ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔
سرورِ عالم
ہم مسلمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’سرورِ عالمؐ‘‘ کہتے ہیں۔ سیدھی سادی زبان میں اس کا مطلب ہے ’’دنیا کا سردار۔‘‘ ہندی میں اس کا ترجمہ ’’جگت گرو‘‘ ہوگا۔ اور انگریزی میں (leader of the world)بظاہر یہ بہت بڑا خطاب ہے، مگر جس بلند پایہ ہستی کو یہ خطاب دیا گیا ہے، اس کا کارنامہ واقعی ایسا ہے کہ اس کو سرور عالمؐ کہنا مبالغہ نہیں عین حقیقت ہے۔
دیکھیے، کسی شخص کو دنیا کا لیڈر کہنے کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہونی چاہیے کہ اس نے کسی خاص قوم یا نسل یا طبقے کی بھلائی کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کی بھلائی کے لیے کام کیا ہو۔ ایک محب وطن یا ایک قوم پرست لیڈر کی آپ اس حیثیت سے جتنی چاہیں قدر کرلیں کہ اس نے اپنے لوگوں کی بڑی خدمت کی، لیکن اگر آپ اس کے ہم وطن یا ہم قوم نہیں ہیں تو وہ آپ کا لیڈر بہرحال نہیں ہوسکتا۔ جس شخص کی محبت، خیر خواہی اور کارگزاری سب کچھ چین یا ہسپانیہ تک محدود ہو، ایک ہندستانی کو اس سے کیا تعلق کہ وہ اسے اپنا لیڈر مانے؟ بلکہ اگر وہ اپنی قوم کو دوسروں سے افضل ٹھیراتا ہو اور دوسروں کو گرا کر اپنی قوم کو چڑھانا چاہتا ہو تب تو دوسری قوموں کے لوگ الٹی اس سے نفرت کرنے پر مجبور ہیں۔ ساری قوموں کے انسان کسی ایک شخص کو اپنا لیڈر صرف اسی صورت میں مان سکتے ہیں جب کہ اس کی نگاہ میں سب قومیں اور سب آدمی یکساں ہوں، وہ سب کا یکساں خیر خواہ ہو اور اپنی خیر خواہی میں کسی طرح ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دے۔
دوسری اہم شرط جو دنیا کا لیڈر ہونے کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اس نے ایسے اصول پیش کیے ہوں جو دنیا کے انسانوں کی رہنمائی کرتے ہوں اور جن میں انسانی زندگی کے تمام اہم مسائل کا حل موجود ہو۔ لیڈر کے معنی ہی رہنما کے ہیں۔ لیڈر کی ضرورت ہوتی ہی اس لیے ہے کہ وہ فلاح اور بہتری کا راستہ بتائے۔ لہٰذا دنیا کا لیڈر وہی ہو سکتا ہے جو ساری دنیا کے انسانوں کو ایسا طریقہ بتائے جس میں سب کی فلاح ہو۔
تیسری لازمی شرط دنیا کا لیڈر ہونے کے لیے یہ ہے کہ اس کی رہنمائی کسی خاص زمانے کے لیے نہ ہو بلکہ ہر زمانے اور ہر حال میں یکساں مفید، یکساں صحیح اور یکساں قابل پیروی ہو۔ جس لیڈر کی رہنمائی ایک زمانے میں کار آمد اور دوسرے زمانے میں بیکار ہو اس کو دنیا کا لیڈر نہیں کہا جاسکتا۔ دنیا کا لیڈر تو وہی ہے کہ دنیا جب تک قائم رہے اس کی رہنمائی بھی کارآمد رہے۔
چوتھی اہم ترین شرط یہ ہے کہ اس نے صرف اصول پیش کرنے ہی پر اکتفا نہ کی ہو بلکہ اپنے پیش کردہ اصولوں کو زندگی میں عملاً جاری کرکے دکھایا ہو اور ان کی بنیاد پر ایک جیتی جاگتی سوسائٹی پیدا کر دی ہو۔ محض اصول پیش کرنے والا زیادہ سے زیادہ ایک مفکر (thinker) ہوسکتا ہے، لیڈر نہیں ہوسکتا۔ لیڈر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے اصولوں کو عمل میں لاکر دکھائے۔
آئیے اب ہم دیکھیں کہ چاروں شرطیں اس ہستی میں کہاں تک پائی جاتی ہیں جس کو ہم ’’سرورِ عالم‘‘ کہتے ہیں۔
پہلی شرط کو پہلے لیجیے۔ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ایک ہی نظر میں محسوس کریں گے کہ یہ کسی قوم پرست یا محب وطن کی زندگی نہیں ہے بلکہ ایک محب انسانیت اور ایک عالمگیر نظریہ رکھنے والے انسان کی زندگی ہے۔ ان کی نگاہ میں تمام انسان یکساں تھے۔ کسی خاندان، کسی طبقے، کسی قوم، کسی نسل یا کسی ملک کے خاص مفاد سے انھیں دلچسپی نہ تھی۔ امیر اور غریب، اونچ اور نیچ، کالے اور گورے، عرب اور غیر عرب، مشرقی اور مغربی، سامی اور آرین، سب کو وہ اس حیثیت سے دیکھتے تھے کہ یہ سب ایک ہی انسانی نسل کے افراد ہیں۔ ان کی زبان سے تمام عمر کوئی ایک لفظ یا ایک فقرہ بھی ایسا نہ نکلا، اور نہ زندگی بھر میں کوئی کام انھوں نے ایسا کیا جس سے یہ شبہ کیا جاسکتا ہو کہ انھیں ایک طبقۂ انسانی کے مفاد سے زیادہ تعلق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی ہی میں حبشی، ایرانی، رومی، مصری اور اسرائیلی، اسی طرح ان کے رفیق کار بنے جس طرح عرب اور ان کے بعد زمین کے ہر گوشے میں ہر نسل اور ہر قوم کے انسانوں نے ان کو اسی طرح اپنا رہنما تسلیم کیا جس طرح خود اپنی قوم نے۔ یہ اسی خالص انسانیت ہی کا کرشمہ تو ہے کہ آج آپ ایک ہندوستانی کی زبان{ یہ تقریر اس زمانے میں کی گئی تھی جب ہندستان اور پاکستان کی تقسیم نہ ہوئی تھی اور دونوں ایک ہی ملک تھے۔} سے اس شخص کی تعریف سن رہے ہیں جو صدیوں پہلے عرب میں پیدا ہوا تھا۔
