائز ہو جاتی ہے۔ ان دونوں کے درمیان امام اعظم نے ایک نہایت متوازن نظریہ پیش کیا جس کی تفصیل یہ ہے۔
الفقہ الاکبر میں وہ فرماتے ہیں۔
مومنوں میں سے ہر نیک و بد کے پیچھے نماز جائز ہے۔ ۱؎
اور عقیدۂ طحاویہ میں امام طحاوی اس حنفی مسلک کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
اور حج و جہاد مسلمانوں کے اولی الامر کے ماتحت قیامت تک جاری رہیں گے ، خواہ وہ نیک ہوں یا بد۔ ان کاموں کو کوئی چیز باطل نہیں کرتی اور نہ ان کا سلسلہ منقطع کر سکتی ہے۔۲؎
یہ اس مسئلے کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ امام کے نزدیک خلافت کے لیے عدالت شرط لازم ہے۔ کوئی ظالم و فاسق آدمی جائز خلیفہ یا قاضی یا حاکم یا مفتی نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ بن بیٹھا ہو تو اس کی امامت باطل ہے اور لوگوں پر اس کی اطاعت لازم نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے عملاً قابض و متصرف ہو جانے کے بعد مسلمان اس کے تحت اپنی اجتماعی زندگی کے جو کام صحیح شرعی طریقے سے انجام دیں گے وہ جائز ہوں گے۔ اور اس کے مقرر کیے ہوئے قاضی عدل کے ساتھ جو فیصلے کریں گے وہ نافذ ہو جائیں گے۔ اس مسئلے کو مذہب حنفی کے مشہور امام ابوبکر الجصّاص نے احکام القرآن میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
پس جائز نہیں کہ کوئی ظالم نبی ہو یا نبی کا خلیفہ، یا قاضی، یا کوئی ایسا منصب دار جس کی بنا پر امور دین میں اس کی بات قبول کرنا لوگوں پر لازم آتا ہو مثلاً مفتی یا شاہد یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث روایت کرنے والا۔ آیت (لَا يَنَالُ عَہْدِي الظّٰلِــمِيْنَ البقرہ 124:2) ( میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا ) اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دین کے معاملات میں جن لوگوں کو بھی پیشوائی کا مقام حاصل ہو ان کا عادل اور صالح ہونا شرط ہے …… اس آیت سے یہ ثابت ہے کہ فاسق کی امامت باطل ہے، وہ خلیفہ نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی شخص اپنے آپ کو خود اس منصب پر قائم کر لے، درآنحالیکہ وہ فاسق ہو تو لوگوں پر اس کا اتباع اور اس کی اطاعت لازم نہیں۔ یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے کہ خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے، اور یہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ فاسق حاکم (جج اور مجسٹریٹ) نہیں ہو سکتا، اور اگر وہ حاکم ہو جائے تو اس کے احکام نافذ نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح اس کی نہ شہادت مقبول ہے، نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی روایت قبول کی جا سکتی ہے، اور نہ اس کا فتویٰ مانا جا سکتا ہے اگر وہ مفتی ہو۔ ۱؎
آگے چل کر الجصّاص اس امر کی تصریح کرتے ہیں کہ یہی امام ابوحنیفہؒکا مذہب ہے اور پھر تفصیل کے ساتھ بتاتے ہیں کہ ابوحنیفہؒپر یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ انھیں فاسق کی امامت جائز قرار دینے کا الزام دیا جاتا ہے:
بعض لوگوں نے یہ گمان کیا ہے کہ ابوحنیفہؒکے نزدیک فاسق کی امامت و خلافت جائز ہے … یہ بات اگر قصداً جھوٹ نہیں کہی گئی ہے تو ایک غلط فہمی ہے ، اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ابوحنیفہؒکہتے ہیں اور صرف ابوحنیفہؒہی نہیں، فقہائے عراق میں سے جن جن لوگوں کے اقوال معروف ہیں وہ سب یہی کہتے ہیں کہ قاضی اگر خود عادل ہو تو خواہ وہ کسی ظالم امام ہی کا مقرر کیا ہوا ہو۔ اس کے فیصلے صحیح طور پر نافذ ہو جائیں گے۔ اور نماز ان فاسق اماموں کے پیچھے بھی، ان کے فسق کے باوجود جائز ہو گی۔ یہ مسلک اپنی جگہ بالکل صحیح ہے مگر اس سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ ابوحنیفہؒفاسق کی امامت کو جائز ٹھہراتے ہیں۔ ۲؎
امام ذہبی اور الموفق المکّی، دونوں امام ابوحنیفہؒکا یہ قول نقل کرتے ہیں۔
جو امام فَے (یعنی پبلک کے خزانے) کا ناجائز استعمال کرے، یا حکم میں ظلم سے کام لے اس کی امامت باطل ہے اور اس کا حکم جائز نہیں ہے۔ ۳؎
ان بیانات پر غور کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ امام ابوحنیفہؒخوارج اور معتزلہ کے برعکس‘ بالحق (dejure) اور بالفعل (defacto) میں فرق کرتے ہیں۔ خوارج و معتزلہ کے مسلک سے لازم آتا تھا کہ اگر امام عادل و صالح، یعنی امام بالحق موجود نہ ہو تو مسلم معاشرے اور ریاست کا پورا نظام معطل ہو جائے۔ نہ حج ہو سکے، نہ جمعہ و جماعت ہو، نہ عدالتیں قائم ہوں، نہ مسلمانوں کا کوئی مذہبی کام، یا سیاسی و معاشرتی کام جائز طور پر انجام پائے۔ امام ابوحنیفہؒاس غلطی کی اصلاح یوں کرتے ہیں کہ بالحق امام اگر میسر نہ ہو تو بالفعل جو بھی مسلمانوں کا امام ہو اس کے ماتحت مسلمانوں کی پوری اجتماعی زندگی کا نظام جائز طور پر چلتا رہے گا، خواہ بجائے خود اس امام کی امامت جائز نہ ہو۔
معتزلہ و خوارج کی اس انتہا پسندی کے مقابلے میں جو دوسری انتہا مُرحبۂ ‘اور خود اہلِ سنّت کے بعض ائمہ نے اختیار کی تھی، امام ابوحنیفہؒنے مسلمانوں کو اس سے اور اس کے نتائج سے بھی بچایا ہے۔ وہ لوگ بھی بالفعل اور بالحق کے درمیان خلط ملط کر گئے تھے اور انھوں نے فاسق کی بالفعل امامت کو اس انداز سے جائز ٹھہرایا تھا کہ گویا وہی بالحق بھی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا تھا کہ مسلمان ظالم و جابر اور بدکردار فرمانروائوں کی حکومت پر مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں، اور اسے بدلنے کی کوشش تو درکنار، اس کی فکر تک چھوڑ دیں۔ امام ابوحنیفہؒنے اس غلط خیال کی اصلاح کے لیے پورے زور سے اس حقیقت کا اعلان و اظہار کیا کہ ایسے لوگوں کی امامت قطعاً باطل ہے۔
خلافت کے لیے قرشیت کی شرط
دوسرے مسئلے کے بارے میں امام ابوحنیفہؒکی رائے یہ تھی کہ خلیفہ قریش ہی میں سے ہونا چاہیے۱؎ اور یہ صرف انھی کی نہیں، تمام اہلِ سنّت کی متفق علیہ رائے تھی۔۲؎ اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ اسلامی خلافت ازروئے شریعت صرف ایک قبیلے کا دستوری حق تھی، بلکہ اس کی اصل وجہ اس وقت کے حالات تھے جن میں مسلمانوں کو مجتمع رکھنے کے لیے خلیفہ کا قرشی ہونا ضروری تھا۔ ابنِ خلدون نے یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی ہے کہ اس وقت اسلامی ریاست کی اصل پشت پناہ عرب تھے اور عربوں کا زیادہ سے زیادہ اتفاق اگر ممکن تھا تو قریش ہی کی خلافت پر۔ دوسرے کسی گروہ کا آدمی لینے کی صورت میں تنازع اور افتراق کے امکانات اتنے زیادہ تھے کہ خلافت کے نظام کو اس خطرے میں ڈالنا مناسب نہ تھا۔۱؎ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت کی تھی کہ امام قریش میں سے ہوں۔ ۲؎ ورنہ اگر یہ منصب غیر قریشی کے لیے شرعاً ممنوع ہوتا تو حضرت عمرؓ اپنی وفات کے وقت یہ نہ کہتے کہ اگر حذیفہؓ کے آزاد کردہ غلام سالمؓ زندہ ہوتے تو میں ان کو اپنا جانشین تجویز کرتا۔۳؎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی قریش میں خلافت رکھنے کی ہدایت دیتے ہوئے یہ بات واضح کر دی تھی کہ یہ منصب ان کے اندر اس وقت تک رہے گا جب تک ان میں مخصوص صفات باقی رہیں گی۔۴؎ اس سے خودبخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان صفات کے فقدان کی صورت میں خلافت غیر قریش کے لیے بھی ہو سکتی ہے۔ یہی اصل فرق ہے امام ابوحنیفہؒاور جمیع اہل السنت کے مسلک اور ان خوارج و معتزلہ کے مسلک میں جو مطلقاً غیر قریشی کے لیے خلافت کا جواز ثابت کرتے تھے بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر غیر قریشی کو خلافت کا زیادہ حق دار قرار دیتے تھے۔ ان کی نگاہ میں اصل اہمیّت جمہوریت کی تھی خواہ اس کا نتیجہ انتشار ہی کیوں نہ ہو۔ مگر اہل السنت و الجماعت کو جمہوریت کے ساتھ ریاست کے استحکام کی بھی فکر تھی۔
بیت المال
اپنے وقت کے خلفا کی جن باتوں پر امام سب سے زیادہ معترض تھے ان میں سے ایک سرکاری خزانے پر ان کے بے جا تصرفات اور لوگوں کی املاک پر ان کی دست درازیاں تھیں۔ ان کے نزدیک حکم میں جَور اور بیت المال میں غلُول (خیانت) ایک امام کی امامت کو باطل کر دینے والے افعال تھے جیسا کہ ہم اوپر الذہبی کے حوالے سے نقل کر چکے ہیں۔ وہ اس کو بھی جائز نہ رکھتے تھے کہ بیرونی ممالک سے جو ہدیے اور تحفے خلیفہ کے پاس آئیں ان کو وہ اپنی ذاتی مِلک بنا لے۔ ان کے نزدیک یہ چیزیں پبلک کے خزانے کا حق تھیں نہ کہ خلیفہ اور اس کے خاندان کا، کیونکہ وہ اگر مسلمانوں کا خلیفہ نہ ہوتا اور بین الاقوامی دنیا میں ان کی اجتماعی قوت و سعی کی بدولت اس کی دھاک قائم نہ ہوئی ہوتی تو کوئی اس شخص کو گھر بیٹھے ہدیے نہ بھیجتا۔ ۱؎ وہ بیت المال سے خلیفہ کے بے جا مصارف اور عطیات پر بھی معترض تھے اور یہ ان وجوہ میں سے ایک بڑی وجہ تھی جن کی بنا پر وہ خود خلفا کے عطیے قبول نہ کرتے تھے۔ جس زمانے میں ان کے اور خلیفہ منصور کے درمیان سخت کشمکش چل رہی تھی۔ منصور نے ان سے کہا تم میرے ہدیے کیوں نہیں قبول کرتے؟ انھوں نے جواب دیا: امیر المومنین نے اپنے مال میں سے مجھے کب دیا تھا کہ میں نے اسے ردّکیا ہو۔ اگر آپ اس میں سے دیتے تو میں ضرور قبول کر لیتا۔ آپ نے تو مسلمانوں کے بیت المال سے مجھے دیا حالانکہ ان کے مال میں میرا کوئی حق نہیں ہے۔ میں نہ ان کے دفاع کے لیے لڑنے والا ہوں کہ ایک سپاہی کا حصّہ پائوں نہ ان کے بچوں میں سے ہوں کہ بچوں کا حصّہ مجھے ملے اور نہ فقرا میں سے ہوں کہ جو کچھ فقیر کو ملنا چاہیے وہ مجھے ملے۔ ۲؎ پھر جب المنصور نے عہدہ قضا قبول نہ کرنے پر انھیں ۳۰ کوڑے مارے اور ان کا سارا بدن لہولہان ہو گیا تو خلیفہ کے چچا عبدالصمد بن علی نے اس کو سخت ملامت کی کہ یہ تم نے کیا کیا، اپنے اوپر ایک لاکھ تلواریں کھچوا لیں، یہ عراق کا فقیہ ہے، بلکہ یہ تمام اہلِ مشرق کا فقیہ ہے۔ منصور نے اس پر نادم ہو کر فی تازیانہ ایک ہزار درہم کے حساب سے ۳۰ ہزار درہم امام کو بھجوائے لیکن انھوں نے لینے سے انکار کر دیا۔ کہا گیا کہ لے کر خیرات کر دیجیے۔ جواب میں فرمایا: کیا ان کے پاس کوئی مال حلال بھی ہے؟ ۳؎ اسی کے قریب زمانے میں جب پے در پے تکلیفیں سہتے سہتے ان کا آخر وقت آ گیا تو انھوں نے وصیت کی کہ بغداد کے اس حصّے میں انھیں دفن نہ کیا جائے جسے شہر بسانے کے لیے منصور نے لوگوں کی املاک میں سے غصب کر لیا تھا۔ منصور نے اس وصیت کا حال سنا تو چیخ اٹھا کہ ابو حنیفہ، زندگی اور موت میں تیری پکڑ سے کون مجھے بچائے۔ ۴؎
عدلیہ کی انتظامیہ سے آزادی
عدلیہ کے متعلق ان کی قطعی رائے یہ تھی کہ اسے انصاف کرنے کے لیے انتظامیہ کے دبائو اور مداخلت سے نہ صرف آزاد ہونا چاہیے بلکہ قاضی کو اس قابل ہونا چاہیے کہ خود خلیفہ بھی اگر لوگوں کے حقوق پر دست درازی کرے تو وہ اس پر اپنا حکم نافذ کر سکے۔ چنانچہ اپنی زندگی کے آخری زمانے میں جب کہ امام کو یقین ہو گیا تھا کہ حکومت ان کو زندہ نہ رہنے دے گی۔ انھوں نے اپنے شاگردوں کو جمع کرکے ایک تقریر کی اور اس میں منجملہ دوسری اہم باتوں کے ایک بات یہ بھی فرمائی کہ:۔
اگر خلیفہ کوئی ایسا جرم کرے جو انسانی حقوق سے متعلق ہو تو مرتّبے میں اس سے قریب ترین قاضی (یعنی قاضی القضاۃ) کو اس پر حکم نافذ کرنا چاہیے۔۱؎
بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانے میں حکومت کے مناصب اور خصوصاً قضا کا عہدہ قبول کرنے سے ان کے انکار کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ ان دونوں حکومتوں میں قضا کی یہ حیثیت نہ پاتے تھے۔ صرف یہی نہیں کہ خلیفہ پر قانون کا حکم نافذ کرنے کی وہاں کوئی گنجائش نہ تھی بلکہ انھیں اندیشہ تھا کہ انھیں آلۂ ظلم بنایا جائے گا، ان سے غلط فیصلے کرائے جائیں گے اور ان کے فیصلوں میں نہ صرف خلیفہ بلکہ اس کے قصر سے تعلق رکھنے والے دوسرے لوگ بھی مداخلت کریں گے۔
سب سے پہلے بنی امیہ کے عہد میں عراق کے گورنر یزید بن عمر بن ہُبَیْرَہ نے ان کو منصب قبول کرنے پر مجبور کیا۔ ۱۳۰ھ کا زمانہ تھا جب کہ عراق میں اُموی سلطنت کے خلاف فتنوں کے وہ طوفان اٹھ رہے تھے جنھوں نے دو سال کے اندر اُمویوں کا تختہ الٹ دیا۔ اس موقع پر ابن ہُبَیْرَہ چاہتا تھا کہ بڑے بڑے فقہا کو ساتھ ملا کر ان کے اثر سے فائدہ اٹھائے چنانچہ اس نے ابن ابی لیلیٰ، دائود بن ابی الہند‘ ابنِ شُبر مہ وغیرہ کو بلا کر اہم مناصب دیئے۔ پھر ابوحنیفہؒکو بلا کر کہا کہ میں آپ کے ہاتھ میں اپنی مہر دیتا ہوں، کوئی حکم نافذ نہ ہو گا جب تک کہ آپ اس پر مہر نہ لگائیں اور کوئی مال خزانے سے نہ نکلے گا جب تک آپ اس کی توثیق نہ کریں۔ امام نے یہ ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا تو اس نے انھیں قید کر دیا اور کوڑے لگوانے کی دھمکی دی۔ دوسرے فقہا نے امام کو سمجھایا کہ اپنے اوپر رحم کرو، ہم سب اس خدمت سے ناخوش ہیں مگر مجبوراً اسے قبول کیا ہے، تم بھی مان لو۔ امام نے جواب دیا: اگر وہ مجھ سے چاہے کہ اس کے لیے واسط کی مسجد کے دروازے گنوں تب بھی میں قبول نہ کروں گا، کجا کہ وہ چاہتا ہے کہ وہ کسی آدمی کے قتل کا حکم لکھے اور میں اس فرمان پر مہر لگائوں۔ اﷲ کی قسم، میں اس ذمہ داری میں شریک نہ ہوں گا۔ اس سلسلے میں ابن ہُبَیْرَہ نے ان کے سامنے اور خدمات پیش کیں اور وہ انکار کرتے رہے۔ پھر اس نے ان کو قاضی کوفہ بنانے کا فیصلہ کیا اور اس پر قسم کھا لی کہ ابوحنیفہؒانکار کریں گے تو میں انھیں کوڑے لگوائوں گا۔ ابوحنیفہؒنے بھی جواب میں قسم کھائی اور کہا:دنیا میں اس کے کوڑے کھا لینا میرے لیے آخرت کی سزا بھگتنے سے زیادہ سہل ہے، اﷲ کی قسم میں ہرگز قبول نہ کروں گا، خواہ وہ مجھے قتل ہی کر دے۔ آخرکار اس نے ان کے سر پر ۲۰ یا ۳۰ کوڑے لگوائے۔ بعض روایات یہ ہیں کہ دس گیارہ روز تک وہ روزانہ دس کوڑے لگواتا رہا۔ مگر ابوحنیفہؒاپنے انکار پر قائم رہے۔ آخرکار اسے اطلاع دی گئی کہ یہ شخص مر جائے گا۔ اس نے کہا کیا کوئی ناصح نہیں ہے جو اس شخص کو سمجھائے کہ مجھ سے مہلت ہی مانگ لے۔ امام ابوحنیفہؒکو ابن ہُبَیْرَہ کی یہ بات پہنچائی گئی تو انھوں نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ میں اپنے دوستوں سے اس معاملے میں مشورہ کر لوں۔ ابن ہُبَیْرَہ نے یہ پیغام ملتے ہی انھیں چھوڑ دیا اور وہ کوفہ چھوڑ کر مکہ چلے گئے جہاں سے بنی امیہ کی سلطنت ختم ہونے تک وہ پھر نہ پلٹے۔ ۱؎
اس کے بعد عباسی عہد میں المنصور نے ان پر عہدۂ قضا کے لیے اصرار شروع کیا۔ جیسا کہ آگے چل کر ہم بتائیں گے، منصور کے خلاف نفس ذکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم کے خروج میں امام نے کھلّم کھلا ان کا ساتھ دیا تھا جس کی وجہ سے منصور کے دل میں ان کے خلاف گرہ بیٹھی ہوئی تھی۔ الذہبی کے الفاظ میں وہ ان کے خلاف غصّے میں آگ کے بغیر جلا جا رہا تھا۔ ۲؎ مگر ان جیسے بااثر آدمی پر ہاتھ ڈالنا اس کے لیے آسان نہ تھا۔ اسے معلوم تھا کہ ایک امام حسینؓ کے قتل نے بنی امیہ کے خلاف مسلمانوں میں کتنی نفرت پیدا کر دی تھی اور اس کی بدولت ان کا اقتدار کس آسانی سے اکھاڑ پھینکا گیا۔ اس لیے وہ انھیں مارنے کے بجائے سونے کی زنجیروں سے باندھ کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا زیادہ بہتر سمجھتا تھا۔ اس نے ان کے سامنے بار بار قضا کا منصب اسی نیت سے پیش کیا، یہاں تک کہ انھیں تمام سلطنت عباسیہ کا قاضی القضاۃ مقرر کرنے کی پیشکش کی۔ مگر وہ ایک مدت تک طرح طرح کے حیلوں سے اس کو ٹالتے رہے۔۱؎ آخر کار جب وہ بہت ہی زیادہ مصر ہوا تو امام نے اس کو صاف صاف اپنے انکار کے وجوہ بتائے۔ ایک مرتبہ کی گفتگو میں انھوں نے بڑے نرم انداز میں معذرت کرتے ہوئے کہا قضا کے لیے نہیں موزوں ہو سکتا مگر وہ شخص جو اتنی جان رکھتا ہو کہ آپ پر اور آپ کے شاہزادوں اور سپہ سالاروں پر قانون نافذ کر سکے۔ مجھ میں یہ جان نہیں ہے۔ مجھے تو جب آپؐ بلاتے ہیں تو واپس نکل کر ہی میری جان میں جان آتی ہے۔ ۲؎ ایک اور موقع پر زیادہ سخت گفتگو ہوئی جس میں انھوں نے خلیفہ کو مخاطب کرکے کہا:خدا کی قسم میں تو اگر رضامندی سے بھی یہ عہدہ قبول کروں تو آپ کے بھروسے کے لائق نہیں ہوں، کجا کہ ناراضی کے ساتھ مجبوراً قبول کروں۔ اگر کسی معاملے میں میرا فیصلہ آپ کے خلاف ہوا اور پھر آپ نے مجھے دھمکی دی کہ یا تو میں تجھے فرات میں غرق کر دوں گا۔ ورنہ اپنا فیصلہ بدل دے، تو میں غرق ہونا قبول کر لوں گا مگر فیصلہ نہ بدلوں گا۔ پھر آپ کے بہت سے اہلِ دربار بھی ہیں …… کوئی ایسا قاضی چاہیے جو آپ کی خاطر ان کا بھی لحاظ کرے۔ ۳؎ ان باتوں سے جب منصور کو یقین ہو گیاکہ یہ شخص اس سنہری پنجرے میں بند ہونے کے لیے تیار نہیں ہے تو وہ عریاں انتقام پر اتر آیا۔ انھیں کوڑوں سے پٹوایا، جیل میں ڈال کر کھانے پینے کی سخت تکلیفیں دیں، پھر ایک مکان میں نظربند کر دیا جہاں بقول بعض طبعی موت سے اور بقول بعض زہر سے ان کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔۴؎
آزادیٔ اظہار رائے کا حق
امام کے نزدیک مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست میں قضا کی آزادی کے ساتھ آزادی اظہار رائے کی بھی بہت بڑی اہمیّت تھی جس کے لیے قرآن و سنّت میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ محض ’’اظہار رائے‘‘ تو نہایت ناروا بھی ہو سکتا ہے، فتنہ انگیز بھی ہو سکتا ہے، اخلاق اور دیانت اور انسانیت کے خلاف بھی ہو سکتا ہے، جسے کوئی قانون برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن برائیوں سے روکنا اور بھلائی کے لیے کہنا ایک صحیح اظہار رائے ہے اور اسلام یہ اصطلاح اختیار کرکے اظہارِ رائے کی تمام صورتوں میں سے اسی کو مخصوص طور پر عوام کا نہ صرف حق قرار دیتا ہے بلکہ اسے ان کا فرض بھی ٹھہراتا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کو اس حق اور اس فرض کی اہمیّت کا سخت احساس تھا کیونکہ ان کے زمانے کے سیاسی نظام میں مسلمانوں کا یہ حق سلب کر لیا گیا تھا اور اس کی فرضیت کے معاملے میں بھی لوگ مذبذب ہو گئے تھے۔ اس زمانے میں ایک طرف مرحبۂ اپنے عقائد کی تبلیغ سے لوگوں کو گناہ پر جرأت دلا رہے تھے، دوسری طرف حَشْویہ اس بات کے قائل تھے کہ حکومت کے مقابلے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر ایک فتنہ ہے، اور تیسری طرف بنی امیہ و بنی عباس کی حکومتیں طاقت سے مسلمانوں کی اس روح کو کچل رہی تھیں کہ وہ امرا کے فسق و فجور اور ظلم وجور کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اس لیے امام ابوحنیفہؒ نے اپنے قول اور عمل دونوں سے اس روح کو زندہ کرنے کی اور اس کے حدود واضح کرنے کی کوشش کی۔ الجصّاص کا بیان ہے کہ ابراہیم الصائغ (خراسان کے ایک مشہور و بااثر فقیہ) کے سوال پر امام نے فرمایا کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر فرض ہے اور ان کو عکرمہ عن ابن عباس کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنایا کہ افضل الشہداء ایک تو حمزہ بن عبدالمطلب ہیں، دوسرے وہ شخص جو ظالم امام کے سامنے اٹھ کر اسے نیک بات کہے اور بدی سے روکے اور اس قصور میں مارا جائے۔ ابراہیم پر امام کی اس تلقین کا اتنا زبردست اثر پڑا کہ وہ جب خراسان واپس گئے تو انھوں نے عباسی سلطنت کے بانی ابومسلم خراسانی (م ۱۳۶ھ، ۷۵۴ئ) کو اس کے ظلم و ستم اور ناحق کی خون ریزی پر برملا ٹوکا اور بار بار ٹوکا، یہاں تک کہ آخرکار اس نے انھیں قتل کر دیا۔ ۱؎
ابراہیم بن عبداللہ، نفس ذکیہ کے بھائی کے خروج (۱۴۵ھ ___ ۷۶۳ئ) کے زمانے میں امام ابوحنیفہؒکا اپنا طرزِ عمل یہ تھا کہ وہ علانیہ ان کی حمایت اور المنصور کی مخالفت کرتے تھے حالانکہ المنصور اس وقت کوفہ ہی میں موجود تھا، ابراہیم کی فوج بصرے سے کوفے کی طرف بڑھ رہی تھی اور شہر میں رات بھر کرفیو رہتا تھا۔ ان کے مشہور شاگرد زُفر بن الہذیل کی روایت ہے کہ اس نازک زمانے میں ابوحنیفہؒبڑے زوروشور سے کھلّم کھلا اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے یہاں تک کہ ایک روز میں نے ان سے کہا آپ باز نہ آئیں گے جب تک ہم سب کی گردنوں میں رسی نہ بندھ جائے۔ ۱؎
