ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔
عرضِ ناشر
سرمایہ دارانہ نظام نے زندگی کے مختلف شعبوں میں جو بگاڑ پیدا کیا ہے اُس کا سب سے بڑا سبب سود ہے۔ ہماری معاشی زندگی میں سود کچھ اِس طرح رچا بسا دیا گیا ہے کہ لوگ اس کو معاشی نظام کا ایک لازمی عنصر سمجھنے لگے ہیں اور اس کے بغیر کسی معاشی سرگرمی کو ناممکن سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ اُمت یعنی اُمتِ مسلمہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں سود مٹانے کے لیے مامور کیا تھا، جس کو سود خواروں سے اعلان جنگ کرنے کا حکم دیا تھا، اب اپنی ہر معاشی اسکیم میں سود کو بنیاد بنا کر، سود خوری کے بڑے بڑے ادارے قائم کر رہی ہے اور سودی نظام کو استحکام بخش رہی ہے۔
سودی نظام کے اسی ہمہ گیر اِستیلا کے پیش نظر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جن کی زندگی کا مشن ہی غیر اسلامی نظریہ و نظام کو اکھاڑ پھینکنا ہے، اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور اس کے ہر پہلو پر اس تفصیل کے ساتھ ایسی مدلل بحث کی ہے کہ کسی معقول آدمی کو اس کی حرمت و شناعت میں شبہ باقی نہ رہے۔ اس کتاب میں سود پر نہ صرف اسلامی نقطۂ نظر سے بحث کی گئی ہے بلکہ معاشی نقطۂ نظر سے بھی یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ یہ ہر پہلو سے انسانی معاشرے کے لیے مضرت رساں اور تباہ کن ہے۔ اس طرح یہ کتاب اسلامی لٹریچر میں ہی نہیں، معاشی لٹریچر میں بھی ایک بیش بہا اضافہ ہے۔
ہمیں اُمید ہے کہ معاشیات سے دلچسپی رکھنے والے حضرات عموماً کالجوں، یونیورسٹیوں میں معاشیات کے طلبا اور کاروباری حضرات خصوصاً اس کا مطالعہ کریں گے۔ ہمیں توقع ہے کہ ان شاء اللہ یہ کتاب سودی نظام کے چکر سے نکلنے کے لیے حد درجہ مفید و معاون ثابت ہوگی۔
منیجنگ ڈائریکٹر
دیباچہ ترتیب جدید
یہ کتاب میرے اُن مضامین کا مجموعہ ہے جو میں نے ۱۹۳۶ء سے ۱۹۶۰ء تک مختلف زمانوں میں سود کے موضوع پر لکھے ہیں۔ اس سے پہلے ’’سود‘‘ کے نام سے میری ایک کتاب دو جلدوں میں طبع ہوئی تھی لیکن اس کی اشاعت ایسے حالات میں ہوئی کہ مجھے نہ اسے باقاعدہ مرتب کرنے کا موقع ملا اور نہ میں اس کی ترتیب درست کر سکا۔ اس لیے عام ناظرین کو چاہے اس میں کچھ کام کا مواد ملا ہو، مگر وہ منتشر صورت میں ملا۔ اب میں نے اس مواد کو دو مستقل کتابوں کی صورت میں نئے سرے سے مرتب کر دیا ہے۔ ان میں سے ایک کتاب ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘ کے نام سے کچھ مدت پہلے شائع ہو چکی ہے۔ اب یہ دوسری کتاب ’’سود‘‘ کے نام سے ان تمام مضامین پر مشتمل ہے جو اب تک میں نے اس موضوع کے متعلق لکھے ہیں۔ اُمید ہے کہ اس نئی صورت میں یہ کتاب ان لوگوں کے لیے زیادہ مفید ہوگی جو اس مسئلے کو سمجھنا چاہتے ہیں۔
اس کے آخر میں تین ضمیمے بھی شامل کر دیے گئے ہیں۔ ایک ضمیمہ اس مراسلت پر مشتمل ہے جو میرے اور سید یعقوب شاہ صاحب سابق آڈیٹر جنرل حکومت پاکستان کے درمیان ہوئی تھی۔ اس میں ان لوگوں کے دلائل پوری طرح آ گئے ہیں جو شخصی حاجات کے قرض اور بار آور اَغراض کے قرض میں فرق کرکے حرمت سود کے حکم کو صرف پہلی قسم کے قرضوں تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے جواب میں جو کچھ میں نے عرض کیا ہے اس کو پڑھ کر ناظرین خود رائے قائم کر سکتے ہیں کہ ان دلائل کی بنیاد پر بار آور اَغراض کے قرضوں پر سود کو حلال کرنے کی کوشش کہاں تک صحیح ہے۔
دوسرا ضمیمہ میرے اس مقالے پر مشتمل ہے جو میں نے ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور کی ایک مجلس مذاکرہ میں سود کے موضوع پر پیش کیا تھا۔ اس میں اس مسئلے کے قریب قریب تمام اہم پہلوؤں پر ایک جامع بحث ناظرین کے سامنے آ جائے گی۔
تیسرا ضمیمہ مولانا مناظر احسن گیلانی مرحوم کے دو مضامین اور میری طرف سے ان کے جواب پر مشتمل ہے۔ اس میں اگرچہ عنوان بحث یہ ہے کہ مذہب حنفی کی رو سے دارالحرب میں سود کے جواز کا جو مسئلہ بیان کیا جاتا ہے اس کی صحیح تعبیر کیا ہے‘ لیکن اس ضمن میں اسلام کے دستوری اور بین الاقوامی قانون پر بڑی اہم بحثیں آ گئی ہیں جو معاشیات کے علاوہ قانونی مسائل سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بھی ان شاء اللہ مفید ثابت ہوں گی۔
لاہور ۲۳؍ جولائی ۱۹۶۰ء
ابو الاعلیٰ
٭…٭…٭
تمہید
عام طور پر سود کے متعلق اسلامی قانون کے احکام کو سمجھنے میں جو غلطی واقع ہو رہی ہے اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں وہ معاشی نظام جس کو اسلام نے قائم کیا تھا درہم برہم ہو چکا ہے۔ اس کے اُصول و نظریات بھی دلوں سے محو ہوگئے ہیں، اور ہمارے گردوپیش کی دنیا پر ایک ایسا نظام پوری طرح حاوی ہوگیا ہے جس کی بنیاد ’’سرمایہ داری‘‘ کے اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت نہ صرف عملاً ہم پر محیط ہے بلکہ ہمارے دل و دماغ پر بھی اس کے اصول و نظریات چھا گئے ہیں۔ اس لیے جب کسی معاشی مسئلے پر ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمارا نقطۂ نظر وہی ہوتا ہے جو سرمایہ داری کا نقطۂ نظر ہے ہماری بحث و تحقیق کی ابتدا ہی اس طرح ہوتی ہے کہ ہم پہلے معاشیات کے سرمایہ دارانہ نظریات اور اصولوں کو مان لیتے ہیں اور اس کے بعد کسی معاشی طریقے کے جواز و عدم جواز پر گفتگو کرتے ہیں‘ لیکن اگر تھوڑی سی سمجھ سے کام لیا جائے تو یہ بات مخفی نہیں رہ سکتی کہ تحقیق کا یہ طریقہ اصلاً غلط ہے۔ اسلام کا نظام معیشت اپنے نظریہ اور اپنے اصول میں سرمایہ داری کے نظام معیشت سے بالکل مختلف ہے۔ دونوں کے مقاصد الگ الگ ہیں دونوں کی روح جدا جدا ہے۔ دونوں کے مناہج علیحدہ علیحدہ ہیں۔ اب اگر کسی مسئلے کے متعلق سرمایہ داری کے اصول و نظریات کو تسلیم کرکے اسلام کے معاشی احکام میں سے کسی حکم پر نظر ڈالی جائے گی تو لا محالہ یا تو وہ بالکل ہی غلط نظر آئے گا یا اس میں ایسی ترمیم کر دی جائے گی جس سے وہ اسلامی قانون کے اصول سے ہٹ کر بالکل سرمایہ داری کے قالب میں ڈھل جائے گا اور اس میں نہ اسلامی روح باقی رہے گی نہ اسلامی قانون کے اغراض و مقاصد اس سے حاصل ہو سکیں گے، اور نہ وہ اپنے جوہر میں حقیقتاً ایک اسلامی حکم ہوگا۔
یہی بنیادی غلطی ہے جس کی وجہ سے سود کے معاملے میں ہمارے جدید معاشی مفکرین اسلامی احکام کو سمجھنے اور ان کے اغراض و مصالح کا ادراک کرنے میں ٹھوکروں پر ٹھوکریں کھاتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ سرے سے یہی نہیں جانتے کہ اسلام کا معاشی نظام کن اصولوں پر قائم کیا گیا ہے۔ اس کے مقاصد کیا ہیں، اس کی روح کیا ہے، سود کو اس نے کیوں حرام قرار دیا ہے، سودی لین دین کی مختلف اَشکال میں علتِ حُرمت کیا شے ہے اور جن معاملات میں یہ علت پائی جاتی ہے ان کو اسلامی نظام معیشت میں کھپا دینے سے کیا قباحت واقع ہوتی ہے۔ ان تمام اساسی امور سے بیگانہ ہو کر جب وہ کلیتاً سرمایہ داری کے نقطۂ نظر سے سود کے متعلق اسلامی قانون پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ان کو درحقیقت سود کی حرمت کے لیے کوئی دلیل ہی ہاتھ نہیں آتی کیونکہ سود تو سرمایہ داری کی جان اور اس کی روحِ رواں ہے۔ اس کے بغیر سرمایہ داری کا کاروبار چل ہی نہیں سکتا اور کسی ایسے نظامِ معاشی کا سود سے خالی ہونا غیر ممکن ہے جس کی عمارت سرمایہ داری کے اصولوں پر قائم ہو لیکن مشکل یہ ہے کہ علمی اور عملی حیثیت سے یہ حضرات اسلام سے منحرف ہو چکنے کے باوجود اِعتقادی حیثیت سے بدستور اس کے پیرو ہیں اور قصداً اس کے دائرے سے نکلنا نہیں چاہتے، اس لیے عقیدے کی بندش تو ان کو مجبور کرتی ہے کہ سود کی حرمت سے انکار نہ کریں مگر اُن کا علم اور عمل اُن کو مجبور کرتا ہے کہ سود کے متعلق اسلامی احکام کی بندشوں کو توڑ دیں۔
دل و دماغ کی یہ کش مکش ایک مدت سے جاری ہے اور اب اس میں مصالحت کی آسان صورت یہ نکالی گئی ہے کہ اسلامی احکام کی تعبیر اس طرح کی جائے کہ سود ایک اسم بے مسمیٰ ہونے کی حیثیت سے تو بدستور حرام کا حرام رہے، مگر نظام سرمایہ داری میں اس کے جتنے مسمیٰ پائے جاتے ہیں وہ قریب قریب سب حلال ہو جائیں۔ زیادہ سے زیادہ جس چیز کے خلاف ان کو سرمایہ داری کے اصولوں سے کوئی دلیل ہاتھ آتی ہے وہ مہاجنی سود (usuary) ہے لیکن اس کو بھی کلیتاً مسدود کر دینے کی کوئی وجہ وہ نہیں پاتے۔ ان کے نزدیک ضرورت صرف اس کی تحدید کی ہے اور اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ سود کی فی صدی شرح ناقابل ادا نہ ہو اور کسی حال میں سود در سود (اَضعافاً مضاعفۃً) تک نوبت نہ پہنچے۔
یہ ایک دھوکا ہے جس میں یہ حضرات بغیر سمجھے بوجھے مبتلا ہوگئے ہیں۔ بیک وقت دو مخالف سمتوں میں سفر کرنے والی کشتیوں میں سوار ہونا کسی مردِ عاقل کا کام نہیں ہو سکتا۔ اگر بے خبری کی وجہ سے اس نے ایسا کیا بھی ہو تو ہوش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ جونہی اس کو اپنی غلطی پر تنبہّ ہو، وہ اپنے لیے دونوں کشتیوں میں سے ایک کو پسند کرکے دوسری کشتی سے فوراً پاؤں کھینچ لے۔ سود کے حلال و حرام ہونے کی بحث اور اس کے حدود کی تعیین تو بعد کی چیز ہے۔ سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ آپ اسلامی نظام معیشت اور سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے اُصولی اور روحی فرق کو اچھی طرح سمجھ لیں اور قرآن و حدیث کے احکام پر غور کرکے اُن اُصول و قواعد سے باخبر ہو جائیں جن پر اسلام نے سرمایہ داری اور اشتراکیت کے درمیان ایک متوسط نظام معیشت قائم کیا ہے۔
اس تحقیق سے آپ پر خودبخود منکشف ہو جائے گا کہ اسلام جس ڈھنگ پر انسان کے معاشی معاملات کی تنظیم کرتا ہے اس میں صرف یہی نہیں کہ سود کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ وہ سرے سے اس نظریے اور اس ذہنیت اور ان معاشی حالات ہی کا استیصال کر دیتا ہے جن کی وجہ سے سودی معاملات کی مختلف صورتیں وجود میں آتی ہیں۔ اس کے بعد آپ کے لیے ناگزیر ہوگا کہ دو راہوں میں سے ایک راہ کا انتخاب کر لیں۔
ایک راہ یہ ہے کہ آپ اسلام کے اُصولِ معیشت کو ردّ کرکے سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کے اصولوں پر ایمان لے آئیں۔ اس صورت میں آپ کو اسلام کے اصول اور احکام میں ترمیم کرنے کی زحمت ہی نہ اٹھانی پڑے گی بلکہ آپ کے لیے سیدھا اور صاف راستہ یہ ہوگا کہ اس کے اتباع سے انکار کر دیں۔ دوسری راہ یہ ہے کہ آپ اسلام کے اصولِ معاشی کو صحیح سمجھیں اور سود کو اس کی تمام صورتوں کے ساتھ علیٰ وجہ البصیرت حرام جانیں۔ مگر سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت میں گِھر جانے کے باعث اپنے آپ کو اس حرام چیز سے محفوظ رکھنے میں قاصر پائیں اس صورت میں آپ سود کھانا اور کھلانا چاہیں تو کھایئے اور کھلایئے۔ کیونکہ ہر گناہ کرنے کا آپ کو اختیار حاصل ہے۔ مگر ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ جرأت آپ کبھی نہیں کر سکتے کہ سود کو حلال کرکے کھائیں یا کھلائیں اور اپنے ضمیر پر سے اَکلِ حرام کے بار کو ہلکا کرنے کے لیے اس چیز کو پاک کرنے کی کوشش کریں جس کو خدا اور اس کے رسولؐ نے ناپاک قرار دیا ہے۔ ایک شخص حق رکھتا ہے کہ علانیہ اسلام کے قانون کو رد کرکے کسی دوسرے قانون کی پیروی اختیار کر لے۔ اور بدرجہ آخر یہ حق بھی اس کو حاصل ہے کہ اسلامی قانون کے اقتدار کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ماتحت ایک گناہ گار بندہ بن کر رہنا پسند کرے یا نامساعد حالات میں مجبوراً ایسا بن جائے لیکن کسی حال میں یہ حق تو کسی کو بھی نہیں پہنچتا کہ اسلامی قانون کو جس غیر اسلامی قانون سے چاہے بدل دے اور پھر دعویٰ کرے کہ بدلا ہوا قانون ہی دراصل اسلام کا قانون ہے۔
اس تمہید کے بعد ہم اُن مباحث کو ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔
٭…٭…٭
اسلام، سرمایہ داری اور اشتراکیت کا اُصولی فرق
آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو مختصراً یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں جو معاشی نظام اب تک پیدا ہوئے ہیں ان کے درمیان اصولی فرق کیا ہے اور اس فرق سے مالی و معاشی معاملات کی نوعیتوں میں کیا تغیرات واقع ہوتے ہیں۔
جزئی اختلافات سے قطع نظر کرکے ہم دنیا کے معاشی نظاموں کو تین بڑی قسموں پر تقسیم کرتے ہیں۔ ایک وہ جو سرمایہ داری نظام (capitalistic system) کہلاتا ہے ۔ دوسرا وہ جسے اشتراکیت (communism) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اور تیسرا وہ جسے اسلام نے پیش کیا ہے۔ اس باب میں ہم ان تینوں کے اصول کا خلاصہ بیان کریں گے۔
نظامِ سرمایہ داری
نظامِ سرمایہ داری کی بنیاد جس نظریے پر قائم ہے وہ صاف اور سادہ الفاظ میں یہ ہے کہ ہر شخص اپنے کمائے ہوئے مال کا تنہا مالک ہے۔ اس کی کمائی میں کسی کا کوئی حق نہیں۔ اس کو پورا اختیار ہے کہ اپنے مال میں جس طرح چاہے تصرف کرے، جس قدر وسائل ثروت اس کے قابو میں آئیں ان کو روک رکھے اور اپنی ذات کے لیے کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر ان کو صرف کرنے سے انکار کر دے۔ یہ نظریہ اس خود غرضی سے شروع ہوتا ہے جو ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے اور آخرکار اس انتہائی خود غرضی تک پہنچ جاتا ہے جو انسان کی اُن تمام صفات کو دبا دیتی ہے جن کا وجود انسانی جماعت کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے۔ اگر اخلاقی نقطۂ نظر کو چھوڑ کر خالص معاشی نقطۂ نظر سے بھی دیکھا جائے تو اس نظریے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تقسیم ثروت کا توازن بگڑ جائے، وسائل ثروت رفتہ رفتہ سمٹ کر ایک زیادہ خوش قسمت یا زیادہ ہوشیار طبقے کے پاس جمع ہو جائیں، اور سوسائٹی عملاً دو طبقوں میں تقسیم ہو جائے۔ ایک مال دار دوسرا نادار، مال دار طبقہ تمام وسائل ثروت پر قابض و متصرف ہو کر ان کو محض اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرے اور اپنی دولت کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش میں سوسائٹی کے مجموعی مفاد کو جس طرح چاہے قربان کر دے۔ رہا نادار طبقہ تو اس کے لیے وسائل ثروت میں سے حصہ پانے کا کوئی موقع نہ ہو الاّیہ کہ وہ سرمایہ دار کے مفاد کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرکے زندگی بسر کرنے کا کم سے کم سامان حاصل کرے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کا نظام معیشت ایک طرف سا ہوکار، کارخانہ دار اور زمیندار پیدا کرے گا، اور دوسری طرف مزدور‘ کسان اور قرض دار۔ ایسے نظام کی عین فطرت اس کی مقتضی ہے کہ سوسائٹی میں ہمدردی اور امدادِ باہمی کی سپرٹ مفقود ہو۔ ہر شخص بالکلیہ اپنے ذاتی وسائل سے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو۔ کوئی کسی کا یارومددگار نہ ہو۔ محتاج کے لیے معیشت کا دائرہ تنگ ہو جائے۔ سوسائٹی کا ہر فرد بقائے حیات کے لیے دوسرے افراد کے مقابلے میں مُعانِدانہ جدوجہد کرے۔ زیادہ سے زیادہ وسائل ثروت پر قابو پانے کی کوشش کرے، اپنے مفاد کے لیے ان کو روک رکھے، اور صرف ازدیاد ثروت کے لیے انھیں استعمال کرے۔ پھر جو لوگ اس جدوجہد میں ناکام ہوں یا اس میں حصّہ لینے کی قوت نہ رکھتے ہوں ان کے لیے دنیا میں کوئی سہارا نہ ہو۔ وہ بھیک بھی مانگیں تو ان کو بآسانی نہ مل سکے۔ کسی دل میں ان کے لیے رحم نہ ہو۔ کوئی ہاتھ ان کی مدد کے لیے نہ بڑھے۔ یا تو وہ خودکشی کرکے زندگی کے عذاب سے نجات حاصل کریں یا پھر جرائم اور بے حیائی کے ذلیل طریقوں سے پیٹ پالنے پر مجبور ہوں۔
سرمایہ داری کے اس نظام میں ناگزیر ہے کہ لوگوں کا مَیلان روپیہ جمع کرنے کی طرف ہو اور وہ اس کو صرف نفع بخش اغراض کے لیے استعمال کرنے کی سعی کریں۔ مشترک سرمائے کی کمپنیاں قائم کی جائیں۔ بینک کھولے جائیں، پراویڈنٹ فنڈ قائم ہوں، انشورنس کمپنیاں بنائی جائیں، امداد باہمی کی جمعیتیں مرتب کی جائیں اور ان تمام مختلف معاشی تدبیروں میں ایک ہی روح کام کرے، یعنی روپے سے مزید روپیہ پیدا کرنا، خواہ وہ تجارتی لین دین کے ذریعے سے ہو یا سود کے ذریعے سے۔ سرمایہ داری کے نقطۂ نظر سے سود اور تجارتی لین دین کے درمیان کوئی جوہری فرق نہیں ہے۔ اس لیے نظام سرمایہ داری میں یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نہ صرف خلط ملط ہو جاتے ہیں، بلکہ کاروبار کی ساخت میں ان کی حیثیت تانے بانے کی سی ہوتی ہے۔ ان کے ہاں تجارت کے لیے سود اور سود کے لیے تجارت لازم و ملزوم ہیں، کسی کو دوسرے کے بغیر فروغ نہیں ہو سکتا۔ سود نہ ہو تو سرمایہ داری کا تارو پود بکھر جائے۔
نظامِ اشتراکی
سرمایہ داری کے عین مقابل ایک دوسرا نظامِ معیشت ہے جس کو اشتراکی نظام کہتے ہیں۔ اس کی بنیاد اس نظریے پر ہے کہ تمام وسائل ثروت سوسائٹی کے درمیان مشترک ہیں، اس لیے افراد کو فرداً فرداً ان پر مالکانہ قبضہ کرنے اور اپنے حسب منشا ان میں تصرف کرنے، اور ان کے منافع سے تنہا متمتع ہونے کا کوئی حق نہیں۔ اشخاص کو جو کچھ ملے گا وہ محض ان خدمات کا معاوضہ ہوگا جو سوسائٹی کے مشترک مفاد کے لیے وہ انجام دیں گے۔ سوسائٹی ان کے لیے ضروریاتِ زندگی فراہم کرے گی اور وہ اس کے بدلے میں کام کریں گے۔
یہ نظریہ ایک دوسرے ڈھنگ پر معیشت کی تنظیم کرتا ہے جو بنیادی طور پر نظام سرمایہ داری سے مختلف ہے۔ اس تنظیم میں سرے سے ملکیت شخصی ہی کا وجود نہیں پھر کہاں اس کی گنجائش کہ کوئی روپیہ جمع کرے اور اس کو بطور خود کاروبار میں لگائے۔ یہاں چونکہ نظریے اور اصول میں اختلاف ہوگیا ہے اس لیے مناہج بھی بدل گئے ہیں۔ نظام سرمایہ داری کا کارخانہ، بینکنگ، انشورنس، شرکت ہائے اسہامی (joint stock companies) اور ایسے ہی دوسرے اداروں کے بغیر نہیں چل سکتا لیکن اشتراکیت کی ساخت اور اس کے معاشی معاملات میں نہ ان اداروں کی گنجائش ہے، نہ ضرورت۔ سرمایہ داری کے مزاج سے سود کو جتنی گہری مناسبت ہے۔ اشتراکیت کے مزاج سے اس کو اتنی ہی زیادہ شدید ناموافقت ہے۔ اشتراکیت اس چیز کی بنیاد ہی مسمار کر دیتی ہے جس کی بنا پر ایک شخص سود لیتا اور دوسرا شخص سود دیتا ہے۔ اس کے اصول کسی شکل اور کسی حیثیت میں بھی سود کو جائز نہیں رکھتے اور جو شخص ان اصولوں پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے ممکن نہیں کہ بیک وقت اشتراکی بھی ہو اور سودی لین دین بھی کرے۔ { FR 2225 }
اشتراکیت اور سرمایہ داری ایک دوسرے کے خلاف دو انتہائی نقطوں پر ہیں۔ سرمایہ داری افراد کو ان کے فطری حقوق ضرور دیتی ہے مگر اس کے اصول و نظریات میں کوئی ایسی چیز نہیں جو افراد کو جماعت کے مشترک مفاد کی خدمت کے لیے آمادہ کرنے والی اور تابحد ضرورت اس پر مجبور کرنے والی ہو بلکہ درحقیقت وہ افراد میں ایک ایسی خود غرضانہ ذہنیت پیدا کرتی ہے جس سے ہر شخص اپنے شخصی مفاد کے لیے جماعت کے خلاف عملاً جنگ کرتا ہے اور اس جنگ کی بدولت تقسیم ثروت کا توازن بالکل بگڑ جاتا ہے۔ ایک طرف چند خوش نصیب افراد پوری جماعت کے وسائل ثروت کو سمیٹ کر لکھ پتی اور کروڑ پتی بن جاتے ہیں اور اپنے سرمائے کی قوت سے مزید دولت کھینچتے چلے جاتے ہیں۔ دوسری طرف جمہور کی معاشی حالت خراب سے خراب تر ہوتی چلی جاتی ہے اور دولت کی تقسیم میں ان کا حصہ گھٹتے گھٹتے بمنزلہ صفر رہ جاتا ہے۔ ابتدا میں سرمایہ داروں کی دولت اپنے شاندار مظاہر سے تمدن میں ایک دلفریب چمک دمک تو ضرور پیدا کر دیتی ہے مگر دولت کی غیر متوازن تقسیم کا آخری انجام اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ معاشی دنیا کے جسم میں دوران خون بند ہو جاتا ہے جسم کے اکثر حصے قلت خون کی وجہ سے سوکھ کر تباہ ہوتے ہیں اور اعضائے رئیسہ کو خون کا غیر معمولی اجتماع تباہ کر دیتا ہے۔
اشتراکیت اس خرابی کا علاج کرنا چاہتی ہے، مگر وہ ایک صحیح مقصد کے لیے غلط راستہ اختیار کرتی ہے۔ اس کا مقصد تقسیم ثروت میں توازن قائم کرنا ہے اور یہ بلا شبہ صحیح مقصد ہے، مگر اس کے لیے وہ ذریعہ ایسا اختیار کرتی ہے جو درحقیقت انسانی فطرت سے جنگ ہے۔ افراد کو شخصی ملکیت سے محروم کرکے بالکل جماعت کا خادم بنا دینا نہ صرف معیشت کے لیے تباہ کن ہے بلکہ زیادہ وسیع پیمانے پر انسان کی پوری تمدنی زندگی کے لیے مہلک ہے۔ کیونکہ یہ چیز معاشی کاروبار اور نظام تمدن سے اس کی روحِ رواں، اس کی اصلی قوتِ محرکہ کو نکال دیتی ہے۔ تمدن و معیشت میں انسان کو جو چیز اپنی انتہائی قوت کے ساتھ سعی و عمل کرنے پر اُبھارتی ہے، وہ دراصل اس کا ذاتی مفاد{ FR 2226 } ہے۔ یہ انسان کی فطری خود غرضی ہے جس کو کوئی منطق اس کے دل و دماغ کے ریشوں سے نہیں نکال سکتی۔ غیر معمولی (abnormal) افراد کو چھوڑ کر ایک اوسط درجے کا آدمی اپنے دل اور دماغ اور دست و بازو کی تمام طاقتیں صرف اسی کام میں خرچ کرتا ہے اور کر سکتا ہے جس سے اس کو خود اپنے مفاد کے لیے ذاتی دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر سرے سے یہ دلچسپی ہی باقی نہ رہے، اور اس کو معلوم ہو کہ اس کے لیے فوائد و منافع کی جو حد مقرر کر دی گئی ہے اس سے بڑھ کر وہ اپنی جدوجہد سے کچھ بھی حاصل نہ کر سکے گا تو اس کے قوائے فکر و عمل ٹھٹھر کر رہ جائیں گے، اور وہ محض ایک مزدور کی طرح کام کرے گا جس کو اپنے کام سے بقدر اُجرت ہی دلچسپی ہوتی ہے۔
یہ تو اشتراکی نظام کا باطنی پہلو ہے۔ اس کا خارجی اور عملی پہلو یہ ہے کہ وہ سرمایہ دار افراد کا خاتمہ کرکے ایک بہت بڑے سرمایہ دار کو وجود میں لاتا ہے یعنی اشتراکی حکومت۔ یہ بڑا سرمایہ دار لطیف انسانی جذبات کی اس اقل قلیل مقدار سے بھی خالی ہوتا ہے جو سرمایہ دار افراد میں پائی جاتی ہے۔ وہ بالکل ایک مشین کی طرح پورے استبداد کے ساتھ ان کے درمیان اسباب حیات تقسیم کرتا ہے۔ اس کے پاس نہ ہمدردی ہے۔ نہ قدر و اعتراف۔ وہ انسانوں سے انسانوں کی طرح کام نہیں لیتا بلکہ مشین کے کل پرزوں کی طرح کام لیتا ہے اور ان سے فکر و رائے اور عمل کی آزادی بالکل سلب کر لیتا ہے۔ اس شدید استبداد کے بغیر نظام اشتراکی نہ قائم ہو سکتا ہے، نہ قائم رہ سکتا ہے کیونکہ افراد کی فطرت اس نظام کے خلاف ہر وقت آمادۂ بغاوت رہتی ہے۔ اگر ان کو دائماً استبداد کے آہنی پنجے میں جکڑ کر نہ رکھا جائے تو وہ اشتراکی نظم کو دیکھتے دیکھتے منتشر کر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج روس کی سوویٹ گورنمنٹ دنیا کی حکومتوں میں سب سے زیادہ مستبد اور جابر حکومت ہے۔ اپنی رعیت کو اس نے ایسے سخت آہنی شکنجے میں جکڑ رکھا ہے جس کی مثال دنیا کی کسی شخصی یا جمہوری حکومت میں نہیں ملتی۔ اس کا یہ جبر و استبداد کچھ اس وجہ سے نہیں ہے کہ محض بخت و اتفاق نے اسٹالن جیسے ڈکٹیٹر کو پیدا کر دیا ہے بلکہ درحقیقت اشتراکیت کا مزاج ہی ایک شدید ترین ڈکٹیٹر شپ کا مقتضی ہے۔
نظامِ اسلامی
اسلام ان دو متضاد معاشی نظاموں کے درمیان ایک معتدل نظام قائم کرتا ہے جس کا اصل الاصول یہ ہے کہ فرد کو اس کے پورے پورے شخصی و فطری حقوق بھی دیے جائیں اور اس کے ساتھ تقسیم ثروت کا توازن بھی نہ بگڑنے دیا جائے۔ ایک طرف وہ فرد کو شخصی ملکیت کا حق اور اپنے مال میں تصرف کرنے کے اختیارات دیتا ہے۔ دوسری طرف وہ ان سب حقوق اور اختیارات پر باطن کی راہ سے کچھ اخلاقی پابندیاں اور ظاہر کی راہ سے کچھ ایسی قانونی پابندیاں عائد کر دیتا ہے جن کا مقصد یہ ہے کہ کسی جگہ وسائل ثروت کا غیر معمولی اجتماع نہ ہو سکے، ثروت اور اس کے وسائل ہمیشہ گردش کرتے رہیں اور گردش ایسی ہو کہ جماعت کے ہر فرد کو اس کا متناسب حصہ مل سکے۔ اس مقصد کے لیے اس نے معیشت کی تنظیم ایک اور ڈھنگ پر کی ہے جو اپنی روح، اپنے اصول اور اپنے طریق کار کے اعتبار سے سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں سے مختلف ہے۔
اسلام کا معاشی نظریہ مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ معاشی زندگی میں ہر ہر فرد کا شخصی مفاد اور تمام افراد کا اجتماعی مفاد ایک دوسرے کے ساتھ گہرا ربط رکھتا ہے۔ اس لیے دونوں میں مزاحمت کے بجائے موافقت اور معاونت ہونی چاہیے۔ فرد اگر اجتماعی مفاد کے خلاف جدوجہد کرکے جماعت کی دولت اپنے پاس سمیٹ لے اور اس کو جمع رکھنے یا خرچ کرنے میں محض اپنے ذاتی مفاد کو ملحوظ رکھے تو یہ صرف جماعت ہی کے لیے نقصان دہ نہیں ہے، بلکہ مآل کار میں اس کے نقصانات خود اس شخص کی اپنی ذات کی طرف بھی عود کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر جماعت کا نظام ایسا ہو کہ وہ اجتماعی مفاد کے لیے افراد کے شخصی مفاد کو قربان کر دے تو اس میں صرف افراد ہی کا نقصان نہیں ہے بلکہ مآل کار میں جماعت کا بھی نقصان ہے پس فرد کی بہتری اس میں ہے کہ جماعت خوش حال ہو، اور جماعت کی بہتری اس میں ہے کہ افراد خوش حال ہوں، اور دونوں کی خوش حالی اس پر موقوف ہے کہ افراد میں خود غرضی اور ہمدردی کا صحیح تناسب قائم ہو۔ ہر شخص اپنے ذاتی فائدے کے لیے جدوجہد کرے، مگر اس طرح کہ اس میں دوسروں کا نقصان نہ ہو۔ ہر شخص جتنا کما سکے کمائے مگر اس کی کمائی میں دوسروں کا حق بھی ہو۔ ہر شخص دوسروں سے خود بھی نفع حاصل کرے اور دوسروں کو نفع پہنچائے بھی۔ منافع کی اس تقسیم اور دولت کی اس گردش کو جاری رکھنے کے لیے محض افراد کے باطن میں چند اخلاقی اوصاف پیدا کر دینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ جماعت کا قانون بھی ایسا ہونا چاہیے جو مال کے اکتساب اور خرچ دونوں کی صحیح تنظیم کردے۔ اس کے ماتحت کسی کو مضرت رساں طریقوں سے دولت کمانے کا حق نہ ہو اور جو دولت جائز ذرائع سے کمائی جائے وہ ایک جگہ سمٹ کر نہ رہ جائے، بلکہ صرف ہو اور زیادہ سے زیادہ گردش کرے۔
اس نظریے پر جس نظم معیشت کی بنیاد رکھی گئی ہے اس کا مقصد نہ تو یہ ہے کہ چند افراد کروڑ پتی بن جائیں اور باقی تمام لوگ فاقے کریں اور نہ اس کا مقصد یہ ہے کہ کوئی کروڑ پتی نہ بن سکے اور جبراً سب کو ان کے فطری تفاوت کے باوجود ایک حال میں کر دیا جائے۔ ان دونوں انتہاؤں کے بین بین اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ جماعت کے تمام افراد کی معاشی ضروریات پوری ہوں۔ اگر ہر شخص دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر اپنی فطری حد کے اندر رہ کر اکتساب مال کی کوشش کرے، اور پھر اپنے کمائے ہوئے مال کو خرچ کرنے میں کفایت شعاری اور امداد باہمی کو ملحوظ رکھے تو سوسائٹی میں وہ معاشی ناہمواری پیدا نہیں ہو سکتی جو سرمایہ داری کے نظام میں پائی جاتی ہے کیونکہ اس قسم کا طرز معیشت اگرچہ کسی کو کروڑ پتی بننے سے نہیں روکتا۔ مگر اس کے ماتحت یہ بھی ناممکن ہے کہ کسی کروڑ پتی کی دولت، اس کے ہزاروں ابنائے نوع کی فاقہ کشی کا نتیجہ ہو۔ دوسری طرف یہ طرزِ معیشت تمام افراد کو خدا کی پیدا کی ہوئی دولت میں سے حصہ ضرور دلانا چاہتا ہے مگر ایسی مصنوعی بندشیں لگانا جائز نہیں رکھتا جن کی وجہ سے کوئی شخص اپنی قوت و قابلیت کے مطابق اکتسابِ مال نہ کر سکتا ہو۔
٭…٭…٭
اسلامی نظامِ معیشت اور اس کے ارکان
اسلام نے اشتراکیت اور سرمایہ داری کے درمیان جو متوسط معاشی نظریہ اختیار کیا ہے اس پر ایک عملی نظام کی عمارت اٹھانے کے لیے وہ اخلاق اور قانون دونوں سے مدد لیتا ہے۔ اپنی اخلاقی تعلیم سے وہ جماعت اور اس کے ہر ہر فرد کی ذہنیت کو اپنے نظام کی رضاکارانہ اطاعت کے لیے تیار کرتا ہے اور اپنے قانون کی طاقت سے وہ ان پر ایسی پابندیاں عائد کرتا ہے جو انھیں اس نظام کی بندش میں رہنے پر مجبور کریں، اور اس کے حدود سے نکلنے نہ دیں۔ یہ اخلاقی اصول اور قانونی احکام اس نظام معیشت کے قوائم و ارکان ہیں اور اس کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ان پر ایک تفصیلی نظر ڈالیں۔
۱۔ اکتساب مال کے ذرائع میں جائز اور ناجائز کی تفریق
سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ اسلام اپنے پیروؤں کو دولت کمانے کا عام لائسنس نہیں دیتا بلکہ کمائی کے طریقوں میں اجتماعی مفاد کے لحاظ سے جائز اور ناجائز کا امتیاز قائم کرتا ہے۔ یہ امتیاز اس قاعدہ کلیہ پر مبنی ہے کہ دولت حاصل کرنے کے تمام وہ طریقے ناجائز ہیں جن میں ایک شخص کا فائدہ دوسرے شخص یا اشخاص کے نقصان پر مبنی ہو اور ہر وہ طریقہ جائز ہے جس میں فوائد کا مبادلہ متعلقہ اشخاص کے درمیان منصفانہ طور پر ہو۔ قرآن مجید میں اس قاعدۂ کلیہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ۰ۣ وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًاo وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيْہِ نَارًا۰ۭ ﴾
(النساء29-30:4)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقوں سے نہ کھایا کرو بجز اس کے کہ تجارت ہو آپس کی رضا مندی سے۔ اور تم خود اپنے آپ کو (یا آپس میں ایک دوسرے کو) ہلاک نہ کرو، اللہ تمھارے حال پر مہربان ہے۔ جو کوئی اپنی حد سے تجاوز کرکے ظلم کے ساتھ ایسا کرے گا اس کو ہم آگ میں جھونک دیں گے۔
اس آیت میں تجارت سے مراد ہے اشیا اور خدمات کا تبادلہ بالعوض۔ آپس کی رضامندی کے ساتھ اسے مشروط کرکے تبادلے کی ان تمام صورتوں کو ناجائز کر دیا گیا ہے جن میں کسی نوعیت کا دباؤ شامل ہو، یا کوئی دھوکا یا ایسی چال ہو جو اگر دوسرے فریق کے علم میں آ جائے تو وہ اس پر راضی نہ ہو پھر مزید تاکید کے لیے فرمایا گیا ہے لَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ۔ اس کے دو مفہوم ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں۔ ایک یہ کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک نہ کرو۔ دوسرا یہ کہ تم خود اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنے فائدے کے لیے دوسرے کا نقصان کرتا ہے وہ گویا اس کا خون پیتا ہے اور مآل کار میں خود اپنی تباہی کا راستہ کھولتا ہے۔
اس اصولی حکم کے علاوہ مختلف مقامات پر قرآن مجید میں اکتساب مال کی جن صورتوں کو حرام کیا گیا ہے وہ یہ ہیں:
رشوت اور غصب ( البقرہ18:2)
خیانت ، خواہ افراد کے مال میں ہو یا پبلک کے مال میں۔(البقرہ 283:2 ) (آلِ عمران161:3)
چوری (المائدہ 38:5)
مالِ یتیم میں بے جا تصرف (النساء10:4)
ناپ توپ میں کمی۔ (المطففین83:3)
فحش پھیلانے والے ذرائع کا کاروبار (النور 19:24)
قحبہ گری اور زنا کی آمدنی (النور33:24)
شراب کی صنعت، اس کی بیع اور اس کا حمل و نقل (المائدہ 90:5)
جوا اور تمام ذرائع جن سے کچھ لوگوں کا مال دوسرے لوگوں کی طرف منتقل ہونا محض بخت و اتفاق پر مبنی ہو۔ (المائدہ 90:5)
بت گری ، بت فروشی اور بت خانوں کی خدمات (المائدہ 90:5)
سود خواری (البقرہ 275-280:2) (آل عمران 130:3)
۲۔ مال جمع کرنے کی ممانعت
دوسرا اہم حکم یہ ہے کہ جائز طریقوں سے جو دولت کمائی جائے اس کو جمع نہ کیا جائے، کیونکہ اس سے دولت کی گردش رُک جاتی ہے اور تقسیم دولت میں توازن برقرار نہیں رہتا۔ دولت سمیٹ سمیٹ کر جمع کرنے والا نہ صرف خود بدترین اخلاقی امراض میں مبتلا ہوتا ہے بلکہ درحقیقت وہ پوری جماعت کے خلاف ایک شدید جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کا نتیجہ آخر کار خود اس کے اپنے لیے بھی برا ہے۔ اسی لیے قرآن مجید بخل اور قارونیت کا سخت مخالف ہے۔ وہ کہتا ہے:
﴿وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَخَيْرًا لَّھُمْ۰ۭ بَلْ ھُوَشَرٌّ لَّھُمْ۰ۭ﴾ ( آل عمران 180:3)
جو لوگ اللہ کے دیئے ہوئے فضل میں بخل کرتے ہیں وہ یہ گمان نہ کریں کہ یہ فعل ان کے لیے اچھا ہے، بلکہ در حقیقت یہ ان کے لیے برا ہے۔
﴿وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا يُنْفِقُوْنَہَا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۙ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍo ﴾ ( التوبہ34:9)
اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو عذاب الیم کی خبر دے دو۔
یہ چیز سرمایہ داری کی بنیاد پر ضرب لگاتی ہے۔ بچت کو جمع کرنا اور جمع شدہ دولت کو مزید دولت پیدا کرنے میں لگانا یہی دراصل سرمایہ داری کی جڑ ہے۔ مگر اسلام سرے سے اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی اپنی ضرورت سے زائد دولت کو جمع کرکے رکھے۔
۳۔ خرچ کرنے کا حکم
جمع کرنے کے بجائے اسلام خرچ کرنے کی تعلیم دیتا ہے مگر خرچ کرنے سے اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ عیش و آرام اور گل چھڑے اڑانے میں دولت لٹائیں بلکہ وہ خرچ کرنے کا حکم فی سبیل اللہ کی قید کے ساتھ دیتا ہے، یعنی آپ کے پاس اپنی ضروریات سے جو کچھ بچ جائے اس کو جماعت کی بھلائی کے کاموں میں خرچ کر دیں کہ یہی سبیلُ اللہ ہے۔
﴿وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۰ۥۭ قُلِ الْعَفْوَ۰ۭ﴾ (البقرہ:219:2)
اور وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں کہو کہ جو ضرورت سے بچ رہے۔
﴿وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۙ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ۰ۭ ﴾ (النساء36:4)
اور احسان کرو اپنے ماں باپ کے ساتھ اور اپنے رشتے داروں اور نادار مسکینوں اور قرابت دار پڑوسیوں اور اجنبی ہمسایوں اور اپنے ملنے جلنے والے دوستوں اور مسافروں اور لونڈی غلاموں کے ساتھ۔
﴿وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِo ﴾ (الذاریات19:51)
اور ان کے مالوں میں سائل اور نادار کا حق ہے۔
یہاں پہنچ کر اسلام کا نقطۂ نظر سرمایہ داری کے نقطۂ نظر سے بالکل مختلف ہو جاتا ہے۔
سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ خرچ کرنے سے مفلس ہو جاؤں گا اور جمع کرنے سے مال دار بنوں گا۔ اسلام کہتا ہے خرچ کرنے سے برکت ہوگی، تیری دولت گھٹے گی نہیں بلکہ اور بڑھے گی۔
﴿اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاۗءِ۰ۚ وَاللہُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَفَضْلًا۰ۭ ﴾ (البقرہ 268:2)
شیطان تم کو ناداری کا خوف دلاتا ہے اور بخل جیسی شرمناک بات کا حکم دیتا ہے، مگر اللہ تم سے بخشش اور مزید عطا کا وعدہ کرتا ہے۔
سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ جو کچھ خرچ کر دیا وہ کھو گیا ۔ اسلام کہتا ہے کہ نہیں، وہ کھویا نہیں گیا بلکہ اس کا بہتر فائدہ تمھاری طرف پھر پلٹ کر آئے گا۔
﴿وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ يُّوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَo ﴾
(البقرہ272:2)
اور تم نیک کاموں میں جو کچھ خرچ کرو گے وہ تم کو پورا پورا واپس ملے گا اور تم پر ہرگز ظلم نہ ہوگا۔
﴿مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَۃً يَّرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَـبُوْرَo لِيُوَفِّيَہُمْ اُجُوْرَہُمْ وَيَزِيْدَہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ۰ۭ﴾ ( الفاطر 29-30:35)
اور جن لوگوں نے ہمارے بخشے ہوئے رزق میں سے کھلے اور چھپے طریقے سے خرچ کیا اور وہ ایک ایسی تجارت کی اُمید رکھتے ہیں جس میں گھاٹا ہرگز نہیں ہے۔ اللہ ان کے بدلے ان کو پورے پورے اجر دے گا بلکہ اپنے فضل سے کچھ زیادہ ہی عنایت کرے گا۔
سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ دولت کو جمع کرکے اس کو سود پر چلانے سے دولت بڑھتی ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ نہیں، سود سے تو دولت گھٹ جاتی ہے۔ دولت بڑھانے کا ذریعہ نیک کاموں میں اسے خرچ کرنا ہے۔
﴿يَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ۰ۭ﴾ ( البقرہ276:2 )
اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے۔
﴿وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللہِ۰ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوۃٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْہَ اللہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَo ﴾
(الروم 39:30)
اور یہ جو تم سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہو تو اللہ کے نزدیک وہ ہرگز نہیں بڑھتا۔ بڑھوتری تو ان اموال کو نصیب ہوتی ہے جو تم اللہ کے لیے زکوٰۃ میں دیتے ہو۔
یہ ایک نیا نظریہ ہے جو سرمایہ داری کے نظریے کی بالکل ضد ہے۔ خرچ کرنے سے دولت کا بڑھنا اور خرچ کیے ہوئے مال کا ضائع نہ ہونا بلکہ اس کا پورا بدل کچھ زائد فائدے کے ساتھ واپس آنا، سود سے دولت میں اضافہ ہونے کے بجائے الٹا گھاٹا ہونا، زکوٰۃ و صدقات سے دولت میں کمی واقع ہونے کے بجائے اضافہ ہونا، یہ ایسے نظریات ہیں جو بظاہر عجیب معلوم ہوتے ہیں۔ سننے والا سمجھتا ہے کہ شاید ان سب باتوں کا تعلق محض ثواب آخرت سے ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ ان باتوں کا تعلق ثواب آخرت سے بھی ہے اور اسلام کی نگاہ میں اصلی اہمیت اسی کی ہے، لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس دنیا میں بھی معاشی حیثیت سے یہ نظریات ایک نہایت مضبوط بنیاد پر قائم ہیں۔ دولت کو جمع کرنے اور اس کو سود پر چلانے کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ دولت سمٹ سمٹ کر چند افراد کے پاس اکٹھی ہو جائے۔ جمہور کی قوتِ خرید (purchasing power) روز بروز گھٹتی چلی جائے۔ صنعت اور تجارت اور زراعت میں کساد بازاری رونما ہو، قوم کی معاشی زندگی تباہی کے سرے پر جا پہنچے، اور آخر کار خود سرمایہ دارانہ افراد کے لیے بھی اپنی جمع شدہ دولت کو افزائش دولت کے کاموں میں لگانے کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔{ FR 2227 } بخلاف اس کے خرچ کرنے اور زکوٰۃ و صدقات دینے کا مآل یہ ہے کہ قوم کے تمام افراد تک دولت پھیل جائے، ہر ہر شخص کو کافی قوتِ خرید حاصل ہو، صنعتیں پرورش پائیں، کھیتیاں سرسبز ہوں، تجارت کو خوب فروغ ہو اور چاہے کوئی لکھ پتی اور کروڑ پتی نہ ہو، مگر سب خوشحال و فارغ البال ہوں۔ اس مآل اندیشانہ معاشی نظریے کی صداقت اگر دیکھنی ہو تو امریکہ کے موجودہ معاشی حالات کو دیکھیے۔{ FR 2228 }جہاں سود ہی کی وجہ سے تقسیم ثروت کا توازن بگڑ گیا ہے، اور صنعت و تجارت کی کساد بازاری نے قوم کی معاشی زندگی کو تباہی کے سرے پر پہنچا دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں ابتدائے عہد اسلامی کی حالت کو دیکھیے کہ جب اس معاشی نظریے کو پوری شان کے ساتھ عملی جامہ پہنایا گیا تو چند سال کے اندر قوم کی خوش حالی اس مرتبے کو پہنچ گئی کہ لوگ زکوٰۃ کے مستحقین کو ڈھونڈتے پھرتے تھے اور مشکل ہی سے کوئی ایسا شخص ملتا تھا جو خود صاحب نصاب نہ ہو۔ ان دونوں حالتوں کا موازنہ کرنے سے معلوم ہو جائے گا کہ اللہ کس طرح سود کا مٹھ مارتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے۔
پھر اسلام جو ذہنیت پیدا کرتا ہے وہ بھی سرمایہ دارانہ ذہنیت سے بالکل مختلف ہے۔ سرمایہ دار کے ذہن میں کسی طرح یہ تصور سما ہی نہیں سکتا کہ ایک شخص اپنا روپیہ دوسرے کو سود کے بغیر کیسے دے سکتا ہے۔ وہ قرض پر نہ صرف سود لیتا ہے بلکہ اپنے رأس المال اور سود کی بازیافت کے لیے قرض دار کے کپڑے اور گھر کے برتن تک قرق کرا لیتا ہے۔ مگر اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ حاجت مند کو صرف قرض ہی نہ دو بلکہ اگر وہ تنگ دست ہو تو اس پر تقاضے میں سختی بھی نہ کرو، حتیٰ کہ اگر اس میں دینے کی استطاعت نہ ہو تو معاف کر دو۔
﴿وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰى مَيْسَرَۃٍ۰ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo ﴾ (البقرہ 280:2)
اگر قرض دار تنگ دست ہو تو اس کی حالت درست ہونے تک اسے مہلت دے دو اور اگر معاف کر دو تو یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اس کا فائدہ تم سمجھ سکتے ہو اگر کچھ علم رکھتے ہو۔
سرمایہ داری میں امدادِ باہمی کے معنی یہ ہیں کہ آپ انجمن امداد باہمی کو پہلے روپیہ دے کر اس کے رکن بنیے، پھر اگر کوئی ضرورت آپ کو پیش آئے گی تو انجمن آپ کو عام بازاری شرح سود سے کچھ کم پر قرض دے دے گی۔ اگر آپ کے پاس روپیہ نہیں ہے تو ’’امدادباہمی‘‘ سے آپ کچھ بھی امداد حاصل نہیں کر سکتے۔ برعکس اس کے اسلام کے ذہن میں امداد باہمی کا تصور یہ ہے کہ جو لوگ ذی استطاعت ہوں وہ ضرورت کے وقت اپنے کم استطاعت بھائیوں کو نہ صرف قرض دیں بلکہ قرض ادا کرنے میں بھی حسبۃً للّٰہ ان کی امداد کریں چنانچہ زکوٰۃ کے مصارف میں سے ایک مصرف والغارمین بھی ہے، یعنی قرض داروں کے قرض ادا کرنا۔
سرمایہ دار اگر نیک کاموں میں خرچ کرتا ہے تو محض نمائش کے لیے، کیونکہ اس کم نظر کے نزدیک اس خرچ کا کم سے کم یہ معاوضہ تو اس کو حاصل ہونا ہی چاہیے کہ اس کا نام ہو جائے، اس کو مقبولیت عام حاصل ہو، اس کی دھاک اور ساکھ بیٹھ جائے مگر اسلام کہتا ہے کہ خرچ کرنے میں نمائش ہرگز نہ ہونی چاہیے۔ خفیہ یا علانیہ جو کچھ بھی خرچ کرو اس میں یہ مقصد پیش نظر ہی نہ رکھو کہ فوراً اس کا بدل تم کو کسی نہ کسی شکل میں مل جائے بلکہ مآل کار پر نگاہ رکھو۔ اس دنیا سے لے کر آخرت تک جتنی دور تمھاری نظر جائے گی تم کو یہ خرچ پھلتا پھولتا اور منافع پر منافع پیدا کرتا ہی دکھائی دے گا۔ ’’جو شخص اپنے مال کو نمائش کے لیے خرچ کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان پر مٹی پڑی تھی، اس نے اس مٹی پر بیج بویا، مگر پانی کا ایک ریلا آیا اور مٹی کو بہا لے گیا… اور جو شخص اپنی نیت کو درست رکھ کر اللہ کی خوشنودی کے لیے خرچ کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک عمدہ زمین میں باغ لگایا، اگر بارش ہوگئی تو دوگنا پھل لایا اور اگر بارش نہ ہوئی تو محض ہلکی سی پھوار اس کے لیے کافی ہے۔‘‘ (البقرہ 265:2)
﴿اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِىَ۰ۚ وَاِنْ تُخْفُوْھَا وَتُؤْتُوْھَا الْفُقَرَاۗءَ فَھُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۰ۭ ﴾ (البقرہ2: 271)
اگر صدقات علانیہ دو تو یہ بھی اچھا ہے لیکن اگر چھپا کر دو اور غریب لوگوں تک پہنچاؤ تو یہ زیادہ بہتر ہے۔
سرمایہ دار اگر نیک کام میں کچھ صرف بھی کرتا ہے تو بادل ناخواستہ بدتر سے بدتر مال دیتا ہے اور پھر جس کو دیتا ہے اس کی آدھی جان اپنی زبان کے نشتروں سے نکال لیتا ہے۔ اسلام اس کے بالکل برعکس یہ سکھاتا ہے کہ اچھا مال خرچ کرو اور خرچ کرکے احسان نہ جتاؤ بلکہ اس کی خواہش بھی نہ رکھو کہ کوئی تمھارے سامنے احسان مندی کا اظہار کرے۔
﴿ اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۰۠ وَلَا تَـيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ ﴾ ( البقرہ267:2)
تم نے جو کچھ کمایا ہے اور جو کچھ ہم نے تمھارے لیے زمین سے نکالا ہے اس میں سے عمدہ اموال کو راہِ خدا میں صرف کرو نہ یہ کہ بدتر مال چھانٹ کر اس میں سے دینے لگو۔
﴿لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى۰ۙ﴾ ( البقرہ264:2)
اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور اذیت پہنچا کر ملیا میٹ نہ کرو۔
﴿وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًاo اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًاo ﴾ (الدھر76:9-8)
اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ کے لیے تم کو کھلاتے ہیں۔ ہم تم سے کسی جزا اور شکریے کے خواہش مند نہیں۔
چھوڑیئے اس سوال کو کہ اخلاقی نقطۂ نظر سے ان دونوں ذہنیتوں میں کتنا عظیم تفاوت ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ خالص معاشی نقطۂ نظر ہی سے دیکھ لیجیے کہ فائدے اور نقصان کے ان دونوں نظریوں میں سے کون سا نظریہ زیادہ محکم اور دوررس نتائج کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے۔ پھر جب کہ منفعت و مضرت کے باب میں اسلام کا نظریہ وہ ہے جو آپ دیکھ چکے ہیں تو کیوں کر ممکن ہے کہ اسلام کسی شکل میں بھی سودی کاروبار کو جائز رکھے۔
۴۔ زکاۃ
جیسا کہ اوپر بیان ہوا ، معاشیات میں اسلام جس مطمح نظر کو سامنے رکھتا ہے وہ یہ کہ دولت کسی جگہ جمع نہ ہونے پائے۔ وہ چاہتا ہے کہ جماعت کے جن افراد کو اپنی بہتر قابلیت یا خوش قسمتی کی بنا پر ان کی ضرورت سے زیادہ دولت میسر آ گئی ہو وہ اس کو سمیٹ کر نہ رکھیں بلکہ خرچ کریں اور ایسے مصارف میں خرچ کریں جن سے دولت کی گردش میں سوسائٹی کے کم نصیب افراد کو بھی کافی حصہ مل جائے۔ اس غرض کے لیے اسلام ایک طرف اپنی بلند اخلاقی تعلیم اور ترغیب و ترہیب کے نہایت موثر طریقوں سے فیاضی اور حقیقی امداد باہمی کی اسپرٹ پیدا کرتا ہے، تاکہ لوگ خود اپنے میلان طبع ہی سے دولت جمع کرنے کو برا سمجھیں اور اسے خرچ کر دینے کی طرف راغب ہوں۔ دوسری طرف وہ ایسا قانون بناتا ہے کہ جو لوگ فیاضی کی اس تعلیم کے باوجود اپنی افتاد طبع کی وجہ سے روپیہ جوڑنے اور مال سمیٹنے کے خوگر ہوں، یا جن کے پاس کسی نہ کسی طور پر مال جمع ہو جائے، ان کے مال میں سے بھی کم از کم ایک حصہ سوسائٹی کی فلاح و بہبود کے لیے ضرور نکلوا لیا جائے اسی چیز کا نام زکوٰۃ ہے اور اسلام کے معاشی نظام میں اس کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اس کو ارکانِ اسلام میں شامل کر دیا گیا ہے۔ نماز کے بعد سب سے زیادہ اسی کی تاکید کی گئی ہے اور صاف صاف کہہ دیا گیا ہے کہ جو شخص دولت جمع کرتا ہے ،اس کی دولت اس کے لیے حلال ہی نہیں ہو سکتی تاوقتیکہ وہ زکوٰۃ نہ ادا کرے۔
﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَـۃً تُطَہِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْہِمْ بِہَا﴾ (التوبہ103:9)
اے نبیؐ، ان کے اموال میں سے ایک صدقہ { FR 2229 } وصول کرو جو ان کو پاک کر دے اور ان کا تزکیہ کرے۔
آیت کے آخری الفاظ سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ مالدار آدمی کے پاس جو دولت جمع ہوتی ہے وہ اسلام کی نگاہ میں ایک نجاست ہے، ایک ناپاکی ہے اور وہ پاک نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کا مالک اس میں سے ہر سال کم از کم ایک مقرر مقدار راہ خدا میں نہ خرچ کر دے۔ ’’راہِ خدا‘‘ کیا ہے؟ خدا کی ذات تو بے نیاز ہے۔ اس کو نہ تمھارا مال پہنچتا ہے نہ وہ اس کا حاجت مند ہے۔ اس کی راہ بس یہی ہے کہ تم خود اپنی قوم کے تنگ حال لوگوں کو خوش حال بنانے کی کوشش کرو اور ایسے مفید کاموں کو ترقی دو جن کا فائدہ ساری قوم کو حاصل ہوتا ہے۔
﴿نَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۭ ﴾
(التوبہ60:9)
صدقات تو دراصل فقراء اور مساکین کے لیے ہیں۔{ FR 2230 } اور ان کارکنوں کے لیے جو صدقات کی تحصیل پر مقرر ہوں اور ان لوگوں کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب{ FR 2231 } ہو۔ اور لوگوں کی گردنیں بند اسیری سے چھڑا نے کے لیے اور قرض داروں کے قرض ادا کرنے کے لیے اور فی سبیل اللہ خرچ کرنے کے لیے اور مسافروں کے لیے۔‘‘{ FR 2232 }
یہ مسلمانوں کی کوآپریٹو سوسائٹی ہے۔ یہ ان کی انشورنس کمپنی ہے۔ یہ ان کا پراویڈنٹ فنڈ ہے۔ یہ ان کے بے کاروں کا سرمایۂ اعانت ہے۔ یہ ان کے معذوروں، اپاہجوں، بیماروں، یتیموں، بیواؤں اور بے روزگاروں کا ذریعۂ پرورش ہے۔ اور ان سب سے بڑھ کر یہ وہ چیز ہے جو مسلمانوں کو فکر فرد ا سے بالکل بے نیاز کر دیتی ہے۔ اس کا سیدھا سادا اُصول یہ ہے کہ آج تم مال دار ہو تو دوسروں کی مدد کرو۔ کل تم نادار ہوگئے تو دوسرے تمھاری مدد کریں گے۔ تمھیں یہ فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ مفلس ہوگئے تو کیا بنے گا؟ مر گئے تو بیوی بچوں کا کیا حشر ہوگا؟ کوئی آفت ناگہانی آ پڑی، بیمار ہوگئے، گھر میں آگ لگ گئی، سیلاب آ گیا، دیوالیہ نکل گیا تو ان مصیبتوں سے مخلصی کی کیا سبیل ہوگی؟ سفر میں پیسہ پاس نہ رہا تو کیوں کر گزر بسر ہوگی؟ ان سب فکروں سے صرف زکوٰۃ تم کو ہمیشہ کے لیے بے فکر کر دیتی ہے ۔ تمھارا کام بس اتنا ہے کہ اپنی پس انداز کی ہوئی دولت میں سے ایک حصہ دے کر اللہ کی انشورنس کمپنی میں اپنا بیمہ کرا لو۔ اس وقت تم کو اس دولت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ان کے کام آئے گی جو اس کے ضرورت مند ہیں۔ کل جب تم ضرورت مند ہوگے یا تمھاری اولاد ضرورت مند ہوگی تو نہ صرف تمھارا اپنا دیا ہوا مال بلکہ اس سے بھی زیادہ تم کو واپس مل جائے گا۔
یہاں پھر سرمایہ داری اور اسلام کے اصول و مناہج میں کلی تضاد نظر آتا ہے۔ سرمایہ داری کا اقتضا یہ ہے کہ روپیہ جمع کیا جائے اور اس کے بڑھانے کے لیے سود لیا جائے تاکہ ان نالیوں کے ذریعے سے آس پاس کے لوگوں کا روپیہ بھی سمٹ کر اس جھیل میں جمع ہو جائے۔ اسلام اس کے بالکل خلاف یہ حکم دیتا ہے کہ روپیہ اوّل تو روک کر نہ رکھا جائے، اور اگر رُک گیا ہو تو اس تالاب میں سے زکوٰۃ کی نہریں نکال دی جائیں تاکہ جو کھیت سوکھے ہیں ان کو پانی پہنچے اور گردوپیش کی ساری زمین شاداب ہو جائے۔ سرمایہ داری کے نظام میں دولت کا مبادلہ مقیّد ہے، اور اسلام میں آزاد سرمایہ داری کے تالاب سے پانی لینے کے لیے ناگزیر ہے کہ خاص آپ کا پانی پہلے سے وہاں موجود ہو، ورنہ آپ ایک قطرۂ آب بھی وہاں سے نہیں لے سکتے … اس کے مقابلے میں اسلام کے خزانۂ آب کا قاعدہ یہ ہے کہ جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہو وہ اس میں لا کر ڈال دے اور جس کو پانی کی ضرورت ہو وہ اس میں سے لے لے۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں طریقے اپنی اصل اور طبیعت کے لحاظ سے ایک دوسرے کی پوری پوری ضد ہیں اور ایک نظام معیشت میں ان دونوں کو جمع کرنا درحقیقت اضداد کو جمع کرنا ہے جس کا تصور بھی کوئی عاقل نہیں کر سکتا۔
۵۔ قانون وراثت
اپنی ضروریات پر خرچ کرنے اور راہِ خدا میں دینے اور زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی جو دولت کسی ایک جگہ سمٹ کر رہ گئی ہو، اس کو پھیلانے کے لیے پھر ایک تدبیر اسلام نے اختیار کی ہے اور وہ اس کا قانونِ وراثت ہے۔ اس قانون کا منشا یہ ہے کہ جو شخص مال چھوڑ کر مر جائے، خواہ وہ زیادہ ہو یا کم، اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے نزدیک و دور کے تمام رشتے داروں میں درجہ بدرجہ پھیلا دیا جائے، اور اگر کسی کا کوئی وارث نہ ہو یا نہ ملے تو بجائے اس کے کہ اسے متبنیٰ بنانے کا حق دیا جائے، اس کے مال کو مسلمانوں کے بیت المال میں داخل کر دینا چاہیے تاکہ اس سے پوری قوم فائدہ اٹھائے۔ تقسیم وراثت کا یہ قانون جیسا اسلام میں پایا جاتا ہے کسی اور معاشی نظام میں نہیں پایا جاتا۔ دوسرے معاشی نظاموں کا میلان اس طرف ہے کہ جو دولت ایک شخص نے سمیٹ کر جمع کی ہے وہ اس کے بعد بھی ایک یا چند خاص اشخاص کے پاس سمٹی رہے۔{ FR 2233 }مگر اسلام دولت کے سمٹنے کو پسند ہی نہیں کرتا۔ وہ اس کو پھیلانا چاہتا ہے تاکہ دولت کی گردش میں آسانی ہو۔
۶۔ غنائم جنگ اور اموال مفتوحہ کی تقسیم
اس معاملے میں بھی اسلام نے وہی مقصد پیش نظر رکھا ہے۔ جنگ میں جو مالِ غنیمت فوجوں کے ہاتھ آئے اس کے متعلق یہ قانون بنایا گیا کہ اس کے پانچ حصے کیے جائیں، چار حصے فوج میں تقسیم کر دیے جائیں اور ایک حصہ اس غرض کے لیے رکھ لیا جائے کہ عام قومی مصالح میں صرف ہو۔
﴿وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۙ﴾ ( الانفال41:8)
جان لو کہ جو کچھ تم کو غنیمت میں ہاتھ آئے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول اور اس کے رشتے داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے۔
اللہ اور رسولؐ کے حصّے سے مراد ان اجتماعی اغراض و مصالح کا حصہ ہے جن کی نگرانی اللہ اور رسول کے تحت ِحکم اسلامی حکومت کے سپرد کی گئی ہے۔
رسول کے رشتے داروں کا حصہ اس لیے رکھا گیا تھا کہ زکوٰۃ میں ان کا حصہ نہ تھا۔
اس کے بعد خمس میں تین طبقوں کا حصہ خصوصیت کے ساتھ رکھا گیا ہے۔
پہلے‘ قوم کے یتیم بچے تاکہ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام ہو اور ان کو زندگی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے قابل بنایا جائے۔
دوسرے‘ مساکین جن میں بیوہ عورتیں، اپاہج، معذور، بیمار اور نادار سب شامل ہیں۔
تیسرے‘ ابن السبیل یعنی مسافر۔ اسلام نے اپنی اخلاقی تعلیم سے لوگوں میں مسافر نوازی کا میلان خاص طور پر پیدا کیا ہے اور اس کے ساتھ زکوٰۃ و صدقات اور غنائم جنگ میں بھی مسافروں کا حق رکھا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے اسلامی ممالک میں تجارت، سیاحت، تعلیم اور مطالعہ و مشاہدۂ آثار و احوال کے لیے لوگوں کی نقل و حرکت میں بڑی آسانیاں پیدا کر دیں۔
جنگ کیے بغیر جو اراضی اور اموال اسلامی حکومت کے ہاتھ آئیں ان کے لیے یہ قانون بنایا گیا کہ ان کو بالکلیہ حکومت کے قبضے میں رکھا جائے۔
﴿مَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۙ كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَۃًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ۰ۭ………… لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُہٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ………… وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ…………وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِہِمْ ﴾ ( الحشر59: 7-10)
جو کچھ اللہ نے اپنے رسول کو بستیوں کے باشندوں سے فَے میں دلوایا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول اور رسول کے رشتے داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ یہ مال صرف تمھارے دولت مندوں ہی کے درمیان چکر نہ لگاتا رہے … اور اس میں ان نادار مہاجرین کا بھی حصہ ہے جو اپنے گھر بار اور جائیدادوں سے بے دخل کرکے نکال دیئے گئے ہیں … اور ان لوگوں کا بھی حصہ ہے جو مہاجرین کی آمد سے پہلے مدینہ میں ایمان لے آئے تھے … اور ان آئندہ نسلوں کا بھی حصہ ہے جو بعد میں آنے والی ہیں۔
اس آیت میں نہ صرف ان مصارف کی توضیح کی گئی ہے جن میں اموالِ فَے کو صرف کیا جائے گا، بلکہ صاف طور پر اس مقصد کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا ہے جس کو اسلام نے نہ صرف اموالِ فے کی تقسیم میں، بلکہ اپنے پورے معاشی نظام میں پیش نظر رکھا ہے یعنی﴿کَیْ لَایَکُوْنَ دَوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْ (مال تمھارے مال داروں ہی میں چکر نہ لگاتا رہے) یہ مضمون جس کو قرآن مجید نے ایک چھوٹے سے جامع فقرے میں بیان کر دیا ہے۔ اسلامی معاشیات کا سنگ بنیاد ہے۔
۷۔ اِقتصاد کا حکم
ایک طرف اسلام نے دولت کو تمام افرادِ قوم میں گردش دینے اور مال داروں کے مال میں ناداروں کو حصّے دار بنانے کا انتظام کیا ہے، جیسا کہ آپ اوپر دیکھ چکے ہیں۔ دوسری طرف وہ ہر شخص کو اپنے خرچ میں اقتصاد اور کفایت شعاری ملحوظ رکھنے کا حکم دیتا ہے تاکہ افراد اپنے معاشی وسائل سے کام لینے میں افراط یا تفریط کی روش اختیار کرکے ثروت کے توازن کو نہ بگاڑ دیں۔ قرآن مجید کی جامع تعلیم اس باب میں یہ ہے کہ
﴿وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْہَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًاo ﴾ (بنی اسرائیل29:17)
نہ اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے باندھے رکھ (کہ کھلے ہی نہیں) اور نہ اس کو بالکل ہی کھول دے کہ بعد میں حسرت زدہ بن کر بیٹھا رہ جائے۔
﴿وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا﴾o (الفرقان 67:25)
اللہ کے نیک بندے وہ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل برتتے ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل رہتے ہیں۔
اس تعلیم کا منشا یہ ہے کہ ہر شخص جو کچھ خرچ کرے اپنے معاشی وسائل کی حد میں رہ کر خرچ کرے۔ نہ اس قدر حد سے تجاوز کر جائے کہ اس کا خرچ اس کی آمدنی سے بڑھ جائے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی فضول خرچیوں کے لیے ایک ایک کے آگے ہاتھ پھیلاتا پھرے، دوسروں کی کمائی پر ڈاکے مارے، حقیقی ضرورت کے بغیر لوگوں سے قرض لے اور پھر یا تو ان کے قرض مار کھائے یا قرضوں کا بھگتان بھگتنے میں اپنے تمام معاشی وسائل کو صرف کرکے اپنے آپ کو خود اپنے کیے کرتوتوں سے فقرا و مساکین کے زمرے میں شامل کر دے۔ نہ ایسا بخیل بن جائے کہ اس کے معاشی وسائل جس قدر خرچ کرنے کی اس کو اجازت دیتے ہوں اتنا بھی نہ خرچ کرے۔ پھر اپنی حد کے اندر رہ کر خرچ کرنے کے بھی یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ اگر اچھی آمدنی رکھتا ہے تو اپنی ساری کمائی صرف اپنے عیش و آرام اور تزک و احتشام پر صرف کر دے۔ درآں حالیکہ اس کے عزیز، قریبی دوست، ہمسائے مصیبت کی زندگی بسر کر رہے ہوں۔ اس قسم کے خود غرضانہ خرچ کو بھی اسلام فضول خرچی ہی شمار کرتا ہے۔
﴿وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًاo اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ۰ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّہٖ كَفُوْرًاo ﴾
( بنی اسرائیل 27:17)
اور اپنے رشتے دار کو اس کا حق دے اور مسکین اور مسافر کو(اس کا حق) فضول خرچی نہ کر۔ فضول خرچ شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔
اسلام نے اس باب میں صرف اخلاقی تعلیم ہی دینے پر اکتفا نہیں کی ہے، بلکہ اس نے بخل اور فضول خرچی کی انتہائی صورتوں کو روکنے کے لیے قوانین بھی بنائے ہیں اور ایسے تمام طریقوں کا سدباب کرنے کی کوشش کی ہے جو تقسیم ثروت کے توازن کو بگاڑنے والے ہیں۔ وہ جوئے کو حرام قرار دیتا ہے۔ شراب اور زنا سے روکتا ہے۔ لہو و لعب کی بہت سی مسرفانہ عادتوں کو جن کا لازمی نتیجہ ضیاعِ وقت اور ضیاعِ مال ہے، ممنوع قرار دیتا ہے۔ موسیقی کے فطری ذوق کو اس حد تک پہنچنے سے باز رکھتا ہے جہاں انسان کا انہماک دوسری اخلاقی و روحانی خرابیاں پیدا کرنے کے ساتھ معاشی زندگی میں بھی بدنظمی پیدا کرنے کا موجب ہو سکتا ہے اور فی الواقع ہو جاتا ہے۔ جمالیات کے طبعی رجحان کو بھی وہ حدود کا پابند بناتا ہے ۔ قیمتی ملبوسات، زرو جواہر کے زیورات، سونے چاندی کے ظروف اور تصاویر اور مجسموں کے بارے میں نبیa سے جو احکام مروی ہیں ان سب میں دوسرے مصالح کے ساتھ ایک بڑی مصلحت یہ بھی پیش نظر ہے کہ جو دولت تمھارے بہت سے غریب بھائیوں کی ناگزیر ضرورتیں پوری کر سکتی ہے، ان کو زندگی کے ما یحتاج فراہم کرکے دے سکتی ہے، اسے محض اپنے جسم اور اپنے گھر کی تزئین و آرائش کر دینا جمالیت نہیں، شقاوت اور بدترین خودغرضی ہے۔ غرض اخلاقی تعلیم اور قانونی احکام دونوں طریقوں سے اسلام نے انسان کو جس قسم کی زندگی بسر کرنے کی ہدایت کی ہے وہ ایسی سادہ زندگی ہے کہ اس میں انسان کی ضروریات اور خواہشات کا دائرہ اتنا وسیع ہی نہیں ہو سکتا کہ وہ ایک اوسط درجے کی آمدنی میں گزر بسر نہ کر سکتا ہو اور اسے اپنے دائرے سے پاؤں نکال کر دوسروں کی کمائیوں میں حصہ لڑانے کی ضرورت پیش آئے۔ یا اگر وہ اوسط سے زیادہ آمدنی رکھتا ہو تو اپنا تمام مال خود اپنی ذات پر خرچ کر دے اور اپنے ان بھائیوں کی مدد نہ کر سکے جو اوسط سے کم آمدنی رکھتے ہوں۔
ایک سوال
یہ ایک مرقّع ہے جس میں اسلام کے پورے معاشی نظام کو آپ کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔ اب اس تصویر کو دیکھیے اور بار بار دیکھیے اور بتایئے کہ اس میں آپ سود کو کس جگہ کھپا سکتے ہیں؟ اس کی روح کو دیکھیے، اس کی ساخت کو دیکھیے، اس کے اجزا اور ان کے باہمی ربط و تعلق کو دیکھیے، اس میں جو معنی اور مقصد پوشیدہ ہے اس کو دیکھیے، اس میں کہاں سودی لین دین کی گنجائش یا ضرورت ہے! کہاں نظام سرمایہ داری کے اداروں میں سے کسی ادارے کو رکھنے کی جگہ یا اس کی حاجت ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہونا چاہیے تو اس کے بعد دوبارہ ایک غائر نظر اس تصویر پر ڈالیے اور بتایئے کہ اس میں اخلاقی، تمدنی اور معاشی نقطۂ نظر سے کہاں آپ کو نقص نظر آتا ہے؟ اخلاق اور تمدن کے بلند تر مصالح کو آپ چھوڑنا چاہتے ہیں تو چھوڑیئے۔ اگر معیشت ہی انسانی زندگی میں ایک اہم چیز ہے تو خالص معاشی حیثیت ہی سے دیکھ لیجیے۔ کیا اس نظام معیشت کے اُصول و فروع میں کوئی خرابی ہے؟ کیا اس میں دلائل اور شواہد کی قوت سے کوئی ایسی ترمیم پیش کی جا سکتی جس کے بغیر یہ نظم بجائے خود ناقص ہو؟ اس سے بہتر کوئی دوسرا نظمِ معیشت تجویز کیا جا سکتا ہے جس میں فرد اور جماعت کے درمیان حقوق اور مفادات کا اس سے زیادہ صحیح توازن قائم کیا گیا ہو اور انفرادی و اجتماعی فلاح و بہبود کی یکساں رعایت اس سے زیادہ بہتر طریقے سے ملحوظ رکھی گئی ہو؟ اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا اور ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہرگز نہیں ہو سکتا تو کیا عقل و دانش کا یہی تقاضا ہے کہ آپ اوّل تو اپنی کمزوری سے اس بہترین نظام معیشت کو چھوڑ کر دنیا کے سب سے بدتر، سب سے زیادہ غلط اور بہ اعتبار نتائج سب سے زیادہ تباہ کن نظام معیشت کی پیروی کریں، اور پھر اس پر نادم بھی نہ ہوں۔ اپنے ضمیر پر گناہ کا بار بھی نہ رہنے دیں اور اس گناہ کو صواب، اس فسق و عصیان کو طاعت قرار دینے کے لیے آیات قرآنی و احادیث نبوی میں باطل تاویلیں کریں، اور اس شیطانی نظام معیشت کے فاسد ارکان کو لے کر اسلام کے پاک اور مُطَہّر نظام معاشی میں پیوست کرنے کی کوشش کریں، بلا لحاظ اس کے کہ اسلام کے اصول اور اس کی روح اور اس کے مزاج سے ان چیزوں کو کتنی ہی شدید نامناسبت ہو؟ پہلے تو آپ حکیم کے بتائے ہوئے نسخے کو پھینک دیتے ہیں، اس کی تدبیر حفظ صحت سے اعراض و انکار کرتے ہیں‘ جو پرہیز اس نے تجویز کیا ہے اس پر عمل نہیں کرتے۔ پھر جب مرض بڑھتا ہے اور موت سامنے نظر آتی ہے تو اسی حکیم سے کہتے ہیں کہ جس عطائی کے نسخوں نے مجھے بیمار ڈالا ہے اسی کا نسخہ تو مجھے اپنے ہاتھ سے لکھ دے۔ جن بدپرہیزیوں نے مجھے جاں بلب کیا ہے انھی کی اجازت دے دے جس چیز کو تو نے زہر بتایا تھا اسی کو کہہ دے کہ یہ تریاق ہے! آخر اس بو العجبی کی کوئی انتہا بھی ہے؟‘‘
٭…٭…٭
حرمت سود
۱۔ سَلَبی پہلو
اسلامی نظام معیشت اور اس کے ارکان کا جو مختصر خاکہ پچھلے باب میں پیش کیا گیا ہے اس میں چار چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں:۔
۱۔ آزاد معیشت‘ چند حدود قیود کے اندر ۲۔ زکوٰۃ کی فرضیت
۳۔ قانون میراث ۴۔ سود کی حرمت
ان میں پہلی چیز کو کم از کم اُصولی طور پر وہ سب لوگ اب درست تسلیم کرنے لگے ہیں جن کے سامنے بے قید سرمایہ داری کی قباحتیں اور اشتراکیت و فاشیت کی شناعتیں بے نقاب ہو چکی ہیں۔ اس کی تفصیلات کے بارے میں کچھ الجھنیں ذہنوں میں ضرور پائی جاتی ہیں، مگر ہمیں اُمید ہے کہ ہماری کتاب ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘ اور ’’مسئلہ ملکیت زمین‘‘ کا مطالعہ انھیں دُور کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوگا۔
فرضیت زکوٰۃ کی اہمیت اب بڑی حد تک دنیا کے سامنے واضح ہو چکی ہے۔ کسی صاحب نظر سے یہ بات مخفی نہیں رہی ہے کہ اشتراکیت، فاشزم اور سرمایہ دارانہ جمہوریت، تینوں نے اب تک سوشل انشورنس کا جو وسیع نظام سوچا ہے‘ زکوٰۃ اس سے بہت زیادہ وسیع پیمانے پر اجتماعی انشورنس کا انتظام کرتی ہے‘ لیکن یہاں بھی کچھ اُلجھنیں زکوٰۃ کے تفصیلی احکام معلوم نہ ہونے کی وجہ سے پیش آتی ہیں۔ اور لوگوں کے لیے یہ بات سمجھنی بھی مشکل ہو رہی ہے کہ ایک جدید ریاست کے مالیات میں زکوٰۃ و خمس کو کس طرح نصب کیا جا سکتا ہے۔ ان الجھنوں کو دُور کرنے کے لیے ان شاء اللہ ایک مختصر رسالہ احکام زکوٰۃ پر مرتب کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
قانون میراث کے بارے میں اسلام نے تمام دنیا کے قوانین وراثت سے ہٹ کر جو مسلک اختیار کیا ہے۔ پہلے اس کی حکمتوں سے بکثرت لوگ ناواقف تھے اور طرح طرح کے اعتراضات اس پر کرتے تھے‘ لیکن اب بتدریج ساری دنیا اس کی طرف رجوع کرتی جا رہی ہے حتیٰ کہ روسی اشتراکیت کو بھی اس کی خوشہ چینی کرنی پڑی ہے۔{ FR 2234 }
مگر اس نقشے کے چوتھے جز کو سمجھنے میں موجودہ زمانے کے لوگوں کو سخت مشکل پیش آرہی ہے۔ سرمایہ دارانہ علم معیشت نے پچھلی صدیوں میں یہ تخیل بڑی گہری جڑوں کے ساتھ جما دیا ہے کہ سود کی حرمت محض ایک جذباتی چیز ہے اور یہ کہ بلا سود کسی شخص کو قرض دینا محض ایک اخلاقی رعایت ہے جس کا مطالبہ مذہب نے خواہ مخواہ اس قدر مبالغے کے ساتھ کر دیا ہے ورنہ منطقی حیثیت سے وہ صرف ناقابل اعتراض ہی نہیں بلکہ عملاً مفید اور ضروری بھی ہے۔ اس غلط نظریے اور اس کی اس پر زور تبلیغ کا اثر یہ ہے کہ جدید نظام سرمایہ داری کے تمام عیوب پر تو دنیا بھر کے ناقدین کی نگاہ پڑتی ہے مگر اس سب سے بڑے بنیادی عیب پر کسی کی نگاہ نہیں پڑتی حتیٰ کہ روس کے اشتراکی بھی اپنی مملکت میں سرمایہ داری نظام کی اس اُم الخبائث کو برطانیہ اور امریکہ ہی کی طرح پرورش کر رہے ہیں۔ اور حد یہ ہے کہ خود مسلمان بھی، جن کو دنیا میں سود کا سب سے بڑا دشمن ہونا چاہیے، مغرب کے اس گمراہ کن پروپیگنڈے سے بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ ہمارے شکست خوردہ اہل مذہب میں یہ عام غلط فہمی پھیل گئی ہے کہ سود کوئی قابل اعتراض چیز اگر ہے بھی تو صرف اس صورت میں جب کہ وہ ان لوگوں سے وصول کیا جائے جو اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے کے لیے قرض لیتے ہیں۔ رہے وہ قرضے جو کاروبار میں لگانے کے لیے حاصل کیے گئے ہوں، تو ان پر سود کا لین دین سراسر جائز و معقول اور حلال و طیب ہے اور اس میں دین، اخلاق، عقل اور اصول علم معیشت کسی چیز کے اعتبار سے بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس پر مزید وہ خوش فہمیاں ہیں جن کی بنا پر قدیم طرز کے بنیوں اور ساہو کاروں کی سود خواری سے موجودہ زمانے کے بینکنگ کو ایک مختلف چیز سمجھا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان بینکوں کا ’’ستھرا‘‘ کاروبار تو بالکل ایک پاکیزہ چیز ہے جس سے ہر قسم کا تعلق رکھا جا سکتا ہے۔ اسی بنا پر اب سود کی شرعی تعریف بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ قرآن میں جس سود کو حرام کیا گیا ہے اس کی تعریف میں یہ سود سرے سے آتا ہی نہیں۔ ان تمام مغالطوں کے چکر سے جو لوگ نکل گئے ہیں وہ بھی یہ سمجھنے میں مشکل محسوس کر رہے ہیں کہ سود کو قانوناً بند کر دینے کے بعد موجودہ زمانے میں مالیات کا نظام کس طرح قائم ہو سکتا ہے۔
آئندہ صفحات میں انھی مسائل کو صاف کرنے کی کوشش کریں گے۔
سود کی عقلی توجیہات
سب سے پہلے جس بات کو طے ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ کیا فی الواقع سود ایک معقول چیز ہے؟ کیا درحقیقت عقل کی رُو سے ایک شخص اپنے دیے ہوئے قرض پر سود کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے؟ اور کیا انصاف یہی چاہتا ہے کہ جو شخص کسی سے قرض لے، وہ اس کو اصل کے علاوہ کچھ نہ کچھ سود بھی دے؟ یہ اس بحث کا اوّلین سوال ہے اور اس کے طے ہونے سے آدھی سے زیادہ بحث آپ سے آپ طے ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اگر سود ایک معقول چیز ہے تو پھر تحریم سود کے مقدمے میں کوئی جان باقی نہیں رہتی اور اگر سود کو عقل و انصاف کی رو سے درست ثابت نہیں کیا جا سکتا تو پھر یہ امر غور طلب ہو جاتا ہے کہ انسانی معاشرے میں اس نامعقول چیز کو باقی رکھنے پر آخر کیوں اصرار کیا جائے؟
توجیہ اوّل] قرض سے قرض خواہ کی طرح قرض دہندہ کو بھی نفع ہونا چاہیے[
اس سوال کے جواب میں سب سے پہلے جس دلیل سے ہم کو سابقہ پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص کسی دوسرے شخص کو اپنا پس انداز کیا ہوا مال قرض دیتا ہے وہ خطرہ مول لیتا ہے، ایثار کرتا ہے، اپنی ضرورت روک کر دوسرے کی ضرورت پوری کرتا ہے، جس مال سے وہ خود فائدہ اٹھا سکتا تھا اسے دوسرے کے حوالے کرتا ہے، قرض لینے والے نے اگر قرض اس لیے لیا ہے کہ اپنی کوئی ذاتی ضرورت اس سے پوری کرے تو اسے اس مال کا کرایہ ادا کرنا چاہیے، جس طرح وہ مکان یا فرنیچر یا سواری کا کرایہ ادا کرتا ہے۔ یہ کرایہ اس خطرے کا معاوضہ بھی ہوگا کہ دائن نے اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت خود استعمال کرنے کے بجائے اس کو استعمال کرنے کے لیے دے دی اور اگر مدیون نے یہ قرض کسی نفع آور کام میں لگانے کے لیے لیا ہے تو پھر تو دائن اس پر سود مانگنے کا بدرجہ اولیٰ مستحق ہے۔ جب مدیُون اس کی دی ہوئی دولت سے فائدہ اٹھا رہا ہے تو آخر دائن اس فائدے میں سے کیوں نہ حصہ پائے؟
اس توجیہ کا یہ حصہ بالکل درست ہے کہ قرض دینے والا اپنا مال دوسرے کے حوالے کرنے میں خطرہ بھی مول لیتا ہے اور ایثار بھی کرتا ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ کیسے نکل آیا کہ وہ اس خطرے اور ایثار کی قیمت پانچ یا دس فیصدی سالانہ یا ششماہی یا ماہوار کے حساب سے وصول کرنے کا حق رکھتا ہے؟ خطرے کی بنیاد پر جو حقوق معقول طریقے سے اس کو پہنچتے ہیں وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہیں کہ وہ مدیون کی کوئی چیز رہن رکھ لے ، یا اس کی کسی چیز کی کفالت پر قرض دے یا اس سے کوئی ضامن طلب کرے۔ یا پھر سرے سے خطرہ ہی مول نہ لے اور قرض دینے سے انکار کر دے۔ مگر خطرہ نہ تو کوئی مالِ تجارت ہے جس کی کوئی قیمت ہو اور نہ کوئی مکان یا فرنیچر یا سواری ہے کہ اس کا کوئی کرایہ ہو سکے۔ رہا ایثار تو وہ اسی وقت تک ایثار ہے جب تک کہ وہ کاروبار نہ ہو۔ آدمی کو ایثار کرنا ہو تو پھر ایثار ہی کرے اور اس اخلاقی فعل کے اخلاقی فوائد پر راضی رہے۔ اور اگر وہ معاوضے کی بات کرتا ہے تو پھر ایثار کا ذکر نہ کرے بلکہ سیدھی طرح سوداگری کرے اور یہ بتائے کہ وہ قرض کے مقابلے میں اصل رقم کے علاوہ ایک مزید رقم ماہوار یا سالانہ کے حساب سے جو وصول کرتا ہے اس کا آخر وہ کس بنیاد پر مستحق ہے؟
کیا یہ ہر جانہ ہے؟ مگر جو رقم اس نے قرض دی ہے وہ اس کی ضرورت سے زائد تھی، اور اسے وہ خود استعمال بھی نہیں کر رہا تھا۔ اس لیے یہاں فی الواقع کوئی ’’ہرج‘‘ واقع ہی نہیں ہوا کہ اپنے دیے ہوئے اس قرض پر وہ کوئی ’’ہرجانہ‘‘ لینے کا مستحق ہو۔
کیا یہ کرایہ ہے؟ مگر کرایہ تو ان چیزوں کا ہوا کرتا ہے جنھیں کرایہ دار کے لیے مہیا کرنے اور درست رکھنے پر آدمی اپنا وقت، محنت اور مال صرف کرتا ہے اور جو کرایہ دار کے استعمال سے خراب ہوتی ہیں، ٹوٹتی پھوٹتی ہیں اور اپنی قیمت کھوتی رہتی ہیں۔ یہ تعریف اشیائے استعمال، مثلاً مکان، فرنیچر اور سواری وغیرہ پر تو صادق آتی ہے، اور انھی کا کرایہ ایک معقول چیز ہے، لیکن اس تعریف کا اطلاق کسی طرح بھی نہ تو اشیائے صرف مثلاً گیہوں اور پھل وغیرہ پر ہوتا ہے اور نہ روپے پر ہوتا ہے جو محض اشیا اور خدمات خریدنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس لیے ان چیزوں کا کرایہ ایک بے معنی چیز ہے۔
زیادہ سے زیادہ ایک دائن جو کچھ کہہ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ میں دوسرے شخص کو اپنے مال سے فائدہ اٹھانے کا موقع دے رہا ہوں، لہٰذا مجھے اس فائدے میں سے حصہ ملنا چاہیے۔ یہ البتہ ایک معقول بات ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جس فاقہ کش آدمی نے اپنے بھوکے بال بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے تم سے پچاس روپے عاریۃً حاصل کیے ہیں، کیا واقعی وہ تمھارے دیے ہوئے غلے یا روپے سے ایسا ہی ’’فائدہ‘‘ اٹھا رہا ہے جس میں سے تم ایک چھٹانک فی سیر یا ۲ روپے فی صد ماہوار کے حساب سے اپنا حصہ پانے کے مستحق ہو؟ فائدہ تو وہ بے شک اٹھا رہا ہے۔ اس استفادے کا موقع بلا شبہ تم نے ہی اسے دیا ہے لیکن عقل، انصاف، معاشی علم، کاروباری اصول آخر کس چیز کی رُو سے اس فائدے اور اس موقع استفادہ کی یہ نوعیت قرار پاتی ہے کہ تم اس کی ایک مالی قیمت مُشخَّص کرو اور قرض مانگنے والے کی مصیبت جتنی زیادہ سخت ہو اتنی ہی یہ قیمت بھی زیادہ ہو جائے اور اس کی مصیبت زدگی کا زمانہ جتنا دراز ہوتا جائے تمھارے دیے ہوئے اس ’’موقع استفادہ‘‘ کی قیمت بھی مہینوں اور برسوں کے حساب سے اس پر بڑھتی اور چڑھتی چلی جائے؟ تم اگر اتنا بڑا دل نہیں رکھتے کہ حاجت مند اور آفت رسیدہ انسان کو اپنی ضرورت سے زائد بچا ہوا مال عطا کر دو، تو حد سے حد جو بات تمھارے لیے معقول ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اپنی رقم کی واپسی کا اطمینان کرکے اسے قرض دے دو اور اگر تمھارے دل میں قرض دینے کی بھی گنجائش نہیں ہے تو بدرجہ آخر یہ بھی ایک معقول بات ہو سکتی ہے کہ تم سرے سے اس کو کچھ نہ دو مگر کاروبار اور تجارت کی یہ کون سی معقول صورت ہے کہ ایک شخص کی مصیبت اور تکلیف تمھارے لیے نفع اندوزی کا موقع ٹھیرے، بھوکے پیٹ اور جاں بلب مریض تمھارے لیے روپیہ لگانے (investment) کی جگہ قرار پائیں اور انسانی مصائب جتنے بڑھیں اتنے ہی تمھارے نفع کے امکانات بھی بڑھتے چلے جائیں!
