تفہیم الاحادیث (جلد اول)

ریڈ مودودی ؒ   کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’ادارہ معارف اسلامی، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF میں ملاحظہ کیجیے۔

چند باتیں

قارئین محترم کی خدمت میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے فکر و قلم کے شاہ کار تفہیم الاحادیث کا زیر نظر حصہ پیش کرتے ہوے ہمیں یک گونہ خوشی و مسرت محسوس ہورہی ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی اس عنایت کے لیے اس کے بے حد شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیں اکیسویں صدی کے بالکل آغاز میں اپنے رسول حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ارشادات و فرمودات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب پیش کرنے کی توفیق بخشی ۔ ہمیں یقین ہے کہ ملت اسلامیہ ہند کی طرف سے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز کی اس پیش کش کا خیر مقدم کیا جائے گا اور حدیث کے اس مبارک سلسلے کو تمام انسانوں تک پہنچانے اور انھیں پیغام رسولؐ سے روشناس کرانے میں مکتبے کے ساتھ بھر پور تعاون کا مظاہرہ ہوگا۔
تفہیم الاحادیث مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کوئی مستقل تصنیف نہیں ، بلکہ یہ ان احادیث کا مجموعہ ہے، جو مولانا محترم نے اپنی شہرۂ آفاق تفسیر ’’تفہیم القرآن ‘‘ اور بعض دوسری تصانیف میں حسب موقع نقل کی ہیں ۔
صورت واقعہ یہ ہے کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جس نہج پر اپنی مقبول عام تفسیر ’’تفہیم القرآن ‘‘ کی چھے۶ جلدیں تحریر کی تھیں، بالکل اسی نہج پر وہ احادیث پر بھی کام کرنے کا عزم مصمّم کرچکے تھے۔ نہ صرف عزم مصمم کرچکے تھے، بلکہ انھوں نے اس کام کے لیے ایک ابتدائی خاکہ بھی تیار کرلیا تھا ـــــــلیکن اچانک وہ بیمار ہوگئے، پھر بیماریوں کا سلسلہ اتنا طویل ہوتا گیا کہ انھیں اس سے نجات ہی نہ مل سکی۔ اسی بیماری میں ان کی مہلتِ عمر بھی ختم ہوگئی۔ اس کے بعد یہ کام التوا میں پڑگیا۔ وفات کے کافی دنوں کے بعد مولانا محترم کے رفیق خاص مولانا خلیل احمد حامدیؒڈائریکٹر ادارۂ معارف اسلامی منصورہ کو اس کام کی فکر لاحق ہوئی۔ چنانچہ انھوں نے ذمے داروں اور دوسرے ارباب علم و دانش کے مشوروں سے علوم اسلامیہ اور عربی ادب کے فاضل مشہور عالم و محقق مولانا عبدالوکیل علوی کو یہ ذمّے داری تفویض کی کہ وہ تفہیم القرآن اور دوسری تصانیف کی مدد سے مولانا محترم کے بنائے ہوئے خاکے میں رنگ بھریں۔ چنانچہ مولانا موصوف نے پورے کام کااز سر نو خاکہ تیارکیا اور ضروری کتب فراہم کرکے کام کا آغاز کردیا۔
مولانا عبدالوکیل علوی کا نام تحریکی حلقے کے لیے غیر معروف و اجنبی نہیں ہے۔ وہ عربی ادب کے مایۂ ناز فاضل، اسلامی علوم کے ذہین عالم اور صاحب طرز اہل قلم کی حیثیت سے تعارف رکھتے ہیں۔اس سے پہلے مولانا مودودیؒ کی تصانیف کی مدد سے وہ متعدد ترتیبی و تخریجی خدمات انجام دے چکے ہیں ۔سیرت سرور عالم کی دو جلدیں ان کی ترتیبی و تخریجی صلاحیت کی بہترین نمایندگی کرتی ہیں۔
مولانا عبدالوکیل علوی نے اس کام میں کتنا وقت صرف کیا ہے ،انھوں نے احادیث کی چھان بین اور ترتیب و تخریج میں کتنی عرق ریزی اور دقّتِ نظر سے کام لیا ہے، یہ سب بتانے کی ضرورت نہیں۔ پڑھنے والے خود ہی اس کا ادراک کرلیں گے۔ ’’مشک آنست کہ خود بہ بوید نہ کہ عطار بگوید‘‘ اصلی مشک خود اپنی مہک سے پہچان لیا جاتا ہے، اس کے لیے کسی عطار کی تعریف و توصیف کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز کی اس کوشش کو شرفِ قبول سے نوازے، تمام انسانوں کے لیے اِسے نفع بخش بنائے اور اس کی تیاری میں جن رفقاء اور کارکنوں نے حصہ لیا ہے، انھیں حدیثِ رسول ؐ کی خدمت کی برکات سے سرفراز کرے۔

ناشر
مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی

عرض مرتب

الحمد للہ تفہیم الاحادیث کے جس کار عظیم کو آج سے چند سال قبل شروع کیا گیاتھا، اسے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے ۔ یہ سعادت محض خالق ارض وسما کے فضل وکرم اور اس کی توفیق خاص کی مرہون منت ہے۔ ورنہ ایں سعادت بہ زور بازو نیست۔ حقیقت یہ ہے کہ بڑے کٹھن مراحل سے گزر کر ساحل تکمیل تک پہنچنے کی اپنی حد تک ایک کاوش کی گئی ہے۔ جب یہ کام شروع کیا گیا تب اندازہ ہوا کہ ایک ٹھوس علمی وتحقیقی کتاب اپنی طرف سے مدون ومرتب کرنے کے مقابلے میں مولانا محترم رحمتہ اللہ علیہ کے پورے ذخیرۂ کتب میں سے عبارتیں نکال کر کوئی کتاب ترتیب دینے کا کام کتنا محنت طلب ہے۔ تفہیم القرآن کی چھے جلدوں کے ساتھ ساتھ مولانا کے وسیع لٹریچر کو ایک خاص نقطۂ نظر سے پڑھنا، تمام احادیث کے متون، تراجم، تشریحات اور فقہی مسائل کی الگ الگ نشان زدگی، پھر اس کی تشریح کے لیے مفید مطلب مناسب و موزوں عبارات پر نشان لگانا، ان کی نقول تیار کرنا اور سب سے آخر میں ان کی بہ اعتبارِ ابواب و فصول ترتیب اور ان کی عنوان بندی، یہ سارا کام اتنا صبر آزماتھا کہ بار بار دامن ہمت تار تار ہوجانے کا اندیشہ لاحق ہوتارہا۔ مگر ایسے مواقع پر فضل ایزدی نے ڈھارس بندھائی اور کام جاری رہا۔ الحمد للہ آج اس کاوش اور سعی وجہد کا ثمرہ آپ کے سامنے ہے۔
تالیف وتدوین کا یہ کام اپنی نوعیت اور اہمیت کے اعتبار سے جتنا اہم اور عظیم ہے، اپنے حجم کے لحاظ سے اُسی قد ر ضخیم بھی۔ اس کام کی تکمیل پر کس قدر محنت کی گئی یا کتنی عرق ریزی سے یہ کام انجام پایا؟ اس کا صحیح اندازہ صرف انہیں کو ہوسکتاہے، جنہوں نے کبھی اس وادیٔ پر خار میں قدم رکھاہو۔مولانا کی تصانیف میں سے انتخاب کرکے جو مواد نقل کیا گیا، وہ سیکڑوں نہیں بل کہ ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں وہ تمام احادیث جمع کی گئی ہیں، جنہیں مولانا محترم نے اپنے پورے لٹریچر میں استعمال کیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اسے نقل کرنے سے پہلے پورے کا پورا لٹریچر ایک خاص نقطہ نظر سے پڑھاگیا، عبارات پر نشان لگایا گیا اور واضح کیا گیا کہ یہ حدیث کا متن ہے اور یہ اس کا ترجمہ وتشریح۔ جن احادیث سے فقہی مسائل مستنبط کیے گئے، ان پر الگ نشان لگایاگیااور متنِ حدیث کی بجائے کہیں محض ترجمہ ملا تو اسے بھی نکال لیا گیا۔
مولانا محترم نے زیادہ تر مقامات پر احادیث نقل کرتے وقت صرف اتنا کہہ دیاہے کہ فلاں حدیث بخاری ومسلم میں ہے یا متفق علیہ یا ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ نے اسے روایت کیاہے۔ اسی طرح احادیث کی دوسری کتب کے حوالے بھی دیے ہیں، مگر بخاری ومسلم نے اس حدیث کو کس کتاب میں، کس فصل یا باب میں اور کس عنوان کے تحت یا کتاب کے کس صفحے پر روایت کیاہے؟ اس کا التزام کم ہی کیا جاسکاہے۔ پھر مولانا محترم نے اکثر مقامات پر حدیث کا صرف اتنا ہی جز نقل کیاہے، جتنا انہیں اس مقام کے لحاظ سے استشہاد کے لیے مطلوب تھا۔ پوری حدیث نقل نہیں کی اور پوری سند تو بہت ہی کم نقل ہوسکی ہے۔
اس نقل شدہ مواد کو ایک مفید کتاب کی صورت میں مرتب ومدون کرنے کے لیے ان تمام نقل شدہ احادیث کی سندیں شامل کی گئیں۔ جہاں حدیث کا ایک جزو استعمال کیا گیا، وہ پوری حدیث مع سند نقل کی گئی تاکہ قاری یہ جان سکے کہ یہ کس حدیث کا جزو ہے یا کس محدث نے اپنی کس کتاب اوراس کتاب کے کس باب یا فصل میں اور کس عنوان کے تحت روایت کیا ہے وغیرہ۔ اورحدیث کے بارے میں محدث کی محدثانہ رائے کہ یہ حدیث کس درجے کی ہے، صحیح، حسن یا ضعیف وغیرہ بھی درج کی گئی ہے۔ مزید برآں ایسی احادیث بھی شامل کی گئی ہیں، جو ان کے مفہوم کی تائید کرتی ہیں، جنہیں مویدات کہہ سکتے ہیں۔ اس مفید اضافے سے اصل مواد کی ضخامت تو واقعۃً بڑھ گئی مگر فوائد میں بے حساب اضافہ بھی ہوا ہے۔
حدیث کی تخریج کے لیے جو اصول پیش نظر رکھاگیاہے وہ یہ ہے:
سب سے پہلے حدیث کو( بخاری ومسلم) میں تلاش کیاگیا۔ اگروہ ان میں مل گئی اور دونوں کے الفاظ بھی یکساں ملے تو اس صورت میں سند اور متن حدیث صحیح بخاری کا لیا گیا اور حوالے میں متفق علیہ درج کیا گیاہے۔ اگر صحیحین کی روایت میں معنوی یکسانی تو موجود ہے مگر لفظی اختلاف ہے تو اس صورت میں بھی سند اور متن حدیث صحیح بخاری کا لیا گیاہے اور صحیح مسلم کا اختلاف اور فرق الگ سے واضح کردیاگیاہے۔ اگر مولانا محترم نے خود ہی صحیح مسلم کی روایت لی ہے تو پھر اصل متن اسی روایت کو قراردیا گیاہے اور صحیح بخاری کی روایت میں جو اختلاف ہے، اسے واضح کرکے اس کا حوالہ دیاگیاہے اور اگر مولانا نے صحیحین کے علاوہ باقی کتب اربعہ یعنی سنن ابی داؤد، ترمذی، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں سے کسی کا حوالہ دیا ہے اور وہ حدیث صحیحین میں سے کسی ایک میں بھی قدرے لفظی اختلاف یا فرق کے ساتھ موجود ہے تو اس صورت میں اصل ماخذ بیان کرنے کے بعد صحیحین کا حوالہ اور فرق واختلاف بھی درج کرنے کی محتاط کوشش کی گئی ہے۔اگرکوئی حدیث صحیحین میں نہ ملی تو پھر ابوداؤد کی روایت کو ترجیحا نقل کیاگیاہے۔ اگر ابوداؤد اور دیگر کتب میں بھی کوئی حدیث موجود ہے تو اصل متن کے طورپر ابوداؤد کی روایت درج کی گئی ہے اور باقی ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ اور دیگر کتب کے حوالے درج کیے گئے ہیں۔ حوالوں کے بارے میں میری یہ کوشش رہی ہے کہ حتی الوسع ایک حدیث کے زیادہ سے زیادہ ممکن الحصول ماخذ ومصادر درج کیے جائیں۔ اصل کتب ماخذ جتنی مجھے دستیاب ہوسکیں، ان سب کے حوالے دینے کی بساط بھر کوشش کی ہے۔ تخریج مواد، اس کو نقل کرنے، عبارات پر اعراب لگانے اور اضافہ شدہ عربی عبارات کا ترجمہ کرنے کے بعد نقل شدہ مواد کی روشنی میں اسے ایک کتابی صورت میں لانے کے لیے اس کی پہلے ابواب بندی کی گئی اور پھر انہیں فصول اور مختلف عناوین کے تحت تقسیم کیا گیا۔ پھرذیلی عنوانات قائم کیے گئے۔ بعد ازاں حوالہ جات اور احادیث کے نمبر لگائے گئے اور ان حوالوں کو اپنے اپنے مقام پر درج کیا گیا تاکہ قاری کو اگر کسی عبارت کے اصل ماخذ کی ضرورت محسوس ہوتو وہ بغیر کسی دشواری اور پریشانی کے اصل ماخذ سے رجوع کرسکے۔
آخر میں بارگاہِ رب العزت میں دست بہ دعاہو ںکہ اس کام کو اللہ تعالیٰ کے حضور شرف قبول حاصل ہو اور یہ مولانا محترم کے لیے بلندی درجات کا باعث بنے۔

وماتوفیقی الا باللہ
خاکسار
عبدالوکیل علوی

مقدمہ

اسلام کی نعمت ہر زمانے میں انسان کو دو ہی ذرائع سے پہنچی ہے۔ ایک اللہ کا کلام ، دوسرے انبیاء علیہم السلام کی شخصیتیں جن کو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اپنے کلام کی تبلیغ و تعلیم اور تفہیم کا واسطہ بنایا، بلکہ اس کے ساتھ عملی قیادت و رہنمائی کے منصب پر بھی مامو ر کیا تاکہ وہ کلام اللہ کا ٹھیک ٹھیک منشا پورا کرنے کے لیے انسانی افراد اور معاشرے کا تزکیہ کریں اور انسانی زندگی کے بگڑے ہوئے نظام کو سنوارکر اس کی تعمیر صالح کردکھائیں۔
یہ دونوں چیزیں ہمیشہ سے ایسی لازم و ملزوم رہی ہیں کہ ان میں سے کسی کو کسی سے الگ کرکے نہ انسان کو کبھی دین کا صحیح فہم نصیب ہوسکا ، اور نہ وہ ہدایت سے بہرہ یاب ہوسکا۔ کتاب کو نبی سے الگ کردیجیے تو وہ ایک کشتی ہے، نا خدا کے بغیر، جسے لے کر اناڑی مسافر زندگی کے سمندر میں خواہ کتنے ہی بھٹکتے پھریں، منزل مقصود پر کبھی نہیں پہنچ سکتے، اور نبی کو کتاب سے الگ کردیجیے، تو خدا کا راستہ پانے کے بجائے آدمی ناخدا ہی کو خدا بنابیٹھنے سے کبھی نہیں بچ سکتا۔ یہ دونوں ہی نتیجے پچھلی قومیں دیکھ چکی ہیں۔ ہندوئوں نے اپنے انبیاء کی سیرتوں کو گم کیا اور صرف کتابیں لے کر بیٹھ گئے۔ انجام یہ ہوا کہ کتابیں ان کے لیے گورکھ دھندوں سے بڑھ کر کچھ نہ رہیں۔ حتیّٰ کہ آخرکار خود انھیں بھی وہ گم کر بیٹھے ۔ عیسائیوں نے کتاب کو نظر انداز کر کے نبی کا دامن پکڑا اور اس کی شخصیت کے گرد گھومنا شروع کیا نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی چیز انھیں نبی اللہ کو ابن اللہ بلکہ عین اللہ بنانے سے باز نہ رکھ سکی۔
پرانے ادوار کی طرح اب اس نئے دور میں بھی انسان کو نعمت اسلام میسر آنے کے دو ہی ذرائع ہیں جو ازل سے چلے آرہے ہیں، ایک خدا کا کلام جو اب صرف قرآن پا ک کی صورت ہی میں مل سکتا ہے۔ دوسرے اسوۂ نبوت جو اب صرف محمد عربی ﷺ کی سیرتِ پاک ہی میں محفوظ ہے۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی اسلام کا صحیح فہم انسان کو اگر حاصل ہوسکتا ہے تو اس کی صورت صرف یہ ہے کہ وہ قرآن کو محمد ﷺ سے اور محمد ﷺ کو قرآن سے سمجھے۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کی مدد سے جس نے سمجھ لیا، اس نے اسلام کو سمجھا۔ ورنہ فہم دین سے بھی محروم رہا اور نتیجتاً ہدایت سے بھی۔
پھر قرآن اور محمد ﷺ دونوں چوں کہ ایک مشن رکھتے ہیں، ایک مقصد و مدّعا کو لیے ہوئے آئے ہیں، اس لیے ان کو سمجھنے کا انحصار اس پر ہے کہ ہم ان کے مشن اور مقصد و مدّعا کو کس حد تک سمجھتے ہیں۔ اس چیز کو نظر انداز کرکے دیکھیے تو قرآن عبارتوں کا ایک ذخیرہ اور سیرت پاک، واقعات و حوادث کا ایک مجموعہ ہے۔ آپ لغت اور روایات اور علمی تحقیق و کاوش کی مدد سے تفسیروں کے انبار لگاسکتے ہیں اور تاریخی تحقیق کا کمال دکھا کر رسول اللہ ﷺ کی ذات اور آپ کے عہد کے متعلق صحیح ترین اور وسیع ترین معلومات کے ڈھیر لگا سکتے ہیں، مگر روح دین تک نہیں پہنچ سکتے، کیونکہ وہ عبارات اور واقعات سے نہیں بلکہ اس مقصد سے وابستہ ہے جس کے لیے قرآن اتارا گیا اور محمد عربی ﷺ کو اس کی علم برداری کے لیے کھڑا کیا گیا۔ اصل مقصد کا تصور جتنا صحیح ہوگا، اتنا ہی قرآن اور سیرت کا فہم صحیح، اور جتنا وہ ناقص ہوگا، اتنا ہی ان دونوں کا فہم ناقص رہے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن اور سیرتِ محمدی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام دونوں ہی بحرِ ناپیداکنار ہیں۔ کوئی انسان یہ چاہے کہ ان کے تمام معانی اور فوائد و برکات کا احاطہ کرے تو اس میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ البتہ جس چیز کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ وہ بس یہ ہے کہ جس حد تک ممکن ہو آدمی ان کا زیادہ سے زیادہ صحیح فہم حاصل کرے اور ان کی مدد سے روحِ دین تک رسائی پائے۔
دنیا کے تمام ہادیوں میں یہ خصوصیت صرف حضرت محمد ﷺ کو حاصل ہے کہ آپؐ کی تعلیم اور آپ ؐ کی شخصیت ۱۴صدیوں سے بالکل اپنے حقیقی رنگ میں محفوظ ہے اور خدا کے فضل سے کچھ ایسا انتظام ہوگیا ہے کہ اب اس کا بدلنا غیر ممکن ہوگیا ہے۔ انسان کی اوہام پرستی اور اعجوبہ پسندی سے بعید نہ تھا کہ وہ اس برگزیدہ ہستی کو بھی ، جو کما ل کے سب سے اعلیٰ درجے پر پہنچ چکی تھی، افسانہ بنا کر الوہیت سے کسی نہ کسی طرح متّصف کر ڈالتی اور پیروی کے بجائے محض ایک تحیّرواستعجاب اور عبادت وپرستش کا موضوع بنالیتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو بعثتِ انبیاء کے آخری مرحلے میں ایک ایسا ہادی اور رہنما بھیجنا منظور تھا، جس کی ذات انسان کے لیے دائمی نمونۂ عمل اور عالمگیر چشمۂ ہدایت ہو۔ اس لیے اس نے محمد بن عبداللہ ﷺ کی ذات کو اس ظلم سے محفوظ رکھا جو جاہل معتقدوں کے ہاتھوں دوسرے انبیاء اور ہادیانِ اقوام کے ساتھ ہوتا رہا ہے ــــــآپ کے صحابہ و تابعین اور بعد کے محدثین نے پچھلی امتوں کے برعکس ، اپنے نبی کی سیرت کو محفوظ رکھنے کا خود ہی غیر معمولی اہتمام کیا ہے، جس کی وجہ سیـــــہم آ پ کی شخصیت کو چودہ سو برس گزر جانے پر بھی آج تقریباً اتنے ہی قریب سے دیکھ سکتے ہیں جتنے قریب سے خود آپ کے عہد کے لوگ دیکھ سکتے تھے۔

حدیث اور قرآن کا باہمی تعلق

قدیم و جدید دور کے منکرین حدیث کی جانب سے انکار حدیث کے سلسلے میں جو دلائل پیش کیے گئے ہیں،ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے لیے صرف قرآن کافی ہے۔ حدیث کی روایات ناقابلِ اعتبار ہیں اور ان پر مذہب کی بنیاد رکھنا صحیح نہیں ہے۔ (گویا) منکرین حدیث کی رائے میں حدیث سے اسلام کو قطعاً کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ بلکہ اس کے برعکس اسی چیز نے دشمنان اسلام کو وہ اسلحے فراہم کیے ہیں، جن سے وہ اسلام پر حملے کرتے ہیں۔ اس لیے ان کی خواہش ہے کہ اسلام سے حدیث کو بالکل خارج کردیا جائے اور اس کو وہ اسلام کی ایک بڑی خدمت سمجھتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ امر غور طلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن اور اس سے پہلے تمام آسمانی کتابوںکو رسولوں کے واسطے سے کیوں نازل کیا؟ کیا اللہ اس پر قادر نہ تھا کہ مطبوعہ کتابیں یکایک زمین پر اتاردیتا اور ان کا ایک ایک نسخہ نوع بشری کے ہرہرفرد کے پاس آپ سے آپ پہنچ جاتا؟ اگر وہ اس پر قادر نہ تھا تو عاجز تھا، اس کو خدا ہی کیوں مانیے؟ اور اگر وہ قادر تھا اور یقینا قادر تھا تو اس نے نشر و اشاعت کا یہ ذریعہ کیوں نہ اختیار کیا؟ یہ تو بظاہر ہدایت کا یقینی ذریعہ ہوسکتا تھا۔ کیونکہ ایسے صریح معجزے اور بین خرق عادت کو دیکھ کر ہر شخص مان لیتا کہ یہ ہدایت خدا کی طرف سے آئی ہے۔ لیکن خدا نے ایسا نہ کیا اور ہمیشہ رسولوں ہی کے ذریعہ سے کتابیں بھیجتا رہا۔ پھر اس رسالت کے کام پر بھی اس نے فرشتوں یا دوسری غیر انسانی ہستیوں کو مامور نہ کیا۔ بلکہ ہمیشہ انسانوں ہی کو اس کے لیے منتخب فرمایا۔ ہر زمانے کے کفار نے بہتیر ا کہا کہ اگر خدا کو ہم تک کوئی پیغام پہنچانا ہی منظور ہے تو فرشتے کیوں نہیں بھیجتا، تاکہ ہم کو بھی اس پیغام کے منزّل من اللّٰہ ہونے کا یقین آجائے۔ مگر خدا نے ہر ایسے سوال پر یہی فرمایا کہ اگر ہم فرشتے بھی بھیجتے تو ان کو آدمی بنا کر بھیجتے وَلَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکاً لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلاً۔ (انعام: ۹) اور یہ کہ اگر زمین میں فرشتے بستے ہوتے تو ہم ان کی ہدایت کے لیے فرشتے بھیجتے۔ لَوْکَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَلَکاً رَّسُوْلاً۔ (بنی اسرائیل:۹۵)
سوال یہ ہے کہ تنزیلِ کتب کے لیے رسولوں کو واسطہ بنانے اور رسالت کے لیے تمام بندگان خدا میں سے بالخصوص انسانوں ہی کو منتخب کرنے پر اس قدر اصرار کیوں کیا گیا؟ اس کا جواب خود کلام اللہ دیتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ خدا نے جتنے رسول بھیجے ہیںان کی بعثت کا مقصد یہ رہا ہے کہ وہ فرامین خداوندی کے مطابق حکم دیں اور لوگ ان کے احکام کی اطاعت کریں۔ وہ الٰہی قوانین کے مطابق زندگی بسر کریں اور لوگ انہی کے نمونہ کو دیکھ کر اس کا اتباع کریں ، وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ۔ (النساء: ۶۴) انبیاء علیہم السلام پے درپے آئے اور ہر ایک نے لوگوں سے یہی مطالبہ کیا کہ خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اِتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ۔(الشعراء: ۱۰۸، ۱۱۰، ۱۲۶، ۱۳۱، ۱۴۴، ۱۵۰، ۱۶۳، ۱۷۹) نبی ﷺ سے کہلوایا گیا کہ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ (آل عمران: ۳۱) مومنوں سے کہا گیا کہ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ۔ (احزاب:۲۱) اگر محض کتاب اللہ اتاردی جاتی اور کوئی رسول نہ آتا تو لوگ آیات کے معانی میں اختلاف کرتے اور کوئی اس کا فیصلہ کرنے والا نہ ہوتا۔ لوگ احکام کے منشا سمجھنے میں غلطیاں کرتے اور کوئی ان کو صحیح منشا بتانے والا نہ ہوتا۔ اس ضرورت کو تو خیر ایک حد تک فرشتے بھی پورا کرسکتے تھے، مگر پاکیزگی ، طہارت اور تقویٰ کے احکام پر لوگ یہ خیال کرتے کہ عملی زندگی میں ان پر عمل کرنا انسان کے بس کا کام نہیں ہے۔ فرشتہ تو انسانی جذبات سے محروم ہے۔ پیٹ نہیں رکھتا۔ شہوانی قوتیں نہیں رکھتا۔ انسانی ضرورتوں سے بے نیاز ہے۔ اس کے لیے متقیانہ زندگی بسرکرنا کچھ مشکل نہیں۔ مگر ہم انسانی کمزوریاں رکھتے ہوئے اس کی تقلید کیسے کریں؟ اس لیے ضروری تھا کہ ایک انسان انہی جذبات و داعیات اور انہی تمام قوتوں اور انسانی تقیدات کے ساتھ زمین پر آتا اور لوگوں کے سامنے احکامِ الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرکے بتاتا کہ اس طرح انسان خدا کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرسکتا ہے۔ اس کو زندگی کے وہ تمام معاملات پیش آتے جو انسان کو پیش آتے ہیں۔ وہ ان تمام معاملات میں عام انسانوں کے ساتھ شریک ہوتا، عملاً حصہ لیتا، قدم قدم پر ان کو اپنے عمل اور اپنے قول سے ہدایات دیتا، ان کی تربیت کرتا ، اور انھیں بتاتا کہ زندگی کی پیچیدہ راہوں میں سے کس طرح انسان بچ کر حق اور نیکی کے سیدھے راستے پر چل سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے تنہا کتاب اللہ کو کافی نہ سمجھا اور رسولؐ اللہ کی اتباع اور ان کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کو اس کے ساتھ لازم کردیا۔
قرآن شریف میں صاف طور پر تین چیزوں کی اطاعت کا حکم دیا گیاہے۔ ایک حکم خدا، دوسرے حکم رسول، تیسرے مسلمان حکام اور فرمانروائوں کے احکام اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔ (النساء:۵۹) اگر محض قرآن کا اتباع کافی ہوتا اور اس کے سوا کسی دوسری چیز کے اتباع کی حاجت نہ ہوتی تو رسول اور حکّامِ (اولی الامر)کی اطاعت کا حکم ہی نہ دیا جاتا۔ اگر رسول اور اولی الامر کا حکم قرآنی احکام کے ماسوا کوئی شے نہ ہوتا، تب بھی بقیہ دونوں کی اطاعت کا حکم الگ دینا بے معنی تھا۔ تین چیزوں کی اطاعت کا الگ الگ حکم دینا صاف بتاتا ہے کہ قرآن میں جو احکام براہ راست اللہ تعالیٰ نے دیے ہیں، ان کے علاوہ وہ احکام بھی واجب الاطاعت ہیں جو رسولؐ اللہ دیں، اور ان کی اطاعت بعینہٖ ایسی ہے جیسی اللہ کی اطاعت مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ۔ (النساء: ۸۰) پھر ان کے ماسوا جو احکام مسلمانوں کے اولی الامر دیں ان کی اطاعت بھی لازم ہے بشر طیکہ ان کے احکام خدا اور رسول کے احکام سے اصولی مطابقت رکھتے ہوں۔ اختلاف کی صورت میں ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی دی ہوئی ہدایات کی طرف رجوع کیا جائے۔ فَاِنْ تَنَازعْتُمْ فِیْ شَیٍْٔ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ۔ (النساء: ۵۹)
اس سے معلوم ہوا کہ تنہا کتاب اللہ کا فی نہیں ہے، اس کے ساتھ رسالت کا رشتہ ناقابل انقطاع ہے، اور احکامِ رسول کی اطاعت اور اسوۂ رسول کی پیروی بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح خود کتاب اللہ کے احکام کی اطاعت فرض ہے۔ جو شخص کہتا ہے کہ ہم صرف کتاب اللہ کو لیں گے اور حکم رسول اور اسوۂ رسول کو نہ لیں گے وہ رسالت سے اپنا تعلق منقطع کرتا ہے۔ وہ اس واسطہ کو کاٹتا ہے جسے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں اور اپنی کتاب کے درمیان ایک لازمی واسطہ کے طور پر قائم فرمایا ہے۔ وہ گویا یہ کہتا ہے کہ خدا کی کتاب اپنے بندوں کے لیے کافی تھی مگر خدا نے بلا ضرورت یہ فعل عبث کیا کہ کتاب کو رسول کے ذریعہ سے نازل فرمایا۔ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالیٰ عَمَّا یَقُوْلُوْنَ۔
کتاب اللہ اور سنتِ رسول کا لازمی تعلق ثابت ہوجانے کے بعد اب اس سوال پر غور کیجیے کہ آیا رسول اللہ ﷺ کے احکام کی اطاعت اور ان کے اسوۂ حسنہ کی پیروی صرف ان کی حیات جسمانی تک ضروری تھی؟ ان کے بعد اس کی حاجت باقی نہیں رہی؟ اگر ایسا ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت صرف اس عہد کے لیے تھی جس میں آپ جسم کے ساتھ زندہ تھے۔ آپ کے رحلت فرماتے ہی آپ کی رسالت کا تعلق عملاً دنیا سے منقطع ہوگیا۔ اس صورت میں رسالت کا منصب بے معنی ہوجاتا ہے۔ رسول کا کام اگر محض ایک نامۂ بر کی طرح کتاب اللہ کو پہنچادینا تھا، اور اس سے بڑھ کرکسی اور چیز کی ضرورت نہ تھی تو ہم پھر وہی کہیں گے کہ اس صورت میں رسول کی ضرورت ہی نہ تھی۔ یہ کام کوئی فرشتہ کرسکتا تھا، بلکہ اسے بلاواسطہ بھی کرنا ممکن تھا۔ لیکن اگر کتاب پہنچادینے کے علاوہ بھی کسی شے کی ضرورت تھی اور اسی کے لیے اتباع کے احکام دیے گئے تھے، اور اگر ہدایت نوعِ بشری کے لیے قرآن کے ساتھ رسولؐ کی ہدایات اور سیرت نبوی کے عملی نمونے کی بھی ضرورت تھی، تو پھر یہ سب کچھ صرف تئیس چوبیس سا ل کے لیے ہونا کیا معنی؟ محض ایک صدی کے چوتھائی حصہ کے لیے ایک رسول مبعوث کرنا اور اتنی سی مدت کے لیے رسالت کا اتنا بڑا منصب قائم کرنا، اور ایک چیز کو جو رسول کے جسم و جان کا تعلق منقطع ہوتے ہی دنیا کے لیے غیر ضروری ہوجانے والی تھی، اتنی شدو مد کے ساتھ ذریعۂ ہدایت قرار دینا ، یہ سب بچوں کا کھیل معلوم ہوتا ہے جو خدائے حکیم و دانا کے ہر گز شایان شان نہیں ہے۔
اس الزام کو خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں رفع کردیا ہے۔ وہ محمد ﷺ سے فرماتا ہے کہ وَمَآاَرْسَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ۔ (انبیاء: ۱۰۷) ظاہر ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کا فیضان رسالت صرف اپنے زمانے تک کے لیے ہوتا تو آپؐ کو رحمۃٌ للعالمین نہیں کہا جاسکتا تھا۔ اگر کہا جائے کہ آپ قرآن لائے ہیں جو ہمیشہ رہنے والا ہے اور اسی لیے آپ رحمۃٌ للعالمین ہیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ رحمت نہ تھے بلکہ رحمت تو قرآن تھا اور آپؐ کو خواہ مخواہ رحمت کہہ دیا گیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو الگ رحمت فرمایا ہے اور اس کے لانے والے کو الگ ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ وَمَآ اَرْسَلْنَاکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ (السبا: ۲۸) یہ ارشاد صاف اشارہ کررہا ہے کہ نبی ﷺ کی بعثت کے وقت سے لے کر قیامت تک جن بندگانِ خدا پر’’الناس‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے ان سب کے لیے آپؐ خدا کے رسول ہیں۔ آپؐ کی رسالت کسی خاص زمانہ کے لیے نہیں ہے بلکہ جب تک روئے زمین پر ’’الناس‘‘ بستے ہیں اس وقت تک آپؐ کی رسالت قائم ہے۔ آیت میں کوئی قرینہ ایسا نہیں ہے جس سے معلوم ہوکہ’’الناس‘‘ سے صرف اسی زمانہ کے لوگ مراد ہیں ۔ نہ ایسا کوئی خفیف سے خفیف اشارہ موجود ہے جس سے بعد کے کسی زمانہ تک کی قید نکلتی ہو۔ بخلاف اس کے دوسری آیات اس تفسیر کی تائید کرتی ہیں کہ حضوؐر کی رسالت دائمی ہے۔ اللہ تعالیٰ حضوؐر کے ذریعہ سے دین کی تکمیل کرچکا ہے۔ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ (مائدہ:۱۳) حضوؐر کی ذات پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔ مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآاَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیٍْٔ عَلِیْمًا۔ (احزاب:۴۰) اور دوسرے انبیاء کی لائی ہوئی کتابوں کے بخلاف آپؐ کی لائی ہوئی کتاب کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کیا گیا ہے، کیونکہ پہلی کتابیں مخصوص زمانوں کے لیے ہدایت تھیں اور یہ دائمی ہدایت ہے۔ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر: ۹)
اس سے ثابت ہوا کہ نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت ہمیشہ کے لیے ہے اور جب ایسا ہے تو وہ تمام آیات اور احکام بھی ہمیشہ کے لیے ہیں جن میں آنحضرتؐ کے احکام کی اطاعت فرض قرار دی گئی ہے، آپ کی ذات کو اسوۂ حسنہ بتایا گیا ہے، آپ کے اتباع کو رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ کہا گیا ہے، اور ہدایت کا دامن آپ کی پیروی کے ساتھ وابستہ کردیا گیا ہے۔ وَاِنْ تُطِیْعُوْہُ تَہْتَدُوْا (النور:۵۴) رضائے الٰہی حاصل کرنے اور ہدایت پانے کی ضرورت جس طرح رسول اللہ ﷺ کے ہم عہد لوگوںکو تھی اسی طرح آج کے لوگوں کو بھی ہے، اور قیامت تک جو لوگ آئیں گے ان سب کو رہے گی۔ پس جب یہ دونوں چیزیں رسولؐ اللہ کے اتباع اور آپ کے نمونۂ حیات کی تقلید کے ساتھ وابستہ ہیں تو لازم ہوا کہ سیرتِ نبوی کے وہ پاک نمونے اور زبانِ وحی ترجمان کے وہ مقدّس احکام بھی قرآن کے ساتھ ساتھ باقی رہیں جن سے رسولِ اکرم ﷺ کے ہم عہد لوگوں نے ہدایت پائی تھی، ورنہ بعد کی نسلوں کے لیے ہدایت ناقص رہ جائے گی۔
میں نے ’’ہدایت ناقص رہ جائے گی ‘‘ کے الفاظ بہت ہی نرم استعمال کیے ہیں۔ تنزیل کتب کے ساتھ رسالت کا جو ناقابلِ انقطاع رشتہ اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے، اور اس باب میں اللہ تعالیٰ کی جو غیر متبدل سنت ابتداسے چلی آرہی ہے اس کا لحاظ کرتے ہوئے تو مجھے کہنا چاہیے تھا کہ اگر اسوۂ رسول باقی نہ رہتا، اگر رسول اللہ ﷺ کے احکام باقی نہ رہتے، اگر ہدایت کا وہ پاک سرچشمہ بند ہوجاتا جو رسول اللہ ﷺ کی سیرت میں تھا، تو محض کتاب اللہ سے دنیا کی ہدایت ہوہی نہیں سکتی تھی۔ اس لیے کہ رسالت کے آثار مٹ جانے کے بعد کتاب اللہ کا باقی رہ جانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے رسول کے بغیر کتاب اللہ کا نازل ہونا۔ اگر کتاب کی تنزیل کے بعد آثارِ رسالت کے باقی رہنے کی ضرورت نہیں ہے تو سرے سے تنزیل کے لیے رسالت ہی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ خدا کی حکمت پر کھلا ہوا طعن ہے اور اگر تنزیل کے ساتھ رسالت کا ہونا لازم ہے، تو یقینا اس کے ساتھ آثار رسالت کا رہنا بھی لازم ہے۔ بغیر آثارِ رسالت کے تنہا کتاب اللہ موجب ہدایت نہیں ہوسکتی۔ اس کی وجہ آپ بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ اگر آثارِ رسالت محو ہوجاتے تو مسلمانوں کا حشران قوموں کا سا ہوجاتا جن کے پاس بجز افسانوں کے اور کچھ نہیں ہے۔ لوگ کہتے کہ جس شخص پر تمہارے قول کے مطابق یہ کتاب نازل ہوئی ہے اس کے حالات تو بتائو کہ ہم ان کو جانچ کر دیکھیں کہ آیا فی الواقع وہ رسولِ خدا ہونے کے قابل تھا بھی یا نہیں۔ مگر ہم انھیں کچھ نہ بتا سکتے۔ لوگ پوچھتے کہ تمہارے پاس قرآن کے دعوے کی تائید میں کون سی ایسی خارجی شہادت ہے جس سے تمہارے نبی کی نبوت ثابت ہوسکتی ہے؟مگر ہم کوئی شہادت نہ پیش کرسکتے۔ ہم کو خود یہ نہ معلوم ہوسکتا کہ کب اور کن حالات میں قرآن نازل ہوا، کس طرح رسول اللہ ﷺ کی شخصیت اور آپؐ کی پاک زندگی کو دیکھ کر لوگ فوج در فوج ایمان لائے، کس طرح آپؐ نے نفوس کا تزکیہ کیا، حکمت کی تعلیم دی اور آیاتِ الٰہی کی تلاوت سے معرفتِ حق کا نور پھیلا یا، کس طرح آپؐ نے انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں تنظیم اور اصلاح کا وہ زبردست کام انجام دیا اور شریعت کا وہ ہمہ گیر اور حکیمانہ ضابطہ بنایا جو محض انسانی عقل کے بس کا کام نہیں ہے اور جو اس بات کا ناقابلِ انکار ثبوت ہے کہ آپ حقیقت میں اللہ کے رسول تھے۔ یہی نہیں بلکہ اگر وہ روایات نہ ہوتیں جو منکرین حدیث کے نزدیک دریا برد کردینے کے قابل ہیں تو ہم قرآن کی سند اس کے لانے والے تک نہ پہنچا سکتے۔ ہمارے پاس اس کا کوئی ثبوت نہ ہوتا کہ یہ قرآن حقیقت میں وہی ہے اور اسی عبارت میں ہے جس میں رسولؐ اللہ پر نازل ہوا تھا۔ ہماری اس کتاب کی وہی حیثیت رہ جاتی جو زند، اوستا، گیتا، ویدوں اور بدھ مذہب کی کتابوں کی حیثیت ہے۔ اسی طرح ہماری مذہبی زندگی کے جتنے اعمال اور جتنے اصول و قوانین ہیں، یہ بھی سب کے سب بے سند ہو کر رہ جاتے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دوسرے اعمال جس صورت میں ادا کیے جاتے ہیں ان کے متعلق ہم نہ بتاسکتے، اور خود نہ جانتے کہ یہ سب رسولؐ اللہ کے مقرر کیے ہوئے طریقوں پر ہیں۔ منکرینِ حدیث کہتے ہیں کہ ان سب اعمال کے لیے ’’سنتِ متواترہ‘‘ کافی ہے۔ مگر مدوّن اور مستند روایات کی غیر موجودگی میں اس ’’سنتِ متواترہ‘‘ کی حیثیت بجز اس کے اور کیا ہوتی کہ اگلوں سے پچھلوں تک نسلاً بعد نسلٍ ایسا ہوتا چلا آیا ہے؟ اس قسم کی متواتر سنتیں تو ہندوئوں ، بودھوں اور دوسری قوموں میں بھی ہیں۔ وہ سب یہی کہتے ہیں کہ جو عبادتیں ہم کرتے ہیں اور جو رسمیں ہم میں جاری ہیں وہ بزرگوں سے یونہی چلی آرہی ہیں۔ مگر کیا آج ان کی سنتِ متواترہ پر دنیا اور خود ان قوموں کے روشن خیال لوگوں میں یہ شبہ نہیں کیا جاتا کہ خدا جانے ان طریقوں کی اصل کیا تھی اور امتدادِ زمانہ کے ساتھ وہ کس طرح بدلتے چلے گئے؟ کیا ان تمام طریقوں پر آج رسوم پرستی کی پھبتی نہیں اڑائی جاتی؟ اگر کوئی شخص ان میں تغیر کرکے کوئی نئی بدعت ایجاد کرنا چاہے تو کیا ان کے پاس اس بدعت کے خلاف کوئی حجت بجز اس ایک دلیل کے موجود ہے کہ جو کچھ باپ دادا کرتے چلے آرہے ہیں اس میں تغیر نہیں ہوسکتا؟ پھر اگر منکرینِ حدیث کی خواہش کے مطابق ہمارے ہاں بھی ایسی مسلسل ، مستند اور مرتّب روایات نہ ہوتیں جو ہمارے عہد سے لے کر رسول اللہ ﷺ کے عہد تک ہر واقعہ یا ہر قول کی سند بہم پہنچادیتی ہیں اور اگر ہمارے پاس بھی صرف عملِ متواتر ہی باقی رہ جاتا ، تو ہمارے مذہبی اعمال اور معتقدات کا حال ان طریقوں اور ان اوہام سے کچھ مختلف نہ ہوتا جو ہندئووں اور دوسری قوموں میں پائے جاتے ہیں اور جن کو ’’رسوم‘‘ اور ’’مذہبی افسانوں‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(خود مسلمانوں میں عرسوں ، نیازوں اور شادی و غمی کی رسموں کا جو سلسلہ آج چل رہا ہے، حدیث کی غیر موجودگی میں ان سب کو بھی ’’سنتِ متواترہ‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اور انکارِ حدیث کے بعد ان ’’متواتر سنتوں‘‘ کی تردید نہیں کی جاسکتی۔) غور کیجیے، یہ اسلام کے لیے قوت اور استحکام کا سبب ہوتا یا کمزوری و نااستواری کا سبب؟
اس بحث سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کتاب اللہ کے ساتھ سنتِ رسول کا رہنا قطعاً ضروری اور ناگزیر ہے۔ اب اس سوال کی طرف آئیے کہ سنتِ رسول کے ہم تک پہنچنے کی صورت کیا ہے اور کیا ہوسکتی ہے؟ یہ بالکل ظاہر ہے کہ نبیﷺ نے بعثت سے رحلت تک تقریباً ربع صدی کا جو زمانہ بسر کیا وہ محض قرآن پڑھنے اورسنانے ہی میں بسر نہیں ہوا ہوگا، بلکہ آپؐ تلاوتِ آیات کے علاوہ بھی شب و روز اپنے دین کی تبلیغ فرماتے رہتے ہوں گے، گمراہ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش بھی فرماتے ہوں گے، ایمان لانے والوں کو تعلیم بھی دیتے ہوں گے، اور اپنی عبادات، اپنے اخلاق ، اور اپنے اعمالِ حسنہ کا نمونہ پیش کرکے لوگوں کی تربیت اور اصلاح کرنے میں مشغول رہتے ہوں گے۔ خود قرآن میں فرمایا گیا ہے یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ۔ (البقرہ: ۱۵۱) نیز قرآن سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ معلّمانہ زندگی ایسی شدید مصروفیت میں بسر ہوتی تھی کہ آپ کو اپنے آرام کا ذرہ برابر خیال نہ تھا، ہر لمحہ یا تو عبادات میں بسر ہوتا تھا یا وعظ و نصیحت اور تعلیمِ حکمت اور تزکیۂ نفوس میں۔ حتیّٰ کہ بار بار اللہ تعالیٰ آپؐ سے فرماتا تھا کہ آپ اس قدر محنت کیوں کرتے ہیں؟ اپنے آپ کو ہلاک کیوں کیے ڈالتے ہیں؟
اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ایسی سرگرم مُبلّغانہ زندگی میں آیاتِ قرآنی کے سوا کوئی بات بھی آپؐ کی زبان سے ایسی نہ نکلتی تھی جو یاد رکھنے اور بیان کرنے کے قابل ہوتی؟ کوئی کام بھی آپ کی زندگی کا ایسا نہ تھا جس کو لوگ اپنے لیے نمونہ سمجھتے اور دوسروں کو اس پاکیزہ نمونہ کی تقلید کا مشورہ دیتے؟ آپؐ کے اقوال و اعمال کے متعلق تو اہلِ ایمان کا اعتقاد تھا اور قرآن نے بھی ان کو یہی اعتقاد رکھنے کا حکم دیا تھا کہ آپ کا ہر ارشاد برحق ہے۔ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی (النجم: ۳) اور آپ کا ہر عمل واجب التقلید ہے، لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (احزاب: ۲۱) ظاہر ہے کہ یہ اعتقاد رکھتے ہوئے تو مسلمان یقینا آں حضرت ﷺ کے ہر ارشاد کو دل سے سنتے ہوں گے ، ہرعمل پر نگاہ رکھتے ہوں گے، اور آپس میں ایک دوسرے کے سامنے حضوؐر کے اقوال و اعمال کے چرچے کرتے ہوں گے۔ جہاںرسالت اور کسی قسم کے تقدس کا اعتقاد نہیں ہوتا وہاں بھی بڑے لوگوں کی باتوں اور حرکات و سکنات پر لوگ نظر رکھتے ہیں اور ان کے اقوال و اعمال کے چرچے کیا کرتے ہیں۔ پھر کیوںکر ممکن تھاکہ صحابہ کرام جس مقدس انسان کو خدا کا رسول اور اسلام کا مکمل نمونہ سمجھتے تھے اس سے صرف قرآن لے لیتے اور اس کے دوسرے تمام ارشادات اور اس کے تمام اعمال کی طرف سے کان اور آنکھیں بند کرلیتے۔
اس زمانہ میں فوٹوگرافی کے آلات نہ تھے کہ آں حضرت ﷺ کی تمام حرکات و سکنات کے فلم لے لیے جاتے۔نہ آواز بھرنے کے آلات تھے کہ آپ کی تقریروں کے ریکارڈ بھر کر رکھ لیے جاتے۔ نہ مکہ و مدینہ سے اخبارات نکلتے تھے کہ روزانہ آپ کی تبلیغی سرگرمیوں اور آپ کے اعمالِ حیات کی رپورٹیں شائع ہوتیں۔ ضبط اور نقل کا ذریعہ جو کچھ بھی تھا وہ لوگوں کا حافظہ اور زبانیں تھیں۔ قدیم زمانہ میں نہ صرف عرب بلکہ تمام قوموں کے پاس واقعات کو محفوظ رکھنے اور بعد کی نسلوں تک پہنچانے کا یہی ایک ذریعہ تھا۔ مگر عرب خصوصیت کے ساتھ اپنے حافظہ اور صحتِ نقلِ میں ممتاز تھے،اور ان کی یہ خصوصیت ایسی تھی کہ شاید ان حضرات کے فون کریمر کو بھی اس سے انکار نہ ہو، جو قوم ایّام العرب ، کلامِ جاہلیّت، انسابِ قبائل حتیٰ کہ اونٹوں اور گھوڑوں تک کے نسب نامے یاد کرتی ہو اور اپنی اولاد کو یاد کراتی ہو، اس سے بعید تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ جیسی عظیم الشان شخصیّت کے حالات اور آپ کے ارشادات کو یاد نہ رکھتی اور آنے والی نسلوں تک انھیں منتقل نہ کرتی۔
پھر جب آں حضرت ﷺ کا وصال ہواتوفطری بات تھی کہ لوگوں میں آپ کے احوال و اقوال کی جستجو اور زیادہ بڑھ جاتی۔ جو لوگ حضوؐر کی زیارت اور صحبت سے محروم رہ گئے تھے ان میں یہ شوق پیدا ہونا بالکل فطری امر تھا کہ آپ کے صحبت یافتہ بزرگوں سے آپؐ کے ارشادات اور آپؐ کے حالات پوچھیں۔ ہم خود دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی پیر مرد ایسا نکل آتا ہے جس نے پچھلی صدی کے اکابر میں سے کسی نامور بڑے شخص کی صحبت پائی ہو تو لوگ اس کے پاس جاتے ہیں اور اس کے حالات دریافت کرتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست نے شمالی ہندوستان سے حیدر آباد کا سفر اس غرض کے لیے کیا کہ اگر کوئی پرانا آدمی ایسا مل جائے جس نے سید جمال الدین افغانی کی صحبت پائی ہو تو اس سے سید صاحب کے حالات معلوم کریں۔ یہ معاملہ جب معمولی انسانوں کے ساتھ پیش آتا ہے تو کیا یہ ممکن تھا کہ خدا کے سب سے بڑے پیغمبر ؐ اور دنیا کے سب سے بڑے معلّمؐ کی وفات کے بعدمسلمانوں میں اس کے حالات پوچھنے اور اس کے ارشادات سے مستفید ہونے کی کوئی خواہش نہ ہوتی ؟ کیا تاریخ کے ان واقعات میں کوئی استبعاد ہے کہ لوگ جہاں کسی صحابی کی خبر پالیتے وہاں سیکڑوں میل سے سفر کرکے جاتے اور آں حضرت ﷺکے حالات پوچھتے؟ یہی معاملہ یقینا صحابہ کے بعد تابعین کے ساتھ پیش آیا ہوگا۔ کم از کم دو صدی تک سماعتِ حدیث اور نقلِ حدیث کا غیر معمولی شغف مسلمانوں میں پایا جانا یقینی ہے اور یہ بات نہ صرف قیاس کے عین مطابق ہے، بلکہ تاریخ بھی اس بات کی شہادت دیتی ہے۔ منکرینِ حدیث قیاس عقلی سے تو کام ہی نہیں لیتے ۔ رہی تاریخ، تو وہ اس کے صرف اسی حصہ کو مانتے ہیں جس سے انکارِ حدیث کے لیے مواد مل سکتا ہو۔ اس کے سوا تاریخ کی جتنی شہادتیں ہیں سب ان کے نزدیک نامعتبر ہیں۔ لیکن جن لوگوں میں انکارِ حدیث کے لیے ضد پیدا نہیں ہوئی ہے وہ یقینا اس بات کو تسلیم کرلیں گے کہ نبی اکرم ﷺ کی زبردست شخصیت اور آپؐ کی تابناک پیغمبرانہ زندگی اتنی ناقابل اعتنا تو نہ تھی کہ مسلمانوں میں کم از کم دو سو برس تک بھی آپ کے حالات معلوم کرنے اور آپ کے ارشادات سننے کا عام شوق نہ رہتا۔ اس سے انکار کرنے کے دوسرے معنی یہ ہوں گے کہ قرونِ اولیٰ کے لوگوں پر رسول اللہ ﷺ کا کوئی اثر نہ تھا، اور وہ لوگ بھی آپ کی جانب کوئی توجہ نہ رکھتے تھے جو آپ کی رسالت کے قائل ہوچکے تھے۔ منکرینِ حدیث کو اختیار ہے کہ رسولؐ کی ذات اور ان لوگوں کے متعلق جو آپ سے قریب تر تھے یہ یا اس سے بھی زیادہ بری کوئی رائے قائم کرلیں۔مگر ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی مسلمان تو کجا، اسلامی تاریخ اور اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کرنے والا کوئی منصف مزاج غیر مسلم بھی اس رائے کو صحیح باور نہ کرے گا۔
اس میں شک نہیں کہ عہدِ رسالت سے دور ہونے کے بعد مسلمانوں میں بیرونی اثرات بھی داخل ہونے لگے تھے، اور یہ اثرات بیشتروہ لوگ اپنے ساتھ لائے تھے جنھوں نے عراق، ایران ، شام اور مصر میں مذہب اسلام قبول تو کرلیا تھا مگر قدیم مذہب کے تخیلات ان کے ذہن سے محو نہ ہوئے تھے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ مسلمانوں میں ایک گروہ ایسا بھی پیدا ہوگیا تھا جو اپنے دل سے گھڑ کر باتیں نکالتا تھا اور محض لوگوں پر اثر قائم کرنے کے لیے ان باتوں کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کردیتا تھا۔ یہ دونوں باتیں تاریخ سے بھی ثابت ہیں اور قیاس بھی یہی چاہتا ہے کہ ایسا ضرور ہوا ہوگا۔مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کیا درست ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں میں سب کے سب ایسے ہی لوگ تھے؟ سب جھوٹے اور بے ایمان تھے؟ سب ایسے منافق تھے کہ اسی ہستی پر بہتان گھڑتے جس کی رسالت پر وہ دن بھر میں کم از کم پانچ مرتبہ گواہی دیا کرتے تھے؟ سب ایسے دشمن حق تھے کہ دنیا بھر کی خرافات لے کر رسولؐ کے نام سے خدا کے دین میں داخل کرتے اور اس کی جڑیں کاٹتے؟ یہ نتیجہ نہ عقلاً نکالا جاسکتا ہے اور نہ تاریخ اس کی تائید کرتی ہے اور جب یہ صحیح نہیں ہے تو صداقت کے ساتھ صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلی صدی کے آخر سے حدیث کے ذخیرے میں ایک حصّہ ایسی روایات کا بھی داخل ہونے لگا تھا جو موضوع تھیں، اور یہ کہ بعد کی نسلوں کو جو احادیث پہنچی ہیں ان میں صحیح اور غلط اور مشکوک سب قسم کی حدیثیں ملی جلی تھیں۔
کھرے اور کھوٹے کی اس آمیزش کے بعد صحیح طریق کار کیا تھا؟ کیا یہ صحیح ہوسکتا تھا کہ آمیزش کی بنا پر صحیح اور غلط سب کو ایک ساتھ رد کردیا جاتا، اور بعد کے مسلمان رسالت سے اپنا تعلق منقطع کرلیتے؟ منکرین حدیث اس کو ایک آسان بات سمجھتے ہیں۔ مگر جو لوگ قرآن پر ایمان رکھتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کی ذات کو اسوۂ حسنہ سمجھتے تھے، اور جن کے نزدیک حضوؐر کی پیروی کے بغیر ہدایت کا میسّر ہونا ممکن نہ تھا، ان کے لیے ایسا کرنا بہت دشوار تھا۔ اتنا دشوار جتنا کسی کے لیے برضا و رغبت آگ میں کود پڑنا ہوسکتا ہے۔ انھوں نے سب کو رد کردینے کی بہ نسبت پہاڑ کھود کر جواہر نکالنے کی مشقّت کو زیادہ آسان سمجھا۔ رسالت سے اپنا اور مسلمانوں کا تعلق برقرار رکھنے کے لیے شب و روز محنتیں کیں۔ حدیثوں کو جانچنے اور پرکھنے کے اصول بنائے۔ کھرے کوکھوٹے سے ممتاز کیا۔ ایک طرف اصولِ روایت کے اعتبار سے حدیثوں کی تنقیح کی، دوسری طرف ہزاروں لاکھوں راویوں کے احوال کی جانچ پڑتال کی۔ تیسری طرف درایت کے اعتبار سے حدیثوں پر نقد کیا۔ اور اس طرح سنتِ رسول کے متعلق ان لوگوں نے ایک ایسا ذخیرہ فراہم کردیا جس کے برابر مستند اور معتبر ذخیرہ آج دنیا میں گزشتہ زمانے کے کسی شخص اور کسی عہد کے متعلق موجود نہیں ہے۔ منکرینِ حدیث کو آزادی ہے کہ ان کی ساری محنتوں پر بیک جنبشِ قلم پانی پھیردیں۔ منکرین حدیث کو اختیار ہے کہ دین کے ان سچے خادموں کو وضّاعِ حدیث، پروردگانِ عجم، زلہ ربایانِ بنی اُمیّہ و بنی عبّاس( یہ سب القاب منکرین حدیث نے ائمۂ حدیث کے لیے استعمال فرمائے ہیں۔) اور جو کچھ چاہیں کہیں لیکن حق یہ ہے کہ مسلمانوں پر ان محدّثین کا اتنا بڑا احسان ہے کہ وہ قیامت تک اس بار سے سبکدوش نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبروں کو نور سے بھردے، یہ انہی عاشقانِ رسول کی محنتوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے پاس رسولؐ اکرم اور صحابہ کرامؓ کے عہد کی پوری تاریخ اپنے جزئیات کے ساتھ موجود ہے اور وہ وسائل بھی ہمارے پاس موجود ہیں جن سے ہم حدیث کے ذخیرے کی جانچ پڑتال کرکے آج بھی واقعات کی صحیح صحیح تحقیق کرسکتے ہیں۔ منکرینِ حدیث کہتے ہیں کہ بجز متواتر روایات کے (جو بہت کم ہیں) باقی جتنی احادیث ہیں یقینی نہیں ہیں، ان سے علمِ یقین حاصل نہیں ہوتا بلکہ زیادہ سے زیادہ ظنِ غالب حاصل ہوتا ہے، پھر ایسی چیزوںپر مذہب کا مدار رکھنا کیا معنی ؟ ہم کہتے ہیں کہ مشاہدۂ عینی اور تجربۂ حسّی کے سوا دنیا میں کوئی ذریعہ بھی ایسا نہیں ہے جو مفید یقین ہوسکتا ہو۔ تو اتر کوبھی محض اس قیاس کی بنا پر یقینی سمجھا جاتا ہے کہ بہت سے آدمیوں کا جھوٹ پر متفق ہوجانا مستبعد ہے۔ لیکن خبرِ متواتر کے لیے جو شرائط ہیں وہ بہت کم ایسی خبروں میں پائی جاتی ہیں جن پر تواتر کا گمان ہوتا ہے۔ اکثر و بیشتر امورِ غیب ہیں خواہ وہ زمانہ ماضی سے تعلق رکھتے ہوں یا حال سے، ہمارے علم اور ہمارے فیصلوں کا مدار اسی ظنِ غالب پر ہے جو کم از کم دو شہادتوں سے حاصل ہوتا ہے۔ خود قرآن نے اسی شہادت کو اتنا معتبر قرار دیا ہے کہ اس کی بنا پر ایک مسلمان کا خون مباح ہوسکتا ہے۔ حالانکہ قرآن کی رو سے مسلمان کا خون اتنا محترم ہے کہ جو کوئی مسلمان کو عمداً قتل کردے اسے خلودفی النار کی سزا دی جائے گی۔ اسی طرح زنا، قذف اور سرقہ کی حدود میں بھی ایسے اہم فیصلہ جات کا مدار صرف دو یا چار شہادتوں پر رکھا گیا ہے جن سے ایک مسلمان کا ہاتھ کاٹ دیا جاسکتا ہے، یا ایک مسلمان کی پیٹھ پر کوڑے برسائے جاسکتے ہیں ۔ پس جب قرآن مجید میں غیر متواتر شہادتوں ہی پر پورے نظامِ عدل کی بنیاد رکھی گئی ہے تو قرآن کے مقابلہ میں کس مسلمان کو یہ کہنے کی جرأت ہوسکتی ہے کہ کسی حدیث کو حدیثِ رسول مان لینے کے لیے ہر مرتبہ اسناد میں دو چار راویوں کا ہونا کافی نہیں ہے؟ البتہ راویوں میں سے ہم ہر راوی پر اعتماد نہ کریں گے، جس طرح شاہدوں میں سے ہر شاہد کا اعتبار نہیں کرتے۔ ہم حکمِ قرآن کے بموجب ذواعدل کی شرط لگاتے ہیں اور اسی کی تحقیق کے لیے اسماء الرجال کا فن ایجاد کیا گیا، تاکہ راویوں کے حالات کی تحقیق کی جائے۔ اسی طرح ہم راویوں پر جرح بھی کریں گے کہ حدیث کے جو ہری نکات میں ان کے درمیان ایسا اختلاف تو نہیں ہے جو ان کے بیان کی صحت کو مشکوک کردیتا ہو؟ اسی طرح ہم درایت سے بھی کام لیں گے جیسے ایک جج مقدمات میں درایت سے کام لیتا ہے۔( فنِ حدیث میں درایت کی حیثیت وہی ہے جو قانون میںجج کی رائے اور قوتِ فیصلہ کی ہے ۔ جس طرح جج ہر گواہ کے بیان کو یونہی قبول نہیں کرلیتا بلکہ اس کو مختلف پہلوئوں سے جانچ کر رائے قائم کرتا ہے اسی طرح ایک محدث بھی ہر روایت کو آنکھ بند کرکے قبول نہیں کرتا بلکہ جانچ پڑتال کرکے اس کے متعلق رائے قائم کرتا ہے۔
) مگر جس طرح شاہدوںکے بیانات کا جانچنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے، اسی طرح درایت بھی بچوں کا کھیل نہیں ہے، حدیث کو اصولِ درایت پر وہی شخص جانچ سکتا ہے جس نے قرآن کا علم حاصل کرکے اسلام کے اصولِ اولیہ کو خوب سمجھ لیا ہو، اور جس نے حدیث کے بیشتر ذخیرہ کا گہرا مطالعہ کرکے احادیث کو پرکھنے کی نظر بہم پہنچائی ہو۔ کثرتِ مطالعہ اور ممارست سے انسان میں ایسا ملکہ پیدا ہوجاتا ہے جس سے وہ رسول اللہ ﷺ کا مزاج شناس ہوجاتا ہے اور اسلام کی صحیح روح اس کے دل و دماغ میں بس جاتی ہے۔ پھر وہ ایک حدیث کو دیکھ کر اوّل نظر میں سمجھ لیتا ہے کہ آیا رسول اللہ ﷺ ایسا فرماسکتے تھے یا نہیں؟ یا آپ کا عمل ایسا ہوسکتا تھا یا نہیں؟ پھر جس طرح ایک معاملہ میں دو قاضیوں کا اجتہاد مختلف ہوتا ہے اور جس طرح قرآن مجید کے معانی میں دو فاضلوں کی تفسیریں مختلف ہوسکتی ہیں، اسی طرح دو محدثوں کی درایت میں بھی اختلاف ممکن ہے۔ خدا نے ہم کو انسانی طاقت سے زیادہ کسی چیز کا مکلّف قرار نہیں دیا ہے۔ اختلاف رائے انسانی فطرت کا مقتضی ہے، اور اس کی وجہ سے نہ قرآن چھوڑا جاسکتا ہے، نہ حدیث ، اور نہ عدالت کی کرسی۔ پس ایک حدیث کے متعلق جس حد تک تحقیق انسان کے بس میں ہے، اس کا سامان محدثین نے فراہم کردیا ہے۔ ہمارا کام اس سامان سے فائدہ اٹھا کر صحیح کو غلط سے ممتاز کرنا اور صحیح کا اتباع کرنا ہے۔ نہ یہ کہ صحیح و غلط کے اختلاط کو دیکھ کر سرے سے رسالت ہی سے قطع تعلق کرلینا۔
منکرینِ حدیث کہتے ہیں کہ ہم حدیث کو صرف تاریخ ہی کی حیثیت سے لیں گے حجتِ شرعی نہ بنائیں گے۔مگر کیا ان حضرات نے رسول کی تاریخ کو سکندر اور نپولین کی تاریخ سمجھا ہے کہ اس کے صحیح ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو؟ کیا وہ اتنا نہیں سمجھتے کہ یہ اس انسان کی تاریخ ہے جس کا اتباع فرض ہے، جس کی اطاعت پر نجات کا مدار ہے، جس کی سیرت مسلمانوں کے لیے اسوۂ حسنہ ہے؟ اس ذاتِ پا ک کی تاریخ دو حال سے خالی نہیں ہوسکتی، یا صحیح ہوگی یا غلط اگر غلط ہے تو اس کو لینا کیا معنی نذرِ آتش کردیجیے۔ رسول پر بہتان اور آپ اس کو تاریخ کی حیثیت سے قبول کریں؟ اور اگر وہ صحیح ہے تو اس کا اتباع فرض ہے۔ مسلمان ہوتے ہوئے اس کی پیروی سے آپ بچ کر کہاں جاسکتے ہیں؟

منکرین حدیث کا استدلال اور اس کا اِبطال

انکارِ حدیث کی بنیاد تین بڑے اعتراضات پر رکھی گئی ہے۔ ایک یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے احادیث کو لکھنے سے منع کردیا تھا۔ دوسرے یہ کہ حضوؐر کے زمانے میں اور آپؐ کے بعد خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی قرآن کو محفوظ کرنے کا تو اہتمام کیا گیا، مگر احادیث کے محفوظ کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔ تیسرے یہ کہ احادیث صحابہ اور تابعین کے ذہنوں میں چھپی پڑی رہیں۔ وہ کبھی کبھار اتفاقاً کسی کے سامنے ان کا ذکر کردیا کرتے تھے، اور ان روایات کو جمع کرنے کا کام حضوؐر کی وفات کے چند سو برس بعد کیا گیا۔ ان تین خلافِ واقعہ بنیادوں پر بعض حضرات سوالیہ انداز میں اس نتیجے کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں کہ احادیث کے ساتھ یہ برتائو اس لیے کیا گیا کہ دراصل وہ محض ایک وقتی حیثیت رکھتی تھیں، دنیا بھر کے لیے اور ہمیشہ کے لیے ان کو ماخذِ قانون بنانا سرے سے مطلوب ہی نہ تھا۔
سطور ذیل میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ ان تینوں باتوں میں، جن پر اس نتیجے کی بنا رکھی گئی ہے ، صداقت کا جوہر کس قدر ہے؟ اور خود وہ نتیجہ جو ان سے برآمد کیا گیا ہے، بجائے خود کہاں تک صحیح ہے؟

کتابتِ حدیث کی ابتدائی ممانعت اور اس کے وجوہ

رسول اللہ ﷺ کی دو حدیثوں میں، صرف احادیث لکھنے سے منع کیا گیا ہے، ان کو زبانی روایت کرنے سے منع نہیں کیا گیا ہے، بلکہ ان میں سے ایک حدیث میں تو بالفاظِ صریح حضوؐر نے فرمایا ہے حَدِّ ثُوْا عَنِّیْ وَلَاحَرَجٌ میری باتیں زبانی بیان کرو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
لیکن دراصل یہ بات سرے سے ہی غلط ہے کہ صرف ان دو حدیثوں کو لے کر ان سے نتائج اخذ کرڈالے جائیں، اور اس سلسلے کے تمام دوسرے متعلقہ واقعات کو نظر انداز کردیا جائے۔ پہلی بات جو اس باب میں جاننی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ نبی ﷺ جس زمانے میں مبعوث ہوئے ہیں اس وقت عرب کی پوری قوم اَن پڑھ تھی اور اپنے سارے معاملات حافظے اور زبان سے چلاتی تھی۔ قریش جیسے ترقی یافتہ قبیلے کا حال مؤرخ بلاذری کی روایت کے مطابق یہ تھا کہ اس میں صرف ۱۷ آدمی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ مدینہ کے انصار میں بلاذری ہی کے بقول ۱۱ سے زیادہ آدمیوں کو لکھنا پڑھنا نہ آتا تھا۔ کتابت کے لیے کاغذ ناپید تھا۔ جھلّیوں اور ہڈیوں اور کھجور کے پتوں پر تحریریں لکھی جاتی تھیں۔ ان حالات میں جب حضوؐر مبعوث ہوئے تو آپؐ کے سامنے اوّلین کام یہ تھا کہ قرآن مجید کو اس طرح محفوظ کریں کہ اس میں کسی دوسری چیز کی آمیزش نہ ہونے پائے۔ لکھنے والے چونکہ گنے چنے آدمی تھے، اس لیے آپ کو خطرہ تھا کہ جو لوگ وحی کے الفاظ اور آیات لکھ رہے ہیں، وہی لوگ اگر آپؐ ہی سے سن کر آپ کے حوالہ سے دوسری چیزیں بھی لکھیں گے تو قرآن آمیزش سے نہ بچ سکے گا۔ آمیزش نہ ہوگی تو کم از کم شک پڑجائے گا کہ ایک چیز آیتِ قرآنی ہے یا حدیثِ رسول۔ اس بنا پر ابتدائی دور میں حضوؐر نے احادیث لکھنے سے منع فرمادیا تھا۔

کتابت ِ حدیث کی عام اجازت

مگر یہ حالت زیادہ دیر تک باقی نہیں رہی۔ مدینہ طیّبہ پہنچنے کے تھوڑی مدت بعد آپ نے اپنے صحابہ اور ان کے بچوں کو لکھنے پڑھنے کی تعلیم دلوانے کا خود اہتمام فرمایا، اور جب ایک اچھی خاصی تعداد پڑھی لکھی ہوگئی تو احادیث لکھنے کی آپؐ نے اجازت دے دی۔ اس سلسلے میں مستند روایات یہ ہیں:
(۱) عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ سے جو کچھ سنتا تھا وہ لکھ لیتا تھا۔ لوگوں نے مجھے اس سے منع کیا اور کہا رسولؐ اللہ ایک انسان ہیں، کبھی رضا کی حالت میں بولتے ہیں اور کبھی غضب کی حالت میں، تم سب کچھ لکھ ڈالتے ہو؟ اس پر میں نے فیصلہ کیا کہ جب تک حضورؐ سے پوچھ نہ لوں آپؐ کی کوئی بات نہ لکھوں گا۔ پھر جب حضوؐر سے میں نے پوچھا تو آپ نے اپنے منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اُکْتُبْ فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا یَخْرُجُ مِنْہُ اِلَّا حَقٌّ۔ ’’لکھو،اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس منہ سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔‘‘
(ابودائود،مسند احمد،دارمی حاکم، بیہقی فی المدخل)
تخریج : حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَاَبُوْبَکْرِبْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ، قَالَا: ثَنَآ یَحْیٰ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ الْاَخْنَسِ، عَنِ الْوَلِیْدِ ابْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِیْ مُغِیْثٍ، عَنْ یُوْسُفَ بْنِ مَا ہِکٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍ و، قَالَ: کُنْتُ اَکْتُبُ کُلَّ شَیْیٍٔ اَسْمَعُہٗ مِنْ رَّسُولِ اللّٰہِ ﷺ اُرِیْدُ حِفْظَہٗ فَنَہَتْنِیْ قُرَیْشٌ وَقَالُوْا اَتَکْتُبُ کُلَّ شَیْیٍٔ تَسْمَعُہٗ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ بَشَرٌیَتَکَلَّمُ فِی الْغَضَبِ وَالرَّضَا فَاَمْسَکْتُ عَنِ الْکِتَابِ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِﷺ فَاَؤْ مَأَ بِاِصْبَعِہٖ اِلیٰ فِیْہِ فَقَالَ: اُکْتُبْ فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَایَخْرُجُ مِنْہٗ اِلَّا حَقٌّ۔(۱)
(۲) ابوہریرہؓ کہتے ہیں ، انصار میں سے ایک شخص نے عرض کیا۔ ’’میں آپؐ سے بہت سی باتیں سنتا ہوں مگر یاد نہیں رکھ سکتا۔‘‘ حضورؐ نے فرمایا اِسْتَعِنْ بِیَمِیْنِکَ وَاَوْمَأَبِیَدِہٖ اِلیٰ الْخَطِّ ’’اپنے ہاتھ سے مدد لو‘‘اور پھر ہاتھ کے اشارہ سے بتایا کہ ’’لکھ لیا کرو۔‘‘ (ترمذی)
تخریج: حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ، نَا اللَّیْثُ، عَنِ الْخَلِیْلِ بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ یَحْیٰ بْنِ اَبِیْ صَالِحٍ، عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ کَانَ رَجَلٌ مِّنَ الْاَنْصَارِ یَجْلِسُ اِلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فَیَسْمَعُ مِنَ النَّبِیِّ ﷺ الْحَدِیْثَ فَیُعْجِبُہٗ وَلَا یَحْفَظُہٗ فَشَکَا ذٰلِکَ اِلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ لَاَسْمَعُ مِنْکَ الْحَدِیْثَ فَیُعْجِبُنِیْ وَلَا اَحْفَظُہٗ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اِسْتَعِنْ بِیَمِیْنِکَ وَاَوْمَأَبِیَدِہِ الْخَطَّ۔ (۲)
(۳) ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک خطبہ دیا۔ بعد میں (یمن کے ایک صاحب) ابوشاہ نے عرض کیا کہ میرے لیے اسے لکھوادیجیے۔ حضوؐر نے فرمایا اکتبوا لابی شاہ ’’ابوشاہ کو لکھ کر دے دو۔‘‘ (بخاری ، احمد، ترمذی) اسی واقعہ کی تفصیل ہے جو حضرت ابوہریرہؓ کی ایک دوسری روایت میں یوں بیان ہوئی ہے کہ فتح مکہ کے بعد حضوؐر نے ایک خطبہ دیا جس میں حرمِ مکّہ کے احکام اور قتل کے معاملہ میں چند قوانین بیان فرمائے۔ اہل یمن میں سے ایک شخص (ابو شاہ) نے اٹھ کر عرض کیا کہ یہ احکام مجھے لکھوادیں۔ آپ نے فرمایا ’’اسے یہ احکام لکھ کر دے دیے جائیں۔‘‘ (بخاری ،ابودائود: کتا ب العلم)
تخریج: حَدَّثَنَا اَبُو نُعَیْمٍ اَلْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ، قَالَ: ثَنَا شَیْبَانٌ، عَنْ یحْیٰ، عَنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ، عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، اَنَّ خُزَاعَۃَ قَتَلُوْا رَجُلًا مِنْ بَنِیْ لَیْثٍ عَامَ فَتْحِ مَکَّۃَ بِقَتِیْلٍ مِّنْہُمْ قَتَلُوْہُ، فَاُخْبِرَبِذَالِکَ النَّبِیُّ ﷺ فَرَکِبَ رَاحِلَتَہٗ، فَخَطَبَ، فَقَالَ: اِنَّ اللّٰہَ حَبَسَ عَنْ مَکَّۃَ الْقَتْلَ اَوِالْفِیْلَ، قَالَ مُحَمَّدٌ وَاجْعَلُوْہُ عَلَی الشَّکِّ کَذَا، قَالَ اَبُوْ نُعَیْمٍ: الْقَتْلَ اَوِالْفِیْلَ وَغَیْرُہٗ یَقُوْلُ الْفِیْلَ وَسُلِّطَ عَلَیْہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَالْمُؤْمِنُوْنَ اَلَا وَاِنَّہَا لَمْ تَحِلَّ لِاَحَدٍ قَبْلِیْ وَلَا تَحِلُّ لِاَحَدٍ بَعْدِیْ اَلَا وَاِنَّہَا حَلَّتْ لِیْ سَاعَۃً مِنْ نَّہَارٍ اَلَا وَاِنَّہَا سَاعَتِیْ وَہٰذِہٖ حَرَامٌ لَا یُخْتَلیٰ شَوْکُہَا وَلَا یُعْضَدُ شَجَرُہَا وَلَاتُلْتَقَطُ سَاقِطُہَا اِلَّا لِمُنْشِدٍ فَمَنْ قُتِلَ فَہُوَ بِخَیْرِ النَّظْرَیْنِ اِمَّا اَنْ یُعْقَلَ وَاِمَّااَنْ یُّقَادَاَہْلُ الْقَتِیْلِ فَجَآئَ رَجُلٌ مِّنْ اَہْلِ الْیَمَنِ فَقَالَ اُکْتُبْ لِیْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ اُکْتُبُوْا لِاَبِیْ فُلَانٍ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ اِلَّا الْاِذْخِرُیَارَسُوْلَ اللّٰہِ فَاِنَّا نَجْعَلُہٗ فِیْ بُیُوْتِنَا وَقُبُوْرِنَا فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ اِلَّا الْاِذْخِرُ اِلَّا الْاِذْخِرُ۔(۳)
(۴) ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ صحابہ میں سے کوئی مجھ سے زیادہ حدیثیں نہ رکھتا تھا، مگر عبداللہ بن عمرو بن عاص اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اس لیے کہ وہ لکھ لیتے تھے اور میں نہ لکھتا تھا۔ (بخاری، مسلم ،ترمذی ، ابودائود، نسائی، مسند احمد)
تخریج: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ: ثَنَا سُفْیَانُ، قَالَ: ثَنَا عَمْرٌ و: قَالَ: اَخْبَرَنِیْ وَہْبُ بْنُ مُنَبِّہٍ، عَنْ اَخِیْہِ، قَالَ: سَمِعْتُ اَبَاہُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ، مَا مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ ﷺ اَحَدٌ اَکْثَرَ حَدِیْثاً عَنْہُ مِنِّیْ اِلَّا مَاکَانَ مِنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍ وفَاِنَّہٗ کَانَ یَکْتُبُ وَلَااَکْتُبُ۔ تَابَعَہٗ مَعْمَرٌ عَنْ ہَمَّامٍ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ۔(۴)
(۵) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مختلف لوگوں نے پوچھا، اور ایک مرتبہ برسرِ منبر بھی آپ سے پوچھا گیا کہ آیا آپ کے پاس کوئی ایسا علم بھی ہے جو خاص طور پر آپ ہی کو نبی ﷺ نے دیا ہو۔ انھوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ میرے پاس صرف کتاب اللہ ہے ، اور یہ چند احکام ہیں جو میں نے حضورؐ سے سن کر لکھ لیے تھے پھر وہ تحریر آپ نے نکال کر دکھائی۔ اس میں زکوٰۃ، اور قانونِ تعزیرات، اور حرم مدینہ، اور ایسے ہی بعض اور معاملات کے متعلق چند احکام تھے۔
(بخاری، مسلم، احمد اور نسائی نے اس مضمون کے متعدد روایات مختلف سندوں کے ساتھ نقل کی ہیں)
اس کے علاوہ نبی ﷺ نے اپنے حکّام کو مختلف علاقوں کی طرف بھیجتے وقت متعدد مواقع پر فوجداری اور دیوانی قوانین اور زکوٰۃ اور میراث کے احکام لکھوا کر دیے تھے جن کو ابودائود ، نسائی، دارقطنی ، دارمی ، طبقات ابن سعد، کتاب الاموال لا بی عبید، کتاب الخراج لابی یوسف اور المحلّٰی لابنِ حزم وغیرہ کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔

احادیث کو زبانی روایت کرنے کی تاکید

یہ تو ہے معاملہ کتابتِ حدیث کا۔ لیکن جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں، اہلِ عرب ہزاروں برس سے اپنے کام کتابت کے بجائے حفظ و روایت اور زبانی کلام سے چلانے کے عادی تھے، اور یہی عادت ان کو اسلام کے ابتدائی دور میں بھی برسوں تک رہی۔ ان حالات میں قرآن کو محفوظ کرنے کے لیے تو کتابت ضروری سمجھی گئی، کیونکہ اس کا لفظ لفظ آیات اور سورتوں کی ٹھیک اسی ترتیب کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی تھی، محفوظ کرنا مطلوب تھا۔ لیکن حدیث کے معاملہ میں اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کیونکہ اس میں مخصوص الفاظ اور ان کی خاص ترتیب کے وحی ہونے کا نہ دعویٰ تھا نہ تصور، بلکہ مقصود صرف ان احکام اور تعلیمات و ہدایات کو یادرکھنا اور پہنچانا تھا جو صحابہؓ کو حضور سے ملی تھیں۔اس باب میں زبانی نقل و روایت کی محض کھلی اجازت ہی نہ تھی بلکہ بکثرت احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی ﷺ نے لوگوں کو بار بار اور بکثرت اس کی تاکید فرمائی تھی۔ مثال کے طور پر چند احادیث ملاحظہ ہوں:
(۱) زید بن ثابت ، عبداللہ بن مسعود، جبیر بن مطعم اور ابو الدرداء رضی اللہ عنہم حضوؐر کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:
نَضَّرَ اللّٰہُ اِمْرأً سَمِعَ مِنَّا حَدِیْثًا فَحَفِظَہُ حَتّٰی یُبَلِّغَہٗ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ اِلیٰ مَنْ ہُوَ اَفْقَہُ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ لَیْسَ بِفَقِیْہٍ۔
’’اللہ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جو ہم سے کوئی بات سنے اور دوسروں تک پہنچائے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص سمجھ کی بات کسی ایسے شخص کو پہنچادیتا ہے جو اس سے زیادہ فقیہ ہو۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص خود فقیہ نہیں ہوتا مگر فقہ پہنچانے والا بن جاتا ہے۔‘‘ (ابودائود ، ترمذی، احمد، ابن ماجہ،دارمی)
تخریج: حَدَّثَنَامُسَدَّدٌ، ثنا یَحْیٰ، عَنْ شُعْبَۃَ، حَدَّثَنِیْ عَمْرُوبْنُ سُلَیْمَانَ مِنْ وَّلَدِعُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ اَبَانٍ، عَنْ اَبِیْہِ، عَنْ زَیْدِبْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ، یَقُوْلُ: نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِیْثًا فَحَفِظَہٗ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إلیٰ مَنْ ہُوَاَفْقَہُ مِنْہُ وَرُبَّ حَاصِلِ فِقْہٍ لَیْسَ بِفَقِیْہٍ۔ (۵)
حَدَثَّنَا مَحْمُوْدُبْنُ غَیْلانَ، نا اَبُوْدَاودَ، انبانَا شُعْبَۃُ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ یُحَدِّثُ عَنْ اَبِیْہِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَیْئًا فَبَلَّغَہٗ کَمَا سَمِعَہٗ فَرُبَّ مُبَلِّغٍ اَوْعیٰ مِنْ سَامِعٍ۔ہٰذا حدیث حسن صحیح۔ (ترمذی حوالہ مذکورہ بالا)
(۲) ابوبکرہؓکہتے ہیں کہ حضوؐ رنے فرمایا: لِیُبَلِّغَ الْغَائِبَ الشَّاہِدُ عَسیٰ اَنْ یُبَلِّغَ مَنْ ہُوَاَ وْعیٰ مِنْہُ ۔’’ جو حاضر ہے وہ ان لوگوں تک پہنچادے جو حاضر نہیں ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی تک پہنچادے جو اس سے زیادہ سمائی رکھتا ہو۔
(بخاری و مسلم)
تخریج: حَدَّثَنَامُسَدَّدٌ،قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ، قَالَ: حَدَّثََنَا بْنُ عَوْنٍ، عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ بَکْرَۃَ عَنْ اَبِیْہِ۔ قَالَ: ذَکَرَ النَّبِیُّ ﷺ قَعَدَ عَلیٰ بَعِیْرِہٖ وَاَمْسَکَ اِنْسَانٌ بِخطَا مِہٖ اَوْبِزِمَامہٖ، قَالَ: اَیُّ یَوْمٍ ہٰذَا؟ فَسَکَتْنَاحَتّٰی ضَنَنَّا اَنَّہٗ سَیُسَمِّیْہِ سِوَی اسْمِہٖ، قَالَ: اَلَیسَ یَوْمُ النَّحْرِ؟ قُلْنَا بَلیٰ، قَالَ: اَیُّ شَہْرٍہٰذَا؟ فَسَکَتْنَا حَتّٰی ظَنَنَّا اَنَّہٗ سَیُسَمِّیْہِ بِغَیْرِ اسْمِہٖ، قَالَ: اَلیْسَ بِذِی الْحِجَّۃِ؟ قُلْنَا بَلیٰ، قَالَ: فَاِنَّ دِمَائَ کُمْ وَاَمْوَالَکُمْ وَاَعْرَاضَکُمْ بَیْنَکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ہٰذَا فِیْ شَہْرِ کُمْ ہٰذَا فِیْ بَلَدِ کُمْ ہٰذا لِیُبَلِّغَ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ فَاِنَّ الشَّاہِدَ عَسٰی اَنْ یُّبَلِّغَ مَنْ ہُمْ اَوْعیٰ لَہٗ مِنْہُ۔ (۶)
(۳) ابو شریح کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دوسرے دن حضوؐر نے خطبہ دیا جسے میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے اور خوب یاد رکھا ہے اور وہ موقع اب تک میری آنکھوں میں سمایا ہوا ہے۔ خطبہ ختم کرکے حضوؐر نے فرمایا وَلِیُبَلِّغَ الشَّاہِدُا لْغَائِبَ ’’جو حاضر ہیں وہ ان لوگوں تک پہنچادیں جو حاضر نہیں ہیں۔‘‘ (بخاری)
تخریج: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ قَالَ حَدَّثَنِیْ سَعِیْدٌ ہُوَابْنُ اَبِیْ سَعِیْدٍ عَنْ اَبِیْ شُرَیْحٍ اَنَّہٗ قَالَ لِعَمْرِوبْنِ سَعِیْدٍ وَہُوَ یَبْعَثُ الْبَعُوْثَ اِلیٰ مَکَّۃَ إئْذَنْ لِیْ اَیُّہَا الْاَمِیْرُ اُحَدِّثْکَ قَوْلًا قَامَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ الْغَدَ مِنْ یَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْہُ اُذُنَایَ وَوَعَاہُ قَلْبِیْ وَاَبْصَرَتْہُ عَیْنَایَ حِیْنَ تَکَلَّمَ بِہٖ حَمِدَ اللّٰہَ وَاَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ اِنَّ مَکَّۃَ حَرَّمَہَا اللّٰہُ وَلَمْ یُحَرِّمْہَا النَّاسُ فَلَا یَحِلُّ لِاَمْرِیٍٔ یُؤْمِنْ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِاَنْ یَسْفِکَ بِہَادَمًا وَلَا یَعْضُدُ بِہَا شَجَرَۃًفَاِنْ اَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُوْلِ اللّٰہِ فِیْہَا فَقُوْلُوْا اِنَّ اللّٰہَ قَدْاَذِنَ لِرَسُوْلِہٖ وَلَمْ یَاْذَنْ لَکُمْ وَاِنَّمَا اَذِنَ لِیْ فِیْہَا سَاعَۃً مِنْ نَّہَارٍ ثُمَّ عَادَتْ حُرْمَتُہَا الْیَوْمَ کَحُرْمَتِہَا بِالْاَمْسِ وَلَیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ الْحَدِیْث۔ (۷)
(۴) حجۃ الوداع کے موقع پر بھی تقریر ختم کرکے آپؐ نے قریب قریب وہی بات فرمائی تھی جو اوپر والی دونوں حدیثوں میں منقول ہوئی ہے۔ (بخاری)
(۵) بنی عبدالقیس کا وفد جب بحرین سے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے چلتے وقت عرض کیا کہ ہم بہت دور دراز کے باشندے ہیں اور ہمارے اور آپؐ کے درمیان کفّار حائل ہیں۔ ہم صرف حرام مہینوں میں ہی حاضر خدمت ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا آپ ہمیں کچھ ایسی ہدایات دیں جو ہم واپس جاکر اپنی قوم کے لوگوں کو بتائیں اور جنت کے مستحق ہوں۔ حضوؐرنے جواب میں ان کو دین کے چند احکام بتائے اور فرمایا اِحْفَظُوْہُ وَاَخبِرُوْہُ مَنْ وَرَائَ کُمْ ’’ ان باتوں کو یاد کرلو اور وہاں کے لوگوں کو بتادو۔‘‘ (بخاری و مسلم)
تخریج: حَدَّثَنَاعَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ، قَالَ: اَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ اَبِیْ جَمْرَۃَ، قَالَ: کُنْتُ اَقْعُدُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَیُجْلِسُنِیْ عَلیٰ سَرِیْرِہٖ، فَقَالَ: اَقِمْ عِنْدِیْ حَتّٰی اَجْعَلَ لَکَ سَہْمًا مِنْ مَّالِیْ فَاَقَمْتُ مَعَہٗ شَہْرَیْنِ، ثُمَّ قَالَ: اِنَّ وَفْدَعَبْدِ الْقَیْسِ لَمَّا اَتَوُالنَّبِیَّ ﷺ، قَالَ: مَنِ الْقَوْمُ اَوْمَنِ الْوَفْدُ ؟ قَالُوْا : رَبِیْعَۃٌ، قَالَ: مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ اَوْبِالْوَفْدِ غَیْرَخَزَایَا وَلَا نَدَامیٰ، فَقَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّا لَا نَسْتَطِیْعُ اَنْ نَّاْتِیَکَ اِلَّا فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ بَیْنَنَا وَبَیْنَکَ ہٰذَا الْحَیُّ مِنْ کُفَّارِ مُضَرَفَمُرْنَا بِاَمْرٍ فَصْلٍ نُخْبِرْبِہٖ مَنْ وَّرَائَ نَا وَنَدْ خُلْ بِہِ الْجَنَّۃَ، وَسَأَلُوْہُ عَنِ الْاَشْرِ بَۃِ، فَاَمَرَہُمْ بِاَرْبَعٍ وَنَہَاہُمْ عَنْ اَرْبَعٍ، اَمَرَہُمْ بِالْاِیْمَانِ بِاللّٰہِ وَحْدَہٗ، قَالَ: اَتَدْرُوْنَ مَاالْاِیْمَانُ بِاللّٰہِ وَحْدَہٗ؟ قَالُوا: اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ، قَالَ: شَہَادَۃُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَاِقَامَ الصَّلوٰۃِ وَاِیْتَائَ الزَّکوٰۃِ وَصِیَامَ رَمَضَانَ وَاَنْ تُعْطُوا مِنَ الْمَغْنَمِ الْخُمُسَ وَنَہَا ہُمْ عَنْ اَرْبَعٍ عَنِ الْحَنْتُمِ وَالدُّبَّآئِ وَالنَّقِیْرِ وَالْمُزَفَّتِ وَرُبَمَا قَالَ الْمَقِیْرِ، وَقَالَ احْفَظُوْ ہُنَّ وَاخْبِرُوْا بِہِنَّ مَنْ وَرَآئَ کُمْ۔ (۸)
کیا یہ ہدایات اور بار بار کی تاکیدیں یہی ظاہر کرتی ہیں کہ حضوؐر روایت حدیث کی حوصلہ افزائی نہ کرنا چاہتے تھے؟ یا یہ کہ آپ اپنے احکام کو وقتی احکام سمجھتے تھے اور یہ نہ چاہتے تھے کہ لوگوں میں وہ پھیلیں اور عام حالات پر ان کا انطباق کیا جانے لگے؟

جھوٹی حدیث روایت کرنے پر سخت وعید

اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی حدیث کی نشر و اشاعت کے لیے تاکید فرماتے تھے، بلکہ اس کے ساتھ آپؐ نے ان کی حفاظت اور ان میں جھوٹ کی آمیزش سے احتراز کی بھی سخت تاکید فرمائی ہے۔ اس سلسلے میں چند احادیث ملاحظہ ہوں:
عبداللہ بن عمروبن عاصؓ ، ابوہریرہؓ ، حضرت زبیرؓ اور حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ۔ ’’جو شخص میرا نام لے کر قصداً جھوٹی بات میری طرف منسوب کرے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔‘‘ (بخاری و ترمذی)
(۱) ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ حضوؐر نے فرمایا حَدِّثُوْا عَنِّیْ، وَلَاحَرَجَ وَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ۔’’میری باتیں روایت کرو، اس میں کوئی حرج نہیں، مگر جو میری طرف جان بوجھ کر جھوٹی بات منسوب کرے گا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنائے گا۔‘‘ (مسلم)
تخریج: حَدَّثَنَاہُدَّا بُ بْنُ خَالِدِنِ الْاَنْدِیُّ، نَاہَمَّامٌ عَنْ زَیْدِبْنِ اَسْلَمَ، عَنْ عَطَآئِ بْنِ یَسَارٍ، عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِالخُدْرِیِّ، اَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ: لَا تَکْتُبُوْا عَنِّیْ وَمَنْ کَتَبَ عَنِّیْ غَیْرَ الْقُرْاٰنِ فَلْیُمْحِہٖ وَحَدِّثُوا عَنِّیْ وَلَا حَرَجَ۔ وَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ، قَالَ ہَمَّامٌ: اَحْسِبُہٗ، قَالَ: مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ، مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ۔ (۹)
(۲) ابن عباسؓ، ابن مسعودؓ اورجابرؓ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حضوؐر نے فرمایا : اِتَّقُوا الْحَدِیْثَ عَنِّیْ اِلَّا مَاعَلِمْتُمْ فَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ۔’’میری طرف سے کوئی بات بیان نہ کرو جب تک تمہیں یہ علم نہ ہو کہ میں نے وہ کہی ہے، کیونکہ جو میری طرف جھوٹی بات منسوب کرے گا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنائے گا۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ)
تخریج: (الف)حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ وَکِیْعٍ، نَاسُوَیْدُبْنُ عَمْرٍوالْکَلِبِیُّ، نَا اَبُوعَوَانَۃَ، عَنْ عَبْدِ الْاَعْلیٰ، عَنْ سَعِیْدِبْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ: اِتَّقُوا الْحَدِیْثَ عَنِّیْ اِلَّا مَا عَلِمْتُمْ فَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ وَمَنْ قَالَ فِی الْقُرآنِ بِرَأْیِہٖ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ۔ (۱۰) (ہذا حدیث حسن)
(ب) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : اِتَّقُوا الْحَدِیْثَ عَنِّیْ اِلَّا مَا عَلِمْتُمْ فَاِنَّہٗ مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ وَمَنْ کَذَبَ فِی الْقُراٰنِ بِغَیْرِ عِلْمٍ فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ۔ (۱۱)
(۳) حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ حضور ؐ نے ارشاد فرمایا: لَا تَکْذِبُوا عَلَیَّ فَاِنَّہٗ مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ فَلْیَلِجِ النَّارَ۔ ’’میرا نام لے کر جھوٹ نہ بولو، کیونکہ جو شخص میرا نام لے کر جھوٹ بولے گا وہ آگ میں داخل ہوگا۔‘‘ (بخاری)
تخریج: (الف) حَدَّثَنَا عَلِیُّ ابْنُ الْجَعْدِ، قَالَ:اَنَا شُعْبَۃُ، قَالَ: اَخْبَرَنِیْ مَنْصُورٌ: قَالَ: سَمِعْتُ رِبْعِیَّ بْنَ خِرَاشٍ یَقُوْلُ سَمِعْتُ عَلِیًّا، یَقُوْلُ: قَالَ النَّبِیَّ ﷺ: لَا تَکْذِبُوْا عَلَیَّ فَاِنَّہٗ مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ فَلْیَلِجِ النَّارَ۔ (۱۲)
ابن ماجہ میں حضرت علیؓ سے مروی روایت کے الفاظ:
عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: لَاتَکْذِبُوا عَلَیَّ فَاِنَّ الْکِذْبَ عَلَیَّ یُوْلِجُ النَّارَ۔ (۱۳)
ترمذی نے حضرت علی بن ابی طالب کی روایت یہ بیان کی ہے:
(ب) عَنْ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: لَا تَکْذِ بُوْا عَلَیَّ فَاِنَّہٗ مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ یَلِجِ النَّارَ۔ (۱۴)
اور لکھتے ہیں کہ اسے بیس صحابہ کرام نے روایت کیا ہے۔ ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، زبیرؓ، سعید بن زیدؓ، عبداللہ بن عمروؓ، انسؓ، جابرؓ ، ابن عباسؓ ، ابوسعیدؓ، عمروبن عبستہؓ، عقبۃ بن عامرؓ، معاویہؓ، بریدہؓ، ابوموسیٰ ؓ، ابو امامۃؓ، عبداللہ بن عمرؓ، منقعؓ، اوس ثقفیؓ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم۔
حدیث علی بن ابی طالب، حدیث حسن صحیح قال عبدالرحمن بن مہدی منصوربن معتمر اثبت اہل الکوفۃ، وقال وکیع الم یکذب ربعی بن خراش فی الاسلام کذبۃ۔
(۴) حضرت سلمہؓ کہتے ہیں: سَمِعْتُ النَّبِیَّ ﷺ، یََقُولُ: مَنْ یَّقُلْ عَلَیَّ مَا لَمْ اَقُلْ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ۔ میں نے حضوؐر کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص میرا نام لے کر وہ بات کہے جو میں نے نہیں کہی ہے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔‘‘ (بخاری)
تخریج: (الف) حَدَّثَنَا الْمَکِیُّ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا یَزِیْدُبْنُ اَبِیْ عُبَیْدٍ، عَنْ سَلَمَۃَ ہُوَابْنُ الْاَکْوَعِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ، یَقُوْلُ: مَنْ یَّقُلْ عَلَیَّ مَالَمْ اَقُلْ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ۔(۱۵)
حضرت ابوہریرہؓسے ابن ماجہ نے اسے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
(ب) عَنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ مَنْ تَقَوَّلَ عَلَیَّ مَا لَمْ اَقُلْ فَلْیَتَبَوَّأَ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ۔ (۱۶)
کیا یہ بار بار کی سخت وعید یہی ظاہر کرتی ہے کہ حضوؐر کے ارشادات کی دین میں کوئی اہمیت نہ تھی؟ اگر آپ کی سنت کی کوئی قانونی حیثیت دین میں نہ ہوتی اور اس سے احکامِ دین کے متاثر ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو کیا ضرورت پڑی تھی کہ جہنم کی وعید سناسنا کر لوگوں کو جھوٹی روایت کرنے سے روکا جاتا؟ بادشاہوں اور رئیسوں کی طرف تاریخوں میں بہت سی غلط باتیں منسوب ہوجاتی ہیں۔ ان سے آخر دین پر کیا اثر پڑتا ہے۔ اگر حضوؐر کی سنت کی یہی حیثیت ہے تو آپ کی تاریخ کو مسخ کردینے کی یہ سزا کیوں ہوکہ آدمی کو واصل جہنم کردیا جائے؟

