[یہ ایک تعارف ہے اُس دلچسپ تاریخی شخصیت کے ایک پہلو کا جو درحقیقت کسی تعارف کی محتاج نہیں … وہ کہ جس کے حصے میں سب سے زیادہ گالیاں بھی ہیں اور سب سے زیادہ محبت و احترام بھی!]
زمانہ باتونہ سازد توبا زمانہ ستیز کے الفاظ میں انسانی کردار کا جو آئیڈیل اقبالؒ نے پیش کیا ہے اسے واقعی انسانی پیکر میں دیکھنے کی تمنائے بے تاب مدت تک حسرت ناکام رہی۔ اس مصرع کو ہزاروں نوجوانوں کی طرح میں نے بھی برسوں گنگنایا ہے۔ لیکن اپنے گردوپیش دنیا وہ دیکھی جس کے چیدہ اور نامور ترین افراد کو’’حدیثِ بے خبراں‘‘ پرکاربند پایا۔ بالآخر اقبال کا وہ آئیڈیل گوشت پوست کے ایک پیکر میں ملا جو تن تنہا اپنے فکروعمل کا سرمایہ لے کر میدان میں نکلتا ہے اور یہ عزم کر کے نکلتا ہے کہ کوئی میرے پیچھے آئے یا نہ آئے مجھے بہرحال ایک متعین نصب العین کی طرف ایک مقررہ راستے سے قدم بہ قدم بڑھتے جاتا ہے اور پھر واقعی وہ پوری شانِ یکتائی کے ساتھ ترجمان القرآن کا ایک ٹمٹماتا دیا لیے، ناسازگار حالات کی تاریکیوں میں، مخالفتوں کے جھکڑوں میں، غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کے بگولوں میں، کئی سال رواں دواں رہتا ہے، اپنی منزل کا سراغ خود لگاتا ہے۔ اپنا راستہ آپ بناتا ہے، اس راستے پر سنگِ میل خود نصب کرتا ہے، پھر اِکّا دُکّا مسافر رفیقِ راہ بنتے ہیں، ان سے وہ پہلے ہی قدم پر کہہ دیتا ہے کہ جسے میرے ساتھ چلنا ہو وہ پہلے سے منزل کی دوری، راستے کی صعوبت اور مہم کے مرد آزما ہونے کا پورا پورا اندازہ کر کے چلے، جسے بھی پیش نظر مقصد کی سرزمین پر میرے ساتھ قدم رکھنا ہو وہ واپسی کی کشتیاں جلا کے آئے… جو آگے کو قدم اٹھائے وہ یہ طے کر کے اٹھائے کہ آگے بڑھا ہوا قدم واپس نہیں لیا جا سکتا، چنانچہ کچھ ساتھی چلتے ہیں، کچھ تھوڑی دُور چل کرہمت ہار دیتے ہیں۔ کچھ نئے ہم سفرآ ملتے ہیں، مگر وہ کٹنے والوں اور جڑنے والوں سے بے نیاز ہو کر اپنی ایک ہی دھن میں، ایک ہی چال میں، ایک ہی رخ پر گامزن رہتا ہے، آہستہ آہستہ ایک کارواں کا کارواں اس کے جلو میں متحرک نظر آتا ہے۔ یہ شخص جو دنیا بھر پر چھائی ہوئی عالمگیر فکر اور مشرق و مغرب کے ایک ایک چپے پر کوس لَمِنَ الملک بجانے والی جہانی تہذیب کو چیلنج کرنے کے لیے ایک دن اس طرح بے یارومددگار اور بے ذریعہ و وسیلہ آگے بڑھتا ہے اور زمانے کی طاقتوں کو بالآخر مجبور کردیتا ہے کہ وہ اس کی دعوت کووزن دیں، یہی ہے مودودی… ’’با زمانہ ستیز‘‘ کی زندہ تصویر!
آئیے! اس کردار کو خود اس کے اپنے لفظوں میں پڑھیں۔ ترجمان القرآن کا ساتواں سال شروع ہونے پر اس کا جواداریہ مارچ ۱۹۳۹ء میں لکھا گیا تھا، اس کا ایک حصہ یہ ہے:
’’…یہ تمنائیں دل میں پال رہا ہوں اور چھ برس سے اپنے جسم کی ساری طاقتیں انھیں حاصل کرنے کے لیے خرچ کررہا ہوں، مگر بدقسمتی سے اکیلا اور نہتا ہوں، میری طاقت محدود ہے، وسائل مفقود ہیں اور جو کچھ کرنا چاہتا ہوں وہ نہیں کر سکتا، ساتھ دینے والوں کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں، مگر وہ کمیاب ہیں۔ کروڑوں مسلمانوں کی اس بستی میں اپنے آپ کو اجنبی اور غریب پاتا ہوں، جس جنون میں مبتلا ہوں، اس کا مجنوں مجھے کہیں نہیں ملتا۔ برسوں سے جن لوگوں تک اپنے خیالات پہنچاتا رہا ہوں ان کے بھی جب قریب جاتا ہوں، تو وہ مجھ سے دور نظر آتے ہیں۔ ان کی دھن میری دھن سے الگ، ان کی گروید گیوں کے مرکز میرے مرکزِ گردیدگی سے جدا، ان کی روح میری روح سے ناآشنا، ان کے کان میری زبان سے بیگانہ، یہ دنیا کوئی اور دنیا ہے جس سے میری فطرت مانوس نہیں۔ جو کچھ یہاں ہورہا ہے اور جن نظریات، جن جذبات، جن اغراض و مقاصد اور جن اصولوں کی بنا پر ہو رہا ہے، سب کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرنے پر میں مجبور ہوں، میں اس کے اجزا میں سے بعض کا باغی اور بعض کا حامی نہیں ہوں، بلکہ کُل کا باغی ہوں، میں ترمیم کا خواہش مند نہیں ہوں، بلکہ موجودہ زندگی کی پوری عمارت کو توڑ ڈالنا چاہتا ہوں اور اس کی جگہ خالص اسلامی اصولوں پر دوسری عمارت بنانے کا خواہاں ہوں۔ اس کلی و ہمہ گیر بغاوت میں کوئی مجھے اپنا ساتھی نہیں ملتا، ہر طرف مجھے جزوی باغی ہی ملتے ہیں۔ جو اس بت خانے کے کسی نہ کسی بت سے لَو لگائے بیٹھے ہیں۔ ہر ایک کا مطالبہ یہ ہے کہ سب بتوں کو توڑ دو مگر میرے بت کی طرف نظر اٹھا کے نہ دیکھنا! ایسی حالت میں ناگزیر ہے کہ جزوی باغی کسی نہ کسی مرحلے پر پہنچ کر مجھ سے الگ ہو جائیں۔ میرا ساتھ صرف کلی باغی ہی دے سکتے ہیں اور وہ کمیاب ہیں۔ جب تک وہ نہ ملیں، اپنے محدود وسائل اور اپنی محدود طاقت سے محدود پیمانے پر میں تنہا جو کچھ کر سکتا ہوں وہی کرتا رہوں گا۔‘‘
میں کہتا ہوں کہ اگر ذہین و کردار کا مطالعہ کرنے والی کوئی مردم شناس نگاہ مودودی صاحب کے بارے میں ان الفاظ کے سوا اور کوئی چیز نہ پائے تو محض اس ایک اقتباس سے اس کی شخصیت کا مقام دریافت کیا جا سکتا ہے۔ اس کے کیریکٹر کی تصویر مرتب کی جا سکتی ہے، اس کی نفسیاتی ساخت کا تخمینہ تیار کیا جا سکتا ہے اور اپنے دور کی تاریخ میں اس کا مرتبہ معلوم کیا جا سکتا ہے۔
مودودی ان لوگوں میں سے نہیں جو اپنے کسی نفسیاتی مرض کے زیرِ اثر اپنے لیے سب سے الگ ایک راستہ نکالتے ہیں۔ جن کا احساس کہتری یہ ردعمل دکھاتا ہے کہ وہ بڑا بننے کے درپے رہتے ہیں، جن میں ’’خود امتیازی ‘‘ (Selfimportance) کا ایک طوفان موجزن رہتا ہے اور وہ ان کو وقت اور معاشرے اور ماحول کے خلاف ضدم ضدا میں مبتلا کر دیتا ہے اور جو دوسروں پر اپنی ’’ذات‘‘ کو ٹھونسنے کی مختلف تدبیریں اختیار کرتے رہتے ہیں یا جو اپنے لیے شخصیت گر (Personality Builder) بن کر ہر میدان میں تماشائے فردِ واحد (One man Show) دکھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ بخلاف اس کے وہ شخص نفسیاتی لحاظ سے معیاری صحت و توازن کا ایک نایاب نمونہ ہے اور اس کا سارا جہاد ایک ایسے اصول، آئیڈیل اور آئیڈیالوجی کے لیے ہے جس کے فکری و عملی تقاضوں کی کسوٹی اس نے اپنے ذہن کو کبھی قرار نہیں دیا۔ وہ اپنی ذات کی تعمیر میں نہیں، تاریخ کی تعمیر میں مصروف ہے۔
مودودی صاحب کی شخصیت پر قلم اٹھانے کا حق مجھے پہنچتا ہے، لیکن میرے لیے سب سے بڑی پیچیدگی یہ اندیشہ ہے کہ میں چونکہ اس شخصیت کے ساتھ گہری محبت رکھنے والوں، اس سے ہر طرح کا استفادہ کرنے والوں اور اس کی مشفقانہ رفاقت میں برسوں سے کام کرنے والوں میں سے ایک فرد ہوں، اس لیے اگر میں کچھ لکھوں گا، تو چاہے وہ مبالغے سے کتنا ہی پاک اور قصیدہ آرائی سے کتنا ہی بالاتر کیوں نہ ہو، اس پر ’’مریداں می پرانند‘‘ کا فقرہ بڑی آسانی سے چُست کیا جا سکتا ہے، مگر جب واقعہ یہ ہے کہ نہ یہاں کوئی ’’پیر‘‘ ہے جو ’’مریدوں‘‘ کی بے پَرکی اڑائی ہوئی باتوں کے بل پر اڑانے کا آرزومند ہو، نہ کوئی مرید ہیںجو کسی بے بال و پر ’’پیر‘‘ کو اڑانے کے درپے ہوں، تو سوچتا ہوں کہ آخر میں کیوں دین و ملت، زبان و ادب اور تاریخِ وقت کی ایک ایسی خدمت انجام دینے سے باز رہوں جس کے بارے میں، میں سمجھتا ہوں کہ اپنی استطاعت کی حد تک اسے ادا کر سکتا ہوں۔ یہ شخص جو منبر سے دار تک کے ہر مرحلے سے گزر گیا ہے اور جس کا نام لاکھوں افراد کی زبانوں پر ہے، لوگ اسے جاننا بھی چاہتے ہیں کہ یہ کون ہے، کیا ہے، اس کا جواب اگراسے جاننے والے… قریب سے جاننے والے… برسوں ساتھ رہ کر جاننے والے بھی نہ دیں گے، تو اور کون دے گا؟ لوگ اس کے متعلق متضاد باتیں سنتے ہیں۔ وہ اپنے وقت کا بے مثل مفکر ہے اور وہ ایک رجعت پسند ملّا ہے! وہ موجودہ نظام کو بدل ڈالنے کے لیے زور لگا رہا ہے اور وہ جاگیرداروں کا حامی ہے۔ وہ اسلامی دستور چاہتا ہے اور وہ ملک کا غدار ہے، وہ امریکی ایڈ کا مخالف ہے اور وہ امریکہ سے خفیہ ایڈ حاصل کر رہا ہے!… ان متضاد باتوں کے درمیان لوگ ہکّے بکّے ہو کر یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ پھر آخر اصل حقیقت کیا ہے! مان لینا چاہیے کہ مودودی صاحب جیسے افراد کے ساتھ یہی ہمیشہ ہوتا ہے۔ وہ سب سے زیادہ معروف ہوتے ہیں اور سب سے زیادہ دور بھی! وہ سب سے بڑھ کر آشنا بھی ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اجنبی بھی اور وہ انسانیت کے اوّل درجے کے خادم ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ پَرلے درجے کے مجرموں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ایسے افراد کو اس مظلومی سے پوری طرح تو بچایا نہیں جا سکتا، تاہم ان کو جاننے پہچاننے والوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ جاننے والوں کو صحیح معلومات بہم پہنچائیں۔
میں ان سطور کو لکھتے وقت اس فتنے سے پوری طرح باخبر ہوں جسے شخصیت پرستی (Hero worship) کہا جاتا ہے۔ لیکن کوئی بھی شخص جو پورے شعور کے ساتھ ایک مرتبہ خدا پرستی اختیار کر لیتا ہے وہ پھر کبھی کسی ’’پرستی‘‘ میں مبتلا نہیں ہوتا۔ میں نے جذباتِ عبودیت کے لیے ایک ہی بارگاہ پا لی ہے اور اب اس پر میرا ایک سجدہ مجھے ہزاروں سجدوں سے نجات دلا دیتا ہے۔ دوسرے خود مولانا مودودی کی تعلیم و تربیت سے جو چیزیں ان کے ساتھیوں اور ان کے قدر دانوں اور ان کے محبت کرنے والوں میں نمایاں طور پر پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہی ہے کہ شخصیت پرستی کی پستی سے آدمی بسا بلند ہو جاتا ہے(میں نے اور میری طرح کے بہت اور لوگوں نے مولانا مودودیؒ کے مقابلے میں اپنے نظریات کی سرزمین کے ایک ایک چپے پر دفاعی جنگ لڑی ہے اور ایسے ہی لوگوں کو خود مولانا مودودیؒ صاحب نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ ہم لوگوں نے شعبدے اور کرامات دیکھ کر بیعت نہیں کر لی، بلکہ جو کچھ مانا ہے عقل و استدلال کے معرکے لڑ کر مانا ہے اور آیندہ بھی ہم سے جو کچھ منوایا جا سکتا ہے اسی طرح منوایا جا سکتا ہے)۔ تیسری اہم حقیقت یہ ہے کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اقبالؒ کے پیغام کی روشنی میں اقدام کرتے کرتے مودودی تک آ پہنچے ہیں اور جنھوں نے مودودی سے اوّلین تعارف ہوتے ہی یہ محسوس کیا کہ وہ ’’دگر دانائے راز‘‘ یہی ہے جس کے نمودار ہونے کی دلی حسرت اقبالؒ کے لبوں پر آخری گھڑیوں میں آئی (اقبالؒ جیسا حقیقت شناس آدمی تاریخ اور معاشرۂ انسانی کے قوانین کی روشنی میں خوب سمجھتا تھا کہ جس شعور کی شعاعیں میں نے ماحول میں بکھیر دی ہیں اور جن جذبات کو میں نے چھیڑ دیا ہے، اب وہ علمی میدان میں ایک تحریک کی شکل اختیار کیے بغیر نہیں رہ سکتے اور اس تحریک کے لیے کوئی نہ کوئی شخصیت ایک پیغام انقلاب لے کے اٹھے گی، چنانچہ یہ معلوم کرنا دل چسپی سے خالی نہ ہو گا کہ علامہ اقبالؒ مرحوم اپنے آخری ایام میں نوجوان نسل کو پیشِ نظر نصب العین کے لیے تیار کرنے کی جو اسکیم رکھتے تھے اس کے لیے واحد رفیقِ کار جو انھوں نے منتخب کیا وہ مولانا مودودیؒ تھے، جو علامہ اقبالؒ ہی کے بلاوے پر پنجاب آئے، مگر اُدھر خود اقبالؒ کو عالم جاوید سے بلاوا آ پہنچا) اور جس کے لیے اس نے دعا کی تھی کہ: ؎
اگر می آید آں دانائے رازے
بدہ او را نوائے دل نوازے
ضمیرِ اُمتاں را می کند پاک!