’’فائدہ اٹھانے کا موقع دینا‘‘ اگر کسی صورت میں کوئی مالی قیمت رکھتا ہے تو وہ صرف وہ صورت ہے جب کہ روپیہ لینے والا اسے کسی کاروبار میں لگا رہا ہو۔ اس صورت میں روپیہ دینے والا یہ کہنے کا حق رکھتا ہے کہ مجھے اس فائدے میں سے حصہ ملنا چاہیے جو میرے روپے سے دوسرا شخص اٹھا رہا ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ سرمایہ بجائے خود کوئی منافع پیدا کرنے کی قابلیت نہیں رکھتا، بلکہ منافع صرف اس صورت میں پیدا کرتا ہے جب انسانی محنت و ذہانت اس پر کام کرے۔ پھر انسانی محنت و ذہانت اس کے ساتھ لگتے ہی منافع پیدا کرنا نہیں شروع کر دیتی، بلکہ اس کے نفع آور ہونے میں ایک مدت درکار ہوتی ہے۔ مزید برآں اس کا نفع آور ہونا یقینی نہیں ہے۔ اس میں نقصان اور دیوالیے کا بھی امکان ہے اور نفع آور ہونے کی صورت میں بھی یہ پیشگی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کس وقت کتنا نفع پیدا کرے گی۔ اب یہ بات کس طرح معقول ہو سکتی ہے کہ روپیہ دینے والے کا منافع اسی وقت سے شروع ہو جائے جب کہ انسانی محنت و ذہانت نے اس روپے کو ابھی ہاتھ ہی لگایا ہو؟ اور اس کے منافع کی شرح اور مقدار بھی معین ہو، جب کہ سرمائے کے ساتھ انسانی محنت کے ملنے سے نفع پیدا ہونا نہ تو یقینی ہے، اور نہ یہ معلوم ہے کہ اس سے فی الواقع کتنا نفع پیدا ہوگا؟
معقولیت کے ساتھ جو بات کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص اپنا پس انداز کیا ہوا روپیہ کسی نفع آور کام میں لگانا چاہتا ہو اسے محنت کرنے والوں کے ساتھ شرکت کا معاملہ کرنا چاہیے اور نفع نقصان میں ایک طے شدہ تناسب کے مطابق حصّے دار بن جانا چاہیے۔ نفع کمانے کا یہ آخر کون سا معقول طریقہ ہے کہ میں ایک شخص کا شریک بننے کے بجائے اسے سو روپے قرض دوں اور اس سے کہوں کہ چونکہ تو اس رقم سے فائدہ اٹھائے گا اس لیے تجھ پر میرا یہ حق ہے کہ مجھے مثلاً ایک روپیہ ماہوار اس وقت تک دیتا رہ جب تک میرے یہ روپے تیرے کاروبار میں استعمال ہو رہے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ جب تک اس سرمائے کو استعمال کرکے اس کی محنت نے نفع پیدا کرنا نہ شروع کیا ہو اس وقت تک آخر وہ کون سا منافع موجود ہے جس میں سے حصہ مانگنے کا مجھے حق پہنچتا ہو؟ اگر وہ شخص کاروبار میں فائدے کے بجائے نقصان اٹھائے تو میں کس عقل و انصاف کی رو سے یہ ماہوار ’’منافع‘‘ اس سے وصول کرنے کا حق رکھتا ہوں؟ اور اگر اس کا منافع ایک روپیہ ماہوار سے کم رہے تو مجھے ایک روپیہ ماہوار لینے کا کیا حق ہے؟ اور اگر اس کا کل منافع ایک ہی روپیہ ہو تو کون سا انصاف یہ جائز رکھتا ہے کہ جس شخص نے مہینہ بھر تک اپنا وقت، محنت، قابلیت اور ذاتی سرمایہ، سب کچھ صرف کیا وہ تو کچھ نہ پائے اور میں جو صرف سو روپے اس کو دے کر الگ ہوگیا تھا، اس کا سارا منافع لے اڑوں؟ ایک بیل بھی اگر تیلی کے لیے دن بھر کو لہو چلاتا ہے تو کم از کم اس سے چار ہ مانگنے کا حق تو ضرور رکھتا ہے۔ مگر یہ سودی قرض ایک کاروباری آدمی کو وہ بیل بنا دیتا ہے جسے کولہو تو دن بھر میرے لیے چلانا چاہیے اور چارہ کہیں اور سے کھانا چاہیے۔
پھر اگر بالفرض ایک کاروباری آدمی کا منافع اس متعین رقم سے زائد بھی رہے جو قرض دینے والے نے سود کے طور پر اس کے ذمے لگائی ہو، تب بھی عقل، انصاف، اُصولِ تجارت اور قانونِ معیشت، کسی چیز کی رو سے اس بات کو معقول ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ تاجر، صناع، کاشت کار اور دوسرے تمام وہ لوگ جو اصل عاملین پیدائش ہیں، جو سوسائٹی کی ضروریات تیار اور فراہم کرنے میں اپنے اوقات صرف کرتے ہیں، محنتیں برداشت کرتے ہیں، دماغ لڑاتے ہیں اور اپنے جسم و ذہن کی ساری قوتیں کھپا دیتے ہیں، ان سب کا فائدہ تو مشتبہ اور غیر معین ہو مگر صرف اس ایک آدمی کا فائدہ یقینی اور معین ہو جس نے اپنی پس انداز کی ہوئی رقم قرض دے دی ہے۔ ان سب کے لیے تو نقصان کا خطرہ بھی ہو مگر اس کے لیے خالص نفع کی گارنٹی ہو۔ ان سب کے نفع کی شرح بازار کی قیمتوں کے ساتھ گرتی اور چڑھتی رہے مگر یہ ایک اللہ کا بندہ جو نفع اپنے لیے طے کر چکا ہے وہ اسے جوں کا توں ماہ بماہ اور سال بسال ملتا رہے۔{ FR 2235 }
توجیہ دوم] سود قرض سے فائدہ اُٹھانے کے موقع کا عِوض ہے[
اس تنقید سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بادی النظر میں سود ایک معقول چیز قرار دینے کے لیے جو دلائل کافی سمجھ لیے جاتے ہیں، ذرا گہرائی میں جاتے ہی ان کی کمزوری کھلنی شروع ہو جاتی ہے۔ جہاں تک اس قرض کا تعلق ہے جو شخصی حاجات کے لیے لیا جاتا ہے، اس پر سود عائد ہونے کے لیے تو سرے سے کوئی عقلی دلیل موجود ہی نہیں ہے۔ حتیٰ کہ حامیان سود نے خود ہی اس کمزور مقدمے سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ رہا وہ قرض جو کاروباری اغراض کے لیے لیا جاتا ہے تو اس کے بارے میں بھی حامیان سود کو اس پیچیدہ سوال سے سابقہ پیش آتا ہے کہ سود آخر کس چیز کی قیمت ہے؟ ایک دائن اپنے سرمائے کے ساتھ مدیون کو وہ کون سی جوہری (substantial) چیز دیتا ہے جس کی ایک مالی قیمت، اور وہ بھی ماہ بماہ و سال بسال اداشدنی قیمت مانگنے کا اسے حق پہنچتا ہو؟ اس چیز کے مشخص کرنے میں حامیانِ سود کو خاصی پریشانی پیش آئی۔
ایک گروہ نے کہا کہ وہ ’’فائدہ اٹھانے کا موقع‘‘ ہے لیکن جیسا کہ اوپر کی تنقید سے آپ کو معلوم ہو چکا ہے، یہ ’’موقع‘‘ کسی متعین اور یقینی اور روز افزوں قیمت کا استحقاق پیدا نہیں کرتا، بلکہ صرف اس صورت میں ایک متناسب نفع کا استحقاق پیدا کرتا ہے جب کہ فی الواقع روپیہ لینے والے کو نفع ہو۔
دوسرا گروہ تھوڑی سی پوزیشن تبدیل کرکے کہتا ہے کہ وہ چیز ’’مہلت‘‘ ہے جو دائن اپنے سرمائے کے ساتھ اس کے استعمال کے لیے مدیون کو دیتا ہے۔ یہ مہلت بجائے خود اپنی ایک قیمت رکھتی ہے اور جس قدر یہ دراز ہوتی جائے اس کی قیمت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جس روز آدمی روپیہ لے کر کام میں لگاتا ہے اس روز سے لے کر اس دن تک جب کہ اس سرمائے کے ذریعے سے تیار کیا ہوا مال بازار میں پہنچے اور قیمت لائے ایک ایک لمحہ کاروباری آدمی کے لیے قیمتی ہے۔ یہ مہلت اگر اسے نہ ملے اور بیچ ہی میں سرمایہ اس سے واپس لے لیا جائے تو سرے سے اس کا کاروبار چل ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا یہ وقت روپیہ لے کر لگانے والے کے لیے یقینا ایک قیمت رکھتا ہے جس سے وہ فائدہ اٹھا رہا ہے، پھر کیوں نہ روپیہ دینے والا اس فائدے میں سے حصہ لے؟ اور اس وقت کی کمی و بیشی کے ساتھ مدیون کے لیے نفع کے امکانات بھی لامحالہ کم و بیش ہوتے ہیں، پھر کیوں نہ دائن وقت ہی کی درازی و کوتاہی کے لحاظ سے اس کی قیمت مشخص کرے؟
مگر یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر روپیہ دینے والے کو کس ذریعۂ علم سے یہ معلوم ہوگیا کہ جو شخص کام لگانے کے لیے اس سے روپیہ لے رہا ہے وہ ضرور نفع ہی حاصل کرے گا، نقصان سے دوچار نہ ہوگا؟ اور پھر یہ اس نے کیسے جانا کہ اس کا نفع بھی لازماً اس قدر فی صدی رہے گا لہٰذا ضرور اتنے فی صدی اس کو روپیہ دینے والے کا حصہ ادا کرنا چاہیے؟ اور پھر اس کے پاس یہ حساب لگانے کا آخر کیا ذریعہ ہے کہ وہ وقت جس کے دوران میں وہ مدیون کو اپنے روپے کے استعمال کی مہلت دے رہا ہے لازماً ہر مہینے اور ہر سال اتنا نفع لاتا رہے گا لہٰذا ضرور اس کی ماہوار یا سالانہ قیمت یہ قرار پانی چاہیے؟ ان سوالات کا کوئی معقول جواب حامیانِ سود کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ کاروباری معاملات میں اگر کوئی چیز معقول ہے تو وہ صرف نفع و نقصان کی شرکت اور متناسب حصّے داری ہے نہ کہ سود جو ایک متعین شرح کے ساتھ عائد کر دیا جائے۔
توجیہ سوم] نفع آوری سرمائے کی ذاتی صفت ہے[
ایک اور گروہ کہتا ہے کہ نفع آوری سرمائے کی ذاتی صفت ہے، لہٰذا ایک شخص کا دوسرے کے فراہم کردہ سرمائے کو استعمال کرنا بجائے خود اس امر کا استحقاق پیدا کرتا ہے کہ دائن سود مانگے اور مدیون ادا کرے۔ سرمایہ یہ قوت رکھتا ہے کہ اشیائے ضرورت کی تیاری و فراہمی میں مددگار ہو۔ سرمائے کی مدد سے اتنا سامان تیار ہوتا ہے جتنا اس کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ سرمائے کی مدد شامل حال ہونے سے زیادہ مقدار میں زیادہ اچھا مال تیار ہوتا ہے اور اچھی قیمت دینے والی منڈیوں تک پہنچ سکتا ہے ورنہ کم اور گھٹیا تیار ہوتا ہے اور ایسے مواقع پر نہیں پہنچ سکتا جہاں زیادہ قیمت مل سکے۔ یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ نفع آوری ایک ایسی صفت ہے جو سرمائے کی ذات میں ودیعت کر دی گئی ہے۔ لہٰذا مجرد اس کا استعمال ہی سود کا استحقاق پیدا کر دیتا ہے۔
لیکن اوّل تو یہ دعویٰ ہی بداہتہً غلط ہے کہ سرمائے میں ’’نفع آوری‘‘ نام کی کوئی ذاتی صفت پائی جاتی ہے۔ یہ صفت تو اس میں صرف اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ آدمی اسے لے کر کسی مُثمِر کام میں لگائے۔ صرف اسی صورت میں تم یہ کہہ سکتے ہو کہ روپیہ لینے والا چونکہ اس سے ایک نافع کام لے رہا ہے۔ اس لیے اسے نفع میں سے حصہ دینا چاہیے مگر جو شخص بیماری میں علاج پر صرف کرنے کے لیے، یا کسی میت کی تجہیز و تکفین کے لیے روپیہ قرض لے رہا ہے۔ اس کے پاس یہ آخر کون سی معاشی قدر پیدا کرتا ہے جس میں حصہ بٹانے کا حق دائن کو پہنچتا ہو؟
پھر جو سرمایہ نفع آور کاموں میں لگایا جاتا ہے وہ بھی لازماً زیادہ قیمت ہی پیدا نہیں کرتا کہ یہ دعویٰ کیا جا سکے کہ نفع بخشی اس کی ذاتی صفت ہے۔ بسا اوقات کسی کام میں زیادہ سرمایہ لگا دینے سے نفع بڑھنے کے بجائے گھٹ جاتا ہے، یہاں تک کہ الٹے نقصان کی نوبت آجاتی ہے۔ آج کل تجارتی دنیا پر تھوڑی تھوڑی مدت بعد جو بحرانی دورے (crisis) پڑتے رہتے ہیں ان کی وجہ یہی تو ہے کہ جب سرمایہ دار کاروبار میں بے تحاشا سرمایہ لگاتے چلے جاتے ہیں اور پیداوار بڑھنی شروع ہوتی ہے تو قیمتیں گرنے لگتی ہیں اور افزونی مال کے ساتھ ارزانی قدر رفتہ رفتہ اس حد کو پہنچ جاتی ہے کہ سرمایہ لگانے سے کسی نفع کی توقع باقی نہیں رہتی۔
مزید برآں سرمائے میں نفع آوری کی اگر کوئی صفت ہے بھی تو اس کا قوت سے فعل میں آنا بہت سی دوسری چیزوں پر منحصر ہے۔ مثلاً اس کے استعمال کرنے والوں کی محنت، قابلیت، ذہانت اور تجربہ کاری۔ دورانِ استعمال میں معاشی، تمدنی اور سیاسی حالات کی سازگاری۔ آفاتِ زمانہ سے محفوظیت، یہ اور ایسے ہی دوسرے اُمور نفع بخشی کے لازمی شرائط ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو بسا اوقات سرمائے کی ساری نفع بخشی ختم ہو جاتی ہے بلکہ الٹی نقصان میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ مگر سودی کاروبار میں سرمایہ دینے والا نہ تو خود ان شرطوں کو پورا کرنے کی ذمہ داری لیتا ہے، اور نہ یہی مانتا ہے کہ اگر ان میں سے کسی شرط کے مفقود ہو جانے سے اس کا سرمایہ نفع آور نہ ہو سکا تو وہ کوئی سود لینے کا حق دار نہ ہوگا۔ وہ تو اس بات کا مدعی ہے کہ اس کے سرمائے کا استعمال بجائے خود ایک متعین شرح کے ساتھ سود کا استحقاق پیدا کرتا ہے خواہ فی الواقع کوئی ’’نفع آوری‘‘ اس سے ظہور میں آئی ہو یا نہ آئی ہو۔
بدرجہ آخر اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ سرمائے کی ذات ہی میں نفع بخشی موجود ہے جس کی بنا پر سرمایہ دینے والا نفع میں سے حصہ پانے کا مستحق ہے، تب بھی آخر وہ کون سا حساب ہے جس سے تعین کے ساتھ یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ آج کل سرمائے کی نفع بخشی لازماً اس قدر ہے لہٰذا جو لوگ سرمایہ لے کر استعمال کریں ان کو لازماً اس شرح سے سود ادا کرنا چاہیے؟ اور اگر یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ زمانۂ حال کے لیے اس شرح کا تعین کسی حساب سے ممکن ہے تو ہم یہ سمجھنے سے تو بالکل ہی قاصر ہیں کہ جس سرمایہ دار نے ۱۹۴۹ء میں کسی کاروباری ادارے کو ۱۰ سال کے لیے رائج الوقت شرح سود پر قرض دیا تھا اس کے پاس یہ معلوم کرنے کا آخر کیا ذریعہ تھا کہ آئندہ دس اور بیس سال کے دوران میں سرمائے کی نفع بخشی ضرور آج ہی کے معیار پر قائم رہے گی؟ خصوصاً جب کہ ۱۹۵۹ء میں بازار کی شرح سود ۱۹۴۹ء سے بالکل مختلف ہو اور ۱۹۶۹ء میں اس سے بھی زیادہ مختلف ہو جائے۔ تب کس دلیل سے اس شخص کو حق بجانب ٹھیرایا جائے گا جس نے ایک ادارے سے دس سال کے لیے دوسرے ادارے سے بیس سال کے لیے ۱۹۴۹ء کی شرح کے مطابق سرمائے کے متوقع منافع میں سے اپنا حصہ قطعی طور پر متعین کرا لیا تھا؟
توجیہ چہارم] حاضر کے فائدے کو مستقبل کے فائدے پر ترجیح حاصل ہے[
آخری توجیہ میں ذرا زیادہ ذہانت صرف کی گئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
انسان فطرتاً حاضر کے فائدے، لطف ، لذت اور آسودگی کو دُور دراز مستقبل کے فوائد و لذائذ پر ترجیح دیتا ہے۔ مستقبل جتنا دُور ہو اسی قدر اس کے فوائد و لذائذ مشتبہ ہوتے ہیں اور اسی مناسبت سے آدمی کی نگاہ میں ان کی قیمت کم ہوتی جاتی ہے۔ اس ترجیح عاجلہ اور مرجوحیت آجلہ کے متعدد وجوہ ہیں مثلاً:۔
۱۔ مستقبل کا تاریکی میں ہونا اور زندگی کا غیر یقینی ہونا جس کی وجہ سے مستقبل کے فوائد مشتبہ بھی ہوتے ہیں اور ان کی کوئی تصویر بھی آدمی کی چشم تصور میں نہیں ہوتی۔ بخلاف اس کے آج جو نقد فائدہ حاصل ہو رہا ہے وہ یقینی بھی ہے اور اس کو آدمی بچشم سر بھی دیکھ رہا ہے۔
۲۔ جو شخص اس وقت حاجت مند ہے اس کی حاجت کا اس وقت پورا ہو جانا اس کے لیے اس سے بہت زیادہ قیمت رکھتا ہے کہ آئندہ کسی موقع پر اس کو وہ چیز ملے جس کا ممکن ہے کہ وہ اس وقت حاجت مند ہو اور ممکن ہے کہ نہ ہو۔
۳۔ جو مال اس وقت مل رہا ہے وہ بالفعل کارآمد اور قابل استعمال ہے۔ اس لحاظ سے وہ اس مال پر فوقیت رکھتا ہے جو آئندہ کسی وقت حاصل ہوگا۔
ان وجوہ سے حاضر کا نقد فائدہ مستقبل کے مشتبہ فائدے پر ترجیح رکھتا ہے۔ لہٰذا آج جو شخص ایک رقم قرض لے رہا ہے اس کی قیمت لازماً اس رقم سے زیادہ ہے جو وہ کل دائن کو ادا کرے گا اور سود وہ قدرِ زائد ہے جو ادائیگی کے وقت اصل کے ساتھ شامل ہو کر اس کی قیمت کو اس رقم کے برابر کرتی ہے جو قرض دیتے وقت دائن نے اس کو دی تھی۔ مثال کے طور پر اس معاملے کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص ساہوکار کے پاس آتا ہے اور اس سے سو روپے قرض مانگتا ہے۔ ساہوکار اس سے یہ بات طے کرتا ہے کہ آج سو روپے وہ اس کو دے رہا ہے ان کے بدلے میں وہ ایک سال بعد اس سے ۱۰۳ روپے لے گا۔ اس معاملے میں دراصل حاضر کے ۱۰۰ روپوں کا تبادلہ مستقبل کے ۱۰۳ روپوں سے ہو رہا ہے۔ تین روپے اس فرق کے برابر ہیں جو حاضر کے مال اور مستقبل کے مال کی نفسیاتی (نہ کہ معاشی) قیمت کے درمیان پایا جاتا ہے۔ جب تک یہ تین روپے ایک سال بعد کے ۱۰۰ روپوں کے ساتھ شامل نہ ہوں گے ان کی قیمت ان سو روپوں کے برابر نہ ہوگی جو قرض دیتے وقت دائن نے مدیون کو دیے تھے۔
یہ توجیہہ جس ہوشیاری کے ساتھ کی گئی ہے اس کی داد نہ دینا ظلم ہے۔ مگر درحقیقت اس میں حاضر اور مستقبل کی نفسیاتی قیمت کا جو فرق بیان کیا گیا ہے وہ ایک مغالطے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
کیا فی الواقع انسانی فطرت حاضر کو مستقبل کے مقابلے میں زیادہ اہم اور زیادہ قیمتی سمجھتی ہے؟ اگر یہ بات ہے تو کیا وجہ ہے کہ بیشتر لوگ اپنی ساری کمائی کو آج ہی خرچ کر ڈالنا مناسب نہیں سمجھتے بلکہ اس کے ایک حصے کو مستقبل کے لیے بچا رکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں! شاید آپ کو ایک فیصدی بھی ایسے آدمی نہ ملیں گے جو فکر فردا سے بے نیاز ہوں اور آج کے لطف و لذت پر اپنا سارا مال اڑا دینے کو ترجیح دیتے ہوں۔ کم از کم ۹۹ فیصدی انسانوں کا حال تو یہی ہے کہ وہ آج کی ضرورتوں کو روک کر کل کے لیے کچھ نہ کچھ سامان کر رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ مستقبل میں پیش آنے والی بہت سی متوقع اور ممکن ضرورتیں اور اندیشناک صورتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا خیالی نقشہ آدمی کی نگاہ میں ان حالات کی بہ نسبت زیادہ بڑا اور اہم ہوتا ہے جن سے وہ اس وقت کسی نہ کسی طرح لشتم پشتم گزرے جا رہا ہے۔ پھر وہ ساری دوڑ دھوپ اور تگ و دو جو ایک انسان زمانہ حال میں کرتا ہے اس سے مقصود آخر اس کے سوا کیا ہوتا ہے کہ اس کا مستقبل بہتر ہو؟ اپنی آج کی محنتوں کے سارے ثمرات آدمی اسی کوشش میں تو کھپاتا ہے کہ اس کے آنے والے ایام زندگی آج سے زیادہ اچھی طرح بسر ہوں۔ کوئی احمق سے احمق آدمی بھی بمشکل آپ کو ایسا مل سکے گا جو اس قیمت پر اپنے حاضر کو خوش آئند بنانا پسند کرتا ہو کہ اس کا مستقبل خراب ہو جائے یا کم از کم آج سے زیادہ بدتر ہو۔ جہالت و نادانی کی بنا پر آدمی ایسا کر جائے یا کسی وقتی خواہش کے طوفان سے مغلوب ہو کر ایسا کر گزرے تو بات دوسری ہے، ورنہ سوچ سمجھ کر تو کوئی شخص بھی اس رویے کو صحیح و معقول قرار نہیں دیتا۔
پھر اگر تھوڑی دیر کے لیے اس دعوے کو جوں کا توں مان بھی لیا جائے کہ انسان حاضر کے اطمینان کی خاطر مستقبل کے نقصان کو گوارا کرنا درست سمجھتا ہے ، تب بھی وہ استدلال ٹھیک نہیں بیٹھتا جس کی بنا اس دعوے پر رکھی گئی ہے۔ قرض لیتے وقت جو معاملہ دائن اور مدیون کے درمیان طے ہوا تھا اس میں آپ کے قول کے مطابق حاضر کے ۱۰۰ روپوں کی قیمت ایک سال کے بعد ۱۰۳ روپوں کے برابر تھی‘ لیکن اب جو ایک سال کے بعد مدیون اپنا قرض ادا کر لے گیا تو واقعی صورتِ معاملے کیا ٹھیری؟ یہ کہ حاضر کے ۱۰۳ روپے ماضی کے سو روپوں کے برابر ہوگئے اور اگر پہلے سال مدیون قرض ادا نہ کر سکا تو دوسرے سال کے خاتمے پر ماضی بعید کے سو روپوں کی قیمت حاضر کے ۱۰۶ روپوں کے برابر ہوگئی۔ کیا فی الواقع ماضی اور حال میں قدروقیمت کا یہی تناسب ہے ؟ اور کیا یہ اصول بھی صحیح ہے کہ جتنا جتنا ماضی پرانا ہوتا جائے اس کی قیمت بھی حال کے مقابلے میں بڑھتی چلی جائے؟ کیا پہلے گزری ہوئی ضرورتوں کی آسودگی آپ کے لیے اتنی ہی قابل قدر ہے کہ جو روپیہ آپ کو ایک مدتِ دراز پہلے ملا تھا اور جس کو خرچ کرکے آپ کبھی کا نسیاًمنسیاً کر چکے ہیں، وہ آپ کے لیے زمانے کی ہر ساعت گزرنے پر حاضر کے روپے سے زیادہ قیمتی ہوتا چلا جائے ، یہاں تک کہ اگر آپ کو سو روپے استعمال کیے ہوئے پچاس برس گزر چکے ہوں تو اب ان کی قیمت ڈھائی سو روپے کے برابر ہو جائے؟
شرح سود کی ’’معقولیت‘‘
یہ ہے ان دلائل کی کل کائنات جو سود خواری کے وکیل اس کو عقل و انصاف کی رو سے ایک جائز و مناسب چیز ثابت کرنے کے لیے پیش کرتے ہیں۔ تنقید سے آپ کو معلوم ہوگیا کہ معقولیت سے اس ناپاک چیز کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ کسی وزنی دلیل سے بھی اس کی کوئی معقول وجہ پیش نہیں کی جا سکتی کہ سود کیوں لیا اور دیا جائے‘ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جو چیز اس قدر غیر معقول تھی، مغرب کے علما اور مفکرین نے اس کو بالکل بدیہیات و مُسلَّمات میں شامل کر لیا اور نفس سود کی معقولیت کو گویا ایک طے شدہ صداقت اور مانی ہوئی حقیقت فرض کرکے ساری گفتگو اس امر پر مرکوز کر دی کہ شرح سود ’’معقول‘‘ ہونی چاہیے۔ دورِ جدید کے مغربی لٹریچر میں یہ بحث تو آپ کو کم ہی ملے گی کہ سود بجائے خود لینے اور دینے کے لائق چیز ہے بھی یا نہیں ، البتہ جو کچھ بھی ردّ وقدح آپ ان کے ہاں دیکھیں گے وہ زیادہ تر اس امر سے متعلق ہوگی کہ فلاں شرح سود ’’بے جا‘‘ اور ’’حد سے بڑھی ہوئی‘‘ ہے۔ اس لیے قابل اعتراض ہے، اور فلاں شرح ’’معقول‘‘ ہے اس لیے قابل قبول ہے۔
مگر کیا فی الواقع شرح سود معقول بھی ہے! تھوڑی دیر کے لیے ہم اس سوال کو نظرانداز کیے دیتے ہیں کہ جس چیز کا بجائے خود معقول ہونا ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی شرح کے معقول یا نامعقول ہونے کی بحث پیدا ہی کہاں ہوتی ہے۔ اس سوال سے قطع نظر کرکے ہم صرف یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آخر وہ کون سی شرح سود ہے جس کو فطری اور معقول کہا جاتا ہے؟ اور ایک شرح کے لیے بے جایا بجا ہونے کا آخر معیار کیا ہے؟ اور کیا درحقیقت دنیا کے سودی کاروبار میں شرح سود کا تعین کسی عقلی (rational) بنیاد پر ہو رہا ہے؟
اس سوال کی جب ہم تحقیق کرتے ہیں تو اوّلین حقیقت جو ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’معقول شرح سود‘‘ نامی کوئی چیز دنیا میں کبھی نہیں پائی گئی ہے۔ مختلف شرحوں کو مختلف زمانوں میں معقول ٹھیرایا گیا ہے اور بعد میں وہی شرحیں نامعقول قرار دے دی گئی ہیں بلکہ ایک ہی زمانے میں ایک جگہ معقول شرح کچھ ہے اور دوسری جگہ کچھ اور … قدیم ہندو دور میں کوتلیہ (Kautilya) کی تصریح کے مطابق ۱۵ سے ۶۰ فیصدی سالانہ تک شرح سود بالکل معقول اور جائز سمجھی جاتی تھی اور اگر خطرہ زیادہ ہو تو اس سے بھی زیادہ شرح ہو سکتی تھی۔ اٹھارہویں صدی کے وسط آخر اور انیسویں صدی کے وسط اول میں ہندوستانی ریاستوں کے جو مالی معاملات ایک طرف دیسی ساہوکاروں سے اور دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت سے ہوتے تھے، ان میں بالعموم ۴۸ فیصدی سالانہ شرح رائج تھی۔ ۱۸۔۱۹۱۴ء کی جنگ عظیم کے زمانے میں حکومت ہند نے اڑھائی فیصدی سالانہ سود پر جنگی قرضے حاصل کیے۔ ۱۹۲۰ء اور ۱۹۳۰ء کے درمیان کواپریٹو سوسائٹیوں میں عام شرح سود ۱۲ سے ۱۵ فیصدی تک رہی۔ ۱۹۳۰ء اور ۱۹۴۰ء کے دور میں ملک کی عدالتیں ۹ فیصدی سالانہ کے قریب شرح کو معقول قرار دیتی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے لگ بھگ زمانے میں ریزروبنک آف انڈیا کاڈسکائونٹ ریٹ ۳ فیصدی سالانہ مقرر ہوا اور یہی شرح دورانِ جنگ میں بھی قائم رہی بلکہ پونے تین فیصدی پر حکومت ہند کو قرضے ملتے رہے۔
یہ تو ہے خود ہمارے اپنے بر عظیم کا حال۔ اُدھر یورپ کو دیکھیے تو وہاں بھی آپ کو کچھ ایسا ہی نقشہ نظر آئے گا۔ سولہویں صدی کے وسط میں انگلستان میں ۱۰ فیصدی شرح بالکل معقول قرار دی گئی تھی۔ ۱۹۲۰ء کے قریب زمانے میں یورپ کے بعض سنٹرل بنک آٹھ نو فیصدی شرح لگاتے تھے اور خود مجلس اقوام نے یورپ کی ریاستوں کو اپنی وساطت سے جو قرضے اس دور میں دلوائے تھے ان کی شرح بھی اسی کے لگ بھگ تھی۔ مگر آج یورپ اور امریکہ میں کسی کے سامنے اس شرح کا نام لیجیے تو وہ چیخ اٹھے گا کہ یہ شرح سود نہیں بلکہ لوٹ ہے۔ اب جدھر دیکھیے۔ اڑھائی فیصد اور تین فیصدی شرح کا چرچا ہے۔ ۴ فیصدی انتہائی شرح ہے اور بعض حالات میں ایک اور1 /2اور 1 /4 فیصدی تک نوبت پہنچ جاتی ہے لیکن دوسری طرف غریب عوام کو سودی قرض دینے والے مہاجنوں کے لیے انگلستان میں ۱۹۲۷ء کے منی لینڈرس ایکٹ کی رو سے جو شرح جائز رکھی گئی ہے وہ ۴۸ فیصدی سالانہ ہے اور امریکہ کی عدالتیں سود خوار مہاجنوں کو جس شرح سود کے مطابق سود دلوا رہی ہیں وہ ۳۰ سے شروع ہو کر ۶۰ فیصدی سالانہ تک پہنچ جاتی ہے۔ بتایئے ان میں سے کس کا نام فطری اور معقول شرح سود ہے؟
اب ذرا آگے بڑھ کر اس مسئلے کا جائزہ لیجیے کہ کیا فی الحقیقت کوئی شرح سود فطری اور معقول ہو بھی سکتی ہے؟ اس سوال پر جب آپ غور کریں گے تو آپ کی عقل خود بتا دے گی کہ شرح سود اگر معقول طور پر متعین ہو سکتی تھی تو صرف اس صورت میں جب کہ اس فائدے کی قیمت مشخص ہوتی (یا ہو سکتی) جو ایک شخص کسی قرض لی ہوئی رقم سے حاصل کرتا ہے۔ مثلاً اگر یہ بات متعین ہو جاتی کہ ایک سال تک سو روپے کا استعمال ۲۵ روپے کے برابر فائدہ دیتا ہے تو البتہ یہ طے کیا جا سکتا تھا کہ اس فائدے میں سے ۵ یا اڑھائی11/4 (سوا)روپیہ اس شخص کا فطری اور معقول حصہ ہے جس کی رقم دورانِ سال میں استعمال کی گئی ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ اس طرح سے استعمال سرمائے کا فائدہ نہ تو مشخص کیا گیا ہے، نہ کیا جا سکتا ہے، نہ بازاری شرح سود کے تعین میں کبھی اس امر کا لحاظ کیا جاتا ہے کہ روپیہ قرض لینے والے کو اس سے کتنا فائدہ ہوگا بلکہ کوئی فائدہ ہوگا بھی یا نہیں۔ عملاً جو کچھ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مہاجنی کاروبار میں تو قرض کی قیمت قرض مانگنے والے کی مجبوری کے لحاظ سے مشخص ہوتی ہے اور تجارتی سود خواری کی منڈی میں شرح سود کا اتار چڑھاؤ کچھ دوسری بنیادوں پر ہوتا رہتا ہے جن کو عقل اور انصاف سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔
شرح سود کے وجوہ
مہاجنی کاروبار میں ایک مہاجن بالعموم یہ دیکھتا ہے کہ جو شخص اس سے قرض مانگنے آیا ہے وہ کس حد تک غریب ہے، کتنا مجبور ہے اور قرض ملنے کی صورت میں کس قدر زیادہ مبتلائے اذیت ہوگا۔ انھی چیزوں کے لحاظ سے وہ طے کرتا ہے کہ مجھے اس سے کتنا سود مانگنا چاہیے۔ اگر وہ کم غریب ہے، کم رقم مانگ رہا ہے اور بہت زیادہ پریشان نہیں ہے تو شرح سود کم ہوگی۔ اس کے برعکس وہ جتنا زیادہ خستہ حال اور جس قدر زیادہ سخت حاجت مند ہوگا اتنی ہی شرح بڑھتی چلی جائے گی حتیٰ کہ اگر کسی فاقہ کش آدمی کا بچہ بیماری کی حالت میں دم توڑ رہا ہو تو چار پانچ سو فیصدی شرح سود بھی اس کے معاملے میں کچھ ’’بے جا‘‘ نہیں ہے۔ اس طرح کی صورتِ حال میں ’’فطری‘‘ شرح سود قریب قریب اسی معیار کے لحاظ سے مشخص ہوتی ہے جس معیار کے لحاظ سے ۱۹۴۷ء کے ہنگامہ قیامت میں امرتسر کے اسٹیشن پر ایک سکھ نے ایک مسلمان سے پانی کے ایک گلاس کی ’’فطری‘‘ قیمت ۳۰۰ روپے وصول کی تھی، کیونکہ اس کا بچہ پیاس سے مر رہا تھا اور پناہ گزینوں کی ٹرین سے کوئی مسلمان نیچے اُتر کر خود پانی نہیں لے سکتا تھا۔
رہا دوسری قسم کا بازارِ مالیات‘ تو اس میں شرح سود کا تعین اور اس کا اتار چڑھاؤ جن بنیادوں پر ہوتا ہے ان کے بارے میں ماہرین معاشیات کے دو مسلک ہیں:۔
ایک گروہ کہتا ہے کہ طلب اور رسد کا قانون اس کی بنیاد ہے۔ جب روپیہ لگانے کے خواہش مند کم ہوتے ہیں اور قرض دینے کے قابل رقمیں زیادہ ہو جاتی ہیں تو سود کی شرح گرنے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ بہت زیادہ گر جاتی ہے تو لوگ اس موقع کو غنیمت سمجھ کر کاروبار میں لگانے کے لیے روپیہ قرض لینے پر بکثرت آمادہ ہونے لگتے ہیں، پھر جب روپے کی مانگ بڑھنی شروع ہوتی ہے اور قابل قرض رقمیں کم ہونے لگتی ہیں تو شرح سود چڑھنی شروع ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس حد کو پہنچ جاتی ہے کہ قرض کی مانگ رُک جاتی ہے۔
غور کیجیے‘ اس کے معنی کیا ہیں۔ سرمایہ دار یہ نہیں کرتا کہ سیدھے اور معقول طریقے سے کاروباری آدمی کے ساتھ شرکت کا معاملہ طے کرے اور انصاف کے ساتھ اس کے واقعی منافع میں اپنا حصہ لگائے۔ اس کے بجائے وہ ایک اندازہ کرتا ہے کہ کاروبار میں اس شخص کو کم از کم اتنا فائدہ ہوگا لہٰذا جو رقم میں اسے دے رہا ہوں اس پر مجھے اتنا سود ملنا چاہیے۔ دوسری طرف کاروباری آدمی بھی اندازہ کرتا ہے کہ جو روپیہ میں اس سے لے رہا ہوں وہ مجھے زیادہ سے زیادہ اتنا نفع دے سکتا ہے لہٰذا سود اس سے زیادہ نہ ہونا چاہیے۔ دونوں قیاس (speculation) سے کام لیتے ہیں۔ سرمایہ دار ہمیشہ کاروبار کے منافع کا مبالغہ آمیز تخمینہ کرتا ہے۔ اور کاروباری آدمی نفع کی امیدوں کے ساتھ نقصان کے اندیشوں کو بھی سامنے رکھتا ہے۔ اس بنا پر دونوں کے درمیان تعاون کے بجائے ایک دائمی کشمکش برپا رہتی ہے جب کاروباری آدمی نفع کی امید پر سرمایہ لگانا چاہتا ہے تو سرمایہ دار اپنے سرمائے کی قیمت بڑھانی شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ اتنی بڑھا جاتا ہے کہ اس قدر شرح سود پر روپیہ لے کر کام میں لگانا کسی طرح نفع بخش نہیں رہتا۔ اس طرح آخر کار روپے کا کام میں لگنا بند ہو جاتا ہے اور معاشی ترقی کی رفتار یکایک رُک جاتی ہے پھر جب کساد بازاری کا سخت دورہ پوری کاروباری دنیا پر پڑ جاتا ہے اور سرمایہ دار دیکھتا ہے کہ اس کی اپنی تباہی قریب آ لگی ہے تو وہ شرح سود کو اس حد تک گرا دیتا ہے کہ کاروباری آدمیوں کو اس شرح پر روپیہ لے کر لگانے میں نفع کی امید ہو جاتی ہے اور صنعت و تجارت کے بازار میں پھر سرمایہ آنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر معقول شرائط پر سرمائے اور کاروبار کے درمیان حصّے دارانہ تعاون ہوتا تو ایک ہموار طریقے سے دنیا کی معیشت کا نظام چل سکتا تھا لیکن جب قانون نے سرمایہ دار کے لیے سود پر روپیہ چلانے کا راستہ کھول دیا تو سرمائے اور کاروبار کے باہمی تعلقات میں سٹہ بازی اور جواری پن کی روح داخل ہوگئی اور شرح سود کی کمی و بیشی ایسے قمار بازانہ طریقوں پر ہونے لگی جن کی بدولت پوری دنیا کی معاشی زندگی ایک دائمی بحران میں مبتلا رہتی ہے۔
دوسرا گروہ شرح سود کی توجیہ اس طرح کرتا ہے کہ جب سرمایہ دار روپے کو خود اپنے لیے قابل استعمال رکھنا زیادہ پسند کرتا ہے تو وہ سود کی شرح بڑھا دیتا ہے۔ اور جب اس کی یہ خواہش کم ہو جاتی ہے تو سود کی شرح بھی گھٹ جاتی ہے۔ رہا یہ سوال کہ سرمایہ دار نقد روپیہ اپنے پاس رکھنے کو کیوں ترجیح دیتا ہے؟ تو اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ اس کے متعدد وجوہ ہیں۔ کچھ نہ کچھ روپیہ اپنی ذاتی یا کاروباری ضرورتوں کے لیے رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اور کچھ نہ کچھ ناگہانی حالات اور غیر متوقع ضروریات کے لیے بھی محفوظ رکھنا پڑتا ہے، مثلاً کسی ذاتی معاملے میں کوئی غیر معمولی خرچ یا کسی اچھے سودے کا موقع یکایک سامنے آ جانا۔ ان دو وجوہ کے علاوہ تیسری وجہ اور زیادہ اہم وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دار پسند کرتا ہے کہ مستقبل میں کسی وقت قیمتیں گرنے یا شرح سود چڑھنے کی صورت میں فائدہ اٹھانے کے لیے اس کے پاس نقد روپیہ کافی موجود رہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان وجوہ کی بنا پر روپے کو اپنے لیے قابل استعمال رکھنے کی خواہش سرمایہ دار کے دل میں پیدا ہوتی ہے کیا وہ گھٹتی بڑھتی ہے کہ اس کا اثر شرح سود کے اتار چڑھاؤ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے؟ اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ہاں مختلف شخصی، اجتماعی، سیاسی اور معاشی اسباب سے کبھی یہ خواہش بڑھ جاتی ہے اس لیے سرمایہ دار شرح سود بڑھا دیتا ہے اور کاروبار کی طرف سرمایہ آنا کم ہو جاتا ہے۔ اور کبھی اس خواہش میں کمی آ جاتی ہے اس لیے سرمایہ دار شرح سود گھٹا دیتا ہے اور اس کے گھٹنے کی وجہ سے لوگ تجارت و صنعت میں لگانے کے لیے زیادہ سرمایہ قرض لینے لگتے ہیں۔
اس خوشنما توجیہ کے پیچھے ذرا جھانک کر دیکھیے کہ کیا چیز چھپی ہوئی ہے۔ جہاں تک خانگی ضروریات یا ذاتی کاروبار کی ضروریات کا تعلق ہے، ان کی بنا پر معمولی اور غیر معمولی سب طرح کے حالات میں سرمایہ دار کی یہ خواہش کہ وہ سرمائے کو اپنے لیے قابل استعمال رکھے، بمشکل اس کے پا نچ فیصدی سرمائے پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس لیے پہلی دونوں وجہوں کو خواہ مخواہ اہمیت دینا صحیح نہیں ہے۔ اپنا۹۵ فیصدی سرمایہ جس بنیاد پر وہ کبھی روکتا ہے اور کبھی بازار قرض کی طرف بہاتا ہے، وہ دراصل تیسری وجہ ہے اور اس کا تجزیہ کیجیے تو اس کے اندر سے اصل حقیقت یہ برآمد ہوگی کہ سرمایہ دار کمال درجہ خودغرضانہ نیت کے ساتھ دنیا کے اور خود اپنے ملک اور قوم کے حالات کو دیکھتا رہتا ہے۔ ان حالات میں کبھی وہ کچھ مخصوص آثار دیکھتا ہے اور ان کی بنا پر چاہتا ہے کہ اس کے پاس وہ ہتھیار ہر وقت موجود رہے جس کے ذریعے سے وہ سوسائٹی کی مشکلات، آفات اور مصائب کا ناجائز فائدہ اٹھا سکے اور اس کی پریشانیوں میں اضافہ کرکے اپنی خوش حالی بڑھا سکے۔ اس لیے وہ سٹہ بازی کی خاطر سرمائے کو اپنے لیے روک لیتا ہے۔ شرح بڑھا دیتا ہے تجارت و صنعت کی طرف سرمائے کا بہاؤ یک لخت بند کر دیتا ہے اور سوسائٹی پر اس بلائے عظیم کا دروازہ کھول دیتا ہے جس کا نام ’’کساد بازاری‘‘ (depression) ہے۔ پھر جب وہ دیکھتا ہے کہ اس راستے سے جو کچھ حرام خوری وہ کر سکتا تھا کر چکا، آگے مزید فائدے کا کوئی امکان باقی نہیں ہے، بلکہ نقصان کی سرحد قریب آ لگی ہے تو ’’سرمائے کو اپنے لیے قابل استعمال رکھنے کی خواہش‘‘ اس کے نفس خبیث میں کم ہو جاتی ہے اور وہ کم شرح سود کا لالچ دے کر کاروباری لوگوں کو صلائے عام دینے لگتا ہے کہ آؤ، میرے پاس بہت سا روپیہ تمھارے لیے قابل استعمال پڑا ہے۔
شرح سود کی بس یہی دو توجیہات موجودہ زمانے کے ماہرین معاشیات نے کی ہیں اور اپنی اپنی جگہ دونوں ہی صحیح ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان میں سے جو وجہ بھی ہو اس سے آخر ایک ’’معقول‘‘ اور ’’فطری‘‘ شرح کس طرح متعین ہوتی یا ہو سکتی ہے؟ یا تو ہمیں عقل اور معقولیت اور فطرت کے مفہومات بدلنے پڑیں گے، یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ سود خود جس قدرنامعقول چیز ہے اس کی شرح بھی اتنے ہی نامعقول اسباب سے متعین ہوتی اور گھٹتی بڑھتی ہے۔
سود کا ’’معاشی فائدہ‘‘ اور اس کی ’’ضرورت‘‘
اس کے بعد سود کے وکلا یہ بحث چھیڑ دیتے ہیں کہ سود ایک معاشی ضرورت ہے اور کچھ فوائد ایسے ہیں جو اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے۔ اس دعوے کی تائید میں جو دلائل وہ دیتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے:۔
(۱) انسانی معیشت کا سارا کاروبار سرمائے کے اجتماع پر منحصر ہے اور سرمائے کا جمع ہونا بغیر اس کے ممکن نہیں کہ لوگ اپنی ضروریات اور خواہشات پر پابندی عائد کریں اور اپنی ساری کی ساری آمدنیوں کو اپنی ذات پر خرچ نہ کر ڈالیں بلکہ کچھ نہ کچھ پس انداز بھی کرتے رہا کریں۔ یہی ایک صورت ہے سرمایہ اکٹھا ہونے کی لیکن آخر ایک آدمی کیوں اپنی ضروریات کو روکنے اور کفایت شعاری کرنے پر آمادہ ہو اگر اسے اس ضبط نفس اور اس قربانی کا کوئی اجر نہ ملے؟ سود ہی تو وہ اجر ہے جس کی امید لوگوں کو روپیہ بچانے پر آمادہ کرتی ہے۔ تم اسے حرام کر دو گے تو سرے سے فاضل آمدنیوں کو محفوظ کرنے کا سلسلہ ہی بند ہو جائے گا جو سرمائے کی بہم رسانی کا اصل ذریعہ ہے۔
(۲) معاشی کاروبار کی طرف سرمائے کے بہاؤ کی آسان ترین صورت یہ ہے کہ لوگوں کے لیے اپنی جمع شدہ دولت کو سود پر چلانے کا دروازہ کھلا رہے۔ اس طرح سود ہی کا لالچ ان کو اس بات پر بھی آمادہ کرتا رہتا ہے کہ اپنی پس انداز کی ہوئی رقموں کو بیکار نہ ڈال رکھیں بلکہ کاروباری لوگوں کے حوالے کر دیں اور ایک مقرر شرح کے مطابق سود وصول کرتے رہیں ۔ اس دروازے کو بند کرنے کے معنی یہ ہیں کہ نہ صرف روپیہ جمع کرنے کا ایک اہم ترین محرک غائب ہو جائے بلکہ جو تھوڑا بہت سرمایہ جمع ہو وہ بھی کاروبار میں لگنے کے لیے حاصل نہ ہو سکے۔
(۳) سود صرف یہی نہیں کرتا کہ سرمایہ جمع کراتا اور اسے کاروبار کی طرف کھینچ کر لاتا ہے، بلکہ وہی اس کے غیر مفید استعمال کو روکتا بھی ہے۔ اور شرح سود وہ چیز ہے جو بہترین طریقے سے آپ ہی آپ اس امر کا انتظام کرتی رہتی ہے کہ سرمایہ کاروبار کی مختلف ممکن تجویزوں میں سے ان تجویزوں کی طرف جائے جو ان میں سب سے زیادہ بار آور ہوں۔ اس کے سوا کوئی تدبیر سمجھ میں نہیں آتی جو مختلف عملی تجویزوں میں سے نافع کو غیر نافع سے اور زیادہ نافع کو کم نافع سے ممیز کر لے اور انفع کی طرف سرمائے کا رُخ پھیرتی رہے۔ تم سود کو اُڑا دو گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اوّل تو لوگ بڑی بے پروائی سے سرمایہ استعمال کرنے لگیں گے اور پھر بلا لحاظ نفع و نقصان، ہر طرح کے اُلٹے سیدھے کاموں میں اسے لگانا شروع کر دیں گے۔
(۴) قرض وہ چیز ہے جو انسانی زندگی کی ناگزیر ضروریات میں سے ہے۔ افراد کو بھی اپنے ذاتی معاملات میں اس کی ضرورت پیش آتی ہے۔ کاروباری لوگوں کو بھی آئے دن اس کی حاجت رہتی ہے اور حکومتوں کا کام بھی اس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ اس کثرت سے اتنے بڑے پیمانے پر قرض کی بہم رسانی آخرنری خیرات کے بل پر کہاں تک ہو سکتی ہے؟ اگر تم صاحب سرمایہ لوگوں کو سود کا لالچ نہ دو گے اور اس امر کا اطمینان بہم نہ پہنچاؤ گے کہ ان کے رأس المال کے ساتھ ان کا سود بھی ان کو ملتا رہے گا تو وہ بمشکل ہی قرض دینے پر آمادہ ہوں گے اور اس طرح قرضوں کی بہم رسانی رک جانے کا نہایت برا اثر پوری معاشی زندگی پر مترتب ہوگا۔ ایک غریب آدمی کو اپنے برے وقت پر مہاجن سے قرض مل تو جاتا ہے سود کا لالچ نہ ہو تو اس کا مردہ بے کفن ہی پڑا رہ جائے اور کوئی اس کی طرف مدد کا ہاتھ نہ بڑھائے۔ ایک تاجر کو تنگ مواقع پر سودی قرض فوراً مل جاتا ہے اور اس کا کام چلتا رہتا ہے۔ یہ دروازہ بند ہو جائے تو نہ معلوم کتنی مرتبہ اس کا دیوالیہ نکلنے کی نوبت آ جائے۔ ایسا ہی معاملہ حکومتوں کا بھی ہے کہ ان کی ضرورتیں سودی قرض ہی سے پوری ہوتی رہتی ہیں ورنہ کروڑوں روپے فراہم کرنے والے سخی داتا آخر انھیں روز روز کہاں مل سکتے ہیں؟
کیا سود فی الواقع ضروری اور مفید ہے؟
آیئے اب ہم ان میں سے ایک ایک ’’فائدے‘‘ اور ’’ضرورت‘‘ کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ آیا فی الحقیقت وہ کوئی فائدہ اور ضرورت ہے بھی یا یہ سب کچھ محض ایک شیطانی وسوسہ ہے۔
اوّلین غلط فہمی یہ ہے کہ معاشی زندگی کے لیے افراد کی کفایت شعاری اور زراندوزی کو ایک ضروری اور مفید چیز سمجھا جاتا ہے حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ درحقیقت ساری معاشی ترقی و خوش حالی منحصر ہے اس پر کہ جماعت بحیثیت مجموعی جتنا کچھ سامانِ زیست پیدا کرتی جائے‘ وہ جلدی جلدی فروخت ہوتا چلا جائے تاکہ پیداوار اور اس کی کھپت کا چکر توازن کے ساتھ اور تیز رفتاری کے ساتھ چلتا رہے۔ یہ بات صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے جب کہ لوگ بالعموم اس امر کے عادی ہوں کہ معاشی سعی و عمل کے دوران میں جتنی کچھ دولت ان کے حصّے میں آئے اسے صرف کرتے رہیں، اور اس قدر فراخ دل ہوں کہ اگر ان کے پاس ان کی ضرورت سے زیادہ دولت آ گئی ہو تو اسے جماعت کے کم نصیب افراد کی طرف منتقل کر دیا کریں تاکہ وہ بھی بفراغت اپنے لیے ضروریات زندگی خرید سکیں مگر تم اس کے برعکس لوگوں کو یہ سکھاتے ہو کہ جس کے پاس ضرورت سے زیادہ دولت پہنچی ہو وہ بھی کنجوسی برت کر (جسے تم ضبط نفس اور زہد اور قربانی وغیرہ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہو) اپنی مناسب ضروریات کا ایک اچھا خاصا حصہ پورا کرنے سے باز رہے اور اس طرح ہر شخص زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی کوشش کرے۔ تمھارے نزدیک اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ سرمایہ اکٹھا ہو کر صنعت و تجارت کی ترقی کے لیے بہم پہنچ سکے گا‘ لیکن درحقیقت اس کا نقصان یہ ہوگا کہ جو مال اس وقت بازار میں موجود ہے۔ اس کا ایک بڑا حصہ یونہی پڑا رہ جائے گا۔ کیونکہ جن لوگوں کے اندر قوتِ خرید پہلے ہی کم تھی وہ تو استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سا مال خرید نہ سکے، اور جو بقدر ضرورت خرید سکتے تھے انھوں نے استطاعت کے باوجود پیداوار کا اچھا خاصہ حصہ نہ خریدا اور جن کے پاس ان کی ضرورت سے زیادہ قوتِ خریداری پہنچ گئی تھی انھوں نے اسے دوسروں کی طرف منتقل کرنے کے بجائے اپنے پاس روک کر رکھ لیا۔
اب اگر ہر معاشی چکر میں یہی ہوتا رہے کہ بقدر ضرورت اور زائد از ضرورت قوتِ خرید پانے والے لوگ اپنی اس قوت کے بڑے حصے کو نہ تو خود پیداوار کے خریدنے میں استعمال کریں نہ کم قوتِ خرید رکھنے والوں کو دیں بلکہ اسے روکتے اور جمع کرتے چلے جائیں، تو اس کا حاصل یہ ہوگا کہ ہر چکر میں جماعت کی معاشی پیداوار کا معتدبہ حصہ فروخت سے رُکتا چلا جائے گا۔ مال کی کھپت کم ہونے سے روزگار میں کمی واقع ہوگی۔ روزگار کی کمی آمدنیوں کی کمی سے پھر اموالِ تجارت کی کھپت میں مزید کمی رونما ہوتی چلی جائے گی۔
اس طرح چند افراد کی زر اندوزی بہت سے افراد کی بدحالی کا سبب بنے گی اور آخر کار یہ چیز خود ان زر اندوز افراد کے لیے بھی وبالِ جان بن جائے گی کیونکہ جس دولت کو وہ خریداری میں استعمال کرنے کے بجائے سمیٹ سمیٹ کر مزید پیداوار میں استعمال کریں گے آخر اس کے ذریعے سے تیار کی ہوئی پیداوار کھپے گی کہاں؟
اس حقیقت پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اصل معاشی ضرورت تو ان اسباب اور محرکات کو دور کرنا ہے جن کی بنا پر افراد اپنی آمدنیوں کو خرچ کرنے کے بجائے روک رکھنے اور جمع کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ساری جماعت کی معاشی فلاح یہ چاہتی ہے کہ ایک طرف اجتماعی طور پر ایسے انتظامات کر دیے جائیں جن کی بدولت ہر شخص کو اپنے برے وقت پر مالی مدد مل جایا کرے تاکہ لوگوں کو اپنی آمدنیاں جمع کرنے کی حاجت ہی نہ محسوس ہو، اور دوسری طرف جمع شدہ دولت پر زکوٰۃ عائد کی جائے تاکہ لوگوں کے اندر جمع کرنے کا میلان کم ہو اور اس کے باوجود جو دولت رُک جائے اس کا ایک حصہ بہرحال ان لوگوں تک پہنچتا رہے جنھوں نے گردشِ دولت میں سے کم حصہ پایا ہے لیکن تم اس کے برعکس سود کا لالچ دے دے کر لوگوں کے طبعی بخل کو اور زیادہ اُکساتے ہو اور جو بخیل ہیں ان کو بھی یہ سکھاتے ہو کہ وہ خرچ کرنے کے بجائے مال جمع کریں۔
پھر اس غلط طریقے سے اجتماعی مفاد کے خلاف جو سرمایہ اکٹھا ہوتا ہے اس کو تم پیدائش دولت کے کاروبار کی طرف لاتے بھی ہو تو سود کے راستے سے لاتے ہو۔ یہ اجتماعی مفاد پر تمھارا دوسرا ظلم ہے۔ اگر یہ اکٹھی کی ہوئی دولت اس شرط پر کاروبار میں لگتی کہ جتنا کچھ منافع کاروبار میں ہوگا اس میں سے سرمایہ دار کو تناسب کے مطابق حصہ مل جائے گا تب بھی چنداں مضائقہ نہ تھا۔ مگر تم اس کو اس شرط پر بازارِ مالیات میں لاتے ہو کہ کاروبار میں چاہے منافع ہو یا نہ ہو، اور چاہے کم منافع ہو یا زیادہ، بہرحال سرمایہ دار اس قدر فی صدی منافع ضرور پائے گا۔ اس طرح تم نے اجتماعی معیشت کو دوہرا نقصان پہنچایا۔ ایک نقصان وہ جو روپے کو خرچ نہ کرنے اور روک رکھنے سے پہنچا۔ اور دوسرا یہ کہ جو روپیہ روکا گیا تھا وہ اجتماعی معیشت کی طرف پلٹا بھی تو حصّے داری کے اصول پر کاروبار میں شریک نہیں ہوا بلکہ قرض بن کر پورے معاشرے کی صنعت و تجارت پر لد گیا اور قانون نے اس کو یقینی منافع کی ضمانت دے دی۔ اب تمھارے اس غلط نظام کی وجہ سے صورتِ حال یہ ہوگئی کہ معاشرے کے بکثرت افراد اس قوتِ خریداری کو جو انھیں حاصل ہوتی ہے۔
اجتماعی پیداوار کی خریداری میں صرف کرنے کے بجائے روک روک کر ایک سود طلب قرضے کی شکل میں معاشرے کے سر پر لادتے چلے جاتے ہیں اور معاشرہ اس روز افزوں پیچیدگی میں مبتلا ہوگیا ہے کہ آخر وہ اس ہر لحظہ بڑھنے والے قرض و سود کو کس طرح ادا کرے جب کہ اس سرمائے سے تیار کیے ہوئے مال کی کھپت بازار میں مشکل ہے اور مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ لاکھوں کروڑوں آدمی اسے اس لیے نہیں خریدتے کہ ان کے پاس خریدنے کے لیے پیسہ نہیں اور ہزارہا آدمی اس کو اس لیے نہیں خریدتے کہ وہ اپنی قوتِ خریداری کو مزید سود طلب قرض بنانے کے لیے روکتے چلے جا رہے ہیں۔
تم اس سود کا یہ فائدہ بتاتے ہو کہ اس کے دباؤ کی وجہ سے کاروباری آدمی مجبور ہوتا ہے کہ سرمائے کے فضول استعمال سے بچے اور اس کو زیادہ سے زیادہ نفع بخش طریقے سے استعمال کرے۔ تم شرح سود کی یہ کرامت بیان کرتے ہو کہ وہ خاموشی کے ساتھ کاروبار کی ہدایت و رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی رہتی ہے اور یہ اسی کا فیضان ہے کہ سرمایہ اپنے بہاؤ کے لیے تمام ممکن راستوں میں سے اس کاروبار کے راستے کو چھانٹ لیتا ہے جو سب سے زیادہ نافع ہوتا ہے لیکن ذرا اپنی سخن سازی کے پردے کو ہٹا کر دیکھو کہ اس کے نیچے اصل حقیقت کیا چھپی ہوئی ہے۔ دراصل سود نے پہلی خدمت تو یہ انجام دی کہ ’’فائدے‘‘ اور ’’منفعت‘‘ کی تمام دوسری تفسیریں اس کے فیض سے متروک ہوگئیں اور ان الفاظ کا صرف ایک ہی مفہوم باقی رہ گیا یعنی ’’مالی فائدہ‘‘ اور ’’مادی منفعت‘‘۔ اس طرح سرمائے کو بڑی یکسوئی حاصل ہوگئی۔ پہلے وہ ان راستوں کی طرف بھی چلا جایا کرتا تھا جن میں مالی فائدے کے سوا کسی اور قسم کا فائدہ ہوتا تھا مگر اب وہ سیدھا ان راستوں کا رُخ کرتا ہے جدھر مالی فائدے کا یقین ہوتا ہے۔ پھر دوسری خدمت وہ اپنی شرحِ خاص کے ذریعے سے یہ انجام دیتا ہے کہ سرمائے کے مفید استعمال کا معیار سوسائٹی کا فائدہ نہیں بلکہ صرف سرمایہ دار کا فائدہ بن جاتا ہے۔ شرحِ سود یہ طے کر دیتی ہے کہ سرمایہ اس کام میں صرف ہوگا جو مثلاً ۶ فیصدی سالانہ یا اس سے زیادہ منافع سرمایہ دار کو دے سکتا ہو۔ اس سے کم نفع دینے والا کوئی کام اس قابل نہیں ہے کہ اس پر مال صرف کیا جائے۔ اب فرض کیجیے کہ ایک اسکیم سرمائے کے سامنے یہ آتی ہے کہ ایسے مکانات تعمیر کیے جائیں جو آرام دہ بھی ہوں اور جنھیں غریب لوگ کم کرایہ پر لے سکیں اور دوسری اسکیم یہ آتی ہے کہ ایک شان دار سینما تعمیر کیا جائے۔ پہلی اسکیم چھے فیصدی سے کم منافع کی اُمید دلاتی ہے اور دوسری اسکیم اس سے زیادہ نفع دیتی نظر آتی ہے۔ دوسرے حالات میں تو اس کا امکان تھا کہ سرمایہ نادانی کے ساتھ پہلی اسکیم کی طرف بہ جاتا، یا کم از کم ان دونوں کے درمیان متردد ہو کر استخارہ کرنے کی ضرورت محسوس کرتا۔ مگر یہ شرح سود کا فیض ہدایت ہے کہ وہ سرمائے کو بلا تأمل دوسری اسکیم کا راستہ دکھا دیتا ہے۔ اور پہلی اسکیم کو اس طرح پیچھے پھینکتا ہے کہ سرمایہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ اس پر مزید کرامت شرح سود میں یہ ہے کہ وہ کاروباری آدمی کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ ہر ممکن طریقے سے ہاتھ پاؤں مار کر اپنے منافع کو اس حد سے اوپر ہی اوپر رکھنے کی کوشش کرے جو سرمایہ دار نے کھینچ دی ہے۔ خواہ اس غرض کے لیے اس کو کیسے ہی غیر اخلاقی طریقے اختیار کرنے پڑیں۔ مثلاً اگر کسی شخص نے ایک فلم کمپنی قائم کی ہے اور جو سرمایہ اس میں لگا ہوا ہے اس کی شرح سود چھے فیصدی سالانہ ہے تو اس کو لا محالہ وہ طریقے اختیار کرنے پڑیں گے جن سے اس کے کاروبار کا منافع ہر حال میں اس شرح سے زیادہ رہے۔ یہ بات اگر ایسے فلم تیار کرنے سے حاصل نہ ہو سکے جو اخلاقی حیثیت سے پاکیزہ اور علمی حیثیت سے مفید ہوں تو وہ مجبور ہوگا کہ عریاں اور فحش کھیل تیار کرے اور ایسے ایسے طریقوں سے ان کا اشتہار دے جن سے عوام کے جذبات بھڑکیں اور وہ شہوانیت کے طوفان میں بہ کر اس کے کھیل دیکھنے کے لیے جوق در جوق اُمنڈ آئیں۔
یہ ہے اُن فوائد کی حقیقت جو تمھارے نزدیک سود سے حاصل ہوتے ہیں اور جن کے حصول کا کوئی ذریعہ سود کے سوا نہیں ہے۔ اب ذرا اس ضرورت کا جائزہ بھی لے لیجیے جو آپ کے نزدیک سود کے بغیر پوری نہیں ہو سکتی۔ بلاشبہ قرض انسانی زندگی کی ضروریات میں سے ہے۔ اس کی ضرورت افراد کو اپنی شخصی حاجات میں بھی پیش آتی ہے، صنعت اور تجارت اور زراعت وغیرہ معاشی کاموں میں بھی ہر وقت اس کی مانگ رہتی ہے اور حکومت سمیت تمام اجتماعی ادارے بھی اس کے حاجت مند رہتے ہیں لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ سود کے بغیر قرض کی بہم رسانی غیر ممکن ہے۔ دراصل یہ صورت حال کہ افراد سے لے کر قوم تک کسی کو بھی ایک پیسہ بلاسود قرض نہیں ملتا، اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ آپ نے سود کو قانوناً جائز رکھا ہے۔ اس کو حرام کیجیے اور معیشت کے ساتھ اخلاق کا بھی وہ نظام اختیار کیجیے جو اسلام نے تجویز کیا ہے، پھر آپ دیکھیں گے کہ شخصی حاجات اور کاروبار اور اجتماعی ضروریات ہر چیز کے لیے قرض بلا سود ملنا شروع ہو جائے گا بلکہ عطیے تک ملنے لگیں گے۔ اسلام عملاً اس کا ثبوت دے چکا ہے۔
صدیوں مسلمان سوسائٹی سود کے بغیر بہترین طریقے پر اپنی معیشت کا سارا کام چلاتی رہی ہے۔ آپ کے اس منحوس دورِ سود خواری سے پہلے کبھی مسلمان سوسائٹی کا یہ حال نہیں رہا ہے کہ کسی مسلمان کا جنازہ اس لیے بے کفن پڑا رہ گیا ہو کہ اس کے وارث کو کہیں سے بلا سود قرض نہیں ملا، یا مسلمانوں کی صنعت و تجارت اور زراعت اس لیے بیٹھ گئی ہو کہ کاروباری ضروریات کے مطابق قرض حسن بہم پہنچنا غیر ممکن ثابت ہوا، یا مسلمان حکومتیں رفاہِ عام کے کاموں کے لیے اور جہاد کے لیے اس وجہ سے سرمایہ نہ پا سکی ہوں کہ ان کی قوم سود کے بغیر اپنی حکومت کو روپیہ دینے پر آمادہ نہ تھی۔ لہٰذا آپ کا یہ دعویٰ کہ قرض حسن ناقابل عمل ہے اور قرض و استقراض کی عمارت صرف سود ہی پر کھڑی ہو سکتی ہے کسی منطقی تردید کا محتاج نہیں ہے، ہم اپنے صدیوں کے عمل سے اسے غلط ثابت کر چکے ہیں۔
یہ بحث کہ آج اس زمانے کی معاشی ضروریات کے لیے قرض بلا سود کی بہم رسانی عملاً کس طرح ہو سکتی ہے ہمارے اس باب کے موضوع سے خارج ہے۔ اس پر ہم بعد کے ایک باب میں گفتگو کریں گے۔
٭…٭…٭
ایجابی پہلو
پچھلے باب میں جو بحث ہم نے کی ہے اس سے تو صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ سود نہ تو کوئی معقول چیز ہے نہ وہ انصاف کا تقاضا ہے نہ وہ کوئی معاشی ضرورت ہے اور نہ اس میں فی الحقیقت فائدے کا کوئی پہلو ہے لیکن سود کی حرمت صرف ان منفی اسباب ہی پر مبنی نہیں ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ وہ قطعی طور پر ایک نقصان دہ چیز ہے اور بہت سے پہلوؤں سے بہت زیادہ نقصان دہ ہے۔
اس باب میں ہم ایک ایک کرکے ان نقصانات کا تفصیلی جائزہ لیں گے تاکہ کسی معقول آدمی کو اس ناپاک چیز کی حرمت میں ذرّہ برابر بھی شبہ باقی نہ رہ جائے۔
سود کے اخلاقی و روحانی نقصانات
سب سے پہلے اخلاق و روحانیت کے نقطۂ نظر سے دیکھیے کیونکہ اخلاق اور روح ہی اصل جوہر انسانیت ہے اور اگر کوئی چیز ہمارے اس جوہر کو نقصان پہنچانے والی ہو تو بہرحال وہ قابل ترک ہے، خواہ کسی دوسرے پہلو سے اس میں کتنے ہی فوائد ہوں۔ اب اگر آپ سود کا نفسیاتی تجزیہ کریں گے تو آپ کو بیک نظر معلوم ہو جائے گا کہ روپیہ جمع کرنے کی خواہش سے لے کر سودی کاروبار کے مختلف مرحلوں تک پورا ذہنی عمل خود غرضی، بخل ، تنگ دلی، سنگ دلی اور زر پرستی جیسی صفات کے زیر اثر جاری رہتا ہے اور جتنا جتنا آدمی اس کاروبار میں آگے بڑھتا جاتا ہے، یہی صفات اس کے اندر نشوونما پاتی چلی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس زکوٰۃ و صدقات کی ابتدائی نیت سے لے کر اس کے عملی ظہور تک پورا ذہنی عمل فیاضی، ایثار، ہمدردی، فراخ دلی، عالی ظرفی اور خیر اندیشی جیسی صفات کے زیر اثر واقع ہوتا ہے اور اس طریق کار پر مسلسل عمل کرتے رہنے سے یہی صفات انسان کے اندر نشوونما پاتی ہیں۔ کیا کوئی انسان دنیا میں ایسا ہے جس کا دل شہادت نہ دیتا ہو کہ اخلاقی صفات کے ان دونوں مجموعوں میں سے پہلا مجموعہ بدترین اور دوسرا مجموعہ بہترین ہے؟
تمدنی و اجتماعی نقصانات
اب تمدنی حیثیت سے دیکھیے۔ ایک ذرا سے غوروخوض سے یہ بات ہر شخص کی سمجھ میں بآسانی آ سکتی ہے کہ جس معاشرے میں افراد ایک دوسرے کے ساتھ خود غرضی کا معاملہ کریں، کوئی اپنی ذاتی غرض اور اپنے ذاتی فائدے کے بغیر کسی کے کام نہ آئے۔ ایک کی حاجت مندی دوسرے کے لیے نفع اندوزی کا موقع بن جائے اور مال دار طبقوں کا مفاد نادار طبقوں کے مفاد کی ضد ہو جائے۔ ایسا معاشرہ کبھی مستحکم نہیں ہو سکتا۔ اس کے اجزا ہمیشہ انتشار و پراگندگی ہی کی طرف مائل رہیں گے۔ اور اگر دوسرے اسباب بھی اس صورتِ حال کے لیے مددگار بن جائیں تو ایسے معاشرے کے اجزا کا باہم متصادم ہو جانا بھی کچھ مشکل نہیں ہے۔ اس کے برعکس جس معاشرے کا اجتماعی نظام آپس کی ہمدردی پر مبنی ہو جس کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ فیاضی کا معاملہ کریں جس میں ہر شخص دوسرے کی احتیاج کے موقع پر فراخ دلی کے ساتھ مدد کا ہاتھ بڑھائے اور جس میں مال دار لوگ نادار لوگوں کے ساتھ ہمدردانہ اعانت یا کم از کم منصفانہ تعاون کا طریقہ برتیں، ایسے معاشرے میں آپس کی محبت اور خیر خواہی اور دلچسپی نشوونما پائے گی۔ اس کے اجزا ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ اور ایک دوسرے کے پشتیبان ہوں گے۔ اس میں اندرونی نزاع و تصادم کو راہ پانے کا موقع نہ مل سکے گا۔ اس میں باہمی تعاون اور خیر خواہی کی وجہ سے ترقی کی رفتار پہلے معاشرے کی بہ نسبت بہت زیادہ تیز ہوگی۔
ایسا ہی حال بین الاقوامی تعلقات کا بھی ہے۔ ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ فیاضی و ہمدردی کا معاملہ کرے اور اس کی مصیبت کے وقت کھلے دل سے مدد کا ہاتھ بڑھائے۔ ممکن نہیں ہے کہ دوسری طرف سے اس کا جواب محبت اور شکر گزاری اور مخلصانہ خیر خواہی کے سوا کسی اور صورت میں ملے۔ اس کے برعکس وہی قوم اگر اپنی ہمسایہ قوم کے ساتھ خود غرضی و تنگ دلی کا برتاؤ کرے اور اس کی مشکلات کا ناجائز فائدہ اٹھائے، تو ہو سکتا ہے کہ مال کی صورت میں وہ بہت کچھ نفع اس سے حاصل کر لے لیکن یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے کہ پھر اپنے اس شائیلاک قسم کے ہمسائے کے لیے اس قوم کے دل میں کوئی اخلاص اور محبت اور خیر خواہی باقی رہ جائے۔
ابھی کچھ زیادہ مدت نہیں گزری ہے، پچھلی جنگ عظیم کے زمانے کی بات ہے کہ انگلستان نے امریکہ سے ایک بھاری قرض کا معاملہ طے کیا جو (bretton wood agreement) کے نام سے مشہور ہے۔ انگلستان چاہتا تھا کہ اس کا خوش حال دوست جو اس لڑائی میں اس کا رفیق تھا، اسے بلا سود قرض دے دے لیکن امریکہ سود چھوڑنے پر راضی نہ ہوا اور انگلستان اپنی مشکلات کی وجہ سے مجبور ہوگیا کہ سود دینا قبول کرے۔ اس کا جو اثر انگریزی قوم پر مرتب ہوا وہ ان تحریروں سے معلوم ہو سکتا ہے جو اس زمانے میں انگلستان کے مدبرین اور اخبار نویسوں کی زبان اور قلم سے نکلیں۔
مشہور ماہر معاشیات لارڈ کینز آنجہانی جنھوں نے انگلستان کی طرف سے یہ معاملہ طے کیا تھا، جب اپنے مشن کو پورا کرکے پلٹے تو انھوں نے برطانوی دارالأمرا میں اس پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں تمام عمر اس رنج کو نہ بھولوں گا جو مجھے اس بات سے ہوا کہ امریکہ نے ہم کو بلاسود قرض دینا گوارا نہ کیا۔ مسٹر چرچل جیسے زبردست امریکہ پسند شخص نے کہا کہ یہ بنیے پن کا برتاؤ جو ہمارے ساتھ ہوا ہے مجھے اس کی گہرائی میں بڑے خطرات نظر آتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس کا ہمارے باہمی تعلقات پر بہت ہی برا اثر پڑا ہے۔ اس وقت کے وزیر خزانہ ڈاکٹر ڈالٹن نے پارلیمنٹ میں اس معاملے کو منظوری کے لیے پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھاری بوجھ جسے لادے ہوئے ہم جنگ سے نکل رہے ہیں ہماری ان قربانیوں اور جفا کشیوں کا بڑا ہی عجیب صلہ ہے جو ہم نے مشترک مقصد کے لیے برداشت کیں۔ اس نرالے ستم ظریفانہ انعام پر آئندہ زمانے کے مورخین ہی کچھ بہتر رائے زنی کر سکیں گے … ہم نے درخواست کی تھی کہ ہم کو قرضِ حسن دیا جائے، مگر جواب میں ہم سے کہا گیا کہ یہ عملی سیاست نہیں ہے۔
یہ سود کا فطری اثر اور اس کا لازمی نفسیاتی ردّعمل ہے جو ہمیشہ ہر حال میں رونما ہوگا۔ ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ یہ معاملہ کرے یا ایک شخص دوسرے شخص کے ساتھ، انگلستان کے لوگ یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے اور آج بھی وہ اسے نہیں مانتے کہ انفرادی معاملات میں سودی لین دین کوئی بری چیز ہے۔ آپ کسی انگریز سے بلاسودی قرض کی بات کریں وہ فوراً آپ کو جواب دے گا کہ جناب یہ ’’عملی کاروبار‘‘ (practical business) کا طریقہ نہیں ہے‘ لیکن جب اس کی قومی مصیبت کے موقع پر اس کی ہمسایہ قوم نے اس کے ساتھ یہ ’’عملی کاروبار‘‘ کا طریقہ برتا تو ہر انگریز چیخ اٹھا اور اس نے تمام دنیا کے سامنے اس حقیقت پر گواہی دی کہ سود دلوں کو پھاڑنے والی اور تعلقات کو خراب کرنے والی چیز ہے۔
معاشی نقصانات
اب اس کے معاشی پہلو پر نگاہ ڈالیے۔ سود کا تعلق معاشی زندگی کے ان معاملات سے ہے جن میں کسی نہ کسی طور پر قرض کا لین دین ہوتا ہے۔ قرض مختلف اقسام کے ہوتے ہیں:
ایک قسم کے قرضے وہ ہیں جو حاجت مند لوگ اپنی ذاتی ضروریات کے لیے لیتے ہیں۔
دوسری قسم کے قرضے وہ ہیں جو تاجر اور صناع اور زمیندار اپنے نفع آور کاموں میں استعمال کرنے کے لیے لیتے ہیں۔
تیسری قسم ان قرضوں کی ہے جو حکومتیں اپنے اہل ملک سے لیتی ہیں اور ان کی نوعیتیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ ان میں سے بعض قرضے غیر نفع آور اغراض کے لیے ہوتے ہیں، مثلاً وہ جو نہریں اور ریلیں اور برقِ آبی کی اسکیمیں جاری کرنے کے لیے حاصل کیے جاتے ہیں۔
چوتھی قسم ان قرضوں کی ہے جو حکومتیں اپنی ضروریات کی خاطر غیر ممالک کے بازار زر سے لیتی ہیں۔
ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ لے کر ہم دیکھیں گے کہ اس پر سود عائد ہونے کے نقصانات کیا ہیں۔
اہل حاجت کے قرضے
دنیا میں سب سے بڑھ کر سود خواری اس کاروبار میں ہوتی ہے جو مہاجنی کاروبار (money lending business) کہلاتا ہے۔ یہ بلا صرف برعظیم ہند تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ایک عالم گیر بلا ہے جس سے دنیا کا کوئی ملک بچا ہوا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی یہ انتظام نہیں ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کو ان کی ہنگامی ضروریات کے لیے آسانی سے قرض مل جائے اور بلا سود نہیں تو کم از کم تجارتی شرح سود ہی پر نصیب ہو جائے۔ حکومت اسے اپنے فرائض سے خارج سمجھتی ہے۔ سوسائٹی کو اس ضرورت کا احساس نہیں۔ بینک صرف ان کاموں میں ہاتھ ڈالتے ہیں جن میں ہزاروں لاکھوں کے وارے نیارے ہوتے ہیں اور ویسے بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک قلیل المعاش آدمی کسی فوری ضرورت کے لیے بینک تک پہنچ سکے اور اس سے قرض حاصل کر سکے۔ ان وجوہ سے مزدور، کسان، چھوٹے کاروباری آدمی، کم تنخواہوں والے ملازم اور عام غریب لوگ ہر ملک میں مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے برے وقت پر ان مہاجنوں سے قرض لیں جو اپنی بستیوں کے قریب ہی ان کو گدھ کی طرح شکار کی تلاش میں منڈلاتے ہوئے مل جاتے ہیں۔
اس کاروبار میں اتنی بھاری شرح سود رائج ہے کہ جو شخص ایک مرتبہ سودی قرض کے جال میں پھنس جاتا ہے وہ پھر اس سے نہیں نکل سکتا بلکہ دادا کا لیا ہوا قرض پوتوں تک وراثت میں منتقل ہوتا چلا جاتا ہے اور اصل سے کئی گنا سود ادا کر چکنے پر بھی اصل قرض کی چٹان جوں کی توں آدمی کے سینے پر دھری رہتی ہے۔ پھر بارہا ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر قرض دار کچھ مدت تک سود ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتا تو چڑھے ہوئے سود کی رقم کو اصل میں شامل کرکے وہی مہاجن اپنا ہی قرض و سود وصول کرنے کے لیے اسی شخص کو ایک اور بڑا قرض زیادہ شرح سود پر دے دیتا ہے اور وہ غریب پہلے سے زیادہ زیر بار ہو جاتا ہے۔ انگلستان میں اس کاروبار کی کم سے کم شرح سود ۴۸ فیصدی سالانہ ہے۔ جو از روئے قانون دلوائی جاتی ہے لیکن عام شرح جس پر وہاں یہ کاروبار چل رہا ہے۔ ۲۵۰ سے ۴۰۰ فیصدی سالانہ تک ہے اور ایسی مثالیں بھی پائی گئی ہیں جن میں بارہ تیرہ سو فیصدی سالانہ پر معاملہ ہوا ہے۔ امریکہ میں مہاجنوں کے لیے قانونی شرح سود ۳۰ سے ۶۰ فیصدی سالانہ تک ہے‘ لیکن ان کا عام کاروبار ۱۰۰ سے ۲۶۰ فیصدی تک سالانہ شرح پر ہو رہا ہے اور بارہا یہ شرح ۸۰ فیصدی تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ خود ہمارے اس برعظیم میں بڑا ہی نیک طبع ہے وہ مہاجن جو کسی غریب کو ۴۸ فیصدی سالانہ پر قرض دے دے ورنہ عام شرح ۷۵ فیصدی سالانہ ہے۔ جو بار ہا ۱۵۰ فیصدی تک بھی پہنچ جاتی ہے بلکہ ۳۰۰ اور ۳۵۰ فیصدی سالانہ شرح کی مثالیں بھی پائی گئی ہیں۔
یہ وہ بلائے عظیم ہے جس میں ہر ملک کے غریب اور متوسط الحال طبقوں کی بڑی اکثریت بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے قلیل المعاش کارکنوں کی آمدنی کا بڑا حصہ مہاجن لے جاتا ہے۔ شب و روز کی ان تھک محنت کے بعد جو تھوڑی سی تنخواہیں یا مزدوریاں ان کو ملتی ہیں ان میں سے سود ادا کرنے کے بعد ان کے پاس اتنا بھی نہیں بچتا کہ دو وقت کی روٹی چلا سکیں۔ یہ چیز صرف یہی نہیں کہ ان کے اخلاق کو بگاڑتی اور انھیں جرائم کی طرف دھکیلتی ہے اور صرف یہی نہیں کہ ان کے معیار زندگی کو پست اور ان کی اولاد کے معیارِ تعلیم و تربیت کو پست تر کر دیتی ہے بلکہ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ دائمی فکر اور پریشانی ملک کے عام کارکنوں کی قابلیت کارکو بہت گھٹا دیتی ہے۔ اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کی محنت کا پھل دوسرا لے اڑتا ہے تو اپنے کام سے ان کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ اس لحاظ سے سودی کاروبار کی یہ قسم صرف ایک ظلم ہی نہیں ہے بلکہ اس میں اجتماعی معیشت کا بھی بڑا بھاری نقصان ہے۔ یہ کیسی عجیب حماقت ہے کہ جو لوگ ایک قوم کے اصل عاملینِ پیدائش ہیں اور جن کی محنتوں ہی سے وہ ساری دولت پیدا ہوتی ہے جس پر قوم کی اجتماعی خوشحالی کا مدار ہے، قوم ان پر بہت سی جونکیں مسلط کیے رکھتی ہے جو ان کا خون چوس چوس کر ان کو نڈھال کرتی رہتی ہیں۔ تم حساب لگاتے ہو کہ ملیریا سے اتنے لاکھ عملی گھنٹوں کا نقصان ہو جاتا ہے اور اس کی وجہ سے ملک کی معاشی پیداوار میں اتنی کمی واقع ہوتی ہے۔ اس بنا پر تم مچھروں پر پل پڑتے ہو اور ان کا قلع قمع کرنے کی کوشش کرتے ہو لیکن تم اس کا حساب نہیں لگاتے کہ تمھارے سود خوار مہاجن تمھارے لا کھوں کارکنوں کو کتنا پریشان، کتنا بددل اور کتنا افسردہ کرتے رہتے ہیں، کس قدر ان کے جذبہ عمل کو سرد اور قوتِ کار کو کم کر دیتے ہیں اور اس کا کتنا برا اثر تمھاری معاشی پیداوار پر مترتب ہوتا ہے۔ اس معاملے میں تمھارے اِلتفاتِ معکوس کا حال یہ ہے کہ تم مہاجنوں کا قلع قمع کرنے کے بجائے الٹا ان کے قرض داروں کو پکڑتے ہو اور جو خون مہاجن خود ان کے اندر سے نہیں سونت سکتا اسے تمھاری عدالتیں نچوڑ کر مہاجن کے حوالے کر دیتی ہیں۔
اس کا دوسرا معاشی نقصان یہ ہے کہ اس طرح غریب طبقے کی رہی سہی قوتِ خریداری بھی سود خوار سا ہوکار چھین لے جاتا ہے۔ لاکھوں آدمیوں کی بے روزگاری اور کروڑوں آدمیوں کی ناکافی آمدنی پہلے ہی تجارت و صنعت کے فروغ میں مانع تھی۔ اس پر تم نے اچھی آمدنیاں رکھنے والوں کو یہ راستہ دکھایا کہ وہ خرچ نہ کریں بلکہ زیادہ سے زیادہ رقم پس انداز کیا کریں۔ اس سے کاروبار کو ایک نقصان اور پہنچا۔ اب اس سب پر مستزادیہ ہے کہ لاکھوں کروڑوں غریب آدمیوں کو ناکافی تنخواہوں اور مزدوریوں کی شکل میں جو تھوڑی بہت قوتِ خریداری حاصل ہو جاتی ہے اس کو بھی وہ اپنی ضروریاتِ زندگی خریدنے میں استعمال نہیں کرنے پاتے، بلکہ اس کا ایک بڑا حصہ ساہوکار ان سے چھین لیتا ہے۔ اور اس کو اشیا اور خدمات کی خریداری پر صرف کرنے کے بجائے سوسائٹی کے سر پر مزید سود طلب قرض چڑھانے میں استعمال کرتا ہے۔ ذرا حساب لگا کر دیکھیے۔ اگر دنیا میں ۵ کروڑ آدمی بھی ایسے مہاجنوں کے پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ اوسطاً دس روپے مہینہ سود ادا کر رہے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر مہینے پچاس کروڑ روپے کا مال فروخت ہونے سے رہ جاتا ہے اور اتنی بھاری معاشی پیداوار کی طرف پلٹنے کے بجائے مزید سودی قرضوں کی تخلیق میں ماہ بماہ صرف ہوتی رہتی ہے۔ { FR 2236 }
کاروباری قرض
اب دیکھیے کہ جو قرض تجارت و صنعت اور دوسری کاروباری اغراض کے لیے لیا جاتا ہے اس پر سود کو جائز قرار دینے کے معاشی نقصانات کیا ہیں۔ صنعت، تجارت، زراعت اور دوسرے تمام معاشی کاموں کی بہتری یہ چاہتی ہے کہ جتنے لوگ بھی کسی کاروبار کے چلانے میں کسی طور پر حصہ لے رہے ہوں اُن سب کے مفاد، اغراض اور دلچسپیاں اس کام کے فروغ سے وابستہ ہوں۔ اس کا نقصان سب کا نقصان ہوتا کہ وہ اس کے خطرے سے بچنے کی مشترک سعی کریں اور اس کا فائدہ سب کا فائدہ ہوتا کہ وہ اس کو بڑھانے میں اپنی پوری طاقت صرف کر دیں۔ اس لحاظ سے معاشی مفاد کا تقاضا یہ تھا کہ جو لوگ کاروبار میں دماغی یا جسمانی کارکن کی حیثیت سے نہیں بلکہ صرف سرمایہ فراہم کرنے والے فریق کی حیثیت سے شریک ہوں ان کی شرکت بھی اسی نوعیت کی ہو تاکہ وہ کاروبار کی بھلائی برائی سے وابستہ ہوں اور وہ اس کے فروغ میں اور اس کو نقصان سے بچانے میں پوری دلچسپی لیں مگر جب قانون نے سود کو جائز کر دیا تو صاحب سرمایہ لوگوں کے لیے یہ راستہ کھل گیا کہ وہ اپنا سرمایہ شریک اور حصّے دار کی حیثیت سے کاروبار میں لگانے کے بجائے دائن کی حیثیت سے بصورت قرض دیں اور اس پر ایک مقرر شرح کے مطابق اپنا منافع وصول کرتے رہیں۔
اس طرح سوسائٹی کے معاشی عمل میں ایک ایسا نرالا غیر فطری عامل آ کر مل جاتا ہے جو تمام عاملین پیدائش کے برعکس اس پورے عمل کی بھلائی برائی سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس عمل میں نقصان آ رہا ہو تو سب کے لیے خطرہ ہے مگر اس کے لیے نفع کی گارنٹی ہے۔ اس لیے سب تو نقصان کو روکنے کی کوشش کریں گے، مگر یہ اس وقت تک فکرمند نہ ہوگا جب تک کہ کاروبار کا بالکل ہی دیوالیہ نہ نکلنے لگے۔ نقصان کے موقع پر یہ کاروبار کو بچانے کے لیے مدد کو نہیں دوڑے گا بلکہ اپنے مالی مفاد کو بچانے کے لیے اپنا دیا ہوا روپیہ بھی کھینچ لینا چاہے گا۔ اسی طرح معاشی پیداوار کے عمل کو فروغ دینے سے بھی براہِ راست اسے کوئی دلچسپی نہ ہوگی کیونکہ اس کا نفع تو بہرحال مقرر ہے، پھر آخر وہ کیوں اس کام کی ترقی و کامیابی کے لیے اپنا سر کھپائے! غرض سوسائٹی کے نفع اور نقصان سے بے تعلق ہو کر یہ عجیب قسم کا معاشی عامل الگ بیٹھا ہوا صرف اپنے سرمائے کو ’’کرایہ‘‘ پر چلاتا رہتا ہے اور بے کھٹکے اپنا مقرر کرایہ وصول کرتا رہتا ہے۔
اس غلط طریقے نے سرمایہ اور کاروبار کے درمیان رفاقت اور ہمدردانہ تعاون کے بجائے ایک بہت ہی بری طرح کا خود غرضانہ تعلق قائم کر دیا ہے۔ جو لوگ بھی روپیہ جمع کرنے اور معاشی پیداوار کے کام پر لگانے کے مواقع رکھتے ہیں وہ اس روپے سے نہ خود کوئی کاروبار کرتے ہیں نہ کاروبار کرنے والوں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں بلکہ ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان کا روپیہ ایک مقرر منافع کی ضمانت کے ساتھ قرض کے طور پر کام میں لگے اور پھر وہ مقرر منافع بھی زیادہ سے زیادہ شرح پر ہو۔ اس کے بے شمار نقصانات میں سے چند نمایاں ترین یہ ہیں:۔
(۱) سرمائے کا ایک متعدبہ حصہ اور بسا اوقات بڑا حصہ، محض شرح سود چڑھنے کے انتظار میں رکا پڑا رہتا ہے اور کسی مفید کام میں نہیں لگتا باوجودیہ کہ قابل استعمال وسائل بھی دنیا میں موجود ہوتے ہیں۔ روزگار کے طالب آدمی بھی بکثرت سے مارے پھر رہے ہوتے ہیں اور اشیائے ضرورت کی مانگ بھی موجود ہوتی ہے لیکن یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی نہ وسائل استعمال ہوتے ہیں نہ آدمی کام پر لگتے ہیں اور نہ منڈیوں میں حقیقی طلب کے مطابق مال کی کھپت ہوتی ہے، صرف اس لیے کہ سرمایہ دار جس شرح سے فائدہ لینا چاہتا ہے اس کے ملنے کی اسے توقع نہیں ہوتی اور اس بنا پر وہ کام میں لگانے کے لیے روپیہ نہیں دیتا۔
(۲) زیادہ شرح سود کا لالچ وہ چیز ہے جس کی بنا پر سرمایہ دار طبقہ کاروبار کی طرف سرمائے کے بہاؤ کو خود کاروبار کی حقیقی ضرورت اور طبعی مانگ کے مطابق نہیں بلکہ اپنے مفاد کے لحاظ سے روکتا اور کھولتا رہتا ہے۔ اس کا نقصان کچھ اسی طرح کا ہے جیسے کوئی نہر کا مالک کھیتوں اور باغوں کی مانگ اور ضرورت کے مطابق پانی نہ کھولے اور نہ بند کرے بلکہ اپنے پانی کے کھولنے اور بند کرنے کا ضابطہ یہ بنا لے کہ جب پانی کی ضرورت نہ ہو تو وہ بے تحاشا پانی بڑے سستے داموں چھوڑنے کے لیے تیار ہو جائے اور جوں ہی کہ پانی کی مانگ بڑھنی شروع ہو وہ اس کے ساتھ ساتھ پانی کی قیمت چڑھاتا چلا جائے یہاں تک کہ اس قیمت پر پانی لے کر کھیتوں اور باغوں میں لگانا کچھ بھی نفع بخش نہ رہے۔
(۳) سود اور اس کی شرح ہی وہ چیز ہے جس کی بدولت تجارت و صنعت کا نظام ایک ہموار طریقے سے چلنے کے بجائے تجارتی چکر (trade cycle) کی اس بیماری میں مبتلا ہوتا ہے جس میں اس پر بار بار کساد بازاری کے دورے پڑتے ہیں۔ اس کی تشریح ہم پہلے کر چکے ہیں اس لیے یہاں اس کے اعاد ے کی ضرورت نہیں۔
(۴) پھر یہ بھی اسی کا کرشمہ ہے کہ سرمایہ ان کاموں کی طرف جانے کے لیے راضی نہیں ہوتا جو مصالح عامہ کے لیے مفید اور ضروری ہیں مگر مالی لحاظ سے اتنے نفع بخش نہیں ہیں کہ بازار کی شرح سود کے مطابق فائدہ دے سکیں۔ اس کے برعکس وہ غیر ضروری مگر زیادہ نفع آور کاموں کی طرف بہ نکلتا ہے اور ادھر بھی وہ کارکنوں کو مجبور کرتا ہے کہ شرح سود سے زیادہ کمانے کے لیے ہر طرح کے بھلے اور برے اور صحیح و غلط طریقے استعمال کریں۔ اس نقصان کی تشریح بھی ہم پہلے کر آئے ہیں اس لیے اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔
(۵) سرمایہ دار لمبی مدت کے لیے سرمایہ دینے سے پہلو تہی کرتے ہیں کیونکہ ایک طرف وہ سٹہ بازی کے لیے اچھا خاصہ سرمایہ ہر وقت اپنے پاس قابل استعمال رکھنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف انھیں یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ اگر آئندہ کبھی شرح سود زیادہ چڑھی تو ہم اس وقت کم سود پر زیادہ سرمایہ پھنسا دینے سے نقصان میں رہیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اہل صنعت و حرفت بھی اپنے سارے کاروبار میں تنگ نظری و کم حوصلگی کا طریقہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور مستقل بہتری کے لیے کچھ کرنے کے بجائے بس چلتا کام کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ مثلاً ایسے قلیل المدت سرمائے کو لے کر ان کے لیے یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ اپنی صنعت کے لیے جدید ترین آلات اور مشینیں خریدنے پر کوئی بڑی رقم خرچ کر دیں بلکہ وہ پرانی مشینوں ہی کو گھس گھس کر بھلا برا مال مارکیٹ میں پھینکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں تاکہ قرض و سود ادا کر سکیں اور کچھ اپنا منافع بھی پیدا کر لیں۔ اسی طرح یہ بھی ان قلیل المدت قرضوں ہی کی برکت ہے کہ منڈی سے مال کی مانگ کم آتے دیکھ کر فوراً ہی کارخانہ دار مال کی پیداوار گھٹا دیتا ہے اور ذرا سی دیر کے لیے بھی پیداوار کی رفتار کو علیٰ حالہ برقرار رکھنے کی ہمت نہیں کر سکتا کیونکہ اسے خطرہ ہوتا ہے کہ اگر بازار میں مال کی قیمت گر گئی تو وہ پھر بالکل دیوالیہ کی سرحد پر ہوگا۔
(۶) پھر جو سرمایہ بڑی صنعتی و تجارتی اسکیموں کے لیے لمبی مدت کے واسطے ملتا ہے اس پر بھی ایک خاص شرح کے مطابق سود عائد ہونا بڑے نقصانات کا موجب ہوتا ہے۔ اس طرح کے قرضے بالعموم دس، بیس یا تیس سال کے لیے حاصل کیے جاتے ہیں اور اس پوری مدت کے لیے ابتدا ہی میں ایک خاص فی صدی سالانہ شرح سود طے ہو جاتی ہے۔ اس شرح کا تعین کرتے وقت کوئی لحاظ اس امر کا نہیں کیا جاتا اور جب تک فریقین کو علم غیب نہ ہو کیا جا بھی نہیں سکتا کہ آئندہ دس بیس یا تیس سال کے دوران میں قیمتوں کا اتار چڑھاؤ کیا شکل اختیار کرے گا اور قرض لینے والے کے لیے نفع کے امکانات کس حد تک کم یا زیادہ ہوں گے یا بالکل نہ رہیں گے۔ فرض کیجیے کہ ۱۹۴۹ء میں ایک شخص نے ۲۰ سال کے لیے ۷ فیصدی شرح سود پر ایک بھاری قرض حاصل کیا اور اس سے کوئی بڑا کام شروع کر دیا۔ اب وہ مجبور ہے کہ ۶۹ء تک ہر سال باقاعدگی کے ساتھ اس حساب سے اصل کی اقساط اور سود ادا کرتا رہے جو ۴۹ء میں طے ہوا تھا لیکن اگر ۵۵ء تک پہنچتے پہنچتے قیمتیں گر کر اس وقت کے نرخ سے آدھی رہ گئی ہوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ شخص جب تک آغازِ معاہدہ کے زمانے کی بہ نسبت اس وقت دوگنا مال نہ بیچے وہ نہ اس رقم کا سود ادا کر سکتا ہے اور نہ قسط اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس ارزانی کے دور میں یا تو اس قسم کے اکثر قرض داروں کے دیوالیے نکل جائیں یا وہ دیوالیے سے بچنے کے لیے معاشی نظام کو خراب کرنے والی ناجائز حرکات میں سے کوئی حرکت کریں۔ اس معاملے پر اگر غور کیا جائے تو کسی معقول آدمی کو اس امر میں کوئی شک نہ رہے گا کہ مختلف زمانوں میں چڑھتی اور گرتی ہوئی قیمتوں کے درمیان قرض دینے والے سرمایہ دار کا وہ منافع جو تمام زمانوں میں یکساں رہے‘ نہ انصاف ہے اور نہ معاشیات کے اصولوں ہی کے لحاظ سے اس کو کسی طرح درست اور اجتماعی خوش حالی میں مددگار ثابت کیا جا سکتا ہے۔ کیا دنیا میں کہیں آپ نے یہ سنا ہے کہ کوئی کمپنی جو اشیائے ضرورت میں سے کسی چیز کی فراہمی کا ٹھیکہ لے رہی ہو، یہ معاہدہ کرے کہ وہ آئندہ تیس سال یا بیس سال تک یہ چیز اسی قیمت پر خریدار کو مہیا کرتی رہے گی؟ اگر یہ کسی لمبی مدت کے سودے میں ممکن نہیں ہے، تو آخر صرف سودی قرض دینے والا سرمایہ دار ہی وہ انوکھا سوداگر کیوں ہو جو برس ہا برس کی مدت کے لیے اپنے قرض کی قیمت پیشگی طے کر لے اور وہی وصول کرتا چلا جائے۔
حکومتوں کے ملکی قرضے
اب ان قرضوں کو لیجیے جو حکومتیں ضروریات اور مصالح کے لیے خود اپنے ملک کے لوگوں سے لیتی ہیں۔ ان میں سے ایک قسم وہ ہے جو غیر نفع آور کاموں کے لیے لی جاتی ہے اور دوسری قسم وہ جو نفع آور کاموں میں لگائی جاتی ہے۔
پہلی قسم کے قرضوں پر سود اپنی نوعیت کے لحاظ سے وہی معنی رکھتا ہے جو اہل حاجت افراد کے ذاتی قرضوں پر سود کی نوعیت ہے بلکہ درحقیقت یہ اس سے بھی بدتر چیز ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص جس کو ایک معاشرے نے جنم دیا، پالا، پوسا، اس قابل بنایا کہ وہ کچھ کما سکے، خطرات سے اس کی حفاظت کی، نقصانات سے اس کو بچایا اور معاشرے کے تمدنی و سیاسی اور معاشی نظام نے ان تمام خدمات کا انتظام کیا جن کی بدولت وہ امن سے بیٹھا اپنا کاروبار چلا رہا ہے، وہ اسی معاشرے کو ان ضرورتوں کے موقع پر جن میں کسی مالی نفع کا کوئی سوال نہیں ہے اور جن کے پورا ہونے سے سب لوگوں کے ساتھ خود اس شخص کا مفاد بھی وابستہ ہے، بلا سود روپیہ قرض دینے پر آمادہ نہیں ہوتا اور خود اپنے مُربّی معاشرے سے کہتا ہے کہ تو چاہے اس روپے سے نفع کمائے یا نہ کمائے، مگر میں تو اپنی رقم کا اتنا معاوضہ سالانہ ضرور لیتا رہوں گا۔