سنت رسولؐ کے حجت ہونے کی صریح دلیل

اس سلسلے میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جب ایک مسئلے میں اللہ اور اس کے رسول کی صاف صاف تصریحات موجود ہوں تو اس کے بارے میں غیر متعلق چیزوں سے نتائج نکالنے کی ضرورت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں اپنے رسول کو تشریح کتاب اللہ کے اختیارات بھی دیے ہیں اور تشریعی اختیارات بھی۔ سورۂ نحل کی آیت ۴۴ ، سورۂ اعراف کی آیت ۱۵۷، سورۂ حشر کی آیت ۷، اس معاملے میں بالکل واضح ہیں۔ پھر نبی ﷺ نے بھی صاف صاف اپنے ان اختیارات کو بیان کیا ہے:
(۱) ابورافع کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لَا اُلْفِیَنَّ اَحَدَ کُمْ مُتَّکِئًا عَلیٰ اَرِیْکَتِہٖ یَاْتِیْہِ الْاَمْرُ مِنْ اَمْرِیْ مِمَّا اَمَرْتُ بِہٖ اَوْ نَہَیْتُ فَیَقُولُ لَا اَدْرِیْ، مَا وَجَدْ نَا فِی کِتَابِ اللّٰہِ اتَّبَعْنَاہُ۔ ’’ میں ہرگز نہ پائوں تم میں سے کسی شخص کو کہ وہ اپنی مسند پر تکیہ لگائے بیٹھا ہو اور اس کو میرے احکام میں سے کوئی حکم پہنچے ، خواہ میں نے کسی چیز سے منع کیا ہو یا کسی کام کے کرنے کا حکم دیا ہو۔ اور وہ سن کر کہے کہ میں نہیں جانتا، جو کچھ ہم کتاب اللہ میں پائیں گے اس کی پیروی کریں گے۔‘‘
(احمد، شافعی، ترمذی، ابودائود، ابن ماجہ، بیہقی فی دلائل النبوۃ)
تخریج: (الف) حَدَّثَنَا اَحْمَدُبْنُ مُحَمَّدِبْنِ حَنْبَلٍ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفُضَیْلِیُّ وَابْنُ کَثِیْرٍ قَالُوَا: ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ اَبِی النَّضْرِ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِیْ رَافِعٍ ، عَنْ اَبیْہِ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ: لَا اُلْفِیَنَّ اَحَدَکُمْ مُتَّکِئًا عَلیٰ اَرِیْکَتِہٖ یَاْ تِیْہُ الْاَمْرُ مِنْ اَمْرِیْ مِمَّا اَمَرْتُ بِہٖ اَوْ نَہَیْتُ عَنہُ فَیَقُوْلُ لَا نَدْرِیْ مَا وَجَدْنَا فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ اتَّبَعْنَاہُ۔ (۱۷)
(ب) حَدَّثَنَاعَبْدُ اللّٰہِ حَدَّ ثَنِیْ اَبِیْ ، ثَنَا عَلِیُّ بْنُ اِسْحَاقَ انا عَبْدُ اللّٰہِ انا ابْنُ لَہِیَعَۃُ، حَدَّثَنِیْ اَبُوالنَّضْرِاَنَّ عُبَیْدَ اللّٰہِ بْنَ اَبِیْ رَافِعٍ حَدَّثَہٗ عَنْ اَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ: لَاَعْرِفَنَّ مَا یَبْلُغُ اَحَدَکُمْ مِنْ حَدِیْثِیْ شَیْیٌٔ وَہُوَ مُتَّکِیٌٔ عَلیٰ اَرِیْکَتِہٖ فَیَقُوْلُ مَا اَجِدُ ہٰذَا فِی کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالیٰ۔ (۱۸)
(۲) مقدام بن معدیکرب کی روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: اَلَا اِنِّیْ اُوتِیْتُ الْقُراٰنَ وَمِثْلَہٗ مَعَہٗ ، اَلَا یُوْشِکُ رَجُلٌ شَبْعَانَ عَلیٰ اَرِیْکَتِہٖ یَقُولُ عَلَیْکُمْ بِہٰذَا الْقُرْاٰنِ فَمَا وَجَدْ تُّمْ فِیْہِ مِنْ حَلَالٍ فَاَحِلُّوہُ وَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوْہُ، وَاِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ کَمَا حَرَّمَ اللّٰہُ، اَلَا یَحِلُّ لَکُمْ الْحِمَارُ الْاَہْلِیُّ، وَلَا کُلُّ ذِیْ نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ ۔۔۔۔ ’’خبردار رہو ، مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ویسی ہی ایک اور چیز بھی۔ خبردار ایسا نہ ہو کہ کوئی پیٹ بھرا شخص اپنی مسند پر بیٹھا ہوا یہ کہنے لگے کہ بس تم قرآن کی پیروی کرو، جو کچھ اس میں حلال پائو اسے حلال سمجھو اور جو کچھ اس میں حرام پائو اسے حرام سمجھو۔ حالانکہ دراصل جو کچھ اللہ کا رسول حرام قرار دے وہ ویسا ہی حرام ہے جیسے اللہ کا حرام کیا ہوا۔ خبردار رہو تمہارے لیے پالتو گدھا حلال نہیں ہے اور نہ کوئی کچلیوں والا درندہ حلال ہے۔‘‘  (ابودائود، ابن ماجہ، دارمی، حاکم)

( یہ آخری جملے واضح کررہے ہیں کہ کچھ لوگوں نے گدھے اور کتے اور دوسرے درندوں کو اس دلیل سے حلال ٹھیرانے کی کوشش کی ہوگی کہ قرآن مجید میں ان کی حرمت کا کوئی حکم نہیں آیاہے۔ اس پر حضورؐ نے یہ تقریر فرمائی ہوگی۔)

تخریج: حَدَّثَنَاعَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ نَجْدَۃَ، ثنا اَبُوعَمْرِوبْنُ کَثِیْرِبْنِ دِیْنَارٍ، عَنْ حُرَیْزبْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، ابْنِ اَبِیْ عَوْفٍ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِیْکَرِبَ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ اَنَّہٗ قَالَ۔ اَلَا اِنِّیْ اُوْتِیْتُ الْکِتَابَ وَمِثَلَہٗ مَعَہٗ اَلَا یُوْشِکُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلیٰ اَرِیْکَتِہٖ یَقُوْلُ: عَلَیْکُمْ بِہٰذَا القُرْاٰنِ فَمَا وَجَدْ تُّمْ فِیْہِ مِنْ حَلَالٍ فَاَحِلُّوْہُ وَمَا وَجَدتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوْہُ اَلَا لَا یَحِلُّ لَکُمُ الحِمَارُ الأَہْلِیُّ وَلَا کُلُّ ذِیْ نَابٍ مِنَ السَّبُعِ وَلَا لُقْطَۃُ مُعَاہِدٍ اِلَّا اَنْ یَسْتَغْنِیْ عَنْہَا صَاحِبُہَا وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَیْہِمْ اَنْ یَقَرُوْہُ فَإِنْ لَّمْ یَقْرُوْہُ فَلَہٗ اَنْ یُعْقِبَہُمْ بِمِثْلِ قِرَاہٗ۔ (۱۹)
(۳) عرباض بن ساریہ کی روایت ہے کہ نبی ﷺ خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور اس میں فرمایا اَیَحْسَبُ اَحَدُکُمْ مُتَّکِـئًا عَلیٰ اَرِیْکَتِہٖ یَظُنُّ اَنَّ اللّٰہَ لَمْ یُحَرِّمْ شَیْئًا اِلَّا مَا فِی الْقُرْاٰنِ۔ اَلَا وَاِنِّیْ وَاللّٰہِ قَدْ اَمَرْتُ وَوَعَظْتُ وَنَہَیْتُ عَنْ اَشْیَائَ اِنَّہَا لِمَثْل الْقُرْاٰنِ اَوْ اَکْثَرَ وَاِنَّ اللّٰہَ لَمْ یُحِلَّ لَکُمْ اَنْ تَدْخُلُوا بُیُوتَ اَہْلِ الْکِتابِ اِلّا بِاِذْنٍ وَلَا ضَرْبَ نِسَائِ ہِمْ وَلَا اَکْلَ ثِمَارِہِمْ اِذَا اَعْطَوکُمُ الَّذِیْ عَلَیْہِمْ۔’’کیا تم میں سے کوئی شخص اپنی مسند پر تکیہ لگائے یہ سمجھے بیٹھا ہے کہ اللہ نے کوئی چیز حرام نہیں کی سوائے ان چیزوں کے جو قرآن میں بیان کردی گئی ہیں؟ خبردار رہو، خدا کی قسم میں نے جن باتوں کا حکم دیا ہے اور جو نصیحتیں کی ہیں اور جن کاموں سے منع کیا ہے وہ بھی قرآن ہی کی طرح ہیں بلکہ کچھ زیادہ۔ اللہ نے تمہارے لیے ہرگز یہ حلال نہیں کیا ہے کہ اہل کتاب کے گھروں میں اجازت کے بغیر گھس جائو، یا ان کی عورتوں کو مارو پیٹو، یا ان کے پھل کھا جائو جب کہ وہ اپنے واجبات ادا کرچکے ہیں۔‘‘  (ابودائود)

(حدیث کا یہ آخری ٹکڑا صاف بتارہا ہے کہ کچھ منافقین نے ذمیوں پر دست درازیاں کی ہوں گی اور قرآن کا سہارا لے کر کہا ہوگا کہ بتائو قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ اہل کتاب کے گھروں میں داخل ہونے کے لیے بھی اجازت کی ضرورت ہے۔ اور قرآن میں کہاں ان کی عورتوں پر ہاتھ ڈالنے اور ان کے باغوں کے پھل کھالینے سے منع کیا گیا ہے۔ اس پر حضوؐر نے یہ تقریر فرمائی ہوگی۔)

تخریج: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِیْسٰی، ثنا اَشْعَثُ بْنُ شُعْبَۃَ، ثنا اَرْطَاۃُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ: سَمِعْتُ حَکِیْمَ بْنَ عُمَیْرٍ اَبَاالْاَحْوَصِ یُحَدِّثُ عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ السُّلَمِیِّ قَالَ: نَزَلْنَا مَعَ النَّبِیِّﷺ خَیْبَرَ وَمَعَہٗ مِنْ اَصْحَابِہٖ وَکَانَ صَاحِبُ خَیْبَرَ رَجُلًا مَارِدًا مُنْکِرًا فَاَقْبَلَ اِلَی النَّبِیِّ ﷺ فَقَالَ یَامُحَمَّدُ أَلَکُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا حُُمُرَنَا وَتَاْکُلُوْا ثَمَرَنَا وَتَضْرِبُوْا نِسَآئَ نَا؟ فَغَضَبَ یَعْنِی النَّبِیُّ ﷺ وَقَالَ یَا ابْنَ عَوْفٍ اِرْکَبْ فَرْسَکَ ثُمَّ نَادِ اَلَا اِنَّ الْجَنَّۃَ لَا تَحِلُّ اِلَّا لِمُؤْمِنٍ وَاَنِ اجْتَمِعُوْا لِلصَّلوٰۃِ قَالَ فَاجْتَمَعُوْا ثُمَّ صَلَّی بِہِمُ النَّبِیُّ ﷺ ثُمَّ قَامَ فَقَالَ: اَیَحْسَبُ اَحَدُ کُمْ مُتَّکِئًا عَلیٰ اَرِیْکَتِہٖ قَدْ یَظُنُّ اَنَّ اللّٰہَ لَمْ یُحَرِّمْ شَیْئًااِلَّا مَافِی ہٰذَا الْقُرْاٰنِ، اَلَا وَاِنِّیْ وَاللّٰہِ قَدْ وَعَظْتُ وَاَمَرْتُ وَنَہَیْتُ عَنْ اَشْیَائَ اِنَّہَا لَمِثْلُ الْقُرْاٰنِ اَوْاَکْثَرَ وَاِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ لَمْ یَحِلَّ لَکُمْ اَنْ تَدْ خُلُوا بُیُوْتَ اَہْلِ الْکِتَابِ اِلَّا بِاِذْنٍ وَلَا ضَرْبَ نِسَآئِ ہِمْ وَلَا اَکْلَ ثِمَارِ ہِمْ اِذَا اَعْطَوْکُمُ الَّذِیْ عَلَیْہِمْ۔ (۲۰)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضوؐر نے فرمایا فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ۔ ’’ جو شخص میری سنت سے منہ پھیرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ (بخاری و مسلم)
تخریج: حَدَّثَنَا سَعِیْدُبْنُ اَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ اَخْبَرَنَا مُحَمَّدُبْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: اَخْبَرَنِیْ حُمَیْدُبْنُ اَبِیْ حُمَیْدِ نِ الطَّوِیْلُ اَنَّہٗ سَمِعَ اَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَقُوْلُ جَآئَ ثَلَاثَۃُ رَہْطٍ اِلیٰ بُیُوْتِ اَزْوَاجِ النَّبِیِّ ﷺ یَسْئَلُوْنَ عَنْ عِبَادَۃِ النَّبِیِّ ﷺ فَلَمَّا اُخْبِرُوْا کَاَنَّہُمْ تَقَالُّوْہَا فَقَالُوْا وَاَیْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِیِّﷺ قَدْ غُفِرَلَہٗ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَا تَأَخَّرَقَالَ اَحَدُہُمْ اَمَّا اَنَا فَاِنِّیْ اُصَلِّی اللَّیْلَ اَبَدًا وَقَالَ اٰخَرُاَنَا اَصُوْمُ الدَّہْرَ وَلَا اُفْطِرُ وَقَالَ اٰخَرُوَاَنَا اَعْتَزِلُ النِّسَائَ فَلَا اَتَزَوَّجُ اَبَدًا فَجَآئَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اِلَیْہِمْ فَقَالَ اَنْتُمُ الَّذِیْنَ قُلْتُمْ کَذَاوَکَذَا اَمَا وَاللّٰہِ اِنّی لَاَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَاَتْقَاکُمْ لَہٗ لٰکِنِّیْ اَصُوْمُ وَاُفْطِرُوَاُصَلِّیْ واَرْقُدُوَاَتَزوَّجُ النِّسَآئَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ۔ (۲۱)
اللہ اور رسول کے ان صاف صاف ارشادات کے بعد آخر اس استدلال میں کیا وزن رہ جاتا ہے کہ حدیثیں چونکہ لکھوائی نہیں گئیں اس لیے وہ عام انطباق کے لیے نہ تھیں۔

کیا قابل اعتماد صرف لکھی ہوئی چیز ہی ہوتی ہے؟

منکرین حدیث کے استدلال کا بڑا انحصار اس خیال پر ہے کہ قرآن اس لیے قابل اعتماد و استناد ہے کہ وہ لکھوالیا گیا، اور احادیث اس لیے قابل اعتماد و استناد نہیں ہیں کہ وہ عہد رسالت اور عہد خلافت میں نہیں لکھوائی گئیں۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن کو جس وجہ سے لکھوایا گیا وہ یہ تھی کہ اس کے الفاظ اور معانی دونوںمن جانب اللہ تھے۔ اس کے الفاظ کی ترتیب ہی نہیں، اس کی آیتوں کی ترتیب اور سورتوں کی ترتیب بھی خدا کی طرف سے تھی۔ اس کے الفاظ کو دوسرے الفاظ کے ساتھ بدلنا بھی جائز نہ تھا اور وہ اس لیے نازل ہوا تھا کہ لوگ انہی الفاظ میں اسی ترتیب کے ساتھ اس کی تلاوت کریں۔ اس کے مقابلہ میں سنت کی نوعیت بالکل مختلف تھی۔ وہ محض لفظی نہ تھی بلکہ عملی بھی تھی اور جو لفظی تھی اس کے الفاظ قرآن کے الفاظ کی طرح بذریعہ وحی نازل نہیں ہوئے تھے بلکہ حضوؐر نے اس کو اپنی زبان میں ادا کیا تھا۔ پھر اس کا ایک بڑا حصّہ ایسا تھا جسے حضوؐر کے ہمعصروں نے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا، مثلاً یہ کہ حضوؐر کے اخلاق ایسے تھے، حضوؐر کی زندگی ایسی تھی، اور فلاں موقع پر حضوؐر نے یوں عمل کیا۔ حضوؐر کے اقوال اور تقریریں نقل کرنے کے بارے میں بھی یہ پابندی نہ تھی کہ سننے والے انھیں لفظ بلفظ نقل کریں، بلکہ اہل زبان سامعین کے لیے یہ جائز تھا اور وہ اس پر قادر بھی تھے کہ آپ سے ایک بات سن کر معنی و مفہوم بدلے بغیر اسے اپنے الفاظ میں بیان کردیں۔ حضوؐر کے الفاظ کی تلاوت مقصود نہ تھی بلکہ اس تعلیم کی پیروی مقصود تھی جو آپؐ نے دی ہو۔ احادیث میں قرآن کی آیتوں اور سورتوں کی طرح یہ ترتیب محفوظ کرنا بھی ضروری نہ تھا کہ فلاں حدیث پہلے ہو اور فلاں اس کے بعد۔ اس بنا پر احادیث کے معاملے میں یہ بالکل کافی تھا کہ لوگ انھیں یاد رکھیں اور دیانت کے ساتھ انھیں لوگوں تک پہنچائیں۔ ان کے معاملے میں کتابت کی وہ اہمیت نہ تھی جو قرآن کے معاملے میں تھی۔
دوسری بات جسے خوب سمجھ لینا چاہیے، یہ ہے کہ کسی چیز کے سند اور حجت ہونے کے لیے اس کا لکھا ہوا ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔ اعتماد کی اصل بنیاد اس شخص یا ان اشخاص کا بھروسے کے قابل ہونا ہے جس کے یا جن کے ذریعہ سے کوئی بات دوسروں تک پہنچے، خواہ وہ مکتوب ہو یا غیر مکتوب۔ خود قرآن کو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے لکھوا کر نہیں بھیجا بلکہ نبیؐ کی زبان سے اس کو بندوں تک پہنچایا۔اللہ تعالیٰ نے پورا انحصار اس بات پر کیا کہ جو لوگ نبی کو سچا مانیں گے وہ نبی کے اعتماد پر قرآن کو بھی ہمارا کلام مان لیں گے۔ نبی ﷺ نے بھی قرآن کی جتنی تبلیغ و اشاعت کی، زبانی ہی کی۔ آپؐ کے جو صحابہ مختلف علاقوں میں جاکر تبلیغ کرتے تھے وہ قرآن کی سورتیں لکھی ہوئی نہ لے جاتے تھے۔لکھی ہوئی آیات اور سورتیں تو اس تھیلے میں پڑی رہتی تھیں جس کے اندر آپ انھیں کا تبانِ وحی سے لکھواکر ڈال دیا کرتے تھے۔ باقی ساری تبلیغ و اشاعت زبان سے ہوتی تھی اور ایمان لانے والے اس ایک صحابی کے اعتماد پر یہ بات تسلیم کرتے تھے کہ جو کچھ وہ سنا رہا ہے وہ خدا کا کلام ہے، یا رسول اللہ ﷺ کا جو حکم پہنچا رہا ہے وہ حضوؐر ہی کا حکم ہے۔

احادیث قرآن کی طرح کیوں نہ لکھوائی گئیں؟

منکرین حدیث یہ سوال عموماً بڑے زور سے اٹھاتے ہیں اور اپنے خیال میں اسے بڑا لاجواب سوال سمجھتے ہیں۔ ان کا تصوّر یہ ہے کہ قرآن چونکہ لکھوایا گیا اس لیے وہ محفوظ ہے ، اور حدیث چونکہ حضوؐر نے خود لکھوا کر مرتب نہیں کردی اس لیے وہ غیر محفوظ ہے۔ لیکن میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اگر حضوؐر نے قرآن مجید کو محض لکھوا کر چھوڑ دیا ہوتا اور ہزاروں آدمیوں نے اسے یاد کرکے بعد کی نسلوں کو زبانی نہ پہنچایا ہوتا تو کیا محض وہ لکھی ہوئی دستاویز بعد کے لوگوں کے لیے اس بات کا قطعی ثبوت ہوسکتی تھی کہ یہ وہی قرآن ہے جو حضوؐر نے لکھوایا تھا؟ وہ توخود محتاج ثبوت ہوتی، کیونکہ جب تک کچھ لوگ اس بات کی شہادت دینے والے نہ ہوتے کہ یہ کتاب ہمارے سامنے نبی ﷺ نے لکھوائی تھی، اس وقت تک اس لکھی ہوئی کتاب کا معتبر ہونا مشتبہ رہتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تحریر پر کسی چیز کے معتبر ہونے کا دارومدار نہیں ہے بلکہ وہ اسی وقت معتبر ہوتی ہے جب کہ زندہ انسان اس کے شاہد ہوں۔ اب اگر فرض کیجیے کہ کسی معاملے کے متعلق تحریر موجود نہیں ہے مگر زندہ انسان اس کے شاہد موجود ہیں، تو کسی قانون داں سے پوچھ لیجیے، کیا ان زندہ انسانوں کی شہادت ساقط الاعتبار ہوگی جب تک کہ تائید میں ایک دستاویز نہ پیش کی جائے؟ شاید آپ کو قانون کا علم رکھنے والا ایک شخص بھی ایسا نہ ملے گا جو اس سوال کا جواب اثبات میں دے۔ آج نبی ﷺ کا لکھوایا ہوا قرآن مجید دنیا میں کہیں موجود نہیں ہے، مگر اس سے قرآن کے مستند اور معتبر ہونے پر ذرہ برابر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ متواتر اور مسلسل زبانی روایات سے اس کا معتبر ہونا ثابت ہے۔ خود یہ بات کہ حضوؐر نے قرآن لکھوایا تھا، روایات ہی کی بنا پر تسلیم کی جارہی ہے، ورنہ اصل دستاویز اس دعوے کے ثبوت میں پیش نہیں کی جاسکتی، اور وہ کہیں مل بھی جائے تو یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ یہ وہی صحیفے ہیں جو حضوؐر نے لکھوائے تھے۔ لہٰذا تحریر پر جتنا زور یہ حضرات دیتے ہیں وہ بالکل غلط ہے۔ نبیﷺ نے اپنی سنتوں پر قائم کیا ہوا ایک پورا معاشرہ چھوڑا تھا جس کی زندگی کے ہر پہلو پر آپؐ کی تعلیم و ہدایت کا ٹھپا لگاہوا تھا۔ اس معاشرے میں آپ کی باتیں سنے ہوئے، آپ کا کام دیکھے ہوئے اورآپؐ کے زیر ہدایت تربیت پائے ہوئے ہزاروں لوگ موجود تھے۔ اس معاشرے نے بعد کی نسلوں تک وہ سارے نقوش منتقل کیے اور ان سے وہ نسلاً بعد نسلٍ ہم کو پہنچے۔ دنیا کے کسی مسلّم اصولِ شہادت کی رو سے بھی یہ شہادت رد نہیں کی جاسکتی۔ پھریہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ یہ نقوش کاغذ پر ثبت نہیں کیے گئے۔ انھیں ثبت کرنے کا سلسلہ حضوؐر کے زمانے میں شروع ہوچکا تھا۔ پہلی صدی ہجری میں اس کا خاص اہتمام کیا گیا اور دوسری صدی کے محدّثین میں زندہ شہادتوں اور تحریری شہادتوں دونوں کی مدد سے اس پورے نقشے کو ضبط تحریر میں لے آئے۔

کیا احادیث ڈھائی سو برس تک گوشۂ خمول میںپڑی رہیں؟

ان حضرات کا یہ خیال ’’کہ احادیث نہ یاد کی گئیں نہ محفوظ کی گئیں بلکہ وہ ان لوگوں کے ذہنوں میں چھپی پڑی رہیں جو اتفاقاً کبھی دوسروں کے سامنے ان کا ذکر کرکے مرگئے۔ یہاں تک کہ ان کی وفات کے کئی سو برس بعد ان کو جمع اور مرتّب کیا گیا‘‘، یہ نہ صرف واقعہ کے خلاف ہے بلکہ درحقیقت یہ نبی ﷺ کی شخصیت کا اور آپؐ کے ساتھ ابتدائی دور کے مسلمانوں کی عقیدت کا بہت ہی حقیراندازہ ہے۔ واقعات سے قطع نظر ایک شخص محض اپنی عقل ہی پر زور ڈال کر صحیح صورت حال کا تصوّر کرے تو وہ کبھی یہ باور نہیں کرسکتا کہ جس عظیم الشان شخصیت نے عرب کے لوگوں کو اخلاق و تہذیب اور عقائد و اعمال کی انتہائی پستیوں سے نکال کر بلند ترین مقام پر پہنچا دیا تھا اس کی باتوں اور اس کے کاموں کو وہی لوگ اس قدر ناقابل التفات سمجھتے تھے کہ انھوں نے اس کی کوئی بات یادرکھنے کی کوشش نہ کی، نہ دوسروں کے سامنے اتفاقاً ذکر آجانے سے بڑھ کر کبھی اس کا چرچا کیا، نہ بعد کی آنے والی نسلوں نے اس کو کوئی اہمیت دی کہ اس کے دیکھنے والوں سے کبھی اس کے حالات پوچھتے۔ ایک معمولی لیڈر تک سے جس کسی کو شرف صحبت نصیب ہوجاتاہے تو وہ اس سے اپنی ملاقاتوں کی ایک ایک بات یاد رکھتا ہے اور دوسروں کے سامنے اس کا ذکر کرتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد نئی آنے والی نسلوں کے لوگ جاجاکر اس کے ملنے والوں سے اس کے حالات دریافت کرتے ہیں۔ آخر (ان حضرات) نے رسول اللہ ﷺ کو کیا سمجھ لیا ہے کہ حضوؐر کو آپ کے ہم عصر اور آپ سے متصل زمانے کے لوگ اتنے التفات کا بھی مستحق نہ سمجھتے تھے۔
اب ذرا اصل صورت واقعہ ملاحظہ فرمائیے۔ رسول اللہ ﷺ صحابۂ کرام کے لیے ایک ایسے پیشوا تھے جن سے وہ ہر وقت عقائد ، عبادات ، اخلاق اور تہذیب و شائستگی کا سبق حاصل کرتے تھے۔ آپ کی زندگی کے ایک ایک رخ اور ایک ایک پہلو کو دیکھ کر وہ پاکیزہ انسانوں کی طرح رہنا سیکھتے تھے۔ ان کو معلوم تھا کہ آپؐ کی بعثت سے پہلے ہم کیا تھے اور آپ نے ہمیں کیا کچھ بنا دیا ہے۔ ان کے لیے ہر پیش آنے والے مسئلے میں مفتی بھی آپؐ ہی تھے اور قاضی بھی آپؐ۔ آپؐ ہی کی قیادت میں وہ لڑتے بھی تھے اور صلح بھی کرتے تھے۔ ان کو تجربہ تھا کہ اس قیادت کی پیروی میں ہم کہاں سے چلے تھے اور بالآخر کہاں پہنچ کررہے۔ اس بنا پر وہ آپؐ کی ایک ایک بات کو یاد رکھتے تھے۔جو قریب رہتے تھے وہ بالالتزام آپؐ کی صحبتوں میں بیٹھتے تھے، جنھیں کسی وقت آپ کی مجلس سے غیر حاضر رہنا ہوتا تو وہ دوسروں سے پوچھ کر معلوم کرتے تھے کہ آج آپؐ نے کیا کیا اور کیا کہا۔ دور دور سے آنے والے لوگ اپنے ان اوقات کو جو آپؐکے ساتھ بسر ہوجاتے تھے اپنا حاصل زندگی سمجھتے تھے اور عمر بھر ان کی یاد دل سے نہ نکلتی تھی۔ جنھیں حاضر ہونے کا موقع نصیب نہ ہوتا تھا وہ ہر اس شخص کے گرد اکٹھے ہوجاتے تھے جو آپؐ سے مل کر آتا تھا اور کرید کرید کر ایک ایک بات اس سے پوچھتے تھے۔ جنھوں نے آپؐ کو دورسے کبھی دیکھا تھا یا کسی بڑے مجمع میں صرف آپ ؐکی تقریر سن لی تھی وہ جیتے جی اس موقع کو نہ بھولتے تھے اور فخریہ اپنے اس شرف کو بیان کرتے تھے کہ ہماری آنکھوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے اور ہمارے کان آپ ؐکی تقریر سن چکے ہیں۔ پھر حضوؐر کے بعد جو نسلیں پیدا ہوئیں ان کے لیے تو دنیا میں سب سے اہم اگر کوئی چیز تھی تو وہ اس رسول عظیم سیرت تھی جس کی قیادت کے معجزے نے عرب کے شتر بانوں کو اٹھا کر سندھ سے اسپین تک کافرماں روا بنادیا تھا۔ وہ ایک ایک ایسے شخص کے پاس پہنچتے تھے جس نے آپ ؐکی صحبت پائی تھی، یا آپ ؐکو کبھی دیکھا تھا، یا آپ ؐکی کوئی تقریر سنی تھی۔ اور جوں جوں صحابہ دنیا سے اٹھتے چلے گئے، یہ اشتیاق بڑھتا گیا، حتیّٰ کہ تابعین کے گروہ نے وہ سارا علم نچوڑ لیا جو سیرت پاک کے متعلق صحابہ سے ان کو مل سکتا تھا۔

صحابہؓ کی روایت حدیث

عقل گواہی دیتی ہے کہ ایساضرور ہوا ہوگا اور تاریخ گواہی دیتی ہے کہ فی الواقع ایسا ہی ہوا ہے۔ آج حدیث کا جو علم دنیا میں موجود ہے وہ تقریباً دس ہزار صحابہ سے حاصل کیا گیا ہے۔ تابعین نے صرف ان کی احادیث ہی نہیں لی ہیں بلکہ ان سب صحابیوں کے حالات بھی بیان کردیے ہیں۔ اور یہ بھی بتادیا ہے کہ کس نے حضوؐرکی کتنی صحبت پائی ہے؟ یا کب اور کہاں آپ کو دیکھا ہے؟ اور کن کن مواقع پر آپ کی خدمت میں حاضری دی ہے؟ (یہ حضرات) تو فرماتے ہیں کہ احادیث ابتدائی دور کے مسلمانوں کے ذہن میں دفن پڑی رہیں اور دوڈھائی صدی بعد امام بخاریؒ اور ان کے ہم عصروں نے انھیں کھود کر نکالا۔ لیکن تاریخ ہمارے سامنے جو نقشہ پیش کرتی ہے وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ صحابہؓ میں سے جن حضرات نے سب سے زیادہ روایات بیان کی ہیں، ان کی اور ان کے مرویات کی فہرست ملاحظہ ہو:

اسماء
سن وفات
احادیث کی تعداد

ابوہریرہؓ( ان کے شاگردوں کی تعداد ۸۰۰ کے لگ بھگ تھی اور ان کے بکثرت شاگردوں نے ان کی احادیث کو قلم بند کیا تھا۔)۱؎
۵۷ھ؁
۵۳۷۴

ابوسعید خدریؓ
۴۶ھ؁
۱۱۷۰

جابر بن عبداللہؓ
۷۴ھ؁
۱۵۴۰

انس بن مالکؓ
۹۳ھ؁
۱۲۸۶

اُمّ المومنین عائشہ صدیقہؓ
۵۹ھ؁
۲۲۱۰

عبداللہ بن عباسؓ
۶۸ھ؁
۱۶۶۰

عبداللہ بن عمرؓ
۷۰ھ؁
۱۶۳۰

عبداللہ بن عمروبن عاصؓ
۶۳ھ؁
۷۰۰

عبداللہ بن مسعودؓ
۳۲ھ؁
۸۴۸

کیا یہ اسی بات کا ثبوت ہے کہ صحابۂ کرام نبی ﷺ کے حالات کو اپنے سینوں میں دفن کرکے یونہی اپنے ساتھ دنیاسے لے گئے؟

دورِ صحابہؓ سے امام بخاری کے دور تک علم حدیث کی مسلسل تاریخ

اس کے بعد ان تابعین کو دیکھیے جنھوں نے صحابۂ کرامؓ سے سیرتِ پاک کا علم حاصل کیااور بعد کی نسلوں تک اس کو منتقل کیا۔ ان کی تعداد کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ صرف طبقات ابن سعد میں چند مرکزی شہروں کے جن تابعین کے حالات ملتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:
مدینہ مکہ کوفہ بصرہ
۴۸۴ ۱۳۱ ۴۱۳ ۱۶۴
ان میں سے جن اکابر تابعین نے حدیث کے علم کو حاصل کرنے ، محفوظ کرنے اور آگے پہنچانے کا سب سے بڑھ کر کام کیا ہے وہ یہ ہیں:
اسماء پیدائش وفات
سعید بن المسیَّب ۱۴ھ؁ ۶۳ھ؁
حسن بصری ۲۱ھ؁ ۱۱۰ھ؁
ابن سیرین ۳۳ھ؁ ۱۱۰ھ؁
عروہ بن زبیر( انھوں نے سیرت رسولؐ پر پہلی کتاب لکھی۔)۱ ۲۲ھ؁ ۹۴ھ؁
علی بن حسین (زین العابدین) ۳۸ھ؁ ۹۴ھ؁
مجاہد ۲۱ھ ؁ ۱۰۴ھ؁
قاسم بن محمد بن ابی بکر ۳۷ھ؁ ۱۰۶ھ؁
شریح (حضرت عمرؓ کے زمانہ میں قاضی مقرر ہوئے) ۷۸ھ؁
مسروق (حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں مدینہ آئے) ۶۳ھ؁
اسود بن یزید ۷۵ھ؁
مکحول ۱۱۲ھ؁
رجاء بن حیوہ ۱۰۳ھ؁
ہمام بن منب( انھوں نے احادیث کا ایک مجموعہ مرتب کیا جو صحیفہ ہمّام بن منبہ کے نام سے آج بھی موجود ہے اور شائع ہوچکا ہے۔)۲ ۴۰ھ؁ ۱۳۱ھ؁
سالم بن عبداللہ بن عمر ۱۰۶ھ؁
نافع مولیٰ عبداللہ بن عمر ۱۱۷ھ؁
سعید بن جبیر ۴۵ھ؁ ۹۵ھ؁
اسماء پیدائش وفات

سلیمان الاعمش ۶۱ھ؁ ۱۴۸ھ؁
ایوب السختیانی ۶۶ھ؁ ۱۳۱ھ؁
محمد بن المنکَدِر ۵۴ھ؁ ۱۳۰ھ؁
ابن شہاب زُہری ۱( انھوں نے حدیث کا بہت بڑا تحریری ذخیرہ چھوڑا۔) ۵۸ھ؁ ۱۲۴ھ؁
سلیمان بن یسار ۳۴ھ؁ ۱۰۷ھ؁
عِکرمہ مولیٰ ابن عباس ۲۲ھ؁ ۱۰۵ھ؁
عطاء بن ابی رباح ۲۷ھ؁ ۱۱۵ھ؁
قتادہ بن دعامہ ۶۱ھ؁ ۱۱۷ھ؁
عامر الشعبی ۱۷ھ؁ ۱۰۴ھ؁
علقمہ (یہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں جوان تھے مگر حضوؐر سے ملے نہیں) ۶۲ھ؁
ابراہیم النخعی ۴۶ھ؁ ۹۶ھ؁
یزید بن ابی حبیب ۵۳ھ؁ ۱۲۸ھ؁

ان حضرات کی تواریخ پیدائش و وفات پر ایک نگاہ ڈالنے سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ ان لوگوں نے صحابہ کے عہد کا بہت بڑا حصہ دیکھا ہے۔ ان میں سے بیشتر وہ تھے جنھوں نے صحابہ کے گھروں میں اور صحابیات کی گودوں میں پرورش پائی ہے، اور بعض وہ تھے جن کی عمر کسی نہ کسی صحابی کی خدمت میں بسر ہوئی ہے۔ ان کے حالات پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے ایک ایک شخص نے بہ کثرت صحابہ سے مل کر نبی ﷺ کے حالات معلوم کیے ہیں اور آپ کے ارشادات اور فیصلوں کے متعلق وسیع واقفیت بہم پہنچائی ہے۔ اسی وجہ سے روایت حدیث کا بہت بڑا ذخیرہ انہی لوگوں سے بعد کی نسلوں کو پہنچا ہے۔ تاوقتیکہ کوئی شخص یہ فرض نہ کرلے کہ پہلی صدی ہجری کے تمام مسلمان منافق تھے، اس بات کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا کہ ان لوگوں نے گھر بیٹھے حدیثیں گھڑلی ہوں گی اور پھر بھی پوری امت نے انھیں سر آنکھوں پر بٹھایا ہوگا اور ان کو اپنے اکابر علماء میں شمار کیا ہوگا۔
اس کے بعد اصاغر تابعین اور تبع تابعین کا وہ گروہ ہمارے سامنے آتا ہے جو ہزار ہا کی تعداد میں تمام دنیائے اسلام میں پھیلا ہوا تھا۔ ان لوگوں نے بہت بڑے پیمانے پر تابعین سے احادیث لیں اور دور دراز کے سفر کرکے ایک ایک علاقے کے صحابہ اور ان کے شاگردوں کا علم جمع کیا۔ ان کی چند نمایاں شخصیتیں یہ ہیں:
اسماء پیدائش وفات
جعفر بن محمد بن علی (جعفر الصادق) ۸۰ھ؁ ۱۴۸ھ؁
ابوحنیفۃ النعمان (امام اعظم) ۸۰ھ؁ ۱۵۰ھ؁
شعبہ بن الحجاج ۸۳ھ؁ ۱۶۰ھ؁
لیث بن سعد ۹۳ھ؁ ۱۶۵ھ؁
ربیعۃ الرائے (استاذ امام مالک) ۱۳۶ھ؁
سعید بن عروبہ ۱۵۶ھ؁
مسعربن کدام ۱۵۲ھ؁
عبدالرحمن بن قاسم بن محمد بن ابی بکر ۱۲۶ھ؁
سفیان الثوری ۹۷ھ؁ ۱۶۱ھ؁
حمّاد بن زید ۹۸ھ؁ ۱۷۹ھ؁

دوسری صدی ہجری کے جامعین حدیث

یہی دور تھا جس میں حدیث کے مجموعے لکھنے اور مرتب کرنے کا کام باقاعدگی کے ساتھ شروع ہوا۔ اس زمانے میں جن لوگوں نے احادیث کے مجموعے مرتب کیے وہ حسب ذیل ہیں:
اسماء پیدائش وفات کارنامے
ربیع بن صبیح ۱۶۰ھ؁ انھوں نے ایک ایک فقہی عنوان پر الگ رسائل مرتب کیے۔
سعید بن عروبہ ۱۵۶ھ؁ ’’ ’’ ’’ ’’
موسیٰ بن عقبہ ۱۴۱ھ؁ انھوں نے نبی ﷺ کے غزوات کی تاریخ مرتب کی۔
امام مالک ۹۳ھ؁ ۱۷۶ھ؁ انھوں نے احکام شرعی کے متعلق احادیث و آثار کو جمع کیا۔
ابن جُرَیج ۸۰ھ؁ ۱۵۰ھ؁ ’’ ’’ ’’ ’’
امام اوزاعی ۸۸ھ؁ ۱۵ھ؁ ’’ ’’ ’’ ’’
سفیان ثوری ۹۷ھ؁ ۱۶۱ھ؁ ’’ ’’ ’’ ’’
حمّاد بن سلمہ بن دینار ۱۷۶ھ؁ ’’ ’’ ’’ ’’
امام ابویوسف ۱۱۳ھ؁ ۱۸۲ھ؁ ’’ ’’ ’’ ’’
امام محمد ۱۳۱ھ؁ ۱۸۹ھ؁ ’’ ’’ ’’ ’’
محمد بن اسحاق ۱۵۱ھ؁ انھوں نے نبی ﷺ کی سیرت پاک مرتب کی۔
اسماء پیدائش وفات کارنامے
ابن سعد ۱۶۸ھ؁ ۲۲۰ھ؁ انھوں نے نبی ﷺ اور صحابہ و تابعین کے حالات جمع کیے۔
عبید اللہ بن موسیٰ العبسی ۲۱۳ھ؁ انھوں نے ایک ایک صحابی کی روایات الگ الگ جمع کیں۔
مسدد بن مسرہد البصری ۲۱۸ھ؁ ’’ ’’ ’’ ’’
اسد بن موسیٰ ۲۱۲ھ؁ ’’ ’’ ’’ ’’
نعیم بن حمّاد الخزاعی ۲۲۸ھ؁ ’’ ’’ ’’ ’’
امام احمد بن حنبل ۱۶۴ھ؁ ۲۴۱ھ؁ ’’ ’’ ’’ ’’
اسحٰق بن راہویہ ۱۶۱ھ؁ ۲۳۸ھ؁ ’’ ’’ ’’ ’’
عثمان بن ابی شیبہ ۱۵۶ھ؁ ۲۳۹ھ؁ ’’ ’’ ’’ ’’
ابوبکربن ابی شیبہ ۱۵۹ھ؁ ۲۳۵ھ؁ انھوں نے فقہی ابواب اور صحابہ کی جدا گانہ مرویات
دونوں کے لحاظ سے احادیث جمع کیں۔
ان میں سے امام مالک، امام ابویوسف، امام محمد ، محمد بن اسحاق، ابن سعد، امام احمد بن حنبل اور ابو بکر ابن شیبہ کی کتابیں آج تک موجود ہیں اور شائع ہوچکی ہیں۔ نیز موسیٰ بن عقبہ کی کتاب المغازی کا بھی ایک حصہ شائع ہوچکا ہے اور جن حضرات کی کتابیں آج نہیں ملتیں وہ بھی درحقیقت ضائع نہیں ہوئی ہیں، بلکہ ان کا پورا مواد بخاری و مسلم اور ان کے ہم عصروں نے اور ان کے بعد آنے والوں نے اپنی کتابوں میں شامل کرلیا۔ اس لیے لوگ ان سے بے نیاز ہوتے چلے گئے۔
امام بخاریؒ کے دور تک علم حدیث کی اس مسلسل تاریخ کو دیکھنے کے بعد کوئی شخص ان ارشادات کو آخر کیا وزن دے سکتا ہے کہ ’’احادیث نہ یا دکی گئیں نہ محفوظ کی گئیں بلکہ وہ ان لوگوں کے ذہنوں میں چھپی پڑی رہیں جو اتفاقاً کبھی دوسروں کے سامنے ان کا ذکر کرکے مرگئے یہاں تک کہ ان کی وفات کے چند سو برس بعد ان کو جمع اور مرتب کیا گیا۔‘‘ اور یہ کہ ’’بعد میں پہلی مرتبہ رسول اللہ ﷺکے تقریباً ایک سو برس بعد احادیث کو جمع کیا گیا مگر ان کا ریکارڈ اب محفوظ نہیں ہے۔‘‘

احادیث میں اختلاف کی حقیقت

یہ حضرات کہتے ہیں کہ ’’بہت کم احادیث ہیں جن میں یہ جامعین حدیث متفق ہوں۔‘‘ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جو سرسری طور پر چند مختلف احادیث پر ایک نگاہ ڈال کر تو کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر تفصیل کے ساتھ کتب حدیث کا متقابل مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے درمیان اتفاق بہت زیادہ اور اختلاف بہت کم ہے۔ پھرجن میں اختلاف ہے ان کا جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر اختلافات حسب ذیل چار نوعیتوں میں سے کسی نوعیت کے پائے جاتے ہیں:
ایک یہ کہ مختلف راویوں نے ایک ہی بات یا واقعہ کو مختلف الفاظ میں بیان کیا ہے اور ان کے درمیان معانی میں کوئی اہم اختلاف نہیں ہے، یا مختلف راویوں نے ایک ہی واقعہ یا تقریر کے مختلف اجزاء نقل کیے ہیں۔
دوسرے یہ کہ خود حضورؐ نے ایک مضمون کو مختلف الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔
تیسرے یہ کہ حضورؐ نے مختلف مواقع پر مختلف طریقوں سے عمل فرمایا ہے۔
چوتھے یہ کہ ایک حدیث پہلے کی ہے اور دوسری حدیث بعد کی اور اس نے پہلی کو منسوخ کردیا ہے۔
ان چار اقسام کو چھوڑ کر جن احادیث کا باہمی اختلاف رفع کرنے میں واقعی مشکل پیش آتی ہے ان کی تعداد پورے ذخیرۂ حدیث میں ایک فی صدی سے بھی کم ہے۔ کیا چند روایات میں اس خرابی کا پایا جانا یہ فیصلہ کردینے کے لیے کافی ہے کہ پورا ذخیرۂ حدیث مشکوک اور ناقابل اعتماد ہے؟ روایات کسی ایک ناقابل تقسیم کل کا نام نہیں ہے جس کے کسی جز کے ساقط ہوجانے سے کل کا ساقط ہوجانا لازم آئے۔ ہر روایت اپنی ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے اور اپنی جداگانہ سند کے ساتھ آتی ہے۔ اس بنا پر ایک دو نہیں، دوچار سو روایتوں کے ساقط ہوجانے سے بھی بقیہ روایات کا سقوط لازم نہیں آسکتا۔ علمی تنقید پر جو جوروایات پوری اتریں انھیں ماننا ہی ہوگا۔
محدثین کے درمیان اختلاف کی ایک اور صورت یہ ہے کہ کسی روایت کی سند کو ایک محدث اپنی تنقید کے اعتبار سے درست سمجھتا ہے اور دوسرا محدث اسے کمزور قرار دیتا ہے۔ یہ رائے اور تحقیق کا اختلاف ہے جس سے پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ کیا عدالتوں میں کسی شہادت کو قبول کرنے اور نہ قبول کرنے پر اختلاف کبھی نہیں ہوتا؟

کیا حافظہ سے نقل کی ہوئی روایات ناقابل اعتماد ہیں؟

(یہ حضرات)کہتے ہیں کہ ’’آج کے عربوں کا حافظہ جیسا کچھ قوی ہے ، پہلی صدی ہجری کے عربوں کا حافظہ بھی اتنا ہی قوی ہوگا۔ تاہم اسے خواہ کتنا ہی قوی مان لیا جائے ، کیا صرف حافظہ سے نقل کی ہوئی باتیں قابل اعتماد سمجھی جاسکتی ہیں؟‘‘ پھر ان کا ارشاد ہے کہ ’’ایک ذہن سے دوسرے ذہن تک پہنچتے پہنچتے بات کچھ سے کچھ ہوجاتی ہے اور ہر ذہن کے اپنے خیالات اور تعصبات اس کو موڑتے توڑتے چلے جاتے ہیں۔‘‘ یہ دو مزید وجہیں ہیں جن کی بنا پر وہ احادیث کو اعتماد و استناد کے قابل نہیں سمجھتے۔
جہاںتک پہلی بات کا تعلق ہے وہ تجربے اور مشاہدے کے خلاف ہے۔ تجربے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آدمی اپنی جس قوت سے زیادہ کام لیتا ہے وہ ترقی کرتی ہے اور جس سے کام کم لیتا ہے وہ کمزور ہوجاتی ہے۔ یہ بات جس طرح تمام انسانی قوتوں کے معاملے میں صحیح ہے، حافظہ کے بارے میں بھی صحیح ہے۔ اہل عرب نبی ﷺ سے پہلے ہزاروں برس سے اپناکام تحریر کے بجائے یاد اور حافظے سے چلانے کے خوگر تھے۔ ان کے تاجر لاکھوں روپے کا لین دین کرتے تھے اور کوئی لکھا پڑھی نہ ہوتی تھی۔ پائی پائی کا حساب ، اور بیسیوں گاہکوں کا تفصیلی حساب وہ نوکِ زبان پر رکھتے تھے۔ ان کی قبائلی زندگی میں نسب اور خونی رشتوں کی بڑی اہمیت تھی۔ یہ سب کچھ بھی حافظے میں محفوظ رہتا اور زبانی روایت سے ایک نسل کے بعد دوسری نسل تک پہنچتا تھا۔ ان کا سارا لٹریچر بھی کاغذ پر نہیں بلکہ لوح قلب پر لکھا ہوا تھا۔ ان کی یہی عادت تحریر کا رواج ہوجانے کے بعد بھی تقریباً ایک صدی تک جاری رہی۔ اس لیے کہ قومی عادتیں بدلتے بدلتے ہی بدلی ہیں۔ وہ کاغذ کی تحریر پر اعتماد کرنے کے بجائے اپنے حافظے پر اعتماد کرنا زیادہ پسند کرتے تھے۔ انھیں اس پر فخر تھا، اور ان کی نگاہ سے وہ شخص گرجاتاتھا جس سے کوئی بات پوچھی جائے اور وہ زبانی بتانے کے بجائے گھر سے کتاب لاکر اس کا جواب دے۔ ایک مدت دراز تک وہ لکھنے کے باوجود یا د کرتے تھے اور تحریر پڑھ کر سنانے کے بجائے نوک زبان سے سنانا نہ صرف باعث عزت سمجھتے تھے بلکہ ان کے نزدیک آدمی کے علم پر اعتماد بھی اسی طریقے سے قائم ہوتا تھا۔
کوئی وجہ نہیں کہ حافظے کی یہ کیفیت آج کے عربوں میں باقی رہے۔ صدیوں سے کتابت پر اعتماد کرتے رہنے اور حافظے سے کام کم لینے کے باعث اب کسی طرح بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ ان کی یادداشت قدیم عربوں کی سی رہ جائے۔ لیکن عربوں اورغیر عربوں، سب میں آج بھی اس امر کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ ان پڑھ لوگ اور اندھے آدمی پڑھے لکھے اور بینا انسانوں کی بہ نسبت زیادہ یاد داشت رکھتے ہیں۔ ناخواندہ تاجروں میں بہ کثرت لوگ ایسے دیکھے جاتے ہیں جنھیں بہت سے گاہکوں کے ساتھ اپنا ہزارہا روپے کا لین دین پوری تفصیل کے ساتھ یاد رہتا ہے۔ بے شمار اندھے ایسے موجود ہیں جن کی قوتِ حافظہ آدمی کو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ یہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ تحریر پر اعتماد کرلینے کے بعد ایک قوم کے حافظے کی وہ حالت باقی نہیں رہ سکتی جو ناخواندگی کے دور میں اس کی تھی۔

احادیث کے محفوظ رہنے کی اصل علّت

یہ اس معاملے کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ صحابہ کے لیے خاص طور پر نبی ﷺ کی احادیث کو ٹھیک ٹھیک یاد رکھنے اور انھیں صحیح صحیح بیان کرنے کے کچھ مزید محرکات بھی تھے جنھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اولاً، وہ سچّے دل سے آپ کو خدا کا نبی اور دنیا کا سب سے بڑا انسان سمجھتے تھے۔ ان کے دلوں پر آپؐ کی شخصیت کا بڑا گہرا اثر تھا۔ ان کے لیے آپ کی بات اور آپ کے واقعات و حالات کی حیثیت عام انسانی وقائع جیسی نہ تھی کہ وہ ان کو اپنے معمولی حافظے کے حوالے کردیتے۔ ان کے لیے تو ایک ایک لمحہ جو انھوں نے آپؐ کی معیت میں گزارا، ان کی زندگی کا سب سے زیادہ قیمتی لمحہ تھا اور اس کی یاد کو وہ اپنا سب سے بڑا سرمایہ سمجھتے تھے۔
ثانیاً وہ آپ کی ایک ایک تقریر، ایک ایک گفتگو اور آپ کی زندگی کے ایک ایک عمل سے وہ علم حاصل کررہے تھے جو انھیں اس سے پہلے کبھی حاصل نہ ہوا تھا۔ وہ خود جانتے تھے کہ ہم اس سے پہلے سخت جاہل اور گمراہ تھے، اور یہ پاکیزہ ترین انسان اب ہم کو صحیح علم دے رہا ہے اور مہذب انسان کی طرح جینا سکھا رہا ہے۔ اس لیے وہ پوری توجہ کے ساتھ ہر بات سنتے اور ہر فعل کو دیکھتے تھے، کیونکہ انھیں اپنی زندگی میں عملاً اسی کا نقش پیوست کرنا تھا، اسی کی نقل اتارنی تھی، اور اسی کی رہنمائی میں کام کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس شعور و احساس کے ساتھ آدمی جو کچھ دیکھتا اور سنتا ہے اسے یاد رکھنے میں وہ اتنا سہل انگار نہیں ہوسکتا جتنا وہ کسی میلے یا کسی بازار میں سنی اور دیکھی ہوئی باتیں یاد رکھنے میں ہوسکتا ہے۔
ثالثاً ، وہ قرآن کی رو سے بھی یہ جانتے تھے اور نبی ﷺ کے بار بار متنبہ کرنے سے بھی ان کو شدت کے ساتھ اس بات کا احساس تھا کہ خدا کے نبی پر افتراکرنا بہت بڑا گناہ ہے جس کی سزا ابدی جہنم ہوگی۔ اس بنا پر وہ حضوؐر کی طرف منسوب کرکے کوئی بات کرنے میں سخت محتاط تھے۔ صحابہ کرام میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی صحابی نے اپنی کسی ذاتی غرض سے یا اپنا کوئی کام نکالنے کے لیے حضوؐر کے نام سے کبھی ناجائز فائدہ اٹھایا ہو۔ حتّٰی کہ ان کے درمیان جب اختلافات برپا ہوئے اور دو خونریز لڑائیاں تک ہوگئیں، اس وقت بھی فریقین میں سے کسی ایک شخص نے بھی کوئی حدیث گھڑ کر دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کی۔ اس قسم کی حدیثیں بعد کے خداناترس لوگوں نے تو ضرور تصنیف کیں مگر صحابہ کے واقعات میں اس کی مثال ناپید ہے۔
رابعاً وہ اپنے اوپر اس بات کی بہت بڑی ذمہ داری محسوس کرتے تھے کہ بعد کے آنے والوں کو حضوؐر کے حالات اور آپ کی ہدایات و تعلیمات بالکل صحیح صورت میں پہنچائیں اور اس میں کسی قسم کا مبالغہ یا آمیزش نہ کریں، کیونکہ ان کے نزدیک یہ دین تھا اور اس میں اپنی طرف سے تغیر کردینا کوئی معمولی جرم نہیں بلکہ ایک عظیم خیانت تھا۔ اسی وجہ سے صحابہ کے حالات میں اس قسم کے بہ کثرت واقعات ملتے ہیں کہ حدیث بیان کرتے ہوئے وہ کانپ جاتے تھے، ان کے چہرہ کا رنگ اڑجاتا تھا، جہاں ذرہ برابر بھی خدشہ ہوتا تھا کہ شاید حضوؐر کے الفاظ کچھ اور ہوں وہاں بات نقل کرکے اوکماقال کہہ دیتے تھے تاکہ سننے والا ان کے الفاظ کو بعینہٖ حضوؐر کے الفاظ نہ سمجھ لے۔
خامساً، اکابر صحابہؓ خاص طور پر عام صحابیوں کو احادیث روایت کرنے میں احتیاط کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ اس معاملے میں سہل انگاری برتنے سے شدت کے ساتھ روکتے تھے اور بعض اوقات ان سے حضوؐر کا کوئی ارشادسن کر شہادت طلب کرتے تھے تاکہ یہ اطمینان ہوجائے کہ دوسروں نے بھی یہ بات سنی ہے۔ اسی اطمینان کے لیے صحابیوں نے ایک دوسرے کے حافظے کا امتحان بھی لیا ہے۔ مثلاً ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کو حج کے موقع پر حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص سے ایک حدیث پہنچی۔ دوسرے سال حج میں اُمّ المومنین نے اُسی حدیث کو دریافت کرنے کے لیے ان کے پاس آدمی بھیجا۔ دونوں مرتبہ حضرت عبداللہ کے بیان میں ایک حرف کا فرق بھی نہ تھا۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا واقعی عبداللہ کو بات ٹھیک یاد ہے۔
(بخاری، مسلم)
صحابہؓ کے معاشرے میں، ان کی شخصی زندگیوں میں، ان کے گھروں میں، ان کی معیشت اور حکومت اور عدالت میں اس کا پورا ٹھپہ لگا ہوا تھا، جس کے آثار و نقوش ہر طرف لوگوں کو چلتے پھرتے نظر آتے تھے۔ ایسی ایک چیز کے متعلق کوئی شخص حافظے کی غلطی ، یا اپنے ذاتی خیالات و تعصبات کی بنا پر کوئی نرالی بات لاکر پیش کرتا بھی تو وہ چل کہاں سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی نرالی حدیث آئی بھی ہے تو وہ الگ پہچان لی گئی ہے اور محدثین نے اس کی نشاندہی کردی ہے کہ اس خاص راوی کے سوا یہ بات کسی اور نے بیان نہیں کی ہے۔ یا اس پر عمل درآمد کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

احادیث کی صحت کا ایک ثبوت

ان سب کے علاوہ ایک نہایت اہم بات اور بھی ہے جسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو عربی زبان جانتے ہیں اور جنھوں نے محض سرسری طور پر کبھی کبھار متفرق احادیث کا مطالعہ نہیں کر لیا ہے بلکہ گہری نگاہ سے حدیث کی پوری پوری کتابوں کو، یا کم از کم کسی ایک ہی کتاب (مثلاً بخاری یا مسلم) کو از اوّل تا آخر پڑھا ہے۔ ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اپنی ایک خاص زبان اور آپ کا اپنا ایک مخصوص انداز بیان ہے جو تمام صحیح احادیث میں بالکل یکسانیت اور یک رنگی کے ساتھ نظر آتا ہے۔ قرآن کی طرح آپ کا لٹریچر اور اسٹائل اپنی ایسی انفرادیت رکھتا ہے کہ اس کی نقل کوئی دوسرا شخص نہیں کرسکتا۔ اس میں آپ کی شخصیت بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس میں آپ کا بلند منصب و مقام جھلکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس کو پڑھتے ہوئے آدمی کا دل یہ گواہی دینے لگتا ہے کہ یہ باتیں محمد رسول اللہ کے سوا کوئی دوسرا شخص کہہ نہیں سکتا۔ جن لوگوں نے کثرت سے احادیث کو پڑھ کر حضوؐر کی زبان طرز بیان کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے وہ حدیث کی سند کو دیکھے بغیر محض متن کو پڑھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے یا موضوع، کیونکہ موضوع کی زبان ہی بتادیتی ہے کہ یہ رسول اللہﷺ کی زبان نہیں ہے۔ حتیّٰ کہ صحیح احادیث تک میں روایت باللفظ اور روایت بالمعنیٰ کا فرق صاف محسوس ہوجاتا ہے، کیونکہ جہاں راوی نے حضوؐر کی بات کو اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے وہاں آپؐ کے اسٹائل سے واقفیت رکھنے والا یہ بات پالیتا ہے کہ یہ خیال اور بیان تو حضوؐر ہی کا ہے لیکن زبان میں فرق ہے۔ یہ انفرادی خصوصیت احادیث میں کبھی نہ پائی جاسکتی اگر بہت سے کمزور حافظوں نے ان کو غلط طریقوں سے نقل کیا ہوتا اور بہت سے ذہنوں کی کارفرمائی نے ان کو اپنے اپنے خیالات و تعصبات کے مطابق توڑا مروڑا ہوتا۔ کیا یہ بات عقل میں سماتی ہے کہ بہت سے ذہن مل کر ایک یک رنگ لٹریچر اور ایک انفرادی اسٹائل پیدا کرسکتے ہیں؟
اور یہ معاملہ صرف زبان و ادب کی حد تک ہی نہیں ہے اس سے آگے بڑھ کر دیکھیے تو نظر آتا ہے کہ طہارت جسم و لباس سے لے کر صلح و جنگ اور بین الاقوامی معاملات تک زندگی کے تمام مختلف شعبوں میں اور ایمان و اخلاق سے لے کر علامات قیامت اور احوال آخرت تک تمام فکری اور اعتقادی مسائل میں صحیح احادیث ایک ایسا نظام فکر و عمل پیش کرتی ہیں جو اوّل سے آخر تک اپنا ایک ہی مزاج رکھتا ہے اور جس کے تمام اجزا میں پورا پورا منطقی ربط ہے۔ ایسا مربوط اور ہم رنگ نظام اور اتنا مکمل وحدانی نظام لازماً ایک ہی فکر سے بن سکتا ہے، بہت سے مختلف ذہن مل کر اسے نہیں بنا سکتے۔ یہ ایک اور اہم ذریعہ ہے جس سے موضوع احادیث ہی نہیں مشکوک احادیث تک پہچانی جاتی ہیں۔ سند کو دیکھنے سے پہلے ایک بصیرت رکھنے والا آدمی اس طرح کی کسی حدیث کے مضمون ہی کو دیکھ کر یہ بات صاف محسوس کرلیتا ہے کہ صحیح احادیث اور قرآن مجید نے مل کر اسلام کا جو نظام فکر اور نظام حیات بنایا ہے اس کے اندر یہ مضمون کسی طرح ٹھیک نہیں بیٹھتا کیونکہ اس کا مزاج پورے نظام کے مزاج سے مختلف نظر آتا ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے (تو ان حضرات) کی یہ رائے بڑے ہی سرسری مطالعے اور نہایت ناکافی غور و تحقیق کا نتیجہ نظر آتی ہے کہ حدیث کو حافظوں کی غلطی اور مختلف ذہنوں کی کارفرمائی نے مسخ کر دیا ہے۔

ماٰخذ

(۱) ٭ابوداؤد، کتاب العلم: باب فی کتاب العلم۔ ٭مسند احمد، ج۲، مرویات عبد اللّٰہ بن عمرو۔ ٭المستدرک للحاکم جلد ا کتاب العلم، الامربکتابۃ الحدیث ٭ دارمی باب من رخص فی کتاب العلم ٭ مسند احمد، ج۲، عمرو بن شعیب ۔
(۲) ٭ترمذی، ابواب العلم : باب فی الرخصۃ فیہ۔
(۳) ٭بخاری، ج ۱، کتاب العلم : باب کتابۃ العلم۔ ٭ابوداؤد: کتاب العلم: باب فی کتاب العلم۔ ٭ترمذی: ابواب العلم: باب ماجاء فی الرخصۃ فیہ۔
(۴) ٭بخاری ج ۱، کتاب العلم: باب کتابۃ العلم۔٭ترمذی: ابواب العلم: باب فی الرخصۃ فیہ۔ ٭دارمی: کتاب العلم: باب من رخص فی کتابۃ العلم۔٭ مسند احمد، ج ۲، عن ابی ہریرۃ۔
(۵) ٭ابوداؤد، کتاب العلم ج ۳، باب فضل نشر العلم۔ ٭ترمذی، ابواب اعلم ج ۲، باب ماجاء فی الحث علی تبلیغ السماع۔ حدیث زید بن ثابت حسن۔ ٭ ابن ماجہ ، المقدمہ: باب من بلغ علما ٭مسند احمد، ج ۵، زید بن ثابت۔ ٭دارمی، ج ۱، باب الاقتداء بالعلماء۔
(۶) ٭بخاری، ج ۱،کتاب العلم: باب قول النبی ﷺ ربّ مبلغ اوعی من سامع۔ ٭مسند احمد ، ج۱، عن ابن عباس۔ ٭ابن ماجہ، المقدمہ: باب من بلغ علما۔
(۷) ٭بخاری، ج ۱،کتاب العلم: باب لیبلّغ العلم الشاہد الغائب الخ۔
(۸) ٭بخاری، ج ۱،کتاب الایمان: باب اداء الخمس من الایمان۔ ٭ بخاری، ج ۱، کتاب العلم: باب تحریض النبی وفد عبدالقیس علی حفاظۃ الایمان۔ ٭ مسلم، ج ۱، کتاب الایمان: باب الامربالایمان باللّٰہ تعالیٰ ورسولہ ﷺ وشرائع الدین والدعاء الیہ والسوال عنہ وحفظہ و تبلیغہ من لم یبلغہ۔ ٭ابوداؤد: کتاب الاشربہ : باب فی الاوعیۃ۔ ٭ ترمذی ابواب الایمان: باب ماجاء فی اضافۃ الفرائض الی الایمان۔ اس میں وا دواخمس ما غنمتم تک ہے۔ ٭نسائی: کتاب الایمان: باب اداء الخمس ۔ آخری جملہ اس میں بھی نہیں ہے۔
(۹) ٭مسلم، ج ۲، کتاب الزہد: باب التثبت فی الحدیث وحکم کتابۃ العلم۔
(۱۰) ٭ترمذی: ابواب تفسیر القراٰن: باب ماجاء فی الذی یفسرالقراٰن برأیہ۔
(۱۱) ٭مسند احمد، ج ۱، ابن عباس۔٭مسند جلد ۱ پر ابن عباس سے جو روایت مروی ہے اس میں فی القرآن کی بجائے علی القرآن ہے۔

(۱۲) ٭بخاری، ج ۱، کتاب العلم: باب اثم من کذب علی النبی ﷺ
(۱۳) ٭ابن ماجہ: باب التغلیظ فی تعمد الکذب الخ۔
(۱۴) ٭ترمذی: ابواب العلم: باب فی تعظیم الکذب علی رسول اللّٰہ ﷺ۔
(۱۵) ٭بخاری ج۱،کتاب العلم: باب اثم من کذب علی النبی ﷺ۔
(۱۶) ٭ابن ماجہ: المقدمہ :باب التغلیظ من تعمد الکذب علیٰ رسول اللّٰہ ﷺ۔
(۱۷) ٭المستدرک للحاکم، ج ۱، کتاب العلم۔ ٭ابوداؤد: کتاب السنۃ باب فی لزوم السنۃ۔ ٭ترمذی: ابواب العلم: باب مانص عنہ ان یقال عنہ حدیث رسول اللّٰہ ﷺ۔ ٭ابن ماجہ: باب تعظیم حدیث رسول اللّٰہ ﷺ والتغلیظ علیٰ من عارضہ۔ ٭موارد الظمآن میں نہیت عنہ کے بعد ماندری ماہذا عند ناکتاب اللّٰہ لیس ہذا فیہ کے الفاظ ہیں۔ ٭موارد الظمآن: کتاب العلم: باب اتباع رسول اللّٰہ ﷺ ۔ ٭ابن ماجہ نے من امری کے الفاظ روایت نہیں کیے۔ اور فیقول لاندری کے بجائے لاادری روایت کیا ہے۔
(۱۸) ٭مسند احمد، ج ۶، مرویات ابی رافع رضی اللّٰہ عنہ۔
(۱۹) ٭ابوداؤد: کتاب السنۃ: باب فی لزوم السنۃ۔ ٭دارقطنی: ج ۲٭دارمی، باب السنۃ قاضیۃ علیٰ کتاب اللّٰہ ٭ابن ماجہ: المقدمہ۔
(۲۰) ابوداؤد: کتاب الخراج والفئی والامارۃ: باب فی تعشیر اہل الذمہ اذا اختلفوا بالتجارات۔
(۲۱) بخاری، ج ۲، کتاب النکاح: باب الترغیب فی النکاح۔ ٭مسلم: کتاب النکاح، ج ۱۔

اساساتِ اسلام

۱۔ اَلْاِسْلَامُ اَنْ تَشْہَدَ اَنْ لّآ اِلٰہ الاَّ اللّٰہ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَتُقِیْمَ الصَّلوٰۃَ وَتُوْتِیَ الزَّکوٰۃَ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَ تَحُجَّ الْبَیْتَ اِنِ اسْتَطَعْتَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً۔ (مسلم، ابوداؤد ، ترمذی، نسائی)
ترجمہ: اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور رمضان کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کرے اگر وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ (تفہیمات حصہ دوم ص:فتنۂ تکفیر)
تخریج: حَدَّثَنِیْ اَبُوْ خَیْثَمَۃَ زُہَیْرُبْنُ حَرْبٍ، قَالَ: نَاوَکِیْعٌ عَنْ کَہْمَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ یَحْییٰ بْنِ یَعْمُرَح وَحَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُعَاذِنِ الْعَنْبَرِیُّ وَہٰذَا حَدِیْثُہٗ، قَالَ: نَااَبِی، قَالَ: نَا کَہْمَسٌ عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ، عَنْ یَحْیٰ بْنِ یَعْمُرَ، قَالَ: کَانَ اَوَّلَ مَنْ قَالَ فِی الْقَدْرِ بِالْبَصَرَۃِ مَعْبَدُنِ الْجُہَنِیُّ فَانْطَلَقْتُ اَنَا وَحَمِیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْحِمْیَرِیُّ حَاجَّیْنِ اَوْ مُعْتَمِرَیْنِ ، فَقُلْنَا: لَوْ لَقِیْنَا اَحَدًا مِنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ فَسَاَلْنَاہُ عَمَّایَقُوْلُ ہٰؤُلَائِ فِی الْقَدْرِ، فَوُفِّقَ لَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ دَاخِلًا الْمَسْجِدَ فَاکْتَنَفْتُہُ اَنَا وَصَاحِبِیْ۔ اَحَدُنَا عَنْ یَمِیْنِہٖ وَالْآخَرُ عَنْ شِمَالِہٖ فَظَنَنْتُ اَنَّ صَاحِبِیْ سَیَکِلُ الْکَلَامَ اِلَیَّ، فَقُلْتُ : یَا اَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اَنَّہٗ قَدْ ظَہَرَ قِبَلَنَا نَاسٌ یَقْرَئُ وْنَ الْقُرْاٰنَ وَیَتَقَفَّرُوْنَ الْعِلْمَ وَذَکَرَمِنْ شَاْنِہِمْ وَاَنَّہُمْ یَزْعُمُوْنَ اَنْ لَّا قَدْرَ۔ وَاَنَّ الْاَمْرَ اُنُفٌ۔ قَالَ: اِذَا لَقِیْتَ اُولٰٓئِکَ فَاَخْبِرْہُمْ اَنِّیْ بَرِٓیٌٔ مِنْہُمْ وَاَنَّہُمْ بُرَآئٌ مِّنِّیْ وَالَّذِیْ یَحْلِفُ بِہٖ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ لَوْاَنَّ لِاَحَدِ ہِمْ مِثْلَ اُحُدٍ ذَہَبًا فَاَنْفَقَہٗ مَاقَبِلَ اللّٰہُ مِنْہُ حَتّٰی یُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ۔
ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنِیْ اَبِیْ عُمَرُبْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ : بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ ذَاتَ یَوْمٍ اِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیْدُ بِیَاضِ الثِّیَابِ شَدِیْدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لَا یُریٰ عَلَیْہِ اَثَرُ السَّفَرِ وَلَایَعْرِفُہٗ مِنَّا اَحَدٌ حَتّٰی جَلَسَ اِلیٰ النَّبِیِّ ﷺ فَاَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ اِلیٰ رُکْبَتَیْہِ وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلیٰ فَخِذَیْہِ، وَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : اَلْاِسْلَامُ اَنْ تَشْہَدَ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَتُقِیْمَ الصَّلوٰۃَ وَتُؤْتِیَ الزَّکوٰۃَ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ اِنِ اسْتَطَعْتَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا۔ قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَہٗ یَسْئَلُہٗ، وَیُصَدِّقُہٗ۔ قَالَ: فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِیْمَانِ، قَالَ: اَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الاٰخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَانِ، قَالَ: اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہُ یَرَاکَ، قَالَ: فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ السَّاعَۃِ، قَالَ: مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْہَابِاَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، قَالَ: فَاَخْبِرْنِیْ عَنْ اَمَارَاتِہَا، قَالَ: اَنْ تَلِدَ الْاَمَۃُ رَبَّتَہَا وَاَنْ تَرَی الحُفَاۃَ الْعُرَاۃَ الْعَالَۃَ رِعَآئَ الشَّائِ، یَتَطَاوَلُوْنَ فِی الْبُنْیَانِ، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِیًّا، ثُمَّ قَالَ لِیْ: یَاعُمَرُ! اَتَدْرِیْ مَنِ السَّائِلُ؟ قُلْتُ:اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ، قَالَ: فَاِنَّہُ جِِبْرِیْلُ اَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ۔ (۱)
یحییٰ بن یعمر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بصرہ میں معبد جہنی نے سب سے پہلے انکارِ تقدیر پر گفتگو کی۔ میں اور حمید بن عبدالرحمن حمیری دونوں حج یا عمرہ کا عزم لیے ہوئے روانہ ہوئے۔ ہماری خواہش تھی کہ کاش اصحاب رسول اللہ ﷺ میں سے کسی سے ہماری ملاقات ہوجائے تو ہم ان سے اس نظریہ کے بارے میں دریافت کریں جو یہ لوگ تقدیر کے متعلق رکھتے ہیں۔ حسنِ اتفاق سے عبداللہ بن عمر سے ہماری ملاقات اس وقت ہوگئی جب وہ مسجد میں داخل ہورہے تھے۔ ہم دونوں نے ان کو دائیں بائیں دونوں طرف سے گھیر ے میں لے لیا۔چونکہ میرا خیال یہ تھا کہ میرا ساتھی آغازِ گفتگو کا موقع مجھے ہی دے گا۔ اس خیال سے میں نے گفتگو شروع کردی میں نے کہا۔ اے ابو عبدالرحمن! ہمارے ہاں کچھ لوگ ایسے ظاہر ہوگئے ہیں جو تلاوتِ قرآن کرتے ہیں اور علم کا شوق بھی رکھتے ہیں اور اس کے متعلق باریکیاں بھی چھانٹتے ہیں اور مزید ان کے حالات پر روشنی ڈالی۔ مگر ان لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ تقدیر الٰہی کوئی چیز نہیں۔ ہر معاملہ بغیر تقدیر کے از خود ہوجاتا ہے۔ ابن عمرؓ نے فرمایا کہ اگر ان سے تمہاری ملاقات ہو تو صاف صاف کہہ دینا کہ ان کا مجھ سے کوئی تعلق و واسطہ نہیں اور نہ میرا ان سے کوئی تعلق ہے۔ اور قسم ہے اس ذات کی جس کی ابن عمر قسم کھاتا ہے۔ اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور اسے راہِ خدا میں خرچ کردے اللہ تعالیٰ اس کی اس خیرات کو اس وقت تک قبول نہیں فرمائے گا جب تک کہ وہ تقدیر پر ایمان نہ لائے۔
اس کے بعد ابن عمرؓ نے فرمایا کہ میرے والد نے مجھے حدیث سنائی کہ ایک روز ہم لوگ آں حضرت ﷺ کی خدمت میں حاضرتھے۔ اچانک اس اثنا میں ایک اجنبی شخص آپ کی خدمت میںحاضر ہوا۔ لباس نہایت سفید ، بال انتہائی سیاہ۔ سفر کا کوئی نشان اس پر نمایاں نہیں تھا۔ ہم میں سے کوئی بھی اسے جانتا پہچانتا نہ تھا۔ بالآخر وہ حضوؐر کے روبرو دوزانوں ہو کر بیٹھ گیا اور اپنے دونوں ہاتھ اپنی رانوں پر رکھ لیے (مؤدب ہو کر بیٹھا) اور عرض کیا اے محمدؐ مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے۔ آپؐ نے فرمایا، ’’اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی شہادت دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی الٰہ نہیں اور اس بات کی شہادت دے کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ تو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے اور ماہ رمضان کے روزے رکھے اور اگر استطاعت ہو تو حج بیت اللہ کرے۔‘‘ اس نے عرض کیا، ’’آپؐ نے سچ فرمایا۔‘‘ ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کررہا ہے اور خود ہی اس کی تصدیق کررہا ہے۔ پھر اس نے عرض کیا کہ اچھا بتائیے ایمان کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا، ’’ایمان یہ ہے کہ تم خدا پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور قیامت پر ایمان لائو اور خیر و شر کے مقدر ہونے پر ایمان لائو۔‘‘ اس نے عرض کیا کہ ’’ آپ نے سچ فرمایا۔‘‘ پھر پوچھا کہ ’’احسان کیا ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا، ’’احسان یہ ہے کہ تم خدا کی عبادت اس طرح کرو گویا اسے دیکھ رہے ہو کیونکہ تم اسے نہیں دیکھ سکتے تو اس یقین کے ساتھ عبادت کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ اس شخص نے کہا ’’اچھا اب قیامت کے متعلق ارشاد فرمائیے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا، ’’مسئول عنہ سائل سے اس بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتا۔‘‘ اس پر اس نے عرض کیا اچھا کچھ علامات بتادیں۔ آپؐ نے فرمایا، ’’اس کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی۔ اور برہنہ پا مفلس چرواہے اونچے اونچے عالی شان محلات تعمیر کریں گے اور ان پر اترائیں گے۔‘‘ اس کے بعد وہ آدمی چلا گیا۔ حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ تھوڑی دیر میں ٹھیرا رہا۔ پھر حضوؐر نے دریافت فرمایا، ’’جانتے ہو یہ سائل کون تھا؟‘‘ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’یہ جبریل تھے تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔‘‘ ( بقول قاضی عیاض : یہ حدیث ایسی جامع ہے کہ جملہ امورِ شریعت اس میں بیان کردیے ہیں۔ مثلاً
ارکان و اساساتِ اسلام: شہادۃ ان لا الہ الّااللّٰہ و ان محمدارسول اللّٰہ۔ اقامت صلوٰۃ، ایتاء الزکوٰۃ، صوم رمضان، بصورتِ استطاعت حج بیت اللہ۔
ایمانیات: ایمان باللہ، ایمان بالملائکہ، ایمان بالکتب، ایمان بالرسل، ایمان بالآخرۃ، اور ایمان بالقدر خیرہ و شرہ وغیرہ۔
احسان: ایک جملہ میں سارے تصوف اورسلوک کو یکجا کردیا ہے کہ عبادت اس رنگ میں کرنی چاہیے کہ عابد اپنے معبودِ حقیقی کو اپنے روبرو دیکھ رہا ہو۔ اگر اس مرتبہ پر نہ پہنچے تو کم از کم یہ احساس تو ہو کہ وہ معبود اپنے عابد کو دیکھ رہا ہے گویا خدائے بزرگ و برتر کے ہر آن اور ہر لمحہ حاضر و ناظر ہونے کا تصور رہے۔ )۱؎
جس چیز کو ہم اسلامی اخلاقیات سے تعبیر کرتے ہیں وہ قرآن اور حدیث کی روسے دراصل چار مراتب ( حدیث جبریل میں اساسات اسلام، ایمانیات اور احسان کی حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسلامی اخلاقیات کی عمارت چار بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔ یعنی ایمان، اسلام ، تقویٰ اور احسان۔ اسی کے پیش نظر اس مقام پر ایمان، اسلام اور احسان کے ساتھ تقویٰ کو بالترتیب بیان کیا گیا ہے۔ )۲؎ پر مشتمل ہے۔ ایمان۱ ، تقو۲یٰ ، اسلا۳م اور احسا۴ن یہ چاروں مراتب یکے بعد دیگرے اس فطری ترتیب پر واقع ہیں کہ ہر بعد کا مرتبہ پہلے مرتبے سے پیدا اور لازماً اسی پر قائم ہوتا ہے، اور جب تک نیچے والی منزل پختہ و محکم نہ ہوجائے دوسری منزل کی تعمیر کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ اس پوری عمارت میں ایمان کو بنیاد کی حیثیت حاصل ہے۔ اس بنیاد پر اسلام کی منزل تعمیر ہوتی ہے۔ پھر اس کے اوپر تقویٰ اور اس سے اوپر احسان کی منزلیں اٹھتی ہیں۔ ایمان نہ ہو تو اسلام و تقویٰ یا احسان کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں۔ ایمان کمزور ہو تو اس پر کسی بالائی منزل کا بوجھ نہیں ڈالا جاسکتا، یا ایسی کوئی منزل تعمیر کربھی دی جائے تو وہ بودی اور متزلزل ہوگی۔ ایمان محدود ہو تو جتنے حدود میں وہ محدود ہوگا، اسلام، تقویٰ اور احسان بھی بس انہی حدود تک محدود رہیں گے۔ پس جب تک ایمان پوری طرح صحیح، پختہ اور وسیع نہ ہو، کوئی مرد عاقل جو دین کا فہم رکھتا ہو، اسلام، تقویٰ یا احسان کی تعمیر کا خیال نہیں کرسکتا۔ اسی طرح تقویٰ سے پہلے اسلام اور احسان سے پہلے تقویٰ کی تصحیح، پختگی اور توسیع ضروری ہے۔ لیکن اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اس فطری و اصولی ترتیب کو نظر انداز کرکے ایمان و اسلام کی تکمیل کے بغیر تقویٰ و احسان کی باتیں شروع کردیتے ہیں، اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک یہ ہے کہ بالعموم لوگوں کے ذہنوں میں ایمان و اسلام کا ایک نہایت محدود تصور جاگزیں ہے اس وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ محض وضع قطع، لباس ، نشست و برخاست، اکل و شرب اور ایسی ہی چند ظاہری چیزوں کو ایک مقرر نقشے پر ڈھال لینے سے تقویٰ کی تکمیل ہوجاتی ہے، اور پھر عبادات میں نوافل ، اذکار ، اوراد و وظائف اور ایسے ہی بعض اعمال اختیار کرلینے سے احسان کا بلند مقام حاصل ہوجاتا ہے حالانکہ بسااوقات اسی تقویٰ اور احسان کے ساتھ ساتھ لوگوں کی زندگیوں میں ایسی صریح علامات بھی نظر آتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی ان کا ایمان ہی سرے سے درست اور پختہ نہیں ہوا ہے۔ یہ غلطیاں جب تک موجود ہیں، کسی طرح یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ ہم اسلامی اخلاقیات کا نصاب پورا کرنے میں کبھی کامیاب ہوسکیں گے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہمیں ایمان، اسلام، تقویٰ اور احسان کے ان چاروں مراتب کا پورا پورا تصور بھی حاصل ہو اور اس کے ساتھ ہم ان کی فطری ترتیب کو بھی اچھی طرح سمجھ لیں۔

ایمان

سب سے پہلے ایمان کو لیجیے جو اسلامی زندگی کی بنیاد ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ توحید و رسالت کے اقرارکا نام ایمان ہے۔ اگر کوئی شخص اس کا اقرار کرلے تو اس سے وہ قانونی شرط پوری ہوجاتی ہے جو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے رکھی گئی ہے اور وہ اس کا مستحق ہوجاتا ہے کہ اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کیا جائے مگر کیا یہی سادہ اقرار، جو ایک قانونی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے، اس غرض کے لیے بھی کافی ہوسکتا ہے کہ اسلامی زندگی کی ساری سہ منزلہ عمارت صرف اس بنیاد پر قائم ہوسکے؟ لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں، اور اسی لیے جہاں یہ اقرار موجود ہوتا ہے وہاں عملی اسلام اور تقویٰ اور احسان کی تعمیر شروع کردی جاتی ہے جو اکثر ہوائی قلعے سے زیادہ پائیدار ثابت نہیں ہوتی۔ لیکن فی الواقع ایک مکمل اسلامی زندگی کی تعمیر کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ایمان اپنی تفصیلات میں پوری طرح وسیع اور اپنی گہرائی میں اچھی طرح مستحکم ہو۔ اس کی تفصیلات میں سے جو شعبہ بھی چھوٹ جائے گا، اسلامی زندگی کا وہی شعبہ تعمیر ہونے سے رہ جائے گا، اور اس کی گہرائی میں جہاں بھی کسر رہ جائے گی اسلامی زندگی کی عمارت اسی مقام پر بودی ثابت ہوگی۔
مثال کے طور پر ایمان باللہ کو دیکھیے جو دین کی اوّلین بنیاد ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ خدا کا اقرار اپنی سادہ صورت سے گزر کر جب تفصیلات میں پہنچتا ہے تو اس کی بے شمار صورتیں بن جاتی ہیں۔ کہیں وہ صرف اس حد پر ختم ہوجاتا ہے کہ بے شک خدا موجود ہے اور وہ دنیا کا خالق ہے اور اپنی ذات میں اکیلا ہے۔ کہیں اس کی انتہائی وسعت بس اتنی ہوتی ہے کہ خداہمارا معبود ہے اور ہمیں اس کی پرستش کرنی چاہیے۔ کہیں خدا کی صفات اور اس کے حقوق و اختیارات کا تصور کچھ زیادہ وسیع ہو کر بھی اس سے آگے نہیں بڑھتا کہ عالم الغیب ، سمیع وبصیر ، سمیع الدعوات اور قاضی الحاجات اور ’’پرستش‘‘ کی تمام جزوی شکلوں کا مستحق ہونے میں خدا کا کوی شریک نہیں ہے،اور یہ کہ ’’مذہبی معاملات‘‘ میں آخری سند خدا ہی کی کتاب ہے۔ ظاہر ہے کہ ان مختلف تصورات سے ایک ہی طرز کی زندگی نہیں بن سکتی بلکہ جو تصور جتنا محدود ہے، عملی زندگی اور اخلاق میں بھی لازما ًاسلامی رنگ اتنا ہی محدود ہوگا، حتیّٰ کہ جہاں عام مذہبی تصورات کے مطابق ایمان باللہ اپنی انتہائی وسعت پر پہنچ جائے گا وہاں بھی اسلامی زندگی اس سے آگے نہ بڑھ سکے گی کہ خدا کے باغیوں کی وفاداری اور خدا کی وفاداری ایک ساتھ نباہ لی جائے، یا نظام کفر اور نظام اسلام کو سمو کر ایک مرکب بنالیا جائے۔
اسی طرح ایمان باللہ کی گہرائی کا پیمانہ بھی مختلف ہے۔ کوئی خدا کا اقرار کرنے کے باوجود اپنی کسی معمولی سے معمولی چیز کو بھی خدا پر قربان کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا، کوئی بعض چیزوں سے خدا کو عزیز تر رکھتا ہے مگر بعض چیزیں اسے خدا سے عزیز تر ہوتی ہیں، کوئی اپنی جان و مال تک خدا پر قربان کردیتا ہے مگر اپنے رجحاناتِ نفس اور اپنے نظریات و افکار کی قربانی یا اپنی شہرت کی قربانی اسے گوارا نہیں ہوتی۔ ٹھیک ٹھیک اسی تناسب سے اسلامی زندگی کی پائیداری و ناپائیداری بھی متعین ہوتی ہے، اور انسان کا اسلامی اخلاق ٹھیک اسی مقام پر دغا دے جاتا ہے جہاں اس کے نیچے ایمان کی بنیاد کمزور رہ جاتی ہے۔ ایک مکمل اسلامی زندگی کی عمارت اگر اٹھ سکتی ہے تو صرف اسی اقرار توحید پر اٹھ سکتی ہے جو انسان کی پوری انفرادی و اجتماعی زندگی پر وسیع ہو جس کے مطابق انسان اپنے آپ کو اور اپنی ہر چیز کو خدا کی ملک سمجھے، اسی کو اپنا اور تمام دنیا کا ایک ہی جائز مالک ، معبود ، مطاع اور صاحب امر و نہی تسلیم کرے، اسی کو ہدایت کاسرچشمہ مانے، اور پورے شعور کے ساتھ اس حقیقت پر مطمئن ہوجائے کہ خدا کی اطاعت سے انحراف ، یا اس کی ہدایت سے بے نیازی، یا اس کی ذات و صفات اور حقوق و اختیارات میں غیر کی شرکت جس پہلو اور جس رنگ میں بھی ہے سراسر ضلالت ہے۔ پھر اس عمارت میں استحکام اگر پیدا ہوسکتا ہے تو صرف اس وقت ہوسکتا ہے کہ آدمی پورے شعور اور پورے ارادے کے ساتھ یہ فیصلہ کرلے کہ وہ اور اس کا سب کچھ اللہ کا ہے اور اللہ ہی کے لیے ہے۔ اپنے معیار پسند اور ناپسند کو ختم کرکے اللہ کی پسند و ناپسند کے تابع کردے۔ اپنی خود سری کو مٹا کر اپنے نظریات ، خیالات، خواہشات ، جذبات ،اور اندازِ فکر کو اس علم کے مطابق ڈھال لے جو خدا نے اپنی کتاب میں دیا ہے۔ اپنی تمام ان وفاداریوں کو دریا برد کردے جو خدا کی وفاداری کے تابع نہیں بلکہ اس کی مدِّمقابل بن سکتی ہوں۔ اپنے دل میں سب سے بلند مقام پر خدا کی محبت کو بٹھائے اور ہر اس بت کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر نہان خانۂ دل سے نکال پھینکے جو خدا کے مقابلہ میں عزیز تر ہونے کا مطالبہ کرتا ہو۔ اپنی محبت اور نفرت ، اپنی دوستی ودشمنی، اپنی رغبت اور کراہیت ، اپنی صلح اور جنگ ہر چیز کو خدا کی مرضی میں اس طرح گم کردے کہ اس کا نفس وہی چاہنے لگے جو خدا چاہتا ہے اور اس سے بھاگنے لگے جو خدا کو ناپسند ہے۔ یہ ہے ایمان باللہ کا حقیقی مرتبہ اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں ایمان ہی ان حیثیات سے اپنی وسعت اور ہمہ گیری اور اپنی پختگی و مضبوطی میں ناقص ہو وہاں تقویٰ یا احسان کا کیا امکان ہوسکتا ہے۔
اسی پر دوسرے ایمانیات کو بھی قیاس کر لیجیے۔ نبوت پر ایمان اس وقت تک مکمل نہیںہوتا جب تک انسان کا نفس زندگی کے سارے معاملات میں نبی ﷺ کو اپنا رہنما نہ مان لے اور اس کی رہنمائی کے خلاف یا اس سے آزاد جتنی رہنمائیاں ہوں ان کو رد نہ کردے۔ کتاب پر ایمان اس وقت تک ناقص ہی رہتا ہے جب تک نفس میں کتاب اللہ کے بتائے ہوئے اصول زندگی کے سوا کسی دوسری چیز کے تسلّط پر رضا مندی کا شائبہ بھی باقی ہو یا اتّباع مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کو اپنی اور ساری دنیا کی زندگی کا قانون دیکھنے کے لیے قلب و روح کی بے چینی میں کچھ کسر بھی ہو۔ اسی طرح آخرت پر ایمان بھی مکمل نہیں کہا جاسکتا جب تک کہ نفس پوری طرح آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے اور اخروی قدروں کے مقابلہ میں دنیوی قدروں کو ٹھکرادینے پر آمادہ نہ ہوجائے اور آخرت کی جواب دہی کا خیال اسے زندگی کی ہر راہ پر چلتے ہوئے قدم قدم پر کھٹکنے نہ لگے۔ یہ بنیادیں ہی جہاں پوری طرح موجود نہ ہوں آخر وہاں اسلامی زندگی کی عالی شان عمارت کس شے پر تعمیر ہوگی۔ جب لوگوں نے ان بنیادوں کی توسیع و تکمیل اور پختگی کے بغیر ہی تعمیراخلاقِ اسلامی کو ممکن سمجھا تب ہی تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ کتاب اللہ کے خلاف فیصلہ کرنے والے جج، غیر شرعی قوانین کی بنیاد پر مقدمے لڑنے والے وکیل، نظامِ کفر کے ماتحت معاملات زندگی کا انتظام کرنے والے کارکن، کافرانہ اصولِ تمدّن و سیاست پر زندگی کی تشکیل و تاسیس کے لیے لڑنے والے لیڈر اور پیر و، غرض سب کے لیے تقویٰ و احسان کے مراتب عالیہ کا دروازہ کھل گیابشرطیکہ وہ اپنی زندگی کے ظاہری اندازو اطوار کو ایک خاص نقشے پر ڈھال لیں۔ اور کچھ نوافل و اذکار کی عادت ڈال لیں۔

اسلام

ایمان کی یہ بنیادیں ، جن کا ابھی میں نے آپ سے ذکر کیا ہے ، جب مکمل اور گہری ہوجاتی ہیں، تب ان پر اسلام کی منزل تعمیر ہوتی ہے۔ اسلام دراصل ایمان کے عملی ظہور کا دوسرا نام ہے۔ ایمان اور اسلام کا باہمی تعلق ویسا ہی ہے جیسا بیج اور درخت کا تعلق ہوتا ہے۔ بیج میں جو کچھ اور جیسا کچھ موجود ہوتا ہے وہی درخت کی شکل میں ظاہر ہوجاتا ہے، حتیّٰ کہ درخت کا امتحان کرکے بآسانی یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ بیج میں کیا تھا اور کیا نہ تھا۔ آپ نہ یہ تصور کرسکتے ہیں کہ بیج نہ ہو اور درخت موجود ہو، اور نہ یہی ممکن ہے کہ زمین بنجر بھی نہ ہو اور بیج اس میں موجود بھی ہو پھربھی درخت پیدا نہ ہو۔ ایسا ہی معاملہ ایمان اور اسلام کا ہے۔ جہاں ایمان موجود ہوگا، لازماً اس کا ظہور آدمی کی عملی زندگی میں، اخلاق میں، برتائومیں، تعلقات کے کٹنے اور جڑنے میں، دوڑ دھوپ کے رخ میں ، مذاق و مزاج کی افتاد میں، سعی و جہد کے راستوں میں، اوقات اور قوتوں اور قابلیتوں کے مصرف میں، غرض مظاہر زندگی کے ہر ہر جز میں ہو کر رہے گا۔ ان میں سے جس پہلو میں بھی اسلام کے بجائے غیر اسلام ظاہر ہورہا ہے یقین کرلیجیے کہ اس پہلو میں ایمان موجود نہیں ہے یا ہے تو بالکل بودا اور بے جان ہے، اور اگر عملی زندگی ساری کی ساری ہی غیر مسلمانہ شان سے بسر ہو رہی ہو تو جان لیجیے کہ دل ایمان سے خالی ہے یا زمین اتنی بنجر ہے کہ ایمان کا بیج برگ وبار نہیں لارہا ہے۔ بہر حال میں نے جہاں تک قرآن اور حدیث کو سمجھا ہے، یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ دل میں ایمان ہو اور عمل میں اسلام نہ ہو۔
تھوڑی دیر کے لیے اپنے ذہن سے ان بحثوں کو نکال دیں جو فقہاء اور متکلمین نے اس مسئلہ میں کی ہیں اور قرآن سے اس معاملہ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ قرآن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اعتقادی ایمان اور عملی اسلام لازم و ملزوم ہیں۔ اللہ تعالیٰ جگہ جگہ ایمان اور عمل صالح کا ساتھ ساتھ ذکر کرتا ہے ، اور تمام اچھے وعدے جو اس نے اپنے بندوں سے کیے ہیں انہی لوگوں سے متعلق ہیں جو اعتقاداً مومن اور عملاً مسلم ہوں۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں منافقین کو پکڑا ہے وہاں ان کے عمل ہی کی خرابیوں سے ان کے ایمان کے نقص پر دلیل قائم کی ہے اور عملی اسلام ہی کو حقیقی ایمان کی علامت ٹھیرایا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قانونی لحاظ سے کسی شخص کو کافر ٹھیرانے اور امت سے اس کا رشتہ کاٹ دینے کا معاملہ دوسرا ہے اور اس میں انتہائی احتیاط ملحوظ رہنی چاہیے، مگر میں یہاں اس ایمان و اسلام کا ذکر نہیں کررہا ہوں جس پر دنیا میں فقہی احکام مترتب ہوتے ہیں بلکہ یہاں ذکر اس ایمان و اسلام کا ہے جو خدا کے ہاں معتبر ہے اور جس پر اخروی نتائج مترتب ہونے والے ہیں۔ قانونی نقطۂ نظر کو چھوڑ کر حقیقت نفس الامری کے لحاظ سے اگر آپ دیکھیں گے تو یقینا یہی پائیں گے کہ جہاں عملاً خدا کے آگے سپر اندازی اور سپر دگی و حوالگی میں کمی ہے، جہاںنفس کی پسند خدا کی پسند سے مختلف ہے، جہاں خدا کی وفاداری کے ساتھ غیر کی وفاداری نبھ رہی ہے۔ جہاں اقامت دین کی سعی کے بجائے دوسرے مشاغل میں انہماک ہے، جہاں کو ششیں اور محنتیں راہ خدا کے بجائے دوسری راہوں میں صرف ہورہی ہیں، وہاں ضرور ایمان میںنقص ہے اور ظاہر ہے کہ ناقص ایمان پر تقویٰ اور احسان کی تعمیر نہیں ہوسکتی خواہ ظاہر کے اعتبار سے متقیوں کی سی وضع بنانے اور محسنین کے بعض اعمال کی نقل اتارنے کی کتنی ہی کوشش کی جائے۔ ظاہر فریب شکلیں اگر حقیقت کی روح سے خالی ہوں تو ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسی ایک نہایت خوب صورت آدمی کی لاش بہترین وضع و ہیئت میں موجود ہو مگر اس میں جان نہ ہو۔ اس خوبصورت لاش کی ظاہری شان سے دھوکا کھا کر آپ کچھ توقعات اس سے وابستہ کریں گے تو واقعات کی دنیا اپنے پہلے ہی امتحان میں اس کا ناکارہ ہونا ثابت کر دے گی اور تجربے سے آپ کو خود ہی معلوم ہوجائے گا کہ ایک بدصورت مگر زندہ انسان ایک خوب صورت مگر بے روح لاش سے بہر حال زیادہ کارگر ہوتا ہے۔ ظاہر فریبیوں سے آپ اپنے نفس کو تو ضرور دھوکا دے سکتے ہیں، لیکن عالم واقعہ پر کچھ بھی اثر نہیں ڈال سکتے اور نہ خدا کی میزان ہی میں کوئی وزن حاصل کرسکتے ہیں۔