۱۴۸ھ (۷۶۵ء) میں اہلِ موصل نے بغاوت کی۔ منصور اس سے پہلے ایک بغاوت کے بعد ان سے یہ عہد لے چکا تھا کہ آیندہ اگر وہ بغاوت کریں گے تو ان کے خون اور مال اس پر حلال ہوں گے۔ اب جو انھوں نے خروج کیا تو منصور نے بڑے بڑے فقہا کو جن میں ابوحنیفہؒبھی تھے، بلا کر پوچھا کہ معاہدے کی رو سے ان کے خون اور مال مجھ پر حلال ہو گئے ہیں یا نہیں؟ دوسرے فقہا نے معاہدے کا سہارا لیا اور کہا کہ آپ انھیں معاف کر دیں تو یہ آپ کی شان کے مطابق ہے ورنہ جو سزا بھی آپ انھیں دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔ ابوحنیفہؒخاموش تھے۔ منصور نے کہا یا شیخ، آپ کیا کہتے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا: اہلِ موصل نے آپ کے لیے وہ چیز مباح کی جو ان کی اپنی نہ تھی (یعنی ان کے خون) اور آپ نے ان سے وہ شرط منوائی جسے آپ منوانے کا حق نہ رکھتے تھے۔ بتایئے، اگر کوئی عورت اپنے آپ کو نکاح کے بغیر کسی کے لیے حلال کر دے تو کیا وہ حلال ہو جائے گی؟ اگر کوئی شخص کسی سے کہے کہ مجھے قتل کر دے تو کیا اس کا قتل اس شخص کے لیے مباح ہو گا؟ منصور نے کہا: نہیں۔ امام نے کہا :تو آپ اہلِ موصل سے ہاتھ روک لیجیے۔ ان کا خون بہانا آپ کے لیے حلال نہیں ہے۔ یہ بات سن کر منصور نے ناراضی کے ساتھ فقہا کی مجلس برخاست کر دی۔ پھر ابوحنیفہؒکو الگ بلا کر کہا: بات تو وہی صحیح ہے جو تم نے کہی، مگر تم ایسے فتوے نہ دیا کرو جن سے تمھارے امام پر حرف آئے اور باغیوں کی ہمت افزائی ہو۔۲؎
اسی آزادیٔ اظہار رائے کا استعمال وہ عدالتوں کے مقابلے میں بھی کرتے تھے۔ کسی عدالت سے اگر کوئی غلط فیصلہ ہوتا تو قانون یا ضابطے کی جو غلطی بھی اس میں ہوتی، امام ابوحنیفہؒاس کا صاف صاف اظہار کر دیتے تھے۔ ان کے نزدیک احترامِ عدالت کے معنی یہ نہ تھے کہ عدالتوں کو غلط فیصلے کرنے دیئے جائیں۔ اس قصور میں ایک دفعہ مدت تک انھیں فتویٰ دینے سے بھی روک دیا گیا تھا۔ ۱؎
آزادیٔ رائے کے معاملے میں وہ اس حد تک جاتے ہیں کہ جائز امامت اور اس کی عادل حکومت کے خلاف بھی اگر کوئی شخص زبان کھولے اور امام وقت کو گالیاں دے یا اسے قتل تک کرنے کا خیال ظاہر کرے تو اس کو قید کرنا اور سزا دینا ان کے نزدیک جائز نہیں تاوقتیکہ وہ مسلح بغاوت یا بدامنی برپا کرنے کا عزم نہ کرے۔ اس کے لیے وہ حضرت علیؓ کے اس واقعہ سے استدلال کرتے ہیں کہ ان کے زمانۂ خلافت میں پانچ آدمی اس الزام میں گرفتار کرکے لائے گئے کہ وہ امیر المومنین کو کوفہ میں علانیہ گالیاں دے رہے تھے اور ان میں سے ایک شخص کہہ رہا تھا کہ میں انھیں قتل کر دوں گا۔ حضرت علیؓ نے انھیں رہا کر دینے کا حکم دیا۔ کہا گیا کہ یہ تو آپ کو قتل کرنے کا ارادہ ظاہر کر رہا تھا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: تو کیا بس یہ ارادہ ظاہر کرنے پر میں اسے قتل کر دوں؟ کہا گیا اور یہ لوگ آپ کو گالیاں دے رہے تھے۔ فرمایا:تم چاہو تو تم بھی انھیں گالیاں دے سکتے ہو۔ اسی طرح وہ مخالفینِ حکومت کے معاملے میں حضرت علیؓ کے اس اعلان سے بھی استدلال کرتے ہیں جو انھوں نے خوارج کے بارے میں کیا تھا کہ ہم تم کو مسجدوں میں آنے سے نہیں روکیں گے۔ ہم تمھیں مفتوحہ اموال کے حصّے سے محروم نہ کریں گے جب تک تم ہمارے خلاف کوئی مسلح کارروائی نہ کرو۔ ۲؎
ظالم حکومت کے خلاف خروج کا مسئلہ
اس زمانے میں ایک اہم مسئلہ یہ تھا کہ اگر مسلمانوں کا امام ظالم و فاسق ہو تو آیا اُس کے خلاف خروج (Revolt) کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اس مسئلے میں خود اہل السنت کے درمیان اختلاف ہے۔ اہل الحدیث کا بڑا گروہ اس بات کا قائل رہا ہے کہ صرف زبان سے اس کے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جائے اور اس کے سامنے کلمہ حق کہا جائے لیکن خروج نہ کیا جائے اگرچہ وہ ناحق خوں ریزی کرے، لوگوں کے حقوق پر بے جا دست درازیاں کرے اور کھلّم کھلا فسق کا مرتکب ہو۔۱؎ لیکن امام ابوحنیفہؒکا مسلک یہ تھا کہ ظالم کی امامت نہ صرف یہ کہ باطل ہے، بلکہ اس کے خلاف خروج بھی کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے۔ بشرطیکہ ایک کامیاب اور مفید انقلاب ممکن ہو، ظالم و فاسق کی جگہ عادل و صالح کو لایا جا سکتا ہو اور خروج کا نتیجہ محض جانوں اور قوتوں کا ضیاع نہ ہو۔ ابوبکر الجصّاص ان کے اس مسلک کی تشریح اس طرح کرتے ہیں۔
ظالموں اور ائمّہ جَور کے خلاف قتال کے معاملے میں ان کا مذہب مشہور ہے۔ اسی بنا پر اَوزاعی نے کہا تھا کہ ہم نے ابوحنیفہؒکی ہر بات برداشت کی یہاں تک کہ وہ تلوار کے ساتھ آ گئے (یعنی ظالموں کے خلاف قتال کے قائل ہو گئے) اور یہ ہمارے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ ابوحنیفہؒ کہتے تھے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ابتداً زبان سے فرض ہے لیکن اگر سیدھی راہ اختیار نہ کی جائے تو پھر تلوار سے واجب ہے۔ ۲؎
دوسری جگہ وہ عبداللہ بن المبارک کے حوالے سے خود امام ابوحنیفہؒکا ایک بیان نقل کرتے ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پہلے عباسی خلیفہ کے زمانے میں ابومسلم خراسانی نے ظلم و ستم کی حد کر رکھی تھی۔ اس زمانے میں خراسان کے فقیہ ابراہیم الصائغ امام کے پاس آئے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مسئلے پر ان سے گفتگو کی۔ اس گفتگو کا ذکر بعد میں خود امام نے عبداللہ بن المبارک سے اس طرح کیا۔
ہمارے درمیان جب اس امر پر اتفاق ہو گیا کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر فرض ہے تو ابراہیم نے یکایک کہا ہاتھ بڑھایئے تاکہ میں آپ سے بیعت کروں۔ یہ سن کر دنیا میری نگاہوں میں تاریک ہو گئی۔ (ابن مبارک کہتے ہیں میں نے عرض کیا یہ کیوں؟ بولے) اس نے مجھے اللہ کے ایک حق کی طرف دعوت دی اور میں نے اس کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ آخر میں نے اس سے کہا اگر ایک اکیلا آدمی اس کے لیے اٹھ کھڑا ہو تو مارا جائے گا اور لوگوں کا کوئی کام بھی نہ بنے گا۔ البتہ اگر اسے صالح مددگار مل جائیں اور ایک آدمی سرداری کے لیے ایسا بہم پہنچ جائے جو اللہ کے دین کے معاملے میں بھروسے کے لائق ہو تو پھر کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ اس کے بعد ابراہیم جب بھی میرے پاس آتے مجھ پر اس کام کے لیے ایسا تقاضا کرتے جیسے کوئی سخت قرض خواہ کرتا ہے۔ میں ان سے کہتا کہ یہ کام ایک آدمی کے بنانے سے نہیں بن سکتا۔ انبیا بھی اس کی طاقت نہ رکھتے تھے جب تک کہ آسمان سے اس کے لیے مامور نہ کیے گئے۔ یہ فریضہ عام فرائض کی طرح نہیں ہے۔ عام فرائض کو ایک آدمی تنہا بھی انجام دے سکتا ہے مگر یہ ایسا کام ہے کہ اکیلا آدمی اس کے لیے کھڑا ہو جائے تو اپنی جان دے دے گا اور مجھے اندیشہ ہے کہ وہ اپنے قتل میں اعانت کا قصور وار ہو گا۔ پھر جب وہ مارا جائے گا تو دوسروں کی ہمتیں بھی اس خطرے کو انگیز کرنے میں پست ہو جائیں گی۔ ۱؎
خروج کے معاملے میں امام کا اپنا طرزِ عمل
اس سے امام کی اصولی رائے تو اس مسئلے میں صاف معلوم ہو جاتی ہے لیکن ان کا پورا نقطۂ نظر اس وقت تک سمجھ میں نہیں آ سکتا جب تک ہم یہ نہ دیکھیں کہ ان کے زمانے میں خروج کے جو اہم واقعات پیش آئے ان میں کیا طرزِ عمل انھوں نے اختیار کیا۔
زید بن علی کا خروج
پہلا واقعہ زید بن علی کا ہے جن کی طرف شیعوں کا فرقہ زیدیہ اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے۔ یہ امام حسینؓ کے پوتے اور امام محمد الباقر کے بھائی تھے۔ اپنے وقت کے بڑے جلیل القدر عالم، فقیہ اور متقی و صالح بزرگ تھے۔ اور خود امام ابوحنیفہؒنے بھی ان سے علمی استفادہ کیا تھا۔ ۱۲۰ھ (۷۳۸ء) میں جب ہشام بن عبدالملک نے خالد بن عبداللہ القسری کو عراق کی گورنری سے معزول کرکے اس کے خلاف تحقیقات کرائی تو اس کے سلسلے میں گواہی کے لیے حضرت زید کو بھی مدینے سے کوفے بلایا گیا۔ ایک مدت کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ خاندان علی کا ایک ممتاز فرد کوفہ آیا تھا۔ یہ شہر شیعانِ علی کا گڑھ تھا۔ اس لیے ان کے آنے سے یک لخت علوی تحریک میں جان پڑ گئی اور لوگ کثرت سے ان کے گرد جمع ہونے لگے۔
ویسے بھی عراق کے باشندے سالہا سال سے بنی امیہ کے ظلم و ستم سہتے سہتے تنگ آ چکے تھے اور اٹھنے کے لیے سہارا چاہتے تھے۔ علوی خاندان کی ایک صالح، عالم، فقیہ شخصیت کا میسر آ جانا انھیں غنیمت محسوس ہوا۔ ان لوگوں نے زید کو یقین دلایا کہ کوفہ میں ایک لاکھ آدمی آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں اور پندرہ ہزار آدمیوں نے بیعت کرکے باقاعدہ اپنے نام بھی ان کے رجسٹر میں درج کرا دیئے۔ اس اثناء میں خروج کی یہ تیاریاں اندر ہی اندر ہو رہی تھیں، اموی گورنر کو ان کی اطلاع پہنچ گئی۔ زید نے یہ دیکھ کر کہ حکومت خبردار ہو گئی ہے، صفر ۱۲۲ ھ (۷۴۰ء) میں قبل از وقت خروج کر دیا۔ جب تصادم کا موقع آیا تو کوفہ کے شیعانِ علی ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ جنگ کے وقت صرف ۲۱۸ آدمی ان کے ساتھ تھے۔ دورانِ جنگ میں اچانک ایک تیر ان کے آ کر لگا اور ان کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔۱؎
اس خروج میں امام ابوحنیفہؒکی پوری ہمدردی ان کے ساتھ تھی۔ انھوں نے زید کو مالی مدد بھی دی اور لوگوں کو ان کا ساتھ دینے کی تلقین بھی کی۔ ۲؎ انھوں نے ان کے خروج کو جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خروج سے تشبیہ دی۔ ۳؎ جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک جس طرح اس وقت آنحضرتؐ کا حق پر ہونا غیر مشتبہ تھا اسی طرح اس خروج میں زید بن علی کا بھی حق پر ہونا غیر مشتبہ تھا لیکن جب زید کا پیغام ان کے نام آیا کہ آپ میرا ساتھ دیں تو انھوں نے قاصد سے کہا کہ اگر میں یہ جانتا کہ لوگ ان کا ساتھ نہ چھوڑیں گے اور سچے دل سے ان کی حمایت میں کھڑے ہوں گے تو میں ضرور ان کے ساتھ ہوتا اور جہاد کرتا کیونکہ وہ امام حق ہیں لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ یہ لوگ اسی طرح ان سے بے وفائی کریں گے جس طرح اَن کے دادا (سیدنا حسینؓ) سے کر چکے ہیں۔ البتہ میں روپے سے ان کی مدد ضرور کروں گا۔ ۴؎ یہ بات ٹھیک اس مسلک کے مطابق تھی جو ائمّہ جَور کے خلاف خروج کے معاملے میں امام نے اصولاً بیان کیا تھا۔ وہ کوفہ کے شیعانِ علی کی تاریخ اور ان کے نفسیات سے واقف تھے۔ حضرت علی کے زمانے سے یہ لوگ جس سیرت و کردار کا مسلسل اظہار کرتے رہے تھے اس کی پوری تاریخ سب کے سامنے تھی۔ دائود بن علی (ابن عباس کے پوتے) نے بھی عین وقت پر حضرت زید کو ان کوفیوں کی اسی بے وفائی پر متنبّہ کرکے خروج سے منع کیا تھا۔ ۱؎ امام ابوحنیفہؒکو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ تحریک صرف کوفہ میں ہے۔ پوری سلطنت بنی امیہ اس سے خالی ہے۔ کسی دوسری جگہ اس کی کوئی تنظیم نہیں، جہاں سے مدد مل سکے۔ اور خود کوفہ میں بھی چھ مہینے کے اندر یہ کچی پکی کھچڑی تیار ہوئی ہے۔ اس لیے انھیں تمام ظاہری آثار کو دیکھتے ہوئے یہ توقع نہ تھی کہ زید کے خروج سے کوئی کامیاب انقلاب رونما ہو سکے گا۔ علاوہ بریں غالباً امام کے نہ اٹھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ خود اس وقت تک اتنے بااثر نہ ہوئے تھے کہ ان کی شرکت سے اس تحریک کی کمزوری کا مداوا ہو سکے۔ ۱۲۰ھ تک عراق کے مدرسہ اہل الرّائے کی امامت حماد کو حاصل تھی اور ابوحنیفہؒاس وقت تک محض ان کے ایک شاگرد کی حیثیت رکھتے تھے۔ زید کے خروج کے وقت انھیں اس مدرسے کی امامت کے منصب پر سرفراز ہوئے صرف ڈیڑھ سال یا اس سے کچھ کم و بیش مدت ہوئی تھی۔ ابھی انھیں ’’فقیہ اہلِ شرق‘‘ ہونے کا مرتبہ اور اثرورسوخ حاصل نہ ہوا تھا۔
نفس زکیہ کا خروج
دوسرا خروج محمد بن عبداللہ (نفس زکیہ) اور ان کے بعد ان کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ کا تھا جو امام حسن بن علی کی اولاد سے تھے۔ یہ ۱۴۵ھ (۶۳-۷۶۲ء) کا واقعہ ہے جب کہ امام ابوحنیفہؒبھی اپنے پورے اثرورسوخ کو پہنچ چکے تھے۔ ان دونوں بھائیوں کی خفیہ تحریک بنی امیہ کے زمانے سے چل رہی تھی حتیٰ کہ ایک وقت تھا جب خود المنصور نے دوسرے بہت سے لوگوں کے ساتھ جو اموی سلطنت کے خلاف بغاوت کرنا چاہتے تھے، نفس زکیہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔۲؎ عباسی سلطنت قائم ہو جانے کے بعد یہ لوگ روپوش ہو گئے اور اندر ہی اندر اپنی دعوت پھیلاتے رہے۔ خراسان، الجزیرہ، رئے، طبرستان، یمن اور شمالی افریقہ میں ان کے داعی پھیلے ہوئے تھے۔ نفس زکیہ نے خود اپنا مرکز حجاز میں رکھا تھا۔ ان کے بھائی ابراہیم نے عراق میں بصرے کو اپنا مرکز بنایا تھا۔ کوفہ میں بھی بقول ابن اثیر ایک لاکھ تلواریں ان کی حمایت میں نکلنے کے لیے تیار تھیں۔۱؎ المنصور ان کی خفیہ تحریک سے پہلے ہی واقف تھا اور ان سے نہایت خوف زدہ تھا، کیونکہ ان کی دعوت اسی عباسی دعوت کے متوازی چل رہی تھی جس کے نتیجے میں دولت عباسیہ قائم ہوئی تھی اور اس کی تنظیم عباسی دعوت کی تنظیم سے کم نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کئی سال سے اس کو توڑنے کے در پے تھا اور اسے کچلنے کے لیے انتہائی سختیاں کر رہا تھا۔ جب رجب ۱۴۵ھ میں نفس زکیہ نے مدینے سے عملاً خروج کیا تو منصور سخت گھبراہٹ کی حالت میں بغداد کی تعمیر چھوڑ کر کوفہ پہنچا اور اس تحریک کے خاتمے تک اسے یقین نہ تھا کہ اس کی سلطنت باقی رہے گی یا نہیں۔ بسا اوقات بدحواس ہو کر کہتا ’’بخدا میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔‘‘ بصرہ، فارس، اہواز، واسط، مدائن، سواد جگہ جگہ سے سقوط کی خبریں آتی تھیں اور ہر طرف سے اس کو بغاوت پھوٹ پڑنے کا خطرہ تھا۔ دو مہینے تک وہ ایک ہی لباس پہنے رہا، بستر پر نہ سویا، رات رات بھر مصلّے پر گزار دیتا تھا۔۲؎ اس نے کوفہ سے فرار ہونے کے لیے ہر وقت تیز رفتار سواریاں تیار رکھ چھوڑی تھیں۔ اگر خوش قسمتی اس کا ساتھ نہ دیتی تو یہ تحریک اس کا اور خانوادہ عباسی کی سلطنت کا تختہ الٹ دیتی۔۳؎
اس خروج کے موقع پر امام ابوحنیفہؒکا طرزِ عمل پہلے خروج سے بالکل مختلف تھا۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، انھوں نے اس زمانے میں جب کہ منصور کوفہ ہی میں موجود تھا اور شہر میں ہر رات کرفیو لگا رہتا تھا، بڑے زوروشور سے کھلّم کھلا اس تحریک کی حمایت کی، یہاں تک کہ ان کے شاگردوں کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ ہم سب باندھ لیے جائیں گے۔ وہ لوگوں کو ابراہیم کا ساتھ دینے اور ان سے بیعت کرنے کی تلقین کرتے تھے۔۴؎ وہ ان کے ساتھ خروج کو نفلی حج سے ۵۰ یا ۷۰ گنا زیادہ ثواب کا کام قرار دیتے تھے۔۵؎ ایک شخص ابواسحاق الفَزاری سے انھوں نے یہاں تک کہا کہ تیرا بھائی جو ابراہیم کا ساتھ دے رہا ہے، اس کا یہ فعل تیرے اس فعل سے کہ تو کفار کے خلاف جہاد کرتا ہے، زیادہ افضل ہے۔۶؎ امام کے یہ اقوال ابوبکر جصّاص، الموفق المکّی اور ابن البزّاز الکردری صاحب ِفتاویٰ بزازیہ جیسے لوگوں نے نقل کیے ہیں جو خود بڑے درجے کے فقیہ ہیں اور ان اقوال کے صاف معنی یہ ہیں کہ امام کے نزدیک مسلم معاشرے کے اندرونی نظام کو بگڑی ہوئی قیادت کے تسلّط سے نکالنے کی کوشش باہر کے کفار سے لڑنے کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ فضیلت رکھتی تھی۔
سب سے زیادہ اہم اور خطرناک اقدام ان کا یہ تھا کہ انھوں نے المنصور کے نہایت معتمد جنرل اور اس کے سپہ سالار اعظم حسن بن قَحْطُبَہ کو نفس زکیہ اور ابراہیم کے خلاف جنگ پر جانے سے روک دیا۔ اس کا باپ قحطبہ وہ شخص تھا جس کی تلوار نے ابومسلم کی تدبیر و سیاست کے ساتھ مل کر سلطنت عباسیہ کی بنا رکھی تھی۔ اس کے مرنے کے بعد یہ اس کی جگہ سپہ سالار اعظم بنایا گیا اور منصور کو اپنے جنرلوں میں سب سے زیادہ اسی پر اعتماد تھا۔ لیکن وہ کوفے میں رہ کر امام ابوحنیفہؒکا گرویدہ ہو چکا تھا۔ اس نے ایک مرتبہ امام سے کہا کہ میں آج تک جتنے گناہ کر چکا ہوں (یعنی منصور کی نوکری میں جیسے کچھ ظلم و ستم میرے ہاتھوں ہوئے ہیں) وہ آپ کے علم میں ہیں۔ اب کیا میرے لیے ان گناہوں کی معافی کی بھی کوئی صورت ہے؟ امام نے کہا: اگر اللہ کو معلوم ہو کہ تم اپنے افعال پر نادم ہو اور اگر آیندہ کسی مسلمان کے بے گناہ قتل کے لیے تم سے کہا جائے اور تم اسے قتل کرنے کے بجائے خود قتل ہو جانا گوارا کر لو، اور اگر تم اﷲ سے عہد کرو کہ آیندہ اپنے پچھلے افعال کا اعادہ نہ کرو گے تو یہ تمھارے لیے توبہ ہو گی۔ حسن نے امام کی یہ بات سن کر ان کے سامنے عہد کر لیا۔ اس پر کچھ مدت ہی گزری تھی کہ نفس زکیہ اور ابراہیم کے خروج کا معاملہ پیش آ گیا۔ منصور نے حسن کو ان کے خلاف جنگ پر جانے کا حکم دیا۔ اس نے آ کر امام سے اس کا ذکر کیا۔ امام نے فرمایا اب تمھاری توبہ کے امتحان کا وقت آ گیا ہے۔ اپنے عہد پر قائم رہو گے تو تمھاری توبہ بھی رہے گی۔ ورنہ پہلے جو کچھ کر چکے ہو اس پر بھی اﷲ کے ہاں پکڑے جائو گے اور اب جو کچھ کرو گے اس کی سزا بھی پائو گے۔ حسن نے دوبارہ اپنی توبہ کی تجدید کی اور امام سے کہا اگر مجھے مار بھی ڈالا جائے تو میں اس جنگ پر نہ جائوں گا۔ چنانچہ اس نے منصور کے پاس جا کر صاف کہہ دیا کہ امیر المومنین، میں اس مہم پر نہ جائوں گا۔ آج تک جو کچھ میں نے آپ کی اطاعت میں کیا ہے اگر یہ اللہ کی اطاعت میں تھا تو میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے۔ اور اگر وہ اللہ کی معصیت میں تھا تو اس سے آگے اب میں مزید گناہ نہیں کرنا چاہتا۔ منصور نے اس پر سخت ناراض ہو کر حسن کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ حسن کے بھائی حمید نے آگے بڑھ کر کہا: سال بھر سے اس کا رنگ بدلا ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے، میں اس مہم پر جائوں گا۔ بعد میں منصور نے اپنے معتمد لوگوں کو بلا کر پوچھا کہ حسن ان فقہا میں سے کس کے پاس جاتا آتا ہے۔ بتایا گیا کہ ابوحنیفہؒکے پاس اکثر اس کا جانا آنا رہتا ہے۔ ۱؎
یہ طرز عمل بھی ٹھیک ٹھیک امام کے اس نظریئے کے مطابق تھا کہ ایک کامیاب اور صالح انقلاب کے امکانات ہوں تو ظالم حکومت کے خلاف خروج جائز ہی نہیں واجب ہے۔ اس معاملے میں امام مالک کا طرز عمل بھی امام ابوحنیفہؒسے کچھ مختلف نہ تھا۔ نفس زکیہ کے خروج کے موقع پر جب ان سے پوچھا گیا کہ ہماری گردنوں میں تو خلیفہ منصور کی بیعت ہے، اب ہم دوسرے مدعی خلافت کا ساتھ کیسے دے سکتے ہیں، تو انھوں نے فتویٰ دیا کہ عباسیوں کی بیعت جبری تھی اور جبری بیعت، قسم یا طلاق جو بھی ہو، وہ باطل ہے۔۲؎ اسی فتوے کی وجہ سے بکثرت لوگ نفس زکیہ کے ساتھ ہو گئے اور بعد میں اس کا خمیازہ امام مالک کو یہ بھگتنا پڑا کہ مدینے کے عباسی گورنر جعفر بن سلیمان نے انھیں کوڑے لگوائے اور ان کا ہاتھ شانے سے اکھڑ گیا۔۳؎
امام ابوحنیفہؒمنفرد نہیں ہیں
یہ خیال کرنا صحیح نہ ہو گا کہ خروج کے مسئلے میں اہل السنت کے درمیان امام ابوحنیفہؒاپنی رائے میں منفرد ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پہلی صدی ہجری میں اکابر اہلِ دین کی رائے وہی تھی جو امام اعظم نے اپنے قول اور عمل سے ظاہر فرمائی ہے۔ بیعت ِخلافت کے بعد حضرت ابوبکر نے سب سے پہلا خطبہ جو دیا اس میں وہ فرماتے ہیں:
اطیعونی ما اطعت اللّٰہ ورسولہ، فاذا عصیت اللّٰہ ورسولہ فلا طاعۃ لی علیکم۔۱؎
میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کروں۔ لیکن اگر میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو میری کوئی اطاعت تم پر نہیں ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
من بایع رجلاً من غیر مشورۃٍ من المسلمین فلابیایع ہوولا الذی بایعد تغرَّۃً ان یُقتلًا ۲؎
جس نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی شخص کی بیعت کی وہ بیعت کرنے والا اور جس سے اس نے بیعت کی، اپنے آپ کو بھی اور اس کو بھی دھوکا دیتا ہے اور اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کرتا ہے۔
