ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔
عرضِ ناشر
تحریکِ اِسلامی کے قیام کو، ابھی صرف ۵ سال ہوئے تھے کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، گردے کی پتھری کے آپریشن کے بعد آرام کے لیے، سیال کوٹ تشریف لے گئے۔ اُن کی موجودگی سے فائدہ اُٹھا کر، جماعتِ اسلامی لاہور کمشنری نے سیال کوٹ سے متصل، مراد پور میں ایک بڑے اجتماع کا اہتمام کیا۔مولانا مرحوم نے ۳۰ دسمبر ۴۶ء کو اِس اجتماع میں شہادتِ حق کے فریضے پر نہایت مؤثر اور جامع تقریر فرمائی، جس میں آپ نے اُمّتِ مسلمہ کو، اِس اہم فریضے کی طرف توجہ دلائی کہ اُمّتِ مسلمہ کے فرد کی حیثیت سے، ہر مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ دنیا کے سامنے قول اور عمل، دونوں میں حق و صداقت کا گواہ بن کر کھڑا ہو کہ اُمّتِ مُسلمہ کا مقصدِ وجود ہی یہی ہے۔
قولی شہادت یہ ہے کہ زبان اور قلم سے دنیا پر اُس حق کو واضح کیا جائے جو صحابہ کرامؓ کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے اور اخلاق و سیرت، تمدن و معاشرت، کسب و معاش ، قانون و عدالت اور سیاست و تدبیرِ مملکت کے لیے، اس دینِ حق نے انسان کی راہ نُمائی کے لیے جو راہ نما اصول پیش کیے ہیں وہ ہر انسان تک پہنچا دیے جائیں۔
عملی شہادت یہ ہے کہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں، اُن اصولوں کا عملی مظاہرہ اور نمونہ پیش کریں کہ اگر یہ حق ادا نہ کیا جائے تو اس کی سزا، آخرت ہی میں نہیں، دُنیا میں بھی انتہائی سنگین اور عبرت ناک ہے۔
یہی وہ کام ہے جس کی طرف جماعتِ اسلامی دعوت دے رہی ہے اور جسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ مولانا مرحوم نے اس سلسلے میں، اٹھائے جانے والے مختلف اعتراضات کا ذکر کرکے، اُن کا بڑا مثبت اور مُسکت جواب بھی دیا۔ یہ ایک ایسی تقریر ہے جسے جتنی بار بھی پڑھا جائے، یقین و ایمان میں اضافہ ہوتااور ذوقِ عمل کو تحریک ہوتی ہے۔
اسلامک پبلی کیشنز نے اِس تقریر کو کتابی شکل میں پیش کیا ہے، تاکہ تحریک سے تعلق رکھنے والے افراد، اِسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام کریں۔ ہمیں توقع ہے کہ اس کتابچے کو خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہوسکے گی۔
منیجنگ ڈائریکٹر
اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ،لاہور
شہادتِ حق اُمّتِ مُسلمہ کا فرض اور مقصدِ وجود
ساری تعریف اُس خدا کے لیے ہے جو کائنات کا تنہا خالق و مالک اور حاکم ہے، جو کمال درجے کی حکمت، قدرت اور رحمت کے ساتھ اس میں فرماں روائی کر رہا ہے، جس نے انسان کو پیدا کیا، اسے علم و عقل کی قوتیں بخشیں، اُسے زمین میں اپنی خلافت سے سر فراز کیا ، اور اُس کی راہ نُمائی کے لیے کتابیں اُتاریں اور پیغمبر بھیجے۔ پھر خدا کی رحمتیں ہوں اُس کے اُن نیک اور برگزیدہ بندوں پر، جو انسان کو انسانیت سکھانے آئے۔ جنھوں نے آدمی کو اُس کے مقصدِ زندگی سے خبر دار کیا اور اُسے دنیا میں جینے کا صحیح طریقہ بتایا۔ آج دنیا میں ہدایت کی روشنی، اخلاق کی پاکیزگی اور نیکی و پرہیز گاری جو کچھ بھی پائی جاتی ہے، وہ سب خدا کے انھی برگزیدہ بندوں کی راہ نُمائی کی بدولت ہے اور انسان کبھی اُن کے بارِ احسان سے سُبک دوش نہیں ہو سکتا۔
اجتماعات کا حصہ
عزیزو اور دوستو! ہم اپنے اجتماعات کو دو حصوں میں تقسیم کیا کرتے ہیں۔ایک حصہ: اس غرض کے لیے ہوتا ہے کہ ہم خود آپس میں بیٹھ کر اپنے کام کا جائزہ لیں اور اُسے آگے بڑھانے کے لیے باہم مشورہ کریں۔ دُوسرا حصہ: اِس مقصد کے لیے خاص ہوتا ہے کہ جس مقام پر ہمارا اجتماع ہو، وہاں کے عام باشندوں کے لیے، ہم اپنی دعوت کو پیش کریں ۔ اِس وقت کا یہ اجتماع اِسی دُوسری غرض کے لیے ہے ۔ہم نے آپ کو اِس لیے تکلیف دی ہے کہ آپ کو بتائیں کہ ہماری دعوت کیا ہے اور کس چیز کی طرف ہم بلاتے ہیں؟
ہماری دعوت
ہماری دعوت کا خطاب، ایک تو: ان لوگوں سے ہے جو پہلے سے مسلمان ہیں۔ دُوسرے: اُن تمام بند گانِ خدا سے جو مسلمان نہیں ہیں۔ اُن میں سے ہر ایک کے لیے ہمارے پاس ایک پیغام ہے، مگر افسوس ہے کہ یہاں دُوسرے گروہ کے لوگ مجھے نظر نہیں آتے ۔ یہ ہماری پچھلی غلطیوں اور آج کی بے تدبیریوں کا نتیجہ ہے کہ خدا کے بندوں کا ایک بہت بڑا حصہ ہم سے دُور ہو گیا ہے اور مشکل ہی سے کبھی ہم یہ موقع پاتے ہیں کہ انھیں اپنے پاس بلا کر، یا خود اُن کے قریب جاکر وہ پیغام اُنھیں سنائیں، جواُن کے اور ہمارے خدا نے، ہم سب کی راہ نُمائی کے لیے، اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بھیجا ہے۔ بہرحال اب کہ وہ موجود نہیں ہیں، میں دعوت کے صرف اُس حصے کو پیش کروں گا جو مسلمانوں کے لیے خاص ہے۔
مسلمانوں کو ہم جس چیز کی طرف بلاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ وہ اُن ذِمّہ داریوں کو سمجھیں اور ادا کریں جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے اُن پر عائد ہوتی ہیں۔ آپ صرف اتنا کہہ کر نہیں چھوٹ سکتے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم نے خدا کو اور اُس کے دین کو مان لیا، بلکہ جب آپ نے خدا کو اپنا خدا اور اُس کے دین کو اپنا دین مانا ہے تو اس کے ساتھ آپ پر کچھ ذِمّہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں، جن کا آپ کو شعور ہونا چاہیے۔ جن کے ادا کرنے کی آپ کو فکر ہونی چاہیے۔ اگر آپ انھیں ادا نہ کریں گے تو اس کے وبال سے، نہ دنیا میں چھوٹ سکیں گے، نہ آخرت میں۔
مسلمانوں کی ذِمّہ داریاں
وہ ذِمّہ داریاں کیا ہیں؟ وہ صرف یہی نہیں ہیں کہ آپ خدا پر، اُس کے فرشتوں پر، اُس کی کتابوں پر، اُس کے رسولوں پر اور یوم آخرت پر ایمان لائیں۔ وہ صرف اتنی بھی نہیں ہیں کہ آپ نماز پڑھیں، روزہ رکھیں، حج کریں اور زکوٰۃ دیں۔ وہ صرف اتنی بھی نہیں ہیں کہ آپ نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ معاملات میں، اسلام کے مقرر کیے ہوئے ضابطے پر عمل کریں، بلکہ اِن سب کے علاوہ ایک بڑی اور بہت بھاری ذِمّہ داری، آپ پر یہ بھی عائد ہوتی ہے کہ آپ تمام دنیا کے سامنے، اس حق کے گواہ بن کر کھڑے ہوں جس پر آپ ایمان لائے ہیں۔ ’’مسلمان‘‘ کے نام سے آپ کو ایک مستقل اُمّت بنانے کی، واحد غرض جو قرآن میں بیان کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ آپ تمام بند گانِ خدا پر شہادتِ حق کی حجت پوری کر دیں (قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:)
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۰ۭ البقرہ 2:143
اور اسی طرح تو ہم نے تمھیں ایک ’’اُمّتِ وسط‘‘ بنایا ہے، تا کہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو، اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔
اُمّتِ مسلمہ کا مقصدِ وجود
یہ آپ کی اُمّت کا عین مقصدِ وجود ہے جسے آپ نے پورا نہ کیا تو گویا اپنی زندگی ہی اکارت گنوا دی۔ یہ آپ پر خدا کا عائد کیا ہوا فرض ہے کیوں کہ خدا کا حکم یہ ہے کہ:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ المائدہ5:8
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! خدا کی خاطر اٹھنے والے اور ٹھیک ٹھیک راستی کی گواہی دینے والے بنو۔
اور یہ نرا حکم ہی نہیں، بلکہ تاکیدی حکم ہے ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللہِ البقرہ2:140
اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جس کے پاس اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو، اور وہ اسے چھپائے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس فرض کو انجام نہ دینے کا نتیجہ کیا ہے۔ آپ سے پہلے اِس گواہی کے کٹہرے میں، یہودی کھڑے کیے گئے تھے، مگر انھوں نے کچھ توحق کو چھپایا اور کچھ حق کے خلاف گواہی دی اور فی الجملہ حق کے نہیں، بلکہ باطل کے گواہ بن کر رہ گئے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے انھیں د ھتکار دیا اور اُن پر وہ پھٹکار پڑی کہ:
وَضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْكَنَۃُ۰ۤ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ۰ۭ البقرہ2:61
ذلت و خواری اور پستی و بد حالی ان پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے عذاب میں گِھر گئے۔
شہادتِ حق