یہ معاملہ اس وقت اور بھی زیادہ سنگین ہو جاتا ہے جب کہ قوم کو جنگ پیش آئے اور سب کے ساتھ خود اس سرمایہ دار فرزند قوم کی اپنی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کا سوال بھی درپیش ہو۔ ایسے موقع پر جو کچھ بھی قومی خزانے سے خرچ ہوتا ہے وہ کسی کاروبار میں نہیں لگتا بلکہ آگ میں پھونک دیا جاتا ہے۔ اس میں منافع کا کیا سوال! اور یہ خرچ اس کام میں ہوتا ہے جس کی کامیابی و ناکامی پر ساری قوم کے ساتھ خود اس شخص کی اپنی موت و زیست کا بھی انحصار ہے اور اس کام میں قوم کے دوسرے لوگ اپنی جانیں اور وقت اور محنت سب کچھ کھپا رہے ہوتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی یہ سوال نہیں کرتا کہ قومی دفاع کے لیے جو حصّے میں ادا کر رہا ہوں اس پر کتنا منافع سالانہ مجھ کو ملتا رہے گا! مگر پوری قوم میں سے صرف ایک سرمایہ دار ہی ایسا نکلتا ہے جو اپنا مال دینے سے پہلے یہ شرط کرتا ہے کہ مجھے ہر سو روپے پر اتنا منافع ہر سال ملنا چاہیے اور میرا یہ منافع اس وقت تک ملے جانا چاہیے جب تک ساری قوم مل کر میری دی ہوئی اصل رقم مجھے واپس نہ کر دے خواہ اس میں ایک صدی ہی کیوں نہ لگ جائے، اور میرا یہ منافع ان لوگوں کی جیبوں میں سے بھی آنا چاہیے جنھوں نے ملک اور قوم کی اور خود میری حفاظت کے لیے اپنے ہاتھ پاؤں کٹوائے یا اپنے بیٹے ، باپ، بھائی یا شوہر مفت کھو دیئے { FR 2237 }… سوال یہ ہے کہ ایک معاشرے میں ایسا طبقہ آیا اس کا مستحق ہے کہ اسے سود کھلا کھلا کر پالا جائے، یا اس کا کہ اسے اس زہر کی گولیاں کھلائی جائیں جس سے کتے مارے جاتے ہیں؟
رہے دوسری قسم کے قرضے تو ان کی نوعیت ان قرضوں سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے جو عام افراد اور ادارے کاروباری اغراض کے لیے لیتے ہیں، لہٰذا ان پر بھی وہ سب اعتراضات وارد ہوتے ہیں جو اوپر ہم نے کاروباری قرضوں کے سود پر کیے ہیں۔ عموماً حکومتیں نفع آور کاموں پر لگانے کے لیے لمبی مدت کے قرضے لیتی ہیں۔ مگر کوئی حکومت بھی ایک مقرر شرح سود پر قرض لیتے وقت یہ نہیں جانتی کہ آئندہ بیس تیس سال کے دوران میں ملک کے اندرونی حالات اور دنیا کے بین الاقوامی معاملات کیا رنگ اختیار کریں گے اور ان میں اس کام کی نفع آوری کا کیا حال رہے گا جس پر خرچ کرنے کے لیے وہ یہ سودی قرض لے رہی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ حکومت کے اندازے غلط نکلتے ہیں اور وہ کام شرح سود کے برابر نفع نہیں دیتا کجا کہ اس سے زیادہ، یہ ان بڑے اسباب میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے حکومتیں مالی مشکلات میں مبتلا ہوتی ہیں اور ان کے لیے پچھلے ہی قرضوں کے اصل و سود ادا کرنے مشکل ہو جاتے ہیں کجا کہ وہ مزید نفع آور تجاویز پر مزید سرمایہ لگا سکیں۔
علاوہ ازیں یہاں بھی وہی صورت پیش آتی ہے جس کی طرف ہم پہلے کئی بار اشارہ کر چکے ہیں کہ بازار کی شرح سود ایک ایسی حد مقرر کر دیتی ہے جس سے کم نفع دینے والے کسی کام پر سرمایہ نہیں لگایا جا سکتا خواہ وہ کام پبلک کے لیے کتنا ہی ضروری اور مفید ہو۔ غیر آباد علاقوں کی آبادی، بنجر زمینوں کی درستی‘ خشک علاقوں میں آبپاشی کے انتظامات، دیہات میں سڑکوں اور روشنی اور حفظانِ صحت کا بندوبست، کم تنخواہیں پانے والے ملازموں کے لیے صحت بخش مکانات کی تعمیر اور ایسے ہی دوسرے کام اپنی جگہ چاہے کتنے ہی ضروری ہوں اور ان کے نہ ہونے سے چاہے ملک اور قوم کا کتنا ہی نقصان ہو، مگر کوئی حکومت ان پر روپیہ صرف نہیں کر سکتی جب تک کہ ان سے اتنا نفع حاصل ہونے کی توقع نہ ہو جو رائج الوقت شرح سود کے برابر یا اس سے زیادہ ہو سکے۔
پھر اس قسم کے جن کاموں پر سودی قرض لے کر سرمایہ لگایا جاتا ہے ان کے معاملے میں بھی حقیقی صورتِ حال یہ ہوتی ہے کہ حکومت اس کے سود کا بار عام باشندوں پر ڈال دیتی ہے ٹیکسوں کے ذریعے سے ہر ہر شخص کی جیب سے بالواسطہ یا بلاواسطہ یہ سود نکالا جاتا ہے اور سال کے سال لاکھوں روپے کی رقمیں جمع کر کر کے سرمایہ داروں کو مدت ہائے دراز تک پہنچائی جاتی رہتی ہیں۔
مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ آج پانچ کروڑ سرمائے سے آبپاشی کی ایک بڑی سکیم عمل میں لائی جاتی ہے، اور یہ سرمایہ چھے فیصدی سالانہ شرح پر حاصل کیا جاتا ہے۔ اس حساب سے حکومت کو ہر سال ۳۰ لاکھ روپیہ سود ادا کرنا ہوگا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حکومت اتنی بڑی رقم کہیں سے زمین کو کھود کر نہیں نکالے گی بلکہ اس کا بار اُن زمینداروں پر ڈالے گی جو آبپاشی کے اس منصوبے سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ہر زمیندار پر جو آبیانہ لگایا جائے گا، اس میں ایک حصہ لازماً اس سود کی مد کا بھی ہوگا اور زمیندار خود بھی یہ سود اپنی گرہ سے نہیں دے گا بلکہ وہ اس کا بار غلے کی قیمت پر ڈالے گا۔ اس طرح یہ سود بالواسطہ ہر اس شخص سے وصول کیا جائے گا جو اس غلے کی روٹی کھائے گا۔ ایک ایک غریب اور فاقہ کش آدمی کی روٹی میں سے لازماً ایک ایک ٹکڑا توڑا جائے گا۔ اور ان سرمایہ داروں کے پیٹ میں ڈالا جائے گا جنھوں نے ۳۰ لاکھ روپیہ سالانہ سود پر اس منصوبے کے لیے قرض دیا تھا۔ اگر حکومت کو یہ قرض ادا کرتے کرتے ۵۰ برس لگ جائیں تو وہ غریبوں سے چندہ جمع کر کر کے امیروں کی مدد کا یہ فریضہ نصف صدی تک برابر انجام دیتی چلی جائے گی اور اس سارے معاملے میں خود اس کی حیثیت مہاجن کے ’’منیم جی‘‘ سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہ ہوگی۔
یہ عمل اِجتماعی معیشت میں دولت کے بہاؤ کو ناداروں سے مال داروں کی طرف پھیر دیتا ہے حالانکہ جماعت کی فلاح کا تقاضا یہ ہے کہ وہ مال داروں سے ناداروں کی طرف جاری ہو۔ یہ خرابی صرف اسی سود میں نہیں ہے جو حکومتیں نفع آور قرضوں پر ادا کرتی ہیں، بلکہ ان سارے سودی معاملات میں ہے جو تمام کاروباری آدمی کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی تاجر یا صناع یا زمیندار اپنی گرہ سے وہ سود ادا نہیں کرتا جو اسے سرمایہ دار کو دینا ہوتا ہے۔ وہ سب اس بار کو اپنے اپنے مال کی قیمتوں پر ڈالتے ہیں اور اس طرح عام لوگوں سے پیسہ پیسہ چندہ اکٹھا کرکے لکھ پتیوں اور کروڑ پتیوں کی جھولی میں پھینکتے رہتے ہیں۔ اس اوندھے نظام میں سب سے زیادہ ’’مدد‘‘ کا مستحق ملک کا سب سے بڑا دولت مند ساہوکار ہے اور اس کی مدد کا فرض سب سے بڑھ کر جس شخص پر عائد ہوتا ہے وہ ملک کا وہ باشندہ ہے جو دن بھر اپنا خون پسینہ ایک کرکے ڈیڑھ روپیہ کما کر لائے اور پھر بھی اپنے نیم فاقہ کش بال بچوں کے لیے چٹنی اور روٹی کا انتظام کرنا اس پر حرام ہو جب تک کہ پہلے وہ اس چٹنی اور روٹی میں سے اپنے ملک کے سب سے بڑے ’’قابل رحم‘‘ کروڑ پتی کا ’’حق‘‘ نہ نکال دے۔
حکومتوں کے بیرونی قرضے
آخری مد اُن قرضوں کی ہے جو حکومتیں اپنے ملک سے باہر کے ساہو کاروں سے لیتی ہیں۔ اس قسم کے قرضے بالعموم بہت بڑی بڑی رقموں کے لیے ہوتے ہیں جن کی مقدار کروڑوں سے گزر کر بسا اوقات اربوں اور کھربوں تک پہنچ جاتی ہے۔ حکومتیں ایسے قرضے زیادہ تر ان حالات میں لیتی ہیں جب ان کے ملک پر غیر معمولی مشکلات اور مصائب کا ہجوم ہوتا ہے اور خود ملک کے مالی ذرائع ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کافی نہیں ہوتے۔ اور کبھی وہ اس لالچ میں بھی اس تدبیر کی طرف رجوع کرتی ہیں کہ بڑا سرمایہ لے کر تعمیری کاموں پر لگانے سے ان کے وسائل جلدی ترقی کر جائیں گے۔ ان قرضوں کی شرح سود ۶۔۷ فیصدی سے لے کر ۹۔۱۰ فیصدی تک ہوتی ہے اور اس شرح پر اربوں روپے کا سالانہ سود ہی کروڑوں روپے ہوتا ہے۔ بین الاقوامی بازارِ زر کے سیٹھ اور ساہوکار اپنی اپنی حکومتوں کو بیچ میں ڈال کر ان کی وساطت سے یہ سرمایہ قرض دیتے ہیں اور اس کے لیے ضمانت کے طور پر قرض لینے والی حکومت کے محاصل میں سے کسی محصول، مثلاً چنگی، تمباکو، شکر، نمک یا کسی اور مد کی آمدنی کو رہن رکھ لیتے ہیں۔
اس نوعیت کے سودی قرضے ان تمام خرابیوں کے حامل ہوتے ہیں جن کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔ شخصی حاجات کے قرض اور کاروباری قرض اور حکومتوں کے اندرونی قرض کوئی نقصان ایسا نہیں رکھتے جو ان بین الاقوامی قرضوں پر سود لگنے کے طریقے میں نہ ہو۔ اس لیے ان خرابیوں اور نقصانات کا تو اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ مگر قرض کی یہ قسم ان سب کے ساتھ ایک اور خرابی بھی اپنے اندر رکھتی ہے جو ان سب سے زیادہ خوف ناک ہے، اور وہ یہ ہے کہ ان قرضوں کی بدولت پوری پوری قوموں کی مالی حیثیت خراب اور معاشی حالت تباہ ہو جاتی ہے جس کا نہایت برا اثر ساری دنیا کی معاشی حالت پر پڑتا ہے۔ پھر ان کی بدولت قوموں میں عداوت اور دشمنی کے بیج پڑتے ہیں اور آخر کار انھی کی بدولت آفت رسیدہ قوموں کے نوجوان دل برداشتہ ہو کر انتہا پسندانہ سیاسی و تمدنی اور معاشی فلسفوں کو قبول کرنے لگتے ہیں اور اپنے قومی مصائب کا حل ایک خونی انقلاب یا ایک تباہی خیز جنگ میں تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ جس قوم کے مالی ذرائع پہلے ہی اپنی مشکلات یا اپنی ضرورتوں کو رفع کرنے کے لیے کافی نہ تھے وہ آخر کس طرح اس قابل ہو سکتی ہے کہ ہر سال پچاس ساٹھ لاکھ یا کروڑ دو کروڑ روپیہ تو صرف سود میں ادا کرے اور پھر اس کے علاوہ اصل قرض کی اقساط بھی دیتی رہے؟ خصوصاً جب کہ اس کے ذرائع آمدنی میں سے کسی ایک بڑے اور زیادہ نفع بخش ذریعے کو تاک کر آپ نے پہلے ہی مکفول کر لیا ہو اور اس کی چادر پہلے سے بھی زیادہ تنگ ہو کر رہ گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جو قوم کوئی بڑی رقم اس طور پر سودی قرض لے لیتی ہے بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ اس کی وہ مشکلات رفع ہو جائیں جن سے نکلنے کے لیے اس نے یہ قرض لیا تھا۔ اس کے برعکس اکثر یہی قرض اس کی مشکلات میں مزید اضافے کا موجب ہو جاتا ہے۔ قرض کی اقساط اور سود ادا کرنے کے لیے اسے اپنے افراد پر بہت زیادہ ٹیکس لگانا پڑتا ہے اور مصارف میں بہت زیادہ کمی کر دینی ہوتی ہے۔ اس سے ایک طرف قوم کے عوام میں بے چینی بڑھتی ہے، کیونکہ جتنا وہ خرچ کرتے ہیں اس کا بدل ان کو اس خرچ کے ہم وزن نہیں ملتا اور دوسری طرف اپنے ملک کے لوگوں پر اس قدر زیادہ بار ڈال کر بھی حکومت کے لیے قرض کی اقساط اور سود باقاعدہ ادا کرتے رہنا مشکل ہو جاتا ہے پھر جب قرض دار ملک کی طرف سے ادائیگی میں مسلسل کوتاہی صادر ہونے لگتی ہے تو بیرونی قرض خواہ اس پر الزام لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ بے ایمان ملک ہے، ہمارا روپیہ کھا جانا چاہتا ہے۔ ان کے اشاروں پر ان کے قومی اخبارات اس غریب ملک پر چوٹیں کرنے لگتے ہیں پھر ان کی حکومت بیچ میں دخل انداز ہوتی ہے اور اپنے سرمایہ داروں کے حق میں اس پر صرف سیاسی دباؤ ہی ڈالنے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ اس کی مشکلات کا ناجائز فائدہ بھی اٹھانا چاہتی ہے۔ قرض دار ملک کی حکومت اس پھندے سے نکلنے کے لیے کوشش کرتی ہے کہ ٹیکسوں میں مزید اضافہ اور مصارف میں مزید تخفیف کرکے کسی طرح جلدی سے جلدی اس سے چھٹکارا پائے۔ مگر اس کا اثر باشندگانِ ملک پر یہ پڑتا ہے کہ پیہم اور روز افزوں مالی بار اور معاشی تکلیفیں اٹھاتے اٹھاتے ان کے مزاج میں تلخی آ جاتی ہے، بیرونی قرض خواہ کی چوٹوں اور سیاسی دباؤ پر وہ اور زیادہ چڑ جاتے ہیں۔ اپنے ملک کے اعتدال پسند مدبروں پر ان کا غصہ بھڑک اٹھتا ہے اور معاملہ فہم لوگوں کو چھوڑ کر وہ ان اتنہا پسند جواریوں کے پیچھے چل پڑتے ہیں جو سارے قرضوں سے بیک جنبش زبان بری الذمہ ہو کر خم ٹھونک میدان میں آ کھڑے ہوتے ہیں اور للکار کر کہتے ہیں کہ جس میں طاقت ہو وہ ہم سے اپنے مطالبات منوا لے۔
یہاں پہنچ کر سود کی شر انگیزی و فتنہ پردازی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ کیا اس پر بھی کوئی صاحب عقل و ہوش آدمی یہ ماننے میں تأمّل کر سکتا ہے کہ سود ایک ایسی برائی ہے جسے قطعی حرام ہونا چاہیے؟ کیا اس کے یہ نقصانات اور یہ نتائج دیکھ لینے کے بعد بھی کسی کو محمدa کے اس ارشاد میں شک ہو سکتا ہے کہ:
اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حُوْباً اَیْسَرُھَا اَنْ یَّنْکِحَ الرُّجُلُ اُمَّہٗ۔{ FR 2358 }
سود اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کو اگر ستر اجزا میں تقسیم کیا جائے تو اس کا ایک ہلکے سے ہلکا جز اس گناہ کے برابر ہوگا کہ ایک آدمی اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔
٭…٭…٭
جدید بینکنگ
مگر سود کی شناعتوں کا مضمون ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ اس کی اپنی ذاتی برائیوں کو اس تنظیم نے کئی گنا زیادہ بڑھا دیا ہے جو زمانۂ حال میں مہاجنی و ساہو کاری کے پرانے طریقوں کی جگہ جدید بینکنگ کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ اس تنظیم نے قدیم صراف کی گدی پر دور جدید کے بینکر اور فینا نشیر(financier) کو لا بٹھایا ہے جس کے ہاتھ میں آ کر سود کا ہتھیار ہر زمانے سے زیادہ غارت گر بن گیا ہے۔
ابتدائی تاریخ
اس نئے نظام ساہو کاری کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ابتدائی تاریخ آپ کے سامنے ہو۔
مغربی ممالک میں اس کی ابتدا یُوں ہوئی کہ پہلے جب کاغذ کے نوٹ نہ چلتے تھے تو لوگ زیادہ تر اپنی دولت سونے کی شکل میں جمع کیا کرتے تھے اور اسے گھروں میں ر کھنے کے بجائے حفاظت کی غرض سے سناروں کے پاس رکھوا دیتے تھے۔ سنار ہر امانت دار کو اس کی امانت کے بقدر سونے کی رسید لکھ دیتا تھا جس میں تصریح ہوتی تھی کہ رسید بردار کا اتنا سونا فلاں سنا رکے پاس محفوظ ہے۔ رفتہ رفتہ یہ رسیدیں خریدوفروخت اور قرضوں کی ادائیگی اور حسابات کے تصفیے میں ایک آدمی سے دوسرے آدمی کی طرف منتقل ہونے لگیں۔ لوگوں کے لیے یہ بات زیادہ آسان تھی کہ سونے کی رسید ایک دوسرے کو دے دیں، بہ نسبت اس کے کہ ہر لین دین کے موقع پر سونا سنار کے ہاں سے نکلوایا جائے اور اس کے ذریعے سے کاروبار ہو۔ رسید حوالے کر دینے کے معنی گویا سونا حوالے کر دینے کے تھے۔ اس لیے تمام کا روباری اغراض کے لیے یہ رسیدیں اصل سونے کی قائم مقام بنتی چلی گئیں اور اس امر کی نوبت بہت ہی کم آنے لگی کہ کوئی شخص وہ سونا نکلوائے جو ایک رسید کے پیچھے سنار کے پاس محفوظ تھا۔ اس کا موقع بس انھی ضرورتوں کے وقت پیش آتا تھا جب کسی کو بجائے خود سونے ہی کی ضرورت ہوتی تھی ورنہ ذریعۂ مبادلہ کی حیثیت سے جتنے کام سونے سے چلتے تھے وہ سب ان ہلکی پھلکی رسیدوں کے ذریعے سے چل جایا کرتے تھے جن کا کسی کے پاس ہونا اس بات کی علامت تھا کہ وہ اس قدر سونے کا مالک ہے۔
اب تجربے سے سناروں کو معلوم ہوا کہ جو سونا ان کے پاس لوگوں کی امانتوں کا جمع ہے اس کا بمشکل دسواں حصہ نکلوایا جاتا ہے، باقی نو حصے ان کی تجوریوں میں بے کار پڑے رہتے ہیں۔ انھوں نے سوچا کہ ۹ حصوں کو استعمال کیوں نہ کیا جائے۔ چنانچہ انھوں نے یہ سونا لوگوں کو قرض دے کر اس پر سود وصول کرنا شروع کر دیا اور اسے اس طرح استعمال کرنے لگے گویا کہ وہ ان کی اپنی مِلک ہے۔ حالانکہ دراصل وہ لوگوں کی ملک تھا۔ مزید لطیفہ یہ ہے کہ وہ اس سونے کے مالکوں سے اس کی حفاظت کا معاوضہ بھی وصول کرتے تھے اور چپکے چپکے اسی سونے کو قرض پر چلا کر اس کا سود بھی وصول کر لیتے تھے۔
پھر ان کی چالاکی اور دغا بازی اس حد پر بھی نہ رُکی۔ وہ اصل سونا قرض پر دینے کے بجائے اس کی قوت پر کاغذی رسیدیں چلانے لگے۔ اس لیے کہ ان کی دی ہوئی رسیدیں بازار میں وہ سارے کام کر رہی تھیں جو ذریعۂ مبادلہ ہونے کی حیثیت سے سونا کرتا تھا۔ اور چونکہ انھیں تجربے سے معلوم ہو چکا تھا کہ محفوظ سونے کا صرف دسواں حصہ ہی عموماً واپس مانگا جاتا ہے۔ اس لیے انھوں نے باقی ۹ حصوں کی قوت پر ۹ کی نہیں بلکہ ۹۰ حصوں کی جعلی رسیدیں بنا کر زرکاغذی کی حیثیت سے چلانی اور قرض دینی شروع کر دیں۔ اس معاملے کو مثال کے ذریعے سے یوں سمجھیے کہ اگر سنار کے پاس ایک شخص نے سو روپے کا سونا جمع کرایا تھا تو سنار نے سو سو روپے کی دس رسیدیں بنائیں جن میں سے ہر ایک پر لکھا کہ اس رسید کے پیچھے سو روپے کا سونا میرے پاس جمع ہے۔ ان دس رسیدوں میں سے ایک (جس کے پیچھے فی الواقع سو روپے کا سونا موجود تھا) اس نے سونا جمع کرانے والے کے حوالے کی اور باقی ۹ سو روپے کی نو رسیدیں (جن کے پیچھے درحقیقت کوئی سونا موجود نہ تھا) دوسرے لوگوں کو قرض دیں اور اس پر ان سے سود وصول کرنا شروع کر دیا۔
ظاہر ہے کہ یہ ایک سخت قسم کا دھوکا اور فریب تھا۔ اس دغا بازی اور جعل سازی کے ذریعے سے ان لوگوں نے ۹۰ فیصدی جعلی روپیہ بالکل بے بنیاد کرنسی کی شکل میں بنا ڈالا اور خواہ مخواہ اس کے مالک بن بیٹھے اور سوسائٹی کے سر پر اس کو قرض کے طور پر لاد لاد کر اس پر دس بارہ فیصدی سود وصول کرنے لگے۔ حالانکہ انھوں نے اس مال کو کمایا تھا، نہ کسی جائز طریقے سے اس کے حقوق ملکیت انھیں پہنچتے تھے اور نہ وہ کوئی حقیقی روپیہ تھا جس کو ذریعۂ تبادلہ کے طور پر بازار میں چلانا اور اس کے عوض اشیا اور خدمات حاصل کرنا کسی اصولِ اخلاق و معیشت و قانون کی رُو سے جائز ہو سکتا تھا۔ ایک سادہ مزاج آدمی جب ان کے اس کرتوت کی رُوداد سنے گا تو اس کے ذہن میں قانونِ تعزیرات کی وہ دفعات گھومنے لگیں گی جو دھوکے اور جعل سازی کے جرائم سے متعلق ہیں اور وہ اس کے بعد یہ سننے کا متوقع ہوگا کہ پھر شاید ان سناروں پر مقدمہ چلایا گیا ہوگیا لیکن وہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوا۔
یہ سنار اس مسلسل جعل سازی سے ملک کی ۹۰ فیصدی دولت کے مالک ہو چکے تھے۔ بادشاہ اور امرا اور وزرا سب ان کے قرض کے جال میں پھنس چکے تھے۔ خود حکومتیں لڑائیوں کے موقع پر اور اندرونی مشکلات کی عقدہ کشائی کے لیے ان سے بھاری قرض لے چکی تھیں۔ اب کس کی مجال تھی جو یہ سوال اٹھا سکتا کہ یہ لوگ کہاں سے اتنے بڑے سرمائے کے مالک ہوگئے۔ پھر جیسا کہ ہم اپنی کتاب ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘ میں بیان کر چکے ہیں، پرانی جاگیر داری کے مقابلے میں جو نئی بورژوا تہذیب وسیع المشربی اور آزادی اور جمہوریت کے زبردست اسلحہ لے کر نشا ٔۃ ثانیہ کے دور میں اٹھ رہی تھی اس کے میر کارواں اور مقدمۃ الجیش یہی ساہو کار اور کاروباری لوگ تھے جن کی پشت پر فلسفہ اور ادب اور آرٹ کا ایک لشکر عظیم ہر اس شخص اور گروہ پر ہلہ بول دینے کے لیے تیار تھا جو مسٹر گولڈ سمتھ کے سرمایۂ عظیم کا مآخذ دریافت کرنے کی جرأت کرتا۔ اس طرح وہ دغا بازی وہ جعل سازی، جس سے یہ دولت بنائی گئی تھی، قانون کی گرفت سے صرف محفوظ ہی نہیں رہ گئی بلکہ قانون نے اس کو بالکل جائز تسلیم کر لیا اور حکومتوں نے ان سناروں کا جواَب بینکر اور فینا نشیر(financier) بن چکے تھے، یہ حق مان لیا کہ وہ نوٹ جاری کریں اور ان کے جاری کردہ نوٹ باقاعدہ زرِ کاغذی کی حیثیت سے کاروبار کی دنیا میں چلنے لگے۔
دوسرا مرحلہ
یہ تھی اس سرمائے کی اصلیت جس کے بل بوتے پر قدیم سنار دورِ جدید کے ساہوکار اور اقلیم ِ زر کے فرماں روا بنے۔ اس کے بعد انھوں نے ایک قدم اور بڑھایا جو پہلے قدم سے بھی زیادہ فتنہ انگیز تھا۔
جس دور میں یہ جدید ساہوکاری اس جعلی سرمائے سے طاقت پکڑ کر سر اٹھا رہی تھی یہ وہی دور تھا جب مغربی یورپ میں ایک طرف صنعت اور تجارت سیلاب کی سی شدت کے ساتھ اٹھ رہی تھی اور تمام دنیا کو مسخر کیا چاہتی تھی، دوسری طرف تمدن و تہذیب کی ایک نئی عمارت اٹھ رہی تھی جو یونیورسٹیوں سے لے کر میونسپلٹیوں تک زندگی کے ہر شعبے کی تعمیر جدید چاہتی تھی۔ اس موقع پر ہر قسم کے معاشی اور تمدنی کاموں کو سرمائے کی حاجت تھی۔ نئی نئی صنعتیں اور تجارتیں اپنے آغاز کے لیے سرمایہ مانگ رہی تھیں۔ پہلے کے چلتے ہوئے کاروبار اپنی ترقی اور پیش قدمی کے لیے بڑی اور روز افزوں مقدار میں سرمائے کے طالب تھے اور تہذیبی و تمدنی ترقی کی مختلف انفرادی و اجتماعی تجویزیں بھی اپنی ابتدا اور اپنے ارتقا کے لیے اس چیز کی محتاج تھیں۔ ان سب کاموں کے لیے خود کارکنوں کا اپنا ذاتی سرمایہ بہرحال ناکافی تھا۔ اب لامحالہ دو ہی ذرائع تھے جن سے یہ خونِ حیات اس تمدن جدید کے نوخیز شباب کی آبیاری کے لیے بہم پہنچ سکتا تھا۔
(۱) وہ سرمایہ جو سابق سناروں اور حال کے ساہو کاروں کے پاس تھا۔
(۲) وہ سرمایہ جو متوسط اور خوش حال طبقوں کے پاس ان کی پس انداز کی ہوئی آمدنیوں کی شکل میں جمع تھا۔
ان میں سے پہلی قسم کا سرمایہ تو تھا ہی ساہوکاروں کے قبضے میں، اور وہ پہلے سے سود خواری کے عادی تھے، اس لیے اس کا ایک حبہ بھی حصّے داری کے اصول پر کسی کام میں لگنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس ذریعے سے جتنا روپیہ بھی صناعوں اور تاجروں اور دوسرے معاشی و تمدنی کارکنوں کو ملا، قرض کے طور پر ملا اور اس شرط پر ملا کہ خواہ ان کو نفع ہو یا نقصان اور خواہ ان کا نفع کم ہو یا زیادہ، بہرحال ساہوکار کو انھیں ایک طے شدہ شرح کے مطابق منافع دینا ہوگا۔
اس کے بعد صرف دوسرا ذریعہ ہی ایسا رہ جاتا تھا جس سے معاشی کاروبار اور تعمیر و ترقی کے کاموں کی طرف سرمایہ اچھی اور صحت بخش صورتوں سے آ سکتا تھا مگر ان ساہوکاروں نے ایک ایسی چال چلی جس سے یہ ذریعہ بھی انھی کے قبضے میں چلا گیا اور انھوں نے اس کے لیے بھی تمدن و معیشت کے معاملات کی طرف جانے کے سارے دروازے، ایک سودی قرض کے دروازے کے سوا بند کر دیے۔ وہ چال یہ تھی کہ انھوں نے سود کا لالچ دے کر تمام ایسے لوگوں کا سرمایہ بھی اپنے پاس کھینچنا شروع کر دیا جو اپنی ضرورت سے زیادہ آمدنی بچا رکھتے تھے۔ یا اپنی ضرورتیں روک کر کچھ نہ کچھ پس انداز کرنے کے عادی تھے۔
یہ بات اوپر آپ کو معلوم ہو چکی ہے کہ یہ سنا ر ساہوکار پہلے سے اس قسم کے لوگوں کے ساتھ ربط ضبط رکھتے تھے، اور ان کی جمع پونجی انھی کے پاس امانت رہا کرتی تھی۔ اب جو انھوں نے دیکھا کہ یہ لوگ اپنے سرمائے کو کاروبار میں لگانے لگے ہیں اور ان کی پس انداز کی ہوئی رقمیں ہمارے پاس آنے کے بجائے کمپنیوں کے حصے خریدنے میں زیادہ صرف ہونے لگی ہیں، تو انھوں نے کہا کہ آپ لوگ اس زحمت میں کہاں پڑتے ہیں؟ اس طرح تو آپ کو خود شرکت کے معاملات طے کرنے ہوں گے، خود حساب کتاب رکھنا ہوگا، اور سب سے زیادہ یہ کہ اس طریقے سے آپ نقصان کے خطرے میں بھی پڑیں گے اور نفع کا اتار چڑھاؤ بھی آپ کی آمدنی پر اثر انداز ہوتا رہے گا۔ اس کے بجائے آپ اپنی رقمیں ہمارے پاس جمع کرایئے۔ ہم ان کی حفاظت بھی بلامعاوضہ کریں گے، ان کا حساب کتاب بھی مفت رکھیں گے اور آپ سے کچھ لینے کے بجائے الٹا آپ کو سود دیں گے۔
یہ چال تھی جس سے ۹۰ فیصدی ، بلکہ اس سے بھی زیادہ پس انداز رقمیں براہِ راست معیشت و تمدن کے کاموں کی طرف جانے کے بجائے ساہوکار کے دست تصرف میں چلی گئیں اور قریب قریب پورے قابل حصول سرمائے پر اس کا قبضہ ہوگیا۔ اب صورتِ حال یہ ہوگئی کہ ساہوکار اپنے جعلی سرمائے کو تو سود پر چلا ہی رہا تھا، دوسروں کا سرمایہ بھی اس نے سستی شرح سود پر لے کر زیادہ شرح پر قرض دینا شروع کر دیا۔ اس نے یہ بات ناممکن بنا دی کہ اس کی مقرر کی ہوئی شرح کے سوا کسی دوسری شرط پر کسی کام کے لیے کہیں سے کوئی سرمایہ مل سکے۔ جو تھوڑے بہت لوگ ایسے رہ بھی گئے جو ساہوکار کی معرفت سرمایہ لگانے کے بجائے خود براہِ راست کاروبار میں لگانا پسند کرتے تھے ان کو بھی ایک لگا بندھا منافع وصول کرنے کی چاٹ لگ گئی اور وہ سیدھے سادھے حصے (shares) خریدنے کے بجائے وثیقوں (debentures) کو ترجیح دینے لگے جن میں ایک مقرر منافع کی ضمانت ہوتی ہے۔
اس طریق کار نے تقسیم مکمل کر دی۔ وہ ساری آبادی ایک طرف ہوگئی جو معیشت اور تمدن کی کھیتیوں میں کام کرتی ہے جس کی محنتوں اور کوششوں اور قابلیتوں ہی پر ساری تہذیبی و معاشی پیداوار کا انحصار ہے اور وہ تھوڑی سی آبادی دوسری طرف ہوگئی۔ جس پر ان ساری کھیتیوں کی سیرابی کا انحصار ہے۔ پانی والوں نے کھیتی والوں کے ساتھ رفاقت اور منصفانہ تعاون کرنے سے انکار کر دیا اور یہ مستقل پالیسی طے کر لی کہ وہ پانی کے اس پورے ذخیرے کو اجتماعی مفاد کے لحاظ سے نہیں بلکہ صرف اپنے مفاد اور وہ بھی خالص مالی مفاد کے لحاظ سے استعمال کریں گے۔
اس طریق کار نے یہ بھی طے کر دیا کہ مغرب کا نوخیز تمدن، جو تمام دنیا پر حکمراں ہونے والا تھا، ایک خالص مادہ پرستانہ تمدن ہو اور اس میں شرح سود وہ بنیادی معیار قرار پایا جس کے لحاظ سے آخر کار ہر چیز کی قدروقیمت متعین ہو۔ اس لیے کہ پوری کشت تمدن کا انحصار تو ہے سرمائے کے آبِ حیات پر اور اس آبِ حیات کے ہر قطرے کی ایک مالی قیمت معین ہے شرح سود کے مطابق۔ لہٰذا پورے تمدن کی کھیتی میں اگر کسی چیز کی تخم ریزی کی جا سکتی ہے اور اگر کوئی پیداوار قدر کی مستحق ہو سکتی ہے، تو بس وہ جو بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنا مالی فائدہ کم از کم اس حد تک دے جائے جو بورژو اتمدن کے قائداعظم، ساہوکار نے شرحِ سود کی شکل میں مقرر کر رکھی ہے۔
اس طریق کار نے قلم اور سیف، دونوں کی حکمرانی کا دور ختم کر دیا اور اس کی جگہ بہی کھاتے کی فرماں روائی قائم کر دی۔ غریب کسانوں اور مزدوروں سے لے کر بڑے سے بڑے صنعتی و تجارتی اداروں تک اور بڑی سے بڑی حکومتوں اور سلطنتوں تک سب کی ناک میں ایک غیرمرئی نکیل پڑ گئی اور اس کا سرا ساہوکار کے ہاتھ میں آ گیا۔
تیسرا مرحلہ
اس کے بعد اس گروہ نے تیسرا قدم اٹھایا اور اپنے کاروبار کو وہ شکل دی جسے اب جدید نظامِ ساہوکاری کہا جاتا ہے۔ پہلے یہ لوگ انفرادی طور پر کام کرتے تھے۔ اگرچہ بعض ساہوکار گھرانوں کا مالیاتی کاروبار بڑھتے بڑھتے عظیم الشان اداروں کی صورت اختیار کر گیا تھا جن کی شاخیں دُور دراز مقامات پر قائم ہوگئی تھیں، لیکن بہرحال یہ الگ الگ گھرانے تھے اور اپنے ہی نام پر کام کرتے تھے۔ پھر ان کو یہ سوجھی کہ جس طرح کاروبار کے سارے شعبوں میں مشترک سرمائے کی کمپنیاں بن رہی ہیں، روپے کے کاروبار کی بھی کمپنیاں بنائی جائیں اور بڑے پیمانے پر ان کی تنظیم کی جائے۔ اس طرح یہ بینک وجود میں آئے جو آج تمام دنیا کے نظام مالیات پر قابض و متصرف ہیں۔
اس جدید تنظیم کا طریقہ مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ چند صاحب سرمایہ لوگ مل کر ایک ادارۂ ساہوکاری قائم کرتے ہیں جس کا نام بینک ہے۔ اس ادارے میں دو طرح کا سرمایہ استعمال ہوتا ہے۔ ایک حصّے داروں کا سرمایہ جس سے کام کی ابتدا کی جاتی ہے۔ دوسرا امانت داروں یا کھاتے داروں (depositors) کا سرمایہ جو بینک کا کام اور نام بڑھنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ملتا جاتا ہے اور اسی کی بدولت بینک کے اثر اور اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک بینک کی کامیابی کا اصل معیار یہ ہے کہ اس کے پاس اس کا اپنا ذاتی سرمایہ (یعنی حصّے داروں کا لگایا ہوا سرمایہ) کم سے کم ہو اور لوگوں کی رکھوائی ہوئی رقمیں زیادہ سے زیادہ ہوں۔ مثال کے طور پر پنجاب نیشنل بینک کو لیجیے جو قبل تقسیم کے بڑے کامیاب بینکوں میں سے تھا۔ اس کا اپنا سرمایہ صرف ایک کروڑ تھا جس میں سے ۸۰ لاکھ سے کچھ ہی زائد روپیہ حصّے داروں نے عملاً ادا کیا تھا لیکن ۱۹۴۵ء میں یہ بینک تقریباً ۵۲ کروڑ روپے کا وہ سرمایہ استعمال کر رہا تھا جو امانتیں رکھوانے والوں کا فراہم کردہ تھا۔
مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ بینک اپنا سارا کام تو چلاتا ہے امانت داروں کے روپے سے جن کا دیا ہوا سرمایہ بینک کے مجموعی سرمائے میں ۹۰۔۹۵ فیصدی بلکہ ۹۸ فیصدی تک ہوتا ہے لیکن بینک کے نظم و نسق اور اس کی پالیسی میں ان کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ یہ چیز بالکل ان حصّے داروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو بینک کے مالک ہوتے ہیں اور جن کا سرمایہ مجموعی سرمائے کا صرف دو تین یا چار پانچ فیصدی ہوا کرتا ہے۔ امانت داروں کا کام صرف یہ ہے کہ اپنا روپیہ بینک کے حوالے کر دیں اور اس سے ایک خاص شرح کے مطابق سود لیتے رہیں۔ رہی یہ بات کہ بینک اس روپے کو استعمال کس طرح کرتا ہے۔ اس معاملے میں وہ کچھ نہیں بول سکتے۔ اس کا تعلق صرف حصّے داروں سے ہے وہی منتظمین کا انتخاب کرتے ہیں، وہی پالیسی کا تعین کرتے ہیں، وہی نظم و نسق اور حساب کتاب کی نگرانی کرتے ہیں اور انھی کے منشا پر اس امر کا فیصلہ منحصر ہوتا ہے کہ سرمایہ کدھر جائے اور کدھر نہ جائے۔ پھر حصّے داروں میں سب یکساں نہیں ہوتے۔ متفرق چھوٹے چھوٹے حصّے داروں کا اثر بینک کے نظام میں برائے نام ہوتا ہے۔ دراصل چند بڑے اور بھاری حصّے دار ہی سرمائے کی اس جھیل پر قابض ہوتے ہیں اور وہی اس پر تصرف کرتے رہتے ہیں۔
بینک اگرچہ بہت سے چھوٹے بڑے کام کرتا ہے جن میں سے بعض یقینا مفید، ضروری اور جائز بھی ہیں، لیکن اس کا اصل کام سرمائے کو سود پر چلانا ہوتا ہے۔ تجارتی بینک ہو یا صنعتی یا زراعتی، یا کسی اور نوعیت کا ، بہرحال وہ خود کوئی تجارت یا صنعت یا زراعت نہیں کرتا بلکہ کاروباری لوگوں کو سرمایہ دیتا ہے اور ان سے سود وصول کرتا ہے۔ اس کے منافع کا اصلی سب سے بڑا ذریعہ یہ ہوتا ہے کہ امانت داروں سے کم شرحِ سود پر سرمایہ حاصل کرے اور کاروباری لوگوں کو زیادہ شرح پر قرض دے۔{ FR 2238 } اس طریقے سے جو آمدنی ہوتی ہے وہ حصّے داروں میں اسی طرح تقسیم ہو جاتی ہے جس طرح تمام تجارتی اداروں کی آمدنیاں ان کے حصّے داروں میں مناسب طریقے سے تقسیم ہوا کرتی ہیں۔
نتائج
اس طریقے پر ساہوکاری کی تنظیم کر لینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے زمانے کے منفرد اور منتشر مہاجنوں کی بہ نسبت آج کے مجتمع اور منظم ساہوکاروں کا وقار اور اثر اور اعتماد کئی گنا زیادہ بڑھ گیا اور پورے پورے ملکوں کی دولت سمٹ کر ان کے پاس مرتکز ہوگئی۔ اب اربوں روپے کا سرمایہ ایک ایک بینک میں اکٹھا ہو جاتا ہے، جس پر چند بااثر ساہوکار قابض و متصرف ہوتے ہیں اور وہ اس ذریعے سے نہ صرف اپنے ملک کی، بلکہ دنیا بھر کی معاشی، تمدنی اور سیاسی زندگی پر کمال درجہ خود غرضی کے ساتھ فرماں روائی کرتے رہتے ہیں۔
ان کی طاقت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ تقسیم سے پہلے ہندوستان کے دس بڑے بینکوں کے پاس حصّے داروں کا فراہم کیا ہوا سرمایہ تو صرف ۱۷ کروڑ تھا مگر امانت داروں کے رکھوائے ہوئے سرمائے کی مقدار چھے ارب بارہ کروڑ روپے تک پہنچی ہوئی تھی۔ ان بینکوں کے پورے نظم و نسق اور ان کی پالیسی پر چند مٹھی بھرساہوکاروں کا قبضہ تھا جن کی تعداد حد سے حد ڈیڑھ دو سو ہوگی۔ مگر یہ سود کا لالچ تھا جس کی وجہ سے ملک کے لاکھوں آدمیوں نے اتنی بڑی رقم فراہم کرکے ان کے ہاتھ میں دے رکھی تھی اور اس بات سے ان کو کچھ غرض نہ تھی کہ اس طاقتور ہتھیار کو یہ لوگ کس طرح کن مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اب یہ اندازہ ہر شخص خود لگا سکتا ہے کہ جن مہاجنوں کے پاس اتنی بڑی رقم جمع ہو وہ ملک کی صنعت، تجارت، معیشت، سیاست اور تہذیب و تمدن پر کس قدر زبردست اثر ڈال رہے ہوں گے اور یہ اثر آیا ملک اور باشندگانِ ملک کے مفاد میں کام کر رہا ہوگا یا ان خود غرض لوگوں کے اپنے مفاد میں۔
یہ تو اس سرزمین کا حال ہے جس میں ابھی ساہوکاروں کی تنظیم با لکل ابتدائی حالت میں ہے اور جہاں بینکوں کی امانتوں کا مجموعہ کل آبادی پر بمشکل ۷ روپے فی کس ہی کے حساب سے پھیلتا ہے۔ اب ذرا قیاس کیجیے کہ جن ملکوں میں یہ اوسط اس سے ہزار دو ہزار گنے تک پہنچ گیا ہے وہاں سرمائے کی مرکزیت کا کیا عالم ہوگا۔ ۱۹۳۶ء کے اعدادوشمار کی رُو سے صرف تجارتی بینکوں کی امانتوں کا اوسط امریکہ کی آبادی میں ۱۳۱۷ پونڈ فی کس، انگلستان کی آبادی میں ۱۶۶۴ پونڈ فی کس، سوئٹزرلینڈ میں ۲۷۵ پونڈ، جرمنی میں ۲۱۲ پونڈ اور فرانس میں ۱۶۵ پونڈ فی کس کے حساب سے پڑتا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر ان ملکوں کے باشندے اپنی پس انداز کی ہوئی آمدنیاں اور اپنی ساری جمع پونجی اپنے ساہو کاروں کے حوالے کر رہے ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ گھر گھر سے کھچ کھچ کر چند ہاتھوں میں مرتکز ہو رہا ہے۔ اور پھر جن کے پاس وہ مرتکز ہوتا ہے وہ نہ کسی کو جوابدہ ہیں، نہ اپنے نفس کے سوا کسی سے ہدایت لینے والے ہیں اور نہ وہ اپنی اغراض کے سوا کسی دوسری چیز کا لحاظ کرنے والے۔ وہ بس سود کی شکل میں اس عظیم الشان مرکوز دولت کا ’’کرایہ‘‘ ادا کر دیتے ہیں اور عملاً اس کے مالک بن جاتے ہیں۔ پھر اس طاقت کے بل پر وہ ملکوں اور قوموں کی قسمتوں سے کھیلتے ہیں۔ جہاں چاہتے ہیں قحط برپا کرتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں پنہیا کال ڈال دیتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں جنگ کراتے ہیں، اور جب چاہتے ہیں صلح کرا دیتے ہیں۔ جس چیز کو اپنے زر پرستانہ نقطۂ نظر سے مفید سمجھتے ہیں، اُسے فروغ دیتے ہیں اور جس چیز کو ناقابل اِلتفات پاتے ہیں، اسے تمام ذرائع و وسائل سے محروم کر دیتے ہیں۔ صرف منڈیوں اور بازاروں ہی پر ان کا قبضہ نہیں ہے، علم و ادب کے گہواروں اور سائنٹفک تحقیقات کے مرکزوں اور صحافت کے اداروں، اور مذہب کی خانقاہوں اور حکومت کے ایوانوں، سب پر ان کی حکومت چل رہی ہے، کیونکہ قاضی الحاجات حضرتِ زراُن کے مرید ہو چکے ہیں۔ وہ یہ بلائے عظیم ہے جس کی تباہ کاریاں دیکھ دیکھ کر خود مغربی ممالک کے صاحب فکر لوگ چیخ اٹھے ہیں اور وہاں مختلف سمتوں سے یہ آواز بلند ہو رہی ہے کہ مالیات کی اتنی بڑی طاقت کا ایک چھوٹے سے غیر ذمہ دار خود غرض طبقے کے ہاتھ میں مرتکز ہو جانا پوری اجتماعی زندگی کے لیے سخت مہلک ہے۔ مگر ہمارے ہاں ابھی تک یہ تقریریں ہوئے جا رہی ہیں کہ سود خواری تو پرانے گدی نشین مہاجن کی حرام و نجس تھی۔ آج کا کرسی نشین و موٹر نشین بینکر بیچارہ تو بڑا ہی پاکیزہ کاروبار کر رہا ہے، اس کے کاروبار میں روپیہ دینا اور اس سے اپنا حصہ لے لینا آخر کیوں حرام ہے؟ حالانکہ فی الحقیقت اگر پرانے مہاجنوں اور آج کے بینکروں میں کوئی فرق واقع ہوا ہے تو وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ پہلے یہ لوگ اکیلے اکیلے ڈاکہ مارتے تھے، اب انھوں نے جتھ بندی کرکے ڈاکوؤں کے بڑے بڑے گروہ بنا لیے ہیں اور دوسرا فرق جو شاید پہلے فرق سے بھی زیادہ بڑا ہے یہ ہے کہ پہلے ان میں کاہر ڈاکو نقب زنی کے آلات اور مردم کشی کے ہتھیار سب کچھ اپنے ہی پاس سے لاتا تھا، مگر اب سارے ملک کی آبادی اپنی حماقت اور قانون کی غفلت و جہالت کی وجہ سے بے شمار آلات اور اسلحہ فراہم کرکے ’’کرائے‘‘ پر ان منظم ڈاکوؤں کے حوالے کر دیتی ہے۔ روشنی میں یہ اس کو کرایہ ادا کرتے ہیں اور اندھیرے میں اسی آبادی پر اسی کے فراہم کیے ہوئے آلات و اسلحے سے ڈاکہ ڈالتے ہیں۔
اس ’’کرائے‘‘ کے متعلق ہم سے کہا جاتا ہے کہ اسے حلال و طیب ہونا چاہیے!
٭…٭…٭
سُود کے متعلق اسلامی احکام
یہ ہماری بحث کا عقلی پہلو تھا۔ اب ہم نقل کے اعتبار سے یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ قرآن اور سنت کی رو سے ’’سود‘‘ کیا شے ہے، اس کے حدود کیا ہیں، اسلام میں اس کی حرمت کے جو احکام وارد ہوئے ہیں وہ کن کن معاملات سے متعلق ہیں اور اسلام اس کو مٹا کر انسان کے معاشی معاملات کو کس قاعدے پر چلانا چاہتا ہے۔
رِباکا مفہوم
قرآن مجید میں سود کے لیے ’’رِبا‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا مادہ ’’رب و ‘‘ ہے جس کے معنی میں زیادت ، نمو، بڑھوتری اور چڑھنے کا اعتبار ہے۔ ربا: بڑھا اور زیادہ ہوا۔ ربا فلان الرابیۃ وہ ٹیلے پر چڑھ گیا۔ ربا فلان السویق۔ اس نے ستو پر پانی ڈالا اور ستو پھول گیا۔ ربا فی حجرہ اس نے فلاں کی آغوش میں نشوونما پایا۔ اربی الشیء چیز کو بڑھایا۔ ربوۃ بلندی۔ رابیہ۔ وہ زمین جو عام سطح ارض سے بلند ہو۔{ FR 2359 } قرآن مجید میں جہاں جہاں اس مادّے کے مشتقات آئے ہیں سب جگہ زیادت اور علو اور نمو کا مفہوم پایا جاتا ہے، مثلاً:
﴿فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْہَا الْمَاۗءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ ﴾ (الحج22:5)
جب ہم نے اس پر پانی برسایا تو وہ لہلہا اٹھی اور برگ و بار لانے لگی۔
﴿يَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ۰ۭ ﴾ ( البقرہ276:2)
اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔
﴿فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا۰ۭ ﴾ (الرعد17:13)
جھاگ جو اوپر اٹھ آیا تھا اس کو سیلاب بہا لے گیا۔
﴿فَاَخَذَہُمْ اَخْذَۃً رَّابِيَۃًo ﴾ ( الحاقہ10:69)
اس نے ان کو پھر زیادہ سختی کے ساتھ پکڑا۔
﴿اَنْ تَكُوْنَ اُمَّۃٌ ہِىَ اَرْبٰى مِنْ اُمَّۃٍ۰ۭ﴾ ( النحل 92:16)
تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ جائے۔
﴿ وَّاٰوَيْنٰہُمَآ اِلٰى رَبْوَۃٍ ﴾ ( المومنون50:23)
ہم نے مریم اور مسیح کو ایک اونچی جگہ پر پناہ دی۔
اسی مادّے سے ’’ربوٰ‘‘ ہے اور اس سے مراد مال کی زیادتی اور اس کا اصل سے بڑھ جانا ہے۔ چنانچہ اس معنی کی تصریح بھی خود قرآن میں کر دی گئی ہے:
﴿وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا…وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ۰ۚ ﴾
(البقرہ278-279:2)
اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو … اور اگر تم توبہ کر لو تو تمھیں اپنے رأس المال (یعنی اصل رقم) لینے کا حق ہے۔
﴿وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللہِ۰ۚ﴾
(الروم39:30)
اور جو سود تم نے دیا ہے تاکہ لوگوں کے اموال بڑھیں تو اللہ کے نزدیک اس سے مال نہیں بڑھتا۔
ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اصل رقم پر جو زیادتی بھی ہوگی وہ ’’ربوٰ‘‘ کہلائے گی‘ لیکن قرآن مجید نے مطلق ہر زیادتی کو حرام نہیں کیا ہے۔ زیادتی تو تجارت میں بھی ہوتی ہے۔ قرآن جس زیادتی کو حرام قرار دیتا ہے وہ ایک خاص قسم کی زیادتی ہے، اسی لیے وہ اس کو ’’الربوٰ‘‘ کے نام سے یاد کرتا ہے۔ اہل عرب کی زبان میں اسلام سے پہلے بھی معاملے کی اس خاص نوعیت کو اسی اصطلاحی نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ مگر وہ ’’الربوٰ‘‘ کو بیع کی طرح جائز سمجھتے تھے جس طرح موجودہ جاہلیت میں سمجھا جاتا ہے۔ اسلام نے آ کر بتایا کہ رأس المال میں جو زیادتی بیع سے ہوتی ہے وہ اس زیادتی سے مختلف ہے جو ’’الربوٰ‘‘ سے ہوا کرتی ہے۔ پہلی قسم کی زیادتی حلال ہے اور دوسری قسم کی زیادتی حرام:
﴿ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا۰ۘ وَاَحَلَّ اللہُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ ( البقرہ275:2)
سود خواروں کا یہ حشر اس لیے ہوگا کہ انھوں نے کہا کہ بیع بھی ’’الربوٰ‘‘ کے مانند ہے ، حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال اور ربوٰ کو حرام کیا ہے۔
چونکہ ’’الربا‘‘ ایک خاص قسم کی زیادتی کا نام تھا اور وہ معلوم و مشہور تھی۔ اس لیے قرآن مجید میں اس کی کوئی تشریح نہیں کی گئی، اور صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا گیا کہ اللہ نے اس کو حرام کیا ہے، اسے چھوڑ دو۔
جاہلیت کا ربو
زمانۂ جاہلیت میں ’’الربا‘‘ کا اطلاق جس طرز معاملے پر ہوتا تھا، اس کی متعدد صورتیں روایات میں آئی ہیں۔
قتادہؒ کہتے ہیں جاہلیت کا ربوٰیہ تھا کہ ایک شخص، ایک شخص کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لیے ایک وقت مقررہ تک مہلت دیتا۔ اگر وہ مدت گزر جاتی اور قیمت ادا نہ ہوتی تو پھر وہ مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کر دیتا۔{ FR 2360 }
مجاہدؒ کہتے ہیں جاہلیت کا رِبایہ تھا کہ ایک شخص کسی سے قرض لیتا اور کہتا کہ اگر تو مجھے اتنی مہلت دے تو میں اتنا زیادہ دوں گا۔{ FR 2361 }
ابوبکر جصاصؒ کی تحقیق یہ ہے کہ اہل جاہلیت ایک دوسرے سے قرض لیتے تو باہم یہ طے ہو جاتا کہ اتنی مدت میں اتنی رقم اصل رأس المال سے زیادہ ادا کی جائے گی۔{ FR 2362 }
امام رازیؒ کی تحقیق میں اہل جاہلیت کا یہ دستور تھا کہ وہ ایک شخص کو ایک معین مدت کے لیے روپیہ دیتے اور اس سے ماہ بماہ ایک مقررہ رقم سود کے طور پر وصول کرتے رہتے۔ جب وہ مدت ختم ہو جاتی تو مدیون سے رأس المال کا مطالبہ کیا جاتا۔ اگر وہ ادا نہ کر سکتا تو پھر ایک مزید مدت کے لیے مہلت دی جاتی اور سود میں اضافہ کر دیا جاتا۔ { FR 2363 }
کاروبار کی یہ صورتیں عرب میں رائج تھیں، انھی کو اہل عرب اپنی زبان میں ’’الربا‘‘ کہتے تھے، اور یہی وہ چیز تھی جس کی تحریم کا حکم قرآن مجید میں نازل ہوا۔ { FR 2239 }
بیع اور رِبا میں اُصولی فرق
اب اس امر پر غور کیجیے کہ بیع اور رِبا میں اُصولی فرق کیا ہے، رِبا کی خصوصیات کیا ہیں جن کی وجہ سے اس کی نوعیت بیع سے مختلف ہو جاتی ہے اور اسلام نے کس بنا پر اس کو منع کیا ہے۔
بیع کا اطلاق جس معاملے پر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ بائع ایک شے کو فروخت کے لیے پیش کرتا ہے ، مشتری اور بائع کے درمیان اس شے کی ایک قیمت قرار پاتی ہے اور اس قیمت کے معاوضہ میں مشتری اس شے کو لے لیتا ہے۔ یہ معاملہ دو حال سے خالی نہیں ہوتا۔ یا تو بائع نے وہ چیز خود محنت کرکے اور اپنا مال اس پر صرف کرکے پیدا کی ہے یا وہ اس کو کسی دوسرے سے خرید کر لایا ہے۔ دونوں صورتوں میں وہ اپنے راس المال پر جو اس نے خریدنے یا مہیا کرنے میں صرف کیا تھا، اپنے حق المحنت کا اضافہ کرتا ہے اور یہی اس کا منافع ہے۔
اس کے مقابلے میں رِبایہ ہے کہ ایک شخص اپنا رأس المال ایک دوسرے شخص کو قرض دیتا ہے اور یہ شرط کر لیتا ہے کہ میں اتنی مدت میں اتنی رقم تجھ سے رأس المال پر زائد لوں گا۔ اس معاملے میں رأس المال کے مقابل رأس المال ہے، اور مہلت کے مقابلے میں وہ زائد رقم ہے جس کی تعیین پہلے بطور ایک شرط کے کر لی جاتی ہے۔ اسی زائد رقم کا نام سود یا ربوٰ ہے جو کسی خاص مال یا شے کا معاوضہ نہیں بلکہ محض مہلت کا معاوضہ ہوتا ہے۔ اگر بیع میں بھی قیمت قرار پا چکی ہو، اور پھر مشتری سے یہ شرط کی جائے کہ ادائے قیمت میں مثلاً ایک مہینے کی دیر ہونے پر قیمت میں اتنا اضافہ کر دیا جائے گا تو زیادت سود کی تعریف میں آ جائے گی۔
پس سود کی تعریف یہ قرار پائی کہ قرض میں دیے ہوئے رأس المال پر جو زائد رقم مدت کے مقابلے میں شرط اور تعیین کے ساتھ لی جائے وہ ’’سود‘‘ ہے۔ رأس المال پر اضافہ، اضافہ کی تعیین مدت کے لحاظ سے کیے جانا اور معاملے میں اس کا مشروط ہونا، یہ تین اجزائے ترکیبی ہیں جن سے سود بنتا ہے اور ہر وہ معاملہ قرض جس میں یہ تینوں اجزا پائے جاتے ہوں، ایک سودی معاملہ ہے، قطع نظر اس سے کہ قرض کسی بار آور کام میں لگانے کے لیے لیا گیا ہو یا کوئی شخصی ضرورت پوری کرنے کے لیے، اور اس قرض کا لینے والا آدمی غریب ہو یا امیر۔
بیع اور سود میں اُصولی فرق یہ ہے کہ:
(۱) بیع میں مشتری اور بائع کے درمیان منافع کا مبادلہ برابری کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ مشتری اس چیز سے فائدہ اٹھاتا ہے جو اس نے بائع سے خریدی ہے اور بائع اپنی اس محنت، ذہانت اور وقت کی اُجرت لیتا ہے جس کو اس نے مشتری کے لیے وہ چیز مہیا کرنے میں صرف کیا ہے —- بخلاف اس کے سودی لین دین میں منافع کا مبادلہ برابری کے ساتھ نہیں ہوتا۔ سود لینے والا تو مال کی ایک مقرر مقدار لے لیتا ہے جو اس کے لیے بالیقین نفع بخش ہے، لیکن اس کے مقابلے میں سود دینے والے کو صرف مہلت ملتی ہے جس کا نفع بخش ہونا یقینی نہیں۔ اگر قرض دار نے اپنی شخصی ضرورتوں پر خرچ کرنے کی غرض سے قرض لیا ہے تب تو مہلت اس کے لیے نافع نہیں، بلکہ یقینا نقصان دہ ہے۔ اور اگر اس نے یہ قرض تجارت یا زراعت یا صنعت و حرفت میں لگانے کی غرض سے لیا ہے تو مہلت میں جس طرح اس کے لیے نفع کا امکان ہے اسی طرح نقصان کا بھی امکان ہے۔ لیکن قرض خواہ بہرحال اس سے نفع کی ایک مقرر مقدار لے لیتا ہے، خواہ اس کو اپنے کاروبار میں فائدہ ہو یا نقصان، پس سود کا معاملہ یا تو ایک فریق کے فائدے اور دوسرے کے نقصان پر ہوتا ہے۔ یا ایک کے یقینی اور متعین فائدے اور دوسرے کے غیر یقینی اور غیر متعین فائدے پر۔
(۲) بیع و شرا میں بائع مشتری سے خواہ کتنا ہی زائد منافع لے، بہرحال وہ صرف ایک ہی مرتبہ لیتا ہے‘ لیکن سود کے معاملے میں رأس المال دینے والا مسلسل اپنے مال پر منافع وصول کرتا رہتا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کا منافع بڑھتا چلا جاتا ہے، مدیون نے اس کے مال سے خواہ کتنا ہی فائدہ حاصل کیا ہو، بہرطور اس کا فائدہ ایک خاص حد تک ہی ہوگا مگر اس کے معاوضے میں دائن جو نفع اٹھاتا ہے اس کے لیے کوئی حد نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی تمام کمائی، اس کے تمام وسائل ثروت، اس کے تمام مایحتاج (ضروری سازوسامان)پر محیط ہو جائے اور پھر بھی اس کا سلسلہ ختم نہ ہو۔
(۳) بیع وشرا میں شے اور اس کی قیمت کا مبادلہ ہونے کے ساتھ ہی معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد مشتری کو کوئی چیز، بائع کو واپس دینی نہیں ہوتی لیکن سود کے معاملے میں مدیون رأس المال لے کر صرف کر چکتا ہے اور پھر اس کو وہ صَرف شدہ چیز دوبارہ حاصل کرکے سود کے اضافے کے ساتھ واپس دینی پڑتی ہے۔
(۴) تجارت اور صنعت و حرفت اور زراعت میں انسان محنت اور ذہانت صرف کرتا ہے اور اس کا فائدہ لیتا ہے مگر سودی کاروبار میں وہ محض اپنا ضرورت سے زائد مال دے کر بلا کسی محنت و مشقت اور صَرفِ کمال کے دوسروں کی کمائی میں شریک غالب بن جاتا ہے۔ اس کی حیثیت اصطلاحی ’’شریک‘‘ کی نہیں ہوتی جو نفع و نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے اور نفع میں جس کی شرکت نفع کے تناسب سے ہوتی ہے، بلکہ وہ ایسا شریک ہوتا ہے جو بلا لحاظ نفع و نقصان اور بلا لحاظ تناسب نفع اپنے مقرر اور مشروط منافع کا دعویدار ہوتا ہے۔
عِلتِّ تحریم
یہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے۔ ان وجوہ کے علاوہ حرمت سود کی دوسری وجوہ بھی ہیں جن کی طرف ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں۔ وہ بخل، خود غرضی، شقاوت، بے رحمی اور زر پرستی کی صفات پیدا کرتا ہے۔ وہ قوم اور قوم میں عداوت ڈالتا ہے۔ وہ افراد قوم کے درمیان ہمدردی اور امداد باہمی کے تعلقات کو قطع کرتا ہے۔ وہ لوگوں میں روپیہ جمع کرنے اور صرف اپنے ذاتی مفاد کی ترقی پر لگانے کا میلان پیدا کرتا ہے۔ وہ سوسائٹی میں دولت کی آزادانہ گردش کو روکتا ہے، بلکہ دولت کی گردش کا رُخ الٹ کر ناداروں سے مال داروں کی طرف پھیر دیتا ہے۔ اس کی وجہ سے جمہور کی دولت سمٹ کر ایک طبقے کے پاس اکٹھی ہوتی چلی جاتی ہے، اور یہ چیز آخر کار پوری سوسائٹی کے لیے بربادی کی موجب ہوتی ہے‘ جیسا کہ معاشیات میں بصیرت رکھنے والوں سے پوشیدہ نہیں۔ سود کے یہ تمام اثرات ناقابل انکار ہیں‘ اور جب یہ ناقابل انکار ہیں تو اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام جس نقشے پر انسان کی اخلاقی تربیت، تمدنی شیرازہ بندی اور معاشی تنظیم کرنا چاہتا ہے اس کے ہر ہر جز سے سود کلی منافات رکھتا ہے اور سودی کاروبار کی ادنیٰ سے ادنیٰ اور بظاہر معصوم سے معصوم صورت بھی اس پورے نقشے کو خراب کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں حق تعالیٰ نے اس قدر سخت الفاظ کے ساتھ سود کو بند کرنے کا حکم دیا کہ:
﴿اِتَّقُوا اللہَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَo فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ۰ۚ ﴾ ( البقرہ 278-279:2)
اللہ سے ڈرو اور جو سود تمھارا لوگوں پر باقی ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کا اعلان قبول کرو۔
حُرمت ِ سود کی شدت
قرآن میں اور بھی بہت سے گناہوں کی ممانعت کا حکم آیا ہے اور ان پر سخت وعیدیں بھی ہیں لیکن اتنے سخت الفاظ کسی دوسرے گناہ کے بارے میں وارد نہیں ہوئے۔{ FR 2240 } اسی بنا پر نبیa نے اسلامی قلم رو میں سود کو روکنے کے لیے سخت کوشش فرمائی۔ آپؐ نے نجران کے عیسائیوں سے جو معاہدہ کیا اس میں صاف طور پر لکھ دیا کہ اگر تم سودی کاروبار کرو گے تو معاہدہ کالعدم ہو جائے گا اور ہم کو تم سے جنگ کرنی پڑے گی۔{ FR 2364 } بنو مغیرہ کے سود خوار عرب میں مشہور تھے، فتح مکہ کے بعد حضورa نے ان کی تمام سودی رقمیں باطل کر دیں اور اپنے عامل مکہ کو لکھا کہ اگر وہ باز نہ آئیں تو ان سے جنگ کرو۔{ FR 2365 } خود حضورa کے چچا حضرت عباسؓ ایک بڑے مہاجن تھے۔ حجتہ الوداع میں آپؐ نے اعلان فرمایا کہ جاہلیت کے تمام سود ساقط کیے جاتے ہیں اور سب سے پہلے میں خود اپنے چچا عباس کا سود ساقط کرتا ہوں۔{ FR 2366 } آپ نے یہاں تک فرما دیا کہ سود لینے والے اور دینے والے اور اس کی دستاویز کے کاتب اور اس پر گواہی دینے والے سب پر اللہ کی لعنت!{ FR 2367 }
ان تمام احکام کا منشا یہ نہ تھا کہ محض سود کی ایک خاص قسم یعنی یوژری (مہاجنی سود) کو بند کیا جائے اور اس کے سوا تمام اقسام کے سُودوں کا دروازہ کھلا رہے، بلکہ ان سے اصل مقصد سرمایہ دارانہ اخلاق، سرمایہ دارانہ ذہنیت، سرمایہ دارانہ نظام تمدن اور سرمایہ دارانہ نظام معیشت کا کلی استیصال کرکے وہ نظام قائم کرنا تھا جس میں بخل کے بجائے فیاضی ہو، خود غرضی کے بجائے ہمدردی اور امداد باہمی ہو، سود کے بجائے زکوٰۃ ہو، بینک کی جگہ قومی بیت المال ہو اور وہ حالات ہی سرے سے پیش نہ آئیں جن سے مقابلہ کرنے کے لیے نظام سرمایہ داری میں کواپریٹو سوسائٹیوں‘ انشورنس کمپنیوں اور پراویڈنٹ فنڈز وغیرہ کی ضرورت پیش آتی ہے اور آخرکار اشتراکیت کا غیر فطری پروگرام اختیار کرنا پڑتا ہے۔
اب یہ ہماری اپنی حماقت ہے، کمزوری ہے، بدقسمتی ہے کہ اسلام کا یہ اخلاقی تمدنی اور معاشی نظام بالکل درہم برہم ہوگیا۔ سرمایہ داری ہم پر مسلط ہوگئی۔ زکوٰۃ کی تحصیل اور صحیح مصارف میں اس کو صرف کرنے کے لیے کوئی ادارہ ہم میں باقی نہ رہا۔ ہمارے مالدار خود غرض اور نفس پرست ہوگئے۔ ہمارے ناداروں کے لیے کوئی سہارا نہ رہا۔ ہم نے اسلامی اخلاق کھو دیا اور اس کی حدود کو ایک ایک کرکے توڑ ڈالا۔ شراب اور جوئے اور زنا کاری میں ہم مبتلا ہوئے۔ عیش پسندی اور اِسراف کی بدترین صفات ہم میں پیدا ہوگئیں۔ فضول خرچی کے جملہ لوازم کو ہم نے اپنی ضروریاتِ زندگی میں داخل کر لیا۔ سودی قرض کے بغیر ہمارے لیے شادیاں کرنا، موٹریں خریدنا، بنگلے بنوانا، تزئین و آرائش اور عیش و عشرت کے سامان فراہم کرنا محال ہوگیا۔ پھر امدادِ باہمی کی اسپرٹ اور عملی تنظیم ہم میں سے یکسر مفقود ہوگئی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے معاشی حالات متزلزل ہوگئے۔ ہم میں سے ہر شخص کی زندگی کلیتاً اپنے ہی معاشی وسائل پر منحصر ہوگئی اور وہ مجبور ہوگیا کہ اپنے مستقبل کی حفاظت کے لیے اسلام کے اصولوں کو چھوڑ کر سرمایہ داری کے اصولوں کی پیروی کرے۔ بینک میں روپیہ جمع کرائے۔ انشورنس کمپنی میں بیمہ کرائے، کواپریٹو سوسائٹی کا رکن بنے اور بوقت ضرورت سرمایہ دار اداروں سے سود پر قرض لے کر اپنی حاجت رفع کرے۔
بلاشبہ آج یہ سب کچھ ہمارے لیے ناگزیر ہوگیا ہے مگر کیا ان حالات کو پیدا کرنے کی ذمہ داری اسلام پر ہے؟ اگر نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے اور ہم ان حالات میں صرف اس وجہ سے مبتلا ہوئے کہ جس معاشی نظام کی تعلیم اسلام نے ہم کو دی تھی اس کے ارکان میں سے ایک ایک کو ہم نے منہدم کر ڈالا ہے، تو کیا یہ جائز ہوگا کہ اسلامی قانون کی خلاف ورزی کرکے جن معاشی مشکلات کو ہم نے خود اپنے لیے پیدا کیا ہے اُن کا حل ہم اسلام ہی کے ایک اور قانون کی خلاف ورزی میں تلاش کریں، اور پھر اسلام ہی سے مطالبہ کریں کہ وہ اس خلاف ورزیٔ قانون کی ہم کو اجازت دے دے؟
آخر ہم کو کس نے زکوٰۃ کی تنظیم سے روکا ہے؟ امدادِ باہمی کی اسلامی تعلیم پر عامل ہونے سے کون ہم کو باز رکھتا ہے؟ اسلام کے قانون وراثت پر عمل کرنے میں کون سدِّ راہ ہے؟ سادگی، پرہیزگاری اور کفایت شعاری کی زندگی بسر کرنے میں کون سا امر مانع ہے؟ کون ہم کو مجبور کر رہا ہے کہ اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلائیں اور مغربی تہذیب کے مسرفانہ لوازم کو اپنی ضروریات زندگی میں داخل کر لیں؟ کس نے ہم کو پابند کیا ہے کہ کسب معاش کے جائز ذرائع اختیار کرنے کے بجائے، سرمایہ دار بننے کی ہَوَس میں حرام خوری کے طریقے اختیار کریں؟ کس نے ہمارے مال داروں کا ہاتھ پکڑ کر ان کو اپنے رشتے داروں، ہمسایوں، دوستوں اور اپنی قوم کی بیواؤں، یتیموں، معذوروں اور محتاجوں کی مدد کرنے سے روکا اور یورپ، امریکہ اور جاپان کے کارخانہ داروں کی طرف اپنی دولت پھینکنے پر مجبور کیا ہے؟ کس نے ہمارے متوسط اور قلیل المعاش لوگوں پر جبر کیا ہے کہ اپنی شادی اور غمی کی رسموں میں اپنی حد سے بڑھ کر خرچ کریں، امیروں کی رِیس کرنے میں اپنے معاشی وسائل سے بڑھ کر شان اور ٹھاٹھ جمائیں اور اپنی فضول خرچیوں کے لیے سودی قرض لیں؟
یہ سب افعال جو ہم اپنے اختیار سے کر رہے ہیں، اسلام کی نگاہ میں جرائم ہیں۔ اگر آج ہم ان جرائم سے باز آ جائیں اور اسلام کے معاشی نظام کو پھر سے قائم کر لیں تو ہماری وہ تمام معاشی مشکلات دور ہو سکتی ہیں جو ہم کو ایک دوسرے جرم یعنی سود کھانے اور کھلانے کے جرم پر مجبور کر رہی ہیں، مگر جب ہم ان جرائم سے باز نہیں آتے تو اس جرم کو بھی جرم سمجھ ہی کر کیوں نہ کریں جو ان جرائم کے نتیجے کے طور پر پیدا ہوا ہے؟ جس شخص نے خود پاک اور طیب غذاؤں کو چھوڑ کر اپنے آپ کو ایسے مقام پر پہنچایا ہے جہاں ناپاک چیزوں کے سوا کچھ کھانے کو نہیں ملتا، وہ پیٹ بھر کر نجاست کھائے اور کھلائے مگر وہ اس نجاست کو پاک اور طیب قرار دینے پر کیوں اصرار کرتا ہے؟
پس جیسا کہ ہم ابتدا میں لکھ آئے ہیں سود لینے یا نہ لینے کی بحث تو ایک بعد کی بحث ہے، سب سے پہلے تو آپ کو یہ طے کرنا چاہیے کہ اسلام کے معاشی نظام کی پیروی کرنی ہے یا سرمایہ داری نظام کی؟ اگر آپ پہلی صورت کو اختیار کرتے ہیں تو اس میں سودی لین دین کی نہ ضرورت ہے نہ گنجائش کیونکہ اسلامی معیشت کا سارا کاروبار ان ادارات کے بغیر چلتا ہے جو سودی لین دین کرنے والے ہیں اور یہ نظام ان لوگوں کو مجرم سمجھتا ہے جو سودی کاروبار کرکے اس کے نظم کو بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ برعکس اس کے اگر آپ دوسری صورت اختیار کرنا چاہتے ہیں تو آپ کا سرمایہ دارانہ نظام معیشت کو اختیار کرنا بحیثیت مجموعی اسلام کے خلاف ایک بغاوت ہے اور اس بغاوت کی حالت میں آپ کو اسلام کے معاشی قوانین میں سے وہ تمام قوانین توڑنے پڑیں گے جو اصول سرمایہ داری کے خلاف ہیں۔ اب آپ کی یہ خواہش کہ آپ قوانین اسلامی کی خلاف ورزی بھی کریں، نظام سرمایہ داری کی پیروی بھی کریں اور اسلام کی نظر میں گنہگار بھی نہ ہوں۔ درحقیقت یہ معنی رکھتی ہے کہ اسلام کی پیروی چھوڑ کر آپ خود اسلام کو اپنا پیرو بنانا چاہتے ہیں اور آپ کی خواہش یہ ہے کہ وہ محض آپ کو اپنے دائرے میں رکھنے کی خاطر اپنے اصول بدل کر سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے اصول اختیار کر لے۔
٭…٭…٭
سود کے متعلقات
ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ ربوٰ دراصل اس زائد رقم یا فائدے کو کہتے ہیں جو قرض کے معاملے میں ایک دائن رأس المال کے علاوہ شرط کے طور پر اپنے مدیون سے وصول کرتا ہے۔ اصطلاح شرح میں اس کو ’’ربا النسیۂ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ ربوٰ جو قرض کے معاملے میں لیا اور دیا جائے۔ قرآن مجید میں اسی کو حرام کیا گیا ہے۔ اس کی حرمت پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ اس میں کبھی کسی شک و شبہے نے راہ نہیں پائی۔
لیکن شریعتِ اسلامی کے قواعد میں سے ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ جس چیز کو حرام کیا جاتا ہے اس کی طرف جانے کے جتنے رستے ممکن ہیں ان سب کو بند کر دیا جاتا ہے، بلکہ اس کی طرف پیش قدمی کی ابتدا جس مقام سے ہوتی ہے وہیں روک لگا دی جاتی ہے تاکہ انسان اس کے قریب بھی نہ جانے پائے۔ نبیa نے اس قاعدے کو ایک لطیف مثال میں بیان فرمایا ہے۔ عرب کی اصطلاح میں حِمیٰ اس چراگاہ کو کہتے ہیں جو کسی شخص نے اپنے جانوروں کے لیے مخصوص کر لی ہو اور جس میں دوسروں کے لیے اپنے جانور چرانا ممنوع ہو۔ حضورؐ فرماتے ہیں کہ ’’ہر بادشاہ کی ایک حِمیٰ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حمیٰ اس کے وہ حدود ہیں جن سے باہر قدم نکالنے کو اس نے حرام قرار دیا ہے جو جانور حمیٰ کے اردگرد چرتا پھرتا ہے، بعید نہیں کہ کسی وقت چرتے چرتے وہ حِمیٰ کے حدود میں بھی داخل ہو جائے۔ اسی طرح جو شخص اللہ تعالیٰ کی حمیٰ یعنی اس کے حدود کے اطراف میں چکر لگاتا رہتا ہے اس کے لیے ہر وقت یہ خطرہ ہے کہ کب اس کا پاؤں پھسل جائے اور وہ حرام میں مبتلا ہو جائے۔ لہٰذا جو امور حلال و حرام کے درمیان واسطہ ہیں ان سے بھی پرہیز لازم آتا ہے تاکہ تمھارا دین محفوظ رہے۔{ FR 2368 }
یہی مصلحت ہے جس کو مدنظر رکھ کر شارع حکیم نے ہر ممنوع چیز کے اطراف میں حرمت اور کراہیت کی ایک مضبوط باڑھ لگا دی ہے اور ارتکابِ ممنوعات کے ذرائع پر بھی ان کے قرب و بعد کے لحاظ سے سخت یا نرم پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
سود کے مسئلے میں ابتدائی حکم صرف یہ تھا کہ قرض کے معاملات میں جو سودی لین دین ہوتا ہے، وہ قطعاً حرام ہے۔ چنانچہ اُسامہؓ بن زید سے جو حدیث مروی ہے اس میں حضورa کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ إِنَّمَا الرِّبَانَیِ النَّسِیئَۃِ اِوفِی بَعْض الْالفَاظِ لَارِبَا إِلاَّ فِی النَّسِیئۃِ۔ { FR 2369 } یعنی سود صرف قرض کے معاملات میں ہے۔{ FR 2241 } لیکن بعد میں آنحضرت علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اللہ تعالیٰ کی اس حِمٰی کے اردگرد بندشیں لگانا ضروری سمجھا، تاکہ لوگ اس کے قریب بھی نہ پھٹک سکیں۔ اسی قبیل سے وہ فرمان نبوی ہے جس میں سود کھانے اور کھلانے کے ساتھ سود کی دستاویز لکھنے اور اس پر گواہی دینے کو بھی حرام کیا گیا ہے{ FR 2370 }اور اسی قبیل سے وہ احادیث ہیں جن میں ربوٰ الفضل کی تحریم کا حکم دیا گیا ہے۔
رِبا الفضل کا مفہوم
رِبا الفضل اس زیادتی کو کہتے ہیں جو ایک ہی جنس کی دو چیزوں کی دست بدست لین دین میں ہو۔ رسول اللہ a نے اس کو حرام قرار دیا کیونکہ اس سے زیادہ ستانی (زیادتی)کا دروازہ کھلتا ہے اور انسان میں وہ ذہنیت پرورش پاتی ہے جس کا آخری ثمرہ سود خواری ہے۔ چنانچہ حضورa نے خود ہی اس مصلحت کو اس حدیث میں بیان فرما دیا ہے جس کو ] عبداللہ بن عمرؓ[ نے بدیں الفاظ نقل کیا ہے کہ لاَ تَبِیْعُوا] … [ الدِّرْہَمَ بِالدِرْہَمَیْنِ فَاِنِّیْ اَخَافُ عَلَیْکُمُ الرِّمَا رَوالرِّمَا ہُوَالرِّبَا { FR 2371 }یعنی ایک درہم کو دو درہموں کے عوض نہ فروخت کرو کیونکہ مجھے خوف ہے کہ کہیں تم سود خواری میں نہ مبتلا ہو جاؤ۔‘‘
رِبا الفضل کے احکام
سود کی اس قسم کے متعلق نبی a سے جو احکام منقول ہیں۔ ان کو یہاں لفظ بلفظ نقل کیا جاتا ہے۔
عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اَلذَّھَبُ بِالذَّھَبِ وَالْفِضَّۃُ بِالْفِضَّۃِ وَالْبُرُّ بِالْبِرِّ وَالشَّعِیْرُ بِالشَّعِیْرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمرِوَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلاً بِمِثْلٍ سَوَائً بِسَوائٍ یَدًا بِیَدٍ، فَاِذَا اخْتَلَفْتْ ہٰذِہِ الْاَصْنَافُ فَبِیْعُوْا کَیْفَ شِئْتُمْ اِذَا کَانَ یَدًا بِیَدٍ۔{ FR 2372 }
عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ نبی a نے فرمایا سونے کا مبادلہ سونے سے اور چاندی کا چاندی سے اور گیہوں کا گیہوں سے اور جو کا جو سے اور کھجور کا کھجور سے اور نمک کا نمک سے اس طرح ہونا چاہیے کہ جیسے کا تیسا اور برابر اور دست بدست ہو۔ البتہ اگر مختلف اصناف کی چیزوں کا ایک دوسرے سے مبادلہ ہو تو پھر جس طرح چاہو بیچو بشرطیکہ لین دین دست بدست ہو جائے۔
(احمد و مسلم و للنسائی و ابن ماجہ و ابی داؤد نحوہٗ و فی اخرہٖ) وَأَمَرَنَا أَنْ نَبِیْعَ الْبُرَّ بِالشَّعِیْرِ وَ ا الشَّعِیْرَ بِالْبُرِّ یَدًا بِیَدٍ کَیْفَ شِئْنَا۔{ FR 2373 }
(مسند احمد و صحیح مسلم ، یہی حدیث نسائی اور ابن ماجہ اور ابوداؤد میں بھی آئی ہے اور اس کے آخر میں اتنا اضافہ اور ہے) اور آپؐ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم گیہوں کا مبادلہ جو سے اور جو کا گیہوں سے دست بدست جس طرح چاہیں کریں۔
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اَلذَّھَبُ بِالذَّھَبِ وَالْفِضَّۃُ بِالْفِضَّۃِ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِیْرُ بِالشَّعِیْرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحِ بِالْمِلْحِ مَثَلاً بِمِثْلٍ یَدًا بِیَدٍ فَمَنْ زَادَ اَوْاسْتَزَاَدَ فَقَدْ اَرْبٰی، اَلاٰخِذُ وَالْمُعْطِیْ فِیْہِ سَوَآئٌ{ FR 2374 } (البخارِی واحمد و مسلم و فی لفظٍ) لَا تَبِیْعُوا الذَّھَبَ بِالذَّھَبِ وَلاَ الْوَرِقُ بِالْوَرَقِ اِلاَّ وَزْنًا بِوَزْنٍ مِثْلاً بِمِثْلٍ سَوَائً بِسَوَآئٍ۔ { FR 2375 }
ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ نبی a نے فرمایا سونے کا مبادلہ سونے سے، چاندی کا چاندی سے، گیہوں کا گیہوں سے، جو کا جو سے، کھجور کا کھجور سے، نمک کا نمک سے جیسے کا تیسا، اور دست بدست ہونا چاہیے جس نے زیادہ دیا یا لیا اس نے سودی معاملے کیا، لینے والا اور دینے والا دونوں گناہ میں برابر ہیں۔ (بخاری، احمد، مسلم اور ایک دوسری روایت میں ہے) سونے کو سونے کے عوض اور چاندی کو چاندی کے عوض فروخت نہ کرو مگر وزن میں مساوی، جوں کا توں اور برابر سرابر ۔
وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ تَبِیْعُوا الذَّھَبَ بِالذَّھَبِ اِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ وَلاَ تُشِفُّوْا بَعْضَہَا عَلٰی بَعْضٍ وَلاَ تَبِیْعُوا الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ اِلاَّ مَثَلًا بِمِثْلٍ وَلاَ تشفوا بعضہا علی بعضٍ وَلاَ تَبِیْعوا منہا غائبًا بِناجِزٍ۔{ FR 2376 }
ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ نبیa نے فرمایا سونے کو سونے کے عوض نہ بیچو مگر جوں کا توں۔ کوئی کسی کو زیادہ نہ دے اور نہ غائب کا تبادلہ حاضر سے کرو۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ التَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْحِنْطَۃُ بِالْحْنِطَۃِ وَالشَّعِیْرُ بِالشَّعِیْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مَثْلًا بِمِثْلٍ یَدًا بِیَدٍ فَمَنْ زَادَ اَوِاسَتَزَادَ فَقَدْ اَرْبٰی اِلَّا مَا اخْتَلَفَتْ اَلْوَانُہٗ ۔{ FR 2378 }
ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی a نے فرمایا کھجور کا مبادلہ کھجور سے، گیہوں کا گیہوں سے جو کا جو سے اور نمک کا نمک سے جوں کا توں اور دست بدست ہونا چاہیے جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سودی معاملے کیا۔ سوائے اس صورت کے جب کہ ان اشیا کے رنگ مختلف ہوں۔
عَنْ سَعْدِ بْنِ اَبِیْ وَقَّاصٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُسْئِلُ عَنْ شِرَآئِ التَّمْرِ بِالرَّطْبِ فَقَالَ ] رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ[ اَیَنْقُصُ الرَّطْبُ اِذَا یَبِسَ فَقَالُو اَ نَعَمْ فَنَہَاہُ عَنْ ذٰلِکَ۔ { FR 2377 }
سعد بن ابی وقاصؓ کہتے ہیں کہ نبی a سے پوچھا گیا اور میں سن رہا تھا کہ خشک کھجور کا تر کھجور کے ساتھ مبادلہ کس طریقے پر کیا جائے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا کیا تر کھجور سوکھنے کے بعد کم ہو جاتی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا ہاں۔ تب آپؐ نے سرے سے اس مبادلے ہی کو منع فرما دیا۔
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ کُنَّا نُرْزَقُ تَمْرَ الْجَمْعِ وَہُوَ الْخِلْطُ مِنَ التَّمْرِ وَکُنَّا نَبِیْعُ صَاعَیْنِ بِصَاعٍ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا صَاعَیْنِ بِصَاعٍ وَّلَا دِرْہَمَیْنِ بِدِرْہَمٍ۔ { FR 2379 }
ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو بالعموم اجرتوں اور تنخواہوں میں مخلوط قسم کی کھجوریں ملا کرتی تھیں اور ہم دو دو صاع مخلوط کھجوریں دے کر ایک صاع اچھی قسم کی کھجوریں لے لیا کرتے تھے پھر نبی a نے فرمایا کہ نہ دو صاع کا مبادلہ ایک صاع سے کرو اور نہ دو درہم کا ایک درہم سے۔
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ وَاَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِسْتَعْمَلَ رَجُلًا عَلٰی خَیْبَرَ فَجَآئَ ہُ بِتَمْرٍ جَنِیبٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَکُلَ تَمْرِ خَیْبَرَ ھٰکَذَا قَالَ لاَ وَاللّٰہِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّا لَنَاْخُذُ الصَّاعَ مِنْ ہٰذَا بِالصَّاعَیْنِ وَالصَّاعَیْنِ بِالثَّلاَثَۃِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ تَفْعَلْ بِعِ الْجَمْعَ بِالدَّرَاہِمِ ثُمَّ ابْتَعْ بِالدَّرَاہِمِ جَنِیبًا وَقَالَ فِی الْمِیْزَانِ مِثْلَ ذٰلِکَ۔ { FR 2380 }
ابو سعید خدریؓ اور ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے ایک شخص کو خیبر کا تحصیل دار مقرر کرکے بھیجا وہ وہاں سے (مال گزاری میں) عمدہ قسم کی کھجوریں لے کر آیا۔ آنحضرتa نے پوچھا: کیا خیبر کی ساری کھجوریں ایسی ہی ہوتی ہیں؟ اس نے کہا، نہیں یا رسول اللہ، ہم جو ملی جلی کھجوریں وصول کرتے ہیں انھیں کبھی دو صاع کے بدلے ایک صاع کے حساب سے اور کبھی تین صاع کے بدلے دو صاع کے حساب سے ان اچھی کھجوروں سے بدل لیا کرتے ہیں۔ یہ سن کر آپؐ نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ پہلے ان مخلوط کھجوروں کو درہموں کے عوض فروخت کر دو، پھر اچھی قسم کی کھجوریں درہموں کے عوض خرید لو۔ یہی بات آپ نے وزن کے حساب سے مبادلہ کرنے کی صورت میں بھی ارشاد فرمائی۔
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیَّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ جَآئَ بِلاَلٌ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِتمْرٍ بَرْنِیٍّ فَقَالَ لَہُ النَّبِی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ اَیْنَ ہٰذَا قَالَ بِلَدلٌ کَانَ عِنْدَنَا تَمْرٌ رَدِیٌّ فَبِعْتُ مِنْہُ صَاعَیْنِ بِصَاعٍ لِنُظْعِمَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اَوَّہْ اَوَّہْ عَیْنُ الرِّبَا عَیْنُ الرِّبَا لاَ تَفْعَلْ وَلٰـکِنْ اِذَا اَرَدْتَّ اَنْ تَشْتَرِیَ فَبِعِ التَّمْرَ بِبَیْعٍ اٰخَرَ ثُمَّ اشْتَرِ ہِ { FR 2381 }
ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ بلالؓ نبی a کی خدمت میں برنی کھجوریں لے کر آئے۔ (جو کھجور کی ایک بہترین قسم ہوتی ہے) آپؐ نے پوچھا: یہ کہاں سے لے آئے؟ انھوں نے عرض کیا ہمارے پاس گھٹیا قسم کی کھجور تھی۔ میں نے وہ دو صاع دے کر یہ ایک صاع خرید لی۔ فرمایا: ہائیں! قطعی سود! قطعی سود! ایسا ہرگز نہ کیا کرو۔ جب تمھیں اچھی کھجوریں خریدنی ہوں تو اپنی کھجوریں درہم یا کسی اور چیز کے عوض بیچ دو۔ پھر اس قیمت سے اچھی کھجوریں خرید لو۔
عَنْ فُضَالَۃ بْنِ عُبَیْدٍ قَالَ اِشْتَرَیْتُ قَلَادَۃً یَوْمَ خَیْبَرَ بِاِثْنَی عَشَرَ دِیْنَارًا فِیْہَا ذَہَبٌ وَ خَرَزٌ فَفَصَّلْتُہَا فَوَجَدْتُ فِیْہَا أکْثَرَ مِنْ اثْنَی عَشَرَ دِیْنَارًا فَذَکَرْتُ ذٰالِکَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَا تُبَاعُ حَتّٰی تُفَصَّلَ۔{ FR 2382 }
فضالہؓ بن عبید کہتے ہیں کہ میں نے جنگ خیبر کے موقع پر ایک جڑاؤ ہار ۱۲ دینار میں خریدا۔ پھر جو میں نے اس ہار کو توڑ کر نگ اور سونا الگ الگ کیا تو اس کے اندر ۱۲ دینار سے زیادہ کا سونا نکلا۔{ FR 2242 } میں نے اس کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ آپؐ نے فرمایا: آئندہ سے سونے کا جڑاؤ زیور سونے کے عوض نہ بیچا جائے جب تک کہ نگ اور سونے کو الگ الگ نہ کر دیا جائے۔
عَنْ اَبِیْ بَکْرَۃَ قَالَ نَھٰی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْفِضَّۃِ بِالْفِضَّۃِ وَالذَّہَبِ بِالذَّہَبِ اِلَّا سَوَآئً بِسَوَآئٍ وَّاَمَرَنَا اَنْ نَشْتَرِیَ الْفِضَّۃَ بِالذَّہَبِ کَیْفَ شِئْنَا وَنَشْتَرِیَ الذَّہَبَ بِالْفِضَّۃِ کَیْفَ شِئْنَا۔ { FR 2383 }
ابوبکرہؓ کہتے ہیں کہ نبی a نے حکم دیا کہ چاندی کا چاندی سے اور سونے کا سونے سے مبادلہ نہ کیا جائے مگر برابری کے ساتھ نیز آپؐ نے فرمایا کہ چاندی کو سونے سے اور سونے کو چاندی سے جس طرح چاہو بدل سکتے ہو۔
اَحکامِ بالا کا ماحصل
مذکورہ بالا احادیث کے الفاظ اور معانی پر اور ان حالات پر جن میں یہ احادیث ارشاد ہوئی ہیں‘ غور کرنے سے حسب ذیل اُصول اور احکام حاصل ہوتے ہیں:
(۱) یہ ظاہر ہے کہ ایک ہی جنس کی دو چیزوں کو بدلنے کی ضرورت صرف اسی صورت میں پیش آتی ہے جب کہ اتحادِ جنس کے باوجود ان کی نوعیتیں مختلف ہوں۔ مثلاً چاول اور گیہوں کی ایک قسم اور دوسری قسم ، عمدہ سونا اور گھٹیا سونا، یا معدنی نمک اور سمندری نمک وغیرہ۔ ان مختلف اقسام کی ہم جنس چیزوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بدلنا، اگرچہ بازار کے نرخ کو ملحوظ رکھ کر ہو، بہرحال ان میں کمی بیشی کے ساتھ مبادلہ کرنے سے اس ذہنیت کے پرورش پانے کا اندیشہ ہے جو بالآخر سود خواری اور ناجائز نفع اندوزی تک جا پہنچتی ہے۔ اس لیے شریعت نے قاعدہ مقرر کر دیا کہ ہم جنس اشیا کے مبادلے کی اگر ضرورت پیش آئے تو لازماً حسب ذیل دو شکلوں میں سے ہی کوئی ایک شکل اختیار کرنی ہوگی۔ ایک یہ کہ ان کے درمیان قدرو قیمت کا جو تھوڑا سا فرق ہو اسے نظر انداز کرکے برابر سرابر مبادلہ کر لیا جائے۔ دوسرے یہ کہ چیز کا چیز سے براہ راست مبادلہ کرنے کے بجائے ایک شخص اپنی چیز روپے کے عوض بازار کے بھاؤ بیچ دے اور دوسرے شخص سے اس کی چیز روپے کے عوض بازار کے بھاؤ خرید لے۔
(۲) جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں، قدیم زمانے میں تمام سکے خالص چاندی سونے کے ہوتے تھے اور ان کی قیمت دراصل ان کی چاندی اور ان کے سونے کی قیمت ہوتی تھی۔ اس زمانے میں درہم کو درہم سے اور دینار کو دینار سے بدلنے کی ضرورت ایسے مواقع پر پیش آتی تھی جب کہ مثلاً کسی شخص کو عراقی درہم کے عوض رومی درہم درکار ہوتے یا رومی دینار کی حاجت ہوتی۔ ایسی ضرورتوں کے مواقع پر یہودی ساہوکار اور دوسرے ناجائز کمانے والے لوگ کچھ اسی طرح کا ناجائز منافع وصول کرتے تھے جیسا موجودہ زمانے میں بیرونی سکوں کے مبادلے پر بٹاون لی جاتی ہے، یا اندرونِ ملک میں روپیہ کی ریز گاری مانگنے والوں، یا دس اور پانچ روپے کے نوٹ بھنانے والوں سے کچھ پیسے یا آنے وصول کر لیے جاتے ہیں۔ یہ چیز بھی چونکہ سود خورا نہ ذہنیت ہی کی طرف لے جانے والی ہے اس لیے نبی a نے حکم دے دیا کہ نہ تو چاندی کا مبادلہ چاندی سے اور سونے کا مبادلہ سونے سے کمی بیشی کے ساتھ کرنا جائز ہے اور نہ ایک درہم کو دو درہم کے عوض بیچنا درست ہے۔
(۳) ہم جنس اشیا کے درمیان مبادلے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک شخص کے پاس ایک چیز خام شکل میں ہو اور دوسرے کے پاس اسی جنس سے بنی ہوئی کوئی شے ہو اور دونوں آپس میں ان کا مبادلہ کرنا چاہیں۔ اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ آیا صنعت نے اس شے کی ماہیت بالکل ہی تبدیل کر دی ہے۔ یا اس کے اندر صنعت کے تصرف کے باوجود ابتدائی خام صورت کی بہ نسبت کوئی بڑا فرق واقع نہیں ہوا ہے۔ پہلی صورت میں تو کمی بیشی کے ساتھ مبادلہ ہو سکتا ہے لیکن دوسری صورت میں شریعت کا منشا یہ ہے کہ یا تو سرے سے مبادلہ ہی نہ ہو یا اگر ہو تو برابری کے ساتھ ہوتا کہ زیادہ ستانی (زیادتی) کے مرض کو غذا نہ مل سکے۔ مثال کے طور پر ایک تو وہ عظیم الشان تغیرات ہیں جو روئی سے کپڑا اور لوہے سے انجن بننے کی صورت میں رونما ہوتے ہیں اور دوسرے وہ خفیف تغیرات ہیں جو سونے سے ایک چوڑی یا ایک کنگن بنائے جانے کی صورت میں ہوتے ہیں۔ ان میں سے پہلی صورت میں تو کوئی مضائقہ نہیں اگر ہم زیادہ مقدار میں روئی دے کر کم مقدار میں کپڑا اور بہت سے وزن کا خام لوہا دے کر تھوڑے سے وزن کا ایک انجن خرید لیں‘ لیکن دوسری صورت میں یا تو سونے کے کنگن کا مبادلہ ہم وزن سونے ہی سے کرنا ہوگا۔{ FR 2243 } پھر سونے کو بازار میں بیچ کر اس کی قیمت کے کنگن خریدنے پڑیں گے۔
(۴) مختلف اجناس کی چیزوں کا باہم مبادلہ کمی بیشی کے ساتھ ہو سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ معاملہ دست بدست ہو جائے۔ اس شرط کی وجہ یہ ہے کہ دست بدست جو لین دین ہوگا وہ تو لامحالہ بازار کے نرخوں ہی پر ہوگا۔ مثلاً جو شخص چاندی دے کر سونا لے گا وہ نقد سودے کی صورت میں سونے کے بالمقابل اتنی ہی چاندی دے گا جتنی اسے بازار کے بھاؤ کے لحاظ سے دینی چاہیے لیکن قرض کی صورت میں کمی بیشی کا معاملہ اس اندیشے سے خالی نہیں ہو سکتا کہ اس کے اندر سود کا غبار شامل ہو جائے۔ مثال کے طور پر جو شخص آج ۸۰ تولے چاندی دے کر یہ طے کرتا ہے کہ ایک مہینے بعد وہ ۸۰ تولہ چاندی کے بجائے ۲ تولے سونا لے گا، اس کے پاس درحقیقت یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ایک مہینہ بعد ۴۰ تولہ چاندی ایک تولہ سونے کے برابر ہوگی۔ لہٰذا اس نے چاندی اور سونے کے درمیان مبادلے کی اس نسبت کا جو پیشگی تعین کر لیا یہ بہرحال ایک طرح کی سود خورانہ اور قمار بازانہ ذہنیت کا نتیجہ ہے اور قرض لینے والے نے جو اسے قبول کیا تو اس نے بھی گویا جوا کھیلا کہ شاید ایک مہینے بعد سونے اور چاندی کی باہمی نسبت ۴۰ کے بجائے ۳۵ ہو۔ اسی بنا پر شارع نے یہ قانون مقرر کیا ہے کہ مختلف اجناس کا مبادلہ کمی بیشی کے ساتھ کرنا ہو تو وہ صرف دست بدست ہی ہو سکتا ہے۔ رہا قرض تو وہ لازماً دو طریقوں میں سے کسی ایک طریقے پر ہونا چاہیے۔ یا تو جو چیز جتنی مقدار میں قرض دی گئی ہے وہی چیز اسی مقدار میں واپس قبول کی جائے یا پھر معاملہ اجناس اور اشیا کی شکل میں طے کرنے کے بجائے روپے کی شکل میں طے کیا جائے۔ مثلاً یہ کہ آج زید نے بکر سے ۸۰ روپے یا ۸۰ روپے کے گیہوں قرض لیے اور ایک مہینے بعد وہ بکر کو ۸۰ روپے یا ۸۰ روپے کے جو واپس دے گا۔ اس قانون کو ابوداؤد کی اس روایت میں بالکل واضح طور پر بیان کیا گیا ہے:
وَلَا بَاْسَ بِبَیْعِ الذَّہَبِ بِالْفِضَّۃِ وَالْفِضَّۃُ اَکْثَرُہُمَا یَدًا بِیَدٍ وَاَمَّا نَسِییَٔۃً فَلاَ وَلَا بَاْسَ بِبَیْعِ الْبُرِّ بِالشَّعِیرِ وَالشَّعِیرُ اَکْثَرُہُمَا یَدًا بِیَدٍ وَاَمَّا نَسِیَٔۃً فَلاَ۔{ FR 2384 }