کلیمے یا حکیمے نَے نوازے!؎
کلیات اقبال (فارسی) صفحہ ۸۹۵
اقبالؒ کے چشمۂ فکر پر پوری طرح سیراب ہو جانے کے بعد کوئی شخص مشکل ہی سے شخصیت پرست ہو سکتا ہے!میری دوسری مشکل یہ ہے کہ مودودی پر مجھ جیسا قریبی آدمی اگر چند سرسری تاثرات دے کر رہ جائے، تو اس سے بڑی مایوسی ہو گی، لیکن اگر میں مطالعہ شخصیت کا حق ادا کرنا چاہتا ہوں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ جس شخصیت سے فکروعمل کی کئی دنیائیں پے بہ پے ظہور پذیر ہو رہی ہوں، جس نے زندگی کے ہر مسئلے اور ہر موضوع پر بے شمار لٹریچر میدان میں ڈال دیا ہو جس نے ایک ہمہ گیر تحریک تغیر اٹھا کھڑی کی ہو، اس کا مطالعہ کس گوشے سے اور کس طرح شروع کر کے کس پہلو پر جا کر کس طرح ختم کیا جائے۔ پھر اس کام کے لیے بڑا وقت چاہیے جو مجھے میسر نہیں۔ بہت سوچا، بہت سوچا، آخر یہ ٹھانی کہ جس موقع پر جتنا کام ممکن ہو اتنا کر دینا چاہیے اور بقیہ کو آیندہ کے لیے اٹھا رکھنا چاہیے۔ سو اب!
ع سامنے مہماں کے جو کچھ تھا میسر رکھ دیا
بڑے آدمی
بڑے آدمی کون ہوتے ہیں؟ ان کی تعریف کیا ہے؟… اس سوال کے مختلف جواب سوچے جا سکتے ہیں، مگر تمام ممکن جوابات کا اگر کوئی جوہر نکالا جا سکتا ہے، تو وہ یہ ہے کہ ہر وہ فردِ انسانی جو انسانیت کو خیال اور عمل کے کسی بھی دائرے میںاپنے پاس سے کچھ دے کے جاتا ہے، جوزندگی کو نئی ذہنی اور اخلاقی صلاحیتوں سے آراستہ کرتا ہے، جو تاریخ کی شاہراہ پر نئے نقوشِ قدم بناتا اور نئے چراغ روشن کرتا ہے، بڑے آدمیوں کی صف میں شامل ہے۔ جو لوگ دوسروں سے فائدے اٹھاتے ہیںاور انسانیت کے گزشتہ کارناموں سے نفع اندوز ہوتے ہیں، لیکن جواب میںانسانیت کی کوئی خدمت انجام دینے کے بجائے الٹا اسے چرکے لگانے میں عمریں گزار دیتے ہیں (اور ایسے لوگ مجرموں سے لے کر وزیروں، لیڈروں، صحافیوں اور ادیبوں تک کی صفوں میں پھیلے ہوئے ہیں) وہ بنی نوعِ انسان کا سب سے ذلیل اور گھٹیا عنصر ہوتے ہیں۔ ان سے اوپر دوسرا عنصر آتا ہے جو جتنا فائدہ انسانی کارناموں سے اٹھاتا ہے۔ اپنی صلاحیتوں کی حد تک اس کے جواب میں زندگی کی قابل قدر خدمات سرانجام دینے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر وہ خال خال پائے جانے والے افراد ہمارے سامنے آتے ہیں جو جتنا کچھ لیتے ہیں، اس سے کئی گنا زیادہ دے کے جاتے ہیں۔ اور وہ کچھ دے کے جاتے ہیں جو ہر آدمی کے پاس نہیں پایا جاتا۔ انھی کو ہم بڑے لوگ کہتے ہیں۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ مولانا مودودی کی شخصیت کا نمایاں مقام اسی آخری قسم کے خال خال پائے جانے والے افراد کی صف میں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو مجھ سے اختلاف ہو، وہ اپنے اختلاف پر قائم رہ سکتے ہیں، میں اپنی رائے دوسروں سے منوانے کے لیے یہ سطور نہیں لکھ رہا، نہ میری زندگی کے مشن کا یہ کوئی جز ہے کہ میں مودودی کی عظمت دوسروں سے تسلیم کرائوں!
مودودی میرے نزدیک ویسا ہی گوشت پوست کا ایک متحرک پیکر ہے۔ جیسے پیکر اس کرۂ ارضی پر اربوں کی تعداد میں زندگی کی راہ پر رینگ رہے ہیں۔ میں اسے کوئی فوق الانسانی مخلوق نہیں سمجھتا، میں اسے ایک معصوم اور بے عیب ہستی نہیں مانتا، میں اسے تنقید سے بالاتر تسلیم نہیں کرتا، میں اسے یہ حق نہیں دیتا کہ وہ میری خودی کا خراج مجھ سے لے سکے۔ میں اس کے سامنے اختلافِ رائے کے فطری حق سے کبھی دست بردار نہیں ہو سکتا، میں اسے ایک بت بنا کر پوجنے پر تیار نہیں ہوں، بلکہ اگر وہ میرے ذہن میں بت بن کر رہناچاہے، تو میں اسے ایک آن میں چُور چُور کر کے رکھ دوں، البتہ میں اس کا احترام کرتا ہوں، اس کی عزت میرے دل میں ہے، میں اس سے محبت رکھتا ہوں، کیوںکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کے پاس کچھ نہ کچھ ایسا ہے… بہت کچھ ایسا ہے… جو میرے پاس نہیں ہے، وہ میں نے اس سے لیا ہے اور اس سے لینا ہے۔ وہ مجھے کسی اور سے نہیں مل سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے پاس وہ کچھ ہے جو میرے ملک کو، میری قوم کو میرے معاشرے کو اور کرۂ ارضی پر بسنے والی میری محبوب انسانی برادری کو اس سے لینا ہے۔ بس یہی چیز ایک بڑے آدمی کی علامت ہوتی ہے اور یہی دوسروں کو مجبور کر دیتی ہے کہ اسے بڑا آدمی مانیں۔ اور یہی چیز ہوتی ہے جس کے لیے بڑے آدمیوں کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے، ان کی شخصیتوں کو کریدا جاتا ہے، ان کی تحریروں کی چھان بین کی جاتی ہے، ان کے کارناموں کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ بڑے لوگوںسے ہماری کوئی دلچسپی ہے، تو صرف یہ ہے کہ کیا کیا استفادہ ہم ان سے کر سکتے ہیں۔ اُن کی سیرت اور ان کے کارنامۂ حیات میں ہمارے لیے کیا ہے۔ انسانیت کے لیے کیا ہے، زندگی کے لیے کیا ہے، وہ ہمارے امن و مسرت کے خزانے میں کیا دے سکتے ہیں، وہ ہماری ترقی میں کیا مدد بہم پہنچاتے ہیں۔ وہ ہماری قوتوں میں کون سا اضافہ کرتے ہیں! اس مدعا سے ہٹ کر محض اکابر پرستی (Heroworship) کے گھٹیا ذوق کی تسکین میں جا پڑنا دنیا کے فضول ترین کاموں میں سے ہے۔
البتہ صاف بات یہ ہے کہ میں کسی کی غلط فہمی کے اندیشے سے مودودی صاحب کے متعلق اپنے گہرے اور حقیقی تاثرات کو مصنوعی، جھوٹے انکسار کے خراد پر چھیل کر پیش نہیں کر سکتا۔
اس شخصیت کا عنوان
مولانا مودودی کی شخصیت کو اگر ہم کوئی عنوان دینا چاہیں تو بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ وہ بیک وقت ایک اونچا مصنف، ایک ادیب، ایک عالمِ دین، ایک ماہر تنظیم، ایک انقلاب پسند داعی اور ایک سیاسی لیڈر ہے، تاہم میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہم اسے ایک انقلابی مفکر (Revolutionary Thinker) قرار دے کر اس کی خدمات کے بہت سارے پہلوئوں کو ایک عنصر کے تحت جمع کر سکتے ہیں۔
سوچتا ہر انسان ہے، مگر ہر سوچنے والے کو مفکر نہیں کہہ سکتے۔ مصنف ہمارے اندر بے شمار ہیں، مگر ہر مصنف کو ہم مفکرانہ بلندی پر نہیں رکھ سکتے۔ لیڈروں کی ہمارے درمیان کمی نہیں، مگر ہر لیڈر کے ذہن سے کسی جامع فکر کے جھرنے نہیں پھوٹتے۔ کسی دور اور کسی ملک و قوم کے حالات میں مفکرانہ عظمت تک صرف وہ لوگ پہنچ سکتے ہیں جو سوچنے کی عامیانہ اور پٹی ہوئی راہوں کی غلامی سے آزاد ہو کر ایک خاص اصولی و مقصدی نقطۂ آغاز سے چلتے ہیں اور اپنی سمتِ سفر اپنے اصول و مقصد کے کمپاس کے ذریعے متعین کر کے سوچنے کی نئی راہیں کھول دیتے ہیں۔ بنے ہوئے حالات کے فریم میں اپنے ذہن کو نصب رکھ کر ہر آدمی سوچتا ہے، لیکن یہ سوچنا سوسائٹی اور انسانیت کو کچھ نہیں دے سکتا۔ بنے ہوئے حالات کے فریم کو توڑ کر ان حالات کا ناقدانہ جائزہ، کسی خاص درجے کی ذہنی بلندی سے لیتے ہوئے سوچنا، وہ سوچنا ہوتا ہے جو فکر و عمل کی نئی دنیائیں بنا کے انسانیت کے سامنے رکھتا ہے اور یہی سوچنا ہے جو کسی سوچنے والے کو مفکرانہ مقام پر لاکھڑا کرتا ہے۔ مولانا مودودی ان لوگوں میں سے نہیں، جنھوں نے بنے بنائے حالات کے اندر اپنے آپ کو رکھ کر سوچا ہو کہ حالات میں بہتر سے بہتر جگہ کیسے بنائی جا سکتی ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو ماحول کے سکہ بند قدری پیمانوں، خیروشر کی تقسیم کے معیاروں اور فکرونظر کے زاویوں پر اندھا ایمان لا کر اپنی ذہنی قوتوں کوحرکت میں لاتے ہیںاور اپنے سارے فکری کارنامے اس اہتمام سے سرانجام دیتے ہیں کہ وہ ان پیمانوں، معیاروں اور زاویوں کے لحاظ سے قابل قدر ٹھہریں۔ مولانا مودودی اپنے ماحول، اپنے معاشرے اور اپنے گرد چھائے ہوئے حالات کے فکری قفس کو توڑ کر کھلی فضائوں میں پرواز کرتے ہوئے اس قفس کا، اس کی تیلیوں کا اور اس کے اندر پھڑ پھڑانے والے طیورِ پَرشکستہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان کی آزادانہ فکر ایک بجلی بن کر اس قفس کو پھونک ڈالنے کے لیے چمکتی ہے، ان کی فکر طیورِ پر شکستہ کو نئے بال و پر دینا چاہتی ہے، وہ قفس کی جگہ ایک نیا شاداب چمن آراستہ کر دینا چاہتی ہے۔ مولانا مودودی ماحول کے سکہ بند پیمانوں، تاریخ کے مہر کردہ معیاروں اور معاشرے کے بنائے ہوئے فرسودہ زاویوں پر ایمان لانے سے انکار کر کے سوچتے ہیں۔ وہ ان کے بالمقابل دوسرے پیمانے، دوسرے معیار اور دوسرے زاویے رائج کرنے کے لیے سوچتے ہیں۔ اس طرح جب کبھی کوئی شخص بنی بنائی دنیا کو قبول کرنے سے انکار کر کے ایک نئی دنیا کا نقشہ سوچنے لگ جاتا ہے،تو اسے ہم ’’انقلابی مفکر‘‘ قرار دیتے ہیں۔
مربوط اور جامع فکر
مولانا مودودی صاحب کا مفکرانہ کارنامہ کیا ہے؟
زندگی کے مختلف اجزا کو الگ الگ رکھتے ہوئے، ان میں سے کسی ایک، دو ، چار کے متعلق ہر ذہین آدمی سوچ لیتا ہے اور بڑے کام کی باتیں سوچ لیتا ہے جن سے زندگی مستفید ہوتی ہے۔بے شمار جج، وکلا، صحافی، شعرا، ادیب، مصنف، اساتذہ، فلسفی اور لیڈر ہر معاشرے میں اسی طرح کی فکری خدمات انجام دے کرذریعۂ ترقی بنتے رہتے ہیں، لیکن زندگی کو ایک کُل کی حیثیت سے سامنے رکھ کر سوچنا، اس کے تمام اجزا کو ایک مربوط صورت میںاکائی قرار دے کر سوچنا، اس کے ہر پہلو کو اس شعور سے سوچنا کہ یہ دوسرے پہلوئوں پر اثرڈال کر اور ان سے اثرلے کر کام کر رہا ہے۔ یہ ہر ذہین آدمی کا کام نہیں ہوتا۔ اس کارنامے کے لیے بڑی ہمہ گیر نگاہ درکار ہوتی ہے، اس کے لیے زندگی کی وسعتوں کا احاطہ کر لینے والا ذہن درکار ہوتا ہے، اس کے لیے آدمی کا علم پیٹا سمندر کا سا ہونا چاہیے۔ مولانا مودودی کی خصوصیت یہی ہے۔ وہ زندگی کے کسی ایک مسئلے اور کسی ایک پہلو پر محدودیتِ نظر کے ساتھ غور نہیں کرتے،بلکہ وہ کسی جزئی سے جزئی مسئلے پر بھی لکھتے یا بولتے ہیں، تو اسے ہمیشہ کُل کے اندر رکھ کر سوچتے ہیں۔ انسانی زندگی کی ایک جامع اسکیم کا فریم ان کے پاس ہے جس میں کسی مسئلے کو ٹھیک جگہ متعین کرنے کے بعد ہی وہ اظہارِ رائے کرتے ہیں۔ انھیں کہیں بھی جزئی مسائل کی فکر نہیں ہوتی، ہمیشہ اپنی جامع اسکیم کے فریم کی سلامتی کا وہ خیال رکھتے ہیں۔ متفرق چیزوں پر سوچنا اور متفرق خیالات دے جانا کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہو سکتا۔ بڑا کارنامہ ہمیشہ ایسے سوچنے والوں کا ہوتا ہے، جو نظریہ و فکر کا ایک ننھا سا بیج لیتے ہیں، اس سے ایک کونپل پھوٹتی ہے، وہ تنا بنتی ہے، تنے سے شاخیں نمودار ہوتی ہیں، شاخوں سے پتے، پھول اور پھل ظہور پانے لگتے ہیں۔ یوں وہ ہتھیلی پر جو باغ کا باغ ’’جما‘‘ لیتے ہیں، اس کی کسی چھوٹی سے چھوٹی کونپل اور کسی حقیر سی پتی پر بھی آپ ان کے خیالات کو دیکھیں، تو اندازہ ہو گا کہ وہ اپنے سارے باغ کو سامنے رکھ کر اس کونپل اور اس پتی پر کوئی رائے ظاہرکرتے ہیں۔ دوسرے لوگ وہ ہوتے ہیں جو کہیں سے کوئی ٹہنی توڑ لاتے ہیں، کہیں سے کچھ پتیاں اکٹھی کر لیتے ہیں، کہیں سے دو چار پھول حاصل کر لیتے ہیں اور ان سب کو اکٹھا کر کے ایک فکری گلدان میں سجا دیتے ہیں، ٹہنی سرو کی ہے تو پتیاں سرس کی اور پھول نرگس کے! اب وہ اپنے گلدستے کے ایک ایک جز پر خیالات… اور قیمتی خیالات… کا بڑا قیمتی، یادگاری سرمایہ چھوڑ جائیں گے۔ مگر زندگی کوئی گلدستہ تو ہے نہیں، زندگی تو ایک مربوط شے ہے، وہ جڑ سے لے کر کونپل تک ایک ہی وجود مجموعی رکھتی ہے۔ اسے بدلو گے تو پورا بدلو گے، قائم رکھو گے تو مجموعی طور پر قائم رکھو گے، کسی درخت کی جڑیں کسی کا تنا، کسی کی شاخیں، کسی کے پھول پتے جمع کر کے تم زندگی کا ایک نیا درخت نہیں اگا سکتے، نیا درخت تو ہمیشہ کسی نئے نظریے سے اُگے گا، جو اپنا سب کچھ اپنے ساتھ لے کر آئے گا۔ ٹھیک اسی طرح مولانا مودودی کی فکر ایک نظریے سے اُگ کر اپنے تنے پر کھڑے ہونے والے، اپنی شاخیں اپنے اندر سے نکالنے والے، اپنی کونپلیں اور پھل پھول اپنے فطری تقاضوں کے مطابق خود بہم پہنچانے والے اور اپنی جڑوں سے غذا حاصل کرنے والے ایک مکمل درخت کی سی ہے۔ زندگی کا درخت!! درخت!… اسلامی زندگی کا درخت!!!