تقویٰ

تقویٰ کی بات کرنے سے پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ تقویٰ ہے کیا چیز۔تقویٰ حقیقت میں کسی وضع وہیئت اور کسی خاص طرز معاشرت کا نام نہیں ہے بلکہ دراصل وہ نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جو خدا ترسی اور احساسِ ذمہ داری سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں ظہور کرتی ہے۔ حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو، عبدیت کا شعور ہو، خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری و جواب دہی کا احساس ہو، اور اس بات کا زندہ ادراک موجود ہو کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے جہاں خدا نے ایک مہلت عمر دے کر مجھے بھیجا ہے اور آخرت میں میرے مستقبل کا فیصلہ بالکل اس چیز پر منحصر ہے کہ میں اس دیے ہوئے وقت کے اندر اس امتحان گاہ میں اپنی قوتوں اور قابلیتوں کو کس طرح استعمال کرتا ہوں۔ اس سروسامان میں کس طرح تصرف کرتا ہوں جو مشیت الٰہی کے تحت مجھے دیا گیاہے، اور ان انسانوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہوں جن سے قضائے الٰہی نے مختلف حیثیتوں سے میری زندگی متعلق کردی ہے۔ یہ احساس و شعور جس شخص کے اندر پیدا ہوجائے اس کا ضمیر بیدار ہوجاتا ہے۔ اس کی دینی حس تیز ہوجاتی ہے اس کو ہر وہ چیز کھٹکنے لگتی ہے جو خدا کی رضا کے خلاف ہو۔ اس کے مذاق کو ہر وہ شے ناگوار ہونے لگتی ہے جو خدا کی پسند سے مختلف ہو۔وہ اپنے نفس کا آپ جائزہ لینے لگتا ہے کہ میرے اندر کس قسم کے رجحانات و میلانات پرورش پارہے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کا خود محاسبہ کرنے لگتا ہے کہ میں کن کاموں میں اپنا وقت اور قوتیں صرف کررہا ہوں۔ وہ صریح ممنوعات کو تو درکنار مشتبہ امور میں بھی مبتلا ہوتے ہوئے خود بخود جھجکنے لگتا ہے۔ اس کا احساس فرض اسے مجبور کردیتا ہے کہ تمام اوامر کو پوری فرماں برداری کے ساتھ بجالائے۔ اس کی خدا ترسی ہراس موقعہ پر اس کے قدم میں لغزش پیدا کردیتی ہے۔ جہاں حدود اللہ سے تجاوز کا اندیشہ ہو۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی نگہداشت آپ سے آپ اس کا وتیرہ بن جاتی ہے اور اس خیال سے بھی اس کا ضمیر کانپ اٹھتا ہے کہ کہیں اس سے کوئی بات حق کے خلاف سرزد نہ ہوجائے۔ یہ کیفیت کسی ایک شکل یا کسی مخصوص دائرہ عمل میں ہی ظاہر نہیں ہوتی بلکہ آدمی کے پورے طرزِ فکر اور اس کے تمام کارنامۂ زندگی میں اس کا ظہور ہوتا ہے اور اس کے اثر سے ایک ایسی ہموار و یک رنگ سیرت پیدا ہوتی ہے جس میں آپ ہر پہلو سے ایک ہی طرز کی پاکیزگی و صفائی پائیں گے۔ بخلاف اس کے جہاں تقویٰ اس چیز کا نام رکھ لیا گیا ہے کہ آدمی چند مخصوص شکلوں کی پابندی اور مخصوص طریقوں کی پیروی اختیار کرلے اور مصنوعی طور پر اپنے آپ کو ایک ایسے سانچے میں ڈھال لے جس کی پیمائش کی جاسکتی ہو۔ وہاں آپ دیکھیں گے کہ وہ چند اشکالِ تقویٰ جو سکھادی گئی ہیں، ان کی پابندی انتہائی اہتمام کے ساتھ ہورہی ہے۔ مگر اس کے ساتھ زندگی کے دوسرے پہلوئوں میں وہ اخلاق ، وہ طرزِ فکر اور وہ طرزِ عمل بھی ظاہر ہورہے ہیں جو مقام تقویٰ تو درکنار، ایمان کے ابتدائی مقتضیات سے بھی مناسبت نہیں رکھتے ۔یعنی حضرت مسیحؑ کی تمثیلی زبان میں مچھر چھانے جارہے ہیں اور اونٹ بے تکلّفی کے ساتھ نگلے جارہے ہیں۔
حقیقی تقویٰ اور مصنوعی تقویٰ کے اس فرق کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص تو وہ ہے جس کے اندر طہارت و نظافت کی حس موجود ہے اور پاکیزگی کا ذوق پایا جاتا ہے۔ ایسا شخص گندگی سے فی نفسہٖ نفرت کرے گا خواہ وہ جس شکل میں بھی ہو اور طہارت کو بجائے خود اختیار کرے گا خواہ اس کے مظاہر کا احاطہ نہ ہوسکتا ہو بخلاف اس کے ایک دوسرا شخص ہے جس کے اندر طہارت کی حس موجود نہیں ہے مگر وہ گندگیوں اور طہارتوں کی ایک فہرست لیے پھرتا ہے جو کہیں سے اس نے نقل کرلی ہیں، یہ شخص ان گندگیوں سے سخت اجتناب کرے گا جو اس کی فہرست میں لکھی ہوئی ہیں، مگر بے شمار ایسی گھنائونی چیزوں میں آلودہ پایا جائے گا جو ان گندگیوں سے بدرجہا زیادہ ناپاک ہوں گی جن سے وہ بچ رہا ہے صرف اس وجہ سے کہ وہ اس کی فہرست میں درج ہونے سے رہ گئیں۔ یہ فرق جو میں آپ سے عرض کررہا ہوں، یہ محض ایک نظری فرق نہیں ہے بلکہ آپ اس کو اپنی آنکھوں سے ان حضرات کی زندگیوں میں دیکھ سکتے ہیں جن کے تقویٰ کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ ایک طرف ان کے ہاں جزئیات شرع کا یہ اہتمام ہے کہ داڑھی ایک خاص مقدار سے کچھ بھی کم ہو تو فسق کا فیصلہ نافذ کردیا جاتا ہے، پائنچہ ٹخنے سے ذرا نیچے ہوجائے تو جہنم کی وعید سنادی جاتی ہے۔ اپنے مسلک فقہی کے فروعی احکام سے ہٹنا ان کے نزدیک گویا دین سے نکل جانا ہے، لیکن دوسری طرف دین کے اصول و کلیات سے ان کی غفلت اس حد کو پہنچی ہوئی ہے کہ مسلمانوں کی پوری زندگی کا مدار انھوں نے رخصتوں اور سیاسی مصلحتوں پر رکھ دیا ہے، اقامتِ دین کی سعی سے گریز کی بے شمار راہیں انھوں نے نکال رکھی ہیں، غلبۂ کفر کے تحت ’’اسلامی زندگی‘‘ کے نقشے بنانے ہی میں ان کی ساری محنتیں اور کوششیں صرف ہورہی ہیں، اور انہی کی غلط رہنمائی نے مسلمانوں کو اس چیز پر مطمئن کیا ہے کہ ایک غیر اسلامی نظام کے اندر رہتے ہوئے بلکہ اس کی خدمت کرتے ہوئے بھی ایک محدود دائرے میں مذہبی زندگی بسر کرکے وہ دین کے سارے تقاضے پورے کرسکتے ہیں اور اس سے آگے کچھ مطلوب نہیں ہے جس کے لیے وہ سعی کریں۔پھر اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اگر کوئی ان کے سامنے دین کے اصلی مطالبے پیش کرے اور سعی اقامتِ دین کی طرف توجہ دلائے تو صرف یہی نہیں کہ وہ اس کی بات سنی ان سنی کردیتے ہیں بلکہ کوئی حیلہ، کوئی بہانہ اور کوئی چال ایسی نہیں چھوڑتے جو اس کام سے خود بچنے اور مسلمانوں کو بچانے کے لیے استعمال نہ کریں۔ اس پر بھی ان کے تقویٰ پر کوئی آنچ نہیں آتی اور نہ مذہبی ذہنیت رکھنے والوں میں سے کسی کو یہ شک ہوتا ہے کہ ان کے تقویٰ میں کوئی کسر ہے۔ اسی طرح حقیقی اور مصنوعی تقویٰ کا فرق بے شمار دوسری شکلوں میں بھی ظاہر ہوتا رہتا ہے مگر آپ اسے تب ہی محسوس کرسکتے ہیں کہ تقویٰ کا اصلی تصور آپ کے ذہن میں واضح طور پر موجود ہو۔
میری ان باتوں کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وضع قطع، لباس اور معاشرت کے ظاہری پہلوئوں کے متعلق جو آداب و احکام حدیث سے ثابت ہیں، میں ان کا استخفاف کرنا چاہتا ہوں یا انھیں غیر ضروری قرار دیتا ہوں۔ خدا کی پناہ اس سے کہ میرے دل میں ایسا کوئی خیال ہو، دراصل جو کچھ میں آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اصل شے حقیقت تقویٰ ہے نہ کہ یہ مظاہر۔ حقیقت تقویٰ جس کے اندر پیدا ہوگی تو اس کی پوری زندگی ہمواری و یک رنگی کے ساتھ اسلامی زندگی بنے گی اور اسلام اپنی پوری ہمہ گیری کے ساتھ اس کے خیالات میں، اس کے جذبات و رجحانات میں، اس کے مذاقِ طبیعت میں، اس کے اوقات کی تقسیم اور اس کی قوتوں کے مصارف میں، اس کی سعی کی راہوں میں، اس کے طرزِ زندگی اور معاشرت میں، اس کی کمائی اور خرچ میں۔ غرض اس کی حیات دنیوی کے سارے ہی پہلوئوں میں رفتہ رفتہ نمایاں ہوتا چلا جائے گا۔ بخلاف اس کے اگر مظاہر کو حقیقت پر مقدم رکھا جائے گا اور ان پر بے جازور دیا جائے گا اور حقیقی تقویٰ کی تخم ریزی و آبیاری کے بغیر مصنوعی طور پر چند ظاہری احکام کی تعمیل کرادی جائے گی تو نتائج وہی کچھ ہوں گے جن کامیں نے ابھی آپ سے ذکر کیا ہے۔ پہلی چیز دیر طلب اور صبر آزما ہے۔ بتدریج نشو نما پاتی اور ایک مدت کے بعد برگ و بار لاتی ہے ۔ جس طرح بیج سے درخت کے پیدا ہونے اور پھل پھول لانے میں کافی دیر لگاکرتی ہے، اسی لیے سطحی مزاج کے لوگ اس سے اپراتے ہیں۔ بخلاف اس کے دوسری چیز جلدی اور آسانی سے پیدا کرلی جاتی ہے، جیسے ایک لکڑی میں پتے اور پھل اور پھول باندھ کر درخت کی سی شکل بنادی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ تقویٰ کی پیداوار کا یہی ڈھنگ آج مقبول ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ جو توقعات ایک فطری درخت سے پوری ہوتی ہیں، وہ اس قسم کے مصنوعی درختوں سے کبھی پوری نہیں ہوسکتیں۔

احسان

احسان دراصل اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کے ساتھ اس قلبی لگائو، اس گہری محبت ، اس سچی وفا داری اور فدویت وجاں نثاری کا نام ہے جو مسلمان کو فنا فی الاسلام کردے۔ تقویٰ کا اساسی تصور خدا کا خوف ہے جو انسان کو اس کی ناراضی سے بچنے پر آمادہ کرے اور احسان کا اساسی تصور خدا کی محبت ہے جو آدمی کو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ابھارے۔ ان دونوں چیزوں کے فرق کو ایک مثال سے یوں سمجھیے کہ حکومت کے ملازموں میں سے ایک تو وہ لوگ ہیں جو نہایت فرض شناسی و تن دہی سے وہ تمام خدمات ٹھیک ٹھیک بجالاتے ہیں جو ان کے سپرد کی گئی ہوں۔ تمام ضابطوں اور قاعدوں کی پوری پوری پابندی کرتے ہیں اور کوئی ایسا کام نہیں کرتے جو حکومت کے لیے قابل اعتراض ہو۔ دوسرا طبقہ ان مخلص وفاداروں اور جاں نثاروں کا ہوتا ہے جو دل و جان سے حکومت کے ہوا خواہ ہوتے ہیں، صرف وہی خدمات انجام نہیں دیتے ہیں جو ان کے سپرد کی گئی ہوں بلکہ ان کے دل کو ہمیشہ یہ فکر لگی رہتی ہے کہ سلطنت کے مفاد کو زیادہ سے زیادہ کس طرح ترقی دی جائے، اور اس دھن میں فرض اور مطالبہ سے زائد کام کرتے ہیں، سلطنت پر کوئی آنچ آئے تو وہ جان و مال اور اولاد سب کچھ قربان کرنے کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں، قانون کی کہیں خلاف ورزی ہو تو ان کے دل کو چوٹ لگتی ہے، کہیں بغاوت کے آثار پائے جائیں تو وہ بے چین ہوجاتے ہیں اور اسے فروکرنے میں جان لڑادیتے ہیں، جان بوجھ کر خود سلطنت کے مفاد کو نقصان پہنچانا تو درکنار اس کو کسی طرح نقصان پہنچتے دیکھنا بھی ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتا ہے اور اس خرابی کے رفع کرنے میں وہ اپنی حد تک کوشش کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے، ان کی دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ دنیا میں بس ان کی سلطنت ہی کا بول بالا ہو اور زمین کا کوئی چپہ ایسا باقی نہ رہے جہاں اس کاپھریرانہ اڑے۔ ان دونوں میں سے پہلی قسم کے لوگ حکومت کے متقی ہیں اور دوسری قسم کے لوگ اس کے محسن۔ اگرچہ ترقیاں متقین کو بھی ملتی ہیں اور بہرحال ان کے نام اچھے ہی ملازموں کی فہرست میں لکھے جاتے ہیں، مگر جو سرفرازیاں محسنین کے لیے ہیں ان میں کوئی دوسرا ان کا شریک نہیں ہوتا۔ پس اسی مثال پر اسلام کے متقیوں اور محسنوں کو بھی قیاس کرلیجیے۔ اگرچہ متقین بھی قابل قدر اور قابل اعتماد لوگ ہیں۔ مگر اسلام کی اصلی طاقت محسنین کا گروہ ہے اور وہ اصلی کام جو اسلام اس دنیا میں کرنا چاہتا ہے اسی گروہ سے بن آسکتا ہے۔
احسان کی اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد آپ خود ہی اندازہ کرلیں کہ جو لوگ اپنی آنکھوں سے خدا کے دین کو کفر سے مغلوب دیکھیں ، جن کے سامنے حدود اللہ پامال ہی نہیں بلکہ کالعدم کردی جائیں، خدا کا قانون عملاً ہی نہیں بلکہ باضابطہ منسوخ کردیا جائے۔ خدا کی زمین پر خدا کا نہیں بلکہ اس کے باغیوں کا بول بالا ہو رہا ہو۔ نظام کفر کے تسلط سے نہ صرف عام انسانی سوسائٹی میں اخلاقی و تمدنی فساد برپا ہو بلکہ خود امت مسلمہ بھی نہایت سرعت کے ساتھ اخلاقی و عملی گمراہیوں میں مبتلا ہورہی ہو۔ اور یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ان کے دلوں میں نہ کوئی بے چینی پیدا ہو نہ اس حالت کو بدلنے کے لیے کوئی جذبہ بھڑکے بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے نفس کو اور عام مسلمانوں کو غیر اسلامی نظام کے غلبے پر اصولاً و عملاًمطمئن کردیں، ان کا شمار آخر کار محسنین میں کس طرح ہوسکتا ہے اور اس جرم عظیم کے ساتھ محض یہ بات انھیں احسان کے مقام عالی پر کیسے سرفراز کرسکتی ہے کہ وہ چاشت اور اشراق اور تہجد کے نوافل پڑھتے رہے، ذکر و شغل اور مراقبے کرتے رہے، حدیث و قرآن کے درس دیتے رہے، جزئیات فقہ کی پابندی اور چھوٹی چھوٹی سنتوں کے اتباع کا سخت اہتمام فرماتے رہے اور تزکیہ نفس کی خانقاہوں میں دینداری کا وہ فن سکھاتے رہے جس میں حدیث فقہ اور تصوف کی باریکیاں تو ساری موجود تھیں مگر ایک نہ تھی تو وہ حقیقی دینداری جو ’’سردادند اددست دردست یزید‘‘ کی کیفیت پیدا کرے اور ’’بازی اگرچہ پانہ سکا سر تو کھوسکا‘‘ کے مقام وفاداری پر پہنچائے۔ آپ دنیوی ریاستوں اور قوموں میں بھی وفادار اور غیر وفادار کی اتنی تمیز ضرور نمایاں پائیں گے کہ اگر ملک میں بغاوت ہوجائے یا ملک کے کسی حصے پر دشمن کا قبضہ ہوجائے تو باغیوں اور دشمنوں کے تسلط کو جو لوگ جائز تسلیم کرلیں، یا ان کے تسلط پر راضی ہوجائیں اور ان کے ساتھ مغلوبانہ مصالحت کرلیں، یا ان کی سرپرستی میں کوئی ایسا نظام بنائیں جس میں اصلی اقتدار کی باگیں انہی کے ہاتھ میں رہیں اور کچھ ضمنی حقوق و اختیارات انھیں بھی مل جائیں، تو ایسے لوگوں کو کوئی ریاست اور کوئی قوم اپنا وفادار ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتی خواہ وہ قومی فیشن کے کیسے ہی سخت پابند اور جزئی معاملات میں قومی قانون کے کتنے ہی شدید پیرو ہوں۔۱( اس حدیث کے جزء ماالمسئول عنہا باعلم من السائل فصل ۳ کے تحت عالم الغیب کے ضمن میں ملاحظہ ہو۔ )؎ (روداد جماعت اسلامی حصہ سوم :احسان)
۲۔ اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْہَدُوْا اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَیُقِیْمُوا الصَّلوٰۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکوٰۃَ فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّیْ دِمَآئَ ہُمْ اِلَّا بِحَقِّ الْاِسْلَامِ وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد، دارقطنی)
ترجمہ: حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں جب وہ ایسا کردیں گے تو مجھ سے اپنی جانیں بچالیں گے، اِلَّا یہ کہ اسلام کا کوئی حق ان کے خلاف قائم ہو، اور ان کا حساب اللہ عزوجل کے ذمے ہے۔‘‘
تشریح: جہاں تک کسی شخص کے درحقیقت مومن یا غیر مومن ہونے کا تعلق ہے اس کا فیصلہ کرنا تو کسی انسان کا کام ہی نہیں ہے۔ یہ معاملہ تو براہ راست خدا سے تعلق رکھتا ہے اور وہی اس کا فیصلہ قیامت کے روز فرمائے گا۔ رہے بندے، تو ان کے فیصلہ کرنے کی چیز اگر کوئی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ خدا اور اس کے رسول نے ملت اسلام کے لیے جو امتیازی نشانات بتائے ہیں ان کے لحاظ سے کون شخص سرحد اسلام کے اندر ہے اور کون اس سے باہر نکل گیا ہے۔ اس غرض کے لیے جو چیزیں ہم کو بنائے اسلام کی حیثیت سے بتائی گئی ہیں۔ (وہ وہی ہیں جو اوپر مذکور ہیں) (تفہیمات حصہ دوم :فتنۂ تکفیر)
تخریج: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِنِ الْمُسْنَدِیُّ، قَالَ:حَدَّثَنَا اَبُوْ رَوْحِ نِ الْحَرَمِیُّ بْنُ عُمَارَۃَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ وَاقِدِبْنِ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ اَبِیْ یُحَدِّثُ: عَنِ ابْنِ عُمَرَ، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ، قَالَ: اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْہَدُوْا اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَ یُقِیْمُوا الصَّلوٰۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکوٰۃَ فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّیْ دِمَآئَ ہُمْ اِلَّا بِحَقِّ الْاِسْلَامِ وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔ (۲)
ترجمہ: حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوںسے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں جب وہ ایسا کردیں گے تو مجھ سے اپنی جانیں بچالیں گے، اِلّا یہ کہ اسلام کا کوئی حق ان کے خلاف قائم ہو اور ان کا حساب اللہ عزوجلّ کے ذمے ہے۔‘‘
۳۔ تَعْبُدُ اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا وَتُقِیْمُ الصَّلوٰۃَ وَتُؤْتِی الزَّکوٰۃَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ۔
ترجمہ: اللہ کی بندگی کر، اس کے ساتھ خداوندی میں کسی کو شریک نہ کر، نماز کا پابند رہ، زکوٰۃ دے اور قرابت داروں کے حقوق ادا کر۔
پس منظر: ایک مرتبہ آپؐ سفر میں تھے،ایک اعرابی نے آکر آپ کے اونٹ کی نکیل تھام لی اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ ؐ! مجھے کوئی ایسی چیز بتایے جو مجھ کو جنت سے قریب اور دوزخ سے دور کردے۔ (فرمایا: تَعْبُدُ اللّٰہ ۔۔۔)
تشریح: یہاںایک ایسا شخص سامنے ہے جو آپؐ کی رسالت کا قائل ہے، حیاتِ اخروی کا قائل ہے، اسلام قبول کرچکا ہے، اس کو تمام ایمانیات اور اخلاقیات کی تفصیل مطلوب نہیں۔ وہ صرف خدا کا قرب حاصل کرنے کے لیے ہدایت مانگ رہا ہے۔ آپؐ اس کی ضرورت کے مطابق اس کو تعلیم دیتے ہیں کہ جس عقیدہ پر اسلام کی بنیاد قائم ہے، اس میں مضبوط ہوجا اور اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق ادا کیے جا۔ (تفہیمات حصہ اوّل : کیا نجات کے لیے۔۔۔؟)
تخریج: حَدَّثَنَااَبُوا لْوَلِیْدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، قَالَ: اَخْبَرَنِی ابْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُوْسیٰ بْنَ طَلْحَۃَ عَنْ اَبِیْ اَیُّوْبَ الْاَنْصَارِیِّ، اَنَّ رَجُلًا قَالَ : یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ! اَخْبِرْنِیْ بِعَمَلٍ یُّدْخِلُنِی الْجَنَّۃَح وَحَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ، حَدَّثَنَا بَہْزٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُوْہِبٍ وَاَبُوْہُ عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ اَنَّہُمَا سَمِعَا مُوْسیٰ بْنَ طَلْحَۃَ، عَنْ اَبِیْ اَیُّوْبَ الْاَنْصَارِیِّ، اَنَّ رَجُلًاقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَخْبِرْنِیْ بِعَمَلٍ یُّدْخِلُنِی الْجَنَّۃَ، فَقَالَ الْقَوْمُ : مَالَہٗ مَا لَہٗ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : اَرَبٌ مَالَہٗ، فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ : تَعْبُدُ اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا وَتُقِیْمُ الصَّلوٰۃَ وَتُؤْتِی الزَّکَوٰۃَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ۔ (۳)
ترجمہ: حضرت ایوب انصاری سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا ’’یا رسول اللہ! مجھے ایسا عمل ارشاد فرمائیں جو مجھے جنت میں داخل کردے۔‘‘ لوگوں نے شور مچانا شروع کردیا کہ ’’اسے کیا ہوگیا اسے کیا ہوگیا۔‘‘آپؐ نے فرمایا ’’اسے کوئی ضرورت پیش آگئی ہے، پھر فرمایا ’’اللہ کی بندگی کر، اس کے ساتھ خداوندی میں کسی کو شریک نہ کر، نماز کا پابند رہ، زکوٰۃ دے اور قرابت داروں کے حقوق ادا کر۔‘‘
حَدَّثَنَا اَبُوْ بَکَرِبْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ، قَالَ: نَا اَبُوْالْاَحْوَصِ عَنْ اَبِیْ اِسْحَاقَ، عَنْ مُوْسیٰ بْنُ طَلْحَۃَ، عَنْ اَبِیْ اَیُّوْبَ قَالَ: جَآئَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ ﷺ فَقَالَ: دُلَّنِیْ عَلیٰ عَمَلٍ اَعْمَلُہٗ یُدْنِیْنِیْ مِنَ الْجَنَّۃِ وَیُبَاعِدُنِیْ مِنَ النَّارِ، قَالَ: تَعْبُدُ اللّٰہَ لَا تُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا وَتُقِیْمُ الصَّلوٰۃَ وَتُؤْتِی الزَّکوٰۃَ وَتَصِلُ ذَارَحِمَکَ فَلَمَّا اَدْبَرَ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: اِنْ تَمَسَّکَ بِمَا اُمِرَ بِہٖ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔(۴)
ترجمہ: ایک آدمی نے نبی ﷺ کی خدمت میںحاضر ہو کر عرض کیا ’’ (یارسول اللہ) مجھے ایسے عمل کی راہ نمائی فرمائیں جو مجھے جنت کے قریب اور دوزخ سے دور کردے۔‘‘ جواب میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، ’’اللہ تعالیٰ کی بندگی کر اور اس کے ساتھ خداوندی میں کسی کو شریک نہ کر، نماز قائم رکھ، اور زکوٰۃ دے اور قریبی رشتہ داروں سے صلہ رحمی کر۔‘‘ یہ سن کر وہ شخص جب واپس پلٹنے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، ’’جن امور کا اسے حکم دیا گیا ہے اگر ان پر عمل پیرا رہا تو جنت میں داخل ہوگیا۔‘‘
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُبْنُ اَبِیْ عُمَرَ الْعَدَنِیُّ، ثَنَاعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ اَبِیْ النُّجُوْدِ، عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ، عَنْ مُعَاذِبْنِ جَبَلٍ، قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ ﷺ فِیْ سَفَرٍ فَاَصْبَحْتُ یَوْمًا قَرِیْبًا مِّنْہُ وَنَحْنُ نَسِیْرُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَخْبِرْنِیْ بِعَمَلٍ یُدْخِلُنِی الْجَنَّۃَ وَیُبَاعِدُنِیْ مِنَ النَّارِ، قَالَ: لَقَدْ سَأَلْتَ عَظِیْمًا وَاِنَّہٗ یَسِیْرٌ عَلیٰ مَنْ یَسَّرَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ۔ تَعْبُدُ اللّٰہَ لَا تُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا وَتُقِیْمُ الصَّلوٰۃَ وَتُوْتِی الزَّکوٰۃَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ وَتَحُجُّ الْبَیْتَ۔۔۔ (۵)
ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل سے مروی ہے بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں، میں نبی ﷺ کے ساتھ تھا۔ہمارا سفر جاری تھا کہ ایک روز علی الصبح حضوؐر کا قرب مجھے نصیب ہوگیا (اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے) میں نے عرض کیا ’’اسے رسولؐ خدا! ’’مجھے ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت کے قریب اور دوزخ سے دور کردے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ، ’’تم نے بہت بڑا سوال کیا مگر اللہ تعالیٰ جس کے لیے آسان فرمادے اس کے لیے بڑا آسان ہے۔ ( پھر فرمایا) ’’اللہ تعالیٰ کی بندگی کر اور اس کے ساتھ خداوندی میں کسی کو شریک و ساجھی نہ بنا، نماز قائم رکھ اور زکوٰۃ دے اور رمضان کے روزے رکھ اور بیت اللہ کا حج کر۔‘‘
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُبْنُ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ نُمَیْرٍ، قَالَ: نَا اَبِیْ، قَالَ: نَا عَمْرُوبْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: نا مُوسیٰ بْنُ طَلْحَۃَ، قَالَ: حَدَّثَنِی اَبُوْ اَیُّوْبَ اَنَّ اَعْرَابِیًّا عَرَضَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ وَہُوَ فِیْ سَفَرٍ فَاَخَذَ بِخِطَامِ نَا قَتِہٖ اَوْبِزِمَا مِہَا، ثُمَّ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَوْ یَا مُحَمَّدُ اَخْبِرْنِی بِمَایُقَرِّبُنِیْ مِنَ الْجَنَّۃِ وَمَا یُبَاعِدُنِیْ مِنَ النَّارِ، قَالَ: فَکَفَّ النَّبِیُّ ﷺ، ثُمَّ نَظَرَفِیْ اَصْحَابِہٖ، ثُمَّ قَالَ: لَقَدْ وُفِّقَ اَوْلَقَدْ ہُدِیَ، قَالَ: کَیْفَ قُلْتَ؟ قَالَ فَاَعَادَ، فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ: تَعْبُدُ اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا وَتُقِیْمُ الصَّلوٰۃَ وَتُؤْتِی الزَّکوٰۃَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ دَعِ النَّاقَۃَ۔ (۶)
ترجمہ: ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سفر میں تھے۔ ایک اعرابی نے سامنے سے آکر آپؐ کے اونٹ کی نکیل پکڑلی اور عرض کیا ’’یا رسول اللہ مجھے کوئی ایسی چیز ارشاد فرمائیں جو مجھے جنت کے قریب اور دوزخ سے دور کردے۔‘‘ راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تھوڑے سے توقف کے بعد اپنے صحابہ میں نظر دوڑا کر فرمایا ’’لازماً توفیق الٰہی سے نوازا گیا یا فرمایا راہِ ہدایت دکھایا گیا۔‘‘ پھر آپؐ نے اس سے فرمایا کہ ذرا اپنا سوال پھر دہرائو تو اس نے دوبارہ پہلے کی طرح عرض کیا۔ آپؐ نے فرمایا، ’’اللہ کی بندگی کر، اس کے ساتھ خداوندی میں کسی کو شریک نہ کر، نماز کا پابند رہ، زکوٰۃ دے اور قرابت داروں کے حقوق ادا کر اور اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو۔‘‘
۴۔تَعْبُدُ اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکْ بِہٖ شَیْئًا وَتُقِیْمُ الصَّلوٰۃَ الْمَکْتُوْبَۃَ وَتُؤْتِیْ الزَّکوٰۃَ الْمَفْرُوْضَۃَ وَتَصُوْمُ رَمَضَانَ۔
ترجمہ: ’’وہ عمل یہ ہے کہ تو صرف اللہ کی بندگی کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، جو نماز فرض کی گئی ہے اس کا پابند رہے، جوزکوٰۃ مقرر کر دی گئی ہے وہ ادا کرتا رہے اور رمضان کے روزے رکھے۔‘‘
پس منظر: ایک دوسرے موقع پر ایک اعرابی حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھ کو جنت میں پہنچادے (تو آپؐ نے یہ کلمات ارشاد فرمائے) اس نے کہا ’’بہ خدا میں نہ اس سے زیادہ کچھ کروں گا نہ کم‘‘ جب وہ چلا گیا تو حضوؐر نے فرمایا، ’’جو شخص اہلِ جنت میں سے کسی کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرنا چاہتا ہو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔‘‘
(تفہیمات حصہ اوّل: کیا نجات کے لیے ۔۔۔؟)
تشریح: اب حضوؐر کی تعلیم اور اس شخص کے جواب اور پھر آپؐ کے آخری ارشاد پر غور کیجیے۔ ایک سچا مسلمان سامنے تھا۔ نبی کی ہدایت کو صدق دل سے قبول کرنے کو تیار تھا۔ اس کو صرف یہ سمجھانے کی ضرورت تھی کہ خدا کی جنت میں داخل ہونے کے لیے بڑی بڑی ریاضتوں اور مجاہدوں کی ضرورت نہیں، چلے کھینچنے اور رات رات بھر وظیفے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ اسی دنیا داری کی زندگی میں اگر تو اپنے اعتقاد کو شرک سے پاک رکھے اور خدا کے عائد کیے ہوئے فرائض ادا کرتا رہے تو جنت تجھے مل سکتی ہے۔
(تفہیمات حصہ اوّل : کیا نجات کے لیے۔۔۔؟)
تخریج: حَدَّثَنَامُحَمَّدُبْنُ اِبْرَاہِیْمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُہَیْبٌ عَنْ یَحْیٰ بْنِ سَعِیْدِبْنِ حَیَّانَ، عَنْ اَبِیْ زُرْعَۃَ، عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، اَنَّ اَعْرَابِیًّا اَتَی النَّبِیَّ ﷺ، فَقَالَ: دُلَّنِیْ عَلیٰ عَمَلٍ اِذَاعَمِلْتُہٗ دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ، قَالَ: تَعْبُدُ اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا وَتُقِیْمُ الصَّلوٰۃَ الْمَکْتُوْبَۃَ وَتُؤَدِّی الزَّکوٰۃَ الْمَفْرُوْضَۃَ وَتَصُوْمُ رَمَضَانَ، قَالَ: وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَااَزِیْدُ عَلیٰ ہٰذَا فَلَمَّا وَلّٰی، قَالَ النَّبِیُّ ﷺ: مَنْ سَرَّہٗ اَنْ یَنْظُرَاِلیٰ رَجُلٍ مِّنْ اَہْلِ الْجَنَّۃِ فَلْیَنْظُرْاِلیٰ ہٰذَا۔ (۷)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک اعرابی نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا ، ’’مجھے ایسے عمل کی طرف راہ نمائی فرمائیں کہ جب میں اسے انجام دوں تو جنت میں داخل ہوجائوں۔‘‘ تو آپؐ نے فرمایا:وہ عمل یہ ہے کہ ’’تو صرف اللہ کی بندگی کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائے، جو نماز فرض کی گئی ہے اس کا پابند رہے۔ جو زکوٰۃ مقرر کردی گئی ہے وہ ادا کرتا رہے اور رمضان کے روزے رکھے۔‘‘(یہ ارشادات سن کر) اس شخص نے کہا، ’’بہ خدا میں نہ اس سے زیادہ کچھ کروں گا نہ کم۔‘‘ جب وہ چلا گیا تو حضوؐر نے فرمایا ’’جو شخص اہل جنت میں سے کسی کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرنا چاہتا ہو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔‘‘
۵۔ ترجمہ: حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو ایک مشن پر یمن بھیجا تو فرمایا کہ تم اہل کتاب کی ایک قوم میں پہنچوگے۔ سب سے پہلے ان کو اس بات کی دعوت دینا کہ لا الٰہ الااللّٰہ کی شہادت دیں اور یہ تسلیم کریں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔جب اس کو مان لیں تو ان سے کہنا کہ اللہ نے تم پر رات دن میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ اس کوبھی مان لیں تو ان سے کہنا کہ اللہ نے تم پر زکوٰۃ بھی فرض کی ہے، جو تمہارے مال داروں سے لی جائے گی اور تمہارے غریبوں کو دے دی جائے گی۔ جب وہ اس کو بھی مان لیں تو خبر دار ان کے (عمدہ و نفیس) مال کو ہاتھ نہ لگانا۔ اور مظلوم کی بددعا سے بچنا کہ اس کے اور خدا کے درمیان کوئی حجاب نہیں۔
(تفہیمات حصہ اوّل : کیا نجات کے لیے ۔۔۔؟)
تخریج: حَدَّثَنِیْ حِبَّانٌ، قَالَ: اَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰہِ عَنْ زَکَرِیَّا بْنِ اِسْحَاقَ، عَنْ یَحْیٰ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ صَیْفِیٍّ، عَنْ اَبِیْ مَعْبَدٍ مَوْلیٰ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لِمُعَاذِبْنِ جَبَلٍ حِیْنَ بَعَثَہٗ اِلَی الْیَمَنِ: اِنَّکَ سَتَاْتِیْ قَوْمًا مِنْ اَہْلِ الْکِتَابِ فَاِذَا جِئْتَہُمْ فَادْعُہُمْ اِلیٰ اَنْ یَّشْہَدُوْا اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ فَاِنْ ہُمْ اَطَاعُوْا لَکَ بِذٰلِکَ فَاَخْبِرْہُمْ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْکُمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ فَاِنْ ہُمْ اَطَاعُوْا لَکَ بِذٰلِکَ فَاَخْبِرْہُمْ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْکُمْ صَدَقَۃً تُوْخَذُ مِنْ اَغْنِیَآئِ ہِمْ فَتُرَدُّ عَلیٰ فُقَرَآئِ ہِمْ فَاِنْ ہُمْ اَطَاعُوْا لَکَ بِذٰلَکَ فَاِیَّاکَ وَکَرَائِمَ اَمْوَالِہِمْ وَاتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ فَاِنَّہٗ لَیْسَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ اللّٰہِ حِجَابٌ۔ (۸)
۶۔ اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حتّٰی یَشْہَدُوْا اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَیُؤْمِنُوْا بِیْ وَبِمَا جِئْتُ بِہٖ فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّیْ دِمَآئَ ہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ اِلَّا بِحَقِّہَا وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ۔
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں اور مجھ پر اور ان سب باتوں پر ایمان لائیں جو میں لایا ہوں۔ پھرجب انھوں نے ایسا کردیا تو مجھ سے اپنی جانوں اور مالوں کو بچالیا الاّ یہ کہ ان کے خلاف کوئی حق قائم ہوجائے، اس کے بعد ان کا حساب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
تخریج: (الف) حَدَّثَنَا اَحْمَدُبْنُ عَبْدَۃَ الضَّبِّیُّ، قَالَ: اَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ یَعْنِی الدَّرَاوَرْدِیُّ، عَنِ الْعَلَائِ ح وَحَدَّثَنَا اُمَیَّۃُ بْنُ بَسْطَامٍ وَاللَّفْظُ لَہٗ، قَالَ: نَا یَزِیْدُبْنُ زُرَیْعٍ، قَالَ: نَارَوْحٌ عَنِ الْعَلَائِ ابْنِ عَبدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَعْقُوبَ عَنْ اَبِیْہِ۔ عَن اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ، قَالَ: اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْہَدُوْا اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَیُؤْمِنُوْا بِیْ وَبِمَا جِئْتُ بِہٖ فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّیْ دِمَآئَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ اِلَّا بِحَقِّہَا وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ۔ (۹)
(ب) حَدَّثَنَا یَحْیٰ بْنُ بُکَیْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّیْثُ، عَنْ عُقَیْلٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، قَالَ: اَخْبَرَنِیْ عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ، اَنَّ اَبَاہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ ﷺ : اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ فَمَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ عَصَمَ مِنِّیْ مَالُہٗ وَنَفْسُہٗ اِلَّا بِحَقِّہٖ وَحِسَابُہٗ عَلَی اللّٰہِ ۔۔۔(۱۰)
اس روایت میں جمع کے بجائے واحد کا صیغہ ہے۔
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں۔ پس جس شخص نے لا الہ الا اللہ کہا تو اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان کو بچالیا اِلّا یہ کہ اس کے خلاف کوئی حق قائم ہو جائے، اس کے بعد اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
(ج) حَدَّثَنَامُسَدَّدٌ، ثَنا اَبُوْ مُعَاوِیَۃَ عَنِ الْاَعْمَشِ، عَنْ اَبِیْ صَالِحٍ، عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ فَاِذَا قَالُوْہَا مَنَعُوْا مِنِّیْ دِمَآئَ ہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ اِلَّا بِحَقِّہَا وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ تَعَالیٰ۔(۱۱)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا الہٰ الّا اللہ کہیں (اقرار کریں) پس جب انھوں نے لا الہٰ الّا اللہ کا اقرار کرلیا تو مجھ سے اپنے خون ، اپنے مال بچالیے الّا یہ کہ ان کے خلاف کوئی حق قائم ہوجائے، اس کے بعد ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
اس روایت میں یَشْہَدُوْا کے بجائے قَالُوْا ہے۔
(د) حَدَّثَنَاأَحْمَدُبْنُ الْاَزْہَرِ، ثنا اَبُوا النَّضْرِ، ثَنَا اَبُوْ جَعْفَرٍ، عَنْ یُوْنُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْہَدُوْا اَنْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَیُقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَیُوْتُوا الزَّکوٰۃَ۔ (۱۲)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی شہادت دیں اور اس کی شہادت دیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیتے رہیں۔‘‘
۷۔ اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْہَدُوْا اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَاَنْ یَسْتَقْبِلُوْا قِبْلَتَنَا وَاَنْ یَاْکُلُوْا ذَبِیْحَتَنَا وَاَنْ یُّصَلُّوْا صَلَاتَنَا فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ حَرُمَتْ عَلَیْنَا دِمَائُ ہُمْ وَاَمْوَالُہُمْ اِلَّا بِحَقِّہَا لَہُمْ مَا لِلْمُسْلِمِیْنَ وَعَلَیْہِمْ مَا علَی الْمُسْلِمِیْنَ۔ (ابوداؤد، ترمذی)
ترجمہ: حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اس کا بندہ اور رسول ہے اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کریں اور ہمارا ذبیحہ کھائیں اور ہماری طرف نماز پڑھیں۔ جب وہ ایسا کریں گے تو ہمارے اوپر ان کے خون اور ان کے اموال حرام ہوجائیں گے۔ بجز اس کے کہ کسی حق کے بدلے میں ان کو لیا جائے۔ ان کے حقوق وہی ہوں گے جو مسلمانوں کے ہیں اور ان پر فرائض وہی عائد ہوں گے جو مسلمانوں پر ہیں۔‘‘
تشریح: اس اعتقادی قانون کی رو سے اسلام اور کفر کے درمیان ابدی جنگ ہے مگر یہ جنگ محض نظری (Theoretical) ہے۔ ہر کافر حربی (Enemy) ہے، مگر اس معنی میں کہ جب تک ہماری اور اس کی قومیت الگ ہے۔ ہمارے اور اس کے درمیان بنائے نزاع قائم ہے۔ ہر دارالکفر دار الحرب ہے، مگراس کا مفہوم صرف یہ ہے کہ جب تک وہ دارلکفر ہے محل حرب ہے۔ یا بالفاظ دیگر حربیت کا کلی ارتفاع صرف اختلاف قومیت ہی کے مٹ جانے سے ہوسکتا ہے۔ اس قانون نے محض ایک نظریہ اور قاعدۂ اصلیہ واضح طور پر مسلمانوں کے سامنے رکھ دیا ہے جس پر ان کی حکمت عملی کی بنا قائم ہے۔ باقی رہے حقوق و واجبات اور جنگ و صلح کے عملی مسائل تو ان کا اس قانون سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دستوری اور بین الاقوامی قانون سے تعلق رکھتے ہیں۔
(سود: اعتقاد ی قانون)
تخریج: حَدَّثَنَا سَعِیْدُبْنُ یَعْقُوْبَ الطَّالِقَانِیُّ، ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ، عَنْ حُمَیْدٍ، عَنْ اَنْسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْہَدُوْا اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَاَنْ یسْتَقْبِلُوْا قِبْلَتَنَا وَاَنْ یَّاْکُلُوْا ذَبِیْحَتَنَا ، وَاَنْ یُّصَلُّوْا صَلَاتَنَا فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ حَرُمَتْ عَلَیْنَا دِمَائُ ہُمْ وَاَمْوَالُہُمْ اِلَّا بِحَقِّہَا، لَہُمْ مَا لِلْمُسْلِمِیْنَ، وَعَلَیْہِمْ مَا عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ۔(۱۳)
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یَشْہَدُوْا اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ فَاِذَا شَہِدُوْا اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَصَلُّوا صَلَا تَنَا وَاسْتَقْبَلُوا قِبْلَتَنَا وَاَکَلُوْا ذَبَائِحَنَا ۔۔۔
اس روایت میں الناس کے بجائے مشرکون کا لفظ آیا ہے۔
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے۔ ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مشرکین سے جنگ کروں یہاں تک کہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ پس جب وہ اس کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور ہماری طرح نماز پڑھیں اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کریں اور ہمارا ذبیحہ کھائیں۔‘‘
حَدَّثَنَا نُعَیْمٌ، قَالَ: نَا ابْنُ الْمُبَارَکِ، عَنْ حُمَیْدِنِ الطَّوِیْل، عَنْ اَنَسِ ابْنِ مَالِکٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ فَاِذَا قَالُوْہَا وَصَلُّوْا صَلَاتَنَا وَاسْتَقْبَلُوْا قِبْلَتَنَآ وَاَکَلُوْا ذَبِیْحَتَنَا فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَیْنَا دِمَائُ ہُمْ وَاَمْوَالُہُمْ اِلَّا بِحَقِّہَا وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ۔ (۱۴)
ترجمہ: حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہیں (اقرار کریں) پس جب وہ اس کلمہ کا اقرار کرلیں اور ہماری طرح نماز پڑھیں اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کریں اور ہمارا ذبیحہ کھائیں تو ان کے خون اور ان کے مال ہم پر حرام ہوگئے۔ اِلّا یہ کہ کوئی حق ان کے خلاف قائم ہوجائے۔ اس کے بعد ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘

قانونی اور حقیقی اسلام کا فرق

۸۔ مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطیٰ لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ۔
ترجمہ: حضرت ابو امامہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’جس نے کسی سے دوستی و محبت کی تو خدا کے لیے کی اور دشمنی کی تو خدا کے لیے کی اور کسی کو دیا تو خدا کے لیے دیا اور کسی سے روکا تو خدا کے لیے روکا، اس نے اپنے ایمان کو کامل کرلیا، یعنی وہ پورا مومن ہوگیا۔‘‘
تشریح: اللہ تعالیٰ اپنی کتاب پاک میں فرماتا ہے۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۔
’’ ( اے محمد ﷺ) کہو میری نماز اور میرے تمام مراسمِ عبودیت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ کے لیے ہے جو ساری کائنات کا مالک ہے۔ اس کاکوئی شریک نہیں، اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے میں اس کی اطاعت میں سر تسلیم خم کرتا ہوں۔‘‘
اس آیت کی تشریح نبی ﷺ کے (مندرجہ بالا)ارشاد سے ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی بندگی کو اور اپنے جینے اور مرنے کو صرف اللہ کے لیے خالص کرلے اور اللہ کے سوا کسی کو اس میں شریک نہ کرے۔ یعنی نہ تو اس کی بندگی اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے ہو اور نہ اس کا جینا اور مرنا ۔ اس کی جو تشریح نبی ﷺ نے ارشاد فرمائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کی محبت اور دشمنی اور اپنی دنیوی زندگی کے معاملات میں اس کا لین دین خالصتاً خدا کے لیے ہونا عین تقاضائے ایمان ہے۔ اس کے بغیر ایمان ہی کی تکمیل نہیں ہوتی کجا کہ مراتبِ عالیہ کا دروازہ کھل سکے۔جتنی کمی اس معاملے میں ہوگی اتنا ہی نقص آدمی کے ایمان میں ہوگا اور جب اس حیثیت سے آدمی مکمل طور پر خدا کا ہوجائے تب کہیں اس کا ایمان مکمل ہوتا ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی چیزیں صرف مراتب عالیہ کا دروازہ کھولتی ہیں، ورنہ ایمان و اسلام کے لیے انسان کے اندر یہ کیفیت پیدا ہونا شرط نہیں ہے۔ یعنی بالفاظ دیگر اس کیفیت کے بغیر بھی انسان مومن و مسلم ہوسکتا ہے۔ مگر یہ ایک غلط فہمی ہے اور اس غلط فہمی کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر لوگ فقہی اور قانونی اسلام اور اس حقیقی اسلام میں جو خدا کے ہاں معتبر ہے، فرق نہیں کرتے۔ فقہی اور قانونی اسلام میں آدمی کے قلب کا حال نہیں دیکھا جاتا اور نہیں دیکھا جاسکتا۔ بلکہ صرف اس کے اقرار زبانی کو اور اس امر کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے اندر ان لازمی علامات کو نمایاں کرتا ہے یا نہیں، جو اقرار زبانی کی توثیق کے لیے ضروری ہیں۔ اگر کسی شخص نے زبان سے اللہ اور رسول ﷺ اور قرآن اور آخرت اور دوسرے ایمانیات کو ماننے کا اقرار کرلیا اور اس کے بعد وہ ضروری شرائط بھی پوری کردیں جن سے اس کے ماننے کا ثبوت ملتا ہے تو وہ دائرہ اسلام میں لے لیا جائے گا۔ اور سارے معاملات اس کے ساتھ مسلمان سمجھ کر کیے جائیں گے۔ لیکن یہ چیز صرف دنیا کے لیے ہے اور دنیوی حیثیت سے وہ قانونی اور تمدنی بنیاد فراہم کرتی ہے جس پر مسلم سوسائٹی کی تعمیر کی گئی ہے۔ اس کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایسے اقرار کے ساتھ جتنے لوگ مسلم سوسائٹی میں داخل ہوں، ان کو ایک دوسرے پر شرعی اور قانونی اور اخلاقی اور معاشرتی حقوق حاصل ہوجائیں۔ ان کے درمیان شادی بیاہ کے تعلقات قائم ہوں، میراث تقسیم ہو، اور دوسرے تمدنی روابط وجود میں آئیں۔ لیکن آخرت میں انسان کی نجات اور اس کا مسلم و مومن قرار دیا جانا اور اللہ کے مقبول بندوں میں شمار ہونا اس قانونی اقرار پر مبنی نہیں ہے، بلکہ وہاں اصل چیز آدمی کا قلبی اقرار، اس کے دل کا جھکائو اور اس کا برضا و رغبت اپنے آپ کو بالکلیہ خدا کے حوالے کردینا ہے۔ دنیا میں جو زبانی اقرار کیا جاتا ہے وہ تو صرف قاضی شرع کے لیے اور عام انسانوں اور مسلمانوں کے لیے ہے۔ کیونکہ وہ صرف ظاہرہی کو دیکھ سکتے ہیں، مگر اللہ آدمی کے دل کو اور اس کے باطن کو دیکھتا ہے، اور اس کے ایمان کو ناپتا ہے۔ اس کے ہاں آدمی کو جس حیثیت سے جانچا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ آیا اس کا جینا اور مرنا اور اس کی وفاداریاں اور اس کی اطاعت و بندگی ، اور اس کا پورا کارنامۂ زندگی اللہ کے لیے ہے یا کسی اور کے لیے۔ اگر اللہ کے لیے ہے تو وہ مسلم اور مومن ہے اور اگر کسی اور کے لیے ہے تو نہ مسلم ہے نہ مومن۔ اس حیثیت سے جو جتنا خام ہے اتنا ہی اس کا ایمان اور اسلام خام ہے خواہ دنیا میں اس کا شمار کیسے ہی بڑے مسلمانوں میں ہوتا ہو اور اس کو کتنے ہی بڑے مراتب دیے جاتے ہوں۔ اللہ کے ہاں قدر صرف اس چیز کی ہے کہ جو کچھ اس نے آپ کو دیا ہے وہ سب کچھ آپ نے اس کی راہ میں لگادیا یا نہیں۔ اگر آپ نے ایسا کردیا تو آپ کو وہی حق دیا جائے گا جو وفاداروں کو اور حق بندگی ادا کرنے والوں کو دیا جاتا ہے، اور اگر آپ نے کسی چیز کو خدا کی بندگی سے مستثنیٰ کرکے رکھا، تو آپ کا یہ اقرار کہ آپ مسلم ہوئے یعنی یہ کہ آپ نے اپنے آپ کو بالکل خدا کے حوالے کردیا، محض ایک جھوٹا اقرار ہے، جس سے دنیا کے لوگ دھوکا کھاسکتے ہیں، جس سے فریب کھا کر مسلم سوسائٹی آپ کو اپنے اندر جگہ دے سکتی ہے، جس سے دنیا میں آپ کو مسلمانوں کے سے تمام حقوق مل سکتے ہیں۔ لیکن اس سے فریب کھا کر خدا اپنے ہاں آپ کو وفاداروں میں جگہ نہیں دے سکتا۔
یہ قانونی اور حقیقی اسلام کا فرق جو (اوپر بیان کیا گیا ہے) اگر آپ اس پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس کے نتائج صرف آخرت ہی میں مختلف نہیں ہوں گے بلکہ دنیا میں بھی ایک بڑی حد تک مختلف ہیں۔ دنیا میں جو مسلمان پائے گئے ہیں یا آج پائے جاتے ہیں، ان سب کو دو قسموں پر منقسم کیا جاسکتا ہے۔ ایک قسم کے مسلمان وہ جوخدا اور رسول کا اقرار کرکے اسلام کو بحیثیت اپنے مذہب کے مان لیں، مگر اپنے اس مذہب کو اپنی کل زندگی کا محض ایک جز اور ایک شعبہ ہی بنا کر رکھیں، اس مخصوص جز اور شعبے میں تو اسلام کے ساتھ عقیدت ہو، عبادت گزار یاں ہوں، تسبیح و مصلّے ہوں، خدا کا ذکر ہو ، کھانے پینے اور بعض معاشرتی معاملات میں پرہیز گاریاں ہوں اور وہ سب کچھ ہو جسے مذہبی طرزِ عمل کہا جاتا ہے، مگر اس شعبے کے سوا ان کی زندگی کے دوسرے تمام پہلو ان کے مسلم ہونے کی حیثیت سے مستثنیٰ ہوں۔ وہ محبت کریں تو اپنے نفس یا اپنے مفاد یا اپنے ملک و قوم یا کسی اور کی خاطر کریں۔ وہ دشمنی کریں، اور کسی سے جنگ کریں تو وہ بھی ایسے ہی کسی دنیوی یا نفسانی تعلق کی بنا پر کریں۔ ان کے کاروبار ، ان کے لین دین، ان کے معاملات اور تعلقات ، ان کا اپنے بال بچوں ، اپنے خاندان ، اپنی سوسائٹی اور اپنے اہل محکمہ کے ساتھ برتائو سب کا سب ایک بڑی حد تک دین سے آزاد اور دنیوی حیثیتوں پر مبنی ہو۔ ایک زمیندار کی حیثیت سے، ایک تاجر کی حیثیت سے، ایک حکمران کی حیثیت سے، ایک سپاہی کی حیثیت سے، ایک پیشہ ور کی حیثیت سے ان کی اپنی ایک مستقل حیثیت ہو۔ جس کا ان کے مسلمان ہونے کی حیثیت سے، خواہ جزئی طور پر متاثر یا منسوب ہوں، لیکن فی الواقع ان کو اسلام سے کوئی علاقہ نہ ہو۔ دوسری قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اپنی پوری شخصیت کو اور اپنے سارے وجود کو اسلام کے اندر پوری طرح دے دیں۔ ان کی ساری حیثیتیں ان کے مسلمان ہونے کی حیثیت میں گم ہوجائیں۔ وہ باپ ہوں تو مسلمان کی حیثیت سے، بیٹے ہوں تو مسلمان ہونے کی حیثیت سے، شوہر یا بیوی ہوں تو مسلمان کی حیثیت سے۔ تاجر، زمیندار، مزدور، ملازم یا پیشہ ور ہوں تو مسلمان کی حیثیت سے ان کی خدمات ، ان کی خواہشات ، ان کے نظریات ، ان کے خیالات اور ان کی رائیں، ان کی نفرت اور رغبت ، ان کی پسند اور نا پسند سب کچھ اسلام کے تابع ہو۔ ان کے دل و دماغ پر، ان کی آنکھوں اور کانوں پر، ان کے پیٹ اور ان کی شرم گاہوں پر، اور ان کے ہاتھ پائوں اور ان کے جسم و جان پر اسلام کا مکمل قبضہ ہو۔ نہ ان کی محبت اسلام سے آزاد ہو نہ دشمنی۔ جس سے ملیں تو اسلام کے لیے ملیں اور جس سے لڑیں تو اسلام کے لیے لڑیں۔ کسی کو دیں تو اس لیے دیں کہ اسلام کا تقاضا یہی ہے کہ اسے دیا جائے اور کسی سے روکیں تو اس لیے روکیں کہ اسلام یہی کہتا ہے کہ اس سے روکا جائے۔ اور ان کا یہ طرزِ عمل صرف انفرادی حد تک ہی نہ ہو بلکہ ان کی اجتماعی زندگی بھی سراسر اسلام کی بنیاد پر قائم ہو۔بحیثیت ایک جماعت کے ان کی ہستی صرف اسلام کے لیے قائم ہواور ان کا سارا اجتماعی برتائو اسلام کے اصولوں ہی پر مبنی ہو۔
یہ دو قسم کے مسلمان حقیقت میں ایک دوسرے سیبالکل مختلف ہیں، چاہے قانونی حیثیت سے دونوں پر لفظ مسلمان کا اطلاق یکساں ہو۔ پہلی قسم کے مسلمانوں کا کوئی کارنامہ تاریخ اسلام میںقابل ذکر یا قابل فخر نہیں ہے۔ انھوں نے فی الحقیقت کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جس نے تاریخ عالم پر کوئی اسلامی نقش چھوڑا ہو۔ اسلام کو اگر تنزّل نصیب ہوا ہے تو ایسے ہی لوگوں کی بدولت نصیب ہوا ہے۔ ایسے ہی مسلمانوں کی کثرت مسلم سوسائٹی میں ہو جانے کا نتیجہ اس شکل میں رونما ہوا کہ دنیا کے نظام زندگی کی باگیں کفر کے قبضے میں چلی گئیں اور مسلمان اس کے ماتحت رہ کر صرف ایک محدود مذہبی زندگی کی آزادی پر قانع ہوگئے۔ خدا کو ایسے مسلمان ہر گز مطلوب نہ تھے۔ اس نے اپنے انبیاء کو دنیا میں اس لیے نہیں بھیجا تھا، نہ اپنی کتابیں اس لیے نازل کی تھیں کہ صرف اس طرز کے مسلمان دنیا میں بناڈالے جائیں۔ دنیا میں ایسے مسلمانوں کے نہ ہونے سے کسی حقیقی قدروقیمت رکھنے والی چیز کی کمی نہ تھی جسے پورا کرنے کے لیے سلسلہ وحی و نبوت کو جاری کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ درحقیقت جو مسلمان خدا کو مطلوب ہیں جنھیں تیار کرنے کے لیے انبیاء کی بعثت اور کتابوں کی تنزیل ہوئی اور جنھوں نے اسلامی نقطۂ نظر سے کبھی کوئی قابلِ قدر کام کیا ہے یا آج کرسکتے ہیں وہ صرف دوسری ہی قسم کے مسلمان ہیں۔
(روداد جماعت اسلامی سوم : قانونی اور حقیقی ۔۔۔)
ایمان ( ضمائر کے قدرے تغیر کے ساتھ) اسلام کا یہ معیار جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے ہم سب اپنے آپ کو اس پر پرکھ کر دیکھیں اور اس کی روشنی میں اپنا محاسبہ کریں۔ ۔ ۔ کیا ہم نے اپنی پسند اور ناپسند کو سراسر رضائے الٰہی کے تابع کردیا ہے؟ پھر دیکھیے کہ واقعی ہم جس سے محبت کرتے ہیں خدا کے لیے کرتے ہیں۔ ہماری نفسانیت کا کوئی حصہ شامل نہیں ہے؟ پھر کیا ہمارا دینا اور روکنا بھی خدا کی خاطر ہوچکا ہے؟ اپنے پیٹ اور اپنے نفس سمیت دنیا میں ہم جس کو جو کچھ دے رہے اسی لیے دے رہے ہیں کہ خدا نے اس کا حق مقرر کیا ہے اور اس کو دینے سے صرف خدا کی رضا ہم کو مطلوب ہے؟ اور اسی طرح جس سے ہم جو کچھ روک رہے ہیں وہ بھی اسی لیے روک رہے ہیں کہ خدا نے اسے روکنے کا حکم دیا ہے، اور اس کے روکنے میں ہمیں خدا کی خوشنودی حاصل ہونے کی تمنا ہے؟ اگر ہم یہ کیفیت اپنے اندر پاتے ہیں تو اللہ کا شکر کیجیے کہ اس نے ہم پر نعمت ایمان کا اتمام کردیا۔ اور اگر اس حیثیت سے ہم اپنے اندر کمی محسوس کرتے ہیں تو ساری فکریں چھوڑ کر بس اسی کمی کو پورا کرنے کی فکر کیجیے اور اپنی تمام کوششوں اور محنتوں کو اسی پر مرکوز کردیجیے ، کیونکہ اسی کسر کے پورے ہونے پر دنیا میں ہماری فلاح اور آخرت میں ہماری نجات کا مدار ہے۔ ہم دنیا میں خواہ کچھ بھی حاصل کرلیں، اس کے حصول سے اس نقصان کی تلافی نہیں ہوسکتی جو اس کسر کی بدولت ہمیں پہنچے گا۔ لیکن اگر یہ کسر ہم نے پوری کرلی تو خواہ ہم کو دنیا میں کچھ حاصل نہ ہو پھر بھی ہم خسارے میں نہ رہیں گے۔
یہ کسوٹی اس غرض کے لیے نہیں ہے کہ اس پر ہم دوسروں کو پرکھیں اور ان کے مومن یا منافق اور مسلم یا کافر ہونے کا فیصلہ کریں۔ بلکہ یہ کسوٹی اس غرض کے لیے ہے کہ ہم اس پر خود اپنے آپ کو پرکھیں، اور آخرت کی عدالت میں جانے سے پہلے اپنا کھوٹ معلوم کرکے یہیں اسے دور کرنے کی فکر کریں۔ ہمیں فکر اس بات کی نہ ہونی چاہیے کہ دنیا میں مفتی اور قاضی ہمیں کیا قرار دیتے ہیں، بلکہ اس کی ہونی چاہیے کہ احکم الحاکمین اور عالم الغیب و الشہادۃ ہمیں کیا قرار دے گا۔ ہم اس پر مطمئن نہ ہوں کہ یہاں ہمارا نام مسلمانوں کے رجسٹر میں لکھا ہے، فکر اس بات کی کیجیے کہ خدا کے دفتر میں ہم کیا لکھے جاتے ہیں۔ ساری دنیا بھی ہم کو سند اسلام و ایمان دے دے تو کچھ حاصل نہیں۔ فیصلہ خدا کے ہاتھ ہے اس کے ہاںمنافق کے بجائے مومن، نافرمان کے بجائے فرماں بردار اور بے وفا کی جگہ وفادار قرار پانا اصل کامیابی ہے۔ (خطبات : محاسبۂ نفس)
تخریج: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ، ثَنَا مُحَمَّدُبْنُ شُعَیْبِ بْنِ شَابُوْرٍ، عَنْ یَحْیٰ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْقَاسِمِ،عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ، اَنَّہٗ قَالَ: مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ۔ (۱۵)

اِسْتِقَامت فِی الدین

۹۔ قَدْ قَالَہَاالنَّاسُ ثُمَّ کَفَرَ اَکْثَرُہُمْ، فَمَنْ مَاتَ عَلَیْہَا فَہُوَ مِمَّنِ اسْتَقَامَ۔
ترجمہ: حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا ’’بہت سے لوگوں نے اللہ کو اپنا رب کہا مگر ان میں سے اکثر کافر ہوگئے۔ ثابت قدم وہ شخص ہے جو مرتے دم تک اسی عقیدے پر جما رہا۔ (ابن جریر، نسائی، ابن ابی حاتم)
تشریح: یعنی محض اتفاقاً کبھی اللہ کو اپنا رب کہہ کر نہیں رہ گئے، اور نہ اس غلطی میں مبتلا ہوئے کہ اللہ کو اپنا رب کہتے بھی جائیں اور ساتھ ساتھ دوسروں کو اپنا رب بناتے بھی جائیں، بلکہ ایک مرتبہ یہ عقیدہ قبول کرلینے کے بعد پھر ساری عمر اس پر قائم رہے، اس کے خلاف کوئی دوسرا عقیدہ اختیار نہ کیا نہ اس عقیدے کے ساتھ کسی باطل عقیدے کی آمیزش کی، اور اپنی عملی زندگی میں بھی عقیدۂ توحید کے تقاضوں کو پورا کرتے رہے۔
خدا اور رسول کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے اور خدا کے دین کو قائم کرنے میں جو مشکلات بھی پیش آئیں، جو خطرات بھی درپیش ہوئے، جو تکلیفیں بھی اٹھانی پڑیں اور جن نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑے ان کا پوری ثابت قدمی سے مقابلہ کرتے رہے۔ کوئی خوف کوئی لالچ اور خواہشات نفس کا کوئی تقاضا ان کو سیدھی راہ سے ہٹادینے میں کامیاب نہیں ہوا۔
تخریج: حَدَّثَنَا عَمْرُوبْنُ عَلِیٍّ، قَالَ: ثَنَا سَالِمُ بْنُ قُتَیْبَۃَ اَبُوْ قُتَیْبَۃَ، قَالَ: ثَنَا سُہَیْلُ بْنُ اَبِیْ حَزْمِ ن الْقُطَعِیٌّ، عن ثَابِتِ نِالْبَنَانِیُّ، عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَرَأَ: اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا، قَالَ قَدْ قَالَہَا النَّاسُ ثُمَّ کَفَرَاَکْثَرُ ہُمْ فَمَنْ مَاتَ عَلَیْہَا فَہُوَ مِمَّنِ اسْتَقَامَ۔ (۱۶)
حضرت ابوبکر صدیقؓ اس حدیث کی تشریح یوں کرتے ہیں:
لَمْ یُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ شَیْئًا، لَمْ یَلْتَفِتُوْا اِلیٰ اِلٰہٍ غَیْرِہٖ۔
’’پھر اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا۔ اس کے سوا کسی دوسرے معبود کی طرف توجہ نہ کی۔‘‘ (ابن جریر)
تخریج(۱): حَدَّثَنَا اَبُو کُرَیْبٍ وَاَبُو السَّائِبِ، قَالَا: ثَنَا ابْنُ اِدْرِیْسُ، قَالَ: اَخْبَرَنَا الشَّیْبَانِیُّ عَنْ أَبِیْ بَکْرِبْنِ اَبِیْ مُوْسیٰ، عَنِ الْاَسْوَدِبْنِ ہِلَالِ نِ الْمُحَارِبِیِّ، قَالَ: قَالَ اَبُوْ بَکْرٍ مَا تَقُوْلُوْنَ فِیْ ہٰذِہِ الْاٰیَۃِ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا، قَالَ: فَقَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا مِنْ ذَنْبٍ، قَالَ: فَقَالَ اَبُوْبَکْرٍ: لَقَدْ حَمِلْتُمْ عَلیٰ غَیْرِ الْمَحْمَلِ، قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَمْ یَلْتَفِتُوا اِلیٰ اِلٰہٍ غَیْرِہٖ۔(۱۷)
حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ منبر پر فرمایا:’’خدا کی قسم! استقامت اختیار کرنے والے وہ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوگئے، لومڑیوںکی طرح اِدھرسے اُدھر اور ُادھر سے اِدھر دوڑتے نہ پھرے۔‘‘ (ابن جریر)
(۲): حَدَّثَنَا اَحْمَدُ بْنُ مَنِیْعٍ، قَالَ: ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمَبَارَکِ، قَالَ: ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ یَزِیْدَ، عَنِ
الزُّہْرِیِّ، قَالَ: تَلَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلَی الْمِنْبَرِ، اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثمَّ اسْتَقَامُوْا قَالَ اسْتَقَامُوْا وَاللّٰہِ بِطَاعَتِہٖ وَلَمْ یُرَوِّغُوْا رَوْغَانِ الثَّعَالِبِ۔ (۱۸)
حضرت عثمانؓ (استقامت کے بارے میں ) فرماتے ہیں کہ ’’اپنے عمل کو اللہ کے لیے خالص کرلینا‘‘
(کشّاف ص۳۳۱، سورہ حٰم ٓالسجدہ)
( کشّاف، ص:۳۳۱ سورہ حٰمٓ السجدہ مطبع الشرفیہ (تفہیم القرآن، ج ۴، حٰمٓالسجدہ))حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ ’’ اللہ کے عائد کردہ فرائض فرماں برداری کے ساتھ ادا کرتے رہنا۔‘‘

توکّل علی اللہ

۱۰۔ مَنْ اَحَبَّ اَنْ یَکُوْنَ اَقْویٰ النَّاسِ فَلْیَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ، وَمَنْ اَحَبَّ اَنْ یَکُوْنَ اَغْنَی النَّاسِ فَلْیَکُنْ بِمَا فِی یَدِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ اَوْثَقَ مِنْہُ بِمَا فِیْ یَدَیْہِ، وَمَنْ اَحَبَّ اَنْ یَکُوْنَ اَکْرَمَ النَّاسِ فَلْیتَّقِ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ۔
ترجمہ: ابن ابی حاتم نے ابنِ عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ’’جو شخص چاہتا ہو کہ سب انسانوں سے زیادہ طاقتور ہوجائے اسے چاہیے کہ اللہ پر توکل کرے اور جو شخص چاہتا ہو کہ سب سے بڑھ کر غنی ہوجائے اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے اس پر زیادہ بھروسہ رکھے بہ نسبت اس چیز کے جو اس کے اپنے ہاتھ میں ہے، اور جو شخص چاہتا ہو کہ سب سے زیادہ عزت والا ہوجائے اسے چاہیے کہ اللہ عزوجل سے ڈرے۔‘‘ (تفہیم القرآن، ج ۴،الزمر حاشیہ: ۵۷)
تشریح: توکل کے معنی یہ ہیں کہ:
اولاً، آدمی کو اللہ تعالیٰ کی رہنمائی پر کامل اعتماد ہو اور وہ سمجھے کہ حقیقت کا جو علم، اخلاق کے جو اصول ، حلال و حرام کے جو حدود اور دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے جو قواعد و ضوابط اللہ نے دیے ہیں وہی برحق ہیں اور انہی کی پیروی میں انسان کی خیر ہے۔
ثانیاً، آدمی کا بھروسا اپنی طاقت، قابلیت، اپنے ذرائع و وسائل، اپنی تدابیر اور اللہ کے سوا دوسروں کی امداد و اعانت پر نہ ہو، بلکہ وہ پوری طرح یہ بات ذہن نشین رکھے کہ دنیا و آخرت کے ہر معاملے میں اس کی کامیابی کا اصل انحصار اللہ کی توفیق و تائید پر ہے، اور اللہ کی توفیق و تائید کا وہ اسی صورت میں مستحق ہوسکتا ہے جب کہ وہ اس کی رضا کو مقصود بنا کر، اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کی پابندی کرتے ہوئے کام کرے۔
ثالثًا، آدمی کو ان وعدوں پر پورا بھروسا ہوجو اللہ تعالیٰ نے ایمان و عملِ صالح کا رویہ اختیار کرنے والے اور باطل کے بجائے حق کے لیے کام کرنے والے بندوں سے کیے ہیں، اور انہی وعدوں پر اعتماد کرتے ہوئے وہ ان تمام فوائد اور منافع اور لذائذ کو لات ماردے جو باطل کی راہ پر جانے کی صورت میں اسے حاصل ہوتے نظر آتے ہوں، اور ان سارے نقصانات اور تکلیفوں اور محرومیوں کو انگیز کر جائے جو حق پر استقامت کی وجہ سے اس کے نصیب میں آئیں۔
توکل کے معنی کی اس تشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایمان کے ساتھ اس کا کتنا گہرا تعلق ہے، اور اس کے بغیر جو ایمان محض خالی خولی اعتراف و اقرار کی حد تک ہو، اس سے وہ شاندار نتائج کیوں نہیں حاصل ہوسکتے جن کا وعدہ ایمان لاکر توکل کرنے والوں سے کیا گیا ہے۔ (تفہیم القرآن ج ۴، الشوریٰ حاشیہ :۵۷)
تخریج: قَالَ ابْنُ اَبِیْ حَاتِمٍ،حَدَّثَنَا اَحْمَدُبْنُ عِصَامِ نِ الْاَنْصَارِیُّ، ثَنَاعَبْدُاللّٰہِ بْنُ بَکْرِ السَّہْمِیُّ، ثَنَا مُحَمَّدُبْنُ حَاتِمٍ، عَنْ اَبِی الْمِقْدَامِ مَوْلیٰ آلِ عُثْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِبْنِ کَعْبِ نِالْقُرَظَیِّ، ثَنَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، رَفَعَ الْحَدِیْثَ اِلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ اَحَبَّ اَنْ یَکُوْنَ اَقْوَی النَّاسِ فَلْیَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَمَنْ اَحَبَّ اَنْ یَکُوْنَ اَغْنَی النَّاسِ فَلْیَکُنْ بِمَا فِی یَدِاللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ اَوْثَقَ مِنْہُ بِمَا فِیْ یَدَیْہِ وَمَنْ اَحَبَّ اَنْ یَکُوْنَ اَکْرَمَ النَّاسِ فَلْیَتَّقِ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ۔

صرف ایمان باللہ سے ہی انسان راہ راست پر قائم رہ سکتا ہے

۱۱۔ عَجَبًا لِلْمُؤْمِنِ، لَایَقْضِی اللّٰہُ لَہٗ قَضَائً اِلَّا کَانَ خَیْرًا لَّہٗ، وَلَیْسَ ذٰلِکَ لِاَحَدٍاِلَّا لِلْمُؤْمِنِ۔
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اللہ اس کے حق میں جو فیصلہ بھی کرتا ہے وہ اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے مصیبت پڑے تو صبر کرتا ہے اور وہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے خوشحالی میسر آئے تو شکر کرتا ہے، اور وہ بھی اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے۔ یہ بات مومن کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔‘‘
تشریح: مصائب کے ہجوم میں جو چیز انسان کو راہ راست پر قائم رکھتی ہے اور کسی سخت سے سخت حالت میں بھی اس کے قدم ڈگمگانے نہیں دیتی وہ صرف ایمان باللہ ہے جس کے دل میں ایمان نہ ہو وہ آفات کو یا تو اتفاقات کا نتیجہ سمجھتا ہے یا دنیوی طاقتوں کو ان کے لانے اور روکنے میں مؤثر مانتا ہے، یا انھیں ایسی خیالی طاقتوں کا عمل سمجھتا ہے جنھیں انسانی اوہام نے نفع و ضرر پہنچانے پر قادر فرض کرلیا ہے، یا خدا کو فاعل مختار مانتا توہے مگر صحیح ایمان کے ساتھ نہیں مانتا۔ ان تمام مختلف صورتوں میں آدمی کم ظرف ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایک خاص حد تک تو وہ مصیبت سہہ لیتا ہے لیکن اس کے بعد وہ گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ ہر آستانے پر جھک جاتا ہے۔ ہر ذلت قبول کرلیتا ہے۔ ہر کمینہ حرکت کرسکتا ہے۔ ہر غلط کام کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ خدا کو گالیاں دینے سے بھی نہیں چوکتا حتّٰی کہ خودکشی تک کر گزرتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص یہ جانتا اور سچے دل سے مانتا ہو کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس کائنات کا مالک و فرماں روا ہے۔ اور اسی کے اذن سے مصیبت آتی اور اسی کے حکم سے ٹل سکتی ہے۔ اس کے دل کو اللہ صبر و تسلیم اور رضا بقضاء کی توفیق دیتا ہے۔ اس کو عزم اور ہمت کے ساتھ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت بخشتا ہے۔ تاریک سے تاریک حالات میں بھی اس کے سامنے اللہ کے فضل کی امید کا چراغ روشن رہتا ہے اور کوئی بڑی سے بڑی آفت بھی اس کو اتنا پست ہمت نہیں ہونے دیتی کہ وہ راہ راست سے ہٹ جائے، یا باطل کے آگے سرجھکادے، یااللہ کے سوا کسی اور کے درپر اپنے درد کا مداوا ڈھونڈنے لگے۔ اس طرح ہر مصیبت اس کے لیے مزید خیر کے دروازے کھول دیتی ہے اور کوئی مصیبت بھی حقیقت میں اس کے لیے مصیبت نہیں رہتی بلکہ نتیجے کے اعتبار سے سراسر رحمت بن جاتی ہے کیونکہ خواہ وہ اس کا شکار ہو کر رہ جائے یا اس سے بخیریت گزر جائے، دونوں صورتوں میں وہ اپنے رب کی ڈالی ہوئی آزمائش سے کامیاب ہوکر نکلتا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۵ التغابن حاشیہ:۲۵)
تخریج: وَفِی الْحَدِیْثِ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ:
عَجَبًا لِلْمُؤْمِنِ لَا یَقْضِی اللّٰہُ لَہٗ قَضَائً اِلَّا کَانَ خَیْرًا لَّہٗ اِنْ اَصَابَتْہُ ضَرَّائُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ وَاِنْ اَصَابَتْہُ سَرَّائُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ وَلَیْسَ ذٰلِکَ لِاَحَدٍ اِلَّا لِلْمُؤْمِنِ۔ (۲۰)
حَدَّثَنَا ہُدَّابُ بْنُ خَالِدِ نِ الْاَزْدِیُّ وَشَیْبَانُ بْنُ فَرُّوْخٍ جَمِیْعًا، عَنْ سُلَیْمَانَ ابْنِ الْمُغِیْرَۃِ وَاللَّفْظُ لِشَیْبَانَ، قَالَ: نَا سُلَیْمَانُ، نَاثَابِتٌ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ لَیْلیٰ، عَنْ صُہَیْبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: عَجَبًا لِاَمْرِ الْمُؤْ مِنِ اِنَّ اَمْرَہٗ کُلَّہٗ لَہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذٰلِکَ لِاَحَدٍ اِلَّا لِلْمُؤْمِنِ اِنْ اَصَابَتْہُ سَرَّائُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ وَاِنْ اَصَابَتْہُ ضَرَّائُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ۔ (۲۱)
ترجمہ: مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ بلا شبہ اس کا سارے کا سارا معاملہ اچھا ہے۔ یہ بات مومن کے سوا کسی کو بھی نصیب نہیں۔ اگر خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو شکر گزاری کا طرزِ عمل اختیار کرتا ہے اور اگر تکلیف سے دوچار ہوتا ہے تو صبر و شکیب سے کام لیتا ہے۔ لہٰذا یہ بھی اس کے حق میں اچھا ہے اور بہتر ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ، حَدَّثَنِی اَبِیْ، ثَنَا بَہْزٌ وحَجَّاجٌ، قَالَا: ثَنَا سُلَیْمَانُ ابْنُ الْمُغِیْرَۃِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ابْنِ اَبِیْ لَیْلیٰ عَنْ صُہَیْبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: عَجِبْتُ مِنْ اَمْرِالْمُؤْمِنِ اَنَّ اَمْرَ المُؤْمِنِ کُلَّہٗ لَہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذٰلِکَ لِاَحَدٍ اِلَّا لِلْمُؤْمِنِ اِنْ اَصَابَتْہُ سَرَّائُ شَکَرَ کَانَ ذٰلِکَ لَہٗ خَیْرٌ وَاِنْ اَصَابَتْہُ ضَرَّائُ فَصَبَرَکَانَ ذٰلِکَ لَہٗ خَیْرًا۔ (۲۲)
اَخْبَرَنَا اَبُوْ حَاتِمِ الْبَصَرِیُّ رُوْحُ بْنُ اَسْلَمَ، ثَنَا حَمَّادُبْنُ سَلَمَۃَ، اَنَا ثَابِتٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ لَیْلیٰ، عَنْ صُہَیْبٍ، قَالَ: بَیْنَمَارَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ جَالِسٌ وَضَحِکَ، فَقَالَ: اَلَا تَسْأَلُوْنِیْ مِمَّا اَضْحَکُ؟ فَقَالُوْا: مِمَّ تَضْحَکُ؟ قَالَ: عَجَبًا مِنْ اَمْرِ الْمُؤْمِنِ کُلِّہٖ لَہٗ خَیْرٌ ۔ اِنْ اَصَابَہٗ مَایُحِبُّ حَمِدَ اللّٰہَ عَلَیْہِ فَکَانَ لَہٗ خَیْرًا وَاِنْ اَصَابَہٗ مَایَکْرَہُ فَصَبَرَ، کَانَ لَہٗ خَیْرًا، وَلَیْسَ کُلُّ اَحَدٍ اَمْرَہٗ لَہٗ خَیْرٌ اِلَّا الْمُؤْمِنُ۔ (۲۳)

انسان کا اصل دشمن

۱۲۔ ترجمہ: حضرت ابو مالک اشعری سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’تیرا اصل دشمن وہ نہیں ہے جسے اگر تو قتل کردے تو تیرے لیے کامیابی ہے اور وہ تجھے قتل کردے تو تیرے لیے جنت ہے، بلکہ تیرا اصل دشمن ، ہوسکتا ہے کہ تیرا اپنا وہ بچہ ہو جو تیری ہی صلب سے پیدا ہوا ہے، پھر تیرا سب سے بڑا دشمن وہ مال ہے جس کا تو مالک ہے۔
تشریح: اللہ تعالیٰ نے سورۂ انفال میں بھی یہ فرمایا ہے کہ اگر تم مال اور اولاد کے فتنے سے اپنے آپ کو بچالے جائو اور ان کی محبت پر اللہ کی محبت کو غالب رکھنے میں کامیاب رہو، تو تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔
(تفہیم القرآن، ج ۵ التغابن حاشیہ:۳۰)
انسان کے اخلاص ایمانی میں جو چیز بالعموم خلل ڈالتی ہے اور جس کی وجہ سے انسان اکثر منافقت ، غداری، اور خیانت میں مبتلا ہوتا ہے، وہ اپنے مالی مفاد اور اپنی اولاد کے مفاد سے اس کی حد سے بڑھی ہوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ یہ مال اور اولاد ، جن کی محبت میں گرفتار ہو کر تم عموماً راستی سے ہٹ جاتے ہو، دراصل یہ دنیا کی امتحان گاہ میں تمہارے لیے سامان آزمایش ہیں جسے تم بیٹا یا بیٹی کہتے ہو، حقیقت کی زبان میں وہ دراصل امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ اور جسے تم جائداد یا کاروبار کہتے ہو وہ بھی درحقیقت ایک دوسرا پرچۂ امتحان ہے۔ یہ چیزیں تمہارے حوالہ کی ہی اس لیے گئی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے تمہیں جانچ کر دیکھا جائے کہ تم کہاں تک حقوق اور حدود کا لحاظ کرتے ہو، کہاں تک ذمہ داریوں کا بوجھ لادے ہوئے جذبات کی کشش کے باوجود راہ راست پر چلتے ہو، اور کہاں تک اپنے نفس کو، جو ان دنیوی چیزوں کی محبت میں اسیر ہوتا ہے۔ اس طرح قابو میں رکھتے ہو کہ پوری طرح بندۂ حق بھی بنے رہو اور ان چیزوں کے حقوق اس حد تک ادا بھی کرتے رہو جس حد تک حضرتِ حق نے خود ان کا استحقاق مقرر کیا ہے۔ (تفہیم القرآن ، ج ۲ الانفال حاشیہ :۲۳)
تخریج: قَالَ الطبرانی: حَدَّثَنَاہَاشِمُ بْنُ مَرْ ثَدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُبْنُ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ عَیَّاشٍ، حَدَّثَنِی اَبِی، حَدَّثَنِیْ ضَمْضَمُ بْنُ زُرْعَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ، عَنْ اَبِیْ مَالِکِنِ الْاَشْعَرِیِّ، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ، قَالَ:لَیْسَ عَدُوُّکَ الَّذِیْ اِنْ قَتَلْتَہٗ کَانَ فَوْزًا لَکَ وَاِنْ قتَلَکَ دَخَلْتَ الْجَنَّۃَ وَلٰکِنَّ الَّذِیْ لَعَلَّہُ عَدُوٌّلَّکَ وَلَدُکَ الَّذِی خَرَجَ مِنْ صُلْبِکَ ثُمَّ اَعْدٰی لَکَ مَالُکَ الَّذِی مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ۔

اخلاصِ عمل

۱۳۔ اِنَّ اللّٰہ تَعَالیٰ لَا یَقْبَلُ اِلَّا مَنْ اَخْلَصَ لَہٗ۔
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کوئی عمل بھی قبول نہیں کرتا جب تک کہ وہ خالص اسی کے لیے نہ ہو۔
تشریح: یہ حدیث ابن مردویہ نے یزید الرقاشی سے نقل کی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ کے دین کو خالص کرکے اس کی بندگی تم کو کرنی چاہیے کیوں کہ خالص اور بے آمیز اطاعت و بندگی اللہ کا حق ہے۔ دوسرے الفاظ میں بندگی کا مستحق کوئی دوسرا ہے ہی نہیں کہ اللہ کے ساتھ اس کی بھی پرستش اور اس کے احکام و قوانین کی بھی اطاعت کی جائے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کی خالص اور بے آمیز بندگی کرتا ہے تو وہ غلط کرتا ہے۔ اور اسی طرح اگر وہ اللہ کی بندگی کے ساتھ بندگیٔ غیر کی آمیزش کرتا ہے تو یہ بھی حق کے سراسر خلاف ہے۔
(تفہیم القرآن، ج ۴، الزمر حاشیہ: ۴)
تخریج: (الف) اَخْرَجَ ابْنُ مَرْدَوَیْہِ، عَنْ یَزِیْدَ الرَّقَاشِیِّ، اِنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّا نُعْطِیْ اِلْتِمَاسَ الذِّکْرِ فَہَلْ لَّنَا مِنْ اَجْرٍ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ :لَا، قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّا نُعْطِیْ اَمْوَالَنَا الْتِمَاسَ الْاَجْرِوالذِّکْرِ فَہَلْ لَّنَا اَجْرٌ؟ فَقَالََ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: اِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ لَا یَقْبَلُ اِلَّا مَنْ اَخْلَصَ لَہٗ۔ (۲۵)
ترجمہ: (یزید الرقاشی سے مروی ہے کہ) ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا ’’ہم اپنا مال دیتے ہیں، اس لیے کہ ہمارا نام بلند ہو، کیا اس پر ہمیں کوئی اجر ملے گا؟‘‘ حضوؐر نے فرمایا ’’نہیں‘‘۔ اس نے پوچھا اگر اللہ کے اجر اور دنیا کی ناموری دونوں کی نیت ہو؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کوئی عمل بھی قبول نہیں کرتا جب تک وہ خالص اسی کے لیے نہ ہو۔
(ب) نا یَحْیٰ بْنُ مُحَمَّدِبْنِ صَاعِدٍ، وجَعْفَرُبْنُ مُحَمَّدِبْنِ یَعْقُوْبَ الصَّنْدَلِیُّ، قَالَا: نَا اِبْرَاہِیْمُ ابْنُ مَحْشَرٍ، نَا عُبَیْدَۃُبْنُ حُمَیْدٍ، حَدَّثَنِیْ عَبْدُالْعَزِیْزِبْنُ رَفِیْعٍ وَغَیْرُہٗ عَنْ تَمِیْمِ بْنِ طَرفَۃَ عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ قَیْسِ نِ الفَہْرِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ: اَنَاخَیْرُ شَرِیْکٍ فَمَنْ اَشْرَکَ مَعِیْ شَرِیْکًا فَہُوَ لِشَرِیْکِیْ۔
یَا اَیُّہَا النَّاسُ! اَخْلِصُوْا اَعْمَالَکُمْ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبَلُ اِلَّا مَا اَخْلَصَ لَہٗ۔ وَلَا تَقُوْلُوْا: ہٰذا لِلّٰہِ وَلِلرَّحِمِ، فَاِنَّہَا لِلرَّحِمِ وَلَیْسَ لِلّٰہِ مِنْہَا شَییٌ، وَلَا تَقُوْلُوْا، ہٰذَا لِلّٰہِ وَلِوُجُوْہِکُمْ فَاِنَّہَا لِوُجُوْہِکُمْ وَلَیْسَ لِلّٰہِ مِنْہَا شَیْیٌٔ۔ (۲۶)
ترجمہ: حضرت ضحّاک بن قیس فہری سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں، میں سب شریکوں سے بہتر ہوں۔پس جس چیز میں کسی نے میرے ساتھ غیر کو شریک بنایا وہ میرے شریک کے لیے ہے۔
لوگو! اپنے اعمال خالصتاً اللہ کے لیے کرو کیوں کہ وہ ایسا کوئی عمل قبول نہیں کرتا جو صرف اسی کے لیے نہ کیا گیا ہو۔ لہٰذا تم یوں نہ کہا کرو کہ ’’یہ اللہ کے لیے اور قرابت داری کے لیے ہے کیوں کہ اس طرح یہ قرابت داری کے لیے ہے اللہ کے لیے اس میں سے کچھ بھی نہیں ہے، اور یوں بھی نہ کہا کرو کہ یہ اللہ کے لیے ہے اور تمہاری ذات کے لیے ہے۔ ایسا کہو گے تو یہ صرف تمہاری ذاتوں کے لیے ہوگا اللہ کے لیے اس میں سے کچھ بھی نہ ہوگا۔‘‘

اسلام میں ایمان بلا امانت اور دین بلا عہد کا کوئی تصوّر نہیں

۱۴۔ لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَّا اَمَانَۃَ لَہٗ وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَّا عَہْدَ لَہٗ۔
ترجمہ: جو امانت کی صفت نہیں رکھتا وہ ایمان نہیں رکھتا ، اور جو عہد کا پاس نہیں رکھتا وہ دین نہیں رکھتا۔ (بیہقی فی شعب الایمان)
بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا:
چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے او ر جس میں کوئی ایک پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے۔ ’’ جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو خیانت کرے۔ جب بولے تو جھوٹ بولے۔جب عہد کرے تو توڑ دے اور جب کسی سے جھگڑے تو (اخلاق و دیانت کی)ساری حدیں پھاند جائے۔‘‘
تشریح: سورۂ مومنون میں ارشاد ہوا ہے۔ وَالَّذِیْن لِاَمَانَاتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُوْنَ۔ ’’امانات‘‘ کا لفظ جامع ہے اُن تمام امانتوں کے لیے جو خداوندِ عالم نے ، یا معاشرے نے، یا افراد نے کسی شخص کے سپرد کی ہوں۔ اور عہدو پیمان میں وہ سارے معاہدے داخل ہیں جو انسان اور خدا کے درمیان،(متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ تخلیق آدم کے موقع پر پیش آیا۔ اس وقت جس طرح فرشتوں کو جمع کرکے انسانِ اوّل کو سجدہ کرایا گیا تھا اور زمین پر انسان کی خلافت کا اعلان کیا گیا تھا، اسی طرح پوری نسلِ آدم کو بھی ، جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی، اللہ تعالیٰ نے بیک وقت وجود اور شعور بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا تھا اور ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت لی تھی۔ اس کی تفسیر حضرت ابی بن کعب نے غالباً نبی ﷺ سے استفادہ کرکے جو کچھ بیان کی ہے وہ اس مضمون کی بہترین شرح ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے سب کو جمع کیا اور (ایک ایک قسم یا ایک ایک دور کے) لوگوں کو الگ الگ گروہوں کی شکل میں مرتب کرکے انھیں انسانی صورت اور گویائی کی طاقت عطا کی، پھر ان سے عہد و میثاق لیا اور انھیں آپ اپنے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انھوں نے عرض کیا، ضرور آپ ہمارے رب ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پر زمین و آسمان سب کو اور خود تمہارے باپ آدم کو گواہ ٹھیراتا ہوں تاکہ تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو اس کا علم نہ تھا۔ خوب جان لو کہ میرے سو ا کوئی مستحق عبادت نہیں ہے اور میرے سوا کوئی رب نہیں ہے۔ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرانا۔ میں تمہارے پاس اپنے پیغمبر بھیجوں گا جو تم کو یہ عہد و میثاق جو تم میرے ساتھ باندھ رہے ہو، یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا ۔اس پر سب انسانوں نے کہا کہ ہم گواہ ہوئے، آپ ہی ہمارے رب اور آپ ہی ہمارے معبود ہیں، آپ کے سوا نہ کوئی ہمارا رب ہے نہ کوئی معبود) ۔
یا انسان اور انسان کے درمیان، یا قوم اور قوم کے درمیان استوار کیے گئے ہوں۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ کبھی امانت میں خیانت نہ کرے گا اور کبھی اپنے قول و قرار سے نہ پھرے گا۔
(تفہیم القرآن، ج ۳ المؤ منون حاشیہ:۸)
ان دونوں قسم کی امانتوں اور دونوں قسم کے عہد و پیمان کا پاس و لحا ظ ایک مومن کی سیرت کے لازمی خصائص میں سے ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۶، المعارج حاشیہ:۲۱)
تخریج: اَخْبَرَنَا اَبُوالْخَیْرِجَامِعُ بْنُ اَحْمَدَبْنِ مُحَمَّدِبْنِ مَہْدِیِّ نِ اَلْوَکِیْلُ،اَنْبَأَاَبُوْطَا ہِرِنِ المُحَمَّدُ اَبَاذِی، ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیْدِ نِ الدَّارِمِیُّ، ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ، ثَنَا اَبُو ہِلَالٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ اَنْسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ، فَقَالَ: لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَا اَمَانَۃَ لَہٗ وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَا عَہْدَلَہٗ۔ (۲۷)
ترجمہ: جو امانت کی صفت نہیں رکھتا وہ ایمان نہیں رکھتا، اور جو عہد کا پاس نہیں رکھتا وہ دین نہیں رکھتا۔

مومنِ صادق کی پہچان

۱۵۔ (نبی ﷺ نے فرمایا) ’’ لَایَابْنَتَ الصِّدِّیْقِ وَلٰکِنَّہُ الَّذِیْ یُصَلِّیْ وَیَصُوْمُ ویَتَصَدَّقُ وَہُوَ یَخَافُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ۔‘‘
ترجمہ: (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آں حضور ﷺ سے دریافت کیا) ’’یا رسول اللہ! کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص چوری ، زنا اور شراب نوشی کرتے ہوئے اللہ سے ڈرے؟‘‘جواب میں نبی ﷺ نے فرمایا: نہیں، اے صدیق ؓ کی بیٹی! اس سے مراد وہ شخص ہے جو نماز پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے،زکوٰۃ دیتا ہے اور پھر اللہ عزوجل سے ڈرتا رہتا ہے۔
تشریح: حدیث بالا سورہ المومنون کی آیت نمبر ۶۰ کے متعلق ہے۔ آیت میں فرمان ربّانی ہے ۔ وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآاٰتَوْاوَّ قُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِلیٰ رَبِّہِمْ رَاجِعُوْنَ۔
عربی زبان میں ’’دینے‘‘ (ایتاء) کا لفظ صرف مال یا کوئی مادی چیز دینے ہی کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ معنوی چیزیں دینے کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے۔ مثلاً کسی شخص کی اطاعت قبول کرلینے کے لیے کہتے ہیں کہ اٰتَیْتُہٗ من نَفْسِی الْقَبُوْلَ۔کسی شخص کی اطاعت سے انکار کردینے کے لیے کہتے ہیں اٰتَیْتُہٗ مِنْ نَفْسِی الْاِبَائَۃَ۔ پس اس دینے کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ وہ راہِ خدا میں مال دیتے ہیں، بلکہ اس کا مطلب اللہ کے حضور طاعت و بندگی پیش کرنے پر بھی حاوی ہے۔
اس معنی کے لحاظ سے آیت کا پورا مفہوم یہ ہوا کہ وہ اللہ کی فرماں بردار ی میں جو کچھ بھی نیکیاں کرتے ہیں، جو کچھ بھی خدمات انجام دیتے ہیں، جو کچھ بھی قربانیاں کرتے ہیں، ان پر وہ پھولتے نہیں ہیں۔ غرورِ تقویٰ اور پندارِ خدارسیدگی میں مبتلا نہیں ہوتے، بلکہ اپنے مقدور بھر سب کچھ کرکے بھی ڈرتے رہتے ہیں کہ خدا جانے یہ قبول ہویا نہ ہو، ہمارے گناہوں کے مقابلے میں وزنی ثابت ہو یا نہ ہو، ہمارے رب کے ہاں ہماری مغفرت کے لیے کافی ہو یا نہ ہو۔
(حدیث مذکورہ بالا میں حضرت عائشہؓ کے) سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہؓ یؤْتُوْنَ مَا اٰتَوْا کو یَاتُوْنَ مَا اَتَوْا کے معنی میں لے رہی تھیں، پھر (حضوؐر) جواب سے پتہ چلا کہ آیت کی صحیح قرأت یَاتُوْنَ نہیں بلکہ یُؤْتُوْنَ ہے، اور یہ یُؤْتُوْنَ صرف مال دینے کے محدود معنی میں نہیں ہے بلکہ طاعت بجالانے کے وسیع معنی میں ہے۔
ایک مومن کس قلبی کیفیت کے ساتھ اللہ کی بندگی کرتا ہے۔ اس کی مکمل تصویر حضرت عمرؓ کی وہ حالت ہے کہ عمر بھر کی بے نظیر خدمات کے بعد جب دنیا سے رخصت ہونے لگتے ہیں تو خدا کے محاسبے سے ڈرتے ہوئے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آخرت میں برابر سرابر بھی چھوٹ جائوں تو غنیمت ہے۔ حضرت حسن بصریؒ نے خوب کہا ہے کہ، مومن طاعت کرتا ہے پھر بھی ڈرتا رہتا ہے، اور منافق معصیت کرتا ہے پھر بھی بے خوف رہتا ہے۔ (تفہیم القرآن ج ۳، المومنون حاشیہ:۵۴)
تخریج: حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ ، حَدَّثَنِیْ اَبِیْ، ثَنَا وَکِیْعٌ، قَالَ: ثَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَعِیْدِ بْنِ وَہْبِ نِالْہَمَدَانِیِّ۔ عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَووَّ قُلُوبُہُمْ وَجِلَۃٌ، اَہُوَ الرَّجُلُ یَزْنِیْ ویَسْرِقُ وَیَشْرَبُ الْخَمْرَ؟ قَالَ: لا، یَابْنَتَ الصِّدِیْقِ! وَلٰکِنَّہُ الرَّجُلُ یَصُوْمُ وَیُصَلِّیْ وَیَتَصَدَّقُ وَہُوَ یَخَافُ اَنْ لَّا یُقْبَلَ مِنْہُ۔ (۲۸)
ترجمہ: حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس آیت ’’الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَا اٰتَوا وَّقُلُوبُہُمْ وَجِلَۃٌ‘‘ کے متعلق پوچھا کہ ’’کیا اس سے مراد وہ شخص ہے جو زانی ہو، چورہو اور مے خوار ہو۔‘‘ آپؐ نے فرمایا’’نہیں، اے صدیق کی بیٹی! اس سے مراد وہ شخص ہے جو نماز پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے، زکوٰۃ دیتا ہے اور پھر اللہ عزوجل سے ڈرتا رہتا ہے کہ اس کا عمل قبول نہ کیا جائے۔‘‘
وَقَالَ:لَا، یَابْنَۃَ الصِّدّیْقِ! وَلٰکِنَّہُمُ الَّذِینَ یُصَلُّوْنَ وَیَصُوْمُوْنَ وَیَتَصَدَّقُوْنَ وَہُمْ یَخَافُوْنَ اَلَّا یُتَقَبَّلَ مِنْہُمْ۔(۲۹)

گنہگار مومن اور ’’نیکوکار‘‘ کافر کا فرق

گنہگار مومن اور نیکو کار کافر کے درمیان فرق کی بنیاد یہ ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری قبول کرکے اس کے وفادار بندوں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد اپنی اخلاقی کمزوریوں کی وجہ سے وہ کسی جرم یا بعض جرائم کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔ اس کے برعکس کافر دراصل ایک باغی ہوتا ہے اور اگر وہ نیکو کار ہو بھی تو اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اس نے بغاوت کے جرم پرکسی اور جرم کا اضافہ نہیں کیا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جو شخص باغی نہیں ہے اور صرف مجرم ہے اسے صرف جرم کی حد تک سزا دی جائے گی ، بغاوت کی سزا اس کو نہیں دی جاسکتی، کیوں کہ جرم کرنے کی وجہ سے کوئی شخص وفادار رعیت کے زمرے سے خارج نہیں ہوجاتا۔ لیکن بغاوت بجائے خود سب سے بڑا جرم ہے، اس کے ساتھ اگر کوئی شخص دوسرے جرائم کا اضافہ نہ بھی کرتا ہو تو اسے وہ حیثیت کسی طرح نہیں دی جاسکتی جو وفادار رعیت کو دی جاتی ہے۔ وہ بغاوت کی سزا بہر حال پاکر رہے گا خواہ وہ اس کے علاوہ کسی جرم کا ارتکاب نہ کرے۔ لیکن اگر وہ باغی ہونے کے ساتھ کچھ جرائم کا مرتکب بھی ہو تو اسے بغاوت کی سزا کے ساتھ ان دوسرے جرائم کی سزا بھی دی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ کی وفادار و فرماں بردار رعیت میں صرف وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی توحید کو کسی قسم کے شرک کی آمیزش کے بغیر اور اللہ کے سب پیغمبروں کو کسی استثناء کے بغیر، اور اللہ کی بھیجی ہوئی کتابوں کو کسی کا انکار کیے بغیر مانتے ہوں اور آخرت کی جواب دہی کو بھی تسلیم کرتے ہوں۔ ان میں سے جس چیز کو بھی آدمی نہ مانے گا وہ باغی ہوگا اور اسے خدا کی وفادار رعیت میں شمار نہ کیا جاسکے گا۔ اب مثال کے طور پر رسولوں اور کتابوں ہی کے معاملہ کو لے لیجیے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی انجیل کو جب یہودیوں نے نہ مانا تو وہ سب باغی ہوگئے، اگرچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے کے انبیاء اور ان کی لائی ہوئی کتابوں کو وہ مانتے تھے۔ اسی طرح حضرت محمد ﷺ کی آمد سے پہلے تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیرو اللہ کی وفادار رعیت تھے۔ لیکن جب انھوں نے آں حضرت ﷺ اور قرآن کو ماننے سے انکار کردیا تو وہ بھی باغی ہوگئے۔ مسیح اور انجیل اور سابق انبیاء اور ان کی کتابوں کو ماننے کے باوجود وہ اللہ کی وفاداررعیت میں شمار نہیں ہوسکتے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی جنت باغیوں کے لیے نہیں بنائی ہے بلکہ اپنی وفاداررعیت کے لیے بنائی ہے۔ اس وفاداررعیت میں سے اگر کوئی شخص کوئی ناقابل معافی جرم کرتا ہے یا اس نوعیت کے بہت سے جرائم کا ارتکاب کربیٹھتا ہے تو اسے اس کے جرائم کے مطابق سزادی جائے گی اور جب وہ اپنی سزا بھگت لے گا تو جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ لیکن جس نے بغاوت کا ارتکاب کیا ہے وہ کسی طرح جنت میں نہیں جاسکتا۔ اس کا مقام بہر حال دوزح ہے۔ دوسرے کسی جرم کا وہ مرتکب نہ بھی ہو تو بغاوت بجائے خود اتنا بڑا جرم ہے جس کے ساتھ کوئی نیکی بھی اسے جنت میں نہیں پہنچا سکتی۔ (رسائل و مسائل حصہ پنجم ص ۱۷۰ تا۱۷۳)
کفر بجائے خود انسان کے جہنمی ہونے کا مستقل سبب ہے، اور کفر کے ساتھ کوئی نیک عمل بھی اس کو جہنم سے نہیں بچاسکتی۔ البتہ فرق اگر ہے تو صرف اس لحاظ سے ہے کہ اس دارالعذاب کے دروازے بہت سے ہیں۔ اچھے کام کرنے والا کافر کسی اور دروازے سے داخل ہوگا اور برے کام کرنے والے کفار اپنے برے اعمال کے مطابق مختلف دروازوں سے داخل ہوں گے۔ بالفاظ دیگر کسی کے لیے عذاب ہلکا ہوگا اور کسی کے لیے سخت اور کسی کے لیے سخت سے سخت۔ اعمال صرف عذاب کے خفیف یا شدید ہونے کے موجب تو بن سکتے ہیں، لیکن جہنم میں جانے سے کوئی کافر نہیں بچ سکتا۔ کیوں کہ کفر خدا سے بغاوت ہے، اور باغی کے لیے اللہ نے اپنی جنت نہیں بنائی ہے۔
رہے مومن تو وہ دو قسم کے ہوسکتے ہیں۔ ایک وہ جو ایمان کے ساتھ بحیثیت مجموعی صالح ہوں۔ ان کے اگر کچھ قصور بھی ہوں تو وہ بھی توبہ سے معاف ہوسکتے ہیں، دنیا کے مصائب ، امراض ،تکالیف ان کا کفارہ بن سکتی ہیں، شفاعت بھی ان کے حق میں نافع ہوسکتی ہے ، اور اللہ اپنے فضل و کرم سے بھی ان کی مغفرت فرماسکتا ہے۔
دوسری قسم کے مومن وہ ہیں جو ایمان رکھنے کے باوجود بڑے بڑے گناہوں کے مرتکب ہوئے ہوں۔ وہ باغی نہیں بلکہ مجرم ہیں۔ ان کے لیے اگر کوئی چیز بھی بخشش کی موجب نہ بن سکتی ہو، تو انھیں بغاوت کی نہیں بلکہ جرم یا جرائم کی سزادی جائے گی۔ دنیا کے قوانین بھی باغی اور مجرم کو ایک سطح پر نہیں رکھتے پھر وہ احکم الحاکمین سے یہ توقع کیسے کرسکتے ہیں کہ وہ دونوں کو ایک سطح پر رکھے گا؟

