تعلیمات

1935ءمیں یہ سوال بڑے زور شور سے اٹھایا گیا کہ آخر مسلمانوں کی قومی درس گاہوں سے ملاحدہ اور الحاد ودہریت کے مبلغین کیوں اس کثرت سے پیدا ہو رہے ہیں۔ علی گڑھ یونی ورسٹی کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ شکایت تھی کہ اس سے فارغ اتحصیل 90 فی صد طلبہ الحادود ہر یت میں مبتلا ہیں۔ جب یہ چرچا عام ہونے لگا اور ملک بھر میں اس کے خلاف مضامین لکھے جانے لگے تو علی گڑھ یونی ورسٹی کی طرف سے اس شکایت کا جائزہ لینے اور اصلاح حال کی تدبیر پرغوروخوض کرنے کی غرض سے ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے کافی بحث وتمحیص اور غور وخوض کے بعد یہ رائے قائم کی کہ اسی نصاب تعلیم میں دینیات کے عنصر کو پہلے کی نسبت کچھ زیادہ کر دینے سے طلبا کے اندر بڑھتے ہوئے الحادود ہریت کے سیلاب کے آگے بند باندھا جاسکتا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ نے اگست 1939ءکے ترجمان القرآن میں اصلاح حال کی اس تدبیر کاتفصیلی جائزہ لے کر اس وقت کے مروجہ نظام تعلیم کے اصلی اور بنیادی نقص کی نشان دہی کی اور اس نقص کو دور کرنے کی طرف توجہ دلائی۔
آج برسہا برس گزرنے کے باوجود یہ سارے مسائل جوں کے توں ہمارے سامنے منھ پھاڑے کھڑے ہیں، یہ کتاب برسوں گزرنے کے بعد بھی آج کی تصنیف لگتی ہے۔ اس کتاب میں شامل تمام حقائق اور مسئلوں کے جو حل بتائے ہیں ، وہ آج بھی قابل عمل ہے۔
بس ایک فرق یہ ہے کہ اس وقت اس الحاد کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی بنی تھی لیکن آج مملکت خداداد پاکستان کے حکمرانوں کو الحاد کا نہ یہ طوفان نظر آتا ہے اور نہ وہ اسے حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں، ہاں اگر آج بھی کوئی اس بند کو روکنا چاہتا ہے تو یہ کتاب یقینا اس کے لیے ایک اہم دستاویز ثابت ہوگی۔

باب اوّل: ہمارے نظامِ تعلیم کا بنیادی نقص

آج سے تقریباً ۳۵ برس پہلے ۱۹۳۵ء میں یہ سوال بڑے زور شور سے اٹھایا گیا کہ آخر مسلمانوں کی قومی درس گاہوں سے ملاحدہ اور الحاد ودہریت کے مبلغین کیوں اس کثرت سے پیدا ہو رہے ہیں۔ علی گڑھ یونی ورسٹی کے بارے میں خصوصیّت کے ساتھ شکایت تھی کہ اس سے فارغ التحصیل ۹۰ فی صد طلبا الحاد ودہریت میں مبتلا ہیں۔ جب یہ چرچا عام ہونے لگا اور ملک بھر میں اس کے خلاف مضامین لکھے جانے لگے تو علی گڑھ یونی ورسٹی کی طرف سے اس شکایت کا جائزہ لینے اور اصلاحِ حال کی تدبیر پر غور وخوض کرنے کی غرض سے ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے کافی بحث وتمحیص اور غور وخوض کے بعد یہ رائے قائم کی کہ اسی نصابِ تعلیم میں دینیات کے عنصر کو پہلے کی بہ نسبت کچھ زیادہ کر دینے سے طلبا کے اندر بڑھتے ہوئے الحاد ودہریت کے سیلاب کے آگے بند باندھا جا سکتا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اگست ۱۹۳۶ء کے ترجمان القرآن میں اصلاحِ حال کی اس تدبیر کا تفصیلی جائزہ لے کر اس وقت کے مروجہ نظامِ تعلیم کے اصلی اور بنیادی نقص کی نشان دہی کی اور اس نقص کو دُور کرنے کی طرف توجہ دلائی۔
مسلم یونی ورسٹی کورٹ نے اپنے گزشتہ سالانہ اجلاس ’’منعقدہ اپریل ۱۹۳۶ء‘‘ میں ایک ایسے اہم مسئلے کی طرف توجہ کی ہے جو ایک عرصہ سے توجہ کا محتاج تھا۔ یعنی دینیات اور علومِ اسلامیہ کے ناقص طرزِ تعلیم کی اصلاح، اور یونی ورسٹی کے طلبہ میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کی ضرورت۔ جہاں تک جدید علوم وفنون اور ادبیات کی تعلیم کا تعلق ہے، حکومت کی قائم کی ہوئی یونی ورسٹیوں میں بہتر سے بہتر انتظام موجود ہے، کم از کم اتنا ہی بہتر جتنا خود علی گڑھ میں ہے۔ محض اس غرض کے لیے مسلمانوں کو اپنی ایک الگ یونی ورسٹی قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی، ایک مستقل قومی یونی ورسٹی قائم کرنے کا تخیل جس بِنا پر مسلمانوں میں پیدا ہوا، اور جس بنا پر اس تخیل کو مقبولیّت حاصل ہوئی وہ صرف یہ ہے کہ مسلمان جدید علوم سے استفادہ کرنے کے ساتھ مسلمان بھی رہنا چاہتے ہیں۔ یہ غرض سرکاری کالجوں اور یونی ورسٹیوں سے پوری نہیں ہوتی۔ اس کے لیے مسلمانوں کو اپنی ایک اسلامی یونی ورسٹی کی ضرورت ہے۔ اگر ان کی اپنی یونی ورسٹی بھی یہ غرض پوری نہ کرے، اگر وہاں سے بھی ویسے ہی گریجویٹ نکلیں، جیسے سرکاری یونی ورسٹی سے نکلتے ہیں۔ اگر وہاں بھی دیسی صاحب لوگ یا ہندی وطن پرست یا اشتراکی ملاحدہ ہی پیدا ہوں تو لاکھوں روپے کے صرف سے ایک یونی ورسٹی قائم کرنے اور چلانے کی کون سی خاص ضرورت ہے؟
یہ ایسا سوال تھا جس پر ابتدا ہی میں کافی توجہ کرنے کی ضرورت تھی جب یونی ورسٹی قائم کی جا رہی تھی۔ اُس وقت سب سے پہلے اسی بات پر غور کرنا چاہیے تھا کہ ہمیں ایک علیحدہ یونی ورسٹی کی کیا ضرورت ہے۔ اور اس ضرورت کو پورا کرنے کی کیا سبیل ہے؟ مگر کسی نقاد نے آج کل کے مسلمانوں کی تعریف میں شاید سچ ہی کہا ہے کہ یہ کام پہلے کرتے ہیں اور سوچتے بعد میں ہیں۔ جن لوگوں کو یونی ورسٹی بنانے کی دھن تھی اس کا کوئی نقشہ ان کے ذہن میں نہ تھا۔ یہ سوال سرے سے پیشِ نظر ہی نہ تھا کہ ایک مسلم یونی ورسٹی کیسی ہونی چاہیے اور کن خصوصیات کی بنا پر کسی یونی ورسٹی کو ’’مسلم یونی ورسٹی‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ اس عمل بِلا فکر کا نتیجہ یہ ہوا کہ بس ویسی ہی ایک یونی ورسٹی علی گڑھ میں بھی قائم ہو گئی جیسی ایک آگرہ میں اور دوسری لکھنؤ میں اور تیسری ڈھاکا میں ہے۔ لفظ مسلم کی رعایت سے کچھ دینیات کا حصہ بھی نصاب میں شامل کر دیا گیا۔ تاکہ جب کوئی دریافت کرے کہ اس یونی ورسٹی کے نام میں لفظ ’’مسلم‘‘ کیوں رکھا گیا ہے تو اس کے سامنے قدوری اور منیۃ المصلی اور ہدایہ بطور سند اسلامیّت پیش کر دی جائیں۔ مگر درحقیقت یونی ورسٹی کی تاسیس وتشکیل میں کوئی ایسی خصوصیت پیدا نہیں ہوئی جس کی بِنا پر وہ دوسری یونی ورسٹیوں سے ممتاز ہو کر حقیقی معنوں میں ایک ’’اسلامی یونی ورسٹی‘‘ ہوتی۔ ممکن ہے کہ ابتدا میں تعمیر کے شوق اور جوش نے صحیح اور مناسب نقشہ پر غور کرنے کی مہلت نہ دی ہو۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یونی ورسٹی قائم ہوئے پندرہ سال ہو گئے‘ اور اس دوران میں ہمارے تعلیمی ناخدائوں نے ایک مرتبہ بھی یہ محسوس نہیں کیا کہ ان کی اصلی منزلِ مقصود کیا تھی‘ اور ان کا راہ رَو پشت بمنزل جا کدھر رہا ہے۔ ابتدا سے حالات بتا رہے ہیں کہ یہ درس گاہ نہ اس ڈھنگ سے چل رہی ہے جس پر ایک اسلامی درس گاہ کو چلنا چاہیے اور نہ وہ نتائج پیدا کر رہی ہے جو دراصل مطلوب تھے۔ اس کے طلبہ اور ایک سرکاری یونی ورسٹی کے طلبہ میں کوئی فرق نہیں۔ اسلامی کیریکٹر‘ اسلامی اسپرٹ‘ اسلامی طرزِ عمل مفقود ہے۔ اسلامی تفکر اور اسلامی ذہنیّت ناپید ہے۔ ایسے طلبہ کی تعداد شاید ایک فی صدی بھی نہیں جو اس یونی ورسٹی سے ایک مسلمان کی نظر اور مسلمان کا نصب العین لے کر نکلے ہوں اور جن میں یونی ورسٹی کی تعلیم وتربیت نے یہ قابلیّت پیدا کی ہو کہ اپنے علم اور قوائے عقلیہ سے کام لے کر ملتِ اسلامیہ میں زندگی کی کوئی نئی روح پھونک دیتے یا کم ازکم اپنی قوم کی کوئی قابلِ ذکر علمی وعملی خدمت ہی انجام دیتے۔ نتائج کی نوعیّت اگر محض سلبی ہی رہتی تب بھی بسا غنیمت ہوتا۔ مگر افسوس یہ ہے کہ یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل اور زیر تعلیم طلبہ میں ایک بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی پائی جاتی ہے جن کا وجود اسلامی تہذیب اور مسلمان قوم کے لیے نفع نہیں، بلکہ الٹا نقصان ہے۔ یہ لوگ روحِ اسلامی سے ناآشنا ہی نہیں بلکہ اس سے قطعاً منحرف ہو چکے ہیں ان میں مذہب کی طرف سے سردمہری ہی نہیں بلکہ نفرت سی پیدا ہو گئی ہے ان کے ذہن کا سانچا ایسا بنا دیا گیا ہے کہ تشکیک کی حد سے گزر کر انکار کے مقام پر پہنچ گئے ہیں اور ان اصولِ اوّلیہ کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں جن پر اسلام کی بنیاد قائم ہے۔
حال میں خود مسلم یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل نوجوانوں میں سے ایک صاحب نے ’’جو محض اپنی سلامتِ طبع کی وجہ سے مرتد ہوتے ہوتے رہ گئے،‘‘ اپنے ایک پرائیویٹ خط میں وہاں کے حالات کی طرف چند ضمنی اشارات کیے ہیں۔ یہ خط اشاعت کے لیے نہیں ہے اور نہ خصوصیّت کے ساتھ علی گڑھ کی کیفیّت بیان کرنے کے لیے لکھا گیا ہے اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ یونی ورسٹی کی باطنی کیفیت کا نہایت صحیح مرقع ہے۔ صاحبِ خط نے خود اپنے ذہنی اِرتقا کی روداد بیان کرتے لکھا ہے:
’’علی گڑھ میں مجھے اسلامی دنیا کے خارجی فتنے اور تفرنج کی آخری ارتقائی منزل یعنی کمیونزم سے د و چار ہونا پڑا۔ میں پہلے مغربیت کو کوئی خطرناک چیز نہ سمجھتا تھا۔ لیکن علی گڑھ کے تجربات نے مجھے حقیقت سے روشناس کرا دیا۔ اسلامی ہند کے اس مرکز میں خاصی تعداد ایسے افراد کی موجود ہے جو اسلام سے مرتد ہو کر کمیونزم کے پرجوش مبلغ بن گئے ہیں۔ اس جماعت میں اساتذہ تمام ذہین، ذکی اور نووارد طلبا کو اپنے جال میں پھانستے ہیں۔ ان لوگوں نے کمیونزم کو اس لیے اختیار نہیں کیا کہ وہ غریبوں، کسانوں اور مزدوروں کی حمایت اور امداد کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ ان کی عملی مسرفانہ زندگی ان کی بناوٹی باتوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔ بلکہ انھوں نے اسے اس لیے اختیار کیا ہے کہ وہ ایک عالم گیر تحریک کے سایہ میں اپنی اخلاقی کم زوریوں اور اپنے ملحدانہ رجحاناتِ طبع اور اپنی loose thinking کو justify کر سکیں۔ کمیونزم نے پہلے مجھے بھی دھوکا دیا۔ میں نے یہ خیال کیا کہ یہ اسلام ہی کا ایک (unauthorised) ایڈیشن ہے لیکن بغور مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اسلام کے اور اس کے بنیادی نصب العین میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔‘‘
اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ مسلم یونی ورسٹی کی تعلیم وتربیت صرف ناقص نہیں بلکہ ان مقاصد کے بالکل برعکس نتائج پیدا کر رہی ہے۔ جن کے لیے سر سیّد احمد خاں، محسن الملک اور وقار الملک وغیرہم نے ایک مسلم یونی ورسٹی کی ضرورت ظاہر کی تھی اور جن کے لیے مسلمانوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر جوش وخروش کے ساتھ اس درس گاہ کی تعمیر کا خیر مقدم کیا تھا۔
آپ اس انجینئر کے متعلق کیا رائے قائم کریں گے جس کی بنائی ہوئی موٹر آگے چلنے کی بجائے پیچھے کو دوڑتی ہو؟ اور وہ انجینئر آپ کی نگاہ میں کیسا ماہر فن ہو گا جو اپنی بنائی ہوئی موٹر کو مسلسل اور پیہم الٹی حرکت کرتے دیکھتا رہے اور پھر بھی محسوس نہ کرے کہ اس کے نقشے میں کوئی خرابی ہے؟ غالباً ان صفات کا کوئی میکانیکل انجینئر تو آپ کو نہ مل سکے گا۔ لیکن آپ کی قوم کے تعلیمی انجینئر جس درجہ کے ماہرِ فن ہیں اس کا اندازہ آپ اس امرِ واقعہ سے کر لیجیے کہ وہ ایک تعلیمی مشین بنانے بیٹھے تھے جسے اسلامی نصب العین کی جانب حرکت دینا مقصود تھا مگر جو مشین انھوں نے بنائی، وہ بالکل سمتِ مخالف میں حرکت کرنے لگی، اور مسلسل پندرہ سال تک حرکت کرتی رہی اور ایک دن بھی انھیں محسوس نہ ہوا کہ ان کے نقشۂ تعمیر میں کیا غلطی ہے، بلکہ کوئی غلطی ہے بھی یا نہیں! بعد از خرابی ٔ بِسیار اب یونی ورسٹی کورٹ کو یاد آیا ہے کہ:
’’مسلم یونی ورسٹی کے مقاصد اوّلیہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے طلبہ میں اسلامی روح پیدا کرے‘‘
اور اس غرض کے لیے اس نے سات اشخاص کی ایک کمیٹی مقرر کی ہے جس کے سپرد یہ خدمت کی گئی ہے کہ:
’’تمام صورتِ حال کا جائزہ لے وہ دینیات اور علومِ اسلامیہ کی تعلیم کے لیے ایسے جدید اور ترقی یافتہ ذرائع اختیار کرنے کی سفارش کرے جو ضروریاتِ زمانہ سے مناسبت رکھتے ہوں اور جن سے اسلامی تعلیمات کو زیادہ اطمینان بخش طریق پر پیش کیا جا سکے‘‘
بڑی خوشی کی بات ہے، نہایت مبارک بات ہے۔ صبح کا بھولا اگر شام کو واپس آ جائے تو اسے بھولا ہوا نہیں کہتے۔ اگر اب بھی ہمارے تعلیمی انجینئروں نے یہ محسوس کر لیا ہو کہ ان کی تعلیمی مشین غلط نقشے پر بنی ہے، اور اپنے مقصدِ ایجاد کے خلاف اس کے چلنے کی اصلی وجہ محض بخت واتفاق نہیں بلکہ نقشِ تاسیس وتشکیل کی خرابی ہے تو ہم خوشی کے ساتھ یہ کہنے کے لیے تیار ہیں کہ مضیٰ مامضیٰ، آئو اب اپنے پچھلے نقشے کی غلطیوں کو سمجھ لو، اور ایک صحیح نقشہ پر اس مشین کو مرتب کرو۔ لیکن ہمیں شبہ ہے کہ اب بھی غلطی کا کوئی صحیح احساس ان حضرات میں پیدا نہیں ہوا ہے۔ ابھی تک وہ اس امر کا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ان کے نقشے میں کوئی بنیادی خرابی ہے۔ محض نتائج کی خوف ناک ظاہری صورت ہی سے وہ متاثر ہوئے ہیں اور بالکل سطحی نگاہ سے حالات کو دیکھ رہے ہیں۔
پچھلی صدی کے وسط میں جب دو صدیوں کا پیہم انحطاط ایک خوف ناک سیاسی انقلاب پر منتہی ہوا تھا۔ اس وقت مسلمانوں کے ڈوبتے ہوئے بیڑے کو سنبھالنے کے لیے پردۂ غیب سے چند ناخدا پیدا ہو گئے تھے وہ وقت زیادہ غور وخوض کا نہ تھا۔ یہ سوچنے کی مہلت ہی کہاں تھی کہ اس شکستہ جہاز کی بجائے ایک نیا اور پائدار جہاز کس نقشے پر بنایا جائے۔ اس وقت تو صرف یہ سوال درپیش تھا کہ یہ قوم جو ڈوب رہی ہے اسے ہلاکت سے کیوں کر بچایا جائے؟ناخدائوں میں سے ایک گروہ نے فورًا اپنے اسی پرانے جہاز کی مرمت شروع کر دی، انھی پرانے تختوں کو جوڑا، ان کے رخنوں کو بھرا اور پھٹے ہوئے بادبانوں کو رفو کرکے جیسے تیسے بن پڑا ،ہوا بھرنے کے قابل بنا لیا۔ دوسرے گروہ نے لپک کر ایک نیا دخانی جہاز کرایہ پر لے لیا، اور ڈوبنے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کو اس پر سوار کر دیا۔ اس طریقہ سے دونوں گروہ اس اچانک مصیبت کو ٹالنے میں کام یاب ہو گئے مگر یہ دونوں تدبیریں صرف اس حیثیت سے کام یاب تھیں کہ انھوں نے فوری ضرورت کے لحاظ سے چارہ سازی کر دی، اور ڈوبتوں کو ہلاکت سے بچا لیا۔ ان میں حکمت اور دانش مندی جو کچھ بھی تھی صرف اسی حد تک تھی۔ اب جو لوگ اس وقت کے ٹل جانے کے بعد بھی انھی دونوں تدبیروں کو ٹھیک ٹھیک انھی دونوں شکلوں پر باقی رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا طرزِ عمل حکمت ودانش کے خلاف ہے۔ نہ تو پرانا بادبانی جہاز اس قابل ہے کہ مسلمان صرف اسی پر بیٹھ کر ان قوموں سے مسابقت کریں جن کے پاس اس سے ہزار گنا زیادہ تیز رفتار چلنے والے مشینی جہاز ہیں نہ کرایہ پر لیا ہوا دخانی جہاز اس لائق ہے کہ مسلمان اس کے ذریعے سے اپنی منزلِ مقصود کو پہنچ سکیں، کیوں کہ اس کا ساز وسامان تو ضرور نیا ہے اور اس کی رفتار بھی تیز ہے اور وہ کل دار بھی ہے مگر وہ دوسروں کا جہاز ہے۔ اس کا ڈیزائن انھی کے مقاصد اور انھی کی ضروریات کے لیے موزوں ہے، اور اس کے راہ نما اور ناخدا بھی وہی ہیں لہٰذا اس جہاز سے بھی ہم یہ امید نہیں کر سکتے کہ ہمیں اپنی منزلِ مقصود کی طرف لے جائے گا، بلکہ اس تیز رفتاری سے الٹا خطرہ یہ ہے کہ وہ ہمیں زیادہ سرعت کے ساتھ مخالف سمت پر لے جائے گا اور روز بروز ہمیں اپنی منزلِ مقصود سے دور کرتا چلا جائے گا۔ فوری ضرورت کے وقت تو وہ لوگ بھی حق بجانب تھے جنھوں نے پرانے جہاز کی مرمت کی اور وہ بھی غلطی پر نہ تھے، جنھوں نے کرایہ کے جہاز پر سوار ہو کر جان بچائی۔ مگر اب وہ بھی غلطی پر ہیں جو پرانے جہاز پر ڈٹے بیٹھے ہیں اور وہ بھی غلطی پر ہیں جو اسی کرایہ کے جہاز پر جمے ہوئے ہیں۔
اصلی راہ نما اور حقیقی مصلح کی تعریف یہ ہے وہ اجتہادِ فکر سے کام لیتا ہے اور وقت اور موقع کے لحاظ سے جو مناسب ترین تدبیر ہوتی ہے اسے اختیار کرتا ہے۔ اس کے بعد جو لوگ اس کا اتباع کرتے ہیں وہ اندھے مقلد ہوتے ہیں۔ جس طریقہ کو اس نے وقت کے لحاظ سے اختیار کیا تھا، اسی طریقہ پر یہ اس وقت کے گزر جانے کے بعد بھی آنکھیں بند کرکے چلے جاتے ہیں اور اتنا نہیں سوچتے کہ ماضی میں جو انسب تھا، حال میں وہی غیر انسب ہے۔ پچھلی صدی کے راہ نمائوں کے بعد ان کے متبعین آج بھی اس روش پر اصرار کر رہے ہیں جس پر ان کے راہ نما انھیں چھوڑ گئے تھے۔ حالانکہ وہ وقت جس کے لیے انھوں نے وہ روش اختیار کی تھی، گزر چکا ہے۔ اب اجتہاد وفکر سے کام لے کر نیا طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے ہمیں دونوں گروہوں میں ایک بھی مجتہد نظر نہیں آتا۔ انتہائی جرأت کرکے پرانے جہاز والوں میں سے کوئی اگر اجتہاد کرتا ہے تو بس اتنا کہ اپنے اسی پرانے جہاز میں چند بجلی کے بلب لگا لیتا ہے کچھ نئے طرز کا فرنیچر مہیا کر لیتا ہے اور ایک چھوٹی سی دخانی مشین خرید لاتا ہے جس کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ دور سے سیٹی بجا بجا کر لوگوں کو یہ دھوکا دیتی رہے کہ یہ پرانا جہاز اب نیا ہو گیا ہے اس کے مقابلے میں نئے جہاز والے اگرچہ دوسروں کے جہاز پر بیٹھے ہیں اور تیزی کے ساتھ سمت مخالف پر بہے چلے جا رہے ہیں، مگر دو چار پرانے بادبان بھی لے کر بیسویں صدی کے اس اپ ٹوڈیٹ جہاز میں لگائے ہوئے ہیں تاکہ خود اپنے نفس کو اور مسلمانوں کو یہ دھوکا دے سکیں کہ یہ جہاز بھی ’’اسلامی‘‘ جہاز ہے اور لندن کے راستہ سے حج کعبہ کو چلا جا رہا ہے۔
اندھی تقلید اور اس کے اجتہاد کی یہ جھوٹی نمائش تابکے… ایک طوفان گزر گیا۔ اب دوسرا طوفان بہت قریب ہے۔ ہندوستان میں ایک دوسرے سیاسی انقلاب کی بِنا پڑ رہی ہے۔ ممالک عالم میں ایک اور بڑے تصادم کے سامان ہو رہے ہیں جو بہت ممکن ہے کہ ہندوستان میں متوقع انقلاب کی بجائے ایک بالکل غیر متوقع اور ہزار درجہ زیادہ خطرناک انقلاب برپا کر دیں۔ یہ آنے والے انقلابات ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کی بہ نسبت اپنی نوعیّت اور اپنی شدّت کے لحاظ سے بالکل مختلف ہوں گے۔ اس وقت مسلمانوں کی ایمانی واعتقادی اور اخلاقی وعملی حالت جیسی کچھ ہے اسے دیکھتے ہوئے ہم نہیں سمجھتے کہ اس آنے والے طوفان کی ایک ٹکر بھی خیریت کے ساتھ سہہ سکیں گے۔ ان کا پرانا جہاز دورِ جدید کے کسی ہول ناک طوفان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ شاید ایک ہی تھپیڑے میں اس کے تختے بکھر جائیں اور اس کے بادبانوں کا تارتار الگ ہو جائے۔ رہا ان کا کرائے کا جہاز تو وہ پرانے جہاز سے بھی زیادہ خطرناک ہے جو لوگ اس پر سوار ہیں، ہمیں خوف ہے کہ طوفانی دور کا پہلا ہی تھپیڑا انھیں ملتِ اسلامیہ سے جدا کرکے شاید ہمیشہ کے لیے ضلالت کے قعرِ عمیق میں لے جائے گا۔ لا قدر اللّٰہ۔ پس اب یہی وقت ہے کہ مسلمان پرانے جہاز سے بھی نکلیں اور کرائے کے جہاز سے بھی اتریں اور خود اپنا ایک جہاز بنائیں۔ جس کے آلات اورکل پرزے جدید ترین ہوں۔ مشین موجودہ دور کے تیز سے تیز جہاز کے برابر ہو مگر نقشہ ٹھیٹھ اسلامی جہاز کا ہو اور اس کے انجینئر، کپتان، اور دیدبان سب وہ ہوں جو منزلِ کعبہ کی راہ ورسم سے با خبر ہوں۔
استعارہ کی زبان چھوڑ کر اب ہم کچھ صاف صاف کہیں گے، سر سید احمد خاں (خدا ان کو معاف کرے) کی قیادت میں علی گڑھ سے جو تعلیمی تحریک اٹھی تھی اس کا وقتی مقصد یہ تھا کہ مسلمان اس نئے دور کی ضرورت کے لحاظ سے اپنی دنیا درست کرنے کے قابل ہو جائیں۔ تعلیمِ جدید سے بہرہ مند ہوکر اپنی معاشی اور سیاسی حیثیت کو تباہی سے بچا لیں اور ملک کے جدید نظم ونسق سے استفادہ کرنے میں دوسری قوموں سے پیچھے نہ رہ جائیں۔ اس وقت اس سے زیادہ کچھ کرنے کا شاید موقع نہ تھا۔ اگرچہ اس تحریک میں فوائد کے ساتھ نقصانات اور خطرات بھی تھے۔ مگر اس وقت اتنی مہلت نہ تھی کہ غور وتفکر کے بعد کوئی ایسی محکم تعلیمی پالیسی متعین کی جاتی جو نقصانات سے پاک اور فوائد سے لبریز ہوتی۔ نہ اس وقت ایسے اسباب موجود تھے کہ اس نوع کی تعلیمی پالیسی کے مطابق عمل درآمد کیا جا سکتا۔ لہٰذا وقتی ضرورت کو پیشِ نظر رکھ کر اسی طرزِ تعلیم کی طرف دھکیل دیا گیا جو ملک میں رائج ہو چکا تھا اورخطرات سے بچنے کے لیے کچھ تھوڑا سا عنصر اسلامی تعلیم وتربیت کا بھی رکھ دیا گیا۔ جسے جدید تعلیم اور جدید تربیت کے ساتھ قطعاً کوئی مناسبت نہ تھی۔
یہ صرف ایک وقتی تدبیر تھی جو ایک آفتِ ناگہانی کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری طریق پر اختیار کر لی گئی تھی۔ اب وہ وقت گزر چکا ہے۔ جس میں فوری تدبیر کی ضرورت تھی۔ وہ فائدہ بھی حاصل ہوچکا ہے جو اس تدبیر سے حاصل کرنا مقصود تھا اور خطرات بھی واقعہ کی صورت میں نمایاں ہو چکے ہیں جو اس وقت صرف موہوم تھے۔ اس تحریک نے ایک حد تک ہماری دنیا تو ضرور بنا دی مگر جتنی دنیا بنائی، اس سے زیادہ ہمارے دین کو بگاڑ دیا۔ اس نے ہم میں کالے فرنگی پیدا کیے۔ اس نے ہم میں ’’اینگلو محمڈن‘‘ اور ’’اینگلو انڈین‘‘ پیدا کیے اور وہ بھی ایسے جن کی نفسیات میں ’’محمڈن‘‘ اور ’’انڈین‘‘ کا تناسب بس برائے نام ہی ہے۔ اس نے ہماری قوم کے طبقہ علیا متوسط کو جو دراصل قوم کے اعضائے رئیسہ ہیں۔ باطنی اور ظاہری دونوں حیثیتوں سے یورپ کی مادی تہذیب کے ہاتھ فروخت کر دیا، صرف اتنے معاوضے پر کہ چند عہدے، چند خطاب، چند کرسیاں، ایسے لوگوں کو مل جائیں جن کے نام مسلمانوں سے ملتے جلتے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب دائمًا ہماری یہی تعلیمی پالیسی رہنی چاہیے؟ اگر یہی ہماری دائمی پالیسی ہے تو اس کے لیے علی گڑھ کی کوئی ضرورت اب باقی نہیں رہی۔ ہندوستان کے ہر بڑے مقام پر ایک علی گڑھ موجود ہے، جہاں سے دھڑا دھڑ ’’اینگلو محمڈن‘‘ اور ’’اینگلو انڈین‘‘ نکل رہے ہیں‘ پھر یہ بس بھری فصل کاٹنے کے لیے ہمیں اپنا ایک مستقل مزرع رکھنے کی حاجت ہی کیا ہے؟ اور اگر درحقیقت اس حالت کو بدلنا مقصود ہے تو ذرا ایک حکیم کی نظر سے دیکھیے کہ خرابی کے اصل اسباب کیا ہیں اور اسے دور کرنے کی صحیح صورت کیا ہے؟
جدید تعلیم وتہذیب کے مزاج اور اس کی طبیعت پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ وہ اسلام کے مزاج اور اس کی طبیعت کے بالکل منافی ہے۔ اگر باہم اسے بجنسہٖ لے کر اپنی نوخیز نسلوں میں پھیلائیں گے تو انھیں ہمیشہ کے لیے ہاتھ سے کھو دیں گے۔ آپ انھیں فلسفہ پڑھاتے ہیں جو کائنات کے مسئلے کو خدا کے بغیر حل کرنا چاہتا ہے۔ آپ انھیں وہ سائنس پڑھاتے ہیں جو معقولات سے منحرف اور محسوسات کا غلام ہے۔ آپ انھیں تاریخ، سیاسیات، معاشیات، قانون اور تمام علوم عمرانیہ کی وہ تعلیم دیتے ہیں جو اپنے اصول سے لے کر فروغ تک اور نظریات سے لے کر عملیات تک اسلام کے نظریات اور اصولِ عمران سے یک سر مختلف ہے۔ آپ ان کی تربیت تمام تر ایسی تہذیب کے زیرِ اثر کرتے ہیں جو اپنی روح، اپنے مقاصد اور مناہج کے اعتبار سے کلیۃً اسلامی تہذیب کی ضد واقع ہوئی ہے۔ اس کے بعد کس بنا پر آپ یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کی نظر اسلامی نظر ہو گی؟ ان کی سیرت اسلامی سیرت ہو گی؟ ان کی زندگی اسلامی زندگی ہو گی؟ قدیم طرز پر قرآن وحدیث اور فقہ کی تعلیم اس نئی تعلیم کے ساتھ بے جوڑ ہے۔ اس قسم کے عملِ تعلیم سے کوئی خوش گوار پھل حاصل نہ ہو گا۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے فرنگی سٹیمر میں پرانے بادبان محض نمائش کے لیے لگا دیے جائیں۔ مگر ان بادبانوں سے فرنگی اسٹیمر قیامت تک اسلامی اسٹیمر نہ بنے گا۔
اگر فی الواقع علی گڑھ یونی ورسٹی کو مسلم یونی ورسٹی بنانا ہے تو سب سے پہلے مغربی علوم وفنون کی تعلیم پر نظر ثانی کیجیے۔ ان علوم کو جوں کا توں لینا ہی درست نہیں ہے۔ طالب علموں کی لوحِ سادہ پر ان کا نقش اس طرح مرتسم ہوتا ہے کہ وہ ہر مغربی چیز پر ایمان لاتے چلے جاتے ہیں۔ تنقید کی صلاحیت ان میں پیدا ہی نہیں ہوتی اور اگر پیدا ہوتی بھی ہے تو فی ہزار ایک طالب علم میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد سال ہا سال کے گہرے مطالعہ سے جب کہ وہ زندگی کے آخری مرحلوں پر پہنچ جاتا ہے اور کسی عملی کام کے قابل نہیں رہتا۔ اس طرزِ تعلیم کو بدلنا چاہیے۔ تمام مغربی علوم کو طلبہ کے سامنے تنقید کے ساتھ پیش کیجیے اور یہ تنقید خالص اسلامی نظر سے ہو، تاکہ وہ ہر قدم پر ان کے ناقص اجزا کو چھوڑتے جائیں اور صرف کار آمد حصوں کو لیتے جائیں۔
اس کے ساتھ علومِ اسلامیہ کو بھی قدیم کتابوں سے جوں کا توں نہ لیجیے۔ بلکہ ان میں سے متاخرین کی آمیزشوں کو الگ کرکے اسلام کے دائمی اصول اور حقیقی اعتقادات اور غیر متبدل قوانین لیجیے۔ ان کی اصلی اسپرٹ دلوں میں اتارئیے اور ان کا صحیح تدبر دماغوں میں پیدا کیجیے۔ اس غرض کے لیے آپ کو بنا بنایا نصاب کہیں نہ ملے گا۔ ہر چیز از سر نو بنانا ہو گی۔ قرآن اور سنتِ رسول کی تعلیم سب پر مقدم ہے۔ مگر تفسیر وحدیث کے پرانے ذخیروں سے نہیں، ان کے پڑھانے والے ایسے ہونے چاہییں جو قرآن اور سنت کے مغز کو پا چکے ہوں۔ اسلامی قانون کی تعلیم بھی ضروری ہے مگر یہاں بھی پرانی کتابیں کام نہ دیں گی۔ آپ کو معاشیات کی تعلیم میں اسلامی نظمِ معیشت کے اصول، قانون کے مبادی، فلسفہ کی تعلیم میں حکمت اسلامیہ کے نظریات، تاریخ کی تعلیم میں اسلامی فلسفۂ تاریخ کے حقائق اور اسی طرح ہر علم وفن کی تعلیم میں اسلامی عنصر کو ایک غالب اور حکم ران عنصر کی حیثیت سے داخل کرنا ہو گا۔
آپ کے تعلیمی اسٹاف میں جو ملاحدہ اور متفرنجین بھر گئے ہیں انھیں رخصت کیجیے۔ خوش قسمتی سے ہندوستان میں ایک جماعت ایسے لوگوں کی پیدا ہو چکی ہے جو علومِ جدیدہ میں بصیرت رکھنے کے ساتھ دل ودماغ اور نظروفکر کے اعتبار سے پورے مسلمان ہیں۔ ان بکھرے ہوئے جواہر کو جمع کیجیے تاکہ وہ جدید آلات سے اسلامی نقشہ پر ایک اسٹیمر بنائیں۔
آپ کہیں گے کہ انگریز ایسی تعمیر کی اجازت نہ دے گا۔ یہ ایک حد تک صحیح ہے۔ مگر آپ اس سے پوچھیے کہ تو پورے مسلمان اور پورے کمیونسٹ میں سے کسے زیادہ پسند کرتا ہے؟ ان دونوں میں سے ایک کو بہرحال تجھے قبول کرنا ہو گا۔ ۱۹۱۰ء میں ’’اینگلو محمڈن‘‘ مسلمان اب زیادہ مدت تک نہیں پایا جا سکتا۔ اب اگر تو مسلمان کی نئی نسلوں کو پورا کمیونسٹ دیکھنا چاہتا ہے، تو اپنی قدیم اسلام دشمنی پر جمارہ، نتیجہ خود تیرے سامنے آ جائے گا۔ اگر یہ منظور نہیں تو نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ تمام ہندوستان میں کمیونزم کی بڑھتی ہوئی وبا کا مقابلہ صحیح النسب سائونڈ ون اور ریڈیو کے دیہاتی پروگرام سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس وبا کو صرف ایک طاقت روک سکتی ہے اور وہ اسلام کی طاقت ہے۔
(ترجمان القرآن۔ جمادی الاول ۱۳۵۵ھ۔ اگست ۱۹۳۶ء)