مولانا مودودی کے وسیع لٹریچر کے مطالعے کو نکلیے تو آدمی حیرت میں ڈوبا رہ جاتا ہے کہ ایک آدمی، اتنا زیادہ مصروف آدمی، پچاس برس کی عمرمیں اتنا ٹھوس، علمی اور معیاری لٹریچر اتنی ضخامت کے ساتھ کس طرح مرتب کر ڈالتا ہے! یہ لٹریچر اسلام کے بارے میں ایک انسائیکلوپیڈیائی علم کا مظہر ہے، مگر صرف لٹریچرکی وسعت اور ضخامت ہی حیران کن نہیں، اور زیادہ تعجب میں ڈالنے والا وہ غیر معمولی تنوع ہے جو بحث و فکر کے موضوعات میں پایا جاتا ہے۔ عقائد اور نظریات، اخلاق اور سیرت، قانون اور دستور، سیاست اور معیشت، معاشرت اور تمدن، تاریخ اور فلسفۂ تاریخ، نظامِ تعلیم اور کلچر، ادب اور آرٹ، فقہ اور قضا، سرمایہ داری اور اشتراکیت، تھیاکریسی اور سیکولر ڈیموکریسی، نیشنلزم اور انٹرنیشنلزم، سود اور بنکنگ، مالیات اور تجارت اور سیاست کے وقتی مسائل اور دوسرے بے شمار موضوعات پر نہ صرف معلومات، بلکہ ان کے ساتھ اجتہادی نقطۂ نظر کے ساتھ ساتھ ایک جذبۂ انقلابیت، پڑھنے والوں کو مولانا مودودی کے ہاں ملتا ہے۔ سب سے بڑا کمال یہ کہ زندگی کے مختلف شعبوں، پہلوئوں، موضوعات اور مسئلوں پر ہزاروں صفحات کا یہ لٹریچر جس فکر کو سامنے لاتا ہے وہ ایک ہی نظریے کے سرچشمے سے ظہور پاتی ہے، تمام کی تمام متفرق بحثیں ایک ہی جڑ سے پھوٹتی ہیں۔ ایک ہی مقصد ہر جگہ بول رہا ہے۔ ایک ہی آئیڈیالوجی کی روشنی ہر جگہ پھیلتی نظر آتی ہے۔ اس دفتر کے دفتر کا شیرازہ ایک ہی طرزِ فکر نے باندھ رکھا ہے۔ یہ ہے وہ وجۂ عظمت جس نے مولانا مودودی کو ایک امتیازی درجے کا مفکر بنا دیا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس طرزکا کوئی مفکر ہمارے ہاں شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ کے بعد سے اب تک پیدا ہوا ہے۔ ہمارے دور کا یہ مفکر پوری کائنات کو ایک منظم واحد ادارے کی حیثیت سے دیکھتا ہے اور اس کے اندر فطرتِ انسانی کی ایسی جگہ تجویز کرتا ہے کہ وہ کائناتی کُل کے ساتھ بالکل ہم آہنگ رہے۔ پھر انسان کی پوری کی پوری نوعی تاریخ کو وہ بسااوقات سوچتے وقت اس طرح سامنے رکھ لیتا ہے جس طرح جغرافیے کا ایک معلم کرۂ ارضی کے ماڈل کو اپنی میز پر رکھ لیتا ہے۔ اس ہزارہا سالہ تاریخ کے کسی بھی دور کو وہ باقی سارے ادوار سے مربوط رکھ کرزیر غور لاتا ہے، پھر اس دور کے اندر اگر کسی ملک، قوم اور معاشرے کو وہ دیکھتا دکھاتا ہے، تو دور کی پوری بیک گرائونڈ کے ساتھ۔ وہ اجتماعی زندگی کے کسی مسئلے کو لے گا، تو اس کے پورے نقشے میں لے گا۔ آن دم تا این دم وہ حقیقت کو ایک ہی پاتا ہے۔ اس کا ظرفِ مکان اور اس کا ظرفِ زمان دونوں بہت ہی وسیع ہیں، مگر نہ اتنے کہ وہ ایک تخیلاتی آفاقیت میں کھو کر رہ جائے۔ وہ عملی آدمی ہے۔ اس لیے وہ جہاں ایک وسعت نظر اتنی زیادہ رکھتا ہے وہاں دوسری طرف توجہ کو جس پوائنٹ پر چاہتا ہے۔ پوری طرح مرتکز (Focus) کر کے رائے قائم کرتا ہے۔ آئیے ہم اس کے جامعانہ زاویۂ نگاہ کو اس کی اپنی دو ایک عبارتوں میں سے مواخذ کریں:
’’کائنات علیحدہ علیحدہ مستقل الوجود اجزا پر مشتمل نہیں، بلکہ وہ ایک کُل ہے جس کے تمام اجزا ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔ زمین کا ایک ذرہ مریخ اور عطارد کے ذرات سے ویسا ہی تعلق رکھتا ہے جیسا میرے سر کا بال میرے ہاتھ کے ایک رونگٹے سے رکھتا ہے۔ گویا پوری کائنات ایک جسد واحد ہے اور اس کے اجزا میں باہم ویسا ہی ربط ہے جیسا ایک جسم کے اجزا میں ہوتا ہے۔ پھر جس کائنات کے اجزا میں ربط اور تسلسل ہے، اسی طرح ان واقعات میں بھی ربط اور تسلسل ہے جو اس کائنات میں پیش آتے ہیں۔ دنیا کا کوئی چھوٹا یا بڑا واقعہ بجائے خود ایک مستقل واقعہ نہیں ہے، بلکہ وہ تمام کائنات کے سلسلۂ واقعات کی ایک کڑی ہے اور اس کلی مصلحت کے تحت صادر ہوتا ہے جس کو پیشِ نظر رکھ کر خداوندِ عالم اپنی اس غیر محدود سلطنت کو چلا رہا ہے۔‘‘ (تفہیمات حصہ اوّل: مضمون ’’کوتاہ نظری۔‘‘ ص:۱۴)
’’آپ دیکھیں گے کہ سارا عالم اور اس کا ایک ایک ذرہ ایک زبردست نظام میں جکڑا ہوا ہے اور ایک قانون ہے جس پر خاک کے ایک ذرے سے لے کر آفتابِ عالمِ تاب تک ساری کائنات طوعاً و کرہاً عمل کر رہی ہے۔ کسی شے کی مجال نہیں کہ اس قانون کے خلاف چل سکے۔ جو چیز اس سے ذرہ برابر سرتابی کرتی ہے وہ فساد اور فنا کی شکار ہو جاتی ہے۔ یہ زبردست قانون جو انسان، حیوان، درخت، پتھر، ہوا، پانی، اجسامِ ارضی اور اجرامِ فلکی سب پر یکساں حاوی ہے۔ ہماری زبان میں فطرت یا قانونِ قدرت کہلاتا ہے۔ اس کے ماتحت جو کام جس چیز کے سپرد کر دیا گیا ہے وہ اس کے کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ ہوائیں اس کے اشارے پر چلتی ہیں، بارش اس کے حکم سے ہوتی ہے، پانی اس کے فرمان سے بہنا ہے، سیارے اس کے اشارے سے حرکت کرتے ہیں… جس چیز کو ہم زندگی، بقا اور کون کہتے ہیں وہ دراصل نتیجہ ہے اس قانون کی اطاعت کا اور جس کو ہم موت، فنا اور فساد کہتے ہیں۔ وہ درحقیقت نتیجہ ہے اس قانون کی خلاف ورزی کا!‘‘
(تفہیمات حصہ اوّل ’’اسلام میں عبادت کا تصور۔‘‘ ص۴۰،۴۱)
ایک اقتباس اور رسالہ دینیات جو ثانوی درجے کے طلبہ کے لیے بطورِ نصاب مرتب کیا گیا ہے۔اس کے پہلے باب میں ’’اسلام کی حقیقت‘‘ کے ذیلی عنوان سے ذیل کا بصیرت افروز ٹکڑا سامنے آتا ہے:
’’یہ زبردست قانون جس کی بندش میں بڑے بڑے سیاروں سے لے کر زمین کا ایک چھوٹے سے چھوٹا ذرہ تک جکڑا ہوا ہے، ایک بہت بڑے حاکم کا بنایا ہوا قانون ہے۔ ساری کائنات اور کائنات کی ہر چیز اس حاکم کی مطیع اور فرماں بردار ہے۔ کیوںکہ وہ اس کے بنائے ہوئے قانون کی فرماں برداری کر رہی ہے۔ اس لحاظ سے ساری کائنات کا مذہب اسلام ہے۔ کیوںکہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ خدا کی اطاعت و فرماں برداری ہی کو ’’اسلام‘‘ کہتے ہیں۔ سورج اور چاند تارے سب مسلم ہیں۔ زمین بھی مسلم ہے، ہوا، پانی اور روشنی بھی مسلم ہیں۔ درخت اور پتھر اور جانور مسلم ہیں اور وہ انسان بھی جو خدا کو نہیں پہچانتا، جو خدا کے سوا دوسروں کو پوجتا ہے، جو خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتا ہے، ہاں وہ بھی اپنی فطرت اور ودیعت کے لحاظ سے مسلم ہی ہے، کیوںکہ اس کا پیدا ہونا، زندہ رہنا اور مرنا سب کچھ خدائی قانون ہی کے ماتحت ہے۔ اس کے تمام اعضا اور اس کے جسم کے ایک ایک رونگٹے کا مذہب اسلام ہے، کیوںکہ وہ سب خدائی قانون کے مطابق بنتے، بڑھتے اور حرکت کرتے ہیں۔‘‘
(رسالہ دینیات، صفحہ: ۱۰۔۱۱)
یہ ہے وہ وسعتِ نظر، یہ ہے وہ جامع نگاہی، یہ ہے وہ آفاق گیری جس کے ساتھ ایک نظریۂ حیات کو جب مودودی پیش کرتا ہے، تو وہ ایک عظیم مفکر کی حیثیت پا لیتا ہے۔ وہ اسلام کو اس حیثیت سے نہیں سامنے لاتا کہ یہ اس کا ذاتی مذہب ہے، یا جس قوم میں وہ پیدا ہوا وہ اپنے آپ کو اس سے نسبت دیتی ہے، بلکہ وہ اپنے اس محبوب نظریے کو اس قدروقیمت کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ یہی ساری کائنات کا دین و مسلک ہے۔ یہ وہ حقیقتِ عظمیٰ ہے کہ جمادات، نباتات، حیوانات سبھی پر چھائی ہوئی ہے اور اسی حقیقت کی گہری چھاپ انسانی فطرت پر پڑی ہوئی ہے۔ یہ سارے کا سارا کاروانِ وجود بالکل ہم رنگ، ہم مسلک اور ہم آہنگ ہے۔ وہی بات کہ: ؎
ماہمہ یک دودمانِ نار و نور
آدم و مہر و مہ و جبریل و حُور
(اقبالؒ)
مولانا مودودی انسانی زندگی کو ایک کُل مانتے ہیں، ایک وحدت… ناقابلِ تقسیم وحدت قرار دے کر اس پر غور کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسے مختلف خانوں میں بانٹ کر ہر خانے کو الگ الگ نظریوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ جغرافیے اور زمانے کی لکیریں ان کے نزدیک فطرتِ انسانی کے تقاضوں کو، اس کے خیروشر کو، اس کے معروف و منکر کو نہیں بدل ڈالتیں۔ ذرائع و وسائل کا ارتقا اخلاقی ضابطوں کو متغیر نہیں کر دیتا، فطرتِ انسانی کی مستقل ساخت ان کے نزدیک ساری تاریخِ انسانی کو ایک مربوط شے بناتی ہے، حق اور باطل یا اسلام اور جاہلیت دو کردار ہیں جو اپنی کش مکش شروع سے آخر تک ہر قسم کے حالات میں جاری رکھے ہوئے ہیں اور انھی کی وجہ سے یہ کہانی ایک مسلسل کہانی بنتی ہے۔ ان حقیقتوں کو مختلف مواقع پر انھوں نے مختلف پیرایوں میں نمایاں کیا ہے۔ یہی نقطۂ نظر ہے جس کے تحت وہ تاریخ میں امامت (Leadership) کے انقلاب کی توجیہ اس طرح کرتے ہیں:
’’ٹھیک اسی طرح ایک اور قانون بھی ہے جو ہماری تاریخ کے اتار چڑھائو پر، ہمارے گرنے اور اٹھنے پر، ہماری ترقی اور تنزل پر، ہماری ذاتی، قومی اور ملکی تقدیروں پر حکومت کر رہا ہے… خدا کے اس قانون کی پہلی اور سب سے اہم دفعہ یہ ہے کہ وہ بنائو کو پسند کرتا ہے اور بگاڑ کو پسند نہیں کرتا۔ مالک ہونے کی حیثیت سے اس کی خواہش یہ ہے کہ اس کی دنیا کا انتظام ٹھیک کیا جائے، اس کو زیادہ سے زیادہ سنوارا جائے، اس کے دیے ہوئے ذرائع اور اس کی بخشی ہوئی قوتوں اور قابلیتوں کو زیادہ سے زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ وہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ اس کی دنیا بگاڑی جائے، اجاڑی جائے، اور اس کو بدنظمی سے، گندگیوں سے اور ظلم و ستم سے خراب کر ڈالا جائے اور انسانوں میں سے جو لوگ بھی دنیا کے انتظام کے امیدوار بن کر کھڑے ہوتے ہیں، ان میں سے صرف وہ لوگ خدا کی نظرِ انتخاب میں مستحق ٹھہرتے ہیں جن کے اندر بنانے کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت ہوتی ہے، انھی کو وہ یہاں کے انتظامات کے اختیارات سپرد کرتا ہے۔ پھر وہ دیکھتا رہتا ہے کہ یہ لوگ بناتے کتنا ہیں اور بگاڑتے کتنا ہیں۔ جب تک ان کا بنائو بگاڑ سے زیادہ ہوتا ہے اور کوئی دوسرا امیدوار ان سے اچھا بنانے والا اور ان سے کم بگاڑنے والا میدان میں موجود نہیں ہوتا اس وقت تک ان کی ساری برائیوں اوران کے سارے قصوروں کے باوجود دنیا کا انتظام انھی کے سپرد رہتا ہے، مگر جب وہ کم بناتے ہیں اور زیادہ بگاڑنے لگتے ہیں، توخدا انھیں اٹھاکر پَرے پھینک دیتا ہے اور دوسرے امیدواروں کو اسی لازمی شرط پرانتظام سونپ دیتا ہے۔