یہ شہادت جس کی ذِمّہ داری آپ پر ڈالی گئی ہے ، اِس سے مراد یہ ہے کہ جو حق آپ کے پاس آیا ہے ، جو صداقت آپ پر منکشف کی گئی ہے ، آپ دُنیا کے سامنے اُس کے حق اور صداقت ہونے پر اور اس کے راہِ راست ہونے پر گواہی دیں۔ ایسی گواہی جو اِس کے حق اور راستی ہونے کو مُبرہن کر دے اور دنیا کے لوگوں پر دین کی حجت پوری کر دے۔ اِسی شہادت کے لیے انبیاؑدنیا میں بھیجے گئے تھے اور اس کا ادا کرنا اُن پر فرض تھا ۔ پھر یہی شہادت، تمام انبیاؑ کے بعد، اُن کی امتوں پر فرض ہوتی رہی، اور اب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد، یہ فرض اُمّتِ مُسلمہ پر بحیثیتِ مجموعی، اسی طرح عائد ہوتا ہے جس طرح حضورؐ پر، آپؐ کی زندگی میں شخصی حیثیت سے عائد تھا۔
شہادت کی اہمیت
اس گواہی کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ نوعِ انسانی کے لیے، اللہ تعالیٰ نے بازپُرس اور جزا و سزا کا جو قانون مقرر کیا ہے اس کی ساری بنیاد ہی اس گواہی پر ہے۔ اللہ تعالیٰ حکیم و رحیم اور قائم بالقسط ہے۔ اس کی حکمت و رحمت اور اس کے انصاف سے یہ بعید ہے کہ لوگوں کو اُس کی مرضی نہ معلوم ہو، اور وہ انھیں اس بات پر پکڑے کہ وہ اس کی مرضی کے خلاف چلے۔ لوگ نہ جانتے ہوں کہ راہِ راست کیا ہے اور وہ اُن کی کج روی پر اُن سے مواخذہ کرے۔ لوگ اِس سے بے خبر ہوں کہ اُن سے کس چیز کی بازپُرس ہونی ہے، وہ اَن جانی چیز کی اُن سے باز پُرس کرے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آفرینش کی ابتداہی ایک پیغمبر سے کی اور پھر وقتاً فوقتاً بے شمار پیغمبر بھیجے، تاکہ وہ نوعِ انسانی کو خبر دار کریں کہ تمھارے معاملے میں تمھارے خالق کی مرضی یہ ہے، تمھارے لیے دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے، یہ رویہ ہے جس سے تم اپنے مالک کی رضا کو پہنچ سکتے ہو، یہ کام ہیں جو تمھیں کرنے چاہییں، یہ کام ہیں جن سے تمھیں بچنا چاہیے، اور یہ امور ہیں جن کی تم سے باز پُرس کی جائے گی۔
اُمّت پر اِتمامِ حجت
یہ شہادت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں سے دلوائی، اس کی غرض، قرآن مجید میں صاف صاف یہی بتائی گئی ہے کہ لوگوں کو اللہ پر یہ حجت قائم کرنے کا موقع باقی نہ رہے کہ ہم بے خبر تھے اور آپ ہمیں اُس چیز پر پکڑتے ہیں جس سے ہمیں خبر دار نہ کیا گیا تھا(اس سلسلے میں فرمایا گیا:)
رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللہِ حُجَّــۃٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ۰ۭ وَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِــيْمًا النسائ4:165
یہ سارے رسولؑ خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے، تا کہ انھیں مبعوث کردینے کے بعد، لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے، لوگوں کی حجت اپنے اُوپر سے اُتار کر، پیغمبروں پر ڈال دی، اور پیغمبر اِس اہم ذِمّہ داری کے منصب پر کھڑے کر دیے گئے کہ اگر وہ شہادتِ حق کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کر دیں تو لوگ اپنے اعمال پر خود باز پُرس کے مستحق ہوں، اور اگر اُن کی طرف سے ادائے شہادت میں کوتاہی ہو، تو لوگوں کی گم راہی و کوتاہی کا مواخذہ، پیغمبروں سے کیا جائے۔ دُوسرے الفاظ میں پیغمبروں کے منصب کی نزاکت یہ تھی کہ یا تو وہ حق کی شہادت ٹھیک ٹھیک ادا کر کے لوگوں پر حجت قائم کریں، ورنہ لوگوں کی حجت الٹی اُن پر قائم ہو جاتی تھی کہ خدا نے حقیقت کا جو علم، آپ حضرات کو دیا تھا وہ آپ نے ہمیں نہ پہنچایا اور جو صحیح طریقِ زندگی اُس نے آپ کو بتایا تھا وہ آپ نے ہمیں نہ بتایا۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاعلیہم السلام اپنے اوپر اس ذِمّہ داری کے بار کو، شدت کے ساتھ محسوس کرتے تھے اور اِسی بِنا پر انھوں نے اپنی طرف سے حق کی شہادت ادا کرنے اور لوگوں پر حجت تمام کر دینے کی جان توڑ کوششیں کیں۔
کوتاہی پر مواخذہ
پھر انبیاکے ذریعے سے، جن لوگوں نے حق کا علم اور ہدایت کا راستہ پایا، وہ ایک اُمّت بنائے گئے اور وہی منصبِ شہادت کی ذِمّہ داری جس کا بار انبیاپر ڈالا گیا تھا، اب اِس اُمّت کے حصے میں آئی۔ انبیاکی قائم مقام ہونے کی حیثیت سے، اِس کا یہ مقام قرار پایا کہ اگر یہ اُمّت شہادت کا حق ادا کر دے اور لوگ درست نہ ہوں تو یہ اجر پائے گی اور لوگ پکڑے جائیں گے، اور یہ حق کی شہادت دینے میں کوتاہی کرے ، یا حق کے بجائے، الٹی باطل کی شہادت دینے لگے تولوگوں سے پہلے یہ پکڑی جائے گی۔ اِس سے خود اِس کے اعمال کی بازپرس بھی ہو گی اور اُن لوگوں کے اعمال کی بھی، جو اِس کے صحیح شہادت نہ دینے، یا غلط شہادت دینے کی وجہ سے گم راہ اور مفسد اور غلط کار رہے۔
طریقۂ شہادت
حضرات! یہ ہے شہادتِ حق کی وہ نازک ذِمّہ داری، جو مجھ پر ، آپ پر، اور اُن سب لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو اپنے کو اُمّتِ مُسلمہ کہتے ہیں اور جن کے پاس خدا کی کتاب اور اس کے انبیاکی ہدایت پہنچ چکی ہے۔ اب دیکھیے کہ اِس شہادت کے ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے۔شہادتیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ایک: قولی شہادت، دُوسری: عملی شہادت۔
قولی شہادت
قولی شہادت کی صورت یہ ہے کہ ہم زبان اور قلم سے دُنیا پر اُس حق کو واضح کریں جو انبیاکے ذریعے ہمیں پہنچا ہے۔ سمجھانے اور دل نشیں کرنے کے جتنے طریقے ممکن ہیں، اُن سب سے کام لے کر ،تبلیغ و دعوت اور نشر و اشاعت کے جتنے ذرائع ممکن ہیں اُن سب کو استعمال کرکے ، علم و فنون نے جس قدر مواد فراہم کیا ہے وہ سب اپنے ہاتھ میں لے کر، ہم دنیا کو اُس دین کی تعلیم سے روشناس کریں جو خدا نے انسان کے لیے مقرر کیا ہے۔ فکر و اعتقاد میں ، اخلاق و سیرت میں، تمدن و معاشرت میں ، کسبِ معاش اور لین دین میں ، قانون اور نظمِ عدالت میں ، سیاست اور تدبیرِ مملکت میں اور بین الانسانی معاملات کے تمام دُوسرے پہلوئوں میں ، اُس دین نے انسان کی راہ نُمائی کے لیے جو کچھ پیش کیا ہے، اُسے ہم خوب کھول کھول کر بیان کریں۔ دلائل اور شواہد سے اُس کا حق ہونا ثابت کر دیں، اور جو کچھ اُس کے خلاف ہے، اُس پر معقول تنقید کرکے بتائیں کہ اُس میں کیا خرابی ہے ۔
اِس قولی شہادت کا حق ادا نہیں ہو سکتا جب تک کہ اُمّت مجموعی طور پر، ہدایتِ خلق کے لیے اُسی طرح فکرمند نہ ہو، جس طرح انبیاعلیہم السلام، انفرادی طور پر اُس کے لیے فکر مند رہا کرتے تھے ۔ یہ حق ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ کام ہماری تمام اجتماعی کوششوں اور قومی سعی و جہد کا مرکزی نقطہ ہو۔ ہم اپنے دل و دماغ کی ساری قوتیں اور اپنے سارے وسائل و ذرائع اِس پر لگا دیں۔ ہمارے تمام کاموں میں یہ مقصد لازماً ملحوظ رہے، اور اپنے درمیان سے، کسی ایسی آواز کے اٹھنے کو تو کسی حال میں ہم برداشت ہی نہ کریں جو حق کے خلاف شہادت دینے والی ہو۔
عملی شہادت
رہی عملی شہادت، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی زندگی میں اُن اصولوں کا عملاً مظاہرہ کریں جنھیں ہم حق کہتے ہیں۔ دنیا صرف ہماری زبان ہی سے اُن کی صداقت کا ذکر نہ سنے، بلکہ خود اپنی آنکھوں سے، خود ہماری زندگی میں، اُن کی خوبیوں اور برکتوں کا مشاہدہ کر لے ۔ وہ ہمارے برتائو میں اُس شیرینی کا ذائقہ چکھ لے، جو ایمان کی حلاوت سے انسان کے اخلاق و معاملات میں پیدا ہوتی ہے۔ وہ خود دیکھ لے کہ اس دین کی راہ نمائی میں کیسے اچھے انسان بنتے ہیں، کیسی عادل سوسائٹی تیار ہوتی ہے، کیسی صالح معاشرت وجود میں آتی ہے، کس قدر ستھرا اور پاکیزہ تمدن پیدا ہوتا ہے، کیسے صحیح خطوط پر علوم و آداب اور فنون کا نشو و نما ہوتا ہے، کیسا منصفانہ ، ہم دردانہ اور بے نزاع معاشی تعاون رونما ہوتا ہے، انفرادی و اجتماعی زندگی کا ہر پہلو کس طرح سدھر جاتا ہے، سنور جاتا ہے اور بھلائیوں سے مالا مال ہو جاتا ہے۔
اِس شہادت کا حق صرف اس طرح ادا ہو سکتا ہے کہ ہم فردًا فردًا بھی اور قومی حیثیت سے بھی، اپنے دین کی حقانیت پر مجسّم شہادت بن جائیں۔ ہمارے افراد کا کردار اُس کی صداقت کا ثبوت دے۔ ہمارے گھر اُس کی خوش بُو سے مہکیں۔ ہماری دُکانیں اور ہمارے کارخانے اُس کی روشنی سے جگمگائیں۔ ہمارے ادارے اور ہمارے مدرسے اُس کے نور سے منور ہوں۔ ہمارا لٹریچر اور ہماری صحافت اُس کی خوبیوں کی سند پیش کرے، ہماری قومی پالیسی اور اجتماعی سعی و جہد، اُس کے برحق ہونے کی روشن دلیل ہو ۔ غرض، ہم سے جہاں اور جس حیثیت میں بھی، کسی شخص یا قوم کو سابقہ پیش آئے وہ ہمارے شخصی اور قومی کردار میں اس بات کا ثبوت پا لے کہ جن اُصولوںکو ہم حق کہتے ہیں وہ واقعی حق ہیں اور اُن سے فی الواقع انسانی زندگی اصلح اور اعلیٰ و ارفع ہو جاتی ہے۔