باب دوم: مسلمانوں کے لیے جدید تعلیمی پالیسی اور لائحۂ عمل

(یہ وہ نوٹ ہے جو مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کی مجلس اصلاحِ نصاب ودینیات کے استفسارات کے جواب میں بھیجا گیا تھا۔ اگرچہ اس میں خطاب بظاہر مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے ہے لیکن دراصل اس کے مخاطب مسلمانوں کے تمام تعلیمی ادارات ہیں۔ جس تعلیمی پالیسی کی توضیح اس نوٹ میں کی گئی ہے، اسے اختیار کرنا مسلمانوں کے لیے ناگزیر ہے۔ علی گڑھ ہو یا دیو بند، ندوہ یا جامعہ ملیہ، سب کا طریقِ کار اب زائد المیعاد ہے۔ اگر یہ اس پر نظرثانی نہیں کریں گے تو اپنی افادیّت بالکل کھو دیں گے)
مسلم یونی ورسٹی کورٹ اس امر پر تمام مسلمانوں کے شکریہ کا مستحق ہے کہ اس نے اپنے ارادہ کے بنیادی مقصد یعنی طلبہ میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کی طرف توجہ کی اور اسے روبہ عمل لانے کے لیے آپ کی مجلس کا تقرر کیا۔ اس سلسلہ میں جو کاغذات یونی ورسٹی کے دفتر سے بھیجے گئے ہیں۔ انھیں میں نے پورے غور وخوض کے ساتھ دیکھا۔ جہاں تک دینیات اور علومِ اسلامیہ کے موجودہ طریقِ تعلیم کا تعلق ہے، اس کے ناقابل اطمینان ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ جو نصاب اس وقت پڑھایا جا رہا ہے وہ یقینا ناقص ہے۔ لیکن مجلس کے معزز ارکان کی جانب سے جو سوالات مرتب کیے گئے ہیں، ان کے مطالعہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مجلس کے پیشِ نظر صرف ترمیمِ نصاب کا سوال ہے اور غالباً یہ سمجھا جا رہا ہے کہ چند کتابوں کو خارج کرکے چند دوسری کتابیں رکھ دینے سے طلبہ میں ’’اسلامی سپرٹ‘‘ پیدا کی جا سکتی ہے۔ اگر میرا قیاس صحیح ہے تو میں کہوں گا کہ یہ اصلی صورت حال کا بہت ہی نامکمل اندازہ ہے۔ دراصل ہمیں اس سے زیادہ گہرائی میں جا کر یہ دیکھنا چاہیے کہ قرآن، حدیث، فقہ اور عقائد کی اس تعلیم کے باوجود جو اس وقت دی جا رہی ہے، طلبہ میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیدا نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟ اگر محض موجودہ نصابِ دینیات کا نقص ہی اس کی وجہ ہے تو اس نقص کو دور کرنا بلاشبہ اس خرابی کو رفع کر دینے کے لیے کافی ہو جائے گا۔ لیکن اگر اس کے اسباب زیادہ وسیع ہیں، اور آپ کی پوری تعلیمی پالیسی میں کوئی اساسی خرابی موجود ہے تو اصلاح حال کے لیے محض نصاب دینیات کی ترمیم ہرگز کافی نہ ہو گی۔ اس کے لیے آپ کو اصلاحات کا دائرہ زیادہ وسیع کرنا ہو گا، خواہ وہ کتنا ہی محنت طلب اور مشکلات سے لبریز ہو۔ میں نے اس مسئلہ پر اسی نقطۂ نظر سے غور کیا ہے اور جن نتائج پر میں پہنچا ہوں۔ انھیں امکانی اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔
میرا یہ بیان تین حصوں پر مشتمل ہو گا۔ پہلے حصہ میں یونی ورسٹی کی موجودہ تعلیمی پالیسی پر تنقیدی نظر ڈال کر اس کی اساسی خرابیوں کو واضح کیا جائے گا، اور یہ بتایا جائے گا کہ مسلمانوں کے حقیقی مفاد کے لیے اب ہماری تعلیمی پالیسی کیا ہونی چاہیے، دوسرے حصہ میں اصلاحی تجاویز پیش کی جائیں گی، اور تیسرے حصہ میں ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی تدابیر سے بحث کی جائے گی۔
(۱)
اس وقت مسلم یونی ورسٹی میں جو طریقِ تعلیم رائج ہے وہ تعلیمِ جدید اور اسلامی تعلیم کی ایک ایسی آمیزش پر مشتمل ہے جس میں کوئی امتزاج اورکوئی ہم آہنگی نہیں۔ دو بالکل متضاد اور بے جوڑ تعلیمی عنصروں کو جوں کا توں لے کر ایک جگہ جمع کر دیا گیاہے۔ ان میں یہ صلاحیّت پیدا نہیں کی گئی کہ ایک مرکب علمی قوت بن کر کسی ایک کلچر کی خدمت کر سکیں۔ یک جائی واجتماع کے باوجود یہ دونوں عنصر نہ صرف ایک دوسرے سے الگ رہتے ہیں، بلکہ ایک دوسرے کی مزاحمت کرکے طلبہ کے ذہن کو دو مخالف سمتوں کی طرف کھینچتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے قطع نظر، خالص تعلیمی نقطہِ نگاہ سے بھی اگر دیکھا جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ تعلیم میں اس قسم کے متبائن اور متزاحم عناصر کی آمیزش اصلاً غلط ہے اور اس سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا۔
اسلامی نقطۂ نظر سے یہ آمیزش اور بھی زیادہ قباحت کا سبب بن گئی ہے کیوں کہ اوّل تو خود آمیزش ہی درست نہیں، پھر اس پر مزید خرابی یہ ہے کہ یہ آمیزش بھی مساویانہ نہیں ہے۔ اس میں مغربی عنصر بہت طاقت ور ہے اور اسلامی عنصر اس کے مقابلہ میں نہایت کم زور ہے۔ مغربی عنصر کو پہلا فائدہ تو یہ حاصل ہے کہ وہ ایک عصری عنصر ہے۔ جس کی پشت پر رفتارِ زمانہ کی قوت اور عالم گیر حکم ران تمدن کی طاقت ہے۔ اس کے بعد وہ ہماری یونی ورسٹی کی تعلیم میں ٹھیک اسی شان اور اسی طاقت کے ساتھ شریک کیا گیا ہے، جس کے ساتھ وہ ان یونی ورسٹیوں میں ہے اور ہونا چاہیے جو مغربی کلچر کی خدمت کے لیے قائم کی گئی ہیں۔ یہاں مغربی علوم وفنون کی تعلیم اس طور پر دی جاتی ہے کہ ان کے تمام اصول اور نظریات مسلمان لڑکوں کے صاف اور سادہ لوح دل پر ایمان بن کر ثبت ہو جاتے ہیں اور ان کی ذہنیّت کلیۃً مغربی سانچا میں ڈھل جاتی ہے۔ حتّٰی کہ وہ مغربی نظر سے دیکھنے اور مغربی دماغ سے سوچنے لگتے ہیں اور یہ اعتقاد ان پر مسلّط ہو جاتا ہے کہ دنیا میں اگر کوئی چیز معقول اور باوقعت ہے تو وہی ہے جو مغربی حکمت کے اصول ومبادی سے مطابقت رکھتی ہو۔ پھر ان پر تاثرات کو مزید تقویّت اس تربیت سے پہنچتی ہے جو ہماری یونی ورسٹی میں عملاً دی جا رہی ہے۔ لباس، معاشرت، آداب واطوار، رفتار وگفتار، کھیل کود، غرض کون سی چیز ہے جس پرمغربی تہذیب وتمدن اور مغربی رجحانات کا غلبہ نہیں ہے۔ یونی ورسٹی کا ماحول اگر پورا نہیں تو ۹۵ فی صدی یقینا مغربی ہے اورایسے ماحول کے جو اثرات ہو سکتے ہیں اور ہوا کرتے ہیں انھیں ہر صاحب نظر خود سمجھ سکتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں اسلامی عنصر نہایت کم زور ہے۔ اوّل تو وہ اپنی تمدنی وسیاسی طاقت کھو کر ویسے ہی کم زور ہوچکا ہے۔ پھرہماری یونی ورسٹی میں اس کی تعلیم جن کتابوں کے ذریعہ سے دی جاتی ہے وہ موجودہ زمانہ سے صدیوں پہلے لکھی گئی تھیں۔ ان کی زبان اور تربیت وتمدن ایسا نہیں جو عصری دماغوں کو اپیل کر سکے۔ ان میں اسلام کے ابدی اصولوں کو جن حالات اور جن عملی مسائل پر منطبق کیا گیا ہے، ان میں اکثر اب درپیش نہیں ہیں اور جو مسائل اب درپیش ہیں ان پر ان اصولوں کو منطبق کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ مزید برآں اس تعلیم کی پشت پر کوئی تربیت، کوئی زندہ ماحول، کوئی عملی برتائو اور چلن بھی نہیں۔ اس طرح مغربی تعلیم کے ساتھ اسلامی تعلیم کی آمیزش اور بھی زیادہ بے اثر ہو جاتی ہے۔ ایسی نامساوی آمیزش کا طبعی نتیجہ یہ ہے کہ طلبہ کے دل ودماغ پر مغربی عنصر پوری طرح غالب آ جائے اور اسلامی عنصر محض ایک سامانِ مضحکہ بننے کے لیے رہ جائے یا زیادہ سے زیادہ اس لیے کہ زمانہ ماضی کے آثارِ باقیہ کی طرح اس کا احترام کیا جائے۔
مَیں اپنی صاف گوئی پر معافی کا خواست گار ہوں۔ مگر جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں اسے بے کم وکاست بیان کر دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ میری نظر میں مسلم یونی ورسٹی کی دینی ودنیاوی تعلیم بحیثیت مجموعی بالکل ایسی ہے کہ آپ ایک شخص کو از سر نو سرتا پا غیر مسلم بناتے ہیں۔ پھر اس کی بغل میں دینیات کی چند کتابوں کا ایک بستہ دے دیتے ہیں تاکہ آپ پر اسے غیر مسلم بنانے کا الزام عائد نہ ہو اور اگر وہ اس بستہ کو اٹھا کر پھینک دے جس کی وجہ دراصل آپ ہی کی تعلیم ہو گی، تو وہ خود ہی اس فعل کے لیے قابلِ الزام قرار پائے۔ اس طرزِ تعلیم سے اگر آپ یہ اُمید رکھتے ہیں کہ یہ مسلمان پیدا کرے گا تو یوں سمجھنا چاہیے کہ آپ معجزے اور خرقِ عادت کے متوقع ہیں کیوں کہ آپ نے جو اسباب مہیا کئے ہیں ان سے قانونِ طبعی کے تحت تو یہ نتیجہ کبھی برآمد نہیں ہو سکتا۔ فی صدی ایک یا دو چار طالب علموں کا مسلمان (کامل اعتقادی وعملی مسلمان) رہ جانا کوئی حجت نہیں۔ یہ آپ کی یونی ورسٹی کے فیضانِ تربیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس امر کا ثبوت ہے کہ جو اس فیضان سے اپنے ایمان واسلام کو بچا لے گا، وہ دراصل فطرتِ ابراہیمی پر پیدا ہوا تھا۔ ایسے مستثنیات جس طرح علی گڑھ کے فارغ التحصیل اصحاب پائے جاتے ہیں اس طرح ہندوستان کی سرکاری یونی ورسٹیوں بلکہ یورپ کی یونی ورسٹیوں کے مستخرجین میں بھی مل سکتے ہیں جن کے نصاب میں سرے سے کوئی اسلامی عنصر ہی نہیں۔
اب اگر آ پ ان حالات اور اس طرزِ تعلیم کو بعینہٖ باقی رکھیں اور محض دینیات کے موجودہ نصاب کو بدل کر زیادہ طاقت ور نصاب شریک کر دیںتو اس کا حاصل صرف یہ ہو گا کہ فرنگیّت اور اسلامیّت کی کش مکش زیادہ شدید ہو جائے گی۔ ہر طالب علم کا دماغ ایک رزم گاہ بن جائے گا۔ جس میں یہ دو طاقتیں پوری قوت کے ساتھ جنگ کریں گی اور بالآخر آپ کے طلبہ تین مختلف گروہوں میں بٹ جائیں گے۔
ایک وہ جن پر فرنگیّت غالب رہے گی، عام اس سے کہ وہ انگریزیّت کے رنگ میں ہو، یا ہندی وطن پرستی کے رنگ میں یا ملحدانہ اشتراکیت کے رنگ میں۔
دوسرے وہ جن پر اسلامیّت غالب رہے گی۔ خواہ اس کا رنگ گہرا ہو یا فرنگیت کے اثر سے پھیکا پڑ جائے۔
تیسرے وہ جو نہ پورے مسلمان ہوں گے نہ پورے فرنگی۔ ظاہر ہے کہ تعلیم کا یہ نتیجہ بھی کوئی خوش گوار نتیجہ نہیں، نہ خالص تعلیمی نقطۂ نظر سے اس اجتماع نقیضین کو مفید کہا جا سکتا ہے اور نہ قومی نقطۂ نظر سے ایسی یونی ورسٹی اپنے وجود کو حق بجانب ثابت کر سکتی ہے۔ جس کے نتائج کا ۳؍۲ حصّہ قومی مفاد کے خلاف اور قومی تہذیب کے لیے نقصانِ کامل کے مترادف ہو۔ کم از کم مسلمانوں کی غریب قوم کے لیے تو یہ سودا بہت ہی مہنگا ہے کہ وہ لاکھوں روپے کے خرچ سے ایک ایسی ٹکسال جاری رکھے جس میں سے ۳۳ فی صدی سکّے تو مستقل طور پر کھوٹے نکلتے رہیں اور۳۳ فی صدی ہمارے خرچ پر تیار ہو کر غیروں کی گود میں ڈال دیے جائیں بلکہ بالآخر ہمارے خلاف استعمال ہوں۔
مذکورہ بالا بیان سے دو باتیں اچھی طرح واضح ہو جاتی ہیں:
اولاً تعلیم میں متضاد عناصر کی آمیزش اصولی حیثیّت سے غلط ہے، ثانیاً اسلامی مفاد کے لیے بھی ایسی آمیزش کسی طرح مفید نہیں خواہ وہ اس قسم کی غیر مساوی آمیزش ہو، جیسی اب تک رہی ہے یا مساوی کر دی جائے جیسا کہ اب کرنے کا خیال کیا جا رہا ہے۔ ان امور کی توضیح کے بعد یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میری رائے میں یونی ورسٹی کی تعلیمی پالیسی اب کیا ہونی چاہیے۔
یہ ظاہر ہے کہ ہر یونی ورسٹی کسی کلچر کی خادم ہوتی ہے۔ ایسی مجرّد تعلیم جو ہر رنگ اور ہر صورت سے خالی ہو، نہ آج تک دنیا کی کسی درس گاہ میں دی گئی ہے نہ آج دی جا رہی ہے۔ ہر درس گاہ کی تعلیم ایک خاص رنگ اور خاص صورت میں ہوتی ہے اور اس رنگ وصورت کا انتخاب پورے غوروفکر کے بعد اس مخصوص کلچر کی مناسبت سے کیا جاتا ہے، جس کی خدمت وہ کرنا چاہتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ کی یونی ورسٹی کس کلچر کی خدمت کے لیے قائم کی گئی ہے؟ اگر وہ مغربی کلچر ہے تو اسے مسلم یونی ورسٹی نہ کہیے، نہ اس میں دینیات کا ایک نصاب رکھ کر خواہ مخواہ طالب علموں کو ذہنی کش مکش میں مبتلا کیجیے، اور اگر وہ اسلامی کلچر ہے تو آپ کو اپنی یونی ورسٹی کی پوری ساخت بدلنا پڑے گی اور اس کی ہیئت ِترکیبی کو ایسے طرز پر ڈھالنا ہو گا کہ وہ بحیثیتِ مجموعی اس کلچر کے مزاج اور اس کی اسپرٹ کے مناسب ہو اور نہ صرف اس کا تحفظ کرے بلکہ اسے آگے بڑھانے کے لیے ایک اچھی طاقت بن جائے۔
جیسا کہ مَیں اوپر بیان کر چکا ہوں، موجودہ حالت میں تو آپ کی یونی ورسٹی اسلامی کلچر کی نہیں بلکہ مغربی کلچر کی خادم بنی ہوئی ہے۔ اس حالت میں اگر صرف اتنا تغیر کیا جائے کہ دینیات کے موجودہ نصاب کو بدل کر زیادہ طاقت ور کر دیا جائے اور تعلیم وتربیت کے باقی تمام شعبوں میں پوری مغربیّت برقرار رہے تو اس سے بھی یہ درس گاہ اسلامی کلچر کی خادم نہیں بن سکتی۔ اسلام کی حقیقت پر غور کرنے سے یہ بات خود بخود آپ پر منکشف ہو جائے گی کہ دنیوی تعلیم وتربیت اور دینی تعلیم کو الگ کرنا، اور ایک دوسرے سے مختلف رکھ کر ان دونوں کو یک جا جمع کر دینا بالکل لاحاصل ہے۔ اسلام مسیحیّت کی طرح کوئی ایسا مذہب نہیں ہے جس کا دین ،دنیا سے کوئی الگ چیز ہو۔ وہ دنیا کو دنیا والوں کے لیے چھوڑ کر صرف اعتقادات اور اخلاقیات کی حد تک اپنے دائرے کو محدود نہیں رکھتا۔ اس لیے مسیحی دینیات کی طرح اسلام کے دینیات کو دنیویات سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام کا اصل مقصد انسان کو دنیا میں رہنے کا اور دنیا کے معاملات انجام دینے کے لیے ایک ایسے طریقہ پر تیار کرنا ہے جو اس زندگی سے لے کر آخرت کی زندگی تک سلامتی، عزّت اور برتری کا طریقہ ہے۔ اس غرض کے لیے وہ اس کی نظر وفکر کو درست کرتا ہے، اس کے اخلاق کو سنوارتا ہے، اس کی سیرت کو ایک خاص سانچے میں ڈھالتا ہے، اس کے لیے حقوق وفرائض متعین کرتا ہے اور اس کی اجتماعی زندگی کا ایک خاص نظام وضع کرکے دیتا ہے۔ افراد کی ذہنی وعملی تربیت سوسائٹی کی تشکیل وتنظیم اور زندگی کے تمام شعبوں کی تربیت وتعدیل کے باب میں اس کے اصول وضوابط سب سے الگ ہیں۔ انھی کی بدولت اسلامی تہذیب ایک جداگانہ تہذیب کی شکل اختیار کرتی ہے اور مسلمان قوم کا بحیثیت ایک قوم کے زندہ رہنا انھی کی پابندی پر منحصر ہے۔ پس جب حال یہ ہے تو اسلامی دینیات کی اصطلاح ہی بے معنی ہو جاتی ہے۔ اگر زندگی اور اس کے معاملات سے اس کا ربط باقی نہ رہے۔ اسلامی کلچر کے لیے وہ عالمِ دین بے کار ہے جو اسلام کے عقائد اور اصول سے واقف ہے مگر انھیں لے کر علم وعمل کے میدان میں بڑھنا اور زندگی کے دائم التغیر احوال ومسائل میں انھیں برتنا نہیں جانتا۔ اسی طرح اس کلچر کے لیے وہ عالمِ دنیا بھی بے کار ہے جو دل میں تو اسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے مگر دماغ سے غیراسلامی طریق پر سوچتا ہے۔ معاملات کو غیراسلامی نظر سے دیکھتا ہے اور زندگی کو غیر اسلامی اصولوں پر مرتب کرتا ہے۔ اسلامی تہذیب کے زوال اور اسلامی نظامِ تمدن کی ابتری کا اصلی سبب یہی ہے کہ ایک مدت سے ہماری قوم میں صرف انھی دو قسموں کے عالم پیدا ہو رہے ہیں، اور دنیوی علم وعمل سے علمِ دین کا رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔ اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ اسلامی کلچر پھر سے جوان ہو جائے اور زمانہ کے پیچھے چلنے کی بجائے آگے چلنے لگے تو اس ٹوٹے ہوئے ربط کو پھر قائم کیجیے مگر اسے قائم کرنے کی صورت یہ نہیں ہے کہ دینیات کے نصاب کو جسمِ تعلیمی کی گردن کا قلادہ یا کمر کا پشتارہ بنا دیا جائے۔ نہیں اسے پورے نظامِ تعلیم میں ا س طرح اتار دیجیے کہ وہ اس کا دورانِ خون، اس کی روحِ رواں، اس کی بینائی وسماعت، اس کا احساس وادراک، اس کا شعور وفکر بن جائے اور مغربی علوم وفنون کے تمام صالح اجزا کو اپنے اندر جذب کرکے اپنی تہذیب کا جزبناتا چلا جائے۔ اس طرح آپ مسلمان فلسفی، مسلمان سائنس دان، مسلمان ماہرینِ معاشیات، مسلمان مقنن، مسلمان مدبرین، غرض تمام علوم وفنون کے مسلمان ماہر پیدا کر سکیں گے جو زندگی کے مسائل کو اسلامی نقطہِ نظر سے حل کریں گے، تہذیبِ حاضر کے ترقی یافتہ اسباب ووسائل سے تہذیب اسلامی کی خدمت لیں گے اور اسلام کے افکار ونظریات اور قوانینِ حیات کو روح عصری کے لحاظ سے از سر نو مرتب کریں گے۔ یہاں تک کہ اسلام از سر نو علم وعمل کے میدان میں اسی امامت وراہ نمائی کے مقام پر آ جائے گا جس کے لیے وہ درحقیقت دنیا میں پیدا کیا گیا ہے۔
یہ ہے وہ تخیل جو مسلمانوں کی جدید تعلیمی پالیسی کا اساسی تخیل ہونا چاہیے۔ زمانہ اُس مقام سے بہت آگے نکل چکا ہے، جہاں سرسیّد ہمیں چھوڑ گئے تھے اگر اب زیادہ عرصہ تک ہم اس پر قائم رہے تو بحیثیت ایک مسلم قوم کے ہمارا ترقی کرنا تو درکنار، زندہ رہنا بھی مشکل ہے۔
(۲)
اب مَیں بتانا چاہتا ہوں کہ اوپر جس تعلیمی پالیسی کا ہیولیٰ میں نے پیش کیا ہے اسے صورت کا لباس کس طرح پہنایا جا سکتا ہے۔
۱۔ مسلم یونیورٹی کی حدود میں ’’فرنگیّت‘‘ کا کلی استیصال کر دینا نہایت ضروری ہے۔
اگر ہم اپنی قومی تہذیب کو اپنے ہاتھوں قتل کرنا نہیں چاہتے تو ہمارا فرض ہے کہ اپنی نئی نسلوں میں ’’فرنگیت‘‘ کے ان روز افزوں رجحانات کا سدِّ باب کریں۔ یہ رجحانات دراصل غلامانہ ذہنیت اور چھپی ہوئی دنایت (inferiority complex) کی پیداوار ہیں۔ پھر جب ان کا عملی ظہور، لباس، معاشرت، آداب واطوار اور بحیثیت مجموعی پورے اجتماعی ماحول میں ہوتا ہے تو یہ ظاہر اور باطن دونوں طرف سے نفس کا احاطہ کر لیتے ہیں اور اس میں شرفِ قومی کا رمق برابر احساس بھی نہیں چھوڑتے۔ ایسے حالات میں اسلامی تہذیب کا زندہ رہنا قطعی ناممکن ہے۔ کوئی تہذیب محض اپنے اصولوں اور اپنے اساسی تصوّرات کے مجرد ذہنی وجود سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ عملی برتائو سے پیدا ہوتی ہے اور اسی سے نشوونما پاتی ہے۔ اگر عملی برتائو مفقود ہو جائے تو تہذیب اپنی طبعی موت مر جائے گی اور اس کا ذہنی وجود بھی برقرار نہ رہ سکے گا۔ پس سب سے مقدّم اصطلاح یہ ہے کہ یونی ورسٹی میں ایک زندہ اسلامی ماحول پیدا کیا جائے۔ آپ کی تربیت ایسی ہونی چاہیے جو مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اپنی قومی تہذیب پر فخر کرنا سکھائے ان میں اپنی قومی خصوصیات کا احترام بلکہ عشق پیدا کرے، ان میں اسلامی اخلاق اور سیرت کی روح پھونک دے، انھیں اس قابل بنائے کہ وہ اپنے علم اور اپنی تربیت یافتہ ذہنی صلاحیتوں سے اپنے قومی تمدن کو شائستگی کے بلند مدارج کی طرف لے چلیں۔
۲۔ اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کا انحصار بڑی حد تک معلّمین کے علم وعمل پر ہے۔
جو معلّم خود اس روح سے خالی ہیں، بلکہ خیال اور عمل دونوں میں اس کے مخالف ہیں، ان کے زیر اثر رہ کر متعلمین میں اسلامی اسپرٹ کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟ آپ محض عمارت کا نقشہ بنا سکتے ہیں مگر اصلی معمار آپ نہیں۔ آپ کے تعلیمی سٹاف کے ارکان ان ’’فرنگی‘‘ معماروں سے یہ امید رکھنا کہ وہ اسلامی طرزِ تعمیر پر عمارت بنائیں گے، کریلے کی بیل سے خوشۂ انگور کی امید رکھنا ہے۔ محض دینیات کے لیے چند ’’مولوی‘‘ رکھ لینا ایسی صورت میں بالکل فضول ہو گا جب کہ دوسرے تمام یا اکثر علوم کے پڑھانے والے غیر مسلم یا ایسے مسلمان ہوں جن کے خیالات غیر اسلامی ہوں، کیوں کہ وہ زندگی اور اس کے مسائل اور معاملات کے متعلق طلبہ کے نظریات اور تصوّرات کو اسلام کے مرکز سے پھیر دیں گے اور اس زہر کا تریاق محض دینیات کے کورس سے فراہم نہ ہو سکے گا۔ لہٰذا خواہ کوئی فن ہو، فلسفہ ہو یا سائنس، معاشیات ہو یا قانون، تاریخ ہو یا کوئی اور علم، مسلم یونی ورسٹی میں اس کی پروفیسری کے لیے کسی شخص کا محض ماہرِ فن ہونا کافی نہیں ہے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ پورا اور پکا مسلمان ہو۔ اگر مخصوص حالات میں کسی غیر مسلم ماہرِ فن کی خدمات حاصل کرنا پڑیں تو کوئی مضایقہ نہیں، لیکن عام قاعدہ یہی ہونا چاہیے کہ ہماری یونی ورسٹی کے پروفیسر وہ لوگ ہوں جو اپنے فن میں ماہر ہونے کے علاوہ یونی ورسٹی کے اساسی مقصد یعنی اسلامی کلچر کے لیے خیالات اور اعمال دونوں لحاظ سے مفید ہوں۔
۳۔ یونی ورسٹی کی تعلیم میں عربی زبان کو بطور ایک لازمی زبان کے شریک کیا جائے۔
یہ ہمارے کلچر کی زبان ہے۔ اسلام کے مآخذِ اصلیہ تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے۔ جب تک مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ قرآن وسنت تک بلا واسطہ دست رس حاصل نہ کرے گا اسلام کی روح کو نہ پا سکے گا، نہ اسلام میں بصیرت حاصل کر سکے گا۔ وہ ہمیشہ مترجموں اور شارحوں کا محتاج رہے گا اور اس طرح آفتاب کی روشنی اسے براہِ راست آفتاب سے کبھی نہ مل سکے گی، بلکہ مختلف قسم کے رنگین آئینوں کے واسطے ہی سے ملتی رہے گی۔ آج ہمارے جدید تعلیم یافتہ حضرات اسلامی مسائل میں ایسی ایسی غلطیاں کر رہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کی ابجد تک سے ناواقف ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ قرآن اور سنت سے استفادہ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں رکھتے۔ آگے چل کر پراونشل اناٹومی کے دور میں جب ہندوستان کی مجالسِ مقنّنہ کو قانون سازی کے زیادہ وسیع اختیارات حاصل ہوں گے اور سوشل ریفارم کے لیے نئے نئے قوانین بنائے جانے لگیں گے اس وقت اگر مسلمانوں کی نمایندگی ایسے لوگ کرتے رہے جو اسلام سے ناواقف ہوں اور اخلاق ومعاشرت اور قانون کے مغربی تصوّرات پر اعتقاد رکھتے ہوں، تو جدید قانون سازی سے مسلمانوں میں سوشل ریفارم ہونے کی بجائے الٹی سوشل ڈیفارم ہو گی اور مسلمانوں کا اجتماعی نظام اپنے اصولوں سے اور زیادہ دور ہوتا چلا جائے گا۔ پس عربی زبان کے مسئلہ کو محض ایک زبان کا مسئلہ نہ سمجھیے بلکہ یوں سمجھیے کہ یہ آپ کی یونی ورسٹی کے اساسی مقاصد سے تعلق رکھتا ہے اور جو چیز اساسیّت (fundamentals) سے تعلق رکھتی ہو اس کے لیے سہولت کا لحاظ نہیں کیا جاتا۔ بلکہ ہر حال میں اس کی جگہ نکالنی پڑتی ہے۔
۴۔ ہائی اسکول کی تعلیم میں طلبہ کو حسبِ ذیل مضامین کی ابتدائی معلومات حاصل ہونی چاہییں۔
(الف) عقائد: اس مضمون میں عقائد کی خشک کلامی تفصیلات نہ ہونی چاہییں بلکہ ایمانیات کو ذہن نشین کرنے کے لیے نہایت لطیف انداز بیان اختیار کرنا چاہیے جو فطری وجدان اور عقل کو اپیل کرنے والا ہو۔ طلبہ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کے ایمانیات دراصل کائنات کی بنیادی صداقتیں ہیں اور یہ صداقتیں ہماری زندگی سے ایک گہرا ربط رکھتی ہیں۔
(ب) اسلامی اخلاق: اس مضمون میں مجرد اخلاقی تصورات نہ پیش کیے جائیں بلکہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، صحابہ کرام ث اور انبیا علیہم السلام کی سیرتوں سے ایسے واقعات لے کر جمع کیے جائیں جن سے طلبہ کو معلوم ہو کہ ایک مسلمان کے کیریکٹر کی خصوصیات کیا ہیں اور مسلمان کی زندگی کیسی ہوتی ہے؟
(ج) احکامِ فقہ: اس مضمون میں حقوق اللّٰہ، حقوق العباد اور شخصی کردار کے متعلق اسلامی قانون کے ابتدائی اور ضروری احکام بیان کیے جائیں جن سے واقف ہونا ہر مسلمان کے لیے ناگزیر ہے۔ مگر اس قسم کے جزئیات اس میں نہ ہونا چاہییں جیسے ہماری فقہ کی پرانی کتابوں میں آتے ہیں کہ مثلاً کنویں میں چوہا گر جائے تو کتنے ڈول نکالے جائیں۔ ان چیزوں کی بجائے عبادات اور احکام کی معنویّت ان کی روح اور ان کے مصالح طلبہ کے ذہن نشین کرنا چاہییں۔ انھیں یہ بتانا چاہیے کہ اسلام تمھارے لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کیا پروگرام بناتا ہے اور یہ پروگرام کس طرح ایک صالح سوسائٹی کی تخلیق کرتا ہے۔
(د) اسلامی تاریخ: یہ مضمون صرف سیرتِ رسولؐ اور دورِ صحابہؓ تک محدود رہے۔ اس کے پڑھانے کی غرض یہ ہونی چاہیے کہ طلبہ اپنے مذہب اور اپنی قومیّت کی اصل سے واقف ہو جائیں اوران کے دلوں میں اسلامی حمیت کا صحیح احساس پیدا ہو۔
(ھ) عربیّت: عربی زبان کا محض ابتدائی علم جو ادب سے ایک حد تک مناسبت پیدا کر دے۔
(و)قرآن: صرف اتنی استعداد کہ لڑکے کتاب اللّٰہ کو روانی کے ساتھ پڑھ سکیں۔ سادہ آیتوں کو کسی حد تک سمجھ سکیں اور چند سورتیں بھی انھیں یاد ہوں۔
۵۔ کالج کی تعلیم:
کالج کی تعلیم میں ایک نصاب عام ہونا چاہیے جو تمام طلبہ کو پڑھایا جائے اس نصاب میں حسب ذیل مضامین ہونے چاہییں۔
(الف) عربیّت: انٹرمیڈیٹ میں عربی ادب کی متوسط تعلیم ہو۔ بی اے میں پہنچ کر اس مضمون کو تعلیم قرآن کے ساتھ ضم کر دیا جائے۔
(ب) قرآن: (۱) انٹرمیڈیٹ میں طلبہ کو فہم قرآن کے لیے مستعد کیا جائے۔ اس مرحلہ میں صرف چند مقدمات ذہن نشین کرا دینے چاہییں۔ قرآن کا محفوظ اور تاریخی حیثیت سے معتبر ترین کتاب ہونا۔ اس کا وحی الٰہی ہونا۔ تمام مذاہب کی اساسی کتابوں کے مقابلہ میں اس کی فضیلت۔اس کی بے نظیر انقلاب انگیز، تعلیم اس کے اثرات نہ صرف عرب پر بلکہ تمام دنیا کے افکار اور قوانینِ حیات پر، اس کا انداز بیان اور طرز استدلال، اس کا حقیقی مدعا۔ (thesis)
(۲) بی۔ اے میں اصل قرآن کی تعلیم دی جائے۔ یہاں طرز تعلیم یہ ہونا چاہیے کہ طلبہ خود قرآن کو پڑھ کے سمجھنے کی کوشش کریں اور استاد ان کی مشکلات کو حل اور ان کے شبہات کو رفع کرتا جائے۔ اگر مفصل تفسیر اور جزئی بحثوں سے اجتناب ہو اور صرف مطالب کی توضیح پر اکتفا ہو تو دو سال میں بآسانی پورا قرآن پڑھایا جا سکتا ہے۔
(ج) تعلیماتِ اسلامی:
اس مضمون میں طلبہ کو پورے نظامِ اسلام سے روشناس کرا دیا جائے۔ اسلام کی بنیاد کن اساسی تصورات پر قائم ہے۔ ان تصوّرات کی بِنا پر وہ اخلاق اور سیرت کی تشکیل کس طرح کرتا ہے۔ پھر اس سوسائٹی کی زندگی کو معاشرت، معیشت، سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں کن اُصولوں پر منظم کرتا ہے۔ اس کے اجتماعی نظام میں فرد اور جماعت کے درمیان حقوق وفرائض کی تقسیم کس ڈھنگ پر کی گئی ہے۔ حدود اللّٰہ کیا ہیں ان حدود کے اندر مسلمان کو کس حد تک فکر وعمل کی آزادی ہے اور ان حدود کے باہر قدم نکالنے سے نظامِ اسلامی پر کیا اثرات مرتّب ہوتے ہیں، یہ تمام امور جامعیّت کے ساتھ نصاب میں لائے جائیں اور اسے چار سال کے مدارجِ تعلیمی پر ایک مناسبت کے ساتھ تقسیم کر دیا جائے۔
۶۔ نصابِ عام کے بعد علوم اسلامیہ کو تقسیم کرکے مختلف علوم وفنون کی اختصاصی تعلیم میں پھیلا دیجیے اور ہر فن میں اسی فن کی مناسبت سے اسلام کی تعلیمات کو پیوست کیجیے۔
مغربی علوم وفنون بجائے خود سب کے سب مفید ہیں اور اسلام کو ان میں سے کسی کے ساتھ بھی دشمنی نہیں، بلکہ ایجاباً میں یہ کہوں گا کہ جہاں تک حقائقِ علمیہ کا تعلق ہے اسلام ان کا دوست ہے اور وہ اسلام کے دوست ہیں۔ دشمنی دراصل علم اور اسلام میں نہیں بلکہ مغربیّت اور اسلام میں ہے۔ اکثر علوم میں اہل مغرب اپنے چند مخصوص اساسی تصوّرات، بنیادی مفروضات، (hypothesis) نقطہ ہائے آغاز (starting piont) اور زاویہ ہائے نظر رکھتے ہیں جو بجائے خود ثابت شدہ حقائق نہیں ہیں بلکہ محض ان کے وجدانیات ہیں۔ وہ حقائقِ علمیہ کو اپنے ان وجدانیات کے سانچے میں ڈھالتے ہیں اور اس سانچا کی مناسبت سے انھیں مرتّب کرکے ایک مخصوص نظام بنا لیتے ہیں۔ اسلام کی دشمنی دراصل انھی وجدانیات سے ہے۔ وہ حقائق کا دشمن نہیں بلکہ اس وجدانی سانچے کا دشمن ہے جس میں ان حقائق کو ڈھالا اور مرتب کیا جاتا ہے۔ وہ خود اپنا ایک مرکزی تصوّر، ایک زاویۂ نظر، ایک زاویۂ آغازِ فکر، ایک وجدانی سانچا رکھتا ہے جو اپنی اصل اور فطرت کے اعتبار سے مغربی سانچوں کی عین ضد واقع ہوا ہے۔ اب یہ سمجھ لیجیے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے ضلالت کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ آپ مغربی علوم وفنون سے حقائق لیتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ آپ مغرب ہی سے اس کا وجدانی سانچا بھی لے لیتے ہیں۔ فلسفہ، سائنس، تاریخ، قانون، سیاسیات، معاشیات اور دوسرے علمی شعبوں میں آپ خود ہی تو اپنے نوجوان اور خالی الذہن طلبہ کے دماغوں میں مغرب کے اساسی تصورات بٹھاتے ہیں ان کی نظر کا فوکس مغربی زاویۂ نظر کے مطابق جماتے ہیں، مغربی مفروضات کو مسلمات بناتے ہیں۔ استدلال واستشہاد اور تحقیق وتمحیص کے لیے صرف وہی ایک نقطۂ آغاز انھیں دیتے ہیں جو اہل مغرب نے اختیار کیا ہے اور تمام علمی حقائق اور مسائل کو اسی طرز پرمرتّب کرکے ان کے ذہن میں اتار دیتے ہیں، جس طرز پر اہلِ مغرب نے انھیں مرتّب کیا ہے۔ اس کے بعد آپ چاہتے ہیں کہ تنہا دینیات کا شعبہ انھیں مسلمان بنا دے یہ کس طرح ممکن ہے؟ وہ شعبۂ دینیات کیا کر سکتا ہے جس میں مجرّد تصورات ہوں، حقائقِ علمیہ اور مسائلِ حیات پر ان تصورات کا انطباق نہ ہو بلکہ طلبہ کے ذہن میں جملہ معلومات کی ترتیب ان تصورات کے بالکل برعکس ہو۔ یہی گم راہی کا سرچشمہ ہے۔ اگر آپ گم راہی کا سد باب کرنا چاہتے ہیں تو اُس سرچشمے کے مصدر پر پہنچ کر ( قرآن کے تصورات کے مطابق ) اس کا رخ پھیر دیجیے۔
جب اس وجدانی سانچا میں معلومات مرتّب ہوں گی اور اس نظریہ سے کائنات اور زندگی کے مسائل کو حل کیا جائے گا تب آپ کے طلبہ ’’مسلم طلبہ‘‘ بنیں گے اور آپ یہ کہہ سکیں گے کہ ہم نے ان میں ’’اسلامی اسپرٹ‘‘ پیدا کی۔ ورنہ ایک شعبہ میں اسلام اور باقی تمام شعبوں میں غیر اسلام رکھ دینے کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہو گا کہ آپ کے فارغ التحصیل طلبہ فلسفہ میں غیر مسلم، سائنس میں غیر مسلم، قانون میں غیر مسلم، سیاست میں غیر مسلم، فلسفہ تاریخ میں غیر مسلم، معاشیات میں غیر مسلم ہوں گے اور ان کا اسلام محض چند اعتقادات اور چند مذہبی مراسم کی حد تک محدود رہ جائے گا۔
۷۔ بی۔ ٹی۔ ایچ اور ایم۔ ٹی۔ایچ کے امتحانات کو بند کر دیجیے۔ نہ ان کی کوئی ضرورت ہے، نہ فائدہ۔ جہاں تک علومِ اسلامیہ کے مخصوص شعبوں کا تعلق ہے ان میں سے ہر ایک شعبے کو اسی کے مماثل علم کے مغربی شعبہ کے انتہائی کورس میں داخل کر دیجیے۔ مثلاً فلسفہ میں حکمتِ اسلامیہ اور اسلامی فلسفہ کی تاریخ اور فلسفیانہ افکار کے ارتقا میں مسلمانوں کا حصہ، تاریخ میں تاریخِ اسلام اور اسلامی فلسفۂ تاریخ، قانون میں اسلامی قانون کے اصول اور فقہ کے وہ ابواب جو معاملات سے متعلق ہیں۔ معاشیات میں اسلامی معاشیات کے اصول اور فقہ کے وہ حصے جو معاشی مسائل سے متعلق ہیں۔ سیاسات میں اسلام کے نظریاتِ سیاسی اور اسلامی سیاسیات کے نشووارتقا کی تاریخ اور دنیا کے سیاسی افکار کی ترقی میں اسلام کا حصہ وقس علیٰ ہذا۔
اس کورس کے بعد علوم اسلامیہ میں ریسرچ کے لیے ایک مستقل شعبہ ہونا چاہیے جو مغربی یونی ورسٹیوں کی طرح اعلیٰ درجہ کی علمی تحقیق پر سند فضیلت (doctorate) دیا کرے۔ اس شعبہ میں ایسے لوگ تیار کیے جائیں جو مجتہدانہ طرز تحقیق کی تربیت پا کر نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے تمام دنیا کی نظری راہ نمائی کے لیے مستعد ہوں۔
حصہ دوم میں جس طرزِ تعلیم کا خاکہ میں نے پیش کیا ہے وہ بظاہر ناقابلِ عمل معلوم ہوتا ہے لیکن میں کافی غور وخوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ توجہ، محنت اور صرفِ مال سے اسے بتدریج عمل میں لایا جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ آپ کسی راہ میں پہلا قدم اٹھاتے ہی منزل کے آخری نشان پر نہیں پہنچ سکتے۔ کام کی ابتدا کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس کی تکمیل کا پورا سامان پہلے سے آپ کے پاس موجود ہو۔ ابھی تو آپ کو صرف عمارت کی بنیادرکھنی ہے اور اس کا سامان اس وقت فراہم ہو سکتا ہے۔ موجودہ نسل میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس طرزِ تعمیر پر بنیادیں رکھ سکتے ہیں۔ ان کی تعلیم وتربیت سے جو نسل اٹھے گی، وہ دیواریں اٹھانے کے قابل ہو گی۔ پھر تیسری نسل ایسی نکلے گی جس کے ہاتھوں یہ کام ان شاء اللّٰہ پایہ تکمیل کو پہنچے گا جو درجہ کمال کم از کم تین نسلوں کی محنت کے بعد حاصل ہو سکتا ہے۔ اسے آج ہی حاصل کر لینا ممکن نہیں لیکن تیسری نسل میں عمارت کی تکمیل تب ہی ہو سکے گی کہ آپ آج اس کی بنیاد رکھ دیں۔ ورنہ اگر اس کے درجہ کمال کو اپنے سے دور پا کر آپ نے آج سے ابتدا ہی نہ کی، (حالانکہ ابتدا کرنے کے اسباب آپ کے پاس موجود ہیں) تو یہ کام کبھی انجام نہ پائے گا۔
چوں کہ مَیں اس اصلاحی اقدام کا مشورہ دے رہا ہوں اس لیے یہ بھی میرا ہی فرض ہے کہ اسے عمل میں لانے کی تدابیر بھی پیش کروں۔ اپنے بیان کے اس حصہ میں مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس طرزِ تعلیم کی ابتدا کس طرح کی جا سکتی ہے اور اس کے لیے قابلِ عمل تدبیریں کیا ہیں:
۱۔ ہائی اسکول کی تعلیم کے لیے عقائدِ اسلامی اخلاق اور احکامِ شریعت کا ایک جامع کورس حال ہی میں سرکار نظام کے محکمہ تعلیمات نے تیار کرایا ہے اسے ضروری ترمیم واصلاح سے بہت کار آمد بنایا جا سکتا ہے۔
عربی زبان کی تعلیم قدیم طرز کی وجہ سے جس قدر ہول ناک ہو گئی تھی، الحمد لِلّٰہ کہ اب وہ کیفیت باقی نہیں رہی ہے۔ اس کے لیے جدید طریقے مصر وشام اور خود ہندوستان میں ایسے نکل آئے ہیں جن سے بآسانی یہ زبان سکھائی جا سکتی ہے۔ ایک خاص کمیٹی ان لوگوں کی مقرر کی جائے جو عربی تعلیم کے جدید طریقوں میں علمی وعملی مہارت رکھتے ہیں، اور ان کے مشورہ سے ایک ایسا کورس تجویز کیا جائے جس میں زیادہ تر قرآن ہی کو عربی کی تعلیم کا ذریعہ بنایا گیا ہو۔ اس طرح تعلیمِ قرآن کے لیے الگ وقت نکالنے کی بھی ضرورت نہ رہے گی اور ابتدا ہی سے طلبہ کو قرآن کے ساتھ مناسبت پیدا ہو جائے گی۔
اسلامی تاریخ کے بکثرت رسالے اردو زبان میں لکھے جا چکے ہیں، انھیں جمع کرکے بہ نظرِ غور دیکھا جائے اور جو رسائل مفید پائے جائیں انھیں ابتدائی جماعتوں کے کورس میں داخل کر لیا جائے۔
مقدم الذکر دونوں مضامین کے لیے روزانہ صرف ایک گھنٹا کافی ہو گا۔ رہی اسلامی تاریخ تو یہ مضمون کوئی الگ وقت نہیں چاہتا۔ تاریخ کے عمومی نصاب میں اسے ضم کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ ہائی اسکول کی تعلیم کے موجودہ نظم میں کوئی زیادہ تغیر کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ تغیر کی ضرورت جو کچھ بھی ہے نصابِ تعلیم،طرزِ تعلیم اور تعلیمی اسٹاف میں ہے۔ دینیات کی تدریس اور اس کے مدرس کا جو تصوّر آپ کے ذہن میں اب تک رہا ہے اسے نکال دیجیے۔ اس دور کے لڑکوں اور لڑکیوں کی ذہنیّت اور ان کی نفسیات کو سمجھنے والے مدرس رکھیے۔ انھیں یہ ترقی یافتہ نصابِ تعلیم دیجیے اور اس کے ساتھ ایسا ماحول پیدا کیجیے جس میں ’’اسلامیّت‘‘ کے بیج کو بالیدگی نصیب ہو سکے۔
۲۔ کالج کے لیے نصابِ عام کی جو تجویز میں نے پیش کی ہے اس کے تین اجزا ہیں:
(الف) عربیّت
(ب) قرآن
(ج) تعلیماتِ اسلامی
ان میں سے عربیّت کو آپ ثانوی لازمی زبان کی حیثیت دیجیے۔ دوسری زبانوں میں سے کسی کی تعلیم اگر طلبہ حاصل کرنا چاہیں تو ٹیوٹرس کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر کالج میں جو زبان ذریعۂ تعلیم ہے اس کے بعد عربی زبان ہی لازمی ہونی چاہیے۔ اگر نصاب اچھا ہو اور پڑھانے والے آزمودہ کار ہوں تو انٹرمیڈیٹ کے دو سالوں میں طلبہ میں اتنی استعداد پیدا کی جا سکتی ہے کہ وہ بی۔اے میں پہنچ کر قرآن کریم کی تعلیم خود قرآن کی زبان میں حاصل کر سکیں۔
قرآن کے لیے کسی تفسیر کی حاجت نہیں۔ ایک اعلیٰ درجہ کا پروفیسر کافی ہے جس نے قرآن کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا ہو اور جو طرزِ جدید پر قرآن پڑھانے اور سمجھانے کی اہلیّت رکھتا ہو۔ وہ اپنے لیکچروں سے انٹرمیڈیٹ میں طلبہ کے اندر قرآن فہمی کی ضروری استعداد پیدا کر دے گا پھر بی اے میں انھیں پورا قرآن اس طرح پڑھا دے گا کہ وہ عربیّت میں بھی کافی ترقی کر جائیں گے اور اسلام کی روح سے بھی بخوبی واقف ہو جائیں گے۔ ’’تعلیماتِ اسلامی‘‘ کے لیے ایک جدید کتاب لکھوانے کی ضرورت ہے جو ان مقاصد پر حاوی ہو جن کی طرف میں نے حصہ دوم کے نمبر ۵ ضمن (ج) میں اشارہ کیا ہے، کچھ عرصہ ہوا کہ میں نے خود ایک کتاب کو پیش نظر رکھ کر ایک کتاب ’’اسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی‘‘ کے عنوان سے لکھنا شروع کی تھی جس کے ابتدائی تین باب ترجمان القرآن میں محرم ۱۳۵۲ھ سے شعبان ۱۳۵۳ھ تک پرچوں میں شائع ہوئے ہیں۔ اگر اسے مفید سمجھا جائے تو مَیں اس کی تکمیل کرکے یونی ورسٹی کی نذر کر دوں گا۔
ان مضامین کے لیے کالج کی تعلیم کے موجودہ نظم میں کسی تغیر کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ عربیّت کے لیے وہی وقت کافی ہے جو آپ کے ہاں ثانوی تعلیم کے لیے ہے۔ قرآن اور تعلیماتِ اسلامیہ دونوں کے لیے باری باری سے وہی وقت کافی ہو سکتا ہے جو آپ کے دینیات کے لیے مقرر ہے۔
۳۔ زیادہ تر مشکل اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے میں پیش آئے گی جسے میں نے حصہ دوم کے نمبر (۶) و (۷) میں پیش کیا ہے۔ اس کے حل کی تین صورتیں ہیں جنھیں بتدریج اختیار کیا جا سکتا ہے۔
(الف) ایسے پروفیسر تلاش کیے جائیں (اور وہ ناپید نہیں ہیں) جو علومِ جدیدہ کے ماہر ہونے کے ساتھ قرآن اور سنت میں بھی بصیرت رکھتے ہوں، جن میں اتنی اہلیّت ہو کہ مغربی علوم کے حقائق کو ان کے نظریات کے مطابق کر سکیں۔
(ب) اسلامی فلسفۂ قانون، اُصولِ قانون وفلسفہ تشریع، سیاسیات، عمرانیات، معاشیات وفلسفہ اور تاریخ وغیرہ کے متعلق عربی، اردو، انگریزی، جرمن اور فرنچ زبانوں میں جس قدر لٹریچر موجود ہے اس کی چھان بین کی جائے۔ جو کتابیں بعینہٖ لینے کے قابل ہوں، ان کا انتخاب کر لیا جائے اور جنھیں اقتباس یا حذف یا ترمیم کے ساتھ کارآمد بنایا جا سکتا ہو، انھیں اسی طریق پر لایا جائے۔ اس غرض کے لیے اہلِ علم کی خاص جمعیت مقرر کرنا ہو گی۔
(ج) چند ایسے فضلا کی خدمات حاصل کی جائیں جو مذکورہ بالا علوم پر جدید کتابیں تالیف کریں، خصوصیّت کے ساتھ اصولِ فقہ، احکامِ فقہ، اسلامی معاشیات، اسلام کے اصولِ عمران اور حکمتِ قرآنیہ پر جدید کتابیں لکھنا بہت ضروری ہے کیوں کہ قدیم کتابیں اب درس وتدریس کے لیے کارآمد نہیں ہیں۔ اربابِ اجتہاد کے لیے تو بلاشبہ ان میں بہت اچھا مواد مل سکتا ہے مگر انھیں جوں کا توں لے کر موجودہ زمانے کے طلبہ کو پڑھانا بالکل بے سود ہے۔
اس میں شک نہیں کہ سرِدست ان تینوں تدبیروں سے وہ مقصد بہ درجہ کمال حاصل نہ ہو گا جو ہمارے پیشِ نظر ہے۔ بلاشبہ اس تعمیرِ جدید میں بہت کچھ نقائص پائے جائیں گے لیکن اس سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں، یہ صحیح راستہ پر پہلا قدم ہو گا۔ اس میں جو کوتاہیاں رہ جائیں گی انھیں بعد کی نسلیں پورا کریں گی۔ یہاں تک کہ اس کے تکمیلی ثمرات کم از کم پچاس سال بعد ظاہر ہوں گے۔
۴۔ اسلامی ریسرچ کا شعبہ قائم کرنے کا ابھی موقع نہیں۔ اس کی نوبت چند سال بعد آئے گی۔ اس لیے اس کے متعلق تجاویز پیش کرنا قبل از وقت ہے۔
۵۔ میری تجویز میں فرقی اختلافات کی گنجائش بہت کم ہے۔ تاہم اس باب میں علمائے شیعہ سے استصواب کر لیا جائے کہ وہ کس حد تک اس طرزِ تعلیم میں شیعہ طلبا کو سنی طلبہ کے ساتھ رکھنا پسند کریں گے اگر وہ چاہیں تو شیعہ طلبہ کے لیے خود کوئی اسکیم مرتب کریں مگر مناسب یہ ہو گا کہ جہاں تک ہو سکے تعلیم میں فروعی اختلافات کو کم از کم جگہ دی جائے اور مختلف فرقوں کی آیندہ نسلوں کو اسلام کے مشترک اُصول ومبادی کے تحت تربیت کیا جائے۔
۶۔ سر محمد یعقوب کے اس خیال سے مجھے پورا اتفاق ہے کہ وقتاً فوقتاً علما وفضلا کو اہم مسائل پر لیکچر دینے کے لیے دعوت دی جاتی رہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ علی گڑھ کو نہ صرف ہندوستان کا بلکہ تمام دنیائے اسلام کا دماغی مرکز بنا دیا جائے۔ آپ اکابر ہندوستان کے علاوہ مصر، شام، ایران، ترکی اور یورپ کے مسلمان فضلا کو بھی دعوت دیجیے کہ یہاں آ کر اپنے خیالات، تجربات ، اور نتائجِ تحقیق سے ہمارے طلبہ میں روشنیٔ فکر اور رو حِ حیات پیدا کریں۔ اس قسم کے خطبات کافی معاوضہ دے کر لکھوائے جانے چاہییں، تاکہ وہ کافی وقت، محنت اور غوروفکر کے ساتھ لکھے جائیں اوران کی اشاعت نہ صرف یونی ورسٹی کے طلبہ کے لیے بلکہ عام تعلیم یافتہ پبلک کے لیے بھی مفید ہو۔
۷۔ اسلامی تعلیم کے لیے ایک زبان کو مخصوص کرنا درست نہیں۔ اردو، عربی اور انگریزی تینوں زبانوں میں سے کسی ایک زبان میں اس وقت نصاب کے لیے کافی سامان موجود نہیں۔ لہٰذا سرِدست ان میں سے جس زبان میں بھی جو مفید چیز مل جائے اسے اسی زبان میں پڑھانا چاہیے۔ دینیات اور علومِ اسلامیہ کے معلمین سب کے سب ایسے ہونے چاہییں جو انگریزی اور عربی دونوں زبانیں جانتے ہوں۔ اب کوئی یک رخا آدمی صحیح معلّم دینیات نہیں ہو سکتا۔
مَیں اپنے بیان کی اس طوالت پر عذر خواہ ہوں مگر اتنی طویل تفصیل میرے لیے ناگزیر تھی کیوں کہ میں بالکل ایک نئے راستہ کی طرف دعوت دے رہا ہوں جس کے نشانات کو پہچاننے میں خود مجھے غور وفکر کے کئی سال صرف کرنا پڑے ہیں۔ میں حتماً اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مسلمانوں کے مستقل قومی وجود اور ان کی تہذیب کے باقی رہنے کی اب کوئی صورت بجز اس کے نہیں ہے کہ ان کے طرزِ تعلیم وتربیت میں انقلاب پیدا کیا جائے، اور وہ انقلاب ان خطوط پر ہوجو میں نے آپ کے سامنے پیش کیے ہیں۔ میں اس سے بے خبر نہیں ہوں کہ ایک بڑی جماعت ایسے لوگوں کی موجود ہے اور خود علی گڑھ میں ان کی کمی نہیں جو میرے ان خیالات کو دیوانے کا خواب کہیں گے، اگر ایسا ہو تو مجھے کوئی تعجب نہیں ہو گا۔ پیچھے دیکھنے والوں نے آگے دیکھنے والوں کو اکثر دیوانہ ہی سمجھا ہے اور ایسا سمجھنے میں وہ حق بجانب ہیں۔ لیکن جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں چند سال بعد شاید میری زندگی ہی میں وہ اسے بچشم سر دیکھیں گے اور انھیں اس وقت اصلاحِ حال کی ضرورت محسوس ہو گی جب طوفان سر پر ہو گا اور تلافیٔ مافات کے مواقع کم تر رہ جائیں گے۔
٭…٭…٭…٭…٭

باب سوم: خطبہ تقسیم اَسناد

(کچھ مدت ہوئی ایک اسلامیہ کالج کے جلسۂ تقسیم اسناد (convocation) میں مولانا سید ابو الا علیٰ مودودیؒ کو خطبہ دینے کی دعوت دی گئی تھی۔ اس موقع پر آپ نے جو کچھ فرمایا تھا اسے فائدہ عام کی خاطر ان صفحات میں نقل کر دیا گیا ہے۔ یہاں اس بات کی داد نہ دینا ظلم ہو گا کہ جس تلخ صاف گوئی سے مولانا موصوف نے اپنے خطبہ میں کام لیا ہے اسے وہاں نہایت ٹھنڈے دل سے سنا گیا اور بہتوں نے صداقت کا اعتراف بھی کیا۔ کالج کے پرنسپل ایک ایسے صاحب تھے جو موجودہ زمانے کے ’’ترقی پسندوں‘‘ کی صف اوّل میں ہیں، مولانا کے نقطہِ نظر سے انھیں سخت اختلاف ہونا ہی چاہیے، لیکن اپنی ’’ترقی پسندی‘‘ کے ایک کھلے دشمن کو دعوت دینے والے وہ خود ہی تھے اور اس کی تلخ گفتاری کو بھی سب سے زیادہ خندہ پیشانی کے ساتھ انھوں نے ہی سنا۔ اگرچہ ایسی ہی بلکہ اس سے زیادہ تلخ صداقتیں ان دارالعلوموں میں بھی جا کر کہنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، جہاں مسلمانوں کو نوخیز نسلوں کے ساتھ اس سے بدتر معاملہ ہو رہا ہے۔ لیکن یہ واقعہ ہے کہ سوٹوں میں لاکھوں عیب کے باوجود جتنے بڑے دل چھپے ہوئے ہیں، جبوں میں اتنے بڑے دل بھی نہیں ہیں۔ جو کچھ ایک کالج میں کہہ ڈالا گیا، اس کا بیسواں حصہ بھی دارالعلوم میں اس سے زیادہ ادب کے ساتھ دست بستہ بھی عرض کیا جاتا تو جان چھڑانا مشکل ہو جاتی)
فاضل اساتذہ، معزز حاضرین اور عزیز طلبہ
آپ کے اس جلسۂ تقسیمِ اسناد (قدیم اصطلاح کے مطابق جلسہ دستار بندی) میں مجھے اپنے خیالات کے اظہار کا جو موقع دیا گیا ہے اس کے لیے میں حقیقتاً بہت شکر گزار ہوں۔ حقیقتاً کا لفظ میں خصوصیّت کے ساتھ اس لیے بول رہا ہوں کہ یہ شکر گزاری رسمی نہیں بلکہ حقیقی ہے اور گہرے جذبۂ قدر شناسی پر مبنی ہے۔ جس نظامِ تعلیم کے تحت آپ کا یہ عالی شان ادارہ قائم ہے اور جس کے تحت تعلیم پا کر آپ کے کام یاب طلبہ سند فراغ حاصل کر رہے ہیں، میں اس کا سخت دشمن ہوں اور میری دشمنی کسی ایسے شخص سے چھپی ہوئی نہیں جو مجھے جانتا ہے۔ اس امر واقعی کے معلوم ومعروف ہونے کے باوجود جب یہاں اس تقریب پر مجھے خطبہ عرض کرنے کے لیے مدعو کیا گیا ہے تو فطری بات تھی کہ میرا دل ایسے لوگوں کے لیے قدر واعتراف کے جذبہ سے بھر جائے جو اپنے طریقِ کار کے دشمن کی باتیں سننے کے لیے بھی اپنے قلب میں کافی وسعت رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ مجھے آپ کی اس مہربانی کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے کہ آپ نے مجھے عین اس وقت اپنی قوم کے ان نوجوانوں سے خطاب کرنے کا موقع دیا ہے جب کہ یہ آپ سے رخصت ہوکر ہماری عملی زندگی کے میدان میں آنے والے ہیں۔
معزز سامعین، اب مجھے اجازت دیجیے کہ مَیں تھوڑی دیر کے لیے آپ کی طرف سے رُخ پھیر کر اپنے عزیزوں سے مخاطب ہو جائوں جو آج یہاں سے ڈگری لے رہے ہیں کیوں کہ وقت کم ہے اور ؎
غریبِ شہر سخن ہائے گفتنی دارد
عزیزانِ من! آپ نے یہاں اپنی زندگی کے بہت سے قیمتی سال صرف کرکے تعلیم حاصل کی ہے۔ بڑی امنگوں کے ساتھ آپ اس وقت کا انتظار کر رہے تھے جب کہ آپ کو اپنی محنتوں کا پھل ایک ڈگری کی صورت میں یہاں سے ملنے والا ہے۔ ایسے موقع پر جسے آپ اپنے نزدیک مبارک موقع سمجھتے ہوں گے، آپ کے جذبات کی نزاکت کا مجھے پورا احساس ہے اور اسی لیے آپ کے سامنے اپنے خیالات کا صاف صاف اظہار کرتے ہوئے میرا دل دکھتا ہے۔ مگر میں آپ سے خیانت کروں گا اگر محض نمائشی طور پر آپ کے جذبات کی رعایت کرکے وہ بات آپ سے نہ کہوں جو میرے نزدیک سچی ہے اور جس سے آپ کو آگاہ کرنا اس وقت اور اسی وقت میں ضروری سمجھتا ہوں کیوں کہ اس وقت آپ اپنی زندگی کے ایک مرحلہ سے گزر کر دوسرے مرحلے کی طرف جا رہے ہیں۔ دراصل میں آپ کی اس مادر تعلیمی کو اور مخصوص طور پر اسی کو نہیں بلکہ ایسی تمام مادرانِ تعلیم کو درس گاہ کی بجائے قتل گاہ سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک آپ فی الواقع یہاں قتل کیے جاتے رہے ہیں اور یہ ڈگریاں جو آپ کو ملنے والی ہیں، یہ دراصل موت کے صداقت نامے (death certificates) ہیں جو قاتل کی طرف سے آپ کو اس وقت دیے جا رہے ہیں جبکہ وہ اپنی حد تک اس بات کا اطمینان کر چکا ہے کہ اس نے آپ کی گردن کا تسمہ تک لگا رہنے نہیں دیا۔ اب یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ اس منضبط اور منظم قتل گاہ سے بھی جان سلامت لے کر نکل آئیں۔ میں یہاں اس صداقت نامہِ موت کے حصول پرآپ کو مبارک باد دینے نہیں آیا ہوں بلکہ آپ کا ہم قوم ہونے کی وجہ سے جو ہم دردی قدرتی طور پر میں آپ کے ساتھ رکھتا ہوں وہ مجھے یہاں کھینچ لائی ہے۔ میری مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے بھائی بندوں کا قتلِ عام ہو چکنے کے بعد لاشوں کے ڈھیر میں یہ ڈھونڈتا پھرتا ہو کہ کہاں کوئی سخت جان بسمل ابھی سانس لے رہا ہے۔
یقین جانیے یہ بات میں مبالغہ کی راہ سے نہیں کہہ رہا ہوں، اخباری زبان میں ’’سنسنی‘‘ پیدا کرنا نہیں چاہتا، فی الواقع اس نظامِ تعلیم کے متعلق میرا نقطۂ نظر یہی ہے اور اگر میں آپ کو تفصیل کے ساتھ بتائوں کہ میں کیوں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں تو کیا عجب کہ آپ خود بھی مجھ سے اتفاق کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
شاید آپ میں سے ہر شخص اس بات کوجانتا ہو گا کہ اگر کوئی پودا ایک جگہ سے اکھاڑ کر کسی دوسری جگہ لگا دیا جائے جہاں کی زمین، آب وہوا، موسم ہر چیز اس کی طبیعت کے خلاف ہو، تو وہ وہاں کبھی جڑ نہ پکڑ سکے گا، یہ دُوسری بات ہے کہ مصنوعی طور پر اس کے لیے وہی حالات پیدا کر دیے جائیں جو اس کی قدرتی جائے پیدائش میں تھے۔ لیکن ظاہر ہے کہ لیبارٹری کی مصنوعی زندگی ہر پودے کو تمام عمر کے لیے میّسر نہیں آ سکتی۔ اس غیر معمولی صورت حال کو نظر انداز کر دینے کے بعد یہ کہنا بالکل صحیح ہو گا کہ کسی پودے کو اس کی اصل جائے پیدائش سے اکھاڑنا اور ایک مختلف قسم کے ماحول میں لے جا کر لگا دینا دراصل اسے ہلاک کر دینا ہے۔
اچھا اب ذرا اس بد قسمت پودے کی حالت کا اندازہ کیجیے جو اپنی زمین سے اکھاڑا نہیں گیا، اپنے ماحول سے نکالا بھی نہیں گیا، وہی زمین ہے، وہی آب وہوا، وہی موسم ہے جس میں وہ پیدا ہوا تھا، مگر سائنٹفک طریقوں سے خود اس کے اندر ایسی تبدیلی پیدا کر دی گئی کہ وہیں اپنی ہی جائے پیدائش میں اس کی طبیعت اس زمین، اس آب وہوا اور اس موسم سے بے لگائو اور بیگانہ ہو کر رہ گئی۔ اور وہ اس قابل نہ رہا کہ اس میں اپنی جڑیں پھیلا سکے۔ اس ہوا اور پانی سے غذا حاصل کر سکے اور اس موسم میں پھل پھول سکے، اس اندرونی تغیر کی وجہ سے وہ بعینہٖ ایسا ہو گیا جیسے کسی دوسری زمین کا پودا ہے اور اجنبی ماحول میں لا کر لگا دیا گیا ہے۔ اب وہ اس کا محتاج ہو گیا ہے کہ اس کے گرد مصنوعی فضا تیار کی جائے اور مصنوعی طور پر اس کی زندگی کا سامان کیا جائے۔ یہ لیبارٹری کی زندگی اگر اسے بہم نہ پہنچے تو وہ جہاں پیدا ہوا تھا وہیں کھڑے کھڑے زمین چھوڑ دے گا اور مرجھا کر رہ جائے گا۔
پہلا فعل یعنی ایک پودے کو اکھاڑ کر اجنبی ماحول میں لگانا چھوٹے درجہ کا ظلم ہے اور دوسرا فعل یعنی ایک پودے کو اسی جگہ جہاں وہ پیدا ہوا ہے اپنے ماحول سے اجنبی بنا دینا اس سے عظیم تر ظلم ہے۔ اور جب ایک دو نہیں لاکھوں پودوں کے ساتھ یہی سلوک کیا جا رہا ہو اور اتنے کثیر التعداد پودوں کے لیے لیبارٹری کی مصنوعی فضا بہم پہنچانا محال ہو تو بے جا نہ ہو گا اگر اسے ظلم کی بجائے قتلِ عام کہا جائے۔
حقیقی صورتِ حال کا جو مطالعہ میں نے کیا ہے وہ مجھے بتاتا ہے کہ ان درس گاہوں میں آپ کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے۔ آپ ہندستان کی سرزمین میں مسلم سوسائٹی کے اندر پیدا ہوئے۔ یہی زمین، یہی تمدنی آب وہوا اور یہی تہذیبی ماحول ہے جس کی پیداوار آپ ہیں۔ آپ کے نشوونما پانے اور پھل پھول لانے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ اسی زمین میں جڑیں پھیلائیں اور اسی آب وہوا سے زندگی کی طاقت حاصل کریں۔ اس ماحول سے آپ کو جتنی زیادہ مناسبت ہو گی اسی قدر زیادہ بالیدگی آپ کو نصیب ہو گی اور اسی قدر زیادہ اس چمن کی بہار میں اضافہ کریں گے۔ مگر واقعہ کیا ہے؟ یہاں جو تعلیم اور تربیت آپ کو ملتی ہے جو ذہنیّت آپ کے اندر پیدا ہوتی ہے، جو خیالات، جذبات اور داعیات آپ کے اندر پرورش پاتے ہیں، جوعادات واطوار اور خصائل آپ میں راسخ ہوتے ہیں اور جس طرزِ فکر، رنگ، طبیعت اور طریقِ زندگی کے سانچے میں آ پ ڈھالے جاتے ہیں کیا وہ سب مل جل کر اس زمین، اس آب وہوا اور اس موسم سے مناسبت بھی آپ کے اندر باقی رہنے دیتے ہیں؟ یہ زبان جو آپ بولتے ہیں، یہ لباس جو آپ پہنتے ہیں، یہ طرزِ زندگی جو آپ اختیار کرتے ہیں، یہ نظریات اور افکار جو آپ اس تعلیم سے حاصل کرتے ہیں، ان سب چیزوں کو آخر کون سا لگائو آپ کے ان کروڑوں بھائیوں کے ساتھ ہے جن کے درمیان آپ کا جینا اورمر نا ہے، اور اس تمدن کے ساتھ جو آپ کے چاروں طرف چھایا ہوا ہے۔ آپ کی شخصیت اس ماحول میں کس قدر بیگانہ ہے اور ماحول آپ کی شخصیت کے لیے کتنا اجنبی ہے؟ کاش آپ کے اندر اتنی حِس باقی رہنے دی گئی ہوتی کہ اس بیگانگی اور اس کی اذیّت کو محسوس کر سکتے۔
آپ اتنا تو بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ خام اشیا کو صنعت او ر کاری گری سے تیار کرنے کا مدعا یہی ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے لیے کار آمد اور مفید بن سکیں، جو چیز اس طرح تیار کی گئی ہو کہ اسے یہ مدعا حاصل نہ ہو سکے، وہ خود بھی ضائع ہوئی اور اس پر کاری گری بھی فضول صرف کی گئی۔ کپڑے پر خیاطی کی قابلیت اسی لیے صرف کی جاتی ہے کہ جسم پر وہ راست آئے، یہ بات حاصل نہ ہوئی تو اس کاری گری نے کپڑے کو بنایا نہیں، بگاڑ دیا۔ خام جنس پر طباخی کا فن صرف کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ کھانے کے قابل ہوجائے۔ اگر وہ کھانے ہی کے قابل نہ ہوئی تو باورچی نے اسے ضائع کیا نہ کہ بنایا، بالکل اسی طرح تعلیم کا مدعا بھی یہ ہوتا ہے کہ سوسائٹی میں جن نئے انسانوں نے جنم لیا ہے اور جو جبلی صلاحتیں (potentialities) ابھی خام حالت میں ہیں انھیں بنا سنوار کر اور بہتر طریقہ پرنشوونما دے کر اس قابل بنا دیا جائے کہ جس سوسائٹی نے انھیں جنم دیا ہے وہ اس کے مفید اور کارآمد فرد بن سکیں اور اس کی زندگی کے لیے بالیدگی اور فلاح وترقی کا ذریعہ ہوں۔ مگر جو تعلیم افراد کو اپنی سوسائٹی اور اس کی حقیقی زندگی سے اجنبی بنا دے، اس کے حق میں اس کے سوا آپ اور کیا فتوٰی دے سکتے ہیں کہ وہ افراد کو بناتی نہیں بلکہ ضائع کرتی ہے؟ ہر قوم کے بچے دراصل اس کے مستقبل کا محضر ہوتے ہیں، قدرت کی طرف سے یہ محضر ایک لوحِ سادہ کی شکل میں آتا ہے اور قوم کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ خود اس پر اپنے مستقبل کا فیصلہ لکھے۔ہم وہ دیوالیا قوم ہیں جو اس محضر پر اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کی بجائے اسے دوسروں کے حوالے کر دیتے ہیں کہ وہ اس پر جو چاہیں ثبت کر دیں خواہ وہ ہماری اپنی موت ہی کا فتوٰی کیوں نہ ہو۔
جب آپ کوئی کپڑا سلواتے ہیں اور وہ آپ کے جسم پر راست نہیں آتا تو مجبورًا اسے مارکیٹ میں لے جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اونے پونے بیچ کر کچھ دام ہی سیدھے کر لیں۔ اگر کپڑا کوئی ذی شعور ہستی ہو تو وہ خود بھی اپنا کوئی مصرف اس کے سوا نہیں سوچ سکتا کہ کہیں نہ کہیں اس کے سے ناپ اور اس کی سی تراش خراش کے کپڑے کی مانگ ہو تو وہ وہاں کھپ جائے جب تک کسی جسم پر وہ راست نہ آئے گا، نیلام گھروں اور کباڑ خانوں میں مارا مارا پھرتا رہے گا۔ ایسا ہی حال ان لوگوں کا بھی ہے جو ان درس گاہوں سے تیار ہو کر نکلتے ہیں۔ جس سوسائٹی نے انھیں تیار کرایا ہے اس کے پاس جب یہ تیار ہو کر واپس پہنچتے ہیں تو وہ بھی محسوس کرتی ہے اور یہ خود بھی محسوس کرتے ہیں کہ اس کے تمدن اور اس کی زندگی کے لیے ٹھیک نہیں بنے۔ جس طرح معدہ اس غذا کو قبول نہیں کرتا جو اس کے لیے مناسب نہ ہو، اسی طرح سوسائٹی بھی طبعی طور پر ان افراد کو اپنے اندر کھپا نہیں سکتی جو اس کے لیے مناسب نہ ہوں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انھیں اپنے کسی کام کا نہ پا کر نیلام کے لیے پیش کر دیتی ہے اور یہ خود بھی اپنی زندگی کا کوئی مصرف اس کے سوا نہیں سمجھتے کہ کہیں بِک جائیں۔ آپ غور تو کیجیے کس قدر خسارے میں ہے وہ قوم جو اپنی بہترین انسانی متاع دوسروں کے ہاتھ بیچتی ہے؟ ہم وہ ہیں جو انسان دے کر جوتی، کپڑا اور روٹی حاصل کرتے ہیں! قدرت نے جو انسانی طاقت (man power) اور دماغی طاقت (brain power) ہمیں خود ہمارے اپنے کام کے لیے دی تھی وہ دوسروں کے کام آتی ہے۔ ان کے ہٹے کٹے جسموں میں جو قوت بھری ہوئی ہے ان بڑے سروں میں جو قابلیتیں بھری ہوئی ہیں، ان چوڑے چکلے سینوں میں جو دل طرح طرح کی طاقتیں رکھتے ہیں جنھیں خدا نے ہمارے لیے عطا کیا تھا، ان میں سے بمشکل ایک دو فی صدی ہمارے کام آتے ہیں، باقی سب کو دوسرے خرید لے جاتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ اس خسارے کی تجارت کو ہم بڑی کام یابی سمجھ رہے ہیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارا اصل سرمایہ زندگی تو یہی انسانی طاقت ہے، اس لیے اسے بیچنا نفع کا سودا نہیں بلکہ سراسر ٹوٹا ہے۔
مجھے بکثرت ایسے نوجوانوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے جو اعلیٰ تعلیم پا رہے ہیں یا تازہ تازہ فارغ ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے میں یہ تحقیق کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ انھوں نے اپنی زندگی کا کوئی مقصد بھی معیّن کیا ہے یا نہیں۔ مگر میری مایوسی کی انتہا نہیں رہتی جب میں دیکھتا ہوں کہ مشکل سے ہزاروں میں کوئی ایک ایسا ملتا ہے جو اپنے سامنے زندگی کا کوئی مقصد رکھتا ہو بلکہ بیش تر اصحاب ایسے ہیں جن کے ذہن میں اس امر کا سرے سے کوئی تصوّر ہی نہیں ہے کہ انسانی زندگی کا کوئی مقصد بھی ہونا چاہیے یا ہو سکتا ہے۔ مقصد کے سوال کو وہ محض ایک فلسفیانہ یا شاعرانہ مسئلہ سمجھتے ہیں اور عملی حیثیت سے یہ طے کرنے کی ضرورت کوئی انھیں محسوس نہیں ہوتی کہ آخر دنیا کی زندگی میں ہماری کوششوں اور محنتوں کا ہماری دوڑ دھوپ کا کوئی منتہا (goal) اور کوئی مقصود بھی ہونا چاہیے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی یہ حالت دیکھ کر میرا سر چکرانے لگتا ہے۔ میں حیران ہو کر سوچنے لگتا ہوں کہ اس نظام تعلیم کو کس نام سے یاد کروں، جو پندرہ بیس سال کی مسلسل دماغی تربیت کے بعد بھی انسان کو اس قابل نہیں بناتا کہ وہ اپنی قابلیتوں کا کوئی مصرف اور اپنی کوششوں کا کوئی مقصود متعین کر سکے۔ بلکہ زندگی کے لیے کسی نصب العین کی ضرورت ہی محسوس کر سکے، یہ انسانیت کو بنانے والی تعلیم ہے یا اسے قتل کرنے والی؟ بے مقصد (aimless) زندگی بسر کرنا تو حیوانات کا کام ہے۔ اگر آدمی بھی صرف اس لیے جیے کہ جینا ہے اور اپنی قوتوں کا مصرف بقائے نفس اور تناسل کے سوا کچھ نہ سمجھے تو آخر اس میں اور دوسرے حیوانات میں کیا فرق باقی رہا۔
میری اس تنقید کا یہ مدعا ہرگز نہیں ہے کہ آپ کو ملامت کروں۔ ملامت تو قصوروار کو کی جاتی ہے اورآپ قصور وار نہیں بلکہ مظلوم ہیں۔ اس لیے میں دراصل آپ کی ہم دردی میں یہ سب کچھ کہہ رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اب جو آپ زندگی کے عملی میدان میں قدم رکھنے کے لیے جا رہے ہیں تو پوری طرح اپناجائزہ لے کردیکھ لیں کہ فی الواقع اس مرحلہ پر آپ کس پوزیشن میں ہیں، آپ ملّتِ اسلام کے افراد ہیں۔ یہ ملت کوئی نسلی قومیّت نہیں ہے کہ جو اس میں پیدا ہوا ہو، وہ آپ سے آپ مسلم ہو۔ یہ محض ایک تمدنی گروہ (cultural group) کا نام بھی نہیں ہے جس کے ساتھ محض معاشرتی حیثیت سے وابستہ ہونا مسلم ہونے کے لیے کافی ہو۔ دراصل اسلام ایک مخصوص نظامِ فکر (ideology) کا نام ہے، جس کی بنیاد پر تمدنی زندگی اپنے تمام شعبوں اور پہلوئوں کے ساتھ تعمیر ہوتی ہے۔ اس ملت کی بقا بالکل اس بات پر منحصر ہے کہ جو افراد اس میں شامل ہوں وہ اس کے نظامِ فکر کو سمجھتے ہوں، اس کی روح سے آشنا ہوں اور اپنی تمدنی زندگی کے ہر شعبہ میں اس روح کی عملی تفسیر وتعبیر پیش کرنے پر قادر ہوں۔ خصوصیّت کے ساتھ ملّت کے اہلِ دماغ طبقہ (intelligentia) کے لیے تو سب سے بڑھ کر اس علم وفہم اور اس عمل کی ضرورت ہے کیوں کہ یہی طبقہ ملت کا راہ نما اور پیش رو ہے۔ اگرچہ ہر قوم اور ہر گروہ کو اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس کا اہلِ دماغ طبقہ اس کی مخصوص قومی تہذیب کے رنگ میں پوری طرح رنگا ہوا ہو، لیکن ملّتِ اسلام کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کیوں کہ یہاں ہماری انفرادیت کی اساس نہ خاک ہے نہ خون، نہ رنگ ہے، نہ زبان نہ کوئی اور مادّی چیز، بلکہ صرف اسلام ہے۔ ہمارے زندہ رہنے اور ترقی کرنے کی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ ہماری ملت کے افراد اور خصوصاً اہل دماغ طبقے، اسلامی طرزِ فکر اور اسلامی طرزِ عمل کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں، اس لحاظ سے ان کی تعلیم اور تربیت میں جتنی اور جیسی کم زوری ہو گی، اس کا عکس ہماری ملت کی زندگی میں جوں کا توں نمودار ہو گا، اور اگر وہ اس سے بالکل خالی ہوں تو یہ دراصل ہماری موت کا نشان ہو گا۔
یہ وہ حقیقت ہے جس سے یہاں کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ مگر کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ موجودہ نظامِ تعلیم میں ملّت اسلام کے نونہالوں کی تعلیم وتربیت کے لیے جو انتظام کیا جاتا ہے، وہ دراصل انھیں اس ملت کی پیشوائی کے لیے نہیں بلکہ اس کی غارت گری کے لیے تیار کرتا ہے؟ ان درس گاہوں میں آپ کو فلسفہ، سائنس، معاشیات، قانون، سیاسیات، تاریخ اور دوسرے وہ تمام علوم پڑھائے جاتے ہیں جن کی مارکیٹ میں مانگ ہے، مگر آپ کو اسلام کے فلسفے، اسلام کی تاریخ اور فلسفۂ تاریخ کی ہوا تک نہیں لگنے پاتی۔ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے، آپ کے ذہن میں زندگی کا پورا نقشہ اپنے تمام جزئیات اور تمام پہلوئوں کے ساتھ بالکل غیر اسلامی خطوط پر بنتا ہے۔ آپ غیر اسلامی طرز پر سوچنے لگتے ہیں، غیر اسلامی نقطۂ نظر زندگی کے ہر معاملہ کو دیکھتے ہیں اور دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کیوں کہ اسلامی نقطۂ نظر کبھی آپ کے سامنے آتا ہی نہیں، منتشر طور پر کچھ معلومات اسلام کے متعلق آپ تک پہنچتی ہیں مگر وہ غیر مستند اور بسا اوقات غلط اوہام وخرافات کے ساتھ ملی جلی ہوتی ہیں۔ ان معلومات سے اس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا کہ آپ ذہنی طور پر اسلام سے زیادہ بعید ہو جاتے ہیں۔ آپ میں سے جو لوگ محض آبائی مذہب ہونے کی وجہ سے اسلام کے ساتھ گہری عقیدت رکھتے ہیں وہ دماغی طور پر غیر مسلم ہو جانے کے باوجود کسی نہ کسی طرح اپنے دل کو سمجھاتے رہتے ہیں کہ اسلام حق تو ضرور ہو گا اگرچہ سمجھ میں نہیں آتا اور جو لوگ اس عقیدت سے بھی خالی ہوچکے ہیں وہ اسلام پر اعتراض کرنے اور اس کا مذاق اڑانے سے بھی نہیں چوکتے۔
اس قسم کی تعلیم پانے کے ساتھ عملاً جو تربیت آپ کو میسر آتی ہے جس ماحول میں آپ گھرے رہتے ہیں، اور عملی زندگی کے جن نمونوں سے آپ کو واسطہ پیش آتا ہے ان میں مشکل ہی سے کہیں اسلامی کیریکٹر اور اسلامی طرزِ عمل کا نشان پایا جاتا ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کو نہ علمی حیثیت سے اسلام کی واقفیت بہم پہنچائی گئی ہو۔ نہ عملی حیثیت سے اسلامی تربیت دی گئی ہو، وہ فرشتے تو نہیں ہیں کہ خود بخود مسلمان بن کر اٹھیں، ان پر وحی نازل تو نہیں ہوتی کہ خود بخود ان کے دل میں علمِ دین ڈال دیا جائے۔ وہ پانی اور ہوا سے تو اسلامی تربیت اخذ نہیں کر سکتے، اگر وہ فکر اور عمل دونوں حیثیتوں سے غیر اسلامی شان رکھتے ہیں تو یہ ان کا قصور نہیں بلکہ ان درس گاہوں کا قصور ہے جوموجودہ نظامِ تعلیم کے تحت قائم کی گئی ہیں۔ درحقیقت یہ میرا وجدان ہے، جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ان درس گاہوں میں دراصل آپ کو ذبح کیا جاتا ہے اور اس ملّت کی قبر کھودی جاتی ہے جس کے نونہال آپ ہیں۔ آپ نے جس سوسائٹی میں جنم لیا ہے جس کے خرچ پر تعلیم پائی ہے، جس کی فلاح کے ساتھ آپ کی فلاح اور جس کی زندگی کے ساتھ آپ کی زندگی وابستہ ہے، اس کے لیے آپ بے کار بنا کر رکھ دیے گئے ہیں۔ آپ کو صرف یہی نہیں کہ اس کی فلاح کے لیے کام کرنے کے قابل نہیں بنایا گیا بلکہ دراصل آپ کو باضابطہ اور منظم طریقہ پرایسا بنا دیا گیا ہے کہ بِلا ارادہ آپ کی ہر حرکت اس ملّت کے لیے فتنۂ سامان ہو، حتّٰی کہ آپ اس خیر خواہی کے لیے بھی کچھ کرنا چاہیں تو وہ اس کے حق میں مضر ثابت ہو، اس لیے کہ آپ اس کی فطرت سے بے خبر اور اس کے ابتدائی اصولوں تک سے بیگانہ رکھے گئے ہیں اور آپ کی پوری دماغی تربیت اس نقشہ پر کی گئی ہے جو ملّتِ اسلام کے نقشہ کے بالکل برعکس ہے۔
اپنی اس پوزیشن کو اگر سمجھ لیں اور اگر آپ کو پوری طرح احساس ہو جائے کہ فی الواقع کس قدر خطرناک حالت کو پہنچا کر اب آپ کو کارزارِ زندگی کی طرف جانے کے لیے چھوڑا جا رہا ہے تو مجھے یقین ہے کہ آپ کچھ نہ کچھ تلافیٔ مافات کی کوشش ضرور کریں گے۔ پوری تلافی تو شاید اب بہت ہی مشکل ہے تاہم میں آپ کو تین باتوں کا مشورہ دوں گا جن سے آپ کافی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
۱۔ جہاں تک ممکن ہو عربی زبان سیکھنے کی کوشش کیجیے، کیوں کہ اسلام کا ماخذِ اصلی یعنی قرآن اسی زبان میں ہے اور اسے جب تک آپ اس کی اپنی زبان میں نہ پڑھیں گے اسلام کا نظامِ فکر کبھی آپ کی سمجھ میں پوری طرح نہ آ سکے گا۔ عربی زبان کی تعلیم کا پرانا ہول ناک طریقہ اب غیر ضروری ہو گیا ہے۔ جدید طرزِ تعلیم سے آپ چھے مہینے میں اتنی عربی سیکھ سکتے ہیں کہ قرآن کی عبارت سمجھنے لگیں۔
۲۔ قرآن مجید، سیرتِ رسولؐ اور صحابہ کرامؓ کی زندگی کا مطالعہ اسلام کو سمجھنے کے لیے ناگزیر ہے، جہاں آپ نے اپنی زندگی کے ۱۲۔۱۵ سال دوسری چیزوں کے پڑھنے میں ضائع کیے ہیں وہاں اس سے آدھا بلکہ چوتھائی وقت ہی اس چیز کے سمجھنے میں صرف کر دیجیے جس پر آپ کی ملت کی اساس قائم ہے اور جسے جانے بغیر آپ اس ملت کے کسی کام نہیں آ سکتے۔
۳۔ جو کچھ بھلی یابُری رائے آپ نے ناکافی اور منتشر معلومات کی بنا پر اسلام کے متعلق قائم کر رکھی ہے، اس سے اپنے ذہن کو خالی کرکے اس کا باقاعدہ مطالعہ (systematic study) کیجیے۔ پھر جس رائے پر بھی آپ پہنچیں گے وہ قابل وقعت ہو گی۔ تعلیم یافتہ آدمیوں کے لیے یہ کسی طرح موزوں نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کے متعلق کافی معلومات حاصل کیے بغیر کام کریں۔ اب میں اس دعا کے ساتھ اپنا یہ خطبہ ختم کرتا ہوں کہ اللّٰہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے اور آپ کو اس خطرے سے بچائے جس میں آپ پھنسا دیے گئے ہیں۔
٭…٭…٭…٭…٭

