صحابہ کرامؓ: مولانا مودودیؒ کے عقائد و نظریات

ریڈ مودودی ؒ   کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

صحابہ کرامؓ انسانی تاریخ کا وہ عظیم گروہ ہے کہ ان جیسے لوگ نہ کبھی تھے اور نہ ان کے بعد ایسا کوئی گروہ وجود میں آیا ۔ ان مقدس ہستیوں نے اپنے نظریات اور مقاصد پر بغیر کسی ہچکچاہٹ، خوف ، اور لالچ کے عمل کیا ۔ ان کی زندگیوں کا مطمحِ نظر صرف خدا کی خوش نودی اور رسول اللہ ﷺ کی محبت تھی۔ان کا تذکرہ جہاں قرآنِ مجید میں ہوا ہے وہیں تورات اور انجیل میں بھی ان کا ذکر موجود ہے ۔
نبی کریم ﷺ نے مختلف مواقع پر اپنے صحابہؓ کی عزت و توقیر اور ان کے احترام کا حکم دیا ہے ۔ ایک حدیث میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:میں تمھیں اپنے صحابہ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں۔ یعنی ان کے احترام ، ان کی عزت ،ان کے حقوق کی ادایگی کا اور انھیں برا بھلا نہ کہنے کی وصیت اور اس کی مزید وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:میں اپنے صحابہ کے ساتھ خیر خواہی کی تمھیں وصیت کرتا ہوں۔ اور فرمایا:میرے صحابہ کی عزت کرو وہ تمھارے بہترین لوگ ہیں۔  ان احادیث کی موجودگی میں ہر مسلمان نبی کریمﷺ کے ہر ایک صحابی ؓ کی عزت اور ان کا احترام کرتا ہے ۔ اور صحابہ کرامؓ کا گروہ مسلمان کے نزدیک مقدس گروہ ہے جنھیں نہ گالی دی جاسکتی ہے اور نہ ہی انہیں برا بھلا کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کے ایمان پر شک کیا جاسکتا ہے ۔
مولاناسید ابوالاعلی مودودیؒ (م:۱۹۷۹)نے موجودہ صدی میں جس طرح اسلام کی خدمت کی اور علمی دنیا پر اثر ڈالا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی تحریر اور تقریر دونوں سے اسلام کی خدمت کا فریضہ سر انجام دیا ہے ۔ لیکن کچھ حضرات نے مولانا کی بعض تحریروں کوبنیاد بنا کر ان پر صحابہ کرامؓ کی گستاخی کا الزام عائد کیا۔ زیرِ نظر کتاب میں مولانا کے وسیع لٹریچر، جن میں بیالیس کتابوں سے استفادہ کیا گیا اورطوالت سے بچتے ہوئے صرف موضوع سے متعلق منتخب اقتباسات اخذ کیے گئے ،سے ان کی اپنی تحریروں اور الفاظ میں صحابہ کرامؓ سے متعلق ان کے عقائد و نظریات کو پیش کیا گیا ہے ۔
کتاب کو تین ابواب پر تقسیم کیا گیا ہے ۔پہلا باب فضائل و مناقب ، دوسرا عقیدہ و مسلک اور تیسرا باب صحابہ کرامؓ پر ہونے والے اعتراضات کا مولانا نے جس خوبی سے دفاع کیا ہے پر مشتمل ہے اور ہر باب کے تحت ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں ۔

پیغام

صحابۂ کرامؓ وہ اوّلین گروہ ہیں جنھیں اللہ کے رسول خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی صحبت نصیب ہوئی۔ انھوں نے دین کو براہِ راست آپ ﷺ سے اخذ کیا، پھر اسے بے کم و کاست دوسروں تک پہنچایا۔ قرآن مجید میں انھیںرَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ۝۰ۭ (المائدہ۵: ۱۱۹، التوبہ۹: ۱۰۰)’’اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے‘‘ کی بشارت سنائی گئی ہے اور اللہ کے رسولﷺ نے بھی انھیں مطعون اورمتّہم کرنے پر سخت تنبیہ کی ہے۔
مولانامودودیؒ(م:۱۹۷۹ء) نے اپنی تفسیر ’تفہیم القرآن‘ اور دوسری کتابوں میں صحابۂ کرامؓ کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے، ان کی دینی خدمات کو زبردست خراج ِ تحسین پیش کیا ہے اور انھیں بُرا بھلا کہنے والوں پر سخت نکیر کی ہے۔ ایک جگہ انھوں نے لکھا ہے: ’’صحابۂ کرامؓ کو بُرا بھلا کہنے والا میرے نزدیک صرف فاسق ہی نہیں، بلکہ اس کا ایمان بھی مشتبہ ہے۔‘‘
(رسائل و مسائل ، ۸۵۳)
دوسری طرف مولانا مودودیؒ اس بات کے قائل ہیں کہ صحابۂ کرام ؓکے مجموعی اقوال و افعال تو دین میں حجت ہیں، لیکن ہر صحابی کی ہر بات حجت نہیں ہے۔ صحابہؓ کے درمیان مختلف امور و معاملات میں اختلاف رہے ہیں۔ دین میں حجت کا مقام صرف اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت کو حاصل ہے۔ ان پر صحابۂ کرام ؓکے اقوال و افعال کو جانچا اور پرکھا جائے گا اور ان میں سے جو کتاب و سنّت سے ہم آہنگ معلوم نہ ہوں ان پر نقد کیا جا سکتا ہے۔ نقد کرنے کا مطلب ان میں خامیاں نکالنا نہیں، بلکہ ان کا جائزہ لینا ہے۔ یہی مفہوم ہے مولانا مودودیؒ کی اس بات کا کہ صحابہ ؓمعیارِ حق نہیں ہیں۔انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے:’’معیارِ حق تو صرف اللہ کا کلام اور اس کے رسول ﷺ کی سنّت ہے۔ صحابہ معیارِ حق نہیں،بلکہ اس معیار پر پورے اترتے ہیں۔اس کی مثال یہ ہے کہ کسوٹی سونا نہیں، لیکن سونے کا سونا ہونا کسوٹی پر کسنے سے ثابت ہوتا ہے۔‘‘ (رسائل و مسائل، ۸۵۶)
مولانا مودودیؒ صحابۂ کرامؓ کے معاملے میں نقد اور اہانت کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ کسی صحابی کی کوئی بات کتاب و سنت سے ہم آہنگ نہ معلوم ہوتی ہو تو اسے غلط کہا جا سکتا ہے، لیکن اس سے آگے بڑھ کر اس صحابی پر زبانِ طعن دراز کرنا ہر گز جائز نہیں ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ’معوّذتین‘ (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) کو قرآن مجید کی سورتیں نہیں سمجھتے تھے۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے:’’یہاں آپ دیکھ رہے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ جیسے جلیل القدر صحابی سے قرآن کی دوسورتوں کے بارے میں کتنی بڑی چوک ہوگئی۔ایسی چوک اگر اتنے عظیم مرتبہ کے صحابیؓ سے ہوسکتی ہے تو دوسروں سے بھی کوئی چوک ہوجانی ممکن ہے۔ ہم علمی تحقیق کے لیے اس کی چھان بین کر سکتے ہیں، اور کسی صحابی کی کوئی بات یا چند باتیں غلط ہوں تو انھیں غلط بھی کہہ سکتے ہیں، البتہ سخت ظالم ہوگا وہ شخص جو غلط کو غلط کہنے سے آگے بڑھ کر ان پر زبان ِ طعن دراز کرے۔‘‘ (تفہیم القرآن،۶/۵۵۲)
کہا گیا ہے کہ صحابۂ کرامؓ کے بارے میں مولانا مودودیؒ کے نظریات علمائے اہلِ سنت کے مطابق نہیں ہیں، حالاں کہ بہ نظر غائر دیکھا جائے تو دونوں کے درمیان ذرا بھی فرق نہیں ہے۔ صحابۂ کرامؓ کو مولانابھی مرحوم و مغفور مانتے ہیں اور دیگر علما بھی۔ دونوں انھیں معصوم نہیں سمجھتے۔ ہر صحابیؓ کی زندگی میں خیر کا پہلو غالب ہے، دیگر علما کی طرح مولانا بھی اس کے قائل ہیں۔ صحابۂ کرامؓ کا اجماع اور مجموعی طرزِ عمل دیگر علما کے نزدیک حجت ہے اور مولانا بھی اسے حجت سمجھتے تھے۔ ہر صحابیؓ کے ہر فعل کو مولانا مطلقاً واجب التقلید اور معیارِ حق نہیں مانتے اور دیگر علما کی بھی یہی رائے ہے۔ صحابۂ کرام ؓکو بُرا بھلا کہنے کو دیگر علما ناجائز کہتے ہیں اور مولانا بھی اسے صراحتا ناجائز قرار دیتے ہیں۔ پھر آخر مولانا مطعون کیوں؟ ایک جگہ مولانا نے لکھا ہے: ’’رہا اہلِ سنت کا عقیدہ جس کا آپ ذکر فرما رہے ہیں تو وہ صرف یہ ہے کہ صحابہؓ پر طعن کرنا اور ان کی مذمّت کرنا جائز نہیں ہے اور اس فعل کا ارتکاب خدا کے فضل سے میں نے کبھی اپنی کسی تحریر میں نہیں کیا ہے۔ دیگر تاریخی واقعات کو کسی علمی بحث میں بیان کرنا اہلِ سنت کے نزدیک کبھی ناجائز نہیں رہا ہے، نہ علمائے اہلِ سنت نے کبھی اس سے اجتناب کیا ہے۔‘‘(رسائل و مسائل،۱۰۹۱)
صحابۂ کرامؓ کے بارے میں مولانا مودودیؒ کے نظریات عموماً ان کی کتاب ’خلافت و ملوکیت‘ کے حوالے سے زیر بحث آئے ہیں۔ اس میں انھوں نے تاریخ ِ اسلام میں خلافت سے ملوکیت کی تبدیلی سے بحث کرتے ہوئے بعض صحابۂ کرامؓ، خاص طور پر حضرت معاویہ ؓ کے کچھ اقدامات پر نقد کیا ہے، لیکن یہاں بھی بات نقد سے آگے بڑھ کر اہانت تک ہرگز نہیں پہنچی ہے۔ مولانا نے ایک جگہ حضرت معاویہؓ کے بارے میں لکھا ہے:’’صحابی کی تعریف میں اگرچہ سلف میں اختلاف ہے، مگر حضرت معاویہؓ کو ہر تعریف کے لحاظ سے شرفِ صحابیت حاصل ہے۔ آپؓ کے بعض انفرادی افعال محلِّ نظر ہو سکتے ہیں، مگر بہ حیثیت مجموعی اسلام کے لیے آپؓ کی خدمات مسلّم اور ناقابل ِ انکار ہیں اور آپؓ کی مغفرت اور اجر یقینی امر ہے۔‘‘(خط بنام محمد سلیمان صاحب صدیقی ، مورخہ ۳۰ اکتوبر ۱۹۳۴ء، بحوالہ مقامِ صحابہ،فروری، ۲۰۰۲، مکتبہ الحجاز ،پاکستان، ص ۱۶)
بہت پہلے مولانا مودودیؒ کی مختلف تصنیفات سے ان کی منتخب تحریروں کا ایک مجموعہ، جسے جناب عاصم نعمانی نے مرتب کیا تھا،ہندو پاک دونوں جگہوں سے شائع ہوا تھا، لیکن وہ بہت مختصر تھا۔ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ جناب مولانا محمد فیصل مدنی اور مفتی محمد اویس اسماعیل نے ایک زیادہ تفصیلی مجموعہ مرتّب کیا ہے۔ اس میں انھوں نے تفہیم القرآن کے علاوہ مولانا کی دیگر تصانیف سے بھی استفادہ کیا ہے۔اس مجموعہ کو انھوں نے تین ابواب کے تحت مرتّب کیا ہے: باب اوّل میں صحابۂ کرامؓ کے بارے میں فضائل و مناقب جمع کیے ہیں۔ باب دوم میں اصولی مباحث ہیں، جن میں معیارِ حق کا صحیح مفہوم، صحابہ کے ’عدول‘ ہونے کا مطلب،ان پر نقد کے حدود اوردیگر موضوعات آئے ہیں۔ باب سوم میں مولانا کی چند وہ تحریریں جمع کی گئی ہیں جن میں انھوں نے بعض صحابہؓ پر کیے جانے والے اعتراضات کا دفاع کیا ہے۔
امید ہے کہ یہ مجموعہ صحابۂ کرامؓ کے بارے میں مولانا مودودیؒ کے نظریات کی درست تفہیم میں معاون ثابت ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ فاضل مرتّبین کو اس خدمت کا اچھا بدلہ عطا فرمائے اور اجر سے نوازے۔ آمین،یا ربّ العالمین۔

 

محمدرضی الاسلام ندوی
نائب صدر ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ
25 جون 2022ء

کچھ کتاب کے بارے میں

صحابہ کرامؓ انسانی تاریخ کا وہ عظیم گروہ ہے کہ ان جیسے لوگ نہ کبھی تھے اور نہ ان کے بعد ایسا کوئی گروہ وجود میں آیا ۔ ان مقدس ہستیوں نے اپنے نظریات اور مقاصد پر بغیر کسی ہچکچاہٹ، خوف ، اور لالچ کے عمل کیا ۔ ان کی زندگیوں کا مطمحِ نظر صرف خدا کی خوش نودی اور رسول اللہ ﷺ کی محبت تھی۔ان کا تذکرہ جہاں قرآنِ مجید میں ہوا ہے وہیں تورات اور انجیل میں بھی ان کا ذکر موجود ہے ۔
نبی کریم ﷺ نے مختلف مواقع پر اپنے صحابہؓ کی عزت و توقیر اور ان کے احترام کا حکم دیا ہے ۔ ایک حدیث میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:میں تمھیں اپنے صحابہ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں۔( ترمذی، محمد بن عیسیٰ(م:) السنن، ابواب الفتن، باب ماجاءفی لزوم الجماعۃ،شرکۃ و مکتبۃ مصطفی البابی ،مصر، ح ۲۱۶۵، ۴ / ۴۶۵
) یعنی ان کے احترام ، ان کی عزت ،ان کے حقوق کی ادایگی کا اور انھیں برا بھلا نہ کہنے کی وصیت اور اس کی مزید وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:میں اپنے صحابہ کے ساتھ خیر خواہی کی تمھیں وصیت کرتا ہوں۔(ابن حبان،محمد بن حبان(م: ۳۵۴ھ)، الصحیح، موسسۃ الرسالۃ، ۱۴۱۴ھ، ۱۹۹۳، ح ۷۲۵۴، ۱۶ / ۲۳۹
) اور فرمایا:میرے صحابہ کی عزت کرو وہ تمھارے بہترین لوگ ہیں۔( عبد بن حمید، المسند ، مسند عمر بن خطاب، مکتبۃ السنۃ ، قاہرہ، ۱۴۰۸ھ،۱۹۸۸، ح ۲۳
) ان احادیث کی موجودگی میں ہر مسلمان نبی کریمﷺ کے ہر ایک صحابی ؓ کی عزت اور ان کا احترام کرتا ہے ۔ اور صحابہ کرامؓ کا گروہ مسلمان کے نزدیک مقدس گروہ ہے جنھیں نہ گالی دی جاسکتی ہے اور نہ ہی انہیں برا بھلا کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کے ایمان پر شک کیا جاسکتا ہے ۔
مولاناسید ابوالاعلی مودودیؒ (م:۱۹۷۹)نے موجودہ صدی میں جس طرح اسلام کی خدمت کی اور علمی دنیا پر اثر ڈالا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی تحریر اور تقریر دونوں سے اسلام کی خدمت کا فریضہ سر انجام دیا ہے ۔ لیکن کچھ حضرات نے مولانا کی بعض تحریروں کوبنیاد بنا کر ان پر صحابہ کرامؓ کی گستاخی کا الزام عائد کیا۔ زیرِ نظر کتاب میں مولانا کے وسیع لٹریچر، جن میں بیالیس کتابوں سے استفادہ کیا گیا اورطوالت سے بچتے ہوئے صرف موضوع سے متعلق منتخب اقتباسات اخذ کیے گئے ،سے ان کی اپنی تحریروں اور الفاظ میں صحابہ کرامؓ سے متعلق ان کے عقائد و نظریات کو پیش کیا گیا ہے ۔
کتاب کو تین ابواب پر تقسیم کیا گیا ہے ۔پہلا باب فضائل و مناقب ، دوسرا عقیدہ و مسلک اور تیسرا باب صحابہ کرامؓ پر ہونے والے اعتراضات کا مولانا نے جس خوبی سے دفاع کیا ہے پر مشتمل ہے اور ہر باب کے تحت ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں ۔

 

مرتبین
مولانا محمد فیصل مدنی
مفتی محمد اویس اسماعیل

باب اول: صحابۂ کرامؓ : فضائل و مناقب

( صحابہ کرام ؓ)وہ مسلمان ہیں جن سے زیادہ سچے اور پکے مومن انسانی تاریخ میں نہیں دیکھے گئے۔

(کتاب الصوم، ص ۲۶)

صحابۂ کرامؓ اللہ کی نشانی

صحابۂ کرامؓ نے قرآنی تعلیمات پرجس دل و جان سے عمل کیا اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالا، اس حوالےسے مولانا ان کی زندگیوں کو دعوت ِ دین کے سلسلے میں ایک روشن نشانی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اسی سلسلے میں سورہ آلِ عمران کی آیت ۷۰کی تفسیر میں مولانا لکھتے ہیں :
دراصل نبی ﷺ کی پاکیزہ زندگی، اور صحابۂ کرامؓ کی زندگیوں پر آپ کی تعلیم و تربیت کے حیرت انگیز اثرات، اور وہ بلند پایہ مضامین جو قرآن میں ارشاد ہورہے تھے، یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کی ایسی روشن آیات تھیں کہ جو شخص انبیا ؑکے احوال اور کتبِ آسمانی کے طرز سے واقف ہو اس کے لیے ان آیات کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ ی نبوّت میں شک کرنا بہت ہی مشکل تھا۔ ( مودودی،رسائل و مسائل ، ص ۹۰۴، ۹۰۲)
اسی طرح سورہ الاعراف کی آیت ۵۲ ترجمہ: ہم اِن لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب لے آئے ہیں جس کو ہم نے علم کی بنا پر مفصّل بنایا ہےاور جو ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے، کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
( اس آیت کا)مطلب یہ ہے کہ اوّل تو اس کتاب کے مضامین اور اس کی تعلیمات ہی بجائے خود اس قدر صاف ہیں کہ آدمی اگر ان پر غور کرے تو اس کے سامنے راہِ حق واضح ہو سکتی ہے۔ پھر اس پر مزید یہ ہے کہ جو لوگ اس کتاب کو مانتےہیں ان کی زندگی میں عملاً بھی اِس حقیقت کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ انسان کی کیسی صحیح رہنمائی کرتی ہے اور کتنی بڑی رحمت ہے کہ اس کا اثر قبول کرتے ہی انسان کی ذہنیت ، اس کے اخلاق اور اس کی سیرت میں بہترین انقلاب شروع ہو جاتا ہے۔ یہ اشارہ ہے اُن حیرت انگیز اثرات کی طرف جو اس کتاب پر ایمان لانے سےصحابۂ کرامؓ کی زندگیوں میں ظاہر ہو رہے تھے۔ (تفہیم القرآن ،الاعراف حاشیہ ۳۷،، ۳۴/ ۲)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
جہاں تک حق واضح کرنے کا تعلق ہے وہ تو دلائل سے، قرآن کے معجزانہ بیان سے، محمدﷺ کی سیرت پاک سے، اور صحابۂ کرامؓ کی زندگیوں کے انقلاب سے، انتہائی روشن طریقے پر واضح کیا جا چکا ہے۔ اب ایمان لانے کے لیے یہ لوگ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ قیامت ان کے سامنے آ کھڑی ہو؟ ( تفہیم القرآن ،سورہ محمد، حاشیہ ۲۹، ۵ / ۲۴)
سورہ مؤمنون کی آیت ایک تا گیارہ کی تشریح میں لکھتے ہیں:
ان آیات میں چار اہم مضمون ادا ہوئے ہیں :
اول یہ کہ جو لوگ بھی قرآن اور محمدﷺ کی بات مان کر یہ اوصاف اپنے اندر پیش کرلیں گے اور اس رویے کے پابند ہو جائیں وہ دنیا اور آخرت میں فلاح پائیں گے، قطع نظر اس سے کہ کسی قوم، نسل یا ملک کے ہوں۔
دوم یہ کہ فلاح محض اقرارِ ایمان، یا محض اخلاق اور عمل کی خوبیوں کا نتیجہ نہیں بلکہ دونوں کے اجتماع کا نتیجہ ہے۔ جب آدمی خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کو مانے، پھر اس کے مطابق اخلاق اور عمل کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کرلے، تب وہ فلاح سے ہم کنار ہوگا۔
سوم یہ کہ فلاح محض دنیوی اور مادی خوشحالی اور محدود وقتی کامیابیوں کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ایک وسیع تر حالتِ خیر کا نام ہے جس کا اطلاق دنیا اور آخرت میں پائدار و مستقل کامیابی و آسودگی پر ہوتا ہے۔ یہ چیز ایمان و عمل صالح کے بغیر نصیب نہیں ہوتی۔ اور اس کلیے کو نہ تو گمراہوں کی وقتی خوشی حالیاں اور کامیابیاں توڑتی ہیں، نہ مومنین صالحین کے عارضی مصائب کو اس کا نقیض ٹھیرایا جاسکتا ہے۔
چہارم یہ کہ مومنین کے ان اوصاف کو نبیﷺ کے مشن کی صداقت کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، اور یہی مضمون آگے کی تقریر سے ان آیات کا ربط قائم کرتا ہے۔ تیسرے رکوع کے خاتمے تک کی پوری تقریر کا سلسلہ استدلال اس طرح پر ہے کہ آغاز میں تجربی دلیل ہے ، یعنی یہ کہ اس نبی کی تعلیم نے خود تمھاری ہی سوسائٹی کے افراد میں یہ سیرت و کردار اور یہ اخلاق و اوصاف پیدا کر کے دکھائے ہیں ، اب تم خود سوچ لو کہ یہ تعلیم حق نہ ہوتی تو ایسے صالح نتائج کس طرح پیدا کر سکتی تھی۔ (تفہیم القرآن ،المؤمنون، حاشیہ ،۱۱،۲ / ۲۶۸)
اسی طرح کفار بار بارنبی ﷺ سے نبوت کی نشانی کا مطالبہ کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو سمجھایا کہ یہ لوگ ایمان نہیں لانے والےہیں ۔ سورہ الرعد کی آیت (۳۱)کی تفسیر میں مولانا لکھتے ہیں :
اس آیت کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی ضروری ہے کہ اِس میں خطاب کفار سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے ہے۔ مسلمان جب کفار کی طرف سے بار بار نشانی کا مطالبہ سنتے تھے تو ان کے دلوں میں بے چینی پیدا ہوتی تھی کہ کاش اِن لوگوں کو کوئی نشانی دکھادی جاتی جس سے یہ لوگ قائل ہو جاتے۔ پھر جب وہ محسوس کرتےتھے کہ اس طرح کی کسی نشانی کے نہ آنے کی وجہ سے کفار کو نبیﷺ کی رسالت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات پھیلانے کا موقع مل رہا ہے تو ان کی یہ بے چینی اور بھی زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ اِس پر مسلمانوں سے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر قرآن کی کسی سورۃ کے ساتھ ایسی اور ایسی نشانیاں یکایک دکھا دی جاتیں تو کیا واقعی تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ لوگ ایمان لے آتے ؟ کیا تمھیں اِن سے یہ خوش گمانی ہے کہ یہ قبولِ حق کے لیے بالکل تیار بیٹھے ہیں ،صرف ایک نشانی کے ظہور کی کسر ہے؟ جن لوگوں کو قرآن کی تعلیم میں ، کائنات کے آثارمیں، نبیﷺ کی پاکیزہ زندگی میں،صحابۂ کرام ؓکے انقلاب حیات میں نورِ حق نظر نہ آیا کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ پہاڑوں کے چلنے اور زمین کے پھٹنے اور مُردوں کے قبروں سے نکل آنے میں کوئی روشنی پا لیں گے؟ ( تفہیم القرآن ،الرعد، حاشیہ ،۴۷،۲ / ۴۶۰)
کفار نے نبی ﷺ پر مختلف طرح کے الزامات لگائے تھے کہ یہ کاہن ہے ،شاعر ہے وغیرہ۔ اس پرسورہ الشعراء کی آیت (۲۱۹) کے تحت لکھتے ہیں:
نبیﷺ اور آپ کے صحابۂ کرام ؓکی ان صفات کا ذکر یہاں جس غرض کے لیے کیا گیا ہے اس کا تعلق اوپر کے مضمون سے بھی ہے اور آگےکے مضمون سے بھی اوپر کے مضمون سے اس کا تعلق یہ ہے کہ آپ حقیقت میں اللہ کی رحمت اور اس کی زبردست تائید کے مستحق ہیں ، اس لیے کہ اللہ کوئی اندھا بہرا معبود نہیں ہے ، دیکھنے اور سننے والا فرمانروا ہے ، اس کی راہ میں آپ کی دوڑ دھوپ اور اپنے سجدہ گزار ساتھیوں میں آپ کی سرگرمیاں ، سب کچھ اس کی نگاہ میں ہیں۔ بعد کے مضمون سے اس کا تعلق یہ ہے کہ جس شخص کی زندگی یہ کچھ ہو جیسی کہ محمدﷺ کی ہے ، اور جس کے ساتھیوں کی صفات وہ کچھ ہوں جیسی کہ اصحاب محمد ﷺکی ہیں اس کے متعلق کوئی عقل کا اندھا ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس پر شیاطین اترتے ہیں یا وہ شاعر ہے۔ شیطان جن کاہنوں پر اترتے ہیں اور شعراء اور ان کے ساتھ لگے رہنے والوں کے جیسے کچھ رنگ ڈھنگ ہیں ، وہ آخر کس سے پوشیدہ ہیں۔ تمھارے اپنے معاشرے میں ایسے لوگ کثرت سے پائے ہی جاتے ہیں۔ کیا کوئی آنکھوں والا ایمانداری کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ اسے محمدﷺاور آپ کے اصحاب کی زندگی میں اور شاعروں اور کاہنوں کی زندگی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا؟ ا ب یہ کیسی ڈھٹائی ہے کہ ان خدا کے بندوں پر کھلم کھلا کہانت اور شاعری کی پھبتی کسی جاتی ہے اور کسی کو اس پر شرم بھی نہیں آتی۔ ( تفہیم القرآن ،الشعراء، حاشیہ ۱۳۹، ۳/ ۵۴۵)
اسی طرح سورہ الحج کی آیت(۷۸) کا پہلا مصداق مولانا کے نزدیک صحابہ کرامؓ ہی ہیں اور یہ آیت صحابہ کرامؓ کی فضیلت کو ثابت کرتی ہے ۔ مولانا لکھتے ہیں:
یعنی تمام نوع انسانی میں سے تم لوگ اس خدمت کے لیے منتخب کر لیے گئےہو جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اس مضمون کو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان فرمایا گیا ہے۔مثلاً سورہ بقرہ میں فرمایا :
جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (آیت ۱۴۳)
اور سورہ آل عمران میں فرمایا :
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آیت ۱۱۰)
یہاں اس امر پر بھی متنبہ کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت منجملہ ان آیات کے ہے جو صحابہ کرامؓ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں اور ان لوگوں کی غلطی ثابت کرتی ہیں جو صحابہؓ پر زبان طعن دراز کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس آیت کے براہ راست مخاطب صحابہؓ ہی ہیں۔ دوسرے لوگوں کو اس کا خطاب بالتتبع پہنچتا ہے۔ (تفہیم القرآن ،الحج، حاشیہ ۱۲۹، ۳/ ۲۵۴)
اسی طرح ایک مقام پر لکھتے ہیں:
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر نبوت اور کتاب کے نزول کو بارش کی برکات سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ انسانیت پر اس کے وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو زمین پر بارش کے ہوا کرتے ہیں ۔ جس طرح مردہ پڑی ہوئی زمین بار انِ رحمت کا ایک چھینٹا پڑتے ہی لہلہا اٹھتی ہے، اسی طرح جس ملک میں اللہ کی رحمت سے ایک نبی مبعوث ہوتا ہے اور وحی و کتا ب کا نزول شروع ہوتا ہے وہاں مری ہوئی انسانیت یکایک جی اٹھتی ہے ۔ اس کے وہ جوہر کھلنے لگتے ہیں جنھیں زمانہ ہائے دراز سے جاہلیت نے پیوند خاک کر رکھا تھا۔ اس کے اندر سے اخلاق فاضلہ کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں اور خیرات و حسنات کے گلزار لہلہانے لگتے ہیں ۔ اس حقیقت کی طرف جس کی طرف جس غرض کے لیے یہاں اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ضعیف الایمان مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں اور وہ اپنی حالت پر غور کریں ۔ نبوت اور وحی کے بارانِ رحمت سے انسانیت جس شان سے از سر نو زندہ ہو رہی تھی اور جس طرح اس کا دامن برکات سے مالا مال ہو رہا تھا وہ ان کے لیے کوئی دور کی داستان نہ تھی۔ وہ خود اپنی آنکھوں سے صحابہ کرامؓ کے پاکیزہ معاشرے میں اس کا مشاہدہ کر رہے تھے ۔ رات دن اس کا تجربہ ان کو ہو رہا تھا۔ جاہلیت بھی اپنے تمام مقاصد کے ساتھ ان کے سامنے موجود تھی، اور اسلام سے پیدا ہونے والے محاسن بھی ان کے مقابلے میں اپنی پوری بہار دکھا رہے تھے ۔ اس لیے ان کو تفصیل کے ساتھ یہ باتیں بتانے کی کوئی حاجت نہ تھی۔ بس یہ اشارہ کر دینا کافی تھا کہ مردہ زمین کو اللہ اپنے باران رحمت سے کس طرح زندگی بخشتا ہے ، اس کی نشانیاں تم کو صاف صاف دکھا دی گئی ہیں ، اب تم خود عقل سے کام لے کر اپنی حالت پر غور کر لو کہ اس نعمت سے تم کیا فائدہ اٹھا رہے ہو۔ ( تفہیم القرآن، الحدید، حاشیہ۳۰، ۵/۳۱۴)
مدینہ میں جب نماز جمعہ کا آغاز کیا گیا تو اس حوالے سے صحابہ کرامؓ کے اسلامی ذوق اور قلب و ذہن پر اسلامی تعلیمات نے جس طرح اثر ڈالا تھا اس کے متعلق لکھتے ہیں :
حضرت کعب بن مالکؓ اور ابن سیرینؒ کی روایت یہ ہے کہ اس سے بھی پہلے مدینہ کے انصار نے بطور خود (قبل اس کے کہ حضورﷺکا حکم ان کو پہنچا ہوتا ) آپس میں یہ طے کیا تھا کہ ہفتے میں ایک دن مل کر اجتماعی عبادت کریں گے۔ اس غرض کے لیے انھوں نے یہودیوں کے سبت اور عیسائیوں کے اتوار کو چھوڑ کر جمعہ کا دن انتخاب کیا اور پہلا جمعہ حضرت اسعد بن زُرارہؓ نے بنی بَیاضہ کے علاقہ میں پڑھا جس میں ۴۰ آدمی شریک ہوئے (مسند احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ، ابن حِبان، عبد بن حُمید، عبدالرزاق، بیہقی) اس سے معلوم ہوتا ہے اسلامی ذوق خود اس وقت یہ مطالبہ کر رہا تھا کہ ایسا ایک دن ہونا چاہیے جس میں زیادہ سے زیادہ مسلمان جمع ہو کر اجتماعی عبادت کریں، اور یہ بھی اسلامی ذوق ہی کا تقاضا تھا کہ وہ دن ہفتے اور اتوار سے الگ ہو تاکہ مسلمانوں کا شعار ملت یہود و نصاریٰ کے شعارِ ملت سے الگ رہے۔ یہ صحابہ کرامؓ کی اسلامی ذہنیت کا ایک عجیب کرشمہ ہے کہ بسا اوقات ایک حکم آنے سے پہلے ہی ان کا ذوق کہہ دیتا تھا کہ اسلام کی روح فلاں چیز کا تقاضا کر رہی ہے۔ ( تفہیم القرآن ،الجمعہ ،حاشیہ ۱۴، ۵/۴۹۳)

خیر الخلائق: صحابۂ کرامؓ

صحابہ کرام ؓ کےاخلاق و کردار اور ان کی سیرتوں کے بارے میں مولانا مودودی ؒ لکھتے ہیں :اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ محمدﷺکے یہ ساتھی تو ایسے ہیں کہ ان کو دیکھتے ہی ایک آدمی بیک نظر یہ معلوم کر سکتا ہے کہ یہ خیر الخلائق ہیں، کیونکہ خدا پرستی کا نور ان کے چہروں پر چمک رہا ہے ۔ یہ وہی چیز ہے جس کے متعلق امام مالکؒ بیان کرتے ہیں کہ جب صحابۂ کرامؓ کی فوجیں شام کی سر زمین میں داخل ہوئیں تو شام کے عیسائی کہتے تھے کہ مسیح کے حواریوں کی جو شان ہم سنتے تھے یہ تو اسی شان کے لوگ نظر آتے ہیں۔  (تفہیم القرآن ،الفتح، حاشیہ ۵۴، ۵/۶۴)
اسی طرح ایک اور مقام پر لکھا:
اللہ تعالیٰ نے یہاں صرف اصول بیان کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا ہے بلکہ اس امر واقعی کو بھی مدعیان ایمان کے سامنے نمونے کے طور پر پیش فرما دیا ہے کہ جو لوگ سچے مومن تھے انھوں نے فی الواقع سب کی آنکھوں کے سامنے تمام ان رشتوں کو کاٹ پھینکا جو اللہ کے دین کے ساتھ ان کے تعلق میں حائل ہوئے۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو بدر و احد کے معرکوں میں سارا عرب دیکھ چکا تھا۔ مکہ سے جو صحابۂ کرامؓ ہجرت کرکےآئےتھے وہ صرف خدا اور اس کے دین کی خاطر خود اپنے قبیلے اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں سے لڑ گئے تھے۔ حضرت ابو عبیدہ ؓنے اپنے باپ عبداللہ بن جراح کو قتل کیا۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا۔ حضرت ابو بکرؓ اپنے بیٹے عبدالرحمان سے لڑنے کے لیے تیار ہو گئے۔حضرت علیؓ، حضرت حمزہؓ اور حضرت عبیدہ بن الحارثؓ نے عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا جو ان کے قریبی رشتہ دار تھے۔ حضرت عمرؓ نے اسیران جنگ بدر کے معاملے میں رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے اور ہم میں سے ہر ایک اپنے رشتہ دار کو قتل کرے۔ اسی جنگ بدر میں حضرت مصعب بن عمیرؓ کے سگے بھائی ابو عزیز بن عمیر کو ایک انصاری پکڑ کر باندھ رہا تھا۔ حضرت مصعبؓ نے دیکھا تو پکار کر کہا: ذرا مضبوط باندھنا، اس کی ماں بڑی مالدار ہے، اس کی رہائی کے لیے وہ تمھیں بہت سا فدیہ دے گی۔ ابوعزیز نے کہا: تم بھائی ہو کر یہ بات کہہ رہے ہو؟ حضرت مصعبؓ نے جواب دیا: اس وقت تم میرے بھائی نہیں ہو بلکہ یہ انصاری میرا بھائی ہے جو تمھیں گرفتار کر رہا ہے۔
اسی جنگ بدر میں خود نبیﷺ کے داماد ابو العاص گرفتار ہو کر آئے اور ان کے ساتھ رسول کی دامادی کی بنا پر قطعاً کوئی امتیازی سلوک نہ کیا گیا جو دوسرے قیدیوں سے کچھ بھی مختلف ہوتا۔ اس طرح عالم واقعہ میں دنیا کو یہ دکھا یا جا چکا تھا کہ مخلص مسلمان کیسے ہوتے ہیں اور اللہ اور اس کے دین کے ساتھ ان کا تعلق کیسا ہوا کرتا ہے۔ (تفہیم القرآن ،المجادلہ، حاشیہ ۳۷، ۵/ ۳۶۶)
سورہ مومنون کی آیت (۶۲) کی تشریح میں لکھتے ہیں :
یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک مومن کس قلبی کیفیت کے ساتھ اللہ کی بندگی کرتا ہے۔ اس کی مکمل تصویر حضرت عمرؓ کی وہ حالت ہے کہ عمر بھر کی بے نظیر خدمات کے بعد جب دنیا سے رخصت ہونے لگتے ہیں تو خدا کے محاسبے سے ڈرتے ہوئےجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آخرت میں برابر سرابر بھی چھوٹ جاؤں تو غنیمت ہے۔ حضرت حسن بصریؒ نے خوب کہا ہے کہ مومن اطاعت کرتا ہے پھر بھی ڈرتا رہتا ہے، اور منافق معصیت کرتا ہے پھر بھی بے خوف رہتا ہے۔ تفہیم القرآن ،المؤمنون، حاشیہ ،۵۴، ۳/۲۸۷

اسی طرح سورہ الفرقان کی آیت (۶۳) کی تشریح میں لکھتے ہیں:
اس مقام پر اصل مقصود سیرت و اخلاق کے دو نمونوں کا تقابل ہے ۔ ایک وہ نمونہ جو محمدﷺ کی پیروی قبول کرنے والوں میں پیدا ہو رہا تھا، اور دوسرا وہ جو جاہلیت پر جمے ہوئےلوگوں میں ہر طرف پایا جاتا تھا۔ لیکن اس تقابل کے لیے طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ صرف پہلے نمونے کی نمایاں خصوصیات کو سامنے رکھ دیا، اور دوسرے نمونے کو ہر دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والے ذہن  پر چھوڑ دیا کہ وہ آپ ہی مقابل کی تصویر کو دیکھے اور آپ ہی دونوں کا موازنہ کر لے ۔ اس کے بیان کی حاجت نہ تھی، کیونکہ وہ گرد و پیش سارے معاشرے میں موجود تھا۔ (تفہیم القرآن ،الفرقان، حاشیہ ۷۸، ۳/۴۶۲)

ایک مقام پر لکھا ہے :
اسی لیے قرآن نے خود مشرکین کو خطاب کر کے بے تکلف کہا کہ تمھارے معاشرے میں محمدﷺکے پیروؤں کو جن وجوہ سے برتری حاصل ہے ان میں سے ایک اہم ترین وجہ ان کا شرک سے پاک ہونا اور خالص خدا پرستی پر قائم ہو جانا ہے ۔ اس پہلو سے مسلمانوں کی برتری کو زبان سے ماننے کے لیے چاہے مشرکین تیار نہ ہوں ، مگر دلوں میں وہ اس کا وزن محسوس کرتے تھے(۔تفہیم القرآن ،الفرقان، حاشیہ۸۴، ۳/۴۶۶)
مزید لکھتے ہیں:
اعتدال کی روش بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی تھی اور ان کم لوگوں میں اس وقت سب سے زیادہ نمایاں نبی ﷺاور آپ کے اصحابؓ تھے ۔ (تفہیم القرآن ،الفرقان، حاشیہ۸۳، ۳/ ۴۶۴)

صحابہ کرامؓ کے باہمی تعلقات اور ان کے معاشرے کی تصویر ان الفاظ میں کھینچی ہے :
اس جماعت میں جس کی شیرازہ بندی اسلام کے تعلق کی بنا پر کی گئی تھی خون اور خاک‘ رنگ اور زبان کی کوئی تمیز نہ تھی۔ اس میں سلمان ؓ ایرانی تھے جن سے ان کا نسب پوچھا جاتا‘ تو فرماتے کہ سلمان بن اسلام۔ حضرت علیؓ ان کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ ’سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں‘۔اس میں باذان بن ساسان اور ان کے بیٹے شہر بن باذان تھے جن کا نسب بہرام گور سے ملتا تھا۔ رسول اکرمﷺ نے حضرت باذانؓ کو یمن کا اور ان کے صاحبزادے کو صنعا کا والی مقرر فرمایا تھا۔ اس جماعت میں صہیبؓ رومی تھے جنھیں حضرت عمرؓ نے اپنی جگہ نماز میں امامت کے لیے کھڑا کیا بلال حبشیؓ تھے جن کے متعلق حضرت عمر ؓ فرمایا کرتے تھے کہ بِلَالُ سَیِّدُنَا وَمَوْلَاسَیِّدِنَا بلالؓہمارے آقا کا غلام اور ہمارا آقا ہے۔۔ اس میں حضرت ابوحذیفہؓ کے غلام سالم ؓ تھے جن کے متعلق حضرت عمرؓ نے اپنے انتقال کے وقت فرمایا کہ اگر آج وہ زندہ ہوتے تو میں خلافت کے لیے انھی کو نامزد کرتا۔ اس میں زید بن حارثہ ؓ ایک غلام تھے جن کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی پھوپھی کی بیٹی ام المومنین حضرت زینب ؓکو بیاہ دیا تھا۔ اس میں حضرت زیدؓ کے بیٹے اسامہؓ تھے جن کو رسول اللہ ﷺنے ایک ایسے لشکر کا سردار بنایا تھا‘ جس میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ‘ حضرت عمر فاروق ؓ‘ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ جیسے جلیل القدر صحابہ شریک تھے۔ انھی اسامہؓ کے متعلق حضرت عمرؓ اپنے بیٹے عبداللہؓ سے فرماتے ہیں کہ:اسامہؓ کا باپ تیرے باپ سے افضل تھا اور اسامہؓ خود تجھ سے افضل ہے۔ (مودودی، ابوالاعلیٰ، (۱۹۷۹ء)، اسلامی ریاست ،اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۷ء،ص ۱۶۹)

صحابہ کرام ؓ کی اخلاقی بلندی اور تربیتی ماحول سے متعلق لکھتے ہیں:
آپ میں سے جن لوگوں نے حدیث کا مطالعہ کیا ہے انھوں دیکھا ہو گا کہ نبی کریمﷺ نے اس لحاظ سے اپنی جماعت کو کتنا سنجیدہ باوقار مہذب اور منضبط بنایا تھا اور اسلامی جماعت کے عرب پر چھا جانے میں اس کیفیت کا کتنا بڑا دخل تھا۔ ایک طرف مشرکین عرب کا یہ حال تھا کہ ان کا ایک چھوٹا سا دستہ بھی اگر کسی علاقے سے گزر جاتا تھا تو شور محشر برپا ہو جاتا۔ دوسری طرف صحابۂ کرام ؓ کا یہ حال تھا کہ ان کے بڑے سے بڑےلشکر بھی منزلوں پر منزلیں طے کرتے چلے جاتے تھے اور کوئی ہنگامہ برپا نہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ جہاد میں صحابۂ کرام ؓنے صورت حال سے متاثر ہو کر اللہ اکبر کے نعرے بلند کیے۔ تو حضور ﷺنے فرمایا: جس کو تم پکار رہے ہو وہ بہرہ نہیں ہے۔ یہی باوقار رویہ تھا جس کی تربیت دینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ نبی کریمﷺ جب فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار کا لشکر لے کر چلے تو اہل مکہ کو اس وقت تک کانوں کان آپ کے آنے کی خبر نہ ہو سکی جب تک کہ آپ نے خود ہی ان کے عین سر پر پہنچ کر آگ روشن کرنے کا حکم نہ دیا۔اسی روش کی تقلید ہمیں بھی کرنی چاہیے اور ہمارے(یعنی جماعتی) اجتماعات میں بھیزیادہ سے زیادہ اسی شان کی جھلک نظر آنی چاہیے۔(شعبہ تنظیم ،جماعت اسلامی ،روداد جماعت اسلامی،اسلامک پبلیکیشنز، لاہور، ۲۰۱۸، ۳/۱۱، تفہیم الاحادیث، ادارہ معارف اسلامی، لاہور،دسمبر ۲۰۰۳، ۶/۲۱۳)