تکمیلِ شہادت
پھر یہ بھی عرض کر دوں کہ اس شہادت کی تکمیل اگر ہو سکتی ہے تو صرف اُس وقت جب کہ ایک اسٹیٹ انھی اصولوں پر قائم ہو جائے اور وہ پورے دین کو عمل میں لا کر اپنے عدل و انصاف سے ، اپنے اصلاحی پروگرام سے ، اپنے حسنِ انتظام سے ، اپنے امن سے، اپنے باشندوں کی فلاح و بہبود سے ،اپنے حکمرانوں کی نیک سیرت سے ، اپنی صالح داخلی سیاست سے ، اپنی راست بازانہ خارجی پالیسی سے ، اپنی شریفانہ جنگ سے اور اپنی وفادارانہ صلح سے، ساری دنیا کے سامنے، اس بات کی شہادت دے کہ جس دین نے اِس اسٹیٹ کو جنم دیا ہے، وہ درحقیقت انسانی فلاح کا ضامن ہے، اور اسی کی پیروی میں نوعِ انسانی کی بھلائی ہے۔ یہ شہادت، جب قولی شہادت کے ساتھ مل جائے تب وہ ذِمّہ داری پوری طرح ادا ہو جاتی ہے جو اُمّتِ مُسلمہ پر ڈالی گئی ہے، تب نوعِ انسانی پر بالکل اِتمامِ حجت ہو جاتا ہے، تب ہی ہماری اُمّت اِس قابل ہو سکتی ہے کہ آخرت کی عدالت میں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کھڑی ہو کر شہادت دے سکے کہ جو کچھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پہنچایا تھا وہ ہم نے لوگوں تک پہنچا دیا اور اس پر بھی جو لوگ راہِ راست پر نہ آئے وہ اپنی کج روی کے خود ذِمّہ دار ہیں۔
حضرات! یہ وہ شہادت ہے جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے، ہمیں قول و عمل میں دینی چاہیے تھی، مگر اب دیکھیے کہ آج ہم فی الواقع شہادت دے کیا رہے ہیں۔
ہماری قولی شہادت کا جائزہ
پہلے قولی شہادت کا جائزہ لیجیے۔ ہمارے اندر ایک بہت ہی قلیل گروہ ایسا ہے جو کہیں انفرادی طور پر، زبان و قلم سے اسلام کی شہادت دیتا ہے ، اور اس میں ایسے لوگ شاید انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جو اس شہادت کو اس طرح ادا کر رہے ہیں جیسا اُس کے ادا کرنے کا حق ہے۔ اس شِرذِمَہ قلیل(چھوٹی جماعت) کو اگر آپ الگ کر لیں تو آپ دیکھیں گے کہ مسلمانوں کی عام شہادت، اسلام کے حق میں نہیں، بلکہ اس کے خلاف جا رہی ہے۔ ہمارے زمین دار شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام کا قانونِ وراثت غلط ہے اور جاہلیت کے رواج صحیح ہیں۔ ہمارے وکیل، جج اور مجسٹریٹ شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام کے سارے ہی قوانین غلط ہیں، بلکہ اسلامی قانون کا بنیادی نظریہ ہی قابلِ قبول نہیں ہے ۔ صحیح صرف وہ قوانین ہیں جو انسانوں نے وضع کیے ہیں اور انگریزوں کی معرفت ہمیں پہنچے ہیں۔ ہمارے معلم، پروفیسر اور تعلیمی ادارے شہادت دے رہے ہیں کہ فلسفہ وحکمت، تاریخ و اجتماعیات، معاشیات و سیاسیات، اور قانون و اخلاق کے متعلق وہی نظریات برحق ہیں جو مغرب کی ملحدانہ تعلیم سے ماخوذ ہیں۔ ان امور میں اسلام کا نقطۂ نظر قابلِ التفات تک نہیں ہے۔
ہمارے ادیب شہادت دے رہے ہیں کہ اُن کے پاس بھی ادب کا وہی پیغام ہے جو امریکا، انگلستان، فرانس اور روس کے دہری ادیبوں کے پاس ہے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے، ان کے ادب کی سرے سے کوئی مستقل روح ہی نہیں ہے ۔ ہمارا پریس شہادت دے رہا ہے کہ اُس کے پاس بھی وہی مباحث، مسائل اور پروپیگنڈے کے وہی انداز ہیں جو غیرمسلموں کے پاس ہیں۔ ہمارے تاجر اور اہلِ صنعت شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام نے لین دین پر جو حدود قائم کیے ہیں وہ ناقابلِ عمل ہیں اور کاروبار صرف انھی طریقوں پر ہو سکتا ہے جن پر کفّار عامل ہیں۔ ہمارے لیڈر شہادت دے رہے ہیں کہ اُن کے پاس بھی قومیت اور وطنیت کے وہی نعرے ہیں، وہی قومی مقاصد ہیں، قومی مسائل کو حل کرنے کے وہی ڈھنگ ہیں، سیاست اور دستور کے وہی اصول ہیں جو کفار کے پاس ہیں۔ اسلام نے اس بارے میں کوئی راہ نُمائی نہیں کی ہے جس کی طرف رجوع کیا جائے۔ ہمارے عوام، شہادت دے رہے ہیں کہ ان کے پاس زبان کا کوئی مَصرف، دنیا اور اس کے معاملات کے سوا نہیں ہے اور وہ کوئی ایسا دین رکھتے ہی نہیں جس کا وہ چرچا کریں، یا جس کی باتوں میں وہ اپنا کچھ وقت صَرف کریں۔ یہ ہے وہ قولی شہادت جو مجموعی طور پر، ہماری پوری اُمّت اِس ملک ہی میں نہیں، ساری دُنیا میں دے رہی ہے۔
ہماری عملی شہادت کا جائزہ
اب عملی شہادت کی طرف آئیے۔ اس کا حال، قولی شہادت سے بدتر ہے۔ بلاشبہ کہیں کہیں، کچھ صالح افراد ہمارے اندر ایسے پائے جاتے ہیں جو اپنی زندگی میں اسلام کا مظاہرہ کر رہے ہیں، مگر سوادِ اعظم کا حال کیا ہے ؟
انفرادی طور پر عام مسلمان، اپنے عمل میں اسلام کی جو نمایندگی کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام کے زیر اثر پرورش پانے والے افراد کسی حیثیت سے بھی، کفر کے تیار کیے ہوئے افراد سے بلند، یا مختلف نہیں ہیں، بلکہ بہت سی حیثیتوں سے اُن کی بہ نسبت فروتر ہیں، وہ جھوٹ بول سکتے ہیں، وہ خیانت کر سکتے ہیں، وہ ظلم کر سکتے ہیں، وہ دھوکا دے سکتے ہیں، وہ قول و قرار سے پھر سکتے ہیں، وہ چوری اور ڈاکا زنی کر سکتے ہیں، وہ دنگا فساد کر سکتے ہیں، وہ بے غیرتی اور بے حیائی کے سارے کام کر سکتے ہیں۔ اِن سب بداخلاقیوں میں ان کا اوسط کسی کافر قوم سے کم نہیں ہے۔
پھر ہماری معاشرت، ہمارا رہن سہن، ہمارے رسم و رواج، ہماری تقریبات، ہمارے میلے اور عرس، ہمارے جلسے اور جلوس، غرض، ہماری اجتماعی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس میں ہم اسلام کی کسی حد تک بھی صحیح نمایندگی کرتے ہوں۔ یہ چیز، گویا اِس بات کی زندہ شہادت ہے کہ اسلام کے پیرو، خود ہی اپنے لیے اسلام کے بجائے، جاہلیت کو زیادہ قابلِ ترجیح سمجھتے ہیں۔
ہم مدرسے بناتے ہیں تو علم اور نظامِ تعلیم اور رُوحِ تعلیم سب کچھ کفار سے لیتے ہیں۔ ہم انجمنیں قائم کرتے ہیں تو مقصد، نظام اور طریقِ کار سب کچھ وہی رکھتے ہیں جو کفار کی کسی انجمن کا ہو سکتا ہے۔ ہماری پوری قوم بحیثیتِ مجموعی کوئی جدوجہد کرنے اٹھتی ہے تو اس کا مطالبہ، اس کی جدوجہد کا طریقہ، اس کی جمعیت کا دستور و نظام، اس کی تجویزیں، تقریریں اور بیانات ، سب کچھ، ہوبہو کافر قوموں کی جدوجہد کا چربہ ہوتا ہے ۔ حد یہ ہے کہ جہاں ہماری آزاد یا نیم آزاد حکومتیں موجود ہیں، وہاں بھی ہم نے اساسِ حکومت، نظامِ حکومت اور مجموعۂ قوانین کفار سے لے لیا ہے ۔ اسلام کا قانون بعض حکومتوں میں، صرف پرسنل لا کی حد تک رہ گیا ہے اور بعض نے اسے بھی ترمیم کیے بغیر نہیں چھوڑا۔ حال میں ایک انگریز مصنف lawrence brown نے اپنی کتاب the prospects of islam میں طعنہ دیا ہے کہ:
ہم نے جب ہندستان میں اسلام کے دیوانی اور فوج داری قوانین کو دقیانوسی اور ناقابل عمل سمجھ کر منسوخ کیا تھا اور مسلمانوں کے لیے، صرف اُن کے پرسنل لا کو رہنے دیا تھا تو مسلمانوں کو یہ سخت ناگوار ہوا تھا، کیوں کہ اِس طرح ان کی پوزیشن وہی ہوئی جاتی تھی جو کبھی اسلام کی حکومت میں ذمیوں کی تھی۔ لیکن اب صرف یہی نہیں کہ ہندستان کے مسلمانوں نے اسے پسند کر لیا ہے ، بلکہ خود مسلمان حکومتوں نے بھی اس معاملے میں ہماری تقلید کی ہے ۔ ٹرکی، البانیا نے تو اس سے تجاوز کر کے قوانینِ نکاح و طلاق و وراثت تک میں بھی، ہمارے معیارات کے مطابق ’’اصلاحات‘‘ کر دی ہیں۔ اب یہ بات کھل گئی ہے کہ مسلمانوں کا یہ تصور کہ قانون کا ماخذِ ارادئہ الٰہی ہے، ایک مقدس افسانے (pious fiction) سے زیادہ کچھ نہ تھا۔
یہ ہے وہ عملی شہادت، جو تمام دنیا کے مسلمان تقریباً متفق ہو کر، اسلام کے خلاف دے رہے ہیں۔ ہم زبان سے خواہ کچھ کہیں، مگر ہمارا اجتماعی عمل گواہی دے رہا ہے کہ اس دین کا کوئی طریقہ ہمیں پسند نہیں اور اس کے کسی قانون میں، ہم اپنی فلاح و نجات نہیں پاتے۔
کِتمانِ حق کی سزا