باب چہارم: نیا نظامِ تعلیم

(یہ خطبہ ۵ ۔جنوری ۱۹۴۱ء کو دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ کی انجمنِ اتحادِ طلبہ کے سامنے پڑھا گیا)
حضرات! خوش قسمتی سے آج مجھے اس جگہ اپنے خیالات کے اظہار کا موقع مل رہا ہے جہاں موجودہ دور میں سب سے پہلے اسلامی نظامِ تعلیم کی اصلاح کا خیال پیدا ہوا اور سب سے پہلا قدم اس کی طرف اُٹھایا گیا۔ اسی وجہ سے مَیں نے اس موقع کے لیے تعلیمی اصلاح ہی کے سوال کو اپنا موضوعِ بحث منتخب کر لیا ہے۔ میرے اس انتخاب میں ایک بڑا محرک یہ بھی ہے کہ اس وقت ہماری دینی درس گاہوں میں عموماً اصلاح کے مسئلے پر گفتگو چھڑی ہوئی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ضرورت کا احساس تو پیدا ہو گیا ہے مگر جس انداز سے یہ ساری گفتگو ہو رہی ہے، اس سے صاف عیاں ہے کہ اصلاح کی خواہش کرنے والے کے ذہن میں مسئلہ کی نوعیت کا کوئی واضح تصوّر نہیں ہے۔ لوگ اس گمان میں ہیں کہ پرانی تعلیم میں خرابی صرف اتنی ہے کہ نصاب بہت پرانا ہو گیا ہے اور اس میں بعض علوم کا عنصر بعض علوم سے کم یا زیادہ ہے اور جدید زمانہ کے بعض ضروری علوم اس میں شامل نہیں ہیں۔ اس لیے اصلاح کی ساری بحث صرف اس حد تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے کہ کچھ کتابوں کو نصاب سے خارج کرکے دوسری کتابوں کو داخل کر دیا جائے ،عناصر تعلیمی کے تناسب میں ترمیم کرکے بعض اجزا گھٹائے اور بعض بڑھائے جائیں اور قدیم علوم کے ساتھ تاریخ، جغرافیہ، معاشیات اور سیاسیات وغیرہ علوم کی کچھ کتابیں طلبہ کو پڑھائی جائیں۔ ایسی ہی کچھ جزوی ترمیمات، طرزِ تعلیم اورانتظامِ مدارس میں بھی تجویز کی جاتی ہیں اور بہت زیادہ ’’روشن خیالی‘‘ پر جو لوگ اتر آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ صاحب ہر مولوی کو میٹرک تک انگریزی پڑھا کر نکالو تاکہ کم از کم پڑھنے اور لکھنے کے قابل تو ہو جائے۔ لیکن یہ جدّت جو آج دکھائی جا رہی ہے، یہ اب بہت پرانی ہو چکی ہے۔ اس کی عمر اتنی ہی ہے جتنی آپ کے دارالعلوم ندوۃ العلما کی عمر ہے۔ اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ پہلے سے کچھ زیادہ کام یاب قسم کے مولوی پیدا ہو جائیں، جو کچھ جرمنی اور امریکا کی باتیں بھی کرنے لگیں۔ اس ذرا سی اصلاح کا نتیجہ یہ کبھی نہیں نکل سکتا کہ دنیا کی امامت وقیادت کی باگیں علمائے اسلام کے ہاتھ میں آ جائیں، اور وہ دُنیا جو آج آگ کی طرف چلانے والے ائمہ (leaders) کے پیچھے چل رہی ہے۔ جنت کی طرف بلانے والے ائمہ کی راہ بری قبول کرنے پر مجبور ہو جائے۔ یہ نتیجہ اگر حاصل کرنا مقصود ہو تو آپ کو مکمل انقلابی اصلاحات کے لیے تیار ہونا پڑے گا اور اس سارے نظامِ تعلیم کو ادھیڑ کر از سر نو ایک دوسرا ہی نظامِ تعلیم بنانا ہو گا۔ اس صحبت میں اس نئے نظامِ تعلیم کا نقشہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔
علم اور امامت کارشتہ
سب سے پہلے یہ امر غور طلب ہے کہ اس دنیا میں امامت و قیادت (leadership) کا مدار آخر ہے کس چیز پر؟ کیا چیز ہے جس کی بِنا پر کبھی مصر امام بنتا ہے اوردنیا اس کے پیچھے چلتی ہے، کبھی بابل امام بنتا ہے اور دنیا اس کی پیروی کرتی ہے، کبھی یونان امام بنتا ہے اور دنیا اس کا اتباع کرتی ہے، کبھی اسلام قبول کرنے والی اقوام امام بنتی ہیں اور دنیا ان کے نقشِ قدم پر ہو لیتی ہے اور کبھی یورپ امام بنتا ہے اور دنیا اس کی متبع بن جاتی ہے؟ پھر وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے امامت آج ایک کو ملتی ہے، کل اس سے چھن کر دوسرے کی طرف چلی جاتی ہے اور پرسوں اس سے بھی سلب ہو کر تیسرے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے؟ کیا یہ محض ایک بے ضابطہ اتفاقی امر ہے یا اس کا کوئی ضابطہ اور اصل مقرر بھی ہے؟ اس مسئلہ پر جتنا زیادہ غور کیا جائے اس کا جواب یہی ملتا ہے کہ ہاں اس کا ضابطہ ہے اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ امامت کا دامن ہمیشہ علم سے وابستہ رہے گا۔ انسان کو بحیثیت ایک نوع کے زمین کی خلافت ملی ہی علم کی وجہ سے ہے۔ اسے سمع، بصر اور فواد تین چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو دوسری مخلوقات ارضی کو یا تو نہیں دی گئیں یا اس کی بہ نسبت کم تر دی گئی ہیں، اس لیے وہ اس بات کا اہل ہوا کہ دوسری مخلوقات پر خداوند عالم کا خلیفہ بنایا جائے۔ اب خود اس نوع میں سے طبقہ یا گروہ علم کی صفت میں دوسرے طبقوں اور گروہوں سے آگے بڑھ جائے گا وہ اسی طرح ان سب کا امام بنے گا جس طرح انسان من حیث النوع دوسری انواعِ ارضی پر اسی چیز کی وجہ سے خلیفہ بننے کا اہل ہوا ہے۔
تقسیمِ امامت کا ضابطہ
اس جواب سے خود بخود دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ علم سے مراد کیا ہے؟ اور اس میں آگے بڑھنے اور پیچھے رہ جانے کا مفہوم کیا ہے؟ اس مسئلہ کا حل سمع، بصر اور فواد ہی کے الفاظ میں پوشیدہ ہے۔ کلامِ الٰہی میں تینوں لفظ مجرد سننے، دیکھنے اور سوچنے کے معنی میں استعمال نہیں ہوئے ہیں بلکہ سمع سے مراد دوسروں کی فراہم کردہ معلومات حاصل کرنا ہے۔ بصر سے مراد خود مشاہدہ کرکے واقفیّت بہم پہنچانا ہے اور فواد سے مراد ان دونوں ذرائع سے حاصل کی ہوئی معلومات کو مرتب کرکے نتائج اخذ کرنا ہے۔ یہی تین چیزیں مل کر وہ علم بنتا ہے جس کی قابلیّت انسان کو دی گئی ہے۔ برسبیل اطلاق اگر دیکھا جائے تو تمام انسان ان تینوں قوتوں سے کام لے رہے ہیں اور اسی وجہ سے مخلوقات ارضی پر خلیفانہ تسلّط ہر انسان کو حاصل ہے، ذرا زیادہ تفصیل کے ساتھ دیکھیے گا تو معلوم ہو گا کہ جو انسان انفرادی طور پر ان تینوں قوتوں سے کام لے رہے ہیں، وہ پست اور مغلوب رہتے ہیں، انھیں تابع اور مطیع بن کر رہنا پڑتا ہے، ان کا کام پیچھے چلنا ہوتا ہے، بخلاف اس کے جو ان تینوں سے زیادہ کام لیتے ہیں وہ برتر وغالب ہوتے ہیں، متبوع اور مطاع بنتے ہیں، راہ نمائی اور پیشوائی انھی کے حصے میں آتی ہے مگر امامت ملنے اور چھننے کا ضابطہ معلوم کرنے کے لیے آپ کو اس سے بھی زیادہ تفصیلی نگاہ ڈالنا ہو گی۔ اس تفصیلی نگاہ میں آپ کو یہ حقیقت نظر آئے گی کہ ایک گروہ انسانوں کا امامِ وقت بنتا ہے جب وہ ایک طرف ان معلومات کا زیادہ سے زیادہ حصہ جمع کرتا ہے جو ماضی اور حال کے انسانوں سے حاصل ہو سکتی ہیں۔ دوسری طرف خود اپنے مشاہدے سے مزید معلومات فراہم کرنے میں لگا رہتا ہے۔ تیسری طرف ان دونوں قسم کی معلومات کو مرتب کرکے ان سے نتائج اخذ کرتا ہے اور پھر ان نتائج سے کام لیتا ہے۔ پہلے کی جو چیزیں غلط… کم از کم اس کے اخذ کردہ نتائج کے لحاظ سے غلط ثابت ہوتی ہیں ان کی اصلاح کرتا ہے۔ پہلے کی جن چیزوں کا نقص کم از کم اس کے فہم کے لحاظ سے… اس پر کھلتا ہے، ان کی تکمیل کرتا ہے اور جو نئی چیزیں علم میں آتی ہیں ان سے اپنی حد وسع تک زیادہ سے زیادہ کام لینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ صفات جب تک اس گروہ میں تمام دوسرے انسانی گروہوں سے زیادہ رہتی ہیں، وہی پوری نوع کا امام ہوتا ہے اور جو ان صفات کے اعتبار سے کم تر ہوتے ہیں ان کے لیے اللّٰہ کی ان مٹ تقدیر یہ ہے کہ وہ اس کی اطاعت بھی کریں اور اتباع بھی، اگر قسمت کی یاوری نے اطاعت سے بچا بھی لیا تو ان کے لیے اتباع سے تو کوئی مفر نہیں ہوتا، خواہ جان بوجھ کر بالارادہ کریں، خواہ بے جانے بوجھے اضطرارًا کریں۔ اس دور ِعروج کے بعد جب اس گروہ کے زوال کا وقت آتا ہے تو وہ تھک کر اور اپنے کیے ہوئے کام کو کافی سمجھ کر مشاہدے سے مزید معلومات حاصل کرنے اور فواد سے مزید اخذِ نتائج کی کوشش چھوڑ دیتا ہے اور اس کا تمام سرمایہ علمی صرف سمع سے حاصل شدہ معلومات تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ اب اس کے لیے علم کے معنی صرف جاننے کے ہو جاتے ہیں کہ پہلے جو معلومات حاصل کی گئی تھیں اور جو نتائج اخذ کیے گئے تھے وہ کیا تھے۔ اب وہ غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ جو علم پہلے حاصل کیا جا چکا ہے وہ کافی ہے۔ اس میں کسی اضافہ کی گنجائش نہیں۔ پہلے جو نتائج اخذ کیے جا چکے ہیں وہ صحیح ہیں۔ ان میں کسی اصلاح وترقی کا موقع نہیں۔ پہلے جتنی تعمیر ہو چکی ہے وہ مکمل ہے۔ نہ اس میں ترمیم کی جا سکتی ہے اور نہ اس سے آگے مزید تعمیر ہی ممکن ہے۔ اس مرحلہ پر پہنچ کر یہ گروہ خود امامت سے ہٹ جاتا ہے اور نہ ہٹنا چاہے تو زبردستی ہٹا دیا جاتا ہے۔ پھر جو دوسرا گروہ مزید اکتسابِ علم، مزید اخذِ نتائج اور مزید تعمیرِ حیات کا عزم لے کر آگے بڑھتا ہے، امامت وقیادت اس کا حصہ ہوتی ہے اور وہ صاحب جو پہلے امام تھے اب مقتدی بنتے ہیں جو پہلے مطاع ومتبوع تھے اب مطیع وتابع بنتے ہیں جو پہلے جیتے جاگتے علم کے مالک اور استاد بنے ہوئے تھے اب عجائب خانۂ آثارِ قدیمہ میں بھیج دیے جاتے ہیں تاکہ بیٹھے علومِ اوائل کی تشریح کرتے رہیں۔
موجودہ اسلامی نظامِ تعلیم کا بنیادی نقص
اس مختصر بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امامت خواہ وہ آگ کی طرف لے جانے والی ہو یا جنت کی طرف، بہرحال اس گروہ کا حصہ ہے جو سمع وبصر وفواد کو تمام انسانی گروہوں سے بڑھ کر استعمال کرے۔ یہ انسان کے حق میں اللّٰہ کا بنایا ہوا اٹل ضابطہ ہے اور اس میں کوئی رو رعایت نہیں ہے۔ کوئی گروہ خدا شناس ہو یا ناخدا شناس، بہرحال وہ یہ شرط پوری کرے گا تو دنیا کا امام بن جائے گا اور نہ کرے گا تو مقتدی ہی نہیں بلکہ اکثر حالات میں مطیع بھی بننے سے نہ بچ سکے گا۔
آپ کو جس چیز نے امامت کے منصب سے ہٹایا اور ناخدا شناس اہل مغرب کو اس پر لا بٹھایا، وہ دراصل یہی ضابطہ ہے۔ آپ کے ہاں مدت ہائے دراز سے علم کی جو حالت تھی اس میں بصر و فواد دونوں معطل تھے اور سمع کا کام بھی صرف پہلے کی حاصل شدہ معلومات فراہم کرنے تک محدود تھا۔ بخلاف اس کے… ناخدا شناس یورپ علم کے میدان میں آگے بڑھا اور اس نے سمع سے بھی آپ سے بڑھ کر کام لیا اور بصر و فواد کا کام پچھلی ڈھائی تین صدیوں میں تمام تر اسی نے انجام دیا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا تھا اور یہی ہوا کہ وہ امام بن گیا اور آپ مقتدی بن کر رہ گئے۔ آپ کی دینی تعلیم کے تمام مراکز ابھی تک اپنی اس غلطی پر اڑے ہوئے ہیں جس نے آپ کو اس درجہ پر پہنچایاہے۔ ان کے ہاں علم محض علومِ اوائل کے پڑھانے تک محدود ہے۔ ندوہ اور ازہر نے اصلاح کی طرف قدم بڑھایا مگر اس کا ماحصل صرف اس قدر ہے کہ سمع کا دائرہ حال کی معلومات تک بڑھا دیا جائے۔ بصر اور فواد پھر بھی معطل ہی رہے۔ اس علم کا فائدہ زیادہ سے زیادہ اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ آپ گھٹیا قسم کے نہ سہی بڑھیا قسم کے مقتدی بن جائیں۔ امامت بہرحال آپ کو نہیں مل سکتی۔ اس وقت تک جتنی اصلاحی تجویزیں میری نظر سے گزری ہیں وہ سب کی سب بہتر مقتدی بنانے والی ہیں۔ امام بنانے والی کوئی تجویز ابھی تک نہیں سوچی گئی۔ حالانکہ دنیا کی واحد خدا شناس جماعت ہونے کی وجہ سے آپ پر جو فرض عائد ہوتا ہے آپ اسے انجام نہیں دے سکتے، جب تک آپ ناخدا شناس لوگوں سے دنیا کی امامت کا منصب چھین کر خود اس پر قبضہ نہ کریں اور اس کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ آپ مجرد سماعی علم پر قناعت کا خیال چھوڑ دیں اور بصر وفواد سے نہ صرف کام لیں بلکہ اس میں دنیا کے تمام گروہوں پر فوقیت لے جائیں۔
کس قسم کی اصلاح درکار ہے؟
یہ جو میں نے عرض کیا ہے کہ دنیا کی واحد خداشناس جماعت ہونے کی حیثیت سے آپ پر جو فرض عائد ہوتا ہے اسے آپ انجام نہیں دے سکتے،جب تک یہ کام نہ کریں۔ یہ دراصل میری اس تمام بحث کا مرکزی نقطہ ہے اس لیے میں اس کی مزید تشریح کروں گا۔ اگر محض ایک انسانی گروہ ہونے کی حیثیت سے مطلقاً امام بننے کا سوال ہو تب تو آپ کو کسی اصلاح، تعلیم یا تجدیدِ نظامِ تعلیمی کی ضرورت نہیں۔ سیدھا راستہ کھلا ہوا ہے کہ علی گڑھ یونی ورسٹی یا مصر وایران وترکی کی سرکاری یونی ورسٹیوں کے طرزِ تعلیم کے میدان میں پیش قدمی فرمائیے اور اسی قسم کی امامت کے لیے امیدوار بن جائیے جیسی اس وقت یورپ اور امریکا کو حاصل ہے اورجس کے لیے اب جاپان مسابقت کر رہا ہے۔ مگر خدا شناس گروہ ہونے کی حیثیت سے آپ کی یہ پوزیشن نہیں ہے۔ آپ کی یہ پوزیشن ہرگز نہیں ہے کہ آپ محض اپنے لیے امامت چاہتے ہوں، خواہ وہ امامت داعیہ الی النار ہو یا داعیہ الی الجنۃ۔ یورپ سے آپ کا جھگڑا اس بات پر نہیں ہے کہ دنیا کا امام نہ رہے۔ اس کی جگہ آپ امام ہو جائیں۔ بلکہ اس سے آپ کا جھگڑا اصول اور مقصد کا جھگڑا ہے وہ ناخدا شناسی بلکہ خدا سے بغاوت اور طغیان کی بِنا پر دنیا کی امامت کر رہا ہے اور آگ کی طرف ساری دنیا کو لے جا رہا ہے۔ بخلاف اس کے آپ خدا شناس گروہِ انسانی ہیں۔ خدا کی اطاعت پر آپ کے مسلک کی بنیاد ہے۔ آپ کے ایمان کی رو سے آپ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ نہ صرف خود آگ کے راستہ سے بچ کر جنت کے راستہ پر جائیں بلکہ دنیا کو بھی اسی راستہ پر چلائیں اور یہ فرض آپ اس وقت تک انجام نہیں دے سکتے ہیں۔ جب تک کہ آپ اس سے امامت چھین کر خود امام نہ بنیں۔ یہاں سوال نسلی یا جغرافیائی نہیں خالص اصولی ہے۔ ناخدا شناسی کی امامت اگر ترک یا ایرانی یا مصری یا ہندوستانی کی ہو تو وہ بھی اسی طرح مٹا دینے کے قابل ہے جس طرح فرنگی یا جاپانی کی۔ اورخدا شناسی کی بنیاد پر جو امامت ہو وہی مطلوب ہے خواہ اس کے علم بردار ہندی ہوں یا فرنگی ہوں یا کوئی اور۔
ناخدا شناس امامت کے نتائج
کسی امامت کے داعی الجنۃ یا داعی الی النار ہونے کا مدار اس کے خدا شناس یا نا خداشناس ہونے پر ہے ۔ جب کوئی ایسا گروہ جو خدا شناس نہ ہو اپنے عملِ اجتہاد کی بدولت دنیا کا امام بن جاتا ہے تو وہ تمام سمعی وبصری معلومات کو اس نقطۂ نظر سے جمع کرتا ہے ا ور اسی نقطۂ نظر کے مطابق انھیں مرتّب کرتا ہے کہ کائنات کا کوئی خدا نہیں ہے، انسان محض ایک غیر مسئول (irresponsible) ہستی ہے۔ دنیا کی جو چیزیں اس کے لیے مسخر ہیں وہ سب اس کی مِلک ہیں۔ جن سے کام لینے کا مقصد اور طریقہ متعین کرنے میں وہ خود مختار محض ہے اور اس کی تمام سعی وجہد کا منتہائے مقصود اس کے سوا کچھ نہیں کہ اپنی خواہشاتِ نفس کی خدمت کرے۔ معلومات کی اس اساس پر مرتب ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حکمتِ نظری اور حکمتِ عملی دونوں کی نشوونما خدا پرستی کی بالکل مخالف سمت میں ہوتا ہے۔ یہی حکمت تمام دنیا کے قلوب واذہان پر چھا جاتی ہے۔ اسی سے خالص مادہ پرستانہ اخلاقیات پیدا ہوتے ہیں، اسی پر انسان اور انسان کے درمیان تعلق کے تمام ضابطے بنتے ہیں۔ اسی کے مطابق انسان اپنی حاصل شدہ قوتوں کا مصرف متعین کرتا ہے اور فی الجملہ ساری انسانی زندگی کا بہائو اسی راستہ کی طرف چل پڑتا ہے جس کی آخری منزلوں پر پہنچ کر اس دنیا ہی سے عذابِ جہنم کی ابتدا ہو جاتی ہے جیسا کہ آج آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ نا خداشناس حکمت جب تک دنیا کے افکار، اخلاق، تمدن ہر چیز پر چھائی رہتی ہے، خدا شناسی کے نقطۂ نظر اور اس اخلاق وتمدن کے لیے جو اس نقطۂ نظر پرمبنی ہو، زمین وآسمان کے درمیان کوئی جگہ نہیں رہتی، لوگوں کے سوچنے کا انداز اس کے خلاف ہوتا ہے۔ طبائع کی افتاد اور مزاجوں کی پسند اس کے خلاف ہوتی ہے۔ انسانی معلومات کی بگڑی ہوئی ترتیب اس کے خلاف شہادت دیتی ہے۔ اخلاق کے سارے اصول اور قدر وقیمت کے سارے معیار اس سے منحرف ہو جاتے ہیں، زندگی کے تمام ضابطے اور انسانی سعی وعمل کے سارے ہنگامے اسے اپنے درمیان جگہ دینے سے انکار کر دیتے ہیں اور اس صورتِ حال میں صرف یہی نہیں ہوتا کہ خدا پرستی کے مسلک کی ہر چیز دنیا میں نامقبول اورنامعقول ہو کر رہ جاتی ہے، بلکہ خود وہ لوگ جو اس مسلک کی پیروی کا دعوٰی کرتے ہیں فی الواقع اس کی پیروی نہیں کر سکتے۔ زندگی کے دریا کا بہائو زبردستی کھینچ کر انھیں اپنے راستے پر لے جاتا ہے اور اس کے خلاف زیادہ سے زیادہ کش مکش وہ بس اتنی ہی کر سکتے ہیں کہ سر کے بل بہنے کی بجائے احتجاجاً پائوں کے بَل بہیں۔
جو گروہ خیالات کے میدان میں امام بنتا ہے اور کائنات فطرت کی طاقتوں کو اپنے علم سے مسخر کرکے ان سے کام لیتا ہے۔ اس کی امامت صرف خیالات ہی کے عالم تک محدود نہیں رہتی بلکہ زندگی کے پورے دائرے پر چھا جاتی ہے۔ زمین پر اس کا تسلّط ہوتا ہے۔ رزق کی کنجیاں اس کے قبضہ میں ہوتی ہیں۔ حاکمانہ اختیارات اسے حاصل ہوتے ہیں۔ اس لیے انسانی حیاتِ اجتماعی کا سارا کاروبار اس ڈھنگ اور اس نقشے پر چلنے لگتا ہے جس پر وہ گروہ اپنی ذہنیت اور اپنے زاویۂ نظر کے مطابق اسے چلانا چاہتا ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ اگر وہ گروہ جسے یہ تسلّط دنیا اور اس کے معاملات پر حاصل ہے، خدا سے پھرا ہوا ہو تو اس حیطۂ اقتدار میں رہتے ہوئے کوئی ایسا گروہ پنپ نہیں سکتا جو خدا کی طرف پھرنا چاہتا ہو۔ جس گاڑی میں آپ بیٹھے ہوئے ہیں اگر اس کا ڈرائیور اسے کلکتے کی طرف لے جا رہا ہو تو آپ کراچی کی طرف جا ہی کب سکتے ہیں۔ چار وناچار آپ کو اُسی طرف جانا پڑے گا جدھر ڈرائیور جانا چاہتا ہے۔ آپ بہت بگڑیں گے تو اتنا کر لیں گے کہ اسی گاڑی میں بیٹھے ہوئے اپنا رخ کلکتے سے کراچی کی طرف پھیر لیں اور برضا و رغبت نہ سہی کشاں کشاں اس منزل پر جا پہنچیں جو آپ کی منزلِ مقصود کے عین مخالف سمت میں واقع ہے۔
موجودہ صورتِ حال
یہی صورتِ حال فی الواقع اس وقت درپیش ہے۔ آپ کے امامت سے ہٹنے کے بعد یورپ نے علم کے میدان میں پیش قدمی کی تو ناگزیر اسباب نے اس کی نگاہ کا زاویہ خدا سے بیزاری (theophobia) کی طرف پھیر دیا۔ اسی نقطہ نظر سے اس نے تمام سمعی معلومات کو جمع کیا، اسی نقطۂ نظر سے اس نے آثارِ کائنات کا مشاہدہ کیا۔ اسی نقطۂ نظر سے اس نے معلومات کو مرتّب کرکے نتائج اخذ کیے۔
اسی نقطہ نظر سے اس نے زندگی کے مقاصد، اخلاق کے اصول، تمدن کے ضوابط اور انفرادی واجتماعی برتائو کے ڈھنگ متعین کیے اور اسی نقطۂ نظر سے اس نے تمام قوتوں کے مصرف تجویز کیے جو اسے تحقیق واجتہاد کی بدولت حاصل ہوئی تھیں۔ پھر جب اس علم کے زور پر وہ اٹھا تو ایک طرف زمینیں کی زمینیں اور قومیں کی قومیں اس کے آگے مسخر ہوتی چلی گئیں اور دوسری طرف وہی علم، وہی ذہنیت، وہی مقاصد، وہی فکری ساخت، وہی اخلاقی روش، وہی تمدنی قواعد وضبواط، غرض وہی سب کچھ جو اس امامِ غالب کے پاس تھا تمام دنیا پر چھا گیا۔ اب حال یہ ہے کہ ایک بچہ جب سے ہوش سنبھالتا ہے اسی وقت سے اس کے ذہن اور اس کی زندگی کی تعمیر اس نقشہ پر ہونے لگتی ہے جو یورپ کی امامت نے بنایا ہے۔ سمعی معلومات اسی ترتیب سے اس کے دماغ میں اترتی ہیں۔ مشاہدے کے لیے وہی نقطۂ نظر اسے ملتا ہے۔ نتائج اخذ کرنے کی ساری تربیت اسی طرز پر اسے حاصل ہوتی ہے۔ حق وباطل، صحیح وغلط، مقبول اور مردود کی تعیین کے لیے وہی معیار اسے میّسر آتا ہے، اخلاق کے وہی اصول، زندگی کے وہی مقاصد اور سعی وعمل کے وہی راستے اس کے سامنے روشن ہوتے ہیں، اپنے گرد وپیش زندگی کا سارا کارخانہ اسی ڈھنگ پر اسے چلتا ہوا ملتا ہے اور جب وہ اس طرح پروان چڑھنے کے بعد چراگاہِ حیات میں حصہ لینے کے لیے تیار ہوتا ہے تو چوں کہ یہی ایک مشین دنیا میں چل رہی ہے اور کوئی دوسری مشین چلنے والی موجود نہیں ہے اس لیے اسی کا پرزہ اسے بن جانا پڑتا ہے۔ ناخدا شناس تہذیب وتمدن کے اس کامل تسلّط میں اوّل تو یہی سخت مشکل ہے کہ خدا پرستانہ نظریہ حیات، مقصدِ زندگی اور اصولِ اخلاق کو دلوں اور دماغوں میں راہ مل سکے کیوں کہ علوم وفنون کی ساری ترتیب اور زندگی کی روش اس کے بالکل برعکس سمت میں پھری ہوئی ہے لیکن اگر کچھ لوگ ایسے بھی نکل آئیں جن کے ذہن میں یہ تخم جڑ پکڑ لے تب بھی گرد وپیش کی پوری فضا اسے غذا دینے سے انکار کر دیتی ہے اسے نہ کہیں علوم سے تائید ملتی ہے، نہ زندگی کے بنے اور جمے ہوئے نقشے اس کا ساتھ دیتے ہیں، نہ دنیا کے چلتے ہوئے معاملات ہی میں کہیں اس کی جگہ نظر آتی ہے۔ جس قدر معلومات گزشتہ پانچ سو برس کی مدت میں انسان کو حاصل ہوئی ہیں، ان کومرتّب کرنے اور ان سے نتائج اخذ کرنے کا سارا کام ناخداشناس لوگوں نے کیا ہے۔ خدا پرستی کے نقطہ نظر سے ان کی ترتیب کا اور اخذِ نتائج کا کوئی کام ہوا ہی نہیں۔ فطرت کی جو طاقتیں اس دوران میں انسان کے لیے مسخر ہوئیں اور قوانینِ طبعی کی مزید دریافت سے جو فوائد حاصل ہوئے ہیں، ان سے بھی خدا پرستوں نے نہیں بلکہ خدا کے باغیوں نے کام لیا۔ اس لیے ناگزیر تھا کہ تمدنِ انسانی میں ان سب کا مصرف وہی مقرر ہوتا جو ان کے مقاصد ِزندگی اور اصولِ اخلاق کے مناسب حال تھا۔ اسی طرح اجتماعی معاملات کی تنظیم کے جتنے فطری خاکے اور عملی طریقے اس دوران میں سوچے اور عملاً چلائے گئے ان سب کے سوچنے اور چلانے والے وہ دماغ اور وہ ہاتھ نہ تھے جن پر خدا پرستی کا مسلک کارفرماں روا ہوتا بلکہ وہ تھے جو خدا کی اطاعت سے منحرف تھے اس لیے نظریات اور عملیات کے میدان پر آج سارے کے سارے وہی نقشے چھائے ہوئے ہیں جو انھوں نے بنائے ہیں اور ایسا کوئی نقشہ جو خدا پرستانہ مسلک کی بنیاد پر بنا ہو تو کیا موجود ہوتا، نظریہ کی شکل میںبھی ایسی ترتیب کے ساتھ مرتّب نہیں ہے جوآج کے حالات سے ربط رکھتا ہو اور جس میں آج کے مسائلِ حیات کا پورا پورا حل مل سکے۔ اب اگر اس مسلک پر اعتقاد رکھنے والا کوئی شخص راہب بن کر دنیا اور اس کی زندگی سے الگ تھلگ کسی گوشے میں جا بیٹھے اور پانچ سو برس پہلے کی فضا اپنے اوپر طاری کر لے تب تو بات دوسری ہے۔ ورنہ اس دنیا کے معاملات میں ایک زندہ انسان کی حیثیت سے حصہ لینے کی صورت میں تو قدم قدم پر اس کے لیے مشکلات ہی مشکلات ہیں اپنے مسلک میں نیک نیت اور صحیح الاعتقاد ہونے کے باوجود بارہا وہ دانستہ ان فکری اورعملی راہوں پر چل پڑتا ہے جو اس کے مسلک سے بالکل مختلف ہیں۔نئی معلومات جب اس کے سامنے آتی ہیں تو اس کے لیے سخت دشوار ہوتا ہے کہ حقائق (facts) کو ان ناخداشناس لوگوں کے نقطۂ نظر اور اخذ کردہ نتائج سے الگ کر سکے جنھوں نے ان کی دریافت ترتیب اور استنتاج کا سارا کام انجام دیا ہے۔ اس لیے اکثر وہ اس طرح حقائق کے ساتھ ان کے نظریات اور نتائج کو بھی ہضم کر جاتا ہے کہ اسے اس امر کا شعور تک نہیں ہوتا کہ امرت کے ساتھ کتنا زہر اس کے اندر اتر گیا۔ اسی طرح زندگی کے معاملات سے جب اسے واسطہ پیش آتا ہے تو وہ سخت مشکل میں پڑ جاتا ہے کہ کون سی راہ اختیار کرے۔ بہت سے اجتماعی نظریات جو فی الاصل اس کے مسلک کے خلاف ہیں، اس کے دل ودماغ پر زبردستی چھا جاتے ہیں کیوں کہ دنیا میں ہر طرف چلن ہی ان کا ہے۔ بہت سے عملی طریقوں کو غلط سمجھنے کے باوجود محض اس بنا پر وہ اختیار کرتا ہے کہ ان سے ہٹ کر وہ کوئی دوسری راہ سوچ نہیں سکتا اور بہت سی غلط راہوں پر اسے مجبورًا چلنا پڑتا ہے کہ ان پر چلے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
انقلابِ امامت کے لیے انقلابِ تعلیم ناگزیر ہے
حضرات یہ ہے وہ صورتِ حال جس میں اس وقت آپ مبتلا ہیں۔ مَیں نے اس صورتِ حال کا جو تجزیہ کیا ہے اگر اس میں کوئی غلطی آپ پاتے ہیں تو براہ کرم مجھے بھی اس سے آگاہ کریں تاکہ اس پر نظرثانی کر سکوں لیکن اگر یہ تجزیہ صحیح ہے تو اس سے حسبِ ذیل نتائج نکلتے ہیں:
اولاً: ناخدا شناس ائمہ کی امامت میں رہ کر خداشناسی وخدا پرستی کا مسلک زندہ نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا جو کوئی اس مسلک پر اعتقاد رکھتا ہو اس کے عین ایمان واعتقاد کا اقتضا یہ ہے کہ اس امامت کو مٹانے اور خدا شناس امامت کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔
ثانیاً: جونظامِ تعلیم محض پرانے سمعی علوم کی حد تک محدود ہے۔ اس میں یہ طاقت ہرگز نہیں ہے کہ امامت میں اتنا بڑا انقلاب پرپا کرنے کے لیے آپ کو تیار کرسکے۔ لہٰذا اگر آپ اس پر راضی ہوں کہ خدا پرستی کا مسلک بتدریج مٹتے مٹتے دنیا سے فنا ہو جائے تب تو شوق سے اس نظامِ تعلیم پر جمے رہیں ورنہ اسے آپ کو بدلنا ہو گا۔
ثالثاً: جو نظامِ تعلیم تمام علوم کو اسی ترتیب اور اسی زاویہِ نظر سے لیتا ہے جو خدا شناس ائمہ کی تربیت اور ان کا زاویہ نظر ہے اور جو اس تمدنی مشین کا پرزہ بننے کے لیے انسانوں کو تیار کرتا ہے جو ائمہ ضلال نے بنائی ہے، وہ دراصل ارتداد کا مجرب نسخہ ہے اس سے بڑھ کر کوئی فریب نہیں ہو سکتا کہ اس نوعیت کی کسی تعلیم گاہ پر مسلم یونی ورسٹی یا اسلامیہ کالج یا اسلامیہ ہائی اسکول کے الفاظ کا اطلاق کیا جائے اور اس تعلیم کے ساتھ دینیات کے کسی کورس کو الگ سے جوڑ دینا ۹۵ فی صدی توبالکل ہی لاحاصل ہے اور ۵ فی صدی فائدہ اگر اس سے حاصل ہو بھی سکتا ہے تو وہ بیش ازیں نیست کہ لوگ کچھ مدت تک کفر کے راستے پر خدا کا نام لیتے ہوئے چلتے رہیں۔
رابعاً: اصلاحِ تعلیم کا یہ لائحہ کہ علوم اسلامی کے ساتھ نئے علوم کا جوڑ لگایا جائے یہ بھی امامت میں انقلاب پیدا کرنے کے لیے آپ کو تیار نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ فلسفہ، سائنس، تاریخ، سیاست، معاشیات، اور دوسرے علوم جو اس وقت مدون ومرتب صورت میں آپ کو ملتے ہیں وہ سب کے سب ناخدا شناس لوگوں کی فکر وتحقیق کا نتیجہ ہیں اور ان کی ترتیب وتدوین میں اس گروہ کا نقطۂ نظر اس طرح پیوست ہے کہ حقائقِ واقعہ کو نظریات اور اوہام وتعصّبات اور اہوا ورجحانات سے الگ چھانٹ لینا اور خدا پرستی کے نقطۂ نظر سے انھیں بطور خود مرتب کرکے دوسرے نظریات قائم کرنا، نہ ہر طالب علم کے بس کی بات ہے نہ ہر استاد کے بس کی۔ اب اگر آپ ایک طرف پرانے علوم کو پرانی ترتیب کے ساتھ اور نئے علوم کو اس خاص ترتیب کے ساتھ جو اس وقت پائی جاتی ہے، ملا کر پڑھائیں گے تو ان دو متضاد طاقتوں کے میل سے عجیب وغریب قسم کے مرکبات پیدا ہوں گے، کوئی پرانے علوم سے مغلوب ہو گا تو مولوی بن جائے گا، کوئی نئے علوم سے مفتوح ہو گا تو مسٹریّت کی طرف چلا جائے گا بلکہ ’’کامریڈیت‘‘ تک جا پہنچے گا، کوئی دونوں کے درمیان تذبذب ہو کر مضمحل ہو جائے گا۔ بہت ہی کم آدمی اس نظامِ تعلیمی سے ایسے نکل سکتے ہیں جو دونوں قسم کے علوم کو جوڑ کر کوئی صحیح مرکب بنا سکیں اور ان کا بھی اس قدر طاقت ور ہونا بہت مشکل ہے کہ اٹھ کر خیالات اور زندگی کے دھارے کو ایک طرف سے دوسری طرف پھیر دیں۔
یہ نتائج جو میں نے حالات کے تجزیہ سے اخذ کیے ہیں اگر ان میں سے کوئی غلط ہو تو میں پھر عرض کرتا ہوں کہ آپ مجھے اس سے آگاہ فرمائیں، لیکن اگر نتائج کو بھی آپ تسلیم کرتے ہیں تو اب میں کہتا ہوں کہ امامت میں انقلاب برپا کرنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ ان تینوں نظامات تعلیمی سے ہٹ کر ایک بالکل نیا نظامِ تعلیم بنایا جائے جس کا نقشہ ابتدائی تعلیم سے لے کر انتہائی مدارج تک تینوں سے مختلف ہو۔
نئے نظامِ تعلیم کا خاکہ
اس انقلابی اصلاح کی ضرورت ثابت کرنے کے بعد میں اس نظام تعلیم کا ایک خاکہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں:
پہلی خصوصیت
سب سے پہلی چیز جو اس نئے نظام میں ہونی چاہیے، وہ یہ ہے کہ دینی اور دنیوی علوم کی انفرادیت مٹا کر دونوں کو ایک جان کر دیا جائے۔
علوم کو دینی اور دنیوی دو الگ الگ قسموں میں منقسم کرنا دراصل دین اور دنیا کی علیحدگی کے تصوّر پر مبنی ہے اور یہ تصوّر بنیادی طور پر غیر اسلامی ہے۔ اسلام جس چیز کو دین کہتا ہے وہ دنیا سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ دنیا کو اس نقطۂ نظر سے دیکھنا کہ یہ اللّٰہ کی سلطنت ہے اوراپنے آپ کو یہ سمجھنا کہ ہم اللّٰہ کی رعیّت ہیں، اور دنیوی زندگی میں ہر طرح سے وہ رویہّ اختیار کرنا جو اللّٰہ کی رضا اور اس کی ہدایت کے مطابق ہو، اسی چیز کا نام دین ہے۔ اس تصورِ دین کا اقتضا یہ ہے کہ تمام دنیوی علوم کو دینی علوم بنا دیا جائے ورنہ اگر کچھ علوم دنیوی ہوں اور وہ خدا پرستی کے نقطہ نظر سے خالی رہیں اور کچھ علوم دینی ہوں اور وہ دنیوی علوم سے الگ پڑھائے جائیں تو ایک بچہ شروع ہی سے اس ذہنیت کے ساتھ پرورش پائے گا کہ دنیا کسی اور چیز کا نام ہے اور دین کسی اور چیز کا۔ اس لیے یہ دونوں دو مختلف عنصر ہوں گے اور ان کے درمیان توافق پیدا کرکے ایک ایسی ہموار زندگی بنانا اس کے لیے مشکل ہو گا جو ادخلوا فی السلم کآفۃ کی مصداق ہو سکے۔
مثال کے طور پر اگر آپ تاریخ، جغرافیہ، طبیعات، کیمیا، حیاتیات (biology) حیوانیات (zoology) ارضیات (geology) ریاضی ہیئت (astronomy) معاشیات (economics) سیاسیات اور دوسرے تمام علوم ایک شخص کو اس طرح پڑھاتے ہیں کہ اوّل سے آخر تک کسی جگہ خدا کا نام نہیں آتا، نہ آفاق وانفس کے آثار پر اس حیثیت سے نظر ڈالی جاتی ہے کہ یہ آیاتِ الٰہی ہیں، نہ قوانینِ طبعی کا ذکر اس حیثیت سے کیا جاتا ہے کہ یہ ایک حکیم کے بنائے ہوئے قوانین ہیں، نہ واقعات کی توجیہ اس حیثیت سے کی جاتی ہے کہ ان میں کسی قادر وتوانا کا ارادہ کام کر رہا ہے۔ نہ عملی علوم میں اس مقصد کا کہیں نشان پایا جاتا ہے کہ ان سے خدا کی رضا کے مطابق کام لینا ہے نہ معاملاتِ زندگی کی بحث میں اس ضابطہ کا کہیں بیان آتا ہے جو انھیں چلانے کے لیے خدا نے بنایا ہے نہ سرگزشتِ حیات میں اس کے الٰہی مبدا وغایت کی بحث کسی جگہ آتی ہے تو علوم کے اس پورے مجموعہ سے اس کے ذہن میں دنیا اور اس کی زندگی کا جو تصور پیدا ہو گا وہ خدا کے تصور سے بالکل خالی ہو گا، ہر چیز سے اس کا تعارف خدا کے بغیر ہو گا اور ہر معاملہ میں وہ اپنا راستہ خدا اور اس کی رضا سے الگ بنائے گا۔ پھر جب تمام شعبوں سے یہ نقطۂ نظر اور معلومات کی یہ ترتیب لیے ہوئے ایک شعبہ میں جا کر وہ الگ سے خدا کا ذکر سنے گا اور ان مقاصدِ زندگی اور ان قوانینِ اخلاقی اور ان ضوابط شرعی کی تعلیم حاصل کرے گا جنھیں آپ دینیات کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں تو اس کی سمجھ میں نہ آئے گا کہ اس نقشہ میں خدا کو اور اس سے تعلق رکھنے والی ان ساری چیزوں کو کہاں جگہ دوں پہلے تو اسے خدا کی ہستی کا ثبوت درکار ہو گا۔ پھر وہ اس بات کا ثبوت مانگے گا کہ مجھے اس کی ہدایت درکار بھی ہے اور اس کے پاس سے ہدایت آئی بھی ہے یا نہیں؟ اور ان سب باتوں کے بعد بھی اس کے لیے اپنی دنیوی معلومات کو اس نئی چیز کے ساتھ یک جان کرکے ہم رنگ نقشہ بنانا مشکل ہو گا۔ وہ خواہ کتنا ہی پختہ ایمان لے آئے مگر بہرحال اس کے لیے دین عین اس کی زندگی نہ ہو گا۔ بلکہ زندگی کا ایک ضمیمہ ہی بن کر رہ جائے گا۔
یہ ساری خوبی دینی اور دنیوی علوم کی تقسیم کا نتیجہ ہے اور جیسا کہ میں ابھی عرض کر چکا ہوں، یہ تقسیم بالکل اسلامی نقطۂ نظر کے خلاف ہے، نئے نظامِ تعلیم میں دینیات کے الگ کورس کی ضرورت نہیں، بلکہ سارے کورس کو دینیات کے کورس میں تبدیل کر دینا چاہیے۔ شروع ہی سے ایک بچے کو دنیا سے اس طرح روشناس کرائیے کہ گویا وہ خدا کی سلطنت میں ہے، اس کے اپنے وجود میں اور تمام آفاق میں خدا کی آیات پھیلی ہوئی ہیں، ہر چیز میں وہ خدا کی حکمت اور قدرت کے آثار دیکھ رہا ہے، اس کا اور ہر شے کا براہِ راست تعلق خداوند عالم سے ہے جو آسمانوں سے زمین تک تمام معاملاتِ دنیا کی تدبیر کر رہا ہے۔ دنیا میں جتنی قوتیں اسے حاصل ہیں اورجو اشیا اس کے لیے مسخر ہیں، سب کی سب خدا نے اسے دی ہیں۔ ان سب سے خدا کی مرضی کے مطابق اور اس کے بتائے ہوئے طریقہ پر اسے کام لینا ہے اوراپنے اس کام کی جواب دہی خدا کے سامنے اسے کرنی ہے۔
ابتدائی مراحل میں تو کوئی دوسرا نقطۂ نظر طالب علم کے سامنے آنا ہی نہیں چاہیے البتہ بعد کے مراحل میں تمام علوم اس کے سامنے اس طرح آنے چاہییں کہ معلومات کی ترتیب، حقائق کی توجیہ اور واقعات کی تعبیر تو بالکلیہ اسلامی نقطہ نظر سے ہو، مگر اس کے مخالف تمام دوسرے نظریات بھی پوری تنقید وتنقیح کے ساتھ اس حیثیت سے اس کے سامنے رکھ دیے جائیں کہ یہ ضالین اور مغضوب علیہم کے نظریات ہیں۔ اسی طرح عملی زندگی سے تعلق رکھنے والے جملہ علوم کی بنیاد میں تو مقصدِ حیات، اصولِ اخلاق، اور مناہجِ عملِ اسلام کے پیوست کیے جائیں اور دوسروں کے اصول اور طریقے اس حیثیت سے طالب علم کو پڑھائے جائیں کہ ان کی فکری اساس، منزلِ مقصود اور راہِ عمل اسلام سے کتنی اور کس کس پہلو سے مختلف ہے۔ یہ طریقہ ہے تمام علوم کودینی علوم میں تبدیل کرنے کا اور جب اس طریقہ سے تعلیم دی جائے تو ظاہر ہے کہ اس میں دینیات کے لیے کسی علیحدہ کورس کی کوئی حاجت ہی پیش نہیں آ سکتی۔
دُوسری خصوصیت
دوسری اہم خصوصیت جو اس نظامِ تعلیم میں ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ اس میں ہر طالب علم کو مجموعہ علوم بنانے اور تکمیل کے بعد ہرایک کو ’’مولانا‘‘ اور ہر ایک کو جملہ مسائل میں فتوٰی کا مجاز قرار دینے کا وہ طریقہ جو اب تک رائج ہے ختم کر دیا جائے اور اس کی جگہ اختصاصی تعلیم کا وہ طریقہ اختیار کیا جائے جو سال ہا سال کے تجربات کے بعد دنیا میں مفید پایا گیا ہے۔ انسان کا علم اب اتنی ترقی کر چکا ہے اور اتنے شعبے اس میں پیدا ہو گئے ہیں کہ کسی ایک شخص کا ان سب کو پڑھنا محال ہے اور اگر تمام علوم میں محض معمولی سی شد بد اسے کرا دی جائے تو وہ کسی شعبہ علم میں بھی کامل نہیں ہو سکتا۔ اس کی بجائے بہتر یہ ہے کہ پہلے آٹھ یا دس سال کا کورس ایسا رکھا جائے کہ ایک بچے کو دنیا، انسان اور زندگی کے متعلق جتنی معلومات کم از کم حاصل ہونی ضروری ہیں وہ اسے خالص اسلامی نقطۂ نظر سے دے دی جائیں۔ اس کے ذہن میں کائنات کا وہ تصور بیٹھ جائے جو مسلمان کا تصور ہونا چاہیے۔ زندگی کا وہ خاکہ جم جائے جو ایک مسلمان کی زندگی ہونی چاہیے۔ عملی زندگی کے متعلق وہ تمام معلومات اسے حاصل ہو جائیں جن کی ایک آدمی کو ضرورت ہوتی ہے اور وہ ان سب چیزوں کو ایک مسلمان کے طریقے پر برتنے کے لیے تیار ہوجائے، اسے اپنی مادری زبان بھی آ جائے، عربی زبان بھی وہ اتنی جان لے کہ آگے مزید مطالعہ میں اسے مدد مل سکے اور کسی ایک یورپین زبان سے بھی واقف ہو جائے تاکہ معلومات کے اس وسیع ذخیرے سے فائدہ اٹھا سکے جو ان زبانوں میں موجود ہے۔ اس کے بعد اختصاصی تعلیم کے الگ کورس ہوں جن میں چھے سات سال کی محققانہ تربیت حاصل کرکے ایک طالب علم اس شعبہ علم کا ڈاکٹر قرار دیا جائے جس کی تعلیم اس نے حاصل کی ہے۔ مثال کے طور پر میں چند شعبوں اور ان کے طریقِ تعلیم کی تشریح کروں گا جس سے آپ اندازہ کر سکیں گے کہ میرے ذہن میں اس اختصاصی تعلیم کا کیا نقشہ ہے۔
ایک شعبہ فلسفہ اور علومِ عقلیہ کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔ اس شعبہ میں طالب علم کو پہلے قرآن کا علم پڑھایا جائے، تاکہ اس ذریعے سے وہ معلوم کرے کہ انسانی حواس سے جو چیزیں محسوس ہوتی ہیں ان کی تہ میں حقائق کی جستجو کرنے کی کیا سبیل ہے۔ عقلِ انسانی کی رسائی کہاں تک ہے اور کِن حدود سے وہ محدود ہے۔ مجرد استدلال پر تخیلات کی عمارت کھڑی کرنے میں کس طرح انسان واقعات اور حقیقت کی دنیا سے الگ ہو کر خیالات کی تاریک دنیا میں گم ہو جاتا ہے۔ مابعد الطبیعی امور کے متعلق کتنا علم انسان کے لیے فی الواقع ضروری ہے۔ اس ضروری علم تک پہنچنے کے لیے مشاہدہ (observation) اور استقرا (inducation) سے کس طرح کام لینا چاہیے۔ کن امور مابعد الطبیعی کا تعین ہم کر سکتے ہیں۔ کن کے متعلق ایک مجمل اور مطلق حکم سے آگے ہم نہیں بڑھ سکتے اور کہاں پہنچ کر اجمال کو تفصیل سے بدلنے یا اطلاق کو تقلید میں تبدیل کرنے کی کوشش نہ صرف بے بنیاد ہو جاتی ہے بلکہ انسان کو تخیلاتِ لاطائل کی بھول بھلیوں میں بھٹکا دیتی ہے۔ اس بنیاد کو مستحکم کر لینے کے بعد طالب علم کو تاریخ فلسفہ کا مطالعہ کرایا جائے اور یہاں قرآنی فلسفہ کی مدد سے اسے تمام مذاہب فلسفہ کی سیر کرا دی جائے تاکہ وہ خود دیکھ لے کہ حقائق تک پہنچنے کے جو ذرائع انسان کو دیے گئے تھے ان سے کام نہ لے کر یا ان سے غلط طریقہ پر کام لے کر کس طرح انسان بھٹکتا رہا ہے۔ کس طرح اس نے اوہام کی حقیقت کو سمجھا ہے اور اس سے کس طرح اس نے اپنی پہنچ سے ماورا چیزوں کے متعلق رجماً بالغیب کا حکم لگایا اور اس کے کیا اثرات زندگی پر مرتب ہوئے۔ کس طرح اس نے اپنے حواس اور اپنی عقل کی حدود کا تعین کیے بغیران حقیقتوں کا تعین کرنے میں اپنا وقت ضائع کیا جن کا تعین اس کے بس کی چیز ہی نہ تھا۔ کہاں ہندو فلسفیوں نے ٹھوکر کھائی، کہاں سے یونانی فلسفہ بھٹکا، کِدھر مسلمان فلاسفہ قرآن کی بتائی ہوئی راہوں سے ہٹ کر نکل گئے، متکلمین کے مختلف اسکولوں نے صدیوں تک جن مسائل پر بحثیں کیں، ان میں قرآن کی راہ نمائی سے کہاں کہاں اور کتنا کتنا تجاوز تھا۔ فلسفیانہ تصوف کے مختلف مذاہب نے مجمل اور مفصّل اور مطلق کومقید بنانے کی کس طرح کوششیں کیں اور وہ کس قدر غلط تھیں۔ یورپ میں فلسفیانہ تفکر نے کیا کیا راہیں اختیار کیں، ایک ہی حقیقت کی جستجو میںکتنے مذہب بن گئے، ان مختلف مذاہب میں حق کتنا ہے اور باطل کی آمیزش کتنی ہوئی اور کن راہوں سے آئی، کون سے مابعد الطبیعی تصوّرات ہیں جنھوں نے یورپ کی جڑ پکڑ لی ہے۔ ان سے اخلاق واعمال پر کیا اثرات مرتّب ہوئے ہیں اور اگر کتاب اللّٰہ کی راہ نمائی سے فائدہ اٹھایا جاتا تو فضول دماغی کاوشوں میں وقت ضائع کرنے اور غلط بنیادوں پر زندگی کی تعمیر کرنے سے کس طرح دنیا بچ سکتی تھی۔ اس تمام مطالعہ کے بعد طالب علم اپنی تحقیق کے نتائج مرتب کرے اور جب اہل علم کی جرح وتنقید کے بعد وہ اپنا کامل الفن ہونا ثابت کر دے تو اسے فلسفہ میں فضیلت کی سند دے کر چھوڑ دیا جائے۔
ایک تیسرا شعبہ تاریخ کا ہونا چاہیے جس میں قرآن کا فلسفہ، تاریخ، مقصد مطالعہ تاریخ، اور طرز مطالعہ تاریخ طالب علم کے ذہن نشین کرایا جائے تاکہ اس کے قلب سے تمام تعصّبات نکل جائیں۔ وہ حقائق کو بے رنگ نگاہ سے دیکھنے اور ان سے بے لاگ نتائج اخذ کرنے کے لیے مستعد ہو جائے۔ نوع انسان کی سرگزشت اور تہذیبِ انسانی کی نشووارتقا کا مطالعہ کرکے انسان کی فلاح وخسران اور سعادت وشقاوت اور عروج وزوال کے مستقل اصول مستنبط کرے۔ مداواتِ ایام بین الناس جس ڈھنگ پر اور جس ضابطہ کے مطابق ہوتی ہے اسے معلوم کرے، جو اوصاف انسان کو اوپر اٹھاتے ہیں اور جو اسے نیچے گرا دیتے ہیں ان سے واقف ہو اورخود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لے کہ کس طرح فطرت کا ایک خطِ مستقیم ابتدا سے آج تک سیدھا کھنچا ہوا نظر آتا ہے، جو انسان کی ترقی کا اصلی راستہ ہے۔ اس خط سے ہٹ کر جو بھی دائیں یا بائیں جانب دور نکل گیا اسے یا تو تھپڑ کھا کر اسی کی طرف پلٹنا پڑا ورنہ پھر ایسا پھینکا گیا کہ اس کا پتا نشان نہ ملا۔ اس طرزِ معاملہ سے جب طالب علم کو معلوم ہو جائے گا کہ خدا کا قانون کس قدر بے لاگ ہے اور کیسی غیر جانب داری کے ساتھ اس نے قوموں سے معاملہ کیا ہے تو کوئی قوم بھی اس کی چہیتی رہے گی اور نہ کسی کے خلاف اس کے دل میں نفسیاتی عداوت کا جذبہ رہے گا۔ جس قوم کے کارنامے پر بھی وہ نظر ڈالے گا، بے لاگ طریقہ پر ڈالے گا اور فلاح وخسران کے ابدی اصولوں کی کسوٹی پر کس کر کھرے کو الگ اور کھوٹے کو الگ کرکے سامنے رکھ دے گا۔ اس تربیتِ ذہنی کے بعد اسے تاریخی دستاویزوں میں آثار قدیمہ اور مآخذ اصلیہ سے بطور خود نتائج اخذ کرنے کی مشق کرائی جائے اور اتنا تیار کر دیا جائے کہ وہ جاہلی مورخین کے چڑھائے ہوئے ردّوں سے اصل حقائق کو الگ کرکے خود بے لاگ رائیں قائم کر سکے۔
ایک اور شعبہ علومِ عمران (social sciences) کا ہونا چاہیے۔ جس میں پہلے قرآن اور حدیث سے انسانی تمدن کے بنیادی اصول بتائے جائیں۔ پھر تفصیل کے ساتھ اصول سے فروع کا استنباط کرکے اور انبیا کی راہ نمائی میں جو تمدن بنے تھے ان کے نظائر سے استشہاد کرتے ہوئے یہ بتایا جائے کہ ان قواعد اصلیہ (fundamental principle) پر کس طرح ایک صالح نظامِ معاشرت، نظامِ معیشت، نظامِ سیاست، تدبیرِ مملکت اور تعلقاتِ بین الاقوامی کی عمارت اٹھتی ہے۔ پھر یہ بتایاجائے کہ کس طرح انھی اصولوں پر اس عمارت کی مزید توسیع ہو سکتی ہے اور اجتہاد سے توسیع کا نقشہ مرتّب کرنے کا کیا طریقہ ہے اور انسانی علم کی ترقی سے جو نئی قوتیں دریافت ہوتی ہیں اور تمدن کی فطری نشوونما سے جونئے طرزِ عمل پیدا ہوتے ہیں، ان سب کو اللّٰہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے اس صالح تمدن میں جذب کرنے اور اپنے اپنے ٹھیک مقام پر رکھنے کی کیا صورت ہے۔ اس کے علاوہ ایک طرف طالب علم کو پچھلی قوموں اور مسلمانوں کی تمدنی تاریخ کا مطالعہ کرایا جائے تاکہ وہ دیکھے کہ تمدن کے ان اساسی اصول اور الٰہی حدود کے قریب رہنے اور ان سے انحراف کرنے سے کیا نتائج رونما ہوئے ہیں۔ اوردوسری طرف اسے دور جدید کے سیاسی، معاشی، اجتماعی نظریات وعملیات کا تنقیدی مطالعہ کرایا جائے تاکہ وہ یہ بھی دیکھ لے کہ انسان نے الٰہی ہدایت سے بے نیاز ہو کر بطور خود اپنی زندگی کے لیے جو راستے تجویز کیے ہیں وہ کہاں تک اس کے لئے موجبِ سعادت وشقاوت ہیں۔
سائنس کی مختلف شاخوں کے لیے چند شعبے علیحدہ ہونے چاہییں جن میں قرآن کی راہ نمائی سے فائدہ اٹھا کر نہ صرف اب تک کی جمع شدہ سائنٹیفک معلومات کا جائزہ لیا جائے بلکہ آثارِ فطرت کا مزید مشاہدہ اور قوانینِ فطرت کی مزید دریافت کا کام بھی انھی خطوط پر کیا جائے جو قرآن نے کھینچ دیے ہیں۔ اگرچہ یہ کتاب سائنس کی کتاب نہیں ہے، نہ اس کے موضوع کا براہِ راست سائنس سے کوئی تعلق ہے لیکن چوں کہ یہ اسی مصنّف کی تصنیف ہے جس نے کائنات کو تصنیف کیا ہے اور وہ مصنّف اپنی ایک کتاب سے دوسری کتاب میں جگہ جگہ استدلال واستشہاد کا کام لیتا ہے۔ اس لیے اس کے گہرے مطالعہ سے سائنس کے ایک طالب علم کو نہ صرف نظامِ کائنات کا بنیادی فارمولہ معلوم ہو جاتا ہے بلکہ قریب قریب ہر شعبہ میں اسے ایک نقطہ صحیح آغاز (starting piont) اور تلاش وتجسّس کے لیے ایک صحیح رخ (direction) بھی ملتا ہے یہ وہ شاہ کلید (master key) ہے جس سے تحقیق کا سیدھا راستہ کھل جاتا ہے۔ جس کی مشکل کشائی سے اگر آدمی کام لے تو اس کا بہت سا وقت گتھیوں کے سلجھانے اور سلجھاتے سلجھاتے خود الجھ جانے میں ضائع نہ ہو۔ موجودہ سائنس کی گم راہی میں ایک بڑا سبب یہ ہے کہ حقائقِ واقعیہ کے مشاہدے کی حد تک تو ٹھیک رہتا ہے، مگر جب حقائق کو جوڑ کر ان سے نظریات بناتا ہے تو کائنات فطرت کے مبدا وغایت سے ناواقف ہونے کے باعث ٹھوکریں کھاتا جاتا ہے اور اس سے نہ صرف بہت سی انسانی قوت فضول ضائع ہوتی ہے بلکہ ان غلط نظریات کو جب انسانی تمدن میں جذب کرکے عملیات کی بنیاد اٹھائی جاتی ہے تو وہ فسادِ تمدن کا موجب ثابت ہوتی ہے۔ قرآن کی راہ نمائی میں جب ایک مسلم سائنٹسٹ ثابت شدہ حقائق کو نظریات سے الگ کرکے مرتّب کرے گا اور مزید حقائق دریافت کرکے ان سے بہتر نظریات نکال بتائے گا تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا ان سائنٹیفک گم راہیوں کو چھوڑنے پر مجبور نہ ہو جائے جن میں آج وہ مبتلا ہے۔
جن علوم کو اس وقت علومِ دینی کہا جاتا ہے ان کے لیے بھی الگ الگ شعبے مخصوص ہونے چاہییں مثلاً ایک شعبہ قرآن کے تحقیقی مطالعہ کا ہو جس میں پچھلے مفسرین کے کام کا جائزہ لینے کے بعد آگے مزید کام کیا جائے، مختلف پہلوئوں سے قرآن کی گہرائیوں میں اُترنے کی کوشش کی جائے اور علومِ انسانی کے تمام شعبوں سے استفادہ کرکے قرآن میں مزید بصیرت حاصل کی جائے۔ اسی طرح ایک شعبہ علومِ حدیث کا ہونا چاہیے جس میں قدیم محدثین کے کام سے پورا فائدہ اٹھانے کے بعد حدیث میں تحقیق، تنقید، ترتیب معلومات اور اخذِ نتائج کا مزید کام کیا جائے۔ دورِ سعادت کے متعلق زیادہ سے زیادہ تفصیلات ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالی جائیں اور ان سے وہ نتائج اخذ کیے جائیں جو اب تک ہمارے علم سے مخفی ہیں۔ ایک شعبہ قانون کا ہونا چاہیے جس میں قرآن کے احکام، حدیث نبویؐ کی قولی وعملی تشریحات، صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے اجتہادات اور ائمہ مجتہدین کے طرزِ استنباط اور جزئیات میں ان تصریحات کا مفصّل تحقیقی مطالعہ کیا جائے۔ نیز دنیا کی دوسری پرانی اور نئی قوموں کے قوانین اور قانونی نظامات پر بھی گہری نظر رکھی جائے اور زندگی کے روز بروز بدلنے والے معاملات ومسائل پر اصولِ قانونِ اسلامی کو منطبق کرکے فقہ کے ان چشموں کو پھر سے رواں کیا جائے جو صدیوں سے سوکھ کر رہ گئے ہیں۔ یہ شعبے نہ صرف بجائے خود بہت عظیم الشان کام انجام دیں گے، بلکہ دوسرے تمام شعبوں کو بھی کتاب اللّٰہ اور سنت رسول اللّٰہ کے متعلق انھی سے مواد ملے گا جس کی بنیاد پر علم کی تمام راہوں میں تحقیق و اکتشاف کا کام چلایا جائے۔
تیسری خصوصیت
مَیں نے یہ چند شعبے محض تمثیلاً بیان کیے ہیں۔ جن سے پورے نقشے کی تفصیلات کا تصوّر بآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اب میں اس نئے تعلیمی نظام کی آخری مگر نہایت اہم خصوصیّت کا ذکر کروں گا اور وہ یہ ہے کہ اس میں وہ بے مقصد تعلیم نہیں ہو گی جو آج کل ہندوستان میں دی جا رہی ہے، بلکہ اس میں تعلیم دینے والے اور تعلیم پانے والے دونوں کے سامنے ایک متعین اور واضح مقصد زندگی اور منتہائے سعی و عمل ہو گا، یعنی یہ کہ ان سب کو مسلکِ خدا پرستی کی امامت دنیا میں قائم کرنے کے لیے جہاد کبیر کرنا ہے۔ یہ مقصد اس نظام کی ہر چیز میں اسی طرح کام کرے گا، جس طرح انسانی جسم کے ہر رگ، ہر ریشے اور ہر حرکت میں اس کی روح کام کرتی ہے طلبہ کی شخصی زندگی، ان کے باہمی اجتماعات، ان کے کھیل کود اور تفریحات اور ان کے درس وتدریس اور مطالعہ وتحقیق کے تمام مشاغل میں اسی مقصد کی کارفرمائی ہو گی۔ اسی کے مطابق ان کی سیرت وکردار کی تعمیر کی جائے گی۔ اسی پر ان کے اخلاق ڈھالے جائیں گے اور تمام ماحول ایسا بنایا جائے گا کہ ہر شخص کو ایک مجاہد فی سبیل اللّٰہ میں تبدیل کر دے۔
متوقع نتائج
اس قسم کی تربیت اور اس قسم کی تعلیم پا کر جو لوگ تیار ہوں گے ان میں یہ طاقت ہو گی کہ ان واقعات کی رفتار بدل دیں۔ ان کی محققانہ تنقید، جاہلیّت کے علوم اور جاہلی تہذیب کی ساری بنیادوں کو ہلا دے گی، ان کے مدوّن کیے ہوئے علوم میں اتنا زور ہو گا کہ جو لوگ آج جاہلیت کے نقطۂ نظر پر جمے ہوئے ہیں انھیں یہ اسلامی نقطۂ نظر کی طرف پھیر لائیں گے۔ ان کی تحقیق کے نتائج یورپ امریکا اور جاپان تک کو متاثر کر دیں گے اور ہر طرف سے معقول انسان ان کے نظریات کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔ ان کا مرتّب نظریۂ حیات اور لائحہ زندگی اتنی قوت کے ساتھ فکر و نظر کی دنیا پر چھا جائے گاکہ عمل کی دنیا میں اس کے خلاف کسی دوسرے لائحہ زندگی کا چلنا مشکل ہو گا۔ پھر اسی تعلیم سے اس سیرت اور اس عزم کے لوگ پیدا ہوں گے جو امامت کے نظام میں عملاً انقلاب برپا کرنے کے لیے ضروری ہے، وہ اس انقلاب کے فن کو بھی جانتے ہوں گے، ان میں سے اس کے برپا کرنے کا مضبوط داعیہ بھی ہو گا اور انھیں اپنی انقلابی تحریک کو خالص اسلامی راہوں پر چلانا بھی آتا ہو گا۔ پھر انھی میں یہ اہلیت بھی ہو گی کہ کام یابی کی منزل پر پہنچ کر اسلامی اصول کے مطابق ایک اسٹیٹ ایک مکمل تمدن کے ساتھ بنا کر کھڑی کر دیں جس کی شکل اور روح اسلامی ہو اور جو دنیا میں امامت کرنے کی پوری طاقت وصلاحیت رکھتی ہو۔
عملی مشکلات
حضرات! اس مرحلہ پر پہنچ کر تین کٹھن سوالات سامنے آتے ہیں اور میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے یہ مفروضات سننے کے دوران میں ان سوالات نے آپ کے دلوں میں خلش پیدا کرنا شروع کی ہو گی۔
نصاب اور معلّمین کی تیاری
پہلا سوال یہ ہے کہ یہ نیا نظام قائم کیسے کیا جائے گا کیوں کہ اس نئے طرز پر نہ تو پڑھانے والے ہی اس وقت کہیں مل سکتے ہیں اور نہ ایسی کتابیں ہی موجود ہیں جن سے کسی ایک شعبۂ علم کی تعلیم اس نقشہ کے مطابق دی جا سکے؟ بلکہ شاید مبالغہ نہ ہو گا اگر یہ کہا جائے کہ پہلی جماعت کے بچے کو بھی اس طرز کی تعلیم دینے کے لیے کسی مدرس اور کسی کتاب کا ملنا اس وقت مشکل ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جس طرح ایک عمارت بنانے کے لیے بھٹا تیار کرنا پڑتا ہے، تاکہ اینٹیں پکائی جائیں، اسی طرح ایک نیا نظام بنانے کے لیے بھی ایک تربیت گاہ بنانا ضروری ہے تاکہ اس میں وہ آدمی تیار کیے جائیں جو اس خاص طریقہ کی تعلیم دینے کے قابل ہوں۔ اینٹیں بھی تو آپ کو پکی پکائی نہیں ملتیں، پکانا پڑتی ہیں، آدمی بھی آپ کو بنے بنائے نہیں ملیں گے، بنانا پڑیں گے۔ اس ناقص تعلیم سے کچھ اللّٰہ کے بندے ایسے بھی فارغ ہو کر نکلے ہیں جو فطرتِ ابراہیمی پر پیدا ہوئے ہیں، کافر گر تعلیم وتربیت کے سارے مرحلوں سے گزرنے کے باوجود اپنا ایمان بچا لائے ہیں۔ ان کا نقطۂ نظر اورمقصدِ زندگی اسلامی ہے یا ذرا سی محنت سے خالص اسلامی بنایا جا سکتا ہے۔ ان میں یہ طاقت بھی موجود ہے کہ جس مقصد پر وہ ایمان لائے ہیں اس کی راہ میں جفاکشی کر سکیں۔ ان میں اجتہادی صلاحیتیں بھی موجود ہیں۔ ایسے لوگوں کو لے کر اگر خاص قسم کی ذہنی واخلاقی تربیت دی جائے اورمعلومات جس ترتیب سے اب تک ان کے ذہن میں جمع ہوتی رہی ہیں، اسے ذرا حکمت کے ساتھ بدل دیا جائے اور زاویۂ نگاہ اچھی طرح اسلام کی سمت میں جما دیا جائے تو یہی لوگ تحقیق ومطالعہ سے اس قابل ہو سکتے ہیں کہ علوم کو میرے بیان کردہ نقشے کے مطابق ازسرِنو مدون کرنا شروع کر دیں پھر جب تدوین کا کام کسی حد تک انجام پا جائے تو ایک نمونہ کی درس گاہ ابتدائی تجربوں کے لیے بنائی جا سکتی ہے اور بعد میں آہستہ آہستہ ترقی دے کراسے یونی ورسٹی کے مرتبے تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
متعلّمین کی فراہمی
دوسرا سوال یہ ہے کہ اس قسم کا نظام تعلیم اگر قائم بھی کر دیا جائے تو اس میں جاذبیت کون سی ہو گی۔ جو پڑھنے والوں کو اس کی طرف کھینچے گی؟ جو نظامِ تعلیم موجود ہ نظامات تمدن وسیاست کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ ان سے لڑنے کے لیے بنایا جائے، اس میں شریک ہونے والے کو یہ تو امید ہو ہی نہیں سکتی کہ کل وہ وہاں سے نکل کر کچھ بچا سکے گا پھر کتنے ایسے لوگ ہوں گے جو کمانے سے بے نیاز ہو کر اس تعلیم کو حاصل کرنے کے لیے آئیں گے؟ جس کے بعد دنیوی لحاظ سے کوئی شان دار مستقبل نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس نظامِ تعلیم میں حق اور صداقت کے سوا کوئی کشش نہیں ہے اور کسی دوسری کشش کی حاجت ہی نہیں۔ جن لوگوں کے لیے اس چیز میں جاذبیت نہ ہواور صرف روٹی ہی جنھیں کھینچ سکتی ہو، ان کی توجہ فرمائی سے یہ نظامِ تعلیم خود بھی اتنا ہی بے نیاز ہو گا جتنے وہ اس سے بے نیاز ہیں۔ اس کے لیے تو وہ لوگ درکار ہیں جو جان بوجھ کر اس مقصد اور اس کام کے لیے اپنی اوراپنے بچوں کی زندگی وقف کرنے کے لیے تیار ہوں۔ جس کے لیے یہ نظامِ تعلیم بنایا جائے گا اور ایسے لوگ بالکل ہی مفقود نہیں ہیں۔ تمام ہندوستان سے پچاس بچے بھی کیا اس کام کے لیے نہ مل سکیں گے؟ اگر اتنے بچے بھی وہ قوم فراہم نہیں کر سکتی جو مدتوں سے اسلام اسلام چیخ رہی ہے۔ تب بھی کچھ پروا نہیں۔ اللّٰہ دوسری قوموں کو یہ سعادت بخشے گا۔
مال کا سوال
تیسرا اورآخری سوال یہ ہے کہ اس کام کے لیے مال کہاں سے آئے گا؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اُن لوگوں کے پاس سے جو مال اور ایمان دونوں رکھتے ہوں اور اتنی عقل بھی رکھتے ہوں کہ اپنے مال کا صحیح مصرف سمجھ سکیں۔ ایسے لوگ بھی اگر اس قوم میں نہ پائے گئے جو رات دن اسلام کے درد میں تڑپ رہی ہے تو میں پھر یہی کہوں گا کہ کچھ پروا نہیں، اللّٰہ دوسری قوم میں سے ایسے آدمی پیدا کرے گا۔ آخر پہلے بھی تو کفر وشرک کی گود ہی سے وہ اللّٰہ کے بندے نکل کرآئے تھے، جن کی مالی قربانیوں سے دنیا میں اسلام کا فروغ ہوا۔
(ترجمان القرآن۔ شوال، ذیقعدہ۱۳۵۹ھ)
٭…٭…٭…٭…٭