کس موقع کا ایمان معتبر ہے

۱۶۔ لَوْ قُلْتَہَا وَاَنْتَ تَمْلِکُ اَمْرَکَ اَفْلَحْتَ کُلَّ الْفَلَاحِ۔
ترجمہ: (مسند احمد اور مسلم میں حضرت عمر ان بن حصین کی روایت ہے کہ ) بنی عقیل کا ایک شخص گرفتار ہو کر آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اسلام قبول کرلیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اگر یہ بات تو نے اس وقت کہی ہوتی جب تو آزاد تھا تو یقینا فلاح پاجاتا۔‘‘
تشریح: جو شخص قید میں آنے سے پہلے اسلام قبول کرچکا ہو اور پھر کسی طرح گرفتار ہوجائے وہ تو آزاد کردیا جائے گا۔ مگر جو شخص قید ہو نے کے بعد اسلام قبول کرے، یا کسی شخص کی ملکیت میں دے دیے جانے کے بعد مسلمان ہو تو یہ اسلام اس کے لیے آزادی کا سبب نہیں بن سکتا۔
اسی بنا پر فقہائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ قید ہونے کے بعد مسلمان ہونے والا غلامی سے نہیں بچ سکتا(السِّیر الکبیر، امام محمد) اور یہ بات سراسر معقول بھی ہے۔ اگر ہمارا قانون یہ ہوتا کہ جو شخص بھی گرفتار ہونے کے بعد اسلام قبول کرلے گا وہ آزاد کردیا جائے گا تو آخر وہ کون سا نادان قیدی ہوتا جو کلمہ پڑھ کر رہائی نہ حاصل کرلیتا۔ (تفہیم القرآن ،ج ۵سور ہ محمد حاشیہ:۸)
تخریج: حَدَّثَنِیْ زُہَیْرُبْنُ حَرْبٍ وَعَلِیُّ بْنُ حُجْرِنِ السَّعْدِیُّ وَاللَّفْظُ لِزُہَیْرٍ، قَالَ: نَا إسْمَاعِیْلُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ: نَا اَیُّوْبُ عَنْ اَبِیْ قِلَابَۃَ عَنْ اَبِی الْمُہَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ، قَالَ: کَانَتْ ثَقِیْفٌ حُلَفَاٰئَ لِبَنِیْ عُقَیْلٍ فَاَسَرَتْ ثَقِیْفٌ رَجُلَیْنِ مِنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ وَاَسَرَاَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ رَجُلًا مِنْ بَنِیْ عُقَیلٍ وَاَصَابُوْا مَعَہُ الْعَضْبَائَ فَاَتَی عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ وَہُوَ فِی الْوَثَاقِ قَال: یَا مُحَمَّدُ! فَاَتَاہُ، قَالَ: مَا شَاْنُکَ ؟ قَالَ، بِمَ اَخَذْتَنِیْ وَبِمَ اَخَذْتَ سَابِقَۃَ الْحَآجِّ، قَالَ: اِعْظَامًالِذٰلِکَ اَخَذْتُکَ بِجَرِیْرَۃِ حُلَفَاٰئِکَ ثَقِیْفَ ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْہُ فَنَادَاہُ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ یَامُحَمَّدُ! وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ رَحِیْمًا رَقِیْقًا فَرَجَعَ اِلَیْہِ فَقَالَ: مَا شَأنُکَ، قَالَ: اِنِّیْ مُسْلِمٌ قَالَ: لَوْ قُلْتَہَا وَاَنْتَ تَمْلِکُ اَمْرَکَ اَفْلَحْتَ کُلَّ الْفَلَاحِ۔ ثُمَّ انْصَرَفَ فَنَادَاہُ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ یَاْمُحَمَّدُ! فَاَتَاہُ، فَقَالَ: مَاشَانُکَ ؟ قَالَ : اِنِّیْ جَائِعٌ فَاَطْعِمْنِیْ وَظَمْاٰنُ فَاسْقِنِیْ، قَالَ: ہٰذِہٖ حَاجَتُکَ فَفَدَی بِالرَّجُلَیْنِ۔ (الحدیث) (۳۰)
ترجمہ: حضرت عمران بن حصین نے بیان کیا کہ قبیلہ ثقیف بنی عقیل کا حلیف تھا۔ ثقیف والوں نے رسول اللہ ﷺ کے دو صحابیوں کو قیدی بنالیا اور اصحابِ رسول اللہ ﷺ نے بنی عقیل کے ایک آدمی کو قید کرلیا اور عضباء نامی اونٹنی بھی اس کے ساتھ ہی انھوں نے حاصل کرلی۔ اسے جب نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو وہ جکڑا ہوا تھا۔اس نے پکارا یا محمدؐ ۔ آپؐ اس کی آواز سن کر اس کے پاس تشریف لائے اور پوچھا کہو کیا ماجرا ہے؟ بولا مجھے اور سابقۃ الحاج (عضباء) کو تم نے کس جرم میں پکڑرکھا ہے۔ آپ نے فرمایا تجھے اس بات سے خبردار کرنے کے لیے کہ تمہارے حلیف قبیلے ثقیف نے ہمارے دو آدمی اسیر بنا کر کتنا بڑا جرم کیا ہے۔ پھر آپ واپس ہوئے تو اس نے پھر بلند آواز سے پکارنا شروع کردیایا محمدؐ یا محمدؐ! آپ انتہائی رقیق القلب اور رحم دل انسان تھے۔ واپس اس کی طرف لوٹے اور دریافت فرمایا ’’کہو کیا ماجرا ہے؟‘‘ بولاکہ میں مسلم ہوں۔ آپ نے فرمایا ’’اگر یہ بات تو نے اس وقت کہی ہوتی جب تو آزاد تھا تو یقینا فلاح پاجاتا۔‘‘ پھر آپؐ واپس ہوئے تو اس نے پھر یا محمدؐ یا محمدؐ کہہ کر پکارنا شروع کردیا۔ آپؐ نے دریافت فرمایا ’’کیا ماجرا ہے؟‘‘ بولا میں بھوکا ہوں ، پیاسا ہوں کچھ کھلائیے، پلائیے‘‘۔ ’’آپؐ نے فرمایا یہ تمہاری ضرورت ہے۔ پھر آپ نے ایک کے بدلے دو کو رہا کرایا۔‘‘

مخلص مومن کے لیے دنیوی مصائب گناہوں کا کفارہ ہیں

۱۷۔ مَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَآ وَصَبٍ وَلَا ہَمٍّ وَلَا حَزَنٍ وَلَا اَذیً وَلَا غَمٍّ حَتَّی الشَّوکَۃِ یُشَاکُہَا اِلَّا کَفَّرَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ خَطَایَاہُ (بخاری و مسلم)
ترجمہ: مسلمان کو جو رنج اور دکھ اور فکر اور غم اور تکلیف اور پریشانی بھی پیش آتی ہے، حتیّٰ کہ ایک کانٹا بھی اگر اس کو چبھتا ہے تو اللہ اس کو اس کی کسی نہ کسی خطا کا کفّارہ بنادیتا ہے۔
تشریح: مومن مخلص کے لیے اللہ کا قانون (یہ ہے کہ) اس پر جو تکلیفیں اور مصیبتیں بھی آتی ہیں وہ سب اس کے گناہوں اور خطائوں اور کوتاہیوں کا کفارہ بنتی چلی جاتی ہیں۔
رہے وہ مصائب جو اللہ کی راہ میں اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کوئی مومن برداشت کرتا ہے، تو وہ محض کوتاہیوں کا کفارہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اللہ کے ہاں ترقی درجات کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ تصوّرکرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ گناہوں کی سزا کے طور پر نازل ہوتے ہیں۔ ( تفہیم القرآن، ج ۴، الشوریٰ حاشیہ :۵۲)
تخریج: (۱) حَدَّثَنِیْ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ ابْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا زُہَیْرُبْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِبْنِ عَمْرِ وبْنِ حَلَحَلَۃَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ، عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الخُدْرِیِّ وَ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ، قَالَ: مَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ وَلَا ہَمٍّ وَلَا حَزَنٍ وَلَا اَذًی وَلَا غَمٍّ حَتّٰی الشَّوْکَۃِ یُشَاکُہَا اِلَّا کَفَّرَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ خَطَایَاہُ۔ (۳۱)
(۲) حَدَّثَنَاقَبِیْصَۃُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الْاَعْمشِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ التَّیْمِیِّ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ: اَتَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ فِی مَرَضِہٖ فَمَسسْتُہٗ وَہُوْیُوْعَکُ وَعْکًا شَدِیْدًا، فَقُلْتُ: اِنَّکَ لَتُوْعَکُ وَعْکًا شَدِیْدًا وَذَاکَ اِنَّ لَکَ اَجْرَیْنِ، قَالَ: اَجَلْ! وَمَا مِنْ مُسْلِمٍ یُصِیْبُہٗ اَذًی اِلَّا حَآتَّتْ عَنْہُ خَطَایَاہُ کَمَا تُحَاتُّ وَرَقُ الشَّجَرِ۔ (۳۲)
ترجمہ: عبداللہ بن مسعود نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ان کی بیماری کے دوران حاضر ہوا۔ میں نے اپنا ہاتھ لگا کر دیکھا کہ آپ کو تیز بخار ہے۔ میں نے عرض کیا حضوؐر! آپؐ کو شدید قسم کا بخار ہے اور یہ اس لیے کہ آپؐ کو دوہرا اجر ملے؟ آپؐ نے فرمایا ’’ہاں ، کوئی مسلم ایسا نہیں کہ اسے کوئی اذیت و تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑجاتے ہیں جس طرح (موسم خزاں میں) درخت کے پتے جھڑجاتے ہیں۔
(۳) حَدَّثَنَابْنُ اَبِیْ عُمَرَوَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اَبِیْ زِیَادٍ الْمَعْنیٰ وَاحِدٌ ، قَالَا: نَا سُفْیَانُ ابْنُ عُیَیْنَۃَ عَنِ ابْنِ مُحَیْصِنٍ، عَنْ مُحَمَّدِبْنِ قَیْسِ بْنِ مَخْرَمَۃَ، عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، قَالَ : لمَّا نَزَلَتْ مَنْ یَعْمَل سُوْئً یُّجْزَبِہٖ شَقَّ ذٰلِکَ عَلَی المُسْلِمِیْنَ فَشَکَوْا ذٰلِکَ اِلَی النَّبِیِّ ﷺ، فَقَالَ: قَارِبُوْا وسَدِّدُوْاوَفِیْ کُلِّ مَا یُصِیْبُ الْمُؤْمِنَ کَفَّارَۃٌ حَتَّی الشَّوْکَۃِ یُشَاکُہَا وَالنَّکْبَۃِ یَنْکِبُہَا(۳۳)۔ (ہذا حدیث حسن غریب)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ جب آیت مَنْ یَعْمَلْ سُوْٓئً یُجْزَبِہٖ نازل ہوئی تو مسلمانوں کو یہ گراں گزری اور نبی ﷺ کی خدمت میں شکوہ کیا۔ آپؐ نے فرمایا۔’’ میانہ روی اختیار کرو، افراط وتفریط سے بچو۔ ہر وہ تکلیف جو کسی مومن کو پہنچتی ہے حتّٰی کہ کانٹا بھی اگر چبھ جائے یا اور کسی قسم کی مصیبت پہنچ جائے تو وہ اس کے لیے کفارہ کا کام دیتی ہے۔‘‘
(۴) عَنِ الْاَسْودِ، قَالَ: دَخَلَ شَبَابٌ مِّنْ قُرَیْشٍ عَلیٰ عَائِشَۃَ وَہِی بِمِنًی وَہُمْ یَضْحَکُوْنَ، فَقَالَتْ: مَا یُضْحِکُکُمْ ؟ قَالُوْا: فُلَان، خَرَّعَلیٰ طَنُبِ فُسْطَاطٍ فَکَادَتْ عُنُقُہٗ اَوْعَیْنُہٗ اَنْ تَذہَبَ۔ قَالَتْ : لَا تَضْحَکُوْا فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ، قَالَ: ’’مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُشَاکُ شَوْکَۃً فَمَا فَوْقَہَا اِلَّا کُتِبَتْ لَہٗ بِہَادَرَجَۃٌ و مُحِیَتْ عَنْہُ بِہَا خَطِیْئَۃٌ۔‘‘
ترجمہ: کچھ قریشی نوجوان حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ اس وقت منیٰ میں تشریف فرما تھیں۔ آپ نے دیکھا کہ وہ نوجوان ہنس رہے ہیں۔ آپ نے پوچھا کہ تم کیوں ہنس رہے ہو؟ بولے کہ فلاں صاحب خیمے کی طنابوں میں پھنس کر اس بری طرح منہ کے بل گرے کہ اس کی آنکھ کے ضائع ہونے یا گردن کے ٹوٹنے کا اندیشہ تھا، حضرت عائشہؓ نے فرمایا۔ ’’مت ہنسو! میں نے اپنے کانوں سے رسول خدا ﷺ کا یہ ارشادِ گرامی سنا ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’کوئی مسلم ایسا نہیں کہ اسے کانٹا چبھنے کی تکلیف پہنچے یا اس سے کچھ زیادہ اور کسی قسم کی اذیت کہ اس کے بدلے میں اس کا ایک درجہ نہ لکھ دیا جائے اور اس کی ایک خطا مٹا نہ دی جائے۔‘‘
(۵) عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: قَال رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: لَا یصیْبُ الْمُؤمِنَ شَوْکَۃٌ فَمَا فَوقہا اِلا قصَّ اللّٰہ بہَا مِنْ خَطِیْئَتِہٖ۔
(۶) عَنْ عَائِشَۃَ، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ، قَالَ: ’’مَا مِنْ مُصِیْبَۃٍ یُصَابُ بِہَا الْمُسْلِمُ اِلَّا کُفِّرَبِہَا عَنْہُ حَتّٰی الشَّوکَۃِ یُشَاکُہَا۔
( ۷ ) عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا: اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ، قَالَ: لَا یُصِیبُ الْمُؤْمِنَ مِنْ مُصِیبَۃٍ حَتَّی الشَّوْکَۃِ اِلَّا قُصَّ بِہَا مِنْ خَطَایَاہُ اَوْکُفِّرَ بِہَا مِنْ خَطَایَاہُ لَا یَدْرِیْ یَزِیْدُ اَیَّتُہُمَا قَالَ عُرْوَۃُ۔
( ۸ ) عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ، یَقُوْلُ: مَا مِنْ شَیٍٔ یُصِیْبُ الْمُؤْمِنَ حَتَّی الشَّوْکَۃِ تُصِیْبُہٗ اِلَّا کَتَبَ اللّٰہُ لَہٗ بِہَا حَسَنَۃً اَوْحُطَّتْ عَنْہُ بِہَا خَطِیْئَۃٌ۔
(۹) عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ واَبِیْ ہُرَیْرَۃ رضی اللہ عنہما: اِنَّہُمَا سَمِعَارَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ، یَقُوْلُ: مَا یُصِیْبُ الْمُؤْمِنَ مِنْ وَصَبٍ وَلَا نَصَبٍ وَلَا سَقَمٍ وَلَا حَزَنٍ حَتَّی الْہَمِّ یَہُمُّہٗ اِلَّا کُفِّرَبِہٖ مِنْ سَیِّئَاتِہٖ۔
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت ابوسعید خدریؓ دونوں روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے خود رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ مومن کو جو دُکھ اور جو رنج اور جو بیماری اور غم پہنچتا ، حتیّٰ کہ جو فکر بھی لاحق ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کی سیئات کا کفارہ بنادیتا ہے۔
(۱۰) عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً یُجْزَبِہٖ بَلَغَتْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ مَبْلَغًا شَدِیْدًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : قَارِبُوْا وَسَدِّدُوْا فَفِیْ کُلِّ مَا یُصَابُ بِہٖ الْمُسْلِمَ کَفَّارَۃٌ حَتَّی النَّکْبَۃِ یَنْکِبُہَا اَوِالشَّوْکَۃِ یُشَاکُہَا۔
(۱۱) اَخْبَرَنَا جَابِرُبْنُ عَبْدِ اللّٰہِ: اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ دَخَلَ عَلیٰ اُمِّ السَّآئِبِ اَوْ اُمِّ المُسَیَّبِ، فَقَالَ: مَالَکِ یَااُمَّ السَّآئِبِ اَوْ یَا اُمَّ الْمُسَیَّبِ تُزَفْزِفِیْنَ، قَالَتْ: الْحُمّٰی لَا بَارَکَ اللّٰہُ فِیْہَا، فَقَالَ: لَا تَسُبِّی الْحُمّٰی فَاِنَّہَا تُذْہِبُ خَطَایَا بَنِیْ اٰدَمَ کَمَا یُذْہِبُ الْکِیْرُ خَبَثَ الْحَدِیْدِ۔ (۳۴)
ترجمہ: جابر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اُمّ السائب یا اُمّ المسیّب کے ہاںتشریف لے گئے (شدید بخار میں مبتلاپاکر) آپؐ نے اس سے دریافت فرمایا۔’’ام السائب کہا یا ام المسیّب تمہیں کیا ہوا؟ تمہاری سانس پھولی ہوئی ہے۔ کپکپی تم پر طاری ہے۔’’بولیں حضوؐر بخار کی لپیٹ میں ہوں، جس میں کوئی بھلائی و برکت نہیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔’’بخار کو برا بھلا مت کہو یہ تو آولادِ آدم کے گناہ اس طرح جھاڑویتا ہے جس طرح بھٹّی لوہے کا زنگ جلا کر صاف کردیتی ہے۔
اس کی مزید توضیح اس حدیث سے ہوتی ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ابوادائو میں مروی ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! میرے نزدیک کتاب اللہ کی سب سے خوفناک آیت وہ ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ مَنْ یَّعْمَلْ سّوْٓئً یُّجْزَبہٖ ’’جو شخص کوئی برائی کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا۔‘‘ اس پرحضوؐر نے فرمایا، عائشہؓ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدا کے مطیع فرمان بندے کو دنیا میں جو تکلیف بھی پہنچتی ہے حتّٰی کہ کوئی کانٹا بھی اس کو چبھتا ہے تو اللہ اسے اس کے کسی نہ کسی قصور کی سزادے کر دنیا میں ہی اس کا حساب صاف کردیتا ہے؟ (تفہیم القرآن، ج۲، الرعد حاشیہ:۳۴)
تخریج: حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ثَنَا یَحْیٰ ،ح وثَنَا مُحَمَدُبْنُ بَشَّارٍ، ثَنَا عْثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ اَبُودَاؤد: وَہٰذَا لفْظُ ابْنِ بَشَّارٍ، عَنْ اَبِیْ عَامِرٍ الْخَزَّازِ، عَنِ بْنِ اَبِیْ مُلَیکَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنِّیْ لَاَعْلَمُ اَشَدَّ آیَۃً فِی الْقُرْاٰنِ، قَالَ: اَیَّۃُآیَۃٍ یَا عَائِشَۃُ؟ قَالَتْ: قَوْلُ اللّٰہِ تَعالیٰ (مَنْ یَعْمَلْ سُوْئً ایُجْزَبِہٖ) قَال: اَمَا عَلِمْتِ یَا عَائِشَۃُ! اَنَّ الْمُؤْمِنَ تُصِیْبُہُ النَّکْبَۃُ اَوِ الشَّوْکَۃُ فَیُکَافَأُ بِأسْوَئِ عَمَلِہٖ، الحدیث۔ (۳۵)
۱۸۔ جاء فی الحدیث لَا یَزَالُ الْبَلَائُ بِالْمُؤْمِنِ حَتّٰی یَخْرُجَ نَقِیًّا مِنْ ذُنُوْبِہِ وَالْمُنَافِقُ مَثَلُہٗ کَمَثَلِ الْحِمَارِ لَا یَدْرِیْ فِیْمَ رَبَطَہٗ اَہْلُہٗ وَلَا فِیْمَا اَرْسَلُوْہُ۔ (ابن کثیر ج ۲، ص ۲۳۳، سورہ اعراف)
ترجمہ: مصیبت مومن کی تو اصلاح کرتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ جب وہ اس بھٹّی سے نکلتا ہے تو ساری کھوٹ سے صاف ہوکر نکلتا ہے۔ لیکن منافق کی حالت بالکل گدھے کی سی ہوتی ہے جو کچھ نہیں سمجھتا کہ اس کے مالک نے کیوں اسے باندھا تھا اور کیوں اسے چھوڑ دیا۔
تشریح: جب کسی قوم میں کوئی نبی بھیجا گیا تو پہلے اس قوم کے خارجی ماحول کو قبولِ دعوت کے لیے نہایت سازگار بنایا گیا۔ یعنی اس کو مصائب اور آفات میں مبتلا کیا گیا۔ قحط ، وبا، تجارتی خسارے ، جنگی شکست یا اسی طرح کی تکلیفیں اس پر ڈالی گئیں۔ تاکہ اس کا دل نرم پڑے۔ اس کی شیخی اور تکبر سے اکڑی ہوئی گردن ڈھیلی ہو۔ اس کا غرور، طاقت اور نشۂ دولت ٹوٹ جائے، اپنے ذرائع و وسائل اور اپنی قوتوں اور قابلیتوں پر اس کا اعتماد شکستہ ہوجائے، اسے محسوس ہو کہ اوپر کوئی اور طاقت بھی ہے جس کے ہاتھ میں اس کی قسمت کی باگیں ہیں۔ اور اس طرح اس کے کان نصیحت کے لیے کھل جائیں اور وہ اپنے خدا کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھک جانے پر آمادہ ہوجائے۔ پھر جب اس ساز گار ماحول میں بھی اس کا دل قبولِ حق کی طرف مائل نہیں ہوتا تو اس کو خوش حالی کے فتنے میں مبتلا کردیا جاتا ہے اور یہاں سے اس کی بربادی کی تمہید شروع ہوجاتی ہے۔ جب وہ نعمتوں سے مالامال ہونے لگتا ہے تو اپنے برے دن بھول جاتا ہے اور اس کے کج فہم رہنما اس کے ذہن میں تاریخ کا یہ احمقانہ تصوّربٹھاتے ہیں کہ حالات کا اتار چڑھائو اور قسمت کا بنائو اور بگاڑ کسی حکیم کے انتظام پر نہیں ہورہا ہے بلکہ ایک اندھی طبیعت بالکل غیر اخلاقی اسباب سے کبھی اچھے اور کبھی برے دن لاتی ہی رہتی ہے۔ لہٰذا مصائب اور آفات کے نزول سے کوئی اخلاقی سبق لینا اور کسی ناصح کی نصیحت قبول کرکے خدا کے آگے زاری و تضرع کرنے لگنا بجز ایک طرح کی نفسی کمزوری کے اور کچھ نہیں ہے۔یہی وہ احمقانہ ذہنیت ہے جس کا نقشہ نبی ﷺ نے کھینچا ہے۔
پس جب کسی قوم کا حال یہ ہوتا ہے کہ نہ مصائب سے اس کا دل خدا کے آگے جھکتا ہے، نہ نعمتوں پر وہ شکرگزار ہوتی ہے اور نہ کسی حال میں اصلاح قبول کرتی ہے تو پھر اس کی بربادی اس طرح اس کے سر پر منڈلانے لگتی ہے جیسے پورے دن کی حاملہ عورت کہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کب اس کا وضعِ حمل ہوجائے۔ (تفہیم القرآن، ج ۲، الاعراف حاشیہ:۷۷)
تخریج: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِنِ النُّفَیْلِیُّ، ثَنَا مُحَمَّدُبْنُ سَلَمَۃَ عَن مُحَمَّدِبْنِ اِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِیْ رَجُلٌ مِنْ اَہْلِ الشَّامِ یُقَالُ لَہٗ اَبُو مَنْصُوْرٍ، عَنْ عَمِّہٖ، قَال: حَدَّثَنِیْ عَمِّیْ عَنْ عَامِرٍ الرَّامِ اَخِیْ الخَضْرِ، قَالَ اَبُوْداؤدَ، قَالَ النُّفَیْلِیُّ: ہُوَ الْخَضِرُ وَلٰکِنْ کَذَا قَالَ، قَالَ: اِنِّیْ لَببلَادِنَا اِذَا رُفِعَتْ لَنَا رَاْیَاتٌ وَاَلْوِیَۃٌ، فَقُلْتُ: مَا ہٰذَا؟ قَالُوْا: ہٰذَا لِوَائُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ، فَاَتَیْتُہٗ وَہُوَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ قَدْ بُسِطَ لَہٗ کِسَائٌ وَہُوَ جَالِسٌ عَلَیْہِ وَقَدِ اجْتَمَعَ اِلَیْہِ اَصْحَابُہٗ فَجَلَسْتُ اِلَیْہِمْ، فَذَکَرَرَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ الْاَسْقَامَ، فَقَال: اِنَّ الْمُؤْمِنَ اِذَا اَصَابَہُ السَّقَمُ ثُمَّ اَعْفَاہُ اللّٰہُ مِنْہُ کَانَ کَفَّارۃً لِّمَامَضٰی مِنْ ذُنُوْبِہٖ وَمَوْعِظَۃً لَّہٗ فِیْمَا یَسْتَقْبِلُ۔ وَاِنَّ الْمُنَافِقَ اِذَا مَرِضَ ثُمَّ اُعْفِیَ کَانَ کَالْبَعِیْرِ عَقَلَہٗ اَہْلُہٗ ثُمَّ اَرْسَلُوْہُ فَلَمْ یَدْرِلِمَ عَقَلُوْہُ وَلَمْ یَدْرِ لِمَ اَرْسَلُوْہُ، فَقَالَ رَجُلٌ مِمَّنْ حَوْلَہٗ، یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! وَمَا الْاَسْقَامُ؟ وَاللّٰہِ مَا مَرِضْتُ قَطُّ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: قُمْ عَنَّافَلَستَ مِنَّا ۔ الحدیث۔ (۳۶)
ترجمہ: خضر بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے گائوں میں تھا کہ ہمیں کچھ جھنڈے اور علم بلند ہوتے ہوئے دکھائی دیے۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا ہے۔ میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ کے لیے چادر بچھائی ہوئی تھی۔ اس پر آپؐ تشریف فرما تھے۔صحابہ کرامؓ آپ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ حضوؐر نے امراض کا ذکر فرمایا کہ ’’ایک مومن جب کسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اسے صحت و تندرستی عطا فرما دیتا ہے تو یہ بیماری اس مومن کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ اور مستقبل کے لیے نصیحت و موعظت بن جاتی ہے اور منافق جب بیمار پڑجاتا ہے اور پھر اسے صحت ہوجاتی ہے۔ تو یہ منافق اس اونٹ کی مانند ہوتا ہے جسے اس کے مالک نے باندھ رکھا ہو پھر اسے آزاد چھوڑ دے اسے نہ یہ معلوم ہو کہ اسے کیوں باندھا گیا تھا اور نہ یہ معلوم ہوکہ اسے آزاد کیوں چھوڑا گیا۔‘‘ حاضرین مجلس میں سے ایک شخص بولا’’یا رسول اللہ ؐ! یہ امراض کیا ہیں، میں تو زندگی بھر کبھی بیمار نہیں ہوا۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’اٹھو ہمارے ہاں سے تمہارا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔‘‘

مسند احمد میں ہے:
وَما یَزَالُ الْبَلَائُ بِالْعَبْدِ حَتّٰی یَمْشِیْ عَلیٰ ظَہْرِ الْاَرْضِ لَیْسَ عَلَیْہِ خَطِیْئَۃٌ۔ (۳۷)
ایک اور روایت میں ہے:
لَا یَزَالُ الْبَلَائُ بِالْمُؤْمِنِ اَوِالْمُؤْمِنَۃِ فِی جَسَدِہٖ وَفِیْ مَالِہٖ وَفِیْ وَلَدِہٖ حَتّٰی یَلْقَی اللّٰہَ وَمَا عَلَیْہِ مِنْ خَطِیْئَۃٍ۔ (۳۸)

ایک اسرائیلی مُوَحِّد کا ایمان افروز واقعہ

۱۹۔ حضرت صہیبؓ رومی نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے کہ ایک بادشاہ کے پاس ایک ساحر تھا۔ اس نے اپنے بڑھاپے میں بادشاہ سے کہا کہ کوئی لڑکا ایسا مامور کردے جو مجھ سے یہ سحر سیکھ لے۔ بادشاہ نے ایک لڑکے کو مقرر کردیا۔ مگر وہ لڑکا ساحر کے پاس آتے جاتے ایک راہب سے بھی (جو غالباً پیروانِ مسیح علیہ السلام میں سے تھا) ملنے لگااور اس کی باتوں سے متاثر ہو کر ایمان لے آیا۔ حتّٰی کہ اس کہ تربیت سے صاحب کرامت ہوگیا اور اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو تندرست کرنے لگا۔ بادشاہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ لڑکا توحید پر ایمان لے آیا ہے تو اس نے پہلے راہب کو قتل کیا۔ پھر اس لڑکے کو قتل کرنا چاہا ، مگر کوئی ہتھیار اور کوئی حربہ اس پر کارگر نہ ہوا۔ آخر کار لڑکے نے کہا کہ اگر تو مجھے قتل کرنا ہی چاہتا ہے تو مجمع عام میں بِاسْمِ رَبِّ الْغُلَامِ ’’اس لڑکے کے رب کے نام پر‘‘ کہہ کر مجھے تیر مار میں مرجائوں گا۔ چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور لڑکا مرگیا۔ اس پر لوگ پکار اٹھے کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے۔ بادشاہ کے مصاحبوں نے اس سے کہا کہ یہ تو وہی کچھ ہوگیا جس سے آپ بچنا چاہتے تھے۔ لوگ آپ کے دین کو چھوڑ کر اس لڑکے کے دین کومان گئے۔ بادشاہ یہ حالت دیکھ کر غصّے میں بھر گیا۔ اس نے  احمد  سڑکوں کے کنارے گڑھے کھدوائے، ان میں آگ بھروائی اور جس جس نے ایمان سے پھر نا قبول نہ کیا اس کو آگ میں پھکوادیا۔
تشریح: (اس روایت میں نبی ﷺ نے ایمان لانے والوں کو آگ میں پھینکنے کا قصہ بیان کیا۔ آگ میں پھینکنے کے اور بھی واقعات( احمد ، مسلم، نسائی، ترمذی، ابن جریر، عبدالرزاق ابن ابی شیبہ، طبرانی، عبد بن حمید۔)  روایات میں بیان ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ظلم دنیا میں کئی بار ہوا)۔
تخریج: حَدَّثَـنَا عَبْدُ اللّٰہِ ،حَدَّثَـنِیْ اَبِـیْ، ثـنا عَـفَّانُ، ثناحَمَّادُبْنُ سَلَمَۃَ، انا ثَابِتُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ لَیْلیٰ، عَنْ صُہَیْبٍ، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ، قَالَ: کَانَ مَلِکٌ فِیْمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ وَکَانَ لَہٗ سَاحِرٌ فَلَمَّا کَبُرَ السَّاحِرُ، قَالَ لِلْمَلِکِ : اِنِّیْ قَدْ کَبُرَتْ سِنِّیْ، وَحَضَرَ أَجَلِیْ، فَادْفَعْ اِلَیَّ غُلَامًا فَلِاُعَلِّمْہُ السِّحْرَ فَدَفَعَ اِلَیْہِ غُلَامًا فَکَانَ یُعَلِّمُہُ السِّحْرَ وَکَانَ بَیْنَ السَّاحِرِ وَبَیْنَ الْمَلِکِ رَاہِبٌ، فَاَتَی الْغُلَامُ عَلَی الرَّاہِبِ، فَسَمِعَ مِنْ کَلَامِہٖ فَاعْجَبَہٗ نَحْوَہٗ کَلَامَہٗ فکَانَ اِذا اَتَی السَّاحِرَ ضَرَبَہٗ وَقَالَ: مَاحَبَسَکَ؟ واِذَا اَتٰی اَہْلَہٗ ضَرَبُوہٗ، وَقَالُوْا: ماحَبَسَکَ؟ فَشَکَاذٰلِکَ اِلَی الرَّاہِبِ، فَقَالَ: اِذَا اَرَادَالسَّاحِرُاَنْ یَضْرِبَکَ، فَقُلْ: حَبَسَنِیْ اَہْلِیْ وَاِذَا اَرَادَ اَہْلُکَ اَنْ یَضْرِبُوْکَ فَقُلْ حَبَسَنِی السَّاحِرُوَقَالَ فَبَیْنَمَا ہُوَکَذٰلِکَ اِذْاَتٰی ذَاتَ یَوْمٍ عَلیٰ دَآبَّۃٍ فَظِیْعَۃٍ عَظِیْمَۃٍ۔ وَقَدْ حَبَسَتِ النَّاسَ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ اَنْ یَجُوْزُوْا، فَقَالَ: اَلْیَوْمَ اَعْلَمُ اَمْرُ الرَّاہِبِ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ اَمْ اَمْرُالسَّاحِرِ! فَاَخَذَ حَجَرًا، فَقَالَ: اَللّٰہُمَّ اِنْ کَانَ اَمْرُ الرَّاہِبِ اَحَبَّ اِلَیْکَ وَاَرْضیٰ لَکَ مِنْ اَمْرِ السَّاحِرِ فَاقْتُلْ ہٰذِہِ الدَّابَّۃَ حَتّٰی یَجُوْزَ النَّاسُ وَرَمَاہَا فَقَتَلَہَا وَمَضَی النَّاسُ فَاَخْبَرَ الرَّاہِبَ بِذٰلِکَ، فَقَالَ : اَیْ بُنَیَّ اَنْتَ اَفْضَلُ مِنِّیْ وَاِنَّکَ سَتُبْتَلیٰ فَاِنِ ابْتُلِیْتَ فَلَا تَدُلُّ عَلَیَّ۔ فَکَانَ الَغُلَامُ یُبْرِیُٔ اَکْمَہَ وَسَائِرَ الْاَدْوَائِ وَیَشْفِیْہِمْ وَکَانَ جَلِیْسٌ لِلْمَلِکِ فَعَمِیَ فَسَمِعَ بِہٖ فَاَتَاہُ بِہَدَایَا کَثِیْرَۃٍ، فَقَالَ: اِشْفِنِیْ وَلَکَ مَا ہٰہُنَا اَجْمَعَ، فَقَالَ: مَااَشْفِیْ اَنَا اَحَدًا اِنَّمَا یَشْفِی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فَاِنْ اَنْتَ آمَنْتَ بِہٖ دَعْوتُ اللّٰہَ فَشَفَاکَ فَاٰمَنَ فَدَعَااللّٰہَ لَہٗ فَشَفَاہُ ثُمَّ اَتَی الْمَلِکَ فَجَلَسَ مِنْہُ نَحْوَمَا کَانَ یَجْلِسُ، فَقَالَ لَہُ الْمَلِکُ، یَا فُلَانُ! مَنْ رَدَّ عَلَیْکَ بَصَرَکَ؟ فَقَالَ: رَبِّیْ ۔ قَالَ: اَنَا، قَالَ: لَا، وَلٰکِنْ رَبِّیْ ورَبُّکَ اللّٰہُ، قَالَ: اَوَلَکَ رَبٌّ غَیْرِیْ؟ قَالَ: نَعَمْ! فَلَمْ یَزَل یُعَذِّبُہٗ حَتّٰی دَلَّہٗ عَلَی الْغُلَامِ فَبَعَثَ اِلَیْہِ، فَقَالَ: اَیْ بُنَیَّ قَدْ بَلَغَ مِنْ سِحْرِکَ اَنْ تُبْرِیَٔ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَہٰذِہِ الْاَدْوَائَ، قَال: مَا اَشْفِیْ اَنَا اَحَدًا، مَا یَشْفِیْ غَیْرُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، قَالَ: اَنَا، قَالَ: لَا، قَالَ: اَوَلَکَ رَبٌّ غَیْرِیْ؟ قَالَ: نَعَمْ! رَبِّیْ وَرَبُّکَ اللّٰہُ، فَاَخَذَہٗ اَیْضًا بِالْعَذَابِ فَلَمْ یَزَلْ بِہٖ حَتّٰی دَلَّ عَلَی الرَّاہِبِ فَاُتِیَ بِالرَّاہِبِ، فَقَالَ: اِرْجِعْ عَنْ دِیْنِکَ فَاَبٰی فَوُضِعَ الْمِنْشَارُفِی مَفْرَقِ رَأَسِہِ حَتّٰی وَقَعَ شِقَّاہُ وَقَالَ لِلْاَعْمٰی اِرْجِعْ عَنْ دِیْنِکَ فَاَبیٰ فَوضَعَ الْمِنْشَارَفِی مَفرَقِ رَأْسِہِ حَتّٰی وَقَعَ شِقَّاہُ اِلَی الْاَرْضِ، وَقَالَ لِلْغُلَامِ: اِرْجِعْ عَنْ دِیْنِکَ، فَاَبیٰ، فَبَعَثَ بِہٖ مَعَ نَفَرٍ اِلیٰ جَبَلِ کَذَا وَکَذَا،فَقَالَ: اِذَا بَلَغْتُمْ ذِرْوَتِہٖ فَاِنْ رَّجَعَ عَنْ دِیْنِہٖ وَاِلَّا فَدَہْدَہُوْہُ مِن فَوْقِہٖ، فَذَہَبُوْا بِہٖ فَلَمَّا عَلَوْا بِہٖ الْجَبَلَ، قَالَ: اَللّٰہُمَّ اَکْفِنِیْہِمْ بِمَا شِئْتَ، فَرَجَفَ بِہِمُ الْجَبَلُ فَدَہْدَہُوْا اَجْمَعُوْنَ۔ وَجَآئَ الْغُلَامُ یَتَلَمَّسُ حَتّٰی دَخَلَ عَلَی الْمَلِکِ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ اَصْحَابُکَ؟ فَقَالَ: کَفَانِیْہِمُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فَبَعَثَہٗ مَعَ نَفَرٍ فِیْ قُرْقُوْزٍ، فَقَالَ: اِذَالَجَجْتُمْ بِہِ الْبَحْرَ فَاِنْ رَجَعَ عَن دِیْنِہٖ وَاِلَّا فَغَرِّقُوْہُ فَلَجَّجُوْا بِہِ الْبَحْرَ، فَقَالَ الْغُلَامُ: اَللّٰہُمَّ اَکْفِنِیْہِمْ بِمَا شِئْتَ فَغَرَقُوْا اَجْمَعُوْنَ وَجَآئَ الْغُلَامُ یَتَلَمَّسُ حَتّٰی دَخَلَ عَلَی الْمَلِکِ۔ فَقَالَ: مَا فَعَلَ اَصْحَابُکَ ؟ قَالَ: کَفَانِیْہِمُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔ ثُمَّ قَالَ لِلْمَلِکِ: اِنَّکَ لَسْتَ بِقَاتِلِیْ حَتَّی تَفْعَلَ مَاآمُرُکَ بِہٖ، فَاِنْ اَنْتَ فَعَلْتَ مَا اٰمُرُکَ بِہٖ قَتَلْتَنِیْ وَاِلَّا فَاِنَّکَ لَا تَسْتَطِیْعُ قَتْلِیْ، قَال: وَمَا ہُوَ؟ قَالَ: تَجْمَعُ النَّاسَ فِی صَعِیْدٍ ثُمَّ تَصْلُبْنِیْ عَلیٰ جِذْعٍ فَتَاْخُذْ سَہْمًا مِنْ کِنَانَتِیْ، ثُمَّ قُلْ بِسْمِ اللّٰہِ رَبِّ الْغُلَامِ، فَاِنَّکَ اِذَا فَعَلْتَ ذٰلِکَ قَتَلْتَنِیْ، فَفَعَلَ وَوَضَعَ السَّہْمَ فِیْ کَبِدِ قَوْسِہٖ، ثُمَّ رَمیٰ، فَقَالَ: بِسْمِ اللّٰہِ رَبِّ الْغُلَامِ، فَوَضَعَ السَّہْمُ فِیْ صُدْغِہٖ فَوَضَعَ الْغُلَامُ یَدَہٗ عَلیٰ مَوْضِعِ السَّہْمِ وَمَاتَ ۔ فَقَالَ النَّاسُ: آمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ فَقِیْلَ لِلْمَلِکِ اَرَأَیْتَ مَاکُنْتَ تَحْذَرُ فَقَدْ وَاللّٰہِ نَزَلَ بِکَ قَدْ آمَنَ النَّاسُ کُلُّہُمْ فَاَمَرَبِاَفْوَاہِ السِّکَکِ فَخُدَّدَتْ فِیْہَا الْاُخْدُوْدُ وَاُضرِمَتْ فِیْہَا النِّیَرانُ وَقَالَ: مَنْ رَجَعَ عَن دِیْنِہٖ فَدَعُوْہُ وَاِلَّا فَاقْحَمُوْہُ فِیہَا قَالَ فَکَانُوْایَتَعَادُوْنَ فِیْہَا وَیَتَدَافَعُوْنَ فَجَآئَ تْ اِمْرَأ ۃٌ بِابْنٍ لَّہَا تُرْضِعُہٗ فَکَاَنَّہَا تَقَاعَسَتْ اَنْ تَقَعَ فِی النَّارِ فَقَالَ الصَّبِیُّ یَا اُمَّہِ! اصْبِرِیْ فَاِنَّکِ عَلَی الْحَقِّ۔ (۳۹)
ترجمہ: حضرت صہیبؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ تم سے پہلے لوگوں میں ایک بادشاہ تھا۔ اس کے پاس ایک ساحر تھا۔ جب ساحر بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ ’’میں اب بہت بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری اجل قریب ہے۔ مجھے ایک لڑکا دو جسے میں سحر سکھادوں۔‘‘ بادشاہ نے اسے ایک لڑکا دے دیا۔ساحر نے اسے سحر سکھانا شروع کردیا۔ بادشاہ اور جادوگر کے درمیانی راستے میں ایک راہب رہتا تھا یہ لڑکا اس کے پاس ٹھیرنے لگا۔ راہب کا کلام لڑکے نے سنا تو اسے اس کا انداز اور کلام بہت اچھا لگا۔ اب معاملہ کی نوعیت یہ ہوگئی کہ لڑکا جب ساحر کے پاس پہنچتا تو وہ اس کی پٹائی کرتا اور دریافت کرتا کہ کس چیز نے تمہیں روکے رکھا اور جب وہ لڑکا اپنے گھر پہنچتا تو گھر والے دیر سے پہنچنے کی وجہ سے مارتے اور پوچھتے تاخیر سے آنے کی کیا وجہ ہے؟ اس صورت حال سے لڑکے نے راہب کو آگاہ کیا تو اس نے ایک تجویز اسے سجھائی کہ جب ساحر تجھے مارنے کے درپے ہو تو اس کو کہہ دیا کرو کہ گھر والوں نے کسی کام سے روک لیا تھا اور جب گھر والے دیر سے پہنچنے کی سزا دینے لگیں تو ان سے کہہ دیا کرو کہ ساحر نے مجھے روکے رکھا۔ اسی اثناء میں ایک روز اس لڑکے کا گزر ایک ہیبت ناک اور بہت بڑے جانور پر ہوا جس نے لوگوں کا راستہ روک رکھا تھا۔ اس کی دہشت اور خوف سے لوگ اس راستہ سے نہیں گزرتے تھے۔ یہ معاملہ دیکھ کر لڑکے کو خیال آیا کہ میں آج معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کو راہب کا طریقہ زیادہ پسند ہے یا جادو گر کا۔ یہ سوچ کر اس نے ایک پتھر ہاتھ میں پکڑ ا اور یہ کہہ کر اس جانور کو کھینچ مارا کہ اے اللہ ! اگر اس راہب کا طریقہ تیری نظر میں ساحر کے طریقے سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے، تو اس جانور کو ماردے۔ تاکہ لوگوں کا راستہ کھل جائے اور یہ گزر جائیں، چنانچہ وہ جانور اس پتھر سے مرگیا اور لوگ آرام سے گزرگئے۔ پھر یہ سارا ماجرا لڑکے نے راہب کو سنایا۔ راہب سن کر بولا۔ بیٹے اب تم مجھ سے بازی لے گئے ہو۔ تمہارا مقام مجھ سے افضل ہے۔ لہٰذا اب مستقبل قریب میں تمہاری آزمائش ضرور ہوگی۔ لہٰذا اگر تمہیں سخت آزمائش میں ڈالا گیا اور یہ پوچھا گیا کہ تم نے یہ علم کس سے حاصل کیا ہے تو میرے بارے میں کچھ نہ بتانا۔ (یہ لڑکا راہب سے تعلیم پاکر صاحبِ کرامت ہو گیا) اور اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو تندرست کرنے لگا اور دوسرے بیماروں کو بھی شفا دینے لگا۔’’شفا کی نسبت لڑکے کی طرف سبب کے درجے میں ہے حقیقی نہیں، حقیقی شفاء صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ بادشاہ کا ایک ہم جلیس بھی نابینا تھا۔ اسے اس لڑکے کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ بہت تحائف اور ہدایالے کر اس کے پاس آیا۔ کہنے لگا اے لڑکے مجھے شفا دے۔ اس کے عوض یہاں جو کچھ میں لایا ہوں وہ سب تیرا ہے۔ لڑکا بولا میں تو کسی کو بھی شفایاب نہیں کرسکتا۔ شفاء تو صرف اللہ عزوجل کے قبضۂ اختیار میں ہے، اگر تو ایمان لے آئے تو میں اللہ سے دعا کروں گا وہ تجھے شفا دے دے گا۔ وہ ایمان لے آیا ۔ لڑکے نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اوروہ شفایاب ہوگیا۔ اس کے بعد وہ بادشاہ کے پاس آیا اور حسبِ معمول وہیں بیٹھ گیا، جہاں بیٹھتا تھا۔ بادشاہ نے دیکھا اور حیران ہو کر پوچھا، ارے تمہاری بینائی کس نے لوٹائی ہے؟ بولا میرے رب نے۔ بادشاہ نے کہا’’میں نے؟‘‘ اس نے نفی میں جواب دیا کہ نہیں بلکہ میرے اور تمہارے رب نے مجھے شفا عطا فرمائی ہے۔ بادشاہ بولا میرے علاوہ بھی تیرا اور کوئی رب ہے؟ اس نے اثبات میں جواب دیا کہ ’’ہاں!ہے‘‘۔ پس پھر کیا تھا بادشاہ نے اسے عذاب میں اس وقت تک مبتلا رکھا جب تک کہ اس نے لڑکے کا اتا پتا نہ بتادیا۔ بادشاہ نے اس لڑکے کو اپنے پاس بلواکر پوچھا ۔ اے نوجوان! تیرا جادو اس حد کو پہنچ گیا ہے کہ تو اندھے کو بینا اور کوڑھی کو تندرست کردیتا ہے۔ لڑکا بولا کسی کو شفا دینا میرے دائرۂ اختیار میں نہیں ہے۔ شفاء دینا صرف اللہ عزوجل کا کام ہے کسی غیر اللہ کا یہ کام نہیں۔ بادشاہ بولا’’تو وہ میں ہوں‘‘۔ لڑکے نے جواب دیا ’’نہیں تم نہیں ہو۔‘‘ بادشاہ نے کہا’’ کیا میرے سوا تیرا اور بھی کوئی رب ہے؟‘‘ بولا ہاں میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔ اس پر اسے بھی بادشاہ نے مبتلائے عذاب کردیا اور اتنا عذاب دیا کہ لڑکا راہب کے متعلق بتانے پر مجبور ہوگیا۔ بادشاہ نے اس راہب کو بلوایا اور حکم دیا کہ اپنے دین سے پھر جائو۔ راہب نے اپنا دین ترک کرنے سے انکار کر دیا تو بادشاہ نے اس کے سرکے وسط میں آرا رکھوا کر چروا دیا۔ پھر بادشاہ اس اندھے کی طرف متوجہ ہوا اور اسے حکم دیا کہ اپنے دین سے پھر جائے۔ مگر ایسا کرنے سے اس نے بھی انکار کردیا تو اس کے سر پر بھی آرا رکھ کر چروادیا حتّٰی کہ وہ دو ٹکڑے ہو کر زمین پر گرپڑا۔ پھر بادشاہ لڑکے کی طرف متوجہ ہوا اور اسے بھی حکم دیا کہ اپنے دین سے پھر جائے مگر ایسا کرنے سے اس نے بھی انکار کر دیا تو اسے کچھ سپاہیوں کی تحویل میں دے کر حکم دیا کہ اسے فلاں اونچے پہاڑ پر لے جاکر پوچھو۔ اگر یہ اپنے دین سے پھر جائے تو چھوڑ دو۔ بصورت دیگر اسے پہاڑ کی چوٹی سے لڑھکادو۔ تعمیل حکم میں یہ لوگ اسے لے کر جب پہاڑ پر لے چڑھے تو لڑکے نے اللہ سے دعا کی، اے اللہ! تو خود ان سے جس طرح چاہے نبٹ لے۔ چنانچہ پہاڑ اس شدت سے لرزا کہ وہ سارے کے سارے لڑھکتے ہوئے نیچے آرہے اور مرگئے۔لڑکا راستہ تلاش کرتا ہوا بادشاہ کے پاس پہنچ گیا۔ پوچھا کہ تمہارے ساتھ جو لوگ گئے تھے ان کا کیا حال ہے۔ وہ بولا، اللہ تعالیٰ نے ان کاکام تمام کردیا ہے۔ پھربادشاہ نے اسے کچھ لوگوں کے ساتھ بھیجا اور کہا کہ اسے بڑی کشتی پر سوار کرکے سمندر کی تلاطم خیز موجوں میں لے جائو۔ وہاں جا کر اگر یہ اپنے دین سے پھرنے کا اقرار کرلے تو چھوڑ دو ورنہ اسے وہیں غرق کردو۔ چنانچہ وہ اسے بپھری ہوئی موجوں میں لے گئے۔اس موقع پر لڑکے نے پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ! تو ہی جس طرح چاہے ان سے نبٹ لے۔ دعا قبول ہوئی اور وہ سب موجوں کی لپیٹ میں آکر لقمہ اجل بن گئے۔ لڑکا پھر راستہ تلاش کرتا ہوا بادشاہ تک پہنچ گیا۔ اس نے پوچھا تیرے ساتھیوں کا کیا بنا؟ لڑکے نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بچا لیا اور ان کو ہلاک کردیا۔ پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا کہ اے بادشاہ تو مجھے قتل نہیں کرسکتا جب تک کہ تو اس طرح نہ کرے جس طرح میں تجھے بتاتا ہوں۔ اگر تو نے میری بتائی ہوئی تدبیر پر عمل کیا تو تو مجھے قتل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا ورنہ تو مجھے ہرگز قتل نہیں کرسکتا۔ بادشاہ نے پوچھا وہ کیا ہے؟ لڑکا بولا، تمام لوگوں کو ایک کھلے میدان میں جمع کراور مجھے کھجور کے تنے پر پھانسی پر لٹکا کر میرے ترکش سے تیرلے اور یوں کہہ کر تیرمار ’’اس لڑکے کے پروردگار اللہ کے نام سے‘‘ پس جب تو حسبِ ہدایت عمل کرے گا تو مجھے قتل کردے گا۔ لہٰذا بادشاہ نے ایسا ہی کیا۔ کمان کے بیچ میں تیر لگا کر مارا اور ساتھ ہی کہا بسم اللّٰہ رب الغلام تیر سیدھالڑکے کی کنپٹی پر لگا۔ لڑکے نے اپنا ہاتھ تیر لگنے کے مقام پر رکھا اور مرگیا۔ اس پر لوگ پکار اٹھے کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے۔ بادشاہ کے مصاحبوں نے اس سے کہا یہ تو وہی کچھ ہوگیا جس سے آپ بچنا چاہتے تھے۔ لوگ آپ کے دین کو چھوڑ کر اس لڑکے کے دین کو مان گئے۔ بادشاہ یہ دیکھ کر غصے سے بھر گیا۔ اس نے سڑکوں کے کنارے گڑھے کھدوائے اور ان میں آگ بھروائی اور جس نے ایمان سے پھرنا قبول نہ کیا اس کو ان گڑھوں میں پھکوادیا۔ اسی دوران میں ایک خاتون اس حال میں آئی کہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلارہی تھی اور وہ آگ میں کودنے سے ہچکچائی تو اس کا شیر خوار بچہ بول اٹھا۔ ’’امی جان ثابت قدم رہو۔ بلاشبہ تم حق پر ہو۔‘‘
ترمذی میں یہ اضافہ ہے:
قال قام الغلام فانہ دفن قال فیذکرانہ اُخرج فی زمن عمر بن الخطاب واصبعہ علی صدغہٖ کما وضعہا حین قتل۔(۴۰) (ہٰذا حدیث حسن غریب)
(۲) حَدَّثَنَاابْنُ حُمَیْدٍ، قَالَ: ثنا یَعْقُوْبُ الْقُمِّیُّ عَنْ جَعْفَرٍ، عَنِ ابْنِ أَبْزٰی، قَالَ: لَمَّا رَجَعَ الْمُہَاجِرُوْنَ مِنْ بَعْضِ غَزَوَاتِہِمْ، بَلَغَہُمْ نَعْیُ عُمَرَبْنِ الخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ: اَیُّ الْاَحْکَامِ تَجْرِیْ فِی الْمَجُوْسِ وَاِنَّہُمْ لَیْسُوْا بِاَہْلِ الْکِتٰبِ وَلَیْسُوْا مِنْ مُشْرِکِی الْعَرَبِ، فَقَالَ عَلَیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: قَدْ کَانُوْا اَہْلَ کِتَابٍ وَقَدْ کَانَتِ الْخَمْرُ اُحِلَّتْ لَہُمْ فَشَرِ بَہَا مَلِکٌ مِنْ مُّلُوْکِہِمْ حَتّٰی ثَمَلَ مِنْہَا فَتَنَا وَلَ اُخْتَہٗ فَوَقَعَ عَلَیْہَا فَلَمَّا ذَہَبَ عَنْہُ السُّکْرُ،قَالَ لَہَا وَیْحَکِ فَمَا الْمَخْرَجُ مِمَّا ابْتَلَیْتُ بِہٖ؟ فَقَالَتْ: اُخْطُبِ النَّاسَ، فَقُلْ، یَااَیُّہَا النَّاسُ! اِنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَلَّ نِکَاحَ الْاَخَواتِ، فَقَامَ خَطِیْبًا، فَقَالَ : یَا اَیُّہَا النَّاسُ! اِنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَلَّ نِکَاحَ الْاَخَوَاتِ، فَقَالَ النَّاسُ: اِنَّا نَبْرَأُ اِلَی اللّٰہِ مِنْ ہٰذَا الْقَوْلِ مَا اَتَانَا بِہٖ نَبِیٌّ وَلَا وَجَدْنَاہُ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ، فَرَجَعَ اِلَیْہَا نَادِمًا فَقَالَ لَہَا: وَیْحَکِ اِنَّ النَّاسَ قَدْ اَبَوْا عَلَی اَنْ یُّقِرُّوْا بِذٰلِکَ، فَقَالَتْ: اُبْسُطْ عَلَیْہِمْ السِّیَاطَ فَفَعَلَ فَبَسَطَ عَلَیْہِمُ السِیَاطَ فَاَبَوا اَنْ یُّقِرُّوْا فَرَجَعَ اِلَیْہَا نَادِمًا، فَقَالَ: اِنَّہُمْ اَبَوْا اَنْ یُّقِرُّوْا، فَقَالَتْ: اُخطُبْہُمْ فَاِنْ اَبَوْا فَجَرِّدْ فِیْہِمِ السَّیْفَ، فَفَعَلَ فَاَبٰی عَلَیْہِ النَّاسُ، فَقَالَ لَہَا:قَدْ اَبٰی عَلَیَّ النَّاسُ، فَقَالَتْ :خَدِّ لَہُمُ الْأخْدُوْدَ ثُمَّ اَعْرِضْ عَلَیْہَا اَہْلَ مَمْلَکَتِکَ فَمَنْ اَقَرَّوَاِلَّا فَاقْذِفہُ فِی النَّارِ، فَفَعَلَ ثُمَّ عَرَضَ عَلَیْہَا اَہْلَ مَمْلَکَتِہٖ فَمَنْ لَّمْ یُقِرَّ مِنْہُمْ قَذَفَہٗ فِی النَّارِ، فَاَنْزَلَ اللّٰہُ فِیہِمْ قُتِلَ اَصْحَابُ الْاُخْدُوْدِ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ اِلیٰ اَنْ یُؤْمِنُوا بِا للّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ۔۔۔اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِ۔ فَلَمْ یَزَالُوْا مُنْذُذٰلِکَ یَسْتَحِلُّوْنَ نِکَاحَ الْاَخَوَاتِ والْبَنَاتِ وَالْاُمَّہَاتِ۔ (۴۱)
ترجمہ: ابن جریر کا بیان ہے کہ جب مہاجرین بعض غزوات سے واپس لوٹے انھیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر پہنچی تو ایک دوسرے سے کہنے لگے مجوس کے متعلق احکام شریعت کیا ہیں؟ وہ اہل کتاب میں سے بھی نہیں اور مشرکین عرب میں بھی ان کا شمار نہیں۔ اس موقعہ پر حضرت علیؓ نے فرمایا ’’یہ اہل کتاب ہیں کیونکہ ان کی شریعت میں شراب نوشی حلال تھی۔ ان کے کسی ایک بادشاہ نے شراب پی اور حواس باختہ ہوگیا اور اس نے اپنی حقیقی بہن کو پکڑ کر اس سے حرام کاری کی مگر جب نشہ کافور ہواتو اسے اس کا بڑا افسوس ہوا کہنے لگا۔ بڑا افسوس ہے۔ اب اس سے مخلصی کا راستہ کیا ہے جس میں میں مبتلا ہوچکا ہوں۔اس کی بہن نے مشورہ دیا کہ عوام سے خطاب کرکے انھیںیقین دلائو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حقیقی بہن سے نکاح جائز قرار دے دیا ہے چنانچہ اس نے کھڑے ہو کر لوگوں سے خطاب کیا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بہنوں سے نکاح جائز کردیا مگر لوگوں نے اس کی اس بات کو یہ کہہ کر تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا کہ ہم اس بات سے اظہار برأت کرتے ہیں اس لیے کہ نہ تو ہمارے نبی نے یہ فرمایا ہے اور نہ ہی ہمیں اللہ کی کتاب میں یہ بات ملی ہے۔ لوگوں کا یہ جواب سن کر نادم و پریشان واپس چلا گیا اور جاکر بہن کو سارا واقعہ سنایا کہ انھو ں نے یہ بات تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ بہن نے پھر مشورہ دیا کہ ان پر کوڑے برسائے جائیں چنانچہ اس نے کوڑے برسائے مگر پھر بھی لوگوں نے بات ماننے سے انکار کردیا۔ نادم و پشیمان واپس آیا اور سارا ماجرا بہن کو سنایا کہ لوگوں نے میری بات ماننے سے انکار کردیا ہے اس نے کہا کہ ان پر کوڑے برسائو۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ اس کے باوجود انھوں نے نہ مانا۔ پھر بہن کو سارا واقعہ سنایا تو اس نے مزید مشورہ دیا کہ ان کو تلوار برہنہ سے ڈرائو۔ اس نے شمشیر سے انھیں مرعوب کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ پھر اس نے خندقیں کھدوائیں اور عوام میں اعلان کروادیا کہ جو میری بات کا اقرار کرے وہ زندہ رہ سکے گا مگر جس نے اس کی بات کو نہ مانا اسے اسنے آگ کی خندق میںڈال دیا۔ اسی واقعہ کے متعلق قرآن پاک کی سورہ بروج میںذکر آیا ہے ۔قُتِلَ اَصْحَابُ الْاُخْدُوْدِ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ اِلیٰ اَنْ یُؤْمِنُوا باللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ…اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِ۔اس واقعہ کے بعد سے بہنوں اور بیٹیوں اور حقیقی مائوں سے نکاح حلال قرار دے دیا گیا۔
۳۔ ابن عباسؓ نے غالباً اسرائیلی روایات سے نقل کیا ہے کہ بابل والوں نے بنی اسرائیل کو دینِ موسیٰ علیہ السلام سے پھر جانے پر مجبور کیا تھا یہاں تک کہ انھوں نے آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں ان لوگوں کو پھینک دیا جو اس سے انکار کرتے تھے۔ (ابن جریر، عبد بن حُمید)
(۳) قال العوفی عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: قُتِلَ اَصْحَابُ الْاُخْدُوْدِ ۔ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ۔ قَالَ نَاسٌ مِنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ: خَدُّوْا اُخْدُوْدًا فِی الْاَرْضِ ثُمَّ اَوْقَدُوا فِیْہِ نَارًا ثُمَّ اَقَامُوْا عَلیٰ ذٰلِکَ الْاُخْدُوْدِ رِجَالاً وَّنِسَآئً فَعُرِضُوْا عَلَیْہَا وَزَعَمُوْا اَنَّہٗ دَانِیَالُ وَاَصْحَابُہٗ۔ (۴۲)
۴۔ سب سے مشہور واقعہ نجران کا ہے جسے ابنِ ہشام، طبری ، ابن خلدون اور صاحب معجم البلدان وغیرہ اسلامی مؤرّخین نے بیان کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حمیر (یمن) کا بادشاہ تُبان اسعد ابوکَرِب ایک مرتبہ یثرب گیا جہاں یہودیوں سے متاثر ہو کر اس نے دین یہودقبول کرلیا اور بنی قُرَیظہ کے دو یہودی عالموں کو اپنے ساتھ یمن لے گیا۔وہاں اس نے بڑے پیمانے پر یہودیت کی اشاعت کی۔ اس کا بیٹا ذونواس اس کا جانشین ہوا اور اس نے نجران پر، جو جنوبی عرب میں عیسائیوں کا گڑھ تھا، حملہ کیا تاکہ وہاں سے عیسائیت کا خاتمہ کردے اور اس کے باشندوں کو یہودیت اختیار کرنے پر مجبور کرے۔ (ابن ہشام کہتا ہے کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ ؑ کے اصل دین پر قائم تھے) نجران پہنچ کر اس نے لوگوں کو دین یہود قبول کرنے کی دعوت دی مگر انھوں نے انکار کیا۔ اس پر اس نے بکثرت لوگوں کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں پھینک کر جلوادیا اور بہت سوں کو قتل کردیا۔ یہاں تک کہ مجموعی طور پر بیس ہزار آدمی مارے گئے۔ اہل نجران میں سے ایک شخص دوس ذوثعلبان بھاگ نکلا۔ اور ایک روایت کی رو سے اس نے قیصر روم کے پاس جاکر، اور دوسری روایت کی رو سے حبش کے بادشاہ نجاشی کے ہاں جاکر اس ظلم کی شکایت کی۔ پہلی روایت کی روسے قیصر نے حبش کے بادشاہ کو لکھا، اور دوسری روایت کی روسے نجاشی نے قیصر سے بحری بیڑا فراہم کرنے کی درخواست کی۔ بہر حال آخر کار حبش کی ۷۰ ہزار فوج اریاط نامی ایک جنرل کی قیادت میں یمن پر حملہ آور ہوئی، ذونواس مارا گیا۔ یہودی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ اور یمن حبش کی عیسائی سلطنت کا ایک حصہ بن گیا۔ (تفہیم القرآن،ج ۶ البروج حاشیہ:۴)
(۴) ذکَرَ مُحَمَّدُبْنُ اِسْحَاقَ فِی السِّیْرَۃِ، اِنَّ الَّذِیْ قَتَلَ اَصْحَابَ الْاُخْدُوْدِ،ہُوَذُوْنَوَاسٍ وَاِسْمُہٗ زُرْعَۃُ وَیُسَمِّیْ فِی زَمَانِ مَمْلَکَتِہٖ بِیُوْسُفَ وَہُوَبْنُ ثَنَا۔ اَسْعَدُ اَبِیْ کُرَیْبٍ وَہُوَتُبَّعٌ الَّذِیْ غَزَّالْمَدِیْنَۃَ وَکَسَیَ الْکَعْبَۃَ وَاسْتَصْحَبَ مَعَہٗ حِبْرَیْنِ مِنْ یَہُوْدِ الْمَدِیْنَۃِ فَکَانَ تَہَوَّدَ مَنْ تَہَوَّدَ مِنْ اَہْلِ الْیَمَنِ عَلیٰ یَدَیْہِمَا کَمَا ذَکَرَہُ ابْنُ اِسْحَاقَ مَبْسُوطًا۔ فَقَتَلَ ذُوْنَوَاسٍ فِیْ غَدَاۃٍ وَاحِدَۃٍ فِی الْاُخْدُوْدِ عِشْرِیْنَ اَلْفًا وَلَمْ یَنْجُ مِنْہُمْ سِویٰ رَجُلٍ وَاحِدٍ یُقَالُ لَہٗ دَوْسٌ ذُوْتَغْلَبَانِ ذَہَبَ فَارِسًا وَطَرَدُوْا وَرَآئَ ہٗ فَلَمْ یَقْدِرُوْا عَلَیْہِ فَذَہَبَ اِلیٰ قَیْصَرَ مَلِکِ الشَّامِ فَکَتَبَ اِلَی النَّجَاشِیِّ مَلِکِ الْحَبَشَۃِ فَاَرْسَلَ مَعَہٗ جَیْشاً مِنْ نَصَارَی الْحَبَشَۃِ یَقْدِمُہُمْ اَرْبَاط وَاَبْرَہَۃ فَاسْتَنْقَذُوا الْیَمَنَ مِنْ اَیْدِی الْیَہُوْدِ وَذَہَبَ ذُوْنَوَاسٍ ہَارِبًا فَلَجَّجَ فِی الْبَحْرِفَغَرِقَ وَاسْتَمَرَّ مُلْکُ الْحَبَشَۃِ فِی اَیْدِی النَّصَاریٰ سَبْعِیْنَ سَنَۃً ۔۔۔ (۴۳)
ترجمہ: محمد بن اسحاق نے اپنی ’’سیرۃ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ جس آدمی نے اصحاب الاخدود کو قتل کیا تھا وہ ذونواس یعنی زرْعہ نامی شخص تھا۔ اپنی بادشاہت میں یوسف کے نام سے موسوم تھا۔ ابن ثنا بھی اسے کہتے تھے۔ اسعد ابوکریب یعنی تبع جس نے اہل مدینہ کے ساتھ جنگ کی تھی اور خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا تھا۔ جاتے ہوئے مدینہ کے دو یہودی علماء اپنے ساتھ لے گیا۔ ان دونوں کے ذریعہ سے اہل یمن میں سے بہت سے لوگ یہودی بن گئے۔ جیسا کہ ابن اسحاق نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ذونواس نے ایک ہی صبح میں بیس ہزار آدمیوں کو گڑھوں میں ڈال کر قتل کردیا۔ دوس تغلبان کے سوا کوئی زندہ نہ بچ سکا۔ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر بھاگ گیا۔ لوگوں نے اس کا تعاقب کیا مگر اسے پکڑنہ سکے۔ اس کے بعد وہ ملک شام کے فرماں روا قیصر کے پاس پہنچا۔ اس نے حبش کے بادشاہ نجاشی کو خط لکھا۔ اس نے حبشہ کے عیسائیوں کا ایک لشکر اس کے ساتھ روانہ کیا۔ اس لشکر نے یمن کو یہودی قبضہ سے آزاد کرالیا۔ ذونواس نے راہِ فرار اختیار کی اور سمندر کی تلاطم خیز موجوں میں کو دکرغرق ہوگیا۔ سلطنت حبشہ پر عیسائیوں کی ستر سال تک لگاتار حکومت رہی۔
قَالَ ابْنُ اِسْحَاقَ: حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اَبِیْ بَکْرِبْنِ مُحَمَّدِبْنِ عَمْرِوبْنِ حَزْمٍ ،اَنَّہٗ حُدِّثَ اَنَّ رَجُلًا مِنْ اَہْلِ نَجْرَانَ کَانَ فِیْ زَمَانِ عُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَفَرَخَرِبَۃً مِّنْ خَرِبِ نَجْرَانَ لِبَعْضِ حَاجَتِہٖ فَوَجَدُوْاعَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الثَامُر تَحْتَ دَفْنٍ مِنْہَا قَاعِدًا وَاضِعًا یَدَہٗ عَلیٰ ضَرْبَۃٍ فِیْ رَأْسِہٖ مُمْسِکًا بِیَدِہٖ عَلَیْہَا فَاِذَا اُخِّرَتْ یَدُہٗ عَنْہَا تَنْبَعِثُ دَمًا وَاِذَا اُرْسِلَتْ یَدُہٗ رَدَّہَا عَلَیْہَا فَاَمْسَکَتْ دَمہَا وَفِیْ یَدِہٖ خَاتَمٌ مَکْتُوْبٌ فِیْہِ رَبِّیَ اللّٰہُ فَکَتَبَ فِیْہِ اِلیٰ عُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ۔ یُخْبِرُ بِاَمْرِہٖ فَکَتَبَ اِلَیْہِمْ عُمَرُرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنْ اَقِرُّوْہٗ عَلیٰ حَالِہٖ وَرُدُّوْا عَلَیْہِ الدَّفْنَ الَّذِی کَانَ عَلَیْہِ فَفَعَلُوْا۔ (۴۴)
ترجمہ: ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن ابوبکر بن محمد بن عمر بن حزم نے روایت بیا ن کی ہے کہ اہل نجران میں ایک آدمی تھا اس نے اپنی ضرورت کے لیے حضرت عمرؓ بن خطاب کے عہد خلافت میں نجران کے کھنڈرات میں سے ایک کھنڈرکی کھدائی کی تو ایک قبر میں سے عبداللہ بن ثامر کی لاش برآمد ہوئی جو اپنی قبر میں بیٹھا ہوا تھا اور اپنا ہاتھ سرکے اس مقام پر رکھے ہوئے تھا جہاں زخم آیا تھا اس نے ہاتھ رکھ کر خون کو بہنے سے روک رکھا تھا۔ جوں ہی ہاتھ اس مقام سے ہٹایا جاتا خون بہہ پڑتا اور جیسے ہی ہاتھ واپس اسی مقام پر لوٹا دیا جاتا تو خون رک جاتا۔ اس کے ہاتھ میں انگوٹھی تھی جس پر رَبِّیَ اللّٰہُ منقش تھا۔ اس کی اطلاع حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تحریری طور پر دی گئی ۔ حضرت عمرؓ بن خطاب نے انھیں لکھا کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو اور لاش کو اسی حالت میں دفن کردو جس حالت میں وہ تھی چنانچہ لوگوں نے اسی طرح اسے دفن کردیا۔

اللہ کا بندے سے معاملہ بندے کے گمان کے مطابق ہے

۲۰۔ اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ۔ (بخاری و مسلم)
ترجمہ: نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تمہارا رب کہتا ہے۔ ’’میں اس گمان کے ساتھ ہوں جو میرا بندہ مجھ سے رکھتا ہے۔‘‘
تشریح: نبی ﷺ نے بڑے جامع اور مختصر الفاظ میں اس بات کو واضح فرمایا ہے کہ ہر آدمی کا رویہّ اس گمان کے لحاظ سے متعین ہوتا ہے جو وہ اپنے رب کے متعلق قائم کرتا ہے۔ مومن صالح کا رویہّ اس لیے درست ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب کے بارے میں صحیح گمان رکھتا ہے، اور کافر و منافق اور فاسق و ظالم کا رویہ اس لیے غلط ہوتا ہے کہ اپنے رب کے بارے میں اس کا گمان غلط ہوتا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۴، حم السجدہ حاشیہ:۲۷)
تخریج:(۱) حَدَّثَنَا عُمَرُبْنُ حَفْصٍ، قَالَ حَدَّثَنَا ابِیْ، قَالَ: حَدَّثَنَا الاَعْمَشُ، قَالَ: سَمِعْتُ اَبَاصَالِحٍ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: یَقُوْلُ اللّٰہُ اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ، وَاَنَا مَعَہٗ اِذَا ذَکَرَنِیْ فَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہٗ فِیْ نَفْسِیْ وَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ مَلَائٍ ذَکَرْتُہٗ فِی مَلَائٍ خَیْرٍ مِّنْہُمْ وَاِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ ذِرَاعًا وَاِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ بَاعًا وَمَنْ اَتَانِیْ یَمْشِیْ اَتَیْتُہٗ ہَرْوَلَۃً۔ (۴۵)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’میں اس گمان کے ساتھ ہوں جو میرا بندہ مجھ سے رکھتا ہے۔ اور فرمایا کہ جب وہ مجھے یاد کرتاہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، پس اگر وہ مجھے اپنے جی میں یاد کرتا ہے، تو میں بھی اسے اپنے جی میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے لوگوں کے گروہ میں یاد کرتا ہے تو میں ان سے بہتر گروہ ملائکہ میں اسے یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ ایک بالشت برابر میرے قریب آتا ہے تو میں ایک ہاتھ کے برابر اس کے قریب آتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ قریب آتا ہے تو میں ایک گز آتا ہوں۔ اگر وہ تیز چل کر آتا ہے تو میں لپک کر آتا ہوں۔‘‘
مسند کے الفاظ ہیں:
اَنَا عِنْدَظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ، اِنْ ظَنَّ بِیْ خَیْرًا فَلَہٗ وَاِنْ ظَنَّ شَرًّا فَلَہٗ۔
ترمذی نے اس روایت کو کتاب الدعوات ص ۲۰۰ پر نقل کرکے آخر میں لکھا ہے ۔ ہذا حدیث حسن صحیح ویروی عن الاعمش فی تفسیر ہذا الحدیث۔
مَنْ تَقَرَّبَ مِنِّیْ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ مِنْہُ ذِرَاعًا یَعْنِیْ بِالْمَغْفِرَۃِ وَالرَّحْمَۃِ وَہٰکَذَا فَسَّرَ بَعْضُ اَہْلِ الْعِلْمِ ہٰذا الْحَدِیْثَ، قَالُوْا: اِنَّمَا مَعْنَاہُ، یَقُوْلُ اِذَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ الْعَبْدُبِطَاعَتِیْ وَبِمَا اَمَرْتُ تُسَارِعُ اِلَیْہِ مَغْفِرَتِی وَرَحْمَتِیْ۔
ترجمہ: جو شخص ایک بالشت میرے قریب آتا ہے، میں ایک ہاتھ اس کے قریب آتا ہوں یعنی بخشش اور رحمت سے۔ بعض علماء نے اس حدیث کی تشریح یہی کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے معنی یہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب بندہ میری اطاعت اور تعمیل احکام کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے تو میری بخشش اور رحمت اس کی طرف تیزی سے لپکتی ہے۔

اسلام میں بنیادی چیز عقیدۂ توحید ہے

۲۱۔ ایک مرتبہ حضوؐرسواری پر چلے جارہے تھے اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ آپ کے ردیف تھے۔ آپؐ نے تین مرتبہ ٹھہر ٹھہر کر آواز دی۔ یا معاذ بن جبل! حضرت معاذ نے ہر مرتبہ عرض کیا ’’لبّیک یا رسول اللّٰہ وسعدیک‘‘ اس طرح تین مرتبہ پکار کر جب آپؐ نے مخاطب کو اچھی طرح اپنی جانب متوجہ کرلیا اور آپؐ کو یقین ہوگیا کہ جو بات آپؐ فرمانا چاہتے ہیں سننے والا اس کو خاص اہمیت کے ساتھ سنے گا، تب فرمایا۔ ’’جانتے ہو بندوں پر خدا کا کیا حق ہے؟‘‘انھوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسوؐل کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا ’’اللہ کا حق اس کے بندوں پر یہ ہے کہ صرف اسی کی بندگی کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں۔‘‘ تھوڑی دور آگے چل کر پھر آواز دی۔’’ یا معاذ بن جبل! انھوں نے عرض کیا ’’لبّیک یا رسول اللّٰہ وسعدیک‘‘ فرمایا ’’پھر جانتے ہو کہ بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے جب کہ وہ ایسا کریں؟‘‘ انھوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا ’’ان کا حق یہ ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ دے۔‘‘ حضرت معاذ نے یہ سن کر پوچھا، ’’کیا میں لوگوں کو اس کی بشارت دے دوں؟‘‘ فرمایا ’’نہیں! ان کو بشارت نہ دو کیونکہ وہ اسی پر بھروسہ کربیٹھیں گے۔‘‘
تشریح: یعنی عام لوگ اس کی اسپرٹ کو نہ سمجھیں گے اور اس غلط فہمی میں پڑجائیں گے کہ محض زبانی کلمۂ شہادت پڑھ لینے سے نجات لازم ہوجاتی ہے۔ (تفہیمات حصّہ اوّل: کیا نجات ۔۔۔؟)
(۱) حَدَّثَنَا ہُدْبَۃُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَۃُ، حَدَّثَنَا اَنَسُ بْنُ مَالِکٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: بَیْنَا اَنَا رَدِیْفُ النَّبِیِّ ﷺ، لَیْسَ بَیْنِیْ وَبَیْنَہٗ اِلَّا اٰخِرَۃُ الرَّحْلِ، فَقَالَ: یَامُعَاذُ! قُلْتُ: لَبَّیْکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَسَعْدَیْکَ، ثُمَّ سَارَسَاعَۃً، ثُمَّ قَالَ: یَا مُعَاذُ! قُلْتُ: لَبَّیْکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَسَعْدَیْکَ، ثُمَّ سَارَسَاعَۃً، ثُمَّ قَالَ: یَا مُعَاذُبْنُ جَبَلٍ! قُلْتُ: لَبَّیْکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَسَعْدَیْکَ، قَالَ: ہَلْ تَدْرِیْ مَا حَقُّ اللّٰہِ عَلیٰ عِبَادِہٖ؟ قُلْتُ: اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ، قَالَ: حَقُّ اللّٰہِ عَلیٰ عِبَادِہٖ اَنْ یَعْبُدُوْہُ وَلَا یُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا ، ثُمَّ سَارَسَاعَۃً، ثُمَّ قَالَ: یَا مُعَاذُبْنُ جَبَلٍ! قُلْتُ: لَبَّیْکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وسَعْدَیْکَ، قَالَ: ہَلْ تَدْرِیْ مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ اِذَا فَعَلُوْہُ؟ قُلْتُ: اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ، قَالَ: حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ اَنْ لَّا یُعَذِّبَہُمْ۔ (۴۶)
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی روایت:
(۲) عَنْ اَنَسٍ، اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ وَمُعَاذٌ رَدِیْفُہٗ عَلَی الرَّحْلِ، قَالَ: یَا مُعَاذُ! قَالَ: لَبَّیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَسَعْدَیْکَ، قَالَ: یَامُعَاذُ! قَالَ: لَبَّیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَسَعْدَیْکَ، قَالَ: یَا مُعَاذُ! قَالَ: لَبَّیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَسَعْدَیْکَ ثَلَاثًا، قَالَ: مَا مِنْ اَحَدٍ یَّشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِہٖ اِلَّا حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ، قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَفَلَا اُخْبِرُ بِہِ النَّاسَ فَیَسْتَبْشِرُوْا؟ قَالَ: اِذًا یَتَّکِلُوْا فَاخْبَرَبِہَا مُعَاذٌ عِنْدَمَوْتِہٖ تَاَثُّمًا۔ (۴۷)
(۳) عَنْ اَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ، اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ وَمُعَاذُبْنُ جَبَلٍ رَدِیْفُہٗ عَلَی الرَّحْلِ، فَقَالَ: یَامُعَاذُ! قَالَ: لَبَّیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَسَعْدَیْکَ، قَالَ: یا مُعَاذُ! قَالَ: لَبَّیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وسَعْدَیْکَ، قَالَ: یَا مُعَاذُ! قَالَ: لَبّیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وسَعْدَیْکَ، قَالَ: مَا مِنْ عَبْدٍ یَشْہَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہٗ اِلَّا حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ، قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَفَلَا اُخْبِرُ بِہَا فَیَسْتَبْشِرُوْا؟ قَالَ: اِذًا یَتَّکِلُوْا، فَاَخْبَرَبِہَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِہٖ تَاثُّمًا۔ (۴۸)
اس میں انّ محمدًا عبدہ ورسولہ زیادہ ہے۔
۲۲۔ مَامِنْ عَبْدٍ قَالَ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ثُمَّ مَاتَ عَلیٰ ذٰلِکَ اِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔
ترجمہ: ’’جس بندے نے کہہ دیا کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں اور اسی عقیدہ پر جان دی۔ وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
پس منظر: ایک مرتبہ حضرت ابوذر غفاریؓ حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپؐ ایک سفید کپڑا اوڑھے ہوئے لیٹے ہیں۔ یہ واپس ہوگئے۔ دوبارہ حاضر ہوئے تو اٹھ چکے تھے۔ ان کو دیکھ کر فرمایا: ’’مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ثَمُّ مَاتَ عَلیٰ ذٰلِکَ اِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَکہ جس بندے نے کہہ دیا کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں اور اسی عقیدہ پر جان دی وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔‘‘ انھوں نے پوچھا وَاِنْ زَنیٰ وَاِنْ سَرَقَ۔ اگرچہ اس نے زنا کی ہو؟ اگرچہ اس نے چوری کی ہو؟ آپؐ نے فرمایا: وَاِنْ زَنیٰ وَاِنْ سَرَقَ۔ انھوں نے پھر یہی پوچھا اور آپؐ نے پھر وہی جو اب دیا۔ انھوں نے سہ بارہ پوچھا۔ آپؐ نے فرمایا: وَاِنْ زَنیٰ وَاِنْ سَرَقَ عَلیٰ رَغمِ اَنْفِ اَبِیْ ذَرٍّ۔
مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ فَقَدْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔ یعنی جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہا وہ جنت میں داخل ہوا۔ یہاں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ سے مراد پورا کلمہ ہی پڑھنا اور اس پر عمل کرنا ہے، اگرچہ بظاہر کلمے کا ایک حصہ بیان فرمایا گیا ہے۔
تخریج: حَدَّثَنَا اَبُوْ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنِ الْحُسَیْنِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ یَحْیٰ بْنِ یَعْمُرَ حَدَّثَہٗ، اَنَّ اَبَاالْاَسْوَدِ الدُّئَ لِیَّ حَدَّثَہٗ، اَنَّ اَبَاذَرٍّ حَدَّثَہٗ، قَالَ: اَتَیْتُ النَّبِیَّﷺ وَعَلَیْہِ ثَوْبٌ اَبْیَضُ وَہُوَ نَائِمٌ، ثُمَّ اَتَیْتُہٗ وَقَدِاسْتَیْقَظَ، فَقَالَ: مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ثُمَّ مَاتَ عَلیٰ ذٰلِکَ اِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔ قُلْتُ: وَاِنْ زَنیٰ وَاِنْ سَرَقَ، قَالَ: وَاِنْ زَنیٰ وَاِنْ سَرَق، قُلْتُ: وَاِنْ زَنیٰ وَاِنْ سَرَقَ، قَالَ: وَاِنْ زَنیٰ وَاِنْ سَرَقَ، قُلْتُ: وَاِنْ زنیٰ وَاِنْ سَرَقَ، قَالَ: وَاِنْ زَنیٰ وَاِنْ سَرَقَ عَلیٰ رَغْمِ اَنْفِ اَبِیْ ذَرٍّ۔ وَکَانَ اَبُوْذَرٍّ اِذَا حَدَّثَ بِہٰذا، قَالَ: وَاِنْ رَغِمَ اَنْفُ اَبِیْ ذَرٍّ۔ قَالَ اَبُوْعَبْدِ اللّٰہِ: ہٰذَا عِنْدَالْمَوْتِ اوْقَبْلَہٗ اِذَا تَابَ وَنَدِمَ۔ وَقَالَ: لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ غُفِرَلَہٗ مَاکَانَ قَبْلُ۔ (۴۹)
۲۳۔ ایک اور موقعہ پر حضوؐر اپنے خاص صحابیوں کے درمیان بیٹھے تھے۔ یکایک آپ اٹھے اور تشریف لے گئے۔ جب بہت دیرہوگئی تو صحابہؓ کو تشویش ہوئی کہ کہیں کوئی حادثہ پیش نہ آجائے۔ ڈھونڈھنے نکلے۔سب سے پہلے جو صاحب گئے وہ حضرت ابوہریرہؓ تھے۔ یہ سرکا ر کو تلاش کرتے ہوئے انصار کے ایک باغ پر پہنچے جس کا دروازہ تلاش کے باوجود نہ ملا۔ آخر ایک چھوٹی سی نہر کے رستے سے اندر پہنچے۔ دیکھا کہ حضوؐر تشریف فرما ہیں۔ حضوؐر نے پوچھا : کہ کیسے آئے؟ انھوں نے ماجرا عرض کیا۔ آپؐ نے اپنی دونوں جوتیاں اٹھا کر انھیں دے دیں اور فرمایا:’’انھیں لے جائو اور باغ کے پیچھے جو شخص ایسا ملے جو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی شہادت دیتا ہو اور اس پر دل سے یقین رکھتا ہو اسے جنت کی بشارت دے دو۔‘‘ یہ اس حکم کی تعمیل کے لیے روانہ ہوئے۔ راستہ میں سب سے پہلے حضرت عمرؓ ملے۔ انھوں نے پوچھا:’’ یہ جوتیاں کیسی ہیں۔‘‘انھوں نے کہا رسول اللہ ﷺ کی نعلین ہیں اور آپؐ نے مجھے ایسا اور ایسا کہنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے یہ سن کر ان کے ایک زور کا دھپ رسید کیا اور کہا کہ واپس جائو۔ یہ گرتے پڑتے بھاگے اور جاکر حضوؐر سے سارا معاملہ بیان کیا۔ اتنے میں حضرت عمرؓ بھی پہنچ گئے۔ آپؐ نے پوچھا کہ عمرؓ! ’’کس چیز نے تم کو اس حرکت پر آمادہ کیا؟‘‘انھوں نے عرض کیا۔’’میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ، کیا آپؐ نے ابوہریرہؓ کو ایسا اور ایسا کہنے کے لیے بھیجا تھا؟‘‘ حضوؐر نے فرمایا’’ہاں‘‘ حضرت عمرؓ نے عرض کیا ایسا نہ کیجیے۔ مجھے خوف ہے کہ لوگ اسی پر بھروسہ کر بیٹھیں گے، انھیں عمل کے لیے چھوڑ دیجیے۔ آپ نے فرمایا:’’اچھا تو انھیں عمل کے لیے چھوڑ دو۔
(تفہیمات حصہ اوّل : کیا نجات ۔۔۔؟)
قرآن و حدیث کی رُو سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ ایمان کے بغیر کوئی عمل ، عملِ صالح نہیں ہے اور کوئی شخص جو ایمان نہ لایا ہو جنت کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ زیادہ سے زیادہ جو رعایت کسی کافر کے لیے ممکن ہے وہ صرف یہ ہے کہ اگر وہ اخلاقی لحاظ سے برائیوں کا مرتکب نہ ہو بلکہ ایسے اعمال کرتا ہو جو اخلاق حسنہ کے مطابق ہوں تو اسے اتنی سخت سزا نہ دی جائے جتنی اس کافر کو ملے گی، جو کافر بھی ہو اور اخلاقی جرائم کا مرتکب بھی۔ لیکن کفر کی سزا سے وہ نہیںبچ سکتا۔ (مکاتیب حصہ اوّل : ۹۹)
تشریح: (مندرجہ بالاتینوں حدیثوں کے ) مخاطب وہ لوگ ہیں جن کے کامل الاسلام ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ وہ تعلیمات قرآنی اور قوانین اسلامی سے نہ صرف خوب واقف بلکہ ان پر پورے عامل بھی ہیں۔ ان کے سامنے حضوؐر نے جو کچھ فرمایا اس سے یہ اندیشہ کرنے کی گنجائش ہی نہ تھی کہ وہ توحید کے سوا اسلام کے دوسرے اصولی عقائد اور حقوق و فرائض کو غیر ضروری سمجھ لیں گے۔ اس لیے ان کو آپؐ نے یہ حقیقت بتادی کہ اسلام میں اصل اور بنیادی چیز عقیدۂ توحید ہے۔ انبیاء کی آمد کا اصلی مقصد یہی ہے کہ انسان کو خدا کے سوا ہر ایک کی بندگی سے نکالیں اور صرف خدا کا بندہ بنائیں۔دنیا اور آخرت میں انسان کی فلاح و کامیابی کا انحصار بھی اسی پر ہے ، کہ وہ غیر اللہ کی بندگی سے نکلے اور بس ایک خدا کا بندہ بن کر رہے۔ یہ حقیقت جس نے سمجھ لی اور جس کے دل میں یہ بات خوب بیٹھ گئی کہ خدائے واحد کے سوا دنیا کی کسی چیز کو قطعاً کسی قسم کی الوہیت حاصل نہیں ہے۔ اور صرف ایک خدا ہی ہے جس کی اطاعت ، فرماں برداری ،غلامی اور بندگی اس کو کرنی ہے۔ وہ یقینا اپنی زندگی میں سیدھا راستہ اختیار کرے گا اور ٹیڑھے راستوں سے بچ کر چلے گا۔ اس کے مزاج میں راستی ہوگی، صداقت کو قبول کرے گا۔ متقی اور پرہیز گار ہوگا۔ تمام وہ حقوق ادا کرے گا جن کو خدانے حق ٹھہرایا ہے۔ اور تمام وہ فرائض بجالائے گا جن کو خدا نے فرض قرار دیا ہے۔ لہٰذا یہی ایک چیز اس کو صحیح الخیال بھی بنائے گی اور طاہر الاخلاق اور صالح الاعمال بھی۔ رہی یہ بات کہ بشری کمزوری کی بنا پر اس سے گناہ سرزد ہوجائے ، تو خدا پر ایمان اسے مجبور کرے گا کہ اس گناہ سے توبہ کرے کیونکہ ایمان کے ساتھ یہ ناممکن ہے کہ وہ گناہ اور بدکاری پر جمارہے ۔ (تفہیمات حصہ اوّل : کیا نجات ۔۔۔؟)
مذکورہ بالا احادیث اور ان کی ہم معنی دوسری احادیت کا یہی مفہوم صحابہؓ کرام نے سمجھا تھا اور یہی ان کا حقیقی مفہوم تھا۔ ان میں سے کسی نے بھی یہ خیال نہ کیا کہ بس عقیدۂ توحید ہی کافی ہے اس کے بعد نہ رسالت کو ماننے کی ضرورت ہے، نہ کلام اللہ کو، اور نہ پاکیزگی اخلاق مطلوب ہے نہ صلاحیتِ اعمال۔ ایسا غلط مفہوم وہ کس طرح سمجھ سکتے تھے جب کہ ان کو پوری طرح بتادیا گیا تھا کہ اسلام کیا ہے ۔ اور اس میں کن چیزوں کا اعتقاد، کن عبادات کی پابندی، کن حدود کی حفاظت، کن قوانین کی اطاعت اور کن طریقوں سے اجتناب ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے یہ تعلیم صرف کاملین کو دی اور عوام کے سامنے اس کو بیان کرنے سے منع فرمادیا۔معاذ بن جبل والی حدیث میں آپؐ نے اس کی وجہ بھی خود ہی بیان فرمادی ہے کہ عام لوگ اس کو سن کر غلط فہمی میں پڑجائیں گے۔ حضرت ابوہریرہؓ والی حدیث میں ایک شخص کو شبہ ہوسکتا ہے کہ آپؐ نے شاید عوام تک پہنچانے کی ہدایت فرمائی تھی، خود حضرت عمرؓ کو بھی ایسا ہی شبہ ہوا تھا لیکن دراصل حضوؐر کا مقصد کامل الاسلام لوگوں کو بشارت دینا تھا۔ چنانچہ جب حضرت عمرؓ نے اپنا اندیشہ بیان کیا تو آپؐ نے ان کی رائے سے اتفاق فرمایا۔ اسی طرح حضرت ابوذرؓ والی حدیث میں بھی کوئی شخص یہ شبہ نہیں کرسکتا کہ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ سے مراد مجرد زبانی قول ہے اس لیے کہ حضوؐر نے دوسرے مواقع پر تصریح فرمائی ہے کہ دخولِ جنت کے لیے توحید پر کامل ایمان کی ضرورت ہے۔ کہیں مستیقناً بہا قلبہ فرمایا کہیں عَبْدٌ غَیْرُ شَاکٍّ فرمایا۔ اور کہیں دوسرے الفاظ ارشاد فرمائے جو اسی معنی پر دلالت کرتے ہیں۔
بہرحال یہ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جن احادیث میں توحید کی اہمیت بیان کی گئی ہے ان کا خطاب دراصل ان لوگوں سے ہے جو تمام شرائط کے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے ہیں، نہ کہ ان لوگوں سے جو مسلمان ہی نہ ہوں، پھر مسلمانوں کو بھی اعتقادِتوحید پر دخول جنت کی بشارت دینے سے یہ مراد نہیں کہ بس خدا کی وحدانیت مان لو، پھر جس قسم کی بدعقیدگی اور فسق وفجور اور بدعت و معصیت میں چاہو مبتلا رہو۔ بلکہ اس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ مسلمان کی کامیابی کا مدار سب سے بڑھ کر اعتقادِ توحید کی صحت اور مضبوطی پر ہے۔ اس میں اگر خرابی آگئی تو پھر کوئی چیز نافع نہیں ہوسکتی اور اگر یہ صحیح و مضبوط ہوتو آخری کامیابی حاصل ہوکر رہے گی۔ اسی جہت سے اس معنی کی احادیث اس آیت قرآنی سے مطابق ہوتی ہیں جس میں فرمایا گیا ہے کہ:
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلَائِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۔(حٰم السجدہ: ۳۰) (تفہیمات حصہ اوّل : کیا نجات ۔۔۔؟)
تخریج: حَدَّثَنِیْ زُہَیْرُبْنُ حَرْبٍ قَالَ: انَاعُمربْنُ یُونُسَ الْحَنَفِیُّ قَالَ: نَا عِکْرِمَۃْ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنِیْ اَبُوْکَثِیْرٍ قَالَ: حَدَّثَنِیْ اَبُوْہُرَیْرَۃَ قَالَ: کُنَّا، قُعُوْدًا حَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ مَعنَا اَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ فِیْ نَفَرٍ فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ مِنْ بَیْنِ اَظْہُرِنَافَاَبْطَأَعَلَیْنَا فَخَشِیْنَا اَنْ یُقْتَطَعَ دُوْنَنَا وفَزِعْنَا وَقُمْنَا فَکُنْتُ اَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَخَرَجْتُ اَبْتَغِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ حَتّٰی اَتَیْتُ حَائِطًا لِلْاَنْصَارِیِّ لِبَنِی النَّجَّارِ فَدُرْتُ بِہٖ ہَلْ اَجِدُلَہٗ بَابًا فَلَمْ اَجِدْ فَاِذَا رَبِیْعٌ یَدْ خُلُ فِیْ جَوْفِ حَائِطٍ مِنْ بِئْرٍ خَارِجَۃٍ وَالرَّبِیْعُ الْجَدْوَلُ فَاَحْتَفَزْتُ فَدَخَلْتُ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ، فَقَالَ: اَبُوْہُرَیْرَۃَ! فَقُلْتُ: نَعَمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: مَاشَأنُکَ؟ قُلْتُ کُنْتَ بَیْنَ اَظْہُرِنَا فَقُمْتَ، فَاَبْطَأْتَ عَلَیْنَا فَخَشِیْنَا اَنْ تُقْتَطَعَ دُوْنَنَا، فَفَزِعْنَا فَکُنْتُ اَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَاَتَیْتُ ہٰذَا الْحَائِطَ فَاَحْتَفَزْتُ کَمَا یَحْتَفِزُ الثَعْلَبُ وَہٰٓؤُلَآئِ النَّاسُ وَرَآئِیْ۔ فَقَالَ: یَااَبَاہُرَیْرَۃَ! وَاَعْطَانِیْ نَعْلَیْہِ، قَالَ: اذْہَبْ بِنَعْلَیَّ ہَاتَیْنِ فَمَنْ لَقِیْتَ مِنْ وَرَآئِ ہٰذَا الْحَائِطِ یَشْہَدُاَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُسْتَیقِنًا بِہَاقَلْبُہٗ فَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ فَکَانَ اَوَّلُ مَنْ لَقِیْتُ عُمَرُ، فَقَالَ:مَاہَاتَانِ النَّعْلَیْنِ یَا اَبَاہُرَیْرَۃَ؟ قُلْتُ: ہَا تَیْنِ نَعْلَا رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ بَعَثَنِیْ بِہِمَا مَنْ لَقِیْتُ یَشْہَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُسْتَیْقِنًا بہَاقَلْبُہٗ بَشَّرْتُہٗ بِالْجَنَّۃِ، قَالَ: فَضَرَبَ عُمَرُ بِیَدِہٖ بَیْنَ ثَدْیَیَّ ضَرْبَۃً فَخَرَرْتُ لِاسْتِیْ، فَقَالَ: اِرْجِعْ یَا اَبَا ہُرَیْرَۃَ! فَرَجَعْتُ اِلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فَاجْہَشْتُ بکَآئً وَرَکِبَنِیْ عُمَرُ فَاِذَا ہُوَ عَلیٰ اَثَرِیْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: مَالَکَ یَا اَبَا ہُرَیْرَۃَ؟ قُلْتُ: لَقِیْتُ عُمَرَ فَاَخْبَرْتُہٗ بِالَّذِیْ بَعَثْتَنِیْ بِہٖ فَضَرَبَ بَیْنَ ثَدْیَیَّ ضَرْبۃً خَرَرْتُ لاِسْتِیْ، قَالَ:ارْجِعْ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : یَا عُمَرُ! مَاحَمَلَکَ عَلیٰ مَا فَعَلْتَ؟ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ، اَبَعَثْتَ اَبَاہُرَیْرَۃَ بَنَعْلَیْکَ مَنْ لَقِیَ یَشْہَدُاَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُسْتَیْقِنًا بِہَا قَلْبُہٗ بَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَلَا تَفْعَلْ فَاِنِّیْ اَخْشیٰ اَنْ یتَّکِلَ النَّاسُ عَلَیْہَا فَخَلِّہِمْ یَعْمَلُوْنَ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: فَخَلِّہِمْ۔ (۵۰)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ ہماری اس مجلس میں حضرات ابوبکرؓ و عمرؓ بھی موجود تھے۔ ہمارے درمیان میں سے رسول اللہ ﷺ یکایک اٹھے اور باہر تشریف لے گئے۔ کافی دیر ہوگئی۔ آپؐ واپس تشریف نہ لائے تو ہمیں اندیشہ لاحق ہوا کہ مبادا آپؐ کو کوئی حادثہ نہ پیش آجائے۔ ہم گھبرائے اور اٹھ کھڑے ہوئے سب سے پہلا شخص میں تھا جو گھبراکر آپؐ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ انصار کے قبیلہ بنی نجّار کے باغ کے پاس پہنچ گیا۔اس باغ کے چاروں اطراف گھوما پھر ا مگر اندر جانے کا راستہ نہ پاسکا اور نہ دروازے کا سراغ ملا۔ اچانک ایک جدول پر نظر پڑی جو باہر کے ایک کنوئیں کی جانب سے اس باغ میں جاتی تھی۔ لومڑی کی طرح سمٹ کر میں اس نالی کے ذریعہ اندر گھس گیا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گیا۔ آپؐ نے دریافت فرمایا، ابوہریرہ ! میں نے عرض کیا جی حضوؐر! آپؐ نے فرمایا ’’تمہارا کیا حال ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہؐ! آپؐ ہمارے درمیان مجلس میں تشریف فرماتھے۔ آپؐ کے اچانک باہر تشریف لے جانے پھر دیر تک واپس تشریف نہ لانے کی وجہ سے ہمیں اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں کوئی حادثہ نہ پیش آجائے۔ ہم سب گھبراگئے۔ سب سے پہلے میں گھبراکر اٹھا اور آپؐ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا اور اس باغ کی چار دیواری تک پہنچ گیا مگر داخلے کا کہیں راستہ یا دروازہ نظر نہیں آیا تھا۔ اتفاق سے ایک جدول باہر سے اندرجاتی نظر پڑی ۔ اس کے سوراخ میں لومڑی کی طرح سکڑ سمٹ کر اندر داخل ہوا اور آپؐ تک پہنچ گیا۔ باقی حضرات سب میرے پیچھے ہیں۔ آپؐ نے اپنی نعلین مبارک مجھے عنایت فرماکر ہدایت فرمائی کہ ’’میری یہ جوتیاں لے کر باہر جائو۔ سب سے پہلے جو شخص ایسا ملے جو اس بات کی شہادت دیتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور دل سے اس پر یقین بھی رکھتا ہو، تو اسے جنت کی خوش خبری سنادو۔ ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ میں جوتیاں لے کر باغ سے باہر آیا تو سب سے پہلے جس شخص سے ملاقات ہوئی وہ حضرت عمرؓ تھے۔ انھوں نے میرے ہاتھ میں جوتیاں دیکھ کر دریافت کیا۔ ابوہریرہ یہ جوتے کیسے ہیں؟ میں نے بتایا کہ یہ رسولِ خدا ﷺ کی جوتیاں ہیں۔ آپؐ نے یہ مجھے دے کر بھیجا ہے کہ سب سے پہلے جو شخص ملے اگر اس کا اس پر ایمان ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اس پر اس کو قلبی اطمینان و یقین بھی ہو تو اسے جنت کی بشارت سنادوں۔ یہ بات سن کر حضرت عمرؓ نے ایک دھپ میرے سینے پر رسید کیا جس سے میں پشت کے بل زمین پر جاگرا۔ حضرت عمرؓ نے کہا جائو واپس رسول اللہ ﷺ کے پاس۔ میں اسی حالت میں حضوؐر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور رونے والے کا سامنہ بناکر گزری ہوئی داستان سنانے والا ہی تھا کہ حضرت عمرؓ بھی آپہنچے۔ نبی کریمؐ نے مجھ سے پوچھا۔ ابوہریرہ کیا ہوا ؟ میں نے عرض کیا حضور والا آپ نے مجھے جو پیغام بشارت دے کر بھیجا تھا سب سے پہلی ملاقات عمرؓ سے ہوئی میں نے آپؐ کا ارشادِ گرامی ان کو سنایا تو عمرؓ نے سن کر میرے سینے پر ایک زور کی دھپ ماری کہ میں پشت کے بل زمین پر جاگرا اور مجھ سے کہا کہ واپس رسول اللہ ﷺکے پاس جائو۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا ’’اے عمرؓ ایسا تم نے کیوں کیا؟‘‘ انھوں نے عرض کیا یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں۔ ابوہریرہؓ کو آپؐ نے اپنی نعلین مبارک عنایت فرماکر بھیجا تھا کہ جو سب سے پہلے ملے اور اس کا اعتقاد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا مستحق عبادت کوئی ذات نہیں، اس پر اسے قلبی ایقان بھی ہو، تو اسے جنت کا مژدہ سنادے۔ آپؐ نے فرمایا’’ہاں میں نے اسے بھیجا تھا۔‘‘عمرؓ نے عرض کیا۔ میرے ماں باپ آپؐ پر نثار ہوں ایسا نہ کیجیے ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اس پر تکیہ کر کے بیٹھ جائیں اور عمل سے کنارہ کش ہوجائیں گے، انھیں عمل کرنے دیجیے۔ اس پر رسولؐ اللہ نے فرمایا اچھا انھیں چھوڑ دو کہ عمل کریں۔