یہ کتمانِ حق اور یہ شہادتِ زُور جس کا ارتکاب ہم کر رہے ہیں، اس کا انجام بھی ہمیں وہی کچھ دیکھنا پڑا ہے جو ایسے سخت جرم کے لیے، قانونِ الٰہی میں مقرر ہے۔ جب کوئی قوم خدا کی نعمت کو ٹھکراتی ہے اور اپنے خالق سے غداری کرتی ہے تو خدا، دُنیا میں بھی اُسے عذاب دیتا ہے اور آخرت میں بھی۔ یہودیوں کے معاملے میں خدا کی یہ سنت پوری ہو چکی ہے اور اب ہم مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ خدا کو یہود سے کوئی ذاتی پَرخاش نہ تھی کہ وہ صرف اِنھی کو اِس جرم کی سزا دیتا، اور ہمارے ساتھ اُس کی کوئی رشتہ داری ہے کہ ہم اِسی جرم کا ارتکاب کریں اور سزا سے بچ جائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم حق کی شہادت دینے میں جتنی جتنی کوتاہی کرتے گئے ہیں اور باطل کی شہادت ادا کرنے میں، ہمارا قدم جس رفتار سے آگے بڑھا ہے، ٹھیک اُسی رفتار سے ہم گرتے چلے گئے ہیں۔ پچھلی ایک ہی صدی کے اندر، مراکش سے لے کر شرق الہند تک، ملک کے ملک ہمارے ہاتھ سے نکل گئے۔ مسلمان قومیں ایک ایک کرکے مغلوب اور محکوم ہوتی چلی گئیں۔ مسلمان کا نام فخرو عزت کا نام نہ رہا، بلکہ ذلت و مسکنت اور پس ماندگی کا نشان بن گیا۔ دنیا میں ہماری کوئی آبرو باقی نہ رہی ۔ کہیں ہمارا قتلِ عام ہوا، کہیں ہم گھر سے بے گھر کیے گئے، کہیں ہمیں سوء العذاب کا مزہ چکھایا گیا اور کہیں ہمیں چاکری اور خدمت گاری کے لیے زندہ رکھا گیا۔ جہاں مسلمانوں کی اپنی حکومتیں باقی رہ گئیں وہاں بھی انھوں نے شکستوں پر شکستیں کھائیں اور آج اُن کا حال یہ ہے کہ بیرونی طاقتوں کے خوف سے لرز رہے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اسلام کی قولی و عملی شہادت دینے والے ہوتے، تو کفر کے علم برداران اُن کے خوف سے کانپ رہے ہوتے۔
دُور کیوں جائیے۔ خود ہندستان میں اپنی حالت دیکھ لیجیے۱؎۔ ادائے شہادت میں جو کوتاہی آپ نے کی، بلکہ الٹی خلافِ حق شہادت جو آپ اپنے قول و عمل سے دیتے رہے، اسی کا تو نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کا ملک آپ کے ہاتھ سے نکل گیا۔ پہلے مرہٹوں اور سکھوں کے ہاتھوں آپ پامال ہوئے۔ پھر انگریز کی غلامی آپ کو نصیب ہوئی اور اب پچھلی پامالیوں سے بڑھ کر پامالیاں، آپ کے سامنے آرہی ہیں۔ آج آپ کے سامنے سب سے بڑا سوال اکثریت و اقلیت کا ہے اور آپ اس اندیشے سے کانپ رہے ہیں کہ کہیں ہندو اکثریت آپ کو اپنا محکوم نہ بنا لے اور آپ وہ انجام نہ دیکھیں جو شودر قومیں دیکھ چکی ہیں، مگر خدارا، مجھے بتائیے کہ اگر آپ اسلام کے سچے گواہ ہوتے تو یہاں کوئی اکثریت ایسی ہو سکتی تھی جس سے آپ کو کوئی خطرہ ہوتا؟ یا آج بھی اگر آپ قول اور عمل سے اسلام کی گواہی دینے والے بن جائیں تو کیا یہ اقلیت و اکثریت کا سوال، چند سال کے اندر ہی ختم نہ ہو جائے؟ عرب میں ایک فی لاکھ کی اقلیت کو نہایت متعصب اور ظالم اکثریت نے، دنیا سے نیست و نابود کر دینے کی ٹھانی تھی، مگر اسلام کی سچی گواہی نے دس سال کے اندر، اسی اقلیت کو سو(۱۰۰) فی صدی اکثریت میں تبدیل کر دیا۔ پھر جب یہ اسلام کے گواہ، عرب سے باہر نکلے تو پچیس سال کے اندر، ترکستان سے لے کر مراکش تک، قومیں کی قومیں ان کی شہادت پر ایمان لاتی چلی گئیں۔ جہاں سو(۱۰۰) فی صدی مجوسی، بت پرست اور عیسائی رہتے تھے، وہاں سو (۱۰۰)فی صد مسلمان بسنے لگے۔ کوئی ہٹ دھرمی، کوئی قومی عصبیت اور کوئی مذہبی تنگ نظری، اتنی سخت ثابت نہ ہوئی کہ حق کی زندہ اور سچی شہادت کے آگے قدم جما سکتی۔ اب آپ اگرپامال ہو رہے ہیں اور اپنے آپ کو اس سے شدید پامالی کے خطرے میں مبتلا پاتے ہیں تو یہ کتمانِ حق اور شہادتِ زُور کی سزا کے سوا اور کیا ہے۔
آخرت کی پکڑ
یہ تو اس جرم کی وہ سزا ہے جو آپ کو دنیا میں مل رہی ہے۔ آخرت میں اِس سے سخت تر سزا کا اندیشہ ہے۔ جب تک آپ حق کے گواہ ہونے کی حیثیت سے اپنا فرض انجام نہیں دیتے، اس وقت تک دنیا میںجو گم راہی بھی پھیلے گی، جو ظلم و فساد اور طغیان بھی برپا ہو گا ، جو بداخلاقیاں اور بدکرداریاں بھی رواج پائیں گی، اُن کی ذِمّہ داری سے آپ بَری نہیں ہو سکتے۔ آپ اگر ان بُرائیوں کے پیدا کرنے کے ذِمّہ دار نہیں ہیں تو اُن کی پیدائش کے اسباب باقی رکھنے اور انھیں پھیلنے کی اجازت دینے کے ذِمّہ دار ضرور ہیں۔
مسلمانوں کے مسائل و حقوق اور اس کا حل
حضرات! یہ جو کچھ مَیں نے عرض کیا ہے اس سے آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں کرنا کیا چاہیے تھااور ہم کر کیا رہے ہیں؟ اور یہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اس کا خمیازہ کیا بھگت رہے ہیں۔ اس پہلو سے اگر آپ حقیقتِ معاملہ پر نگاہ ڈالیں گے تو یہ بات خود ہی آپ پر کھل جائے گی کہ مسلمانوں نے اس ملک میں اور دنیا کے دُوسرے ملکوں میں، جن مسائل کو اپنی قومی زندگی کے اصل مسائل سمجھ رکھا ہے اور جنھیں حل کرنے کے لیے، وہ کچھ اپنے ذہن سے گھڑی ہوئی اور زیادہ تر دُوسروں سے سیکھی ہوئی تدبیروں پر، اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، فی الواقع اُن میں سے کوئی بھی اُن کا اصل مسئلہ نہیں ہے اور اُس کے حل کی تدبیر میں وقت، قوت اور مال کا یہ سارا صَرفہ محض ایک زیاں کاری ہے۔
یہ سوالات کہ کوئی اقلیت، ایک غالب اکثریت کے درمیان رہتے ہوئے، اپنے وجود، مفاد اور حقوق کو کیسے محفوظ رکھے؟ اور کوئی اکثریت اپنے حدود میں وہ اقتدار کیسے حاصل کرے، جو اکثریت میں ہونے کی بناپر اسے ملنا چاہیے، اور ایک محکوم قوم کسی غالب قوم کے تسلط سے کس طرح آزاد ہو، اور ایک کم زور قوم کسی طاقت ور قوم کی دست بُردسے، اپنے آپ کو کس طرح بچائے، اور ایک پس ماندہ قوم وہ ترقی و خوش حالی اور طاقت کیسے حاصل کرے جو دنیا کی زور آورقوموں کو حاصل ہے۔ یہ اور ایسے ہی دُوسرے مسائل غیر مسلموں کے لیے، تو ضرور اہم ترین اور مقدم ترین مسائل ہو سکتے ہیں اور اُن کی تمام توجہات اور کوششوں کے مرکز و محور بھی قرار پا سکتے ہیں، مگر ہم مسلمانوں کے لیے، یہ بجائے خود مستقل مسائل نہیں ہیں، بلکہ محض اُس غفلت کے شاخسانے ہیں جو ہم اپنے اصل کام سے برتتے رہے ہیں اور آج تک برتے جارہے ہیں۔ اگر ہم نے وہ کام کیا ہوتا تو آج اتنے بہت سے پیچیدہ اور پریشان کن مسائل کا یہ جنگل ہمارے لیے پیدا ہی نہ ہوتا ، اور اگر اب بھی اس جنگل کو کاٹنے میں اپنی قوتیں صرف کرنے کے بجائے، ہم اس کام پر اپنی ساری توجہ اور سعی مبذول کر دیں تو دیکھتے دیکھتے نہ صرف ہمارے لیے، بلکہ ساری دنیا کے لیے، پریشان کن مسائل کا یہ جنگل، خود بخود صاف ہو جائے، کیوں کہ دنیا کی صفائی و اصلاح کے ذِمّہ دار ہم تھے۔ ہم نے اپنا فرضِ منصبی ادا کرنا چھوڑا، تو دُنیا خاردار جنگلوں سے بھر گئی اور ان کا سب سے زیادہ پُرخار حصہ ہمارے نصیب میں لکھا گیا۔
افسوس ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی پیشوا اور سیاسی راہ نما، اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور ہر جگہ انھیں یہی باور کرائے جا رہے ہیں کہ تمھارے اصل مسائل وہی اقلیت و اکثریت اور آزادیٔ وطن اور تحفظِ قوم اور مادی ترقی کے مسائل ہیں۔ نیز، یہ حضرات ان مسائل کے حل کی تدبیریں بھی، مسلمانوں کو وہی کچھ بتا رہے ہیں جو انھوں نے غیر مسلموں سے سیکھی ہیں۔ لیکن مَیں جتنا خدا کی ہستی پر یقین رکھتا ہوں، اتنا ہی مجھے اس بات پر بھی یقین ہے کہ یہ آپ کی بالکل غلط راہ نُمائی کی جا رہی ہے اور ان راہوں پر چل کر آپ کبھی اپنی فلاح کی منزل کو نہ پہنچ سکیں گے۔
اصل مسئلہ
مَیں آپ کا سخت بد خواہ ہوں گا اگر لاگ لپیٹ کے بغیر، آپ کو صاف نہ بتا دوں کہ آپ کی زندگی کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ میرے علم میں آپ کا حال اور آپ کا مستقبل مُعلّق ہے ،اِس سوال پر کہ آپ اُس ہدایت کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں جو آپ کو خدا کے رسولؐ کی معرفت پہنچی ہے، جس کی نسبت سے آپ کو مسلمان کہا جاتا ہے ، اور جس کے تعلق سے آپ _____ خواہ چاہیں، یا نہ چاہیں _____ بہرحال دُنیا میںاسلام کے نمایندے قرار پاتے ہیں۔
