رسائل ومسائل (جلد چہارم)

ریڈ مودودی ؒ   کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

عرضِ ناشر

رسائل و مسائل کے چار حصے شائع ہو کر قبولیت عام حاصل کر چکے ہیں۔ الحمدللہ۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ کی دینی وعلمی بصیرت کا ہر شخص، خواہ وہ موافق ہو یا مخالف، معترف ہے۔ احکام اسلامی کو صحیح شکل اور صورت میں جدید حالات پر منطبق کرنے کی جو خدا داد صلاحیت آپ کو حاصل ہے، اس کی مثال عصر حاضر میں مشکل سے ملے گی۔ اسلام کی روشنی میں زندگی کے نئے اور الجھے ہوئے مسائل کو حل کرنے میں آپ کا جو ممتاز مقام ہے وہ اہل علم ونظر سے مخفی نہیں۔
عالم اسلامی کے اس مایہ ناز عالم کے رشحات قلم کو زیور طباعت سے آراستہ کرنے کا جو شرف ہم کو حاصل ہے، ہم اس پر فخر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں یہ سعادت بخشی ہے۔
اس سے قبل ہم اس کتاب کے ۳ حصے شائع کر چکے ہیں اور اب اس کا چوتھا حصہ پیش کر رہے ہیں۔ زندگی کے مختلف مراحل پر اسلامی احکام کو جاننے اور سمجھنے کے لیے یہ کتاب ایک بہترین رہنما ثابت ہو گی اور اس میں ہر سوال کا تشفی کن اور اطمینان بخش جواب ملے گا۔ ہمیں امید ہے کہ یہ مختصر کتاب قارئین کو اس موضوع پر بہت سی ضخیم کتابوں سے بے نیاز کر دے گی۔

منیجنگ ڈائریکٹر
اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ ،لاہور

دل چسپ مین میخ

سوال: مہربانی فرما کر نہایت صاف اور سادہ الفاظ میں مندرجہ ذیل سوالات کا جواب تحریر فرما کر مشکور فرمائیں،تاکہ ان معاملات میں ہماری غلط فہمی اور لاعلمی دور ہوجائے:
(۱) جب سابق دستوریہ نے قرار داد مقاصد پاس کی تھی تب جماعت اسلامی نے پاکستان کو ’’دارالاسلام‘‘ تسلیم کیا تھا ۔اب جب کہ گورنر جنرل صاحب بہادر نے دستوریہ کو بمع اپنی تمام قرار دادوں اور نامکمل آئین کے ختم کردیا ہے،موجودہ دور میں آپ کے نزدیک پاکستان دارالاسلام ہے یا دارالحرب؟
(۲) آپ نے ابھی تک حج کیوں نہیں کیا؟ کیا آپ نے اس سوال کے جواب میں یہ الفاظ کہے تھے یا آپ کا یہی نظریہ ہے:’’موجودہ جدوجہد ہمارے نزدیک حج سے زیادہ اہم ہے؟‘‘
(۳) پہلا حج فرض ہے اور دوسرا نفل۔وہ کون کون سے ملکی،خانگی یا مذہبی فرائض اور سنت ادا کرنے ضروری ہیں جن کے پورا کیے بغیر دوسرا حج جائز نہیں؟ جس ملک کے باشندے بھوک، افلاس اور بدحالی کی زندگی گزارتے ہیں،اس ملک کے لوگوں پر دوسرا حج جائز ہے یا نہیں؟
(۴) شہیدان ختم نبوت کو آپ کی جماعت کے ارکان ومتفقین حرام موت مرناکہتے رہے ہیں۔ کیا یہ آپ کی جماعت کا ہی نظریہ ہے،یا اِن لوگوں کا ذاتی نظریہ؟ اگر ذاتی ہے تو کیا اس مقدس تحریک میں ذاتی طور پر حصہ لینے والے لوگوں کے خلاف جماعتی کاروائی کی تھی؟ اسی طرح ایسا کرنے والوں کے خلاف آپ کوئی جماعتی کارروائی کریں گے؟
(۵) آپ کے ہمارے شہر میں آنے پر جو ہزاروں روپے ناجائز تصرف کیے گئے، وہ غلط نہیں؟ آپ کے آنے کی خوشی اگر لازم تھی تو آپ کے ہاتھوں سے اتنی رقم کا اناج غریبوں اور مساکین میں تقسیم کرادیا جاتا تو بہتر نہ تھا؟
(۶) آپ کی جماعت تعصب اور تنگ نظری پر کیوں قائم ہے؟

جواب: (۱) یہ بات خلاف واقعہ ہے کہ گورنر جنرل نے سابق دستوریہ کی تمام قراردادوں اور نامکمل مسودۂ آئین کو ختم کردیا ہے۔ ایسا کوئی اعلان اب تک نہیں ہوا۔ قرارداد مقاصد اور دوسرے سابق فیصلے اپنی جگہ پر قائم ہیں،البتہ نئی دستوریہ اس اختیار کی حامل ہے کہ کسی چیز کو جوں کا توں قائم رکھے یا اسے منسوخ کرکے اس کا کوئی بدل پید اکردے۔ لہٰذا آپ کا سوال بے محل ہے۔
(۲) میں نے نہ کبھی یہ بات کہی اور نہ میں اس کا کبھی خیال کرسکتا ہوں۔میرے حج نہ کرنے کی وجوہ مالی مشکلات،بیماری اور بار بار قید ہوتے رہنا ہیں۔ کئی سال سے ارادہ کررہا ہوں،مگر ان وجوہ میں سے کوئی وجہ مانع ہوجاتی ہے۔دعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ آئندہ سال حج کرنے کی توفیق بخشے۔
(۳) آپ کا تیسرا سوال تفصیلی بحث چاہتا ہے ،مختصر جواب ممکن نہیں ہے۔میں صرف اتنا کہنے پر اکتفا کروں گا کہ ملکی افلاس کو دوسرے حج کے عدم جواز کی دلیل ٹھہرانا غلط ہے۔
(۴) میرے علم میں کبھی یہ بات نہیں آئی کہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے کسی شخص نے تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں شہید ہونے والوں کی موت کو حرام قرار دیا ہے۔ اگر کسی نے آپ کے سامنے یہ بات کہی ہے تو آپ مجھے اس کا نام بتائیں تاکہ میں اس کی تحقیق اور اس سے باز پرس کرسکوں۔
(۵) ’’ہزاروں روپے کے ناجائز تصرف‘‘ سے آپ کی مراد غالباً اس گارڈن پارٹی کے مصارف ہیں جو میری آمد کے موقع پر آپ کے شہر کے بعض اصحاب نے دی تھی۔ اگر یہی آپ کی مراد ہے تو یہ کام آپ ہی کے شہر کے کچھ لوگوں نے کیا ہے، اور غالباًآپ ان سے ناواقف نہیں ہیں۔آپ ان سے باز پرس کریں۔میرا گناہ اگر کوئی ہے تو وہ صرف یہ کہ میں نے ان کی دعوت کو قبول کر لیا۔ کیاآپ کامنشا یہ ہے کہ مجھے جو شخص بھی کھانے یا چائے پر مدعو کرے، میں اس کی دعوت رد کردیا کروں؟
(۶) یہ سوال تو نہیں ہے بلکہ ایک الزام ہے ۔پہلے آپ اس الزام کی وضاحت فرمائیں کہ تعصب اور تنگ نظری سے آپ کی مراد کیا ہے،پھر اس کا ثبوت دیں کہ یہ چیز جماعت اسلامی میں پائی جاتی ہے،تب کہیں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ جماعت اس پر کیوں قائم ہے۔کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ اس تکلیف فرمائی سے پہلے آپ اپنے ضمیر سے یہ سوال کرلیں کہ کہیں آپ خود تو تعصب اور تنگ نظری میں مبتلا نہیں ہیں؟(ترجمان القرآن،جولائی ۵۵ء)

سپاس نامے اور استقبال:

سوال: ماہر القادری صاحب کے استفسار کے جواب میں اصلاحی صاحب کا مکتوب جو فاران کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے،شاید آپ کی نظر سے گزرا ہو۔میرا خیال ہے کہ زیر بحث مسئلے پر اگر آپ خود اظہار رائے فرمائیں تو یہ زیادہ مناسب ہوگا اس لیے کہ یہ آپ ہی سے زیادہ براہِ راست متعلق ہے۔ اور آپ کے افعال کی توجیہ کی ذمہ داری بھی دوسروں سے زیادہ خود آپ پر ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جب آپ کی خدمت میں یہ سپاس نامے خود آپ کی رضا مندی سے پیش ہورہے ہیں تو آپ اس تمدنی،اجتماعی اور سیاسی ضرورت کو جائز بھی خیال فرماتے ہوں گے۔ لیکن آپ کن دلائل کی بِنا پر اس حرکت کو درست سمجھتے ہیں؟ میں دراصل یہی معلوم کرنا چاہتا ہوں اور غالباً ایک ایسے شخص سے جو ہمیشہ معقولیت پسند ہونے کا دعوے دار رہا ہوں، یہ بات دریافت کرنا غلط نہیں ہے۔ جواب میں ایک بات کو خاص طور پر ملحوظ رکھیے گا اور وہ یہ کہ آپ اگر سپاس نامے کے اس پورے عمل کو جائزثابت فرما بھی دیں تو کیا خود آ پ کے اصول کے مطابق احتیاط، دانش کی روش اور شریعت کی اسپرٹ کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ فتنے میں مبتلا ہونے سے بچنے کے لیے اس سے پرہیز کیا جاے اور کنویں کی منڈیر پر چہل قدمی کرنے کے بجائے ذرا پرے رہا جائے تاکہ پھسل کر کنویں میں گر جانے کا اندیشہ نہ رہے؟
استقبال کے موقع پر پھول برسانے کو میںبرا نہیں سمجھتا تھا لیکن اصلاحی صاحب اس کے جواز میں جو ثبوت لائے ہیں،اس نے مجھے یہ ضد کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ تحفہ، تحفہ ہے اور کسی بڑے آدمی کے استقبال کے موقع پر پھول برسانا اس کی عظمت کا اعتراف اور اس سے اپنی عقیدت کا اظہار ہے اور اس بڑے آدمی کی موجودگی میں،یہ فعل غالباً پسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی کسی کی عالی ظرفی اس امر کی ضمانت دیتی ہے کہ اگر اسے عام قاعدوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا تو وہ بگڑ نہیں جائے گا اور نہ ہی ہمارے پاس کسی کی عالی ظرفی اور اس کے باطن کا حال معلوم کرنے کا کوئی آلہ ہے۔
اگر جواب دیتے وقت جولائی کا فاران پیش نظر رہے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ اس لیے کہ اس میں مخالف وموافق دونوں نقطہ ہائے نظر کسی قدر تفصیل کے ساتھ آگئے ہیں۔اس کاجواب میں آپ ہی سے چاہتا ہوں۔ آپ کے کسی معاون سے نہیں۔ امید ہے آپ اپنی پہلی فرصت میں اس کا جواب دے دیں گے اور اس استفسار کو لغوسمجھ کر ٹالیں گے نہیں!

جواب: مولانا امین احسن صاحب تو اپنے کلام کے خود ہی شارح ہوسکتے ہیں، ان کی طرف سے جواب دہی کا فریضہ مجھ پر عائدنہیں ہوتا۔البتہ میں خود نہ سپاس ناموں کو پسند کرتا ہوں نہ پھولوں کے ہاروں اور ان کی بارش کو۔یہ سب کچھ میری مرضی کے بغیر، بلکہ اس کے خلاف ہی ہوتا رہا ہے اور مجھے مجبوراً اس لئے گوارا کرنا پڑا ہے کہ ایک طرف سے اخلاص ومحبت کا اظہار اگر کسی نامناسب صورت میں ہو تو دوسرا فریق بسا اوقات سخت مشکل میں پڑ جاتا ہے۔ آپ ہی بتایے کہ اگر میں کسی جگہ جاکر اتروں اور وہاں بہت سے لوگ ہار لے کر آگے بڑھیں تو کیا یہ کوئی اچھا اخلاق ہو گا کہ میں ان لوگوں کو ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دوں اور ان سے کہوں کہ لے جائو اپنے ہار، میں انہیں قبول نہیں کرتا۔یا میں کسی دعوت میں بلایا جائوں اور عین وقت پر مجھے معلوم ہو کہ داعیوں نے ایک سپاس نامہ نہ صرف تیار کرارکھا ہے بلکہ طبع بھی کرالیا ہے، اور میں کہوں کہ رکھو اپنا سپاس نامہ۔ یہ چیزیں اگر قطعی حرام ہوتیں تو میں ان کو رد کردینے اور ان کے مرتکبین کو ملامت کرنے میں حق بجانب بھی ہوتا۔ مگر محض کراہت اور خوف فتنہ کم ازکم میرے نزدیک اس بات کے لئے کافی نہیں ہے کہ میں اس پر سختی برتوں اور ان لوگوں کی دل شکنی کروں جو بہرحال مجھ سے کسی دنیوی غرض کی بِنا پر محبت نہیں رکھتے۔ میں زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتا ہوں اور یہی کر بھی رہا ہوں کہ لوگوں سے یہ طریق اظہار اخلاص چھوڑ دینے کی گزارش کروں۔ اس سے زیادہ اگر مجھے کچھ کرنا چاہیے تو وہ آپ مجھے بتا دیں۔ (ترجمان القرآن محرم۳۷۵اھ۔ستمبر۹۵۵اء)

غلط الزامات:

سوال: ہمارے علاقے میں ایک مولوی صاحب آپ کے خلاف تقریریں کرتے پھر رہے ہیں۔ ان میں جو الزامات وہ آپ پر لگاتے ہیں وہ یہ ہیں:
(۱) آپ نے اپنی کتاب’’ تفہیمات‘‘ میں سرقہ کے جرم پرہاتھ کاٹنے کی سزا کو ظلم قرار دیا ہے۔
(۲) آپ نے ’’ترجمان القرآن‘‘میں لکھا ہے کہ قیامت کے بعد یہ زمین جنت بنادی جائے گی، یعنی جنت آئندہ بننے والی ہے،اب کہیں موجود نہیں ہے،نہ پہلے سے بنی ہوئی ہوئی ہے۔
(۳) آپ نے’’ترجمان القرآن‘‘ میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جس جنت میں رکھے گئے،وہ اسی زمین پر تھی حالاں کہ یہ معتزلہ کا عقیدہ ہے۔
براہِ کرم ان الزامات کی مختصر توضیح فرما دیں تاکہ حقیقت حال معلوم ہوسکے۔

جواب: اﷲ تعالیٰ ان حضرات کو راست بازی و دیانت داری کی توفیق بخشے۔ افسوس ہے کہ یہ يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ المائدہ 13:5 کی عجیب مثالیں پیش کررہے ہیں اور کچھ نہیں سوچتے کہ سب کچھ یہی دنیا تو نہیں ہے ۔کبھی خدا کے سامنے بھی حاضر ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔جو الزامات آپ نے نقل کیے ہیں،ان کا مختصر جواب یہ ہے:

غیر اسلامی نظام میں اجرائے حدودِ شرعیہ:

(۱) صاحب موصوف کا اشارہ تفہیمات جلد دوم کے اس مضمون کی طرف ہے جو صفحہ ۲۸۰ تا ۲۸۵ پر درج ہے۔آپ اسے خود ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔سارا مضمون ان لوگوں کے شبہات کی تردید میں لکھا گیا ہے جو موجودہ تہذیب سے متاثر ہوکر حدودشرعیہ کو ظالمانہ اور وحشیانہ سزائیں قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں اپنے دلائل دیتے ہوئے میں نے جو کچھ لکھا ہے،اس کاخلاصہ یہ ہے کہ اسلامی قانون فوج داری کی دفعات اس مملکت کے لئے ہیں جس میںپورا اسلامی نظام زندگی قائم ہو نہ کہ اس مملکت کے لئے جس میں سارا نظام کفر کے طریقوں پر چل رہا ہو اور صرف ایک چوری یا زنا کی سزا اسلام کے قانون سے لے لی جائے۔چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا عین انصاف ہے اگر ملک کا معاشی نظام بھی اس کے ساتھ اسلامی احکام کے مطابق ہو،اور یہ قطعی ظلم ہے اگر ملک میں اسلام کی منشا کے خلاف سود حلال اور زکوٰۃمتروک ہو او رحاجت مند انسان کی دست گیری کا کوئی انتظام نہ ہو۔ اس ساری گفتگو میں سے اگر کوئی شخص صرف اتنی سی بات نکال لے کہ چوری پر ہاتھ کاٹنے کو یہ شخص ظلم کہتا ہے تو آپ خود ہی سوچیے کہ اس کی سخن فہمی کا ماتم کیا جائے یا دیانت کا۔

جنت کا محل وقوع:

(۲) یہ مضمون ترجمان القرآن بابت مئی ۵۵ء میں دومقامات پر بیان ہوا ہے۔ ایک صفحہ ۹اا۔۲۰ا پر، دوسرے صفحہ ۸۸ا۔۹۰ا پر۔ دونوں جگہ قرآن سے استدلال کرتے ہوئے میں نے یہ تو ضرور کہا ہے کہ یہ زمین عالم آخرت میں جنت بنا دی جائے گی اور صرف صالحین ہی اس کے وارث ہوں گے، مگر یہ کہیںنہیں کہا کہ کوئی جنت اب موجود نہیں ہے نہ پہلے سے بنی ہوئی ہے۔ آخر یہ دوسرا مضمون میرے قول میں سے کس طرح نکل گیا اور کہاں سے نکل آیا؟ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ فلاں جگہ مکان بنایا جائے گا، تو اس سے یہ کیسے لازم آ گیا کہ اس وقت کسی جگہ کوئی مکان نہیں ہے نہ پہلے کبھی بنایا گیا ہے۔دوسرے کی بات میں ایک بات اپنی طرف سے بڑھا کر الزام کی گنجائش نکالنے کایہ عجیب طریقہ ہے۔
(۳)اس خیال کا اظہار بے شک میں نے کیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جس جنت میں رکھے گئے تھے،وہ اسی زمین پر تھی،مگر یہ آخر کون سا گناہ ہے اور کس عقیدے سے ٹکراتا ہے۔مفسرین نے اس مسئلے پر تین مختلف قول اختیار کیے ہیں۔ایک یہ کہ وہ جنت آسمان پر تھی۔ دوسرا یہ کہ وہ زمین پر تھی۔ تیسرا یہ کہ اس معاملے میں سکوت ہی بہتر ہے۔ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ فلاں قول واجب الاذعان اسلامی عقیدہ ہے اور اس کے خلاف کہنے والا قابل الزام ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دوسرا قول بعض معتزلی علما نے اختیار کیاہے۔مگر یہ معتزلہ کے ان مخصوص مسائل میں سے نہیں ہے جن کی بِنا پر وہ معتزلی قرار دیے جاتے ہیں۔اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ ان کی ہر بات اعتزال اور ہر ایک رد کردینے کے لائق تھی تو یہ بڑی زیادتی ہے۔ان کے شدید ترین مخالف امام رازی تک نے ابو مسلم اصفہانی اور زمخشری جیسے معتزلیوں کی بہت سی باتوں کو قبول کیا ہے، اور دوسرے اہل علم نے بھی ان کو علمی اچھوت نہیں سمجھا کہ ایک بات کو صرف اس لئے رد کردیں کہ وہ کسی معتزلی نے کہی ہے۔ (ترجمان القرآن،ربیع الاوّل ۳۷۵اھ۔نومبر ۹۵۵اء)

فتنہ پردازی کا مرضِ لاعلاج:

سوال: رسائل ومسائل حصہ اوّل میں صفحہ ۵۳ پر آپ نے لکھا ہے کہ ’’یہ کانا دجال وغیرہ تو افسانے ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔‘‘ ان الفاظ سے متبادر یہی ہوتا ہے کہ آپ سرے سے دجال ہی کی نفی کررہے ہیں۔ اگرچہ اسی کتاب کے دوسرے ہی صفحے پر آپ نے توضیح کردی ہے کہ جس چیز کو آپ نے افسانہ قرار دیا ہے وہ بجائے خود دجال کے ظہور کی خبر نہیں بلکہ یہ خیال ہے کہ وہ آج کہیں مقید ہے،لیکن کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ آپ مقدم الذکر عبارت ہی میں ترمیم کردیں،کیوں کہ اس کے الفاظ ایسے ہیں جن پر لوگوں کو اعتراض کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔

جواب: جس عبارت کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے، وہ کوئی مستقل مضمون نہیں ہے بلکہ ایک سوال کا جواب ہے، اور ہر صاحب عقل آدمی جانتا ہے کہ جب کوئی بات کسی سوال کے جواب میں کہی جائے تو سوال سے قطع نظر کرکے محض جواب سے ایک مطلب نکال لینا صحیح نہیں ہوسکتا۔سائل کا سوال یہ تھا کہ کانا دجال کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کہیں مقید ہے، تو آخر وہ کون سی جگہ ہے؟آج تو دنیا کا کونہ کونہ انسان نے چھان مارا ہے،پھر کیوں کانے دجال کا پتا نہیں چلتا؟(رسائل ومسائل حصہ اوّل،صفحہ ا۵) اس کے جواب میں جو کچھ میں نے لکھا،اس کا تعلق لازماًاسی بات سے تھا جو سوال میں پیش کی گئی تھی،یعنی یہ کہ دجال آج کہیں مقید ہے، اور بعد میں دوسرے ہی صفحے پر خود میں نے اپنی مراد کی صراحت بھی کردی تھی ۔مگر اس پر بھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ جن لوگوں کو فتنہ پردازی پر اصرار ہے، وہ خدا کے خوف اور خلق کی شرم سے بے نیاز ہوکر اس عبارت کو غلط معنی پہنائے چلے جارہے ہیں۔اب کیا آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ آج میں اس عبارت میں ترمیم کردوں تو یہ لوگ اپنی اس روش سے باز آجائیں گے؟ آپ کے مشورے کی میں قدر کرتا ہوں اور آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ رسائل ومسائل کے آئندہ ایڈیشن میں یہ عبارت بدل دی جائے گی۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ مریض القلب لوگ اس ترمیم کا کوئی نوٹس نہ لیں گے اور سابق عبارت ہی سے مطلب براری کرتے رہیں گے۔ (ترجمان القرآن،ربیع الاوّل ۳۷۵اھ، نومبر ۱۹۵۵ء)

ناقابل توجیہ حوادثِ حیات:

سوال: انسانی زندگی میں بہت سے واقعات وحوادث ایسے رونما ہوتے رہتے ہیں کہ جن میں تخریب وفساد کا پہلو تعمیر واصلاح کے پہلو پر غالب نظر آتا ہے۔بہت سے واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کی کوئی حکمت ومصلحت سمجھ میں نہیں آتی۔اگر زندگی کا یہ تصور ہو کہ یہ خود بخود کہیں سے وجود میں آگئی ہے اور اس کے پیچھے کوئی حکیم وخبیر اور رحیم طاقت کارفرما نہیں ہے،تب تو زندگی کی ہر پریشانی اور اُلجھن اپنی جگہ صحیح ہے، کیوں کہ اس کو پیدا کرنے میں کسی عقلی وجود کو دخل نہیں ہے، لیکن مذہب اور خدا کے بنیادی تصورات اور ان واقعات میں کوئی مطابقت نہیں معلوم ہوتی۔
اگر یہ کہا جائے کہ ان مسائل کے حل کرنے کے ذرائع ہمارے پاس نہیں ہیں، تو یہ چیز بھی عجیب ہے کہ ذہن انسانی کو ان سوالات کی پیدائش کے قابل تو بنا دیا جائے،لیکن ان کا جواب دینے یا سمجھنے کے قابل نہ بنایا جائے، اَور سب ضروریات کا خیال رکھا جائے مگر ان ذہنی ضروریات کو نظر انداز کردیا جائے۔اس طرح تو خالق کی پالیسی میں بظاہر جھول معلوم ہوتا ہے۔(نعوذ باﷲ)

جواب: آپ جن الجھنوں میں پڑے ہوئے ہیں،ان کے متعلق میرا انداز ہ یہ ہے کہ میںان کو سلجھانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہہ سکتا ہوں،وہ یہ ہے کہ میرے نزدیک آپ کی فکر کا نقطۂ آغاز صحیح نہیں ہے۔ آپ جن سوالات سے غور وفکر کا آغاز کرتے ہیں، وہ بہرحال کلی سوالات نہیں ہیں بلکہ کل کے بعض پہلوئوں سے متعلق ہیں،اور بعض سے کل کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔آپ پہلے کل کے متعلق سوچیے کہ آیا یہ بغیر کسی خالق اور ناظم اور مدبر کے موجود ہوسکتا ہے یا نہیں۔ اگر خلق بے خالق اور نظم بے ناظم کے وجود پر آپ کا قلب مطمئن ہوجاتا ہے تو باقی سب سوالات غیر ضروری ہیں۔ کیوں کہ جس طرح سب کچھ الل ٹپ بن گیا، اسی طرح سب کچھ الل ٹپ چل بھی رہا ہے ،اس میں کسی حکمت، مصلحت اور رحمت وربوبیت کا کیا سوال۔ لیکن اگر اس چیز پر آپ کا دل مطمئن نہیں ہوتا تو پھر کل کے جتنے پہلو بھی آپ کے سامنے ہیں، ان سب پر بحیثیت مجموعی غور کرکے یہ جاننے کی کوشش کیجیے کہ ان اشیا کی پیدائش،ان کا وجود، ان کے حالات اور ان کے اوصاف میں ان کے خالق ومدبر کی کن صفات کے آثار وشواہد نظر آتے ہیں۔ کیاو ہ غیر حکیم ہوسکتا ہے؟ کیا وہ بے علم وبے خبر ہوسکتاہے؟ کیا وہ بے رحم اور ظالم اور تخریب پسند ہوسکتا ہے؟ اس کے کام اس بات کی شہادت ہیں کہ وہ بنانے والا ہے یا اس بات کی کہ وہ بگاڑنے والا ہے؟ اس کی بنائی ہوئی کائنات میں صلاح اور خیر اور تعمیر کا پہلو غالب ہے یا فساد اور شر اور خرابی کا پہلو؟ ان امور پر کسی سے پوچھنے کے بجائے آپ خود ہی غو رکیجیے اور خود رائے قائم کیجیے۔ اگر بحیثیت مجموعی اپنے مشاہدے میں آنے والے آثار واحوال کو دیکھ کر آپ یہ محسوس کرلیں کہ و ہ حکیم وخبیر ہے، مصلحت کے لئے کام کرنے والا ہے، اور اس کے کام میں اصل تعمیر ہے نہ کہ تخریب، تو آپ کو اس بات کا جواب خود ہی مل جائے گا کہ اس نظام میں جن جزوی آثار واحوال کو دیکھ کر آپ پریشان ہورہے ہیں،وہ یہاں کیوں پائے جاتے ہیں۔ ساری کائنات کو جو حکمت چلا رہی ہے،اس کے کام میں اگر کہیں تخریب کے پہلو پائے جاتے ہیں تو لامحالہ وہ ناگزیر ہی ہونے چاہییں۔ ہر تخریب تعمیر ہی کے لئے مطلوب ہونی چاہیے۔ یہ جزوی فساد کلی اصلاح ہی کے لئے مطلوب ہونا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ ہم اس کی ساری مصلحتوں کو کیوں نہیں سمجھتے، تو بہرحال یہ واقعہ ہے کہ ہم ان کو نہیں سمجھتے۔ یہ بات نہ میرے بس میں ہے اورنہ آپ کے بس میں کہ اس امر واقعی کو بدل ڈالیں۔ اب کیا محض اس لئے کہ ہم ان کو نہیں سمجھتے یا نہیں سمجھ سکتے،ہم پر یہ جھنجلاہٹ طاری ہوجانی چاہیے کہ ہم حکیم وخبیر کے وجود ہی کا انکار کردیں؟ آپ کا یہ استدلال کہ یا تو ہر جزوی حادثے کی مصلحت ہماری سمجھ میں آئے یا پھر اس کے متعلق کوئی سوال ہمارے ذہن میں پیدا ہی نہ ہو،ورنہ ہم ضرور اسے خالق کی پالیسی میں جھول قرار دیں گے، کیوں کہ اس نے ہمیں سوال کرنے کے قابل تو بنادیا لیکن جواب معلوم کرنے کے ذرائع عطا نہیں کیے، میرے نزدیک استدلال کی بہ نسبت جھنجلاہٹ کی شان زیادہ رکھتا ہے۔ گویا آپ خالق کو اس بات کی سزا دینا چاہتے ہیں کہ اس نے آپ کو اپنے ہر سوال کا جواب پالینے کے قابل کیوں نہ بنایا، اور وہ سزا یہ ہے کہ آپ اسے اس بات کا الزام دے دیں گے کہ تیری پالیسی میں جھول ہے۔ اچھا یہ سزا آپ اس کو دے دیں۔ اب مجھے بتائیے کہ اس سے آپ کو کس نوعیت کا اطمینا ن حاصل ہوا؟ کس مسئلے کو آپ نے حل کر لیا؟ اس جھنجلاہٹ کو اگر آپ چھوڑ دیں تو بآسانی اپنے استدلال کی کمزوری محسوس کرلیںگے۔حقیقت یہ ہے کہ سوال کرنے کے لئے جس قابلیت کی ضرورت ہے،جواب دینے یا جواب پانے کے لئے وہ قابلیت کافی نہیں ہوتی۔ خالق نے سوچنے کی صلاحیت تو آپ کو اس لیے دی ہے کہ اس نے آپ کو ’’انسان‘‘ بنایا ہے اور انسان ہونے کی حیثیت سے جو مقام آپ کو دیا گیا ہے، اس کے لئے یہ صلاحیت آپ کو عطا کرنا ضروری تھا۔ مگر اس صلاحیت کی بِنا پر جتنے سوالات کرنے کی قدرت آپ کو حاصل ہے،ان سب کا جواب پانے کی قدرت عطا کرنا اس خدمت کے لئے ضروری نہیں ہے جو مقام انسانیت پر رہتے ہوئے آپ کو انجام دینی ہے۔آپ اس مقام پر بیٹھے بیٹھے ہر سوال کرسکتے ہیں،لیکن بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کاجواب آپ اس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک کہ مقام انسانیت سے اٹھ کر مقام الوہیت پر نہ پہنچ جائیں، اور یہ مقام بہرحال آپ کو نہیں مل سکتا۔ سوال کرنے کی صلاحیت آپ سے سلب نہیں ہوگی،کیوں کہ آپ انسان بنائے گئے ہیں، پتھر یا درخت یا حیوان نہیں بنائے گئے ہیں۔ مگر ہر سوا ل کا جواب پانے کے ذرائع آپ کونہیں ملیں گے، کیوں کہ آپ انسان ہیںخدا نہیں ہیں۔ اسے اگر آپ خالق کی پالیسی میں’’جھول‘‘قرار دینا چاہیں تو دے لیجیے۔ (ترجمان القرآن، جمادی الاخریٰ۳۷۵اھ، فروری ۹۵۶اء)

خواب میں زیارتِ نبویؐ:

سوال: براہِ کرم مندرجہ ذیل سوال کے بارے میں اپنی تحقیق تحریرفرما کر تشفی فرمائیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو درحقیقت اس نے مجھے ہی دیکھا۔کیوں کہ شیطان میری تمثال میںنہیں آسکتا،او کما قال۔
اس حدیث کی صحیح تشریح کیا ہے؟کیانبیؐ کو جس شکل وشباہت میں بھی خواب میں دیکھا جائے تو یہ حضورؐ ہی کو خواب میں دیکھنا سمجھا جائے گا؟کیا حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو یورپین لباس میں دیکھنا بھی آپ کو دیکھنا سمجھا جائے گا؟ اور کیا اس خواب کے زندگی پر کچھ اثرات بھی پڑتے ہیں؟

جواب: اس حدیث کی صحیح تشریح یہ ہے کہ جس نے نبیؐ کو حضورؐ کی اصلی شکل وصورت میں دیکھا،اس نے درحقیقت آپ ؐ ہی کو دیکھا۔ کیوں کہ شیطان کو یہ قدرت نہیں دی گئی ہے کہ وہ آپؐ کی صورت میں آکر کسی کو بہکا سکے۔ اس کی یہی تشریح حضرت محمد بن سیرینؒ نیکی ہے۔ امام بخاریؒ کتاب التعبیر میں ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ اذ راٰہ فی صورتہٖ (جب کہ دیکھنے والے نے آپؐ کو آپؐ ہی کی صورت میں دیکھا ہو) علامہ ابن حجر صحیح سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص ابن سیرین سے کہتا کہ میں نے خواب میں نبیؐ کو دیکھا ہے تو وہ اس سے پوچھتے تھے کہ تو نے کس شکل میں دیکھا۔ اگر وہ آپ کی کوئی ایسی شکل بیان کرتا جو آپ کے حلیے سے نہ ملتی تھی تو ابن سیرین کہہ دیتے تھے کہ تو نے حضو رصلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا ہے۔ یہی طرزِ عمل حضرت ابن عباسؓ کا بھی تھا، جیسا کہ حاکم نے بسند نقل کیا ہے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ خود حدیث کے الفاظ بھی اسی معنی کی توثیق کرتے ہیں۔ جن مختلف الفاظ میں یہ حدیث صحیح سندوں سے منقول ہوئی ہے ان سب کا مفہوم یہی ہے کہ ’’شیطان نبیؐ کی شکل میں نہیں آسکتا۔‘‘ نہ یہ کہ شیطان کسی شکل میں آکر آدمی کو یہ دھوکا نہیں دے سکتا کہ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہے۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی جان لینی ضروری ہے کہ اگر کوئی شخص خواب میں نبیؐ کو دیکھے اور آپ سے کوئی امر یا کوئی نہی کا حکم سنے، یا دین کے معاملے میں کسی قسم کا ایما آپ سے پائے، تو اس کے لئے اس خواب کی پیروی اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک وہ اس تعلیم یا ایما کے مطابق کتاب وسنت ہونے کا اطمینان نہ کر لے۔اﷲ اور اس کے رسولؐ نے ہمارے لیے دین کا معاملہ خوابوں اور کشفوں اور الہاموں پر نہیں چھوڑا ہے ۔حق اور باطل اور صحیح اور غلط کو ایک روشن کتاب اور ایک مستند سنت میںپیش کردیا گیا ہے جسے بیداری میں اور پورے شعور کی حالت میں دیکھ کر راہ راست معلوم کی جاسکتی ہے۔اگر کوئی خواب یا کشف یا الہام اس کتاب اور اس سنت کے مطابق ہے تو خدا کا شکر ادا کیجیے کہ اﷲ نے حضورؐ کی زیارت نصیب کی،یا کشف والہام کی نعمت سے نوازا۔ لیکن اگر وہ اس کے خلاف ہے تو اسے ردکر کیجیے اور اﷲ سے دعا مانگیے کہ وہ ایسی آزمایشوں سے آپ کو اپنی پناہ میں رکھے۔
ان دو باتوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بکثرت لوگ گمراہ ہوئے ہیں اور ہوتے ہیں۔ متعدد آدمی میرے علم میں ایسے ہیں جو صرف اس بِنا پر ایک گمراہ مذہب کے پیرو ہوگئے کہ انہوں نے خواب میں نبیؐ کو اس مذہب کے بانی کی توثیق کرتے یا اس کی طرف التفات فرماتے دیکھا تھا۔ وہ اس گمراہی میں نہ پڑتے اگر اس حقیقت سے واقف ہوتے کہ خواب میں کسی شکل کے انسان کو نبیؐ کے نام سے دیکھ لینا درحقیقت حضورؐ کو دیکھنا نہیں ہے۔ اور یہ کہ خواب میں واقعی حضورؐ ہی کی زیارت نصیب ہو، تب بھی کوئی حکم شرعی اور امر دینی ایسے خواب سے اخذ نہیں کیا جاسکتا۔
بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر شیطان کے فریب سے تحفظ صرف اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ آدمی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی اصلی شکل میں دیکھے تو اس کا فائدہ صرف انہی لوگوں کو حاصل ہوسکتا تھا جنہوںنے آپ کو بیداری میں دیکھا تھا۔ بعد کے لوگ آخر کیسے جان سکتے ہیں کہ جو شکل وہ خواب میں دیکھ رہے ہیں، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہے یا کسی اور کی؟ ان کو اس حدیث سے کیا تسلی ہوئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بعد کے لوگ اس بات کا اطمینان تو نہیں کرسکتے کہ انہوں نے جو شکل خواب میں دیکھی وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی شکل تھی،مگر یہ تو معلوم کرسکتے ہیں کہ خواب کے معنی اور مضمون کی مطابقت قرآن و سنت کی تعلیم سے ہے یا نہیں۔ مطابقت پائی جاتی ہوتو پھر زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ انہوں نے خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی زیارت کی ہے،کیوں کہ شیطان کسی کو راہِ راست دکھانے کے لئے تو بہروپ نہیں بھرا کرتا۔
(ترجمان القرآن، ذی القعدہ ۳۷۵اھ، جولائی ۹۵۶اء)

گول مول جوابات:

سوال: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ ہمیشہ ہر مسئلے کا گول مول جواب دیتے ہیں،اور اگر مزید وضاحت چاہی جائے تو آپ بگڑ جاتے ہیں یا پھر جواب سے بے بس ہوکر انکار کردیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں ہنوز ایسے انسانوں کا ہم خیال نہیں ہوں ،کیوں کہ جہاں تک میں جانتا ہوں،آپ ہمیشہ مسئلے کو دوٹوک اور وضاحت سے سمجھاتے ہیں۔خدا کرے میرا یہ حسن ظن قائم رہے۔
گزارشات بالا کا لحاظ رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیجیے:
(۱) کوئی تارک الدنیا بزرگ ولی ہوسکتا ہے یا نہیں؟
(۲) حضرت رابعہ بصریؒ نے کیوں سنت نکاح کو ترک کیا تھا؟
(۳) حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی کے متعلق کہاجاتا ہے کہ انہوں نے اپنے پیرو مرشد حضرت خواجہ سیّد بابا فرید الدین گنج شکر کے ایک باطنی اشارے پر تاعمر شادی نہ کی تھی۔ آپ کے نزدیک پیرو مرشد کا خلاف سنت اشارہ کرنا اور مرید کا باوجود استطاعت کے سنت نکاح کو ترک کرنا کس حد تک درست ہے؟

جواب: میں معقول اور ضروری سوالات کا جواب تو ہمیشہ وضاحت کے ساتھ دینے کی کوشش کرتا ہوں، مگر بے کار اور غیر ضروری سوالات کے معاملے میں پیچھا چھڑانے کے سوا مجھے اور کوئی صحیح طریقہ معلوم نہیں ہے۔ اب آپ خود اپنے سوالات پر غور کیجیے۔ اگر آپ صرف پہلے سوال پر اکتفا کرتے تو میں با ٓسانی یہ جواب دے سکتا تھا کہ تارک سنت ولی نہیں ہوسکتا ۔اگر آپ تیسرے سوال کا صرف آخری حصہ پوچھتے تو اس کا بھی یہ جواب دیا جاسکتا تھا کہ کسی کے مشورے یا حکم سے ترک سنت جائز نہیں ہے۔مگر آپ اس سے آگے بڑھ کر دو مرحوم بزرگوں کا بھی مقدمہ پیش کردیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میں ان کے مقدمے کا فیصلہ سنائوں۔آپ بتائیے کہ آپ کا خود اس بحث میں پڑنا اور پھر مجھے بھی اس میں اُلجھانے کی کوشش کرنا کہاں تک صحیح ہے؟میرے یا آپ کے پاس یہ جاننے کا کیا ذریعہ ہے کہ حضرت رابعہ بصریہؒ نے اس قدر متبع سنت ہونے کے باوجود کیوں شادی نہ کی اور حضرت نظام الدینؒ کو ان کے شیخ نے کن مخصوص حالات یا اسباب کی بِنا پر مشورہ دیا ، اور دیا بھی تھا یا نہیں دیا۔ سارے حالات نہ میرے سامنے ہیں نہ آپ کے سامنے، اگر میں حالات سے واقفیت کے بغیر ان بزرگوں پر کوئی حکم لگائوں تو زیادتی کروں گا۔ اگر ان کے فعل کی تاویل کروں تو دوسرے لوگوں کے لئے بھی ترک سنت کی ترغیب کا ذریعہ بنوں گا۔ اور پھر نفس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے اس کی کوئی حاجت بھی نہیں ہے کہ آج میں یا آپ پچھلے بزرگوں کے معاملات کا فیصلہ کریں۔آپ خود مجھے بتایے کہ اس طرح کے سوالات سے اگر میں پیچھا چھڑانے کی کوشش نہ کروں تو کیا کروں؟ اسی طرح کے سوالات وجوابات کے بارے میں تو نبیؐ سے فرمایا گیا ہے:
فَلَا تُمَارِ فِيْہِمْ اِلَّا مِرَاۗءً ظَاہِرًا۝۰۠ وَّلَا تَسْتَفْتِ فِيْہِمْ مِّنْہُمْ اَحَدًاo الکہف 22:18
’’ان کے معاملے میں صرف سرسری بحث کیجیے اور ان سے متعلق ان میں سے کسی سے پوچھ گچھ نہ کیجیے۔‘‘ (ترجمان القرآن ،ذی القعدہ ۳۷۵اھ، جولائی ۹۵۶اء)

مباہلہ ومناظرہ:

سوال: میرے ایک عزیز نے جو ایک دینی مدرسے کے فارغ ہیں،مجھ سے یہ دریافت کیا ہے کہ مولانا مودودی دعوت مباہلہ ومناظرہ کو کیوں قبول نہیں کرتے حالاں کہ نبیؐ نے خود یہود سے مباہلہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا،اور انبیا وسلف صالحین بھی مناظروں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ مخالفین بار بار آپ کو چیلنج کرتے ہیں لیکن آپ ان سے نہ مباہلہ کرتے ہیں اور نہ ہی مناظرے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔میں نے اپنی حد تک اپنے عزیز کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے اور ان سے کہا ہے کہ ہر مباہلے یا مناظرے کی دعوت قبول کرنا فرض سنت نہیں ہے، تاہم اگر آپ بھی اس بارے میں اپنا عندیہ بیان کردیں تو وہ مزید موجب اطمینان ہوگا۔