اور کوئی مضائقہ نہیں اگر سونے کو چاندی کے عوض بیچا جائے اور چاندی زیادہ ہو بشرطیکہ معاملہ دست بدست ہو جائے، رہا قرض تو وہ جائز نہیں ہے۔ اور کوئی مضائقہ نہیں اگر گیہوں کو جو کے عوض بیچا جائے اور جو زیادہ ہوں بشرطیکہ معاملہ دست بدست ہو جائے، رہا قرض تو وہ جائز نہیں ہے۔
حضرت عمرؓ کا قول
نبی a کے یہ احکام مُجمل ہیں اور معاملات کی تمام جزئی صورتوں کی ان میں تصریح نہیں ہے۔ اس لیے بہت سے جزئیات ایسے پائے جاتے ہیں جن میں شک کیا جا سکتا ہے کہ آیا وہ ربوٰ کی تعریف میں آتے ہیں یا نہیں۔ یہی بات ہے جس کی طرف حضرت عمرؓ نے اشارہ کیا ہے کہ:
اِنَّ اٰیَۃَ الرِّبَا مِنْ اٰخَرِ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْاٰنِ وَاِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُبَضِ قَبُلَ اَنْ یُبَیَّنَہٗ لَنَا فَدَعُوا الرِّبَا وَ الرَّیْبِۃُ۔{ FR 2385 }
آیت ربوٰ قرآن کی ان آیات میں سے ہے جو آخر زمانے میں نازل ہوئی ہیں اور نبیa کا وصال ہوگیا قبل اس کے کہ تمام احکام ہم پر واضح فرماتے لہٰذا تم اس چیز کو بھی چھوڑ دو جو یقینا سود ہے اور اس چیز کو بھی جس میں سود کا شبہ ہو۔
فقہا کے اختلافات
احکام کا یہ اجمال ہی ان اختلافات کا مبنیٰ ہے جو سودی اجناس کے تعین اور ان میں تحریم کی علت اور حکم تحریم کے اجزا میں فقہائے اُمت کے درمیان ہوئے ہیں۔
ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ رِبا صرف ان چھ اجناس میں ہے جن کا ذکر نبیa نے فرما دیا ہے ، یعنی سونا، چاندی، گیہوں، جو، خرما اور نمک۔ ان کے سوا دوسری تمام چیزوں میں تفاضل کے ساتھ بلا کسی قید کے ہم جنس اشیا کا لین دین ہو سکتا ہے۔ یہ مذہب قتادہؒ اور طاؤسؒ اور عثمانؒ البتی اور ابن عقیلیؒ اور ظاہر یہ کا ہے۔{ FR 2386 }
دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ حکم ان تمام چیزوں میں جاری ہوگا جن کا لین دین وزن اور پیمانے کے حساب سے کیا جاتا ہے۔ یہ عمارؒ اور امام ابوحنیفہؒ کا مذہب ہے، اور ایک روایت کی رُو سے امام احمد بن حنبلؒ کی بھی یہی رائے ہے۔{ FR 2387 }
تیسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ حکم سونے چاندی اور کھانے کی ان چیزوں کے لیے ہے جن کا لین دین پیمانے اور وزن کے لحاظ سے ہوتا ہے یہ سعید بن المسیبؒ کا مذہب ہے اور ایک ایک روایت اس باب میں امام شافعیؒ اور امام احمدؒ سے بھی منقول ہے۔{ FR 2388 }
چوتھا گروہ کہتا ہے کہ یہ حکم مخصوص ہے ان چیزوں کے ساتھ جو غذا کے کام آتی ہیں اور ذخیرہ کرکے رکھی جاتی ہیں۔ یہ امام مالکؒ کا مذہب ہے۔{ FR 2389 }
درہم و دینار کے بارے میں امام ابوحنیفہؒ اور امام احمدؒ کا مذہب یہ ہے کہ ان میں علت تحریم ان کا وزن ہے اور شافعیؒ و مالکؒ اور ایک روایت کے مطابق امام احمدؒ کی رائے یہ ہے کہ قیمت اس کی علت ہے۔
مذاہب کے اس اختلاف سے جزئی معاملات میں حکم تحریم کا اجرا بھی مختلف ہوگیا ہے۔ ایک چیز ایک مذہب میں سرے سے سودی جنس ہی نہیں ہے اور دوسرے مذہب میں اس کا شمار سودی اجناس میں ہوتا ہے۔ ایک مذہب کے نزدیک ایک شے میں علت تحریم کچھ ہے اور دوسرے مذہب کے نزدیک کچھ اور۔ اس لیے بعض معاملات ایک مذہب کے لحاظ سے سود کی زد میں آ جاتے ہیں اور دوسرے مذہب کے لحاظ سے نہیں آتے لیکن یہ تمام اختلافات ان امور میں نہیں ہیں جو کتاب و سنت کے صریح احکام کی رو سے ربوٰ کے حکم میں داخل ہیں بلکہ ان کا تعلق صرف مشتبہات سے ہے اور ایسے امور سے ہے جو حلال و حرام کی درمیانی سرحد پر واقع ہیں۔ اب اگر کوئی شخص ان اختلافی مسائل کو حجت بنا کر ان معاملات میں شریعت کے احکام کو مشتبہ ٹھیرانے کی کوشش کرے جن کے سود ہونے پر نصوص صریحہ وارد ہو چکی ہیں اور اس طریق استدلال سے رخصتوں اور حیلوں کا دروازہ کھولے ، اور پھر ان دروازوں سے بھی گزر کر اُمت کو سرمایہ داری کے راستوں پر چلنے کی ترغیب دے وہ خواہ اپنی جگہ نیک نیت اور خیر خواہ ہی کیوں نہ ہو، حقیقت میں اس کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جنھوں نے کتاب و سنت کو چھوڑ کر ظن و تخمین کی پیروی کی، خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔
جانوروں کے مبادلے میں تفاضل
اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہم جنس اشیا کے مبادلے میں تفاضل کی ممانعت کا جو حکم دیا گیا ہے اس سے جانور مستثنیٰ ہیں۔ ایک ہی جنس کے جانوروں کا مبادلہ ایک دوسرے کے ساتھ تفاضل کے ساتھ کیا جا سکتا ہے، نبیa نے خود کیا ہے اور آپ کے بعد صحابہ نے بھی کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جانور اور جانور میں قدرو قیمت کے اعتبار سے بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ مثلاً ایک معمولی قسم کا گھوڑا اور ایک اعلیٰ نسل کا گھوڑا جو ریس میں دوڑایا جاتا ہے، یا ایک عام کتا اور ایک اعلیٰ قسم کا کتا، ان کی قیمتوں میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ ایک جانور کا تبادلہ اسی جنس کے سو جانوروں سے بھی کیا جا سکتا ہے۔
٭…٭…٭
معاشی قوانین کی تدوین جدید اور اُس کے اُصول
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ زمانے کے حالات بدل چکے ہیں۔ دنیا کے تمدنی اور معاشی احوال میں بہت بڑا انقلاب رونما ہوا ہے اور اس انقلاب نے مالی اور تجارتی معاملات کی صورت کچھ سے کچھ کر دی ہے۔ ایسے حالات میں وہ اجتہادی قوانین جو اسلام کے ابتدائی دور میں حجاز، عراق، شام اور مصر کے معاشی و تمدنی حالات کو ملحوظ رکھ کر مدوّن کیے گئے تھے، مسلمانوں کی موجودہ ضرورتوں کے لیے کافی نہیں ہیں۔ فقہائے کرام نے اس دور میں احکام شریعت کی جو تعبیر کی تھی وہ معاملات کی ان صورتوں کے لیے تھی جو ان کے گرد و پیش کی دنیا میں پائی جاتی تھیں مگر اب ان میں سے بہت سی صورتیں باقی نہیں رہی ہیں اور بہت سی دوسری صورتیں ایسی پیدا ہوگئی ہیں جو اس وقت موجود نہ تھیں۔ اس لیے بیع و شرا اور مالیات و معاشیات کے متعلق جو قوانین ہماری فقہ کی قدیم کتابوں میں پائے جاتے ہیں ان پر بہت کچھ اضافے کی اب یقینا ضرورت ہے۔ پس اختلاف اس امر میں نہیں ہے کہ معاشی اور مالی معاملات کے لیے قانونِ اسلامی کی تدوین جدید ہونی چاہیے یا نہیں بلکہ اس امر میں ہے کہ تدوین کس طرز پر ہو؟
تجدید سے پہلے تفکر کی ضرورت
ہمارے جدت پسند حضرات نے جو طریقہ اختیار کیا ہے اگر اس کا اتباع کیا جائے اور اُن کی اَہوا کے مطابق احکام کی تدوین کی جائے تو یہ دراصل اسلامی شریعت کے احکام کی تدوین نہ ہوگی بلکہ ان کی تحریف ہوگی اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم درحقیقت اپنی معاشی زندگی میں اسلام سے مرتد ہو رہے ہیں۔ اس لیے کہ وہ طریقہ جس کی طرف یہ حضرات ہماری رہنمائی کر رہے ہیں اپنے مقاصد اور نظریات اور اصول و مبادی میں اسلامی طریقے سے کلی منافات رکھتا ہے۔ ان کا مقصود محض کسب مال ہے اور اسلام کا مقصود اکل حلال۔ ان کا منتہائے آمال(آرزو‘ خواہش) یہ ہے کہ انسان لکھ پتی اور کروڑ پتی بنے، عام اس سے کہ جائز ذرائع سے بنے یا ناجائز ذرائع سے۔ مگر اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسان جو کچھ کمائے جائز طریقے سے اور دوسروں کی حق تلفی کیے بغیر کمائے، خواہ لکھ پتی بن سکے یا نہ بن سکے۔ یہ لوگ کامیاب اس کو سمجھتے ہیں جس نے دولت حاصل کی۔ زیادہ سے زیادہ معاشی وسائل پر قابو پایا اور ان کے ذریعے سے آسائش، عزت ، طاقت اور نفوذ و اثر کا مالک ہوا۔ خواہ یہ کامیابی اس نے کتنی ہی خود غرضی، ظلم، شقاوت، جھوٹ، فریب اور بے حیائی سے حاصل کی ہو، اس کے لیے اپنے دوسرے ابنائے نوع کے حقوق پر کتنے ہی ڈاکے ڈالے ہوں اور اپنے ذاتی مفاد کے لیے دنیا میں شر و فساد، بداخلاقی اور فواحش پھیلانے اور نوعِ انسانی کو مادی، اخلاقی اور روحانی ہلاکت کی طرف دھکیلنے میں ذرّہ برابر دریغ نہ کیا ہو لیکن اسلام کی نگاہ میں کامیاب وہ ہے جس نے صداقت، امانت، نیک نیتی اور دوسروں کے حقوق و مفاد کی پوری نگہداشت کے ساتھ کسب معاش کی جدوجہد کی۔
اگر اس طرح کی جدوجہد میں کروڑ پتی بن گیا تو یہ اللہ کا انعام ہے‘ لیکن اگر اس کو تمام عمر صرف قُوت لایموت ہی پر زندگی بسر کرنی پڑی ہو اور اس کو پہننے کے لیے پیوند لگے کپڑوں اور رہنے کے لیے ایک ٹوٹی ہوئی جھونپڑی سے زیادہ کچھ نصیب نہ ہوا ہو تب بھی وہ ناکام نہیں۔ نقطۂ نظر کا یہ اختلاف ان لوگوں کو اسلام کے بالکل مخالف ایک دوسرے راستے کی طرف لے جاتا ہے جو خالص سرمایہ داری کا راستہ ہے۔ اس راستے پر چلنے کے لیے ان کو جن آسانیوں اور رخصتوں اور اباحتوں کی ضرورت ہے وہ اسلام میں کسی طرح نہیں مل سکتیں۔ اسلام کے اصول اور احکام کو کھینچ تان کر خواہ کتنا ہی پھیلا دیجیے مگر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ جس مقصد کے لیے یہ اصول اور احکام وضع ہی نہیں کیے گئے ہیں ان کی تحصیل کے لیے ان سے کوئی ضابطہ اور دستور العمل اخذ کیا جا سکے۔ پس جو شخص اس راستے پر جانا چاہتا ہو اس کے لیے تو بہتر یہی ہے کہ وہ دنیا کو اور خود اپنے نفس کو دھوکہ دینا چھوڑ دے اور اچھی طرح سمجھ لے کہ سرمایہ داری کے راستے پر چلنے کے لیے اس کو اسلام کے بجائے صرف مغربی یورپ اور امریکہ ہی کے معاشی اور مالی اصول و احکام کا اتباع کرنا پڑے گا۔
رہے وہ لوگ جو مسلمان ہیں اور مسلمان رہنا چاہتے ہیں، قرآن اور طریق محمدیa پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنی عملی زندگی میں اسی کا اتباع کرنا ضروری سمجھتے ہیں تو ان کو ایک جدید ضابطۂ احکام کی ضرورت دراصل اس لیے نہیں ہے کہ وہ نظام سرمایہ داری کے ادارات سے فائدہ اٹھا سکیں، یا ان کے لیے قانون اسلامی میں ایسی سہولتیں پیدا کی جائیں جن سے وہ کروڑ پتی تاجر، ساہو کار اور کارخانہ دار بن سکیں بلکہ ان کو ایسے ایک ضابطے کی ضرورت صرف اس لیے ہے کہ وہ جدید زمانے کے معاشی حالات اور مالی و تجارتی معاملات میں اپنے طرز عمل کو اسلام کے صحیح اصولوں پر ڈھال سکیں اور اپنے لین دین میں ان طریقوں سے بچ سکیں جو خدا کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہیں، اور جہاں دوسری قوموں کے ساتھ معاملات کرنے میں ان کو حقیقی مجبوریاں پیش آئیں۔ وہاں ان رخصتوں سے فائدہ اٹھا سکیں جو اسلامی شریعت کے دائرے میں ایسے حالات کے لیے نکل سکتی ہیں اس غرض کے لیے قانون کی تدوین جدید بلاشبہ ضروری ہے اور علمائے اسلام کا فرض ہے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کی سعی بلیغ کریں۔
اسلامی قانون میں تجدید کی ضرورت
اسلامی قانون کوئی ساکن اور منجمد (static) قانون نہیں ہے کہ ایک خاص زمانے اور خاص حالات کے لیے اس کو جس صورت پر مدوّن کیا گیا ہو اسی صورت پر وہ ہمیشہ قائم رہے اور زمانے اور حالات اور مقامات کے بدل جانے پر بھی اس صورت میں کوئی تغیر نہ کیا جا سکے۔ جو لوگ اس قانون کو ایسا سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں بلکہ ہم یہ کہیں گے کہ وہ اسلامی قانون کی روح ہی کو نہیں سمجھتے ہیں۔
اسلام میں دراصل شریعت کی بنیاد حکمت اور عدل پر رکھی گئی ہے۔ تشریع (قانون سازی) کا اصل مقصد بندگانِ خدا کے معاملات اور تعلقات کی تنظیم اس طور پر کرنا ہے کہ ان کے درمیان مزاحمت اور مقابلے (competition) کے بجائے تعاون اور ہمدردانہ اشتراک عمل ہو، ایک دوسرے کے متعلق ان کے فرائض اور حقوق ٹھیک ٹھیک انصاف اور توازن کے ساتھ مقرر کر دیے جائیں اور اجتماعی زندگی میں ہر شخص کو نہ صرف اپنی استعداد کے مطابق ترقی کرنے کے پورے مواقع ملیں بلکہ وہ دوسروں کی شخصیت کے نشوونما میں بھی مددگار ہو یا کم از کم ان کی ترقی میں مانع و مزاحم بن کر موجب فساد نہ بن جائے۔
اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے فطرتِ انسانی اور حقائق اشیا کے اس علم کی بنا پر جو اس کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے زندگی کے ہر شعبے میں چند ہدایات کو عملی زندگی میں نافذ کرکے ہمارے سامنے ایک نمونہ پیش کر دیا ہے۔ یہ ہدایات اگرچہ ایک خاص زمانے اور خاص حالات میں دی گئی تھیں اور ان کو ایک خاص سوسائٹی کے اندر نافذ کرایا گیا تھا، لیکن ان کے الفاظ سے اور ان طریقوں سے جو رسول اللہ a نے ان کو عملی جامہ پہنانے میں اختیار فرمائے تھے، قانون کے چند ایسے وسیع اور ہمہ گیر اصول نکلتے ہیں جو ہر زمانے اور ہر حالت میں انسانی سوسائٹی کی عادلانہ تنظیم کے لیے یکساں مفید اور قابل عمل ہیں۔
اسلام میں جو چیز اٹل اور ناقابل تغیر و تبدل ہے وہ یہی اصول ہیں۔ اب یہ ہر زمانے کے مجتہدین کا کام ہے کہ عملی زندگی میں جیسے جیسے حالات اور حوادث پیش آتے جائیں ان کے لیے شریعت کے اصولوں سے احکام نکالتے چلے جائیں اور معاملات میں ان کو اس طور پر نافذ کریں کہ شارع کا اصل مقصود پورا ہو۔ شریعت کے اصول جس طرح غیر متبدل ہیں اس طرح وہ قوانین غیر متبدل نہیں ہیں جن کو انسانوں نے ان اصولوں سے اخذ کیا ہے، کیونکہ وہ اصول خدا نے بنائے ہیں اور یہ قوانین انسانوں نے مرتب کیے ہیں ، وہ تمام از منہ و امکنہ اور احوال و حوادث کے لیے ہیں، اور یہ خاص حالات اور خاص حوادث کے لیے۔
تجدید کے لیے چند ضروری شرطیں
پس اسلام میں اس امر کی پوری وسعت رکھی گئی ہے کہ تغیر احوال اور خصوصیات حوادث کے لحاظ سے احکام میں اصول شرع کے تحت تغیر کیا جا سکے اور جیسی جیسی ضرورتیں پیش آتی جائیں ان کو پورا کرنے کے لیے قوانین مرتب کیے جا سکیں۔ اس معاملے میں ہر زمانے اور ہر ملک کے مجتہدین کو اپنے زمانی اور مکانی حالات کے لحاظ سے استنباط احکام اور تخریج مسائل کے پورے اختیارات حاصل ہیں اور ایسا ہرگز نہیں ہے کہ کسی خاص دور کے اہل علم کو تمام زمانوں اور تمام قوموں کے لیے وضع قانون کا چارٹر دے کر دوسروں کے اختیارات کو سلب کر لیا گیا ہو لیکن اس کے معنی یہ بھی نہیں ہیں کہ ہر شخص کو اپنے منشا اور اپنی اہوا کے مطابق احکام کو بدل ڈالنے اور اصول کو توڑ موڑ کر ان کی الٹی سیدھی تاویلیں کرنے اور قوانین کو شارع کے اصل مقصد سے پھیر دینے کی آزادی حاصل ہو۔ اس کے لیے بھی ایک ضابطہ ہے اور وہ چند شرائط پر مشتمل ہے۔
پہلی شرط ] مزاجِ شریعت کو سمجھنا[
فروعی قوانین مدوّ ن کرنے کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ مزاج شریعت کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ یہ بات صرف قرآن مجید کی تعلیم اور نبیa کی سیرت میں تدبر کرنے ہی سے حاصل ہو سکتی{ FR 2244 } ہے۔ ان دونوں چیزوں پر جس شخص کی نظر وسیع اور عمیق ہوگی وہ شریعت کا مزاج شناس ہو جائے گا اور ہر موقع پر اس کی بصیرت اس کو بتا دے گی کہ مختلف طریقوں میں سے کون سا طریقہ اس شریعت کے مزاج سے مناسب رکھتا ہے، اور کس طریقے کو اختیار کرنے سے اس کے مزاج میں بے اعتدالی پیدا ہو جائے گی۔ اس بصیرت کے ساتھ احکام میں جو تغیر و تبدل کیا جائے گا وہ نہ صرف مناسب اور معتدل ہوگا بلکہ اپنے محل خاص میں شارع کے اصل مقصد کو پورا کرنے کے لیے وہ اتنا ہی بجا ہوگا جتنا خود شارع کا حکم ہوتا۔
اس کی مثال میں بہت سے واقعات پیش کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً حضرت عمرؓ کا یہ حکم کہ دوران جنگ میں کسی مسلمان پر حد نہ جاری کی جائے،{ FR 2391 } اور جنگ قادسیہ میں حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کا ابومحجن ثقفیؓ کو شربِ خمر پر معاف کر دینا{ FR 2392 } اور حضرت عمرؓ کا یہ فیصلہ کہ قحط کے زمانے میں کسی سارق کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔{ FR 2393 } یہ امور اگرچہ بظاہر شارع کے صریح احکام کے خلاف معلوم ہوتے ہیں لیکن جو شخص شریعت کا مزاج داں ہے وہ جانتا ہے کہ ایسے خاص حالات میں حکم عام کے امتثال کو چھوڑ دینا مقصودِ شارع کے عین مطابق ہے۔ اسی قبیل سے وہ واقعہ ہے جو حاطبؓ بن ابی بلتعہ کے غلاموں کے ساتھ پیش آیا۔ قبیلہ مزینہ کے ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے شکایت کی کہ حاطب کے غلاموں نے اس کا اونٹ چرا لیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے پہلے تو ان کے ہاتھ کاٹے جانے کا حکم دے دیا۔ پھر فوراً ہی آپ کو تنبہ ہوا اور آپ نے فرمایا کہ تم نے ان غریبوں سے کام لیا مگر ان کو بھوکا مار دیا اور اس حال کو پہنچایا کہ اگر ان میں سے کوئی شخص حرام چیز کھا لے تو اس کے لیے جائز ہو جائے۔ یہ کہہ کر آپ نے ان غلاموں کو معاف کر دیا اور ان کے مالک سے اونٹ والے کو تاوان دلوایا۔{ FR 2394 } اسی طرح تطلیقات ثلاثہ کے مسئلے میں حضرت عمرؓ نے جو حکم صادر فرمایا وہ بھی عہد رسالت کے عمل درآمد سے مختلف تھا۔{ FR 2395 } مگر چونکہ احکام میں یہ تمام تغیرات شریعت کے مزاج کو سمجھ کر کیے گئے تھے اس لیے ان کو کوئی نامناسب نہیں کہہ سکتا۔ بخلاف اس کے جو تغیر اس فہم اور بصیرت کے بغیر کیا جاتا ہے وہ مزاج شرع میں بے اعتدالی پیدا کر دیتا ہے اور باعث فساد ہو جاتا ہے۔
دوسری شرط] حکم کی حکمت اور مصلحت کو سمجھنا[
مزاج شریعت کو سمجھنے کے بعد دوسری اہم شرط یہ ہے کہ زندگی کے جس شعبے میں قانون بنانے کی ضرورت ہو اس کے متعلق شارع کے جملہ احکام پر نظر ڈالی جائے اور ان میں غوروفکر کرکے یہ معلوم کیا جائے کہ ان سے شارع کا مقصد کیا ہے۔ شارع کس نقشے پر اس شعبے کی تنظیم کرنا چاہتا ہے، اسلامی زندگی کی وسیع تر اسکیم میں اس شعبہ خاص کا کیا مقام ہے اور اس مقام کی مناسبت سے اس شعبے میں شارع نے کیا حکمت عملی اختیار کی ہے۔ اس چیز کو سمجھے بغیر جو قانون بنایا جائے گا، یا پچھلے قانون میں جو حذف و اضافہ کیا جائے گا، وہ مقصود شارع کے مطابق نہ ہوگا اور اس سے قانون کا رخ اپنے مرکز سے منحرف ہو جائے گا۔
قانون اسلامی میں ظواہر احکام کی اہمیت اتنی نہیں ہے جتنی مقاصد احکام کی ہے۔ فقیہ کا اصل کام یہی ہے کہ شارع کے مقصود اور اس کی حکمت و مصلحت پر نظر رکھے۔ بعض خاص مواقع ایسے آتے ہیں جن میں اگر ظواہر احکام پر (جو عام حالات کو مدنظر رکھ کر دیے گئے تھے) عمل کیا جائے تو اصل مقصد فوت ہو جائے۔ ایسے وقت میں ظاہر کو چھوڑ کر اس طریق پر عمل کرنا ضروری ہے جس سے شارع کا مقصد پورا ہوتا ہو۔
قرآن مجید میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی جیسی کچھ تاکید کی گئی ہے معلوم ہے‘ نبیa نے بھی اس پر بہت زور دیا ہے مگر اس کے باوجود آپ نے ظالم و جابر امرا کے مقابلے میں خروج سے منع فرما دیا کیونکہ شارع کا اصل مقصد تو فساد کو صلاح سے بدلنا ہے۔ جب کسی فعل سے اور زیادہ فساد پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اور صلاح کی اُمید نہ ہو تو اس سے احتراز بہتر ہے۔
علامہ ابن تیمیہؒ کے حالات میں لکھا ہے کہ فتنہ تاتار کے زمانے میں ایک گروہ پر ان کا گزر ہوا جو شراب و کباب میں مشغول تھا۔ علامہ کے ساتھیوں نے ان لوگوں کو شراب سے منع کرنا چاہا مگر علامہ نے ان کو روک دیا اور فرمایا کہ اللہ نے شراب کو فتنہ و فساد کا دروازہ بند کرنے کے لیے حرام کیا ہے اور یہاں یہ حال ہے کہ شراب ان ظالموں کو ایک بڑے فتنے یعنی قتل نفوس اور نہب اموال سے روکے ہوئے ہے۔ لہٰذا ایسی حالت میں ان کو شراب سے روکنا مقصود شارع کے خلاف ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حوادث کی خصوصیات کے لحاظ سے احکام میں تغیر کیا جا سکتا ہے مگر تغیر ایسا ہونا چاہیے جس سے شارع کا اصل مقصد پورا ہو نہ کہ الٹا فوت ہو جائے۔
اسی طرح بعض احکام ایسے ہیں جو خاص حالات کی رعایت سے خاص الفاظ میں دیے گئے تھے۔ اب فقیہ کا کام یہ نہیں ہے کہ تغیر احوال کے باوجود انھی الفاظ کی پابندی کرے بلکہ اس کو ان الفاظ سے شارع کے اصل مقصد کو سمجھنا چاہیے اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے حالات کے لحاظ سے مناسب احکام وضع کرنے چاہییں۔ مثلاً نبیa نے صدقہ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو، یا ایک صاع کشمش دینے کا حکم فرمایا تھا۔{ FR 2396 } اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس وقت مدینہ میں جو صاع رائج تھا اور یہ اجناس جن کا حضورa نے ذکر فرمایا یہی بعینہٖ منصوص ہیں۔ شارع کا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ عید کے روز ہر مستطیع شخص اتنا صدقہ دے کہ اس کا ایک غیر مستطیع بھائی اس صدقے میں اپنے بال بچوں کے ساتھ کم از کم عید کا زمانہ خوشی کے ساتھ گزار سکے۔ اس مقصد کو کسی دوسری صورت سے بھی پورا کیا جاسکتا ہے جو شارع کی تجویز کردہ صورت سے اقرب ہو۔
تیسری شرط] قانون سازی کے اُصولوں کو سمجھنا[
پھر یہ بھی ضروری ہے کہ شارع کے اصول تشریع اور طرزِ قانون سازی کو خوب سمجھ لیا جائے تاکہ موقع و محل کے لحاظ سے احکام وضع کرنے میں انھی اصولوں کی پیروی اور اسی طرز کی تقلید کی جا سکے۔ یہ چیز اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ انسان مجموعی طور پر شریعت کی ساخت اور پھر فرداً فرداً اس کے احکام کی خصوصیات پر غور نہ کر لے۔ شارع نے کس طرح احکام میں عدل اور توازن قائم کیا ہے۔ کس کس طرح اس نے انسانی فطرت کی رعایت کی ہے۔ دفع مفاسد اور جلب مصالح کے لیے اس نے کیا طریقے اختیار کیے ہیں، کس ڈھنگ پر وہ انسانی معاملات کی تنظیم اور ان میں انضباط پیدا کرتا ہے، کس طریقے سے وہ انسان کو اپنے بلند مقاصد کی طرف لے جاتا ہے اور پھر ساتھ ساتھ اس کی فطری کمزوریوں کو ملحوظ رکھ کر اس کے راستے میں مناسب سہولتیں بھی پیدا کرتا ہے، یہ سب امور تفکر و تدبر کے محتاج ہیں اور ان کے لیے نصوص قرآنی کی لفظی و معنوی دلالتوں اور نبیa کے افعال و اقوال کی حکمتوں پر غور کرنا ضروری ہے۔ جو شخص اس علم اور تفقہ سے بہرہ ور ہو وہ موقع و محل کے لحاظ سے احکام میں جزوی تغیر و تبدل بھی کر سکتا ہے اور جن معاملات کے حق میں نصوص موجود نہیں ان کے لیے نئے احکام بھی وضع کر سکتا ہے کیونکہ ایسا شخص اجتہاد میں جو طریقہ اختیار کرے گا وہ اسلام کے اصول تشریع سے منحرف نہ ہوگا۔
مثال کے طور پر قرآن مجید میں صرف اہل کتاب سے جزیہ لینے کا حکم ہے۔ مگر اجتہاد سے کام لے کر صحابہ نے اس حکم کو عجم کے مجوسیوں، ہندوستان کے بت پرستوں اور افریقہ کے بربری باشندوں پر بھی وسیع کر دیا۔ اسی طرح خلفائے راشدین کے عہد میں جب ممالک فتح ہوئے تو غیر قوموں کے ساتھ بکثرت ایسے معاملات پیش آئے جن کے متعلق کتاب و سنت میں صریح احکام موجود نہ تھے۔ صحابہ کرام نے ان کے لیے خود ہی قوانین مدوّن کیے اور وہ اسلامی شریعت کی اسپرٹ اور اس کے اصول سے پوری مطابقت رکھتے تھے۔
چوتھی شرط] حالات کی تبدیلی کو سمجھنا[
احوال اور حوادث کے جو تغیرات احکام میں تغیر یا جدید احکام وضع کرنے کے لیے مقتضی ہوں ان کو دو حیثیتوں سے جانچنا ضروری ہے۔ ایک یہ حیثیت کہ وہ حالات بجائے خود کس قسم کے ہیں، ان کی خصوصیات کیا ہیں اور ان کے اندر کون سی قوتیں کام کر رہی ہیں۔ دوسری یہ حیثیت کہ اسلامی قانون کے نقطۂ نظر سے ان میں کس کس نوع کے تغیرات ہوئے ہیں اور ہر نوع کا تغیر احکام میں کس طرح کا تغیر چاہتا ہے۔
مثال کے طور پر اسی سود کے مسئلے کو لے لیجیے جو اس وقت زیر بحث ہے۔ معاشی قوانین کی تدوین جدید کے لیے ہم کو سب سے پہلے زمانہ حال کی معاشی دنیا کا جائزہ لینا ہوگا ہم گہری نظر سے معاشیات، مالیات اور لین دین کے جدید طریقوں کا مطالعہ کریں گے، معاشی زندگی کے باطن میں جو قوتیں کام کر رہی ہیں ان کو سمجھیں گے۔ ان کے نظریات اور اصول سے واقفیت حاصل کریں گے۔ اس کے بعد ہم یہ دیکھیں گے کہ زمانہ سابق کی بہ نسبت ان معاملات میں جو تغیرات ہوئے ہیں ان کو اسلامی قانون کے نقطۂ نظر سے کن اقسام پر منقسم کیا جا سکتا ہے اور ہر قسم پر شریعت کے مزاج اور اس کے مقاصد اور اصول تشریع کی مناسبت سے کس طرح احکام جاری ہونے چاہییں۔
جزئیات سے قطع نظر کرکے اصولاً ان تغیرات کو ہم دو قسموں پر منقسم کر سکتے ہیں۔
(۱) وہ تغیرات جو درحقیقت تمدنی احوال کے بدل جانے سے رونما ہوئے ہیں اور جو دراصل انسان کے علمی و عقلی نشو وارتقا اور خزائن الٰہی کے مزید اکتشافات اور مادّی اسباب و وسائل کی ترقی اور حمل و نقل اور مخابرات (communications) کی سہولتوں اور ذرائع پیداوار کی تبدیلی، اور بین الاقوامی تعلقات کی وسعتوں کے طبیعی نتائج ہیں۔ ایسے تغیرات اسلامی قانون کے نقطۂ نظر سے طبیعی اور حقیقی تغیرات ہیں۔ ان کو نہ تو مٹایا جا سکتا ہے اور نہ مٹانا مطلوب ہے، بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے اثر سے معاشی احوال اور مالی معاملات اور تجارتی لین دین کی جو نئی صورتیں پیدا ہوگئی ہیں، ان کے لیے اصولِ شریعت کے تحت نئے احکام وضع کیے جائیں تاکہ ان کے بدلے ہوئے حالات میں مسلمان اپنے عمل کو ٹھیک ٹھیک اسلامی طرز پر ڈھال سکیں۔
(۲) وہ تغیرات جو دراصل تمدنی ترقی کے فطری نتائج نہیں ہیں، بلکہ دنیا کے معاشی نظام اور مالی معاملات پر ظالم سرمایہ داروں کے حاوی ہو جانے کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں۔ وہی ظالمانہ سرمایہ داری جو عہد جاہلیت میں پائی جاتی تھی۔{ FR 2245 } اور جس کو اسلام نے صدیوں تک مغلوب کیے رکھا تھا، اب دوبارہ معاشی دنیا پر غالب آ گئی ہے اور تمدن کے ترقی یافتہ اسباب و وسائل سے کام لے کر اس نے اپنے انھی پرانے نظریات کو نت نئی صورتوں سے معاشی زندگی کے مختلف معاملات میں پھیلا دیا ہے۔
سرمایہ داری کے اس غلبے سے جو تغیرات واقع ہوئے ہیں وہ اسلامی قانون کی نگاہ میں حقیقی اور طبعی تغیرات نہیں ہیں بلکہ جعلی تغیرات ہیں جنھیں قوت سے مٹایا جا سکتا ہے اور جس کا مٹا دیا جانا نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے۔ مسلمان کا اصلی فرض یہ ہے کہ اپنی پوری قوت ان کے مٹانے میں صرف کر دے اور معاشی نظام کو اسلامی اصول پر ڈھالنے کی کوشش کرے۔ سرمایہ داری کے خلاف جنگ کرنے کا فرض کمیونسٹ سے بڑھ کر مسلمان پر عائد ہوتا ہے۔ کمیونسٹ کے سامنے محض روٹی کا سوال ہے اور مسلمان کے سامنے دین و اخلاق کا سوال۔ کمیونسٹ محض صعالیک (proletariates) کی خاطر جنگ کرنا چاہتا ہے اور مسلمان تمام نوع بشری کے حقیقی فائدے کے لیے جنگ کرتا ہے۔ جس میں خود سرمایہ دار بھی شامل ہیں۔ کمیونسٹ کی جنگ خود غرضی پر مبنی ہے اور مسلمان کی جنگ للہیت پر۔ لہٰذا مسلمان تو موجودہ ظالمانہ سرمایہ داری نظام سے کبھی مصالحت کر ہی نہیں سکتا۔ اگر وہ مسلم ہے اور اسلام کا پابند ہے تو اس کے خدا کی طرف سے اس پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اس ظالمانہ نظام کو مٹانے کی کوشش کرے اور اس جنگ میں جو ممکن نقصان اس کو پہنچ سکتا ہو اسے مردانہ وار برداشت کرے۔
معاشی زندگی کے اس شعبے میں اسلام جو قانون بھی بنائے گا اس کی غرض یہ ہرگز نہ ہوگی کہ مسلمانوں کے لیے سرمایہ داری نظام میں جذب ہونے اور اس کے ادارات میں حصہ لینے اور اس کی کامیابی کے اسباب فراہم کرنے میں سہولتیں پیدا کی جائیں، بلکہ اس کی واحد غرض یہ ہوگی کہ مسلمانوں کو اور تمام دنیا کو اس گندگی سے محفوظ رکھا جائے اور ان تمام دروازوں کو بند کیا جائے جو ظالمانہ اور ناجائز سرمایہ داری کو فروغ دیتے ہیں۔
تخفیفات کے عام اُصول
اسلامی قانون میں حالات اور ضروریات کے لحاظ سے احکام کی سختی کو نرم کرنے کی بھی کافی گنجائش رکھی گئی ہے۔ چنانچہ فقہ کے اصول میں سے ایک یہ بھی ہے الضَّرُوْرَاتُ تَبِیْحُ الْمَحْظُوْرَاتُ اور اَلْمُشَقّٰۃُ تَجْلِبُ التّٰیْسِیْرَ { FR 2246 } قرآن مجید اور احادیث نبوی میں بھی متعدد مواقع پر شریعت کے اس قاعدے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مثلاً۔
﴿لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۰ۭ ﴾ ( البقرہ286:2)
اللہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں ڈالتا۔
﴿يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۰ۡ﴾ ( البقرہ185:2)
اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے سختی نہیں کرنا چاہتا۔
﴿ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ۰ۭ ﴾ ( الحج10:22)
اس نے تم پر دین میں سختی نہیں کی ہے۔
﴿وَفِی الْحَدِیْثِ: اَحَبُّ الدِّیْنِ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی اَلْحَنِیْفَۃُ السَّمْحَۃُ{ FR 2397 } وَلاَ ضَرَرَ وَلاَ ضِرَارَ فِی الْاِسْلاَمِ۔﴾{ FR 2398 }
اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ دین وہ ہے جو سیدھا سادھا اور نرم ہو۔ اسلام میں ضرر اور ضرار نہیں ہے۔
پس یہ قاعدہ اسلام میں مسلم ہے کہ جہاں مشقت اور ضرر ہو وہاں احکام میں نرمی کر دی جائے لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہر خیالی اور وہمی ضرورت پر شریعت کے احکام اور خدا کی مقرر کردہ حدود کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔ اس کے لیے بھی چند اصول اور ضوابط ہیں جو شریعت کی تحقیقات پر غور کرنے سے بآسانی سمجھ آ سکتے ہیں:۔
اوّلاً یہ دیکھنا چاہیے کہ مشقت کس درجے کی ہے۔ مطلقاً ہر مشقت پر تو تکلیف شرعی رفع نہیں کی جا سکتی، ورنہ سرے سے کوئی قانون ہی باقی نہ رہے گا۔ جاڑے میں وضو کی تکلیف، گرمی میں روزے کی تکلیف، سفر حج اور جہاد کی تکالیف، یقینا یہ سب مشقت کی تعریف میں آتی ہیں، مگر یہ ایسی مشقتیں نہیں ہیں جن کی وجہ سے تکلیفات ہی کو سرے سے ساقط کر دیا جائے۔ تخفیف یا اسقاط کے لیے مشقت ایسی ہونی چاہیے جو موجب ضرر ہو مثلاً سفر کی مشکلات، مرض کی حالت، کسی ظالم کا جبر و اکراہ، تنگ دستی، کوئی غیر معمولی مصیبت، فتنہ عام یا کوئی جسمانی نقص۔ ایسے مخصوص حالات میں شریعت نے بہت سے احکام میں تخفیفات کی ہیں اور ان پر دوسری تخفیفات کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔
ثانیاً تخفیف اسی درجے کی ہونی چاہیے جس درجے کی مشقت اور مجبوری ہے، مثلاً جو شخص بیماری میں بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے اس کے لیے لیٹ کر پڑھنا جائز نہیں۔ جس بیماری کے لیے رمضان میں دس روزوں کا قضا کرنا کافی ہے اس کے لیے پورے رمضان کا افطار ناجائز ہے۔ جس شخص کی جان شراب کا ایک چلو پی کر یا حرام چیز کے ایک دو لقمے کھا کر بچ سکتی ہے وہ اس حقیقی ضرورت سے بڑھ کر پینے یا کھانے کا مجاز نہیں ہے۔ اسی طرح طبیب کے لیے جسم کے پوشیدہ حصوں میں سے جتنا دیکھنے کی واقعی ضرورت ہے اس سے زیادہ دیکھنے کا اس کو حق نہیں۔ اس قاعدے کے لحاظ سے تمام تخفیفات کی مقدار مشقت اور ضرورت کی مقدار پر مقرر کی جائے گی۔
ثالثاً کسی ضرر کو دفع کرنے کے لیے کوئی ایسی تدبیر اختیار نہیں کی جا سکتی جس میں اتنا ہی یا اس سے زیادہ ضرر ہو بلکہ صرف ایسی تدبیر کی اجازت دی جا سکتی ہے جس کا ضرر نسبتاً خفیف ہو۔ اسی کے قریب قریب یہ قاعدہ بھی ہے کہ کسی مفسدہ سے بچنے کے لیے اس سے بڑے یا اس کے برابر کے مفسدے میں مبتلا ہو جانا جائز نہیں۔ البتہ یہ جائز ہے کہ جب انسان دو مفسدوں میں گھر جائے اور کسی ایک میں مبتلا ہونا بالکل ناگزیر ہو تو بڑے مفسدے کو دفع کرنے کے لیے چھوٹے مفسدے کو اختیار کر لے۔
رابعاً جلب مصالح پر دفع مفاسد مقدم ہے، شریعت کی نگاہ میں بھلائیوں کے حصول اور مامورات و واجبات کے ادا کرنے کی بہ نسبت برائیوں کو دور کرنا اور حرام سے بچنا، اور فساد کو دفع کرنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اسی لیے وہ مشقت کے مواقع پر مامورات میں جس فیاضی کے ساتھ تخفیف کرتی ہے‘ اتنی فیاضی ممنوعات کی اجازت دینے میں نہیں برتتی، سفر اور مرض کی حالتوں میں، نماز روزے اور دوسرے واجبات کے معاملے میں جتنی تخفیفیں کی گئی ہیں اتنی تخفیفیں ناپاک اور حرام چیزوں کے استعمال میں نہیں کی گئیں۔
خامساً، مشقت یا ضرر کے زائل ہوتے ہی تخفیف بھی ساقط ہو جاتی ہے، مثلاً بیماری دفع ہو جانے کے بعد تیمم کی اجازت باقی نہیں رہتی۔
مسئلہ سود میں شریعت کی تخفیفات
مذکورہ بالا قواعد کو ذہن نشین کر لینے کے بعد غور کیجیے کہ موجودہ حالات میں سود کے مسئلے میں احکام شریعت کے اندر کس حد تک تخفیف کی جا سکتی ہے۔
(۱) سود لینے اور سود دینے کی نوعیت یکساں نہیں ہے۔ سود پر قرض لینے کے لیے تو انسان بعض حالات میں مجبور ہو سکتا ہے لیکن سود کھانے کے لیے درحقیقت کوئی مجبوری پیش نہیں آ سکتی۔ سود تو وہی لے گا جو مال دار ہو‘ اور مال دار کو ایسی کیا مجبوری پیش آ سکتی ہے جس میں اس کے لیے حرام حلال ہو جائے۔
(۲) سودی قرض لینے کے لیے بھی ہر ضرورت مجبوری کی تعریف میں نہیں آتی۔ شادی بیاہ اور خوشی و غمی کی رسموں میں فضول خرچی کرنا کوئی حقیقی ضرورت نہیں ہے۔ موٹر خریدنا یا مکان بنانا کوئی واقعی مجبوری نہیں ہے۔ عیش و عشرت کے سامان فراہم کرنا، یا کاروبار کو ترقی دینے کے لیے روپیہ فراہم کرنا کوئی ضروری امر نہیں ہے۔ یہ اور ایسے ہی دوسرے امور جن کو ’’ضرورت‘‘ اور ’’مجبوری‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور جن کے لیے مہاجنوں سے ہزاروں روپے قرض لیے جاتے ہیں۔ شریعت کی نگاہ میں ان کی قطعاً کوئی وقعت نہیں اور ان اغراض کے لیے جو لوگ سود دیتے ہیں وہ سخت گناہ گار ہیں۔
شریعت اگر کسی مجبوری پر سودی قرض لینے کی اجازت دے سکتی ہے تو وہ اس قسم کی مجبوری ہے جس میں حرام حلال ہو سکتا ہے یعنی کوئی سخت مصیبت جس میں سود پر قرض لیے بغیر کوئی چارہ نہ ہو، جان یا عزت پر آفت آ گئی ہو، یا کسی ناقابل برداشت مشقت یا ضرر کا حقیقی اندیشہ ہو۔ ایسی صورت میں ایک مجبور مسلمان کے لیے سودی قرض لینا جائز ہوگا۔ مگر وہ تمام ذی استطاعت مسلمان گناہ گار ہوں گے جنھوں نے اس مصیبت میں اپنے اس بھائی کی مدد نہ کی اور اس کو فعل حرام کے ارتکاب پر مجبور کر دیا بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اس گناہ کا وبال پوری قوم پر ہوگا کیونکہ اس نے زکوٰۃ و صدقات اور اوقاف کی تنظیم سے غفلت کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے افراد بے سہارا ہوگئے اور ان کے لیے اپنی ضرورتوں کے وقت ساہوکاروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کے سوا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا۔
(۳) شدید مجبوری کی حالت میں بھی صرف بقدر ضرورت قرض لیا جا سکتا ہے اور لازم ہے کہ استطاعت بہم پہنچتے ہی سب سے پہلے اس سے سبکدوشی حاصل کی جائے، کیونکہ ضرورت رفع ہو جانے کے بعد سود کا ایک پیسہ دینا بھی حرام مطلق ہے۔ یہ سوال کہ آیا ضرورت شدید ہے کہ نہیں اور اگر شدید ہے تو کس قدر ہے اور کس وقت وہ رفع ہوگئی، اس کا تعلق اس شخص کی عقل اور احساس دین داری سے ہے جو اس حالت میں مبتلا ہوا ہو۔ وہ جتنا زیادہ دین دار اور خدا ترس ہوگا اور اس کا ایمان جتنا زیادہ قوی ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ اس باب میں محتاط ہوگا۔
(۴) جو لوگ تجارتی مجبوریوں کی بنا پر یا اپنے مال کی حفاظت یا موجودہ انتشار قومی کی وجہ سے اپنے مستقبل کی طمانیت کے لیے بینکوں میں روپیہ جمع کرائیں، یا انشورنس کمپنی میں بیمہ کرائیں، یا جن کو کسی قاعدے کے تحت پراویڈنٹ فنڈ میں حصہ لینا پڑے۔ ان کے لیے لازم ہے کہ صرف اپنے رأس المال ہی کو اپنا مال سمجھیں اور اس راس المال سے بھی ڈھائی فیصدی سالانہ کے حساب سے زکوٰۃ ادا کریں کیونکہ اس کے بغیر وہ جمع شدہ رقم ان کے لیے ایک نجاست ہوگی۔ بشرطیکہ وہ خدا پرست ہوں، زر پرست نہ ہوں۔
(۵) بینک یا انشورنس کمپنی یا پراویڈنٹ فنڈ سے سود کی جو رقم ان کے حساب میں نکلتی ہو اس کو سرمایہ داروں کے پاس چھوڑ نا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ ان مفسدوں کے لیے مزید تقویت کی موجب ہوگی۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس رقم کو لے کر ان مفلس لوگوں پر خرچ کر دیا جائے جن کی حالت قریب قریب وہی ہے جس میں حرام کھانا انسان کے لیے جائز ہو جاتا ہے۔{ FR 2247 }
(۶) مالی لین دین اور تجارتی کاروبار میں جتنے منافع سود کی تعریف میں آتے ہوں، یا جن میں سود کا اشتباہ ہو، ان سب سے حتیٰ الامکان احتراز نہ ہو تو وہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو نمبر ۵ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں ایک ایمان دار مسلمان کی نظر جلب منفعت پر نہیں بلکہ دفع مفاسدپر ہونی چاہیے۔ اگر وہ خدا سے ڈرتا ہے اور یوم آخر پر اعتقاد رکھتا ہے تو حرام سے بچنا اور خدا کی پکڑ سے محفوظ رہنا اس کے لیے کاروبار کی ترقی اور مالی فوائد کے حصول سے زیادہ عزیز ہونا چاہیے۔
یہ تخفیفات صرف افراد کے لیے ہیں۔ اور بدرجہ آخر ان کو ایک قوم تک بھی اس حالت میں وسیع کیا جا سکتا ہے جب کہ وہ غیروں کی محکوم ہو اور اپنا نظام مالیات و معیشت خود بنانے پر قادر نہ ہو لیکن آزاد و خود مختار مسلمان قوم، جو اپنے مسائل خود حل کرنے کے اختیارات رکھتی ہو، سود کے معاملے میں کسی تخفیف کا مطالبہ اس وقت تک نہیں کر سکتی جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ سود کے بغیر مالیات اور بینکنگ اور تجارت و صنعت وغیرہ کا کوئی معاملہ چل ہی نہیں سکتا اور اس کا کوئی بدل ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ چیز اگر علمی اور عملی حیثیت سے غلط ہو اور فی الواقع ایک نظامِ مالیات سود کے بغیر نہایت کامیابی کے ساتھ بنایا اور چلایا جا سکتا ہو تو پھر مغربی سرمایہ داری کے طریقوں پر اصرار کیے چلے جانا بجز اس کے کوئی معنی نہیں رکھتا کہ خدا سے بغاوت کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
٭…٭…٭
اصلاح کی عملی صورت
اب ہمیں اس سوال پر بحث کرنی ہے کہ کیا فی الواقع سود کو ساقط کرکے ایک ایسا نظامِ مالیات قائم کیا جا سکتا ہے جو موجودہ زمانے میں ایک ترقی پذیر معاشرے اور ریاست کی ضروریات کے لیے کافی ہو۔
چند غلط فہمیاں
اس سوال پر گفتگو شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ بعض ایسی غلط فہمیوں کو صاف کر دیا جائے جو نہ صرف اس معاملے میں، بلکہ عملی اصلاح کے ہر معاملے میں لوگوں کے ذہنوں کو الجھایا کرتی ہیں۔
] غیر سودی نظام کا قابل ہونا[
سب سے پہلی غلط فہمی تو وہی ہے جس کی بنا پر مذکورہ بالا سوال پیدا ہوا ہے۔ پچھلے صفحات میں عقلی حیثیت سے بھی یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ سود ایک غلط چیز ہے اور نقلی حیثیت سے بھی اس کا ثبوت پیش کر دیا گیا ہے کہ خدا اور اس کے رسول نے ہر قسم کے سود کو حرام کیا ہے۔ یہ دونوں باتیں اگر مان لی جائیں تو اس کے بعد لوگوں کا پوچھنا کہ ’’کیا اس کے بغیر کام چل بھی سکتا ہے؟ اور کیا یہ قابل عمل بھی ہے؟‘‘ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا ہے کہ خدا کی اس خدائی میں کوئی غلطی ناگزیر بھی ہے اور کوئی راستی ناقابل عمل بھی پائی جاتی ہے۔ یہ دراصل فطرت اور اس کے نظام کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم ایک ایسے فاسد نظام کائنات میں سانس لے رہے ہیں جس میں ہماری بعض حقیقی ضرورتیں غلطیوں اور بدکاریوں سے وابستہ کر دی گئی ہیں۔ اور بعض بھلائیوں کے دروازے جان بوجھ کر ہم پر بند کر دیے گئے ہیں۔ یا اس سے بھی گزر کر یہ بات ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ فطرت خود اس قدر ٹیڑھی واقع ہوئی ہے کہ جو کچھ خود اس کے اپنے قوانین کی رُو سے غلط ہے وہی اس کے نظام میں مفید اور ضروری اور قابل عمل ہے اور جو کچھ اس کے قوانین کی رو سے صحیح ہے وہی اس کے نظام میں غیر مفید اور ناقابل عمل ہے۔
کیا واقعی ہماری عقل اور ہمارے علوم اور ہمارے تاریخی تجربات مزاج فطرت کو اسی بدگمانی کا مستحق ثابت کرتے ہیں؟ کیا یہ سچ ہے کہ فطرت بگاڑ کی حامی اور بناؤ کی دشمن ہے۔ اگر یہ بات ہے تب تو ہمیں اشیا کی صحت اور غلطی کے متعلق اپنی ساری بحثیں لپیٹ کر رکھ دینی چاہییں اور سیدھی طرح زندگی سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ کیونکہ اس کے بعد تو ہمارے لیے اُمید کی ایک کرن بھی اس دنیا میں باقی نہیں رہتی لیکن اگر ہماری اور کائنات کی فطرت اس سوئے ظن کے لائق نہیں ہے تو پھر ہمیں یہ اندازِ فکر چھوڑ دینا چاہیے کہ ’’فلاں چیز ہے تو بری مگر کام اسی سے چلتا ہے‘‘ اور ’’فلاں چیز ہے تو برحق مگر چلنے والی چیز نہیں ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جو طریقہ بھی رواج پا جاتا ہے‘ انسانی معاملات اسی سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور اس کو بدل کر کسی دوسرے طریقے کو رائج کرنا مشکل نظر آنے لگتا ہے۔ ہر رائج الوقت طریقے کا یہی حال ہے خواہ وہ طریقہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط۔ دشواری جو کچھ بھی ہے تغیر میں ہے اور سہولت کی اصل وجہ رواج کے سوا کچھ نہیں۔ مگر نادان لوگ اس سے دھوکا کھا کر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ جو غلطی رائج ہو چکی ہے انسانی معاملات بس اسی پر چل سکتے ہیں اور اس کے سوا دوسرا کوئی طریقہ قابل عمل ہی نہیں ہے۔
] تبدیلی کی دُشواری کی درست جانچ[
دوسری غلط فہمی اس معاملے میں یہ ہے کہ لوگ تغیر کی دشواری کے اصل اسباب کو نہیں سمجھتے اور خواہ مخواہ تغیر کے سر پر ناقابل عمل ہونے کا الزام تھوپنے لگتے ہیں۔ آپ انسانی سعی کے امکانات کا بہت ہی غلط اندازہ لگائیں گے اگر رائج الوقت نظام کے خلاف کسی تجویز کو بھی ناقابل عمل سمجھیں گے۔ جس دنیا میں انفرادی ملکیت کی تنسیخ اور اجتماعی ملکیت کی ترویج جیسی انتہائی انقلاب انگیز تجویز تک عمل میں لا کر دکھا دی گئی ہو وہاں یہ کہنا کس قدر لغو ہے کہ سود کی تنسیخ اور زکوٰۃ کی تنظیم جیسی معتدل تجویزیں قابل عمل نہیں ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ رائج الوقت نظام کو بدل کر کسی دوسرے نقشے پر زندگی کی تعمیر کرنا ہر عمر و زید کے بس کا کام نہیں ہے۔ یہ کام صرف وہ لوگ کر سکتے ہیں جن میں دو شرطیں پائی جاتی ہوں۔
ایک یہ کہ وہ فی الحقیقت پرانے نظام سے منحرف ہو چکے ہوں اور سچے دل سے اس تجویز پر ایمان رکھتے ہوں جس کے مطابق نظام زندگی میں تغیر کرنا پیش نظر ہے۔
دوسرے یہ کہ ان میں تقلیدی ذہانت کے بجائے اجتہادی ذہانت پائی جاتی ہو۔ وہ محض اس واجبی سی ذہانت کے مالک نہ ہوں جو پرانے نظام کو اس کے اماموں کی طرح چلالے جانے کے لیے کافی ہوتی ہے، بلکہ اس درجے کی ذہانت رکھتے ہوں جو پامال راہوں کو چھوڑ کر نئی راہ بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔
یہ دو شرطیں جن لوگوں میں پائی جاتی ہوں وہ کمیونزم اور نازی ازم اور فاشزم جیسے سخت انقلابی مسلکوں کی تجاویز تک عمل میں لا سکتے ہیں۔ اور ان شرطوں کا جن میں فقدان ہو وہ اسلام کے تجویز کیے ہوئے انتہائی معتدل تغیرات کو بھی نافذ نہیں کر سکتے۔
]نظریت اور عملیت میں توازن[
ایک چھوٹی سی غلط فہمی اس معاملے میں اور بھی ہے۔ تعمیری تنقید اور اصلاحی تجویز کے جواب میں جب عمل کا نقشہ مانگا جاتا ہے تو کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک عمل کی جگہ شاید کاغذ ہے۔ حالانکہ عمل کاغذ پر نہیں زمین پر ہوا کرتا ہے۔ کاغذ پر کرنے کا اصل کام تو صرف یہ ہے کہ دلائل اور شواہد سے نظامِ حاضر کی غلطیاں اور ان کی مضرتیں واضح کر دی جائیں اور ان کی جگہ جو اصلاحی تجویزیں ہم عمل میں لانا چاہتے ہیں ان کی معقولیت ثابت کر دی جائے۔ اس کے بعد جو مسائل عمل سے تعلق رکھتے ہیں ان کے بارے میں کاغذ پر اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا جا سکتا کہ لوگوں کو ایک عام تصور اس امر کا دیا جائے کہ پرانے نظام کے غلط طریقوں کو کس طرح مٹایا جا سکتا ہے۔ اور ان کی جگہ نئی تجویزیں کیوں کر عمل میں لائی جا سکتی ہیں۔ رہا یہ سوال کہ اس شکست و ریخت کی تفصیلی صورت کیا ہوگی اور اس کے جزوی مراحل کیا ہوں گے اور ہر مرحلے میں پیش آنے والے مسائل کو حل کیسے کیا جائے گا تو ان امور کو نہ تو کوئی شخص پیشگی جان سکتا ہے اور نہ ان کا کوئی جواب دے سکتا ہے۔ اگر آپ اس امر پر مطمئن ہو چکے ہوں کہ موجودہ نظام واقعی غلط ہے اور اصلاح کی تجویز بالکل معقول ہے تو عمل کی طرف قدم اٹھایئے اور زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیجیے جو ایمان اور اجتہادی ذہانت رکھتے ہوں پھر جو عملی مسئلہ جہاں پیدا ہوگا اسی جگہ وہ حل ہو جائے گا۔ زمین پر کرنے کا کام آخر کاغذ پر کرکے کیسے دکھایا جا سکتا ہے؟
اس توضیح کے بعد یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ اس باب میں جو کچھ ہم پیش کریں گے وہ غیر سودی مالیات کا کوئی تفصیلی نقشہ نہ ہوگا بلکہ اس چیز کا صرف ایک عام تصور ہوگا کہ سود کو اجتماعی مالیات سے خارج کرنے کی عملی صورت کیا ہو سکتی ہے اور وہ بڑے بڑے مسائل جو اخراجِ سود کا خیال کرتے ہی بادی النظر میں آدمی کے سامنے آ جاتے ہیں، کس طرح حل کیے جا سکتے ہیں۔
اصلاح کی راہ میں پہلا قدم
پچھلے ابواب میں سود کی خرابیوں پر جو تفصیلی بحث کی گئی ہے اس سے یہ بات صاف ہو چکی ہے کہ اجتماعی معیشت اور نظامِ مالیات میں یہ سب خرابیاں صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ قانون نے سود کو جائز کر رکھا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب ایک آدمی کے لیے سود کا دروازہ کھلا ہوا ہے تو وہ اپنے ہمسائے کو قرض حسن کیوں دے؟ اور ایک کاروباری آدمی کے ساتھ نفع و نقصان کی شرکت کیوں اختیار کرے؟ اور اپنی قومی ضروریات کی تکمیل کے لیے مخلصانہ اعانت کا ہاتھ کیوں بڑھائے؟ اور کیوں نہ اپنا جمع کیا ہوا سرمایہ ساہوکار کے حوالے کر دے جس سے اس کو گھر بیٹھے ایک لگا بندھا منافع ملنے کی امید ہو؟
آپ انسانی فطرت کے برے میلانات کو ابھرنے اور کھل کھیلنے کی کھلی چھٹی دے دینے کے بعد یہ توقع نہیں کر سکتے کہ نرے وعظ و تلقین اور اخلاقی اپیلوں کے ذریعے ہی سے آپ ان کے نشوونما اور نقصانات کو روک سکیں گے۔ پھر یہاں تو معاملہ صرف اس حد تک بھی محدود نہیں ہے کہ آپ نے ایک برے میلان کو محض کھلی چھٹی دے رکھی ہو۔ اس سے آگے بڑھ کر آپ کا قانون تو الٹا اس کا مددگار بنا ہوا ہے اور حکومت خود اس برائی پر اجتماعی مالیات کے نظام کو پال اور چلا رہی ہے۔ اس حالت میں آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی قسم کی جزوی ترمیمات اور فروعی اصلاحات سے اس کی برائیوں کا سدباب ہوسکے اگر ہو سکتا ہے تو صرف اس طرح کہ سب سے پہلے اس دروازے کو بند کیا جائے جس سے خرابی آ رہی ہے۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے کوئی غیر سودی نظامِ مالیات بن کر تیار ہو لے پھر سود یا تو آپ سے آپ بند ہو جائے گا یا اسے قانوناً بند کر دیا جائے گا، وہ درحقیقت گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنا چاہتے ہیں۔ جب تک سود ازروئے قانون جاری ہے جب تک عدالتیں سودی معاہدات کو تسلیم کرکے ان کو بزور نافذ کر رہی ہیں، جب تک ساہوکاروں کے لیے یہ دروازہ کھلا ہے کہ سود کا لالچ دے کر گھر گھر سے روپیہ اکٹھا کریں اور پھر آگے اسے سود پر چلائیں، اس وقت تک یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ غیر سودی نظامِ مالیات وجود میں آئے اور نشوونما پا سکے۔ لہٰذا اگر سود کی بندش اس امر پر موقوف ہے کہ پہلے ایسا کوئی مالی نظام پل کر جوان ہو لے جو موجودہ سودی نظام کی جگہ لے سکتا ہو تو یقین رکھیے کہ اس طرح قیامت تک سود کے بند ہونے کی نوبت نہیں آ سکتی۔ یہ کام تو جب کبھی کرنا ہو اسی طرح کرنا پڑے گا کہ اوّل قدم ہی پر سود کو ازروئے قانون بند کر دیا جائے۔ پھر خودبخود غیر سودی نظامِ مالیات پیدا ہو جائے گا اور ضرورت جو ایجاد کی ماں ہے، آپ سے آپ اس کے لیے ہر گوشے میں بڑھنے اور پھیلنے کا راستہ بناتی چلی جائے گی۔
سود نفس انسانی کی جن بری صفات کا نتیجہ ہے، ان کی جڑیں اس قدر گہری اور ان کے تقاضے اس قدر طاقت ور ہیں کہ ادھوری کارروائیوں اور ٹھنڈی تدبیروں سے کسی معاشرے میں اس بلا کا استیصال نہیں کیا جا سکتا۔ اس غرض کے لیے تو ضروری ہے کہ وہ ساری تدبیریں عمل میں لائی جائیں جو اسلام تجویز کرتا ہے اور اسی سرگرمی کے ساتھ اس کے خلاف نبرد آزمائی کی جائے جیسی کہ اسلام چاہتا ہے۔ اسلام سودی کاروبار کی محض اخلاقی مذمت پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ ایک طرف وہ اس کو مذہبی حیثیت سے حرام قرار دے کر اس کے خلاف شدید نفرت پیدا کرتا ہے۔
دوسری طرف جہاں جہاں اسلام کا سیاسی اقتدار اور حاکمانہ اثر و نفوذ قائم ہو وہاں وہ ملکی قانون کے ذریعے سے اس کو ممنوع قرار دیتا ہے، تمام سودی معاہدوں کو کالعدم ٹھیراتا ہے، سود لینے اور دینے اور اس کی دستاویز لکھنے اور اس پر گواہ بننے کو فوجداری جرم قابل دست اندازی پولیس قرار دیتا ہے اور اگر کہیں یہ کاروبار معمولی سزاؤں سے بند نہ ہو تو اس کے مرتکبین کو قتل اور ضبطی جائیداد تک کی سزائیں دیتا ہے۔
تیسری طرف وہ زکوٰۃ کو فرض قرار دے کر اور حکومت کے ذریعے سے اس کی تحصیل و تقسیم کا انتظام کرکے ایک دوسرے نظامِ مالیات کی داغ بیل ڈال دیتا ہے اور ان سب تدبیروں کے ساتھ وہ تعلیم و تربیت اور دعوت و تبلیغ کے ذریعے سے عامۃ الناس کی اصلاح بھی کرتا ہے تاکہ ان کے نفس میں وہ صفات اور رجحانات دب جائیں جو سود خواری کے موجب ہوتے ہیں۔ اور اس کے برعکس وہ صفات اور جذبات ان کے اندر نشوونما پائیں جن سے معاشرے میں ہمدردانہ و فیاضانہ تعاون کی روح جاری و ساری ہو سکے۔
اِنسدادِ سود کے نتائج
جو کوئی فی الواقع سنجیدگی و اخلاص کے ساتھ سود کا انسداد کرنا چاہتا ہو اسے یہ سب کچھ اسی طرح کرنا ہوگا۔ سود کی یہ قانونی بندش، جب کہ اس کے ساتھ زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کا اجتماعی نظام بھی ہو، مالیات کے نقطۂ نظر سے تین بڑے نتائج پر منتج ہوگی۔
] اجتماع سرمایہ کی فساد انگیز صورت کا خاتمہ[
(۱) اس کا اوّلین اور سب سے اہم نتیجہ یہ ہوگا کہ اجتماع سرمائے کی موجودہ فساد انگیز صورت ایک صحیح اور صحت بخش صورت سے بدل جائے گی۔
موجودہ صورت میں تو سرمایہ اس طرح جمع ہوتا ہے کہ ہمارا اجتماعی نظام بخل اور جمع مال کے اس میلان کو جوہر انسان کے اندر طبعاً تھوڑا بہت موجود ہے۔ اپنی مصنوعی تدبیروں سے انتہائی مبالغے کی حد تک بڑھا دیتا ہے۔ وہ اسے خوف اور لالچ، دونوں ذرائع سے اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ اپنی آمدنی کا کم سے کم حصہ خرچ اور زیادہ سے زیادہ حصہ جمع کرے۔ وہ اسے خوف دلاتا ہے کہ جمع کر کیونکہ پورے معاشرے میں کوئی نہیں ہے جو تیرے برے وقت پر کام آئے۔ وہ اسے لالچ دیتا ہے کہ جمع کر کیونکہ اس کا اجر تجھے سود کی شکل میں ملے گا۔ اس دوہری تحریک کی وجہ سے معاشرے کے وہ تمام افراد جو قدرِ کفاف سے کچھ بھی زائد آمدنی رکھتے ہیں، خرچ روکنے اور جمع کرنے پر تل جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منڈیوں میں اموال تجارت کی کھپت امکانی حد سے بہت کم ہوتی ہے اور آمدنیاں جتنی کم ہوتی جاتی ہیں، صنعت و تجارت کی ترقی کے امکانات بھی اس کے مطابق کم اور اجتماع سرمائے کے مواقع کم تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح چند افراد کے اندوختوں کا بڑھنا اجتماعی معیشت کے گھٹنے کا موجب ہوتا ہے۔ ایک آدمی ایسے طریقے سے اپنی پس انداز کی ہوئی رقموں میں اضافہ کرتا ہے جس سے ہزار آدمی سرے سے کچھ کمانے ہی کے قابل نہیں رہتے کجا کہ کچھ پس انداز کر سکیں۔
اس کے برعکس جب سود بند کر دیا جائے گا اور زکوٰۃ کی تنظیم کرکے ریاست کی طرف سے معاشرے کے ہر فرد کو اس امر کا اطمینان بھی دلا دیا جائے گا کہ برے وقت میں اس کی دست گیری کا انتظام موجود ہے تو بخل و زر اندوزی کے غیر فطری اسباب و محرکات ختم ہو جائیں گے۔ لوگ دل کھول کر خود بھی خرچ کریں گے اور نادار افراد کو بھی زکوٰۃ کے ذریعے سے اتنی قوت خریداری بہم پہنچا دیں گے کہ وہ خرچ کریں۔ اس سے صنعت و تجارت بڑھے گی۔ صنعت و تجارت کے بڑھنے سے روزگار بڑھے گا۔ روزگار بڑھنے سے آمدنیاں بڑھیں گی۔
ایسے ماحول میں اوّل تو صنعت و تجارت کا اپنا منافع ہی اتنا بڑھ جائے گا کہ اس کا خارجی سرمائے کی اتنی احتیاج باقی نہ رہے گی جتنی اب ہوتی ہے پھر جس حد تک بھی اسے سرمائے کی حاجت ہوگی وہ موجودہ حالت کی بہ نسبت بہت زیادہ سہولت کے ساتھ بہم پہنچ سکے گا۔ کیونکہ اس وقت پس انداز کرنے کا سلسلہ بالکل بند نہیں ہو جائے گا۔ جیسا کہ بعض لوگ گمان کرتے ہیں، بلکہ کچھ لوگ تو اپنی پیدائشی افتاد طبع کی بنا پر ہی اندوختہ کرتے رہیں گے اور بیشتر لوگ آمدنیوں کی کثرت اور معاشرے کی عام آسودگی کے باعث مجبوراً پس انداز کریں گے۔ا س وقت یہ پس اندازی کسی بخل یا خوف یا لالچ کی بنا پر نہ ہوگی، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہوگی کہ لوگ اپنی ضرورت سے زیادہ کمائیں گے، اسلام کی جائز کی ہوئی مداتِ خرچ میں خوب دل کھول کر خرچ کرنے کے باوجود ان کے پاس بہت کچھ بچ رہے گا، اس بچی ہوئی دولت کو لینے والا کوئی محتاج آدمی بھی ان کو نہ ملے گا، اس لیے وہ اسے ڈال رکھیں گے اور بڑی اچھی شرائط پر اپنی حکومت کو، اپنے ملک کی صنعت و تجارت کو اور ہمسایہ ملکوں تک کو سرمایہ دینے کے لیے آمادہ ہو جائیں گے۔
] معیشت کے لیے سرمایہ کی دستیابی[
(۲) دوسرا نتیجہ یہ ہوگا کہ جمع شدہ سرمایہ رکنے کے بجائے چلنے کی طرف مائل رہے گا اور اجتماعی معیشت کی کھیتیوں کو ان کی حاجت کے مطابق اور ضرورت کے موقع پر برابر ملتا چلا جائے گا۔ موجودہ نظام میں سرمائے کو کاروبار کی طرف جانے کے لیے جو چیز آمادہ کرتی ہے وہ سود کا لالچ ہے۔ مگر یہی چیز اس کے رُکنے کا سبب بھی بنتی ہے۔ کیونکہ سرمایہ اکثر اس انتظار میں ٹھیرا رہتا ہے کہ زیادہ شرح سود ملے تو وہ کام میں لگے۔ نیز یہی چیز سرمائے کے مزاج کو کاروبار کے مزاج سے منحرف بھی کر دیتی ہے۔ جب کاروبار چاہتا ہے کہ سرمایہ آئے تو سرمایہ اکڑ جاتا ہے اور اپنی شرائط سخت کرتا چلا جاتا ہے اور جب معاملہ برعکس ہوتا ہے تو سرمایہ کاروبار کے پیچھے دوڑتا ہے اور ہلکی شرائط پر ہر اچھے برے کام میں لگنے کو تیار ہو جاتا ہے لیکن جب سود کا دروازہ ازروئے قانون بند ہو جائے گا اور تمام جمع شدہ رقموں پر الٹی زکوٰۃ اڑھائی فیصدی سالانہ کے حساب سے لگنی شروع ہوگی تو سرمائے کی یہ بدمزاجی ختم ہو جائے گی۔ وہ خود اس بات کا خواہش مند ہوگا کہ معقول شرائط پر جلدی سے جلدی کسی کاروبار میں لگ جائے اور ٹھیرنے کے بجائے ہمیشہ کاروبار ہی میں لگا رہے۔
]کاروبار اور قرض کے لیے الگ الگ مالیات کی دستیابی[
(۳) تیسرا نتیجہ یہ ہوگا کہ کاروباری مالیات اور مالیاتِ قرض کی مدیں بالکل الگ ہو جائیں گی۔ موجودہ نظام میں تو سرمائے کی بہم رسانی زیادہ تر، بلکہ قریب قریب تمام تر ہوتی ہی صرف قرض کی صورت میں ہے۔ خواہ روپیہ لینے والا شخص یا ادارہ کسی نفع آور کام کے لیے لے یا غیر نفع آور کے لیے، اور خواہ کسی عارضی ضرورت کے لیے یا کسی طویل المدت تجویز کے لیے، ہر صورت میں سرمایہ صرف ایک یہ شرط پر ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک مقرر شرح سود پر اسے قرض حاصل کیا جائے لیکن جب سود ممنوع ہو جائے گا تو قرض کی مد صرف غیر نفع آور اغراض کے لیے، یا جہاں تک کاروبار کا تعلق ہے، عارضی ضروریات کے لیے مخصوص ہو جائے گی، اور اس کا انتظام قرض حسن کے اصول پر کرنا ہوگا۔ رہیں دوسری اغراض، خواہ وہ صنعت و تجارت وغیرہ سے متعلق ہوں یا حکومتوں اور پبلک اداروں کی نفع بخش تجویزوں سے متعلق، ان سب کے لیے سرمائے کی فراہمی قرض کے بجائے مضاربت (حصّے داری) (profit sharing) کے اصول پر ہوگی۔
اب ہم اختصار کے ساتھ بتائیں گے کہ غیر سودی نظام مالیات میں یہ دونوں شعبے کس طرح کام کر سکتے ہیں۔
غیر سودی مالیات میں فراہمی قرض کی صورتیں
پہلے قرض کے شعبے کو لیجیے، کیونکہ لوگ سب سے بڑھ کر جس شک میں مبتلا ہیں وہ یہی ہے کہ سود کے بند ہو جانے سے قرض ملنا بھی بند ہو جائے گا۔ لہٰذا پہلے ہم یہی دکھائیں گے کہ اس ناپاک رکاوٹ کے دور ہو جانے سے قرض کی فراہمی صرف یہی نہیں کہ بند ہوگی بلکہ موجودہ حالت سے زیادہ آسان ہوگی اور بدرجہا زیادہ بہتر صورت اختیار کر لے گی۔
شخصی حاجات کے لیے
موجودہ نظام میں شخصی حاجات کے لیے فراہمی قرض کی صرف ایک ہی صورت ہے، اور وہ یہ ہے کہ غریب آدمی مہاجن سے اور صاحب جائیداد آدمی بینک سے سودی قرض حاصل کرے۔ دونوں صورتوں میں ہر طالب قرض کو ہر غرض کے لیے ہر مقدار میں روپیہ مل سکتا ہے اگر وہ مہاجن یا بینکر کو اصل و سود کے ملتے رہنے کا اطمینان دلا سکتا ہو، قطع نظر اس سے کہ وہ گناہ گاریوں کے لیے لینا چاہتا ہو یا فضول خرچیوں کے لیے یا حقیقی ضرورتوں کے لیے۔ بخلاف اس کے کوئی طالب ِ قرض کہیں سے ایک پیسہ نہیں پا سکتا اگر وہ اصل سود کے ملنے کا اطمینان نہ دلا سکتا ہو، چاہے اس کے گھر ایک مردہ لاش ہی بے گوروکفن کیوں نہ پڑی ہو۔ پھر موجودہ نظام میں کسی غریب کی مصیبت اور کسی امیر زادے کی آوارگی، دونوں ہی ساہو کار کے لیے کمائی کے بہترین مواقع ہیں اور اس خود غرضی کے ساتھ سنگ دلی کا یہ حال ہے کہ جو شخص سودی قرض کے جال میں پھنس چکا ہے اس کے ساتھ نہ سود کی تحصیل میں کوئی رعایت ہے نہ اصل کی بازیافت میں۔ کوئی یہ دیکھنے کے لیے دل ہی نہیں رکھتا کہ جس شخص سے ہم اصل و سود کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ کم بخت کس حال میں مبتلا ہے … یہ ہیں وہ ’’آسانیاں‘‘ جو موجودہ نظام شخصی حاجات میں فراہمی قرض کے لیے بہم پہنچاتا ہے۔ اب دیکھیے کہ اسلام کا غیر سودی صدقاتی نظام اس چیز کا انتظام کس طرح کرے گا۔
اوّل تو اس نظام میں فضول خرچیوں اور گناہ گاریوں کے لیے قرض کا دروازہ بند ہو جائے گا کیونکہ وہاں سود کے لالچ میں بے جا قرض دینے والا کوئی نہ ہوگا۔ اس حالت میں قرض کا سارا لین دین آپ سے آپ صرف معقول ضروریات تک محدود ہو جائے گا اور اتنی ہی رقمیں لی اور دی جائیں گی جو مختلف انفرادی حالات میں صریح طور پر مناسب نظر آئیں گی۔
پھر چونکہ اس نظام میں قرض لینے والے سے کسی نوعیت کا فائدہ اٹھانا قرض دینے والے کے لیے جائز نہ ہوگا اس لیے قرضوں کی واپسی زیادہ سے زیادہ آسان ہو جائے گی۔ کم سے کم آمدنی رکھنے والا بھی تھوڑی تھوڑی قسطیں دے کر بار قرض سے جلدی اور آسانی سے سبکدوش ہو سکے گا۔ جو شخص کوئی زمین یا مکان یا اور کسی قسم کی جائیداد رہن رکھے گا اس کی آمدنی سود میں کھپنے کے بجائے اصل میں وضع ہوگی اور اس طرح جلدی سے جلدی رقم قرض کی بازیافت ہو جائے گی۔ اتنی آسانیوں کے باوجود اگر شاذونادر کسی معاملے میں کوئی قرض ادا ہونے سے رہ جائے گا تو بیت المال ہر آدمی کی پشت پر موجود ہوگا جو ادائیگی قرض میں اس کی مدد کرے گا اور بالفرض اگر مدیون کچھ چھوڑے بغیر مر جائے گا تب بھی بیت المال اس کا قرض ادا کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔ ان وجوہ سے خوش حال و ذی استطاعت لوگوں کے لیے اپنے کسی حاجت مند ہمسائے کی ضرورت کے موقع پر اسے قرض دینا اتنا مشکل اور ناگوار نہ رہے گا جتنا اب موجودہ نظام میں ہے۔
اس پر بھی اگر کسی بندۂ خدا کو اس کے محلے یا بستی سے قرض نہ ملے گا تو بیت المال کا دروازہ اس کے لیے کھلا ہوگا۔ وہ جائے گا اور وہاں سے بآسانی قرض حاصل کر لے گا ‘ لیکن یہ واضح رہنا چاہیے کہ بیت المال سے استمداد ان اغراض کے لیے آخری چارہ کار ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے شخصی حاجات میں ایک دوسرے کو قرض دینا معاشرے کے افراد کا اپنا فرض ہے اور ایک معاشرے کی صحت مندی کا معیار یہی ہے کہ اس کے افراد اپنی اس طرح کی اخلاقی ذمہ داری کو خود ہی محسوس اور ادا کرتے رہیں۔ اگر کسی بستی کا کوئی باشندہ اپنے ہمسایوں سے قرض نہیں پاتا اور مجبور ہو کر بیت المال کی طرف رجوع کرتا ہے تو یہ صریحاً اس بات کی علامت ہے کہ اس بستی کی اخلاقی آب و ہوا بگڑی ہوئی ہے۔ اس لیے جس وقت اس قسم کا کوئی معاملہ بیت المال میں پہنچے گا تو وہاں صرف اس طالب قرض کی حاجت پوری کرنے ہی پر اکتفا نہ کیا جائے گا بلکہ فوراً اخلاقی حفظانِ صحت کے محکمے کو اس ’’واردات‘‘ کی اطلاع دی جائے گی اور وہ اسی وقت اس بیمار بستی کی طرف توجہ کرے گا جس کے باشندے اپنے ایک ہمسائے کی ضرورت کے وقت اس کے کام نہ آئے۔ اس طرح کے کسی واقعے کی اطلاع ایک صالح اخلاقی نظام میں وہی اضطراب پیدا کرے گی جو ہیضے یا طاعون کے کسی واقعے کی اطلاع ایک مادہ پرست نظام میں پیدا کیا کرتی ہے۔
شخصی حاجات کے لیے قرض فراہم کرنے کی ایک اور صورت بھی اسلامی نظام میں اختیار کی جا سکتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ تمام تجارتی کمپنیوں اور کاروباری اداروں پر ان کے ملازموں اور مزدوروں کے جو کم سے کم حقوق ازروئے قانون مقرر کیے جائیں ان میں ایک حق یہ بھی ہو کہ وہ ان کی غیرمعمولی ضرورت کے مواقع پر ان کو قرض دیا کریں۔ نیز حکومت خود بھی اپنے اوپر اپنے ملازموں کا یہ حق تسلیم کرے اور اس کو فیاضی کے ساتھ ادا کرے۔ یہ معاملہ حقیقت میں صرف اخلاقی نوعیت ہی نہیں رکھتا بلکہ اس کی معاشی و سیاسی اہمیت ہے۔ آپ اپنے ملازموں اور مزدوروں کے لیے غیر سودی قرض کی سہولت بہم پہنچائیں گے تو صرف ایک نیکی ہی نہیں کریں گے بلکہ ان اسباب میں سے ایک بڑے سبب کو دور کر دیں گے جو آپ کے کارکنوں کو فکر، پریشانی، خستہ حالی، جسمانی آزار اور مادّی بربادی میں مبتلا کرتے ہیں۔ ان بلاؤں سے ان کی حفاظت کیجیے۔ ان کی آسودگی ان کی قوت کار بڑھائے گی اور ان کا اطمینان انھیں فساد انگیز فلسفوں سے بچائے گا۔ اس کا نفع بہی کھاتے کی رُو سے چاہے کچھ نہ ہو لیکن کسی کو عقل کی بینائی میسر ہو تو وہ بآسانی دیکھ سکتا ہے کہ مجموعی طور پر پورے معاشرے ہی کے لیے نہیں، بلکہ فرداً فرداً ایک ایک سرمایہ دار کارخانہ دار کے لیے اور ایک ایک معاشی و سیاسی ادارے کے لیے اس کا نفع اس سود سے بہت زیادہ قیمتی ہوگا جو آج مادّہ پرست نظام میں محض احمقانہ تنگ نظری کی بنا پر وصول کیا جا رہا ہے۔
کاروباری اغراض کے لیے
اس کے بعد ان قرضوں کا معاملہ لیجیے جو کاروباری لوگوں کو اپنی آئے دن کی ضروریات کے لیے درکار ہوتے ہیں، موجودہ زمانے میں ان مقاصد کے لیے یا تو بینکوں سے براہ راست قلیل المدت قرضے … (short term loans)… حاصل کیے جاتے ہیں، یا پھر ہنڈیاں … (exchange)… بھنائی جاتی ہیں۔{ FR 2248 } اوردونوں صورتوں میں بینک ایک ہلکی سی شرح سود اس پر لگاتے ہیں۔ یہ تجارت کی ایک ایسی اہم ضرورت ہے جس کے بغیر کوئی کام آج نہیں چل سکتا۔ اس لیے جب کاروباری لوگ بندش سود کا نام سنتے ہیں تو انھیں سب سے پہلے جو فکر لاحق ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ پھر روزمرہ کی ان ضروریات کے لیے قرض کیسے ملے گا؟ اگر بینک کو سود کا لالچ نہ ہو تو آخر وہ کیوں ہمیں قرض دے گا اور کیوں ہماری ہنڈیاں بھنائے گا؟
لیکن سوال یہ ہے کہ جس بینک کے پاس تمام رقوم امانت (deposits) بلاسود جمع ہوں اور جس کے پاس خود ان تاجروں کا بھی لاکھوں روپیہ بلا سود رکھا رہتا ہو، وہ آخر کیوں نہ ان کو بلاسود قرض دے اور کیوں نہ ان کی ہنڈیاں بھنائے؟ وہ اگر سیدھی طرح اس پر راضی نہ ہوگا تو تجارتی قانون کے ذریعے سے اس کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنے کھاتے داروں (customers) کو یہ سہولت بہم پہنچائے۔ اس کے فرائض میں یہ چیز شامل ہونا چاہیے۔
درحقیقت اس کام کے لیے خود تاجروں کی اپنی رکھوائی ہوئی رقمیں ہی کافی ہو سکتی ہیں‘ لیکن ضرورت پڑ جانے پر کوئی مضائقہ نہیں اگر بینک اپنے دوسرے سرمائے میں سے بھی تھوڑا بہت اس غرض کے لیے استعمال کر لے۔
بہرحال اصولاً یہ بات بالکل واجبی بھی ہے کہ جو سود لے نہیں رہا ہے وہ سود دے کیوں؟ اور اجتماعی معیشت کے نقطۂ نظر سے یہ مفید بھی ہے کہ تاجروں کو اپنی روزمرّہ کی ضروریات کے لیے بلاسود قرض ملتا رہے۔
رہا یہ سوال کہ اگر اس لین دین میں بینک کو سود نہ ملے تو وہ اپنے مصارف کیسے پورے کرے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب چالو کھاتوں (current account) کی ساری رقمیں بینک کے پاس بلا سود رہیں گی تو اس کے لیے انھی رقموں میں سے دست گرداں قرضے بلا سود دینا کوئی نقصان دہ معاملہ نہ رہے گا۔ کیونکہ اس صورت میں حساب کتاب اور دفتر داری کے جو تھوڑے بہت مصارف بینک کو برداشت کرنے ہوں گے ان سے کچھ زیادہ ہی فوائد وہ ان رقموں سے حاصل کر لے گا جو اس کے پاس جمع ہوں گی۔ تاہم بالفرض یہ طریقہ قابل عمل نہ ہو تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ بینک اپنی اس طرح کی خدمات کے لیے ایک ماہوار یا ششماہی فیس اپنے تمام تجارت پیشہ کھاتے داروں پر عائد کر دے جو اس مد کے مصارف پورے کرنے کے لیے کافی ہو۔ سود کی بہ نسبت یہ فیس ان لوگوں کو زیادہ سستی پڑے گی اس لیے وہ بخوشی اسے گوارا کر لیں گے۔
حکومتوں کی غیر نفع آور ضروریات کے لیے
تیسری اہم مد ان قرضوں کی ہے جو حکومتوں کو بھی وقتی حوادث کے لیے، اور کبھی غیر نفع آور ملکی ضروریات کے لیے اور کبھی جنگ کے لیے لینے ہوتے ہیں۔ موجودہ نظامِ مالیات میں ان سب مقاصد کے لیے روپیہ تمام تر قرض، اور وہ بھی سودی قرض کی صورت میں حاصل ہوتا ہے لیکن اسلامی نظام مالیات میں یہ عین ممکن ہوگا کہ ادھر حکومت کی طرف سے ضرورت کا اظہار ہو اور ادھر قوم کے افراد اور ادارے خود لا لا کر چندوں کے ڈھیر اس کے سامنے لگا دیں۔ اس لیے کہ سود کی بندش اور زکوٰۃ کی تنظیم لوگوں کو اس قدر آسودہ اور مطمئن کر دے گی کہ اپنے اندوختے (savings) اپنی حکومت کو یوں ہی دے دینے میں کوئی تأمل نہ ہوگا۔ اس پر بھی اگر بقدر ضرورت روپیہ نہ ملے تو حکومت قرض مانگے گی اور لوگ دل کھول کر اسے قرض حسن دیں گے‘ لیکن اگر اس سے بھی ضروریات پوری نہ ہو سکیں، تو اسلامی حکومت اپنا کام چلانے کے لیے حسب ذیل طریقے اختیار کر سکتی ہے:۔
(۱) زکوٰۃ و خمس کی رقمیں استعمال کرے۔
(۲) تمام بینکوں سے ان کی رقوم امانت کا ایک مخصوص حصہ حکماً بطور قرض طلب کر لے جس کا اسے اتنا ہی حق پہنچتا ہے جتنا وہ افراد قوم سے لازمی فوجی خدمت … (conscriptions) طلب کرنے اور لوگوں سے ان کی عمارتیں اور موٹریں اور دوسری چیزیں بزور حاصل کرنے (requisition) کا حق رکھتی ہے۔
(۳) بدرجۂ آخر وہ اپنی ضرورت کے مطابق نوٹ چھاپ کر بھی کام چلا سکتی ہے جو دراصل قوم ہی سے قرض لینے کی ایک دوسری صورت ہے‘ لیکن یہ محض ایک آخری چارہ کار ہے جو بالکل ناگزیر حالات ہی میں اختیار کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی قباحتیں بہت زیادہ ہیں۔
بین الاقوامی ضروریات کے لیے
اب رہے بین الاقوامی قرضے، تو اس معاملے میں یہ تو بالکل ظاہر ہی ہے کہ موجودہ سود خوار دنیا میں ہم قومی ضرورت کے موقع پر کہیں سے ایک پیسہ بلا سود قرض پانے کی توقع نہیں کر سکتے۔ اس پہلو میں تو ہم کو تمام تر کوشش یہی کرنی ہوگی کہ ہم بیرونی قوموں سے کوئی قرض نہ لیں، کم از کم اس وقت تک تو ہرگز نہ لیں جب تک کہ ہم خود دوسروں کو اس امر کا نمونہ نہ دکھا دیں کہ ایک قوم اپنے ہمسایوں کو کس طرح بلاسود قرض دے سکتی ہے۔ رہا قرض دینے کا معاملہ تو جو بحث اس سے پہلے ہم کر چکے ہیں اس کے بعد شاید کسی صاحب نظر آدمی کو بھی یہ تسلیم کرنے میں تأمل نہ ہوگا کہ اگر ایک دفعہ ہم نے ہمت کرکے اپنے ملک میں ایک صالح مالی نظام بندش سود اور تنظیم زکوٰۃ کی بنیاد پر قائم کر لیا تو یقینا بہت جلد ہماری مالی حالت اتنی اچھی ہو جائے گی کہ ہمیں نہ صرف خود باہر سے قرض لینے کی حاجت نہ ہوگی بلکہ ہم اپنے گردوپیش کی حاجت مند قوموں کو بلاسود قرض دینے کے قابل ہو جائیں گے اور جس روز ہم یہ نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں گے وہ دن دورِ جدید کی تاریخ میں صرف مالی اور معاشی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ سیاسی اور تمدنی اور اخلاقی حیثیت سے بھی انقلاب انگیزدن ہوگا۔
اس وقت یہ امکان پیدا ہو جائے گا کہ ہمارا اور دوسری قوموں کا تمام لین دین غیر سودی بنیاد پر ہو۔ یہ بھی ممکن ہوگا کہ دنیا کی قومیں یکے بعد دیگرے باہم ایسے معاہدات طے کرنے شروع کر دیں کہ وہ ایک دوسرے سے سود نہیں لیں گی اور بعید نہیں کہ وہ دن بھی ہم دیکھ سکیں جب بین الاقوامی رائے عام سود خوری کے خلاف بالاتفاق اسی نفرت کا اظہار کرنے لگے جس کا اظہار ۱۹۴۵ء میں برٹین و دڈس کے معاملے پر انگلستان میں کیا گیا تھا۔ یہ محض ایک خیالی پلاؤ نہیں ہے، بلکہ فی الواقع آج بھی دنیا کے سوچنے والے دماغ یہ سوچ رہے ہیں کہ بین الاقوامی قرضوں پر سود لگنے سے دنیا کی سیاست اور معیشت، دونوں پر نہایت برے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔
اس طریقے کو چھوڑ کر اگر خوش حال ممالک اپنی فاضل دولت کے ذریعے سے خستہ حال اور آفت رسیدہ ممالک کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانے کی مخلصانہ و ہمدردانہ کوشش کریں تو اس کا دوہرا فائدہ ہوگا۔ سیاسی و تمدنی حیثیت سے بین الاقوامی بدمزگی بڑھنے کے بجائے محبت اور دوستی بڑھے گی۔ اور معاشی حیثیت ایک خستہ حال دیوالیہ ملک کا خون چوسنے کی بہ نسبت ایک خوش حال اور مال دار ملک کے ساتھ کاروبار کرنا بدرجہا زیادہ نافع ثابت ہوگا۔ یہ حکمت کی باتیں سوچنے والے سوچ رہے ہیں اور کہنے والے کہہ رہے ہیں لیکن ساری کسر بس اس بات کی ہے کہ دنیا میں کوئی حکیم قوم ایسی ہو جو پہلے اپنے گھر سے سود خوری کو مٹائے اور آگے بڑھ کر بین الاقوامی لین دین سے اس لعنت کو خارج کرنے کی عملاً ابتدا کر دے۔
نفع آور اغراض کے لیے سرمائے کی بہم رسانی
مالیات ِقرض کے بعد اب ایک نظریہ بھی دیکھ لیجیے کہ ہمارے پیش نظر نظام میں کاروباری مالیات کیا شکل اختیار کریں گے۔ اس سلسلے میں جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں، سود کا انسداد لوگوں کے لیے یہ دروازہ تو قطعی بند کر دے گا کہ وہ محنت اور خطرہ (risk) دونوں چیزوں سے بچ کر اپنے سرمائے کو تحفظ اور متعین منافع کی ضمانت کے ساتھ کسی کام میں لگا سکیں اور اسی طرح زکوٰۃ ان کے لیے اس دروازے کو بھی بند کر دے گی کہ وہ اپنا سرمایہ روک رکھیں اور اس پر مارِ زربن کر بیٹھ جائیں۔ مزید برآں ایک حقیقی اسلامی حکومت کی موجودگی میں لوگوں کے لیے عیاشیوں اور فضول خرچیوں کا دروازہ بھی کھلا نہ رہے گا کہ ان کی فاضل آمدنیاں ادھر بہ نکلیں۔ اس کے بعد لا محالہ ان تمام لوگوں کو جو ضرورت سے زائد آمدنی رکھتے ہوں تین راستوں میں سے کوئی ایک راستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔
] بچت کو رفاہِ عام کے کاموں میں خرچ کریں[
(۱) اگر وہ مزید آمدنی کے طالب نہ ہوں تو اپنی بچت کو رفاہ عام کے کاموں میں صرف کریں، خواہ اس کی صورت یہ ہو کہ وہ خود کسی کا رِ خیر پر اسے وقف کریں یا یہ ہو کہ قومی اداروں کو چندے اور عطیے دیں یا پھر یہ ہو کہ بے غرضانہ و مخلصانہ طریقے سے … اسلامی حکومت کے حوالے کر دیں تاکہ وہ اسے امور نافعہ اور ترقیاتِ عامہ اور اصلاح خلق کے کاموں پر صرف کرے۔ خصوصیت کے ساتھ آخری صورت کو لازماً ترجیح دی جائے گی اگر حکومت کا نظم و نسق ایسے کارکنوں کے ہاتھوں میں ہو جن کی دیانت اور فراست پر عموماً لوگوں کو بھروسہ ہو۔ اس طرح اجتماعی مصالح اور ترقی و بہبود کے کاموں کے لیے حکومت کو اور دوسرے اجتماعی اداروں کو سرمائے کی ایک کثیر مقدار ہمیشہ مفت ملتی رہے گی جس کا سود یا منافع تو درکنار اصل ادا کرنے کے لیے بھی عوام الناس پر ٹیکسوں کا کوئی بار نہ پڑ جائے گا۔
] بچت کو بینک میں بلاسود قرض کی صورت میں جمع کروائیں[
(۲) اگر وہ مزید آمدنی کے طالب تو نہ ہوں، لیکن اپنی زائد از ضرورت دولت کو اپنے لیے محفوظ رکھنا چاہتے ہوں تو اسے بینک میں جمع کرا دیں اور بینک اس کو امانت میں رکھنے کے بجائے اپنے ذمے قرض قرار دے۔ اس صورت میں بینک اس بات کا ضامن ہوگا کہ ان کی جمع کردہ رقم عند الطلب، یا طے شدہ وقت پر انھیں واپس کر دے اور اس کے ساتھ بینک کو یہ حق ہوگا کہ قرض کی اس رقم کو کاروبار میں لگائے اور اس کا منافع حاصل کرے۔ اس منافع میں سے کوئی حصہ اسے کھاتے داروں کو دینا نہ ہوگا، بلکہ وہ کلیتاً بینک کا اپنا منافع ہوگا۔ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی تجارت بہت بڑی حد تک اسی اسلامی اصول کی رہین منت تھی۔ ان کی دیانت اور غیر معمولی ساکھ کی وجہ سے لوگ اپنا روپیہ ان کے پاس حفاظت کے لیے رکھواتے تھے۔ امام صاحب اس روپے کو امانت میں رکھنے کے بجائے قرض کے طور پر لیتے اور اسے اپنے تجارتی کاروبار میں استعمال کرتے تھے۔ ان کے سوانح نگاروں کا بیان ہے کہ ان کی وفات کے وقت جب حساب کیا گیا تو ان کی فرم میں پانچ کروڑ درہم کا سرمایہ اسی قاعدے کے مطابق لوگوں کی رکھوائی رقوم کا لگا ہوا تھا۔{ FR 2399 } اسلامی اصول یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے پاس امانت رکھوائے تو امین اسے استعمال نہیں کر سکتا مگر امانت ضائع ہو جائے تو اس پر کوئی ضمان عائد نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس اگر وہی مال قرض کے طور پر دیا جائے تو مدیون اسے استعمال کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق دار ہے اور وقت پر قرض ادا کرنے کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔{ FR 2400 } اسی قاعدے پر اب بھی بینک عمل کر سکتے ہیں۔
] بچت کو مضاربت یا شراکت میں لگائیں[
(۳) اور اگر وہ اپنی پس انداز رقموں کو کسی نفع آور کام میں لگانے کے خواہش مند ہوں تو ان کے لیے اس چیز کے حصول کا صرف ایک راستہ کھلا ہوگا یہ کہ اپنی بچائی ہوئی رقموں کو مضاربت یا نفع و نقصان میں متناسب شرکت کے اصول پر نفع بخش کاموں میں لگائیں، خواہ حکومت کے توسط سے یا بینکوں کے توسط سے۔
خود لگانا چاہیں گے تو ان کو کسی کاروبار میں شرکت کی شرائط آپ طے کرنی ہوں گی جن میں ازروئے قانون اس امر کا تعین ضروری ہوگا کہ فریقین کے درمیان نفع و نقصان کی تقسیم کس تناسب سے ہوگی علیٰ ہذا القیاس مشترک سرمائے کی کمپنیوں میں بھی شرکت کی صورت صرف یہی ایک ہوگی کہ سیدھے سادھے حصے خرید لیے جائیں، بانڈ اور ڈبنچر اور اس طرح کی دوسری چیزیں جن کے خریدار کو کمپنی سے ایک لگی بندھی آمدنی ملتی ہے، سرے سے موجود ہی نہ ہوں گی۔
حکومت کے توسط سے لگانا چاہیں گے تو انھیں امور نافعہ سے متعلق حکومت کی کسی اسکیم میں حصّے دار بننا ہوگا۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ حکومت برق آبی کی کوئی تجویز عمل میں لانا چاہتی ہے۔ وہ اس کا اعلان کرکے پبلک کواس میں شرکت کی دعوت دے گی جو اشخاص، یا ادارے یا بینک اس میں سرمایہ دیں گے وہ حکومت کے ساتھ اس کے حصّے دار بن جائیں گے اور اس کے کاروباری منافع میں سے ایک طے شدہ تناسب کے مطابق حصہ پاتے رہیں گے۔ نقصان ہوگا تو اس کا بھی متناسب حصہ ان سب پر اور حکومت پر تقسیم ہو جائے گا اور حکومت اس امر کی بھی حق دار ہوگی کہ ایک ترتیب کے ساتھ بتدریج لوگوں کے حصے خود خریدتی چلی جائے یہاں تک کہ چالیس پچاس سال میں برق آبی کا وہ پورا کام خالص سرکاری مِلک بن جائے۔