اب دوسری اورتیسری شرط کو ایک ساتھ لیجیے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مخصوص قوموں اور مخصوص ملکوں کے وقتی اور مقامی مسائل سے بحث کرنے میں اپنا وقت ضائع نہیں کیا بلکہ اپنی پوری قوت دنیا میں انسانیت کے اس بڑے مسئلے کو حل کرنے میں صرف کر دی جس سے تمام انسانوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مسائل خود حل ہو جاتے ہیں۔ وہ بڑا مسئلہ کیا ہے؟ وہ صرف یہ ہے کہ:
’’کائنات کا نظام فی الواقع جس اصول پر قائم ہے، انسان کی زندگی کا نظام بھی اسی کے مطابق ہو۔ کیونکہ انسان اس کائنات کا ایک جز ہے اور جز کی حرکت کا کل کے خلاف ہونا ہی خرابی کا موجب ہے۔‘‘
اگر آپ اس بات کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کی آسان صورت یہ ہے کہ اپنی نگاہ کو ذرا کوشش کرکے زمان اور مکان کی قیود سے آزاد کر لیجیے اور پورے کرہ زمین پر اس طرح نظر ڈالیے کہ ابتدا سے آج تک اور آیندہ غیر محدود زمانے تک بسنے والے تمام انسان بہ یک وقت آپ کے سامنے ہوں۔ پھر دیکھیے کہ انسان کی زندگی میں خرابی کی جتنی صورتیں پیدا ہوئی ہیں یا ہونی ممکن ہیں ان سب کی جڑ کیا ہے یا کیا ہوسکتی ہے۔ اس سوال پر آپ جتنا غور کریں گے، جتنی چھان بین اور تحقیق کریں گے، حاصل یہی نکلے گا کہ:
’’انسان کی خدا سے بغاوت تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔‘‘
اس لیے کہ خدا سے باغی ہو کر انسان لازمی طور پر دو صورتوں میں سے کوئی ایک ہی صورت اختیار کرتا ہے: یا تو وہ اپنے آپ کو خود مختار اور غیر ذمہ دار سمجھ کر من مانی کارروائیاں کرنے لگتا ہے اور یہ چیز اسے ظالم بنا دیتی ہے۔ یا پھر وہ خدا کے سوا دوسروں کے حکم کے آگے سر جھکانے لگتا ہے اور اس سے دنیا میں فساد کی بے شمار صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ خدا سے بے پروا ہو کر یہ خرابیاں کیوں پیدا ہوتی ہیں؟ اس کا سیدھا اور صاف جواب یہ ہے کہ ایسا کرنا چونکہ حقیقت کے خلاف ہے اس لیے اس کا نتیجہ برا نکلتا ہے۔ یہ ساری کائنات فی الواقع خدا کی سلطنت ہے۔ زمین، سورج، چاند، ہوا، پانی، روشنی، سب خدا کی ملک ہیں اور انسان اس سلطنت میں پیدائشی بندے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ پوری سلطنت جس نظام پر چل رہی ہے، اگر انسان اس کا ایک جزہونے کے باوجود اس سے مختلف رویہ اختیار کرے تو لامحالہ اس کا ایسا رویہ تباہ کن نتائج ہی پیدا کرے گا۔ اس کا یہ سمجھنا کہ مجھ سے اوپر کوئی مقتدراعلیٰ نہیں ہے جس کے سامنے میں جواب دہ ہوں… واقعہ کے خلاف ہے۔ اس لیے جب وہ خود مختار بن کر غیر ذمہ دارانہ طریقے پر کام کرتا ہے اور اپنا قانون زندگی آپ تجویز کرتا ہے تو نتیجہ برا نکلتا ہے۔ اسی طرح اس کا خدا کے سوا کسی اور کو صاحب اختیار و اقتدار ماننا اور اس سے خوف یا لالچ رکھنا اور اس کی آقائی کے آگے جھک جانا بھی حقیقت کے خلاف ہے، کیونکہ فی الحقیقت اس پوری کائنات میں خدا کے سوا کوئی بھی یہ حیثیت نہیں رکھتا۔ لہٰذا اس کا نتیجہ بھی برا ہی نکلتا ہے۔ صحیح نتیجہ برآمد ہونے کی صورت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ زمین و آسمان میں جو حقیقی حکومت ہے، انسان اس کے سامنے سر جھکا دے، اپنی خودی و خود سری کو اس کے آگے تسلیم کر دے، اپنی اطاعت اور بندگی کو اس کے لیے خالص کر دے، اور اپنی زندگی کا ضابطہ و قانون خود بنانے یا دوسروں سے لینے کے بجائے اس سے لے۔
یہ بنیادی اصلاح کی تجویز ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی زندگی کے لیے پیش کی ہے، یہ مشرق اور مغرب کی قید سے آزاد ہے۔ روئے زمین میں جہاں جہاں انسان آباد ہیں، یہی ایک اصلاحی تجویز ان کی زندگی کی بگڑی ہوئی کل کو درست کر سکتی ہے۔ اور یہ ماضی و مستقبل کی قید سے بھی آزاد ہے۔ ڈیڑھ ہزار برس پہلے یہ جتنی صحیح اور کارگر تھی اتنی ہی آج بھی ہے اور اتنی ہی دس ہزار برس بعد بھی ہوگی۔