انصار کا طرز عمل

دوسری طرف اہل مدینہ نے رسول اکرم ﷺاور مہاجرین کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور اپنے جان و مال خدمت اقدس میں پیش کر دیے۔ اسی بنا پر حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ مدینہ قرآن سے فتح ہوا۔ نبی اکرمﷺ نے انصار اور مہاجرین کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا تو یہ ایسے بھائی بھائی بنے کہ مدتوں ان کو ایک دوسرے کی میراث ملتی رہی۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر اس توارث کو بند کیا: وَاُولُواالْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ ( الانفال ۸: ۷۵) انصار نے اپنے کھیت اور باغ آدھے آدھے تقسیم کرکے اپنے مہاجر بھائیوں کو دے دیے اور جب بنو نضیر کی زمینیں فتح ہوئیں تو رسول اللہ ﷺسے عرض کیا کہ یہ زمین بھی ہمارے مہاجر بھائیوں کو دے دیجیے۔ یہی ایثار تھا جس کی تعریف اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے:وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِهِمْ وَلَوْکَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (الحشر ۵۹: ۹) حضرت عبداللہ بن عوفؓ اور حضرت سعد بن ربیع انصاریؓ کے درمیان مواخاۃ کرائی گئی تو حضرت سعدؓ اپنے دینی بھائی کو آدھا مال دینے اور اپنی بیویوں میں سے ایک کو طلاق دے کر ان سے بیاہ دینے پر آمادہ ہوگئے۔ عہدِ رسالتﷺ کے بعد جب مہاجرین پیہم منصب خلافت پر سرفراز ہوئے تو کسی مدنی نے یہ نہ کہا کہ تم غیر ملکیوں کو ہمارے ملک پر حکومت کرنے کا کیا حق ہے؟ رسول اکرمﷺاور حضرت عمرؓ نے مدینہ کے نواح میں مہاجرین کو جاگیریں دیں اور کسی انصاری نے اس پر زبان تک نہ ہلائی۔(اسلامی ریاست،ص ۱۷۰)
ایک جگہ پر لکھا ہے :
ابوبکر صدیق ؓ ، عمر فاروق ؓ ، عثمان غنی ؓ ، علی مرتضیٰؓ، حسین ابن علیؓ،ابوحنیفہؒ ، احمد بن حنبلؒ اور عبدالقادر جیلانیؒ کی سیرتیں سامنے رکھیے اور پھر انصاف سے دیکھیے کہ انبیاء علیہم السلام کو چھوڑ کر تاریخِ عالم کی کون سی شخصیت اس قابل ہے کہ ان سیرتوں کے مقابلے میں لاکر رکھی جاسکے؟ (تنقیحات ،اسلامک پبلی کیشنز لاہور،۲۰۱۲ء، ص ۷۴)
نبی ﷺ کے عہد کا تجربہ تو یہ بتاتا ہے کہ اسلامی اخلاق اگر اس پیمانے کا ہو جو حضورﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ کا تھا تو صرف پانچ فی صدی مادی طاقت سے بھی کام چل جاتا ہے۔ یہی حقیقت ہے کہ جس کی طرف آیت اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ۝۰ۚ (الانفال۸: ۶۵) میں اشارہ کیا گیا ہے۔ (مودودی، ابوالاعلیٰ، (۱۹۷۹ء)، اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات ، اسلامک پبلی کیشنز لاہور،۲۰۱۱ء، ص۱۵۸)

اسی بات کو مزید وضاحت کے ساتھ اور صحابہ کرامؓ کے ایمان کی طاقت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عہد صحابہ کے مسلمان کس قدر مفلس تھے جھونپڑیوں اور کمبل کے خیموں میں رہنے والے تمدن کی شان و شوکت سے ناآشنا، نہ ان کے لباس درست،نہ غذادرست، نہ ہتھیاردرست،نہ سواریاں شاندار، مگر ان کی جو دھاک اور ساکھ دنیا میں تھی وہ نہ اموی عہد میں مسلمانوں کو نصیب ہوئی، نہ عباسی عہد میں اور نہ بعد کے کسی عہد میں۔ان کے پاس دولت نہ تھی مگر کریکٹر کی طاقت تھی جس نے دنیا میں اپنی عزت اور عظمت کا سکہ بٹھادیا تھا۔بعد والوں کے پاس دولت آئی، حکومت آئی، تمدن کی شان و شوکت آئی، مگر کوئی چیز بھی کریکٹر کی کمزوری کا بدل فراہم نہ کر سکی۔ (تنقیحات، ص۲۱۱)
نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین ؓکے عہد میں یہی چیز مسلمانوں کو حاصل تھی پھر اس کا نتیجہ جو ہوا تاریخ کے اوراق اس پر شاہد ہیں۔ اس زمانے میں جس نے لا الہ الا اللہ کہا اس کی کایا پلٹ گئی مس خام(کچا تانبا) سے یکایک وہ کندن(چمکیلا دمکتا ہوا) بن گیا اس کی ذات میں ایسی کشش پیدا ہوئی کہ دل اس کی طرف کھینچنے لگے۔ اس پر جس کی نظر پڑتی وہ محسوس کرتا کہ گویا تقوی اور پاکیزگی اور صداقت کو مجسم دیکھ رہا ہے۔وہ ان پڑھ،مفلس، فاقہ کش ، پشمینہ پوش اور بوریا نشین ہوتا،مگر پھر بھی اس کی ہیبت دلوں میں ایسی بیٹھتی کہ بڑے بڑے شان و شوکت والے فرمانرواؤں کو نصیب نہ تھی ایک مسلمان کا وجود گویا ایک چراغ تھا کہ جدھر وہ جاتا اس کی روشنی اطراف واکناف(کنارے، سمتیں، جوانب) میں پھیل جاتی اور اس چراغ سے سیکڑوں ہزاروں چراغ روشن ہو جاتے۔ پھر جو اس روشنی کو قبول نہ کرتا اور اس سے ٹکرانے کی جرات کرتا تو اس کو جلانے اور فنا کر دینے کی قوت بھی اس میں موجود تھی۔ ایسی قوت ایمانی اور طاقت و سیرت رکھنے والے مسلمان تھے کہ جب وہ ساڑھے تین سو سے زیادہ نہ تھے تو انہوں نے تمام عرب کو مقابلے کا چیلنج دے دیا۔اور جب وہ چند لاکھ کی تعداد کو پہنچے تو ساری دنیا کو مسخر کرلینے کے عزم سے مسخر اٹھ کھڑے ہوئے اور جو قوت ان کے مقابلے پر آئی پاش پاش (ٹکڑے ٹکڑے)ہوگئی۔ (مودودی، ابوالاعلیٰ، (۱۹۷۹ء)، اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات ، اسلامک پبلی کیشنز لاہور،۲۰۱۱ء، ص۱۵۸)
نبی ﷺ کے وصال کو صرف ایک صدی گزری تھی مسلمان ایک زندہ اور طاقتور قوم کی حیثیت سے دنیا پر چھا رہے تھے ایران،روم،مصر، افریقہ، اسپین وغیرہ ممالک کے وارث ہو چکے تھے اور سازوسامان،شان و شوکت اور دولت و ثروت کے اعتبار سے اس وقت دنیا کی کوئی قوم ان کی ہم پلہ نہ تھی ۔یہ سب کچھ تھا۔ دلوں میں ایمان بھی تھا،احکام شریعت کی پابندی اب سے بہت زیادہ تھی ،سمع و طاعت کا نظام قائم تھا،پوری قوم میں ایک زبردست ڈسپلن پایا جاتا تھا، مگر پھر بھی جولوگ عہد صحابہ کے فاقہ کش، خستہ حال صحرا نشینوں سے زور آزمائی کرچکے تھے انہوں نے ان سروسامان والوں اور ان بے سرو سامانوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق محسوس کیا۔ یہ کس چیز کا فرق تھا؟ فلسفہ تاریخ والے اس کو محض بداوت(دیہاتی) و حضریت(شہری) کے فرق پر محمول کریں گے وہ کہیں گے کہ پرانے بادیہ نشین(صحرائی) زیادہ جفاکش تھے اور بعد کے لوگوں کو دولت اور تمدن عیش پسند بنا دیا تھا مگر میں کہوں گا کہ یہ فرق دراصل ایمان،خلوص نیت،اخلاق اور اطاعت خدا اور رسول ﷺ کا فرق تھا۔مسلمانوں کی اصل قوت یہ چیزیں  تھی،ان کی قوت نہ کثرت تعداد پر مبنی تھی نہ اسباب و آلات کی افراط پر،نہ مال و دولت پر،نہ علوم و صناعات کی مہارت پر،نہ تمدن و حضارت کے لوازم پر۔وہ صرف ایمان و عمل صالح کے بل پر ابھرے تھے۔ اسی چیز نے ان کو دنیا میں سربلند کیا تھا۔اسی نے قوموں کے دلوں میں ان کی دھاک اور ساکھ بٹھا دی تھی۔ (ایضاً)
صحابہ کرام ؓ کے اخلاق اتنے بلند تھے کہ روئے زمین پر ان کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ ان کی زندگیاں ایک مؤمن کے لیے نمونہ ہے کہ وہ موت کو ہر وقت یاد رکھے اپنے اندر خشیت الٰہی پیدا کرے اور نیکی کی روش پر چلنے کے باوجود بے خوف نہ ہوجائے ۔ جوں ہی انسان کو اپنی نیکی کا خیال پیدا ہوا اور وہ سمجھنے لگا کہ میں نے کچھ کام کیا ہے اسی وقت سے اس کا زوال شروع ہوجاتا ہے ۔ (مودودی، ابوالاعلیٰ، (۱۹۷۹ء)، کتاب الجنائز ،البدرپبلی کیشنز، لاہور،۲۰۱۸ء، ص ۱۴)
غزوہ تبوک کے موقع پر جب تین صحابہ ؓ پیچھے رہ گئے تھے اور ان کے حوالے سےنبی کریمﷺ نے سماجی مقاطعے کا فیصلہ کیا تو اس وقت صحابہ کرامؓ نے جس کردار کا مظاہرہ کیا اس حوالے سے لکھتے ہیں:
یہ قصہ اپنے اندر بہت سے سبق رکھتا ہے جو ہر مومن کے دل نشین ہونے چاہییں:
یہ قصہ اُس معاشرے کی رُوح کو بڑی خوبی کے ساتھ ہمارے سامنے بے نقاب کرتا ہے جو نبیﷺ کی قیادت میں بنا تھا۔ ایک طرف منافقین ہیں جن کی غداریاں سب پر آشکار ہیں ، مگر ان کے ظاہری عذر سُن لیے جاتے ہیں اور درگزر کیا جاتا ہے ، کیونکہ ان سے خلوص کی امید ہی کب تھی کہ اب اس کے عدم کی شکایت کی جاتی۔ دوسری طرف ایک آزمودہ کار مومن ہے جس کی جاں نثاری پر شبہہ تک کی گنجائش نہیں اور وہ جھوٹی باتیں بھی نہیں بناتا، صاف صاف قصور کا اعتراف کر لیتا ہے مگر اس پر غضب کی بارش بر سا دی جاتی ہے، نہ اس پر کہ اس کے مومن ہونے میں کوئی شبہ ہو گیا ہے، بلکہ اس بنا پر کہ مومن ہو کر اس نے وہ کام کیوں کیا جو منافقوں کے کرنے کا تھا۔ مطلب یہ تھا کہ زمین کے نمک تو تم ہو ، تم سے بھی اگر نمکینی حاصل نہ ہوئی تو پھر اور نمک کہاں سے آئے گا۔ پھر لطف یہ ہے کہ اس سارے قضیے میں لیڈر جس شان سے سزا دیتا ہے اور پیرو جس شان سے اس سزا کو بھگتّا ہے، اور پوری جماعت جس شان سے اس سزا کو نافذ کرتی ہے، اس کا ہر پہلو بے نظیر ہے اور یہ فیصلہ کر نا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس کی زیادہ تعریف کی جائے۔ لیڈر نہایت سخت سزا دے رہا ہے مگر غصے اور نفرت کے ساتھ نہیں ، گہری محبت کے ساتھ دے رہا ہے۔ باپ کی طرح شعلہ بار نگاہوں کا ایک گوشہ ہر وقت یہ خبر دیے جاتا ہے کہ تجھ سے دشمنی نہیں ہے بلکہ تیرے قصور پر تیری ہی خاطر دل دکھا ہے۔ تُو درست ہو جائے تو یہ سینہ تجھے چمٹا لینے کے لیے بے چین ہے۔ پیرو سزا کی سختی پر تڑپ رہا ہے مگر صرف یہی نہیں کہ اس کا قدم جادۂ اطاعت سے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ڈگمگاتا ، اور صرف یہی نہیں کہ اس پر غرور نفس اور حمیت جاہلیہ کا کوئی دورہ نہیں پڑتا اور علانیہ استکبار پر اتر آنا تو درکنار وہ دل میں اپنے محبوب لیڈر کے خلاف کوئی شکایت تک نہیں آنے دیتا ۔ بلکہ اس کے برعکس وہ لیڈر کی محبت میں اور زیادہ سرشار ہوگیا ہے۔ سزا کے ان پورے پچاس دنوں میں اس کی نظریں سب سے زیادہ بے تابی کے ساتھ جس چیز کی تلاش میں رہیں وہ یہ تھی کہ سردار کی آنکھوں میں وہ گوشۂ التفات اس کے لیے باقی ہے یا نہیں جو اس کی امیدوں کا آخری سہارا ہے۔ گویا وہ ایک قحط زدہ کسان تھا جس کا سارا سرمایۂ امید بس ایک ذرا سا لکّۂ ابر(بادل کا ٹکڑا)تھا جو آسمان کے کنارے پر نظر آتا تھا ۔ پھر جماعت کو دیکھیے تو اس کے ڈسپلن اور اس کی صالح اخلاقی اسپرٹ پر انسان عَش عَش کر جاتا ہے۔ ڈسپلن کا یہ حال کہ اُدھر لیڈر کی زبان سے بائیکاٹ کا حکم نِکلا اِدھر پوری جماعت نے مجرم سے نگاہیں پھیر لیں۔ جلوت تو درکنار خلوت تک میں کوئی قریب سے قریب رشتہ دار اور کوئی گہرے سے گہرا دوست بھی اس سے بات نہیں کرتا۔ بیوی تک اس سے الگ ہو جاتی ہے ۔ خدا کا واسطہ دے دے کر پوچھتا ہے کہ میرے خلوص میں تو تم کو شبہ نہیں ہے، مگر وہ لوگ بھی جو مدت العمر سے اس کو مخلص جانتے تھے، صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم سے نہیں ، خدا اور اس کے رسول سے اپنے خلوص کی سند حاصل کرو۔ دوسری طرف اخلاقی اسپرٹ اتنی بلند اور پاکیزہ کہ ایک شخص کی چڑھی ہوئی کمان اترتے ہی مردار خوروں کا کوئی گروہ اس کا گوشت نوچنے اور اسے پھاڑ کھانے کے لیے نہیں لپکتا، بلکہ اس پورے زمانۂ عتاب میں جماعت کا ایک ایک فرد اپنے اس بھائی کی مصیبت پر رنجیدہ اور اس کو پھر سے اٹھا کر گلے لگا لینے کے لیے بے تاب رہتا ہے اور معافی کا اعلان ہوتے ہی لوگ دوڑ پڑتے ہیں کہ جلدی سے جلدی پہنچ کر اس سے ملیں اور اسے خوشخبری پہنچائیں۔ یہ نمونہ ہے اُس صالح جماعت کا جسے قرآن دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے۔ (تفہیم القرآن ،التوبہ، حاشیہ ۱۱۹، ۲۴۸/ ۲)
اسی طرح جب غزوہ بنو المصطلق سے واپسی پر منافقین نے حضرت عائشہ ؓ پر جھوٹا الزام لگایا تو اس معاملے میں مدینہ کے معاشرے نے کیا رویہ اختیار کیا اس حوالے سے لکھتے ہیں:
اس موقع پر ایک طرف نبیﷺ نے ، دوسری طرف حضرت ابو بکرؓ اور ان کے خاندان والوں نے ، اور تیسری طرف عام اہل ایمان نے جو طرز عمل اختیار کیا اس سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہو گئی کہ یہ لوگ برائی سے کس قدر پاک، کیسے ضابط و متحمل ، کیسے انصاف پسند اور کس درجہ کریم النفس واقع ہوئےہیں۔ نبیﷺ کا ایک اشارہ ان لوگوں کی گردنیں اڑا دینے کے لیے کافی تھا جنھوں نے آپ کی عزت پر یہ حملہ کیا تھا ، مگر مہینہ بھر تک آپ صبر سے سب کچھ برداشت کرتے رہے ، اور جب اللہ کا حکم آگیا تو صرف ان تین مسلمانوں کو ، جن پر جرم قذف ثابت تھا، حد لگوا دی، منافقین کو پھر بھی کچھ نہ کہا۔
حضرت ابو بکرؓ کا اپنا رشتہ دار ، جس کی اور جس کے گھر بھر کی وہ کفالت بھی فرماتے تھے ، ان کے دل و جگر پر یہ تیر چلاتا رہا، مگر اللہ کے اس نیک بندے نے اس پر بھی نہ برادری کا تعلق منقطع کیا، نہ اس کی اور اس کے خاندان کی مدد ہی بند کی۔ ازواج مطہراتؓ میں سے کسی نے بھی سوکن کی بد نامی میں ذرّہ برابر حصہ نہ لیا، بلکہ کسی نے اس (الزام) پر ادنیٰ درجے میں بھی اپنی رضا اور پسند کا ، یا کم از کم قبولیت کا اظہار تک نہ کیا۔ حتیٰ کہ حضرت زینبؓ کی سگی بہن حمنہ بنت جحش محض ان کی خاطر ان کی سوکن کو بدنام کر رہی تھیں ، مگر خود انہوں نے سوکن کے حق میں کلمہ خیر ہی کہا۔ حضرت عائشہؓ کی اپنی روایت ہے کہ ازواج رسول اللہﷺ میں سب سے زیادہ زینب ہی سے میرا مقابلہ رہتا تھا، مگر واقعہ افک کے سلسلے میں جب رسول اللہﷺ نے ان سے پوچھا کہ عائشہ کے متعلق تم کیا جانتی ہو تو انھوں نے کہا: یا رسول اللہ! خدا کی قسم، میں اس کے اندر بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں جانتی۔
حضرت عائشہؓ کی اپنی شرافت نفس کا حال یہ تھا کہ حضرت حسان بن ثابتؓ نے انھیں بدنام کرنے میں نمایاں حصہ لیا، مگر وہ ہمیشہ ان کے ساتھ عزت اور تواضع ہی سے پیش آتی رہیں۔ لوگوں نے یاد دلایا کہ یہ تو وہ شخص ہے جس نے آپ کو بد نام کیا تھا تو یہ جواب دے کر ان کا منہ بند کر دیا کہ یہ وہ شخص ہے جو دشمن اسلام شعراء کو رسول اللہﷺ اور اسلام کی طرف سے منہ توڑ جواب دیا کرتا تھا۔ یہ تھا ان لوگوں کا حال جن کا اس معاملے سے براہ راست تعلق تھا۔ اور عام مسلمانوں کی پاکیزہ نفسی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے ان کی بیوی نے جب ان افواہوں کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے: ایوب کی ماں!اگر تم عائشہ کی جگہ اس موقع پر ہوتیں تو کیا ایسا فعل کرتیں؟ وہ بولیں:خدا کی قسم میں یہ حرکت ہر گز نہ کرتی۔ حضرت ابو ایوبؓ نے کہا: تو عائشہ تم سے بدر جہا بہتر ہیں۔ اور میں کہتا ہوں کہ اگر صفوان کی جگہ میں ہوتا تو اس طرح کا خیال تک نہ کر سکتا تھا، صفوان تو مجھ سے اچھا مسلمان ہے۔ اس طرح منافقین جو کچھ چاہتے تھے ، نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا اور مسلمانوں کا اخلاقی تفوق پہلے سے زیادہ نمایاں ہو گیا۔ (تفہیم القرآن ،النور، حاشیہ ۱۰، ۳ / ۳۶۵)

اصحابِ صفہ

صفہ سے مراد وہ چبوترہ ہے جو مسجد نبویﷺ کے ساتھ بنا کر اس پر ایک چھپر ڈال دیا تھا۔ یہاں وہ لوگ قیام پذیر تھے جو مکہ معظمہ سے یا عرب کے دوسرے حصوں سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ میں آگئے تھے۔ ان کا نہ کوئی ٹھکانا تھا اور نہ ذریعہ معاش ۔ مدینے کے لوگ اور دوسرے مہاجرین جو کچھ بھی ان کی مدد کرسکتے تھے کردیتے تھے۔ اس سے ان کی گزر بسر کا سامان ہوجاتا تھا۔ یہ لوگ ہر وقت رسول اللہ ﷺ کی خدمت کے لیے مستعد رہتے تھے۔ اس طرح یہ گویا ایک مستقل والنٹیئر فورس تھی جسے حضور ﷺ جس خدمت کے لیے اور جس مہم پر جب چاہتے بھیج دیتے تھے۔ (مودودی، ابوالاعلیٰ، (۱۹۷۹ء)، فضائلِ قرآن،البدرپبلی کیشنز، لاہور،۲۰۱۱ء، ص ۱۹)
اِس گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا کے دین کی خدمت میں اپنے آپ کو ہمہ تن وقف کر دیتے ہیں اور سارا وقت دینی خدمات میں صرف کر دینے کی وجہ سے اس قابل نہیں رہتے کہ اپنی معاش پیدا کرنے کے لیے کوئی جدوجہد کر سکیں۔ نبیﷺ کے زمانے میں اس قسم کے رضا کاروں کا مستقل گروہ تھا، جو تاریخ میں اصحابِ صُفّہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تین چار سو آدمی تھے، جو اپنے اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینے آگئے تھے۔ ہمہ وقت حضور کے ساتھ رہتے تھے۔ ہر خدمت کے لیے ہر وقت حاضر تھے۔ حضور جس مہم پر چاہتے انھیں بھیج دیتے تھے، اور جب مدینے سے باہر کوئی کام نہ ہوتا، اس وقت یہ مدینے ہی میں رہ کر دین کا علم حاصل کرتے اور دُوسرے بندگانِ خدا کو اس کی تعلیم دیتے رہتے تھے۔ چونکہ یہ لوگ پُورا وقت دینے والے کارکن تھے اور اپنی ضروریات فراہم کرنے کے لیے اپنے ذاتی وسائل نہ رکھتے تھے، اِ س لیے اللہ تعالیٰ نے عام مسلمانوں کو توجّہ دلائی کہ خاص طور پر ان کی مدد کرنا انفاق فی سبیل اللہ کا بہترین مصرف ہے۔ (تفہیم القرآن ،البقرہ،حاشیہ نمبر ۳۱۴، ۱/ ۲۱۰)

صحابۂ کرام ؓ کی جانفشانی

صحابہ کرامؓ کی جرات ، جواںمردی ، جاںفشانی اور بہادری پر مولانا مودودیؒ نے مختلف مقامات پر خراجِ تحسین پیش کیا ہے ۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
اس (بدر کے)معرکہ کار زار میں سب سے زیادہ سخت امتحان مہاجرین مکہ کا تھا جن کے اپنے بھائی بند سامنے صف آرا تھے۔ کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، کسی کا چچا ، کسی کا ماموں، کسی کا بھائی اس کی تلوار کی زد میں آ رہا تھا اور اپنے ہاتھوں اپنے جگر کے ٹکڑے کاٹنے پڑ رہے تھے۔ اس کڑی آزمائش سے صرف وہی لوگ گزر سکتے تھے جنھوں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ حق سے رشتہ جوڑا ہوا ور باطل کے ساتھ سارے رشتے قطع کر ڈالنے پر تُل گئے ہوں۔ اور انصار کا امتحان بھی کچھ کم سخت نہ تھا۔ اب تک تو انھوں نے عرب کے طاقتور ترین قبیلے، قریش اور اس کے حلیف قبائل کی دشمنی صرف اسی حد تک مول لی تھی کہ ان کے علی الرغم مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دے دی تھی۔ لیکن اب تو وہ اسلام کی حمایت میں ان کے خلاف لڑنے بھی جا رہے تھے جس کے معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹی سی بستی جس کی آبادی چند ہزار نفوس سے زیادہ نہیں ہے، سارے ملک عرب سے لڑائی مول لے رہی ہے۔ یہ جسارت صرف وہی لوگ کر سکتے تھے جو کسی صداقت پر ایسا ایمان لے آئے ہوں کہ اس کی خاطر اپنے ذاتی مفاد کی انھیں ذرّہ برابر پرواہ نہ رہی ہو۔ آخر کار ان لوگوں کی صداقتِ ایمانی خدا کی طرف سے نصرت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور قریش اپنے سارے غرور طاقت کے باوجود ان بے سرو سامان فدائیوں کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ (تفہیم القرآن ،الانفال، تاریخی پس منظر، ۲ / ۱۲۶)

:اسی طرح غزوہ تبوک کے متعلق لکھتے ہیں
ادھر مومنین صادقین کو بھی پورا احساس تھا کہ جس تحریک کے لیے ۲۲ سال سے وہ سربکف رہے ہیں ، اس وقت اس کی قسمت ترازو میں ہے ، اس موقع پر جرأت دکھانے کے معنی یہ ہیں کہ اس تحریک کے لیے ساری دنیا پر چھا جانے کا دروازہ کھل جائے، اور کمزوری دکھانے کے معنی یہ ہیں کہ عرب میں بھی اس کی بساط اُلٹ جائے۔ چنانچہ اسی احساس کے ساتھ ان فدائیانِ حق نے انتہائی جوش و خروش سے جنگ کی تیاری کی۔ سروسامان کی فراہمی میں ہر ایک نے اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ لیا۔ حضرت عثمانؓ ااور حضرت عبد الرحمٰن ؓ بن عوف نے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں۔ حضرت عمرؓ نے اپنی عمر بھر کی کمائی کا آدھا حصہ لا کر رکھ دیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی ساری پونجی نذر کر دی۔ غریب صحابیوں نے محنت مزدوری کر کر کے جو کچھ کمایا لا کر حاضر کر دیا۔ عورتوں نے اپنے زیور اُتار اُتار کر دے دیے۔ سرفروش والنٹیروں کے لشکر کے لشکر ہر طرف سے اُمنڈ اُمنڈ کر آنے شروع ہو ئے اور انھوں نے تقاضا کیا کہ اسلحہ اور سواریوں کا انتظام ہو تو ہماری جانیں قربان ہونے کو حاضر ہیں ۔ جن کو سواریاں نہ مل سکیں وہ روتے تھے اور اپنے اخلاص کی بے تابیوں کا اظہار اس طرح کرتے تھے کہ رسول پاکﷺ کا دل بھر آتا تھا۔ یہ موقع عملًا ایمان اور نفاق کے امتیاز کی کسوٹی بن گیا تھا ، حتیٰ کہ اس وقت پیچھے رہ جانے کے معنی یہ تھے کہ اسلام کے ساتھ آدمی کے تعلق کی صداقت ہی مشتبہ ہو جائے ۔ چنانچہ تبوک کی طرف جاتے ہوئے دَورانِ سفر میں جو جو شخص پیچھے رہ جاتا تھا صحابۂ کرام ؓنبیﷺ کو اس کی خبر دیتے تھے اور جواب میں حضور ﷺبرجستہ فرماتے تھے کہ دعوہ فان یک فیہ خیر فسیلحقہ اللہ بکم وان یک غیر ذٰلک فقد ارا حکم اللہ منہ۔جانے دو، اگر اس میں کچھ بھلائی ہے تو اللہ اسے پھر تمھارے ساتھ لا ملائے گا اور اگر کچھ دوسری حالت ہے تو شکر کرو کہ اللہ نے اس کی جھوٹی رفاقت سے تمھیں خلاصی بخشی۔(تفہیم القرآن ،التوبہ، بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ، ۲/ ۱۷۰)

:اسی طرح عہد نبوی ﷺ میں ہونے والی جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے صحابۂ کرام ؓ کے جذبہ ایمانی کے حوالے سے لکھتے ہیں
آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ انسان کے لیے دنیا میں اپنے رشتہ داروں بڑھ کر کوئی عزیز نہیں ہوتا خصوصاً باپ، بھائی ، بیٹے تو اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ ان پر سب کچھ قربان کر دینا آدمی گوارا کر لیتا ہے۔ مگر آپ ذرا بدر اوراحد کی لڑائیوں پر غور کیجیے کہ ان میں کون کس کے خلاف لڑنے گیا تھا ؟ با پ مسلمانوں کی فوج میں ہے تو بیٹا کافروں کی فوج میں۔ یا بیٹا اس طرف ہے تو باپ اس طرف۔ ایک بھائی ادھر ہے تو دوسرا بھائی ادھر ۔ قریب سے قریب رشتہ دار ایک دوسرےکے مقابل میں آئے ہیں اور اس طرح لڑے ہیں کہ گویا یہ ایک دوسرے کو پہچانتے ہی نہیں۔ اوریہ جوش ان میں کچھ روپے پیسے یا زمین کے لیے نہیں بھڑکا تھا ، نہ کوئی ذاتی عداوت تھی، بلکہ صرف اس وجہ سے وہ اپنے خون اور اپنے گوشت پوست کے خلاف لڑگئے 
 کہ وہ خدا اور رسولﷺ پر باپ اور بیٹے اور بھائی اور سارے خاندان کو قربان کر دینے کی طاقت رکھتے تھے۔ ( خطبات، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۴ء،ص ۷۴)

رشتہ دین پر مادی علائق کی قربانی کے عنوان کے تحت ایک مقام پر لکھتے ہیں:
پھر جنگ بدر اور جنگ احد میں مہاجرین مکہ دین کی خاطر خود اپنے رشتہ داروں سے لڑے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے بیٹے عبدالرحمان پر تلوار اٹھائی۔ حضرت حذیفہؓ نے اپنے باپ ابوحذیفہ پر حملہ کیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ماموں کے خون میں ہاتھ رنگے۔ خود رسول اللہ ﷺ کے چچا عباسؓ ‘ چچا زاد بھائی عقیلؓ ‘ داماد ابو العاص ؓ بدر میں گرفتار ہوئے اور عام قیدیوں کی طرح رکھے گئے۔ حضرت عمرؓتو یہاں تک آمادہ ہوگئے تھے کہ سب قیدیوں کو قتل کر دیا جائے اور ہر شخص خود اپنے عزیز کو قتل کرے۔فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺغیر قبیلہ اور غیر علاقہ والوں کو لے کر خود اپنے قبیلے اور اپنے وطن پر حملہ آور ہوئے اور غیروں کے ہاتھوں اپنوں کی گردنوں پر تلوار چلوائی۔ عرب کے لیے یہ بالکل نئی بات تھی کہ کوئی شخص خود اپنے قبیلے اور اپنے وطن پر غیر قبیلے والوں کو چڑھا لائے اور وہ بھی کسی انتقام یا زر و زمین کے قضیے کی بنا پر نہیں‘ بلکہ محض ایک کلمۂ حق کی خاطر۔ (تفہیم القرآن ،الشعراء، حاشیہ ۱۳۹، ۳/ ۵۴۵)
:اسی طرح جو لوگ حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے ان کی جرات ایمانی کے بارے میں لکھا
وہ سچے مسلمان جو حبش کی طرف ہجرت کر کےگئے تھے ، ان کی قوت ایمانی بھی حیرت انگیز ہے کہ انھوں نے عین دربار شاہی میں ایسے نازک موقع پر اٹھ کر یہ تقریر سنا دی جب کہ نجاشی کے تمام اہل دربار رشوت کھاکر انھیں ان کے دشمنوں کے سپرد کر دینے پر تل گئے تھے۔ اس وقت اس امر کا پورا خطرہ تھا کہ مسیحیت کے بنیادی عقائد پر اسلام کا یہ بے لاگ تبصرہ سن کر نجاشی بھی بگڑ جائے گا اور ان مظلوم مسلمانوں کو قریش کے قصائیوں کے حوالے کر دے گامگر اس کے باوجود انھوں نے کلمہ حق پیش میں ذرّہ بھر تامل نہ کیا ۔ (تفہیم القرآن ،سورہ مریم، حاشیہ ۲۵، ۳/۶۹) 

جنگوں میں صحابہ کرامؓ کا کردار کیسا تھا اور انھوں نے لوٹ مار کے مروج طریقوں کو چھوڑ کر جوایک نیا رجحان پیدا کیا اس حوالے سے لکھتے ہیں:

دوسری طرف رسول اکرم ﷺ اور آپؐ کے صحابہ ؓ نے اپنی رہنمائی سے مسلمانوں میں اتنی فراخ حوصلگی اور فیاضی کی اسپرٹ پیدا کردی کہ انھوں نے خود ہی اس اجازت سے فائدہ اٹھانا پسند نہ کیا اور رفتہ رفتہ ایک دوسرا جوابی رواج ایسا پیدا ہوگیا جس نے پچھلے رواج کو عملا منسوخ کردیا ۔ عہدِ رسالت اور عہد ِ خلفائے راشدین ؓ بلکہ پورے عہدِ اسلامی کی تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے ہزاروں ملکوں اور شہروں کو عنوۃ فتح کیا مگر کسی ایک میں بھی نہ قتلِ عام کیا، نہ باشندوں کو غلام بنایا اور نہ ان کی املاک ضبط کی۔ عہدِ رسالت میں خیبر عنوۃ فتح ہوا اور آنحضرتﷺ نے اس کے باشندوں کو ذمی بنا لیا مکہ عنوۃ فتح ہوا مگر نہ زمین فوج میں تقسیم کی گئی، نہ باشندوں کو غلام بنایا گیا ، غزوہ حنین میں ہوازن مغلوب ہوئے اور آنحضرتﷺ کے حکم سے ان کی جاں بخشی کی گئی۔حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب عراق و شام کے علاقے عنوۃ فتح ہوئے تو پہلی مرتبہ اسلامی فوج میں یہ جذبہ پیدا ہوا کہ حق فتح سے فائدہ اٹھا کر زمین تقسیم کردی جائے اور باشندے غلام بنا لیے جائیں ،چنانچہ انھوں نے حضرت عمرؓ سے کہا : ہم نے زمین کو اپنا خون بہا کر فتح کیا ہے ،اس لیے آپ اسے ہمارے درمیان تقسیم کیجیے اور اس کے باشندوں کو غلام بنائیے ۔(طبری،مطبوعہ یورپ ،ص ۲۴۷۶ ۔ فتوح البلدان،ص ۲۷۷) مگر حضرت عمرؓ نے اپنے زبردست دلائل سے ان کے دلوں کا رخ پھیر دیا اور وہ قدیم ذہنیت ہمیشہ کے لیے بدل گئی ۔ امام ابو یوسف ؒ نے وہ پورا مباحثہ نقل کیا ہے جو اس مسئلے پر صحابہ ؓ کی کونسل میں ہوا تھا۔ اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اصلاح کا عمل کس طرح انجام پذیر ہوا۔ (الجہاد فی االاسلام، ص ۲۷۷)
:اصحابِ محمد ﷺ کی دین پر استقامت اور ثابت قدمی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا

کفار پر اصحاب محمدﷺکے سخت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ساتھ درشتی اور تند خوئی سے پیش آتے ہیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان کی پختگی، اصول کی مضبوطی، سیرت کی طاقت، اور ایمانی فراست کی وجہ سے کفار کے مقابلے میں پتھر کی چٹان کا حکم رکھتے ہیں۔ وہ موم کی ناک نہیں ہیں کہ انھیں کافر جدھر چاہیں موڑ دیں۔ وہ نرم نہیں ہیں کہ کافر انہیں آسانی کے ساتھ چبا جائیں۔ انہیں کسی خوف سے دبا یا نہیں جاسکتا ۔ انھیں کسی ترغیب سے خریدا نہیں جاسکتا۔ کافروں میں یہ طاقت نہیں ہے کہ انھیں اس مقصد عظیم سے ہٹا دیں جس کے لیے وہ سر دھڑ کی بازی لگا کر محمدﷺکا ساتھ دینے کے لیے اٹھے ہیں۔ (تفہیم القرآن ،الفتح، حاشیہ ۵۲، ۵/۶۳)

اس کے برعکس منافقین کی بزدلی اور کم ہمتی کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ کے لیے نکلنے پرکیوں آمادہ نہیں ہوتے:

ان کے کھل کر میدان میں نہ آنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ مسلمان ہیں، ان کے دل میں خدا کا خوف ہے اور اس بات کا کوئی اندیشہ انھیں لاحق ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود جب یہ اہل ایمان کے مقابلے میں کافروں کی حمایت کریں گے تو خدا کے ہاں اس کی باز پرس ہو گی۔ بلکہ انھیں جو چیز تمھارا سامنا کرنے سے روکتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام اور محمدﷺ کے لیے تمھاری محبت اور جانبازی اور فدا کاری کو دیکھ کر اور تمھاری صفوں میں زبردست اتحاد دیکھ کر ان کے دل بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تم اگرچہ مٹھی بھر لوگ ہو، مگر جس جذبہ شہادت نے تمھارے ایک ایک شخص کو سرفروش مجاہد بنا رکھا ہے اور جس تنظیم کی بدولت تم ایک فولادی جتھہ بن گئے ہو، اس سے ٹکرا کر یہودیوں کے ساتھ یہ بھی پاش پاش ہو جائیں گے۔ (تفہیم القرآن ،الحشر، حاشیہ ۲۳، ۵/۴۰۶)

بیعت رضوان اور صحابۂ کرامؓ

اس بیعت کو بیعت رضوان کہا جاتا ہےکیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ خوش خبری سنائی ہے کہ وہ ان لوگوں سے راضی ہو گیا جنھوں نے اس خطرناک موقع پر جان کی بازی لگا دینے میں ذرّہ برابر تامل نہ کیا اور رسول ﷺکے ہاتھ پر سرفروشی کی بیعت کر کے اپنے صادق الایمان ہونے کا صریح ثبوت پیش کر دیا ۔ وقت وہ تھا کہ مسلمان صرف ایک ایک تلوار لیے ہوئے آئے تھے۔ صرف چودہ سو کی تعداد میں تھے۔ جنگی لباس میں بھی نہ تھے بلکہ احرام کی چادریں باندھے ہوئے تھے۔ اپنے جنگی مستقر(مدینہ) سے ڈھائی سو میل دور تھے ، اور دشمن کا گڑھ ، جہاں سے وہ ہر قسم کی مدد لا سکتا تھا، صرف۱۳ میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ اگر اللہ اور اس کے رسول ﷺاور اس کے دین کے لیے ان لوگوں کے اندر خلوص کی کچھ بھی کمی ہوتی تو وہ اس انتہائی خطرناک موقع پر رسول اللہﷺ کا ساتھ چھوڑ جاتے اور اسلام کی بازی ہمیشہ کے لیے ہر جاتی ۔ ان کے اپنے اخلاص کے سوا کوئی خارجی دباؤ ایسا نہ تھا جس کی بنا پر وہ اس بیعت کے لیے مجبور ہوتے ۔ ان کا اس وقت خدا کے دین کے لیے مرنے مارنے پر آمادہ ہو جانا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ وہ اپنے ایمان میں صادق و مخلص اور خدا اور رسول ﷺکی وفاداری میں درجہ کمال پر فائز تھے ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سند خوش نودی عطا فرمائی ۔ اور اللہ کی سند خوش نودی عطا ہو جانے کے بعد اگر کوئی شخص ان سے ناراض ہو، یا ان پر زبان طعن دراز کرے تو اس کا معارضہ (ٹکراؤ) ان سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے۔ (تفہیم القرآن ،الفتح، حاشیہ ۳۲، ۵/ ۵۵)

موقع کی نزاکت نگاہ میں ہو تو آدمی سمجھ سکتا ہے کہ یہ کوئی معمولی بیعت نہ تھی۔ مسلمان صرف ۱۴۰۰ تھے اور کسی سامان جنگ کے بغیر آئے تھے۔ اپنے مرکز سے ڈھائی سو میل دور، عین مکہ کی سرحد پر ٹھیرے ہوئے تھے، جہاں دشمن اپنی پوری طاقت کے ساتھ ان پر حملہ آور ہو سکتا تھا اور گرد و پیش سے اپنے حامی قبیلوں کو لا کر بھی انھیں گھیرے میں لے سکتا تھا۔ اس کے باوجود ایک شخص کے سوا پورا قافلہ نبیﷺکے ہاتھ پر مرنے مارنے کی بیعت کرنے کے لیے بلا تامل آمادہ ہو گیا۔ اس سے بڑھ کر ان لوگوں کے اخلاص ایمانی اور راہ خدا میں ان کی فدائیت کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔ یہی وہ بیعت ہے جو بیعت رضوان کے نام سے تاریخ اسلام میں مشہور ہے۔ (تفہیم القرآن ،الفتح، تاریخی پس منظر، ۵/۳۸)

صحابۂ کرامؓ کی قرآن مجید سے محبت

احادیث میں آتا ہے کہ حضرت ابی بن کعب ؓ صحابہ کرام ؓ میں سے قرآن کو سب سے زیادہ جاننے والے لوگوں میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام ؓ کی تربیت جن بے شمار طریقوں سے فرمائی ان میں سے ایک طریقہ یہ تھا کہ جس صحابی کے اندر کوئی غیر معمولی صلاحیت ہوتی تھی اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ خصوصیت کا برتاؤ اختیار فرماتے تاکہ اس کی ہمت افزائی ہو اور اس کی وہ صلاحیت نشو و نما پائے اسی لیے رسول اللہ ﷺ کو ہدایت کی گئی کہ آپؐ حضرت ابی بن کعب ؓ کو قرآن پڑھ کر سنائیں اورحضرت ابی بن کعبؓ اس پر خوشی سے پھولے نہ سمائے کہ اللہ اکبر میرا یہ مقام کہ اللہ کے یہاں میرا نام لے کر میرا ذکر کیا جائے ۔ آپ اس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ صحابہ کرام ؓ کے دلوں میں کلامِ الٰہی کی محبت کس قدر تھی اور وہ اس بات کے کس قدر مشتاق اور آرزو مند رہتے تھے کہ وہ اللہ رب العالمین کی نگاہ میں آئیں اور خدائے بزرگ و برتر ان کے ساتھ خصوصیت کا کوئی برتاؤ کرے۔ (فضائل قرآن، ص۹۴، تفہیم الاحادیث ،۸/ ۴۶)

 :ایک حدیث میں ضعفاء المہاجرین کی فضیلت بیان کی گئی ہے تو اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں

ضعفاء المہاجرین سے بوڑھے یا جسمانی طور پر ضعیف مراد نہیں ہیں بلکہ غریب اور خستہ حال مراد ہیں یعنی وہ مہاجرین جو بے سرو سامانی کے عالم میں صرف تن کے کپڑوں کے ساتھ اپنے گھر بار چھوڑ کر آگئے تھےان کے پاس نہ پہننے کو کپڑا تھا نہ کھانے کو روٹی اور نہ سر چھپانے کو جگہ لیکن دین کے ساتھ وابستگی اور قرآن سے شیفتگی کا یہ عالم تھا کہ فارغ بیٹھے بیکار باتیں کرنے کے بجائے اللہ کا کلام سنتے اور سناتے۔ (فضائل قرآن، ص ۹۸)

:ایک اور مقام پر لکھتے ہیں

نبیﷺ نے جب ان خستہ حال مہاجرین کو دیکھا کہ وہ بڑی محبت سے قرآن سن رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ الله کا شکر ہے، اس نے میرے ساتھ وہ لوگ کر دیے ہیں جن کی معیت پر مجھے مطمئن رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں حضورﷺ نے اس پر شکر ادا کیا کہ ایسے لوگوں نے دین قبول کر لیا ہے جن کے اندر اتنی بلند حوصلگی اور کردار کی پختگی موجودتھی کہ دین کی خاطر اپنا گھر بار، بال بچے اور مال و دولت سب کچھ چھوڑ کر نکل آئے۔پھر نبیﷺ نے ان مہاجرین کو یہ خوشخبری سنائی کہ قیامت کے روز تمھیں مکمل نور حاصل ہوگا اورتم جنت میں دولت مندوں سے آدھے دن پہلے داخل ہو گے ۔ اس طرح حضور ﷺنے انھیں اس بات کی تسلی دی کہ خدا کے دین کی خاطرتم نے جس طرح تکلیفیں اور مصیبتیں برداشت کی ہیں ، خطرات انگیز کیے ہیں اور غربت و تنگ دستی کی زندگی کو اپنےگھروں کے عیش و آرام پر ترجیح دی ہے ان کے بدلے میں الله تعالی تمھیں قیامت کے روزمکمل نور عطا کرے گا اورتم دولت مندوں سے آدھے دن پہلے جنت میں داخل ہوگے۔ اس آدھے دن کے متعلق یہ وضاحت فرمائی کہ قیامت کا آدھادن اس دنیا کے پانچ سو سال کے برابر ہوگا۔ (تفہیم الاحادیث ، ۸/ ۴۹)

:نبی کریم ﷺ کی حدیث( تم میں جولوگ جاہلیت میں اچھے تھے، وہی اسلام میں اچھے ہیں) کی تشریح میں مولانا لکھتے ہیں

یعنی زمانہ جاہلیت میں جولوگ اپنے اندر جو ہر قابل رکھتے تھے، وہی زمانہ اسلام میں مردان کار ثابت ہوئے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کی قابلیت پہلے غلط راہوں میں صرف ہورہی تھیں، اور اسلام نے آ کر انھیں صحیح راہپر لگا دیا مگر بہرحال ناکارہ انسان نہ جاہلیت کے کسی کام کے تھے ، نہ اسلام کے ۔ نبی ﷺ کو عرب میں جو زبردست کامیابی حاصل ہوئی، جس کے اثرات تھوڑی ہی مدت گزرنے کے بعد دریائے سندھ سے لےکر ایٹلا نٹک کے ساحل تک دنیا کے ایک بڑے حصے نے محسوس کر لیے، اس کی وجہ یہی تھی کہ آپ کوعرب میں بہترین انسانی موادمل گیا تھا، اس کے اندر کیریکٹر کی زبردست طاقت موجودتھی ۔ اگر خدانخواستہ آپ کو بودے، کم ہمت ،ضعیف الارادہ اور نا قابل لوگوں کی بھیڑ مل جاتی تو کیا پھر بھی وہ نتائج نکل سکتے تھے؟(اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، ص ۱۵۳، تفہیم الاحادیث،۸/ ۳۹۷)