کن حالات میں کلمۂ کفر کہنے کی رخصت ہے

۲۴۔ عمار بن یاسرؓ نے حضوؐر سے عرض کیا : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَاتُرِکْتُ حَتّٰی سَبَبْتُکَ وَذَکَرْتُ اٰلِہَتَہُمْ بِخَیْرٍ۔ (حضور نے پوچھا) کَیْفَ تَجِدُ قَلْبَکَ (عرض کیا) مُطْمَئِنًّا بِالْاِیْمَانِ (حضور نے فرمایا) اِنْ عَادُوْا فَعُدْ۔
ترجمہ: (عمّار بن یاسرؓ کو اتنی ناقابلِ برداشت اذیّت دی گئی کہ آخر کار انھوں نے جان بچانے کے لیے وہ سب کچھ کہہ دیا جو کفّار ان سے کہلوانا چاہتے تھے۔ پھر وہ روتے ہوئے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا) ’’یا رسول اللہ مجھے نہ چھوڑا گیا جب تک کہ میں نے آپؐ کو برا اور ان کے معبودوں کو اچھا نہ کہہ دیا۔ ‘‘ حضوؐر نے پوچھا: ’’اپنے دل کا کیا حال پاتے ہو؟‘‘ عرض کیا ’’ایمان پر پوری طرح مطمئن۔‘‘ اس پر حضوؐر نے فرمایا:’’ اگر وہ پھر اس طرح کا ظلم کریں تو تم پھر یہی باتیں کہہ دینا۔‘‘
(یہ واقعہ ان مسلمانوں میں سے ایک کا ہے جنھیں ناقابلِ برداشت اذیتیں دی گئیں)
تشریح: یہاں ان مسلمانوں کا ذکر کیا گیا جن پر (کفار کی طرف) سے سخت مظالم توڑے جارہے تھے اور ناقابل برداشت اذیتیں دے دے کر کلمۂ کفر پر مجبور کیا جارہا تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جان بچانے کے لیے کلمۂ کفر کہہ دینا چاہیے بلکہ یہ صرف رخصت ہے۔ اگر ایمان دل میں رکھتے ہوئے آدمی مجبوراً ایسا کہہ دے تو مواخذہ نہ ہوگا۔ ورنہ مقام عزیمت یہی ہے کہ خواہ آدمی کا جسم تکّا بوٹی کرڈالا جائے بہر حال وہ کلمۂ حق ہی کا اعلان کرتا رہے۔
دونوں قسم کی نظیریں نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف خَبَّابؓ بن اَرتّ ہیں جن کو آگ کے انگاروں پر لٹا یا گیا۔ یہاں تک کہ ان کی چربی پگھلنے سے آگ بجھ گئی۔ مگر وہ سختی کے ساتھ ایمان پر جمے رہے۔ بلال حبشی ہیں جن کو لوہے کی زرہ پہنا کر چلچلاتی دھوپ میں کھڑا کردیا گیا، پھر تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر گھسیٹا گیا مگر وہ احد احد ہی کہتے رہے۔ حبیب بن زید بن عاصم ؓہیں جن کے بدن کا ایک ایک عضو مسلیمہ کذّاب کے حکم سے کاٹا جاتا تھا اور پھر مطالبہ کیا جاتا تھا کہ مسیلمہ کو نبی مان لیں مگر ہر مرتبہ وہ اس کے دعوائے رسالت کی شہادت دینے سے انکار کرتے تھے یہاں تک کہ اسی حالت میں کٹ کٹ کر انھوں نے جان دے دی۔ دوسری طرف مندرجہ بالا حدیث کی مثال عمار بن یاسر ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے والد اور ان کی والدہ کو سخت عذاب دے دے کر شہید کردیا گیا۔ (تفہیم القرآن ، ج ۲،سورہ النحل، حاشیہ:۱۰۹)
تخریج:(۱) حَدَّثَنَابْنُ عَبْدِ الْاَعْلیٰ، قَالَ: ثَنَامُحَمَّدُبْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ الْجَزْرِیِّ، عَنْ اَبِیْ عُبَیْدَۃَ بْنِ مُحَمَّدِبْنِ عَمَّارِبْنِ یَاسِرٍ، قَالَ: اَخَذَ الْمُشْرِکُوْنَ عَمَّارَبْنَ یَاسِرٍ فَعَذَّبُوْہُ حَتّٰی بَارَّاہُمْ۔( قَارَبَہُمْ ) فِیْ بَعْضِ مَااَرَادُوْا فَشَکَاذٰلِکَ اِلَی النَّبِیِّ ﷺ فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺکَیْفَ تَجِدُ قَلْبَکَ؟ قَالَ: مُطْمَئِنًّا بِالْاِیْمَانِ۔قَالَ النَّبِیُّ ﷺ: فَاِنْ عَادُوْا فَعُدْ۔ (۵۱)
ترجمہ: حضرت ابوعبیدہؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ عمارؓ بن یاسر کو مشرکین مکہ نے پکڑ لیا اور انھیں اتنی ناقابل برداشت اذیت دی کہ انھوں نے جان بچانے کے لیے وہ سب کچھ کہہ دیا جو مشرکین کہلوانا چاہتے تھے۔ پھر وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ مجھے نہ چھوڑا گیا جب تک کہ میں نے آپؐ کو برا بھلا اور ان کے معبودوں کو اچھا نہ کہہ دیا۔ حضور ﷺ نے پوچھا ’’اپنے دل کا کیا حال پاتے ہو۔ عرض کیا ایمان پر پوری طرح مطمئن ہوں۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا ’’اگر وہ پھر اس طرح کا ظلم کریں تو تم پھر یہی بات کہہ دینا۔‘‘
(۲) اَنَّہٗ سَبَّ النَّبِیَّ ﷺ وَذَکَرَ اٰلِہَتَہُمْ بِخَیْرٍ فَشَکَاذٰلِکَ اِلَی النَّبِیِّ ﷺ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا تُرِکْتُ حَتّٰی سَبَبْتُکَ وَذَکَرْتُ اٰلِہَتَہُمْ بِخَیْرٍ، قَالَ: کَیْفَ تَجِدُ قَلْبَکَ؟ قَالَ: مُطْمَئِنًّا بِالْاِیْمَانِ، فَقَالَ: اِنْ عَادُوْا، فَعُدْ۔ (۵۲)
(۳) کَانَ بلَالٌرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَأْبٰی عَلَیْہِمْ ذٰلِکَ وَہُمْ یَفْعَلُوْنَ بِہِ الْاَفَاعِیْلُ حَتّٰی اَنَّہُمْ لَیَضَعُوْا الصَّخْرَۃَ الْعَظِیْمَۃَعَلیٰ صَدْرِہٖ فِیْ شِدَّۃِ الْحَرِّوَیَأَمُرُوْنَہٗ بِالشِّرْکِ بِاللّٰہِ فَیَأْبٰی عَلَیْہِمْ وَہُوَ یَقُوْلُ: اَحَدٌ اَحَدٌ ویَقُوْلُ: وَاللّٰہِ لَوْاَعْلَمُ کَلِمَۃً ہِیَ اَغْیَظُ لَکُمْ مِنْہَا لَقُلْتُہَا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَاَرْضَاہُ۔
ترجمہ: حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کفّارکی باتیں ماننے سے انکار کرتے رہے۔ وہ انھیں ہر طرح کی اذیت پہنچاتے رہے تاآں کہ ان کے سینے پر شدید گرمی کے موسم میں بڑا بھاری پتھر رکھ کر کہتے کہ توحید کا انکار کرو اور اللہ کے ساتھ شرک کا اقرار کرو۔ مگر وہ نشۂ توحید میں سرشار احد احد پکارتے رہے، حضرت بلالؓ فرماتے تھے کہ اگر مجھے کوئی ایسا کلمہ معلوم ہوجائے جس کے ادا کرنے سے تمہارا غیظ و غضب اور بھڑکے تو میں ضرور اسے اپنی زبان سے ادا کروں۔
(۴) وَکَذَلِکَ حَبِیْبُ بْنُ زَیْدِ الْاَنْصَارِیُّ لَمَّا قَالَ لَہٗ مُسَیْلَمَۃُ الْکَذَّابُ اَتَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ؟ فَیَقُوْلُ: نَعَمْ، فَیَقُوْلُ اَتَشْہَدُ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ؟فَیَقُوْلُ: لَا اَسْمَعُ۔ فَلَمْ یَزَلْ یَقْطَعُہٗ اِرْبًا اِرْبًا وَہُوَ ثَابِتٌ عَلیٰ ذٰلِکَ۔ (۵۳)
ترجمہ: اسی طرح کا واقعہ حضرت حبیب بن زید الانصاری کا ہے ۔ مسیلمہ کذاب نے جب ان سے پوچھا کہ ’’تم محمد ﷺ کی رسالت کی شہادت دیتے ہو‘‘ تو انھوں نے کہا ’’ہاں‘‘ اس پر مسیلمہ نے پھر پوچھا’’مجھے رسول مانتے ہو؟‘‘ تو انھوں نے فرمایا۔’’میںسنتا نہیں ہوں، یا میں ایسی بات نہیں سن سکتا۔‘‘ چنانچہ مسیلمہ ان کے بدن کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا (اس طرح کٹ کٹ کر اپنی جان، جان آفریں کے حوالے کردی) اور وہ اس دردناک اذیت پر ثابت قدم رہے۔

صرف ایک کلمۂ توحیدکا اقرار، عرب و عجم کی فرماں روائی

۲۵۔ اُرِیْدُ عَلیٰ کَلِمَۃٍ وَاحِدَۃٍ یَقُوْلُوْنَہَا تَدِیْنُ لَہُمْ بِہَا الْعَرَبُ وَتُؤَدِّیْ اِلَیْہِمْ بِہَا الْعَجَمُ الْجِزْیَۃَ۔
ترجمہ: میں ان کے سامنے ایک ایسا کلمہ پیش کرتا ہوں جسے اگر یہ مان لیں تو عرب ان کا تابع فرمان اور عجم ان کا باجگزار ہوجائے۔
حضوؐر کے اس ارشاد کو مختلف راویوں نے مختلف الفاظ میں نقل کیا ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں۔
اَدْعُوْہُمْ اِلیٰ اَنْ یَتَکَلَّمُوْا بِکَلِمَۃٍ تَدِیْنُ لَہُمْ بِہَا الْعَرَبُ وَیَمْلِکُوْنَ بِہَا الْعَجَمُ۔
ترجمہ: میں انھیں ایک کلمہ کے قائل ہونے کی دعوت دیتا ہوں جس کے نتیجہ میں عرب ان کا تابع اور عجم ان کا باجگزار ہوجائے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ آپؐ نے ابوطالب کے بجائے قریش کے لوگوں کو خطاب کرکے فرمایا۔
کَلِمَۃٌ وَاحِدَۃٌ تُعْطُوْنِیْہَا تَمْلِکُوْنَ بِہَا الْعَرَبُ وَتَدِیْنُ لَکُمْ بِہَا الْعَجَمُ۔
ترجمہ: ایک کلمہ ہے جس کے تم قائل ہوجائو تو عرب و عجم کے فرماں روا ہو جائو گے۔
ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں:
اَرَأَیْتُمْ اِنْ اَعْطَیْتُکُمْ کَلِمَۃً تُکَلِّمْتُمْ بِہَا مَلَکْتُمْ بِہَا الْعَرَبَ وَدَانَتْ لَکُمْ بِہَا الْعَجَمُ۔
ترجمہ: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں تمہیں ایک کلمہ دے رہا ہوں اس کے قائل ہونے کی وجہ سے تم عرب کے فرماں روا اور عجم تمہارا زیر نگیں ہوجائے۔
ان لفظی اختلافات کے باوجود مدعا سب کا یکساں ہے۔ یعنی حضوؐر نے ان سے کہا کہ اگر میں ایک ایسا کلمہ تمہارے سامنے پیش کروں جسے قبول کرکے تم عرب و عجم کے مالک ہوجائو گے تو بتائو کہ یہ زیادہ بہتر ہے یا وہ جسے تم انصاف کی بات کہہ کر میرے سامنے پیش کررہے ہو؟ تمہاری بھلائی اس کلمے کو مان لینے میں ہے یا اس میں کہ جس حالت میں تم پڑے ہو اسی میں تم کو پڑا رہنے دوں اور بس اپنی جگہ آپ ہی اپنے خدا کی عبادت کرتا رہوں؟
پس منظر: جب ابوطالب بیمار ہوئے اور قریش کے سرداروں نے محسوس کیا کہ اب یہ ان کا آخری وقت ہے تو انھوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ چل کر شیخ سے بات کرنی چاہیے۔ وہ ہمارااور اپنے بھتیجے کا جھگڑا چکاجائیں تو اچھا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا انتقال ہوجائے اور ان کے بعد ہم محمد ﷺ کے ساتھ کوئی سخت معاملہ کریں اور عرب کے لوگ ہمیں طعنہ دیں کہ جب تک شیخ زندہ تھا، یہ لوگ اس کا لحاظ کرتے رہے، اب اس کے مرنے کے بعد ان لوگوں نے اس کے بھتیجے پر ہاتھ ڈالا ہے۔
اس رائے پر سب کا اتفاق ہوگیا اور تقریباً ۲۵ سرداران قریش جن میں ابوجہل ، ابوسفیان، امیہ بن خلف، عاص بن وائل، اسود بن المطلب، عقبہ بن ابی معیط،عتبہ اور شیبہ شامل تھے، ابو طالب کے پاس پہنچے ۔ ان لوگوں نے پہلے تو حسبِ معمول نبیﷺ کے خلاف اپنی شکایات بیان کیں، پھر کہا کہ ہم آپ کے سامنے ایک انصاف کی بات پیش کرنے آئے ہیں۔ آپ کا بھتیجا ہمیں ہمارے دین پر چھوڑ دے اور ہم اسے اس کے دین پر چھوڑے دیتے ہیں۔ وہ جس معبود کی عبادت کرنا چاہے کرے، ہمیں اس سے کوئی تعرض نہیں۔ مگر وہ ہمارے معبودوں کی مذمت نہ کرے اور یہ کوشش نہ کرتا پھرے کہ ہم اپنے معبودوں کو چھوڑدیں۔ اس شرط پر آپ ہم سے اس کی صلح کرادیں۔ ابوطالب نے نبی ﷺ کو بلایا اور آپؐ سے کہا کہ بھتیجے! یہ تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ تم ایک منصفانہ بات پر ان سے اتفاق کرلو تاکہ تمہارا اور ان کا جھگڑا ختم ہوجائے۔ پھر انھوں نے حضوؐر کو وہ بات بتائی جو سرداران قریش نے ان سے کہی تھی۔ نبی ﷺ نے جواب میں فرمایا۔ چچا جان، میں تو ان کے سامنے ایک ایسا کلمہ پیش کرتا ہوں جسے اگر یہ مان لیں تو عرب ان کا تابع فرمان اور عجم ان کا باج گزار ہوجائے۔
یہ سن کر پہلے تو وہ لوگ سٹپٹا گئے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آخر کیا کہہ کر ایسے مفید کلمے کو رد کردیں۔ پھر کچھ سمجھ کر بولے، تم ایک کلمہ کہتے ہو ہم ایسے دس کلمے کہنے کو تیار ہیں مگر یہ تو بتائو کہ وہ کلمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اس پر وہ سب یکبارگی اٹھ کھڑے ہوئے اور وہ باتیں کہتے ہوئے نکل گئے جو سورۃ (صٓ) کے ابتدائی حصے میں اللہ تعالیٰ نے نقل کی ہیں۔
ابن سعد نے طبقات میں یہ سارا واقعہ اسی طرح بیان کیا ہے جس طرح اوپر مذکور ہوا، مگر ان کی روایت کے مطابق یہ ابوطالب کے مرض وفات کا نہیں بلکہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضوؐر نے دعوت عام کی ابتدا کی تھی اور مکہ میں پے درپے یہ خبریں پھیلنی شروع ہوگئی تھیں کہ آج فلاں آدمی مسلمان ہوا اور کل فلاں۔ اس وقت سرداران قریش یکے بعد دیگرے کئی وفد ابوطالب کے پاس لے کر پہنچے تھے تاکہ وہ محمد ﷺ کو اس تبلیغ سے روک دیں اور انہی وفود میں سے ایک وفد کے ساتھ یہ گفتگو ہوئی تھی۔
زمخشری، رازی، نیشاپوری اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ یہ وفد ابوطالب کے پاس اس وقت گیا تھا جب حضرت عمرؓ کے ایمان لانے پر سرداران قریش بوکھلاگئے تھے۔ لیکن کتب روایت میں سے کسی میں اس کا حوالہ ہمیں نہیں مل سکا ہے اور نہ ان مفسرین نے اپنے ماخذ کاحوالہ دیا ہے۔ تاہم اگر یہ صحیح ہو تو یہ ہے سمجھ میں آنے والی بات، اس لیے کہ کفار قریش پہلے ہی یہ دیکھ کر گھبرائے ہوئے تھے کہ اسلام کی دعوت لے کر ان کے درمیان سے ایک ایسا شخص اٹھا ہے جو اپنی شرافت اور بے داغ سیرت اور دانائی و سنجیدگی کے اعتبار سے ساری قوم میں اپنا جواب نہیں رکھتا اور پھر اس کا دست راست ابوبکرؓ جیسا آدمی ہے جسے مکے اور اس کے اطراف کا بچہ بچہ ایک نہایت شریف، راستباز اور ذکی انسان کی حیثیت سے جانتا ہے۔ اب جو انھوں نے دیکھا ہوگا کہ عمرؓ بن خطاب جیسا جری اور صاحب عزم آدمی بھی ان دونوں سے جاملا ہے تو یقینا انھیں محسوس ہوا ہوگا کہ خطرہ حد برداشت سے گزرتا جارہا ہے۔ (تفہیم القرآن،ج۴، سورۂ ص۔ تاریخی پس منظر )
تخریج: قَالَ ابْنُ اِسْحَاقَ: فَحَدَّثَنِی الْعَبَّاسُ ابْنُ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ مَعْبَدٍ (بن عباس) عَنْ بَعْضِ اَہْلِہٖ عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَشَوْا اِلیٰ اَبِیْ طَالِبٍ فَکَلَّمُوْہُ وَہُمْ اَشْرَافُ قَوْمِہٖ : عُتْبَۃُ بْنُ رَبِیْعَۃَ، وَشَیْبَۃُ بْنُ رَبِیْعَۃَ، وَاَبُوْجَہْلِ ابْنِ ہِشَامٍ، وَاُمَیَّۃُ بْنُ خَلْفٍ وَاَبُوْسُفْیَانُ ابْنُ حَرْبٍ فِیْ رِجَالٍ مِنْ اَشْرَافِہِمْ، فَقَالُوْا: یَا اَبَاطَالِبٍ ! اِنَّکَ مِنَّاحَیْثُ قَدْ عَلِمْتَ وَقَدْ حَضَرَکَ مَاتَریٰ وتَخَوَّفْنَا عَلَیْکَ وَقَدْعَلِمْتَ الَّذِیْ بَیْنَنَا وبَیْنَ بْنِ اَخِیْکَ۔فَادْعُہٗ فَخُذْلَہٗ مِنَّا وَخُذْلَنَا مِنْہُ لِیَکُفَّ عَنَّا وَنَکُفَّ عَنْہُ وَلْیَدَعَنَا وَدِیْنَنَا وَنَدْعُہٗ وَدِیْنَہٗ۔ فَبَعَثَ اِلَیْہِ ابُوْطَالِبٍ فَجَآئَ ہٗ۔ فَقَالَ: یَاابْنَ اَخِیْ! ہٰؤُلَآئِ اَشْرَافُ قَوْمِکَ قَدِاجْتَمَعُوْا لَکَ لِیُعْطُوْکَ، وَلْیَاْخُذُوْا مِنْکَ، قَالَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: نَعَمْ! کَلِمَۃٌ وَاحِدَۃٌ تُعْطُوْنِیْہَاتَمْلِکُوْنَ بِہَا الْعَرَبَ وَتَدِیْنُ لَکُمْ بِہَا الْعَجَمُ، قَالَ: فَقَالَ اَبُوجَہْلٍ: نَعَمْ وَاَبِیْکَ وَعَشَرُ کَلِمَاتٍ۔ قَالَ: تَقُوْلُوْنَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَتَخْلَعُوْنَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ، قَالَ: فَصَفَّقُوْا بِاَیْدِیْہِمْ،ثُمَّ قَالُوْا: اُتُرِیْدُ یا مُحَمَّدُ! اَنْ تَجْعَلَ الْاٰلِہَۃَ اِلٰہًا وَّاحِدًا ۔ اِنَّ اَمْرَکَ لَعَجَبٌ۔۔۔۔(۵۴)
ترجمہ: حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ اشراف قریش عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ اور ابوجہل بن ہشام اور امیہ بن خلف اور ابوسفیان بن حرب وغیرہ اپنے دیگر قریشی معززین کے ہمراہ ابوطالب کے پاس گئے اور نبی ﷺ کے متعلق گفتگو کی۔ کہنے لگے اے ابوطالب! آپ کا جو مقام و مرتبہ اور حیثیت ہماری نظروں میں ہے اسے آپ بخوبی جانتے ہیں۔ آپ کی جو حالت اس وقت ہے اس سے ہمیں آپ کے بارے میں اندیشہ لاحق ہے۔ ہمارے اور آپ کے بھتیجے کے درمیان جو نزاع برپا ہے، وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ آپ اسے بلائیں اور کچھ لے اور کچھ دے کے اصول پر ہمارے درمیان تصفیہ کرادیں۔ تاکہ ہم ایک دوسرے سے رک جائیں۔ وہ ہمیں ہمارے دین پر چھوڑ دے۔ ہم اسے اس کے دین پر چھوڑ ے دیتے ہیں۔ یہ سن کر ابوطالب نے آپ کو بلا بھیجا۔ چنانچہ آپؐ تشریف لے آئے۔ ابوطالب نے آپؐ سے مخاطب ہو کر کہا۔’’بھتیجے! یہ تیری قوم کے اشراف و معززین اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ وہ تمہیں کچھ دیں اور تم سے کچھ لیں یعنی کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر مصالحت چاہتے ہیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’صرف ایک کلمہ ہے جس کے تم قائل ہو جائو تو عرب کے فرماں روا بن سکتے ہو اور عجم تمہارا مطیع و فرماں بردار بن جائے گا۔‘‘ اس پر ابوجہل جھٹ بولا۔ ہاں ، تمہارے باپ کی قسم ایسے دس کلمے پیش کروگے (تو بھی ہم ماننے کے لیے تیار ہیں) ۔ آپؐ نے فرمایا ’’تو پھر تم لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا اقرار کرو اور اس کے ماسوا سب معبودان باطل کا قلادہ گلے سے اتار پھینکو۔ یہ سن کر انھوں نے حیرت کے عالم میں اپنے ہاتھوں پر ہاتھ مارے اور کہنے لگے۔ ’’اے محمدؐ !کیا تم یہ چاہتے ہو کہ سب معبودوں کا ایک معبود بنادو۔ یہ تو بڑا عجیب معاملہ ہے۔‘‘
(۲) حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُبْنُ الْحُسَیْنِ، قَالَ : ثَنَا احْمَدُبْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: ثَنَا اَسْبَاطٌ عَنِ السُّدِّیِّ، اَنَّ اُنَا سًا مِّنْ قُرَیْشٍ اجْتَمَعُوْا فِیْہِمْ اَبُوْ جَہْلِ بْنُ ہِشَامٍ وَالْعَاصُ بْنُ وَائِلٍ وَالْاَسْوَدُبْنُ الْمُطَّلِبِ وَالْاَسْوَدُبْنُ عَبْدِ یَغُوْثَ فِیْ نَفَرٍ مِنْ مَشِیْخَۃِ قُرَیْشٍ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ: اِنْطَلِقُوْا بِنَااِلیٰ اَبِیْ طَالِبٍ فَلْنُکَلِّمْہُ فِیْہِ فَلْیَنْصِفْنَامِنْہُ فَیَاْمُرْہٗ فَلْیَکُفَّ عَنْ شَتْمِ اٰلِہَتِنَا وَنَدَعُہٗ وَاِلٰہَہُ الَّذِیْ یَعْبُدُ فَاِنَّا نَخَافُ اَنْ یَمُوْتَ ہٰذَا الشَّیْخُ فَیَکُوْنُ مِنَّا شَیْیٌٔ فَتُعِیْرُ نَا الْعَرَبُ فَیَقُوْلُوْنَ تَرَکُوْہُ حَتّٰی اِذَا مَاتَ عَمُّہٗ، تَنَاوَلُوْہُ۔ قَالَ: فَبَعَثُوْا رَجُلًا مِنْہُمْ یُدْعَی الْمُطَّلِبُ فَاسْتَاْذَنَ لَہُمْ عَلیٰ اَبِیْ طَالِبٍ، فَقَالَ: ہٰؤُلَآئِ مَشِیْخَۃُ قَوْمِکَ وَسَرَوَاتُہُمْ یَسْتَأْذِنُوْنَکَ عَلَیْکَ، قَالَ: اَدْخِلْہُمْ، فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَیْہِ، قَالُوْا: یَااَبَاطَالِبٍ! اَنْتَ کَبِیْرُنَا وَسَیِّدُنَا فَانْصِفْنَا مِنَ ابْنِ اَخِیْکَ فَمُرْہُ فَلْیَکُفَّ عَنْ شَتْمِ اٰلِہَتِنَا وَنَدَعُہٗ وَاِلٰہَہٗ، قَالَ: فَبَعَثَ اِلَیْہِ اَبُوْطَالِبٍ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ، قَالَ: یَابْنَ أَخِیْ! ہٰؤُلَآئِ مَشِیْخَۃُ قَوْمِکَ وَ سَرَوَاتُہُمْ وَقَدْ سَاَلُوْکَ النِّصْفَ اَنْ تَکُفَّ عَنْ شَتْمِ اٰلِہَتِہِمْ وَیَدَعُوْکَ وَاِلٰہَکَ۔ فَقَالَ: اَیْ عَمِّ! اَوَلَا اَدْعُوْہُمْ اِلیٰ مَا ہُوَ خَیْرٌ لَہُمْ مِنْہَا؟ قَالَ: وَإِلامَ تَدْعُوْہُمْ؟ قَالَ: اَدْعُوْہُمْ اِلیٰ اَنْ یَتَکَلَّمُوْا بِکَلِمَۃٍ تَدِیْنُ لَہُمْ بِہَا الْعَرَبُ وَیَمْلِکُوْنَ بِہَا الْعَجَمَ۔۔۔۔ (۵۵)
ترجمہ: حضرت سدّی سے منقول ہے کہ قریش کے کچھ لوگ جن میں ابوجہل بن ہشام ، عاص بن وائل، اسود بن مطّلب، اسود بن عبدیغوث وغیرہ تھے یہ سردارانِ قریش کے ساتھ جمع ہوئے۔ ان میں سے بعض ،بعض سے کہنے لگے کہ ہمیں ابوطالب کے پاس لے چلو تاکہ اس کے بارے میں ہم ان سے بات چیت کرلیں اور وہ ہماری اس سے نصف نصف (یعنی کچھ لے دے کے اصول ) پر مصالحت کرادیں، ابوطالب اسے حکم دیں کہ وہ ہمارے خدائوں کو سبّ و شتم کرنے سے بازآجائے ہم اسے اور اس کے الہٰ کو جسے وہ پوجتا ہے چھوڑ دیں گے۔ ہمیںڈر ہے کہ شیخ کے مرنے کے بعد ہماری جانب سے اسے کوئی گزند پہنچ گیا تو اہل عرب ہمیں عار دلائیں گے کہ جب تک شیخ زندہ رہا اس وقت تک تو اسے اس کے حال پر چھوڑے رکھا جونہی شیخ نے آنکھیں بند کیں اس کے بھتیجے پر ہاتھ ڈال دیا۔ (یہ سوچ کر) انھوں نے مطلب نامی ایک شخص کو ابوطالب کے پاس بھیجا کہ جاکر ابوطالب سے کہے کہ آپ کی قوم کے معززین و سردار آرہے ہیں وہ آپ کی خدمت میں حاضری کی اجازت کے طلب گار ہیں۔ ابوطالب نے اس سے کہا’’انھیں اندر لے آئو۔‘‘ چنانچہ جب وہ ابوطالب کے پاس آئے تو کہنے لگے۔’’اے ابوطالب آپ ہمارے بزرگ ہیں، ہمارے سردار ہیں، اپنے بھتیجے سے ہمیں انصاف دلائیں، اسے کہیں کہ وہ ہمارے خدائوں کو برا بھلا نہ کہے۔ ہم اسے اور اس کے الہٰ کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘ ابوطالب نے رسول اللہ ﷺ کو بلابھیجا آپ تشریف لائے تو ابو طالب نے کہا۔ بھتیجے یہ تیری اپنی قوم کے مشائخ اور سردار تشریف لائے ہیں تم سے انصاف کی استدعا کرتے ہیں یہ کہ تم ان کے معبودوں کو برا بھلا کہنا چھوڑ دو یہ تمہیں اور تمہارے الہٰ کو تمہارے حال پر چھوڑتے ہیں۔‘‘ آپؐ نے یہ سن کر فرمایا۔ چچا جان کیا میں انھیں ایسی بات کی دعوت نہ دوں جو اس سے بہتر ہے۔‘‘ پوچھا کس چیز کی طرف تم دعوت دیتے ہو؟ فرمایا: میں انھیں ایک ایسے کلمہ کا اقرار کرنے کو کہتا ہوں جس کی وجہ سے سارا عرب ان کے زیر نگین ہوگا اور سارے عجم کے یہ فرماں روا ہوں گے۔‘‘
(۳) حَدَّثَنَا بِشْرٌ، قَالَ: ثَنَا یَزِیْدُ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ عَنْ قَتَادَۃَ، اَنّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ، قَالَ لَہُمْ: اَسْأَلُکُمْ اَنْ تُجِیْبُوْنِیْ اِلیٰ وَاحِدَۃٍتَدِیْنُ لَکُمْ بِہَا الْعَرَبُ وَتُعْطِیْکُمْ بِہَا الْخَرَاجَ الْعَجَمُ۔
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تم سے ایک بات کے تسلیم کرنے کا سوال کرتا ہوں پھر سارا عرب تمہارا زیر نگیں ہوجائے گا اور عجم تمہیں خراج ادا کرے گا۔
(۴) حَدَّثَنَا اَبُوْ کُرَیْبٍ وَابْنُ وَکِیْعٍ، قَالَا: ثَنَا اَبُوْ اُسَامَۃَ، قَالَ: ثَنَا الْاَعْمَشُ، قَالَ: ثَنَا عَبَّادٌعَنْ سَعِیْدِبْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا مَرَضَ اَبُو طَالِبٍ دَخَلَ عَلَیْہِ رَہْطٌ مِنْ قُرَیْشٍ۔ وَتَکَلَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ، فَقَالَ: یَا عَمِّ اِنّیْ اُرِیْدُ ہُمْ عَلیٰ کَلِمَۃٍ وَاحِدَۃٍ یَقُوْلُوْنَہَا۔ تَدِیْنُ لَہُمْ بِہَا الْعَرَبُ وَتُؤدِّیْ اِلَیْہِمْ بِہَا الْعَجَمُ الْجِزْیَۃَ، فَفَزِعُوْا لِکَلِمَتِہٖ وَلِقَوْلِہٖ۔ فَقَالَ الْقَوْمُ: کَلِمَۃً وَاحِدَۃً! نَعَمْ، وَاَبِیْکَ عَشَرًا ۔۔۔۔ (۵۶)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’چچا جان ! میں ان کے سامنے ایک کلمہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اسے یہ لوگ مان لیں تو سارا عرب ان کا مطیع اور عجم ان کا باجگزار ہوجائے گا۔‘‘ یہ لوگ اس بات سے ششدر سے رہ گئے اور بولے صرف ایک کلمہ، ہاں! تمہارے باپ کی قسم ایسے دسیوں کلمے (ہوں تو بھی ہم ماننے کو تیار ہیں)۔
(۵) حَدَّثَنَا مَحْمُوْدُبْنُ غَیْلَانَ وَعَبْدُ بْنُ حُمَیْدِ المَعْنیٰ وَاحِدٌ، قَالَا: نَا اَبُوْاَحْمَدَ، نا سُفْیَانُ عَنِ الْاَعْمَشِ ، عن یَحْیٰ، قَالَ: عَبْدٌ ہُوَبْنُ عَبَّادٍ، عَنْ سَعِیْدِبْنِ جُبَیْرٍ۔عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَرِضَ اَبُوْطَالِبٍ فَجَائَ تْہُ قُرَیْشٌ وَجَائَ ہُ النَّبِیُّ ﷺ وَعِنْدَ اَبِی طَالِبٍ مَجْلِسُ رَجُلٍ۔ فَقَامَ اَبُوْجَہْلٍ کَیْ یَمْنَعَہٗ، قَالَ: وشَکَوْہُ اِلیٰ اَبِیْ طَالِبٍ، فَقَالَ: یَا ابْنَ اَخِیْ! مَا تُرِیْدُمِنْ قَوْمِکَ؟ فَقَالَ:اُرِیْدُ مِنْہُمْ کَلِمَۃً، تَدِیْنُ لَہُمْ بِہَا الْعَرَبُ وَتُؤَدِّیْ اِلَیْہِمُ الْعَجَمُ الْجِزْیَۃَ، قَالَ: کَلِمَۃً وَاحِدَۃً! قَالَ:کَلِمَۃً وَاحِدَۃً۔ فَقَالَ: یَاعَمِّ! قُوْلُوْا، لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ فَقَالُوْا: اِلٰہًاوَاحِدًا! مَا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِی الْمِلَّۃِ الْآخِرَۃِ، اِنْ ہٰذَا اِلّا اخْتِلَاقٌ۔۔۔ (۵۷)
ترجمہ: حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ابوطالب بیمار ہوگئے ،تو قریش ان کے پاس آئے اور نبی ﷺ بھی ان کے پاس تشریف لے گئے۔ ان کے پاس ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ تھی، ابوجہل کھڑا ہوا ،تاکہ آپ کو روکے اور انھوں نے ابوطالب سے آپ کا شکوہ کیا۔ ابوطالب نے پوچھا ۔ بھتیجے !اپنی قوم سے کیا چاہتے ہو؟ آپؐ نے فرمایا ’’میں ان سے فقط ایک کلمہ چاہتا ہوں۔ جس کی وجہ سے سارا عرب ان کے ماتحت ہوگا اور اہل عجم انھیں جزیہ ادا کریں گے۔‘‘ انھوں نے پوچھا، صرف ایک کلمہ! فرمایا:’’چچا جان! یہ لوگ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا اقرار کرلیں۔‘‘ بولے صرف ایک الہٰ؟ یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں کسی سے نہیں سنی۔ بس یہ تو ایک من گھڑت بات ہے۔
(۶) اَخْبَرَنَا مُحَمَّدُبْنُ عُمَرَ الْاَسْلَمِیُّ، قَالَ: حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُبْنُ لُوْطٍ النَّوفَلِیُّ عَنْ عَوْنِ ابْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، قَالَ: وَحَدَّثَنِیْ عَائِذُبْنُ یَحْیٰ، عَنْ اَبِی الْحُوَیْرِثِ، قَالَ: وَحَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُبْنُ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ اَخِی الزُّہْرِیِّ عَنْ اَبِیْہِ، عَن عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ ثَعْلَبَۃَ بْنِ صُعَیْرِ الْعُذْرِیِّ۔ دَخَلَ حَدِیْثُ بَعْضِہِمْ فِیْ حَدِیْثِ بَعْضٍ، قَالُوْا: لَمَّا رَأَتْ قُرَیْشٌ ظُہُوْرَالْاِسْلَامِ وَجُلُوسَ الْمُسْلِمِیْنَ حَوْلَ الْکَعْبَۃِ، سُقِطَ فِیْ اَیْدِیْہِمْ۔ فَمَشَوْا اِلیٰ اَبِیْ طَالِبٍ حَتّٰی دَخَلُوْا عَلَیْہِ، فَقَالُوا:اَنْتَ سَیِّدُنَا وَاَفْضَلُنَا فِیْ اَنْفُسِنَا وَقَدْ رَاَیْتَ ہٰذَا الَّذِیْ فَعَلَ ہٰؤُلَآئِ السُّفَہَآئُ مَعَ ابْنِ اَخِیْکَ مِنْ تَرْکِہِمْ اٰلِہَتِنَا وَطَعْنِہِمْ عَلَیْنَا وَ تَسْفِیْہِہِمْ اَحْلَامَنَا، وَجَائُ وْابِعُمَارَۃَ ابْنِ الْوَلِیْدِ ابْنِ الْمُغِیْرَۃِ، فَقَالُوْا: قَدْجِئْنَاکَ بِفَتِیْ قُرَیشٍ جَمَالًا وَنَسَبًا وَنَہَا دَۃً وَشِعْرًا نَدْفَعُہٗ اِلَیْکَ فَیَکُوْنُ لَکَ نَصْرُہٗ وَمِیْرَاثُہٗ وَتَدْفَعْ اِلَیْنَا ابْنَ اَخِیْکَ لِنَقْتُلَہٗ، فَاِنَّ ذٰلِکَ اَجْمَعُ لِلْعَشِیْرَۃِ وَاَفْضَلُ فِیْ عَوَاقِبِ الْا ُمُوْرِمَغَبَّۃً۔ قَالَ اَبُوطَالِبٍ: وَاللّٰہِ مَا اَنْصَفْتُمُوْنِیْ، تُعْطُوْنَنِیْ اِبْنَکُمْ اَغْذُوْہُ لَکُمْ وَاُعْطِیْکُمُ ابْنَ اَخِیْ تَقْتُلُوْنَہٗ؟ مَا ہٰذَا بِالنَّصَفِ؟ تَسُوْمُوْنَنِیْ سَوْمَ الْعَرِیْرِ الذَّلِیْلِ! قَالُوْا: فَاَرْسِلْ اِلَیْہِ فَلَنُعْطِہِ النَّصَفَ، فَاَرْسَلَ اِلَیْہِ اَبُوْطَالِبٍ، فَجَآئَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ، فَقَالَ: یَا ابْنَ اَخِیْ! ہٰؤُلَآئِ عَمُوْمَتُکَ وَاَشْرَافُ قَوْمِکَ وَقَدْ اَرَادُوْایُنْصِفُوْنَکَ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: قُوْلُوْا اَسْمَعُ، قَالُوْا: تَدَعُنَا وَاٰلِہَتَنَا، وَنَدَعُکَ وَاِلٰہَکَ۔ قَالَ اَبُوْ طَالِبٍ: قَدْ انْصَفَکَ الْقَوْمُ فَاقْبَلْ مِنْہُمْ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: اَرَأَیْتُمْ اِنْ اَعْطَیْتُکُمْ ہٰذِہٖ ہَلْ اَنْتُمْ مُعْطِیَّ کَلِمَۃً اِنْ اَنْتُمْ تَکَلَّمْتُمْ بِہَا مَلَکْتُمْ بِہَا الْعَرَبَ وَدَانَتْ لَکُمْ بِہَا الْعَجَمُ۔ فَقَالَ اَبُوْجَہْلٍ: اِنَّ ہٰذِہِ لَکَلِمَۃٌ مُرْبَحَۃٌ، نَعَمْ! وَاَبِیْکَ لَنَقُوْلَنَّہَا وَعَشرَاَمْثَالِہَا، قَالَ: قُوْلُوْا، لآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، فَاشْمَأَزُّوْا وَنَفَرُوْا مِنْہَا وَغَضِبُوْا وَقَامُوْا وَہُمْ یَقُوْلُوْنَ اِصْبِرُوْا عَلیٰ اٰلِہَتِکُمْ اِنَّ ہٰذَا لَشَیْیٌٔ یُّرَادُ۔۔۔ (۵۸)
ترجمہ: عبداللہ بن ثعلبہ سے مروی ہے جب قریش نے دیکھا کہ اسلام کا غلبہ روز افزوں ہے اور مسلمان خانہ کعبہ کے ارد گرد بیٹھنا شروع ہوگئے تو سخت بوکھلاگئے اور اٹھ کر ابوطالب کی طرف چل کھڑے ہوئے۔ ابوطالب کے پاس پہنچ کر کہنے لگے، آپ ہمارے سردار ہیں۔ ہم میں سب سے زیادہ صاحب فضیلت ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان بے وقوفوں نے آپ کے بھتیجے کے ساتھ ہو کر کیا کچھ کیا ہے۔ ہمارے معبودوںکو ترک کرنا اور ہم پر طعنہ زنی کرنا اور ہمارے عقلاء کو احمق کہنا وغیرہ۔
یہ وفد عمارہ بن ولید بن مغیرہ کو اپنے ہمراہ لے کر آیا تھا۔ بولے ہم آپ کی خدمت گاری کے لیے قریش کے ایک خوبرو ، عمدہ حسب نسب کے مالک، نہایت اچھے شاعر کو لے کر حاضر خدمت ہوئے ہیں۔ اسے ہم آپ کے حوالے کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ آپ کی مدد کرے۔ آپ اس کی میراث کے بھی حقدار ہوں۔ آپ اس کے بدلہ میں اپنا بھتیجا ہمارے سپرد کردیں تاکہ ہم اسے قتل کردیں۔ بلا شبہ یہ قبیلے کے لیے بھی مفید رہے گا اور مستقبل کے امور کے انجام کے لیے بھی بہترین رہے گا۔
ابو طالب نے کہا بخدا تم نے میرے ساتھ کیا خوب انصاف کیا ہے، کہ تم تو اپنا آدمی مجھے اس لیے دو کہ میں اسے کھلائوں پلائو ں اور پرورش کروں اور تمہیں اپنا بھتیجا قتل کرنے کے لیے دے دوں۔ یہ انصاف ہرگز نہیں ہے۔ تم مجھ سے ذلت آمیز سودا بازی کرنا چاہتے ہو؟
بولے، اچھا آپ اسے بلائیں ہم اس سے مساویانہ پیمانہ پر بات چیت کرنا چاہیں گے۔ ابو طالب نے آپؐ کو بلا بھیجا۔ آپؐ تشریف لائے تو ابو طالب نے کہا بھتیجے!یہ تیرے چچا اور تیری قوم کے سربرآوردہ حضرات آئے ہیں۔ تیرے ساتھ مساویانہ بات کرنا چاہتے ہیں۔ فرمایا: کہو!میں سنتا ہوں، انھوں نے کہا کہ تم ہمیں اور ہمارے اٰلہہ کو اپنے حال پر چھوڑ و، ہم تمہیں اور تمہارے الہٰ کو تمہارے حال پر چھوڑتے ہیں۔
ابوطالب نے کہا:’’ تیری قوم کے ان اشراف نے بڑی منصفانہ پیش کش کی ہے اسے قبول کرلو۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دیکھو! اگر میں تمہیں ایک ایسا کلمہ پیش کروں کہ اگر تم اس کا اقرار کرلو تو سارے عرب کے تم فرماں روا بن جائو گے اور عجم تمہارے زیر نگیں ہوجائے گا۔‘‘
ابوجہل بولا۔’’بہت نفع بخش اور سود مند بات ہے۔ ہم اسے ضرور مان لیں گے بلکہ ایسی دس باتیں اور بھی ہوں تو انھیں بھی تسلیم کرنے میں ہمیں کوئی عار نہیں۔‘‘
فرمایا ’’(توپھر) لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہکا اقرار کرو۔‘‘ یہ سن کر وہ لوگ غیظ و غضب کی حالت میں اپنے کپڑے سمیٹتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے کہ اپنے معبودوں کی (عبادت) پرڈٹے اور جمے رہو یہ بات تو کسی اور ہی غرض سے کہی جارہی ہے) بھاگ کھڑے ہوئے۔
۲۶۔ رسول اللہ ﷺ نے قریش کے لوگوں سے فرمایا کہ ’’ایک کلمہ ہے جس کے تم قائل ہو جائو تو عرب و عجم کے فرماں روا ہو جائو گے۔‘‘
تشریح: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت ہی میں نہیں اس دنیا میں بھی قوموں کی قسمتوں کا اتار چڑھائو اخلاقی بنیادوں ہی پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عالم پر جو فرماں روائی کررہا ہے وہ اخلاقی اصولوں پر مبنی ہے نہ کہ ان طبعی اصولوں پر جو اخلاقی خیر و شرکے امتیاز سے خالی ہوں۔ یہ بات کئی مقامات پر قرآن میں فرمائی گئی ہے کہ جب ایک قوم کے پاس نبی کے ذریعہ سے خدا کا پیغام پہنچتا ہے تو اس کی قسمت اس پیغام کے ساتھ معلق ہوجاتی ہے۔ اگر وہ اسے قبول کرلیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اگر رد کر دیتی ہے تو اسے تباہ کرڈالا جاتا ہے۔ یہ گویا ایک ’’دفعہ‘‘ ہے اس اخلاقی قانون کی جس پر اللہ تعالیٰ انسان کے ساتھ معاملہ کررہا ہے۔ اسی طرح اس قانون کی ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ جو قوم دنیا کی خوشحالی سے فریب کھا کر ظلم و معصیت کی راہوں پر چل نکلتی ہے اس کا انجام بربادی ہے۔ لیکن عین اس وقت جب کہ وہ اپنے اس برے انجام کی طرف بگ ٹُٹ چلی جارہی ہو۔ اگر وہ اپنی غلطی کو محسوس کرلے اور نافرمانی چھوڑ کر خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے تو اس کی قسمت بدل جاتی ہے، اس کی مہلت عمل میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور مستقبل میں اس کے لیے عذاب کے بجائے انعام، ترقی اور سرفرازی کا فیصلہ لکھ دیا جاتا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۲ ، ہود۔ حاشیہ: ۵۷)

کیا راستبازی اور خدا ترسی سے دنیا بگڑ جاتی ہے

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثیٰ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً۔ (النحل آیت:۹۷)
ترجمہ: جو شخص بھی ایمان کے ساتھ نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، ہم اس کو پاکیزہ زندگی بسرکرائیںگے۔
اس سے لوگوں کی اس عام غلط فہمی کو دور کرنا مقصود ہے جو شیطان نے ہر نادان دنیا پرست آدمی کے کان میں پھونک رکھی ہے کہ، خدا ترسی اور راست بازی اور احساس ذمہ داری کا طریقہ اختیار کرنے سے آدمی کی آخرت بنتی ہو، تو بنتی ہو، مگر دنیا ضرور بگڑ جاتی ہے اور یہ کہ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں فاقہ مستی و خستہ حالی کے سوا کوئی زندگی نہیں ہے۔ مگر یہاں وضاحت کردی گئی ہے کہ راہ راست کو اختیار کرنے سے صرف آخرت ہی نہیں بلکہ دنیا بھی بنے گی۔ آخرت کی طرح اس دنیا کی حقیقی عزت و کامیابی بھی ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے جو سچی خدا پرستی کے ساتھ صالح زندگی بسر کریں، جن کے اخلاق پاکیزہ ہوں، جن کے معاملات درست ہوں، جن پر ہر معاملے میں بھروسہ کیا جاسکے، جن سے ہر شخص بھلائی کا متوقع ہو اور جن سے کسی انسان کو یا کسی قوم کو شرکا اندیشہ نہ ہو۔ (تفہیم القرآن: ج ۲: ہود: حاشیہ:۳)
یہ رحمت الٰہی صرف مسلمانوں کو ہی عطا نہیں ہوئی بلکہ بائیبل کی کتاب احبار (باب ۲۶) اور استثناء (باب ۲۸) میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک تقریر نقل کی گئی ہے جس میں انھوں نے بنی اسرائیل کو بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ اگر تم احکام الٰہی کی ٹھیک ٹھیک پیروی کروگے تو کس کس طرح اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں سے نوازے جائو گے، اور اگر کتاب اللہ کو پس پشت ڈال کرنا فرمانیاں کروگے تو کس طرح بلائیںاور مصیبتیں اور تباہیاں ہر طرف سے تم پر ہجوم کریں گی۔
(تفہیم القرآن: ج ۱: المائدہ: حاشیہ: ۹۶)
یہ بات قرآن میں (بھی) متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے کہ خدا سے بغاوت کی روش صرف آخرت ہی میں نہیں، دنیا میں بھی انسان کی زندگی کو تنگ کردیتی ہے، اور اس کے برعکس اگر کوئی قوم نافرمانی کے بجائے ایمان و تقویٰ اور احکام الٰہی کی اطاعت کا طریقہ اختیار کرلے تو یہ آخرت ہی میں نافع نہیں ہے بلکہ دنیا میں بھی اس پر نعمتوں کی بارش ہونے لگتی ہے۔ سورۂ طٰہٰ میں ارشاد ہوا ہے ’’اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔‘‘ (آیت :۱۲۴) ۔ سورۂ مائدہ میں فرمایا گیا ہے ’’اور اگر ان اہل کتاب نے توراۃ اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے ابلتا(آیت :۶۶)۔ سورۂ اعراف میں فرمایا ’’اور اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘(آیت:۹۶)۔ سورۂ ہود میں ہے کہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو خطاب کرکے فرمایا ’’اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو ، وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔‘‘ (آیت:۵۲)۔ خود نبی ﷺ کے ذریعہ سے بھی اسی سورۂ ہود میں اہل مکہ کو مخاطب کرکے یہ بات فرمائی گئی ’’اور یہ کہ اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹ آئو، تو وہ ایک مقرر وقت تک تم کو اچھا سامان زندگی دے گا (آیت:۳)۔
سورۂ نوح آیات (۹ تا ۱۲) میں بھی اسی قسم کا مضمون بیان ہوا ہے۔
(چنانچہ) ایک مرتبہ قحط کے موقع پر حضرت عمرؓ بارش کی دعا کرنے کے لیے نکلے اور صرف استغفار پر اکتفا فرمایا۔ لوگوں نے عرض کیا، امیر المومنین! آپ نے بارش کے لیے دعا تو کی ہی نہیں۔ فرمایا’’میں نے آسمان کے ان دروازوں کو کھٹکھٹادیاہے جہاں سے بارش نازل ہوتی ہے ، اور پھر سورۂ نوح کی آیات (۹ تا ۱۲) لوگوں کو پڑھ کر سنادیں۔ (ابنِ جریر و ابن کثیر)
تخریج: حَدَّثَنِیْ یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْاَعْلیٰ، قَالَ: اَخْبَرَنَا سُفْیَانُ عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ: خَرَجَ عُمَرُ ابْنُ الْخَطَّابِ یَسْتَسْقِیْ، فَمَا زَادَ عَلَی الْاِسْتِغْفَارِ ثُمَّ رَجَعَ۔ فَقَالُوْا: یَا اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! مَارَأَیْنَاکَ اسْتَسْقَیْتَ۔ فَقَالَ: لَقَدْ طَلَبْتُ الْمَطَرَ بِمَجَادِیْحِ السَّمَآئِ الَّتِیْ یَسْتَنْزِلُ بِہَاالْمَطَرُ، ثُمَّ قَرَأَ: اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا۔ یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَقَرَأَالایۃ التی فی سورۃ ہود حتّٰی بَلَغَ وَیَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلیٰ قُوَّتِکُمْ۔ (۵۹)
ابن کثیر نے انہ صعد المنبر نقل کیا ہے، یعنی انھوں نے منبر پر چڑھ کر بارانِ رحمت کے لیے دعا مانگی اور طلبت المطرکی جگہ طلبت الغیث نقل کیا ہے۔
اسی طرح ایک مرتبہ حضرت حسن بصریؒ کی مجلس میں ایک شخص نے خشک سالی کی شکایت کی۔ انھوں نے کہا اللہ سے استغفار کرو۔ دوسرے شخص نے تنگ دستی کی شکایت کی۔ تیسرے نے کہا میرے ہا ں اولاد نہیں ہوتی۔ چوتھے نے کہا میری زمین کی پیداوار کم ہورہی ہے۔ ہر ایک کو یہی جواب دیتے چلے گئے کہ استغفار کرو۔ لوگوں نے کہا ،یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ سب کو مختلف شکایتوں کا ایک ہی علاج بتارہے ہیں؟ انھوں نے جواب میں سورہ نوح کی یہ آیات سنادیں۔ (کشّاف)
(تفہیم القرآن، ج۶، نوح حاشیہ:۱۲)
تخریج: وَعَنِ الْحَسن، اَنَّ رَجُلًا شَکَااِلَیْہِ الْجَدْبَ۔ فَقَالَ: اِسْتَغْفِرِاللّٰہَ، وَشَکَااِلَیْہِ آخَرُ الْفَقْرَ وَآخَرُ قِلَّۃَ النَّسْلِ وآخَرُقِلَّۃَ رِبْحِ اَرْضِہٖ فَاَمَرَ ہُمْ کُلَّہُمْ بِالْاِسْتِغْفَارِ۔ (۶۰)

گردش لیل و نہار اور ایمان باللہ

سوال: بخاری شریف کی حدیث ہے۔ فَاللّٰہُ ہُوَالدَّہْرُ۔ وَقَالَ اللّٰہُ: یَسُبُّ بَنُوْاٰدَمَ الدَّہْرَ، وَاَنَا الدَّہْرُ۔ مؤطا امام مالک: فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الدَّہْرُ و حدیث ترمذی: لو انکم دلیتم بحبل الی الارض السفلی لھبط علی اللّٰہ۔
ان سے ظاہر ہے کہ دہرہی بخاری صاحب وغیرہ کا معبود (الہٰ) ہے اور ان کا (الہٰ) صرف دہرہے۔ اب فرمائیے ان دہر کو اپنا معبود (الٰہ) ماننے والوں کی بابت آپ کا کیا فتویٰ ہے؟ راغب اصفہانی کی سندزیر نظر رکھ کرجواب مرحمت کیا جائے۔
ہَلِ الدَّہْرُ اِلَّا لَیْلَۃٌ وَنَہَارُہَا
وَاِلَّا طُلُوْعُ الشَّمْسِ ثُمَّ غِیَابُہَا
جس کی رو سے تو نظام شمسی، کواکب، کرّۂ ارض عناصر یہی دہر نیچر زمانہ ہیں جن کی بابت کفار دہریے کہا کرتے تھے۔
وَقَالُوا مَاہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَا اِلَّا الدَّہْرُوَمَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ (سورۃ الجاثیہ:۲۴)
جواب: آپ کے ارشاد ات کا ماحصل یہ ہے کہ:
۱- امام مالکؒ اور امام بخاریؒ وغیرہ حضرات جنھوں نے اس مضمون کی احادیث کو روایت کیا ہے، دراصل ان روایات کے واضع ہیں اور یہ حدیثیں انھوں نے خود گھڑکر نبی اکرم ﷺ کی طرف منسوب کردی ہیں۔
۲- ان روایات میں جس دہر کو بُرا کہنے سے روکا گیا ہے اس سے مراد زمانہ ہے یا نیچر ہے جس میں نظامِ شمسی کواکب، کرّۂ ارض اور عناصر سب آجاتے ہیں۔ پس ان احادیث کے وضع کرنے والے اور اس کو ماننے والے دراصل دہریے اور نیچری تھے۔
۳- یہ حدیث دہریوں کے اس اعتقاد کی تائید کرتی ہے جس کی تردید قرآن مجید نے کی ہے۔
ان تینوں بدگمانیوں کی حقیقت ترتیب وار ملاحظہ ہو:
۱- اس مضمون کی کم و بیش پندرہ سولہ روایتیں مختلف طریقوں سے امام مالک، امام احمد بن حنبل ، امام بخاری، امام مسلم اور امام ابوجعفر ابن جریر طبری نے نقل کی ہیں۔ ان تمام احادیث کو آں حضرت ﷺ سے روایت کرنے والے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ اور اس بات پر جمہور اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عدول ہیں۔ ان میں سے کسی پر یہ شبہ نہیں کیا جاسکتاکہ اس نے آں حضرت ﷺ پر افتریٰ باندھا ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے جن لوگوں نے ان روایات کو لیا ہے ان میں محمد بن سیرین، سعید بن المسیب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن اور اعرج جیسے لوگ ہیں۔ اس کے بعد ہر مرتبہ روایت میں راوی بڑھتے جاتے ہیں اور کئی طریقوں سے یہ روایتیں ائمۂ مذکورین تک پہنچتی ہیں جن میں سے اکثر کے صحیح ہونے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اور یہ قاعدہ ہے کہ اگر کسی ضعیف روایت کی تائید میں کوئی قوی روایت موجود ہوتو وہ ضعیف بھی قوی ہوجاتی ہے۔
ایک طرف اتنی شہادتیں ہیں اور دوسری طرف آپ کا یہ مختصر سا فیصلہ کہ تمام روایتیں جعلی ہیں۔ کیوں ؟ صرف اس لیے کہ جو مضمون ان روایات میں بیان ہوا ہے وہ آپ کی سمجھ میں نہیں آیا۔ روایات اور شہادتوں کو جانچنے کا یہ بالکل نیا طریقہ ایجاد ہوا ہے کہ جو روایت آپ کی سمجھ میں نہ آئے یا جس کا مضمون آپ کی رائے کے خلاف ہو، اس کو بلا تکلف غلط اور اس کے راوی کو بے تامل جھوٹا کہہ دیجیے۔ کیونکہ صداقت کے لیے لازم ہے کہ وہ آپ کی رائے اور سمجھ کے عین مطابق ہو۔ معلوم نہیں کہ یہ حق آپ نے صرف اپنے لیے محفوظ رکھا ہے یا ہر سامع کو فرداً فرداً یہی حق عطا فرماتے ہیں۔ اگر پہلی صورت ہے تو آپ اس کے مستحق ہیں کہ تمام دنیا کے واحد قاضی قرار پائیں۔ کیوں کہ اور کوئی شخص اس کا اہل نہیں ہوگا کہ کسی گواہ کی جرح یا تعدیل کرسکے۔اور اگر دوسری صورت ہے تو شہادتوں اور روایتوں کو جانچنے اور ان کو صحیح یا غلط قرار دینے کے لیے دنیا میں کوئی متفق علیہ معیار نہ ہوگا، بلکہ ہر شخص جس کو چاہے گا سچا اور جس کو چاہے گا جھوٹا کہہ دے گا ، اور اس کی زد سے خود آپ بھی نہ بچ سکیں گے۔
آپ نے اپنے اس قاعدے کے مطابق جن لوگوں کو کذّاب اور واضع حدیث، اور رسول اللہ ﷺ پر بہتان گھڑنے والے اور دہری و نیچری قرار دیا ہے ، وہ امت مسلمہ کے سب سے زیادہ نامور اور ممتاز بزرگوں میں سے ہیں۔ اپنے تقویٰ ، دینداری، صداقت، خدمت دین اور علمی تحقیق و کاوش کے لحاظ سے ان کا درجہ اتنا بلند ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد مسلمانوں کی پوری تاریخ میں شاید ان سے زیادہ بلند پایہ شخصیتیں آپ کو نہ مل سکیں گی۔ یہ مسلمانوں کے وہ ہیرو ہیں جن پر وہ تمام دنیا کی قوموں کے مقابلے میں فخر کرسکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے خلاف زبان کھولنے اور بدترین قسم کے کذب و افتراء کا الزام لگانے اور اس سے بھی بڑھ کر کفر اور دہریت کا فتویٰ صادر کرنے سے پہلے آپ کو کافی غور و خوض اور بحث و تحقیق سے کام لینا چاہیے تھا ، اور ذرا اس پہلو پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہیے تھی کہ کہیں آپ خود تو غلطی پر نہیں ہیں۔ اگر آپ اپنے آپ کو غلطی سے بالکل مبّرا نہیں سمجھتے تو امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبل جیسے لوگوں پر اتنے بڑے الزامات عائد کرتے ہوئے آپ کو خدا سے ڈرنا چاہیے تھا کہ اگر آپ خود غلطی پر ہوئے تو خدا کے ہاں اس گناہ کی کیسی سخت باز پرس ہوگی۔ کیا ایک ــــ ’’داعی الی اللہ‘‘ ــــ کے دل میں اللہ کا اتنا بھی خوف نہ ہونا چاہیے؟
۲- آپ نے حدیثوں کے آدھے آدھے ٹکڑے نقل کرکے ان کو بالکل غلط معنی پہنائے ہیں۔ ذیل میں ان تمام حدیثوں کو نقل کیا جاتا ہے جو اس سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں۔ ان کو ترجمے کے ساتھ پڑھ کر بتائیے کہ ان میں سے دہریت کی تائید نکلتی ہے یا صریح اور شدید تردید۔
بخاری کتاب التفسیر ، تفسیر سورہ جاثیہ، اور کتاب التوحید میں ہے:
۲۷۔ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: یُؤذِیْنِی ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدَّہْرَ وَاَنَا الدَّہْرُ بِیَدِی الْاَمْرُ، اُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ۔
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ اللہ عزّوجل کا ارشاد ہے کہ ابنِ آدم مجھ کو اذیت پہنچاتا ہے کہ زمانے کو برا کہتا ہے۔ زمانہ تو میں ہوں۔ تمام معاملات میرے ہاتھ میں ہیں۔ میں ہی لیل و نہار کو گردش دیتا ہوں۔‘‘
طبری نے یہی حدیث دو طریقوں سے نقل کی ہے۔ مسلم اور احمد بن حنبل نے بھی اس کو لیا ہے۔ ’’یوذینی‘‘ کی تشریح میں قرطبی نے کہا ہے کہ :
انما ہذا من التوسع فی الکلام۔ والمراد ان من وقع ذٰلک منہ تعرض لسخط اللّٰہ، واللّٰہ منزّہ عن ان یصل الیہ الاذیٰ۔
تخریج: حَدَّثَنَا الْحُمَیْدِیُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْیانُ، قَال: حَدَّثَنَا الزُّہْرِیُّ عَنْ سَعِیْدِبْنِ الْمُسَیّب، عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ، یُؤْذِیْنِی ابْنُ اٰدَمَ یَسُبُّ الدَّہْرَوَاَنَا الدَّہْرُ بِیَدِی الْاَمْرُ، اُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ۔(۶۱)
بخاری کتاب الادب باب لاتسبُّوالدہر میں ایک دوسری سند سے یہ روایت آئی ہے:
۲۸۔ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: قَالَ اللّٰہُ، یَسُبُّ بَنُوْآدَمَ الدَّہْرَوَاَنَا الدَّہْرُ بِیَدِی اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ۔
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ بنی آدم زمانے کو بُرا بھلا کہتے ہیں، حالانکہ زمانہ میں ہوں ۔ لیل و نہار میرے قبضۂ قدرت میں ہیں۔‘‘
طبری نے ایک دوسرے طریقے سے یہی حدیث نقل کی ہے۔ مسلم نے بھی تھوڑے سے لفظی تغیر کے ساتھ اس کو نکالا ہے۔
تخریج: حَدَّثَنَا یَحْیٰ بْنُ بُکَیْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ یُونُسَ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ: اَخْبَرَنِیْ اَبُوسَلَمَۃَ قَالَ: قَالَ اَبُوْ ہُرَیْرَۃَ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : قَالَ اللّٰہُ یَسُبُّ بَنُوْآدَمَ الدَّہْرَوَاَنَاالدَّہْرُ بِیَدِی اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ۔ (۶۲)
مسند امام حنبل اور تفسیر ابن جریر طبری میں مختلف طریقوں اور تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ یہ حدیث آئی ہے:
۲۹۔ لَایَقُوْلَنَّ اَحَدُکُمْ یَا خَیْبَۃَ الدَّہْرِ فَاِنِّیْ اَنَا الدَّہْرُ اُقَلِّبُ لَیْلَہٗ وَنَہَارَہٗ وَاِذَا شِئْتُ قَبَضْتُہَا۔
’’تم میں سے کوئی ہائے زمانہ نہ کہے کیونکہ زمانہ تو میں خود ہوں۔ اس کے لیل و نہار کو میں ہی گردش دیتا ہوں اور جب چاہوں گا اس کو روک دوں گا۔‘‘
تخریج: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ ہَمَّامٍ ثنا مَعْمَرٌ عَنْ ہَمَّامٍ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: لَا یَقُوْلُ ابْنُ آدَمَ یَا خَیْبَۃَ الدَّہْرِ، اِنِّیْ اَنَا الدَّہْرُ اُرْسِلُ اللَّیْلَ والنَّہَارَ فَاِذَا شِئْتُ قَبَضْتُہُمَا۔ (۶۳)
حَدَّثََنَا ابْنُ عَبْدِ الْاَعْلیٰ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْرٍ عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّﷺ، اِنَّ اللّٰہ قَالَ: لَایَقُوْلَنَّ اَحَدُکُمْ یَا خَیْبَۃَ الدَّہْرِ، فَاِنِّیْ اَنَا الدَّہْرُ اُقَلِّبُ لَیْلَہٗ وَنَہَارَہٗ وَاِذَا شِئْتُ قَبَضْتُہُمَا۔ (۶۴)
امام احمد بن حنبل نے ایک دوسرے طریقے سے یہ حدیث نقل کی ہے:
۳۰۔ لَا تَسُبُّوا الدَّہْرَ۔فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ قَالَ: اَنَا الدَّہْرُ الْاَیَّامُ وَاللَّیَالِیُّ اُجَدِّ دُہَا وَاُبْلِیْہَا وَاٰتِیْ بِمُلُوکٍ بَعْدَ مُلُوکٍ۔
ترجمہ: زمانے کو گالیاں نہ دو کیوں کہ اللہ فرماتا ہے کہ زمانہ میں خود ہوں ۔ رات اور دن میرے ہی قبضۂ قدرت میں ہیں ان کو میں ہی نیا اور پرانا کرتا ہوں اور بادشاہوں کے بعد بادشاہوں کو لاتا ہوں۔
تخریج: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ، حَدَّثَنِیْ اَبِیْ، ثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ، ثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَیْدِ بْنِ اَسْلَمَ، عَنْ ذَکَوَانَ، عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَال: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : لَا تَسُبُّوا الدَّہْرَفَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ قَالَ اَنَا الدَّہْرُ اَلْاَیَّامُ وَاللَّیَالِیُّ اُجَدِّدُہَا واُبْلِیْہَا وَاٰتِیْ بِمَلُوْکٍ بَعْدَ مُلُوْکٍ۔(۶۵)
مسلم اور طبری میں ہے:
۳۱۔ لَاتَسُبُّوا الدَّہْرَ فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَالدَّہْرُ۔
ترجمہ: زمانے کو برا نہ کہا کرو کیونکہ اللہ ہی زمانہ ہے۔
تخریج: حَدَّثَنِیْ یَعْقُوْبُ، قَالَ: ثَنَابْنُ عُلَیَّۃَ عَن ہِشَامٍ، عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، قَال: لَا تَسُبُّوا الدَّہْرَ فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَالدَّہْرُ۔ (۶۶)
مؤطا امام مالک باب مایکرہ من الکلام میں ہے:
۳۲۔ لَا یَقُوْلَنَّ اَحَدُکُمْ یَا خَیْبَۃَ الدَّہْرِفَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَالدَّہْرُ۔
ترجمہ: تم میں سے کوئی ہائے زمانہ، نہ کہے کیونکہ اللہ ہی زمانہ ہے۔
اب فرمایے کہ دہریت اور نیچریت ان احادیث سے کہاں نکلتی ہے؟ ان کا مفہوم تو یہ ہے کہ تم پر جو مصائب و نوائب آتے ہیں ان کو تم اپنی جہالت سے زمانے کی طرف منسوب کرتے ہو اور کہا کرتے ہو کہ زمانے نے ہم کو مٹادیا۔گردش لیل و نہار نے ہم کو پیس ڈالا۔ حالانکہ تمام افعال کا فاعل حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ لیل و نہار جن کی گردش کا نام زمانہ ہے اسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ لہٰذا تم جو زمانے کو گالیاں دیتے ہو تو دراصل وہ گالیاں خدا کی طرف راجع ہوتی ہیں۔ کیوںکہ وہ زمانہ جس کو تم مصیبت اور راحت لانے والا سمجھتے ہو، وہ اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ہے اور وہ زمانہ جو گردشِ لیل و نہار سے عبارت ہے، حقیقت میں کسی فعل پر بھی قادر نہیں۔ کیا یہی بات ہے جس کو آپ دہریت اور نیچریت سے تعبیر فرمارہے ہیں؟ کیا اسی سرمایہ فہم و تدبر کے ساتھ جناب کو یہ جرأت ہوئی کہ اسلام کے جلیل القدر ائمہ پر حملہ آور ہوں۔
ذرا غور کیجیے تو معلوم ہوجائے گا کہ ان احادیث میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے وہ نبی ﷺ کی زبان مبارک سے ضرور اداہوا ہوگا اور مختلف مواقع پر مختلف طریقوں سے ہوا ہوگا۔ کیونکہ مصیبت کے وقت زمانے کو کوسنا اور برا بھلا کہنا اب بھی عوام کی عادت ہے اور عہد رسالت میں اہل عرب کی بھی یہی عادت تھی۔ چنانچہ خود قرآن مجید شہادت دیتا ہے کہ عرب کے جہلا زمانے کو ہلاک اور فنا کرنے والا سمجھتے تھے۔ پس تکلیفوں کے وقت عام دستور کے مطابق مسلمانوں کی زبان سے بھی زمانے کی شکایت ضرور نکل جاتی ہوگی، اور آں حضرت ﷺ ان کو اس سے ضرور منع فرماتے ہوں گے۔ اس میں کون سی ایسی انوکھی بات ہے جو بالکل خلافِ عقل اور بعید از امکان ہو اور اس کی بنا پر ان روایات کو غلط اور ان کے راویوں کو جھوٹا قرار دینا ضروری ہوجائے؟
۳- قرآن مجید کی جو آیت آپ نے نقل کی ہے وہ ان احادیث کے خلاف نہیں بلکہ ان کی مؤید ہے۔ اس آیت میں کفارِ عرب کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ’’ہماری جو کچھ بھی زندگی ہے اسی دنیا کی زندگی ہے۔ ہم مرتے اور جیتے ہیں اور زمانے کے سوا ہم کو ہلاک کرنے والا نہیں ہے۔‘‘ اس قول کو نقل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ۔
’’ان کو اس کا علم نہیں ہے بلکہ یہ صرف ان کا گمان ہے۔‘‘
قُلِ اللّٰہُ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیٰمۃِ۔
’’یعنی اے محمدؐ! ان سے کہہ دو کہ تمہارا مارنے اور جلانے والا جس کو تم جہالت سے دہر کہہ رہے ہو وہ اللہ ہی ہے ۔ پھر وہی تم کو قیامت کے روز جمع کرے گا۔‘‘ اوپر احادیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے کیا وہ یہی مضمون نہیں ہے؟ ‘‘
(رسائل و مسائل )
تخریج: حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ ، عَنْ اَبِی الذِّنَادِ، عَنِ الْاَعْرَجِ، عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ: لَا یَقُلْ اَحَدُکُمْ یَا خَیْبَۃَ الدَّہْرِ! فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَالدَّہْرُ۔ (۶۷)

کیا اسلامی معتقدات کے اقرار کرنے والے کو ملّت سے خارج کیا جاسکتا ہے؟

۳۳۔ امام شافعی اور احمد نے اپنی مسندوں میں اور امام مالک نے مؤطا میں یہ روایت نقل کی ہے کہ انصار میں سے ایک صاحب ایک مرتبہ نبی ﷺ سے راز کی بات کررہے تھے۔ اتنے میں حضوؐر نے بآواز بلند فرمایا: اَلَیْسَ یَشْہَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ (کیا وہ شخص لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی شہادت نہیں دیتا؟) انصاری نے عرض کیا بَلیٰ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَلَا شَہَادَۃَ لَہٗ (جی ہاں، وہ اقرار تو کرتا ہے مگر اس کے اقرار کا کچھ اعتبار نہیں)حضوؐر نے پھر فرمایا اَلَیْسَ یُصَلِّیْ؟ (کیا وہ نماز نہیں پڑھتا) انھوں نے عرض کیا بَلیٰ وَلَا صَلوٰۃَ لَہٗ (جی ہاں پڑھتا ہے مگر اس کی نماز کا کوئی اعتبار نہیں) اس پر حضوؐر نے فرمایا اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ نَہَانِی اللّٰہُ عَنْ قَتْلِہِمْ (ایسے لوگوں کو قتل کرنے سے اللہ تعالیٰ نے مجھے منع فرمایا ہے)۔
(تفہیمات حصہ دوم : فتنۂ تکفیر)
تخریج(۱): مَالِکٌعَنِ ابْنِ شِہَابِ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَزِیْدَ اللَّیْثِیِّ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الْخِیَارِ اَنَّہٗ قَالَ:بَیْنَمَارَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ جَالِسٌ بَیْنَ ظَہْرَانِی النَّاسِ اِذْجَآئَ ہٗ رَجُلٌ فَسَارَّہٗ فَلَمْ نَدْرِ مَاسَارَّہٗ بِہٖ حَتّٰی جَہَرَرَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فَاِذَا ہُوَ یَسْتَاْذِنُہٗ فِیْ قَتْلِ رَجُلٍ مِنَ الْمُنَافِقِیْنَ فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ حِیْنَ جَہَرَ، اَلَیْسَ یَشْہَدُ اَنْ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ؟ قَالَ الرَّجُلُ: بَلیٰ! وَلَاشَہَادَۃَ لَہٗ، قَالَ: اَلَیْسَ یُصَلِّیْ؟ قَالَ بلیٰ! وَلَا صَلوٰۃَ لَہٗ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ نَہَانِی اللّٰہُ عَنْہُمْ۔ (۶۸)
(۲) حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ ، حَدَّثَنِیْ اَبِیْ، ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، انا ابْنُ جُرَیْجٍ، اَخْبَرَنِی ابْنُ شِہَابٍ، عَنْ عَطَائِ ابْنِ یَزِیْدَ اللَّیْثِیِّ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الْخِیَارِ، اَنَّ رَجُلًا مِنَ الْاَنْصَارِ حَدَّثَہٗ۔ اَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ وَہُوَ فِیْ مَجْلِسٍ فَسَارَّہٗ یَسْتَاْذِنُہٗ فِی قَتْلِ رَجُلٍ مِنَ الْمُنَافِقِیْنَ۔ فَجَہَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ، فَقَالَ: اَلَیْسَ یَشْہَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ؟ قَالَ الْاَنْصَارِیُّ ، بَلیٰ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ، وَلَاشَہَادَۃَ لَہٗ قَالَ: اَلَیْسَ یُصَلِّی؟ قَالَ: بَلیٰ یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ! وَلَا صَلَاۃَ لَہٗ ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ نَہَانِی اللّٰہُ عَنْہُمْ۔ (۶۹)

کسی مسلمان کو کافر قرار دینا کیسا ہے؟

۳۴۔ اَیُّمَارَجُلٍ قَالَ لِاَخِیْہِ یَا کَافِرُ فَقَدَ بَآئَ بِہَا اَحَدُہُمَا (بخاری)
ترجمہ: جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کو کافر کہے گا تو یہ قول دونوں میں سے کسی ایک پر ضرور پڑے گا۔
(تفہیمات حصہ دوم :فتنۂ تکفیر)
تخریج:(۱) حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ: اَیُّمَارَجُلٍ قَالَ لِاَخِیْہِ کَافِرٌ فَقَدْ بَائَ بِہَا اَحَدُ ہُمَا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
اِذَا قَالَ الرَّجُلُ یَاکَافِرُ بَائَ اَحَدُہُمَا۔ (۷۰)
(۲) حَدَّثَنَا عُثْمانُ بْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ، ثَنَا جَرِیْرٌ عَنْ فُضَیْلِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: اَیُّمَارَجُلٍ مُسْلِمٍ اَکْفَرَ رَجُلًا مُسْلِمًا فَاِنْ کَانَ کَافِرًا وَاِلَّا کَانَ ہُوَالْکَافِرُ۔ (۷۱)
ترجمہ: جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے گا اگر وہ کافر ہے تب تو ٹھیک ورنہ وہ خود کافر ہوگا۔

تکفیر و تفسیقِ مسلم

۳۵۔ لَا یَرْمِیْ رَجُلٌ رَجُلًا بِالْفُسُوْقِ وَلَا یَرْمِیْہِ بِالْکُفْرِ الَّا ارْتَدَّتْ عَلَیْہِ اِنْ لَّمْ یَکُنْ صَاحِبُہٗ کَذٰلِکَ۔ (بخاری)
ترجمہ: (حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا کہ) ’’جب کبھی ایک شخص دوسرے شخص پر فسق یا کفر کی تہمت لگائے گا تو وہ تہمت اسی پر پلٹ آئے گی اگر وہ شخص جس پر تہمت لگائی گئی ہے درحقیقت کافر یا فاسق نہ ہو۔
(تفہیمات حصہ دوم ص :۱۸۱-۱۸۲ طبع نہم)
تخریج: حَدَّثَنَا اَبُوْ مَعْمَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ عَنِ الْحُسَیْنِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ قَالَ: حَدَّثَنِیْ یَحْیٰ بْنُ یَعْمُرَ اَنَّ اَبَا الْاَسْوَدِ الدُّؤَلِیَّ حَدَّثَہٗ عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ اَنَّہٗ سَمِعَ النَّبِیَّ ﷺ : یَقُوْلُ: لَایَرْمِیْ رَجُلٌ رَجُلًا بِالْفُسُوْقِ وَلَا یَرْ مِیْہِ بِالْکُفْرِ اِلَّا ارْتَدَّتْ عَلَیْہِ اِنْ لَمْ یَکُنْ صَاحِبُہٗ کَذٰلِکَ۔ (۷۲)
۳۶۔ مَنْ دَعَا رَجُلًا بِالْکُفْرِ اَوْقَالَ عَدُوَّاللّٰہِ وَلَیْسَ کَذٰلِکَ اِلَّا حَارَّعَلَیْہِ۔ (مسلم)
ترجمہ: جس شخص نے کسی کو کافر یا دشمن خدا کہہ دیا درآں حالیکہ وہ شخص ایسا نہ تھا تو یہ قول خود قائل پر ضرور پلٹ جائے گا۔
(تفہیمات حصہ دوم : فتنۂ تکفیر)
تخریج: حَدَّثَنِیْ زُہَیْرُبْنُ حَرْبٍ، قَالَ: نَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، قَالَ: نَا اَبِیْ، قَالَ: نَا حَسَنُ الْمُسْلِمُ عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ، عَنْ یَحْیٰ بْنِ یَعْمُرَاَنَّ اَبَاالْاَسْوَدِ حَدَّثَہٗ، عَنْ اَبِیْ ذَرٍّاَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ:’’لَیْسَ مِنْ رَجُلٍ اِدَّعیٰ لِغَیْرِ اَبِیْہِ وَہُوَ یَعْلَمُہٗ اِلَّا کَفَرَ۔ وَمَنِ ادَّعیٰ مَالَیْسَ لَہٗ فَلَیْسَ مِنَّا وَلَیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ۔ وَمَنْ دَعَارَجُلًا بِالْکُفْرِ اَوْقَالَ عَدُوَّاللّٰہِ وَلَیْسَ کَذٰلِکَ اِلَّا حَارَّ عَلَیْہِ۔ (۷۳)
ترجمہ: حضرت ابوذرؓ (غفاری) سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے سنا ہے کہ ’’جو شخص جانتے بوجھتے اپنا نسب اپنے (حقیقی) باپ کو چھوڑ کر دوسرے شخص کی طرف منسوب کرتا ہے وہ کافر ہوا۔ اور جو شخص ایسی چیز کا بے بنیاد دعویٰ کرتا ہے جو اس کی نہیں ہے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے اور اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ آگ میں بنالے اور جس شخص نے کسی کو کافر یا دشمن خدا کہا درآںحالیکہ وہ شخص ایسا نہ تھا تو یہ قول خود قائل پر ضرور پلٹ آئے گا۔‘‘
۳۷۔ جو شخص کسی مسلمان کو ناحق کافر کہے گا، اس کا قول خود اسی پر پلٹ آئے گا۔
تشریح: اللہ نے جو شریعت نبی ﷺ کے ذریعے سے ہم کو بھیجی ہے اس کو خدا کی شریعت ماننے والے اور اسے واجب التعمیل سمجھنے والے سب کے سب مسلمان ہیں۔ اب اگر اس شریعت کے احکام کو ایک شخص کسی طرح سمجھتا ہے اور دوسرا کسی اور طرح، اور دونوں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس پر عمل کرتے ہیں، تو چاہے ان کے عمل میں کتنا ہی فرق ہو، ان میں سے کوئی بھی نوکری سے خارج نہ ہوگا اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک جس طریقہ پر چل رہا ہے یہی سمجھ کر تو چل رہا ہے کہ یہ آقا کا حکم ہے۔ پھر ایک نوکر کو یہ کہنے کا کیا حق ہے کہ میں تو نوکر ہوں اور فلاں شخص نوکر نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ بس وہ یہی کہہ سکتا ہے کہ میں نے آقا کے حکم کا صحیح مطلب سمجھا اور اس نے صحیح نہیں سمجھا۔ مگر وہ اس کو نوکری سے خارج کردینے کا مجاز کیسے ہوگیا؟ جو شخص ایسی جرأت کرتا ہے وہ گویا خود آقا کا منصب اختیار کرتا ہے۔ وہ گویا یہ کہتا ہے کہ تو جس طرح آقا کے حکم کو ماننے پر مجبور ہے اسی طرح میری سمجھ کو بھی ماننے پر مجبور ہے۔ اگر تو میری سمجھ کو نہ مانے گا تو میں اپنے اختیار سے تجھ کو آقا کی نوکری سے خارج کردوں گا۔ غور کرو یہ کتنی بڑی بات ہے۔ اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’جو شخص کسی مسلمان کو ناحق کافر کہے گا اس کا قول خود اسی پر پلٹ جائے گا۔‘‘ کیونکہ مسلمان کو تو خدا نے اپنے حکم کا غلام بنایا ہے، مگر یہ شخص کہتا ہے کہ نہیں ، تم میری سمجھ اور میری رائے کی بھی غلامی کرو۔ یعنی صرف خدا ہی تمہارا خدا نہیں ہے، بلکہ میں بھی چھوٹا خدا ہوں، اور میرا حکم نہ مانو گے تو میں اپنے اختیار سے تم کو خدا کی بندگی سے خارج کردوں گا، چاہے خدا خارج کرے یا نہ کرے۔ ایسی بڑی بات جو شخص کہتا ہے اس کے کہنے سے چاہے دوسرا مسلمان کافر ہو یا نہ ہو مگر وہ خود تو اپنے آپ کو کفر کے خطرے میں ڈال ہی دیتا ہے۔ (خطبات ص ۱۲۴-۱۲۵)
تخریج: حَدَّثَنِیْ اَبُو بَکْرِبْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ، قَالَ: مُحَمَّدُبْنُ بَشِیْرٍوَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نُمَیْرٍ، قَالَا: ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ، عَنْ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، اَنَّ النَّبِیُّ ﷺ قَالَ: اِذَا اَکْفَرَ الرَّجُلُ اَخَاہُ فَقَدْ بَائَ بِہَا اَحَدُ ہُمَا۔ (۷۴)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اگر ایک شخص اپنے بھائی کو کافر کہے گا تو دونوں میں سے ایک پر یہ قول ضرور پلٹ آئے گا۔‘‘
(۲) حَدَّثَنَا یَحْیٰ بْنُ یَحْیٰ التَّمِیْمِیُّ وَیَحْیٰ بْنُ اَیُّوْبَ وَقُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیْدٍ وَعَلِیُّ بْنُ حُجْرٍ جَمِیْعًا عَنْ اِسْمَاعِیْلَ ابْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ یَحْیٰ بْنُ یَحْیٰ: اَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ، اَنَّہٗ سَمِعَ ابْنُ عُمَرَ یَقُوْلُ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: اَیُّمَاامْرِی ئٍ قَالَ لِاَخِیْہِ کَافِرٌ، فَقَدْ بَائَ بِہَا اَحَدُہُمَا اِنْ کَانَ کَمَا قَالَ وَاِلَّا رَجَعَتْ عَلَیْہِ۔ (۷۵)
ترجمہ: حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جس شخص نے اپنے بھائی کو کافر کہا تو دونوں میں سے ایک ضرور کافر ہوجائے گا اگر وہ کافر ہے تو ٹھیک ورنہ وہ قول لازماً پلٹ آئے گا۔‘‘
۳۸۔ مَنْ لَعَنَ مُؤْمِنًا فَہُوَ کَقَتْلِہٖ وَمَنْ قَذَفَ مُؤْمِنًا بِکُفْرٍ فَہُوَ کَقَتْلِہٖ۔ (بخاری)
ترجمہ: جس نے کسی مومن پر لعنت کی اس نے گویا اسے قتل کردیا اور جس نے کسی مومن پر کفر کی تہمت لگائی اس نے گویا اسے قتل کردیا۔
تشریح: یہ کتنی بڑی زیادتی کی بات ہے کہ جو مسلمان خدا اور رسول کے بتائے ہوئے ایمانیات پر اعتقاد کا اقرار کرتا ہو اور مذکورہ بالا تصریحات کے مطابق اسلام کی سرحدوں کے اندر ہو، اسے کوئی شخص خارج از ملت قرار دے بیٹھے یہ جسارت بندوں کے مقابلے میں نہیں ، خدا کے مقابلہ میں ہے۔ درحقیقت یہ خدا ہی سے معارضہ ہے، کہ جس کے حق میں خدا کا قانون مسلمان ہونے کا فیصلہ کررہا ہے، اس کے حق میں ایک بندۂ خدا کفر کا فیصلہ صادر کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے نہایت سختی کے ساتھ تکفیر و تفسیق سے منع فرمایا ہے، اور یہاں تک فرمادیا ہے کہ جو شخص کسی کو کافر کہے گا درآںحالیکہ وہ حقیقت میں کافر نہ ہو تو وہ کفر کا فتویٰ خود تکفیر کرنے والے کی طرف پلٹ آئے گا۔
(ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ) اس طرح کی تکفیر و تفسیق محض ایک فردہی کے حق پر دست درازی نہیں ہے بلکہ ایک اجتماعی جرم بھی ہے۔ یہ پوری اسلامی سوسائٹی کے خلاف ایک زیادتی ہے اور اس سے مسلمانوں کو بحیثیت مجموعی سخت نقصان پہنچتا ہے۔ اس کی وجہ تھوڑے غور سے بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے۔
اسلامی معاشرے اور غیر اسلامی معاشروں کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ غیر اسلامی معاشرے رنگ، نسل، زبان اور وطن کے رشتوں پر قائم ہوئے ہیں، اور اس کے برعکس اسلامی معاشرے کا قیام صرف دین کے رشتے پر ہوا ہے۔ غیراسلامی معاشروں میں عقائد و افکار کے اختلاف سے کوئی رخنہ نہیں پڑتا، اس لیے کہ خیالات اور اعتقادات کا اختلاف ان کے افراد کو اس رشتے سے خارج نہیں کرتا جو نسل یا وطن یا زبان یا رنگ کی وحدت سے قائم ہوتا ہے۔ باطن میں خواہ زمین و آسمان کا تفاوت ہوجائے، لیکن خون کا تعلق منقطع نہیں ہوسکتا، نہ وطن کا رشتہ کٹ سکتا ہے، نہ زبان کا رابطہ منفک ہوسکتا ہے، نہ رنگ کی وحدت میں کوئی فرق آسکتا ہے۔ اس لیے اختلاف عقائد سے غیر مسلم معاشروں کو کسی قسم کا خطرہ نہیں۔ لیکن اسلام میں جو چیز مختلف نسلوں ، مختلف رنگوں ، مختلف زبانوں اور مختلف ملکوں کے افراد کو جوڑ کر ایک قوم بناتی ہے وہ عقیدے کی وحدت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ یہاں عقیدہ ہی سب کچھ ہے۔ نسل ، رنگ، زبان، وطن کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا جو شخص دین اور اعتقاد کے رشتے کو کاٹتا ہے وہ دراصل اللہ کی اس رسی پر قینچی چلاتا ہے جس نے ایک خدا کی پرستش کرنے والوں اور ایک رسول کے ماننے والوں اور ایک کتاب پر ایمان لانے والوں کو ایک دوسرے سے وابستہ کیا ہے۔ اسلام میں کسی شخص یا گروہ کو کافر کہہ دینے کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ اس کے اعتقاد اور نیت پر حملہ کیا گیا بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلامی معاشرے اور اس کے ایک فرد یا چند افراد کے درمیان برادری، محبت، معاشرت، معاملت اور تعاون باہمی کے جتنے رشتے تھے سب کاٹ دیے گئے اور امت مسلمہ کے جسم سے اس کے ایک عضو یا متعدد اعضاء کو چھانٹ کر پھینک دیا گیا۔
یہ فعل اگر حکم خدا اور رسول کے مطابق ہو تو یقینا حق ہے۔ اس صورت میں سڑے ہوئے عضو کو کاٹ کر پھینک دینا ہی اسلام کے ساتھ سچی خیر خواہی ہے۔ لیکن اگر قانون الٰہی کی رو سے عضو سڑا ہوا نہ ہو، اور محض ظلماً اس کو کاٹ ڈالا جائے تو یہ ظلم خود اس عضو سے بڑھ کر خود اس جسم پر ہوگا جس سے وہ کاٹا گیا ہے۔ (تفہیمات حصہ دوم : فتنۂ تکفیر)
تخریج: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُبْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: اَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمُبَارَکِ، عَنْ یَحْیٰ بْنِ اَبِیْ کَثِیْرٍ، عَنْ اَبِیْ قِلَابَۃ اَنَّ ثَابِتَ بْنَ الضَّحَّاکِ وَکَانَ مِنْ اَصْحَابِ الشَّجَرَۃِ، حَدَّثَہٗ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ: مَنْ حَلَفَ عَلیٰ مِلَّۃِ غَیْرِ الْاِسْلَامِ فَہُوَ کَمَا قَالَ وَلَیْسَ عَلَی ابْنِ اٰدَمَ نَذْرٌ فِیْمَا لَا یَمْلِکُ، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَہٗ بِشَیْ ئٍ فِی الدُّنْیَا عُذِّبَ بِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ لَعَنَ مُؤْمِنًا فَہُوَکَقَتْلِہٖ، ومَنْ قَذَفَ مُؤْمِنًا بِکُفْرٍ فَہُوَ کَقَتْلِہٖ۔ (۷۶)
ترجمہ: حضرت ابوقلابہ سے مروی ہے کہ ثابت بن قیس نے (جو بیعت رضوان میں شریک تھے) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اسلام کے علاوہ کسی اور ملّت کی قسم کھائی تو وہ اپنی قسم کے مطابق ہوگا، اور کسی ابن آدم پر ایسی بات کی نذر پوری کرنا ضروری نہیںجو اس کے اختیار میں نہ ہو، اور دنیا میں جس چیز کے ساتھ کسی نے خود کشی کی ہوگی، قیامت کے روز اسے اسی سے عذاب دیا جائے گا۔ اور جس نے کسی مومن پر لعنت بھیجی اس نے گویا اسے قتل کردیا اور جس نے کسی مومن پر کفر کی تہمت لگائی اس نے گویا اسے قتل کردیا۔
(۲) حَدَّثَنَا اَحْمَدُبْنُ مَنِیْعٍ، نا اِسْحَاقُ ابْنُ یُوسُفَ الْاَزْرَقُ، عَنْ ہِشَامِ الدَّسْتَوَائِیُّ، عَنْ یَحْیٰ ابْنِ اَبِیْ کَثِیْرٍ، عَنْ اَبِی قِلَابَۃَ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاکِ، عَنِ النَّبِیِّ ﷺ، قَالَ: لَیْسَ عَلَی الْعَبدِ نَذْرٌ فِیْمَا لا یَمْلِکُ ولَا عِنُ المُؤْمِنِ کَقَاتِلِہٖ وَمَنْ قَذَفَ مُؤْمِنًابِکُفْرٍ فَہُوَ کَقَاتِلِہٖ وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَہٗ بِشَیْئٍ عَذَّبَہُ اللّٰہُ بِمَا قَتَلَ بِہٖ نَفْسَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ (۷۷)
وفی الباب عن ابی ذر وابن عمر ہذا حدیث حسن صحیح۔
ترجمہ: نبی اکرمؐ نے فرمایا ،کسی بندے پر اس نذر کا پورا کرنا ضروری نہیں ہے جو اس کے دائرۂ اختیار میں نہ ہو اور مومن پر لعنت کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس کا قاتل ہو، اور جس نے کسی مومن پر کفر کی تہمت لگائی وہ گویا اس کا قاتل ہے۔ اور جس نے اپنے آپ کو قتل کیا، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے اسی آلے سے عذاب دے گا جس سے اس نے خودکشی کی ہوگی۔
۳۹۔ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور مسلمان سے لڑنا کفر ہے۔
تشریح: (ان مختلف احادیث میں) اس لیے ارشادفرمایا گیا ہے کہ مسلمانوں کی قوت اور جمعیت کا قیام رابطۂ دینی کے سوا کسی دوسری چیز سے نہیں ہے۔ اگر مسلمانوں میں اس رابطے کا احترام نہ ہو اور وہ بات بات پر اس کو کاٹنے لگیں تو امت کا سارا شیرازہ بکھر کر رہ جائے، اور اس قوم کی کوئی اجتماعی قوت باقی ہی نہ رہے جو باطل پرستوں کے مقابلے میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے اور خیر و تقویٰ کی طرف دعوت دینے کے لیے قائم کی گئی ہے۔ ہمارا یہ منشا نہیں کہ تکفیر و تفسیق سے مطلقاً پرہیز کیا جائے حتّٰی کہ اگر کوئی شخص شریح کفریات بکنے اور لکھنے لگے تب بھی اس کو مسلمان کہا اور سمجھا جاتا رہے۔ یہ منشا نہ کتاب و سنت کی مندرجہ بالا نصوص کا ہے نہ ہماری پچھلی گزارشات کا۔ اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ کسی مسلمان کو اسلام سے خارج کرنا جس قدر نقصاندہ ہے، کسی کافر کو اسلامی جمعیت میں شامل کرنا یا رکھنا اس سے کچھ کم نقصان دہ نہیں ہے۔ لیکن جس بات پر ہم زور دینا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ مسلمان کی تکفیر کے معاملے میں انتہادرجہ کی احتیاط ملحوظ رکھنی چاہیے۔ اتنی ہی احتیاط جتنی ایک شخص کے قتل کا فتویٰ صادر کرنے میں ملحوظ رکھی جاتی ہے، ہر شخص جو مسلمان ہے اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا قائل ہے اس کے حق میں یہی گمان ہونا چاہیے کہ اس کے دل میں ایمان ہے۔ اگر وہ کوئی ایسی بات کرتا ہے جس میں کفر کا شائبہ پایا جاتا ہو تو اس کے حق میں یہ امید رکھنی چاہیے کہ اس نے کفر کے ارادے سے ایسی بات نہ کی ہوگی بلکہ محض جہل اور ناسمجھی سے کی ہوگی اس لیے اس کی بات سنتے ہی کفر کا فتوی نہ جڑدینا چاہیے بلکہ عمدہ طریقے سے اس کو سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر وہ پھر بھی نہ مانے اور اپنی بات پر اصرار کرے تو اس بات کو جس پر وہ اصرار کررہا ہے کتاب اللہ پر پیش کرکے دیکھا جائے کہ آیا وہ کفر و ایمان کے درمیان فرق کرنے والی صریح نصوص کے خلاف ہے یا نہیں؟ اور اس شخص کے زیر بحث قول یا فعل میں کسی تاویل کی گنجائش ہے یا نہیں۔ اگر صریح نص کے خلاف نہ ہو اور تاویل کی گنجائش ہو تو کفر کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ زیادہ سے زیادہ ایسے شخص کو گمراہ کہا جاسکتا ہے، اور وہ بھی اس خاص مسئلہ میں نہ کہ بالکلیہ۔ البتہ اگر اس کا اعتقاد نص صریح کے خلاف ہو، اور وہ شخص یہ معلوم کرنے کے بعد بھی کہ اس کا اعتقاد کتاب اللہ کی تعلیم کے خلاف ہے اپنی بات پر قائم رہے اور اس کے قول کی کوئی مناسب تاویل بھی نہ کی جاسکتی ہو، تو ایسی صورت میں مسئلہ کی نوعیت کا لحاظ کرتے ہوئے فسق یا کفر کا حکم لگایا جاسکتا ہے لیکن اس پر بھی مدارج و مراتب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ تمام جرم اور تمام مجرم یکساں نہیں ہیں۔ ان میں بھی فرق مراتب ہوتا ہے اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس فرق کو ملحوظ رکھ کر سزا تجویز کی جائے سب کو ایک ہی لکڑی سے ہانکنا یقینا بے انصافی ہے۔ (تفہیمات حصہ دوم :فتنۂ تکفیر)
کفر و اسلام کا ایک پہلوباطنی ہے اور ایک ظاہری۔ باطن کا تعلق انسان کے دل اور نیت سے ہے، اور ظاہر کا تعلق اس کی زبان اور عمل سے ۔ ہم ایک حد تک آدمی کے قول و فعل سے بھی اس کی قلبی حالت کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ مگر یہ محض قیاس و گمان ہوگا، علم و یقین نہ ہوگا۔ اور علم و یقین کے بغیر صرف قیاس و گمان کی بنا پر کسی کے ایمان یا کفر کا فیصلہ کرڈالنا یقینا ظلم ہوگا۔ اگرچہ ایسا فیصلہ نفس الامر کے مطابق ہی کیوں نہ ہو۔ لہٰذا حق یہی ہے کہ ایمان کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا جائے،کیونکہ اس کے سوا کوئی نہیں جان سکتا کہ کس کے دل میں ایمان ہے اور کس کے دل میں ایمان نہیں ہے۔ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَہُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ اہْتَدیٰ (النجم : ۳۰) ہماری نظر صرف ظاہر تک جاسکتی ہے،اور ظاہری اقوال و افعال کو دیکھ کر ہم رائے قائم کرسکتے ہیں کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ جو شخص ظاہر میں جہالت و نادانی سے کفریات بک رہا ہو، باطن میں وہ ایک سچا اور پکا مومن ہو اور اس کے دل میں خدا اور رسول کی محبت بہت سے واعظوں اور مرشدوں سے بڑھ کر ہو۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ جو شخص زور و شور کے ساتھ اپنے ایمان کا اظہار کرتا ہو اور بظاہر احکام شریعت کی پابندی میں کوئی کمی بھی نہ کرتا ہو، درحقیقت وہ محض ایک ریاکارمنافق ہو۔ لہٰذا ظاہر کی بنا پر کسی کے کفر کا فیصلہ کرتے ہوئے انسان کو خدا کی پکڑ سے بہت ڈرنا چاہیے۔ ایسا فیصلہ صادر کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچ لینا چاہیے۔ کہ ہم کیسی ذمہ داری اپنے سر لے رہے ہیں اور کیا ایسے معقول وجوہ موجود ہیں جن کی بنا پر اس ذمہ داری سے بچنے کی بہ نسبت اس کا بار اٹھالینا ہمارے لیے زیادہ بہتر ہے۔
یہ ظاہر ہے کہ انسانوں کی طبیعتیں، استعدادیں اور عقلی صلاحیتیں مختلف ہیں۔ بعض لوگ نہایت سادہ لوح ہوتے ہیں۔ ایک سیدھی سادی بات کو اجمالی طور پر مان لیتے ہیں۔ تفصیلات اور باریکیوں کو سمجھنے کی نہ ان میں قابلیت ہوتی ہے اور نہ وہ ان کے طالب ہوتے ہیں۔ برعکس اس کے بعض لوگوں میں غور و فکر کا مادہ ہوتا ہے۔ اجمال سے ان کی تشفی نہیں ہوتی۔ تفصیلات ڈھونڈتے ہیں تو نہیں ملتیں تو تخیل سے پیدا کرلیتے ہیں۔ پھر غور و فکر کرنے والوں کے رجحانات اور مدارجِ عقلی بھی بے شمار ہیں۔ کسی کا میلان شک کی طرف ہوتا ہے اور کسی کا یقین کی طرف ۔ کوئی مادیات و محسوسات پر فریفتہ ہے اور کوئی معقولات پر۔ کوئی بات کی تہ تک پہنچ جاتا ہے اور کوئی بیچ کی راہوں میں بھٹک کر رہ جاتا ہے۔ کوئی حقیقت پسند (Realist) ہوتا ہے اور کسی کو وہم و خیال کی وادیوں میں گھومنا ہی اچھا معلوم ہوتا ہے۔ غرض نظرو فکر کے بہت سے راستے ہیں جن کو انسانی اذہان اپنی اپنی افتاد طبع کے مطابق اختیار کرتے ہیں۔ کسی انسان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان کی طبعی افتاد اور فطری رجحانات اور عقلی استعداد کو بدل دے اور کسی انسان کو یہ مطالبہ کرنے کا حق بھی نہیں ہے کہ اس کی اپنی افتاد طبع اور اس کا اپنا مذاق و رجحان ہی سب انسانوں کے لیے معیار قرار پائے جس کے مطابق ڈھل جانا سب پر فرض ہو۔
جس خدا نے اسلام کو تمام نوع انسانی کی ہدایت کے لیے نازل کیا ہے اس سے بڑھ کر انسانی طبائع کے ان اختلافات کو جاننے والا، اور ان کی رعایت ملحوظ رکھنے والا اور کون ہوسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے دین کی بنیاد ایسے سادہ اور مجمل عقائد پر رکھی ہے جنھیں ایک کم عقل دہقان سے لے کر ایک نکتہ سنج فلسفی اور ایک حقیقت طلب سائنٹسٹ تک سب قبول کرسکتے ہیں۔ ان عقائد کی یہ سادگی اور ان کا اجمال ہی وہ چیز ہے جس نے ان کو ایک عالم گیر انسانی مذہب کے لیے بنیادی اصول بننے کے قابل بنایا ہے۔ جو شخص غوروفکر کی صلاحیت نہیں رکھتا اس کے لیے صرف اتنا ہی مان لینا کافی ہے کہ خدا ایک ہے، محمد ﷺ اس کے رسول ہیں، قرآن اس کی کتاب ہے، اور قیامت کے روز ہمیں اس کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ اور جو شخص غور وفکر کی قوت رکھتا ہے، اس کے لیے اسی اجمال میں اتنی وسعتیں ہیں کہ وہ اپنی استعداد اور اپنے رجحان کے مطابق جستجوئے حقیقت کے لیے بے شمار راہوں پر جاسکتاہے، جتنی دور چاہے جاسکتا ہے۔ ساری عمر اسی جستجو میں کھپاسکتا ہے، بغیر اس کے کہ کسی مقام پر پہنچ کر وہ یہ کہہ سکے کہ جو کچھ جانتا تھا وہ میں جان چکا ہوں۔
پھر ایک سوچنے والا آدمی اپنی فکر و تلاش کے لیے کوئی راہ اختیار کرے اور خواہ کتنی ہی دور تک چلاجائے، بہر حال جب تک وہ ان حدود کے اندر چل رہا ہے جو کلام اللہ نے اسلام اور کفر کے درمیان کھینچ دی ہیں، وہ دائرۂ ایمان سے خارج نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اگرچہ اس کے ذہن کی جولانیوں سے ہم کو کتنا ہی اختلاف ہو۔
مثال کے طور پر ایمان باللہ کے مسئلے میں ملاک امر صرف یہ ہے کہ کائنات کا بنانے اور چلانے والا ایک خدا ہے اور وہی اس لائق ہے کہ اس کی بندگی کی جائے۔ اس بات کو ایک سیدھا سادھا کسان جس طور پر مان سکتا ہے ممکن نہیں ہے کہ ایک غور و فکر کرنے والا آدمی بھی بس اسی طرح اور اتنا ہی مجمل طور پر مانے ۔ پھر ایک خاص طرح کا رجحان طبع رکھنے والاآدمی اس میں تدبر کرکے خدا کی ہستی اور اس کی صفات اور کائنات کے ساتھ اس کے تعلق کی کیفیت کے متعلق جو تفصیلی تصورات اپنے ذہن میں جمائے گا، ممکن نہیں ہے کہ ان امور کے متعلق ایک دوسرے رجحان والے آدمی کے تصورات بھی بالکل اس کے مطابق ہی ہوں۔ لیکن جب تک یہ سب اصل بنیادی عقیدے پر ایمان رکھتے ہیں، سب کے سب مسلمان ہیں، خواہ تفصیلات میں ان کے تفکرات باہم کتنے ہی مختلف ہوں اور ان میں سے بعض نے بعض گوشوں میں کیسی ہی سخت ٹھوکریں کھائی ہوں۔
اسی طرح وحی ، رسالت، ملائکہ اور آخرت کے متعلق بھی اسلامی عقائد میں چند امور اصولی ہیں جن کو دین کی ضروریات (Essentials) کہنا چاہیے، اور باقی تفصیلات ہیں جن میں سے بعض کے لیے انسان کو کلام اللہ میں صریح یا قابل تاویل اشارات مل جاتے ہیں اور بعض کو انسان خود اپنے رجحان طبع کے مطابق اپنے ذہن سے پیدا کرلیتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ان میں سے اکثر تفصیلات کا حکم لگانے میں کسی انسان کی عقل غلطی کرلے اور اس کے تصورات حقیقت سے بہت دور جاپڑیں ۔ لیکن جب تک وہ ان عقائد میں ملاکِ امر کا سررشتہ ہاتھ سے نہیں چھوڑتا، عقل و فکر کی کوئی گمراہی اس کو دائرہ دین سے خارج نہیں کرسکتی ، چاہے مرکز دین سے اس کو کتنا ہی بُعد ہوجائے اور ہمیں اس کی ان اعتقادی بے راہ رویوں پر کتنی ہی ملامت اور مذمت کرنی پڑے۔
یہاں پہنچ کر ہم ذرا ساغور کریں تو بہ آسانی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام میں فرقوں کی پیداوار کس طرح ہوئی ہے۔ قرآن اور حدیث میں ضروریات دین کے متعلق جو سادہ اور مختصر باتیں ارشاد ہوئی ہیں ، اور کہیں کہیں ان کی تفصیل میں جو لطیف اشارات کردیے گئے ہیں، ان کو سمجھنے میں مختلف لوگوں نے اپنی عقلی استعدادوں اور اپنے طبیعی رجحانات کی بنا پر مختلف راہیں اختیار کیں اور ان کے تفصیلی فہم کے لیے قیاس و استدلال کے ذریعے سے الگ الگ جزئیات اور فروع اخذ کرلیے۔ اس حد تک تو کچھ مضائقہ نہ تھا۔ اور اس میں بھی کوئی خرابی نہ تھی کہ ایک گروہ صرف اپنے مسلک کو حق سمجھتا اوردوسرے گروہوں سے بحث کرکے ان کو اپنے مسلک کی طرف لانے کی کوشش کرتا۔ لیکن غضب یہ ہوا کہ لوگوں نے بے جا تشدد برت کر اپنے اپنے قیاسی و تاویلی عقائد کو بھی اصول و ضروریات دین میں شامل کرلیا، اور پھر ہر ایک گروہ نے ان تمام گروہوں کی تکفیر شروع کردی جو اس کے استنباطی عقائد کے منکر تھے۔ یہیں سے حرب عقائد کی ابتداء ہوئی ہے اور یہی اس ظلم کا نقطۂ آغاز ہے۔ یہ صحیح ہے کہ عقائد کے باب میں قیاسات و تاویلات سے جو راہیں اختیار کی گئی ہیں۔ ان میں بہت سی راہیں غلط ہیں۔ لیکن ہر غلطی لازماً کفر ہی نہیں ہے۔ غلطی کو غلطی کہنا اور اس کا ارتکاب کرنے والے کو گمراہ اور غلط کار سمجھنا اور اس کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرنا بلا شبہ جائز ہے۔ لیکن جب تک کوئی شخص اس نفس حقیقت کا انکار نہیں کرتا جس پر اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے کا حکم دیا ہے، اس کو کافر کہنا کسی طرح بھی جائز نہیں، خواہ اس کی گمراہی کتنی ہی بڑھ گئی ہو۔
افسوس ہے کہ مدتوں کی چلی ہوئی اس روش کو چھوڑنے پر ہمارے علماء کرام کسی طرح راضی نہیں ہوتے۔ انھوں نے اصل اور فرع، نص اور تاویل کے فرق کو نظر اندازکردیا ہے۔ وہ ان فروع کو بھی اصول بنائے بیٹھے ہیں جن کو انھوں نے خود یا ان کے اسلاف نے اپنے مخصوص فہم کی بنا پر اصول سے اخذ کیا ہے۔ وہ ان تاویلات کو بھی نصوص کے درجے میں رکھتے ہیں جو نصوص کے معانی اخذ کرنے میں ان کے گروہ نے اختیار کی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنے فروع اور اپنی تاویلات کے منکر کو بھی اسی طرح کا فرقرار دیتے ہیں جس طرح اصول اور نصوص کے منکر کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس کھینچ تان اور بے اعتدالی نے پہلے تو اسلامی جمعیت میں صرف تفرقہ ہی پیدا کیا تھا۔ مگر اب دیکھ رہے ہیں کہ علماء کی یہ کافر گری مسلمانوں کے دلوں میں نہ صرف علماء کی طرف سے ، بلکہ خود اس مذہب کی طرف سے بھی بدگمانیاں پیدا کررہی ہے جس کی نمائندگی یہ علماء کررہے ہیں۔ روز بروز علماء کا اقتدار مسلمانوں پر سے اٹھتا جارہا ہے۔ ان کی باتیں سن کر دل مذہب کی طرف راغب ہونے کے بجائے اس سے دور بھاگنے لگے ہیں۔ مذہبی مجلسوں اور مذہبی تحریروں کے متعلق یہ عام خیال پیدا ہوگیا ہے کہ ان میں فضول جھگڑوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس غلبۂ کفر و فسق کے زمانے میں عام مسلمانوں کو مذہبی علوم کی واقفیت بہم پہنچانے کا اگر کوئی ذریعہ ہوسکتا تھا تو وہ یہ تھا کہ علماء دین پر لوگوں کو اعتماد ہوتا اور وہ ان کی تحریروں اور تقریروں سے فائدہ اٹھاتے۔ مگر افسوس کہ ان فرقہ بندی کی لڑائیوں اور ان تکفیر کے مشغلوں سے یہ ایک ذریعہ بھی ختم ہوا جارہا ہے اور یہ مسلمانوں میں مذہب سے عام ناواقفیت اور گمراہی کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ کاش ہمارے علماء اپنی غلطی کو محسوس کریں اور اسلام اور مسلمانوں پر نہیں تو خود اپنے اوپر ہی رحم کرکے اس روش سے باز آجائیں جس نے ان کو اپنی قوم میں اس قدر رسوا کردیا ہے، درآں حالیکہ یہی وہ قوم تھی جو کبھی ان کو سر آنکھوں پر بٹھاتی تھی۔ (تفہیمات حصہ دوم : فتنۂ تکفیر)
تخریج: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُبْنُ عَرعَرَۃَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ زُبَیْدٍ، قَالَ: سَاَلْتُ ابَاوَائِلٍ، عَنِ الْمُرْجِئَۃِ فَقَالَ: حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ: سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَقِتَالُہٗ کُفْرٌ۔ (۷۸)
ترمذی نے عبدالرحمن بن عبد اللہ بن مسعود عن ابیہ سے ایک روایت ان الفاظ میں بھی بیان کی ہے:
(۲) قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ قِتَالُ الْمُسْلِمِ اَخَاہُ کُفْرٌ وسِبَابُہٗ فُسُوْقٌ۔ (۷۹)
نسائی نے کتاب التحریم میں، ابن ماجہ نے مقدمہ میں اور مسند احمد جلد اول ص ۱۷۶ پر قِتَالُ الْمُؤْمِنِ کُفْرٌ وَسِبَابُہٗ فُسُوْقٌ روایت کیا ہے۔