یزید کی قائم شدہ امارت کے مقابلے میں جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ اٹھے تو بکثرت صحابہ زندہ تھے، اور فقہائے تابعین کا تو قریب قریب سارا گروہ ہی موجود تھا۔ مگر ہماری نگاہ سے کسی صحابی یا تابعی کا یہ قول نہیں گزرا کہ حضرت حسین ایک فعلِ حرام کا ارتکاب کرنے جا رہے ہیں۔ جن جن لوگوں نے بھی حضرت ممدوح کو روکا تھا یہ کہہ کر روکا تھا کہ اہلِ عراق قابلِ اعتماد نہیں ہیں، آپ کامیاب نہ ہو سکیں گے۔ اور اس اقدام سے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال دیں گے۔ بالفاظِ دیگر ان سب کی رائے اس مسئلے میں وہی تھی جو بعد میں امام ابوحنیفہؒنے ظاہر فرمائی کہ فاسد امارت کے خلاف خروج بجائے خود ناجائز نہیں ہے، مگر اس اقدام سے پہلے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ آیا بگڑے ہوئے نظام کو بدل کر صالح نظام قائم ہو جانے کا امکان ہے یا نہیں۔
اسی طرح جب حجاج بن یوسف کے ظالمانہ دورِ ولایت میں عبدالرحمان بن اشعث نے بنی امیہ کے خلاف خروج کیا تو اس وقت کے بڑے بڑے فقہا، سعید بن جُبَیر، الشُّعبی، ابن ابی لیلیٰ اور ابوالبَخْترِی اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ اور باقی جو کھڑے نہ ہوئے ان میں سے بھی کسی نے نہ کہا کہ یہ خروج ناجائز ہے۔ اس موقع پر ابن اشعث کی فوج کے سامنے ان فقہا نے جو تقریریں کی تھیں وہ ان کے نظریے کی پوری ترجمانی کرتی ہیں۔ ابن ابی لیلیٰ نے کہا۔
اے اہلِ ایمان، جو شخص دیکھے کہ ظلم و ستم ہو رہا ہے اور برائیوں کی طرف دعوت دی جا رہی ہے، وہ اگر دل سے اس کو برا سمجھے تو بری ہوا اور بچ نکلا، اور اگر زبان سے اس پر اظہار ناپسندی کرے تو اس نے اجر پایا اور پہلے شخص سے افضل رہا، مگر ٹھیک ٹھیک راہِ حق پانے والا اور یقین کے نور سے دل کو روشن کر لینے والا وہی ہے جو اللہ کا بول بالا اور ظالموں کا بول نیچا کرنے کی خاطر ایسے لوگوں کی مخالفت تلوار سے کرے۔ پس جنگ کرو ان لوگوں کے خلاف جنھوں نے حرام کو حلال کر دیا ہے اور امت میں برے راستے نکالے ہیں، جو حق سے بیگانہ ہیں اور اسے نہیں پہچانتے جو ظلم پر عمل کرتے ہیں اور اسے برا نہیں جانتے۔
الشعبی نے کہا:
ان سے لڑو اور یہ خیال نہ کرو کہ ان کے خلاف جنگ کرنا کوئی برا فعل ہے۔ خدا کی قسم، آج روئے زمین پر میرے علم میں ان سے بڑھ کر ظلم کرنے والا اور اپنے فیصلوں میں ناانصافی کرنے والا کوئی گروہ نہیں ہے۔ پس ان کے خلاف لڑنے میں ہرگز سستی نہ ہونے پائے۔
سعید بن جُبَیر نے کہا۔
ان سے لڑو، اس بنا پر کہ وہ حکومت میں ظالم ہیں دین میں سرکش ہیں،کمزوروں کو ذلیل کرتے ہیں، اور نمازوں کو ضائع کرتے ہیں۔ ۱؎
یہ تھی پہلی صدی ہجری کے اہلِ دین کی عام رائے۔ امام ابوحنیفہؒنے اسی دور میں آنکھیں کھولی تھیں، اس لیے ان کی رائے بھی وہی تھی جو ان لوگوں کی تھی۔ اس کے بعد دوسری صدی کے آخری دور میں وہ دوسری رائے ظاہر ہونی شروع ہوئی جو اب جمہور اہلِ سنّت کی رائے کہی جاتی ہے۔ اس رائے کے ظہور کی وجہ یہ نہ تھی کہ کچھ نصوصِ قطعیّہ اس کے حق میں مل گئی تھیں جو پہلی صدی کے اکابر سے پوشیدہ تھیں، یا معاذ اللہ، پہلی صدی والوں نے نصوص کے خلاف مسلک اختیار کر رکھا تھا۔ بلکہ دراصل اس کے دو وجوہ تھے۔ ایک یہ کہ جبّاروں نے پرامن جمہوری طریقوں سے تبدیلی کا کوئی راستہ کھلا نہ چھوڑا تھا۔ دوسرے یہ کہ تلوار کے ذریعے سے تبدیلی کی جو کوششیں ہوئی تھیں ان کے ایسے نتائج پے در پے ظاہر ہوتے چلے گئے جن کو دیکھ کر اس راستے سے بھی خیر کی توقع باقی نہ رہی۔ (ترجمان القرآن۔ اگست و ستمبر ۱۹۶۳ء)
خروج کے بارے میں امام ابوحنیفہؒ کا مسلک
سوال: ’’مسئلہ خلافت میں امام ابوحنیفہؒ کے مسلک‘‘ کی جو کچھ تشریح آپ نے ترجمان القرآن میں پیش کی ہے اس کے ضمن میں بعض واقعات جو بعض کتابوں کے حوالے سے نقل کیے گئے ہیں افسوس ہے کہ ان کے ساتھ اتفاق کرنا مشکل ہے۔ بعض واقعات جس انداز سے پیش کیے گئے ہیں اس سے تو امام ابوحنیفہؒکے مسلک کے بارے میں قارئین ترجمان القرآن بہت بڑی غلط فہمی میں پڑ سکتے ہیں۔ بلکہ امام کے مسلک میں انھیں کھلا ہوا تضاد معلوم ہو سکتا ہے اگر انھوں نے مسلک امام کے متعلق کچھ فقہی معلومات حاصل کیے ہوں۔ سردست میں ایک واقعہ کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جو متعلقہ مسئلے کی قسط دوم میں بیان کیا گیا ہے اور جس کا حوالہ ابن الاثیر اور کردری کے علاوہ المبسوط ج ۱۰، ص ۱۲۹ پر دیا گیا ہے۔
یہ واقعہ اہلِ موصل کی بغاوت سے متعلق ہے۔ اس کو آپ نے ایسے انداز سے پیش کیا ہے جس سے ایک قاری بجز اس کے کہ اس کو مسلمان رعایا کی بغاوت سے متعلق سمجھے‘ دوسرا کوئی مطلب نہیں لے سکتا حالانکہ یہ واقعہ مبسوط کی تصریح کے مطابق مشرکین کی بغاوت سے متعلق ہے جو موصل کے رہنے والے تھے اور جن کے ساتھ ’’دو انیقی‘‘ ۱؎ نے صلح کی تھی۔ اس واقعہ میں آپ نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ منصور نے اہلِ موصل سے حالیہ بغاوت کرنے سے پہلے جو عہد لیا تھا وہ ان کے خون اور مال سے متعلق تھا کہ آیندہ اگر وہ بغاوت کریں گے تو ان کے خون اور مال اس پر حلال ہوں گے۔ اور اسی معاملے کے متعلق منصور نے فقہا کی ایک جماعت سے جس میں امام ابوحنیفہؒ بھی موجود تھے یہ پوچھا کہ معاہدے کی رو سے ان کے خون اور مال مجھ پر حلال ہو گئے ہیں یا نہیں؟ اور اسی کے متعلق امام نے کہا تھا کہ اہلِ موصل سے ہاتھ روک لیجیے۔ ان کا خون بہانا آپ کے لیے حلال نہیں ہے۔ حالانکہ مبسوط کی عبارات سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاہدہ باغیوں کے خون اور مال کی حلّت و حرمت سے متعلق نہیں تھا بلکہ ان قیدیوں کے قتل سے متعلق تھا جو مشرک تھے اور باغیوں نے انھیں بطورِ ’’رہن‘‘ مسلمانوں کے ہاتھوں میں دے دیا تھا ۱؎ اور وہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں قیدیوں کی حیثیت سے تھے اور چونکہ معاہدے میں جانبین نے یہ شرط مقرر کر رکھی تھی کہ اگر ایک فریق نے دوسرے فریق کے قیدیوں کو قتل کر دیا تو دوسرا فریق بھی اس کے قیدیوں کو قتل کر سکے گا اور اہلِ موصل نے ان مسلمان قیدیوں کو پہلے قتل کر ڈالا تھا جو ان کے ہاتھوں میں قیدیوں کی حیثیت سے تھے، اس لیے علما سے یہ پوچھنے کی ضرورت پیش آئی کہ ہم ان مشرک قیدیوں کے ساتھ کیا معاملہ کریں جو باغیوں کی طرف سے ہمارے ہاتھوں میں ہیں۔ تو ان قیدیوں کے قتل کے متعلق امام اعظم نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ یہ آپ کے لیے حلال نہیں ہے۔ نہ کہ امام اعظم نے مسلمان رعایا کی بغاوت کے متعلق خود باغیوں کے بارے میں یہ فرمایا تھا کہ ان کا قاتل جائز نہیں ہے۔
اس کے علاوہ خود باغیوں کے بارے میں امام اعظمؒ یہ فتویٰ دے کیسے سکتے تھے کہ ان کا قتل جائز نہیں ہے۔ جبکہ امام سَرخِسی نے اسی باب کی ابتدا میں باغیوں کے بارے میں امام اعظمؒ کا مذہب یہ نقل کیا ہے کہ باغی لوگ جب ایسے امام سے بغاوت کریں جس کی وجہ سے ملک میں امن و امان قائم ہو گیا ہو (خواہ وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو) تو ان کا قتل واجب ہے۔
فان کان المسلمون مجتمعین علی واحد و کانوا آمنین بہ والسبیل آمنۃ فخرج علیہ طائفۃ من المسلمین فحینئذٍ یجب علی من یقوی علی القتال ان یقاتل مع المسلمین الخارجین (اھ ج ۱۰، ص ۱۲۴)
اگر مسلمان ایک حاکم پر مجتمع ہوں، امن و امان میں ہوں اور راستہ محفوظ ہو، پھر اس حاکم پر مسلمانوں کا ایک گروہ خروج کرے تو جو شخص لڑ سکتا ہو اس پر واجب ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہو کر خروج کرنے والوں سے لڑے۔
امام سَرخِسیؒ نے اس حکم کے لیے جو دلائل پیش کیے ہیں ان میں ایک یہ آیت کریمہ بھی ہے۔
فَاِنْ م بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِج
پس اگر ان دونوں (گروہوں) میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو لڑو اس سے جو زیادتی کرتا ہے حتیٰ کہ وہ لوٹ آئے اللہ کے حکم کی جانب۔
قرآن کے اس صریح حکم کے مقابلے میں امام اعظمؒ آخر کیسے یہ کہنے کی جرأت کر سکتے تھے کہ باغیوں کا قتل جائز نہیں ہے۔ اس بارے میں امام سَرخِسیؒ نے مبسوط میں جو تفصیل پیش کی ہے میں اسے یہاں نقل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ خود اس مقام پر دوبارہ نظر ڈال کر ترجمان القرآن کے ذریعے اس خط کے جواب میں اپنے مضمون کی اصلاح فرمائیں گے اور خط بھی فائدہ عام کے لیے شائع کریں گے۔‘‘
جواب:۔ غالباً آپ نے سرسری طور پر میرے مضمون میں اس مقام کو دیکھا اور جلدی میں اظہارِ رائے فرما دیا جس جگہ یہ بحث آئی ہے وہاں زیر بحث مسئلہ یہ نہ تھا کہ اہلِ موصل کے معاملے کی فقہی نوعیت کیا تھی، بلکہ یہ تھا کہ امام ابوحنیفہؒرحمہ اللہ اظہار رائے کے معاملے میں کس قدر جری اور بے لاگ تھے۔ اسی بنا پر میں نے اس جگہ یہ بحث نہیں کی کہ اہلِ موصل کا اصل معاملہ کیا تھا۔ آپ صفحہ ۲۸۴ سے ۲۸۷ تک کا پورا مضمون دیکھیں تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ وہاں یہ گفتگو بالکل غیر متعلق تھی۔
اب آپ نے اس مسئلے کو چھیڑا ہے تو اس کے متعلق مختصراً عرض کیے دیتا ہوں: اہلِ موصل کے معاملے میں ابن الاثیر اور الکردری کا بیان شمس الائمہ سَرخِسی کے بیان سے مختلف ہے۔ شمس الائمہ کہتے ہیں کہ اہلِ موصل جنھوں نے بغاوت کی تھی کفّار تھے اور منصور سے ان کا معاملہ یہ پیش آیا تھا کہ انھوں نے منصور کے یرغمالوں کو قتل کر دیا تھا اور ان سے شرط یہ ہوئی تھی کہ اگر وہ ایسا کریں تو منصور کو بھی ان کے یرغمال قتل کر دینے کا حق ہو گا۔ شمس الائمہ کے بیان کی رو سے منصور نے یہی مسئلہ فقہا کے سامنے پیش کیا تھا کہ میں اہلِ موصل کی اس شرط کے مطابق ان کے یرغمالوں کو قتل کرنے کا مجاز ہوں یا نہیں۔ دوسری طرف ابن الاثیر کا بیان ہے کہ موصل میں حسان بن مجالد نے خروج کیا تھا، اور منصور نے فقہا کے سامنے جو مسئلہ پیش کیا تھا وہ یہ نہ تھا کہ میں ان باغیوں کے خلاف قتال کر سکتا ہوں یا نہیں بلکہ یہ تھا کہ : اَنَّ اہلَ موصل شرطوا الٰی انّہم لا یخرجون علیَّ فان فعلوا حلَّت د ماؤہم واموالہم۔ یعنی اہلِ موصل مجھ سے یہ شرط کر چکے ہیں کہ اگر آیندہ کبھی وہ میرے خلاف خروج کریں تو ان کے خون اور ان کے مال میرے لیے حلال ہوں گے۔ خون اور مال کے حلال ہونے کا مطلب آپ خود جانتے ہیں کہ کسی کے خلاف محض قتال کا جائز ہونا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ اگر ہم لڑ کر اس گروہ پر غالب آ جائیں تو ہمارے لیے پھر اس کے تمام بالغ مردوں کو قتل کر دینا اور اس کے اموال لوٹ لینا حلال ہو۔ یہی سوال دراصل منصور نے فقہا کے سامنے پیش کیا تھا۔ اس کا جواب بعض دوسرے فقہا نے یہ دیا کہ وہ لوگ خود ازروئے معاہدہ اپنے خون اور مال آپ کے لیے حلال کر چکے ہیں۔ اس لیے آپ ایسا کرنا چاہیں تو اس کے مجاز ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ نے اس کو ناجائز قرار دیا۔ قریب قریب یہی بات الکردری نے بھی لکھی ہے۔ اب آپ فرمائیں کہ آپ کو اس پر کیا اعتراض ہے۔ کیا امام ابوحنیفہؒ کا مسلک یہی ہے کہ مسلمان باغیوں پر اگر حکومت غالب آ جائے تو وہ ان کے تمام بالغ مردوں کا قتل عام کرکے ان کے اموال لوٹ لینے کی مجاز ہے، قطع نظر اس سے کہ ان مسلمان باغیوں نے پہلے خود یہ شرط قبول کی ہو یا نہ کی ہو؟
میرے نزدیک اس معاملے میں ابن الاثیر اور الکردری کا بیان ہی درست ہے اور شمس الائمہ کا بیان تاریخی طور پر درست نہیں ہے، کیونکہ منصور کے زمانے میں نہ تو موصل میں کوئی کافر حکومت تھی اور نہ کفار اہل ذمہ کا وہاں اتنا زور تھا کہ وہ عباسی خلافت کے مقابلے میں بغاوت کر سکتے۔ لیکن چونکہ میں نے اس سارے معاملے کو ایک دوسرے ہی پہلو سے لیا ہے، اس لیے امام کی جرأت حق گوئی کی مثال کے طور پر میں نے تینوں مصنّفین کا حوالہ دے دیا ہے کیونکہ اس پہلو میں ان کے درمیان اتفاق ہے۔
سوال- ترجمان القرآ ن نومبر ۱۹۶۳ئ کے پرچے میں مسئلہ خروج کے متعلق میرا سابق خط اور اس کا جو جواب شائع فرمایا گیا ہے اس کے لیے میں آپ کا ممنون ہوں۔ مگر افسوس ہے کہ اس جواب سے میرا وہ خلجان دور نہ ہوا۔ جو مسئلہ خلافت کے مطالعے سے امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کے متعلق میرے دل میں پیدا ہوا تھا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اپنی گزارشات کو ذرا تفصیل سے آپ کے سامنے پیش کروں۔ امید ہے کہ ان کا جواب بھی آپ ترجمان القرآن میں شائع فرمائیں گے تاکہ قارئین ترجمان کے معلومات میں اضافے کا موجب بنے۔
’’مسئلہ خلافت‘‘ میں آپ نے امام ابوحنیفہؒ کا جو مسلک بیان فرمایا ہے اس میں آپ نے ’’ظالم فاسق‘‘ کی امامت کے متعلق مسلک امام ابوحنیفہؒ کے تین بڑے بڑے نکات پیش کیے ہیں۔ ایک یہ کہ امام اعظم رحمہ اللہ نہ تو خوارج و معتزلہ کی طرح اس کی امامت کو اس معنی میں باطل قرار دیتے ہیں کہ اس کے تحت کوئی بھی اجتماعی کام جائز طور پر انجام نہ پا سکے اور مسلم معاشرہ اور ریاست کا پورا نظام معطل ہو کے رہ جائے، اور نہ وہ مرحبۂ کی طرح اس کو ایسا جائز اور بالحق تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان اس پر مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں اور اسے بدلنے کی کوششیں نہ کریں۔ بلکہ امام موصوف ان دونوں انتہا پسندانہ نظریات کے درمیان ایسی امامت کے بارے میں ایک معتدل اور متوازن نظریہ پیش کرتے ہیں وہ یہ کہ اس کے تحت اجتماعی کام سب کے سب جائز ہوں گے لیکن یہ امامت بجائے خود ناجائز اور باطل ہو گی۔ دوسرا نکتہ یہ کہ ظالم حکومت کے خلاف ہر مسلمان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حق حاصل ہے، بلکہ یہ حق ادا کرنا سب مسلمانوں پر فرض ہے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ امام اعظمؒ کے نزدیک ایسی ظالم حکومت کے خلاف خروج بھی جائز ہے بشرطیکہ یہ خروج فساد و بدنظمی پر منتج نہ ہو بلکہ فاسق امامت کی جگہ صالح امامت کا قائم ہو جانا متوقع ہو۔ اس صورت میں خروج نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے۔
اس سلسلے میں میری گزارشات یہ ہیں کہ یہ کہنا کہ ’’امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ’’ظالم فاسق‘‘ کی امامت باطل ہے۔‘‘ اور ’’امام اعظمؒ کے نزدیک ’’ظالم فاسق‘‘ کی حکومت کے خلاف خروج جائز ہے۔‘‘ امام ابوحنیفہؒکے مذہب کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ میرے نزدیک اس بارے میں امام ابوحنیفہؒ کا مذہب یہ ہے کہ ظالم فاسق اگر قوم پر اپنی قوت اور طاقت کے غلبے سے بھی مسلّط ہو جائے جس کو فقہاؒ کی اصطلاح میں ’’متغلّب‘‘ کہا جاتا ہے اور اپنے احکام کو طاقت کے ذریعے نافذ کرنے کی قدرت رکھتا ہو، تو گو وہ ظالم و فاسق بھی ہو اور اس کے ساتھ متعارف طریقوں سے بیعت بھی نہ ہوئی ہو، مگر امام ابوحنیفہؒ اس کی امامت کو اس معنیٰ کرکے معتبر قرار دیتے ہیں کہ اس کے خلاف خروج و بغاوت کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ اور جس طرح کہ اس کی امامت کے تحت دوسرے اجتماعی کاموں کو جائز اور معتبر قرار دیتے ہیں اسی طرح خروج اور بغاوت کو بھی ایسی حکومت کے بالمقابل حرام اور ناجائز قرار دیتے ہیں۔ میری اس رائے کی تائید فقہا مذہب حنفی کے درجِ ذیل اقوال سے ہو سکتی ہے:
والامام یصیر اماما بالمبایعۃ من الاشراف والاعیان۔ وکذا باستخلاف امام قبلہ و کذا بالتغلب و القہر کما فی شرح المقاصد۔ قال فی المسائرۃ و یثبت عقد الامامۃ اما باستخلاف الخلیفۃ ایاہ و اما ببیعۃ جماعۃ من العلماء اومن اہل الرایٔ و التدبیر … ولو تعذر وجود العلم والعدالۃ فیمن تصدی للامامتہٖ و کان فی صرفہ عنہا اثارۃ فتنۃ لاتطاق حکمنا بانعقاد امامۃ کیلانکون کمن یبنی قصراً ویہدم مصرا …… و تجب طاعۃ الامام عادلا کان او جائرا اذا لم یُخالف الشرع فقد علم ان الامام یصیرا ماما بثلاثۃ امور لکن الثالث فی الامام المتغلب۔ و ان لم تکن فیہ شروط الامامۃ۔ ۱ھ (رد المختار‘ج ۳ ‘ص ۴۲۸)
(امام معزز اور سر بر آوردہ لوگوں کی بیعت سے امام بن جاتا ہے۔ اسی طرح اپنے پیش رَو امام کے جانشین بنا دینے سے بھی اور غلبہ و قہر سے امامت پر قابض ہونے سے بھی امام بن جاتا ہے جیسا کہ شرح مقاصد میں آیا ہے۔ مسایرہ میں کہا گیا ہے کہ خلیفہ اگر کسی کو اپنا جانشین نام زد کر دے یا علما اور اہل الرائے یا صاحب ِتدبیر حضرات کی ایک جماعت اگر بیعت کر دے تو امامت کا انعقاد ثابت ہو جاتا ہے اور امامت سنبھالنے والے میں اگر علم و عدالت کا وجود محال ہو لیکن اسے امامت سے ہٹانے میں فتنہ رونما ہو جو ناقابلِ فرو ہو تو ہم ایسے شخص کی امامت کے منعقد ہونے کا حکم دیتے ہیں تاکہ ہم اس انسان کی طرح نہ ہوں جو ایک عمارت بناتا ہے لیکن پورے شہر کو گراتا ہے۔ امام خواہ عادل ہو یا ظالم، اس کی اطاعت واجب ہے جب تک کہ وہ شرع کی مخالفت نہ کرے۔ معلوم ہے کہ امام تین باتوں سے امام بنتا ہے جن میں سے تیسری متغلّب امام سے متعلق ہے۔ خواہ اس میں امامت کی شرطیں موجود نہ ہوں۔)
بہرحال امام میں عدالت شرط ہے مگر صحت ِامامت کے لیے نہیں بلکہ اُولویت کے لیے شرط ہے۔ اس بنا پر فاسق کی امامت کو مکروہ کہا گیا ہے نہ کہ غیر صحیح۔
و عند الحنفیۃ لیست العدالۃ شرطًا للصحۃ فیصح تقلید الفاسق الامامۃ مع الکراہۃ۔ ۱ھ (شامی‘ ج ۱‘ ص ۵۱۲)
(حنفیوں کے نزدیک عادل ہونا شرط صحت نہیں ہے۔ پس فاسق امام کی تقلید کراہت کے ساتھ درست ہے)
اسی قانون کے تحت حنفیہ نے متغلّب کی امامت کو صحیح کہا ہے۔
و تصح سلطنۃ متغلّب للضرورۃ ۔ ۱ھ
(زبردستی امام بن جانے والے کی حکومت بربِنائے ضرورت صحیح ہے) ایسے فاسق کے متعلق امام ابوحنیفہؒ کا مسلک یہ بیان کیا گیا ہے:
و یجب ان یدعی لہ ولا یجب الخروج علیہ کذا عن ابی حنفیۃ۔ ۱ھ
(اس کے لیے دعا واجب ہے اور اس کے خلاف خروج واجب نہیں۔ ابوحنیفہؒسے اسی طرح مروی ہے)
یہ تمام عبارتیں ابن ہمام نے مسایرہ میں ذکر کی ہیں جن سے صاف طور پر یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک جس طرح ایک فاسق ظالم کی حکومت کے تحت دین کے دوسرے اجتماعی کام جائز طریقے سے انجام دیئے جا سکتے ہیں اسی طرح اس حکومت کے خلاف امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک عزل اور خروج دونوں جائز ہیں۔ مگر اس میں شرط یہ ہے کہ عزل اور خروج موجب ِفتنہ نہ ہوں۔ اور چونکہ فی زمانہ ہر خروج اپنے ساتھ بہت سے فتنے لے کر نمودار ہو جاتا ہے۔ اس لیے بعض احنافؒ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ
اما الخروج علی الامراء فمحرم باجماع المسلمین و ان کانوا فسقۃ ظالمین۔ ۱ھ (مرقات)
(امرا کے خلاف خروج اجتماعِ مسلمین کے مطابق حرام ہے، خواہ وہ ظالم و فاسق ہی کیوں نہ ہوں۔)
اس لیے ایسی حکومتوں میں محض زبانی طور پر فریضہ تبلیغ ادا کرنا کافی ہو گا۔
مسلمان باغیوں کے بارے میں جہاں تک میں نے امام اعظمؒ کا مسلک سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ جن صورتوں میں بغاوت ناجائز ہو اور امام سے کوئی بغاوت کی جائے تو امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک جو لوگ بغاوت کے مرتکب ہو چکے ہوں ان کا قتل جائز ہے۔ البتہ جو افراد بغاوت میں باغیوں کے ساتھ شریک نہ ہوئے ہوں ان کو قتل کرنا جائز نہیں۔ خواہ وہ چھوٹے بچے اور عورتیں ہوں یا بوڑھے اور اندھے ہوں۔ یا دوسرے بالغ مرد ہوں جو بغاوت میں باغیوں کے ساتھ شریک نہ ہوں۔ اس کے ثبوت کے لیے بطور حوالہ فقہائے ؒ حنفیہ کی درج ذیل عبارات ملاحظہ فرمائی جائیں، امام سَرخِسیؒ مبسوط ج ۱۰‘ ص ۱۲۴ میں لکھتے ہیں
فان کان المسلمون مجتمعین علی واحد و کانوا امنین بہ والسبیل اٰمنۃ فخرج علیہ طائفۃ من المسلمین فحینئذٍ یحجب علی من یقوی علی القتال ان یقاتل مع امام المسلمین الخارجین۔ ۱ھ
(اگر مسلمان ایک حاکم پر مجتمع ہوں، امن و امان میں ہوں اور راستہ محفوظ ہو پھر اس حاکم پر مسلمانوں کا ایک گروہ خروج کرے، تو جو شخص لڑ سکتا ہو اس پر واجب ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہو کر خروج کرنے والوں سے لڑے۔)