صحابہ کرامؓ کی رسول اللہﷺ سے محبت

فَوَاللَّهِ مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ ۔(بخاری،محمد بن اسماعیل(م:۲۵۶ھ)الصحیح،بَابُ الشُّرُوطِ فِي الجِهَادِ وَالمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ،دار طوق النجاة،۱۴۲۲، ۱۹۴/ ۳، حدیث ۲۷۳۱)

:اس حدیث مبارک کی تشریح میں لکھتے ہیں

معاملہ ایک نبی کا ہے اور ان لوگوں کا ہے جو سچے دل سے مان چکے تھے کہ حضورﷺ نبی ہیں اور اپنے درمیان اس عظیم المرتبت ہستی کو موجود پارہے تھے ۔ اس مرتبے کی ہستیوں کا جوز بردست اثر لوگوں پر ہوسکتا ہےکہ جنھیں یقین ہو کہ ہمارے سامنے وہ شخصیت موجود ہے جسے اللہ سے مکالمے کا شرف حاصل ہوتا ہے اس کا اندازہ آپ بخوبی کر سکتے ہیں ، اگر تھوڑی دیر کے لیے آپ خود اپنے آپ کو ان لوگوں کی جگہ فرض کر لیں ۔

یہ انبیاء کا غیر معمولی اثر ہی تو تھا جس کی بدولت ان کے معتقدین میں سے بکثرت لوگ حد پر نہ رک سکے اور غلو کر کے انھیں خدا اور ابن الله اور اوتار اور نامعلوم کیا کیا بنا بیٹھے ۔ نبی ﷺ نے اس معاملے میں لوگوں کو حد اعتدال پر رکھنے کے لیے جو کوششیں فرما ئی وہ سب کو معلوم ہیں ۔ مگر اس کے ساتھ آپؐنے انسانی فطرت کی رعایت بھی ملحوظ رکھی اور حد اعتدال کے اندر جہاں تک شدت عقیدت کو جانے کی اجازت دی جاسکتی تھی وہاں تک جانے سے لوگوں کو نہیں روکا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی وقت لوگوں نے حضور ﷺکا تھوک زمین پر نہ گرنے دیا اور آگے بڑھ کر اسے ہاتھوں پر لینے اور اپنے منہ اور جسم پر مل لینے کی کوشش کی تو آپؐنے منع نہ فرمایا ۔ رہی یہ بات کہ خودلوگوں کو گھن کیوں نہ آتی تھی، تو میں کہوں گا کہ عام انسانوں کے تھوک سے ضرور گھن آسکتی ہے مگر جس منہ پر خدا کا کلام اتر تا ہو اس کے تھوک سے گھن آنا تو در کنار ،اہلِ ایمان کی نگاہ میں تو عطر کی بھی اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ (تفہیم الاحادیث ، ۸/ ۳۹۸)

:اسی طرح نبی کریم ﷺ کی اپنے صحابہ سے کتنی محبت تھی اس حوالے سے لکھتے ہیں

بقیع میں حضور ﷺ کے نہایت محبوب صحابہ ؓ جنھوں نے حضورﷺ کے ساتھ اسلام کے غلبہ کے لیے فدا کاری کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا تھا، مدفون تھے حضور ﷺ کو اپنے صحابہ کرامؓ کے ساتھ جو گہرا قلبی تعلق تھا اس بنا پر آپ ؐ راتوں کو وہاں جاتے اور ان کے لیے دعائے مغفرت فرماتے۔ (کتاب الجنائز، ص ۱۰۹)

احکامِ دینی پر عمل کا جذبہ

شراب کی حرمت کا جب حکم آیا اور صحابۂ کرامؓ نے جس طرح اس حکم کی پاسداری کی اور اس پر عمل کیا اس پر مولانا رقم طراز ہیں:

آپ نے کبھی سنا ہے کہ جب قرآن شریف میں اس کی حرمت کا حکم آیا تو کیا ہوا ؟ وہی عرب جوشراب پر جان دیتے تھے اس حکم کو سنتے ہی انھوں نے اپنے ہاتھ سے شراب کے مٹکے توڑ ڈالے۔ مدینہ کی گلیوں میں شراب اس طرح بہہ رہی تھی جیسے بارش کا پانی بہتا ہے۔ ایک مجلس میں کچھ لوگ بیٹھے شراب پی رہے تھے جس وقت انھوں نے رسول االلہ ﷺ کے منادی کی آواز سنی کہ شراب حرام کر دی گئی ہے تو جس کا ہاتھ جہاں تھا وہیں کا وہیں رہ گیا جس کے منہ سے پیالہ لگا ہوا تھا، اس نے فورا اس کو ہٹالیا، اور پھرایک قطرہ حلق میں نہ جانے دیا ۔یہ ہے ایمان کی شان۔ اس کو کہتے ہیں خدا اور رسول کی اطاعت۔ ( خطبات، ص ۷۳)

اسی طرح زنا کے وہ واقعات جن میں خود صحابیؓ یا صحابیہ ؓ نے آکر اقرارِ جرم کیا ،اس پر ان کے ایمان کی گواہی دیتے ہوئے مولانا نے لکھا ہے:
آپ کو معلوم ہے کہ اسلام میں زنا کی سزا کتنی سخت رکھی گئی ہے؟ننگی پیٹھ پر سو کوڑے ،جن کا خیال کرنے سے آدمی کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں ، اور اگر شادی شدہ آدمی ہو تو اس کے لیے سنگساری کی سزا ہے، یعنی اس کو پتھروں سے اتنا مارنا کہ وہ مرجائے،مگر آپ نے یہ بھی سنا کہ جن کے دل میں ایمان تھا ان کی کیا کیفیت تھی؟ ایک شخص سے زنا کا فعل سرزد ہوگیا ۔کوئی گواہ نہ تھا۔ کوئی عدالت تک پکڑ کر لے جانے والا نہ تھا۔ کوئی پولیس کو اطلاع دینے والا نہ تھا۔ صرف دل میں ایمان تھا جس نے اس شخص سے کہا کہ جب تونے خدا کے قانون کے خلاف اپنے نفس کی خواہش پوری کی ہے تو اب جوسزااس نے اس کے لیے مقرر کی ہے اس کو بھگتنے کے لیے تیار ہوجا۔ چنانچہ وہ شخص خود رسول الله ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ یا رسول اللہ! میں نے زنا کیا ہے، مجھے سزا دیں۔ آپ منہ پھیر لیتے ہیں تو پھر دوسری طرف آ کر یہی بات کہتا ہے۔ آپ پھر منہ پھیر لیتے ہیں تو وہ پھر سامنے آ کر سزا کی درخواست کرتا ہے کہ جو گناہ میں نے کیا ہے اس کی سزا مجھے دی جائے- یہ ہے ایمان ۔ جس کے دل میں ایمان موجود ہے اس کے لیے ننگی پیٹھ پر سوکوڑے کھانا بلکہ سنگسارکر دیا جانا آسان ہے مگر نا فرمان بن کر خدا کے سامنے حاضر ہونامشکل۔ (خطبات، ص ۷۴)

احادیث رمضان اور صحابۂ کرامؓ کا معاشرہ

نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث مبارک ہے کہ: جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:

اس ارشاد نبوی کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ یہاں مخاطب وہ مسلمان ہیں جن سے زیادہ سچے اور پکے مومن انسانی تاریخ میں نہیں دیکھے گئے۔ نبی ﷺ نے جو ہدایات فرمائی ہیں عام طور پر اپنے خطبات جمعہ میں ارشاد فرمائی ہیں، اور جمعہ کی نماز کے وقت جو لوگ مسجد نبوی میں جمع ہوتے تھے ان کے بارے میں یہ فرض نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کوئی کمزور ایمان کے یا اتباعِ اوامر میں کوتاہیاں کرنے والے مسلمان ہوںگے۔ اس لیے یہ بات واضح ہے کہ ان ہدایات کے مخاطب وہ سچے اہلِ ایمان ہیں جو نہایت صالح اور متقی تھے ، اللہ تعالیٰ سے ڈر کر زندگی بسر کرنے والے اور اس کی ہدایات کی پیروی کرنے والے تھے۔ (مودودی، ابو الاعلی(م:۱۹۷۹ء)، کتاب الصوم،البدر پبلی کیشنز لاہور، ۲۰۰۰، ص ۲۶)
اسی طرح وہ حدیث جس میں فرمایا گیا کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کے گزشتہ سب گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ اس کی تشریح میں مولانا نے لکھا ہے:

اس طرح کی احادیث کا مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کو کبھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ ان کے مخاطب کون لوگ ہیں۔ جیسا کہ پہلے وضاحت کی جا چکی ہے۔ ان کے مخاطب وہ صلحا ء و ابر ار (صحابۂ کرامؓ) ہیں جو اپنی زندگیاں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کے مطا بق بسر کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان سے اگر کوئی لغزش یا گناہ سرزد ہو جاتا تھا تو اس کی نوعیت ایسی ہر گز نہیں ہوتی تھی کہ جیسے ایک آدمی پوری ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ گناہ کا ارتکاب کرے اور پھراس پر ڈٹا رہے۔ بلکہ وہاں صورت اس سے یکسر مختلف تھی ۔ ان راست باز لوگوں سے اگر کوئی قصور سرزد ہو بھی جاتا تھا تو وہ بشری کمز وری کی وجہ سے ہوتا تھا اور وہ ہر وقت اس پر توبہ کے لیے مستعد رہتے تھے۔ بشری کمزوری سے اگر کسی سے کوئی قصورسرزد ہوجائے اور وہ اس کے بعد نیکی اختیار کرے اور الله تعالی کے تقویٰ کو اپنا شعار بنائے رکھے تو وہ بجائے خود ایک توبہ ہے ۔ (کتاب الصوم، ص ۳۱)

اگر غور کیا جائے تو اس کی ایک اور شکل بھی ہوسکتی ہے ۔مثلا آج کل کے زمانے میں ایک طریقہ پیرول پر رہا کرنے کا ہے، یعنی قیدی کو قول لے کر رہا کردینا۔ قیدی کو اس امید پر رہا کردیا جاتا ہے کہ وہ رہائی کی مدت ختم ہونے کے بعد خود واپس آجائے گا۔ وہ معاشرہ ایسا تھا کہ اس میں اس بات کا اندیشہ نہیں تھا کہ جس قیدی کو رہا کیا جارہا ہے وہ یہ خیال کر کے کہ اب مجھے کون پکڑ تا ہے کسی ایسی جگہ فرار ہو جائے گا جہاں سے اس کو پکڑنا ممکن نہ رہے گا۔ وہ تو ایسے لوگ تھے کہ اگر ان سے کوئی قصور سرزد ہو جا تا تھا توخود آکر اس کا اعتراف کرتے تھے تا کہ ان کو سزا دے کر پاک کر دیا جائے۔ (کتاب الصوم، ص ۶۱)

اسی طرح وہ حدیث مبارک جس میں رمضان کی آخری رات امت کی بخشش کا ذکر فرمایا گیا ہے اس کی تشریح میں مولانا لکھتے ہیں:

امت کی مغفرت ہوجانے کا یہ مطلب نہیں کہ ان لوگوں کی بھی مغفرت ہوجاتی ہے جو نہ روزے رکھیں اور نہ دوسرے احکام کی پیروی کریں ،بلکہ یہ مغفرت امت کے ان لوگوں کی ہوتی ہے جو روزے رکھتے ہیں اور احکام خداوندی کی پیروی کرتے ہیں۔ اس زمانے(عہدِ رسالتﷺ) میں یہ بات قابلِ تصور ہی نہ تھی کہ کوئی شخص ر سول اللہ ﷺ کی امت میں بھی ہو اور پھر روزہ بھی نہ رکھے ۔ اس وقت پوری کی پوری امت روزہرکھتی تھی ۔ رمضان کا سارا زمانہ خدا کی عبادت میں گزارتی تھی ، ہرطرح کی برائیوں سے بچتی تھی اور عام دنوں سے بڑھ کر نیکیاں کرتی تھی۔ (کتاب الصوم، ۶۴)

مزید لکھتے ہیں:

ان احادیث (احادیث رمضان) کے مخاطب فساق و فجار اور جان بوجھ کر نافرمانیاں کرنے والے نہیں تھے بلکہ وہ صحابہ کرامؓ تھے جو حضور ﷺ کی تربیت میں تھے ان میں اگر کوئی کمی رہ بھی گئی تھی تو اس کو دور کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ (کتاب الجنائز، ص ۹۷)

نظامِ حکومت اور صحابہ کرامؓ

خلافت راشدہ اور اس کی خوبیوں کے حوالے سے لکھتے ہیں:
اسلامی حکومت میں خراسا ن،عراق ،شام اور مصر کے گورنروں کی تنخواہیں آپ کے معمولی انسپکٹروں کی تنخواہوں سے بھی کم تھیں ۔ خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق ؓ صرف سو روپے مہینہ پر اتنی بڑی سلطنت کا انتظام کرتے تھے۔حضرت عمر ؓ کی تنخواہ ڈیڑھ سو روپے سے زیادہ نہ تھی، درآں حال یہ کہ بیت المال دنیا کی دو عظیم الشان سلطنتوں کے خزانے سے بھرپور ہورہا تھا۔ اگرچہ ظاہر میں امپیریلزم بھی ملک فتح کرتا ہےاور اسلام بھی، مگر دونوں کے جوہر میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ( اسلامی نظام ِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، ص ۲۲۴)

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
اس خلافت کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک یہ تھی کہ اس میں تنقید اور اظہار رائے کی پوری آزادی تھی اور خلفاء ہر وقت اپنی قوم کی دسترس میں تھے۔ وہ خود اپنے اہل شوریٰ کے درمیان بیٹھتے تھے اور مباحثوں میں حصہ لیتے تھے۔ ان کی کوئی سرکاری پارٹی نہ تھی، نہ ان کے خلاف کسی پارٹی کا کوئی وجود تھا۔ آزادانہ فضا میں ہر شریک مجلس اپنے ایمان و ضمیر کے مطابق رائے دیتا تھا۔تمام معاملات اہل حل وعقد کے سامنے بے کم و کاست رکھ دیے جاتے تھے اور کچھ چھپا کر نہ رکھا جاتا۔ فیصلے دلیل کی بنیاد پر ہوتے تھے نہ کہ کسی رعب و اثر یا کسی کے مفاد کی پاسداری، یا کسی جھتا بندی کی بنیاد پر۔ پھر یہ خلفاء اپنی قوم کا سامنا صرف شوریٰ کے واسطے ہی سے نہ کرتے تھے، بلکہ براہ راست ہر روز پانچ مرتبہ نماز باجماعت میں، ہر ہفتے جمعہ کے اجتماع میں، ہر سال عیدین اور حج کے اجتماعات میں ان کو قوم سے اور قوم کو ان سے سابقہ پیش آتا تھا۔ ان کے گھر عوام کے درمیان تھے اور کسی حاجب ودربان کے بغیر ان کے دروازے ہر شخص کے لیے کھلے ہوئے تھے۔ وہ بازاروں میں کسی محافظ دستے اور ہٹو بچو کے اہتمام کے بغیر عوام کے درمیان چلتے پھرتے تھے۔ ان تمام مواقع پر ہر شخص کو انہیں ٹوکنے، ان پر تنقید کرنے اور ان سے محاسبہ کرنے کی کھلی آزادی تھی، اور اس آزادی کے استعمال کی وہ محض اجازت ہی نہ دیتے تھے، بلکہ اس کی ہمت افزائی کرتے تھے۔ ( مودودی، سید ابوالاعلیٰ، خلافت و ملوکیت، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، دسمبر ۲۰۱۷، صفحہ۱۰۰)

اس دور کے نظام عدل کے متعلق لکھتے ہیں:
مغیرہ بن شعبہ ؓ والی بصرہ کے خلاف شکایت پہنچتی ہے کہ ان کا ایک عورت سے ناجائز تعلق ہے ۔ یہ سنتے ہی حضرت عمر ؓ ابو موسی ٰ اشعری ؓ کو حکم دیتے ہیں کہ بصرہ میں شیطان نے آشیانہ بنا لیا ہے ، تم وہاں کی گورنری کا جائزہ لے لو اور مغیرہ کو گواہوں سمیت مدینہ بھیجو۔ حکم کے مطابق مغیرہ ؓ مدینہ بھیجے جاتے ہیں۔ خود حضرت عمر ؓ کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوتا ہے جرح میں گواہ ٹوٹ جاتے ہیں ۔ شہادتوں میں شدید اختلاف واقع ہوتا ہے ۔ جرم ثابت نہیں ہوتا اس لیے مغیرہؓ کو رہائی دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر شہادت پوری ہوجاتی تو میں یقیناً تم کو سنگسار کردیتا۔ یہ مغیرہرسول اللهﷺ کے جلیل القدر صحابی تھے اور عرب کے چار مشہورترین سیاسی مدبروں میں سے ایک تھے ،( وہ چار اصحاب یہ ہیں: امیر معاویہؓ، عمرو بن عاصؓ، مغیرہ بن شعبہؓ اور زیاد بن ابی سفیان) اسلام کی بڑی بڑی سیاسی و جنگی خدمات انجام دی تھیں، مگر ان کی عظمت و شان ،بیش قیمت خدمات ، گورنری کی اعلیٰ پوزیشن ، عرب میں ان کی شہرت و عزت ، غرض کوئی چیز ان کے کام نہ آئی اور ایک معمولی مجرم کی طرح انھیں پیش ہوناپڑا۔ دنیوی حکومتوں میں کسی افسر کا بدکاری کرنا اس کا شخصی معاملہ ہے۔ بلکہ آج کل کی مہذب ترین حکومتوں کے قوانین میں زنا اگر طرفین کی رضامندی سے ہو تو سرے سے کوئی جرم ہی نہیں ہے۔ لیکن جس حکومت کا اصلی مقصد انسانیت کی اصلاح اور امر بالمروف ونہی عن المنکر تھا اس میں کسی ایسے شخص کے لیے گنجائش نہ تھی جس کاذاتی عمل درست نہ ہو۔ (مودودی،سید ابوالاعلی (۱۹۷۹ء)،الجہاد فی الاسلام،ادارہ ترجمان القرآن، مئی ۲۰۱۹، ص ۱۳۵)

اور پھر ایک جگہ لکھا:
یہ واقعات قصہ و افسانہ نہیں ،تاریخ کے مستند حقائق ہیں۔ انھیں دیکھ کر بتا ؤکہ دنیا میں اس سے بہتر حکومت کا کوئی اور بھی نمونہ موجود ہے؟ جن لوگوں کا آئینِ ملک داری اس تقویٰ وطہارت ، اس خدا ترسی ، اس بے نفسی و بے غرضی ، اس حریت و مساوات، اس عدل و انصاف، اس وفائے عہد اور اس دیانت و امانت پر قائم ہو، کیا ان کا یہ دعوی جھوٹاہے کہ دنیا پر حکومت کرنا یا بالفاظ ِ صحیح تر دنیا کی خدمت کرنا صرف انھی کا حق ہے؟ اگر انھوں نے عجم کے عیش پرست اور ظالم حکمرانوں سے عجم کا تخت خالی کرا لیا ، اگر انھوں نے روم کے سیہ کار اور جفاپیشہ فرمانرواؤں کو روم کی حکومت سے بے دخل کر دیا ۔ اگر انھوں نے آس پاس کی تمام شیطانی حکومتوں کے تختے الٹ دیے اور ان کی جگہ یہ منصفانہ حکومت قائم کی تو بتاؤ کہ یہ انسانیت پر ظلم تھا یا اس کی خدمت؟ ان کے مقابلے میں مغرب کے ان جھوٹے مدعیوں کی کیا وقعت ہے جن کو تقوی و پرہیزگاری سے واسطہ نہیں، وفائے عہد کی ہوا تک نہیں لگی ۔ عدل و انصاف اور دیانت و امانت سے بعدِ تام ہے اور بجز ملک گیری کی ہوس، مال و زرکی حرص اور حصول اقتدار کی خواہش کے کسی اور جذبے سے آشنا نہیں ہیں؟ ( الجہاد فی الاسلام، ص ۱۳۷)

مولانا اس بات کو واضح کرتے ہوئے کہ اپنے لیے اقتدار چاہنے والوں اور اپنے اصول اور نصب العین کے لیے اقتدار چاہنے والوں میں کیا فرق ہوتا ہے، لکھتے ہیں:
نبی ﷺ اور صحابۂ کرامؓ کا نمونہ ہمارے سامنے ہے۔ انھوں نے مجموعی نظامِ زندگی کو بدل کر اسلام کے اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کی. یہ چیز سیاسی غلبہ و اقتدار کی بھی متقاضی تھی کیونکہ دین کو پوری طرح غالب کر دینا اس کے بغیر ممکن نہ تھا اور عملاً اس جدوجہد کے نتیجے میں اقتدار ان کے ہاتھ میں بھی آیا تھا لیکن اس کے باوجود کوئی ایمان دار آدمی یہ شبہ نہیں کرسکتا کہ ان کی جدوجہد کا مقصور ’’اپنا اقتدار‘‘ تھا۔ دوسری طرف ’’اپنے اقتدار‘‘ کے طالبوں سے تاریخ بھری پڑی ہے اورتا ریخ میں ان کوڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے وہ دنیا میں موجود ہیں ۔ عملاًاقتدار پانے کو اگر ایک واقعے کی حیثیت سے لیا جائے تو دونوں گروہوں میں کوئی فرق نہیں لیکن نیت کے لحاظ سے دونوں میں عظیم الشان فرق ہے ۔ ( مودودی ،تحریک اور کارکن، ادارہ معارفِ اسلامی،لاہور، ۲۰۱۷ء ص۱۷۶)

اسلام نے حکومت چلانے کے حوالے سے جو تعلیمات دی ہیں اور صحابہ کرامؓ نے جس طریقے سے اس پر عمل کیا اس حوالے سے لکھتے ہیں:
یہ حکومت و سلطنت کے متعلق اسلامی تعلیم کی اصلی روح ہے۔ اس کو سمجھ لینے کے بعد صحابۂ کرامؓ کے ان فاتحانہ اقدامات کی علت باآسانی سمجھ میں آسکتی ہے جن سے انھوں نے قیصروکسری کی بادشاہی کے تخت الٹ دیے اور باطل کی فرمانروائی کے سارے طلسم کو درہم برہم کر دیا ۔ انھوں نے اپنے ملک کی اصلاح سے فارغ ہو کر جب باہر کی دنیا پرنظر دوڑائی تو دیکھا کہ تمام ہمسایہ ممالک پر ظالم بادشاہ اور جابر امرا مسلط ہیں۔قوت والوں نے کمزوروں کو غلام بنا لیا ہے ۔ دولت والوں نے غریبوں کو خرید رکھا ہے ۔ انسان، انسان کا خدا بن گیا ہے ۔ عدل، انصاف ،قانون کوئی چیز نہیں ہے۔بادشاہوں اور حاکموں کی چشمِ ابرو کے اشارے پر لوگوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں ،عزتیں لٹتی ہیں ،گھر برباد ہوتے ہیں اور قوموں کی قسمتوں کے فیصلے ہوجاتے ہیں ۔
غریب محنتی لوگ اپنا خون پانی ایک کرکے جو دولت کماتے ہیں وہ طرح طرح کی زیادیتوں سے لوٹی جاتی ہے اور امرا کی عیش پسندیوں میں اڑا دی جاتی ہے ۔ حاکم لوگ خود پرلے درجے کے سیاہ کار ، بدعمل اور ہوس پرست ہیں ، اس لیے رعیت بھی ہر قسم کی معصیتوں میں مبتلا ہیں ۔ شراب ،زنا اور جوئے کی عام اجازت ہے ۔ رشوت اور خیانت کا بازار گرم ہے ۔ نفس کی شراتوں نے اخلاق و انسانیت کی تما م قیود کو توڑ دیا ہے ۔ بہیمی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے انسان کسی قید سے آشنا نہیں رہا اور اس کے اخلاق کی دناءت اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ اگر تمدن کی اوپری شان و شوکت کے پردے اٹھا کر اسے دیکھا جائے تو حیوانوں کو بھی اس کی حیوانیت پر شرم آنے لگے ۔ انسانی برادری کو اس ذلیل حالت میں مبتلا دیکھ کر صالحین کی وہ سرفروش جماعت اصلاح کے لیے کمربستہ ہوگئی ۔ پہلے اس نے وعظ و تذکیر سے کام لیا اور کسری عجم، قیصر ِ روم اور مقوقس مصر کو دعوت دی کہ اسلام کے قانون ِ عدل و حق پرستی کو اختیار کریں ۔ جب انھوں نے اس دعوت کو رد کردیا تو پھر مطالبہ کیا کہ حکومت و فرمانروائی کی مسند کو ان لوگوں کے لیے خالی کردیں جو اس کے اہل ہیں۔ مگر جب اس مطالبے کو بھی رد کردیا گیا اور اس کے جواب میں تلوار پیش کی گئی تو مٹھی بھر انسانوں کی اس بے سروسامان جماعت نے اٹھ کر بیک وقت دو عظیم الشان سلطنتوں کے تختے الٹ دیے اور سرحد ہندستان سے لے کر شمالی افریقہ تک جو لوگ ان کے ظلم سے پامال ہورہے تھے ان سب کو یک لخت آزاد کردیا۔
مزید ایک مقام پر لکھا ہے :
تمھیں اختیار ہے کہ ان کے اس فعل کو جہانگیری سے تعبیر کرو یا زیادتی اور تعدی قرار دو۔ مگر تاریخ کے اس بیان کو تم نہیں جھٹلا سکتے کہ ان کی حکومت نے ان قوموں کو اس پستی سے نکالا جس میں وہ گری ہوئی تھیں ، انھیں مادی، اخلاقی اور روحانی ترقی کی معراج پر پہنچایا ، اور جو ملک تہذیب و تمدن کے لیے بالکل بنجر ہوگئے تھے ان میں نئے سرے سے نمو اور روئیدگی کی وہ قوتیں پیدا کیں کہ آج تک عالمِ انسانی میں ان کے گلزار کی مہک باقی ہے ۔ قوم پرستی کا مذہب تو شاید یہی فیصلہ کرے کہ ایران و روم چاہے مٹ جاتے مگر عرب کو ان پر حملہ کرنے کا حق نہیں تھا ، لیکن صداقت کا مذہب یہ کہتا ہےکہ انھوں نے اس طرح انسانیت کی سب سے بڑی خدمت انجام دی، اور درحقیقت یہ دنیا کی بدقسمتی تھی کہ اس کا ایک بڑا حصہ اس جماعت کی خدمت سے محروم رہ گیا جس سے زیادہ ’’صالح ‘‘ جماعت سورج کی آنکھ نے زمین کے چہرے پر کبھی نہیں دیکھی ۔ (الجہاد فی الاسلام ،ص ۱۴۲)
خلافت راشدہ کی ان خوبیوں کو مزید اجاگر کرتے ہوئے ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
اس چیز کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین ؓکی سربراہی میں ریاست کا جو نظام چالیس سال تک چلتا رہا تھا اس کے دستور کی بنیادی خصوصیات کیا تھیں ،اور یزید کی ولی عہدی سے مسلمانوں میں جس دوسرے نظام ِ ریاست کا آغاز ہوا اس کے اندر کیا خصوصیات دولت بنی امیہ و بنی عباس اور بعد کی بادشاہیوں میں ظاہر ہوئیں ۔ اسی تقابل سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ یہ گاڑی پہلے کس لائن پر چل رہی تھی ،اور اس نقطہ انحراف پر پہنچ کر آگے وہ کس لائن پر چل پڑی اور اسی تقابل سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص نے رسول اللہ ﷺ اور سیدہ فاطمہ اور حضرت علیؓ کی آغوش میں تربیت پائی تھی،اور جس نے صحابہ کی بہترین سوسائٹی میں بچپن سے بڑھاپے تک کی منزلیں طے کی تھیں۔وہ کیوں اس نقطہ انحراف کے سامنے آتے ہی گاڑی کو اس نئی لائن پر جانے سے روکنے کے لیے کھڑا ہوگیا،اور کیوں اس نے اس بات کی بھی پروا نہ کی کہ اس زوردار گاڑی کا رخ موڑنے کے لیے اس کے آگے کھڑے ہوجانے کا کیا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ (تفہیمات، حصہ سوم ص ۳۲۵)
خلافتِ راشدہ ، جس کے امتیازی خصائص اور بنیاد ی اصول گزشتہ صفحات میں بیان کیے گئے ہیں حقیقت میں محض ایک سیاسی حکومت نہ تھی بلکہ نبوت کی مکمل نیابت تھی۔ یعنی اس کا کام صرف اتنا ہی نہ تھا کہ ملک کا نظم و نسق چلائے امن قائم کرے اور سرحدوں کی حفاظت کرتی رہے بلکہ وہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں معلم، مربی اور مرشد کے وہ تمام فرائض انجام دیتی تھی جو نبی ﷺ اپنی حیاتِ طیبہ میں انجام دیا کرتے تھے اور اس کی یہ ذمہ داری تھی کہ دار السلام میں دینِ حق کے پورے نظام کو اس کی اصلی شکل و روپ کے ساتھ چلائے اور دنیا میں مسلمانوں کی پوری اجتماعی طاقت اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی خدمت پر لگا دے ۔ اس بنا پر یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ وہ صرف خلافتِ راشدہ ہی نہ تھی بلکہ خلافتِ مرشدہ بھی تھی ۔ خلافتِ علی منہاج النبوۃ کے الفاظ اس کی انہیں دونوں خصوصیات کو ظاہر کرتے ہیں اور دین کی سمجھ رکھنے والا کوئی شخص بھی اس بات سے ناواقف نہیں ہوسکتا کہ اسلام میں اصل مطلوب اسی نوعیت کی ریاست ہے نہ کہ محض ایک سیاسی حکومت ۔ ( مودودی، ابوالاعلیٰ، (۱۹۷۹ء)، اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات ، اسلامک پبلی کیشنز لاہور،۲۰۱۱ء، ص۱۵۸ )
خلافت راشدہ کا یہ دور جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ ایک روشنی کا مینار تھا جس کی طرف بعد کے تمام ادوار میں فقہا و محدثین اور عام دیندار مسلمان ہمیشہ دیکھتے رہے اور اسی کو اسلام کے مذہبی، سیاسی، اخلاقی اور اجتماعی نظام کے معاملے میں معیار سمجھتے رہے۔ (مودودی، خلافت و ملوکیت، صفحہ ۱۰۶)

شورائیت اور صحابۂ کرامؓ

دور خلفائے راشدین ؓ میں مجلس شوریٰ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
خلفائے راشدین ؓکے عہد میں جو لوگ شوریٰ کے رکن بنائے گئے، اگرچہ ان کو انتخاب عام کے ذریعے سے منتخب نہیں کرایا گیا تھا۔ جدید زمانے کے تصوّر کے لحاظ سے وہ نامزد کردہ لوگ ہی تھے لیکن خلفا نے یہ دیکھ کر ان کو مشیر نہیں بنایا تھا کہ یہ ہماری ہاں میں ہاں ملانے، اور ہمارے مفاد کی خدمت کرنے کے لیے موزوں ترین لوگ ہیں بلکہ انھوں نے پورے خلوص اور بے غرضی کے ساتھ قوم کے بہترین عناصر کو چنا تھا جن سے وہ حق گوئی کے سوا کسی چیز کی توقع نہ رکھتے تھے جن سے یہ امید تھی کہ وہ ہر معاملے میں اپنے علم و ضمیر کے مطابق بالکل صحیح ایماندارانہ رائے دیں گے جن سے کوئی شخص بھی یہ اندیشہ نہ رکھتا تھا کہ وہ حکومت کو کسی غلط راہ پر جانے دیں گے اگر اس وقت ملک میں آج کل کے طریقے کے مطابق انتخابات بھی ہوتے تو عام مسلمان انھی لوگوں کو اپنے اعتماد کا مستحق قرار دیتے۔ (مودودی، بوالاعلیٰ ، (م:۱۹۷۹ء)،تفہیمات، اسلامک پبلی کیشنز،لاہور، فروری ۱۹۹۷،حصہ سوم ص ۳۲۹)
اس ادارے(مجلس شوریٰ) کے بکثرت فیصلے احادیث و آثار اور فقہ کی کتابوں میں مستند ذرائع سے نقل ہوئے ہیں۔ اور اکثر و بیشتر کے ساتھ وہ تفصیلی بحثیں بھی منقول ہوئی ہیں جو فیصلہ کرتے وقت صحابہؓ کی مجلس میں ہوئی تھیں۔ ان کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ادارہ پوری سختی کے ساتھ جس قاعدے کلیے کی پابندی کرتا تھا وہ یہ تھا کہ ہر معاملے میں سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کیا جائے ،پھر یہ معلوم کیا جائے کہ اگر اس طرح کا کوئی معاملہ حضورﷺ کے زمانے میں پیش آیا ہے تو آپؐ نے اس کے بارے میں کیا فیصلہ فرمایا ہے ، اور اپنی صوابدید پر صرف اس صورت میں فیصلہ کیا جائے جب کہ یہ دونوں ماخذ ِ ہدایت خاموش ہوں، جس معاملے میں بھی اللہ کی کتاب سے کوئی آیت یا رسول اللہﷺ کی سنت سے کوئی نظیر ان کو مل گئی ہے ، اس میں کبھی انھوں نے اس سے ہٹ کر کرئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ پورے دورِ صحابہؓ میں اس قاعدے کے خلاف ایک مثال بھی ہم کو نہیں ملتی۔ (تفہیمات،حصہ سوم، ص ۵۲)

صحابۂ کرام ؓ اور تزکیہ نفس

مولانا مودودیؒ سے پوچھا گیا:
کیا صحابۂ کرام ؓ بھی آج کل کے صوفیا کی طرح تزکیہ نفس کیا کرتے تھے اور عالمِ بالا کے مشاہدات ہوتے رہتے تھے؟
جواب: صحابۂ کرام ؓ نے تو عالمِ بالا کے معاملے میں صرف رسول ﷺ کے اعتماد پر غیب کی ساری حقیقتوں کو مان لیا تھا، اس لیے مشاہدے کی نہ ان کو طلب تھی اور نہ اس کے لیے انھوں نے کوئی سعی کی۔ وہ بجائے اس کے کہ پردہ غیب کے پیچھے جھانکنے کی کوشش کرتے ، اپنی ساری قوتیں اس جدوجہد میں صرف کرتے تھے کہ پہلے اپنے آپ کو اور پھر ساری دنیا کو خدائے واحد کا مطیع بنائیں اور دنیا میں عملاً وہ نظام ِ حق قائم کردیں جو برائیوں کو دبانے اور بھلائیوں کو نشوونما دینے والا ہو۔ ( مودودی، ابوالاعلیٰ ، (م:۱۹۷۹ء)،رسائل و مسائل ،اسلامک پبلی کیشنز،لاہور، ۲۰۱۸ء، ص۷۹۳)

ایک اور جگہ پر لکھا:
رسو ل اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ اور ان کے بعد امت کے صلحا و اتقیا اور علما و فقہا نے صدیوں کی عرق ریزی و جانفشانی سے کروڑوں انسانوں کو کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکالا اخلاق کی پستیوں سے اٹھایا جاہلیت کی رسموں اور طور طریقوں کو مٹایا خدا ئے واحد کی بندگی کے لیے ان کو تیار کیا آخرت کی باز پرس کا عقیدہ ان کے دلوں میں بٹھایا ، اخلاقِ فاضلہ کی تعلیم و تربیت دے کر ایک خاص کیرکٹر ان کے اندر پیدا کیا ۔ نماز اور روزے اور حج اور زکاۃ جیسی پاکیزہ عبادات ان میں رائج کیں اور اسلامی نظامِ تہذیب و تمدن کا ایک مضبوط سانچا تیار کردیا جس کی بدولت مسلمان ان خوبیوں سے آراستہ ہوئے جو دوسروں کے لیے قابلِ رشک تھیں، یہ جو کچھ صدہا برس کی محنتوں اور مسلسل کوششوں سے بنا ہے اس کو ہم ضائع اور برباد کرنا چاہیں تو آسانی سے کرسکتے ہیں لیکن اسے پھر تعمیر کرنا چاہیں تو پھر صدیاں ہی اس کے لیے درکار ہوں گی۔ ( تفہیمات، حصہ چہارم ،ص ۱۷۴)
صحابہ کرامؓ کی اخلاقی تربیت کے حوالے سے لکھتے ہیں:
اس اصلاحی تعلیم (رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات)نے ۸ سال کی قلیل مدت میں جو عظیم الشان نتائج پیدا کیے ان کا بہترین نمونہ فتح مکہ ہے۔ ایک طاقت پر دوسری طاقت کی فتح اور خصوصاً دشمن کے کسی بڑے شہر کی تسخیر کے موقع پر بھی وحشی عرب ہی میں نہیں بلکہ متمدن روم و ایران میں بھی جو کچھ ہوتا تھا اسے پیش نظر رکھیے اس کے بعد غور کیجیے کہ وہی عرب جو چند برس پہلے تک جاہلیت کے طریقوں کے عادی تھے اس شہرمیں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوتے ہیں جس سے آٹھ ہی برس پہلے ان کو بری طرح تکلیفیں دے دے کر نکالا گیا تھا اور انھی دشمنوں پر فتح حاصل کرتے ہیں جنھوں نے ان فاتحوں کو گھر سے بے گھر کر نے ہی پر قناعت نہیں کی تھی بلکہ جس جگہ انھوں نے جا کر پناہ لی تھی وہاں سے بھی ان کو نکال دینے کے لیے کئی مرتبہ چڑھ آئے تھے۔ ایسے شہر اور ایسے دشمنوں پرغلبہ حاصل ہوتا ہے مگر کوئی قتل عام نہیں کیا جاتا، کسی قسم کی لوٹ مار نہیں ہو تی ، کسی کی جان و مال اور عزت و آبروسے تعرض نہیں کیا جاتا، پرانے اور کٹے دشمنوں میں سے بھی کسی پرانتقام کا ہاتھ نہیں اٹھتا تسخیرِ شہر کی پوری کارروائی میں صرف ۲۴ آدمی مارے جاتے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب کہ دست درازی میں پیش قدمی خود ان کی طرف سے ہوئی ۔(الجہاد فی الاسلام، ص ۲۳۱)
اور ایک جگہ پر مسلمانوں کی موجودہ اخلاقی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :
یہ ہماری انتہائی بدقسمتی ہے کہ ہمارے اسلاف نے سینکڑوں برس کی محنتوں سے ہمارے اندر جو اصلاح کی تھی اس کو ہم نے پچھلے ایک صدی کے اندر بری طرح ضائع کیا ہے۔ پہلے انگریزوں کی غلامی کے زمانے میں وہ بہت کچھ ضائع ہوئی اور اب ان کی غلامی ختم ہوجانے کے بعد خود اپنے حکمرانوں کے دور میں ہم اس کو پہلے سے بھی زیادہ ضائع کررہے ہیں۔ یہ وہی غلطی ہے جس پر قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر متنبہ فرمایا گیا ہے کہ وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا (الاعراف۷: ۵۶) زمین میں اصلاح ہوجانے کے بعد اس میں بگاڑ پیدا نہ کرو۔( تفہیمات، حصہ چہارم ،ص ۱۷۴)
صحابہ کرام ؓ نے جس طرح انسانیت کی خدمت کی اور ایک قابلِ فخر خلافت اور معاشرہ قائم کیا اس پر خراج ِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہ صالح لوگ کسی ایک قوم یا ایک ملک کی جائدا دنہیں ہیں بلکہ تمام نوع بشری اور کائنات انسانی کی مشترک جائداد ہیں ۔ آدم کی ساری اولاد کو ان کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے۔ اور اگر وہ اپنی خدمات کو بلا ضرورت کسی محدود جماعت یا رقبے کے لیے مخصوص کر دیں تو یقیناً یہ انسانیت پر ان کا ظلم ہوگا ۔ اسلام نے ان کے لیے رنگ یا نسل یا جغرافی تقسیم کے قبیل سے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے، بلکہ بلا قيد تمام روئے زمین کے لیے ان کی قابلیتوں کے فوائد کو عام کر دیا ہے۔ ( الجہاد فی الاسلام، ص ۱۴۱)

افضل المؤمنین

سوال: کیا بحیثیت خلیفہ اول و بحیثیت کبر سنی و دیگر محاسن کے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو دوسرے خلفا یعنی حضرت عمرؓ ،حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ پر فضیلت و برتری حاصل ہے؟ یہ مسئلہ ایک مدت سے زیرِ بحث ہے۔ اسے حل فرماکر ممنون کیجیے۔
جواب: جو شخص بھی اسلام کو جانتا ہو اور پھر تاریخ اسلام کا جس نے مطالعہ کیا ہو اسے یہ تسلیم کرنے میں ذرّہ برابر تامل نہیں ہوگا کہ پوری تاریخ اسلام میں ایک شخص بھی اس پایے کا نہیں گزرا ہے جو انبیا ؑ کے بعد اس دین کی روح کو اس قدر مکمل طور پر اپنے اندر جذب کرچکا ہو جتنا ابوبکر صدیق ؓ نے کیا تھا۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس معاملے میں دو رائیں ممکن نہیں ہیں اور اس سے اختلاف صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو یا تو اسلام کو نہیں سمجھتا یا پھر کسی تعصب میں مبتلا ہے ۔ لیکن یہ رائے رکھنے کے باوجود میں اس کا سخت مخالف ہوں کہ لوگ خواہ مخواہ اپنے آپ کو صحابہ ؓ یا دوسرے اشخاص کے درجے متعین کرنے اور ان میں سے کسی کے افضل اور کسی کے مفضول ہونے کا فیصلہ کرنے کا ذمہ دار قرار دے لیں اور ان بحثوں میں اپنا وقت ضائع کریں۔ ان معاملات کا فیصلہ تو خدا خود کرے گا۔ ہمیں جس چیز کی فکر کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو خدا کے ہاں کس درجے کا مستحق بنا رہے ہیں۔ ( رسائل و مسائل، ۹۰۷)

باب دوم:صحابۂ کرامؓ : عقیدہ و مسلک

صحابہ کرامؓ کو برا بھلا کہنے والا میرے نزدیک صرف فاسق ہی نہیں ہے،بلکہ اس کا ایمان بھی مشتبہ ہے۔

(رسائل و مسائل، ص ۸۵۳)