جواب: آپ کے جن عزیز نے فرمایا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود سے مباہلے کا فیصلہ فرمایا تھا، ان کی معلومات ناقص ہیں۔ مباہلے کا فیصلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا تھا اور یہ مباہلہ یہود سے نہیں بلکہ عیسائیوں سے کیا گیا تھا۔ نبیؐ کی حیات طیبہ میں مباہلے کا صرف یہی ایک واقعہ ملتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام نے مباہلے کو نزاعی اُمور کے فیصلے کا مستقل طریقہ قرار نہیں دیا ہے کہ جب کبھی کسی کافر یا مسلمان سے کسی قسم کا اختلاف ہو تو فوراًمباہلے کی دعوت دے ڈالی جائے۔ پیشہ ور مناظرین نے آج کل مباہلے کو کشتی کے دائوں میں باضابطہ طور پر شامل کرلیا ہے۔ لیکن پوری تاریخ اسلام میں مباہلے کی دعوت دینے اور اسے قبول کرنے کی مثالیں مشکل ہی سے مل سکیں گی۔ صحابہ کرامؓ میں بڑے بڑے اختلافات ہوئے،حتیٰ کہ بعض اوقات لڑائیوں تک کی نوبت آئی، لیکن مباہلہ کرنے کی نوبت شاذ ونادر ہی آئی ہے۔ تابعین، تبع تابعین اور ائمۂ مجتہدین کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوئے، بڑے بڑے مسائل پر بحثیں بھی ہوئیں، لیکن مباحثہ کے بجائے مباہلے کا طریقہ اختیار نہیں کیا گیا۔ بعد کے زمانوں میں بھی علما کے مابین اختلاف رائے کا ظہور ہوا، تکفیر وتفسیق کا بازار بھی گرم ہوا، لیکن مباہلے کو کبھی کسی نے اپنا معمول نہیں بنایا۔
خود نبی ؐکے زمانے میں آپ کے مخالفین کثیر تعداد میںموجود تھے، یہود، نصاریٰ، منافقین ہر ایک نے قدم قدم پر آپ کی مخالفت کی مگر ایک نجران کے نصاریٰ کے سوا اورکسی سے مباہلہ کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی۔ اس سے یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ مباہلہ ایک استثنائی طریق کار تھا جسے بعض خاص وجوہ وحالات کی بِنا پر صرف نجران کے عیسائیوں کے معاملے میں خود اﷲ تعالیٰ نے متعین فرمایا تھا اور یہ مسائل کے تصفیے کا کوئی مقرر قاعدہ وضابطہ نہیں ہے جسے ہمیشہ ہر متنازع فیہ معاملے میں اختیار کیا جاسکے۔ نجران کے معاملے میں کیوں خاص طورپر یہ شکل اختیارکی گئی،اس کی ایک وجہ جو احادیث سے معلوم ہوئی ہے،وہ یہ ہے کہ نجران کے تین دینی پیشوا جو وفد کی شکل میں نبیؐ کے پاس آئے تھے،وہ اپنے دلوں میں آپ کی نبوت کے قائل اور معترف ہوچکے تھے،لیکن صرف اپنی قوم میں اپنا وقار برقرار رکھنے کے لئے ایمان لانے سے پرہیز کررہے تھے۔سفر کے دوران میں ان میں سے جب ایک نے نبیؐ کے حق میں ناشائستہ الفاظ اپنی زبان سے نکالے تو دوسرے نے فوراًٹوک دیا اور کہا کہ اس شخص( رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم) کے متعلق نا زیبا کلمات استعمال نہ کرو کیوں کہ یہ وہی نبی ہیں جن کے بارے میں پیشین گوئیاں ہماری کتابوں میں مذکور ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کو چوں کہ علم غیب کی بِنا پر ان کے دلوں کا چور معلوم تھا اور یہ بھی معلوم تھا کہ یہ لوگ اس دلی اعتراف کے بعد مباہلے کی دعوت قبول کرنے اور لَّعْنَتَ اللہِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَo آل عمران61:3 کہہ کر اپنے اوپر لعنت مسلط کرنے کی جرأت کبھی نہیںکریں گے، اس لیے ان کی باطنی کیفیت کو بے نقاب کرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے یہ شکل تجویز فرمائی۔ چنانچہ اس کا نتیجہ وہی نکلا۔ وفد نجران نے مباہلہ کرنے سے گریز کیا اور ان کا کذب ونفاق بالکل عیاں ہوگیا۔
آپ کے عزیز نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ میں مناظرہ کیوں نہیں کرتا، حالاں کہ انبیاوصلحا اپنے مخالفین سے مناظرے کرتے رہے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ مناظرہ یا مجادلہ صرف بحث واستدلال کی حد تک محدودتھا اور آ ج کل عرفِ عام میںجس چیز کو مناظرہ کہا جاتا ہے، اس کی نوعیت مرغ بازی کی سی ہے۔ معقول طریق پر اگر کوئی آدمی کسی مسئلے پر زبانی یا تحریری بحث کرے تو مجھے اس پر اعتراض نہیں ہوتا اور اگر ممکن اور ضروری سمجھوں تو ایسی بحث میں حصہ بھی لے لیتا ہوں۔ لیکن پیشہ ور اور جھگڑالو مناظرے بازوں سے چونچیں لڑانا میرا کام نہیں ہے۔ یہ مشغلہ جن لوگوں کو زیب دیتا ہے، وہ بخوشی اسے اختیار کیے رکھیں۔
(ترجمان القرآن ،ذی الحجہ ۳۷۵اھ، اگست ۹۵۶اء)

اعتراض کے پردے میں بہتان:

سوال: ترجمان رمضان ۳۷۵اھ میں آپ نے کسی کے چند اعتراضات شائع کرکے ان کے جواب دیے ہیں۔ اعتراض نمبر۱۲ کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ’’یہ اعتراض نہیں ہے بلکہ صریح بہتان ہے۔ میں نے اشارتاً و کنایتاً بھی یہ بات نہیں لکھی…‘‘ دراصل اس معترض مذکور نے حوالہ دینے میں غلطی کی ہے۔ عزیز احمد قاسمی بی۔ اے نے اپنی کتاب’’مودودی مذہب حصہ اوّل‘‘ میں اس عبارت کے لئے ترجمان ربیع الثانی ۵۷ھ کا حوالہ دیا ہے۔ براہِ کرم اس حوالے کی مدد سے دوبارہ تحقیق فرمائیں اور اگر عبارت منقولہ صحیح ہو تو اعتراض کا جواب دیں۔

جواب: میں پہلے ہی حیران تھا کہ میرے قلم سے تو کبھی وہ باتیں نکلی نہیں جو اس اعتراض میں میری طرف منسوب کی گئی ہیں تو اس الزام کا آخرماخذ کیا ہے۔ اب آپ کے حوالے کو نکال کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ مولوی صدر الدین صاحب اصلاحی کے ایک مضمون کے اقتباسات کو صرف اس بِنا پر بلا تکلف میرے سر منڈھ دیا گیا ہے کہ وہ مضمون ترجمان القرآن میں شائع ہوا تھا۔ حالاں کہ ہر مضمون کا مصنف خود ہی اپنے اقوال کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کے ہر ہر لفظ کو اس رسالے کے ایڈیٹر کی طرف تو منسوب نہیں کیا جاسکتا جس میں وہ شائع ہوا ہو۔
(ترجمان القرآن، محرم صفر ۳۷۶اھ، اکتوبر ۹۵۶اء)

بیوی اور والدین کے حقوق:

سوال: میں نے آپ کی کتابیں پڑھی ہیں،جن سے ذہن کی بہت سی گرہیں کھل گئی ہیں۔ لیکن ایک چیز جو پہلے بھی دل میں کھٹکتی تھی اور اب بھی کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے جہاں عورتوں کا درجہ کافی بلند کیا ہے،وہاں بحیثیت بیو ی کے بعض اُمور میں اس کو حقیر بھی کردیا ہے۔ مثلاًاس پر تین تین سوکنوں کا جلاپا جائز کردیا ہے، حالاں کہ قدرت نے عورت کی فطرت میں حسد بھی رکھا ہے۔ اسی طرح جہاں بیوی کو شوہر کے قبضہ واختیار میں رکھا گیا ہے،وہاں شوہر کو اپنے والدین کے قبضہ واختیار میں کردیا ہے۔ اس طرح شوہر والدین کے کہنے پر بیوی کی ایک جائز خواہش کو بھی پامال کرسکتا ہے۔ان اُمور میں بظاہر بیوی کی حیثیت چار پیسے کی گڑیا سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ میں ایک عورت ہوں اور قدرتی طور پر عورت کے جذبات کی ترجمانی کررہی ہوں۔ آپ براہِ کرم اس بارے میں میری تشفی فرمائیں؟

جواب: آپ نے دو وجوہ کی بِنا پر یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ عورت کی پوزیشن خانگی زندگی میں فروتر رکھی گئی ہے۔ایک یہ کہ مرد کو چار چارشادیاں کرنے کی اجازت ہے ،دوسرے یہ کہ شوہر کو والدین کا تابع رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات وہ اپنی بیوی کے جذبات اور اس کی خواہشات کو والدین کی رضا پر قربان کردیتا ہے۔ان وجوہ میں سے پہلی وجہ پر اگر آپ غور کریں تو یہ بات بہت آسانی کے ساتھ آپ کی سمجھ میں آسکتی ہے کہ عورت کے لئے تین سوکنوں کا برداشت کرنا جتنا تکلیف دہ ہے، اس سے بدرجہ ہا زیادہ تکلیف دہ چیز اس کے لئے یہ ہوسکتی ہے کہ اس کے شوہر کی کئی کئی محبوبائیں اور داشتائیں ہوں۔اسلام نے اسی کو روکنے کے لئے مرد کو ایک سے زائد نکاح کرنے کی اجازت دی ہے۔ایک مرد ناجائز تعلقات میں جتنا بے باک ہوسکتاہے،شادیاں رچانے میں اتنانہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ شادی کی صورت میں مرد کی ذمہ داریوں میںاضافہ ہوتا ہے اور طرح طرح کی پیچیدگیوں سے اسے سابقہ پیش آتا ہے۔یہ دراصل عورتوں ہی کے فائدے کے لئے ایک روک تھام ہے نہ کہ مردوں کے لئے بے جا رعایت۔ دوسرے طریقے کا تجربہ آج کل مغرب کی سوسائٹی کررہی ہے ۔وہاں ایک طرف تو جائز سوکنوں کا سد باب کردیا گیا ہے لیکن دوسری طرف ناجائز سوکنوں سے عورت کو بچانے کا کوئی انتظام اس کے سوا نہیں کیا گیا کہ وہ انہیں برداشت نہ کرسکے تو شوہر سے طلاق حاصل کرنے کے لئے عدالت میں نالش کردے۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اس سے عورت کی مصیبت کچھ کم ہوگئی ہے؟ چھڑی چھٹانک عورت تو شاید سوکن سے بچنے کے لئے طلاق کو آسان سمجھ لے مگر کیا بچوں والی عورت کے لیے بھی یہ نسخہ آسان ہے؟
دوسری جس شکایت کا اظہار آپ نے کیا ہے،اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ غالباً آپ ابھی تک صاحب اولاد نہیں ہیں،یا اگر ہیں تو آپ کے کسی لڑکے کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے۔آپ اس خاص معاملے کو ابھی تک صرف بہو کے نقطۂ نظر سے دیکھ رہی ہیں۔ جب آپ اپنے گھر میں خود بہو لے آئیں گی اوراس معاملے پر ماں کی حیثیت سے غو رکریں گی تو یہ مسئلہ اچھی طرح آپ کی سمجھ میں آجائے گا کہ بیوی کے حقوق کتنے ہونے چاہییں اور ماں باپ کے کتنے، بلکہ اس وقت شاید آپ خود انہی حقوق کی طالب ہوں گی جن پر آج آپ کو اعتراض ہے۔
(ترجمان القرآن،ربیع الاوّل ۳۷۶اھ، نومبر ۹۵۶اء)

اذکارِ مسنونہ:

سوال: آج آپ کی خدمت میں ایک خلش پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ توقع ہے کہ میری پوری مدد فرمائیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ میں ایک بریلوی خاندان کا فرد ہوں۔ بچپن میں غیر شعوری حالت میں والد بزرگوار نے حضرت سلطان باہوؒ کے سجادہ نشین سلطان امیر مرحوم کے ہاتھ پر میری بیعت کرائی۔
حضرت سلطان باہوؒ ضلع جھنگ کے ایک مشہور باخدا بزرگ ہیںجو حضرت اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں گزرے ہیں۔حضرت نے تبلیغ واشاعت دین میں پوری ہمت دکھائی اور جہاد میں بھی شرکت فرمائی۔
سجادہ نشین سلطان امیر مرحوم فرائض کے پابند، کبائر سے مجتنب خدا یاد آدمی تھے۔دربار میں جاتے تو مسنون طریقے سے دعائے مغفرت کرتے۔ لوگوں نے دربار کا طواف شروع کردیا تو موصوف نے دربار کے اندر ایک ایسی دیوار بنوا دی جس سے طواف ناممکن ہو گیا۔ ان کے ان اعمال اور خدا یاد ہونے کی وجہ سے مجھے ان سے بے حد عقیدت تھی۔مگر افسوس کہ اکتساب سے قبل میری کم عمری میں انتقال فرما گئے۔ پھر ایک ا ور بزرگ سے کچھ اوراد حاصل کیے جنہیں باقاعدگی سے پڑھتا تھا کہ ۴۳ء میں جماعت کی رکنیت سے سرفراز ہوا۔
اس کے بعد میرے اندر ایک زبردست کش مکش ہوئی۔ وہ یہ کہ سکون قلب کے لئے رکنیت اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا کافی محسوس ہوتا رہا۔ مگر ساتھ ہی اپنی توجہات کو سمیٹ کر ایک مرکز پر مجتمع رکھنے کے لئے اورادو وظائف کی تشنگی محسوس ہوتی۔اس مقصد کے لئے جب مختلف حضرات کی طرف نظر دوڑاتا تو اقامت دین کے بنیادی تقاضوں سے ان کی غفلت ان کی ساری وقعت گھٹا دیتی۔ اس کش مکش میں مدت ہوئی مبتلا ہوں۔ بعض دوستوں سے اپنی حالت کا ذکر بھی کرچکا ہوں۔ بالا ٓخر طبیعت کارجحان اس طرف ہوا کہ اس معاملے میں بھی آپ ہی کی طرف رجوع کروں۔
میری درخواست ہے کہ اذکارواورادِ مسنونہ میں سے کچھ ایسی چیز یا چیزیں میرے لئے تجویز فرمائیں جو:
(۱) میری طبیعت سے مناسبت رکھتی ہوں اور…
(۲) جن سے پندرہ بیس پچیس منٹ صرف کرکے اپنی توجہات کو سمیٹنے میںمدد لیا کروں۔مجھے پوری توقع ہے کہ آپ اس معاملے میں بھی رہنمائی کریں گے۔

جواب: ذکر کے معاملے میں دو باتیں پیش نظر رہنی چاہییں۔ایک یہ کہ ذکر بتکلف نہ ہونا چاہیے،بلکہ دلی رغبت اور شوق کے ساتھ ہونا چاہیے۔دوسرے یہ کہ ذکر کا انتخاب اپنے دلی ذوق کی بِنا پر کرنا چاہیے۔ذکر وہ کیجیے جس سے خود اپنی روح کی مناسبت آپ کو محسوس ہو،اور اس وقت کیجیے جب پوری توجہ اور رغبت کے ساتھ آپ کرسکیں۔ان دو باتوں کو ذہن میں رکھ کر آپ مشکوٰہ میں سے تین مقامات کو بغور پڑھیں۔کتاب الصلوٰۃ میں سے باب الذکر بعدالصلوٰۃ اور باب صلوٰۃ اللیل، باب القصد فی العمل اور کتاب الدعوات پوری۔ ان حصوں میں آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ نبیؐ ذکر ودعا کس طرح فرماتے تھے اور دوسروں کو آپ نے کیا کیا چیزیں اس سلسلے میں بتائی ہیں۔ ان میں سے جو جو چیزیں بھی آپ کے دل کو لگیں، ان کا انتخاب کرلیجیے۔
(ترجمان القرآن،شعبان، رمضان ۳۷۶اھ، جون ۹۵۷اء)

افسران بالا کے آنے پر مستعدی کی نمایش:

سوال: میں ایک ورکشاپ میں ملازم ہوں،مگر ہمیں کبھی کبھی باہر دوروں پر بھی جانا پڑتا ہے۔ان دنوں ہمیں کام بہت کم ہوتا ہے اور اس وجہ سے ہم اپنے اوقات کے اکثر حصے یونہی بے کار بیٹھ کر گزارتے ہیں ۔لیکن جب ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ ہمارا کوئی آفیسر یہاں سے گزرنے والا ہے یا گزر رہا ہے تو فوراً ہی ہم ادھر ادھر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ہاتھ پائوں مارنے شروع کردیتے ہیں تاکہ آفیسر کو معلوم ہوجائے کہ ہم کچھ کررہے ہیں۔ اور جب وہ گزر جاتا ہے تو پھر ہم آرام سے بیٹھ جاتے ہیں۔ اور بعض مواقع پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ پتا نہیں کہ آفیسر کو ہمارے متعلق کیا خیال گزرے گا۔ اگرچہ میں اس قسم کا مظاہرہ بہت کم کرتا ہوں۔ لیکن کبھی میں بھی ایسے کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہوں۔جب بھی اس قسم کی صورتِ حال سامنے آتی ہے تو طبیعت بہت پریشان ہوتی ہے۔ بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ چیز بھی مجھے خدا کی عدالت میں مجرم بنا کر کھڑا کردے۔ براہِ کرم اس سلسلے میں میر ی رہنمائی فرمائیں ۔

جواب: اگر آپ اپنے کام میںجان بوجھ کر غفلت نہ کررہے ہوں بلکہ کا م نہ ہونے کی وجہ سے بے کار بیٹھے ہوں اور آفیسر کے آنے پر محض مستعدی اور مصروفیت کی نمایش اس لئے کریں کہ آفیسر کی طرف سے ناراضی کا خطرہ ہے تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ جان بوجھ کر کام چھوڑنے کی صورت میں ایسا کرنا ناجائز ہو گا۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین کرلیجیے کہ ایک آفیسر ایسا بھی ہے جو ہر وقت ہر حال میں آپ کو دیکھ رہا ہے اور جس کو کسی جھوٹی نمایش سے دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ نیز جس کو سزا دینے کی طاقت تمام آفیسروں سے بڑھ کر حاصل ہے۔ جب کبھی آپ اور آپ کے ساتھی دنیا کے چھوٹے چھوٹے آفیسروں کی آمد پر گھبراہٹ میں مبتلا ہوا کریں، اس وقت ذرا اس بڑے آفسر کو بھی یاد کرلیا کریں۔

مصائب کے ہجوم میں ایک مومن کا نقطۂ نظر:

سوال: میرا تیسرا بیٹا پونے چار سال کی عمر میں فوت ہوگیا۔اﷲ تعالیٰ اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ یہاں آکر پہلے دو لڑکے فوت ہوئے، اب یہ تیسرا تھا۔ اب کسی نے شبہ ڈالا تھا کہ جادو کیا گیا ہے۔ جس دن سے یہ بچہ پیدا ہوا، اسی دن سے قرآن پاک کی مختلف جگہوں سے تلاوت کرکے دم کرتا رہا۔ فرق صرف یہ ہوا کہ پہلے لڑکے پونے دو سال کی عمر میں فوت ہوتے رہے، یہ پونے چار سال کو پہنچ گیا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ جادو بھی چند الفاظ ہوتے ہیں۔ اس کے توڑنے کو قرآن پاک کے الفاظ تھے۔ پھر دعائیں بھی بہت کیں۔ بوقت تہجد گھنٹوں سجدے میں پڑا رہا ہوں۔ لیکن کچھ شنوائی نہیں ہوئی۔ حالاں کہ اﷲ تعالیٰ کی ذات حاضر وناظر اور سمیع وبصیر ہے۔ کیا حق تعالیٰ جادو کے اثر کے لئے مجبور ہی ہوجاتے ہیں؟ لوگ قبر والوں کے نام کی بودیاں رکھ کر پائوں میں کڑے پہنا کر اولاد بچائے بیٹھے ہیں لیکن ہم نے اسے شرک سمجھ کر اس کی طرف رجوع نہ کیا۔ لیکن ہمیں بدستور رنج اٹھانا پڑا۔اکٹھے تین داغ ہیں جو لگ چکے ہیں۔براہِ کرم اس غم وافسوس کے لمحات میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب: آپ کے صاحب زادے کی وفات کا حال معلوم کرکے بڑا افسوس ہوا اور اس سے زیادہ افسوس یہ سن کر ہوا کہ اس سے پہلے بھی دو بچوں کا صدمہ آپ کو پہنچ چکا ہے۔ اولاد کے یہ پے درپے غم آپ کے اور آپ کی اہلیہ کے لئے جیسے ناقابل برداشت ہوں گے۔ اس کا مجھے خوب اندازہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ آپ دونوں کو صبر عطا فرمائے اور سیکنت بخشے۔
آپ کے خط سے مجھے محسوس ہوا کہ دل پر پے درپے چوٹیں کھانے کی وجہ سے آپ غیر معمولی طور پر متاثر ہوگئے ہیں۔ اگرچہ اس حالت میں نصیحت کرنا زخموں کو ہرا کردیتا ہے، اور مناسب یہی ہوا کرتا ہے کہ رنج وغم کا طوفانی دور ختم ہوجائے۔ مگر مجھے خوف ہے کہ اس دور میں کہیں آپ کے عقائد صالحہ پر کوئی آنچ نہ آجائے۔ اس لیے مجبوراًکہتا ہوں کہ آفات اور مصائب اور آلام کا خواہ کیسا ہی ہجوم ہو، مومن کو اپنے ایمان اور اﷲ کے ساتھ اپنے تعلق پر آنچ نہ آنے دینی چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ اس دنیا میں ہم کو ہر طرح کے حالات میں ڈال کر آزماتا ہے۔ غم بھی آتے ہیںاور خوشیاں بھی آتی ہیں۔ مصیبتیں بھی پڑتی ہیں اور راحتیں بھی میسر آتی ہیں۔ نقصان بھی ہوتے ہیں اور فائدے بھی پہنچتے ہیں۔ یہ سب آزمایشیں ہیں اور ان سب سے ہم کو بخیریت گزرنا چاہیے۔ اس سے بڑھ کر ہماری کوئی بدقسمتی نہیں ہوسکتی کہ ہم مصیبتوں کی آزمایش سے گزرتے ہوئے ایسے مضطرب ہوجائیں کہ اپنا ایمان اور اعتقاد بھی خراب کر بیٹھیں۔ کیوں کہ اس طرح تو ہم دنیا اور دین دونوں ہی کے ٹوٹے میں پڑ جائیںگے۔ آپ کو جن صدموں سے دوچار ہونا پڑا ہے، وہ واقعی دل ہلا دینے والے ہیں۔ لیکن اس حالت میں ثابت قدم رہنے کی کوشش کیجیے اور کوئی مشرکانہ خیال یا شرک کی طرف کوئی میلان، یا اﷲ سے کوئی شکایت دل میں نہ آنے دیجیے۔ہم اور جو کچھ بھی ہمارا ہے، سب کچھ اﷲ کا ہے۔ ملکیت بھی اسی کی ہے اور سارے اختیارات بھی اسی کے۔ ہمار ا اس پر کوئی حق یا زور نہیں ہے۔ جو کچھ چاہے عطا کرے او رجو کچھ چاہے چھین لے اور جس حال میں چاہے ہم کو رکھے۔ ہم اس پر اس شرط سے ایمان نہیں لائے ہیں کہ وہ ہماری تمنائیں پوری ہی کرتا رہے اور ہم کو کبھی کسی غم یا تکلیف سے دوچار نہ کرے۔ یہ شان بندگی نہیں ہے کہ اﷲ سے مایوس ہوکر ہم دوسرے آستانوں کی طرف رجوع کرنے لگیں۔ دوسر ے کسی آستانے پر سرے سے ہے ہی کچھ نہیں۔ وہاں سے بھی اگر بظاہر کچھ ملتا ہے تو خدا ہی کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ البتہ وہاں سے مانگ کر ہم جو کچھ پا سکتے ہیں،وہ ایمان کھو کر ہی پاسکتے ہیں۔ اور بہت سے بدقسمت ایسے ہیں جو وہاں ایمان بھی کھو تے ہیں اور مراد بھی نہیں پاتے۔ اس لیے آپ ایسے کسی خیال کو اپنے دل میں ہرگز نہ آنے دیں او رصبروثبات کے ساتھ اﷲ ہی کا دامن تھامے رہیں۔ خواہ غم نصیب ہو یا خوشی۔
جادو اور آسیب اور جفر وغیرہ میںکچھ نہیں رکھا ہے۔اﷲ تعالیٰ کی قدت سب پر حاوی ہے۔ آپ اﷲ سے دعا مانگتے رہیں۔ اسی سے پناہ طلب کرتے رہیں۔ اُمید ہے کہ آخر کار اس کا فضل آپ کے شامل حال ہو گا، اور کوئی بلا آپ کو یا آپ کی اولاد کو لاحق نہ ہوگی۔
(ترجمان القرآن۔جمادی الاخریٰ ۳۷۷اھ، جنوری ۹۵۸اء)

نظام تعلیم کے متعلق چند بنیادی سوالات:

سوال: بندہ درس و تدریس کے کام سے ایک عرصے سے وابستہ ہے اور آج کل یہا ں زیرتعلیم ہے۔یہاں ماہرین تعلیم سے اکثر تعلیمی موضوعات پر بحث رہتی ہے۔چنانچہ شکاگو یونی ورسٹی کی فرمایش پر بندہ ایک مقالہ قلم بند کرنے کی کوشش کررہا ہے،جس میں یہ بتانا مقصود ہے کہ پاکستان کی تعلیمی ضروریات امریکا اور دیگر ممالک کی ضروریات سے بہت مختلف ہیں۔ پاکستانی ضروریات کا حل اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں ہونا چاہیے۔اگر امریکن طرز تعلیم بغیر سوچے اختیار کیا گیا تو ناقابل تلافی نقصان ہونے کا خطرہ ہے۔
جناب کی بیش تر تصنیفات میر ی نظر سے گزر چکی ہیں اور اب رہنمائی کر رہی ہیں۔ ایک دو سوال کچھ اس پیچیدہ نوعیت کے درپیش ہوئے کہ میں نے ضروری سمجھا کہ جناب سے براہِ راست رہنمائی حاصل کی جائے۔اُمید ہے کہ آپ اپنی تمام مصروفیات کے باوجود کچھ وقت نکا ل سکیں گے۔ اپنی گزارشات سلسلہ وار تحریر کرتا ہوں:
(۱) جن ملکوں میں صنعتی ترقی ہوئی،وہاں لازمی طور پر عام اخلاقی تنزل ہوا۔ ملوں، کارخانوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے عورت، مرد، بچے تک مشینوں کے پرزے بن گئے۔ ان ملکوں میں نتیجے کے طور پر کچھ مفکر پیدا ہوئے(مثلاً امریکا میں جان ڈیوی) جنہوں نے نئی طرز کی زندگی کو نظریاتی سہارا دیا،روایات کو غلط قرار دیا اور سوسائٹی کی اقدار ہی کو بدل دیا۔ پاکستان میں ایک طرف تو صنعتی ترقی ضروری ہے ۔دوسری طرف اسلامی روایات اور اقدار کو قائم رکھنا فرض ہے۔ براہِ کرم فرمایے کہ یہ بظاہر متضاد مقاصد کیسے حاصل ہوسکتے ہیں؟مشینی فضا میں روح کیسے تازہ رہ سکتی ہے؟ تبدیلیاں لازمی ہیں مگر کس حد تک قابل قبول ہیں؟
(۲) اسلامی تعلیم کس قسم کی ہو؟ کیا سب کے لئے ہو؟ فری ہو یا نہ ہو ؟وہ نمونے کی شخصیت جو سکول کو پیداکرنی چاہیے اس کی بنیادی خصوصیات کیا ہیں؟کیا ہمارے دینی مدارس ایسی شخصیتیں پیدا کررہے ہیں؟
(۳) نمونے کی اسلامی گھریلوزندگی کی بنیادی خصوصیات کیا ہیں؟ کیا موجودہ گھریلو زندگی اسلامی ہے؟ کیا شہر اور گائوں میں ایک طرز کی گھریلو زندگی ہوگی؟ موجودہ گھریلو زندگی میں پرانی ہندوستانی روایات کا کتنا دخل ہے؟

جواب: یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ آپ آج کل امریکا میں فن تعلیم کی تحصیل مزید کررہے ہیں۔ جن موضوعات کا آپ نے اپنے عنایت نامے میں ذکر کیا ہے وہ فی الواقع بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ان کے متعلق مختصراً اپنے خیالات عرض کیے دیتا ہوں۔
انسانی تمدن میں مادّی تغیرات کی مثال ان تغیرات کی سی ہے جو فر دانسانی کے جسم میں بچپن سے جوانی، جوانی سے کہولت اور کہولت سے بڑھاپے کی طرف منتقل ہوتے وقت رونما ہوتے ہیں۔ان کا روح اور نفس سے گہرا تعلق ضرور ہے، مگر ان تغیرات کے نتائج کا کوئی ایسا متعین اور قطعی ٹھپا نہیں ہے جو تمام انسانوں کے نفس پر ہمیشہ یکسانی کے ساتھ لگتا ہو۔بلکہ ان میں فرد فرد کے لحاظ سے بھی اور انسانی جماعتوں کے لحاظ سے بھی بڑا فرق ہوتا ہے، جس میں بہت سے دوسرے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ اگر تعلیم، تربیت اور معاشرتی ڈھانچا جو کسی فرد انسانی کو میسر آئے، ایسا صالح ہو کہ فرد کو ارتقائے حیات کی طرف لے جانے کے ساتھ ساتھ وہ ایک عمدہ اور مضبوط سیرت کو بھی اس کے اندر نشو ونما دیتا رہے تو بچپن سے جوانی کی عمر میں داخل ہوتے وقت اس کی طبیعت کی جولانی غلط راہوں پر جانے کے بجائے بہترین تعمیری راہیں اختیار کرتی ہے او ریہ ارتقا بڑھاپے تک صحیح طریقے سے بڑھتا رہتا ہے۔ لیکن اگر تعلیم کسی صحیح فکر کو نشو ونما دینے والے فلسفے پر مبنی نہ ہو اور تربیت بھی غلط عادات وخصائل پیدا کرنے والی ہو اور پھر معاشرتی ڈھانچا بھی بگاڑنے والا ہی میسر آئے، تو ایک بچہ آغاز ہوش ہی سے مجرم بننا شروع ہوتا ہے۔ جوان ہوکر چو ر اورڈاکو بن کر اٹھتا ہے اور بڑھاپے تک اس کی جرائم پیشگی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح انسانی تمدن میں جو مادّی تغیر مثلاً صنعتی انقلاب سے رونما ہوا، اس میں بجائے خود کوئی خرابی نہ تھی۔ اس میں انسان کی بھلائی ہی کا سامان تھا،جیسے جوانی کا آنا بجائے خود کوئی برائی نہیں بلکہ انسان کے لئے اپنی ذات میں رحمت ہی ہے۔لیکن قصور اس فلسفۂ حیات کا تھا جو سولھویں، سترھویں صدی سے یورپ میں نشو ونما پار ہا تھا۔اس نے ذہن کو بگاڑا، ذہن کے بگاڑنے اخلاق خراب کیے، اور اخلاق کی خرابی نے معاشرتی ڈھانچے کو، جو دور جاگیر داری سے بگڑا ہوا چلا آرہا تھا، اور زیادہ بگاڑ کر رکھ دیا۔اس حالت میں صنعتی انقلاب کی طاقت میسر آجانے سے قوموں کی قومیں جرائم پیشہ بن گئیں اور اب ایٹم کی طاقت پاکر تہذیب کی ساری نمایشوں کے باوجود اسفل السافلین کی طرف جارہی ہیں۔ اس حالت میں جو فلاسفر لوگوں کو اس بگاڑ پر مطمئن کرنے کے لئے نئے نئے نظریاتی سہارے دیتے ہیں اور بگڑے ہوئے سانچے سے مطابقت پیدا کرنے کے لئے سوسائٹی کی اقدار بدلنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی مثال اس دوست نما دشمن کی سی ہے جو ایک بگڑتے ہوئے بچے کو پہلی مرتبہ جیب کاٹنے پر شاباش کہے اور اسے یقین دلائے کہ یہ جیب تراشی تو ایک بہترین آرٹ ہے جس کی مذمت کرنے والے لوگ محض دقیانوسی ہیں۔
میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ مادّی ترقی کے مقاصد اور اسلامی اقدار کے مقاصد میں کوئی حقیقی تضاد ہے ۔نہ میں یہ جانتا ہوں کہ یورپ میں صنعتی ترقی کے ساتھ جس مخصوص تمدن وتہذیب نے نشو ونما پایا ہے، یہ صنعتی ترقی سے کوئی جوہری تلازم رکھتا ہے، اور لازماًجب اور جہاں بھی یہ ترقی ہو گی، وہاں یہی تہذیب ظہور میں آئے گی،یا آنی چاہیے۔اسی طرح یہ مفروضہ بھی میرے لئے قابل قبول نہیں ہے کہ انسانی روح چرخے اور چاک اور چکی کے ساتھ تو تازہ دم رہ سکتی ہے مگر مشین ہی کی فطرت کچھ ایسی ہے کہ اس سے سابقہ پیش آتے ہی اس روح پر مردنی چھا جائے۔میرے نزدیک ایک صحیح فلسفۂ حیات سے اگر ذہن درست کیے جائیں،ایک صالح نظام اخلاق اگر سیرت گری کے لئے استعمال کیا جائے، اور ایک معتدل ومتوازن معاشرتی ڈھانچا انسانوں کو سنبھالنے کے لئے موجود ہو تو صنعتی ارتقا اور سائنس سے حاصل ہونے والی قوتوں کا استعمال موجودہ مغربی تمدن وتہذیب سے بنیادی طور پر بالکل مختلف ایک دوسرے تمدن و تہذیب کو نشو ونما دے سکتا ہے، جو اس سے بدرجہ ہازیادہ طاقت وَر بھی ہو اور پھر انسانیت کے لئے باعث رحمت بھی۔ مجھے یقین ہے کہ اسلام اور صرف اسلام ہی ہمیں اس طرح کا فلسفۂ حیات اور نظام اخلاق دے سکتا ہے اور اس کی رہنمائی عملاً قبول کرکے اگر ہم اس کی ہدایات کے مطابق اپنا نظام تعلیم وتربیت عامہ، اور اپنا معاشرتی ڈھانچا بنا لیں تو ان شرائط کی تکمیل ہوسکتی ہے جو اوپر میں نے مادّی ترقی کے ساتھ ایک صالح تہذیب کی تشکیل کے لئے بیان کی ہیں۔ اس معاملے میں یہودیت پہلے ہی مایوس کن تھی۔ عیسائیت نئے دور کے آغاز ہی میں ناکام ثابت ہوگئی۔ اور بودھ مت سرے سے اس میدان کا مرد تھا ہی نہیں۔ رہے جدید مذاہب، سوشلزم، فاشزم اور کیپٹل ازم، سو وہ اپنے تمام عیوب ومحاسن کھول کر سامنے لا چکے ہیں اور دنیا خوب دیکھ چکی ہے کہ ان کے محاسن کو ان کے عیوب سے کیا نسبت ہے۔ نیا کوئی فلسفہ بھی اب تک ایسا سامنے نہیں آیا ہے جو ایک تہذیب کی بنیاد بننے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اس کو سوچنے والے تمام تر اہل مغرب ہیں اور وہ اپنی اس تہذیب کے زہریلے پن سے تنگ آنے کے باوجود اس کی بنیادوں میں تغیر کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔بلکہ ان کے ذہن اس کے حدود سے آزاد ہوکر سوچنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے ۔وہ صرف جزوی ترمیمات سے کام چلانا چاہتے ہیں، اور ان میں سے اکثر کی تجویز کردہ ترمیمیں مزید بگاڑ ہی کی طرف لے جانے والی ہیں۔
اس مختصر خط میں میرے لئے وہ وجوہ بیان کرنا مشکل ہے جن کی بِنا پر میں اس معاملے میں اسلام کو علیٰ وجہ البصیرت کافی ہی نہیں بلکہ انسانیت کے لئے ایک ہی شعاع اُمید سمجھتا ہوں۔ان دلائل کے اعادے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ میں انہیں اپنی متعدد کتابوں میں بیان کرچکا ہوں، مثلاً اسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی، مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش حصہ سوم وغیرہ، اس کے علاوہ میرے بہت سے مضامین میں بھی اس کی طرف اشارات موجود ہیں۔
آپ کے دوسرے سوالات کا جواب یہ ہے کہ اسلامی تعلیم اس دور کے لئے جس طرز پر دی جانی چاہیے،اسے میں نے اچھی خاصی تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب’’تعلیمات‘‘میں بیان کیا ہے،آپ اسے ملاحظہ فرما لیں۔میرے نزدیک یہ تعلیم ہر بچے کو ملنی چاہیے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، البتہ اس کے مدارج میں صلاحیتوں کے لحاظ سے فرق کیا جانا چاہیے۔ اس کو ابتدائی حد تک جبری اور کم ازکم ثانوی حد تک سب کے لئے بالکل مفت ہونا چاہیے،اور آگے کے مدارج میں خاص صلاحیت رکھنے والے نوجوانوں کی کفالت بھی ریاست کو کرنی چاہیے۔جو نمونے کی شخصیت ایک مدرسے کو پیدا کرنی چاہیے،اس کی خصوصیات صرف چار اسلامی اصطلاحوں میں بیان کی جاسکتی ہیں:مومن ہو،مسلم ہو، متقی اور محسن ہو۔ ان اصطلاحوں کو آپ جتنے زیادہ وسیع معنوں میں لیں گے، شخص مطلوب اتنا ہی زیادہ جامع کمالات ہوگا۔ تنگ معنوں میں لیں تو صنعتی ترقی کی باتیں اور اس ترقی میں موجودہ تہذیب وتمدن کے فاسق وفاجر کھلاڑیوں سے مسابقت کا خیال چھوڑ دیں،پھر ان شاء اﷲ پاکستان وہندستان کی ہر مذہبی درس گاہ میں آپ کو نمونے مل جائیں گے۔
ہماری گھریلو زندگی کی بنیادی خصوصیات اسلام کی رو سے چار ہیں:ایک تحفظ نسب، جس کی خاطر زنا کو حرام اور جرم قابل تعزیر قرار دیا گیا ہے،پردے کے حدود قائم کیے گئے ہیں اور زن ومرد کے تعلق کو صرف جائز قانونی صورتوں تک محدود کردیا گیا ہے،جن سے تجاوز کا اسلام کسی حال میں بھی روادار نہیں ہے۔ دوسرے تحفظ نظام عائلہ جس کے لئے مرد کو گھر کا قوام بنایا گیا ہے،بیوی اور اولاد کو اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور اولاد پر خدا کے بعد والدین کا حق سب سے زیادہ رکھا گیا ہے۔ تیسرے حسن معاشرت جس کی خاطر زن ومرد کے حقوق معین کردیے گئے ہیں،مرد کو طلاق کے اور عورت کو خلع کے اور عدالتوں کو تفریق کے اختیارات دیے گئے ہیں، اور الگ ہونے والے مرد وزن کے نکاح ثانی پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے تاکہ زوجین یا تو حسن سلوک کے ساتھ رہیں، یا اگر باہم نہ نباہ سکتے ہوں تو بغیر کسی خرابی کے الگ ہوکر دوسرا بہتر خاندان بنا سکیں۔ چوتھے صلۂ رحمی جس سے مقصود رشتہ داروں کو ایک دوسرے کا معاون و مددگار بنانا ہے اور اس غرض کے لئے ہر انسان پر اجنبیوں کی بہ نسبت اس کے رشتہ داروں کے حقوق مقدم رکھے گئے ہیں۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس بہترین نظام عائلہ کی قدر نہ پہچانی اور اس کی خصوصیات سے بہت کچھ دُور ہٹ گئے ہیں۔ اس نظام عائلہ کے اصولوں میں شہری اور دیہاتی کے لئے کوئی فرق نہیں ہے۔رہے طرزِ زندگی کے مظاہر، تو وہ ظاہر ہے کہ شہروں بھی یکساں نہیں ہو سکتے،کجا کہ شہریوں اور دیہاتیوں کے درمیان کوئی یکسا نی ہو سکے۔ فطری اسباب سے ان میں جو فرق بھی ہو،وہ اسلام کے خلاف نہیں ہے، بشرطیکہ بنیادی اصولوں میں رد وبدل نہ ہو۔
(ترجمان القرآن ،جلد نمبر ا۵، عدد ۶،مارچ ۹۵۹اء)

شیطان کی حقیقت:

سوال: لفظ شیطان کی ماہیت کیا ہے جو قرآن میں متعدد مقامات پر مذکور ہے اور یوں بھی عام فہم زبان میں استعمال ہوتا ہے۔کیا شیطان ہم انسانوں جیسی کوئی مخلوق ہے جو زندگی وموت کے حوادث سے دوچار ہوتی ہے اور جس کا سلسلہ توالد وتناسل کے ذریعے قائم ہے؟کیا یہ بھی ہماری طرح ہم آہنگی میں مربوط ہوتی ہے جس طرح سے ہم کھانے کمانے اور دیگر لوازمات زندگی میں مشغول رہتے ہیں؟اس کے انسان کو دھوکا دینے کی کیا قدرت ہے؟کیا یہ اعضائے جسمانی میں سرایت کرجانے کی قدرت رکھتی ہے اور اس طرح انسان کے اعصاب ومحرکات پر قابو پالیتی ہے اور بالجبر اسے غلط راستے پر لگا دیتی ہے؟اگر ایسا نہیں ہے تو پھر دھوکا کیسے دیتی ہے۔
یا شیطان عربی زبان کی اصطلاح میں محض ایک لفظ ہے جو ہر اس فرد کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو تخریبی پہلو اختیار کرلے۔ یا یہ انسان کی اس اندرونی جبلت کا نام ہے جسے قرآن نفس امارہ یا نفس لوامہ کے الفاظ سے تشبیہ دیتا ہے۔یعنی نفس جو غلط کاموں کی طرف اُکساتا ہے۔چوں کہ شیطان کا حربہ بڑا خطرناک ہوتا ہے اس لیے اس سے بچنے کی خاطر یہ سوال پوچھا جارہا ہے۔

جواب: شیطان کے متعلق میرے پاس کوئی ذریعۂ معلومات قرآ ن اور حدیث کے سوا نہیں ہے۔ اس ذریعے سے جو کچھ معلوم ہے وہ یہ ہے کہ شیطان محض کسی قوت کا یا انسان ہی کے کسی رجحان کا نام نہیں ہے بلکہ وہ جنوں میں سے ہے اور جن ہماری طرح ایک مستقل مخلوق ہے جس کا ہر فرد،فرد انسان کی طرح ایک شخصیتpersonality) (رکھتا ہے۔ اس کی معیشت اور اس کے مشاغل اور توالد وتناسل وغیرہ کے متعلق ہم کچھ زیادہ نہیں جانتے۔اس کو ہمارے جسم پر قبضہ کرکے ہم سے بالجبر کوئی کام کرا لینے کے اختیارات نہیں دیے گئے ہیں۔وہ صرف ہمارے نفس کو ترغیب دینے،اُکسانے اور برے کاموں کی طرف مائل کرنے یا وساوس اور شبہات ڈالنے کا کام کرسکتا ہے۔ اور ہم چاہیں تو اس کی ترغیبات کو رد کرکے اپنے ارادے سے ایک راہ اختیار کرسکتے ہیں۔
(ترجمان القرآن،جلد ۵۲، عدد۵ ۔اگست ۹۵۹اء)