وجوبِ قتال کے لیے امام سَرخِسیؒ نے تین دلائل بیان کیے ہیں جن میں سے ایک دلیل یہ آیت کریمہ ہے۔
فَاِنْم بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِج
(پس اگر ان دونوں (گروہوں) میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو لڑو اس سے جو زیادتی کرتا ہے حتیٰ کہ وہ لوٹ آئے اللہ کے حکم کی جانب)
دوسری دلیل امام موصوف نے وجوبِ قتال کے لیے یہ بیان کی ہے۔
ولان الخار جبین قصدوا اذی المسلمین و اماطۃ الاذی من ابواب الدّین۔ وخروجہم معصیۃ ففی القیام بقتالہم نہی عن المنکر وہو فرض۔
(یہ اس لیے کہ خروج کرنے والوں نے ایذائے مسلمین کا ارادہ کیا ہے اور ایذا کو مٹانا ابواب دین میں سے ہے اور ان کا خروج معصیت ہے پس ان سے لڑنا نہی عن المنکر ہے اور وہ فرض ہے)
اور تیسری دلیل یہ بیان فرمائی ہے
وَلِاَنَّہُمْ یَہِیْجُوْنَ الْفِتْنَۃَ قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْفِتْنَۃُ نَائِمَۃٌ لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ اَیْقَظَہَا۔ فَمَنْ کَانَ مَلْعُوْنًا عَلٰی لِسَانِ صَاحِبِ الشَّرْعِ یُقَاتَلُ مَعَہٗ ۱ھ
(اور اس لیے کہ وہ فتنہ پیدا کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فتنہ خوابیدہ ہے جو اسے جگائے اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ پس جو شارع کے ارشاد کے مطابق ملعون ہے، اس کے خلاف لڑا جائے)
ان تمام عبارات سے یہ تو واضح ہو گیا کہ باغیوں کے ساتھ قتال واجب ہے۔ اور قتال شرعی نقطہ نگاہ سے ان لوگوں کے ساتھ جائز ہو سکتا ہے جو معصوم الدم نہ ہوں۔ اس کی طرف حضورؐ کے درج ذیل ارشاد میں اشارہ کیا گیا ہے۔
اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَا ٓاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا ِمنِّیْ دِمَائَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ (الحدیث) (مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللّٰہ اور محمد رسول اللّٰہ کہ دیں جب وہ ایسا کر دیں تو انھوں نے مجھ سے اپنی جانیں اور مال بچا لیے)
پس جب باغیوں کے ساتھ قتال واجب ہو گیا تو معلوم ہوا کہ ان کو جان کی پوری عصمت حاصل نہیں ہے تو قتل بھی جائز ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہائے مذہب حنفی صریح طور پر اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ باغیوں کا قتل جائز ہے۔ صاحب بدائع الصنائع باغیوں کے قتل کے متعلق لکھتے ہیں-
واما بیان من یجوزقتلہ منہم و من لایجوز فکل من لایجوز قتلہ من اہل الحرب من الصبیان والنسوان والاشیاخ والعمیان لا یجوز قتلہ من اہل البغی۔ لان قتلہم لدفع شرقتالہم فخیتص باھل القتال وہٰؤلآء لیسوا من اھل القتال فلا یقتلون الا اذا قاتلوا فیباح قتلہم فی حال القتال و بعد الفراغ من القتال ۱ھ‘
( ج ۷‘ ص ۱۴۱)
(جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان میں سے کس کا قتل جائز ہے اور کس کا نہیں تو وہ تمام اہلِ حرب جن کا قتل جائز نہیں، مثلاً بچے، عورتیں، بوڑھے، اندھے، با غیوں میں سے بھی ان اصناف کا قتل جائز نہیں کیونکہ ان کا قتل محض شرِقتال کو روکنے کے لیے ہے‘ اس لیے وہ قابلِ جنگ افراد کے ساتھ مخصوص ہے اور یہ اقسام جنگ کرنے کے قابل نہیں پس انھیں قتل نہیں کیا جائے گا، سوائے اس کے کہ وہ جنگ کریں، تب ان کا قتل حالت ِجنگ یا اس کے بعد جائز ہو گا)
فقہا کی ان تصریحات کے پیش نظر باغیوں کے متعلق امام ابوحنیفہؒ کا مذہب صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان باغیوں پر اگر اسلامی حکومت غالب آ جائے تو وہ تمام ان بالغ مردوں کو قتل کرکے ان کے مال لوٹ لینے کی مجاز ہے جو بغاوت کے مرتکب ہو چکے ہوں۔ قطع نظر اس سے کہ ان مسلمان باغیوں نے پہلے خود یہ شرط قبول کی ہو یا نہ کی ہو۔ مگر یہ قتال اور قتل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ باغی لوگ ہتھیار نہ ڈالیں۔ اور جب وہ ہتھیار ڈالیں گے تو قتل و قتال بھی بند کر دیا جائے گا۔
البتہ ان کا مال بطور غنیمت تقسیم نہیں کیا جائے گا بلکہ جنگ ختم ہونے یا ہتھیار ڈالنے کے بعد انھیں واپس کیا جائے گا۔
وکذالک ما اصیب من اموالہم یرد الیہم لانہ لم یتملک ذالک المال علیہم لبقاء العصمۃ بالدارو الاحراز فیہ ۱ ھ (مبسوط ج ۱۰- ص ۱۲۶)
(اسی طرح جو کچھ ان کے اموال میں سے لیا جائے گا، انھیں لوٹا دیا جائے گا۔ کیونکہ یہ مال دارالاسلام میں ہونے کی بنا پر محفوظ ہے اور یہ فاتح کی مِلک نہیں ہو سکتا)
فقہا کی یہ تصریحات اگر امام ابوحنیفہؒ کے مذہب کی صحیح ترجمانی پر مشتمل ہوں، جیسا کہ ہمارا یقین ہے تو ان کے ہوتے ہوئے عقل کیسے یہ باور کر سکتی ہے کہ موصل میں بغاوت مسلمانوں نے کی تھی اور منصور کے ساتھ چونکہ وہ یہ شرط کر چکے تھے کہ اگر ہم نے آیندہ کبھی آپ کے خلاف خروج کر دیا تو ہمارے خون اور مال آپ کے لیے حلال ہوں گے۔ اس لیے فقہا کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا کہ قتال کے بعد ان باغیوں کی جان اور مال پر ہاتھ ڈالنا جائز ہو گا یا نہیں اور اسی کے متعلق منصور کے استفسار پر امام ابوحنیفہؒ نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ ان کے خون اور مال آپ کے لیے حلال نہیں ہیں؟
پھر یہ بات بھی کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ آپ شمس الائمہ سَرخِسی کے بیان کو صرف اس بنا پر قابلِ اعتماد نہیں سمجھتے ہیں کہ ان کا بیان اہلِ تاریخ سے مختلف ہے حالانکہ بغاوت جیسے اہم معاملے میں فقہا کی جماعت میں سے ایک بڑے فقیہ اور امام اعظمؒ جیسے امام فقہ کا مذہب معلوم کرنے میں ان فقہا کے قول پر زیادہ اعتماد کرنا چاہیے جو اس امام کے مذہب سے وابستہ رہے ہوں۔ تاریخ کے واقعات مرتّب کرنے میں غلطیاں زیادہ سرزد ہو سکتی ہیں بہ نسبت اس کے کہ ایک امام مذہب کی فقہی مرویات مرتّب کرنے میں غلطیاں واقع ہوں۔ پھر یہ واقعہ جس طرح کہ مبسوط میں امام سَرخِسیؒ نے نقل کیا ہے بعینہٖ اسی طرح شیخ ابنِ ہمامؒ نے فتح القدیر ج ۵‘ ص ۳۴۱‘ میں بھی نقل کیا ہے۔ ان دونوں اماموں کے مقابلے میں ابن اثیریا الکردری کے قول کو ترجیح دینا یقیناً ہمارے فہم سے بالاتر ہے۔‘‘
جواب:امام ابوحنیفہؒ کے مسلک دربابِ خروج کے بارے میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس کے متعلق مزید کچھ عرض کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ آپ دو تین باتوں پر بھی کچھ روشنی ڈال دیں۔
اوّل یہ کہ ابوبکر جصّاص، الموفق المکّی اور ابن البزّاز الکردری کا شمار بھی فقہائے حنفیہ میں ہوتا ہے یا نہیں ؟ آپ سے یہ مخفی نہیں ہو سکتا کہ ابوبکر جصّاص متقدمین حنفیہ میں سے ہیں، ابوسہل الزجاج اور ابوالحسن الکرخی کے شاگرد ہیں اور اپنے زمانے (۳۰۵-۳۷۰ھ) میں امامِ اصحابِ ابی حنفیہ تسلیم کیے جاتے تھے۔ ان کی کتاب احکام القرآن کا شمار حنفیہ ہی کی فقہی کتابوں میں ہوتا ہے۔ الموفق المکّی (۴۸۴-۵۶۸ھ) بھی فقہائے حنفیہ میں سے تھے اور القِفْطی کے قول کے مطابق کانت لہ معرفۃ تامۃ فی الفقہ والادب۔
(انھیں فقہ و ادب میں پوری معرفت حاصل تھی)
الکردری کا شمار بھی فقہائے حنفیہ میں ہوتا ہے اور ان کی فتاوی بزّازیہ، آداب الفقہاء اور مختصر فی بیان تعریفات الاحکام، معروف کتابیں ہیں۔ میں نے جو مواد ان تین حضرات کی کتابوں سے بحوالہ نقل کیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ اس کی حیثیت پر بھی آپ کچھ روشنی ڈالیں۔
دوم یہ کہ حضرت زید بن علی بن حسین اور نفس زکیہ کے خروج کے واقعات میں امام اعظم رحمہ اللہ کا جو طرزِ عمل مذکورہ بالا تینوں مصنّفین اور بہت سے دوسرے مؤرخین نے بیان کیا ہے اس کو آپ صحیح اور معتبر تاریخی واقعات میں شمار کرتے ہیں یا نہیں اگر یہ واقعات غلط ہیں تو آپ ان کی تردید کسی مستند ذریعے سے فرمائیں اور اگر یہ صحیح ہیں تو امام اعظم کا مسلک سمجھنے میں ان سے مدد لی جا سکتی ہے یا نہیں؟ یہ بات تو بہرحال امام ابوحنیفہ جیسی عظیم شخصیت کے متعلق باور نہیں کی جا سکتی کہ ان کا فقہی مسلک کچھ ہو اور عمل کچھ۔ لہٰذا دو باتوں میں سے ایک بات ماننی ہی پڑے گی۔ یا تو یہ واقعات غلط ہیں یا پھر امام کے مسلک کی صحیح ترجمانی وہی ہو سکتی ہے جو ان کے عمل سے مطابقت رکھتی ہو۔
اہلِ موصل کے بارے میں شمس الائمہ سَرخِسی نے جو کچھ لکھا ہے، اس کے متعلق میں اتنا ہی کہوں گا کہ دوسرا بیان الکردری کا ہے، اور وہ بھی نرے مؤرخ نہیں بلکہ فقیہ بھی ہیں۔ الکردری لکھتے ہیں کہ منصور نے فقہاء کے سامنے یہ سوال پیش کیا تھا۔
’’الیس صح اَنَّہٗ عَلَیْہِ السَّلاَمُ قَالَ الْمُؤْمِنُوْنَ عِنْدِ شُرُوْطِہِمْ؟ وَاَہْل موصل شرطوا علّی ان لا یخرجوا علّی وقد خرجوا علی عاملی و قد حل لی دماء ہم۔‘‘
(کیا یہ بات صحیح نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مومنوں کے ساتھ طے کردہ شرائط پر معاملہ ہو گا اور اہلِ موصل نے یہ شرط مانی تھی کہ وہ مجھ پر خروج نہیں کریں گے اور انھوں نے میرے عامل پر خروج کیا ہے اور میرے لیے ان کا خون حلال ہے)
امام ابوحنیفہؒ نے جواب میں فرمایا
’’انہم شرطوالک ما لا یملکونہ یعنی دمائہم، فانہ قد تقرران النفس لا یجری فیہا البذل والاباحۃ علی ان الرجل اذا قال لآخر اقتلنی فقتلہ تجب الدیۃ، وشرطت علیہم ما لیس لک لان دم المسلم لا یحل الا باحدی معان ثلاث فان اخذتہم اخذت بِما لا یحل، و شرط اللّٰہ احق ان توفی بہٖ۔‘‘
(مناقب الامام الاعظمؒ، ج ۲، صفحہ ۱۶- ۱۷)
(انھوں نے آپ کے ساتھ ایسی شے کی شرط مانی ہے جس کے وہ مالک نہیں، یعنی ان کی جانیں۔ یہ طے شدہ ہے کہ جان کسی کو بخشی نہیں جا سکتی۔ حتیٰ کہ ایک شخص اگر دوسرے سے کہے کہ مجھے قتل کر دے اور وہ قتل کر دے تو قاتل پر دیت واجب ہے۔ آپ نے ان سے ایسی شرط کی جس کا آپ کو اختیار نہیں کیونکہ مسلمان کا خون تین باتوں میں سے ایک کے سوا حلال نہیں۔ اگر آپ نے ان کی جان لی تو یہ حلال نہ ہو۔ اللہ کی شرط اس کی زیادہ مستحق ہے کہ آپ اسے پورا کریں۔)
اس عبارت میں سائل اور مفتی دونوں نے تصریح کی ہے کہ معاملہ مسلمانوں سے متعلق تھا۔
سوال نمبر۲: ’’گرامی نامہ ملا۔ آپ نے جن باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ان کے متعلق مختصراً عرض ہے کہ ابوبکر جصّاص، الموفق المکّی اور ابن البزّاز الکردری کا شمار یقیناً فقہا میں ہوتا ہے۔ اسی طرح احکام القرآن اور دوسری وہ کتابیں جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے بھی معروف کتابیں ہیں۔ لیکن بایں ہمہ رتبہ اور درجہ کے لحاظ سے ان حضرات کا مقام امام سَرخِسیؒ کے مقام سے بہت فروتر ہے۔ اسی طرح امام سَرخِسیؒ کی کتاب المبسوط کا درجہ اور مرتبہ احکام القرآن وغیرہ کتب مذکور سے محققین احنافؒ کے نزدیک بہت بلند اور مقام بہت اونچا ہے۔ اس لیے فقہیات میں امام اعظمؒ کے مسلک کو متعیّن کرنے میں مبسوط سَرخِسیؒ ہی کا فیصلہ معتبر اور قابلِ اعتماد ہو گا نہ کہ احکام القرآن وغیرہ کتب کا۔ علاّمہ ابنِ عابدین شامیؒ نے محقق ابنِ کمال سے طبقات الفقہاء کی تفصیل نقل کرتے ہوئے امام سَرخِسی کو تیسرے طبقے میں شمار کیا ہے جو مجتہدین فی المسائل کا طبقہ ہے اور ابوبکرؒ جصّاص رازی کو چوتھے طبقے میں شمار کیا ہے جو محض مقلّدین کا طبقہ ہے۔
ان تصریحات کے پیش نظر خروج کے مسئلے میں امام اعظمؒ کا مذہب وہ قرار دیا جائے گا جو مبسوط میں ذکر کیا گیا ہے، نہ کہ وہ جو احکام القرآن یا دوسری تاریخوں میں بیان کیا گیا ہے۔
رہا حضرت زید بن علی بن الحسین اور نفس زکیہ کے خروج کے واقعات میں امام ابوحنیفہؒ کا طرز عمل تو اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ تاریخی لحاظ سے میں اس کو سو فیصد صحیح اور درست سمجھتا ہوں۔ تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ امام ابوحنیفہؒ نے ان دونوں کے خروج میں ان کی حمایت کی تھی، لیکن مشکل یہ ہے کہ اس مسئلے کی فقہی نوعیت تاریخی نوعیت سے بالکل مختلف ہے۔ فقہ حنفی کی تمام معتبر کتابوں میں حتیٰ کہ کتب ظاہر الروایۃ میں خروج کے متعلق امام ابوحنیفہؒ کا مذہب یہ بیان کیا گیا ہے کہ امام عادل تو درکنار ظالم اور متغلب سے بھی خروج ناجائز اور بغاوت حرام ہے۔ لہٰذا ہمیں ان دو متضاد بیانات کے مابین یا تطبیق سے کام لینا پڑے گا یا ترجیح سے‘ جہاں تک ترجیح کا تعلق ہے، ہم فقہا کے مسلمہ اصول کے پیش نظر فقہائے مذہب حنفی کے بیان کو مؤرخین کے بیان پر اس لیے ترجیح دیں گے کہ مذہب کی تعیین میں ناقلینِ مذہب کا قول زیادہ قابلِ اعتماد ہے۔ اور مؤرخین میں سے جو فقہا ہیں، جیسے ابوبکر رازی، الموفق المکّی اور ابن البزّاز، تو یہ چونکہ رتبے اور درجے کے اعتبار سے اصل ناقلین مذہب کے ہمسر نہیں ہیں اس لیے ان کا نقل بھی دوسروں کے مقابلے میں قابلِ اعتبار نہیں سمجھا جائے گا گو تاریخی نقل اور روایت اصولِ روایت کے لحاظ سے قوی کیوں نہ ہو۔
اور اگر ہم تطبیق کا طریقہ اختیار کریں گے تو میرے ذہن میں تطبیق کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ چونکہ زید بن علی کے خروج کا واقعہ بقول آپ کے صفر ۱۲۲ھ میں پیش آیا تھا اور نفس زکیہ کے خروج کا واقعہ جیسا کہ آپ نے لکھا ہے ۱۴۵ھ میں ظاہر ہوا تھا اور امام ابوحنیفہؒرحمتہ اللہ علیہ بقول ابن کثیرؒ (البدایہ ج ۱۰‘ ص ۱۰۷) ۱۵۰ھ میں وفات پا چکے ہیں۔ اس طرح خروج نفس زکیہ کے بعد امام کم سے کم پانچ سال تک زندہ رہ چکے ہیں۔ اس بِنا پر ہو سکتا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے اپنی آخری عمر میں سابق رائے میں تبدیلی کرکے خروج کے متعلق اپنا جدید مسلک یہ متعیّن کیا ہو کہ ’’خروج اور بغاوت حرام ہے نہ کہ جائز۔‘‘ اور اپنے پہلے مسلک سے امام نے رجوع کیا ہو … اور اس وقت سے امام اعظمؒ بھی دوسرے محدّثین کی طرح اس بات کے قائل رہے ہوں کہ ’’خروج جائز نہیں بلکہ حرام ہے اور اصلاح کے لیے خروج کے بجائے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے ہی کام لیا جائے گا۔‘‘ شاید اسی وجہ سے ملا علیؒ قاری نے فرمایا ہو-
واما الخروج علیہم فمحرم باجماع المسلمین و ان کانوا فسقۃ ظالمین (مرقات)
(جہاں تک ان کے خلاف خروج کا تعلق ہے اس کی حرمت پر مسلمانوں کا اجماع ہے خواہ وہ فاسق و ظالم ہوں)
اوپر کے مباحث سے جب یہ بات واضح ہو گئی کہ خروج کے مسئلے میں امام اعظم کا مذہب عدم جواز ہے اور مسلمان باغیوں کا حکم بتصریح فقہاء ؒ قتل ہے جیسے سابق مکتوب میں فقہا کے حوالے ذکر کیے جا چکے ہیں تو اہلِ موصل کے معاملے میں بھی میرے نزدیک امام سَرخِسیؒ اور شیخ ابن الہمام کا بیان درست ہے کہ یہ واقعہ مشرکین کے یرغمالوں سے متعلق تھا نہ کہ مسلمان باغیوں سے۔ کیونکہ مسلمان باغیوں کے بارے میں امام کا مذہب یہ ہے کہ انھیں قتل کیا جائے گا نہ یہ کہ ان کا قتل جائز نہیں ہے۔ اگرچہ الکردری کے بیان کے مطابق یہ واقعہ مسلمان باغیوں سے متعلق معلوم ہوتا ہے۔
جواب- عنایت نامہ ملا۔ میرا خیال ہے کہ اب میرا نقطۂ نظر اچھی طرح آپ کے سامنے واضح ہو سکے گا۔ براہِ کرم حسب ذیل امور پر غور فرمائیں۔
میرے مقالے کا موضوع ہے اس خاص مسئلے میں امام ابوحنیفہؒ کا مسلک۔ اور آپ استدلال میں پیش فرما رہے ہیں مذہب حنفی کے اقوال۔ آپ جیسے ذی علم اور فقیہ النفس بزرگ سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہو سکتی کہ مسلک ِابی حنیفہؒاور مذہب حنفی ایک چیز نہیں ہیں۔ مسلک ابی حنیفہؒکا اطلاق صرف امام اعظم کے اپنے اقوال و افعال پر ہی ہو سکتا ہے۔ رہا مذہب حنفی تو اس میں امام صاحب کے علاوہ اصحابِ ابی حنیفہؒاور بعد کے مجتہدین فی المذہب بھی شامل ہیں اور بہت سی ایسی چیزیں بھی مذہب حنفی قرار پائی ہیں جو امام اعظم سے ہی نہیں، آپ کے اصحاب سے بھی ثابت نہیں ہیں‘ حتیٰ کہ ایسے مسائل بھی موجود ہیں جن میں مذہب حنفی کا فتویٰ امام اعظم کے قول کے خلاف ہے۔
ابوبکر جصّاص، الموفق المکّی اور ابن البزّاز رحمہم اللہ چاہے درجہ اوّل کے فقیہ نہ ہوں، لیکن اس درجہ فقہ سے نابلد تو نہیں ہو سکتے کہ اپنے مذہب کے سب سے بڑے امام سے وہ اقوال اور افعال بلا تحقیق منسوب کر دیتے جو ان کے تحقیق شدہ مسلک کے خلاف ہوتے۔ خصوصاً جصّاص رحمہ اللہ تو امام اعظم سے بہت قریب زمانے میں گزرے ہیں۔ امام کی وفات اور ان کی پیدائش کے درمیان صرف ۱۵۵ سال کا فاصلہ ہے۔ اور بغداد میں وہ ان اکابر احناف سے وابستہ رہے ہیں جن کے درمیان مدرسہ ابی حنیفہؒکی روایات پوری طرح محفوظ تھیں۔ اگر امام صاحب کی طرف کوئی غلط روایت افواہ کے طور پر منسوب ہوتی تو وہ آخری شخص ہوتے جو اسے حاطب اللیل کی طرح احکام القرآن جیسی اہم فقہی کتاب میں نقل کر بیٹھتے اور اگر امام اعظم کا اس مسلک سے رجوع ثابت ہوتا تب بھی وہ اس سے نہ بے خبر رہتے اور نہ اس کو چھپاتے۔
امام کے رجوع کا گمان اس لیے بھی صحیح نہیں ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو منصوران کی جان کے در پے نہ رہتا بلکہ اس کے بعد تو اس کے اور امام کے درمیان صُلح ہو جاتی۔ مزید برآں کسی نے اشارۃً و کنایتہ بھی یہ نقل نہیں کیا ہے کہ امام نے کبھی نفس زکیہ کے خروج میں حصّہ لینے کو غلط تسلیم کیا ہو۔
میرے نزدیک یہ امر تو شبہ سے بالاتر ہے کہ مسئلہ زیر بحث میں امام اعظم کا مسلک وہی تھا جو ان کے نقل شدہ اقوال و افعال سے ثابت ہے۔ البتہ مذہب حنفی بعد میں وہی قرار پایا ہے جو آپ نقل فرما رہے ہیں۔ اور یہ مذہب قرار پانے کی وجہ یہ ہے کہ امام صاحبؒ کے دور میں جو رائے اصحابِ حدیث کے ایک گروہ کی تھی (جسے امام اَوزاعی کے حوالے سے میں نے اپنے مضمون میں نقل بھی کیا ہے) دوسری صدی کے آخر تک پہنچتے پہنچتے وہی رائے اہلِ سنّت و الجماعت کے پورے گروہ میں مقبول ہو گئی اور اسی رائے کو متکلمین میں سے اشاعرہ نے (بمقابلہ معتزلہ) اختیار کیا۔ اس رائے کی مقبولیت درحقیقت نصوصِ قطعیہ پر مبنی نہیں ہے بلکہ ان تجربات کا اس میں بہت بڑا دخل ہے جو خروج کے واقعات کے سلسلے میں مسلسل ہوتے رہے تھے۔ اس بنا پر مصالح شرعیہ کا تقاضا وہی کچھ سمجھا گیا جو فقہائے کرام نے بیان کیا ہے۔ لیکن مجھے اس امر کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ ائمہ جور کے خلاف خروج کے معاملے میں پہلی صدی ہجری کے ائمہ و اکابر کی وہ رائے ہو جو بعد والوں نے قائم کی۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ۱۹۵۷ءکے اواخر میں جو بین الاقوامی مجلس مذاکرہ لاہور میں ہوئی تھی اس میں انگلستان کی ایک مستشرقہ نے باقاعدہ یہ اعتراض کیا تھا کہ اسلامی نظامِ حکومت اگر ایک دفعہ بگڑ جائے تو پھر اس کی تبدیلی کی کوئی صورت اسلام میں نہیں ہے۔ اس اعتراض کے حق میں اشاعرہ اور فقہائے اہلِ سنّت کے اقوال پیش کرتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ بگاڑ رونما ہو جانے کی صورت میں فقہا کی ان تصریحات کے مطابق صرف انفرادی طور پر کلمہ حق تو بلند کیا جا سکتا ہے مگر کوئی اجتماعی سعی نہیں ہو سکتی۔ ہمارے پاس اس کا کوئی جواب مسلک ابی حنیفہؒکو پیش کرنے کے سوا نہ تھا۔ اب اگر یہ بھی غلط ہو تو پھر اس اعتراض کا کوئی جواب ہمیں آپ بتائیں۔
قتال اہل البغی کے معاملے میں یہ امر تو مسلّم ہے کہ اگر وہ مسلح ہو کر مقابلہ کریں تو ان کے لڑنے والوں کو قتل کیا جا سکتا ہے اور ان کے برسر جنگ لوگوں کے مال بھی لُوٹے جا سکتے ہیں۔ لیکن کیا یہ بات بھی صحیح ہے کہ جس علاقے میں انھوں نے بغاوت کی ہو اس علاقے کی ساری آبادی مباح الدم و الاموال ہو جاتی ہے اور ان کا قتل عام کیا جا سکتا ہے؟ اگر حکم فقہی کی تعبیر یہی ہو تو پھر یزید کی فوجوں نے واقعہ حرہ کے موقع پر مدینہ طیبہ کی آبادی کے ساتھ جو کچھ کیا وہ جائز ہونا چاہیے۔ اس پر صحابہ و تابعین اور بعد کے علما و فقہا نے جو شدید اعتراضات کیے ہیں ان کا آخر کیا جواز ہے؟
(ترجمان القرآن۔ نومبر ۱۹۶۳ء جنوری ۱۹۶۴ء)
٭…٭…٭…٭…٭
شہادتِ حسین ؑ کا حقیقی مقصد ۱؎