صحابہ کرامؓ کا دینی مقام

صحابہ کرامؓ کا دینی مقام

اسلام کے ابتدائی زمانے میں جب ایک بار مدینہ میں عین نمازِ جمعہ کے وقت ایک تجارتی قافلہ آیا اس وقت نبی کریم ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے لیکن صحابۂ کرامؓ خطبہ چھوڑ کر خرید و فروخت کے لیے چلے گئے تو اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:
یہ واقعہ جس طرح صحابہؓ کے معترضین کی تائید نہیں کرتا اسی طرح ان لوگوں کے خیالات کی تائید بھی نہیں کرتا جو صحابہؓ کی عقیدت میں غلو کر کے اس طرح کے دعوے کرتے ہیں کہ ان سے کبھی کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی، یا ہوئی بھی ہو تو اس کا ذکر نہیں کرنا چاہیے ، کیونکہ ان کی غلطی کا ذکر کرنا اور اسے غلطی کہنا ان کی توہین ہے ، اور اس سے ان کی عزت و وقعت دلوں میں باقی نہیں رہتی، اور اس کا ذکر ان آیات و احادیث کے خلاف ہے جن میں صحابہ ؓکے مغفور اور مقبول بار گاہ الٰہی ہونے کی تصریح کی گئی ہے۔ یہ ساری باتیں سراسر مبالغہ ہیں جن کے لیے قرآن و حدیث میں کوئی سند موجود نہیں ہے۔ یہاں ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اس غلطی کا ذکر کیا ہے جو صحابہؓ کی ایک کثیر تعداد سے صادر ہوئی تھی۔ اس کتاب میں کیا ہے جسے قیامت تک ساری امت کو پڑھنا ہے۔ اور اسی کتاب میں کیا ہے جس میں ان ( صحابۂ کرامؓ) کے مغفور اور مقبول بارگاہ ہونے کی تصریح کی گئی ہے۔ پھر حدیث و تفسیر کی تمام کتابوں میں صحابہ ؓسے لے کر بعد کے اکابر اہل سنت تک نے اس غلطی کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر انھی صحابہ ؓکی وقعت دلوں سے نکالنے کے لیے کیا ہے جن کی وقعت وہ خود دلوں میں قائم فرمانا چاہتا ہے ؟ اور کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ صحابہؓ اور تابعینؒ اور محدثینؒ و مفسرینؒ نے اس قصے کی ساری تفصیلات اس شرعی مسئلے سے ناواقفیت کی بنا پر بیان کر دی ہیں جو یہ حضرات بیان کیا کرتے ہیں؟ اور کیا فی الواقع سورہ جمعہ پڑھنے والے اور اس کی تفسیر کا مطالعہ کرنے والے لوگوں کے دلوں سےصحابہؓ کی وقعت نکل گئی ہے ؟ اگر ان میں سے ہر سوال کا جواب نفی میں ہے ، اور یقیناً نفی میں ہے ، تو وہ سب بے جا اور مبالغہ آمیز باتیں غلط ہیں جو احترام صحابہؓ کے نام سے بعض لوگ کیا کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ صحابۂ کرام ؓکوئی آسمانی مخلوق نہ تھے بلکہ اسی زمین پر پیدا ہونے والے انسانوں میں سے تھے۔ وہ جو کچھ بھی بنے رسول اللہﷺ کی تربیت سے بنے۔ یہ تربیت بتدریج سالہا سال تک ان کو دی گئی۔ اس کا جو طریقہ قرآن و حدیث میں ہم کو نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ جب کبھی ان کے اندر کسی کمزوری کا ظہور ہوا، اللہ اور اس کے رسولﷺ نے بر وقت اس کی طرف توجہ فرمائی، اور فوراً اس خاص پہلو میں تعلیم و تربیت کا ایک پروگرام شروع ہو گیا جس میں وہ کمزوری پائی گئی تھی۔ اسی نماز جمعہ کے معاملے میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب قافلہ تجارت والا واقعہ پیش آیا تو اللہ تعالیٰ نے سورہ جمعہ کا یہ رکوع نازل فرما کر اس پر تنبیہ کی اور جمعہ کے آداب بتائے۔ (تفہیم القرآن ،الجمعہ ،حاشیہ ۱۹ ، ۵/ ۵۰۳)
یہ فقرہ(ان سے کہو، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے) خود بتا رہا ہے کہ صحابہ ؓسے جو غلطی ہوئی تھی اس کی نوعیت کیا تھی۔اگر معاذ اللہ اس کی وجہ ایمان کی کمی اور آخرت پر دنیا کی دانستہ ترجیح ہوتی تو اللہ تعالیٰ کے غضب اور زجر و توبیخ کا انداز کچھ اور ہوتا۔ لیکن چونکہ ایسی کوئی خرابی وہاں نہ تھی، بلکہ جو کچھ ہوا تھا تربیت کی کمی کے باعث ہوا تھا، اس لیے پہلے معلمانہ انداز میں جمعہ کے آداب بتائے گئے ، پھر اس غلطی پر گرفت کر کے مربیانہ انداز میں سمجھایا گیا کہ جمعہ کا خطبہ سننے اور اس کی نماز ادا کرنے پر جو کچھ تمھیں خدا کے ہاں ملے گا وہ اس دنیا کی تجارت اور کھیل تماشوں سے بہتر ہے۔ ( تفہیم القرآن ،الجمعہ ،حاشیہ نمبر۲۰، ۵/ ۵۰۵)
صحابہ کرامؓ کی دینی حیثیت کے سلسلے میں لکھتے ہیں :
صحابۂ کرام ؓیا ازواجِ مطہراتؓ، یہ سب انسان تھے، فرشتے یا فوق البشر نہ تھے۔ ان سے غلطیوں کا صدور ہو سکتا تھا۔ ان کو جو مرتبہ حاصل ہوا اس وجہ سے ہوا کہ اللہ کی رہنمائی اور اللہ کے رسول کی تربیت نے ان کو انسانیت کا بہترین نمونہ بنا دیا تھا۔ ان کا جو کچھ بھی احترام ہے اسی بنا پر ہے، نہ کہ اس مفروضے پر کہ وہ کچھ ایسی ہستیاں تھیں جو غلطیوں سے بالکل مبرا تھیں۔ اسی وجہ سے نبی ﷺکے عہد مبارک میں صحابہؓ یا ازواج مطہراتؓ سے بشریت کی بنا پر جب بھی کسی غلطی کا صدور ہوا اس پر ٹوکا گیا۔ ان کی بعض غلطیوں کی اصلاح حضورﷺنے کی جس کا ذکر احادیث میں بکثرت مقامات پر آیا ہے۔ اور بعض غلطیوں کا ذکر قرآن مجید میں کر کے اللہ تعالیٰ نے خود ان کی اصلاح کی تاکہ مسلمان کبھی بزرگوں کے احترام کا کوئی ایسا مبالغہ آمیز تصور نہ قائم کر لیں جو انھیں انسانیت کے مقام سے اٹھا کر دیویوں اور دیوتاؤں کے مقام پر پہنچا دے۔ قرآن پاک کا مطالعہ آنکھیں کھول کر کیا جائے تو اس کی پے در پے مثالیں سامنے آئیں گی۔ سورۂ آل عمران میں جنگ احد کا ذکر کرتے ہوئے صحابۂ کرام ؓکو مخاطب کرکے فرمایا: اللہ نے (تائید و نصرت) کا جو وعدہ تم سے کیا تھا وہ تو اس نے پورا کر دیا جب کہ اس کے اذن سے تم اُن کو قتل کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا اور جونہی کہ وہ چیز اللہ نے تمھیں دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مالِ غنیمت) تم حکم کی نافرمانی کر بیٹھے، تم میں سے کوئی دنیا کا طالب تھا اور کوئی آخرت کا طلب گار، تب اللہ نے تمھیں ان کے مقابلے میں پسپا کر دیا تاکہ تمھاری آزمائش کرے۔ اور حق یہ ہے کہ اللہ نے تمھیں معاف کر دیا، اللہ مومنوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے۔
سورۂ نور میں حضرت عائشہؓ پر تہمت (واقعۂ افک) کا ذکر کرتے ہوئے صحابہؓ سے فرمایا گیا:
ایسا کیوں نہیں ہوا کہ جب تم لوگوں سے اسے سنا تھا اسی وقت مومن مرد اور عورتیں، سب اپنے آپ سے نیک گمان کرتے اور کہہ دیتے کہ یہ تو صریح بہتان ہے؟ اگر تم لوگوں پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور رحم و کرم نہ ہوتا تو جن باتوں میں تم پڑ گئے تھے ان کی پاداش میں بڑا عذاب تمھیں آ لیتا۔ ذرا غور کرو، جب تمھاری ایک زبان سے دوسری زبان اس قصے کو لیتی چلی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جا رہے تھے جس کے متعلق تمھیں کوئی علم نہ تھا۔ تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی۔ کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سبحان اللہ، یہ تو ایک بہتان عظیم ہے؟ اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اگر تم مومن ہو۔
سورۂ احزاب میں ازواج مطہرات ؓکو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا:
اے نبیؐ! اپنی بیویوں سے کہو، اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمھیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کی طلبگار ہو تو جان لو کہ تم میں سے جو نیکوکار ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے ۔
سورۂ جمعہ میں صحابہؓ کے متعلق فرمایا:
جب انھوں نے کاروبارِ تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو اس طرف دوڑ گئے اور (اے نبی) تم کو (خطبے میں) کھڑا چھوڑ دیا۔ ان سے کہو کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ بہترین رزق دینے والا ہے۔
سورۂ ممتحنہ میں ایک بدری صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓکے اس فعل پر سخت گرفت کی گئی کہ انھوں نے فتح مکہ سے پہلے حضور ﷺ کے حملے کی خفیہ اطلاع کفار قریش کو بھیج دی تھی۔
یہ ساری مثالیں خود قرآن میں موجود ہیں،اسی قرآن میں جس میں اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ اور ازواج مطہرات ؓکے فضل و شرف کو خود بیان فرمایا ہے اور انھیں رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کا پروانۂ خوشنودی عطا فرمایا ہے۔ بزرگوں کے احترام کی یہی مبنی بر اعتدال تعلیم تھی جس نے مسلمانوں کو انسان پرستی کے اُس ھاویہ میں گرنے سے بچایا جس میں یہود و نصاریٰ گر گئے۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ حدیث، تفسیر اور تاریخ کے موضوعات پر جن اکابر اہل سنت نے کتابیں مرتب کی ہیں ان میں جہاں صحابۂ کرام ؓاور ازواج مطہرات ؓاور دوسرے بزرگوں کے فضائل و کمالات بیان کیے گئے ہیں، ان کی کمزوریوں اور لغزشوں اور غلطیوں کے واقعات بیان کرنے میں بھی تامل نہیں کیا گیا ہے، حالانکہ آج کے مدعیانِ احترام کی بہ نسبت وہ اِن بزرگوں کے زیادہ قدر شناس تھے اور ان سے زیادہ حدودِ احترام کو جانتے تھے۔ { FR 7589 }
اسی سلسلے میں حضرت حاطب ؓ کے واقعے سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حضرت حاطبؓ نہ صرف مہاجرین میں سے تھے بلکہ اہل بدر میں شامل تھے جنھیں صحابہؓ کے اندر بھی ایک امتیازی مقام حاصل تھا۔ مگر اس کے باوجود ان سے اتنا بڑا جرم سرزد ہو گیا، اور اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس شدت کے ساتھ گرفت فرمائی جسے اوپر کی آیات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ احادیث میں بھی ان کا قصہ پوری تفصیل کے ساتھ نقل کیا گیا ہے اور مفسرین میں سے بھی شاید ہی کوئی ہو جس نے اس کا ذکر نہ کیا ہو۔ یہ من جملہ ان بہت سے شواہد میں سے ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہؓ بے خطا نہیں تھے، ان سے بھی بشری کمزوریوں کی بنا پر خطائیں سرزد ہو سکتی تھیں اور عملاً ہوئیں، اور ان کے احترام کی جو تعلیم اللہ اور اس کے رسولﷺ نے دی ہے کم از کم اس کا تقاضا ہر گز یہ نہیں ہے کہ ان میں سے اگر کسی سے کوئی غلط کام سرزد ہوا تو اس کا ذکر نہ کیا جائے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر اس کا تقاضا یہ ہوتا تو نہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں ان کا ذکر کرتا اور نہ صحابۂ کرامؓ اور تابعینؒ اور محدثین و مفسرینؒ اپنی روایات میں ان کی تفصیلات بیان کرتے۔
حضرت حاطبؓ کے مقدمے میں حضرت عمرؓ نے جس رائے کا اظہار کیا وہ ان کے فعل کی ظاہر ی صورت کے لحاظ سے تھا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ فعل ایسا ہے جو صریحاً اللہ اور اس کے رسولﷺ اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی نوعیت رکھتا ہے، اس لیے حاطب منافق اور واجب القتل ہیں لیکن رسول اللہ ﷺنے ان کے اس نقطۂ نظر کو رد فرما دیا اور اسلامی شریعت کا اصل نقطۂ نظر یہ بتایا کہ محض فعل کی ظاہری شکل پر ہی فیصلہ نہیں کر دینا چاہیے بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جس شخص سے صادر ہوا ہے اس کی پچھلی زندگی اور مجموعی سیرت کیا شہادت دیتی ہے اور قرائن کس بات پر دلالت کرتے ہیں۔ فعل کی شکل بلاشبہ جاسوسی کی ہے۔ مگر کیا اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ فاعل کا آج تک کا رویہ یہی بتا رہا ہے کہ یہ شخص یہ کام اللہ اور رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی نیت سے کر سکتا تھا؟ وہ ان لوگوں میں سے ہے جنھوں نے ایمان کی خاطر ہجرت کی۔ کیا خلوص کے بغیر وہ اتنی بڑی قربانی کر سکتا تھا؟ یا اس کے بارے میں یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ اس کے دل میں کفار قریش کی طرف کوئی ادنیٰ سا میلان بھی موجود ہے؟ وہ اپنے فعل کی صاف صاف وجہ یہ بتا رہا ہے کہ مکہ میں اس کے بال بچوں کو خاندان اور قبیلے کا وہ تحفظ حاصل نہیں ہے جو دوسرے مہاجرین کو حاصل ہے، اس لیے اس نے ان کو جنگ کے موقع پر کفار کی ایذا رسانی سے بچانے کی خاطر یہ کام کیا ہے۔ حقائق اس کی تائید کرتے ہیں کہ فی الواقع مکہ میں اس کا کوئی قبیلہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ واقعی اس کے بال بچے وہاں موجود ہیں۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کے اس بیان کو جھوٹا سمجھا جائے اور یہ رائےقائم کی جائے کہ اس کے اس فعل کا اصل محرک یہ نہ تھا بلکہ خیانت ہی کا ارادہ اس کے اندر پایا جاتا تھا۔ بلاشبہ ایک مخلص مسلمان کے لیے نیک نیتی سے بھی یہ حرکت جائز نہیں ہے کہ وہ محض اپنے ذاتی مفاد کی خاطر دشمنوں کو مسلمانوں کے جنگی منصوبوں کی خبر بہم پہنچائے، لیکن مخلص کی غلطی اور منافق کی غداری میں بڑا فرق ہے۔ محض نوعیت فعل کی بنا پر دونوں کی ایک ہی سزا نہیں ہو سکتی۔ یہ تھا اس مقدمے میں رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ اور اللہ تعالیٰ نے سورہ ممتحنہ کی ان آیات میں اس کی تائید فرمائی۔ اوپر کی تینوں آیات کو غور سے پڑھیے تو صاف محسوس ہوگا کہ ان میں حضرت حاطب پر عتاب تو ضرور فرمایا گیا ہے، مگر یہ عتاب اس طرز کا ہے جو ایک مومن کے لیے ہوتا ہے نہ کہ وہ جو ایک منافق کے لیے ہوا کرتا ہے۔ مزید برآں ان کے لیے کوئی مالی یا جسمانی سزا تجویز نہیں کی گئی ہے بلکہ علانیہ سخت زجر و توبیخ کر کے چھوڑ دیا گیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ مسلم معاشرے میں ایک خطا کار مومن کی عزت کو بٹّہ لگ جانا اور اس کے اعتماد پر حرف آجانا بھی اس کے لیے ایک بڑی سزا ہے۔
اسی طرح حضرت ابی بن کعب ؓ کے واقعے سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حضرت ابی بن کعبؓ رسول اللہ ﷺ کے نہایت جلیل القدر صحابی تھے۔ ان کا شماراکابر اور افاضل لوگوں میں ہوتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ میں سے ہر ایک کے متعلق یہ جانتے تھے کہ کس میں کیا کمال ہے۔ حضرت ابی بن کعبؓ کا کمال یہ تھا کہ وہ قرآن کے ماہر جانے جاتے تھے۔ ان کے سامنے یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ دوآ دمی دو ایسے طریقوں سے قرآن پڑھتے ہیں جو ان کے علم کے مطابق درست نہیں تھے۔ آپ ان دونوں کو رسول اللہﷺ کی خدمت میں لے جاتے ہیں مگر رسول اللہ ﷺدونوں کو درست قرار دیتے ہیں اس پر ان کے دل میں ایک شدید نوعیت کا وسوسہ آتا ہے، اتنی شدید نوعیت کا وسوسہ کہ آپ خودفر ماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں بھی میری وہ کیفیت پیدا نہیں ہوئی تھی جو یکا یک اس وقت میرے دل میں پیدا ہوئی ان کے دل میں شک گزرا کہ آیا یہ قر آن واقعی خدا کی طرف سے ہے یا کوئی انسانی کلام ہے جس کے پڑھنے میں اس طرح کی کھلی آزادی دی جارہی ہے۔اندازہ کیجیے کہ حدیث کے الفاظ کے مطابق ایک اس طرح کے جلیل القدر صحابیؓ کے دل میں بھی ایسا وسوسہ آ سکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام ؓبھی دراصل انسان ہی تھے، فرشتے نہیں تھے اور نہ انسانی کمزوریوں سے کلیتاً منزہتھے۔ کمال ان کا یہ تھا کہ رسول اللہﷺ کی صحبت سے جو بہترین فوائد کوئی انسان اٹھا سکتا تھا وہ انھوں نے اٹھائے تھے اور حضور کے فیض تربیت سے ایک ایسا گروہ تیار ہوا تھا کہ نوع انسانی میں بھی اس درجے کے انسان نہیں پائے گئے۔ لیکن اس کے باوجود تھے تو وہ انسان ہی ۔ اس لیے جب ایک ایسی بات سامنے آ ئی جو بظاہر الجھن میں ڈالنے والی تھی تو یکا یک ان کے ذہن میں وہ وسوسہ گزرا جس کا ذکر حدیث میں ہوا ہے۔ ( تفہیم الاحادیث، ۸/ ۸۸)
اسی طرح ایک مقام پر لکھتے ہیں:
حضرت معاویہؓ کے محامد و مناقب اپنی جگہ پر ہیں ان کا شرفِ صحابیت بھی واجب الاحترام ہے ان کی یہ خدمت بھی ناقابلِ انکار ہے کہ انہوں نے پھر سے دنیا ئے اسلام کو ایک جھنڈے تلے جمع کیا اور دنیا میں اسلام کے غلبے کا دائرہ پہلے سے زیادہ وسیع کردیا ان پر جو شخص لعن طعن کرتا ہے وہ بلاشبہ زیادتی کرتا ہے لیکن ان کے غلط کام کو تو غلط کہنا ہی ہوگا اسے صحیح کہنے کے معنی یہ ہونگے کہ ہم اپنے صحیح و غلط کے معیار کو خطرے میں ڈال رہے ہیں ۔ { FR 7683 }
اسی لیے الجہاد فی الاسلام میں مولانا مودویؒ نے صحابہ کرامؓ کے مالِ غنیمت کے حوالے سے جو واقعات نقل کیے ہیں اس حوالے سے لکھتے ہیں:
معاذ اللہ یہ واقعات (مالِ غنیمت حاصل کرنے کے )بیان کرنے سے صحابۂ کرامؓ کی تنقیص مقصود نہیں ہے بلکہ صرف یہ بتانا ہے کہ غنیمت کا شوق ایک فطری جذبہ ہے جو صدیوں کی روایات سے طبیعتوں میں اس قدر راسخ ہوگیا تھا کہ کسی انسانی جماعت حتیٰ کی صحابۂ کرام ؓ جیسی مقدس اور متاعِ دنیا کو حقیر جاننے والی جماعت کے لیے بھی اس کے اثرات کو دفعتاً دل و دماغ سے محو کردینا غیر ممکن تھا۔ { FR 7591 }
بنو المصطلق کے معاملے میں دی گئی اطلاع پر کہ انھوں نے زکاۃ دینے سے انکار کردیا ہے نبی aان کے خلاف فوجی اقدام کرنے میں متأمل تھے، مگر بعض لوگوں نے اصرار کیا کہ ان پر فوراً چڑھائی کر دی جائے۔ اس پر ان لوگوں کو سورہ حجرات کی آیت (۷) میں تنبیہ فرمائی گئی کہ تم اس بات کو نہ بھولو کہ تمہارے درمیان رسول اللہ ﷺموجود ہیں جو تمھارے مصالح کو تم سے زیادہ جانتے ہیں۔ پھر اس آ یت کے اگلے حصے کی تشریح میں مولانا لکھتے ہیں:
مطلب یہ ہے کہ پوری جماعت مومنین اس غلطی کی مرتکب نہیں ہوئی جس کا صدور ان چند لوگوں سے ہوا جو اپنی خام رائےپر رسول اللہ ﷺکو چلانا چاہتے تھے۔ اور جماعت مومنین کے راہ راست پر قائم رہنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے فضل و احسان سے ایمان کی روش کو ان کے لیے محبوب و دل پسند بنا دیا ہے اور کفر و فسق اور نافرمانی کی روش سے انہیں متنفر کر دیا ہے۔ اس آیت کے دو حصوں میں روئےسخن دو الگ الگ گروہوں کی طرف ہے۔ لَوْ يُطِيْعُكُمْ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنَ الْاَمْرِکا خطاب پوری جماعت صحابہؓ سے نہیں بلکہ ان خاص اصحاب سے ہے جو بنی المصطلق پر چڑھائی کر دینے کے لیے اصرار کر رہے تھے۔ اور وَلٰکِنَّ الله حَبَّبَ اِلَیْکُمْ کا خطاب عام صحابہؓ سے ہے جو رسول اللہﷺ کے سامنے اپنی رائے پر اصرار کرنے کی جسارت کبھی نہ کرتے تھے، بلکہ آپ کی رہنمائی پر اعتماد کرتے ہوئے ہمیشہ اطاعت کی روش پر قائم رہتے تھے جو ایمان کا تقاضا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جنہوں نے اپنی رائے پر اصرار کیا تھا وہ ایمان کی محبت سے خالی تھے۔ بلکہ اس سے جو بات مترشح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ایمان کے اس تقاضے کی طرف سے ان کو ذہول ہو گیا تھا جس کے باعث انھوں نے رسول اللہﷺ کی موجودگی میں اپنی رائے پر اصرار کرنے کی غلطی کی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کو اس غلطی پر اور اس کے برے نتائج پر متنبہ فرمایا، اور پھر یہ بتایا کہ صحیح ایمانی روش وہ ہے جس پرصحابہ ؓکی عام جماعت قائم ہے۔ { FR 7593 }
اسی طرح بدری صحابہ ؓ کے متعلق لکھتے ہیں:
بدری صحابہؓ کی فضیلت میں رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد کہ تمھیں کیا خبر، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو ملاحظہ فرما کر کہہ دیا ہو کہ تم خواہ کچھ بھی کرو، میں نے تم کو معاف کر دیا۔ اس کے معنی یہ نہ تھے کہ بدری صحابیوں کو سات خون معاف ہیں، اور انھیں کھلی چھٹی ہے کہ دنیا میں جو گناہ اور جو جرم بھی کرنا چاہیں کرتے رہیں، مغفرت کی ان کو پیشگی ضمانت حاصل ہے۔ یہ مطلب نہ حضورﷺ کا تھا، نہ صحابہ ؓنے کبھی اس ارشاد کا یہ مطلب لیا، نہ کسی بدری صحابیؓ نے یہ بشارت سن کر اپنے آپ کو ہر گناہ کرنے کے لیے آزاد سمجھا، اور نہ اسلامی شریعت میں اس کی بنا پر ایسا کوئی قاعدہ بنایا گیا کہ بدری صحابیؓ سے اگر کوئی جرم سرزد ہو تو اسے کوئی سزا نہ دی جائے۔ در اصل جس موقع و محل میں یہ بات فرمائی گئی تھی اس پر، اور خود ان الفاظ پر جو آپ نے استعمال فرمائے ہیں، اگر غور کیا جائے تو اس ارشاد کا صاف مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اہل بدر نے اللہ اور اس کے دین کے لیے اخلاص اور سرفروشی و جانبازی کا اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے جس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیے ہوں تو یہ بھی اس خدمت اور اللہ کے کرم کو دیکھتے ہوئے کچھ بعید از امکان نہیں ہے، لہٰذا اس بدری پر خیانت اور منافقت کا شبہ نہ کرو، اور اپنے جرم کا جو سبب وہ خود بیان کر رہا ہے اسے قبول کر لو ۔ ( تفہیم القرآن ،الممتحنہ، حاشیہ ۵، ۵/ ۴۲۵،۴۲۷)

صحابہ کرامؓ معیارِ حق

سوال: گذارش یہ ہے کہ آپ کی علمی تحریرات سے دوسری بحثوں کے علاوہ صحابہ ذوی النجابہ کے متعلق بھی معیارِ حق ہونے نہ ہونے کے عنوان سے ایک بحث چھڑ گئی ہے۔ مجھے اس اختلاف کی حقیقت سمجھ میں نہیں آتی اس لیے سخت تشویش ہے۔ فریقین کے لٹریچر پڑھنے سے جو مواد سامنے آیا ہے اس میں ثمرۂ اختلاف کہیں نظر نہیں آتا کیونکہ صحابۂ کرامؓ کو مرحوم و مغفور آپ بھی مانتے ہیں اور معصوم دوسرے حضرات بھی نہیں سمجھتے۔ نیز صحابہ کا اجماع اور مجموعی طرز عمل آپ کے نزدیک بھی حجت ہے اور ہر ہر صحابی کا ہر ہر فعل مطلقاً ان کے نزدیک بھی قابلِ تقلید اور حق کا معیار نہیں۔ باقی ہر صحابی کی مجموعی زندگی میں خیر کا پہلو غالب ہے ،اس کے فریقین قائل ہیں۔ رہی یہ بات کہ حضرات صحابۂ کرامؓ کے متعلق ریسرچ کرکے آپ نے جو صحیح یا غلط واقعات لکھے ہیں ان کو اس بحث کی بنیاد بنایا جائے تو میرے ناقص خیال میں ان جزوی اور انفرادی واقعات کے وقوع یا عدمِ وقوع سے ایک خاص درجے میں صحابہ کے معیارِ حق ہونے یا نہ ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس لیے اس خاردار لمبی بحث سے دامن بچاتے ہوئے میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ بھی ان واقعات سے قطعِ نظر فرماتے ہوئے خالص علمی رنگ میں خالی الذہن ہو کر معیارِ حق کا مفہوم واضح فرمائیں جس سے آپ کو انکار ہے۔ میں اپنا حاصل مطالعہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں اگر آپ اس سے اتفاق فرمائیں تو فبہا ورنہ اس پر علمی گرفت فرمائیں۔
ظاہر ہے کہ جو کچھ کتاب و سنت کے اندر مذکور ہے اس کے لیے تو کسی مزید معیار کی ضرورت ہی نہیں بلکہ یہ خود اپنے غیر کے لیے معیار ہیں۔ مثلاً زُلات صحابہ وغیرہ جن کی تفصیل بے فائدہ ہے۔ ہاں آئندہ آنے والے مسائل جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں نفیاً یا اثباتاً کوئی صراحت موجود نہیں ایسے امور جزئیہ میں حضراتِ صحابۂ کرامؓ کے اقوال و افعال کو حُجّت سمجھنا چاہیے کہ صحبت ِ نبی کے اثر سے ان کے قلوب و اذہان ہماری نسبت صحت و صواب کے زیادہ قریب ہیں۔ صحابہؓ کو شرفِ صحابیت کے علاوہ نبوت سے قوی اور قریبی تعلق رکھنے کی وجہ سے دینی و دنیاوی مسائل میں ایک قسم کی بالائیت حاصل ہونے کو ہی معیارِ حق ہونے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ غیر صحابی کے لیے لازم ہے کہ اپنے اقوال و افعال کی صحت پر قرآن و حدیث سے کوئی دلیل قائم کرے یا کم از کم کسی صحابی کو ہی اپنی تائید میں پیش کردے۔ لیکن صحابی کے قول و فعل کے خلاف جب تک نص سے کوئی قوی دلیل قائم نہ ہو تو اس کا صحابی سے ثابت ہونا ہی اس کی صحت کے لیے سند ہے۔ مزید دلیل کی حاجت نہیں۔ نبوت سے غایتِ قرب کے سبب یہ اعتماد کا درجہ انھیں مل سکتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس امتیاز کی بدولت جو قُربِ نبوی کے طفیل انھیں حاصل ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم انھیں غیر معصوم سمجھتے ہوئے قرآن و حدیث کا شارح سمجھیں اور جو تعبیر و توجیہ ہمارے ذہن میں آئے اس کی تصدیق و تصویب کے لیے صحابہ کے در کی دریوزہ گری کی جائے۔ حتیٰ الامکان دین کی تعبیر میں ان سے اختلاف روا نہ رکھا جائے۔ اگر آپ اس میں کسی تفصیل کے قائل ہیں تو مع مستدلات تحریر فرمائیں۔
جواب: آپ کے سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ معیار حق تو صرف اللہ کا کلام اور اس کے رسولﷺ کی سنت ہے۔ صحابہؓ معیار حق نہیں بلکہ اس معیار پر پورے اترتے ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کسوٹی سونا نہیں ہے، لیکن سونے کا سونا ہونا کسوٹی پر کسنے سے ثابت ہوتا ہے۔
صحابہؓ کے اجماع کو آپ بھی جانتے ہیں کہ میں حجت مانتا ہوں، بلکہ ان کی اکثریت جس جانب ہو اس کو بھی ترجیح دیتا ہوں۔ البتہ افرادِ صحابہؓ کے معاملے میں لامحالہ دو صورتوں میں سے ایک ہی پیش آسکتی ہے۔ ایک یہ کہ ان کے اقوال میں اختلاف ہو۔ اس صورت میں سب کے اقوال کو بیک وقت قبول نہیں کیا جاسکتا، بلکہ دلائل شرعیہ سے کسی قول کو دوسرے قول پر ترجیح ہی دی جاسکتی ہے، اور ان سب کے اقوال کو رّد کرکے کوئی نیا قول اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی صحابیؓ یا بعض صحابہؓ سے ایک ہی قول ہو اور اس کے خلاف کوئی قول نہ ملتا ہو۔ اس صورت میں صحیح بات یہی ہے کہ اسے قبول کیا جائے اور اس قول کو رد کرکے کوئی دوسرا قول اختیار نہ کیا جائے، الّا یہ کہ جلیل القدر تابعین اور مسلّم ائمہ مجتہدین نے دلائل کی بنا پر اس میں کلام کیا ہو اور وہ دلائل اقرب الی الصواب محسوس ہوں۔ (مودودی،رسائل و مسائل ، ص ۸۵۶)
اسی حوالے سے حضرت ابو ہریرہؓ کے ایک قول کے متعلق لکھتے ہیں:
یہ حضرت ابو ہریرہؓ کا اپنا قول ہے۔ ممکن ہے کہ انھوں نے یہ قول آنحضرت ﷺ سے سنا ہو اس لیے اسے محض اس صحابی کا قول سمجھ کر چھوڑ دینا درست نہیں ۔محدثین نے صحابہ کرام ؓ کے اقوال بھی اس لیے جمع کر دیے ہیں کہ مختلف مسائل میں ان کے اتفاق اور اختلافِ رائے کا پتا چل جائے ۔ جن مسائل میں وہ متفق ہیں ان میں اس اتفاق رائے سے ہٹ کر کوئی قول یا عمل اختیار کرنا جائز نہیں اور جن مسائل میں ان کے ہاں مختلف عمل پایا جاتا ہے وہاں آدمی کے لیے یہ گنجائش ہے کہ وہ جس صحابی کا چاہے قول اختیار کرے۔ ( کتاب الجنائز، ص ۴۸)

صحابہؓ کے معیارِ حق ہونے کی بحث

سوال: آپ کے نزدیک معیارِ حق ہونے کا مطلب کیا ہے اور اس مطلب کے مطابق صحابۂ کرام ؓمعیارِ حق ہیں یا نہیں؟
جواب: ہمارے نزدیک معیارِ حق سے مراد وہ چیز ہے جس سے مطابقت رکھنا حق ہواور جس کے خلاف ہونا باطل ہو۔اس لحاظ سے معیارِ حق صرف خدا کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کی سنت ہے۔ (یہی قول امام مالک ؒ کا بھی ہے ۔ وہ کہتے ہیں:ہر انسان کی بات قبول بھی کی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے سوائے اس صاحب قبر کے( یعنی رسول اللہﷺ ) مالك بن انس(م: ۱۷۹ھ) ، الموطأ، مؤسسۃ زايد بن سلطان، ابو ظہبي – امارات،۱۴۲۵ھ – ۲۰۰۴،۱/ ۲۵۱اسی طرح امام شافعی ؒ فرماتے ہیں : رسول اللہﷺ کے سوا کسی کا قول حجت نہیں ہے ۔ امام احمد بن حنبلؒ بھی اسی کے قائل ہیں وہ فرماتے ہیں: اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ارشادات کے ہوتے ہوئے کسی اور کی بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔(شاہ ولی اللہ ، احمد بن عبدالرحیم(م: ۱۱۷۶ھ)، حجۃ اللہ البالغۃ، دار الجیل ، بیروت، ۱۴۲۶ء، ۲۰۰۵، ۱/ ۲۶۸)

صحابۂ کرام ؓ معیارِ حق نہیں ہیں بلکہ کتاب و سنت کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔ کتاب و سنت کے معیار پر ہی جانچ کر ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ گروہ برحق ہے۔ان کے اجماع کو ہم اس بنا پر حجت مانتے ہیں کہ ان کا کتاب و سنت کی ادنیٰ سی خلاف و رزی پر بھی متفق ہوجانا ہمارے نزدیک ممکن نہیں ہے۔ ( مودودی،رسائل و مسائل، ص ۸۵۵)
معیارِ حق کی اسی بحث کے ضمن میں عبداللہ بن مسعودؓ کامعوذتین سے متعلق جو نقطۂ نظر ہے اس سے بھی استدلال کرتے ہیں ، کہ ہر صحابیؓ کی ہر بات حجت نہیں ہے اور ان کی کسی رائے سے اختلاف ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ فوراً توہین صحابہؓ کا الزام عائد کردیا جائے اور گستاخِ صحابہؓ قرار دے دیا جائے ۔ جس طرح ابن مسعودؓ کی رائے سے مفسرین نے اختلاف کیا ہے اور وہ گستاخ صحابہؓ قرار نہیں پائے ۔ مولانا مودودیؒ استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اس مقام پر اگر آدمی کچھ غور کرے تو اُس کی سمجھ میں یہ بات اچھی طرح آسکتی ہے کہ صحابہ کرام ؓکو بے خطا سمجھنا اور اُن کی کسی بات کے لیے غلط کا لفظ سنتے ہی تو ہین صحابہ کا شور مچادینا کس قدر بے جا حرکت ہے۔ یہاں آپ دیکھ رہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ جیسے جلیل القدر صحابی سے قرآن کی دو سورتوں کے بارے میں کتنی بڑی چُوک ہو گئی ۔ ایس چوک اگر اِتنے عظیم مرتبے کے صحابیؓ سے ہو سکتی ہے تو دوسروں سے بھی کوئی چوک ہوجانی ممکن ہے۔ ہم علمی تحقیق کے لیے اُس کی چھان بین بھی کر سکتے ہیں، اور کسی صحابیؓ کی کوئی بات یا چند باتیں غلط ہوں تو انھیں غلط بھی کہہ سکتے ہیں۔ البتہ سخت ظالم ہوگا وہ شخص جو غلط کو غلط کہنے سے آگے بڑھ کر اُن پر زبانِ طعن دراز کرے۔ اِنھی مُعوِّذتین کے بارے میں مفسرین و محدثین نے ابن مسعودؓکی رائے کو غلط کہا ہے، مگر کسی نے یہ کہنے کی جرأت نہیں کی کہ قرآن کی دوسورتوں کا انکار کر کے معاذ اللہ وہ کافر ہوگئے تھے۔ (تفہیم القرآن ،الفلق،الناس(معوذتین)، معوذتین کی قرآنیت ، ۶/۵۵۲)
اسی سلسلے میں دستور جماعت اسلامی پاکستان کی دفعہ تین میں بنیادی عقیدہ کلمہ طیبہ لکھا گیا اور اس کے دوسرے جز محمد رسول اللہ ﷺ کی تشریح میں لکھا کہ :
اس عقیدے کے دوسرے جزو یعنی محمدﷺ کے رسول اللہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سلطان کائنات کی طرف سے روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کو جس آخری نبیﷺ کے ذریعےسے مستند ہدایت نامہ اور ضابطہ قانون بھیجا گیا اور جس کو اس ضابطے کے مطابق کام کرکے ایک مکمل نمونہ قائم کردینے پر ما مور کیا گیا‘ وہ محمدﷺ ہیں۔
اس امر واقعی کو جاننے اور تسلیم کرنے سے لازم آتا ہے کہ:
(۱) انسان ہر اس تعلیم اور ہر اس ہدایت کو بے چون و چرا قبول کرے جو محمدﷺ سے ثابت ہو۔
(۲) اس کو کسی حکم کی تعمیل پر آمادہ کرنے کے لیے اور کسی طریقے کی پیروی سے روک دینے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہو کہ اس چیز کا حکم یا اس چیز کی ممانعت رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ اس کے سوا کسی دوسری دلیل پر اس کی اطاعت موقوف نہ ہو۔
(۳) رسول اللہﷺ کے سوا کسی کی مستقل بالذات پیشوائی و رہنمائی تسلیم نہ کرے۔ دوسرے انسانوں کی پیروی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے تحت ہو‘ نہ کہ ان سے آزاد۔
(۴) اپنی زندگی کے ہر معاملے میں اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت کو حجت اور سند اور مرجع قرار دے‘ جو خیال یا عقیدہ یا طریقہ کتاب و سنت کے مطابق ہو اسے اختیار کرے، جو اس کے خلاف ہو اُسے ترک کردے، اور جو مسئلہ بھی حل طلب ہواُسے حل کرنے کے لیے اسی سرچشمۂ ہدایت کی طرف رجوع کرے۔
(۵) تمام عصبیتیں اپنے دل سے نکال دے خواہ وہ شخصی ہوں یا خاندانی‘ یا قبائلی و نسلی‘ یا قومی و وطنی‘ یا فرقی و گروہی۔ کسی کی محبت یا عقیدت میں ایسا گرفتار نہ ہو کہ رسول اللہﷺ کے لائے ہوے حق کی محبت و عقیدت پر وہ غالب آجائے یا اس کی مدِ مقابل بن جائے۔
(۶) رسول اللہﷺ کے سوا کسی انسان کو معیار حق نہ بنائے‘ کسی کو تنقید سے بالاتر نہ سمجھے‘ کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو‘ ہر ایک کو اللہ کے بنائے ہوئے اسی معیار کامل پر جانچے اور پرکھے اور جو اس معیار کے لحاظ سے جس درجے میں ہو‘ اس کو اسی درجے میں رکھے۔ ( دستور کی متعلقہ دفعہ کی اس شق کو بنیاد پر مولانا پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ صحابہ کرامؓ کو معیار حق تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ اس عبارت کے جز محمد رسول اللہ ﷺ کی دستورمیں موجود مکمل تشریح یہاں اس لیے نقل کی گئی ہے کہ یہ بات پیشِ نظر رہے کہ مولانا یہاں پر رسول اللہ ﷺ کی تشریعی حیثیت کے حوالے سے گفتگو کر رہے ہیں اور وہی اصل محور گفتگو ہیں ۔ بلاوجہ یہاں پر صحابہ کرامؓ کا ذکر کرکے معترضین اعتراض کر رہے ہیں ۔ حالانکہ ان کے حوالے سےیہاں کوئی ذکر ہی نہیں ہو رہا۔ معترضیں کی طرف سے خواہ مخواہ یہاں پر معیارِ حق کی بحث اٹھانے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا معترضین دین میں صحابہ کرامؓ کو وہی مقام و مرتبہ دیتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کا ہے؟ اگر ہاں تو اس کی دلیل کیا ہے ؟ اور اگر نہیں تو پھر معترضین مولانا مودودیؒ کی مذکورہ بالا عبارت پر صحابہ کرامؓ کو بنیاد بنا کرکیوں اعتراض کرتے ہیں حالانکہ یہاں پرصرف رسول اللہ ﷺ کی تشریعی حیثیت کا ذکر ہو رہا ہے۔)
(۷) محمدﷺ کے بعد پیدا ہونے والے کسی دوسرے انسان کا یہ منصب تسلیم نہ کرے کہ اس کو ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کے کفر و ایمان کا فیصلہ ہو۔ ( دستور جماعت اسلامی پاکستان، اسلامک پبلی کیشنز لاہور، مارچ ۲۰۲۲، صفحہ ۱۳، ۱۴)

اجماعِ صحابہؓ

کسی صاحب نے ایک خط مولانا کو لکھا جس میں انھوں نے بعض اعتراضات کا ذکر کرکے مولانا کی رائے مانگی جس پر مولانا نے لکھا کہ:
یاد فرمائی کا شکریہ! یہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ دوسروں کے متعلق فتوے دینے کی ذمہ داری آپ حضرات خواہ مخواہ اپنے ذمے لیتے ہی کیوں ہیں۔ اگر کوئی شخص آپ لوگوں کے متعلق مجھ سے دریافت کرے تو میں پہلے ہی معذرت پیش کردوں گا اور کوئی سوالنامہ مرتب کرکے آپ کے پاس نہ بھیجوں گا، تاہم چوں کہ آپ نے یہ سوالات بھیجنے کی تکلیف اٹھائی ہے اس لیے مختصر جوابات حاضر ہیں ۔
جی ہاں ! میرے نزدیک صحابۂ کرام ؓ کا اجماع حجت ہے۔ ( مودودی،رسائل و مسائل ، ص ۴۵۱)

الصَّحَابَۃُ کُلُّھُمْ عَدُوْل کا صحیح مطلب

صحابہ کرامؓ کے معیار حق ہونے یا نہ ہونے پر جو بحث چھڑی اس پر مولانا نے لکھا:
یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اس طرح کی بحثوں سے صحابہؓ کی پوزیشن مجروح ہوتی ہے اور اس اعتماد میں فرق آتا ہے جو مسلمانوں کو ان پر ہونا چاہیے۔ اس معاملے میں بھی چند امور کی وضاحت کردینا ضروری سمجھتا ہوں۔
صحابۂ کرام ؓکے متعلق میرا عقیدہ بھی وہی ہے جو تمام محدثین و فقہا اور علمائے امت کا عقیدہ ہے کہکُلُّھُمْ عَدُوْلٌ ۔ ظاہر ہے کہ ہم تک دین کے پہنچنے کا ذریعہ وہی ہیں۔ اگر ان کی عدالت میں ذرّہ برابر بھی شبہ پیدا ہوجائے تو دین ہی مشتبہ ہوجاتا ہے۔ لیکن میں الصحابۃ کلھم عدول (صحابہؓ سب راست باز ہیں) کا مطلب یہ نہیں لیتا کہ تمام صحابہؓ بے خطا تھے اور ان میں کا ہر ایک ہر قسم کی بشری کمزوریوں سے بالاتر تھا، اور ان میں سے کسی نے بھی کوئی غلطی نہیں کی ہے، بلکہ میں اس کا مطلب یہ لیتا ہوں کہ رسول اللہﷺ سے روایت کرنے، یا آپ کی طرف کوئی بات منسوب کرنے میں کسی صحابیؓ نے کبھی راستی سے ہر گز تجاوز نہیں کیا ہے، پہلا مطلب اگر لیا جائے تو تاریخ ہی نہیں، حدیث کی مستند اور قوی روایات بھی اس کی تائید نہ کریں گی۔ اور دوسرا مطلب لیا جائے تو وہ قطعی طور پر ثابت ہے جس کے خلاف کوئی شخص کسی قابل اعتماد ذریعے سے کوئی ثبوت نہیں لاسکتا۔ حد یہ ہے کہ صحابہؓ کی باہمی لڑائیوں تک میں، جبکہ سخت خونریزیاں ان کے درمیان ہوگئیں، کبھی کسی فریق نے کوئی حدیث اپنے مطلب کے لیے اپنی طرف سے گھڑ کر رسول اللہﷺ کی طرف منسوب نہیں کی، نہ کسی صحیح حدیث کو اس بنا پر جھٹلایا کہ وہ اس کے مفاد کے خلاف پڑتی ہے۔ اس لیے مشاجراتِ صحابہ کی بحث میں یہ ذہنی الجھن لاحق نہیں ہونی چاہیے کہ اگر کسی اکابر کا برسرحق ہونا اور کسی کا غلطی پر ہونا مان لیا جائے تو اس سے دین خطرے میں پڑ جائے گا۔ ہم بلا استثناء تمام صحابہؓ کو رسول اللہﷺ سے روایت کے معاملے میں قطعی قابل اعتماد پاتے ہیں اور ہر ایک کی روایت کو بسروچشم قبول کرتے ہیں۔ (مودودی،رسائل و مسائل،ادارہ معارف اسلامی، لاہور،مئی ۲۰۰۷، حصہ پنجم، ص ۲۶۴)