(تقریر بنائو اور بگاڑ مئی ۱۹۴۷ء)
یہ تقریرشروع سے آخر تک تاریخ کی اسی تعبیر کی تشریح ہے اور مخاطبین کوواقعات و شواہد کی روشنی میں اس سنتِ الٰہی سے آگاہ کر کے ان سے چاہا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ’’بنائو‘‘کی صلاحیتوںسے آراستہ کریں۔
ان اقتباسات سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مودودی صاحب کی فکر ایک ہمہ گیر مرتب اور مربوط فکر ہے۔ وہ ذہنی سانچہ ہی ایسا وسیع ہے کہ ساری کائنات، ساری انسانیت، ساری تاریخ اور ساری زندگی کواپنے اندر لے کر پھرغوروفکر کا آغازکرتا ہے۔ اس ذہنی سانچے میں جب اسلام کو رکھا جاتا ہے، تو وہ بھی ایک منظم اور مربوط نظام کی ہیئت میں سامنے آتا ہے۔ ذرا دیکھیے یہ چند سطریں:
’’اسلام محض چند منتشر خیالات طریقہ ہائے عمل کا مجموعہ نہیں ہے جس میں اِدھر اُدھر سے مختلف چیزیں لا کر جمع کر دی گئی ہوں۔ بلکہ یہ ایک باضابطہ نظام ہے جس کی بنیاد چند مضبوط اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ اس کے بڑے بڑے ارکان سے لے کر چھوٹے چھوٹے جزئیات تک ہر چیز اس کے بنیادی اصولوں کے ساتھ ایک منطقی ربط رکھتی ہے۔ انسانی زندگی کے تمام مختلف شعبوں کے متعلق اس نے جتنے قاعدے اور ضابطے مقرر کیے ہیں۔ ان سب کی روح اور ان کا جوہر اس کے اصولِ اوّلیہ ہی سے ماخوذ ہے۔ ان اصولِ اوّلیہ سے پوری اسلامی زندگی اپنی مختلف شاخوں کے ساتھ بالکل اسی طرح نکلتی ہے۔ جس طرح درخت میں آپ دیکھتے ہیں کہ بیج سے جڑیں اور جڑوں سے تنا اور تنے سے شاخیں اور شاخوں سے پتیاں پھوٹتی ہیں۔ اور خوب پھیل جانے کے باوجود اس کی ایک ایک پتی اپنی جڑ کے ساتھ مربوط رہتی ہے۔ (اسلام کا نظریۂ سیاسی۔ ص۵)
ان الفاظ میں مولانا مودودی نے خود اپنے فکر کی جامعیت کی تصویر کھینچ دی ہے۔ اسی ہمہ گیرانہ اور جامعانہ اسلوب سے وہ جب کسی الجھے ہوئے مسئلے کو چھیڑتا ہے، تو ایک جزئی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ہمیں پورے سسٹم میں وہ خاص مسئلہ رکھ کے دکھاتا ہے۔ وہ پردے کے پامال موضوع کو چھیڑے گا، تو پورے کے پورے اسلامی معاشرتی نظام کو دنیا بھر کے معاشرتی نظاموںکے مقابلے پررکھ کر پھر ہمیں دکھائے گا کہ اس نظام میں پردے کی جگہ کیا ہے اور کیوں ہے اور اسے اس کی جگہ سے ہٹا دیا جائے، تو کس طرح اصول و مقاصد کا سارا ڈھانچہ پیوندِ زمین ہو کے رہ جائے گا۔ وہ سود کی حرمت پر بات چھیڑے گا، تو ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام کا تفصیلی نقشہ سامنے لا کر بتائے گا کہ اس نظام کو مفاسد سے مالا مال کرنے میں سود کا پارٹ کیا ہے اور دوسری طرف اسلامی نظامِ معیشت کا خاکہ کھینچ کر دکھائے گا کہ اس کے اندر سود کے لیے سرے سے کوئی جگہ نہیں نکلتی اور زبردستی نکالی جائے، تو اس خاکے کے سارے مقاصد غارت ہو کر رہ جائیں گے۔ اسی طرح وہ اگر ’’اسلام تلوار سے پھیلا‘‘ کے شرانگیز اعتراض کا جواب دینے کو قلم اٹھائے گا، تو دنیا بھرکے قوانین جنگ کے بالمقابل اسلامی نظریۂ جہاد اور اس کے اصول و قوانین اور اس کے مقاصد و مناہج پر الجہاد فی الاسلام جیسی سائنٹیفک ضخیم اورعلمی کتاب مرتب کرکے آپ کے سامنے رکھ دے گا۔ وہ اپنی ایک کتاب خطبات (جو کم تعلیم یافتہ دیہاتی عوام کے مطالعے کے لیے لکھی گئی ہے) میں اسلام کے اجزاکو الگ الگ کر کے دیکھنے اور ان سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرنے والوں کو ایک کلاک کی مثال دیتا ہے کہ جب تک اس کے تمام کے تمام پرزے اپنی اپنی جگہ پرنصب ہوں اوراپنا اپنا کام کر رہے ہوں، تو اس کے ڈائل پر مطلوبہ نتیجہ (یعنی وقت بتانا) نکلتا رہے گا، لیکن اگراس کے پرزوں کو کھول ڈالا جائے، تو چاہے الگ الگ پرزوں کو لے کر ان کو کتنا ہی پالش کیا جائے اور کتنا ہی تیل دیا جاتا رہے۔ ڈائل پر کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، بلکہ کسی پرزے کی مقصدیت بھی سمجھ میںنہ آ سکے گی۔ اسلام کے کلاک کو کھول کر اس کے پرزے الگ الگ کر کے، بلکہ ان کو سائیکل اور سلائی مشین کے پرزوں سے ادل بدل تک کر کے پھر جب لوگ ان میں سے کسی ایک پر غور کرتے ہیں، تو ان کو اس تفکر کی ڈور کا سرا نہیں ملتا۔ مولاناؒ نے ایک دوسرے مقام پر اسلام کے متعلق فکری انتشار کی اس عام وجہ کو کھول کر یوں بیان کیا ہے:
عام طور پر لوگ جب اسلام کے مسئلے پر غور کرتے ہیں، تو اس نظام اور سسٹم پر بہ حیثیت مجموعی نگاہ نہیں ڈالتے جس سے وہ مسئلہ متعلق ہوتا ہے، بلکہ نظام سے الگ کر کے اس خاص جزو کو مِنْ حَیْثُ ھُوَھُوْ لے لیتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جز تمام حکمتوں سے خالی نظر آنے لگتا ہے اور اس میں طرح طرح کے شکوک پیدا ہونے لگتے ہیں… اگر آپ پوری عمارت کو دیکھنے کے بجائے صرف اس کے ایک ستون کو دیکھیں گے، تو لامحالہ آپ کو حیرت ہو گی کہ یہ آخر کیوں لگایا گیا ہے۔‘‘ (پردہ)
مولانا مودودی کے طریقِ فکر کا امتیاز یہی ہے کہ وہ ایک ایک مسئلے، ایک ایک جزئی حکم، ایک ایک آیت اور ایک ایک حدیث کو مجموعی سسٹم میں اس کی اپنی جگہ پر رکھ کر دکھاتا ہے۔ وہ نظامِ زندگی کی کل کا ایک ایسا انجینئر ہے جو ادنیٰ سی کیل کو جب اپنے صحیح مقام پر گڑا ہوا اور کام کرتا ہوا سامنے رکھ دیتا ہے، تو اس کی حقیقت و مقصدیت پوری پوری طرح آشکارا ہو جاتی ہے۔
جامع نظریے اور زندگی کے نظام دینے والے لوگ ہمیشہ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ وہ اس لیے بڑے ہوتے ہیں اور اسی لیے بڑے مانے جاتے ہیں کہ وہ انسانی معاشرے کو وہ چیز بہم پہنچاتے ہیں، جس سے نئے ذہن پیدا ہوتے ہیں، نئے خیالات امڈتے ہیں، حرکت اور سرگرمی پیدا ہوتی ہے، مقصد اور نصب العین ہاتھ آتا ہے، تعمیری قوتوں کو کام کرنے کے لیے نقشے ملتے ہیںاور زندگی ایک کل کی طرح مربوط ہو کر متحرک ہو جاتی ہے۔
اسلام کا تعارف بحیثیتِ نظام و تحریک
مولانا مودودی کی مفکرانہ عظمت کا دوسرا راز یہ ہے کہ آپ نے اسلام کو صدہا برس کے تباہ کن عوامل کی گرفت سے نکالا اور ایک مذہب اور مَت کی سطح سے اٹھا کر نظامِ زندگی ہونے کا صحیح مقام اسے دوبارہ اس دورِ الحاد میں پورے عقلی زور کے ساتھ دے دیا۔ جو جو کچھ قطع و برید اس کی کی گئی تھی، اس میں جو جو ترامیم، تحریفیںاور تصرفات کیے گئے تھے اور اس کے عقیدوں، عبادتوں، اخلاقی ہدایات کو سیاست و تمدن سے کاٹ کر جو بے معنی حیثیت دے دی گئی تھی۔ ان کی ساری حرکات کے ایک ایک اثر کا ازالہ کر کے اسے ’’دین‘‘ کی حیثیت میں ہمارے سامنے رکھ دیا۔ کمال یہ کہ یہ سارا کام جدید دور کے عقلی اور سائنٹیفک معیار پر ہر لحاظ سے پورا اترتا ہے۔ خصوصیت سے دین و سیاست کی تقسیم کا جو نظریہ مغرب سے آیا تھا اور آ کرہماری ذہنی فضا پر اثر انداز ہو گیا تھا، اس کے خلاف ملت کے اجتماعی ذہن نے جو کش مکش کی ہے اور جس میں بہت بڑا تاریحی حصہ علامہ اقبالؒ کا بھی تھا۔ اسے کامیاب تکمیل تک مولانا مودودی نے پہنچایا۔ مولانا مودودی کا تصورِ اسلام زندگی کے سارے مسائل کواپنے دائرے میں لیتا ہے اور ان کو اپنے اسلوب سے حل کرتا ہے۔ وہ کسی جزئی سے جزئی مسئلے کو اپنے حلقۂ اثر سے مستثنیٰ چھوڑ کر کسی دوسری طاقت کے حوالے کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ وہ زندگی کی تقسیم سے انکاری ہیں۔ ان کا نظریۂ توحیدِ الٰہ، وحدتِ حیات اور وحدتِ آدم کے تصورات پر مشتمل ہے، بلکہ مودودی کو اسلام کے اسی تصور نے اپنی طرف کھینچا، ورنہ ان جیسا ذہین انسان بے روح عقیدوں، بے مقصد رسموں، بے معنی حرکتوں کے زندگی سے غیر مربوط مجموعے کے حوالے اپنے آپ کو کرنے والا تھا۔ وہ خود کہتے ہیں:
’’اس بے روح مذہبیت کا پہلا بنیادی نقص یہ ہے کہ اس میں اسلام کے عقائد محض ایک دھرم (Religion) کے مزعومات بنا کر رکھ دیے گئے ہیں، حالاںکہ وہ ایک مکمل فلسفۂ اجتماع اور نظامِ تمدن کی منطقی بنیاد ہیں۔ اور اسی طرح اس کی عبادات محض پوجا اور تپسیا بنا کر رکھ دی گئی ہیں، حالاںکہ وہ ان ذہنی اور اخلاقی بنیادوں کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے وسائل ہیں جن پر اسلام نے اپنا نظامِ اجتماعی تعمیر کیا ہے۔ اس عملِ تحریف کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کی سمجھ میں کسی طرح یہ بات نہیں آتی کہ آخر ایک سیاسی، معاشی اور تمدنی لائحہ عمل کو چلانے کے لیے ان عقائد اور ان عبادات کی ضرورت ہی کیا ہے۔ دوسرا بنیادی نقص اس مسخ شدہ مذہبیت میں یہ ہے کہ اس میں اسلامی شریعت کو ایک منجمد شاستر بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ اس میں صدیوں سے اجتہاد کا دروازہ بند ہے جس کی وجہ سے اسلام ایک زندہ تحریک کے بجائے محض عہدِ گذشتہ کی ایک تاریخی یادگار بن کر رہ گیا ہے۔ اور اسلام کی تعلیم دینے والی درس گاہیں آثارِ قدیمہ کے محافظ خانوں میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اجنبی لوگ اس چیز کو دیکھ کر زیادہ سے زیادہ تاریخی ذوق کی بنا پر اظہارِ قدر شناسی تو کر سکتے ہیں، مگر یہ توقع ان سے نہیںکی جا سکتی کہ وہ حال کی تدبیر اور مستقبل کی تعمیر کے لیے اس سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت محسوس کریں گے۔ تیسرا اہم نقص اس میں یہ ہے کہ جزئیات کی ناپ تول، مقداروں کے غیر منصوص تعین اور روح سے بڑھ کر مظاہر پر مدارِ دین داری رکھنے کی بیماری اس میں حد سے بڑھ گئی ہے اور وہ غیروںکی تالیف تو کیا کرے گی، الٹی اپنوں کی تنفیر کا باعث بن رہی ہے۔ اس غلط مذہبیت کے علمبرداروں کی زندگی دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر آدمی اس سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ ان کی ابدی فلاح و خُسران کا مدار کیا انھی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہے جن پر یہ لوگ اتنا زور دے رہے ہیں!‘‘( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش، حصہ سوم ص۱۱۴۔تحریک آزادیٔ ہند اور مسلمان، ص۱۰)