اگر آپ اُس کی صحیح پیروی کریں اور اپنے قول اور عمل سے اس کی سچی شہادت دیں اور آپ کے اجتماعی کردار میں، پورے اسلام کا ٹھیک ٹھیک مظاہرہ ہونے لگے تو آپ دنیا میں سربلند اور آخرت میں سرخ رُو ہو کر رہیں گے۔ خوف اور حزن ، ذلت اور مسکنت ، مغلوبی اور محکومی کے یہ سیاہ بادل جو آپ پر چھائے ہوئے ہیں، چند سال کے اندر چھٹ جائیں گے۔ آپ کی دعوتِ حق اور سیرتِ صالحہ، دلوں کو اور دماغوں کو مسخر کرتی چلی جائے گی۔ آپ کی ساکھ اور دھاک، دنیا پر بیٹھتی چلی جائے گی۔ انصاف کی امیدیں، آپ سے وابستہ کی جائیں گی۔ بھروسا آپ کی امانت و دیانت پر کیا جائے گا۔ سند آپ کے قول کی لائی جائے گی۔ بھلائی کی توقعات آپ سے باندھی جائیں گی۔ ائمہ کفر کی کوئی ساکھ، آپ کے مقابلے میں باقی نہ رہ جائے گی۔ اُن کے تمام فلسفے اور سیاسی و معاشی نظریے، آپ کی سچائی اور راست روی کے مقابلے میں، جھوٹے ملمع ثابت ہوں گے۔ جو طاقتیں آج اُن کے کیمپ میں نظر آ رہی ہیں، ٹوٹ ٹوٹ کر اسلام کے کیمپ میں آتی چلی جائیں گی، حتی کہ ایک وقت وہ آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں، اپنے بچائو کے لیے پریشان ہو گا، سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیو یارک میں، اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہو گی، مادّہ پرستانہ الحاد، خود لندن اور پیرس کی یونی ورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہو گا ۔ نسل پرستی اور قوم پرستی خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد نہ پا سکے گی، اور یہ آج کا دور، صرف تاریخ میں ایک داستانِ عبرت کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا کہ اسلام جیسی عالم گیر و جہاں کشا طاقت کے نام لیوا کبھی اتنے بے وقوف ہو گئے تھے کہ عصائے موسیٰ بغل میں تھا اور لاٹھیوں اور رسیوں کو دیکھ دیکھ کانپ رہے تھے ۔
یہ مستقبل تو آپ کا اس صورت میں ہے جب کہ آپ اسلام کے مخلص پیرو اور سچے گواہ ہوں۔ لیکن اس کے برعکس اگر آپ کا رویہ یہی رہا کہ خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت پر بارِ زر (دولت کا بوجھ) بنے بیٹھے ہیں، نہ خود اُس سے مستفید ہوتے ہیں، نہ دُوسروں کو اس کا فائدہ پہنچنے دیتے ہیں۔ اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر، نمایندے تو اسلام کے بنے ہوئے ہیں، مگر اپنے مجموعی قول و عمل سے شہادت زیادہ تر جاہلیت، شرک ، دنیا پرستی اور اخلاقی بے قیدی کی دے رہے ہیں، خدا کی کتاب طاق پر رکھی ہے اور راہ نُمائی کے لیے ہر امامِ کفر اور ہر منبعِ ضلالت کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے ، دعوٰی خدا کی بندگی کا ہے اور بندگی ہر شیطان اور ہر طاغوت کی، کی جا رہی ہے، دوستی اور دشمنی نفس کے لیے ہے اور فریق دونوں صورتوں میں اسلام کو بنایا جا رہا ہے، اور اس طرح اپنی زندگی کو بھی اسلام کی برکتوں سے محروم کر رکھا ہے اور دنیا کو بھی اس کی طرف راغب کرنے کے بجائے، الٹا متنفر کر رہے ہیں، تو اس صورت میں نہ آپ کی دنیا ہی درست ہو سکتی ہے اور نہ آخرت۔ اس کا انجام تو سنت اللہ کے مطابق وہی کچھ ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں اور بعید نہیں کہ مستقبل اِس حال سے بھی بد تر ہو۔
اسلام کا لیبل اُتار کر کھلم کھلا کفر اختیار کر لیجیے تو کم از کم، آپ کی دنیا توویسی ہی بن جائے گی جیسی امریکا ، روس اور برطانیہ کی بنی ہوئی ہے۔ لیکن مسلمان ہو کر، نامسلمان بنے رہنا اور خدا کے دین کی جھوٹی نمایندگی کر کے، دنیا کے لیے بھی ہدایت کا دروازہ بند کر دینا وہ جرم ہے جو آ پ کو دنیا میں بھی پنپنے نہ دے گا۔ اس جرم کی سزا جو قرآن میں لکھی ہوئی ہے اور جس کا زندہ ثبوت، یہودی قوم آپ کے سامنے موجود ہے، اُسے آپ ٹال نہیں سکتے، خواہ متحدہ قومیت کے اہون البلیتین کو اختیار کریں، یا اپنی الگ قومیت منوا کر، وہ سب کچھ حاصل کر لیں جو مسلم قوم پرستی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کے ٹلنے کی صورت، صرف یہی ہے کہ اِس جرم سے باز آجائیے۔
ہمارا مقصد
اب مَیں چند الفاظ میں آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ ہم کس غرض کے لیے اُٹھے ہیں۔ہم ان سب لوگوں کو جو اسلام کو اپنا دین مانتے ہیں، یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس دین کو واقعی اپنا دین بنائیں۔ اسے انفرادی طور پر، ہر مسلمان اپنی ذاتی زندگی میں بھی قائم کرے اور اجتماعی طور پر پوری قوم، اپنی قومی زندگی میں بھی نافذ کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ ہم اُن سے کہتے ہیں کہ آپ اپنے گھروں میں، اپنے خاندان میں ، اپنی سوسائٹی میں، اپنی تعلیم گاہوں میں، اپنے ادب اور صحافت میں، اپنے کاروبار اور معاشی معاملات میں، اپنی انجمنوں اور قومی اداروں میں، اور بحیثیتِ مجموعی اپنی قومی پالیسی میں عملاً اسے قائم کریں اور اپنے قول اور عمل سے دنیا کے سامنے، اُس کی سچی گواہی دیں۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے تمھاری زندگی کا اصل مقصد اقامتِ دین اور شہادتِ حق ہے، اس لیے تمھاری تمام سعی وعمل کا مرکزو محور اسی چیز کو ہونا چاہیے۔ ہر اُس بات اور کام سے دست کش ہو جائو جو اس کی ضد ہو، اور جس سے اسلام کی غلط نمایندگی ہوتی ہو۔ اسلام کو سامنے رکھ کر اپنے پورے قولی اور عملی رویے پر نظر ثانی کرو اور اپنی تمام کوششیں، اس راہ میں لگا دو کہ دین پورے کا پورا عملاً قائم ہو جائے، اس کی شہادت، تمام ممکن طریقوں سے ٹھیک ٹھیک ادا کر دی جائے، اور اس کی طرف، دنیا کو ایسی دعوت دی جائے جو اتمامِ حجت کے لیے کافی ہو۔
ہمارا طریقۂ کار
یہی جماعتِ اسلامی کے قیام کی واحد غرض ہے۔ اس غرض کو پورا کرنے کے لیے جو طریقہ ہم نے اختیارکیا ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے، ہم مسلمانوں کو، اُن کا فرض یاد دلاتے ہیں اور انھیں صاف صاف بتاتے ہیں کہ اسلام کیا ہے ؟ اس کے تقاضے کیا ہیں؟ مسلمان ہونے کے معنی کیا ہیں؟ اور مسلمان ہونے کے ساتھ کیا ذِمّہ داریاں آدمی پر عائد ہوتی ہیں؟
اس چیز کو جو لوگ سمجھ لیتے ہیں انھیں پھر ہم یہ بتاتے ہیں کہ اسلام کے سب تقاضے، انفرادی طور پر پورے نہیں کیے جا سکتے، اس کے لیے اجتماعی سعی ضروری ہے۔ دین کا ایک بہت ہی قلیل حصہ، انفرادی زندگی سے تعلق رکھتا ہے، اسے تم نے قائم کر بھی لیا، تو نہ پورا دین ہی قائم ہو گا اور نہ اس کی شہادت ہی ادا ہو سکے گی، بلکہ جب اجتماعی زندگی پر نظامِ کفر مسلط ہوتو، خود انفرادی زندگی کے بھی، بیش ترحصوں میں، دین قائم نہ کیا جا سکے گا اور اجتماعی نظام کی گرفت، روز بروز اس انفرادی اسلام کی حدود کو گھٹاتی چلی جائے گی۔ اس لیے پورے دین کو قائم کرنے اور اس کی صحیح شہادت ادا کرنے کے لیے قطعاً نا گزیر ہے کہ تمام ایسے لوگ جو مسلمان ہونے کی ذِمّہ داریوں کا شعور اور انھیں ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں، متحد ہو جائیں اور منظم طریقے سے دین کو عملاً قائم کرنے اور دُنیا کو اُس کی طرف دعوت دینے کی کوشش کریں اور اُن مزاحمتوں کو راستے سے ہٹائیں جو اِقامتِ دین و دعوتِ دین کی راہ میں حائل ہوں۔
نظمِ جماعت
یہی وجہ ہے کہ دین میں جماعت کو لازم قرار دیا گیا ہے اور اقامتِ دین اور دعوتِ دین کی جدوجہد کے لیے ترتیب یہ رکھی گئی ہے کہ پہلے ایک نظمِ جماعت ہو، پھر خدا کی راہ میں سعی و جہد کی جائے اور یہی وجہ ہے کہ جماعت کے بغیر زندگی کو جاہلیت کی زِندگی اور جماعت سے علیحدہ ہو کر رہنے کو اسلام سے علیحدگی کا ہم معنی قرار دیا گیا ہے اشارہ ہے اس حدیث کی طرف جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
اَنَا اٰمُرُکُمْ بِخَمْسِ اللّٰہُ اَمَرَنِیْ بِھِنَّ اَلْجَمَاعَۃُ ، وَالسَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ ، وَالْھِجْرَۃُ، وَالْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، فَاِنَّہٗ مَنْ خَرَجَ مِنَ الْجَمَاعَۃِ قِیْدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَۃَ الْاِسْلاَمِ مِنْ عُنُقِہٖ اِلاَّ اَنْ یُّرَاجِعَ ۔ وَ مَنْ دَعَابِدَعْوَی جَاھِلِیَّۃٍ فَھُوَ مِنْ جُثَی جَھَنَّمَ۔ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ اِنْ صَامَ وَصَلیّٰ؟ قَالَ وَ اِنْ صَلیّٰ وَ صَامَ وَ زَعَمَ اَنَّہ، مُسلِمٌ(احمد و حاکم)
میں تمھیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں جن کا حکم اللہ نے مجھے دیا ہے: ۱۔ جماعت، ۲۔ سمع، ۳۔اطاعت، ۴۔ہجرت، ۵۔ اور خدا کی راہ میں جہاد۔ جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی الگ ہوا، اُس نے اسلام کا حلقہ اپنی گردن سے اُتار پھینکا ، اِلّایہ کہ وہ پھر جماعت کی طرف پلٹ آئے، اور جس نے جاہلیت(یعنی افتراق و انتشار) کی دعوت دی وہی جہنمی ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!اگرچہ وہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے؟ فرمایا! ہاں اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے اور مسلمان ہونے کا دعوٰی کرے۔اس حدیث سے تین باتیں ثابت ہوتی ہیں: کارِ دین کی صحیح ترتیب یہ ہے کہ پہلے جماعت ہو، اور اس کی ایسی تنظیم ہو کہ سب لوگ کسی ایک کی بات سنیں اور اس کی اطاعت کریں، پھر جیسا بھی موقعہ ہو، اس کے لحاظ سے ہجرت اور جہاد کیا جائے۔