سوال: جب بھی کسی برائی کے سرز د ہوجانے کے بعد مجھے مطالعۂ باطن کا موقع ملا ہے،تو میں نے یوں محسوس کیا ہے کہ خارج سے کسی قوت نے مجھے غلط قدم اٹھانے پر آمادہ نہیں کیا بلکہ میری اپنی ذات ہی اس کی ذمہ دار ہے۔جب میری جبلی خواہش میرے فکر پر غالب آجاتی ہے اور میری روح پر نفسانیت کا قبضہ ہوجاتا ہے تو اس وقت میں گناہ کا ارتکاب کرتا ہوں۔باہر سے کوئی طاقت میرے اندر حلول کرکے مجھے کسی غلط راہ پر نہیں لے جاتی۔ مگر جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری ان فکری اور عملی گمراہیوں کا محرک شیطان ہے جو اپنا ایک مستقل وجود رکھتا ہے۔یہ دشمن انسانیت کبھی خارج سے اور کبھی انسان کے اندر گھس کر اسے غلط راستوں پر لے جاتا ہے۔اس سلسلے میں دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ آپ بھی شیطان کو ایک مستقل وجود رکھنے والی ایسی ہستی تسلیم کرتے ہیں جو انسان کو بہکاتی اور پھسلاتی ہے۔

جواب: شیطان کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ وہ جن کی نوع کا ایک فرد ہے ،اور اس نوع کے بہت سے افراد نوع انسانی کی طرح مومن بھی ہیں اور کافر بھی۔نیز شیاطین جن انہی کافروں میں سے ہیں۔اسی طرح قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ جنوں کی نوع ناری الخلقت ہے۔ مجھے اس نوع کے وجود میں کوئی اشکال محسوس نہیں ہوتا۔ مادّہ اور قوت (energy) کے متعلق ہماری معلومات درحقیقت ابھی بالکل ابتدائی ہیں۔ قوت کے مادّی صورت اختیار کرنے کے بعد کی حالتوں کے متعلق تو ہم نسبتاً کچھ زیادہ جانتے ہیں مگر مادّی صورت اختیار کیے بغیر محض قوت رہنے کی حالت میں وہ کیا کیا کچھ ہوسکتی ہے ،اس علم کی سرحد سے ابھی ہم آگے نہیں بڑھ سکے۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے ،اور آخر کیوں ممکن نہیں ہے کہ محض توانائی ہونے کی حالت میں بھی مختلف انواع کی موجودات اس کائنات میں ہوں؟ اور ان میں بعض قسم کی موجودات ایسی بھی ہوں جن کے افراد شعور وارادہ اور حرکت وعمل کی قدرت کے ساتھ اپنی ایک مستقل ذات رکھتے ہوں؟شیطان میرے نزدیک اسی نوعیت کی ایک مخلوق ہے اور یہ مخلوق بھی ہماری طرح اس کرۂ زمین میں پائی جاتی ہے۔
رہا ہمارے نفس کے ساتھ اس کا ربط(contact)اور اس کا ہمارے اندر کے معرکۂ خیر وشر میں شرکے رجحانات کو تقویت پہنچانا،تو یہ بھی کوئی ناقابل یقین یا ناقابل تعقل بات نہیں ہے۔اپنے نفس کے متعلق ابھی ہماری معلومات بہت کم ہیںاور اس کی ترکیب کی گتھیوں کو ہم سلجھا نہیں سکے ہیں۔ یہ بات بعید نہیں کہ جس وقت ہم اپنے اندر ایک کش مکش میں مبتلا ہوتے ہیں اور یہ آخری فیصلہ ابھی ہم نے نہیں کیا ہوتاہے کہ خیر اور شر میں سے کس پہلو کو اختیار کریں ،اس وقت کوئی غیر محسوس خارجی موثر ہمارے رجحاناتِ شر کو تقویت پہنچاتا ہو،اور اسی طرح کوئی دوسرا غیر محسوس خارجی موثر(یعنی فرشتہ) ہمارے رجحانات خیر کو مدد دے رہا ہو،بغیر اس کے کہ ہم اس کے عمل اور طریق عمل کا ادراک کر سکیں۔ اگرچہ اس کا ادراک ہمیں نہیں ہوتا، لیکن اگر ایسی کش مکش کے مواقع پر بہت زیادہ غور سے اپنی اندرونی حالت کا جائزہ لیا جائے تو ایک دھند لا سا خیال ضرور آتا ہے کہ خارج سے بھی کوئی چیز ہمارے داخلی عوامل کے ساتھ کام کررہی ہے۔ میں نے خود کبھی کبھی اس کو محسوس کیا ہے۔ بہرحال کسی غیر مادّی صاحب تشخص ہستی کا ہمارے قوائے نفسانی سے براہِ راست ربط قائم کرنا اور ان کو متاثر کرنا کوئی بعید ازامکان بات نہیں ہے اور نہ اس کا تصور کرنا کچھ مشکل ہے۔ الا یہ کہ ہم پہلے ہی سے یہ فرض کر بیٹھیں کہ اس کائنات میں ہماری موجودات کے سوا اور کسی قسم کی موجودات نہیں ہیں۔ (ترجمان القرآن، جلد ۵۳، عدد ۲۔ نومبر۹۵۹اء)

لفظ فطرت کا مفہوم:

سوال: ایک لفظ’’فطرت‘‘ کا استعمال بہت عام ہے۔آخر فطرت ہے کیا چیز؟ کیا یہ انسان کی خود پیدا کردہ چیز ہے؟یا فطرت انسان کی ان پیدایشی صلاحیتوں کا نام ہے جو وہ ماں کے پیٹ سے لے کر پیدا ہوتا ہے؟کیا فطرت انسان کی اپنی جدوجہد سے اچھی یا بری بن سکتی ہے یا انسان اس معاملہ میں بالکل مجبور ہے؟اگر نہیں تو کیا فطرت کے نقائص جدوجہد کے ذریعے دور کیے جا سکتے ہیں؟ یہ سوال میری اپنی ذات سے متعلق ہے۔میر ی فطرت انتہائی ناقص ساخت کی معلوم ہوتی ہے جس کے اثرات میری گھٹی میں سمائے ہوئے ہیں اور باوجود انتہائی کوششوں کے دور نہیں ہوتے۔اس لئے آپ سے استدعا ہے کہ مجھے کوئی مشورہ دیں۔

جواب: فطرت کے اصل معنی ساخت کے ہیں۔یعنی وہ بناوٹ جو اﷲ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے ہر ایک جنس،نوع اور فرد کو عطا کی ہے ،اور وہ صلاحیتیں اور قوتیں جو اس نے ہر ایک کی ساخت میں رکھ دی ہیں۔ ایک فطرت بحیثیت مجموعی انسان کی ہے جو پوری نوع انسانی میں پائی جاتی ہے۔ ایک فطرت ہر ہر انسانی فرد کی جدا جدا بھی ہے، جس سے ہر ایک کی الگ ایک مستقل شخصیت وانفرادیت تشکیل پاتی ہے۔ اور اسی فطرت میں وہ قوتیں بھی شامل ہیں جن کو استعمال کرکے اپنے آپ کو درست کرنے یا بگاڑنے،اور دوسروں کے مفید یا مضر اثرات کو قبول یا رد کرنے کی قدر ت انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے نہ تو یہ کہنا درست ہے کہ انسان اپنی فطرت کو بنانے یا بدلنے پر کامل قدرت رکھتا ہے اور نہ یہ کہنا درست ہے کہ وہ بالکل مجبور ہے اور کوئی قدرت اس کو سرے سے حاصل ہی نہیں ہے۔ بات ان دونوں کے درمیان ہے۔آپ کوشش کرکے اپنی بعض فطری کمزوریوں کی اصلاح بھی کرسکتے ہیں اور یہ اصلاح کی فطرت بھی آپ کی فطرت ہی کا ایک حصہ ہے۔ آپ نے اپنی جن کمزوریوں کا ذکر کیا ہے،اپنے نفس کا جائزہ لے کر ان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ پھر اپنی قوت فکر وفہم، قوت تمیز اور قوت ارادی سے کام لے کر بتدریج ان کو گھٹانے اور اعتدال پر لانے کی کوشش کرتے چلے جائیں۔ آپ کا یہ کہنا کہ میرے اندر یہ یہ کمزوریاں ہیں، خود اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ انہیں محسوس کرتے ہیں۔اب جس وقت بھی ان میں سے کسی کمزوری کا ظہور شروع ہو اور آپ کو محسوس ہوجائے کہ اس کمزوری نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا ہے ،اسی وقت اپنی ارادی قوت کو اس کی روک تھام کے لئے استعمال کرنا شروع کردیجیے اور اپنی قوت فکر وفہم اور قوت تمیز سے کام لے کر معلوم کیجیے کہ نقطہ اعتدال کون سا ہے،جس کی طرف اپنے آپ کو موڑنے اور آگے بڑھانے کے لئے آپ اپنی ارادی قوت استعمال کریں۔
(ترجمان القرآن، جلد ۵۲، عدد ۲۔ اگست ۹۵۹اء)

فتنۂ تصویر:

سوال: آج کل تصویروں اور فوٹو گرافی کا استعمال کثرت سے ہے ۔زندگی کے تقریباًہر شعبے میں ان کا استعمال ایک تہذیبی معیار بن گیا ہے۔بازار کی دکانوں میں،مکانوں کے ڈرائنگ روموں میں،رسالوں کے سرور ق پر، اخباروں کے کالموں میں،غرض کہ جس طرف بھی نگاہ اٹھتی ہے،اس لعنت سے سابقہ پڑتا ہے، اور بعض اوقات توجہ مبذول ہوکے رہتی ہے۔کیا نسوانی تصویروں کو بھی پوری توجہ کے ساتھ دیکھنا گناہ ہے؟

جواب: تصویروں کا فتنہ فی الواقع ایک بلائے عام بلکہ سیلاب بلا کی صورت اختیار کرگیا ہے جس کا کوئی علاج میرے علم میں اس کے سوا نہیں ہے کہ بحیثیت مجموعی نظام زندگی میں تغیر واقع ہو اور اس نظام کی زمام کار ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہو جو معاشرے میں تمام منکرات کے ظہور کو روک دیں۔ جب تک یہ سیلاب اُمنڈ رہا ہے،جو شخص جس حد تک بھی اس سے بچ سکتا ہو، بچنے کی کوشش کرے۔ نسوانی تصویروں کے ساتھ بھی وہی غض بصر کا معاملہ کرنا چاہیے جو خود عورتوں کے لئے شریعت نے لازم کیاہے،کیوں کہ جیتی جاگتی عورت کو گھورنے اوراس کی تصویر کو دیکھنے کے اثرات ونتائج قریب قریب یکساں ہیں۔ (ترجمان القرآن۔جلد ۵۲،عدد ۵۔اگست ۹۵۹اء)

قرآن اور سائنس:

سوال: مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت اس بات کو صحیح قرا ردیتی ہے کہ قرآن میں بعض باتیں ایسی درج ہیں جو سائنس کے بالکل خلاف ہیں۔بہت سے اصحاب علم کا کہنا ہے کہ قرآن پاک میں زمین کی گردش کا کہیں نام ونشان تک نہیں بلکہ سورج کا گردش کرنا ثابت ہے۔

جواب: یہ خیال بالکل غلط ہے کہ قرآن میں کوئی بات سائنس کے ثابت شدہ حقائق سے ٹکراتی ہے۔سائنس دانوں کے نظریات اور مفروضات سے تصادم اور چیز ہے اور حقائق واُمور واقعیہ سے تصادم اور چیز۔ پہلی چیز سے تصادم کی ہمیں کوئی پروا نہیں، لیکن دوسری چیز سے تصادم کی کوئی مثال اگر کسی کے علم میں ہو تو ہمیں بتائے۔ زمین کی گردش کے بارے میں آپ نے جو سوال کیا ہے،اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن پاک نہ اس کی حرکت کی صراحت کرتا ہے نہ سکون کی۔ البتہ بعض مقامات پر ضمناً جو اشارات نکلتے ہیں،ان سے حرکت ہی کے تصور کو تقویت ملتی ہے۔رہا سورج، تو یہ خیال خود سائنس میں بہت پرانا ہوچکا ہے کہ وہ ساکن ہے۔اب تو ہیئت دان خود کہتے ہیں کہ وہ اپنے پورے نظام شمسی کو لئے ہوئے حرکت کررہا ہے۔ (ترجمان القرآن، جلد ۵۲،عدد۵،۹۵۹اء)

مسئلہ ارتقا:

سوال: ارتقا کے متعلق لوگوں کے اندر مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ بعض مفکرین انسانی زندگی کا ظہور محض ایک اتفاقی حادثہ خیال کرتے ہیں۔بعض کے نزدیک(جن میں ڈارون سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے) انسان نے زندگی کی اعلیٰ اور ارفع حالتوں تک پہنچنے کے لئے پست حالتوں سے ایک تدریج کے ساتھ ترقی کی ہے اور یہ ترقی تنازع للبقا اور بقائے اصلح کی رہین منت ہے۔ بعض لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انسان ہمیشہ جغرافیائی ماحول کے سانچوں میں ڈھلتارہا ہے جیسا کہ لامارک۔ بعض لوگ برگسان کے تخلیقی ارتقا کے قائل نظر آتے ہیں۔ آپ کی تحریروں کے مطالعے سے یہ بات منکشف نہیں ہوسکی کہ آپ ارتقا کے کس پہلو کے مخالف ہیں۔ براہِ کرم اس پہلو کی نشان دہی کریں۔

جواب: مسئلہ ارتقا پر میں نے جو اعتراضات بھی کیے ہیں، وہ دراصل ڈارونزم کے خلاف ہیں۔نفس ارتقا تو ایک امر واقعی ہے جس سے اختلاف نہیں ہوسکتا۔ لیکن ڈارونزم ایک مفروضے سے کچھ زیادہ نہیں ہے،اور مفروضہ بھی ایسا جو تمام مشہود حقائق کی معقول توجیہ نہیں کرتا، بلکہ بعض حقائق کی قیاسی توجیہ کرتے ہوئے بہت سے حقائق سے نظر چرانے کی کوشش کرتا ہے۔پھر ایک شدید علمی استبداد جو پادریوں کے مذہبی استبداد سے اپنی متعصبانہ نوعیت میں کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے،اس کی پشت پناہی کرتا ہے اور اس کے خلاف سائنٹفک تنقید کو برداشت نہیں کرتا۔تاہم اس نظریے پر اب تک جو تنقیدیں گہرے علمی استدلال کے ساتھ ہوئی ہیں، انہیں نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس پر بکثرت اعتراضات ایسے ہیں جن کو رفع کرنے میں ڈارونزم کے حامی اب تک کام یاب نہیں ہوسکے ہیں۔ آپ اس تنقیدی لٹریچر کا مطالعہ کرکے خود دیکھ لیں کہ اعتراضات کتنے وزنی ہیں اور جن چیزوں کو ڈارونزم کا ثبوت کہا جاتا ہے،وہ کس قدر کمزور ہیں۔مثال کے طور پر صرف ایک ہی کتاب(The revot against reason) کے مطالعے کا میں آپ کو مشورہ دوں گا۔ میں جس چیز کو صحیح سمجھتا ہوں،وہ یہ ہے کہ نباتات وحیوانات کی ہر نوع اور اسی طرح نوع انسانی کو بھی اﷲ تعالیٰ نے اس طرح پیدا کیا ہے کہ ہر نوع کے پہلے فرد کو وہ براہِ راست اپنے تخلیقی عمل سے وجود میں لایاا ور اس کے بعد خود اسی کے اندر اس نے تناسل کی طاقت رکھ دی،جس سے بے شمار افراد توالد وتناسل کے ذریعے سے وجود میں آتے چلے گئے۔ یہ نظریہ تمام مشہود حقائق(observed facts) کی زیادہ بہتر توجیہ کرتا ہے اور کوئی اعتراض اس پر ایسا نہیں لایا جاسکتا جس کا جواب اس نظریے میں موجود نہ ہو، نہ کوئی مشکل اس نظریے کی تفصیلات میںکسی جگہ ایسی سامنے آتی ہے جو حل نہ ہوسکتی ہو۔سوال یہ ہے کہ ہر ممکن التصور مفروضے کو تو ناقابل غور سمجھا جاتا ہے مگر اس نظریے سے فرار کیوں کیا جاتا ہے؟
(ترجمان القرآن، جلد ۵۳، عدد ۲۔نومبر ۹۵۹اء)

انسانیت کے مورث ِ اعلیٰ ،حضرت آدم علیہ السلام:

سوال: (الف) قرآن مجید نے حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر جس انداز سے کیا ہے،وہ اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ نوع بشری کے یہ سب سے پہلے رکن بڑے ہی مہذب تھے۔اس سلسلے میں جو چیز میرے ذہن میں خلش پیدا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس متمدن انسان کی صلب سے وحشی قبائل آخر کس طرح پیدا ہو گئے۔ تاریخ کے اوراق پر نگاہ ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ یہ قبائل اخلاق اور انسانیت کی بالکل بنیادی اقدار تک سے ناآشنا ہیں۔ نفسیات بھی اس امر کی تائید کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ وحشی انسانوں اور حیوانوں کے مابین کوئی بہت زیادہ فرق نہیں سوائے اس ایک فرق کے کہ انسان نے اپنی غور وفکر کی قوتوں کو کافی حد تک ترقی دے دی ہے۔ یہ چیز تو مسئلۂ ارتقا کو تقویت پہنچاتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ میری اس معاملے میں رہنمائی فرما کر میری اس خلش کو دور کریں گے اور اس امر کی وضاحت فرمائیں گے کہ ابتدائی انسان کی تخلیق کی نوعیت کیا تھی اور اس کے جبلی قویٰ کس سطح پر تھے؟
(ب) حضرت آدم علیہ السلام تاریخ کے کس دور میں پیدا ہوئے؟اس ضمن میں مذہب جو معلومات ہمیں فراہم کرتا ہے،نفسیاتی اور ارضیاتی حقائق ان کی تائید نہیں کرتے۔کیا آدم علیہ السلام اور حوا کا یہ قصہ ایک تمثیل اور مجازی چیزنہیں؟

جواب: (الف) میں حضرت آدم علیہ السلام کو نوع انسانی کا پہلا فردسمجھتا ہوں اور میرا یہ بھی خیال ہے کہ پہلے فرد کی براہِ راست تخلیق(direct creation) کی گئی تھی،اور یہ کہ اس فرد کو پیدا کرکے یوں ہی چھوڑنہیں دیا گیا کہ خود ہاتھ پائوں مار کر فکری اور عملی تہذیب کی جانب پیش قدمی کرے،بلکہ اسے خدا وندتعالیٰ کی رہنمائی ونگرانی میں وہ ابتدائی تربیت بھی دی گئی جو تہذیب انسانی کی داغ بیل ڈالنے کے لئے لازماً درکار تھی۔ آپ غور کریں تو خود سمجھ سکتے ہیں کہ ہر نوع کے افراد کو زندگی کا آغاز کرنے کے لئے کچھ بنیادی رہنمائی درکار ہوتی ہے۔ حیوانات کے افراد کو یہ رہنمائی بہت کم اور محدود پیمانے پر درکار ہوتی ہے اور وہ ہر بچۂ حیوان کو بالعموم اس کے ماں باپ یا دوسرے افراد نوع سے ملتی ہے۔ انسان کا بچہ اس سے بہت زیادہ اور بڑے پیمانے پر نگرانی ورہنمائی کا محتاج ہوتا ہے،جو اگر نہ ملے تو وہ یا تو زندہ ہی نہیں رہ سکتا یا بچہ انسان کی حیثیت سے نشوونما نہیں پا سکتا۔ یہ ابتدائی اور ضروری رہنمائی میرے نزدیک پہلے نوع کے ہر فرد کو اور اسی طرح نوع انسانی کے بھی اوّلین فرد کو اس کی ضرورت کے لحاظ سے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھی۔
یہ بات کہ انسان کبھی تہذیب سے بالکل عاری اور اپنی حالت میں پوری طرح حیوانات کی سطح پر تھا،محض ایک مفروضہ ہے جو اس دوسرے مفروضے پر قائم کیا گیا ہے کہ انسان حیوانات میں سے ترقی کرتا ہوا حالت انسانی کو پہنچا ہے۔اس وقت تک کے مشاہدات میں کوئی چیز ان دونوں مفروضات کی تائید کرنے والی ،تائید اس معنی میں کہ انہیں ثابت کردے،نہیں ملی ہے۔ اس کے برعکس قدیم ترین آثار میں بھی جہاں کہیں انسان(نہ کہ کوئی خیالی مفقود حلقہ، missing link) ملا ہے، وہیں تہذیب کے بھی نشانات ملے ہیں، چاہے وہ کیسے ہی ابتدائی مرحلے کے ہوں۔ خالص غیر مہذب وغیر متمدن انسان مثل حیوان، اب تک کہیں نہیں پایا گیا ہے۔ جن کو آپ غیر متمدن (savage) کہتے ہیں، ان میں اور حیوانی زندگی کی برتر صورتوں میں اگر واقعی تقابل کیا جائے تو ایسے بنیادی فرق پائے جائیں گے کہ حیوان کی کسی اونچی سے اونچی قسم کو انسان کی کسی ادنیٰ سے ادنیٰ وحشیانہ حالت سے بھی کوئی نسبت نہ ہوگی۔یہ دراصل ارتقا خولیا ہے جس کی وجہ سے کچھ سطحی تشابہات کو انسان وحیوان میں مماثلت کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔بالکل ابتدائی حالت میں بھی چند چیزیں ایسی ہیں جو قطعی طور پرانسان اور حیوان میں فرق کردیتی ہیں۔ مثلاً حیا، جس کا اظہار اعضائے جنسی کو چھپانے اور مباشرت میں اخفا سے کام لینے کی صورت میں ہوتا ہے۔ الفاظ اور اشارات کی شکل میں اظہار خیال جو حیوانات کی آوازوں سے بالکل بنیادی طور پر مختلف ہوتا ہے۔ قوت ایجاد جو حیوانات کی جبلت کے تحت لگی بندھی صنعتوں سے کلیتاً اپنی نوعیت میں بالکل ایک مختلف چیزہے۔ ارادی اور غیر ارادی افعال میں فرق کرنا اور ارادی افعال پر اخلاقی احکام لگانا جو حیوانات کی کسی بڑی سے بڑی ترقی یافتہ شکل میں بھی موجود نہیں ہے۔مذہبی حس جو حیوانات میں مفقود ہے مگر انسانوں کا کوئی گروہ انتہائی وحشت کی حالت میں بھی اس سے خالی نہیں پایا گیا ہے۔
(ب) آدم علیہ السلام کا زمانۂ وجود متحقق کرنے کا ابھی تک کوئی ذریعہ نہیں ملا ہے۔ کوئی علم اس معاملے میں یقینی یا قریب بہ یقین معلومات فراہم نہیں کرتا۔ یہ علم صرف انبیا علیہم السلام اور کتب آسمانی کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہے۔ البتہ علم تناسل اور قیاس عقلی کی مدد سے دو نظریے قائم کیے جا سکتے ہیں۔ یا تو یہ کہ موجودہ انسانی نسل متعدد انسانی مورثوں کے نطفے سے نکلی ہو، یا پھر یہ کہ اس کا ایک ہی مورث ہو اور اس سے حیات انسانی ان بے شمار افراد تک منتقل ہوئی ہو۔ آپ خود دیکھ لیں کہ ان میں سے کون سا نظریہ زیادہ قرین عقل ہے۔ (ترجمان القرآن،جلد ۵۳،عدد ۲، نومبر ۹۵۹اء)

مسئلۂ تقدیر:

سوال: مجھے آپ کی تصنیف ’’مسئلۂ جبر و قدر‘‘ کے مطالعے کا موقع ملا۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ آپ نے نہایت ہی علمی انداز میں اس حقیقت کو واضح فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر جبر وقدر کے جو مبحث ملتے ہیں، ان میں قطعاً کوئی تناقض نہیں۔ اس معاملے میں میری تو تشفی ہوچکی ہے مگر ذہن میں پھر بھی دو سوال ضرور اُبھرتے ہیں۔ایک یہ کہ کیا انسان کی تقدیر پہلے سے طے ہے اور مستقبل میں جو واقعات وحوادث اسے پیش آنے والے ہیں،وہ ازل سے ہی مقرر اور معین ہیںاور اب ان کے چہرے سے صرف نقاب اٹھانا باقی رہ گیا ہے؟اگر اس کا جواب اثبات میں ہو تو پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ صورتِ حال انسان کے ارادہ عمل کی آزادی کے ساتھ کیسے میل کھا سکتی ہے؟

جواب: تقدیر سابق اور انسان کی آزادیِ ارادہ کے درمیان کس نوعیت کا تعلق ہے اور ان دونوں کے حدود کیا ہیں، یہ مسئلہ درحقیقت ہماری گرفت سے باہر ہے اور اس کے متعلق کوئی یقینی بات کہنے کی پوزیشن میں ہم نہیں ہیں۔ البتہ اصولی طور پر تین باتیں ایسی ہیں جو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں:
ایک یہ کہ انسان اپنی تقدیر خود بنانے پر کلیتاًقادر نہیں ہے بلکہ جو طاقت پوری کائنات کا نظام چلا رہی ہے ،وہی انسان کی (بحیثیت نوع، بحیثیت قوم، بحیثیت گروہ اور بحیثیت فرد ) تقدیر بناتی ہے۔البتہ اس کا ایک حصہ(جس کی مقدار ہمیں معلوم نہیں)انسان کے دائرۂ اختیار میں بھی ہے۔
دوسرے یہ کہ اﷲ کا علم سابق انسان کے تمام آنے والے حالات پر حاوی ہے۔خدائی کا عظیم الشان کام ایک دن بھی نہیں چل سکتااگر خدا اپنی کائنات میں ہونے والے واقعات سے بے خبر ہو اور کوئی واقعہ جب پیش آجائے،تب ہی اسے خبر ہو۔
تیسرے یہ کہ اﷲ کی قدرت نے انسان کو محدود پیمانے پر کچھ اختیارات دیے ہیں جن کے لئے آزادی ارادہ ناگزیر ہے اور اﷲ کا علم خود اسی کی قدرت کے کسی فعل کو باطل نہیں کرتا۔
(ترجمان القرآن،جلد ۵۳،عدد ۲۔ نومبر ۹۵۹اء)

اجنبی ماحول میں تبلیغ اسلام:

سوال: میں علی گڑھ یونی ورسٹی کا تعلیم یافتہ ہوں اور آج کل نائیجیریا میں بحیثیت سائنس ٹیچر کام کر رہا ہوں۔ جب میں ہندوستان سے یہاں آرہا تھا ،اس وقت خیال تھا کہ میں ایک مسلم اکثریت کے علاقے میں جارہا ہوں،اس لئے شرعی احکام کی پابندی میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔لیکن یہاں آکر دیکھا تو معاملہ کچھ اور ہی نکلا۔جس علاقے میں میرا قیام ہے، یہ غیر مسلم اکثریت کا علاقہ ہے۔ یہاں عیسائی مشنریز خوب کام کررہے ہیں۔بہت سے اسکول اور ہسپتال ان کے ذریعے سے چل رہے ہیں۔مسلمان یہاں پانچ فی صدی سے زیادہ نہیں ہیں اور وہ بھی تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔انگریزی نہیں بول سکتے حالاں کہ ہر ایک عیسائی تھوڑی بہت انگریزی بول سکتا ہے ۔پڑھے لکھے لوگوں کی بہت مانگ ہے۔یہاں پر بہت سے غیر ملکی ٹیچر اور سوداگر کام کررہے ہیں۔ان میں زیادہ تر عیسائی اور ہندو ہیں۔ میں اپنی طرز کا اکیلا ہوں۔ میرے شہر میں صرف تین بہت چھوٹی مسجدیں ہیں۔وہ بہت ہی شکستہ حالت میں ہیں۔ اس کے علاوہ دُور دُور کہیں اذان کی آوازبھی نہیں آتی۔یہ ملک اکتوبر میں آزاد ہونے والا ہے۔ مجموعی حیثیت سے پورے ملک میں مسلم اکثریت ہے ۔لیکن اس کے باوجود مسلم کلچر کے مقابلے میں مغربی اور عیسائی کلچر یہاں بہت نمایاں ہے۔ شراب کا استعمال شاید مغربی ممالک سے بھی زیادہ ہے۔لیکن ان سب کے باوجود دو باتیں یہا ں خاص طور پر دیکھنے میں آئیں۔ ایک انسانی رواداری۔اس معاملے میں یہ لوگ ہم سے بڑھے ہوئے ہیں۔غیر ملکی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔دوسری چیز یہ ہے کہ جو مسلمان یہاں ہیں،ان کے اوپر مغربی طرز فکر کا اتنا اثر نہیں ہوا جتنا کہ ہمارے ہاں ہے۔ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ لوگ اب تک مغربی تعلیم کا بائیکاٹ کرتے رہے ہیں۔
ان حالات میں آپ مشورہ دیجیے کہ کس طرح اسلام کی صحیح نمائندگی کی جائے اور یہاں کے لوگوں کو انگریزی میں کون سا لیکچر دیا جائے۔پڑھا لکھا طبقہ انگریزی لٹریچر سمجھ سکتا ہے۔’’پردہ‘‘ کی طرح اگر کوئی کتاب شراب نوشی پر اسلامی نقطۂ نگاہ سے لکھی گئی ہو تو اس سے بھی مطلع فرمایے!
دوسرے یہ بھی آپ سے مشورہ چاہتا ہوں کہ ایسے حالات میں کس طرح انسان صحیح راہ پر قائم رہے جب کہ ماحول اور سوسائٹی دوسرے رنگ میں رنگے ہوں۔
نیز حسب ذیل چیزوں پر اگر روشنی ڈالیں تو آپ کا مشکور ہوں گا:
(۱) یہاں پر دعوتوں اور پارٹیوں میں شراب کا استعما ل عام طورپر ہوتا ہے۔ایسی صورت میں ان دعوتوںمیں شرکت کرنا چاہیے یا نہیں؟ اب تک میراطرزِ عمل یہ رہا ہے کہ ایسی جگہوں پر ضرور شرکت کرتا ہوں اور شراب اور دوسری اس قسم کی چیزوں سے انکار کردیتا ہوں تاکہ کم ازکم ان کو یہ احساس تو ہوجائے کہ بعض لوگوں کو ہماری یہ مرغوب غذا ناپسند ہے۔
(۲) ان کے برتنوں میں کھانا اور پینا درست ہے یا نہیں؟
(۳) بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن میں الکوہل کی تھوڑی بہت آمیزش ہوتی ہے یا ہوسکتی ہے۔ان کا استعمال جائز ہوسکتا ہے یا نہیں؟
(۴) اگر کوئی دعوت کچھ لوگوں کو یہاں دی جائے تو اس میں شراب دی جاسکتی ہے یا نہیں،کیونکہ یہاں کے لوگ بغیر شراب کے دعوت ہی نہیں سمجھتے اور اگر اس کا استعمال نہ کیا جائے تو اس کا کیا بدل دیا جائے؟

جواب: خوشی ہوئی کہ آپ کو ملک سے باہر ایک ایسی جگہ کام کرنے کا موقع ملا ہے جہاں آپ اسلام کی بہت کچھ خدمت کرسکتے ہیں۔آپ کواپنی جگہ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آپ پس ماندہ مسلمانوں اور غیر مسلموں، سب کے سامنے حقیقی اسلام کی نمائندگی کے لئے مامور ہیں، اور اپنے قول یا عمل سے اگر آپ نے ذرا بھی غلط نمائندگی کی تو بہت سے بندگان خدا کی گمراہی کا وبال آپ کے اوپر ہوگا۔ اس احساس کے ساتھ اگر آپ وہاں رہیں گے اور اپنی حد استطاعت تک اسلام کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر ایک مسلمان کی زندگی کا نمونہ بننے کی کوشش کرتے رہیں گے تو امید ہے کہ یہ آپ کی اپنی ترقی کے لئے بھی مفید ہوگا اور کیا عجب کہ یہی چیز آپ کے ہاتھوں بہت سے لوگوں کی ہدایت کا سبب بھی بن جائے، جس کا اجر آپ کو خدا کے ہاں نصیب ہو۔
وہاں کے جو حالات مجھے آپ کے خط سے معلوم ہوئے ہیں،ان پر غور کرنے کے بعد میرے نزدیک کام کی جو صورتیں مناسب ہیں ،میں عرض کیے دیتا ہوں۔
مقامی زبان سیکھنے اور بولنے کی مشق کریں اور صرف انگریزی پر اکتفا نہ کریں۔غیر ممالک میں جب باہر کا کوئی شخص مقامی لوگوں سے ان کی اپنی زبان میں بات کرتا ہے تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں اور اس کی بات بڑی دل چسپی سے سنتے ہیں۔
مقامی مسلمانوں کے ساتھ ربط ضبط بڑھایے۔ ان کو صحیح دین سمجھانے اور اسلامی طور طریقے سکھانے کی کوشش کیجیے۔ان میں سے جن کے بچے آپ کے مدرسے میں پڑھتے ہوں،ان پر خاص توجہ کیجیے تاکہ وہ آپ کو اپنا ہم درد سمجھیں۔دوسرے مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں کو بھی اگر آپ ان کی تعلیم میں کچھ مدد دے سکتے ہوں تو ضرور دیجیے۔ جو لوگ آپ سے انگریزی پڑھنا چاہتے ہیں،انہیں پڑھایے۔ اس طرح ان کے دلوں میں اپنے لئے جگہ پیدا کیجیے اور پھر ان کے اندر دین کا صحیح علم وعمل پھیلانے اور ان کے حالات درست کرنے کی سبیل نکالیے۔ان میں اگر کچھ بااثر آدمیوں سے تعلقات ہوجائیں تو انہیں مسلمانوں کے حالات کی اصلاح کے طریقے بتایے اور اخلاص وحکمت کے ساتھ کام کرنے پر اُبھاریے۔بے غرضی، محبت، تواضع اور حقیقی خیر خواہی کے ساتھ جب آپ ان کی بھلائی کے لئے کوشاں ہوں گے تو دیر یا سویر، ان شاء اﷲ ایک دن آپ ان کے دل اپنی مٹھی میں لے لیں گے اور وہ آپ کے کہے پر چلنے لگیں گے۔
جس مدرسے میں آپ کام کرتے ہیں،وہاں اپنے طرزِ عمل سے اپنی اہلیت، فرض شناسی اور بلند اخلاقی کا سکہ بٹھانے کی کوشش کیجیے، یہاں تک کہ طلبہ اور اساتذہ اور منتظمین سب پر آپ کا اخلاقی اثر قائم ہو جائے۔ پھر وہ راستے تلاش کیجیے جن سے آپ غیر مسلم طلبہ اور اساتذہ میں اپنے خیالات پھیلا سکیں۔اس معاملے میں غایت درجے تدبر ودانائی کی ضرورت ہے۔ جو موقع بھی اسلام کی نمائندگی کا ملے اسے ہاتھ سے نہ جانے دیجیے۔ لیکن ایک قدم بھی غلط نہ اٹھائیے، ورنہ نتائج الٹے برآمد ہوں گے۔ طبیب کی دانائی اسی میں ہے کہ وہ مریض کو ٹھیک دوا کی خوراک بر وقت دے، نہ کم خوراک دے اور نہ زیادہ دے بیٹھے۔
عام لوگ جن سے آپ کا میل جول ہو، ان سے اپنی گفتگوئوں میںمناسب طریقے پر اسلام کا تعارف کرایے۔ مغربی تہذیب کی کمزوریاں ان پر واضح کیجیے۔ عیسائیت کی ناکامی اس حد تک انہیں سمجھایے جس کے سننے کا ان میں تحمل ہو۔پھر جن لوگوں میں اسلامی لٹریچر دیکھنے کی خواہش آپ پائیں، ان کو موزوں لٹریچر پڑھنے کے لئے دیجیے۔ مانگ پیدا کیے بغیر ہر ایک کو لٹریچر دینا شروع نہ کردیجیے۔انگریزی لٹریچر کی ایک فہرست آ پ کو یہاں سے بھجوا دی جائے گی ،اسے منگوا کر اپنے پاس رکھ لیں۔
غیر مسلموں میں سے جن کے اندر آپ خاص صلاحیت ،سلامت طبع اور حق پسندی محسوس کریں ،ان سے ذاتی تعلقات بھی بڑھایے اور ان پر خصوصیت کے ساتھ کام بھی کیجیے تاکہ اﷲ تعالیٰ انہیں ہدایت نصیب کرے۔لیکن اپنے ہاتھ پر کسی کو مشرف با سلام کرنے سے پرہیز کیجیے۔ جو شخص بھی مسلمان ہونا چاہے،اسے مقامی مسلمانوں کے پاس بھیجئے۔
شراب نوشی کے خلاف انگریزی میں بہت سا لٹریچر موجود ہے۔آپ (Church of england temperance society) سے لندن کے پتے پر اور (Anti saloon league of america) سے واشنگٹن کے پتے پر مراسلت کرکے اس موضوع کے متعلق لٹریچر کی فہرستیں منگوا لیں اور مناسب کتابوں کا انتخاب کر کے حاصل کر لیں۔
اب مختصر طور پر آپ کے سوالات کا جواب عرض کرتا ہوں:
(۱) دوسروں کی طرف سے اگر آپ کو دعوت دی جائے تو اس میں ضرور شرکت کریں۔کیوں کہ اس کے بغیر آپ ان کی اصلاح کے لئے ان سے گھل مل نہ سکیں گے۔اس نیت کے ساتھ اگر آپ ایسی محفلوں میں شریک ہوں جہاں لوگ شراب پیتے ہوں تو اُمید ہے کہ اﷲ کے ہاں مواخذہ نہ ہو گا۔ آپ ان کی مجلسوں میں شریک ہوکر علانیہ نہ صرف یہ کہ شراب پینے سے پرہیز کریں بلکہ کھلم کھلا اس پرہیز کے معقول وجوہ ہر پوچھنے والے کو ایسے طریقے سے سمجھائیں کہ اسے ناگوار خاطر نہ ہو۔شرابیوں کی محفل میں ان لوگوں کی شرکت تو بلا شبہ مضر ہے جو شراب نہ پینے پر شرماتے ہوں، لیکن ان لوگوں کی شرکت بہت مفید ہے جو دھڑلے کے ساتھ شراب نوشی سے انکار کریں اور دلیل کی طاقت سے شراب پینے کی برائی وہیں اسی محفل میں ان لوگوں کو سمجھانے پر آمادہ ہوجائیں جو ان سے شراب نہ پینے کے وجوہ دریافت کریں۔ یہ تو بہترین تبلیغ ہے جس پر میں خدا سے اجر کی توقع رکھتا ہوں۔
(۲) ان کے صاف دھلے ہوئے برتنوںمیں آپ کھانا کھا سکتے ہیں اگر آپ کو اطمینان ہو کہ وہ کسی حرام چیز سے ملوث نہیں ہیں۔ اطمینان نہ ہونے کی صورت میں بہتر یہ ہے کہ آپ دعوت وصول ہوتے ہی اپنی اوّلین فرصت میں داعی کو اپنے اصول اور مسلک سے آگاہ فرماویں اور ان کو لکھ بھیجیں کہ آپ کے ساتھ دعوت میں ان اصولوں کو ملحوظ رکھا جائے۔
(۳) جن چیزوں میں الکوہل کی آمیزش ہو،ان کا استعمال اس وقت تک نہ کرنا چاہیے جب تک کوئی طبیب آپ کی جان بچانے کے لئے یا آپ کی صحت کو غیر معمولی نقصان سے بچانے کے لیے اس کا استعمال ناگزیر نہ بتائے۔
(۴) آپ خود جن لوگوں کو مدعو کریں،ان کو ہرگز شراب نہ پلائیں۔دعوت دینے سے پہلے آپ کو انہیں آگاہ کردینا چاہیے کہ آپ دعوت میں اپنے اصول کے خلاف کسی کو شراب نہیں پیش کرسکتے۔اس شرط پر جو لوگ آپ کی دعوت قبو ل کریں،صرف انہی کو مدعو کیجیے۔شراب کا بدل پیش کرنا ہو تو پاکستان یا ہندوستان سے شربت روح افزا یا ایسا ہی کوئی اور خوش رنگ ومعطر مشروب منگوا لیجیے۔اُمید ہے کہ وہ ان لوگوں کو بہت پسند آئے گا۔
(ترجمان القرآن،جلد ۵۴، عددا، اپریل ۹۶۰اء)

پردہ اور اپنی پسند کی شادی:

سوال: اسلامی پردے کی رو سے جہاں ہمیں بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں،وہاں دو ایسے نقصانات ہیں جن کا کوئی حل نظر نہیں آتا بجز اس کے کہ صبر وشکر کرکے بیٹھ جائیں۔
اوّل یہ کہ ایک تعلیم یافتہ آدمی جس کاایک خاص ذوق ہے اور جو اپنے دوست منتخب کرنے میں ان سے ایک خاص اخلاق اور ذوق کی توقع رکھتا ہے،فطرتاً اس کا خواہش مند ہوتا ہے کہ شادی کے لئے ساتھی بھی اپنی مرضی سے منتخب کرے۔لیکن اسلامی پردے کے ہوتے ہوئے کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی کے لئے اس بات کی گنجایش نہیں رہتی کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا ساتھی چنے، بلکہ اس کے لئے وہ قطعاً دوسروں یعنی ماں یا خالہ وغیرہ کے دست نگر ہوتے ہیں۔ہماری قوم کی تعلیمی حالت ایسی ہے کہ والدین عموماً ان پڑھ اور اولاد تعلیم یافتہ ہوتی ہے، اس لئے والدین سے یہ توقع رکھنا کہ موزوں رشتہ ڈھونڈ لیں گے، ایک عبث توقع ہے۔ اس صورتِ حال سے ایک ایسا شخص جو اپنے مسائل خود حل کرنے اور خود سوچنے کی صلاحیت رکھتاہو سخت مشکل میں پڑجاتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایک لڑکی جو گھر سے باہر نہ نکلنے کی پابند ہو،وہ کیوں کر ایسی وسعت نظر، فراست اور عقل عام کی مالک ہوسکتی ہے کہ بچوں کی بہترین تربیت کرسکے اور ان کی ذہنی صلاحیتوں کو پوری طرح سے بیدار کردے، اس کو تو دنیا کے معاملات کا صحیح علم ہی نہیں ہوسکتا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اتنی ہی تعلیم بھی حاصل کرلے جتنی ایک بے پردہ لڑکی نے حاصل کی ہوتی ہے تو بھی اس کی ذہنی سطح کم ہوگی، کیوں کہ اسے اپنے علم کو عملی طور پر پرکھنے کا کوئی موقع ہی حاصل نہیں۔ امید ہے کہ آپ اس مسئلے پر روشنی ڈال کر ممنون فرمائیں گے۔