باب پنجم : رودادِ مجلسِ تعلیمی

(منعقدہ دارالاسلام، پٹھان کوٹ، ضلع گورداس پور، ۱۹۴۴ء)
اپنے نظریہ تعلیمی کے مطابق ایک درس گاہ اور ایک تربیت گاہ کے قیام کی ضرورت تو ہماری جماعت کوابتدا سے محسوس ہو رہی تھی اور موجودہ مرکز میں آنے کے بعد تو اس کے قائم کرنے کا ارادہ بھی کر لیا گیا تھا۔ لیکن مختلف اسباب سے اس تجویز کوعملی جامہ پہنانے کی طرف جلدی اقدام نہ کیا جا سکا۔ حال میں جماعت کے جو مختلف اجتماعات بہار، پنجاب، دہلی اور دکن میں منعقد ہوئے ان میں جماعت کی طرف سے بشدت اس بات کا مطالبہ ہوا کہ اب اس کام میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔ اس کے ساتھ یہ ضرورت بھی محسوس ہوئی کہ مستقل مرکز کا فیصلہ بھی جلدی سے جلدی کر لیا جائے تاکہ درس گاہ اور تربیت گاہ کے قیام میں مرکز کے عارضی ہونے کی وجہ سے جو رکاوٹ ہے وہ دور ہو جائے اور اطمینان کے ساتھ ایک جگہ بیٹھ کر اس سلسلہ کی تمام تجاویز کو عمل میں لانا شروع کر دیا جائے۔ چنانچہ دکن کے سفر سے واپس آنے کے بعد ہی ایک مجلسِ مشاورت کے لیے ۱۴، ۱۵، ۱۶۔ اگست کی تاریخیں تجویز کر لی گئیں اور اس مجلس کے انعقاد سے پہلے ایک طرف تو ایک مفصّل تعلیمی سوال نامہ اخبار ’’کوثر‘‘ میں شائع کرایا گیا تاکہ جو لوگ ہمارے اس کام سے دل چسپی رکھتے ہیں وہ اپنی آرا سے ہمیں فائدہ اُٹھانے کا موقع دیں اور دوسری طرف مرکز کی ضروریات کو واضح کرتے ہوئے جماعت کے ارکان اور ہم دردان سے درخواست کی گئی کہ مستقل مرکز کے لیے جگہ کے انتخاب سے متعلق جو تجاویز انھیں پیش کرنی ہیں وہ ضروری تفصیلات کے ساتھ انعقادِ مجلس کی تاریخوں سے پہلے پہلے ہمارے پاس بھیج دیں تاکہ ان سب کو پیشِ نظر رکھ کر مرکز کے بارے میں ایک آخری فیصلہ کر لیا جائے۔
ہمارے ان دونوں اعلانات پر تعلیمی اسکیم اورمرکز کی تجویز کے متعلق اچھی خاصی تعداد میں ارکانِ جماعت اور ہم دردوں کی جانب سے جوابات بروقت موصول ہو گئے جن میں سے اکثر کافی غور و خوض اور تحقیق سے مرتب کیے گئے تھے اور ہمارے کام میں مددگار ثابت ہوئے۔ اللّٰہ تعالیٰ ان سب حضرات کو جزائے خیر دے اور اقامت دین کی جدوجہد کے ہر مرحلے میں ہمارے ساتھ اسی طرح قلبی تعاون کے لیے زیادہ سے زیادہ آمادہ فرمائے۔
حسبِ اعلان ۲۳۔ شعبان ۱۳۶۳ھ مطابق ۱۴۔ اگست ۱۹۴۴ء کو دارالاسلام میں مجلسِ تعلیمی کا اجلاس شروع ہوا۔ ہمارے ارکان اور ہم دردوں میں سے جو لوگ تعلیمی امور میں نظری اور عملی بصیرت رکھتے ہیں،ان سب کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور الحمد لِلّٰہ کہ ان میں سے اکثر تشریف لے آئے تھے۔ مدعوئین کے علاوہ اور بھی چند اصحاب جنھیں ان مسائل سے دل چسپی ہے، شریک جلسہ ہوئے۔ حاضرین کی تعداد بیالیس تھی۔
اجلاسِ اوّل
پہلا اجلاس نمازِ ظہر کے بعد دارالاسلام کی مسجد میں شروع ہوا۔ اس اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ صاحب نے سب سے پہلے اپنا وہ مضمون پڑھ کر سنایا جو ’’نیا نظامِ تعلیم‘‘ کے عنوان سے ترجمان القرآن میں اورپمفلٹ کی شکل میں بھی شائع ہو چکا ہے (اور اس مجموعہ میں بھی گزشتہ صفحات پر درج ہے) اس کے بعد فرمایا:
’’اگرچہ آپ سب حضرات اس مضمون کو جو ابھی میں نے پڑھ کر سنایا ہے اس سے پہلے ملاحظہ کر چکے ہیں لیکن میں نے یہاں اسے دوبارہ سنانا اس لیے ضروری سمجھا کہ یہی مضمون ہمارے اس تعلیمی نظرئیے اور اس تعلیمی پالیسی کا سنگِ بنیاد ہے جس پر ہمیں اب عملاً کام کرنا ہے اور اس کام کو شروع کرتے وقت ہمارے ذہن میں ان بنیادی اُصولوں کا مستحضر ہونا ضروری ہے جو اس میں بیان کیے گئے ہیں۔ مَیں خود فنِ تعلیم کا ماہر نہیں ہوں اور اس کام کے لیے جو اس وقت ہمارے پیشِ نظر ہے میں کوئی علمی اسکیم نہیں بنا سکتا۔ میرا کام صرف یہ ہے کہ اسلامی تحریک کو جس قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے اور جن اوصاف اور جن قابلیتوں کے کارکن اسے مطلوب ہیں ان کا نقشہ آپ کے سامنے پیش کر دوں اور اس کے بعد ماہرین فن ہونے کی حیثیت سے یہ آپ لوگوں کا کام ہے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مناسب عملی تدابیر تجویز کریں۔
جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہیں اس وقت ہمارے ملک میں جتنے نظام ہائے تعلیم رائج ہیں ان میں سے کوئی بھی اس مقصد کے لیے آدمی تیار نہیں کرتا جو ہمارے پیش نظر ہے اور نہ اس طرز کے آدمی تیار کرتا ہے جو ہمیں مطلوب ہیں اسی لیے ہمیں اپنا نظام تعلیم الگ قائم کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ ہمیں صرف یہی نہیں کرنا ہے کہ نوخیز نسلوں کی عملی اور ذہنی تربیت کا انتظام اپنے نصب العین کے مطابق کریں بلکہ اس کے ساتھ ان کی اخلاقی اور علمی تربیت کا بھی بندوبست کرنا ہے اور یہ ضرورت خصوصیت کے ساتھ اس درجہ سے اور بھی شدید ہو گئی ہے کہ ہمارے ملک میں مدت ہائے دراز سے انحطاط کی وجہ سے اجتماعی تربیت کا نظام باقی نہیں رہا۔ پرانے زمانے میں اجتماعی تربیت کی جو صورت تھی وہ جدید زمانے کے سیاسی وتمدنی انقلاب کے مقابلے میں شکست کھا گئی اور جدید سیاسی وتمدنی انقلاب نے اس کی جگہ اجتماعی تربیت کا دوسرا نظام مرتب نہیں کیا بلکہ عامۃ الناس کو خود رو درختوں کی طرح اگنے اور نشونما پانے کے لیے چھوڑ دیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ آدمیوں کی جتنی کمی ہے اس سے بہت زیادہ کمی تربیت یافتہ آدمیوں کی ہے۔ مجھے اکثر یہ چیز بڑے رنج کے ساتھ محسوس ہوتی ہے کہ ہمارے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی خواہ وہ قدیم نظامِ تعلیم سے تعلق رکھتے ہوں یا جدید نظامِ تعلیم سے، بالعموم اخلاق وشائستگی اور مہذب عادات اور ضبط ونظم کی بالکل ابتدائی اور بنیادی تربیت سے بھی عاری ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے کوئی اعلیٰ درجہ کی جماعت جو کسی نصب العین کے لیے جدوجہد کر سکے اس ملک میں بنانی نہایت مشکل ہوتی ہے۔ جن قوموں میں اجتماعی تربیت کا نظام موجود ہے ان کی حالت یہ ہے کہ ان میں بیش تر افراد مہذب اور منظم زندگی کی بنیادی تربیت حاصل کیے ہوئے ہوتے ہیں اور جو شخص کوئی خاص تحریک ان کے اندر جاری کرنا چاہتا ہو اسے ان بنے سنورے ہوئے آدمیوں میں سے صرف اپنی تحریک کے لحاظ سے مناسب اوصاف پیدا کرنے کی سعی کرنا پڑتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ بڑی دشواری ہے کہ انسان کی بنیادی تربیت ہی بڑی حد تک مفقود ہے اور یہاں اگر کسی نصب العین کے لیے جدوجہد کرنا مقصود ہو تو آدمی کو بالکل ناتراشیدہ مواد خام ملتا ہے، جسے بالکل نئے سرے سے تراشنے اور سنوارنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے نظامِ تعلیم میں دماغی تربیت سے زیادہ اخلاقی تربیت کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اپنی اس دعوت کے لیے صحیح قسم کے کارکن میسر آ سکیں جن کی نایابی کی وجہ سے ہمارا یہ کام ہماری انتہائی کوششوں کے باوجود آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔
اس سلسلے میں ایک بات اور بھی ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اس وقت ہم کسی ملک کے انتظام کا چارج نہیں لے رہے ہیں کہ ہمیں اپنے نظام تعلیم میں ان ضرورتوں کے لیے آدمی تیار کرنا ہوں جو ایک ملک کے تمدن کی پوری مشینری کو چلانے میں پیش آتی ہیں۔ ہمارے سامنے اس وقت صرف ایک کام ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا میں اخلاقی، فکری اور عمرانی انقلاب برپا کرنے کے لیے موزوں لیڈر اور کارکن تیار کریں۔ اس کام کے لیے ڈاکٹری یا انجینئرنگ یا سائنس وغیرہ کے ماہرین کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ صرف ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو دین اسلام اور علوم اجتماعیہ (social sciences) میں اعلیٰ درجہ کی بصیرت رکھتے ہوں۔ آگے چل کر جیسے جیسے ہماری کارروائیوں کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا اور ہمارے اوپر ذمّہ داریوں کا جتنا جتنا بار بڑھتا جائے گا، اس کے لحاظ سے جن جن علمی شعبوں کے اضافے کی ضرورت ہو گی ان کا اضافہ ہم کرتے جائیں گے۔ فی الحال اعلیٰ تعلیم کے صرف پانچ شعبوں کو پیشِ نظر رکھ کر ہمیں ابتدائی اور ثانوی تعلیم کا انتظام کرنا ہے تاکہ ہم ان پانچوں شعبوں کے لیے طلبہ کو تیار کر سکیں۔
اب میں سب سے پہلے آپ کے سامنے اعلیٰ تعلیم کا معیار مطلوب پیش کرتا ہوں تاکہ وہ منتہا آپ کے پیش نظر ہو جائے جس تک پہنچنے کے لیے آپ کو اس وقت ابتدائی قدم اٹھانے ہیں۔
اعلیٰ تعلیم کا معیارِ مطلوب
۱۔ علمی:
اعلیٰ تعلیم کے جن پانچ شعبوں (faculties) کا ابھی میں نے آپ سے ذکر کیا ہے وہ حسب ذیل ہیں:
(۱) فلسفہ: تاریخ، فلسفہ، فلاسفہ، فلاسفہ مسلمین کے مختلف اسکول،فلاسفہ غیر مسلمین کے مختلف اسکول علم کلام، فلاسفہ متصوفین، منطق، نفسیات، فلسفۂ اخلاق نظری (theoritical) سائنس، حکمتِ قرآن اور اس کی مدد کے لیے حدیث۔
(۲) تاریخ: تاریخِ اسلام، تاریخِ مسلمین، تاریخِ عالمِ قدیم وجدید، تاریخِ انقلاب، فلسفۂ تاریخ عمرانیات، (sociology) مختلف عمرانی فلسفے، مدنیات (civics) سیاسیات ودساتیر عالم (constitutions of the world) اسلامی فلسفۂ تاریخ وفلسفہ تمدن اور نظامِ اجتماعی وسیاسی کا مطالعہ قرآن وحدیث کی روشنی میں۔
(۳) معاشیات: علم المعیشت، مختلف معاشی نظرئیے اورمعاشی وتمدنی مسالک، دنیا کے مختلف معاشی نظام، مالیات (finance) بینکنگ (banking) قرآن وحدیث اور فقہ کا مطالعہ معاشی نقطۂ نظر سے۔
(۴) قانون: تاریخِ قانون، اصولِ قانون، قوانینِ اممِ قدیمہ وجدیدہ، اصولِ قضا و نظامِ عدالت، قرآن وحدیث اور اسلامی مذاہبِ فقیہ کا مطالعہ قانونی نقطہ نظر سے۔
(۵) علومِ اسلام: ادب ولغت عربی، تفسیر، حدیث، فقہ، علوم اسلامی کی تاریخ، تاریخِ افکار مسلمین، مذاہب عالم کا متقابل مطالعہ، تاریخ ادیانِ عالم، فلسفہ مذہب، دورِ جدید کی مذہبی واخلاقی تحریکیں، مغربی الحاد کی تاریخ۔
۲۔ ذہنی واخلاقی:
اس علمی معیار کے ساتھ ہم ان لوگوں کو جو ان شعبوں میں تیار ہوں، حسبِ ذیل اوصاف سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں:
(۱) فکر ونظر اور ذہنیت کے اعتبار سے پورے مسلمان ہوں اور اسلام کے لیے دنیا سے لڑنے کا گہرا جذبہ رکھتے ہوں۔
(۲) دین میں تفقہ اور مجتہدانہ بصیرت رکھتے ہوں اور وہ تمام استعدادیں ان کے اندر پوری طرح نشوونما پا جائیں جو دنیا کے بگڑے ہوئے نظامِ تمدن و اخلاق کو توڑ کر ایک صالح نظامِ تمدن واخلاق تعمیر کرنے کے لیے ضروری ہیں۔
(۳) ان کی دماغی تربیت اتنی اعلیٰ درجہ کی ہو کہ اپنے زمانے کی علمی دنیا پر ان کی فراست کا سکّہ بیٹھ جائے۔
(۴) وہ ان اخلاقی اوصاف سے پاک ہوں جنھیں قرآن وحدیث میں کفار، فساق اور منافقین کی صفات قرار دیا گیا ہے اور جنھیں ایمان کی ضد، اسلام کے منافی اور صالح سوسائٹی کے لیے غیرموزوں ٹھہرایا گیا ہے۔ اس کے برعکس ان میں انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر وہ اخلاقی اوصاف پرورش کیے جائیں جو قرآن وحدیث میں عباداللّٰہ، متفقین، صالحین، صادقین، محسنین، فائزین اور مصلحین کے اوصاف بتائے گئے ہیں۔
(۵) وہ دنیا میں اپنے بل بوتے پر کھڑے ہو سکیں، ہر میدان کے مرد ہوں، کسی راہ میں عاجزودرماندہ نہ ہوں، صعوبتوں سے لڑ کر اپنا راستہ ہموار کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور زمین کو پیٹ کر ہر جگہ سے اپنا رزق حاصل کر لینے کی قابلیت ان میں موجود ہو۔
یہ ہے وہ سب سے اوپر کی منزل (super structure) جو آخر کار ہمیں تیار کرنی ہے۔ اس بنا عالی کو سنبھالنے کے لیے آپ کو جس ثانوی تعلیم کا انتظام کرنا ہو گا۔ اس میں لامحالہ حسبِ ذیل شعبوں کی علمی تیاری ناگزیر ہو گی۔
ثانوی تعلیم کا معیارِ مطلوب
عام:
۱۔ عربی زبان، انگریزی زبان یا کوئی اور یورپین زبان، اس حد تک کہ تحقیقی مطالعہ کے لیے کافی ہو سکے۔
۲۔ قرآن کے تحقیقی مطالعہ کی ابتدائی تیاری۔
۳۔ اصول حدیث اور حدیث کی مختصر کتاب کا تحقیقی مطالعہ جس سے طالب علم کے لیے آیندہ زیادہ گہرے تحقیقی مطالعہ کی راہیں کھل جائیں۔
خصوصی شعبے:
یہ ان پانچ شعبوں (faculties) کی مناسبت سے ہونے چاہیں جو اعلیٰ تعلیم کے لیے تجویز کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک میں ان علوم کے مبادی اور مددگار علوم پڑھائے جائیں جن کا اعلیٰ تعلیم کے مرحلے میں طالب علم کو تحقیقی مطالعہ کرنا ہے مثلا:
۱۔ شعبۂ فلسفہ کے لیے مبادِی منطق، فلسفہ، قدیم وجدید اور علمِ کلام پر ایک ایک کتاب جو ان علوم کی اصطلاحات، طرزِ بیان اور بنیادی مسائل سے واقفیت کے لیے کافی ہو، نیز نفسیات، طبیعات اور علمِ کیمیا پر بھی ایک ایک ابتدائی کتاب۔
۲۔ شعبہ تاریخ کے لیے تاریخِ عمرانیات اور سیاسیات کاایسا کورس جس سے طلبہ کو تاریخی تحقیق اور تمدن ومتعلقاتِ تمدن کی گہرائیوں میں اُترنے کا طریقہ معلوم ہو اور وہ ان علوم سے فی الجملہ روشناس ہو جائیں۔
۳۔ شعبہ معاشیات کے لیے ایسا کورس جس سے طالب علم انسانی سوسائٹی کی ترکیب (structure) اور اس کے بنیادی مسائل کو بحیثیت مجموعی سمجھ لے اور پھر معاشیات، مالیات، بینکنگ اور کاروبار معیشت کے اصول سے واقف ہونے کے علاوہ موجودہ زمانے کے معاشی نظاموں اور مسلکوں سے بھی فی الجملہ روشناس ہو جائے۔
۴۔ شعبہ قانون کے اصول، قانونِ اصولِ فقہ، تاریخِ قانون اور تاریخِ فقۂ اسلامی پر ایک ایک ابتدائی کتاب اور فقہ مذاہبِ اربعہ کے مسائل کا ایک مختصر مجموعہ۔
۵۔ شعبہ علومِ اسلامی کے لیے زبان عربی کا ایک مزید کورس، اس عام کورس کے علاوہ جو متوسط تعلیم کے لیے تجویز کیا جائے۔ نیز فقہ اور تاریخِ فقہ پر ایک ایک کتاب اور تقابلِ ادیان پر ایک ایک کتاب جس میں تاریخِ ادیان بھی شامل ہو۔
ان دونوں بالائی منزلوں کو سنبھالنے کے لیے آپ کو اپنی تعمیر کی ابتدا نچلی منزل سے کرنی ہے، اس کی تفصیلات آپ حضرات کو خوب غور وخوض کے ساتھ تجویز کرنی چاہییں تاکہ بنیاد نہایت مضبوط ہو اور طلبہ میں علمی واخلاقی دونوں حیثیتوں سے وہ ضروری قابلیتیں اور صفات پیدا ہو جائیں جو مہذب انسانوں اور ہماری اس تحریک کے کارکنوں میں بہرحال ناگزیر ہیں۔ اس مرحلہ میں آپ کو اس امر کا بھی لحاظ رکھنا ہو گا کہ جو طلبہ آپ کی ابتدائی منزل سے آگے بڑھنے والے نہیں ہیں، انھیں بنیادی تعلیم وتربیت سے اس حد تک آراستہ ہونا چاہیے کہ جو ہرِ انسانیّت اور جوہرِ اسلامیّت کے اعتبار سے وہ ناقص نہ رہ جائیں اور متمدن ومہذب زندگی کے فعّال عنصر ہونے کے لیے جو قابلیتیں ضروری ہیں وہ ان میں پیدا ہو جائیں۔ اس کام کے لیے جتنی مدت چاہیں تجویز کریں اور اس مدت کو جتنے مراحل پر چاہیں تقسیم کریں۔ ماہرِ فن ہونے کی حیثیت سے یہ آپ کا اپنا کام ہے۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ابتدائی تعلیم پر ہم اپنے طلبہ میں کیا قابلیتیں اور کیا اوصاف دیکھنا چاہتے ہیں، آپ اس معیارِ مطلوب کو سامنے رکھ کر فیصلہ کر لیں کہ اس معیار کے طلبہ تیار کرنے کے لیے آپ کو کتنی مدت اور کیا سروسامان درکار ہے۔

ابتدائی تعلیم کا معیارِ مطلوب
اخلاقی:
(۱) شائستگی، پاکیزگی، صفائی، تمیزِ حسن و قبح اور ذوقِ سلیم۔
(۲)اخلاقِ حسنہ،انفرادی، عائلی اور اجتماعی۔
(۳) انضباط (discipline) باقاعدہ اورمہذب طریقہ سے سوسائٹی میں رہنے اور کام کرنے کا ڈھنگ، محاسبہ نفس کی عادت، احساسِ فرض، احساسِ ذمہ داری۔
(۴)وسعتِ قلب، وسعتِ نظر، وسعتِ تصور، بلند حوصلگی، خودداری۔
(۵) عزم وارادے کی پختگی، متانت وسنجیدگی (seriousness) خلوصِ نیت اور یہ ضروری صفت کہ جس معاملہ سے بھی دل چسپی لیں اس میں ان کی دل چسپی منافقانہ طرز کی نہ ہو۔
(۶) جرأت ودلیری، جفاکشی، چستی، ہر طرح کام کر لینے کی صلاحیت، زندگی کے ہر پہلو سے کچھ نہ کچھ واقفیّت (نہ صرف معلومات کی حد تک بلکہ عملاً بھی)
(۷) اسلامی نصب العین کا عشق اور گہرا اسلامی جذبہ، روح اور قلب میں اترا ہوا ہو اور جس کا اظہار بچوں کی تمام حرکات و سکنات سے ہو۔
(۸) اسلامی اوزان اور پیمانوں (islamic standard of weights and measures) سے ہر چیز کو ناپنے اور تولنے کی عادت۔
(۹) جماعتی زندگی کے لیے وہ مناسب اوصاف جو قرآن وحدیث میں بیان کیے گئے ہیں۔
(۱۰) ضروری انتظامی صلاحیّت۔
(۱۱) تحقیق وتجسس اور تفکر ومشاہدہ کی عادت، کھلے کانوں اور کھلی آنکھوں کے ساتھ دنیا میں رہنا، باقاعدگی کے ساتھ سوچنا، استدلال کرنا اور پرکھنا۔
عملی
(۱) کشتی، تیراکی، بنوٹ، تلوار کا استعمال، گھوڑے کی سواری، سائیکل کی سواری، بندوق کا استعمال۔
(۲) پھاوڑے، کدال، ہتھوڑے، بیلچے، آری، بسولے، اور برمے سے کام لینے پر قادر ہونا، ابتدائی طبی امداد سے عملاً واقف ہونا۔
(۳) منڈی سے مال خریدنے اور اپنا مال بیچنے پر بے جھجک قادر ہونا۔
(۴) دارالاقامہ کے انتظام، کسی بڑے اجتماع کے اہتمام اور کسی بڑی پارٹی کے سفرکے انتظام پر قادر ہونا۔
(۵) دفتری کاموں سے واقفیت، تجارتی مراسلت کی مشق۔
(۶) تقریر، تحریر، تبلیغ، گفتگو اور ترغیبی مذاکرہ (convassing) پر قادر ہونا۔
(۷) کسی حد تک کھانا پکانے، کپڑا کترنے اور سی لینے پر قادر ہونا۔
علمی
(۱) اردو نوشت وخواند اس پیمانے پر کہ طالب علم صحیح اردو لکھ سکے۔ ہر طرح کا اردو لٹریچر پڑھ اور سمجھ سکے اور اپنے خیالات تحریر اور تقریر میں ادا کر سکے۔
(۲)ابتدائی عربی قرآن فی الجملہ سمجھ لینے کی حد تک۔
(۳)فارسی، گلستان وبوستان پڑھ سکنے کی قابلیت تک۔
(۴)ابتدائی انگریزی: ان علوم کی ابتدائی کتابیں انگریزی میں سمجھ لینے اور ان کا ترجمہ کر لینے کے قابل جنھیں معلومات عامہ کے سلسلے میں طالب علم اردو میں پڑھے گا۔
(۵)ضروری ریاضی جو ذہنی تربیت اور ہماری متوسط اور اعلیٰ تعلیم کی ضروریات کے لیے کافی ہو۔
(۶)جغرافیہ، طبعی، عالمی، قرآنی اور ہندی۔
(۷)تاریخِ اسلام و مسلمین، سیرتِ انبیا و صلحائے امت اور تاریخِ ہند کی ضروری معلومات
(۸)اسلامی عقائد، اسلامی اخلاق اور اسلامی تہذیب وتمدن کے متعلق واضح تصوّرات، نیز فقہ کی وہ ضروری تفصیلات جو ایک مسلمان کو اپنی مذہبی زندگی کے لیے لازماً معلوم ہونی چاہییں۔
(۹)صحتِ عامہ ووظائفِ اعضا (physiology) ، طبیعات، علم الکیمیا، فلکیات، اراضیات، غرض اپنے جسم، اپنی سوسائٹی اور اپنے ماحول کے متعلق ضروری معلومات۔
(۱۰)ڈرائنگ، سکیل ڈرائنگ، ماڈل ڈرائنگ، اور فری ہینڈ پینٹنگ میں صفائی، ستھرائی، صحت اور حسنِ ذوق، نیزنقشہ بنانے اور نقشہ سمجھنے (map reading) کی قابلیت۔
ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کا عارضی انتظام
یہ تو وہ اُمورتھے جو مجھے اصل نظامِ تعلیم کے متعلق عرض کرنا تھے۔ اب میں ایک اور ضروری چیز کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ یہ بات ظاہر ہے کہ ہماری تحریک کی حقیقی ضرورتیں محض ابتدائی یا ثانوی تعلیم سے پوری نہیں ہو سکتیں بلکہ وہ صرف اس انتہائی تعلیم ہی سے پوری ہو سکتی ہیں جس کے پانچ شعبوں کی طرف میں ابتدا میں اشارہ کر چکا ہوں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس انتہائی مرحلہ پر پہنچنے میں ہمیں ابھی بہت دیر لگے گی۔ لیکن ہماری تحریک کی موجودہ ضروریات کا تقاضا اتنا شدید ہے کہ ہم اپنی اعلیٰ تعلیم کے لیے اس وقت تک زیادہ انتظام نہیں کر سکتے جب تک ہمارے طلبہ ابتدائی تعلیم سے بتدریج ترقی کرتے ہوئے انتہائی منزل پر پہنچیں گے۔ اس لیے اعلیٰ اور ثانوی تعلیم کا ایک عارضی انتظام بہرحال ہمیں جلدی سے جلدی کرنا چاہیے تاکہ وہ لوگ جو کالجوں اور عربی مدرسوں میں تعلیم پا چکے ہیں، انھیں ہم اسلامی نقطۂ نظر سے علمی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے تیار کر سکیں۔ اس کے دو فائدے ہوں گے۔ ایک یہ کہ ہمیں اس وقت جن اعلیٰ درجے کے کارکنوں اور راہ نمائوں کی ضرورت ہے وہ تیار ہو سکیں گے۔ دوسرے یہ کہ اس عارضی انتظام سے جن لوگوں کو ہم تیار کریں گے، وہی ہمارے نظامِ تعلیم کے ثانوی اور اعلیٰ شعبوں میں درس وتدریس اورکتبِ نصاب کی تیاری کا کام کر سکیں گے۔ آگے چل کر ہم اس عارضی انتظام کو تھوڑے ردوبدل کے ساتھ اپنی اعلیٰ تعلیم کے ایک مستقل شعبے میں تبدیل کر دیں گے تاکہ ان لوگوں کو جو ہماری ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے مرحلوں سے نہ گزرے ہوں بلکہ یہ مراحل دوسری درس گاہوں سے طے کرکے آئیں ہم اپنی اعلیٰ تعلیم کی کلاسوں میں داخل ہونے کے لیے تیار کر سکیں۔
اس عارضی تعلیم کے لیے نصاب اور مدتِ تعلیم اور مراحلِ تعلیمی تجویز کرنا آپ حضرات کا کام ہے۔ میں صرف وہ معیار پیش کیے دیتا ہوں جو اس تعلیم کی تکمیل کے وقت طلبہ کی قابلیت کا ہونا چاہیے۔
معیارِ مطلوب
(۱) قرآن اور حدیث میں اتنی محققانہ نظر کہ طالب علم زندگی کے مختلف مسائل میں کتاب اللّٰہ اور سنتِ رسول اللّٰہ سے راہ نمائی حاصل کرنے کے قابل ہو جائے۔
(۲) فقہ اسلامی سے اتنی واقفیت کہ طالب علم مختلف مذاہب فقہ کے اصولِ استنباط اور ان کے دلائل اور حجتوں سے واقف ہو جائے۔
(۳) معقولاتِ قدیمہ سے اتنی واقفیت کہ طالب علم قدما کی کتابوں سے استفادہ کر سکے اور معقولات جدیدہ سے اتنی واقفیت کہ موجودہ دور کے علمی پس منظر کو اچھی طرح سمجھ سکے۔
(۴) علومِ اجتماعی سے اتنی واقفیت کہ طالب علم موجودہ دور کے تمدنی مسائل اور تمدنی تحریکوں کو ناقدانہ حیثیت سے اچھی طرح سمجھ سکے۔
(۵) تاریخِ عالم پر اجمالی نظر، عہدِ نبوت، خلافتِ راشدہ کی تاریخ، ہندوستان اور یورپ کی جدید تاریخ سے خصوصی واقفیت۔ اب میں آپ سے درخواست کروں گا کہ اپنا کام شروع کریں۔ اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کے اس کام میں برکت عطا فرمائے اور آپ کی راہ نمائی فرمائے۔‘‘
اس تقریر کے بعد سوال نامے کے جوابات ارسال کرنے والوں میں سے جو جو اصحاب موجود تھے انھیں ان کے جواب نامے دے دیے گئے تاکہ مولانا کی افتتاحی تقریر کی روشنی میں اگر وہ اپنے جوابات میں کوئی اضافہ، ترمیم یا اصلاح کرنا چاہیں تو کر لیں اور اگلے روز کے اجلاس کے لیے تقریر مذکورہ کے نقطۂ نظر سے غور وفکر کر لیں۔ اب نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا اس لیے اجلاس ختم ہوا اور بعد نماز عصر سب حضرات علیحدہ علیحدہ یا چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ کر اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔
اجلاسِ دوم
دوسرے روز ۹ بجے کانفرنس کا دوسرا اجلاس پھر دارالاسلام میں شروع ہوا اور دوپہر کا تھوڑاسا وقفہ چھوڑ کر عصر تک جاری رہا۔ سب جوابات جو سوا ل نامے کے جواب میں موصول ہوئے تھے، حاضرین میں تقسیم کر دیے گئے تاکہ ہر سوال کے متعلق جوابات کو بسہولت بیک وقت پیش کیا جا سکے۔ سوال نامے کے ایک ایک سوال پر بہ ترتیب بحث شروع ہوئی، مولانا مودودیؒ سوال نامے سے ایک ایک سوال کو پڑھتے جاتے تھے۔ پھر ان پر پوری سنجیدگی سے غور وفکر اور بحث وتمحیص ہوتی اور آخری فیصلے کو تحریر کر لیا جاتا… جو اُمور طے ہوئے وہ درج ذیل ہیں:
مجلس تعلیمی کی قراردادیں
کل مدتِ تعلیم
(۱) کل مدتِ تعلیم چودہ سال ہونی چاہیے جسے حسبِ ذیل تین مرحلوں میں تقسیم کیا جائے:
(الف) ابتدائی مرحلہ ۸ سال
(ب) ثانوی مرحلہ ۲ سال
(ج) اعلیٰ مرحلہ ۴ سال
مرحلہ ابتدائی
(۲) سرِدست صرف ابتدائی مرحلے کے لیے ایک درس گاہ قائم کی جائے جس کے انچارج غازی عبدالجبار صاحب ایم۔ اے، بی ٹی ہوں۔
(۳) اس درس گاہ کی ابتدائی جماعت میں ۶ سال سے لے کر ۸ سال کی عمر تک کے طلبہ داخل کیے جائیں۔
نوٹ: درمیانی جماعتوں میں داخل ہونے والے طلبہ کو امتحاناً ایک مقررہ عرصہ تک (جو زیادہ سے زیادہ تین ماہ ہو) درجہ خاص، (special class) میں رکھا جائے۔ ایک ہم عمر طالب علم کو ان کا رفیق مقرر کیا جائے جو انھیں مرکز کی زندگی کے مختلف شعبوں سے متعارف کرائے، اس رفیق کے نگران اس نووارد کے نگران بھی ہوں گے، اور وہ کوشش کریں گے کہ نووارد جلدی سے جلدی کسی ایک درجے کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے اور مرکز کی پوری زندگی میں شامل ہونے کے قابل ہو جائے۔
(۴) یہ درس گاہ لازماً اقامتی (residential) ہو گی۔
(۵) طلبہ کی تعلیم اور پرورش کے مصارف ان کے سرپرستوں کو برداشت کرنا ہوں گے۔
(۶) اس درس گاہ میں صرف ان لوگوں کے بچوں کو داخل کیا جائے گا جو نہ صرف ’’جماعت‘‘ کے نصب العین سے متفق ہوں بلکہ درس گاہ میں بچوں کو داخل کرتے وقت اس بات کا تحریری اقرار نامہ داخل کریں کہ وہ اپنے بچوں کو کسی نوعیت سے غیر اسلامی نظام کے کارکن بنانے کے لیے تیار نہیں کر رہے ہیں بلکہ انھوں نے اپنے بچوں کو اس نصب العین کی خدمت کے لیے دے دیا ہے۔
(۷) ابتدائی منزل میں طلبہ کو کسی خاص پیشہ کے لیے تیار کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ ہم یہ کوشش کریں گے کہ اپنی عملی اور اخلاقی تربیت سے بچوں کی تمام پیدائشی قابلیتوں اور استعدادوں کو اس حد تک نشوونما دے دیں اور انھیں عملاً اس حد تک مشاہدہ اور تجربہ کرا دیں کہ وہ آٹھ سال کی تعلیم وتربیت سے فارغ ہونے کے بعد اپنے اندر یہ طاقت محسوس کرنے لگیں کہ خدا کی زمین میں ہر طرف ان کے لیے کام کرنے اور اپنی ضروریات حاصل کرنے کے مواقع موجود ہیں اور وہ ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس اپنی درس گاہ کے فارغ شدہ طلبہ کے معاشی مسئلہ کا یہی ایک حل ہے۔
(۸) نصاب اور درسیات کی ترتیب کا کام حسب ذیل پانچ حضرات کی مجلس کے سپرد کیا گیا اور اس مجلس کو اختیار دیا گیا کہ اس کام میں جن جن اصحاب سے چاہے مدد لے اور چار مہینے میں اپنی تجاویز کا خاکہ مرتب کر لے۔
(۱) غازی عبدالجبار صاحب۔
(۲) مولانا امین احسن اصلاحی صاحب۔
(۳) قاضی حمید اللہ صاحب (سیال کوٹ)
(۴) نعیم صدیقی صاحب۔
(۵) خواجہ محمد صدیق صاحب (دہلی)
غازی عبدالجبار صاحب اس مجلس کے داعی ہوں گے۔
نوٹ: جو جوابات ہمارے سوال نامے کے جواب میں موصول ہوئے ہیں نیز جو مواد درسیات کے سلسلے میں آیا ہے، وہ سب اس مجلس کے حوالے کر دیا گیا۔
(۹) درس گاہ کے انتظامی اُمور، اساتذہ کے انتخاب، اساتذہ کی تیاری، دارالاقامہ اور درس گاہ کے نظم ونسق، تعمیرات اور دیگر انتظامی کاموں کا نقشہ مرتب کرنے کے لیے حسبِ ذیل حضرات کی مجلس مقرر کی گئی:
(۱) سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ صاحب
(۲)مولانا امین احسن اصلاحی صاحب
(۳)غازی عبدالجبار صاحب
(۴)چودھری محمد اکبر صاحب (سیال کوٹ)
غازی عبدالجبار صاحب اس مجلس کے بھی داعی ہوں گے۔
ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کا عارضی انتظام
(۱۰) اس تعلیم کے لیے ایک الگ درس گاہ قائم کی جائے جس کے انچارج مولانا امین احسن اصلاحی صاحب ہوں گے۔
(۱۱) اس کی مدتِ تعلیم چھے سال رکھی جائے۔ دو سال مرحلہ ثانوی کے لیے اور چار سال مرحلہ تکمیل کے لیے۔
نوٹ: عربی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ اور یونی ورسٹیوں کے گریجوایٹس کے لیے ایسی آسانیاں فراہم کر دی جائیں کہ وہ اس سے کم مدت میں مرحلہ تکمیل طے کر سکیں۔
(۱۲)مرحلہ ثانوی کی ابتدائی منزل میں داخل ہونے کے لیے ایسے لوگ امیدوار ہو سکتے ہیں جو کم از کم میٹریکولیٹ ہوں یا کسی عربی مدرسہ کے متوسط درجہ کے معیار تک تعلیم پا چکے ہوں۔
(۱۳)درس گاہوں میں امیدواروں کا داخلہ ملاقات (interview) کے بعد ہو گا۔
(۱۴)صرف ایسے امیدواروں کو درس گاہوں میں داخل کیا جائے گا، جو جماعت اسلامی کے نصب العین سے متفق ہوں۔
(۱۵)طلبہ کو اپنے مصارف کا خود کفیل ہونا ہو گا۔
(۱۶)اس درس گاہ کے نصاب ودرسیات اور جملہ انتظامی امور کی تفصیلات مرتب کرنے کے لیے حسب ذیل اصحاب کی ایک مجلس مقرر کی گئی۔
(۱) مولانا امین احسن اصلاحی صاحب
(۲)مولانا اختر احسن اصلاحی صاحب
(۳)مولانا مسعود عالم ندوی صاحب
(۴)مولانا ابواللیث اصلاحی صاحب
٭…٭…٭…٭…٭