ہر سال محرم میں کروڑوں مسلمان شیعہ بھی اور سنی بھی، امام حسین ؑ کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان غم گساروں میں سے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں جس کے لیے امام نے نہ صرف اپنی جان عزیز قربان کی بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا۔ کسی شخص کی مظلومانہ شہادت پر اس کے اہلِ خاندان کا اور اس خاندان سے محبت و عقیدت یا ہمدردی رکھنے والوں کا اظہارِ غم کرنا تو ایک فطری بات ہے۔ ایسا رنج و غم دنیا کے ہر خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی کوئی اخلاقی قدروقیمت اس سے زیادہ نہیں ہے کہ یہ اس شخص کی ذات کے ساتھ اس کے رشتہ داروں کی اور خاندان کے ہمدردوں کی محبت کا ایک فطری نتیجہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امام حسینؑ کی وہ کیا خصوصیت ہے جس کی وجہ سے ۱۳۲۰ برس گزر جانے پر بھی ہر سال ان کا غم تازہ ہوتا رہے؟ اگر یہ شہادت کسی مقصدِ عظیم کے لیے نہ تھی تو محض ذاتی محبت و تعلق کی بنا پر صدیوں اس کا غم جاری رہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں اور خود امام کی اپنی نگاہ میں اس محض ذاتی و شخصی محبت کی کیا قدروقیمت ہو سکتی ہے؟ انھیں اگر اپنی ذات اس مقصد سے زیادہ عزیز ہوتی تو وہ اسے قربان ہی کیوں کرتے؟ ان کی یہ قربانی تو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس مقصد کو جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے۔ لہٰذا اگر ہم اس مقصد کے لیے کچھ نہ کریں بلکہ اس کے خلاف کام کرتے رہیں تو محض ان کی ذات کے لیے گریہ و زاری کرکے اور ان کے قاتلوں پر لعن طعن کرکے قیامت کے روز نہ تو ہم امام ہی سے کسی داد کی امید رکھ سکتے ہیں اور نہ یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ان کا خدا اس کی کوئی قدر کرے گا۔
اب دیکھنا چاہیے کہ وہ مقصد کیا تھا؟ کیا امام تخت و تاج کے لیے اپنے کسی ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتے تھے اور اس کے لیے انھوں نے سر دھڑ کی بازی لگائی؟ کوئی شخص بھی جو امام حسین کے گھرانے کی بلند اخلاقی سیرت کو جانتا ہے، یہ بدگمانی نہیں کر سکتا کہ یہ لوگ اپنی ذات کے لیے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر مسلمانوں میں خون ریزی کر سکتے تھے۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے ان لوگوں کا نظریہ ہی صحیح مان لیا جائے جن کی رائے میں یہ خاندان حکومت پر اپنے ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتا تھا، تب بھی حضرت ابوبکر سے لے کر امیر معاویہ تک پچاس برس کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حکومت حاصل کرنے کے لیے لڑنا اور کشت و خون کرنا ہرگز ان کا مسلک نہ تھا۔ اس لیے لامحالہ یہ ماننا ہی پڑے گا کہ امام عالی مقام کی نگاہیں اس وقت مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست کی روح اور اس کے مزاج اور اس کے نظام میں کسی بڑے تغیّر کے آثار دیکھ رہی تھیں جسے روکنے کی جدوجہد کرنا ان کے نزدیک ضروری تھا حتیٰ کہ اس راہ میں لڑنے کی نوبت بھی آ جائے تو وہ اسے نہ صرف جائز بلکہ فرض سمجھتے تھے۔
وہ تغیّر کیا تھا؟ ظاہر ہے کہ لوگوں نے اپنا دین نہیں بدل دیا تھا۔ حکمرانوں سمیت سب لوگ خدا اور رسول اور قرآن کو اسی طرح مان رہے تھے جس طرح پہلے مانتے تھے۔ مملکت کا قانون بھی نہیں بدلا تھا۔ عدالتوں میں قرآن اور سنّت ہی کے مطابق تمام معاملات کے فیصلے بنی اُمیہ کی حکومت میں بھی ہو رہے تھے جس طرح ان کے برسر اقتدار آنے سے پہلے ہوا کرتے تھے۔ بلکہ قانون میں تغیّر تو انیسویں صدی عیسوی سے پہلے دنیا کی مسلم حکومتوں میں سے کسی کے دور میں بھی نہیں ہوا۔ بعض لوگ یزید کے شخصی کردار کو بہت نمایاں کرکے پیش کرتے ہیں جس سے یہ عام غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے کہ وہ تغیّر جسے روکنے کے لیے امام کھڑے ہوئے تھے بس یہ تھا کہ ایک برا آدمی برسر اقتدار آ گیا تھا۔ لیکن یزید کی سیرت و شخصیت کا جو برے سے برا تصوّر پیش کرنا ممکن ہے اسے جوں کا توں مان لینے کے بعد بھی یہ بات قابلِ تسلیم نہیں ہے کہ اگر نظام صحیح بنیادوں پر قائم ہو تو محض ایک برے آدمی کا برسر اقتدار آ جانا کوئی ایسی بڑی بات ہو سکتی ہے جس پر امام حسین جیسا دانا وزیرک اور علمِ شریعت میں گہری نظر رکھنے والا شخص بے صبر ہو جائے۔ اس لیے یہ شخصی معاملہ بھی وہ اصل تغیّر نہیں ہے جس نے امام کو بے چین کیا تھا۔ تاریخ کے غائر مطالعے سے جو چیز واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یزید کی ولی عہدی اور پھر اس کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتدا ہو رہی تھی وہ اسلامی ریاست کے دستور اور اس کے مزاج اور اس کے مقصد کی تبدیلی تھی۔ اس تبدیلی کے پورے نتائج اگرچہ اس وقت سامنے نہ آئے تھے۔ لیکن ایک صاحب ِنظر آدمی گاڑی کا رُخ تبدیل ہوتے ہی یہ جان سکتا ہے کہ اب اس کا راستہ بدل رہا ہے، اور جس راہ پر یہ مُڑ رہی ہے وہ آخرکار اسے کہاں لے جائے گی۔ یہی رُخ کی تبدیلی تھی جسے امام نے دیکھا اور گاڑی کو پھر سے صحیح پٹڑی پر ڈالنے کے لیے اپنی جان لڑا دینے کا فیصلہ کیا۔
اس چیز کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی سربراہی میں ریاست کا جو نظام چالیس سال تک چلتا رہا تھا اس کے دستور کی بنیادی خصوصیات کیا تھیں، اور یزید کی ولی عہدی سے مسلمانوں میں جس دوسرے نظامِ ریاست کا آغاز ہوا اس کے اندر کیا خصوصیات دولت بنی امیہ و بنی عباس اور بعد کی بادشاہیوں میں ظاہر ہوئیں۔ اسی تقابل سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ یہ گاڑی پہلے کس لائن پر چل رہی تھی اور اس نقطہ انحراف پر پہنچ کر آگے وہ کس لائن پر چل پڑی اور اسی تقابل سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ فاطمہ اور حضرت علی کی آغوش میں تربیت پائی تھی اور جس نے صحابہ کی بہترین سوسائٹی میں بچپن سے بڑھاپے تک کی منزلیں طے کی تھیں وہ کیوں اس نقطہ انحراف کے سامنے آتے ہی گاڑی کو اس نئی لائن پر جانے سے روکنے کے لیے کھڑا ہو گیا اور کیوں اس نے اس بات کی بھی پروا نہ کی کہ اس زور دار گاڑی کا رخ موڑنے کے لیے اس کے آگے کھڑے ہو جانے کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
اسلامی ریاست کی اولین خصوصیت یہ تھی کہ اس میں صرف زبان ہی سے یہ نہیں کہا جاتا تھا بلکہ سچے دل سے یہ مانا بھی جاتا تھا اور عملی رویے سے اس عقیدہ و یقین کا پورا ثبوت بھی دیا جاتا تھا کہ ملک خدا کا ہے، باشندے خدا کی رعیت ہیں اور حکومت اس رعیت کے معاملے میں خدا کے سامنے جوابدہ ہے۔ حکومت اس رعیت کی مالک نہیں ہے اور رعیت اس کی غلام نہیں ہے۔ حکمرانوں کا کام سب سے پہلے اپنی گردن میں خدا کی بندگی و غلامی کا قلادہ ڈالنا ہے پھر یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ خدا کی رعیت پر اس کا قانون نافذ کریں لیکن یزید کی ولی عہدی سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا، اس میں خدا کی بادشاہی کا تصوّر صرف زبانی اعتراف تک محدود رہ گیا۔ عملاً اس نے وہی نظریہ اختیار کر لیا جو ہمیشہ سے ہر انسانی بادشاہی کا رہا ہے۔ یعنی ملک بادشاہ اور شاہی خاندان کا ہے اور وہ رعیت کی جان، مال، آبرو، ہر چیز کا مالک ہے۔ خدا کا قانون ان بادشاہتوں میں نافذ ہوا بھی تو صرف عوام پر ہوا۔ بادشاہ اور ان کے خاندان اور امرا اور حکام زیادہ تر اس سے مستثنیٰ ہی رہے۔
اسلامی ریاست کا مقصد خدا کی زمین میں ان نیکیوں کو قائم کرنا اور فروغ دینا تھا جو خدا کو محبوب ہیں اور ان برائیوں کو دبانا اور مٹانا تھا جو خدا کو ناپسند ہیں مگر انسانی بادشاہت کا راستہ اختیار کرنے کے بعد حکومت کا مقصد فتحِ ممالک اور تسخیر خلائق اور تحصیلِ باج و خراج اور عیشِ دنیا کے سوا کچھ نہ رہا۔ خدا کا کلمہ بلند کرنے کی خدمت بادشاہوں نے کم ہی کبھی انجام دی۔ ان کے ہاتھوں اور ان کے امرا اور حکام اور درباریوں کے ہاتھوں بھلائیاں کم اور برائیاں بہت زیادہ پھیلیں۔ بھلائیوں کے فروغ اور برائیوں کی روک تھام اور اشاعت دین اور علوم اسلامی کی تحقیق و تدوین کے لیے جن اللہ کے بندوں نے کام کیا انھیں حکومتوں سے مدد ملنی تو درکنار اکثر وہ حکمرانوں کے غضب ہی میں گرفتار رہے اور اپنا کام وہ ان کی مزاحمتوں کے علی الرغم ہی کرتے رہے۔ ان کی کوششوں کے برعکس حکومتوں اور ان کے احکام و متوسّلین کی زندگیوں اور پالیسیوں کے اثرات مسلم معاشرے کو پیہم اخلاقی زوال ہی کی طرف لے جاتے رہے۔ حد یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطر اسلام کی اشاعت میں رکاوٹیں ڈالنے سے بھی دریغ نہ کیا، جس کی بدترین مثال بنو امیہ کی حکومت میں نو مسلموں پر جزیہ لگانے کی صورت میں ظاہر ہوئی۔
اسلامی ریاست کی رُوح تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری کی رُوح تھی جس کا سب سے بڑا مظہر خود ریاست کا سربراہ ہوتا تھا۔ حکومت کے عمّال اور قاضی اور سپہ سالار، سب اس رُوح سے سرشار ہوتے تھے، اور پھر اسی رُوح سے وہ پورے معاشرے کو سرشار کرتے تھے۔ لیکن بادشاہی کی راہ پر پڑتے ہی مسلمانوں کی حکومتوں اور ان کے حکمرانوں نے قیصر و کسریٰ کے سے رنگ ڈھنگ اور ٹھاٹھ باٹھ اختیار کر لیے۔ عدل کی جگہ ظلم و جور کا غلبہ ہوتا چلا گیا۔ پرہیز گاری کی جگہ فسق و فجور اور راگ رنگ اور عیش و عشرت کا دور دورہ شروع ہو گیا۔ حرام و حلال کی تمیز سے حکمرانوں کی سیرت و کردار خالی ہوتی چلی گئی۔ سیاست کا رشتہ اخلاق سے ٹوٹتا چلا گیا۔ خدا سے خود ڈرنے کے بجائے حاکم لوگ بندگانِ خدا کو اپنے آپ سے ڈرانے لگے اور لوگوں کے ایمان و ضمیر بیدار کرنے کے بجائے ان کو اپنی بخششوں کے لالچ سے خریدنے لگے۔
یہ تو تھا روح و مزاج اور مقصد اور نظریئے کا تغیّر۔ ایسا ہی تغیّر اسلامی دستور کے بنیادی اصولوں میں بھی رونما ہوا۔ اس دستور کے سات اہم ترین اصول تھے جن میں سے ہر ایک کو بدل ڈالا گیا۔
دستورِ اسلامی کا سنگ بنیاد یہ تھا کہ حکومت لوگوں کی آزادانہ رضامندی سے قائم ہو۔ کوئی شخص اپنی کوشش سے اقتدار حاصل نہ کرے بلکہ لوگ اپنے مشورے سے بہتر آدمی کو چن کر اقتدار اس کے سپرد کر دیں۔ بیعت اقتدار کا نتیجہ نہ ہو بلکہ اس کا سبب ہو۔ بیعت حاصل ہونے میں آدمی کی اپنی کسی کوشش یا سازش کا دخل نہ ہو۔ لوگ بیعت کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں پُوری طرح آزاد ہوں۔ جب تک کسی شخص کو بیعت حاصل نہ ہو وہ برسر اقتدار نہ آئے اور جب لوگوں کا اعتماد اس پر سے اٹھ جائے تو وہ اقتدار سے چمٹا نہ رہے۔ خلفائے راشدین میں سے ہر ایک اسی قاعدے کے مطابق برسرِ اقتدار آیا تھا۔ امیر معاویہ کے معاملے میں پوزیشن مشتبہ ہو گئی۔ اسی لیے صحابی ہونے کے باوجود ان کا شمار خلفائے راشدین میں نہیں کیا گیا۔ لیکن آخر کار یزید کی ولی عہدی وہ انقلابی کارروائی ثابت ہوئی جس نے اس قاعدے کو الٹ کر رکھ دیا۔ اس سے خاندانوں کی موروثی بادشاہتوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد سے آج تک پھر مسلمانوں کو انتخابی خلافت کی طرف پلٹنا نصیب نہ ہو سکا۔ اب لوگ مسلمانوں کے آزادانہ اور کھلے مشورے سے نہیں بلکہ طاقت سے برسر اقتدار آنے لگے۔ اب بیعت سے اقتدار حاصل ہونے کے بجائے اقتدار سے بیعت حاصل کی جانے لگی۔ اب بیعت کرنے یا نہ کرنے میں لوگ آزاد نہ رہے اور بیعت کا حاصل ہونا اقتدار پر قائم رہنے کے لیے شرط نہ رہا۔ لوگوں کی اوّل تو یہ مجال نہ تھی کہ جس کے ہاتھ میں اقتدار تھا اس کی بیعت نہ کرتے۔ لیکن اگر وہ بیعت نہ بھی کرتے تو جس کے ہاتھ میں اقتدار آ گیا تھا وہ ہٹنے والا نہ تھا۔ اسی جبری بیعت کو کالعدم قرار دینے کا قصور جب منصور عباسی کے زمانہ میں امام مالکؒ سے سرزد ہوا تو ان کی پیٹھ پر کوڑے برسائے گئے اور ان کے ہاتھ شانوں سے اکھڑوا دیئے گئے۔
دوسرا اہم ترین قاعدہ اس دستور کا یہ تھا کہ حکومت مشورے سے کی جائے، اور مشورہ ان لوگوں سے کیا جائے جن کے علم، تقویٰ اور اصابت رائے پر عام لوگوں کو اعتماد ہو۔ خلفائے راشدین کے عہد میں جو لوگ شوریٰ کے رکن بنائے گئے، اگرچہ ان کو انتخاب عام کے ذریعے سے منتخب نہیں کرایا گیا تھا۔ جدید زمانے کے تصوّر کے لحاظ سے وہ نامزد کردہ لوگ ہی تھے لیکن خلفا نے یہ دیکھ کر ان کو مشیر نہیں بنایا تھا کہ یہ ہماری ہاں میں ہاں ملانے، اور ہمارے مفاد کی خدمت کرنے کے لیے موزوں ترین لوگ ہیں بلکہ انھوں نے پورے خلوص اور بے غرضی کے ساتھ قوم کے بہترین عناصر کو چنا تھا جن سے وہ حق گوئی کے سوا کسی چیز کی توقع نہ رکھتے تھے جن سے یہ امید تھی کہ وہ ہر معاملے میں اپنے علم و ضمیر کے مطابق بالکل صحیح ایماندارانہ رائے دیں گے جن سے کوئی شخص بھی یہ اندیشہ نہ رکھتا تھا کہ وہ حکومت کو کسی غلط راہ پر جانے دیں گے اگر اس وقت ملک میں آج کل کے طریقے کے مطابق انتخابات بھی ہوتے تو عام مسلمان انھی لوگوں کو اپنے اعتماد کا مستحق قرار دیتے۔ لیکن شاہی دور کا آغاز ہوتے ہی شوریٰ کا یہ طریقہ بدل گیا۔ اب بادشاہ استبداد اور مطلق العنانی کے ساتھ حکومت کرنے لگے۔ اب شاہزادے اور خوشامدی اہلِ دربار اور صوبوں کے گورنر اور فوجوں کے سپہ سالار ان کی کونسل کے ممبر تھے۔ اب وہ لوگ ان کے مشیر تھے جن کے معاملے میں اگر قوم کی رائے لی جاتی تو اعتماد کے ایک ووٹ کے مقابلے میں لعنت کے ہزار ووٹ آتے اور اس کے برعکس وہ حق شناس و حق گو اہلِ علم و تقویٰ جن پر قوم کو اعتماد تھا وہ بادشاہوں کی نگاہ میں کسی اعتماد کے مستحق نہ تھے، بلکہ الٹے معتوب یا کم از کم مشتبہ تھے۔
اس دستور کا تیسرا اصول یہ تھا کہ لوگوں کو اظہار رائے کی پوری آزادی ہو۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو اسلام نے ہر مسلمان کا حق ہی نہیں بلکہ فرض قرار دیا تھا۔ اسلامی معاشرے اور ریاست کے صحیح راستے پر چلنے کا انحصار اس بات پر تھا کہ لوگوں کے ضمیر اور ان کی زبانیں آزاد ہوں، وہ ہر غلط کام پر بڑے سے بڑے آدمی کو ٹوک سکیں اور حق بات برملا کہہ سکیں۔ خلافت راشدہ میں صرف یہی نہیں کہ لوگوں کا یہ حق پوری طرح محفوظ تھا، بلکہ خلفائے راشدین اسے ان کا فرض سمجھتے تھے اور اس فرض کے ادا کرنے میں ان کی ہمت افزائی کرتے تھے۔ ان کی مجلس شوریٰ کے ممبروں ہی کو نہیں، قوم کے ہر شخص کو بولنے اور ٹوکنے اور خود خلیفہ سے باز پرس کرنے کی مکمل آزادی تھی، جس کے استعمال پر لوگ ڈانٹ اور دھمکی سے نہیں بلکہ داد اور تعریف سے نوازے جاتے تھے۔ یہ آزادی ان کی طرف سے کوئی عطیہ اور بخشش نہ تھی جس کے لیے وہ قوم پر اپنا احسان جتاتے بلکہ یہ اسلام کا عطا کردہ ایک دستوری حق تھا جس کا احترام کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے اور اسے بھلائی کے لیے استعمال کرنا ہر مسلمان پر خدا اور رسول کا عائد کردہ ایک فریضہ تھا جس کی ادائیگی کے لیے معاشرے اور ریاست کی فضا کو ہر وقت سازگار رکھنا ان کی نگاہ میں فرائض خلافت کا ایک اہم جز تھا۔ لیکن بادشاہی دور کا آغاز ہوتے ہی ضمیروں پر قفل چڑھا دیئے گئے اور منہ بند کر دیئے گئے۔ اب قاعدہ یہ ہو گیا کہ زبان کھولو تو تعریف میں کھولو، ورنہ چپ رہو اور اگر تمھارا ضمیر ایسا زور آور ہے کہ حق گوئی سے تم باز نہیں رہ سکتے تو قید یا قتل کے لیے تیار ہو جائو۔ یہ پالیسی رفتہ رفتہ مسلمانوں کو پست ہمت‘ بزدل اور مصلحت پرست بناتی چلی گئی۔ خطرہ مول لے کر سچی بات کہنے والے ان کے اندر کم سے کم ہوتے چلے گئے۔ خوشامد اور چاپلوسی کی قیمت مارکیٹ میں چڑھتی اور حق پرستی و راست بازی کی قیمت گرتی چلی گئی۔ اعلیٰ قابلیت رکھنے والے ایماندار اور آزاد خیال لوگ حکومت سے بے تعلق ہو گئے اور عوام کا حال یہ ہو گیا کہ کسی شاہی خاندان کی حکومت برقرار رکھنے کے لیے ان کے دلوں میں کوئی جذبہ باقی نہ رہا۔ ایک کو ہٹانے کے لیے جب دوسرا آیا تو انھوں نے مدافعت میں انگلی تک نہ ہلائی اور گرنے والا جب گرا تو انہوں نے ایک لات اور رسید کرکے اسے زیادہ گہرے گڑھے میں پھینکا۔ حکومتیں جاتی اور آتی رہیں مگر لوگوں نے تماشائی سے بڑھ کر اس آمدورفت کے منظر سے کوئی دلچسپی نہ لی۔
چوتھا اصول، جو اس تیسرے اصول کے ساتھ لازمی تعلق رکھتا تھا، یہ تھا کہ خلیفہ اور اس کی حکومت خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہے۔ جہاں تک خدا کے سامنے جواب دہی کا تعلق ہے اس کے شدید احساس سے خلفائے راشدین پر دن کا چین اور رات کا آرام حرام ہو گیا تھا اور جہاں تک خلق کے سامنے جواب دہی کا تعلق ہے ’’وہ ہر وقت‘‘ ہر جگہ اپنے آپ کو عوام کے سامنے جواب دہ سمجھتے تھے۔ ان کی حکومت کا یہ اصول نہ تھا کہ صرف مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں نوٹس دے کر ہی ان سے سوال کیا جا سکتا ہے۔ وہ ہر روز پانچ مرتبہ نماز کی جماعت میں اپنے عوام کا سامنا کرتے تھے۔ وہ ہر ہفتے جمعہ کی جماعت میں عوام کے سامنے اپنی کہتے اور ان کی سنتے تھے۔ وہ شب و روز بازاروں میں کسی باڈی گارڈ کے بغیر، کسی ہٹو بچو کی آواز کے بغیر عوام کے درمیان چلتے پھرتے تھے۔ ان کے گورنمنٹ ہائوس (یعنی ان کے کچے مکان) کا دروازہ ہر شخص کے لیے کھلا تھا اور ہر ایک ان سے مل سکتا تھا۔ ان سب مواقع پر ہر شخص ان سے سوال کر سکتا تھا اور جواب طلب کر سکتا تھا۔ یہ محدود جواب دہی نہ تھی بلکہ کھلی اور ہمہ وقتی جواب دہی تھی۔ یہ نمایندوں کے واسطے سے نہ تھی بلکہ پوری قوم کے سامنے براہِ راست تھی۔ وہ عوام کی مرضی سے برسر اقتدار آئے تھے اور عوام کی مرضی انھیں ہٹا کر دوسرا خلیفہ ہر وقت لا سکتی تھی۔ اس لیے نہ تو انھیں عوام کا سامنا کرنے میں کوئی خطرہ محسوس ہوتا تھا اور نہ اقتدار سے محروم ہونا ان کی نگاہ میں کوئی خطرہ تھا کہ وہ اس سے بچنے کی کبھی فکر کرتے۔ لیکن بادشاہی دور کے آتے ہی جواب دہ حکومت کا تصوّر ختم ہو گیا۔ خدا کے سامنے جواب دہی کا خیال چاہے زبانوں پر رہ گیا ہو، مگر عمل میں اس کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں۔ رہی خلق کے سامنے جواب دہی تو کون مائی کا لال تھا جو ان سے جواب طلب کر سکتا۔ وہ اپنی قوم کے فاتح تھے۔ مفتوحوں کے سامنے کون فاتح جواب دہ ہوتا ہے۔ وہ طاقت سے برسر اقتدار آئے تھے اور ان کا نعرہ یہ تھا کہ جس میں طاقت ہو وہ ہم سے اقتدار چھین لے۔ ایسے لوگ عوام کا سامنا کب کیا کرتے ہیں اور عوام ان کے قریب کہاں پھٹک سکتے ہیں۔ وہ نماز بھی پڑھتے تھے تو نتھو خیرے کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے محلوں کی محفوظ مسجدوں میں، یا باہر اپنے نہایت قابلِ اعتماد محافظوں کے جھرمٹ میں۔ ان کی سواریاں نکلتی تھیں تو آگے اور پیچھے مسلح دستے ہوتے تھے اور راستے صاف کر دیئے جاتے تھے۔ عوام کی اور ان کی مڈ بھیڑ کسی جگہ ہوتی ہی نہ تھی۔
پانچواں اصول اسلامی دستور کا یہ تھا کہ بیت المال خدا کا مال اور مسلمانوں کی امانت ہے جس میں کوئی چیز حق کی راہ کے سوا کسی دوسری راہ سے آنی نہ چاہیے اور جس میں سے کوئی چیز حق کے سوا کسی دوسری راہ میں جانی نہ چاہیے۔ خلیفہ کا حق اس مال میں اتنا ہی ہے جتنا قرآن کی رو سے مالِ یتیم میں اس کے ولی کا ہوتا ہے کہ مَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ وَمَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِ (جو اپنے ذاتی ذرائع آمدنی اپنی ضرورت بھر رکھتا ہو وہ اس مال سے تنخواہ لیتے ہوئے شرم کرے اور جو واقعی حاجت مند ہو وہ اتنی تنخواہ لے جسے ہر معقول آدمی مبنی برانصاف مانے) خلیفہ اس کی ایک ایک پائی کے آمد و خرچ پر حساب دینے کا ذمہ دار ہے اور مسلمانوں کو اس سے حساب مانگنے کا پورا حق ہے۔ خلفائے راشدین نے اس اصول کو بھی کمال درجہ دیانت اور حق شناسی کے ساتھ برت کر دکھایا۔ ان کے خزانے میں جو کچھ بھی آتا تھا ٹھیک ٹھیک اسلامی قانون کے مطابق آتا تھا اور اس میں سے جو کچھ خرچ ہوتا تھا بالکل جائز راستوں میں ہوتا تھا۔ ان میں سے جو غنی تھا اس نے ایک حبہ اپنی ذات کے لیے تنخواہ کے طور پر وصول کیے بغیر مفت خدمت انجام دی بلکہ اپنی گرہ سے قوم کے لیے خرچ کرنے میں بھی دریغ نہ کیا۔ اور جو تنخواہ کے بغیر ہمہ وقتی خدمت گار نہ بن سکتے تھے انھوں نے اپنی ضروریاتِ زندگی کے لیے اتنی کم تنخواہ لی کہ ہر معقول آدمی اسے انصاف سے کم ہی مانے گا، زیادہ کہنے کی جرأت ان کا دشمن بھی نہیں کر سکتا۔ پھر اس خزانے کی آمدو خرچ کا حساب ہر وقت ہر شخص مانگ سکتا تھا اور ہر وقت ہر شخص کے سامنے حساب دینے کے لیے تیار تھے۔ ان سے ایک عام آدمی بھرے مجمع میں پوچھ سکتا تھا کہ خزانے میں یمن سے جو چادریں آئی ہیں ان کا طول و عرض تو اتنا نہ تھا کہ جناب کا یہ لمبا کرتا بن سکے، یہ زائد کپڑا آپ کہاں سے لائے ہیں؟ مگر جب خلافت بادشاہی میں تبدیل ہوئی تو خزانہ خدا اور مسلمانوں کا نہیں بلکہ بادشاہ کا مال تھا۔ ہر جائز و ناجائز راستے سے اس میں دولت آتی تھی اور ہر جائز و ناجائز راستے میں بے غل و غش صرف ہوتی تھی۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ اس کے حساب کا سوال اٹھا سکے۔ سارا ملک ایک خوانِ یغما تھا جس پر ایک ہر کارے سے لے کر سربراہ مملکت تک، حکومت کے سارے کل پرزے حسب توفیق ہاتھ مار رہے تھے۔ اور ذہنوں سے یہ تصوّر ہی نکل گیا تھا کہ اقتدار کوئی پروانہ اباحت نہیں ہے جس کی بدولت یہ لوٹ مار ان کے لیے حلال ہو اور پبلک کا مال کوئی شیر مادر نہیں ہے جسے وہ ہضم کرتے رہیں اور کسی کے سامنے انھیں اس کا حساب دینا نہ ہو۔