’’اسلام کو جس صورت پر میں نے گردوپیش کی مسلم سوسائٹی میں پایا، میرے لیے اس میں کوئی کشش نہ تھی۔ تنقید و تحقیق کی صلاحیت پیدا ہو جانے کے بعد پہلا کام جومیں نے کیا وہ یہی تھا کہ اس بے روح مذہبیت کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکا جو مجھے میراث میں ملی تھی۔ اگر اسلام صرف اسی مذہب کا نام ہوتا جو اس وقت مسلمانوں میں پایا جاتا ہے، توشاید میں بھی آج ملحدوں اور لامذہبوں میں جا ملا ہوتا، کیوںکہ میرے اندر نازی فلسفے کی طرف کوئی میلان نہیں ہے کہ محض حیات قومی کی خاطر اجداد پرستی کے چکر میں پڑا رہوں، لیکن جس چیز نے مجھے الحاد کی راہ پر جانے یا کسی دوسرے اجتماعی مسلک کو قبول کرنے سے روکا اور ازسرِ نو مسلمان بنایا وہ قرآن اور سیرتِ محمدی کا مطالعہ ہے۔ اس کے تجویز کردہ لائحہ عمل (Scheme of Life) میں مجھے ویسا ہی کمال درجہ توازن نظر آیا جیسا کہ ایک سالمہ (Atom) کی بندش سے لے کر اجرامِ فلکی کے قانونِ جذب و کشش تک ساری کائنات کے نظم میںپایا جاتا ہے۔… پس درحقیقت میں ایک نومسلم ہوں۔ خوب جانچ پرکھ کر اس مسلک پر ایمان لایا ہوں جس کے متعلق میرے دل و دماغ نے گواہی دی ہے کہ انسان کے لیے صلاح و فلاح کا کوئی راستہ اس کے سوا نہیں ہے… میرا مقصد اس نام نہاد سوسائٹی کو باقی رکھنا اور بڑھانا نہیں ہے جوخود ہی اسلام کی راہ سے بہت دور ہٹ گئی ہے، بلکہ یہ دعوت اس طرف ہے کہ… آئو ہم اس ظلم و طغیان کو ختم کر دیں… اور قرآن کے نقشے پرایک نئی دنیا بنائیں۔(مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم۔ صفحہ: ۱۵۔۱۶)
یوں مولانا مودودی کا تصورِ اسلام ایک نئی دنیا، ایک پورا ’’عالمِ قرآنی‘‘ اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ اس معاملے میں مودودی کا کام بالکل نیا اور انوکھا نہیں تھا۔ بلکہ اسلام کا یہ جامع تصور ہمارے ملی لٹریچر میں ہمیشہ موجود رہا ہے اور وقتاً فوقتاً اسے ہمارے رجالِ اکابر نکھارتے رہے ہیں۔ ماضی قریب کے مجدد شاہ ولی اللہؒ نے نظام اسلامی کا مکمل تصور قوم کو دیا ہے۔ اس دور کے متاخرین میں مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا آزاد، علامہ اقبالؒ اور دوسرے بے شمار لکھنے اور بولنے والے اسی تصور کی آبیاری کرتے رہے ہیں۔ مولانا مودودی کا کوئی خاص حصہ اس خدمت میں ہے، تو وہ یہ ہے کہ آپ نے اسلامی تصورِ نظام کو بالکل ایک سائنس بنا کر دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔ آپ کی تحریروں اور تقریروں میں ایک ریاضیاتی ذہن کار فرما ہے جو ہر حقیقت کو دو اور دو چار کا مسئلہ بنا کر پیش کرتا ہے۔
دوسری خاص بات یہ ہے کہ مودودی کا تصورِ اسلام نظریاتی( Academic) نہیں ہے۔ وہ ایک کتابی آدمی اور ایک مصنف اور مقالہ نگار کی طرح اسے پیش نہیں کرتا بلکہ ایک عملی آدمی کے ذہن کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ یہ عملی ذہن نظامِ اسلامی کے تخیل میں ایک تحریکیت پیدا کرتا ہے۔ یعنی اس کا تصورِ اسلام ایسا ہے جو اپنے مخالف نظریات و تصورات، ناسازگار ماحول، غلط نظامِ سیاست و تمدن سے ٹکرانا چاہتا ہے، وہ تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے،وہ ظہور پاتے ہی اپنے سرچشمے سے بہنا چاہتا ہے اور چٹانوں کو اپنے اندر ریلنا چاہتا ہے۔ یہ تصور ایک ٹھہرائو رکھنے والی جھیل کی طرح نہیں، ایک بہائو رکھنے والے موّاج دریا کی طرح ہے۔ تصورِ اسلام کو ازسرِ نو اس کی تحریکیت سے مالا مال کر دینا مودودی کا خصوصی کارنامہ ہے۔ اسی سے وہ محض مفکر بنتا ہے۔ مسلمانوں سے اسے گلہ ہے کہ:
’’انھوں نے خود بھی اسلام کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور اسے ایک تحریک (Movement) کے بجائے محض زمانۂ سلف کی ایک مقدس میراث بنا کر رکھ دیا ہے۔‘‘
(مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش، حصہ سوم:۱۸)
اتنا ہی نہیں کہ مولانا مودودی کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اسلام کو ایک تحریک کی سطح سے نیچے اتار کر دیکھنے سے اس کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ اس کی مشہور تفسیر تفہیم القرآن جن خصوصیات کے ساتھ سامنے آئی ہے ان میں مرتبۂ اوّل کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ قرآن کو ایک چلتی ہوئی انقلابی تحریک کے گائڈ کی حیثیت سے پیش کرتی ہے اور اسی تحریک کی عملی تاریخ کے مختلف مراحل کے اندر اس کی وقت وقت کی رہنمائی کو رکھ رکھ کراس کا مفہوم متعین کرتی ہے۔ چنانچہ تفہیم کے بصیرت افروز مقدمے میں قرآن فہمی کے اصول بیان کرتے ہوئے صاحبِ تفہیم نے ایک حقیقت یہ بیان کی ہے کہ:
’’یہ محض نظریات و خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دنیا کے عام تصورِ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رموز حل کر لیے جائیں جیسا کہ اس کے مقدمے کے آغاز میں بتایا جا چکا ہے۔ یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اٹھوائی اور وقت کے علم بردار کفروفسق و ضلالت سے اس کو لڑوا دیا۔ گھر گھر سے ایک سعید روح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعیٔ حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے ایک ایک فتنہ جو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اٹھایا اور حامیانِ حق سے ان کی جنگ کرائی۔ ایک فردِ واحد کی پکار سے اپنا کام شروع کر کے خلافتِ الٰہیہ کے قیام تک پورے تئیس سال یہی کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بنائے۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاع کفرودین اور معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہو جائیں۔‘‘
(مقدمہ تفہیم القرآن، ص:۳۲)
پھر یہ انقلابی مفکر محض تحریکیت کا شعور دلا کر نہیں رہ جاتا، اپنی فکری مہم کے ساتھ ساتھ متوازی طور پر عملی تحریک لے کے چل بھی کھڑا ہوتا ہے، بلکہ درحقیقت وہ سارا فکری کام اسی عملی جدوجہد کے لیے کرتا ہے۔ بالعموم ’’مفکرین‘‘ عملی میدان میں کچھ نہیں کر پاتے، لیکن مولانا مودودی ایک ایسا مفکر ہے جو جیسی فکر دے رہا ہے ویسی ہی تحریک بھی بپا کیے ہوئے ہے۔
مسلم قوم پرستی اور اسلام میں تفریق و تمیز
اکثر لوگ اپنی ذات اور خاندان تک سوچ کر رہ جاتے ہیں، کچھ اور محلے اور پڑوس، شہر اور علاقے کے مسائل سے دلچسپی لیتے ہیں اور اس سے آگے کچھ نہیں سوچ سکتے۔ پھر اور لوگ ہوتے ہیں جو اپنے طبقے اور اپنی پارٹی کی فلاح و بہبود تک نگاہیںاٹھا سکتے ہیں۔ اس درجے کے محدود تفکر سے کوئی مفکر نہیں بنتا۔ مفکرین کا کم سے کم مرتبہ یہ ہے کہ وہ قوم اور ملک کی فلاح و بہبود سے تعلق رکھنے والے مسائل کونگاہ کے احاطے میںلیتے ہیں۔ اس سے آگے بڑھ کر وہ چوٹی کے مفکرین آتے ہیں جو ساری انسانیت سے اپنا رشتہ جوڑ کر ان بنیادی حقیقتوں کو سوچتے ہیں جن سے ہر فرد، ہر قوم اور ہر ملک کا مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ یہ دور نیشنلزم کا دور تھا۔ اور اس میں بے شمار قیمتی دماغ ابھرے، لیکن ان میں سے بیشتر کو نیشنلزم نے اپنے محدود قفس میں لے لیا، ایک قوم، ایک وطن اور ایک نسل سے آگے وہ کچھ نہ سوچ سکے، لیکن اسلام چونکہ ساری نوعِ انسانی کوخطاب کرتا ہے اور ایک عالمی تحریک اور ایک جہانی نظام ہونے کا مدعی ہے، اس لیے اس کا نظامِ جغرافیائی اور قومی اور نسلی حد بندیوں کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ قدرتی طور پر ایک حقیقی اسلامی مفکر سے بھی ہم یہی توقع کرتے ہیں کہ وہ قوم پرستانہ سطح سے بلند ہو کر سوچے گا۔ مودودی کا فکری کارنامہ ہماری اس اُمید کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔ وہ سیاسی کش مکش حصہ اوّل و دوم اور مسئلہ قومیت لکھ کر جہاں ہندستانی نیشنلزم سے لڑتا ہے۔ اور بازی جیت کے دکھا دیتا ہے وہاں وہ پلٹ کر ’’مسلم نیشنلزم‘‘ کے اوپر اس سے زیادہ زوروشدت کے ساتھ حملہ آور ہوتا ہے جو قوم پرستی کے جہانی دور کے زیر اثر آہستہ آہستہ خود مسلمانوں میں پروان چڑھنے لگتا ہے۔ اسلام کو قوم پرستی کے سانچے میں ڈھالنے کی غیر شعوری ابتدا بہت اوپر سے ہوجاتی ہے اور متاخرین میں سے اکثر کو ہم غیر شعوری طورپر اسی ’’مسلم قوم پرستی‘‘ کا محور پاتے ہیںاور تو اور اقبالؒ جیسا مفکر اسلام اور مسلم نیشنلزم کو دیر تک گڈمڈ کر کے چلتا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلم نیشنلزم کے جذبات کے راستے ہی سے اسلام تک پہنچتا ہے، بالکل آخری ایام میں آ کر وہ اس مسلم نیشنلزم کی کنیچلی کو اتار سکا ہے۔ مودودی اپنے وقت کا وہ پہلا شخص ہے جس نے ہمارے اجتماعی عالم افکار کے ان دوگونہ رجحانات کو ایک دوسرے سے جدا جدا کر کے خالص اسلام کو تعین دیا ہے اور مسلم نیشنلزم کے خلاف زبردست فکری معرکہ بپا کر دیا ہے۔ اس کی انقلابی کتاب سیاسی کش مکش کا تیسرا حصہ درحقیقت اسی خاص معرکے کے لیے وقف ہے۔ اس کتاب کی تحریک زا بحثوں کی ایک آدھ جھلک دیکھتے چلیے:
’’بعض لوگ لفظ مسلمان سے دھوکا کھا کر اس غلط فہمی میں پڑ گئے ہیں کہ اصل سوال اسلام کے احیا (Revival) کا نہیں، بلکہ مسلمانوں کے احیا کا ہے یعنی یہ قوم جو مسلمان کے نام سے پائی جاتی ہے اس کو ایک زندہ اور طاقت ور قوم بنانا اور برسرِ عروج لانا اصل مقصود ہے اور اسی کا نام اسلام کا احیا ہے۔ یہ غلط فہمی ان کو مسلم قوم پرستی کی حد تک کھینچ لے گئی ہے جس طرح مونجے اور سادر کر کے لیے سوال ہندو قوم کے عروج کا ہے، جس طرح مسولینی کے لیے اطالوی قوم اور ہٹلر کے لیے جرمن قوم کے عروج کا سوال ہے اسی طرح ان مسلم قوم پرستوں کے لیے اصل سوال اس مسلمان قوم کے عروج کا ہے جس میں یہ پیدا ہوئے ہیں اور جس کے ساتھ ان کی قسمتیں وابستہ ہیں… یہ ذہنیت سرسید احمد خاں کے وقت سے آج تک مسلمانوں کے اکثر و بیشتر رہنمائوں، کارکنوں اور اداروں پر مسلط ہے، اسلام کے نام سے جو کچھ سوچا جا رہا ہے مسلمانوں کے لیے سوچا جا رہا ہے اور اسلام کی قید سے آزاد ہو کر سوچا جا رہا ہے… اگر مسلمان ہونے کی حیثیت سے دیکھا جائے، تو… ہمارے سامنے اصل سوال کسی قوم کے احیا کا نہیں، بلکہ مسلکِ اسلام کے احیا کا ہے۔ قوم کے احیا کا خیال دماغ سے نکالتے ہی وہ تمام مسائل کافور کی طرح اڑ جاتے ہیں جو قومیت کی اصطلاحوں میں سوچنے والے لوگوں کو پریشان کیا کرتے ہیں۔‘‘
(مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش حصہ سوم، ص:۱۲۰۔۱۲۲)
’’اگرچہ ہندستان کے مسلمانوں میں اسلام اور مسلم قوم پرستی ایک مدت سے خلط ملط ہیں لیکن قریبی دور میں اس معجون کا اسلامی جزو اتنا کم اور قوم پرستانہ جزو اتنازیادہ بڑھ گیا ہے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اس میں نری قوم پرستی ہی قوم پرستی نہ رہ جائے۔ حد یہ ہے کہ ایک بڑے ممتاز لیڈر کو ایک مرتبہ اس امر کی شکایت کرتے ہوئے سنا گیا کہ بمبئی اور کلکتہ کے دولت مند مسلمان، اینگلو انڈین فاحشات کے ہاں جاتے ہیں، حالاںکہ مسلمان طوائفیں ان کی سرپرستی کی زیادہ مستحق ہیں۔ اس حدِ کمال کو پہنچ جانے کے بعد اس مسلم قوم پرستی کے ساتھ مزید رواداری برتنا میرے نزدیک گناہِ عظیم ہے۔‘‘
(مسلمان اور موجودہسیاسی کش مکش حصہ سوم، ص: ۸)
’’اس (اسلام) کا منتہائے نظر ایک ایسی جہانی ریاست (World State) ہے جس میں نسلی اور قومی تعصبات کی زنجیریں توڑ کر تمام انسانوں کو مساوی حقوق اور مساوی مواقع ترقی کے ساتھ ایک تمدنی و سیاسی نظام میں حصہ دار بنایا جائے۔‘‘
(مسئلہ قومیت، صفحہ:۲۸)
’’بلکہ یہ اس قسم کی پارٹی ہے جو ایک مستقل نظامِ تہذیب و تمدن (Civilisation) بنانے کے لیے اٹھتی ہے اور چھوٹی چھوٹی تنگ سرحدوں کو توڑ کر عقلی بنیادوں پر ایک بڑی جہانی قومیت (World Nationality) بنانا چاہتی ہے۔‘‘
ان حوالوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مولانا مودودی اس دور میں وہ پہلا شخص بن کر سامنے آیا جس نے اسلام اور مسلم نیشنلزم کی باہمی ترکیب کو شعوری طور پر توڑ ڈالا ہے اور جو اسلام کومسلمان قوم کے نسلی مسلک و مذہب کی حیثیت سے نہیں بلکہ سارے انسانیت کے دینِ فلاح کی حیثیت سے لے کے اٹھا ہے اور جس کے سامنے ایک جہانی ریاست اور واحد انسانی قومیت کا نہایت ہی بلند اور وسیع مطمح نظر ہے۔ کام کا دائرۂ آغاز وہ بھی عملاً مسلمان قوم کو قرار دیتا ہے، لیکن وہ مسلم قوم پرستی کی حدود کو پہلے قدم پر توڑ کر آگے چلتا ہے۔ یہ مولانا مودودی کا ایک امتیازی کارنامہ ہے۔
اجتماعی تقاضے کا تجزیہ
زوال و انحطاط کے عمل سے جب کوئی تحریک یا نظریہ یا مسلک گزرتا ہے، تو اس کے ماننے والوں کی زندگیوں میں مضحکہ خیز تضاد پیدا ہونے لگ جاتے ہیں۔ یہ واقعہ چونکہ اس وقت رونما ہوتا ہے جب فکری جمود کا روگ لگ چکتا ہے، اس لیے ایک ایک کر کے تضاد ابھرتے رہتے ہیں، بے جوڑ چیزوں میں سمجھوتے قائم ہوتے جاتے ہیں۔ متناقض عناصر باہم ترکیب پاتے رہتے ہیں اور کسی کو ان سے کھٹک نہیں ہوتی۔ زندگی کا سارا فساد… چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا… جس بھی دائرے میں واقع ہوتا ہے ہمیشہ تضاد ہی سے واقع ہوتا ہے۔ فرد کے نفسیاتی نظام سے لے کر معاشرے کی سیاسی و اجتماعی ہیئت تک زندگی میں جو خلل بھی آتا ہے بے جوڑ چیزوں کے جمع ہو جانے سے آتا ہے۔ یہ بے جوڑ چیزیں یکے بعد دیگرے جمع ہوتی رہتی ہیں، اور زندگی ایک عجیب معجونِ مرکب بن جاتی ہے، لیکن عام لوگوں کے ذہن ان کے عادی ہو کر اپنے فکرونظر کو فساد زدہ ماحول سے کچھ ایسا سازگار بنا لیتے ہیں کہ پہاڑ پہاڑ جیسے بڑے تضاد محسوس نہیں ہوتے۔ جب تک یہ محسوس نہیں ہوتے، تبدیلی نہیں آتی۔ غیر معمولی درجے کے مفکر ہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو زندگی کے تضادوں کو سمجھ پاتے ہیں اور پھر ان کو تنقید کا نشانہ بنا کر اجتماعی حس کو بیدار کرنے میں لگ جاتے ہیں جس صاحبِ فکر کے کارنامے کا بھی آپ جائزہ لیں، آپ دیکھیں گے کہ وہ زندگی کے کچھ نہ کچھ تضادوں کو نمایاں کرتا ہے جنھیں عام ذہن نے محسوس نہیں کیا ہوتا اور پھر جو صاحبِ فکر کسی ہمہ گیر اوربنیادی تضاد پر انگلی رکھ دیتا ہے، تو وہ مفکرانہ مرتبے میں دوسرے بے شمار اہل فکر سے آگے بڑھ جاتا ہے۔مودودی نے اس ہمہ گیر تضاد کو اُجاگر کیا ہے جو مسلمانوںکی زندگی کے ایک ایک گوشے سے سالہا سال سے اپنا پَر تو ڈالے چلا آ رہا تھا۔ وہ ہے اسلام اور مسلمان کے نام کے ساتھ ان بے شمار نظریوں، خیالات، اعمال وکردار اور نظام ہائے کار کا جوڑ جو قطعاً غیر اسلامی اور غیر مسلمانانہ ہیں۔ امرِ واقعہ ایسا ہے کہ بالکل پیش پا افتادہ ہے۔ ہم سب اس سے ہمہ وقت دو چار ہیں۔ کوئی رازِ نہفتہ نہیں، لیکن ہم چونکہ اس سے ذہنی سازگاری پیدا کر چکے ہیں اس لیے وہ ہمیں کھٹکتا نہیں۔ جب ایک حساس ذہن نمودار ہوتا ہے، تو وہ اس پر یوں گرفت کرتا ہے:
’’بازاروں میں جائیے، مسلمان رنڈیاں آپ کو کوٹھوں پر بیٹھی نظر آئیں گی اور مسلمان چوروں، مسلمان ڈاکوئوں اور مسلمان بدمعاشوں سے آپ کا تعارف ہو گا۔ دفتروں اور عدالتوں کا چکر لگائیے، رشوت خواری، جھوٹی شہادت، جعل، فریب، ظلم اور ہر قسم کے اخلاقی جرائم کے ساتھ آپ لفظ مسلمان کا جوڑ لگا ہوا پائیں گے۔ سوسائٹی میں پھریے کہیں آپ کی ملاقات مسلمان شرابیوں سے ہو گی، کہیں آپ کو مسلمان قمارباز ملیں گے، کہیں مسلمان سازندوں اور مسلمان گویّوں اور مسلمان بھانڈوں سے آپ دوچار ہوں گے۔ بھلا غور کیجیے، یہ لفظ مسلمان کتنا ذلیل کر دیا گیا ہے!‘‘
(مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش حصہ سوم، ص:۲۴)
’’اس سے اونچے تعلیم یافتہ طبقے کی حالت اور بھی زیادہ افسوس ناک ہے… کہیں کوئی صاحب علانیہ خدا اور رسولؐ کا مذاق اڑا رہے ہیںاور اسلام پر پھبتیاں کس رہے ہیں، مگر ہیں پھر مسلمان ہی! ایک دوسرے صاحب خدا اور رسالت اور آخرت کے قطعی منکر ہیں اور کسی مادہ پرستانہ مسلک پر پورا ایمان رکھتے ہیں، مگر ان کے مسلمان ہونے میں کوئی فرق نہیں آتا۔ ایک تیسرے صاحب سود کھاتے ہیںاور زکوٰۃ کا نام تک نہیں لیتے، مگر ہیں یہ بھی مسلمان! ایک اور بزرگ بیوی اور بیٹی کو میم صاحبہ یا شریمتی جی بنائے ہوئے سینما لیے جا رہے ہیں یا کسی رقص و سرود کی محفل میں صاحبزادی سے وایولین (Violin)بجوا رہے ہیں، مگر آپ کے ساتھ بھی لفظ مسلمان بدستور چپکا ہوا ہے… غرض آپ اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کا جائزہ لیں، تو اس میںآپ کو بھانت بھانت کا مسلمان نظر آئے گا، مسلمان کی اتنی قسمیں ملیں گی کہ آپ شمار نہ کر سکیں گے۔ یہ ایک چڑیا گھر ہے جس میں چیل، کوے، گدھ، بٹیر، تیتر اور ہزاروں قسم کے جانور جمع ہیں اور ان میں ہر ایک ’’چڑیا‘‘ ہے، کیوںکہ چڑیا گھر میں داخل ہے۔‘‘
(مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش حصہ سوم، ص: ۲۵۔۲۶)
’’پھر لطف یہ کہ یہ لوگ اسلام سے انحراف کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ ان کا نظریہ اب یہ ہو گیا ہے کہ مسلمان جو کچھ بھی کرے وہ اسلامی ہے، حتیٰ کہ اگر وہ اسلام سے بغاوت بھی کرے، تو وہ اسلامی بغاوت ہے۔ یہ (سودی) بینک کھولیں، تو اس کا نام اسلامی بینک ہو گا(واضح رہے کہ آج کی معاشیاتی اور مالیاتی ضروریات کے لحاظ سے مولانا مودودیؒ بنکنگ کی ضرورت کے قائل ہیں، مگر وہ اس کا سود کے سسٹم کا چلنا خلاف اسلام مانتے ہیںاور اسے ایک دوسرے طرز پر قائم کرنے کی ضرورت کا احساس دلاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی کتاب سود حصہ اوّل و دوم میں تفصیلات ملاحظہ فرمائیں)۔ یہ انشورنس کمپنیاں قائم کریں گے، تو وہ اسلامی انشورنس کمپنی ہو گی۔ یہ جاہلیت (غیر مسلم) کی تعلیم کا ادارہ کھولیں، تو وہ مسلم یونیورسٹی ، اسلامیہ کالج یا اسلامیہ اسکول ہو گا۔ ان کی کافرانہ ریاست (اسلام کے خلاف کسی دوسرے اصول اور نظریے پر چلنے والی ریاست) کو اسلامی ریاست کے نام سے موسوم کیا جائے گا۔ ان کے فرعون اور نمرود اسلامی بادشاہ کے نام سے یاد کیے جائیں گے۔ ان کی جاہلانہ زندگی اسلامی تہذیب و تمدن قرار دی جائے گی۔ ان کی موسیقی، مصوری اور بت تراشی کواسلامی آرٹ کے معزز لقب سے ملقب کیا جائے گا۔ ان کے زندقے اوراوہامِ لاطائل کو اسلامی فلسفہ کہا جائے گا۔ حتیٰ کہ سوشلسٹ بھی ہو جائیں، تو مسلم سوشلسٹ کے نام سے پکارے جائیں گے۔ ان سارے ناموںسے آپ آشنا ہو چکے ہیں۔ اب صرف اتنی کسر باقی ہے کہ اسلامی شراب خانے، اسلامی قحبہ خانے اور اسلامی قمار خانے جیسی اصطلاحوں سے بھی آپ کا تعارف شروع ہو جائے۔ مسلمانوں کے اس طرزِ عمل نے اسلام کے لفظ کو اتنا بے معنی کر دیا ہے کہ ایک کافرانہ چیز کو اسلامی کفر یا اسلامی معصیت کے نام سے موسوم کرنے میں اب کسی کو تناقض فی الاصطلاح (Contradiction in terms) کا شبہ تک نہیںہوتا حالاںکہ اگرکسی دکان پر آپ ’’سبزی خوروں کی دکانِ گوشت‘‘ یا ’’ولایتی سودیشی بھنڈار‘‘ کا بورڈ لگا دیکھیں یا کسی عمارت کا نام ’’موحدین کا بت خانہ‘‘ سنیں تو شاید آپ سے ہنسی ضبط نہ ہو سکے گی۔‘‘
(مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش حصہ سوم، ص:۲۶)
’’میں مسلمان صرف اس وقت تک ہوں، جب تک زندگی کے ہر معاملے میں اسلامی نظریہ رکھتا ہوں، جب میں اس نظریے سے ہٹ گیا اور کسی دوسرے نظریے کے طرف چلا گیا، تو میری جانب سے یہ سراسر بے شعوری ہو گی، اگر میں یہی سمجھتا رہوں کہ اس نئے مقام پر بھی مسلمان ہونے کی حیثیت میرے ساتھ لگی چلی آئی ہے۔مسلمان ہوتے ہوئے غیر اسلامی نظریہ اختیار کرنا صریح بے معنی بات ہے۔ ’’مسلمان نیشنلسٹ اور مسلمان کمیونسٹ‘‘ ایسی ہی متناقض اصطلاحیں ہیں جیسے ’’کمیونسٹ فاشسٹ‘‘ یا ’’جینی قصائی‘‘ یا ’’اشتراکی مہاجن‘‘ یا ’’موحد بت پرست۔‘‘
(مسئلہ قومیت، ص:۶۸)