۲۔ جماعت سے علیحدہ ہو کر رہنا، گویا اسلام سے علیحدہ ہونا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اس زندگی کی طرف واپس جا رہا ہے جو اسلام سے قبل زمانۂ جاہلیت میں عربوں کی تھی کہ ان میں کوئی کسی کی سننے والا نہ تھا۔
۳۔ اسلام کے بیش تر تقاضے اور اس کے اصل مقاصد، جماعت اور اجتماعی سعی ہی سے پورے ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت سے الگ ہونے والے کو، اس کی نماز اور روزے اور مسلمانی کے دعوے کے باوجود، اسلام سے نکلنے والا قرار دیا۔ اسی مضمون کی شرح ہے جو حضرت عمر ؓنے اپنے اس ارشاد میں فرمایا ہے کہ ’’لَا اِسْلَامَ اِلَّابِجَمَاعَۃٍ‘‘ (جامع لا بن عبدالبرّ)
کام کے تین راستے
جو لوگ اس بات کو بھی سمجھ لیتے ہیں اور اس فہم سے اُن کے اندر مسلمان ہونے کی ذِمّہ داری کا احساس، اس حد تک قوی ہو جاتا ہے کہ اپنے دین کی خاطر اپنی انفرادیت اور خود پرستی کو قربان کرکے، جماعتی نظم کی پابندی قبول کر لیں، ان سے ہم کہتے ہیں کہ اب تمھارے سامنے تین راستے ہیں اور تمھیں پوری آزادی ہے، ان میں سے جسے چاہو اختیار کر و:
٭ اگر تمھارا دل گواہی دے کہ ہماری دعوت، عقیدہ، نصب العین، نظامِ جماعت اور طریقِ کار، سب کچھ خالص اسلامی ہے اور ہم وہی کام کرنے اُٹھے ہیںجو قرآن و حدیث کی رُو سے امتِ مسلمہ کا اصل کام ہے تو ہمارے ساتھ آجائو۔
٭ اگر کسی وجہ سے تمھیں ہم پر اطمینان نہ ہو، اور کوئی دُوسری جماعت تمھیں ایسی نظر آتی ہے جو خالص اسلامی نصب العین کے لیے، اسلامی طریق پر کام کر رہی ہو، تو اس میں شامل ہو جائو۔ ہم خود بھی ایسی جماعت پاتے، تو اسی میں شامل ہو جاتے کیوں کہ ہمیں ڈیڑھ اینٹ کی مسجدالگ چننے کا شوق نہیں ہے۔
٭ اگر تمھیں نہ ہم پر اطمینان ہے، نہ کسی دُوسری جماعت پر، تو پھر تمھیں اپنے فرضِ اسلامی کو ادا کرنے کے لیے خود اٹھنا چاہیے اور اسلامی طریق پر ایک ایسی جماعت بنانی چاہیے جس کا مقصد، پورے دین کو قائم کرنا اور قول و عمل سے اس کی شہادت دینا ہو۔
ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی تم اختیار کرو گے، اِن شاء اللہ حق پر ہو گے۔ ہم نے کبھی یہ دعوٰی نہیں کیا اور نہ بسلامتیِ ہوش و حواس ہم یہ دعوٰی کر سکتے ہیں کہ صرف ہماری ہی جماعت حق پر ہے اور جو ہماری جماعت میں نہیں ہے، وہ باطل پر ہے۔ ہم نے کبھی لوگوں کو اپنی جماعت کی طرف دعوت نہیں دی ہے۔ ہماری دعوت تو صرف اُس فرض کی طرف ہے جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے، ہم پر اور آپ پر یکساں عائد ہوتا ہے۔ اگر آپ اسے ادا کر رہے ہیں ، برحق ہیں، خواہ ہمارے ساتھ مل کر کام کریں یا نہ کریں۔ البتہ یہ بات کسی طرح درست نہیں ہے کہ آپ نہ خود اٹھیں، نہ کسی اٹھنے والے کا ساتھ دیں، اور طرح طرح کے حیلے اور بہانے کر کے، اقامتِ دین اور شہادت علی الناس کے فریضے سے جی چرائیں، یا ان کاموں میںاپنی قوتیں خرچ کریں، جن سے دین کے بجائے، کوئی دُوسرا نظام قائم ہوتا ہو، اور اسلام کے بجائے کسی اور چیز کی گواہی، آپ کے قول و عمل سے ملے۔ معاملہ، دُنیا اور اس کے لوگوں سے ہوتا تو حیلوں اور بہانوں سے کام چل سکتا تھا، مگر یہاں تو اس خدا کے ساتھ معاملہ ہے جو علیم بذات الصدور ہے۔ اسے کسی چال بازی سے دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔
مختلف دینی جماعتیں
اس میں شک نہیں کہ ایک ہی مقصد اور ایک ہی کام کے لیے مختلف جماعتیں بننا، بظاہر غلط معلوم ہوتا ہے، اور اس میں انتشار کا بھی اندیشہ ہے، مگر جب نظامِ اسلامی درہم برہم ہو چکا ہو اور سوال اس نظام کے چلانے کا نہیں، بلکہ اس کے از سرِنَو قائم کرنے کا ہو، تو ممکن نہیں کہ ابتدا ہی میں وہ الجماعۃ وجود میں آ جائے جو تمام اُمّت پر مشتمل ہو، جس کا التزام ہر مسلمان پر واجب ہو، اور جس سے علیحدہ رہنا جاہلیت اور علیحدہ ہونا اِرتداد کا ہم معنی ہو۔ آغازِ کار میں اس کے سوا چارہ نہیں کہ جگہ جگہ مختلف جماعتیں، اس مقصد کے لیے بنیں اور اپنے اپنے طور پر کام کریں۔ یہ سب جماعتیں بالآخر ایک ہو جائیں گی اگر نفسانیت اور افراط و تفریط سے پاک ہوں اور خلوص کے ساتھ اصل اسلامی مقصد کے لیے اسلامی طریق پر کام کریں۔ حق کی راہ میں چلنے والے زیادہ دیر تک الگ نہیں رہ سکتے۔ حق انھیں جمع کر کے ہی رہتا ہے ، کیوں کہ حق کی فطرت ہی جمع و تالیف اور وحدت و یگانگت کی متقاضی ہے۔ تفرقہ صرف اس صورت میں رُونما ہوتا ہے جب حق کے ساتھ کچھ نہ کچھ باطل کی آمیزش ہو، یا اوپر حق کی نمائش ہو، اور اندر باطل کام کر رہا ہو۔
شرکاسے ہمارا مطالبہ
اب مَیں اختصار کے ساتھ یہ بھی عرض کر دوں کہ جو لوگ ہماری جماعت کو پسند کرکے اس میں داخل ہوتے ہیں، ان سے ہمارا مطالبہ کیا ہوتا ہے اور اُن کے لیے ہمارے پاس کام کیا ہے۔ اپنے ارکان سے ہمارا کوئی مطالبہ، اُس مطالبے کے سوا نہیں ہے جو اسلام نے ہر مسلمان سے کیا ہے ۔ ہم نہ تو اسلام کے اصل مطالبے پر ذرہ برابر کسی چیز کا اضافہ کرتے ہیں اور نہ اس میں سے کوئی چیز گھٹاتے ہیں۔ ہم ہر شخص کے سامنے، پورے اسلام کو بے کم و کاست پیش کر دیتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ اِس دین کو جان بوجھ کر شعور کے ساتھ قبول کرو۔ اس کے تقاضوں کو سمجھ کر ٹھیک ٹھیک ادا کرو۔ اپنے خیالات اور اقوال و اعمال میں سے، ہر اس چیز کو خارج کر دو، جو دین کے احکام اور اس کی روح کے خلاف ہو، اور اپنی پوری زندگی سے اسلام کی شہادت دو۔
بس یہی ہمارے ہاں داخلے کی فیس ہے اور یہی ہمارے قواعدِ رکنیت ہیں۔ ہمارا دستور، ہمارا نظامِ جماعت اور وہ چیز جس کی طرف ہم دعوت دیتے ہیں، سب کے سامنے عیاں ہے۔ اُس کا جائزہ لے کر ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ ہم نے اصل اسلام میں___اُس اسلام میں جو قرآن اور سنت پر مبنی ہے ___ نہ کوئی کمی کی ہے نہ بیشی۔ ہم ہروقت تیار ہیں کہ ہماری جس چیز کے متعلق بھی کوئی ثابت کر دے گا کہ وہ قرآن و سنت کی تعلیم پر اضافہ ہے، اسے ہم اپنے ہاں سے خارج کر دیں گے اور جس چیز کے متعلق بھی بتا دے گا کہ وہ اس تعلیم میں ہے اور ہمارے ہاں نہیں ہے، اسے ہم بلاتامّل اختیار کر لیں گے، کیوں کہ ہم تو اُٹھے ہی پورے دین کی بے کم وکاست اقامت اور شہادت کے لیے ہیں۔ پھر ہم سے بڑا ظالم اور کون ہو گا، اگر ہم اپنے اِسی مقصد میں منافق ثابت ہوں۔
مطلوب کام
اس طرح جو لوگ ہمارے نظام جماعت میں شامل ہوتے ہیں، اُن کے لیے ہمارے پاس صرف یہ کام ہے کہ وہ اپنے قوَل اور عمل سے اسلام کی شہادت دیں اور نظامِ دین کو مکمل طور پر قائم کرنے کے لیے اجتماعی جدوجہد کریں، تا کہ شہادت علی الناس کا حق پوری طرح ادا ہو سکے۔
جہاں تک قولی شہادت کا تعلق ہے ، ہم اپنے ارکان کو ایسی تربیت دے رہے ہیں جس سے وہ اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق زبان اور قلم سے، اسلام کی زیادہ سے زیادہ معقول شہادت ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ نیز، ہم ایسے ادارے بھی قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو منظم طریقے سے علم و ادب کے ہر شعبے میں زندگی کے جملہ مسائل کے متعلق، اسلامی تعلیمات کی حقانیت کو دنیا پر واضح کریں اور اس مقصد کے لیے نشر و اشاعت کے تمام ممکن ذرائع سے کام لیں۔ رہی، عملی شہادت، تو اس بارے میںہماری کوشش یہ ہے کہ اول تو ایک ایک شخص اسلام کا زندہ گواہ ہو، پھران افراد سے ایک ایسی منظم سوسائٹی نشو و نما پائے جس کے اندر اسلام اپنی اصل اسپرٹ میں کام کرتا ہوا دیکھا جا سکتا ہو، اور بالآخر یہ سوسائٹی اپنی جدوجہد سے نظامِ باطل کے غلبے کو مٹا کر، وہ نظامِ حق قائم کرے جو دنیا میں اسلام کی مکمل نمایندگی کرنے والا ہو۔
اعتراضات اور ان کے جوابات
حضرات! بس یہ ہے ہمارا مقصد اور یہ ہے ہمارا پروگرام ۔ ہمیں اُمید نہ تھی کہ یہ چیز بھی ایسی ہو سکتی ہے جس پر کسی مسلمان کو اعتراض ہو، مگر جس روز سے ہم نے اس راہ میں قدم رکھا ہے، اعتراضات کا ایک نہ رُکنے والا سیلاب ہے کہ اُمڈا چلا آ رہا ہے۔ تمام اعتراضات تو نہ قابلِ توجہ ہیں اور نہ ایک صحبت میں ان سب سے تعرّض ہی کیا جاسکتا ہے ، مگر اس موقعہ پر میں ان چنداعتراضات پر کچھ عرض کروں گا جو آپ کے شہر میں غلط فہمیاں پھیلانے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