باب ششم: اسلامی نظامِ تعلیم اور پاکستان میں اس کے نفاذ کی عملی تدابیر

(یہ وہ تقریر ہے جو مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ صاحب نے طلبہ کے ایک اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے ۲۵۔ فروری ۱۹۵۲ء کو برکت علی محمڈن ہال لاہور میں کی تھی)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم، وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنo
جناب صدر اور حاضرین و حضرات!
جس مسئلے پر مجھے آپ کے سامنے اظہار خیال کرنا ہے وہ یہ ہے کہ:
’’اسلامی نظامِ تعلیم کو اس ملک میں رائج کرنے کی عملی صورت کیا ہے۔‘‘ میں نے اپنی تقریر کے لیے یہ موضوع اختیار نہیں کیا کہ اس ملک میں کون سا نظامِ تعلیم جاری ہو، اس لیے کہ یہ مملکت اسلام ہی کے نام پر بنائی گئی ہے۔ اس کے قیام کا مطالبہ ہی اسلام پر مبنی تھا۔ اس کے متعلق اوّل روز سے کہا جاتا رہا ہے کہ ہم ایک الگ خطہ زمین اس لیے چاہتے ہیں کہ اس میں اسلامی تہذیب اور اسلامی نظامِ زندگی کو از سر نو زندہ اور قائم کیا جائے اور تقدیر الٰہی بھی یہی معلوم ہوتی ہے کہ اسے لازماً اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کا مرکز بننا ہے۔ اس لیے اب یہاں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ کِس قسم کا نظامِ تعلیم اس ملک میں رائج ہو۔ بلکہ یہ امر طے شدہ سمجھنا چاہیے کہ یہاں اسلامی نظامِ تعلیم ہی کو رائج ہونا ہے۔ البتہ اگر کوئی چیز زیر غور ہونی چاہیے، اور ہو سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ یہاں کے نظامِ تعلیم کو اسلام کے سانچوں میں ڈھالنے کے لیے کیا صورت اختیار کرنی چاہیے۔
تاہم یہ بات مجھے بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ اس مملکت کے قیام کے چار ساڑھے چار سال بعد آج تک ہمارے ہاں یہی مسئلہ زیر بحث ہے کہ تعلیم کو کس طرح اسلامی سانچوں میں ڈھالا جائے۔ یہ کام تو مملکت کے قیام کے بعد سب سے پہلے کرنے کا تھا۔ ظاہر بات ہے کہ دنیا میں کوئی مملکت بھی اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک وہ اپنے چلانے والوں کو تربیت دینے کا اور انھیں اپنے مقصد اور اپنے مدعا کے مطابق تیار کرنے کا انتظام نہ کرے۔ اس لحاظ سے حقیقت میں تعلیم کا مسئلہ ایک مملکت کے لیے بنیادی مسائل میں سے ہے اور یہ ایسی چیز ہے کہ ملک کے قیام کے بعد اس کے سربراہ کاروں کو سب سے پہلے اس کی فکر ہونی چاہیے تھی۔ لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ چار ساڑھے چار سال بعد بھی کوئی آثار ہمیں ایسے نظر نہیں آتے کہ کسی نے نظامِ تعلیم کو اسلامی سانچوں میں ڈھالنے کے متعلق کچھ بھی سوچا ہو۔ عملی اقدامات تو درکنار ہمیں سوچنے کے آثار بھی نظر نہیں آتے۔
بہرحال اب جب کہ یہ صورت حال ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ لوگ آگے بڑھیں اور بڑھ کر انھیں بتائیں کہ ہمارا موجودہ نظامِ تعلیم کس حد تک، کس طرح اور کس کس حیثیت سے ہمارے اس مقصد کی ضد پڑ رہا ہے جس کے لیے ہماری یہ مملکت قائم ہوئی ہے اور اس کے ساتھ انھیں یہ بھی بتائیں کہ اگر نظامِ تعلیم کو اس مقصد کے مطابق ڈھالنا ہے تو کس طرح ڈھالا جائے۔ اس کی عملی صورت کیا ہے اور اس کا نقشہ کیا ہونا چاہیے۔ اسی خدمت کو انجام دینے کے لیے میں آپ کے سامنے حاضر ہوا ہوں اور دوسرے جو لوگ بھی اس طرح کی فکر رکھنے والے ہیں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی اس فرض کو انجام دیں۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم ان نقائص کو اچھی طرح سمجھ سکیں جو ہمارے نظامِ تعلیم میں اس وقت پائے جاتے ہیں جب تک ہم یہ بات نہ جان لیں کہ جو چیز اس وقت موجود ہے اس میں کیا خرابی ہے۔ ہم یہ نہیں جان سکتے کہ اس میں اصلاح کس طرح اور کس شکل میں ہونی چاہیے۔ ہمارے ملک میں اس وقت دو طرح کے نظام رائج ہیں۔ ایک نظامِ تعلیم ہمارے پرانے طرز کے مدارس میں رائج ہے جو ہماری مذہبی ضروریات پورا کرنے کے لیے علما تیار کرتا ہے اور دوسرا نظامِ تعلیم وہ ہے جو ہمارے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں رائج ہے اور وہ مذہبی دائرے سے باہر ہمارے پورے نظامِ زندگی کو چلانے کے لیے کارکن تیار کرتا ہے۔ میں ان دونوں کے نقائص آپ کے سامنے وضاحت سے بیان کروں گا۔
قدیم نظامِ تعلیم
جہاں تک ہمارے پرانے نظامِ تعلیم کا تعلق ہے وہ آج سے صدیوں پہلے کی بنیادوں پر قائم ہے، جس وقت یہاں انگریزی حکومت آئی اور وہ سیاسی انقلاب برپا ہوا جس کی بدولت ہم غلام ہوئے۔ اس وقت جو نظامِ تعلیم ہمارے ملک میں رائج تھا وہ ہماری اس وقت کی ضروریات کے لیے کافی تھا۔ اس نظامِ تعلیم میں وہ ساری چیزیں پڑھائی جاتی تھیں جو اس وقت کے نظامِ مملکت کو چلانے کے لیے درکار تھیں۔ اس میں صرف مذہبی تعلیم ہی نہیں تھی بلکہ اس میں فلسفہ بھی تھا، اس میں منطق بھی تھی، اس میں ریاضی بھی تھی۔ اس میں ادب بھی تھا اور دوسری چیزیں بھی تھیں۔ اس زمانے کی سول سروس کے لیے جس طرح کے علوم درکار تھے، وہ سب طلبہ کو پڑھائے جاتے تھے۔ لیکن جب وہ سیاسی انقلاب برپا ہوا جس کی بدولت ہم غلام ہوئے تو اس پورے نظامِ تعلیم کی افادیت ختم ہو گئی۔ اس نظامِ تعلیم سے نکلے ہوئے لوگوں کے لیے نئے دورکی مملکت میں کوئی جگہ نہ رہی۔ جس قسم کے علوم اس دوسری مملکت کو درکار تھے وہ اس کے اندر شامل نہیں تھے اور جو علوم اس میں شامل تھے ان کے جاننے والوں کی اس دوسری مملکت کو کوئی ضرورت نہیں تھی۔ تاہم چوں کہ اس کے اندر ہماری صدیوں کی قومی میراث موجود تھی اور ہماری مذہبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی اس کے اندر کچھ نہ کچھ سامان موجود تھا (اگرچہ کافی نہ تھا) اس لیے اس زمانے میں ہماری قوم کے اچھے خاصے بڑے عنصر نے یہ محسوس کیا کہ اس نظام کو جس طرح بھی ہو سکے قائم رکھا جائے تاکہ ہم اپنی آبائی میراث سے بالکل منقطع نہ ہو جائیں۔
اسی غرض کے لیے انھوں نے اسے جوں کا توں قائم رکھا لیکن جتنے جتنے حالات بدلتے گئے اتنی ہی زیادہ اس کی افادیّت گھٹتی چلی گئی کیوں کہ اس نظامِ تعلیم کے تحت جو لوگ تعلیم پا کر نکلے انھیں وقت کی زندگی اور اس کے مسائل سے کوئی مناسبت ہی نہ رہی۔ اب جو لوگ اس نظامِ تعلیم کے تحت پڑھ رہے ہیں اور اس سے تربیت پا کر نکل رہے ہیں ان کا کوئی مصرف اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ ہماری مسجدوں کو سنبھال کر بیٹھ جائیں یا کچھ مدرسے کھول لیں اور طرح طرح کے مذہبی جھگڑے چھیڑتے رہیں تاکہ ان جھگڑوں کی وجہ سے قوم کو ان کی ضرورت محسوس ہو۔ اس طرح ان کی ذات سے اگر کچھ نہ کچھ فائدہ بھی ہمیں پہنچتا ہے، یعنی ان کی بدولت ہمارے اندر قرآن ودین کا کچھ نہ کچھ علم پھیلتا ہے، دین کے متعلق کچھ نہ کچھ واقفیت لوگوں کو حاصل ہو جاتی ہے اور ہماری مذہبی زندگی میں کچھ نہ کچھ حرارت باقی رہ جاتی ہے لیکن اس کے فائدے کے مقابلے میں جو نقصان ہمیں پہنچ رہا ہے، وہ بہت زیادہ ہے۔ وہ نہ تو اسلام کی صحیح نمایندگی کر سکتے ہیں، نہ موجودہ زندگی کے مسائل پراسلام کے اصولوں کو منطبق کر سکتے ہیں، نہ ان کے اندر اب یہ صلاحیت ہے کہ دینی اصولوں پر قوم کی راہ نمائی کر سکیں اور نہ وہ ہمارے اجتماعی مسائل میں سے کسی مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اب ان کی بدولت دین کی عزت میں اضافہ ہونے کی بجائے الٹی اس میں کچھ کمی ہو رہی ہے، دین کی جیسی نمائندگی آج ان کے ذریعہ سے ہو رہی ہے، اس کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں میں دین سے روز بروز بُعد بڑھتا جا رہا ہے اور دین کے وقار میں کمی آ رہی ہے۔ پھر ان کی بدولت ہمارے ہاں مذہبی جھگڑوں کا ایک سلسلہ ہے جو کسی طرح ٹوٹنے میں نہیں آتا، کیوں کہ ان کی ضروریات زندگی انھیں مجبور کرتی ہیں کہ وہ ان جھگڑوں کو تازہ رکھیں اور بڑھاتے رہیں۔ یہ جھگڑے نہ ہوں تو قوم کو سرے سے ان کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔
یہ ہے ہمارے پرانے نظام تعلیم کی پوزیشن اور یہ بھی وضاحت کے ساتھ کہہ دوں کہ حقیقت میں وہ دینی تعلیم بہت کم ہے۔ دراصل وہ اب سے دو ڈھائی سو برس پہلے کی سول سروس کی تعلیم ہے جس میں زیادہ تر اس وجہ سے دینی تعلیم کا جوڑ لگایا گیا تھا کہ اس زمانے میں اسلامی فقہ ہی ملک کا قانون تھی اور اسے نافذ کرنے والے کے لیے فقہ اور اس کی بنیادوں کا جاننا ضروری تھا۔ آج ہم غنیمت سمجھ کر اسی کو اپنی دینی تعلیم سمجھتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں اس کے اندر دینی تعلیم کا عنصر بہت کم ہے، کوئی عربی مدرسہ ایسا نہیں ہے جس کے نصابِ تعلیم میں پورا قرآن مجید داخل ہو۔ صرف ایک یا دو سورتیں (سورہ بقرہ یا سورہ آل عمران) باقاعدہ درسًا درسًا پڑھائی جاتی ہیں۔ باقی سارا قرآن اگر کہیں شاملِ درس ہے بھی تو صرف اس کا ترجمہ پڑھا دیا جاتا ہے۔ تحقیقی مطالعہ قرآن کسی مدرسے کے نصاب میں بھی شامل نہیں۔ یہی صورت حال حدیث کی ہے۔ اس کی باقاعدہ تعلیم جیسی کہ ہونی چاہیے، جیسی کہ محدّث بننے کے لیے درکار ہے، کہیں نہیں دی جاتی۔ درسِ حدیث کا جو طریقہ ہمارے ہاں رائج ہے وہ یہ ہے کہ جب فقہی اور اعتقادی جھگڑوں سے متعلق کوئی حدیث آ جاتی ہے تو اس پردو دو تین تین دن صرف کر دیے جاتے ہیں۔ باقی رہیں وہ حدیثیں جو دین کی حقیقت کو سمجھاتی ہیں، یا جن میں اسلام کا معاشی، سیاسی، تمدنی اور اخلاقی نظام بیان کیا گیا ہے، جن میں دستورِ مملکت یا نظامِ عدالت یا بین الاقوامی امور پر روشنی پڑتی ہے۔ ان پر سے استاد اور شاگرد دونوں اس طرح رواں دواں گزر جاتے ہیں کہ گویا ان میں کوئی بات قابل توجہ ہے ہی نہیں۔ حدیث اور قرآن کی بہ نسبت ان کی توجہ فقہ کی طرف زیادہ ہے، …… لیکن اس میں زیادہ تر، بلکہ تمام تر جزئیات فقہ کی تفصیلات ہی توجہات کا مرکز رہتی ہیں۔ فقہ کی تاریخ، اس کے تدریجی ارتقا، اس کے مختلف اسکولوں کی امتیازی خصوصیات، ان کے اسکولوں کے متفق علیہ اور مختلف فیہ اصول اور ائمہ مجتہدین کے طریقِ استنباط، جن کے جانے بغیر کوئی شخص حقیقت میں فقیہ نہیں بن سکتا، ان کے درس میں سرے سے شامل ہی نہیں ہیں۔ بلکہ ان چیزوں پر شاگرد تو درکنار استاد بھی نگاہ نہیں رکھتے۔
اس طرح یہ نظامِ تعلیم ہماری ان مذہبی ضروریات کے لیے بھی سخت ناکافی ہے۔ جن کی خاطر اسے باقی رکھا گیا تھا۔ رہیں دنیوی ضروریات تو ان سے تو اسے سرے سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔
جدید نظامِ تعلیم
اس کے بعد اس نظام تعلیم کو لیجیے جو انگریزوں نے یہاں قائم کیا۔ دنیا میں جو بھی نظامِ تعلیم قائم کیا جائے اس میں اولین بنیادی سوال یہ ہوتا ہے کہ آپ کس قسم کے آدمی تیار کرنا چاہتے ہیں اور آدمیت کا وہ کیا نقشہ آپ کے سامنے ہے جس کے مطابق آپ لوگوں کو تعلیم وتربیت دے کر ڈھالنا چاہتے ہیں؟ اس بنیادی سوال کے لحاظ سے آپ دیکھیں تو یقینا انگریز کے سامنے انسانیت کا وہ نقشہ ہرگز نہیں تھا جو مسلمانوں کے سامنے ہونا چاہیے۔ انگریز نے یہ نظامِ تعلیم یہاں اس لیے قائم نہیں کیا تھا کہ مسلمانوں کی تہذیب کو زندہ رکھنے اور ترقی دینے کے لیے کارکن تیار کرے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ چیز اس کے پیش نظر نہیں ہو سکتی تھی۔ پھر اس کے پیش نظر انسانیت کا وہ نقشہ بھی نہیں تھا جو خود اپنے ملک انگلستان میں اس کے پیش نظر تھا۔ وہ اس مقصد کے لیے یہاں آدمی تیار کرنا نہیں چاہتا تھا جس کے لیے وہ اپنے ملک میں اپنی قوم کے لیے تیار کرتا تھا۔ وہ یہاں ایسے لوگ تیار کرنا نہیں چاہتا تھا جو ایک آزاد قومی حکومت کو چلانے کے لیے موزوں ہوں۔ یہ چیز تو اسے اپنے ملک میں مطلوب تھی نہ کہ ہمارے ملک میں۔ یہاں جس قسم کے آدمی تیار کرنا اس کے پیشِ نظر تھا ان کے اندر اولین صلاحیت وہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ باہر سے آ کر حکومت کرنے والی ایک قوم کے بہتر سے بہترآلہ کار بن سکیں۔ اسے یہاں ایسے آدمی درکار تھے جو اس کی زبان سمجھتے ہوں، جن سے وہ ربط اور تعلق رکھ سکے اور کام لے سکے، جو اس کے ان اصولوں کو جانتے اور سمجھتے ہوں جن پر وہ ملک کا نظام چلانا چاہتا تھا، اور جن میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ اس کے آلہ کار بن سکیں۔ یہ مقصد اس کے سامنے تھا اور اسی مقصد کے لیے اس نے یہ نظام رائج کیا۔
بے خدا تعلیم
اس نظامِ تعلیم میں اس نے جتنے علوم پڑھائے، ان میں اسلام کا کوئی شائبہ نہ تھا اور نہ ہو سکتا تھا۔ خود یورپ میں ان سارے علوم کا جو ارتقا ہوا تھا وہ تمام تر خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کی راہ نمائی میں ہوا تھا۔ جو مذہبی طبقہ وہاں موجود تھا، وہ پہلے ہی فکر وعمل کے میدان سے بے دخل کیا جا چکا تھا۔ اس لیے تمام علوم کا ارتقا خواہ وہ سائنس میں ہو یا فلسفہ، تاریخ ہو یا عمرانیات، ایسے لوگوں کے ہاتھوں ہوا جو اگر خدا کے منکر نہ تھے تو کم از کم اپنی دنیوی زندگی میں خدا کی راہ نمائی کی کوئی ضرورت بھی محسوس نہ کرتے تھے۔ انگریز نے اپنے انھی علوم کو لا کر، انھی کتابوں کے ساتھ اس ملک میں رائج کیا، اور آج تک انھی علوم کو اسی طرز پر یہاں پڑھایا جا رہا ہے۔ اس نظامِ تعلیم کے تحت جو لوگ پڑھتے رہے ان کا ذہن قدرتی طور پر بغیر اپنے کسی تصور اور اپنے کسی ارادے کے آپ سے آپ اس طرح بنتا چلا گیا کہ وہ دین سے، دینی نقطۂ نظر سے اور دینی طرزِ فکر سے روز بروز بعید تر ہوتے چلے گئے۔ ظاہرہے کہ جو شخص اپنی تعلیم کے نقطۂ آغاز سے لے کر اپنی انتہائی تعلیم تک دنیا کے متعلق جتنی معلومات بھی حاصل کرے وہ ساری کی ساری خدا پرستی کے نقطۂ نظر سے خالی ہوں، اس کے ذہن میں آخر خدا کا اعتقاد کیسے جڑ پکڑ سکتا ہے۔ اس کی درسی کتابوں میں خدا کا کہیں ذکر ہی نہ ہو، وہ تاریخ پڑھے تو اس میں پوری انسانی زندگی اپنی قسمت آپ ہی بناتی اور بگاڑتی نظر آئے، وہ فلسفہ پڑھے تو اس میں کائنات کی گتھی خالقِ کائنات کے بغیر ہی سلجھانے کی کوشش ہو رہی ہو۔ وہ سائنس پڑھے تو اس میں سارا کارخانۂ ہستی کسی صانع حکیم اور ناظم ومدبر کے بغیر چلتا ہوا دیکھا جائے۔ وہ قانون، سیاست، معیشت اور دوسرے علوم پڑھے تو ان میں سرے سے یہ امر زیرِ بحث ہی نہ ہو کہ انسانوں کا خالق ان کے لیے زندگی کے کیا اصول اور احکام دیتا ہے، بلکہ ان سب کا بنیادی نظریہ ہی یہ ہو کہ انسان آپ ہی اپنی زندگی کے اصول بنانے کا حق رکھتا ہے، ایسی تعلیم پانے والے سے کبھی یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ تو خدا کا انکار کر۔ وہ آپ سے آپ خدا سے بے نیاز اور خدا سے بے فکر ہوتا چلا جائے گا۔
اَخلاق سے خالی تعلیم
یہ تعلیم خدا پرستی اور اسلامی اخلاق سے تو خیر خالی ہے ہی، مگر غضب یہ ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوانوں میں وہ بنیادی انسانی اخلاقیات تک پیدا نہیں کرتی جن کے بغیر کسی قوم کا دنیا میں ترقی کرنا تو درکنار، زندہ رہنا بھی مشکل ہے۔ اس کے زیر اثر پرورش پا کر جو نسلیں اٹھ رہی ہیں وہ مغربی قوموں کے عیوب سے تو ماشاء اللّٰہ پوری طرح آراستہ ہیں۔ مگر ان کی خوبیوں کی چھینٹ تک ان پر نہیں پڑی ہے۔ ان میں نہ فرض شناسی ہے، نہ مستعدی وجفاکشی، نہ ضبط اوقات، نہ صبروثبات، نہ عزم واستقلال، نہ باقاعدگی وباضابطگی، نہ ضبطِ نفس، نہ اپنی ذات سے بالا کسی چیز کی وفاداری، وہ بالکل خود رو درختوں کی طرح ہیں جنھیں دیکھ کر یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ان کا کوئی قومی کریکٹر بھی ہے، انھیں معزز سے معزز پوزیشن میں ہو کر بھی کسی ذلیل سے ذلیل بددیانتی اور بدکرداری کے ارتکاب میں دریغ نہیں ہوتا۔ ان میں بدترین قسم کے رشوت خور، خویش پرور، سفارشیں کرنے اور سننے والے، بلیک مارکیٹنگ کرنے اورکرانے والے، ناجائز درآمدوبرآمد کرنے اور کرانے والے، انصاف اور قانون اور ضابطے کا خون کرنے والے، فرائض سے جی چرانے اور لوگوں کے حقوق پر چُھری چلانے والے، اور اپنے ذرا سے مفاد پر اپنی پوری قوم کے مفاد اور فلاح کو قربان کر دینے والے، ایک دو نہیں وہ ہزاروں کی تعداد میں، ہر شعبۂ زندگی میں، ہر جگہ آپ کو کام کرتے نظر آتے ہیں۔ انگریز کے ہٹ جانے کے بعد مملکت کو چلانے کی ذمہ داری کا بار اسی تعلیم کے تیار کیے ہوئے لوگوں نے سنبھالا ہے اور چند سال کے اندر ان بے سیرت کارکنوں کے ہاتھوں ملک کا جو حال ہوا ہے وہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اور جونسل اب اس نظامِ تعلیم کی درس گاہوں میں زیر تربیت ہے اس کے اخلاق وکردار کا حال آپ چاہیں تو درس گاہوں میں، ہوسٹلوں میں، تفریح گاہوں میں اور قومی تقریبات کے موقع پر بازاروں میں دیکھ سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس تعلیم میں خدا پرستی اور اسلامی اخلاق نہ سہی، آخر وہ اخلاق کیوں نہیں پیدا ہوتے جو انگریزوں میں، جرمنوں میں، امریکیوں میں اور دوسری ترقی یافتہ مغربی قوموں میں پیدا ہوتے ہیں؟ ان کے اندر کم از کم بنیادی انسانی اخلاقیات تو بدرجہ کمال پائے جاتے ہیں یہاں وہ بھی مفقود ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ بنیادی انسانی اخلاقیات پیدا کرنے کی فکر وہ نظامِ تعلیم کرتا ہے جو ایک آزاد قوم اپنے نظامِ زندگی کو چلانے کے لیے بناتی ہے۔ اسے لامحالہ اپنے تمدن کی بقا اور ارتقا کی خاطر ایسے کارکن تیار کرنے کی فکر ہوتی ہے جو مضبوط اور قابلِ اعتماد سیرت کے مالک ہوں۔ انگریز کوایسے کارکنوں کی ضرورت اپنے ملک میں تھی نہ کہ ہمارے ملک میں۔ اس ملک میں تو انگلستان کے برعکس اسے وہ اخلاق پیدا کرنا مطلوب تھے جو بھاڑے کے ٹٹوئوں (mercenaries)کے ہونے چاہییں کہ اپنے ہاتھوں اپنے ہی ملک کو فتح کرکے اپنی قوم کے دشمنوں کے حوالے کر دیں اور پھر اپنے ملک کا نظم ونسق اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے چلاتے رہیں۔ اس کام کے لیے جیسے اخلاقیات کی ضرورت تھی ویسے ہی اخلاقیات انگریزوں نے یہاں پیدا کرنے کی کوشش کی اور انھی کو پیدا کرنے کے لیے وہ تعلیمی مشینری بنائی جو آج تک جوں کی توں اسی شان سے چل رہی ہے۔ اس مشین سے ایک آزاد ملک کے لیے قابل اعتماد پرزے ڈھلنے کی اگر کوئی شخص توقع رکھتا ہے تو اسے پہلے اپنی عقل کے ناخن لینے کی فکر کرنی چاہیے۔
جدید تعلیم کے ساتھ دینیات کا جوڑ
انگریزی حکومت کے قیام کے بعد جب یہ نظام تعلیم ملک میں رائج ہوا اور ترقی وخوش حالی کے تمام دروازے ان لوگوں کے لیے بند کر دیے گئے جو یہ تعلیم حاصل نہ کریں تو ہماری قوم کے صاحب فکر وتدبیر لوگوں کو یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ نظام تعلیم ہماری نئی نسلوں کو بالکل ہی نامسلمان بنا کر نہ رکھ دے۔ اس لیے انھوں نے چاہا کہ اسی نظام کے تحت خود اپنے اہتمام میں قومی مدرسے، کالج اور یونی ورسٹیاں قائم کریں جن میں طلبہ کو پڑھایا تو وہی کچھ جائے جس کے لیے انگریز انھیں تیار کرنا چاہتا ہے، مگر ساتھ ساتھ دینیات کی تعلیم کا جوڑ بھی لگا دیا جائے تاکہ وہ بالکل کافر ہی ہو کر نہ رہ جائیں۔
یہ ایک اصلاح کی تجویز تھی اور خیال یہ کیا گیا تھا کہ اس طریقے سے ہم ان مسلمان نوجوانوں کو جو ہمارے اداروں میں آ کر پڑھیں گے، ان بُرے اثرات سے کسی نہ کسی حد تک بچا سکیں گے جو انگریزی تعلیم سے پہنچنے کی توقع تھی۔ لیکن تجزئیے نے ثابت کر دیا اور عقل سے بھی آپ سوچیں تو یہی آپ کی سمجھ میں آئے گا کہ اس طرح کے قلم لگانے سے حقیقت میں کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہ پیوندی انسان تیار کرنے کی ایک عجیب کوشش تھی جو قطعاً ناکام ہوئی اور قانونِ فطرت کے مطابق اسے ناکام ہونا ہی چاہیے تھا۔
ایک طرف آپ ایک طالب علم کو تمام دنیوی علوم اس طریقے سے پڑھاتے ہیں کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ سارا کارخانہ بے خدا ہے اور خدا کے بغیر ہی چل رہا ہے اور خوب کام یابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ جو علم بھی وہ پڑھتا ہے اس کے اندر کہیں اسے یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اس کارخانۂ دنیا میں یا اس کارخانۂ زندگی میں کہیں خدا کا کوئی مقام ہے، کہیں رسولؐ کا کوئی مقام ہے، کہیں وحی کی کوئی حاجت ہے۔ سارے کے سارے نظامِ زندگی کو وہ اسی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔ اس کے بعد یکایک آپ دینیات کی کلاس میں لے جا کر اسے بتاتے ہیں کہ خدا بھی ہے اور رسول بھی ہے اور وحی بھی آتی ہے اور کتابیں بھی آتی ہیں۔ آپ خود غور کیجیے کہ دنیا کے مجموعی تصوّر سے الگ اور بالکل بے تعلق کرکے یہ اطلاع جو آپ اسے دے رہے ہیں اسے وہ اس مجموعے میں آخر کہاں نصب کرے گا؟ کس طرح آپ ہر طالب علم سے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ کائنات اور زندگی کے بے خدا تصوّر کے ساتھ دینیات کی یہ پوٹلی جو آپ الگ سے اس کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں، اسے وہ کھول کر روز کے روز دوسرے اجزائے علم کے ساتھ ترکیب دیتا رہے گا اور خود بخود اپنے ذہن میں ایک دوسرا باخدا تصور مرتب کرتا رہے گا۔
پھر اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے قومی خرچ پر جو درس گاہیں قائم کیں ان میں بھی ہم نے وہی سارا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جو سرکاری درس گاہوں میں تھا۔ ہم نے کوشش کی کہ ہمارے طلبہ انگریزی بولیں اور انگریزی لباس پہنیں۔ ہم نے کوشش کی کہ وہ انگریزی کلچر ہی کے رنگ میں رنگے جائیں۔ ہم نے کھیلوں میں اور نشست وبرخاست میں اور رہنے سہنے میں اور مسائل پر بحثوں میں، غرض ہر چیز میں یہی کوشش کی کہ ہماری یہ قومی درس گاہیں کسی طرح بھی سرکاری درس گاہوں سے مختلف نہ ہوں۔ بالکل اسی معیار کے آدمی یہاں سے نکلیں جیسے سرکاری درس گاہوں سے نکلتے ہیں اور کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ انگریزی معیار کے لحاظ سے سرکاری درس گاہوں سے نکلے ہوئے لوگوں سے کسی طرح بھی کم تر ہیں۔ جب یہ مقصد ہمارے سامنے تھا اور اسی کی خاطر ہم نے پورا فرنگیت کا ماحول طاری کرنے کی کوشش کی تو اس ماحول کے اندر اسلام کی وہ ذرا سی قلم جو ہم نے لگائی وہ آخر اپنا کیا رنگ دکھا سکتی تھی۔ تعلیمی حیثیت سے وہ نہایت کم زور تھی۔ دوسرے کسی نصابِ تعلیم سے اس کا کوئی جوڑ نہ تھا۔ جتنے دلائل ایسے ہو سکتے تھے جو خدا پرستی کے لیے کار آمد ہوتے وہ سارے کے سارے دلائل ہم نے ناخدا پرستی اور ناخداشناسی کے لیے فراہم کرکے دئیے۔ اس پر مزید ہم نے یہ کیا کہ اپنے قومی کالجوں میں بھی سرکاری کالجوں کی طرح زندگی کا پورا ماحول ذہنی تربیت کا پورا نظام ایسا رکھا جو اسلام کے اس کم زور سے پیوند کی بجائے فرنگیت اور الحاد کے لیے ہی سازگار تھا۔ ا س میں کوئی چیز بھی ایسی نہ تھی جو اس پیوند کو غذا دینے والی ہو، بلکہ ہر چیز عین اس کی فطرت کے خلاف تھی۔ یہ سب کچھ کرکے ہم کسی معجزے کی توقع رکھتے تھے کہ دینیات کی اس تعلیم سے حقیقت میں کوئی دینی جذبہ پیدا ہو گا، کوئی دینی رجحان نشوونما پائے گا، اسلام کی کوئی قدروقیمت لوگوں کے دلوں میں جاگزیں ہو گی اور ان کے اندر اسلامی کیریکٹر پیدا ہو گا، حالانکہ قانونِ فطرت کے مطابق اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا اور یہی عملاً برآمد ہوا کہ جن طلبہ کو اس طریقے سے دینیات کی تعلیم دی گئی، ان کی نگاہوں سے دین گر گیا اور ان کی دینی حالت مشن کالجوں اور گورنمنٹ کالجوں سے زیادہ بد تر ہو گئی۔ یہ واقعہ ہے کہ ہمارے کالجوں میں بالعموم دینیات کا گھنٹا تفریح اور مذاق کا گھنٹا رہا ہے اور اس نے دلوں میں ایمان پیدا کرنے کی بجائے رہے سہے ایمان کا بھی خاتمہ کر دینے کی خدمت انجام دی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہم خوداپنی اولاد کے سامنے اپنے دین کو تمام دوسرے مضامین سے حقیر تر بنا کر پیش کریں گے تو اس کی کم از کم سزا جو قدرت کی طرف سے ہمیں ملنی چاہیے وہ یہی ہے کہ ہمارے بچے ہماری آنکھوں کے سامنے ملحد اور زندیق بن کر اٹھیں اور اپنے ان بزرگوں کو احمق سمجھیں جو خدا، رسول اور آخرت کو مانتے تھے۔
اِصلاح کی غلط تدبیریں
یہ نتائج آج سے ۱۷، ۱۸ برس پہلے پوری شدت کے ساتھ نمایاں ہو چکے تھے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ ۳۵۔۱۹۳۴ء کے زمانے میں یکایک یہ شور برپا ہوا کہ آخر ہماری قومی درس گاہوں سے ملاحدہ اور الحاد ودہریّت کے مبلغین اس کثرت سے کیوں پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ شکایت خاص طور پر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے بارے میں تھی، جہاں عام اندازے کے مطابق نوے فی صدی طلبہ الحاد اور دہریت میں مبتلا تھے۔ جب یہ واقعات پھیلنا شروع ہوئے اور سارے ملک میں اس کے متعلق مضامین لکھے جانے لگے تو ایک کمیٹی بٹھائی گئی جس نے اس مسئلے پر غور کیا۔ اس وقت یہ خیال قائم کیا گیا کہ دینیات کے عنصر کو پہلے کی بہ نسبت کچھ زیادہ کر دینے سے کام چل جائے گا۔ چنانچہ اس سلسلے میں کچھ اصلاحات تجویز کی گئیں اور کچھ نئے نصاب بھی مرتب کیے گئے۔ لیکن یہ اصلاح کچھ بھی مفید ثابت نہ ہوئی اور اس وقت سے آج تک صورتِ حال میں کوئی فرق رونما نہیں ہوا۔
میرا اسی وقت یہ اندازہ تھا اور میں نے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں اسے لکھ بھی دیا تھا کہ ان تدبیروں سے آپ کوئی مفید نتیجہ حاصل نہیں کر سکتے۔ آج میں اس کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ ہمارے اربابِ اقتدار، جن کے ہاتھ میں ہمارا نظامِ تعلیم ہے اور جو وقتاً فوقتاً ہمیں اسلامی نظامِ تعلیم کے قیام کی خوش خبری سناتے رہتے ہیں، اسی غلطی کا پھر اعادہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ان کے پیشِ نظر بھی حقیقت میں اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ یہاں وہی پرانا طرزِ تعلیم جو انگریز کے وقت سے چلا آ رہا ہے، اسی طرح قائم رہے اور اس کے اندر بس دینیات کے عنصر کو ذرا بڑھا دیا جائے۔ اس لیے جو بات میں نے آج سے چند برس پہلے کی تھی آج پھر میں اسے دہراتا ہوں۔ میرے نزدیک اس سے بڑی دنیا میں کوئی غلطی نہیں ہے کہ کسی نظامِ تعلیم میں دو بالکل متضاد عناصر شامل کر دیے جائیں۔ ایسے متضاد عناصر جو ایک دوسرے کے ساتھ مزاحمت کرنے والے اور ایک دوسرے کی تردید کرنے والے ہوں اس طرح کی آمیزش فسادِ ذہنی کے سوا اور کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی۔
فرض کیجیے کہ اس آمیزے میں آپ نے دینی تعلیم کے عنصر کو پچاس فی صدی کر دیا اور باقی پچاس فی صدی آپ کی تعلیم انھی بنیادوں پر رہی جن پر انگریز یہاں قائم کر گیا ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہر طالب علم کا دماغ ایک رزم گاہ بن جائے گا۔ بلکہ ہر طالب علم کی زندگی ایک رزم گاہ بن جائے گی۔ پھر اگر آپ نے اپنے کالجوں میں جہاں تک کہ تعلیمی نصاب کا تعلق ہے، دینیات کا عنصر پچاس فی صدی بھی رکھ دیا، مگر سارا تعلیمی ماحول اور آپ کے کالجوں کی ساری فضا ویسی کی ویسی فرنگیانہ رہی جیسی کہ انگریز کے دور میں تھی، اور یہ آپ کی مملکت بھی انھی بنیادوں پر چلتی رہی جن پر انگریز انھیں قائم کر گیا تھا، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ آپ کی درس گاہوں سے تین قسم کے آدمی نکلیں گے۔ ایک قسم کے تو وہ ہوں گے جو دینیات کی تعلیم پانے کے باوجود پھر بھی ملحد ہوں گے کیوں کہ ایک دوسرا مخالفِ دین عنصر بھی آپ کے نظامِ تعلیم میں موجود ہو گا اور اس کی پشت پر نہ صرف کالج کے ماحول کی طاقت ہو گی بلکہ آپ کی مملکت کا ماحول بھی اسی کے لیے مددگار ہو گا اور مزید برآں دنیا کی طاقت ور سلطنتوں کا بین الاقوامی ماحول بھی اسی کے لیے ساز گار رہے گا۔
دوسری قسم کے لوگ وہ ہوں گے جو دینیات کی تعلیم کا اثر قبول کرکے اسلام ہی کو اپنے دین کی حیثیت سے پسند کریں گے۔
اور تیسری قسم کے لوگ ایسے نکلیں گے جو اسلام اورکفر کے درمیان مذبذب رہیں گے۔ وہ پورے مسلمان ہی ہوں گے نہ پورے کافر۔
یہ ہیں اس طرح کی آمیزشیں کرنے کے لازمی نتائج۔ اگر آپ اس کا تجربہ کریں گے تو خود دیکھ لیں گے کہ اس سے آپ کی قوم میں تین مختلف قسم کے عناصر پیدا ہو جائیں گے جو کسی تہذیب اور کسی نظامِ زندگی کو بھی نشوونما دینے میں یک سوئی کے ساتھ تعاون نہ کر سکیں گے۔ پھر کیا ایک ملک کا نظامِ تعلیم اسی غرض کے لیے بنایا جاتا ہے کہ وہ ملک میں ایک ذہنی کباڑخانہ فراہم کرے؟
ایک انقلابی قدم کی ضرورت
یہ جو کچھ میں نے عرض کیا ہے اس سے میرا مقصد یہ ذہن نشین کرانا ہے کہ اگر فی الواقع ہم ایک اسلامی نظامِ تعلیم قائم کرنا چاہتے ہیں تو محض مرمتیں اور داغ دوزیاں کرنے سے کام نہیں چل سکتا، بلکہ اس کے لیے ایک انقلابی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت اب یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ وہ دونوں نظامِ تعلیم ختم کر دیے جائیں جو اب تک ہمارے ہاں رائج رہے ہیں۔ پرانا مذہبی نظامِ تعلیم بھی ختم کیا جائے اور یہ موجودہ نظامِ تعلیم بھی جو انگریز کی راہ نمائی میں قائم ہوا تھا۔ ان دونوں کی جگہ ہمیں ایک نیا نظامِ تعلیم بنانا چاہیے جو ان نقائص سے پاک ہو اورہماری اُن ضرورتوں کو پورا کر سکے جو ہمیں ایک مسلمان قوم، ایک آزاد قوم اور ایک ترقی کی خواہش مند قوم کی حیثیت سے اس وقت لاحق ہیں۔ اسی نظامِ تعلیم کا نقشہ اور اس کے قائم کرنے کا طریقہ میں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں:
مقصد کا تعیّن
اس نئے نظامِ تعلیم کی تشکیل میں اوّلین چیز جسے ہمیں سب سے پہلے طے کرنا چاہیے یہ ہے کہ ہمارے پیشِ نظر تعلیم کا مقصد کیا ہے؟ بعض لوگوں کے نزدیک تعلیم کا مقصد بس علم حاصل کرنا ہے، وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو بالکل غیر جانب دار تعلیم دی جانی چاہیے تاکہ وہ زندگی کے مسائل، معاملات اور حقائق کا بالکل ایک جیسا معروضی مطالعہ (objective study) کریں اور آزادانہ نتائج اخذ کر سکیں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ اس طرح کا معروضی مطالعہ صرف فوٹو کے کیمرے کیا کرتے ہیں، انسان نہیں کر سکتے۔ انسان ان آنکھوں کے پیچھے ایک دماغ بھی رکھتا ہے جو بہرحال اپنا ایک نقطۂ نظر رکھتا ہے، زندگی میں اپنا ایک مقصد رکھتا ہے۔ مسائل کے متعلق سوچنے کا ایک طرز رکھتا ہے، اور وہ جو کچھ بھی دیکھتا ہے، جو کچھ بھی سنتا ہے، جو کچھ بھی معلومات حاصل کرتا ہے، اوروہ جو کچھ بھی کرتا ہے، اُسے اپنی اس فکر کے سانچے میں ڈھالتا جاتا ہے جو اس کے اندر بنیادی طور پر موجود ہوتی ہے۔ پھر اسی فکر کی بنیاد پر اس کا وہ نظامِ زندگی قائم ہوتا ہے جسے ہم اس کا کلچر کہتے ہیں۔ اب اگر ہم اپنا ایک کلچر رکھتے ہیں اور ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کے اپنے کچھ عقائد ہیں، جس کا اپنا ایک نظریۂ زندگی ہے، جس کا اپنا ایک نصب العین ہے، جو اپنی زندگی کے کچھ اصول رکھتی ہے، تو لازماً ہمیں اپنی نئی نسلوں کو اس غرض کے لیے تیار کرنا چاہیے کہ وہ ہمارے اس کلچر کو سمجھیں، اس کی قدر کریں، اسے زندہ رکھیں اور آگے اسے اس کی اصل بنیادوں پر ترقی دیں۔ دنیا کی ہر قوم اس غرض کے لیے اپنا مستقل نظامِ تعلیم قائم کیا کرتی ہے۔ مجھے کوئی قوم ایسی معلوم نہیں ہے جس نے اپنا نظامِ تعلیم خالص معروضی بنیادوں پر قائم کیا ہو، جو اپنی نسلوں کو بے رنگ تعلیم دیتی ہو اور اپنے ہاں ایسے غیرجانب دار نوجوان پرورش کرتی ہو جو تعلیم سے فارغ ہو کر آزادی کے ساتھ یہ فیصلہ کریں کہ انھیں اپنی قومی تہذیب کی پیروی کرنی ہے یا کسی دوسری تہذیب کی؟ اسی طرح مجھے ایسی بھی کوئی آزاد قوم معلوم نہیں ہے جو دوسروں سے ان کا نظام تعلیم جوں کا توں لے لیتی ہو اور اپنی تہذیب کا کوئی رنگ اس میں شامل کیے بغیر اسی کے سانچے میں اپنی نئی نسلوں کو ڈھالتی چلی جاتی ہو۔ رہی یہ بات کہ کوئی قوم اپنے لیے دوسروں کا تجویز کردہ ایک ایسا نظام اختیار کرے جو اس کے نوجوانوں کی نگاہ میں اپنی قوم اور اس کے مذہب، اس کی تہذیب، اس کی تاریخ، ہر چیز کو ذلیل وخوار کرکے رکھ دے اور ان کے دل ودماغ پر انھی لوگوں کے تصورات ونظریات کا ٹھپّا لگا دے جنھوں نے اس کے لیے یہ نظام تجویز کیا ہے تو میرے نزدیک یہ بدترین خود کشی ہے جس کا ارتکاب کوئی صاحب فراست قوم بحالت ہوش وحواس نہیں کر سکتی۔ یہ حماقت اگر پہلے ہم کم زوری اور بے بسی کی وجہ سے کر رہے تھے تو اب آزاد ہونے کے بعد اسے حسبِ سابق جاری رکھنے کے کوئی معنیٰ نہیں۔ اب تو ہمارا نظامِ زندگی ہمارے اختیار میں ہے۔ اب لازماً ہمارے پیش نظر تعلیم کا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ ہم ایسے افراد تیار کریں جو ہماری قومی تہذیب کو سمجھتے ہوں اور ہماری قومی تہذیب ہمارے دین کے سوا اور کیا ہے؟ لہٰذا ہمارے دین کو اچھی طرح سمجھتے ہوں، اس پر سچے دل سے ایمان رکھتے ہوں، اس کے اصولوں کو خوب جانتے ہوں اور ان کے برحق ہونے کا یقین رکھتے ہوں، اس کے مطابق مضبوط سیرت اور قابل اعتماد اخلاق رکھتے ہوں، اور اس قابلیت کے مالک ہوں کہ ہماری اجتماعی زندگی کے پورے کارخانے کو ہماری اس تہذیب کے اصولوں پر چلا سکیں اور مزید ترقی دے سکیں۔
دین ودنیا کی تفریق مٹا دی جائے
دوسری چیز جو ہمیں اپنے نظامِ تعلیم میں بطورِ اصول پیشِ نظر رکھنی چاہیے اور اس کی بنیاد پر ہمارا سارا نظامِ تعلیم بننا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم دین اور دنیا کی اس تفریق کو ختم کر دیں، دین اور دنیا کی تفریق کا یہ تخیل ایک عیسائی تخیل ہے یا بدھ مذہب یا ہندوئوں اور جوگیوں کا ہے۔ اسلام کا تخیل اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہمارے لیے اس سے بڑی کوئی غلطی نہیں ہو سکتی کہ ہم اپنے نظامِ تعلیم میں، اپنے نظامِ تمدن میں اور اپنے نظامِ مملکت میں دین اور دنیا کی تفریق کے اس تخیل کو قبول کر لیں۔ ہم اس کے بالکل قائل نہیں ہیں کہ ہماری ایک تعلیم دنیوی ہو اور ایک تعلیم دینی۔ اس کے برعکس ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ ہماری پوری کی پوری تعلیم بیک وقت دینی بھی ہو اوردنیوی بھی۔ دنیوی اس لحاظ سے کہ ہم دنیا کو سمجھیں اور دنیا کے سارے کام چلانے کے قابل ہوں اور دینی اس لحاظ سے کہ ہم دنیا کو دین ہی کے نقطۂ نظر سے سمجھیں اور دین کی ہدایت کے مطابق اس کا سارا کام چلائیں۔ اسلام وہ مذہب نہیں ہے جو آپ سے یہ کہتا ہو کہ دنیا کے کام آپ جس طرح چاہیں چلاتے رہیں اور بس اس کے ساتھ چند عقائد اور عبادات کا ضمیمہ لگائے رہیں۔ اسلام زندگی کا محض ضمیمہ بننے پر کبھی قانع تھا اور نہ آج ہے۔ وہ تو پوری زندگی میں آپ کا راہ نما اور پوری زندگی کے لیے آپ کا طریقِ عمل بننا چاہتا ہے۔ وہ دنیا سے الگ محض عالمِ بالا کی باتیں نہیں کرتا بلکہ پوری طرح دنیا کے مسئلے پر بحث کرتا ہے۔ وہ آپ کو بتاتا ہے کہ اس دنیا کی حقیقت کیا ہے؟ اس دنیا میں آپ کس غرض کے لیے آئے ہیں۔ آپ کا مقصدِ زندگی کیا ہے؟ کائنات میں آپ کی اصلی پوزیشن کیا ہے اور اس دنیا میں آپ کو کس طریقے سے ، کن اصولوں پر کام کرنا چاہیے وہ کہتا ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، آخرت میں جو کچھ بھی آپ کو پھل ملنے والے ہیں وہ اس بات پر منحصر ہیں کہ دنیا کی اس کھیتی میں آپ کیا بوتے ہیں۔ اس کھیتی کے اندر زراعت کرنا وہ آپ کو سکھاتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں آپ کا سارا طرزِ عمل کیا ہو، جس کے نتیجے میں آپ کو آخرت کا پھل ملے۔ اس قسم کا ایک دین کیسے یہ بات گوارا کر سکتا ہے کہ آپ کے ہاں ایک تعلیم دنیوی ہو اور دوسری دینی، یا ایک دنیوی تعلیم کے ساتھ محض ایک مذہبی ضمیمہ لگا دیا جائے۔ وہ تو یہ چاہتا ہے کہ آپ کی پوری تعلیم دینی نقطۂ نظر سے ہو۔ اگر آپ فلسفہ پڑھیں تو دینی نقطۂ نظر سے پڑھیں تاکہ آپ ایک مسلمان فلاسفر بن سکیں۔ آپ تاریخ پڑھیں تو مسلمان کے نقطہ نگاہ سے پڑھیں تاکہ آپ ایک مسلمان مؤرّخ بن سکیں۔ آپ سائنس پڑھیں تو ایک سائنٹسٹ بن کر اٹھیں، آپ معاشیات پڑھیں تو اس قابل بنیں کہ اپنے ملک کے پورے معاشی نظام کو اسلام کے سانچے میں ڈھال سکیں۔ آپ سیاسیات پڑھیں تو اس لائق بنیں کہ اپنے ملک کا نظامِ حکومت اسلام کے اصولوں پر چلا سکیں۔ آپ قانون پڑھیں تو اِسلام کے معیارِ عدل وانصاف پر معاملات کے فیصلے کرنے کے لائق ہوں۔ اس طرح اسلام دین ودنیا کی تفریق مٹا کر پوری کی پوری تعلیم کو دینی بنا دینا چاہتا ہے۔ اس کے بعد کسی جداگانہ مذہبی نظامِ تعلیم کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ آپ کے یہی کالج آپ کے لیے امام، مفتی اور علمائے دین بھی تیار کریں گے اور آپ کی قومی حکومت کا نظم ونسق چلانے کے لیے سیکرٹری اور ڈائریکٹر بھی۔
تشکیلِ سیرت
تیسری بنیادی چیز جو نئے نظامِ تعلیم میں ملحوظ رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اس میں تشکیلِ سیرت کو کتابی علم سے زیادہ اہمیت دی جائے۔ محض کتابیں پڑھانے اور محض علوم وفنون سکھا دینے سے ہمارا کام نہیں چل سکتا۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے کہ ہمارے ایک ایک نوجوان کے اندر اسلامی کیریکٹر پیدا ہو، اسلامی طرزِ فکر اور اسلامی ذہنیت پیدا ہو، خواہ وہ انجینئر ہو، خواہ وہ سائنٹسٹ ہو، خواہ وہ علوم عمران کا ماہر ہو، خواہ وہ ہماری سول سروس کے لیے تیار ہو رہا ہو، جو بھی ہو اس کے اندر اسلامی ذہنیت اور اسلامی کیریکٹر ضرور ہونا چاہیے۔ یہ چیز ہماری تعلیمی پالیسی کے بنیادی مقاصد میں شامل ہونی چاہیے۔ جس آدمی میں اسلامی اخلاق نہیں وہ چاہے جوکچھ بھی ہو، بہرحال ہمارے کسی کام کا نہیں ہے۔
عملی نقشہ
ا ن اصولی باتوں کی وضاحت کے بعد اب میں تفصیل کے ساتھ بتائوں گاکہ وہ اسلامی نظامِ تعلیم جسے ہم یہاں قائم کرنا چاہتے ہیں اس کا عملی نقشہ کیا ہے؟
ابتدائی تعلیم
سب سے پہلے ابتدائی تعلیم کو لیجیے جو اس عمارت کی بنیاد ہے۔ اس تعلیم میں وہ سب مضامین پڑھائیے جو آج آپ کے پرائمری اسکولوں میں پڑھائے جاتے ہیں اور دنیا میں ابتدائی تعلیم کے متعلق جتنے تجربات کیے گئے ہیں اور آیندہ کیے جائیں ان سب سے فائدہ اٹھائیے لیکن چار چیزیں ایسی ہیں جو اس کے ہر مضمون میں پیوست ہونی چاہییں۔
اول یہ کہ بچے کے ذہن میں ہر پہلو سے یہ بات بٹھائی جائے کہ یہ دنیا خدا کی سلطنت اور ایک خدا کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ یہاں ہم خدا کے خلیفہ کی حیثیت سے مامور ہیں۔ یہاں جو کچھ بھی ہے خدا کی امانت ہے جو ہمارے حوالے کی گئی ہے۔ اس امانت کے معاملے میں ہم خدا کے سامنے جواب دہ ہیں۔ یہاں ہر طرف، جدھر بھی نگاہ ڈالی جائے آیاتِ الٰہی پھیلی ہوئی ہیں جو اس بات کا پتا دے رہی ہیں کہ ایک حکم ران ہے جو ان سب پر حکومت کر رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ابتدائی تعلیم کے لیے جس وقت بچہ داخل ہو اس وقت سے پرائمری اسکول کے آخری مرحلہ تک دنیا سے اسے آشنا اور روشناس ہی اسی طرز پر کیا جاتا رہے کہ ہر سبق کے اندر یہ تصورات شامل ہوں۔ حتّٰی کہ وہ الف سے آٹا یا ایٹم بم نہ سیکھے بلکہ اللّٰہ سیکھے۔ یہ وہ چیز ہے جو بچوں میں اول دن سے اسلامی ذہنیت پیدا کرنا شروع کر دے گی۔ اور انھیں اس طرح سے تیار کرے گی کہ آخری مراحل تعلیم تک، جب کہ وہ ڈاکٹر بنیں گے یہی بنیاد اور یہی جڑ کام دیتی رہے گی۔
دوم یہ کہ اسلام جن اخلاقی تصورات اور اخلاقی اقدار کو پیش کرتا ہے انھیں ہر مضمون کے اسباق میں حتّٰی کہ حساب کے سوالات تک میں، طرح طرح سے بچوں کے ذہن نشین کیا جائے۔ وہ جن چیزوں کو نیکی اور بھلائی کہتا ہے ان کی قدر اور ان کے لیے رغبت اور شوق بچوں کے دل میں پیدا کیا جائے۔اور جنھیں برائی قرار دیتا ہے ان کے لیے ہر پہلو سے بچوں کے دل میں نفرت بڑھائی جائے۔ آج ہماری قوم میں جو لوگ رشوتیں کھا رہے ہیں اور طرح طرح کی بددیانتیاں اور خیانتیں کر رہے ہیں وہ سب انھی درس گاہوں سے پڑھ کر نکلے ہیں جہاں طوطے مینا اور گائے بیل کے سبق تو پڑھائے جاتے ہیں مگر اخلاقی سبق نہیں پڑھائے جاتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہر طالبِ علم کو جو تعلیم دی جائے اس کے رگ وپے میں اخلاقی مضامین پیوست ہوں۔ اس کے اندر رشوت خوری کے خلاف شدید جذبہ ِنفرت ابھارا جائے۔ اس کے اندر حرام طریقوں سے مال کمانے اور کھانے والوں پر سخت تنقید کی جائے اور اس کے برے نتائج بچوں کے ذہن نشین کیے جائیں۔ اس کے اندر جھوٹ سے، دھوکے اور فریب سے، خود غرضی اور نفس پرستی سے، چوری اورجعل سازی سے، بد عہدی اور خیانت سے، شراب اور سود اور قمار بازی سے، ظلم اور بے انصافی اور لوگوں کی حق تلفی سے سخت نفرت دلوں میں بٹھائی جائے اور بچوں کے اندر ایک ایسی رائے عام پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کہ جس شخص میں بھی وہ اخلاقی برائیوں کا اثر پائیں اسے بری نگاہ سے دیکھیں اور اس کے متعلق برے خیالات کا اظہار کریں یہاں تک کہ انھی درس گاہوں سے فارغ ہو کر اگر کوئی شخص ایسا نکلے جو ان برائیوں میں مبتلا ہو تو اس کے اپنے ساتھی اسے لعنت ملامت کرنے والے ہوں نہ کہ داد دینے اور ساتھ دینے والے۔ اسی طرح ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ نیکیاں جنھیں اسلام انسان کے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے، انھیں درسیات میں بیان کیا جائے، ان کی طرف رغبت دلائی جائے، ان کی تعریف کی جائے، ان کے اچھے نتائج تاریخ سے نکال نکال کر بتائے جائیں اور عقل سے ان کے فائدے سمجھائے جائیں کہ یہ نیکیاں حقیقت میں انسانیت کے لیے مطلوب ہیں اور انسانیت کی بھلائی انھی کے اندر ہے۔ بچوں کو دل نشین طریقے سے بتایا جائے کہ وہ اصلی خوبیاں کیا ہیں جو ایک انسان کے اندر ہونی چاہییں اورایک بھلا آدمی کیسا ہوا کرتا ہے۔ اس میں انھیں صداقت اور دیانت کا، امانت اور پاس عہد کا، عدل وانصاف اور حق شناسی کا، ہم دردی اور اخوت کا، ایثار اور قربانی کا، فرض شناسی اور پابندیٔ حدود کا، اکلِ حلال اور ترکِ حرام کا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کھلے اور چھپے ہر حال میں خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرنے کا سبق دیا جائے اور عملی تربیت سے بھی اس امر کی کوشش کی جائے کہ بچوں میں یہ اوصاف نشوونما پائیں۔
سوم یہ کہ ابتدائی تعلیم ہی میں اسلام کے بنیادی حقائق اور ایمانیات بچوں کے ذہن نشین کرا دیے جائیں۔ اس کے لیے اگر دینیات کے ایک الگ کورس کی ضرورت محسوس ہو تو بنایا جا سکتا ہے، لیکن بہرحال صرف اسی ایک کورس پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ ان ایمانیات کو دوسرے تمام مضامین میں بھی روحِ تعلیم کی حیثیت سے پھیلا دیا جائے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہر مسلمان بچے کے دل میں توحید کا عقیدہ، رسالت کا عقیدہ، آخرت کا عقیدہ، قرآن کے برحق ہونے کا عقیدہ، شرک اور کفر اور دہریت کے باطل ہونے کا عقیدہ پوری قوت کے ساتھ بٹھا دیا جائے۔ اور یہ تلقین ایسے طریقے سے ہونی چاہیے کہ بچہ یہ نہ محسوس کرے کہ یہ کچھ دعوے اور کچھ تحکمات ہیں جو اس سے منوائے جا رہے ہیں، بلکہ اسے یہ محسوس ہو کہ یہی کائنات کی معقول ترین حقیقتیں ہیں، ان کا جاننا اور ماننا انسان کے لیے ضروری ہے، اور انھیں مانے بغیر آدمی کی زندگی درست نہیں ہو سکتی۔
چہارم یہ کہ بچے کو اسلامی زندگی بسر کرنے کے طریقے بتائے جائیں اور اس سلسلے میں وہ تمام فقہی مسائل بیان کر دیے جائیں جو ایک دس برس کے لڑکے اور لڑکی کو معلوم ہونے چاہییں۔ طہارت وپاکیزگی کے احکام، وضو کے مسائل، نماز اور روزے کے طریقے، حرام اور حلال کے ابتدائی حدود، والدین اور رشتہ داروں، ہم سایوں کے حقوق، کھانے پینے کے آداب لباس کے حدود، معاشرتی زندگی کے پسندیدہ اطوار، یہ وہ چیزیں ہیں جو ہر مسلمان بچے کو معلوم ہونی چاہییں۔ انھیں صرف بیان ہی نہ کیا جائے بلکہ ایسے طریقے سے ذہن نشین کیا جائے جس سے بچے یہ سمجھیں کہ ہمارے لیے یہی احکام ہونے چاہییں، یہ احکام بالکل برحق ہیں اور ہمیں ایک ستھری اور پاکیزہ زندگی بسر کرنے کے لیے ان احکام کا پابند ہونا چاہیے۔
ثانوی تعلیم
اس کے بعد اب ہائی سکول کی تعلیم کو لیجیے۔ اس مرحلے میں سب سے پہلی چیز جسے میں ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ عربی زبان کو بطور لازمی زبان پڑھایا جائے۔ اسلام کے اصل مآخذ سارے عربی زبان میں ہیں۔ قرآن عربی میں ہے، حدیث عربی میں ہے۔ ابتدائی صدیوں کے فقہا اور علما نے جتنا کام کیا ہے وہ سب عربی میں ہے۔ اسلامی تاریخ کے اصل مآخذ بھی عربی زبان ہی میں ہیں۔ کوئی شخص اسلام کی اسپرٹ پوری طرح سے نہیں سمجھ سکتا اور نہ اس میں اسلامی ذہنیت اچھی طرح پیوست ہو سکتی ہے جب تک وہ قرآن کو براہِ راست اس کی اپنی زبان میں نہ پڑھے۔
محض ترجموں سے کام نہیں چلتا۔ اگرچہ ہم چاہتے ہیں کہ ترجمے بھی پھیلیں تاکہ ہمارے عوام الناس کم از کم یہ جان لیں کہ ہمارا خدا ہمیں کیا حکم دیتا ہے۔ لیکن ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں میں کوئی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو عربی زبان سے ناواقف ہو۔ اس لیے ہم عربی کو بطور ایک لازمی مضمون کے شامل کرنا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ایک شخص جب ہائی اسکول سے فارغ ہو کر نکلے تو اسے اتنی عربی آتی ہو کہ وہ ایک سادہ عربی عبارت کو صحیح پڑھ اور سمجھ سکے۔
ثانوی تعلیم کا دوسرا لازمی مضمون قرآن مجید ہونا چاہیے جس کے کم از کم دو پارے ہر میٹرک پاس طالب علم اچھی طرح سمجھ کر پڑھ چکا ہو۔ وقت بچانے کے لیے ایسا کیا جا سکتا ہے کہ ہائی اسکول کے آخری مرحلوں میں عربی زبان قرآن ہی کے ذریعہ پڑھائی جائے۔
تیسرا لازمی مضمون اسلامی عقائد کا ہونا چاہیے جس میں طلبہ کو نہ صرف ایمانیات کی تفصیل سے آگاہ کیا جائے بلکہ انھیں یہ بھی بتایا جائے کہ ہمارے پاس ان عقائد کے دلائل کیا ہیں؟ انسان کو ان کی ضرورت کیا ہے؟ انسان کی عملی زندگی سے ان کا ربط کیا ہے، ان کے ماننے یا نہ ماننے کے کیا اثرات انسانی زندگی پر مترتب ہوتے ہیں، اور ان عقائد پر ایمان لانے کے اخلاقی اور عملی تقاضے کیا ہیں۔ یہ امورایسے طریقے سے طلبہ کے ذہن نشین کیے جائیں کہ وہ محض باپ دادا کے مذہبی عقائد ہونے کی حیثیت سے انھیں نہ مانیں بلکہ یہ ان کی اپنی رائے بن جائیں۔
اسلامی عقائد کے ساتھ ساتھ اسلامی اخلاقیات کو بھی ابتدائی تعلیم کی بہ نسبت ثانوی تعلیم میں زیادہ تفصیل اور تشریح کے ساتھ بیان کیا جائے اور تاریخ سے نظیریں پیش کرکے یہ بات ذہن نشین کی جائے کہ اسلام کے یہ اخلاقیات محض خیالی اصول اور کتابی نظرئیے نہیں ہیں بلکہ عمل میں لانے کے لیے ہیں اور فی الواقع اس سیرت وکردار کی ایک ایسی رائے عام پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کہ اسلام جن اوصاف کی مذمّت کرتا ہے، طلبہ خود ان اوصاف کو برا سمجھیں، ان سے بچیں اور اپنی سوسائٹی میں ان صفات کے لوگوں کو ابھرنے نہ دیں۔ اور اسلام جن اوصاف کو محمود اور مطلوب قرار دیتا ہے انھیں وہ خود پسند کریں، انھیں اپنے اندر نشوونما دیں اور ان کی سوسائٹی میں انھی اوصاف کے لوگوں کی ہمت افزائی ہو۔
میٹرک کے معیار تک پہنچتے پہنچتے ایک بچہ جوان ہو چکا ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں اسے اسلامی زندگی کے متعلق ابتدائی تعلیم وتربیت کی بہ نسبت زیادہ تفصیلی احکام جاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں اسے شخصی اور ذاتی زندگی، خاندانی زندگی اور تمدن ومعاشرت اور لین دین وغیرہ کے متعلق ان تمام ضروری احکام سے واقف ہونا چاہیے جو ایک جوان آدمی کے لیے درکار ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ احکام کو اتنی تفصیل کے ساتھ جانے کہ مفتی بن جائے۔ لیکن اس کی معلومات اتنی ضرور ہونی چاہییں کہ وہ اس معیار کی زندگی بسر کر سکے جو ایک مسلمان کا معیار ہونا چاہیے۔ یہ کیفیت تو نہ ہو کہ ہمارے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی نکاح، طلاق، رضاعت اور وراثت کے متعلق کوئی سرسری علم بھی نہیں ہوتا اور اس ناواقفیت کی وجہ سے بسا اوقات وہ شدید غلطیاں کر جاتے ہیں جن سے سخت قانونی پیچیدگیاں واقع ہو جاتی ہیں۔
تاریخ کی تعلیم میں ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہائی اسکول کے طلبہ (جن غریبوں کو آج تک تاریخِ انگلستان پڑھائی جا رہی ہے) نہ صرف اپنے ملک کی تاریخ پڑھیں بلکہ اس کے ساتھ اسلام کی تاریخ سے بھی واقف ہوں۔ انھیں تاریخ انبیا سے واقف ہونا چاہیے تاکہ یہ جان لیں کہ اسلام ایک ازلی وابدی تحریک ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں یکایک شروع نہیں ہوئی تھی۔ انھیں سیرت نبویؐ اور سیرتِ خلفائے راشدینؓ سے بھی واقف ہونا چاہیے تاکہ وہ ان مثالی شخصیتوں سے روشناس ہو جائیں جو ان کے لیے معیارِ انسانیت کا درجہ رکھتی ہیں۔ خلافت راشدہ کے بعد سے اب تک کی تاریخ کا ایک مجمل خاکہ بھی ان کے سامنے آ جانا چاہیے تاکہ وہ یہ جان لیں کہ مسلمان قوم کن کن مراحل سے گزرتی ہوئی موجودہ دور تک پہنچی ہے۔ یہ تاریخی معلومات نہایت ضروری ہیں۔ جس قوم کے نوجوانوں کو خود اپنے ماضی کا علم نہ ہو اس کے اندر اپنی قومی تہذیب کا احترام کبھی پیدا نہیں ہو سکتا۔
اس تعلیم کے ساتھ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہائی اسکول کے مرحلے میں طلبہ کی عملی تربیت کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے۔ مثلاً ہائی اسکول میں کوئی مسلمان طالب علم ایسا نہیں ہونا چاہیے جو نماز کا پابند نہ ہو۔ طلبہ کے اندر ایسی رائے عام پیدا کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے درمیان ایسے طالب علموں کو برداشت نہ کریں اور ازروئے قاعدہ بھی کوئی ایسا طالب علم مدرسے میں نہ رہنا چاہیے جو مدرسے کے اوقات میں نماز نہ پڑھتا ہو۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ نماز ہی وہ بنیاد ہے جس پر عملاً اسلامی زندگی قائم ہوتی ہے۔ یہ بنیاد منہدم ہو جانے کے بعد اسلامی زندگی ہرگز قائم نہیں رہ سکتی۔ اس لحاظ سے بھی آپ کو سوچنا چاہیے کہ ایک طرف تو آپ ایک طالب علم کو بتاتے ہیں کہ نماز فرض ہے اور تیرے خدا نے یہ تجھ پر فرض کی ہے۔ دوسری طرف آپ اپنے عملی برتائو سے روز یہ بات اس کے ذہن نشین کرتے ہیں کہ اس فرض کو فرض جانتے اورمانتے ہوئے بھی اگر توادا نہ کرے تو کوئی مضایقہ نہیں۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ آپ اسے روزانہ منافقت کی اور ڈیوٹی سے فرار کی اور بودی سیرت کی مشق کرا رہے ہیں۔ کیا آپ امید رکھتے ہیں کہ یہ تعلیم وتربیت پا کر جب وہ باہر نکلے گا تو آپ کے تمدن اور آپ کی ریاست کا ایک فرض شناس کارکن ثابت ہو گا؟ اپنے سب سے بڑے فرض کی چوری میں مشاق ہو جانے کے بعد تو وہ ہر فرض میں سے چوری کرے گا، خواہ وہ سوسائٹی کا فرض ہو یا ریاست کا یا انسانیت کا۔ اس صورت میں آپ کو اسے ملامت نہ کرنی چاہیے بلکہ اس نظام تعلیم کو ملامت کرنی چاہیے جس نے اول روز سے اسے یہ سکھایا تھا کہ فرض ایک ایسی چیز ہے جسے فرض جاننے کے بعد بھی چھوڑا جا سکتا ہے۔ اپنے نوجوانوں کو خدا سے بے وفائی سکھانے کے بعد آپ یہ ہرگز امید نہ رکھیں کہ وہ قوم، ملک، ریاست، کسی چیز کے بھی مخلص اور وفادار ہوں گے۔ تعلیم کے کورس میں بلند خیالات اور معیاری اوصاف بیان کرنے کا آخر فائدہ ہی کیا ہے۔ اگر سیرت وکردار کو ان خیالات اور معیارات پر قائم کرنے کی عملاً کوشش نہ کی جائے۔ دل میں اونچے خیالات رکھنے اور عمل ان کے خلاف کرنے سے رفتہ رفتہ سیرت کی جڑیں بالکل کھوکھلی ہو جاتی ہیں اور ظاہر ہے کہ جن لوگوں کی سیرت ہی بودی اور کھوکھلی ہو وہ مجرد اپنی ذہنی اور علمی قابلیتوں سے کوئی کارنامہ کرکے نہیں دکھا سکتے۔ اس لیے ہمیں ثانوی تعلیم کے مرحلے میں، جب کہ نئی نسلیں بچپن سے جوانی کی سرحد میں داخل ہوتی ہیں، اس امر کی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ایک ایک لڑکے اور لڑکی کے اندر مضبوط سیرت پیدا کریں اور انھیں یہ سکھائیں کہ تمھارا عمل تمھارے علم کے مطابق ہونا چاہیے۔ جس چیز کو حق جانو اس کی پیروی کرو۔ جسے فرض جانو اسے ادا کرو۔ جسے بھلائی جانو اسے اختیار کرو اور جسے برا جانو اسے ترک کر دو۔
اعلیٰ تعلیم
اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کو لیجیے۔ اس مرحلے میں ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی تعلیم کے لیے ایک عام نصاب ہو جو تمام طلبہ اور طالبات کو پڑھایا جائے خواہ وہ کسی شعبۂ علم کی تعلیم حاصل کر رہے ہوں، اور ایک نصاب خاص ہو جو ہر شعبۂ علم کے طلبہ وطالبات کو ان کے مخصوص شعبے کی مناسبت سے پڑھایا جائے۔
عام نصاب میں میرے نزدیک تین چیزیں شامل ہونی چاہییں:
۱۔ قرآن مجید، اس طرح پڑھایا جائے کہ ایک طرف طلبہ قرآن کی تعلیمات سے بخوبی واقف ہو جائیں اور دوسری طرف ان کی عربی اس حد تک ترقی کر جائے کہ وہ قرآن کو ترجمے کے بغیر اچھی طرح سمجھنے لگیں۔
۲۔ حدیث کا ایک مختصر مجموعہ جس میں وہ احادیث جمع کی جائیں جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر، اس کی اخلاقی تعلیمات پر اور نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کے اہم پہلوئوں پر روشنی ڈالتی ہوں۔ یہ مجموعہ بھی ترجمے کے بغیر ہونا چاہیے تاکہ طلبہ اس کے ذریعے سے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عربی زبان دانی میں بھی ترقی کر سکیں۔
۳۔اسلامی نظامِ زندگی کا ایک جامع نقشہ، جس میں اسلام کی اعتقادی بنیادوں سے لے کر عبادات، اخلاق، معاشرت، تہذیب وتمدن، معیشت، سیاست اور صلح وجنگ تک ہر پہلو کو وضاحت کے ساتھ معقول اور مدلل طریقے سے بیان کیا جائے، تاکہ ہمارا ہر تعلیم یافتہ نوجوان اپنے دین کو اچھی طرح سمجھ لے اور جس شعبۂ زندگی میں بھی وہ آگے کام کرے اس میں اسلام کی اسپرٹ، اس کے اصول اور اس کے احکام کو ملحوظ رکھ سکے۔
خاص نصاب ہر مضمون کی کلاسوں کے لیے اسلامی تصورات کی روشنی میں اور ان کے پس منظر کے ساتھ الگ پڑھایا جائے اور وہ صرف اسی مضمون کے طلبہ کے لیے ہو مثلاً:
جو طلبہ فلسفہ لیں انھیں دوسرے فلسفیانہ نظاموں کے ساتھ اسلامی فلسفہ بھی پڑھایا جائے مگر یہ ملحوظِ خاطر رہے کہ اسلامی فلسفے سے مراد وہ فلسفہ نہیں ہے جو مسلمانوں نے ارسطو، افلاطون اور فلاطینوس وغیرہ سے لیا اور پھر اسے انھی خطوط پر آگے بڑھایا۔ اور اس سے مراد وہ علم کلام بھی نہیں ہے جسے یونانی منطق وفلسفہ سے متاثر ہو کر ہمارے متکلمین نے اس غرض کے لیے مرتّب کیا تھا کہ اسلامی حقائق کو اپنے وقت کے فلسفیانہ نظریات کی روشنی میں اورمنطق کی زبان میں بیان کریں۔ یہ دونوں چیزیں اب صرف اپنی ایک تاریخی قدر وقیمت رکھتی ہیں۔ انھیں پڑھایا ضرور جائے، مگر اس حیثیت سے کہ یہ تاریخ فلسفہ کے دو اہم ابواب ہیں جنھیں مغربی مصنّفین بالعموم نظر انداز کرکے طالبانِ علم کے ذہن پر یہ اثر جماتے ہیں کہ دنیا کے عقلی ارتقا میں قدیم یونانی فلاسفہ سے لے کر آج تک جو کچھ بھی کام کیا ہے صرف یورپ کے لوگوں نے کیا ہے۔ لیکن مسلمان فلسفہ اور متکلمین کا یہ کام نہ ’’اسلامی فلسفہ‘‘ تھا اور نہ اسے اس نام سے آج ہمیں اپنے طلبہ کو پڑھانا چاہیے ورنہ یہ سخت غلط فہمی کا، بلکہ گم راہی کا موجب ہو گا۔ ’’اسلامی فلسفہ‘‘ دراصل کہیں مرتب شدہ نہیں ہے بلکہ اب اسے نئے سرے سے ان بنیادوں پر مرتب کرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں قرآن میں ملتی ہیں۔ قرآن مجید ایک طرف انسانی علم وعقل کے حدود بتاتا ہے۔ دوسری طرف وہ محسوسات کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقت کو تلاش کرنے کا صحیح راستہ بتاتا ہے۔ تیسری طرف وہ منطق کے ناقص طرز استدلال کو چھوڑ کر عقل عام کے مطابق ایک سیدھا سادا طرزِ استدلال بتاتا ہے۔ اور ان سب کے ساتھ وہ ایک پورا نظریۂ کائنات وانسان پیش کرتا ہے جس کے اندر ذہن میں پیدا ہونے والے ہر سوال کا جواب موجود ہے۔ ان بنیادوں پر ایک نیا فن استدلال، ایک نیا طریقِ تفلسف، ایک نیا فلسفہ مابعد الطبیعیات، ایک نیا فلسفہ اخلاق اور ایک نیا علم النفس مرتب کیا جا سکتا ہے جسے اب مرتب کرانے کی سخت ضرورت ہے تاکہ ہمارے فلسفے کے طلبہ فلسفہ کی قدیم وجدیدبھول بھلیوں میں داخل ہو کر پھنسے کے پھنسے نہ رہ جائیں بلکہ اس سے نکلنے کا راستہ بھی پا لیں اور دنیا کو ایک نئی روشنی دکھانے کے قابل بن سکیں۔
اسی طرح تاریخ کے طلبہ کو دنیا بھر کی تاریخ پڑھانے کے ساتھ اسلامی تاریخ بھی پڑھائی جائے اور فلسفۂ تاریخ کے دوسرے نظریات کے ساتھ اسلام کے فلسفۂ تاریخ سے بھی روشناس کیا جائے۔ یہ دونوں مضمون بھی تشریح طلب ہیں، ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ ان کے بارے میں جو عام غلط فہمیاں موجود ہیں ان کی وجہ سے میرا مدعا آپ کے سامنے واضح نہ ہو گا۔ اسلامی تاریخ کا مطلب بالعموم مسلمان قوموں اور ریاستوں کی تاریخ، یا ان کے تمدن اور علوم وآداب کی تاریخ سمجھا جاتا ہے اور اسلامی فلسفۂ تاریخ کا نام سن کر معًا ایک طالب علم ابنِ خلدون، کی طرف دیکھنے لگتا ہے۔ میں علمِ تاریخ کے نقطۂ نظر سے ان دونوں چیزوں کی قدر وقیمت کا انکار نہیں کرتا، نہ یہ کہتا ہوں کہ یہ چیزیں پڑھائی نہ جائیں۔ مگر یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کی تاریخ دو الگ چیزیں ہیں، اور ابن خلدون کے فلسفۂ تاریخ کو اسلام کے فلسفۂ تاریخ سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ کا اطلاق دراصل جس چیز پر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ تاریخ کے دوران میں اسلام کے ان اثرات کا جائزہ لیا جائے جو مسلمان ہونے والی قوموں کے خیالات، علوم، آداب، اخلاق، تمدن، سیاست ، اور فی الجملہ پورے اجتماعی طرزِ عمل پر مترتب ہوئے۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی دیکھا جائے کہ ان اثرات کے ساتھ دوسرے غیر اسلامی اثرات کی آمیزش کس کس طرح ہوتی رہتی ہے اور اس آمیزش کے کیا نتائج رونما ہوئے ہیں۔ اسی طرح اسلامی فلسفہ تاریخ سے مراد درحقیقت قرآن کا فلسفۂ تاریخ ہے جس میں وہ ہمیں انسانی تاریخ کو دیکھنے کے لیے ایک خاص زاویۂ نگاہ دیتا ہے۔ اس سے نتائج اخذ کرنے کا ایک خاص ڈھنگ بتاتا ہے اور قوموں کے بننے اور بگڑنے کے اسباب پر مفصل روشنی ڈالتا ہے۔ افسوس ہے کہ اسلامی فلسفے کی طرح اسلامی تاریخ اور اسلامی فلسفہ تاریخ پر بھی اس وقت تک کوئی کتاب نہیں لکھی گئی ہے جو نصاب کے طور پر پڑھائی جا سکے۔ ان دونوں موضوعات پر اب کتابیں لکھنے اور لکھوانے کی ضرورت ہے کہ اس خلا کو بھرا جا سکے جو ان کے بغیر ہماری تعلیمی تاریخ میں رہ جائے گا۔
جہاں تک علومِ عمرانی کا تعلق ہے، ان میں سے ہر ایک میں اسلام کا ایک مخصوص نقطۂ نظر ہے، اور ہر ایک میں وہ اپنے اصول رکھتا ہے، لہٰذا ان میں سے ہر ایک کی تعلیم میں اس علم سے متعلق اسلامی تعلیمات کو بھی لازماً شامل ہونا چاہیے۔ مثلاً معاشیات میں اسلامی اصول معیشت اور سیاسیات میں اسلام کا سیاسی نظریہ اور نظام وغیرہ۔ رہے فنی علوم، مثلاً انجینئرنگ، طبّ اور سائنس کے مختلف شعبے، تو ان سے اسلام بحث نہیں کرتا، اس لیے ان میں کسی خاص اسلامی نصاب کی حاجت نہیں ہے۔ ان کے لیے وہی عام نصاب اور اخلاقی تربیت کافی ہے جس کا ابھی اس سے پہلے میں ذکر کر چکا ہوں۔
اختصاصی تعلیم
اعلیٰ تعلیم کے بعد اختصاصی تعلیم کو لیجیے جس کا مقصود کسی ایک شعبۂ علم میں کمال پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اس معاملے میں جس طرح ہمارے ہاں دوسرے علوم وفنون کی اختصاصی تعلیم کا انتظام کیاجاتا ہے اسی طرح اب قرآن، حدیث، فقہ اور دوسرے علومِ اسلامیہ کی اختصاصی تعلیم کا بھی ہونا چاہیے۔ تاکہ ہمارے ہاں اعلیٰ درجہ کے مفسر، محدث، فقیہ اورعلمائے دین پیدا ہو سکیں۔ جہاں تک فقہ کا تعلق ہے، اس کی تعلیم تو ہمارے لا کالجوں میں ہونی چاہیے۔ کیوں کہ اب ان شاء اللہ اسلام کا قانون ہی ہمارے ملک کا قانون بن کر رہے گا اور اس صورت میں یہاں سے لا کالجوں کو یہی قانون پڑھانا ہو گا۔ اس کے لیے ہمیں تعلیم کا کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے، اس مسئلے پر اس سے پہلے میں اپنے دو لیکچروں میں مفصل بحث کر چکا ہوں جو ۱۹۴۸ء میں لا کالج لاہور میں ہوئے تھے۔ یہ دونوں لیکچر ’’اسلامی قانون‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں، اس لیے یہاں اس بحث کا اعادہ غیر ضروری ہے۔ رہے قرآن وحدیث اور دوسرے علومِ اسلامیہ، تو ان کی اختصاصی تعلیم کے لیے ہماری یونی ورسٹیوں کو خاص انتظامات کرنے چاہییں جن کا مختصر خاکہ میں یہاں پیش کرتا ہوں۔
میرے خیال میں اس مقصد کے لیے ہمیں مخصوص کالج قائم کرنا ہوں گے جن میں صرف گریجویٹ یا انڈر گریجویٹ داخل ہو سکیں۔ ان اداروں میں حسب ذیل مضامین کی تعلیم ہونی چاہیے۔
۱۔ عربی ادب، تاکہ طلبہ میں اعلیٰ درجے کی علمی کتابیں پڑھنے اور سمجھنے کی استعداد پیدا ہو سکے اور اس کے ساتھ وہ عربی زبان لکھنے اور بولنے پر بھی قادر ہوں۔
۲۔ علومِ قرآن، جن میں پہلے تفسیر، تاریخ ،علم تفسیر اور فن تفسیر کے مختلف اسکولوں کی خصوصیات سے طلبہ کو آشنا کیا جائے، اور پھر قرآن مجید کا تحقیقی مطالعہ کرایا جائے۔
۳۔علومِ حدیث، جن میں اصولِ حدیث، تاریخ علم حدیث اور فن جرح وتعدیل پڑھانے کے بعد حدیث کی اصل کتابیں ایسے طریقے سے پڑھائی جائیں کہ طلبہ ایک طرف خود احادیث کو پرکھنے اور ان کی صحت وسقم کے متعلق رائے قائم کرنے کے قابل ہو جائیں اور دوسری طرف حدیث کے بیش تر ذخیرے پر انھیں نظر حاصل ہو جائے۔
۴۔ فقہ، جس کی تعلیم لا کالجوں کی تعلیم فقہ سے ذرا مختلف ہو۔ یہاں صرف اتنا کافی ہے کہ طلبہ کو اصولِ فقہ، تاریخ علمِ فقہ، مذاہب فقہ کی امتیازی خصوصیات اور قرآن وحدیث کے نصوص سے استنباطِ احکام کے طریقے اچھی طرح سمجھا دیے جائیں۔
۵۔ علم العقائد، علمِ کلام اور تاریخ علمِ کلام، جسے اس طریقے سے پڑھایا جائے کہ طلبہ اس علم کی حقیقت سے واقف ہو جائیں اور متکلمین اسلام کے پورے کام پر انھیں جامع نظر حاصل ہوجائے۔
۶۔ تقابلِ ادیان، جس میں دنیا کے تمام بڑے بڑے مذاہب کی تعلیمات سے ان کی امتیازی خصوصیات سے، اور ان کی تاریخ سے طلبہ کو آشنا کیا جائے۔
اس تعلیم سے جو لوگ فارغ ہوں، مجھے اس سے کوئی بحث نہیں کہ آپ ان کی ڈگری کا نام کیا رکھیں مگر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاں آیندہ انھی لوگوں کو ’’علمائے دین‘‘ کہا جانا چاہیے جو اس ڈگری کو حاصل کریں اور ان کے لیے ان تمام اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے کھلے ہونے چاہییں جو دوسرے مضامین کے ایم اے اور پی ایچ ڈی حضرات کو مل سکتی ہیں۔
لازمی تدابیر
حضرات! یہ ہے میرے نزدیک اس نظامِ تعلیم کا نقشہ جو موجودہ مذہبی تعلیم اور دنیوی تعلیم کے نظام کو ختم کرکے اس ملک میں قائم ہونا چاہیے۔ مگر میں اپنے موضوع تقریر کا حق ادا کرنے میں کوتاہی کروں گا اگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی نہ عرض کر دوں کہ یہ ساری گفتگو قطعی لاحاصل ہے جب تک کہ ہم اپنے پورے تعلیمی انتظامات کو بالکل اوور ہال (over haul) کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔
سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی تعلیمی پالیسی کی باگیں ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیں جو اسلامی فکر رکھتے ہوں، اسلامی نظامِ تعلیم کو جانتے ہوں اور اسے قائم کرنا چاہتے بھی ہوں۔ یہ کام اگر ہو سکتا ہے تو ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں ہو سکتا ہے نہ کہ ان لوگوں کے ہاتھوں جو نہ اسلام کو جانتے ہیں، نہ اس کے نظامِ تعلیم کو، اور نہ اس کے قیام کی کوئی خواہش ہی دل میں رکھتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ اگر زمامِ کار پر قابض رہیں اور ہم رات دن کی چیخ پکار سے دبائو ڈال ڈال کر ان سے یہ کام زبردستی کراتے رہیں اور بادلِ نخواستہ وہ کچھ اسی طرح کی ضمنی اور سطحی ’’اصلاحات‘‘ کرتے رہیںجیسی اب تک ہوتی رہی ہیں، تو ان سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو گا۔
اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے مدرسوں اور کالجوں کے لیے معلمین اور معلمات کے انتخاب میں ان کی سیرت واخلاق اور دینی حالت کو ان کی تعلیمی قابلیت کے برابر، بلکہ اس سے زیادہ اہمیت دیں اور آیندہ کے لیے معلمین کی ٹریننگ میں بھی اسی مقصد کے مطابق اصلاحات کریں۔ جو شخص تعلیم کے معاملہ میں کچھ بھی بصیرت رکھتا ہے وہ اس حقیقت سے ناواقف نہیں ہو سکتا کہ نظام تعلیم میں نصاب اور اس کی کتابوں سے بڑھ کر استاد اور اس کا کیریکٹر اور کردار زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ فاسد العقیدہ اور فاسد الاخلاق استاد اپنے شاگردوں کو ہرگز وہ ذہنی اور اخلاقی تربیت نہیں دے سکتے جو ہمیں اپنے نئے نظام میں مطلوب ہے۔ دوسرے تمام شعبہ ہائے زندگی میں تو بگڑے ہوئے کارکن زیادہ تر موجودہ نسل ہی کو بگاڑتے ہیں مگر نظامِ تعلیم اگر بگڑے ہوئے لوگوں کے ہاتھ میں ہو تو وہ آیندہ نسل کا بھی ناس کر دیتے ہیں جس کے بعد مستقبل میں بھی کسی صلاح وفلاح کی امید باقی نہیں رہتی۔
آخری چیز اس سلسلہ میں یہ ہے کہ ہمیں اپنی تعلیم گاہوں کا پورا ماحول بدل کر اسلام کے اصول اور اسپرٹ کے مطابق بنانا ہو گا۔ یہ مخلوط تعلیم، یہ فرنگیت کے مظاہر، یہ ازفرق تا بقدم مغربی تہذیب وتمدن کا غلبہ، یہ کالجوں کے مباحثے اور انتخابات کے طریقے، اگر یہ سب کچھ آپ کے ہاںیوں ہی جاری رہیں اور ان میں سے کسی چیز کو بھی آپ بدلنے کے لیے تیار نہ ہوں تو پھر ختم کیجیے اصلاحِ تعلیم کی ساری اس گفتگو کو، اس لیے کہ اس ذہنی وتہذیبی غلامی کے ماحول میں ایک آزاد مسلم مملکت کے وہ باعزت شہری اور کارکن و کار فرما کبھی پروان نہیں چڑھ سکتے جنھیں اپنی قومی تہذیب پر فخر ہو، اور اس بے سیرتی کی آب وہوا میں کبھی اس مضبوط کردار کے لوگ پرورش نہیں پا سکتے جو اصول اور ضمیر کے معاملے میں کوئی لچک کھانے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہ ماحول برقرار رکھنا ہو تو پھر ہمیں سرے سے یہ خیال ہی چھوڑ دینا چاہیے کہ یہاں ہمیں ایک ایمان دار اور باضمیر قوم تیار کرنی ہے۔ آخر یہ کیا مذاق ہے کہ ایک طرف آپ خدا اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے صریح احکام کی خلاف ورزی کرکے جو ان لڑکیوں اور جوان لڑکوں کو ایک ساتھ بٹھاتے ہیں اور دوسری طرف آپ چاہتے ہیں کہ انھی لڑکوں اور لڑکیوں میں خدا کا خوف اور اخلاقی قوانین کا احترام پیدا ہو۔ ایک طرف آپ اپنی تمام حرکات وسکنات اور اپنے پورے ماحول سے اپنی نئی نسلوں کے ذہن پر فرنگی تہذیب اور فرنگی طرزِ زندگی کا رعب بٹھاتے ہیں اور دوسری طرف آپ چاہتے ہیں کہ زبانی باتوں سے ان کے دلوں میں قومی تہذیب کی قدر پیدا ہو جائے۔ ایک طرف آپ اپنے مباحثوں میں روز اپنے نوجوانوں کو زبان اور ضمیر کا تعلق توڑنے اور ضمیر کے خلاف بولنے کی مشق کراتے ہیں، اور دوسری طرف آپ چاہتے ہیں کہ ان کے اندر راست بازی اور حق پرستی پیدا ہو۔ ایک طرف آپ انھیں وہ سارے انتخابی ہتھ کنڈے اپنے کالجوں ہی میں برتنے کا خوگر بناتے ہیں جنھوں نے ہماری پوری سیاسی زندگی کو گندہ کرکے رکھ دیا ہے اور دوسری طرف آپ یہ امید رکھتے ہیں کہ یہاں سے نکل کر وہ بڑے ایمان دار اور کھرے ثابت ہوں گے۔ یہ متضاد باتیں صحیح العقل لوگوں کے کرنے کی نہیں ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کو نظام کی بات کرنے سے پہلے اپنے دماغ کے علاج کی فکرکرنی چاہیے۔
٭…٭…٭…٭…٭