اب آخری شرط باقی رہ جاتی ہے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف خیالی نقشہ ہی پیش نہیں کیا بلکہ اس نقشے پر ایک زندہ سوسائٹی پیدا کرکے دکھا دی۔ انھوں نے ۲۳ سال کی مختصر مدت میں لاکھوں انسانوں کو خدا کی حکومت کے آگے سراطاعت جھکانے پر آمادہ کرلیا۔ ان سے خود پرستی بھی چھڑوائی اور خدا کے سوا دوسروں کی بندگی بھی۔ پھر ان کو جمع کرکے خالص خدا کی بندگی پر ایک نیا نظام اخلاق، نیا نظام تمدن، نیا نظام معیشت اور نیا نظام حکومت بنایا اور تمام دنیا کے سامنے اس بات کا عملی مظاہرہ کر دیا کہ جو اصول وہ پیش کر رہے ہیں اس پر کیسی زندگی بنتی ہے اور دوسرے اصولوں کی زندگی کے مقابلے میں وہ کتنی اچھی کتنی پاکیزہ اور کتنی صالح ہے۔
یہ وہ کارنامہ ہے جس کی بنا پر ہم محمدa کو سرور عالم یا سارے جہان کا لیڈر کہتے ہیں۔ ان کا یہ کام کسی خاص قوم کے لیے نہ تھا بلکہ تمام انسانوں کے لیے تھا۔ یہ انسانیت کی مشترک میراث ہے جس پر کسی کا حق کسی دوسرے سے کم یا زیادہ نہیں ہے۔ جو چاہے اس میراث سے فائدہ اٹھائے، میں نہیں سمجھتا کہ اس کے خلاف کسی کو تعصب رکھنے کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے۔
۱۰، اپریل ۱۹۴۱ء
٭…٭…٭…٭…٭
میلادُ النبی
آج اُس عظیم الشان انسان کا یوم پیدائش ہے جو زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے رحمت بن کر آیا تھا اور وہ اصول اپنے ساتھ لایا تھا جس کی پیروی میں ہر فرد انسانی، ہر قوم وملک، اور تمام نوع انسان کے لیے یکساں فلاح اور سلامتی ہے۔ یہ دن اگرچہ ہر سال آتا ہے، مگر اب کے سال یہ ایسے نازک موقع پر آیا ہے جب کہ زمین کے باشندے ہمیشہ سے بڑھ کر اس دانائے کامل کی راہ نمائی کے محتاج ہیں۔ معلوم نہیں مسٹر برنارڈشا نے اچھی طرح جان بوجھ کر کہا تھا یا بے جانے بوجھے، مگر جو کچھ انھوں نے کہا وہ بالکل سچ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر اس وقت دُنیا کے ڈکٹیٹر ہوتے تودُنیا میں امن قائم ہو جاتا۔ میں اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر کہتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں موجود نہ سہی، ان کے پیش کردہ اصول تو بے کم وکاست موجود ہیں، ان کے اصولوں کو بھی اگر ہم راست بازی کے ساتھ ڈکٹیٹر مان لیں تو وہ سارے فتنے ختم ہو سکتے ہیں جن کی آگ سے آج نسل آدم کا گھر جہنم بنا ہوا ہے۔{ خیال رہے کہ یہ جنگ عظیم دوم کے انتہائی زور کا زمانہ تھا۔}
اب سے چودہ سو برس پہلے جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں قدم رکھا تھا اس وقت خود ان کا اپنا وطن اخلاقی پستی، بدنظمی اور بدامنی کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ قرآن میں اس وقت کی حالت پر ان الفا ظ میں تبصرہ کیا گیا ہے کہ ’’تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے جس سے خدا نے تمھیں بچا لیا۔‘‘ اس سے کچھ بہتر حالت دنیا کے دوسرے ملکوں کی نہ تھی۔ ایران اور مشرقی رومی سلطنت اس وقت انسانی تہذیب کے دو سب سے بڑے گہوارے تھے۔ اور ان دونوں کو ایک طرف آپس کی پیہم لڑائی اور دوسری طرف خود اپنے گھر کے معاشرتی امتیازات، معاشی ناہمواری اور مذہبی جھگڑوں نے تباہ کر رکھا تھا۔ ان حالات میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھے اور تیئس برس کے اندر انھوں نے نہ صرف عرب کو بدل ڈالا بلکہ ان کی راہ نمائی میں عرب سے جو تحریک اٹھی تھی اُس نے ایک چوتھائی صدی کے اندر ہندستان کی سرحدوں سے شمالی افریقہ تک دنیا کے ایک بڑے حصے کو اخلاق، تمدن، معیشت، سیاست، غرض ہر شعبہ زندگی میں درست کرکے رکھ دیا۔
یہ اصلاح کیوں کر ہوئی؟ ایک مختصر گفتگو میں اس کی ساری تفصیلات بیان کرنا ناممکن ہے لیکن اس کے موٹے موٹے اصول میں آپ کے سامنے بیان کروں گا۔
سب سے پہلی چیز جس پر انھوں نے زور دیا یہ تھی کہ تمام انسان صرف خدائے واحد کو اپنا آقا، مالک، معبود اور حاکم تسلیم کریں۔ خدا کے سوا کسی کی بندگی قبول نہ کریں۔ صرف مذہب کے محدود دائرے ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے سارے معاملات میں تنہا خدا کے اقتدار اعلیٰ کے آگے جھک جائیں۔ اس کے ساتھ دوسری اہم چیز ان کی تعلیم میں یہ تھی کہ انسان کی مطلق العنانی اور غیر ذمہ داری کو بالکل ختم کر دیا جائے۔ ہر انسان فرداً فرداً اپنے آپ کو خدا کے سامنے جواب دہ سمجھے اور اسی طرح انسانی جماعتیں بھی، خواہ وہ خاندانوں اور قبیلوں کی شکل میں ہوں یا طبقات کی شکل میں، قوموں کی شکل میں ہوں یا ریاستوں اورحکومتوں کی شکل میں، بہرحال خدا کے حضوراپنی ذمہ داری کو محسوس کریں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کا تصور ہی یہ پیش کیا ہے کہ وہ زمین پر خدا کا خلیفہ یا نائب ہے، اسے جس قدر اور جس حیثیت میں بھی کچھ اختیارات حاصل ہیں دراصل وہ اس کے ذاتی اختیارات نہیں ہیں بلکہ خدا کے دیے ہوئے ہیں اور ان کے استعمال میں وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔
خدائی اقتدارِ اعلیٰ اور انسانی خلافت کی بنیادوں پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نوع انسانی کے درمیان منصفانہ وحدت واتفاق کا وہ رشتہ فراہم کیا جو کسی دوسرے ذریعے سے پیدا نہیں ہو سکتا۔ نسل، نسب، زبان، رنگ، وطن، معاشی مفاد اور دوسری جتنی چیزیں سوسائٹی کی بنیاد بنتی ہیں وہ لازمی طور پر انسانوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کا مدِّ مقابل بنا دیتی ہیں۔ ان میں اگر موافقت ہوتی بھی ہے تو اغراض کی بنا پر ایک ناپائدار عارضی موافقت ہوتی ہے۔ کش مکش اور جنگ اس تقسیم کی عین فطرت میں داخل ہے اور اس کا لازمی نتیجہ بے انصافی ہے۔ اس کو دور کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ تمام انسانوں کو خدا کی بندگی پر متحد کیا جائے اور خدا کے سامنے جواب دہ ہونے کا احساس پیدا کرکے انھیں انصاف پر آمادہ کیا جائے۔
قومیت اور طبقات کے بجائے خدا کی بندگی اور خلافت کے تصور پر جس عالم گیر سماجی زندگی کی بنیاد محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی اس کے ہر پہلو کو انھوں نے پائدار اخلاقی اصولوں پر ڈھال دیا۔ ان کے پیش کیے ہوئے اخلاقیات تارک الدنیا اوردرویشوں کے لیے نہیں تھے بلکہ دنیا کا کام چلانے والے لوگوں کے لیے تھے۔ کسان، زمین دار، مزدور، کارخانہ دار، تاجر، خریدار، پولیس مین، مجسٹریٹ، کلکٹر، جج، گورنر، سپاہی اور سپہ سالار، وزیر اور سفیر ہر ایک کو اس کے دائرہ عمل میں انھوں نے اخلاق کے ایسے ضابطوں سے باندھ دیا جس کی بندشوں کو کھولنا اور کسنا، جس کے اصولوں کو بنانا اور بگاڑنا افراد یا رائے عام کی خواہشات پر منحصر نہیں تھا۔ انھوں نے معاشرت اور شخصی تعلقات کو، آرٹ اور ادب کو، کاروبار اور لین دین کو، سیاست اور انتظام ملکی کو، بین الاقوامی تعلقات اور صلح وجنگ کو، غرض انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر شعبے کا یہ حق تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ اخلاق کی بندشوں سے آزاد ہو کر نشوونما پائے۔
یہ وہ بڑے بڑے اصول تھے جن پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اصلاحی پروگرام مبنی تھا۔ اس پروگرام کو عمل میں لانے کے لیے انھوں نے جو طریقہ اختیار کیا وہ انفرادی اصلاح سے شروع ہوتا تھا۔ ان کی نگاہ سے یہ بات پوشیدہ نہ تھی کہ اجتماعی اصلاح کے ہر نقشے کا دارومدار افراد ہی پر جا کر ٹھہرتا ہے۔ کوئی بہتر سے بہتر نظام بھی کم زور کیریکٹر اور ناقابل اعتماد سیرت کے لوگوں کو لے کر کام یابی کے ساتھ نہیں چلایا جا سکتا، افراد کی سیرت کی خامیوں سے ایک نظام کے عمل درآمد میں جو رخنے اور شگاف پڑتے ہیں، انھیں کاغذ پر نہیں بھرا جا سکتا۔ کاغذ کی دنیا میں آپ مختلف ممکن خرابیوں کے سدِّ باب کا جس قدر چاہیں خیالی انتظام کر لیں، لیکن عمل کی دنیا میں اس کاغذی نقشے کو چلانے کا انحصار بہرحال کارکن افراد ہی پر ہو گا۔ یہ افراد اگربجائے خود خواہشات، اغراض اور تعصبات سے شکست کھا جانے والے لوگ ہوں، اگر ان کے اندر سچا ایمان اور پختہ کیریکٹر نہ ہو، تو آپ کی ساری خیالی احتیاطوں کے باوجود اس نظام میں رخنے پڑیں گے اور ایسی ایسی جگہوں سے پڑیں گے جہاں تک آپ کا تصور بھی نہ جا سکے گا۔ بخلاف اس کے کاغذ پر ایک نظام کو دیکھ کر آپ اس میں بہت سے رخنوں کا امکان ثابت کر سکتے ہیں لیکن اسے چلانے کے لیے اگر بھروسے کے قابل افراد موجود ہوں تو ان کا صحیح عمل ان سارے رخنوں کو بھر دے گا جس کے رونما ہونے کا امکان عالم خیال میں آپ کو نظر آتا ہو۔