نیافرقہ
کہا جاتا ہے کہ تمھاری یہ جماعت، اسلام میں ایک نئے فرقے کی بِنا ڈال رہی ہے۔ یہ بات جو لوگ کہتے ہیں انھیں شاید معلوم نہیں ہے کہ فرقہ بندی کے اصل اسباب کیا ہوتے ہیں۔ دین میں جن باتوں کی وجہ سے تفرقہ برپا ہوتا ہے، اُن سب کا اگر آپ استقصاکریں گے (اُن کی تہہ تک پہنچیںگے)، تو وہ صرف چار عنوانات پر تقسیم ہوں گی:
۱۔ ایک یہ کہ اصل دین پر کسی ایسی چیز کا اضافہ کیا جائے جو دین میں نہ ہو، اور اُسی کو اختلافِ کفر و ایمان یا فرقِ ہدایت و ضلالت کی بنیاد بنا ڈالا جائے۔
۲۔ دُوسرے یہ کہ دین کے کسی خاص مسئلے کو لے کر، اسے وہ اہمیت دی جائے جو کتاب و سنت کی رُو سے اُسے حاصل نہیں ہے اور اُسی کو گروہ بندی کی بِنا قرار دے لیا جائے۔
۳۔ تیسرے یہ کہ اجتہادی اور استنباطی مسائل میں غلو کیا جائے اور ان اُمور میں اپنے مسلک کے سوا، دُوسرے مسلک والوں کی تفسیق و تضلیل یا تکفیر کی جائے، یا کم از کم ان سے امتیازی معاملہ کیا جائے۔
۴۔ چوتھے یہ کہ نبی کے بعد کسی خاص شخصیت کے معاملے میں غلو کیا جائے اور اُس کے لیے، کسی ایسے منصب کا دعوٰی کیا جائے جسے تسلیم کرنے یا نہ کرنے پر آدمی کے مومن یا کافر ہونے کا مدار ہو، یا کوئی جماعت یہ دعوٰی کرے کہ جو اُس میں داخل ہے صرف وہی حق پر ہے ، باقی سب مسلمان باطل پر ہیں۔
اب مَیں پوچھتا ہوں کہ ہم نے ان چاروں عنوانات میں سے، کس عنوان کی غلطی کی ہے؟ اگر کوئی صاحب دلیل و ثبوت کے ساتھ ہمیں صاف صاف بتا دیں کہ ہم نے واقعی فلاں عنوان کی غلطی کی ہے تو ہم فی الفور توبہ کریں گے اور ہمیں اپنی اصلاح کرنے میں ہر گز تامل نہ ہو گا، کیوں کہ ہم خدا کے دین کو قائم کرنے کے لیے اٹھے ہیں، تفرقہ برپا کرنے نہیں اٹھے ہیں۔ لیکن اگر ایسی کوئی غلطی ہم نے نہیں کی ہے، تو پھر ہمارے کام سے کسی فرقے کی پیدائش کا اندیشہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ ہم صرف اصل اسلام اور بے کم و کاست پورے اسلام کو لے کر اُٹھے ہیں اور مسلمانوں کو ہماری دعوت، اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ آئو !ہم سب مل کر اسے عملاً قائم کریں اور دنیا کے سامنے اِس کی شہادت دیں۔اجتماع کی بنیاد ہم نے پورے دین کو قرار دیا ہے ، نہ کہ اس کے کسی ایک مسئلے یا چند مسائل کو۔
اجتہادی مسائل میں ہمارا مسلک
اجتہادی مسائل میں ہم تمام، اُن مذاہب و مسائل کو برحق تسلیم کرتے ہیں جن کے لیے قواعدِ شریعت میںگنجائش ہے۔ ہم ہر ایک کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں کہ ان مذاہب و مسالک میںسے جس کا جس پر اطمینان ہو، وہ اپنی حد تک اس پرعمل کرے۔ کسی خاص اجتہادی مسلک کی بنیاد پر گروہ بندی کو ہم جائز نہیں رکھتے۔
غلو سے پرہیز
اپنی جماعت کے بارے میں بھی ہم نے کوئی غلو نہیں کیا۔ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ حق صرف ہماری جماعت میں دائر و منحصر ہے۔ ہمیں اپنے فرض کا احساس ہوا، اور ہم اُٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ کو آپ کا فرض یاد دلا رہے ہیں۔ اب یہ آپ کی خوشی ہے کہ آپ ہمارے ساتھ ہوں ، یا خود اُٹھیں اور اپنا فرض ادا کریں، یا جو بھی آپ کو یہ فرض ادا کرتا نظر آئے اس کے ساتھ مل جائیں۔
امارت میں غلو
امارت کے باب میں کبھی ہم کسی غلو کے مُرتکب نہیں ہوئے ہیں۔ ہماری یہ تحریک کسی شخصیت کے بل پر نہیں اٹھی ہے جس کے لیے کسی خاص منصب کا دعوٰی کیا گیا ہو، جس کی کرامتوں اور الہامات اور تقدس کی داستانوں کا اشتہار دیا جاتا ہو، جس کی ذاتی عقیدت پر جماعت کی بنیاد رکھی گئی ہو، اور جس کی طرف لوگوں کو دعوت دی جاتی ہو۔ دعووں اور خوابوں اور کشوف و کرامات اور شخصی تقدس کے تذکروں سے، ہماری تحریک بالکل پاک ہے۔
اُصولی تحریک
یہاں دعوت کسی شخص یا اشخاص کی طرف نہیں ہے، بلکہ اُس مقصد کی طرف ہے جو قرآن کی رُو سے ہر مسلمان کا مقصد ِزندگی ہے اور اُن اُصولوں کی طرف ہے جن کے مجموعے کا نام اسلام ہے۔ جو لوگ بھی اس مقصد کے لیے، ان اصولوں پر ہمارے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیں وہ مساوی حیثیت سے، ہماری جماعت کے رکن بنتے ہیں۔
انتخابِ امیر
یہ ارکان، ایک شخص کو اپنا امیر منتخب کرتے ہیں، نہ اس بنا پر کہ امارت اُس کا کوئی ذاتی حق ہے، بلکہ اِس بنا پر کہ بہرحال منظم طریقے پر کام کرنے کے لیے، ایک سربراہِ کار ہونا چاہیے۔ یہ منتخب کردہ امیر معزول کیا جا سکتا ہے اور جماعت میں سے، کوئی دُوسرا شخص اس کی جگہ امارت کے لیے چنا جا سکتا ہے ۔ یہ امیر صرف اسی جماعت کا امیر ہے، نہ کہ تمام اُمّت کا۔ اس کی اطاعت، صرف انھی لوگوں پر لازم ہے جو اِس جماعت میں شامل ہوں، اور ہمارے ذہنوں میں ایسا کوئی تصور تک نہیں ہے کہ ’’جس کی گردن میں اس کی بیعت کا کلادہ نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔‘‘
اب خدا را مجھے بتائیے کہ جب ہم اس طریقے پر کام کر رہے ہیں تو آخر ہماری اِس تحریک سے، اُمّت میں ایک نیا فرقہ کیسے بن جائے گا؟ عجیب تر بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے دامن، خود اِن غلطیوں سے آلودہ ہیں، جن کی وجہ سے فرقہ بندی کا فتنہ رونما ہوتا ہے ، جن کے ہاں خوابوں اور کشفوں اور کرامتوں کے چرچے ہیں، جن کے ہاں سارا کام کسی ’’حضرت‘‘ کی شخصی عقیدت کے بل پر چل رہا ہے، جن کے ہاں کسی شخصیت کے لیے، کسی مخصوص منصب کا دعوٰی کیا جاتا ہے ، جن کے ہاں فروعی مسائل پر جھگڑے اور مناظرے ہوتے ہیں اور اجتہادی مسالک پر دھڑے بندیاں کی جاتی ہیں، وہی ہمیں الزام دینے میں پیش پیش ہیں۔ اگر کوئی برا نہ مانے تو میں صاف کہوں کہ ہمارا اصل قصور جس پر یہ حضرات بگڑے ہوئے ہیں وہ نہیں ہے، جو یہ زبانوں سے کہتے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم نے دین کے اس اصلی کام کی طرف دعوت دی، جو اُن کے نفس کو مرغوب نہیں ہے ، اور اس کام کے لیے وہ صحیح طریقہ اختیار کیا جس سے اُن کے طریقوں کی غلطیاں بے نقاب ہونے لگیں۔
علیحدہ جماعت بنانے کی ضرورت
ہم سے کہا جاتا ہے کہ اگر تمھیں یہی کام کرنا تھا تو ضرور کرتے، مگر تم نے ایک الگ جماعت، مستقل نام کے ساتھ کیوں بنائی؟ اس سے تو اُمّت میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ فی الواقع یہ ایک عجیب اعتراض ہے۔ میں حیران ہوں کہ جب دینی، یا خلافِ دین سیاست کے لیے، غیر اسلامی تعلیم کے لیے ، مذہبی دھڑے بندیوں کے لیے اور خالص دنیوی اغراض کے لیے، مغرب کے جمہوری یا فاشسٹی طریقوں پر، مسلمانوں کی انجمنیں اور جماعتیں، مستقل ناموں کے ساتھ بنتی ہیں تو انھیں ٹھنڈے دل سے برداشت کیا جاتا ہے ۔ لیکن اگر دین کے اصل کام کے لیے خالص دینی اصولوں پر کوئی جماعت بنتی ہے تو یکایک، اُمّت میں انتشار کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے اور صرف یہی ایک جماعت سازی قابلِ برداشت نہیں ہوتی۔ اس سے شبہ ہوتا ہے کہ معترضین کو اصل میں چڑ، جماعت سازی سے نہیں، بلکہ اس بات سے ہے کہ کوئی جماعت، دین کے اصل کام کے لیے بنے۔ تاہم، مَیں ان سے عرض کروں گا کہ جماعت سازی کا قصور ہم نے مجبورًا کیا ہے نہ کہ شوقیہ۔ سب کو معلوم ہے کہ اس جماعت کی تشکیل سے پہلے مَیں برسوں اکیلا پکارتا رہا ہوں کہ مسلمانو! یہ تم کن راہوں میں اپنی قوتیں اور کوششیں صَرف کر رہے ہو۔ تمھارے کرنے کا اصل کام تو یہ ہے ، اس پر اپنی تمام مساعی مرکوز کرو۔ یہ دعوت، اگر سب مسلمان قبول کر لیتے تو کہنا ہی کیا تھا۔ مسلمانوں میں ایک جماعت بننے کے بجائے، مسلمانوں کی ایک جماعت بنتی اور کم از کم ہندستان کی حد تک وہ ’’الجماعت‘‘ ہوتی، جس کی موجودگی میں کوئی دُوسری جماعت بنانا شرعاً حرام ہوتا۔ یہ بھی نہیں تو مسلمانوں کی مختلف جماعتوں میں سے، کوئی ایک ہی اسے مان لیتی، تب بھی ہم راضی تھے ، اسی میں بخوشی شامل ہو جاتے، مگر جب پکار پکار کر ہم تھک گئے اور کسی نے سن کر جواب نہ دیا، تب ہم نے مجبورًا یہ فیصلہ کیا کہ وہ سب لوگ جو اِس کام کو حق اور فرض سمجھ چکے ہیں خود ہی مجتمع ہوں اور اس کے لیے اجتماعی سعی کریں۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ نہیں تو ہمیں اور کیا کرنا چاہیے تھا؟ تمھیں اگر اس کام کے فرض ہونے سے انکار ہے تو دلیلِ انکار ارشاد ہو۔ اگر انکار نہیں، تو بتائو کیا واقعی تمھاری یہ مختلف انجمنیں اور جماعتیں یہی فرض انجام دے رہی ہیں؟ اگر یہ بھی نہیں، تو کیا اب تمھارے ہاں نوبت یہ آ گئی کہ جو فرض کو پہچانے اور اسے ادا کرنے کے لیے اُٹھے، وہی اُلٹا قصور وار قرار پائے۔