غلطی کے صدور سے بزرگی میں فرق نہیں آتا

میں صحابہ سمیت تمام غیر نبی انسانوں کو غیر معصوم سمجھتا ہوں اور معصومیت میرے نزدیک صرف انبیا کے لیے خالص ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ غیر نبی انسانوں میں کوئی شخص اس معنی میں بزرگ نہیں ہوتا کہ اس سے غلطی کا صدور محا ل ہے، یا اس نے عملاً کبھی غلطی نہیں کی ہے، بلکہ اس معنی میں بزرگ ہوتا ہے کہ علم اور عمل کے لحاظ سے اس کی زندگی میں خیر غالب ہے۔ پھر جتنا زیادہ کسی میں خیر کا غلبہ ہوتا ہے میں اس کو اتنا ہی بڑا بزرگ مانتا ہوں، اور اس کے کسی فعل یا بعض افعال کے غلط ہونے سے میرے نزدیک اس کی بزرگی میں فرق نہیں آتا۔
اس معاملے میں میر ے اور دوسرے لوگوں(غالبا یہاں پر دوسرے لوگوں سے مراد مولانا کے ہم عصر علمائے کرام ہیں نہ کہ سلف صالحینؒ،محدثین و فقہائے کرامؒ وغیرہ۔ ) کے نقطۂ نظر میں ایک بنیادی فرق ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات میری پوزیشن کو سمجھنے میں لوگوں کو غلط فہمی لاحق ہوجاتی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو بزرگ ہے وہ غلطی نہیں کرتا، اور جو غلطی کرتا ہے وہ بزرگ نہیں ہے۔ اس نظریے کی بنا پر وہ چاہتے ہیں کہ کسی بزرگ کے کسی کام کو غلط نہ کہا جائے، اور مزید برآں وہ یہ بھی گمان کرتے ہیں کہ جو شخص ان کے کسی کام کو غلط کہتا ہے وہ ان کو بزرگ نہیں مانتا۔ میرا نظریہ اس کے برعکس ہے۔ میرے نزدیک ایک غیر نبی بزرگ کا کوئی کام غلط بھی ہوسکتا ہے اور اس کے باوجود بزرگ بھی ہو سکتا ہے یا رہ سکتا ہے ۔ میں کسی بزرگ کے کسی کام کو غلط صرف اسی وقت کہتا ہوں جب وہ قابل اعتماد ذرائع سے ثابت ہو اور کسی معقول دلیل سے اس کی تاویل نہ کی جاسکتی ہو۔ مگر جب اس شرط کے ساتھ میں جان لیتا ہوں کہ ایک کام غلط ہوا ہے تو میں اسے غلط مان لیتا ہوں پھر اس کام کی حد تک ہی اپنی تنقید کو محدود رکھتا ہوں، اور اس غلطی کی وجہ سے میری نگاہ میں نہ ان بزرگ کی بزرگی میں کوئی فرق آتا ہے، نہ ان کے احترام میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے۔ مجھے اس بات کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ جن کو میں بزرگ مانتا ہوں ان کی کھلی کھلی غلطیوں کا انکار کروں، لیپ پوت کر کے ان کو چھپاؤں، یا غیر معقول تاویلیں کرکے ان کو صحیح ثابت کروں۔ غلط کو صحیح کہنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارے معیار بدل جائیں گے اور جو غلطیاں مختلف بزرگوں نے اپنی اپنی جگہ الگ الگ کی ہیں وہ سب اکٹھی ہمارے اندر جمع ہوجائیں گی اور لیپ پوت کرنے یا علانیہ نظر آنے والی چیزوں پر پردہ ڈالنے سے میرے نزدیک بات بنتی نہیں بلکہ اور بگڑ جاتی ہے۔ اس سے تو لوگ اس شبہے میں پڑ جائیں گے کہ ہمارے بزرگ فی الواقع کمال کے بلند ترین مرتبے پر پہنچے ہوئے تھے ان کی تاریخ بھی شاید ہم نے اسی طرح بنائی ہوگی۔ ( رسائل و مسائل،حصہ پنجم، ص ۲۶۵)

صحابہ میں فرقِ مراتب

صحابۂ کرامؓ کے معاملے میں حدیث اور سیر کی کتابوں کے مطالعے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ صحابیت کے شرف میں تو یکساں تھے، مگر علم و فضل اور سرکارِ رسالت مآبﷺ سے اکتسابِ فیض اور آپ کی صحبت و تعلیم سے متاثر ہونے کے معاملے میں ان کے درمیان فرقِ مراتب تھا۔ وہ بہرحال انسانی معاشرہ ہی تھا جس میں شمعِ نبوت روشن تھی۔ اس معاشرے کے تمام انسانوں نے نہ تو اس شمع سے نور کا اکتساب یکساں کیا تھا اور نہ ہر ایک کو اس کے مواقع دوسروں کے برابر ملے تھے۔ اس کے علاوہ ہر ایک کی طبیعت الگ تھی، مزاج مختلف تھا، خوبیاں اور کمزوریاں ایک جیسی نہ تھیں۔ ان سب نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق حضورؐ کی تعلیم اور صحبت کا اثر کم و بیش قبول کیا تھا، مگر ان میں ایسے لوگ بھی ہوسکتے تھے، اور فی الواقع تھے جن کے اندر تزکیۂ نفس کی اس بہترین تربیت کے باوجود کسی نہ کسی پہلو میں کوئی کمزوری باقی رہ گئی تھی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، اور صحابۂ کرام کے ادب کا کوئی لازمی تقاضا بھی نہیں ہے کہ اس کا انکار کیا جائے۔ ( رسائل و مسائل،حصہ پنجم، ص ۲۶۷)

بزرگوں کے کام پر تنقید کا صحیح طریقہ

تمام بزرگانِ دین کے معاملے میں عموماً اور صحابۂ کرامؓ کے معاملے میں خصوصاً میرا طرز عمل یہ ہے کہ جہاں تک کسی معقول تاویل سے یا کسی معتبر روایت کی مدد سے ان کے کسی قول یا عمل کی صحیح تعبیر ممکن ہو، اسی کو اختیار کیا جائے اور اس کو غلط قرار دینے کی جسارت اس وقت تک نہ کی جائے جب تک کہ اس کے سوا چارہ نہ رہے۔ لیکن دوسری طرف میرے نزدیک معقول تاویل کی حدوں سے تجاوز کرکے اور لیپ پوت کرکے غلطی کو چھپانا یا غلط کو صحیح بنانے کی کوشش کرنا نہ صرف انصاف اور علمی تحقیق کے خلاف ہے، بلکہ میں اسے نقصان دہ بھی سمجھتا ہوں کیونکہ اس طرح کی کمزور وکالت کسی کو مطمئن نہیں کرسکتی اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحابہؓ اور دوسرے بزرگوں کی اصلی خوبیوں کے بارے میں جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ بھی مشکوک ہوجاتا ہے۔ اس لیے جہاں صاف صاف دن کی روشنی میں ایک چیز علانیہ غلط نظر آرہی ہو وہاں بات بنانے کے بجائے میرے نزدیک سیدھی طرح یہ کہنا چاہیے کہ فلاں بزرگ کا یہ قول یا فعل غلط تھا، غلطیاں بڑے سے بڑے انسانوں سے بھی ہوجاتی ہیں، اور ان سے ان کی بڑائی میں کوئی فرق نہیں آتا، کیونکہ ان کا مرتبہ ان کے عظیم کارناموں کی بنا پر متعین ہوتا ہے نہ کہ ان کی کسی ایک یا دو چار غلطیوں کی بنا پر۔ (رسائل و مسائل،حصہ پنجم، ص ۲۶۷)

صحابۂ کرام ؓکا احترام اور ان پر تنقید

سوال : کیا صحابۂ کرام ؓ پر تنقید جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو حدیث اللہ اللہ فی اصحابی اور اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم کا کیا جواب ہوگا؟
جواب : تنقید کا لفظ جس معنی میں آپ نے اپنے اعتراض میں استعمال فرمایا ہے،اس معنی میں تو صحابۂ کرام ؓ کجا ،کسی ادنیٰ سے ادنیٰ درجے کے انسان پر بھی تنقید کرنا میرے نزدیک سخت گناہ ہے۔البتہ تنقید کے جو معنیٰ اہلِ علم میں معلوم و معروف ہیں،ان میں اللہ تعالیٰ اور انبیا ؑ کے سوا کسی انسان کو بھی تنقید سے بالاتر نہیں مانتا۔کسی صحابی کا قول یا فعل بھی محض اپنے قائل و فاعل کی شخصیت کی بنا پر حجت نہیں ہے بلکہ اس کی دلیل دیکھ کر رائے قائم کی جائے گی آیا اسے قبول کیا جائے یا نہ کیا جائے ۔دلیل کے لحاظ سے کسی بات کو جانچنے کا نام ہی تنقید ہے اور یہ تنقید مجھے نہیں معلوم کہ کسی زمانے میں ناجائز رہی ہے۔فقہ کے بکثرت مسائل میں مختلف صحابہ کے مختلف قولی اور عملی آثار مانے جاتے ہیں ،اور ہم دیکھتے ہیں کہ تابعین اور تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین نے دلیل کی بنا پر ان میں سے کسی کو قبول اور کسی کو رد کیا ہے۔
آپ فقہ کی مبسوط کتابوں میں سے جس کو چاہیں اٹھا کر دیکھ لیں ،آپ کو اس تنقید کی ہزاروں مثالیں مل جائیں گی۔کیا وہ سب لوگ آپ کے نزدیک گناہ گار تھے جنھوں نے صحابہ کے مختلف اقوال و افعال میں اس طرح تنقیدی محاکمہ کیا؟ اصحابی کالنجوم والی حدیث کا اگر آپ نے یہ مطلب لیا ہے کہ ہر صحابی کا قول و فعل واجب الاتباع ہے تو سلف و خلف میں کوئی صاحب علم بھی مجھ کو اس کا قائل نہیں ملا۔آپ کو ملا ہو تو اس کا نام مجھے بھی بتائیں۔ البتہ ساری امت اپنے دین کے ہر مسئلے میں بہر حال کسی نہ کسی صحابی کے ذریعے ہی سے راہ نمائی حاصل کرتی رہی ہے،اور یہی اس حدیث کا منشا ہوسکتا ہے۔

صحابۂ کرامؓ سے متعلق عقیدہ اہلِ سنت

سوال: میں آپ کی کتاب خلافت و ملوکیت کا بغور مطالعہ کرتا رہا ہوں۔ آپ کی چند باتیں اہل سنت و الجماعت کے اجماعی عقائد کے بالکل خلاف نظر آرہی ہیں۔ صحابۂ کرامؓ میں سے کسی کا بھی عیب بیان کرنا اہل سنت و الجماعت کے مسلک کے خلاف ہے۔ جو ایسا کرے گا وہ اہل سنت و الجماعت سے خارج ہوجائے گا۔ آپ کی عبارتیں جو اس عقیدے کے خلاف ہیں وہ ذیل میں نقل کرتا ہوں:۔
’’ایک بزرگ نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے دوسرے بزرگ کے ذاتی مفاد سے اپیل کرکے اس تجویز کو جنم دیا۔ ‘‘ (خلافت و ملوکیت صفحہ ۱۵)
’’اب خلافت علی منہاج النبوۃ کے بحال ہونے کی آخری صورت یہ باقی رہ گئی تھی کہ حضرت معاویہؓ یا تو اپنے بعد اس منصب پر کسی شخص کے تقرر کا معاملہ مسلمانوں کے باہمی مشورے پر چھوڑ دیتے یا اگر قطع نزاع کے لیے اپنی زندگی ہی میں جانشینی کا معاملہ طے کرنا ضروری سمجھتے تو مسلمانوں کے اہل علم و اہل خیر کو جمع کرکے انھیں آزادی کے ساتھ فیصلہ کرنے دیتے کہ ولی عہدی کے لیے اُمّت میں موزوں تر آدمی کون ہے۔ لیکن اپنے بیٹے یزید کی ولی عہدی کے لیے خوف وطمع کے ذرائع سے بیعت لے کر انہوں نے اس امکان کا بھی خاتمہ کردیا۔‘‘ (خلافت و ملوکیت صفحہ ۱۴۸)
براہ کرم آپ بتائیں کہ صحابۂ کرامؓ کے بارے میں آپ اہل سنت و الجماعت کے اجماعی عقیدے کو غلط سمجھتے ہیں یا صحیح؟
جواب: قبل اس کے کہ میں آپ کے سوالات کا جواب دوں براہ کرم آپ مجھے یہ بتائیں کہ:
۱۔ آیا آپ کا عقیدہ یہ ہے کہ کوئی صحابی غلطی نہیں کرسکتا؟
۲۔ یا آپ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صحابی سے غلطی ہو تو سکتی ہے مگر کسی صحابی سے کبھی غلطی کا صدور ہوا نہیں ہے؟
۳۔ یا آپ اس بات کے قائل ہیں کہ افراد صحابہ سے غلطی کا صدور ممکن بھی تھا، اور صدور ہوا بھی مگر اس کو بیان کرنا جائز نہیں ہے، اور نہ صحابی کی کسی غلطی کو غلطی کہنا جائز ہے؟
ان میں جس بات کے بھی آپ قائل ہوں اس کی تصریح فرمادیں تاکہ مجھے یہ معلوم ہوسکے کہ آپ خود بھی اہل سنت و الجماعت میں سے ہیں یا نہیں۔ اگر آپ پہلی بات کے قائل ہیں تو وہ اہل سنت میں سے کسی کا عقیدہ بھی نہیں ہے۔ اور اگر دوسری بات کے قائل ہیں تو اس کا غلط ہونا ایسے ناقابل انکار واقعات سے ثابت ہے جو قرآن پاک اور بکثرت احادیث صحیحہ اور اکابر اہل سنت کی نقل کردہ کثیر روایات میں بیان ہوئے ہیں۔ اور اگر تیسری بات کے قائل ہیں تو وہ بھی قطعی بے بنیاد ہے۔ کیونکہ متعدد مقامات پر خود قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرامؓ کی بعض غلطیوں کا ذکر فرمایا ہے، اور محدثین نے ان کے مفصل واقعات نقل کیے ہیں اور مفسرین میں سے شاید کسی کا بھی آپ نام نہیں لے سکتے جس نے اپنی تفسیر میں ان واقعات کو بیان نہ کیا ہو۔رہا اہل سنت کا عقیدہ جس کا آپ ذکر فرمارہے ہیں تو وہ صرف یہ ہے کہ صحابہؓ پر طعن کرنا اور ان کی مذمت کرنا جائز نہیں ہے، اور اس فعل کا ارتکاب خدا کے فضل سے میں نے کبھی اپنی کسی تحریر میں نہیں کیا ہے۔ مگر تاریخی واقعات کو کسی علمی بحث میں بیان کرنا علمائے اہل سنت کے نزدیک کبھی ناجائز نہیں رہا ہے، نہ علمائے اہل سنت نے کبھی اس سے اجتناب کیا ہے۔ اور نہ کسی عالم نے کبھی یہ کہا ہے کہ صحابی سے اگر غلطی ہو تو اسے صحیح قرار دو، یا اس کو غلطی نہ کہو۔ آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ میں نے جو واقعات بیان کیے ہیں وہ اکابر اہلِ سنت ہی کی کتابوں سے ماخوذ ہیں۔ ان کا ان واقعات کو اپنی کتابوں میں نقل کرنا دو حال سے خالی نہیں ہوسکتا۔ اگر انھوں نے صحیح سمجھتے ہوئے نقل کیا ہے تو آپ کی رائے کے مطابق وہ سب بھی اہل سنت سے خارج ہونے چاہییں، اور اگر غلط یا مشتبہ سمجھتے ہوئے انھیں پھیلایا اور آئندہ نسلوں تک پہنچایا ہے تو پھر آپ کو کہنا چاہیے کہ وہ کَفیٰ بِالْمَرْءِ کَذِباً اَنْ یُّحَدِّثَ بَکُلِّ مَا سَمِعَ کے مصداق تھے۔ (مودودی،رسائل و مسائل ، ص۱۰۹۰، ۱۰۹۱)

تدوینِ قرآن اور صحابہ کرامؓ

سوال:ماہ ستمبر کے ترجمان القرآن میں رسائل و مسائل کا مطالعہ کرکے ایک شک میں پڑ گیا ہوں۔ امید ہے آپ اسے رفع فرمائیں گے تاکہ سکون میسر ہو۔’’رد و بدل ‘‘کی صریح مثال کے سلسلے میں آپ نے لکھا ہے کہ قرآن متفرق اشیا پر لکھا ہوا تھا جو ایک تھیلے میں رکھی ہوئی تھیں۔ حضورﷺ نے اسے سورتوں کی ترتیب کے ساتھ کہیں یکجا نہیں لکھوایا تھا، اور یہ کہ جنگ یمامہ میں بہت سے حفاظ شہید ہوگئے تھے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ:
کیا حفاظ اسے کسی ترتیب سے یاد کرتے تھے یا بلا ترتیب؟ کیا اس کی ترتیب حضرت صدیقؓ کے زمانے میں ہوئی؟
اگر ترتیب وہی حضورﷺ کی دی ہوئی تھی تو رد و بدل کیسے ہوگیا؟ اللہ نے جو قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے وہ کیا ہے؟
جواب: رسائل و مسائل کی بحث کو پڑھنے سے آپ کے ذہن میں جو شکوک پیدا ہوئے ہیں وہ بآسانی رفع ہوسکتے ہیں اگر آپ حسب ذیل باتوں کو اچھی طرح سمجھ لیں۔
رسول اللہﷺ نے اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت قرآن پاک کو جس حالت میں چھوڑا تھا وہ یہ تھی کہ اپنی مکمل اور مرتب صورت میں وہ صرف ان حافظوں کے سینوں میں محفوظ تھا جنھوں نے حضورﷺسے سیکھ کر از اول تا آخر یاد کیا تھا۔ تحریری شکل میں آپؐ نے اس کا لفظ لفظ لکھوا ضرور دیا تھا، مگر وہ متفرق پارچوں پر لکھا ہوا تھا۔ جنھیں ایک مسلسل کتاب کی صورت میں مرتب نہیں کیا گیا تھا۔ بعض صحابہؓ نے اس کے کچھ اجزا اپنے طور پر لکھ لیے تھے، مگر کسی کے پاس پورا قرآن لکھا ہوا نہ تھا۔ بہت سے لوگوں نے قرآن کے مختلف حصے یاد بھی کر رکھے تھے، لیکن ان اصحاب کی تعداد بہت کم تھی جنھیں حضورﷺ کی سکھائی ہوئی ترتیب کے ساتھ پورا قرآن یاد تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں جب حفاظ کی ایک اچھی خاصی تعداد لڑائیوں میں شہید ہوگئی تو حضرت عمرؓ نے یہ خطرہ محسوس کیا کہ اگر قرآن کے حافظ اسی طرح شہید ہوتے رہے اور امت کے پاس صرف متفرق حالت میں لکھا ہوا یا جزوی طور پر یاد کیا ہوا قرآن ہی رہ گیا تو اس کا بڑا حصہ ضائع ہوجائے گا، کیونکہ وہ اپنی مکمل ترتیب کے ساتھ صرف ان حافظوں کے سینوں ہی میں محفوظ تھا۔
اس اندیشے کی بنا پر جب حضرت عمرؓ نے صدیق اکبرؓ کو پورا قرآن ایک مصحف کی شکل میں یکجا تحریر کرادینے کا مشورہ دیا تو انھوں نے اول اول یہ شبہ ظاہر کیا کہ میں وہ کام کیسے کرسکتا ہوں جو رسول اللہﷺ نے نہیں کیا ہے۔ اور یہی شبہ حضرت زیدؓ بن ثابت نے اس وقت ظاہر کیا جب شیخین نے انھیں جمع قرآن کی خدمت انجام دینے کے لیے کہا۔ دونوں بزرگوں کے شبہے کی بنیاد یہ تھی کہ قرآن کی حفاظت کے لیے حفاظ کے حفظ پر اعتماد کرنا اور ایک مصحف کی شکل میں اسے یکجا لکھوا دینے کا اہتمام نہ کرنا رسول اللہﷺ کی سنت ہے۔ اب ہم اس سنت کو بدلنے کے کیسے مجاز ہوسکتے ہیں؟ مگر جس چیز نے بالآخر انھیں مطمئن کردیا وہ حضرت عمرؓ کی یہ بات تھی کہ دین و ملت کی بھلائی اسی کام کو انجام دینے میں ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر اس بنیاد پر سنت سے ہٹ کر ایک کام کرنے کی شریعت کے اندر کوئی گنجائش نہ ہوتی تو صدیق اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ اسے جائز کیسے رکھ سکتے تھے، اور ساری امت اس کے صحیح ہونے پر متفق کیسے ہوسکتی تھی۔میں نے اس معاملے کو ’’رد وبدل‘‘ کی مثال اس معنی میں ہر گز نہیں قرار دیا کہ معاذ اللہ صدیق اکبرؓ اور ان کے رفقائے کار نے قرآن کے الفاظ یا اس کی ترتیب میں رد و بدل کر ڈالا تھا، بلکہ اس سے میرا مطلب وہی ہے جو حضرت عمرؓ کی تجویز پر خود صدیق اکبرؓ اور حضرت زیدؓ بن ثابت کے ابتدائی جواب کا مطلب تھا۔ (مودودی،رسائل و مسائل ، ص ۲۴۳)
کتابت و حفاظت قرآن کے معاملے میں صحابہ کرامؓ کی احتیاط کا اندازہ کیجیے کہ یہ بات یاد ہونے کے باوجود کہ میں نے یہ آیت مصحف صدیقی میں لکھی تھی، اور یہ بھی کہ میں نے اسے رسول اللہ ﷺ کو پڑھتے ہوئے سنا ہے لیکن پھر بھی محض اپنے حفظ اور یاد کے اعتماد پر اس کو اس وقت تک لکھا نہیں جب تک کہ ایک آدمی مزید اس بات کی شہادت دینے والا نہ مل گیا کہ ہاں یہ آیت اس جگہ تھی اور یہ اسی سورت کا حصہ ہے۔ (فضائلِ قرآن، ص ۱۴۸)
اسی طرح حفاظتِ قرآن کے سلسلے میں صحابہ کرامؓ کی احتیاط ،تقویٰ اور دیانت داری کے حوالے سے سورہ توبہ کے آغاز میں بسم اللہ نہ لکھے جانے کے متعلق لکھتے ہیں :
اس سورہ(توبہ) کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہیں لکھی جاتی۔ اس کے متعدد وجوہ مفسرین نے بیان کیے ہیں جن میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ مگر صحیح بات وہی ہے جو امام رازیؒ نے لکھی ہے کہ نبی ﷺنے خود اس کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھوائی تھی اس لیے صحابۂ کرامؓ نے بھی نہیں لکھی اور بعد کے لوگ بھی اسی کی پیروی کرتے رہے۔ یہ اس با ت کا مزید ایک ثبوت ہے کہ قرآن کو نبی ﷺ سے جوں کا توں لینے اور جیسا دیا گیا تھا ویسا ہی اس کو محفوظ رکھنے میں کس درجہ احتیاط و اہتمام سے کام لیا گیا ہے۔ ( تفہیم القرآن ،التوبہ ،۲ /۱۶۶)
اسی حوالے سے مزید ایک مقام پر لکھتے ہیں:
سورہ توبہ کے آغاز میں بسم اللہ نہیں ہے کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کا لکھوایا ہوا جو مسودہ ملا تھا اس پر اس سورت کے آغاز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہیں ملی تھی اس لیے صحابہ کرام ؓ نے اس کو اسی طرح نقل کردیا۔ انہوں نے اپنی طرف سے یہ نہیں کیا کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا خود اضافہ کردیں۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ قرآن مجید کو ایک مصحف کی شکل میں مرتب کرتے ہوئے صحابہ کرامؓ نے کس قدر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے ۔ انھیں معلوم تھا کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورتوں کے درمیان فصل کرنے کے لیے ہے اور وہ قیاس کرکے اسے آسانی سے سورہ توبہ کے آغاز میں لکھ سکتے تھے نیز وہ یہ بھی خیال کرسکتے تھے کہ ممکن ہے حضورﷺ کو اس کے لکھوانے کا خیال نہ رہا ہو یا جس صحابی سے آپ لکھواتے تھے وہ لکھنا بھول گئے ہوں گے لیکن انھوں نے اس طرح کا کوئی قیاس نہیں کیا بلکہ جس طرح خود حضورﷺ کا لکھوایا ہوا مسودہ ملا اس کو اسی طرح سے نقل کردیا اور اپنی طرف سے اس میں ایک شوشہ بھی نہیں بڑھایا ۔ (فضائل قرآن،ص ۱۳۶)
اسی سلسلے میں مزید ایک مقام پر لکھتے ہیں:
یہ حدیث یہاں یہ بتانے کے لیے رکھی گئی ہے کہ صحابہ کرام ؓ میں سے ہر اس شخص نے جس نے لوگوں تک قرآن پہنچانے کی ذمہ داری ادا کی ہے اس نے قرآن مجید یا تو براہِ راست رسول اللہ ﷺ کی زبان سے سن کر یاد کیا ہے یا پھر دوسروں سے سن کر یاد کرنے کے بعد رسول اللہﷺ کو سنایا ہے اور حضورﷺ نے اس کی تصدیق فرمائی ہے کہ ہاں تم نے ٹھیک یاد کیا ہے ۔ اس طرح قرآنِ مجید کے ہم تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ ایسا نہیں ہے جس میں ذرہ برابر بھی اشتباہ کی گنجائش ہوسکتی ہو۔ (اشتباہ کی گنجائش ہوسکتی فضائل قرآن، ۱۳۸)

ازواج مطہراتؓ پر زبان درازی کا الزام

مولانا نے سورۂ تحریم کی آیت اِنْ تَتُوْبَآ اِلَى اللہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا۝۰ۚ وَاِنْ تَظٰہَرَا عَلَيْہِ (التحریم۶۶: ۴)کی تشریح کرتے ہوئے تفہیم القرآن میں حضرت عمرؓ کی جو روایت بخاری اور مسند احمد سے نقل کی ہے، اس میں حضرت عمرؓ کے الفاظ لاَ تُراجِعی کا ترجمہ ’’رسول اللہﷺ کے ساتھ کبھی زبان درازی نہ کر‘‘ کے الفاظ میں کیا۔ ان الفاظ پر یہ الزام بڑے زور و شور سے پھیلا یا گیا کہ مولانا مودودی نے ازواج مطہرات کو ’’زبان دراز‘‘ کہہ کر ان کی گستاخی اور بے ادبی کی ہے۔
اس اعتراض کے جواب میں مولانا لکھتے ہیں :
حضرت عمرؓ کی روایت سے یہ بات تو ثابت ہے کہ ازواج مطہراتؓ رسول اللہﷺ کو پلٹ کر دو بدو جواب دینے لگی تھیں۔ اب آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی چھوٹا اپنے سے بڑے رتبے والے کو پلٹ کر جواب دے یا دو بدو جواب دے تو اسی کا نام زبان درازی ہے۔ مثلاً باپ اگر کسی بات پر بیٹے کو ڈانٹ دے یا اظہار ناراضی کرے اور بیٹا اس کو پلٹ کر جواب دے یا دو بدو جواب دینے لگے تو آپ اسے زبان درازی نہیں تو اور کیا کہیں گے؟کجا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کوئی یہ رویہ اختیار کرے۔اب اگر کسی کو رسول اللہﷺسے بڑھ کر ازواج مطہرات ؓکے ا حترام کی فکر ہے تو اس کا آخر میرے پاس کیا علاج ہے۔ظاہر ہے کہ ازواج مطہراتؓ کا رویہ کچھ زیادہ ہی نا پسندیدہ ہو گیا تھا جس کی بنا پر پہلے تو حضرت عمرؓ اپنی صاحبزادی حضرت حفصہؓ پر غضب ناک ہوئے، پھر ازواج مطہرات ؓمیں سے ایک ایک کے ہاں جاکر ان کواللہ کے غضب سے ڈرایا، پھر رسول اللہﷺ نے ناراض ہوکر ۲۹ دن تک ان سے قطع تعلق کر کے اپنے بالا خانے میں قیام فرمایا حتیٰ کہ صحابۂ کرامؓ میں یہ تشویش پھیل گئی کہ حضورﷺ نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی ہے، اور آخر کار خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان کو تنبیہ فرمائی۔ اب اگر یہ محض پلٹ کر جواب دینے یا دو بدو جواب دینے ہی کا چھوٹا سا معاملہ تھا تو یہ معترضین اللہ تعالیٰ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں کہ ذرا سی بات پر ایک آیت نازل کردی؟ اور نبی کریم ﷺ کو کیا سمجھتے ہیں کہ آیا آپ معاذ اللہ بڑے ہی تنک مزاج واقع ہوئے تھے کہ ذرا سی بات پر بیویوں سے اس قدر ناراض ہوگئے؟ اور حضرت عمرؓ کو کیا سمجھتے ہیں کہ ذرا سی بات پر بیٹی کو ڈانٹا اور پھر ازواج مطہراتؓ میں سے ایک ایک کے گھر جا کر ان کو خدا سے ڈراتے پھرے؟ یہ سب کچھ تو قرآن اور حدیث سے ثابت ہے جسے صرف نقل کرنے کا میں گناہگار ہوں۔ رہے معترضین تو انھیں بہرحال میری ہر بات پر اعتراض کرنا ہے، اس لیے میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ان کی کسی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں کروں گا۔ جب تک چاہیں وہ اپنا نامۂ اعمال سیاہ کرتے رہیں۔ (مودودی،رسائل و مسائل ، ص ۸۵۹، ۸۶۰)
ایک اورجگہ لکھا :
اس مقام پر سوچنے کے قابل بات دراصل یہ ہے کہ اگر معاملہ صرف ایسا ہی ہلکا اور معمولی سا تھا کہ حضورﷺ کبھی اپنی بیویوں کو کچھ کہتے تھے اور وہ پلٹ کر جواب دے دیا کرتی تھیں، تو آخر اس کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے براہ راست خود ان ازواج مطہراتؓ کو شدت کے ساتھ تنبیہ فرمائی ؟ اور حضرت عمر ؓنے اس معاملے کو کیوں اتنا سخت سمجھا کہ پہلے بیٹی کو ڈانٹا اور پھر ازواج مطہراتؓ میں سے ایک ایک کے گھر جا کر ان کو اللہ کے غضب سے ڈرایا ؟ اور سب سے زیادہ یہ کہ رسول اللہﷺ کیا آپ کے خیال میں ایسے ہی زودرنج تھے کہ ذرا ذرا سی باتوں پر بیویوں سے ناراض ہوجاتے تھے اور کیا معاذ اللہ آپ کے نزدیک حضورaکی تنک مزاجی اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ ایسی باتوں پر ناراض ہو کر آپ ایک دفعہ سب بیویوں سے مقاطعہ کر کے اپنے حجرے میں عزلت گزیں ہوگئے تھے ؟ ان سوالات پر اگر کوئی شخص غور کرے تو اسے لامحالہ ان آیات کی تفسیر میں دو ہی راستوں میں سے ایک کو اختیار کرنا پڑے گا۔ یا تو اسے ازواج مطہراتؓ کے احترام کی اتنی فکر لاحق ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر حرف آجانے کی پروا نہ کرے۔ یا پھر سیدھی طرح یہ مان لے کہ اس زمانے میں ان ازواج مطہراتؓ کا رویہ فی الواقع ایسا ہی قابل اعتراض ہوگیا تھا کہ رسول اللہﷺ اس پر ناراض ہوجانے میں حق بجانب تھے اور حضورﷺسے بڑھ کر خود اللہ تعالیٰ اس بات میں حق بجانب تھا کہ ان ازواج کو اس رویے پر شدت سے تنبیہ فرمائے۔ (تفہیم القرآن ،التحریم ، حاشیہ ۸، ۶/۲۵)

صحابۂ کرام ؓ کو برا بھلا کہنا

سوال: صحابۂ کرامؓ کو برا بھلا کہنے والا ،ان کی طرف ایسی باتوں کو منسوب کرنے والا جو دین داروں کی شان سے بعید ہیں،فاسق و گناہ گار ہے یا نہیں؟
جواب : صحابۂ کرامؓ کو برا بھلا کہنے والا میرے نزدیک صرف فاسق ہی نہیں ہے،بلکہ اس کا ایمان بھی مشتبہ ہے۔ ومن ابغضعهم فببغضی ابغضهم (مودودی، رسائل و مسائل ، ص ۸۵۳، تفہیم الاحادیث ،۸/ ۴۰۱)
سوال: کچھ علما کی طرف سے آپ کے خلاف یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ آپ نے اپنی تحریروں میں صحابۂ کرامؓ پر نکتہ چینی کی ہے اور ان کے مقام و مرتبے کو پوری طرح ملحوظ نہیں رکھا۔ براہ کرم وضاحت فرمائیے کہ احترام صحابہ ؓ کے بارے میں آپ کا مسلک کیا ہےاور آیا اس سلسلے میں اہلِ سنت کے درمیان میں کوئی اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
جواب: چونکہ یہ سوال آگیا ہے اس لیے اس کے متعلق چند کلمات کہہ دیتا ہوں۔ دراصل میں کبھی ایسے اعتراضات کے جواب نہیں دیا کرتا جن کے متعلق مجھے معلوم ہو تا ہے کہ یہ اعتراضات محض اس لیے نکالے جاتے ہیں تاکہ دنیا کویہ یقین دلایا جائے کہ ہم اس شخص سے اپنے نفس کے لیے نہیں لڑ رہے بلکہ یہ ایسا ظالم ہے کہ اس نے صحابہ ؓ اور انبیا ؑسے متعلق یہ اور یہ کہہ دیا ہے بس ہم اس سے اس وجہ سے ناراض ہیں۔تو جن لوگوں کے متعلق مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کی مخالفت کی اصل وجہ یہ نہیں ہے بلکہ اس کی اصل وجہ کچھ اور ہے اور صحابہ ؓ اور انبیا ؑکا محض بہانا بنایا جارہا ہے تو میں ایسے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اپنی عمر تم اس کام میں کھپاتے رہو،میں اپنی عاقبت کے لیے جس کام کو صحیح اور ضروری سمجھتا ہوں اس کو کرتا رہوں گا تمھیں جواب دینے میں اپنا وقت ضائع نہیں کروں گاالبتہ جو اعتراض کسی نہ کسی حد تک معقولیت یا دلیل کے ساتھ ہوتا ہے اس کا جواب میں پہلے بھی دیتا رہا ہوں اور آئندہ بھی ان شاء اللہ دینے کی کوشش کروں گااور اعتراض معقول ثابت ہوگا تو اس کو مان بھی لوں گا اور اپنی اصلاح بھی کرلوں گا۔بارہا میں نے ایسا کیا ہے۔
اب دیکھیے کہ اس معاملے میں ان لوگوں کے اعتراضات کی حقیقت کیا ہے اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیجیے کہ کسی آدمی کی کسی عبارت ،یا کسی عبارت کے کسی فقرے سے اس کے متعلق یہ کہنا کہ اس کا اس بارے میں یہ مسلک ہے درآنحالیکہ وہ اپنی بیسیوں عبارتوں میں اپنا مسلک واضح طور پر بیان کرچکا ہو، بجز ایک ضدی آدمی کے اور کسی کا کام نہیں ہوسکتا یعنی اگر ایک آدمی اپنے مسلک کی وضاحت بار بار نہ صرف اپنے قول سے اور اپنی تحریروں سے کرچکا ہو بلکہ اس کا مسلک اس کے مجموعی طرزِ عمل سے بھی صاف طور پر معلوم ہوتا ہو تو اس کی کسی ایک عبارت یا ایک فقرے سے اس کے بالکل برعکس نتیجہ نکالنا کسی معقول آدمی کا کام نہیں ہوسکتا اور نہ اس قسم کی حرکت کا علمی مقام ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میری کتاب تفہیم القرآن موجود ہے۔ اس میں میں نے جہاں کہیں فقہی مسائل یا دینی مسائل کے متعلق بحث کی ہے تو ان کے اندر آپ دیکھیں گے کہ میں نے صحابۂ کرامؓ کے اقوال سے استدلال کیا ہے جہاں کہیں صحابۂ کرامؓ کا ذکر آیا ہے میں نے بارہا یہ بات لکھی ہے کہ روئے زمین پر آفتاب نے کبھی ایسے انسان نہیں دیکھے تھے جیسے رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ تھے تمام نوع انسانی کا بہترین گروہ اگر کوئی تھا تو وہ صحابۂ کرامؓ تھے۔پھر میں نے بارہا یہ بات لکھی ہے کہ صحابۂ کرامؓ کا جس چیز پر اجماع ہو وہ دین میں حجت ہے اس کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔آدمی کے مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے اجماع کو اسی طرح تسلیم کرے۔جس طرح سنت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔آپ اسی تفہیم القرآن میں دیکھ سکتے ہیں کہ میں مختلف مسائل میں صحابۂ کرامؓ کے اقوال نقل کرتا اور پھر ان کے اقوال میں سے کسی قول کو اختیار کرکے اس کی تائید میں اپنی رائے بیان کرتا ہوں۔ کیا یہ سارا کام کسی ایسے فرد کا ہوسکتا ہے جو صحابہ ؓ کے معاملے میں منفی ذہنیت رکھتا ہو؟
یہ تو ہوئی سوال کے اس حصے کی وضاحت کہ صحابۂ کرامؓ کے بارے میں میرا مسلک کیا ہے۔ اب بعض ایسے معاملات کو لیجیے جن کے بارے میں تمام محدثین ؒ،مفسرینؒ اور مؤرخین کا ایک ہی ریکارڈ ہے اور ایک ہی ہوسکتا ہے ۔ اگر بعض ایسے واقعات جو احادیث میں آئے ہیں یا جن کا قرآن میں ذکر ہے یا جو تاریخ سے ثابت ہیں تو محض ان واقعات کو بیان کرنا اگر گناہ ہے تو امت کے تمام محدثین اور مؤرخین اور مفسرینؒ سب گناہ گار قرار پاتے ہیں کوئی نہیں بچتا ۔خود قرآنِ مجید میں صحابۂ کرامؓ کی بعض غلطیوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ سورہ الجمعہ میں ذکر کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ تاجروں کا ایک قافلہ آیا اور صرف بارہ صحابہ ؓ رہ گئے (بعض روایات میں یہ تعداد ۴۰ آئی ہے) باقی سارے کے سارے خطبہ چھوڑ کر قافلے کی طرف چلے گئے۔یہ قرآنِ مجید کا بیان کیا ہوا واقعہ ہے ۔ اور حدیث و تفسیر کی کوئی کتاب ایسی موجود نہیں ہے جس میں سورۃ الجمعہ کی تفسیر میں اس واقعے اور اس کی تفصیلات کو بیان نہ کیا گیا ہو۔ اگر اس چیز کا نام صحابۂ کرامؓ پر نکتہ چینی ہے تو اس سے کون بچاہے؟ سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ نے ابتدا کی اور اس کے بعد سارے محدثین ؒاور مفسرینؒ نے یہ کام کیا۔ اگر ان واقعات کو بیان کرنا صحابۂ کرامؓ کی تنقیص اور نکتہ چینی ہے تو مجھے بتایا جائے کہ قرآن مجید اور اس امت کے عظیم دینی،علمی اور تفسیری خزانے کے ساتھ کیا سلوک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اب اس مسئلے کے ایک دوسرے پہلو کو لیجیے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ خود یہ چاہتا تھا کہ صحابۂ کرامؓ پر تنقید کی جائے؟ اگر نہیں چاہتا تو قرآن مجید میں ان واقعات کا ذکر کیوں کیا گیا کہ لوگ قیامت تک انھیں پڑھتے رہیں؟ جنگ احد کے موقع پر جو پچاس صحابہؓ ایک مقام پر بٹھائے گئے تھے اور وہ وہاں سے ہٹ گئے تھے ان کا ذکر قرآنِ مجید میں موجود ہے اس کے متعلق آپ کیا کہیں گے۔حدیث اور تاریخ کی کون سی کتاب ہے جس میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ اب اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قرآن و حدیث میں ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد نکتہ چینی نہیں ہے بلکہ بنیادی طور پر یہ سمجھانا مقصود ہے کہ صحابۂ کرامؓ کے معاملے میں ہم وہی غلطی نہ کربیٹھیں جو انبیائے بنی اسرائیل کی امتیں کرتی رہیں کہ پہلے اپنے انبیا کو خدا کی اولاد قرار دیا ۔پھر اس سے آگے بڑھ کر اپنے آپ کو چلڈرن آف گاڈ قرار دے لیا۔ قرآن و حدیث نے ہمیں صحابۂ کرامؓ کے احترام کے ساتھ ساتھ انھیں انسان سمجھنے کا شعور بخشا ہے اور اس کی تربیت دی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ صحابۂ کرامؓ سے کبھی غلطی نہیں ہوئی تو وہ قرآن و حدیث کے خلاف ایک بات کہتا ہے۔سوال یہ ہے کہ جب قرآن و احادیث میں مختلف مثالوں کا ذکر کیا گیا ہے تو ایک مسلمان ان کے برعکس مؤقف کس طرح اختیار کرسکتا ہے اور کس طرح سے کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر ان سے غلطی ہوئی تو اس کا بیان کرنا گناہ ہے؟ غلطی بھی ہوئی اور اسے بیان بھی کیا گیا حدیثوں اور تفسیروں میں بیان کیا گیا اور ائمہ کرامؒ،محدثینؒ اور مفسرینؒ نے بیان کیا۔اب اگر ان حقائق کے باوجود کوئی شخص قرآن و حدیث کے اصل منشا کو نظر انداز کرکے اسے صحابۂ کرامؓ پر نکتہ چینی کرنا کہتا ہے تو اس کے صرف دو سبب ہوسکتے ہیں ۔ ایسی بات کہنے والے یا تو ان پڑھ ہیں اور نہیں جانتے کہ احادیث اور تفسیر و فقہ میں کیا چیز موجود ہے ۔ یا یہ لوگ جانتے تو سب کچھ ہیں مگر جان بوجھ کر غلط بات کہتے ہیں مقصد مخالفت ہے اور فریق بنا رہے ہیں اللہ اور اس کے رسول اور صحابۂ کرامؓ کو ۔یعنی دل میں گرہ تو کسی اور چیز کی ہے اور اعتراض کچھ اور تصنیف کیا جارہا ہے ۔
آخری بات میں یہ کہتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے لیے فرض کرلیجیے کہ ان حضرات کی ناراضی کی وجہ یہی ہے ۔سوال یہ ہے کہ اس صورت میں دوسروں کو گالیاں دینا جائز ہوجاتا ہے؟ صحابۂ کرامؓکی خاطر ناراض ہونے والا شخص دوسرے شخص کی گھر کی خواتین پر تو حملے نہیں کرسکتا۔اگر آدمی فی الواقع کسی شخص سے حق کی خاطر ناراض ہو تو وہ اس پر بہتان تو نہیں باندھ سکتا ۔اس کی جسارتوں میں الٹ پھیر تو نہیں کرسکتا ،اس کے خلاف جھوٹے الزامات تو تصنیف نہیں کرسکتا۔ اب اگر کوئی شخص یہ سارے کام بھی کرتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ وہ صحابۂ کرامؓ کی خاطر یہ کام کررہا ہے تو آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ صحابۂ کرامؓ کی توہین کون کر رہاہے ۔ (مودودی،رسائل و مسائل ، ص ۸۵۱، ۸۵۳، تفہیمات، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، جنوری ۲۰۱۰، حصہ چہارم،ص۱۹۲، ۱۹۶)
مولانا مودودیؒ تک جب اس بات کی اطلاع پہنچی کہ شیعہ حضرات پبلک مقامات پر صحابۂ کرام ؓ پر تبرا بازی کرتے ہیں اور ان پر سب و شتم کرتے ہیں تو اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
شیعہ حضرات کا یہ حق تو تسلیم کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے مذہبی مراسم اپنے طریقے پر ادا کریں، مگر یہ حق کسی بھی طرح تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ دوسرے لوگ جن بزرگوں کو اپنا مقتداو پیشوا مانتے ہیں، ان کے خلاف وہ برسرعام زبان طعن دراز کریں۔ یا دوسروں کے مذہبی شعائر پر علانیہ حملے کریں۔ ان کے عقیدے میں اگر تاریخ اسلام کی بعض شخصیتیں قابل اعتراض ہیں تو وہ ایسا عقیدہ رکھ سکتے ہیں، اپنے گھروں میں بیٹھ کر وہ ان کو جو چاہیں کہیں، ہمیں ان سے تعرض کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن کھلے بندوں بازاروں میں یا پبلک مقامات پر انھیں دوسروں کے مذہبی پیشواؤں پر تو درکنار کسی کے باپ کو بھی گالی دینے کا حق نہیں ہے اور دنیا کے کسی آئین و انصاف کی رو سے وہ اسے اپنا حق ثابت نہیں کرسکتے۔ اس معاملے میں اگر حکومت کوئی تساہل کرتی ہے تو یہ اس کی سخت غلطی ہے، اور اس تساہل کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ یہاں فرقوں کی باہمی کش مکش دبنے کی بجائے اور زیادہ بھڑک اٹھے۔ دشنام طرازی کا لائسنس دینا اور پھر لوگوں کو دشنام طرازی کے لیے اس بنا پر مجبور کرنا کہ اس کا لائسنس دیا جا چکا ہے، حمایت بھی ہے اور زیادتی بھی۔ حکومت کی یہ سخت غلطی ہے کہ وہ شیعہ حضرات کے مراسم عزاداری اور اس سلسلے کے جلسوں اور جلوسوں کے لیے معقول اور منصفانہ حدود مقرر نہیں کرتی اور پھر جب بے قید لائسنسوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی بدولت جھگڑے رونما ہوتے ہیں تو فرقہ ورانہ کش مکش کا رونا روتی ہے۔ اس معاملے میں سنیوں اور شیعوں کی پوزیشن میں ایک بنیادی فرق ہے جسے ملحوظ خاطر رکھ کر ہی فریقین کے درمیان انصاف قائم کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ شیعہ جن کو بزرگ مانتے ہیں وہ سنیوں کے بھی بزرگ ہیں اور سنیوں کی طرف سے ان پر کسی طعن و تشنیع کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس سنیوں کے عقیدے میں جن لوگوں کوبزرگی کا مقام حاصل ہے، ان کے ایک بڑے حصے کو شیعہ نہ صرف برا سمجھتے ہیں بلکہ انھیں برا کہنا بھی اپنے مذہب کا ایک لازمی جز قرار دیتے ہیں۔ اس لیے حدود مقرر کرنے کا سوال صرف شیعوں کے معاملے میں پیدا ہوتا ہے۔ انھیں اس بات کا پابند کیا جانا چاہیے کہ بد گوئی اگر ان کے مذہب کا کوئی جزو لازم ہے تو اسے اپنے گھر تک محدود رکھیں۔ پبلک میں آکر دوسروں کے بزرگوں کی برائی کرنا کسی طرح بھی ان کا حق نہیں مانا جاسکتا۔ میرا خیال یہ ہے کہ اس معاملے کو اگر معقول طریقے سے اٹھایا جائے تو خود شیعوں میں سے بھی تمام انصاف پسند لوگ اس کی تائید کریں گے اور ان کے شر پسند طبقے کی بات نہ چل سکے گی۔ حکومت کو بھی بآسانی اس بات کا قائل کیا جاسکتا ہے کہ شیعہ حضرات کو ان کے مذہبی مراسم کی ادائیگی کے معاملے میں جہاں تک کہ پبلک میں ان کے ادا کرنے کا تعلق ہے، حدود کا پابند بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ حدود بھی گفت و شنید سے طے ہوسکتے ہیں۔ اس مسئلے کو کسی ایجی ٹیشن کی بنیاد بنانے کی بجائے اس طریقے سے حل کرنا زیادہ مناسب ہے۔ میں اپنی حد تک اس خدمت کی انجام دہی کے لیے جو کچھ کرسکتا ہوں، اس میں ان شاء اللہ دریغ نہ کروں گا۔ { FR 7616 }
تقسیم ِ ہند سے پہلے ایک کتاب لکھی گئی تھی جس میں آزادی اظہار رائے کے نام پر رسول اللہﷺ کی توہین کی گئی ۔اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے مولانا نے لکھا:

ہم نے اپنی طبیعت پر سخت جبر کرکے یہ عبارتیں یہاں نقل کی ہیں ۔ انھیں پڑھ کر کیا کوئی شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ ان الفاظ سے رسول اللہ ﷺ کی محض شخصی توہین (Personal libel) مقصود تھی؟کیا کوئی شخص ایک لمحے کے لیے بھی یہ یقین کرے گا کہ رسول اکرم ﷺ اور امہات المؤمنین پر ان کھلے کھلے حملوں سے مسلمانوں کو چڑانا اور ان کی اور ان کے مذہب کی تذلیل کرنا مقصود نہ تھا ؟ اور کیا کوئی موٹی سے موٹی عقل رکھنے و الا آدمی بھی یہ باور کرسکتا ہے کہ اس کتاب کا لکھنے والا ،شائع کرنے والا اس کے اثر سے بے خبر تھا جو ان گستاخانہ پھبتیوں سے مسلمانوں کے دلوں پر پڑنا یقینی تھا۔ (مودودی، ابوالاعلیٰ، (۱۹۷۹ء)، آفتابِ تازہ ،ادارہ معارف اسلامی ، لاہور،۲۰۰۷ء، ص ۲۳۱)
یہ کیسا عجیب و غریب فرق ہے! محمد رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دینا اور ان کی ازواجِ مطہرات پر پھبتیاں اڑانا جرم نہیں اور کنور دلیپ سنگھ سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنا جرم ہے! وہ پاک ذات جس کے ساتھ محبت و عقیدت رکھنا کروڑ ہا مسلمانوں کا جزوِ ایمان ہے اگر گالیوں کی ہدف بنائی جائے،ارو وہ مقدس خواتین جنھیں ساری مسلمان قوم اپنی ماؤں سے زیادہ محترم سمجھتی ہے،گندے سے گندے مطاعن کی مورد بنائی جائیں تو عدالت انصاف کے نزدیک یہ کوئی قابلِ تعزیر جرم نہیں ہے،لیکن ہندوستان کے ایک صوبے کی عدالت ِ عالیہ کا ایک جج جس کی ذات ایک معمولی انسان کے مقابلے میں کرسی نشینی عدالت سے زیادہ شمہ برابر بھی کوئی امتیاز نہیں رکھتی اس کے ایک غیر منصفانہ فیصلے پر اگر تہذیب و متانت کے ساتھ بھی نکتہ چینی کی جاتی ہے تو اسے سزا کا مستوجب قرار دے دیا جاتا ہے، یہ تفاوت ِ عظیم آخر کس چیز پر دلالت کرتی ہے۔ (آفتابِ تازہ، ص۲۰۴)
خود اسلام میں تنہا داعی اسلام علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی ذات ہی واجب الاحترام نہیں ، بلکہ صحابہ کرامؓ ،تابعین ،ائمہ اور بزرگان دین کی ایک بڑی جماعت بھی عظمت و احترام کی مستحق ہے اور اگر قانون یہ حد قائم کرے کہ رسول اللہ ﷺ کے متعلق تو مسلمانوں کے جذبات قابلِ لحاظ ہیں، لیکن حضرت عمرؓ، یا امام ابو حنیفہ ؒ یا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے متعلق ان کے جذبات کا لحاظ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، تو یقیناً ہم اس کی اس حرکت کو نامعقول قرار دیں گے۔ { FR 7619 }
جو لوگ صحابہ کرامؓ کو برا بھلا کہتے ہیں اور ان کی گستاخی کرتے ہیں ان کی مذمت اور صحابہ کرامؓ کے ایمان کی گواہی مولانا ان الفاظ میں دے رہے ہیں:
اور ان سب سے بڑھ کر شدید برائی یہ ہے کہ کوئی شخص ان لوگوں کے حق میں بد گوئی کرے جنھوں نے انتہائی سخت آزمائشوں کے دور میں رسول اللہﷺ کی رفاقت کا حق ادا کیا تھا اور اپنی جانیں لڑا کر دنیا میں اسلام کا وہ نور پھیلایا تھا جس کی بدولت آج ہمیں نعمت ایمان میسر ہوئی ہے۔ ان کے درمیان جو اختلافات رو نما ہوئے ان میں اگر ایک شخص کسی فریق کو حق پر سمجھتا ہو اور دوسرے فریق کا موقف اس کی رائے میں صحیح نہ ہو تو وہ یہ رائے رکھ سکتا ہے اور اسے معقولیت کے حدود میں بیان بھی کر سکتا ہے۔ مگر ایک فریق کی حمایت میں ایسا غلو کہ دوسرے فریق کے خلاف دل بغض و نفرت سے بھر جائے اور زبان و قلم سے بد گوئی کی تراوش ہونے لگے، ایک ایسی حرکت ہے جو کسی خدا ترس انسان سے سر زد نہیں ہو سکتی۔ قرآن کی صریح تعلیم کے خلاف یہ حرکت جو لوگ کرتے ہیں وہ بالعموم اپنے اس فعل کے لیے یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ قرآن مومنین کے خلاف بغض رکھنے سے منع کرتا ہے اور ہم جن کے خلاف بغض رکھتے ہیں وہ مومن نہیں بلکہ منافق تھے۔ لیکن یہ الزام اس گناہ سے بھی بد تر ہے جس کی صفائی میں یہ بطور عذر پیش کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی یہی آیات جن کے سلسلے بیان میں اللہ تعالیٰ نے بعد کے آنے والے مسلمانوں کو اپنے سے پہلے گزرے ہوئے اہل ایمان سے بغض نہ رکھنے اور ان کے حق میں دعائےمغفرت کرنے کی تعلیم دی ہے، ان کے اس الزام کی تردید کے لیے کافی ہیں۔
ان آیات میں یکے بعد دیگرے تین گروہوں کو فَے کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔ اول مہاجرین، دوسرے انصار، تیسرے ان کے بعد آنے والے مسلمان۔ اور ان بعد کے آنے والے مسلمانوں سے فرمایا گیا ہے کہ تم سے پہلے جن لوگوں نے ایمان لانے میں سبقت کی ہے ان کے حق میں دعائےمغفرت کرو۔ ظاہر ہے کہ اس سیاق و سباق میں سابقین بالایمان سے مراد مہاجرین و انصار کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسی سورہ حشر کی آیات ۱۱ تا ۱۷ میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ منافق کون لوگ تھے۔ اس سے یہ بات بالکل ہی کھل جاتی ہے کہ منافق وہ تھے جنھوں نے غزوہ بنی نضیر کے موقع پر یہودیوں کی پیٹھ ٹھونکی تھی، اور ان کے مقابلے میں مومن وہ تھے جو اس غزوے میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شامل تھے۔ اس کے بعد کیا ایک مسلمان، جو خدا کا کچھ بھی خوف دل میں رکھتا ہو، یہ جسارت کر سکتا ہے کہ ان لوگوں کے ایمان کا انکار کرے جن کے ایمان کی شہادت اللہ تعالیٰ نے خود دی ہے؟ (تفہیم القرآن ،الحشر حاشیہ ۲۱، ۵/ ۴۰۴)
اور اس بحث کا خلاصہ خود مولانا کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ :
اللہ کی سند خوشنودی عطا ہو جانے کے بعد اگر کوئی شخص ان (صحابہ کرامؓ)سے ناراض ہو، یا ان پر زبان طعن دراز کرے تو اس کا معارضہ ان سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے۔ اس پر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جس وقت اللہ نے ان حضرات کو یہ خوشنودی کی سند عطا کی تھی اس وقت تو یہ مخلص تھے مگر بعد میں یہ خدا اور رسولﷺ سے بے وفا ہو گئے، وہ شاید اللہ سے یہ بد گمانی رکھتے ہیں کہ اسے یہ آیت نازل کرتے وقت ان کے مستقبل کی خبر نہ تھی، اس لیے محض اس وقت کی حالت دیکھ کر اس نے یہ پروانہ انھیں عطا کر دیا ، اور غالباً اسی بے خبری کی بنا پر اسے اپنی کتاب پاک میں بھی درج فرما دیا تاکہ بعد میں بھی، جب یہ لوگ بے وفا ہو جائیں ، ان کے بارے میں دنیا یہ آیت پڑھتی رہے اور اس خدا کے علم غیب کی داد دیتی رہے جس نے معاذاللہ ان بیوفاؤں کو یہ پروانہ خوشنودی عطا کیا تھا۔ ( تفہیم القرآن ،الفتح حاشیہ ۳۲، ۵/ ۵۵)

صحابۂ کرامؓ کی سیرت اور ارکانِ جماعت

مولانا مودودیؒ نے وقتاً فوقتاً جماعت اسلامی کے ارکان کو صحابہ کرامؓ کی سیرت پڑھنے اور انھیں نمونہ عمل بنانے پر زور دیا ہے۔ اس حوالے سے ارکانِ جماعت کو جو نصیحتیں کی ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
جماعت کے ارکان کو قرآن اور سیرت النبی ﷺ اور سیر صحابہؓ سے خاص شغف ہونا چاہیے ۔ان چیزوں کو بار بار گہری نظر سے پڑھا جائے اور محض عقیدت کی پیاس بجھانے کے لیے نہیں بلکہ ہدایت و راہ نمائی حاصل کرنے کے لیے پڑھا جائے۔ (رودادِ جماعت اسلامی ،اول، دوم ۲۰۱۹، ص ۴۰)
تحریکِ اسلامی اپنا ایک خاص مزاج رکھتی ہے اور اس کا ایک مخصوص طریقِ کار ہے جس کے ساتھ دوسری تحریکوں کے طریقے کسی طرح جوڑ نہیں کھاتے ۔ جو لوگ اب تک مختلف قومی تحریکوں میں حصہ لیتے رہے ہیں اور جن کی طبیعتیں انھیں کے طریقوں سے مانوس رہی ہیں انھیں اس جماعت میں آکر اپنے آپ کو بہت کچھ بدلنا ہوگا۔جلسے اور جلوس،جھنڈے اور نعرے، یونیفارم اور مظاہرے، ریزولیوشن اور ایڈریس، بے لگام تقریریں اور گرما گرم تحریریں اور اس نوعیت کی تمام چیزیں ان تحریکوں کی جان ہے مگر اس تحریک کے لیے سم قاتل ہے ۔یہاں کا طریقِ کار قرآن اور سیرتِ محمدی ﷺ اور صحابہؓ کی سیرتوں سے سیکھیے اور اس کی عادت ڈالیے۔ آپ کو زبان یا قلم یا مظاہروں سے عوام پر سحر نہیں کرنا ہے کہ ان کے ریوڑ کے ریوڑ آپ کے پاس آجائیں اور آپ انھیں ہانکتے پھریں۔ آپ کو ان میں حقیقتِ اسلامی کی معرفت پیدا کرنی ہے۔ (رودادِ جماعت اسلامی ،اول، دوم ۲۰۱۹، ص ۴۲)
اولین چیز جس کی ہدایت ہمیشہ سے انبیا ؑ اور خلفائے راشدینؓ اور صلحائے امت ہر موقع پر اپنے ساتھیوں کو دیتے رہے ہیں ،وہ اللہ سے ڈرنے اور اس کی محبت دل میں بٹھانے اور اس کے ساتھ تعلق بڑھانے کی ہدایت ہے۔میں نے بھی اسی کے اتباع میں اپنے رفقا کو سب سے پہلے یہی نصیحت کی ہےاور آئندہ بھی جب کبھی موقع ملے گا اسی کی نصیحت کرتا رہوں گا۔ (مودودی، تحریک اور کارکن، ۱۱۷)

ذکر الٰہی ،جو زندگی کے تمام احوال میں جاری رہنا چاہیے،اس کے وہ طریقے صحیح نہیں ہیں جو بعد کے ادوار میں صوفیا کے مختلف گروہوں نے خود ایجاد کیے یا دوسروں سے لیے بلکہ بہترین اور صحیح ترین طریقہ وہ ہے جو نبی کریمﷺ نے اختیار فرمایا اور صحابۂ کرام ؓ کو سکھایا۔ (مودودی،تحریک اور کارکن، ۱۲۴)
اسلام نے ہمارے سامنے انسانیت کا اتنابلند معیار رکھا ہے جس کی ابتدائی منزلیں بھی غیر اسلامی مذاہب و ادیان کے معیارِ کمال سے اونچی ہیں۔ اوریہ کوئی خیالی معیار نہیں ہے ، بلکہ عمل کی دنیا میں انبیا ےکرامؑ اور اکابر صحابہؓ اور صلحائے امت کی پاکیزہ زندگیاں اس کی بلندیوں کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ اس معیارکو آپ ہمیشہ ذہن میں رکھیں یہ آپ کو کا ملیت کی غلط فہمی سے بچائے گا ، اپنی پستی کا احساس دلائے گا اور ترقی کی کوششوں کے لیے ہر وقت اتنی بلندیاں آپ کے سامنے پیش کرتا رہے گا کہ عمر بھر کی جدوجہد کے بعد بھی آپ یہی محسوس کریں گے کہ ابھی بہت سی منزلیں چڑھنے کے لیے باقی ہیں۔ (مودودی، تحریک اور کارکن، ۱۳۳)
انفرادی تزکیے کے لحاظ سے ہماری اپنی جماعت میں بھی ایسے رفقا کی کمی نہیں ہے جن کی حالت پر خود مجھے رشک آتا ہے ۔مگر جہاں تک جماعتی تزکیے کا تعلق ہے ،حالات افسوسناک ہیں۔ میں مستقبل قریب میں اس مسئلے پر تفصیل سے لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ جماعتی حیثیت سے کیا کچھ ترک کردینے کے قابل ہے اور اس کی جگہ کیا کیا چیزیں مطلوب ہیں ؟قرآن میں اس مسئلے پر اصولی حد تک مفصل روشنی ڈالی گئی ہے اور حدیث میں اصول کی مکمل تشریحات موجود ہیں۔ پھر سیرتِ نبوی ﷺ اور سیر صحابہؓ کے مطالعے سے مطلوبہ اجتماعی اخلاق کے عملی نمونے بھی ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ان چیزوں کی ورق گردانی کیجیے اور ناپ تول کر دیکھیے کہ کس پہلو سے ہمارے اجتماعی نظم میں کیا اور کتنی کمی ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کی فکر کیجیے۔ (روداد جماعت اسلامی،اول، دوم، اسلامک پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۱۹، ص ۱۱۷، مودودی،تحریک اور کارکن، ص ۱۱۲)
جماعتی مشورے میں کسی شخص کو اپنی رائے پر اتنا مصر نہ ہونا چاہیے کہ یا تو اس کی بات مانی جائے ورنہ جماعت سے تعاون نہ کرے گا یا اجماع کے خلاف عمل کرے گا ۔بعض نادان لوگ بربنائے جہالت اسے حق پرستی سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ صریح اسلامی احکام اور صحابۂ کرام ؓ کے متفقہ تعامل کے خلاف ہے۔ خواہ کوئی مسئلہ کتاب و سنت کی تعبیر اور نصوص سے کسی حکم کے استنباط سے تعلق رکھتا ہویا دنیاوی تدابیر سے متعلق ہو، دونوں صورتوں میں صحابۂ کرام ؓ کا طرزِ عمل یہ تھا کہ جب تک مسئلہ زیرِ بحث رہتا ، اس میں ہر شخص اپنے علم اور اپنی صوابدید کے مطابق پوری صفائی سے اظہارِ خیال کرتا اور اپنی تائید میں دلائل پیش کرتا تھا ، مگر جب کسی شخص کی رائے کے خلاف فیصلہ ہوجاتا تو وہ یا تو اپنی رائے واپس لےلیتا تھا، یا اپنی رائے کو درست سمجھنے کے باوجود فراخ دلی کے ساتھ جماعت کا ساتھ دیتا تھا،جماعتی زندگی کے لیے یہ طریقہ ناگزیر ہے ورنہ ظاہر ہے کہ جہاں ایک شخص اپنی رائے پر اس قدر مصر ہو کہ جماعتی فیصلوں کو قبول کرنے سے انکار کردے ، وہاں آخر کار پورا نظامِ جماعت درہم برہم ہوکر رہے گا۔ ( روداد جماعت اسلامی ،اول دوم، ص ۲۴)
میں اپنے علم کی حد تک کتاب اللہ و سنت رسول اللہﷺ اور خلفائے راشدین ؓکے نقشِ قدم کی پیروی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھوں گا۔تاہم اگر مجھ سے کوئی لغزش ہو اور آپ میں سے کوئی محسوس کرے کہ میں راہِ راست سے ہٹ گیا ہوں تو مجھ پر بدگمانی نہ کرے کہ میں عمداً ایسا کررہا ہوں،بلکہ حسنِ ظن سے کام لے اور نصیحت سے مجھے سیدھا کرنے کی کوشش کرے۔ ( روداد جماعت اسلامی ،اول دم، ص ۲۹)
اسی طرح میرے ذاتی عمل کو بھی جسے میں نے اپنی تحقیق کی بنا پر جائز سمجھ کر اختیار کیا ہے ، نہ تو دوسرے لوگ حجت بنائیں اور نہ بلا تحقیق محض میرا عمل ہونے کی حیثیت سے اس کا اتباع کریں۔ ان معاملات میں ہر شخص کے لیے آزادی ہے ۔ جو لوگ علم رکھتے ہوں وہ اپنی تحقیق پر، اور جو علم نہ رکھتے ہوں وہ جس کے علم پر اعتماد رکھتے ہوں ، اس کی تحقیق پر عمل کریں۔ نیز ان معاملات میں مجھ سے اختلاف رائے رکھنے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے میں بھی سب آزاد ہیں۔ ہم سب جزئیات و فروع میں اختلاف رائے رکھتے ہوئے اور ایک دوسرے کے بالمقابل بحث و استدلال کرتے ہوئے بھی ایک جماعت بن کر رہ سکتے ہیں جس طرح صحابۂ کرامؓ رہتے تھے۔ ( روداد جماعت اسلامی،اول دوم، ص ۳۱)
اب اگر ہمارا ڈسپلن ایک اسلامی جماعت کے معیار ِ مطلوب سے کم ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ایمان اس درجے کا نہیں ہے جیسا صحابۂ کرامؓ کا ایمان تھا۔ ( تحریک اور کارکن،ص ۹۴)

دینی احکام میں صحابۂ کرامؓ کی پیروی

مختلف دینی احکام میں مولانا مودودی ؒ نے صحابہ کرامؓ کے طرز عمل اور ان کے معاشرے کو موجودہ مسلم معاشروں کے لیے بطور دلیل پیش کیا ہے :
قرآن ِ مجید کی جن آیات میں پردے سے متعلق احکامات دیے گئے ہیں ان آیات کو ذکر کرنے کے بعدان کی تشریح میں مولانا لکھتے ہیں :
اب ہم کو دیکھنا چاہیے کہ ان مجمل ہدایات کو نبیﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ نے اسلامی معاشرت میں کس طرح نافذ کیا ہے ،اور ان اقوال اور اعمال سے ان ہدایات کی معنوی اور عملی تفصیلات پر کیا روشنی پڑتی ہے۔ ( مودودی، ابوالاعلیٰ ، (م:۱۹۷۹ء)، پردہ ،اسلامک پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۱۲ء، ص ۲۳۷)
اسی طرح نقاب اور برقع کے مسئلے جو بحث کی جاتی ہے اور تاریخی حوالوں سے جب یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ چہرے کا پردہ ضروری نہیں ہے، تو نقاب کو شرعی پردہ قرار دیتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں :
قرآ ن کی ایک صریح آیت اور عہدِ نبویؓ کے ثابت شدہ تعامل اور صحابہؓ و تابعین ؒکی تشریحات کے مقابلے میں تاریخی تحقیقات کی زحمت آخر کیوں اٹھائی گئی،صرف اس لیے کہ زندگی کے وہ مقاصد پیشِ نظر تھے اور ہیں جو مغرب میں مقبولِ عام ہیں۔ ’’ترقی ‘‘اور ’’ تہذیب‘‘ کے وہ تصورات ذہن نشین ہوگئے ہیں جو اہلِ مغرب سے نقل کیے گئے ہیں۔ چونکہ برقع اوڑھنا اور نقاب ڈالنا ان مقاصد کے خلاف ہے اور ان تصورات سے کسی طرح میل نہیں کھاتا ، لہذا تاریخی تحقیق کے زور سے اس چیز کو مٹانے کی کوشش کی گئی جو اسلام کی کتابِ آئین میں ثبت ہے۔ ( پردہ، ۲۵۹)
چہرے کے پردے کے سلسلے میں سورہ الاحزاب کی آیت ۵۹ سے استدلال کرنے کے بعد مفسرین کے اقوال کا ذکر کرتے ہیں اور پھر لکھتے ہیں:
ان اقوال سے ظاہر ہے کہ صحابۂ کرامؓ کے مبارک دور سے لے کر آٹھویں صدی تک ہر زمانے میں اس آیت کا ایک ہی مفہوم سمجھا گیا ہے اور وہ مفہوم وہی ہے جو اس کے الفاظ سے ہم نے سمجھا ہے۔ ( پردہ، ص ۲۵۴)
عورتوں کے گھروں سے نکلنے کے حوالےسے قرآنی آیات کا ذکر کرنے کے بعد مولانا مودودیؒ عہد نبویؐ اور صحابۂ کرامؓ و صحابیاتؓ کے طرز عمل سے بھی استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
آئیے اب حدیث پر نظر ڈال کر دیکھیں کہ نبی ﷺ نے اس تعلیم کے مطابق سوسائٹی میں عورتوں کے لیے کیا طریقے مقرر فرمائے تھے اور صحابۂ کرام ؓ اور ان کی خواتین نے ان پر کس طرح عمل کیا ۔ (پردہ، ص ۲۶۴)
اسی طرح تصاویر کے معاملے میں صحابہ کرامؓ کے طرزِ عمل سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
تصاویر کے معاملے میں نبی ﷺ نے آخر کار امت کے لیے جو ضابطہ چھوڑا ہے اس کا پتہ اکابرصحابہ ؓکے اس طرز عمل سے چلتا ہے جو انھوں نے اس باب میں اختیار کیا۔ اسلام میں یہ اصول مسلم ہے کہ معتبر اسلامی ضابطہ وہی ہے جو تمام تدریجی احکام اور ابتدائی رخصتوں کے بعد حضورﷺنے اپنے آخر عہد میں مقرر کر دیا ہو۔ اور حضورﷺ کے بعد اکابرصحابہ ؓکا کسی طریقے پر عمل درآمد کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسی طریقے پر حضورﷺنے امت کو چھوڑا تھا۔ (تفہیم القرآن ،سورہ سبا، حاشیہ ۲۰، ۴/ ۱۸۶) 

قرآنِ مجید میں صرف اہلِ کتاب سے جزیہ لینے کا حکم ہے لیکن صحابہ کرامؓ نے اس حکم کو اپنے اجتہاد کے ذریعے عجم کی دیگر اقوام تک وسیع کردیا تھا اس حوالے سے مولانا نے لکھا ہے:
قرآنِ مجید میں صرف اہلِ کتاب سے جزیہ لینے کا حکم ہے۔ مگر اجتہاد سے کام لے کر صحابہؓ نے اس حکم کو عجم کے مجوسیوں ،ہندوستان کے بت پرستوں اور افریقہ کے بربری باشندوں پر بھی وسیع کردیا ۔اسی طرح خلفائے راشدینؓ کے عہد میں جب ممالک فتح ہوئے تو غیر قوموں کے ساتھ بکثرت ایسے معاملات پیش آئے جن کے متعلق کتاب و سنت میں صریح احکام موجود نہ تھے۔ صحابۂ کرام ؓنے ان کے لیے خود ہی قوانین مدون کیے اور وہ اسلامی شریعت کی اسپرٹ اور اس کے اصول سے پوری مطابقت رکھتے تھے۔ (مودودی، ابوالاعلیٰ، (۱۹۷۹ء)، سود،اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۵ء، ص ۱۲۷،۱۲۸، معاشیاتِ اسلام، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۵ء، ص ۳۴۷)
نصابِ زکاۃ کے حوالے سے خلفائے راشدین ؓ کے زمانے سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
خلفائے راشدین کے زمانے میں نبی ﷺ کے مقرر کیے ہوئے نصاب اور شرحِ زکاۃ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، نہ اب اس کی کوئی ضرورت محسوس ہوتی ہےاور ہمارا خیال یہ ہے کہ نبیﷺ کے بعد کوئی آپؐ کی مقرر کردہ مقادیر میں ترمیم کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ ( معاشیاتِ اسلام ، ص ۲۸۳)
امام اعظم ؒاورا مام محمدؒ جیسے آئمہ مجتہدین نے جس حدیث کو قابلِ استناد سمجھا ہو اس کو بالکل ناقابلِ اعتبار قرار دینا درست نہیں ،مگر اس مختصر اور غیر واضح اور مختلف فیہ خبر واحد کو اتنا پھیلانا بھی درست نہیں کہ قرآن اور حدیث اور آثار صحابہؓ کی متفقہ شہادت ایک طرف ہو اور دوسری طرف یہ حدیث ہو،اور پھر اس ایک حدیث کی تاویل ان سب کے مطابق کرنے کے بجائے، ان سب کو اس ایک حدیث پر ڈھالنے کی کوشش کی جائے۔ قرآن اور تمام احادیث صحیحہ میں مطلقاً رِبا کو حرام کہا گیا ہے۔ ( سود، ص ۲۵۷،۲۵۸)

اسی طرح مسلمان قوم کے دوسری قوموں سے تعلقات اور معاہدات کس بنیاد پر ہوں اس حوالے سے صحابہ کرامؓ کے غیر مسلم قوموں سے ہونے والے معاہدات بطور استدلال پیش کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:
ہم نے اتنی تفصیل کے ساتھ یہ معاہدات اس لیے نقل کیے ہیں کہ ناظرین کو اسلام کے انداز مصالحت کا ایک عمومی تصور حاصل ہو جائے ۔ ایک دو معاہدات کو دیکھ کر یہ خیال پیدا ہوناممکن ہے کہ شاید کسی خاص حالت میں رسول اللہ ﷺاور آپؐ کے صحابہؓ نے مجبوراً ایسی شرائط قبول کر لی ہوں گی۔ لیکن یہاں عرب، شام، الجزیرہ اور فارس وغیرہ ممالک کے کئی عہد نامے آپ کے سامنے موجود ہیں اور تاریخوں میں ان کے علاوہ بیسیوں اور عہد نامے مل سکتے ہیں جن کے اندر ایک ہی قسم کی فیاضانہ روح پائی جاتی ہے۔ ہم نے خصوصیت کے ساتھ ان معاہدات کو نقل کیا ہے جو نبی ﷺ اور آپ کے صحابہؓ نے پوری طرح غالب آجانے کے بعد کیے تھے۔ ( الجہاد فی الاسلام، ص ۲۷۶)
نبی ﷺ اور آپؐ کے خلفائے راشدینؓ نے مختلف قوموں سے جو صلح نامے کیے ہیں ان سے ہمیں کم از کم وہ عام اصول معلوم ہوجاتے ہیں جن پر اسلام اپنے دشمنوں سے مصالحت کرتا اور کرسکتا ہے۔ ( الجہاد فی الاسلام، ص ۲۷۰) زمین کی ملکیت شخصی ہونی چاہیے یا اجتماعی ملکیت، اس سوال پر مولانا کی رائے تھی کہ اسلام شخصی ملکیت کو جائز رکھتا ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے صحابہ کرامؓ کے طرزِ عمل سے استدلال کیا ہے ۔ مولانا لکھتے ہیں:
اگر ہم ایک طرف یہ بات مان لیں کہ قرآن کا اصل منشا زمین کو شخصی ملکیتوں سے نکال کر اجتماعی ملکیت بنا دینا تھا اور دوسری طرف اس امرِ واقعہ کو دیکھیں کہ یہ کام نہ رسول اللہﷺ نے اپنے زمانہ حکومت میں کیا اور نہ خلفائے راشدین ؓ نے اپنے دور میں کیا نہ صحابہ ؓ، تابعین ؒ ،ائمہ مجتہدینؒ اور پچھلے تیرہ سو برس کے فقہا ئے امت میں سے کسی نے اس کا خیا ل تک ظاہر کیا تو لامحالہ پھر ہمیں دو باتوں میں سے ایک بات ماننی پڑے گی یا تو یہ کہ قرآن کو اس کے لانے والے پیغمبر سے لے کر پوری امتِ مسلمہ کے علما و فقہا اور ائمہ تک کسی نے نہ سمجھا اور اس کے فہم کی سعادت نصیب ہوئی تو مارکس ، اینجلز ،لینن اور اسٹالین کو ہوئی ، یا پھر قرآن کے منشا کو سمجھ تو گئے تھے رسول ﷺ اور صحابہ بھی مگر عمل کی توفیق ان کے بجائے روس کے اشتراکی کامریڈوں کو نصیب ہوئی۔ قرآن کے منشا کا مسئلہ عہدِ رسالت کی تاریخ سے حل نہ ہوگا تو پھر وہ یوں حل ہوگا ۔ کیا واقعی آپ اس پر راضی ہیں؟ (مودودی، ابوالاعلیٰ، (۱۹۷۹ء)، مسئلہ ملکیت زمین، اسلامک پبلی کیشنز،، لاہور،۱۹۶۹ء، ص ۱۸)
ورنہ اگر بحیثیت مجموعی اس مسئلے میں نبی کریمﷺ کے تمام ارشادات اور آپ کے عہد کے عمل اور زمانہ خلفائے راشدینؓ کے عمل کو دیکھا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ عہد نبوت سے قریب زمانے کے ائمہ نے قرآن ،حدیث اور آثار صحابہؓ پر جامع نگاہ ڈال کر زمین کے بارے میں اسلام کا قانون کیا سمجھا تھا تو اس امر میں قطعاً کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ اسلام صرف یہی نہیں کہ زمین کی شخصی ملکیت کو جائز رکھتا ہے بلکہ وہ اس ملکیت پر کوئی حد بھی نہیں لگاتا اور مالک ِ زمین کو یہ حق دیتا ہے کہ جس زمین کو خود کاشت نہ کرتا ہو اسے وہ دوسرے کو مزارعت یا کرایے پر دے دے۔ (مسئلہ ملکیت زمین،۲۶)
کوئی ایسا شخص جو نبی ﷺ کی سیرت و شخصیت اور آپ کے خلفائے راشدینؓ کی زندگی اور آپ کے صحابہ کرامؓ کے حالات سے کچھ بھی واقفیت رکھتا ہو یہ گمان بھی نہیں کرسکتا کہ نبیﷺ معاذ اللہ ان لوگوں میں سے تھے جو زبان سے ایک چیز کو غلط کہیں اور اسے رائج رہنے دیں اور زبان سے ایک دوسرے طریقے کو برحق کہیں اور عملاً اس کو جاری نہ کریں۔یا یہ کہ حضورﷺ ایک طریقے کو روکنا اور دوسرے طریقے کو رائج کرنا چاہتے ہوں اور صحابہ کرامؓ مان کر نہ دیں۔ یا یہ کہ خلفائے راشدین ؓ کو یہ معلوم ہوچکا ہو کہ حضورﷺ کسی رواج کا انسداد کرکے ایک دوسرا اصلاحی طریقہ جاری کرنا چاہتے تھے اور پھر وہ اپنے تمام زمانہ خلافت میں آپ کے منشا کو عملی جامہ پہنانے سے باز رہ جائیں۔ (مسئلہ ملکیت زمین،۶۴)
امیر معاویہؓ کے ابتدائی دورِ حکومت تک تمام بلادِ اسلامیہ میں بالعموم سب ہی بٹائی اور لگان کا معاملہ کرتے تھے اور کسی کو یہ گمان تک نہ تھا کہ اس میں کسی قسم کی شرعی قباحت ہے۔ اس لیے جب ۵۰ ھ کے لگ بھگ زمانے میں یکایک یہ خبر مشہور ہوئی کہ بعض صحابی ؓ اس چیز کی ممانعت کا حکم نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں تو ہر طرف ایک کھلبلی سی مچ گئی اور لوگ مجبور ہوئے کہ صحابہ کرامؓ کے پاس جاکر تحقیق کریں کہ نبیﷺ نے فی الواقع کیا حکم دیا ہے،کن حالات میں دیا ہے ،اور کس چیز کے متعلق دیا ہے ؟اس سلسلے میں خود ان صحابیوں سے بھی پوچھ گچھ کی گئی جن سے مزارعت اور کرایہ زمین کی ممانعت کے احکام مروی ہوئے تھےاور دوسرے صحابہ سے بھی پوچھا گیا۔ ( مسئلہ ملکیت زمین،۸۱)

امام ہدیٰ حضرت علیؓ

مسلم ریاست میں اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ حکومت کے مقابلے پر کھڑا ہوجائے اور باہمی جنگ کی نوبت آجائے تو اس صورت میں مسلمان حکمران کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے اور کیا مسلمانوں کی باہمی جنگ کےبھی وہی اصول ہوںگے جو کافروں سےجنگ کے ہوتے ہیں ؟ اس سوال کے جواب میں مولانا مودودیؒ نے حضرت علیؓ کا اسوہ پیش کیا ہے اوراس معاملے میں ان کا طرزِ عمل اپنانے کی بات کی ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو تین گروہوں (جنگ صفین، جنگ جمل ،خوارج) سے خونریز لڑائیاں پیش آئیں مگر انھوں نے کسی موقع پر بھی حدود اللہ سے تجاوز نہیں کیا۔ جنگ کے دوران میں بھی ان حدود کا لحاظ رکھنا ایک امام ہدیٰ ہی کا کام ہوسکتا تھا ۔چناں چہ اپنے ساتھیوں کو ان کی طرف سے اس بات کی سخت ہدایت تھی کہ زخمی اور بھاگنے والوں کو قتل نہ کیا جائے ، شکست کھانے والوں کا مال ، مالِ غنیمت نہیں ، ان کے بیوی بچے لونڈی غلام نہیں بنائے جائیں گے تم صرف ان کا زور توڑ دو۔ جنگ ِ جمل کے موقع پر بعض لوگوں نے مطالبہ کیا کہ شکست کھانے والوں کی عورتوں کو لونڈیاں بنایا جائے اس پر حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ کون ہے جو ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کو لونڈی بنائے ۔حضرت علیؓ نے فرمایا مسلمان کے ساتھ مسلمان کی طرح جنگ کرو یہ کام حضرت علی ؓ ہی کرسکتے تھے ۔ انھی کو اس کا حوصلہ تھا کہ جب دشمن مغلوب ہوکر ان کے منہ پر تھوک دے تو وہ سینے پر سے اتر آئیں کہ اب اگر میں نے تمھیں قتل کیا تو اس میں رضائے الٰہی کے ساتھ میرا نفس بھی شامل ہو جائے گا۔ جو نفس پر اتنا قابو رکھتا ہو وہی یہ نمونہ پیش کرسکتا ہے ۔ یہ اسی طرزِ عمل کا نتیجہ تھا کہ بعد میں مسلمانوں نے آپس کی جنگوں میں وہ رویہ اختیار نہ کیا جو عیسائیوں نے آپس کی جنگوں میں اختیار کیا اور بدترین بربریت کا ثبوت دیا عیسائیوں میں پچھلی صدی کے آغاز تک یہ روش رہی کہ وہ عیسائی قیدیوں کو غلام بناتے تھے اور عورتوں کو لونڈیاں ان کے پاس کوئی نمونہ نہیں تھا مگر مسلمانوں کے پاس نمونہ حضرت علی ؓ تھے ۔ انھوں نے تیرہ سو برس پہلے یہ نمونہ پیش کردیا تھا کہ مسلمانوں کی لڑائی مسلمانوں سے پیش آئے تو حدیں اور ہیں اور کفار و مرتدین سے پیش آئے تو حدیں اور ہیں ۔ (تفہیمات ،ادارہ ترجمان القرآن ۱۹۹۰، حصہ پنجم، ص ۵۸ ، ۵۹ )
حضرت علیؓ نے جو نمونہ پیش کیا وہ اس مسئلے میں ہے کہ اگر مسلمانوں کے درمیان اختلاف واقع ہوجائے اور خانہ جنگی رونما ہوجائے تو ایک سچے مسلمان کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔ اور حضرت حسین ؓ نے اس مسئلے میں رہنمائی دی کہ اگر امت میں بگاڑ آنے لگے اور اسلامی حکومت گمراہی کے راستے پر جارہی ہو تو ایک سچے مسلمان کو کیا کرنا چاہیے۔ ( تفہیمات،حصہ پنجم ص ۵۶ )

نصابِ تعلیم اور سیرتِ صحابہؓ

مسلمان بچوں کو سیرتِ صحابہؓ سے روشناس کروانے کے لیے اور ایک انسان کا کردار کیسا ہونا چاہیے مولانانے مختلف مواقع پر سیرتِ صحابہؓ کو نصابِ تعلیم کا حصہ بنانے پر زور دیا ہے ۔ اس حوالے سے مولانا لکھتے ہیں:
اسلامی اخلاق: اس مضمون میں مجرد اخلاقی تصورات نہ پیش کیے جائیں بلکہ رسول اللہﷺ ،صحابۂ کرام ؓ اور انبیا ؑکی سیرتوں سے ایسے واقعات لے کر جمع کیے جائیں جن سے طلبہ کو معلوم ہو کہ ایک انسان کے کریکٹر کی خصوصیات کیا ہیں اور مسلمان کی زندگی کیسی ہوتی ہے؟ (تعلیمات، اسلامک پبلی کیشنز لاہور،۲۰۱۶ء ۲۵)
اسلامی تاریخ : یہ مضمون صرف سیرت رسولﷺ اور دور صحابہ ؓ تک محدود رہے۔اس کے پڑھانے کی غرض یہ ہونی چاہیے کہ طلبہ اپنے مذہب اور اپنی قومیت کی اصل سے واقف ہوجائیں اور ان کے دلوں میں اسلامی حمیت کا صحیح احساس پیدا ہو۔ (تعلیمات، ۲۵)
تاریخ کی تعلیم میں ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہائی اسکول کے طلبہ ( جن غریبوں کو آج تک تاریخ انگلستان پڑھائی جارہی ہے) نہ صرف اپنے ملک کی تاریخ پڑھیں بلکہ اس کے ساتھ اسلام کی تاریخ سے بھی واقف ہوں۔ انھیں تاریخ انبیا ؑ سے واقف ہونا چاہیے تاکہ یہ جان لیں کہ اسلام ایک ازلی و ابدی تحریک ہے ۔ساتویں صدی عیسوی میں یکایک شروع نہیں ہوئی تھی۔انھیں سیرت نبویﷺ اور سیرت خلفائے راشدین ؓ سے بھی واقف ہونا چاہیے تاکہ وہ ان مثالی شخصیتوں سے روشناس ہوجائیں جو ان کے لیے معیار انسانیت کا درجہ رکھتی ہیں ۔ (تعلیمات، ۱۴۳)
قرآن مجید ،سیرت رسول ﷺ اور صحابۂ کرام ؓ کی زندگی کا مطالعہ اسلام کو سمجھنے کے لیے ناگزیر ہے ۔ جہاں آپ نے اپنی زندگی کے ۱۲۔ ۱۵ سال دوسری چیزوں کے پڑھنے میں ضائع کیے ہیں وہاں اس سے آدھا بلکہ چوتھائی وقت ہی اس چیز کے سمجھنے میں صرف کردیجیے جس پر آپ کی ملت کی اساس قائم ہے اور جسے جانے بغیر آپ اس ملت کے کسی کام نہیں آسکتے ۔ (تعلیمات، ۴۵)

ایک شعبہ قانون کا ہونا چاہیے جس میں قرآن کے احکام ،حدیث نبوی ﷺ کی قولی و عملی تشریحات ،صحابۂ کرام ؓ اور تابعینؒ کے اجتہادات اور ائمہ مجتہدین کے طرزِ استنباط اور جزئیات میں ان تصریحات کا مفصل تحقیقی مطالعہ کیا جائے ۔ (تعلیمات، ۶۶)

ختمِ نبوت اور صحابۂ کرامؓ

ختمِ نبوت کے ثبوت اور اس کی حفاظت کے لیے جہاں قرآن و حدیث کی تعلیمات موجود ہیں وہیں اس فتنے کی سرکوبی کے لیے مولانا مودودیؒ نے صحابہ کرامؓ کے طرزِ عمل کو بھی مدِ نظر رکھا اور اس سلسلے میں اجماعِ صحابہؓ کو بطورِ حجت بھی پیش کیا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
صحابۂ کرام ؓ نے حضور اکرم ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والے کسی شخص سے بھی یہ نہیں پوچھا کہ اس کے نبی ہونے کی دلیل کیا ہے بلکہ بالاتفاق اس کو جھوٹا مدعی قرار دے کر اس سے اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کی اور ان کو وہ حقوق بھی نہیں دیے جو اسلامی قانون میں مسلح بغاوت کرنے والے مسلمانوں یا ذمیوں کو دیے جاتے ہیں ۔ پھر صحابۂ کرام ؓ کے دور سے آج تک چودہ سو برس کی مدت میں ہر زمانے کے مسلمان اس بات پر متفق رہے ہیں اور اس میں کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا ہے کہ بعثت محمدیہ علی صاحبہا السلام کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہر شخص جھوٹا ہے، کافر ہے اور اس پر ایمان لانے والا بھی کافر ہے ،حتیٰ کہ ایسے مدعی سے اس کی نبوت کی دلیل پوچھنا بھی کفر ہے ،کیونکہ دلیل پوچھنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی حضور اکرمﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ کھلا سمجھ رہا ہے اور اسے کھلا سمجھنا بجائے خود قرآن و حدیث اور اجماع کی رو سے کفر ہے ۔ (مودودی، ابوالاعلیٰ، (۱۹۷۹ء)، قادیانی مسئلہ ،اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۰ء، ص ۳۷۹ )
ساڑھے تیرہ سو سال سے تمام مسلمان بالاتفاق یہ مانتے رہے ہیں اور آج بھی یہی مانتے ہیں کہ سیدنا محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور آپؐ کے بعد اب کوئی نبی مبعوث ہونے والا نہیں ہے۔ختم نبوت کے متعلق قرآنِ مجید کی تصریح کا یہی مطلب صحابۂ کرام ؓ نے سمجھاتھا اور اسی لیے انھوں نے ہر اس شخص کے خلاف جنگ کی جس نے حضورﷺ کے بعد دعوائے نبوت کیا۔پھر یہی مطلب بعد کے ہر دور میں تمام مسلمان سمجھتے رہے۔ (قادیانی مسئلہ،ص ۲۲)
یہ تھا ختمِ نبوت اور ارتداد کے مسئلے میں صحابۂ کرام ؓ کی پوری جماعت کا متفقہ فیصلہ ۔ اسلام اور اس کے اصول و قوانین کے لیے قرآن و حدیث کے بعد اجماعِ صحابہ ؓ سے بڑھ کر کوئی سند نہیں ہے اور کم از کم کوئی معقول آدمی تو یہ بات نہیں مان سکتا کہ جن لوگوں نے نبی اکرمﷺ سے براہ راست تعلیم و تربیت پائی تھی ان کی متفقہ رائے تو اسلام کی صحیح ترجمان نہ ہو اور آج کوئی زید یا بکر جس چیز کو اپنی جگہ اسلام سمجھ بیٹھا ہو وہ اصلی اسلام ہو۔ ( قادیانی مسئلہ، ص ۲۳۱)