جواب: آپ نے اسلامی پردے کی جن خرابیوں کا ذکر کیا ہے،اوّلاً تو وہ ایسی خرابیاں نہیں ہیں کہ اس کی بِنا پر آدمی لاینحل مشکلات میں مبتلا ہوجائے، اور ثانیاً حیات دنیوی میں آخر کون سی ایسی چیز ہے جس میں کوئی نہ کوئی خامی یا کمی نہ پائی جاتی ہو۔لیکن کسی چیز کے مفید یا مضر ہونے کا فیصلہ اس کے صرف ایک یا دو پہلوئوں کو سامنے رکھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر اس میں مصالح کو غلبہ حاصل ہے یا مفاسد کو۔ یہی اصول پردے کے بارے میں اختیار کیا جائے گا۔ اسلامی پردہ آپ کی رائے میں بھی بے شمار فوائد کا حامل ہے۔ لیکن فقط یہ مشکل کہ اس کی پابندی سے آدمی کو شادی کے لئے اپنی مرضی کے مطابق لڑکی منتخب کرنے کی آزادی نہیں مل سکتی، پردے کی افادیت کو کم یا اس کی پابندی کو ترک کرنے کے لئے وجہ جواز نہیں بن سکتی۔ بلکہ اگر ہر لڑکے کو لڑکی کے انتخاب اور ہرلڑکی کو لڑکے کے انتخاب کی کھلی چھٹی دے دی جائے تو اس سے اس قدر قبیح نتائج برآمد ہوں گے کہ ان کا تصور بھی نہیںکیا جاسکتا اور پھر خاندانی نظام جو معاشرے کی مضبوطی اور پاکیزگی کا ضامن ہوتا ہے،درہم برہم ہوکر رہ جائے گا، اور ایک موہومہ مشکل کو حل کرتے کرتے بے شمار حقیقی مشکلات کے دروازے کھل جائیں گے۔
آپ کا یہ خیال کہ باپردہ لڑکی وسعت نظر اور فراست سے بے بہرہ ہوتی ہے ،درست نہیں ہے۔ اور اگر اسے بالفرض درست بھی تسلیم کرلیا جائے تو اس میں پردے کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ایک لڑکی باپردہ رہ کر بھی علم وفن میں کمال پیدا کرسکتی ہے اور اس کے مقابلے میں پردے سے باہر ہوکر بھی ایک لڑکی علم وعقل اور فراست وبصیرت سے کوری رہ سکتی ہے۔البتہ بے پردہ لڑکی کو یہ فوقیت ضرور ہوگی کہ وہ معلومات کے لحاظ سے چاہے وسیع النظر نہ ہو لیکن تعلقات کے لحاظ سے اس کی نگاہیں ضرو رپھیل جائیں گی۔ایسی حالت میں اگر موزوں ترین رفیق حیات کی تلاش میں کامیابی ہو بھی جائے،تب بھی جو نگاہیں وسعت کی عادی ہوچکی ہوں ،انہیں سمیٹ کر ایک مرکز تک محدود رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔

سوال(۲) آپ کا جواب ملا۔مگر مجھے اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ آپ نے اسے بالکل معمولی مسئلہ قرار دیا۔ کام یاب شادی کی تمنا تو ایک جائز خواہش ہے اور ایسے حالات پیدا کرنا ،جن کی وجہ سے ایک شخص کے لئے اپنی پسند کی لڑکی چننے کا راستہ بندہوجائے،میں انسانی مسرت اور شخصیت کے ارتقا کے لئے مضر سمجھتا ہوں اور دین فطرت کے منافی۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، ہمار ے مروّجہ طریقے کے مطابق عورت زیادہ سے زیادہ گھر کی منتظم ہوتی ہے اور خاوند کی اور اپنی جنسی تسکین کا ایک ذریعہ، لیکن دو افراد کے اپنے آپ کو پوری طرح ایک دوسرے کے حوالے کرنے اور زندگی کے فرائض ایک بار کے بجائے خوشی خوشی پورا کرنے کے لیے جو امکانات اپنی پسند اور ذوق کی شادی کرلینے میں ہوتے ہیں،وہ اس صورت میں قطعاً ممکن نہیں کہ اپنی پسند اور بصیرت استعمال کیے بغیر کسی دوسرے کے انتخاب پر شادی کرلی جائے۔
میرا خیال ہے کہ ایک نوجوان محض جنسی تسکین کا خواہش مند نہیں ہوتا،وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ کسی کے لئے کچھ قربانی کرے،کسی سے محبت کرے،کسی کی خوشی کا خیال رکھے اور کوئی اس کی خوشی پر خوش ہو۔ اس جذبے کے فطری نکاس کا راستہ تو یہ ہے کہ وہ کسی ایسی لڑکی سے شادی کرے جسے اس نے تعلیم، اطوار،کردار اور دوسری خوبیوں کی بِنا پر اپنی طبیعت کے مطابق حاصل کیا ہے (حقیقی محبت کسی کی باطنی خوبیوں کے دیکھنے سے ہی پیدا ہوتی ہے نہ کہ شکل دیکھ لینے سے)۔ اور یہ بات ناممکنات میں ہے کہ پہلے تو کسی کی شادی کراد ی جائے اورپھر اس سے مطالبہ کیا جائے کہ اب اسے ہی چاہو اور یوں جیسے تم نے اس کو خود پسند کیا ہے۔ اس فطری محبت کا راستہ بند کرلینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ جذبہ اپنے لئے دوسرے راستے نکال لیتا ہے۔
پردے کی وجہ سے جو حالات پیدا ہیں،ان میں حقیقتاً کردار دیکھ کر بَرتلاش کرنا ممکن نہیں۔ لڑکے کے با پ کے لئے ممکن نہیں کہ وہ لڑکی کا پتا چلا سکے،لڑکی کی والدہ کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ لڑکے کے متعلق براہِ راست کچھ اندازہ لگا سکے۔کیوں کہ پردے کی وجہ سے ان افراد میں بھی تعلق اور آزادانہ گفتگو ناممکن ہے۔(خود لڑکے اور لڑکی کا ملنا تو ایک طرف رہا)، بڑی سے بڑی آزادی جو اسلام نے دی ہے وہ یہ ہے کہ لڑکا لڑکی کی شکل دیکھ لے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی کی شکل چند سکینڈ دیکھ لینے سے کیا ہوجاتا ہے۔
اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے،اب تو تمام علما نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ موجودہ تمدنی ضروریات پوری کرنے کے لئے علم کا حاصل کرنا عورتوں کے لئے ضروری ہے۔لیکن مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی کام کرسکتی ہیں۔ یا تو اسلامی احکام کی پابند ی کریں یا علم حاصل کریں۔ پردے کی پابند ہوتے ہوئے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ طبقات الارض، آثار قدیمہ، انجینئرنگ اور تمام ایسے علوم جن میں سروے اور دور دراز سفر کی ضرورت ہوتی ہے،ان علوم کے لئے خواتین کس طرح کام کرسکتی ہیں جب کہ محرم کے بغیر عورت کا تین دن سے زائد کی مسافت پر نکلنا بھی منع ہے۔اب کیا ہر جگہ وہ اپنے ساتھ محرم کو لئے لئے پھرے گی؟
یہ علوم تو ایک طرف رہے،میں تو ڈاکٹری اور پردے کو بھی ایک دوسرے کی ضد سمجھتا ہوں۔ اوّل تو ڈاکٹری کی تعلیم ہی جو جسمانیات کی نگاہیں پھیلا دینے والی معلومات سے پر ہوتی ہے،حیا کے اس احساس کو ختم کردینے کے لئے کافی ہے جس کی مشرقی عورتوں سے توقع کی جاتی ہے، خواہ وہ ڈاکٹری پردے ہی میں سیکھی جائے اور پڑھانے والی تمام خواتین ہی کیوں نہ ہوں۔ دوم ڈاکٹر بننے پر ایک خاتون کو مریضوں کے لواحقین سے روابط کی اس قدر ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے لیے غیر مردوں سے بات چیت پر قدغن لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب اس کے پیش نظر اگر ہم خواتین کو ڈاکٹر بننے سے روکتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے گھروں کی مریض خواتین کے ہر مرض کے علاج کے لئے مرد ڈاکٹروں کی خدمات کی ضرورت پڑے گی اور رائج الوقت نظریۂ حیا کے مطابق یہ تو اس سے بھی زیادہ معیوب سمجھا جائے گا۔
جناب عالی آپ مجھے یہ بتائیں کہ ان معاشرتی اور تمدنی اُلجھنوں کا اسلامی احکامات کی پابندی کرتے ہوئے کیا حل ہے؟

جواب: آپ کا دوسرا خط ملا۔شادی کے معاملے میں آپ نے جو اُلجھن بیان کی ہے ،وہ اپنی جگہ درست ہی سہی،اس کا حل کورٹ شپ کے سوا اور کیا ہے؟ظاہر ہے کہ جس تفصیل کے ساتھ رفیق زندگی بنانے سے پہلے لڑکی اورلڑکے کو ایک دوسرے کے اوصاف،مزاج، عادات،خصائل اور ذوق وذہن سے واقف ہونے کی ضرورت آپ محسوس کرتے ہیں، ایسی تفصیلی واقفیت دو چار ملاقاتوں میں،اور وہ بھی رشتہ داروں کی موجودگی میں حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس کے لئے مہینوں ایک دوسرے کے ساتھ ملنا، تنہائی میں بات چیت کرنا، سیر تفریح، سفر میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا اور بے تکلف دوستی کی حد تک تعلقات پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ کیا واقعی آپ یہی چاہتے ہیں کہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان اس اختلاط کے مواقع بہم پہنچنے چاہییں۔ آپ کے خیال میں ان جوان لڑکوں اور لڑکیوں کے اندر ان معصوم فلسفیوں کا فی صدی تنا سب کیا ہوگا جو بڑی سنجیدگی کے ساتھ صرف رفیق زندگی کی تلاش میں مخلصانہ تحقیقاتی روابط قائم کریں گے اور اس دوران میں شادی ہونے تک اس طبعی جذب وانجذاب کو قابو میں رکھیں گے جو خصوصیت کے ساتھ نوجوانی کی حالت میںعورت اور مرد ایک دوسرے کے لئے اپنے اندر رکھتے ہیں؟بحث برائے بحث اگر آپ نہ کرنا چاہتے ہوں تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ شاید دو تین فی صدی سے زیادہ ایسے لوگوں کا اوسط ہماری آبادی میں نہ نکلے گا۔ باقی اس امتحانی دور ہی میں فطرت کے تقاضے پورے کرچکے ہوں گے، اور وہ دو تین فی صدی جو اس سے بچ نکلیں گے،وہ بھی اس شبہ سے نہ بچ سکیں گے کہ شاید وہ باہم ملوث ہو چکے ہوں۔
پھر کیا یہ ضروری ہے کہ ہر لڑکا اور لڑکی جو اس تلاش وتحقیق کے لئے باہم خلا ملا کریں گے ،وہ لازماًایک دوسرے کو رفاقت کے لئے منتخب ہی کرلیں گے؟ ہوسکتا ہے کہ ۲۰ فی صدی دوستیوں کانتیجہ نکاح کی صورت میں برآمد ہو۔۸۰ فی صدی یا کم ازکم ۵۰ فی صدی کو دوسرے یا تیسرے تجربے کی ضرورت لاحق ہوگی۔ اس صورت میں ان ’’تعلقات‘‘ کی کیا پوزیشن ہوگی جو دوران تجربہ میں آئندہ نکاح کی اُمید پرپیدا ہوگئے تھے اوران شبہات کے کیا اثرات ہوں گے جو تعلقات نہ ہونے کے باوجود ان کے متعلق معاشرے میں پیدا ہوجائیں گے۔
پھر آپ یہ بھی مانیں گے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے لئے ان مواقع کے دروازے کھولنے کے بعد انتخاب کا میدان لامحالہ بہت وسیع ہوجائے گا ۔ایک ایک لڑکے کے لئے صرف ایک ہی لڑکی مطمح نظر نہ ہوگی جس پر وہ اپنی نگاہ انتخاب مرکوز کرکے تحقیق وامتحان کے مراحل طے کرے گا، اورعلیٰ ہذا القیاس لڑکیوں میں سے بھی ہر ایک کے لئے ایک ہی ایک لڑکا امکانی شوہرکی حیثیت سے زیر امتحان نہ ہو گا۔ بلکہ شادی کی منڈی میں ہر طرف ایک سے ایک جاذب نظر مال موجود ہوگا جو امتحانی مراحل سے گزرتے ہوئے ہر لڑکے اور لڑکی کے سامنے بہتر انتخاب کے امکانات پیش کرتا رہے گا۔ اس وجہ سے اس امر کے امکانات روز بروز کم ہوتے جائیں گے کہ ابتدائً جو دو فرد ایک دوسرے سے آزمایشی ملاقاتیں شروع کریں، وہ آخر وقت تک اپنی اس آزمایش کو نباہیں اور بالآخر ان کی آزمایش شادی پر منتج ہو۔
اس کے علاوہ یہ ایک فطری امر ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ جو رومانی طرز کا کورٹ شپ کرتے ہیں، ان میں دونوں ایک دوسرے کو اپنی زندگی کے روشن پہلو ہی دکھاتے ہیں۔ مہینوں کی ملاقاتوں اور گہری دوستی کے باوجود ان کے کمزور پہلو ایک دوسرے کے سامنے پوری طرح نہیں آتے۔اس دوران میں شہوانی کشش اتنی بڑھ چکی ہوتی ہے کہ وہ جلدی سے شادی کرلینا چاہتے ہیں،اور اس غرض کے لئے دونوں ایک دوسرے سے ایسے ایسے پیمان وفا باندھتے ہیں،اتنی محبت اور گرویدگی کا اظہار کرتے ہیں کہ شادی کے بعد معاملات کی زندگی میں وہ عاشق ومعشوق کے اس پارٹ کو زیادہ دیر تک کسی طرح نہیں نباہ سکتے،یہاں تک کہ جلدی ہی ایک دوسرے سے مایوس ہوکر طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔کیوں کہ دونوں اِ ن توقعات کو پورا نہیں کرسکتے جو عشق و محبت کے دور میں انہوں نے باہم قائم کی تھیں اور دونوں کے سامنے ایک دوسرے کے وہ کمزور پہلو آجاتے ہیں جو معاملات کی زندگی ہی میں ظاہر ہوا کرتے ہیں۔عشق ومحبت کے دور میں کبھی نہیںکھلتے۔
اب آپ ان پہلوئوں پر بھی غور کرکے دیکھ لیں۔پھر آپ مسلمانوں کے موجودہ طریقے کی مزعومہ قباحتوں اور اس کورٹ شپ کے طریقے کی قباحتوں کے درمیان موازنہ کرکے خود فیصلہ کریں کہ آپ کو ان دونوں میں سے کون سی قباحتیں زیادہ قابل قبول نظر آتی ہیں۔اگر اس کے بعد بھی آپ کورٹ شپ ہی کو زیادہ قابل قبول سمجھتے ہیں تو مجھ سے بحث کی ضرورت نہیں ہے۔آپ کو خود یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس اسلام کے ساتھ آپ اپنا تعلق رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں جو اس راستے پر جانے کی اجازت دینے کے لئے قطعاً تیار نہیں ہے۔یہ کام آپ کو کرنا ہو تو کوئی دوسرا معاشرہ تلاش کریں۔ اسلام سے سرسر ی واقفیت بھی آپ کو یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ اس دین کی حدود میں’’کامیاب شادی‘‘ کا وہ نسخہ استعمال کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے جسے آپ مباح کرنا چاہتے ہیں۔
عورتوں کی تعلیم کے متعلق آپ نے جن مشکلات کا ذکر کیا ہے ،ان کے بارے میں بھی کوئی رائے قائم کر نے سے پہلے آپ اس بات کو سمجھ لیں کہ فطرت نے عورت اور مرد کے دائرۂ کار الگ رکھے ہیں۔اپنے دائرۂ کار کے فرائض انجام دینے کے لئے عورت کو جس بہتر سے بہتر تعلیم کی ضرورت ہے،وہ اسے ضرور ملنی چاہیے اور اسلامی حدود میں وہ پوری طرح دی جاسکتی ہے ۔اسی طرح عورت کے لئے ایسی علمی وذہنی ترقی بھی ان حدود کے اندر رہتے ہوئے ممکن ہے جو عورت کو اپنے دائرۂ کار کے فرائض انجام دیتے ہوئے حاصل ہوسکتی ہے۔اس معاملے میں کوئی انتظامات نہ کرنا مسلمانوں کی کوتاہی ہے نہ کہ اسلام کی۔لیکن وہ تعلیم جو مرد کے دائرۂ کار کے لئے عورت کو تیار کرے،عورت ہی کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے تباہ کن ہے اور اس کی کوئی گنجایش اسلام میں نہیں ہے۔ اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لئے آپ میری کتاب’’ پردہ ‘‘ کو بغور ملاحظہ فرمائیں۔
(ترجمان القرآن،جلد ۵۵، عدد ۴۔جنوری ا۹۶اء)

ڈاڑھی پر مسلمانوں کے اعتراضات:

سوال: ڈاڑھی کے بارے میں اکثر مسلمانوں کے سوچنے کا انداز یہ ہے کہ ڈاڑھی صرف علما اور مولانا حضرات کو زیب دیتی ہے۔ نبی اکرم صی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عام طور پر ڈاڑھی رکھی جاتی تھی اس لیے اکثریت ڈاڑھی رکھنے میں عار نہ سمجھتی تھی۔ مگر اب انسان کے لباس وآراستگی میں کافی فرق واقع ہوچکا ہے۔ چہرے بغیر ڈاڑھی کے پررونق وبارعب نظر آتے ہیں۔ کیا ایسے حالات میں ہر مسلمان کے لئے ڈاڑھی رکھنا لازم ہے؟ براہِ کرم اس معاملے میں ذہن کو یکسو اور مطمئن فرمائیں۔

جواب: ڈاڑھی رکھنا نہ صرف یہ کہ فعلی سنت ہے بلکہ نبیؐ نے اس کے رکھنے کا حکم دیا ہے اور مونڈنے سے منع کیا ہے۔اس لئے یہ سمجھنا کہ ڈاڑھی رکھنا صرف علما اور مولانا حضرات کا کام ہے اور عام مسلمان مختار ہیں کہ چاہیں رکھیں یا نہ رکھیں، بالکل غیر اسلامی اور غلط طرز فکر ہے۔ خصوصاً اگر آدمی ڈاڑھی مونڈنے کو پسند اور رکھنے کو ناپسند کرتا ہے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اس کے اندر اسلامی ذوق کے بجائے کافرانہ ذوق پرورش پار ہاہے۔
یہ بڑی عجیب اور افسوس ناک بات ہے کہ جس طرح مسلمانوں کو ان کے ہادی و رہبرصلی اللہ علیہ وسلم نے ڈاڑھی رکھنے کا حکم دیا ہے۔اسی طرح سکھوں کو بھی ان کے پیشوا نے اس کا حکم دیاتھا،ہمارے ملک میں انگریزی حکومت کے تحت دونوں رہے اور مغربی تعلیم دونوں نے پائی،لیکن سکھوں نے اپنے پیشوا کے حکم کی وہ بے احترامی نہیں کی جو مسلمانوں نے کی۔ درحقیقت یہ ایک بدترین حالت ہے جس پر مسلمانوں کو شرم آنی چاہیے، کجا کہ وہ بلا تکلف ان خیالات کا اظہار کریں کہ ڈاڑھی کے بغیر چہرے با رونق ہوتے ہیں اور ڈاڑھی رکھنے سے بے رونق ہوجاتے ہیں۔ آج فرنگیّت زدہ مسلمان محض ڈاڑھی مونڈنے ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ڈاڑھی کو برا سمجھتے ہیں۔اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس کے رکھنے والوں کی تذلیل وتضحیک کرتے ہیں۔ درس گاہوں میں ہر ممکن طریقے سے ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ سرکاری ملازمتوںمیں انہوں نے بجائے خود ڈاڑھی کو نااہلی کا سرٹیفکیٹ قرار دے رکھا ہے اور بعض ملازمتوں میں تو اس کے رکھنے پر پابندیاں تک عائد ہیں۔ان لوگوں کا دعویٰ یہ ہے کہ ڈاڑھی رکھنے سے آدمی چست اور جامہ زیب(Smart) نہیں رہتا۔ یہ سب کچھ ایک مسلم سوسائٹی اور مسلم ریاست میں ہو رہا ہے۔ لیکن سکھوں نے انگریزی حکومت کے زمانے میں اپنا یہ حق تسلیم کرا کے چھوڑا کہ وہ ڈاڑھی رکھ کر ہر شعبۂ حیات میں داخل ہوسکتے ہیں اور بڑے سے بڑے مناصب پر پہنچ سکتے ہیں۔ فوج ایئر فورس اور سول کے کس شعبے میں و ہ نہیں پہنچے اور کون سا بڑے سے بڑا عہدہ رہ گیا جو محض ڈاڑھی رکھنے کی وجہ سے ان کو نہ ملاہو۔ کس میں یہ جرأت تھی کہ ان کو نااہل قرار دے سکے،یا ان پر(smart) نہ ہونے کا فیصلہ صادر کرسکے،یا ان کو یہ حکم دے سکے کہ پہلے ڈاڑھی منڈوائو پھر تمھیں فلاں منصب پر ترقی مل سکے گی آج ہمارے کالے صاحب لوگوں میں سے نہ معلوم کتنے ایسے ہوں گے جنہوں نے انگریزی دور میں کسی نہ کسی سکھ افسر کی ماتحتی کی ہو گی اور کبھی ان کو اس بات پر شرم نہ آئی کہ وہ ایک ڈاڑھی والے کی ماتحتی کر رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی شخص کبھی یہ ہمت نہ کرسکا کہ سکھوں کی ڈاڑھی کا مذاق اُڑانا تو درکنار، اس پر اعتراض تک کر سکے۔ یہ سب کچھ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت تھا کہ سکھ مسلمانوں سے زیادہ کیرکٹر رکھتے ہیں، ان سے زیادہ اپنے شعائر کا احترام کرتے ہیں، ان سے زیادہ اپنے پیشوائے دین کی اطاعت کرتے ہیں، اور ان سے کم ذہنی غلامی میں مبتلا ہوئے ہیں۔ کیا اس صریح علامت کم تری پر مسلمانوں کو کبھی شرم نہ آئے گی؟
(ترجمان القرآن، جلد۵۸، عدد ا،اپریل ۹۶۲اء)

ڈاڑھی اور فوجی ملازمت:

سوال: میں نے ایئر فورس میں پائلٹ کے لئے امتحان دیا تھا۔ میڈیکل ٹیسٹ اور انٹرویو کے بعد بحمد اﷲ امتحان اور کھیلوں میں بھی کام یاب ہوا۔ مگر بغیر وجہ بتائے ہوئے مجھے مسترد کردیا گیا۔ اب کئی لوگوں نے مجھے بتایا کہ تم صرف ڈاڑھی نہ منڈوانے کی وجہ سے رہ گئے تھے مگر مجھے یقین نہ آیا۔
اب دسمبر میں میں نے پی۔ ایم۔ اے کے لئے امتحان دیا۔ پہلے انٹرویو میں کمیٹی کے ایک بریگیڈیئر صاحب نے مجھے بتایا کہ تم پہلی دفعہ کوہاٹ میں صرف ڈاڑھی کی وجہ سے رہ گئے تھے۔ اور یہ بھی کہا کہ پاکستانی فوج کے افسر ڈاڑھی والے کیڈٹ کو پسند نہیں کرتے اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایسا کوئی آدمی نہ لیا جائے۔ہاں بعد میں اجازت لے کر ڈاڑھی رکھی جاسکتی ہے۔اس کے بعد میں نے تحریری امتحان دیا اور اس میں کام یاب ہوا۔اب اس کے بعد میڈیکل ہوگا اور اس کے بعد کوہاٹ جانا پڑے گا۔اس وجہ سے میرے پانچ بھائی اور اب والد صاحب پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ ڈاڑھی کو صاف کرائو۔مگر میں عزت، عہدے اور روپے کے لئے ایسا کام کرنے کو تیار نہیں ہوں۔ میں اپنی حالت میں رہ کریا تجارت کروں گا اور یا مزید تعلیم حاصل کرکے اسلام کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔کیوں کہ ان ملازمتوں سے میرے مذہبی احساسات مجروح ہوں گے۔میں زیادہ دیر تک صبر نہیں کرسکتا۔ مگر قبل اس کے کہ آخری فیصلہ کروں،میں آپ سے مشورہ لینا ضروری سمجھتا ہوں۔آپ کتاب وسنت کی روشنی میں میری رہنمائی کریں۔میں آپ کا بہت ممنون ہوں گا۔

جواب: آپ نے جو حالات لکھے ہیں،انہیں پڑھ کر انتہائی افسوس ہوا۔ پاکستان کی فوج اور فضائیہ میں آج بھی بکثرت ایسے لوگ موجود ہیں جو تقسیم سے قبل متحدہ ہندوستان کی فوج یا فضائیہ میں سکھوں کے ساتھ،بلکہ بعض تو ان کے ماتحت کام کرچکے ہیں۔ان کو خوب معلوم ہے کہ رعب، خوب صورتی ،چستی اور دوسرے جن جن پر فریب الفاظ کو استعمال کرکے آج یہ لوگ ڈاڑھی کو فوج اور فضائیہ میں حرام کیے ہوئے ہیں، ان میں سے کوئی حیلہ اور بہانہ نہ تو سکھوں سے ڈاڑھی منڈوا سکا اور نہ کسی بڑے سے بڑے عہدے تک ان کے پہنچنے میں مانع ہو سکا۔ آج بھی متحدہ ہندوستان کی فوج اور بحریہ اور فضائیہ میں سکھ بڑے سے بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور کسی کی یہ جرأت نہیں ہے کہ ان سے یہ کہہ سکے کہ تمہیں ملازمت کرنی ہے تو ڈاڑھی منڈوا کر آئو،یا اگر تم ڈاڑھی رکھو گے تو تمہیں ملازمت میں نہ لیا جائے گا۔ ابھی تھوڑی ہی مدت پہلے ہمارے ہاں کی ایک فوجی تقریب میں حصہ لینے کے لئے ہندوستان سے ایک سکھ لیفٹیننٹ جنرل آیا تھا جس کے چہرے پر بالشت بھر کی ڈاڑھی لٹک رہی تھی اور اس کی تصویر ہمارے ملک کے اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔ افسوس کہ اس کو دیکھ کر بھی ہمارے کالے صاحب بہادروں کو شرم نہ آئی اور انہوں نے نہ سوچا کہ ڈاڑھی سے آدمی فوجی ملازمت کا اہل نہیں ہوتا تو یہ سکھ کیسے لیفٹیننٹ جنرل ہوگیا۔
اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ہمارے مسلمان افسر صاحبان ڈاڑھی والوں کو ملازمت میں نہ لینے، یا ڈاڑھی منڈوانے کو ملازمت کے لئے شرط قرار دینے کے لئے جتنے بہانے بناتے ہیں، وہ سب بالکل لغو اور بے ہودہ ہیں۔اصل بات یہ نہیں ہے کہ ڈاڑھی رکھنے سے فوجی ملازمت کے لئے آدمی کی اہلیت یا موزونیت میں کوئی فرق آجاتا ہے۔بلکہ اصل بات یہ ہے کہ انگریزکی بندگی نے ان لوگوں کو سکھوں کی بہ نسبت بہت زیادہ گھٹیا درجے کی غلامانہ ذہنیت میں مبتلا کردیا ہے۔سکھوں نے بھی وہی مغربی تعلیم پائی ہے جو انہوں نے پائی ہے اور اسی انگریز کی وہ بھی نوکریاں کرتے رہے ہیںجس کی یہ کرتے رہے ہیں۔کسی میدان میں وہ ان سے پیچھے نہیں رہے۔ لیکن وہ آج تک بھی مغرب زدگی کی اس ذلیل انتہا کو نہیں پہنچے کہ گرونانک اور گورو گوبند سنگھ اور اپنے مذہب کے دوسرے اکابر کی پیروی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھیں اور اسے نالائقی کا نشان سمجھیں۔ یہ شرف صرف ہمارے فرنگیّت زدہ حضرات ہی کو نصیب ہوا کہ انہوں نے جب انگریز کی بندگی اختیار کی تو اپنا سب کچھ لا کر خداوند انگریز کے قدموں میں ڈال دیا۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ یہ لوگ انگریز کی نوکری حاصل کرنے کے لئے بخوشی ڈاڑھیاں مونڈنے پر راضی ہو گئے، بلکہ رفتہ رفتہ یہ اتنے بگڑے کہ انہوں نے خود ڈاڑھی کو نالائقی کا نشان تسلیم کرلیا۔ حالاں کہ ڈاڑھی جس طرح سکھوں کے اکابر مذہب کی سنت تھی،اسی طرح وہ مسلمانوں کے اکابر دین کی سنت بھی تھی، اور جس طرح سکھوں کو ان کے پیشوائے دین نے اس کے رکھنے کاحکم دیا تھا،اسی طرح مسلمانوں کو بھی نبی ؐنے اس کے رکھنے کی تاکید اور مونڈنے کی ممانعت فرمائی تھی۔ اس صورتِ حال کوجب میں دیکھتا ہوں تو مجھے بڑی شدت کے ساتھ یہ احساس ہوتا ہے کہ مسلمان خود اپنے ہی ہم سر اور ہم عصر غیر مسلموں کی بہ نسبت سیرت وکردار کے اعتبار سے کتنے فروتر ثابت ہوئے ہیں۔
میرا مشورہ نہ صرف آپ کو، بلکہ تمام ان نوجوانوں کو جن کے اندر دینی غیرت وحمیت موجود ہے، یہ ہے کہ وہ ان حالات میں پست ہمت نہ ہوں اور کوئی کمزوری نہ دکھائیں۔ ان کو چاہیے کہ ہر مقابلے کے امتحان میں شریک ہوکر اپنی قابلیت واہلیت ثابت کردیں اور اس کے بعد جب صرف ڈاڑھی رکھنے کے سبب سے ان کو ملازمت میں لینے سے انکار کیا جائے تو ملازمت سے محرومی کو قبول کرلیں اور ڈاڑھی ہرگز نہ مونڈیں۔ اس طرح اگر غیرت مند مسلمان نوجوان پے درپے عمل کرتے رہیں گے تو انشاء اﷲ یہ بات بالکل ثابت ہوجائے گی کہ ڈاڑھی رکھنے والے نااہل نہیں ہیں بلکہ ان پر ملازمتوں کے دروازے بند کرنے والے نام نہاد روشن خیال افسر انتہائی تنگ نظر ’’ملا‘‘ ہیں اور وہ اپنی اسی تنگ نظری کے باعث اپنے ملک کی ملازمتوں کو مضبوط سیرت وکردار رکھنے والے نوجوانوں سے محروم کررہے ہیں۔ ہماری حکومت اگر یہی پسند کرتی ہے کہ صرف پیٹ پر ضمیر وایمان کی قربانی دینے والے ہی ملازمتوں میں رہ جائیں اور تمام ایمان دار و بلند کردار لوگوں پر ملازمتوں کے دروازے بند رہیں تو وہ جب تک چاہے اپنی اس تباہ کن پالیسی پر چلتی رہے۔ آخرکاراس کو معلوم ہوجائے گا کہ اس نے اس حماقت سے اپنا اور اپنے ملک کا کس قدر نقصان کیا ہے۔ (ترجمان القرآن، جلد ۵۹،عدد ۶۔ مارچ ۹۶۳اء)

چند جدید ملحدانہ نظریات کا علمی جائزہ:

سوال: میرے ایک عزیز جو ایک اونچے سرکاری منصب پر فائزہیں،کسی زمانے میں پکے دین دار اور پابند صوم وصلوٰۃ ہوا کرتے تھے لیکن اب کچھ کتابیں پڑھ کر لامذہب ہوگئے ہیں۔ان کے نظریات یکسر بدل چکے ہیں۔ ان نظریات کی تبلیغ سے بھی وہ باز نہیں آتے۔ میں ان کے مقابل میں اسلامی احکام و تعلیمات کی مدافعت کی پوری کوشش کررہا ہوں لیکن اپنی کم علمی کی وجہ سے ان کا مدلل جواب دینا میرے بس میں نہیں ہے۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ میری مدد فرمائیں۔ ان کے موٹے موٹے نظریات درج ذیل ہیں:
۱۔ خدا کو وہ قادر مطلق اور اس جہاں کا پیدا کرنے والا تو مانتے ہیں مگر ان کے نزدیک جہان کو خدا نے بنا کر چھوڑ دیا ہے اور اب یہاں جو کچھ بھی ہورہا ہے،آپ سے آپ (automatic) ہورہا ہے۔
۲۔ رسولؐ کو وہ ایک مصلح(ریفارمر) سے زیادہ درجہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ البتہ انہیں وہ نیک اور غیر معمولی قابلیت کا انسان بھی سمجھتے ہیں۔
۳۔ قرآن شریف کو وہ(معاذ اﷲ) رسولؐ خدا کی تصنیف قرا ردیتے ہیں۔ ان کی بہت سی باتوں کو اس وجہ سے ناقابل عمل سمجھتے ہیں کہ وہ اس وقت کے لئے تھیںجب قرآن نازل ہوا۔
۴۔ عبادات،نماز،روزہ وغیرہ کو صرف برائی سے بچنے کا بہترین ذریعہ اور معاشرے کو صحیح ڈگر پر چلانے کا آلہ سمجھتے ہیں۔
۵۔ نظریۂ شیطان ان کے خیال میں خدا کے واسطے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ خدا تو نیکی کی توفیق دیتا ہے اور شیطان برائی کی طرف کھینچتا ہے۔ اور بظاہر توعام طور پر شیطان کی جیت ہوتی ہے۔
۶۔ چار شادیوں، غلام رکھنے اور قربانی کو لغو قرار دیتے ہیں۔
امید ہے کہ آپ کچھ وقت نکال کر ان باتوں کا مختصر جواب دیں گے اور ان کتابوں کے نام جہاں سے میں ان کی تسلی کرسکوں،درج فرما کر ممنون کریں گے۔

جواب: مجھے آپ کے عزیز عہدے دار کے خیالات معلوم کرکے بڑا افسوس ہوا۔اﷲ تعالیٰ ان کو ہدایت دے، اور آپ کو ان کے اثر سے محفوظ رکھے۔ اگر آپ نے میری کتابوں کا مطالعہ کیا ہوتا تو آپ ان کی سب باتوں کا جواب بڑی اچھی طرح دے سکتے تھے۔ اب بھی میں آپ کو مطالعہ کرکے تیار رہنے کا مشورہ دوں گا۔ کیوں کہ خط وکتابت میں اتنے بڑے بڑے مسائل کو سمجھانا بڑا مشکل ہے۔
مختصراً میں ان باتوں کا جواب دیتا ہوں جو آپ نے پوچھی ہیں۔
۱۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جس شخص کی قوتِ فکر مائوف نہ ہو،وہ کبھی یہ تصور نہیں کرسکتا کہ کوئی قانون اور نظم (law and order)کسی نافذ کرنے والے اقتدار (authority) کے بغیر بھی نافذ ہوسکتا ہے اور جاری رہ سکتا ہے۔ کائنات میں قانون اور نظم موجودہے۔ اس کا انکار تو کسی طرح کیا ہی نہیں جاسکتا۔ اب کیا عقل یہ باور کرسکتی ہے کہ اتنے بڑے لامحدود پیمانے پر لا محدود مدت تک یہ قانون اور نظم کسی اقتدار کے بغیر ہی چل رہا ہے ۔کوئی غیر متعصب عقل تو اسے باور نہیں کرسکتی۔ مگر دو باتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے اچھے خاصے ہوش مند انسان اس نادانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ایک یہ کہ ان کی فکر ونظر کا ظرف بہت تنگ ہے جس کے باعث وہ اس عظیم الشان اقتدار کاتصور کرنے سے عاجز رہ گئے ہیں جو اتنی بڑی کائنات میں نظم اور قانون کو ازل سے ابد تک چلا رہا ہے۔دوسرے یہ کہ وہ اس کو ماننا چاہتے ہی نہیں ہیں۔کیوں کہ اس کو مان لینے کے بعد ان کے لئے دنیا میں من مانی کرنے کی آزادی باقی نہیں رہتی۔
یہ تو خدا کے متعلق ان کے تصور کی غلطی ہے۔ لیکن جو حضرات اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، ان سے عرض کیجیے کہ اتنے بڑے بڑے مسائل پر سوچنے اور اظہار رائے کرنے والے آدمیوں کو کم ازکم ایمان دار (honest) تو ہونا چاہیے۔ آپ لوگ تو اس صفت سے بھی خالی ہیں۔ آپ خدا اور رسول اور قرآن کے متعلق جو باتیں کرتے ہیں وہ اسلام کے بالکل خلاف ہیں، مگر اس کے باوجود آپ مسلمان بنے پھرتے ہیں اور مسلم معاشرے کو دھوکا دینے میں آپ کوئی تأمل نہیں کرتے۔ اگر آپ ایمان دار ہوتے تو جس وقت آپ نے یہ آرا قائم کی تھیں، اسی وقت اسلام سے اپنی علیحدگی کااعلان کردیتے اور اپنے نام بھی تبدیل کرلیتے تاکہ مسلم معاشرہ آپ سے دھوکا کھا کر آپ کے ساتھ وہ معاملات جاری نہ رکھتا جو وہ کسی غیر مسلم کے ساتھ رکھنا پسند نہیں کرتا۔اس صریح جعل سازی اور فریب کے بعد آپ کی کسی رائے کو وہ وقعت دینا جو صرف ایمان دار اور مخلص آدمیوں کی آرا ہی کو دی جاسکتی ہے،ہمارے لئے سخت مشکل ہے۔
۲۔ رسول ؐ کے بارے میں ان کے خیالات متضاد ہیں۔ ایک طرف وہ رسولؐ کو نیک آدمی بھی کہتے ہیں، جس سے لازم آتا ہے کہ وہ اس کو سچا آدمی بھی مانیں(الا یہ کہ ان کے نزدیک کوئی جھوٹا آدمی بھی نیک ہوسکتا ہو) اور دوسری طرف وہ رسولؐ کے اس دعوے کو جھوٹ بھی قرار دیتے ہیں کہ وہ محض ریفارمر نہیں ہے بلکہ خدا کی طرف سے رسولؐ بنا کر بھیجا گیا ہے۔ایک صحیح العقل آدمی ان دونوں باتوں کو جمع نہیں کر سکتا۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے تئیس سال (۲۳) تک اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنے مخالفین کے مقابلے میں ایک ایسی جدوجہد (struggle) کرتے ہوئے گزارا ہے جس کی بنیاد ہی یہ تھی کہ آپ اپنی رسالت کے مدعی تھے اور آپؐ کے مخالفین اسی بات کو نہ ماننا چاہتے تھے۔ اب ایک شخص کے لئے محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دو ہی رویے اختیا رکرنا معقول ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ اگر وہ ان کو سچا آدمی سمجھتا ہے تو ان کو رسول مانے۔ دوسرے یہ کہ وہ اگر ان کو رسول نہیں مانتا تو معاذ اﷲ، انہیں بدترین جھوٹ اور فریب کا مرتکب خیال کرے۔ ان دونوں باتوں کے درمیان ایک تیسری راہ اختیار کرنا اور یہ کہنا کہ وہ سچے آدمی بھی تھے اور رسول بھی نہ تھے، سراسر غیر معقول بات ہے۔
اس کے جواب میں ایسے لوگوں کی جانب سے زیادہ سے زیادہ دو باتیں کہی جاسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ محمد رسول اﷲ ؐ نے محض اصلاح کی خاطر رسالت کا دعویٰ کردیا تاکہ وہ خدا کے نام سے وہ احکام تسلیم کراسکیں جو وہ اپنے نام سے پیش کرکے نہ منوا سکتے تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنے اس دعوے میں مخلص تو تھے مگر حقیقت میں رسولؐ نہ تھے۔ بلکہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ وہ رسول ہیں۔
ان میں سے پہلی بات جو شخص کہتا ہے ،وہ میرے نزدیک اخلاقی حیثیت سے بڑا خطرناک آدمی ہے، جس سے ہر شریف انسان کو ہوشیار ہونا چاہیے اس لئے کہ اگر ہم اس کے اس خیال کا تجزیہ کریں تو صریحاً یہ معلوم ہوتاہے کہ اس شخص کے نزدیک نیک مقصد کے لئے برا طریق کار اختیار کرنا نہ صرف یہ کہ جائزہے بلکہ قابل وقعت(respectable) بھی ہے،اسی وجہ سے وہ ایسے آدمی کو مصلح اور نیک آدمی سمجھتا ہے جس نے اس کے خیال میں محض اصلاح کرنے کے لئے(نعوذ باﷲ) دعوائے رسالت جیسا عظیم الشان فریب گھڑ لیا تھا۔اس طرح کے گھٹیا نظریات رکھنے والے آدمی سے کچھ بعید نہیں ہے کہ کل وہ کسی اچھے مقصد کے لئے( جس کو وہ اچھا سمجھتا ہو) کسی کے ہاں چوری کر ڈالے، یا کوئی جعلی دستاویز بنالے،یا اور کسی گھنائونے اخلاقی جرم کا مرتکب ہوجائے۔ کیوں کہ جب اس کے نزدیک ایک فریبی اس بِنا پر نیک اور مصلح ہوسکتاہے کہ اس نے اصلاح کے لئے فریب کاری کی ہے، تو آخر وہ خود اچھے مقاصد کے لئے جرائم کرنے سے کب باز رہ سکتا ہے۔
دوسری بات جو شخص کہتا ہے وہ عقلی حیثیت سے اتنا ہی پست ہے جتنا اوپر والی بات کہنے والا اخلاقی حیثیت سے پست ہے۔زیادہ سے زیادہ رعایت(allowance) دیتے ہوئے ایسے شخص کے متعلق جو کچھ ہم کہہ سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ یہ شخص بہت بڑے مسائل پر بہت کم سوچ کر اظہار رائے کردینے کا مریض ہے۔اس لیے کہ اگر وہ اس کم عقلی میں مبتلا نہ ہوتا تو کبھی اس بات کو ممکن خیال نہ کرتا کہ ایک شخص اتنا عقیل وفہیم بھی ہو کہ اسے تاریخ انسانی کے بلند ترین اور کام یاب ترین لیڈروں میں شمار کرنے سے اس کے مخالفین بھی انکار نہ کرسکیں،اور دوسری طرف وہ اپنے بارے میں ۲۳ سال تک مسلسل اتنی بڑی غلط فہمی میں مبتلا رہے اور اپنا سارا کام اسی غلط فہمی کی بنیاد پر چلاتا رہے،بلکہ آئے دن قرآن کی پوری پوری سورتیں خود تصنیف کرکرکے دنیا کو سناتا رہے اور پھر بھی وہ اس غلط فہمی میں پڑا ہوا ہو کہ یہ سورتیں میرے اوپر خدا کی طرف سے نازل ہورہی ہیں۔ میرے نزدیک تو اس بات کو ممکن اور معقول سمجھنے والے آدمی کی اپنی عقل ہی مشتبہ ہے۔ اس کی عقل درست ہوتی تو وہ خود جان لیتا کہ اس طرح کی غلط فہمی صرف مجنون آدمیوں کو لاحق ہوا کرتی ہے، اور کسی مجنون آدمی سے وہ کمال درجے کے مدبرانہ اور حکیمانہ کارنامے صادر نہیں ہوسکتے جو محمد رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوئے ہیں۔
۳۔ قرآن کے متعلق ان کے جو خیالات آپ نے نقل کیے ہیں،ان کے بارے میں بھی میری وہی رائے ہے جو میں نے اوپر عرض کی ہے کہ وہ کسی چیز سے پوری واقفیت بہم پہنچائے بغیر اور اس پر کافی غور کیے بغیر رائے قائم کرنے کے خوگر ہیں۔ان سے پوچھیے کہ آپ نے ساری عمر میں کتنی دفعہ قرآن کا گہرا تحقیقی مطالعہ فرمایا ہے، جس کے بعد آپ اس کے بارے میں یہ فیصلہ دینے کے قابل ہوئے ہیں۔اگر وہ ایمان داری کے ساتھ یہ تسلیم فرمالیں کہ انہوں نے اس طرح کا تحقیقی مطالعہ نہیں کیا ہے،تو ان سے گزارش کیجیے کہ تحقیق کے بغیر ایسے اہم مسائل میں فیصلے صادر کرنا کسی ذی ہوش اور تعلیم یافتہ آدمی کے شایان شان نہیں ہے۔ اور اگر ان کا دعویٰ یہ ہو کہ انہوں نے خوب تحقیق کرکے یہ رائے قائم کی ہے تو ان سے دریافت کیجیے کہ قرآن کے اندر انہوں نے وہ کون سی شہادت پائی ہے جسے دیکھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام ہے۔نیز یہ بھی دریافت کیجیے کہ قرآن کی کن کن باتوں کو انہوں نے ناقابل عمل، یا زمانۂ نزول قرآن تک کے لئے قابل عمل پایا ہے۔ ان امور کی تعیین ان سے کرالیجیے اور پھر مجھے لکھیے، تاکہ میں بھی کچھ ان کے نتائج تحقیق سے استفادہ کرسکوں۔
۴۔ عبادات کے بارے میں ان کے جو نظریات آپ نے بیان کیے ہیں،وہ بھی سخت ژولیدہ فکری(confused thinking) بلکہ بے فکری کا نمونہ ہیں۔شاید انہوں نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ نماز روزہ وغیرہ اعمال صرف اسی صورت میں برائی سے بچنے کا بہترین ذریعہ اور معاشرے کو صحیح ڈگر پر چلانے کا آلہ ہوسکتے ہیں جب کہ انہیں خلوص کے ساتھ کیا جائے،اور خلوص کے ساتھ آدمی ان پر اسی صورت میں کاربند ہوسکتا ہے جب وہ ایمان داری سے یہ سمجھتا ہو کہ خدا ہے اور میں اس کا بندہ ہوں اور محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی اﷲ کے رسول تھے اور کوئی آخرت آنے والی ہے جس میں مجھے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ان سب باتوں کو خلاف واقعہ سمجھتا ہو اور یہ خیال کرتا ہو کہ محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اصلاح کے لئے یہ ڈھونگ رچایا ہے، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس صورت میں بھی یہ عبادات برائی سے بچنے کا ذریعہ اور معاشرے کو صحیح ڈگر پر چلانے کا آلہ بن سکیں گی۔ ایک طرف ان عبادات کے یہ فوائد بیان کرنا اور دوسری طرف ان فکری بنیادوں کو خود ڈھا دینا جن پر ان عبادات کے یہ فوائد منحصر ہیں،بالکل ایسا ہے جیسے آپ کسی کارتوس سے سارا گن پائوڈر نکال دیں اور پھر کہیں کہ یہ کارتوس شیر کے شکار میں بہت کارگر ہے۔
۵۔ شیطان کے مسئلے پر ان کا عتراض دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی پوری عمر میں کبھی ایک مرتبہ بھی یہ جاننے کی کوشش نہیں فرمائی کہ قرآن مجید انسان اور شیطان کے معاملے کی کیا حقیقت بیان کرتا ہے۔اس کو جانے بغیر انہوں نے محض کچھ سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر اس مسئلے کا سطحی سا تصور قائم کرلیا اور اس پر اعتراض جڑ دیا۔یہ اعتراض درحقیقت ان کے اپنے ہی تصور پر وارد ہوتا ہے۔ اس تصور پر اس کی کوئی زد نہیں پڑتی جو قرآن نے پیش کیا ہے۔قرآن کا پیش کردہ تصور یہ ہے کہ خدا نے انسان کو ایک محدود نوعیت کی آزادی وخود مختاری دے کر اس دنیا میں امتحان کے لئے پیدا کیا ہے اور شیطان کو خود اس کے مطالبے پر یہ آزادی عطا کی ہے کہ وہ اس امتحان میں انسان کو ناکام کرنے کے لئے جو کوشش کرنا چاہے کر سکتا ہے، بشرطیکہ وہ صرف ترغیب وتحریص کی حد تک ہو۔ زبردستی اپنے راستے پر کھینچ لے جانے کے اختیارات اسے نہیں دیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے خود بھی انسان کو جبراً راہ راست پر چلانے سے احتراز فرمایا ہے،اور صرف اس بات پر اکتفا فرمائی ہے کہ انسان کے سامنے انبیا اور کتابوں کے ذریعے سے راہ راست کو پوری طرح واضح کردیا جائے۔اس کے بعد خدا کی طرف سے آدمی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ چاہے تو خدا کی پیش کردہ راہ کو اپنے لئے چن لے اور اس پر چلنے کا فیصلہ کرے، اور چاہے تو شیطان کی ترغیبات قبول کرلے اور اس راہ میں اپنی کوششیں اور محنتیں صرف کرنے پر آمادہ ہوجائے جو شیطان اس کے سامنے پیش کرتا ہے۔ان دونوں راہوں میں سے جس کو بھی انسان خود اپنے لئے انتخاب کرتا ہے،اﷲ تعالیٰ اسی پر چلنے کے مواقع اسے دے دیتا ہے، کیوں کہ اس کے بغیر امتحان کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔اس پوزیشن کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد بتائیے کہ شیطان کا چیلنج دراصل کس کے لئے ہے؟خدا کے لئے یا انسان کے لئے؟اور انسانوں میں سے جو لوگ شیطان کی راہ پر جاتے ہیں،ان کے معاملے میں شیطان کی جیت خدا پر ہوتی ہے یا انسان پر؟خدا نے تو آدمی اور شیطان کو آزادانہ کشتی لڑنے کا موقع دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ آدمی جیتے گا تو جنت میں جائے گا،اور شیطان جیتے گا تو ہارنے والا آدمی اور اس کو غلط راہ پر لے جانے والا شیطان دونوں جہنم میں جائیں گے۔ اب کیا آپ چاہتے ہیں کہ خدا اس کے مقابلے میں مداخلت کرکے زبردستی انسان کو کام یاب کرائے؟
۶۔ چار شادیوں اور غلامی اور قربانی کے بارے میں مختصر طریقے سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ میں ان جملہ مسائل پر متعدد مرتبہ تفصیلاً اظہار خیال کرچکا ہوں۔تعدد ازواج کے مسئلے کو سمجھنے کے لئے آپ میری تفسیر تفہیم القرآن حصہ اوّل کے متعلقہ مقامات انڈکس کی مدد سے(نکاح، قانون اسلامی اور ازواجی زندگی کے تحت) مطالعہ کریں۔ علاوہ ازیں حکومت کے مقررہ کردہ میرج کمیشن کے سوال نامے کا جو جواب میں نے دیا تھا،اس میں بھی اس مسئلے پر بحث موجود ہے۔
غلامی کے مسئلے پر آپ میرے درج ذیل مضامین مطالعہ فرمائیں:
۱۔ رسائل ومسائل حصہ اوّل، مضمون’’ میدان جنگ میں قحبہ گری‘‘
۲۔ رسائل ومسائل حصہ دوم، مضمون’’اسلام میں غلامی کو ممنوع کیوں نہ کردیا گیا؟‘‘
۳۔ تفہیمات حصہ دوم، مضمون ’’غلامی کا مسئلہ‘‘ نیز ’’غلاموں اور لونڈیوں کے متعلق چند سوالات‘‘
۴۔ تفہیم القرآن حصہ اوّل ودوم،انڈیکس میں غلامی کے زیر عنوان صفحات کا حوالہ موجود ہے۔
۵۔ ماہنامہ’’ ترجمان القرآن‘‘ شمارہ جون ۵۶ء’’کنیز کی تعریف اور اس کے حلال ہونے کی دلیل۔تعداد ازواج اور لونڈیاں‘‘
قربانی کے متعلق آپ میری کتاب تفہیمات حصہ دوم میں قربانی کے متعلق مضامین‘نیز میرا رسالہ’’مسئلہ قربانی‘‘مطالعہ فرمائیں۔
ان ساری تحریروں سے ان شاء اﷲ آپ کو افہام وتفہیم میں مزید مدد ملے گی۔
(ترجمان القرآن،جلد نمبر۵۸، عدد ۳،جون ۹۶۲اء)