باب ہفتم: ایک اسلامی یونی ورسٹی کا نقشہ

مختلف مسلم ممالک میں اس طرح کی تجویزیں کی جا رہی ہیں کہ مسلمانوں کے نظامِ تعلیم میں بنیادی تغیرات کیے جائیں اور ایک ایسے جدید طرز پر اسلامی تعمیر کے ادارے قائم کیے جائیں جو مسلم نوجوانوں کو اسلام کے نصب العین کے مطابق دنیا کی راہ نمائی کے لیے تیار کر سکیں۔ لیکن اس سلسلے میں اب تک جتنے ادارے قائم ہوئے ہیں ان کے نقشے اور کام کو دیکھ کر عالم اسلامی کے اصحابِ فکر میں سے غالباً کوئی بھی پوری طرح مطمئن نہیں ہے۔ اس وقت درحقیقت عالم اسلامی کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ نہ تو دارالعلوم یا کلیہ شریعہ ہے جو قدیم طرز کے علما تیار کرے اور نہ ایک جدید یونی ورسٹی جو مغربی علوم کے ماہرین تیار کرے، بلکہ وہ ایک ایسی جامعہ ہو جو دنیا میں اسلام کے علم بردار تیار کر سکے۔
موجودہ نظام ہائے تعلیم
انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک تمام مسلمان ملکوں میں اس وقت دو طرح کے نظامِ تعلیم رائج ہیں۔ ایک نظامِ تعلیم خالص مغربی ذہن وفکر رکھنے والے اور مغربی تہذیب وتمدن کے رنگ میں رنگے ہوئے آدمی تیار کر رہا ہے اور اسی کے تیار کیے ہوئے لوگ مسلم ممالک کی حکومتوں کے نظام چلا رہے ہیں۔ انھی کے ہاتھ میں معیشت کا سارا کاروبار ہے، وہی سیاست کی باگیں تھامے ہوئے ہیں اور وہی تمدن وتہذیب کی صورت گری کر رہے ہیں لیکن یہ لوگ بالعموم دین کے علم وفہم سے عاری اور مغربیّت سے مرعوب اور مغلوب ہیں، اس لیے یہ دنیا بھر میں امت مسلمہ کی گاڑی کو روز بروز نہایت تیزی کے ساتھ اسلام کی مخالف سمت میں لیے جا رہے ہیں۔ دوسرا نظامِ تعلیم علومِ دینی کے علما تیار کر رہا ہے۔ جو دنیوی علوم سے بالعموم ناواقف ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے محض مذہبی شعبۂ حیات کی محافظت کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ یہ لوگ دنیا میں کہیں بھی ان قابلیتوں اور ان اوصاف سے متصف نہیں ہیں جن سے یہ زندگی کی گاڑی کے ڈرائیور بن سکیں۔ ہر جگہ یہ صرف ایک بریک کا کام دے رہے ہیں جس کا کام اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ مقدم الذکر گروہ جس تیزی کے ساتھ امت کی گاڑی کو مخالف سمت میں لے جانا چاہتا ہے اس میں رکاوٹ پیدا کرے اور رفتار کو سست کرتا رہے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر مسلمان ملک میں یہ بریک روز بروز کم زور ہوتا چلا جا رہا ہے، بلکہ بعض ملکوں میں تو بدمست ڈرائیور بریک کو توڑ چکے ہیں اور الحاد وفجور کے راستہ پر بے تحاشا اپنی قوم کو دوڑائے لیے جا رہے ہیں ۔قبل اس کے باقی مسلمان ملکوں میں وہ وقت آئے جب کہ ہر جگہ یہ بریک ٹوٹ چکا ہو، ہمیں ایک ایسا نظامِ تعلیم قائم کرنے کی فکر کرنی چاہیے جس سے بیک وقت دین ودنیا کے عالم تیار ہوں جس سے نکلنے والے بریک کی جگہ نہیں بلکہ امت کی گاڑی کے ڈرائیور کی جگہ سنبھالنے کے قابل ہوں اور اپنے اخلاق وکردار کے اعتبار سے بھی اور ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی مغربی طرز کے نظامِ تعلیم سے فارغ ہونے والوں کی بہ نسبت فائق تر ہوں۔
اس ضرورت کو مسلم دنیا کا کوئی تعلیمی ادارہ پورا نہیں کر رہا ہے۔ عالمِ اسلامی کے تمام اہل فکر پریشان ہیں کہ اگر ایسا ایک نظامِ تعلیم قائم نہ ہوا تو امت مسلمہ کو دین واخلاق کی مکمل تباہی سے کیسے بچایا جا سکے گا۔ اس طرح کا نظامِ تعلیم بنانے کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہے وہ صرف حکومتیں ہی فراہم کر سکتی ہیں اور مسلم ممالک کی حکومتیں جیسے لوگوں کے ہاتھ میں ہیں ان کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس حالت میں میرے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ میرے ذہن میں اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک تعلیمی ادارے کا جو خاکہ ہے اسے عالمِ اسلامی کے سامنے پیش کر دوں۔ شاید کہ اہل علم وفکر اسے پسند کریں اور دنیا کی کوئی مسلم حکومت اسے جامہ پہنانے کے لیے تیار ہو جائے، یااللّٰہ کچھ ثروت واہل خیر اصحاب کا سینہ اس کام کے لیے کھول دے۔

مطلوبہ اسلامی یونی ورسٹی کے اغراض ومقاصد
اس یونی ورسٹی کے لیے میں اپنی تجاویز نہایت اختصار کے ساتھ سطور ذیل میں پیش کرتا ہوں۔
۱۔ سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ اس یونی ورسٹی کا مقصد واضح طور پر متعین کر دیا جائے تاکہ اس کا نظام اسی کے لحاظ سے وضع کیا جائے، اس میں کام کرنے والے بھی اسی کو نگاہ میں رکھ کر کام کریں، اور اسے دیکھنے والے بھی اس معیار پر جانچ کر اسے دیکھ سکیں کہ وہ اپنے مقصد کو کہاں تک پورا کر رہی ہے۔ میرے نزدیک اس کا مقصد یہ ہونا چاہیے۔
’’وہ ایسے علما تیار کرے جو اس دور جدیدمیں ٹھیک ٹھیک دین حق کے مطابق دنیا کی راہ نمائی کرنے کے لائق ہوں‘‘
۲۔ اس کا اپنا دائرہ کار صرف علومِ اسلامیہ تک محدود رکھنا چاہیے۔ دوسرے علوم اس میں اس حیثیت سے پڑھائے جائیں کہ وہ علوم اسلامیہ کے لیے مددگار ہوں نہ اس حیثیت سے کہ اس یونی ورسٹی کو ان علوم کے ماہرین تیار کرنا ہیں۔
۳۔ اسے لازماً ایک اقامتی یونی ورسٹی ہونا چاہیے جس میں طالب علم ہمہ وقت رہیں اور اساتذہ بھی یونی ورسٹی کی حدود میں سکونت پزیر ہوں۔
۴۔ اسے تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے کھلا ہونا چاہیے تاکہ ہر جگہ کے طالب علم آزادی کے ساتھ اس میں آ کر داخل ہو سکیں۔
۵۔ اس کا پورا ماحول ایسا ہونا چاہیے جو طلبہ میں تقوٰی اور اخلاق فاضلہ پیدا کرنے والا اور ان کے اندر اسلامی ثقافت کو مستحکم کرنے والا ہو۔ اسے مغربی ثقافت کے اثرات سے محفوظ رکھا جانا چاہیے۔ تاکہ اس کے طلبہ میں وہ شکست خوردہ ذہنیت پیدا نہ ہونے پائے جو مغرب سے مغلوب اور مرعوب ہونے والی قوموں میں ہر جگہ پیدا ہو رہی ہے۔ اس کے حدود میں مغربی لباس کا استعمال ممنوع ہونا چاہیے۔ اس میں طلبہ کے کھیل اور تفریحات کے لیے بھی مغربی کھیلوں کی بجائے، گھوڑے کی سواری، تیراکی، نشانہ بازی، اسلحہ کا استعمال، موٹر سائیکل اور موٹر چلانے کی مشق اور ایسی ہی دوسری تفریحات رائج کی جانی چاہییں۔ اس کے ساتھ انھیں کسی حد تک فوجی تربیت بھی دی جانی چاہیے۔
۶۔ اس کے لیے اساتذہ کا انتخاب بھی صرف علمی قابلیت کی بِنا ہی پر نہ ہونا چاہیے بلکہ اس کے تمام اساتذہ اپنے عقائد ونظریات اور اپنی عملی زندگی کے لحاظ سے صالح اور متقی ہونے چاہییں۔ اس جامعہ کے لیے گہری چھان بین کے بعد ایسے اساتذہ کو عالم اسلامی کے مختلف ممالک سے منتخب کیا جائے جو اعلیٰ درجہ کی علمی قابلیت رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے عقائد وافکار کے لحاظ سے بھی پورے مسلمان ہوں۔ عملاً احکام اسلامی کا اتباع کرنے والے ہوں اور مغربی ثقافت سے شکست خوردہ نہ ہوں بلکہ میں تو یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اس جامعہ کے لیے جن اساتذہ کومنتخب کیا جائے ان کے متعلق یہ اطمینان بھی کر لیا جائے کہ ان کے گھر والے بھی حدود شریعہ کی پابندی سے آزاد نہ ہوں، اس لیے کہ جامعہ کے حدود میں اگر طلبہ کے ساتھ ایسے اساتذہ رہیں، جن کے گھر کی خواتین تبرج جاہلیت میں مبتلا ہوں اور جن کے گھر سے نغموں کی آوازیں بلند ہوتی رہیں تو طلبہ کو ان سے کوئی اچھا سبق نہ مل سکے گا۔
۷۔ اس کے طلبہ کو ایسی تربیت دینی چاہیے کہ ان میں خصوصیّت کے ساتھ حسب ذیل اوصاف پیدا ہوں:
(الف) اسلام اور ا س کی تہذیب پر فخر اور اسے دنیا پر غالب کرنے کا عزم۔
(ب) اسلامی اخلاق سے اتصاف اور اسلامی احکام کی پابندی۔
(ج) دین میں تفقہ اورمجتہدانہ بصیرت۔
(د) تنگ نظرانہ فرقہ بندی سے پاک ہونا۔
(ھ) تحریر وتقریر اور بحث کی عمدہ صلاحیتیں اور تبلیغ دین کے لیے مناسب قابلیتیں۔
(و) جفاکشی، محنت ، چستی ، اور اپنے ہاتھ سے ہر طرح کے کام کر لینے کی صلاحیت۔
(ز) تنظیم وانتظام اور قیادت کی صلاحیتیں۔
۸۔ اس میں صرف وہ لوگ داخل کیے جانے چاہییں جو ثانوی تعلیم کے مرحلے سے فارغ ہو چکے ہوں۔ عرب ممالک سے آنے والے طلبہ براہ راست اس میں داخل ہو سکتے ہیں۔ لیکن غیر عرب ممالک کے طلبہ اگر عربی زبان میں کافی استعداد نہ رکھتے ہوں توان کے لیے کم از کم ایک سال کا کورس الگ ہونا چاہیے تاکہ انھیں عربی زبان کی کتابوں سے استفادہ کے قابل بنایا جا سکے۔
یونی ورسٹی کے تعلیمی مراحل:
۹۔ اس کی تعلیم کو ۹ سال کے تین مرحلوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔ مرحلہ اولیٰ ۴ سال مرحلہ ثانیہ ۳ سال اور مرحلہ ثالثہ ۲ سال۔
مرحلہ اولیٰ کا نصاب
۱۰۔ مرحلہ اولیٰ میں حسب ذیل مضامین کی تعلیم ہونی چاہیے اور انھیں تعلیم کی چار سالہ مدت پر مناسب طریقے سے تقسیم کر دینا چاہیے۔
(الف) عقائد اسلام، اس تفصیل کے ساتھ کہ قرآن وسنت کی رو سے اسلام کے عقائد کیا ہیں اور ان کے حق میں کیا نقلی اور کیا عقلی دلائل ہیں۔ اس سلسلے میں اختصار کے ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ مسلمانوں میں یہ اختلاف عقائد کیسے اور کس ترتیب سے رونما ہوا ہے اور اس لحاظ سے دنیائے اسلام میں اس وقت کتنے مذہب پائے جاتے ہیں اس درس کو بیان علمی کے حدود سے متجاوز نہ ہونا چاہیے اور حربِ عقائد سے حتی الامکان پرہیز کرنا چاہیے۔
(ب) اسلامی نظامِ حیات، اس مضمون میں طلبہ کو پورے اسلامی نظام سے روشناس کرا دیا جائے۔ اسلام کی بنیاد کِن اساسی تصوّرات پر قائم ہے، ان تصوّرات کی بِنا پر وہ اخلاق اور سیرت کی تشکیل کس طرح کرتا ہے۔ پھر گھر اور خاندان سے لے کر معیشت، سیاست اور بین الاقوامی تعلقات تک مسلم سوسائٹی کی زندگی کے مختلف شعبوں کو وہ کن اصولوں پر منظم کرتا ہے اور اس سے پوری اسلامی تہذیب کی کیا شکل بنتی ہے۔
(ج) قرآن، چار سال کی مدت میں پورا قرآن مختصر تفسیر کے ساتھ پڑھا دیا جائے۔ اس کے لیے تفسیر کی کوئی خاص کتاب مقرر کرنے کی بجائے استاد کو خود کتب تفاسیر سے استفادہ کرتے ہوئے اس طرح قرآن کا درس دینا چاہیے کہ طلبہ کتابِ الٰہی کا مقصود ومدعا اچھی طرح سمجھ لیں اور جو شکوک وشبہات ان کے ذہن میں پیدا ہوں وہ رفع کر دیے جائیں۔
(د) حدیث، اس مضمون میں اجمالاً تاریخِ علمِ حدیث، اصولِ حدیث اور دلائل حجیت حدیث سے طلبہ کو ضروری حد تک آگاہ کرنے کے بعد سنن کے مجموعوں میں سے کوئی ایک کتاب مکمل پڑھا دی جائے۔ مثلاً منتقی الاخبار یا بلوغ المرام یا مشکوٰۃ المصابیح۔
(ہ) فقہ۔ اس مضمون میں تاریخِ فقہ اور اُصولِ فقہ پر ایک ایک مختصر کتاب پڑھانے کے بعد طلبہ کو فقہ کی تعلیم اس طرح دی جائے کہ وہ مسائلِ فقیہہ میں مختلف فقہا کے مذاہب سے بھی واقف ہوتے جائیں اور انھیں یہ بھی معلوم ہو جائے کہ ماخذِ شریعت سے ائمہ مجتہدین نے کس طرح مسائل کا استنباط کیا ہے۔
(و) تاریخِ اسلام۔ اس کا آغاز تاریخِ انبیا علیہم السلام سے کیا جائے اور پھر خصوصیّت کے ساتھ سیرت محمدی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام اور خلفائے راشدینؓ کے دور کو زیادہ سے زیادہ تفصیل کے ساتھ پڑھانے کے بعد، مختصرًا پوری اسلامی تاریخ سے طلبہ کو روشناس کرا دیا جائے۔
(ز) علومِ عمران (social sciences)۔ خصوصاً معاشیات، سیاسیات اور سوشیالوجی۔ ان مضامین کی تعلیم کے لیے ایسے اساتذہ کا انتخاب کیا جائے جواسلامی نقطہ نظر سے تنقید کے ساتھ تعلیم دے سکیں۔ مغربی افکار ونظریات جوں کے توں طلبہ کے ذہن میں نہ اتار دیں۔
(ح) ادیانِ عالم، خصوصاً یہودیت، عیسائیت، بودھ مذہب اور ہندو مذہب سے اجمالی واقفیّت۔
(ط) جدید مغربی افکار کی مختصر تاریخ اور ان کے مذاہب، خصوصاً مغربی جمہوریّت، اشتراکیّت اور فسطائیت وغیرہ۔
(ی) انگریزی، جرمن، اور فرنچ میں سے کوئی ایک زبان۔
مرحلہ ثانیہ کا نصاب
۱۰۔ مرحلہ ثانیہ میں پانچ فیکلٹیاں ہونی چاہییں۔ تفسیر، حدیث، فقہ، علم الکلام، اور تاریخ۔
۱۱۔ تفسیر کی فیکلٹی میں حسب ذیل مضامین ہونے چاہییں:
(۱) تاریخ القرآن
(۲) تاریخ علمِ تفسیر اور مفسرین کے مختلف مذاہب اوران کی خصوصیات
(۳) اختلافِ قرأت
(۴) اُصولِ تفسیر
(۵) قرآن مجید کا تفصیلی اور گہرا مطالعہ
(۶) مخالفین کی طرف سے قرآن پر آج تک جتنے اعتراضات کیے گئے ہیں ان کا جائزہ اور ان کے جوابات۔
(۷) احکامِ قرآن
۱۲۔ حدیث کی فیکلٹی میں
(۱) تاریخ وتدوینِ حدیث
(۲) علومِ حدیث اپنے تمام شعبوں کے ساتھ
(۳) حدیث کی امہات کتب میں سے کوئی ایک کتاب تفصیلی تنقید کے ساتھ، تا کہ طلبہ کو محدثانہ طریقے پر احادیث کے پرکھنے کی اچھی طرح مشق ہو جائے۔
(۴) کتبِ صحاح پرایک جامع نظر۔
(۵) حدیث پرمخالفین کی طرف سے اب تک جتنے اعتراضات کیے گئے ہیں ان کا تفصیلی جائزہ اور ان کے جوابات
۱۳۔ فقہ کی فیکلٹی میں
(۱) اصولِ فقہ
(۲) تاریخِ فقہ
(۳) فلسفۂ قانونِ جدید
(۴) رومی وایرانی قوانین، یہودی شریعت، جدید وضعی قوانین اور اسلامی قوانین کا تقابلی مطالعہ۔
(۵) فقہائے اسلام کے مختلف مذاہب اور ان کے اصول
(۶) قرآن وسنت سے براہ راست استنباطِ مسائل کی مشق
(۷) اہلِ سنت کے چاروں مذاہب کی فقہ اور اس کے ساتھ فقہ ظاہری، فقہ زیدی، اور فقہ جعفری بھی۔
۱۴۔ علم الکلام کی فیکلٹی میں
(۱) مبادی منطق
(۲) فلسفہ قدیم وجدید
(۳) مسلمانوں میں علم کلام کے آغاز سے اب تک کی تاریخ اور اُن مذاہب کی تفصیل جو اندرونی اور بیرونی اثرات سے مسلمانوں کے اندر پیدا ہوئے ہیں۔
(۴) علم الکلام کے مسائل اور ان میں قرآن وسنت کی راہ نمائی۔
(۵) اسلام پر مخالفین کے اعتراضات کا تفصیلی جائزہ اور اس کے جوابات
(۶) تقابلِ ادیان خصوصاً مسیحیت کی تاریخ، اور اس کے فرقوں، اور اس کے علم کلام کا تفصیلی مطالعہ۔
(۷) مسیحی مشنریوں کا کام اور ان کے طریقے۔
۱۵۔ تاریخِ اسلام کی فیکلٹی میں
(۱) فلسفۂ تاریخ، مقصدِ مطالعہ تاریخ، اور طرزِ مطالعہِ تاریخ قرآن مجید کی رو سے۔
(۲) فلسفۂ تاریخ کے مختلف مذاہب ابن خلدون سے اب تک
(۳) تاریخ عرب وشرقِ اوسط قبل اسلام
(۴) تاریخ اسلام عہدِ نبوی سے اب تک بلحاظ فکر، اخلاق، علوم، تمدن وسیاست
(۵) تجدید واحیائے دین کی تحریکات
(۶) مسلمان ممالک پر مغربی استعمار کے غلبہ کی تاریخ اور اس کے اثرات ونتائج
مرحلہ ثالثہ کا کام
۱۶۔ مرحلہ ثالثہ میں داخل ہونے والا طالب علم مذکورہ بالا فیکلیٹیوں میں سے کسی ایک میں کسی خاص موضوع پر دو سال تک علمی تحقیق کرنے کے بعد کوئی مقالہ پیش کرے گا جسے اہل علم جانچنے کے بعد اسے سندِ فضیلت دیں گے۔
۱۷۔ اس جامعہ کے لیے ایک اعلیٰ درجہ کی لائبریری ہونی چاہیے جس میں جامعہ کی مذکورہ بالا ضروریات کے مطابق وسیع پیمانے پر کتابیں فراہم کی جائیں۔
۱۸۔ ایک کمیٹی کا تقرر اس غرض کے لیے کیا جائے کہ جامعہ کی تعلیم کے مختلف مراحل اور شعبوں کے لیے مناسب کتابوں کا انتخاب کرے۔
۱۹۔ ایک اکیڈمی کا قیام اس غرض کے لیے کہ جامعہ کی ضروریات کے لیے مناسب ترین کتابیں تیار کرے۔
٭…٭…٭…٭…٭