اتباعِ سنت اور خلفائے راشدینؓ

صحابہ کرامؓ کے حوالے سے ایک صاحب نے مولانا مودویؒ سے خط و کتابت کے دوران لکھا تھا کہ صحابہ کرامؓ قرآن پر تو سختی سے عمل پیرا تھے لیکن سنت کے باب میں وہ جسے مناسب سمجھتے بدل دیتے تھے اس پر مولانا مودودیؒ نے جوابی خط میں لکھا کہ :
آپ کا یہ خیال بھی محض ایک دعویٰ بلا ثبوت ہے کہ خلفائے راشدین قرآن مجید کے احکام کو تو قطعی واجب الاطاعت فرماتے تھے، مگر رسول اللہ ﷺکے فیصلوں میں جن کو وہ باقی رکھنا مناسب سمجھتے تھے، انہیں باقی رکھتے تھے اور جنھیں بدلنے کی ضرورت سمجھتے تھے انھیں بدل کر باہمی مشاورت سے نئے فیصلے کر لیتے تھے۔ آپ اس کی کوئی نظیر پیش فرمائیں کہ خلافتِ راشدہ کے پورے دور میں نبی ﷺکا کوئی فیصلہ بدلا گیا ہو، یا کسی خلیفہ ؓ یا صحابیؓ نے یہ خیال ظاہر کیا ہو کہ ہم حضورﷺکے فیصلے حسب ضرورت بدل لینے کے مجاز ہیں۔ (مودودی، سنت کی آئینی حیثیت، اسلامک پبلی کیشنز، لاہوردسمبر ۲۰۰۹ء، ص ۱۰۹)

خلفائے راشدین کے اتباعِ سُنّت کی وجہ

ہم عرض کرتے ہیں کہ زمانۂ گزشتہ کے کسی واقعے کے متعلق جو شہادت زیادہ سے زیادہ معتبر ہونی ممکن ہے،اتنی ہی معتبر شہادت اس امر کی موجود ہے کہ چاروں خلفائے راشدینؓ سختی کے ساتھ سُنّت رسول ﷺکی پابندی کرتے تھے، اور اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کے زمانے کے حالات حضورﷺکے زمانے کے حالات سے مشابہ تھے، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن کے بعد ان کے نزدیک اِسلامی قانون کا آئینی مرجع سُنّت تھی جس سے تجاوز کرنے کا وہ اپنے آپ کو قطعاً مجازنہ سمجھتے تھے۔ اس باب میں ان کے اپنے صریح اقوال ہم اسی کتاب کے صفحات پر(بہ عنوان:اتباع سنت اورخلفائے راشدین) نقل کر چکے ہیں۔ نیز اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ دوسری صدی ہجری سے اس چودہویں صدی تک ہر صدی کا فقہی لٹریچر علی التواتر خلفائے راشدینؓ کا یہی مسلک بیان کر رہا ہے۔موجودہ زمانے میں بعض لوگ ان کے سُنّت سے تجاوز کی جو نظیریں پیش کر رہے ہیں ان میں سے ایک بھی فی الحقیقت اس بات کی نظیر نہیں ہے کہ کسی خلیفۂ راشد نےکبھی عملاً سُنّت سے تجاوز کیا ہے، یا اصولاً اپنے آپ کو ایسے تجاوز کا مجاز سمجھا ہے۔ ان میں سے بعض نظائر کی حقیقت بھی ہم اسی کتاب کے صفحات پر ظاہر کر چکے ہیں۔ (مودودی، ابوالاعلیٰ(م:۱۹۷۹ء)،سنت کی آئینی حیثیت، ص ۲۸۹)

باب سوم:صحابۂ کرام ؓ پر اعتراضات کا دفاع

اللہ کی سند خوشنودی عطا ہو جانے کے بعد اگر کوئی شخص ان سے ناراض ہو، یا ان پر زبان طعن دراز کرے تو اس کا معارضہ ان سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے۔

(سورہ الفتح حاشیہ ۳۲)

نبی کریمﷺ کے اہلِ بیت کون؟

سورہ الاحزاب کی آیت ۳۳ جس میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اہل بیت نبی (ﷺ) سے گندگی کو دور کرے اور تمھیں پوری طرح پاک کر دے ۔ تو اس آیت میں اہلِ بیت نبیﷺ سے کون مراد ہے؟ اس حوالے سے ایک گروہ نےانتہائی محدود نقطۂ نظر اختیار کیا اور صرف محمدﷺ،حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ اور حضرات حسنؓ اور حسینؓ کو اس میں شامل کیا ہے اور ازواجِ نبیﷺ کو اہلِ بیت نبیﷺ سے خارج کردیا ہے اور اس میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ اور ان کی اولاد کو معصومیت کا درجہ بھی دے دیا۔ اس نقطہ نظر پر مولانا نے اسی آیت کی تشریح میں رد کیا ہے اور ازواجِ مطہرات ؓ کا دفاع کرتے ہوئے مختلف دلائل کی روشنی میں انھیں بھی اہلِ بیت نبیﷺ میں شامل قرار دیا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
جس سیاق و سباق میں یہ آیت وارد ہوئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں اہل البیت سے مراد نبیﷺ کی بیویاں ہیں۔ کیونکہ خطاب کا آغاز ہی یَا نِساءالنبی کے الفاظ سے کیا گیا ہے اور ما قبل و ما بعد کی پوری تقریر میں وہی مخاطب ہیں۔ علاوہ بریں ’’ اہل البیت‘‘ کا لفظ عربی زبان میں ٹھیک انھی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں ہم ’’ گھر والوں ‘‘ کا لفظ بولتے ہیں ، اور اس کے مفہوم میں آدمی کی بیوی اور اس کے بچے ، دونوں شامل ہوتے ہیں۔ بیوی کو مستثنٰی کر کے ’’ اہل خانہ‘‘ کا لفظ کوئی نہیں بولتا۔ خود قرآن مجید میں بھی اس مقام کے سوا دو مزید مقامات پر یہ لفظ آیا ہے اور دونوں جگہ اس کے مفہوم میں بیوی شامل ، بلکہ مقدم ہے۔ سورۂ ہود میں جب فرشتے حضرت ابراہیمؑ کو بیٹے کی پیدائش کی بشارت دیتے ہیں تو ان کی اہلیہ اسے سُن کر تعجب کا اظہار کرتی ہیں کہ بھلا اس بڑھاپے میں ہمارے ہاں بچہ کیسے ہو گا۔ اس پر فرشتے کہتے ہیں: اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِاللّٰه رِحْمَة اللّٰه وَبَرَکَاتُه عَلَیْكمْ اَهلَ الْبَیْتِ۔ کیا تم اللہ کے امر پر تعجب کرتی ہو؟اِس گھر کے لوگو، تم پر تو اللہ کی رحمت ہے اور اس کی برکتیں ہیں۔سُورۂ قصص میں جب حضرت موسیٰ ایک شیر خوار بچے کی حیثیت سے فرعون کے گھر میں پہنچتے ہیں اور فرعون کی بیوی کو کسی ایسی انّا کی تلاش ہوتی ہے جس کا دودھ بچہ پی لے تو حضرت موسیٰ ؑ کی بہن جا کر کہتی ہیں هلْ اَدُلُّکُمْ عَلیٓ ٰاَهلِ بَیْتٍ یَّکْفُلُوْنَه لَكمْ۔ کیا میں تمھیں ایسے گھر والوں کاپتا دوں جو تمھارے لیے اس بچے کی پرورش کا ذمّہ لیں ؟ پس محاورہ، اور قرآن کے استعمالات، اور خود اس آیت کا سیاق و سباق ، ہر چیز اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہے کہ نبیﷺکے اہلِ بیت میں آپ کی ازواج مطہرات بھی داخل ہیں اور آپ کی اولاد بھی۔ بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آیت کا اصل خطاب ازواج سے ہے اور اولاد مفہوم لفظ سے اس میں شامل قرار پاتی ہے۔ اسی بنا پر ابن عباس اور عُروہ بن زبیر اور عکْرمہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں اہل البیت سے مراد ازواج النبیﷺ ہیں۔
لیکن اگر کوئی کہے کہ ’’ اہل البیت ‘‘ کا لفظ صرف ازواج کے لیے استعمال ہوا ہے اور اس میں دوسرا کوئی داخل نہیں ہو سکتا، تو یہ بات بھی غلط ہو گی۔ صرف یہی نہیں کہ ’’گھر والوں ‘‘ کے لفظ میں آدمی کے سب اہل و عیال شامل ہوتے ہیں ، بلکہ نبی ﷺ نے خود تصریح فرمائی ہے کہ وہ بھی شامل ہیں۔ ابن ابی حاتم کی روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ سے ایک مرتبہ حضرت علیؓ کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: تساءلنی عن رجل کان من احبّ الناس الی رسول الله صلی الله علیه وسلم وکانت تحته ابنته واحبّ الناس الیه۔ تم اس شخص کے متعلق پوچھتے ہو جو رسول اللہ ﷺ کے محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اور جس کی بیوی حضورﷺکی وہ بیٹی تھی جو آپؐ کو سب سے بڑھ کر محبوب تھی۔ اس کے بعد حضرت عائشہؓ نے یہ واقعہ سُنایا کہ حضورؐ نے حضرت علیؓ اور فاطمہؓ اور حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور ان پر ایک کپڑا ڈال دیا اور دعا فرمائی: اللهمّ هؤلاء اهلُ بیتی فاَذْهِبْ عنهُم الرّجس و طهّرهم تطهیراً۔خدایا یہ میرے اہل بیت ہیں ، ان سے گندگی کو دور کر دے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا، میں بھی تو آپ کے اہل بیت میں سے ہوں (یعنی مجھے بھی اس کپڑے میں داخل کر کے میرے حق میں دعا فرمائیں ) حضورﷺ نے فرمایا: تم الگ رہو، تم تو ہو ہی۔اس سے ملتے جلتے مضمون کی بکثرت احادیث مسلم ، ترمذی، احمد،ابن جَریر، حاکم، بیہقی وغیرہ محدّثین نے ابو سعید خُدریؓ ، حضرت اَنَس ؓ، حضرت اُمِّ سلمہؓ، حضرت واثِلہ بن اَسْقَع اور بعض دوسرے صحابہؓ سے نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کے دونوں صاحبزادوں کو اپنا اہل البیت قرار دیا۔ لہٰذا اُن لوگوں کا خیال غلط ہے جو ان حضرات کو اس سے خارج ٹھہراتے ہیں۔
اِسی طرح ا ن لو گوں کی رائے بھی غلط ہے جو مذکورۂ بالا احادیث کی بنیاد پر ازواج مطہرات ؓکو اہل البیت سے خارج ٹھیراتے ہیں۔ اول تو جو چیز صراحتاً قرآن سے ثابت ہو اس کو کسی حدیث کے بل پر رد نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے خود ان احادیث کا مطلب بھی وہ نہیں ہے جو ان سے نکالا جا رہا ہے۔ ان میں سے بعض روایات میں جو یہ بات آئی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ا مّ سلمہ ؓ کو نبیﷺ نے اُس چادر کے نیچے نہیں لیا جس میں حضورﷺ نے ان چاروں اصحابؓ کو لیا تھا ‘ اُس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضورﷺنے ان کو اپنے ’’گھر والوں ‘‘ سے خارج قرار دیا تھا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیویاں تو اہل بیت میں شامل تھیں ہی ‘ کیونکہ قرآن نے انھی کو مخاطب کیا تھا ‘ لیکن حضورﷺ کو اندیشہ ہوا کہ ان دوسرے اصحاب کے متعلق ظاہر قرآن کے لحاظ سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو جائے کہ یہ اہل بیت سے خارج ہیں ، اس لیے آپؐ نے تصریح کی ضرورت ان کے حق میں محسوس فرمائی نہ کہ ازواجِ مطہرات کے حق میں۔
ایک گروہ نے اس آیت کی تفسیر میں صرف اتنا ہی ستم نہیں کیا ہے کہ ازواج مطہراتؓ کو اہل البیت سے خارج کر کے صرف حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کی اولاد کے لیے اس لفظ کو خاص کر دیا، بلکہ اس پر مزید ستم یہ بھی کیا ہے کہ اس کے الفاظ: اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور کرے اور تمھیں پوری طرح پاک کر دے، سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کی اولاد انبیاء علیہم السلام کی طرح معصوم ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ’’گندگی‘‘ سے مراد خطا اور گناہ ہے اور ارشادِ اِلٰہی کی رو سے یہ اہل البیت اس سے پاک کر دیے گئے ہیں۔ حالانکہ آیت کے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ تم سے گندگی دور کر دی گئی اور تم بالکل پاک کر دیے گئے۔ بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تم سے گندگی کو دور کرنا اور تمھیں پاک کر دینا چاہتا ہے۔ سیاق و سباق بھی یہ نہیں بتاتا کہ یہاں مناقبِ اہل بیت بیان کرنے مقصود ہیں ، بلکہ یہاں تو اہل بیت کو نصیحت کی گئی ہے کہ تم فلاں کام کرو اور فلاں کام نہ کرو، اس لیے کہ اللہ تمھیں پاک کرنا چاہتا ہے۔ بالفاظِ دیگر مطلب یہ ہے کہ تم فلاں رویہ اختیار کرو گے تو پاکیزگی کی نعمت تمھیں نصیب ہو گی ورنہ نہیں۔ تاہم اگر یُرِیْدُ اللّٰه ُ لِیُذْ هبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ ….وَیُطَهرَکُمْ تَطْهیْراً کا مطلب یہ لیا جائے کہ اللہ نے ان کو معصوم کر دیا تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وضو اور غسل اور تیمم کرنے والے سب مسلمانوں کو معصوم نہ مان لیا جائے کیوں کہ ان کی متعلق بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهرَ کُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَه عَلَیْکُمْ: مگر اللہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دے ۔ (المائدہ۔آیت ۶) (تفہیم القرآن ،الاحزاب،حاشیہ ۵۰ ، ۴/۹۲،۹۴)

حضرتِ عائشہؓ کا دفاع

سورہ الاحزاب کی آیت ۶ میں اللہ تعالی نے ازواجِ نبی ﷺ کو مؤمنین کی ماؤں کا درجہ دیا ہے۔ لیکن جس گروہ کے نزدیک مرکزِ دین حضرت علی ؓ ، حضرت فاطمہؓ اور ان کی اولاد ہے ان کے لیے مذکورہ آیت ایک طرح سے رکاوٹ بن گئی جس بنا پر انھوں نے اس آیت کی تاویل میں عجیب و غریب دعو یٰ کیا اور حضرت عائشہؓ کو طلاق ہو جانے کی بات کی جس پر مولانا مودودیؒ نے حضرت عائشہ ؓ کا دفاع کیا اور اس عجیب و غریب دعوے پر رد کیا ۔ مولانا لکھتے ہیں:
یہ امر بھی قابِلِ ذکر ہے کہ قرآن مجید کی رُو سے یہ مرتبہ (امت کی مائیں ہونے کا) تمام ازواجِ نبی ﷺکو حاصل ہے جن میں لا محالہ حضرت عائشہ ؓبھی شامل ہیں۔لیکن ایک گروہ نے جب حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما اور اُن کی اولاد کو مرکزِ دین بنا کر سارا نظامِ دین انھی کے گرد گھما دیا اور اس بنا پر دوسرے بہت سے صحابہؓ کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ کو بھی ہدفِ لعن و طعن بنایا تو ان کی راہ میں قرآن مجید کی یہ آیت حائل ہو گئی جس کی رُو سے ہر اُس شخص کو انھیں اپنی ماں تسلیم کرنا پڑتا ہے جو ایمان کا مدعی ہو۔ آخر کار اس مشکل کو رفع کرنے کے لیے یہ عجیب و غریب دعویٰ کیا گیا کہ حضور نبی کریم ﷺنے حضرت علیؓ کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرّاتؓ میں سے جس کو چاہیں آپ کی زوجیّت پر باقی رکھیں اور جسے چاہیں آپ کی طرف سے طلاق دے دیں۔ابو منصُور احمد بن ابو طالب طبرسی نے کتاب الاحتجاج میں یہ بات لکھی ہے اور سلیمان بن عبد اللہ البحرانی نے اسے نقل کیا ہے کہ حضورﷺنے حضرت علیؓ سے فرمایا :
یا ابا الحَسَنَ انّ هذا الشرف باقٍ ما دُمنا علیٰ طاعة الله تعالیٰ فا یّتهن عصت الله تعالیٰ بعدی بالخروج علیك فطلّقهامن الازواج واسقطها من شرف امّهات المؤمنین
اے ابوالحسن ! یہ شرف تو اسی وقت تک باقی ہے جب تک ہم لوگ اللہ کی اطاعت پر قائم رہیں۔لہٰذا میری بیویوں میں سے جو بھی میرے بعد تیرے خلاف خروج کر کے اللہ کی نافرمانی کرے اسے تُو طلاق دے دیجیو اور اس کو اُمّہات المؤمنین کے شرف سے ساقط کر دیجیو۔
اصول روایت کے اعتبار سے تو یہ روایت سر اسر بے اصل ہے ہی لیکن اگر آدمی اسی سُورۂ احزاب کی آیات ۲۸۔ ۲۹ اور ۵۱۔۵۲ پر غور کرے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ روایت قرآن کے بھی خلاف پڑتی ہے۔ کیوں کہ آیت تخییر کے بعد جن ازواجِ مطہراتؓ نے ہر حال میں رسولﷺہی کی رفاقت کو اپنے لیے پسند کیا تھا انھیں طلاق دینے کا اختیار حضورﷺ کو باقی نہ رہا تھا۔ اس مضمون کی تشریح آگے حاشیہ نمبر۴۲ و ۹۳ میں ہم نے کر دی ہے۔علاوہ بریں ایک غیر متعصّب آدمی اگر محض عقل ہی سے کام لے کر اس روایت کے مضمون پر غور کرے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ انتہائی لغو ، اور رسولِ پاکﷺ کے حق میں سخت توہین آمیز افترا ہے۔ رسول کا مقام تو بہت بالا تر و بر تر ہے ، ایک معمولی شریف آدمی سے بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنی وفات کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دینے کی فکر کرے گا اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے داماد کو یہ اختیار دے جائے گا کہ اگر کبھی تیرا اس کے ساتھ جھگڑا ہو تو میری طرف سے تُو اُسے طلاق دے دیجیو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اہل البیت کی محبت کے مدّعی ہیں ان کے دلوں میں صاحب البیت کی عزّت و ناموس کا پاس کتنا کچھ ہے ، اور اس سے بھی گزر کر خود اللہ تعالیٰ کے ارشادات کا وہ کتنا احترام کرتے ہیں۔ (تفہیم القرآن ،الاحزاب، حاشیہ ۱۳، ۴/ ۷۲)

بناتِ رسول ﷺ

اسی طرح حضرت فاطمہؓ کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے کچھ لوگ نبی کریم ﷺ کی دیگر بیٹیوں کا انکار کردیتے ہیں ۔ اس غلط نقطہ نظر کی بھی مولانا مودودیؒ نے تردید کی اور اس حوالے سے سورہ الاحزاب کی آیت ۵۹ کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
ضمناً ایک اور مضمون جو اس آیت سے نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ اس سے نبی ﷺکی کئی بیٹیاں ثابت ہوتی ہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے: اے نبی، اپنی بیویوں اور بیٹیوں سے کہو۔یہ الفاظ اُن لوگوں کے قول کی قطعی تردید کر دیتے ہیں جو خدا سے بے خوف ہو کر بے تکلّف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کی صرف ایک صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓتھیں اور باقی صاحبزادیاں حضورﷺکی اپنی صُلبی بیٹیاں نہ تھیں بلکہ گیَلڑ(سوتیلی)تھیں۔ یہ لو گ تعصب میں اندھے ہو کر یہ بھی نہیں سوچتے کہ اولادِ رسولﷺ کے نسب سے انکار کر کے کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور اِس کی کیسی سخت جواب دہی انھیں آخرت میں کرنی ہو گی۔ تمام معتبر روایات اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت خَدیِجہ ؓ کے بطن سے حضورﷺکی صرف ایک بیٹی حضرت فاطمہؓ ہی نہ تھیں بلکہ تین اور بیٹیاں بھی تھیں۔ حضورﷺ کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق حضرت خدیجہؓ سے حضورﷺ کے نکاح کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں : ابراہیم کے سوا نبی ﷺکی تمام اولاد انھی کے بطن سے پیدا ہوئی اور ان کے نام یہ ہیں۔ قاسم، اور طاہرو طیب، اور زینب، اور رُقیَّہ، اورامّ کلثوم اور فاطمہ۔ (سیرت ابن ہشام، جلد اول۔ ص ۳۰۲)
مشہور ماہر علم انساب ہشام بن محمد بن السّائب کلبی کا بیان ہے کہ مکہ میں نبوت سے قبل نبیﷺکے ہاں سب سے پہلے قاسم پیدا ہوئے ، پھر زینبؓ، پھر رقیہؓ، پھر اُمِ کلثومؓ (طبقات ابن سعد ، جلد اول ، ص ۱۳۳)۔ ابنِ حزم نے جو امع السیرۃ میں لکھا ہے کہ حضرت خدیجہؓ کے بطن سے حضورﷺ کی چار لڑکیاں تھیں ، سب سے بڑی حضرت زینبؓ ان سے چھوٹی رقیّہ ؓ ، ان سے چھوٹی فاطمہؓ، اور ان سے چھوٹی ام کلثوم (ص۳۸۔۳۹) طَبَری، ابن سعد ، ابو جعفر محمد بن حبیب صاحب کتاب المجرَّ اور ابن عبدالبَرصاحب کتاب الاستیعاب، مستند حوالوں سے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺسے پہلے حضرت خدیجہؓ کے دو شوہر گزر چکے تھے۔ ایک ابو ھالہ تمیمی جس سے ان کے ہاں ہند بن ابو ہالہ پیدا ہوئے۔ دوسرے عیق بن عائذ مخزومی جس سے ان کے ہاں ایک لڑکی ہند نامی پیدا ہوئی۔ اس کے بعد ان کا نکاح حضورﷺ سے ہوا اور تمام علمائے انساب متفق ہیں کہ آپؐ کی صلب سے ان کے ہاں وہ چاروں صاحبزادیاں پیدا ہوئیں جن کے نام اوپر مذکور ہوئے ہیں (ملاحظہ ہو طبری، جلد ۲، ص۴۱۱۔ طبقات ابنِ سعد ، جلد ۸، ص ۴۱ تا ۱۶۔ کتاب المجرَّ ص ۷۸، ۷۹، ۴۵۲۔ الاستیعاب جلد ۲ ، ص۷۱۸)اِن تمام بیانات کو قرآن مجید کی یہ تصریح قطعی الثبوت بنا کر دیتی ہے کہ حضورﷺکی ایک ہی صاحبزادی نہ تھی بلکہ کئی صاحبزادیاں تھیں۔ (تفہیم القرآن ،الاحزاب،حاشیہ ۱۱۰، ۴/ ۱۳۰)

حضرت حسان بن ثابت ؓ اور حضرت علیؓ کا دفاع

غزوہ بنو المصطلق سے واپسی ام المؤمنین حضرت عائشہؓ پر منافقین کی طرف سے جھوٹا الزام لگایا گیا جس سے کچھ سادہ لوح مسلمان بھی متاثر ہوئے اور بعد میں جس کی براءت خود اللہ تعالیٰ نے سورہ النور کے دوسرے رکوع میں بیان کی ہے ۔ آیت کے الفاظ ہیں: جو لوگ یہ بہتان گھڑ لائے ہیں وہ تمھارے ہی اندر کا ایک ٹولہ ہیں۔ اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو بلکہ یہ بھی تمھارے لیے خیر ہی ہے۔ جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا، اور جس شخص نے اس کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا اس کے لیے عذاب عظیم ہے۔ (النور۲۴: ۱۱) اس آیت کے جو آخری الفاظ ہیں:جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا، اور جس شخص نے اس کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا، اس آیت میں کس شخص کا ذکر کیا گیا ہے جو اس فتنے کا بانی تھا؟کچھ روایات میں حضرت حسان بن ثابتؓ اور کچھ میں حضرت علیؓ کو اس کا مصداق ٹھیرایا گیا ہے۔ لیکن مولانا مودودیؒ نےان دونوں صحابہؓ کو اس آیت کا مصداق ٹھیرایا غلطی قرار دیا ہے ۔ اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو اس آیت کا مصداق قرار دیا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
عبد اللہ بن ابی اس الزام کا اصل مصنف اور فتنے کا اصل بانی تھا۔ بعض روایات میں غلطی سے حضرت حسان بن ثابتؓ کو اس آیت کا مصداق بتایا گیا ہے ، مگر یہ راویوں کی اپنی ہی غلط فہمی ہے ورنہ حضرت حسان ؓکی کمزوری اس سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ وہ منافقوں کے پھیلائے ہوئےاس فتنے میں مبتلا ہو گئے۔ حافظ ابن کثیرؒ نے صحیح کہا ہے کہ اگر یہ روایت بخاری میں نہ ہوتی تو قابل ذکر تک نہ تھی۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا جھوٹ ، بلکہ بہتان یہ ہے کہ بنی امیہ نے حضرت علیؓ کو اس آیت کا مصداق قرار دیا۔ بخاری، طبرانی، اور بیہقی میں ہشام بن عبدالملک اُمَوی کا یہ قول ،منقول ہے کہ : الذی تو لی کبرہٗ کے مصداق علی بن ابی طالب ہیں۔ حالانکہ حضرت علیؓ کا سرے سے اس فتنے میں کوئی حصہ ہی نہ تھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ انھوں نے جب نبیﷺ کو بہت پریشان دیکھا تو حضورﷺ کے مشورہ لینے پر عرض کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں آپ پر کوئی تنگی تو نہیں رکھی ہے۔ عورتیں بہت ہیں۔ آپ چاہیں تو عائشہ کو طلاق دے کر دوسرا نکاح کر سکتے ہیں۔ اس کے یہ معنی ہر گز نہ تھے کہ حضرت علیؓ نے اس الزام کی تصدیق فرمائی تھی جو حضرت عائشہؓ پر لگایا جا رہا تھا۔ ان کا مقصد صرف آنحضرتﷺکی پریشانی کو رفع کرنا تھا۔ (تفہیم القرآن ،النور، حاشیہ ۱۱، ۳/ ۳۶۷)

وعدہ مغفرت اور صحابہ کرامؓ

سورہ الفتح کی آخری آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام ؓ سے مغفرت کا وعدہ فرمایا ہے ۔ لیکن بعض لوگ اس آیت کو صحابہ کرامؓ پر طعن کا ذریعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور صحابہ کرامؓ کی اکثریت کو غیر مومن اور غیر صالح قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس نقطہ نظر پر بھی مولانا مودودی ؒ نے تنقید کی ہے اور صحابہ کرام ؓ کا دفاع کیا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
ایک گروہ اس آیت میں مِنْھُمْ کی مِنْ کو تبعیض کے معنی میں لیتا ہے اور آیت کا ترجمہ یہ کرتا ہے کہ ان میں سےجو لوگ ایمان لائےاور جنھوں نے نیک عمل کیے اللہ نے ان سےمغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس طرح یہ لوگ صحابہؓ پر طعن کا راستہ نکالتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اس آیت کی رو سےصحابہ ؓمیں سے بہت سے لوگ مومن و صالح نہ تھے ۔ لیکن یہ تفسیر اسی سورۃ کی آیات ۴۔۵۔۱۸ اور۲۶ کے خلاف پڑتی ہے، اور خود اس آیت کے ابتدائی فقروں سے بھی مطابقت نہیں رکھتی ۔ آیات ۴۔۵ میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام صحابہ ؓکے دلوں میں سکینت نازل کیے جانے اور ان کے ایمان میں اضافہ ہونے کا ذکر فرمایا ہے جو حدیبیہ میں حضور کے ساتھ تھے، اور بلا استثنا ان سب کو جنت میں داخل ہونے کی بشارت دی ہے۔ آیت ۱۸میں اللہ تعالیٰ نے ان سب لوگوں کے حق میں اپنی خوشنودی کا اظہار فرمایا ہے جنھوں نے درخت کے نیچے حضورﷺ سے بیعت کی تھی، اور اس میں بھی کوئی استثنا نہیں ہے۔ آیت ۲۶ میں بھی حضورﷺکے تمام ساتھیوں کے لیے مومنین کا لفظ استعمال کیا ہے، ان کے اوپر اپنی سکینت نازل کرنے کی خبر دی ہے، اور فرمایا ہے کہ یہ لوگ کلمہ تقویٰ کی پابندی کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل ہیں۔ یہاں بھی یہ نہیں فرمایا کہ ان میں سے جو مومن ہیں صرف ان ہی کے حق میں یہ خبر دی جا رہی ہے۔ پھر خود اس آیت کے بھی ابتدائی فقروں میں جو تعریف بیان کی گی ہے وہ ان سب لوگوں کے لیے ہے جو محمد رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے۔ الفاظ یہ ہیں کہ جو لوگ بھی آپ کے ساتھ ہیں وہ ایسے اور ایسے ہیں۔ اس کے بعد یکایک آخری فقرے پر پہنچ کر یہ ارشاد فرمانے کا آخر کیا موقع ہو سکتا تھا کہ ان میں سےکچھ لوگ مومن و صالح تھے اور کچھ نہ تھے۔ اس لیے یہاں منْ کو تبعیض کے معنی میں لینا نظم کلام کے خلاف ہے۔ در حقیقت یہاں مِنْ بیان کےلیےہےجس طرح آیت فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاوثَانِ (بتوں کی گندگی سےبچو) میں مِنْ تبعیض کے لیے نہیں بلکہ لازماً بیان ہی کے لیے ہے، ورنہ آیت کے معنی یہ ہو جائیں گے کہ: بتوں میں سےجونا پاک ہیں ان سے پرہیز کرو، اور اس سےنتیجہ یہ نکلے گا کہ کچھ بت پاک بھی قرار پائیں گے جن کی پرستش سےپرہیز لازم نہ ہو گا۔ ( تفہیم القرآن ،الفتح،حاشیہ ۵۷، ۵/ ۶۵)

صحابہ کرامؓ کا دورانِ خطبہ تجارت کے لیے جانا

اسی طرح سورہ الجمعہ کی آیت گیارہ میں اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے جب رسول اللہﷺنماز جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اور صحابہ کرامؓ اس دوران ایک تجارتی قافلہ آنے کی وجہ سے دوران خطبہ اٹھ کر چلے گئے ۔ اس واقعے کو بھی ایک گروہ نے صحابہ کرامؓ پر طعن کا ذریعہ بنایا ہے اور کہا کہ وہ لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے والے لوگ تھے۔ اس طعن پر بھی مولانا مودودیؒ نے صحابہ کرامؓ کا دفاع کرتے ہوئے لکھا:
شیعہ حضرات نے اس واقعے کو بھی صحابہؓ پر طعن کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صحابہؓ کی اتنی بڑی تعداد کا خطبے اور نماز کو چھوڑ کر تجارت اور کھیل تماشے کی طرف دوڑ جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے تھے۔ لیکن یہ ایک سخت بے جا اعتراض ہے جو صرف حقائق سے آنکھیں بند کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔ در اصل یہ واقعہ ہجرت کے بعد قریبی زمانے ہی میں پیش آیا تھا۔ اس وقت ایک طرف تو صحابہ ؓکی اجتماعی تربیت ابتدائی مراحل میں تھی۔ اور دوسری طرف کفار مکہ نے اپنے اثر سے مدینہ طیبہ کے باشندوں کی سخت معاشی ناکہ بندی کر رکھی تھی جس کی وجہ سے مدینے میں اشیائےضرورت کمیاب ہو گئی تھیں۔ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ اس وقت مدینے میں لوگ بھوکوں مر رہے تھے اور قیمتیں بہت چڑھی ہوئی تھیں (ابن جریر ) اس حالت میں جب ایک تجارتی قافلہ آیا تو لوگ اس اندیشے سے کہ کہیں ہمارے نماز سے فارغ ہوتے ہوتے سامان فروخت نہ ہو جائے، گھبرا کر اس کی طرف دوڑ گئے۔ یہ ایک ایسی کمزوری اور غلطی تھی جو اس وقت اچانک تربیت کی کمی اور حالات کی سختی کے باعث رو نما ہو گئی تھی۔ لیکن جو شخص بھی ان صحابہ ؓکی وہ قربانیاں دیکھے گا جواس کے بعد انھوں نے اسلام کے لیے دیں اور یہ دیکھے گا کہ عبادات اور معاملات میں ان کی زندگیاں کیسے زبردست تقوےکی شہادت دیتی ہیں، وہ ہر گز یہ الزام رکھنے کی جرأت نہ کر سکے گا کہ ان کے اندر دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کا کوئی مرض پایا جاتا تھا، الّا یہ کہ اس کے اپنے دل میں صحابہ سے بغض کا مرض پایا جاتا ہو۔ (تفہیم القرآن ،الجمعہ،حاشیہ ۱۹، ۵/ ۵۰۳)

حضرت علیؓ کی امیدواری خلافت

سوال: جماعت اسلامی کے ارکان بالعموم موجودہ زمانے کے جمہوری طریقوں پر جو تنقیدیں کرتے ہیں ان میں منجملہ اور باتوں کے ایک بات یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ جو شخص خود کسی منصب یا عہدے کا امیدوار ہو یا اس کا دعویدار بنے، اسلام کی رو سے وہ اس کا مستحق نہیں ہے کہ اسے منتخب کیا جائے۔ اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت علیؓ جو خلافت کے امیدوار یا دعویدار تھے اس کے متعلق کیا کہا جائے گا؟
جواب: حضرت علیؓ کی امیدواری و دعویداری کا قصہ دراصل ایک بڑے قصے کا جز ہے جس کی بنا بعض مخصوص روایات پر قائم ہے۔ اس جز کو کل سے الگ کرکے تنہا اسی پر بحث کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔ اگر آپ اس جز کو مانتے ہیں تو اس پورے قصے کو ماننا پڑے گا جس کا جز و یہ ہے اور پھر اس پر بحث کرنی ہوگی۔
اس قصے کی روایات بہت مشہور ہیں۔ یعقوبی نے اپنی تاریخ میں سقیفہ بنی ساعدہ کے بعد کے واقعات کا جو نقشہ پیش کیا ہے، اور ابن قتیبہ نے اپنی الامامۃ والسیاسۃ میں جو نقشہ کھینچا ہے، اور ایسے ہی دوسرے لوگ جو روایات اس سلسلے میں بیان کرتے ہیں وہ سب آپ کے سامنے موجود ہیں۔ اگر آپ اس تاریخ کو باور کرتے ہیں تو پھر آپ کو محمدﷺ مبلغ قرآن، داعی اسلام، مزکیٔ نفوس کی شخصیت پر اور ان کی تعلیم و تربیت کے تمام اثرات پر خط نسخ کھینچ دینا پڑے گا اور یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اس پاکیزہ ترین انسان کی ۲۳ سالہ تبلیغ و ہدایت سے جو جماعت تیار ہوئی تھی اور اس کی قیادت میں جس جماعت نے بدر و احد اور احزاب و حنین کے معرکے سر کرکے اسلام کا جھنڈا دنیا میں بلند کیا تھا، اس کے اخلاق، اس کے خیالات ، اس کے مقاصد، اس کے ارادے، اس کی خواہشات ، اور اس کے طور طریق عام دنیا پرستوں سے ذرہ برابر بھی مختلف نہ تھے۔
اس تاریخ میں ہمارے سامنے کچھ اس طرح کا نقشہ آتا ہے کہ ایک حوصلہ مند شخص نے کئی سال کی جانفشانی سے،لڑ بھڑ کر ایک ملک فتح کیا تھا اور اپنے زور بازو سے ایک سلطنت قائم کرلی تھی۔ پھر قضائے الہٰی سے اس نے وفات پائی۔ اس کی آنکھ بند ہوتے ہی اس کے رفیقوں اور ساتھیوں نے، جو سب کے سب اسی کے بنائے ہوئے آدمی تھے، اور جن پر وہ تمام عمر اعتماد کرتا رہا، یکایک آنکھیں پھیر لیں۔ابھی اس کے گھر والے اس کی تجہیزو تکفین ہی میں مشغول تھے کہ اس کے ساتھیوں کو یہ فکر پڑ گئی کہ کس طرح تخت شاہی پر قبضہ کرلیں۔ چنانچہ وہ جمع ہوئے اور پہلے آپس میں جھگڑا کرتے رہے۔ ہر ایک چاہتا تھا کہ یہ لقمہ تر میرے منہ میں آئے۔ آخر بڑی ردو کد کے بعد انھوں نے اپنے میں سے ایک کو بادشاہی کے لیے منتخب کرلیا۔ یہ کارروائی جب مکمل ہوگئی تو بانی سلطنت کے خاندان والوں کو اس کی خبر پہنچی اور ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے مرحوم کا بیٹاتو تھا نہیں، ایک داماد تھا۔ وہ بپھر گیا کہ میرے ہوتے اور کون وارث تاج وتخت ہوسکتا ہے، بیٹی بھی پیچ وتاب کھانے لگی کہ جو سلطنت اسی کے باپ نے برسوں کی جانفشانی سے قائم کی تھی اس پر دوسروں کو قبضہ کرلینے کا کیا حق ہے۔پہلے تو خاندان والے آپس میں سرجوڑ کرمشورے کرتے رہے۔ پھر انھوں نے مرحوم بادشاہ کے پرانے ساتھیوں کو اس کے احسانات یاد دلا دلا کر اپیل کرنے شروع کیے، اور پبلک میں اپنے حق کا مطالبہ کیا۔ مرحوم کا داماد اس کی بیٹی کو دارالسلطنت کے محلوں میں لیے پھرتا رہا اور ایک ایک با اثر قبیلے میں اسے لے گیا تاکہ شاید اس کی فریاد سے لوگوں کے دل پگھل جائیں۔ مرحوم بادشاہ کی قبر کو بھی خطاب کر کرکے دہائیاں دیں کہ شاید یہی اپیل کار گر ہوجائے۔ مگر کسی نے سن کر نہ دی۔ آخر بیچارہ تھک ہار کر بیٹھ رہا، اور جب مرحوم کی بیٹی بھی، جو اس کے دعوے کی اصل بنیاد تھی، دنیا سے رخصت ہوگئی،تو اس غریب نے جا کر بادل ناخواستہ غاصب تخت کی اطاعت قبول کرلی۔ مگر دل میں وہ برابر پیچ و تاب کھاتا رہا اور وقتاً فوقتاً اپنے اس پیچ وتاب کا اظہار بھی کسی نہ کسی طرح کرتا رہا۔
کیا واقعی یہی تصویر ہے محمدﷺ اور ان کے اہل بیتؓ اور ان کے اصحاب کبارؓ کی؟ کیا اللہ کے رسولﷺ کی یہی پوزیشن تھی کہ وہ دنیا کے عام بانیان سلطنت کی طرح ایک سلطنت کا بانی تھا؟کیا پیغمبر خدا کی۲۳ سالہ تعلیم، صحبت اور تربیت سے یہی اخلاق، یہی سیرتیں اور یہی کردار تیار ہوئے تھے؟آخر اس نقشے کو کیا مناسبت ہے قرآن اور اس کی پاکیزہ تعلیمات سے؟ محمدﷺ کی زندگی سے اور آپ کی ان بلند ترین اخلاقی ہدایات سے جو ذخیرہ حدیث میں بھری پڑی ہیں؟ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے ان سوانح حیات سے جن میں (اس ایک قصے کے سوا) دنیا طلبی کا کوئی شائبہ تک نظر نہیں آتا؟ ابو بکرؓ و عمرؓ کی ان زندگیوں سے جن کا کوئی رنگ بھی دنیا کے بھوکے لوگوں کے رنگ ڈھنگ سے نہیں ملتا؟اور صحابۂ کرامؓ کی ان سیرتوں سے جن کے مجموعے میں اس داستان کے کھینچے ہوئے نقشے کو رکھ کر دیکھا جائے تو کسی طرف سے بھی اس کا جوڑ ان کے ساتھ بیٹھتا نظر نہیں آتا؟پھر اگر اس گروہ کی تاریخ کا پورا مستند ذخیرہ ہمارے سامنے اس کے اخلاق، اس کی سیرت، اس کی ذہنیت اور اس کے نفسیات کا کچھ اور نقشہ پیش کرتا ہے اور صرف یہ ایک مجموعہ روایات اس کے بالکل برعکس ایک اور ہی نقشہ پیش کررہا ہے تو آخر عقل کیا کہتی ہے؟کیا یہ کہ سمندر میں اتفاقاً آگ لگ گئی تھی؟یا یہ کہ سمندر میں پانی تھا ہی نہیں، آگ ہی آگ تھی؟ یا یہ کہ آگ لگنے کا قصہ جھوٹا ہے، جب تمام شہادتیں اس کی تصدیق کرتی ہیں کہ وہ سمندر تھا تو وہاں پانی کے سوا کچھ نہ ہو سکتا تھا!
تاہم اگر کسی کا جی چاہتا ہے کہ اس قصے کو باور کرے تو ہم اسے روک نہیں سکتے ۔ تاریخ کے صفحات تو بہر حال اس سے آلودہ ہی ہیں۔ مگر پھر ساتھ ہی یہ ماننا پڑے گا کہ خاکم بدہن رسالت کا دعویٰ محض ایک ڈھونگ تھا، قرآن شاعرانہ لفاظی کے سوا کچھ نہ تھا، اور تقدس کی ساری داستانیں خالص ریاکاری کی داستانیں تھیں۔ اصل میں تو ایک شخص نے ان چالوں سے دنیا کو پھانساتھا تاکہ اپنی ایک سلطنت بنائے اور اس قسم کے دنیا طلب مکاروں کے گرد جیسے لوگ جمع ہواکرتے ہیں ویسے ہی لوگ اس کے گرد بھی جمع ہو گئے تھے اور تقدس کے اس ظاہری پردے میں دراصل وہ جن مقاصد کے لیے کام کررہے تھا ان کاراز آخر کار اس کے اپنے گھر والوں نے فاش کرکے رکھ دیا۔ معاذ اللہ ۔ثم معاذ اللہ۔ (مودودی،رسائل و مسائل ، ص ۹۰۸)

اقرباء کے معاملے میں حضرت عثمانؓ کے طرز عمل کی تشریح

سیدنا عثمانؓ انہوں نے اپنے اقرباء کے معاملے میں جو طرز عمل اختیار فرمایا اس کے متعلق میرے وہم و گمان میں بھی کبھی یہ شبہ نہیں آیا کہ معاذ اللہ وہ کسی بدنیتی پر مبنی تھا۔ ایمان لانے کے وقت سے ان کی شہادت تک ان کی پوری زندگی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے مخلص ترین اور محبوب ترین صحابیوں میں سے تھے۔ دین حق کے لیے ان کی قربانیاں، ان کے نہایت پاکیزہ اخلاق،اور ان کے تقوی و طہارت کو دیکھ کر آخر کون صاحب عقل آدمی یہ گمان کر سکتا ہے کہ اس سیرت و کردار کا انسان بد نیتی کے ساتھ وہ طرز عمل اختیار کر سکتا ہے جس کو آج کل کی سیاسی اصطلاح میں خویش نوازی (nepotism) کہا جاتا ہے۔ دراصل ان کے اس طرز عمل کی بنیاد وہی تھی جو انہوں نے خود بیان فرمائی ہے کہ وہ اسے صلہ رحمی کا تقاضا سمجھتے تھے ان کا خیال یہ تھا کہ قرآن و سنت میں جس صلہ رحمی کا حکم دیا گیا ہے اس کا تقاضا اسی طرح پورا ہوسکتا ہے کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ جو بھلائی کرنا بھی آدمی کے اختیار میں ہو وہ اس سے دریغ نہ کرے۔ یہ نیت کی غلطی نہیں بلکہ رائے کی غلطی یا بالفاظ دیگر اجتہادی غلطی تھی۔ نیت کی غلطی وہ اس وقت ہوتی ہے جب کہ وہ اس کام کو ناجائز جانتے اور پھر محض اپنے مفاد یا اپنے اقرباء کے مفاد کے لیے اس کا ارتکاب کرتے لیکن اسے اجتہادی غلطی کہنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے،کیونکہ صلہ رحمی کے حکم کا تعلق ان کی ذات سے تھا نہ کہ ان کے منصب خلافت سے۔ انہوں نے زندگی بھر اپنی ذات اپنے اقرباء کے ساتھ جو فیاضانہ حسن سلوک کیا وہ بلاشبہ صلہ رحمی کا بہترین نمونہ تھا۔انہوں نے اپنی تمام جائیداد اور ساری دولت اپنے رشتے داروں میں تقسیم کر دی اور خود اپنی اولاد کو ان کے برابر رکھا۔اس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے مگر صلہ رحمی کا کوئی حکم خلافت کے عہدے سے تعلق نہ رکھتا تھا کہ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے بھی اپنے اقرباء کو فائدہ پہنچانا اس حکم کا صحیح تقاضا ہوتا۔
صلہ رحمی کے شرعی احکام کی تاویل کرتے ہوئے حضرت عثمان ؓ نے بحیثیت خلیفہ اپنے اقرباء کے ساتھ جو سلوک کیا اس کے کسی جز کو بھی شرعا ناجائز نہیں کہا جاسکتا۔ظاہر ہے کہ شریعت میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے کہ خلیفہ کسی ایسے شخص کو کوئی عہدہ نہ دے جو اس کے خاندان یا برادری سے تعلق رکھتا ہوں۔نہ خمس کی تقسیم یا بیت المال سے امداد دینے کے معاملے میں کوئی ایسا ضابطہ شرعی موجود تھا جس کی انہوں نے خلاف ورزی کی ہو اس سلسلے میں حضرت عمر ؓ کی جس وصیت کا میں نے ذکر کیا ہے وہ بھی کوئی شریعت نہ تھی جس کی پابندی حضرت عثمان ؓپر لازم اور خلاف ورزی ناجائز ہوتی. اس لیے ان پر یہ الزام ہر گز نہیں لگایا جا سکتا کہ انہوں نے اس معاملے میں حدِ جواز سے کوئی تجاوز کیا تھا۔ (مودوی، خلافت و ملوکیت،صفحہ ۳۲۱)