پاکستان میں مسیحیت کی ترقی کے اصل وجوہ:

سوال: اس ملک کے اندر مختلف قسم کے فتنے اٹھ رہے ہیں۔سب سے زیادہ خطرناک فتنہ عیسائیت ہے۔ اس لئے کہ بین المملکتی معاملات کے علاوہ عام مسلمانوں کی اقتصادی پس ماندگی کی وجہ سے اس فتنے سے جو خطرہ لاحق ہے،وہ ہر گزکسی دوسرے فتنے سے نہیں۔
اندریں حالات جب کہ اس عظیم فتنے کے سدباب کے لئے تمام تر صلاحیت سے کام لینا ازحد ضروری تھا، ابھی تک جناب کی طرف سے کوئی موثر کارروائی دکھائی نہیں دیتی،بلکہ آپ اس فتنے سے مکمل طور پر صرف نظر کرچکے ہیں۔ ابھی تک اس طویل خاموشی سے میںیہ نتیجہ اخذ کرچکا ہوں کہ آپ کے نزدیک مسیحی مشن کی موجودہ سرگرمیاں مذہبی اعتبار سے قابل گرفت نہیں اور اس فتنے کو اس ملک میں تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھنے کا حق حاصل ہے،خواہ مسلمانوں کے ارتداد سے حادثہ ٔ عظمیٰ کیوں کر ہی پیش نہ ہو۔ مہربانی فرما کر بندے کی اس خلش کو دور کریں۔

جواب: جن فتنوں کے پھیلنے کا انحصار نشر وتبلیغ پر ہو،ان کا مقابلہ تو بے شک نشر وتبلیغ سے کیا جاسکتاہے اور اس کام میں دانستہ کوتاہی میں نے کبھی نہیں کی ہے۔ لیکن جن فتنوں کو پھیلانے میں اختیارات کی طاقت کارفرما ہو،ان کے علاج کی کوئی صورت اس طاقت کی اصلاح یا تبدیلی کے سوا نہیں ہے۔ان کو محض نشر وتبلیغ سے نہیں روکا جاسکتا۔
عیسائیت کے معاملے میں یہی صورت پیش آرہی ہے ،جیسا کہ آپ نے خود بھی اس خط میں اعتراف کیا ہے۔ جو لوگ اس ملک میں عیسائیت قبول کررہے ہیں یاپہلے جنہوں نے قبول کی ہے، ان میں سے بہت ہی کم ایسے ہوں گے جنہوں نے دلیل کی بنا پر یہ مان لیا ہو کہ خدا تین ہیں،یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے تھے، یا ایک شخص کا سولی پر چڑھ جانا دوسروں کے گناہوں کا کفارہ ہوسکتا ہے۔اس طرح کے عقائد کو صحیح مان کر،اور اسلام کے معقول عقائد کو غلط سمجھ کر مسلمانوں سے عیسائی بن جانے والے آخر کتنے ہوسکتے ہیں۔دراصل جو چیز لوگوں کو عیسائیت کی آغوش میں کھینچے لئے جارہی ہے،وہ مسیحی مشنریوں کی تبلیغ نہیں بلکہ مشن ہسپتالوں اور اسکولوں کی کارگزاری ہے جسے فروغ دینے میں ہماری اپنی حکومت کی بالواسطہ اور بلا واسطہ امداد کا بہت بڑا حصہ ہے۔اس پر مزید وہ غیر معمولی اثر ورسوخ ہے جو عیسائیوں پادریوں کو ہمارے حکام عالی مقام کی بار گاہوں میں حاصل ہے۔ یہ عیسائیت کے پھیلنے میں مدد گار ہورہا ہے۔ ان اسباب کی جب تک روک تھام نہ ہو، میری، آپ کی، یا تما م علما کی مجموعی تبلیغ سے بھی کوئی خاص نتیجہ برآمدنہیں ہوسکتا۔
عیسائی ہسپتالوں میں ہر شخص جا کر خود دیکھ سکتا ہے کہ وہ نہ بے غرض خدمت خلق کے ادارے ہیں اور نہ علاج کے تجارتی ادارے بلکہ ان میں کھلم کھلا ایمان خریدنے کا کاروبار ہو رہا ہے۔ ان اداروں میں مسلمانوں سے علاج کی خوب فیسیں لی جاتی ہیں اور عیسائیوں کا علاج مفت ہوتا ہے اور اس کے ساتھ دین مسیحی کی تبلیغ بھی مریضوں پر کی جاتی ہے ۔اس حالت میں ایک غریب آدمی کے لئے جو اپنایا اپنے کسی عزیز کا علاج کرانے کی استطاعت نہ رکھتا ہو،اس امر کی بہت بڑی تحریص موجود ہے کہ اپنا دین تبدیل کرکے علاج کی سہولتیں حاصل کرلے۔
مسیحی مدرسوں اور کالجوں میں بھی یہی صورت ہے کہ ان میں مسلمانوں سے خوب فیسیں لی جاتی ہیں اور عیسائیوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے،بلکہ ان کے لئے بیرونی ممالک میں بھی تعلیم حاصل کرنے کی سہولتیں فراہم کر دی جاتی ہیں۔یہاں پھر غریبوں کے لئے یہ تحریص موجود ہے کہ جو تعلیم وہ اپنے بچوں کو خود نہیں دلا سکتے، اس کا انتظام محض مذہب تبدیل کرنے سے ہوسکتا ہے اور دنیوی ترقی کے دروازے ان کے لئے کھل سکتے ہیں۔
یہ دونوں قسم کے ادارے ہمارے ملک میں ایک طرف تو بیرونی روپے سے چل رہے ہیں، اوردوسری طرف ہماری اپنی حکومت ہر طرح ان کی امداد کررہی ہے۔ان کو گرانٹ دی جاتی ہے، ان کو زمینیں دی جاتی ہیں، ان کے ساتھ وہ رعایتیں کی جاتی ہیں جو خود مسلمانوں کے مذہبی اداروں کے ساتھ کبھی نہیں کی گئیں، اور ان کے معاملے میں اس سوال سے بالکل آنکھیں بند کرلی گئی ہیں کہ باہر سے آنے والا یہ روپیا جو ان اداروں پر خرچ ہورہا ہے، اور غیر ممالک کے مشنری ہمارے شہروں اور دیہات میں پھیل کر اس روپے سے جو کام لے رہے ہیں،اس کے پیچھے خالص دینی تبلیغ کے علاوہ اور کیا اغراض کارفرما ہیں ،اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ہمارے اپنے ہی حکمران مذہبی رواداری کے تمام معقول حدود سے تجاوز کرکے اس بات پر نہ صرف راضی ہیں بلکہ اس میں خود مددگار بن رہے ہیں کہ دوسرے لوگ روپے کے زور سے مسلمانوں کے ایمان خریدلیں۔
مسیحی پادریوں کے اثر ورسوخ کا یہ حال ہے کہ آج ہمارے دیہاتی علاقوں میں غیر مسیحی عوام کو ظالموں کے ظلم سے بچانے کے لئے کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔لیکن ہر جگہ مسیحی برادری کا پشت پناہ ایک پادری موجود ہے جو تھانے سے لے کر سیکرٹریٹ تک ہر درجے اور مرتبے کے حکام سے مسیحیوں کو نہ صرف انصاف دلواتا ہے بلکہ ان کے لئے بے جا رعایتیں تک حاصل کرلیتا ہے۔ مسلمانوں کے کسی عالم کو ان حاکموں کی بارگاہوں میں وہ رسائی حاصل نہیں ہے جو عیسائی پادریوں کو حاصل ہے۔ مسلمان علما ان تمام حکام کی نگاہوں میں ویسے ہی ذلیل وخوار ہیں جیسے انگریز حاکموں کی نگاہ میں کبھی تھے۔ مگر مسیحی پادری ان کا بھی اسی طرح’’فادر ‘‘ہے جس طرح انگریز حاکموں کا تھا۔یہ ایک اور سبب ہے جس کی بنا پر دیہات کے بے سہارا لوگ اپنے آپ کو پولیس اور زمینداروں اور بااثر غنڈوں کے ظلم سے بچانے کے لئے مسیحیت میں پناہ ڈھونڈنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
یہ تو غریبوں میں مسیحیت کے پھیلنے کے اسباب ہیں۔رہے کھاتے پیتے طبقے، تو ہماری حکومت ہی کی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ خوش حال لوگ اپنی اولادکو اُردو زبان اور اپنی قومی تہذیب اور اپنے دین کی تعلیم وتربیت دینالاحاصل سمجھتے ہیں اور ان کو ایسی تعلیم وتربیت دلوانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے وہ زبان اور اطوار و عادات کے اعتبار سے پورے انگریز یا امریکی بن جائیں۔ اس غرض کے لئے وہ اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو مسیحی اداروں میں بھیجتے ہیں جہاں کا پورا ماحول ان کو اسلام اور اسلامی تہذیب سے بے گانہ اور اسلامی تعلیمات سے محض ناواقف ہی نہیں بلکہ منحرف اور باغی بنادیتا ہے۔ اس کے بعد اگر یہ نوجوان عیسائی نہ بھی بنیں تو بہرحال مسلمان تو نہیں رہتے،بلکہ مسلمانوں کی بہ نسبت عیسائیوں سے بہت قریب ہوجاتے ہیں۔یہی لوگ تعلیم سے فارغ ہوکر ہمارے بڑے بڑے افسر بنتے ہیں اور اونچے عہدے انہی کے لئے مخصوص ہوجاتے ہیں۔ ان سے کون یہ امید کرسکتا ہے کہ ان کی ہم دردیاں مسیحیت کے مقابلے میں کبھی اسلام کے ساتھ ہوسکیں گی اور مسیحیت کے فروغ کو روکنے کا کوئی جذبہ ان میں پیدا ہوسکے گا۔
ان حالات میں آپ خود بتایئے کہ محض مسیحی عقائد کی تردید میں مضامین لکھنے یا گائوں گائوں تبلیغ کے لئے دورے کرنے سے مسیحیت کے اس سیلاب کو کہاں تک روکا جاسکتا ہے۔
( ترجمان القرآن، جلد ۵۸، عدد ۳۔جون ۹۶۲اء)

تصویر سے اظہارِبراء ت:

سوال: ماہ جولائی ۹۶۲اء کے ترجمان( تفہیم القرآن) میں تصویر کے مسئلے کو جس خوبی سے آپ نے کتاب و سنت کی روشنی میں حل کیا ہے ،ایمان کی بات ہے کہ ذہن مسلمان ہو تو حق بات دل میں اتر کر رہتی ہے۔ اگر واقعی تصویر حرام ہے تو پھر آپ کی تصویر اخبار میں دیکھی جائے تو بڑا رنج ہوتا ہے۔عموماًعلمائے کرام تصویر کو ناجائز بتاتے ہیں مگر ان کا عمل اس کے برعکس ہوتا ہے۔

جواب: آپ شاید اس خیال میں ہیں کہ آج کل بھی کسی شخص کی تصویر اسی وقت اُتر سکتی ہے جب وہ خود کھنچوائے،حالاں کہ اس زمانے میں آدمی کی تصویر بالکل اسی طرح اُتاری جاتی ہے جیسے کسی شخص کو اچانک گولی مار دی جائے۔اخبارات میں میری جو تصویریں شائع ہوئی ہیں،ان میں میری مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے۔تصویر کے بارے میں میں نے اپنا مسلک شروع سے واضح رکھا ہے۔ اگر اس کے باوجود لوگ تصویر لینے سے باز نہیں آتے تو اس کی ذمہ داری ان کی گردن پر ہے اور آپ کو مجھ سے پوچھنے کے بجائے ان سے پوچھنا چاہیے۔(ترجمان القرآن، جلد ۵۸، عدد ۶، ستمبر ۹۶۲اء)

لفظ نکاح کا اصل مفہوم:

سوال: ترجمان القرآن بابت ماہ مارچ ۹۶۲اء میں تفہیم القرآن کے تحت آپ نے جو احکام مستنبط فرمائے ہیں،ان میں سے پہلے ہی مسئلے میں آپ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ’’ قرآن نکاح کا لفظ بول کر صرف عقد مراد لیتا ہے‘‘یا قرآن اسے اصطلاحاً صرف ’’عقد کے لئے استعمال کرتا ہے۔‘‘ یہ قاعدۂ کلیہ نہ صرف یہ کہ ہمارے ہاں کے غالب فقہی مسلک یعنی حنفیہ کے نزدیک ناقابل تسلیم ہے بلکہ جمہور اہل تفسیر کی تصریحات کے بھی منافی ہے۔تعجب ہے کہ ایک ایسی بات جس کے حق میں شاید ہی کسی نے رائے دی ہو،آپ نے قاعدۂ کلیہ کے طور پر بیان فرما دی ہے۔

جواب: یہ ایک لمبی بحث ہے کہ لغت کے اعتبار سے نکاح کے معنی کیا ہیں۔علماے لغت میں اس امر پر بہت کچھ اختلاف ہوا ہے کہ عربی زبان میں نکاح کے اصل معنی کیا ہیں۔ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ لفظ وطی اور عقد کے درمیان لفظاً مشترک ہے۔دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ ان دونوں میں معناً مشترک ہے۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ اس کے اصل معنی عقد تزویج کے ہیں اور وطی کے لیے اس کو مجازاً استعمال کیا جاتا ہے۔ چوتھا گروہ کہتا ہے کہ اس کے اصل معنی وطی کے ہیں اور عقد کے لیے مجازاً استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن راغب اصفہانی نے پورے زور کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’لفظ نکاح کے اصل معنی عقد ہی کے ہیں۔ پھر یہ لفظ استعارتاً جماع کے لئے استعمال کیا گیا ہے، اور یہ بات محال ہے کہ اس کے اصل معنی جماع کے ہوں اور استعارے کے طور پر اسے عقد کے لئے استعمال کیا گیا ہو۔‘‘ اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ جتنے الفاظ بھی جماع کے لئے عربی زبان میں،یا دنیا کی کسی دوسری زبان میں حقیقتاً وضع کیے گئے ہیں وہ سب فحش ہیں۔ کوئی شریف آدمی کسی مہذب مجلس میں ان کو زبان پر لانا بھی پسند نہیں کرتا۔ اب آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ جو لفظ حقیقتاً اس فعل کے لئے وضع کیا گیا ہو،اسے کوئی معاشرہ شادی بیاہ کے لئے مجاز واستعارہ کے طور پر استعمال کرے۔ اس معنی کو ادا کرنے کے لئے تو دنیا کی ہر زبان میں مہذب الفاظ ہی استعمال کیے گئے ہیں نہ کہ فحش الفاظ۔
علمائے احناف بالعموم یہ رائے ظاہر کرتے ہیں کہ یہ لفظ حقیقتاً وطی کے لئے اور مجازاًعقد کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔لیکن یہ احناف کی متفق علیہ رائے نہیں ہے۔بعض مشائخ حنفیہ اس لفظ کو وطی اور عقد کے درمیان مشترک معنوی بھی قرار دیتے ہیں۔ پھر نکاح کی شرعی تعریف تو ان کے ہاں یہی ہے کہ ’’ ھوعقد یفید ملک المتعۃ قصدًا ‘‘ یا ’’عقد وضع لتملیک منافع البضع‘‘
میرے نزدیک قرآن وسنت میں نکاح ایک اصطلاحی لفظ ہے جس سے مراد لازماً عقد تزویج ہی ہے، اور جب یہ لفظ مطلقاً استعمال ہوگا تو اس سے مراد عقد ہی لیا جائے گا، الا یہ کہ کوئی قرینہ اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ یہاں مراد محض وطی یا عقد مع الوطی ہے۔ رہی وطی بلا عقد، تو اس کے لئے لفظ نکاح کے استعمال کا جواز لغت میں تو ہوسکتا ہے لیکن قرآن وسنت میں اس کی کوئی مثال میرے علم میں نہیں ہے۔ آ پ کے علم میں ہو تو پیش فرمائیں۔
(اس کے جواب میں سائل نے فقہ کی بعض کتابوں سے مفصل عبارتیں نقل کر کے بھیجیں۔ اس پر ان کو حسب ذیل جواب دیا گیا)۔(م)
افسوس ہے کہ کسی مسئلے پر زیادہ طویل بحث کی فرصت مجھے میسر نہیں، تاہم میں اجمالاً ایک بار پھر اپنے ’’مدعاً‘‘ کی وضاحت کیے دیتا ہوں۔اس کے بعد بھی اطمینان نہ ہو تو مضائقہ نہیں۔ آپ اپنی رائے پر قائم رہ سکتے ہیں اور میں اپنی رائے پر۔
نکاح سے مراد عقد اور وطی بعد عقد لینے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے،اختلاف صرف اس امر میں ہے کہ آیا اس سے مراد وطی بغیر عقد بھی لی جاسکتی ہے؟اس چیز کے ماننے میں مجھے تامل ہے،کیوں کہ شرعاً اس کے لئے زنا اور سفاح وغیرہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور اس قبیح فعل پر لفظ نکاح کا اطلاق جائز تسلیم کرنے کے لئے ان دلائل سے زیادہ قوی دلائل کی ضرورت ہے جو آپ نے نقل فرمائے ہیں۔
یہ بات بھی قابل تسلیم نہیں ہے کہ نکاح کا لفظ اصلاً فعل مباشرت کے لئے وضع ہوا تھا اور پھر مجازاً عقد کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ فعل مباشرت کے لئے دنیا کی جس زبان میں بھی کوئی لفظ وضع ہوا ہے(یعنی جو استعارہ وکنایہ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ صراحتًا اسی فعل کے لئے موضوع ہے) وہ قبیح وشنیع ہے اور کسی زبان میں بھی اس کو عقد کے لئے مجازاً استعمال نہیں کیا گیا ہے۔اُردو زبان میں اس فعل کے لئے جو لفظ مستعمل ہے،اسے آخر کون شخص بیاہ کے لئے استعمال کرتا ہے۔
خود آپ کے پیش کردہ حوالوں سے بھی یہ ثابت ہے کہ لفظ نکاح کے اصل معنی ضم کے ہیں۔ اب کیا یہ بات ماننے کے لائق ہے کہ یہ لفظ اصلاً مجرد فعل مباشرت کے لئے( بلالحاظ اس کے کہ عقد ہو یا نہ ہو) وضع ہوا تھا؟
بلاشبہ ایسی مثالیں لغت میں ملتی ہیں جن میں یہ لفظ محض مباشرت کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس لفظ کا اصل مفہوم مباشرت ہے اور عقد کے لیے یہ مجازاً استعمال کیا گیا ہے۔
قرآن اور حدیث سے جو مثالیں آپ نے دی ہیں، ان پر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں سے ایک بھی ایسی نہیں ہے جس کی دوسری تاویل ممکن نہ ہو۔ مثلاً میں زنا سے حرمت مصاہرت کا قائل ہوں۔ مگر میرے نزدیک قرآن کی آیت وَلَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَاۗؤُكُمْ النسائ 22:4 کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ’’جن عورتوں سے تمہارا باپ زنا کرچکا ہو، ان سے تم نہ زنا کرو اور نہ عقد۔‘‘ بلکہ میں اس کا مطلب یہی لیتا ہوں کہ جن عورتوں سے باپ کا نکاح ہوچکا ہو،ان سے اولاد کا نکاح نہیں ہوسکتا۔البتہ اس سے بالتبع یہ حکم بھی نکلتا ہے کہ باپ سے جس عورت کا بھی شہوانی تعلق کسی طرح ہوگیا ہے،وہ بیٹے پر حرام ہے اور بیٹے کا تعلق جس عورت سے ہوگیا ہے، وہ باپ پر حرام ہے۔ ناکح الید ملعون میں بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے استعارے کی زبان میں استمنا بالید کرنے والے کو ایسے شخص سے تشبیہ دی ہے جو اپنے ہی ہاتھ سے بیاہ کررہا ہے۔ایسی ہی تاویل دوسرے نظائر کی بھی کی جاسکتی ہے۔ (ترجمان القرآن، جلد ۵۸، عدد۶،ستمبر ۹۶۲اء)

حقیقی توبہ:

سوال: اس سے قبل میں مبتلائے کبائر تھا مگر اس کے بعد توبہ نصوح کرلی ہے اور اب آپ کی تحریک سے متاثر ہوکر اﷲ کا شکر ہے کہ ایک ’’شعوری مسلمان‘‘ ہوگیا ہوں۔ لیکن دن رات اپنے اخروی انجام سے ہراساں رہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آخرت کے بجائے دنیا ہی میں اپنے کیے کی سزا بھگت لوں۔ مگر افسوس کہ اسلامی سزا کا قانون ہی رائج نہیں ہے ، لِللّٰہِ آپ میری مدد فرمائیں اور کوئی مناسب راہ متعین فرمائیں۔

جواب: اﷲ تعالیٰ ہر اس گناہ کو بخش دیتا ہے جس پر ایک مومن سچے دل سے نادم ہوکر تائب ہو اور پھر اس گناہ کا اعادہ نہ کرے۔توبہ کے ساتھ ساتھ اگر آدمی راہ خدا میں کچھ صدقہ بھی کرے یا اﷲ کی راہ میں کوئی قربانی اس نیت سے کرے کہ اﷲ اپنی رحمت سے اس کا گناہ معاف فرما دے، تو یہ چیز توبہ کی قبولیت میں اور زیادہ مددگار ہوتی ہے۔اﷲ سے دعا ہے کہ وہ آپ کی توبہ قبول فرمائے اور آپ کو استقامت بخشے۔(ترجمان القرآن،ستمبر ۹۶۲اء)

عورت کی عصمت وعفت کا مستقبل:

سوال: مارننگ نیوز( کراچی)کی ایک کٹنگ ارسال خدمت ہے۔اس میں انگلستان کی عدالت طلاق کے ایک سابق جج سر ہربرٹ ولنگٹن نے ایک مکمل بیوی کی خصوصیات بیان کی ہیں۔اس کٹنگ کا ترجمہ یہ ہے:
’’رومن کیتھولک عدالت طلاق کے سابق جج سرہربرٹ ولنگٹن نے اپنے ایک فیصلے میں ایک مکمل بیوی کی چودہ خصوصیات گنائی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: صوری کشش،عقل مندی، محبت، نرم خوئی، شفقت، خوش اطواری، جذبۂ تعاون، صبر وتحمل، غور وفکر، بے غرضی، خندہ روئی، ایثار، کام کی لگن اور وفا داری۔
سرہربرٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ تمام خصوصیات ان کی دوسری بیوی میں موجود تھیں جس سے انہوں نے اگست ۹۴۵اء میں اپنی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد شادی کی تھی۔سرہربرٹ جنہوں نے اپنی عدالت میں سیکڑوں ناکام شادیوں کو فسخ کیا ہے،۸۶ برس کی عمر پاکر جنوری ۹۶۲اء میں وفات پا گئے ہیں۔‘‘
اس کٹنگ سے واضح ہوتا ہے کہ سرہربرٹ نے عفت یا پاک دامنی جیسی خوبی کو اِ ن چودہ نکاتی فہرست میں برائے نام بھی داخل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔گویا اب پاک دامنی کا شمار عورت کی خوبیوں میں نہیں کیا جاتا۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک عورت پاک دامنی کے بغیر کس طرح خاوند کی وفا دار رہ سکتی ہے؟

جواب: آپ کا عنایت نامہ ملا جس کے ساتھ آپ نے انگلستان کی ایک عدالت طلاق کے جج کی وصیت ارسال کی ہے اور مجھے اس پر اظہار خیال کی دعوت دی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اہل مغرب کے ہاں سے یہ تخیل اب قریب قریب ختم ہی ہوچکا ہے کہ پاک دامنی بھی عورت کی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے۔ اختلاط مرد وزن کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ ان کے ہاں بدکاری بڑھتی چلی گئی، یہاں تک کہ معاشرے کو اب اس کے رواج عام سے اپنے آپ کو مانوس کرنا پڑا۔اب وہاں کوئی شخص بھی یہ توقع نہیں رکھتا کہ شادی کے روز اسے بیوی کنواری ملے گی اور شادی کے بعد بھی وہ باعفت اور وفا شعار رہے گی۔وہاں مرد بالعموم کورٹ شپ کے دوران میں خود اپنی ہونے والی بیوی سے زنا کرچکا ہوتا ہے اور اکثر شادی ہی اس وقت ہوتی ہے جب لڑکی حاملہ ہوجاتی ہے۔ اس حالت میں آخر آپ یہ توقع ہی کیسے کرسکتے ہیں کہ ان کے ہاں اب تک پاک دامنی عورت کی ایک محمود صفت اور بیو ی کی ایک لازمی خوبی سمجھی جاتی رہے۔
میں کہتا ہوں کہ ان کا کیا ذکر ہے ،ہمارے حکمران طبقوں اور اونچی سوسائٹی کے لوگوں کی بدولت اب جس رفتار سے ہمارے ہاں اختلا ط مرد وزن بڑھ رہا ہے اور خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے ضبط ولادت کے طریقوں کو جس طرح عام کیا جارہا ہے ،اس کو دیکھتے ہوئے خود ہمارے ہاں یہی حالات پیدا ہوتے نظر آتے ہیں۔ خدا ان لوگوں کو یا تو ہدایت دے یا پھر ہماری قوم کو ان سے نجات دے جو خود بگڑے ہیں اور ساری قوم کو بگاڑ دینے پر تلے ہوئے ہیں۔
(ترجمان القرآن،جلد ۵۸، عدد ۶، ستمبر۹۶۲اء)

اُردو زبان اور موجودہ حکمران:

سوال: آپ اس حقیقت سے بہت زیادہ واقف ہیں کہ مشرق کی عظیم عوامی زبان اُردو ہی وہ واحد زبان ہے کہ جس کو ہم دولتین پاک وہند کی بین المملکتی زبان قرار دے سکتے ہیں۔ عوامی رابطہ مشرقی ومغربی پاکستان کے اعتبار سے بھی اُردو ہی بین العوامی زبان کہلائی جاسکتی ہے۔ مغربی پاکستان کی ۹ علاقائی زبانوں میں بھی اُردو ہی واحد بین العلاقائی زبان ہے۔
اردو کی دولت مندی،اعلیٰ استعدادِ علمی وصلاحیت دفتری حضرت والا سے مخفی نہیں۔اس کے باوجود آج پندرہ سال کی طویل مدت گزر گئی لیکن اردو کا نفاذ مغربی پاکستان میں بحیثیت سرکاری، دفتری، عدالتی اور تعلیمی زبان نہ ہو سکا۔
جناب وزیر قانون حکومت پاکستان کے انکشافات آپ کی نظر سے گزرے ہوں گے۔ موصوف نے اپنے ارشادات میں واضح کیا ہے کہ ۹۷۲اء تک انگریزی استعمال کی جاسکتی ہے یا انگریزی کا استعمال کیا جائے گا، اور ۹۷۲اء میں ایک کمیشن قائم کیا جائے گا جو اس بات کا جائزہ لے گا کہ انگریزی کے بجائے کون سی زبان متبادل ہو گی۔ وزیر صاحب موصوف کے متذکرہ صدر ارشادات سے شیدایان اُردو کو ازحد صدمہ ہوا اور بڑی حد تک مایوسی طاری ہوگئی۔
مجھ جیسے کروڑہا شیدایان اُردو کی جانب سے اس وقت زبان اُردو کو آپ کی طاقت وَر معاونت کی شدید ضرورت ہے۔ ازراہِ کرم اس خصوص میں اپنے بصیرت افروز ارشادات سے میری رہنمائی فرمائیں۔( قارئین کے لیے اس امر کا علم موجب دل چسپی ہو گا کہ یہ سوال ایک طویل خط کا اقتباس ہے، جو ایک غیر مسلم پاکستانی نے لکھا ہے اور جس میں اردوزبان کی ترویج پر بہت زور دیا گیا ہے۔ (ترجمان)

جواب: اُردو زبان کے لئے آپ جو کوششیں فرما رہے ہیں،میں اس کی تہ دل سے قدر کرتا ہوں۔
اُردو زبان کے راستے میں اصل رکاوٹ صرف یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا بالائی طبقہ چوں کہ خود انگریزی ماحول میں پلا ہوا ہے اور اُردو لکھنے بولنے پر قادر نہیں ہے،اس لئے وہ چاہتا ہے کہ اس کے جیتے جی ساری قوم پر انگریزی زبان مسلط رہے۔پھر یہ لوگ اپنی اولاد کی بھی انگریزیت ہی کے ماحول میں پرورش کررہے ہیں اور اس بات کا انتظام کررہے ہیں کہ حکومت کی باگ ڈور آیندہ انہی کی نسل کے قبضے میں رہے، اس لیے ۱۹۷۲ء میں بھی اس امر کی کوئی اُمید نہیں کی جاسکتی کہ اُردو زبان کو یہاں کی سرکاری اور تعلیمی زبان بنانے کا فیصلہ ہوجائے گا۔ کمیشن کی تجویز صرف طفل تسلی کے لئے ہے تاکہ وقت ٹالا جائے اور مطالبہ کرنے والوں کو فی الحال کم ازکم دس سال کے لئے چپ کرا دیا جائے۔ہماری مصیبتوں کا کوئی حل اس کے سوا نہیں ہے کہ ان دیسی انگریزوں سے کسی نہ کسی طرح پیچھا چھڑایا جائے۔امر واقعہ یہ ہے کہ انگریز خود تو چلا گیاہے مگر اس کا بھوت ہمیں چمٹ کر رہ گیا ہے۔ (ترجما ن القرآن،جلد ۵۹، عدد ۵۔ فروری ۹۶۳اء)

غلاف کعبہ کی نمایش اور اس کا جلوس:

سوال: حال ہی میں بیت اﷲ کے غلاف کی تیاری اور نگرانی کا جو شرف پاکستان اور آپ کو ملا ہے وہ باعث فخر وسعادت ہے۔مگر اس سلسلے میں بعض حلقوں کی جانب سے اعتراضات بھی وارد ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے پہلے تو آپ کی نیت پر حملے کیے گئے ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ دراصل آپ اپنے اور اپنی جماعت کے داغ مٹانا اور پبلسٹی کرنا چاہتے تھے اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کے خواہاں تھے،اس لیے آپ نے اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیا تاکہ شہرت بھی حاصل ہو اور الیکشن فنڈکے لئے لاکھوں روپے بھی فراہم ہوں۔ اس کے بعد بعض اعتراضات اصولی اور دینی رنگ میں پیش کیے گئے ہیں۔مثلاً یہ کہا گیا ہے کہ:
(۱) غلاف کعبہ کو قرآن وحدیث میں شعائر اﷲ کے زمرے میں شمار نہیں کیا گیا،اس لئے عملاً یا اعتقاداً اس کی تقدیس وتعظیم ضروری نہیں ۔یہ بس کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے،اس سے زائد کچھ نہیں، خواہ یہ کعبے کی نیت سے بنے یا نہ بنے۔کعبے سے کسی طرح کا تعلق رکھنے والی اگر ہرشے کا شمار شعائر اﷲ میں ہونے لگے اور اس کی تعظیم لازم سمجھی جائے تو پھر تعمیر کعبہ کے لئے جانے والا پتھر یا اس طرح کی دوسری اشیا بھی قابل تعظیم ٹھہریں گی۔
(۲) غلاف کی نمایش وزیارت اور اسے جلوس کے ساتھ روانہ کرنا ایک بدعت ہے۔کیوں کہ نبی ؐ اور خلافت راشدہ کے دور میں کبھی ایسا نہیں کیا گیا، حالاں کہ غلاف اس زمانے میں بھی چڑھایا جاتا تھا۔اگر غلاف کی نمایش کرنا اور اس کا جلوس نکالنا جائز ہے تو پھر ہدی کے اونٹوں کا جلوس کیوں نہ نکالا جائے جنہیں قرآن نے صراحت کے ساتھ شعائر اﷲ قرار دیا ہے۔
(۳) جو غلاف ابھی چڑھایا نہ گیا ہو بلکہ چڑھانے کے لئے تیار کیا گیا ہو، وہ تو محض کپڑا ہے، آخر وہ متبرک کیسے ہو گیا کہ اس کی زیارت کی اور کرائی جائے اور اسے اہتما م کے ساتھ جلوس کی شکل میں روانہ کیا جائے۔ پھر جو غلاف خانہ کعبہ سے اُترتا ہے، اس کی تعظیم وتکریم کیوں روا نہیں رکھی جاتی اور فقہا نے اس کا عام کپڑے کی طرح استعمال واستفادہ کیوں جائزرکھا ہے۔
(۴) یہ فعل بجائے خود احداث فی الدین اور بدعت ممنوعہ ہونے کے علاوہ بہت سی دیگر بدعات، منکرات اور حوادث کا موجب ہے۔چنانچہ غلاف کی اس طرح زیارت اور نمایش کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوا ہے ،عورتوں کی بے پردگی اور بے حرمتی ہوئی ہے، جانیں تلف ہوئی ہیں، نذرانے چڑھائے گئے ہیں، غلاف کو چوما گیا ہے، اس کے گرد طواف کیا گیا ہے، اس سے اپنی حاجات طلب کی گئی ہیں،حتیٰ کہ اس کو سجدے کیے گئے ہیں۔ پھر غلاف کے جلوس باجے کے ساتھ نکالے گئے ہیں اور اسے حضرت مخدوم علی ہجویری کے مزار پر چڑھا یا گیا۔
معترضین کا کہنا یہ بھی ہے کہ ہماری قوم پہلے ہی جذبۂ تنظیم سے عاری اور بدعات میں غرق ہے، اس لئے آپ کو یہ پیشگی سمجھ لینا چاہیے تھا کہ اس طرح کے پروگراموں کا لازمی انجام یہی کچھ ہو گا۔ چنانچہ ان نتائج وعواقب کی ذمہ داری آپ پر براہِ راست عائد ہوتی ہے۔
اس طرح کے اعتراضات چوں کہ بار باراٹھائے جارہے ہیں اس لئے بہتر اور مناسب ہے کہ آپ ان کا جواب دیں۔ اس ضمن میں یہ بہت ضروری ہے کہ آپ بدعت کے مسئلے کو اصولی طور پر واضح کریں اور بتائیں کہ شریعت میں جو بدعت مکروہ ومذموم ہے، اس کی تعریف کیا ہے اور اس کا اطلاق کس قسم کے افعال پر ہوتا ہے۔