مگر موجودہ نظام کی طرح اس نظام میں بھی سب سے زیادہ قابل عمل اور مفید تیسری صورت ہی ہوگی۔ یعنی یہ کہ لوگ بینکوں کے توسط سے اپنا سرمایہ نفع بخش کاموں میں لگائیں۔ اس لیے ہم اس کو ذرا زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کرنا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کے سامنے اس امر کی صاف تصویر آ جائے کہ سود کو ساقط کرنے کے بعد بینکنگ کا کاروبار کس طرح چل سکتا ہے اور نفع کے طالب لوگ اس سے کس طرح متمتع ہو سکتے ہیں۔
بینکنگ کی اسلامی صورت
بینکنگ کے متعلق اس سے پہلے ہم نے جو بحث کی ہے اس کا یہ مطلب نہ تھا اور نہ ہو سکتا ہے کہ یہ کام سرے سے ہی غلط اور ناجائز ہے۔ دراصل بینکنگ بھی موجودہ تہذیب کی پرورش کی ہوئی بہت سی چیزوں کی طرح ایک ایسی اہم مفید چیز ہے جس کو صرف ایک شیطانی عنصر کی شمولیت نے گندا کر رکھا ہے۔ اوّل تو وہ بہت سی ایسی جائز خدمات انجام دیتا ہے جو موجودہ زمانے کی تمدنی زندگی اور کاروباری ضروریات کے لیے مفید بھی ہیں اور ناگزیر بھی۔ مثلاً رقموں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنا اور ادائیگی کا انتظام کرنا، بیرونی ممالک سے لین دین کی سہولتیں بہم پہنچانا، قیمتی اشیا کی حفاظت کرنا، اعتماد نامے (letter of credit) سفری چیک اور گشتی نوٹ جاری کرنا، کمپنیوں کے حصص کی فروخت کا انتظام کرنا اور بہت سی وکیلانہ خدمات (agency services) جنھیں تھوڑے سے کمیشن پر بینک کے سپرد کرکے آج ایک مصروف آدمی بہت سے جھنجھٹوں سے خلاصی پا لیتا ہے۔
یہ وہ کام ہیں جنھیں بہرحال جاری رہنا چاہیے اور ان کے لیے ایک مستقل ادارے کا ہونا ضروری ہے۔ پھر یہ بات بھی بجائے خود تجارت، صنعت، زراعت اور ہر شعبہ تمدن و معیشت کے لیے نہایت مفید اور آج کے حالات کے لحاظ سے نہایت ضروری ہے کہ معاشرے کا فاضل سرمایہ بکھرا ہوا رہنے کے بجائے ایک مرکزی ذخیرہ (reservoir) میں مجتمع ہو اور وہاں سے وہ زندگی کے ہر شعبے کو آسانی کے ساتھ ہر وقت ہر جگہ بہم پہنچ سکے۔
اس کے ساتھ عام افراد کے لیے بھی اس میں بڑی سہولت ہے کہ جو تھوڑا بہت سرمایہ ان کی ضرورت سے بچ رہتا ہے‘ اسے وہ کسی نفع بخش کام میں لگانے کے مواقع الگ الگ بطور خود ڈھونڈتے پھرنے کے بجائے سب اس کو ایک مرکزی ذخیرے میں جمع کرا دیا کریں اور وہاں ایک قابل اطمینان طریقے سے اجتماعی طور پر ان سب کے سرمائے کو کام پر لگانے اور حاصل شدہ منافع کو ان پر تقسیم کرنے کا انتظام ہوتا رہے۔
ان سب پر مزید یہ کہ مستقل طور پر مالیات (finance) ہی کا کام کرتے رہنے کی وجہ سے بینک کے منتظمین اور کارکنوں کو اس شعبہ فن میں ایک ایسی مہارت اور بصیرت حاصل ہو جاتی ہے جو تاجروں، صناعوں اور دوسرے معاشی کارکنوں کو نصیب نہیں ہوتی۔ یہ ماہرانہ بصیرت بجائے خود ایک نہایت قیمتی چیز ہے اور بڑی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ بشرطیکہ یہ محض ساہوکار کی خود غرضی کا ہتھیار بن کر نہ رہے بلکہ کاروباری لوگوں کے ساتھ تعاون میں استعمال ہو لیکن بینکنگ کی ان ساری خوبیوں اور منفعتوں کو جس چیز نے الٹ کر پورے تمدن کے لیے برائیوں اور مضرتوں سے بدل دیا ہے وہ سود ہے اور اس کے ساتھ دوسری بنائے فاسد یہ بھی شامل ہوگئی ہے کہ سود کی کشش سے جو سرمایہ کھچ کھچ کر بینکوں میں مرتکز ہوتا ہے وہ عملاً چند خود غرض سرمایہ داروں کی دولت بن کر رہ جاتا ہے جسے وہ نہایت دشمنِ اجتماع طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔ ان دو خرابیوں کو اگر دور کر دیا جائے تو بینکنگ ایک پاکیزہ کام بھی ہو جائے گا ، تمدن کے لیے موجودہ حالت کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ نافع بھی ہوگا اور عجب نہیں کہ خود ساہوکاروں کے لیے بھی سود خواری کی بہ نسبت یہ دوسرا پاکیزہ طریق کار مالی حیثیت سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہو۔
جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ انسداد سود کے بعد بینکوں میں سرمایہ اکٹھا ہونا ہی بند ہو جائے گا وہ غلطی پر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب سود ملنے کی توقع ہی نہ ہوگی تو لوگ کیوں اپنی فاضل آمدنیاں بینک میں رکھوائیں گے۔ حالانکہ اس وقت سود کی نہ سہی، نفع ملنے کی توقع ضرور ہوگی اور چونکہ نفع کا امکان غیر متعین اور غیر محدود ہوگا اس لیے عام شرح سود کی بہ نسبت کم نفع حاصل ہونے کا جس قدر امکان ہوگا اسی قدر اچھا خاصا زیادہ نفع ملنے کا امکان بھی ہوگا۔ اس کے ساتھ بینک وہ تمام خدمات بدستور انجام دیتے رہیں گے جن کی خاطر اب لوگ بینکوں کی طرف رجوع کیا کرتے ہیں لہٰذا یہ بالکل ایک یقینی بات ہے کہ جس مقدار میں اب سرمایہ بینکوں کے پاس آتا ہے اسی مقدار میں انسداد سود کے بعد بھی آتا رہے گا، بلکہ اس وقت چونکہ ہر طرح کے کاروبار کو زیادہ فروغ حاصل ہوگا، روزگار بڑھ جائے گا اور آمدنیاں بھی بڑھ جائیں گی، اس لیے موجودہ حالت کی بہ نسبت کہیں بڑھ چڑھ کر فاضل آمدنیاں بینکوں میں جمع ہوں گی۔
اس جمع شدہ سرمائے کا جس قدر حصہ چالو کھاتے یا عندالطلب کھاتے میں ہوگا، اس کو بینک کسی نفع بخش کام میں نہ لگا سکیں گے، جس طرح اب بھی نہیں لگا سکتے ہیں، اس لیے وہ زیادہ تردد بڑے کاموں میں استعمال ہوگا۔ ایک روز مرّہ کا لین دین، دوسرے کاروباری لوگوں کو قلیل المدت قرضے بلاسود دینا اور ہنڈیاں بلا سود بھنانا۔
رہا سرمایہ جو لمبی مدت کے لیے بینکوں میں رکھا جائے گا تو وہ لازماً دو ہی قسم کا ہوگا ایک وہ جس کے مالک صرف اپنے مال کی حفاظت چاہتے ہوں۔ ایسے لوگوں کے مال کو بینک قرض کے طور پر لے کر خود کاروبار میں استعمال کر سکیں گے ۔جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔ دوسرا وہ جس کے مالک اپنے مال کو بینکوں کے توسط سے کاروبار میں لگانا چاہتے ہوں۔ ان کے مال کو امانت میں رکھنے کے بجائے ہر بینک کو ان کے ساتھ ایک شراکت نامہ عام طے کرنا ہوگا۔ پھر بینک سرمائے کو اپنے دوسرے سرمایوں سمیت مضاربت کے اصول پر تجارتی کاروبار میں صنعتی سکیموں میں، زراعتی کاموں میں، اور پبلک اداروں اور حکومتوں کے نفع آور کاموں میں لگا سکیں گے اور اس سے بحیثیت مجموعی دو عظیم الشان فائدے ہوں گے۔ ایک یہ کہ ساہوکار کا مفاد کاروبار کے مفاد کے ساتھ متحد ہو جائے گا۔ اس لیے کاروبار کی ضرورت کے مطابق سرمایہ اس کی پشتیبانی کرتا رہے گا اور وہ اسباب قریب قریب ختم ہو جائیں گے جن کی بنا پر موجودہ سود خور دنیا میں کساد بازاری کے دورے پڑا کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ساہو کار کی مالیاتی بصیرت اور کاروباری لوگوں کی تجارتی و صنعتی بصیرت جو آج باہم نبرد آزمائی کرتی رہتی، اس وقت ایک دوسرے کے ساتھ دستیاری اور تعاون کریں گی اور یہ سب ہی کے لیے مفید ہوگا۔ پھر جو منافع ان ذرائع سے بینکوں کو حاصل ہوں گے ان کو وہ اپنے انتظامی مصارف نکالنے کے بعد، ایک مقرر تناسب کے مطابق اپنے حصّے داروں اور کھاتے داروں میں تقسیم کر دیں گے۔
اس معاملے میں فرق صرف یہ ہوگا کہ بحالت موجودہ منافع (dividends) حصّے داروں میں تقسیم ہوتے ہیں اور کھاتے داروں کو سود دے دیا جاتا ہے۔ اس وقت دونوں میں منافع ہی تقسیم ہوں گے۔ اب کھاتے داروں کو ایک متعین شرح کے مطابق سود ملا کرتا ہے۔ اس وقت شرح کا تعین نہ ہوگا بلکہ جتنے بھی منافع ہوں گے خواہ کم ہوں یا زیادہ، وہ سب ایک تناسب کے ساتھ تقسیم ہو جائیں گے۔ نقصان اور دیوالیے کا جتنا خطرہ اب ہے اتنا ہی اس وقت بھی ہوگا۔ اب خطرہ اور اس کے بالمقابل غیر محدود نفع کا امکان دونوں صرف بینک کے حصّے داروں کے لیے مخصوص ہیں۔ اس وقت یہ دونوں چیزیں کھاتے داروں اور حصّے داروں میں مشترک ہو جائیں گی۔
رہ گیا بینکنگ کا یہ نقصان کہ نفع کی کشش سے جو سرمایہ ان کے پاس اکٹھا ہوتا ہے اس کی مجتمع طاقت پر عملاً صرف چند ساہو کار قابض و متصرف ہوتے ہیں، تو اس کے لیے ہم کو یہ کرنا ہوگا کہ مرکزی ساہوکاری (central banking) کا سارا کام بیت المال یا اسٹیٹ بینک خود اپنے ہاتھ میں رکھے اور قوانین کے ذریعے سے تمام پرائیویٹ بینکوں پر حکومت کا اقتدار اور دخل و ضبط اس حد تک قائم کر دیا جائے کہ ساہوکار اپنی مالیاتی طاقت کا بے جا استعمال نہ کر سکیں۔
غیر سودی مالیات کا یہ مجمل نقشہ جو ہم نے پیش کیا ہے کیا اسے دیکھنے کے بعد بھی اس شبہے کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ سود کا انسداد قابل عمل نہیں ہے؟
٭…٭…٭
ضمیمہ نمبر (۱): کیا تجارتی قرضوں پر سود جائز ہے؟
(یہ وہ مراسلت ہے جو اس مسئلے پر جناب سید یعقوب شاہ صاحب سابق آڈیٹر جنرل حکومت پاکستان اور مصنف کے درمیان ہوئی تھی)
سوال: خاکسار نے جناب کی تصنیف ’’سود‘‘ کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ اس کے پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں چند سوالات پیدا ہوئے ہیں اور گو میں نے کافی کاوش کی ہے تاہم ان کا تسلی بخش جواب کہیں سے نہیں مل سکا۔ اس لیے اب آپ کو تکلیف دینے کی جرأت کرتا ہوں اور اُمید ہے کہ آپ ازراہِ کرم میری رہنمائی فرمائیں گے۔
(۱) جناب نے اپنی کتاب کے حصہ اول (طبع سوم) کے صفحہ ۳۵ پر زمانۂ جاہلیت کے ’’رِبا‘‘ کی جو مثالیں دی ہیں ان سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ آیا اس وقت کے لوگ تجارت کے لیے قرض لیتے تھے یا نہیں۔ جہاں تک میں معلوم کر سکا ہوں، کم از کم یورپ میں، قرض لے کر تجارت کرنا بہت بعد میں رواج میں آیا۔ اس سے پہلے تجارت نجی سرمائے سے یا مضاربت کے ذریعے ہوتی تھی۔ کیا جناب کسی ایسی مستند کتاب کا حوالہ عنایت فرمائیں گے جس سے معلوم ہو سکے کہ عرب میں تجارتی سود کا اس وقت رواج تھا کہ نہیں؟
(۱۱) اسی حصّے کے صفحہ ۱۶۹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ رِبا الفضل کی احادیث، تحریم سود کی آیت قرآن (سورۂ بقرہ) کے نزول سے پہلے کی ہیں۔ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہوگا کہ رِبا الفضل قرآنی حرمت اور قرآنی وعید کا حامل نہیں؟ یا بالفاظ سرسید احمد خاں صاحب ’’درحقیقت یہ معاملہ بیع فاسد کا ہے اور اس ربوٰ کی تفسیر میں داخل نہیں جس کا ذکر اس آیت میں ہے؟‘‘
امید ہے جناب والا میرے سوالات کا جواب عنایت فرما کر ممنون و مشکور فرمائیں گے۔
جواب: یہ بات کسی کتاب میں اس صراحت کے ساتھ تو نہیں لکھی گئی ہے کہ عرب جاہلیت میں ’’تجارتی سود‘‘ رائج تھا، لیکن اس امر کا ذکر ضرور ملتا ہے کہ مدینہ کے زراعت پیشہ لوگ یہودی سرمایہ داروں سے سود پر قرض لیا کرتے تھے، اور خود یہودیوں میں باہم بھی سودی لین دین ہوتا تھا۔ نیز قریش کے لوگ، جو زیادہ تر تجارت پیشہ تھے، سود پر قرض لیتے دیتے تھے۔ قرض کی ضرورت لازماً صرف نادار آدمیوں ہی کو اپنی ذاتی ضروریات پوری کرنے کے لیے پیش نہیں آتی بلکہ زراعت پیشہ افراد کو اپنے زرعی کاموں کے لیے اور سوداگر لوگوں کو اپنے کاروبار کے لیے بھی پیش آتی ہے، اور یہ آج کوئی نئی صورت نہیں ہے بلکہ قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے، اسی چیز نے رفتہ رفتہ ترقی کرکے وہ شکل اختیار کی ہے جو زمانۂ جدید میں پائی جاتی ہے۔ قدیم صورت زیادہ تر انفرادی لین دین تک محدود تھی، جدید صورت میں فرق صرف یہ ہوگیا کہ بڑے پیمانے پر قرض سے سرمایہ اکٹھا کرنے اور اسے کاروبار میں لگانے کا طریقہ رائج ہوگیا۔
رِبا الفضل کی احادیث سورۂ بقرہ والی آیت حرمت ِ سود سے تو پہلے کی ہیں، مگر سورئہ آل عمران والی آیت کے بعد کی ہیں۔ سورۂ آل عمران کی آیت نے قرآن کا یہ منشا واضح کر دیا تھا کہ سود ایک برائی ہے جس کو بالآخر مٹانا پیش نظر ہے۔ نبی a نے اسی کے لیے ماحول تیار کرنے کی خاطر معاشی معاملات میں وہ اصلاحات فرمائی تھیں جن کے لیے رِبا الفضل کا عنوان تجویز کیا گیا ہے۔ ان احادیث میں صاف طور پر لفظ رِبا استعمال ہوا ہے۔ اور ممانعت کے الفاظ خود اس کی حرمت پر دلالت کرتے ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ قرآن میں جس سود کی حرمت کا حکم دیا گیا ہے وہ قرض والا سود ہے نہ کہ دست بدست لین دین والا سود۔ اور فقہا نے یہ تصریح بھی کی ہے کہ رِبا الفضل بعینہٖ وہ رِبا نہیں ہے جو قرآن میں حرام کیا گیا ہے، بلکہ یہ دراصل سود کا سدباب کرنے کے لیے ایک پیش بندی ہے جسے فقہی اصطلاح میں ’’سدِباب ذریعہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
سوال: (۲) جناب نے جس تفصیل سے میرے سوالات کا جواب عنایت فرمایا ہے اس سے میری اس قدر حوصلہ افزائی ہوئی ہے کہ میں جناب کو دوبارہ تکلیف دینے کی جرأت کر رہا ہوں۔
قرآن کریم میں جس قدر سخت وعید ربوٰ کے متعلق آئے ہیں شاید کسی اور گناہ کے لیے نہیں آئے۔ اس لیے میرے خیال ناقص میں علمائے کرام کو چاہیے کہ اس معاملے میں قیاس سے کام نہ لیں اور جب تک سود کی کسی قسم کے متعلق ان کو یقین نہ ہو جائے کہ رسول کریمa کے زمانے میں اس قسم کا سود عام طور پر لوگوں میں متداول تھا اس کو ’’الرِبا‘‘ کی تعریف میں شامل نہ کریں۔ جناب کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب والا نے تجارتی سود کے رواج کی موجودگی کا قیاس مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر فرمایا ہے:۔
(i) مدینہ کے زراعت پیشہ لوگ یہودی سرمایہ داروں سے سود پر قرض لیا کرتے تھے۔ میں باادب عرض کروں گا کہ ایسے قرض ’’تجارتی قرض‘‘ نہ کہلانے چاہییں۔ اس قسم کے قرض نادار اور حاجت مند لوگ لیا کرتے ہیں۔ زراعت کے لیے ’’تجارتی قرض، زمانۂ جدید کی ایجاد ہے۔ جب سے بڑے پیمانے پر زراعت اور اس کے لیے مشینری کا استعمال شروع ہوا زمینداروں کو ’’تجارتی قرض‘‘ لینے کی ضرورت ہوئی۔ زمانہ قدیم کے زراعت پیشہ لوگوں کے قرض مجبوری کے قرض ہوا کرتے تھے۔ اور ضروریاتِ زندگی پورا کرنے کی غرض سے لیے جاتے تھے۔
(ii) خود یہودیوں میں باہم بھی سودی لین دین ہوتا تھا۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے قرض تجارتی کاموں کے لیے ہوتے تھے۔ عرب کے یہود اکثر زراعت پیشہ تھے یا ساہو کار، جیسا کہ یورپ میں عرصے تک ہوتا رہا۔ ممکن ہے کہ عرب کے یہودی ساہوکار بھی غریب اور امیر دونوں قسم کے حاجت مندوں کو ان کی نجی ضروریات کے لیے روپیہ قرض دے کر اپنا کام چلاتے رہے ہوں۔
(iii) قریش کے لوگ جو زیادہ تر تجارت پیشہ تھے باہم سود پر قرض لیتے دیتے تھے۔ اس کے متعلق عرض ہے کہ قریش میں سود کی جو مثالیں میری نظر سے گزری ہیں ان سے اس بات کی وضاحت نہیں ہوتی کہ متعلقہ روپیہ تجارت کے لیے قرض لیا گیا تھا۔ اگر جناب کے مطالعے میں کوئی ایسی مثال آئی ہو تو مہربانی فرما کر مطلع فرما دیں۔ تجارت ان دنوں یا نجی سرمائے سے یا مضاربت سے ہوتی تھی۔ جو تجارتی ’’کاروان‘‘ قریش بھیجتے تھے، ان میں سب لوگ حصہ لے سکتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دینار اور نصف دینار تک بھی حصہ لیا جا سکتا تھا۔ بظاہر اس طریقے کی تجارت کے لیے روپیہ قرض لینے کی حاجت نہ ہونی چاہیے۔ جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں تجارتی سود یورپ میں بہت بعد میں آیا اور پانچویں اور دسویں صدی عیسوی کے درمیان اس کا وہاں رواج نہ تھا۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ عرب کی بھی یہی حالت ہو لیکن یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت کے عرب میں تجارتی سود کے رواج کی موجودگی کو ماننے سے پہلے اس کے متعلق تحقیق کر لی جائے۔ عرب اور دیگر مورخوں نے رسول کریمa کے زمانے کے حالات کافی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ تجارتی سود کے متعلق ان کی خاموشی سے کیا یہ گمان نہ ہوگا کہ ایسے سود کا ان دنوں رواج ہی نہ تھا؟ خاص طور پر جب کہ تجارت کا طریق کار ہی ایسا تھا کہ اس میں ہر پیسے والا شامل ہو سکتا تھا۔
جناب کی نظر سے مولانا ابوالکلام آزاد صاحب کا سورۂ بقرہ کی آیات ۲۷۶،۲۷۷ کا ترجمہ گزر چکا ہوگا۔ انھوں نے ’’الرِبا‘‘ سے وہ سود مراد لیا ہے جو کسی حاجت مند سے لیا جائے۔ کیا علمائے کرام اور مفسرین عظام میں سے کسی اور نے بھی یہ معنی کیے ہیں؟ اگر ان معنوں سے اور بزرگانِ دین کو اتفاق ہو تو ایک بہت بڑے اور اہم مسئلے کا حل مل جائے گا۔
جواب: مجھے آپ کے اس خیال سے اتفاق ہے کہ جس چیز کی حرمت کی تصریح قرآن میں نہ کی گئی ہو اس کو بعینہٖ اس چیز کے درجے میں نہ رکھنا چاہیے جس کے حرام ہونے کی صراحت قرآن میں کی گئی ہے‘ لیکن ربوٰ کے معاملے پر اس قاعدے کا انطباق آپ جس طرح کر رہے ہیں وہ میرے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ آپ کے استدلال کی بنیاد دو باتوں پر ہے۔ ایک یہ کہ رِبا سے مراد لازماً معاملہ قرض کی وہی صورت لی جانی چاہیے جو نبیa کے زمانے میں رائج تھی۔ دوسرے یہ کہ تجارتی سود کا رواج چونکہ اس زمانے میں نہ تھا اور صرف نادار حاجت مند لوگ ہی سود پر قرض لیا کرتے تھے۔ اس صرف دوسری چیز ہی قرآنی حکم تحریم کی زد میں آتی ہے اور پہلی چیز اس سے خارج رہتی ہے۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔
پہلی بات اس لیے غلط ہے کہ قرآن صرف ان معاملات کا حکم بیان کرنے نہیں آیا تھا جو نزول قرآن کے وقت عرب یا دنیا میں رائج تھے، بلکہ وہ اصول بیان کرنے آیا تھا جو قیامت تک پیش آنے والے معاملات میں جائز و ناجائز اور صحیح و غلط کا فرق ظاہر کریں۔ اگر یہ بات نہ مانی جائے تو پھر قرآن کے ابدی اور عالم گیر راہ نما ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں نیز اس صورت میں معاملہ صرف ایک رِبا کا نہیں رہتا۔ ایک شخص یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ قرآن جس شراب کو حرام قرار دیتا ہے اس سے مراد صرف اس قسم کی شرابیں ہیں جو اس وقت عرب دنیا میں بنا کرتی تھیں۔ قرآن جس سرقے کو حرام ٹھیرا رہا ہے اس سے مراد صرف اس طریقے یا ان طریقوں سے سرقہ کرنا ہے جو اس وقت استعمال ہوتے تھے۔ حالانکہ اصل چیز شراب اور سرقے کی حقیقت ہے جو ممنوع کی گئی ہے نہ کہ اس کی رائج الوقت قسمیں اور صورتیں۔ اسی طرح اصل چیز رِبا کی حقیقت ہے جو حرام کی گئی ہے، اور وہ یہ ہے کہ معاملۂ قرض میں دائن مدیون سے اصل پر کچھ زائد وصول کرنے کی شرط کرے۔ یہ حقیقت جس معاملۂ قرض میں بھی پائی جائے گی اس پر قرآن کے حکم تحریم کا اطلاق ہو جائے گا۔ قرآن نے مطلق رِبا کو حرام کیا ہے اور کہیں یہ نہیں کہا کہ جو شخص ناداری و حاجت مندی کی حالت میں اپنی ضروریات شخصی کی خاطر قرض لے صرف اس سے سود لینا حرام ہے۔
دوسری بات اس لیے غلط ہے کہ اوّل تو تجارتی سود کی صرف یہ شکل جدید ہے کہ تجارت کے لیے ابتدائی سرمایہ ہی قرض کے ذریعے اکٹھا کیا جائے، ورنہ تجارتی کاروبار کے دوران میں تاجروں کا ایک دوسرے سے قرض لینا یا ساہو کاروں سے قرض لے کر کسی کاروباری ضرورت کو پورا کرنا تو قدیم ترین زمانے سے دنیا بھر میں رائج ہے اور اس کے جدید ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ دوسرے شخصی حاجتوں کے لیے غیر تجارتی قرض لینے کی بھی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ آدمی بیماری میں دوا کا محتاج ہو یا مفلسی کی حالت میں گھر کے لیے آٹا دال فراہم کرنا چاہتا ہو اور اس کے لیے کسی مال دار سے قرض لے۔ اس کے علاوہ بہت سی صورتیں ایسی بھی ہیں جن میں بالکل نادار نہ ہونے کے باوجود آدمی قرض لے کر اپنی کوئی ذاتی ضرورت پوری کرتا ہے۔ مثلاً بچوں کی شادیاں کرنا یا گھر بنانا۔ ایسے قرض بھی ہر زمانے میں لیے جاتے رہے ہیں۔ آپ قرض کی ان بہت سی مختلف صورتوں میں سے کس کس کو تحریم ربوٰ کے حکم سے خارج اور کس کس کو داخل کریں گے؟ اس کے لیے کیا اصول مقرر کریں گے؟ اور قرآن کے کن الفاظ سے یہ اصول نکالیں گے؟
زمانۂ جاہلیت یا ابتدائی زمانۂ اسلام کے کاروباری رواج میں تجارتی سود اور غیر تجارتی سود کی تفصیل نہ ملنے کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں اس تفریق و امتیاز کا تصور پیدا نہ ہوا تھا اور یہ اصطلاحیں نہیں بنی تھیں۔ اس زمانے کے لوگوں کی نگاہ میں قرض، ہر طرح کا قرض ہی تھا خواہ نادار لے یا مال دار، خواہ ذاتی ضروریات کے لیے لے یا کاروباری ضروریات کے لیے۔ اس لیے وہ صرف معاملہ قرض اور اس پر سود کے لین دین کا ذکر کرتے اور اس کی ان تفصیلات میں نہیں جاتے تھے۔
مولانا آزاد کا صحیح منشا وہ نہیں ہے جو آپ نے سمجھا ہے وہ اپنی تشریحی عبارتوں میں صرف یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سود میں اخلاقی حیثیت سے کیا قباحت ہے‘ لیکن ان کا منشا یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ سود سے مراد ہی صرف وہ سود ہے جو کسی حاجت مند کو ذاتی ضروریات کے لیے قرض دے کر وصول کیا جائے۔
مولانا موصوف کی تشریح سے جو مفہوم آپ اخذ کر رہے ہیں وہ قرآن کے الفاظ سے بھی زائد ہے اور مفسرین و فقہا میں سے بھی کسی نے تحریم ربوٰ کے اس قرآنی حکم کو حاجت مندی سے مقید نہیں کیا ہے۔
اس سلسلے میں بہتر ہو کہ آپ میری تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ جلد اوّل صفحہ ۲۱۰ سے ۲۱۸ تک ملاحظہ فرما لیں۔{ FR 2249 }
سوال: جیسا جناب نے فرمایا تھا، میرے استدلال کی بنیاد دو باتوں پر ہے۔ ایک یہ کہ ربوٰ سے مراد لازماً قرض کی وہی صورت لی جانی چاہیے جو نبی کریمa کے زمانے میں رائج تھی۔ اور دوسرے یہ کہ تجارتی سود کا رواج چونکہ اس زمانے میں نہ تھا، اس لیے سود کی یہ صورت قرآنی حکم تحریم میں نہیں آتی۔ جناب ان دونوں باتوں کو درست نہیں سمجھتے۔ مگر یہ دونوں جناب کی تصنیف سود حصہ اوّل کے صفحات ۳۴،۳۵ کی بحث پر مبنی ہیں۔{ FR 2250 } جناب نے فرمایا ’’قرآن جس زیادتی کو حرام قرار دیتا ہے وہ ایک خاص قسم کی زیادتی ہے۔ اس لیے وہ اسے ’’الرِبا‘‘ کے نام سے یاد کرتا ہے۔ اہل عرب کی زبان میں اسلام سے پہلے بھی معاملے کی ایک خاص نوعیت کو اس اصطلاحی نام سے یا د کیا جاتا تھا … اور چونکہ ’’الرِبا‘‘ ایک خاص قسم کی زیادتی کا نام ہے اور وہ معلوم و مشہور تھی۔ اس لیے قرآن مجید میں اس کی کوئی تشریح نہیں کی گئی … ‘‘ اس کے بعد وہ روایات ہیں جن میں زمانۂ جاہلیت کے ربوٰ کی مثالیں دی گئی ہیں اور ان کے بعد مرقوم ہے کہ ’’کاروبار کی یہ صورتیں عرب میں رائج تھیں، انھی کو اہل عرب اپنی زبان میں ’’الرِبا‘‘ کہتے تھے اور یہی وہ چیز تھی جس کی تحریم کا حکم قرآن مجید میں نازل ہوا۔‘‘
میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ جناب کی کتاب میں اور دوسری کتابوں میں ’’الرِبا‘‘ کی جو مثالیں دی ہوئی ہیں ان سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ عرب تجارت کے لیے بھی قرض لیتے تھے اور اگر عرب میں تجارتی سود رائج نہیں تھا تو جناب کے اپنے استدلال کے مطابق ’’الرِبا‘‘ کی زد میں نہیں آنا چاہیے۔ اگر یہ نتیجہ نکالنے میں مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے تو مہربانی فرما کر مجھے اس سے مطلع فرمایئے اور علمائے کرام نے بھی مانا ہے کہ ’’الرِبا‘‘ سے وہی بڑھوتری مقصود ہے جو ان دنوں عربوں میں متد اول تھی اور رِبا کے نام سے یاد کی جاتی تھی۔
اب رہی یہ بات کہ آیا زمانۂ جاہلیت کے عربوں میں تجارتی سود واقعی رائج تھا کہ نہیں۔ اس کے متعلق جناب فرما چکے ہیں کہ یہ بات صراحت کے ساتھ کسی کتاب میں نہیں لکھی گئی۔ اس لیے میں نے عرض کیا تھا کہ ایسے سنگین معاملے میں جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے بڑی سخت سزا مقرر کی ہے قیاس پر عمل نہ کرنا چاہیے بلکہ جہاں تک ممکن ہو سکے اصل حالات معلوم کرنے چاہییں۔ میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ یہ تاریخی امر ہے کہ یورپ میں پانچویں اور دسویں صدی عیسوی کے درمیان تجارتی سود کا رواج نہ تھا۔ اس کے لیے میں جناب کی خدمت میں مختلف کتابوں کے حوالے پیش کر سکتا ہوں۔ نیز جن کتابوں تک میری رسائی ہو سکی ان سے یہ معلوم ہوا کہ ان دنوں عرب میں تجارت نجی سرمائے سے یا مضاربت سے ہوتی تھی۔ تجارت کے جتنے تذکرے میری نظر سے گزرے ہیں ان میں کہیں تجارتی قرض کا ذکر نہیں۔ جناب کی علمیت اور وسعت مطالعے سے مجھے امید تھی کہ جناب میری رہنمائی کسی ایسی کتاب کی طرف فرمائیں گے جس سے اس بات کے متعلق قابل وثوق حالات معلوم ہو سکیں‘ لیکن یہ امید بر نہ آئی۔ جیسا میں پہلے عرض کر چکا ہوں مصنفین نے رسول کریمa کے زمانے کے حالات بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں لیکن اس کا کہیں ذکر نہیں آتا کہ لوگ قرض لے کر تجارت کیا کرتے تھے۔ قریش تاجر تھے۔ حضرت عباسؓ سود پر روپیہ دیتے تھے۔ مگر کن کو؟ کھجور کے کاشت کاروں کو۔ طبقہ تجار کا ایک فرد بھی اپنا سرمایہ سود پر دیتا ہے تو کاشت کاروں کو۔ کیا اس سے یہ گمان نہ ہوگا کہ تجارتی سود ناپید تھا؟
جناب نے دریافت فرمایا ہے کہ قرض کی بہت سی مختلف صورتوں میں سے کس کس کو تحریم رِبا کے حکم سے خارج اورکس کس کو داخل کریں گے۔ سود کی وہ صورتیں جو زمانۂ جاہلیت میں رائج تھیں سب ممنوع ہوں گی۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں اس وقت ذاتی ضروریات کے لیے اور اضطراری قسم کے قرض ہی لیے جاتے تھے اور ایسے قرض لینے والے لوگوں کو مہاجن اکثر لوٹتے تھے اور ان کو بچانا ضروری تھا اس لیے ’’الربوٰ‘‘ حرام ہوا۔ ایسے سود کی جتنی بھی مذمت کی جائے درست ہے اور اس کے مجرموں کے لیے جس قدر سخت سزا تجویز کی جائے، بجا ہے۔ اس کے برخلاف ایسے قرض جن کے لینے والے نفع آور کامو ںمیں لگاتے ہیں ان پر سود جائز ہونا چاہیے۔ ایسے سود دینے والے اور لینے والے دونوں کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ کئی دفعہ مدیون ان کو مضاربت پر ترجیح دیتا ہے۔ مجھے یہ سمجھنے میں بڑی مشکل پیش آتی ہے کہ علمائے کرام ایسے سود کو ’’حرب من اللّٰہ ورسولہ‘‘ جیسی سخت سزا کا مستوجب کیوں قرار دیتے ہیں۔ کیا اسلامی فقہ کے مطابق جرم اور اس کی سزا میں مطابقت نہیں ہونی چاہیے۔ ایسے سود پر جو اعتراض کیے جاتے ہیں وہ یہ ہیں:۔ ایک یہ کہ اس سے ایسا طبقہ پیدا ہوتا ہے جو بغیر محنت و مشقت کے آمدنی وصول کرتا ہے۔ یہ اعتراض ان لوگوں پر بھی ہونے چاہییں جن کے پاس بڑی بڑی زمینداریاں اور کئی کئی مکان ہیں اور وہ بن محنت گزر اوقات ہی نہیں بلکہ عیش کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اگر اسلام ان نکھٹوؤں کو نہیں روکتا تو تجارتی سود لینے والا ہی کیوں موردِ عتاب ہو؟ دوسرے یہ کہ سود لے کر تجارت کرنے والے کو چاہے نقصان ہو مگر سود لینے والے کو منافع ہی ملے گا۔ یہ اعتراض کچھ حد تک درست ہے لیکن اس بات کو نظرانداز نہ کرنا چاہیے کہ سود پر روپیہ تجارت کے لیے لیا جاتا ہے کہ مدیون کو اس شرح سود سے کئی گنا زیادہ منافع کی امید ہوتی ہے اور بیشتر اوقات یہ اُمید پوری ہوتی ہے، ورنہ تجارتی قرض کو اس قدر فروغ نہ ہوتا۔ ایسے قرض دینے والے کو سالانہ ایک چھوٹی سی رقم ملتی رہتی ہے اور اس کے بدلے روپیہ لینے والا کبھی اس رقم سے کئی گنا زیادہ نفع کما لیتا ہے اور کبھی اس کو نقصان ہوتا ہے۔ اس قسم کے خطرے (risk) کو قبول کرنا تجارت کا عام مسلک ہے۔ اور یہ ایسی چیز نہیں اور اس سے ایسی خرابیاں پیدا نہیں ہوتیں کہ اس پر ’’الرِبا‘‘ والی سزا لازم آئے۔ میرے خیال ناقص میں ہمیں سود کی نفع آور اور غیر نفع آور صورتوں میں تفریق کرنی چاہیے اور پہلی جائز اور دوسری ممنوع ہونی چاہیے۔{ FR 2251 }
جناب نے اپنے خط میں یہ بھی فرمایا ہے ’’اس زمانے کے لوگوں کی نگاہ میں قرض ہر طرح کا قرض ہی تھا۔ خواہ نادار لے یا مال دار خواہ ذاتی ضروریات کے لیے یا کاروباری ضروریات کے لیے۔ کیا جناب موخر الذکر حصّے کی حمایت میں کوئی حوالہ دے سکتے ہیں؟ کئی سو سال سے تجارتی سود تمام دنیا میں رائج ہے اور لوگوں کو اس کی عادت سی ہوگئی ہے۔ اس لیے ان کے لیے یہ مشکل ہوگیا ہے کہ اس بات کا تصور کر سکیں کہ ایک ایسا زمانہ بھی تھا جب تک کہ تجارتی سود ناپید تھا۔ حالانکہ تاریخی شواہد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تجارت کی اغراض سے سود کا لین دین کم از کم مغربی ملکوں میں رسول کریمa کی بعثت کے وقت رائج نہیں تھا۔{ FR 2252 }
میں جناب کو بار بار تکلیف دے رہا ہوں۔ اس کی تین وجوہ ہیں۔] ۱ [ ایک یہ کہ عملاً لاکھوں مسلمان تجارتی سود لیتے یا دیتے ہیں۔ کیونکہ اگر ان کو تجارت قائم رکھنی ہے، جس میں روز بروز مقابلہ تیز تر ہوتا جاتا ہے تو ان کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ جناب نے اس بات کو نہیں مانا اور متبادل طریقے تجویز بھی فرمائے ہیں‘ لیکن میں بصد ادب عرض کروں گا کہ ہم لوگوں کی موجودہ ذہنی اور اخلاقی حالت میں وہ قابلِ عمل نہیں ہیں۔ وہ اخلاق معیار جس کی آپ کو اپنے ہم مذہبوں سے توقع ہے ایک نبی چاہتا ہے۔ اور ہمارے مذہب میں دوسرے نبی کی گنجائش ہی نہیں۔ اس لیے مجھ ناچیز کے خیال میں ہمارے علمائے کرام کو چاہیے کہ مذہب کے تمدنی و معاشرتی معاملات میں ضرورت سے زیادہ سختی نہ برتیں اور اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۰ۡ ﴾ (البقرہ2:185)کو یاد رکھیں۔ مزید برآں یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جس چیز کو قانون منع کرے اس کا نقصان اس کے فائدے سے زیادہ ہونا چاہیے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کے بارے میں فرمایا ہے: ﴿ وَاِثْـمُہُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا۰ۭ﴾ (البقرہ2: 219) تجارتی سود بعض حالات میں بعض لوگوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اکثر اوقات فائدہ مند ہی ہے۔ اور اس کا نفع اس کے نقصان سے بہت زیادہ ہے۔ اس لیے اس کی مناہی نہ ہونی چاہیے۔
] 2 [ دوسرے آج کل فوجی ضروریات کے لیے اس قدر روپے کی ضرورت پڑتی ہے کہ بوقت جنگ قرض کے بغیر چارہ نہیں۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے جسے نظرانداز نہ کرنا چاہیے۔
] 3 [تیسری وجہ ذاتی ہے ۔ میں سرکاری نوکری کے دوران میں جنرل پراویڈنٹ کے لیے روپیہ اپنی مرضی سے کٹواتا رہا۔ اس پر مجھے ایک کافی رقم سود کی ملی ہے جو میں نے نکال کر علیحدہ رکھ لی ہے ۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آیا یہ سود ممنوع ہے یا جائز۔ کیا جناب میری رہنمائی فرمائیں گے؟ اگر ممنوع ہے تو اس رقم کو اب کس کام میں خرچ کیا جا سکتا ہے؟ کیا حاجت مندوں کی امداد پر اسے خرچ کرنا جائز ہوگا؟ اس رقم کی حرمت و حلت معلوم کرنے کے لیے مجھے جو سعی کرنی پڑی اس میں میں نے سود پر جتنی کتابیں ملیں پڑھ ڈالیں‘ لیکن چند نکتے صاف نہ ہو سکے۔ اور ان کو آپ کے سامنے حل کے لیے پیش کرنے کی جرأت کر چکا ہوں۔ امید ہے آپ مجھے اس تکلیف دہی کے لیے معاف فرما دیں گے۔ اطمینان قلب چاہتا ہوں‘ لیکن اس خط کے جواب کے بعد جناب کو مزید تکلیف نہ دوں گا۔
جواب: ] 1، 2 [ بے شک میں نے یہ لکھا تھا، اور اب بھی یہی کہتا ہوں کہ قرض پر جس نوعیت کی زیادتی کو عرب میں الربوٰ کہا جاتا تھا، قرآن میں اسی کو حرام کیا گیا ہے‘ لیکن آپ اس بات کو جس معنی میں لے رہے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ قرض کی جو قسمیں عرب میں اس وقت رائج تھیں صرف انھی میں قرآن نے اصل سے زیادہ لینے کو حرام کیا ہے۔ حالانکہ میں نے اور تمام فقہائے اسلام نے بالا تفاق قرض کی نوعیت کا نہیں بلکہ زیادتی کی نوعیت کا استنباط کیا ہے۔
اس کو میں ایک مثال سے واضح کروں گا۔ عرب میں زمانہ نزول قرآن کے وقت اصطلاحاً لفظ خمر صرف انگور کی شراب کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ دوسری قسم کی شرابیں جو اس زمانے میں بنتی تھیں، ان پر بھی مجازاً یہ لفظ بول دیا جاتا تھا۔ بہرحال جب قرآن میں اس کی حرمت کا حکم آیا تو کسی نے بھی اس کا یہ مطلب نہیں لیا کہ یہ حکم تحریم صرف اس قسم کی شرابوں کے لیے جو عرب میں اس وقت رائج تھیں، مخصوص ہے، بلکہ یہ سمجھا گیا کہ ان سب میں جو ایک صفت مشترک، یعنی نشہ آور ہونے کی صفت، پائی جاتی ہے، اصل حرمت اسی کی ہے اور وہ جس قسم کی نوشیدنی یا خوردنی چیز میں پائی جائے وہ اس حکم کے تحت آتی ہے۔
اسی طرح عرب میں قرض کے معاملات کی بھی چند صورتیں رائج تھیں۔ ان سب میں یہ بات مشترک تھی کہ لین دین کی قرارداد میں اصل سے زائد ایک رقم ادا کرنا بطور شرط کے شامل ہوتا تھا اور اسی کا نام اہل عرب رِبا رکھتے تھے۔ قرآن میں جب رِبا کی حرمت کا حکم آیا تو کسی نے اس کا یہ مطلب نہ لیا کہ یہ حکم انھی اقسام قرض سے متعلق ہے جو عرب میں اس وقت رائج تھیں بلکہ شروع سے آج تک کے تمام فقہا نے اس کا یہی مطلب لیا ہے کہ ہر وہ زیادتی ممنوع ہے جو اصل رقم قرض پر بطور شرط عائد کی جائے۔ قطع نظر اس سے کہ قرض کسی نوعیت کا ہو۔ اس بات کی طرف خود قرآن میں ارشاد کر دیا گیا ہے۔ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ۰ۚ ( البقرہ279:2 ) ’’اور اگر تم توبہ کر لو تو اپنے رأس المال لینے کے حق دار ہو۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رأس المال سے زیادہ لینا ہی رِبا ہے اور اسی کو قرآن حرام کر رہا ہے۔ اگر قرض کی بعض خاص صورتوں ہی میں یہ زیادتی حرام کرنی مقصود ہوتی تو اشارے کنائے ہی میں یہ مقصد ظاہر کر دیا جاتا، مثلاً یہی کہہ دیا جاتا کہ حاجت مند کو قرض دے کر زیادہ نہ وصول کرو۔
آپ حاجت مند کی شرط قرآن میں نہیں پاتے بلکہ باہر سے لاتے ہیں اور یہ شرط بڑھانے کے لیے جو دلیل آپ پیش کرتے ہیں اس سے بہت بڑی اصولی قباحت یہ واقع ہوتی ہے کہ ایک سود ہی نہیں، قرآن کے سارے احکام ان حالات و معاملات کے لیے مخصوص ہو جاتے ہیں جو عرب میں اس کے نزول کے وقت پائے جاتے تھے۔ نیز یہ استدلال کرکے آپ ایک بڑا رسک (risk) بھی لیتے ہیں۔ آپ کے پاس اس امر کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے کہ اس زمانے میں کوئی شخص قرض لے کر تجارت نہیں کرتا تھا نہ اس امر کا کوئی ثبوت ہے کہ دورانِ تجارت میں بھی کوئی تاجر کبھی دوسرے تاجر یا ساہو کار سے قرض نہ لیتا تھا۔ یہ دونوں باتیں آپ نے صرف دور متوسط کے یورپ سے متعلق اس عام تاریخی بیان سے نکال لی ہیں کہ اس زمانے میں تجارت نجی سرمائے سے یا مضاربت پر ہوا کرتی تھی اور تجارتی سود کا رواج بہت بعد میں ہوا ہے۔ حالانکہ اس طرح کے تاریخی بیانات جو ایک عمومی کیفیت پیش کرتے ہیں، کبھی اس امر کا ثبوت نہیں ہو سکتے کہ اس زمانے میں کوئی دوسری صورت واقع نہ ہوتی تھی۔
میں نے جو پچھلے خط میں عرض کیا تھا کہ اس زمانے کے لوگ ہر قسم کے قرض کو ہی سمجھتے تھے خواہ نادار لے یا مال دار اور خواہ ذاتی ضروریات کے لیے لے یا کاروباری ضروریات کے لیے۔ یہ میرا قیاس ہے اور اس بنیاد پر ہے کہ میری نگاہ سے قدیم زمانے کی تحریروں میں کبھی قرض کی اقسام قرض لینے والے کی حالت یا غرض کے لحاظ سے نہیں گزریں، حالانکہ انسان ہر زمانے میں قرض مختلف اغراض کے لیے لیتا رہا ہے، اور قرض لینا صرف نادار لوگوں تک کبھی محدود نہیں رہا ہے۔
اس جگہ میرے لیے یہ بحث کرنا غیر ضروری ہے کہ نفع آور اغراض کے لیے بھی قرض پر سود لینا کیوں حرام ہونا چاہیے۔ اس کے متعلق اس سے پہلے اپنے دلائل میں بیان کر چکا ہوں۔
] 3 [میری رائے میں پراویڈنٹ فنڈ پر جو سودی رقم آپ کو ملی ہے اسے آپ اپنی ذات پر خرچ نہ کریں۔ اگر آپ کو اس کے حرام ہونے کا یقین نہیں ہے، تب بھی یہ رقم مشکوک تو ہے۔ آپ جیسا نیک دل آدمی ایک ایسی چیز سے کیوں فائدہ اٹھائے جس کے پاک ہونے کا یقین نہ ہو، خصوصاً جب کہ آپ اس کے محتاج بھی نہیں ہیں۔ بہتر یہ ہو کہ آپ اس سے ایک ایسے فنڈ کی ابتدا کریں جو حاجت مند لوگوں کو بلا سود قرض دے۔ میرا خیال یہ ہے کہ دوسرے بہت سے لوگ بھی جن کو اس طرح کی سودی رقمیں ملی ہیں، یا آئندہ ملیں گی۔ اس فنڈ میں اپنی رقمیں بخوشی داخل کر دیں گے اور ایک اچھا خاصا سرمایہ اس کام کے لیے جمع ہو جائے گا۔{ FR 2253 }
سوال: ماہ جون کے ترجمان القرآن میں جناب نے میرے سوال متعلقہ تجارتی سود اور اپنے جواب کو نقل فرمایا ہے جس سے مجھے جسارت ہوتی ہے کہ باوجود اس کے کہ میں نے جناب کو مزید تکلیف نہ دینے کا وعدہ کیا تھا، آپ سے تھوڑی سی وضاحت کی درخواست کروں۔
(۱) آپ نے تحریر فرمایا ہے ’’اسی طرح عرب میں قرض کے معاملات کی بھی چند صورتیں رائج تھیں۔ ان سب میں یہ بات مشترک تھی کہ لین دین کی قرارداد میں اصل سے زائد ایک رقم ادا کرنا بطور شرط کے شامل ہوتا تھا اور اسی کا نام اہل عرب ربوٰ رکھتے تھے۔‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ جناب نے بھی رائج الوقت اقسام قرض سے ہی زیادتی کی نوعیت کا استنباط کیا ہے اور یہی میری کوشش رہی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جاہلیت کے عرب میں قرض کی جو صورتیں رائج تھیں ان سب کو اکٹھا کیا جائے اور دیکھا جائے کہ ان سب میں کیا جز و مشترک تھا۔ جناب کے نزدیک جو بات مشترک تھی وہ یہ تھی کہ لین دین کی قرارداد میں اصل سے زائد ایک رقم ادا کرنا بطور شرط کے شامل ہوتا تھا۔ میری عرض ہے کہ ایک اور بات بھی مشترک تھی اور وہ یہ کہ مدیون کی حاجت مندی کی وجہ سے اس پر ناجائز شرائط عائد کی جا سکتی تھیں یا بالفاظ دیگر اس پر جبر و ظلم کا احتمال تھا۔ قرض کی جتنی مثالیں آپ نے اپنی کتاب ’’سود‘‘ میں لکھی ہیں ان سب میں یہ احتمال موجود ہے۔ اس لیے یہ جز و مشترک بھی ’’رِبا‘‘ کی تعریف میں شامل ہونا چاہیے اور اس کو شامل کیے بغیر ’’رِبا‘ کی تعریف نامکمل رہ جائے گی۔
احتمال جبر و ظلم، سب حاجت مندانہ (non-productive) اور صَرفی (consumptive) قرضوں کا خاصہ ہے اور شاید یہی وجہ تحریم رِبا ہو‘ لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس زمانے میں عرب منفعت بخش (productive) کاموں کے لیے بھی سود پر روپیہ قرض لیتے تھے تو میرا نظریہ غلط ہو جائے گا۔ چونکہ میری اپنی کوشش جاہلیت کے عربوں میں اس قسم کے قرض کا کھوج لگانے میں ناکام رہی اس لیے میں نے جناب کو تکلیف دی ہے اور امید رکھتا ہوں کہ جناب اپنی تحقیق کی بنا پر فرما سکیں گے کہ آیا منفعت بخش (productive) قرض کا بھی ان دنوں عربوں میں رواج تھا کہ نہیں؟
] 2 [جناب نے قرض کی جو مختلف صورتیں نقل فرمائی ہیں ان میں صرف ایک ہے جس کا تجارت سے کچھ تعلق معلوم ہوتا ہے یعنی وہ جو قتادہؒ نے بیان فرمائی ہے کہ ’’ایک شخص ایک شخص کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لیے ایک وقت مقررہ تک مہلت دیتا۔ اگر وہ مدت گزر جاتی اور قیمت ادا نہ ہوتی تو پھر وہ مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کر دیتا۔{ FR 2401 } غور فرمایئے کہ یہ زیادتی کس وقت عائد کی جاتی تھی؟ جب کہ قرض دار وقت مقررہ پر قیمت ادا کرنے سے عاجز ہو چکا ہوتا تھا۔{ FR 2254 }اور قرض خواہ اپنی من مانی شرائط اس سے منوا سکتا تھا۔ یعنی جبر و ظلم کا احتمال موجود تھا۔
(۳) جناب نے خمر کی مثال دی ہے اور فرمایا ہے کہ حکم تحریم کا کسی نے یہ مطلب نہیں لیا کہ یہ حکم صرف اس قسم کی شراب یا ان اقسام کی شرابوں کے لیے جو عرب میں اس وقت رائج تھیں مخصوص ہے بلکہ یہ سمجھا گیا کہ ان سب میں جو ایک صفت مشترک، یعنی نشہ آور ہونے کی صفت پائی جاتی ہے، اصل حرمت اسی کی ہے۔ میری عرض ہے کہ اسی طرح ہمیں ’’رِبا‘‘ کی ضرر رساں صفت مشترک معلوم کرنی چاہیے اصل حرمت اسی کی ہوگی، اور سود کی جو صورتیں اس ضرر سے مبرّا ہوں ان کو ’’رِبا‘‘ کے تحت نہ لانا چاہیے۔
(۴) سورۂ بقرہ کی آیت وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رَئُوْسُ اَمْوَالِکُمْ (البقرہ2: 279) سے جناب نے استدلال فرمایا ہے کہ رأس المال سے زیادہ لینا ہی رِبا ہے۔ کیونکہ اگر قرض کی بعض خاص صورتوں ہی میں یہ زیادتی حرام کرنی مقصود ہوتی تو اشارے ہی میں یہ مقصد ظاہر کر دیا جاتا۔ مثلاً یہ کہ حاجت مند کو قرض دے کر زیادہ نہ وصول کرو۔ اس آیت کو اس کے ماسبق سے ملا کر پڑھیے تو پورا حکم یہ ہے۔ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَo فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ۰ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ۰ۚ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَo (البقرہ 2: 278-279) یہ احکام اس ربوٰ بڑھوتری کو چھوڑنے کے لیے تھے جو اس وقت قرض خواہوں کو ملنے والی تھی۔ اس لیے لازماً اس کا تعلق ان اقسام قرض سے تھا جو اس وقت رائج تھیں اور راس المال کا حکم بھی انھی اقسامِ قرض سے تعلق رکھتا ہے۔
(۵) جناب نے درست فرمایا کہ میرے پاس اس امر کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے کہ اس زمانے میں کوئی شخص قرض لے کر تجارت نہیں کرتا تھا نہ اس امر کا کوئی ثبوت ہے کہ دورانِ تجارت میں بھی کوئی تاجر کبھی دوسرے تاجر یا ساہوکار سے قرض نہ لیتا تھا‘ لیکن ان قرائن سے جن کا ذکر میں نے اپنے پہلے خطوط میں کیا ہے، یہ اغلب معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں کے عربوں میں اس قسم کے قرض رائج نہ تھے۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ ’’رِبا‘‘ لینے والے کے لیے جس قدر سخت سزا مقرر کی گئی ہے اس کے پیش نظر بڑھوتری کی کسی قسم کو رِبا میں شامل نہ کرنا چاہیے جب تک کہ یقین نہ ہو جائے کہ دراصل رسولِ کریمa کے وقت میں بھی وہ ربوٰ میں شامل تھی۔ اس کے برخلاف جناب کا نظریہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ گمان کی بنا پر ہی اس کو ربوٰ میں شامل تصور کر لینا چاہیے اور جب تک پورا ثبوت اس بات کا نہ مل جائے کہ اس قسم کی بڑھوتری کا ان دنوں رواج نہ تھا، اس کو ربوٰ کی حدود سے خارج نہ سمجھنا چاہیے۔ جناب کا نظریہ احتیاط و زہد پر مبنی ہے‘ لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ احتیاط کہیں دنیوی نقصان کے علاوہ اُخروی نقصان کا باعث بھی نہ ہو۔ آج کل کی دنیا میں بغیر تجارتی سود کے گزارہ نہیں جو قوم اس سے پرہیز کرتی ہے وہ دوسری قوموں کے مقابلے میں معاشی لحاظ سے پست اور کمزور رہ جاتی ہے اور ایسی کمزوری کا جو اثر اس قوم کی آزادی پر پڑ سکتا ہے وہ جناب سے مخفی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یقینا مرغوب نہ ہوگا کہ مسلمان محکوم ہو کر رہیں۔ سورۂ مائدہ کی آیت ’’لَاتُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ وَلاَ تَعْتَدُوْا۔‘‘(المائدہ5: 87) کی تشریح میں جناب نے تفہیم القرآن میں لکھا ہے، ’’اس آیت میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ خود حلال حرام کے مختار نہ بن جاؤ، حلال وہی ہے جو اللہ نے حلال کیا۔ اور حرام وہی ہے جو اللہ نے حرام کیا۔‘‘ مزید نوٹ نمبر ۱۰۴ میں جناب نے ارشاد فرمایا ہے کہ رسول اکرمa نے ہر مسلمان کو اپنے اوپر سختی کرنے سے روکا ہے۔ اس لیے کیا یہ درست نہ ہوگا کہ جب تک اس کا ثبوت نہ مل جائے کہ تجارتی (productive) سود بھی رِبا میں شامل تھا‘ اس کو گمان کی بنا پر حرام قرار نہ دیا جائے؟
(۶) جو سودی رقم مجھے پراویڈنٹ فنڈ سے ملی تھی اسے چند روز بعد ہی ایک دوست بطور قرض لے گئے اور آج تک ان سے واپس نہیں ملی‘ لیکن اگر مل گئی تو ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کی ہدایت کے مطابق میں اس کو اپنی ذات پر خرچ نہ کروں گا۔
(۷) ایک غیر متعلقہ امر کے متعلق بھی جناب سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ خمرو مَیسَر کے متعلق فرماتے ہیں: ’’وَاِثْـمُہُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا۰ۭ (البقرہ2 :219)‘‘ آپ نے اس آیت کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ان کا نقصان ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔ لغت کی جو کتابیں میری نظر سے گزری ہیں ان میں مجھے ’’اثم‘‘ کا ترجمہ ’’نقصان‘‘ نہیں ملا۔ جناب سے استدعا ہے کہ اپنے ترجمے کے حق میں کوئی مستند حوالہ عنایت فرما کر ممنون فرما دیں۔
جواب: عنایت نامہ مورخہ ۳۱ جولائی مجھے بروقت مل گیا تھا، لیکن اس وقت سے اب تک مسلسل ایسی مصروفیت رہی کہ جواب لکھنے کی مہلت نہ مل سکی۔ اس تاخیر کے لیے معافی چاہتا ہوں۔
آپ نے جن نکات کی طرف توجہ دلائی ہے ان کے متعلق کچھ عرض کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ آپ ایک مرتبہ پھر اصل مسئلے کو نئے سرے سے سمجھنے کی کوشش فرمائیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ’’الرِبا‘‘ جس کو قرآن نے حرام کیا ہے اس کی حقیقت یا بالفاظ دیگر علتِ حرمت کیا ہے۔ آیا یہ کہ ایک شخص اپنے دیے ہوئے مال (رأس المال) سے زیادہ وصول کرے، یا یہ کہ وہ دوسرے شخص کی حاجت مندی سے ناجائز فائدہ اٹھائے؟ میں پہلی چیز کو اس کی حقیقت اور عِلّتِ حرمت کہتا ہوں، اور اس کے دلائل مختصراً یہ ہیں:۔
(۱) قرآن جس چیز کو حرام کر رہا ہے اس کے لیے وہ مطلق لفظ الرِبا استعمال کرتا ہے جس کا مفہوم لغت عرب میں مجرد زیادتی ہے‘ حاجت مند سے زیادہ لینا اس لفظ کے مفہوم میں شامل نہیں ہے۔ غیر حاجت مند کو قرض دے کر یا بار آور اغراض کے لیے قرض دے کر زیادہ واپس لیا جائے تب بھی لغت کے اعتبار سے اس زیادتی پر الرِبا ہی کا اطلاق ہوگا۔
(۲) قرآن خود اس الرِبا کو کسی ایسی قید سے مقید نہیں کرتا جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ وہ اس رِبا کو حرام کرنا چاہتا ہے جو کسی حاجت مند کو قرض دے کر وصول کیا جائے اور اس ربا کو حکم حرمت سے خارج کرنا چاہتا ہے جو غیر حاجت مند لوگوں سے یا بار آور اغراض کے لیے قرض دے کر کاروباری لوگوں سے وصول کیا جائے۔
(۳) اہل عرب قرض پر منافع لینے کو یکساں سمجھتے تھے۔ چنانچہ ان کا قول تھا کہ اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰو (البقرہ2: 275) قرآن نے ان دونوں قسم کے منافعوں میں فرق کرکے واضح کر دیا کہ بیع کا منافع حلال اور قرض کا منافع حرام ہے۔ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰو (البقرہ2: 275) اس سے یہ بات صاف ہوگئی کہ نفع کمانے کے لیے بیع اور شرکت فی البیع کا دروازہ تو کھلا ہوا ہے مگر قرض کی شکل میں روپیہ لگا کر فائدہ کمانے کا دروازہ بند ہے۔
(۴) قرآن نے لَکُمْ رَئُوْسُ اَمْوَالِکُمْ کہہ کر اس بات کی وضاحت بھی کر دی کہ قرض دینے والا صرف اتنا ہی واپس لینے کا حق دار ہے جتنا اس نے دیا ہے۔ اس سے زائد لینے کا حق دار نہیں ہے۔ یہاں بھی کوئی اشارہ اس امر کی طرف نہیں ہے کہ جس شخص کو بار آور اغراض کے لیے رأس المال دیا گیا ہو اس سے اصل پر کچھ زائد لینے کا حق دائن کو حاصل ہوتا ہے۔
(۵) لغت اور قرآن کے بعد تیسرا اہم ترین ماخذ سنت ہے جس سے اللہ تعالیٰ کے احکام کا منشا معلوم کیا جا سکتا ہے۔ یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ علت حکم مجرد زیادتی کو قرار دیا گیا ہے نہ کہ اس زیادتی کو جو کسی حاجت مند سے وصول کی جائے۔ حدیث میں یہ صراحت ہے کہ کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً فَہُوَ وَجْہٌ مِّنْ وُّجُوْہِ الرِّبَا۔{ FR 2402 } اور کُلُّ قَرْضٍ جَرَّبِہٖ نَفْعًا فَہُوَ رِباً { FR 2403 } یعنی ’’ہر وہ قرض جس سے نفع اٹھایا جائے ربوٰ ہے۔ ‘‘ { FR 2255 }
(۶) نبی a نے صرف اس رِبا کی حرمت پر اکتفا نہیں فرمایا جو قرض کی صورت میں لیا جاتا ہے، بلکہ دست بدست لین دین کی صورت میں بھی ایک ہی جنس کی اشیا کے درمیان تفاضل کا معاملہ کرنا حرام کر دیا۔ ظاہر ہے کہ اس میں حاجت مندی کا کوئی سوال نہیں ہے اور اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی a نے اللہ تعالیٰ کے حکم کا جو منشا سمجھا تھا وہ لا محالہ یہی تھا کہ زیادہ ستانی کو اللہ حرام کرنا چاہتا ہے۔ اسی کے رجحانات کو ختم کرنے کے لیے حضورa نے قرض کے علاوہ دست بدست لین دین میں بھی زیادہ ستانی سے منع فرما دیا۔
(۷) اُمت کے تمام فقہا نے بالا تفاق اس حکم کا منشا یہی سمجھا ہے کہ قرض کے معاملے میں اصل سے زائد جو کچھ بھی لیا جائے وہ حرام ہے، قطع نظر اس سے کہ قرض لینے والا اپنی شخصی حاجات کے لیے قرض لے، یا کسی نفع آور کام میں لگانے کے لیے ہو فِی الشَّرْعِ اَلزِّیَادَۃُ عَلٰی اَصْلِ الْمَالِ مِنْ غَیْرِ عَقْدٍ تَبَایَعَ { FR 2404 } یعنی شریعت کی اصطلاح میں ربوٰ سے مراد اصل مال سے زیادہ لینا ہے بغیر اس کے کہ فریقین میں بیع کا معاملہ ہوا ہو۔ اس تعریف کے مطابق تمام فقہا اس نفع کو حرام قرار دیتے ہیں جو قرض دے کر دائن مدیون سے حاصل کرے۔
ان وجوہ کو نظر انداز کرکے آپ جس بنا پر حرمت رِبا کو صرف ان قرضوں تک محدود رکھنا چاہتے ہیں جو حاجت مند لوگ اپنی ضروریات کے لیے لیں اور نفع بخش کاموں پر لگانے کے لیے جو قرض دیا جائے اس کے سود کو اس حرمت سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں، وہ صرف یہ ہے کہ آپ کے نزدیک عرب میں نزولِ قرآن کے وقت پہلی قسم کے معاملہ قرض کا رواج تھا، اور دوسری قسم کے کاروباری قرض کا رواج دنیا میں بہت بعد میں شروع ہوا لیکن آپ کی یہ رائے اس وقت تک قبول نہیں کی جا سکتی جب تک آپ حسب ذیل سوالات کا واضح اور اطمینان بخش جواب نہ دیں۔
(۱) کیا اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے قرضوں کے درمیان نفع آور اور غیر نفع آور کا فرق کرکے صراحتہً یا اشارۃً حرمت رِبا کو صرف دوسری قسم تک محدود اور پہلی قسم کو حرمت کے حکم سے مستثنیٰ کیا ہے؟ اگر کیا ہے تو اس کا حوالہ ملنا چاہیے کیونکہ حرمت کا حکم جس نے دیا ہے، مستثنیٰ کرنے کا اختیار بھی اسی کو حاصل ہے اور اس کے کسی اشارے کے بغیر ہم اور آپ بطور خود حرام اور حلال کا فیصلہ کر لینے کے مختار نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں غالباً آپ یہ استدلال کریں گے کہ ’’چونکہ اس زمانے میں صرف غیر نفع آور قرضوں ہی پر سود لینے کا رواج تھا اس لیے اللہ تعالیٰ کے حکم تحریم کو اسی سے متعلق مانا جائے گا۔‘‘ لیکن یہ استدلال اس وقت تک نہیں چل سکتا جب تک یہ بھی فرض نہ کر لیا جائے کہ انسانی معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کا علم بھی بس انھی معاملات تک محدود تھا جو نزولِ قرآن کے دور میں رائج تھے، اور انھیں کچھ پتہ نہ تھا کہ آگے کیا کچھ آنے والا ہے، نیز یہ کہ اسلام صرف ایک وقت خاص تک کے معاملات میں رہنمائی دینے والا ہے، کوئی ازلی و ابدی رہنما نہیں ہے۔ اگر یہ مفروضہ آپ کے استدلال کی بنیاد میں کام نہیں کر رہا ہے تو پھر آپ کو ماننا پڑے گا کہ معاملات کی وہ صورتیں بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تھیں جو بعد میں پیش آنے والی تھیں اور جب یہ مان لیں گے تو آپ کو ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کا منشا فی الواقع غیر نفع آور قرضوں تک ہی حکم تحریم کو محدود رکھنا ہوتا تو وہ ضرور کسی نہ کسی طریقے سے اپنے اس منشا کو ظاہر فرماتا اور اس کے رسول a بھی اس منشا کو اس حد تک کھول دیتے کہ تحریم رِبا کا حکم تمام اقسام قرض پر حاوی نہ ہو سکتا۔
(۲) دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ عرب میں صرف حاجت مند لوگ ہی اپنی ذاتی ضروریات کے لیے قرض لیا کرتے تھے اور کوئی شخص کاروبار میں یا کسی نفع بخش کام میں لگانے کے لیے قرض نہ لیتا تھا؟ صرف یہ بات کہ دنیا میں نفع آورکاموں کے لیے قرض پر سرمایہ جمع کرنے کا رواج عام بہت بعد میں شروع ہوا ہے اس بات کا فیصلہ کر دینے کے لیے کافی دلیل نہیں ہے کہ پہلے کوئی شخص کاروبار کے آغاز میں یا کاروبار کے دوران میں کبھی کاروباری اغراض کے لیے قرض نہ لیا کرتا تھا۔ آپ ایک بہت اہم مسئلے کا فیصلہ کرنے بیٹھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کسی چیز کو مستثنیٰ کرنا کوئی ہلکی بات نہیں ہے۔ اس کے لیے آپ کو اس سے زیادہ وزنی دلیل لانی چاہیے جو آپ پیش کر رہے ہیں۔ یہ ثبوت لانا ہمارے ذمے نہیں ہے کہ عرب میں اس وقت کاروباری اغراض کے لیے کوئی شخص قرض نہ لیتا تھا۔ اس لیے کہ استثنا کا دعویٰ آپ کر رہے ہیں اور اس کی بنا آپ نے خدا اور رسولؐ کے کسی اشارے یا تصریح پر نہیں رکھی ہے بلکہ اس دلیل پر رکھی ہے کہ عرب میں اس وقت الربوٰ کا اطلاق صرف ان قرضوں پر ہوتا تھا جو غیر نفع بخش اغراض کے لیے لیے جاتے تھے۔
اب میں مختصراً آپ کے پیش کردہ نکات کا جواب عرض کرتا ہوں۔
] 1 [ الرِبا کا مفہوم متعین کرنے اور اس کی علت حرمت معلوم کرنے میں ہمارا انحصار صرف ان معاملات کی نوعیت پر ہی نہیں ہے جو اس وقت عرب میں رائج تھے بلکہ لغت، بیانِ قرآن، حدیث اور فقہائے امت کی توضیحات اس کے اصل مآخذ ہیں اور ان کے ساتھ ایک مددگار چیز یہ بھی ہے کہ اس وقت جن معاملات پر رِبا کا اطلاق ہوتا تھا ان میں قدر مشترک معلوم کی جائے۔
آپ فرماتے ہیں کہ ان میں قدر مشترک صرف اصل سے زائد ایک رقم لینا ہی نہ تھا بلکہ یہ بھی تھا کہ یہ زائد رقم حاجت مندوں کی ذاتی ضروریات کے لیے قرض دے کر وصول کی جاتی تھی‘ لیکن اوّل تو اس کا اعتبار علت حکم مشخص کرنے میں اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ نہ قرآن نے اس کی طرف کوئی اشارہ کیا ہے اور نہ سنت میں کوئی چیز ایسی ملتی ہے جس کی بنا پر یہ فرض کیا جائے کہ حاجت مندوں سے زائد رقم وصول کرنا وجہ حرمت ہے۔ دوسرے ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ اس وقت قرض کے معاملات صرف اسی نوعیت تک محدود تھے۔ جہاں تک عرب کے تجارتی معاملات کا تعلق ہے، ان کے بارے میں نہ یہ تصریح ہمارے علم میں آئی ہے کہ وہ قرض کے سرمائے سے چلتے تھے اور نہ یہ تصریح ہم تک پہنچی ہے کہ ان میں قرض کا عنصر بالکل ہی شامل نہ ہوتا تھا۔ اس لیے کسی ریکارڈ پر نہ ہم مدارِ بحث رکھ سکتے ہیں نہ آپ‘ لیکن یہ بات تو عقل عام سے تعلق رکھتی ہے اور دنیا کے عام تجارتی معاملات کی سمجھ بوجھ رکھنے والا کوئی شخص بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ تجارت میں قرض کے سرمائے کو بطور بنیاد استعمال کرنے کا رواج چاہے بعد ہی میں شروع ہوا ہو لیکن تاجروں کو اپنے کاروبار کے دوران میں ایک دوسرے سے بھی اور ساہوکاروں سے بھی قرض لینے کی ضرورت پہلے سے بھی پیش آیا کرتی تھی اور چھوٹے تاجر بڑے تاجروں سے قرض پر مال پہلے بھی حاصل کیا کرتے تھے۔
] 2 [عرب کے متعلق ایسا ریکارڈ اگر موجود نہ ہو تب بھی دنیا کے دوسرے ملکوں کے متعلق تو ایسا ریکارڈ نزولِ قرآن سے سینکڑوں بلکہ کئی ہزار برس پہلے کا بھی ملتا ہے اور تاریخی طور پر یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ پہلے زمانے میں تجارتی کاروبار قرض کے عنصر سے بالکل خالی ہوا کرتا تھا۔ { FR 2256 }
] 3 [آپ کا خیال یہ ہے کہ سود کے معاملات میں ضرر رساں صفت مشترک صرف یہ ہو سکتی ہے کہ حاجت مندوں کی شخصی ضروریات کے لیے قرض دے کر ان سے ظالمانہ شرح سود طے کی جائے‘ لیکن ہمارے نزدیک صرف یہی ایک ضرر رساں صفت اس میں نہیں ہے۔ یہ صفت بھی ضرر رساں ہے کہ ایک شخص یا ادارہ صرف روپیہ دے کر اپنے لیے ایک متعین منافع کی ضمانت حاصل کرے اور وہ سب لوگ جو اس روپے کے ذریعے سے اپنی محنت، قابلیت اور دماغ سوزی کرکے منافع حاصل کرنے کی کوشش کریں ان کے لیے متعین منافع تو درکنار، خود منافع تک کی کوئی ضمانت نہ ہو، قرآن مجید جو قاعدہ تجویز کرتا ہے وہ یہ ہے کہ قرض کی صورت میں کسی کو مال دو تو تم اصل سے زائد کچھ لینے کے حق دار نہیں ہو اور بیع، یعنی تجارت کا منافع حاصل کرنا چاہو تو پھر سیدھی طرح یا تو خود براہ راست تجارت کرو، یا پھر تجارت میں شریک بن جاؤ۔ قرآن کے اسی منشا کو سمجھ کر اسلام میں مضاربت کو جائز اور سودی قرض کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔
] 4 [وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا سے آپ نے جو استدلال کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ یہ محض اسی زمانے کے لیے ایک وقتی حکم نہ تھا بلکہ قرآن کے دوسرے احکام کی طرح ایک ابدی حکم تھا۔ جب اور جہاں بھی کوئی آدمی ایمان لائے وہ اس حکم کا مخاطب ہے۔ اسے اگر کسی سے اپنے دیے ہوئے قرض پر سود لینا ہو تو اس کو سود کا مطالبہ چھوڑنا ہوگا اور صرف اپنے دیے ہوئے رأس المال کی واپسی پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ علاوہ بریں اس آیت سے آپ کا استدلال اس دعوے پر مبنی ہے کہ اس وقت کی اقسام قرض کاروباری نوعیت کے سود سے خالی تھیں۔ یہ دعویٰ خود محتاج ثبوت ہے‘ اسے دلیل کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ جن اقسام قرض کا آپ بار بار حوالہ دیتے ہیں کہ یہ صرف ذاتی نوعیت کے قرض ہی ہو سکتے تھے، خود ان میں یہ احتمال موجود ہے کہ ایک چھوٹا تاجر کسی بڑے تاجر سے قرض پر مال لے کر جاتا ہو اور بڑا تاجر اس پر اصل قیمت کے علاوہ سود بھی عائد کرتا ہو، پھر جب وہ مدتِ مقررہ کے اندر پوری قیمت ادا نہ کرتا ہو تو وہ مزید مہلت دے کر سود میں اور اضافہ کر دیتا ہو۔ اس طرح کے سود کے بقایا بھی تو حکم ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰو کی زد میں آ جاتے ہیں۔ آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ ان بقایا میں اس نوعیت کے بقایا شامل نہ ہوتے تھے۔
] 5 [ میرے نزدیک اگر تجارتی سود کو حکم رِبا کے تحت لانے یا نہ لانے کی بنا محض گمان ہی پر ہو (اگرچہ واقعہ یہ نہیں ہے) تب بھی گمان پر ایک امکانی حرام کو حلال کر دینا اس سے زیادہ خطرناک ہے کہ اسے حرام مان کر اس سے اجتناب کیا جائے۔ حدیث کا یہ حکم صاف ہے کہ دَعُوْا الرَّبَا اوَالرِّیْبَہَ { FR 2405 } سود کو بھی چھوڑو اور اس چیز کو بھی جس میں سود کا شک ہو۔ یہ بات میں برسبیل تنزل محض آپ کی اس بات کے جواب میں کہہ رہا ہوں کہ تجارتی سود کو حرام قرار دینے کی بنیاد محض گمان ہے۔ ورنہ مجھے اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ قطعاً حرمت کے تحت آتا ہے اور اس کے حرام ہونے کی بنا گمان نہیں ہے بلکہ قرآن اور سنت کے محکمات ہیں۔
] 6 [مجھے اس بات کی مسرت ہے کہ آپ نے خود اپنے پراویڈنٹ فنڈ کے سود کے معاملے میں میرا مشورہ قبول فرما لیا ہے آپ سے توقع یہی ہے کہ کم از کم اپنی ذات کو تو مالِ مشکوک کے فائدے سے محفوظ رکھیں گے۔ خدا کرے کہ آپ اسے دوسروں کے لیے حلال کرنے کی فکر بھی چھوڑ دیں اور مالیات کے مسائل پر جو تجربہ و بصیرت آپ کو حاصل ہے اسے ایک غیر سودی نظام مالیات مرتب کرنے میں استعمال کریں۔
] 7 [آپ کے آخری سوال کا جواب یہ ہے کہ میں نے اثم کا ترجمہ نفع کے تقابل کی وجہ سے گناہ کے بجائے نقصان کیا ہے۔ ویسے یہ زبان کے اعتبار سے غلط بھی نہیں ہے، کیونکہ اثم کے اصل معنی خیر مطلوب کو پہنچنے میں قاصر رہ جانے کے ہیں۔ اسی معنی کے لحاظ سے عرب کہتے ہیں اثمت الناقۃ یعنی اونٹنی سست رفتار ہے جو تیز رفتاری اس سے مطلوب ہے اس میں کوتاہی برتتی ہے۔(ماہنامہ ترجمان القرآن محرم‘ صفر ۱۳۷۷ھ اکتوبر‘ نومبر ۱۹۵۷ء)
٭…٭…٭
ضمیمہ نمبر ۲ : ادارۂ ثقافت اسلامیہ کا سوال نامہ
اور اس کا جواب
۱۹۶۰ء کے اوائل میں ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور نے ایک مجلس مذاکرہ منعقد کی تھی جس میں سود کے متعلق چند اہم سوالات زیر بحث لائے گئے تھے۔ اس غرض کے لیے ادارے نے ایک سوال نامہ مرتب کیا تھا جو زیر بحث مسائل پر مشتمل تھا۔ یہ سوال نامہ اور اس کا جو جواب مصنف نے دیا تھا، وہ یہاں درج کیا جاتا ہے۔
سوال نامہ
(۱) عرب میں پیغمبر اسلام a کے زمانے میں قرض لینے دینے کی شکل کیا تھی؟
(۲) لفظ ’’رِبا‘‘ کے معنی۔
(۳) ’’رِبا‘‘ اور ’’رِبح‘‘ میں فرق۔
(۴) رِبا میں قرض دینے والا شرائط مقرر کرتا ہے اور بینک انٹرسٹ میں قرض لینے والا پیش کرتا ہے۔
(۵) بیع سَلَم اور کمرشل انٹرسٹ (commercial interest) میں کیا فرق ہے۔ ایک شخص ایک بھینس جو روزانہ دس سیر دودھ دیتی ہے، دوسرے کو دیتا ہے اور کہتا ہے کہ بھئی اس کے دودھ میں سے پانچ سیر ہمیں دے دیا کرو۔ یہ جائز ہے تو پھر اس میں اور منافع پر روپیہ قرض دینے میں کیا فرق ہے؟
(۶) ہم جنس کا تبادلہ ہم جنس سے تفاضل کے ساتھ کیوں ناجائز ہے جب کہ غیر ہم جنس کے ساتھ تفاضل جائز ہے؟
(۷) تجارت میں طرفین کی رضامندی لازمی ہے یا نہیں؟ بعض کے نزدیک تراضیٔ طرفین کی عدم موجودگی ہی ربوٰ کو پیدا کرتی ہے۔ نقصان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیا حرمت ربوٰ کی یہی بنیاد تھی کہ اس میں ایک پارٹی پر ظلم ہوتا ہے؟ کمرشل انٹرسٹ میں کسی پارٹی پر بھی ظلم نہیں ہوتا۔ اگر یہ درست ہے کہ کسی پارٹی پر ظلم نہیں ہوتا تو بینک انٹرسٹ ربوٰ کے تحت کیسے آ سکتا ہے؟
(۸) (ا) صنعتی اداروں کے معمولی حصے[Ordinary shaves]
(ب) ان کے ترجیحی حصے[Preference shaves]
(ج) بینکوں کا فکسڈ ڈیپازٹ[Fixed Deposit]
(د) بینکوں سے لیٹر آف کریڈٹ کھولنا۔ اس کے مختلف پہلو۔ اگر لیٹر آف کریڈٹ کی بنا پر تجارت کے لیے قرض لینا ناجائز ہے تو اس کے لیے جائز صورت کیا ہوگی جس سے نظامِ تجارت میں خلل نہ پڑے؟
(ھ) ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن اور انڈسٹریل فنانس کارپوریشن۔
(و) گورنمنٹ کے قرضے (۱) اپنے ملک سے (۲) غیر ملکوں سے۔ اگر یہ تمام قرضے ناجائز ہیں تو پھر گورنمنٹ کی مشینری چلانے کے لیے کیا تجاویز ہو سکتی ہیں؟
جواب
پہلا سوال] عہدِ نبوی میں قرض لینے دینے کی شکل[
پہلے سوال میں دراصل تنقیح طلب امور یہ ہیں:
(۱) نزولِ قرآن کے زمانے میں تجارتی، صنعتی، زراعتی اور ریاستی اغراض کے لیے قرض کے لین دین کا دنیا میں عام رواج تھا یا نہیں؟
(۲) ان قرضوں پر سود لگایا جاتا تھا یا نہیں؟
(۳) اہل عرب میں یہ بات پوری طرح معروف تھی یا نہیں کہ ان اغراض کے لیے بھی قرض کا لین دین ہوتا ہے؟ اور
(۴) اس نوعیت کے قرضوں پر اصل سے زائد جو کچھ وصول کیا جاتا تھا اس کے لیے رِبا ہی کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی یا لغت عرب میں اس کے لیے کوئی دوسرا لفظ مستعمل تھا؟
ان تنقیحات پر کلام کرنے سے پہلے ہمیں قبل اسلام کے عرب کی معاشی تاریخ اور بیرونی دنیا سے اس کے تعلقات پر ایک نگاہ ڈال لینی چاہیے تاکہ یہ غلط فہمی نہ رہے کہ عرب دنیا سے الگ تھلگ پڑا ہوا ایک ملک تھا جس کے باشندے اپنی وادیوں اور صحراؤں سے باہر کی دنیا کو کچھ نہ جانتے تھے۔
]قبل نبوت عرب کی معاشی تاریخ اور بیرونی دنیا سے تعلقات[
زمانہ قدیم کی تاریخ سے متعلق جو مواد آج دنیا میں موجود ہے، اس سے یہ بات پوری طرح ثابت ہے کہ اس زمانے میں چین، ہندوستان اور دوسرے مشرقی ممالک کی اور اسی طرح مشرقی افریقہ کی جتنی تجارت بھی مصر، شام، ایشیائے کوچک، یونان اور روم کے ساتھ ہوتی تھی وہ سب عرب کے واسطے سے ہوتی تھی۔ اس تجارت کے تین بڑے راستے تھے۔ ایک ایران سے خشکی کا راستہ جو عراق اور شام ہوتا ہوا جاتا تھا۔ دوسرا خلیج فارس کا بحری راستہ جس سے تمام تجارتی سامان عرب کے مشرقی سوا حل پر اترتا اور دومۃ الجندل یا تدمر (Palmyra) ہوتا ہوا آگے جاتا تھا۔ تیسرا بحر ہند کا راستہ جس سے آنے جانے والے تمام اموالِ تجارت حضرموت اور یمن سے گزرتے تھے۔ یہ تینوں راستے وہ تھے جن پر عرب آباد تھے۔ عرب خود بھی ایک طرف سے مال خرید کر لے جاتے اور دوسری طرف اسے فروخت کرتے تھے۔ حمل و نقل کا کاروبار (carrying trade) بھی کرتے تھے۔ اور اپنے علاقے سے گزرنے والے قافلوں سے بھاری ٹیکس لے کر انھیں بحفاظت گزارنے کا ذمہ بھی لیتے تھے۔ ان تینوں صورتوں سے ہمیشہ بین الاقوامی تجارت کے ساتھ ان کا گہرا تعلق رہا۔ ۲۷۰۰ برس قبل مسیح سے یمن اور مصر کے تجارتی تعلقات کا صاف ثبوت ملتا ہے۔ ۱۷۰۰ برس قبل مسیح میں بنی اسماعیل کے تجارتی قافلوں کی سرگرمیوں پر توراۃ شہادت دیتی ہے۔ شمالی حجاز میں مدین (مِدیان) اور دِدان کی تجارت ڈیڑھ ہزار برس قبل مسیح اور اس کے بعد کئی صدی تک چلتی نظر آتی ہے۔ حضرت سلیمانؑ و دائود ؑکے زمانے (ایک ہزار سال قبل مسیح) سے یمن کے سبائی قبائل اور ان کے بعد حمیری قبیلے ابتدائی مسیحی صدیوں تک مسلسل تجارتی نقل و حرکت کرتے رہے ہیں۔ مسیح علیہ السلام سے لگ بھگ زمانے میں فلسطین کے یہودی عرب آ کر یثرب، خیبر، وادی القریٰ (موجودہ العلاء) تیماء اور تبوک میں آباد ہوئے اور ان کے دائمی تعلقات، مذہبی بھی اور ثقافتی بھی، شام و فلسطین اور مصر کے یہودیوں کے ساتھ برقرار رہے۔ عرب میں شام اور مصر سے غلہ اور شراب درآمد کرنے کا کام زیادہ تر یہی یہودی کرتے تھے۔ پانچویں صدی سے قریش نے عرب کی بیرونی تجارت میں غالب حصہ لینا شروع کیا اور نبی a کے عہد تک ایک طرف یمن اور حبش سے ، دوسری طرف عراق سے، اور تیسری طرف مصر و شام سے ان کے نہایت وسیع تجارتی تعلقات تھے۔ مشرقی عرب میں ایران کی جتنی تجارت یمن کے ساتھ تھی اس کا بہت بڑا حصہ حیرہ سے یمامہ (موجودہ ریاض) اور پھر بنی تمیم کے علاقے سے گزرتا ہوا نجران اور یمن جاتا تھا۔ صدہا برس کے ان وسیع تجارتی روابط کی موجودگی میں یہ فرض کرنا بالکل خلاف عقل ہے کہ بیرونی دنیا کے ان ممالک میں جو مالی معاملات اور کاروباری طریقے مروّج تھے ان کی عرب کے لوگوں کو خبر نہ ہو۔
ان تجارتی تعلقات کے علاوہ سیاسی اور ثقافتی اعتبار سے بھی عرب کے لوگوں کا اپنے گردوپیش کی مہذب دنیا سے گہرا رابطہ تھا۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں شمالی حجاز کے مقام تیماء کو بابل کے بادشاہ نیبو نیدوس (Nabonidus) نے اپنا گرمائی دارالسلطنت بنایا تھا۔ کیسے ممکن تھا کہ بابل میں جو معاشی قوانین اور طریقے رائج تھے ان سے حجاز کے لوگ بے خبر رہ گئے ہوں۔ تیسری صدی قبل مسیح سے نبیa کے عہد تک پہلے پطرا (Petra) کی نبطی ریاست، پھر تدمر کی شامی ریاست اور اس کے بعد حیرہ اور غسان کی عربی ریاستیں عراق سے مصر کے حدود تک اور حجاز نجد کے حدود سے الجزیرہ اور شام کے حدود تک مسلسل قائم رہیں۔ ان ریاستوں کا ایک طرف یونان و روم سے اور دوسری طرف ایران سے نہایت گہرا سیاسی، تمدنی، تہذیبی اور معاشی تعلق رہا ہے۔ پھر نسلی رشتوں کی بنا پر اندرون عرب کے قبائل بھی ان کے ساتھ وسیع تعلقات رکھتے تھے۔ مدینہ کے انصار اور شام کے غسانی فرماں روا ایک ہی نسل سے تھے اور ان کے درمیان پیہم تعلقات قائم رہے۔ نبیa کے عہد میں خود آپ کے خاص شاعر حضرت حسانؓ بن ثابت غسانی امرا کے ہاں آتے جاتے تھے۔{ FR 2406 } حیرہ کے امرا سے قریش والوں کا بہت میل جول تھا۔ حتیٰ کہ قریش کے لوگوں نے لکھنا پڑھنا بھی انھی سے سیکھا اور حیرہ ہی سے وہ رسم الخط انھیں ملا جو بعد میں خط کوفی کے نام سے مشہور ہوا۔{ FR 2407 } کس طرح باور کیا جا سکتا ہے کہ ان تعلقات کے ہوتے یہ لوگ یونان و روم اور مصر و شام اور عراق و ایران کے مالی و معاشی معاملات سے بالکل ناواقف رہ گئے ہوں۔
مزید برآں عرب کے ہر حصے میں شیوخ، اشراف اور بڑے بڑے تاجروں کے پاس رومی، یونانی اور ایرانی لونڈیوں اور غلاموں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ ایران و روم کی لڑائیوں میں دونوں طرف کے جو جنگی قیدی غلام بنائے جاتے تھے، ان میں سے زائد از ضرورت تعداد کو کھلے بازار میں فروخت کر دیا جاتا تھا، اور عرب اس مال کی بڑی منڈیوں میں سے ایک تھا۔ ان غلاموں میں اچھے خاصے پڑھے لکھے مہذب لوگ بھی ہوتے تھے اور صنعت پیشہ اور تجارت پیشہ لوگ بھی۔ عرب کے شیوخ اور تجاران سے بہت کام لیتے تھے۔ مکہ، طائف، یثرب اور دوسرے مرکزوں میں ان کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور یہ کاریگروں کی حیثیت سے یا تجارتی کارکنوں کی حیثیت سے اپنے آقاؤں کی قیمتی خدمات بجا لاتے تھے۔ آخر یہ کس طرح ممکن تھا کہ اپنے ان مددگاروں کے ذریعے سے کسی عرب تاجر کے کان میں کبھی یہ بات نہ پڑی ہو کہ گرد وپیش کی دنیا میں مالی و کاروباری معاملات کے کیا طریقے رائج ہیں۔
اس کے ساتھ عرب کی معاشی تاریخ کا ایک اور پہلو بھی نگاہ میں رہنا چاہیے۔ عرب کسی زمانے میں بھی نہ تو خوراک کے معاملے میں خود کفیل رہا ہے، اور نہ وہاں ایسی صنعتوں کو فروغ نصیب ہوا ہے جن سے تمام ضرورت کے سامان ملک ہی میں فراہم ہو جاتے ہوں۔ اس ملک میں ہمیشہ اشیائے خوردنی بھی باہر سے درآمد ہوتی رہی ہیں اور ہر طرح کی مصنوعات بھی، حتیٰ کہ پہننے کے کپڑے تک زیادہ تر باہر ہی سے آتے رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب کے عہد میں یہ درآمدی تجارت زیادہ تر دو گروہوں کے ہاتھ میں تھی۔ ا یک قریش اور ثقیف دوسرے یہود‘ لیکن یہ لوگ مال درآمد کرکے صرف تھوک فروشی ہی کرتے تھے۔ اندرونِ ملک کی چھوٹی چھوٹی بستیوں اور قبائلی ٹھکانوں میں خردہ فروشی کرنا ان کا کام نہ تھا، نہ ہو سکتا تھا اور نہ قبائل اس بات کو کبھی گوارا کر سکتے تھے کہ سارے تجارتی فائدے یہی لوگ لوٹ لے جائیں اور ان کے اپنے آدمیوں کو اس اجارہ داری میں گھسنے کا کسی طرف سے راستہ نہ ملے۔ اس لیے تھوک فروش کی حیثیت سے یہ لوگ اندرون ملک کے خردہ فروش تاجروں کے ہاتھ لاکھوں روپے کا مال فروخت کرتے تھے اور اس کا ایک معتدبہ حصہ ادھار فروخت ہوتا تھا۔ شاید دنیا میں تھوک فروش اور خردہ فروش کے درمیان کبھی اور کہیں خالص نقد لین دین کا طریقہ رائج نہیں رہا ہے۔ اس لین دین میں ادھار بالکل ناگزیر ہے جس سے کبھی مفر نہ تھا۔ اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ صرف عرب ہی میں اس وقت یہ لین دین بالکل نقد انقد کی شرط پر ہوتا تھا اور قرض کا اس میں کوئی دخل نہ تھا تو عقلاً بھی یہ قابل قبول نہیں ہے، اور تاریخی طور پر بھی یہ غلط ہے، جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا۔
اب میں تنقیحات کو لیتا ہوں جن کا ذکر میں نے آغاز میں کیا تھا۔
یہ امر کہ قدیم زمانے میں قرض صرف ذاتی و شخصی ضرورتوں ہی کے لیے نہیں لیا جاتا تھا بلکہ تجارتی، صنعتی اور زراعتی اغراض کے لیے بھی اس کا عام رواج تھا اور حکومتیں بھی اپنی ریاستی اغراض کے لیے قرض لیتی تھیں، تاریخ سے بالکل ثابت ہے اور یہ دعویٰ کرنے کے لیے کوئی بنیاد نہیں ہے کہ پرانی دنیا میں قرض کا لین دین صرف شخصی حاجتوں کے لیے ہوتا تھا۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ قرض پر اصل سے زائد ایک طے شدہ مقدارِ مال لینے کا طریقہ، شخصی اور کاروباری معاملات کے درمیان کسی قسم کا امتیاز کیے بغیر ہر قسم کے قرضوں کی صورت میں رائج تھا۔
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (۱۹۴۶ء) کے مضمون (banks) میں بیان کیا گیا ہے کہ بابل اور مصر کے مندر صرف عبادت گاہ ہی نہ تھے بلکہ بینک بھی تھے۔ بابل کے آثار قدیمہ میں جو گِلی تختیاں (clay tablets) ملی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ زمیندار فصل سے پہلے اپنی زرعی ضروریات کے لیے مندروں سے قرضے لیتے تھے اور فصل کاٹنے کے بعد مع سود یہ قرض ادا کرتے تھے۔ یہ ساہو کاری نظام دو ہزار برس قبل مسیح میں پایا جاتا تھا۔ چھٹی صدی قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں پرائیویٹ بینک بھی بابل میں کام کرتے پائے جاتے ہیں۔ ۵۷۵ ق م میں بابل کے (Igibi bank) کا وجود ملتا ہے جو زمینداروں کو زرعی اغراض کے لیے قرض دیتا تھا۔ نیز یہ بینک لوگوں کے ڈیپازٹ اپنے پاس رکھ کر ان پر سود ادا بھی کرتا تھا۔ یاد رہے کہ یہ وہی زمانہ تھا جب شمالی حجاز کا شہر تیما بابل کی سلطنت کا گرمائی دارالسلطنت تھا۔
ول ڈورانٹ اپنی کتاب (A story of civilization) { FR 2408 }میں بابل کے متعلق لکھتا ہے:
’’ملک میں ازروئے قانون ۲۰ فیصدی نقد روپے کے قرضوں پر اور ۳۳ فیصدی سالانہ اجناس کی صورت میں قرضوں پر سود مقرر تھا۔ بعض طاقتور خاندان نسلاً بعد نسلٍ ساہوکاری کا کام کرتے اور صنعت پیشہ لوگوں کو سود پر قرضے دیتے تھے۔ ان کے علاوہ مندروں کے پروہت فصلوں کی تیاری کے لیے زمینداروں کو قرض دیا کرتے تھے۔‘‘
اس سلسلے میں آگے چل کر یہی مصنف لکھتا ہے:۔
ایک وبا کی طرح پھیلی ہوئی سود خواری وہ قیمت تھی جو ہماری صنعت کی طرح بابل کی صنعت بھی ایک پیچیدہ نظام قرض کے ذریعے سے سیراب ہونے کے بدلے میں ادا کر رہی تھی۔ بابل کا تمدن اصلاً ایک تجارتی تمدن تھا۔ جتنی دستاویزیں بھی اس کے آثار سے اس زمانے میں برآمد ہوئی ہیں وہ زیادہ تر کاروباری نوعیت کی ہیں۔ فروخت، قرضے، ٹھیکے، شراکت، دلالی، مبادلے، اقرار نامے، تمسکات اور اسی طرح کے دوسرے امور۔ ‘‘{ FR 2257 }
سیریا کی حالت بھی اس سے مختلف نہ تھی۔ ساتویں صدی قبل مسیح میں سینا کریب کے زمانے کا حال بیان کرتے ہوئے ول ڈورانٹ لکھتا ہے:۔
’’صنعت اور تجارت کو ایک حد تک نجی کاروبار کرنے والے ساہو کار سرمایہ فراہم کرکے دیتے اور ان قرضوں پر ۲۵ فیصدی سالانہ سود وصول کرتے تھے۔ ‘‘{ FR 2258 }
یونان کے متعلق انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے مضمون (banks) میں بیان کیا گیا ہے کہ چوتھی صدی قبل مسیح سے وہاں بینک کاری کے باقاعدہ نظام کا ثبوت ملتا ہے۔ اس نظام میں ایک قسم کے بینک وہ تھے جو لوگوں کے مال بطور امانت اپنے پاس رکھتے تھے اور اس پر سود دیتے تھے۔
ول ڈورانٹ لکھتا ہے کہ پانچویں صدی قبل مسیح ڈلفی کا اپالو مندر تمام یونانی دنیا کا بین الاقوامی بینک تھا۔ اس سے اشخاص کو بھی اور ریاستوں کو بھی معتدل شرح سود پر قرضے حاصل ہوتے تھے۔ اسی طرح پرائیویٹ صراف ۱۲ سے ۳۰ فیصدی تک شرح سود پر تاجروں کو قرضے دیتے تھے۔ یونانیوں نے یہ طریقے مشرقِ قریب (بابل و مصر اور شام) سے سیکھے اور بعد میں رُوم نے ان طریقوں کو یونان سے سیکھا۔ پانچویں صدی کے آخر میں بعض بڑے بڑے پرائیویٹ بینک یونان میں قائم ہو چکے تھے۔ انھی کے ذریعے سے ایتھنز کی تجارت پھیلنی شروع ہوئی۔{ FR 2259 } اس کے بعد روم کا دور آتا ہے۔ ول ڈورانٹ لکھتا ہے کہ:
دوسری صدی قبل مسیح میں روم کی بینک کاری پورے عروج پر تھی۔ ساہو کار لوگوں کے ڈیپازٹ رکھتے تھے اور ان پر سود ادا کرتے تھے۔ قرض لیتے بھی تھے اور دیتے بھی تھے۔ کاروبار میں اپنا روپیہ بھی لگاتے تھے اور دوسروں کا بھی لگواتے تھے۔{ FR 2260 } پہلی صدی عیسوی میں رومی سلطنت کے ہر حصے میں بینک قائم ہو چکے تھے۔ بینک کاری کے دوسرے کاموں کے ساتھ یہ لوگوں کے ڈیپازٹ رکھ کر سود دیتے اور آگے روپیہ قرض دے کر سود وصول کرتے تھے۔ یہ کاروبار زیادہ تر یونانیوں اور شامیوں کے ہاتھ میں تھا۔ گال (gall) میں تو شامی اور ساہوکار، دونوں ہم معنی لفظ ہوگئے تھے۔ اس زمانے میں سرکاری خزانہ بھی زمینداروں کو فصل کی کفالت پر سودی قرضے دیتا تھا۔ آگسٹس کے زمانے میں شرح سود ۴ فیصدی تک گر گئی تھی۔ اس کے مرنے کے بعد شرح ۶ فیصدی تک اور قسطنطین کے زمانے میں ۱۲ فیصدی تک چڑھ گئی۔{ FR 2261 }
اس پہلی صدی عیسوی کے متعلق بیرن (baron) اپنی کتاب (a religious and social history of the jews) میں بیان کرتا ہے کہ اسکندریہ کے یہودی بینکرز الیگزینڈر اور ڈیمسٹریوس نے یہودیہ کے بادشاہ اگریپا اوّل کو دو لاکھ درہم (تقریباً ۳۰ ہزار ڈالر) قرض دیئے تھے۔{ FR 2262 }