صحابۂ کرام ؓ کی باہمی الفت و محبت

سوال: مجھے چند روز قبل فضائل صحابہ کے موضوع پر اظہار خیال کا موقع ملا۔ میں نے حسب توفیق مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ(الفتح۴۸: ۲۹) کی تشریح کی۔ بعد میں ایک صاحب نے سوال کیا کہ قرآن شریف تو صحابہ ؓ کی یہ صفت بیان کر رہا ہے لیکن واقعات کی تصویر اس کے برعکس ہے۔ جنگ جمل و صفین میں دونوں طرف اکابر صحابہ ؓ موجود تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی ایک فریق کے ہمراہ تھیں۔ ان واقعات کی روشنی میںرُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ کی صحیح توجیہ کیا ہو سکتی ہے؟ میں نے حتی الوسع اس معاملے پر غور کیا۔ بعض کتب دینیہ اور ذی علم احباب سے بھی رجوع کیا، مگر کلی اطمینان نہ ہوسکا۔ آپ براہ کرم ان واقعات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ارشاد قرآنی کی صحیح تاویل و توجیہ بیان کریں، جس سے یہ اشکال رفع ہوجائے۔
جواب: آپ کے عنایت نامے کا جواب افسوس ہے کہ بڑی تاخیر سے دے رہا ہوں۔ اس مہینے شدید مصروفیت رہی۔ اس لیے خطوط پڑھنے تک کا موقع نہ ملا، جواب دینا تو درکنار۔ امید ہے کہ میری مشکلات کو نگاہ میں رکھ کر اس تاخیر پر درگزر فرمائیں گے۔
آیت اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ پر جس شبہ کا اظہار محترم سائل نے کیا ہے، وہ دو مفروضوں پر مبنی ہے، اور دونوں ہی خلاف حقیقت ہیں۔ ان کا پہلا مفروضہ یہ ہے کہ کسی شخص یا گروہ کی تعریف میں جب کوئی بات کہی جائے تو لازماً اسے اس معنی میں لینا چاہیے کہ اس شخص یا اس گروہ میں کبھی کوئی جزوی امر بھی اس کے خلاف نہ پایا جائے۔ حالاں کہ انسانوں کی تعریف جب کبھی کی جاتی ہے، ان کے غالب حال کے لحاظ سے کی جاتی ہے، اور کبھی کبھار کوئی چیز اس کے خلاف نظر آئے تو وہ کلی حکم میں قادح نہیں سمجھی جاتی۔ ہم صحابۂ کرامؓ کو دنیا کا سب سے زیادہ اتقیٰ اور اصلح گروہ قرار دیتے ہیں۔ یہ حکم ان کی مجموعی سیرت کے لحاظ سے ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس گروہ میں کبھی بشریت کے تقاضوں سے جزوی کمزوریوں کا سرے سے ظہور ہی نہیں ہوتا تھا۔ آخر اس زمانے میں کبھی کسی کو زنا اور کسی کو چوری کی سزا اور کسی کو قذف کی سزا تو دی ہی گئی تھی، اور صحابیت کا شرف ان سزا یافتہ لوگوں کو بھی حاصل تھا، کیوں کہ ایمان کے بعد جس شخص کو حضور پاک ﷺ کی صحبت میسر آئی، وہ بہر حال صحابی ہے اور ان قصوروں کی بنا پر بہرحال نہ صفت ایمان ان سے سلب ہوئی تھی نہ صفت صحابیت۔ مگر کیا یہ بات کہ کبھی اس معاشرے میں زنا اور چوری اور قذف کے گناہوں کا صدور بھی ہو گیا تھا، اس مجموعی حکم میں قادح ہوسکتی ہے کہ وہ معاشرہ صلاح و تقویٰ میں اس بلند ترین مرتبے پر پہنچا ہوا تھا جس پر کبھی کوئی انسانی معاشرہ نہیں پہنچا؟ اسی طرح رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ کی صفت صحابۂ کرامؓ کی مجموعی سیرت اور ان کے غالب حال کے لحاظ سے ہے اور واقعہ یہ ہے کہ کسی انسانی معاشرے میں آپس کی محبت و الفت، باہمی ہمدردی و خیر اندیشی اور ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ اور مرتبے کا احترام اس درجے کا نہیں پایا جاتا اور نہ پایا گیا ہے، جیسا صحابۂ کرامؓ کے معاشرے میں نظر آتا ہے ۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان کے اندر یہ صفات انتہائی ممکن کمال تک پہنچی ہوئی نظر آتی ہے جس کا کسی انسانی معاشرے کے حق میں تصور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن انسان جب تک انسان ہیں، ان کے اندر بہر حال کبھی نہ کبھی اختلافات پیدا ہوسکتے ہیں اور وہ اختلافات لڑائی جھگڑے کی صورت بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ صحابۂ کرام ؓ بھی انسان ہی تھے۔ عالم بالا سے کوئی فوق البشر مخلوق حضور پاکﷺ کی صحبت و معیت کے لیے اتر کر نہیں آئی تھی۔ ایک دوسرے کے ساتھ رہن سہن، لین دین اور اجتماعی زندگی کے معاملات کرتے ہوئے لامحالہ بتقاضائے بشریت ان میں اختلافات بھی ہو جاتے تھے اور بعض اوقات یہ اختلافات شدید نوعیت بھی اختیار کر گئے ہیں۔ لیکن ان جزوی واقعات سے اس کلی حکم میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کہ ان کی امتیازی صفت رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْتھی۔ کیوں کہ ان کا غالب حال یہی تھا۔
دوسرا مفروضہ جو ان کے اس شبہے کے پیچھے کام کر رہا ہے، یہ ہے کہ صحابۂ کرامؓ میں کبھی جو اختلافات رونما ہوئے ہیں، وہ اس نوعیت کے تھے کہ ان سےرُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ کی صفت بالکل ہی سلب ہوگئی تھی۔ حالاں کہ ان اختلافات کی جو تاریخ ہم تک پہنچی تھی، وہ اس بات پر گواہ ہے کہ یہ مقدس انسان جب آپس میں لڑ بھی جاتے تھے تو ان کی اس لڑائی میں بھی رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ ہونے کی ایک انوکھی شان پائی جاتی تھی۔ بے شک وہ جنگ جمل و صفین میں ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوئے ہیں۔ مگر کیا دنیا کی کسی خانہ جنگی میں آپ فریقین کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہوئے بھی ایک دوسرے کا وہ احترام ملحوظ خاطر رکھتے دیکھتے ہیں جو ان بزرگوں کی لڑائی میں نظر آتا ہے۔ وہ نیک نیتی کے ساتھ اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہوئے لڑے تھے۔ نفسانی عداوتوں اور اغراض کی خاطر نہیں لڑے تھے۔ انھیں افسوس تھا کہ دوسرا فریق ان کی پوزیشن غلط سمجھ رہا ہے اور خود غلط پوزیشن اختیار کرتے ہوئے بھی اپنی غلطی محسوس نہیں کر رہا ہے۔ وہ ایک دوسرے کو فنا کر دینے پر تلے ہوئے نہیں تھے بلکہ اپنی دانست میں دوسرے فریق کو راستی پر لانا چاہتے تھے۔ ان میں سے کسی نے کسی کے ایمان سے انکار نہیں کیا، اس کے اسلامی حقوق سے انکار نہیں کیا، بلکہ اس کی فضیلت اور اس کی اسلامی خدمات سے بھی انکار نہیں کیا۔ انھوں نے ایک دوسرے کو ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ لڑنے میں انھوں نے لڑائی کا حق ضرور ادا کیا، مگر لڑ کر گرجانے والے کے لیے وہ سراپا رحم و شفقت تھے، اور گرفتار ہوجانے والے پر مقدمہ چلانا اور اس کو سزا دینا یا اس کو ذلیل و خوار کرنا تو درکنار، قید رکھنا اور کسی درجے میں بھی نشانہ عتاب بنانا تک انھوں نے گوارا نہیں کیا۔ ذرا دیکھیے، عین موقع پر جب کہ جنگ جمل میں دونوں فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہوئی ہیں، حضرت علی ؓ حضرت زبیر ؓ کو پکارتے ہیں اور وہ ان سے ملنے کے لیے نکل آتے ہیں۔ دونوں میں سے کسی کو بھی دوسرے سے یہ اندیشہ نہیں ہوتا کہ وہ اس پر اچانک حملہ کردے گا۔ صفوں کے درمیان ایک دوسرے سے بغل گیر ہو کر روتے ہیں۔ دونوں طرف کی فوجیں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی ہیں کہ یہ ایک دوسرے سے لڑنے آئے تھے اور اب گلے مل کر رو رہے ہیں۔ دونوں تنہائی میں بات کر کے اپنی اپنی فوجوں کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔ حضرت علیؓ کی فوج والے ان سے پوچھتے ہیں کہ امیر المومنین ! آپ عین لڑائی کے موقع پر ننگے سر ایک شخص سے تنہا ملنے چلے گئے؟ جواب میں فرماتے ہیں، جانتے ہو وہ شخص کون تھا، وہ صفیہ، عمہ رسول اللہ کا بیٹا تھا۔ میں نے اس کو رسول اللہ ﷺ کی ایک بات یاد دلائی۔ اس نے کہا کاش! یہ بات مجھے پہلے یاد آجاتی تو میں آپ کے مقابلے میں لڑنے نہ آتا۔ لوگ اس پر کہتے ہیں الحمد للہ، اے امیر المومنین، یہ رسول اللہ ﷺ کے شہسوار اور حواری ہیں، ہم کو انھی کا سب سے زیادہ خوف تھا۔ دوسری طرف حضرت زبیر ؓ پلٹ کر اپنی فوج میں جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شرک اور اسلام میں جب کبھی کسی لڑائی میں شریک ہوا ہوں، مجھے اس میں بصیرت حاصل تھی، مگر اس لڑائی میں نہ میری رائے میرا ساتھ دیتی ہے نہ بصیرت۔ اور یہ کہہ کر وہ فوج سے نکل جاتے ہیں۔ اسی طرح حضرت علیؓ اور حضرت طلحہ ؓ کی بھی دونوں صفوں کے درمیان تنہا ملاقات ہوتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لڑائی شروع ہوتی ہے تو حضرت علیؓ اپنی فوج میں اعلان کرتے ہیں کہ خبردار کسی کا تعاقب کرکے نہ مارنا، کسی زخمی پر ہاتھ نہ اٹھانا، ان کے لشکر کا مال تم لے سکتے ہو مگر ان شہدا کے گھروں پر ان کے جو مال ہیں، وہ ان کے وارثوں کا حق ہے اور ان کی عورتوں کے لیے عدت ہے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ جب ان کے لشکر کے مال ہمارے لیے حلال ہیں تو ان کی عورتیں کیوں نہ حلال ہوں؟ حضرت علیؓ بگڑ کر فرماتے ہیں کہ تم میں سے کون اپنی ماں عائشہ ؓ کو اپنے حصے میں لینے کے لیے تیار ہے؟ لوگ پکار اٹھتے ہیں استغفر اللہ۔ جنگ کے بعد مقتولوں پر سے حضرت علی ؓ کا گزر ہوتا ہے۔ حضرت طلحہ ؓ کے بیٹے محمد کی لاش پر نظر پڑتی ہے۔ بے اختیار فرماتے ہیں:
رَحِمَك الله یَا مُحَمَّدٌ لَقَدْ کُنْتَ فِی الْعِبَادَة مُجْتَهدًا اُنَآءَ اللَّیْلِ قَوَّامًا وَفِی الْحَرِّ صَوَّامًا
خدا کی رحمت ہو تم پر اے محمد! تم بڑے عبادت گزار، راتوں کو کھڑے رہنے والے اور سخت گرمیوں میں روزے رکھنے والے تھے۔
حضرت زبیرؓ کا قاتل انعام کی امید پر حاضر ہوتا ہے تو اس کو دوزخ کی بشارت دیتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ کے ہودے کے پاس پہنچتے ہیں تو اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتے کہ اے ہودے والی ! اللہ نے آپ کو گھر میں بیٹھنے کا حکم دیا تھا اور آپ لڑنے نکل آئیں۔ پھر بڑے احترام کے ساتھ ان کو مدینہ روانہ کر دیتے ہیں اور وہ اس حسن سلوک پر ان کو دعا دیتی ہیں جزی اللہ ابن ابی طالب الجنۃ۔ حضرت طلحہ کے بیٹے موسیٰ حضرت علی ؓ سے ملنے آتے ہیں تو آپ انھیں بٹھا کر فرماتے ہیں، مجھے امید ہے کہ میں اور تمھارے باپ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم ان کے دلوں سے باہمی کدورت نکال دیں گے اور وہ جنت میں بھائی بھائی کی حیثیت سے آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے۔
ایک شخص پوچھتا ہے کہ آپ کے پاس یہ کون آیا تھا؟ فرماتے ہیں کہ یہ میرا بھتیجا تھا۔ وہ عرض کرتا ہے کہ اگر یہ آپ کا اب بھی بھتیجا ہے تو ہم تو پھر بد بخت ہوئے۔ اس پر ناراض ہو کر حضرت علی ؓ فرماتے ہیں:
وَیْحَکَ اَنَّ الله قَدْ اِطَّلَعَ عَلٰی اَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ
دیکھیے، یہ شان تھی ان لوگوں کی آپس کی لڑائی کی۔ وہ تلوار بھی ایک دوسرے پر اٹھا کر رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ ہی رہتے تھے۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی قدر، عزت، محبت، اسلامی حقوق کی مراعات، اس شدید خانہ جنگی کی حالت میں بھی جوں کی توں برقرار رہی۔ اس میں یک سر مو فرق نہ آیا۔ بعد کے لوگ کسی کے حامی بن کر ان میں سے کسی کو گالیاں دیں تو یہ ان کی اپنی بدتمیزی ہے، مگر وہ لوگ آپس کی عداوت میں نہیں لڑے تھے اور لڑ کر ایک دوسرے کے دشمن نہ ہوئے تھے۔ (مودودی،رسائل و مسائل ، ص ۸۴۷، ۸۵۰)

حدیث اور توہینِ صحابہؓ

سوال: بخاری میں حضرت ابن عباسؓ کی روایت کا ایک حصہ یہ ہے:
وان اُناسا من اصحابی یوخذ بهم ذات الشمال فاقول اصحابی اصحابی فیقول انهم لم یزالوا مرتدین علیٰ اعقابهم منذ فارقتهم فاقول ما قال العبد الصالح و کنت علیهم شهيدًا مادمت فيهم (الی قوله) الحكيم۔
قیامت کے دن میرے بعض اصحاب کو بائیں طرف سے گرفتار کیا جائے گا تو میں کہوں گا (انھیں کچھ نہ کہو) یہ تو میرے اصحاب ہیں۔ جواب ملے گا کہ تیری وفات کے بعد یہ لوگ الٹی چال چلے۔ اس کے بعد میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح کہوں گا کہ خدا وندا ! جب تک میں ان میں موجود رہا، ان کے اعمال کا نگران رہا لیکن جب تو نے مجھے وفات دی تو تو ہی ان کا رقیب تھا۔
اس روایت سے حضرات صحابۂ کرامؓ کی توہین اور تحقیر مترشح ہوتی ہے۔ کیا یہ روایت صحیح ہے؟ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرامؓ میں کچھ تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جنھیں مجرم کی حیثیت سے فرشتے قیامت کے دن بائیں طرف سے گرفتار کریں گے اور یہ کہ انھوں نے دنیا کی زندگی میں سرور دو عالم ﷺ کی وفات کے بعد آپؐ کے طریقے کو چھوڑ کر غلط روش اختیار کی۔اصحاب سے مراد جناب کے صحابہؓ ہی ہیں۔ اس کے قرائن یہ ہیں:
(۱)لفظ اصحاب خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جنھوں نے آپ کی زندگی میں ایمان کے ساتھ آپ سے تعاون کیا اور آپ کی رفاقت اختیار کی، انھیں اصحاب کا لقب دیا گیا۔
(۲) ایک روایت میں خود حضورﷺ نے تصریح فرمائی ہے کہ (اے جماعت صحابہ) تم میرے اصحاب ہو اور جو اہل ایمان تمہارے بعد آنے والے ہیں، ہمارے اخوان ہیں۔
(۳) حضرت صحابۂ کرام ؓ کی فضیلت، بزرگی اور منقبت کے سلسلے میں جو روایات آئی ہیں، ان میں بھی اصحاب کا اطلاق صحابۂ کرامؓ پر ہے۔
(۴) حضور ﷺ کے احتجاج پر فرشتے جواباً عرض کریں گے کہ آپ کے جدا ہوجانے کے بعد ان لوگوں نے آپ کے طریقے کو چھوڑ دیا اور اپنی طرف سے نئے طریقے ایجاد کرلیے۔ حدیث انک لاتدری ما احدثوا بعدک(مشکوٰۃ) کے الفاظ اس پر شاہد ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ جب تک آپؐ زندہ رہے تو یہ لوگ آپ کے وفادار ساتھی کی طرح آپؐ کے دین کے پیروکار رہے لیکن جونہی آپ نے اس عالم ناسوت کو چھوڑا تو انھوں نے پھر دین میں رخنے ڈالنے شروع کیے۔
(۵)پھر آنجناب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح معذرت فرمائیں گے۔
ان قرآنی الفاظ سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ معاملہ حضور پاکﷺ کے اصحاب کا ہے۔
جواب: امام بخاریؒ نے یہ حدیث کتاب الانبیا میں دو جگہ ابن عباس ؓکے حوالے سے روایت کی ہے۔ ایک باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللہ ابراھیم خلیلاً میں دوسرے باب واذکر فی الکتاب مریم میں۔ اس کے علاوہ اسی مضمون کی متعدد احادیث انھوں نے کتاب الرقاق باب فی الحوض میں انس بن مالک، سہل بن سعد، ابو سعید خدری اور ابو ہریرہ ؓ سے نقل کی ہیں۔ ان سب کو جمع کرنے سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں:
(۱) یہ معاملہ ان لوگوں سے متعلق ہے جو نبیﷺ کے عہد میں اصحاب کے زمرے میں شمار ہوتے تھے مگر آپ ؐ کے بعد مرتد ہوگئے۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ انھم لن یزالوا مرتدین علی اعقابھم منذ فارقتھم (یہ آپ کے جدا ہونے کے بعد الٹے پلٹ گئے تھے اور پلٹے رہے، یعنی مرتد ہونے کے بعد پھر انھوں نے توبہ نہ کی۔) دوسری روایت میں ہے کہ انھم ارتدوا علی اعقابھم القھقریٰ، او علی ادبارھم القھقریٰ (وہ الٹے پھر گئے تھے، یعنی جس کفر سے آئے تھے، اسی کی طرف واپس چلے گئے۔)
(۲) یہ معاملہ ان لوگوں سے بھی متعلق ہے جنھوں نے حضور ﷺ کے عہد میں تو اسلام قبول کر لیا تھا مگر بعد میں بری روش اختیار کرلی، چنانچہ متعدد روایات میں ہے کہ: لاتدری ما احدثوا بعدک، اور اِنَّک لا علم لک بما احدثوا بعدک۔ (آپ نہیں جانتے کہ آپؐ کے بعد انھوں نے کیا کچھ کیا۔)
دونوں صورتوں میں معاملہ بعض اصحاب سے متعلق ہے نہ کہ تمام اصحاب سے۔ ظاہر ہے کہ حضورﷺکے زمانے میں جن لاکھوں آدمیوں نے اسلام قبول کیا تھا، وہ آپ کے اصحاب میں شمار ہوتے تھے۔ مگر انھی میں کچھ لوگ وہ بھی تھے جنھوں نے فتنہ ارتداد میں حصہ لیا اور اسی حالت میں جان دے دی اور یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ ان میں کچھ لوگ ایسے ہوں جنھوں نے منافقانہ اسلام قبول کیا ہو اور اپنے نفاق کو چھپائے رکھا۔ اپنے اصحاب میں ایسے لوگوں کی موجودگی کا امکان فرض کرکے اگر آپؐ نے کچھ باتیں بطور تنبیہ ارشاد فرمائی ہوں تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے اور اس سے تمام صحابہؓ پر کوئی حرف نہیں آتا۔ مذکورہ بالا احادیث دراصل اسی تنبیہ کے قبیل سے ہیں اور ان سے مقصود یہ بتانا ہے کہ جو لوگ اپنے ایمان کی حفاظت نہ کریں گے یا کبائر میں مبتلا ہوں گے، انھیں آخرت میں محض شرف صحبت خدا کی گرفت سے نہ بچا سکے گا۔ ( مودودی،رسائل و مسائل ، ص ۸۵۳،۸۵۵ )

حضرت ابوبکرؓ اور حضرت فاطمہؓ کی باہمی رنجیدگی

سوال: ایک شیعہ عالم نے مجھ سے فرمایا کہ حضرت فاطمہؓ، حضرت ابوبکر صدیق اکبرؓ سے تادم مرگ ناراض رہیں اور انھیں بد دعا دیتی رہیں۔ انھوں نے اس امر کے ثبوت میں الامامتہ والسیاستہ کے حوالے دیے ہیں جو ابن قتیبہ کی تصنیف ہے۔ انھوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ابن قتیبہ کو سنی علما مستند مانتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے علامہ شبلی نعمانی کی الفاروق میں سے ایک عبارت دکھائی ہے جس میں اس مصنف کو نامور اور قابل اعتماد قرار دیا گیا ہے۔ نیز شیعہ عالم نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ آپ نے بھی اپنے رسالہ اسلامی دستور کی تدوین میں الامامتہ والسیاستہ میں سے ایک خط نقل کیا ہے جو ام المومنین حضرت ام سلمہؓ نے حضرت عائشہؓ کو لکھا تھا۔ براہ کرم حضرت فاطمہؓ کی ناراضی کی حقیقت واضح کریں۔ نیز اس امر سے بھی مطلع کریں کہ ابن قتیبہ کی کتاب کا علمی پایہ کیا ہے اور وہ کس حد تک قابل اعتبار ہے؟
جواب: ابن قتیبہ تو بلاشبہ ایک محقق شخص تھے۔ لیکن ان کی جس تصنیف کا حوالہ شیعہ عالم نے دیا ہے، اس میں بعض چیزیں ایسی موجود ہیں جو عقلاً قابل قبول نہیں ہیں۔ خصوصاً حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی سیرت کا جو نقشہ انھوں نے نبیﷺ کے وصال کے بعد کھینچا ہے، وہ ایسا ہے کہ اگر اسے صحیح مان لیا جائے تو ان دونوں برگزیدہ ہستیوں کے بارے میں عقیدت تو درکنار اچھی رائے کا برقرار رہنا بھی محال ہوجاتا ہے۔ اس کتاب کے صفحہ ۱۲ کا مضمون آپ خود ملاحظہ فرمالیجیے۔ اور خود ہی رائے قائم کیجیے کہ آیا ایسی روایات قابل قبول ہوسکتی ہیں۔ قبول کرنا تو ایک طرف، میں تو اسے اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ اسے نقل کرکے آپ کے سامنے پیش کروں۔ اسی طرح کی چیزیں دیکھ کر بعض اہل علم نے یہ رائے قائم کی ہے کہ یہ کتاب یا تو ابن قتیبہ کی ہے ہی نہیں یا کم از کم اس میں بعض چیزیں ضرور الحاقی ہیں۔ میں نے جس خط کا حوالہ دیا ہے، وہ ابن عبدربہ نے عقدالفرید میں بھی نقل کیا ہے۔ اس لیے میرا انحصار صرف الامامتہ والسیاستہ پر نہیں ہے۔
مسئلہ خلافت سے قطع نظر جہاں تک حضرت فاطمہؓ کے دعوائے میراث کا تعلق ہے، اس کے لیے ابن قتیبہ کی الامامتہ سے رجوع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کی تفصیلات تو بخاری شریف اور دوسری کتب حدیث میں موجودہیں۔ ان کتابوں کی مستند روایات سے یہ بات صاف طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ حضرت فاطمہؓ، میراث کے معاملہ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ناراض تو ضرور ہوئی تھیں مگر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جس بنا پر حضرت فاطمہؓ کے اس دعویٰ کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا، وہ رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد تھا کہ انبیا علیہم السلام کی میراث ان کے وارثوں میں تقسیم نہیں ہوتی بلکہ ان کا ترکہ صدقہ ہے۔ یہ بات ابن قتیبہ کے ہاں بھی مذکور ہے اور کسی جگہ بھی یہ مذکور نہیں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا نقل کردہ فرمان نبویﷺ صحیح نہ تھا یا حضرت فاطمہؓ کو اس کی صحت سے انکار تھا۔ اب آپ خود غور کر لیجیے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو نبی کریمﷺ کے ارشاد کی تعمیل کرنا واجب تھا یا اس کو نظر انداز کرکے حضرت فاطمہؓ کی رضا مندی حاصل کرنا ضروری تھا؟ ہم تو اس بات کا بھی تصور نہیں کرسکتے کہ رسول اللہ ﷺ کا قول سننے کے بعد اسے قبول کرنے کی بجائے حضرت فاطمہؓ اس طرح غضب ناک ہوئی ہوں گی جس طرح غضب ناک ہونے کا نقشہ ابن قتیبہ نے کھینچا ہے۔ اگر وہ رنجیدہ ہوئی تھیں اور اس کا انھوں نے کسی شکل میں اظہاربھی کیا تھا تو اس کی زیادہ سے زیادہ بہتر تاویل یہی کی جاسکتی ہے کہ وہ حضور پاکﷺ کے ارشاد کو کسی اور معنی میں لیتی ہوں گی، اور حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جو مفہوم اس کا سمجھا تھا، اس سے انھیں اتفاق نہ ہوگا۔
یہ تاویل اس واقعے کی نہ کی جائے تو پھر اس الزام سے حضرت فاطمہؓ کو نہیں بچایا جاسکتا کہ وہ مال کی محبت اتنی زیادہ رکھتی تھیں کہ خود اپنے والد ماجد اور اللہ کے رسولﷺ کے قول کی انھوں نے پرواہ نہ کی۔ کیا سیدۃ النساء کے متعلق کوئی مسلمان ایسی بری رائے رکھنے کے لیے تیار ہے؟ خلفائے راشدینؓ اور اہل بیتؓ کے باہمی تعلقات کی ایسی تصویر ہمارے لیے آخر کس طرح قابل قبول ہوسکتی ہے جو فریقین میں سے کسی کی بھی شان اور عظمت میں اضافے کا موجب نہیں ہوسکتی۔ہمارے ہاں اس امر میں بھی روایات مختلف ہیں کہ آیا حضرت فاطمہؓ اس واقعہ کے بعد آخر وقت تک ناراض رہیں یا بعد میں راضی ہوگئیں۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ ان کی رنجش آخری وقت تک رہی اور بعض میں یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ بعد میں خود ان کو ملنے کے لیے تشریف لے گئے اور انھیں راضی کرلیا۔ یہی بات میرے نزدیک قرین صواب ہے۔ ( مودودی، رسائل و مسائل، ص۷۰۹، ۹۰۶)

واقعۂ قرطاس کی تحقیق

مرض الموت میں نبی کریم ﷺ نے ایک دفعہ قلم اور کاغذ طلب کیا ۔ اس حوالے سے صحابہ کرامؓ میں اختلاف پیدا ہوگیا کہ آیا اس تکلیف کی حالت میں آپ ؐ کو یہ دونوں اشیا لاکر دینی چاہییں یا نہیں ؟ کچھ صحابہ ؓ کا خیال تھا کہ قلم اور کاغذ دے دینا چاہیے اور کسی کا خیال تھا کہ اس موقع پر نبی کریم ﷺ کو تکلیف دینا مناسب نہیں لگتا۔ لیکن اس معاملے کو بھی شیعہ حضرات نے صحابہ کرامؓ پر طعن کا ذریعہ بنا لیا ۔ اس پر مولانا مودودی ؒ نے صحابہ کرامؓ کا دفاع کیا اور لکھا :
اگر کوئی سیدھے طریقے سے یہ بات سمجھنا چاہے تو اصل صورت معاملہ کے سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی۔ اپنے محبوب ترین پیشوا اور رہبر کو دنیا سے رخصت ہوتے دیکھ کر سب لوگوں پر اضطراب کا عالم طاری تھا۔ مرض شدت پکڑ چکا تھا۔ سب کی آنکھوں کے سامنے حضورﷺ سخت کرب کی حالت میں مبتلا تھے۔ ابن عباسؓ کا اپنا حال یہ تھا کہ اس واقعے کے سالہا سال بعد ایک روز شاگردوں کے سامنے ان کی زبان پر جمعرات کا لفظ آیا اور یکایک پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ شاگردوں نے پوچھا جمعرات کا کیا قصہ ہے جسے یاد کرکے آپ یوں بے حال ہوئے جا رہے ہیں۔ فرمایا کہ وہ دن آنحضرتﷺ پر سخت تکلیف کا تھا (اشْتَدَّ بِالنَّبِیِﷺ وَجْعه) اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عین اس وقت جب کہ حضورﷺ پر یہ حالت طاری تھی، آپ کے جاں نثار خادموں پر کیا گزری ہوگی۔ اس حالت میں قلم دوات منگوانے کے لیے حضورﷺ نے ارشاد فرمایا اور غرض یہ بیان فرمائی کہ ایسی کوئی چیز لکھوادیں جس سے امت بعد میں گمراہ نہ ہونے پائے۔ مرض کی شدت میں ممکن ہے کہ بات صاف بھی زبان مبارک سے ادا نہ ہوئی ہو۔ اسی وجہ سے حاضرین کو شبہ ہوا کہ گھبراہٹ میں آپؐ نے کچھ فرمایا ہے جسے پھر پوچھ کر تحقیق کرنا چاہیے۔ حضرت عمرؓ نے اس موقع پر جو کچھ کہا، اس کا صاف مطلب تھا کہ حضورﷺاس وقت سخت تکلیف میں مبتلا ہیں، اس حالت میں آپؐ امت کے لیے فکر مند ہو رہے اور کچھ لکھوانے کی زحمت اٹھانا چاہتے ہیں تاکہ لوگ آپؐکے بعد گمراہ نہ ہونے پائیں۔ لیکن اس وقت آپؐکو یہ زحمت دینا مناسب نہیں ہے، امت کی ہدایت کے لیے قرآن موجود ہے، ان شاء اللہ وہی گمراہی سے بچانے کے لیے کافی ہوگا۔ ممکن ہے اس کے ساتھ حضرت عمرؓ کو یہ بھی اندیشہ ہوا ہوکہ اگر تحریر لکھواتے لکھواتے حضورﷺ کا وقت آن پورا ہوا اور بات ادھوری رہ گئی تو کہیں وہ الٹی فتنے ہی کی موجب نہ بن جائے۔ بہرحال یہ بالکل فطری امر تھا کہ اس موقع پر کوئی علم اور ہدایت کی حرص میں اس بات کا طالب ہوا کہ حضورﷺسے ضرور کچھ لکھوالیا جائے، اور کوئی اس شک میں پڑ گیا کہ حضورﷺ واقعی کچھ لکھوانا چاہتے ہیں یا شدت مرض کی وجہ سے گھبراہٹ میں کچھ فرما رہے ہیں۔ ان تینوں قسم کے لوگوں میں سے کسی کی بات بھی ایسے موقع پر نہ تو خلاف توقع تھی اور نہ اسے نا مناسب کہا جاسکتا ہے۔ ( مودودی،رسائل و مسائل ، ص ۹۰۰، ۸۹۹)

صحابۂ کرامؓ ، مسئلہ خلافت اورنبی کریم ﷺ کی تجہیزو تکفین

سوال: صحابۂ کرامؓ اور خاص طور پرحضرت ابو بکر صدیقؓ و حضرت عمرؓ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے کفن دفن میں شریک نہ ہوئے اور خلافت و بیعت کے مسئلے میں الجھے رہے۔ حضورﷺ کے غسل اور کفن دفن میں شریک ہونا کتنی بڑی سعادت تھی اور خود محبت رسول اللہﷺ کا کیا تقاضا تھا؟
جواب: یہ قصہ کہ رسول اللہﷺ کا جنازہ بے گورو کفن پڑا تھا اور صحابۂ کرامؓ حضورﷺ کی تجہیزو تکفین کی فکر چھوڑ کر خلافت کی فکر میں پڑ گئے، در حقیقت بالکل ہی بے سروپا داستان ہے۔ اصل واقعات یہ ہیں کہ حضورﷺ کی وفات پیر کے روز شام کے قریب ہوئی۔ بخاری و مسلم میں حضورﷺ کے خادم انس بن مالکؓ نے ’’آخر یوم‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ سانحہ عظیم عصر و مغرب کے درمیان پیش آیا تھا۔ فطری بات ہے کہ اس سے پوری جماعت اہل ایمان کے ہوش پراگندہ ہوجانے چاہییں تھے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ حضرت عمرؓ کو یہی یقین نہ تھا کہ سرور عالم واقعی وفات پاگئے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے آخر جب تقریر کی تو لوگوں کو پوری طرح یقین ہوا کہ وہ ناگزیر بات جو پیش آنی تھی، پیش آچکی ہے۔ اتنے میں رات آگئی۔ یہ ممکن اور مناسب نہ تھا کہ راتوں رات تجہیز و تکفین کرکے حضورﷺ کو دفن کردیا جاتا۔ کیوں کہ جنازے میں شرکت کی سعادت سے محروم رہ جانا ان ہزاروں مسلمانوں کو ناگوار ہوتا جو مدینہ طیبہ اور اس کی نواحی بستیوں میں رہتے تھے۔ لازماً ان کو شکایت ہوتی کہ آپ لوگوں نے ہمیں آخری دیدار اور نمازجنازہ کا موقع بھی نہ دیا۔ اس لیے رات بہر حال گزارنی تھی۔ اس رات صحابہؓ کے مختلف گروہ اپنی اپنی جگہ جمع ہو کر سوچ رہے تھے کہ اب کیا ہوگا۔ ازواج مطہرات حضرت عائشہؓ کے پاس گریہ وزاری میں مشغول تھیں جہاں حضورﷺ نے وفات پائی تھی۔ حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت طلحہؓ اور دوسرے قرابت داران رسول اللہﷺ سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے گھر میں جمع تھے۔ مہاجرین کی ایک اچھی خاصی تعداد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس غمگین و متفکر بیٹھی تھی۔ انصار کے مختلف گروہ اپنے اپنے قبیلوں کی چوپالوں (سقیفہ کے اصل معنی چوپال ہی کے ہیں) میں اکٹھے ہو رہے تھے۔ اتنے میں کسی نے آکر خبر دی کہ بنی ساعدہ کی چوپال میں انصار کا ایک بڑا گروہ جمع ہے اور وہاں رسول اللہﷺ کی جانشینی کا مسئلہ چھڑ گیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور ابو عبیدہ بن الجراحؓ، جو حضورﷺ کے بعد مسلمانوں کی جماعت میں ’’بڑے‘‘ سمجھے اور مانے جاتے تھے، یہ خبر سن کر فکر مند ہوئے کہ ابھی سردار ملت کی آنکھ بند ہوئی ہے، ساری امت اس وقت بے سر ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی بڑا فتنہ کھڑا ہوجائے اور جماعت کا نظم از سر نو قائم ہونے سے پہلے ہی بد نظمی اپنے قدم جمالے۔ اس لیے یہ تینوں حضرات فوراً برسر موقع پہنچ گئے اور راتوں رات انھوں نے حضورﷺ کی جانشینی کے مسئلے کو، جو ایک فتنہ خیز صورت میں طے ہوا چاہتا تھا، اس صحیح شکل میں سلجھا لیا، جس کے صحیح ہونے پر تاریخ اپنی مہر تصدیق ثبت کرچکی تھی۔ یہ سارا واقعہ اسی رات کا ہے جس شام کو حضورﷺ کی وفات ہوئی تھی۔ رات کو بہرحال حضورﷺ کی تجہیزو تکفین نہیں کرنی تھی جس کی مصلحت اوپر بیان کی جا چکی ہے۔ اسی رات خلافت کا مسئلہ طے کیا گیا۔ صبح سویرے مسجد نبوی میں حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کا اعلان ہوا۔ مہاجرین و انصار سب نے اسے قبول کرکے جماعت کا نظام بحال کردیا اور اس کے بعد بلا تاخیر حضورﷺ کی تجہیز و تکفین کا کام شروع ہوگیا۔
یہ کہنا بالکل ہی خلاف واقعہ ہے کہ صحابۂ کرامؓ اپنی خلافت کی فکر میں لگے ہوئے تھے اور حضورﷺ کی تجہیز و تکفین سب آپ کے اہل بیت نے کی۔ یہ تجہیز و تکفین کسی نے بھی پیر اور منگل کی درمیانی شب میں نہ کی تھی۔ اس کا آغاز منگل کی صبح کو اس وقت ہوا ہے جب کہ حضرت ابوبکرؓ کی بیعت ہوچکی تھی اور یہ کام حضرت عائشہؓ کے حجرے میں ہوا ہے جس کا ایک دروازہ اسی مسجد نبوی میں کھلتا تھا جہاں مدینہ طیبہ کے سارے صحابہؓ جمع تھے۔ جہاں گردو نواح کے لوگ وفات کی خبر سن سن کر چلے آ رہے تھے، اور جہاں حضرت ابو بکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی گئی تھی۔ جن لوگوں کو کبھی مسجد نبوی کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے اور جنھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ حجرہ حضرت عائشہؓ (جس میں سرکار مدفون ہیں) اور مسجد نبویﷺ کا مکانی تعلق کیا ہے۔ وہ یہ بات سن کر ہنس دیں گے کہ صحابۂ کرامؓ، مسجد نبوی میں اپنی خلافت کی فکر میں لگے ہوئے تھے اور بے چارے اہل بیت حجرہ حضرت عائشہؓ میں حضورﷺ کی تجہیزو تکفین کر رہے تھے۔ غلط بات تصنیف کرنا بھی ہو تو اس کے لیے بھی کم از کم کچھ سلیقہ تو چاہیے۔
یہ بات کہ حضورﷺ کو غسل و کفن صرف آپؐ کے اہل بیت نے دیا، یہ بھی خلاف واقعہ ہے۔ اس خدمت کو انجام دینے والے حضرت علیؓ، حضرت عباسؓ ، فضلؓ بن عباس، قثم بن عباسؓ، اسامہ بن زیدؓ اور شقرانؓ (حضورﷺ کے آزاد کردہ غلام) تھے، اور انھوں نے اس خیال سے حجرے کا دروازہ بند کر رکھا تھا کہ لوگوں کا ہجوم باہر زیارت کے لیے بے چین کھڑا تھا۔ اگر دروازہ کھلا رہنے دیا جاتا تو اندیشہ تھا کہ زیادہ لوگ آندر آجائیں گے اور کام کرنا مشکل ہوجائے گا۔ پھر بھی انصار نے جب شور مچایا کہ ہمیں بھی تو اس سعادت میں حصہ ملنا چاہیے تو ان میں سے ایک صاحب (اوس بن خولی) کو اندر بلالیا گیا۔ کفن پہنانے کے بعد سوال ہوا کہ حضورﷺ کے لیے قبر کہاں تیار کی جائے۔ حضرت ابوبکرؓ نے حدیث پیش کی کہ مَا قُبِضَ نَبِیٌّ اِلَّا دُفِنَ حَیْثُ یُقْبَضُ (نبی کا انتقال جہاں ہوتا ہے، وہیں اس کو دفن کیا جاتا ہے) اور اسی پر فیصلہ ہوا کہ حجرہ حضرت عائشہؓ ہی میں آپؐکے لیے قبر تیار کی جائے۔ حضرت ابو طلحہؓ زید بن سہل انصاری نے قبر کھودی۔ پھر لوگوں نے گروہ در گروہ اندر جا کر نماز جنازہ پڑھنی شروع کی اور رات تک مسلسل یہ سلسلہ چلتا رہا حتیٰ کہ منگل اور بدھ کی درمیانی رات کو نصف شب کے قریب دفن کی نوبت آئی۔ معلوم نہیں کہ اس پوری مدت میں آخر وہ کون سا وقت تھا جب حضورﷺ کے اہل بیت بے یار و مدد گار آپؐ کے جسد اطہر کو لیے بیٹھے رہے اور صحابۂ کرامؓ اپنی خلافت کی فکر میں مشغول رہے؟ (مودودی،رسائل و مسائل ، ص ۹۰۴، ۹۰۲)

اسی مسئلے میں ایک مقام پر لکھتے ہیں:
کیافی الواقع حدیث،سیرت اور تاریخ کے پورے ذخیرے میں کوئی شہادت اس امر کی ملتی ہے کہ حضور ﷺ کے حینِ حیات انصار اور مہاجرین کے درمیان خلافت کے متعلق کوئی قضیہ پایا جاتا تھا؟ صحابۂ کرامؓ کا حال تو یہ تھا کہ وہ حضورﷺ کی وفات کا تصور بھی برداشت نہ کرتے تھے ،کجا کہ یہ جاں نثارانِ نبی آپؐ کے جیتے جی اپنی جگہ بیٹھ بیٹھ کر یہ سوچتے ہوں کہ آپ کی جانشینی ان میں سے کسے حاصل ہو، اور یہ سوچ اس حد تک پہنچ جائے کہ وہ انصار و مہاجرین کے درمیان ایک قضیے کی شکل اختیار کرگئی ہو۔ یہ ایک سراسر بے اصل بات ہے جو تاریخی ثبوت کے ادنیٰ شائبے کے بغیر گھر بیٹھے تصنیف کر ڈالی گئی ہے۔ ( تفہیمات ، حصہ سوم، ص ۱۳۳)

ابو بکر ؓ، عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کی خلافت

ایک گروہ حضرت ابوبکر ؓ،حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمانؓ کی خلافت کا انکار کرتا ہے اور ان کی خلافت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے انھیں لوگوں پر رد کرتے ہوئے اور ان حضرات کی خلافت کو ثابت کرتے ہوئے سورہ نور کی آیت ۵۵ کی تشریح میں لکھتے ہیں:
اس جگہ ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے۔ یہ وعدہ بعد کے مسلمانوں کو تو بالواسطہ پہنچتا ہے۔ بلا واسطہ اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو نبیﷺ کے عہد میں موجود تھے۔ وعدہ جب کیا گیا تھا اس وقت واقعی مسلمانوں پر حالت خوف طاری تھی اور دین اسلام نے ابھی حجاز کی زمین میں بھی مضبوط جڑ نہیں پکڑی تھی۔ اس کے چند سال بعد یہ حالت خود امن سے بدل گئی بلکہ اسلام عرب سے نکل کر ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر چھا گیا اور اس کی جڑیں اپنی پیدائش کی زمین ہی میں نہیں ، کرۂ زمین میں جم گئیں۔ یہ اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ ابو بکر صدیق ، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پورا کر دیا۔ اس کے بعد کوئی انصاف پسند آدمی مشکل ہی سے اس امر میں شک کر سکتا ہے کہ ان تینوں حضرات کی خلافت پر خود قرآن کی مہر تصدیق لگی ہوئی ہے اور ان کے مومن صالح ہونے کی شہادت اللہ تعالیٰ خود دے رہا ہے۔ اس میں اگر کسی کو شک ہو تو نہج البلاغہ میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی وہ تقریر پڑھ لے جو انھوں نے حضرت عمر ؓکو ایرانیوں کے مقابلے پر خود جانے کے ارادے سے باز رکھنے کے لیے کی تھی۔ ( تفہیم القرآن ،النور،حاشیہ ۸۳، ۳/ ۴۱۹)