اسی بنا پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اپنی ساری قوت ایسے افراد کو تیار کرنے پر صرف کی جو ان کے پروگرام کے مطابق بہترین طریقے پر دنیا کی اصلاح کر سکتے ہوں۔ انھوں نے ایسے لوگ تیار کیے جو ہر حال میں خدا سے ڈر کر بدی سے پرہیز کرنے والے ہوں۔ جو اپنی زندگی کے ہر معاملے میں خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری کو پیش نظر رکھنے والے ہوں۔ جو ہر اس کام سے رک جانے والے ہوں جس کے متعلق انھیں خدا کی ناراضی کا اندیشہ ہو اور ہر اس کام میں دل وجان سے کوشش کرنے والے ہوں جس کے متعلق انھیں معلوم ہو جائے کہ خدا اس سے خوش ہو گا۔ جنھیں خدا کی خوشنودی پر اپنی کسی چیز کو قربان کرنے میں تامل نہ ہو جن کے دل میں خدا کے سوا کسی کا خوف، کسی کی مہربانی کا لالچ، اور کسی کے انعام کی تمنا نہ ہو۔ جن کے لیے پبلک اور پرائیویٹ زندگی میں کوئی فرق نہ ہو۔ جو راز کے پردوں میں بھی اتنے ہی نیک، شریف اور پرہیز گارہوں، جتنے پبلک میں منظر عام پر آئیں۔ جن پر یہ بھروسا کیا جا سکے کہ بندگانِ خدا کی جان، مال، آبرو اگر ان کے چارج میں دے دی جائے تو خیانت کار ثابت نہ ہوں گے۔ اپنی ذات یا اپنی قوم اور حکومت کی طرف سے کوئی عہد کریں تو بے وفا نہ نکلیں گے۔ انصاف کی کرسی پر بٹھائے جائیں تو ظالم نہ پائے جائیں گے۔ لین دین کے بازار میں بیٹھیں تو بدمعاملگی نہ کریں گے۔ حق مانگنے میں چاہے سست ہوں مگر حق ادا کرنے میں سست نہ ہوں گے اور اپنی ذہانت، ہوشیاری، تدبر اور قوت وقابلیت کو راستی اور انصاف کے لیے اور انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال کریں گے نہ کہ شخصی یا قومی اغراض کی خاطر دوسروں کو بے وقوف بنانے اور دوسروں کے حق تلف کرنے کے لیے۔
کامل پندرہ سال تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے افراد کی تیاری میں لگے رہے۔ اس مدت میں آپ نے حق پرستوں کی ایک مٹھی بھر جماعت تیار کر لی۔ جو صرف عرب کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا کی اصلاح کے لیے سچا عزم رکھتی تھی اور جس میں عرب کے علاوہ دوسری قوموں کے افراد بھی شامل تھے۔
اس جماعت کو منظم کرنے کے بعد آپ نے وسیع پیمانے پر سماج کی اصلاح کے لیے عملی جدوجہد شروع کی اور صرف آٹھ برس میں بارہ لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی سرزمین عرب کے اندر مکمل اخلاقی، معاشی، تمدنی اور سیاسی انقلاب برپا کرکے رکھ دیا۔
پھر وہی جماعت جسے آپ نے منظم کیا تھا عرب کی اصلاح سے فارغ ہو کر آگے بڑھی اور اس نے اس زمانے کی مہذب دنیا کے بیشتر حصے کو اس انقلاب کی برکتوں سے مالا مال کر دیا جو عرب میں رونما ہوا تھا۔
آج ہم نئے نظام (نیو آرڈر) کی آوازیں ہر طرف سے سن رہے ہیں۔ لیکن یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ جن بنیادی خرابیوں نے پرانے نظام کو آخر کار فتنہ بنا کر چھوڑا وہی اگر صورت بدل کر کسی نئے نظام میں بھی موجود ہوں تو وہ نیا نظام ہوا کب۔ وہ تو وہی پرانا نظام ہو گا جس کے کاٹنے اور ڈسنے سے جاں بلب ہوجانے کے بعد ہم نئے نظام کا تریاق مانگ رہے ہیں۔ انسانی اقتدارِ اعلیٰ، خدا سے بے نیازی وبے خوفی، قومی ونسلی امتیازات، ملکوں اور قوموں اور طبقوں کی سیاسی ومعاشی خود غرضیاں، اور ناخدا ترس افراد کا دنیا میں برسر اقتدار ہونا، یہ ہیں وہ اصلی خرابیاں جو اس وقت تک نوع انسانی کو تباہ کرتی رہی ہیں اور آیندہ بھی اگر ہماری زندگی کا نظام انھی خرابیوں کا شکار رہا تو یہ ہمیں تباہ کرتی رہیں گی۔ اصلاح اگر ہو سکتی ہے تو انھی اصولوں پر ہو سکتی ہے جن کی طرف انسانیت کے ایک سچے بہی خواہ نے اس سے صدیوں پہلے ہماری محض راہ نمائی ہی نہ کی تھی بلکہ عملاً اصلاح کرکے دکھا دی تھی۔
٭…٭…٭…٭…٭
سرورِ عالم کا اصلی کارنامہ
دنیا جانتی ہے کہ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے اس برگزیدہ گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جو قدیم ترین زمانے سے نوعِ انسانی کو خدا پرستی اور حسنِ اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے اٹھتا ہے۔ ایک خدا کی بندگی اور پاکیزہ اخلاقی زندگی کا درس جو ہمیشہ سے دنیا کے پیغمبر، رِشی (خدا پرست) اور مُنی(زاہد)دیتے رہے ہیں وہی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دیا ہے۔ انھوں نے کسی نئے خدا کا تصور پیش نہیں کیا ہے اور نہ کسی نرالے اخلاق ہی کا سبق دیا ہے جو ان سے پہلے کے رہبرانِ انسانیت کی تعلیم سے مختلف ہو۔ پھر سوال یہ ہے کہ ان کا وہ اصلی کارنامہ کیا ہے جس کی بنا پر ہم انھیں تاریخِ انسانی کا سب سے بڑا آدمی قرار دیتے ہیں۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بے شک آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انسان خدا کی ہستی اور اس کی وحدانیت سے آشنا تھا، مگر اس بات سے پوری طرح واقف نہ تھا کہ اس فلسفیانہ حقیقت کا انسانی اخلاقیات سے کیا تعلق ہے۔ بلاشبہ انسان کو اخلاق کے عمدہ اصولوں سے آگاہی حاصل تھی، مگر اسے واضح طور پر یہ معلوم نہیں تھا کہ زندگی کے مختلف گوشوں اور پہلوئوں میں ان اخلاقی اصولوں کی عملی ترجمانی کس طرح ہونی چاہیے۔ خدا پر ایمان، اصولِ اخلاق اور عملی زندگی، یہ تین الگ الگ چیزیں تھیں جن کے درمیان کوئی منطقی رابط، کوئی گہرا تعلق اور کوئی نتیجہ خیز رشتہ موجود نہ تھا۔ یہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنھوں نے ان تینوں کو ملا کر ایک نظام میں سمو دیا اور ان کے امتزاج سے ایک مکمل تہذیب و تمدن کانقشہ محض خیال کی دنیا میں نہیں بلکہ عمل کی دنیا میں بھی قائم کرکے رکھ دیا۔
انھوں نے بتایا کہ خدا پر ایمان محض ایک فلسفیانہ حقیقت کے مان لینے کا نام نہیں ہے بلکہ اس ایمان کا مزاج اپنی عین فطرت کے لحاظ سے ایک خاص قسم کے اخلاق کا تقاضا کرتا ہے اور اس اخلاق کا ظہور انسان کی عملی زندگی کے پورے رویے میں ہونا چاہیے۔ ایمان ایک تخم ہے جو نفسِ انسانی میں جڑ پکڑتے ہی اپنی فطرت کے مطابق عملی زندگی کے ایک پورے درخت کی تخلیق شروع کر دیتا ہے اور اس درخت کے تنے سے لے کر اس کی شاخ شاخ اور پتی پتی تک میں اخلاق کا وہ جیون رَس جاری و ساری ہو جاتا ہے جس کی سوتیں تخم کے ریشوں سے ابلتی ہیں۔ جس طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ زمین میں بوئی تو جائے آم کی گٹھلی اور اس سے نکل آئے لیموں کا درخت، اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ دل میں بویا تو گیا ہو خدا پرستی کا بیج اور اس سے رونما ہو جائے ایک مادّہ پرستانہ زندگی جس کی رگ رگ میں بداخلاقی کی روح سرایت کیے ہوئے ہو۔ خدا پرستی سے پیدا ہونے والے اخلاق اور شرک، دہریت یا رہبانیت سے پیدا ہونے والے اخلاق یکساں نہیں ہو سکتے۔ زندگی کے یہ سب نظریے اپنا الگ الگ مزاج رکھتے ہیں اور ہر ایک کا مزاج دوسرے سے مختلف قسم کے اخلاقیات کا تقاضا کرتا ہے۔ پھر جو اخلاق خدا پرستی سے پیدا ہوتے ہیں وہ صرف ایک خاص عابد و زاہد کے گروہ کے لیے مخصوص نہیں ہیں کہ صرف خانقاہ کی چار دیواری اور عزلت کے گوشے ہی میں ان کا ظہور ہو سکے۔ ان کا اطلاق وسیع پیمانے پر پوری انسانی زندگی اور اس کے ہر ہر پہلو میں ہونا چاہیے۔ اگر ایک تاجر خدا پرست ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی تجارت میں اس کا خدا پرستانہ اخلاق ظاہر نہ ہو۔ اگر ایک جج خدا پرست ہے تو عدالت کی کرسی پر، اور ایک پولیس مین خدا پرست ہے تو پولیس پوسٹ پر اس سے غیر خدا پرستانہ اخلاق ظاہر نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح اگر کوئی قوم خدا پرست ہے تو اس کی شہری زندگی میں، اس کے انتظام ملکی میں، اس کی خارجی سیاست میں، اور اس کی صلح و جنگ میں خدا پرستانہ اخلاق کی نمود ہونی چاہیے۔ ورنہ اس کا ایمان باللہ محض ایک لفظ بے معنی ہے۔
اب رہی یہ بات کہ خدا پرستی کس قسم کے اخلاق کا تقاضا کرتی ہے اور اُن اخلاقیات کا ظہور کس طرح انسان کی عملی زندگی میں، اور انفرادی و اجتماعی رویے میں ہونا چاہیے، تو یہ ایک وسیع مضمون ہے جسے ایک مختصر گفتگو میں سمیٹنا مشکل ہے۔ مگر مَیں نمونے کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات آپ کو سنائوں گا، جن سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتب کیے ہوئے نظامِ زندگی میں ایمان، اخلاق اور عمل کا امتزاج کس نوعیت کا ہے۔ سنیے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
الایمان بضع وسبعون شعبۃ افضلھا قول لا الٰہ الا اللّٰہ و ادناھا اماطۃ الاذٰی عن الطریق والحیاء و شعبۃ من الایمان۔
ایمان کے بہت سے شعبے ہیں۔ اس کی جڑ یہ ہے کہ تم خدا کے سوا کسی کو معبود نہ مانو۔ اور اس کی آخری شاخ یہ ہے کہ راستے میں اگر تم کوئی ایسی چیز دیکھو جو بندگانِ خدا کو تکلیف دینے والی ہو تو اُسے ہٹا دو۔ اور حیا بھی ایمان ہی کا ایک شعبہ ہے۔
الطھور شطر الایمان۔
جسم و لباس کی پاکیزگی آدھا ایمان ہے۔
المؤمن من امنہ الناس علٰی مائھم واموالھم۔
مومن وہ ہے جس سے لوگوں کو اپنے جان و مال کا کوئی خطرہ نہ ہو۔
لا ایمان لمن لا امانۃ لہ ولا دین لمن لا عہد لہٗ۔
اس شخص میں ایمان نہیں جس میں امانت داری نہیں اور وہ شخص بے دین ہے، جو عہد کا پابند نہیں۔