امیر یا لیڈر
ہم سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تم نے اپنی جماعت کے لیڈر کے لیے ’’امیر‘‘ کا لفظ کیوں اختیار کیا ؟ امیر یا امام تو صرف با اختیار اور صاحبِ سیف ہی ہو سکتا ہے ۔ اس کی تائید میں کچھ حدیثیں بھی پیش کی جاتی ہیں، جن سے استدلال کیا جاتا ہے کہ امامت یا تو امامتِ علم ہے ، یا امامتِ نماز ، یا امامتِ قتال و جہاد۔ اس کے سوا کوئی تیسری قسم امامت کی نہیں ہے۔
یہ اعتراض جو حضرات کرتے ہیں وہ صرف اُس وقت کی فقہ اور اُس وقت کی احادیث سے واقف ہیں جب اسلامی نظام، سیاسی اقتدار کی منزل پر پہنچ چکا تھا اور صاحبِ سیف امامت قائم ہو گئی تھی، مگر اِنھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ جب سیف چھن جائے، مسلمانوں کی جماعت اختیار و اقتدار سے محروم ہو جائے اور اسلامی نظامِ جماعت بھی درہم برہم ہو جائے، تو اس وقت کے لیے کیا احکام ہیں۔ میں اِن سے پوچھتا ہوں کہ ایسی حالت میں کیا مسلمانوں کو یہی کرنا چاہیے کہ فرد فرد الگ ہو جائے اور بیٹھ کر بس دعا کرتا رہے کہ خدایا! کوئی صاحبِ سیف امام بھیج دے ، یا ایسی امامت قائم کرنے کے لیے کوئی اجتماعی سعی بھی ہونی چاہیے، تو براہِ کرم! وہ ہمیںبتائیں کہ جماعت بنائے بغیربھی کوئی اجتماعی سعی کی جا سکتی ہے ؟
اگر وہ مانتے ہیں کہ جماعت بنائے بغیر چارہ نہیں ہے تو کیا کوئی جماعت کسی راہ نما، کسی سربراہ ، کسی صاحبِ امر کے بغیر بھی چل سکتی ہے ؟ اگر وہ اس کی ضرورت بھی تسلیم کرتے ہیں تو وہ خود ہی ہمیں بتائیں کہ اس اسلامی مقصد کے لیے جو اسلامی جماعت بنائی جائے، اس کے سربراہِ کار کے لیے اسلام میں کیا اصطلاح مقرر ہے؟ جو اِصطلاح بھی وہ ارشاد فرمائیں گے، ہم اسی کو قبول کر لیں گے، بشرطیکہ وہ ہو اسلامی اصطلاح، یاپھر وہ صاف صاف یہی کہہ دیں کہ اسلام میں سیف حاصل ہونے کے بعد کے لیے تو ہدایات موجود ہیں لیکن ’’بے سیفی‘‘ کی حالت میں سیف کس طرح حاصل کی جائے۔ اس باب میں اس نے کوئی ہدایت نہیں دی ہے، اور یہ کام جسے کرنا ہو، اُسے غیر اسلامی طریقوں پر، غیر اسلامی اصطلاحوں سے کرنا چاہیے۔ اگر ان حضرات کا یہ منشا نہیں تو ہمارے لیے یہ مُعمّا ناقابلِ حل ہے کہ صدر، لیڈر اور قائد وغیرہ اصطلاحیں استعمال کی جائیں تو وہ سب انھیں گوارا ہیں، مگر ’’ امیر‘‘ کی اسلامی اصطلاح سنتے ہی، یہ کیوں چراغ پا ہو جاتے ہیں۔
عام طور پر لوگوں کو اس مسئلے کے سمجھنے میں جو دقت پیش آتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریمؐ کے عہد میں، جب امیر یا امام کی اصطلاح استعمال کی گئی تھی، اُس وقت اسلامی حکومت قائم ہو چکی تھی، اور جس زمانے میں اسلامی حکومت قائم نہ ہوئی تھی، اُس وقت حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم خود نبی کی حیثیت سے، اقامتِ دین کی جدوجہد کی قیادت فرما رہے تھے۔ اس لیے امارت، یا امامت کی اصطلاحیں استعمال کرنے کا کوئی موقعہ نہ تھا۔
اسلام کا مزاج
لیکن اسلام کے پورے نظام پر نگاہ ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ دین مسلمانوں کے ہر اجتماعی کام میں نظم چاہتا ہے اور اس نظم کی صحیح صورت یہ تجویز کرنا ہے کہ کام، جماعت بن کر کیا جائے۔ جماعت میں سمع و طاعت ہو، اور ایک شخص اُس کا امیر ہو۔ نماز پڑھی جائے تو جماعت کے ساتھ پڑھی جائے اور ایک اس کا امام ہونا چاہیے۔ حج کیا جائے تو منظم طریق پر کیا جائے اور ایک اس کا امیر حج ہونا چاہیے۔ حتّٰی کہ تین آدمی اگر سفر کو نکلیں تب بھی، انھیں منظم طریقے سے سفر کرنا چاہیے اور اپنے ایک ساتھی کو امیر بنا لینا چاہیے۔ارشادِ نبویؐ ہے:
اِذَا خَرَجَ ثَلَاثَۃٌ فِیْ سَفَرٍ فَلْیُؤَمِّرُوْا عَلَیْھِمْ اَحَدَھُمْ۳؎ (ابودائود)
]جب تین آدمی سفر پر نکلیں تو اپنے میں سے کسی ایک کو امیر مقرر کر لیں۔[
اسلامی شریعت کی یہی وہ روح ہے جسے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے کہ جماعت کے بغیر اسلام نہیں اور امارت کے بغیر جماعت نہیں اور اطاعت کے بغیر امارت نہیں۴؎ ۔ پس ہمارا استنباط یہ ہے کہ اقامتِ دین اور شہادتِ علی الناس کی سعی کے لیے جو جماعت بنائی جائے اس کے سربراہِ کار کے لیے، امیر یا امام کے لفظ کا استعمال بالکل صحیح ہے، مگر چونکہ لفظ ’’امام‘‘ کے ساتھ بعض خاص معانی لگ گئے ہیں، اس لیے ہم نے فتنے سے بچنے کی خاطر، اس لفظ کو چھوڑ کر ’’ امیر‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔
وصولیٔ زکوٰۃ کا حق
ایک نرالا اعتراض یہاں یہ بھی سننے میں آیا کہ ’’جو شخص اس طرح جماعت کا سربراہِ کار چنا جائے، اُسے زکوٰۃ وصول کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، کیوں کہ زکوٰۃ صرف اسلامی حکومت کا امیر ہی وصول کر سکتا ہے۔‘‘ غالباً، ان معترضین کو تحصیلِ زکوٰۃ کے معاملے میں ہمارا طریقۂ کار معلوم نہیں ہے۔ ہم نے عام مسلمانوں سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اپنی زکوٰۃ ہمارے بیت المال میں داخل کریں، اور نہ ہم نے کبھی یہ کہا ہے کہ جو مسلمان زکوٰۃ ہمارے حوالے نہ کرے گا، اُس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی۔ ہم صرف اپنی جماعت کے ارکان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی زکوٰۃ، جماعت کے بیت المال میں داخل کیا کریں ۔ اس سے ہمارا بڑا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو شریعت کے منشاکے مطابق، اجتماعی طور پر زکوٰۃ جمع اور صَرف کرنے کی عادت ہو۔
براہِ کرم! کوئی ہمیں بتائے کہ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو اس میں کیا شرعی قباحت ہے اور یہ کس حکمِ شرعی کے خلاف ہے؟ اگر ہمیں لوگوں سے یہ کہنے کا حق ہے کہ نماز گھروں میں الگ الگ نہ پڑھو، بلکہ جماعت کے ساتھ پڑھو، تو آخر یہ کہنے کا حق کیوں نہیں ہے کہ زکوٰۃ انفرادی طور پر ادا کرنے کے بجائے، اجتماعی طور پر ادا کرو؟ پھر یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اگر چندہ لیا جائے تو جائز، داخلے کی فیس اور رکنیت کی فیس لگائی جائے تو درست، مگر خدا اور رسولؐ کے عائد کیے ہوئے فرض کو ادا کرنے کی دعوت دی جائے تو ناجائز۔
بیت المال
اس سے بھی زیادہ ایک نرالا اعتراض یہ سننے میں آیا کہ ’’ تم نے بیت المال کیوں بنایا؟‘‘ اس قسم کے اعتراضات سن کر معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو شاید اسلام کی اصطلاحات ہی سے کچھ بغض ہو گیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ہر جماعت اور ہر انجمن، اپنا ایک خزانہ ضرور رکھتی ہے، تاکہ اجتماعی کاموں میں مال صَرف کر سکے۔ ہماری جماعت کا بھی ایک خزانہ ہے اور اسے ہم ’’بیت المال‘‘ کہتے ہیں، کیوں کہ یہی اسلامی اصطلاح ہے۔ اگر ہم اس کا نام خزانہ رکھتے تو انھیں کوئی اعتراض نہ تھا۔ اگر اسے ہم treasury (انجمن کا سرمایہ) کہتے تب بھی یہ خوش ہوتے، مگر جب ہم نے اس کے لیے، ایک اسلامی اصطلاح استعمال کی، تو اسے یہ برداشت نہ کر سکے۔
اِن اعتراضات میں سے اکثر اتنے مہمل تھے کہ مَیں ان کا ذکر کر کے اور اُن کا جواب دے کر، حاضرین کا وقت ضائع کرنا کبھی پسند نہ کرتا، مگر مَیں نے یہ چند چیزیں نمونے کے طور پر، صرف اس لیے پیش کی ہیں کہ جو لوگ نہ خود اپنا فرض ادا کرنا چاہتے ہیں، نہ کسی دُوسرے کو ادا کرنے دینا چاہتے ہیں وہ کس قسم کے حیلے بہانے اور اعتراضات و شبہات ڈھونڈ کر نکالتے ہیں اور کس طرح خدا کے راستے سے خود رکتے ہیں اور دُوسروں کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارا طریقہ جھگڑے اور مناظرے کرنے کا نہیں ہے ۔ اگر کوئی شخص ہماری بات کو سیدھی طرح سمجھنا چاہے تو ہم ہر وقت اُسے سمجھانے کے لیے حاضر ہیں،اور اگر کوئی ہماری غلطی، ہمیں معقول طریقے سے سمجھانا چاہے تو ہم سمجھنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ لیکن اگر کسی کے پیش نظر محض اُلجھنا اور اُلجھانا ہی ہو، تو اس سے ہم کوئی تعرض کرنا پسند نہیں کرتے۔ اسے اختیار ہے کہ جب تک چاہے، اپنا یہ شغل جاری رکھے۔
٭…٭…٭…٭…٭
زبان: اُردو
صفحات: 34
اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، منصورہ ملتان روڈ، لاہور۔