چھٹا اصول اس دستور کا یہ تھا کہ ملک میں قانون (یعنی خدا اور رسول کے قانون) کی حکومت ہونی چاہیے۔ کسی کو قانون سے بالاتر نہ ہونا چاہیے۔ کسی کو قانون کی حدود سے باہر جا کر کام کرنے کا حق نہ ہونا چاہیے۔ ایک عامی سے لے کر سربراہ مملکت تک سب کے لیے ایک ہی قانون ہونا چاہیے اور سب پر اسے بے لاگ طریقے سے نافذ ہونا چاہیے۔ انصاف کے معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ ہونا چاہیے اور عدالتوں کو انصاف کرنے کے لیے ہر دبائو سے بالکل آزاد ہونا چاہیے۔ خلفائے راشدین نے اس اصول کی پیروی کا بھی بہترین نمونہ پیش کیا تھا۔ بادشاہوں سے بڑھ کر اقتدار رکھنے کے باوجود وہ قانونِ الٰہی کی بندشوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ نہ ان کی دوستی اور رشتہ داری قانون کی حد سے نکل کر کسی کو کچھ نفع پہنچا سکتی تھی اور نہ ان کی ناراضی کسی کو قانون کے خلاف کوئی نقصان پہنچا سکتی تھی۔ کوئی ان کے اپنے حق پر بھی دست درازی کرتا تو وہ ایک عام آدمی کی طرح عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے اور کسی کو ان کے خلاف شکایت ہوتی تو وہ استغاثہ کرکے انھیں عدالت میں کھینچ لا سکتا تھا۔ اسی طرح انھوں نے اپنی حکومت کے گورنروں اور سپہ سالاروں کو بھی قانون کی گرفت میں کس رکھا تھا۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ عدالت کے کام میں کسی قاضی پر اثر انداز ہونے کا خیال بھی کرتا۔ کسی کا یہ مرتبہ نہ تھا کہ قانون کی حد سے قدم باہر نکال کر مواخذے سے بچ جاتا۔ لیکن خلافت سے بادشاہی کی طرف انتقال واقع ہوتے ہی اس قاعدے کے بھی چیتھڑے اڑ گئے۔ اب بادشاہ اور شاہزادے اور امرا اور حُکّام اور سپہ سالار ہی نہیں، شاہی محلات کے منہ چڑھے لونڈی غلام تک قانون سے بالاتر ہو گئے۔ لوگوں کی گردنیں اور پیٹھیں اور مال اور آبروئیں، سب ان کے لیے مباح ہو گئیں۔ انصاف کے دو معیار بن گئے۔ ایک کمزور کے لیے اور دوسرا طاقت ور کے لیے۔ مقدمات میں عدالتوں پر دبائو ڈالے جانے لگے اور بے لاگ انصاف کرنے والے قاضیوں کی شامت آنے لگی۔ حتیٰ کہ خدا ترس فقہا نے عدالت کی کرسی پر بیٹھنے کے بجائے کوڑے کھانا اور قید ہو جانا زیادہ قابلِ ترجیح سمجھا تاکہ وہ ظلم و جور کے آلہ کار بن کر خدا کے عذاب کے مستحق نہ بنیں۔
مسلمانوں میں حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات، اسلامی دستور کا ساتواں اصول تھا جسے ابتدائی اسلامی ریاست میں پوری قوت کے ساتھ قائم کیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے درمیان نسل، وطن، زبان وغیرہ کا کوئی امتیاز نہ تھا۔ قبیلے اور خاندان اور حسب و نسب کے لحاظ سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ تھی۔ خدا اور رسول کے ماننے والے سب لوگوں کے حقوق یکساں تھے اور سب کی حیثیت برابر تھی۔ ایک کو دوسرے پر ترجیح اگر تھی تو سیرت و اخلاق اور اہلیت و صلاحیت اور خدمات کے لحاظ سے تھی لیکن خلافت کی جگہ جب بادشاہی نظام آیا تو عصبیت کے شیاطین ہر گوشے سے سر اٹھانے لگے۔ شاہی خاندان اور ان کے حامی خا نوادوں کا مرتبہ سب سے بلند و برتر ہو گیا۔ ان کے قبیلوں کو دوسرے قبیلوں پر ترجیحی حقوق حاصل ہو گئے۔ عربی اور عجمی کے تعصبات جاگ اٹھے اور خود عربوں میں قبیلے اور قبیلے کے درمیان کشمکش پیدا ہو گئی۔ ملت اسلامیہ کو اس چیز نے جو نقصان پہنچایا اس پر تاریخ کے اوراق گواہ ہیں۔
یہ تھے وہ تغیّرات جو اسلامی خلافت کو خاندانی بادشاہت میں تبدیل کرنے سے رونما ہوئے۔ کوئی شخص اس تاریخی حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ یزید کی ولی عہدی ان تغیّرات کا نقطہ آغاز تھی اور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس نقطے سے چل کر تھوڑی مدت کے اندر ہی بادشاہی نظام میں وہ سب خرابیاں نمایاں ہو گئیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ انقلابی قدم اٹھایا گیا تھا، اس وقت یہ خرابیاں اگرچہ بتمام و کمال سامنے نہ آئی تھیں، مگر ہر صاحب بصیرت آدمی جان سکتا تھا کہ اس اقدام کے لازمی نتائج یہی کچھ ہیں اور اس سے ان اصلاحات پر پانی پھر جانے والا ہے جو اسلام نے سیاست و ریاست کے نظام میں کی ہیں۔ اسی لیے امام حسینؑ اس پر صبر نہ کر سکے اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ جو بدتر سے بدتر نتائج بھی انھیں ایک مضبوط جمی جمائی حکومت کے خلاف اٹھنے میں بھگتنے پڑیں، ان کا خطرہ مول لے کر بھی انھیں اس انقلاب کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کوشش کا جو انجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے مگر امام نے اس عظیم خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اس کے نتائج کو انگیز کرکے جو بات ثابت کی وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امت مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں جسے بچانے کے لیے ایک مومن اپنا سر بھی دے دے اور اپنے بال بچوں کو بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد کے مقابلے میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے اور ان خصوصیات کے مقابلے میں وہ دوسرے تغیّرات جنھیں اوپر نمبروار گنایا گیا ہے دین اور ملت کے لیے وہ آفت ِعظمیٰ ہیں جسے روکنے کے لیے ایک مومن کو اگر اپنا سب کچھ قربان کر دینا پڑے تو اس میں دریغ نہ کرنا چاہیے۔ کسی کا جی چاہے تو اسے حقارت کے ساتھ ایک سیاسی کام کہہ لے۔ مگر حسینؓ ابن علیؓ کی نگاہ میں تو یہ سراسر ایک دینی کام تھا۔ اسی لیے انھوں نے اس کام میں جان دینے کو شہادت سمجھ کر جان دی۔ (ترجمان القرآن۔ جولائی ۱۹۶۰ء)
٭…٭…٭…٭…٭
اقوامِ مغرب کا عبرت ناک انجام
(یہ مقالہ دراصل ایک اداریہ ہے جو ستمبر ۱۹۳۹ئ کو ترجمان القرآن میں اشاعت کے لیے مصنف نے لکھا تھا۔ اس وقت جنگ عظیم ثانی کی ابتدا ہو چکی تھی۔ اداریے میں چونکہ مغربی اقوام پر تنقید کی گئی تھی اس لیے اس وقت کی حکومت پنجاب نے شائع کرنے کی اجازت نہ دی تھی۔ چنانچہ یہ اداریہ، ترجمان القرآن کی فائل میں محفوظ تھا، ۱۹ سال کے بعد پہلی مرتبہ ترجمان القرآن بابت فروری ۹۱۵۸ئ میں شائع ہوا)
ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ ۔ الروم 41:30
آخر کار وہ فساد جس کا مادّہ مدتوں سے پک رہا تھا، زمین پر پھوٹ پڑا اور اس نے خشکی اور تری اور ہوا سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جن مفسد انسانوں اور متاعِ حیاتِ دنیا کی حریص جماعتوں کے ہاتھ میں اس وقت عالم انسانی کی باگیں ہیں، ان کے کرتوت آخرکار عذابِ الٰہی کی صورت میں نہ صرف خود ان پر مسلّط ہو کر رہے، بلکہ اس دنیا کو بھی انہوں نے آ گھیرا جس نے خدا کی بندگی چھوڑ کر ان مفسدوں کی بندگی قبول کر رکھی ہے۔ اب زمین پر وہ سب کچھ ہو گا جس پر خدا نے لعنت بھیجی ہے۔ بستیاں غارت ہوں گی۔ کھیتیاں اور نسلیں تباہ کی جائیں گی۔ انسان کو انسان بھیڑیوں سے بھی زیادہ درندگی کے ساتھ پھاڑے اور چیرے گا۔ بچوں اور عورتوں اور بوڑھوں اور بیماروں تک کو امان نصیب نہ ہو گی۔ انسان نے صدیوں میں جو کچھ اپنی محنت اور ذہانت سے بنایا ہے وہ آن کی آن میں بگاڑ کر رکھ دیا جائے گا۔ کمزور قوموں کے آدمی زمین کے ہر گوشے سے کھینچ کھینچ کر لائے جائیں گے اور شیاطین مغرب کی قربان گاہِ حرص و ہوس پر ان کو بھیڑوں اور بکریوں کی طرح ذبح کرا دیا جائے گا۔ غریب اور بے بس قوموں کی گاڑھی کمائیاں طرح طرح سے سونتی جائیں گی اور ان کو اس آتش بازی میں پھونک دیا جائے گا جو زمین کی خداوندی کے جھوٹے مدعیوں نے ایک دوسرے کے مقابلے میں شروع کی ہے۔ غرض اب نوعِ انسان کے لیے اپنے اس گناہ کی پوری سزا پانے کا وقت آ گیا ہے کہ اس نے ان سرکشوں کو اپنا مطاع اور پیشوا بنایا جو خدا کو بھولے ہوئے ہیں اور شیطان کی بندگی میں حد سے گزر گئے ہیں۔ وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُہْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَہْلُہَا مُصْلِحُوْنَ۔ ہود 117:11
ابھی اس فسادِ عظیم کو صرف ۲۱ سال ہی گزرے ہیں جس نے پورے چار برس تک دنیا کو تہہ و بالا کر رکھا تھا۔ ایک کروڑ آدمیوں کا ہلاک اور تین کروڑ کا زخمی ہونا، ۱۰ کھرب روپے کے سرمایے پر پانی پھر جانا، ملکوں اور سلطنتوں کا تباہ ہونا اور دنیا کے اس سرے سے اس سرے تک قوموں کی اخلاقی و روحانی اور تمدنی و سیاسی زندگی میں ایک شدید بحرانی کیفیت کا پیدا ہو جانا، یہ اس فتنہ کبریٰ کے نتائج تھے جسے دنیا جنگ ِعظیم کے نام سے یاد کرتی ہے۔ مگر اتنے بڑے ہولناک حادثے سے بھی یورپ کے خدا ناشناس اربابِ سیاست کی آنکھیں نہ کھلیں اور انھوں نے چند ہی سال بعد ایک دوسرے اور عظیم تر فتنے کا جھنڈا بلند کر دیا۔ درآنحالیکہ ابھی پچھلے فساد کے دل دہلا دینے والے نتائج ان کی آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ یہ دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے دل کی آنکھیں بالکل اندھی ہو چکی ہیں یہ اپنی روح شیطان کے ہاتھ فروخت کر چکے ہیں اور اب یہ کسی چیز سے عبرت و نصیحت حاصل نہ کریں گے یہاں تک کہ قضائے الٰہی ان کے شر اور ان کی سرکشی کی جڑ کاٹنے کا آخری فیصلہ کر دے اور انھیں خود ان کے ہاتھوں سے اس طرح تباہ و برباد کرا دے کہ یہ آیندہ نسلوں کے لیے افسانہ بن کر رہ جائیں۔ وَکَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَا اَخَذَ الْقُرٰی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ اِنَّ اَخْذَہٗ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ۔ ھود 102:11
یورپ کے مدبّرین سیاست کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ اندر ہی اندر فتنہ انگیزیاں کرتے رہتے ہیں اور دوسری طرف جب ان کی شرارتوں کا میگزین پھٹنے پر آتا ہے تو ان میں سے ہر ایک اصلاح اور امن پسندی کا مدعی، حق و انصاف کا حامی اور ظلم و زیادتی کا دشمن بن کر اٹھتا ہے اور دنیا کو یقین دلانا چاہتا ہے کہ میں تو صرف خیر و صلاح چاہتا ہوں مگر میرا مد مقابل ظلم و بے انصافی پر تلا ہوا ہے۔ لہٰذا آئو اور میری مدد کرو۔ حقیقت میں تو یہ سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ سب ظلم و فساد کے امام ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا دامن مظلوموں کے خون سے سرخ ہے۔ ہر ایک کا نامہ اعمال ان سب گناہوں سے سیاہ ہے جن کا الزام یہ ایک دوسرے پر لگاتے ہیں لیکن یہ ان کی پرانی عادت ہے کہ جب یہ اپنی مفسدانہ اغراض کے لیے لڑتے ہیں تو اخلاق اور انسانیت اور جمہوریت اور کمزور قوموں کے حقوق کی حمایت کا سراسر جھوٹا دعویٰ لے کر دنیا کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ بہت سے بے وقوف انسان جو ان کے قبضہ قدرت میں ہیں، ان کی لڑائی کو حق اور انصاف کی لڑائی سمجھ کر ان کی ناپاک خواہشات کے حصول میں مدد گار بن جائیں اور وہ بہت سے خوشامدی لوگ جو اپنی ذلیل اغراض کے لیے ان کا ساتھ دینے پر آمادہ ہیں، اپنے آپ کو ایک مقصد ِحق کا حمایتی بنا کر پیش کریں اور سُرخ رو بن جائیں۔
فساد انگیزی کے ساتھ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ کے ان جھوٹے دعوئوں کی حقیقت پچھلی جنگ میں پوری طرح کُھل چکی ہے۔ جنگ ِعظیم اوّل کی تاریخ آج کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ ایک طرف انگلستان، فرانس، روس اور اٹلی اور دوسری طرف جرمنی اور آسٹریا کی جتھہ بندی کِن اغراض کے لیے ہوئی تھی۔ کس قسم کے مفاد تھے جن کے لیے یہ دونوں جتھے ایک دوسرے کے مقابل لڑنے پر آمادہ ہوئے تھے اور پھر ملکوں کی تقسیم اور سلطنتوں کے بٹوارے کی کیا کیا سازشیں انھوں نے آپس میں کی تھیں۔ مگر کچھ یاد ہے کہ جنگ کے آغاز میں اور جنگ کے دوران میں ہر فریق نے کیسے کیسے بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ دنیا کو یہ فریب دینے کی کوشش کی تھی کہ ہم دنیا کو ظلم و ستم کے تسلّط سے بچانے اور ضعیف قوموں کو آزادی کی نعمت سے بہرہ اندوز کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں؟
پھر جب لڑائی میں ایک فریق کو فتح نصیب ہوئی تو اس نے کس طرح اپنے وعدوں اور معاہدوں کو پورا کیا؟ اپنی حق پرستی اور انصاف پسندی کی کیسی روشن مثالیں پیش کیں؟ ضعیف قوموں پر آزادی کی نعمت اور مظلوم انسانیت پر عدل کی رحمت کس کس طرح برسائی؟ اس کی شہادت ہندوستان، عراق، شام، فلسطین، مصر، سمرنا، تھریس، تیونس، الجزائر اور مراقش کا ایک ایک ذرّہ دے رہا ہے۔
اب یہ لوگ پھر وہی خرقۂ سالوس پہن کر ہمارے سامنے آئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس جنگ کے میدان میں ہم کسی خود غرضی کی بنا پر نہیں کودے ہیں بلکہ ان اصولوں کی حفاظت کے لیے کودے ہیں جو تمام عالم انسانی کی فلاح سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارا مقصد بین الاقوامی عدل اور بین الاقوامی اخلاق کو تباہی سے بچانا ہے۔ ہم یہ اصول دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں کہ مہذّب انسان اپنے اختلافات کا فیصلہ معقولیت اور استدلال سے کرے نہ کہ حیوانی قوت کے زور سے۔ ہماری خواہش یہ ہے کہ انسانوں کے معاملات میں جنگل کا قانون جاری نہ ہونے پائے یعنی ایسا نہ ہو کہ بلا لحاظ حق و انصاف ہر طاقت ور کی بات کمزور کو ماننی پڑے۔ اگر ہم ان مقاصد عالیہ کے لیے جنگ نہ کریں تو دنیا میں مہذب انسانوں کی زندگی دوبھر ہو جائے گی۔ انسانی روح کے لیے کوئی آزادی باقی نہ رہے گی اور انسانی تہذیب و تمدن کے پرامن نشوونما کا راستہ بند ہو جائے گا کیونکہ ہمارا مدمقابل جبروز ور کی بالاتری قائم کرنے کے لیے جو کچھ کر رہا ہے اس کے کامیاب ہو جانے کے معنی انسانی تہذیب کی کامل بربادی کے ہیں۔
یہ وعظ سن کر بے اختیار منہ سے نکلتا ہے۔
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
اللہ اللہ! جناب اور بین الاقوامی عدل؟ جناب اور بین الاقوامی اخلاق؟ یہ انسانی روح کی آزادی کس تاریخ سے جناب کی نگاہ میں اس قدر عزیز ہو گئی کہ اس کے لیے آپ اپنا مال اور اپنی جان تک قربان کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے؟ آپ نے کب سے یہ اصول تسلیم فرما لیا کہ مہذب انسان اپنے اختلافات کا فیصلہ حیوانی قوت کے بجائے معقولیت اور استدلال سے کرے؟ جنگل کا قانون آپ کے حدودِ اختیار میں کس روز منسوخ ہوا اور کب وہ ساعت سعید آئی کہ کمزور کے مقابلے میں جنابِ والا حق و انصاف کا لحاظ فرمانے لگے؟ فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ۰ۭ ہُوَاَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰىo النجم 32:53 آپ کے تو نامۂ اعمال کا ورق ورق ان تمام جرائم کی شہادت دے رہا ہے جن کے سدباب کا آج آپ اعلان فرما رہے ہیں۔ آپ کے وسیع مقبوضات گواہ ہیں کہ دنیا میں جنگل کا قانون نافذ کرنے والے سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر آپ ہیں۔ آپ کی جہانگیرانہ تاریخ کا صفحہ صفحہ اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ بین الاقوامی عدل‘ بین الاقوامی اخلاق کو اپنی تجارتی اور سیاسی اغراض پر قربان کرنے میں آپ نے کبھی دریغ نہیں کیا اور جہاں آپ کی حیوانی قوت کا زور چل سکا وہاں آپ نے کبھی یہ اصول تسلیم نہ کیا کہ مہذب انسان کو اپنے اختلافات کا فیصلہ معقولیت اور استدلال سے کرنا چاہیے۔ پچھلی تاریخ کو چھوڑیئے۔ آج عین اس وقت جب کہ حضور کی زبانِ مبارک سے ان مقاصد عالیہ کا اعلان ہو رہا ہے۔ آپ کے اپنے ہاتھوں سے فلسطین میں وہ سارے مقاصد پامال ہو رہے ہیں جن کی حمایت کا آپ دعویٰ فرماتے ہیں۔ یہ نئے اور پرانے دھبے اپنے دامن پر رکھتے ہوئے جناب کا اظہارِ پاک دامنی اندھوں کو تو دھوکا دے سکتا ہے مگر آنکھوں والے دھوکا نہیں کھا سکتے۔ یہ کاٹھ کی ہنڈیا آخر کب تک چڑھتی رہے گی؟
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا وَّيُحِبُّوْنَ اَنْ يُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّھُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ۰ۚ آل عمران 188:3
یہ جنگ جواب شروع ہوئی ہے اس کے اسباب کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ اس کی بنا اسی روز رکھ دی گئی تھی جس روز پچھلی جنگ ِعظیم ختم ہوئی تھی۔ آج جو حق و انصاف اور بین الاقوامی عدل کے مدعی بن کر اٹھے ہیں انھوں نے پچھلی جنگ میں فتح حاصل کرتے ہی دنیا میں ’’جنگل کا قانون‘‘ نافذ کر دیا تھا۔ انھوں نے ملکوں کا اس طرح بٹوارہ شروع کیا جس طرح ڈاکو مال لوٹنے کے بعد آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔ انھوں نے قوموں کو بھیڑوں اور بکریوں کی طرح آپس میں بانٹا اور ان کا لین دین کیا۔ وہ اس وقت اپنے دورانِ جنگ کے بلند بانگ دعوے سب بھول گئے اور انھوں نے ٹھیک اسی طرح مغلوب قوموں کے ساتھ برتائو کیا جس طرح جنگل میں کوئی درندہ اپنے شکار کے ساتھ کرتا ہے، یعنی بلا لحاظ حق و انصاف محض طاقت کے بل پر کمزور کو اپنے فیصلے کے آگے جھکنے پر مجبور کرنا۔ انھوں نے زندہ اور احساسِ خودداری رکھنے والی قوموں کے سر اور سینے پر اتنی ٹھوکریں لگائیں اور لگاتے چلے گئے کہ بالآخر وہ جوشِ غضب سے دیوانی ہو گئیں۔ انھوں نے اپنا دماغی توازن کھو دیا اور ان پر ایک شدید انقلابی بحران طاری ہو گیا۔ اسی بحران کا نتیجہ ہے کہ ایک طرف وہ ترکی قوم جو پانسو برس تک مسلم دنیا کے ساتھ گہرے روحانی رابطوں میں بندھی ہوئی تھی، ایک سخت قسم کے قوم پرستانہ مسلک کی پیرو بن گئی اور اب تک اس کا توازن درست نہیں ہو سکا ہے۔ دوسری طرف اسی بحران کی بدولت وہ عظیم الشان جرمن قوم جو دورِ جدید میں سائنس اور فلسفہ اور علوم اجتماع کی علمبردار رہی ہے اور جس کے علمی کارنامے اس عہد کی تاریخ میں سب سے زیادہ درخشاں ہیں، قوم پرستی کے انتہائی سخت جنون میں مبتلا ہو گئی اور اس نے اپنے آپ کو اس جاہلانہ فلسفہ حیات اور اس جابرانہ نظامِ سیاسی کے سپرد کر دیا جس کو معمولی حالات میں دنیا کی کوئی مہذب، تعلیم یافتہ اور صاحب ِعقل و خرد قوم قبول نہیں کر سکتی۔
پس جرمنی میں نازیت کا عروج اور اس پر جبر و قہر و استبداد کے دیوتا کا تسلّط اور اس پر جنگجوئی و جہانگیری کے بھوت کا غلبہ براہِ راست نتیجہ ہے ان لوگوں کی حد سے بڑھی ہوئی حرص و ہوس کا جو آج دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم بین الاقوامی عدل قائم کرنے اور جنگل کے قانون کو مٹا کر اخلاق اور تہذیب کا قانون نافذ کرنے اٹھے ہیں۔ یہ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیَ النَّاسِ کی تفسیر ہے اور یہ تفسیر اب آگ اور خون سے لکھی جا رہی ہے۔