کلمۂ توحید کا اقرار کرنے والا قتل نہیں کیا جائے گا

اِنِّیْ لَمْ اُوْمَرْاَنْ اُنَقِّبَ عَنْ قُلُوْبِ النَّاسِ وَلَا اَشُقَّ بُطُوْنَہُمْ (بخاری و مسلم)
ترجمہ: ’’مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دل کھول کر اور پیٹ چاک کرکے دیکھوں۔‘‘
پس منظر: ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچھ رقم نبی ﷺ کی خدمت میں بھیجی۔اور حضوؐر نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کردیا۔ اس پر حاضرین میں سے ایک شخص بول اٹھا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِتِّقِ اللّٰہَ (یَا رسول اللہ!خدا سے ڈریے) حضوؐر نے فرمایا وَیْلَکَ اَوَلَسْتُ اَحَقَّ اَہْلِ الْاَرْضِ اَنْ یَّتَّقِی اللّٰہَ (افسوس تیرے حال پر،روئے زمین کے بسنے والوں میں مجھ سے زیادہ کس کو یہ سزاوار ہے کہ خدا سے ڈرے)۔ حضرت خالدؓ اس موقع پر موجود تھے۔ انھوں نے عرض کیا یا رسولؐاللہ!کیا میںاسے قتل نہ کردوں؟ فرمایا لَا لَعَلَّہٗ اَنْ یَکُوْنَ یُصَلِّیْ (نہیں، شاید کہ وہ نماز پڑھتا ہو)انھوں نے عرض کیا کتنے ہی نماز پرھنے والے ایسے ہیں جو زبان سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ،فرمایا اِنِّیْ لَمْ اُوْمَرْاَنْ اُنَقِّبَ عَنْ قُلُوْبِ النَّاسِ وَلَا اَشُقَّ بُطُوْ نَہُمْ۔ (بخاری و مسلم) (تفہیمات حصہ دوم : فتنۂ تکفیر)
تشریح: (اس حدیث میں) حضوؐر نے اسلام کا دستوری قانون (Constitutional Law) بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص خدا کی وحدانیت اور آپ کی رسالت کوماننے کا اقرار کرے تو وہ دائرہ اسلام میں آجاتا ہے اور اسلامی اسٹیٹ کا شہری (Citizen)بن جاتا ہے۔ یہ بات کہ وہ حقیقی مومن ہے یا نہیں اس کا فیصلہ اللہ کرنے والا ہے ہم اس کا فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں کیونکہ لم اومران اشق عن قلوب الناس ولاعن بطونہم۔ جان و مال کی عصمت (Security) کلمہ توحید اور اعتقاد رسالت کے اقرار سے قائم ہو جاتی ہے۔ (تفہیمات حصہ اول: کیا نجات۔۔۔؟)
تخریج: حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ، قَالَ: حَدَّثَنََا عَبْدُ الْوَاحِدِ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ شُبْرُ مَۃَ قَالَ: حَدَّثََنَا عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ اَبِیْ نُعْمٍ، قَالَ سَمِعْتُ اَبَاسَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیَّ یَقُوْلُ: بَعَثَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ اِلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ مِنَ الْیَمْنِ بِذُہَیْبَۃٍ فِیْ اَدِیْمٍ مَقْرُوْظٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِہَا قَالَ فَقَسَمَہَا بَیْنَ اَرْبَعَۃِ نَفَرٍ بَیْنَ عُیَیْنَۃَ بْنِ بَدْرٍ واَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ وَزَیْدِ الْخَیْلِ وَالرَّابِعِ اَمَّا عَلْقَمَۃُ وَاَمَّا عَامِرُبْنُ طُفَیْلٍ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ اَصْحَابِہٖ: کُنَّا نَحْنُ اَحَقُّ بِہٰذَا مِنْ ہٰؤُلَآئِ قَالَ: فَبَلَغَ ذٰلِک النَّبِیَّ ﷺ فَقَالَ: اَلَا تَاْمَنُوْٓ نِّیْ وَاَنَا اَمِیْنُ مَنْ فِی السَّمَآئِ یَاْتِیْنِیْ خَبَرُ السَّمَآئِ صَبَاحًا وَمَسَآئً قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ غَآئِرُالْعَیْنَیْنِ مُشْرِفُ الْوَجْنَتَیْنِ نَاشِرُالْجَبْہَۃِ کَثُّ اللَّحْیَۃِ مَحْلُوْقُ الرَّاْسِ مُشْمِرُّالْاِزَارِ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِتَّقِ اللّٰہَ قَالَ: وَیْلَکَ اَوْلَسْتُ اَحَقُّ اَہْلِ الْاَرْضِ اَنْ یَتَّقِی اللّٰہَ قَالَ: ثُمَّ وَلیَّ الرَّجُلُ۔ قَالَ خَالِدُبْنُ الْوَلِیْدِیَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَلَا اَضْرِبُ عُنُقَہٗ قَالَ: لَا لَعَلَّہٗ اَنْ یَّکُوْنَ یُّصَلِّیْ فَقَالَ خَالِدٌ وَکَمْ مِنْ مُّصَلِّ یَقُوْلُ بِلِسَانِہٖ مَالَیْسَ فِیْ قَلْبِہٖ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اِنِّیْ لَمْ اُوْمَرْاَنْ اُنَقِّبَ عَنْ قُلُوْبِ النَّاسِ وَلَا اَشُقَّ بُطُوْنَہُمْ قَالَ ثُمَّ نَظَرَ اِلَیْہِ وَہُوَ مُقَفّیً فَقَالَ: اِنَّہٗ یَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئیْ ہٰذَا قَوْمٌ یَتْلُوْنَ کِتَابَ اللّٰہِ رَطْبًا لَا یُجَاوِزُ حَنَا جِرَہُمْ یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّیْنِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ وَاَظُنَّہٗ قَالَ لَئِنْ اَدْرَکْتُہُمْ لَا اَقْتُلَنَّہُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ۔ (۸۰)
ترجمہ: عبدالرحمن بن ابی نعم نے کہا کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں یمن سے کچھ سونا بھیجا جو ببول کی چھال سے رنگے ہوئے چمڑے کی تھیلی میں بھرا ہوا تھا اور ابھی مٹی سے جدا نہیں کیا گیا تھا۔ آپ نے وہ سونا چار اشخاص میں تقسیم کردیا (۱) عیینہ بن بدر (۲) اقرع بن جابس (۳) زید الخیل اور چوتھے شخص یا تو علقمہ تھے یا عامر بن طفیل تھے (اس تقسیم پر اعتراض کرتے ہوئے) صحابہ کرام میںسے ایک شخص نے کہا: اس سونے کے ان لوگوں کے مقابلے میں ہم زیادہ حق دار تھے، حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ اس بات کی اطلاع نبی کریم ﷺ کو پہنچی تو آپؐ نے فرمایا: کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ حالانکہ میں اس کا امین ہوں جو آسمانوں میں ہے۔ میرے پاس صبح و شام آسمان سے وحی آتی ہے، ابو سعید بیان کرتے ہیں۔ پھر ایک شخص کھڑا ہوا جس کی دونوں آنکھیں اندر دھنسی ہوئی، گال پھولے ہوئے ، پیشانی ابھری ہوئی، ڈاڑھی گھنی اور سر منڈا ہوا تھا اور اپنے تہہ بند کو اٹھائے ہوئے تھا اور کہنے لگا: یا رسولؐ اللہ! اللہ سے ڈریے۔ آپؐ نے فرمایا ہلاکت ہو تیرے لیے، کیا اہل زمین میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا میں نہیں ہوں؟ راوی بیان کرتے ہیں، یہ سن کر وہ شخص چلا گیا۔ اس موقع پر خالد بن ولیدؓ نے عرض کیا۔یا رسولؐ اللہ! کیا میں اسے قتل نہ کردوں؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں! ہوسکتا ہے وہ کبھی نماز پڑھتا ہو۔ حضرت خالدؓ نے عرض کیا: بہت سے نماز پڑھنے والے زبان سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتیں! آپ نے فرمایا: مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگائوں یا ان کا پیٹ چیر کر دیکھوں۔ پھر آپؐ نے اس شخص کی طرف دیکھا، وہ پیٹھ موڑے جارہا تھا اور فرمایا: اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن مجید روانی سے پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا، دین سے اس طرح خارج ہوچکے ہوں گے جیسے تیر شکار میں سے پار ہوجاتا ہے۔ حضرت ابوسعیدؓکہتے ہیں، میرا خیال ہے کہ آپؐ نے یہ بھی فرمایا تھا: اگر میں ان کو پائوں گا تو اسی طرح ہلاک کردوں گا جیسے قومِ ثمود ہلاک کی گئی تھی۔
( مجھ کو لوگوں کے دل چیر نے اور ان کے باطن ٹٹولنے کا یکسر حکم نہیں دیا گیا۔ (حدیث))۴۱۔ ہلَّاشَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہٖ۔
ترجمہ: کیا تونے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا۔
پس منظر: ایک مرتبہ ایک سریہ میں ایک شخص نے مسلمانوں کو دیکھ کر کہا السَّلام علیکم لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ مگر ایک مسلمان نے یہ گمان کرکے کہ اس نے محض جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا ہے اسے قتل کردیا۔ نبی ﷺ کو اس کا علم ہوا تو حضوؐر اس پر سخت ناراض ہوئے اور اس مسلمان سے باز پرس کی۔ اس نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! اس شخص نے محض ہماری تلوار سے بچنے کے لیے کلمہ پڑھ دیا تھا۔ اس پر سرکار نے فرمایا کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟ (تفہیمات حصہ دوم : فتنۂ تکفیر)
تخریج:(۱) حَدَّثَنَا سُویْدُبْنُ سَعِیْدٍ، ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ عَاصِمٍ، عَنِ السُمَیْط بْنِ السَّمِیْرِ عَنْ عِمْرَان بْنِ الْحُسَیْنِ شَہِدْتُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ وَقَدْ بَعَثَ جَیْشًا مِنَ المُسْلِمِیْنَ اِلَی الْمُشْرِکِیْنَ فَلَمَّا لَقُوْہُمْ قَاتَلُوْہُمْ قِتَالًا شَدِیْدًا فَمَنَحُوْہُمْ اَکْتَافَہُمْ فَحَمَلَ رَجُلٌ مِنْ لُحْمَتِیْ عَلیٰ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ بِالرُّمْحِ فَلَمَّا غَشِیَہٗ قَالَ: اَشْہَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، اِنِّیْ مُسْلِمٌ فَطَعَنَہٗ فَقَتَلَہٗ، فَاَتیٰ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ہَلَکْتُ، قَالَ: وَمَا الَّذِیْ صَنَعْتَ؟ مَرَّۃً اَوْمَرَّتَیْنِ۔ فَاَخْبَرَہٗ بِالَّذِیْ صَنَعَ فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: فَہَلَّا شَقَقْتَ عَنْ بَطْنِہٖ فَعَلِمْتَ مَا فِیْ بَطْنِہٖ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لَوْ شَقَقْتُ بَطْنَہٗ لَکُنْتُ اَعْلَمُ مَا فِیْ قَلْبِہٖ قَالَ: فَلَا اَنْتَ قَبِلْتَ مَا تَکَلَّمَ بِہٖ وَلَا اَنْتَ تَعْلَمُ مَا فِیْ قَلْبِہٖ۔ (۸۱)
ترجمہ: حضرت عمران بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر تھا کہ آپؐ نے مسلمانوں میں سے ایک لشکر تیار کرکے مشرکین کی طرف روانہ فرمایا۔جب مسلمانوں کے لشکر کی مشرکین سے مڈبھیڑ ہوئی تو فریقین کے مابین بڑے زور کا رن پڑا۔ مسلمان بڑے بے جگڑی سے لڑے اور مشرکین کے ساتھ بڑے دائو پیچ کھیلے ۔ اتنے میں میرا ایک قریبی رشتہ دار نیزے سے ایک مشرک پر پل پڑا۔ جب اس نے مشرک پر پوری طرح قابو پالیا تو مشرک جلدی سے کلمہ شہادت اَشْہَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ،کہہ کر بولا کہ’’ میں مسلم ہوں‘‘ مگر اس نے نیزہ مار کر اسے قتل کردیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا، یا رسول اللہ! میں تو مارا گیا۔ آپ نے فرمایا کیا کر بیٹھے؟ آپؐ نے ایک یا دو مرتبہ یہی جملہ دہرا یا ، تو اس نے اپنا سارا واقعہ بیان کیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا، کہ تمہیں اس کی نیت کا علم ہوگیا۔‘‘ اس نے عرض کیا اے رسول خدا! اگر میں نے اس کا دل چیر کر دیکھا ہوتا تو میں واقعتا اس کی نیت سے باخبر ہوجاتا ۔ پھر فرمایا تو پھر تونے اس کے زبانی اقرار کو تسلیم کیوں نہ کیا جب کہ تجھے اس کے مافی الضمیر کا علم نہیں تھا۔
(۲) حَدَّثَنَا اَبُوْ بَکْرِبْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ، قَالَ: نَا اَبُوْ خَالِدٍ الْاَحْمَرُ ح وَحَدَّثَنَا اَبُوْکُرَیْبٍ وَاِسْحَاقُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ اَبِیْ مُعَاوِیَۃَ کِلَاہُمَا عَنِ الْاَعْمَشِ، عَنْ اَبِیْ ظُبْیَانَ عَنْ اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ وَہٰذَا حَدِیْثُ ابْنِ اَبِیْ شَیْبَۃَ، قَالَ: بَعَثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فِیْ سَرِیَّۃٍ، فَصَبَّحْنَا حُرُقَاتِ مِنْ جُہَیْنَۃَ، فَاَدْرَکْتُ رَجُلًا۔ فَقَالَ: لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ فَطَعَنْتُہٗ فَوَقَعَ فِیْ نَفْسِیْ مِنْ ذٰلِکَ فَذَکَرْتُہٗ للنَّبِیِّﷺ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: أَقَالَ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَقَتَلْتَہٗ؟ قَالَ: قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّمَا قَالَہَا خَوْفًا مِنَ السَّلَاحِ، قَالَ: اَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہٖ حَتّٰی تَعْلَمَ أَقَالَہَا اَمْ لَا۔ فَمَا زَالَ یُکَرِّرُہَا عَلَیَّ حَتّٰی تَمَنَّیْتُ اَنِّیْ اَسْلَمْتُ یَوْمَئِذٍ۔ قَالَ: فَقَالَ سَعْدٌ: وَاَنَا وَاللّٰہِ لَا اَقْتُلُ مُسْلِمًا حَتّٰی یَقْتُلَہٗ ذُوالْبُطَیْنِ یَعْنِی اُسَامَۃُ۔ قَالَ رَجُلٌ: اَلَمْ یَقُلِ اللّٰہُ وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ فَقَالَ سَعْدٌ قَدْقَاتَلْنَا حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَاَنْتَ وَاَصْحَابُکَ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تُقَاتِلُوْا حَتّٰی تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ۔ (۸۲)
ترجمہ: حضرت اسامہ بن زیدؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا۔ علی الصبح ہم نے جہینہ کے قبیلۂ حرقات پر حملہ کردیا۔ میں نے ایک آدمی پر قابو پایا ہی تھا کہ اس نے لَآ اِلٰہَ الَّا اللّٰہُ کا اقرار کرلیا ۔ مگر میں نے (اس کی پرواہ کیے بغیر) اسے نیزہ مار کر ہلاک کردیا۔ اس فعل پر میرے دل میں اضطراب اور خلجان پیدا ہوا تو میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا۔ آپؐ نے فرمایا ’’کیا تم نے اسے لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا اقرار کرنے کے باوجود قتل کردیا۔‘‘ اسامہ کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا ’’یا رسولؐ اللہ ! اس نے محض اسلحہ کی زد سے بچنے کے لیے ایسا کیا تھا۔‘‘ آپؐ نے فرمایا،’’کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ اس نے لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا اقرار دل سے کیا تھا یا نہیں۔‘‘ آپؐ یہ جملہ مسلسل دہراتے رہے حتّٰی کہ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ ’’کاش میں آج ہی دائرۂ اسلام میں داخل ہوا ہوتا۔‘‘ حضرت سعد نے کہا کہ ’’بہ خدا میں کسی مسلمان کو قتل نہیں کروں گا تاوقتیکہ اسے اسامہ قتل نہ کرے۔‘‘ ایک آدمی نے کہا، کیا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد گرامی نہیں ہے کہ تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارے کا سارا اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔ سعد نے اس کا جواب دیا یقینا ہم لڑے کہ فتنہ باقی نہ رہے مگر تو اور تیرے ساتھی اس لیے لڑنا چاہتے ہیں کہ فتنہ برپا ہو۔
۴۲۔ ایک صحابی نے پوچھا کہ اگر ایک شخص مجھ پر حملہ کرکے میرا ہاتھ کاٹ ڈالے اور جب میں اس پر حملہ کروں تو وہ کلمہ پڑھ لے، کیا ایسی حالت میں اس کو قتل کرسکتا ہوں؟ حضوؐر نے فرمایا’’ نہیں‘‘۔ صحابی نے عرض کیا: یا رسول ؐاللہ! اس نے تو میرا ہاتھ کاٹ دیا۔ آپؐ نے فرمایا باوجود اس کے تم اس کو نہیں مارسکتے۔ اگر تم نے اس کو مارا تو وہ اس مرتبے میں ہوگا جس میں تم اس کے قتل سے پہلے تھے اور تم اس مرتبے میں ہوجائو گے جس میں وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنے سے پہلے تھا۔ (تفہیمات حصہ دوم ص ۱۸۱)
تخریج: حَدَّثَنَا اِسْحَاقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ اَخِی ابْنُ شِہَابٍ عَنْ عَمِّہٖ اَخْبَرَنِیْ عَطَآئُ بْنُ یَزِیْدَ اللَّیْثِیُّ ثُمَّ الْجُنْدَ عِیُّ اَنَّ عُبَیْدَ اللّٰہِ بْنَ عَدِیِّ بْنِ الْخِیَارِ اَخْبَرَہٗ اَنَّ الْمِقْدَادَبْنَ عَمْرٍوا لکنْدِیَّ وَکَانَ حَلِیْفًا لِبَنِیْ زُہْرَۃَ وَکَانَ مِمَّنْ شَہِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ اَخْبَرَہٗ اَنَّہٗ قَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ: اَرَأَیْتَ اِنْ لَقِیْتُ رَجُلًا مِنَ الْکُفَّارِ فَاقْتَتَلْنَا فَضَرَبَ اِحْدیٰ یَدِیَّ بِالسَّیْفِ فَقَطَعَہَا، ثُمَّ لَا ذَمِنِّیْ بِشَجَرَۃٍ، فَقَالَ اَسْلَمْتُ لِلّٰہِ، أَاَقْتُلُہٗ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! بَعْدَ اَن قَالَہَا؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : لَا تَقْتُلْہُ۔ فَقَالَ، یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّہٗ قَطَع اِحْدَیٰ یَدِیَّ، ثُمَّ قَالَ ذٰلِکَ بَعْدَ مَا قَطَعَہَا۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: لَا تقْتُلْہُ فَاِنْ قَتَلْتَہٗ فَاِنَّہٗ بِمَنْزَلَتِکَ قَبْلَ اَنْ تَقْتُلَہٗ وَاِنَّکَ بِمَنْزِلَتِہٖ قَبْلَ اَنْ یَقُوْلَ کَلِمَتَہُ الَّتِیْ قَالَ۔ (۸۳)
ترجمہ: حضرت مقداد بن عمرو کندی جو بنی زہرہ کے حلیف تھے اور بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک ہوچکے تھے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسولؐ اللہ سے عرض کیا اگر میری ملاقات کسی کافر سے ہوجائے اور ہم باہم لڑپڑیں اور وہ میرے ہاتھ پر تلوار مارکر اسے کاٹ ڈالے، اس کے بعد کسی درخت کے پیچھے چھپ کر پناہ لے لے اور اس وقت کہے کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں تو کیا میں اسے اس کے اقرار کے بعد قتل کرسکتا ہوں؟ آپؐ نے فرمایا ’’نہیں‘‘ میں نے عرض کیا رسولؐ اللہ! اس نے پہلے تلوار سے میرا ہاتھ کاٹ دیا اس کے بعد کلمۂ توحید کا اقرار کیا۔ آپؐ نے پھر ارشاد فرمایا ’’نہیں‘‘ تو اسے قتل نہ کر کیوں کہ اگر تونے اس کو قتل کیا تو وہ اس مرتبے میں ہوگا جس میں تم اس کے قتل سے پہلے تھے اور تم اس مرتبے میں ہوجائو گے جس میں وہ اَسْلَمْتُ لِلّٰہِ کہنے سے پہلے تھا۔‘‘
۴۳۔ اگر کوئی شخص کافر پر نیزہ تانے اور جب سنان اس کے حلق تک پہنچ جائے اس وقت وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہہ دے، تو مسلمان کو لازم ہے کہ وہ فوراً اپنے نیزے کو واپس کھینچ لے۔
تخریج: اِذَاانْتَزَعَ اَحَدُکُمُ الرُّمْحَ اِلیٰ رَجُلٍ، فَکَانَ سِنَانُہٗ عِنْدَ ثَغْرَۃِ نَحْرِہٖ۔ فَقَالَ: ’’لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ‘‘ فَلْیَدْفَعْ عَنْہُ الرُّمْحَ۔ (۸۴)
ترجمہ: ’’اگر تم میں سے کوئی شخص کسی کافر آدمی پر نیزہ تانے اور سنان اس کے حلق تک پہنچ جائے اور اس وقت وہ لا الہ إلّااللہ کہہ دے، تو اسے چاہیے کہ اپنے نیزے کو واپس کھینچ لے۔‘‘

دو مختلف ملّتوں کے لوگ ایک دوسرے سے کلی طور پر کٹ جاتے ہیں

لَایَتَوَارَثُ اَہْلُ مِلَّتَیْنِ۔
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو مختلف ملّتوں کے لوگ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے۔
تشریح: اللہ کی پارٹی والے خواہ نسل اور وطن اور زبان اور تاریخی روایات کے اعتبار سے باہم کتنے ہی مختلف ہوں، بلکہ چاہے ان کے آبائو اجداد میں باہم خونی عداوتیں ہی کیوں نہ رہ چکی ہوں، جب وہ خدا کے بتائے ہوئے طریق فکر اور مسلک حیات میں متفق ہوگئے تو گویا الٰہی رشتے (حبل اللہ) سے باہم جڑگئے اور اس نئی پارٹی میں داخل ہوتے ہی ان کے تمام تعلّقات حزب الشیطان والوں سے کٹ گئے۔
پارٹی کا یہ اختلاف باپ اور بیٹے تک کا تعلق توڑ دیتا ہے۔ حتّٰی کہ بیٹا باپ کی وراثت تک نہیں پاسکتا۔
(تفہیمات حصہ اول: اسلامی قومیت کا۔۔۔)
المصنف میں لَا یَتَوَارَثُ اَہْلُ مِلَّتَیْنِ مُخْتَلِفَتَیْنِ ہے اور دارمی نے لَا یَتَوَارَثُ اَہْلُ دِیْنَیْنِ نقل کیا ہے۔
تخریج: حَدَّثَنَا مُوْسیٰ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ ، ثنا حَمَّادٌ، عَنْ حَبِیْبِ الْمُعَلِّم، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ اَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہٖ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: لَا یَتَوَارَثُ اَہْلُ مِلَّتَیْنِ شَتّٰی۔ (۸۵)
المصنف میں لَا یَتَوَارَثُ اَہْلُ مِلَّتَیْنِ مُخْتَلِفَتَیْنِ ہے اور دارمی نے لَا یَتَوَارَثُ اَہْلُ دِیْنَیْنِ نقل کیا ہے۔

ماٰخذ

(۱) ٭ مسلم ۔ ج ۱: کتاب الایمان ٭بخاری۔ ج ۱: کتاب الایمان: باب سوال جبریل النبیﷺ عن الایمان والاسلام الخ۔ عن ابی ہریرۃ۔ بخاری میں مسلم والی روایت کا پہلا حصہ نہیں ہے اور روایت فاتاہ رجل فقال ماالایمان سے شروع ہوتی ہے ٭ابوداؤد : کتاب السنۃ: باب فی القدر ٭ترمذی: ابواب الایمان : باب ماجاء فی وصف جبریل للنبی ﷺ الایمان والاسلام۔ ترمذی نے قال فما الاسلام کے جواب میں حضوؐر کا جواب: شہادۃ ان لا الہ الااللّٰہ وان محمد اعبدہ ورسولہ واقام الصلاۃ وایتاء الزکوۃ وحج البیت وصوم رمضان الخ نقل کیا ہے ٭نسائی: کتاب الایمان و شرائعہٖ: باب صفۃ الایمان والا سلام ٭ابن ماجہ: المقدمۃ: باب فی الایمان ٭مسند احمد ج ۱: عمر بن خطاب ٭مسند ابی عوانۃ۔ ج ۱: باب الاعمال والفرائض۔
(۲) ٭بخاری۔ ج۱: کتاب الایمان: باب فان تابواواقاموا الصلوٰۃ واٰتواالزکوٰۃ فخلّوا سبیلہم۔٭ مسلم ج ۱: کتاب الایمان: باب الامر بقتال الناس حتی یقولوالالٰہ الااللّٰہ ٭ مسند احمد۔ ج ۳: جابر بن عبداللّٰہ ٭ دارقطنی: کتاب الصلوٰہ: باب تحریم دماء ہم واموالہم اذا یشہد وا بالشّہادتین ٭ کنزالعمال: ج۱۔
(۳) ٭بخاری۔ ج ۲: کتاب الادب: باب فصل صلۃ الرَّحِم ٭ مسلم۔ ج ۱:کتاب الایمان: باب السوال عن ارکان الاسلام ٭ نسائی۔ ج ۲: کتاب الصلوٰۃ: باب ثواب من اقام الصلوٰۃ۔
(۴) ٭ مسلم۔ ج۱: کتاب الایمان: باب بیان الایمان الذی یدخل بہ الجنۃ وان من تمسک بما اُمِرَبہ دخل الجنۃ۔
(۵) ٭ ابن ماجہ: کتاب الفتن: باب کف اللسّان فی الفتنۃ ٭ ترمذی: ابواب الایمان: باب ماجاء فی حرمۃ الصلوٰۃ ٭مسند احمد۔ ج ۵: معاذ بن جبل٭ مسند ابی عوانۃ۔ ج ۱: باب بیان الاعمال والفرائض۔
(۶) ٭ مسلم: ج ۲ : کتاب الایمان: باب السوال عن ارکان الاسلام۔
(۷) ٭بخاری۔ ج ۱: کتاب الزکوۃ: باب وجوب الزکوٰۃ ٭بخاری۔ ج ۲: کتاب التفسیر: سورہ لقمان: باب قولہ اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ ٭ مسند احمد۔ ج۲ ٭مسند ابی عوانۃ۔ ج ۱: بیان الاعمال والفرائض ٭مسلم میں والذی نفسی بیدہ لا ازید علی ہذا شیئاً ولا اَنْقُصُ منہ کا اضافہ ہے۔ باقی متن حدیث بخاری والا ہے۔مسلم۔ ج ۱: کتاب الایمان: باب السوال عن ارکان الاسلام۔
(۸) ٭ بخاری۔ ج ۲: کتاب المغازی: باب بعث ابی موسیٰ ومعاذا الی الیمن قبل حجۃ الوداع ٭ بخاری۔ ج ۱: کتاب الزکوٰۃ: باب لاتوخذ کرائم اموال الناس فی الصدقۃ ٭ بخاری کی اس روایت میں وَتُوَقَّ کَرَائِمَ اموال الناس ہے۔ بخاری۔ ج ۲:کتاب الرد علیٰ الجہمیۃ وغیر ہم التوحید: باب ماجاء فی دعاء النبی ﷺ امتہ الی التوحید ٭ مسلم۔ ج ۱: کتاب الایمان: باب الدعا إلی الشہادتین و شرائع الاسلام ٭ ابوداؤد: کتاب الزکوٰۃ: باب فی زکاۃ السائمۃ ٭ ترمذی: ابواب الزکوٰۃ: باب ماجاء فی کراہیۃ اخذ خیار المال فی الصدقۃ۔ حدیث حسن صحیح ٭نسائی۔ کتاب الزکوٰۃ: باب اخراج الزکوٰۃ من بلدٍالیٰ بلدٍ ٭ابن ماجۃ: کتاب الزکوٰۃ: باب فرض الزکوٰۃ ٭ دارمی۔ کتاب الزکوٰۃ: باب فی فضل الزکوٰۃ ٭دارقطنی: کتاب الزکوٰۃ ٭مسند احمد، ج ۱:ملسم اور دیگر کتب میںافترض ہے جب کہ بخاری نے فرض نقل کیا ہے۔
(۹) ٭مسلم۔ ج ۱:کتاب الایمان: باب الامربقتال الناس حتی یقولوالاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ویقیمواالصلاۃ الخ۔
(۱۰) ٭ بخاری: کتاب الاستتابۃ المعاندین : ج ۲: باب قتل من ابی قبول الفرائض وما نسبوا الی الردۃ۔
(۱۱) ٭سنن ابی داؤد: کتاب الجہاد: باب علی ما یقاتل المشرکون۔
(۱۲) ابن ماجہ: المقدمہ: باب فی الایمان عن ابی ہریرۃ ومعاذ بن جبل ٭ کنزالعمال: ج ۱ ٭ دارقطنی: کتاب الصلوٰۃ: باب تحریم دماء ہم وموالہم اذا یشہد وا بالشہادتین۔
(۱۳) ٭سنن ابی داؤد: کتاب الجہاد: باب علی ما یقاتل المشرکون ٭ ترمذی: ابواب الایمان: باب ماجاء امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اللّٰہ ٭ دارقطنی:کتاب الصلوٰۃ: باب تحریم دماء ہم واموالہم اذا یشہد وا بالشہادتین ٭ نسائی: کتاب الایمان: باب علی ما یقاتل الناس: ج ۸ ٭ کنزالعمال۔ ج ۱۔
(۱۴) ٭ بخاری: کتاب الصلوٰۃ: ج ۱: باب فضل استقبال القبلۃ ٭ مسلم: ج ۱: کتاب الایمان: باب الامر بقتال الناس حتی یقولوا لا لہ ال االلہ محمد رسول اللّٰہ الخ ٭ ترمذی: ابواب الایمان: باب ماجاء امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوالاالہ الا اللّٰہ۔ فی الباب عن معاذ بن جبل وابی ہریرۃ ۔ ہذا حدیث حسن صحیح غریب من ہذا الوجہ ٭ابن ماجہ: کتاب الفتن: باب الکف عمن قال لا الہ الا اللّٰہ ٭ دارقطنی: کتاب الصلوٰۃ: باب تحریم دماء ہم واموالہم اذا یشہد وا بالشہادتین ٭ کنزالعمال۔ ج ۱۔
(۱۵) ٭ابوداؤد کتاب السنۃ باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ٭ترمذی: ابواب الایمان: ج ۲ ٭مسند احمد۔ ج ۴٭مسند احمد۔ ج ۳ معاذ بن انس ٭کنزالعمال۔ ج ۱: ٭مجمع الزوائد۔ ج۱٭ بخاری نے کتاب الایمان میں اَلْحُبُّ لِلّٰہِ وَالْبُغْضُ فِی اللّٰہِ مِنَ الْاِیْمَانِ نقل کیا ہے۔
(۱۶) ٭ابن جریر: ج ۱۱ جز ۲۴/۲۷ سورہ حٰم السجدہ ٭ ترمذی: ج ۲: ابواب التفسیر: سورہ حٰم السجدہ ہذا حدیث غریب ٭ابن کثیر: ج ۴:سورہ حٰمٓ السجدہ بحوالہ نسائی ٭فتح القدیر: ج ۴ بحوالہ ابویعلی ابن ابی حاتم، ابن عدی، ابن مردویہ عن انس۔
(۱۷) ٭تفسیر ابن جریر، ج ۲۴/۲۷: سورہ حٰمٓ السجدہ ٭ ابن کثیر۔ ج ۴: سورہ حٰمٓ السجدہ۔
(۱۸) ٭ تفسیر ابن جریر، ج ۲۴/۲۷، جلد ۱۱۔
(۱۹) ٭ابن کثیر، ج ۴، سورۃ زمر بحوالہ ابن ابی حاتم۔
(۲۰) ٭ابن کثیر، ج ۴،سورۃ التغابن۔
(۲۱) ٭مسلم، ج ۲، کتاب الزہد: باب فی احادیث متفرقۃ ٭ مختصر فی شعب الایمان اور شعب الایمان للبیہقی ج۴۔
(۲۲) ٭ مسند احمد، ج۴ ٭ المستدرک ج ۴۔
(۲۳) ٭ دارمی کتاب الرقاق، باب المومن یوجرفی کل شیٔ ٭ مجمع الزوائد ج ۷، عن سعد بن ابی وقاص ۔ الفاظ مختلف ہیں۔
(۲۴) ٭الطبرانی، ج ۳ ٭ ابن کثیر ج ۴، التغابن۔ ٭ مجمع الزوائد۔ ج ۱۰، محمد بن اسماعیل بن عیاش ضعیف۔
(۲۵) ٭روح المعانی، ج ۲۲/۲۴، پ ۲۳۔ سورۃ الزمر۔
(۲۶) ٭ دارقطنی: کتاب الصلوٰۃ ج ۱٭ باب النیۃ ٭ کنزالعمال ج ۱۔
(۲۷) ٭ السنن الکبریٰ للبیہقی ج ۹، کتاب الجزیۃ: باب الوفاء بالعہداذا کان العقد مباحا وما ورد من التشد ید فی نقضہ ٭ شعب الایمان بیہقی، ج ۴، حدیث ۴۳۵۴، عن انس ٭ مجمع الزوائد، ج ۱، ٭مشکوٰۃ: کتاب الایمان فصل دوم ٭ ابویعلی طبرانی الاوسط بحوالہ الزوائد ٭ مسند احمد۔ ج ۳، روایت انس بن مالک۔
(۲۸) ٭مسند احمد۔ ج ۶، مسند کی ایک روایت میں وہو یخاف اللہ عزّوجل ہے ٭ ترمذی۔ ج ۲، ابواب التفسیر سورہ مومنون۔ ابن ابی حاتم نے بھی مالک بن مغول کی روایت نقل کی ہے۔
(۲۹) ٭ابن کثیر۔ ج ۳ المومنون ٭ابن ماجہ: کتاب الزہد: باب التوقی علی العمل ۔
(۳۰) مسلم: کتاب النذر۔ج ۲ ٭ مسند احمد ج ۴، عمران بن حصین ٭ ابوداؤد: کتاب الایمان والنذور: باب فی النذر فیما لایملک۔ ابودائود میں ہے: فقال یا محمدؐ ! علام تاخذنی وتاخذ سابقۃ الحاج۔ اس کے علاوہ بھی قدرے لفظی اختلاف موجود ہے۔
(۳۱) بخاری، ج ۲، کتاب المرضی، باب ماجاء فی کفارۃ المریض ٭ مسند احمد بن حنبل۔ ج ۲۔ مرویات ابی ہریرۃ وابو سعید خدری۔
(۳۲) بخاری، ج ۲، کتاب المرضیٰ، باب وضع الید علی المریض ٭ مسلم، ج ۲، کتاب البروالصلۃ ثواب المؤمن فیما یصیبہ من مرض اوحزن ونحوذالک حتی الشوکۃ یشاکہا ٭ دارمی ج ۲، الرقاق: باب فی ثواب اجرالمریض۔
(۳۳) ترمذی ابواب التفسیر۔ سورۃ النساء۔
(۳۴) مسلم، ج ۲، کتاب البروالصلۃ: باب ثواب المؤمن فیما یصیبہ من مرض اوحزن اور نحوذٰلک حتی الشوکۃ یشاکہا۔
(۳۵) ابوداؤد۔ ج ۳، کتاب الجنائز: باب عیادۃ النساء۔
(۳۶) ابوداؤد۔کتاب الجنائز: باب الامراض المکفرۃ الذنوب
(۳۷) ٭ مسند احمد۔، ج ۱، روایت سعد بن ابی وقاص۔
(۳۸) مسند احمد ج۲، روایت ابی ہریرۃ اور ج ۵ میں٭ اور مسندابی داؤد طیالسی، سعد بن ابی وقاص ٭ابن ماجہ: کتاب الفتن: باب الصبر علی البلاء ٭ترمذی: ابواب: الزہد باب فی الصبر علی البلاء۔ ہذا حدیث حسن صحیح۔
(۳۹) مسند احمد بن حنبل۔ ج ۶، مرویات صہیب٭ مسلم ج ۲، کتاب الزہد: باب قصۃ اصحاب الاخدو دوالساحروالراہب والغلام۔مسلم میں منشار کے بجائے مئشار منقول ہے۔
(۴۰) ٭ ترمذی: ابواب التفسیر: سورۃ البروج ٭ ابن جریر۔ ج ۳۰٭ ابن جریر نے علی الحق کے بعد فاقتحمت فی النار کا اضافہ بھی نقل کیا ہے۔
(۴۱) ابن جریر ، ج ۲۸/۳۰ جلد ۱۲۔مسلم میں منشار کے بجائے مئشار منقول ہے۔
(۴۲) تفسیر ابن کثیر۔ ج ۴۔
(۴۳) تفسیر ابن کثیر۔ ج ۴۔
(۴۴) سیرت ابن ہشام: ج ۱ ٭ اس واقعہ کو ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ج ۴ میں اور روح المعانی نے جز ۳۰ پر نقل کیا ہے۔ ابن کثیر نے عبداللّٰہ بن تامر نقل کیا ہے۔
(۴۵) بخاری، ج ۲،کتاب الرد علی الجہمیۃ وغیر ہم التوحید۔ باب قول اللّٰہ ویحذرکم اللّٰہ نفسہٗ وقولہ تعالیٰ اعلم مافی نفسک ولا تعلم مافی نفسی۔ ٭ مسلم۔ ج ۲، کتاب الذکر والدعا والتوبۃ والاستغفار: باب الحث علی ذکر اللّٰہ ٭مسند احمد، ج ۲، ابوہریرہ ٭ابن ماجہ: کتاب الادب: باب فضل العمل ٭ دارمی: کتاب الرقاق، باب حسن الظن باللّٰہ۔
(۴۶) بخاری، ج۲، کتاب الرقاق ، باب من جاہد نفسہ فی طاعۃ اللّٰہ۔ ٭ مسلم، ج ۱، کتاب الایمان: باب الدلیل علی من مات علی التوحید دخل الجنۃ۔ ٭ اوربخاری نے کتاب الرد علی الجہمیۃ وغیر ہم التوحید: باب ماجاء فی دعاء النبی ﷺ امتہ الی توحید اللّٰہ الخ میں مختصراً روایت نقل کی ہے۔ یعنی عن معاذبن جبلٍ، قال: قال النبیﷺالخ ٭بخاری: کتاب الاستیذان: باب من اجاب بلبیک وسعدیک ٭ ابن ماجہ: کتاب الزہد: باب مایرجی من رحمۃ اللّٰہ یوم القیمۃ۔
(۴۷) بخاری۔ ج ۱، کتاب العلم: باب من خصّ بالعلم قوماً کے تحت منقول روایت میں صدقاً من قلبہ کا اضافہ ہے۔
(۴۸) مسلم، ج ۱،کتاب الایمان من مات علی التوحید فقد دخل الجنۃ۔
(۴۹) بخاری، ج ۲، کتاب اللباس باب الثیاب البیض۔ کتاب الاستیذان ، کتاب الرقاق اور کتاب الرد علی الجہمیۃ وغیر ہم التوحید۔٭بخاری، ج ۱،کتاب الجنائز باب ماجاء فی الجنائز عن ابی ذرّ ٭ بخاری، ج ۱ ، کتاب بدأ الخلق ، باب ذکر الملائکۃ۔٭ مسلم، ج ۱، کتاب الایمان باب الدلیل علی ان من مات لایشرک باللّٰہ شیئاً دخل الجنۃ۔٭مسند احمد ج ۵، ٭ مسند ابی عوانہ، ج ۱۹۔ ٭ کنزالعمال ج ۱۔
(۵۰) مسلم، ج ۱، کتاب الایمان با ب الدلیل علی ان من مات علی التوحید دخل الجنۃ۔
(۵۱) تفسیر ابن جریر جلد ۷۔ سورہ نحل ٭ ابن کثیر ج ۲ ٭ فتح القدیر للشوکانی ج ۳، بحوالہ ابن سعد، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، بیہقی، ابن عساکر ٭ المستدرک للحاکم ج ۲، ص ۳۵۷۔
(۵۲) تفسیر ابن کثیر ج ۲، سورۂ نحل بحوالہ بیہقی۔
(۵۳) تفسیر ابن کثیر ج ۲، سورہ نحل۔
(۵۴) سیرت ابن ہشام ج ۱، المشرکون عند ابی طالب لَمَّاثقل بہ المرض یطلبون عہدًا بینہم و بین الرسول۔ ٭ ترمذی کتاب التفسیر ج ۲ سورہ صٓ ٭ ابن جریر ج ۱، پ ۲۳۔ سورہ صٓ ٭المستدرک ج ۲، کتاب التفسیر سورہ صٓ۔ ٭ مسند احمد، ج ۱ عن ابن عباس ٭ فتح القدیر للشوکانی ج ۴، بحوالہ ابن ابی شیبۃ، عبدابن حمید، نسائی، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، بیہقی فی الدلائل عن ابن عباس۔
(۵۵) تفسیر ابن جریر، ج ۲۲/۲۴، سورہ صٓ ٭ ابن کثیر ج ۴، سورہ صٓ
(۵۶) تفسیر ابن جریر ج ۲۲/۲۴، سورہ صٓ۔
(۵۷) ترمذی: ابواب التفسیر سورۃ صٓ ٭ ابن جریر ج ۲۲/۲۳، سورہ صٓ ٭ ابن کثیر، ج ۴، سورۃ صٓ ٭ مسند احمد، ج ۱ ٭ المستدرک للحاکم، ج ۲ کتاب التفسیر: سورہ صٓ ٭مستدرک میں تدین کے بجائے تذل کا لفظ ہے ٭ روح المعانی جلد ۲۳روح المعانی میں وتؤدّی الیہم بہا کے الفاظ ہیں۔
(۵۸) طبقات ابن سعد: ج ۱، ذکر مشی قریش الی ابی طالب فی امرہ ﷺ۔
(۵۹) تفسیر ابن جریر جز ۲۸/۳۰، پ ۲۹ سورہ نوح ٭ تفسیرکشّاف: سورہ نوح۔ ٭ ابنِ کثیر: ج ۴، سورۂ نوح۔
(۶۰) الکشّاف، پ ۲۹، سورہ نوح۔
(۶۱) بخاری، ج ۲، کشاب التفسیر: سورہ جاثیہ: باب و مایہلکنا الاالدہر ٭ بخاری، ج ۲، کتاب التوحید: باب قول اللّٰہ یرید ون ان یبدّلواکلام اللّٰہ ٭ بخاری، ج ۲، کتاب الادب: باب الا تسبوا الدہر ٭ مسلم: ج ۲،کتاب الالفاظ۔ باب النہی عن سب الدہر ٭ ابوداؤد: کتاب الادب: باب فی الرجل یسب الدہر ٭ فتح القدیر للشوکانی: ج ۵، بحوالہ ابن ابی حاتم، ابن مردویہ ٭ مسند احمد ، ج ۲، ابوہریرۃ۔
(۶۲) بخاری، ج ۲، کتاب الادب: باب لآ تَسُبُّوا الدَّہر۔
(۶۳) مسند احمد، ج ۲۔
(۶۴) تفسیر ابن جریر طبری، پ ۲۵: سورۂ جاثیہ۔
(۶۵) مسند احمد ج ۲، مرویات ابی ہریرۃ۔
(۶۶) تفسیر ابن جریر طبری: پ ۲۵، سورۃ جاثیہ ٭ مسند احمد: ج ۲، ج ۵،۔
(۶۷) مؤطا امام مالک۔ ج۲: کتاب الجامع: باب مایکرہ من الکلام۔
(۶۸) موطا امام مالک۔ کتاب الصلوٰۃ: جامع الصلوٰۃ۔ ٭ مسند احمد: ج ۵، مرویات عبید اللّٰہ بن عدی بن خیار۔
(۶۹) مسند احمد: ج ۵۔
(۷۰) بخاری، ج ۲، کتاب الادب: باب من اکفر اخاہ بغیر تاویل فہو کما قال ٭ مسلم، ج ۱، کتاب الایمان: باب حال من قال لافیہ المسلم یا کفر٭ ترمذی: ابواب الایمان: باب فیمن رمیٰ اخاہ بکفر٭ مؤطا امام مالک: باب مایکرہ من الکلام ج ۲۔
(۷۱) ابوداؤد: کتاب السنۃ: باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ ٭مسند احمد۔
(۷۲) بخاری، ج ۲،کتاب الادب باب ما ینہی عن السباب واللعن۔ ٭ مسند احمد: ج ۵٭بخاری کی ایک روایت میں وَمَنْ رمیٰ مُؤْمِناً بِکفْرٍ فَہُوَ کَقَتْلِہٖ کے الفاظ بھی ہیں۔ بخاری، ۲، کتاب الادب باب من اکفر اخاہ بغیر تاویل فہو کما قال۔
(۷۳) مسلم، ج ۱،کتاب الایمان باب بیان حال ایمان من قال لاخیہ المسلم یا کافر۔
(۷۴) مسلم ج ۱، کتاب الایمان باب بیان حال ایمان من قال لاخیہ المسلم یاکافر ۔٭ ترمذی ابواب الایمان باب فیمن رمی اخاہ بکفر۔بخاری کی ایک روایت میں وَمَنْ رمیٰ مُؤْمِنًا بِکفْرٍ فَہُوَ کَقَتْلِہٖ کے الفاظ بھی ہیں۔
(۷۵) مسلم ج۱، کتاب الایمان باب بیان حال من قال لا خیہ المسلم یاکافر۔
(۷۶) بخاری ج ۲، کتاب الادب باب ماینہی عن السباب واللعن۔ ٭ مسلم ج ۱، کتاب الایمان باب بیان غلظ تحریم قتل الانسان نفسہ الخ۔ ٭ مسند احمد ج ۴۔
(۷۷) ترمذی ابواب الایمان باب فیمن رمی اخاہ بکفر۔
(۷۸) بخاری، ج ۱،کتاب الایمان باب خوف المؤمن۔ ٭ بخاری، ج ۲، کتاب الادب باب ینہی عن السباب واللعن، ٭ بخاری، ج ۲، کتاب الفتن باب قول النبی ﷺ لاترجعوا بعدی کفاراً ضرب بعضکم رقاب بعض۔ ٭ مسلم ج۱، کتاب الایمان باب بیان قول النبی ﷺ سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر۔ ٭ ترمذی ابواب البر، ابواب الایمان٭ نسائی : کتاب التحریم۔ ٭ ابن ماجہ: کتاب الفتن ، المقدمۃ۔ ٭ مسند احمد : ج ۱۔ مندرجہ بالا حوالہ جات کے تحت سباب المسلم (اخاہ) فسوق و قتالہ کفر قتال مسلم المومن (اخاہ) کفر و سبابہ فسق کی روایت نقل ہوئی ہے۔٭ ترمذی، ابواب الایمان باب ماجاء سباب المسلم فسوق۔
(۷۹) ابن ماجہ: ابواب الفتن باب سباب المسلم فسوق و قتالہ کفر۔٭ مسند احمد بن جنبل ج ۱، عن ابن مسعود۔
(۸۰) بخاری، ج ۲، کتاب المغازی: باب بعث علی ابن ابی طالب وخالد بن الولید الی الیمن قبل حجۃ الوداع ٭مسلم، ج ۱،کتاب الزکوٰۃ: باب اعطاء المؤلفۃ الخ ٭ مسند احمد: ج ۳، روایت ابوسعید خدری۔ ٭ البدایہ النہایہ ج۵۔
(۸۱) ابن ماجہ: کتاب الفتن ح ۳۹۳ ٭ مجمع الزوائد: ج ۱، جندب بن سفیان ۔
(۸۲) مسلم: ج ۱ کتاب الایمان، باب تحریم قتل الکافر بعد قولہٖ لاالہ الا اللّٰہ ٭ابوداؤد: کتاب الجہاد: باب علی مایقاتل المشرکون۔ ابوداؤد نے فادرکت اور فطغتہ کی جگہ فلما غشینا فضربناہ حتی قاتلنا نقل کیا ہے٭ابن ماجہ: کتاب الفتن: باب الکف عمن قال لا الہ الا اللّٰہ ٭ مسند احمد: ج ۵، اسامہ بن زید: ج ۲، ٭ مسند ابی عوانہ: ج ۱۔
(۸۳) بخاری: کتاب المغازی باب … ج ۲۔ کتاب الدیات: ج ۲ ٭ مسلم ، ج ۱،کتاب الایمان: باب تحریم قتل الکافر بعد قول لا الہ الا اللّٰہ ٭ ابوداؤد: کتاب الجہاد: باب علی مایقاتل المشرکون ٭ مسند ابی حوانۃ: ج ۱۔
(۸۴) طبرانی اوسط عن ابن مسعود ٭ کنزالعمال: ج ۱،ح ۳۶۹، بحوالہ طبرانی کبیر اور حلیہ ابی نعیم عن ابن مسعود ٭ مجمع الزوائد للہیثمی ج ۱، اس میں فلیرفع ہے۔
(۸۵) ابوداؤد: کتاب الفرائض: باب ہل یرث المسلم الکافر ٭ ترمذی: ابواب الفرائض: باب ماجاء فی ابطال المیراث

خدا کے سواہر شے فانی ہے

۴۵۔ اَنْتَ الْاَوَّلُ فلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْیٌٔ وَاَنْتَ الْاٰخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْیٌٔ وَاَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْیٌٔ وَاَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْیٌٔ۔
ترجمہ و پس منظر: یہ نبی ﷺ کی ایک دعا کے الفاظ ہیں جنھیں امام احمد ،مسلم، ترمذی اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور حافظ ابویعلی موصلی نے اپنی مسند میں حضرت عائشہؓ سے نقل کیا ہے۔ ’’تو ہی پہلا ہے، کوئی تجھ سے پہلے نہیں، تو ہی آخر ہے کوئی تیرے بعد نہیں، تو ہی ظاہر ہے کوئی تجھ سے اوپر نہیں، توہی باطن ہے کوئی تجھ سے مخفی تر نہیں۔‘‘
تشریح: یعنی جب کچھ نہ تھا تو وہ تھا اور جب کچھ نہ رہے گا تو وہ رہے گا۔ وہ سب ظاہروں سے بڑھ کر ظاہر ہے، کیوں کہ دنیا میں جو کچھ بھی ظہور ہے اسی کی صفات اور اسی کے افعال اور اسی کے نور کا ظہور ہے اور وہ ہر مخفی سے بڑھ کر مخفی ہے، کیوں کہ حواس سے اس کی ذات کو محسوس کرنا تو درکنار ، عقل و فکر و خیال تک اس کی کنہہ و حقیقت کو نہیں پاسکتے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں اہل جنت اور اہل دوزخ کے لیے خلود اور ابدی زندگی کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کے ساتھ یہ بات کیسے نبھ سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آخر ہے، یعنی جب کچھ نہ رہے گا تو وہ رہے گا؟ اس کا جواب خود قرآن ہی میں موجود ہے کہ کُلُّ شَیْ ئٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ (القصص: ۸۸) یعنی ’’ہر چیز فانی ہے اللہ کی ذات کے سوا۔ ‘‘ دوسرے الفاظ میں ذاتی بقا کسی مخلوق کے لیے نہیں ہے اگرکوئی چیز باقی ہے یا باقی رہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے باقی رکھنے ہی سے باقی ہے اور اس کے باقی رکھنے ہی سے باقی رہ سکتی ہے، ورنہ بذات خود اس کے سوا سب فانی ہیں۔ جنت اور دوزخ میں کسی کو خلود اس لیے نہیں ملے گا کہ وہ بجائے خود غیر فانی ہے، بلکہ اس لیے ملے گا کہ اللہ اس کو حیات ابدی عطا فرمائے گا۔ یہی معاملہ فرشتوں کا بھی ہے کہ وہ بذات خود غیر فانی نہیں ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو وہ وجود میں آئے اور جب تک وہ چاہے گا اسی وقت تک وہ موجود رہ سکتے ہیں۔ (تفہیم القرآن: ج ۵، الحدید: حاشیہ:۳)
تخریج:(۱) حَدَّثَنِیْ زُہَیْرُبْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِیْرٌ عَنْ سَہْلٍ، قَالَ: کَانَ اَبُو صَالحٍ یَأَمُرُنَا اِذَا اَرَادَ اَحَدُنَا اَنْ یَّنَامَ اَنْ یَضْطَجِعَ عَلیٰ شِقِّہِ الْاَیْمَنِ، ثُمَّ یَقُوْلُ: اللّٰہُمَّ! رَبَّ السَّمٰوٰتِ وَرَبَّ الْاَرْضِ وَربَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۔ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْیٍٔ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّویٰ وَمُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْفُرْقَانِ۔ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ ذِیْ شَرٍّ اَنْتَ اٰخذٌ بِنَا صِیَتِہٖ۔ اللّٰہُمَّ اَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْیٌٔ وَاَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْیٌٔ وَاَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْیٌٔ وَاَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْیٌٔ اِقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ وَاَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ۔ (۱)
ترجمہ: سہل روایت بیان کرتے ہیں کہ ابوصالح ہمیں حکم دیتے تھے کہ تم میں سے جب کوئی سونے کا ارادہ کرے تو بستر پر اپنی دائیں کروٹ کے بل لیٹ کر یہ دعا پڑھا کرے۔’’اے اللہ! اے ربِ ارض و سماوات، اے ربِ عرش عظیم، اے ہمارے پروردگار، اور ہر چیز کے رب ، اے گٹھلی اور دانے کے پھاڑنے والے، تورات ، انجیل اور فرقان کے نازل فرمانے والے۔ میں ہر شریر کے شر سے تیری پناہ کا طلب گارہوں۔ اس کی پیشانی تیرے قبضۂ قدرت میں ہے۔ الٰہی تو ہی اوّل ہے، تجھ سے پہلے کسی چیز کا وجود نہیں۔ توہی آخر ہے،تیرے بعد کسی شے کا وجود نہیں۔ تو ظاہر ہے۔ تجھ سے اوپر کوئی چیز نہیں، تو باطن ہے تجھ سے مخفی تر اور کوئی چیز نہیں، ہمارا قرض ادا فرمادے اور فقر و فاقہ سے ہمیں مستغنی اور بے نیاز کردے۔‘‘
(۲) حَدَّثَنَا عُقْبَۃُ، حَدَّثَنَا یُوْنُسُ، حَدَّثَنَا السِّرِّیُّ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنْ مَسْرُوْقٍ، عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّہَا قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ یَاْ مُرُ بِفِرَاشِہٖ فَیُفْرَشُ لَہٗ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ فَاِذَا اٰوٰی اِلَیْہِ تُوَسِّدُ کَفَّہُ الْیُمْنیٰ ثُمَّ ہَمَسَ مَا یُدْریٰ مَا یَقُوْلُ فَاِذَا کَانَ فِی اٰخِرِ اللَّیْلِ رَفَعَ صَوْتَہٗ فَقَالَ: اَللّٰہُمَّ رَبَّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ ورَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اِلٰہَ کُلِّ شَیْیٍٔ وَمُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْفُرْقَانِ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّویٰ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّکُلِّ شَیْیٍٔ اَنْتَ اٰخذٌ بِنَا صِیَتِہٖ اَللّٰہُمَّ اَنْتَ الْاَوَّلُ الَّذِیْ لَیْسَ قَبْلَکَ شَیْیٌٔ وَاَنْتَ الْآخِرُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَکَ شَیْیٌٔ۔ وَاَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْیٌٔ وَاَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْیٌٔ اِقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ وَاَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ۔ (۲)
اَلسِّرِّیّ بْن اسماعیل ہذا ہوابن عم الشعبی وہو ضعیف جدّا۔ واللّٰہ اعلم۔
ترجمہ: حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنا بستر لگانے کا حکم فرماتے تو آپ کا بستر قبلہ رخ لگادیا جاتا۔ جب آپ بستر پر تشریف لے جاتے تو اپنے سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی کو بطور تکیہ استعمال کرتے ( دائیں کروٹ لیٹتے اور اپنا رخسار مبارک اپنی دائیں ہتھیلی پر رکھتے) پھر آہستہ آہستہ زیر لب کچھ کہتے جس کا پتہ نہ چلتا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، جب رات کا آخری حصہ ہوتا تو بلند آواز سے یہ دعا پڑھتے۔ ’’ اے اللہ ساتوں آسمانوں کے مالک اور عرشِ عظیم کے مالک، ہر شے کے معبود حقیقی ،تو رات و انجیل اور فرقان کے نازل فرمانے والے۔ گٹھلی اور دانے کے پھاڑنے والے۔ میں تجھ سے ہر چیز کے شر سے پناہ کی استدعا کرتا ہوں۔ ہر چیز کی پیشانی تیری گرفت میں ہے۔ الٰہی ! تیری ذات گرامی ہی ہر چیز سے پہلے ہے، تجھ سے پہلے کسی چیز کا وجود نہیں اور تیری ذات بابرکات ہی سب سے آخر ہے تیرے بعدکوئی شے نہیں۔ تو ظاہر ہے تیرے اوپر کوئی چیز نہیں اور توہی باطن ہے۔ تجھ سے مخفی تر کوئی نہیں۔ ہمارا قرض ادا فرمادے اور فقر و فاقہ سے ہمیں بے نیاز و مستغنی کردے۔‘‘

ساری مخلوق کا رازق صرف اللہ ہے

۴۶۔ اللہ تعالیٰ ہر حاملہ کے پیٹ میں ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور وہ پیدا ہونے والے کا رزق، اس کی مدت عمر اور اس کا کام لکھ دیتا ہے۔
تشریح: اردو زبان میں رزق کا اطلاق صرف کھانے پینے کی چیزوں پر ہوتا ہے۔ اس غلط فہمی میں جہلا اور عوام ہی نہیں علماء تک مبتلا ہیں۔ حالاں کہ عربی زبان میں رزق محض خوراک کے معنی تک محدود نہیں ہے بلکہ عطا، بخشش اور نصیب کے معنی میں عام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی دنیا میں انسان کو دیا ہے وہ سب اس کا رزق ہے، حتّٰی کہ اولاد تک رزق ہے۔ اسماء الرجال کی کتابوں میں بکثرت راویوں کے نام رزق اور رزیق اور رزق اللہ ملتے ہیں جس کے معنی تقریباً وہی ہیں جو اردو میں اللہ دیے کے معنی ہیں۔ مشہور دعا ہے اَللّٰہُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًا وَارْزُقْنَا اِتِّبَاعَہٗ، یعنی ہم پر حق واضح کر اور ہمیں اس کے اتباع کی توفیق دے۔ محاورے میں بولا جاتا ہے رُزِقَ عِلْمًا فلاں شخص کو علم دیا گیا ہے۔
(مندرجہ بالا حدیث میں) رزق سے مراد وہ خوراک ہی نہیں ہے جو اس بچے کو آئندہ ملنے والی ہے بلکہ وہ سب کچھ ہے جو اسے دنیا میں دیا جائے گا۔ خود قرآن میں ہے وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ، جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پس رزق کو محض دسترخوان کی سرحدوں تک محدود سمجھنا اور یہ خیال کرنا کہ اللہ تعالیٰ کو صرف ان پابندیوں اور آزادیوں پر اعتراض ہے جو کھانے پینے کی چیزوں کے معاملہ میں لوگوں نے بطور خود اختیار کرلی ہے، سخت غلطی ہے۔ اور یہ کوئی معمولی غلطی نہیں ہے۔ اس کی بدولت خدا کے دین کی ایک بہت بڑی اصولی تعلیم لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی ہے۔ یہ اسی غلطی کا تو نتیجہ ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں حلّت و حرمت اور جواز و عدم جواز کا معاملہ توایک دینی معاملہ سمجھا جاتا ہے، لیکن تمدن کے وسیع تر معاملات میں اگر یہ اصول طے کرلیا جائے کہ انسان خود اپنے لیے حدود مقرر کرنے کا حق رکھتا ہے اور اسی بنا پر خدا اور اس کی کتاب سے بے نیاز ہو کر قانون سازی کی جانے لگے، تو عامی تو درکنار ، علمائے دین و مفتیان شرع متین اور مفسرین قرآن و شیوخ حدیث تک کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ چیز بھی دین سے اسی طرح ٹکراتی ہے جس طرح ماکولات و مشروبات میں شریعتِ الٰہی سے بے نیاز ہو کر جائز و ناجائز کے حدود بطور خود مقرر کرلینا۔ (تفہیم القرآن، ج ۲، یونس حاشیہ:۶۰)
تخریج: حَدَّثَنَا اَبُوالْوَلِیْدِ ہِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ: اَنْبَانِیْ سُلَیْمَانُ الْاَعْمَشُ قَالَ: سَمِعْتُ زَیْدَبْنَ وَہْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ وَہُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ اِنَّ خَلْقَ اَحَدِکُمْ یُجْمَعُ فِیْ بَطْنِ اُمِّہٖ اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا ثُمَّ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَبْعَثُ اللّٰہُ مَلَکًا فَیُؤْمَرُ بِاَرْبَعٍ بِرِزْقِہٖ وَاَجَلِہٖ وَشَقِیٌّ اَوْ سَعِیْدٌ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْہِ الرُّوْحُ فَوَاللّٰہِ اَنَّ اَحَدَ کُمْ اَوِ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ بِعَمَلِ اَہْلِ النَّارِ حَتّٰی مَایَکُوْنُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَہَا غَیْرُ ذِرَاعٍ اَوْذِرَاعٌ فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ الْکِتَابُ فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ اَہْلِ الْجَنَّۃِ فَیَدْ خُلَہَا وَاِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ بِعَمَلِ اَہْلِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی مَایَکُوْنُ بَیْنَہٗ وَ بَیْنَہَا غَیْرُ ذِرَاعٍ اَوْ ذِرَاعٌ فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ الْکِتَابُ فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ اَہْلِ النَّارِ فَیَدْخُلُہَاقَالَ اَبوعَبْدِ اللّٰہِ قَالَ آدَمُ اِلَّا ذِرَاعٌ۔ (۳)
ترجمہ: عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا کہ ہمیں صادق و مصدوق رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش کی نوعیت یہ ہے کہ ماں کے رحم میں چالیس روز تک نطفہ کی صورت میں رہتا ہے۔ پھر چالیس روز تک جماہوا خون (علقۃ) کی صورت میں پھر چالیس روز تک لوتھڑے یعنی (مضغہ) کی صورت میں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو چار چیزوں پر مامور ہوتا ہے۔ اس کا رزق ، اس کی موت کا وقت ، اس کا بدبخت (شقی) یا خوش بخت (سعید) ہونا درج کرتا ہے۔ پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے بہ خدا تم میں سے کوئی شخص اہل نار کے سے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس بندے اور دوزخ کے درمیان ہاتھ برابر فاصلہ رہ جاتا ہے کہ کتاب (تقدیر) اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ اہلِ جنت کے سے عمل کرنا شروع کردیتا ہے اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص اہل جنت کے سے عمل کرتا رہتا ہے کہ اس کے اور جنت کے دخول میں صرف ایک ہاتھ برابر فاصلہ باقی رہ جاتا ہے کہ کتاب (تقدیر) اس پر سبقت لے جاتی ہے اور وہ اہل نار کے سے عمل شروع کردیتا ہے اور دوزخ میں داخل ہوجاتا ہے۔
(۲) عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالکٍ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ وَکَّلَ اللّٰہُ بِالرَّحِمِ مَلَکًا فَیَقُوْلُ اَیْ رَبِّ نُطْفَۃً اَیْ رَبِّ عَلَقَۃً اَیْ رَبِّ مُضْغَۃً فَاِذَا اَرَاَداللّٰہُ اَنْ یَقْضیَ خَلْقَہَا قَالَ یَارَبِّ اَذَکَرٌ اَمْ اُنْثیٰ اَشَقِیٌّ اَمْ سَعِیْدٌ فَمَا الرِّزْقُ فَمَا الْاَجَلُ فَیَکْتُبُ کَذٰلِکَ فِیْ بَطْنِ اُمِّہٖ۔ (۴)
امام بخاری نے ابن مسعود کی روایت کتاب الانبیاء میں بھی بیان کی ہے۔
اس مقام پر بیان کردہ روایت میں شقیٌ اوسعید کے بعد ثم ینفخ فیہ الروح کا اضافہ ہے۔ نیز اس مقام پر انس بن مالک کی روایت بھی منقول ہے۔

بندوں کی اطاعت یا معصیت سے اللہ کی بادشاہت متأثر نہیں ہوتی

یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالیٰ یَا عِبَادِیْ لَوْاَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلیٰ اَتْقٰی قَلْبِ رَجُلٍ مِّنْکُمْ مَازَادَ ذٰلِکَ فِیْ مُلْکِیْ شَیْئًا ۔ یَا عِبَادِیْ لَوْاَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلیٰ اَفْجَرِقَلْبِ رَجُلٍ مِّنْکُمْ مَا نَقَصَ ذٰلِکَ فِیْ مُلْکِیْ شَیْئًا۔ یَا عِبَادِیْ اِنَّمَا ہِیَ اَعْمَالُکُمْ اُحْصِیْہَا لَکُمْ۔ ثُمَّ اُوْفِیْکُمْ اِیَّاہَا۔ فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا فَلْیَحْمَدِ اللّٰہَ وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذٰلِکَ فَلَا یَلُوْمَنَّ اِلَّا نَفْسَہٗ۔
ترجمہ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو، اگر اوّل سے آخر تک تم سب انس و جن اپنے سب سے زیادہ متقی شخص کے دل جیسے ہو جائو تو اس سے میری بادشاہی میں کوئی اضافہ نہ ہو جائے گا۔اے میرے بندو، اگر اوّل سے آخر تک تم سب انس و جن اپنے سب سے زیادہ بدکار شخص کے دل جیسے ہو جائو تو میری بادشاہی میں اس سے کوئی کمی نہ ہوجائے گی۔ اے میرے بندو! یہ تمہارے اپنے اعمال ہی ہیں جن کا میں تمہارے حساب میں شمار کرتا ہوں، پھر ان کی پوری پوری جزا تمہیں دیتا ہوں۔ پس جسے کوئی بھلائی نصیب ہوا سے چاہیے کہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جسے کچھ اور نصیب ہو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔
تشریح: اللہ کسی کے شکر کا محتاج نہیں ہے۔ اس کی خدائی میں کسی کی شکر گزاری سے نہ ذرہ برابر کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نہ کسی کی ناشکری و احسان فراموشی سے یک سرموکوئی کمی آتی ہے۔ وہ آپ اپنے ہی بل بوتے پر خدائی کررہا ہے، بندوں کے ماننے یا نہ ماننے پر اس کی خدائی منحصر نہیں ہے۔ یہی بات قرآن مجید میں ایک جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے نقل کی گئی ہے کہ اِنْ تَکْفُرُوْا اَنْتُمْ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا فَاِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ ۔ (ابراہیم:۸) اگر تم اور ساری دنیا والے مل کر بھی کفر کریں تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن، ج ۳، النمل: حاشیہ:۴۹)
یعنی (انسانوں کے) کفر سے اس کی خدائی میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آسکتی۔ تم مانو گے تب بھی وہ خدا ہے اور نہ مانوگے تب بھی وہ خدا ہے اور رہے گا۔ اس کی فرماں روائی اپنے زور پر چل رہی ہے ۔ تمہارے ماننے یا نہ ماننے سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑسکتا۔ (تفہیم القرآن، ج۴: الزمر : حاشیہ: ۱۹)
تخریج:(۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ بَھْرَامٍ الدَّارِمِیُّ، نَا مَرْوَانُ یعنی ابْنُ مُحَمَّدٍ الدِّمَشْقِیُّ، نا سَعِیْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْز، عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ یَزِیْدَ، عَنْ اَبِی اِدْرِیْسَ الْخَوْلَانِیِّ، عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ، عَنِ النَّبِیِّ ﷺ فِیْمَا رُوِیَ عَنِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ، اَنَّہٗ قَالَ: یَا عِبَادِیْ! اِنِّیْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلیٰ نَفْسِیْ وَجَعَلْتُہٗ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَلَا تُظَالِمُوْا، یَا عِبَادِیْ کُلُّکُمْ ضَٓالٌّ اِلَّا مَنْ ہَدَیْتُہٗ، فَاسْتَہْدُوْنِیْ اَہْدِکُمْ۔ یَا عِبَادِیْ! کُلُّکُمْ جَآئِعٌ اِلَّا مَنْ اَطْعَمْتُہٗ، فَاسْتَطْعِمُوْنِیْ اُطْعِمْکُمْ۔ یَاعِبَادِیْ! کُلُّکُمْ عَارٍ اِلَّا مَنْ کَسَوْتُہٗ فَاسْتَکْسُوْنِیْ، اُکْسِکُمْ۔ یَا عِبَادِیْ! اِنَّکُمْ تَخْطِئُوْنَ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَاَنَا اَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا فَاسْتَغْفِرُوْنِیْ، اَغْفِرْلَکُمْ۔ یَا عِبَادِیْ! اِنَّکُمْ لَنْ تَبَلُغُوْا ضَرِّیْ فَتَضَرُّوْنِیْ وَلَنْ تَبْلُغُوْا نَفْعِیْ فَتَنْفَعُوْنِیْ۔ یَاعِبَادِیْ! لَوْ اَنَّ اَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ واِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلیٰ اَتْقیٰ قَلْبِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ مِّنْکُمْ مَازَادَذَلِکَ فِی مُلْکِیْ شَیْئًا۔ یَا عِبَادِیْ! لَوْاَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلیٰ اَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ مِّنْکُمْ مَا نَقَصَ ذٰلِکَ مِنْ مُلْکِیْ شَیْئًا۔ یَا عِبَادِیْ! لَوْاَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ قَامُوْا فِیْ صَعِیْدٍ وَّاحِدٍ فَسَاَلُوْنِیْ فَاَعْطَیْتُ کُلَّ اِنْسَانٍ مَسْئَلَتَہٗ مَا نَقَصَ ذٰلِکَ مِمَّا عِنْدِیْ اِلَّا کَمَا یَنْقُصُ الْمَخِیْطُ اِذَا اُدْخِلَ الْبَحْرَ۔ یَا عِبَادِیْ! اِنَّمَا ہِیَ اَعْمَالُکُمْ اُحْصِیْہَا لَکُمْ ثُمَّ اُوْفِیْکُمْ اِیَّاہَافَمَن وَجَدَخَیْرًا فَلْیَحْمَدِ اللّٰہَ وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذٰلِکَ فَلَا یَلُوْمَنَّ اِلَّا نَفْسَہٗ۔ (۵)
قال سعید کان ابوادریس الخَوْلَانِیُّ اِذَا حَدَّثَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ جَثَا عَلیٰ رُکْبَتَیْہِ۔
ترجمہ: حضرت ابوذرؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے حدیث قدسی بیان فرمائی کہ اللہ عزّوجل نے فرمایا: ’’اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام قرار دے لیا ہے اور تمہارے درمیان بھی اسے حرام کردیا ہے لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ اے میرے بندو! تم سب کے سب گم کردہ راہ ہو اِلّا یہ کہ جس کسی کو میں راہِ ہدایت پر چلادوں۔ پس مجھ سے راہِ رشد و ہدایت طلب کرو میں تمہیں سیدھی راہ دکھائوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو بجزاس کے کہ جسے میں کھانا عطا کروں ۔ مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھانا دوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب بے لباس ہو اس شخص کے سوا جسے میں نے لباس پہنایا۔ مجھ سے لباس طلب کرو میں تمہاری تن پوشی کروں گا۔ اے میرے بندو! تم شب و روز خطائوں کا ارتکاب کرتے ہو اور میں سارے گناہ بخش دیتا ہوں۔ مجھ سے بخشش گناہ کی استدعا کرو میں گناہ معاف کردوں گا۔ اے میرے بندو! مجھے ضرر پہنچانا تمہاری پہنچ سے باہر ہے کہ تم مجھے ضرر دے سکو اور مجھے منفعت پہنچانا بھی تمہاری بساط سے باہر ہے کہ تم مجھے نفع پہنچا سکو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! اگر اوّل سے آخر تک تم سب انس و جن اپنے سب سے زیادہ متقی شخص کے دل جیسے ہو جائو تو اس سے میری بادشاہی میں کوئی اضافہ نہ ہوجائے گا۔ اے میرے بندو! اگر اوّل سے آخر تک تم سب انس اور جن اپنے سب سے زیادہ بدکار شخص کے دل جیسے ہو جائو تو میری بادشاہی میں اس سے کوئی کمی نہ ہوجائے گی۔ اے میرے بندو! اگر اوّل سے آخر تک تم انس و جن سب کے سب ایک ہی میدان میں جمع ہو کر اپنی اپنی خواہش کے مطابق مجھ سے مانگو اور میں ہر ایک کو اس کی خواہش کے مطابق اس کی طلب عطا کردوں تو اس سے میرے پاس موجود (خزانوں) میں اتنی بھی کمی واقع نہیں ہوگی جتنی کمی ایک سوئی کے سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر میں واقع ہوتی ہے۔ اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہی ہیں جن کا میں تمہارے حساب میں شمار کرتا ہوں، پھر ان کی پوری پوری جزا تمہیں دیتا ہوں۔ پس جسے کوئی بھلائی نصیب ہو اسے چاہیے کہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جسے کچھ اور نصیب ہو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔
(۲) حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ، نَا اَبُوالْاَحْوَصِ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ شَہْرِبْنِ حَوْشِبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ابْنِ غَنَمٍ، عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ : یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، یَا عِبَادِیْ! کُلُّکُمْ ضَآلٌّ اِلَّا مَنْ ہَدَیْتُ فَسَلُوْنِیْ الْہُدٰی، اَہْدِکُمْ۔ وَکُلُّکُمْ فَقِیْرٌ اِلَّامَنْ اَغْنَیْتُ فَسَلُوْنِیْ ۔اَرْزُقْکُمْ: وَکُلُّکُمْ مُذْنِبٌ اِلَّا مَنْ عَافَیْتُ فَمَنْ عَلِمَ مِنْکُمْ اِنِّیْ ذُوْقُدْرَۃٍ عَلَی الْمَغْفِرَۃِ فَاسْتَغْفِرُوْنِیْ غَفَرْتُ لَہٗ وَلَا اُبَالِیْ، وَلَوْاَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَحَیَّکُم ومَیِّتَکُمْ وَ رَطْبَکُمْ وَیَابِسَکُمْ اِجْتَمَعُوْا عَلیٰ اَتْقیٰ قَلْبِ عَبْدٍ مِنْ عِبَادِیْ مَازَادَذٰلِکَ فِیْ مُلْکِیْ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ وَلَوْاَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَحَیَّکُمْ وَمَیِّتَکُمْ وَرَطْبَکُمْ وَیَابِسَکُمْ اِجْتَمَعُوْا عَلیٰ اَشْقیٰ قَلْبِ عَبْدٍ مِّنْ عِبَادِیْ مَانَقَصَ ذٰلِکَ مِنْ مُّلْکِیْ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ۔ وَلَوْاَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وجِنَّکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَحَیّکُمْ وَمَیِّتَکُمْ وَرَطْبَکُمْ ویَابِسَکُمْ اِجْتَمَعُوْا فِیْ صَعِیْدٍ وَّاحِدٍ فَسَأَلَ کُلُّ اِنْسَانٍ مِّنْکُمْ مَا بَلَغَتْ اُمْنِیَّتُہٗ فَاَعْطَیْتُ کُلَّ سَآئِلٍ مِّنْکُمْ مَا نَقَصَ ذٰلِکَ مِنْ مُّلْکِیْ اِلَّا کَمَا لَوْاَنَّ اَحَدَکُمْ مُرَّبِالْبَحْرِ فَغَمَسَ فِیْہِ اِبْرَۃً ثُمَّ رَفَعَہَا اِلَیْہِ ذٰلِکَ بِاَنِّیْ جَوَّادٌ وَاجِدٌ مَا جِدٌ اَفْعَلُ مَا اُرِیْدُ عَطَائِیْ کَلَامٌ وَعَذَابِیْ کَلَامٌ اِنَّمَا اَمْرِیْ لِشَیْیٍٔ اِذَا اَرَدْتُّ اَنْ اَقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ۔ (۶)
ہذا حدیث حسن، وروی بعضہم ہذا الحدیث عن شہربن حوشب، عن معدیکرب، عن ابی ذر، عن النبی ﷺ نحوہ۔
ترجمہ: حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔’’اے میرے بندو! تم سب گم کردہ راہ ہو ، بجز اس کے جسے میں ہدایت سے نوازدوں۔ پس مجھ سے ہدایت طلب کرو میں تمہیں راہ راست دکھائوں گا۔ اور تم سب فقیر و محتاج ہو اس شخص کے سوا جسے میں غنی بنادوں۔ مجھ سے رزق مانگو، میں تمہیں رزق عطا کروں گا۔ تم سبھی گنہہ گار ہو، اس شخص کے علاوہ جسے میں بچالوں۔تم میں سے جسے یہ علم ہے کہ میں بخشش و مغفرت کی قدرت کا مالک ہوں وہ مجھ سے معافی اور بخشش مانگے میں اسے معاف کردوں گا اور مجھے اس کی قطعاً پروا نہیں۔ اور اگر تم سب جن و انس اوّل سے آخر تک ، زندہ و مردہ، تر اور خشک ،میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ متقی شخص کے دل جیسے ہوجائو تو میری بادشاہی میں مچھر کے پر جتنا بھی اضافہ نہ ہوجائے گا اور اگر تمہارے اوّل آخر ، زندہ و مردہ، تر و خشک ، میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ بدکار شخص کے دل جیسے ہو جائو تو بھی میری بادشاہت میں مچھر کے پر کے برابر کمی واقع نہیں ہوگی۔ اور اگر اوّل تا آخر ، زندہ و مردہ ، رطب ویابس، تمام جن و انس ایک صاف میدان میں جمع ہوجائو اور ہر انسان اپنی انتہائی خواہش اور تمنا کے مطابق مجھ سے اپنی ضرورت طلب کرے اور میں ہر سائل کی ہر خواہش پوری کردوں تو بھی اس سے تو میری بادشاہی میں اتنی کمی بھی واقع نہ ہوگی جیسے سمندر میں سوئی ڈبو کر باہر نکالنے سے سمندر میں کمی واقع ہوتی ہے۔ کیونکہ میں سخی ہوں، جوّاد ہوں،ماجد ہوں، واجد ہوں، جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔ میرا عطا کرنا بھی میرے کلام پر موقوف ہے اور میرا عذاب بھی میرے کلام پر، جب مجھے کوئی کام کرنا ہوتا ہے تو اسے صرف کن (ہوجا) کہتا ہوں اور وہ ہوجاتا ہے۔‘‘
حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ، حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ، ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ وَعَبْدُ الصَّمَدِ المعنی، قَالَا: ثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَۃَ، قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ: ثنا قَتَادَۃُ عَنْ اَبِیْ قِلَابَۃَ، عَنْ اَبِی اَسْمَائَ وَقَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ الرَّحْبِیُّ عَنْ اَبِیْ ذَرٍّعَنِ النَّبِیِّ ﷺ فِیْمَا یَرْوِیْ عَنْ رَّبِّہٖ عَزَّوَجَلَّ: اِنِّیْ حَرَّمْتُ عَلیٰ نَفْسِی الظُّلْمَ وَعَلیٰ عِبَادِیْ۔ اَلَا! فَلَا تُظَالِمُوْا کُلُّ بَنِیْ آدَمَ یُخْطِیْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِثُمَّ یَستَغْفِرُنِیْ فَاَغْفِرُلَہٗ وَلَا اُبَالِیْ۔ وَقَالَ: یَا بَنِیْ آدَمَ! کُلُّکُمْ کَانَ ضَآلًّا اِلَّا مَنْ ہَدَیْتُ وَکُلُّکُمْ کَانَ عَارِیًا اِلَّا مَنْ کَسَوْتُ وَکُلُّکُمْ کَانَ جَآئِعًا اِلّامَنْ اَطْعَمْتُ وَکُلُّکُمْ کَانَ ظَمْآناًاِلَّا مَنْ سَقَیْتُ فَاسْتَہْدُوْنِیْ اَہْدِکُمْ وَاسْتَکْسُوْنِیْ اُکْسِکُمْ وَاسْتَطْعِمُوْنِیْ اُطْعِمْکُمْ وَاسْتَسْقُوْنِیْ اُسْقِکُمْ۔ یَا عِبَادِیْ! لَوْاَنَّ اَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَجِنَّکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَصَغِیْرَکُمْ وَکَبِیرَکُمْ وَذَکَرَکُمْ واُنْثَاکُمْ۔ قَال عبدالصّمد وعُسِیَّکُمْ وبَنِیَّکُمْ عَلیٰ قَلْبِ اَتْقَاکُمْ رَجُلًا وَاحِدًا لَمْ تَزِیْدُوْا فِیْ مُلْکِیْ شَیْئًا، وَلَوْاَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَجِنَّکُمْ وَاِنسَکُمْ وَصَغِیْرَکُمْ وَکَبِیْرَکُمْ وَذَکَرَکُمْ وَاُنْثَاکُمْ عَلیٰ قَلْبِ اَکْفَرِکُمْ رَجُلًا لَمْ تَنْقُصُوْا مِنْ مُلْکِیْ شَیْئًا اِلَّا کَمَا یَنْقُصُ رَأَسُ الْمَخِیْطِ مِنَ الْبَحْرِ۔ (۷)
ترجمہ: حضرت ابوذرؓ نبی ﷺ سے ایک حدیث قدسی بیان کرتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ’’میں نے اپنے اوپر اوراپنے بندوں پر ظلم کو حرام قرار دے دیاہے۔ خبردار! آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ ساری اولادِ آدم شب و روز خطائوں کا ارتکاب کرتی ہے، پھر مجھ سے بخشش طلب کرتی ہے تو میں بخش دیتا ہوں اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ پھر فرمایا۔ اے اولادِ آدم! تم سب گم کردہ راہ ہو بجز اس کے جسے میں راہِ ہدایت دکھائوں اور تم سب بے لباس ہو ماسوا اس کے جسے میں لباس عنایت کردوں، اور تم تمام کے تمام بھوکے ہو مگر جسے میں کھانا عطا کردوں، اور تم سب پیاسے ہو مگر جسے میں سیراب کردوں۔ لہٰذا مجھ سے راہِ ہدایت طلب کرو میں سیدھی راہ دکھائوں گا، مجھ سے لباس مانگو میں لباس دوں گا، مجھ سے کھانا طلب کرو میں کھانا دو ںگا، مجھ سے پانی مانگو میں پانی پلائوں گا۔ اے میرے بندو! اگر اوّل سے آخر تک تم سب جن و انس، چھوٹے بڑے ، مرد، عورت، کہا عبدالصمد نے ، اور تمہارے بوڑھے اور بچے اپنے میں سب سے متقی شخص کے دل جیسے ہوجائو تو میری بادشاہی میں ذرہ برابر اضافہ نہ ہوگا۔اور اگر اوّل سے آخر تک تمہارے سب جن و انس چھوٹے بڑے مذکر مونث اپنے میں سب سے زیادہ کافر کے دل جیسے ہوجائو تو میری بادشاہی میں اتنی کمی بھی واقع نہ ہوگی جتنی سمندر میں سوئی ڈبونے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے۔‘‘