جواب: اس معاملے میں مختلف دینی حلقوںکی طرف سے جو اعتراضات کیے گئے ہیں،وہ سب میری نگاہ سے گزرتے رہے ہیں۔مگر ان میں جو زبان استعمال کی گئی ہے اور جس انداز بیان سے کام لیا گیا ہے،اس کا حریف بننا کسی طرح بھی میرے بس میں نہ تھا،اس لئے میں نے ان سے کوئی تعرض نہ کیا۔اب ایک سائل نے شرافت ومعقولیت کے ساتھ مطالبہ کیا ہے کہ اصل وجوہ اعتراض پر بحث کی جائے ،اس لئے ان صفحات میں اس کا جواب دیا جارہا ہے۔
جتنے اعتراضات اوپر نقل کیے گئے ہیں،ان کی ساری عمارت دراصل ایک غلط مفروضے پر تعمیر کی گئی ہے۔معترضین نے اپنی جگہ یہ فرض کرلیا ہے کہ میں نے خود ابتدا کرکے غلاف کی نمایش کا انتظام کیا اور اس کا جلو س نکالنے کا پروگرام بنایا اور اسپیشل ٹرینوں کے ذریعے سے شہر در شہر اس کو پھرانے کی اسکیم بنائی۔ اسی بنیاد پر وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ بدعت آخر یہاں کیوں شروع کی گئی، اور پھر اس پر اعتراضات کے ردّے پر رَدّے چڑھاتے چلے جاتے ہیں۔حالاں کہ دراصل یہ مفروضہ ہی بجائے خود واقعات کے خلاف ہے۔ میرے پیش نظر سرے سے یہ بات تھی ہی نہیں کہ اس غلاف کے معاملے کوعوام میں مشتہر کیا جائے اور نہ میرے حاشیۂ خیال میں کبھی یہ بات آئی تھی کہ اسے جلوسوں اور نمایشوں کے بعد دھوم دھام سے روانہ کیا جائے۔ غلاف کی تیاری کے لئے ابتدائً سارا کام بالکل راز داری کے ساتھ ہوتا رہا۔میر ی خواہش یہ تھی کہ پاکستان کے کاری گروں سے سعودی عرب کے منتظمین دارالِکسوہ کا براہِ راست معاملہ کرا دوں اورپھر عملاً اس سے بے تعلق ہو جائوں۔ میں نہ یہ چاہتا تھا کہ میرا اس نگرانی سے کوئی تعلق ہو اور نہ میں نے اس کو پسند کیا کہ اس کی کوئی اطلاع اخبارات میں شائع ہو، یا عام لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ میں اس سلسلے میں کوئی کام کررہا ہوں۔ لیکن مختلف کاری گروں سے سعودی عرب کے منتظمین کا تعارف کرانا اور ان کے کام کے نمونے حاصل کرنا بہرحال ناگزیر تھا۔ اس سے رفتہ رفتہ بات پھیلتی چلی گئی۔ پھر یکایک ایک روز یہ واقعہ پیش آگیا کہ چند کاری گروں کو مکے سے آئے ہوئے پرانے غلاف کا ایک ٹکڑا بطور نمونہ دیا گیا تھا تاکہ وہ اس کے مطابق کام بنا کر لائیں۔ عوام کو نہ معلوم کس طرح ان کے پاس اس ٹکڑے کی موجودگی کا علم ہوگیا اور لوگوںکے ٹھٹ کے ٹھٹ اس کی زیارت کے لئے جمع ہوگئے۔اس کے بعد اس کا جلوس بازار میں نکالا گیا اور آناًفاناً یہ بات شہر میں مشہور ہوگئی کہ یہاں غلاف کعبہ کی تیاری کا کام ہورہا ہے۔اس واقعے سے ایک خبر رساں ایجنسی تک یہ اطلاع پہنچ گئی اور اس نے سارے ملک میں اسے پھیلا دیا۔ پھرا خبارات کے نمائندوں نے بطور خود اس میں دل چسپی لینی شروع کردی۔ غلاف کی تیاری کے مختلف مرحلوں کی اطلاعات اخباری نمائندے خود ہی ٹوہ لگا لگا کر حاصل کرتے رہے اور انہیں شائع کرتے رہے۔یہاں تک کہ جب غلاف کا کپڑا تیار کرنے کا کام یعقوب انصاری صاحب کے سپرد کیا گیا تو اخبارات نے ان کا فوٹو،ان کے کاری گروں کا فوٹو، ان کی فیکٹری کا فوٹو،تمام تفصیلات کے ساتھ شائع کردیا،جس سے عوام کو معلوم ہوگیا کہ غلاف کہاں بن رہاہے اور کون بنا رہا ہے۔ اب غلاف کی تیاری شروع ہونے سے پہلے ہی لوگ فیکٹری پر جمع ہونے لگے۔
یہ سب کچھ میرے علم واطلاع کے بغیر ہوتا رہا۔میری کسی خواہش اور کوشش کا اس میں قطعاً کوئی دخل نہ تھا۔
عوام میں جب یہ اطلاعات پھیلیں تو ان کے اندر غلاف کو دیکھنے کا شوق ایک طوفان کی طرح اٹھ کھڑا ہوا۔ مجھے پہلے اس امر کا کوئی اندازہ ہی نہ تھا کہ یہاں لوگ اس چیز سے اتنی اور اتنے بڑے پیمانے پر دل چسپی لیں گے۔اب جو خلاف توقع یہ صورت سامنے آئی تو میں نے محسوس کیا کہ اس طوفان کو روک دینا میرے یا کسی شخص کے بس میں نہیں ہے اور اسے روکنے کی کوشش میں قوت صرف کرنا غیر ضروری بھی ہے،کیوں کہ یہ ایک فطری دل چسپی ہے اور بجائے خود ناجائز نہیں ہے۔ یہ ملک عرب سے بہت دور ہے۔ یہاںکے بہت کم لوگوں کو وہاں جانا اور بیت اﷲ کو دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔یہاں کے عوا م کو پہلی مرتبہ یہ معلوم ہوا ہے کہ ہمارے ہاں سے ایک ہدیہ خدا کے گھر کے لئے تیار ہوکر جارہا ہے۔اس لئے یکایک ان کے اندر آتش شوق بھڑک اٹھی ہے۔ یہ شوق کسی بت کے لئے نہیں ہے۔ کسی معبود غیر اﷲ کے آستانے کے لئے نہیں ہے۔ خود اﷲ ربّ العالمین کے اپنے گھر کے لئے ہے جسے اﷲ نے آپ ہی مَثَابَۃَ لِّلنَّاسِ بنایا ہے اور تمام آفاق کے لوگوں کو اس کا گرویدہ کیاہے (فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِيْٓ اِلَيْہِمْ ابراہیم37:14) اس شوق کو کسی طرح بھی مشرکانہ نہیں کہا جاسکتا بلکہ بنیادی طور پر یہ ایک خدا پرستانہ شوق ہے اس لیے اسے شوق نامحمود قراردے کر روک دینے اور دبادینے کی فکر غیر ضروری ہے۔ مگر چوں کہ ہمارے عوام دین کے علم اور دینی تربیت سے محروم ہیں اور حدود کو نہیں پہچانتے،اس لئے ایک جائز شوق بھی اگر ان کے اندر سیلاب کی طرح اٹھے اور آپ سے آپ اپنا راستہ نکالنا شروع کردے تو بہت جلدی وہ غلط راستے پر پڑسکتاہے۔ ان سارے پہلوئوں پر غور کرکے میں نے یہ رائے قائم کی کہ عوام کی اس جائز اور فطری دل چسپی کو، جو میرے یا کسی کے بھڑکانے سے نہیں بھڑکی ہے بلکہ آپ سے آپ بھڑک اٹھی ہے، غلط رُخ پر جانے سے روکنے اور صحیح رُخ پر ڈال دینے کی کوشش ناگزیر ہے۔اگر میں ایسا نہ کروں گا تو یہ ایسا راستہ اختیا ر کرلے گی جو شرعی اعتبار سے بہت قابل اعتراض اور دین واخلاق کے لئے بہت مضرت رساں ہوگا۔
یہی کچھ سوچ کر میں نے غلاف کی تیاری شروع ہوتے ہی معززین شہر کو جمع کیا اور سب کی رضا مندی سے مختلف نمائندہ اصحاب کی ایک مجلس بنائی تاکہ شہر کے لوگوں کے جذبۂ شوق کی تسکین جائز حدود کے اندر ہوجائے اور بے قاعدہ زیارتوں اور جلوسوں کی نوبت نہ آنے پائے۔اس مجلس میں حسب ذیل اصحاب شامل کیے گئے!
۱۔ مولانا عبدالرحمن صاحب(مولانا مفتی محمد حسن صاحب مرحوم ومغفور کے صاحب زادے اور جامعہ اشرفیہ کے نائب مہتمم،علمائے دیو بند کے گروہ سے)۔
۲۔ مفتی محمد حسین نعیمی صاحب(مہتمم جامعہ نعیمیہ،بریلوی گروہ کے علما میں سے)۔
۳۔ مولانا حافظ کفایت حسین صاحب( شیعہ علما میں سے)۔
۴۔ حاجی محمد اسحاق حنیف صاحب( ناظم نشرو اشاعت جمعیت اہل حدیث۔ ان کا نام اس مجلس کی رکنیت کے لئے جناب مدیر الاعتصام نے خود تجویز کیا تھا)۔
۵۔ چودھری محمد حسین صاحب( وائس چیئرمین لاہور کارپوریشن)
۶۔ چودھری محمد امین صاحب(کونسلر لاہو ر کارپوریشن)
۷۔ محمد عمر خاں صاحب بسمل(ہیڈ ماسٹرز ایسوسی ایشن لاہور)
۸۔ نصر اﷲشیخ صاحب(صدر پنجاب یونی ورسٹی سٹوڈنٹس یونین)
۹۔ حاجی محمد لطیف صاحب(صدر شاہ عالم مارکیٹ)
۰ا۔ شیخ تاج دین صاحب( صدر اعظم کلاتھ مارکیٹ ایسوسی ایشن)
۱۱۔ حاجی معراج دین صاحب(چیئرمین یونین کونسل شو مارکیٹ)
۲ا۔ ملک مبارک علی صاحب(چیئرمین یونین کمیٹی چوک وزیر خاں)
۳ا۔ شمشیر علی صاحب( لیڈیز اون چوائس ،انارکلی)
۴ا۔ شیخ فرحت علی صاحب( فرحت علی جیولرز،مال روڈ)
۵ا۔ سیٹھ ولی بھائی صاحب(بمبئے کلاتھ ہائوس،انار کلی)
۶ا۔ رانا الہ داد خان صاحب(رانا موٹرز،مال روڈ)
۷ا۔ عزیز الرحمن صاحب(سائنس ہائوس،میکلیگن روڈ)
۸ا۔ جناب کوثر نیازی صاحب(ایڈیٹر شہاب)
اس پوری مجلس میں جماعت اسلامی کے صرف دو رکن شامل تھے۔باقی سب مختلف گروہوں کے نمائندہ اور ذمہ دار اصحاب تھے۔میں نے خود اپنے آپ کو اس میں سرے سے شامل ہی نہ کیا تھا۔البتہ اس کے دو اجلاسوں میں ارکان مجلس کی خواہش پر شریک ضرور ہوا تھا۔ان مواقع پر ڈپٹی کمشنر لاہور،اسسٹنٹ کمشنر لاہور،اور ڈپٹی مجسٹریٹ لاہور بھی شریک اجلاس تھے۔سب کے مشورے سے یہ پروگرام بنایا گیا کہ غلاف روانہ کرنے سے پہلے چار دن عورتوں کو اور تین دن مردوں کو اس کے دیکھنے کا موقع دیا جائے۔اس نمایش میں عورتوں اور مردوں کو ہرگز خلط ملط نہ ہونے دیا جائے۔ نمایش گاہ میں ایسے کارکن(عورتوں کے لئے عورتیں اور مردوں کے لئے مرد) مقرر کیے جائیں جو لوگوں کو جائز شرعی حدود کی تلقین کرتے رہیں اور ناجائز افعال سے روکیں۔ نذرانے دینے سے بھی لوگوں کو منع کیا جائے اور انہیں ہدایت کی جائے کہ غلاف کو دیکھتے وقت بس اﷲ کا ذکر کریں، کلمہ طیبہ اور درود شریف پڑھیں، اور اﷲ سے دعا کریں کہ اپنے اس گھر کی زیارت کا بھی شرف عطا فرمائے جس کا غلاف دیکھنے کی توفیق اس نے بخشی ہے۔ پھر غلاف روانہ کرتے وقت اسے جلوس کی شکل میں لے جایا جائے، (کیوں کہ جلوس نکالا نہ گیا تو وہ خود نکل کر رہے گا اور بری طرح نکلے گا) مگر اس امر کا پورا اہتما م کیا جائے کہ جلوس کے پورے راستے سے فحش تصویریں ہٹا دی جائیں، گانوں کی ریکارڈنگ بند کردی جائے، تکبیر و تہلیل اور اﷲ جل شانہ کی حمد کا غلغلہ اس زور سے بلند کیا جائے کہ سارا شہر اس سے گونج اٹھے اور اس جلوس میں عورتوں کو شریک ہونے سے منع کیا جائے۔
یہ تھا وہ پروگرام جو شہرلاہور کے لئے بنایا گیا تھا۔اس کے بعد ہمیں ایک اور صورتِ حال سے سابقہ پیش آیا۔ وہ یہ تھی کہ غلاف کو دیکھنے کی تڑپ صرف لاہور شہر تک محدود نہ تھی بلکہ جگہ جگہ سے لوگ آکر اسے فیکٹری ہی میں دیکھ رہے تھے اور فیکٹری والوں کے لئے کام کرنا مشکل ہورہا تھا۔ پھر لوگوں نے کسی نہ کسی طرح فیکٹری والوں سے غلاف کے تھان حاصل کرنے شروع کردیے اور مختلف شہروں میں لے جا کر ان کے جلوس نکالے اور اپنے اپنے طریقوں پر ان کی زیارت کرائی۔ مجھے اندیشہ ہواکہ جس خرابی کو میں یہاں روکنا چاہتا ہوں، وہ پورے ملک میں پھیلے گی۔ یہ خطرہ بھی لاحق ہوا کہ اس طرح کہیں کچھ تھان ضائع نہ ہوجائیں۔ اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ باہر کے لوگوں کو بھی غلاف دکھانے کا باقاعدہ انتظام کردیا جائے۔ چنانچہ پاکستان ویسٹرن ریلوے کے تعاون سے دو اسپیشل ٹرینوں کا انتظام کیا گیا۔ ان کے ساتھ بارہ بارہ ریلوے اسکائوٹس، تین تین سول ڈیفنس کے رضا کار اور تین تین جماعت اسلامی کے کارکن بھیجے گئے۔ ان میں لائوڈسپیکر نصب کیے گئے اور کارکنوں کو یہ ہدایات دی گئیں کہ جہاں بھی وہ لوگوں کو غلاف دکھانے کے لئے ٹھہریں، وہاں پہنچتے ہی اﷲ کے ذکر کا غلغلہ اس زور سے بلند کریں کہ کوئی دوسرا نعرہ اٹھنے ہی نہ پائے۔ زائرین کو ہرطرح کے مشرکانہ افعال سے روکیں، عورتوں اور مردوں کو خلط ملط نہ ہونے دیں، نذرانے ڈالنے سے منع کریں،تنظیم کے ساتھ غلاف دکھائیں تاکہ حادثات رونما نہ ہوں، اور لوگوں کو سمجھائیں کہ یہ صرف ایک کپڑا ہے جو اﷲ کے گھر کے لئے بنایا گیا ہے۔ اسے بس دیکھ لو اور اﷲ سے دعا کرو کہ وہ اپنے گھر کی زیارت بھی نصیب کرے۔
واقعات کی اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ کوئی ایسا پروگرام نہ تھا جو میں نے خود کسی اچھے یا برے مقصد سے شروع کیا ہو۔بلکہ یہ پروگرام اس وقت بنایا گیاجب عوام میں ایک جذبہ خود بخود بھڑک اٹھا تھا اور اس کے بنانے کی اصل غرض یہ تھی کہ اس جذبے کے سیلا ب کو منکرات کی طرف جانے اور صحیح راستے پر موڑنے کے لئے جو کچھ کیا جاسکتا ہے،کیا جائے۔اگر میں ایسا نہ کرتا تو یہ بہت زیادہ مکروہ راستہ اختیار کرلیتا اور کسی کے روکے نہ رکتا۔
اب آگے بڑھنے سے پہلے میں مختصراً یہ بھی بتائے دیتا ہوں کہ فی الواقع ہوا کیا ہے اور اس کو بنا کیا دیا گیا ہے۔
لاہور شہر میں مجلس انتظامیہ کے زیرا ہتمام غلاف کی نمایش چار دن عورتوں کے لئے اور تین دن مردوں کے لئے رہی اور ایک ایک دن مردوں اور عورتوں کے لئے علیحدہ علیحد ہ نمایش کا انتظام لاہور چھائونی میںبھی کیا گیا۔ ان مواقع پر غلاف کو سجدہ کرنے،یا اس کاطواف کرنے کا کوئی واقعہ پیش نہ آیا۔ کارکنوں نے لوگوں کو حدود شرعیہ سمجھانے اور ان کی خلاف ورزی سے روکنے کی پوری کوشش کی۔ کسی قسم کے نذرانے اور چڑھاوے نہ چڑھانے دیے گئے۔ بہت بڑی اکثریت نے کارکنوں کی تلقین کو قبول کیا اورحدود کی پابندی کی۔ لیکن جہاں ہزاروںلاکھوں آدمی ٹوٹ پڑے ہوں، وہاں یہ ممکن نہ تھا کہ کسی شخص کو بھی حد سے تجاوز نہ کرنے دیا جائے۔اس سیلاب میں اگر کچھ لوگ منع کرنے کے باوجود غلاف کو چوم بیٹھے،یا کوئی بندۂ خدا غلاف ہی سے دعا مانگ بیٹھا، یا مردوں کی نمایش میں کچھ عورتیں خود اپنے گھر والوںکے ساتھ آگئیں، تو اس کی ذمہ داری آخر منتظمین پر کیسے عائد ہوجائے گی۔
لاہور کا جلوس میں نے خود دیکھا ہے اور شروع سے آخر تک اس میں شریک رہا ہوں۔ ہوائی اڈے تک پہنچتے پہنچتے اس میں ۶،۷ لاکھ آدمی شامل ہوگئے تھے اور آٹھ میل لمبا راستہ تھا۔اس پورے راستے میں تمام سینمائوں اور دکانوں پر سے عورتوں کی تصاویر اور ہر قسم کی فحش تصویریں ہٹا دی گئی تھیں یا چھپا دی گئی تھیں۔ریڈیو پر گانوں کی تمام آوازیں بند ہوگئی تھیں۔ پورا جلوس اﷲ اکبر اور لا الٰہ الا اﷲ کے ذکر کے سوا کوئی چیز قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔اتنے بڑے ہجوم میں ایک جیب نہیں کٹی۔ کسی نے سگریٹ نہیں پیا۔ کوئی غنڈہ گردی کا واقعہ پیش نہیں آیا۔عورتیںمنع کرنے کے باوجود آئیں، مگر کوئی ادنیٰ سا واقعہ بھی عورتوں کو چھیڑنے کا سننے میں نہ آیا۔( مجھ سے لاہور شہر کے ڈی ایس پی نے خود بیان کیا کہ اِس جلوس میں جیب تراشی، غنڈہ گردی،اور عورتوں کو چھیڑنے کا کوئی واقعہ ان کے نوٹس میں نہیں آیا ہے۔)
پورے شہر پر اس وقت نیکی کا اتنا غلبہ تھا کہ بعض لوگ جن کی جوتیاں مال روڈ پر جلوس میں چھوٹ گئی تھیں،انہوں نے کئی گھنٹے بعد ہوائی اڈے سے واپس آکر اپنی جوتیاں اسی جگہ پڑی پائیں جہاں وہ چھوٹی تھیں۔اتنی بڑی خیر میں اگر کہیں کوئی مشرکانہ یامبتدعانہ بات ہوگئی تووہ معترضین کی گرفت میں آگئی۔ حالاں کہ جہاں لاکھوں آدمی جمع ہوں، وہاں کون اس امر کی ضمانت لے سکتا تھا کہ کوئی فرد بھی کوئی غلط کام نہ کرے گا۔ چلتے ہوئے مجمع میں سے اگر کچھ لوگ لپک کر غلاف کو چوم بیٹھے، یا کچھ لوگوں نے غلط نعرے لگا دیے، یا کوئی اور بے جا بات کر گزرے تو کیا صرف اس وجہ سے اس خیر عظیم پر پانی پھیر دیا جائے گا جو اتنے بڑے پیمانے پر اس روز شہر لاہور میں رونما ہوئی؟ یہ تو مکھی کا سا حال ہوا کہ ساری پاک چیزوں کو چھوڑ کر وہ صرف گندگی ہی تلاش کرتی ہے اور کہیں اس کی کوئی چھینٹ پاجائے تو اسی پر جا بیٹھتی ہے۔
جو اسپیشل ٹرینیں باہر بھیجی گئی تھیں،ان کی مفصل رپورٹ بھی میں نے لی ہے اور صرف جماعت اسلامی کے کارکنوں ہی سے نہیں بلکہ سول ڈیفنس اور ریلوے اسکائوٹس کے ان لوگوں سے بھی لی ہے جو ان ٹرینوں کے ساتھ گئے تھے( اس رپورٹ کا خلاصہ ’’ایشیا‘‘ اور ’’شہاب‘‘ میں شائع ہوچکا ہے۔میرے پیش نظر صرف وہ تحریری خلاصہ ہی نہیں ہے بلکہ وہ بیانات بھی ہیں جو ان لوگوں نے فرداً فرداً میرے سامنے زبانی پیش کیے ۔)ن کا متفقہ بیان ہے کہ جگہ جگہ ہزاروں، بلکہ بعض جگہ لاکھوں آدمی غلاف دیکھنے کے لئے جمع ہوئے تھے۔ ہر جگہ ذکر اﷲ ہی غالب رہا اور بہت کم دوسرے نعرے بلند ہوسکے۔ ہر جگہ عورتوں اور مردوں کے مجمع الگ رہے اور بہت ہی کم مقامات پر ہجوم کی کثرت کے باعث انہیں خلط ملط ہونے سے نہ روکا جا سکا۔ ہر جگہ امن وسکون سے زیارت ہوئی اور بہت کم مقامات پر حادثات پیش آئے جن کی وجہ کسی کی غفلت نہ تھی بلکہ ازدحام کی شدت تھی۔ عورتیں کثرت سے آئیں، مگر شاذ ونادر ہی کہیں یہ واقعہ پیش آیا کہ کسی نے انہیں چھیڑا ہو۔ اتنے بڑے مجمعوں میں کسی کی جیب کٹنے کا کوئی واقعہ سننے میں نہیں آیا۔ عوام کو بڑے پیمانے پر نیکی اور بھلائی کی تلقین کی گئی اور انہیں غلاف کی زیارت کے حدود بتائے گئے۔ عموماً لوگوں نے ان حدود کا خیال رکھا اور زیادہ تر لوگ یہی دعا مانگتے دیکھے گئے کہ خدایا! جس گھر کا غلاف تو نے دکھایا ہے، خود اس گھر کو بھی دیکھنے کی توفیق عطا فرما۔ ان ٹرینوں کے ساتھ جو غلاف گئے تھے، ان میں سے کسی کا طواف ہرگز نہیں ہوا، اور نہ کسی کو غلاف کے آگے سجدہ کرتے دیکھا گیا۔ اب اگر کہیں ان لاکھوں انسانوں کے مجمع میں کوئی غلاف کو، یا غلاف لے جانے والی ٹرین کو چوم بیٹھا، یا کسی نے ٹرین کے انجن کو انجن شریف کہہ دیا، یا کارکنوں کے منع کرنے کے باوجود لوگوں نے ٹرین کے اندر پیسے پھینک دیے، یا ہجوم کی کثرت کے باعث عورتوں اور مردوں کو خلط ملط ہونے سے نہ روکا جاسکا، تو بس یہی چند واقعات ہمارے دین داروں نے اعتراض جڑنے کے لئے چن لئے اور اس ساری خیر کو نظر انداز کردیا جو اس کام میں غالب پائی جاتی تھی۔
پھر ان معترض حضرات نے محض کیڑے چننے ہی پر اکتفا نہ کیا، بلکہ جہاں کیڑے نہ تھے، وہاں اپنی طرف سے کیڑے ڈالنے میں بھی تامل نہ فرمایا۔ مثلاً لاہور میں مجلس انتظامیہ کے علم واجازت کے بغیر اس محلہ کے لوگوں نے، جس میں غلاف تیار کرنے والی فیکٹری قائم تھی، بطور خود غلاف کا جلوس نکال ڈالا تھا۔ اس جلوس کے متعلق بڑے بڑے اتقیا وصلحا یہ الزام لگا رہے ہیں کہ اس کے آگے باجا بج رہا تھا اور جلوس والوں نے غلاف کو لے جاکر حضرت علی ہجویریؒ کے مزار پر چڑھایا۔ حالاں کہ یہ دوسری بات تو قطعی جھوٹ ہے۔ غلاف کو مزار پر چڑھانے کی روایت سرے سے کوئی اصلیت نہیں رکھتی۔ رہا باجا، تو اس کے متعلق خبریں متضاد ہیں۔ کسی کا بیان ہے کہ بجا تھا، کسی کا کہنا ہے کہ نہیں بجا، اور کوئی کہتا ہے کہ جب جلوس گزر رہا تھا تو ایک برات آگئی جس کے ساتھ باجا تھا۔ تاہم اگر وہ بجا ہی ہو تب بھی اس کی کوئی ذمہ داری مجھ پر یا مجلس انتظامیہ پر عائد نہیں ہوتی۔ کیوں کہ جلوس ہماری اجازت کے بغیر ،بلکہ ہمارے منع کرنے کے باوجود نکالا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہم کسی طرح بھی غلاف کو ان لوگوں سے نہ بچا سکتے تھے جن کے محلے میں وہ بن رہا تھا۔ الایہ کہ ایک ہیلی کاپٹر فراہم کیا جاتا اور غلاف کے تھان وہاں سے اڑا کر نکالے جاتے!
عجیب تر بات یہ ہے کہ ان حضرات کو سارا غم صرف اس غلاف کا ہے جو لاہور میں تیار ہوا تھا۔ کراچی میں جو غلاف بنا تھا، نمایش اس کی بھی ہوئی اور شہر در شہر وہ بھی پھرا، مگر اس کا ماتم کسی سے نہ سنا گیا۔ بلکہ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا تھا، وہ سب بھی ایسے سیاق وسباق میں بیان کیا گیا کہ وہ آپ سے آپ میرے اور جماعت اسلامی کے حساب میں پڑ گیا۔
یہ باتیں تو پھر بھی ظاہر سے تعلق رکھتی تھیں۔کمال یہ ہے کہ ہمارے ان دین داروں کی نگاہ دور رس میرے باطن تک بھی جاپہنچی اور انہیں معلوم ہوگیا کہ میں نے غلاف کعبہ کی نمایش کا یہ سارا اہتمام کس نیت سے کیا تھا۔ اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ میری نیت ان پر کیسے منکشف ہوگئی۔ اگر وہ علیم بذات الصدور ہونے کے مدعی ہیں تو یہ اس شرک وبدعت سے اشد چیز ہے جس پر وہ گرفت فرما رہے ہیں۔اور اگر انہوں نے میری طرف یہ نیت محض قیاس وگمان کی بِنا پر منسوب فرمائی ہے تو شاید انہیں قرآن وحدیث میں صرف شرک وبدعت ہی کی برائی ملی ہوگی۔ بہتان وافترا کے متعلق احکام ان کی نگاہ سے نہ گزرے ہوں گے۔
اس بیان واقعہ کے بعد اب میں ان اصولی سوالات کی طرف رجوع کرتا ہوں جن پر روشنی ڈالنے کی خواہش محترم سائل نے ظاہر فرمائی ہے۔
(۱) شعائر اﷲ کے لفظ کا اطلاق صرف انہی چیزوں پر نہیں ہوتا جن کے لئے اﷲ تعالیٰ نے یہ لفظ استعمال فرمایا ہے،بلکہ ہر وہ چیز جو خدا پرستی کی علامت ہو،شعائر اﷲ میں شمار کی جاسکتی ہے، اور جس چیز کو بھی اﷲ جل شانہ کے حضور ہدیہ کرنے کی نیت کرلی جائے، اس کا احترام بجا ودرست ہے۔یہ احترام اس شے کا نہیں بلکہ اس خدا کا ہے جس کے لئے اسے مخصو ص کرنے کی نیت کی گئی ہے۔خانہ کعبہ کی تعمیر کے لئے اگر پتھر اور لکڑی بھی جمع کی جائے او رلوگ اسے ادب واحترام کے ساتھ اٹھائیں اور اسے اٹھاتے اور لے جاتے اور تعمیر کی خدمت انجام دیتے وقت باوضو ہونے اور اﷲ کا ذکر کرنے کا اہتمام کریں، تو آخر یہ چیز قابل اعتراض کس بنیادپر ہوگی؟ البتہ جو شخص ان حدود سے تجاوز کرکے انہی چیزوں کا طواف، یا ان کی طرف رخ کرکے سجدہ کرنے لگے، یا ان سے دعا واستعانت کرنے لگے، تو یہ بلاشبہ شرک ہوگا۔
(۲) کسی فعل کو بدعت مذمومہ قرار دینے کے لئے صرف یہی بات کافی نہیں ہے کہ وہ نبیؐ کے زمانے میں نہ ہوا تھا۔لغت کے اعتبار سے تو ضرور ہر نیا کام بدعت ہے۔مگر شریعت کی اصطلاح میں جس بدعت کو ضلالت قرار دیا گیا ہے ،اس سے مراد وہ نیا کام ہے جس کے لئے شرع میں کوئی دلیل نہ ہو، جو شریعت کے کسی قاعدے یا حکم سے متصادم ہو، جس سے کوئی ایسا فائدہ حاصل کرنا یا کوئی ایسی مضرت رفع کرنا متصور نہ ہو جس کا شریعت میں اعتبار کیا گیا ہے، جس کا نکالنے والا اسے خود اپنے اوپر یا دوسروں پر اس ادعا کے ساتھ لازم کرلے کہ اس کا التزام نہ کرنا گناہ اور کرنا فرض ہے۔ یہ صورت اگر نہ ہو تو مجرد اس دلیل کی بِنا پر کہ فلاں کام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں ہوا، اسے’’بدعت‘‘ بمعنی ضلالت نہیں کہا جاسکتا۔امام بخاری نے کتاب الجمعہ میں چار حدیثیں نقل کی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ عہد رسالت اور عہد شیخین میں جمعہ کی صرف ایک اذان ہوتی تھی، حضرت عثمانؓ نے اپنے دَورِ میں ایک اذان کا اور اضافہ کردیا۔ لیکن اسے بدعت ضلالت کسی نے بھی قرار نہیں دیا، بلکہ تمام اُمت نے اس نئی بات کو قبول کرلیا۔بخلاف اس کے انہی حضرت عثمان ؓنے منیٰ میں قصر کرنے کے بجائے پوری نماز پڑھی تو اس پر اعتراض کیا گیا۔ حضرت عبداﷲ بن عمر صلوٰۃ ضحی کے لئے خود بدعت اور احداث کا لفظ استعما ل کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ انھا لمن احسن ما احد ثوا ( یہ ان بہترین نئے کاموں میں سے ہے جو لوگوں نے نکال لیے ہیں) بدعۃ ونعمت البدعۃ (بدعت ہے اور اچھی بدعت ہے) ما احدث الناس شیئا احبا لی منھا( لوگوں نے کوئی ایسا نیا کا م نہیں کیا ہے جو مجھے اس سے زیادہ پسند ہو)۔ حضرت عمرؓ نے تراویح کے بارے میں وہ طریقہ جاری کیا جو نبیؐ اور حضرت ابو بکر ؓ کے عہد میں نہ تھا۔ وہ خود اسے نیا کام کہتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں: نعمت البدعۃ ھذہ(یہ اچھا نیا کام ہے)۔ اس سے معلوم ہوا کہ مجرد نیا کام ہونے سے کوئی فعل بدعت مذمومہ نہیں بن جاتا بلکہ اسے بدعت مذمومہ بنانے کے لئے کچھ شرائط ہیں۔
امام نووی شرح مسلم( کتاب الجمعہ) میں کل بدعۃ ضلالۃ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’علما نے کہا ہے کہ بدعت( یعنی باعتبار لغت نئے کام ) کی پانچ قسمیں ہیں۔ایک بدعت واجب ہے۔ دوسری بدعت مندوب (یعنی پسندیدہ) ہے جسے کرنا شریعت میں مطلوب ہے۔ تیسری بدعت حرام ہے۔چوتھی مکروہ ہے۔ اورپانچویں مباح ہے۔اور ہمارے اس قول کی تائید حضرت عمرؓ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے جو انہوں نے نماز تراویح کے بارے میں فرمایا۔‘‘
علامہ عینی عمدۃ القاری (کتاب الجمعہ) میں عبد بن حمید کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ ’’جب مدینہ کی آبادی بڑھ گئی اور دُور دُور مکان بن گئے تو حضرت عثمانؓ نے تیسری اذان کا (یعنی اس اذان کا جواب جمعہ کے روز سب سے پہلے دی جاتی ہے) حکم دیا اور اس پر کسی نے اعتراض نہ کیا، مگر منیٰ میں پوری نماز پڑھنے پر اعتراض کیا گیا۔‘‘
علامہ ابن حجر فتح الباری (کتاب التراویح) میں حضرت عمر ؓ کے قول نعمت البدعۃ ھذہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ بدعت ہر اس نئے کام کو کہتے ہیں جو کسی مثال سابق کے بغیر کیا گیا ہو ۔مگر شریعت میں یہ لفظ سنت کے مقابلے میں بولا جاتا ہے اور اسی بنا پر بدعت کو مذموم کہا جاتا ہے۔ اور تحقیق یہ ہے کہ جو نیا کام شرعاً مستحسن کی تعریف میں آتا ہووہ اچھا ہے، اور جو شرعاًبرے کام کی تعریف میں آتا ہووہ برا، ورنہ پھر مباح کی قسم میں سے ہے۔‘‘
اس اصولی وضاحت کے بعد اب میں عرض کرتا ہوں کہ غلاف کے کپڑے کا جلوس نکالنااور اس کی نمایش کا انتظام کرنا بلاشبہ ایک نیا کام تھا جو عہد رسالت اور زمانۂ خلافت راشدہ میں نہیں ہوا۔ مگر میں نے یہ کام اس بِنا پر نہیں کیا کہ میں اصلاً اس کی نمایش کرنا چاہتا تھا اور اسے دھوم دھام کے ساتھ بھیجنا ابتدا ہی سے میری اسکیم میں شامل تھا۔ بلکہ میں نے یہ پروگرام اس وقت بنایا جب سارے ملک میں اس کے لئے عوام کے اندر بے پناہ جذبۂ شوق خو دبخود بھڑک اٹھا اور مجھے اندیشہ ہوا کہ یہ شوق اگر خود اپنا راستہ نکالے گا تو بڑے پیمانے پر گمراہی پھیلنے کا موجب بن جائے گا۔ (چنانچہ جہاں جہاں بھی اس نے موقع پاکر خود اپنا راستہ نکالا،بہت بری طرح نکالا) اس لئے میں نے اس مضرت کو دفع کرنے کی خاطر یہ کام کیا جو شریعت کی نگاہ میں ایک بڑی مضرت تھی۔اس کے لئے ایسا طریقہ تجویز کیا جس سے لوگوں کے جذبات کا سیلاب حدود شرع کے اندر محدود رہ سکے۔ اس کو سیئات کے بجائے ان حسنات کی طر ف موڑنے کی کوشش کی جو شرعاً پسندیدہ ہیں۔ میرا ہرگز یہ دعویٰ نہ تھا کہ لوگوں کو ضرور غلاف دیکھنا اور اس کے جلوس میں شامل ہونا چاہیے،نہ آئیں گے تو گناہ گار ہوں گے، اور آئیںگے تو یہ اور یہ اجر ملے گا۔اور میرا یہ ارادہ بھی نہیں ہے کہ آئندہ اگر پاکستان ہی میں غلاف بننے لگے اور اس سے میرا کوئی تعلق ہو تو اس کی زیارت کے اہتمام اور جلوسوں کے انتظام کو ایک مستقل طریقہ بنا لوں۔ اب میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کس فقہی قاعدے سے میں بدعت ضلالت کا مرتکب ہوا ہوں۔اگر سب وشتم کے بجائے کوئی صاحب دلائل سے مجھے بتادیں کہ پھر بھی یہ بدعت ضلالت ہی ہے تو مجھے نادم اور تائب ہونے میں ذرّہ برابر تامل نہ ہو گا۔ الحمد ﷲ،میں متکبر نہیں ہوں کہ گناہ کو گناہ جان لینے کے بعد بھی اپنی بات کی پچ میں اس پر اصرار کروں۔
(۳)کوئی کپڑا خواہ کعبے پر چڑھایا گیا ہو،یا چڑھنے کے لئے تیار کیا گیا ہو،دونوں صورتوں میں وہ ایسا متبرک نہیں ہوجاتا کہ اس سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کو چھوا جائے، چوما جائے اس کی زیارت کی اور کرائی جائے اور اسے دھوم دھام سے روانہ کیا جائے۔بلکہ فقہا نے کعبے پر سے اترے ہوئے غلاف سے بھی لباس بنانے کو جائز قرار دیا ہے،بشرطیکہ اس پر کلمہ طیبہ یا آیات قرآنی یا اسمائے الٰہی لکھے ہوئے نہ ہوں۔ لیکن اگر لوگ اس بناپر اس کا از خود(نہ کہ کسی شرعی حکم اور فتوے کی حیثیت سے) احترام کریں کہ یہ اﷲ کے گھر کے لئے جارہا ہے،یا وہاں سے اُتر کر آیا ہے، تو اس احترام کو ناروا بھی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تو اس نسبت کا احترام ہے جو اسے اﷲ کے گھر سے حاصل ہوگئی ہے۔ اس احترام کے لئے اﷲ تعالیٰ کی عظمت ومحبت کے سوا کوئی دوسرا محرک نہیں ہے۔اس احترام کو کوئی شخص واجب اور کسی خاص شکل کو لازم قرار دے تو غلط ہے۔ لیکن کوئی اسے مذموم ٹھہرائے اور خواہ مخواہ شرک قرار دے تو یہ بھی زیادتی ہے۔رہی اس کی زیارت اور اس کے لئے جلوس کا اہتمام، تو وہ جس کی بِنا پر کیا گیا ،اس کی وضاحت میں اوپر کرچکا ہوں۔
(ترجمان القرآن، جلد ۶۰، عدد ا۔اپریل ۹۶۳اء)

امر بالمعروف کا فریضہ کیسے انجام دیا جائے؟

سوال: امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلے میں ایک عرصے سے پریشان ہوں۔ نہی عن المنکر کے متعلق جب میں احکام کی شدت کو دیکھتی ہوں اور دوسری طرف دنیا میں منکر کا جو حال ہے اور جتنی کثرت ہے ،اس کا خیال کرتی ہوں تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان احکام پر کیسے عمل کیا جائے۔اگر برائی کو دیکھ کر خاموش رہنے کے بجائے زبان سے منع کرنا مطلوب ہو (کیوں کہ ہاتھ سے نہ سہی،مگر زبان سے کہنے کی قدرت سوائے شاذصورتوں کے ہوتی ہی ہے) تو پھر تو انسان ہر وقت اسی کام میں رہے، کیوں کہ منکر سے تو کوئی جگہ خالی ہی نہیں ہوتی۔ لیکن بڑی رکاوٹ اس کام میں یہ ہوتی ہے کہ جس کو منع کیا جائے،وہ کبھی اپنی خیر خواہی پر محمول نہیں کرتا بلکہ اُلٹا اسے ناگوار ہوتا ہے۔میرا تجربہ تو یہی ہے کہ چاہے کسی کو کتنے ہی نرم الفاظ میں اور خیر خواہانہ انداز میں منع کیا جائے،مگر وہ اس کو کبھی پسند نہیں کرتا، بلکہ کوئی تو بہت بے توجہی برتے گا، کوئی کچھ اُلٹا ہی جوا ب دے گا اور اگر کسی نے بہت لحاظ کیا تو سن کر چپ ہورہا ۔مگر ناگوار اسے بھی گزرتا ہے اور اثر کچھ نہیں ہوتا۔
مثلاًہم راہ چلتے میں کسی عورت کو بے پردہ دیکھتے ہیں تو اگر اس کو سرراہ ہی منع نہ کیا جائے تو دوسرا کون سا موقع ہمیں ایک ناواقف عورت کو سمجھانے کا مل سکے گا۔کیا راستے میں روک کر سمجھانا آپ کے نزدیک مناسب ہے؟اسی طرح جس عورت کا چال چلن درست نہ ہو،اس کو کیسے نصیحت کی جائے؟ چاہے کوئی عورت کتنی ہی رسوائے زمانہ ہو لیکن نصیحت کرو تو برا مانے گی۔ اگر درس یااجتماع میں بلایا جائے تو کبھی نہیں آئے گی۔پھر ان کے معاملے میں اس فریضے کوا دا کرنے کی صورت کیا ہو؟آخر میں اس بارے میں بھی آگاہ فرمائیں کہ عورت کے لئے کیا مردوں پر تبلیغ کرنا بھی ضروری ہے؟

جواب: امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا حکم عام ہے مگر اس پر عمل کرنے میں آدمی کو حکمت ملحوظ رکھنی چاہیے۔ موقع ومحل کو دیکھے بغیر ہر جگہ ایک ہی لگے بندھے طریقے سے اس کام کو کرنے سے بعض اوقات اُلٹا اثر ہوتا ہے۔میرے لئے اس کا کوئی ایسا طریقہ بتا دینا مشکل ہے جس پر آپ آنکھیں بند کرکے عمل کرسکیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ خود آہستہ آہستہ اپنے تجربات سے سبق حاصل کریں اور رفتہ رفتہ اپنے اندر اتنی حکمت پیدا کریں کہ ہر موقع اور ہر آدمی اور ہر حالت کو سمجھ کر امر بالمعروف یا نہی عن المنکر کی خدمت انجام دینے کا ایک مناسب طریقہ اختیا رکرسکیں۔ اس کام میں اوّل اوّل آپ سے بھی غلطیاں ہوں گی، اور بعض مواقع پر غلطی آپ کی نہ ہوگی مگر دوسرے شخص کی طرف سے جواب نامناسب ہوگا۔لیکن یہی تجربات آپ کو صحیح طریقہ سکھاتے چلے جائیں گے، بشرطیکہ آپ بددل ہوکر اس کام کو چھوڑ نہ دیں،اور ہر تجربے کے بعد غور کریں کہ اس میں اگر آپ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ کیا ہے، اور دوسرے نے اگر ضد یا ہٹ دھرمی سے کام لیا ہے تو اسے راہ راست پر لانے کا بہتر طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے۔یہ بھی خیال رکھیے کہ یہ کام بڑا صبر چاہتا ہے۔جہاں آپ برائی دیکھیں اور محسوس ہوکہ اس وقت اس پر ٹوکنا مناسب نہیں ہے،تو ٹال جایے اور دوسرا کوئی مناسب موقع اس کے لئے تلاش کرتی رہیے۔ اس کے علاوہ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جس جگہ ایسی کوئی برائی ہو کہ اس کو ٹوکنا آپ کے لئے مشکل ہو تو وہاں سے ہٹ جایے،اور اگر کوئی صحبت یا تقریب اس قسم کی ہو تو اس سے الگ رہیے۔ ایسے مواقع پر لوگ بالعموم خود آپ کی علیحدگی کی وجہ پوچھیں گے۔اس وقت آپ کو یہ موقع مل جائے گا کہ بڑی نرمی کے ساتھ وجہ بیان کردیں اور یہ کہہ دیں کہ آپ لوگوں کو روکنا تو میرے بس میں نہیں ہے مگر احکام خدا و رسول کی خلاف ورزی میں شریک ہونے کی جرأت بھی میرے اندر نہیں ہے۔
آپ نے چند متعین اُمور کے متعلق بھی سوال کیا ہے۔ان کا جواب یہ ہے کہ راہ چلتی عورتیں اگر بے پردہ ہوں تو ان کو وہیں روک کر سمجھانا مناسب نہیں ہے۔ یہ ایک عام مصیبت ہے جس کا انفرادی حل اب ممکن نہیں رہا ہے۔اس کو تو اب اجتماعی اصلاح کی تدابیر ہی سے درست کیا جاسکتا ہے۔آپ کا کام یہ ہے کہ جن عورتوں سے آپ کی واقفیت ہے اور وہ بے پردگی کے مرض میں مبتلا ہیں،ان تک احکام خدا و رسول پہنچانے کی کوشش کریں۔
جس عورت کا چلن خراب ہو،اسے سمجھانے کا ایسا طریقہ اختیار کیجیے جس سے اس کو یہ شبہ لاحق نہ ہو کہ آپ اسے بدچلن قرار دے رہی ہیں۔ نیز اسے بدچلنی کے خلاف وعظ سنانے کے بجائے پہلے اس کے دل میں ایمان اور خدا کا خوف اور آخرت کی جواب دہی کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کریں۔اجتماع میں وہ نہ آئے تو کوئی تقریب ایسی پیدا کریں جس میں وہ شریک ہو اوراس وقت قیامت اور آخرت اور جنت اور دوزخ کی باتیں کریں، اور اﷲ تعالیٰ کے حاضر وناظر ہونے کا احساس دلائیں۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے حکم کا خطاب عورتوں اور مردوں سب کے لئے یکساں ہے، مگر عورتوں کو اپنے دائرے میں ہی یہ فرض انجام دینا چاہیے۔ان کے مخاطب وہ مرد ضرور ہوسکتے ہیں جو ان کے رشتہ دار ہوں اور جن سے ملنا جلنا،بات چیت کرنا ان کے لئے ممکن ہو۔ عام مردوں کو نصیحت کرنا ان کا فرض نہیں ہے الا یہ کہ وہ شائع ہونے والی تحریروں کی شکل میں یہ خدمت انجام دیں۔ (ترجمان القرآن،جلد ۶، عدد ۳۔ جون ۹۶۳اء)