اذا سرّتک حَسَنَتُک وساء تُکَ سیّئاتک فانت مؤمن۔
جب نیکی کرکے تجھے خوشی ہو اور بُرائی کرکے تجھے پچھتاوا ہو تو تُو مومن ہے۔
الایمان الصبر والسماحۃ۔
ایمان، تحمل اور فراخ دلی کا نام ہے۔
افضل الایمان ان تحبَّ لِلّٰہ وتبغض لِلّٰہ وتعمل لسانک فی ذکر اللّٰہ وان تحب للناس ماتحب لنفسک وتکرہ لھم ماتکرہ لنفسک۔
بہترین ایمانی حالت یہ ہے کہ تیری دوستی اور دشمنی خدا واسطے کی ہو، تیری زبان پرخدا کا نام جاری ہو، اور تو دوسروں کے لیے وہی کچھ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور ان کے لیے وہی کچھ ناپسند کرے جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہے۔
اکمل المؤمن ایمانًا اَحْسَنُھُّم خُلُقًا والطفھم باھلہٖ۔
تم میں سب سے زیادہ کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں اور جو اپنے گھر والوں کے ساتھ حُسنِ سلوک میں سب سے بڑھا ہوا ہے۔
من کان یؤمن باللّٰہ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فلیکرم ضیفَہٗ ومن کان یؤمن باللّٰہ والیوم الاٰخر فلا یُوذِ جَارہٗ ومن کان یُومِنُ باللّٰہ وَالیوم الاٰخرِ فَلْیَقُل خیرًا اولَیصمت۔
جو شخص خدا اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیے، اپنے ہم سائے کو تکلیف نہ دینی چاہیے۔ اور اس کی زبان کھلے تو بھلائی پر کھلے ورنہ چپ رہے۔
لیس المؤمن بالطعان ولا باللعان ولا الفاحش ولا البذی۔
مومن کبھی طعنے دینے والا، لعنت کرنے والا، بدگو اور زبان دراز نہیں ہوا کرتا۔
یطبع المؤمن علی الخصال کلھا الا الخیانۃ والکذب۔
مومن سب کچھ ہو سکتا ہے مگر جھوٹا اور خائن نہیں ہو سکتا۔
واللّٰہ لایومن واللّٰہ لا یؤمن واللّٰہ لا یؤمن الذی لا یأمن جارہٗ بوالقۃ۔
خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے، خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے، خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے جس کی بدی سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو۔
لیس المؤمن بالذی یشبع وجارہ جائع الٰی جنبہٖ۔
جو شخص خود پیٹ بھر کھالے اور اس کے پہلو میں اس کا ہم سایہ بھوکا رہ جائے وہ ایمان نہیں رکھتا۔
من کظم غیظًا وھو یقد رعلٰی ان ینفذہ ملأَاللّٰہ قلبہٗ امنًا وایمانًا۔
جو شخص اپنا غصہ نکال لینے کی طاقت رکھتا ہو اور پھر ضبط کر جائے اس کے دل کو خدا ایمان اور اطمینان سے لبریز کر دیتا ہے۔
من مشی مع ظالم لیقویہ وھو یعلم انہ ظالم فقد خرج من الاسلام۔
جو شخص کسی ظالم کو ظالم جانتے ہوئے اس کا ساتھ دے وہ اسلام سے نکل گیا۔
من صلّٰی یُرائی فقد اشرک ومن صام یُرائی فقد اشرک من تصدق یرائی فقد اشرک۔
جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھی اُس نے شرک کیا۔ جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیا۔ اور جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے خیرات کی اس نے شرک کیا۔
اربع من کن فیہ کان منافقا خالصًا۔ اِذِا ئتمن خان و اذا حدث کذب واذا عاھد غدر واذا خاصم فجر۔
چار صفات ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے۔ امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔ بولے تو جھوٹ بولے۔ عہد کرے تو اسے توڑ دے اور لڑے تو شرافت کی حد سے گزر جائے۔
عدلت الشھادۃ الزور بالاشراک باللّٰہ۔
جھوٹی گواہی اتنا بڑا گناہ ہے کہ شرک کے قریب جا پہنچتا ہے۔
المجاھد من جاھد نفسہ فی طاعۃ اللّٰہ والمھاجر من ھجر مانھی اللّٰہ عنہُ۔
اصلی مجاہد وہ ہے جو خدا کی فرماں برداری میں خود اپنے نفس سے لڑے اور اصلی مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑے جنھیں خدا نے منع فرمایا ہے۔
اتدرون من السابقون الٰی ظل اللّٰہ عزوجل یوم القیٰمۃ؟ قالوا اللّٰہ ورسولہ اعلم۔ قال الذین اذا اُعْطُوْا الحق قبلوہ واذا سئلوہ بذلوہ وحکموا للناس کحکمھم لانفسھم۔
جانتے ہو کہ قیامت کے دن خدا کے سائے میں سب سے پہلے جگہ پانے لوگ والے کون ہوں گے؟ وہ جن کا حال یہ رہا کہ جب بھی حق ان کے سامنے پیش کیا گیا تو انھوں نے مان لیا، اور جب بھی حق ان سے مانگا گیا تو انھوں نے کھلے دل سے دیا، اور دوسروں کے معاملے میں انھوں نے فیصلہ کیا جو وہ خود اپنے معاملے میں چاہتے تھے۔
اضمنوا لی ستاً من انفسکم اضمن لکم الجنۃ اصدقوا اذا حدثتم واوفوا اذا وعدتم وادو اذا تمنتم واحفظوا فرو جکم وغضوا ابصارکم وکفوا ایدیکم۔