تخلیقِ کائنات دلیلِ خالقِ کائنات

(حضرت قتادہؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقَادِرٍ عَلیٰ اَنْ یُحْیِیَ المَوْتیٰ کی تفسیر منقول ہے کہ) رسول اللہ ﷺ جب (سورہ قیامہ کی آخری آیت یعنی (اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقَادِرٍ عَلیٰ اَنْ یُحْیِیَ الْمَوْتیٰ )’’کیا وہ اس پر قادر نہیں ہے کہ مرنے والوں کو پھر سے زندہ کردے۔‘‘ تلاوت فرماتے تو اللہ تعالیٰ کے اس سوال کے جواب میں کبھی (بلی، کیوں نہیں)کبھی سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ فَبَلیٰ،پاک ہے تیری ذات ، خداوندا ! کیوں نہیں) اور کبھی (سُبْحٰنَکَ فَبَلیٰ یا سُبْحَانَکَ وَبَلیٰ ) فرمایا کرتے تھے۔ (ابن جریر، ابن حاتم، ابوداؤد) (تفہیم القرآن، ج ۶، القیامہ حاشیہ:۲۵)
تخریج: قَالَ ابنُ جَرِیْرٍ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ، حَدَّثَنَا یَزیْدُ، حَدَّثَنَا سَعِیْدٌ عَنْ قَتَادَۃَ قَوْلِہٖ تعالیٰ۔ ’’اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلیٰ اَنْ یُّحْیِیَ الْمَوْتیٰ۔‘‘ ذَکَرَ لَنَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ کَانَ اِذَا قَرَأَہَا قَالَ: سُبْحَانَکَ وَبَلیٰ۔ (۸)
فتح القدیر للشوکانی ج ۵ بہ حوالہ عبد بن حمید اور ابن الانباری عن صالح سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبَلیٰ اور ابن مردویہ نے براء بن عازب کے حوالے سے سُبْحَانَکَ رَبِّی وَبلیٰ بھی نقل کیا ہے۔
ابن ابی حاتم نے سُبْحَانَکَ فَبَلیٰ بھی نقل کیا ہے۔
۲- حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا جب تم سورہ ’’تِین‘‘ میں آیت اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحَاکِمِیْنَ (کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیںہے؟) پڑھو تو کہو بَلیٰ وَاَنَا عَلیٰ ذٰلِکَ مِنَ الشَّاہِدِیْنَ (کیوں نہیں، میں اس پر گواہی دینے والوں میں سے ہوں) اور جب سورہ قیامہ کی یہ آیت (اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلیٰٓ اَنْ یُّحْیِیَ الْمَوْتیٰ) ’’کیا وہ اس پر قادر نہیں ہے کہ مرنے والوں کو پھر سے زندہ کردے؟‘‘ پڑھو تو کہو بَلیٰ ۔ اور جب سورۂ مرسلات کی آیت فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ ’’ اس قرآن کے بعد یہ لوگ اور کس بات پر ایمان لائیں گے؟‘‘ پڑھو تو کہو اٰمَنَّا بِاللّٰہِ ہم اللہ پر ایمان لائے۔‘‘
تخریج: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِنِ الزُّہْرِیُّ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ، حَدَّثَنِیْ اِسْمَاعِیْلُ بْنُ اُمَیَّۃَ، سَمِعْتُ اَعْرَابِیًّا یَقُوْلُ: سَمِعْتُ اَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: مَنْ قَرَئَ مِنْکُمْ وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ، فَانْتَہیٰ اِلیٰ آٰخِرِہَا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحَاکِمِیْنَ؟ فَلْیَقُلْ بَلیٰ وَاَنَا عَلیٰ ذٰلِکَ مِنَ الشَّاہِدِیْنَ۔ وَمَنْ قَرَئَ لَا اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ، فَانْتَہیٰ اِلیٰ قَوْلِہٖ اَلَیسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلیٰ اَنْ یُحْیِیَ الْمَوْتیٰ فَلْیَقُلْ بَلیٰ۔ وَمَنْ قَرَئَ و الْمُرْسَلَاتِ فَبَلَغَ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہٗ یُؤْ مِنُوْنَ؟ فَلْیَقُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ۔ (۹)
(اسی مضمون کی روایت امام احمد، ترمذی، ابن المنذر، ابن مردویہ، بیہقی اور حاکم نے بھی نقل کی ہیں)
تشریح: مندرجہ بالا احادیث میں حضوؐر نے مسلمانوں کو قرآن کریم کی چند آیات کا جواب دینے کی تلقین کی ہے۔ گویا کہ ان کو صرف دل سے سمجھ لینا کافی نہیں بلکہ زبان سے صاف طور پر ان کا جواب دینا چاہیے کیونکہ تخلیق آدم، حیات بعد الموت اور خدا کی وحدانیت کے بارے میں اقوام نے ہمیشہ دھوکا کھایا ہے۔ حالانکہ ہر ذی شعور انسان فوراً ان باتوں کو سمجھ سکتا ہے۔

انسان کا تخلیقی مادہ

(غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے انسان کی حقیقت کیا ہے) انسان کا مایۂ تخلیق اس کے سوا کیا ہے کہ چندبے جان مادے ہیں جو زمین میں پائے جاتے ہیں، مثلاً کچھ کاربن، کچھ کیلشیم ، کچھ سوڈیم اورایسے ہی چند اور عناصر۔ انہی کو ترکیب دے کر وہ حیرت انگیز ہستی بناکھڑی کی گئی ہے جس کا نام انسان ہے اوراس کے اندر احساسات، جذبات ، شعور، تعقل اور تخیل کی وہ عجیب قوتیں پیدا کردی گئی ہیں جن میں سے کسی کا منبع بھی اس کے عناصر ترکیبی میں تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ پھر یہی نہیں کہ ایک انسان اتفاقاً ایسا بن کھڑاہوا ہو، بلکہ اس کے اندر وہ عجیب تولیدی قوت بھی پیدا کردی گئی ہے جس کی بدولت کروڑوں اور اربوں انسان وہی ساخت اور وہی صلاحتیں لیے ہوئے بے شمار موروثی اور بے حدوحساب انفرادی خصوصیات کے حامل نکلتے چلے آرہے ہیں۔ کیا (تمہاری) عقل یہ گواہی دیتی ہے کہ یہ انتہائی حکیمانہ خلقت کسی صانع حکیم کی تخلیق کے بغیر آپ سے آپ ہوگئی ہے؟ کیا تم بحالت ہوش و حواس یہ کہہ سکتے ہو کہ تخلیق انسان جیسا عظیم الشان منصوبہ بنانا اور اس کو عمل میں لانا اور زمین و آسمان کی بے حدوحساب قوتوں کو انسانی زندگی کے لیے سازگار کردینا بہت سے خدائوں کی فکر و تدبیر کا نتیجہ ہوسکتا ہے؟ اور کیا تمہارا دماغ اپنی صحیح حالت میں ہوتا ہے جب تم یہ گمان کرتے ہو کہ جو خدا انسان کو خالص عدم سے وجود میں لایا ہے وہ اسی انسان کو موت دینے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا؟

خالق کا کمالِ حکمت

(پھر) خالق کا کمالِ حکمت یہ ہے کہ اس نے انسان کی صرف ایک صنف نہیں بنائی، بلکہ اسے دو صنفوں (Sexes) کی شکل میں پیدا کیا جو انسانیت میں یکساں ہیں جن کی بناوٹ کا بنیادی فارمولا بھی یکساں ہے، مگر دونوں ایک دوسرے سے مختلف جسمانی ساخت مختلف ذہنی و نفسی اوصاف اور مختلف جذبات و داعیات لے کر پیدا ہوتی ہیں۔ پھر ان کے درمیان یہ حیرت انگیز مناسبت رکھ دی گئی ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہے۔ ہر ایک کا جسم اور اس کے نفسیات و داعیات دوسرے کے جسمانی و نفسیاتی تقاضوں کا مکمل جواب ہیں۔ مزید برآں وہ خالق حکیم ان دونوں صنفوں کے افراد کو آغاز آفرینش سے برابر اس تناسب کے ساتھ پیدا کیے چلا جارہا ہے کہ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دنیا کی کسی قوم یا کسی خطۂ زمین میں صرف لڑکے ہی لڑکے پیدا ہوئے ہوں، یا کہیں کسی قوم میں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوتی چلی گئی ہوں۔ یہ ایسی چیز ہے جس میں کسی انسانی تدبیر کا قطعاً کوئی دخل نہیں ہے۔ انسان ذرہ برابر بھی نہ اس معاملہ میں اثر انداز ہوسکتا ہے کہ لڑکیاں مسلسل ایسی زنانہ خصوصیات اور لڑکے مسلسل ایسی مردانہ خصوصیات لیے ہوئے پیدا ہوتے رہیں جو ایک دوسرے کا ٹھیک جوڑ ہوں، اور نہ اس معاملہ میں اس کے پاس اثر انداز ہونے کا کوئی ذریعہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کی پیدائش اس طرح مسلسل ایک تناسب کے ساتھ ہوتی چلی جائے۔ ہزار ہا سال سے کروڑوں اور اربوں انسانوں کی پیدائش میں اس تدبیر و انتظام کا اتنے متناسب طریقے سے پیہم جاری رہنا اتفاقاً بھی نہیں ہوسکتا، اور یہ بہت سے خدائوں کی مشترک تدبیر کا نتیجہ بھی نہیں ہوسکتا۔ یہ چیز صریحاً اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ ایک خالق حکیم اور ایک ہی خالقِ حکیم نے اپنی غالب حکمت و قدرت سے ابتداء ً مرد اور عورت کا ایک موزوں ترین ڈیزائن بنایا، پھر اس بات کا انتظام کیا کہ اس ڈیزائن کے مطابق بے حدوحساب مرد اور بے حدوحساب عورتیں اپنی الگ الگ انفرادی خصوصیات لیے ہوئے دنیا بھر میں ایک تناسب کے ساتھ پیدا ہوں۔
(تفہیم القرآن، ج ۳، الروم، حاشیہ:۲۸)
اللہ کی بادشاہی کے مطلق (Absolute) ہونے کا ایک کھلا ہوا ثبوت (یہ) ہے کہ کوئی انسان خواہ وہ بڑے سے بڑے دنیوی اقتدار کا مالک بناپھرتا ہو، یا روحانی اقتدار کا مالک سمجھا جاتا ہو، کبھی اس پر قادر نہیں ہوسکا ہے کہ دوسروں کو دلوانا تو درکنار ، خود اپنے ہاں اپنی خواہش کے مطابق اولاد پیدا کرسکے۔ جسے خدانے بانجھ کردیا وہ کسی دوا اور کسی علاج اور کسی تعویذ گنڈے سے اولاد والا نہ بن سکا۔ جسے خدا نے لڑکیاں ہی لڑکیاں دیں وہ ایک بیٹابھی کسی تدبیر سے حاصل نہ کرسکا اور جسے خدا نے لڑکے ہی لڑکے دیے وہ ایک بیٹی بھی کسی طرح نہ پاسکا۔ اس معاملہ میں ہر ایک قطعی بے بس رہا ہے، بلکہ بچے کی پیدائش سے پہلے کوئی یہ تک نہ معلوم کرسکا کہ رحم مادر میں لڑکا پرورش پارہا ہے یا لڑکی۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کوئی خدا کی خدائی میں مختارِکل ہونے کا زعم کرے، یا کسی دوسری ہستی کو اختیارات میں دخیل سمجھے تو یہ اس کی اپنی ہی بے بصیرتی ہے جس کا خمیازہ وہ خود بھگتے گا۔ کسی کے اپنی جگہ کچھ سمجھ بیٹھنے سے حقیقت میں ذرہ برابربھی تغیر واقع نہیں ہوتا۔ (تفہیم القرآن، ج ۴، الشوریٰ، حاشیہ:۷۷)

حیات بعد موت کا امکان

حیات بعد موت کے امکان کے سلسلے میں انسان کی تخلیق سب سے بڑی دلیل ہے۔ (چنانچہ) جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو یہ مانتے ہیں کہ ابتدائی نطفے سے تخلیق کا آغاز کرکے پورا انسان بنا دینے تک کا پورا فعل اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت اور حکمت کا کرشمہ ہے۔ ان کے لیے توفی الحقیقت اس دلیل کا کوئی جواب ہے ہی نہیں، کیونکہ وہ خواہ کتنی ہی ڈھٹائی برتیں، ان کی عقل یہ تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرسکتی کہ جو خدا اس طرح انسان کو دنیا میں پیدا کرتا ہے وہ دوبارہ بھی اسی انسان کو وجود میں لے آنے پر قادر ہے۔ رہے وہ لوگ جو اس صریح حکیمانہ فعل کو محض اتفاقات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، وہ اگر ہٹ دھرمی پر تلے ہوئے نہیں ہیں تو آخر ان کے پاس اس بات کی کیا توجیہہ ہے کہ آغاز آفرینش سے آج تک دنیا کے ہر حصے اور ہر قوم میں کس طرح ایک ہی نوعیت کے تخلیقی فعل کے نتیجے میں لڑکوں اور لڑکیوں کی پیدائش مسلسل اس تناسب سے ہوتی چلی جارہی ہے کہ کہیں زمانے میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی انسانی آبادی میں صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں ہی پیدا ہوتی چلی جائیں اور آئندہ اس کی نسل چلنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے؟ کیا یہ بھی اتفاقاً ہی ہوئے چلا جارہا ہے؟ اتنا بڑا دعویٰ کرنے کے لیے آدمی کو کم از کم اتنا بے شرم ہوجانا چاہیے کہ وہ اٹھ کر بے تکلّف ایک روز یہ دعویٰ کر بیٹھے کہ لندن اور نیویارک ، ماسکو اور پیکنگ اتفاقاً آپ سے آپ بن گئے ہیں۔

ناقابلِ توجیہ حوادثِ حیات اور خالقِ کائنات

ایک معترض کے جواب میں:
(ناقابل توجیہہ حوادث حیات پر غور کرتے وقت) آپ پہلے کُل کے متعلق سوچیے کہ آیا یہ بغیر کسی خالق اور ناظم اور مدبّر کے موجود ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اگر خلقِ بے خالق اور نظم بے ناظم کے وجود پر آپ کا قلب مطمئن ہوجاتا ہے تو باقی سب سوالات غیر ضروری ہیں، کیونکہ جس طرح سب کچھ الل ٹپ بن گیا اسی طرح سب کچھ الل ٹپ چل بھی رہا ہے۔ اس میں کسی حکمت، مصلحت اور رحمت و ربوبیت کا کیا سوال؟ لیکن اگر اس چیز پر آپ کا دل مطمئن نہیں ہوتا تو پھر کُل کے جتنے پہلو بھی آپ کے سامنے ہیں؟ ان سب پر بحیثیت مجموعی غور کرکے یہ جاننے کی کوشش کیجیے کہ ان اشیاء کی پیدائش ، ان کا وجود، ان کے حالات اور ان کے اوصاف میں ان کے خالق و مدبّر کی کن صفات کے آثار و شواہد نظر آتے ہیں۔ کیا وہ غیر حکیم ہوسکتا ہے؟ کیا وہ بے علم اور بے خبر ہوسکتا ہے؟ کیا وہ بے مصلحت اور بے مقصد اندھا دھند کام کرنے والا ہوسکتا ہے؟ کیا وہ بے رحم اورظالم اور تخریب پسند ہوسکتا ہے؟ اس کے کام اس بات کی شہادت ہیں کہ وہ بنانے والا ہے یا اس بات کی کہ وہ بگاڑنے والا ہے؟ اس کی بنائی ہوئی کائنات میں صلاح اور خیر اور تعمیر کا پہلو غالب ہے یا فساد اور شراور خرابی کا پہلو؟ ان امور پر کسی سے پوچھنے کے بجائے آپ خود ہی غور کیجیے اور خود رائے قائم کیجیے۔ اگر بحیثیت مجموعی اپنے مشاہدے میں آنے والے آثار و احوال کو دیکھ کر آپ یہ محسوس کرلیں کہ وہ حکیم و خبیر ہے، مصلحت کے لیے کام کرنے والا ہے اور اس کے کام میں اصل تعمیر ہے نہ کہ تخریب ، تو آپ کو اس بات کا جواب خود ہی مل جائے گا کہ اس نظام میں جن جزو آثار و احوال کو دیکھ کر آپ پریشان ہورہے ہیں وہ یہاں کیوں پائے جاتے ہیں۔ ساری کائنات کو جو حکمت چلارہی ہے اس کے کام میں اگر کہیں تخریب کے پہلو پائے جاتے ہیں تو لامحالہ وہ ناگزیر ہی ہونے چاہئیں۔ یہ تخریب تعمیر ہی کے لیے مطلوب ہونی چاہیے۔ یہ جزوی فساد کلی صلاح ہی کے لیے مطلوب ہونا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ ہم اس کی ساری مصلحتوں کو کیوں نہیں سمجھتے تو بہر حال یہ واقعہ ہے کہ ہم اُن کو نہیں سمجھتے۔ یہ بات نہ میرے بس میں ہے اور نہ آپ کے بس میں کہ اس امر واقعی کو بدل ڈالیں۔ اب کیا محض اس لیے کہ ہم ان کونہیں سمجھتے یا نہیں سمجھ سکتے، ہم پر یہ جھنجھلاہٹ طاری ہوجانی چاہیے کہ ہم حکیم و خبیر کے وجود ہی کا انکار کردیں؟ یہ استدلال کہ ’’ یا تو ہر جزوی حادثے کی مصلحت ہماری سمجھ میں آئے یا پھر اس کے متعلق کوئی سوال ہمارے ذہن میں پیدا ہی نہ ہو، ورنہ ہم ضرور اسے خالق کی پالیسی میں جھول قرار دیں گے، کیونکہ اس نے ہمیں سوال کرنے کے قابل تو بنادیا لیکن جواب معلوم کرنے کے ذرائع عطا نہیں کیے۔‘‘ میرے نزدیک استدلال کی بہ نسبت جھنجھلاہٹ کی شان زیادہ رکھتا ہے۔ گویا آپ خالق کو اس بات کی سزا دینا چاہتے ہیں کہ اس نے آپ کو ہر سوال کا جواب پالینے کے قابل کیوں نہ بنایا، اور وہ سزا یہ ہے کہ آپ اسے اس بات کا الزام دے دیں گے کہ تیری پالیسی میں جھول ہے۔ اچھا یہ سزا آپ اس کو دے دیں۔ اب مجھے بتائیے کہ اس سے آپ کو کس نوعیت کا اطمینان حاصل ہوا؟ کس مسئلہ کو آپ نے حل کر لیا؟ اس جھنجھلاہٹ کو اگر آپ چھوڑ دیں تو بہ آسانی اپنے استدلال کی کمزوری محسوس کرلیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ سوال کرنے کے لیے جس قابلیت کی ضرورت ہے، جواب دینے یا جواب پانے کے لیے وہ قابلیت کافی نہیں ہوتی۔ خالق نے سوچنے کی صلاحیت تو آپ کو اس لیے دی ہے کہ اس نے آپ کو ’’انسان‘‘ بنایا ہے اور انسان ہونے کی حیثیت سے جو مقام آپ کو دیا گیا ہے اس کے لیے یہ صلاحیت آپ کو عطا کرنا ضروری تھا۔ مگر اس صلاحیت کی بنا پر جتنے سوالات کرنے کی قدرت آپ کو حاصل ہے ، ان سب کا جواب پانے کی قدرت عطا کرنا اس خدمت کے لیے ضروری نہیں ہے، جو مقام انسانیت پر رہتے ہوئے آپ کو انجام دینی ہے۔ آپ اس مقام پر بیٹھے بیٹھے ہر سوال کرسکتے ہیں لیکن بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کا جواب آپ اس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک کہ مقام انسانیت سے اٹھ کر مقام الوہیت پر نہ پہنچ جائیں اور یہ مقام بہر حال آپ کو نہیں مل سکتا۔ سوال کرنے کی صلاحیت آپ سے سلب نہیں ہوگی کیونکہ آپ انسان بنائے گئے ہیں۔ پتھر یا درخت یا حیوان نہیں بنائے گئے ہیں۔ مگر ہر سوال کا جواب پانے کے ذرائع آپ کو نہیںملیں گے، کیونکہ آپ انسان ہیں خدا نہیں ہیں۔ اسے اگر آپ خالق کی پالیسی میں ’’جھول‘‘ قرار دینا چاہیں تو دے لیجیے۔

توبہ کرنے والا اللہ کو بہت پیارا لگتا ہے

حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے نبی ﷺ نے تمثیلاً فرمایا) کہ اگر تم میں سے کسی شخص کا اونٹ ایک بے آب و گیاہ صحرا میں کھو یا گیا ہو اور اس کے کھانے پینے کا سامان بھی اونٹ پر ہو اور وہ شخص اس کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مایوس ہوچکا ہو یہاں تک کہ زندگی سے بے آس ہو کر ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا ہو، اور عین اس حالت میں یکایک وہ دیکھے کہ اس کا اونٹ سامنے کھڑا ہے ، تو اس وقت جیسی کچھ خوشی اس کو ہوگی، اس سے بہت زیادہ خوشی اللہ کو اپنے بھٹکے ہوئے بندے کے پلٹ آنے سے ہوتی ہے۔ (تفہیم القرآن :ج ۲، ہود :حاشیہ: ۱۰۱)
تخریج : (۱) حَدَّثَنَامُحَمَّدُبْنُ الصَبَّاحِ وَزُہَیْرُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَا جَمِیْعًا: نَا عُمَرُ بْنُ یُونُسَ، نَاعِکْرَمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ، نَا اِسْحَاقُ بْنُ اَبِیْ طَلْحَۃَ،نَا اَنَسُ بْنُ مَالِکٍ وَہُوَ عَمُّہُ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : لَلّٰہُ اَشَدُّ فَرَحًا بِتَوبَۃِ عَبْدِہٖ حِیْنَ یَتُوْبُ اِلَیْہِ مِنْ اَحَدِکُمْ کَانَ عَلیٰ رَاحِلَتِہٖ بِاَرْضٍ فُلَاۃٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْہُ وَعَلَیْہَا طَعَامُہٗ وَشَرَابُہٗ فَاَیِسَ مِنْہَا فَاَتیٰ شَجَرَۃً فَاضْطَجَعَ فِیْ ظِلِّہَا قَدْاَیِسَ مِنْ رَاحِلَتِہٖ فَبَیْنَا ہُوَ کَذٰلِکَ اِذْہُوَ بِہَا قَائِمَۃٌ عِنْدَہٗ فَاَخَذَ بِخِطَامِہَا، ثُمَّ قَالَ مِنَ شِدَّۃِ الْفَرَحِ: اَللّٰہُمَّ! اَنْتَ عَبْدِیْ وَاَنَا رَبُّکَ اَخْطَأَمِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ۔ (۱۰)
(۲) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ وَاِسْحَاقُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ واللَّفْظُ لِعُثْمَانَ، قَالَ اِسْحَاقُ: اَنَا، وَقَال عُثْمَانُ: نَا جَرِیْرٌ عَنِ الْاَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عُمَیْرٍ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ سُوَیْدٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلیٰ عَبْدِ اللّٰہِ اَعُوْدُ ہٗ وَہُوَ مَرِیْضٌ فَحَدَّثَنَا بِحَدِیْثَیْنِ، حَدِیْثًا عَنْ نَفْسِہٖ وَحَدِیْثًا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ، یَقُوْلُ: للّٰہُ اَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِہٖ المُؤْمِنِ مِنْ رَّجُلٍ فِیْ اَرْضٍ دَوِّیَّۃٍ مَہْلَکَۃٍ مَعَہٗ رَاحِلَتُہٗ عَلَیْہَا طَعَامُہٗ وَشَرَابُہٗ فَنَامَ فَاسْتَیْقَظَ وَقَدْذَہَبَتْ فَطَلَبَہَا حَتّٰی اَدْرَکَہُ الْعَطَشُ، ثُمَّ قَالَ اَرْجِعُ اِلیٰ مَکَانِی الَّذِیْ کُنْتُ فِیْہِ، فَاَنامُ حَتّٰی اَمُوْتَ فَوَضَعَ رَأَسَہٗ عَلیٰ سَاعِدِہٖ لِیَمُوْتَ فَاسْتَیْقَظَ وَعِنْدَہٗ رَاحِلَتُہٗ وَعَلَیْہَا زَادُہٗ وَ طَعَامُہٗ وَشَرَابُہٗ فَاللّٰہُ اَشَدُّ فَرَحًا بِتَوبَۃِ الْعَبْدِ الْمُؤْمِنِ مِنْ ہٰذَا بِرَاحِلَتِہٖ وَزَادِہٖ۔ (۱۱)
ترجمہ: حضرت حارث ؓبن سوید کہتے ہیں کہ عبداللہ بیمار تھے میں ان کی عیادت کے لیے ان کے پاس گیا ۔ انھوں نے ہمیں دو حدیثیں سنائیں ۔ایک اپنی طرف سے اور ایک رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک، انھوں نے بتایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے خود سنا فرماتے تھے۔ ’’ایک بندۂ مومن کی توبہ سے اللہ تعالیٰ کو اس سے کہیں زیادہ مسرت اور خوشی ہوتی ہے جتنی خوشی اس شخص کو ہوتی ہے جو ایک بے آب و گیاہ جنگل میں بھٹک گیا ہو، اس کا زاد راہ اور اس کے خوردونوش کا سامان اس کی اونٹنی پر ہو اور وہ خود سو گیا ہو تو اس کی اونٹنی چلی گئی ہو۔ اس نے اونٹنی کو بہت تلاش کیا ہواور اسی اثناء میں اسے شدت کی پیاس لگ گئی ہو۔ بالآخر وہ مایوس ہو کر یہ فیصلہ کرے کہ میں اسی جگہ جہاں پہلے سویا تھا جاکر دوبارہ سوجاتا ہوں تاکہ میں مرجائوں ۔ اس خیال سے وہ اپنی کلائی پر سررکھ کر سوجاتا ہے۔ اچانک بیدار ہوتا ہے تو اس کی اونٹنی اس کے پاس کھڑی ہوتی ہے۔ زادراہ ، سامان طعام و شراب سب کچھ اسی طرح پالیتا ہے تو اس وقت جیسی خوشی اس کو ہوگی اس سے کہیں زیادہ خوشی اللہ تعالیٰ کو اپنے بندۂ مومن کے اس کی جناب میں پلٹ آنے سے ہوتی ہے۔‘‘
(۳) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِیُّ، نَا اَبِی ، نا اَبُوْیُوْنُسَ عَنْ سِمَاکٍ، قَالَ: خَطَبَ النُّعْمَانُ بْنُ بَشِیْرٍ، فَقَالَ: لَلّٰہُ اَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِہٖ مِنْ رَجُلٍ حَمَلَ زَادَہٗ ومَزَادَہٗ عَلیٰ بَعِیْرٍ، ثُمَّ سَارَ حَتّٰی کَانَ بِفُلَاۃٍ مِنَ الْاَرْضِ فَاَدْرَکَتْہُ الْقَائِلَۃُ فَنَزَلَ فَقَالَ تَحْتَ شَجَرَۃٍ فَغَلَبَتْہُ عَیْنُہٗ وَانْسَلَّ بَعِیْرُہٗ، فَاسْتَیْقَطَ فَسَعیٰ شَرَفًا فَلَمْ یَرَشَیْئًا، ثُمَّ سَعیٰ شَرَفًا ثَانِیًا فَلَمْ یَرَشَیْئًا، ثُمَّ سَعیٰ شَرَفًا ثَالِثًا فَلَمْ یَرَشَیْئًا، فَاَقْبَلَ حَتّٰی اَتی مَکَانَہ الَّذِیْ قَالَ فِیْہِ فَبَیْنَمَا ہُوَ قَاعِدٌ اِذَا جَائَ ہٗ بَعِیْرُہٗ یَمْشِیْ حَتّٰی وَضَعَ خِطَامَہٗ فِی یَدِہٖ فَلَلّٰہُ اَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ الْعَبْدِ مِنْ ہٰذَا حِیْنَ وَجَدَ بَعِیْرَہٗ عَلیٰ حَالِہٖ۔ (۱۲)
ترجمہ: نعمان بن بشیر نے خطبہ میں فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جو اپنا سامان خوردونوش اور زاد راہ اونٹ پر لاد کر کسی بے آب و گیاہ زمین میں پہنچ گیا ہو۔ وہاں نیند نے غلبہ کیا ہو۔ چنانچہ وہ قیلولہ کے لیے ایک درخت کے سایہ میں سستانے لیٹ گیا ہو اور اس پر نیند غالب آگئی ہو۔اس دوران میں اس کا اونٹ بھاگ گیا ہو ۔ جب نیند سے بیدار ہوتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اونٹ غائب ہے۔ ادھر بھاگتا ہے ادھر بھاگتا ہے۔ ٹیلوں پر چڑھ کر ہر طرف نظر دوڑاتا ہے مگر اونٹ کہیں نظر نہیں آتا ۔ مایوس ہو کر اسی جگہ جہاں قیلولہ کیا تھا آکر بیٹھ جاتا ہے۔ اسی پریشانی میں بیٹھا ہے کہ اچانک اونٹ ایک طرف سے چلتا ہوا آجاتا ہے اور وہ اس کی نکیل اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتا ہے اپنے اونٹ کو صحیح حالت میں پانے کی وجہ سے جو مسرت اور خوشی اس بندے کو ہوئی ہے اس سے کہیں زیادہ خوشی اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ سے ہوتی ہے۔‘‘
(۴) حَدَّثَنَا یَحْیٰ بْنُ یَحْیٰ وَجَعْفَرُ بْنُ حُمیْدٍ، قَالَ جَعْفَرٌ: نا، وقَالَ یَحْیٰ: انا عُبَیْدُ اللّٰہِ ابْنُ اِیَادٍ عَنْ اِیَادٍ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ کَیْفَ تَقُوْ لُوْنَ بِفَرَحِ رَجُلٍ اِنْفَلَتَتْ مِنْہُ رَاحِلَتُہٗ تَجُرُّزِمَا مَہَا بِاَرْضٍ قَفْرٍ لَیْسَ بِہَا طَعَامٌ وَلَا شَرَابٌ وَعَلَیْہَا لَہٗ طَعَامٌ وَشَرَابٌ فَطَلَبَہَا حَتّٰی شَقَّ عَلَیْہِ ثُمَّ مَرَّتْ بِجَذْلِ شَجَرَۃٍ فَتَعَلَّقَ زِمَا مُہَا فَوَجَدَہَا مُتَعَلِّقَۃً بِہٖ قُلْنَا شَدِیْدًا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : اَمَا وَاللّٰہِ لَلّٰہُ اَشَدُّ فَرَحًا بِتَوبَۃِ عَبْدِہٖ مِنَ الرَّجُلِ بِرَاحِلَتِہٖ۔ (۱۳)
ترجمہ: حضرت براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ تم اس شخص کی خوشی کے متعلق کیا کہتے ہوجس کی سواری (اونٹنی) کسی بنجر بے آباد زمین میں اپنی نکیل گھسیٹتی ہوئی نکل گئی ہو جہاں نہ کھانے کی کوئی چیز دستیاب ہو اور نہ پینے کی۔ اس کا خوردونوش کا سارا سامان اس پر لدا ہو۔ اور وہ اس کی تلاش کرکے تکان سے نڈھال ہوگیا ہو۔ پھر وہ اونٹنی ایک ٹھنٹھ (بے شاخ کے درخت کا تنہ )کے پاس سے گزری ہو اور اس کی نکیل اس میں پھنس گئی ہو اور اس نے اسے وہاں پالیا ہو‘‘، صحابہ نے عرض کیا۔ حضوؐر والا اسے توبے انتہا خوشی ہوگی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’خدا کی قسم اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے بھی کہیں زیادہ خوشی ہوتی ہے۔‘‘
(۵) عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: لَلّٰہُ اَفْرَحُ بِتَوْبَۃِ عَبْدِہٖ مِنْ رَجُلٍ اَضَلَّ رَاحِلَتَہٗ بِفُلَاۃٍ مِنَ الْاَرْضِ فَالْتَمَسَہَا حَتّٰی اِذَا اَعْیٰ تَسَجَّی بثَوْبِہٖ فَبَیْنَا ہُوَ کَذٰلِکَ اِذْسَمِعَ وَجْبَۃَ الرَّاحِلَۃِ حَیْثُ فَقَدَہَا فَکَشَفَ الثَّوْبَ عَنْ وَجْہِہٖ فَاِذَا ہُوَ بِرَاحِلَتِہٖ۔ (۱۴)
ترجمہ: حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے۔ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کے اس کی جناب میں پلٹ آنے سے جو مسرت اور خوشی حاصل ہوتی ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو اس شخص کو ہوتی ہے جو بے آب و گیاہ علاقے میں اپنی سواری گم کر بیٹھے اور تلاش کرکے درماندہ ہوگیا ہو اور مایوس ہو کر چہرے پر کپڑا لپیٹ کر بیٹھ رہا ہو۔ اسی اثناء میں اچانک وہ اپنی سواری کی آواز اسی جگہ سنتاہے جہاں سے گم ہوئی تھی کپڑا چہرے سے ہٹا کر دیکھتا ہے تو گم شدہ سواری اس کے پاس کھڑی ہے۔‘‘

خالق کو اپنی مخلوق کتنی محبوب ہے

(حضوؐر نے فرمایا) اَللّٰہُ اَرْحَمُ بِعِبَادِہٖ مِنْ ہٰذِہٖ بِوَلَدِہَا۔
دوسری مثال: حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں کچھ جنگی قیدی گرفتار ہو کر آئے۔ ان میں ایک عورت بھی تھی جس کا شیرخوار بچہ چھوٹ گیا تھا اور وہ مامتا کی ماری ایسی بے چین تھی کہ جس بچے کو پالیتی اسے چھاتی سے چمٹا کر دودھ پلانے لگتی تھی۔ نبی ﷺ نے اس کا حال دیکھ کر ہم لوگوں سے پوچھا کیا تم لوگ یہ توقع کرسکتے ہو کہ یہ ماں اپنے بچے کو خود اپنے ہاتھوں آگ میں پھینک دے گی؟ ہم نے کہا ہر گز نہیں، خود پھینکنا تو درکنار، وہ آپ گرتا ہو تویہ اپنی حد تک تو اسے بچانے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھے گی۔ فرمایا ’’اللہ کا رحم اپنے بندوں پر اس سے بہت زیادہ ہے جو یہ عورت اپنے بچے کے لیے رکھتی ہے۔
تشریح: یعنی اللہ تعالیٰ سنگ دل اور بے رحم نہیں ہے۔ اس کو اپنی مخلوقات سے کوئی دشمنی نہیں ہے کہ خواہ مخواہ سزا دینے ہی کو اس کا دل چاہے اور اپنے بندوں کو مار مار کر ہی وہ خوش ہو۔ تم لوگ اپنی سرکشیوں میں جب حد سے گزر جاتے ہو اور کسی طرح فساد پھیلانے سے باز ہی نہیں آتے تب وہ بادل ناخواستہ تمہیں سزا دیتا ہے ورنہ اس کا حال تو یہ ہے کہ تم خواہ کتنے ہی قصور کرچکے ہو، جب بھی اپنے افعال پر نادم ہو کر اس کی طرف پلٹو گے اس کے دامن رحمت کو اپنے لیے وسیع پائو گے۔ کیونکہ اپنی پیدا کی ہوئی مخلوق سے وہ بے پایاں محبت رکھتا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۲، ہود حاشیہ:۱۰۱)
احادیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت جو ہے وہ ہر چیز پر غالب ہے حتیّٰ کہ اس کی اپنے غضب پر بھی غالب ہے۔ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہمدردی آپ کہیں پاتے ہیں ظاہر بات ہے کہ اس کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ اگر ایک ماں بچے کو پرورش کررہی ہے تو اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے رحم اس کے دل میں ڈال دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اولاد کے لیے شفقت پیدا کردی ہے۔ ورنہ ظاہر بات ہے کہ ماں سے بڑھ کر دشمن اور کوئی نہ ہوتا کیونکہ اس کا خون چوس کر تو پرورش پائی اس نے۔ نہایت تکلیف دے کر وہ پیدا ہوا۔ جب تک پیٹ میں رہا تکلیف دیتا رہا۔ باہر نکلنے کے بعد مدتوں اس کا جینا اور اس کا کھانا اور پینا اور اس کا چین سب کچھ حرام کیا لیکن وہ ہے کہ اس پر جان دیتی ہے وہ ہے کہ اپنی جان سے بڑھ کر اس کو عزیز رکھ رہی ہے یہاں تک کہ اگر اس کو خطرہ پیش آئے تو اپنے آپ کو قربان کردیتی ہے اس کے اوپر ۔
یہ کیا چیز ہے؟ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ جو انسانوں کی پرورش کے لیے اس نے ماں کے دل میں ڈال دی ہے۔ اسی طرح سے دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی رحمت پائی جاتی ہے وہ ساری کی ساری اس کا سرچشمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رحم کا پر تو جس جس چیز کے اوپر جتنا ڈال دیا اتنا ہی اس کے اندر رحم آگیا۔ ورنہ بجز پتھروں کے یہاں کچھ نہ ہوتا۔ انسان بھی ہوتے تو پتھر کی طرح سنگ دل ہوتے اور دنیا میں جس طرف بھی آپ نگاہ ڈالیں جو کچھ بھی مخلوقات کو مل رہا ہے اللہ تعالیٰ کے رحم کی وجہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو طرح طرح کی آفات میں مبتلا کردے لیکن یہ مخلوقات جو دنیا میں جی رہی ہے وہ اس کی رحمت کی وجہ سے جی رہی ہے۔ وہ رحم فرمارہا ہے اس وجہ سے لوگوں کو دنیا میں رزق بھی مل رہا ہے ۔ دنیا کو پرورش کا اور آسائش کا سامان بھی مل رہا ہے۔ (کیسٹ نمبر اسورۂ فاتحہ)
اب ہر شخص خود سمجھ سکتا ہے کہ جو خدا محبت مادری اور شفقت پدری کا خالق ہے خود اس کے اندر اپنی مخلوق کے لیے کیسی کچھ محبت موجود ہوگی۔ (تفہیم القرآن ، ج ۲، ہود حاشیہ :۱۰۱)
تخریج: (۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْیَمَ قَالَ:اَخْبَرَنَا اَبُوْغَسَّانٍ، قَالَ حَدَّثَنِیْ زَیْدُبْنُ اَسْلَمَ، عَنْ اَبِیْہِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قُدِمَ عَلیٰ النَّبِیِّ ﷺ بِسَبْیٍ فَاِذَا اِمْرَأَۃٌ مِنَ السَّبْیِ قَدْتَحَلَّبَ ثَدْیُہَا بِسَقْیٍ اِذَا وَجَدَتْ صَبِیًّا فِی السَّبْیِ اَخَذَتْہُ فَاَلْصَقَتْہُ بِبَطْنِہَا وَاَرْضَعَتْہُ۔ فَقَالَ لَنَا النَّبِیُّ ﷺ: اَتَرَوْنَ ہٰذِہٖ طَارِحَۃً وَلَدَہَا فِی النَّارِ؟ قُلْنَا: لَا وَ ہِیَ تَقْدِرُ عَلیٰ اَلَّا تَطْرَحُہٗ، فَقَالَ: لَلّٰہُ اَرْحَمُ بِعِبَادِہٖ مِنْ ہٰذِہٖ بِوَلَدِہَا۔ (۱۵)
ترجمہ: حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کی خدمت میں کچھ قیدی آئے ان میں ایک خاتون بھی تھی۔ قیدیوں میں جب وہ کسی بچے کو پاتی تو اس کی چھاتیوں سے دودھ بہنے لگتا وہ اس بچے کو پکڑ کر سینے سے چمٹا لیتی اور اسے دودھ پلانا شروع کردیتی۔ یہ منظر دیکھ کر نبی ﷺ نے ہم سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’کیا خیال ہے تمہارا کہ یہ عورت اپنے لختِ جگر کو اپنے ہاتھوں سے آگ میں پھینک دے گی؟‘‘ ہم نے عرض کیا ،ہرگز نہیں، خود پھینکنا تو درکنار وہ اگر خود گرتا ہو تو وہ اپنی حد استطاعت تک اسے بچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی۔ آپؐ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
(۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ نِ النُّفَیْلِیُّ، ثنا مُحَمَّدُبْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِیْ رَجُلٌ مِّنْ اَہْلِ الشَّامِ یُقَالُ لَہٗ اَبُوْ مَنْظُوْرٍ، عَنْ عَمِّہٖ، قَالَ: حَدَّثَنِیْ عَمِّیْ، عَنْ عَامِرٍ، الرَّامِ اَخِی الْخَضِرِ، قَالَ اَبُو دَاؤدَ: قَالَ النُّفَیْلِیُّ: ہُوَ الْخَضِرُ وَلٰکِنْ کَذَا قَالَ، فَبیْنَا نَحْنُ عِنْدَہٗ اِذَا اَقْبَلَ رَجُلٌ عَلَیْہِ کِسَائٌ وَفِیْ یَدِہٖ شَیْیٌٔ قَدْ الْتَفَّ عَلَیْہِ۔ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ لَمَّا رَأَیْتُکَ اَقْبَلْتُ اِلَیْکَ فَمَرَرْتُ بِغِیْضَۃِ شَجَرٍ فَسَمِعْتُ فِیْہَا اَصْوَاتَ فَرَاخِ طَائِرٍ فَاَخَذْ تُہُنَّ فَوَضَعْتُہُنَّ فی کسَائیْ فَجَائَ تْ اُمُّہُنَّ فَاسْتَدَاَرَتْ عَلیٰ رَأَسِیْ فکَشَفْتُ لَہَا عَنْہُنَّ فَوَقَعَتْ عَلَیْہِنَّ مَعَہُنَّ فََلَفَفْتُہُنَّ بِکِسَائِیْ فَہُنَّ اُولَآئِ مَعِیْ، قَالَ: ضَعْہُنَّ عَنْکَ۔ فَوَضَعْتُہُنَّ، وَاَبَتْ اُمُّہُنَّ اِلَّا لُزُوْمَہُنَّ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لِاَصْحَابِہٖ: اَتَعْجَبُوْنَ لِرُحْمِ، اُمِّ الْاَفْرَاخِ فَرَاخَہَا؟ قَالُوْا: نَعَمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: فَوَالَّذِیْ بَعَثَنِیْ بِالْحَقِّ ، لَلّٰہُ اَرْحَمُ بِعِبَادِہٖ مِنْ اُمِّ الْاَفْرَاخِ بِفَرَاخِہَا الحدیث۔ (۱۶)
ترجمہ: صحابہؓ کا بیان ہے ایک روز ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک آدمی آیا۔ چادر اس نے اوڑھی ہوئی تھی اور ہاتھ میں کوئی چیز پکڑے ہوئے تھا۔ آتے ہی بولا یا رسول اللہؐ میں نے جب آپ کو دیکھا تو آپ کی جانب متوجہ ہوا ہی تھا کہ میرا گزر درختوں کے جھنڈ پر ہوا۔ میں نے وہاں پرندوں کے چوزوں کی آوازیں سنیں ۔ میں نے انھیں پکڑکر اپنی چادرمیں لپیٹ لیا ان کی ماں آئی اور میرے سر پر چکر لگانے لگی۔ میں نے چوزوں پر سے چادر ہٹائی تو وہ بے ساختہ چادر میں گر پڑی اور بچوں کے ساتھ شامل ہوگئی۔ پس میں نے ان سب کو چادر میں اکٹھا کرلیا اور یہ میرے پاس ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’زمین پر رکھو‘‘، میں نے انھیں زمین پر رکھ دیا تو ان کی ماں نے انھیں چھوڑ کر جانے سے انکار کردیا اور ان کے ساتھ چمٹی رہی۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’کیا چڑیا کا اپنے بچوں سے اس قدر محبت و الفت کرنا تمہارے لیے باعث تعجب ہے؟‘‘ عرض کیا ہاں یا رسولؐ اللہ۔ ارشاد فرمایا ’’قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
(۳) حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُبْنُ اَبِیْ غَالِبٍ، قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُبْنُ اِسْمَاعِیْلَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ قَالَ: سَمِعْتُ اَبِیْ یَقُوْلُ: حَدَّثََنَا قَتَادَۃُ اَنَّ اَبَارَافِعٍ حَدَّثَہٗ اَنَّہٗ سَمِعَ اَبَاہُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ: اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ کِتَابًا قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ الْخَلْقَ اِنَّ رَحْمَتِیْ سَبَقَتْ غَضَبِیْ فَہُوَ مَکْتُوْبٌ عِنْدَہٗ فَوْقَ الْعَرْشِ۔ (۱۷)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے سنا ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تخلیق سے پہلے ایک نوشتہ میں یہ لکھ دیا کہ میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے، اوریہ ارشاد باری تعالیٰ عرش پر اس کے پاس لکھا ہوا محفوظ ہے۔‘‘

علم ماکان ومایکون صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے

مَنْ زَعَمَ اَنَّہٗ (ای النَّبِیُّ ﷺ) یَعْلَمُ مَا یَکُوْنُ فِی غَدٍ فَقَدْ اَعْظَمَ عَلَی اللّٰہِ الْفِرْیَۃَ، وَاللّٰہُ یَقُوْلُ قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ۔
ترجمہ: جس نے یہ دعویٰ کیا کہ نبی ﷺ جانتے ہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے اس نے اللہ تعالیٰ پر سخت جھوٹ کا الزام لگایا کیوں کہ اللہ تو فرماتا ہے، اے نبی! تم کہہ دو کہ غیب کا علم اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں میں سے کسی کو بھی نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۳، النمل حاشیہ: ۸۳)
تخریج: (۱) حَدَّثَنَا اَحْمَدُبْنُ مَنِیْعٍ، نَا اِسْحَاقُ بْنُ یُوْسُفَ الْاَزْرَقُ، نا دَاؤدُبْنُ اَبِیْ ہِنْدٍ، عَنِ الشّعْبِیِْ عَنْ مَسْرُوْقٍ، قَالَ: کُنْتُ مُتَّکِئًا عِنْدَ عَائِشَۃَ فَقَالَتْ: یَااَبَاعَائِشَۃَ ثَلَاثٌ مَنْ تَکَلَّمَ بِوَاحِدَۃٍمِنْہُنَّ فَقَدْ اَعْظَمَ الْفِرْیَۃَ اللّٰہِ: مَنْ زَعَمَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَاٰی رَبَّہٗ فَقَدْ اَعْظَمَ الْفِرْیَۃَ عَلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَقُوْلُ: لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ۔ وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیًااَوْمِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ وَکُنْتُ مُتَّکِئًا فَجَلْستُ فَقُلْتُ: یَا اُمَّ المُؤْمِنِیْنَ اَنْظِرِیْنِیْ وَلَا تَعْجِلِیْنِیْ اَلَیْسَ اللّٰہُ تَعَالیٰ یَقُوْلُ: وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْریٰ وَلَقَدْ رَاٰہُ بِا لْاُفُقِ الْمُبِیْنِ قَالَتْ: اَنَا وَاللّٰہِ اَوَّلُ مَنْ سَاَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ عَنْ ہٰذا قَالَ: اِنَّمَا ذٰلِکَ جِبْرَئِیْلُ مَارَأَیْتُہٗ فِی الصُّوْرَۃِ الَّتِیْ خُلِقَ فِیْہَا غَیْرَ ہَا تَیْنِ الْمَرَّ تَیْنِ رَأَ یْتُہٗ مُنْہَبِطًا مِنَ السَّمَآئِ سَادًّا عُظْمُ خَلْقِہٖ مَا بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ۔ وَمَنْ زَعَمَ اَنَّ مُحَمَّدًا کَتَمَ شَیْئًا مِمَّا اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْہِ فَقَدْ اَعْظَمَ الْفِرْیَۃَ عَلَی اللّٰہِ یَقُوْلُ اللّٰہُ یَا اَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَمَنْ زَعَمَ اَنَّہٗ یَعْلَمُ مَا فِیْ غَدٍ فَقَدْ اَعْظَمَ الْفِرْیَۃَ عَلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَقُوْلُ لَا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ۔(۱۸)
ہذا حدیث حسن صحیح و مسروق بن الاجدع یکنی اَبَاعائشۃ۔
ترجمہ: حضرت مسروق بیان کرتے ہیں کہ میں ام المومنین حضرت عائشہؓ کے پاس تکیہ لگائے بیٹھا تھا۔ آپ فرمانے لگیں، اے ابوعائشہ! تین باتیں ایسی ہیں کہ اگر کسی شخص نے ان میں سے ایک بات بھی کہی تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا۔ (۱) جو شخص یہ کہتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے رب کو (ان آنکھوں سے) دیکھا ہے تو اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: لَاتُدْرِکْہُ الْاَبْصَارُوَہُوَیُدْرِکُ الْاَبْصَارَ: نگاہیں اسے نہیں پاسکتیں، وہ نگاہوں کو پاسکتا ہے اور وہ باریک بین اور باخبر ہے۔ کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے روبرو بات کرے۔ اس کی بات یا تو وحی (اشارے) کے طور پر ہوتی ہے یا پردے کے پیچھے سے۔ مسروق کہتے ہیں کہ میں تکیہ لگائے بیٹھا تھا یہ سن کر سیدھا بیٹھ گیا اور عرض کیا اے ام المومنین! ذرا ٹھیریے جلدی نہ کیجیے! کیا اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا: وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْریٰ (اور یقینا ایک مرتبہ اور اس نے اسے دیکھا) وَلَقَدْ رَاٰہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ (اور یقینا اس نے اسے روشن افق پر دیکھا) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اس امت میں سب سے پہلے میں نے ہی رسول اللہ ﷺ سے اس معاملے کو دریافت کیا۔ حضور نے فرمایا وہ تو جبریل علیہ السلام تھے۔ میں نے ان کو ان کی اصلی صورت میں جس پر اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے ان دو مواقع کے سوا کبھی نہیں دیکھا۔ ان دو مواقع پر میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا اور ان کی عظیم ہستی زمین و آسمان کے درمیان ساری فضاپر چھائی ہوئی تھی (۲) اور جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس وحی میں سے جو اللہ تعالیٰ نے ان پر نازل فرمائی کچھ چھپا رکھا تھا تو اس نے بھی اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اے رسول! جو آپؐ پر آپ کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے وہ پوری طرح پہنچا دو (۳) اور جو یہ خیال کرتا ہے کہ محمد ﷺ یہ جانتے تھے کہ کل کیا ہونے والا ہے تو اس نے بھی اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ زمین و آسمان کے رہنے والوں میں سے کوئی بھی غیب نہیں جانتا سوائے اللہ تعالیٰ کے۔
(۲) حَدَّثَنِیْ یَحْیٰ قَالَ: حَدَّثَنَا وَکِیْعٌ عَنْ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ اَبِیْ خَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوْقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَۃَ یَا اُمْتَاہُ ہَلْ رَاٰی مُحَمَّدٌ رَبَّہٗ، فَقَالَتْ! لَقَدْ قَفَّ شَعْرِیْ مِمَّاقُلْتَ اَیْنَ اَنْتَ مِنْ ثَلَاثٍ مَنْ حَدَّثَکُنَّ فَقَدْ کَذَبَ مَنْ حَدَّثَکَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَاٰی رَبَّہٗ فَقَدْ کَذَبَ ثُمَّ قَرَأَتْ لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ، وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْمِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ وَمَنْ حَدَّثَکَ اَنَّہٗ یَعْلَمُ مَافِیْ غَدٍ فَقَدْ کَذَبَ ثُمَّ قَرَأَتْ وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَاذَاتَکْسِبُ غَدًا، وَمَنْ حَدَّثَکَ اَنَّہٗ کَتَمَ فَقَدْ کَذَبَ ثُمَّ قَرَأَتْ یَا یُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآاُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الآیَۃ وَلٰکِنَّہٗ رَای جِبْرِیْلَ فِی صُوْرَتِہٖ مَرَّتَیْنِ۔ (۱۹)
ترجمہ: حضرت مسروق بیان کرتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہؓ صدیقہ سے دریافت کیا۔ اماں جان کیا محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ’’مسروق کی یہ بات سن کر میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ فرمانے لگیں مسروق تمہیں یہ تین چیزیں پیش نظر رہیں جو شخص انھیں بیان کرے اس نے جھوٹ بولا۔ جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا وہ دروغ گوہے، پھر آپ نے بطور استشہاد قرآن پاک کی آیت لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ الآیۃ پڑھی آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں وہ آنکھوں کا ادراک کرسکتا ہے وہ باریک بین اور باخبر ہستی ہے۔اللہ تعالیٰ کسی بشر سے کلام وحی کے ذریعہ سے کرتا ہے یا پس پردہ، اور جو شخص تم سے یہ کہے کہ نبی کریمؐ کل ہونے والے حالات و واقعات کا علم رکھتے ہیں وہ بھی دروغ گو ہے استشہاد کے طور پر آپ نے وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَاذَاتَکْسِبُ غدًا تلاوت فرمائی، ’’یعنی کسی جی کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کل کیا کمائے گا‘‘ اور جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ آپؐ نے کتمانِ حق کیا ہے وہ بھی دروغ گو ہے پھر قرآن کی آیت تلاوت فرمائی یَا اَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ۔ ’’اے رسوؐل ! تیرے رب کی جانب سے جو کچھ تجھ پر نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک بلا کم و کاست پہنچادے۔‘‘ البتہ یہ بات ہے کہ آپؐ نے جبریل امین کو دومرتبہ اس کی اپنی اصل صورت میں ضرور دیکھا ہے۔
(۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُبْنُ یُوْسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ اِسْمَاعِیْلَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنْ مَسْرُوْقٍ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، قَالَتْ : مَنْ حَدَّثَکَ اَنَّ مُحَمَّدًا ﷺ رَاٰی رَبَّہٗ فَقَدْ کَذَبَ وَہُوَ یَقُوْلُ لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ، وَمَنْ حَدَّثَکَ اَنَّہٗ یَعْلَمُ الْغَیْبَ فَقَدْ کَذَبَ وَہُوَ یَقُوْلُ لَا یَعْلَمُ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ۔(۲۰)
ترجمہ: حضرت مسروق ام المومنین حضرت عائشہؓ سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ’’جو کوئی تجھ سے یوں کہے کہ محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے اس نے جھوٹ بکا۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ آنکھیں اسے نہیں پاسکتیں۔ اور جو کوئی تجھ سے یہ کہے کہ نبی ﷺ بھی عالم الغیب ہیں وہ بھی جھوٹا ہے اس لیے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے اللہ تعالیٰ کے سوا علم غیب کوئی نہیں جانتا۔‘‘
۵۲۔ (ابن المنذر حضرت عبداللہ بن عباس کے مشہور شاگرد عکرمہ سے روایت کرتے ہیں کہ ) ایک شخص نے نبیﷺ سے پوچھا ’’اے محمدؐ! قیامت کب آئے گی؟ اور ہمارے علاقے میں قحط برپا ہے، بارش کب ہوگی؟اور میری بیوی حاملہ ہے، وہ لڑکا جنے گی یا لڑکی؟ اور یہ تو مجھے معلوم ہے کہ میں نے آج کیا کمایا، کل میں کیا کمائوں گا؟ اور یہ تو مجھے معلوم ہے کہ میں کہاں پیدا ہوا ہوں ، مروں گا کہاں؟
ان سوالات کے جواب میں حضوؐر نے سورہ لقمان:۳۴ کی یہ آیت سنائی:
اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ ج وَیَعْلَمُ مَافِی الْاَرْحَامِ ط وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا ط وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌم بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ۔
’’کہ اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم اور وہی بارش نازل کرنے والا ہے اور وہی جانتا ہے کہ مائوں کے رحم میں کیا (پرورش پا رہا) ہے اور کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا اور کسی متنفس کو خبر نہیں ہے کہ کس سرزمین میں اس کو موت آئے گی؟ (تفہیم القرآن، ج ۳، النمل حاشیہ:۸۳)
تخریج: حَدَّثَنَا الْحَرْثُ، قَالَ: ثَنَا الْحَسَنُ، قَالَ: ثَنَا وَرْقَائُ جَمِیْعًا، عَنِ ابْنِ اَبِیْ نَجِیْحٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ۔ اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ قَالَ: جَآئَ رَجُلٌ ۔۔۔ اِلَی النَّبِیِّ ﷺ فَقَالَ: اِنّ امْرَأَتِیْ حُبْلیٰ فَاَخْبِرْنِیْ مَاذَا تَلِدُ۔ وَبِلَادُنَا مَحْلُ جَدْبَۃٍ فَاَخْبِرْنِیْ مَتَی یَنْزِلُ الْغَیْثُ ۔ وَقَدْ عَلِمْتُ مَتیٰ وُلِدْتُّ فَاَخْبِرْنِیْ مَتیٰ اَمُوْتُ فَاَنْزَلَ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیَنْزل الْغَیْثَ اِلیٰ اٰخِرِ السُّوْرَۃِ۔ (۲۱)
۵۳۔ مَاالْمَسْئُوْلُ عَنْہَا بِاَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ۔
(بخاری و مسلم اور دوسری کتب حدیث کی مشہور روایت ہے جس میں ذکر ہے کہ صحابہ کے مجمع میں حضرت جبرئیل نے انسانی شکل میں آکر حضوؐر سے جو سوالات کیے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ قیامت کب آئے گی؟ حضوؐر نے جواب دیا:’’ جس سے پوچھا جارہا ہے وہ خود پوچھنے والے سے زیادہ اس بارے میں علم نہیں رکھتا۔‘‘ پھر فرمایا: ’’یہ ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، اور حضوؐر نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔
تشریح: (حدیث مندرجہ بالا سے واضح ہوتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ علم الغیب کا جاننے والا ہے) آسمان و زمین میں جو بھی مخلوقات ہیں، خواہ فرشتے ہوں یا جن، یا انبیاء اور اولیاء یا دوسرے انسان اور غیر انسان، سب کا علم محدود ہے ۔ سب سے کچھ نہ کچھ پوشیدہ ہے۔ سب کچھ جاننے والا اگر کوئی ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے، جس سے اس کائنات کی کوئی چیز اور کوئی بات پوشیدہ نہیں، جو ماضی و حال اور مستقبل سب کو جانتا ہے۔
غیب کے معنی مخفی ، پوشیدہ اور مستور کے ہیں۔ اصطلاحاً اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو معلوم نہ ہو، جس تک ذرائع معلومات کی رسائی نہ ہو۔ دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو فرداً فرداً بعض انسانوں کے علم میں ہیں اور بعض کے علم میں نہیں ہیں، اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو بحیثیت مجموعی پوری نوعِ انسانی کے علم میں نہ کبھی تھیں، نہ آج ہیں ، نہ آئندہ کبھی آئیں گی۔ ایسا ہی معاملہ جنوں اور فرشتوں اور دوسری مخلوقات کا ہے کہ بعض چیزیں ان میں سے کسی سے مخفی اور کسی کو معلوم ہیں، اور بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو ان سب سے مخفی ہیں اور کسی کو بھی معلوم نہیں۔ یہ تمام اقسام کے غیب صرف ایک ذات پر روشن ہیں، اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس کے لیے کوئی چیز غیب نہیں سب شہادت ہی شہادت ہے۔
ہر صاحب عقل کا کام ہے کہ وہ اپنی جگہ اس امر پر غور کرے کہ فی الحقیقت کیا یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا عالم الغیب ہو؟ یعنی تمام ان احوال اور اشیاء اور حقائق کا جاننے والا ہو جو کائنات میں کبھی تھیں، یا اب ہیں، یا آئندہ ہوں گی؟ اور اگر کوئی دوسرا عالم الغیب نہیں ہے اور نہیں ہوسکتا تو پھر کیا یہ بات عقل میں آتی ہے کہ جو لوگ پوری طرح حقائق اور احوال سے واقف ہی نہیں ہیں ان میں سے کوئی بندوں کا فریاد رس اور حاجت روا اور مشکل کشا ہوسکے؟
تخریج: حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا اِسْمَا عِیْلُ بنُ اِبْرَاہِیْمَ اَخْبَرَنَا اَبُوْحَیَّانَ التَّیْمِیُّ، عَنْ اَبِیْ زرْعَۃَ، عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، قَالَ کَانَ النَّبِیُّ ﷺ بَارِزًا یَوْمًالِلنَّاسِ فَاَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ: مَا الْاِیْمَانُ؟ قَالَ: اَلْاِیْمَانُ اَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَبِلِقَآئِہٖ وَرُسُلِہٖ وَتُؤْمِنَ بالْبَعْثِ قَالَ: مَاالْاِسْلَامُ؟ قَال: اَلْاِسْلَامُ اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکَ بِہٖ وَتُقِیْمَ الصَّلوٰۃَ وَتُوَدِّیَ الزَّکوٰۃَ الْمَفْرُوْ ضَۃَ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ قَالَ: مَا الْاِحْسَانُ؟ قَالَ اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَانَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ قَالَ: مَتَی السَّاعَۃُ؟ قَالَ: مَاالْمَسْمُوْلُ بِاَعْلَمَ مِنَ السَّآئِلِ وَسَاُخْبِرُکَ عَنْ اَشْرَاطِہَااِذَا وَلَدَتِ الْاَمَۃُ رَبَّہَا وَاِذَا تَطَاوَلَ رُعَاۃُ الْاِبِلِ الْبُہْمِ فِی الْبُنْیَانِ فِیْ خَمْسٍ لَا یَعْلَمُہُنَّ الَّا اللّٰہُ ثُمَّ تَلَا النَّبِیُّ ﷺ اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ الَایَۃَ ثُمَّ اَدْبَرَ فَقَالَ: رُدُّوْہُ فَلَمْ یَرَوْاشَیْئًا فَقَالَ: ہٰذَا جِبْرِیْلُ جَآئَ یُعَلِّمُ النَّاسَ دِیْنَہُمْ۔(۲۲) قَالَ ابو عبداللّٰہ جَعَلَ ذٰلِکَ کُلَّہٗ مِنَ الْایمان۔
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے ایک روز نبی ﷺ لوگوں کے سامنے باہر تشریف فرماتھے۔ ایک آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کے ملاقات پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور بعث بعد الموت کو تسلیم کرے۔ پھر اس نے پوچھا اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائے۔ نماز قائم کرے فرض زکوٰۃ ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے۔ پھر اس نے پوچھا کہ احسان کیا ہے؟ فرمایا احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے۔ پھر اگر تو اسے نہ دیکھ سکے تو وہ تو بہر حال تجھے دیکھ رہا ہے۔ اس نے پوچھا قیامت کب قائم ہوگی؟ فرمایا۔اس بارے میں مسئول عنہ سائل سے زیادہ علم نہیں رکھتا، البتہ اس کی چند نشانیاں اور شرائط میں تمہیںبتائے دیتا ہوں، جب لونڈی اپنے مالک کو جنم دے اور جب شتربان اونچی اونچی عمارتیں تعمیر کرنے لگیں گے۔قیامت کا علم ان پانچ باتوں میں سے ہے جن کا علم سوا اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں پھر آپؐ نے سورہ لقمان کی آخری آیات پڑھیں، اس کے بعد وہ سائل چلا گیا۔ آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا اسے واپس لائو۔ لیکن وہاںانھیں کچھ بھی نظر نہ آیا ۔ ارشاد فرمایا کہ یہ جبریل امین تھے تمہیں تمہارا دین سکھانے تشریف لائے تھے۔

الوہیت اور علم غیب میں گہرا تعلق ہے

الوہیت اور علم غیب کے درمیان ایک ایسا گہرا تعلق ہے کہ قدیم ترین زمانے سے انسان نے جس ہستی میں بھی خدائی کے کسی شائبے کا گمان کیا ہے اس کے متعلق یہ خیال ضرور کیا ہے کہ اس پر سب کچھ روشن ہے اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ گویا انسان کا ذہن اس حقیقت سے بالکل بدیہی طور پر آگاہ ہے، کہ قسمتوں کا بنانا اور بگاڑنا، دعائوں کا سننا، حاجتیں پوری کرنا اور طالب امداد کی مدد کو پہنچنا صرف اسی ہستی کا کام ہوسکتا ہے جو سب کچھ جانتی ہو اور جس سے کچھ بھی پوشیدہ نہ ہو۔ اسی بنا پر تو انسان جس کو بھی خدائی اختیار کا حامل سمجھتا ہے اسے لازماً عالم الغیب بھی سمجھتا ہے، کیونکہ اس کی عقل بلاریب شہادت دیتی ہے کہ علم اور اختیارات باہم لازم و ملزوم ہیں۔ اب اگر یہ حقیقت ہے کہ خالق اور مدبر اور مجیب الدعوات اور رازق خدا کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے تو آپ سے آپ یہ بھی حقیقت ہے کہ عالم الغیب بھی خدا کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے۔ آخر کون اپنے ہوش وحواس میں یہ تصور کرسکتا ہے کہ کسی فرشتے یا جن یا نبی یا ولی کو یا کسی مخلوق کو بھی یہ معلوم ہوگا کہ سمندر میں اور ہوا میں اور زمین کی تہوں میں اور سطح زمین کے اوپر کس کس قسم کے کتنے جانور کہاں کہاں ہیں؟ اور عالم بالا کے بے حدوحساب سیاروں کی ٹھیک تعداد کیا ہے؟ اور ان میں سے ہر ایک میں کس کس طرح کی مخلوقات موجود ہیں؟ اور ان مخلوقات کا ایک ایک فرد کہاں ہے اور کیا اس کی ضروریات ہیں؟ یہ سب کچھ اللہ کو لازماً معلوم ہونا چاہیے، کیونکہ اس نے انھیں پیدا کیا ہے، اور اسی کو ان کے معاملات کی تدبیر اور ان کے حالات کی نگہبانی کرنی ہے ، اور وہی ان کے رزق کا انتظام کرنے والا ہے، لیکن دوسرا کوئی اپنے محدود وجود میں یہ وسیع و محیط علم رکھ کیسے سکتا ہے اور اس کا کیا تعلق اس کارخلاّقی و رزّاقی سے ہے کہ وہ ان چیزوں کو جانے؟

کیا صفت علم غیب قابل تجزیہ ہے؟

پھر یہ صفت قابل تجزیہ بھی نہیں ہے کہ کوئی بندہ مثلاً صرف زمین کی حد تک اور زمین میں بھی صرف انسانوں کی حد تک عالم الغیب ہو۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک جتنے انسان دنیا میں پیدا ہوئے ہیں اور قیامت تک پیدا ہوں گے رحم مادر میں استقرار کے وقت سے آخری ساعت حیات تک ان سب کے تمام حالات و کیفیات کو جاننا آخر کس بندے کا کام ہوسکتا ہے؟ اور وہ کیسے اور کیوں اس کو جانے گا؟ کیا وہ اس بے حدوحساب خلقت کا خالق ہے؟ کیا اس نے ان کے باپوں کے نطفے میں ان کے جرثومے کو وجود بخشا تھا؟ کیا اس نے ان کی مائوں کے رحم میں ان کی صورت گری کی تھی؟ کیا اس نے ان کی زندہ ولادت کا انتظام کیا تھا؟ کیا اس نے ان میں سے ایک ایک شخص کی قسمت بنائی تھی۔ کیا وہ ان کی موت اور حیات ، ان کی صحت اور مرض ، ان کی خوشحالی اور بدحالی ، اور ان کے عروج اور زوال کے فیصلے کرنے کا ذمہ دار ہے؟ اور آخر یہ کام کب سے اس کے ذمے ہوا؟ اس کی اپنی ولادت سے پہلے یا اس کے بعد؟ اور صرف انسانوں کی حد تک یہ ذمہ داریاں محدود کیسے ہوسکتی ہیں؟ یہ کام تو لازماً زمین اور آسمانوں کے عالم گیرانتظام کا ایک جزء ہے۔ جو ہستی ساری کائنات کی تدبیر کررہی ہے وہی تو انسانوں کی پیدائش و موت اور ان کے رزق کی تنگی و کشادگی اور ان کی قسمتوں کے بنائو اور بگاڑ کی ذمہ دار ہوسکتی ہے۔

یہ اسلام کا اساسی اور بنیادی عقیدہ ہے

اسی بناء پر یہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ عالم الغیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اور جس قدر چاہے اپنی معلومات کا کوئی گوشہ کھول دے ، اور کسی غیب یا بعض غیوب کو اس پر روشن کردے، لیکن علم غیب بحیثیت مجموعی کسی کو نصیب نہیں اور عالم الغیب ہونے کی صفت صرف اللہ رب العالمین کے لیے مخصوص ہے۔ وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں، انھیں کوئی نہیں جانتا اس کے سوا۔ (الانعام:۵۹) یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْیٍٔ مِّنْ عِلْمِہٖ اِلَّا بِمَا شَآئَ۔ ’’وہ جانتا ہے کہ جو کچھ مخلوقات کے سامنے ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے، اور اس کے علم میں سے کسی چیز پر بھی وہ احاطہ نہیں کر سکتے اِلّا یہ کہ وہ جس چیز کا چاہے انھیں علم دے (البقرہ ۱؎:۲۵۵) عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلیٰ غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضیٰ مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنْ م بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا لِّیَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ۔ وہ عالم الغیب ہے، پھر وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے اس رسول کے جس کو اس نے پسند کیا ہو، پھر وہ اس کے آگے اور پیچھے نگرانی کرنے والے لگادیتا ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ ان رسولوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچادیے ہیں۔ یَسْئَلُکَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَۃِ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللّٰہِ وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ تَکُوْنُ قَرِیْبًا۔ اے نبیؐ! لوگ تم سے قیامت کے متعلق پوچھتے ہیں، کہو اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے ، اور اے نبیؐ ، تمہیں کیا خبر، شاید کہ قیامت قریب ہی ہو۔ (الا حزاب ، رکوع:۸)
قرآن اور حدیث کی ان تصریحات کے بعد اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو عالم الغیب سمجھنا اور یہ سمجھنا کہ کوئی دوسرا بھی جمیع مَاکَانَ وَمَایَکُوْنُ کا علم رکھتا ہے، قطعاً ایک غیر اسلامی عقیدہ ہے ۔
(تفہیم القرآن، ج ۳، النمل حاشیہ:۸۳)

ماٰخذ

(۱) مسلم، ج ۲، کتاب الذِّکْروَالدُّعَا والتوبۃ والاستغفار باب الدعاء عند النوم ٭ ترمذی ابواب الدعوات، ج ۲، باب منہ ٭ مسند احمد بن حنبل ، ج ۲،روایت ابوہریرۃؓ۔
(۲) ابن کثیر ج ۴، سورۃ الحدید بحوالہ ابویعلیٰ۔
(۳) بخاری، ج ۲،کتاب القدر٭ بخاری، ج ۲، کتاب التوحید باب قولہ ولقد سبقت کلمتنا لعبادناالمرسلین ٭مسلم، ج ۲، کتاب القدر باب کیفیۃ خلق الاٰدمی فی بطن امہ کتابۃ رزقہ واجلہ وعملہ وشقاوتہ وسعادتہٖ ٭ابوداؤد کتاب السنۃ باب فی القدر ٭ ترمذی ابواب القدر باب ماجاء ان الاعمال بالخواتیم ٭ ابنِ ماجہ باب فی القدر۔
(۴) بخاری، کتاب القدر کتاب الرد علی الجہمیۃ الخ ٭ مسلم کتاب القدر باب کیفیۃ خلق الاٰدمی فی بطن امہ الخ۔
(۵) مسلم، ج ۲، کتاب البروالصلۃ والادب: باب تحریم الظلم ٭ الادب المفرد للبخاری، الظلم ظلمات۔ ٭المستدرک للحاکم، ج ۴۔
(۶) ترمذی: ابواب الزہد: باب … اور ابواب القیامۃ ٭ ابن ماجہ: ابواب الزہد: باب ذکر التوبۃ ٭ مسند احمد: ج۵، قدرے لفظی اختلاف کے ساتھ۔
(۷) مسند احمد ج ۵۔
(۸) تفسیر ابن جریر طبری جز ۲۸/۳۰ مجلد ۱۲ سورہ قیامہ۔ ٭ تفسیر ابن کثیر ج ۴، ص ۴۵۲۔
(۹) ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب مقدار الرکوع والسجود ٭ ترمذی ابواب التفسیر ج ۲، سورہ التین ٭ابن کثیر ج ۴، ٭ روح المعانی جز ۳۰، سورۂ قیامہ بحوالہ ابن المنذر، ابن مردویہ، بیہقی ٭ مستدرک للحاکم کتاب التفسیر ج۲، سورہ قیامہ ٭ مسند احمد ج ۲، ٭ فتح القدیر للشوکانی ج ۵۔
(۱۰) مسلم، ج ۲،کتاب التوبۃ: باب فی الحض علی التوبۃ والفرح بہا ٭ ریاض الصالحین۔
(۱۱) مسلم، ج ۲، کتاب التوبۃ: باب فی الحض علی التوبۃ والفرح بہا ٭ مسند احمدبن حنبل، ج ۱، عن ابن مسعود۔
(۱۲) مسلم، ج ۲، کتاب التوبۃ: باب فی الحض علی التوبۃ والفرح بہا ٭ دارمی: کتاب الرقاق: اللّٰہ افرح بتوبۃ العبد۔
(۱۳) مسلم ج ۲، کتاب التوبۃ باب فی الحض علی التوبۃ والفرح بہا۔
(۱۴) ابن ماجہ ابواب الزہد باب ذکر التوبۃ۔
(۱۵) بخاری، ج ۶، کتاب الادب باب رحمۃ الولد وتقبیلہٖ ومعانقتہ۔
(۱۶) ابوداؤد کتاب الجنائز باب الامراض المکفرۃ للذنوب۔
(۱۷) بخاری، ج ۲،کتاب الرد علی الْجَہْمِیَّۃَ۔ باب قول اللّٰہ بَلْ ہُوَ قُرْآنٌ مَّجِیْد فی لوح محفوظ الخ۔
(۱۸) ترمذی ابواب التفسیر سورۃ الانعام اور سورۃ النجم۔
(۱۹) بخاری، ج ۲، کتاب التفسیر، سورۃ النجم۔
(۲۰) بخاری، ج ۱، کتاب التوحید باب قول اللّٰہ تعالیٰ اناالرزّاق ذوالقوۃ المتین۔
(۲۱) تفسیر ابن جریر جز ۲۰/۲۳ پ:۲۱، سورہ لقمان واخرج ابن المنذر عن عکرمۃ نَحوہٗ وزاد وَقَدْ عَلِمْتُ مَا کَسَبْتُ الْیَوْمَ فَمَا ذَااَکْسِبُ غَدًا وَزادایَضًا انَّہٗ سَأَلَہٗ عَنْ قِیَامِ السَّاعَۃِ ٭ تفسیر فتح القدیر للشوکانی، ج ۴، سورۃ لقمان، بحوالہ ابن ابی حاتم اور فریابی۔
(۲۲) بخاری، ج ۱، کتاب الایمان باب سوال جبریل النّبی ﷺ عن الایمان والاسلام والاحسان و علم الساعۃ ٭مسلم، ج۱،کتاب الایمان ٭ نسائی کتاب الایمان صفۃ الایمان والاسلام اور باب نعت الاسلام ٭ ترمذی ابواب الایمان ٭ ابوداؤد کتاب السنۃ باب فی القدر ٭ ابن ماجہ باب الایمان (المقدمہ) ٭مسنداحمد ج ۲، عن ابی ہریرۃ۔

اَلْاَسْمَآئُ الْحُسْنیٰ

’’حدیث میں اس ذات پاک کے ننانوے نام گنائے گئے ہیں، جنھیں ترمذیؒ اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہؓ کی روایت سے بالتفصیل نقل کیا ہے۔ قرآن اور حدیث میں اگر آدمی ان اسماء کو بغور پڑھے تو وہ بہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کی کسی دوسری زبان میں اگر اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا ہو تو کون سے الفاظ اس کے لیے موزوں ہوں گے۔‘‘ (تفہیم القرآن، ج ۵،الحشر، حاشیہ:۴۶)
’’ اللہ تعالیٰ کو ان ناموں سے یاد کیا جائے جو اس کے لائق ہیں اور ایسے نام اس کی ذات برتر کے لیے استعمال نہ کیے جائیں جو اپنے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے اس کے لیے موزوں نہیں ہیں یا جن میں اس کے لیے نقص یا گستاخی یا شرک کا کوئی پہلو نکلتا ہے، یا جن میں اس کی ذات یا صفات یا افعال کے بارے میں کوئی غلط عقیدہ پایا جاتا ہے، اس غرض کے لیے محفوظ ترین صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے وہی نام استعمال کیے جائیں جو اس نے خود قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں یا جو دوسری زبان میں ان کا صحیح ترجمہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے لیے مخلوقات کے سے نام یا مخلوقات کے لیے اللہ کے ناموں جیسے نام استعمال نہ کیے جائیں اور اگر کچھ صفاتی نام ایسے ہوں جو اللہ تعالیٰ کے لیے خاص نہیں ہیں، بلکہ بندوں کے لیے بھی ان کا استعمال جائز ہے۔ مثلاً رؤف، رحیم، کریم ، سمیع، بصیر وغیرہ ، تو ان میں یہ احتیاط ملحوظ رہنی چاہیے کہ بندے کے لیے ان کا استعمال اس طریقے پر نہ ہو جس طرح اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا نام ادب اور احترام کے ساتھ لیا جائے، کسی ایسے طریقے پر یا ایسی حالت میں نہ لیا جائے جو اس کے احترام کے منافی ہو۔ مثلاً ہنسی مذاق میں بیت الخلاء میں یا کوئی گناہ کرتے ہوئے اس کا نام لینا یا ایسے لوگوں کے سامنے اس کا ذکر کرنا جو اسے سن کر گستاخی پر اترآئیں۔ یا ایسی مجلسوں میں اس کا نام لینا جہاں لوگ بے ہودگیوں میں مشغول ہوں اور اس کا ذکر سن کر مذاق میں اڑادیں یا ایسے مواقع پر اس کا نام پاک زبان پر لانا جہاں اندیشہ ہو کہ سننے والا اسے ناگواری کے ساتھ سنے گا۔ امام مالکؒ کے حالات میں منقول ہے کہ جب کوئی سائل ان سے کچھ مانگتا اور وہ اسے کچھ نہ دے سکتے تو عام لوگوں کی طرح ’’اللہ دے گا‘‘ نہ کہتے بلکہ کسی اور طرح معذرت کردیتے تھے۔ لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو انھوں نے کہا کہ سائل کو جب کچھ نہ دیا جائے اور اس سے معذرت کردی جائے تو لامحالہ اسے ناگوار ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر میں اللہ کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص اسے ناگواری کے ساتھ سنے۔‘‘ (تفہیم القرآن، ج ۶، الاعلیٰ ، حاشیہ: ۱)
اللہ تعالیٰ کے لیے انسانی زبان کے جتنے الفاظ بھی بولے جاتے ہیں وہ اپنے اصل بنیادی مفہوم کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں نہ کہ اس کے مادی مدلولات کے اعتبار سے، مثلاً ہم اس کے لیے دیکھنے کا لفظ بولتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ انسان اور حیوان کی طرح کی آنکھ نامی ایک عضو کے ذریعے سے دیکھتا ہے۔ ہم اس کے لیے سننے کا لفظ بولتے ہیں۔ یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ وہ ہماری طرح کانوں کے ذریعہ سے سنتا ہے۔ اس کے لیے ہم پکڑ اور گرفت کے الفاظ بولتے ہیں یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ وہ ہاتھ نام کے ایک آلہ سے پکڑتا ہے۔ یہ سب الفاظ اس کے لیے ہمیشہ ایک اطلاقی شان میں بولے جاتے ہیں اور صرف کم عقل آدمی ہی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتا ہے کہ سماعت اور بینائی اور گرفت کی کوئی دوسری صورت اس محدود اور مخصوص قسم کی سماعت و بینائی اور گرفت کے سوا ہونی غیر ممکن ہے جو ہمارے تجربے میں آتی ہے۔‘‘
(تفہیم القرآن، ج ۳، نور، حاشیہ: ۶۲)
مذکورہ بالا روایات میں سے جن روایتوں میں اسماء حسنہ کی تفصیل موجود ہے ان کی رو سے محدثین کے ہاں بیان اسماء کے تین طُرق ہیں۔ ان میں طریق اوّل امام ترمذیؒ کا ہے جو سب سے زیادہ مشہور ہے اس طریق کو محدثین کی زبان میں طریق صالح کہا جاتا ہے۔
اس طریق کو امام ترمذیؒ کے علاوہ طبرانیؒ ، ابن حبانؒ ، ابن خزیمہؒ نے بھی کسی قدر اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔
دوسرا طریق زہیر بن محمدؒ کا ہے جسے ابن ماجہؒ نے بیان کیا ہے اس میں امام ترمذیؒ کے نقل کردہ اسماء سے کافی زیادہ اختلاف ہے۔
تیسرا طریق عبدالعزیز بن حصینؒ کا ہے جسے حاکم نے المستدرک میں بیان کیا ہے۔ یہ طریق بعض اسماء میں ترمذیؒ اور ابن ماجہؒ دونوں سے کسی قدر مختلف ہے۔ ہم نے یہاں ترمذیؒ کے روایت کردہ طریق صفوان بن صالحؒ ہی کو مقدم رکھا ہے کیونکہ یہی طریق سب سے مشہور اور متداول ہے۔
تخریج:
قرآن مجید سورۂ بنی اسرائیل آیت ۱۱۰ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَیَّا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنیٰ۔
’’اے نبیؐ! ان سے کہو، اللہ کہہ کر پکارو یا رحمان کہہ کر جس نام سے بھی پکارو اس کے لیے سب اچھے ہی نام ہیں۔‘‘
سورۂ طٰہٰ آیت ۸ میں ارشاد ربّانی ہے:
اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ لَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنیٰ۔
’’ وہ اللہ ہے اس کے سوا کوئی خدا نہیں ، اس کے لیے بہترین نام ہیں۔‘‘
سورۂ حشر آیت ۲۴ میں ارشادِ الٰہی ہے:
ہُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِیُٔ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنیٰ۔
’’ وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے اور اس کے لیے بہترین نام ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا آیات قرآنی کی تفسیر میں احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے ننانوے نام ہیں جن کو یاد کرنا انسان کو جنت میں پہنچادیتا ہے۔ یہ احادیث درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری میں ہے:
(۱) حَدَّثَنَا اَبُوالْیَمَانِ، قَالَ: اَخْبَرَنَآ شُعَیْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا اَبُوالزِّنَادِ، عَنِ الْاَعْرَجِ، عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ، قَالَ: اِنَّ لِلّٰہِ تِسْعَۃً وَتِسْعِیْنَ اِسْمًا مِائَۃً اِلَّا وَاحِدًا۔ مَنْ اَحْصَاہَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔ اَحْصَیْنَاہُ وَحَفِظْنَاہُ۔ (۱)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے، یعنی ایک کم سواسماء ہیں جس نے ان کو یاد کرلیا وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ صحابہ کرامؓ کہتے ہیں کہ ہم نے ان کو اچھی طرح گن کر حفظ کرلیا۔
بخاری کی دوسری روایت:
(۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْیَانُ، حَفِظْنَاہُ عَنْ اَبِی الزِّنَادِ، عَنِ الْاَعْرَجِ، عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: لِلّٰہِ تِسْعَۃٌ وَتِسْعُوْنَ اِسْمًا، مِائَۃً اِلَّا وَاحِدًا لَا یَحْفَظُہَا اَحَدٌ اِلَّادَخَلَ الْجَنَّۃَ وَہُوَوِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ۔ قَالَ اَبُوْعَبْدِاللّٰہِ: مَنْ اَحْصَاہَا ــــــ مَنْ حَفِظَہَا۔ (۲)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ ہی سے روایت ہے ۔ انھوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ننانوے یعنی ایک کم سو نام ہیں۔ جو شخص بھی انھیں یاد کرے گا وہ ضرور جنت میں جائے گا۔ اللہ وتر (طاق) ہے اور وتر ہی اسے پسند ہے۔ ابوعبداللہ کہتے ہیں مَنْ اَحْصَاہَا کے معنی ہیں: مَنْ حَفِظَہَا۔ یعنی جس نے انھیں یاد کیا۔
صحیح مسلم کی روایت:
(۳) حَدَّثَنَا عَمْرٌ وَالنَّاقِدُوَزُہَیْرُبْنُ حَرْبٍ وَابْنُ اَبِیْ عُمَرَ جَمِیْعًا، عَنْ سُفْیَانَ، وَاللَّفْظُ لِعَمْرٍ وَحَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنِ الزِّنَادِ، عَنِ الْاَعْرَجِ، عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّﷺ، قَالَ: لِلّٰہِ تِسْعَۃٌ وَتِسْعُوْنَ اِسْمًا مَنْ حَفِظَہَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَاِنَّ اللّٰہَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ وَ فِیْ رِوَایَۃِ ابْنِ اَبِیْ عُمَرَ مَنْ اَحْصَاہَا۔
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جس نے ان کوحفظ کرلیا وہ جنت میں داخل ہوگیا اور اللہ تعالیٰ وتر (طاق) ہے اور وتر ہی اسے پسند ہے۔ ابن ابی عمرؓ کی روایت میں حَفِظَہَا کی جگہ اَحْصَاہَا ہے۔
مسلم کی دوسری روایت:
(۴) حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُبْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ اَیُّوْبَ، عَنِ بْنِ سِیْرِیْنَ، عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ وَعَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ، عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ ﷺ، قَالَ: اِنَّ لِلّٰہِ تِسْعَۃً وَتِسْعِیْنَ اِسْمًا مائَۃً اِلَّا وَاحِدًا مَنْ اَحْصَاہَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔(۳)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جس نے ان کو حفظ کرلیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔
ترمذی کی روایت:
(۵) حَدَّثَنَا ابْنُ اَبِیْ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ اَبِیْ الزِّنَادِعَنِ الْاَعْرَجِ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ، قَالَ: اِنَّ لِلّٰہِ تِسْعَہً وَتِسْعِیْنَ اِسْمًا مَنْ اَحْصَاہَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔ قَالَ: وَلَیْسَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ذِکْرُ الْاَسْمَائِ۔ قَالَ: وَہٰذا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جس نے انھیں یاد کرلیا وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ ترمذی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں ناموں کا ذکر نہیں ہے اور یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
ترمذی کی دوسری روایت:
حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ یَعْقُوْبَ الْجَوْزَجَانِیُّ، حَدَّثَنِیْ صَفْوَانُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اَبِیْ حَمْزَۃَ، عَنْ اَبِیْ الزِّنَادِ، عَنِ الْاَعْرَجِ، عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، قَالَ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: اِنَّ لِلّٰہِ تَعَالیٰ تِسْعَۃً وَتِسْعِیْنَ اِسْمًا مَنْ اَحْصَاہَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔
ہُوَاللّٰہُ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الرَّحْمٰنُ اَلرَّحِیْمُ اَلْمَلِکُ اَلْقُدُّوْسُ
اَلسَّلَامُ الْمُؤمِنُ اَلْمُہَیْمِنُ اَلْعَزِیْزُ اَلْجَبَّارُ اَلْمُتَکَبِّرُ
اَلْخَالِقُ اَلْبَارِیُٔ اَلْمُصَوِّرُ اَلْغَفَّارُ اَلْقہَّارُ اَلْوَہَّابُ
اَلرَّزَّاقُ اَلْفَتَّاحُ اَلْعَلِیْمُ اَلْقَابِضُ اَلْبَاسِطُ اَلْخَافِضُ
اَلرَّافِعُ اَلْمُعِزُّ اَلْمُذِلُّ اَلسَّمِیْعُ اَلْبَصِیْرُ اَلْحَکَمُ
اَلْعَدْلُ اَللَّطِیْفُ اَلْخَبِیْرُ اَلْحَلِیْمُ اَلْعَظِیْمُ اَلْغَفُوْرُ
اَلشَّکُوْرُ اَلَعَلِیُّ اَلْکَبِیْرُ اَلْحَفِیْظُ اَلْمُقِیْتُ اَلْحَسِیْبُ
اَلْجَلِیْلُ اَلْکَرِیْمُ اَلرَّقِیْبُ اَلْمُجِیْبُ اَلْوَاسِعُ اَلْحَکِیْمُ
اَلْوَدُوْدُ اَلْمَجِیْدُ اَلْبَاعِثُ اَلشَّہِیْدُ اَلْحَقُّ اَلْوَکِیْلُ
اَلْقَوِیُّ اَلْمَتِیْنُ اَلْوَلِیُّ اَلْحَمِیْدُ اَلْمُحْصِیْ اَلْمُبْدِیُٔ
اَلْمُعِیْدُ اَلْمُحْیٖ اَلْمُمِیْتُ اَلْحَیُّ اَلْقَیُّوْمُ اَلْوَاجِدُ
اَلْمَاجِدُ اَلْوَاحِدُ اَلصَّمَدُ اَلْقَادِرُ اَلْمُقْتَدِرُ اَلْمُقَدِّمُ
اَلْمُؤَخِّرُ اَلْاَوَّلُ اَلْاٰخِرُ اَلظَّاہِرُ اَلْبَاطِنُ اَلْوَالِیْ
اَلْمُتَعَالِیْ اَلْبَرُّ اَلتَّوَّابُ اَلْمُنتَقِمُ اَلْعَفُوُّ اَلرَّؤُفُ
مَالِکُ الْمُلْکِ ذُوالْجَلَالِ وَ الْاِکْرَامِ اَلْمُقْسِطُ اَلْجَامِعُ
اَلْغَنِیُّ اَلْمُغْنِیْ اَلْمَانِعُ اَلضَّارُّ النَّافِعُ النُّوْرُ
اَلْہَادِیْ اَلْبَدِیْعُ اَلْبَاقِیْ اَلْوَارِثُ الرَّشِیْدُ اَلصَّبُوْرُ (۴)
ابن ماجہ کی روایت:
حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ مُحَمَّدِ الصَنَعَا نِیُّ، ثَنَا اَبُوا لْمُنْذِرِ زُہَیْرُ ابْنُ مُحَمَّدِ التَّمِیْمِیِّ، ثَنَا مُوْ سَی بْنُ عُقْبَۃَ ، حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ الْاَعْرَجُ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ: اِنَّ لِلّٰہِ تِسْعَۃً وَتِسْعِیْنَ اِسْمًا مِا ئَۃً اِلَّا وَاحِدًا۔ اِنَّہٗ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ مَنْ حَفِظَہَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَہِیَ:
اَللّٰہُ اَلْوَاحِدُ اَلصَّمَدُ اَلْاَوَّلُ اَلْآخِرُ اَلظَّاہِرُ
اَلْبَاطِنُ اَلْخَالِقُ اَلْبَارِیُٔ اَلْمُصَوِّرُ اَلْمَلِکُ اَلْحَقُّ
اَلسَّلَامُ اَلْمُؤْمِنُ اَلْمُہَیْمِنُ اَلْعَزِیْزُ اَلْجَبَّارُ اَلْمُتَکَبِّرُ
اَلرَّحْمٰنُ اَلرَّحِیْمُ اَللَّطِیْفُ اَلْخَبِیْرُ اَلسَّمِیْعُ اَلْبَصِیْرُ
اَلْعَلِیْمُ اَلْعَظِیْمُ اَلْبَارُّ اَلْمُتَعَالُ اَلْجَلِیْلُ اَلْجَمِیْلُ
اَلْحَیُّ اَلْقَیُّوْمُ اَلْقَادِرُ اَلْقَاہِرُ اَلْعَلِیُّ اَلْحَکِیْمُ
اَلْقَرِیْبُ اَلْمُجِیْبُ اَلْغَنِیُّ اَلْوَہَّابُ اَلْوَدُوْدُ اَلشَّکُوْرُ
اَلْماجِدُ اَلْوَاجِدُ اَلْوَالِیْ اَلرَّاشِدُ اَلْعَفُوُّالْغَفُوْرُ اَلْحَلِیْمُ
اَلْکَرِیْمُ اَلتَّوَّابُ اَلرَّبُّ اَلْمَجِیْدُ اَلْوَلِیُّ اَلشَّہِیْدُ
اَلْمُبِیْنُ اَلْبُرْہَانُ اَلرَّؤُفُ اَلْمُبْدِیُٔ اَلْمُعِیْدُ اَلْبَاعِثُ
اَلْوَارِثُ اَلْقَوِیُّ اَلشَّدِیْدُ اَلضَّارُّ اَلنَّافِعُ اَلْبَاقِیْ
الْوَاقِیْ اَلْخَافِضُ اَلرَّافِعُ اَلْقَابِضُ اَلْبَاسِطُ اَلْمُعِزُّ
اَلْمُذِلُّ اَلْمُقْسِطُ اَلرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ اَلْقَائِمُ
اَلدَّائِمُ اَلْحَافِظُ اَلْوَکِیْلُ اَلْفَاطِرُ اَلسَّامِعُ اَلْمُعْطِیْ
اَلْمُحْیِیْ اَلْمُمِیْتُ اَلْمَانِعُ اَلْجَامِعُ اَلْہَادِیُٔ اَلْکَافِیْ
اَلْاَبَدُ اَلْعَالِمُ اَلصَّادِقُ اَلنُّوْرُ اَلْمُنِیْرُ اَلتَّامُ
اَلْقَدِیْمُ اَلْوِتْرُ اَلْاَحَدُ ـــــــــ اَلصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ۔
وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا أَحَدٌ۔ (۵)
مستدرک حاکم کی روایت:
حَدَّثَنَا اَبُوْ مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ حَمْدَانُ الْجُلَّابُ بِہَمْدَانَ، ثَنَاالْاَمِیْرُاَبُوالْہَیْثَمِ خَالِدُبْنُ اَحْمَدَالزُّہْلِیُّ بِہَمْدَانَ، ثَنَا اَبُوْاَسَدٍ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ الْبَلَخِیُّ، ثَنَا خَالِدُابْنُ مَخْلَدٍ الْقَطُوْنِیُّ۔حَدَّثََنَا مُحَمَّدُبْنُ صَالِحِ بْنِ ہَانِیْ، وَاَبُوْ بَکْرِبْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَا: ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ، ثَنَا اَحْمَدُبْنُ سُفْیَانَ النّسأی، ثَنَا خَالِدُبْنُ مَخلَدٍ، ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِبْنُ حُصَیْنِ بْنِ التَّرْجُمَانِ، ثَنَا اَیُّوْبُ السَّخْتِیَانِیُّ، وَہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ، عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النّبِیِّ ﷺ، قَالَ: اِنَّ لِلّٰہِ تِسْعَۃً وَتِسْعِیْنَ اِسْمًامَنْ اَحْصَاہَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔
اَللّٰہُ اَلرَّحْمٰنُ اَلرَّحِیْمُ اَلْاِلٰہُ اَلرَّبُّ اَلْمَلِکُ
اَلْقُدُّوْسُ اَلسَّلَامُ اَلْمُؤْمِنُ اَلْمُہَیْمِنُ اَلْعَزِیْزُ اَلْجَبَّارُ
اَلْمُتَکَبِّرُ اَلْخَالِقُ اَلْبَارِیُٔ اَلْمُصَوِّرُ اَلْحَلِیْمُ اَلْعَلِیْمُ
اَلسَّمِیْعُ اَلْبَصِیْرُ اَلْحَیُّ اَلْقَیُّوْمُ اَلْوَاسِعُ اَللَّطِیْفُ
اَلْخَبِیْرُ اَلْحَنَّانُ اَلْمَنَّانُ اَلْبَدِیْعُ اَلْوَدُوْدُ اَلْغَفُوْرُ
اَلشَّکُوْرُ اَلْمَجِیْدُ اَلْمُبْدِیُٔ اَلْمُعِیْدُ اَلنُّوْرُ اَلْاَوَّلُ
اَلْآخِرُ اَلظَّاہِرُ اَلْبَاطِنُ اَلْغَفَّارُ اَلْوَہَّابُ اَلْقَادِرُ
اَلْاَحَدُ اَلصَّمَدُ اَلْکَافِیْ اَلْبَاقِیْ اَلْوَکِیْلُ اَلْمُغِیْثُ
اَلدَّائِمُ اَلْمُتَعَالُ ذُوالْجَلَالِ وَ الْاِکْرَامِ اَلْمَوْلیٰ اَلنَّصِیْرُ
اَلْحَقُّ اَلْمُبِیْنُ اَلْمُنِیْبُ اَلْبَاعِثُ اَلْمُجِیْبُ اَلْمُحْیِیْ
اَلْمُمِیْتُ اَلْجَمِیْلُ اَلصَّادِقُ اَلْحَفِیْظُ اَلْمُحِیْطُ اَلْکَبِیْرُ
اَلْقَرِیْبُ اَلرَّقِیْبُ اَلْفَتَّاحُ اَلتَّوَّابُ اَلْقَدِیْمُ اَلْوِتْرُ
اَلْفَاطِرُ الرَّزَّاقُ اَلْعَلَّامُ اَلْعَلِیُّ اَلْعَظِیْمُ اَلْغَنِیُّ
اَلْمَلِیْکُ اَلْمُقْتَدِرُ اَلْاَکْرَمُ اَلرَّؤُفُ اَلْمُدَبِّرُ اَلْمَالِکُ
اَلْقَاہِرُ اَلْقَدِیْرُ اَلْہَادِیُٔ اَلشَّاکِرُ اَلرَّفِیْعُ اَلشَّہِیْدُ
اَلْوَاحِدُ ذُوالطَّوْلِ ذُوالْمَعَارِجِ ذُوالْفَضْلِ اَلْخَلَّاقُ اَلْکَفِیْلُ
اَلْجَلِیْلُ اَلْکَرِیْمُ۔ (۶)
ہٰذا حدیث محفوظ من حدیث اَیُّوب وہِشام، عَنْ محمد بن سیرین، عَنْ ابی ہریرۃ مختصرًا دُون ذکرالاسامیٰ الزایدۃ فیہا کلہا فی القرآن وعبدالعزیز بن الحصین بن الترجمان ثقۃ وان لم یخرجاہ وانما جعلتہ شاہدا للحدیث الْاَوّلِ۔