نبی a سے بالکل قریب کے زمانے میں قیصر روم جسٹینین نے (جس کی وفات آنحضرتa کی پیدائش سے صرف پانچ برس قبل ہوئی تھی) تمام بیزنطینی سلطنت میں ازروئے قانون زمینداروں اور کاشت کاروں کے قرضوں پر چار فیصدی، شخصی قرضوں پر چھ فیصدی، تجارتی اور صنعتی قرضوں پر آٹھ فیصدی اور بحری تجارت کے قرضوں پر بارہ فیصدی شرح سود مقرر کی تھی۔ یہ قانون جسٹینین کے بعد بھی ایک مدت تک بیز نطینی سلطنت میں رائج رہا۔{ FR 2263 } یہ بات فراموش نہ کرنی چاہیے کہ جس بیزطینی سلطنت میں سود کا یہ قانون رائج تھا اس کی سرحدیں شمالی حجاز سے ملی ہوئی تھیں۔ شام، فلسطین اور مصر کے تمام علاقے اس کے زیر نگین تھے۔ قریش کے تاجر ان علاقوں کی منڈیوں میں پیہم آمدورفت رکھتے تھے۔ اور خود نبیa بچپن سے آغازِ نبوت تک مسلسل تجارتی قافلوں کے ساتھ ان منڈیوں میں جاتے رہتے تھے۔ آخر یہ بات کیسے فرض کی جا سکتی ہے کہ قریش کے ان تاجروں کو اور خود آنحضرت a کو ان بازاروں میں کاروبار کرتے ہوئے کبھی یہ پتہ نہ چلا کہ بیز نطینی سلطنت میں تجارت، صنعت اور زراعت کی اغراض کے لیے بھی قرض کے لین دین کا رواج ہے اور اس پر ازروئے قانون سود کی شرحیں مقرر ہیں۔{ FR 2264 }
عین زمانۂ نبوت میں روم اور ایران کے درمیان وہ زبردست لڑائی ہو رہی تھی جس کا ذکر قرآن مجید کی سورۂ روم میں کیا گیا ہے۔ اس لڑائی میں جب ہر قل نے خسرو پرویز کے مقابلے پرہجومی جنگ کا آغاز کیا، اس وقت اپنی جنگی ضروریات کے لیے اسے کلیساؤں کی جمع شدہ دولت سود پر قرض لینی پڑی تھی۔{ FR 2265 } اب کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ جس عظیم الشان لڑائی نے عراق سے مصر تک عرب کے سارے بالائی حصے کو تہ و بالا کرکے رکھ دیا تھا، جس میں ایران کی زبردست فتوحات کے ہر طرف چرچے ہو رہے تھے، اور جس میں سلطنت روم کے گرتے ہوئے قصر کو بچانے کے بعد اب قیصر نے یکایک خسرو کے مقابلے پر وہ حیرت انگیز پیش قدمی کی تھی جو ساسانی دارالسلطنت، مدائن کی تباہی پر جا کر ختم ہوئی، اس لڑائی کا یہ واقعہ عرب کے لوگوں سے بالکل پوشیدہ رہ گیا ہوگا کہ قیصر نے اپنی اس پیش قدمی کے لیے سرمایہ کلیساؤں سے سود پر حاصل کیا ہے؟ مجوسیوں سے عیسائیت کو بچانے اور بیت المقدس ہی کو نہیں مقدس صلیب کو بھی مشرکین کے قبضے سے نکالنے کے لیے جنگ کی جائے اور کلیسا کے پادری اس کارِ خیر کے لیے سود پر قرض دیں، یہ عجیب و غریب واقعہ آخر ان لوگوں کے علم میں آنے سے کیسے بچ سکتا تھا جن کی نگاہیں دنیا کی ان دو عظیم ترین سلطنتوں کی جنگ کے نتیجے پر لگی ہوئی تھیں؟ خصوصاً قریش اس سے کیسے ناواقف ہو سکتے تھے جب کہ سورۂ روم کے نازل ہونے پر اسی جنگ روم و ایران کے معاملے میں حضرت ابوبکرؓ اور سردارانِ قریش کے درمیان باقاعدہ شرط لگ چکی تھی؟
یہاں تک جو کچھ میں نے عرض کیا ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل عرب کے نہایت قریبی تعلقات مشرق اوسط کی معاشی و تمدنی اور سیاسی زندگی کے ساتھ قدیم ترین زمانے سے وابستہ رہے ہیں اور اس خطہ زمین میں ڈھائی ہزار سال سے تجارتی، صنعتی، زراعتی اور ریاستی اغراض کے لیے قرض کے لین دین اور اس پر سود وصول کرنے کا رواج رہا ہے، اور اہل عرب کا اس رواجِ عام سے بے خبر اور غیر متاثر رہنا قطعاً قابل تصور نہیں ہے۔
] عہد نبوت میں عربوں کے مالی معاملات[
اب خود عرب کے مالی معاملات کو دیکھیے جو نبی aکے عہد میں تھے۔ میں پہلے یہ بتا چکا ہوں کہ عرب کی ضروریات کے لیے غلہ اور شراب زیادہ تر یہودی درآمد کرتے تھے اور باقی دوسرا سامان زیادہ تر مکہ اور طائف کے تاجر بیرونی علاقوں سے لاتے تھے۔ میں یہ بھی عرض کر چکا ہوں کہ قریش اور ثقیف اور یہود کا سارا کاروبار تھوک فروشی کی حد تک تھا۔ اندرونِ ملک میں خردہ فروشی دوسرے لوگ کرتے تھے اور وہ ان تھوک فروشوں سے مال خرید کر لے جایا کرتے تھے۔ میں یہ بھی بتا چکا ہوں کہ تھوک فروشوں اور خردہ فروشوں کے درمیان بالکل نقد انقد کی شرط پر کاروبار دنیا میں کبھی نہیں ر ہا ہے۔ اور عرب میں بھی نہیں تھا۔ اس کے بعد ذرا ان روایات کو ملاحظہ فرمایئے جو آیت ربوٰ کی تفسیر میں عہد رسالت سے قریب زمانے کے مفسرین سے منقول ہوئی ہیں۔ ضحاکؓ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
کَانَ رِبًا یَتَبَایَعُوْنَ بِہٖ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ۔ { FR 2409 }
یہ وہ سود تھا جس کے ساتھ جاہلیت میں لوگ خریدوفروخت کرتے تھے۔
قتادہؓ کہتے ہیں:
اِنَّ رِبَا اَہْلِ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبِیْعُ الرَّجُلُ یَبِیْعُ الرَّجُلُ الْبَیْعَ اِلٰی اُجَلٍ مُسَمّٰی فَاِذَا حَلَّ الْاُجَلَ وَلَمْ یَکُنْ عِنْدَ صَاحِبِہٖ قَضَاء زَادَہٗ وَاَخَّرَ عَنْہُ ۔{ FR 2410 }
اہل جاہلیت کا ربا یہ تھا کہ ایک شخص دوسرے شخص کے ہاتھ مال فروخت کرتا اور قیمت ادا کرنے کے لیے ایک مدت طے ہو جاتی۔ اب اگر وہ مدت پوری ہوگئی اور خریدار کے پاس اتنا مال نہ ہوا کہ قیمت ادا کرے تو بیچنے والا اس پر زائد رقم عائد کر دیتا اور مہلت بڑھا دیتا۔ { FR 2266 }
سدیؒ کہتے ہیں:
نَزَلَتْ ہٰذِہ الآیۃ فی العباس بن عبدالمطلب و رجل من بنی المغیرۃ کانا شریکین فی الجاہلیۃ یسلفان فی الربا الی اناس من ثقیف من بنی عمرو فجاء الاسلام ولہما اموالٌ عظیمۃٌ فی الربا۔ { FR 2411 }
آیت وذروا ما بقی من الربا عباس بن عبدالمطلب اور بنی المغیرہ کے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ دونوں جاہلیت کے زمانے میں شریک تھے اور انھوں نے ثقیف کے بنی عمرو میں لوگوں کو سودی قرض پر مال دے رکھے تھے۔ جب اسلام آیا تو ان دونوں کا بڑا سرمایہ سود میں لگا ہوا تھا۔
یہ سب روایات خردہ فروشوں کے ہاتھ ادھار پر مال فروخت کرنے اور اس پر سود لگانے کی خبر دیتی ہیں اور یہ بھی بتاتی ہیں کہ اس تجارتی سود کے لیے بھی الربا کی اصطلاح ہی استعمال ہوتی تھی، کوئی دوسرا لفظ ایسا نہ تھا جو تجارتی قرضوں کے لیے مستعمل ہو اور الریا صرف ان قرضوں کے سود پر بولا جاتا ہو جو خالص شخصی حاجات کے لیے حاصل کیے جاتے تھے۔
پھر بخاری میں سات مقامات پر اور نسائی میں ایک مقام پر صحیح سندوں کے ساتھ یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ نبیa نے بیان فرمایا: بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے دوسرے شخص سے تجارت کے لیے ایک ہزار دینار قرض لیے{ FR 2269 } اور کہا کہ میرے اور تیرے درمیان اللہ گواہ اور اللہ ہی کفیل ہے۔ پھر وہ بحری سفر پر چلا گیا۔ وہاں جب وہ اپنے کاروبار سے فارغ ہوا تو واپسی کے لیے اسے کوئی جہاز نہ ملا اور وہ مدت پوری ہوگئی جس کی قرارداد کرکے اس نے قرض لیا تھا۔ آخر اس نے یہ کیا کہ ایک لکڑی کے اندر سوراخ کرکے ایک ہزار دینار اس میں رکھ دیے اور قرض خواہ کے نام ایک خط بھی لکھ کر ساتھ رکھا اور سوراخ بند کرکے لکڑی سمندر میں چھوڑ دی اور اللہ سے دعا کی کہ میں نے تجھی کو گواہ اور کفیل بنا کر یہ رقم اس شخص سے قرض لی تھی۔ اب تو ہی اسے اس تک پہنچا دے۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ قرض خواہ ایک روز اپنے ملک میں سمندر کے کنارے کھڑا تھا، یکایک لکڑی کا ایک لٹھا اس کے سامنے آ کر رُکا۔ اس نے لکڑی کو اٹھا کر دیکھا تو قرض دار کا خط بھی اسے ملا اور ایک ہزار دینار بھی مل گئے۔ بعد میں جب یہ شخص اپنے وطن واپس پہنچا تو ایک ہزار دینار لے کر اپنا قرض ادا کرنے کے لیے دائن کے پاس گیا۔ مگر اس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ مجھے میری رقم مل گئی ہے۔{ FR 2412 }
یہ روایت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ تجارت کے لیے قرض لینے کا تخیل اس وقت عربوں میں غیر معروف نہ تھا۔
ابن ماجہ اور نسائی میں روایت ہے کہ نبیa نے جنگ حنین کے موقع پر عبداللہ بن ربیعہ مخزومی سے ۳۰ یا ۴۰ ہزار درہم قرض لیے تھے اور جنگ سے واپسی پر یہ قرض آپؐ نے ادا فرمایا۔{ FR 2413 } یہ ریاستی اغراض کے لیے قرض کی صریح مثال ہے۔
ایک دوست نے دو اور واقعات کی طرف بھی مجھے توجہ دلائی ہے جس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ پہلا واقعہ ہندؓ بنت عتبہ کا ہے کہ اس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیت المال کا چار ہزار روپیہ (غالباً درہم) تجارت کے لیے قرض حاصل کیا تھا۔{ FR 2414 }
دوسرا واقعہ بھی حضرت عمرؓ ہی کے عہد کا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری (بصرہ کے گورنر) نے بیت المال کا روپیہ حضرت عمرؓ کے دوصاحبزادوں عبداللہ اور عبید اللہ کو تجارت کے لیے قرض دیا۔ مگر بعد میں حضرت عمرؓ نے اس قرض کو قابل اعتراض قرار دے کر اصل کے علاوہ پورے منافع کا بھی صاحبزادوں سے مطالبہ کیا، اور آخر کار لوگوں کے مشورے سے اس کو قرض کے بجائے قراض (مضاربت) قرار دے کر آدھا منافع وصول کیا۔{ FR 2273 }
یہ دونوں مثالیں زمانۂ جاہلیت سے بہت قریب کے دور کی ہیں۔ عرب میں ۹ھ تک سودی کاروبار چلتا رہا۔ یہ واقعات اس کی آخری بندش سے صرف دس بارہ سال بعد کے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتنی قلیل مدت میں تصورات نہیں بدل جاتے ہیں۔ اس لیے ان واقعات سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ قرض پر سرمایہ لے کر تجارت کرنے کا تصور عہد جاہلیت میں بھی موجود تھا۔{ FR 2274 }
رہی یہ بات کہ اسلامی عہد کے مورخین اور محدثین و مفسرین نے شخصی حاجات اور تجارتی و کاروباری قرضوں کا واضح طور پر الگ الگ کیوں ذکر نہ کیا، تو اس کا ظاہر سبب یہ ہے کہ ان کے ہاں قرض‘ خواہ جس غرض کے لیے بھی ہو قرض ہی سمجھا جاتا تھا اور اس پر سود کی حیثیت بھی ان کی نگاہ میں یکساں تھی۔ انھوں نے نہ اس تصریح کی کوئی خاص ضرورت محسوس کی کہ بھوکے مرتے ہوئے لوگ پیٹ بھرنے کے لیے قرض لیتے تھے اور نہ خاص طور پر اسی بات کو تفصیل سے بیان کرنا ضروری سمجھا کہ کاروبار کے لیے لوگ قرض لیا کرتے تھے۔
ان امور کی تفصیلات خال خال ہی کہیں ملتی ہیں جن سے صحیح صورتِ حال سمجھنے کے لیے عرب کے حالات کو اس وقت کی دنیا کے مجموعی حالات میں رکھ کر دیکھنا ناگزیر ہے۔ مختلف قرضوں کے درمیان ان کی اغراض کے لحاظ سے فرق و امتیاز کرکے ایک مقصد کے قرض پر سود کو جائز اور دوسرے مقصد کے قرض پر اس کو ناجائز ٹھیرانے کا تخیل غالباً چودھویں صدی عیسوی سے پہلے دنیا میں نہ پایا جاتا تھا۔{ FR 2275 } اس وقت تک یہودیت ، مسیحیت اور اسلام کے تمام اہل دین اور اسی طرح اخلاقیات کے ائمہ بھی اس بات پر متفق تھے کہ ہر قسم کے قرضوں پر سود ناجائز ہے۔
ایک بات یہ بھی کہی جا تی ہے کہ زمانہ قبل اسلام میں یہ ممکن ہی نہ تھا کہ لوگ قرض کے سرمائے سے تجارت کر سکیں، کیونکہ ملک میں کوئی باقاعدہ حکومت نہ تھی، ہر طرف بدامنی پھیلی ہوئی تھی، تجارتی قافلوں کو بہت بھاری ٹیکس دے دے کر مختلف قبائل کے علاقوں سے گزرنا پڑتا تھا اور ان پر خطر حالات کی وجہ سے شرح سود تین چار سو فیصدی تک پہنچی ہوئی تھی جس پر قرض لے کر کاروبار میں لگانا کسی طرح نفع بخش نہ ہو سکتا تھا‘ لیکن یہ قیاس آرائی اصل تاریخی حالات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ محض ایک مفروضہ ہے جو تاریخ سے بے نیاز ہو کر صرف اس گمان پر قائم کر لیا گیا ہے کہ عرب میں جب کوئی باقاعدہ حکومت نہ تھی اور عام بدامنی پھیلی ہوئی تھی تو ضرور اس کے نتائج یہی ہوں گے۔ حالانکہ تاریخی واقعات یہ بتاتے ہیں کہ اسلام سے قریب عہد میں ایران و روم کی پیہم لڑائیوں اور سیاسی کش مکش کی بدولت چین، انڈونیشیا، ہندوستان اور مشرقی افریقہ کے ساتھ رومی دنیا کے جتنے بھی تجارتی تعلقات تھے ان کا واسطہ مکہ کے عرب تاجر ہی تھے۔ خصوصاً یمن پر ایران کا قبضہ ہو جانے کے بعد تو رومیوں کے لیے مشرقی تجارت کے سارے راستے بند ہو چکے تھے۔ ان حالات میں مشرق کا سارا مالِ تجارت خلیج فارس اور بحر عرب کی عربی بندرگاہوں پر اترتا اور وہاں سے مکہ پہنچ کر رومی دنیا میں جاتا تھا۔ اور اسی طرح رومی دنیا کے سارے اموالِ تجارت قریش ہی کے قافلے مکہ لاتے اور پھر ان بندرگاہوں تک پہنچاتے تھے جن پر مشرق کے تاجر آیا کرتے تھے۔ اولیاری لکھتا ہے کہ اس زمانے میں ’’مکہ‘‘ بینک کاری کا مرکز بن گیا تھا جہاں دور دراز علاقوں کے لیے ادائیگیاں کی جا سکتی تھیں اور وہ بین الاقوامی تجارت کا گھربنا ہوا تھا۔
(Mecca had become a banking centre where payments could be made to many distant lands and clearing house of International Commerce) { FR 2415 }
یہ چمکتی ہوئی تجارت آخر کیسے چل سکتی تھی اگر حالات وہ ہوتے جو فرض کر لیے گئے ہیں۔ معاشی قوانین کی سرسری واقفیت بھی یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ جہاں بدامنی کی وجہ سے کاروبار اس قدر کثیر المصارف اور پر خطر ہو کہ تجارتی سود کی شرح تین چار سو فیصدی تک پہنچ جائے۔ وہاں لازماً مال تجارت کی لاگت (cost price) بھی اس حد تک بڑھ جانی چاہیے کہ بیرونی منڈیوں میں لے جا کر انھیں منافع کے ساتھ فروخت کرنا غیر ممکن ہو جائے۔ آخر اتنی چڑھی ہوئی قیمتوں پر یہ مال مصر و شام کے بازاروں میں کیسے بک جاتا تھا؟ دراصل عرب میں اس ساری بدامنی و بدنظمی کے باوجود جس کا ذکر کیا جاتا ہے، بڑے پیمانے کی تجارت وہ قبیلے کرتے تھے جو بجائے خود طاقت ور ہوتے تھے، بڑے بڑے قبیلوں سے جنھوں نے حلیفانہ معاہدات بھی کر رکھے تھے، سود پر لاکھوں روپے کا مال قبیلوں میں پھیلا کر بھی جنھوں نے بکثرت لوگوں کو اپنے کاروبار کی گرفت میں لے لیا تھا، اور سردارانِ قبائل کو ہر طرح کے سامانِ تعیش بہم پہنچا کر بھی جنھوں نے اپنے وسیع اثرات قائم کر لیے تھے۔
اس کے علاوہ خود قبائل کا اپنا مفاد بھی اس کا متقاضی تھا کہ ان کہ وہ ناگزیر ضروریاتِ زندگی، غلہ، کپڑا وغیرہ بہم پہنچائیں جو باہر سے درآمد ہوتی تھیں۔ اس وجہ سے ان طاقت ور قبیلوں کو بڑے بڑے تجارتی قافلے لے کر، جن میں بسا اوقات ڈھائی ڈھائی ہزار اونٹ ہوتے تھے، عرب کے راستوں سے گزرنے کے لیے اس قدر بھاری ٹیکس نہیں دینے پڑتے تھے اور نہ خطرات سے محفوظ رہنے کے لیے اس قدر خطیر مصارف اٹھانے پڑتے تھے کہ اموالِ تجارت کی قیمتیں ناقابل فروخت حد تک چڑھ جائیں بیرونی تجارت کے علاوہ خود عرب کے مختلف حصوں میں سال کے سال تقریباً ۲۰ مرکزی مقامات پر باقاعدہ ہاٹ (سوق) لگتے تھے جن کا ذکر ہمیں تاریخوں میں ملتا ہے۔ ان ہاٹوں میں عرب کے ہر ہر حصے سے قافلے آ کر خریدوفروخت کرتے اور ان میں سے بعض میں روم و ایران اور چین و ہندوستان تک کے تاجر آیا کرتے تھے۔ یہ پیہم تجارتی نقل و حرکت کیسے جاری رہ سکتی تھی اگر عرب کے حالات اتنے ہی خراب ہوتے جتنے فرض کر لیے گئے ہیں۔ مورخین نے قریش کے تجارتی کاروبار کے متعلق یہ تصریح کی ہے کہ وہ سو فیصدی منافع کمایا کرتے تھے۔ ایسے منافع کے کاروبار کے لیے سودی قرض پر سرمایہ نہ مل سکنا اور شرح سود تین چار سو فیصدی تک ہونا قطعاً خارج از فہم ہے اور اس دعوے کے لیے کوئی تاریخی سند موجود نہیں ہے کہ عرب میں شرح سود اس قدر چڑھی ہوئی تھی۔
دوسرا سوال ] رِبا کی لغوی اور اِصطلاحی تعریفیں[
لفظ رِبا کے معنی لغت عرب میں تو زیادتی اضافے اور بڑھوتری کے ہیں، لیکن ’’الربوٰ‘‘ سے اصطلاحاً جو چیز مراد ہے وہ خود قرآن ہی کے ان الفاظ سے صاف ظاہر ہو جاتی ہے:
وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا … وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ۰ۚ … وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰى مَيْسَرَۃٍ۰ۭ (البقرہ 278-280:2 )
سود میں سے جو کچھ باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو … اگر تم توبہ کر لو تو تمھیں اپنے رأس المال لینے کا حق ہے … اور اگر تمھارا دین دار تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو۔
یہ الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ رِبا کا یہ حکم قرض کے معاملے سے متعلق ہے اور قرض میں اصل سے زائد جو کچھ طلب کیا جائے وہ الرِبا ہے جسے چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن یہ کہہ کر بھی رِبا کا مفہوم واضح کرتا ہے: اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰو (اللہ نے بیع کو حلال اور رِبا کو حرام کیا ہے) ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ربوٰ میں راس المال قرض دے کر جو کچھ اس سے زیادہ لیا جاتا ہے وہ اس منافع سے مختلف ہے جو بیع کے معاملے میں لاگت سے زائد حاصل ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ربوٰ مال کی وہ زیادتی ہے جو بیع کے طریقے سے نہ ہو۔ اسی بنا پر محدثین ، فقہا اور مفسرین کا پورا اتفاق ہے کہ قرآن میں وہ رِبا حرام کیا گیا ہے جو قرض کے معاملے میں اصل سے زائد طلب کیا جائے۔
جیسا کہ پہلے سوال کے جواب میں تاریخ سے ثابت کیا جا چکا ہے، نزولِ قرآن کے وقت یہ امر عرب میں پوری طرح معلوم و معروف تھا کہ قرض کا معاملہ صرف شخصی حاجات ہی کے لیے نہیں ہوتا بلکہ کاروباری اور قومی اغراض کے لیے بھی ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود قرآن نے ربوٰ کی حرمت کا حکم دیتے ہوئے ایسا کوئی اشارہ نہیں کیا ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہو کہ اغراض کے اعتبار سے قرض اور قرض میں کوئی فرق ہے، اور سود کی حرمت کا حکم صرف شخصی حاجات کے قرضوں کے لیے مخصوص ہے اور نفع آور اغراض کے لیے جو قرض دیا جائے اس پر سود لگانا حلال ہے۔ فقہائے اسلام بھی پہلی صدی ہجری سے آج تک اس اصول پر متفق رہے ہیں کہ کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا فَہُورَبَا { FR 2416 } (ہر قرض جس کے ساتھ نفع حاصل کیا جائے ربا ہے) قریب کے زمانے سے پہلے فقہا کی اس متفقہ رائے سے اختلاف کی کوئی ایک مثال بھی تاریخ فقہ سے نکال کر پیش نہیں کی جا سکتی۔
تیسرا سوال] رِبا اور رِبح میں فرق[
رِبا اور رِبح میں فرق یہ ہے کہ ربا قرض پر مال دے کر اصل سے زائد وصول کرنے کا نام ہے اور اس کے برعکس ربح سے مراد بیع میں لاگت سے زائد قیمت فروخت حاصل کرنا ہے۔ اس کے مقابلے میں خسارے کا لفظ بولا جاتا ہے جب کہ لاگت سے کم پر کسی شخص کا مال فروخت ہو۔ لسان العرب میں ربح کے معنی یہ لکھے ہیں:
اَلرِّبْحَ وَالرَّبْحُ… فَالرَّباحُ النِّمَآئُ فِی التَّجْر … وَالْعَرْبُ تَقُوْلُ رَبِحَتْ تِجَارَتُہٗ اِذَا ربحَ صَاَحِبُہَا فِیْہَا … وَقَوْلُہٗ تَعَالٰی فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُہُمْ۔ { FR 2417 }
تجارت میں افزونی کو رَبْحُ اور رَبْحَ اور رباح کہتے ہیں … عرب کہتے ہیں ربحت تجارتہ جبکہ تجارت کرنے والا نفع کمائے … اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُہُمْ
مفردات امام راغب میں ہے:
اَلرِّبْحُ الزِّیَادَۃُ الْحَاصِلَۃُ فِی الْمُبَایَعَۃِ ۔{ FR 2418 }
ربح وہ زیادتی ہے جو خریدوفروخت کے معاملے میں حاصل ہو۔
قرآن مجید خود بھی رِبا اور تجارتی منافع کا فرق بیان کرتا ہے۔ کفارِ عرب حرمت سود کے خلاف جو اعتراض پیش کرتے تھے وہ یہ تھا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰو یعنی بیع میں اصل لاگت سے زائد جو قیمت فروخت وصول کی جاتی ہے وہ بھی تو آخر اسی طرح ہے جس طرح قرض کے معاملے میں اصل راس المال سے زائد ایک رقم لی جاتی ہے۔ قرآن نے اس کے جواب میں صاف کہا کہ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰو ’’اللہ نے بیع کو حلال کیا اور ربا کو حرام کیا ہے۔‘‘ یعنی دولت میں اضافہ بصورت بیع اور چیز ہے اور بصورت قرض اور چیز۔ ایک کو خدا نے حلال کیا ہے اور دوسرے کو حرام۔ کوئی شخص منافع چاہتا ہو تو اس کے لیے یہ دروازہ کھلا ہے کہ خود بیع یا کاروبار کرے یا کسی دوسرے کے ساتھ اس میں شریک ہو جائے لیکن قرض دے کر منافع طلب کرنے کا دروازہ بند ہے۔
چوتھا سوال] قرض پر سود کی شرط لینے اور دینے والے دونوں کی طرف سے یکساں ہے[
رِبا کی تعریف یہ ہے کہ ’’قرض کے معاملے میں اصل سے زائد جو کچھ بطور شرطِ معاملہ وصول کیا جائے وہ ربوٰ ہے۔‘‘ اس تعریف میں اس سوال کا قطعاً کوئی دخل نہیں ہے کہ یہ ربا قرض دینے والے نے طلب کیا یا قرض لینے والے نے از خود پیش کیا۔ یہ سوال ربوٰ کی قانونی تعریف میں غیر موثر ہے اور قرآن سے یا کسی صحیح حدیث سے اس امر کا کوئی اشارہ تک نہیں نکلتا کہ اگر سود لینے والے کی طرف سے پیش کیا جائے تو اس سے اس کے سود ہونے اور حرام ہونے میں کوئی فرق واقع ہوگا۔ علاوہ بریں کوئی صاحب عقل دنیا میں ایسا موجود نہیں ہے نہ کبھی پایا گیا ہے جسے اگر سود کے بغیر قرض مل سکتا ہو تب بھی وہ سود ادا کرنے کی شرط اپنے طور پر پیش کرے۔ قرض لینے والے کی طرف سے یہ شرط تو اسی صورت میں پیش ہو سکتی ہے جب کہ کہیں سے اس کو بلا سود قرض ملنے کی امید نہ ہو۔ اس لیے سود کی تعریف میں اس کو غیر موثر ہونا ہی چاہیے۔
مزید برآں بینکوں کی طرف سے قدیم زمانے میں بھی اور آج بھی امانت رکھے ہوئے روپے پر سود اس لیے پیش کیا جاتا تھا اور کیا جاتا ہے کہ اس لالچ سے لوگ اپنی جمع شدہ دولت ان کے حوالے کریں اور پھر وہ کم شرح سود پر لی ہوئی دولت کو آگے زیادہ شرح سود پر قرض دے کر اس سے فائدہ اٹھائیں۔ اس طرح کی پیش کش اگر سود دینے والے کی طرف سے ہوتی ہے تو حرمت سود کے مسئلے میں اس کے قابل لحاظ ہونے کی آخر کیا معقول وجہ ہے۔ امانتوں پر جو سود دیا جاتا ہے اس کی نوعیت دراصل یہ ہے کہ وہ اس سود کا ایک حصہ ہے جو انھی امانتوں کو شخصی، کاروباری اور ریاستی قرضوں کی شکل میں دے کر وصول کیا جاتا ہے۔ یہ تو اسی طرح کا حصہ ہے جیسے کوئی شخص نقب زنی کے آلات کسی سے لے اور جو کچھ چوری کا مال اسے حاصل ہوا اس کا ایک حصہ اس شخص کو بھی دے دے جس نے اسے یہ آلات فراہم کرکے دیے تھے۔ یہ حصہ اس دلیل سے جائز نہیں ہو سکتا کہ حصہ دینے والے نے بخوشی اسے دیا ہے، لینے والے نے جبر سے نہیں لیا ہے۔
پانچواں سوال] بیع سلم اور تجارتی سود میں فرق[
بیع سلم دراصل پیشگی سودے کی ایک صورت ہے، یعنی ایک شخص دوسرے شخص سے آج ایک چیز خرید کر اس کی قیمت ادا کر دیتا ہے اور ایک وقت مقرر کر دیتا ہے کہ بائع وہ چیز اس وقت خاص پر اسے دے گا۔ مثلاً میں ایک شخص سے کپڑے کے سوتھان آج خریدتا ہوں اور ان کی قیمت ادا کر دیتا ہوں اس شرط کے ساتھ کہ یہ تھان میں چار مہینے کے بعد اس سے لوں گا۔ اس سودے میں چار باتیں ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ مال کی قیمت سودا طے ہونے کے وقت ہی ادا کر دی جائے۔ دوسرے یہ کہ مال کی صفت (quality) واضح طور پر معین ہو تا کہ بائع اور مشتری کے درمیان اس کی صفت کے بارے میں کوئی چیز مبہم نہ رہے جو وجہ نزاع بن سکے۔ تیسرے یہ کہ مال کی مقدار بھی وزن، یا ناپ یا تعداد وغیرہ کے لحاظ سے ٹھیک ٹھیک معین ہو۔ اور چوتھے یہ کہ مال خریدار کے حوالے کرنے کا وقت معین ہو اور اس میں بھی کوئی ابہام نہ ہو کہ وہ نزاع کا سبب بنے اس سودے میں جو پیشگی قیمت دی جاتی ہے اس کی نوعیت ہرگز قرض کی نہیں ہے بلکہ وہ ویسی ہی قیمت ہے جیسی دست بدست لین دین میں خریدار ایک چیز کی قیمت ادا کرتا ہے۔ فقہ میں اس کا نام بھی ثمن ہے نہ کہ قرض۔ وقت معین پر مال کی عدم تحویل یا کسی اور سبب سے اگر بیع فسخ ہو جائے تو مشتری کو صرف اصل قیمت واپس دی جاتی ہے، کسی شے زائد کا وہ حق دار نہیں ہوتا۔ اس میں اور عام بیع میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہے کہ عام بیع میں مشتری بائع سے اپنی خریدی ہوئی چیز دست بدست لے لیتا ہے اور بیع سلم میں وہ اس کا قبضہ لینے کے لیے آئندہ کی ایک تاریخ مقرر کر دیتا ہے۔ اس معاملے کو قرض اور سود کے مسئلے سے خلط ملط کرنے کی کوئی معقول وجہ میں نہیں سمجھ سکا۔
سوال میں بھینس کی جو مثال بیان کی گئی ہے وہ بیع سلم کی نہیں بلکہ شرکت کی شکل ہے، یعنی بھینس ایک شخص کی اور اس پر کام دوسرا شخص کرے اور دودھ دونوں کے درمیان تقسیم ہو جائے۔
چھٹا سوال] ہم جنس چیز کا ہم جنس چیز سے اضافے کے ساتھ تبادلہ[
ہم جنس اشیا کے دست بدست تبادلے میں تفاضل کو حرام کر دینے کا مقصد جیسا کہ ابن قیمؓ اور دوسرے لوگوں نے بیان کیا ہے، دراصل سدباب ذریعہ ہے۔ یعنی اصل حرام تو ربوٰ النسیئہ (قرض کا سود) ہے لیکن زیادہ ستانی کی ذہنیت کا قلع قمع کرنے کے لیے ہم جنس اشیا کے دست بدست تبادلے میں بھی تفاضل کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ امر ظاہر ہے کہ ایک ہی جنس کی اشیا مثلاً چاول کا تبادلہ چاول سے صرف اس صورت میں کیا جاتا ہے جب کہ اس کی ایک قسم بڑھیا ہو اور دوسری گھٹیا۔ شارع کا منشا یہ ہے کہ بڑھیا قسم کے ایک سیر چاول کا تبادلہ گھٹیا قسم کے مثلاً سوا سیر چاول سے نہ کیا جائے خواہ ان دونوں کی بازاری قیمت کا فرق اتنا ہی ہو بلکہ ایک شخص اپنے چاول مثلاً روپے کے عوض فروخت کر دے اور دوسرے چاول روپے کے عوض ہی خرید لے۔ براہ راست چاول کا چاول سے تفاضل کے ساتھ مبادلے کرنے میں اس ذہنیت کو غذا ملتی ہے جو سود خوری کی اصل جڑ ہے اور شارع اسی کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے۔
اس سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ فقہا کے درمیان سود کے مسئلے میں جتنے بھی اختلافات ہوئے ہیں وہ صرف ربوٰ الفضل کے معاملے میں ہیں کیونکہ اس کی حرمت کے احکام نبی a نے آخر زمانے میں دیے تھے اور آپ کی حیاتِ طیبہ میں معاملات پر ان احکام کے انطباق کی شکلیں پوری طرح واضح نہ ہو سکی تھیں لیکن جہاں تک ربٰوا النسیئہ (قرض کے معاملے میں اصل سے زائد لینے) کا تعلق ہے، اس کی حرمت اور اس کے احکام میں فقہا کے درمیان پورا اتفاق ہے۔ یہ ایک صاف مسئلہ ہے جس میں کوئی الجھن نہیں ہے۔
ساتواں سوال] تجارت میں طرفین کی رضامندی اور سُود میں طرفین کی رضا مندی[
تجارت میں طرفین کی رضامندی ضرور لازم ہے، لیکن یہ نہ تجارت کے حلال ہونے کی علت ہے نہ اس کا عدم، سود کے حرام ہونے کی علت۔ قرآن میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ سود اس لیے حرام کیا جاتا ہے کہ دینے والا اسے بادلِ نخواستہ مجبوراً دیتا ہے۔ اگرچہ دنیا میں کوئی سود بھی برضا و رغبت نہیں دیا جاتا اور بلا سود قرض ملنے کا امکان ہو تو کوئی شخص قرض پر سود نہ دے لیکن اس چیز کی حرمت کے مسئلے میں رضامندی اور نارضامندی کا سوال بالکل غیر متعلق ہے، کیونکہ قرآن مطلقاً اس قرض کو حرام قرار دیتا ہے جس میں رأس المال سے زائد ادا کرنے کی شرط شامل ہو۔ قطع نظر اس سے کہ یہ شرط تراضی طرفین سے طے ہوئی ہو یا کسی اور طرح۔
رہی یہ بحث کہ سودی قرض کی حرمت میں اصل علت ظلم ہے اور جس قرض پر سود وصول کرنے میں ظلم نہ ہو وہ حلال ہونا چاہیے۔ اس کے متعلق میں یہ عرض کروں گا کہ قرآن نے اس امر کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ہے کہ آپ اس کے الفاظ سے صرف ’’ظلم‘‘ کا علت حرمت ہونا نکال لیں اور پھر اس لفظ ظلم کا مفہوم خود جس طرح چاہیں مشخص کریں۔ قرآن جس جگہ یہ علت حرمت بیان کرتا ہے اسی جگہ وہ خود ہی ظلم کا مطلب بھی واضح کر دیتا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
﴿يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ … وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ۰ۚ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ o ﴾ ( البقرہ 278-279:2)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو وہ سود جو (لوگوں کے ذمے) باقی رہ گیا ہے اگر تم مومن ہو … اور اگر تم توبہ کر لو تو تمھیں اپنے راس المال لینے کا حق ہے۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔
یہاں دو ظلموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک وہ جو دائن مدیون پر کرتا ہے۔ دوسرا وہ جو مدیون دائن پر کرتا ہے۔ مدیون کا دائن پر ظلم ، جیسا کہ آیت کے سیاق و سباق سے صاف ظاہر ہوتا ہے، یہ ہے کہ اس کا دیا ہوا اصل رأس المال بھی مدیون واپس نہ کرے۔ بالکل اسی طرح مدیون پر دائن کا ظلم جو اس آیت کے سیاق و سباق سے بین طور پر ظاہر ہو رہا ہے، یہ ہے کہ وہ اصل رأس المال سے زائد اس سے طلب کرے۔ اس طرح قرآن یہاں اس ظلم کے معنی خود متعین کر دیتا ہے جو قرض کے معاملے میں دائن و مدیون ایک دوسرے پر کرتے ہیں۔ اس معنی کے لحاظ سے انصاف یہ ہے کہ دائن مدیون سے صرف رأس المال واپس لے اور ظلم یہ کہ وہ رأس المال سے زیادہ وصول کرے۔
قرآن کا سیاق و سباق اپنے مفہوم میں اس قدر واضح ہے کہ ابن عباسؓ اور ابن زیدؒ سے لے کر پچھلی صدی کے شوکانی ؒ اور آلوسیؒ تک تمام مفسرین نے اس کا یہی مطلب لیا ہے۔ اس پوری مدت میں کوئی ایک مفسر بھی ایسا نہیں پایا جاتا جس نے قرآن سے صرف ظلم کا لفظ حرمت ربوٰ کی علت کے طور پر نکال لیا ہو اور پھر ظلم کے معنی باہر کہیں سے لینے کی کوشش کی ہو۔ یہ بات اصولاً بالکل غلط ہے کہ ایک عبارت کے اپنے سیاق و سباق سے اس کے کسی لفظ کا جو مفہوم ظاہر ہوتا ہو اسے نظرانداز کرکے ہم اپنی طرف سے کوئی معنی اس کے اندر داخل کریں۔
اس سوال کے سلسلے میں یہ دعویٰ جو کیا گیا ہے کہ کمرشل انٹرسٹ میں کسی پارٹی پر بھی ظلم نہیں ہوتا۔ یہ بھی ہمیں تسلیم نہیں ہے کیا یہ ظلم کچھ کم ہے کہ ایک شخص قرض پر سرمایہ دے کر تو ایک خاص منافع کی ضمانت حاصل کر لے، مگر جو لوگ کاروبار کو پروان چڑھانے کے لیے وقت، محنت اور ذہانت صرف کریں، اُن کے لیے سرے سے کسی منافع کی کوئی ضمانت نہ ہو بلکہ نقصان ہونے کی صورت میں بھی وہ دائن کو اصل مع سود دینے کے ذمہ دار ہیں؟ تمام خطرہ (risk) محنت اور کام کرنے والے فریق کے حصے میں، اور خالص منافع روپیہ دینے والے فریق کے حصّے میں، یہ آخر انصاف کیسے ہو سکتا ہے۔ اس لیے سود بہرحال ظلم ہے خواہ وہ شخصی حاجات کے قرضوں میں ہو یا کاروباری اغراض کے قرضوں میں۔ انصاف چاہتا ہے کہ اگر آپ قرض دیتے ہیں تو آپ کو صرف اپنا رأس المال واپس ملنے کی ضمانت حاصل ہو اور اگر آپ کاروبار میں روپیہ لگانا چاہتے ہیں تو پھر شریک کی حیثیت سے روپیہ لگائیں۔
آٹھواں سوال] صنعتوں اور بینکوں کے معاملات اور حکومتی قرضے[
اس سوال کا تفصیلی جواب میں اپنی کتاب ’’سود‘‘ میں دے چکا ہوں۔{ FR 2277 } یہاں مختصر جواب عرض کرتا ہوں۔
] صنعتی اداروں کے حصے (Shaves)[
(الف) صنعتی اداروں کے معمولی حصے بالکل جائز ہیں۔ بشرطیکہ ان کا کاروبار بجائے خود حرام نوعیت کا نہ ہو۔
] ترجیحی حصص پر منافع[
(ب) ترجیحی حصص، جن میں ایک خاص منافع کی ضمانت ہو، سود کی تعریف میں آتے ہیں اور ناجائز ہیں۔
]بینکوں کے فکسڈ ڈیپازٹ[
(ج) بینکوں کے فکس ڈیپازٹ کے متعلق دو صورتیں اختیار کی جا سکتی ہیں۔ جو لوگ صرف اپنے روپے کی حفاظت چاہتے ہوں اور اپنا روپیہ کسی کاروبار میں لگانے کے خواہش مند نہ ہوں، ان کے روپے کو بینک ’’امانت‘‘ رکھنے کے بجائے ’’قرض‘‘ لیں اسے کاروبار میں لگا کر منافع حاصل کریں، اور ان کا راس المال مدت مقررہ پر ادا کر دینے کی ضمانت دیں۔
اور جو لوگ اپنے روپے کو بینک کی معرفت کاروبار میں لگوانا چاہیں، ان کا روپیہ ’’امانت‘‘ رکھنے کے بجائے بینک ان سے ایک عام شراکت نامہ طے کرے، ایسے تمام اموال کو مختلف قسم کے تجارتی، صنعتی، زراعتی یا دوسرے کاموں میں، جو بینک کے دائرئہ عمل میں آتے ہوں، لگائے اور مجموعی کاروبار سے جو منافع حاصل ہو، اسے ایک طے شدہ نسبت کے ساتھ ان لوگوں میں اسی طرح تقسیم کر دے جس طرح خود بینک کے حصّے داروں میں منافع تقسیم ہوتا ہے۔
] لیٹر آف کریڈٹ کھولنا[
(د) بینکوں سے لیٹر آف کریڈٹ کھولنے کی مختلف صورتیں ہیں جن کی شرعی پوزیشن جداگانہ ہے۔ جہاں بینک کو محض ایک اعتماد نامہ دینا ہو کہ یہ شخص بھروسے کے قابل ہے وہاں بینک جائز طور پر صرف اپنے دفتری اخراجات کی فیس لے سکتا ہے۔ اور جہاں بینک دوسرے فریق کو رقم ادا کرنے کی ذمہ داری لے وہاں اسے سود نہیں لگانا چاہیے۔ اس کے بجائے مختلف جائز طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً بینکوں کے کرنٹ اکاؤنٹ میں کاروباری لوگوں کی جو رقمیں رہتی ہیں، ان پر کوئی سود نہ دیا جائے، بلکہ حساب کتاب رکھنے کی اُجرت لی جائے اور ان رقموں کو قلیل المیعاد قرضوں کی صورت میں کاروباری لوگوں کو بلا سود دیا جائے۔ ایسے قرض داروں سے بینک اس رقم کا سود تو نہ لیں، البتہ وہ اپنے دفتری اخراجات کی فیس ان سے لے سکتے ہیں۔
]حکومتی اداروں کے معاملات[
(ھ) حکومت خود، یا اپنے زیر اثر جتنے ادارے بھی قائم کرے ان سے سود کے عنصر کو خارج ہونا چاہیے۔ اس کے بجائے دوسرے طریقے تھوڑی توجہ اور قوتِ اجتہاد سے کام لے کر نکالے جا سکتے ہیں جو جائز بھی ہوں اور نفع بخش بھی۔ اس طرح کے تمام اداروں کے بارے میں کوئی ایک جامع گفتگو چند الفاظ میں یہاں نہیں کی جا سکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے حرام چیز کو حرام مان لیا جائے پھر اس سے بچنے کا ارادہ ہو۔ اس کے بعد ہر کارپوریشن کے لیے ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے جو اس کارپوریشن کے تمام کاموں کو نگاہ میں رکھ کر یہ دیکھے کہ اس کے مختلف کام کہاں کہاں حرام طریقوں سے ملوث ہوتے ہیں اور ان کا بدل کیا ہے جو اسلامی احکام کی رُو سے جائز بھی ہو اور قابل عمل اور نفع بخش بھی۔ اوّلین چیز ہماری اس ذہنیت کی تبدیلی ہے کہ اہل مغرب کے جن پٹے ہوئے راستوں پر چلنے کے ہم پہلے سے عادی چلے آ رہے ہیں انھی پر ہم آنکھیں بند کرکے چلتے رہنا چاہتے ہیں اور سارا زور اس بات پر صرف کر ڈالتے ہیں کہ کسی طرح انھی راستوں کو ہمارے لیے جائز کر دیا جائے۔ ہماری سہولت پسندی ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم کچھ دماغ سوزی اور کچھ محنت کرکے کوئی نیا راستہ نکالیں۔ تقلید جامد کی بیماری بدقسمتی سے ساری قوم کو لگی ہوئی ہے۔ نہ جُبَّہ پوش اس سے شفا پاتے ہیں نہ سوٹ پوش۔
]حکومت کے اندرونی قرضے[
(و) گورنمنٹ کے قرضے جہاں تک اپنے ملک سے حاصل کیے جائیں ان پر سود نہ دیا جائے۔ اس کے بجائے حکومت اپنے ایسے منصوبوں کو جن میں قرض کا روپیہ لگایا جاتا ہے کاروباری اصول پر منظم کرے اور ان سے جو نفع حاصل ہو اس میں سے ایک طے شدہ تناسب کے ساتھ ان لوگوں کو حصہ دیتی رہے جن کا روپیہ وہ استعمال کرتی ہے پھر جب وہ مدت ختم ہو جائے جس کے لیے ان سے روپیہ مانگا گیا تھا، اور ان لوگوں کا راس المال واپس کر دیا جائے تو آپ سے آپ منافع میں ان کی حصّے داری بھی ختم ہو جائے گی۔ اس صورت میں درحقیقت کوئی بہت بڑا تغیر کرنا نہیں ہوگا۔ متعین شرح سود پر جو قرض لیے جاتے ہیں، ان کو تبدیل کرکے بس متناسب منافع پر حصّے داری کی صورت دینی ہوگی۔
]حکومت کے بیرونی قرضے[
غیر ملکوں سے جو قرض لیے جاتے ہیں ان کا مسئلہ اچھا خاصا پیچیدہ ہے جب تک پوری تفصیل کے ساتھ ایسے تمام قرضوں کا جائزہ نہ لیا جائے، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی نوعیتیں کیا کیا ہیں اور ان کے معاملے میں حرمت سے بچنے کے لیے کس حد تک کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اصولی طور پر جو بات میں کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمیں پہلے اپنی تمام توجہ اندرون ملک سے سود کو ختم کرنے پر صرف کرنی چاہیے اور بیرون ملک میں جہاں سودی لین دین سے بچاؤ کی کوئی صورت نہ ہو وہاں اس وقت تک اس آفت کو برداشت کرنا چاہیے جب تک اس سے بچنے کی صورتیں نہ نکل آئیں، ہم اپنے اختیار کی حد تک خدا کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اس حد تک اگر ہم گناہ سے بچیں تو مجبوری کے معاملے میں ہم معافی کی امید رکھ سکتے ہیں۔
(ماہنامہ ترجمان القرآن۔ مئی و جون ۱۹۶۰ء)
٭…٭…٭
ضمیمہ نمبر ۳ :مسئلۂ سود اور دارالحرب
(از جناب مولانا مناظر احسن صاحب گیلانی مرحوم)
(سود کی بحث میں علما کے ایک گروہ نے یہ پہلو بھی اختیار کیا ہے کہ ہندوستان دارالحرب ہے اور دارالحرب میں حربی کافروں سے سود لینا جائز ہے۔ جناب مولانا مناظر احسن صاحب نے ذیل کے مضمون میں اس پہلو کو پوری قوت کے ساتھ پیش فرمایا ہے اور ہم یہاں اسے اس لیے نقل کر رہے ہیں کہ یہ پہلو بھی ناظرین کے سامنے آ جائے۔ اس مضمون پر مفصل تنقید ہم نے بعد کے باب میں کی ہے لیکن بعض اُمور کا جواب برسر موقع حواشی میں بھی دے دیا ہے۔ اس بحث کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ یہ بحث ۳۷۔۱۹۳۶ء میں ہوئی تھی۔)
غیر اسلامی مقبوضات کے متعلق اسلامی نقطۂ نظر
غیر اسلامی مقبوضات کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو اس ملک میں اسلامی حکومت کبھی قائم نہیں ہوئی، یا ہوئی، لیکن بین الاقوامی کش مکش کے سلسلے میں اس ملک پر غیر اسلامی قوتوں کا قبضہ ہوگیا۔ پہلی صورت میں تو ایسے ملک کے غیر اسلامی مقبوضہ اور غیر مسلم مملکت ہونے میں کیا شبہ ہے۔ غیر اسلامی حکومت کو اسلامی حکومت کون کہہ سکتا ہے؟ لیکن بحث ذرا دوسری صورت میں پیدا ہو جاتی ہے۔ قاضی القضاۃ للدولۃ العباسیہ امام ابویوسف اور مدوّن فقہ امام محمد شیبانی کا اس کے متعلق فتویٰ یہ ہے:
إِنَّھَا تَصِیْرُ دَارَالْکُفْرِ بِظُہُوْرِ اَحْکَامِ الْکُفْرِ فِیْہَا۔{ FR 2419 }
دارالاسلام (اسلامی ملک) اس وقت دارالکفر (غیر اسلامی ملک) ہو جاتا ہے جب کہ غیر اسلامی (کفر کے) قوانین کا وہاں ظہور (نفاذ) ہو جائے۔
فتاویٰ عالمگیر یہ میں غیر اسلامی احکام کے ظہور کی شرح یہ کی گئی ہے:
عَلَی سَبِیلِ الْاِشْتِہَارِ وَاَنْ لَا یَحْکُمَ فِیْہَا بِحُکْمِ الْاِسْلاَمِ۔{ FR 2420 }
یعنی علانیہ ظہور ہواور اس ملک میں اسلام کے قوانین سے فیصلے نہ کیے جائیں۔
مطلب یہ ہے کہ جس ملک میں اللہ کے کلام اور خاتم النبیین کے ارشادات گرامی سے اخذ کردہ قانون نافذ نہ رہے وہی ملک غیر اسلامی ملک اور وہی حکومت غیر اسلامی حکومت سمجھی جائے گی۔ خواہ وہاں کوئی قانون نافذ نہ ہو، یا ہو تو غیر اسلامی دماغوں یا غیر اسلامی مستندات سے ماخوذ ہو۔ بہرحال جس ملک سے اسلامی حکومت کا قانون زائل ہوگیا اور اس میں غیر اسلامی قانون نافذ ہوگیا نہ وہ اسلامی ملک باقی رہتا ہے اور نہ وہ حکومت اسلامی حکومت سمجھی جا سکتی ہے۔ اور یہ تو پھر بھی ایک اجمالی تعبیر ہے۔ امام الائمہ ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے زیادہ وضاحت سے کام لے کر غیر اسلامی ملک کی حقیقی تنقیح ان لفظوں میں فرمائی ہے:
إِنَّھَا لَا تَصِیْرُ دَارَالْکُفْرِ اِلاَّ بِثَلاَتِ شَرَائِطٍ اَحَدُہَا ظُہُوْرُ اَحْکَامِ الْکُفْرِ فِیْہَاوَ اَلثَّانِیْ اَنْ تَکُوْنَ مُلْحِقَۃً بدارِ الْکُفْرِ وَالثَّالِثِ اَنْ لَا یَبْقٰی فِیْہَا مُسْلِمَ وَلَا ذِمِّیٌ اٰمِنَا بِالاَمَانِ الْاَوَّلِ۔ { FR 2421 }
دارالاسلام (اسلامی ملک) دارالکفر (غیر اسلامی ملک) تین شرطوں سے ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ کفر کے احکام (غیر اسلامی قوانین) کا وہاں ظہور و نفاذ ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ کسی دارالکفر (غیر اسلامی ملک) سے متصل ہو۔ تیسرے یہ کہ اس ملک میں کوئی مسلمان یا ذمی اس امان کے ساتھ نہ ہو جو اسے پہلے حاصل تھی۔
یوں تو دنیا میں اس وقت زیادہ تر غیر اسلامی حکومتیں ہیں، لیکن نہ ان کے واقعی حالات میرے سامنے ہیں اور نہ ان کی تمام خصوصیات کے متعلق میرے پاس کوئی شرعی شہادت موجود ہے لیکن ہندوستان{ FR 2280 } ہمارے سامنے موجود ہے۔ بطور مثال اسی ملک کو لینا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے غیر اسلامی ملک کی جو قانونی تنقیح فرمائی ہے وہ اس پر کس حد تک منطبق ہے۔
یہ تو ظاہر ہے کہ اس ملک میں شریعت کی نہیں بلکہ انگریزی قانون کی حکومت ہے۔ کلام اللہ اور احادیث نبویہ سے جو اسلامی قانون پیدا ہوتا ہے وہ یہاں قطعاً نافذ نہیں ہے بلکہ غیر اسلامی دماغوں (خواہ وہ ایک ہوں یا چند، ہندی ہوں یا غیر ہندی) کے تجویز کردہ قوانین اس ملک میں نافذ ہیں۔ اس لحاظ سے تو اس میں شک کی گنجائش نہیں ہے کہ غیر اسلامی احکام کا ظہور ’’نفاذ‘‘ جو امام رحمتہ اللہ علیہ کی تنقیح کی پہلی شرط تھی وہ اس پر بالکلیہ منطبق ہے۔
اسی طرح دوسری شرط کے انطباق پر بھی کون شبہ کر سکتا ہے؟ جغرافیائی طور پر کس کو معلوم نہیں ہے کہ ہندوستان کے اکثر حدود غیر اسلامی ممالک اور حکومتوں سے متصل ہیں اور اس طرح متصل ہیں کہ بیچ میں کوئی اسلامی ملک واقع نہیں ہوتا۔ عالمگیری میں ہے:
بِاَنْ لَا یَتَخَلَّلٌ بَیْنَھُمَا بَلْدَۃٍ مِنْ بِلَادِ الْاِسْلاَمِ۔ { FR 2422 }
کہ دارالکفر اور دارالاسلام کے درمیان کوئی اسلامی شہر واقع نہ ہو۔
شمال اور مشرق تو خشکی کے حدود سے محدود ہیں۔ رہے دریائی حدود تو اوّلاً بالبداہۃ ان دریاؤں پر غیر اسلامی قوتوں کا کامل اقتدار موجود ہے‘ حتیٰ کہ بغیر ان کی اجازت کے ان سمندروں میں کوئی دوسرا اپنا کوئی جہاز بھی چلا نہیں سکتا۔ اور بالفرض اگر ایسا نہ بھی ہو تو صرف خشکی کا اتصال ہی تکمیل شرط کے لیے کافی ہے۔ نیز فقہائے اسلام کی عام تصریح سمندروں کے متعلق یہ ہے:
إِنَّ بَحْرَ الْمِلْحِ مُلْحَقٌ بِدَارِ الْحَرْبِ۔{ FR 2423 }
دریائے شور کا شمار غیر اسلامی مقبوضات میں ہے۔ { FR 2281 }
بہرحال جس طرح بھی سوچو، اس شرط کی تحقیق میں بھی کوئی دغدغہ باقی نہیں ہے۔ امامؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی ایسے ملک پر غیر اسلامی حکومت قابض ہو جائے جو چاروں طرف سے اسلامی حکومت و اقتدار سے محصور ہو تو یہ قبضہ دیرپا اور ایسا نہیں سمجھا سکتا کہ اب اسلامی حکومت کا قیام وہاں مشکل ہے۔ فقہا نے اس کی تصریح بھی کی ہے اور آگے ایک مسئلے کے ذیل میں اس کا کچھ حصہ آئے گا۔
اب رہ گئی تیسری شرط تو ظاہر ہے کہ مختلف قوانین و تعزیرات کے ذیل میں اور قوموں کے ساتھ مسلمانوں کو بھی یہاں آئے دن پھانسی دی جاتی ہے اور اس کی بالکل پرواہ نہیں کی جاتی کہ آیا اسلامی قانون کی رُو سے بھی یہ شخص جانی امان کے دائرے سے نکل چکا ہے یا نہیں۔ اسی طرح یہاں کی عدالتیں عام طور پر موجودہ قوانین کی رو سے مسلمانوں کا مال دوسروں کو دلا رہی ہیں اور اس امر کا کوئی لحاظ نہیں کیا جاتا کہ اس شخص کا مال اسلامی قانون کی رُو سے بھی دوسرے کو دلانا جائز ہے یا نہیں۔ روزمرہ لاکھوں اور کروڑوں روپے کے سود کی ڈگریاں عدالتوں سے جاری ہو رہی ہیں اور ایک سود کیا ایسی بے شمار صورتیں ہیں جن میں اسلامی شریعت کے لحاظ سے ایک شخص کا مال مامون اور محفوظ سمجھا جاتا ہے لیکن ملکی قانون اس کا حقدار دوسروں کو سمجھتا ہے۔
یہ تو جانی اور مالی امان کا حال ہوا۔ اب عزت کی امان کا حال دیکھو! مسلمانوں کو قید کی، عبور دریائے شور کی ، جرمانے کی، تازیانے کی اور مختلف قسم کی سزائیں مختلف قانونی دفعات کے ذیل میں دی جاتی ہیں‘ لیکن کیا اس وقت اس کا بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس سزا پانے والے کی عزت اسلامی قانون کی رو سے بھی اس سلوک کی مستحق ہو چکی تھی؟ میں نہیں کہنا چاہتا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو امن نصیب نہیں ہے بلکہ میری مراد یہ ہے کہ انھیں اسلامی امن حاصل نہیں ہے ، کیونکہ امام ابوحنیفہؒ نے خود امان کی تشریح میں جو الفاظ ارشاد فرمایا ہے وہ یہ ہے:
آمناً بِالْاَمَانِ الْاَوَّلِ ہُوَ اَمَانُ الْمُسْلِمِیْنَ ۔{ FR 2424 }
یعنی وہ امان جو مسلمانوں کے قانون کے لحاظ سے ہو۔
عالمگیری میں اس کی توضیح اور زیادہ کھلے لفظوں میں کر دی گئی ہے:
اَیْ الَّذِیْ کَانَ ثَابِتًا قَبْلَ اِسْتِیْلاَئِ الْکُفَّارِ لِلْمُسْلِمِ بِاِسْلاَمِہٖ وَلِلِذِّمِّیِ بِعَقْدِالذِّمَۃِ۔ { FR 2425 }
یعنی غیر اسلامی حکومت کے تسلط سے پیشتر مسلمانوں کو اپنے اسلام کی وجہ سے اور ذمیوں کو عقد ذمہ کی وجہ سے جو امان تھی وہ باقی نہ رہے۔
اور واقعہ بھی یہی ہے کہ جس ملک میں غیر اسلامی قوتوں کی حکومت قائم ہو چکی ہے اور جس ملک میں غیر اسلامی قوانین نافذ ہو چکے ہیں اس کو اسلامی ملک کہنا یا وہاں اسلامی راج ہونے کا دعویٰ کرنا ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے۔ دوسروں کے ملک کو، دوسروں کی حکومت کو زبردستی اسلامی ملک فرض کرنے کی دنیا کی کون سی حکومت مسلمانوں کو اجازت دے سکتی ہے؟ بلکہ بالکل ممکن ہے کہ وہ اسے جرم قرار دے۔
اسلامی فقہا کبھی کبھی اس ملک کی تعبیر دارالحرب سے کرتے ہیں۔ غالباً اسی سے لوگوں کو غلط فہمی ہوئی۔ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ متقدمین علمائے اسلام زیادہ تر ایسے ممالک کے متعلق دارالاسلام کے مقابلے میں دارالکفر کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ ابھی ابھی صاحب بدائع کی عبارت گزر چکی۔ انھوں نے اپنی کتاب میں عموماً دارالکفر کی اصطلاح لکھی ہے جس کے سیدھے اور سادے معنی یہ ہیں کہ ’’جہاں اسلامی حکومت نہ ہو۔‘‘ آخر جہاں اسلامی حکومت نہ ہوگی جو ملک مسلمانوں کے قبضے میں نہ ہوگا، اس کو کیا مسلمان مسلمانوں کی حکومت اور مسلمانوں کا ملک کہہ دیں؟ لفظوں پر چونکنے کا یہ عجیب لطیفہ ہے یہ تو پہلے سوال کا جواب تھا۔ اب دوسرے سوال کی تفصیل سنیے۔
غیر اسلامی حکومتوں میں مسلمانوں کی زندگی کا دستور العمل
اسلام مسلمانوں کو آزاد فرض کرتا ہے اور آزادی کو ان کا فطری اور آسمانی حق قرار دیتا ہے لیکن فقہائے اسلام نے یہ فرض کرکے کہ اگر عارضی طور پر کسی مسلمان کو غیر اسلامی حکومتوں میں کسی وجہ سے جانے اور رہنے کی ضرورت پیش آئے تو اس وقت اس حکومت کے باشندوں سے اس کے تعلقات کی کیا نوعیت ہوگی‘ اسلامی قانون کی صراحت کر دی ہے۔ ظاہر ہے کہ قانونی طور پر اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ اس مسلمان نے اس ملک کی حکومت سے اس امر کا معاہدہ کیا ہے کہ وہ اس ملک کے قوانین نافذہ کی پابندی کرے گا ، یعنی امن و امان میں خلل انداز نہ ہوگا۔ شریعت اسلامیہ کی اصطلاح میں ایسے مسلمان کو ’’مسلم مستامن‘‘ کہتے ہیں۔ قرآن پاک میں معاہدے کے متعلق عام قانون یہ ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَo ﴾ (المومنون23: 8)
کامیاب مسلمان وہ ہیں جو اپنے وعدوں کی نگرانی کرتے ہیں۔
﴿اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۰ۥۭ ﴾ (المائدہ5 : 1)
معاہدوں کی پابندی کرو۔
اسلام نے ’’معاہدہ‘‘ کو مسؤلیت اور ذمہ داری کے ساتھ بشدت وابستہ کر دیا ہے۔ اور یہ تو عام معاہدوں کے متعلق تعلیم ہے۔ خصوصیت کے ساتھ بین الاقوامی معاہدوں کے متعلق ایک واضح قانون ان لفظوں میں مسلمانوں پر عائد کیا گیا ہے:
﴿الَّذِيْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّلَمْ يُظَاہِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْہِمْ عَہْدَہُمْ ﴾ (التوبہ9:4)
جن مشرکین سے تم نے معاہدہ کیا پھر انھوں نے اس معاہدہ کے کسی حصّے کو نہیں توڑا اور تمھارے مقابلے میں کسی دوسرے کی انھوں نے مدد نہیں کی تو ان کے عہد کو پورا کرو۔
اس وقت اس کی تفصیل کا موقع نہیں کہ عدم عہد یا غیر اقوام کے ’’نقض عہد‘‘ پر کیا احکام مترتب ہوتے ہیں۔ یہاں ’’قانونِ معاہدہ‘‘ کی صرف اس دفعہ کو پیش کرنا ہے جس کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے ان کے معاہدوں کی تکمیل لازمی اور ضروری ہو جاتی ہے۔ آنحضرتa نے اس کی بھی تفصیل فرما دی ہے کہ جو مسلمان معاہدے کو توڑے گا مذہبی حیثیت سے اس کا کیا انجام ہوگا۔ارشاد نبوی ہے:
اِنَّ الْغَادِرَیُنْصَبُ لَہٗ لِوَاٌء یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَیُقَالُ ھٰذِہِ غُدْرَۃَ فُلاَنٍ۔ { FR 2426 }
معاہدہ توڑنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑا جائے گا کہ یہ پیمان شکنی کا نشان فلاں شخص کا ہے۔
وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِکُلِّ غَادِرِ لِوَائٌ یَومَ الَقِیاَمَۃِ بِقَدْرِ غَدْرَتِہِ…یُرْکَزُ عِنْدَ اِسْتِہِ ۔{ FR 2428 }
ایک دوسری روایت میں ہے کہ پیمان شکن کے مقام مخصوص پر اس کی بدعہدی کے بقدر نشان گاڑا جائے گا اور اسی سے وہ قیامت کے روز پہچانا جائے گا۔
جب لشکر کو رخصت فرماتے تو امرائے جیوش کو حضور a یہ وصیت فرماتے:
لَا تَغُلُّوْا وَلاَ تَغْدِرُوْا۔{ FR 2427 }
دیکھنا کسی کے ساتھ خیانت نہ کرنا اور معاہدہ نہ توڑنا۔
یہی وجہ ہے کہ علمائے اسلام نے ’’نقض عہد‘‘ کی اجماعی حرمت کا فتویٰ دیا ہے۔ ابن ہمام فرماتے ہیں:
اَلْغَدْرَ حَرَامٌ بِالْاِجْمَاعِ ۔ { FR 2429 }
عہد شکنی (غدر) کے متعلق اجماع ہے کہ وہ حرام ہے۔
مسلمانوں کی بے نظیر امن پسندی
ظاہر ہے کہ ’’قانون معاہدہ‘‘ کی ان تحقیقوں کے بعد جو مسلمان کسی غیر اسلامی حکومت سے امن کا معاہدہ کرنے کے بعد اس کی قلم رو میں بحیثیت ’’مستامن‘‘ رہتا ہے اس کی ذمہ داریاں کتنی سخت ہو جاتی ہیں۔ ہدایہ میں ہے:
اِذَا دَخَلَ الْمُسْلَمُ دَارَالْحَرْبِ تَاجِراً فَلاَ یَحِلُّ بِہِ اَنْ یَتَعَرَّضَ لِشَیْء مِنْ اَمْوَالِہِمْ وَلاَ مِنْ دِمَائِہِمْ لِاَنَّہٗ ضَمَنَ اَنَّ لاَ یَتَعَرَّضَ لَھُمْ بِالْاِسْتِمَانِ۔{ FR 2430 }
یعنی مسلمان جب کسی غیر اسلامی ملک (دارالحرب) میں داخل ہو تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہاں کے باشندوں کے مال یا جان سے وہ کوئی تعرض کرے کیونکہ وہ اس کا ضامن ہے کہ وہ ایسا نہیں کرے گا اور یہ ذمہ داری معاہدۂ امن کا نتیجہ ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جب کسی حکومت سے کوئی معاہدہ کرنے کے بعد اس کی سرزمین میں داخل ہو تو اس حکومت نے دوسروں کے جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے جو قوانین نافذ کیے ہوں ان کی خلاف ورزی کرنا اس کے لیے قطعاً ناجائز ہے۔ جس قسم کے افعال کو اس غیر اسلامی حکومت نے خلافِ قانون قرار دیا ہو، اُن کے ارتکاب کی وجہ سے وہ نہ صرف قانوناً ہی مجرم ہوگا بلکہ ’’قانونِ معاہدہ‘‘ کی رو سے وہ غدر کا مرتکب بھی ہوگا۔ اسلام کا، قرآن کا، خدا کا مجرم ہوگا، گناہ گار ہوگا، ایک ایسے فعل کا مرتکب ہوگا جس کی حرمت، قرآن و حدیث اور اجماع سے ثابت ہے۔ کیا کوئی ہے جو اپنے مذہب میں بھی غیر اقوام کے قانون و آئین کی پابندی کو اس قدر ضروری ثابت کر سکے۔ مسلمانوں پر بدامنی کا الزام ہے لیکن لوگوں کو معلوم نہیں کہ ان سے زیادہ امن پسند اور پابند آئین و قانون قوم دنیا میں کوئی نہیں۔
﴿فَاَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ۰ۚ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo ﴾ ( الانعام 81:6)
بعض علمائے اسلام نے غالباً اسی بنیاد پر یہ فتویٰ دیا ہے کہ جو شخص ڈاک کے خطوں میں مقررہ وزن سے زیادہ وزن بغیر محصول ادا کرنے کے اضافہ کرتا ہے، اور جو ریل پر مقررہ وزن سے زیادہ وزن کا اسباب لے جاتا ہے، صرف قانون وقت ہی کا نہیں بلکہ عند اللہ بھی مجرم ہے، اپنے مذہب کا مجرم ہے۔
بین الاقوامی قانون کا ایک اہم سوال
یہاں بین الاقوامی قانون کا ایک اہم سوال ہے جس کی توضیح کی سخت ضرورت ہے۔ عموماً اس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں میں مختلف قسم کی غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ ممکن ہے کہ دوسرے قوانین میں بھی یہ سوال اٹھایا گیا ہو لیکن بین الاقوامی قوانین کے ذیل میں اسلامی قانون نے اس سوال کو اٹھایا ہے۔ مختلف اقوام مختلف اوقات میں موقع پا کر ایک دوسرے پر چڑھائیاں کرتی ہیں۔ ایک قوم دوسری قوم کے جان و مال، مملوکات و مقبوضات پر ہلّہ بول دیتی ہے۔ اس وقت ہمیں اس سے بحث نہیں کہ یہ حملہ جائز ہے یا ناجائز اور جائز ہے تو کن صورتوں میں بلکہ اس وقت ہمارے پیش نظر یہ سوال ہے کہ ایک قوم نے جو دوسری قوم کے مملوکات پر اس طرح قبضہ کر لیا، آیا یہ قبضہ مفید مِلک صحیح ہے؟ یعنی قبضہ کرنے والا کیا قانونی اور مذہبی حیثیت سے اس کا مالک ہوگیا؟ ایک پکے دین دار آئینی مسلمان کو اس سوال کے حل کی ضرورت عموماً اس وقت پیش آ جاتی ہے جس وقت مثلاً فرض کیجیے کہ کسی انگریز کو جنگ میں جرمنی یا اور کسی قوم کا مال ملا اور انگریز اس کو کسی مسلمان کے ہاتھ فروخت کرنا چاہتا ہے۔ دوسری قوموں کو اس سے بحث ہو یا نہ ہو لیکن مسلمان اپنی کسی ملک کو اس وقت صحیح مِلک نہیں سمجھتا جب تک کہ اسلامی قانون اس کی صحت کا فتویٰ نہ دے۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اپنی شریعت سے پوچھے کہ آیا انگریز جرمنی کے اس مال کا مالک ہوا یا نہیں؟ اگر ہوگیا ہے تو اس کا بیچنا اور ہمارا خریدنا اور خرید کر اپنے تصرف میں لانا صحیح ہوگا لیکن اگر انگریز خود ہی ناجائز مالک بنا ہے تو اس کو بیچنے کا حق نہیں اور جب اسی کو بیچنے کا حق نہیں تو میں خریدنے کے بعد اس کا کس طرح مالک ہو جاؤں گا؟ بہرحال یہ بین الاقوامی قانون کا ایک نہایت دلچسپ سوال ہے ۔ فقہائے اسلامی نے اس کے متعلق ابواب قائم کیے ہیں اور اس کے جزئیات کی انھوں نے کافی تفصیل کی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس مسئلے کی چند صورتیں ہیں۔
(۱) ایک تو یہ ہے کہ اگر کسی غیر مسلم{ FR 2282 } قوم کے مملوکات پر اس طرح قبضہ کیا گیا ہے تو اسلام اس قبضے کے بعد قبضہ کرنے والے کو مال کا مالک صحیح قرار دیتا ہے۔ فتح القدیر میں ہے:
اِذَا غَلَبَ التَّرْکُ عَلی کُفَّارِ الرُّوْمِ فَسَبُوْہُمْ وَاَخَذَوْا اَمْوَالَہُمْ مَلَکُوْہَا ۔{ FR 2431 }
اگر ترکی کے کفار یورپ کے کافروں پر قبضہ پا لیں اور ان کو ] غلام بنائیں اور[ ان کے مال لے لیں تو وہ اس کے مالک ہو جائیں گے۔
(۲) دوسری صورت یہ ہے کہ کسی غیر مسلم کو مسلمان کے مملوکات پر کامل قبضہ حاصل ہوگیا۔ اس صورت میں بھی امام مالکؒ، امام احمدؒ اور ہمارے ائمہ ابوحنیفہؒ وغیرہ رحمہم اللہ کا فتویٰ یہ ہے:
اِذَا غَلَبُوْا عَلٰی اَمْوَالِنَا وَالْعَیَاذُ بِاللّٰہِ وَاَحْرَزُوْہَا بِدَارِہِمْ مَلَکُوْہَا۔ { FR 2432 }
اور اگر کفار ہمارے یعنی مسلمانوں کے مال پر بھی خدانخواستہ قابو پا لیں اور اس کو اپنے ملک میں لے جائیں تو وہ اس کے مالک ہو جائیں گے۔
پس یہی نہیں کہ غیر مسلم ایسی صورت میں صرف غیر مسلم ہی کے مملوکات کا جائز اور صحیح مالک ہو جاتا ہے، بلکہ اگر کافر کو مسلمان کے مالوں پر بھی اس طرح کامل قبضہ حاصل ہو جائے تو اسلام اس ملک کی بھی تصحیح کر سکتا ہے اور کافر کو اس مال کا مالک جائز قرار دیتا ہے۔ کیا یہی اسلام کی نارواداری ہے؟
اموالِ معصومہ و غیر معصومہ اور ان کی اباحت و عدم اباحت
چونکہ ثانی الذکر مسئلے میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو دوسرے ائمہ سے اختلاف ہے اس لیے فقہا نے قرآن و حدیث اور مختلف اسلامی مستندات سے اس قانون کے خالص اسلامی قانون ہونے کے نہایت واضح ثبوت پیش کیے ہیں لیکن مضمون طویل ہوتا جاتا ہے اس لیے اس کے نقل کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں اس موقع پر صرف اس قانونی تنقیح کو پیش کرتا ہوں جس کو قرآن و حدیث سے حاصل کیا گیا ہے:
اِنَّ الْاِسْتِیْلاَئِ وَرَدَ عَلٰی مَالٍ مُبَاحٍ فیَغْعَقِدُ سَبَیَاً لِلْمِلٰکِ۔ { FR 2433 }
جائز اور مباح مال پر کفار کا قبضہ ہوا ہے اس لیے یہ قبضہ مِلک کا سبب بن جائے گا۔
مطلب یہ ہے کہ مسلمان کا مال مسلمان کے لیے تو بلاشبہ معصوم اور محفوظ ہے، ہر مسلمان ذمہ دار ہے کہ دوسرے مسلمان کے مال کو بلا وجہ نہ لے لیکن غیر قوموں پر یہ قانون عائد نہیں ہوتا۔ ان کے لیے تو یہ مباح ہوگا۔ چنانچہ شامی میں ہے:
لاِنَّ الْعِصْمَۃَ مِنْ جُمْلَۃِ الْاَحْکَامِ الْمَشْرُوْعَۃِ وَہُمْ لَمْ یُخَاطِبُوْا بِہَا فَبَقِیَ فِیْ حَقِّہِمْ مَالَا غَیْرَ مَعْصُوْمٍ وَّ یَمْلِکُوْنَہٗ۔ { FR 2434 }
کیونکہ عصمت تو ایک اسلامی قانون ہے۔ غیر اسلامی ملک کے باشندے اس قانون کے محکوم نہیں ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کا مال ان کے حق میں معصوم نہیں ہے۔ یعنی وہ ان کے لیے جائز اور مباح ہے پس وہ اس کے مالک ہو جائیں گے۔
اب قدرتی طور پر تیسری صورت سامنے آ جاتی ہے کہ اسی طرح اگر کسی مسلمان نے غیر مسلم مقبوضات و مملوکات پر قبضہ کر لیا تو وہ اس کا مالک ہوگا یا نہیں؟ اس بین الاقوامی قانون کے اصول سے اس کا جواب بالکل ظاہر ہے۔ جب غیر مسلم مسلمان کے مال کا مالک ہو جاتا ہے تو آخر مسلم کو بھی یہ حق مذہباً و دیناً و اخلاقاً و قانوناً کیوں نہ دیا جائے گا؟ بدائع میں ہے:
مَالُ الْحَرٰبِیْ مُبَاحٍ وَھٰذَا لِاَنَّہٗ لَا عِصْمَۃَ لِمَالِ الْحَرْبِیِّ۔{ FR 2435 }
یعنی غیر مسلم جس کی جان و مال کی ذمہ دار کوئی اسلامی حکومت نہیں ہے۔ اس کا مال مباح ہے کیونکہ ایسے غیر مسلم کا مال معصوم نہیں ہے۔
کیسی عجیب بات ہے کہ جن قوموں نے اپنی جان و مال کی ذمہ داری مسلمانوں کے سپرد نہیں کی ہے۔ اسلام کی حفاظت اور ذمہ داری سے جنھیں انکار ہے، اگر اسلام بھی ان کی ذمہ داریوں سے انکار نہ کرے تو آخر وہ کیا کرے؟ تم اگر خدا سے برأت کا اعلان کرتے ہو تو خدا بھی تمھاری جان و مال کی ذمہ داری سے برأت کا اظہار کیوں نہ کرے؟ اس لیے قرآن پاک میں ہے:
﴿اِنَّ اللّٰہَ بَرِیْئٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ ﴾ (التوبہ9:3)
شرک کرنے والوں سے خدا بری ہے۔
اس کے سوا کوئی اور صورت کیا ہو سکتی تھی؟ جب دنیا کی تمام قومیں موقع اور قوت پا کر مسلمانوں کی جان و مال اور مملوکات پر قبضہ کر لیتی ہیں جیسا کہ قرآن کا خود بیان ہے کہ:
﴿اِنْ يَّثْقَفُوْكُمْ يَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَاۗءً وَّيَبْسُطُوْٓا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَہُمْ وَاَلْسِنَتَہُمْ بِالسُّوْۗءِ وَوَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَo ﴾ ( الممتحنہ60:2)
اگر تم پر ان کو قابو مل جائے تو وہ تمھارے دشمن بن جائیں، اپنے ہاتھ چھوڑیں، زبان سے برائی پہنچائیں، وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ کاش تم بھی خدا کے ناشکرے بن جاؤ۔
تو کیا اس قرآنی اور واقعی حقیقت کے بعد یہ ظلم نہ ہوتا اگر مسلمانوں کا مذہب ان کو بھی اس کی اجازت نہ دیتا؟ قرآن نے اگر اس کے بعد یہ حکم دیا ہے کہ:
﴿قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ ﴾ ( التوبہ 29:9)
مقاتلہ کرو ان لوگوں سے جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جن کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام کیا اور نہ سچے آئین اور دین کو اپنی زندگی کا دستور العمل بناتے ہیں ان لوگوں میں سے جنھیں کتاب دی گئی۔
تو کیا اس کا مفاد اس کلیے سے زائد ہے جو ابھی اسلامی فقہا کی تنقیح میں گزر چکا۔ یعنی مسلمانوں کا مال، مسلمانوں کے مملوکات جس طرح غیر مسلم اقوام کے لیے خود اسلامی قانون کی رو سے مباح ہیں اسی طرح وہ اور ان کے اموال بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی شریعت اور قانون کی رُو سے مباح اور حلال ہیں اگر مسلمان اس پر قبضہ کر لیں گے تو اس کے صحیح مالک اور ہر قسم کے تصرفات کے مجاز و مختار ہوں گے۔{ FR 2284 }
عوداِلی المقصود
بہرحال اصلی بحث یہ تھی کہ غیر اسلامی ملک میں مسلمانوں کی زندگی کا دستور العمل کیا ہونا چاہیے اور وہاں کے باشندوں کے ساتھ ان کے تعلقات کی کیا نوعیت ہوگی۔ بیچ میں ایک مسئلے کا ذکر آ گیا۔ بات تو بہت عام تھی لیکن تصحیح خیالات کے لیے مجھے اصل بحث سے تھوڑی دیر کے لیے دور جانا پڑا۔ اب میں پھر اپنے اصلی مدعا کی طرف آتا ہوں۔
میں عرض کر چکا ہوں کہ ’’مستأمن مسلمان‘‘ کے لیے فرض ہے کہ جس غیر اسلامی حکومت میں وہ امن کی ضمانت لے کر داخل ہوا ہے وہاں کے مروّجہ قوانین کی سختی سے پابندی کرے۔ کسی کے مال و جان، عزت و آبرو پر حملہ کرکے قانونِ وقت کو توڑنا غدر ہے اور غدر قراناً و حدیثاً و اجماعاً حرام ہے۔ الغرض قانون وقت کی پابندی اس کا ایک مذہبی فریضہ ہے۔ میں کہہ چکا ہوں کہ قانون ملکی کے خلاف لفافے میں نصف ماشے کا بھی اضافہ یا ریل کے سامان میں پاؤسیر کی زیادتی بھی اس کے لیے ناجائز ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں سے زیادہ امن پسند قوم مذہبی حیثیت سے کوئی نہیں ہو سکتی۔
لیکن سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ ’’اسلامی قانون‘‘ کی رو سے ایک فعل ناجائز ہے۔ مثلاً یہی سود کا مسئلہ ہے کہ اس کے ذریعے سے کسی دوسرے کا مال لینا اسلام میں قطعاً حرام ہے۔ مگر غیر اسلامی قانون میں اس ذریعے سے تحصیل مال کی اجازت ہے بلکہ حکومت بھی بڑے وسیع پیمانے پر مختلف صورتوں میں اس کا کاروبار کرتی ہے۔ ایسی صورت میں مسلمان کو کیا کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں اگر وہ ’’مستأمن مسلمان‘‘ اس ذریعے سے اس ملک کے غیر مسلم باشندے کا مال حاصل کرتا ہے تو نقض معاہدہ یا قانون شکنی یا غدر کا تو وہ قطعاً مرتکب نہیں ہے اور اس لحاظ سے مذہبی طور وہ قانونِ معاہدہ کا قطعاً مجرم نہیں۔
اب رہ گئی یہ بحث کہ کیا اس نے کسی دوسرے سے ایسے مال کو حاصل کیا ہے جس کے لینے کا گو قانون ملکی نے اسے مجاز گردانا ہے لیکن مذہب یا خدا اس کے لینے سے روکتا ہے؟ یا یوں کہو کہ کیا اس نے ایسا مال حاصل کیا ہے جو قانوناً نہ سہی لیکن اسلام کی رُو سے وہ مباح نہ تھا بلکہ معصوم تھا؟ ابھی شریعت (اسلامی قانون) بلکہ قرآن سے گزر چکا ہے کہ اس قسم کا مال مسلمان کے لیے مذہباً غیر معصوم اور مباح{ FR 2285 } ہے۔ پھر ایک مسلمان کیا کرے؟ قرآن اور مذہب جس کو غیر معصوم اور مباح کہتا ہے کیا وہ اپنے مذہب سے رو گردانی کرکے اس کو معصوم اور غیر مباح کہہ دے؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ جس مال کو نہ قانون ناجائز قرار دیتا ہے اور نہ شریعت حرام قرار دیتی ہے بلکہ اس کے لینے کا حکم دیتی ہے، غریب مسلمان آخر اس جائز کو کس طرح ناجائز اور اس حلال کو کس طرح حرام کر دے؟ کیا وہ سلطنت کے قانون سے بغاوت کرے؟ یا شریعت کے حکم کو توڑے؟ کیا اس کے بعد مسلمان کے لیے کہیں بھی پناہ ہے؟
اسلامی قوانین کا یہی وہ اضطراری مقتضا ہے کہ شریعت اسلامیہ کے سب سے محتاط، بلکہ بقول بعض عوام سخت گیر امام، امام الائمہ، قدوۃ الاتقیاء، قائم اللیل، التابعی المجتہد المطلق امام ابوحنیفہؒ کا یہ فتویٰ نہایت بین اور غیر مبہم واضح لفظوں میں امام محمدؒ نے ’’سیر کبیر‘‘ میں نقل فرمایا ہے:
وَاِذَا دَخَلَ الْمُسْلِمُ دَارَالْحَرْبِ بِاَمَانٍ فَلاَ بَأْسَ بِاَنْ یَاْخُذَ مِنْہُمْ اَمْوَالَہُمْ بِطِیْبٍ اَنْفُسِہِمْ بِأَیِّ وَجْہٍ کَانَ لِأَنَّہٗ اِنَّمَا اَخَذَ الْمُبَاحَ عَلٰی وَجْہٍ عَرَی عَنِ الْغَدْرِ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ طَیبًا لَّہٗ۔ { FR 2436 }
جب مسلمان دارالحرب{ FR 2286 } (غیر اسلامی ملک) میں ان کا معاہدہ کرکے داخل ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہاں کے باشندوں (غیر مسلم) کی مرضی سے ان کا مال لے خواہ ذریعہ کوئی بھی ہو،{ FR 2287 }کیونکہ اس نے ایک مباح مال کو لیا ہے اور ایسے ذریعے سے لیا ہے جو قانون شکنی (غدر) سے پاک ہے تو یہ مال اس کے لیے پاک اور طیب ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ فتویٰ اس عہد تاریک کا نہیں ہے جس وقت مسلمان محکوم تھے۔ جس زمانے میں امام رحمۃ اللہ علیہ نے شریعت سے اس قانونی دفعہ کو پیدا کیا تھا، غالباً اس وقت کسی کے حاشیہ خیال میں بھی مسلمانوں کے اعمال و افعال عقائد و رسوم کی وہ ’’زشتی‘‘ نہ تھی جو ’’نادر یورپ‘‘ کی صورت میں یکایک{ FR 2288 } ظاہر ہوگئی، یہاں تک عبادِ صالحین نے قوم عابدین کو عبادت کے کٹہرے کی طرف بھگانے کے لیے اپنی میراثوں میں‘ غوثی و قطبی میراثوں میں، ان شیروں کو کچھاروں سے چھوڑ دیا جو سب پر رحم کر سکتے ہیں، لیکن جن کا فریضہ عبادت تھا ان کے پاس ان کے لیے کوئی رحم نہیں ہے اور کہیں نہیں ہے۔ فقہا جب اس مسئلے کا ذکر کرتے ہیں کہ کسی اسلامی مقبوضہ پر فرض کرو کہ غیر اسلامی حکومت قابض ہو جائے تو بطور جملہ معترضہ کے طور پر عیاذاً باللّٰہ کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ یعنی اس مفروضے کو بھی وہ فرض کرنے سے گھبراتے ہیں۔ ایسی صورت میں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امام اعظم نے کسی وقت ضرورت کے آگے نہیں بلکہ شریعت کی کتنی مجبوریوں کے آگے گردن جھکا دی تھی اور حقیقت یہ ہے کہ صرف قرآن ہی نہیں بلکہ خود جناب رسالت مآب a سے بھی اس فتویٰ کی عملی تصدیق صحیح روایتوں سے ثابت ہے۔ جس وقت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روم و ایران کی باہمی آویزشوں کے زمانے میں قرآن مجید کی پیش گوئی پر اصرار کرتے ہوئے ایک غیر اسلامی ملک یعنی مکہ مکرمہ میں (جو اس وقت حکومت اسلامیہ کے تحت نہ تھا) قریش سے یہ شرط لگائی کہ قرآن ہی کی پیش گوئی پوری ہوگی۔ تو جب وہ پوری ہوئی تو خود آنحضرت a نے اس شرط کے اونٹ لینے کا حکم دیا اور یہ اونٹ وارثوں سے وصول کیے گئے{ FR 2437 } فقہائے اسلام اس عمل سے اس قانون کی توثیق کرتے ہیں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اس قسم کی ’’شرط‘‘ صریح قمار (جوا) ہے جس کی حرمت قطعی نصوص سے ثابت ہے۔{ FR 2289 }
دارالحرب میں سود حلال نہیں بلکہ فَے حلال ہے
لوگوں میں یہ عجیب بات مشہور ہے کہ غیر اسلامی حکومتوں میں سود حلال ہو جاتا ہے، اور زیادہ تر اصل مسئلے کے سمجھنے میں یہی تعبیر مانع آتی ہے۔ ورنہ مسئلے کی بنیاد جس قرآنی قانون پر ہے اس کے لحاظ سے یہ کہنا قطعاً غلط ہے کہ جو چیز حرام تھی وہ کسی وقت حلال ہوگئی۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ جو چیز ہمیشہ سے حلال تھی وہی حلال ہوئی۔ خدا جس چیز کو حلالاً طیبًا فرماتا ہے امام اعظم ؒ اسی کو طیب فرماتے ہیں، ورنہ ایک مسلمان کو اس کا کیا حق ہے کہ قرآن جس چیز کو حرام کرے اسے وہ اپنی رائے سے یا کسی معمولی ظنی خبر کی بنیاد پر حلال کر دے۔ خصوصاً وہ جو واحد خبروں سے نص پر اضافے کو کسی طرح جائز قرار نہیں دیتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ علاوہ ای وجہ کان (قانون وقت کے جس جائز کردہ ذریعے سے بھی وہ مال ملتا ہو) کی عمومیت کے امام ابوحنیفہؒ نے سود ہی کو نہیں بلکہ قمار (جوا) کے ان ذرائع سے بھی تحصیل مال کو طیب قرار دیا ہے جس کی قانون وقت میں ممانعت نہ ہو۔ مثلاً یہی بیمہ ہے یا لائف انشورنش کا ذریعہ{ FR 2290 } ہے۔ علمائے اسلام کے نزدیک قمار اور سود کی یہ مرکب شکل ہے، لیکن سیّرکبیر میں امام محمدؒ، امام اعظمؒ سے ناقل ہیں:
اَوْ اَخَذَ مَالًا مِّنْہُمْ بِطَرِیْقِ الْقِمَارِ فَذٰلِکَ کُلُّہٗ طَیِّبٌ لَہٗ۔ { FR 2438 }
اگر ان سے (غیر مسلموں سے) جوئے کے ذریعے سے مال لے گا تو یہ سب اس کے لیے پاک اور طیب ہے۔
سود کی شہرت کا سبب غالباً امام مکحولؒ (جو محدثین کے نزدیک ایک ثقہ راوی ہیں) کی وہ مرسل حدیث ہے جو اسی مسئلے کی تائید میں پیش کی جاتی ہے اور وہ یہ ہے:
عَنْ مَکْحُوْلٍ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا رِبٰو بَیْنَ الْحَرْبِیْ وَالْمُسْلِمِ۔] لَذا لَارِبَا بَیْنَ أَھْلِ الْحَرْبِ۔۔۔ وَأھْلِ الْاِسْلام[ { FR 2440 }
مکحول سے روایت ہے وہ رسول اللہ a سے راوی ہیں کہ حضور a نے فرمایا حربی (غیر مسلم) اور مسلمان کے درمیان سود نہیں ہے۔
لوگ نہ معلوم اس کا مطلب کیا سمجھتے ہیں ورنہ ظاہر الفاظ سے جو کچھ مستفاد ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ مسلم اور غیر ذمی نا مسلمان کے درمیان اگر سود کا معاملہ ہو تو وہ سود، سود ہی نہ ہوگا بلکہ ’’قرآنی قانون اباحت‘‘ کے تحت یہ مال مسلمان کے لیے طیب و حلال ہے۔
بہرحال اسلامی شریعت، قرآن و حدیث، عمل صحابہ کی رو سے یہ ایک ایسا واضح اور صاف قانون ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لوگ مکحول کی حدیث مرسل کے متعلق حجیت و عدم حجیت کا سوال اٹھاتے ہیں حالانکہ یہ چیزیں تو تائید میں پیش کی جاتی ہیں ، ورنہ واقعہ یہ ہے کہ اس قسم کے اموال کے طیب و حلال ہونے کا حکم تو قرآن کے نصوص صریحہ کی واضح عبارت کا نتیجہ ہے۔ علامہ ابن ہمامؒ نے بالکل صحیح لکھا ہے:
وَفِی التَّحْقِیْقِ یَقْتَضِیْ اَنَّہٗ لَوْ لَمْ یَرِدْ خَبْرُ مَکْحُوْل اَجَازَہٗ اَلنَظْر الْمَذْکُوْر۔ { FR 2441 }
اور تحقیق کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر مکحول کی روایت نہ بھی وارد ہوتی تو مذکورہ بالا ’’نظر‘‘ اس کی اجازت دیتی ہے۔
صاحب بدائع نے اسی بنیاد پر امام ابوحنیفہؒ کے مذہب کی صحیح تعبیر کی ہے:
وَعَلی ہٰذَا اِذَا دَخَلَ مُسْلِمٌ اَوْ ذِمِّیٌ دَارَالْحَرْبِ بِاَمَانٍ فَعَاقَدَ حَرْبِیًا عَقْد الرِّبَا اَوْ غَیْرِہٖ مِنَ الْعقُود الْفَاسِدَۃِ فِی الْاِسْلاَمِ جَازَ۔{ FR 2442 }
اور اس بنیاد پر یہ مسئلہ ہے کہ اگر مسلمان یا ذمی دارالحرب (غیر اسلامی ملک) میں امن کا معاہدہ کرکے داخل ہو اور کسی غیر مسلم سے ربوٰ (سود) کا معاملے کیا یا اس قسم کا کوئی معاملے کیا جو اسلامی قانون کی رُو سے فاسد ہو تو وہ معاملہ جائز ہوگا۔
فَے اور پھاؤ کی اصطلاح
اور اسی لیے میرا ناچیز خیال ہے کہ اس قسم کی تمام ’’آمدنیاں‘‘ جو مسلمانوں کو غیر اسلامی حکومتوں میں قانوناً میسر آ سکتی ہیں ، ان کو بجائے سود یا قمار یا جوا وغیرہ کہنے کے مناسب ہوگا کہ اس کا خاص نام ’’فَے‘‘ رکھ دیا جائے جس کے معنی گویا یہ ہوں گے کہ وہ مال جو بغیر کسی حرب و قتال، جنگ و جدال کے دوسری اقوام سے امن پسندانہ طور پر قانون وقت کی پوری پابندی کے ساتھ مسلمانوں کو ملا{ FR 2291 }… مجھے ایسا خیال آتا ہے کہ ہندی میں ایک لفظ ’’پھاؤ‘‘ کا ہے جو قریب قریب ’’فَے‘‘ کا ہم پلہ بھی ہے، اور غالباً ایک حد تک اسی معنی کو ادا بھی کرتا ہے۔ خواص توان آمدنیوں کو اپنی ’’فَے‘‘ کی آمدنی کہیں گے۔ عوام کی زبان پر (فے) نہ چڑھے گی تو وہ اس کو ’’پھاؤ‘‘ کہہ دیں گے۔ اس تعین اصطلاح کی ایک بڑی ضرورت وہ وجہ بھی ہے جو بعض ثقات اسلام کی جانب سے اس مسئلے کے متعلق بطور اندیشے یا خطرے کے پیش کیا جاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر اس مسئلے کا اعلان کر دیا گیا تو ممکن ہے کہ امتداد زمانے کے بعد مسلمان اس کو بھول جائیں گے کہ سود، قمار اور ازیں قبیل دوسرے ذرائع ان کی شریعت میں حرام بھی تھے یا نہیں۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ ان آمدنیوں کا نام ’’فَے‘‘ رکھا جائے کہ اس لفظ سے مسلمانوں کو یہ یاد آتا رہے گا کہ غیر اقوام سے ان کے شرعی تعلقات کیا ہیں اور غیر اسلامی حکومتوں کے معاہدۂ امن کی تکمیل ان پر شرعاً کس حد تک لازم ہے۔{ FR 2292 }آخر جن کاروباری معاملات سے خدا ناراض نہیں ہے، قانون خوش، حکومت خوش، دینے والے خوش، ان کے اختیار کرنے میں مسلمانوں کو کس چیز سے ڈرنا چاہیے۔
فَے سے انکار قومی جرم ہے
سچ یہ ہے کہ مسلمانوں کے بچے کھچے سرمایہ دار، قلیل البضاعۃ اس حلال بلکہ بالفاظ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ طیب آمدنی کو، جسے میں ’’فَے‘‘ یا ’’پھاؤ‘‘ کہتا ہوں اور جس کے متعلق قرآن کا صریح حکم حلالاً طیبًا ہے، نہ لے کر قومی جرم اور قومی خودکشی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ مسلمانوں کے سرمائے جو بینکوں میں محفوظ ہیں ان کے لاکھوں روپے کا ’’فَے‘‘ صرف یہی نہیں کہ غیر اسلامی قوتوں کی بالیدگی ہے، اور مسلمانوں کے لیے معاشی راہوں کے بدلنے سے ہر مال بیکار ہو جاتا ہے، بلکہ سنا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی اس ’’فَے‘‘ کی آمدنی سے مسلمانوں ہی کے بچوں، عورتوں اور غریبوں کو اسلام سے چھڑا چھڑا کر محمد رسول اللہؐ کی صف سے توڑ توڑ کر غیروں کی صف میں بھرتی کیا جاتا ہے۔ کھلے بندوں یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا (الممتحنہ60:1) کا ارتکاب ہو رہا ہے۔ یہ اپنی قوم کے ساتھ غداری نہیں تو اور کیا ہے۔{ FR 2293 }ہائے مسلمانوں ہی کی چاندی کی چھری سے مسلمانوں کا ذبح کرنا کس نے جائز قرار دیا؟ کیا خدا نہیں دیکھ رہا ہے؟ امام الدنیا والدین رسول رب العالمین خاتم المرسلینa تک یہ خبریں نہیں پہنچ رہی ہوں گی؟ محمدa کی امت کو دنیا والو! دیکھو! سود کے جالوں میں پھنسا کر پورب، پچھم، اتر، دکھن، کے لوگ دل کھول کر شکار کر رہے ہیں۔ سود دو، یا کھیت دو، یا جائیداد دو، یا مکان دو، یا عرب کے امی لقبa کا آستانہ چھوڑ دو، ان مہروں کی شطرنج پر کیسی دردناک بازیاں کھیلی جا رہی ہیں۔
بینک کا سود
سچ یہ ہے کہ بینک زیادہ تر سود خوروں کی باضابطہ کمیٹیوں کا نام ہے لیکن جب اس کا تنظیمی و اختیاری عملہ وہ نہیں ہوتا جن سے مسلمانوں کو روکا نہیں گیا ہے تو اب اس کمیٹی کی ممبری یا رکنیت نہیں ہے، بلکہ اس کمپنی سے معاملہ ہے جو لوگوں کو سود پر قرض دیتی ہے؟ پس مسلمانوں کو اس طیب ’’فَے‘‘ سے انکار کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ وہ کمپنی کیا کرتی ہے؟ کس کو قرض دیتی ہے؟کن سے سود لیتی ہے؟ یہ اس کا اپنا معاملہ اور جدید عقد ہے جس سے اس معاملے کو قطعاً نسبت نہیں جو ایک مسلمان نے ارباب بینک سے کیا ہے، بلکہ بین الملی قوانین کے جو دفعات آئین اسلامی سے گزر چکے ان کو سامنے رکھنے کے بعد بینک والوں کے سارے کاروبار جس کسی سے ہوں صحیح ہو جاتے ہیں۔{ FR 2294 } فلیتدبر۔
ہاں میں نے پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوں اور ہمیشہ کہوں گا کہ جو ایسا کرتے ہیں وہ وطن کی پاسبانی نہیں کر رہے ہیں۔ وطن والوں کے ساتھ ، وطن کے مزدوروں کے ساتھ اچھا نہیں کر رہے ہیں‘ لیکن جو وطن کا محافظ ہے، جس حکومت کو وطن کے باشندوں کی نگرانی سپرد کی گئی ہے، جب وہی ان معاملات کو وطن کی بہبودی اور ترقی کا ذریعہ سمجھتی ہے اور خود وطن والے بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں تو مسلمان وطن کی وفاداری میں کیا اپنی قوم سے غداری کریں ؟{ FR 2295 }حالانکہ وطن تو وطن ان پر تو خاندانی حقوق کے سلسلے میں بھی قومی غداری حرام ہے۔ قرآن کا عام اعلان ہے۔
﴿لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ۰ۚۛ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۰ۚۛ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌo ﴾ ( الممتحنہ60:3)
تمھارے رشتے اور تمھارے بچے قیامت کے دن کام نہیں آئیں گے۔ خدا تمھارے درمیان فیصلہ کرے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اسے دیکھ رہا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ ہمیں صبر کا حکم دیا گیا ہے اور خاص وقت تک صبر ہی ہمارے لیے بہتر ہے‘ لیکن کیا قانونِ صبر کے ساتھ ’’مجازاۃ بالمثل‘‘ کی بھی قرآن ہی نے تعلیم نہیں دی ہے؟
﴿وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ۰ۭ وَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَخَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَo ﴾ ( النحل 126:16)
اگر تم پرزیادتی کی جائے تو تم بھی اتنی ہی زیادتی کرو جتنی تم پر کی گئی اور صبر کرو گے تو صبر کرنے والوں کے لیے یہی بہتر ہے۔
لیکن صبر کی کوئی نہایت بھی ہے؟ استقلال کی کوئی حد بھی ہے؟ جس نے صبر سکھایا اسی نے تو
﴿لَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّہْلُكَۃِ۰ۚۖۛ ﴾ ( البقرہ 195:2)
اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو!