مولانا مودودی کی یہ وہ تحریریں ہیں جنھوں نے مسلم نوجوانوں کے اندر ان کی سوئی ہوئی خودی اور ان کے جمود زدہ احساس کو ٹہوکے لگا کر جگا دیا ہے، ان کو اپنے تشخص کا شعور دیا ہے۔ ان کواس اصل فساد سے آگاہ کر دیا ہے جس سے مسلم سوسائٹی اور مسلم فکر دوچار ہے، ان کو فکر و عمل کے وہ راستے دکھائے جن پر چل کر وہ نوعِ انسانی کے ارتقا میں مؤثر حصہ ادا کرنے والی اور تاریخ بنانے والی ایک نظریاتی و تحریکی طاقت بن سکتے ہیں۔
فکری استقلال کا داعی
اسلامی فکر کو مسلم نیشنلزم سے الگ کر کے اور تضادوں کے گھنائونے داغوں سے پاک کر کے مولانا مودودی نے ایسے دور میں پیش کیا ہے جو پوری دنیا میں نظریاتی اور فکری اور تہذیبی کش مکش کا ایک دور تھا۔ اشتراکیت اور فسطائیت اور جمہوریت کے مختلف تصورات مشرق و مغرب میں باہم آویزاں تھے۔ تاریخ کے سمندر میں مختلف سمتوں سے لہریںاٹھ اٹھ کے ٹکرا رہی تھیں۔ اورنئے نئے بھنور بن رہے تھے اور ان بھنوروں سے پھر نئی لہروں کے دائرے پھیل رہے تھے، ہر فکر اور تحریک اپنے راستے نکالنے اور دنیا کو مفتوح کرنے کے لیے زور کر رہی تھی۔ فکروں اور تحریکوں کے یہ ریلے مشرقی اقوام، بالخصوص مسلمانوں کے ذہنوں سے بھی آ آ کر ٹکرا رہے تھے، بدقسمتی سے جدید مادہ پرستانہ تہذیب و فکر جو مختلف ریلے پیدا کر رہی تھی ہمارے ہاں مغربی قوموں کے سیاسی تسلط اور امپیریلزم کے جلو میں آئی ہے۔ ہم اس سے ہر جگہ غلامی اور بے بسی اور پسماندگی کی حالت میں دوچار ہوئے ہیں۔ہر جگہ ہم نے اس کا چیلنج انتہائی زوال کے گڑھے میں گرنے کے بعد سنا ہے، اور کہیں بھی ٹکر برابر سرابرکی نہیں تھی، چنانچہ سیاسی شکست کے ساتھ ساتھ ہماری ذہنی شکست کا آغاز ہو گیا۔ غنیمت بس یہ تھا کہ معرکۂ کش مکش کسی نہ کسی درجے میں جاری رہا۔ ایک سخت جان عنصر شروع ہی سے ہمارے اندر ایسا موجود تھا جس نے زمانے کی ہوا کے حوالے ہو جانے والوں کے بالمقابل زمانے کے دھارے کے خلاف پیرنے کی جسارت کر دی۔ اس کے ساتھ امپیریلزم اور بیرونی اقتدار کے خلاف روزافزوں نفرت بھی معاون ہوئی، مگر جدید فکروتہذیب کی یلغار بڑی سخت تھی۔ اس کے مقابلے میں دلوں اور دماغوں نے سپر ڈال دی۔ اس کے سامنے نگاہِ تنقید ایسی جھکی کہ بالکل زمین میں گڑ کے رہ گئی۔ ایک طرف تعلیم کا تیزاب تھا جو فولاد کی خودی کو بھی گھلائے دے رہا تھا۔ دوسری طرف لٹریچر کا سیلاب تھا جو سروں سے اونچا ہو کر بہہ رہا تھا۔ تیسری طرف سائنس کی ترقیات کے ہوش ربا شعبدے تھے جو ہوش اڑا رہے تھے۔ چوتھی طرف ایک نیا کلچر تھا جس کی شانِ دل ربائی بری طرح رِجھا رہی تھی، پانچویں جانب مادی طاقت کے وہ دل دہلا دینے والے مظاہر تھے جن سے بھونچال آ رہا تھا۔ ان مؤثرات کے اندر گھِر جانے پر ہمارے اوپر وہ مرعوبیت چھائی کہ ہم نے اپنے چشم و گوش سے دیکھنا سننا اور دماغوں سے سوچنا بالکل چھوڑ دیا، اپنے نظریات کے بارے میں ہم شک میں پڑ گئے، اپنے دین سے ہمیں عار آنے لگی، اپنے سرمایۂ روایات و اقدار نے ہماری نگاہوں میں قیمت کھو دی، جیسے ہم اپنی بنیادوں سے بالکل اکھڑ گئے اور ہوا کے جھونکوں پراڑنے والے تنکے بن گئے۔ ہم نے مرعوبیت کے اس طلسم میں سمجھا کہ تری، خیر، فلاح اور سچائی وہ ہے جو یورپ سے آئے۔ہم نے ذہنی غلامی کے اس سحر میں مبتلا ہو کر یہ مستقل تاثر لے لیاکہ یورپ کی نئی زندگی ایک بالکل بے عیب زندگی ہے۔ ہم نے غیر شعوری رائے یہ قائم کر لی کہ جس کے پاس طاقت ہے، اس کے نظریات بھی برحق ہیں۔ اس عالم میں ہمارے مذہبی حلقوں نے بلاشبہ مدافعت کی سعی جاری رکھی ہے۔ لیکن زمانہ انھیں پیچھے چھوڑتا جا رہا تھا۔ اچانک اقبالؒ ہمارے ملی محاذ پر ابھرا۔ ہمارے عالمِ افکار کا یہ شاہین، یہ عقاب چونکہ اس علم سے خود آراستہ، اس فکر کارازداں اور اس تہذیب کا خود غواص تھا جس سے معرکہ درپیش تھا، اس لیے جب اس نے آ کر مورچہ سنبھالا اور ’’دورِ حاضر کے خلاف‘‘ اعلان جنگ کر دیا، تو کش مکش کا پانسہ پلٹنے لگا۔ نوجوان نسل کے جذبات نے بالکل نئی کروٹ لی اور ملّی شعور ایک نیا موڑ مڑ گیا۔ اقبالؒ کے کام سے آگے کی مہم کو مودودی نے سنبھال لیا۔ اس نے تفصیل سے جدید افکار، جدید تہذیب اور جدید نظاموں پر تنقید کی اور براہِ راست اس سیلاب کو سمجھ کر تنقید کی۔ مسلمانوں کی اس تاریخی حالت کا تجزیہ کر کے ان کے سامنے رکھا جس کے زیر اثر وہ ایک خاص طرح کی محکومانہ نفسیات کا شکار ہو رہے تھے، پھر مثبت طور پر اسلامی آئیڈیالوجی اور نظام کے ایک ایک پہلو کی قدروقیمت کو ان پر واضح کیا اور اسی سائنٹیفک معیار استدلال سے واضح کیا جو اس دور کا معیار تھا۔ اس مہم کے نتیجے میں ’’احساس کہتری‘‘ کا توندا اور بقولِ مودودی ’’یرقانِ ابیض‘‘ ان کی آنکھوں سے دور ہوا۔ انھوں نے نگاہیں اٹھا کر ازسرِ نو جو غور کیا، تو وہ اپنے آپ کو ازسرِ نو جان کر حیرت میں رہ گئے ہیں کہ ہیں، ہم یہ کچھ ہیں:
مودودی دیکھ رہا تھا کہ آزادی کی تحریک اٹھ رہی ہے، انقلاب آنے والا ہے، اگر ٹھیک وقت پر مسلمانوں کو فکری مرعوبیت اور احساسِ کہتری اور ذہنی غلامی اور مغرب کی اندھی تقلید سے نکال نہ لیا گیا، تو انقلاب آ جانے کے بعد تعمیرِ نو بالکل غلط نقشے پر شروع ہو جائے گی اور پھر سالہا سال تک نہ تو قوم کو اپنی ملی خودی کو زندہ کر کے اپنی دنیا آپ بنانے کی توفیق ملے گی اور نہ خود اسلام ہی کے اٹھنے کا کوئی امکان باقی رہے گا۔ اس لیے اس نے اس کشمکش میں مسلمانوں کی ذہنی اسلحہ بندی کے لیے پوری پوری محنت و کاوش صرف کی ہے۔ اس محنت و کاوش کے نتائج یوں تو مودودی کی ایک ایک سطر میں گھُلے ہوئے ہیں، لیکن خصوصیت سے جو کتاب خاص اسی کش مکش کے زیرِاثر لکھی گئی ہے۔ وہ تنقیحات ہے۔ تنقیحات وہ مربوط مجموعہ مقالات ہے جو ان تمام سوالات اور اعتراضات اور ان تمام شکوک اور غلط فہمیوں پر بحث کرتی ہے جن سے مسلمان دوچار تھے۔
مولانا مودودی وہ شخص ہے جس نے نظریات کے میدان میں ہم کو دوسروں کا بھکاری بنے دیکھا اور ہاتھ پکڑ کے وہ ہمیں اپنے گھر کے ان قیمتی خزانوں تک لے آیا جن کو ہم فراموش کر چکے تھے یا جن کی قدروقیمت ہماری نگاہوں میں ختم ہو رہی تھی اب ہم محسوس کرتے ہیں کہ اپنی زندگی ہی کا نہیں، اپنی ترقی ہی کا نہیں، اپنی فلاح ہی کا نہیں، ساری نوعِ انسانی کی زندگی اور ترقی اور فلاح کا سروسامان ہمارے اپنے پاس ہے۔ اب ہم نہ سرمایہ دارانہ نظام کے در کے بھکاری ہیں، نہ اشتراکی فکرو تمدن کی بارگاہ کے سائل،بلکہ اب ہم کسی سے لینے کے بجائے دوسروں کو وہ کچھ دینے والے ہیں جو ان کے پاس نہیں ہے۔ اب ہمیں وہ مقام ملا ہے جس پر آئے بغیر کوئی گروہِ انسانی ترقی اور فتوحات کے دروازے اپنے لیے کھول نہیں سکتا۔ اب ہمیں اس ’’سم سم‘‘ کی کنجی ہاتھ آئی ہے جس سے ہم ایک نئی دنیا کے تالے کھول سکتے ہیں۔ اب ہم بھی خودشناس ہیں۔اب ہماری آنکھوں میں نگاہِ تنقید کی نئی چمک ہے، اب ہم اپنے دین کے بارے میں کسی احساس کہتری میں مبتلا نہیں ہیں، بلکہ الٹا ایک فخراور ایک برتری کا احساس اپنے اندر پاتے ہیں، اب ہمارا اندازِ گفتگو معذرت خواہانہ (Apologatic) نہیں رہا، بلکہ داعیانہ ہے۔
ذہن کا حسنِ تربیت
بہت سے وہ لوگ ہمارے اندر موجود ہیں جو معلومات کے سمندر کے سمندر دماغ میں اتارے جاتے ہیں جن کا مطالعہ غیر معمولی حد تک وسیع ہوتا ہے، لیکن جو زندگی کی کوئی ایک گرہ سلجھا نہیں سکتے اور کسی ایک مسئلے کے صحیح حل کا راستہ نہیں نکال سکتے کتابیں لکھتے ہیں اور بے حساب لکھتے ہیں۔ مقالات نگاری کرتے ہیں اور بڑے اونچے معیار پر کرتے ہیں، ساری ساری عمر جرائد نکالتے ہیں اور بڑی مقصدیت کے ساتھ نکالتے ہیں۔ اخبار نویسی کرتے ہیں اور زور دار طریقے سے کرتے ہیں، لیکن زندگی جن الجھنوں میں گھری ہے، دماغ جن پیچیدگیوںمیں مبتلا ہے خیالات جس طرح متصادم ہیں، مسائل جس طرح پیچ در پیچ ہیں، ان کے برسوں کے کارناموں کے بعد بھی سب کچھ جوں کا توں رہتا ہے اور کوئی ایک گرہ نہیں کھول سکتے، بلکہ الٹا سیکڑوں گرہیں ڈال کر رخصت ہوتے ہیں۔ جس انتشار کے سمندر میں سوسائٹی غوطے کھا رہی ہوتی ہے ان کے کارنامے اس کی طوفان خیزیوںمیں کچھ اضافہ ہی کرتے ہیں کمی نہیں کر سکتے، وجہ کیا ہے؟
وجہ یہ ہے کہ وہ نہ اپنے ذہن کا جائزہ لے کر اسے منظم کر سکتے ہیں، نہ حاصل شدہ معلومات اور ذخیرۂ علم کو اس میں اچھی ترتیب سے رکھ سکتے ہیں، نہ کسی مسئلے، کسی بحث، کسی سوال، کسی حالت، کسی کش مکش، کسی تاریخی دور، کسی تحریک اور کسی تہذیب کا صحیح تجزیہ کر کے اس پر مرتب طریق سے غوروفکر کر سکتے ہیں، ان کا اپنا ذہن ایک کباڑخانہ ہوتا ہے جس میں کیل، پرزے، بوتلیں، کپڑے، برتن لیمپ، ہیرے، موتی، سبھی طرح کی چیزیں بے ڈھب طریقے سے بکھری ہوتی ہیں۔ اس غیر مرتب اور غیر منظم ذہن کے ساتھ وہ مسائل و حالات کا کبھی صحیح تجزیہ نہیں کرسکتے، بلکہ انتشار سے چلتے ہیںاور سارا راستہ اپنی بے شمار قیمتی معلومات اور بے شمار لایعنی مزخرفات کو بکھیرتے ہوئے ایک خطرناک انتشار پر جا کے سفر ختم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ معلوماتی مفاد کے سرمایہ دار ہونے کے باوجود کبھی مفکر نہیں بن سکتے۔
مودودی کو مفکرانہ مرتبے پر لانے والی ایک خصوصیت اس کا یہی منظم اور مرتب ذہن ہے۔ عملی تجربات ومشاہدات، کتابی مطالعے اور ذاتی غوروتفکر سے وہ جو موادِ معلومات بھی حاصل کرتا ہے۔ وہ بہترین سارٹنگ کے ساتھ اس کے ذہن میں جگہ پاتا ہے۔ اس منظم اور مرتب ذہن کے ساتھ جب وہ کوئی کام کرنے لگتا ہے، تو اس کا سب سے بڑا کمال ماہرانہ تجزیہ ہے۔ وہ معاشرے کو لے گا، تو اس کے عناصر کا تفصیلی تجزیہ کرے گا۔ وہ کسی بحث میں حصہ لے گا، تو پہلے موضوعِ بحث اور میدانِ بحث کا تجزیہ کرے گا۔ وہ کسی فکرونظام پر بات کرے گا، تو بات کرنے سے پہلے اس کا تجزیہ کرے گا، وہ کسی سوال سے دو چار ہو گا تو سوال اور اسے پیدا کرنے والے ذہن کا تجزیہ کرے گا، وہ کسی سے مخاطب ہو گا، تو اس کی نفسیاتی کیفیت کا تجزیہ کرے گا، وہ کام کرنے کے لیے کوئی پروگرام اختیار کرے گا، تو لازماً اس پروگرام کا تجزیہ کر کے اس کے ایک ایک حصے کے لیے منصوبہ بندی کرے گا۔ ہمارا معاشرہ جس پست ذہنی سطح پر ہے اور جس طرح کی فکری کش مکش سے دوچار ہے اور جو ذہنی انتشار اس میںشائع و ذائع ہے اس کی وجہ سے جو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلے تو وہ خود الجھ جاتے ہیں، پھر ان کے جو جواب دیے جاتے ہیں وہ سوال سے بھی زیادہ الجھ کر سامنے آتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ وہ سوال تو لاینحل ہو کے رہ گیا۔ کچھ دوسرے سوال اٹھ کھڑے ہوئے اور وہ پہلے سے بھی زیادہ الجھے ہوئے نکلے۔