اور اب بھی یہ دعویٰ سراسر باطل ہے کہ انھوں نے اپنی حرص و ہوس کے نتائج کو محسوس کر لیا ہے اور اس سے ہاتھ اٹھا کر اب یہ صرف اس لیے لڑ رہے ہیں کہ بین الاقوامی عدل قائم ہو۔ بین الاقوامی عدل تو کئی سال سے ان کی آنکھوں کے سامنے پامال ہو رہا ہے۔ چین، حبش، البانیا، آسٹریا، بوہیمیا ،اسپین، میمل، ہر ایک اس کی پامالی کا نوحہ خواں ہے۔ پھر ان میں سے کسی موقع پر انصاف پسندی اور حمایت تہذیب انسانی کی رگ کیوں نہ پھڑکی؟ کیا انسان صرف پولینڈ ہی میں بستے ہیں کہ صرف انھی کو جنگل کے قانون سے بچانے کی ضرورت لاحق ہوئی ہے اور وہ کروڑوں، چینی، حبشی، البانوی اور چیک وغیرہ انسان نہ تھے کہ جنگل کا قانون ان پر ٹھنڈے دل سے نافذ ہو جانے دیا گیا؟
صاف کیوں نہیں کہتے کہ اصل معاملہ مقبوضات ماوراء بحر کا ہے اور خطرہ دراصل یہ ہے کہ پولینڈ پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد جرمنی پہلے اپنی ان نو آبادیات کا مطالبہ کرے گا جو پچھلی جنگ میں اس سے چھین لی گئی تھیں اور پھر دنیا کے وسیع عرصۂ حیات میں جہاں اب تک آپ ہی کی کبریائی کا ڈنکا بج رہا ہے، یہ نئی ابھرنے والی طاقت آپ کی برتری کو چیلنج کرے گی۔ لہٰذا آپ چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ یہ اس طرف پیش قدمی کرے، دروازے ہی پر اسے کیوں نہ روک دو۔ یہ ہے اصل غرض میدانِ جنگ میں کودنے کی، نہ کہ اس انسانیت کی حفاظت و حمایت جس پر جنگل کا قانون پہلے ہی نافذ ہو چکا ہے اور ڈیڑھ صدی سے نافذ چلا آ رہا ہے۔
پھر جب کہ لڑائی کی اصلی غرض یہ ہے تو دنیا سخت احمق ہو گی اگر وہ اس جنگ کے متعلق یہ سمجھے گی کہ ایک طرف حق ہے اور دوسری طرف باطل۔ حقیقت میں دونوں طرف باطل ہی باطل ہے۔ حق اور انصاف کا کسی فریق کے مقاصد جنگ میں شائبہ تک نہیں۔ دونوں فریق اپنی اپنی اغراض کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ایک چاہتا ہے کہ جن انسانوں پر میں جنگل کا قانون نافذ کر چکا ہوں، اب ان پر کوئی دوسرا اس قانون کو نافذ نہ کرنے پائے۔ دوسرا چاہتا ہے کہ جہاں یہ قانون پہلے سے نافذ ہے وہاں اس کا نفاذ ایک دفعہ پھر ہو جائے۔ اس صورتِ حال میں اگر کوئی فریب خوردہ انسان کسی فریق کو برسر حق سمجھتا ہے تو خدا اس کی عقل پر رحم کرے، اور کوئی فریب کار انسان حقیقت واقعہ کو جاننے کے باوجود اپنی ناپاک اغراض پر حق پسندی کا خوشنما پردہ ڈالتا ہے تو خدا اس کا پردہ کھول دے۔
اس عجائب کی دنیا میں شاید اس سے زیادہ عجیب کوئی بات نہیں ہے کہ جہاں ڈیڑھ صدی سے جنگل کا قانون نافذ ہے اور جن لوگوں کے ساتھ معقولیت اور استدلال کے بجائے ہمیشہ حیوانی قوت ہی کے زور سے اختلافات کا فیصلہ کیا جاتا رہا ہے وہاں ٹھیک انھی لوگوں سے آج کہا جا رہا ہے کہ ہم اس جنگل کے قانون اور اس حیوانی طریق عمل کو مٹانے جا رہے ہیں، آئو ہماری مدد کرو۔ جو لوگ خود انسانی آزادی سے محروم اور طاقت کی حکمرانی سے مغلوب ہیں، ان کو پکارا جاتا ہے کہ انسانی آزادی کی حفاظت کے لیے اور طاقت کی حکمرانی ختم کرنے کے لئے اپنی جان و مال قربان کرو۔ اور پھر انھیں بے وقوف بناتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔
’’یہ اعلیٰ درجے کے اصول (جن کو قائم کرنے کے لیے ہم لڑ رہے ہیں) ہندوستان سے بڑھ کر دنیا میں کہیں قدرو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے اور ہندوستان سے زیادہ کسی نے ان کی حفاظت کو اہمیّت نہیں دی ہے … اور ہمیں پور ابھروسا ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ وہ سب کچھ خطرے میں ہے جو انسانی تہذیب کے لیے نہایت قیمتی ہے، ہندوستان طاقت کی حکمرانی کے مقابلے میں انسانی آزادی کی حمایت پر اپنا زور صرف کرے گا اور اس مرتبے کے شایانِ شان اس کام میں حصّہ لے گا جو اسے دنیا کی بڑی قوموں اور تاریخی تہذیبوں میں حاصل ہے۔‘‘
کیا خوب ارشاد ہے! اس کا ایک ایک لفظ اس قابل ہے کہ ’’اخلاقی جسارت‘‘ کی زرّین مثال کے طور پر تاریخ میں محفوظ کر دیا جائے۔
عین اس وقت جب کہ یہ پیغام ہندوستان کو دیا جا رہا تھا، ہندوستان کے کمانڈر انچیف صاحب چیٹ فیلڈر پوٹ پر تقریر کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ہندوستان کی اصلی سرحدیں ایک طرف ملایا اور سنگاپور ہیں اور دوسری طرف مصر و عدن اور خلیج فارس، یہ ممالک اگر ہندوستان کے دوستوں کی ملکیت میں نہ ہوں تو سمجھو کہ اس ملک کے سینے پر دو طرف سے پستول کی شست بندھی ہوئی ہے۔
دفاع کا یہ نظریہ کہ ایک ملک کی قدرتی سرحدوں سے سینکڑوں ہزاروں میل آگے اس کی سیاسی اور دفاعی سرحدیں قائم کی جائیں اور پھر یہ اطمینان کرنے کے لیے کہ وہ سرحدیں اس ملک کے ’’دوستوں‘‘ کے قبضے میں رہیں، یا تو براہِ راست ان پر قبضہ کر لیا جائے یا ان کی حکومتوں کو اپنے زیر اثر لایا جائے، یہی قیصریت اور جہانگیری کی جان ہے، یہی بِس کی گانٹھ ہے، یہی لڑائیوں کی بنیاد ہے، اسی سے ان مفادات اور واجبات کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ پیدا ہوتا ہے جن کی حفاظت اور بجا آوری کے لیے ایک امپریلسٹ طاقت اپنی حدود سے بڑھتی اور بڑھتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ اسے پورا اطمینان اس وقت تک نصیب نہیں ہوتا جب تک کہ تمام روئے زمین کو وہ اپنے ’’دوستوں‘‘ کے قبضے میں نہ دیکھ لے۔ کیونکہ جن مقامات کو وہ اپنی سرحد قرار دیتی ہے ان کے تحفظ کے لیے ہزار دو ہزار میل اور آگے ایک نئی سرحد قائم ہوتی ہے اور پھر وہ اپنی حفاظت کا مطالبہ کرتی ہے جس کی خاطر پھر سرحدیں ہزار دو ہزار میل آگے بڑھ جاتی ہیں۔
یہ جہانگیرانہ نظریات اس وقت بھی ان لوگوں کے دماغ میں چکر لگا رہے ہیں جب کہ یہ دنیا کو یقین دلا رہے ہیں کہ ہم ایک دشمن انسانیت کی جنگجوئی کا سر کچلنے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد اس امر میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے کہ ان میں اور ان کے حریف میں اخلاقی حیثیت سے کوئی فرق نہیں۔ انسانیت کے لیے دونوں میں ایک کو انتخاب کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔ دونوں کے نظریات ایک، اصول ایک، مقاصد ایک اور طرزِ عمل ایک پھر آخر وجہ ترجیح کیا ہے؟
جو لوگ اپنے کچھ اصول نہیں رکھتے بلکہ حالات کے لحاظ سے شخصی یا قومی اغراض کے لیے سودا کرتے ہیں ان کا راستہ تو تاریکی میں ہے۔ اور وہ اسی راستے کو ٹٹول ٹٹول کر چلیں گے۔ مگر مسلمان کا راستہ بالکل صاف ہے۔ اس کا مسلمان ہونا ہی یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے لیے ایک اصول، ایک ضابطہ، ایک قانون رکھتا ہے دنیا میں خواہ کچھ ہوا کرے، مسلمان کا کام اپنے اصول کی پابندی کرنا ہے۔ اس سے ہٹنے کے معنی ان لوگوں میں جا ملنے کے ہیں جو اصولِ اسلام سے ہٹے ہوئے ہیں۔
ایک بنیادی اور اصولی بات جو مسلمان کے حق میں قرآن نے ہمیشہ کے لیے طے کر دی ہے وہ یہ ہے کہ:
اِنَّ اللہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ۰ۭ التوبہ 111:9
اللہ نے مومنوں سے ان کی جان و مال کو جنت کے معاوضے میں خرید لیا ہے۔
یعنی مومن ایمان لانے کے ساتھ ہی خدا کے ہاتھ فروخت ہو چکا۔ اب وہ اپنی جان و مال کا مختار نہیں رہا کہ جہاں چاہے اس بکی ہوئی چیز کو پھر فروخت کر دے یا اسے ضائع کر دے۔ اس کی جان اور مال خدا کی مِلک ہے اور وہ خدا کی طرف سے اس کا امین ہے۔ خدا کی راہ میں اس کے احکام اور قوانین کے مطابق اس امانت کو قربان کر دینا تو اس کا اخلاقی فرض ہے۔ کیونکہ خریدوفروخت کا جو معاملہ وہ پہلے کر چکا ہے اس کا مقتضا یہی ہے کہ یہ متاع اب جس خریدار کی مِلک ہے، اس کا منشا پورا کیا جائے لیکن اگر خدا کے سوا کسی اور کے ہاتھ وہ اسے بیچتا ہے تو گویا فروخت کی ہوئی چیز کو پھر فروخت کرتا ہے جو کھلا ہوا جرم ہے اور اگر وہ خود اپنی مرضی سے اس کو کہیں ضائع کرتا ہے تو خیانت کا مجرم ہے۔
مسلمان نے جو سودا خدا کے ساتھ کیا ہے اور جس سودے کی بنا پر ہی وہ مسلمان بنا ہے اس کی رو سے مسلمان کا فرض یہ ہے کہ جان دینے اور جان لینے کے معاملے میں وہ خدا کے قانون کی پیروی کرے۔ اور خدا کا قانون یہ ہے کہ لاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ۔ انسانی جان، جس کو اللہ نے حرام کیا ہے، اس کو ہلاک نہ کرو مگر حق کی خاطر۔ اہلِ ایمان کی تعریف ہی قرآن میں یہ کی گئی ہے کہ لَا یَقْتُلوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ۔ یعنی وہ کسی جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے حق کے سوا کسی اور وجہ سے ہلاک نہیں کرتے۔ ان دونوں آیتوں میں جان سے مراد ہر شخص کی اپنی جان بھی ہے اور دوسرے انسانوں کی جان بھی۔ یعنی مسلمان حق کے سوا کسی دوسری غرض کے لیے نہ اپنی جان دے گا اور نہ کسی کی جان لے گا۔
پھر حق کی تصریح قرآن یوں کرتا ہے:-
وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلہِ البقرہ193:2
ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور جنسِ دین (اطاعت وفرمانبرداری کی پوری جنس) اللہ کے لیے خاص ہو جائے۔
یعنی دنیا میں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی و اطاعت ہونا اور کسی دوسرے کا قانون چلنا، یہ فتنہ ہے اور اس فتنے کو فرو کرنا وہ حق ہے جس کی خاطر مسلمان کو نفس انسانی جیسی محترم چیز کے ضائع اور ہلاک کرنے کا ارتکاب کرنا چاہیے کیونکہ دنیا میں فتنے کا برپا ہونا قتل سے زیادہ برا ہے۔ وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۔
اسی مطلب کو دوسری جگہ قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے:
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۚ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ الطَّاغُوْتِ
النسائ 76:4
جو مومن ہیں وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ طاغوت کی راہ میں۔
یہ مسلمان اور کافر کے درمیان بنیادی اور اصولی فرق ہے۔ مسلمان کا کام اس لیے لڑنا ہے کہ اﷲ کا کلمہ بلند ہو یعنی اس کا وہ قانون انسانی زندگی پر حکومت کرے جو اس نے انسانی معاملات میں عدل قائم کرنے کے لیے اپنے انبیا کے ذریعے سے بھیجا ہے۔ بخلاف اس کے کافروں کا کام یہ ہے کہ وہ طاغوت یعنی سرکشی ظلم، زیادتی اور حد جائز سے تجاوز کرنے والوں کی اغراض کے لیے جنگ کریں۔
حدیث میں آیا ہے:
جَآئَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الرُّجُلُ یُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ، وَالرَّجُلُ یُقَاتِلُ لِلذِّکْرِ، وَالرَّجُلُ یُقَاتِلُ لِیُرٰی مَکَانُہٗ فَمَنْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ؟ قَالَ مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلْیَا فَہُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔
ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا کہ کوئی آدمی اس لیے لڑتا ہے کہ اسے مال ہاتھ آئے۔ کوئی اس لیے لڑتا ہے کہ اس کی نام وری ہو۔ کوئی اس لیے لڑتا ہے کہ اس کو ممتاز مرتبہ حاصل ہو۔ ان میں سے کس کی جنگ فی سبیل اللہ ہے؟ فرمایا فی سبیل اللہ تو صرف اس کی جنگ ہے جو اس لیے لڑے کہ اﷲ ہی کا کلمہ بلند ہو۔
دوسری حدیث میں ہے:
جَآئَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا الْقِتَالُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَاِنَّ اَحَدَنَا یُقَاتِلُ غَضَبًا وَیُقَاتِلُ حَمِیَّۃً؟ فَرَفَعَ اِلَیْہِ رَاْسَہٗ فَقَالَ مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلْیَا فَہُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔
ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! وہ کون سی لڑائی ہے جو اللہ کی راہ میں ہو؟ ہم میں سے کوئی تو جوشِ انتقام میں لڑتا ہے اور کوئی حمیّت ِقومی کے جذبے سے! یہ سن کر آپؐ نے سر اٹھایا اور فرمایا جس نے جنگ اس لیے کی کہ اللہ ہی کا بول بالا ہو بس اسی کی جنگ راہِ خدا میں ہے۔
اس کے برعکس جو شخص انسانوں کا بول بالا کرنے کے لیے لڑے اور اس لیے جنگ کرے کہ کچھ انسان دوسرے انسانوں کے مقابلے میں اپنی اغراض کامیابی کے ساتھ پوری کریں۔ اس کے حق میں رسول اﷲ کا ارشاد ہے۔
یَجِیْئُ الرَّجُلُ اٰخِذًا بِیَدِ الرَّجُلِ فَیَقُوْلُ اِنَّ ہٰذَا قَتَلَنِیْ فَیَقُوْلُ اللّٰہُ لِمَ قَتَلْتَہٗ فَیَقُوْلُ لِتَکُوْنَ الْعِزَّۃُ لِفُلاَنٍ فَیَقُوْلُ اِنَّمَا لَیْسَتِ الْعِزَّۃُ لِفُلاَنٍ فَیَبُؤٓئُ بِاِثْمِہٖ۔
قیامت کے روز ایک آدمی دوسرے آدمی کا ہاتھ پکڑے ہوئے آئے گا اور اﷲ سے عرض کرے گا کہ اس نے مجھے قتل کیا تھا۔ اﷲ پوچھے گا تو نے اسے کیوں قتل کیا؟ وہ کہے گا اس لیے کہ فلاں کی عزت و برتری قائم ہو۔ اﷲ جواب دے گا کہ عزت اور برتری اس فلاں کا حق تو نہ تھی۔ پھر اس مقتول کے گناہوں کا بوجھ اس قاتل پر لاد دیا جائے گا۔
یہ ساری تعلیمات صاف اور واضح ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے اسلامی نقطۂ نظر سے یہ سب فتنہ ہے۔ مسلمان اگر لڑ سکتا ہے تو اس فتنے کو بہ حیثیت مجموعی مٹا دینے اور اللہ کا بول بالا کرنے کے لیے لڑ سکتا ہے رہا یہ کہ وہ خود فتنہ و فساد میں کسی طرف سے حصّہ لے اور کفر کے جھنڈے تلے کفر کا بول بالا کرنے کے لیے جنگ کرے، تو یہ کام مسلمان ہوتے ہوئے وہ نہیں کر سکتا۔ جس کو یہ حرکت کرنی ہو وہ بہتر ہے کہ مسلمان کے نام کو بٹّا لگانے کے بجائے کھلّم کھلا انھی میں جا ملے جن کا وہ بول بالا کرنا چاہتا ہے۔ (ترجمان القرآن۔ جمادی الاولیٰ ۱۳۷۷ھ فروری ۱۹۵۸ء)
٭…٭…٭…٭…٭
دنیائے اِسلام میں اسلامی تحریکات کے لیے طریق کار
(یہ تقریر ۱۶ ذی الحج ۱۳۸۲ھ کو مکہ معظمہ کی مسجد ِدہلوی میں مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے عربی زبان میں کی تھی‘ اس جلسے میں خصوصیت کے ساتھ عرب ممالک کے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد شریک ہوئی تھی۔مرتّب)
خوش قسمتی سے آج مجھے یہ موقع مل رہا ہے کہ مرکز ِاسلام میں حج کے عالم گیر اجتماع کے لیے دنیائے اسلام کے مختلف حصّوں سے جو بندگان حق آئے ہوئے ہیں ان سے خطاب کروں اور ان کو یہ بتائوں کہ اس زمانے میں مؤمنین صادقین اور خصوصاً ان کے نوجوان تعلیم یافتہ لوگوں کے کرنے کا اصل کام کیا ہے! میں اس قیمتی اور نادر موقع سے پورا فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں اور یہ سمجھتے ہوئے کہ شاید ایسا موقع مجھے پھر نہ مل سکے گا‘ اپنا دل کھول کر آپ کے سامنے رکھ دینا چاہتا ہوں، تاکہ آپ لوگ اس وقت کی حقیقی صورت حال کو اور اس کے واقعی اسباب کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لیں اور اس کی اصلاح کے لیے حکمت اور جرأت کے ساتھ وہ تدابیر اختیار کریں جو میرے نزدیک موزوں تریں تدابیر ہیں۔ فَلْیُبَلِّغُ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ۔
دنیائے اسلام کے دو حِصّے
سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیجیے کہ دنیائے اسلام اس وقت دو بڑے حصّوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک حصّہ وہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور سیاسی اقتدار غیر مسلموں کے ہاتھ میں ہے۔ دوسرا حصّہ وہ جہاں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے اور سیاسی اقتدار بھی انھی کے ہاتھ میں ہے۔ ان دونوں حصّوں میں سے فطری طور پر زیادہ اہمیّت دوسرے حصّے کو حاصل ہے اور ملت اسلامیہ کا مستقبل بہت بڑی حد تک اس روش پر منحصر ہے جو آزاد مسلم مملکتیں اختیار کر رہی ہیں اور آگے اختیار کرنے والی ہیں۔ اگرچہ پہلا حصّہ بھی کچھ کم وزن نہیں رکھتا۔ اپنی جگہ اس کو بھی بڑا اہم مقام حاصل ہے کیونکہ کسی نظریۂ حیات اور عقیدہ و مسلک کے پیروئوں کا دنیا کے ہر خطے اور ہر گوشے میں پہلے ہی سے موجود ہونا اور قلیل تعداد میں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں موجود ہونا، ان لوگوں کے لیے بڑی تقویت کا موجب ہو سکتا ہے جو اس نظریے اور عقیدہ و مسلک کی علمبرداری کے لیے اٹھیں لیکن یہ ظاہر ہے کہ اگر وہ نظریہ اور عقیدہ و مسلک خود اپنے ہی گھر میں مغلوب ہو جائے تو روئے زمین پر پھیلے ہوئے اس کے یہ پیرو، جو پہلے ہی سے مغلوب ہیں زیادہ دیر تک اپنے مقام پر ٹھہرے نہیں رہ سکتے۔ اس بنا پر یہ کہنا صحیح ہے کہ اس وقت نظر بظاہر دنیائے اسلام کے مستقبل کا انحصار ان مسلم ممالک ہی کے مستقبل پر ہے جو انڈونیشیا اور ملائیشیا سے لے کر مرا کو اور نائیجیریا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت، کوئی اور کرشمہ دکھا دے جس کا ہم ظاہری اسباب کو دیکھتے ہوئے کوئی اندازہ نہ کر سکتے ہوں۔ وہ چاہے تو چٹانوں میں سے چشمے پھوڑ کر نکال سکتا ہے اور ریگستانوں کو اپنے ایک اشارے سے گلستانوں میں تبدیل کر سکتا ہے۔
آزاد مسلم ممالک کی حالت
اب اسی مفروضے پر کہ دنیائے اسلام کا مستقبل مسلم ممالک کے ساتھ وابستہ ہے، ذرا اس امر کا جائزہ لیجیے کہ یہ ملک اس وقت کس حالت میں ہیں اور جس حال میں یہ ہیں، اس کے اسباب کیا ہیں۔
آپ لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ ایک طویل مدت تک ذہنی جمود، عقلی انحطاط، اخلاقی زوال اور مادی اضمحلال میں مبتلا رہنے کے بعد آخر کار اکثر و بیشتر مسلمان ملک مغربی استعمار کے شکار ہوتے چلے گئے تھے۔ اٹھارہویں صدی مسیحی سے یہ عمل شروع ہوا تھا اور موجودہ صدی کے اوائل میں یہ اپنے انتہائی کمال کو پہنچ گیا تھا۔ اس زمانے میں گنتی کے صرف دو چار مسلمان ملک باقی رہ گئے تھے جو براہِ راست مغربی مستعمرین کی سیاسی غلامی میں مبتلا ہونے سے بچ گئے۔ مگر پے در پے شکستیں کھا کھا کر ان کا حال غلام ملکوں سے بھی بدتر ہو گیا اور ان کی مرعوبیت اور دہشت زدگی ان لوگوں سے بھی کچھ زیادہ بڑھ گئی جو اپنی سیاسی آزادی پوری طرح کھو بیٹھے تھے۔
مغربی استعمار کے ثمرات
مغربی استعمار کے اس غلبے کا سب سے زیادہ تباہ کن نتیجہ وہ تھا جو ہماری ذہنی شکست اور ہمارے اخلاقی بگاڑ کی شکل میں رونما ہوا۔ اگر یہ مستعمرین ہمیں لوٹ کر بالکل غارت کر دیتے اور قتل عام کرکے ہماری نسلوں کو مٹا دیتے تب بھی یہ اتنا بڑا ظلم نہ ہوتا جتنا بڑا ظلم انھوں نے اپنی تعلیم اور اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے اخلاقی مفاسد پھیلا کر ہم پر ڈھایا۔ جن جن مسلمان ملکوں پر ان کا تسلّط ہوا وہاں ان سب کی مشترک پالیسی یہ رہی کہ ہمارے آزاد نظامِ تعلیم کو ختم کر دیں، یا اگر وہ پوری طرح ختم نہ ہو سکے تو اس سے فارغ ہو کر نکلنے والوں کے لیے حیات ِاجتماعی میں کوئی مصرف باقی نہ رہنے دیں۔ اسی طرح یہ بھی ان کی پالیسی کا ایک لازمی جز رہا کہ مفتوح قوموں کی اپنی زبانوں کو ذریعہ تعلیم اور سرکاری زبان کی حیثیت سے باقی نہ رہنے دیں اور ان کی جگہ فاتحین کی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بھی بنائیں اور سرکاری زبان بھی قرار دے دیں۔ مشرق سے مغرب تک تمام مغربی فاتحین نے بالا تفاق یہی عمل تمام مسلم ممالک میں کیا، خواہ وہ ڈچ ہوں یا انگریز یا فرانسیسی یا اطالوی یا کوئی اور۔ اس طریقے سے ان مستعمرین نے ہمارے ہاں ایک ایسی نسل تیار کر دی جو ایک طرف تو اسلام اور اس کی تعلیمات سے ناواقف، اس کے عقیدہ و مسلک سے بیگانہ اور اس کی تاریخ اور روایات سے نابلد تھی اور دوسری طرف اس کا ذہن اور اندازفکر اور زاویہ نظر مغربی سانچے میں ڈھل چکا تھا۔ پھر اس نسل کے بعد پے در پے دوسری نسلیں ایسی اٹھتی چلی گئیں جو اسلام سے اور زیادہ دور اور مغربی فلسفہ حیات اور تہذیب و تمدن میں زیادہ سے زیادہ غرق ہو چکی تھیں۔ ان کے لیے اپنی زبان میں بات کرنا موجب ننگ و عار اور فاتحین کی زبان میں بولنا موجب افتخار بن گیا۔ مغربی فاتح نصرانیت کے لیے خواہ کتنے ہی متعصب ہوں ان فرنگیت مآب غلاموں کو مسلمان ہونے پرشرم آنے لگی اور اسلام کے خلاف بغاوت کا یہ فخریہ اظہار کرنے لگے۔ مغربی فاتح اپنی فرسودہ اور بوسیدہ قومی روایات کا کتنا ہی احترام کرتے ہوں، یہ غلام لوگ اپنی روایات کی تحقیر کرنا ہی اپنے لیے ذریعہ عزت سمجھنے لگے۔ مغربی فاتحین نے مدت العمر مسلمان ملکوں میں رہنے کے باوجود کبھی مسلمانوں کے لباس اور طرزِ زندگی اختیار نہ کیے، مگر یہ غلام لوگ اپنے ہی ملکوں میں رہتے ہوئے ان فاتحین کے لباس، ان کے رہن سہن کے طریقے، ان کے کھانے پینے کے ڈھنگ، ان کی ثقافت کے اطوار، حتیٰ کہ ان کی حرکات و سکنات تک کی نقل اتارنے لگے اور اپنی قوم کی ہر چیز ان کی نگاہوں میں حقیر ہو کر رہ گئی۔ پھر مغربی فاتحین کی تقلید میں ان لوگوں نے مادہ پرستی، الحاد، عصبیت جاہلیہ، قوم پرستی، اخلاقی بے قیدی اور فسق و فجور کا پورا زہر اپنے اندر جذب کر لیا، اور ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جو کچھ مغرب کی طرف سے آتا ہے وہ سراسر حق ہے، اسے اختیار کرنا ہی ترقی پسندی ہے اور اس سے منہ موڑنے کے معنی رجعت کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