بھی سکھایا۔ قسطنطنیہ کی دیواروں کے نیچے سونے والے یورپ کے غازی حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو تہلکہ کی تفسیر فرمائی ہے عوام نہیں تو کیا اس سے خواص بھی جاہل ہیں؟
فَے کا نہ لینا وطنی جرم بھی ہے
بلکہ سوچنے والے تو یہ کہتے ہیں کہ اس فَے کا نہ لینا صرف اپنی قوم کے ساتھ ہی نہیں بلکہ وطن والوں کے ساتھ بھی دشمنی ہے۔ زہر کھانے والے کو دیکھ کر صرف دل میں افسوس کرنا یہ حقیقی ہمدردی ہے؟ یا آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے زہر کا چھین لینا سچی بہی خواہی { FR 2296 }ہے۔
مَنْ رَأیٰ مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیّرہٗ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ وَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَ ذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ۔{ FR 2445 }
تم میں سے کوئی بری بات دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے۔ نہ زور رکھتا ہو تو زبان سے اسے پلٹے۔ اس کی بھی مجال نہ ہو تو دل سے برا جانے اور یہ بڑے کمزور ایمان والا ہے۔
حدیث کی ساری کتابوں میں سیکھتے ہو‘ لیکن پھر بھی ایمانی ضعف کے دائرے سے نکلنے کی لوگوں میں جرأت نہیں ہوتی۔ خصوصاً جب استطاعت بھی ہو، حکومت کی قوت تمھارے ساتھ ہو، وطن والے اس معاملے میں تمھارے ہمنوا ہوں تو بتاؤ تمھارے لیے کیا عذر باقی رہا؟ کیا جو لوگوں کے گال پر تھپڑ مارتا ہے وہ جرم کے نتائج و آثار کو اس وقت تک سمجھ سکتا ہے جب تک کہ خود اس کے رخساروں کو بھی اسی گزندکی خوراک نہ دی جائے جس کو اب تک اس نے نہیں چکھا ہے۔{ FR 2297 } اگر ایسا نہ کیا جائے گا تو بیچارے غریب انسانوں کی نازک کھالوں کو اپنی انگلیوں میں قوت پیدا کرنے کی مشق گاہ خیال کر لے گا۔ ’’فَہَل مِنْ مُّدَّکِر‘‘ ہو سکتا ہے کہ جو گزند آج مسلمانوں کو پہنچایا جا رہا ہے جب اس کا احساس دوسروں کو بھی ہوگا تو ممکن ہے کہ حکومت ہی ان معاملات کو قانوناً بند کر دے۔ اگر وہ ایسا کرے گی تو اس وقت سب سے پہلے اس قانون کی تعمیل کے لیے جن کا سر مذہب جھکا دے گا وہ اس نبی (a) کی اُمت ہوگی جو دنیا میں اعلیٰ اور برتر مکارم اخلاق کی تکمیل ہی کے لیے مبعوث ہوا تھا۔ نحن احق بمکارم الاخلاق۔ ہم مسلمان سب سے پہلے عمدہ اور بلند احکام کے حق دار ہیں۔ اس وقت ہم مذہب کے مجرم ہوں گے۔ اگر قانونِ وقت کے ساتھ غدر کریں گے۔ اگر حکومت نے بھی نہ سنا تو کیا تم تعجب کرتے ہو کہ جو دکھ مسلمانوں کو پہنچا جب اسی میں دوسرے پڑیں گے تو ’’دہن توپ‘‘ کے اس وعظ سے وطن والے اسی طرح لاپروائی برتیں گے جس طرح وہ زبان و قلم کے واعظوں پر قہقہے لگاتے رہے ہیں۔{ FR 2298 } اگر انھوں نے آگے چل کر ہم سے ان معاملات کے اٹھا دینے کا کبھی معاہدہ کیا تو کیا مسلمانوں کو ان کے خدا نے اس کی اجازت نہیں فرمائی ہے کہ:
﴿لَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْہِمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَo ﴾ ( الممتحنہ 8:60)
اللہ تم کو ان لوگوں سے نہیں روکتا جو دین میں تم سے نہیں جھگڑتے اور تم کو وطن سے بے وطن نہیں کرتے کہ ان لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور ان کے ساتھ انصاف کرو۔ انصاف کرنے والوں کو خدا پیار کرتا ہے۔
ایسے معاہدوں پر جو اُمت سب سے پہلے دستخط کرے گی وہ وہی ہوگی جو تمام دنیا کے لوگوں کو نفع پہنچانے کے لیے ظاہر کی گئی ہے۔ ہم دل سے بھی ان معاملات کو برا جانیں گے، زبان سے اس پر اصرار کریں گے، حکومت کو بھی ادھر بار بار توجہ دلائیں گے، وطن والوں سے بھی کہیں گے، جس طرح اب تک کہا ہے آئندہ بھی کہیں گے، زور سے کہیں گے اور مسلسل کہیں گے، ہم کو وطن سے بے وطن اور اپنے گھروں سے بے گھر بنانے پر وہ جس قدر بھی چاہیں اصرار کریں، لیکن ہم ان کی بہی خواہی میں کبھی کمی نہ کریں گے اور اسی بہی خواہی کے سلسلے میں زبان سے آگے بڑھ کر ہم ہاتھ سے بھی اپنے:
’’نَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَرِ‘‘ ’’بری باتوں سے روکنا‘‘ اور
’’اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ‘‘ ’’اچھی جانی پہچانی باتوں کا حکم دینا۔‘‘{ FR 2299 }
کے آسمانی فریضے کو ادا کریں گے جس کے لیے ہم بنائے گئے ہیں تاایں کہ وطن کے فرزندوں کا ہمارے پڑوسیوں کا اس کی خرابی و ضرر رسانی پر اتفاق ہو جائے۔ ٹوٹے ہوئے دل یوں ہی ملیں گے، اور وہ تو ان شاء اللہ ایک دن مل کر ہی رہیں گے۔
اسلامی حکومتوں اور ریاستوں کا حکم
مسئلہ ختم کرنے سے پہلے چند باتیں اور بھی قابل ذکر رہ جاتی ہیں، آخر ان کو کیوں چھوڑا جائے۔ جب اسلامی قوانین ہماری رہنمائی ودست گیری کے لیے ہر حال میں تیار ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن اسلامی ممالک میں شرعی قانون کسی نہ کسی وجہ سے اٹھ گیا ہے ان کا کیا حکم ہے؟ ہاں وہاں کے حکام دولاۃ سلاطین و ملوک تو مسلمان ہیں۔ شامی میں اس کا فتویٰ موجود ہے کہ اگر سلاطین اسلام ان ممالک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی قوت رکھتے ہیں اور باوجود اس کے نفاذ نہیں کرتے، تو ایسا ملک دارالسلام ہی رہے گا۔ کہتے ہیں:
وَبِھٰذَا ظَھَرَأَنَّ مَا فِی الشَّامِ مِنْ جَبَلٍ تَیْمِ اللّٰہِ الْمُسمّٰیِ بِجَبَلِ الدَّرُ وزِ بَعْضُ الْبِلاَدِ التَّابِعَۃِ کُلُّھَا دَارُالإِسْلامِ لاِّنَّھَا وَإِنْ کَانَتْ لَھَا حُکَّامٌ نَصَارَیٰ وَلَھُمْ قُضَاۃٌ عَلٰی دِیْنِھِمْ وَبَعْضُھُمْ یُعْلِنُونَ بِشَتْمِ اِلْاِسْلاَمِ وَالْمُسْلِمِیْنَ لٰکِنَّھُمْ تَحْتَ حُکْمُ وُلَاۃ أُمُوْرِنَا وَبِلَادُ الْاِسْلَامِ مُحِیْطٌہٌ بِبِلَادِھِمْ مِنْ کُلِّ جَانِبٍ وَإِذَا أَرَادَ أُولِی الْأَمْرِ تَنْفِیْذُ أَحْکَامِنَا فَیْھِمْ نَقَّذَھَا ۔{ FR 2446 }
اور اس سے معلوم ہوا کہ شام کا علاقہ کوہ تیم اللہ جس کا عام نام جبل دروز ہے اور دوسرے شہر جو اس کے تابع ہیں سب دارالاسلام ہیں کیونکہ اگرچہ وہاں دروزیوں کا یا عیسائیوں کا قانون ہے اور ان کے جج و حکام ان ہی کے مذہب کے ہیں اور ان میں بعض علانیہ مسلمانوں کو اور اسلام کو گالیاں دیتے ہیں لیکن چونکہ اسلامی حکومت کے ماتحت ہیں اور اسلامی ممالک ان کو چاروں طرف سے محیط ہیں اور مسلمانوں کا امیر اگر چاہے تو ان میں ہمارے (یعنی اسلامی) احکام نافذ کر سکتا ہے۔
اس سے ظاہر ہے کہ جن ممالک میں مسلمان سلاطین یا ولاۃ اُمور باوجود ارادے کے اسلامی احکام کے نفاذ پر قادر نہ ہوں وہ دارالاسلام باقی نہیں رہ سکتے۔{ FR 2300 } وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔
باقی یہ مسئلہ کہ اس قسم کے غیر اسلامی ممالک میں جمعہ، عید وغیرہ کا نظم کس طرح ہوگا۔ شامی میں اس کے متعلق موجود ہے:
کُلُّ مِصْرٍ فِیْہَ وال مُسْلِمٌ مِنْ جِھَۃِ اُلکُفَّارِیُجُوز مِنْہٗ إِقَامَۃُ الْجُمَعِ وَالْأَعْیَادِوَ أَخْذُ الْخًراجِ وَ تَقْلِیْدُ الْقَضَائِ وَتَزوِیَجُ الْأَوِیجُ الْأَ الْأیَامٰی۔{ FR 2447 }
ہر وہ شہر جہاں کا رئیس کفار کی منظوری سے ہو اس کی جانب سے جمعہ اور عید کا قیام کرنا جائز ہے اور اس ملک کا خراج لینا بھی نیز عدالت کے قضاۃ (حکام) کے تقرر کا بھی اسے اختیار ہے اور بیواؤں کی شادی بھی وہی کر دے۔
لیکن جس غیر اسلامی ملک میں غیر اسلامی حکومت کا کوئی تسلیم شدہ مسلمان رئیس نہ ہو تو اس کے متعلق یہ حکم ہے:
وَأَمَّا فِی بِلَادٍ عَلَیْھَا وَلاۃٌ کُفَّارٌ فَیَجْوزُ لِلمُسْلِمِیْنَ إِقَاَمَۃ اِلْجُمَع وَالْأَعْیَادِ و یَصِیْرُ الْقَاضِی قاضِیاً بِتَتَراضِی الْمُسْلِمِیْنَ وَیَجِبُ عَلَیْھِمْ طَلَبُ وَالٍ مُسْلِمٍ۔{ FR 2448 }
لیکن ایک ایسا ملک جہاں کے ولاۃ کفار ہیں تو مسلمان کو یہ جائز ہے کہ اس شہر میں بھی خود جمعہ اور عیدین قائم کریں، قاضی مسلمان باہمی سمجھوتہ سے مقرر کر لیں، لیکن ان پر مسلمان رئیس کی تلاش واجب ہے۔
اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جن مسائل میں مسلمانوں کو ’’قضائے شرعی‘‘ کی ضرورت پیش آتی ہے‘ ’’دین کامل‘‘ نے غیر اسلامی ممالک میں اس کا کیا چارہ کار بتایا ہے، اور غالباً اس تفصیل کے بعد عہد حاضر کے اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کے احکام واضح ہوگئے۔
فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ فِی الْاُوْلٰی وَالْاٰخِرَۃِ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ الْخَاتِم الرُّسُلِ وَعلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
————-
(مولانا کے سابق مضمون کی اشاعت پر بعض اہل علم نے اعتراضات کیے تھے جن کے جواب میں مولانا نے یہ مضمون تحریر فرمایا تھا۔ )مرتب
(۱) مسئلے کی تعبیر میں ضرور مسامحت ہوئی ہے جس سے شدید غلط فہمی کا اندیشہ ارقام فرمایا گیا ہے کہ ’’غیر اسلامی حکومتوں کے ماتحت رِبا رِبا نہیں رہتا۔ الخ۔ اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ فقہ حنفی میں ہر شخص خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، اس کے ساتھ اس قسم کے معاملات جائز ہیں اور ان کے اموال غیر معصوم و مباح ہو جاتے ہیں حالانکہ مقصد یہ نہیں ہے بلکہ یہ حکم صرف ایسی غیر اسلامی اقوام مثلاً یہود و نصاریٰ مجوس و ہنود وغیرہ کے ساتھ مخصوص ہے جن کی ذمہ داری کسی اسلامی حکومت نے نہیں لی ہے‘‘ … میں نے اپنے دعوے کے ثبوت میں امام محمدؒ کی ’’سیر کبیر‘‘ کا مشہور فتویٰ نقل کیا ہے اسی سے غایت اطمینان کے لیے اس قانون کی یہ دفعہ بھی نقل کر دیتا ہوں:
وِلَوْ کَانَتْ ھٰذِہ الْمُعَامَلَۃُ بَیْنَ مُسْلِمِیْنَ مُسْتَامِنَیْنَ اُوْأَسِیْرَیْنِ فِی دَارِ الْحَرْبِ کَانَ بَاطِلاً مَرْدُودًا الأِنِھَّمَا یَلْتَزِمَانِ أحْکَامَ الْاِسْلَامِ فِی کُلَّ مَکَانٍ۔{ FR 2449 }
اور اگر یہ معاملہ دو مسلمانوں کے درمیان ہو جو دارالحرب (غیر اسلامی ملک) میں معاہدہ امن کرکے مقیم ہوں یا قیدی ہوں تو یہ معاملہ باطل و مردود ہوگا کیونکہ یہ دونوں اسلامی قوانین کے ہر جگہ ذمہ دار ہیں۔‘‘{ FR 2301 }
قیدی اسیر کے لیے فقہی طور پر ضروری نہیں کہ وہ جیل خانے میں ہو بلکہ ہر وہ شخص جو کسی ملک سے دوسرے ملک میں بغیر اجازت یا پاسپورٹ کے نہیں جا سکتا وہ اسیر{ FR 2302 } ہے والتفصیل ان شاء اللّٰہ فی وقت اخر۔
(۲) دوسری بات مجھے یہ کہنی ہے کہ بلا شبہ میں نے ذرا عجلت سے کام لے کر اس مضمون کو قبل از مشورہ شائع کرا دیا۔ اس عبد خاطی و عاجز کو اپنے اس قصور کا اعتراف ہے لیکن میں نے جن جذبات اور ہیجانات سے مجبور ہو کر اس مضمون کو لکھا تھا اس سے خدائے خیبر و بصیر خوب واقف ہے۔ ماسوا اس کے اس مسئلے کی بنیاد جن مقدمات پر ہے وہ کل دو ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہندوستان دارالکفر ہے۔ دوسرے یہ کہ دار الکفر میں عقود فاسدہ فی الاسلام کے ذریعے سے اموال غیر معصومہ کا لینا مباح ہے۔
ان میں سے پہلے مقدمے کے متعلق میں نے ہندوستان کے اکثر علمائے ثقات و ارباب فہم و تقویٰ کو متفق پایا۔ البتہ دوسرے مقدمے کے متعلق میں نے ان کرام و اکابر علما سے بالتفصیل نہیں دریافت کیا، جن کے اسمائے گرامی آپ نے درج کیے ہیں اور جن میں سے اکثر اس خاکسار کے اساتذہ یا فی حکم الاستاذہ ہیں۔ صرف مولانا اشرف علی صاحب تھانوی مدظلہ العالی کی رائے گرامی کا مجھے علم تھا کہ وہ اس مسئلے میں فقہ حنفی کے اس جزئیہ کے متعلق مطمئن نہیں ہیں۔ انھوں نے اپنے فتاویٰ نیز تفسیر میں دوسرے مقدمے کی صحت میں حدیثاً و اصولاً کلام کیا ہے‘ لیکن جہاں تک اس ناچیز کی رسائی تھی امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کو میں نے اوفق بالکتاب والسنہّ پایا۔ امام صاحب نے یہ سمجھا ہے کہ جس طرح ’’لَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ‘‘(النسائ 4:29) ’’اپنی جانوں کو نہ مارو‘‘ کا منصوص اور بظاہر عام حکم صرف مسلمانوں تک محدود ہے ورنہ قانون جہاد بے معنی ہو جاتا ہے، اسی طرح ’’لاَتَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ‘‘(البقرہ2: 188) تم اپنے مالوں کو اپنے درمیان ناجائز ذرائع سے نہ کھایا کرو۔ اور اسی کی ایک ذیلی تفصیل ’’لَا تَاْکُلُوا الرِّبٰو(آل عمران3: 130)‘‘ سود نہ کھاؤ، کا بظاہر عام حکم بھی صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص{ FR 2303 } ہے۔ خصوصاً جب ’’اموال مُحرَّمہ‘ کے حکم نہی میں ’’بینکم‘‘ کی تصریح بھی ہے تو وہ قانون قتل کی عمومیت سے اور بھی زیادہ خاص ہو جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ’’ربوٰ‘‘ کا قانون سخت ہے لیکن کیا قتل سے بھی زیادہ سخت؟ قرآن نے ایک شخص کا قتل عام بنی آدم کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے جس کی جزا میں جہنم کے عذاب، خلود ابدی کی دھمکی دی گئی ہے لیکن کون نہیں جانتا کہ اسلام نے اس سخت قانون کے ایک رُخ کو (اسی رخ کو جو امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ’’اموال‘‘ کے متعلق ہے) ثواب اور بڑا ثواب قرار دیا ہے۔ آخر امام صاحبؒ کیا کرتے؟ قرآن مجید میں کہا گیا ہے:
وَعَدَکُمُ اللّٰہُ مَغَانِمَ کَثِیْرَۃً تَاْخُذُوْنَہَا۔ (الفتح 48: 20)
اللہ تم سے مغانم کا وعدہ کرتا ہے جنھیں تم لو گے۔
(کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ) یہ اموال مسلمان خریدیں گے؟ یا وراثت میں پائیں گے؟ یا ان کو کوئی ہبہ کرے گا؟ پھر بزور ہی نہیں بغیر زور و قوت کے بھی جو مال ملے اس کے متعلق تصریح ہے کہ یہ وہ چیز ہے کہ:
وَمَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْہِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللہَ يُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ ( الحشر59:6)
جو پلٹایا خدا نے اپنے رسولؐ کے پاس تو تم نے نہ اس پر اونٹ دوڑائے نہ گھوڑے لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے مسلط کر دیتا ہے۔
صرف جنگ کے موقع پر اس کا وعدہ نہیں کیا گیا، بلکہ سب کو معلوم ہے کہ:
اِذْ یَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ اَنَّہَا لَکُمْ۔ (الانفال8: 7)
جب اللہ نے تم سے دو گروہوں میں سے ایک گروہ کے متعلق یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ تمھارے لیے ہے۔
ان طائفوں میں کون نہیں جانتا کہ خدا نے اس طائفے کا بھی وعدہ کیا تھا جو ’’عیر‘‘ یعنی قافلہ تجارت تھا؟ اور کیا وعدہ کیا تھا؟ ’’انہالکم‘‘ وہ تمھارے لیے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے وہ بذریعہ بیع و فروخت، تجارت ، ہبہ، وراثت ، ہدیہ، صدقہ، خیرات، آخر کس طور پر وعدہ کیے گئے تھے؟{ FR 2306 } یہی ذریعہ اگر مسلمانوں کے لیے اموال کے حصول کا قرار دیا جائے تو کیا وہ ذریعہ باطل اور لا تأکلوا اموالکم بینکم بالباطل کے نیچے داخل ہوگا؟ بخاری میں ہے کہ حضرت ابوبصیر صحابیؓ کو صلح حدیبیہ کی رو سے جب مدینہ میں رہنے کی اجازت نہ ملی تو وہ سمندر کے کنارے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جم گئے اور ان کا مشغلہ کیا تھا؟ امام بخاریؒ راوی ہیں:
فَوَ اللّٰہِ مَا یَسْمَعُوْنَ بِعِیْرٍ خَرَجَتْ لِقُرَیْشٍ اِلَی الشَّامِ اِلاَّ اِعْتَرَضُوْا لَہَا فَقَتَلُوْہُمْ وَاَخَذُوْا اَمْوَالَہُمْ۔{ FR 2450 }
بخدا قریش کے جس قافلے کے متعلق وہ سنتے کہ شام کی طرف نکلا ہے اس سے وہ تعرض کرتے اور اہل قافلہ کو قتل کرکے ان کے اموال چھین لیتے۔
کیا اس سے بھی زیادہ تشریح کی ضرورت ہے؟{ FR 2307 } قرآن میں تو صرف ’’عیر‘‘ کا وعدہ تھا، لیکن یہاں تو وقوع ہوا ۔کیا یہ قانون فقہ حنفی کا ہے یا نصوص بینہ کا مقتضی ہے؟ عجیب بات ہے کہ جس قانون کے ذیل میں امام صاحب نے اس جزئیہ یا دفعہ کو پیدا فرمایا ہے (یعنی قانونِ غنیمت) وہ تو صرف امت محمدیہ کے لیے بروئے روایات صحیحہ مخصوص مانا جاتا ہے، لیکن پھر بھی لوگ کہے جاتے ہیں کہ اگر ’’رِبا‘‘ کا کاروبار غیر اقوام کے ساتھ جائز ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے متعلق قرآن مجید میں کیوں فرمایا:
وَّاَخْذِہِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْہُ وَاَكْلِہِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ۰ۭ
( النسائ 161:4)
اور یہودیوں کے سود لینے کی وجہ سے جس سے وہ روکے گئے اور لوگوں کے اموال کو باطل و ناجائز ذرائع سے کھانے پر۔
جب یہودیوں پر غنیمت ہی حرام تھی تو پھر کس بنا پر ان کے لیے سود جائز ہوتا۔{ FR 2308 } اور یہ بھی اسی وقت کہا جائے گا جب یہ ثابت ہو لے کہ وہ صرف غیر یہودیوں سے اس کا کاروبار کرتے تھے۔{ FR 2309 } مولانا شبلی نے اپنی سیرت میں ابوداؤد کی روایت کو متعد د بار نقل فرمایا ہے۔ اس سے غلط فہمی میں نہ پڑ جانا چاہیے کیونکہ اس تشدد کی بنیاد مسئلہ غلول (یعنی قبل تقسیم کے اموالِ غنیمت میں تصرف کرنے) پر ہے جیسا کہ خود حضرت] عبدالرحمان بن سمرہؓ[ نے ’’کابل‘‘ کی جنگ میں اس کی توضیح فرما دی۔ ابولبید راوی ہیں کہ ہم لوگ کابل میں ] عبدالرحمان بن سمرہؓ[ کے ساتھ تھے۔ لوگوں کو مالِ غنیمت ہاتھ آیا تو لگے لوٹنے۔ حضرت ] عبدالرحمان بن سمرہؓ[ اس پر تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میں نے نبی کریم a سے سنا کہ آپؐ نے ’’نہبٰی‘‘ سے منع فرمایا۔ لوگوں نے سب مال واپس کر دیا۔ پھر حسبِ تقسیم ِ شرعی انھوں نے بانٹ دیا { FR 2451 } اس میں یہ نہیں ہے کہ اصل مالکوں کو واپس دے دیا بلکہ قبل تقسیم کے لوٹ مار کرنے سے ممانعت کی گئی تھی جو غلول تھا۔
’’رِبا‘‘ کا قانون کب سے نازل ہوا، یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ ’’لَا تَاْکُلُوا الرِّبَا اَضْعَافًا مُّضَاعَفَۃً‘‘ تو بہت پہلے نازل ہوا‘ لیکن اس کو شراب کی طرح تدریجی غیر قطعی حکم قرار دیا جا سکتا ہے لیکن ’’ربوٰ‘‘ کی جزئی فروع کی حرمت پر عمل درآمد مسلمانوں میں ۷ھ سے شروع ہوگیا تھا۔ موطا ٔ امام مالکؒ میں ہے کہ آنحضرتa نے خیبر میں چاندی کے ایک برتن کی فروخت کے معاملے میں فرمایا:
اَرْبِیْتُمَا فَرَدُّوْا{ FR 2452 }
تم دونوں نے رِبا کا معاملے کیا۔ پس انھوں نے واپس کر دیا۔
اس سے ثابت ہوا کہ ’’دارالاسلام‘‘ میں یہ قانون ۷ھ سے نافذ ہو چکا تھا‘ لیکن سارے عرب میں کب نافذ ہوا؟ سب کو معلوم ہے کہ عام فتح میں بھی نہیں بلکہ حجتہ الوداع میں ربا الجاہلیہ کے سقوط کا اعلان حکومت نبویہ کی جانب سے کیا گیا … اس سے کیا یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ جس ملک میں اسلامی اقتدار قائم نہ ہو وہاں ان معاملات کی نوعیت وہ نہیں رہ سکتی جو اسلامی اقتدار کے بعد ہو جاتی ہے۔{ FR 2310 } ورنہ کم از کم حضرت عباس ؓ جو حجتہ الوداع سے بہت پہلے مسلمان ہو چکے تھے، ان کے ربوٰ کو قطعاً ۷ھ سے پہلے ساقط ہو جانا چاہیے تھا نہ کہ حجۃ الوداع{ FR 2311 } میں۔ تعجب یہ ہے کہ بعض اکابر کو اسی حجۃ الوداع کی روایت سے شبہ ہوا کہ اگر غیر مسلموں سے رِبا جائز ہوتا تو قبل اسلام کا جو سودی بقایا تھا اس کو شارع علیہ السلام نے کیوں ساقط کیا؟
بلاشبہ اگر مسئلہ یہ ہوتا کہ نفس عقد ربوٰ سے سود کا مستحق سود خوار ہو جاتا ہے تو یہ اعتراض ہو سکتا تھا کہ حقوق ثابتہ کے اسقاط کے کیا معنی ہو سکتے ہیں‘ لیکن مسئلے کی بنیاد استحقاق بواسطہ الربوٰ پر نہیں ہے اباحت کا حکم باقی رہے گا۔ جب ملک اسلامی ہو جائے گا تو غیر معصوم معصوم ہو جائے گا۔ پھر اس معصوم کو غیر معصوم کس طرح قرار دیا جاتا { FR 2312 }اور یہی وجہ ہے کہ جب نجران کے لوگوں نے اسلامی حکومت کی ذمہ داری قبول کر لی تو ان کو حکم دیا گیا کہ اب اس کاروبار کو ترک کر دیں، کیونکہ عہد ذمہ کی وجہ سے ان کے اموال معصوم ہو چکے تھے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا صحابہ کے طرزِ عمل میں بھی ایسا کوئی خصوصی اثر ہے جس سے معلوم ہو کہ انھوں نے غیر مسلموں سے ربوٰ کا خاص کرکے معاملے کیا ہو؟ امام محمدؒ نے اس کے جواب میں ’’سیر کبیر‘‘ میں حضرت عباسؓ کا عمل پیش کیا ہے کہ وہ فتح مکہ سے پیشتر اسی کاروبار کے لیے مدینہ سے مکہ جاتے تھے جو اس وقت تک دارالاسلام نہ تھا۔{ FR 2313 } اسی طرح ربوٰ تو نہیں، لیکن یہ تو حدیثوں سے ثابت ہے کہ قمار کا معاملہ ابوبکر صدیقؓ نے کیا اور بدر کے بعد اس کی آمدنی انھوں نے لی۔ یہ کہنا کہ یہ فعل{ FR 2314 } حکم ’’میسر و قمار‘‘ کے نزول سے پہلے کا ہے، بہت مشکل ہے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ ایران نے روم سے شکست انھی ایام میں کھائی جب کفار قریش کو مسلمانوں سے ہزیمت ہوئی۔ حضرت صدیقؓ کا اس معاملے میں فریق ثانی اُمیہ ابن خلف تھا جو بدر میں مارا گیا۔ شرط سو اونٹوں کی تھی۔ حضرت صدیقؓ نے اس کے ورثے پر دعویٰ کیا اور وہ دعویٰ مسموع ہوا۔ سو اونٹ اُن کو ملے۔ مدینہ آئے۔ یہ صحیح ہے کہ ٹھیک طور پر یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ اونٹ بدر سے کتنے سال بعد وصول کیے گئے لیکن بعید از قیاس ہے کہ غم و غصے کے بھرے ہوئے قریش نے ٹھیک بدر کے بعد انصاف کو اتنی راہ د ی ہوگی کہ سو اونٹ اصل شرط لگانے والے سے نہیں بلکہ اس کے ورثے سے حضرت صدیقؓ کو دلوائے ہوں گے بلکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات اگر طے ہوئی ہوگی تو صلح حدیبیہ کے بعد طے ہوئی ہوگی اور یہ مسلم ہے کہ خمر (شراب) اور میسر (قمار) کی تحریم کا حکم اُحد کے قریب قریب نازل ہوا تھا۔ بخاری کی روایتوں سے یہ ثابت ہے۔ پس غالب قرینہ یہی ہے کہ واقعہ حرمت قمار کے نزول کے بعد کا ہے۔ تاریخی طور پر اگر ان واقعات کی جستجو کسی کے مدنظر ہو تو سیرۃ النبی، مولانا شبلی مرحوم سے میرے بیان کی توثیق کر سکتے ہیں، خصوصاً جن لوگوں کی عربی تک رسائی نہیں ہے۔ بہرحال سیر و آثار نہ بھی ہوں تو کیا اثر سے زیادہ وزن دار آنحضرت a کا فعل نہیں بلکہ قانونی قول نہ ہوگا جس کے راوی خود امام ابوحنیفہؒ ہیں؟ امام شافعیؒ نے قاضی ابویوسفؒ کے حوالے سے بروایت ابوحنیفہؒ اس روایت کو نقل کیا ہے:
عَنْ مَکْحُوْلٍ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا رِبٰو] کَذا۔۔۔ لَارِبَا بین أَھْلِ الْحَرْبِ۔۔۔ وأَھْلِ الْاِ بَاسْلَامِ[ بَیْنِ الْمُسْلِمِ وَالْحَرْبِیْ۔ { FR 2453 }
مکحول سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ سے مروی ہے کہ مسلمان اور حربی کے درمیان ربوٰ نہیں۔
میں مانتا ہوں کہ یہ روایت مرسل ہے لیکن کیا اثر صحابہ کے ڈھونڈنے والوں کے لیے ایک مرسل حدیث میں تسلی نہیں ہے؟ عجیب بات ہے کہ’’ ابن سعد‘‘ یا’’اِصابہ‘‘ سے اگر کوئی اثر نقل کر دیا جائے تو لوگ اس کی وقعت کرتے ہیں لیکن امام ابوحنیفہؒ اپنے اعتماد پر ایک مرفوع مرسل قولی حدیث پیش کرتے ہیں تو اس کو صرف مرسل کہہ کر ٹالنا چاہتے ہیں۔ اس روایت کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خبر واحد ہے اس سے نص کی تخصیص جائز نہیں لیکن کیا نص کی تائید بھی اس سے نہیں ہو سکتی؟ کیا اس کی وقعت آثار صحابہ کے برابر بھی نہیں؟ غالباً اس تفصیل کے بعد یہ مسئلہ صرف فقہ حنفی کا نہیں رہ جاتا۔ بہرحال میں اور بھی تفصیل کرتا لیکن ابھی اس کا وقت نہیں آیا ہے۔ ذرا ان لوگوں کا انتظار ہے جو امام ابوحنیفہؒ کے فتویٰ کو اس مسئلے میں مضمحل بنانا چاہتے ہیں۔
اسی کے ساتھ شاہ عبدالعزیز صاحبؒ اپنے فتاویٰ میں ایک سے زائد مقامات پر اس کے متعلق صریح فتویٰ صادر فرما چکے تھے۔ اگر ان کے فتویٰ میں کلام ہے تو کیا ہندوستان میں کسی کے پاس حدیث کی سند محفوظ رہ سکتی ہے؟ جمعیۃ العلما کے اخبار ’’الجمعیتہ‘‘ میں بھی اس کا فتویٰ شائع ہو چکا تھا۔ دارالعلوم دیوبند کے مفتی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے خواہ کسی وجہ سے ہو لیکن بینک کے سود لے لینے کا فتویٰ دیا تھا۔ حرام مال لے کر صدقہ کرنے کی اجازت کون دے سکتا ہے؟ جہاں تک میرا خیال ہے ان کے سامنے مسئلے کی وسعت موجود تھی۔ ورنہ کم از کم میں ان کے اس فتویٰ کی توجیہہ سے عاجز ہوں۔ مولانا عبدالحئی صاحبؒ مرحوم نے اپنے فتاویٰ میں گو ہندوستان کی تصریح نہیں کی لیکن مطلقاً دارالکفر میں انھوں نے جواز کا فتویٰ دیا ہے اور متعدد بار دیا ہے۔ بریلی اور بدایوں کے علما کو بھی اس سے کم از کم میرے علم میں اختلاف نہیں۔ باایں ہمہ میں نے اپنے مضمون میں افتاء کا رنگ نہیں اختیار کیا ہے بلکہ مسئلے کی تشریح کرنے کے بعد استفتاء کیا ہے علما سے پوچھا ہے کہ کیا ہندوستان میں اس مسئلے کے نفاذ کا وقت آ گیا ہے؟
مگر سچ پوچھتے ہیں تو ذاتی طور پر اسی شبہے کی وجہ سے جسے آپ نے نقل فرمایا ہے میں اس کے لکھنے میں متردد تھا۔ پھر کیا کہوں کن مظالم بے جانے آخر میرے ہاتھ سے صبر کے دامن کو چھڑا لیا۔ مسلمان جلائے گئے، لوٹے گئے، برباد کیے گئے اور کیے جا رہے ہیں۔{ FR 2315 } میں ان حالات کو دیکھ دیکھ کر بے اختیار ہوگیا۔ کوئی اور صورت نظر کے سامنے نہ تھی۔ مالی مدافعت یا مالی حملے کی صورت سامنے تھی، پیش کر دی گئی اور اسی وجہ سے اس کا نام میں نے فَے رکھا، کیونکہ شامی میں جزئیہ موجود تھا:
وَمَا أُخِذَ مِنْہُمْ بِلَا حَرْبٍ وَلاَ قَہْرٍ کَالْہَدْیَّۃِ وَالصُّلْحِ فَہُوَ لَا غَنِیْمَۃَ وَلاَ فَیْ ئٌ وَحُکْمُہٗ حُکْمُ الْفَی ئِ۔ { FR 2454 }
اور ان سے جو کچھ بغیر جنگ اور قہر کے لیا جائے مثلاً مال صلح تو وہ غنیمت ہے اور نہ فَے البتہ اس کا حکم فَے کا حکم ہے۔
پس جو حکم فَے میں ہو اگر مجازاً اسے ’’فَے‘‘ کہا جائے تو کیا حرج ہے؟ اور اگر اجازت ہو تو کیا اتنا عرض کر سکتا ہوں کہ ’’زنا‘‘ کے خطرے سے کیا ترک نکاح کا فتویٰ دیا جا سکتا ہے؟ واقعی مسلمان جو بعد میں باہم لڑ پڑے کیا وہ قانون قتال کا نتیجہ تھا؟ کیا یہ خطرات بھی واقعی ہیں؟
لیکن اس کے ساتھ مجھے ان مولویوں سے ضرور خطرہ ہے جو زوال حکومت کے بعد معمولی معمولی باتوں پر تکفیر کا فتویٰ صادر کرکے فسخ نکاح و ناجوازیٔ اولاد کا حکم لگا رہے ہیں۔ اس صورت میں بالکل ممکن ہے کہ ہر مسلمان دوسرے کے کفر کا فتویٰ لے کر آپس ہی میں اس فعل کو شروع کر دے گا جو اس کے لیے قطعاً مورث عذاب جہنم ہے لیکن کاش اس فتویٰ کو عملی شکل دینے کے لیے یہ علما ان مکروہ طریقوں سے باز آئیں، ورنہ ہر شخص اپنی نیتوں کا خود ذمہ دار ہے۔
بِالنِّیَۃِ إِنَّمَا إِمْرِئٍ مَانَوٰی فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہٗ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَھِجْرَتُہٗ إِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہٗ اِلٰی دُنْیَارٍ بُصِیْبُہَا : اَوْ امْرَاۃٍ تَنْکِحُہَا فَہِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ہَاجَرَا اِلَیْہَا۔{ FR 2455 }
ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی وہ نیت کرے۔ چنانچہ جس کی ہجرت خدا اور رسول کی طرف ہو، اور جس کی ہجرت دنیا کے فائدے کی خاطر ہو اور جس کی ہجرت کسی عورت کی خاطر ہو ان میں سے ہر ایک کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کی اس نے نیت کی ہے۔
یوں تو نماز بھی دوزخ کی کلید بن سکتی ہے۔ اگر اسی طرح فتویٰ دے کر لوگ آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگیں تو کیا اس کی وجہ سے قانون جہاد کی حرمت کا فتویٰ صحیح ہوگا؟
ایک شبہ اور بھی ہے کہ سیونگ بینک میں تو نہیں لیکن عام بینکوں اور کوآپریٹو بینکوں کے مالکوں میں بعض بعض مسلمان بھی ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے گا؟ یہ صحیح ہے کہ بینک کا کاروباری عملہ جس سے لوگ لین دین کرتے ہیں عموماً غیر اقوام کے لوگ ہوتے ہیں، لیکن مالکوں کی جماعت میں جب مسلمان بھی ہیں تو عمل کی صورت کیا ہو سکتی ہے؟
کاش علما غور کرتے۔ مسئلہ جوائز السلاطین میں فقہا نے کیا لکھا ہے؟ بہرحال میری غرض کچھ نہیں۔ صرف ایک مسئلے کے متعلق علما کو چونکانا ہے۔ یا تو وہ انسداد سود کے لیے ایسی آواز بلند کریں جیسی کہ ’’مانع مسکرات‘‘ کی سوسائٹی نے بلند کی ہے۔ یا کم از کم قانونی حدود میں رہ کر اتنا تو کریں جتنا گائے والے کرتے ہیں۔ شاید حکومت توجہ کرے یا وطن والے کچھ رحم کھائیں۔ ہو سکتا ہے کہ ’’سود‘‘ کا تصفیہ قربانی گاؤ کی قربانی سے ہو جائے۔ ورنہ پھر سرمایہ دار مسلمانوں کو کسی باضابطہ نظام کے تحت اس پر آمادہ کیا جائے کہ جو سلوک غیر اقوام کے لوگ غریب مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں وہی وہ دوسروں کے ساتھ کریں۔
فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْل مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ۔
(البقرہ2: 194)
پس جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر زیادتی کرو جتنی کہ اس نے کی۔
مقصد صرف اس قدر ہے ورنہ جو لوگ محض شکم پروری یا دولت مندی کے لیے اس مسئلے کے جوا زکی فکر میں ہیں اور اس فکر میں اتنے دیوانے ہو رہے ہیں کہ صحیح، غلط، جس طرح بن پڑتا ہے قرآن کے ایک منصوص حکم کے توڑنے میں زور لگا رہے ہیں، ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کی بنیاد امارۃ و دولت پر نہیں بلکہ اس کا فخر ’’فقر‘‘ تھا، اسی حقیقتِ مقدسہ کبریٰ نے اس کے ستون قائم کیے ہیں۔ بلندی صرف ایمان کے ساتھ ہے۔ ا نتم الاعلون کا وعدہ محض ’’ان کنتم مؤمنین‘‘ کے ساتھ مشروط ہے ‘ثروت دولت والے پہلے بھی وہی تھے جواب ہیں۔ اس وقت بھی قرآن کی یہی ہدایت تھی:
فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُہُمْ وَلَآ اَوْلَادُہُمْ۰ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ لِيُعَذِّبَہُمْ بِہَا فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ كٰفِرُوْنَo ( التوبہ 55:9)
پھر ان کے اموال اور اولاد (مردم شماری) تم کو پسندیدہ نہ معلوم ہوں۔ اللہ چاہتا ہے کہ اس کے ذریعے سے انھیں دکھ پہنچائے اور ان کی جان فرسودہ ہو کر نکلے ایسی حالت میں کہ وہ ناشکرے ہوں۔
اور اب بھی ہم مسلمانوں کے لیے اسی حکم میں قوت ہے۔ ہم امتیوں کو کیا، خود ہمارے پیشوا اور سردار آقا و امامa کو حکم دیا گیا:
وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْہُمْ زَہْرَۃَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۥۙ لِنَفْتِنَہُمْ فِيْہِ۰ۭ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَّاَبْقٰيo ( طہ131:20)
اور اپنی آنکھیں ان کی طرف اونچی نہ کرو جنھیں میں نے قسم قسم کی تازگی دے رکھی ہے۔ میں اس میں انھیں آزماتا ہوں۔ تیرے رب کی روزی تیرے لیے بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔
آج جو یورپ کے خداؤں کو دیکھ دیکھ کر چیخ رہے ہیں کہ ہمارے لیے بھی اس قسم کے ’’اِلٰہ‘‘ ہونے چاہییں کیا ان کو یہ سنایا نہ جائے کہ تم جس کی اُمت کے لیے روتے ہو، اس نے ارشاد فرمایا اور قسم کھا کر فرمایاہے۔ بخاری میں ہے:
فَوَ اللّٰہِ لَاالْفَقْرَ اَخْشٰی عَلَیْکُمُ وَلٰـکِنْ اَخْشٰی اَنْ تُبْسُطَ عَلَیْکُمُ الدُّنْیَا کَمَا بُسِطَتْ عَلٰی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ فَتَنَافَسُوْہَا کَمَاتَنَافَسُوْہَا وَ تُلْہِیْکُمْ کَمَا اَلْہَتْہُمْ۔ { FR 2456 }
پس قسم خدا کی میں فقر یا افلاس سے تمھارے لیے نہیں ڈرتا ہوں کہ تم پر دنیا پھیلائی جائے گی جس طرح تم سے پہلوں پر پھیلائی گئی پھر جس طرح انھوں نے اس میں باہم رشک و تنافس کیا۔ اسی طرح کہیں تم بھی نہ کرو اور تم بھی غافل نہ ہو جاؤ جس طرح وہ ہوئے۔
تم کہتے ہو کہ مسلمانوں کے پاس روپیہ نہیں ہے، گنیاں نہیں ہیں، عمدہ کوٹ نہیں ہیں، عمدہ کپڑے نہیں ہیں۔ یہ نہیں ہے وہ نہیں ہے‘ لیکن مسلمان جن کے ہیں انھوں نے جو فرمایا ہے، دیوانو! اس کی تمھیں خبر بھی نہیں ہے۔ ارشاد فرمایا ، بخاری میں ہے:
تَعِسَ عَبْدُ الدَّیْنَارِ وَ الدِّرْہَمِ وَالْقَطِیْفَۃِ وَالْخَمِیْصَۃِ ۔{ FR 2457 }
اشرفیوں اور روپوں والے جھالر دار لباس والے سیاہ عبا والے سب گرے، ہلاک ہوئے۔
تم کہتے ہو کہ مفلس قوم تباہ ہوئی جاتی ہے لیکن جس کی قوم ہے وہ فرماتا ہے کہ درہم و دینار کے بندے تباہ ہوئے۔ اب تم ہی بتاؤ کہ ہم مسلمان کس کی سنیں؟ اور سچ ہے کہ جس قوم میں افلاس کا رونا ہے انھوں نے جب سود کھایا اور خوب پیٹ بھر کر کھایا، تیرہ تیرہ برس کے اندر بائیس بائیس روپیہ کو بائیس بائیس لاکھ روپیہ تک بنا کر رہے ان کے افلاس کے مرثیہ خوانوں کی دنیا میں کیا کمی ہے۔ کیا دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا اسی قوم کو پہنچ جاتا ہے جو سود کے میدان میں بازی مارے ہوئے ہے؟ فی کس تین پیسے کن قوموں کی آمدنی ہے؟ اور ان کو تو جانے دو، حکومت کے زور سے جو سود کھا رہے ہیں ان کے مزدوروں کا حال اخبارات میں کیا تمھاری نظروں سے نہیں گزرتاہے، سچ فرمایا اُمت کے ہادی a نے:
لَوْ کَانَ لِاِبْنِ اٰدَمَ وَاِدْیَانِ مِنْ مَالٍ لَابْتَغٰی ثَالِثًا وَلاَ یَمْلاَئُ جَوْفَ ابْنِ اٰدَمَ۔۔۔ { FR 2459 }عَیْنِ ابْنِ اٰدم اِلاَّ التُّرَابَ۔ { FR 2458 }
اگر آدم کے بچوں کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کی تلاش میں مصروف ہوگا اور آدم کے بچے کا پیٹ (یا آنکھ) مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔
سر منزل قناعت نتواں زدست دادن
اے سارباں فردکش کیں رہ کراں ندارد!
]منزل کے قریب بھی قناعت کا دامن چھوڑنا ممکن نہیں اے ساربان قافلہ روک لو کہ اس راستے کا کوئی کنارہ نہیں۔[
مسلمان کے لیے تو وہی نغمہ کافی ہے جو آج سے تیرہ سو برس پیشتر گایا گیا۔
اللہم لا عیش الا عیش الاخرۃ
]اے اللہ! زندگی نہیں ہے مگر آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔[
(ترجمان القرآن ‘ شعبان‘ رمضان ۵۵ھ ‘نومبر‘دسمبر ۱۹۳۶ء)
٭…٭…٭
تنقید: (از: ابوالاعلیٰ مودودی)
مجھ کو مولانا مناظر احسن صاحب کی رائے سے جن جن امور میں اختلاف تھا، ان کا اظہار مختصر طور پر حواشی میں کر دیا گیا ہے لیکن جن اصولی مسائل پر مولانا نے اپنے استدلال کی بنا رکھی ہے ان پر روشنی ڈالنے کے لیے محض اشارات کافی نہیں ہیں۔ لہٰذا یہ مفصل تنقید لکھی جا رہی ہے۔ مولانا کے استدلال کی بنا حسب ذیل امور پر ہے:
مولانا کے دلائل کا خلاصہ
(۱) اُن کا دعویٰ ہے کہ نہ صرف تحریم ربوٰ کا حکم بلکہ تمام عقود فاسدہ اور ناجائز معاشی وسائل کی ممانعت کے احکام بھی صرف ان معاملات سے تعلق رکھتے ہیں جو مسلمان اور مسلمان کے درمیان ہوں۔ بالفاظ دیگر غیر قوموں کے ساتھ جو معاملات پیش آئیں، اُن میں حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی کوئی تمیز نہیں۔
(۲) اُن کے نزدیک شریعت نے تمام ان غیر مسلموں کو مباح الدَّم و الاموال قرار دیا ہے جو ذمی نہ ہوں‘ لہٰذا ایسے غیر مسلموں کا مال جس طریقے سے بھی لیا جائے، جائز ہے عام اس سے کہ وہ سود ہو، یا قمار ہو، یا ان کے ہاتھ شراب اور لحم خنزیر اور مردار فروخت کیا جائے یا اور دوسرے وہ طریقے اختیار کیے جائیں جنھیں اسلام نے ’’مسلمانوں کے معاملے میں‘‘ اختیار کرنے کو حرام ٹھیرایا ہے۔ مسلمان جس طرح بھی ان کا مال لیں گے‘ اس کی حیثیت مالِ غنیمت یا فَے کی ہوگی۔ اور وہ اُن کے لیے حلال و طیب ہے۔
(۳) اُن کی رائے میں ہر وہ ملک جہاں اسلامی حکومت نہیں ہے دارالحرب ہے اور اس کے غیر مسلم باشندے حربی ہیں۔ وہ دارالکفر کو دارالحرب کا اور کافر غیر ذمی کو حربی کا ہم معنی سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کے نزدیک تمام وہ ممالک جن پر غیر اسلامی سلطنتیں قابض ہیں پورے معنوں میں دارالحرب ہیں اور وہاں علیٰ الدَّوام وہی احکام مسلمانوں پر جاری رہنے چاہییں جو دارالحرب کے متعلق کتب فقہیہ میں مذکور ہیں۔
(۴) دارالحرب کی جو تعریف فقہائے متقدمین نے کی ہے وہ مولانا کی رائے میں ہندوستان پر چسپاں ہوتی ہے اور اس ملک کے مسلمانوں کی فقہی پوزیشن ان کی رائے میں ’’مستا ٔمن‘‘ کی ہے۔ دوسرے الفاظ میں مسلمان اس دارالحرب میں اس حیثیت سے رہتے ہیں کہ انھوں نے یہاں کی حربی سلطنت سے امان لی ہے۔
(۵) مستا ٔمن کے متعلق اسلامی قانون یہ ہے کہ وہ اس غیر اسلامی سلطنت کے قانون کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا جس سے امان لے کر وہ اس کے ملک میں رہتا ہو۔ لہٰذا مولانا کی رائے میں ہندوستان کے مسلمانوں پر غیر اسلامی حکومت کے قانون کی اطاعت تو ایسی فرض ہے کہ اگر یک سرِ مُواُس سے انحراف کریں گے تو عذاب جہنم کے مستحق ہوں گے۔ لیکن اسلام کے اکثر احکام اور قوانین کی اطاعت سے وہ با لکل آزاد ہیں، اس لیے کہ وہ دارالحرب میں مقیم ہیں۔ قتل ، غارت گری، چوری، ڈکیتی، رشوت ، ٹھگی اور ایسے ہی دوسرے ذرائع سے حربی کفار کو نقصان پہنچانا اور ان کا مال لینا ہندوستانی مسلمانوں کے لیے صرف اس وجہ سے ناجائز ہے کہ ملکی قانون اس کو ناجائز کہتا ہے، نہ اس لیے کہ یہ افعال بجائے خوداسلامی شریعت میں حرام ہیں کیونکہ تمدن اور معیشت اور اخلاق کے بیشتر معاملات میں ہندوستان کے اندر اسلامی شریعت اس وقت تک منسوخ ہے جب تک یہاں غیر اسلامی حکومت قائم ہے۔ اب شریعت کے قوانین میں سے صرف قانونِ معاہدہ کا اطلاق یہاں کے مسلمانوں پر ہوتا ہے اور اس کی رو سے لین دین اور کسب مال کے جو ذرائع ملکی قانون میں ناجائز ہیں ان کو اختیار کرنا تو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے شرعاً حرام ہے۔ بخلاف اس کے جن ذرائع کو شریعت نے حرام ٹھیرایا ہے اور ملکی قانون حلال ٹھیراتا ہے وہ سب کے سب قانوناً بھی حلال ہیں اور شرعاً بھی حلال ، نہ دنیا میں ان پر کوئی تعزیر، نہ آخرت میں کوئی مواخذہ۔
دلائل مذکورہ پر مجمل تبصرہ
میرے نزدیک ان میں سے ایک بات بھی صحیح نہیں۔ خود حنفی قانون بھی جس کے نمائندے کی حیثیت سے مولانا نے یہ تمام تقریر فرمائی ہے‘ ان بیانات کی تائید نہیں کرتا۔ اس مضمون میں مولانا نے اسلامی قانون کی جو تصویر پیش کی ہے وہ صرف غلط ہی نہیں‘ بدنما بھی ہے۔ اس کو دیکھ کر اسلام اور مسلمانوں کے متعلق ہرگز کوئی اچھی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ اگر کوئی ناواقف شخص اس تصویر کو دیکھے گا تو وہ اسلام کو دنیا کا بدترین مذہب اور مسلمانوں کو ایک نہایت خطرناک قوم سمجھے گا اور خدا کا شکر ادا کرے گا کہ غیر مسلم حکومت کے قانون نے ان ’’مستا ٔمنوں‘‘ کے ہاتھ سے دوسری قوموں کی جان و مال اور آبرو کو بچا رکھا ہے۔ دوسری طرف اگر شریعت کی اسی تعبیر کو قبول کر کے ہندوستان کے مسلمان اس ملک میں زندگی بسر کرنا شروع کر دیں تو شاید پچاس برس کے اندر ان میں برائے نام بھی اسلام باقی نہ رہے بلکہ اگر خدا نہ کردہ کفار کے تسلط کے آغاز سے ہندوستان میں انھی اصولوں پر عمل درآمد کیا گیا ہوتا تو آج جو کچھ رہی سہی اسلامیت ہندوستان کے مسلمانوں میں نظر آتی ہے یہ بھی نہ ہوتی اور ڈیڑھ سو برس کے اندر ہندوستان کے مسلمان بالکل مسخ ہو چکے ہوتے … البتہ یہ ضرور ممکن تھا کہ ان کی جائیدادوں کا ایک حصہ محفوظ رہ جاتا اور ان میں بھی مار واڑیوں اور بنیوں اور سیٹھوں کا ایک طبقہ پیدا ہو جاتا۔
حاشا وکلاّ، میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ مولانا نے بالقصد اسلام کی غلط نمائندگی کی ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ انھوں نے قانونِ اسلامی کو جیسا کچھ سمجھا ہے غایت درجہ دیانت اور نیک نیتی کے ساتھ ویسا ہی ظاہر فرما دیا ہے۔ مگر مجھے اعتراض دراصل ان کے مفہوم اور ان کی تعبیر ہی پر ہے۔ میں نے قانونِ اسلامی کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے اس کی روشنی میں یہ کہنے کی جرأت کروں گا کہ خاص ان مسائل کی حد تک جو اوپر مذکور ہوئے ہیں، مولانا نے شریعت کے اصول اور احکام کو ٹھیک ٹھیک نہیں سمجھا ہے۔ اس غلط فہمی کے دو وجوہ قرین قیاس ہیں۔
اولاً، ائمہ مجتہدین نے جس زمانے میں سلطنت اسلامی کے دستوری قانون (constitutional law) اور بین الاقوامی معاملات کے متعلق کتاب و سنت کی ہدایات اور خود اپنے اجتہاد سے یہ احکام مدوّن کیے تھے‘ اس زمانے میں فقہا کی حیثیت محض اصحاب درس و تدریس ہی کی نہ تھی بلکہ وہی سلطنت کے قانونی مشیر اور عدالتوں کے صدر نشین بھی تھے۔ رات دن اسلامی سلطنت میں نئے نئے دستوری اور بین الاقوامی مسائل پیش آتے تھے اور ان میں انھی بزرگوں کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ ہمسایہ قوموں سے جنگ و صلح کے معاملات ہوتے رہتے تھے۔ اسلامی سلطنتوں کی رعایا کے درمیان معاملات اور تعلقات کی گو ناگوں صورتیں پیش آتی تھیں اور ان سے جو قانونی مسائل پیدا ہوتے تھے ان کا تصفیہ کرنے والے یہی حضرات تھے۔ یہ لوگ اپنے فیصلوں اور تجویزوں میں جو قانونی اصطلاحات و عبارات استعمال کرتے تھے، ان کے مفہومات کا تعین محض لفظی تشریحات پر منحصر نہ تھا بلکہ ان کی اصلی شرح وہ واقعی حالات تھے جن پر یہ اصطلاحات و عبارات منطبق ہوتی تھیں۔ پس اگر کسی اصطلاح یا عبارت میں کوئی ابہام رہ جاتا، یا ایک چیز کے مختلف مدارج پر ایک ہی اصطلاح استعمال کی جاتی اور ظاہر الفاظ میں فرقِ مدارج پر دلالت کرنے والی کوئی چیز نہ ہوتی، یا ایک وسیع مفہوم پر ایک لفظ بولا جاتا اور صرف موقع و محل کے لحاظ سے اس کے مختلف مفہومات میں تمیز ہوتی، تو اس سے عملاً قانون کے انطباق اور استعمال میں کوئی قباحت واقع ہونے کا خطرہ نہ ہوتا۔ نہ یہ اندیشہ تھا کہ کوئی قانون داں شخص کسی حکم کو محض الفاظ کے واضح نہ ہونے کی وجہ سے بالکل مختلف صورتِ حال پر چسپاں کر دے گا۔ اس لیے کہ اس وقت اسلامی قانون کی اصطلاحات اور مخصوص قانونی عبارات کی حیثیت رائج الوقت سکوں کی سی تھی۔ عملی دنیا میں ان کا چلن تھا۔ ان کے مفہومات کو سمجھنے اور ٹھیک موقع پر استعمال کرنے اور ہر ایک کی صحیح حد معلوم کرنے میں کوئی دقت نہ تھی۔ ہر قانون داں شخص کو شب و روز ان حالات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ دوچار ہونا پڑتا تھا جن میں یہ زبان برتی جاتی تھی۔
مگر اب ایک مدت سے وہ صورتِ حال مفقود ہے۔ دستوری مسائل اور بین الاقوامی معاملات سے بالفعل علما کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ اسلامی سلطنتیں مٹ گئیں اور جو سلطنتیں باقی ہیں ان میں بھی یہ مسائل علمائے شریعت سے متعلق نہیں ہیں۔ عملی دنیا میں اسلامی قانون کی اصطلاحات و عبارات کا چلن بھی مدتوں سے بند ہو چکا ہے۔ اب یہ پرانے تاریخی سکے ہیں جن کی قیمت کا وہ حال نہیں کہ رواج کی وجہ سے بازار میں ہر آدمی کے لیے وہ ایک جانی پہچانی چیز ہو بلکہ ان کی پرانی قدرِ رائج … (market value) معلوم کرنے کے لیے پرانے ریکارڈوں کی چھان بین کرنا اور زمانۂ حال کے عملی برتاؤ پر قیاس کرکے اس زمانے کے واقعی حالات کو سمجھنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں تک مسائل سیاسی و دستوری کا تعلق ہے فقہ اسلامی کے احکام کو سمجھنا، مسائل نکاح و وراثت وغیرہ کو سمجھنے کی بہ نسبت زیادہ مشکل ہے۔ خصوصاً جہاں ہماری کتب فقہ میں عبارات مبہم رہ گئی ہیں یا اصطلاحات میں توسع پایا جاتا ہے وہاں علما کے لیے قانون کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا اور اس کی صحیح تعبیر کرنا اور بھی زیادہ مشکل ہو جاتا{ FR 2316 } ہے۔ کیونکہ اب ان کے صرف الفاظ ہی الفاظ رہ گئے ہیں، کتابوں کے متون بھی لفظی ہیں اور ان کی شروح بھی لفظی۔
دوسری وجہ جس کی طرف خود مولانا نے بھی اشارہ کر دیا ہے، یہ ہے کہ گزشتہ صدی ڈیڑھ صدی سے مسلمانوں پر جو معاشی تباہی مسلط ہوگئی ہے اور جس طرح دیکھتے ہی دیکھتے ان کی کروڑوں اور اربوں روپے کی جائیدادیں کوڑیوں کے مول نکلی ہیں اور جس طرح مسلمانوں کے بڑے بڑے خوش حال گھرانے روٹیوں کو محتاج ہوگئے ہیں، اس کو دیکھ دیکھ کر ہر درد مند مسلمان کی طرح مولانا کا دل بھی دُکھا ہے اور انھوں نے غایت درجہ دل سوزی کے ساتھ کوشش کی ہے کہ شریعت میں اس مصیبت کا کوئی حل تلاش کریں۔ اس جذبے کے اثر سے اکثر مقامات پر ان کا قلم اعتدال اور فقیہانہ احتیاط سے ہٹ گیا ہے۔ مثلاً ان کا یہ ارشاد کہ ہندوستان میں سود نہ لینا گناہ ہے یا یہ بیان کہ عقود فاسدہ کی ممانعت کے جملہ احکام صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات تک محدود ہیں۔ جہاں تک مسلمانانِ ہند کے موجودہ رُوح فرسا حالات کا تعلق ہے کون مسلمان ایسا ہوگا جس کا دل ان کو دیکھ کر نہ دُکھتا ہو۔ اور کون اس کا خواہش مند نہ ہوگا کہ ان مصائب سے مسلمان نجات پائیں۔ اس باب میں ہمارے اور ان کے درمیان ذرّہ برابر بھی اختلاف نہیں۔ مگر میں یہ ماننے سے قطعی انکار کرتا ہوں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی معاشی تباہی کسی حیثیت سے بھی، بالواسطہ یا بلا واسطہ سود نہ کھانے کی وجہ سے ہے اور اس حالت کا بدلنا سود کی تحلیل پر موقوف ہے بلکہ میں یہ بھی تسلیم نہیں کرتا کہ تحریم سود کسی ادنیٰ سے ادنیٰ درجے میں بھی مسلمانوں کی معاشی ترقی میں مانع ہے جو شخص یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰو وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ پر ایمان رکھتا ہو اور جو اس ارشاد ربانی کو معاش اور معاد دونوں میں ایک اٹل حقیقت سمجھتا ہو، اس کو کبھی اس قسم کے شبہات میں مبتلا نہ ہونا چاہیے۔ اگر مولانا غور فرمائیں گے تو ان پر یہ حقیقت منکشف ہو جائے گی کہ مسلمانوں کی معاشی تباہی کا اصلی سبب سود نہ کھانا نہیں ہے، بلکہ سود کھلانا اور ادائے زکوٰۃ سے جی چرانا اور اسلامی نظم معیشت کو بالکل معطل کر دینا ہے جن گناہوں کی سزا مسلمانوں کو مل رہی ہے وہ دراصل یہی ہیں۔ اگر وہ ان گناہوں پر قائم رہے اور اس پر سود خواری کا اضافہ اور ہوگیا تو ممکن ہے کہ چند افراد قوم پر مالی آماس چڑھ جائے اور اس سے چند سیدھے سادے مسلمان دھوکہ کھا جائیں لیکن درحقیقت اس سے بحیثیت مجموعی قوم کی معاشی حالت میں کوئی اصلاح نہ ہوگی اور دوسری طرف مسلمانوں کی اخلاقی حالت اور ان کی باہمی الفت و موانست اور ان کے تعاطف و تراحم اور تعاون و تناصر میں شدید انحطاط رونما ہوگا یہاں تک کہ ان کی قومیت مضمحل ہو جائے گی۔
آپ سود کا نام ’’پھاؤ‘‘ رکھ دیجیے یا اسے مائدۃ من السماء کہہ کر پکاریئے، اس کی حقیقت اور فطری خاصیت میں بال برابر بھی تغیر واقع نہ ہوگا۔ سود اپنی عین فطرت کے لحاظ سے زکوٰۃ کی ضد ہے اور اس نفسیاتی حقیقت میں کسی ملک کے دارالحرب یا دارالاسلام ہونے سے کوئی تفاوت نہیں ہوتا۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ایک ہی معاشی زندگی میں یہ دونوں جمع ہو جائیں۔ ایک وہ ذہنیت ہے جس کو روپیہ گننے اور گن گن کر سنبھالنے اور ہفتوں اور مہینوں کے حساب سے بڑھانے اور اس کو بڑھوتری کا حساب لگانے میں مزا آتا ہے۔ دوسری وہ ذہنیت ہے جس کو قوتِ بازو سے کمانے اور کما کر کھانے اور کھلانے اور راہِ خدا پر لٹا دینے میں مزا آتا ہے۔ کیا کوئی عاقل یہ تصور کر سکتا ہے کہ یہ دونوں ذہنیتیں ایک ہی دل و دماغ میں جمع ہو سکیں گی؟ یا یہ امید کی جا سکتی ہے کہ مسلمان کو سود پر روپیہ لگانے اور یوماً فیوماً اس کے نشوونما پر نظر رکھنے کا چسکا لگ جائے گا تو اس کے بعد بھی اس کی جیب سے زکوٰۃ و صدقات کے لیے ایک پیسہ نکل سکے گا؟ کیا اس کے بعد بھی کوئی مسلمان کسی مسلمان کو قرضِ حسن دینا گوارا کرے گا؟ کیا اس کے بعد مسلمانوں کی حالت بھی اس قوم کی سی نہ ہو جائے گی جس کے متعلق قرآن میں کہا گیا ہے کہ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَہِىَ كَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً { FR 2317 } (۰ البقرہ 74:2 ) اوروَلَتَجِدَنَّھُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰي حَيٰوۃٍ۰ۚۛ ؟ { FR 2318 } (البقرہ 96:2 ) چند قارون اور چند شاملاک پیدا کرنے کے لیے پوری قوم آخر کیوں خودکشی کرے؟ اور اس خودکشی کو جائز ثابت کرنے کے لیے خدا اور رسولؐ کے قانون کی غلط تاویل کیوں کی جائے؟ اور امام اعظم ابوحنیفہؒ النعمان جیسے بزرگ کو اس ذمہ داری میں کیوں شریک کیا جائے۔
پھر میں کہتا ہوں کہ دنیا میں صرف مسلمان ہی ایک ایسی قوم ہے جو تیرہ سو برس سے نظامِ سرمایہ داری کی مخالفت پر قائم ہے اور جس نے عملاً اس فاسد نظام کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔ اس قوم کو جو چیز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نظامِ سرمایہ داری کی عداوت پر قائم رکھنے والی اور اس میں جذب ہونے سے بچانے والی ہے وہ زکوٰۃ کی فرضیت اور سود کی تحریم ہی ہے۔ سوشلسٹ اور کمیونسٹ اور نہلسٹ سب سرمایہ دار سے سمجھوتہ کر سکتے ہیں، مگر جب تک یہ دوزبردست رکاوٹیں قائم ہیں، مسلمان کبھی اس سے سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام وہ قومیں نظام سرمایہ داری میں جذب ہوگئیں جن کے مذہب نے سود سے منع کیا تھا، مگر مسلمان تیرہ صدیوں سے اس کے مقابلے میں جما ہوا ہے۔ اب کہ خود دنیا والوں میں بھی بصارت پیدا ہو رہی ہے اور وہ اس نظام کو مٹانے کے لیے فوج در فوج جمع ہو رہے ہیں، یہ کیسی بدبختی ہوگی کہ مسلمان خود میدانِ مقابلہ سے ہٹ جائے اور اپنے ہاتھوں اپنے قلعے کے مستحکم برجوں کو مسمار کرکے نظامِ سرمایہ داری کی طرف مصالحت کا ہاتھ بڑھانے لگے۔
اس ضروری تمہید کے بعد اب ہم اصل قانونی بحث کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
کیا عقود فاسدہ صرف مسلمانوں کے درمیان ممنوع ہیں؟
مولانا کے پہلے دعوے کی بنا یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں کسب مال کے ناجائز ذرائع سے روکا گیا ہے وہاں ’’بینکم‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان آپس میں عقود فاسدہ پر معاملات نہ کیا کریں۔ چنانچہ ارشاد ہے کہ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ۰ۣ (النساء29:4 ) اب یہ ظاہر ہے کہ سود بھی کسب مال کے ناجائز طریقوں میں سے ایک طریقہ ہی ہے۔ لہٰذا قرآن میں اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰو(البقرہ2: 275) جو فرمایا گیا ہے، یہ بھی اگرچہ ظاہر الفاظ کے لحاظ سے عام حکم ہے، مگر جس اصل کی فرع ہے اس کے ساتھ بالتبع اس کو بھی صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات تک ہی محدود سمجھنا چاہیے۔ اس کی مزید تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جو مکحول نے نبیa سے روایت کی ہے کہ ’’لَارِبَا بَیْنَ الْمُسْلِمِ وَ الْحَرْبِی‘‘{ FR 2460 } یعنی مسلم اور حربی کافر کے درمیان تفاضل کے ساتھ جو لین دین ہو اس پر لفظ ’’سود‘‘ کا اطلاق ہی نہ ہوگا۔ بالفاظ دیگر لا ربوٰ کے معنی یہ ہیں کہ غیر ذمی کافر سے جو سود لیا جائے وہ سود ہی نہیں۔ پھر وہ حرام کیسے ہوا؟
یہ مولانا کے استدلال کا خلاصہ ہے۔ اس میں پہلی اور بنیادی غلطی یہ ہے کہ قرآن کے مقاصد سے قطع نظر کرکے صرف ظاہر الفاظ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ قرآن کا عام اندازِ بیان یہ ہے کہ وہ اخلاق اور معاملات کے متعلق جتنی ہدایتیں دیتا ہے ان میں صرف اہل ایمان کو مخاطب کرتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ تم آپس میں ایسا کیا کرو یا نہ کیا کرو۔ اس طرزِ بیان میں کچھ دوسری حکمتیں ہیں جن کے ذکر کا یہ موقع نہیں۔ یہاں صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ اس قسم کے اندازِ بیان میں اخلاق اور معاملات کے متعلق جتنے احکام اللہ تعالیٰ نے دیے ہیں، اُن کو فقہائے اُمت میں سے کسی نے بھی صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات تک محدود قرار نہیں دیا ہے۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ مسلمان اور مسلمان کے درمیان جو افعال حرام ہیں مسلمان اور کافر کے درمیان وہی حلال یا مستحب ہیں۔ اگر ایسا ہو تو درحقیقت اسلامی اخلاقیات اور اسلامی قانون تمدن کی جڑ ہی کٹ جائے۔ مثلاً:
ارشاد باری ہے: وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَيْنَكُمْ (النحل94:16)کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ مسلمان صرف مسلمان سے جھوٹی قسم نہ کھائے؟ رہے غیر مسلم تو ان سے دروغ حلفی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں؟
فرمان الٰہی ہے: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ (انفال27:8 )کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان صرف ان امانتوں کی حفاظت کریں جو مسلمانوں سے تعلق رکھتی ہوں؟ باقی رہی کافر کی امانت تو اس میں بے تکلف خیانت کر ڈالی جائے؟
پھر یہ جو فرمایا: فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَــتَہٗ وَلْيَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ۰ۭ (البقرہ283:2 )کیا اس کی یہ تاویل کی جائے گی کہ مسلمان کے بجائے کوئی کافر اگر کسی مسلمان پر بھروسہ کرکے بغیر لکھا پڑھی کیے اپنا کچھ مال اس کے پاس رکھوا دے تو وہ ’’پھاؤ‘‘ سمجھ کر اس کو کھا سکتا ہے؟
پھر یہ جو حکم دیا گیا ہے کہ وَاسْتَشْہِدُوْا شَہِيْدَيْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ اور وَلَا يَاْبَ الشُّہَدَاۗءُ اِذَا مَا دُعُوْا۰ۭ (البقرہ2: 282) اوروَلَا تَكْتُمُوا الشَّہَادَۃَ۰ۭ َ (البقرہ2: 283) اور وَاَشْہِدُوْٓا اِذَا تَبَايَعْتُمْ۰۠ وَلَا يُضَاۗرَّ كَاتِبٌ وَّلَا شَہِيْدٌ۰ۥۭ (البقرہ 282:2 ) تو کیا یہ سب احکام صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات ہی کے لیے ہیں؟ کیا کافر کے حق میں شہادت دینے سے انکار کرنا، یا سچی شہادت چھپا کر جھوٹی شہادت دینا یا دستاویز کے غیر مسلم کاتب یا گواہ کو خوفزدہ کرنا یہ سب جائز افعال ہیں؟
اس کے بعد یہ جو حکم دیا گیا ہے کہ اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَۃُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۰ۙ (النور19:24 ) تو کیا اس سے یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ غیر قوموں کے اندر فحش اور بدکاری پھیلانا مسلمان کے لیے جائز ہے؟
اور یہ جو فرمان ہوا اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۰۠ ( النور23:24 ) تو کیا اس کی یہی تاویل کی جائے گی کہ کفار کی عورتوں پر جھوٹی تہمتیں دل کھول کر لگاؤ۔
اور یہ جو ارشاد ہوا کہ وَلَا تُكْرِہُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۭ (النور33:24 ) تو اس کو یہ معنی پہنائے جائیں گے کہ کافر عورتوں کو حرام کاری پر مجبور کرنا اور ان کی خرچی کھانا جائز ہے؟ کیا اس طرح کی تاویل کرکے کسی مسلمان کے لیے حلال ہوگا کہ پیرس میں سرکاری لائسنس لے کر ایک قحبہ خانہ کھول دے؟
پھر یہ جو ارشاد ہوا ہے کہ وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا۰ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْہِ مَيْتًا فَكَرِہْتُمُوْہُ۰ۭ ( الحجرات 12:49 )تو کیا اس کی یہ تاویل ہوگی کہ صرف مسلمان کی غیبت ناجائز ہے؟ باقی رہا کافر تو اس کی غیبت کرنے میں کوئی برائی نہیں؟
اگر اسی اصول پر قرآن اور سنت کے احکام کی تاویل کی جائے اور مسلمان اسی کا اتباع شروع کر دیں تو اندازہ فرمایئے کہ یہ قوم کیا سے کیا بن کر رہے گی۔
بالفرض اگر بلا دلیل یہ مان لیا جائے کہ صرف لَا تَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ (البقرہ2: 188)ہی کا حکم مسلمانوں کے باہمی معاملات کے لیے مخصوص ہے اور یہ قاعدہ دوسرے احکام میں جاری نہ ہوگا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ذمی کافروں کو سودی لین دین سے کیوں روکا گیا؟ اور نبیa نے غیر مسلم جماعتوں سے اس قسم کے معاہدات کیوں کیے کہ وہ سودی کاروبار چھوڑ دیں ورنہ معاہدہ کالعدم ہو جائے گا؟ اور کتب فقہیہ میں یہ تصریح کیوں ہے کہ اگر کوئی حربی کافر دارالاسلام میں امان لے کر آئے تو اس سے بھی سود پر معاملہ کرنا حرام ہے؟
رہی حدیث لا ربوبین المسلم و الحربی تو اولاً اس میں لفظ حربی سے مراد محض غیر ذمی کافر نہیں بلکہ برسر جنگ قوم کافرد ہے جیسا کہ خود فقہائے حنفیہ کی تصریحات سے آگے چل کر ثابت کیا جائے گا۔
ثانیاً لا ربٰو کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ حربی کافر سے جو سود لیا جائے گا وہ سود ہی نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ گو وہ صورۃ ً و حقیقتاً سود ہی ہے لیکن اس قانون میں حرمت سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے اور اس کی حیثیت ایسی ہوگئی ہے کہ گویا وہ سود نہیں ہے۔ ورنہ کسی سود کو یہ کہنا کہ وہ سود ہے ہی نہیں، اس قدر مہمل اور بے معنی بات ہے کہ نبی a کی طرف اسے منسوب کرنے کو میں گناہ سمجھتا ہوں۔ یہ بالکل ایک معقول بات ہے کہ کسی خاص حالت میں سود کو تعزیر اور حرمت سے مستثنیٰ کر دیا جائے، جس طرح خود قرآن نے اضطرار کی حالت میں مردار اور سور اور ایسی ہی دوسری حرام چیزیں کھا لینے کو مستثنیٰ کیا ہے لیکن یہ ایک نہایت غیر معقول بات ہے کہ سود کی حقیقت جوں کی توں باقی ہو اور ہم ایک جگہ اس کو رِبا کہیں اور دوسری جگہ سرے سے اس کے رِبا ہونے ہی سے انکار کر دیں۔ اس طرح تو دنیا کے ہر فعل حرام کو محض تغیر اسم سے حلال کیا جا سکتا ہے۔ جس خیانت کو جی چاہے کہہ دیجیے کہ یہ خیانت ہی نہیں۔ جس جھوٹ کو جائز کرنا ہو کہہ دیجیے کہ اس پر لفظ جھوٹ کا اطلاق ہی نہیں ہوتا۔ جس غیبت اور فحش اور حرام خوری کی طرف طبیعت مائل ہو، اس کا نام بدل کر سمجھ لیجیے کہ اس کی حقیقت بدل گئی۔ سرکار رسالت مآبa کا مرتبہ اس سے بہت بلند تھا کہ آپ اس قسم کے لفظی حیلے اپنی اُمت کو سکھاتے۔
ثالثاً اس حدیث میں جو حکم بیان ہوا ہے اس کی حیثیت محض ایک رخصت اور رعایت کی ہے، نہ یہ کہ اس کو مسلمانوں کا عام دستور العمل بنانا مقصود ہو … میں اس بحث کو بالکل غیر ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ حدیث کس درجے کی ہے کیونکہ حدیثوں کے ردّو قبول میں فقیہ کے اُصول محدث کے اُصول سے ذرا مختلف ہوتے ہیں۔ امام اعظمؒ اور امام محمدؒ جیسے آئمہ مجتہدین نے جس حدیث کو قابل استناد سمجھا ہو اس کو بالکل ناقابل اعتبار قرار دینا درست نہیں مگر اس مختصر اور غیر واضح اور مختلف فیہ{ FR 2319 } خبر واحد کو اتنا پھیلانا بھی درست نہیں کہ قرآن اور حدیث اور آثار صحابہ کی متفقہ شہادت ایک طرف ہو اور دوسری طرف یہ حدیث ہو اور پھر اس ایک حدیث کی تاویل ان سب کے مطابق کرنے کے بجائے، ان سب کو اس ایک حدیث پر ڈھالنے کی کوشش کی جائے۔ قرآن اور تمام احادیث صحیحہ میں مطلقاً ربوٰ کو حرام کہا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان نہ آپس میں اس کا لین دین کر سکتے ہیں نہ غیر قوموں کے ساتھ ایسا کاروبار کرنا ان کے لیے جائز ہے۔ نبیؐ نے اہل نجران سے جو معاہدہ کیا تھا اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان نہ صرف خود سودی لین دین سے پرہیز کریں گے بلکہ جن جن غیر مسلموں پر ان کا بس چلے گا ان کو بھی بَجَرَ اس فعل سے روک دیں گے۔ تحریم رِبا کے بعد ایک واقعہ بھی ایسا پیش نہیں آیا کہ نبی کے علم و اجازت سے کسی مسلمان نے کسی ذمی یا غیر ذمی کافر کے ساتھ سودی معاملے کیا ہو۔ خلفائے راشدین کے دور میں بھی اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی اور یہ بات صرف سود ہی پر موقوف نہیں ، عقود فاسدہ میں سے کوئی ایک عقد فاسد بھی ایسا نہیں جس کی تحریم کا حکم نازل ہو جانے کے بعد نبیؐ نے اس کے انعقاد کی کسی مسلمان کو اجازت دی ہو۔ نظری اور اصولی اہل حرب تو درکنار، جو لوگ عملاً برسر جنگ تھے، انھوں نے عین معرکۂ جنگ میں رسول اللہ ؐ سے ایک عقد فاسد پر معاملہ کرنا چاہا اور کافی رقم پیش کی مگر آپؐ نے اس کو لینے سے انکار کر دیا۔{ FR 2320 } ایک طرف آیت قرآنی اور نبیؐ کے متعدد صریح و صحیح اقوال اور عہد نبوی کا ثابت شدہ عمل درآمد ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے نہ صرف سود بلکہ تمام عقود فاسدہ مطلقاً ناجائز ہیں اور اس میں مسلم و غیر مسلم یا حربی یا ذمی کا کوئی امتیاز نہیں۔ دوسری طرف صرف ایک مرسل حدیث ہے جو ان سب کے خلاف حربی اور مسلم کے درمیان صرف سود کو حلال ثابت کر رہی ہے۔ آپ نے اس حدیث کو اتنی اہمیت دی کہ اس کی بنیاد پر نہ صرف سود کو بلکہ تمام عقود فاسدہ کو تمام غیر ذمی کفار کے ساتھ عمومیت کے ساتھ حلال کر ڈالا۔ مگر ہم اس کو صحیح تسلیم کرکے اس سے صرف اتنی اجازت نکالتے ہیں کہ جنگ کی اضطراری حالتوں میں اگر کوئی مسلمان دشمن سے سود لے لے یا کسی اور عقد فاسد پر معاملہ کر لے تو اس سے مواخذہ نہ ہوگا۔
یہ محض ایک رخصت ہے اور ایسی رخصت ہے جس سے او لو العزم مسلمانوں نے کبھی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اسلامی غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان کسی حال میں بھی حرام کی کمائی لینے پر آمادہ نہ ہو۔ خصوصاً کفار اور دشمنوں کے مقابلے میں تو اس کو اپنے قومی اخلاق کی بلندی اور بھی زیادہ شان کے ساتھ ظاہر کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ مسلمان کی لڑائی دراصل تیرو تفنگ کی نہیں اصول اور اخلاق کی لڑائی ہے۔ اس کا مقصد زر و زمین حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ وہ دنیا میں اپنے اصول پھیلانا چاہتا ہے۔ اگر اس نے اپنے مکارم اخلاق ہی کو کھو دیا، اور خود ہی ان اصولوں کو قربان کر دیا جن کو پھیلانے کے لیے وہ کھڑا ہوا ہے تو پھر دوسری قوموں پر اس کی فوقیت ہی کیا باقی رہی؟ کس چیز کی بنا پر اس کو دوسروں پر فتح حاصل ہوگی اور کس طاقت سے وہ دلوں اور روحوں کو مسخر کر سکے گا؟
دارالحرب کی بحث
اب ہمیں دوسرے سوال کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ دارالحرب اور دارالاسلام کے فرق کی بنیاد پر سود اور تمام عقود فاسدہ کے احکام میں کیا فرق ہوتا ہے؟ اور اس بیان کی کیا اصلیت ہے کہ تمام غیر ذمی کافر مباح الدم و الاموال ہیں۔ اس لیے ہر ممکن طریقے سے ان کا مال لے لینا جائز ہے؟ اور اس تجویز کے لیے شریعت میں کیا گنجائش ہے کہ جس ملک پر کسی معنی میں اصطلاح دارالحرب کا اطلاق ہوتا ہو وہاں کے باشندوں پر دائماً وہ تمام احکام جاری ہونے چاہییں جو دارالحرب سے تعلق رکھتے ہیں؟
قانون اسلامی کے تین شعبے
اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ شریعت یعنی قانونِ اسلامی کے تین شعبے ہیں:
(۱) اعتقادی قانون جو علی الاطلاق تمام مسلمانوں سے تعلق رکھتا ہے۔
(۲) دستوری قانون جس کا تعلق صرف سلطنت اسلامی سے ہے۔
(۳) بین الاقوامی قانون یا صحیح الفاظ میں تعلقات خارجیہ کا قانون جو مسلمانوں اور غیر قوموں کے تعلقات سے بحث کرتا ہے۔
ہماری کتب فقہیہ میں ان قوانین کو الگ الگ مرتب نہیں کیا گیا اور نہ ان کو الگ الگ ناموں سے یاد کیا گیا ہے‘ لیکن قرآن و حدیث میں ایسے واضح اشارات موجود ہیں جن سے قدرتی طور پر اسلامی قوانین کا ارتقا تین الگ الگ راستوں پر ہوا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ جس فقیہ اعظم کی قانونی بصیرت اور فقیہانہ دقیقہ سنجی نے سب سے بڑھ کر ان اشارات کو سمجھا اور ان کی بنا پر قانون کے ان تینوں شعبوں کی حدود میں ٹھیک ٹھیک امتیاز کیا اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل میں اس امتیاز کو ملحوظ رکھا وہ امام ابوحنیفہ رحمہٗ اللہ تعالیٰ ہیں۔ فقہائے اسلام میں سے کوئی بھی اس معاملے میں ان کا ہمسر نظر نہیں آتا۔ حتیٰ کہ امام ابویوسفؒ جیسے بالغ النظر فقیہ کی رسائی بھی اس مقام تک نہ ہو سکی۔ امام اعظم کے کمال کا ایک ادنیٰ ثبوت یہ ہے کہ ۱۲ سو سال پہلے انھوں نے قرآن اور سنت سے استنباط کرکے دستوری اور بین الاقوامی قوانین کے جو احکام مدوّن کیے تھے، آ ج تک دنیا کے قانونی افکار کا ارتقا ان سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھا ہے، بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ دراصل یہ ارتقا ہوا ہی ان خطوط پر ہے جو ۱۲ صدی قبل کوفہ کے ایک پارچہ فروش نے کھینچ دیے تھے۔ فقہ حنفی کی بہ نسبت جدید زمانے کے قوانین میں بظاہر جو ترقی نظر آتی ہے وہ کسی حد تک تمدنی احوال کے تغیر کا اور زیادہ تر بین الاقوامی معاہدات کا نتیجہ ہے۔ تاہم اصولی حیثیت سے جدید زمانے کے قوانین بڑی حد تک حنفی فقہ کا چربہ ہیں اور ان کے مطالعے سے حنفی فقہ کو سمجھنے میں بڑی آسانی ہوتی ہے۔
اِعتقادی قانون
اعتقادی قانون کے لحاظ سے دنیا دو مِلتّوں پر منقسم ہے۔ اسلام اور کفر۔ تمام مسلمان ایک قوم ہیں اور تمام کفار دوسری قوم۔ اسلام کو ماننے والے سب کے سب اسلامی قومیت کے افراد ہیں اور اُخوتِ دینی کی بنا پر سب کو ایک دوسرے پر حقوق حاصل ہیں فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ۰ۭ { FR 2321 } (التوبہ11:9 ) مسلمان کی جان، اس کا مال اس کی عزت ہر چیز مسلمان کے لیے حرام ہے۔ إِنَّ دِمَائَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَ أَعْرَضْکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ{ FR 2322 } اسلام کے جملہ احکام کی اطاعت ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں بستا ہو۔ جو کچھ فرض کیا گیا ہے وہ سب کے لیے فرض ہے، جو کچھ حلال کیا گیا ہے سب کے لیے حلال ہے اور جو کچھ حرام ٹھیرایا گیا ہے سب کے لیے حرام ہے۔ کیونکہ جملہ احکام کے مخاطب الذین امنوا ہیں، کسی حال اور مقام کی قید اس کے ساتھ نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں کفر ایک دوسری ملت ہے جس سے ہمارا اختلاف اصول اور اعتقاد اور قومیت{ FR 2323 } کا اختلاف ہے۔ اس اختلاف کی بنا پر اصلاً ہمارے اور ان کے درمیان جنگ قائم ہے۔ الایہ کہ اس پر صلح یا معاہدہ یا ذمہ کی کوئی حالت عارض ہو جائے۔ پس اسلام اور کفر اور مسلم اور کافر کے درمیان صلح اصل نہیں بلکہ جنگ اصل ہے اور صلح اس پر عارض ہوتی ہے۔ مگر یہ جنگ بالفعل نہیں بِالقوّہ ہے، عملی نہیں نظری اور اصولی ہے اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ جب تک ہماری اور ان کی قومیت الگ ہے اور ہمارے اور ان کے اصول ایک دوسرے سے متصادم ہیں، ہم میں اور ان میں حقیقی و دائمی صلح اور دوستی نہیں ہو سکتی۔ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ ( الممتحنہ60:4 ) { FR 2324 }
اس مضمون کو نبی a نے ایک مختصر حدیث میں بتمام و کمال بیان فرما دیا ہے:
اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْہَدُوْا اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَاَنْ یَّسْتَقْبِلُوْا قِبْلَتَنَا وَاَنْ یَّاْکُلُوْا ذَبِیْحَتَنَا وَاَنْ یُّصَلّوْا صَلٰوتَنَا فإِذًا فَعَلُوْا ذٰلِکَ حرْمَتْ عَلَیْنَا دِمَاؤُہُمْ وَاَمْوَالُہُمْ اِلاَّ بحقِّہَا لَہُمْ مَا لِلْمُسْلِمِیْنَ وَعَلَیْہِمْ مَا عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ۔{ FR 2461 }
مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اس کا بندہ اور رسول ہے اور ہمارے قبلے کی طرف منہ کریں اور ہمارا ذبیحہ کھائیں اور ہماری طرح نماز پڑھیں۔ جب وہ ایسا کریں گے تو ہمارے اوپر ان کے خون اور ان کے اموال حرام ہو جائیں گے بجز اس کے کہ کسی حق کے بدلے میں ان کو لیا جائے۔ ان کے حقوق وہی ہوں گے جو مسلمانوں کے ہیں اور ان پر فرائض وہی عائد ہوں گے جو مسلمانوں پر ہیں۔
اس اعتقادی قانون کی رو سے اسلام اور کفر کے درمیان ابدی جنگ ہے، مگر یہ جنگ محض نظری (theoretical) ہے۔ ہر کافر حربی (enemy) ہے، مگر اس معنی میں کہ جب تک ہماری اور اس کی قومیت الگ ہے ہمارے اور اس کے درمیان بنائے نزاع قائم ہے۔ ہر دارالکفر محلِ حرب ہے یا بالفاظِ دیگر حربیت کا کلی ارتفاع صرف اختلافِ قومیت ہی کے مٹ جانے سے ہو سکتا ہے۔ اس قانون نے محض ایک نظریہ اور قاعدئہ اصلیہ واضح طور پر مسلمانوں کے سامنے رکھ دیا ہے جس پر ان کی حکمت عملی کی بنا قائم ہے۔ باقی رہے حقوق و واجبات اور جنگ و صلح کے عملی مسائل تو ان کا اس قانون سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دستوری اور بین الاقوامی قانون سے تعلق رکھتے ہیں۔
دستوری قانون
دستوری قانون کی رو سے اسلام دنیا کو دو حصوں پر تقسیم کرتا ہے۔ ایک دارالاسلام۔ دوسرے دارالکفر۔ دارالاسلام وہ علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کی حکومت ہو اور اس حکومت میں اسلامی قانون بالفعل نافذ ہو، یا حکمرانوں میں اتنی قوت ہو کہ اس قانون کو نافذ کر سکیں۔{ FR 2325 } اس کے مقابلے میں جہاں مسلمانوں کی حکومت نہیں اور اسلامی قانون نافذ نہیں وہ دارالکفر ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے تمام وہ ممالک جن میں انگریزی حکومت ہے انگریزی علاقہ کہلائیں گے اور جو علاقے ان حدود سے باہر ہوں گے ان کو علاقہ غیر کہا جائے گا۔ اسلامی حکومت اسلام کے احکام کو صرف ان لوگوں پر نافذ کر سکتی ہے جو اس کے اپنے حدودِ عمل (jurisdiction) میں رہتے ہوں۔ اسی طرح وہ صرف انھی اموال اور اعراض اور نفوس کی حفاظت کر سکتی ہے جو اس کے اپنے حدودِ اختیار یا علاقۂ مقبوضہ (territory) میں واقع ہوں۔ ان حدود کے باہر کسی چیز کی حفاظت کی وہ ذمہ دار نہیں ہے۔
اس قانون کے لحاظ سے ہر وہ جان اور مال اور عزت ’’معصوم (protected)‘‘ ہے جو دارالاسلام میں اسلامی حکومت کی حفاظت کے اندر واقع ہو، عام اس سے کہ وہ مسلمان کی ہو یا کافر کی۔ اور ہر وہ جان اور مال اور عزت ’’غیر معصوم‘‘ ہے جو دارالکفر میں ہو اور جس کی محافظ اسلامی حکومت نہ ہو، عام اس سے کہ وہ مسلمان کی ہو یا کافر کی۔ غیر معصوم ہونے کا مآل صرف اس قدر ہے کہ اگر اس کی جان و مال یا عزت پر کسی قسم کا حملہ کیا جائے تو اسلامی حکومت اس پر کوئی مؤاخذہ نہ کرے گی، کیونکہ یہ فعل اس کے حدودِ عمل سے باہر واقع ہوا ہے۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ خدا کے نزدیک وہ فعل گناہ ہو یا نہ ہو اور خدا کے ہاں اس پر مواخذہ ہو یا نہ ہو۔ پس کسی چیز کا غیر معصوم ہونا اس امر کو مستلزم نہیں ہے کہ وہ مباح بھی ہے، نہ اس کی عدم عصمت کو اس معنی میں لیا جا سکتا ہے کہ اسے نقصان پہنچانا یا اس پر قبضہ کر لینا عند اللہ بھی جائز اور حلال ہے۔ اسی طرح دستوری قانون کے نقطۂ نظر سے اگر کسی ایسے فعل کو جائز ٹھیرایا جائے جس کا ارتکاب دارالکفر میں کیا گیا ہو تو اس کا مفہوم صرف اس قدر ہوگا کہ اسلامی حکومت کو اس سے کوئی تعرض نہیں، وہ اس پر کوئی سزا نہیں دے گی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس فعل حرام پر خدا کے ہاں بھی کوئی گرفت نہ ہوگی۔
یہاں اعتقادی قانون اور دستوری قانون کے حدود الگ الگ ہو جاتے ہیں۔ اعتقادی قانون جس مسلمان کو بھائی کہتا ہے اور جس کی جان و مال کو حرام ٹھیراتا ہے وہ دستوری قانون کی نگاہ میں غیر معصوم ہے، اس لیے کہ وہ سلطنت اسلامی کے حدودِ اختیار سے باہر رہتا ہے اور جس کافر کو اعتقادی قانون دشمن قرار دیتا ہے دستوری قانون اسے معصوم ٹھیراتا ہے صرف اس بنا پر کہ وہ اسلامی سلطنت کی حفاظت میں آ گیا ہے۔ جس فعل کو اعتقادی قانون سخت گناہ اور جرم ٹھیراتا ہے، دستوری قانون اس پر کوئی گرفت نہیں کرتا کیونکہ وہ اس کے حدود عمل سے باہر ہوا ہے۔ دونو ںمیں کھلا ہوا فرق یہ ہے کہ اعتقادی قانون کا تعلق آخرت سے ہے اور دستوری قانون کا تعلق صرف دنیا اور اس کے معاملات سے‘ لیکن امام ابوحنیفہؒ کے سوا تمام فقہا نے کم و بیش ان دونوں میں خلط ملط کیا ہے اور وہ ان کے حدود میں پوری طرح تمیز نہیں کر سکے ہیں۔
چند مثالوں سے ہم اس پیچیدہ مسئلے کی توضیح کریں گے۔
(۱) فرض کیجیے کہ ایک مسلمان تاجر امان لے کر دارالحرب میں جاتا ہے اور وہاں سے کچھ مال چرا لاتا ہے۔ یہ فعل اعتقادی قانون اور بین الاقوامی قانون کی رو سے حرام ہے کیونکہ اس شخص نے عہد شکنی کی ہے۔ لیکن دستوری قانون اس شخص کو اس مال کا جائز مالک قرار دیتا ہے اور اس سے کوئی باز پرس نہیں کرتا۔{ FR 2462 }
(۲) فرض کیجیے کہ دارالاسلام کی رعایا کا ایک شخص دارالحرب میں قید تھا۔ وہ وہاں قید سے چھوٹ گیا یا چھوڑ دیا گیا۔ اب وہ وہاں خواہ چوری کرے، شراب پیے، زنا کرے، سب کچھ دستوری قانون کی رو سے ناقابل مواخذہ ہے{ FR 2463 } یعنی اسلامی حکومت اس پر نہ اس کا ہاتھ کاٹے گی، نہ حد زنا و شراب جاری کرے گی نہ قصاص{ FR 2326 } لے گی۔ مگر اعتقادی قانون کی رو سے وہ خدا کے ہاں گنہگار ہوگا۔
(فرض کیجیے کہ ایک شخص دارالحرب میں مسلمان ہوا اور وہاں سے ہجرت کرکے دارالاسلام میں نہیں آیا۔ اعتقادی قانون کی رو سے وہ مسلمان کا بھائی ہو چکا ہے۔ اس کا خون اور مال حرام ہو چکا ہے۔ مگر دستوری قانون کی رو سے وہ چونکہ اسلامی سلطنت کے حدودِ عمل سے باہر ہے اس لیے اس کی کوئی چیز معصوم نہیں۔ اس کی حیثیت وہی ہوگی جو دشمن سلطنت کی رعایا کی ہے۔ اگر کوئی مسلمان دارالاسلام کے حدود سے باہر اس کو قتل کر دے تو اسلامی عدالت نہ اس پر قصاص لے گی نہ خوں بہا دلوائے گی … بطور خود وہ کفارہ ادا کر سکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان اس سے سود لے یا اس کے مال پر کسی دوسرے ناجائز طریقے سے قبضہ کر لے تو دستوری قانون کی رو سے یہ ناقابل گرفت ہے کیونکہ اس کا مال غیر معصوم ہے۔ اس باب میں فقہا کی تصریحات نہایت معنی خیز ہیں:
وَإِذْ اَسْلَمَ رَجُلٌ مِّنْ اَہْلِ الْحَرْبِ فَقَتَلَہٗ رَجُلٌ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ قَبْلَ اَنْ یَّخْرُجَ اِلٰی دَارالإِسْلاَمِ خَطَائً فَعَلَیْہِ الْکَفَّاَرۃُ وَلاَدِیَۃَ عَلَیْہِ وَ فِی الإِمْلاءِ عَنْ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ أَنَّہٗ لَا کَفَّارَۃَ عَلَیْہِ اَیْضًا لِاَنَّ وُجُوْبَہَا بِاِعْتِبَارِ تَقَوّمِ الدَّمِ لابِاعْتِبَارِ حُرْمَۃِ الْقَتْلِ … وَتَقَّوُّمُ الدَّمِ یَکُونَ بِالْإِ حْرَازِ بِدَارِ الإِسْلَامِ۔{ FR 2464 }
اگر اہل حرب میں سے کوئی شخص مسلمان ہو چکا ہو اور قبل اس کے کہ وہ ہجرت کرکے دارالاسلام میں آئے، کسی مسلمان نے اسے بلا ارادہ قتل کر دیا تو اس پر کفارہ ہے مگر خوں بہا واجب نہیں اور ابوحنیفہ رحمہٗ اللہ سے املاء میں یہ مسئلہ منقول ہے کہ اس پر کفارہ بھی نہیں ہے کیونکہ کفارے کا وجوب خون کے با قیمت ہو جانے کے اعتبار سے ہے نہ کہ حرمت قتل کے اعتبار سے … اور خون صرف اس وقت با قیمت ہوتا ہے جب کہ وہ دارالاسلام کی حفاظت میں آ چکا ہو۔
وَلَمَّا ثَبَتَ بِمَا قَدَّمْنَا اَنَّہٗ لَا قِیْمَۃَ لِدَمِ الْمُقِیْمِ فِیْ دَارِالْحَرْبِ بَعْدَ اِسْلَامِہٖ قَبْلَ الْھِجْرَۃَ اِلَیْنَا … أَجْرَوْہُ أَصْحَابُنَا مُجْرَی الحَرْبیِّ فِیْ اِسْقَاطِ الضَّمَانِ عَنْ مُتْلِفِ مَالِہٖ … وَاَنْ یَّکُوْنَ مَا لُہ کَمالِ الْحَرْبِیّ مِنْ ہٰذا الْوَجْہِ وَلِذٰلِکَ اَجَازَ اَبُوْحَنِیْفَۃَ مُبَایَعَتَہُ عَلٰی سَبِیْلِ مَا یَجُوْز مُبَایَعَۃَ الْحَرْبِیِّ مِنْ بَیْعِ الدِّرْھَمِ بالدِّرْہَمَیْنِ فِی دَارِالْحَرْبِ۔ { FR 2465 }
اور جب ہماری پچھلی تقریر سے یہ ثابت ہوگیا کہ جو شخص مسلمان ہو کر ہجرت نہ کرے اور دارالحرب میں مقیم رہے اس کے خون کی کوئی قیمت نہیں۔{ FR 2327 }… تو اسی بنا پر ہمارے اصحاب (حنفیہ) نے ایسے مسلمان کی حیثیت حربی ہی کی قرار دی ہے یعنی اس کے مال کو تلف کرنے والے پر کوئی ضمان نہیں … اس حیثیت سے اس کا مال گویا حربی کا مال ہے اور اس بنا پر ابوحنیفہ نے اس کے ساتھ بھی اسی طرح خریدوفروخت کرنا جائز ٹھیرایا ہے جس طرح حربی کے ساتھ جائز ہے۔ یعنی دارالحرب میں ایک درہم کو دو درہم کے عوض بیچنا۔
وَقَالَ الْحَسَنُ بنُ صَالِحٍ إِذَا أسْلَمَ الْحَرْبِیّ فَأَقَامَ بِبَلَادِھُمْ وَھُوَ یَقْدِرُ عَلٰی الْخُرُوْجِ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ یُحْکَمُ فِیِہِ یُحْکُمْ عَلٰی أھْلِ الْحَرْبِ فِی مَالِہِ وَنَفْسِہِ۔{ FR 2466 }
حسن بن صالح کا قول ہے کہ جب دارالحرب کا ایک باشندہ مسلمان ہونے کے بعد دارالحرب ہی میں رہا۔ در آنحالیکہ وہ ہجرت کی قدرت رکھتا تھا تو اس کی حیثیت مسلمان کی نہیں۔{ FR 2328 } اس کی جان و مال کا وہی حکم ہے جو اہل حرب کی جان و مال کا ہے۔
وَاِذَا اَسْلَمَ الْحَرْبِیُ فِیْ دَارِالْحَرْبِ فَقَتَلَہٗ مُسْلِمٌ عَمْدًا اَوْخَطَأً وَلَہٗ وَرَثَۃُ مُسْلِمُوْنَ ہُنَاک فلَاَ شَیْئٍ عَلَیْہِ اِلاَّ الْکُفَّارَۃِ فِی الْخَطَائِ۔ { FR 2467 }
جب کوئی حربی دارالحرب میں مسلمان ہو چکا ہو اور کوئی مسلمان اسے عمداً یا خطائً قتل کر دے اور اس کے مسلمان ورثا بھی دارالحرب میں موجود ہوں تو اس پر کوئی قصاص یا دیت نہیں ہے۔ خطا کی صورت میں محض کفارہ ادا کر دے۔
وَحُکْمُ مَنْ اَسْلَمَ فِیْ دَارِالْحَرْبِ وَلَمْ یُہَاجِرْ کَالْحَرَبِیّ عِنْدَ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ لِاَنَّ مَالَہٗ غَیْرُ مَعْصُوْمٍ عِنْدَہُ۔ { FR 2468 }
اور جو شخص دارالحرب میں مسلمان ہو اور ہجرت نہ کرے اس کی حیثیت ابوحنیفہؒ کے نزدیک حربی کی ہے کیونکہ اس کا مال ان کی رائے میں غیر معصوم ہے۔
(۴) فرض کرو کہ ایک مسلمان امان لے کر دارالحرب میں گیا اور وہاں اس نے کسی حربی سے قرض لیا یا اس کا مال غصب کر لیا۔ پھر وہ دارالاسلام واپس آ گیا اور وہ حربی بھی دارالاسلام میں امان لے کر آیا۔ یہاں وہ حربی مستامن اس قرض یا اس مال مغصوبہ کے لیے دارالاسلام کی عدالت میں دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اسلامی عدالت اس کو ایک پیسہ واپس نہ دلائے گی۔ اسی طرح اگر دارالحرب میں حربی نے مسلمان کا قرض مار لیا ہو اس کا مال غصب کر لیا ہو، پھر وہ حربی امان لے کر دارالاسلام میں آئے تب بھی اسلامی عدالت اس حربی کے خلاف اس مسلمان کی کوئی داد رسی نہ کرے گی … { FR 2469 }
(۵) اگر باپ دارالاسلام میں ہو اور اس کی نابالغ اولاد دارالحرب میں ہو تو اس اولاد پر سے باپ کی ولایت ساقط ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر مال کا مالک دار الاسلام میں ہو اور مال دارالحرب میں ہو تو مالک کی جان معصوم ہوگی مگر مال معصوم نہ ہوگا۔ { FR 2470 }
(۶) دارالاسلام کی رعایا میں سے دو مسلمان امان لے کر دارالحرب میں چلے گئے اور وہاں ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا۔ اگر قاتل دارالاسلام میں واپس آئے تو اس سے قصاص نہ لیا جائے گا۔ صاحب ہدایہ نے اس کی جو وجہ بیان کی ہے وہ قابل غور ہے:
وَاِنَّمَا لَا یَجِبُ الْقِصَاصُ لِاَنَّہٗ لَا یُمْکُنُ اِسْتِیْفَائِ ہٗ اِلَّا بِمَنْعَۃٍ وَلاَ مَنْعَہٗ دُوْنَ الْاِمَامِ وَجَمَاعَۃُ الْمُسْلِمِیْنَ وَلَمْ یُوْجَ دُ ذٰلِکَ فِیْ دَارِالْحَرْبِ۔{ FR 2471 }
اس پر قصاص اس لیے واجب نہیں کہ قصاص بغیر حفاظت (protection) کے واجب نہیں آتا اور حفاظت بغیر امام اور جماعت مسلمین کے نہیں ہوتی۔ اور یہ چیز دارالحرب میں موجود نہیں ہے۔
(۷) دارالاسلام کی رعایا میں سے دو مسلمان دارالحرب میں قید تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا۔ یا کوئی مسلمان امان لے کر دارالحرب گیا اور وہاں اس نے کسی مسلمان اسیر کو قتل کر دیا۔ دونوں صورتوں میں قاتل پر نہ قصاص ہے نہ خون بہا۔ علامہ ابن ہمامؒ نے اس کی جو تشریح کی ہے وہ اور بھی زیادہ معنی خیز ہے۔ فرماتے ہیں:
فَلاَ شَیْئَ علی القَاتِلِ مِنْ اَحْکَامِ الدُّنْیَا اِلاَّ الْکَفَّارَۃَ فِی الْخَطَائِ عِنْدَ اِبْی حَنِیْفَۃَ وَاِنَّمَا عَلَیْہِ عِقَابُ الْاٰخِرَۃِ فِی الْعَمَدِ …أَنَّ بِالأَسْرِ صَارَ تَبعًا لَہُمْ … وَصَارَ کَالْمُسْلِمِ الَّذِیْ لَمْ یُہَاجِرُ اِلَیْنَا فِیْ سُقُوطِ عِصْمَتِہِ الدُّنْیَوَیَّۃِ۔ { FR 2472 }