مودودی کے لٹریچر کو پڑھیے، اس کے خطوط کو دیکھیے۔ اس کی تقاریر سنیے، ہر جگہ آپ کو حالات اور مسائل کے ایسے تجزیے کے آثار ملیں گے جن کے تحت ایک ایک بات بالکل اپنی فطری ترتیب میں آئے گی اور سلسلۂ خیالات کی ہر کڑی کا ربط دوسری کڑی سے منطقی قسم کا ہو گا، وہ اپنے خیالات کا سفر کبھی بھی منحنی خطوط پر نہیں کرتا، بلکہ پہلے نقطۂ آغاز کو اور غایتِ آخر کو قطعی یقین سے سامنے رکھ لیتا ہے، پھر ایک ایک قدم بالکل خطِ مستقیم میںرکھتا ہوا اپنا سفر ختم کرتا ہے۔ یہ راست فکری (Straight Thinking) اور راست کلامی اس کا ایک بڑا ہی قیمتی کمال ہے۔ جس کے بغیر وہ عالم تو ہو سکتا ہے، مفکر نہیں ہو سکتا تھا۔
مودودی کی یہ وہ خصوصیت ہے کہ اس کے لٹریچر کو کچھ عرصہ تک پڑھنے والے لوگ بھی اس سے اثر اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
مودودی ایک وسطی مقام
اب مجھے اس کے مفکرانہ مقام کے بارے میں صرف ایک پہلو اور واضح کرنا ہے۔ تاریخی شخصیتوں میں دیکھنے کی ایک چیز یہ ہوتی ہے کہ تاریخی حالات اور معاشرے کے مختلف عناصر کے اندر وہ کون سی پوزیشن لیتے ہیں۔ اس لحاظ سے مودودی کا مقام بڑا ہی اہم ہے۔ ہماری سوسائٹی نظریات اور کلچر کے لحاظ سے دو حصوں میں بری طرح بٹ رہی تھی۔ ایک طرف مذہبی عناصر تھے جو زندگی کے نظام سے بے تعلق ہو کر فسادِ ماحول کے خلاف ایک منفعلانہ اور منفی قسم کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ دوسری طرف جدید طبقہ تھا جو اسلام سے باغی ہو کر نہیں، تو کم ازکم بے نیاز ہو کر زندگی کے اجتماعی نظام کو اندھا دھند چلائے جا رہا تھا۔وہ زندگی کی گاڑی کونصب العین کی طرف لے جانے کا راستہ جانتے تھے،مگر اس کی ڈرائیونگ کا ان کو عملی تجربہ نہیں رہا تھا، یہ گاڑی چلانا جانتے تھے مگر راستہ بھول چکے تھے۔ ایک کو دین کی حقیقتوں کا علم تھا، مگر جدید حالات اور جدید نظریات سے بے ربطی تھی، دوسرے کو جدید حالات ونظریات کی مہارت تھی مگردین کا ماہرانہ علم نہیں تھا… انگریزی استیلا نے پہلے تو ان دونوں کو دین و سیاست کی تفریق کے نظریے پر کام کر کے باہم دگر پھاڑ دیا اور پھر آہستہ آہستہ ان کو حریف بنا ڈالا۔ دونوں کے درمیان ایک دوسرے سے لین دین کا سلسلہ ختم ہو گیا، الٹا تنفراور کھینچاتانی کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ ادھر یہ دعویٰ کہ دین کا ہم علم رکھتے ہیں تم کوہماری رہنمائی ماننی چاہیے۔ اُدھر سے یہ مطالبہ کہ زندگی کا جو نظام ہم اپنے روشن دماغوں سے چلا رہے ہیں، اس دور میں ذریعۂ ترقی ہے، لہٰذا دین کو بھی اگر رہنا ہے، تو اپنے آپ کو اس سے ہم آہنگ کرے۔اس کھینچا تانی نے آہستہ آہستہ دونوں اہم عناصر کے درمیان طبقاتی بُعد پیدا کرنا شروع کیا۔ تعلیمی مراکز الگ ہو گئے، تنظیمی ہئتیں الگ الگ ہو گئیں۔ لباس اور کلچر الگ الگ ہو گئے۔ بولیاں اوردلچسپیاں الگ الگ ہو گئیں، مسائل اور سرگرمیاں الگ الگ ہو گئیں، یعنی بجائے اس کے کہ معاشرہ اپنی ساری طاقت جمع کر کے ناپسندیدہ حالات اور بیرونی اثرات سے کش مکش کرے اور کسی طرح نقشے پر تعمیر نو کرنے کی تیاریاں کرے، الٹا اس کی دو قیمتی طاقتیں کہ جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی صلاحیت سے آراستہ تھی۔ آپس میں معرکہ آرا ہوتی نظر آئیں۔ دونوں طرف ایک نہ ایک قسم کی کوتاہیاں موجود تھیں اور دونوں طرف کسی نہ کسی طرح کی انتہا پسندیاں کار فرما تھیں۔ حد یہ کہ ان کے ہاں ’’مولوی‘‘ کا لفظ گالی بنا دیا گیا اور ان کے ہاں ’’مسٹر‘‘ کا لفظ ملاحی بن گیا۔ زوال اور غلامی میں مبتلا ہونے والی قوموں کوایسے تباہ کن حالات سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔
لیکن مودودی وہ پہلا شخص ہے جس نے وہ خطِ اعتدال فراہم کر دیا جس پر دونوں طرف کے لوگ آ کر شانہ بشانہ کھڑے ہوں اور تاریخ سازی میں اپنے حصے کو ادا کر سکیں۔ ان کی اصل وجہ یہ تھی کہ مودودی دونوں طرف کے علوم سے بہرہ اندوز تھا(جو لوگ مولانا مودودیؒ کو گالی دینے کے لیے ’’مُلاّ‘‘ کہتے ہیں ان میں سے اکثر کو شاید انگریزی زبان کی اتنی کتابیں سرسری نظر سے دیکھنے کا موقع بھی نہ ملا ہو گا جو اس شخص کی لائبریری میں ہیںاور جن میں سے بے شمار کے صفحات پر اس کے نشانات اور حاشیے لکھے ہوئے ہیں)، دونوں طبقوں کو دیکھ بھال کے آ رہا تھا۔ دونوں کی خوبیاں اور دونوں کی کمزوریاں اور دونوں کا جو ہر مشترک اس کے سامنے واضح تھا، چنانچہ خود اپنے بارے میں اسی کے الفاظ دیکھیے:
’’فاضل تنقید نگار (مراد ہیں خان بہادر نواب ذکا اللہ مرحوم جنھوں نے سیاسی کش مکش کے مباحث پر تنقیدیں لکھی ہیں) اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ میں گر وہ علما میں سے ہوں، اور ’’مولوی‘‘ ہونے کی حیثیت سے جدید تعلیم اور جدید تعلیم یافتہ گروہ پر حملہ کر رہا ہوں، لیکن ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ مجھے گروہِ علما میں شامل ہونے کا شرف حاصل نہیں ہے۔ میں ایک بیچ کی راس کا آدمی ہوں جس نے جدید اور قدیم دونوں طریقہ ہائے تعلیم سے کچھ کچھ پایا ہے اور دونوں کوچوں کو خوب چل پھر کردیکھا ہے۔ اپنی بصیرت کی بنا پر نہ تو میں قدیم گروہ کو سراپا خیر سمجھتا ہوں اور نہ جدید گروہ کو۔ دونوں کی خامیوں پر میں نے آزادی کے ساتھ تنقید کی ہے، اس لیے میرا کوئی خاص رشتہ کسی گروہ سے نہیں ہے۔‘‘(ترجمان القرآن، جلد ۱۴ عدد۳، صفحہ: ۲۲۷)
یعنی مولانا مودودی نے دونوں گروہوں کی طبقاتی پوزیشن میں سے کسی کو قبول نہیں کیا، دونوں کے بیچ میں ایک مقام پر کھڑے ہو کر دونوں پر ضروری تنقید کی ہے۔ دونوں کے اندر جو پہلو کام کے ہیں ان کی اہمیت واضح کی ہے، جو کمزوریاں ہیں ان کو بے نقاب کیا ہے۔ اور پھر دونوں کے سامنے اپنی دعوت اس طرح رکھی ہے کہ اس میں کچھ وجوہِ جاذبیت اُدھر والوں کے لیے ہیں۔ کچھ اِدھر والوں کے لیے مثلاً مولانا مودودی اصول تو اسلام سے لینا چاہتے ہیں اور اس میں اٹل ہو کر بات کرتے ہیں، لیکن دوسری طرف اس اصول پر کام کرنے کے لیے اجتہادی نقطۂ نظر کو لازم قرار دیتے ہیں۔ وہ نظریۂ زندگی تو سو فیصد اسلامی رکھتے ہیں، لیکن عملاً زندگی کا نظام بنانے میں جدید ذرائع و وسائل، ادارات کی جدید اشکال اور ڈھانچوں، نئے دور کی علمی ترقیوں، سب سے کام لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ جدید علوم سے استفادہ ضروری قرار دیتے ہیں، مگر یہ ضرور چاہتے ہیں کہ ان کے مرکزی نظریے کو ہٹا کر اس کی جگہ اسلامی نظریہ رکھ دیا جائے۔ وہ دعوت تو جوں کی توں وہی لیتے ہیں جو قدیم سے قدیم انبیا سے لے کر اب تک ایک ہی رہی ہے، مگر اسے پیش کرنے کے لیے جدید انداز، جدید اسلوب، جدید زبان اور جدید پیرایوں کا اختیار کرنا لازم مانتے ہیں۔ وہ قانون کے اصول شریعتِ اسلامیہ ہی سے لینا چاہتے ہیں، مگر دوسری طرف گذشتہ دور کی طے شدہ فقہی جزئیات کو ان اصولوں کے ساتھ دوامی شریعت کی حیثیت دینے پر تیار نہیں ہیں۔ وہ دستور کے لیے آئیڈیالوجی تو بلا آمیزش خدا اور رسولؐ سے لیتے ہیں، لیکن اس کام کے کرنے کے لیے جدید حالات کے تقاضوں کے مطابق کوئی سا موزوں خارجی ڈھانچہ مرتب کر لینے کے حق میں ہیں۔
ایک وسطی مقام سے مولانا نے اپنی دعوت دونوں عناصر کو یکساں پیش کی ہے اور دونوں سے کام کے آدمی حاصل کیے ہیں، مگر ان کا عملی تجربہ یہ ہے کہ دعوت پر لبیک کہنے، اس کے سانچے میں کردار کو ڈھالنے اور اس کے لیے جدوجہد کرنے کے لحاظ سے جدید طبقے نے بہت زیادہ اور بہت کام کے آدمی فراہم کیے ہیں، چنانچہ اب بھی نوجوان طلبہ کے حلقوںمیں یہ دعوت جس طرح اپنے راستے تیزی سے بنا رہی ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یا تو اس دعوت میں جدید طبقے کے لیے اپیل نسبتاً زیادہ ہے، یا جدید طبقے میںکام کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے۔ غالباً یہ دونوںہی باتیں ہیں۔
مودودی دنیا کے ان خوش نصیب مفکروں میں سے ہے جن کی فکر ان کی زندگی میں عملی تحریک کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس میں تاریخی احوال کے عمل کا بھی بڑا حصہ ہے۔ اور اس کاوش اور جدوجہد کا بھی بڑا حصہ ہے جو مولانا مودودی نے سالہا سال صبر اور بے لوث اخلاص کے ساتھ حالات پر اثرانداز ہونے کے لیے صرف کی ہے۔ آج جب کہ مودودی کی فکر ایک کتابی دعوت کے درجے سے بلند ہو کر ایک وسیع تحریک کی شکل میںکام کر رہی ہے۔ مودودی کی اپنی اہم اور قیمتی شخصیت اس تحریک کے ہوتے ہوئے ثانوی مقام پر چلی گئی ہے۔ اب اصل چیز یہ تحریک ہے اور مودودی اس کا ایک کارکن ہے… چاہے کسی بھی درجے کا کارکن ہو!
اس مودودی کے بارے میں جو لوگ کسی سیاسی جزئی معاملے میں اس کی رائے یا تقریر… وہ بھی متعصب اخبار نویسوں کی مسخ کردہ… پڑھ کر ایک مستقل رائے قائم فرما لیتے ہیں اور پھر اسی رائے کی عینک لگا کر آیندہ کی ہر چیز کو دیکھتے چلے جاتے ہیں، کاش کہ انھیں بتایا جا سکتا کہ ایسی شخصیتوں کے بارے میں رائے قائم کرنے کا طریقہ یہ نہیں ہوتا۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن سے اختلاف کرنے والے بھی ان کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے کام کا مطالعہ کرتے ہیںاور ان کو ملک و قوم کے لیے باعثِ عزت سمجھتے ہیں۔
…٭…
نعیم صدیقی