تم چھے باتوں کی مجھے ضمانت دو میں جنت کی تمھیں ضمانت دیتا ہو۔ بولو تو سچ بولو، وعدہ کرو تو وفا کرو، امانت میں پورے اترو، بدکاری سے پرہیز کرو، بد نظری سے بچو اور ظلم سے ہاتھ روکو۔
لا یدخل الجنۃ خب ولا بخیل ولا منان۔
دھوکا باز اور بخیل اور احسان جتانے والا آدمی جنت میں نہیں جا سکتا۔
لایدخل الجنۃ لحم نبت من السحت وکل لحم نبت من السحت فالنار اولٰی بہٖ۔
جنت میں وہ گوشت نہیں جا سکتا جو حرام کے لقموں سے بنا ہو۔ حرام خوری سے پلے ہوئے جسم کے لیے تو آگ ہی زیادہ موزوں ہے۔
من باع عیبًا لم ینبِّہ لم یزل فی مقت اللّٰہ ولم تزل الملئکۃ تلعنہ۔
جس شخص نے عیب دار چیز بیچی اور خریدار کو عیب سے آگاہ نہ کیا اس پرخدا کا غصہ بھڑکتا رہتا ہے اور فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔
لو ان رجلًا قتل فی سبیل اللّٰہ ثم عاش ثم قتل فی سبیل اللّٰہ ثم عاش ثم قتل فی سبیل اللّٰہ ثم عاش وعلیہ دین مادخل الجنۃ حتی یقضٰی دینہ۔
کوئی شخص خواہ کتنی ہی بار زندگی پائے اور خدا کی راہ میں جہاد کرکے جان دیتا رہے مگر وہ جنت میں نہیں جا سکتا اگر اس پر قرض ہو اور وہ ادا نہ کیا گیا ہو۔
ان الرجل لیعمل والمرأۃ بطاعۃ اللّٰہ ستین سنۃ ثم یحضرھما الموت فیضار ان فی الوصیۃ فتجب لھما النار۔
ایک شخص ۶۰ (مرد ہو یا عورت)برس خدا کی عبادت کرتا ہے اور مرتے وقت ایک وصیت میں حق دار کی حق تلفی کرکے اپنے آپ کو دوزخ کا مستحق بنا لیتا ہے۔
لا یدخل الجنۃ سیی الملکۃ۔
وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جو اپنے ماتحتوں پر بُری طرح افسری کرے۔
الا اخبرکم بافضل من درجۃ الصیام والصدقۃ والصلٰوۃ؟ اصلاح ذات البین وافساد ذات البین ھی الحالقہ۔
میں تمھیں بتائوں کہ روزے اور خیرات اور نماز سے بھی افضل کیا چیز ہے؟ وہ ہے بگاڑ میں صلح کرانا۔ اور لوگوں کے باہمی تعلقات میں فساد ڈالنا وہ فعل ہے جو آدمی کی ساری نیکیوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔
ان المفلس من امتی من یاتی یوم القیمۃ بصلوۃ وصیام وزکٰوۃ ویاتی قد شتم ھذا وقذف ھذا واکل مال ھذا وسفک دم ھذا وضرب ھذا فیعطی ھذا من حسناتہ فان قضیت حسناتہ قبل ان یقضٰی ماعلیہ اخذ من خطا یاھم فطرحت علیہ ثم طرح فی النار۔
اصل مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن خدا کے حضور اس حال میں حاضر ہوا کہ اس کے ساتھ نماز، روزہ، زکوٰۃ سب ہی کچھ تھا، مگر اس کے ساتھ وہ کسی کو گالی دے کر آیا تھا، کسی پر بہتان لگا کر آیا تھا، کسی کا مال کھایا تھا، کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو پیٹ کر آیا تھا۔ پھر خدا نے اس کی ایک ایک نیکی ان مظلوموں پر بانٹ دی اور جب اس سے بھی حساب چکتا نہ ہوا تو ان کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیے اور اسے دوزخ میں جھونک دیا۔
لن یھلک الناس حتٰی یعذرو امن انفسھم۔
لوگ کبھی نجات سے محروم نہ ہوں اگر اپنی برائیوں کی تاویلیں کر کرکے اپنے نفس کو بُرائیوں پر مطمئن نہ کرتے رہیں۔
المحتکر ملعون۔
جو تاجر قیمتیں چڑھانے کے لیے مال روک رکھے وہ ملعون ہے۔
من احتکر طعامًا اربعین یوما یرید بہ الغلاء فقد بری من اللّٰہ وبری اللّٰہ منہ۔
جس نے چالیس دن غلہ اس نیت سے روک رکھا کہ قیمتیں چڑھ جائیں تو خدا اس سے اور اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں۔
من احتکر طعامًا اربعین یومًا ثم تصدق بہ لم یکن لہ کفارۃ۔
چالیس دن غلہ روکنے کے بعد اگر آدمی اس غلے کو خیرات بھی کر دے تو معاف نہ کیا جائے گا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے اقوال میں سے یہ چند ہیں جو میں نے محض نمونے کے طور پر آپ کے سامنے پیش کیے ہیں۔ ان سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ حضورؐ نے ایمان سے اخلاق اور اخلاق سے زندگی کے تمام شعبوں کا تعلق کس طرح قائم کیا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ آپؐ نے ان باتوں کو صرف باتوں کی حد تک ہی نہ رکھا بلکہ عمل کی دنیا میں ایک پورے ملک کے نظامِ تمدن و سیاست کو انھی بنیادوں پر قائم کرکے دکھا دیا، اور آپؐ کا یہی وہ کارنامہ ہے جس کی بنا پر آپ نوعِ انسانی کے سب سے بڑے راہ نما ہیں۔
٭…٭…٭…٭…٭
زبان: اُردو
صفحات: 20
اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، منصورہ ملتان روڈ، لاہور۔