ابو حنیفہؒ کے نزدیک قاتل پر احکام دنیا میں سے کچھ نہیں بجز اس کے کہ وہ خطا کی صورت میں کفارہ ادا کر دے۔ رہا قتل عمد (تو اس پر کفارہ بھی نہیں، البتہ آخرت کا عذاب ہے … قصاص اور دیت کے ساقط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قید ہونے کی وجہ سے وہ اہل حرب کا تابع ہوگیا … اور اس کی حیثیت اس مسلمان کی سی ہوگئی جس نے ہماری طرف ہجرت نہ کی ہو اور اس حیثیت سے اس کی دنیوی عصمت ساقط ہوگئی۔
دیکھیے ان مثالوں میں اعتقادی قانون اور دستوری قانون کا فرق کس قدر نمایاں ہے۔ اعتقادی قانون مسلمانوں کو ایک قوم اور کفار کو دوسری قوم قرار دیتا ہے اور اس کا اقتضا یہ ہے کہ مسلمان کی جان، مال اور عزت کو کافر کی جان و مال اور عزت پر ترجیح دی جائے لیکن دستوری قانون اس عالمگیر تقسیم کے بجائے اپنے حدود عمل (Jurisdiction) کو حدود ارضی (territorial limits) تک محدود کرتا ہے۔ سلطنت اسلامیہ کے حدود میں جو جان ہے، جو مال ہے جو شے ہے وہ ’’معصوم‘‘ ہے، خواہ وہ مسلمان کی ہو یا کافر کی، کیونکہ سلطنت کا قانون اس کی حفاظت کا ذمہ لے چکا ہے اور ان حدود کے باہر جو چیز ہے ’’غیر معصوم‘‘ ہے، خواہ وہ مسلم کی ہو یا کافر کی۔ اسلامی حدود کے اندر کوئی چوری کرے گا تو ہم ہاتھ کاٹیں گے، قتل کرے گا تو ہم قصاص یا دیت وصول کریں گے، ناجائز ذرائع سے مال لے گا تو واپس دلائیں گے۔ اور ان حدود کے باہر کوئی مسلمان یا ذمی ایسا فعل کرے جو ہمارے قانون کی رو سے جرم ہو تو ہم نہ علاقہ غیر میں اس کے خلاف کوئی کارروائی کر سکتے ہیں نہ اپنے علاقے میں واپس آنے کے بعد، اس لیے کہ فعل ان حدود میں ہوا ہے جہاں قیام امن اور حفاظت جان و مال کے ذمہ دار ہم نہیں ہیں لیکن یہ جو کچھ ہے دنیوی حیثیت سے ہے۔ حدودِ اسلامی سے باہر جو گناہ کیا جائے گا وہ دنیوی حکومت کے حدود و عمل سے باہر ہونے کے باعث صرف دنیوی مواخذے سے چھوٹ جائے گا۔ البتہ اللہ کے مواخذے سے نہ چھوٹے گا، کیونکہ اللہ کی عمل داری حدود ارضی سے نا آشنا (ultra territorial) ہے، اس نے جو کچھ حرام ٹھیرایا ہے وہ ہر جگہ حرام ہے۔
یہ امام ابوحنیفہؒ کا من گھڑت قانون نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث سے ماخوذ ہے۔ وہی قرآن جو ایک طرف فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ۰ۭ (التوبہ11:9) اوروَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاۗؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِيْھَا (النسائ 93:4 ) کہتا ہے، دوسری طرف وہی قرآن حدود اسلامی کے اندر رہنے والے مسلمان اور علاقہ غیر میں رہنے والے مسلمان کے خون میں فرق بھی کرتا ہے۔ اول الذکر کو دانستہ قتل کرنے والے پر کفارہ بھی ہے اور دیت بھی … اور موخر الذکر کے قاتل پر صرف کفارہ { FR 2329 }ہے۔
نبیؐ اسامہ بن زیدؓ کو ایک سریہ کا افسر بنا کر حرقات کی طرف بھیجتے ہیں۔ وہاں ایک شخص لا الٰہ الا اللّٰہ کہہ کر جان بچانا چاہتا ہے۔ مگر مسلمان اس کو قتل کر دیتے ہیں۔ حضورؐ کو اس کی اطلاع ہوتی ہے تو اسامہؓ کو بلا کر آپ بار بار فرماتے ہیں: مَنْ لَکَ بِلَا اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ قیامت کے روز تجھے لا الٰہ الا اللّٰہ کے مقابلے میں کون بچائے گا۔‘‘{ FR 2473 } مگر اس مقتول کی دیت ادا کرنے کا حکم نہیں دیتے۔ ایسے ہی ایک دوسرے موقع پر حدود اسلامی سے باہر رہنے والے چند مسلمان مارے جاتے ہیں تو حضورؐ فرماتے ہیں ’’انا بری من کل مسلم یقیم بین اظہر المشرکین‘‘ { FR 2474 }میں ہر ایسے مسلمان کی حفاظت سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو۔‘‘ خود قرآن میں بھی ایسے مسلمان کی ذمہ داری سے برأت کا اظہار کیا گیا ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يُہَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَايَتِہِمْ مِّنْ شَيْءٍ حَتّٰي يُہَاجِرُوْا۰ۚ ﴾ (الانفال72:8)
اور جو لوگ ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کرکے (دارالاسلام میں) نہ آ گئے ان سے تمھارا ’’ولایت‘‘ کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک وہ ہجرت کرکے نہ آ جائیں۔{ FR 2332 }
اس طرح قرآن اور حدیث نے خود ہی دنیوی عصمت کو دینی عصمت سے الگ کر دیا ہے اور دونوں کے حدود بتا دیے ہیں۔ تمام فقہائے اسلام میں صرف امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ ہی ایسے فقیہ ہیں جنھوں نے اس نازک اور پیچیدہ قانونی مسئلے کو ٹھیک ٹھیک سمجھا ہے۔ امام ابویوسفؒ، امام محمد امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ جیسے جلیل القدر مجتہدین بھی ان دونوں قسم کی عصمتوں میں پوری پوری تمیز نہیں کر سکے۔ چنانچہ مثال کے طور پر اگر دارالکفر میں اسلامی رعایا کا ایک فرد دوسرے کو قتل کر دے تو یہ سب حضرات بالاتفاق فرماتے ہیں کہ قاتل سے قصاص لیا جائے گا کیونکہ اس نے ایک شخص کو قتل کیا جو ’’معصوم بالاسلام‘‘ تھا۔{ FR 2333 } پس جب اتنے بڑے بڑے ائمہ اس مسئلے میں مختلط ہوگئے ہیں تو کچھ بعید نہیں کہ فقہ حنفی کے متا ٔخر شارحین کو بھی امام ابوحنیفہؒ کی بات سمجھنے میں یہی خلط پیش آیا ہو۔
دارالحرب اور دارالکفر کا اصطلاحی فرق
امام اعظم کے متعلق ہم کو تحقیق ہے کہ اوپر جتنے مسائل بیان ہوئے ہیں ان میں اور اسی قبیل کے دوسرے مسائل میں انھوں نے دارالحرب کے بجائے ’’دارالکفر‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی، کیونکہ دستوری قانون کے نقطۂ نظر سے دارالاسلام کا مقابل دارالکفر بمعنی علاقہ غیر (foreign territory) ہی ہو سکتا ہے، حرب اور غیر حرب کا اس میں کوئی دخل نہیں جو ممالک اسلامی سلطنت سے صلح رکھتے ہوں وہ بھی دارالکفر ہیں اور ان سے بھی وہ سب احکام متعلق ہیں جو اوپر بیان ہوئے‘ لیکن چونکہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں جتنے دارالکفر اسلامی سلطنت سے متصل تھے وہ عموماً دارالحرب ہی رہتے تھے۔ اس لیے بعد کے فقہا نے دارالکفر کو بالکل دارالحرب کا ہم معنی سمجھ لیا اور ان دونوں اصطلا حوں کے باریک قانونی فروق کو نظر انداز کر گئے۔ اسی طرح امام ابوحنیفہؒ کے کلام میں ہم کو کسی جگہ کوئی ایسا لفظ نہیں ملا جو اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ وہ ’’غیر معصوم‘‘ کو ’’مباح‘‘ کے معنی میں لیتے ہیں۔ وہ حدود اسلام سے باہر کی اشیا کو ’’غیر معصوم‘‘ کہنے پر اکتفا کرتے ہیں اور ایسی اشیا پر دست درازی کرنے والے کے لیے صرف اتنا کہتے ہیں لا شیء علیہ یا لم یقض علیہ وغیرہ۔ یعنی اس پر کوئی گرفت نہیں، یا اس کے خلاف کوئی عدالتی فیصلہ صادر نہ کیا جائے گا لیکن بعد کے فقہا نے اکثر مقامات پر ’’عدم عصمت‘‘ اور ’’اباحت‘‘ کو خلط ملط کر دیا جس سے یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ حدودِ اسلامی سے باہر جتنے ممنوع افعال کیے جائیں ان پر جس طرح حکومت اسلامی باز پرس نہیں کرے گی۔ اسی طرح خدا بھی باز پرس نہیں کرے گا۔ حالانکہ یہ دونوں چیزیں بالکل الگ الگ ہیں۔ آپ ہندوستان میں کسی کا مال چرا لیجیے۔ ظاہر ہے کہ افغانستان کی عدالت میں آپ پر مقدمہ نہ چلایا جائے گا۔ دارالاسلام کے قانون کی رو سے آپ بری الذمہ ہیں۔ مگر اس کے یہ معنی کب ہیں کہ خدا کی عدالت سے بھی آپ چھوٹ گئے۔
اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کتب فقہ میں دا رالحرب کے اندر سود اور قمار اور دوسرے عقود فاسدہ کی اباحت کا جو مسئلہ اس بنا پر لکھا گیا ہے کہ حربی کے لیے کوئی ’’عصمت‘‘ (protection) نہیں تو اس کے دو پہلو ہیں:۔
ایک یہ کہ دارالحرب سے مراد محض ’’علاقہ غیر‘‘ ہو۔ اس لحاظ سے یہ مسئلہ دستوری قانون سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی نوعیت یہ ہے کہ ’’حربی‘‘ (بمعنی رعیت غیر) کے مال کی حفاظت کا ذمہ چونکہ ہم نے نہیں لیا ہے اس لیے ہمارے حدودِ عمل سے باہر ہماری سلطنت کا کوئی شہری اگر اس سے سود لے کر یا جوا کھیل کر یا کسی اور ناجائز ذریعے سے مال لے کر ہمارے علاقے میں آ جائے تو ہم اس پر کوئی مقدمہ قائم نہ کریں گے، قطع نظر اس سے کہ دین واعتقاد کے نقطۂ نظر سے وہ مجرم ہو یا نہ ہو۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ دارالحرب سے مراد وہ ملک لیا جائے جس سے بالفعل ہماری جنگ برپا ہو یعنی (دشمن ملک) (enemy country)۔ اس لحاظ سے یہ مسئلہ تعلقاتِ خارجیہ کے قانون سے تعلق رکھتا ہے جس کو ہم آگے بیان کرتے ہیں۔
تعلقات خارجیہ کا قانون
اسلامی قانون کا یہ شعبہ ان لوگوں کے جان و مال کی قانونی حیثیات سے بحث کرتا ہے جو اسلامی حکومت کے حدود سے باہر رہتے ہوں۔ اس کی تفصیلات بیان کرنے سے پہلے چند امور کی توضیح ضروری ہے۔
فقہی اصطلاح میں لفظ ’’دار‘‘ قریب قریب انھی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے جن میں انگریزی لفظ (territory) بولا جاتا ہے۔ جن حدود ارضی میں مسلمانوں کو حقوق شاہی حاصل ہوں وہ ’’دارالاسلام ہیں اور جو علاقہ ان حدود سے خارج ہو وہ ’’دارالکفر یا دارالحرب ‘‘ ہے۔ تعلقات خارجیہ کا قانون تمام تر انھی مسائل سے بحث کرتا ہے جو اس ارضی تفریق یا اختلافِ دارین سے نفوس اور اموال کے بارے میں پیدا ہوتے ہیں۔
جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں اعتقادی حیثیت سے تو تمام مسلمان اسلامی قومیت کے افراد (national) ہیں لیکن اس شعبۂ قانون کی اغراض کے لیے ان کو تین اقسام پر منقسم کیا گیا ہے۔ ایک وہ جو دارالاسلام کی رعایا (citizens) ہوں۔ دوسرے وہ جو دارالکفر یا دارالحرب کی رعایا ہوں، تیسرے وہ جو رعایا تو دارالاسلام ہی کی ہوں مگر مستا ٔمن کی حیثیت سے عارضی طور پر دارالکفر یا دارالحرب میں جائیں اور مقیم ہوں۔ ان سب کے حقوق اور واجبات الگ الگ متعین کیے گئے ہیں۔
اس کے مقابلے میں کفار اگرچہ سب کے سب اعتقاداً اسلامی قومیت سے خارج ہیں مگر قانوناً ان کو بھی ان کے حالات کے لحاظ سے متعدد اقسام پر منقسم کیا گیا ہے ایک وہ جو پیدائشی ذمی (natural born subjects) ہوں یا وضع جزیہ و خراج کے ذریعے سے جن کو ذمی بنا لیا گیا ہو (naturalised subjects) دوسرے وہ جو دارالاسلام کی رعایا نہ ہوں بلکہ مستامن کی حیثیت سے دارالاسلام میں آئیں اور رہیں (domiciled aliens) تیسرے وہ جو دارالکفر یا دارالحرب کی رعایا ہوں اور امان کے بغیر دارالاسلام میں داخل ہو جائیں۔ چوتھے وہ جو اپنے ہی دار میں ہوں۔ پھر اس آخری قسم کے کفار کی بھی متعدد اقسام ہیں۔ ایک وہ جن سے اسلامی حکومت کا معاہدہ نہ ہو مگر دشمنی بھی نہ ہو۔ دوسرے وہ جو اسلامی حکومت کو خراج دیتے ہیں مگر ان کی حدود میں احکام اسلامی جاری نہ ہوں تیسرے وہ جن سے کوئی معاہدہ نہ ہو مگر دشمنی بھی نہ ہو چوتھے وہ جن سے مسلمانوں کی دشمنی ہو۔
اس طرح حدود ارضی یعنی دار (territory) کے لحاظ سے اشخاص اور املاک کی حیثیات میں جو فرق ہوتا ہے اور اس فرق کے لحاظ سے ان کے درمیان احکام میں جو تمیز کی جاتی ہے اس کو مدنظر رکھنا قانونِ اسلامی کی صحیح تعبیر کے لیے نہایت ضروری ہے۔ جب کبھی ان فروق اور امتیازات کا لحاظ کیے بغیر محض قانونی عبارت کے الفاظ کی پیروی کی جائے گی تو صرف ایک سود کے مسئلے ہی میں نہیں بلکہ بکثرت فقہی مسائل میں ایسی غلطیاں پیش آئیں گی جن سے قانون مسخ ہو جائے گا اور اپنے مقاصد کے خلاف استعمال کیا جانے لگے گا۔
ان ضروری توضیحات کے بعد ہم ان سوالات کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ دارالحرب کا اطلاق دراصل کن علاقوں پر ہوتا ہے، کن مراتب کے ساتھ ہوتا ہے اور ہر مرتبے کے احکام کیا ہیں، حربیت کے کتنے مدارج ہیں اور ہر درجے کے لحاظ سے اباحت نفوس و اموال کی نوعیت کس طرح بدلتی ہے پھر اختلاف دارین کے لحاظ سے خود مسلمان کی حیثیات میں کیا فرق ہوتا ہے اور ہر حیثیت سے ان کے حقوق و واجبات کس طرح بدلتے ہیں۔
کفار کی اقسام
کفار کی جو اقسام ہم نے اوپر بیان کی ہیں ان میں سے اہل ذمہ کے متعلق تو ہر شخص جانتا ہے کہ بجز خمر و خنزیر اور نکاح محارم اور عبادت غیر اللہ کے اور تمام معاملات میں ان کی حیثیت وہی ہے جو مسلمانوں کی ہے۔ اسلام کے ملکی قوانین ان پر جاری ہوتے ہیں، وہ ان سب چیزوں سے روکے جاتے ہیں جن سے مسلمان روکے جاتے ہیں اور ان کو عصمت جان و مال و آبرو کے وہ تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ مستا ٔمن کافروں کا معاملہ بھی ذمیوں سے مختلف نہیں ہے۔ کیونکہ ان پر بھی اسلامی حکومت کے احکام نافذ ہوتے ہیں اور دارالاسلام میں ہونے کی وجہ سے ان کو بھی عصمت جان و مال حاصل ہوتی ہے۔ ان کو الگ کرنے کے بعد اب ہمیں صرف ان کفار کے حالات پر نظر ڈالنی چاہیے جو دارالکفر میں مقیم ہوں۔
۱۔ باج گزار
وہ کفار جو اسلامی حکومت کو خراج دیتے ہوں اور جن کو اپنے ملک میں احکام کفر جاری کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ ان کا ملک اگرچہ دارالکفر ہے مگر دارالحرب نہیں۔ اس لیے کہ جب مسلمانوں نے ادائے خراج پر انھیں امان دے دی تو حربیت مرتفع ہوگئی۔ قرآن میں آیا ہے کہفَاِنِ اعْتَزَلُوْكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ وَاَلْقَوْا اِلَيْكُمُ السَّلَمَ۰ۙ فَمَا جَعَلَ اللہُ لَكُمْ عَلَيْہِمْ سَبِيْلًاo (النساء90:4 ) یعنی ’’اگر وہ جنگ سے باز آ جائیں اور صلح پیش کریں تو اللہ نے تمھارے لیے ان پر دست درازی کی سبیل نہیں رکھی۔‘‘ اسی بنا پر فقہا نے تصریح کی ہے کہ ان کے اموال اور نفوس اور اعراض سے تعرض نہیں کیا جا سکتا:
وَاِنْ وَقَعَ الصُّلْحُ عَلَی اَنْ یؤدُّوْا اِلَیْہِمْ کُلَّ سَنَۃ مِأَۃ رَأْسٍ فَإِنْ کَانَتْ ہٰذِہِ الْمَأَۃُ الرأْسُ یُؤَدُّونَہَا مِنْ اَنْفُسِہِمْ وَاَوْلاَدِہِمْ لَمْ یَصِحَّ ہٰذَا لِاَنَّ الصُّلْحَ وَقَعَ عَلٰی جَمَاعَتِہِمْ فَکَانُوْا جَمِیْعًا مُسْتَأمِنِیْنَ وَاِسْتِرْقَاقُ الْمُسْتَأْمِنِ لَایَجُوزُ۔ { FR 2475 }
اور اگر ان سے اس بات پر صلح ہوئی ہو کہ وہ ہر سال سو غلام دیں گے تو یہ سو غلام اگر خود انھی کی جماعت میں سے ہوں یا ان کی اولاد ہوں تو ان کا لینا درست نہ ہوگا۔ کیونکہ صلح کا اطلاق ان کی پوری جماعت پر ہوا ہے اور وہ سب مستا ٔمن ہیں اور مستامن کو غلام بنانا جائز نہیں۔
وَلَوْ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْہُمْ دَارَ حَرْبِ أُخْرٰی فَظَہَر الْمُسْلِمُوْنَ عَلَیْہِمْ لَمْ یَتَعَرَّضُوْا لہ لِاَنَہ فِیْ اَمَانِ الْمُسْلِمِیْنَ۔{ FR 2476 }
اگر ان میں سے کوئی شخص کسی دوسرے دارالحرب میں مقیم ہو اور اسلامی فوجیں اس ملک میں داخل ہوں تو اس سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا کیونکہ وہ مسلمانوں کی امان میں ہے۔
وَاِنْ کَانَ الَّذِیْنَ سَبَوْہُمْ قَوْمٌ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ غَدَرُوْا بِاَہْلِ الْمُوَادَعَۃِ لَمْ یَسِعِ الْمُسْلِمُونَ اَنْ یَشْتَرو۔۔۔ارُدّتِ الْبَیْع لٰأِنَّھُمْ کَانُوا فِی أَمانِ الْمُسْلِمِیْنَ۔ { FR 2477 }
اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت ان کے ساتھ غدر کرکے ان کے آدمیوں کو غلام بنا لے تو مسلمانوں کے لیے ان غلاموں کا خریدنا جائز نہ ہوگا اور اگر انھوں نے خرید لیا تو اس بیع کو ردّ کر دیا جائے گا کیونکہ وہ مسلمانوں کی امان میں تھے۔
اس قسم کے کفار اگرچہ نظری حیثیت سے اہل حرب ضرور رہتے ہیں۔لأِنَّھُمْ بِھٰذِہِ الْمُوَادَعۃِ لَایَلْتَزِمُونَ أَحْکَامَ الِأسْلَامِ وَلَایَخْرُجُونَ مِنْ أَنْ یَکُونُوا أَھْلَ حَرْبٍ{ FR 2334 } لیکن ان کے اموال مباح نہیں اور ان کے ساتھ عقود فاسدہ پر کوئی معاملہ نہیں کیا جا سکتا، خواہ وہ سود خوار ہی کیوں نہ ہوں بلکہ اگر وہ اپنے دار میں بھی نہ ہوں، کسی ایسے دار میں ہوں جہاں بالفعل جنگ ہو رہی ہو تب بھی مسلمانوں کے لیے ان سے عقود فاسدہ پر معاملہ کرنا جائز نہ ہوگا۔
۲۔ معاہدین
وہ کفار جن سے دارالاسلام کا معاہدہ ہو۔ ان کے متعلق قرآن کی تصریحات حسب ذیل ہیں
﴿اِلَّا الَّذِيْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّلَمْ يُظَاہِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْہِمْ عَہْدَہُمْ اِلٰى مُدَّتِہِمْ۰ۭ ﴾
(التوبہ9:4)
مگر وہ مشرکین جن سے تم نے معاہدہ کر لیا اور انھوں نے تمھارے ساتھ وفائے عہد میں کمی بھی نہ کی اور نہ تمھارے خلاف کسی کو مدد دی، تو ان کے ساتھ تم معاہدے کی مدت مقرر تک عہد پورا کرو۔
﴿فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِيْمُوْا لَہُمْ۰ۭ ﴾ (التوبۃ9:7)
پھر جب تک وہ عہد پر قائم رہیں تم بھی قائم رہو۔
﴿وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰي قَوْمٍؚبَيْنَكُمْ وَبَيْنَہُمْ مِّيْثَاقٌ۰ۭ ﴾ (الانفال 72:8)
اور جو مسلمان دارالکفر میں رہتے ہوں وہ اگر دین کے حق کی بنا پر تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرو مگر کسی ایسی قوم کے خلاف ان کی مدد نہ کرو جس سے تمھارا معاہدہ ہو۔
﴿مُّؤْمِنَۃٍ۰ۭ وَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍؚبَيْنَكُمْ وَبَيْنَھُمْ مِّيْثَاقٌ فَدِيَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓى اَھْلِہٖ ﴾ (النساء92:4)
اور اگر مقتول کسی ایسی قوم سے ہو جس کے اور تمھارے درمیان معاہدہ ہو تو اس کے وارثوں کو دیت دی جائے گی۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ معاہد کفار اگرچہ نظری حیثیت سے حربی ہیں اور ان کے ملک پر دارالحرب کا اطلاق ہو سکتا ہے، مگر جب تک اسلامی حکومت نے ان سے معاہدانہ تعلقات قائم رکھے ہیں، وہ مباح الدم و الاموال نہیں ہیں اور ان کی جان و مال سے تعرض کرنا شرعاً ممنوع ہے۔ اگر کوئی مسلمان ان کا خون بہائے گا تو دیت لازم آئے گی اور اگر ان کے مال سے تعرض کر ے گا تو ضمان دینا ہوگا۔ پس جب ان کے اموال مباح ہی نہیں ہیں تو ان کے ساتھ عقود فاسدہ پر معاملے کیسے کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس کا جواز تو اباحت ہی کی اصل پر مبنی ہے۔
۳۔ اہل غدر
وہ کفار جو معاہدے کے باوجود معاندانہ رویہ اختیار کریں۔ ان کے متعلق قرآن کا حکم یہ ہے کہ:
﴿وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَۃً فَانْۢبِذْ اِلَيْہِمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ۰ۭ﴾
(الانفال8:58)
اور اگر تمھیں کسی قوم سے بد عہدی کا اندیشہ ہو تو برابری کو ملحوظ رکھ کر ان کا معاہدہ ان کی طرف پھینک دو۔{ FR 2335 }
شمس الائمہ سرخسیؒ اس صورت مسئلے کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَلٰکِنْ یَنْبَغِیْ اَنْ یَنْبِذَ اِلَیْھِمْ عَلٰی سَوآئٍ ایْ عَلٰی سَوَائٍ مِنْکُمْ وَمِنْھُمْ فِی الْعِلْمِ بِذالِکَ فَعَرَ فْنَا أَنَّہٗ لَایَحِلُّ قِتَالُھُمْ قَبْلَ الَّبْذِ وَقَبْلَ أَنْ یَعْلَمُوا بَذَالِکَ۔ { FR 2478 }
(ایسی صورت میں معاہدے کو توڑ دینا جائز ہے) مگر لازم ہے کہ نقض معاہدہ برابری کے ساتھ ہو، یعنی تمھاری طرح ان کو بھی معلوم ہو جائے کہ تم نے معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اس حکم سے ہم یہ سمجھے ہیں کہ اعلان و اطلاع سے پہلے ان کے ساتھ جنگ کرنا حلال نہیں ہے۔
یہ آیت اور اس کی مذکورہ ٔ بالا قانونی تعبیر یہ ظاہر کر رہی ہے کہ معاہد قوم اگر بدعہدی بھی کرے تب بھی اعلانِ جنگ سے پہلے اس کے نفوس و اموال مباح نہیں ہیں۔{ FR 2336 }
۴۔ غیر معاہدین
وہ کفار جن سے معاہدہ نہ ہو۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس کو ہمیشہ بین الاقوامی تعلقات میں جنگ کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی تعلقات کا انقطاع (rupture of diplomatic relations) دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ دونوں قومیں اب باہمی احترام کی قیود سے آزاد ہیں۔ ایسی حالت میں اگر ایک قوم دوسری قوم کے آدمیوں کو قتل کر دے یا لوٹ لے تو کوئی دیت یا ضمان واجب نہ ہوگا۔ اس معنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں قوموں کے لیے ایک دوسرے کے نفوس و اموال مباح ہیں۔ مگر کوئی مہذب حکومت باقاعدہ اعلان جنگ کیے بغیر کسی انسانی جماعت کا خون بہانا یا مال لوٹنا پسند نہیں کر سکتی۔ اسلامی قانون اس باب میں یہ ہے:
وَلَوْ قَاتَلُوْہُمْ بِغَیْرِ دَعْوَۃٍ کَانُوْا اٰثِمِیْنَ فِیْ ذٰلِکَ وَلٰـکِنَّہُمْ لَا یَضْمِنُوْنَ شَیْئًا مِمَّا اَتْلَفْوا مِنَ الدِّمَائِ وَالْأَ مْوَالِ عِنْدَنَا۔{ FR 2479 }
اگر مسلمانوں نے دعوت{ FR 2337 }کے بغیر ان سے جنگ کی تو گناہ گار ہوں گے لیکن ایسی جنگ میں ان کی جان و مال کا جو اتلاف وہ کریں گے اس میں سے کسی چیز کا ضمان حنفیہ کے نزدیک مسلمانوں پر لازم نہ آئے گا۔
امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ضمان لازم آئے گا کیونکہ جب تک وہ دعوت کو ردّ نہ کریں ان کی جان و مال کی حرمت و عصمت باقی ہے۔ { FR 2480 }
مگر حنفیہ کہتے ہیں:
وَلٰکِنَّا نَقُولُ اْعِصْمَۃُ الْمُقَوِّمَۃُ تَکُونُ بِالْاحَرَازِ وَذٰلِکَ لَم یُوْجَدْ فِی حَقِّھِمْ۔۔۔ وَلٰکِنَ شْرطُ الْاِبَاحَۃِ تَقْدِیْمً الدعوۃِ فَبِدُوَنِہِ لَاَ یَثْبُتُ وَمُجَرَّدُ حُرْمَۃِ اِلْقَتْلِ لَا یَکْفِی بِوُجُوْبِ الضَّمَانِ۔ { FR 2481 }
جس عصمت کی بنا پر جان و مال کی قیمت قائم ہوتی ہے تو وہ دارالاسلام کی حفاظت میں ہونے پر موقوف ہے اور یہ چیز ان کے حق میں موجود نہیں ہے … یہ ضرور ہے کہ اباحت کے لیے تقدیم دعوت شرط ہے، اس کے بغیر اباحت ثابت نہیں ہوتی، لیکن محض حرمت قتل، وجوب ضمان کے لیے کافی نہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ حربی کفار جو ذمی نہیں ہیں، جن سے کوئی معاہدہ نہیں ہے، جن کا دار ہمارے دار سے مختلف ہے جن کی عصمت ہمارا قانون تسلیم نہیں کرتا، ان کے نفوس و اموال بھی ہم پر اس وقت تک حلال نہیں ہیں جب تک کہ اتمام حجت نہ ہو اور ہمارے اور ان کے درمیان باقاعدہ اعلانِ جنگ نہ ہو جائے۔ نبیa نے اس باب میں حضرت معاذؓ بن جبل کو جو ہدایات دی تھیں وہ قابل غور ہیں:
لَا تُقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی تَدْعُوْہُمْ فإِنْ اَبَواْ فَلَا تُقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی یَبْدَؤُکُمْ فإِنْ بَدَؤُوْکُمْ فَلاَ تُقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی یَقْتُلُوْا مِنُکْم قَتِیْلًا ثُمَّ أَرھُمْ ذٰلِکَ الْقَتِیْلَ وَقُوْلُوْا لَہُمْ ہَلْ اِلٰی خَیْرٍ مِنْ ہٰذَا سَبِیْلِ ؟ فَلأَنْ یَہْدِی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلی یَدَیْکَ خَیْرٌ لَکَ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشًّمْسُ وَغَرَبَتْ۔{ FR 2482 }
ان سے جنگ نہ کرنا جب تک کہ ان کو دعوت نہ دے لو۔ پھر اگر وہ انکار کریں تب بھی جنگ نہ کرنا جب تک وہ ابتدا نہ کریں۔پھر اگر وہ ابتدا کریں تب بھی جنگ نہ کرنا جب تک کہ وہ تم میں سے کسی کو قتل نہ کر دیں۔ پھر اس مقتول کو دکھا کر ان سے کہنا کہ کیا اس سے زیادہ بہتر کسی بات کے لیے تم آمادہ نہیں ہو سکتے؟ اے معاذ! اس قدر صبر و تحمل کی تعلیم اس لیے ہے کہ اگر اللہ تیرے ہاتھ پر لوگوں کو ہدایت بخش دے تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تیرے قبضے میں مشرق سے مغرب تک کا سارا ملک و مال آجائے۔
۵۔ محاربین
اب صرف وہ کفار باقی رہ جاتے ہیں جن سے مسلمانوں کی بالفعل جنگ ہو۔ اصلی حربی یہی ہیں۔ انھی کے دار کو تعلقات خارجیہ کے قانون میں ’’دارالحرب‘‘ کہا جاتا ہے انھی کے نفوس اور اموال مباح ہیں اور انھی کو قتل کرنا، گرفتار کرنا، لوٹنا اور مارنا شریعت نے جائز قرار دیا ہے لیکن حربیت (enemy character) تمام حاربین میں یکساں نہیں ہے اور نہ تمام اموال حربیہ ایک ہی حکم میں ہیں۔ حربی کافروں کی عورتیں، ان کے بچے، ان کے بیمار، ان کے بوڑھے اور اپاہج وغیرہ بھی اگرچہ حربی ہیں مگر شریعت نے ان کو مباح الدم نہیں ٹھیرایا ہے بلکہ اباحت قتل کو صرف مقاتلین (combatants) تک محدود رکھا ہے۔ إِنَّمَا یُقْتَ مَنْ یُقَاتِلُ۔ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَقَاتِلُوھُمْ وَالْمُفَاعِلَۃُ تَکُونُ مِنَ الْجَانِبَیْنِ{ FR 2338 } اسی طرح اموال حربیہ میں بھی شریعت نے فرقِ مدارج کیا ہے اور ہر درجے کے احکام الگ ہیں۔
اموال حربیہ کے مدارج اور احکام
اگرچہ اُصولی حیثیت سے تمام وہ اموال و املاک جو دشمن کے علاقے میں ہوں، مباح (confiscable) ہیں، لیکن شریعت اسلامی نے ان کو دو اقسام پر منقسم کیا ہے ایک غنیمت دوسرے فَے۔
غنیمت
وہ اموال منقولہ (moveable properties) جن پر رقبہ جنگ میں اسلامی فوج اپنے اسلحے کی طاقت سے قابض ہو، اموال غنیمت ہیں۔ ان کا 5 / 1حصہ (یعنی خمس) حکومت کا حق ہے اور4 / 5 ان لوگوں کا حق جنھوں نے ان کو لوٹا ہو۔ امام ابویوسف رحمہ اللہ کتاب الخراج میں غنیمت کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:
فَہٰذَا فِیْمَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ عَسَاکِرِ اَہْلِ الشِّرْکِ وَمَا اَجْلَبْوَا بِہٖ مِنَ الْمَتَاعِ وَ السَّلاَحِ وَالْکَرَاعِ۔ { FR 2483 }
خمس ان اموال میں ہے جو مسلمانوں کو اہل شرک کے لشکروں سے ہاتھ لگیں اور جو سازوسامان اور جانوروں کی قسم سے ہوں (یعنی اموال منقولہ)
دوسری جگہ پھر فرماتے ہیں:
فَمَا اَصَابَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ عَسَاکِرِ اَہْلِ الشِّرْکِ وَمَا اَجْلَبُوْا بِہٖ مِنَ الْمَتَاعِ وَ الْکَرَاعِ وَالسَّلاَحِ وَ غَیْرَ ذٰلِکَ۔{ FR 2516 }
اس سے ظاہر ہوا کہ غنیمت کا اطلاق صرف ان اموال منقولہ پر ہوتا ہے جو جنگی کارروائی (war-like operations) کے دوران میں غنیم کے لشکروں سے حاصل ہوں اور غنیم کے لشکروں کے حدود سے باہر عام آبادیوں کو لوٹتے مارتے پھر ناشریعت کی نگاہ میں درست نہیں۔ اگرچہ دارالحرب کے تمام اموال مباح ہیں اور اگر کوئی شخص غیر مقاتلین کے اموال سے تعرض کرے تو اس پر نہ کو ئی ضمان لازم ہوگا، نہ لوٹے ہوئے اموال واپس کیے جائیں گے، لیکن اس قسم کی لوٹ مار پسندیدہ نہیں ہے۔ امام مسلمین ہر ممکن طریقے سے اپنی فوجوں کو ایسی حرکات سے روکے گا کیونکہ نبی a کا ارشاد ہے کہ:
مَنْ غَزَا فَخْرًا وَرِیَائً وَ سَمْعَۃَ عَصَی الْاَمَامَ وَأَفْسَدَ فِی الْاَرْضِ فَاِنَّہٗ لَمْ یَرْجِعْ بِالکفَّافِ { FR 2339 }
فَے
دوسری قسم ان اموال منقولہ و غیر منقولہ کی ہے جو غنیم کے لشکر سے لڑ کر حاصل نہ کیے گئے ہوں، بلکہ نتیجہ، فتح کے طور پر حکومت کے زیر تصرف آئیں، عام اس سے کہ وہ غنیم کی رعایا کے املاک ہوں یا دشمن سلطنت کے ہوں۔ اسلامی اصطلاح میں ایسے اموال کو ’’فَے‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اور یہ غنیمت سے بالکل مختلف چیز ہے۔ وَغَنِیْمَۃُ الْعَسْکَرِ مُخَالَفَۃُ لِمَا أَفَائَ اللّٰہُ مِنْ أَھْلِ الْقُریٰ وَالْحُکْمُ فِی ھٰذَا غَیْرَ الْحُکُمِ فِی تِلْکَ الْغَنَائِمِ۔{ FR 2340 } اس کے متعلق سورۂ حشر میں تشریح کر دی گئی ہے کہ یہ کسی شخص کی ملکیت میں نہ دی جائے گی بلکہ اس کا تعلق بیت المال سے ہوگا اور اسے مصالح عامہ میں خرچ کیا جائے گا۔ وَمَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْہِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللہَ يُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo (الحشر59:6)
لفظ ’’فَے‘‘ کا کوئی اور مفہوم اس کے سوا نہیں ہے اور کتب فقہیہ میں ہم کو کہیں بھی کسی ایسی فَے کا نشان نہیں ملا جس کو ہر شخص بطور خود حاصل کرے اور اپنی ہی جیب میں رکھ لے۔ جگہ جگہ فیٌٔ لِلْمُسْلِمِیْنَ، فِیٌٔ یُوْضَعُ فِی بِیْتِ مَالِ الْمُسْلِمِیْنَ فَیٌ لجِمَاَعَۃِ الْمُسْلِمِینَ اور ایسے ہی دوسرے الفاظ ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ متقدمین صرف اس فَے سے واقف تھے جو جماعت کی مِلک ہوتی ہے اور حکومت اسلامی کے زیر تصرف ہوا کرتی ہے۔
غنیمت اور لوٹ میں امتیاز
غنائم حاصل کرنے کا شرعی حق صرف انھی لوگوں کو دیا گیا ہے جو اسلامی سلطنت کے زیر حفاظت ہوں اور جن کو امام مسلمین کی اجازت نصاً یا حکماً ہو۔ ان کے سوا اگر عام مسلمان فرداً فرداً یا جماعت بنا کر بطور خود لوٹ مار کرنے لگیں تو ان کی حیثیت لٹیروں کی ہوگی۔ ان کی غنیمت ’’غنیمت‘‘ نہ ہوگی، لوٹ ہوگی۔ اس لیے اس میں سے اللہ کا حصہ (یعنی خمس) قبول نہ کیا جائے گا۔ البتہ وہ انھی کے پاس رہنے دیا جائے گا کیونکہ دشمن کو واپس دلانا تو بہرحال ممکن نہیں ہےفإِنْ کَانَ دُخُولُ الْقَومِ الَّذِیْنَ لَاَمْنعَۃَ لَھُمْ بِغَیرِ اِذْن اِلإِمِ عَلیٰ سَبِیْلِ التَّلَصَّصِ فَلَاخُمْسَ فِیْمَا أَصَابُوا عِنْدَ نَا ولکِنْ مَنْ أَصَابَ مِنْھُمْ شَیْئًا فَھُوَلَہُ خَاصَّہۃٗ۔{ FR 2341 } اس کی وجہ جو کچھ علامہ سرخسیؒ نے لکھی ہے وہ بھی ملاحظہ فرما لیجیے:
وَالْمَعنٰی مَا بَیَّنَّا أَنَّ الْغَنِیْمَۃَ اسْمٌ لِمَالٍ مُصَابٍ بِأَشْرَفِ الْجِھَاتِ وَھُوَ أَنْ یَکُونَ فِیہِ اِعْلائُ کَلِمَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَإِعْزَازُ الدِّیْنِ وَلِھٰذَا جُعِلَ الْخُمْسُ مِنْہُ لِلّٰہِ تَعَالٰی وَ ھٰذَا الْمَعْنٰی لَا یَحْصُلُ فِیْمَا یأَخُذُہٗ الْوَاحِدُ عَلٰی سَبِیْلِ التَّلَصَّصِ فَیَتَمَحَضُّ فِعْلُہٗ اِکْتِسَاً بِالِلْمَالِ۔{ FR 2484 }
بات دراصل یہ ہے جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ غنیمت اس مال کا نام ہے جو انتہا درجے کے پاک اور اشرف طریقے سے ہاتھ آئے اور وہ یہ ہے کہ اس میں اللہ کے کلمے کا اعلاء اور اس کے دین کا اعزاز ہو۔ اسی لیے اس میں اللہ کا پانچواں حصہ مقرر کیا گیا۔ یہ بات اس مال میں نہیں ہوتی جس کو ایک شخص چوروں کی طرح حاصل کرتا ہے کیونکہ اس کا مقصد تو محض اکتساب مال ہے۔
اس کی نظیر میں امام سرخسیؒ وہ حدیث پیش کرتے ہیں جس میں ذکر ہے کہ مشرکین ایک مسلمان لڑکے کو پکڑ لے گئے تھے۔ کچھ مدت بعد وہ لڑکا ان کے قبضے سے بھاگ نکلا اور ان کی کچھ بکریاں بھی پکڑ لایا۔ حضورؐ نے یہ بکریاں اسی کے پاس رہنے دیں اور ان میں سے خمس لینا قبول نہ کیا۔{ FR 2485 } مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی اسی کی تائید میں ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کا مال لوٹ کر مدینہ حاضر ہوئے اور اسلام پر ایمان لائے جب انھوں نے لوٹ کا مال حضورؐ کی خدمت میں پیش کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ تمھارا اسلام مقبول ہے مگر یہ مال مقبول نہیں۔{ FR 2486 }
دارالحرب میں کفار کے حقوق ملکیت
غنیمت پر تیسری قید یہ لگائی گئی ہے کہ غانمین جب تک دارالحرب میں مقیم ہیں اس وقت تک وہ اموال غنیمت سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ اس قید سے صرف سامان خوردونوش اور جانوروں کا چارہ مستثنیٰ ہے۔ یعنی دورانِ جنگ میں جس قدر آذوقہ اور چارہ فوجوں کے ہاتھ لگے گا اس میں سے ہر مجاہد بقدر حاجت لے سکتا ہے۔ اس کے سوا باقی تمام اموالِ غنیمت سردار لشکر کے پاس جمع کر دیے جائیں گے اور ان کو غانمین میں اس وقت تک تقسیم نہ کیا جائے گا جب تک کہ وہ دار الاسلام کی طرف منتقل نہ کر دیے جائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حنفیہ کے نزدیک اموال غنیمت جب تک دارالحرب میں ہوں غانمین کی مِلک ان پر مکمل نہیں ہوتی۔ امام شافعیؒ کی رائے اس کے خلاف ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ محاربین کا مال مباح ہے اس لیے جس وقت مجاہدین اسلام ان پر قابض ہوئے اسی وقت ان کے مالک بھی ہوگئے۔ مگر امام ابوحنیفہؒ اور ان کے اصحاب فرماتے ہیں کہ یہ مِلک ضعیف ہے۔ گو ہمارا قبضہ ہو چکا ہے لیکن دار تو ان کا ہے۔ جب تک مال ان کے دار سے ہمارے دار میں نہ چلا جائے ہم پوری طرح اس کے مالک نہیں ہو سکتے۔ اس لیے کہ تکمیل مِلک کے لیے محض استیلا (occupation) کافی نہیں ہے۔ امام سرخسیؒ اس مسئلے میں حنفیہ کے مسلک کی توضیح اس طرح کرتے ہیں:
فَأَمَّا عِنْدَنَا الْحَقَّ یَثْبُتُ بِنَفْسِ الْأَخْذِ وَیَتَأَ کَّدُ بِالْإِحْرَازِ یَتَمَکَّنُ بِالْقِسْمَۃِ کَحَقِ الشَّفِیْعِ یَثْبُتُ بِالْبَیْعِ وَیَتَأَ کَّدُبالطَّلَبِ وَیَتِمَّ الْمِلْکَ بِالأَخْذِ وَمَادَامَ الْحَقُّ ضَعِیْفًا لَا تَجُوزُ القِسْمَۃُ۔۔۔ بِالْاُ خْذِیَمْلُکُ الَأَرَاضِیَ کَمَا یَمْلُکُ الأَمْوَالَ ثُمَّ لَایَتَأَ کَّدُ الْحَقَّ فِی الْأَرْضِ الَّتِی نَزَلُوا فِیْھَا إِذَا لَمْ یُصَیِّرْھَا دَارَ الْإِسْلامِ{ FR 2487 }
ہمارے نزدیک نفس قبضہ سے حق صرف ثابت ہوتا ہے، دارالاسلام میں لے جانے سے مضبوط ہو جاتا ہے اور تقسیم غنیمت سے مکمل ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال شفعہ کی سی ہے کہ شفیع کا حق بیع سے ثابت ہوتا ہے، طلب سے موکد ہوتا ہے اور قبضے کے ساتھ مکمل ہوتا ہے پس جب تک حق ضعیف رہے تقسیم جائز نہیں ہوتی۔ جس طرح اموال (جائیداد منقولہ) پر نفس قبضہ سے مِلک ثابت ہوتی ہے اسی طرح اراضی (جائیداد غیر منقولہ) پر بھی قبضے سے مِلک ثابت ہو جاتی ہے، مگر جس سرزمین میں مسلمانوں کے لشکر اترے ہوں اس پر حق اس وقت تک پوری طرح قائم نہیں ہوتا جب تک کہ اس کو دارالاسلام نہ بنا دیا جائے۔
اس تصریح سے معلوم ہوا کہ نہ صرف غنیمت، بلکہ فَے میں بھی اسلامی حکومت اس وقت تک تصرف کا پورا حق نہیں رکھتی جب تک کہ علاقہ مقبوضہ۔(occupied territory) کو دارالاسلام نہ بنا دیا جائے ،یا باصطلاح جدید اپنے مقبوضات کے ساتھ اس کے الحاق (annexation) کا باقاعدہ اعلان نہ کر دیا جائے۔ نبی a کا طرزِ عمل اسی مسلک کی تائید کرتا ہے۔ چنانچہ مکحولؒ کا بیان ہے کہ مَاقَسَمَ رَسُولُ اللّـہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ الْغَنَائِمَ اِلاَّ فِی دَارِالْاِسْلامِ { FR 2488 }(رسول اللہa نے کبھی غنائم کو دارالاسلام کے سوا کہیں تقسیم نہیں فرمایا) محمد بن اسحاقؒ اور قلبیؒ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے حنین کے غنائم واپسی پر جعرانہ میں تقسیم فرمائے تھے جو اس زمانے میں دارالاسلام کی سرحد پر تھا۔ راستے میں اعراب نے تقسیم کا سخت مطالبہ کیا اور حضورؐ کو اس قدر پریشان کیا کہ آپؐ کی چادر پھٹ گئی، مگر اس ہنگامے کے باوجود آپؐ نے دارالاسلام کے حدود میں پہنچنے سے پہلے مال غنیمت کا ایک حبہ تقسیم نہ فرمایا۔{ FR 2489 }
رسولؐ خدا کے اس طرز عمل اور فقہا کی ان توجیہات پر غور کیجیے۔ اس کا سبب بجز اس کے اور کچھ نہ معلوم ہوگا کہ اسلامی قانون جس طرح اسلامی مقبوضات پر اہل اسلام کے حقوق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے۔ اس طرح غیر اسلامی مقبوضات پر اہل حرب تک کے حقوقِ مالکانہ کو بھی تسلیم کرتا ہے۔ اگرچہ جنگ ان کے اموال کو ہمارے لیے مباح کر دیتی ہے۔ مگر شریعت نے ہم کو اس اباحت سے فائدہ اٹھانے کی عام اور غیر مشروط اجازت نہیں دے دی ہے بلکہ ان کی ملک سے ہماری مِلک میں اموال کے منتقل ہونے کی چند باضابطہ قانونی شکلیں مقرر کی ہیں اور وہ ایسی شکلیں ہیں جن میں ہمارے اور اہلِ کفر کے درمیان پوری مساوات ہے۔ حنفی قانون کہتا ہے کہ ہم ان کے اموال کے مالک اس وقت ہوں گے جب باقاعدہ جنگ میں ان پر قبضہ کرکے انھیں اپنے ’’دار‘‘ میں لے آئیں۔ اسی طرح وہ بھی جب ہمارے اموال پر جنگ کے ذریعے سے قابض ہو کر اپنے دار میں انھیں لے جائیں گے تو ان کے مالک ہو جائیں گے اور ان کے دار میں ان کے حقوق مالکانہ کا احترام کرنا ہم پر لازم ہوگا۔ اس بارے میں فقہا کی مزید تصریحات قابل غور ہیں:
نَفْسُ الْأَخْذِ سَبَبٌ لِمِلْکِ الْمَالِ إِذَا تَمَّ بِالْاِ حْرَازِ وَبَیْنَنَا وَبَیْنَھُمْ مُسَاوَاۃٌ فِی أَسْبَاِ إِصَابَۃِ الدُّنْیَابَلْ حَظُّھُمْ أَوْفَرُ مِنْ حَظِّنَا لِأَنَّ الدُّنْیَا لَھُمْ وَلِأَنَّہٗ لَا مَقْصُوْد لَھُمْ فِی ھٰذِہِ الْأَخْذِسِوٰی اکْتِسَابِ الْمَالِ وَنَحْنُ لَانَقْصُدُ بِالْأَخْذِ اِکْتِسَابَ الْمَالِ۔{ FR 2490 }
جب مال پر قبضہ کرکے اس کو دار میں پہنچا دیا گیا ہو تو یہ اس مال پر حق ملکیت کا پورا سبب ہے اور دنیا حاصل کرنے کے اسباب میں ہمارے اور کفار کے درمیان کامل مساوات ہے بلکہ دنیا میں ان کا حصہ ہمارے حصّے سے کچھ زیادہ ہی ہے کیونکہ ان کے لیے تو دنیا ہی ہے اور اخذ ِمال سے ان کا مقصد بجز اکتساب مال کے اور کچھ نہیں بخلاف اس کے ہمارا مقصد اکتسابِ مال نہیں ہے۔
وَ إِذَا دَخَلَ الْمُسْلِمُ دَارَالْحَرْبِ بِأَنٍ وَلَہٗ فِی أَیْدِیْھِمْ جَارِیَۃٌ مَأْسُوْرَۃٌ کَرِھَتْ لَہٗ غَصْبُھَا وَطُیْئُھَا لِأَنَّھُمْ مَلَکُوْھَا عَلَیْہِ وَالْتَحَقَتْ بِسَائِرِ أمْلَاکِھِمْ۔{ FR 2491 }
اگر کوئی مسلمان دارالحرب میں امان لے کر داخل ہو اور وہاں خود اسی کی لونڈی اس کے ہاتھ آئے جسے کفار پکڑ لے گئے تھے تو اس کے لیے اس لونڈی پر قبضہ کرنا اور اس سے وطی کرناجائز نہیں کیونکہ اب کفار اس کے مالک ہیں اور وہ لونڈی ان کے املاک میں داخل ہو چکی ہے۔
وَلَوْ خَرَجَ إِلَیْنَا بِأَمَانٍ وَمَعَہٗ ذالِکَ الْمَالُ فَإِنَّہٗ لَا یَتَعَرَّضُ لَہٗ فِیْہِ۔ { FR 2492 }
اور اگر کافر حربی ہمارے دار میں امان لے کر آئے اور اس کے ساتھ خود ہم ہی سے لوٹا ہوا مال ہو تو ہم اس سے وہ مال نہیں چھین سکتے۔
فإِنْ غَلَبَ الْعَدُّوُ عَلٰی مَالِ الْمُسْلِمِیْنَ فَأَحْرَزُوہُ وَھُنَاکَ مُسْلِمٌ تَاجِرٌ مُسْتَأمِنٌ حَلَّ لَہٗ أَنْ یَشْتَرِیَہُ مِنْھُمْ فَیَاکُلُ الطَّعَامَ مِنْ ذٰلِکَ وَیَطَائُ الْجَارِیَۃَ لِأَنَّھُمْ مَلَکُوھَا بِالاِحْرازِ فَالْتَحَقَتْ بِسَائِر أَمْلَاکِھِمْ وَھٰذَا بِخِلَافِ مَالَوْ دَخَلَ إِلَیْھِمْ تَاجِرٌ بِأَمَانِ فَسَرَقَ مِنْھُمْ جَارِیَۃٌ وَ أَخْرَ جَھَا لَمْ یَحِلُّ لِلمُسْلِمِ أَنْ یَشْتَرِیَھَا مِنْہٗ لِأَنَّہٗ أَحْرَزَھَا عَلٰی سَبِیْلِ الْغَدْرِوَھُوَ مَأَمُورٌ بِرَدِّھَا عَلَیْھِمْ فِیْمَا بَیْنَہٗ وَبَیْنَ رَبّہِ وَإِنْ کَانَ لَایُجْبِرُہٗ الْاِ مَامَ عَلٰی ذَالِکَ۔{ FR 2493 }
اگر دشمن مسلمانوں کے مال پر قابض ہو کر اسے اپنے دار میں لے جائے اور وہاں کوئی مسلمان تاجر مستامن ہو تو اس کے لیے اس مال کو خریدنا اور کھانا حلال ہے اور وہ ان سے خریدی ہوئی لونڈی سے وطی بھی کر سکتا ہے۔ کیونکہ اپنے دار میں لے جانے کے بعد وہ اس کے مالک ہوگئے اور اب وہ ان کے املاک میں شامل ہے۔ بخلاف اس کے اگر کوئی تاجر امان لے کر دارالحرب میں جائے اور ان کے قبضے سے کسی لونڈی کو چرا کر دارالاسلام میں لے آئے تو مسلمان کے لیے اس لونڈی کو خریدنا حلال نہیں کیونکہ وہ غدر کرکے اسے لایا ہے اور فیما بینہ و بین اللّٰہ وہ اسے واپس کرنے پر مامور ہے۔ اگرچہ امام اس کو واپس کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔
یہ مسلک ٹھیک ٹھیک حدیث کے مطابق ہے۔ فتح مکہ کے روز جب حضرت علیؓ نے آنحضرت a سے عرض کیا کہ آپؐ اپنے اس مکان میں کیوں نہیں قیام فرماتے جو ہجرت سے پہلے آپؐ کا تھا تو حضورa نے جواب دیا کہ ہَلْ تَرَکَ لَنَا عَقْیِلُ مِنْ رِبَا۔{ FR 2494 } عقیل نے ہمارے لیے چھوڑا ہی کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب آپؐ اسے چھوڑ کر نکل گئے تھے اور عقیل بن ابی طالب نے اس پر قبضہ کر لیا تھا تو اس پر سے آپؐ کی مِلک ساقط اور عقیل کی ملکیت ثابت ہوگئی۔ اب باوجود اس کے کہ آپؐ نے مکہ فتح کر لیا تھا، آپ نے اپنے سابق حقوق ملکیت کی بنا پر اس مکان کو اپنا مکان قرار دینے سے خود انکار فرما دیا۔
مباحث گزشتہ کا خلاصہ
یہ تمام قانونی تصریحات آپ کے سامنے ہیں ان پر غور کرنے سے حسب ذیل مسائل مستنبط ہوتے ہیں:
(۱) دارالحرب اگر مطلقاً دارالکفر (foreign territory) کے معنی میں لیا جائے تو اس کے اموال مباح نہیں بلکہ صرف غیر معصوم ہیں اور عدم عصمت کا حاصل صرف اس قدر ہے کہ اسلامی حکومت اس دار میں کسی جان یا مال کے تحفظ کی ذمہ دار نہیں ہے۔ وہاں اگر کوئی مسلمان کسی مسلم یا غیر مسلم کو جان و مال کا نقصان پہنچائے گا یا اس کی مِلک سے کوئی چیز حرام طریقے سے نکال لے گا تو یہ اس کے اور خدا کے درمیان ہے۔ اسلامی حکومت اس سے کوئی مواخذہ نہیں کرے گی۔
(۲) دارالحرب سے مراد اگر ایسے کفار کا دار لیا جائے جن کے نفوس و اموال مباح ہیں تو اس معنی میں ہر دارالکفر دارالحرب نہیں ہے، بلکہ صرف وہ علاقہ دار الحرب ہے جس سے بالفعل دارالاسلام کی جنگ ہو۔ اس خاص نوع کے دارالکفر کے سوا کسی دوسرے دارالکفر کے باشندے نہ مباح الدم ہیں اور نہ مباح المال‘ اگرچہ وہ ذمی نہیں ہیں اور ان کے نفوس و اموال غیر معصوم ہیں۔
(۳) جس ملک سے مسلمانوں کی بالفعل جنگ ہو اس کے نفوس و اموال بھی مطلقاً ایسے مباح نہیں ہیں کہ ہر شخص وہاں لوٹ مار کرنے اور کفار کی املاک پر قبضہ کرنے کا مختار ہو بلکہ اس کے لیے بھی کچھ شرائط اور قیود ہیں:
(الف) امام مسلمین باقاعدہ اعلانِ جنگ کرکے اس ملک کو دارالحرب قرار دے اور
(ب) وہاں جنگ کرنے والوں کو امام کا ’’اذن‘‘ اور اس کی ’’حمایت‘‘ حاصل ہو۔
(۴) غنیمت صرف اس جائیداد منقولہ کو کہتے ہیں جو دشمن کے عساکر سے لڑ کر حاصل کی جائے۔ یا بالفاظ دیگر اشرف جہات سے حاصل ہو اور جس میں دین کا اعزاز ہو۔ اس مال میں پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے۔
(۵) فَے ان اموال منقولہ و غیر منقولہ کو کہتے ہیں جو نتیجۂ فتح کے طور پر حکومت اسلامی کے قبضے میں آئیں۔ خراجِ اور مال صلح وغیرہ کا شمار بھی فَے ہی میں ہے‘ لیکن یہ بالکلیہ اسلامی حکومت کی مِلک ہے اور کسی شخص خاص کو اس پر حقوقِ ملکیت حاصل نہیں ہو سکتے۔
(۶) فَے اور غنیمت کے اموال پر فاتحین کو پورے حقوقِ ملکیت صرف اسی وقت حاصل ہوتے ہیں جب کہ وہ ان کو دارالحرب سے دارالاسلام منتقل کر لائیں یا دارالحرب کو دارالاسلام بنا لیں۔ اس سے پہلے ان اموال میں تصرف کرنا اور ان سے فائدہ اٹھانا مکروہ ہے۔
(۷) اسلامی قانون حربی کفار کے اموال پر ان کے حقوق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے اور ان کی ملک سے کوئی مال مسلمانوں کی مِلک میں جائز طور پر انھی صورتوں سے منتقل ہو سکتا ہے جن کو اللہ اور رسولؐ نے حلال کیا ہے ، یعنی بیع یا صلح یا جنگ۔
مسلمانوں کی حیثیات بلحاظ اختلافِ دار
اِن اُمور کے متحقق ہو جانے کے بعد اب ایک نظر یہ بھی دیکھ لیجیے کہ اسلامی قانون کے مطابق اختلاف دار کے لحاظ سے خود مسلمانوں میں کیا اختلافات واقع ہوتے ہیں۔ اس باب میں تمام قوانین کی بنیاد حسب ذیل آیات و احادیث پر قائم ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يُہَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَايَتِہِمْ مِّنْ شَيْءٍ حَتّٰي يُہَاجِرُوْا﴾ (الانفال72:8)
اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر ہجرت کرکے (دارالاسلام) آ نہیں گئے، ان سے تمھارا ’’ولایت‘‘ کا کوئی تعلق نہیں تاوقتیکہ وہ (دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف) ہجرت نہ کریں۔
﴿فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِيَاۗءَ حَتّٰي يُھَاجِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۭ﴾
(النساء89:4)
اُن کو ولی نہ بناؤ جب تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں۔
﴿وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَــــًٔا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَّدِيَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓى اَھْلِہٖٓ اِلَّآ اَنْ يَّصَّدَّقُوْا۰ۭ فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَھُوَمُؤْمِنٌ فَتَحْرِيْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ۰ۭ وَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍؚبَيْنَكُمْ وَبَيْنَھُمْ مِّيْثَاقٌ فَدِيَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓى اَھْلِہٖ وَتَحْرِيْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ۰ۚ﴾ (النساء92:4)
اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرے، اور مقتول کے وارثوں کو خوں بہا دے، الایہ کہ وہ خوں بہا معاف کر دیں۔ لیکن اگر وہ مسلمان مقتول کسی ایسی قوم سے تھا جس سے تمھاری دشمنی ہو تو اس کا کفارہ ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے۔
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَا بَرِیُٔ مِنْ کُلِّ مُسْلِمٍ یُقِیْمُ بَیْنَ أَظْہَرِالْمُشْرِکِیْنَ۔{ FR 2495 } وَعن النَّبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَیْضًا مَنْ اَقَامَ مَعَ الْمُشْرِکِیْنَ فَقَدْ بَرِئْتُ مِنْہُ الذِّمَۃ ۔{ FR 2496 }
نبی ؐ نے فرمایا میں ہر اس مسلمان کی ذمہ داری سے بری{ FR 2342 }ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو۔ اور حضورؐ ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ جس نے مشرکین کے ساتھ قیام کیا اس سے مَیں بری الذمہ ہوں۔ یا فرمایا اس کے لیے کوئی ذمہ نہیں۔
ابو داؤد کی کتاب الجہاد میں ہے کہ جب حضور a کسی کو لشکر کا سردار مقرر کرکے بھیجتے تو اس کو منجملہ دوسری ہدایات کے ایک یہ ہدایت بھی فرماتے تھے:
اُدْعُہُمْ اِلَی الْاِسْلاَمِ فإِنْ اَجَابُوْکَ فَأَقْبلْ مِنْھُمْ وَکُفَّ عَنْھُمْ، ثُمَّ ادْعُھُمْ إِلَی التَّحَوَّلَ مِنْ دَارِھُمْ إِلٰی دَارِ الْمُھَاجِریْنَ وَأَعْلِمْھُمْ أَنَّھُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَالِکَ أَنَّ لَھُمْ مَالِلْمُھَا جِرِیْنَ وَ أَنَّ عَلَیْھِمْ مَا عَلَی الْمُھَاجِرِیْنَ فَإِنْ أَبَوْا وَاخْتَارُوْا دَارَھُمْ فَأَ عَلِمْھُمْ أَنْھَّمُمْ یَکُوْنُوْنَ کَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِیْنَ یَجْرِیْ عَلَیْھِمْ حُکْمُ اللّٰہِ الَّذِیْ یَجْرِ عَلَی الْمُومِنِیْنَ وَلَا یَکُوْنُ لَھُمْ فِی الْفَی ئِ وَالْغَنِیْمَۃِ نَصِیْبٌ إِلاَّ أَنْ یُجَاھِدُوْا مَعَ الْمُسْلِمِیْنِ۔{ FR 2497 }
ان کو پہلے اسلام کی طرف دعوت دینا اگر وہ قبول کر لیں تو ان سے ہاتھ روک لینا۔ پھر ان سے کہنا کہ اپنے دار کو چھوڑ کر مہاجرین کے دار یعنی دارالاسلام میں آ جائیں اور انھیں بتا دینا کہ اگر انھوں نے ایسا کیا تو ان کے وہی حقوق ہوں گے جو مہاجرین کے ہیں‘ اور وہی واجبات ان پر عائد ہوں گے جو مہاجرین پر ہیں۔ اگر وہ انکار کریں اور اپنے ہی دار میں رہنا اختیار کریں تو انھیں آگاہ کر دینا کہ ان کی حیثیت اعراب مسلمین کی سی ہوگی ان پر اللہ کے وہ تمام احکام جاری ہوں گے جو مومنین پر جاری ہوتے ہیں مگر فَے اور غنیمت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔ الایہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں۔
ان آیات و احادیث سے فقہائے حنفیہ نے جو احکام مستنبط کیے ہیں ان کو ہم اختصار کے ساتھ یہاں بیان کرتے ہیں۔
۱۔ دارالاسلام کے مسلمان
جو نفوس و اموال دارالاسلام{ FR 2343 } کی حدود میں ہوں صرف انھی کی حفاظت حکومت اسلامی کے ذمے ہے اور جو مسلمان دارالاسلام کی رعایا ہوں دینی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ دنیوی حیثیت سے بھی اسلام کے تمام قوانین ان پر نافذ ہوں گے اور وہی کلی طور پر احکام کے ملتزم ہوں گے۔ یہ قاعدہ اسلامی قانون کے قواعد کلیہ میں سے ہے اور اس پر بہت سے مسائل متفرع ہوتے ہیں۔
(۱) اسی قاعدے کی بنیاد پر یہ مسئلہ ہے کہ عصمت نفوس واموال و اعراض صرف انھی مسلمانوں کو حاصل ہے جو دارالاسلام کی حفاظت میں ہوں۔ ان کے سوا دوسرے مسلمانوں کی عصمت محض دینی عصمت ہے، عصمت مقومہ نہیں ہے جس کی بنا پر قضا شرعی لازم آتی ہے کما قال السرخسی فی کتابہ المبسوط اَلْعِصْمُۃ الْمُقَوَّمَۃُ تَکُونُ اِلاْحْرَازِ{ FR 2498 } وَالْعِصْمَۃُ بِالْاحْرَازِ والٔاِحْرَازُ بِالدَّارِ لَابالدِّیْنِ۔{ FR 2499 }
(۲) اسی قاعدے سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ اسلامی قانون جن افعال کو حرام قرار دیتا ہے ان سے دارالاسلام کے مسلمان دیناً و قضائً دونوں حیثیتوں سے روکے جائیں گے، مگر جو مسلمان دارالاسلام میں نہیں ہیں ان کا معاملہ ان کے اور خدا کے درمیان ہے، دین کا احترام دل میں ہو تو باز رہیں اور نہ ہو تو جو چاہیں کریں، اس لیے کہ اسلام کو ان پر نفاذِ احکام کا اقتدار حاصل نہیں ہے۔
(۳) یہی قاعدہ اس مسئلے کا ماخذ بھی ہے کہ جو نفوس و اموال دارالاسلام کی حفاظت میں ہوں وہ سب معصوم ہیں اس لیے ان پر حق شرعی کے سوا کسی دوسرے طریقے سے تعدی کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی۔ اس بارے میں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کوئی امتیاز نہیں۔ تعدی کرنے سے ہر اس شخص کو روکا جائے گا جو احکام اسلام کا تابع ہو چکا ہو عام اس سے کہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم‘ اور ہر اُس شخص کی جان و مال کی حفاظت کی جائے گی جو دارالاسلام کی حفاظت میں ہو خواہ مسلمان ہو یا کافر۔
لِأَنَّ الدِّیْنَ مَانِعٌ لِمَنْ یَعْتَقِدُہٗ حَقًا لِلشَّرْعِ دُوْنَ مَنْ لَا یَعْتَقِدُہٗ وَبِقُوَّۃِ الدَّارِیَمْنَعُ عَنْ مَالِہِ مَنْ یَعْتَقِدُ حُرْمَتَہٗ وَمَنْ لَمْ یَعْتَقِدُہٗ۔{ FR 2500 }
اسی بنا پر دارالاسلام میں کوئی مسلمان مسلمان سے اور کوئی مسلمان ذمی سے اور کوئی ذمی مسلمان سے اور کوئی ذمی ذمی سے اور کوئی حربی مستا ٔمن دوسرے مستا ٔمن سے سود پر یا عقود فاسدہ میں سے کسی عقد فاسدہ پر معاملہ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ سب کے اموال سب کے لیے معصوم ہیں اور ان کو صرف انھی طریقوں سے لیا جا سکتا ہے جو اسلامی قانون میں جائز ہیں۔
فَإِنْ دَخَلَ تُجُارُّ أَھْلِ الْحَربٍ دَارَ الْاِسْلَامِ بِأَمَانٍ فَاسْتَرٰی أَحَدُھُمْ مِنْ صَاحِبِہِ دِرْھَمًا بِدَرْھَمَیْنِ لَمْ أَجِرْ ذَالِکَ إِلاَّ مَا أجِیْزُہٗ بَیْنَ أَھْلِ الْاِسْلَامِ وَ کَذَالِکَ أَھْلُ الذَّمَۃِ إِفَعَلُوا ذَالِکَ لِأَنَّ مَالَ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْھُمْ مَعْصُوْمٌ مُتَقَوِّمٌ۔ { FR 2501 }
اسی طرح اگر دارالکفر سے کوئی کافر دارالاسلام میں آئے یا دارالحرب سے کوئی حربی کافر امان لے کر اسلامی ملک میں داخل ہو تو اس سے بھی سود لینا یا عقود فاسدہ پر معاملہ کرنا جائز نہیں کیونکہ حکومت اسلامی کی امان نے اس کو معصوم الدم و مال کر دیا ہے اور حکومت اسلامی کی امان کا احترام اس کی تمام رعایا پر واجب ہے۔ البتہ اگر کوئی حربی بغیر امان لیے دارالاسلام میں آ جائے تو اس کو پکڑنا، لوٹنا، مارنا اور اس سے عقود فاسدہ پر معاملہ کرنا سب کچھ امام ابوحنیفہؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک جائز ہے، کیونکہ وہ مباح الدَّم و مال ہے لیکن امام ابویوسفؒ اس سے بھی عقود فاسدہ پر معاملہ کرنے کو جائز نہیں رکھتے۔ (اس پر تفصیلی بحث آگے آتی ہے)
۲۔ مستا ٔمن مسلمان دارالکفر اور دارالحرب میں
دارالاسلام کی رعایا سے جو شخص عارضی طور پر دارالکفر یا دارالحرب میں امان لے کر جائے اس کو اسلامی اصطلاح میں ’’مستامن‘‘ کہتے ہیں، یہ شخص اگرچہ اسلامی حکومت کے حدود قضا (Jurisdiction) سے باہر ہو جانے کی بنا پر ہمارے قانونِ ملکی کی گرفت سے آزاد ہو جاتا ہے، مگر پھر بھی اس کو ایک حد تک اسلامی حکومت کا تحفظ حاصل رہتا ہے اور التزامِ احکام اسلامی کی ذمہ داری اس پر سے بالکل ساقط نہیں ہو جاتی۔ ہدایہ میں ہے:
اَلْعِصْمَۃُ الثَّابِتَۃُ بِالإِحْرَازِ بِدَارِ الْإِسْلَامِ لَاتُبْطَلُ بِعَارضِ الدُّخُوْلِ بِالْأَمَانِ۔{ FR 2502 }
دارالاسلام کی حفاظت سے جو عصمت ہوتی ہے وہ عارضی طور پر امان لے کر داخل ہونے سے باطل نہیں ہو جاتی۔
اس قاعدے پر حسب ذیل مسائل متفرع ہوتے ہیں:
(۱) جس دارالکفر سے دارالاسلام کا معاہدہ ہو، وہاں مستامن مسلمان کے لیے عقود فاسدہ پر معاملہ کرنا جائز نہ ہوگا۔ اس لیے کہ وہاں کے کفار مباح الدم و الاموال ہی نہیں ہیں، اور جب عقود فاسدہ کے جواز کی بنا اِباحت پر رکھی گئی ہے تو اباحت کے مرتفع ہونے سے وہ چیز آپ سے آپ مرتفع ہو جاتی ہے جو اس پر مبنی ہے۔
(۲) اگر کوئی مستا ٔمن مسلمان ایسے دارالکفر میں عقود فاسدہ پر معاملہ کرے یا بدعہدی یا غصب اور سرقہ سے کوئی چیز لے کر آ جائے تو اسلامی حکومت اس پر نہ کوئی مقدمہ قائم کرے گی اور نہ اس پر کوئی ضمان لازم{ FR 2344 } ہوگا۔ البتہ دینی حیثیت سے اس کو ان تمام افعال سے رجوع کا مشورہ دیا جائے گا جو اس نے شریعت کے خلاف کیے ہیں:
(۳) عقود فاسدہ کو مستثنیٰ کرکے باقی تمام معاملات میں اس مستامن کے لیے بھی حنفی فقہ کے یہی احکام ہیں جو ’’دارالحرب‘‘ میں امان لے کر داخل ہوا ہو۔
لَوْدَخَلَ إِلَیْھِمْ تَاجِرٌ بِأَمَانٍ فَسَرَقَ مِنْھُمْ جَارِیَۃً وَأَخْرَجَھَا۔۔۔ فُھُوَا مَأْمُورٌ بِرَدِھَا عَلَیْھِمْ فِیْمَا بَیْنَہٗ وَبَیْنَ رَبِّہٖ وَإِنْ کَانَ لَا یُجْبِرُہٗ الْإِمَامُ عَلیٰ ذَالِکَ۔{ FR 2503 }
اگر کوئی تاجر دارالحرب میں امان لے کر جائے اور ان کے ہاں سے کوئی لونڈی چرا لائے … تو فیما بینہ و بین اللّٰہ وہ اسے واپس کرنے پر مامور ہے اگرچہ امام اس کو ایسا کرنے پر مجبور نہ کرے گا۔
وَإِذَا دَخَلَ الْمُسْلِمُ دَارَالْحَرْبِ بِأمَانٍ فَدَایَنَھُمْ أَوْدَایَنُوہٗ أَوْغَصَبَھُمْ أَوْ غَصَبُوہٗ لَمْ یُحْکُمْ فِیْمَا بَیْنَھبمْ بِذَالِکَ۔۔۔ وَإِنَّمَا ضَمِنَ الْمُسْتَأْمِنُ لَھُمْ أَنْ لَا یَخُوْ نَھُمْ وَإِنَّمَا غَدَرَ بِأَمَانِ نَفْسِہِ دُوْنَ الْإِمَامِ فَیُفْتٰی بِالرَّدِ وَلَایُجَبَرُ عَلَیْہِ فِی الْحُکْمِ۔{ FR 2504 }
اگر مسلمان دارالحرب میں امان لے کر داخل ہو اور ان سے قرض لے یا وہ اس سے قرض لیں یا وہ ان کا مال غصب کر لے یا وہ اس کا مال غصب کر لیں تو ان کے درمیان دارالاسلام میں کوئی فیصلہ نہ کیا جائے گا …مستا ٔمن نے بطور خود ان سے خیانت نہ کرنے کا ذمہ لیا تھا، اور اب جو اس نے غدر کیا تو یہ امام کے معاہدے میں نہیں بلکہ خود اپنے ذاتی معاہدے میں غدر کیا ہے اس لیے اس کو واپس کرنے کا فتویٰ دیا جائے گا مگر حکماً اس پر مجبور نہ کیا جائے گا۔
(امام ابویوسفؒ کو اس سے اختلاف ہے کیونکہ وہ مسلمان کو ہر جگہ ملتزم احکامِ اسلام قرار دیتے ہیں۔)
اگر کوئی مستا ٔمن مسلمان دارالحرب میں کسی کو قتل کر دے یا اس کے مال کو نقصان پہنچائے تو دارالاسلام میں اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے گی، البتہ اس کے دین کے لحاظ سے ایسا کرنا اس کے لیے ناجائز ہے۔ (وَأَکْرَہُ لِمْمُسلِمِ الْمُسْتَأَمِنِ إِلَیْھِمْ فِی دِیْنِہِ أَنْ یَغْدِرَ رَبَّھُمْ لِأَنَّ الْغَدْرَ حَرَامٌ۔){ FR 2505 }
اگر مستا ٔمن مسلمان دارالحرب سے غصب کرکے یا چرا کر کوئی مال لے آئے تو مسلمان کے لیے اس کو خریدنا مکروہ ہے لیکن اگر وہ خرید لے تو یہ بیع ردّ نہ کی جائے گی کیونکہ قانوناً نفس بیع و شرا میں کوئی نقص نہیں ہے، البتہ اصلاً چونکہ یہ مال غدر ہے اس لیے وہ مسلمان اپنے دین کے لحاظ سے اس کو واپس کرنے پر مامور ہے۔ (وَالنَّھْیُ عَنِ الشِّرائِ مِنْہٗ لَیْسَ لِمَعَنیً عَیْنَ الشِّرَائِ فَلَایُمْنَعُ جَوَازُہٗ۔۔۔ وَھٰھُنَا الْکَرَاھَۃُ لِمَعْنیَ الْغَدْرِ وَکَانَ مَأَمُوراً بِرَدِّھَا عَلَیْھِمْ دِینًا۔{ FR 2506 }
(۴) مستامن مسلمان ’’دارالحرب‘‘ میں اہل حرب سے سود لے سکتا ہے، جوا کھیل سکتا ہے خمر اور خنزیر اور مردار ان کے ہاتھ بیچ سکتا ہے اور تمام ان طریقوں سے ان کا مال لے سکتا ہے جن پر خود اہل حرب راضی ہوں۔ یہ امام ابوحنیفہؒ اور امام محمدؒ کا مذہب ہے۔ امام ابویوسفؒ اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ فریقین کے دلائل جو امام سرخسیؒ نے نقل کیے ہیں لائق غور ہیں:
’’مستا ٔمن کے لیے اہل حرب سے سود پر نقد یا قرض معاملہ کرنا یا خمر یا خنزیر اور مردار ان کے ہاتھ فروخت کرنا، ابوحنیفہ اور محمد رحمہما اللہ کے نزدیک جائز ہے، مگر ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک ناجائز ہے۔ امام ابویوسف کا استدلال یہ ہے کہ مسلمان ملتزم احکام اسلام ہے خواہ کہیں ہو اور اس نوع کے معاملے کی حرمت اسلام کے احکام میں سے ہے، کیا نہیں دیکھتے کہ حربی مستأمن سے ہمارے دار میں ایسا معاملے کیا جائے تو جائز نہ ہوگا، پس جب یہاں یہ ناجائز ہے تو دارالحرب میں بھی ناجائز ہونا چاہیے۔ اس کے جواب میں مقدم الذکر دونوں امام فرماتے ہیں کہ یہ تو دشمن کے مال کو اس کی مرضی سے لینا ہے اور اس کی اصل یہ ہے کہ ان کے اموال ہمارے لیے مباح ہیں۔ مستأمن نے ذمہ داری صرف اس قدر لی تھی کہ ان سے خیانت نہ کرے گا مگر جب اس نے ان عقود کے ذریعے سے اس کی رضا کے ساتھ یہ مال لیا تو غدر سے تو یوں بچ گیا اور حرمت سے اس طرح بچا کہ یہ مال اس نے عقد کے اعتبار سے نہیں بلکہ اباحت کی بنا پر لیا ہے ۔ رہا دارالاسلام میں حربی مستأمن کا معاملہ تو وہ اس سے مختلف ہے کیونکہ اس کا مال امان کی وجہ سے معصوم ہوگیا ہے۔ اس لیے اباحت کی بنا پر اس کو نہیں لیا جا سکتا۔‘‘ { FR 2507 }
امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ جب مسلمانوں کے لیے اہل حرب کے اموال کو لوٹنا اور چھین لینا حلال ہے تو ان کی مرضی سے لینا بدرجہ اولیٰ حلال ہونا چاہیے۔ مطلب یہ ہے کہ لشکر اسلام کے حدود سے باہر ان کے لیے کوئی امان نہیں ہے، مسلمانوں کے لیے ہر ممکن طریقے سے ان کا مال لینا جائز ہے۔‘‘{ FR 2508 }
’’امام ابویوسفؒ فرماتے ہیں کہ مسلمان چونکہ اہل دارالاسلام میں سے ہے اس لیے وہ حکم اسلام کی بنا پر ہر جگہ ربوٰ سے ممنوع ہے۔ اس کے فعل کی یہ توجیہہ درست نہیں کہ وہ کافر کے مال کو بطیب نفس لے رہا ہے، بلکہ وہ اس کو دراصل اس خاص صورت معاملے کی بنا پر لیتا ہے، کیونکہ اگر وہ خاص صورت معاملہ (یعنی عقد فاسد) نہ ہو تو کافر اس کو کسی دوسری صورت سے اپنا مال دینے پر راضی نہ ہوگا … اگر دارالحرب میں ایسا کرنا جائز ہو تو مسلمانوں کے دارالاسلام میں بھی اس طرح کا معاملہ جائز ہوگا کہ ایک شخص ایک درہم کے بدلے دو درہم لے اور دوسرے درہم کو ہبہ کے نام سے موسوم کر دے۔‘‘ { FR 2509 }
ہمارا مقصود دونوں اقوال میں محاکمہ کرنا نہیں ہے۔ ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ خود امام ابوحنیفہؒ کے مذکورہ بالا اقوال سے اور ان کے مذہب کے دوسرے مسائل سے جو ہم پہلے نقل کر چکے ہیں چار باتیں صاف طور پر ثابت ہوتی ہیں۔
اولاً: یہ معاملہ صرف اس مسلمان کے لیے جائز ہے جو دارالاسلام کی رعایا ہو اور امان لے کر دارالحرب میں جائے۔
ثانیاً: یہ معاملہ صرف ان حربی کافروں سے کیا جا سکتا ہے جن کے نفوس و اموال مباح ہیں۔
ثالثاً :اس طریقے سے جو مال لیا جائے گا وہ غنیمت نہ ہوگا۔ اس لیے کہ نہ تو وہ اشرف الجہات سے ہے، نہ اس میں دین کا اعزاز ہے، نہ اس میں خمس ہے، بلکہ وہ مجرد اکتساب مال ہے د اسی طرح وہ فَے بھی نہیں ہے کیونکہ فَے حکومت اسلام کی مِلک ہوتی ہے اور یہ مال وہ شخص خود لیتا ہے، بیت المال میں داخل نہیں کرتا۔
رابعاً :اس طریقے سے کفار کا مال لینا صرف جواز قانونی کے درجے میں ہے، بلکہ جواز کی آخری حد پر ہے اور اس کی قانونی حیثیت صرف اتنی ہے کہ اگر مسلمان ایسا کرے گا تو امام صاحب کی رائے میں دیناً بھی اس کو یہ مال واپس کرنے کا فتویٰ نہ دیا جائے گا، بخلاف مال غدر کے کہ اگرچہ قضائً اسے واپسی پر مجبور نہ کیا جائے گا مگر دیناً اس کو واپس کر دینے کا حکم دیا جائے گا۔
خامساً: مستا ٔمن مسلمان جس طرح دارالحرب کے کافروں سے عقود فاسدہ پر معاملہ کر سکتا ہے اسی طرح وہ وہاں کے مسلمان باشندوں سے بھی ایسا کرنے کا مجاز ہے، کیونکہ ان کے اموال بھی مباح ہیں۔ اس کے حوالے ہم اس سے پہلے درج کر چکے ہیں اور آگے بھی یہ بحث آ رہی ہے۔
۳۔ دارالکفر اور دارالحرب کی مسلم رعایا
وہ مسلمان جو دارالکفر میں رہیں اور دارالاسلام کی طرف ہجرت نہ کریں اسلام کی حفاظت سے خارج ہیں۔ اگرچہ اسلام کے تمام احکام اور حدودِ حلال و حرام کی پیروی مذہباً اُن پر لازم ہے، لیکن اسلام ان کی ذمہ داری سے بری ہے۔ جیسا کہ خود نبیa نے فرما دیا ہے۔ غنیمت اور فَے میں ان کا سرے سے کوئی حصہ ہی نہیں جیسا کہ بصراحت حدیث میں مذکور ہے اور دنیوی حیثیت سے ان کے نفوس اموال غیر معصوم ہیں، کیونکہ عصمت ’مقوّمہ ان کو حاصل نہیں۔
اگر ایسے مسلمان ’’حربی‘‘ قوم سے ہوں تو گویا مباح الدَّم و الاموال ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے قاتل پر قصاص کیا معنی دیت بھی نہیں ہے بلکہ بعض حالات میں کفارہ تک نہیں۔ اس باب میں فقہا کے چند اقوال ہم بے کم و کاست نقل کر دیتے ہیں جن سے دارالحرب کی مسلمان رعیت کا قانونی مقام آپ کو خود ہی معلوم ہو جائے گا۔
لَا قِیْمَۃَ لِدَمِ الْمُقِیْمِ فِی دَارالْحَرْبِ بَعْدَ إِسْلَامِہِ قَبْلَ الْھِجْرَۃِ إِلَیْنَا۔۔۔ أَجْرَوْہُ أَصْحَابُنَا مُجْرَی الْحَرَبِیّ فِی إِسْقَاطِ الضَّمَانِ عَنْ مُتْلِفِ مَالِہِ۔۔۔ کَمَالِ الْحَرْبِیّ مِنْ ھٰذَا الْوَجْہِ وَلِذَالِکَ أَجَازَأبُوْ حَنِیْفَۃُ مُبَایَعَتَہُ عَلَی سَبِیْلِ مَایَجُوُز مُبَایَعَۃَ الْحَرْبِیِّ مِنَ بَیْعِ الدِّرْھَمِ بِالدِّرْ ھَمَیْنِ فِی دَارِ الْحَربِ۔{ FR 2510 }
جو شخص مسلمان ہونے کے بعد ہجرت نہ کرے اور دارالحرب میں مقیم رہے اس کے خون کی کوئی قیمت نہیں … ہمارے اصحاب نے اس کو حربی کے درجے میں قرار دیا ہے اس حیثیت سے کہ اس کے مال کو نقصان پہنچانے والے پر کوئی ضمان نہیں … اس کا مال اس لحاظ سے حربی کے مال کی طرح ہے۔ اسی لیے ابوحنیفہؒ نے اس کے ساتھ بھی خریدوفروخت کی وہ صورت جائز رکھی ہے جو حربی کے ساتھ جائز رکھی ہے، یعنی دارالحرب میں ایک درہم کو دو درہم کے عوض بیچنا، یعنی سود۔
مَنْ فِی دَارِ الْحَرْبِ فِی حَقّ مَنْ ھُوَ فِی دَارِ الإِسْلَامِ کَاْلْمَیِتِ۔{ FR 2511 }
جو شخص دارالحرب میں ہے وہ دارالاسلام والے کے لیے گویا مردہ ہے۔
إِنْ تَتْرُسُوا بِأَطْفَالِ الْمُسْلِمِیْنَ فَلَا بَأسَ بِالرَّمْیِ إِلَیْھِمْ وَإِنْ کَانَ الرَّامِی یَعْلَمُ أَنَّہُ یُصُیْبُ الْمُسْلِمَ۔۔۔ وَلَا کَفَّارَۃَ عَلَیْہِ وَلَادِیَۃً۔{ FR 2512 }
اگر اہل حرب مسلمانوں کے بچوں کو ڈھال بنائیں تو ان پر نشانہ لگانے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ نشانہ لگانے والا جانتا ہو کہ مسلمان کو نشانہ بنا رہا ہے … اس پر نہ دیت ہے نہ کفارہ۔
وَاِذَ اَسْلَمَ الْحَرْبِیُّ فِی دَارِ الْحَرْبِ ثُمَّ ظَھَرَ الْمُسْلِمُونَ عَلَی تِلْکَ الدَّارِ تُرِکَ لَہُ مَا فِی یَدَیْہِ مِنْ مَالِہِ وَرَقِیْقِہِ وَوَلَدِہِ الصّغَار۔۔۔ فَأَمَّا عِقَارُہُ فَانَّھَا تَصِیْرُ غَنِیْمَۃً لِلْمُسْلِمِیْنَ فِی قَوْلِ أَبِ حَنِیْفَۃَ وَمُحَمَّدٍ وَقَالَ أَبُویُوْسُفُ أَسْتَحْسِنُ فَأَجْعَلُ عِقَارَہُ لَہُ۔{ FR 2513 }
اگر حربی دارالحرب میں مسلمان ہو پھر اس دار پر مسلمان فتح پائیں تو اس کا مال اور اس کے غلام اور اس کے نابالغ بچے چھوڑ دیئے جائیں گے … مگر اس کی غیر منقولہ جائیداد مسلمانوں کے لیے غنیمت قرار دی جائے گی۔ یہ ابوحنیفہؒ اور محمدؒ کا قول ہے۔ ابویوسفؒ کہتے ہیں کہ میں احسان کے طور پر غیر منقولہ جائیداد بھی اس کے پاس رہنے دوں گا۔
وَأکْرَہُ لِلرَّجُلِ أَنْ یَطَأَ أَمَتَہُ أَوْإِمْرأَتَہُ فِی دَارِ الْحَرْبِ مَخَافَۃً أَنْ یَکُونَ لَہُ فِیْھَا نَسْلٌ لِأَنَّہُ مَمْنُوْعٌ مِنَ التَّوَطَّنِ فِی دَارِ الْحَربِ۔۔۔ وَإِذَا خَرَجَ رُبَّمَا یَبْقٰی لَہُ نَسْلٌ فَیَتَخَلَّقُ وَلَدُہُ بِأَخْلَاقِ الْمُشْرِکِیْنَ۔{ FR 2514 }
امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ میں ایک شخص کے لیے اس کو بھی مکروہ سمجھتا ہوں کہ وہ دارالحرب میں اپنی لونڈی یا بیوی سے مباشرت کرے ، خوف ہے کہ کہیں وہاں اس کی نسل نہ پیدا ہو کیونکہ مسلمانوں کے لیے دارالحرب کو وطن بنانا ممنوع ہے … اور اس لیے کہ اگر وہ وہاں سے نکل آیا اور اپنی نسل وہاں چھوڑ آیا تو اس کی اولاد مشرکین کے اخلاق اختیار کرے گی۔
آخری بات جو اس سلسلے میں ڈرتے ڈرتے ہم بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ امام اعظمؒ کی رائے میں دارالحرب کے مسلمان باشندوں کے لیے ایک دوسرے سے سود کھانا مکروہ ہے، لیکن اگر وہ ایسا معاملہ کریں تو اس کو ردّ نہ کیا جائے گا۔ اس رائے سے امام محمدؒ نے بھی اختلاف کیا ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ ان دونوں مسلمانوں کا مال معصوم عن التملک بالاخذ{ FR 2345 } ہے، جب مسلمان اس ملک پر فتح پانے کی صورت میں ان کے مال کو غنیمت قرار نہیں دے سکتے تو ان دونوں کو ایک دوسرے کا مال غنیمت کے طور پر لینے کا کیا حق ہے‘ لیکن امام ابوحنیفہؒ نے اپنی رائے کی تائید میں جو قانونی استدلال کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف قانونی حیثیات کے پیچیدہ اور نازک فروق کو سمجھنے میں امام صاحب کا تفقہ کس قدر بڑھا ہوا تھا۔ ہم اس بیان کو لفظ بلفظ نقل کرتے ہیں کیونکہ اس سے اصول قانون کے ایک اہم مسئلے پر روشنی پڑتی ہے۔ فرماتے ہیں:
بِألإِسْلاَمِ قَبْلَ الإِحَرَازِ تَثْبُتُ الْعِصْمَۃُ فِی حَقِّ الْاِمَامِ دُوْنَ الْأَ احْکَامِ الَٔاَتَرَیَ أَنَّ أَحَدَھُمَا لَوْأَتْلَفَ مَالَ صَاحِبِہٖ أَوْ نَفْسِہٖ یَضْمَنْ وَھُوَ اٰثِمٌ فِی ذَالِکَ وَإِنَّمَا تَثْبُتُ الْعِصْمَۃَ فِی حَقِّ الْأَحْکَامِ بِالإِحْرَازِ وَالْإِحْرَازِ بِالدَّار لَا بِالدِّیْن لِأَنَّ الّدِیْنَ مَانِعٌ لِمَنْ یَعْتَقِدُہُ حُقًّا لِشَّرْعِ دُوْنَ مَنْ لَا یَعْتَقِدُہُ وَبِقُوَّۃِ الدَّار یَمْنَعُ عَنْ مَالِہٖ مَنْ یَعْتَقِدُ حُرْمَتَہُ وَمَنْ لَمْ یَعْتَقِدُہُ فَلِثَبُوتِ الْعِصْمَۃِ فِی حَقِّ الْآثِمِ قُلْنَا یُکْرَہُ لَھُمَا ھٰذَا الصَّنْیِع وَلِعَدَمِ الْعِصْمَۃِ فِی حَقُ الْحُکْم قُلْنَا لَایُؤْمُرأَنْ یَرُدَّمَا أَخَذَہُ لِأَنَّ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْھُمَا إِنَّمَا یَمْلِکُ مَالَ صَاحِبِہِ بِاْلْأَخِذِ۔{ FR 2515 }
(المبسوط ج ۱۴ ص ۵۸)
دارالاسلام کی حفاظت میں آنے سے پہلے محض اسلام سے جو عصمت ثابت ہوتی ہے وہ صرف امام کے حق میں ہے مگر احکام میں نہیں ہے۔ دیکھتے نہیں ہو اگر ان دونوں مسلمانوں میں سے ایک شخص دوسرے کا مال یا جان تلف کر دے تو اس پر ضمان نہ ہوگا حالانکہ وہ ایسا کرنے میں گناہ گار ہوگا۔ بات دراصل یہ ہے کہ احکام میں عصمت صرف حدود دارالاسلام کے اندر ہونے سے ثابت ہوتی ہے اور یہ حفاظت دار کے سبب سے ہے نہ کہ دین کے سبب سے۔ دین تو حق شرع کے لحاظ سے صرف ان لوگوں کو روکتا ہے جو اس پر اعتقاد رکھتے ہوں اور ان کو نہیں روکتا جو اسے نہ مانتے ہوں۔ بخلاف اس کے دار کی قوت سے آدمی کے مال کی حفاظت اس کے مقابلے میں بھی کی جاتی ہے جو اس کی حرمت کا اعتقاد رکھتا ہے اور اس کے مقابلے میں بھی جو ایسا اعتقاد نہیں رکھتا۔ پس گناہ ہونے کی حیثیت سے جو عصمت ثابت ہے، اس کی بنا پر ہم نے کہا کہ ان کے لیے یہ فعل مکروہ ہے اور قانون کے لحاظ سے عدمِ عصمت کی بنا پر ہم نے یہ کہا کہ اس کا لیا ہوا مال واپس کرنے کا حکم نہ دیا جائے گا۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مال جب لیتا ہے تو محض لے لینے ہی کی وجہ سے اس کا مالک ہو جاتا ہے۔
یہاں امام صاحب نے اسلامی قانون کے تینوں شعبوں کی طرف اشارات کر دیے ہیں۔ اعتقادی قانون کے لحاظ سے مسلمان کا مال بلا لحاظ اس کے کہ وہ دارالاسلام میں ہو یا دارالکفر میں یا دارالحرب میں بہر حال معصوم ہے اور اس عصمت کا مآل یہ ہے کہ اس کی بنا پر خدا کے مقرر کیے ہوئے طریق کے خلاف لینے والا گناہ گار ہوگا۔ دستوری قانون کے لحاظ سے دارالاسلام میں رہنے والے کافر کے مال کو جو عصمت حاصل ہے وہ دارالکفر میں رہنے والے مسلمان کو حاصل نہیں اس لیے اگر دارالکفر کا کوئی دوسرا مسلمان اس کو حرام طریقے سے لے لے تو خدا کے ہاں گناہ گار ہوگا مگر دنیا میں اس پر اسلامی حکم جاری نہ ہوگا۔ تعلقات خارجیہ کے قانون کی نگاہ میں کفار کے درمیان رہنے والا مسلمان اپنے تمدنی حقوق اور واجبات کے لحاظ سے انھی کافروں کا شریک حال ہے اس لیے وہ بھی اسی طرح نفس اخذ سے مال کا مالک ہوتا ہے جس طرح خود کفار مالک ہوتے ہیں۔ پس اگر اس بنیاد پر دارالکفر میں مسلمان مسلمان سے سود کھائیں یا مسلمان کافر سے اور کافر مسلمان سے سود کھائیں تو وہ ان اموال کے مالک تو ہو جائیں گے اور ان کو واپس کرنے کا حکم بھی نہ دیا جائے گا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سود کھانے اور کھلانے والے مسلمان گناہ گار نہ ہوں گے۔
٭…٭…٭
قولِ فیصل
یہاں تک ہم نے قانون اسلامی کی جو تفصیلات درج کی ہیں ان سے جناب مولانا مناظر احسن صاحب کے استدلال کی پوری بنیاد منہدم ہو جاتی ہے۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ:
(۱) تمام غیر ذمی کافر مباح الدم و الاموال نہیں ہیں بلکہ اباحت صرف ان کافروں کے خون اور مال کی ہے جو برسر جنگ ہوں۔ لہٰذا اگر سود لینا اور عقود فاسدہ پر معاملہ کرنا جائز ہے تو صرف برسر جنگ کافروں کے ساتھ ہے اور ایسا کرنے کا حق صرف ان مسلمانوں کو پہنچتا ہے جو دارالاسلام کی رعیت ہوں، جن کے سردار نے کسی دارالکفر کو دارالحرب قرار دیا ہو اور جو دارالحرب میں امان لے کر تجارت وغیرہ کی اغراض کے لیے داخل ہوئے ہوں۔
(۲) دارالکفر اول تو ہر حال میں دارالحرب نہیں ہوتا اور اگر اعتقادی کے لحاظ سے وہ دارالحرب سمجھا جائے تو اس کے مدارج مختلف ہیں اور ہر درجے کے احکام الگ الگ ہیں۔ ایک ہی معنی میں تمام غیر اسلامی مقبوضات کو دارالحرب سمجھنا اور ان میں علی الدوام وہ احکام جاری کرنا جو خاص حالت جنگ کے لیے ہیں‘ قانون اسلامی کی اسپرٹ ہی کے نہیں بلکہ صریح ہدایات کے بھی خلاف ہے اور اس کے نتائج نہایت خطرناک ہیں۔ اباحت نفوس و اموال کی بنا پر جو جزئیات متفرع ہوتے ہیں وہ صرف اسی زمانے تک نافذ رہ سکتے ہیں جب تک کسی دارالکفر کے ساتھ حالت جنگ قائم رہے۔ پھر ان تمام احکام کا تعلق خود دارالحرب کی مسلمان رعایا سے نہیں ہے بلکہ اس دارالاسلام کی رعایا سے ہے جو اس دارالحرب کے ساتھ برسر جنگ ہو۔
(۳) ہندوستان{ FR 2347 } عام معنی میں اس وقت سے دارالکفر ہوگیا ہے جب سے مسلم حکومت کا یہاں استیصال ہوا۔ جس زمانے میں شاہ عبدالعزیز صاحب نے جواز سود کا فتویٰ دیا تھا، اس زمانے میں واقعی یہ مسلمانانِ ہند کے لیے دارالحرب تھا، اس لیے کہ انگریزی قوم مسلمانوں کی حکومت کو مٹانے کے لیے جنگ کر رہی تھی۔ جب اس کا استیلا مکمل ہوگیا اور مسلمانانِ ہند نے اس کی غلامی قبول کر لی تو یہ ان کے لیے دارالحرب نہیں رہا۔ ایک وقت میں یہ افغانستان کے مسلمانوں کے لیے دارالحرب تھا۔ ایک زمانے میں ترکوں کے لیے دارالحرب ہوا۔ مگر اب یہ تمام مسلمان حکومتوں کے لیے دارالصلح ہے۔ لہٰذا مسلمان حکومتوں کی رعایا میں سے کوئی شخص یہاں سود کھانے اور عقود فاسدہ پر معاملہ کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ البتہ سرحد کے بعض آزاد قبائل اس کو اپنے لیے دارالحرب سمجھ سکتے ہیں اور اگر وہ یہاں عقود فاسدہ پر معاملات کریں تو حنفی قانون کی رُو سے ان کے فعل کو جائز کہا جا سکتا ہے‘ لیکن یہ جواز محض قانونی جواز ہے۔ خدا کی نظر میں وہ مسلمان ہرگز مقبول نہیں ہو سکتا جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا ہو اور پھر سود خواری سے، مے فروشی سے، قمار بازی سے، سور کے گوشت اور مردار چیزوں کی تجارت سے اسلام کو غیر قوموں کے سامنے خوار بھی کرتا پھرے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص اپنے قرض دار بھائی کو گرفتار کرائے اور سولی جیل بھجوا دے‘ درآں حالیکہ اسے معلوم ہے کہ اس کے قبضے میں درحقیقت کچھ نہیں ہے اور اس کے بچے بھوکوں مر جائیں گے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ قرض خواہ کو ایسا کرنے کا حق ہے اور جو کچھ وہ کر رہا ہے قانونی جواز کی حد میں کر رہا ہے۔ مگر اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ یہ قانونی جواز کی بالکل آخری سرحد ہے اور جو انسان قانون کی آخری سرحدوں پر رہتا ہے وہ بسا اوقات جانوروں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔
(۴) ہندوستانی مسلمانوں کی حیثیت ہرگز وہ نہیں ہے جس کے لیے فقہی زبان میں ’’مستأمن‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مستامن کے لیے پہلی شرط دارالاسلام کی رعایا ہونا ہے اور دوسری شرط یہ ہے کہ دارالحرب میں اس کا قیام ایک قلیل مدت کے لیے ہو۔ حنفی قانون میں حربی مستأمن کے لیے دارالاسلام کے اندر رہنے کی زیادہ سے زیادہ مدت ایک سال یا اس سے کچھ زیادہ رکھی گئی ہے۔ اس کے بعد وہ قانون تبدیلِ جنسیت (law of naturalisation) کی رُو سے اس کو ذِمّی بنا لیتا ہے۔ اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان مستامن کے لیے دارالحرب میں قیام کرنے کی مدت سال دو سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ اسلامی شریعت جو مسلمانوں کو دارالاسلام میں سمیٹنے اور کافروں کو ذمی بنانے کے لیے سب سے زیادہ حریص ہے، کبھی اس کی اجازت نہیں دیتی کہ کوئی شخص دارالحرب کو اپنا وطن بنا لے اور وہاں نسلوں پر نسلیں پیدا کرتا رہے اور اس حیثیت میں زندگی بسر کرتا چلا جائے جو مستأمن کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ پھر جب یہ ایک شخص کے حق میں جائز نہیں تو کروڑوں مسلمانوں کی عظیم الشان آبادی کے لیے کب جائز ہو سکتا ہے کہ قرنوں تک ’’مستامن‘‘ کی سی زندگی بسر کرے اور ایک طرف ان اباحتوں سے فائدہ اٹھاتی رہے جو حالت ’’اِستیمان‘‘ کے لیے عارضی طور پر منتشر افراد کو محض جنگی ضروریات کے لیے دی گئی تھیں اور دوسری طرف وہ تمام قیود اپنے اوپر عائد کر لے جو مستأمن کو عارضی طور پر اسلامی قانون کی پابندی سے آزاد کرکے کفار کے قوانین کا پابند بناتی ہیں۔
(۵) مسلمانانِ ہند کی صحیح قانونی پوزیشن یہ ہے کہ وہ ایک ایسی قوم ہیں جن پر کفار مستولی ہوگئے ہیں۔ اُن کا دار جو کبھی دارالاسلام تھا، اب دارالکفربن گیا ہے مگر دارالاسلام کے کچھ آثار ابھی باقی ہیں … اُن کا فرض یہ ہے کہ یا تو کسی دارالاسلام میں منتقل ہو جائیں یا اگر اس پر قادر نہیں ہیں تو اس ملک میں جو اسلامی آثار باقی ہیں ان کی سختی کے ساتھ حفاظت کریں اور جتنی تدابیر ممکن ہوں وہ سب اسے دوبارہ دارالاسلام بنانے میں صرف کرتے رہیں۔ احکام کفر کے تحت جو زندگی وہ بسر کر رہے ہیں‘ اس کا ہر سانس ایک گناہ ہے … اب کیا باقی ماندہ آثار اسلامی کو بھی مٹا کر اس گناہ میں مزید اضافہ کرنا منظور ہے؟
ترجمان القرآن، رمضان۱۹۵۵ھ،ذی القعدہ ۱۹۵۵ھ،دسمبر ۱۹۳۶ء،فروری ۱۹۳۷ء
٭…٭…٭
مصادر ومراجع (Bibliography)
(1) ابن اثیر،النھایۃ فی غریب الأثر،بیروت، المکتبۃ العلمیۃ،1979م
(2) احمد بن حنبل(164-241 ھ)،مسنداحمد،دار احیاء التراث الاسلامی،بیروت، 1993م
(3) الافریقی،محمد بن مکرم، جمال الدین، لسان العرب، بیروت،دارصادر،1414ھ
(4) الأصفھانی،الراغب،حسین بن محمد، المفردات غریب القرآن،بیروت، دارالقلم، 1412ه
(5) البیضاوی، ناصرالدین، أنوار التنزیل وأسرار التأویل، بیروت، داراِحیاء التراث العربی، 1418ھ
(6) البیھقی،احمد بن حسین بن علی، السنن الکبریٰ،مکۃ المکرمۃ، مکتبۃ دارالباز، 1994م
(7) ایضاً، السنن الصغریٰ، کراتشی،جامعۃ الدراسات الاسلامیۃ،1989م
(8) ایضاً، معرفۃ السنن والآثار، http://www.alsunnah.com بحوالہ المکتبۃ الشاملۃ
(9) الترمذی،محمد بن عیسیٰ ،سنن الترمذی، دارالسلام للنشر والتوزیع، ریاض،1999م
(10) الجصاص،ابوبکر احمد بن علی، أحکام القرآن، دارالکتب العلمیۃ،1994م
(11) حاکم،ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ الیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، دارالکتب العلمیۃ،1990م
(12) ابوداود، سلیمان بن اشعث، سنن ابی داود، دارالسلام للنشر والتوزیع، ریاض،1999م
(13) الرازی،ابو عبداللہ محمد بن عمر، مفاتیح الغیب(التفسیرالکبیر)،دار اِحیاء التراث العربی،1420
(14) السرخسي، محمد بن احمد، شمس الدين ،المبسوط، بيروت، دارالمعرفة ،1993م
(15) السیوطی،عبدالرحمان، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر ( 849 – 911 ھ)، الدرالمنثور فی التأویل بالمأثور، بیروت، دارالفکر
(16) ایضاً ، الجامع الصغیر،بیروت، دارالفکرللطباعۃ والنشر والتوزیع
(17) الشافعی، محمد بن ادریس، الأم، بیروت، دارالفکر،1983م
(18) شامی،ابن عابدین، ردالمحتارعلی الدرالمختار،بیروت، دارالفکر،1992م
(19) الشیبانی، محمد بن حسن، السیر الکبیر،موقع شبكة مشكاة الإسلامية، http://www.almeshkat.net/ بحوالہ المکتبۃ الشاملۃ
(20) الصنعاني ،أبو بكر عبد الرزاق بن همام ،مصنف عبدالرزاق، بيروت، المكتب الإسلامي، 1403ھ
(21) الطبرانی،سلیمان بن محمد، العمجم الاوسط، قاھرہ، دارالحرمین
(22) الطبری، ابن جریر،جامع البیان فی تأویل القرآن،مکۃ المکرمۃ، المؤسسۃ الرسالۃ،2000م،
(23) العسقلانی،احمد بن علی بن حجر،فتح الباری بشرح صحیح البخاری،بیروت، دارالمعرفۃ،1379ھ
(24) الفتاویٰ الھندیۃ، http://www.al-islam.com، لاہور،مکتبہ رحمانیہ
(25) قاسمی،وحید الدین،مولانا، القاموس الوحید، کراچی،ادرہ اسلامیات
(26) قاضی خان،محمد بن منصور، فتاویٰ قاضی خان،بیروت،دارالکتب العلمیۃ
(27) الکاسانی، علاء الدین ابوبکر بن مسعود، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، کویت،المکتبۃ الحبیبۃ،1989م
(28) مالک بن انس، موطأ،دمشق ،دارالقلم ، 1991 م
(29) محمد بن اسماعیل،الجامع الصحیح ، دارالسلام للنشر والتوزیع، ریاض،1999م
(30) محمد بن یزیدابن ماجہ القزوینی(475 ھ) ، سنن ابن ماجہ، دارالکتب العلمیۃ،بیروت،1991م
(31) المرغینانی ،ابوبکر،الھدایۃ شرح بدایۃ المبتدی، بیروت، داراِحیاء التراث العربی
(32) مسلم بن حجاج،صحیح مسلم، دارالسلام للنشر والتوزیع، ریاض،1999م
(33) مودودی، ابوالاعلیٰ، سید، تفہیم القرآن ، ادارہ ترجمان القرآن لاہور، 1994
(34) ایضاً،ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور
(35) النسائی، احمد بن شعیب بن علی، السنن الکبریٰ، http://www.almeshkat.net/
(36) ابن نجیم مصری ،البحر الرائق شرح کنز الدقائق، بیروت،دارالکتاب الاسلامی بحوالۃ المکتبۃ الشاملۃ
(37) ابن الھمام، محمد بن عبدالواحد، فتح القدیر،بیروت،دارالفکر
(38) ابو یعلیٰ الموصلی،احمد بن علی ،مسند ابی یعلیٰ، دمشق، دارالمأمون للتراث،1984م
(39) أبويوسف يعقوب بن إبراهيم ، کتاب الخراج، القاهرة، المطبعةالسلفية ومكتبتها، 1382ھ
(40) Cambridge Economic History of Europe, England, Cambridge University Press
(41) DE LACY O’ LEARY, Arabia Before Muhammad, New York, E.P Dutten & CO.
(42) Gibbon: the Decline and fall of Roman Empire, USA, The Library of Congress
(43)Henry Pirenne, Economic and Social History of Medieval Europe, English Translation, IV edition,
Butler, London, 1949
(44) Solo W Baron, A Social and Religious History of the Jews, New York, Columbia University
(45)Will Durant: The Story of Civilization, United States, Simon and Schuster
زبان: اُردو
صفحات: 304
اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، منصورہ ملتان روڈ، لاہور۔