مغربی مستعمرین کی مستقل پالیسی یہ تھی کہ جو لوگ اس رنگ میں جتنے زیادہ رنگ جائیں اور اسلام کے اثرات سے جس قدر زیادہ عاری ہوں، ان کو زندگی کے ہر شعبے میں اتنا ہی زیادہ بلند مرتبہ دیا جائے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہیے تھا کہ سلطنتوں میں اونچے سے اونچے عہدے ان ہی کو ملے۔ مستعمرین کی فوجی اور سول ملازمتوں میں یہی کلیدی مناصب پر پہنچے۔ سیاست میں انھی کو اہم حیثیت حاصل ہوئی۔ سیاسی تحریکوں کے یہی لیڈر بنے۔ پارلیمنٹوں میں یہی نمایندے بن کر پہنچے اور مسلمان ملکوں کی معاشی زندگی پر بھی یہی چھا گئے۔
اس کے بعد جب مسلمان ملکوں میں آزادی کی تحریکیں اٹھنی شروع ہوئیں تو ناگزیر تھا کہ ان تحریکوں کی قیادت یہی لوگ کریں کیونکہ یہی حکمرانوں کی زبان میں بات کر سکتے تھے، یہی ان کے مزاج کو سمجھتے تھے اور یہی ان سے قریب تر تھے۔ اسی طرح جب یہ ممالک آزاد ہونے شروع ہوئے تو آزادی کے بعد اقتدار بھی انھی کے ہاتھوں میں منتقل ہوا اور مستعمرین کی خلافت انھی کو نصیب ہوئی کیونکہ مستعمرین کے ماتحت سیاسی نفوذ و اثر انھی کو حاصل تھا، سول حکومت کا نظم و نسق یہی چلا رہے تھے اور فوجوں میں بھی قیادت کے مناصب پر یہی فائز تھے۔
چند نمایاں پہلو
استعمار کے آغاز سے لے کر اس کے اختتام اور آزادی کی ابتدا تک کی اس تاریخ کے چند نمایاں پہلو ایسے ہیں جنھیں نگاہ میں رکھنا ضروری ہے کیونکہ انھیں نظرانداز کرکے اس وقت کی پوری صورتِ حال کو ٹھیک ٹھیک نہیں سمجھا جا سکتا۔
اوّل یہ کہ مغربی مستعمرین اپنی پوری مدت استعمار میں کسی جگہ بھی اس بات پر قادر نہیں ہو سکے کہ عام مسلمانوں کو اسلام سے منحرف کر سکیں۔ انھوں نے جہالت ضرور پھیلائی اور عوام کے اخلاق بھی بہت کچھ بگاڑے اور اسلامی قوانین کی جگہ اپنے قوانین رائج کرکے مسلمانوں کو غیر مسلمانہ زندگی بسر کرنے کا خوگر بھی بنا دیا، لیکن اس کے باوجود دنیا کی کوئی مسلمان قوم بھی من حیث القوم ان کے زیر اثر رہ کر اسلام سے باغی نہ ہو سکی۔ آج دنیا کے ہر ملک میں عام لوگ اسلام کے ویسے ہی معتقد ہیں جیسے تھے۔ وہ چاہے اسلام کو جانتے نہ ہوں مگر اسے مانتے ہیں اور اس کے ساتھ گہرا عشق رکھتے ہیں اور اس کے سوا کسی اور چیز پر راضی نہیں ہیں۔ ان کے اخلاق بری طرح بگڑ چکے ہیں اور ان کی عادتیں بہت خراب ہو چکی ہیں۔ لیکن ان کی قدریں نہیں بدلیں اور ان کے معیار جوں کے توں قائم ہیں۔ وہ سود اور زنا اور شراب نوشی میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور ہو رہے ہیں مگر چھوٹی سی فرنگیت زدہ اقلیت کو چھوڑ کر عام مسلمانوں میں آپ کو ایسا کوئی شخص نہ ملے گا جو ان چیزوں کو حرام نہ مانتا ہو۔ وہ رقص و سرود اور دوسرے فواحش کی لذتوں کو چاہے چھوڑ نہ سکتے ہوں مگر چھوٹی سی مغرب زدہ اقلیت کے سوا عامتہ المسلمین کسی طرح بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ یہی اصل ثقافت ہے۔ اسی طرح مغربی قوانین کے تحت زندگی بسر کرتے ہوئے ان کی پشتیں گزر چکی ہیں۔ مگر ان کے دماغ میں آج تک یہ بات نہیں اتر سکی ہے کہ یہی قوانین برحق ہیں اور اسلام کا قانون فرسودہ ہو چکا ہے۔ مغرب زدہ اقلیت ان مغربی قوانین پر چاہے کتنا ہی ایمان لا چکی ہو۔ عام مسلمان اکثریت ہمیشہ کی طرح آج بھی اسلام ہی کے قانون کو برحق مانتی ہے اور اس کا نفاذ چاہتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ علمائے دین ہر جگہ عوام کے قریب ہیں کیونکہ وہ انھی کی زبان سے بولتے ہیں اور اسی عقیدے و مسلک کی نمایندگی کرتے ہیں جس کے عوام معتقد ہیں۔ لیکن زمامِ اقتدار سے وہ کلّی طور پر بے دخل ہیں اور ایک مدت دراز تک دنیوی معاملات سے بے تعلق رہنے کے باعث ان میں یہ صلاحیت بھی باقی نہیں رہی ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کر سکیں اور زمامِ اقتدار ہاتھ میں لے کر کسی ملک کا نظام چلا سکیں۔ اسی وجہ سے کسی مسلمان ملک میں بھی وہ آزادی کی تحریک کے قائد نہ بن سکے اور کہیں بھی آزادی کے بعد اقتدار میں وہ شریک نہ ہو سکے۔ ہماری اجتماعی زندگی میں ایک مدت سے ان کا کام بس وہ ہے جو ایک موٹر میں بریک کا ہوتا ہے۔ ڈرائیور مغربیت زدہ طبقہ ہے اور یہ بریک گاڑی کی رفتار کو تیز ہونے سے کچھ نہ کچھ روک رہا ہے۔ مگر بعض ملکوں میں بریک ٹوٹ چکا ہے اور گاڑی پوری سرعت کے ساتھ نشیب کی طرف جا رہی ہے۔ اگرچہ اس کے چلانے والے اس غلط فہمی میں ہیں کہ وہ فراز پر چڑھ رہے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کسی ملک میں آزادی کی تحریک اٹھی، اس کے قائدین اگرچہ وہی مغربیت زدہ لوگ تھے، لیکن کسی جگہ بھی وہ عام مسلمانوں کو مذہبی اپیل کے بغیر نہ حرکت میں لا سکے اور نہ قربانیاں دینے پر آمادہ کر سکے۔ بلا استثنا ہر جگہ انھیں اسلام کے نام پر لوگوں کو پکارنا پڑا۔ ہر جگہ ان کو خدا اور رسول اور قرآن ہی کے نام پر اپیل کرنی پڑی۔ ہر جگہ انھیں آزادی کی تحریک کو اسلام اور کفر کی جنگ قرار دینا پڑا۔ اس کے بغیر وہ کہیں بھی اپنی قوم کو اپنے پیچھے نہ لگا سکتے تھے۔ اب یہ تاریخِ عالم کی عظیم ترین غداریوں میں سے ایک بے نظیر غداری ہے کہ ہر جگہ آزادی حاصل کرنے کے بعد فوراً ہی یہ لوگ اپنے تمام وعدوں سے پھر گئے اور ان کا پہلا شکار وہی اسلام ہوا جس کے نام پر انھوں نے آزادی کا معرکہ جیتا تھا۔
چوتھی اور آخری بات قابل ذکر یہ ہے کہ ان لوگوں کی قیادت میں مسلمان ملکوں کو جو آزادی حاصل ہوئی ہے وہ صرف سیاسی آزادی ہے۔ پچھلی غلامی اور اس آزادی میں فرق صرف یہ ہے کہ پہلے جو زمامِ اقتدار باہر والوں کے ہاتھ میں تھی، اب وہ گھر والوں کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑا ہے کہ جس ذہن کے آدمی جن نظریات اور اصولوں کے ساتھ پہلے حکومت کر رہے تھے۔ اسی ذہن کے آدمی انھی نظریات کے ساتھ آج بھی حکومت کر رہے ہیں۔ وہی نظامِ تعلیم جو مستعمرین نے قائم کیا تھا اب بھی چل رہا ہے۔ انھی کے رائج کردہ قوانین نافذ ہیں اور آگے مزید قانون سازی انھی خطوط پر ہو رہی ہے۔ بلکہ مغربی مستعمرین نے مسلمانوں کے قانون احوال شخصیہ (پرسنل لا) پر جو دست درازیاں کرنے کی کبھی ہمت نہ کی تھی، وہ آج آزاد مسلم مملکتوں میں کی جا رہی ہے۔ تہذیب و ثقافت اور اخلاق و تمدن کے جو نظریات مستعمرین دے گئے ہیں۔ ان میں سے کسی چیز کو بدلنا تو درکنار، آج یہ لوگ اپنی قوموں کو ان سے بھی زیادہ اس تہذیب میں غرق اور ان اخلاقی نظریات کے مطابق مسخ کر رہے ہیں۔ وہ قومیت کے مغربی نظریات کے سوا اجتماعی زندگی کا کوئی دوسرا نقشہ نہیں سوچ سکتے۔ اسی نقشے پر وہ مسلم مملکتوں کے نظام چلا رہے ہیں اور اس کی وجہ سے انہوں نے مسلمان قوموں کو ایک دوسرے سے پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ان کے ذہنوں میں الحاد بس گیا ہے اور جہاں جہاں بھی انھیں اثر ڈالنے کا موقع ملتا ہے وہاں وہ مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اس حد تک خراب کرتے چلے جا رہے ہیں کہ وہ خدا اور رسول اور آخرت کا مذاق اڑاتی ہیں۔ وہ اباحیت میں خود مستغرق ہیں اور ان کی قیادت ہر جگہ مسلمانوں کے اندر فسق و فجور اور بے حیائی پھیلاتی چلی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ مغربی استعمار کے چاہے کتنے ہی دشمن ہوں، مغربی مستعمرین ان کو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ ان کی ہر ادا پر یہ مرے مٹتے ہیں۔ ان کی ہر بات کو یہ معیارِ حق سمجھتے ہیں۔ ان کے ہر کام کی یہ نقل اتارتے ہیں۔ ان میں اور ان میں فرق صرف یہ ہے کہ وہ مجتہد ہیں اور یہ محض اندھے مقلّد۔ یہ ان کی پٹی ہوئی راہوں سے ہٹ کر ایک انچ بھی کوئی نیا راستہ نہیں نکال سکتے۔
یہ چار حقائق جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیے ہیں ان کو نگاہ میں رکھ کر آپ دنیا کی آزاد مسلمان قوموں کی موجودہ حالت کا جائزہ لیں تو اس وقت کی پوری صورت حال آپ پر واضح ہو جائے گی۔ دنیا کی تمام آزاد مسلم حکومتیں اس وقت بالکل کھوکھلی ہو رہی ہیں۔ کیونکہ ہر جگہ وہ اپنی اپنی قوموں کے ضمیر سے لڑ رہی ہیں۔ ان کی قومیں اسلام کی طرف پلٹنا چاہتی ہیں اور یہ ان کو زبردستی مغربیت کی راہ پر گھسیٹ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کہیں بھی مسلمان قوموں کے دل اپنی حکومتوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ حکومتیں اس وقت مضبوط ہوتی ہیں جب حکمرانوں کے ہاتھ اور قوموں کے دل پوری طرح متفق ہو کر تعمیرِحیات کے لیے سعی کریں۔ اس کے بجائے جہاں دل اور ہاتھ ایک دوسرے سے نزاع و کشمکش میں مشغول ہوں وہاں ساری قوتیں آپس ہی کی لڑائی میں کھپ جاتی ہیں اور تعمیر و ترقی کی راہ میں کوئی پیش قدمی نہیں ہوتی۔
حکمرانوں اور عوام کی کشمکش کا نتیجہ
اسی صورتِ حال کا ایک فطری نتیجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان ملکوں میں پے در پے آمریتیں قائم ہو رہی ہیں۔ مغربیت زدہ طبقے کی وہ چھوٹی سی اقلیت جس کو مستعمرین کی خلافت حاصل ہوئی ہے، اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر نظامِ حکومت عوام کے ووٹوں پر مبنی ہو تو اقتدار ان کے ہاتھ میں نہیں رہ سکتا بلکہ جلدی یا دیر سے وہ لازماً ان لوگوں کی طرف منتقل ہو جائے گا جو عوام کے جذبات اور اعتقادات کے مطابق حکومت کا نظام چلانے والے ہوں۔ اس لیے وہ کسی جگہ بھی جمہوریت کو چلنے نہیں دے رہے ہیں اور آمرانہ نظام قائم کرتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ فریب دینے کے لیے انھوں نے آمریت کا نام جمہوریت رکھ دیا ہے۔
ابتدائً کچھ مدت تک قیادت اس گروہ کے سیاسی لیڈروں کے ہاتھ میں رہی اور سول حکام مسلمان ملکوں کے نظم و نسق چلاتے رہے لیکن یہ بھی اسی صورتِ حال کا ایک فطری نتیجہ تھا کہ مسلمان ملکوں کی فوجوں میں بہت جلدی یہ احساس پیدا ہو گیا کہ آمریت کا اصل انحصار انھی کی طاقت پر ہے۔ یہ احساس بہت جلدی فوجی افسروں کو میدانِ سیاست میں لے آیا اور انھوں نے خفیہ سازشوں کے ذریعے سے حکومتوں کے تخت الٹنے اور خود اپنی آمریتیں قائم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اب مسلمان ملکوں کے لیے ان کی فوجیں ایک مصیبت بن چکی ہیں۔ ان کا کام باہر کے دشمنوں سے لڑنا اور ملک کی حفاظت کرنا نہیں رہا بلکہ اب ان کا کام یہ ہے کہ اپنے ہی ملکوں کو فتح کریں اور جو ہتھیار ان کی قوموں نے ان کو مدافعت کے لیے دیئے تھے انھی سے کام لے کر وہ اپنی قوموں کو اپنا غلام بنا لیں۔ اب مسلمان ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے انتخابات یا پارلیمنٹوں میں نہیں بلکہ فوجی بیرکوں میں ہو رہے ہیں اور یہ فوجیں بھی کسی ایک قیادت پر متفق نہیں ہیں۔ بلکہ ہر فوجی افسر اس تاک میں لگا ہوا ہے کہ کب اسے کوئی سازش کرنے کا موقع ملے اور وہ دوسرے کو مار کر خود اس کی جگہ لے لے۔ ان میں سے ہر ایک جب آتا ہے تو زعیم انقلاب بن کر آتا ہے اور جب رخصت ہوتا ہے تو خائن و غدار قرار پاتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک بیشتر مسلمان قومیں اب محض تماشائی ہیں۔ ان کے معاملات چلانے میں اب ان کی رائے اور مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ان کے علم کے بغیر اندھیرے میں انقلاب کی کھچڑی پکتی ہے اور کسی روز یکایک ان کے سروں پر الٹ پڑتی ہے۔ البتہ ایک چیز میں یہ سب متحارب انقلابی لیڈر متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ ان میں سے جو بھی ابھر کر اوپر آتا ہے وہ اپنے پیشرو ہی کی طرح مغرب کا ذہنی غلام اور الحاد و فسق کا علمبردار ہوتا ہے۔
امید کی کرن
ان تاریک حالات میں ایک روشنی موجود ہے جس کے اندر دو حقیقتیں مجھے صاف نظر آ رہی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے الحاد و فسق کے ان علمبرداروں کو ایک دوسرے سے لڑا دیا ہے اور یہ خود ہی ایک دوسرے کی جڑ کاٹ رہے ہیں۔ خدانخواستہ اگر یہ متحد ہوتے تو ناقابلِ علاج مصیبت بن جاتے۔ مگر ان کا رہنما شیطان ہے اور شیطان کا کید ہمیشہ ضعیف ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ دوسری اہم حقیقت جو میں دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ مسلمان قوموں کے دل بالکل محفوظ ہیں، وہ ہرگز ان نام نہاد انقلابی لیڈروں سے راضی نہیں ہیں اور اس امر کے پورے امکانات موجود ہیں کہ اگر کوئی صالح گروہ فکر کے اعتبار سے مسلمان اور ذہنی قابلیتوں کے لحاظ سے قیادت کا اہل ہو تو آخر کار وہی غالب آئے گا اور مسلمان قومیں اس الحاد و فسق کی قیادت سے نجات پا جائیں گی۔
کام کا اصل موقع اور طریقہ ٔ کار
اس وقت کام کا اصل موقع ان لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے ایک طرف مغربی طرز کی تعلیم پائی ہے اور دوسری طرف جن کے دلوں میں خدا اور رسول اور قرآن اور آخرت پر ایمان محفوظ ہے۔ قدیم طرز کی دینی تعلیم پائے ہوئے لوگ، اخلاقی اور روحانی اعتبار سے اور علم دین کے لحاظ سے ان کے بہترین مددگار بن سکتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے وہ ان صلاحیتوں کے حامل نہیں ہیں جو قیادت اور زمامِ کار سنبھالنے کے لیے درکار ہیں۔ یہ صلاحیتیں فی الحال صرف مقدّم الذکر گروہ ہی میں پائی جاتی ہیں اور ضرورت ہے کہ اس وقت یہی گروہ آگے بڑھ کر کام کرے۔ ان لوگوں کو جو مشورے میں دے سکتا ہوں وہ مختصراً یہ ہیں۔
۱- اسلام کا صحیح علم حاصل کرنا
ان کو اسلام کا صحیح علم حاصل کرنا چاہیے تاکہ ان کے دل جس طرح مسلمان ہیں اسی طرح ان کے دماغ بھی مسلمان ہو جائیں اور یہ اجتماعی معاملات کو اسلامی احکام اور اصولوں کے مطابق چلانے کے قابل بن جائیں۔
۲- اپنی اخلاقی اصلاح
ان کو اپنی اخلاقی اصلاح کرنا چاہیے تاکہ ان کی اخلاقی زندگیاں عملاً بھی اسی اسلام کے مطابق ہو جائیں جس کو وہ اعتقاداً برحق مانتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ قول اور عمل کا تضاد آدمی کے اندر نفاق پیدا کرتا ہے اور باہر کی دنیا میں اس کا اعتماد ختم کر دیتا ہے۔ آپ کی کامیابی کا سارا انحصار اخلاص اور راست بازی پر ہے، اور کوئی ایسا شخص نہ مخلص ہو سکتا ہے نہ مخلص مانا جا سکتا ہے جو کہے کچھ اور کرے کچھ۔ آپ کی اپنی زندگی میں اگر تناقض ہو گا تو نہ دوسرے آپ پر اعتماد کریں گے اور نہ خود آپ کے دل میں اپنے اوپر وثوق پیدا ہو سکے گا۔ اس لیے دعوتِ اسلامی کے لیے کام کرنے والے تمام لوگوں کو میری مخلصانہ نصیحت یہ ہے کہ جن جن امور کے متعلق انھیں یہ علم حاصل ہوتا جائے کہ اسلام نے ان کا حکم دیا ہے ان پر عامل ہونے کی اور جن کے متعلق انھیں معلوم ہو تا جائے کہ اسلام نے انھیں منع کیا ہے، ان سے اجتناب کرنے کی پوری کوشش کریں۔
۳- مغربی تہذیب و فلسفے پر تنقید
ان کو اپنی تمام ذہنی صلاحیتیں اور تحریر و تقریر کی قوتیں اس کام پر صرف کر دینی چاہییں کہ مغربی تہذیب و ثقافت اور فلسفہ ٔ حیات پر تنقید کرکے اس بت کو پاش پاش کر دیں جس کی آج دنیا میں پرستش کی جا رہی ہے اور اس کے مقابلے میں اسلام کے عقائد اور اصول و مبادی اور قوانین حیات کی تشریح و تدوین ایسے معقول طریقوں سے کریں جو نسل جدید کے ذہن کو ان کی صحت کا یقین دلا سکے اور ان کے اندر یہ اعتماد پیدا کر سکے کہ دورِ حاضر میں ایک قوم ان عقائد اور اصول و قوانین کو اختیار کرکے نہ صرف ترقی کر سکتی ہے بلکہ دوسروں سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ یہ کام جتنے صحیح خطوط پر جتنے بڑے پیمانے پر ہو گا اتنے ہی دعوتِ اسلامی کے لیے آپ کو سپاہی ملتے چلے جائیں گے اور یہ سپاہی ہر شعبۂ حیات سے نکل نکل کر آئیں گے۔ اس عمل کا سلسلہ ایک طویل مدت تک جاری رہنا چاہیے تاکہ ایک کثیر تعداد ان لوگوں کی پیدا ہو جائے جو ایک ملک کے نظام کو اسلامی اصولوں پر چلانے کے لیے درکار ہیں۔ یہ عمل جب تک بتدریج اپنی انتہا کو نہ پہنچ جائے آپ کسی اسلامی انقلاب کے برپا ہونے کی توقع نہیں کر سکتے اور اگر کسی مصنوعی طریقے سے وہ برپا ہو بھی جائے تو وہ مستحکم نہیں ہو سکتا۔
۴- تنظیم
دعوتِ اسلامی سے جتنے لوگ متاثر ہوتے جائیں ان کو منظم ہونا چاہیے اور ان کی تنظیم کو ڈھیلا اور سست نہ ہونا چاہیے۔ نظم و ضبط اور سمع و طاعت کے بغیر محض ہم خیال لوگوں کا ایک بکھرا ہوا گروہ فراہم کر دینے سے کوئی کارگر طاقت پیدا نہیں ہو سکتی۔
۵- عمومی دعوت
اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو عوام میں اپنی دعوت پھیلانی چاہیے تاکہ عام لوگوں کی جہالت دور ہو اور وہ اسلام سے واقف ہوں اور اسلام و جاہلیت کا فرق جان لیں اس کے ساتھ انھیں عوام کی اخلاقی اصلاح کی بھی کوشش کرنی چاہیے اور فسق و فجور کے اس سیلاب کو روکنے کے لئے اپنا پورا زور لگا دینا چاہیے جو فاسق قیادت کے اثر سے مسلمان قوموں میں روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک قوم فاسق ہو جانے کے بعد ایک اسلامی حکومت کی رعایا بننے کے قابل نہیں رہتی۔ عامتہ الناس میں فسق جتنا بڑھے گا ان کے معاشرے میں اسلامی نظام کا چلنا اتنا ہی مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ جھوٹے، بددیانت اور بدکار لوگ نظامِ کفر کے لیے جتنے موزوں ہیں۔ نظامِ اسلامی کے لیے اتنے ہی غیر موزوں ہیں۔
۶- صبر و حکمت
انھیں بے صبر ہو کر خام بنیادوں پر جلدی سے کوئی اسلامی انقلاب برپا کر دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ جو مقصود ہمارے پیش نظر ہے اس کے لیے بڑا صبر درکار ہے۔ حکمت کے ساتھ جانچ تول کر ایک ایک قدم اٹھایئے اور دوسرا قدم اٹھانے سے پہلے خوب اطمینان کر لیجیے کہ پہلے قدم میں جو نتائج آپ نے حاصل کیے ہیں وہ مستحکم ہو چکے ہیں۔ جلد بازی میں جو پیش قدمی بھی ہو گی اس میں فائدے کی بہ نسبت نقصان کا خطرہ زیادہ ہو گا۔ مثال کے طور پر فاسق قیادت کے ساتھ شریک ہو کر یہ امید کی جاتی ہے کہ شاید اس طرح منزلِ مقصود تک پہنچنے کا راستہ آسان ہو جائے گا اور کچھ نہ کچھ اپنے مقصد کے لیے مفید کام بھی ہو سکے گا۔ لیکن عملی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس لالچ سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا، کیونکہ دراصل زمامِ امر جن لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ اپنی ہی پالیسی چلاتے ہیں اور ان کے ساتھ لگنے والوں کو ہر قدم پر ان سے مصالحتیں کرنی پڑتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ آخرکار بس ان کے آلہ کار بن کر رہ جاتے ہیں۔
۷- مسلح اور خفیہ تحریکوں سے اجتناب
اس سلسلے میں اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحہ کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلد بازی ہی کی ایک صورت ہے اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے۔ بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے۔ اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجئے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہو گا وہ ایسا پائیدار اور مستحکم ہو گا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کر سکیں گے۔ جلد بازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جا سکے گا۔
یہ چند کلمات نصیحت ہیں جو دعوتِ اسلامی کے لیے کام کرنے والوں کے سامنے میں پیش کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی رہنمائی فرمائے اور ہمیں دین حق کی سربلندی کے لیے صحیح طریقے سے جدوجہد کرنے کی توفیق بخشے۔
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
(ترجمان القرآن)
زبان: اُردو
صفحات: 352
اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، منصورہ ملتان روڈ، لاہور۔