اللہ

’’اللہ‘‘ عربوں کے لیے کوئی اجنبی لفظ نہ تھا۔ قدیم ترین زمانے سے وہ خالق کائنات کے لیے یہی لفظ استعمال کررہے تھے اور اپنے دوسرے معبودوں میں سے کسی پر بھی اس کا اطلاق نہیں کرتے تھے۔ دوسرے معبودوں کے لیے ان کے ہاں اِلٰہ کا لفظ رائج تھا۔ پھر’’ اللہ ‘‘کے بارے میں ان کے جو عقائد تھے ان کا اظہار اس موقع پر خوب کھل کر ہوگیا تھا۔ جب ابرہہ نے مکہ پر چڑھائی کی تھی۔ اس وقت خانہ کعبہ میں ۳۶۰ الٰہوں کے بت موجود تھے، مگر مشرکین نے ان سب کو چھوڑ کر صرف اللہ سے دعائیں مانگی تھیں کہ وہ اس بلا سے ان کو بچائے۔ گویا وہ اپنے دلوں میں اچھی طرح جانتے تھے کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ اس نازک وقت میں ان کی مدد نہیں کرسکتا۔ کعبے کو بھی وہ ان الہٰوں کی نسبت سے بیت الاٰلِہہ نہیں، بلکہ اللہ کی نسبت سے بَیْتُ اللّٰہ کہتے تھے۔ (تفہیم القرآن، ج ۶، الاخلاص حاشیہ:۲)
اللہ تعالیٰ نے سورۂ اخلاص میں اپنا تعارف بایں الفاظ کرایا ہے:
قُلْ ہُوَاللّٰہُ اَحَدٌ۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ۔ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ۔
’’کہو !وہ اللہ ہے یکتا۔ اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ۔ کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے۔‘‘
(علاوہ ازیں) جگہ جگہ اس مضمون کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے تاکہ لوگ حقیقت کو پوری طرح سمجھ لیں۔مثال کے طور پر آیات ذیل ملاحظہ ہوں۔
اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۔ سُبْحَانَہٗ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ وَلَدٌ۔ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَافِی الْاَرْضِ۔
(النساء: ۱۷۱)
’’ اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے۔ وہ پاک ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو۔ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ، سب اس کی ملک ہے۔‘‘
اَلَآ اِنَّہُمْ مِّنْ اِفْکِہِمْ لَیَقُوْلُوْنَ وَلَدَا للّٰہُ وَاِنَّہُمْ لَکذِبُوْنَ۔ (الصافات: ۱۵۱-۱۵۲)
’’ خوب سن رکھو! یہ لوگ دراصل اپنی من گھڑت سے یہ بات کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتاہے۔ فی الواقع یہ قطعی جھوٹے ہیں۔‘‘
ساری کائنات میں کوئی نہیں ہے ، نہ کبھی تھا، نہ کبھی ہوسکتا ہے، جو اللہ کے مانند ، یا اس کا ہم مرتبہ ہو، یا جو اپنی صفات، افعال اور اختیارات میں اس سے کسی درجہ میں بھی مشابہت رکھتا ہو۔ (تفہیم القرآن، ج ۶، الاخلاص ، حاشیہ: ۶)
اگر انسان کائنات کے اس کارخانے کو، جو شب و روز اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے، محض جانوروں کی طرح نہ دیکھے بلکہ عقل سے کام لے کر اس نظام پر غور کرے، اور ضد یا تعصب سے آزاد ہو کر سوچے، تو یہ آثار جو اس کے مشاہدے میں آرہے ہیں اس نتیجے پر پہنچانے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ یہ عظیم الشان نظام ایک ہی قادرِ مطلق حکیم کے زیر فرمان ہے،تمام اختیار و اقتدار بالکل اسی ایک کے ہاتھ میں ہے، کسی دوسرے کی خود مختارانہ مداخلت یا مشارکت کے لیے اس نظام میں ذرہ برابر کوئی گنجائش نہیں، لہٰذا فی الحقیقت وہی ایک خدا تمام موجودات عالم کا خدا ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسری ہستی کسی قسم کے اختیارات رکھتی ہی نہیں کہ خدائی اور الوہیت میں اس کا کوئی حصہ ہو۔ (تفہیم القرآن، ج ۱، البقرہ، حاشیہ: ۱۶۲)
خدائی کی جو صفات اللہ کے لیے خاص ہیں ان میں سے بعض کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں اور خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر اللہ کے جو حقوق ہیں، وہ سب یا ان میں سے بعض حقوق یہ لوگ ان دوسرے بناوٹی معبودوں کو ادا کرتے ہیں۔ مثلاً سلسلۂ اسباب پر حکمرانی ، حاجت روائی، مشکل کشائی، فریادرسی، دعائیں سننا اور غیب و شہادت ہر چیز سے واقف ہونا، یہ سب اللہ کی مخصوص صفات ہیں اور یہ صرف اللہ ہی کا حق ہے کہ بندے اسی کو مقتدر اعلیٰ مانیں ، اسی کے آگے اعتراف بندگی میں سرجھکائیں، اسی کی طرف اپنی جاجتوں میں رجوع کریں، اسی کو مدد کے لیے پکاریں، اسی پر بھروسہ کریں، اسی سے امیدیں وابستہ کریں اور اسی سے ظاہر و باطن میں ڈریں۔ اسی طرح مالک الملک ہونے کی حیثیت سے یہ منصب بھی اللہ ہی کا ہے کہ اپنی رعیت کے لیے حلال و حرام کے حدود مقرر کرے، ان کے فرائض و حقوق معین کرے، ان کو امر ونہی کے احکام دے، اور انھیں یہ بتائے کہ اس کی دی ہوئی قوتوں اور اس کے بخشے ہوئے وسائل کو وہ کس طرح کن کاموں میں کن مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ اور یہ صرف اللہ کا حق ہے کہ بندے اس کی حاکمیت تسلیم کریں، اس کے حکم کو منبع قانون مانیں، اسی کو امرونہی کا مختار سمجھیں، اپنی زندگی کے معاملات میں اس کے فرمان کو فیصلہ کن قرار دیں، اور ہدایت و رہنمائی کے لیے اسی کی طرف رجوع کریں۔ جو شخص خدا کی ان صفات میں سے کسی صفت کو بھی کسی دوسرے کی طرف منسوب کرتا ہے، اور اس کے ان حقوق میں سے کوئی ایک حق بھی کسی دوسرے کو دیتا ہے وہ دراصل اسے خدا کا مدِّمقابل اور ہمسر بناتا ہے اور اسی طرح جو شخص یا جو ادارہ ان صفات میں سے کسی کا مدعی ہو اور ان حقوق میں سے کسی حق کا انسانوں سے مطالبہ کرتا ہو، وہ بھی دراصل خدا کا مدِّمقابل اور ہمسر بنتا ہے خواہ زبان سے خدائی کا دعویٰ کرے یا نہ کرے۔ (تفہیم القرآن، ج ۱، البقرہ، حاشیہ: ۱۶۳)
سورۂ آل عمران آیت ۱۸ میں ارشاد ربانی ہے:
شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الخ
’’اللہ نے خود اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔‘‘
یعنی’’ اللہ ‘‘جو کائنات کی تمام حقیقتوں کا براہِ راست علم رکھتا ہے ، جو تمام موجودات کو بے حجاب دیکھ رہا ہے، جس کی نگاہ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں، یہ اس کی شہادت ہیــــــ اور اس سے بڑھ کر معتبر عینی شہادت اور کس کی ہوگیــــــ کہ پورے عالم وجود میں اس کی اپنی ذات کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں ہے، جو خدائی کی صفات سے متصف ہو، خدائی کے اقتدار کی مالک ہو، اور خدائی کے حقوق کی مستحق ہو۔ (تفہیم القرآن، ج ۱، آل عمران، حاشیہ:۱۴)
اللہ کا وجود محض ایک خیالی اور فرضی وجود نہیں ہے جسے بعض عقلی مشکلات رفع کرنے کی خاطر مان لیا گیا ہو۔وہ نرافلسفیوں کے خیال کاآفریدہ ، واجب الوجود اور علت الْعلل (First Cause) ہی نہیں ہے بلکہ وہ حقیقی فاعل مختار ہے جو ہر آن اپنی قدرت ، اپنے ارادے ، اپنے علم اور اپنی حکمت سے پوری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کی تدبیر کررہا ہے۔
(تفہیم القرآن، ج ۳، الحج، حاشہ:۸)
ہر شخص جو کسی نوعیت کا شرک کرتا ہے، دراصل وہ اللہ تعالیٰ کی کسی نہ کسی صفت کی تکذیب کرتا ہے۔ کسی کا یہ کہنا کہ فلاں حضرت نے میری بیماری دور کردی، اصل میں یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ شافی نہیں ہے بلکہ وہ حضرت شافی ہیں۔ کسی کا یہ کہنا کہ فلاں بزرگ کی عنایت سے مجھے روزگار مل گیا، حقیقت میں یہ کہنا ہے کہ رازق اللہ نہیں ہے بلکہ وہ بزرگ رازق ہیں۔ کسی کا یہ کہنا کہ فلاں آستانے سے میری مراد برآئی، گویا دراصل یہ کہنا ہے کہ دنیا میں حکم اللہ کا نہیں بلکہ اس آستانے کا چل رہا ہے۔ غرض ہر مشرکانہ عقیدہ اور مشرکانہ قول آخری تجزیہ میں صفات الٰہی کی تکذیب ہی پر منتہی ہوتا ہے۔ شرک کے معنی ہی یہ ہیں کہ آدمی دوسروں کو سمیع و بصیر ، عالم الغیب ، فاعل مختار، قادر و متصرّف، اور الوہیت کے دوسرے اوصاف سے متصف قرار دے رہا ہے اور اس بات کا انکار کررہا ہے کہ اکیلا اللہ ہی ان صفات کا مالک ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۵، الرحمن ، حاشیہ: ۲۸)

الاِلٰہ

اس لفظ کا مادہ ’’ا ل ہ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے جو الفاظ لغت میں آئے ہیں ان کی تفصیل یہ ہے:
اَلِہَ اِذاتَحَیَّرَ: حیران و سرگشتہ ہوا۔ اَلِہْتُ اِلیٰ فُلَانٍ اَیْ سَکَنْتُ اِلَیْہِ: اس کی پنا ہ میں جاکر یا اس سے تعلق پیدا کر کے میں نے سکون و اطمینان حاصل کیا۔
اَلَہَ الرَّجُلُ یَاْ الالٰہٗ اِذَا فَزِعَ مِنْ اَمْرٍ نَزَلَ بِہٖ فَآلَہَہٗ غَیْرُہٗ اَیْ اَجَارَہٗ۔ آدمی کسی مصیبت یا تکلیف کے نزول سے خوف زدہ ہو اور دوسرے نے اس کو پناہ دی۔
اَلِہَ الرَّجُلُ اِلَی الرَّجُلِ اِتَّجَہَ اِلَیْہِ لِشِدَّۃِ شَوْقِہٖ اِلَیْہِ۔آدمی نے دوسرے کی طرف شدت شوق کی وجہ سے توجہ کی۔
اَلِہَ الْفَصِیْلُ اِذَاوَلَعَ بِاُمِّہٖ۔اونٹنی کا بچہ جو اس سے بچھڑ گیا تھا ماں کو پاتے ہی اس سے چمٹ گیا۔
لَاہَ یَلِیْہُ لَیْہًا وَلَا ہًا اِذَا احْتَجَبَ۔ پوشیدہ و مستور ہوا نیز ارتفع یعنی بلند ہوا۔
الہ الٰہۃ والوہۃً والوہیۃً عَبَدَ عبادت کی۔
ان تمام معانی مصدر یہ پر غور کرنے سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ اَلَہَ یَا لَہُ اِلٰہَۃً کے معنی عبادت (پرستش) اور اِلٰہ کے معنی معبود کس مناسبت سے پید ا ہوئے۔
۱- انسان کے ذہن میں عبادت کے لیے اوّلین تحریک اپنی حاجت مندی سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ کسی کی عبادت کا خیال تک نہیں کرسکتا جب تک اسے یہ گمان نہ ہو کہ وہ اس کی حاجتیں پوری کرسکتا ہے، خطرات اور مصائب میں اسے پناہ دے سکتا ہے، اضطراب کی حالت میں اسے سکون بخش سکتا ہے۔
۲- پھر یہ بات کہ آدمی کسی کو حاجت روا سمجھے اس تصور کے ساتھ لازم و ملزوم کا تعلق رکھتی ہے کہ وہ اسے اپنے سے بالاتر سمجھے اور نہ صرف مرتبہ کے اعتبار سے اس کی برتری تسلیم کرے، بلکہ طاقت اور زور کے اعتبار سے بھی اس کی بالادستی کا قائل ہو۔
۳- پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سلسلۂ اسباب و علل کے تحت جن چیزوں سے بالعموم انسان کی ضروریات پوری ہوتی ہیں، اور جن کی حاجت روائی کا سارا عمل انسان کی آنکھوں کے سامنے یا اس کے حدود علم کے اندر واقع ہوتا ہے ان کے متعلق پرستش کا کوئی جذبہ اس میں پیدا نہیںہوتا۔ مثلاً مجھے خرچ کے لیے روپے کی ضرورت ہوتی ہے، میں جاکر ایک شخص سے نوکری یا مزدوری کی درخواست کرتا ہوں وہ میری درخواست کو قبول کرکے مجھے کوئی کام دیتا ہے اور اس کام کا معاوضہ مجھے دے دیتا ہے، یہ سارا عمل چونکہ میرے حواس اور علم کے دائرے کے اندر پیش آیا ہے اور میں جانتا ہوں کہ اس نے میری یہ حاجت کس طرح پوری کی ہے، اس لیے میرے ذہن میں اس کے لائق پرستش ہونے کا وہم تک نہیں گزرتا۔ پرستش کا تصور میرے ذہن میں صرف اسی حالت میں پیدا ہوسکتا ہے جب کہ کسی کی شخصیت یا اس کی طاقت یا اس کی حاجت روائی و اثر اندازی کی کیفیت پر پردہ پڑا ہو۔ اسی لیے معبود کے معنی میں وہ لفظ اختیار کیا گیا جس کے اندر رفعت کے ساتھ پوشیدگی اور حیرانی و سرگشتگی کا مفہوم بھی شامل ہے۔
۴- پھر جس کے متعلق بھی انسان یہ گمان رکھتا ہو کہ وہ احتیاج کی حالت میں حاجت روائی کرسکتا ہے، خطرات میں پناہ دے سکتا ہے اوراضطراب میں سکون بخش سکتا ہے، اس کی طرف انسان کا اشتیاق کے ساتھ توجہ کرنا ایک امرناگزیر ہے۔
پس معلوم ہوا کہ معبود کے لیے الہٰ کالفظ جن تصورات کی بناپر بولا گیا وہ یہ ہیں:
حاجت روائی ، پناہ دہندگی، سکون بخشی، بالاتری و بالادستی ، ان اختیارات اور ان طاقتوں کا مالک ہونا جن کی وجہ سے یہ توقع کی جائے کہ معبود قاضی الحاجات اور پناہ دہندہ ہوسکتا ہے۔ اس کی شخصیت کا پراسرار ہونا یا منظر عام پر نہ ہونا۔ انسان کا اس کی طرف مشتاق ہونا۔ (قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں: الہٰ، لغوی تحقیق)
زمین اور آسما ن میں ایک ہی ہستی تمام اختیارات و اقتدارات کی مالک ہے۔ خلق اسی کی ہے، نعمت اسی کی ہے، امر اسی کا ہے، قوت اور زور بالکل اس کے ہاتھ میں ہے۔ ہر چیز چاروناچار اسی کی اطاعت کررہی ہے۔ اس کے سوا نہ کسی کے پاس کوئی اقتدار ہے، نہ کسی کا حکم چلتا ہے، نہ کوئی خلق اور تدبیر اور انتظام کے رازوں سے واقف ہے، اور نہ کوئی اختیارات حکومت میں ذرہ برابر شریک و حصہ دار ہے، لہٰذا اس کے سوا حقیقت میں کوئی الہٰ نہیں ہے۔ اور جب حقیقت میں کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے تو تمہارا ہر وہ فعل جو تم دوسروں کو الٰہ سمجھتے ہوئے کرتے ہو اصلاً غلط ہے، خواہ وہ دعا مانگنے یا پناہ ڈھونڈھنے کا فعل ہو، یا خوف و رجا کا فعل ہو، یا سفارشی بنانے کا فعل ہو، یا حکم ماننے اور اطاعت کرنے کا فعل ہو۔ یہ تمام تعلقات جو تم نے دوسروں سے قائم کررکھے ہیں صرف اللہ کے لیے مخصوص ہونے چاہئیں کیونکہ وہی اکیلا صاحب اقتدار ہے۔
(قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں: قرآن کا استدلال)
الٰہیت اور اقتدار لازم و ملزوم ہیں اور اپنی روح و معنی کے اعتبار سے دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ جو اقتدار نہیں رکھتا وہ الٰہ نہیں ہوسکتا اور اسے الٰہ نہ ہونا چاہیے۔ اور جو اقتداررکھتا ہے وہی الٰہ ہوسکتا ہے اور اسی کو الٰہ ہونا چاہیے۔ کیوں کہ الٰہ سے تمہاری جس قدر ضروریات متعلق ہیں، یا جن ضروریات کی خاطر تمہیں کسی کو الٰہ ماننے کی حاجت پیش آتی ہے ان میں سے کوئی ضرورت بھی اقتدار کے بغیر پوری نہیں ہوسکتی، لہٰذا غیر مقتدر کا الٰہ ہونا بے معنی ہے حقیقت کے خلاف ہے اور اس کی طرف رجوع کرنا لاحاصل ہے۔
اس مرکزی خیال کو لے کر قرآن جس طریقہ سے استدلال کرتا ہے اس کے مقدمات اور نتائج حسب ذیل ترتیب کے ساتھ اچھی طرح سمجھ میں آسکتے ہیں:
۱- حاجت روائی، مشکل کشائی، پناہ دہندگی، امداد و اعانت، خبرگیری و حفاظت اور استجابت دعوات جن کو تم نے معمولی کام سمجھ رکھا ہے دراصل یہ معمولی کام نہیں ہیں بلکہ ان کا سررشتہ پورے نظام کائنات کی تخلیقی اور انتظامی قوتوں سے جاملتا ہے۔ تمہاری ذرا ذرا سی ضرورتیں جس طرح پوری ہوتی ہیں اس پر غور کرو تو تم کو معلوم ہوکہ زمین و آسمان کے عظیم الشان کارخانہ میں بے شمار اسباب کی مجموعی حرکت کے بغیر ان کا پورا ہونا محال ہے۔ پانی کا ایک گلاس جو تم پیتے ہو اور گیہوں کا ایک دانہ جو تم کھاتے ہو اس کو مہیا کرنے کے لیے سورج اور زمین اور ہوائوں اور سمندروں کو خدا جانے کتنا کام کرنا پڑتا ہے تب کہیں یہ چیزیں تم کو بہم پہنچتی ہیں۔ پس تمہاری دعائیں سننے اور تمہاری حاجتیں رفع کرنے کے لیے کوئی معمولی اقتدار نہیں بلکہ وہ اقتدار درکار ہے جو زمین و آسمان کو پیدا کرنے کے لیے، سیاروں کو حرکت دینے کے لیے، ہوائوں کو گردش دینے اور بارش برسانے کے لیے غرض پوری کائنات کا انتظام کرنے کے لیے درکار ہے۔
۲- یہ اقتدار ناقابل تقسیم ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ خلق کا اقتدار کسی کے پاس ہو، اور رزق کا کسی اور کے پاس سورج کسی کے قبصہ میں ہو اورزمین کسی اور کے قبضہ میں، پیدا کرنا کسی کے اختیار میں ہو، بیماری و صحت کسی اور کے اختیار میں، او ر موت اور زندگی کسی تیسرے کے اختیار میں۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ نظام کائنات کبھی چل ہی نہ سکتا۔ لہٰذا تمام اقتدارات و اختیارات کا ایک ہی مرکزی فرماں روا کے قبضہ میں ہونا ضروری ہے۔ کائنات کا انتظام چاہتا ہے کہ ایساہو، اور فی الواقع ایسا ہی ہے۔
۳- جب تمام اقتدار ایک ہی فرماں روا کے ہاتھ میں ہے اور اقتدار میں کسی کا ذرہ برابر کوئی حصہ نہیں ہے تو لامحالہ الوہیت بھی بالکلیہ اسی فرماں روا کے لیے خاص ہے اور اس میں بھی کوئی حصہ دار نہیں ہے۔ کسی میں یہ طاقت نہیں کہ تمہاری فریادرسی کرسکے، دعائیں قبول کرسکے، پناہ دے سکے، حامی و ناصر اورولی و کارساز بن سکے، نفع یا نقصان پہنچاسکے۔ لہٰذا الٰہ کا جو مفہوم تمہارے ذہن میں ہے اس کے لحاظ سے کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے۔ حتّٰی کہ کوئی اس معنی میں بھی الٰہ نہیں کہ فرماں روائے کائنات کے ہاں مقرب بارگاہ ہونے کی حیثیت ہی سے اس کا کچھ زور چلتا ہو اور اس کی سفارش مانی جاتی ہو۔ اس کے انتظام سلطنت میں کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں، کوئی اس کے معاملات میں دخل نہیں دے سکتا اور سفارش قبول کرنا یا نہ کرنا بالکل اسی کے اختیار میں ہے ، کوئی زور کسی کے پاس نہیں ہے کہ اس کے بل پر وہ اپنی سفارش قبول کراسکے۔
۴- اقتدار اعلیٰ کی وحدانیت کا اقتضایہ ہے کہ حاکمیت و فرماں روائی کی جتنی قسمیں ہیں سب ایک ہی مقتدراعلیٰ کی ذات میں مرکوز ہوں اور حاکمیت کا کوئی جز بھی کسی دوسرے کی طرف منتقل نہ ہو۔ جب خالق وہ ہے اور خلق میں کوئی اس کے ساتھ شریک نہیں، جب رازق وہ ہے اور رزق رسانی میں کوئی اس کے ساتھ شریک نہیں، جب پورے نظام کائنات کا مدبر و منتظم وہ ہے اور تدبیر و انتظام میں کوئی اس کے ساتھ شریک نہیں تو یقینا حاکم و آمر اور شارع بھی اسی کو ہونا چاہیے اوراقتدار کی اس شق میں بھی کسی کے شریک ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ جس طرح اس کی سلطنت کے دائرے میں اس کے سوا کسی دوسرے کا فریاد رس اور حاجت روا اور پناہ دہندہ ہونا غلط ہے اسی طرح کسی دوسرے کا مستقل بالذات حاکم اور خودمختار فرماں روا اور آزاد قانون ساز ہونا بھی غلط ہے۔ تخلیق اور رزق رسانی ، احیا اور اماتت ، تسخیر شمس و قمر اور تکویرلیل و نہار ، قضا اور قدر، حکم اور پادشاہی ، امر اور تشریع سب ایک ہی کلی اقتدار و حاکمیت کے مختلف پہلو ہیں اور یہ اقتدار و حاکمیت ناقابل تقسیم ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے حکم کی سند کے بغیر کسی کے حکم کو واجب الاطاعت سمجھتا ہے تو وہ ویسا ہی شرک کرتا ہے جیسا ایک غیر اللہ سے دعا مانگنے والا شرک کرتا ہے اور اگر کوئی شخص سیاسی معنی میں مالک الملک اور مقتدراعلیٰ اور حاکم علی الاطلاق ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا یہ دعویٰ بالکل اسی طرح خدائی کا دعویٰ ہے جس طرح فوق الطبیعی معنی میں کسی کا یہ کہنا کہ تمہارا ولی وکارساز اور مددگار و محافظ میں ہوں۔ اسی لیے جہاں خلق اور تقدیر اشیا اور تدبیر کائنات میں اللہ کے لاشریک ہونے کا ذکرکیا گیا ہے۔ وہیں لَہ الحکم ولہ الملک اور لم یکن لہ شریک فی الملک بھی کہا گیا ہے جو اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ الوہیت کے مفہوم میں پادشاہی و حکمرانی کا مفہوم بھی شامل ہے۔ اور توحید الٰہ کے لیے لازم ہے کہ اس مفہوم کے اعتبار سے بھی اللہ کے ساتھ کسی کی شرکت نہ تسلیم کی جائے۔
فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ لَآاِلٰہَ اِلَّا ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ۔ (المؤمنون :۱۱۶)
’’ پس بالا و برتر ہے اللہ جو حقیقی پادشاہ ہے، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ عرش بزرگ کا مالک ہے۔‘‘
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ مَلِکِ النَّاسِ۔اِلٰہِ النَّاسِ۔ (الناس :۱-۲)
’’کہو میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے رب سے، انسانوں کے بادشاہ سے، انسانوں کے الٰہ سے ۔
(قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں: قرآن کا استدلال)
اپنی سلطنت میں خداوندی کے جملہ اختیارات کا مالک وہ خود ہی ہے۔ کوئی دوسرا نہ اس کی صفات میں اس کا شریک ہے، نہ اس کے اختیارات میں اور نہ اس کے حقوق میں۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ شریک ٹھیراکر زمین یا آسمان میں جہاں بھی کسی اور کو معبود (الٰہ) بنایا جارہا ہے، ایک جھوٹ گھڑا جارہا ہے، اور حقیقت کے خلاف جنگ کی جارہی ہے۔
(تفہیم القرآن ج ۱ البقرۃ، حاشیہ: ۲۷۸)
جس کے سوا کسی کی یہ حیثیت اور مقام اور مرتبہ نہیں ہے کہ اس کی بندگی و پرستش کی جائے۔ جس کے سوا کوئی خدائی کی صفات و اختیارات رکھتا ہی نہیں کہ اسے معبود ہونے کا حق پہنچتا ہو۔ (تفہیم القرآن، ج ۵، الحشر ،حاشیہ:۳۳)
خدائی کے سارے اختیارات تنہا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میںہیں۔ کوئی دوسرا سرے سے یہ اختیار رکھتا ہی نہیں ہے کہ تمہاری اچھی یا بری تقدیر بناسکے۔ اچھا وقت آسکتا ہے تو اسی کے لائے آسکتا ہے، اور برا وقت ٹل سکتا ہے تو اسی کے ٹالے ٹل سکتا ہے۔ لہٰذا جو شخص سچے دل سے اللہ کو خدائے واحد مانتا ہو اس کے لیے اس کے سوا سرے سے کوئی راستہ ہی نہیں ہے کہ وہ اللہ پر بھروسا رکھے اور دنیا میں ایک مومن کی حیثیت سے اپنا فرض اس یقین کے ساتھ انجام دیتا چلا جائے کہ خیر بہر حال اسی راہ میں ہے جس کی طرف اللہ نے رہنمائی فرمائی ہے۔ اس راہ میں کامیابی نصیب ہوگی تو اللہ ہی کی مدد اور تائید و توفیق سے ہوگی، کوئی دوسری طاقت مدد کرنے والی نہیں ہے اور اس راہ میں اگر مشکلات و مصائب اور خطرات ومہالک سے سابقہ پیش آئے گا تو ان سے بھی وہی بچائے گا، کوئی دوسرا بچانے والا نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۵، التغابن حاشیہ:۲۸)
کائنات کا مالک و فرماں روا ہی انسانوں کا اصل معبود ہے، اور وہی درحقیقت معبود ہوسکتا ہے، اور اسی کو معبود ہونا چاہیے۔ یہ بات سراسر عقل کے خلاف ہے کہ رب (یعنی مالک ، اور حاکم اور مربی و پروردگار) کوئی اور ہو اور الٰہ(عبادت کا مستحق) کوئی اور ہوجائے۔ عبادت کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ آدمی کا نفع و ضرر، اس کی حاجتوں اور ضرورتوں کا پورا ہونا، اس کی قسمت کا بننا اور بگڑنا، بلکہ بجائے خود اس کا وجود و بقا ہی جس کے اختیار میں ہے ، اس کی بالا تری تسلیم کرنا اور اس کے آگے جھکنا آدمی کی فطرت کا عین تقاضا ہے۔ اس وجہ کو آدمی سمجھ لے تو خود بخود اس کی سمجھ میں یہ بات آجاتی ہے کہ اختیارات والے کی عبادت نہ کرنا اور بے اختیار کی عبادت کرنا، دونوں صریح خلاف عقل وفطرت ہیں۔ عبادت کا استحقاق پہنچتا ہی اس کو ہے جو اقتدار رکھتا ہے۔ رہیں بے اختیار ہستیاں تو وہ نہ اس کی مستحق ہیں کہ ان کی عبادت کی جائے، اور نہ ان کی عبادت کرنے اور ان سے دعائیں مانگنے کا کچھ حاصل ہے، کیوں کہ ہماری کسی درخواست پر کوئی کارروائی کرنا سرے سے ان کے اختیار میں ہے ہی نہیں۔ ان کے آگے عاجزی و نیاز مندی کے ساتھ جھکنا اور ان سے دعا مانگنا بالکل ویسا ہی احمقانہ فعل ہے جیسے کوئی شخص کسی حاکم کے سامنے جانے اور اس کے حضور درخواست پیش کرنے کے بجائے جو دوسرے سائلین وہاں درخواستیں لیے کھڑے ہوں انہی میں سے کسی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوجائے۔ (تفہیم القرآن، ج ۴، الصافات، حاشیہ: ۴)
سورہ ٔ بنی اسرائیل : ۴۲ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ لَّوْ کَانَ مَعَہٗ اٰلِہَۃٌ کَمَا تَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلیٰ ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلاً۔
’’اے محمدؐ! ان سے کہو کہ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے، جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں، تو وہ مالک عرش کے مقام پر پہنچنے کی ضرور کوشس کرتے۔‘‘
یعنی وہ خود مالک عرش بننے کی کوشش کرتے۔ اس لیے کہ چند ہستیوں کا خدائی میں شریک ہونا دو حال سے خالی نہیں ہوسکتا۔ یا تو وہ سب اپنی اپنی جگہ مستقل خدا ہوں۔ یا ان میں سے ایک اصل خدا ہو، اور باقی اس کے بندے ہوں جنھیں اس نے کچھ خدائی اختیارات دے رکھے ہوں۔ پہلی صورت میں یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ یہ سب آزادو خودمختار خدا ہمیشہ ہر معاملے میں، ایک دوسرے کے ارادے سے موافقت کرکے اس اتھاہ کائنات کے نظم کو اتنی مکمل ہم آہنگی ، یکسانیت اور تناسب و توازن کے ساتھ چلا سکتے۔ ناگزیر تھا کہ ان کے منصوبوں اور ارادوں میں قدم قدم پر تصادم ہوتا اور ہر ایک اپنی خدائی دوسرے خدائوں کی موافقت کے بغیر چلتی نہ دیکھ کر یہ کوشش کرتا کہ وہ تنہا ساری کائنات کا مالک بن جائے۔ رہی دوسری صورت ، تو بندے کا ظرف خدائی اختیارات تو درکنار خدائی کے ذرا سے وہم اور شائبے تک کا تحمل نہیں کرسکتا۔ اگر کہیں کسی مخلوق کی طرف ذرا سی خدائی بھی منتقل کردی جاتی تو وہ پھٹ پڑتا۔ چند لمحوں کے لیے بھی بندہ بن کر رہنے پر راضی نہ ہوتا، اور فوراً ہی خدا وند عالم بن جانے کی فکر شروع کردیتا۔
جس کائنات میں گیہوں کا ایک دانہ اور گھاس کا ایک تنکا بھی اس وقت تک پیدا نہ ہوتا ہو جب تک کہ زمین و آسمان کی ساری قوتیں مل کر اس کے لیے کام نہ کریں، اس کے متعلق صرف ایک انتہا درجے کا جاہل اور کند ذہن آدمی ہی یہ تصور کرسکتا ہے کہ اس کی فرماں روائی ایک سے زیادہ خود مختار یا نیم مختار خدا کررہے ہوں گے۔ ورنہ جس نے کچھ بھی اس نظام کے مزاج اور طبیعت کو سمجھنے کی کوشش کی ہو وہ تو اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہاں خدائی بالکل ایک ہی کی ہے اور اس کے ساتھ کسی درجے میں بھی کسی اور کے شریک ہونے کا قطعی امکان نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن ، ج ۲، بنی اسرائیل، حاشیہ: ۴۷)
ساری کائنات اور اس کی ہرشے اپنے پورے وجود سے اس حقیقت پر گواہی دے رہی ہے کہ جس نے اس کو پیدا کیاہے، اور جو اس کی پروردگاری و نگہبانی کر رہا ہے اس کی ذات ہر عیب اور نقص اور کمزوری سے منزہ ہے، اور وہ اس سے بالکل پاک ہے کہ خدائی میں کوئی اس کا شریک و سہیم ہو۔ (تفہیم القرآن، ج ۲، بنی اسرائیل ، حاشیہ: ۴۸)

الرَّحْمٰنُ ۱؎،الرَّحِیْمُ: نہایت مہربان، رحم فرمانے والا

انسان کا خاصہ ہے کہ جب کوئی چیز اس کی نگاہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے تو وہ مبالغہ کے صیغوں میں اس کو بیان کرتا ہے ، اور اگر ایک مبالغہ کا لفظ بول کر وہ محسوس کرتا ہے کہ اس شے کی فراوانی کا حق ادا نہیں ہوا، تو پھر وہ اسی معنی کا ایک اور لفظ بولتا ہے تاکہ وہ کمی پوری ہوجائے جو اس کے نزدیک مبالغہ میں رہ گئی ہے۔ اللہ کی تعریف میں رحمان کا لفظ استعمال کرنے کے بعد پھر رحیم کا اضافہ کرنے میں بھی یہی نکتہ پوشیدہ ہے۔ رحمان عربی زبان میں بڑے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ لیکن خدا کی رحمت اور مہربانی اپنی مخلوق پر اتنی زیادہ ہے، اس قدر وسیع ہے، ایسی بے حدوحساب ہے کہ اس کے بیان میں بڑے سے بڑا مبالغہ کا لفظ بول کر بھی جی نہیں بھرتا۔ اس لیے اس کی فراوانی کا حق ادا کرنے کے لیے پھر رحیم کا لفظ مزید استعمال کیا گیا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہم کسی شخص کی فیاضی کے بیان میں ’’سخی‘‘ کا لفظ بول کر جب تشنگی محسوس کرتے ہیں تو اس ’’داتا‘‘ کا اضافہ کرتے ہیں۔ رنگ کی تعریف میں جب ’’گورے‘‘ کو کافی نہیں پاتے تو اس پر ’’چٹے‘‘ کا لفظ اور بڑھادیتے ہیں۔ درازیٔ قد کے ذکر میں جب ’’لمبا‘‘ کہنے سے تسلی نہیں ہوتی تو اس کے بعد تڑنگا بھی کہتے ہیں۔ (تفہیم القرآن، ج ۱، سورۂ الفاتحہ، حاشیہ: ۴)
وہی ایک ہستی ایسی ہے جس کی رحمت بے پایاں ہے، تمام کائنات پر وسیع ہے، اور کائنات کی ہر چیز کو اس کا فیض پہنچتا ہے۔ سارے جہان میں کوئی دوسرا اس ہمہ گیر اور غیر محدود رحمت کا حامل نہیں ہے۔ دوسری جس ہستی میں بھی صفت رحم پائی جاتی ہے اس کی رحمت جزوی اور محدود ہے، اور وہ بھی اس کی ذاتی صفت نہیں ہے بلکہ خالق نے کسی مصلحت اور ضرورت کی خاطر اسے عطا کی ہے۔ جس مخلوق کے اندر بھی اس نے کسی دوسری مخلوق کے لیے جذبۂ رحم پیدا کیا ہے، اس لیے پیدا کیا ہے کہ ایک مخلوق کو وہ دوسری مخلوق کی پرورش اور خوشحالی کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے۔ یہ بجائے خود اسی کی رحمت بے پایاں کی دلیل ہے۔
(تفہیم القرآن، ج ۵، الحشر، حاشیہ: ۳۵)
اس مضمون کو نبی ﷺ نے دو نہایت لطیف مثالوں سے واضح فرمایا ہے۔ ایک مثال تو آپؐ نے یہ دی ہے کہ اگر تم میں سے کسی شخص کا اونٹ ایک بے آب و گیاہ صحرا میں کھویا گیا ہو اور اس کے کھانے پینے کا سامان بھی اسی اونٹ پر ہو اور وہ شخص اس کو ڈھونڈڈھونڈ کرمایوس ہوچکا ہو یہاں تک کہ زندگی سے بے آس ہو کر ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا ہو، اور عین اس حالت میں یکایک وہ دیکھے کہ اس کا اونٹ سامنے کھڑاہے، تو اس وقت جیسی کچھ خوشی اس کو ہوگی، اس سے بہت زیادہ خوشی اللہ کو اپنے بھٹکے ہوئے بندے کے پلٹ آنے سے ہوتی ہے۔ دوسری مثال اس سے بھی زیادہ مؤثر ہے۔حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی ﷺ کی خدمت میں کچھ جنگی قیدی گرفتار ہوکر آئے۔ ان میں ایک عورت بھی تھی جس کا شیر خواربچہ چھوٹ گیا تھا اور وہ مامتا کی ماری ایسی بے چین تھی کہ جس بچے کو پالیتی اسے چھاتی سے چمٹا کر دودھ پلانے لگتی تھی۔ نبی ﷺ نے اس کا حال دیکھ کر ہم لوگوں سے پوچھا کیا تم لوگ یہ توقع کرسکتے ہو کہ یہ ماں اپنے بچے کو خود اپنے ہاتھوں آگ میں پھینک دے گی؟ ہم نے عرض کیا ہرگز نہیں، خود پھینکنا تو درکنار ، وہ آپ گرتا ہو تو یہ اپنی حد تک تو اسے بچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گی۔فرمایا اَللّٰہُ اَرْحَمُ بِعِبَادِہٖ مِنْ ہٰذِہِ بِوَلَدِہَا ’’ اللہ کا رحم اپنے بندوں پر اس سے بہت زیادہ ہے جو یہ عورت اپنے بچے کے لیے رکھتی ہے۔‘‘
اور ویسے بھی غور کرنے سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آسکتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی تو ہے جس نے بچوں کی پرورش کے لیے ماں باپ کے دل میں محبت پیدا کی ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر خدا اس محبت کو پیدا نہ کرتا تو ماں اور باپ سے بڑھ کر بچوں کا کوئی دشمن نہ ہوتا۔ کیونکہ سب سے بڑھ کر وہ انہی کے لیے تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ اب ہر شخص خود سمجھ سکتا ہے کہ جو خدا محبت مادری اور شفقت پدری کا خالق ہے خود اس کے اندر اپنی مخلوق کے لیے کیسی کچھ محبت موجود ہوگی۔
(تفہیم القرآن، ج ۲، ہود، حاشیہ: ۱۰۱)
اس کا رحیم ہونا اس اطمینان کے لیے کافی ہے کہ جو شخص اس کی خاطر اعلائے کلمۃ الحق کے کام میں جان لڑائے گا اس کی کوششوں کووہ کبھی رائیگاں نہ جانے دے گا۔ (تفہیم القرآن، ج ۳، الشعراء ،حاشیہ: ۱۳۷)
کیا شان ہے خدا کی رحیمی و غفاری کی، جو لوگ حق کو نیچا دکھانے کے لیے جھوٹ کے طوفان اٹھاتے ہیں ان کو بھی وہ مہلت دیتا ہے اور سنتے ہی عذاب کا کوڑا نہیں برسادیتا۔ (تفہیم القرآن، ج ۳، الفرقان ، حاشیہ: ۱۳)
برسوں اور صدیوں ڈھیل دیتا ہے، سوچنے اور سمجھنے اور سنبھلنے کی مہلت دیے جاتا ہے اور عمر بھر کی نافرمانیوں کو ایک توبہ پر معاف کردینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۳، الشعراء، حاشیہ:۶)
ایسا نہیں ہے کہ اس کی سلطنت میں اگر کوئی شخص یا گروہ اس کے خلاف بغاوت کرنے کے باوجود پکڑا نہیں جارہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ دنیا اندھیرنگری اور اللہ تعالیٰ اس کا چوپٹ راجہ ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رحیم ہے اور درگزر سے کام لینا اس کی عادت ہے۔ عاصی اور خاطی کو قصور سرزد ہوتے ہی پکڑ لینا، اس کا رزق بند کردینا، اس کے جسم کو مفلوج کردینا، اس کو آناً فاناً ہلاک کردینا، سب کچھ اس کے قبضۂ قدرت میں ہے، مگر وہ ایسا کرتا نہیں ہے۔ یہ اس کی شان رحیمی کا تقاضا ہے کہ قادر مطلق ہونے کے باوجود وہ نافرمان بندوں کو ڈھیل دیتا ہے، سنبھلنے کی مہلت عطا کرتا ہے، اور جب بھی وہ باز آجائیں، معاف کردیتا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۴، سبا، حاشیہ: ۴)
یہ اس کی حلیمی و رحیمی اور چشم پوشی و درگزر ہی تو ہے جس کی بدولت کفر اور شرک اور دہریت اور فسق و فجور اور ظلم و ستم کی انتہا کردینے والے لوگ بھی سالہا سال تک، بلکہ اس طرح کے پورے پورے معاشرے صدیوں تک مہلت پر مہلت پاتے چلے جاتے ہیں، اور ان کو صرف رزق ہی نہیں ملے جاتا بلکہ دنیا میں ان کی بڑائی کے ڈنکے بجتے ہیں اور زینت حیات دنیا کے وہ سروسامان انھیں ملتے ہیں جنھیں دیکھ دیکھ کر نادان لوگ اس غلط فہمی میں پڑجاتے ہیں کہ شاید اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے۔
(تفہیم القرآن ، ج ۴، الشوریٰ حاشیہ:۵)
سورہ حٰمٓ السجدہآیت:۲ میں ارشاد ہے۔ تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔خدائے رحمن و رحیم کی طرف سے نازل کردہ ـــــــــــاس کا نازل کرنے والا وہ خدا ہے جواپنی مخلوق پر بے انتہا مہربان (رحمان و رحیم) ہے۔ نازل کرنے والے خدا کی دوسری صفات کے بجائے صفت رحمت کا ذکر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس نے اپنی رحیمی کے اقتضاسے یہ کلام نازل کیا ہے۔ یہ تو ایک نعمت عظمیٰ ہے جو خدا نے سراسر اپنی رحمت کی بنا پر انسانوں کی رہنمائی اور فلاح و سعادت کے لیے نازل کی ہے۔ خدا اگر انسانوں سے بے رخی برتتا تو انھیں اندھیرے میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا اور کچھ پروا نہ کرتا کہ یہ کس گڑھے میں جاکر گرتے ہیں۔ لیکن یہ اس کا فضل و کرم ہے کہ پیدا کرنے اور روزی دینے کے ساتھ ان کی زندگی سنوارنے کے لیے علم کی روشنی دکھانا بھی وہ اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے اور اسی بنا پر یہ کلام اپنے ایک بندے پر نازل کر رہا ہے۔ اب اس شخص سے بڑھ کر ناشکرا اور آپ اپنا دشمن کون ہوگا جو اس رحمت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹا اس سے لڑنے کے لیے دوڑے۔ (تفہیم القرآن، ج۴، حٰم السجدہ، حاشیہ:۱)
قرآن مجید کا نازل کیا جانا سراسر اللہ کی رحمت ہے۔ وہ چونکہ اپنی مخلوق پر بے انتہا مہربان ہے، اس لیے اس نے یہ گوارا نہ کیا کہ تمہیں تاریکی میں بھٹکتا چھوڑدے اور اس کی رحمت اس بات کی مقتضی ہوئی کہ یہ قرآن بھیج کر تمہیں وہ علم عطا فرمائے جس پر دنیا میں تمہاری راست روی اور آخرت میں تمہاری فلاح کا انحصار ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۵، الرحمن، حاشیہ: ۱)
چونکہ اللہ تعالیٰ انسان کا خالق ہے، اور خالق ہی کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی مخلوق کی رہنمائی کرے اور اسے وہ راستہ بتائے جس سے وہ اپنا مقصد وجود پورا کرسکے، اس لیے اللہ کی طرف سے قرآن کی اس تعلیم کا نازل ہونا محض اس کی رحمانیت ہی کا تقاضانہیں ہے، بلکہ اس کے خالق ہونے کا بھی لازمی اور فطری تقاضا ہے۔ خالق اپنی مخلوق کی رہنمائی نہ کرے گا تو اور کون کرے گا؟ اور خالق ہی رہنمائی نہ کرے تو اور کون کرسکتا ہے؟ اور خالق کے لیے اس سے بڑا عیب اور کیا ہوسکتا ہے کہ جس چیز کو وہ وجود میں لائے اسے اپنے وجود کا مقصد پورا کرنے کا طریقہ نہ سکھائے؟ پس درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کی تعلیم کا انتظام ہونا عجیب بات نہیں ہے، بلکہ یہ انتظام اگر اس کی طرف سے نہ ہوتا تو قابل تعجب ہوتا۔
(تفہیم القرآن، ج ۵، الرحمن، حاشیہ:۲)
یہ اللہ ہی کو زیب دیتا ہے کہ کسی نے خواہ اس کی کتنی ہی نافرمانیاں کی ہوں، جس وقت بھی وہ اپنی اس روش سے بازآجائے اللہ اپنا دامن رحمت اس کے لیے کشادہ کر دیتا ہے۔ اپنے بندوں کے لیے کوئی جذبۂ انتقام وہ اپنے اندر نہیں رکھتا کہ ان کے قصوروں سے وہ کسی حال میں درگزر ہی نہ کرے اور سزا دیے بغیر نہ چھوڑے۔ (تفہیم القرآن، ج ۶، المدثر، حاشیہ:۴۳)
حقیقت نفس الامری کے خلاف طرزِ عمل اختیار کرنے سے جو منع کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ تمہاری راست روی سے اس کا کوئی فائدہ اور غلط روی سے اس کا کوئی نقصان ہوتا ہے، بلکہ اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ راست روی میں تمہارا اپنا فائدہ اور غلط روی میں تمہارا اپنا نقصان ہے۔ لہٰذا یہ سراسر اس کی مہر بانی ہے کہ وہ تمہیں اس صحیح طرز عمل کی تعلیم دیتا ہے جس سے تم بلند مدارج تک ترقی کرنے کے قابل بن سکتے ہو اور اس غلط طرزِ عمل سے روکتا ہے جس کی بدولت تم پست مراتب کی طرف تنزل کرتے ہو۔
تمہارا رب سخت گیر نہیں ہے، تم کو سزادینے میں اسے کوئی لطف نہیں آتا ہے، وہ تمہیں پکڑنے اور مارنے پر تلا نہیں ہے کہ ذرا تم سے قصور سرزد ہو اور وہ تمہاری خبر لے ڈالے۔ درحقیقت وہ اپنی تمام مخلوقات پر نہایت مہربان ہے۔ غایت درجہ کے رحم و کرم کے ساتھ خدائی کررہا ہے، اور یہی اس کا معاملہ انسانوں کے ساتھ بھی ہے۔ اسی لیے وہ تمہارے قصور پر قصور معاف کرتا چلا جاتا ہے۔ تم نافرمانیاں کرتے ہو، گناہ کرتے ہو، جرائم کا ارتکاب کرتے ہو، اس کے رزق سے پل کر بھی اس کے احکام سے منہ موڑتے ہو، مگر وہ حلم اور عفو ہی سے کام لیے جاتا ہے اور تمہیں سنبھلنے اور سمجھنے اور اپنی اصلاح کرلینے کے لیے مہلت پر مہلت دیے جاتا ہے۔ ورنہ اگر وہ سخت گیر ہوتا تو اس کے لیے کچھ مشکل نہ تھا کہ تمہیںدنیا سے رخصت کردیتا اور تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو اٹھا کھڑا کرتا، یا سارے انسانوں کو ختم کرکے کوئی اور مخلوق پیدا کردیتا۔
(تفہیم القرآن، ج ۱، الانعام، حاشیہ: ۱۰۱)
وہ محض خالق ہی نہیں ہے بلکہ اپنی مخلوق پر غایت درجہ رحیم و شفیق اور اس کی ضروریات اور مصلحتوں کے لیے خود اس سے بڑھ کر فکر کرنے والا ہے، انسان دنیا میں مسلسل محنت نہیں کرسکتا بلکہ ہر چند گھنٹوں کی محنت کے بعد اسے چند گھنٹوں کے لیے آرام درکار ہوتا ہے تاکہ پھر چند گھنٹے محنت کرنے کے لیے اسے قوت بہم پہنچ جائے۔ اس غرض کے لیے خالق حکیم و رحیم نے انسان کے اندر صرف تکان کا احساس اور صرف آرام کی خواہش پیدا کردینے ہی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس نے ’’نیند‘‘ کا ایک زبردست داعیہ اس کے وجود میں رکھ دیا جو اس کے ارادے کے بغیر ، حتیّٰ کہ اس کی مزاحمت کے باوجود خود بخود ہر چند گھنٹوں کی بیداری و محنت کے بعد اسے آدبوچتا ہے، چند گھنٹے آرام لینے پر اس کو مجبور کردیتا ہے ، اور ضرورت پوری ہوجانے کے بعد خود بخود اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اس نیند کی ماہیت و کیفیت اور اس کے حقیقی اسباب کو آج تک انسان نہیں سمجھ سکا ہے۔ یہ قطعاً ایک پیدائشی چیز ہے جو آدمی کی فطرت اور اس کی ساخت میں رکھ دی گئی ہے۔ اس کا ٹھیک انسان کی ضرورت کے مطابق ہونا ہی اس بات کی شہادت دینے کے لیے کافی ہے کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ کسی حکیم نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق یہ تدبیر وضع کی ہے۔ اس میں ایک بڑی حکمت و مصلحت اور مقصدیت صاف طور پر کارفرما نظر آتی ہے۔ مزید براں یہی نیند اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جس نے یہ مجبور کن داعیہ انسان کے اندر رکھا ہے وہ انسان کے حق میں خود اس سے بڑھ کر خیر خواہ ہے، ورنہ انسان بالارادہ نیند کی مزاحمت کرکے اور زبردستی جاگ جاگ کر اور مسلسل کام کرکر کے اپنی قوت کارکو ہی نہیں، قوت حیات تک کو ختم کرڈالتا۔

اَلْمَلِکُ : بادشاہ

’’الْمَلِکُ‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل بادشاہ وہی ہے۔ نیز مطلقاً الملک کا لفظ استعمال کرنے سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ وہ کسی خاص علاقے یا مخصوص مملکت کا نہیں بلکہ سارے جہان کا بادشاہ ہے۔ پوری کائنات پر اس کی سلطانی وفرماں روائی محیط ہے۔ ہر چیز کا وہ مالک ہے۔ ہر شے اس کے تصرف اور اقتدار اور حکم کی تابع ہے۔ اور اس کی حاکمیت (Sovereignty) کو محدود کرنے والی کوئی شے نہیں ہے۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ کی بادشاہی کے ان سارے پہلوئوں کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے:
وَلَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَ۔ (الروم:۲۶)
’’زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں اس کے مملوک ہیں۔ سب اس کے تابع فرمان ہیں۔‘‘
یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ۔ (السجدہ:۵)
’’ آسمان سے زمین تک وہی ہرکام کی تدبیر کرتا ہے۔‘‘
لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۔ (الحدید:۵)
’’زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اسی کی ہے اور اللہ ہی کی طرف سارے معاملات رجوع کیے جاتے ہیں۔‘‘
وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ (الفرقان: ۲)
’’بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔‘‘
بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَییٍٔ۔ (یٰسٓ : ۸۳)
’’ ہر چیز کی سلطانی و فرماں روائی اسی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۔ (البروج: ۱۶)
’’جس چیز کا ارادہ کرے اسے کر گزرنے والا۔‘‘
لَا یُسْئَلُ عَمَّایَفْعَلُ وَہُمْ یُسْئَلُوْنَ۔ (الانبیاء: ۲۳)
’’ جو کچھ وہ کرے اس پر وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے، اور سب جواب دہ ہیں۔‘‘
وَاللّٰہُ یَحْکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ۔ (الرعد: ۴۱)
’’ اور اللہ فیصلہ کرتا ہے، کوئی اس کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے۔‘‘
وَہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ۔ (المومنون:۸۸)
’’ اور وہ پناہ دیتا ہے اور کوئی اس کے مقابلے میں پناہ نہیں دے سکتا۔‘‘
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ ط وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیٍٔ قَدِیْرٌ۔ (اٰل عمران: ۲۶)
’’ کہو، خدایا ملک کے مالک ، تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے۔ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے۔ بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے یقینا تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘
ان توضیحات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی حاکمیت کے کسی محدود یا مجازی مفہوم میں نہیں بلکہ اس کے پورے مفہوم میں، اس کے مکمل تصور کے لحاظ سے حقیقی بادشاہی ہے۔ بلکہ درحقیقت حاکمیت جس چیز کا نام ہے وہ اگر کہیں پائی جاتی ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں ہی پائی جاتی ہے۔ اس کے سوا اور جہاں بھی اس کے ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، خواہ وہ کسی بادشاہ یا ڈکٹیٹر کی ذات ہو، یا کوئی طبقہ یا گروہ یا خاندان ہو، یا کوئی قوم ہو، اسے فی الواقع کوئی حاکمیت حاصل نہیں ہے، کیوں کہ حاکمیت سرے سے اس حکومت کو کہتے ہی نہیں ہیں جو کسی کا عطیہ ہو، جو کبھی ملتی ہو اور کبھی سلب ہوجاتی ہو، جسے کسی دوسری طاقت سے خطرہ لاحق ہوسکتا ہو، جس کا قیام و بقا عارضی و وقتی ہو، اور جس کے دائرۂ اقتدار کو بہت سی دوسری متصادم قوتیں محدود کرتی ہوں۔ (تفہیم القرآن، ج ۵، الحشر، حاشیہ:۳۶)
حقیقی اختیارات کا مالک اور واقعی رب وہی ہے، اس لیے اس کی بندگی کرنے والے خائب و خاسر نہیں رہ سکتے اور دوسرے تمام معبود سراسر بے حقیقت ہیں، ان کو جن صفات اور اختیارات کا مالک سمجھ لیا گیا ہے ان کی سرے سے کوئی اصلیت نہیں ہے، اس لیے خدا سے منہ موڑ کر ان کے اعتماد پر چلنے والے کبھی فلاح و کامرانی سے ہم کنار نہیں ہوسکتے۔
(تفہیم القرآن، ج ۳، الحج، حاشیہ: ۱۰۹)
(قیامت کے روز) ساری مجازی بادشاہیاں اور ریاستیں ختم ہوجائیں گی جو دنیا میں انسان کو دھوکے میں ڈالتی ہیں۔ وہاں صرف ایک بادشاہی باقی رہ جائے گی اور وہ وہی اللہ کی بادشاہی ہے جو اس کائنات کا حقیقی فرماں روا ہے۔
سورہ مومن میں ارشاد ہوا ہے:
یَوْمَ ہُمْ بٰرِزُوْنَ لَا یَخْفیٰ عَلیٰ اللّٰہِ مِنْہُمْ شَیٌْٔ۔ لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ، لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ۔
(اٰیت: ۱۶)
’’وہ دن جب کہ یہ سب لوگ بے نقاب ہوں گے، اللہ سے ان کی کوئی چیز چھپی ہوئی نہ ہوگی۔ پوچھا جائے گا آج بادشاہی کس کی ہے؟ ہر طرف سے جواب آئے گا اکیلے اللہ کی جو سب پر غالب ہے۔‘‘
حدیث میں اس مضمون کو اور زیادہ کھول دیا گیا ہے۔ حضوؐر نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایک ہاتھ میں آسمانوں اور دوسرے ہاتھ میں زمین کو لے کر فرمائے گا۔ اَنَا الْمَلِکُ، اَنَا الدَّیَّانُ، اَیْنَ مُلُوْکُ الْاَرْضِ؟ اَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ؟ اَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ؟ میں ہوں بادشاہ ، میں ہوں فرماں روا، اب کہاں ہیں وہ زمین کے بادشاہ ؟ کہاں ہیں وہ جبار؟ کہاں ہیں وہ متکبر لوگ؟ (تفہیم القرآن، ج ۳، الفرقان، حاشیہ:۱۳۵)
پوری کائنات تنہا اسی کی سلطنت ہے۔ وہ صرف اس کو بنا کر اور ایک دفعہ حرکت دے کر نہیں رہ گیا بلکہ وہی عملاً اس پر ہر آن حکومت کررہا ہے۔ اس حکومت و فرماں روائی میں کسی دوسرے کا قطعاً کوئی دخل یا حصہ نہیں ہے۔ دوسروں کو اگر عارضی طور پر اور محدود پیمانے پر اس کائنات میں کسی جگہ تصرف یا ملکیت یا حکمرانی کے اختیارات حاصل ہیں تو وہ ان کے ذاتی اختیارات نہیں ہیں جو انھیں اپنے زور پر حاصل ہوئے ہوں، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے ہیں، جب تک اللہ چاہے وہ انھیں حاصل رہتے ہیں، اور جب چاہے وہ انھیں سلب کرسکتا ہے۔

اَلْقُدُّوْسُ: نہایت مقدس

’’القدوس‘‘مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس کا مادہ ’’ق د س‘‘ ہے۔ قدس کے معنی ہیں تمام بری صفات سے پاکیزہ اور مُنَزّہ ہونا۔ اور قُدُّوسکا مطلب یہ ہے کہ وہ اس سے بدرجہا بالا و برتر ہے کہ اس کی ذات میں کوئی عیب ، یا نقص ، یا کوئی قبیح صفت پائی جائے۔ بلکہ وہ ایک پاکیزہ ترین ہستی ہے جس کے بارے میں کسی برائی کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔
قدوسیت درحقیقت حاکمیت کے اولین لوازم میں سے ہے۔ انسان کی عقل اور فطرت یہ ماننے سے انکار کرتی ہے کہ حاکمیت کی حامل کوئی ایسی ہستی ہو جو شریر اور بدخلق اور بدنیت ہو۔ جس میں قبیح صفات پائی جاتی ہوں۔ جس کے اقتدار سے اس کے محکوموں کو بھلائی نصیب ہونے کے بجائے برائی کا خطرہ لاحق ہو۔ اسی بناپر انسان جہاں بھی حاکمیت کو مرکوز قرار دیتا ہے وہاں قدوسیت نہیں بھی ہوتی تو اسے موجود فرض کرلیتا ہے، کیونکہ قدوسیت کے بغیر اقتدار مطلق ناقابل تصور ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ اللہ کے سوا درحقیقت کوئی مقتدر اعلیٰ بھی قدوس نہیں ہے اور نہیں ہوسکتا۔ شخصی بادشاہی ہو یا جمہور کی حاکمیت ، یا اشتراکی نظام کی فرماں روائی، یا انسانی حکومت کی کوئی دوسری صورت ، بہر حال اس کے حق میں قدوسیت کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ (تفہیم القرآن، ج ۵، الحشر، حاشیہ:۳۷)
اس سے بدرجہا منزہ اور پاک ہے کہ اس کے فیصلے میں کسی خطا اور غلطی کا امکان ہو۔ غلطی تمہاری سمجھ میں ہوسکتی ہے۔ اس کے فیصلے میں نہیں ہوسکتی۔

اَلسَّلَامُ: سراسر سلامتی

’’اَلسَّلام‘‘ جس کے معنی ہیں سلامتی ۔ کسی کو سلیم یا سالم کہنے کے بجائے سلامتی کہنے سے خود بخود مبالغہ کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے۔ مثلاً کسی کو حسین کہنے کے بجائے حسن کہا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ سراپا حسن ہے اللہ تعالیٰ کو السَّلَام کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سراسر سلامتی ہے۔ اس کی ذات اس سے بالاتر ہے کہ کوئی آفت، یا کمزوری یا خامی اس کو لاحق ہو ، یا کبھی اس کے کمال پر زوال آئے۔

اَلمُؤمِنُ : امن دینے والا

’’المؤمن‘‘ کا مادہ امن ہے۔ امن کے معنی ہیں خوف سے محفوظ ہونا۔ اور مومن وہ ہے جو دوسرے کو امن دے۔ اللہ تعالیٰ کو اس معنی میں مومن کہا گیا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو امن دینے والا ہے۔ اس کی خلق اس خوف سے بالکل محفوظ ہے کہ وہ کبھی اس پر ظلم کرے گا، یا اس کا حق مارے گا، یا اس کا اجرضائع کرے گا، یا اس کے ساتھ اپنے کیے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی کرے گا۔ (بلکہ) اس کا امن ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کے لیے ہے۔

اَلمُہَیْمِنُ: نگہبان

’’اَلْمُہَیْمِنُ‘‘ کے تین معنی ہیں۔ ایک نگہبانی اور حفاظت کرنے والا۔ دوسرے شاہد، جو دیکھ رہاہو کہ کون کیا کرتا ہے۔ تیسرے قائم بأُمور الخلق، یعنی جس نے لوگوں کی ضروریات اور حاجات پوری کرنے کا ذمہ اٹھارکھا ہو۔ وہ تمام مخلوقات کی نگہبانی و حفاظت کررہا ہے، سب کے اعمال دیکھ رہا ہے، اور کائنات کی ہر مخلوق کی خبر گیری ، اور پرورش اور ضروریات کی فراہمی کا اس نے ذمہ اٹھا رکھا ہے۔

اَلْعَزِیْزُ : سب پر غالب، بالادست، بڑا زبردست

العزیز کا مادہ ’’ع زز‘‘ ہے عزت کا مفہوم عربی زبان میں اردو کی بہ نسبت زیادہ وسیع ہے۔ اردو میں عزت محض احترام اور قدر و منزلت کے معنی میں آتا ہے، مگر عربی میں عزت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی شخص کو ایسی بلند اور محفوظ حیثیت حاصل ہو جائے کہ کوئی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ دوسرے الفاظ میں عزت ’’ناقابل ہتک حرمت‘‘ کا ہم معنی ہے۔
سورۂ نساء : ۱۳۹ میں ارشاد ہے:
فَاِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا۔ (تفہیم القرآن، ج ۱،النساء حاشیہ:۱۶۹)
’’ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لیے ہے۔ ‘‘
عزت سے مراد عربی زبان میں کسی شخص کا ایسا طاقت ور اور زبردست ہونا کہ اس پر کوئی ہاتھ نہ ڈال سکے۔
(تفہیم القرآن، ج ۳، مریم، حاشیہ: ۴۹)
العزیز سے مراد ہے ایسی ہستی جس کے مقابلے میں کوئی سرنہ اٹھاسکتا ہو، جس کے فیصلوں کی مزاحمت کرنا کسی کے بس میں نہ ہو، جس کے آگے سب بے بس اور بے زور ہوں۔ (تفہیم القرآن، ج ۵، الحشر، حاشیہ: ۴۱)
سب پر غالب اور کامل اقتدار اعلیٰ کا مالک ہے کہ کوئی اس کے فیصلوں کو نافذ ہونے سے نہیں روک سکتا۔
(تفہیم القرآن، ج ۴، الفاطر، حاشیہ: ۵)
کائنات میں کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو اس کے ارادے میں مزاحم ہوسکے اور اس کے حکم کو نافذ ہونے سے روک سکے، ہر شے اس سے مغلوب ہے اور کسی میں اس کے مقابلے کابل بوتا نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۴، السجدہ، حاشیہ: ۱۱)
ایسا زبردست اور قادر و قاہر جس کے فیصلے کو نافذ ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی ، جس کی مزاحمت کسی کے بس میں نہیں ہے، جس کی اطاعت ہر ایک کو کرنی ہی پڑتی ہے خواہ کوئی چاہے یا نہ چاہے۔ جس کی نافرمانی کرنے والا اس کی پکڑ سے کسی طرح بچ ہی نہیں سکتا۔ (تفہیم القرآن، ج ۵، الحدید، حاشیہ: ۲)
کوئی اس سے لڑکر جیت نہیں سکتا، نہ اس کی گرفت سے بچ سکتا ہے، لہٰذا اس کے فرمان سے منہ موڑ کر اگر کوئی شخص کامیابی کی توقع رکھتا ہو، اور اس کے رسول سے جھگڑا کرکے یہ امید رکھتا ہو کہ وہ اسے نیچا دکھا دے گا، تو یہ اس کی اپنی حماقت ہے ایسی توقعات کبھی پوری نہیں ہوسکتیں۔ (تفہیم القرآن ، ج ۴، المومن، حاشیہ:۱)
(طاقت کا مالک صرف اللہ ہی ہے) اللہ تعالیٰ نہ تو باارادہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور نہ اس کائنات میں کوئی طاقت ایسی ہے جو اس کا وعدہ پورا ہونے میں مانع ہوسکتی ہو۔ اس لیے اس امر کا کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا کہ ایمان و عمل صالح کے انعام میں جو کچھ اللہ نے دینے کا وعدہ فرمایا ہے وہ کسی کو نہ ملے۔ (تفہیم القرآن، ج ۴، لقمان، حاشیہ:۱۱)
اس کی عطا و بخشش کا نظام اس کے اپنے زور پر قائم ہے۔ کسی کا یہ بل بوتا نہیں ہے کہ اسے بدل سکے، یازبردستی اس سے کچھ لے سکے، یا کسی کو دینے سے اس کو روک سکے۔ (تفہیم القرآن، ج ۴، الشوریٰ ، حاشیہ: ۳۶)
اس کی قدرت تو ایسی زبردست ہے کہ کسی کو سزا دینا چاہے تو پل بھر میں مٹا کر رکھ دے ۔ مگر اس کے باوجود یہ سراسر اس کا رحم ہے کہ سزادینے میں جلدی نہیں کرتا۔ برسوں اور صدیوں ڈھیل دیتا ہے، سوچنے اور سمجھنے اور سنبھلنے کی مہلت دیے جاتا ہے، اور عمر بھر کی نافرمانیوں کو ایک توبہ پر معاف کردینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۴، فاطر، حاشیہ: ۳۸)
تم کچھ اپنے بل بوتے پر اس کی زمین میں نہیں دندنارہے ہو۔ اس کا ایک اشارہ اس بات کے لیے کافی ہے کہ تمہیں یہاں سے چلتا کرے اور کسی اور قوم کو تمہاری جگہ اٹھاکھڑا کرے لہٰذا اپنی اوقات پہچانو اور وہ روش اختیار نہ کرو جس سے آخر کار قوموں کی شامت آیا کرتی ہے ۔ خدا کی طرف سے جب کسی کی شامت آتی ہے تو ساری کائنات میں کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ سکے اور اس کے فیصلے کو نافذ ہونے سے روک سکے۔ (تفہیم القرآن، ج ۴، فاطر، حاشیہ: ۳۸)
وہ سب پر غالب ہے۔ زمین و آسمان کا مالک ہے، اور کائنات کی ہر چیز اس کی ملک ہے۔ اس کے سوا اس کائنات میں جن ہستیوں کو معبود بنا رکھا ہے ان میں سے کوئی ہستی بھی ایسی نہیں ہے جو اس سے مغلوب اور اس کی مملوک نہ ہو۔ یہ مغلوب اور مملوک ہستیاں اس غالب اور مالک کے ساتھ خدائی میں شریک کیسے ہوسکتی ہیں اور آخر کس حق کی بنا پر انھیں معبود قرار دیا جاسکتا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۴، سورۂ ص، حاشیہ :۵۸)
قرآن مجید میں کم ہی مقامات ایسے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کے ساتھ قوی ، مقتدر، جبار اور ذوانتقام جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں جن سے محض اس کے اقتدار مطلق کا اظہار ہوتا ہے اور یہ صرف ان مواقع پر ہوا ہے جہاں سلسلۂ کلام اس بات کا متقاضی تھا کہ ظالموں اور نافرمانوں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرا یا جائے۔ اس طرح کے چند مقامات کو چھوڑ کر باقی جہاں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے عزیز کا لفظ استعمال کیا گیا وہاںاس کے حکیم ، علیم ، رحیم ، غفور، وہاب اور حمیدمیں سے کوئی لفظ ضرور لایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی ہستی ایسی ہو جسے بے پناہ طاقت حاصل ہو مگر اس کے ساتھ وہ نادان ہو، جاہل ہو، بے رحم ہو، درگزر اور معاف کرنا جانتی ہی نہ ہو، بخیل ہو، اور بدسیرت ہو تو اس کے اقتدار کا نتیجہ ظلم کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہورہا ہے اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ جس شخص کو دوسروں پر بالاتری حاصل ہے وہ یا تو اپنی طاقت کو نادانی اور جہالت کے ساتھ استعمال کررہاہے، یا وہ بے رحم اور سنگدل ہے، یا بخیل اور تنگدل ہے، یا بدخو اور بدکردار ہے۔ طاقت کے ساتھ ان بری صفات کا اجتماع جہاں بھی ہو وہاں کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اسی لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کے ساتھ اس کے حکیم و علیم اور رحیم و غفور اور حمید ووہاب ہونے کا ذکر لازماً کیا گیا ہے تاکہ انسان یہ جان لے کہ جو خدا اس کائنات پر فرماں روائی کررہا ہے وہ ایک طرف تو ایسا کامل اقتدار رکھتا ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک کوئی اس کے فیصلوں کو نافد ہونے سے روک نہیں سکتا، مگر دوسری طرف وہ حکیم بھی ہے، اس کا ہر فیصلہ سراسر دانائی پر مبنی ہوتا ہے۔ علیم بھی ہے، جو فیصلہ بھی کرتا ہے ٹھیک ٹھیک علم کے مطابق کرتا ہے۔ رحیم بھی ہے، اپنے بے پناہ اقتدار کو بے رحمی کے ساتھ استعمال نہیں کرتا۔ غفور بھی ہے، اپنے زیر دستوں کے ساتھ خردہ گیری کا نہیں بلکہ چشم پوشی و درگزر کا معاملہ کرتا ہے۔ وہاب بھی ہے، اپنی رعیت کے ساتھ بخیلی کا نہیں بلکہ بے انتہا فیاضی کا برتائو کررہا ہے۔ اور حمید بھی ہے۔ تمام قابل تعریف صفات و کمالات اس کی ذات میں جمع ہیں۔
قرآن کے اس بیان کی پوری اہمیت وہ لوگ زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جو حاکمیت (Sovereignty کے مسئلے پر فلسفۂ سیاست اور فلسفۂ قانون کی بحثوں سے واقف ہیں۔ حاکمیت نام ہی اس چیز کا ہے کہ صاحب حاکمیت غیر محدود اقتدار کا مالک ہو، کوئی داخلی و خارجی طاقت اس کے حکم اور فیصلے کو نفاذ سے روکنے ، یا اس کے بدلنے یا اس پر نظر ثانی کرنے والی نہ ہو، اور کسی کے لیے اس کی اطاعت کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہو۔ اس غیر محدود اقتدار کا تصور کرتے ہی انسانی عقل لازماً یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ایسا اقتدار جس کو بھی حاصل ہوا سے بے عیب اور علم و حکمت میں کامل ہونا چاہیے ۔ کیوں کہ اگر اس اقتدار کا حامل نادان ، جاہل، بے رحم اور بد خو ہو تو اس کی حاکمیت سراسر ظلم و فساد ہوگی۔ اسی لیے جن فلسفیوں نے کسی انسان، یا انسانی ادارے ، یاانسانوں کے مجموعے کو حاکمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ ان کو یہ فرض کرنا پڑا ہے کہ وہ غلطی سے مبرا ہوگا۔ مگر ظاہر ہے کہ نہ تو غیر محدود حاکمیت فی الواقع کسی انسانی اقتدار کو حاصل ہوسکتی ہے، اور نہ یہی ممکن ہے کہ کسی بادشاہ ،یا پارلیمنٹ ، یا قوم یا پارٹی کو ایک محدود دائرے میں جو حاکمیت حاصل ہواسے وہ بے عیب اور بے خطا طریقے سے استعمال کرسکے۔ اس لیے کہ ایسی حکمت جس میں نادانی کا شائبہ نہ ہو اور ایسا علم جو تمام متعلقہ حقائق پر حاوی ہو، سرے سے پوری نوع انسانی ہی کو حاصل نہیں ہے کجا کہ وہ انسانوں میں سے کسی شخص یا ادارے یا قوم کو نصیب ہوجائے۔ اور اسی طرح انسان جب تک انسان ہے اس کا خودغرضی، نفسانیت، خوف ، لالچ، خواہشات، تعصب اور جذباتی رضا و غضب اور محبت و نفرت سے بالکل پاک اور بالاتر ہونا بھی ممکن نہیں ہے۔ ان حقائق کو اگر کوئی شخص نگاہ میں رکھ کر غور کرے تو اسے محسوس ہوگا کہ قرآن اپنے اس بیان میں درحقیقت حاکمیت کا بالکل صحیح اور مکمل تصور پیش کررہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’عزیز‘‘ یعنی اقتدار مطلق کا حامل اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے، اور اس غیر محدود اقتدار کے ساتھ وہی ایک ہستی ایسی ہے جو بے عیب ہے، حکیم و علیم ہے، رحیم و غفور ہے اور حمید و وہاب ہے۔

اَلْجَبَّارُ : اپنا حکم بزور نافذکرنے والا

اس کا مادہ ’’ج ب ر‘‘ ہے۔’’ جبر‘‘ کے معنی ہیں کسی شے کو طاقت سے درست کرنا، کسی چیز کی بزور اصلاح کرنا۔ اگرچہ عربی زبان میں کبھی جبر محض اصلاح کے لیے بھی بولا جاتا ہے، اور کبھی صرف زبردستی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کا حقیقی مفہوم اصلاح کے لیے طاقت کا استعمال ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کو جَبَّار اس معنی میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنی کائنات کا نظم بزور درست رکھنے والا اور اپنے ارادے کو، جو سراسر حکمت پر مبنی ہوتا ہے جبراً نافذ کرنے والا ہے۔ علاوہ بریں لفظ جبّار میں عظمت کا مفہوم بھی شامل ہے۔ عربی زبان میں کھجور کے اس درخت کو جبار کہتے ہیں جو اتنا بلند و بالا ہو کہ اس کے پھل توڑنا کسی کے لیے آسان نہ ہو۔ اسی طرح کوئی کام جو بڑا عظیم الشان ہو عمل جبّار کہلاتا ہے۔

اَلْمُتَکَبِّرُ : بڑا ہی ہو کر رہنے والا

اس کے دو مفہوم ہیں۔ ایک وہ جو فی الحقیقت بڑا نہ ہو مگر خواہ مخواہ بڑابنے۔ دوسرے وہ حقیقت میں بڑاہو اور بڑا ہی ہو کر رہے۔ انسان ہو یا شیطان ، یا کوئی اور مخلوق ، چونکہ بڑائی فی الواقع اس کے لیے نہیں ہے، اس لیے اس کا اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور دوسروں پر اپنی بڑائی جتانا ایک جھوٹا ادّعا اور بدترین عیب ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ حقیقت میں بڑا ہے اور بڑائی فی الواقع اسی کے لیے ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے مقابلے میں حقیر و ذلیل ہے، اس لیے اس کا بڑا ہونا اور بڑا ہی ہو کر رہناکوئی ادّعا اور تصنع نہیں بلکہ ایک امر واقعی ہے، ایک بری صفت نہیں بلکہ ایک خوبی ہے جو اس کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی۔

اَلْخَالِقُ : تخلیق کا منصوبہ بنانے والا

پوری دنیا اور دنیا کی ہر چیز تخلیق کے ابتدائی منصوبے سے لے کر اپنی مخصوص صورت میں وجود پذیر ہونے تک بالکل اسی کی ساختہ پر داختہ ہے۔ کوئی چیز بھی نہ خود وجود میں آتی ہے، نہ اتفاقاً پیدا ہوگئی ہے، نہ اس کی ساخت و پرداخت میں کسی دوسرے کا ذرہ برابر کوئی دخل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فعل تخلیق کے تین الگ مراتب ہیں جو یکے بعد دیگرے واقع ہوتے ہیں۔ پہلا مرتبہ خلق ہے جس کے معنی تقدیر یا منصوبہ سازی کے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی انجینئرایک عمارت بنانے سے پہلے یہ ارادہ کرتا ہے کہ اسے ایسی اور ایسی عمارت فلاں خاص مقصد کے لیے بنانی ہے اور اپنے ذہن میں اس کا نقشہ (Design) سوچتا ہے کہ اس مقصد کے لیے زیر تجویز عمارت کی تفصیلی صورت اور مجموعی شکل یہ ہونی چاہیے۔ (تفہیم القرآن، ج ۵، الحشر ، حاشیہ:۴۵)
ابتداے آفرینش سے آج تک جتنے آدمی بھی پیدا ہوئے ہیں اور آئندہ قیامت تک ہوں گے، ان سب کو وہ ایک آن کی آن میں پھر پیدا کرسکتا ہے۔ اس کی قدرتِ تخلیق ایک انسان کو بنانے میں اس طرح مشغول نہیں ہوتی کہ اسی وقت وہ دوسرے انسان نہ پیدا کرسکے۔ اس کے لیے ایک انسان کا بنانا اور کھربوں انسانوں کابنادینا یکساں ہے۔
(تفہیم القرآن، ج۴، لقمان، حاشیہ:۴۹)
دنیا کی ہر شے جیسی کچھ بھی بنی ہوئی ہے، اسی کے بنانے سے بنی ہے۔ ہر چیز کو جو بناوٹ ، جو شکل و صورت ، جو قوت و صلاحیت ، اور جو صفت و خاصیت حاصل ہے، اسی کے عطیے اور بخشش کی بدولت حاصل ہے۔ ہاتھ کو دنیا میں اپنا کام کرنے کے لیے جس ساخت کی ضرورت تھی وہ اس کو دی ، اور پائوں کو جو مناسب ترین ساخت درکار تھی وہ اس کو بخشی۔ انسان، حیوان ، نباتات، جمادات، ہوا، پانی، روشنی، ہر ایک چیز کو اس نے وہ صورت خاص عطا کی ہے جو اسے کائنات میں اپنے حصہ کا کام ٹھیک ٹھیک انجام دینے کے لیے مطلوب ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۳، طٰہٰ، حاشیہ:۲۳)
(دوسرے الفاظ میں اسے یوں بیان کرسکتے ہیں) کہ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کہ کائنات کی ہر چیز کو وجود بخشا ہے، بلکہ وہی ہے جس نے ایک ایک چیز کے لیے صورت، جسامت ، قوت و استعداد ، اوصاف و خصائص، کام اور کام کا طریقہ، بقا کی مدت ، عروج و ارتقا کی حد، اور دوسری وہ تمام تفصیلات مقرر کی ہیں جو اس چیز کی ذات سے متعلق ہیں، اور پھر اسی نے عالم وجود میں وہ اسباب ووسائل اور مواقع پیدا کیے ہیں جن کی بدولت ہر چیز یہاں اپنے اپنے دائرے میں اپنے حصے کا کام کررہی ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۳، الفرقان، حاشیہ: ۸)
تمہیں پیدا تو اس طرح کیا کہ ایک بہترین جسم، نہایت موزوں اعضا اور نہایت اعلیٰ درجہ کی جسمانی و ذہنی قوتوں کے ساتھ تم کو عطا کیا۔ یہ سیدھا قامت، یہ ہاتھ اور یہ پائوں ، یہ آنکھ، ناک اور یہ کان، یہ بولتی ہوئی زبان اور یہ بہترین صلاحیتوں کا مخزن دماغ تم خود بنا کر نہیں لے آئے تھے، نہ تمہاری ماں اور تمہارے باپ نے انھیں بنایا تھا، نہ کسی نبی یا ولی یا دیوتا میں یہ قدرت تھی کہ انھیں بناتا۔ ان کا بنانے والا وہ حکیم و رحیم قادر مطلق ہے جس نے انسان کو وجود میں لانے کا جب فیصلہ کیا تو اسے دنیا میں کام کرنے کے لیے ایسابے نظیر جسم دے کر پیدا کیا۔ (تفہیم القرآن، ج ۴، المومن ، حاشیہ: ۹۱)
باوجودیکہ تمہارے قوائے نطقیہ یکساں ہیں، نہ منہ اور زبان کی ساخت میں کوئی فرق ہے اور نہ دماغ کی ساخت میں، مگر زمین کے مختلف خطوں میں تمہاری زبانیں مختلف ہیں، پھر ایک ہی زبان بولنے والے علاقوں میں شہر شہر اور بستی بستی کی بولیاں مختلف ہیں، اور مزید یہ کہ ہر شخص کا لہجہ اور تلفظ اور طرز گفتگو دوسرے سے مختلف ہے۔ اسی طرح تمہارا مادۂ تخلیق اور تمہاری بناوٹ کا فارمولا ایک ہی ہے، مگر تمہارے رنگ اس قدر مختلف ہیں کہ قوم اور قوم تو درکنار ، ایک ماں باپ کے دو بیٹوں کا رنگ بھی یکساں نہیں ہے۔ دنیا میں آپ ہر طرف اتنا تنوع (Variety) پائیں گے کہ اس کا احاطہ مشکل ہوجائے گا۔ انسان ، حیوان ، نباتات اور دوسری تمام اشیاء کی جس نوع کو بھی آپ لے لیں اس کے افراد میں بنیادی یکسانی کے باوجود بے شمار اختلافات موجود ہیں، حتّٰی کہ کسی نوع کا بھی کوئی ایک فرد دوسرے سے بالکل مشابہ نہیں ہے، حتّٰی کہ ایک درخت کے دو پتوں میں بھی پوری مشابہت نہیں پائی جاتی۔ یہ چیز صاف بتارہی ہے کہ یہ دنیا کوئی ایسا کارخانہ نہیں ہے جس میں خود کار مشینیں چل رہی ہوں اور کثیر پیداواری (Mass Production) کے طریقے پر ہر قسم کی اشیاء کا بس ایک ایک ٹھپہ ہو جس سے ڈھل ڈھل کر ایک ہی طرح کی چیزیں نکلتی چلی آرہی ہوں۔ بلکہ یہاں ایک ایسا زبردست کاریگر کام کررہا ہے جو ہر ہر چیز کو پوری انفرادی توجہ کے ساتھ ایک نئے ڈیزائن، نئے نقش و نگار، نئے تناسب اور نئے اوصاف کے ساتھ بناتا ہے اور اس کی بنائی ہوئی ہر چیز اپنی جگہ منفرد ہے۔ اس کی قوت ایجاد ہر آن ہر چیز کا ایک نیا ماڈل نکال رہی ہے، اور اس کی صناعی ایک ڈیزائن کو دوسری مرتبہ دہرانا اپنے کمال کی توہین سمجھتی ہے۔ اس حیرت انگیز منظر کو جو شخص اپنی آنکھیں کھول کر دیکھے گا وہ کبھی اس احمقانہ تصور میں مبتلا نہیں ہوسکتا کہ اس کائنات کا بنانے والا ایک دفعہ اس کارخانے کو چلا کر کہیں جاسویا ہے، یہ تو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ وہ ہر وقت کارِ تخلیق میں لگا ہوا ہے اور اپنی خلق کی ایک ایک چیز پر انفرادی توجہ صرف کررہاہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۳، الرُّوم، حاشیہ:۳۲)
کائنات کی ہر چیزکا عدم سے وجود میں آنا، اور ایک اٹل ضابطے پر ان کا قائم ہونا او ر بے شمار قوتوں کا ان کے اندر انتہائی تناسب و توازن کے ساتھ کام کرنا، اپنے اندر اس بات کی بہت سی نشانیاں رکھتا ہے کہ اس پوری کائنات کو ایک خالق اور ایک ہی خالق وجود میں لایا ہے، اور وہی اس عظیم الشان نظام کی تدبیر کررہا ہے۔ ایک طرف اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ وہ ابتدائی قوت (Energy) کہاں سے آئی ہے جس نے مادے کی شکل اختیار کی، پھر مادے کے یہ بہت سے عناصر کیسے بنے، پھر ان عناصر کی اس قدر حکیمانہ ترکیب سے اتنی حیرت انگیز مناسبتوں کے ساتھ یہ مدہوش کن نظام عالم کیسے بن گیا، اور اب یہ نظام کروڑہا کروڑ صدیوں سے کس طرح ایک زبردست قانون فطرت کی بندش میں کسا ہوا چل رہاہے، تو ہر غیر متعصب عقل اس نتیجے پر پہنچے گی کہ یہ سب کسی علیم و حکیم کے غالب ارادے کے بغیر محض بخت و اتفاق کے نتیجے میں نہیں ہوسکتا۔ اور دوسری طرف اگر یہ دیکھا کہ زمین سے لے کر کائنات کے بعید ترین سیاروں تک سب ایک ہی طرح کے عناصر سے مرکب ہیں اور ایک ہی قانون فطرت ان میں کارفرما ہے تو ہر عقل جو ہٹ دھرم نہیں ہے، بلا شبہ یہ تسلیم کرے گی کہ یہ سب کچھ بہت سے خدائوں کی خدائی کا کرشمہ نہیں ہے بلکہ ایک ہی خدا اس پوری کائنات کا خالق اور رب ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۳، الروم، حاشیہ: ۳۱)
اس کائنات میں اللہ نے انسان کو بہترین صورت پر پیدا کیا ہے۔ صورت سے مراد محض انسان کا چہرہ نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد اس کی پوری جسمانی ساخت ہے اور وہ قوتیں اور صلاحیتیں بھی اس کے مفہوم میں شامل ہیںجو اس دنیا میں کام کرنے کے لیے آدمی کو عطا کی گئی ہیں۔ ان دونوں حیثیتوں سے انسان کو زمین کی مخلوقات میں سب سے بہتر بنایا گیا ہے، اور اسی بنا پر وہ اس قابل ہوا ہے کہ ان تمام موجودات پر حکمرانی کرے جو زمین اور اس کے گرد و پیش میں پائی جاتی ہیں۔ اس کو کھڑا قد دیا گیا، اس کو چلنے کے لیے مناسب ترین پائوں دیے گئے ہیں۔ اس کو کام کرنے کے لیے موزوں ترین ہاتھ دیے گئے۔ اس کو ایسے حواس اور ایسے آلات علم دیے گئے ہیں جن کے ذریعے سے وہ ہر طرح کی معلومات حاصل کرتا ہے۔ اس کو سوچنے اور سمجھنے اور معلومات جمع کرکے ان سے نتائج اخذ کرنے کے لیے ایک اعلیٰ درجہ کا ذہن دیا گیا ہے۔ اس کو اخلاقی حس اور قوت تمیز دی گئی ہے جس کی بنا پر وہ بھلائی اور برائی اور صحیح اور غلط میں فرق کرتا ہے۔اس کو ایک قوت فیصلہ دی گئی ہے جس سے کام لے کر وہ اپنی راہ عمل کا خود انتخاب کرتا ہے اور یہ طے کرتا ہے کہ اپنی کوششوں کو کس راستے پر لگائے اور کس پر نہ لگائے۔ اس کو یہاں تک آزادی دے دی گئی ہے کہ چاہے تو اپنے خالق کو مانے اور اس کی بندگی کرے ورنہ اس کا انکار کردے، یا جن جن کو چاہے اپنا خدا بنا بیٹھے، یا جسے خدا مانتا ہو اس کے خلاف بھی بغاوت کرنا چاہے کر گزرے۔ ان ساری قوتوں اور ان سارے اختیارات کے ساتھ اسے خدا نے اپنی پیداکردہ بے شمار مخلوقات پر تصرف کرنے کا اقتدار دیا ہے اور وہ عملاً اس اقتدار کو استعمال کررہا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۵، التغابن، حاشیہ: ۷)
خالق اپنی مخلوق کی راہ نمائی نہ کرے گا تو اور کون کرے گا؟ اور خالق ہی رہنمائی نہ کرے تو اور کون کرسکتا ہے؟اور خالق کے لیے اس سے بڑا عیب اور کیا ہوسکتا ہے کہ جس چیز کو وہ وجود میں لائے اسے اپنے وجودکا مقصد پورا کرنے کا طریقہ نہ سکھائے؟ پس درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کی تعلیم کا انتظام ہونا عجیب بات نہیں۔ بلکہ یہ انتظام اگر اس کی طرف سے نہ ہوتا تو قابل تعجب ہوتا۔ پوری کائنات میں جو چیز بھی اس نے بنائی ہے اس کو محض پیدا کرکے نہیں چھوڑدیا ہے بلکہ اس کو وہ موزوں ترین ساخت دی ہے جس سے وہ نظام فطرت میں اپنے حصے کا کام کرنے کے قابل ہوسکے، اور اس کام کو انجام دینے کا طریقہ اسے سکھایا ہے۔ خود انسان کے اپنے جسم کا ایک ایک رونگٹا اور ایک ایک خلیہ (Cell) وہ کام سیکھ کر پیدا ہوا ہے جو اسے انسانی جسم میں انجام دینا ہے۔پھر آخر انسان بجائے خود اپنے خالق کی تعلیم و رہنمائی سے بے نیاز کیسے ہوسکتا تھا؟ قرآن مجید میں اس مضمون کو مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے سمجھایا گیا ہے۔ سورۂ لیل (آیت۱۲) میں فرمایا اِنَّ عَلَیْنَا لَلْہُدیٰ ’’رہنمائی کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔‘‘سورہ نحل:۹ میں ارشاد ہوا وَعَلَی اللّٰہِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَمِنْہَا جَآئِرٌ ’’ یہ اللہ کے ذمہ ہے کہ سیدھا راستہ بتائے اور ٹیڑھے راستے بہت سے ہیں۔‘‘ سورہ طٰہٰ (آیات ۴۷-۵۰) میں ذکر آتا ہے کہ جب فرعون نے حضرت موسیٰ ؑکی زبان سے پیغام رسالت سن کر حیرت سے پوچھا کہ آخر وہ تمہارا رب کون سا ہے جو میرے پاس رسول بھیجتا ہے، تو حضرت موسیٰ ؑنے جواب دیا کہ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطیٰ کُلَّ شَیٍٔ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدیٰ’’ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی مخصوص ساخت عطا کی اور پھر اس کی رہنمائی کی۔‘‘ یعنی وہ طریقہ سکھایا جس سے وہ نظام وجود میں اپنے حصے کا کام کرسکے یہی وہ دلیل ہے جس سے ایک غیر متعصب ذہن اس بات پر مطمئن ہوجاتا ہے کہ انسان کی تعلیم کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسولوں اور کتابوں کا آنا عین تقاضائے فطرت ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۵، الرحمن، حاشیہ: ۲)
اللہ تعالیٰ کے طریق تخلیق اور انسانی صناعی کا فرق بالکل واضح ہے۔ انسان جب کوئی چیز بنانا چاہتا ہے تو پہلے اس کا نقشہ اپنے ذہن میں جماتا ہے، پھر اس کے لیے مطلوبہ مواد جمع کرتا ہے، پھر اس مواد کو اپنے نقشے کے مطابق صورت دینے کے لیے پیہم محنت اور کوشش کرتا ہے، اور اس کوشش کے دوران میں وہ مواد، جسے وہ اپنے ذہنی نقشے کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے، مسلسل اس کی مزاحمت کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ کبھی مواد کی مزاحمت کامیاب ہوجاتی ہے اور چیز مطلوبہ نقشے کے مطابق ٹھیک نہیں بنتی اور کبھی آدمی کی کوشش غالب آجاتی ہے اور وہ اسے اپنی مطلوبہ شکل دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک درزی قمیص بنانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے پہلے وہ قمیص کی صورت کا تصور اپنے ذہن میں حاضر کرتا ہے، پھر کپڑا فراہم کرکے اسے اپنے تصور قمیص کے مطابق تراشنے اور سینے کی کوشش کرتا ہے، اور اس کوشش کے دوران میں اسے کپڑے کی اس مزاحمت کا مسلسل مقابلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ درزی کے تصور پر ڈھلنے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتا، حتّٰی کہ کبھی کپڑے کی مزاحمت غالب آجاتی ہے اور قمیص ٹھیک نہیں بنتا اور کبھی درزی کی کوشش غالب آجاتی ہے اور وہ کپڑے کو ٹھیک اپنے تصور کے مطابق شکل دے دیتا ہے۔
اب اللہ تعالیٰ کا طرز تخلیق دیکھیے۔ کائنات کا مادہ دھوئیں کی شکل میں پھیلایا ہوا تھا۔ اللہ نے چاہا کہ اسے وہ شکل دے جواب کائنات کی ہے۔ اس غرض کے لیے اسے کسی انسان کا ریگر کی طرح بیٹھ کر زمین اور چاند اور سورج اور دوسرے تارے اور سیارے گھڑ نے نہیں پڑے، بلکہ اس نے کائنات کے اس نقشے کو جو اس کے ذہن میں تھا بس یہ حکم دے دیا کہ وہ وجود میں آجائے، یعنی دھوئیں کی طرح پھیلا ہوا مواد ان کہکشانوں اور تاروں اور سیاروں کی شکل میں ڈھل جائے جنھیں وہ پیدا کرنا چاہتا تھا۔ اس مواد میں یہ طاقت نہ تھی کہ وہ اللہ کے حکم کی مزاحمت کرتا ۔ اللہ کو اسے کائنات کی صورت میں ڈھالنے کے لیے کوئی محنت اور کوشش نہیں کرنی پڑی۔ اُدھر حکم ہوا اور اِدھر وہ مواد سکڑ اور سمٹ کر فرماں برداروں کی طرح اپنے مالک کے نقشے پر ڈھلتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ ۴۸ گھنٹوں میں زمین سمیت ساری کائنات بن کر تیار ہوگئی۔ (تفہیم القرآن، ج ۴، حٰم السجدہ، حاشیہ:۱۵)
خدا ہے ، اور زمین و آسمان کی تدبیر کرنے والا ایک ہی خدا ہے۔ زمین کی بے شمار مخلوقات کے رزق کا انحصار اس پیداوار پر ہے جو زمین سے نکلتی ہے۔ اس پیداوار کا انحصار زمین کی صلاحیت بار آوری پر ہے۔ اس صلاحیت کے روبکار آنے کا انحصار بارش پر ہے۔ خواہ وہ براہ راست زمین پر برسے، یا اس کے ذخیرے سطح زمین پر جمع ہوں، یا زیر زمین چشموں اور کنوئوں کی شکل اختیار کریں یا پہاڑوں پر یخ بستہ ہو کر دریائوں کی شکل میں بہیں ۔ پھر اس بارش کا انحصار سورج کی گرمی پر، موسموں کے ردّو بدل پر، فضائی حرارت و برودت پر، ہوائوں کی گردش پر، اور اس بجلی پر ہے جو بادلوں سے بارش برسنے کی محرک بھی ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ بارش کے پانی میں ایک طرح کی قدرتی کھاد بھی شامل کردیتی ہے۔ زمین سے لے کر آسمان تک کی ان تمام مختلف چیزوں کے درمیان یہ ربط اور مناسبتیں قائم ہونا، پھر ان سب کا بے شمار مختلف النوع مقاصد اور مصلحتوں کے لیے صریحاً سازگار ہونا، اور ہزاروں لاکھوں برس تک ان کا پوری ہم آہنگی کے ساتھ مسلسل سازگاری کرتے چلے جانا، کیا یہ سب کچھ محض اتفاقاً ہوسکتا ہے؟ کیا یہ کسی صانع حکیم کی حکمت اور اس کے سوچے سمجھے منصوبے اور اس کی غالب تدبیر کے بغیر ہوگیا ہے؟ اور کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ زمین ، سورج، ہوا، پانی، حرارت ، برودت اور زمین کی مخلوقات کا خالق اور رب ایک ہی ہے۔
(تفہیم القران، ج ۳، الرّوم، حاشیہ: ۳۵)
یہ ایک حقیر بوند سے بولتا چالتا اور حجت و استدلال کرتا انسان بنا کھڑا کرنا۔ یہ اس کی ضرورت کے عین مطابق بہت سے جانور پیدا کرنا جن کے بال اور کھال ، خون اور دودھ ، گوشت اور پیٹھ ، ہر چیز میں انسانی فطرت کے بہت سے مطالبات کا، حتّٰی کہ اس کے ذوق جمال کی مانگ تک کا جواب موجود ہے۔ یہ آسمان سے بارش کا انتظام اور یہ زمین میں طرح طرح کے پھلوں اور غلّوں اور چاروں کی روئیدگی کا انتظام ، جس کے بے شمار شعبے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کھاتے چلے جاتے ہیں اور پھر انسان کی بھی فطری ضرورتوں کے عین مطابق ہیں۔ یہ رات اور دن کی باقاعدہ آمد و رفت اور یہ چاند اور سورج اور تاروں کی انتہائی منظم حرکات ، جن کا زمین کی پیداوار اور انسان کی مصلحتوں سے انتہائی گہرا ربط ہے۔ یہ زمین میں سمندروں کا وجود ، اور یہ ان کے اندر انسان کی بہت سی طبعی اور جمالی طلبوں کا جواب ۔ یہ پانی کا چند مخصوص قوانین سے جکڑا ہوا ہونا، اور پھر اس کے یہ فائدے کہ انسان سمندر جیسی ہولناک چیز کاسینہ چیرتا ہوا اس میں اپنے جہاز چلاتا ہے اور ایک ملک سے دوسرے ملک تک سفر اور تجارت کرتا پھرتا ہے۔ یہ دھرتی کے سینے پر پہاڑوں کے ابھار اور یہ انسان کی ہستی کے لیے ان کے فائدے ۔ یہ سطح زمین کی ساخت سے لے کر آسمان کی بلند فضائوں تک بے شمار علامتوں اور امتیازی نشانوں کا پھیلائو اور پھر اس طرح ان کا انسان کے لیے مفید ہونا۔ یہ ساری چیزیں صاف شہادت دے رہی ہیں کہ ایک ہی ہستی نے یہ منصوبہ سوچا ہے، اسی نے اپنے منصوبے کے مطابق ان سب کو ڈیزائن کیا ہے۔ اسی نے اس ڈیزائن پر ان کو پیدا کیا ہے، وہی ہر آن اس دنیا میں نت نئی چیزیں بنابنا کر اس طرح لارہا ہے کہ مجموعی اسکیم اور اس کے نظم میں ذرا فرق نہیں آتا ، اور وہی زمین سے لے کر آسمانوں تک اس عظیم الشان کارخانے کو چلارہا ہے۔ ایک بے وقوف یا ایک ہٹ دھرم کے سوا اور کون یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک اتفاقی حادثہ ہے؟ یا یہ کہ اس کمال درجہ منظم ، مربوط اور متناسب کائنات کے مختلف کام یا مختلف اجزامختلف خدائوں کے آفریدہ اور مختلف خدائوں کے زیر انتظام ہیں؟ (تفہیم القرآن، ج ۲، النحل ، حاشیہ: ۱۵)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم سمیت تمام مشرکین کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ وہ خود اللہ تعالیٰ کے مخلوق ہیں۔ بجز دہریوں کے اور کسی کو بھی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے خالق کائنات ہونے سے انکار نہیں رہا۔ اس لیے (حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا) کہ میں صرف اس کی عبادت کو صحیح و برحق سمجھتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ دوسری کوئی ہستی میری عبادت کی کیسے مستحق ہوسکتی ہے جب کہ میرے پیدا کرنے میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ مخلوق کو اپنے خالق کی بندگی تو کرنی چاہیے ، لیکن غیرخالق کی بندگی وہ کیوں کرے؟

اَلْبَارِیُٔ : اپنے منصوبے کو نافذکرنے والا

خلق کے بعد یہ دوسرا مرتبہ ہے ’’ بَرَء‘‘ جس کے اصل معنی ہیں جدا کرنا، چاک کرنا، پھاڑکر الگ کرنا۔ خالق کے لیے باری کا لفظ اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ وہ اپنے سوچے ہوئے نقشہ کو نافذ کرتا اور اس چیز کو ، جس کا نقشہ اس نے سوچا ہے، عدم سے نکال کر وجود میں لاتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے انجینئر نے عمارت کا جو نقشہ ذہن میں بنایا تھا اس کے مطابق وہ ٹھیک ناپ تول کر زمین پر خط کشی کرتا ہے، پھر بنیادیں کھودتا ، دیواریں اٹھاتا ہے اور تعمیر کے سارے عملی مراحل طے کرتا ہے۔

اَلْمُصَوِّرُ : اپنے منصوبے کے مطابق صورت گری کرنے والا

برأ کے بعد تیسرا مرتبہ ’’تصویر‘‘ ہے جس کے معنی ہیں صورت بنانا، ایک شے کو اس کی آخری مکمل صورت میں بنادینا۔ ان تینوں مراتب میں اللہ تعالیٰ کے کام اور انسانی کاموں کے درمیان سرے سے کوئی مشابہت نہیں ہے۔ انسان کا کوئی منصوبہ بھی ایسا نہیں ہے جو سابق نمونوں سے ماخوذ نہ ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ کا ہر منصوبہ بے مثال اور اس کی اپنی ایجاد ہے۔ انسان جو کچھ بھی بناتا ہے اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ مادوں کو جوڑ جاڑ کر بناتا ہے۔ وہ کسی چیز کو عدم سے وجود میں نہیں لاتا بلکہ جو کچھ موجود ہے اسے مختلف طریقوں سے ترکیب دیتا ہے۔ بخلاف اس کے اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کو عدم سے وجود میں لایا ہے اور وہ مادہ بھی بجائے خود اس کا پیدا کردہ ہے جس سے اس نے یہ دنیا بنائی ہے۔ اسی طرح صورت گری کے معاملہ میں بھی انسان موجد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورتوں کا نقّال اور بھونڈ انقال ہے۔ اصل مصور اللہ تعالیٰ ہے جس نے ہر جنس ، ہر نوع اور ہر فرد کی صورت لا جواب بنائی ہے اور کبھی ایک صورت کی ہوبہو تکرار نہیں کی ہے۔

اَلْاَوَّلُ : سب سے پہلے