باب ہشتم: اسلامی نظام تعلیم

(ذیل کا مقالہ دراصل وہ میمورنڈم ہے جو مولانا مودودیؒ نے اصلاحِ تعلیم کے سلسلے میں قومی تعلیمی کمیشن کو بھیجا تھا۔ چوں کہ کمیشن کے جاری کردہ سوال نامے کا دائرہ اس قدر محدود تھا کہ اس کے حدود میں رہتے ہوئے بنیادی تبدیلیوں کے متعلق کوئی تجویز پیش نہیں کی جا سکتی تھی۔ اس لیے یہ مقالہ کمیشن کی اجازت سے آزاد ہو کر لکھا گیا ہے۔)
اس ملک کے موجودہ نظامِ تعلیم میں اصلاحات تجویز کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم اُن نقائص کو اچھی طرح سمجھ لیں جو ہماری تعلیم کے نظام میں اس وقت پائے جاتے ہیں۔ اس کے بغیر ہم یہ نہیں جان سکتے کہ اس میں اصلاح کس قدر اور کس شکل میں ہونی چاہیے۔ ہمارے ملک میں اس وقت دو طرح کے نظام رائج ہیں۔ ایک وہ جس پر ہمارے پرانے طرز کے مدارس چل رہے ہیں اورجو ہماری مذہبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے علما تیار کرتا ہے۔ دوسرا وہ جو ہمارے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں رائج ہے اور مذہبی دائرے سے باہر ہمارے پورے نظامِ زندگی کو چلانے کے لیے کارکن تیار کرتا ہے۔ ان دونوں کے نقائص کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر ہمیں ان کی بجائے ایک ہی ایسا نظامِ تعلیم تجویز کرنا ہو گا جو ہماری ساری قومی ضروریات کو بیک وقت پورا کر سکے اور اس موجودہ تعلیمی ثنویت کو ختم کر دے جو دین ودنیا کی تفریق کے گم راہانہ نظریے پرمبنی ہے۔
قدیم نظامِ تعلیم
جہاں تک ہمارے پرانے نظامِ تعلیم کا تعلق ہے اس کے متعلق یہ غلط فہمی ہے کہ یہ ہماری قدیم مذہبی تعلیم کا نظام تھا۔ دراصل یہ مذہبی تعلیم کا نہیں بلکہ سول سروس کا نظام تھا جو قدیم زمانے میں مسلمان حکومتوں کی ضروریات کے لیے تجویز کیا گیا تھا۔ اس نظامِ تعلیم کی افادیت عملاً اسی روز ختم ہو گئی تھی جس روز انگریزی حکومت یہاں مسلط ہوئی، کیوں کہ اس کے تحت تعلیم پائے ہوئے لوگوں کے لیے نئی مملکت میں کوئی جگہ نہ رہی۔ لیکن چوں کہ اس میں ہماری صدیوں کی تہذیبی میراث موجود تھی اور ہماری مذہبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی اس کے اندر کچھ نہ کچھ سامان پایا جاتا تھا (اگرچہ کافی نہ تھا)، اس لیے دَورِ غلامی کے آغاز میں ہماری قوم کے ایک اچھے خاصے بڑے عنصر نے یہ محسوس کیا کہ اس نظام کو جس طرح بھی ہو سکے قائم رکھا جائے تاکہ اپنی آبائی میراث سے بالکل منقطع ہو کر ہمارا قومی شیرازہ منتشر اور ہمارا قومی وجود بالکل ہی ختم نہ ہو جائے۔
اسی مصلحت سے انھوں نے کسی تغیر وتبدل کے بغیر اسے جوں کا توں برقرار رکھا، لیکن جتنے جتنے حالات بدلتے گئے اتنی ہی زیادہ اس کی افادیت گھٹتی چلی گئی، کیوں کہ اس نظامِ تعلیم کے تحت جو لوگ تعلیم پا کرنکل رہے ہیں۔ ان کا کوئی مصرف اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ ہماری مسجدوں کو سنبھال کر بیٹھ جائیں یا کچھ مدرسے کھول لیں یا وعظ گوئی کا پیشہ اختیار کریں اور طرح طرح کے مذہبی جھگڑے چھیڑتے رہیں تاکہ ان جھگڑوں کی وجہ سے قوم کو ان کی ضرورت محسوس ہو۔ اس طرح ان کی ذات سے اگرچہ کچھ نہ کچھ فائدہ بھی ہمیں پہنچتا ہے، یعنی ان کی بدولت ہمارے اندر دین کا کچھ نہ کچھ علم پھیلتا ہے، دین کے متعلق کچھ نہ کچھ واقفیت لوگوں کو حاصل ہو جاتی ہے اور ہماری مذہبی زندگی میں کچھ نہ کچھ حرارت باقی رہ جاتی ہے۔ لیکن اس فائدے کے مقابلے میں جو نقصان ان سے ہمیں پہنچ رہا ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ وہ نہ تو اسلام کی صحیح نمایندگی کر سکتے ہیں، نہ ان کے اندر اب یہ صلاحیت ہے کہ وہ دینی اصولوں پر قوم کی راہ نمائی کر سکیں اور نہ وہ ہمارے اجتماعی مسائل میں سے کسی مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اب ان کی بدولت دین کی عزت میں اضافہ ہونے کی بجائے الٹی اس میں کچھ کمی ہو رہی ہے۔ دین کی جیسی نمائندگی آج ان کے ذریعہ سے ہو رہی ہے اس کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں میں دین سے روز بروز بُعد بڑھتا جا رہا ہے اور دین کے وقار میں کمی آ رہی ہے۔ پھر ان کی بدولت ہمارے ہاں مذہبی جھگڑوں کا ایک سلسلہ ہے جو کسی طرح ٹوٹنے میں نہیں آتا کیوں کہ ان حضرات کی ضروریاتِ زندگی انھیں مجبور کرتی ہیں کہ وہ ان جھگڑوں کو تازہ رکھیں اور بڑھاتے رہیں۔ یہ جھگڑے نہ ہوں تو قوم کو سرے سے ان کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔
یہ ہے ہمارے پرانے نظامِ تعلیم کی پوزیشن، اس میں دینی تعلیم بہت کم ہے اور علمائے دین اور مذہبی پیشوا تیار کرنے کا جو کام اس سے اس وقت لیا جا رہا ہے اس کے لیے وہ بنایا ہی نہیں گیا تھا۔ وہ تو دراصل جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، اب سے دو ڈھائی سو برس پہلے کی سول سروس کی تعلیم ہے جس میں زیادہ تر اس وجہ سے دینی تعلیم کا جوڑ لگایا گیا تھا کہ اس زمانے میں اسلامی فقہ ہی ملک کا قانون تھی اور اسے نافذ کرنے والوں کے لیے فقہ اور اس کی بنیادوں کا جاننا ضروری تھا۔ آج ہم غنیمت سمجھ کر اسی کو اپنی دینی تعلیم سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں اس کے اندر دینی تعلیم کا عنصر بہت کم ہے۔ اس میں جس قدر زور اس دور کے فلسفہ، منطق، ادب اور صَرف ونحو وغیرہ علوم پر دیا جاتا ہے، قرآن وحدیث اور دین کی اساسی تعلیمات پر نہیں دیا جاتا، آج بھی کوئی عربی مدرسہ ایسا نہیں ہے جس کے نصاب تعلیم میں پورا قرآن مجید داخل ہو۔ صرف ایک یا دو سورتیں (سورۂ بقرہ یا سورۂ آل عمران) باقاعدہ درسًا درسًا پڑھائی جاتی ہیں۔ باقی سارا قرآن اگر کہیں شامل درس ہے بھی تو صرف اس کا ترجمہ پڑھا دیا جاتا ہے۔ تحقیقی مطالعۂ قرآن جو آدمی کو مفسر بنا سکے، کسی مدرسے کے نصاب میں بھی شامل نہیں۔ یہی صورتِ حال تعلیم حدیث کی ہے۔ اس کی بھی باقاعدہ تعلیم جیسی کہ ہونی چاہیے، اور جیسی کہ محدث بننے کے لیے درکار ہے، کہیں نہیں دی جاتی۔ درسِ حدیث کا جو طریقہ ہمارے ہاں رائج ہے وہ یہ ہے کہ جب فقہی اور اعتقادی جھگڑوں سے متعلق کوئی حدیث آ جاتی ہے تو اس پر دو دو تین تین دن صَرف کر دیے جاتے ہیں۔ باقی رہیں وہ حدیثیں جو دین کی حقیقت سمجھاتی ہیں ، یا جن میں اسلام کا معاشی، سیاسی، تمدنی اور اخلاقی نظام بیان کیا گیا ہے، یا جن میں دستورِ مملکت، نظامِ عدالت یا بین الاقوامی قانون پر روشنی پڑتی ہے ان پر سے استاد اور شاگرد سب اس طرح رواں دواں گزر جاتے ہیں کہ گویا ان میں کوئی بات قابل توجہ ہے ہی نہیں۔ حدیث اور قرآن کی بہ نسبت ان کی توجہ فقہ کی طرف زیادہ ہے لیکن اس میں زیادہ تر جزئیاتِ فقہ کی تفصیلات ہی توجہ کا مرکز رہتی ہیں۔ فقہ کی تاریخ، اس کا تدریجی ارتقا، اس کے مختلف اسکولوں کی امتیازی خصوصیات، ان اسکولوں کے متفق علیہ اور مختلف فیہ اصول اور ائمہ مجتہدین کے طریقِ استنباط … جن کے جانے بغیر کوئی شخص حقیقت میں فقیہ نہیں بن سکتا، ان کے درس میں سرے سے شامل ہی نہیں ہیں ، بلکہ ان چیزوں پر شاگرد تو درکنار استاد بھی کم ہی نگاہ رکھتے ہیں۔ رہیں اجتہادی صلاحیتیں، تو ان کا پیدا کرنا سرے سے اس نظامِ تعلیم میں مقصود ہی نہیں، بلکہ شاید گناہ بھی ہے۔ اس لیے مجتہد تیار ہونے کا یہاں کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
اس طرح یہ نظامِ تعلیم ہماری ان مذہبی ضروریات کے لیے بھی سخت ناکافی ہے جن کی خاطر اسے باقی رکھا گیا تھا۔ رہیں دنیوی ضروریات تو ان کے ساتھ جو کچھ بھی اس کا سروکار تھا وہ گزشتہ صدی کے آغاز ہی میں ختم ہو چکا تھا۔
جدید نظامِ تعلیم
اس کے بعد اس نظامِ تعلیم کو لیجیے جو انگریزوں نے یہاں قائم کیا۔ دنیا میں جو بھی نظامِ تعلیم قائم کیا جائے، اس میں اولین بنیادی سوال یہ ہوتا ہے کہ آپ کس قسم کے آدمی تیار کرنا چاہتے ہیں اور آدمیت کا وہ کیا نقشہ آپ کے سامنے ہے جس کے مطابق آپ لوگوں کو تعلیم وتربیت دے کر ڈھالنا چاہتے ہیں؟ اس بنیادی سوال کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یقینا انگریز کے سامنے انسانیت کا وہ نقشہ ہرگز نہیں تھا جو مسلمانوں کے سامنے ہونا چاہیے۔ انگریز نے یہ نظام تعلیم یہاں اس لیے قائم نہیں کیا تھا کہ مسلمانوں کی تہذیب کو زندہ رکھنے اور ترقی دینے کے لیے کارکن تیار کرے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ چیز اس کے پیش نظر نہیں ہو سکتی تھی۔ پھر اس کے پیش نظر انسانیت کا وہ نقشہ بھی نہیں تھا جو خود اپنے ملک انگلستان میں اس کے پیش نظر تھا۔ وہ اس مقصد کے لیے یہاں آدمی تیار کرنا نہیں چاہتا تھا جس کے لیے وہ اپنے ملک میں اپنی قوم کے لیے تیار کرتا تھا۔ وہ یہاں ایسے لوگ تیار کرنا نہیں چاہتا تھا جو ایک آزاد قومی حکومت کو چلانے کے لیے موزوں ہوں۔ یہ جنس تو اسے اپنے ملک میں مطلوب تھی نہ کہ ہمارے ملک میں۔ یہاں جس قسم کے آدمی تیار کرنا اس کے پیش نظر تھا ان کے اندر اولیں صلاحیت وہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ باہر سے آ کر حکومت کرنے والی ایک قوم کے بہتر سے بہترآلہ کار بن سکیں۔ اسے یہاں ایسے آدمی درکار تھے جو اس کی زبان سمجھتے ہوں، جن سے وہ ربط اور تعلق رکھ سکے اور کام لے سکے، جو اس کے ان اصولوں کو جانتے اور سمجھتے ہوں جن پر وہ ملک کا نظام چلانا چاہتا تھا، اور جن میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ اس سرزمین میں انگریز کے منشا کو خود انگریز کی طرح پورا کر سکیں۔ یہی مقصد تھا جس کے لیے اس نے موجودہ نظامِ تعلیم قائم کیا تھا۔
اس نظامِ تعلیم میں اس نے جتنے علوم پڑھائے، ان میں اسلام کا کوئی شائبہ نہ تھا اور نہ ہو سکتا تھا۔ خود یورپ میں ان سارے علوم کا جو ارتقا ہوا تھا وہ تمام تر خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کی راہ نمائی میں ہوا تھا۔ جو مذہبی طبقہ وہاں موجود تھا، وہ پہلے ہی فکر وعمل کے میدان سے بے دخل کیا جا چکا تھا۔ اس لیے تمام علوم کا ارتقا خواہ وہ سائنس ہو یا فلسفہ، تاریخ ہو یا عمرانیات، ایسے لوگوں کے ہاتھوں ہوا جو اگر خدا کے منکر نہ تھے تو کم از کم اپنی دنیوی زندگی میں خدا کی راہ نمائی کی کوئی ضرورت بھی محسوس نہ کرتے تھے۔ انگریز نے اپنے انھی علوم کو لا کر، انھی کتابوں کے ساتھ اس ملک میں رائج کیا، اور آج تک انھی علوم کو اسی طرز پر یہاں پڑھایا جا رہا ہے۔ اس نظامِ تعلیم کے تحت جو لوگ پڑھتے رہے ان کا ذہن قدرتی طور پر بغیر اپنے کسی قصور اور اپنے کسی ارادے کے آپ سے آپ اس طرح بنتا چلا گیا کہ وہ دین سے اور دینی نقطۂ نظر سے دینی اخلاق سے اور دینی طرزِ فکر سے روزبروز بعید تر ہوتے چلے گئے۔ ظاہرہے کہ جو شخص اپنی تعلیم کے نقطۂ آغاز سے لے کر اپنی انتہائی تعلیم تک دنیا کے متعلق جتنی معلومات بھی حاصل کرے اگر وہ ساری کی ساری خدا پرستی کے نقطۂ نظر سے خالی ہوںتو اس کے ذہن میں آخر خدا کا اعتقاد کیسے جڑ پکڑ سکتا ہے۔ اس کی درسی کتابوں میں خدا کا کہیں ذکر ہی نہ ہو، وہ تاریخ پڑھے تو اس میں پوری انسانی زندگی اپنی قسمت آپ ہی بناتی اور بگاڑتی نظر آئے، وہ فلسفہ پڑھے تو اس میں کائنات کی گتھی خالق کائنات کے بغیر ہی سلجھانے کی کوشش ہو رہی ہو۔ وہ سائنس پڑھے تو اس میں سارا خانۂ ہستی کسی صانع حکیم اور ناظم ومدبر کے بغیر چلتا ہوا دیکھا جائے، وہ قانون، سیاست، معیشت اور دوسرے علوم پڑھے تو ان میں سرے سے یہ امر زیرِ بحث ہی نہ ہو کہ انسانوں کا خالق ان کے لیے زندگی کے کیا اصول اور احکام دیتا ہے، بلکہ ان سب کا بنیادی نظریہ ہی یہ ہو کہ انسان آپ ہی اپنی زندگی کے اصول بنانے کا حق رکھتا ہے، ایسی تعلیم پانے والے سے کبھی یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ تو خدا کا انکار کر، وہ آپ سے آپ خدا سے بے نیاز اور خدا سے بے فکر ہوتا چلا جائے گا۔
یہ تعلیم خدا پرستی اور اسلامی اخلاق سے تو خیر خالی ہے ہی، غضب یہ ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوانوں میں وہ بنیادی انسانی اخلاقیات بھی پیدا نہیں کرتی جن کے بغیر کسی قوم کا دنیا میں ترقی کرنا تو درکنار، زندہ رہنا بھی مشکل ہے۔ اس کے زیر اثر پرورش پا کر جو نسلیں اٹھ رہی ہیں وہ مغربی قوموں کے عیوب سے تو ماشاء اللّٰہ پوری طرح آراستہ ہیں مگر ان کی خوبیوں کی چھینٹ تک ان پر نہیں پڑی ہے۔ ان میں نہ فرض شناسی ہے، نہ مستعدی وجفاکشی، نہ ضبطِ اوقات، نہ صبروثبات، نہ عزم واستقلال، نہ باقاعدگی وباضابطگی، نہ ضبطِ نفس، نہ اپنی ذات سے بالا کسی چیز کی وفاداری، وہ بالکل خود رو درختوں کی طرح ہیں جنھیں دیکھ کر یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ان کا کوئی قومی کیریکٹر بھی ہے، انھیں معزز سے معزز پوزیشن میں ہو کر بھی کسی ذلیل سے ذلیل بددیانتی اور بدکرداری کے ارتکاب میں دریغ نہیں ہوتا۔ ان میں بدترین قسم کے رشوت خور، خویش پرور، سفارشیں کرنے اور سننے والے، بلیک مارکیٹنگ کرنے اورکرانے والے، ناجائز درآمد برآمد کرنے اور کرانے والے، انصاف وقانون اور ضابطے کا خون کرنے والے، فرض سے جی چرانے اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے والے، اور اپنے ذرا سے مفاد پر اپنی پوری قوم کے مفاد اور فلاح کو قربان کر دینے والے، ایک دو نہیں ہزاروں کی تعداد میں، ہر شعبۂ زندگی میں، ہر جگہ آپ کو کام کرتے نظر آتے ہیں۔ انگریز کے ہٹ جانے کے بعد مملکت کو چلانے کی ذمہ داری کا بار اسی تعلیم کے تیار کیے ہوئے لوگوں نے سنبھالا ہے اور چند سال کے اندر ان بے سیرت کارکنوں کے ہاتھوں ملک کا جو حال ہوا ہے وہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اور جونسل اب اس نظامِ تعلیم کی درس گاہوں میں زیر تربیت ہے اس کے اخلاق وکردار کا حال آپ چاہیں تو درس گاہوں میں، ہوسٹلوں میں، تفریح گاہوں میں اور قومی تقریبات کے موقع پر بازاروں میں دیکھ سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ تعلیم میں خدا پرستی اور اسلامی اخلاق نہ سہی، آخر وہ اخلاق کیوں نہیں پیدا ہوتے جو انگریزوں میں، جرمنوں میں، امریکیوں میں اور دوسری ترقی یافتہ مغربی قوموں میں پیدا ہوتے ہیں؟ ان کے اندر کم از کم بنیادی انسانی اخلاقیات تو پائے جاتے ہیں یہاں وہ بھی مفقود ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ بنیادی انسانی اخلاقیات پیدا کرنے کی فکر وہ نظامِ تعلیم کرتا ہے جو ایک آزاد قوم اپنے نظامِ زندگی کو چلانے کے لیے بناتی ہے۔ اسے لامحالہ اپنے تمدن کی بقا اور ارتقا کی خاطر ایسے کارکن تیار کرنے کی فکر ہوتی ہے جو مضبوط اور قابلِ اعتماد سیرت کے مالک ہوں۔ انگریز کوایسے کارکنوں کی ضرورت اپنے ملک میں تھی نہ کہ ہمارے ملک میں۔ اس ملک میں تو انگلستان کے برعکس اسے وہ اخلاق پیدا کرنا مطلوب تھے جو بھاڑے کے ٹٹوئوں (mercenaries)کے ہونے چاہییں کہ اپنے ہاتھوں میں اپنے ہی ملک کو فتح کرکے اپنی قوم کے دشمنوں کے حوالے کر دیں اور پھر اپنے ملک کا نظم ونسق اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے چلاتے رہیں۔ اس کام کے لیے جیسے اخلاقیات کی ضرورت تھی ویسے ہی اخلاقیات انگریزوں نے یہاں پیدا کرنے کی کوشش کی اور انھی کو پیدا کرنے کے لیے وہ تعلیمی مشینری بنائی جو آج تک جوں کی توں اسی شان سے چل رہی ہے۔ اس مشین سے ایک آزاد ملک کے لیے قابلِ اعتماد پرزے ڈھلنے کی اگر کوئی شخص توقع رکھتا ہے تو اسے پہلے اپنی عقل کے ناخن لینے کی فکر کرنی چاہیے۔
ایک انقلابی قدم کی ضرورت
اگر ہمیں اپنے موجودہ نظامِ تعلیم کی اصلاح کرنی ہے تو پھر ہمیں ایک انقلابی قدم اٹھانا ہو گا۔ درحقیقت اب یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ وہ دونوں نظامِ تعلیم ختم کر دیے جائیں، جو اب تک ہمارے ہاں رائج رہے ہیں۔ پرانا مذہبی نظامِ تعلیم بھی ختم کیا جائے اور یہ موجودہ نظامِ تعلیم بھی جو انگریز کی راہ نمائی میں قائم ہوا تھا۔ ان دونوں کی جگہ ہمیں ایک نیا نظامِ تعلیم بنانا چاہیے جو ان کے نقائص سے پاک ہو اور ہماری ان ضرورتوں کو پورا کر سکے جو ہمیں ایک مسلمان قوم، ایک آزاد قوم، اور ایک ترقی کی خواہش مند قوم کی حیثیت سے اس وقت لاحق ہیں۔ اسی نظامِ تعلیم کا نقشہ اور اس کے قائم کرنے کا طریقہ میں یہاں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
مقصد کا تعین
اس نئے نظامِ تعلیم کی تشکیل میں اولین چیز جسے ہمیں سب سے پہلے طے کرنا چاہیے یہ ہے کہ ہمارے پیشِ نظر تعلیم کا مقصد کیا ہے؟ بعض لوگوں کے نزدیک تعلیم کا مقصد بس علم حاصل کرنا ہے، وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو بالکل غیر جانب دار تعلیم دی جانی چاہیے تاکہ وہ زندگی کے مسائل، معاملات اور حقائق کا بالکل معروضی مطالعہ (objective study) کریں اور آزادانہ نتائج اخذ کر سکیں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ اس طرح کا معروضی مطالعہ صرف فوٹو کے کیمرے کیا کرتے ہیں، انسان نہیں کر سکتے۔ انسان ان آنکھوں کے پیچھے ایک دماغ بھی رکھتا ہے جو بہرحال اپنا ایک نقطۂ نظر رکھتا ہے، اور جو کچھ بھی دیکھتا ہے، جو کچھ بھی سنتا ہے، جو کچھ بھی معلومات حاصل کرتا ہے، اسے اپنی اس فکر کے سانچے میں ڈھالتا جاتا ہے جو اسی کے اندر بنیادی طور پر موجود ہوتی ہے۔ پھر اسی فکر کی بنیاد پر اس کا وہ نظامِ زندگی قائم ہوتا ہے جسے ہم اس کا کلچر کہتے ہیں۔ اب اگر ہم ایک کلچر رکھتے ہیں اور ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کے اپنے کچھ عقائد ہیں، جس کا اپنا ایک نظریۂ زندگی ہے، جس کا اپنا ایک نصب العین ہے، جو اپنی زندگی کے کچھ اصول رکھتی ہے، تو لازماً ہمیں اپنی نئی نسلوں کو اس غرض کے لیے تیار کرنا چاہیے کہ وہ ہمارے اس کلچر کو سمجھیں، اس کی قدر کریں، اسے زندہ رکھیں اور آگے اسے اس کی اصل بنیادوں پر ترقی دیں۔ دنیا کی ہر قوم اس غرض کے لیے اپنا مستقل نظامِ تعلیم قائم کیا کرتی ہے۔ مجھے کوئی قوم ایسی معلوم نہیں ہے جس نے اپنا نظام تعلیم خالص معروضی بنیادوں پر قائم کیا ہو، جو اپنی نسلوں کو بے رنگ تعلیم دیتی ہو اور اپنے ہاں ایسے غیرجانب دار نوجوان پرورش کرتی ہو جو تعلیم سے فارغ ہو کر آزادی کے ساتھ یہ فیصلہ کریں کہ انھیں اپنی قومی تہذیب کی پیروی کرنی ہے یا کسی دوسری تہذیب کی؟ اسی طرح مجھے ایسی بھی کوئی آزاد قوم معلوم نہیں ہے جو دوسروں سے ان کا نظام تعلیم جوں کا توں لے لیتی ہو اور اپنی تہذیب کا کوئی رنگ اس میں شامل کیے بغیر اسی کے سانچے میں اپنی نئی نسلوں کو ڈھالتی چلی جاتی ہو۔ رہی یہ بات کہ کوئی قوم اپنے لیے دوسروں کا تجویز کردہ ایک ایسا نظام اختیار کرے جو اس کے نوجوانوں کی نگاہ میں اپنی قوم اور اس کے مذہب، اس کی تہذیب، اس کی تاریخ، ہر چیز کو ذلیل وخوار کرکے رکھ دے اور ان کے دل ودماغ پر انھی لوگوں کے تصورات ونظریات کا ٹھپا لگا دے جنھوں نے اس کے لیے یہ نظام تجویز کیا ہے تو میرے نزدیک یہ بدترین خود کشی ہے جس کا ارتکاب کوئی صاحبِ عقل قوم بحالتِ ہوش وحواس نہیں کر سکتی۔ یہ حماقت اگر پہلے ہم کم زوری اور بے بسی کی وجہ سے کر رہے تھے تو اب آزاد ہونے کے بعد اسے حسبِ سابق جاری رکھنے کے کوئی معنیٰ نہیں۔ اب تو ہمارا نظامِ زندگی ہمارے اختیار میں ہے۔ اب لازماً ہمارے پیش نظر تعلیم کا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ ہم ایسے افراد تیار کریں جو ہماری قومی تہذیب کو سمجھتے ہوں اور ہماری قومی تہذیب ہمارے دین کے سوا اور کیا ہے؟ لہٰذا ہمارے دین کو اچھی طرح سمجھتے ہوں، اس پر سچے دل سے ایمان رکھتے ہوں، اس کے اصولوں کو خوب جانتے ہوں اور ان کے برحق ہونے کا یقین رکھتے ہوں، اس کے مطابق مضبوط سیرت اور قابل اعتماد اخلاق رکھتے ہوں، اور اس قابلیت کے مالک ہوں کہ ہماری اجتماعی زندگی کے پورے کارخانے کو ہماری اس تہذیب کے اصولوں پر چلا سکیں اور مزید ترقی دے سکیں۔
دین ودنیا کی تفریق مٹا دی جائے
دوسری چیز جو ہمیں اپنے نظامِ تعلیم میں بطور اصول کے پیش نظر رکھنی چاہیے اور اس کی بنیاد پر ہمارا سارا نظام تعلیم بننا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم دین اور دنیا کی اس تفریق کو ختم کر دیں، دین اور دنیا کی تفریق کا یہ تخیل ایک عیسائی تخیل ہے۔ یا بدھ مذہب یا ہندوئوں اور جوگیوں کا ہے۔ اسلام کا تخیل اس کے برعکس ہے۔ ہمارے لیے اس سے بڑی کوئی غلطی نہیں ہو سکتی کہ ہم اپنے نظام تعلیم میں، اپنے نظامِ تمدن میں اور اپنے نظامِ مملکت میں دین اور دنیا کی تفریق کے اس تخیل کو قبول کر لیں۔ ہم اس کے بالکل قائل نہیں ہیں کہ ہماری ایک تعلیم دنیوی ہو اور ایک تعلیم دینی۔ اس کے برعکس ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ ہماری پوری کی پوری تعلیم بیک وقت دینی بھی ہو اوردنیوی بھی۔ دنیوی اس لحاظ سے کہ ہم دنیا کو سمجھیں اور دنیا کے سارے کام چلانے کے قابل ہوں اور دینی اس لحاظ سے کہ ہم دنیا کو دین ہی کے نقطۂ نظر سے سمجھیں اور دین کی ہدایت کے مطابق اس کا سارا کام چلائیں۔ اسلام وہ مذہب نہیں ہے جو آپ سے یہ کہتا ہو کہ دنیا کے کام آپ جس طرح چاہیں چلاتے رہیں اور بس اس کے ساتھ چند عقائد اور عبادات کا ضمیمہ لگائے رہیں۔ اسلام زندگی کا محض ضمیمہ بننے پر کبھی قانع تھا اور نہ آج ہے۔ وہ تو پوری زندگی میں آپ کا راہ نما اور پوری زندگی کے لیے آپ کا طریق عمل بننا چاہتا ہے۔ وہ دنیا سے الگ محض عالمِ بالا کی باتیں نہیں کرتا بلکہ پوری طرح دنیا کے مسئلے پر بحث کرتا ہے۔ وہ آپ کو بتاتا ہے کہ اس دنیا کی حقیقت کیا ہے۔ اس دنیا میں آپ کس غرض کے لیے آئے ہیں۔ آپ کا مقصد زندگی کیا ہے؟ کائنات میں آپ کی اصلی پوزیشن کیا ہے اور اس دنیا میں آپ کو کس طریقے سے ، کن اصولوں پر کام کرنا چاہیے وہ کہتا ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، آخرت میں جو کچھ بھی پھل آپ کو ملنے والے ہیں وہ اس بات پر منحصر ہیں کہ دنیا کی اس کھیتی میں آپ کیا بوتے ہیں۔ اس کھیتی کے اندر زراعت کرنا آپ کو سکھاتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں آپ کا سارا طرز عمل کیا ہو جس کے نتیجے میں آپ کو آخرت کا پھل ملے۔ اس قسم کا ایک دین کیسے یہ بات گوارا کر سکتا ہے کہ آپ کے ہاں ایک تعلیم دنیوی ہو اور دوسری دینی، یا ایک دنیوی تعلیم کے ساتھ محض ایک مذہبی ضمیمہ لگا دیا جائے۔ وہ تو یہ چاہتا ہے کہ آپ کی پوری تعلیم دینی نقطۂ نظر سے ہو۔ اگر آپ فلسفہ پڑھیں تو دینی نقطۂ نظر سے پڑھیں، تاکہ آپ ایک مسلمان مؤرخ بن سکیں۔ آپ معاشیات پڑھیں تو اس قابل بنیں کہ اپنے ملک کے پورے معاشی نظام کو اسلام کے سانچے میں ڈھال سکیں۔ آپ سیاسیات پڑھیں تو اس لائق بنیں کہ اپنے ملک کا نظامِ حکومت اسلام کے اصولوں پر چلا سکیں۔ آپ قانون پڑھیں تو اسلام کے معیار عدل وانصاف پر معاملات کے فیصلے کرنے کے لائق ہوں۔ اس طرح دین ودنیا کی تفریق مٹا کر پوری کی پوری تعلیم کو دینی بنا دینا چاہتا ہے۔ اس کے بعد کسی جداگانہ مذہبی نظامِ تعلیم کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ آپ کے یہی کالج آپ کے لیے امام، مفتی اور علمائے دین بھی تیار کریں گے اور آپ کی قومی حکومت کا نظم ونسق چلانے کے لیے سیکرٹری اور ڈائریکٹر بھی۔
تشکیلِ سیرت
تیسری بنیادی چیز جو نئے نظامِ تعلیم میں ملحوظ رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اس میں تشکیل سیرت کو کتابی علم سے زیادہ اہمیت دی جائے۔ محض کتابیں پڑھانے اور محض علوم وفنون سکھا دینے سے ہمارا کام نہیں چل سکتا۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے کہ ہمارے ایک ایک نوجوان کے اندر اسلامی کیریکٹر پیدا ہو، اسلامی طرزِ فکر اور اسلامی ذہنیت پیدا ہو، خواہ وہ سائنٹسٹ ہو، خواہ وہ علوم عمران کا ماہر ہو، خواہ وہ ہماری سول سروس کے لیے تیار ہو رہا ہو، جو بھی ہو اس کے اندر اسلامی ذہنیت اور اسلامی کیریکٹر ضرور ہونا چاہیے۔ یہ چیز ہماری تعلیمی پالیسی کے بنیادی مقاصد میں شامل ہونی چاہیے۔ جس آدمی میں اسلامی اخلاق نہیں وہ چاہے جوکچھ بھی ہو، بہرحال ہمارے کسی کام کا نہیں ہے۔
عملی نقشہ
ا ن اصولی باتوں کی وضاحت کے بعد اب میں تفصیل کے ساتھ بتائوں گاکہ وہ اسلامی نظامِ تعلیم جسے ہم یہاں قائم کرنا چاہتے ہیں اس کا عملی نقشہ کیا ہے؟
ابتدائی تعلیم
سب سے پہلے توابتدائی تعلیم کو لیجیے جو اس عمارت کی بنیاد ہے۔ اس تعلیم میں وہ سب مضامین پڑھائیے جو آج آپ کے پرائمری اسکولوں میں پڑھائے جاتے ہیں اور دنیا میں ابتدائی تعلیم کے متعلق جتنے تجربات کیے گئے ہیں اور آیندہ کیے جائیں ان سب سے فائدہ اٹھائیے لیکن چار چیزیں ایسی ہیں جو اس کے ہر مضمون میں پیوست ہونی چاہییں۔
اول یہ کہ بچے کے ذہن میں ہر پہلو سے یہ بات بٹھائی جائے کہ یہ دنیا خدا کی سلطنت اور ایک خدا کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ یہاں ہم خدا کے خلیفہ کی حیثیت سے مامور ہیں۔ یہاں جو کچھ بھی ہے خدا کی امانت ہے جو ہمارے حوالے کی گئی ہے۔ اس امانت کے معاملے میں ہم خدا کے سامنے جواب دہ ہیں۔ یہاں ہر طرف، جدھر بھی نگاہ ڈالی جائے آیاتِ الٰہی پھیلی ہوئی ہیں جو اس بات کا پتا دے رہی ہیں کہ ایک حکم ران ہے جو ان سب پر حکومت کر رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ابتدائی تعلیم کے لیے جس وقت بچہ داخل ہو اس وقت سے پرائمری اسکول کے آخری مرحلہ تک دنیا سے اسے آشنا اور روشناس ہی اسی طرز پر کیا جاتا رہے کہ ہر سبق کے اندر یہ تصورات شامل ہوں۔ حتیٰ کہ وہ الف سے آٹا یا ایٹم بم نہ سیکھے بلکہ اللّٰہ سیکھے۔ یہ وہ چیز ہے جو بچوں میں اول روز سے اسلامی ذہنیت پیدا کرنا شروع کر دے گی۔ اور انھیں اس طرح سے تیار کرے گی کہ آخری مراحل تعلیم تک، جب وہ ڈاکٹر بنیں گے یہی بنیاد اور یہی جڑ کام دیتی رہے گی۔
دوم یہ کہ اسلام جن اخلاقی تصورات اور اخلاقی اقدار کو پیش کرتا ہے انھیں ہر مضمون کے اسباق میں حتیٰ کہ حساب کے سوالات تک میں، طرح طرح سے بچوں کے ذہن نشین کیا جائے۔ وہ جن چیزوں کو نیکی اور بھلائی کہتا ہے ان کی قدر اور ان کے لیے رغبت اور شوق بچوں کے دل میں پیدا کیا جائے۔اور جنھیں برائی قرار دیتا ہے ان کے لیے ہر پہلو سے بچوں کے دل میں نفرت بڑھائی جائے۔ آج ہماری قوم میں جو لوگ رشوتیں کھا رہے ہیں اور طرح طرح کی بددیانتیاں اور خیانتیں کر رہے ہیں وہ سب ان درس گاہوں سے پڑھ کر نکلے ہیں جہاں طوطے مینا اور گائے بیل کے سبق تو پڑھائے جاتے ہیں مگر اخلاقی سبق نہیں پڑھائے جاتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہر طالب علم کو جو تعلیم دی جائے اس کے رگ وپے میں اخلاقی مضامین پیوست ہوں۔ اس کے اندر رشوت خوری کے خلاف شدید جذبۂ نفرت اُبھارا جائے۔ اس کے اندر حرام طریقوں سے مال کمانے اور کھانے والوں پر سخت تنقید کی جائے اور اس کے برے نتائج بچوں کے ذہن نشین کیے جائیں۔ اس کے اندر جھوٹ سے، دھوکے اور فریب سے، خود غرضی اور نفس پرستی سے، چوری اورجعل سازی سے، بد عہدی اور خیانت سے، شراب اور سود اور قمار بازی سے، ظلم اور بے انصافی اور لوگوں کی حق تلفی سے سخت نفرت دلوں میں بٹھائی جائے اور بچوں کے اندر ایک ایسی رائے عام پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کہ جس شخص میں بھی وہ اخلاقی برائیوں کا اثر پائیں اسے بری نگاہ سے دیکھیں اور اس کے متعلق برے خیالات کا اظہار کریں یہاں تک کہ انھی درس گاہوں سے فارغ ہو کر اگر کوئی شخص ایسا نکلے جو ان برائیوں میں مبتلا ہو تو اس کے اپنے ساتھی اسے لعنت ملامت کرنے والے ہوں نہ کہ داد دینے اور ساتھ دینے والے۔ اسی طرح ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ نیکیاں جنھیں اسلام انسان کے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے، انھیں درسیات میں بیان کیا جائے، ان کی طرف رغبت دلائی جائے، ان کی تعریف کی جائے، ان کے اچھے نتائج تاریخ سے نکال نکال کر بتائے جائیں اور عقل سے ان کے فائدے سمجھائے جائیں کہ یہ نیکیاں حقیقت میں انسانیت کے لیے مطلوب ہیں اور انسانیت کی بھلائی انھی کے اندر ہے۔ بچوں کو دل نشین طریقے سے بتایا جائے کہ وہ اصلی خوبیاں کیا ہیں جو ایک انسان کے اندر ہونی چاہییں اورایک بھلا آدمی کیسا ہوا کرتا ہے۔ اس میں انھیں صداقت اور دیانت کا، امانت اور پاس عہد کا، عدل وانصاف اور حق شناسی کا، ہم دردی اور اخوت کا، ایثار اور قربانی کا، فرض شناسی اور پابندیٔ حدود کا، اکلِ حلال اور ترکِ حرام کا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کھلے اور چھپے ہر حال میں خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرنے کا سبق دیا جائے اور عملی تربیت سے بھی اس امر کی کوشش کی جائے کہ بچوں میں یہ اوصاف نشوونما پائیں۔
سوم یہ کہ ابتدائی تعلیم ہی میں اسلام کے بنیادی حقائق اور ایمانیات بچوں کے ذہن نشین کرا دیے جائیں۔ اس کے لیے اگر دینیات کے ایک الگ کورس کی ضرورت محسوس ہو تو بنایا جا سکتا ہے، لیکن بہرحال صرف اسی ایک کورس پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ ان ایمانیات کو دوسرے تمام مضامین میں بھی روحِ تعلیم کی حیثیت سے پھیلا دیا جائے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہر مسلمان بچے کے دل میں توحید کا عقیدہ، رسالت کا عقیدہ، آخرت کا عقیدہ، قرآن کے برحق ہونے کا عقیدہ، شرک اور کفر اور دہریت کے باطل ہونے کا عقیدہ پوری قوت کے ساتھ بٹھا دیا جائے۔ اور یہ تلقین ایسے طریقے سے ہونی چاہیے کہ بچہ یہ نہ محسوس کرے کہ یہ کچھ دعوے اور کچھ تحکمات ہیں جو اس سے منوائے جا رہے ہیں، بلکہ اسے یہ محسوس ہو کہ یہی کائنات کی معقول ترین حقیقتیں ہیں، ان کا جاننا اور ماننا انسان کے لیے ضروری ہے، اور انھیں مانے بغیر آدمی کی زندگی درست نہیں ہو سکتی۔
چہارم یہ کہ بچے کو اسلامی زندگی بسر کرنے کے طریقے بتائے جائیں اور اس سلسلے میں وہ تمام فقہی مسائل بیان کر دیے جائیں جو ایک دس برس کے لڑکے اور لڑکی کو معلوم ہونے چاہییں۔ طہارت وپاکیزگی کے احکام، وضو کے مسائل، نماز اور روزے کے طریقے، حرام اور حلال کے ابتدائی حدود، معاشرتی زندگی کے پسندیدہ اطوار، یہ وہ چیزیں ہیں جو ہر مسلمان بچے کو معلوم ہونی چاہییں۔ انھیں صرف بیان ہی نہ کیا جائے بلکہ ایسے طریقے سے ذہن نشین کیا جائے جس سے بچے یہ سمجھیں کہ ہمارے لیے یہی احکام ہونے چاہییں، یہ احکام بالکل برحق ہیں اور ہمیں ایک ستھری اور پاکیزہ زندگی بسر کرنے کے لیے ان احکام کا پابند ہونا چاہیے۔
ثانوی تعلیم
اس کے بعد اب ہائی سکول کی تعلیم کو لیجیے۔ اس مرحلے میں سب سے پہلی چیز جسے میں ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ عربی زبان کو بطور لازمی زبان پڑھایا جائے۔ اسلام کے اصل مآخذ سارے عربی زبان میں ہیں۔ قرآن عربی میں ہے، حدیث عربی میں ہے۔ ابتدائی صدیوں کے فقہا اور علما نے جتنا کام کیا ہے وہ سب عربی میں ہے۔ اسلامی تاریخ کے اصل مآخذ بھی عربی زبان ہی میں ہیں۔ کوئی شخص اسلام کی اسپرٹ پوری طرح سے نہیں سمجھ سکتا اور نہ اس میں اسلامی ذہنیت اچھی طرح پیوست ہو سکتی ہے جب تک وہ قرآن کو براہِ راست اس کی اپنی زبان میں نہ پڑھے۔
محض ترجموں سے کام نہیں چلتا۔ اگرچہ ہم چاہتے ہیں کہ ترجمے بھی پھیلیں تاکہ ہمارے عوام الناس کم از کم یہ جان لیں کہ ہمارا خدا ہمیں کیا حکم دیتا ہے۔ لیکن ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں میں کوئی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو عربی زبان سے ناواقف ہو۔ اس لیے ہم عربی کو بطور ایک لازمی مضمون کے شامل کرنا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ایک شخص جب ہائی اسکول سے فارغ ہو کر نکلے تو اسے اتنی عربی آتی ہو کہ وہ ایک سادہ عربی عبارت کو صحیح پڑھ اور سمجھ سکے۔
ثانوی تعلیم کا دوسرا مضمون قرآن مجید ہونا چاہیے جس کے کم از کم دو پارے ہر میٹرک پاس طالب علم اچھی طرح سمجھ کر پڑھ چکا ہو۔ وقت بچانے کے لیے ایسا کیا جا سکتا ہے کہ ہائی اسکول کے آخری مرحلوں میں عربی زبان قرآن ہی کے ذریعہ پڑھائی جائے۔
تیسرا لازمی مضمون اسلامی عقائد کا ہونا چاہیے جس میں طلبہ کو نہ صرف ایمانیات کی تفصیل سے آگاہ کیا جائے بلکہ انھیں یہ بھی بتایا جائے کہ ہمارے پاس ان عقائد کے دلائل کیا ہیں؟ انسان کو ان کی ضرورت کیا ہے؟ انسان کی عملی زندگی سے ان کا ربط کیا ہے، ان کے ماننے یا نہ ماننے کے کیا اثرات انسانی زندگی پر مترتب ہوتے ہیں، اور ان عقائد پر ایمان لانے کے اخلاقی اور عملی تقاضے کیا ہیں۔ یہ امورایسے طریقے سے طلبہ کے ذہن نشین کیے جائیں کہ وہ محض باپ دادا کے مذہبی عقائد ہونے کی حیثیت سے انھیں نہ مانیں بلکہ یہ ان کی اپنی رائے بن جائیں۔
اسلامی عقائد کے ساتھ ساتھ اسلامی اخلاقیات کو بھی ابتدائی تعلیم کی بہ نسبت ثانوی تعلیم میں زیادہ تفصیل اور تشریح کے ساتھ بیان کیا جائے اور تاریخ سے نظیریں پیش کرکے یہ بات ذہن نشین کی جائے کہ اسلام کے یہ اخلاقیات محض خیالی اصول اور کتابی نظرئیے نہیں ہیں بلکہ عمل میں لانے کے لیے ہیں اور فی الواقع اس سیرت وکردار کی ایک ایسی رائے عام پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کہ اسلام جن اوصاف کی مذمت کرتا ہے، طلبہ خود ان اوصاف کو برا سمجھیں، ان سے بچیں اور اپنی سوسائٹی میں ان صفات کے لوگوں کو ابھرنے نہ دیں۔ اور اسلام جن اوصاف کو محمود اور مطلوب قرار دیتا ہے انھیں وہ خود پسند کریں، انھیں اپنے اندر نشوونما دیں اور ان کی سوسائٹی میں انھی اوصاف کے لوگوں کی ہمت افزائی ہو۔
میٹرک کے معیار تک پہنچتے پہنچتے ایک بچہ جوان ہو چکا ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں اسے اسلامی زندگی کے متعلق ابتدائی تعلیم وتربیت کی بہ نسبت زیادہ تفصیلی احکام جاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں اسے شخصی اور ذاتی زندگی، خاندانی زندگی اور تمدن ومعاشرت اور لین دین وغیرہ کے متعلق ان تمام ضروری احکام سے واقف ہونا چاہیے جو ایک جوان آدمی کے لیے درکار ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ احکام کو اتنی تفصیل کے ساتھ جانے کہ مفتی بن جائے۔ لیکن اس کی معلومات اتنی ضرور ہونی چاہییں کہ وہ اس معیار کی زندگی بسر کر سکے جو ایک مسلمان کا معیار ہونا چاہیے۔ یہ کیفیت تو نہ ہو کہ ہمارے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو نکاح، طلاق، رضاعت اور وراثت کے متعلق کوئی سرسری علم بھی نہیں ہوتا اور اس ناواقفیت کی وجہ سے بسا اوقات وہ شدید غلطیاں کر جاتے ہیں جن سے سخت قانونی پیچیدگیاں واقع ہو جاتی ہیں۔
تاریخ کی تعلیم میں ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہائی اسکول کے طلبہ (جن غریبوں کو آج تک تاریخ انگلستان پڑھائی جا رہی ہے) نہ صرف اپنے ملک کی تاریخ پڑھیں بلکہ اس کے ساتھ اسلام کی تاریخ سے بھی واقف ہوں۔ انھیں تاریخِ انبیا سے واقف ہونا چاہیے تاکہ یہ جان لیں کہ اسلام ایک ازلی وابدی تحریک ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں یکایک شروع نہیں ہوئی تھی۔ انھیں سیرت نبویؐ اور سیرت خلفائے راشدینؓ سے بھی واقف ہونا چاہیے تاکہ وہ ان مثالی شخصیتوں سے روشناس ہو جائیں جو ان کے لیے معیار انسانیت کا درجہ رکھتی ہیں۔ خلافت راشدہ کے بعد سے اب تک کی تاریخ کا ایک مجمل خاکہ بھی ان کے سامنے آ جانا چاہیے تاکہ وہ یہ جان لیں کہ مسلمان قوم کن کن مراحل سے گزرتی ہوئی موجودہ دور تک پہنچی ہے۔ یہ تاریخی معلومات نہایت ضروری ہیں۔ جس قوم کے نوجوانوں کو خود اپنے ماضی کا علم نہ ہو اس کے اندر اپنی قومی تہذیب کا احترام کبھی پیدا نہیں ہو سکتا۔
اس تعلیم کے ساتھ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہائی اسکول کے مرحلے میں طلبہ کی عملی تربیت کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے۔ مثلاً ہائی اسکول میں کوئی مسلمان طالب علم ایسا نہیں ہونا چاہیے جو نماز کا پابند نہ ہو۔ طلبہ کے اندر ایسی رائے عام پیدا کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے درمیان ایسے طالب علموں کو برداشت نہ کریں اور ازروئے قاعدہ بھی کوئی ایسا طالب علم مدرسے میں نہ رہنا چاہیے جو مدرسے کے اوقات میں نماز نہ پڑھتا ہو۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ نماز ہی وہ بنیاد ہے جس پر عملاً اسلامی زندگی قائم ہوتی ہے۔ یہ بنیاد منہدم ہو جانے کے بعد اسلامی زندگی ہرگز قائم نہیں رہ سکتی۔ اس لحاظ سے بھی آپ کو سوچنا چاہیے کہ ایک طرف تو آپ ایک طالب علم کو بتاتے ہیں کہ نماز فرض ہے اور تیرے خدا نے یہ تجھ پر فرض کی ہے۔ دوسری طرف آپ اپنے عملی برتائو سے روز یہ بات اس کے ذہن نشین کرتے ہیں کہ اس فرض کو فرض جانتے اورمانتے ہوئے بھی اگر توادا نہ کرے تو کوئی مضایقہ نہیں۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ آپ اسے روزانہ منافقت کی، ڈیوٹی سے فرار کی اور بودی سیرت کی مشق کرا رہے ہیں۔ کیا آپ امید رکھتے ہیں کہ یہ تعلیم وتربیت پا کر جب وہ باہر نکلے گا تو آپ کے تمدن اور آپ کی ریاست کا ایک فرض شناس کارکن ثابت ہو گا؟ اپنے سب سے بڑے فرض کی چوری میں مشاق ہو جانے کے بعد تو وہ ہر فرض سے چوری کرے گا، خواہ وہ سوسائٹی کا فرض ہو یا ریاست کا یا انسانیت کا۔ اس صورت میں آپ کو اسے ملامت نہ کرنی چاہیے بلکہ اس نظام تعلیم کو ملامت کرنی چاہیے جس نے اوّل روز سے اسے یہ سکھایا تھا کہ فرض ایک ایسی چیز ہے جسے فرض جاننے کے بعد بھی چھوڑا جا سکتا ہے۔ اپنے نوجوانوں کو خدا سے بے وفائی سکھانے کے بعد آپ یہ ہرگز امید نہ رکھیں کہ وہ قوم، ملک، ریاست، کسی چیز کے بھی مخلص اور وفادار ہوں گے۔ تعلیم کے کورس میں بلند خیالات اور معیاری اوصاف بیان کرنے کا آخر فائدہ ہی کیا ہے۔ اگر سیرت وکردار کو ان خیالات اور معیارات پر قائم کرنے کی عملاً کوشش نہ کی جائے۔ دل میں اونچے خیالات رکھنے اور عمل ان کے خلاف کرنے سے رفتہ رفتہ سیرت کی جڑیں بالکل کھوکھلی ہو جاتی ہیں اور ظاہر ہے کہ جن لوگوں کی سیرت ہی بودی اور کھوکھلی ہو وہ مجرد اپنی ذہنی اور علمی قابلیتوں سے کوئی کارنامہ کرکے نہیں دکھا سکتے۔ اس لیے ہمیں ثانوی تعلیم کے مرحلے میں، جب کہ نئی نسلیں بچپن سے جوانی کی سرحد میں داخل ہوتی ہیں، اس امر کی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ایک ایک لڑکے اور لڑکی کے اندر مضبوط سیرت پیدا کریں اور انھیں یہ سکھائیں کہ تمھارا عمل تمھارے علم کے مطابق ہونا چاہیے۔ جس چیز کو حق جانو اس کی پیروی کرو۔ جسے فرض جانو اسے ادا کرو۔ جسے بھلائی جانو اسے اختیار کرو اور جسے برا جانو اسے ترک کر دو۔
جہاں تک ثانوی مرحلے کے عام مضامین کا تعلق ہے وہ اپنی جگہ جاری رہیں گے۔ البتہ ان کے نصاب کی کتابیں اسلامی تصورات کی روشنی میں اور ان کے پس منظر کے ساتھ از سرِ نو تیار کرنا پڑیں گی۔
اعلیٰ تعلیم
اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کو لیجیے۔ اس مرحلے میں ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی تعلیم کے لیے ایک عام نصاب ہو جو تمام طلبہ اور طالبات کو پڑھایا جائے خواہ وہ کسی شعبۂ علم کی تعلیم حاصل کر رہے ہوں، اور ایک نصاب خاص ہو جو ہر شعبۂ علم کے طلبہ وطالبات کو ان کے مخصوص شعبے کی مناسبت سے پڑھایا جائے۔
عام نصاب میں میرے نزدیک تین چیزیں شامل ہونی چاہییں:
۱۔ قرآن مجید، اس طرح پڑھایا جائے کہ ایک طرف طلبہ قرآن کی تعلیمات سے بخوبی واقف ہو جائیں اور دوسری طرف ان کی عربی اس حد تک ترقی کر جائے کہ وہ قرآن کو ترجمے کے بغیر اچھی طرح سمجھنے لگیں۔
۲۔ حدیث کا ایک مختصر مجموعہ جس میں وہ احادیث جمع کی جائیں جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر، اس کی اخلاقی تعلیمات پر اور نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کے اہم پہلوئوں پر روشنی ڈالتی ہوں۔ یہ مجموعہ بھی ترجمے کے بغیر ہونا چاہیے تاکہ طلبہ اس کے ذریعے سے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عربی زبان دانی میں بھی ترقی کر سکیں۔
۳۔ اسلامی نظام زندگی کا ایک جامع نقشہ، جس میں اسلام کی اعتقادی بنیادوں سے لے کر عبادات، اخلاق، معاشرت، تہذیب وتمدن، معیشت، سیاست اور صلح وجنگ تک ہر پہلو کو وضاحت کے ساتھ معقول اور مدلل طریقے سے بیان کیا جائے، تاکہ ہمارا ہر تعلیم یافتہ نوجوان اپنے دین کو اچھی طرح سمجھ لے اور جس شعبۂ زندگی میں بھی وہ آگے کام کرے اس میں وہ اسلام کی اسپرٹ، اس کے اصول اور اس کے احکام کو ملحوظ رکھ سکے۔
خاص نصاب ہر مضمون کی کلاسوں کے لیے اسلامی تصورات کی روشنی میں اور ان کے پس منظر کے ساتھ الگ پڑھایا جائے اور وہ صرف اسی مضمون کے طلبہ کے لیے ہو مثلاً:۔
جو فلسفہ لیں انھیں دوسرے فلسفیانہ نظاموں کے ساتھ اسلامی فلسفہ بھی پڑھایا جائے مگر یہ ملحوظ خاطر رہے کہ اسلامی فلسفے سے مراد وہ فلسفہ نہیں ہے جو مسلمانوں نے ارسطو، افلاطون اور فلاطینوس وغیرہ سے لیا اور پھر اسے انھی خطوط پر آگے بڑھایا۔ اور اس سے مراد وہ علم کلام بھی نہیں ہے جسے یونانی منطق وفلسفہ سے متاثر ہو کر ہمارے متکلمین نے اس غرض کے لیے مرتب کیا تھا کہ اسلامی حقائق کو اپنے وقت کے فلسفیانہ نظریات کی روشنی میں اورمنطق کی زبان میں بیان کریں۔ یہ دونوں چیزیں اب صرف اپنی ایک تاریخی قدر وقیمت رکھتی ہیں۔ انھیں پڑھایا ضرور جائے، مگر اس حیثیت سے کہ یہ تاریخ فلسفہ کے دو اہم ابواب ہیں جنھیں مغربی مصنفین بالعموم نظر انداز کرکے طالبانِ علم کے ذہن پر یہ اثر جماتے ہیں کہ دنیا کے عقلی ارتقا میں قدیم یونانی فلاسفہ سے لے کر آج تک جو کچھ بھی کام کیا ہے صرف یورپ کے لوگوں نے کیا ہے۔ لیکن مسلمان فلاسفہ اور متکلمین کا یہ کام نہ ’’اسلامی فلسفہ‘‘ تھا اور نہ اسے اس نام سے آج ہمیں اپنے طلبہ کو پڑھانا چاہیے ورنہ یہ سخت غلط فہمی کا، بلکہ گم راہی کا موجب ہو گا۔ ’’اسلامی فلسفہ‘‘ دراصل کہیں مرتب شدہ نہیں ہے بلکہ اب اسے نئے سرے سے ان بنیادوں پر مرتب کرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں قرآن میں ملتی ہیں۔ قرآن مجید ایک طرف انسانی علم وعقل کے حدود بتاتا ہے۔ دوسری طرف وہ محسوسات کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقت کو تلاش کرنے کا صحیح راستہ بتاتا ہے۔ تیسری طرف وہ منطق کے ناقص طرزِ استدلال کو چھوڑ کر عقلِ عام کے مطابق ایک سیدھا سادا طرز استدلال بتاتا ہے۔ اور ان سب کے ساتھ وہ ایک پورا نظریۂ کائنات وانسان پیش کرتا ہے جس کے اندر ذہن میں پیدا ہونے والے ہر سوال کا جواب موجود ہے۔ ان بنیادوں پر ایک نیا فن استدلال، ایک نیا طریقِ تفلسف، ایک نیا فلسفہ مابعد الطبیعیات، ایک نیا فلسفہ اخلاق اور ایک نیا علم النفس مرتب کیا جا سکتا ہے جسے اب مرتب کرانے کی سخت ضرورت ہے تاکہ ہمارے فلسفے کے طلبہ فلسفہ کی قدیم وجدیدبھول بھلیوں میں داخل ہو کر پھنسے کے پھنسے نہ رہ جائیں بلکہ اس سے نکلنے کا راستہ بھی پا لیں اور دنیا کو ایک نئی روشنی دکھانے کے قابل بن سکیں۔
اسی طرح تاریخ کے طلبہ کو دنیا بھر کی تاریخ پڑھانے کے ساتھ اسلامی تاریخ بھی پڑھائی جائے اور فلسفہ تاریخ کے دوسرے نظریات کے ساتھ اسلام کے فلسفہ تاریخ سے بھی روشناس کیا جائے۔ یہ دونوں مضمون بھی تشریح طلب ہیں، ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ ان کے بارے میں جو عام غلط فہمیاں موجود ہیں ان کی وجہ سے میرا مدعا آپ کے سامنے واضح نہ ہو گا۔ اسلامی تاریخ کا مطلب بالعموم مسلمان قوموں اور ریاستوں کی تاریخ، یا ان کے تمدن اور علوم وآداب کی تاریخ سمجھا جاتا ہے اور اسلامی فلسفہ تاریخ کا نام سن کر معًا ایک طالب علم ابنِ خلدون، کی طرف دیکھنے لگتا ہے۔ مَیں علم تاریخ کے نقطۂ نظر سے ان دونوں چیزوں کی قدر وقیمت کا انکار نہیں کرتا، نہ یہ کہتا ہوں کہ یہ چیزیں پڑھائی نہ جائیں۔ مگر یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کی تاریخ دو الگ چیزیں ہیں، اور ابن خلدون کے فلسفۂ تاریخ کو اسلام کے فلسفۂ تاریخ سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ کا اطلاق دراصل جس چیز پر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ تاریخ کے دوران میں اسلام کے ان اثرات کا جائزہ لیا جائے جو مسلمان ہونے والی قوموں کے خیالات، علوم، آداب، اخلاق، تمدن، سیاست ، اور فی الجملہ پورے اجتماعی طرزِ عمل پر مترتب ہوئے۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی دیکھا جائے کہ ان اثرات کے ساتھ دوسرے غیر اسلامی اثرات کی آمیزش کس کس طرح ہوتی رہتی ہے اور اس آمیزش کے کیا نتائج رونما ہوئے ہیں۔ اسی طرح اسلامی فلسفہ تاریخ سے مراد درحقیقت قرآن کا فلسفۂ تاریخ ہے جس میں وہ ہمیں انسانی تاریخ کو دیکھنے کے لیے ایک خاص زاویۂ نگاہ دیتا ہے۔ اس سے نتائج اخذ کرنے کا ایک خاص ڈھنگ بتاتا ہے اور قوموں کے بننے اور بگڑنے کے اسباب پر مفصل روشنی ڈالتا ہے۔ افسوس ہے کہ اسلامی فلسفے کی طرح اسلامی تاریخ اور اسلامی فلسفہ تاریخ پر بھی اس وقت تک کوئی کتاب نہیں لکھی گئی ہے جو نصاب کے طور پر پڑھائی جا سکے۔ ان دونوں موضوعات پر اب کتابیں لکھنے اور لکھوانے کی ضرورت ہے تاکہ اس خلا کو بھرا جا سکے جو ان کے بغیر ہماری تعلیمی تاریخ میں رہ جائے گا۔
جہاں تک علومِ عمرانی (social science) کا تعلق ہے، ان میں سے ہر ایک میں اسلام کا ایک مخصوص نقطۂ نظر ہے، اور ہر ایک میں وہ اپنے اصول رکھتا ہے، لہٰذا ان میں سے ہر ایک کی تعلیم میں اس علم سے متعلق اسلامی تعلیمات کو بھی لازماً شامل ہونا چاہیے۔ مثلاً معاشیات میں اسلامی اصول معیشت اور سیاسیات میں اسلام کا سیاسی نظریہ اور نظام وغیرہ۔ رہے فنی علوم، مثلاً انجینئرنگ، طب اور سائنس کے مختلف شعبے، تو ان سے اسلام بحث نہیں کرتا، اس لیے ان میں کسی خاص اسلامی نصاب کی حاجت نہیں ہے۔ ان کے لیے وہی عام نصاب اور اخلاقی تربیت کافی ہے جس کا ابھی مَیں اس سے پہلے میں ذکر کر چکا ہوں۔
اختصاصی تعلیم
اعلیٰ تعلیم کے بعد اختصاصی تعلیم کو لیجیے جس کا مقصود کسی ایک شعبۂ علم میں کمال پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اس معاملے میں جس طرح ہمارے ہاں دوسرے علوم وفنون کی اختصاصی تعلیم کا انتظام کیاجاتا ہے اسی طرح اب قرآن، حدیث، فقہ اور دوسرے علوم اسلامیہ کی تعلیم کا بھی ہونا چاہیے۔ تاکہ ہمارے ہاں اعلیٰ درجہ کے مفسر، محدث ، فقیہ اورعلمائے دین پیدا ہو سکیں۔ جہاں تک فقہ کا تعلق ہے، اس کی تعلیم تو ہمارے لا کالجوں میں ہونی چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں تعلیم کا کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے، اس مسئلے پر اس سے پہلے میں اپنے دو لیکچروں میں مفصل بحث کر چکا ہوں جو ۱۹۴۸ء میں لا کالج لاہور میں ہوئے تھے۔ یہ دونوں لیکچر ’’اسلامی قانون‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں، اس لیے یہاں اس بحث کا اعادہ غیر ضروری ہے۔ رہے قرآن وحدیث اور دوسرے علوم اسلامیہ، تو ان کی اختصاصی تعلیم کے لیے ہماری یونی ورسٹیوں کو خاص انتظامات کرنے چاہییں جن کا مختصر خاکہ میں یہاں پیش کرتا ہوں۔
میرے خیال میں اس مقصد کے لیے ہمیں مخصوص کالج یا یونی ورسٹیوں کے تحت الگ شعبے قائم کرنا ہوں گے جن میں صرف گریجویٹ یا انڈر گریجویٹ داخل ہو سکیں۔ ان اداروں میں حسب ذیل مضامین کی تعلیم ہونی چاہیے۔
۱۔ عربی ادب، تاکہ طلبہ میں اعلیٰ درجے کی علمی کتابیں پڑھنے اور سمجھنے کی استعداد پیدا ہو سکے اور اس کے ساتھ وہ عربی زبان لکھنے اور بولنے پر بھی قادر ہوں۔
۲۔ علوم قرآن، جن میں پہلے اصول تفسیر، تاریخ علم تفسیر اور فن تفسیر کے مختلف اسکولوں کی خصوصیات سے طلبہ کو آشنا کیا جائے، اور پھر قرآن مجید کا تحقیقی مطالعہ کرایا جائے۔
۳۔علومِ حدیث، جن میں اصولِ حدیث، تاریخ علمِ حدیث اور فن جرح وتعدیل پڑھانے کے بعد حدیث کی اصل کتابیں ایسے طریقے سے پڑھائی جائیں کہ طلبہ ایک طرف خود احادیث کو پرکھنے اور ان کی صحت وسقم کے متعلق رائے قائم کرنے کے قابل ہو جائیں اور دوسری طرف حدیث کے بیش تر ذخیرے پر انھیں نظر حاصل ہو جائے۔
۴۔ فقہ، جس کی تعلیم لا کالجوں کی تعلیمِ فقہ سے ذرا مختلف ہو۔ یہاں صرف اتنا کافی ہے کہ طلبہ کو اصولِ فقہ، تاریخ علمِ فقہ، مذاہب فقہ کی امتیازی خصوصیات اور قرآن وحدیث کے نصوص سے استنباطِ احکام کے طریقے اچھی طرح سمجھا دیے جائیں۔
۵۔ علم العقائد، علمِ کلام اور تاریخ علمِ کلام، جسے اس طریقے سے پڑھایا جائے کہ طلبہ اس علم کی حقیقت سے واقف ہو جائیں اور متکلمین اسلام کے پورے کام پر انھیں جامع نظر حاصل ہوجائے۔
۶۔ تقابل ادیان، جس میں دنیا کے تمام بڑے بڑے مذاہب کی تعلیمات سے ان کی امتیازی خصوصیات، اور ان کی تاریخ سے طلبہ کو آشنا کیا جائے۔
اس تعلیم سے جو لوگ فارغ ہوں، مجھے اس سے کوئی بحث نہیں کہ آپ ان کی ڈگری کا نام کیا رکھیں مگر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاں آیندہ انھی لوگوں کو ’’علمائے دین‘‘ کہا جانا چاہیے جو اس ڈگری کو حاصل کریں اور ان کے لیے ان تمام اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے کھلے ہونے چاہییں جو دوسرے مضامین کے ایم اے اور پی ایچ ڈی حضرات کو مل سکتی ہیں۔
لازمی تدابیر
یہ ہے میرے نزدیک اس نظامِ تعلیم کا نقشہ جو موجودہ مذہبی تعلیم اور دنیوی تعلیم کے نظام کو ختم کرکے اس ملک میں قائم ہونا چاہیے۔ مگر اصلاحِ حال کی ساری کوشش لاحاصل رہے گی جب تک کہ مذکورہ بالااصلاحات کے ساتھ ساتھ حسبِ ذیل اقدامات بھی نہ کیے جائیں۔
سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی تعلیمی پالیسی کی باگیں ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیں جو اسلامی فکر رکھتے ہوں، اسلامی نظام تعلیم کو جانتے ہوں اور اسے قائم کرنا چاہتے بھی ہوں۔ یہ کام اگر ہو سکتا ہے تو ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں ہو سکتا ہے نہ کہ ان لوگوں کے ہاتھوں جو نہ اسلام کو جانتے ہیں، نہ اس کے نظامِ تعلیم کو، اور نہ اس کے قیام کی کوئی خواہش ہی دل میں رکھتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ اگر زمامِ کار پر قابض رہیں اور پھر ہم رات دن کی چیخ پکار سے دبائو ڈال ڈال کر ان سے یہ کام زبردستی کراتے رہیں تو بادلِ نخواستہ وہ کچھ اسی طرح کی ضمنی اور سطحی ’’اصلاحات‘‘ کرتے رہیں جیسی اب تک ہوتی رہی ہیں، اور ان سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو گا۔
اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے مدرسوں اور کالجوں کے لیے معلمین اور معلمات کے انتخاب میں ان کی سیرت واخلاق اور دینی حالت کو ان کی تعلیمی قابلیت کے برابر، بلکہ اس سے زیادہ اہمیت دین اور آیندہ کے لیے معلمین کی ٹریننگ میں بھی اسی مقصد کے مطابق اصلاحات کریں۔ جو شخص تعلیم کے معاملہ میں کچھ بھی بصیرت رکھتا ہے وہ اس حقیقت سے ناواقف نہیں ہو سکتا کہ نظامِ تعلیم میں نصاب اور اس کی کتابوں سے بڑھ کر استاد اور اس کا کیریکٹر اور کردار زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ فاسد العقیدہ اور فاسد الاخلاق استاد اپنے شاگردوں کو ہرگز وہ ذہنی اور اخلاقی تربیت نہیں دے سکتے جو ہمیں اپنے نئے نظامِ تعلیم میں مطلوب ہے۔ دوسرے تمام شعبہ ہائے زندگی میں تو بگڑے ہوئے کارکن زیادہ تر موجودہ نسل ہی کو بگاڑتے ہیں مگر نظامِ تعلیم اگر بگڑے ہوئے لوگوں کے ہاتھ میں ہو تو وہ آیندہ نسل کا بھی ناس کر دیتے ہیں جس کے بعد مستقبل میں بھی کسی صلاح وفلاح کی امید باقی نہیں رہتی۔
آخری چیز اس سلسلہ میں یہ ہے کہ ہمیں اپنی تعلیم گاہوں کا پورا ماحول بدل کر اسلام کے اصول اور اسپرٹ کے مطابق بنانا ہو گا۔ یہ مخلوط تعلیم، یہ فرنگیت کے مظاہر، یہ ازفرق تا بقدم مغربی تہذیب وتمدن کا غلبہ، یہ کالجوں کے مباحثے اور انتخابات کے طریقے، اگر یہ سب کچھ آپ کے ہاںیوں ہی جاری رہے اور ان میں سے کسی چیز کو بھی آپ بدلنے کے لیے تیار نہ ہوں تو پھر ختم کیجیے اصلاح تعلیم کی ساری اس گفتگو کو، اس لیے کہ اس ذہنی وتہذیبی غلامی کے ماحول میں ایک آزاد مسلم مملکت کے وہ باعزت شہری اور کارکن و کار فرما کبھی پروان نہیں چڑھ سکتے جنھیں اپنی قومی تہذیب پر فخر ہو، اور اس بے سیرتی کی آب وہوا میں کبھی اس مضبوط کردار کے لوگ پرورش نہیں پا سکتے جو اصول اور ضمیر کے معاملے میں کوئی لچک کھانے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہ ماحول برقرار رکھنا ہو تو پھر ہمیں سرے سے یہ خیال ہی چھوڑ دینا چاہیے کہ یہاں ہمیں ایک ایمان دار اور باضمیر قوم تیار کرنی ہے۔ آخر یہ کیا مذاق ہے کہ ایک طرف آپ خدا اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے صریح احکام کی خلاف ورزی کرکے جو ان لڑکیوں اور جوان لڑکوں کو ایک ساتھ بٹھاتے ہیں اور دوسری طرف آپ چاہتے ہیں کہ انھی لڑکوں اور لڑکیوں میں خدا کا خوف اور اخلاقی قوانین کا احترام پیدا ہو۔ ایک طرف آپ اپنی تمام حرکات وسکنات اور اپنے پورے ماحول سے اپنی نئی نسلوں کے ذہن پر فرنگی تہذیب اور فرنگی طرز زندگی کا رعب بٹھاتے ہیں اور دوسری طرف آپ چاہتے ہیں کہ زبانی باتوں سے ان کے دلوں میں قومی تہذیب کی قدر پیدا ہو جائے۔ ایک طرف آپ اپنے مباحثوں میں روز اپنے نوجوانوں کو زبان اور ضمیر کا تعلق توڑنے اور ضمیر کے خلاف بولنے کی مشق کراتے ہیں، اور دوسری طرف آپ چاہتے ہیں کہ ان کے اندر راست بازی اور حق پرستی پیدا ہو۔ ایک طرف آپ انھیں وہ سارے انتخابی ہتھ کنڈے اپنے کالجوں ہی میں برتنے کا خوگر بنا دیتے ہیں جنھوں نے ہماری پوری سیاسی زندگی کو گندہ کرکے رکھ دیا ہے اور دوسری طرف آپ یہ امید رکھتے ہیں کہ یہاں سے نکل کر وہ بڑے ایمان دار اور کھرے ثابت ہوں گے۔ ایسے معجزات کا ظہور صریحاً محال ہے۔ اگر ہم اپنی قومی زندگی کو خرابیوں سے پاک کرنے کے واقعی خواہش مند ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے ماحول کی تطہیر سے اس کا آغاز کرنا ہو گا۔۔
عورتوں کی تعلیم
جہاں تک عورتوں کی تعلیم کا تعلق ہے یہ اسی قدر ضروری ہے جتنی مردوں کی تعلیم۔ کوئی قوم اپنی عورتوں کو جاہل اور پسماندہ رکھ کر دنیا میں آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس لیے ہمیں عورتوں کی تعلیم کے لیے بھی اسی طرح بہتر سے بہتر انتظام کرنا ہے جیسا کہ مردوں کی تعلیم کے لیے۔ یہاں تک کہ ہمیں ان کی فوجی تربیت کا بھی بندوبست کرنا ہے کیوں کہ ہمارا سابقہ ایسی ظالم قوموں سے ہے جنھیں انسانیت کی کسی حد کو بھی پھاندنے میں تامّل نہیں ہے۔ کل اگر خدانخواستہ کوئی جنگ پیش آ جائے تو نہ معلوم کیا کیا بربریّت ان سے صادر ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو مدافعت کے لیے بھی تیار کریں۔ لیکن ہم اول وآخر مسلمان ہیں اور جو کچھ کرنا ہے… ان اخلاقی قیود اور تہذیبی حدود کے اندر رہتے ہوئے کرنا ہے جن پر ہم ایمان رکھتے ہیں اور جن کی علم برداری پر ہم مامور ہیں۔
ہمیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری تہذیب مغربی تہذیب سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ دونوں میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ مغربی تہذیب عورت کو اس وقت تک کوئی عزت اور کسی قسم کے حقوق نہیں دیتی جب تک کہ وہ ایک مصنوعی مرد بن کر مردوں کی ذمہ داریاں بھی اٹھانے کے لیے تیار نہ ہو جائے۔ مگر ہماری تہذیب عورت کو ساری عزتیں اورتمام حقوق اسے عورت رکھ کر ہی دیتی ہے اور تمدن کی انھی ذمہ داریوں کا بار اس پر ڈالتی ہے جو فطرت نے اس کے سپرد کی ہیں۔ اس لیے ہمارے ہاں عورتوں کی تعلیم کا انتظام ان کے فطری وظائف وضروریات کے مطابق اور مردوں سے بالکل الگ ہونا چاہیے۔ یہاں اوپر سے لے کر نیچے تک کسی سطح پر بھی مخلوط تعلیم کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔
جہاں تک عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں عملی تدابیر واصلاحات کا تعلق ہے تو جو اصلاحات اوپر پرائمری سے اختصاصی درجوں تک بیان کی گئی ہیں، وہ عورتوں کی تعلیم میں بھی اسی طرح سے شامل ہونی چاہییں جیسی کہ مردوں کی تعلیم میں۔ اس کے علاوہ عورتوں کی تعلیم میں اس بات کو بھی خاص طور پر ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ان کی اصل اور فطری ذمہ داری زراعتی فارم، کارخانے اور دفاتر چلانے کی بجائے گھر چلانے اور انسان سازی کی ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم کو ان کے اندر ایک ایسی مسلمان قوم وجود میں لانے کی قابلیت پیدا کرنی چاہیے جو دنیا کے سامنے اس فطری نظامِ زندگی کا عملی مظاہرہ کر سکے جو خود خالقِ کائنات نے بنی نوع انسان کے لیے مقرر فرمایا ہے۔
رسم الخط
ہمارے ملک میں یہ عجیب صورت حال ہے کہ ایک طرف تو قومی اتحاد کی ضرورت کا بار بار اظہار کیا جاتا ہے اور دوسری طرف طے شدہ مسائل کو نئے سرے سے نزاعی بنانے ہی پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ ایسے ایسے نزاعی مسائل بھی پیدا کیے جاتے ہیں جن کے متعلق کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ ان کے بارے میں بھی ہمارے ہاں کوئی اختلاف موجود ہے۔ اسی قبیل سے یہ جدید مبحث ہے جو اردو اور بنگالی کے لیے رومن رسم الخط اختیار کرنے کے سلسلے میں چھیڑ دیا گیا ہے۔
جہاں تک بنگالی زبان کا تعلق ہے میرے لیے اس کے متعلق کچھ کہنا مشکل ہے۔ اس بارے میں اہلِ بنگال ہی کچھ کہہ سکتے ہیں۔ مگر یہ واقعہ ہے کہ اہل بنگال پچھلی صدی تک عربی رسم الخط ہی میں بنگلا زبان لکھتے رہے، کتابیں تصنیف کرتے رہے اور اسی رسم الخط سے مانوس رہے۔ یہ دراصل انگریزوں اور ہندوئوں کی ساز باز تھی۔ جس نے عربی رسم الخط کی جگہ ہندو رسم الخط بنگال میں رائج کرایا۔ ان کی پالیسی یہ تھی کہ مسلمانوں کو ان کی تاریخ اور ان کے مذہبی لٹریچر سے بیگانہ کیا جائے اور انھیں ہندوئوں کے زیر اثر لایا جائے۔ اس غرض کے لیے انھوں نے ابتدائی مدارس کے قیام کے لیے سرکاری امداد (گرانٹ) دینے میں یہ شرط عائد کی کہ یہ امداد صرف اسی گائوں کے پرائمری اسکول کو دی جائے گی جو عربی رسم الخط پڑھانے والا مکتب بند کر دے گا۔ اسی طرح بنگلا زبان کا موجودہ رسم الخط مسلمانوں پر زبردستی ٹھونسا گیا اور مشرقی پاکستان کے مسلمان تقریباً ایک صدی تک اس ظلم کا شکار رہنے کے بعد اب اس رسم الخط سے اس قدر مانوس ہو چکے ہیں کہ شاید وہ مشکل ہی سے اس کی تبدیلی پر راضی ہو سکیں۔ تاہم اس معاملے میں کچھ کہنا کسی غیر بنگالی کے لیے مناسب نہیں۔ یہ فیصلہ کرنا ہمارے بنگالی بھائیوں ہی کا کام ہے کہ وہ کس رسم الخط کو پسند کرتے ہیں۔
جہاں تک اردو کا تعلق ہے اس کا رسم الخط اگر عربی میں تبدیل کیا جائے تو چنداں قابلِ اعتراض نہیں ہے۔ نئے نسخ ٹائپ کو ترقی دے کر اس حد تک موزوں بنایا جا سکتا ہے کہ اردو پڑھنے والے جلدی اور بآسانی اس سے مانوس ہو جائیں۔ لیکن رومن رسم الخط اختیار کرنا ممکن ہے کہ ہماری فوج والوں کے لیے قابل قبول ہو کیوں کہ انگریزی حکومت پہلے ہی انھیں اس سے مانوس کر چکی ہے، مگر ہماری قوم کے لیے متعدد حیثیات سے یہ ایک نہایت مہلک قدم ہے جس کے نتائج بہت دور رس ہوں گے۔
اس کا پہلا نتیجہ تو یہ ہو گا کہ ہمارا آج تک کا اردو لٹریچر ہماری نئی نسلوں کے لیے بالکل بے کار ہو جائے گا۔ یا تو ہمیں بے شمار دولت، محنت اور وقت صَرف کر کے اپنے بزرگوں کی ساری میراث کو جو اردو، فارسی اور عربی زبان میں ہے۔ رومن رسم الخط میں از سرِ نو چھاپنا پڑے گا، یا پھر ہماری نئی نسلیں اپنے ماضی سے بالکل بیگانہ ہو کر ایک دُم کٹی قوم کی حیثیت سے اٹھیں گی جن کی کوئی روایات نہ ہوں گی، جن کی کوئی تہذیب نہ ہو گی، جن کے پاس کوئی قابل فخر چیز نہیں ہو گی جس کی طرف وہ پلٹ کر دیکھیں۔ اس طرح ہم اپنے صدیوں کے سرمایۂ علم وتہذیب سے عاری ہو کر بالکل نو دولتے بن کر رہ جائیں گے۔ یہ بُرے نتائج ٹرکی دیکھ چکا ہے۔ ٹرکی قوم کے علما اور اہلِ قلم نے صدہا برس کی محنتوں سے جو علمی ذخیرہ چھوڑا تھا وہ آج ان لائبریریوں میں آثارِ قدیمہ کے طور پر پڑا ہوا ہے اور نئی نسلوں کے لیے اس کا سمجھنا اور اس سے فائدہ اٹھانا تو درکنار اسے پڑھنا بھی ممکن نہیں رہا ہے۔ قریب کے زمانے میں جب وہاں مذہبی تعلیم کی ضرورت از سر نو محسوس کی گئی اور اماموں اور خطیبوں کی تیاری کے لیے مدارس قائم کیے گئے تو ترک نوجوانوں کو پرانی ترکی زبان جو ۳۰،۳۵ سال پہلے تک ملک میں رائج تھی بالکل ایک غیر ملکی زبان کی طرح از سرِ نو سیکھنا پڑی۔ یہ تجربہ آخر ہمارے ملک میں دُہرانے کی کیا حاجت ہے؟ جو قوم ابھی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد ایک مدت دراز تک نئے تعمیری کام کرنے کی محتاج ہے آخر اسے اس وقت اس تجربے کا کیوں تختۂ مشق بنایا جائے؟
اس کا دوسرا عظیم الشان نقصان یہ ہو گا کہ ہماری علمی ترقی کی رفتار یک لخت رک جائے گی اور رسم الخط کی کش مکش میں اچھا خاصا زمانہ صرف ہو جائے گا۔ ہمارے باشندے نسلًا بعد نسلٍ ایک رسم الخط سے مانوس چلے آ رہے ہیں۔ یہ کسی طر ح ممکن نہ ہو گا کہ حکومت ایک حکم دے دے اور بس وہ یکایک نئے رسم الخط کے عادی ہو جائیں۔ ایک مدت تک وہ نئے رسم الخط سے مانوس نہیں ہوں گے اور پرانا رسم الخط جس سے وہ مانوس ہیں خواہ مخواہ زبردستی متروک بن جائے گا اور اس طرح جو وقت تعلیم اور خواندگی کی ترقی میں صَرف ہونا چاہیے محض ایک رسم الخط کی فضول کش مکش میں ضائع ہو گا۔ نئے لوگوں کو خواندہ بنانے کی بجائے یہ حرکت کرکے تو ہم پڑھے لکھے لوگوں کو بھی ایک مدت کے لیے اَن پڑھ بنا دیں گے۔ ہمارے اہلِ قلم اور مصنفین بھی کئی سال تک کوئی علمی کام نہ کر سکیں گے کیوں کہ نئے رسم الخط پر اس قدر قدرت حاصل کرنے میں انھیں کئی برس لگیں گے کہ وہ اس میں روانی کے ساتھ لکھ سکیں۔
اس کا تیسرا نقصان یہ ہے کہ ہم اپنے گردوپیش سے بیگانہ ہو جائیں گے۔ انڈونیشیا اور افغانستان سے لے کر مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ اور مغرب کی عام مسلمان قومیں عربی رسم الخط میں لکھتی پڑھتی ہیں۔ ہمارا اردو رسم الخط ان کے لیے ایک مانوس اور معروف رسم الخط ہے جس کی وجہ سے ہمارا اور ان کا تہذیبی رشتہ بہت مضبوط رہتا ہے۔ رومن رسم الخط اختیار کرنے سے ہم ان کے لیے اسی طرح اجنبی ہو جائیں گے جس طرح ترک ہو گئے ہیں۔ ترکوں نے رومن رسم الخط اختیار کرکے ہم سایہ مسلمان قوموں سے اپنا رشتہ کم زور کر لیا اور مغربی قوموں سے ان کا رشتہ نہ جڑ سکا۔ تاہم ان کا کوئی جغرافیائی اتصال تو مغربی قوموں سے ہے۔ مگر ہم مسلمان قوموں میں رہتے ہوئے جب رومن رسم الخط اختیار کریں گے تو ہماری حیثیت مغربی آبادکاروں کے ایک جزیرے کی سی ہو کر رہ جائے گی۔
ان نقصانات کے مقابلہ میں آخر کیا فوائد ہیں جو رومن رسم الخط اختیار کرنے میں نظر آتے ہیں کہ ان کی خاطر ان نقصانات کو انگیز کر لیا جائے؟ اگر صرف یہ مقصود ہے کہ بنگلا اور اردو دونوں کا ایک رسم الخط ہو جائے تو یہ عربی رسم الخط اختیار کرنے سے اچھی طرح حاصل ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کو قرآن کی خاطر یہ رسم الخط تو بہرحال سیکھنا ہی پڑتا ہے۔ اگر طباعت کی آسانیوں کی خاطر اس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے تو یہ مقصد بھی خط نسخ سے بآسانی حاصل ہو سکتا ہے۔ ایران، مصر، شام وغیرہ میں خط نسخ کی طباعت انتہائی ترقی پر پہنچ چکی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ہاں وہ کام یاب نہ ہو سکے۔ اس کے ماسوا اگر کوئی فوائد ہیں تو وہ سامنے لائے جائیں ورنہ بہتر ہے کہ یہ بحث لپیٹ کر رکھ دی جائے۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر ملک میں کوئی استصواب عام کرایا جائے تو اردو خواں لوگوں کی آبادی میں ایک فی ہزار بھی مشکل سے ملیں گے جو رومن رسم الخط کے حق میں رائے دیں۔ یہ تبدیلی عوام کی مرضی سے کبھی نہیں ہو سکتی۔ ہاں زبردستی کی جا سکتی ہے جواپنے اچھے اثرات کبھی نہیں چھوڑ کر جا سکتی۔
انگریزی کا مقام
جہاں تک انگریزی زبان کی تعلیم کا تعلق ہے جدید علوم کے حصول کے لیے اس کی ضرورت اور اہمیت کا کوئی شخص بھی انصاف کے ساتھ انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ بات بہرحال غلط ہی نہیں سخت نقصان دہ ہے کہ یہ ہمارے ہاں ذریعہ تعلیم کے طور پر جاری رہے۔ کوئی باشعور اور بامقصد قوم اس کے لیے تیارنہیں ہو سکتی اور نہ ہمیں کوئی چھوٹی یا بڑی آزاد قوم ایسی معلوم ہے جس نے غیر ملکی زبان کو اپنے ہاں ذریعۂ تعلیم بنایا ہو۔ اگر اپنی قومی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنانے میں کچھ مشکلات حائل ہیں تو ان کا حل تلاش کرنا چاہیے اور بِلا کسی ناگزیر تاخیر کے پرائمری سے آخری درجوں تک اپنی قومی زبان کو ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے اختیارکرنا چاہیے۔ انگریزی کو ایک اہم زبان کی حیثیت سے شاملِ نصاب ضرور رکھنا چاہیے اور جو لوگ سائنس اور دوسرے جدید علوم حاصل کرنا چاہیں ان کے لیے اس زبان کو سیکھنا لازم بھی کیا جا سکتا ہے، مگر اسے ذریعۂ تعلیم بنائے رکھنا انتہائی غلط فعل ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭

باب نہم: عالمِ اسلام کی تعمیر میں مسلمان طلبہ کا کردار

(یہ ایک تقریر ہے جو مصنف نے طلبہ کے ایک سالانہ اجتماع کے موقع پر کی تھی۔ اب اسے بعض ضروری تبدیلیوں کے ساتھ کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔)
حمد و ثنا کے بعد
عزیز طلبہ اور محترم حاضرین! جس موضوع پر مجھے اظہار خیال کرنا ہے، اس کے متعلق کچھ کہنے سے پہلے میں اس بات پر اپنی دِلی مسرت کا اظہار کرتا ہوں کہ مسلم ممالک کے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں ہر ہر جگہ خدا کے فضل سے ایسے نوجوان موجود ہیں جن کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن ہے، جو مسلمان کی حیثیّت سے اپنی ذمّہ داریوں کو سمجھتے ہیں اور ہمارے تعلیمی اداروں میں اسلامی روح پھیلانے کے لیے کچھ نہ کچھ کوشش کر رہے ہیں۔ اگر کسی شخص کے دل میں ممالکِ اسلامیہ کی بھلائی کا جذبہ ہو تو وہ اس چیز کی قدر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ چیز کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ خدا کی رحمت ہے کہ نظامِ تعلیم اور نظامِ تربیت کے غلبہ کے باوجود ہماری درس گاہوں میں اس طرح کے نوجوان پائے جاتے ہیں اور ساری مشکلات کے باوجود اپنے اس فرض کو سرگرمی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔
موضوعِ بحث
مجھے جس موضوع پر اس وقت اظہارِ خیال کرنا ہے وہ یہ ہے کہ بلادِ اسلامیہ کے مستقبل کی تعمیر میں طلبہ کا کردار کیا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات سب سے پہلے ذہن نشین کر لیجیے کہ میرا خطاب اس وقت ان تمام مسلم ممالک کے طلبہ سے ہے جو مغربی استعمار کی براہِ راست غلامی میں رہنے، یا مغربی اقوام سے ہر میدان میں شکست کھانے کے بعد، ان کے افکار اور ان کی تہذیب سے مغلوب ہو گئے ہیں، اور جن کی زندگی کا ہر شعبہ تعلیم وتربیت کے شعبے سمیت انھی نظریات اور طریقوں پر چل رہا ہے جو اہل مغرب سے انھیں ملے گا۔ میرے نزدیک ان تمام ممالک کے حالات ایک جیسے ہیں، اور ان سب ملکوں میں طلبہ کو ایک ہی اہم مسئلہ سے سابقہ درپیش ہے۔
عالمِ اسلام سے مراد امتِ مسلمہ ہے
دوسری بات جو آپ کی نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ عالم اسلام سے مراد اس کی زمین نہیں ہے، اس کے پہاڑوں اور دریائوں کا نام نہیں ہے۔ ان انسانوں کا نام ہے جو اس سرزمین میں رہتے ہیں۔ یہ انسان فانی ہے۔ ہر ایک کو اپنی ایک عمر گزار کر رخصت ہو جانا ہے۔ اس سرزمین میں ہماری تہذیب، ہماری ثقافت، ہمارا تمدن اور ہمارا نظامِ زندگی اگر باقی رہ سکتا ہے تو صرف اسی طرح رہ سکتا ہے کہ جو میراث ہم نے اپنے اسلاف سے پائی ہے وہ آگے کی نسل کو ٹھیک ٹھیک سونپ دیں اور اسے اس قابل بنا کر جائیں کہ وہ اس میراث کو صحیح طریقے سے آیندہ نسلوں کے حوالے کر سکے۔
قوموں کے فنا اور بقا سے کیا مراد ہے؟
دنیا میں جو قومیں مِٹی ہیں وہ اس معنی میں نہیں ہیں کہ ان کی نسل ختم ہو گئی۔ وہ اگر مِٹی ہیں تو اس لیے کہ ان کا قومی تشخص ختم ہو گیا۔ مثلاً ہم جب دیکھتے ہیں کہ بابل کی قوم مٹ گئی یا فراعنہ مصر کی قوم مٹ گئی تو وہ اس معنی میں ہوتا ہے کہ اہلِ بابل اور فراعنہ جس تہذیب کے علم بردار تھے اس کی خصوصیات مٹ گئیں۔ اور اس کے امتیازی اوصاف ختم ہو گئے۔ اہل بابل کی نسل آج بھی موجود ہے مگر ان کا تشخص ختم ہو گیا۔ قدیم مصریوں کی نسل بھی موجود ہے مگر فرعونی اور قبطی تہذیب وثقافت ختم ہو گئی کیوں کہ ان کی نسلیں اس قابل نہ رہیں کہ بعد کی نسلوں تک اپنی قومی میراث کو ٹھیک ٹھیک منتقل کر سکتیں۔ کسی قوم کی نئی نسلیں اگر اپنا قومی تشخص کھو دیں اور کوئی دوسرا تشخص اختیار کر لیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ قوم ختم ہو گئی۔ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ بنی اسرائیل کے دس قبیلے غائب ہو گئے جن کا آج کہیں پتا نہیں چلتا۔ یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ ان کا قتل عام ہوا تھا اور ان کا بیج ہی دنیا سے مٹ گیا بلکہ اس معنی میں ہے کہ ان کے اندر سے اسرائیلیت کا احساس ختم ہو گیا اور ان کی نسلوں میں اسرائیلی شعور نہ رہا۔ اسرائیلی خصوصیات اور اسرائیلی تہذیب وتمدن کے امتیازی اوصاف کھو دینے کے بعد وہ دنیا کی دوسری قوموں میں جذب ہو کر رَل مِل گئے اور آج خود ان کی اولاد بھی یہ نہیں جانتی کہ ہم اسرائیلی ہیں۔ اس لیے ایک قوم کے زندہ رہنے کا سارا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ اپنی آیندہ نسل کو اس طرح تیار کرے جس سے وہ اس کے قومی تشخص کو برقرار رکھ سکے۔ اسی چیز کی اہمیت مَیں اس وقت آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں۔
تہذیبی میراث کو آیندہ نسلوں تک منتقل کیا جائے
یہ زمین جسے آج ہم عالمِ اسلام سے تعبیر کرتے ہیں، ہمارے اسلاف نے اس غرض کے لیے حاصل کی تھی کہ یہاں اسلامی تہذیب جلوہ گر ہو۔ ہم جس نظامِ زندگی کے قائل ہیں اسے یہاں عمل میں لایا جا سکے۔ ہم جن قوانین اور جن اصول حیات کو صحیح سمجھتے ہیں اور ان پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس سرزمین میں رائج ہوں۔ مسلمان قوم کی بقا کا انحصار بھی دوسری تمام قوموں کی طرح اس بات پر ہے کہ جو تہذیب، جو تمدن، جو اصولِ حیات اسلام کے نام سے موسوم ہیں، جنھیں ہم نے اپنے بزرگوں سے پایا ہے، جن کی بِنا پر ہم دوسروں سے الگ ایک مسلمان قوم سمجھے جاتے ہیں، یہ صحیح طریقے سے آیندہ نسلوں تک پہنچیں۔ آیندہ نسلیں اسی رنگ میں رنگی جائیں اور انھیں ہم انھی اصولوں کے مطابق تیار کرکے جائیں تاکہ اس پاکستان میں مسلمان قوم زندہ رہ سکے۔ مسلمان افراد زندہ نہیں رہ سکتے لیکن مسلمان قوم صدہا برس تک زندہ رہ سکتی ہے۔ بشرطیکہ وہ اس قابل ہو کہ اس تہذیبی میراث کو منتقل کر سکے اور نسل در نسل اس کے منتقل ہونے کا سلسلہ چلتا رہے۔ اگر ہم ان امتیازی خصوصیات کو باقی نہ رکھ سکیں اور ہماری نئی نسلیں اسلامی تہذیب کی بجائے، امریکی تہذیب میں رنگی جائیں تو آیندہ یہ پاکستان نہیں ہو گا بلکہ امریکستان ہو گا۔ ہماری نسلیں موجود رہیں گی مگر امریکیت کے رنگ میں رنگی ہوئی ہوں گی۔ وہ اسلامی تہذیب کی بقا نہیں ہو گی جس کے لیے یہ پاکستان حاصل کیا گیا تھا بلکہ وہ ایک دوسری تہذیب کی بقا ہو گی اس سے ہمارا قومی تشخص بدل جائے گا۔ اس چیز سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ طلبہ کا مسئلہ حقیقت میں کیا ہے اور کتنی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ محض تعلیم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہمارے قومی وجود اور اس کی بقا کا مسئلہ ہے۔ ہم یہا ں ایک مسلمان قوم کی حیثیت سے اسی طرح زندہ اور باقی رہ سکتے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل جو درس گاہوں میں تیار ہو رہی ہے وہ ٹھیک ٹھیک اسلامی تہذیب کی حامل ہو اور اس کی علم بردار بن کر اس سرزمین میں رہے۔
تہذیبی میراث کو آگے منتقل کرنے کے طریقے
اس مقصد کو حاصل کرنے کی دو ہی شکلیں ہیں۔ ایک یہ کہ طلبہ خود اس کے لیے کوشش کریں، اور دوسرے یہ کہ حکومت ملک کے نظامِ تعلیم وتربیت کو ایسا بنائے جس سے یہ مقصد حاصل ہو۔ میں ان چیزوں کو الگ الگ بیان کروں گا۔
وہ طریقہ جسے طلبہ اختیار کر سکتے ہیں
جو طلبہ ہمارے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں، وہ خدا کے فضل سے بالغ ہیں، سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور ان میں اپنے برے بھلے کو پہچاننے کی صلاحیّت پیدا ہو چکی ہے۔ جو علم بھی وہ حاصل کر رہے ہیں، وہ کم از کم انھیں اس قابل تو ضرور بناتا ہے کہ اگر وہ اپنے آپ کو سمجھنا چاہیں تو سمجھ سکتے ہیں اور اپنا راستہ خود بنا سکتے ہیں۔ اس وجہ سے تمام تر انحصار بالکل حکومت ہی کی کوششوں پر نہیں ہے بلکہ خود طلبہ کی اپنی کوششوں پر بھی ہے۔ ہمارے نوجوان طلبہ کو خود یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ مسلمان ہیں اور اس سرزمین میں ایک مسلمان قوم کی حیثیت سے رہنا ہے۔ ان کے اندر یہ خواہش ہونی چاہیے کہ وہ مسلمان قوم کی امتیازی خصوصیات کو سمجھیں اور برقرار رکھیں جنھیں کھو دینے کے بعد اس کا قومی تشخص قائم نہیں رہ سکتا۔

اسلام کے بنیادی عقائد
اسلام کا سارا دارومدار توحید کے عقیدے، رسالت کے عقیدے اور آخرت کے عقیدے پر ہے۔ ہر شخص کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ان تین چیزوں میں شک پیدا ہو جانے کے بعد کوئی شخص اسلامی تہذیب کے مطابق زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ ہر وہ چیز جو ان عقائد میں شک پیدا کرتی ہے درحقیقت وہ اسلامی تہذیب کی اور بالآخر خود پاکستان کی جڑ کاٹ دینے والی ہے۔ پاکستان زندہ نہ رہے گا اگر اس میں اسلامی تہذیب باقی نہ ہو، اور اسلامی تہذیب باقی نہیں رہ سکتی… اگر اس میں توحید، رسالت اور آخرت کے عقیدے بنیاد کے طور پر موجود نہ ہوں۔
ان عقائد کی حفاظت لازمی ہے
سب سے زیادہ جس چیز کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے جن نوجوانوں میں کوئی اسلامی شعور موجود ہے، وہ اپنی درس گاہوں میں الحاد و دہریّت اور تشکیک پیدا کرنے والی ہر تحریک کا مقابلہ کریں۔ کسی ایسی تحریک کو پنپنے نہ دیں جو ان بنیادی عقیدوں سے منحرف کرنے والی ہو جس طریقے سے بھی ممکن ہو ایسی ہر تحریک کا مقابلہ کرنا عالم اسلام کی بقا اور ملت اسلامی کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ان تین چیزوں کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شک پیدا کرتا ہے تو وہ صرف ایک کفر ہی کا ارتکاب نہیں کرتا بلکہ حقیقت میں وہ ملّتِ اسلامی کے ساتھ غداری کرتا ہے اور اس عالمِ اسلام کی جڑ کاٹتا ہے۔ اس احساس کو اچھی طرح دلوں میں جاگزیں کر لیجیے۔ اگر آج تک اس معاملے میں کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو آیندہ نہ ہونی چاہیے۔ ہمارے ملک کی کسی درس گاہ میں، کسی کالج، کسی یونی ورسٹی اور کسی مدرسے میں بھی ملحدانہ نظریات وافکار کو نہ پھیلنے دیا جائے اور کسی ایسے فلسفے کو جڑ نہ پکڑنے دی جائے جو اسلام کے بنیادی عقائد میں شک پیدا کرنے والا ہو۔
اسلامی اخلاق اور اسلامی تہذیب سے مکمل وابستگی
دوسری اہم چیز جس کی طرف ہمارے نوجوان طلبہ کو متوجہ ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہماری بقا کا انحصار جس طرح اسلام کے عقیدے پر ہے اسی طرح اسلامی اخلاق پر بھی ہے۔ عقیدے اور اخلاق میں گہرا تعلق ہے، یہ ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسلامی عقیدہ ہی ہم سے چند خاص اخلاقیات کا تقاضا کرتا ہے۔ ہماری درس گاہوں میں ایک مدتِ دراز سے اخلاق کے معاملہ میں شدید غفلت ہی نہیں برتی جا رہی ہے بلکہ ایک ایسی ثقافت کو پرورش کیا جا رہا ہے جو اسلام کے تصوّرات کی اور اس کے تمام بنیادی اخلاقی نظریات کی ضِد ہے۔ ہمیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اخلاق جن کے بَل پر کوئی مغربی قوم اٹھ سکتی ہے، ہم اس کے بَل پر نہیں اٹھ سکے۔ ہم اگر اٹھ سکتے ہیں تو ان اخلاقی نظریات کی بنیاد پر اٹھ سکتے ہیں جو اسلام نے ہمیں دیے ہیں۔ مغرب کا ایک آدمی ناچ گا کر، شراب پی کر اور فواحش کا ارتقاب کرکے بھی اپنے ملک کے لیے قربانی دینے کھڑا ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ جن مادّی فلسفوں پر اس کے اخلاق کی تعمیر ہوئی ہے، یہ چیزیں ان کی ضِد نہیں ہیں لیکن ایک مسلمان جسے اچھی طرح معلوم ہے کہ ان چیزوں کو اللّٰہ اور اس کے رسولؐ نے حرام کیا ہے وہ جب اس ثقافت کو اختیار کرتا ہے اور اس طرز زندگی کی پیروی کرتا ہے تو وہ حقیقت میں اسلام کی بنیادی تعلیمات سے منہ موڑ کر ایسا کرتا ہے۔ ایک مغربی آدمی یہ کام کرکے اپنے اخلاقی اصولوں سے منہ نہیں موڑتا، لیکن ہم اس تہذیب کو اختیار کرتے ہیں تو ان تمام اصولوں کو توڑ ڈالتے ہیں جن پر ہمارے اخلاق کی بنیاد قائم ہے۔ ایک مسلمان اگر شراب پیتا ہے تو اس کی حیثیت ایک مغربی کے شراب پینے سے بہت مختلف ہے۔ اگرچہ شراب کے جسمانی اور نفسیاتی نقصانات سب انسانوں کے لیے یکساں ہیں خواہ پینے والا مسلمان ہو یا کافر۔ لیکن ایک کافر کے دین میں چوں کہ شراب حرام نہیں ہے اس لیے وہ جب اسے استعمال کرتا ہے تو صرف ایک مضر چیز کا استعمال کرتا ہے، اپنے عقیدے پر لات نہیں مارتا۔ اس کے برعکس ایک مسلمان اس حرام فعل کا ارتکاب اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک اس کے اندر خدا اور رسولؐ سے بغاوت اورآخرت سے بے پروائی کا جذبہ پرورش نہ پا چکا ہو اور اس کے بعد معاملہ صرف ایک حرمت کو توڑنے پر نہیں رکتا بلکہ پھر وہ تمام حرمتیں توڑتاا ور اخلاقی بندشیں کاٹتا چلا جاتا ہے، پھر تو کوئی چیز اس کے لیے ایسی مقدس نہیں رہ جاتی جسے پامال کر دینے سے وہ باز رہ جائے۔
اسلامی معاشرے کے اندر غیر اسلامی تہذیب کے نقصانات
اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک غیر اسلامی تہذیب اگر ایک مسلمان قوم کے اندر رواج پا جائے تو اس کے نقصانات اس سے بدرجہا زیادہ ہیں جو کسی قوم میں اس تہذیب کے رواج پانے سے ہو سکتے ہیں۔ غیر مسلم پر اس تہذیب کے بُرے اثرات صرف اس حد تک ہوتے ہیں جتنے ہر غلط چیز کے اثرات کسی شخص یا قوم پر ہوا کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم کسی فاسقانہ تہذیب کو اختیار کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ہمارے ایمان پر بھی زد پڑتی ہے۔ اس سے ہمارے ایمان کی جڑیں کم زور ہوتی ہیں۔ ہمارے اندر خدا اور رسولؐ کی اطاعت کی بجائے بغاوت پیدا ہوتی ہے اور اس بغاوت کے بعد یہ ممکن نہیں رہتا کہ ہم دنیا میں کسی وفاداری پر اور کسی نظم کی اطاعت پر قائم رہ سکیں۔ کیوں کہ سب سے بڑھ کر جس کی وفاداری پر اطاعت ہم پر لازم تھی اس سے ہم پہلے ہی بغاوت کر چکے ہوتے ہیں اسی وجہ سے جب کوئی مسلمان ایک مرتبہ اسلامی احکام کی نافرمانی پر اتر آتا ہے تو وہ ایک نافرمانی پر بس نہیں کرتا بلکہ نافرمانیاں کرتا ہی چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اندر کوئی احساسِ فرض باقی نہیں رہتا، کسی قانون کا احترام باقی نہیں رہتا، کسی حد پر جا کر اس کی اخلاقی گراوٹ نہیں رکتی۔ آپ اندازہ کیجیے کہ جب ایک شخص خدا کو خدا، محمدا کو خدا کا رسولؐ اور قرآن کو خدا کی کتاب ماننے کے باوجود کسی ایسے فعل کا ارتکاب کرتا ہے جس کے متعلق وہ جانتا ہے کہ خدا نے اس سے منع کیا ہے، رسولؐ نے اس کی مذمت کی ہے، قرآن نے اسے حرام کیا ہے اور آخرت کے عذاب کی وعید سنائی ہے۔ تو اس کے بعد آخر کیا چیز اسے کسی اخلاقی قدر کا احترام ملحوظ رکھنے پر آمادہ کر سکتی ہے؟ کسی لیجسلیچر کے قانون کا وہ کیسے پابند رہ سکتا ہے جسے وہ خدا نہیں مانتا؟ کسی قوم یا ملک کے لیے وہ اپنی ذات اور اپنی خواہشات کو کیسے قربان کر سکتا ہے جسے وہ معبود نہیں سمجھتا؟ اس کے اندر تو مقدس ترین چیزوں تک کی بے احترامی پیدا ہو چکی ہے، اسے تو قانون شکنی کا مرض لگ چکا ہے۔ اور اپنے ایمان کی رو سے وہ بلند ترین قانون کو توڑچکا ہے۔ یہ قانون شکنی کسی حد پر جا کرنہ رکے گی بلکہ وہ مستقل طور پر قانون کی بے احترامی کے مرض میں مبتلا ہو جائے گا۔ اس کے بعد توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ کسی معاملہ میں بھی کسی قانون کا پابند رہے گا۔ ایسا شخص تو کسی مہذب سوسائٹی کا رکن بننے کے قابل نہیں رہتا کجا وہ ایک مسلم سوسائٹی کا رکن رہے۔
مسلم طلبہ کے اندر غیر اسلامی ثقافت کو رواج دینے والے مجرم ہیں
اس چیز کو اگر کوئی شخص اچھی طرح سمجھ لے تو وہ یہ محسوس کرے گا کہ جو لوگ ہماری درس گاہوں میں ہمارے نوجوانوں کو عیاش بنا رہے ہیں، انھیں طائوس ورباب کا شیفتہ بنا رہے ہیں۔ غیراسلامی ثقافت کو ان میں رواج دے رہے ہیں، اور اسلامی اخلاق کی بندشوں کو توڑ ڈالنے کی بیماری انھیں لگا رہے ہیں، وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور اتنی بڑی بدخواہی اس ملک کے ساتھ کر رہے ہیں۔ ہمارے نوجوان طلبہ کو خود اس کے نقصانات محسوس کرنے چاہییں۔ اگر ملک کا نظام چلانے والے اپنی نادانی سے یہ غلطی کر رہے ہیں تو طلبہ کا یہ کام ہے کہ وہ خود اس سے بچیں اور اپنے آپ کو جہاں تک ہو سکے اس سے محفوظ رکھیں۔ انھیں اپنی درس گاہوں میں ایسی رائے عام پیدا کرنی چاہیے کہ طلبہ اس غلط تہذیب کو نہ خود اختیار کریں نہ اپنی سوسائٹی اور اپنی درس گاہوں میں اسے رواج پانے دیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر خود طلبہ ہی کے اندر ایسی رائے عام پیدا ہو جائے اور وہ خود اس چیز کے مخالف ہوجائیں تو وہ کون سی طاقت ہے جو ان درس گاہوں میں زبردستی اس ثقافت کو رواج دے سکے۔ ظاہر بات ہے کہ آپ کو پولیس کے ذریعے سے نچوایا نہیں جا سکتا۔ کوئی قانون بنا کر آپ کو غیر اسلامی ثقافت اپنانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ صرف ایک شیطانی ترغیب ہی تو ہے جس سے لوگوں کو لاسا لگایا جا رہا ہے اور ان کی عادتیں بگاڑنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ طلبہ اگر یہ محسوس کر لیں کہ یہ ایک بیماری ہے جو انھیں لگائی جا رہی ہے تو وہ خود اس سے بچنے کی کوشش کر سکتے ہیں اور اپنی درس گاہوں میں اس طرح کی خرابیوں کے رواج پانے کی مزاحمت کر سکتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ طلبہ میں یہ عام رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
یہ دو باتیں تو وہ ہیں جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ یہ خود طلبہ کے اپنے کرنے کی ہیں اور اگر وہ اس پر عمل کریں تو بہت بڑی حد تک ان خرابیوں کو دور کر سکتے ہیں جو اس وقت ہماری درس گاہوں میں پھیل رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہمارے نوجوان طلبہ کو اس بات کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے کہ انھیں دین اسلام سے واقف کرانے کے معاملے میں جو کچھ بھی کوتاہی ہمارے نظام تعلیم میں کی گئی ہے اس کی تلافی وہ اپنی کوششوں سے کریں۔ میں بعد میں عرض کروں گا کہ حکومت کو اس معاملہ میں کیا کرنا چاہیے۔ لیکن فرض کیجیے کہ حکومت اس طرف توجہ نہیں کرتی تو دین اسلام کو جاننے کا جو فرض خود آپ پر شخصی حیثیت سے عائد ہوتا ہے وہ ساقط نہیں ہو جاتا ہر بالغ مسلمان کو جس کے اندر شعور پیدا ہو چکا ہو اور جو خود اپنے اختیار سے کام کرنے کے قابل ہو چکا ہو اس کا فرض ہے کہ جس اسلام کا وہ قائل ہے اور جس اسلام کی نسبت سے وہ اپنے کو مسلمان کہتا ہے اسے جاننے کی آپ ہی کوشش کرے۔ یہ علم حاصل کرنے کے لیے کچھ بہت زیادہ دینی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔ دین کا کم سے کم خلاصہ توآسانی کے ساتھ آدمی کو اپنی ذرا سی کوشش سے حاصل ہو سکتا ہے۔ آپ کی اپنی زبان میں جو لٹریچر اسلامی موجود ہے اسی کا مطالعہ کیجیے اور کم از کم اتنا جان لیجیے کہ کافر اور مسلمان میں کیا فرق ہے، کیا بنیادی چیزیں ہیں جن سے ایک آدمی کافر سے مسلمان ہوتا ہے، ایک مسلمان کو کِن چیزوں پر ایمان لانا چاہیے۔ اس کے فرائض کیا ہیں، اس کے لیے ممنوع کیا چیزیں ہیں، اس کے لیے اخلاق کے کیا اصول ہیں جن کی پابندی اسے کرنی چاہیے، اس کے لیے زندگی بسر کرنے کے کیا طریقے اسلام نے مقرر کیے ہیں جن کی اسے پیروی کرنی چاہیے۔ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جن کے لیے کسی دینی درس گاہ میں ہی آپ کا جانا اور برسوں علومِ دینی پڑھنا ضروری ہو۔ تھوڑی سی توجہ اور تھوڑی سے محنت سے ہمارا ہر نوجوان اسلام کا اتنا علم تو حاصل کر ہی سکتا ہے اور اس علم کے لیے ہر زبان میں کافی مواد موجود ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے نوجوان خود اس علم کی ضرورت محسوس کریں اور اسے حاصل کرنے کی فکر کریں۔ یہ علم آپ کو امتحان پاس کرنے اور ڈگری لینے کے لیے نہیں بلکہ مسلمان بننے کے لیے درکار ہے۔
اس بارے میں ہماری حکومتوں کا فرض
ہماری حکومت کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر جو بد عنوانی (corruption) پھیلی ہوئی ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا اسباب ہیں جن سے تمام تر کوششوں، تمام قوانین اور انٹی کرپشن (anti corruption) کے محکمے کے باوجود کرپشن گھٹنے کے بجانے بڑھ رہی ہے۔ اس کرپشن نے ہمارے پورے قانونی نظام کوبے کار کرکے رکھ دیا ہے۔ جوقانون بھی کسی برائی کی اصلاح کے لیے نافذ کیا جاتا ہے اسے محض قانون کے نافذ کرنے والوں کی بددیانتی اور رشوت خوری عملاً نہ صرف معطل کر دیتی ہے، بلکہ قانون کی ہر پابندی رشوت کا ایک نیا دروازہ کھول دیتی ہے۔ مگر یہ معاملہ صرف اس حد تک نقصان پہنچا کر نہیں رہ جاتا۔ اسی کرپشن کی بدولت ہمارے ملک کا غلّہ ہمارے دشمنوں کو ہزاروں ٹن کی مقدارمیں پہنچتا رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں بھارت کے جن علاقوں پر پاکستان کی فوجوں نے قبضہ کیا ہے، وہاں غلّے کی بوریاں پائی گئی ہیں جو پاکستان سے گئی ہوئی تھیں۔ اس طرح یہ کرپشن ہمارے دشمنوں کو ہمارے خرچ پر پالتی رہی ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر آپ سوچیں تو اس بات کا خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک آدمی اگر اپنے ملک میں اپنے بھائیوں سے سو روپے لے کر بے ایمانی کر سکتا ہے تو آخر دشمنوں سے دس ہزار روپے لے کر ہمارا کوئی راز ان کے ہاتھ کیوں نہیں بیچ سکتا۔ جب ایک قوم میں ضمیر فروشی اور بددیانتی کی وبا پھیل جائے اور اس میں ہزاروں افراد ایسے موجود ہوں جو ذاتی مفاد پر قوم، ملک، دین، ایمان ہرچیز قربان کر سکتے ہوں تو جس طرح انھیں خود اپنے ملک کے بگڑے ہوئے لوگ استعمال کر سکتے ہیں اسی طرح باہر کے دشمن بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
خیانت اور بددیانتی کیوں پھیل رہی ہے؟
اب ذرا دیکھیے کہ اس کرپشن کی جڑ میں کیا چیز کام کر رہی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اس ملک میں یہ جتنی بددیانتی، رشوت خوری اور خیانت ہو رہی ہے اس کے مرتکب ہمارے تعلیم یافتہ لوگ ہی تو ہیں۔ ملک کے سارے نظامِ حکومت اور معاشی نظام کو وہی توچلا رہے ہیں، دیہات کے ان پڑھ تو نہیں چلا رہے ہیں اور یہ لوگ ہماری انھی درس گاہوں سے نکلے ہوئے ہیں۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ کوئی نقص ہمارے نظامِ تعلیم میں ضرور ایسا ہے جس کی وجہ سے وہ ہمارے اندر اس قدر کثیر تعداد میں بددیانت افراد تیار کرتا رہا ہے۔ اگر جائزہ لیا جائے تو صاف طور پر معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے نظامِ تعلیم میں جو نقائص ہیں ان میں سب سے بڑا بنیادی نقص یہ ہے کہ جن ایمانیات اور جن عقائد پر ہماری تہذیب اور ہمارے اخلاق کی ساری بنیاد قائم ہے یہ تعلیم انھیں تقویت پہنچانے کی بجائے الٹا انھیں کم زور کرتی ہے، ان میں شک پیدا کرتی ہے اور بعض لوگوں کو انکار کے مقام تک پہنچا دیتی ہے۔ بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جو اپنے یقین کی جڑیں ڈھیلی کیے بغیر اس تعلیم سے فارغ ہو کر بخیریت نکل آتے ہوں۔ اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ جب خدا، آخرت اور رسالت ہی کے بارے میں ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت کے یقین واعتقاد کو گھن لگ چکا ہو تو ہمارے پاس اورکون سی چیز ایسی ہے جس کا انجکشن دے کر ہم انھیں اخلاق کے اصولوں پر قائم رکھ سکیں؟ جس شخص کو نہ خدا کا خوف روکنے والا ہو نہ آخرت کی باز پُرس کا احساس اس کے لیے مانع ہو اسے بددیانت اور خائن اور فرض ناشناس بننے سے آخر کیا چیز روک سکتی ہے؟ جس شخص کے اندر اپنی ذات سے بالا ترکسی چیز کی وفاداری باقی نہ رہی ہو اسے آپ کس طرح ذاتی مفاد کی قربانی پر آمادہ کر سکتے ہیں؟ قربانی کے لیے کوئی نہ کوئی بالا تر وفاداری تو بہرحال ضروری ہے اور ایک مسلمان کے لیے اگر کوئی بنیادی وفاداری ہے تو وہ صرف خدا اور رسولؐ اور مِلّتِ اسلام کی وفاداری ہی ہے۔ اس وفاداری کو آپ کم زور کر دیں گے تو لوگوں کے اندر لامحالہ خود غرضی اور نفسانیت ہی پیدا ہو گی اور وہ اپنی ذات کے مفاد اور اپنی خواہشات پر کسی چیز کو قربان کر دینے میں تامل نہیں کریں گے۔
ملّت کی اصلاح کے لیے اسلامی اصول ہی کار گر ہو سکتے ہیں
آپ صرف اس وفاداری کو مستحکم کرکے ہی اپنے افراد میں یہ صلاحیت پیدا کر سکتے ہیں کہ وہ حق، انصاف اور راستی پر قائم رہیں، محض خدا کے خوف اور آخرت کی جواب دہی کے احساس کی بنا پر ایسے ناجائز فائدے اٹھانے سے رک جائیں جن کا کوئی نقصان انھیں اس دنیا میں پہنچتا نظر نہ آتا ہو، اور محض اللّٰہ اور اس کے دین کی وفاداری کی بنا پر ہر وہ قربانی کر گزریں جو بظاہر ان کی اپنی دنیا برباد کرتی نظر آتی ہو۔ دنیا کی دوسری قوموں کے لیے کچھ دوسری وفاداریاں اور کچھ دوسری قدریں ہیں جن پر ان کے اخلاق کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ ان وفاداریوں اور قدروں کو آپ اپنی قوم میں پیدا کرنا چاہیں تو آپ کو پچاس برس اس قوم کو غیر مسلم بنانے اور کم از کم ۵۰ برس ہی انھیں ایک اچھا فرنگی بنانے میں لگیں گے تب کہیں جا کر آپ یہاں کوئی قومی کیریکٹر پیدا کر سکیں گے بشرطیکہ اس وقت تک یہ ملک باقی رہ جائے۔ لیکن اسلام کی بنیاد پر لوگوں کے اخلاق بنانے کا کام آپ آج ہی سے شروع کر سکتے ہیں اور چند سال کے اندر یہ کام اپنے بہترین پھل دے سکتا ہے۔ کیوں کہ اللّٰہ اور رسولؐ اور آخرت کے عقائد تو مسلمان نوجوانوں کو بہرحال ان کے ماں باپ سے ملے اور مسلم معاشرے کی آب و ہوا میں اور مسلمانوں کی قومی روایات میں وہ رچے بسے ہوئے ہیں۔ یہ جڑیں جو پہلے سے اس سرزمین پر موجود ہیں انھیں اگر آپ ذرا سا پانی بھی دیں تو یہ فورًا ہری ہو جائیں گی اور پھل دینے لگیں گی۔ انگریزوں کو چوں کہ ہماری تہذیب اور ہمارے اخلاق سے کوئی دل چسپی نہ تھی بلکہ وہ ہمارے مسلمان ہونے کو الٹا خطرناک سمجھتے تھے اس لیے انھوں نے یہاں ایسا نظامِ تعلیم قائم کیا جو ہمارے ایمان کو کم زور کرنے والا، ہمارے عقائد کم از کم مشکوک بنا دینے والا، اور ہماری نگاہوں سے خود اپنی تہذیب کو گِرا دینے والا تھا۔ ان کا سیاسی مفاد ہی اس بات کا متقاضی تھا کہ وہ ہمیں اسلام سے جس حد تک منحرف کر سکتے ہوں، کریں۔ لیکن اب پاکستان بننے کے بعد اور خود اپنی ایک آزاد مملکت ہاتھ میں لینے کے بعد بھی اگر ہم اسی نظامِ تعلیم کو جاری رکھیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دراصل خود کشی کر رہے ہیں۔
اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنے والے اساتذہ غدار ہیں
ہماری درس گاہوں میں آج ایسے استاد موجود ہیں جو دن رات طلبہ کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا کرتے ہیں۔ شب وروز ان کے دلوں میں یہ عقیدہ بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام کی کوئی تہذیب نہیں ہے، اسلام کے معاشی اصول اگر کچھ ہیں بھی تو وہ اس زمانے میں نہیں چل سکتے۔ اسلام کے قوانین بالکل دقیانوسی ہیں جو اس ترقی یافتہ دور کے لیے کسی طرح موزوں نہیں۔ تاریخ میں مسلمانوں کا کوئی قابلِ فخر کارنامہ نہیں ہے، جتنے بھی ہیرو دنیا میں گزرے ہیں سب غیر مسلم تھے۔ میں صاف کہتا ہوں کہ جو استاد ہماری درس گاہوں میں ہمارے نوجوانوں کو سبق پڑھا رہے ہیں اور وہ ان کے دماغوں میں یہ فاسد خیالات بھر رہے ہیں، ان سے بڑھ کر عالمِ اسلام اور ملّتِ اسلامی کا غدار کوئی نہیں۔ یہ اس ملک کی جڑوں پر کلہاڑا چلانے والے لوگ ہیں اور بدقسمت ہے وہ قوم جس کی نئی نسل اس طرح کے استادوں کی تعلیم سے پروان چڑھ رہی ہو۔ اس پر مزید غضب یہ ہے کہ متعدد اسلامی ممالک کے تعلیمی اداروں میں ایم۔ ای ڈی اور سوشیالوجی کی تعلیم کا پورا شعبہ امریکن یا امریکیت زدہ استادوں کے حوالے کر دیا گیا ہے جو بڑے پیمانے پر تعلیم اور معاشرت کے متعلق ہماری نئی نسل کے نظریات کو پوری طرح مسخ کر دینے کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ یہ آخر خود کشی نہیں تو اور کیا ہے؟
موجودہ نظامِ تعلیم کے نقائص
ہماری حکومت کو اب اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس نظامِ تعلیم میں جو نقائص ہیں انھیں ہم کیسے دور کریں۔ ہمارے ہاں جو علوم وفنون پڑھائے جا رہے ہیں ان کے اندر بجائے خود کوئی نقص نہیں ہے۔ اصل خرابی یہ ہے کہ انھیں ایسے لوگوں نے مرتّب کیا ہے جو خدا کے ماننے والے نہیں ہیں اور ایسے طریقے سے مرتّب کیا ہے جس سے خود بخود لوگوں کے ذہن میں ایک بے خدا کائنات کا تصوّر پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ تصوّر پیدا کرتے ہیں کہ یہ سارے کا سارا نظامِ کائنات آپ سے آپ بن گیا اور آپ سے آپ چل رہا ہے۔ کوئی خدا اس کا بنانے والا اور اسے چلانے والا نہیں ہے۔
اسی طرح دوسرا تصور جس پر ان علوم کی ترتیب اور ان کے بیان کی بِنا رکھی ہے وہ یہ ہے کہ انسان آپ ہی اپنا راہ نما ہے، کسی خدا کی راہ نمائی کی نہ اسے حاجت ہے او ر نہ وہ راہ نمائی کسی خدا کے پاس سے آتی ہے۔ یہ دونوں تصور ہماری تہذیب کی جڑ کاٹ دینے والے ہیں۔ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ علوم کی ترتیب وبیان کے اس اسلوب کو بدل کر انھیں خدا پرستی کی بنیاد پر مرتب اور بیان کریں۔ ہمیں سائنس، فلسفہ اور عمرانیات کے سارے علوم پڑھنا ہیں، ان کی ہر شاخ کو پڑھنا ہے اور ان تمام معلومات سے فائدہ اٹھانا ہے جو انسان کو آج تک حاصل ہوئی ہیں۔ لیکن اگر ہم مسلمان کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان تمام علوم کو مسلمان بن کر پڑھنا ہو گا، ورنہ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، موجودہ ترتیب وبیان کے ساتھ یہ علوم ہمیں نا مسلمان بنا کر رہیں گے۔ یہ ہے ہماری تعلیم کا اصل مسئلہ اسے ہم جتنی جلدی سمجھ جائیں، اتنا ہی ہمارے لیے بہتر ہے۔
اسلام اور سائنس
بہت سے لوگ اس خیال کو سن کر بڑے پریشان ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سائنس کا آخر اسلام سے کیا تعلق۔ حالانکہ ان کی آنکھوں کے سامنے روس کی مثال موجود ہے جو سوویٹ سائنس کا قائل ہے آپ بتائیے کہ سائنس کا اگر اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے تومارکسزم سے کیا تعلق ہے’ کوئی کمیونسٹ اپنے اشتراکی معاشرے کے افراد کو بورژواسائنس اور بورژوا فلسفہ وتاریخ اورمعاشیات وسیاسیات وغیرہ پڑھانا پسند نہیں کرتا بلکہ ان سب علوم کومارکسزم کے رنگ میں رنگ کر پڑھتا ہے تاکہ اشتراکی سائنس دان اور اشتراکی ماہرینِ علوم پیدا ہوں۔ بورژوا نقطۂ نظر سے مرتب کیے ہوئے علوم کو پڑھا کرکوئی اشتراکی معاشرہ پنپ نہیں سکتا اور حقیقت یہ ہے کہ جس کی بھی کوئی اپنی تہذیب ہوجس کا بھی اپنا کوئی نظریہ حیات ہو، وہ اپنے نظریہ حیات کے مخالف لوگوں کے مرتب کردہ سائنس اور علوم وفنون اپنی نوجوان نسلوں کو پڑھانا پسند نہیں کر سکتا کیوں کہ اس کے پڑھانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے تشخص کو ختم کر دے اور دوسروں میں جذب ہو جائے۔
سائنس کے دو بنیادی شعبے
یہ کہنا کہ سائنس تو ایک عالم گیر چیز ہے، اس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں فی الواقع بڑی نافہمی کی بات ہے۔ سائنس میں ایک چیز تو ہے وہ حقائق (facts) اور قوانینِ فطرت (natural laws) جو تجربے اور مشاہدے سے انسان کے علم میں آتے ہیں۔ یہ بلاشبہ عالم گیر ہیں۔ دوسری چیز ہے وہ ذہن جو ان حقائق اورمعلومات کو مرتّب کرکے ان پر نظریات قائم کرتا ہے اور وہ زبان جس میں وہ انھیں بیان کرتا ہے۔ یہ چیز عالم گیر نہیں ہے بلکہ اس میں ہر تہذیب کے پیروئوں کا اسلوب الگ الگ ہے اور فطرتاً الگ ہونا چاہیے۔ ہم اسی دوسری چیز کو بدلنا چاہتے ہیں نہ کہ پہلی چیز کو۔
مثال کے طور پر دیکھیے یہ ایک سائنٹیفک حقیقت ہے کہ دنیا کی تمام دوسری چیزیں تو سرد ہو کر سکڑتی چلی جاتی ہیں مگر ان کے برعکس پانی جب سرد ہوتے ہوتے جمنے کے قریب پہنچتا ہے تو پھیل جاتا ہے اور برف بن کر ہلکا ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے برف سطحِ آب پر تیرنے لگتی ہے۔ یہ ایک امرواقعہ (fact) ہے۔ اب ایک شخص اس چیز کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ پانی کی یہ خاصیت ہے اور واقعۃً ایسا ہوا کرتا ہے۔ دوسرا شخص اسی واقعہ کواسی طرح بیان کرتا ہے کہ خدا نے اپنی حکمت وربوبیّت سے پانی میں یہ خصوصیت اس لیے رکھی ہے کہ دریائوں، تالابوں اور سمندروں میں جان دار مخلوق باقی رہ سکے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا توپانی جم جم کر نیچے بیٹھتا چلا جاتا یہاں تک کہ پورے پورے سمندر، تالاب اور دریا برف بن جاتے اورکوئی جان دارمخلوق ان میں زندہ نہ رہتی۔ دیکھیے ایک ہی امرِ واقعہ کو دو شخص اپنے اپنے طرزِ فکر کے مطابق دو مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں اور ہر ایک کا بیان پڑھنے سے آدمی کے ذہن پر دو مختلف اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ ایک طریقہ سے اسی واقعہ حقیقت کو بیان کیا جائے تو پڑھنے والے کے ذہن میں خدا کی توحید، اس کی حکمت اور ربوبیّت کا عقیدہ بٹھائے گا اور دوسرے طریقے سے یہی واقعہ بیان کیا جائے جس طرح موجودہ سائنس میں اسے بیان کیا جاتا ہے، تو کسی شخص کے ذہن میں سرے سے خدا کا تصوّر آتا ہی نہیں بلکہ اس سے آدمی کے سامنے تصویر یہ آتی ہے کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ ہو رہا ہے۔ کسی صانع حکیم کی حکمت اور کسی رب قدیر کی پروردگاری اس میں کار فرما نہیں ہے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک طریقے سے اگر سائنس کو پڑھایا جائے تو اس سے ایک مادہ پرست سائنس دان تیار ہو گا اور دوسرے طریقے سے وہی سائنس پڑھایا جائے تو ایک مسلمان سائنس دان تیار ہو جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ سائنس کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو انسانوں کے دل میں ایمان کی گہری جڑوں سے راسخ کر دینے والا نہ ہو فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، فزیالوجی، اناٹومی، اسٹرانومی، غرض جس علم کو بھی آپ دیکھیں اس میں ایسے ایسے حقائق سامنے آتے ہیں جو انسان کو پکا اور سچا مومن بنا دینے کے لیے کافی ہیں۔ سائنس کے حقائق سے بڑھ کر آدمی کے دل میں ایمان پیدا کرنے والی کوئی دُوسری چیز نہیں ہے۔ یہی تو وہ آیاتِ الٰہی ہیں جن کی طرف قرآن بار بار توجہ دلاتا ہے مگر صرف اس وجہ سے کہ کافر سائنس دان نے ان حقائق کو اپنے نقطۂ نظر سے مرتّب اور بیان کیا ہے۔ انھیں پڑھ کر آدمی الٹا مادّہ پرست اورملحد بنتا ہے اور خدا کے تصوّر پر ہنستا اور اس کا مذاق اڑاتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہماری حکومت اس فرق کو سمجھے اور اس معاملے کی تَہ تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ ہم بے خدا سائنس، بے خدا فلسفہ اور اجتماعی علوم پڑھا کر خدا پرست انسان تیار نہیں کر سکتے۔ ہمیں اگر ایک مسلمان قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے تو جلدی سے جلدی ایک ایسا ادارہ قائم کرنا چاہیے جو تمام علوم وفنون کی ترتیب کو بدلے اور ایسی نصابی کتابیں تیار کرے جن میں ان تمام علوم وفنون کو اسلامی نقطۂ نظر سے مرتّب کیا جائے۔ جب تک یہ کام نہیں کیا جائے گا میں کہتا ہوں ہمارا دین وایمان ہی نہیں خود پاکستان کا وجود بھی مستقل خطرے میں ہے۔
ہماری حکومتوں کا دوسرا بڑا فرض
دوسری چیز جس کی طرف میں حکومت کی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ اخلاقی تربیت کا مسئلہ ہے۔ یہ تربیت اگرچہ سبھی تعلیمی اداروں میں درکار ہے، مگر خاص طور پر مختلف سرکاری ملازمتوں کے لیے آدمی تیار کرنے والے اداروں میں اس کی شدید ضرورت ہے۔ خواہ وہ فوج کی ٹریننگ کے ادارے ہوں یا پولیس کی ٹریننگ کے یا سول سروس کی ٹریننگ کے۔ ان تمام اداروں میں اسلامی اخلاق اور اسلامی تعلیم کو لازمی کیا جائے۔ اسلامی عقائد کو ذہن نشین کرایا جائے، اسلامی احکام کی پابندی کی عادت ڈالی جائے اور کسی قسم کے فسق وفجور کو راہ پانے کا موقع نہ دیا جائے۔ یہی وہ چیز ہے جو پاکستان کو مستحکم کرے گی۔ ہم ایک پولیس مین کو ٹریننگ دینا شروع کرتے ہیں اور اپنی جگہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جب اس کا نام عبداللّٰہ یا عبدالرحمن ہے تو وہ مسلمان تو ہو گا ہی اس لیے ہمیں اسے صرف پولیس ڈیوٹی کے لیے تیار کرنا ہے، اسے مسلمان بنانے کے لیے کسی کوشش کی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا میں ایک پولیس مین کو تربیت دینے کے لیے جو کچھ کیا جاتا ہے بس وہی کچھ ہم بھی اپنی پولیس ٹریننگ کے نظام میں کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ وہاں سے تربیت پا کر نکلتا ہے تو وہ پولیس ڈیوٹی ادا کرنے کے لیے تو بخوبی تیار ہو جاتا ہے مگر اس کے اندر اسلامی اخلاق موجود نہیں ہوتے اِلّا یہ کہ اللّٰہ نے اس پر فضل کیا ہو اور اس کے اندر ہماری اس غفلت کے باوجود اسلامی اخلاق کے وہ اثرات باقی رہ گئے ہوں جو وہ ہماری ٹریننگ سے نہیں بلکہ کہیں اور سے لے آیا ہے۔ اس کے بعد اگر ہماری پولیس میں کوئی کرپشن ہو، اس کی سرپرستی میں جرائم پروان چڑھیں اور اس کے زیر سایہ اسمگلنگ ہوتی رہے تو پھر شکایت نہ کیجیے، کیوں کہ آپ نے ایسی کوشش ہی نہیں کی جس سے ہماری پولیس اسلامی اخلاق وکردار کی حامل ہو۔ ہمارے ہاں مختلف ملازمتوں کی ٹریننگ کا جو انتظام ہے اس میں اور کسی کافر قوم کی ٹریننگ کے نظام میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جب لوگ وہاں سے نکلتے ہیں اور بڑے عہدوں تک پہنچتے ہیں تو سوائے ان لوگوں کے جن میں اسلامی اخلاق، اسلامی کردار اور اسلامی سیرت کسی دوسرے ذریعہ سے آئی ہے، وہ اچھے مسلمان افسر ثابت نہیں ہوتے۔
جہاں تک فوجوں کی تربیت کا تعلق ہے تو اگر بعض اسلامی ممالک کی فوجوں نے بہترین کارناموں کا ثبوت دیا اور زبردست جذبۂ جہاد، شوقِ شہادت اور مجاہدانہ سرفروشی کا ان سے ظہور ہوا ہے، اس کا سرچشمہ ہماری فوجی تربیت میں کس جگہ ہے؟ اس کا سر چشمہ وہ مسلمان معاشرہ ہے جس کی بچی کھچی روایات نے ان کے دل ودماغ میں خدا، رسولؐ، آخرت، جہاد اور شہادت کے تصوّرات بٹھا رکھے تھے اور اسلام کی محبت کا بیج بو رکھا تھا۔ مگر یہ چیز ہماری تربیت کے نظام میں شامل نہیں تھی۔ یہ اللّٰہ کا فضل تھا کہ ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے وہ اثرات موجود تھے جو اس آڑے وقت میں ہمارے کام آ گئے لیکن اگر ہم مسلسل اس معاشرے کو بھی بگاڑتے رہے تو یہ اثرات بھی آخر کب تک چلیں گے۔ آیندہ نسلوں کو یہ چیز کم سے کم تر ہی ملتی چلی جائے گی۔
ہماری درس گاہوں میں جو خواتین اب تیار ہو رہی ہیں ان کی گودوں سے پرورش پا کر نکلنے والے نوجوانوں میں ان اثرات کے باقی رہ جانے کی کم ہی امید کی جا سکتی ہے۔ یہ اثرات تو انھی لوگوں میں پائے گئے ہیں جنھوں نے اپنے گھروں میں اپنی مائوں کو نماز پڑھتے دیکھا تھا جنھوں نے ان سے اللّٰہ اور رسول ا کا نام سنا تھا، جنھوں نے انھیں قرآن پڑھتے دیکھا تھا۔ مگر جو نئی مائیں اب تیار ہو رہی ہیں ان کے ہاں تو فلم ایکٹرسوں کا ذکر ہوتا ہے۔ نئی آنے والی فلموں پر تبصرے ہوتے ہیں، کھیل تماشوں کی گفتگو ہوتی ہے مگر اللّٰہ اور رسولؐ کا نام مشکل ہی سے ان کی زبانوں پر کبھی آتا ہے۔ ان کی گودوں سے جو نوجوان پرورش پا کر نکلیں گے کیا ان سے آپ توقع کرتے ہیں کہ پھر وہ اللّٰہ اور رسولؐ کے نام پر جانیں دیں گے اور ان کے شہادت کے وہ تصوّرات ہوں گے جو اُس وقت ہمارے نوجوانوں کے اندر پائے گئے، جن کی وجہ سے انھوں نے یہ شان دار قربانیاں دیں؟ اگر ہم فی الواقع اس ملک کے لیے اور اس ملک کے نظامِ زندگی کے لیے کٹ مرنے والے نوجوان تیار کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کی فوجی تربیت کے ساتھ اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کی اسلامی تربیت دینے کی فکر بھی کرنی چاہیے جو دلوں میں ایمان کو گہرا بٹھا دے اور ان عقائد اور اخلاقیات کو نشوونما دے جن کی طاقت سے وہ آیندہ اس سے بھی زیادہ قربانیاں دینے کے قابل ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جو ہمیں اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑے دشمن کے مقابلے میں زندہ رکھ سکتی ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

٭…٭…٭…٭…٭