حجر اسود اور خانہ کعبہ کے متعلق غیر مسلموں کی غلط فہمیاں:

سوال: یہاں(اسلامک کلچر سنٹر لندن میں) چند انگریزلڑکیاں جمعہ کے روز آئی ہوئی تھیں۔ بڑے غور سے نماز کو دیکھتی رہیں۔ بعد میں انہوں نے ہم سے سوال کیا کہ آپ لوگ جنوب مشرق کی طرف منہ کرکے کیوں نماز پڑھتے ہیں؟ کسی اور طرف کیوں نہیں کرتے؟ کعبہ کو کیوں اہمیت دیتے ہیں؟ سنگ اسود کو کیوں چومتے ہیں؟ وہ بھی تو ایک پتھر ہے جیسے دوسرے پتھر۔ اس طرح تو یہ بھی ہندوئوں ہی کی طرح بت پرستی ہوگئی، وہ سامنے بت رکھ کر پوجتے ہیں اور مسلمان اس کی طرف منہ کرکے سجدہ کرتے ہیں۔ ہم انہیں تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔براہِ کرم ہمیں اس کے متعلق کچھ بتائیں تاکہ پھر ایسا کوئی موقع آئے تو ہم معترضین کو سمجھا سکیں۔

جواب: قریب قریب اسی مضمون کے متعدد سوالات ہندوستان کے مختلف حصوں سے بھی حال میں ہمارے پاس آئے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوا کہ آج کل جگہ جگہ یہ سوال مسلمانو ں کے سامنے چھیڑا جا رہا ہے۔ ان معترضین میں کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جن کا مقصد کسی نہ کسی طرح اسلام پر اعتراض جڑنا ہوتا ہے اور دنیا میں کوئی جواب بھی ان کے لئے تسلی بخش نہیں ہو سکتا۔ البتہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے دلوں میں حقیقت حال سے ناواقفیت کی بِنا پرنیک نیتی کے ساتھ شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ایسے لوگوں کے لئے یہ بات بالکل کافی ہے کہ آپ انہیں معقولیت کے ساتھ حقیقت سے آگاہ کردیں۔
بت پرستی کی حقیقت یہ ہے کہ مشرکین کے مختلف گروہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ بعض دوسری ہستیوں کو بھی خدائی صفات اور اختیارات کا حامل سمجھتے ہیں ،یا یہ خیال کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے اندر حلول کیا ہے،اور اس غلط عقیدے کی بنا پر وہ ان ہستیوں کے مجسمے اور آستانے بنا کر ان کے آگے عبادت کے مراسم ادا کرتے ہیں۔ خود اﷲ تعالیٰ کا بت آج تک کسی مشرک قوم نے نہیں بنایا ہے اور نہ اس کی پرستش کے لئے کبھی یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ اس کی کوئی خیالی شکل تیار کرکے اس کے آگے سربسجود ہوں۔دنیا کے تمام مشرکین قریب قریب صاف طور پر یہ سمجھتے رہے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ شکل وصورت سے منز ہ ہے۔اس کا اور دوسرے معبودوں کا فرق ان کے عقائد اور مذہبی مراسم میں نمایاں طریقے سے تسلیم کیا گیا ہے۔اسی لئے بت صرف دوسرے معبودوں ہی کے بنائے گئے ہیں، اﷲ کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔
بت پرستی کی اس حقیقت کو جو شخص اچھی طرح سمجھ لے گا، وہ اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ مسلمانوں کا نماز میں خانہ کعبہ کی طرف رُخ کرنا، یا حج میں کعبے کا طواف کرنا اور حجر اسود کو چومنا بت پرستی سے کوئی ادنیٰ سی وجہ مماثلت بھی رکھتا ہے۔اسلام خالص توحیدی مذہب ہے جو اﷲ کے سوا سرے سے کسی کو معبود ہی نہیں مانتا اور نہ اس بات کا قائل ہے کہ اﷲ نے کسی کے اندر حلول کیا ہے، یا وہ کسی مادّی مخلوق کی شکل میں اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے۔خانہ کعبہ کو اگر غیر مسلموں نے نہیں دیکھا ہے تو اس کی تصویریں تو بہرحال انہوں نے دیکھی ہی ہیں۔ کیا وہ راست بازی کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اﷲ تعالیٰ کا بت ہے جس کی ہم پرستش کررہے ہیں؟کیا کوئی شخص بدرستی ہوش وحواس یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ چوکور عمارت اﷲ ربّ العالمین کی شکل پر بنائی گئی ہے؟رہا حجر اسود، تو وہ ایک چھوٹا سا پتھر ہے جو خانہ کعبہ کی چار دیواری کے ایک کونے میں قد آدم کے برابر بلندی پر لگا ہوا ہے۔مسلمان اس کی طرف رخ کرکے سجدہ نہیں کرتے،بلکہ خانہ کعبہ کا طواف اس مقام سے شروع کرکے اسی مقام پر ختم کرتے ہیں،اور ہر طواف اسے بوسہ دے کریا اس کی طرف اشارہ کرکے شروع کرتے ہیں۔ اس کا آخر بت پرستی سے کیا تعلق ہے؟
اب رہی یہ بات کہ دنیا بھر کے مسلمان خانہ کعبہ ہی کی طرف رخ کرکے کیوں نماز پڑھتے ہیں، تو اس کا سیدھا ساجواب یہ ہے کہ یہ مرکزیت او رتنظیم کی خاطر ہے۔ اگر تمام دنیا کے مسلمانوں کے لئے ایک مرکز اور ایک رخ متعین نہ کردیا گیا ہوتا تو ہر نماز کے وقت عجیب افراتفری برپا ہوتی۔ انفرادی نمازیں ادا کرتے وقت ایک مسلمان کا منہ مغرب کی طرف ہوتا تو دوسرے کا مشرق کی طرف، تیسرے کا شما ل کی طرف، اور چوتھے کا مغرب کی طرف۔ اور جب مسلمان نماز باجماعت کے لئے کھڑے ہوتے تو ہر مسجد میں ہر نماز سے پہلے اس بات پر ایک کانفرنس ہوتی کہ آج کس طرف رخ کرکے نماز پڑھی جائے۔ یہی نہیں بلکہ ہر مسجد کی تعمیر کے وقت ہر محلے میں جھگڑا برپا ہوتا کہ مسجد کا رخ کس طرف ہو! اﷲ تعالیٰ نے ان سارے امکانات کو ایک قبلہ مقرر کرکے ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا، اور قبلہ اسی جگہ کو بنایا جسے فطرتاً مرکزیت حاصل ہونی چاہیے تھی،کیوں کہ خدا پرستی کی یہ تحریک اسی جگہ سے شروع ہوئی تھی، اور خدائے واحد کی پرستش کے لئے دنیا میں سب سے پہلا معبد وہی بنایا گیا تھا۔ (ترجمان القرآن،جلد ا۶، عدد ۲۔نومبر ۹۶۳اء)
……٭٭٭……

سود کے بغیر معاشی تعمیر:

سوال: موجودہ زمانے میں جب کہ تجارتی کاروبار بلکہ پوری معاشی زندگی سود کے بل پر چل رہی ہے اور اس کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس میں سود رچ بس نہ گیا ہو، کیا سود کا استیصال عملاً ممکن ہے؟ کیا سود کو ختم کرکے غیر سودی بنیادوں پر معاشی تعمیر ہو سکتی ہے؟

جواب: اگر کوئی مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ سود ایک ناگزیر شے ہے اور موجودہ زمانے میں اس کے بغیر کوئی کام ہی نہیں چل سکتا،تو میرے نزدیک اس کا یہ خیال بالکل باطل ہے۔ یہ خیال نہ صرف اصولاً غلط ہے بلکہ یہ اس خدا کے بارے میں سوء ظن ہے جس کے بارے میں ہمارا ایمان ہے کہ اس نے کسی ایسی چیز سے ہمیں نہیں روکا ہے جو انسانی زندگی کے لیے ناگزیر ہو اور جس کے بغیر دنیوی کاروبار نہ چل ہی سکتا ہو۔ لیکن میں صرف اتنا ہی جواب دینے پر اکتفا نہیں کروں گا بلکہ یہ عرض کروں گا کہ خود موجودہ دور میں معاشی اصول ونظریات بھی اس طرف جارہے ہیں کہ سود کی شرح کو کم سے کم حتیٰ کہ صفر کی حد تک پہنچا کر اسے ختم کردیا جائے۔چنانچہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اکثر ممالک میں شرح سود تیز رفتاری سے گر رہی ہے اور دنیا اس مقام کے قریب تر پہنچنے کی کوشش کررہی ہے جہاں سود سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔مجھے یہاں اس بارے میں تفصیلی بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ میں اپنی کتاب’’سود‘‘ میں ا س موضوع پر مفصل بحث کرچکا ہوں۔
البتہ میں یہاں مختصراً یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ ایک اسلامی حکومت اس مسئلے کو عملاً کیسے حل کرسکتی ہے۔میرے نزدیک اس کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ملک کے اندر سودکو بند کردیا جائے۔اس کے بعد دوسرے قدم کے طور پر بیرونی تجارت میں سود ختم کرنے کے لیے جدوجہد کی جائے۔ملک کے اندر حکومت سودی لین دین کو قانوناً ناجائز قرار دے اور خود بھی سود کا لینا اور دینا ترک کردے۔کوئی عدالت سود کی ڈگری نہ دے۔کوئی شخص اگر سودی کاروبار کرے تو اسے فوج داری جرم کا مجرم گردانا جائے۔ جب تک آغاز ہی میں ایسے فیصلہ کن اقدامات نہیں کیے جائیں گے، اس امر کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں پیدا ہوسکے گا کہ کوئی ایسا مالیاتی نظام قائم ہو جو سود سے خالی ہو۔ اس حقیقت کو مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک حکومت اگر ایک طرف ریل کے سفر کے لیے ٹکٹ کو ضروری قرار دے دے اور دوسری طرف بغیر ٹکٹ کے سفر کے لیے بھی گنجایش باقی رہنے دے تو ٹکٹ لینے والے مسافر تھوڑے ہی نکلیں گے۔ لیکن اگر بلا ٹکٹ کا سفر فوج داری جرم ہو تو کوئی آدمی جو ٹکٹ نہیں لیتا،ریل میں جانے کی جرأت نہیں کرسکے گا۔ اسی طرح جب تک ہمارے ملک میں سود قانوناًحلال ہے،جب تک سودی لین دین کی اجازت ہے،جب تک ہماری حکومت خود سود لیتی اور دیتی ہے،جب تک ہماری عدالتیں سود کی ڈگریاں نافذ کرتی ہیں،اس وقت تک اس بات کا قطعاً کوئی امکان نہیں ہے کہ حکومت یا کوئی دوسرا ادارہ کوئی ایسا بینکنگ سسٹم چلانے میں کامیاب ہو جو سود خواری کے بجائے حصہ داری کے اصولوں پر قائم کیا گیا ہو۔ البتہ اگر سودی بنک کاری کو پہلے قانوناًحرام قرار کردیا جائے تو ہمیں پوری توقع ہے کہ حصہ داری کے اصول پر ایسا سسٹم نشوونما پا سکتا ہے۔ حصہ داری سے ہماری مراد یہ ہے کہ نفع ونقصان میں تمام حصے دار برابر کے شریک ہوں۔داخلی طور پر سودی بندش کے بعد خارجی لین دین میں بھی اس سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ان شاء اﷲ کسی لڑائی جھگڑے کی نوبت نہیں آئے گی بلکہ دوستانہ طریق پر تجارتی تعلقات قائم رکھتے ہوئے بھی دوسرے ممالک کو اس پر رضا مند کیا جا سکتا ہے۔

اسلامی حکومت اور قومی ملکیت:

سوال: اسلامی حکومت کی نیشنلائزیشن(nationalisation)کے بارے میں کیا پالیسی ہونی چاہیے؟

جواب: میںنے جہاں تک اس مسئلے کا اسلام کی روشنی میں مطالعہ کیا ہے،میں کہہ سکتا ہوں کہ اسلام ذرائع پیدا وار کو قومی بنانے کے پروگرام کو بطور اصول کے اختیار نہیں کرتا۔ یہ چیز اسلام کے سارے اجتماعی نظام کے مزاج کے خلاف ہے۔اسلام کے نقطۂ نظر سے کسی ملک یا ریاست کے معاشی مسائل کا یہ صحیح حل نہیں ہے کہ سارے وسائل پیدائش کو قومی ملکیت بنادیا جائے۔البتہ کسی صنعتی یاتجارتی شعبے کے بارے میں اگر تجربے سے معلوم ہو کہ اسے شخصی تحویل میں رکھ کر فروغ دینا ممکن ہی نہیں ہے، تو ایسی صورت میں اسے ریاست کے کنٹرول میں لیا جاسکتا ہے۔

اسلامی حکومت اور فرض ناشناس ملازمین:

سوال: موجودہ ملازمین کی ایک بڑی تعداد میں بلندی سیرت اور فرض شناسی کا جذبہ ہی کم ہے، ایک اسلامی حکومت ان سے کیوں کر کام لے گی؟

جواب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومت کے ملازمین اور قوم کے بعض دوسرے افراد کی اخلاقی حالت نے پوری قومی زندگی کو بالکل کھوکھلا کرکے رکھ دیاہے۔ یہ ایک بڑا نازک اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ مختصر یہ ہے کہ سب سے پہلے تو ا س حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اخلاقی جرائم لازمی طور پر خدا سے بے خوفی اور آخرت سے بے فکری کانتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ تو خرابی کا بنیادی سبب ہے لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اسباب ہیں جو ہماری معاشرتی زندگی میںپائے جاتے ہیں اور جن کی وجہ سے یہ خرابیاں چاروں طرف پھیل رہی ہیں۔ مثلاًہمارے معاشرے کے اوپر کے طبقے نے نہایت ہی عیاشانہ اور مسرفانہ زندگی اختیار کر رکھی ہے۔ اس طبقے کی ضروریات صرف کھانے پینے،رہنے سہنے اور بچوں کی تعلیم کی حد تک محدود نہیں ہیں بلکہ انہیں ہزاروں روپے بعض دیگر مشاغل کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ جو لوگ ملک کا نظام چلا رہے ہیں، ان کا تعلق بھی اسی طبقے سے ہے۔ قاعدے کی بات ہے کہ اوپر والوں کے عملی نمونے نیچے والوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ متوسط طبقہ اوپر والے طبقے کا اثر قبول کرتا ہے اور متوسط طبقے سے پھر ادنیٰ اور فرو تر درجے کے لوگ اثر پذیر ہوتے ہیں۔ یہ متوسط اور بالکل نچلے طبقے کے لوگ تو ایک طرح سے اپنے آپ کو مجبور سمجھتے ہیں کہ وہ اپنا معیار زندگی قائم رکھنے کے لیے ہر طرح کے جائز وناجائز ذرائع استعمال کریں۔
اب اگر آپ اس سارے مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ ہرگز یہ توقع نہ رکھیں کہ صرف ایک طبقے کی اصلاح سے اور وہ بھی قانون کے بل پر یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اس بیماری کی جڑیں معاشرے کی رگ رگ میں پھیل چکی ہیں۔اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ وہ معاشرتی خرابیوں کو رفع کرنے کے لیے صرف قوانین پر انحصار نہیں کرتا۔ بلکہ وہ خرابی پر ہر پہلو سے اور زندگی کے ہرشعبے سے حملہ آور ہوتا ہے۔وہ تعلیم وتربیت کے ذریعے سے، تبلیغ وتلقین کے ذریعے سے، اصلاح اور انسدادی تدابیر کے ذریعے سے، اور ساتھ ہی قانون کے زور واثر سے برائی کو مٹاتا ہے۔ایک اسلامی حکومت کو معاشرے کی اصلاح کے لیے یہ سارے کام کرنے ہوں گے۔ تعلیم گاہوں، نشر گاہوں،اخبارات اور پروپیگنڈے کی ساری طاقتوں کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنا ہو گا۔ پھر سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ عملاً ان اسباب کو رفع کیا جائے جو اوپر والے طبقے کو اسراف پر آمادہ کرتے ہیں۔ اس طبقے کے جو لوگ اونچی ملازمتوں میں ہیں،ان کی تنخواہیں بڑھانے کے بجائے گھٹانے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ بیش قرار تنخواہیں ہی ان کی فضول خرچیوں کا اصل باعث ہیں۔ نچلے درجے کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ بسا اوقات حقیقی ضروریات کی فراہمی ہی انہیں بدعنوانیوں پر مجبور کرتی ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ ادنیٰ اور اوسط درجے کے ملازمین کی کثیر تعداد یہ چاہتی ہے کہ و ہ رشوت خوری اور دوسری ناجائز کارروائیاں نہ کرے لیکن بعض حالات میں وہ مجبور ہوجاتے ہیں۔ بہرحال اصلاح حال کے لیے یہ سارے اقدامات ناگزیر ہیں۔ ان سارے انتظامات کے باوجود جو لوگ رشوت اور خیانت سے باز نہ آئیں ،ایسے مجرمین کے لیے اس قسم کے قوانین ہونے چاہییں جن کی رو سے انہیں چوراہوں پر عبرتناک سزائیں دی جائیں۔
اس موقع پر بعض لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ اس طرح بجٹ میں دفعتاً اضافہ ہوجائے گا۔میں اس کا جواب یہ دیتا ہوں کہ اگر ہمارے سرکاری اور نیم سرکاری ملازمین سارے کے سارے ایمان دار بن جائیں اور ان کا ا فلاس بھی باقی نہ رہے تو حکومت کی آمدنی بہت آسانی سے کم ازکم دوگنی ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ رشوت، غبن اور خیانت کی وجہ سے حکومت کی بہت سی آمدنی خزانے تک پہنچنے ہی نہیں پاتی۔ اگر حکومت اس سے محروم نہ رہے تو وہ بسہولت تنخواہوں کے اضافے کو برداشت کر سکتی ہے۔ البتہ آغاز کار کے لیے حکومت کو شاید اس کی ضرورت پیش آئے گی کہ وہ پبلک سے بلا سودی قرضے طلب کرے۔ لیکن حکومت کی ساکھ اور اس کا اعتماد اگر قوم میں موجود ہو تو ایک اصلاحی اسکیم کے لیے سود کے بغیر قرض حاصل کرلینا کچھ بھی دشوار نہیں ہے۔ اگر حکومت، ملازمین اور عوام دیانت داری کے ساتھ اس مہم میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تو شاید چند سالوں کے اندر رشوت وخیانت کا نام ونشان بھی مٹ جائے اور جائز ذرائع کے ساتھ ہر شخص اپنی ضروریات مہیا کرنے کے قابل بھی ہوجائے۔

پیشگی سودے بازی:

سوال: کیا اسلام کی رو سے پیشگی سودا بازی (forward transaction) ناجائزہے؟

جواب: یہ ایک لمبی بحث ہے لیکن اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اسلام میں پیشگی سودے کی صرف ایک شکل جائز ہے اور اس کا نام بیع سَلَم ہے۔ بیع سلم میں چند شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے:
۱۔ جس چیز کی خرید وفروخت ہورہی ہو،اس کا نام اور اس کی جنس کی نوعیت بالکل متعین ہونی چاہیے اور اس کانمونہ بازارمیں دستیاب ہونا چاہیے۔
۲۔ لینے اور دینے والے کا تعین ہونا چاہیے۔
۳۔ شے کی مقدار، قیمت اور شرح متعین ہونی چاہیے۔
۴۔ اس وقت کا بھی تعین ہونا ضروری ہے جس وقت بائع مشتری کے سپرد مال کر لے گا۔
۵۔ پیشگی سودا کرتے وقت ساری قیمت کا ادا ہوجانا بھی لازمی ہے۔
اگر ان شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری نہ ہوگی تو یہ بیع فاسد قرار پائے گی۔

سود اور غیر ملکی تجارت:

سوال: غیر ملکی تاجر جب ہم سے سودنہ لینے پر مجبور ہوجائیں گے تو کیا اپنے مال کی قیمتیں نہیں بڑھا دیں گے؟کیا اس طرح سے سودی لین دین کا بند کرنا عملاًبے سود نہ ہوجائے گا؟

جواب: اگر غیر ملکی تاجروں کی واجب الادا رقم کی ادائیگی کا یقینی اور قابل اعتماد انتظام ہوجائے تو غالباً وہ اپنے مال کی قیمتیں نہیں بڑھائیں گے۔لیکن بالفرض اگر قیمتوں میں کچھ اضافہ بھی ہوجائے تب بھی ہماری تجارت حرام کی آلایش سے تو محفوظ ہوجائے گی اور یہ درحقیقت خسارے کا نہیں بلکہ بڑے نفع کا سودا ہے۔علاوہ ازیں ہماری معاشی زندگی میں اسلامی انقلاب دنیا بھر کے لیے سبق آموز ہوگا۔ہماری عملی مثال سے ان شاء اﷲ تمام قومیں اس بات کی قائل بلکہ اس پر راضی ہوجائیں گی کہ سود نہ جائز ہے اور نہ ناگزیر ہے۔

سوال: موجودہ بیرونی تجارت میں ایک عملی دقت یہ بھی ہے کہ اس کے لیے بنک میں (letter of credit) کھولنا ضروری ہوتا ہے اور بغیر سود کے اس کا کھلنا ممکن نہیں ہے۔

جواب: یہ صحیح ہے کہ موجودہ حالات میں افراد اگر دوسرے ممالک سے تجارت کرنا چاہیں تو ان کے رستے میں کچھ نہ کچھ مشکلات ہیں۔لیکن یہ مشکلات اسی وقت تک ہیں،جس وقت تک ملک کی حکومت آپ کی پشت پناہی نہ کرے اور خود بھی اپنی خارجی تجارت میں سود سے بچنے کی جدوجہد نہ کرے۔لیکن اگر حکومت مختلف ممالک سے غیر سودی بنیادوں پر معاہدے کرنے کی کوشش کرے، اپنے ملک کے اندر بھی غیر سودی مالی نظام قائم کرے، اور بیرونی ممالک میں اپنے تاجروں کی ادائیگیوں میں بھی مدد دے، تو تمام مشکلات کا حل بآسانی نکالا جاسکتا ہے۔

غیر ملکی سرمائے پر سود:

سوال: کیا ایک اسلامی حکومت غیر ملکی سرمائے کو سود پر ملک میں لگانے کی اجازت دے سکتی ہے؟اجازت نہ دینے کی صورت میں ملک کی صنعتی ترقی رک نہیں جائے گی؟

جواب: اسلامی حکومت میں کسی مسلم یا غیر مسلم، کسی ملکی یا غیر ملکی سرمایہ دار کو سودی کاروبار کی قطعاً اجازت نہیں دی جاسکتی۔اگر ملک میں سود کو بند کردیا جائے تو غیر ملکی سرمایہ خود بخود بھاگنا شروع کردے گا۔یہ چیز ان شاء اﷲ ہمارے حق میں مفید ہی ہوگی۔ہمیں تاریخ میں کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ کسی ملک نے غیر ملکی سرمائے کے بل پر ترقی کرنے کی کوشش کی ہو اور وہ الٹا مزید پھندوں میں مدت ہائے دراز تک نہ پھنس گیا ہو۔ ہمیں اپنے ملک ہی کے سرمائے سے تجارتی اور صنعتی نشو ونما کی جدوجہد کرنی چاہیے۔

کیا زکوٰۃ کے علاوہ انکم ٹیکس عائد کرنا جائز ہے؟

سوال: کیا اسلام میں زکوٰۃ وصول کرنے کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس عائد کرنا بھی جائز ہے؟

جواب: جی ہاں ،اسلامی ریاست میں یہ دونوں چیزیں جائزہوسکتی ہیں۔زکوٰۃ کے مصارف بالکل متعین ہیں جو سورۂ توبہ میں بیان کردیے گئے ہیں۔اسی طرح اس کا نصاب اور اس کی شرح بھی نبیؐ نے متعین فرما دی ہے۔ان امور میں کوئی ترمیم وتنسیخ جائز نہیں ہے۔اب ظاہر ہے کہ ریاست کو اگر دوسری مزید ضروریات در پیش ہوں تو ان کے لیے وہ قوم سے مالی مدد حاصل کرسکتی ہے۔اگر یہ وصولی جبری ہوتو ٹیکس ہے،اگر رضا کارانہ ہو تو چندہ ہے، اور واپسی کی شرط ہو تو قرضہ (loan)ہے۔زکوٰۃاور یہ دوسری قسم کی وصولیاں نہ ایک دوسرے کی جگہ لے سکتی ہیںاور نہ ۱یک دوسرے کو ساقط کرسکتی ہیں۔ یہ تو اس مسئلے کا اصولی جواب ہے لیکن اس کے ساتھ ہی میں آپ کو یہ اطمینان بھی دلاتا ہوں کہ اگر ہمارے ملک میں ایک صحیح اسلامی حکومت قائم ہوجائے اور دیانت داری سے اس کا نظام چلایا جائے تو اتنے ٹیکسوں کی ضرورت باقی نہیں رہے گی جتنے آج موجود ہیں۔موجودہ زمانے میں ٹیکسوں کے معاملے میں جتنی بدعنوانیاں اور بددیانتیاں ہوتی ہیں،وہ آپ خوب جانتے ہیں۔ایک طرف تو جس مقصد کے لیے ٹیکس لگایا جاتا ہے،اس کا بمشکل دس فی صد اس مقصد کے لیے صرف ہوتا ہے۔دوسری طرف ٹیکس سے بچنے(evasion) کی ایک عام ذہنیت پیدا ہوگئی ہے۔اگر نظام درست ہوجائے تو موجودہ ٹیکسوں کا ایک چوتھائی حصہ بھی کفایت کرے گا اور افادیت چارپانچ گنا زیادہ ہوجائے گی۔(ترجمان القرآن،ذی الحجہ ۳۷۳اھ، ستمبر ۱۹۵۴ء)

مسئلۂ سود کے متعلق چند اشکالات:

سوال: میں معاشیات کا طالب علم ہوں۔اس لیے اسلامی معاشیات کے سلسلے میں مجھے جس قدر کتابیں مل سکی ہیں،میں نے ان کا مطالعہ کیا ہے۔’’سود‘‘ کے بعض ابواب میں نے کئی کئی بار پڑھے ہیں۔ لیکن بعض چیزیں سمجھ میں نہیں آتیں۔

زیادہ سے زیادہ صرف کرو کی پالیسی:

کچھ دن ہوئے ہیں،میں نے آپ کو یہ سوال لکھا تھا کہ آپ خرچ پر جس قدر زور دیتے ہیں،اس کا نتیجہ صرف یہی ہوگا کہ اسلامی ریاست میں سرمائے کی شدید کمی ہوجائے گی اور ملک کی صنعتی ترقی رک جائے گی۔اس کا جواب آپ کی طرف سے یہ دیا گیا تھا کہ ’’سود‘‘ میں اس کا جواب موجود ہے۔متعلقہ ابواب کو دوبارہ پڑھا جائے۔ میں نے کئی بار ان ابواب کو پڑھا ہے اور میرا اعتراض قائم ہے۔لہٰذا میںآپ کے پیش کردہ دلائل کو اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہوں اور پھر اپنا اعتراض پیش کرتا ہوں۔
آپ کا استدلال یہ ہے کہ لوگ دل کھول کر خرچ کریں تو ہر چیز کی مانگ بڑھے گی۔ا س کا نتیجہ یہ ہوگا کہ(producers) اپنی پیدا وار بڑھائیں گے۔ یعنی زیادہ عوامل کو روزگار مہیا کریں گے۔عوامل پیداوار کی بڑھتی ہوئی آمدنی کے نتیجے میں چیزوں کی مانگ اور بڑھے گی۔غرض کہ معاشی خوش حالی کا ایسا چکر چلے گا جس سے کہ ایک طرف عوامل پیدا وار کی آمدنی اور معیار زندگی بلند ہوتا چلا جائے گا اور دوسری طرف صاحب پیدا وار کی بکری اور منافع بڑھتاچلا جائے گا۔
اس کے بعد آپ یہ کہتے ہیں کہ صنعتوں کے لیے سرمایہ بڑھے ہوئے منافع اور بڑھتی ہوئی آمدنی سے بچی ہوئی رقم میں سے فراہم ہوجائے گا۔
اب میں اپنے اعتراضات بیان کرتا ہوں۔ میں شروع ہی میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ سود کی بندش سے پس اندازی کا سلسلہ رک جانے کا مجھے کوئی خدشہ نہیں ہے۔ میرا سارا اعتراض یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ خرچ کرو کی پالیسی صحیح پالیسی نہیں ہے۔
آپ کے پورے استدلال کی تہ میں یہ مفروضہ کام کررہا ہے کہ ملک پہلے سے ہی پوری طرح صنعتی ترقی کرچکا ہے۔اب صرف سالانہ(depreciation)اور(replacement) کے لیے سرمائے کی ضرورت ہے۔دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ لوگوں کی پس انداز کرنے کی عادت کی بنا پر ملک کی موجودہ صنعتی قابلیت بھی پوری طرح استعمال نہیں ہورہی۔
پہلا نتیجہ میں نے اس طرح اخذ کیا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ اصلاً صنعت کا اندرونی منافع ہی سرمائے کی کمی کو پورا کردے گا۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب صنعت پہلے سے خوب ترقی یافتہ ہو۔ اگر صنعت بالکل نہ ہو،یا ابتدائی مراحل میں ہو،تو یہ ممکن نہیں ہے کہ اندرونی سرمائے ہی سے یا تھوڑا سا باہر کا سرمایہ ملا کر ضرورت پوری ہوجائے۔مثال کے طور پر پاکستان کا شش سالہ پلان لیجیے۔ باوجود اس کے کہ یہ پلان ہماری ضروریات کے لحاظ سے انتہائی حقیر ہے اور اس میں ملکی ضروریات سے زیادہ سرمائے کی فراہمی کے مسئلے کو پیش نظر رکھا گیا ہے،لیکن پھر بھی ا س پلان کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے صنعتی اور ملکی سرمایہ ملا کر اور غیر ملکی سرمائے کو بھی شامل کر کے سرمائے کی ضروریات پوری نہیں ہورہیں اور حکومت کو خسارے کا بجٹ بنانے پرمجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ یہی حال ہندوستان، انڈونیشیا، جاپان وغیرہ ممالک کا ہے۔ جتنے پس ماندہ ممالک ہیں، کسی کا ملکی سرمایہ بھی اس کی صنعتی ضروریات کے لیے کافی نہیں۔ ایسی صورت میں یہ کہنا کہ صنعت کا اپنا سرمایہ اور تھوڑی بہت پس ماندہ رقم ہماری صنعتی ضروریات کے لیے کافی ہو گی، کس طرح صحیح ہے۔ اسی بِنا پر I.B.D.R.I.MEوغیرہ وجود میں آئے ہیں۔
دوسرا مفروضہ میں نے اس طرح نکالا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ جب لوگ زیادہ خرچ کریں گے تو روزگار بڑھے گا۔ پیدا کنندگان زیادہ عوامل پیدا وار سے روزگار مہیا کریںگے۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب فاضل صنعتی قوت موجود ہو۔ اگر زائدقوت موجود نہ ہو، یعنی کارخانے اپنی قوت کار سے کم کام نہ کررہے ہوں، یا سرے سے کارخانے ہی موجود نہ ہوں،جیسا کہ عام طور پر پس ماندہ ممالک میں ہوتا ہے،تو زیادہ خرچ کرنے کا نتیجہ سوائے افراط زر کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ دوسرے ممالک کو چھوڑیے،خود اپنے ہی ملک میں ہمیں اس کا بہت تلخ تجربہ ہوا ہے۔دوران جنگ میں جب کارخانے دن رات کام کررہے تھے، تو روپے کی فراوانی کی بِنا پر لوگ خوب خرچ کررہے تھے،اس وقت صنعت میں برائے نام ہی ترقی ہوئی تھی۔ البتہ (inflation) خوب بڑھ گئی تھی۔ایسی صورت میں یہ کہنا کس طرح صحیح ہوگا کہ زیادہ خرچ کرنے سے صنعت کو فروغ ہوگا؟ کیا یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ آپ کی معاشیات تنزل پذیر ہے، ترقی یافتہ نہیں ہے؟ آپ کا نسخہ ترقی یافتہ ممالک میں تو کارگر ہوسکتا ہے پس ماندہ ممالک میں نہیں۔
یہ تو تھا آپ کے دلائل کا جائزہ اور ان پر میرا اعتراض،اب میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرو کی پالیسی کے خلاف چند دلائل پیش کرنا چاہتا ہوں:
۱۔ ہر قسم کے اخراجات معاشی نقطۂ نظر سے مفید نہیں ہیں۔ اگر اپنا زائد منافع صنعت میں لگا دینے کے بجائے قیمتی مکانات، قیمتی لباس،قیمتی فرنیچر وغیرہ پر صرف کردیں تو ملکی صنعت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا، بلکہ الٹانقصان ہی پہنچے گا، کیوں کہ وہ رقم صنعتی سرمایہ نہ بنی۔ علاوہ ازیں اتنی رقم صنعتی پیدا وار پر صرف ہونے سے بھی رہ گئی۔ اس طرح اتنی مالیت کی پیدا وار فروخت نہ ہوسکی۔ اور ایسے اخراجات حرام نہیں ہیں۔ لہٰذا خرچ کرو کی پالیسی معاشی مسائل کا حل نہیں ہے۔
۲۔ ’’زیادہ خرچ کرو‘‘ کی پالیسی پس ماندہ ممالک کے لیے نقصان دہ ہے۔ایسے ممالک میں چوں کہ ملکی صنعت برائے نام ہی ہوتی ہے،اس لیے خرچ کا بیش تر حصہ درآمدہ اشیا پر صرف ہوتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ پر بہت بوجھ پڑتا ہے۔ایک تو ویسے ہی ان ممالک کے غیر ملکی وسائل بہت محدود ہوتے ہیں، پھر اوپر سے اخراجات صارفین کا جو دبائو پڑتا ہے،اس کی وجہ سے مشینوںکی درآمد کے لیے بہت کم وسائل رہ جاتے ہیں۔ لہٰذا ’’زیادہ خرچ کرو‘‘ کی پالیسی سے صنعتی ترقی کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔جب خرچ کا دبائو زیادہ پڑ رہا ہو تو یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ(consumption goods) کی درآمد بند کردی جائے۔کیوں کہ پھر ملک میں افراط زر کا چکر چلنے لگے گا۔ان دونوں صورتوں کا تجربہ ہم نے خوب کیا ہے۔پہلی صورت کا تجربہ فضل الرحمن صاحب کا او۔جی۔ ایل تھا۔دوسری صورت کا تجربہ ۹۵۳اء سے ہورہا ہے۔ اور دونوں تجربات کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔
۳۔ ’’زیادہ سے زیادہ خرچ کرو‘‘ کی پالیسی اور بسرعت صنعتی ترقی کی خواہش بالکل متضاد ہیں۔ہر ملک کے وسائل محدود ہوتے ہیں۔ان وسائل کو دو طرح سے خرچ کیا جاسکتا ہے۔ (consumption) پر اور(Production)پر جتنے زیادہ وسائل (consumption demand) کو پورا کرنے کے لیے صرف کیے جائیں گے، اتنے ہی کم وسائل (production)کو پورا کرنے کے لیے رہ جائیں گے۔ یہاں الہ دین کا چراغ نہیں ہے کہ سرمایہ جب چاہا، جتنا چاہا، جس غرض کے لیے چاہا، مہیا ہوگیا، اور مستقبل کے متعلق فکر بھی نہ کرنی پڑی۔اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ میں صرف ایک عام فہم مثال دینے پر اکتفا کرتا ہوں۔انگلستان میں آج بھی رہایشی مکانات کی بہت قلت ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ لوگ بنانا نہیں چاہتے، بلکہ وجہ یہ ہے کہ وسائل کی کمی زیادہ مکانات بنانے کی اجازت نہیں دیتی۔جتنا زیادہ سرمایہ لوہا سیمنٹ میں صرف کیا جائے گا ،اتنا ہی کم دوسری صنعتوں کے لیے رہ جائے گا۔ اسی لیے معاشی کونسل ہر صنعت کے لیے تمام عوامل کا کوٹا مقرر کردیتی ہے تاکہ سب کو کچھ نہ کچھ حصہ مل جائے اور کوئی کام بند نہ ہو۔
۵۔ کوئی پس ماندہ ملک بغیر(consumption expenditure) کو کم کیے اور بغیر اپنی قومی آمدنی کا خاصا بڑا حصہ پس انداز کیے ترقی نہیں کرسکتا۔ بیرونی امداد اور بیرونی سرمائے کی بڑی سے بڑی رقوم بھی ایسے ملک کے سرمائے کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتیں۔اگریہ ممالک (consumption expenditure) کو کم کرنے اور زیادہ سے زیادہ پس انداز کرنے پر تیار نہیں ہیں تو پھر صنعتی ترقی کے خواب ہی دیکھتے رہیں۔ان خوابوں کے پورا ہونے میں بہت وقت لگے گا اور بہت قربانیاں دینی پڑیں گی۔ اس دعوے کا بہترین ثبوت روس اور جاپان پیش کرتے ہیں۔ گو کہ سیاسی اعتبار سے دونوں ممالک میں بعد المشرقین ہے، لیکن معاشی ترقی کے لیے دونوں نے ایک ہی ذریعہ اختیار کیا۔ دونوں ہماری طرح ہی بدحال تھے،دونوں کو غیر ملکی سرمایہ نہیں ملا اور دونوں سرعت سے صنعتی ترقی کے خواہاں تھے۔ لہٰذا انہوں نے consumption expenditure)) کو کم کیا اور قومی آمدنی کا ایک خاص حصہ جبراً پس انداز کیا اور اس سرمائے سے اپنی صنعتیں کھڑی کیں۔

بینکنگ کی نشو ونما:

میرا دوسرا بڑا اعتراض سود حصہ دوم میں دیے ہوئے بینکنگ کے تجزیے پر ہے۔صفحہ ۱۲۱ سے صفحہ۱۲۳ تک آپ بینکنگ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کس طرح پہلے سناروں نے امانت داروں کا سونا قرض دینا شروع کردیا اور پھر اس طرح اس سونے کے بل پر ۱۰ گنا قرض دینے لگے۔ آپ کہتے ہیں کہ اس طرح ان لوگوں نے ۹۰ فیصد جعلی روپیا بالکل بے بنیاد کرنسی کی شکل میں بنا ڈالا او رخواہ مخواہ اس کے مالک بن بیٹھے اور سوسائٹی کے سر پر اس کو قرض کے طور پر لاد لاد کر اس پر دس بارہ فیصد سود وصول کرنے لگے۔یہ سنار اس مسلسل جعل سازی سے ملک کی ۹۰ فی صد دولت کے مالک ہوچکے تھے۔
اس پورے تجزیے سے مجھے سراسر اختلاف ہے۔جہاں تک آپ نے بینکنگ کی تاریخ بیان کی ہے، وہاںتک مجھے کوئی اختلاف نہیں۔میرا اختلاف ان باتوں سے ہے جنہیں میں نے آپ کے الفاظ میں قلم بند کیا ہے۔میں یہ کہتا ہوں کہ:
۱۔ وہ سرمایہ جعلی نہیں۔
۲۔ بنکر کی ملک نہیں۔
۳۔ وہ سوسائٹی پر زبردستی قرض کی صورت میں لادا نہیں گیا۔
۴۔ بنکر ملک کی ۳۰ فیصد دولت کے مالک نہیں بن گئے تھے۔
۵۔ روپیا تخلیق (Create)کرنے کا عمل بنکنگ کی ابتدا ہی میں نہیں ہوا تھا بلکہ روز ہوتا ہے۔
ان باتوں کو ثابت کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ بنکنگ کی حقیقت کو جس طرح میں نے سمجھا ہے، اسے بیان کردوں۔
ایک شخص بنک کھولتا ہے۔اس کے پاس اپنا کوئی سرمایہ نہیں اور نہ ہی کوئی امانت دار اس کے پاس رقم رکھاتا ہے۔چوں کہ بنک صفر سے قائم ہوتا ہے(B=0) اس کے پاس ایک شخصA آتا ہے اور ۰۰ا روپے قرض مانگتا ہے۔ بنک اس کی درخواست کو قبول کرلیتا ہے لیکن نقدی کی صورت میں کچھ بھی نہیں دیتا۔ بلکہ اس کے نام ۱۰۰ روپے اپنے کھاتے میں جمع کرلیتا ہے (100+A)۔ ابAبازار میںC سے کچھ مال خریدتا ہے اور اسے ۰۰ا روپوں کا چیک دیتا ہے۔ Cاسے بنک میں جمع کرادیتا ہے۔ بنکA کے کھاتے سے ۱۰۰ روپے گھٹا دیتا ہے (100-100=0+A) اور C کے نام جمع کرلیتا ہے (100+C)۔ بازار میں ۰۰ا روپے کی چیزC سےA کے پاس چلی گئی۔ اس کے عوض میں اسٹیٹ بنک کا ایک نوٹ بھی نہ دیا گیا بلکہ Bکے کھاتے میں ۱۰۰ روپے کا اندراج کر دیا گیا۔ بنک(B) کے پاس پہلے بھی کوئی رقم نہ تھی اور اب بھی کوئی رقم نہیں ہے۔ ابCمال خریدتا ہے اور Sکو ۱۰۰ روپے کا چیک دے دیتا ہے۔ بنکC کے کھاتے سے ۱۰۰ روپے گھٹا دیتا ہے اورS کے نام جمع کردیتا ہے۔ غرض یہ کہ اسی طرح تجارت کا چکر چلتا رہتا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ بنکر کے پاس اپنا کچھ نہیں تھا۔ لیکن اس نے پھر بھی ۰۰ا روپے کا قرض دے دیا اور بنک کا قرض بازارمیں کرنسی نوٹوں کی طرح چل رہا ہے۔ اسی رقم سے اسی طرح خرید وفروخت ہورہی ہے جس طرح عام نوٹوں سے ہوتی ہے اور بنک صفر سرمایے سے کام شروع کرنے کے باوجود ۱۰۰ روپے سود کا مالک بن بیٹھتا ہے۔ یہ دیکھ کر آپ پکار اٹھتے ہیں کہ بنکر جعل ساز ہے۔ اس نے خود ہی جعلی روپیا بنایا اور اس کا مالک بن کر اسے سوسائٹی پر قرض کی صورت میں لاد دیا۔ اس طرح اتنی ملکی دولت ا س کے قبضے میں چلی گئی۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ احتجاج صحیح ہے؟
میں نے بنکر کو صفر سرمائے سے اس لیے شروع کیا ہے کہ آپ کے الزامات کی سنگینی پوری شدت سے ابھر آئے اور روپے بنانے میں10:1 کے تناسب کی قید بھی حائل نہ ہو۔ پوری پوری رقم ایک شخص سے دوسرے شخص کے نام تبدیل کرنے میں حسابی سہولت مقصود ہے۔
ہماری مثال میں اب صورت حال یہ ہے کہ بنک کے پاس ایک دھیلا بھی نہیں لیکن بنک کو Aسے ۱۰۰ روپے ملنے ہیں، کیوں کہ یہ رقم اس نے بنک سے قرض لی تھی۔ اس رقم کے علاوہ بنک کو سود بھی ملنا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ بنک کے کھاتے میںS کے نام ۱۰۰روپے جمع ہیں۔ یعنی بنک نےS کو ۱۰۰ روپے دینے ہیں۔ یعنی بنک کو اگر ایک طرف سے سود+100 ملنا ہے تو دوسری طرف اس کے ذمے ۱۰۰ روپے واجب الادا بھی ہیں۔
اب پوری بات صاف ہوجاتی ہے:
۱۔ وہ رقم جو بنک نے پیدا کی تھی وہ بنک کی ملک نہیں ہے۔وہ بچانے والے(S) کی ملک ہے، بنک صرف سود کی رقم کا مالک ہے۔
۲۔ لہٰذا بنک نے کوئی جعلی سرمایہ نہیں بنایا۔اس نے صرف بچانے والے کی رقم کو ادھار پر لگایا ہے۔
۳۔ بنک سوسائٹی کی ۹۰ فی صد دولت کا مالک نہیں بن رہا۔
۴۔ بنک سوسائٹی کے سرپر زبردستی کوئی قرض نہیں لاد رہا،دولت بچانے والا جس دن چاہے،اس چکر کو بند کرسکتا ہے۔A نے بنک سے نقد اپنے ۰۰ا روپے کا مطالبہ کردیا۔بنک نے A سے کہا کہ میرا دیا ہوا قرض واپس دو۔A نے ۰۰ا+سود واپس کردیا۔بنک نے Sکو ۰۰اروپے دے دیے اور سود کا کچھ حصہ خود رکھ لیا،کچھSکو دے دیا۔ اب بنک پھر خالی ہے۔ نہ اس کا کسی پر قرض ہے اور نہ ہی اس کے ذمے کوئی قرض ہے۔
اگر بنک جعلی روپیا بناسکتے تو وہ کبھی فیل نہ ہوتے۔فیل وہ ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ جعلی روپیا نہیں بنا سکتے۔ امانت دار اپنے روپے طلب کرتے ہیں اور بنک بعض اوقات فوری طور پر اپنے قرض واپس نہیں لے پاتا۔امانت دار فوری نقدی طلب کرتے ہیں۔اس لیے امانت داروں کے تقاضے بنک پورے کرنے سے عاجز ہوجاتے ہیں اور لال بتی جلا دیتے ہیں۔
آپ کی تحریر سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ساہو کاروں نے اپنی ترقی کے ابتدائی دو رمیں ایک کے دس بنائے تھے،اب وہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سلسلہ اب تک چل رہا ہے۔ روز ہر بنک ایک روپے کے بل پر دس روپے قرض دیتا ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے بنک قرض اپنے نوٹوں کی شکل میں دیتے تھے،اب چیک کی صورت میں دیتے ہیں۔لیکن نوٹ اور چیک دونوں کی ماہیت اور دونوں کی(theory) ایک ہی ہے۔ دونوں بنک کے ذمہ واجب الادا رقوم کے ثبوت ہیں۔چوں کہ تخلیق زر(creation of money) کے طریقے سے آپ بخوبی واقف ہیں، اس لیے اسے دہرانا بے کار ہے۔میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میر ی کم سمجھی کی بنا پر یا آپ کی عبارت کی ساخت کی بناپر مجھے یہ خیال گزرا۔آپ اس عمل کو بنکنگ کی تاریخ کا ایک پرانا باب سمجھتے ہیں۔کیا میرا یہ خیال صحیح ہے؟

تخلیق زر:

میرا تیسرا اور آخری سوال کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ فقہی استفسار ہے۔کیا اسلامی بنکنگ میں تجارتی بنکوں کو تخلیق زر کی اجازت ہوگی یا نہیں؟…اس عمل کی شرعی حیثیت کیا ہے؟اگر اس کی اجازت نہ ہوگی تو اعتباری نظام میں لچک کس طرح پیدا کی جائے گی؟
امید ہے کہ آپ میرے اعتراضات کے تشفی بخش جواب دے کر میرے ذہن کواطمینان بخشیں گے۔

جواب: آپ کے سوالات کا مختصر جواب حاضر ہے۔ تفصیلی بحث کی فرصت نہیں۔ صرف اشارات پر اکتفا کرتا ہوں۔
آپ کا پہلا اعتراض دو مفروضوں پر مبنی ہے۔ایک یہ کہ’’ صرف کرو‘‘ کی تبلیغ فوراً یہ نتیجہ دکھادے گی کہ لوگ بے تحاشا صرف کرنا شروع کردیں گے اور روپیا بچانے یا کام پر لگانے کے سارے رجحانات بھی ختم ہوجائیں گے۔دوسرے یہ کہ ’’صرف کرو‘‘ سے مراد اپنے اوپر ہی صرف کرنا اور ضروریات سے گزر کر تعیشات پر صرف کردینا ہے۔حالاں کہ یہ دونوں ہی باتیں درست نہیں ہیں۔ صرف کرنے کا رجحان بتدریج بڑھے گا۔ اس دوران میں اگر ساتھ ساتھ صنعتی ترقی کے لیے بھی کوشش جاری رہے تو اس کام کے لیے روپیا ملتا رہے گا اور ان دونوں چیزوں کی متوازن نشو ونما سے جیسے جیسے صنعتیں بڑھیں گی،ان کے پیدا کردہ مال کی کھپت بھی بڑھتی اور صنعتوں کے لیے مزید ترقی کا سامان لاتی چلی جائے گی۔پھر صرف کردینے سے ہماری مراد صرف اپنی ہی ذات پر صرف کرنا نہیں،بلکہ انفاق فی سبیل اﷲ بھی ہے، اس لیے روپے کا ایک بڑا حصہ ان طبقوں میںجائے گا جن کی قوت خرید بحالت موجودہ بہت گھٹی ہوئی ہے اور وہ قوت خرید پیدا ہوجانے کے بعد اپنی ہر قسم کی ضروریات لینی شروع کردیں گے، جن سے تمام مختلف قسم کی صنعتوں کی آبیاری ہوگی۔ میرے ان دونوں بیانات کے پیچھے یہ بات بنیادی مفروضے کے طور پر کام کررہی ہے کہ ملک کا نظام ایسے دانش مند لوگوں کے ہاتھوں چل رہا ہو جو ایک طرف اخلاق عامہ کی اصلاح اور صحت مند ذہنیت کی تخلیق کررہے ہوں، اور دوسری طرف تمام ان ذرائع کو جو ملک کے اندر فراہم ہوسکتے ہوں،ترقی کے کاموں پر ہوشیاری کے ساتھ لگاتے چلے جارہے ہوں۔
بنکنگ کے سلسلے میں ،میں نے جو کچھ لکھا ہے،اس میں پہلے جدید بنکنگ کی ابتدا بتائی گئی ہے اور پھر یہ بتایا گیا ہے کہ رفتہ رفتہ نشو ونما پاکر اب یہ کاروبار کس طرح چل رہا ہے۔اس میں میرے پیش نظر بجائے خود بنکنگ پر فنی بحث کرنا نہیں ہے، بلکہ دراصل میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس سسٹم میں قباحت کا پہلو کیا ہے اور اس قباحت کے پہلو کو اس سے خارج کرکے وہ اصل ضرورت کیسے پوری کی جاسکتی ہے جس کے لیے ایک بنکنگ سسٹم درکار ہے۔اسی لیے میں زیادہ تفصیلی بحثوں میں نہیں گیا ہوں۔ آپ نے اپنا اعتراض اٹھاتے وقت اس بات کا لحاظ نہیںرکھا کہ میں نے بنکنگ کی پیدائش اور نشو ونما کو تین مرحلوں میں بیان کیا ہے اور آپ نے ساری بحث کو ایک ہی مرحلہ بنا کر وہ باتیں جو ابتدائی دور سے متعلق تھیں،موجودہ صورت حال کے متعلق سمجھ لی ہیں۔نیز موجودہ صورت حال کو بھی آپ ایک مجرد مفروضے کی صورت میں پیش کررہے ہیں،حالاں کہ میں تیسرے مرحلے کے عنوان سے جو بحث کررہا ہوں،وہ بنکوں کے اس عملی طریق کار سے تعلق رکھتی ہے جس پر اب فی الواقع کام چل رہا ہے۔آپ کے پاس اگر کتاب وہاں موجود ہو تو میری ساری بحث کو اس تقسیم کے مطابق پڑھیںجس طرح میں نے اپنے ذیلی عنوانات قائم کرکے کی ہے۔پھر آپ کو یہ محسوس ہوجائے گا کہ اس پر وہ اعتراض نہیں اٹھتے جو آپ نے اٹھائے ہیں۔آپ کا یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ میں تخلیق زر(creation of money) کو بنکنگ کی تاریخ کا محض ایک پرانا باب سمجھ رہا ہوں۔میں جانتا ہوں کہ یہ عمل ابھی جاری ہے۔لیکن میں نے تیسرے مرحلے کی بحث میں اس کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ جس مدعا کی خاطر میں ساری بحث کررہا ہوں،اس سے یہ چیز براہِ راست متعلق نہیں ہے۔ جیسا کہ میں اوپر اشارہ کرچکا ہوں،میری بحث کا مقصد بنکنگ پر فنی گفتگو نہیں ہے، بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے اس کے نقصان دہ پہلوئوں کو واضح کرکے اصلاح کی شکل پیش کرنا ہے۔
آپ کے آخری سوال کاجواب یہ ہے کہ تخلیق زر کی پشت پر اگر سود اور فریب نہ ہو تو اس میں کوئی حرمت کا پہلو نہیں ہے۔اب یہ دیکھنا آپ لوگوں( یعنی اہل فن) کا کام ہے کہ معاشی ضرورت کے لیے ایک صحت مند تخلیق زر کا نظام کیسے قائم ہوسکتاہے جو قباحت کے پہلوئوں سے پاک ہو۔ (ترجمان القرآن۔ شعبان،رمضان۱۳۷۶ھ۔ جون ۹۵۷اء)

ترجیحی حصص:

سوال: بندہ ایک ٹیکسٹائل مل کا حصہ دار ہے۔ ہر سال منافع کی رقم وہی آتی رہی ہے جو پہلے سال آئی تھی۔ایک دفعہ میں نے مل مذکور کے دفتر سے معلوم کیا کہ کیا وجہ ہے کہ منافع ایک ہی رقم پر موقوف ہے۔جواب ملا: ’’آپ کے ترجیحی حصص ہیں۔ ترجیحی حصص پر خسارے کا کوئی امکان نہیں۔ان پر ہمیشہ ایک ہی مقررہ منافع ملتا رہے گا۔‘‘ میرے خیال میں یہ منافع سود ہے۔براہِ نوازش اپنی رائے سے مطلع فرمائیں تاکہ سود ہونے کی صورت میں حصص فروخت کرکے جان چھڑائوں۔

جواب: ا س نوعیت کے حصے بلاشبہ سود کی تعریف میں آتے ہیں۔آپ یا تو ان حصوں کو فروخت کردیں یا ان کو اس نوعیت کے حصوں میں تبدیل کرالیں جن میں مقررہ منافع کے بجائے متناسب منافع ملتا ہے۔(ترجمان القرآن۔رجب ۳۷۵اھ،مطابق مارچ ۹۵۶اء)

غیر مسلم ممالک سے اقتصادی اور صنعتی قرضے:

سوال: کیا اسلامی حکومت موجودہ دور میں جب کہ ایک ملک دوسرے ملک سے قطع تعلق کرکے ترقی نہیں کرسکتا،غیر ممالک سے متعلق اقتصادی،فوجی،ٹیکنیکل امداد یا بین الاقوامی بنک سے شرح سود پر قرض لینا بالکل حرام قرار دے گی؟پھر مادّی، صنعتی، زراعتی و سائنسی ترقی وغیرہ کی جو عظیم خلیج مغربی ترقی یافتہ(advanced)ممالک اور مشرق وسطیٰ بالخصوص اسلامی ممالک یا اس ایٹمی دور میں(have)اور(have not) کے درمیان حائل ہے ،کس طرح پُر ہوسکے گی؟نیز کیا اندرون ملک تمام بنکنگ وانشورنس سسٹم ترک کرنے کا حکم دیا جائے گا؟ سود، پگڑی، منافع وربح اور گڈوِل(goodwill) اور خرید وفروخت میں دلالی وکمیشن کے لیے کون سی اجتہادی راہ نکالی جاسکتی ہے؟کیا اسلامی ممالک میں سود، منافع، ربح وغیرہ پر کسی صورت میں لین دین کرسکتے ہیں؟
جواب: اسلامی حکومت نے کسی دور میں بھی غیر مسلم ممالک سے قطع تعلق کی پالیسی اختیار نہیں کی اور نہ آج کرے گی۔لیکن قرض کے معنی قرض مانگتے پھرنے کے نہیں ہیں اور وہ بھی ان کی شرائط پر۔ یہ تعلق اس زمانے کے کم ہمت لوگوں نے ہی پیدا کیا ہے۔اگر کسی ملک میں ایک صحیح اسلامی حکومت قائم ہو تو وہ مادی ترقی سے پہلے اپنی قوم کی اخلاقی حالت سدھارنے کی کوشش کرے گی۔ اخلاقی حالت سدھرنے کے معنی یہ ہیں کہ قوم کے حکمران اور اس کی انتظامی مشینری کے کار پرداز اور قوم کے افراد ایمان دار ہوں،اپنے حقوق سے پہلے اپنے فرائض کو ملحوظ رکھنے اور سمجھنے والے ہوں، اور سب کے سامنے ایک بلند نصب العین ہو جس کے لیے جان ومال اور وقت اور محنتیں اور قابلیتیں سب کچھ قربان کرنے کے لیے وہ تیار ہوں۔ نیز یہ کہ حکمرانوں کو قوم پر اور قوم کو حکمرانوں پر پورا اعتماد ہو اور قوم ایمان داری کے ساتھ یہ سمجھے کہ اس کے سربراہ درحقیقت اس کی فلاح کے لیے کام کررہے ہیں۔ یہ صورت حال اگر پیدا ہوجائے تو ایک قوم کو باہر سے سود پر قرض مانگنے کی صورت پیش نہیں آ سکتی۔ ملک کے اندر جو ٹیکس لگائے جائیں گے، وہ ۱۰۰ فی صد وصول ہوں گے اور ۱۰۰ فی صد ہی وہ قوم کی ترقی پر صرف ہوں گے۔نہ ان کی وصول یابی میں بے ایمانی ہوگی اور نہ ان کے خرچ میں ہی بے ایمانی ہوگی۔اس پر بھی اگر قرض کی ضرورت پیش آئے تو قوم خود سرمائے کا ایک بڑا حصہ رضا کارانہ چندے کی صورت میں اور ایک اچھا خاصا حصہ غیر سودی قرض کی صورت میں اور ایک حصہ منافع میں شراکت کے اصول پر فراہم کرنے کو تیار ہوجائے گی۔ میرا انداز ہ یہ ہے کہ پاکستان میں اگر اسلامی اصولوں کا تجربہ کیا جائے تو شاید بہت جلدی پاکستان دوسروں سے قرض لینے کے بجائے دوسروں کو قرضہ دینے کے لیے تیار ہو جائے۔
بالفرض اگر ہمیں بیرونی قوموں سے سود پر قرض لینے کی ناگزیر ضرورت پیش آ ہی جائے، یعنی ہمیں اپنی ضرورت کو پورا کرنا بھی لازم ہو اور اس کے لیے ملک میں سرمایہ بھی نہ مل سکے،تو دوسروں سے سود پر قرض لیا جاسکتا ہے۔ لیکن ملک کے اندر سودی لین دین جاری رکھنے کاپھر بھی کوئی جواز نہیں۔ ملک میں سود بندکیا جاسکتا ہے اورپورا مالی نظام(financial system) سود کے بغیر چلایا جاسکتا ہے۔میں اپنی کتاب’’سود‘‘میں یہ ثابت کرچکا ہوں کہ بنکنگ کا نظام سود کے بجائے منافع میں شرکت (profit sharing)کے اصولوں پر چلایا جاسکتا ہے۔اسی طرح انشورنس کے نظام میں بھی ایسی ترمیمات کی جاسکتی ہیں جن سے انشورنس کے سارے فوائد غیر اسلامی طریقے اختیار کیے بغیر حاصل ہو سکیں۔ دلالی، منافع، پگڑی، کمیشن یا گڈول(goodwill) وغیرہ کی علیحدہ علیحدہ شرعی پوزیشن ہے۔ جب اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا تو اس کا جائز ہ لے کر یا تو سابق پوزیشن بحال رکھی جائے گی یا پھر ضروری اصلاحات کی جائیں گی۔
(ترجمان القرآن۔ جلد ۵۷، عدد۲۔ نومبر ا۹۶اء)

سیاسی انقلاب پہلے یا سماجی انقلاب؟

سوال: ہمارے ملک میں یہ احساس عام ہے کہ اسلام کے اصول واحکام پسندیدہ اور مستحسن تو ہیں مگر بحالات موجودہ قابل عمل نہیں ہیں۔عوام و خواص میں اسلام سے جذباتی وابستگی تو ضرور ہے لیکن اسلام کا صحیح مفہوم اور آمادگی عمل بہت کم ہے۔اسلام جس ذہنی وعملی انضباط کا مطالبہ کرتا ہے، اسے دیکھ کر یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلامی قوانین کو نافذ کردیا گیا تو کہیں اس کے خلاف شدید ردعمل نہ رونما ہوجائے۔سیاسی انقلاب سے پہلے سماجی انقلاب ضروری ہے اور اصلاح کا جذبہ اوپر سے اور باہر سے پیدا کرنے کے بجائے اندر سے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔یہ صورت حال پیدا ہونے سے پہلے کیا اسلامی ریاست کا مطالبہ قبل از وقت نہیں ہے؟

جواب: اس مسئلے کی اگر پوری وضاحت کی جائے تو اس کے لیے بڑے تفصیلی جواب کی ضرورت ہے۔ لیکن مختصر جواب یہ ہے کہ بلاشبہ سیاسی انقلاب سے پہلے ایک تمدنی، اجتماعی اور اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہی اسلامی انقلاب کا فطری طریقہ ہے۔ اور بلاشبہ یہ بات بھی درست ہے کہ اسلام کے احکام و قوانین صرف اوپر سے ہی مسلط نہیں کیے جاسکتے بلکہ اندر سے ان کے اتباع کا دلی جذبہ بھی پیدا کیا جاتا ہے۔لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان کے قیام کی شکل میں سیاسی انقلاب رونما ہوچکا ہے۔اب یہ سوال چھیڑنا بالکل بے کار ہے کہ معاشرتی انقلاب پہلے برپا کرنا چاہیے اور سیاسی انقلاب بعد میں۔اب تو سوال یہ پیدا ہوگیا ہے کہ جب تک قوم میں ذہنی انقلاب واقع نہ ہو، اس وقت تک آیا ہم سیاسی اختیارات کو کافرانہ اصولوں کے مطابق استعمال کرتے رہیں یا ان اختیارات کو بھی اسلامی اصولوں کے مطابق کام میں لائیں۔ سیاسی اقتدار کا کوئی نہ کوئی مصرف اور مقصد بہرحال ہمیں متعین کرنا پڑے گا۔حکومت کی مشینری کو اخلاقی انقلاب رونما ہونے تک معطل بہرحال نہیں کیا جا سکتا۔ ایک قوم جو خدا اور اس کے رسول کی حاکمیت اور بالا دستی پر ایمان رکھتی ہو، اجتماعی اور قومی زندگی کی باگیں اس کے اپنے ہاتھ میں ہوں،اپنا نظام حیات وہ خود تعمیر کرنے کے قابل ہو اور کوئی دوسری کافرانہ طاقت اس پر کوئی کافرانہ نظام مسلط کرنے والی نہ ہو، تو کیا اس قوم کے افراد کے لیے یہ جائز اور درست ہوسکتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اخلاقی وعظ ونصیحت تو کرتے رہیں مگر اپنی ہیئت حاکمہ کو غیر اسلامی اصولوں کے مطابق کام کرنے کے لیے چھوڑ دیں۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اس صورتِ حال کو گوارا کرلیں تو گو ہم انفرادی ارتداد کے مرتکب نہ ہوں ،اجتماعی اور قومی حیثیت سے ہم ضرور ارتداد کے مرتکب ہوں گے۔
پھر اس معاملے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ اگر آپ اجتماعی واخلاقی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو آپ کو غور کرنا پڑے گا کہ اس انقلاب کے ذرائع ووسائل کیا کیا ہوسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان ذرائع میں تعلیم وتربیت، معاشرتی اصلاح،ذہنی اصلاح اور اسی قسم کی بہت سی چیزیں شامل ہیں۔ انہی کے ساتھ ساتھ حکومت کے قانونی اور سیاسی ذرائع ووسائل بھی ہیں۔حکومت کی طاقت نہ صرف بجائے خود ایک بڑا ذریعۂ اصلاح ہے، بلکہ وہ ساری اصلاحی تدابیر کو زیادہ موثر، نتیجہ خیز اور ہمہ گیر بنانے کا بھی ذریعہ ہے۔ اب آخر کیا وجہ ہے کہ اخلاقی انقلاب لانے کے لیے حکومت کے وسائل کو بھی استعمال نہ کیا جائے۔ہمارے ووٹوں اور ہمارے ادا کردہ ٹیکسوں اور مالیوں کے بل پر ہی تو حکومت کا سارا نظام چل رہا ہے۔ آخر ا س حماقت اور جہالت کا ارتکاب ہم کیوں کریں کہ ایک طرف انفرادی حیثیت سے ہم اسلام کے سماجی انقلاب کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں اور دوسری طرف حکومت کے سارے ذرائع اخلاق کے بگاڑنے اور فسق وفجور پھیلانے میں لگے رہیں۔ (ترجمان القرآن۔ ذی الحجہ ۳۷۳اھ، ستمبر ۹۵۴اء)

اسلام میں قطع ید کی سزا:

سوال: اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کا کاٹ دینا ہے۔آج کل روزانہ سیکڑوں چوریاں ہوتی ہیں تو کیا روزانہ سیکڑوں ہاتھ کاٹے جائیں گے؟ بظاہر حالات یہ سزا سخت اور ناقابل عمل معلوم ہوتی ہے۔

جواب: قطع ید اور اسلام کے دوسرے قوانین فوج داری کے بارے میں اگر میں اسلام کا نقطۂ نظر پوری وضاحت سے بیان کروں تو اس میں بڑا وقت لگے گا۔ میں اس موضوع پر اپنی کتاب ’’اسلامی قوانین اور پاکستان میں اس کے نفاذ کی عملی تدابیر‘‘ میں تفصیلی بحث کرچکا ہوں۔اس وقت میں صرف اتنی بات کہوں گا کہ جب چور کے ہاتھ کاٹنے کا طریقہ جاری ہوگا تو ان شاء اللہ چوری نہایت تھوڑے عرصے میں ختم ہوجائے گی اور سیکڑوں ہاتھوں کے کٹنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ ایک چور یہ امید رکھتا ہے کہ میں دس ہزار روپیا چرا لوں گا،اگر پکڑا جائوں گا تو کچھ مدت تک سرکارکی روٹیاں کھا کر واپس آجائوں گا، اور اس وقت بھی میرے پاس اچھا خاصا سرمایہ جمع ہو گا۔ ظاہر ہے کہ ایسا شخص دوبارہ اوّلین موقع پاتے ہی پھر چوری کرے گا۔اس طرح کے عادی مجرمین کی ہمارے ہاں کثرت ہے اور انہی کو جرائم سے باز رکھنا مشکل ترین مسئلہ ہے۔لیکن اگر چور کو یہ معلوم ہوگیا کہ ایک مرتبہ پکڑے جانے کے بعد ایک ہاتھ اور دوسری مرتبہ پکڑے جانے کے بعد دوسرا ہاتھ کٹ جائے گا تو وہ چوری کرنے پر بآسانی آمادہ نہ ہوگا۔ پھر جس چور کا ہاتھ ایک مرتبہ کٹ جائے گا، وہ جہاں جائے گا،اس کا کٹا ہوا ہاتھ پکار پکار کر داستانِ حال بیان کرے گا اور موجودہ صورت حال باقی نہیں رہے گی جس میں پیشہ ور چور اور ڈاکو مہذب انسانوں کے بھیس میں چار سو اپنے شکارتلاش کرتے پھرتے ہیں اور کوئی انہیں پہچان بھی نہیں سکتا۔ میری قطعی رائے یہ ہے کہ چوری کے انسداد کے لیے اس قانون کے نفاذ کی شدید ضرورت ہے۔تہذیب جدید کے بہت سے نقائص میں سے ایک نقص یہ بھی ہے کہ اس کی ساری ہم دردیاں مجرم کے ساتھ ہیں،اس سوسائٹی کے ساتھ نہیں ہیں جس کے خلاف مجرم سرگرم کار ہے۔ مجرد یہ سننے پر کہ چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا، اس تہذیب کے فرزندوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ لیکن ہول ناک جرائم کو معاشرے میں پروان چڑھتے دیکھ کر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ آخر میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اسلام صرف چور کا ہاتھ ہی نہیں کاٹتا،بلکہ وہ زکوٰۃ وصدقات کا نظام بھی قائم کرتا ہے،ہر شخص کی بنیادی ضروریات بھی پوری کرتا ہے،وہ شہریوں کی اخلاقی تعلیم وتربیت کا بھی انتظام کرتا ہے،وہ لوگوں کو حلال اور جائز طریق پر کمانا اور خرچ کرنا بھی سکھاتا ہے۔اس کے بعد اگر ایک شخص کی حلال کمائی کو کوئی دوسراحرام طریقے سے چراتا ہے تو اسے ہاتھ کاٹنے کی سزا دی جاتی ہے۔
(ترجمان القرآن۔ ذی الحجہ ۳۷۳اھ، ستمبر ۹۵۴اء)

اسلامی ریاست میں شاتم رسول ؐ ذمی کی حیثیت:

سوال: راقم الحروف نے پچھلے دنوں آپ کی تصنیف’’الجہاد فی الاسلام‘‘کا مطالعہ کیا۔ اسلام کا قانون صلح وجنگ کے باب میں صفحہ ۲۴۰ ضمن(۶) میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ:
’’ذمی خواہ کیسے ہی جرم کا ارتکاب کرے اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا، حتیٰ کہ جزیہ بند کر دینا، مسلمانوں کو قتل کرنا، نبیؐ کی شان میں گستاخی کرنا، یا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا اس کے حق میں ناقض ذمہ نہیں ہے۔ البتہ صرف دو صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں عقد ذمہ باقی نہیں رہتا۔ ایک یہ کہ وہ دارالاسلام سے نکلے اور دشمنوں سے جاملے۔ دوسرے یہ کہ حکومت اسلامیہ کے خلاف علانیہ بغاوت کرکے فتنہ وفساد برپا کرے۔‘‘
فدوی کو اس امر سے اختلاف ہے او رمیں اسے قرآن وسنت کے مطابق نہیں سمجھتا۔ میری تحقیق یہ ہے کہ نبیؐ کی شان میں گستاخی کرنا اور دوسرے امور جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے،ان سے ذمی کا عقد ذمہ ٹو ٹ جاتا ہے۔آپ نے اپنی رائے کی تائید میں فتح القدیر جلد ۴ اور بدائع صفحہ ۳اا کا حوالہ دیا ہے۔لیکن دوسری طرف علامہ ابن تیمیہ نے ’’الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول‘‘ کے نام سے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے۔ زاد المعاد،تاریخ الخلفاء، عون المعبود، نیل الاوطار جیسی کتابوں میں علمائے سلف کے دلائل آپ کی رائے کے خلاف ہیں۔یہاں ایک حدیث کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں: عن علیؓ ان یھودیۃ کانت تشتم النبی ﷺ وتقع فیہ فخنقھا رجل حتی ماتت فابطل النبیﷺ دمھا حضرت علی ؓ کی روایت ہے کہ ایک یہودیہ نبیؐ کے خلاف بدزبانی کرتی تھی اور آپؐ پر باتیں چھانٹتی رہتی تھی۔ ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹا یہاں تک کہ وہ مر گئی۔ نبی ؐنے اس کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا۔
( ابو دائود، ملاحظہ ہو،مشکوٰۃ ،باب قتل اہل الردۃ والافساد صفحہ ۳۰۸)
ضمناً یہ بھی بیان کردوں کہ یہاں کے ایک مقامی اہل حدیث عالم نے آپ کی اس رائے کے خلاف ایک مضمون بعنوان’’ مولانا مودودی کی ایک غلطی‘‘ شائع کیا ہے اور اس میں متعدد احادیث اور علما کے فتوویٰ درج کیے ہیں۔

جواب: یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔اس میں آپ یا دوسرے حضرات جو رائے بھی رکھتے ہوں، رکھیں اور اپنے دلائل بیان کریں۔ دوسری طرف بھی علما کا ایک بڑا گروہ ہے اور اس کے پاس بھی دلائل ہیں۔اصل اختلاف اس بات میں نہیں ہے کہ جزیہ نہ دینا،یا سبِّ نبیؐ ،یا ہتک مسلمات قانونی جرم مستلزم سزا ہیں یا نہیں ،بلکہ اس امر میں ہے کہ یہ جرائم آیا قانون کے خلاف جرائم ہیں یا دستور مملکت کے خلاف۔ ایک جرم وہ ہے جو رعیت کا کوئی فرد کرے تو صرف مجرم ہوتا ہے۔ دوسرا جرم یہ ہے جس کا ارتکاب وہ کرے تو سرے سے رعیت ہونے ہی سے خارج ہوجاتا ہے۔حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ ذمی کے یہ جرائم پہلی نوعیت کے ہیں۔بعض دوسرے علما کے نزدیک ان کی نوعیت دوسری قسم کے جرائم کی سی ہے۔ یہ ایک دستوری بحث ہے جس میں دونوں طرف کافی دلائل ہیں۔ اس میں کسی کے ناراض ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔جن صاحب نے مضمون لکھا ہے،انہوں نے انصاف نہیں کیا کہ اسے صرف میری غلطی قرار دیا۔ یہ اگر غلطی ہے تو سلف میں بہت سے اس کے مرتکب ہیں۔میرا تو صرف یہ قصور ہے کہ کسی مسئلے میں مسلک حنفی کی تائید کرتا ہوں تو اہل حدیث خفا ہوجاتے ہیں اور کسی مسئلے میں اہل حدیث کی تائید کرتا ہوں تو حنفی پیچھے پڑ جاتے ہیں۔
(ترجمان القرآن۔ذی القعدہ ۳۷۴اھ، جولائی ۹۵۵اء)

اسلامی جمہوریت اور ملازمین حکومت کی حیثیت:

سوال: اگست ۱۹۵۵ء کے ترجمان میں اشارات کے زیر عنوان آپ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے،ان سے مجھے جزوی اختلاف ہے۔میرے شبہات درج ذیل ہیں:
۱۔ آپ نے جمہوریت کو قرآن وسنت کا منشا قرار دیا ہے۔آپ بخوبی واقف ہیں کہ فی زماننا جمہوریت ایک مخصوص طرز حکومت کا نام ہے جس کی بنیاد عوام کی غیر محدود حاکمیت کے تصور پر قائم ہے، جسے ہم کسی طرح بھی کتاب وسنت کی منشا کے مطابق قرار نہیں دے سکتے۔ آپ جمہوریت کے لفظ کو اس کے معروف معنی سے ہٹا کر استعمال کررہے ہیں۔آپ نے خود اسلامی طرز حکومت کے لیے ’’تھیوڈیما کریسی‘‘کی اصطلاح وضع کی تھی، اب اس اصطلاح کو چھوڑ کر آپ ڈیما کریسی کی طرف کیوں رجعت کررہے ہیں۔
۲۔ آپ کا یہ خیال کہ ملازمین حکومت کو سیاست میں دخل اندازنہ ہونا چاہیے،بالکل مبہم اور مجمل ہے۔کیا آپ بھی سیاسیات ومذہب کی مصنوعی تقسیم کے قائل ہیں؟
۳۔ آپ کا یہ کہنا بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں کہ سرکاری ملازم ہر اس ہیئت حاکمہ کی اطاعت قبول کریں جسے ملک کے باشندوں کی اکثریت آئینی طور پر ملک کا اقتدار سونپ دے۔ مسلمانوں کے لیے خواہ وہ سرکاری ملازم ہو یا عام شہری،اطاعت صرف اسی حکمران کی لازم ہے جو کتاب وسنت کا پابند ہو۔ محض آئینی حیثیت سے ملک کی مسند اقتدار پر متمکن ہوجانا کسی طرح بھی مسلمانوں سے اطاعت کا مستحق نہیں ہوسکتا۔

جواب: جمہوریت کے متعلق میں بارہا اپنی تحریروں اور تقریروں میں یہ بات اچھی طرح واضح کرچکا ہوں کہ اسلام میں جمہوریت کا اصل جوہر موجود ہے۔ مگر جمہوریت کے اسلامی تصور اور جمہوریت کے مغربی تصورات میں بڑا فرق ہے۔ اسلام عوام کی لامحدود حاکمیت کا قائل نہیں ہے، بلکہ خدا کی حاکمیت کے تحت عمومی خلافت کا قائل ہے۔اس عمومی خلافت کے اختیارات چوں کہ کسی شخص یا خاندان یا گروہ میں مرکوز نہیں ہوتے بلکہ بحیثیت مجموعی پوری ملت کو حاصل ہوتے ہیں اور وہی اس کی مجاز ہے کہ جس کو چاہے ،ان اختیارات کے استعمال کے لیے منتخب کرے،اس لیے شخصی اور گروہی حکومت سے ممتاز کرنے کے لیے اسلام کے طرز حکومت کو جمہوری حکومت کہا جاسکتا ہے۔ یہی اسلام کا مخصوص تصور جمہوریت ہے۔ یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ دنیا بھر میں جمہوریت کا ایک ہی معروف اور متفق علیہ تصور رائج ہے۔مغرب میں بھی جمہوریت کے مختلف تصورات، مثلاًسرمایہ دارانہ جمہوریت، اشتراکی جمہوریت وغیرہ موجود ہیں۔ ان کے بالمقابل اسلام کے طرز حکومت کو اسلامی جمہوریت کا نام دیا جاسکتا ہے۔اسی اسلامی جمہوریت کو میں نے ’’تھیوڈ یما کریسی‘‘ کے نام سے تعبیر کیا ہے۔اس اصطلاح سے بھی مراد جمہوریت ہی کی ایک قسم ہے جو اسلامی اصولوں پر مبنی ہے۔
ملازمین حکومت کے سیاسیات میں دخل انداز ہونے کی جو مخالفت میں نے کی ہے،اس کی کے وجوہ ودلائل بھی میں نے بیان کردیے ہیں۔ آپ نے ان دلائل پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہ کی اور ایسے پہلوئوں سے اعتراضات شروع کردیے جو اصل معاملے سے غیر متعلق ہیں۔ملازمین حکومت کی ایک حیثیت ذاتی اور دوسری حیثیت ملازم ہونے کی ہے۔ ذاتی حیثیت میں کوئی بھی نہیں کہتا کہ وہ سیاسیات سے’’ علیحدہ‘‘رہیں۔اسی وجہ سے تو ان کو بھی عام لوگوں کی طرح ووٹ کا حق حاصل ہے۔ لیکن ملازم حکومت ہونے کی حیثیت سے ان کا سیاسیات میں دخل اندازہونا اور ان سرکاری اختیارات کو،جو انتظام ملکی کے لیے انہیں دیے گئے ہیں،سیاسی نظریوں اور پارٹیوں میں سے کسی کے حق میں اور کسی کے خلاف استعمال کرنا،اصولاً بھی غلط ہے اور عملاً بھی ملک کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ کیا آپ اسے صحیح سمجھتے ہیں کہ پولیس اور فوج اور سول سیکرٹریٹ کے لوگ اپنی جتھہ بندی کرکے خود اپنا ایک نظریہ قائم کرلیں اور یہ فیصلہ کر بیٹھیں کہ وہ خود ملک پر قبضہ کرکے اپنے نظریے کو زبردستی نافذ کریں گے،یا کوئی ایسی پارٹی اگر انتخابات کے نتیجے میں برسر اقتدار آجائے جو ان کے نظریے سے مختلف نظریہ رکھتی ہوتو اس کی حکومت نہ چلنے دیں گے۔
یہ صحیح ہے کہ ایک سرکاری ملازم کو، ایک عام شہری کی طرح،صرف اسی حکمران کی اطاعت کرنی چاہیے جو کتاب وسنت کا پابند ہو، لیکن کیا یہ بھی صحیح ہے کہ اگر کوئی حکمران کتاب وسنت کا پابند نہ ہو تو اس کی ملازمت تو کی جائے مگر اطاعت نہ کی جائے؟ میں نے تو جس سیاق وسباق میں یہ بات کہی تھی کہ باشندوں کی اکثریت جس ہیئت حاکمہ کے سپرد اختیارات کرے اس کی اطاعت ملازمین کو کرنی چاہیے،میں اُس میں جمہوری اصول بیان کرنے سے پہلے اسلامی دستور کے اصول بھی بیان کرچکا تھا اور میری یہ بات اسی سیاق وسباق سے متعلق سمجھی جانی چاہیے تھی۔ لیکن اگر آپ اس سیاق وسباق سے الگ کرکے بھی اسے لیں تو میں کہوں گا کہ ملک کی اکثریت اگر کسی ایسی ہیئت حاکمہ کو اختیارات سونپ دے جو کتاب وسنت سے منحرف ہو تو ایک دین دار ملازم حکومت کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔بہرحال اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ملازمت تو کرتا رہے مگر اطاعت سے انکار کردے۔(ترجمان القرآن۔ جمادی الاخریٰ ۳۷۵اھ۔فروری ۹۵۶اء)

اسلامی نظریۂ جہاد سے متعلق ایک شبہ:

سوال: آپ نے ایک مضمون’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے جو کہ تفہیمات حصہ اول اور ’’حقیقت جہاد‘‘ میں چھپ چکا ہے۔اس مضمون میں ایک جگہ پر آپ نے ذیل کی عبارت تحریر کی ہے:
’’مسلم پارٹی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی ایک خطے میں اسلامی نظام کی حکومت قائم کرنے پر اکتفا نہ کرے، بلکہ جہاں تک اس کی قوتیں ساتھ دیں، اس نظام کو اطراف عالم میں وسیع کرنے کی کوشش کرے۔یہی پالیسی تھی جس پر رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ؐ کے بعد خلفائے راشدین نے عمل کیا۔ عرب،جہاں مسلم پارٹی پیدا ہوئی تھی،سب سے پہلے اسی کو اسلامی حکومت کے زیر نگیں کیا گیا۔ اس کے بعد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطراف کے ممالک کو اپنے اصول ومسلک کی طرف دعوت دی، مگر اس کا انتظار نہ کیا کہ یہ دعوت قبول کی جاتی ہے یا نہیں،بلکہ قوت حاصل کرتے ہی رومی سلطنت سے تصادم شروع کردیا۔‘‘
اس عبارت پر بعض لوگ یہ اعتراض وارد کرتے ہیں کہ یہ تعلیم اسلام اور تاریخ اسلام کی صحیح نمایندگی نہیں ہے اور اس سے اس الزام کو تقویت پہنچتی ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا ہے۔ آپ ترجمان میں توضیح فرمائیں کہ اس عبارت سے آپ کا مدعا کیا ہے اور اس کے لیے دلیل کون سی ہے؟

جواب: میں نے اس عبارت میں ایک تاریخی حقیقت کو بیان کیا ہے جس کی پشت پر نبیؐ کا اسوۂ حسنہ اور خلفائے راشدین کا عمل موجود ہے۔ حدیث اور تاریخ کی کتابوں سے مجھے اس امر کا کوئی ثبو ت نہیں مل سکا کہ سلاطین روم وعجم کے خلاف فوج کشی سے پہلے ان ممالک میں صحابۂ کرام کو عام تبلیغی مہمات پر روانہ کیا گیا ہو اور پھر اس دعوت وتبلیغ کے نتائج کا انتظار کیا گیا ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف سلاطین کو خطوط بھیجنے پر اکتفا فرمایا۔ اس کے ساتھ آپ نے یہ ضروری نہیں سمجھا کہ براہِ راست باشندگان روم وایران ومصر کو خطاب کریں اور ان کے جواب کا انتظار فرمائیں۔ خلفائے راشدین کے عہد میں بھی صورت حال یہی رہی ہے۔ روم کی طرف سے پہلے غزوۂ موتہ، پھر غزوۂ تبوک اور آخر میں جیش اسامہ کی مہم اس کی بیّن دلیل ہے۔ ایران کے خلاف حضرت ابو بکرؓ کی جنگ اور مصر پر حضرت عمرؓ کی چڑھائی بھی اسی کا ثبوت ہے۔
اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو اس کی وجہ بھی بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ ان ممالک کے عوام کو مخاطب کرنے کے بجائے صرف ان کے حکمرانوں سے کیوں خطاب کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان ممالک میں شخصی حکومتیں قائم تھیں اور مستبد فرما نروا اقتدار پر قابض تھے۔ ان کا برسر اقتدار ہونا ہی اشاعت اسلام کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ان کی موجودگی میں نہ تو اس امر کا امکان تھا کہ دعوت عام باشندگان ملک میں پھیلائی جاسکے اور نہ عوام کو اتنی آزادی رائے اور آزادی عمل حاصل تھی کہ اگر وہ اس دعوت کو حق پائیں تو اسے قبول کرکے اس پر عمل پیرا ہوسکیں۔ ان حالات میں حکمرانوں سے نمٹے بغیر نہ اسلام کی اشاعت کماحقہ سرانجام پا سکتی تھی اور نہ اس کے نتائج و ثمرات رونما ہوسکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سلاطین کے نام اپنے مکتوبات مبارکہ میں رسول اﷲؐ نے فرمایا تھا کہ اگر تم یہ دعوت قبول نہ کرو گے یا ہماری اطاعت تسلیم نہ کرو گے تو اپنی رعایا کی گمراہی کا وبال بھی تمہارے سر ہو گا۔
نبیؐ اور صحابہ کے اس عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کسی ملک میں ایسی حکومت قائم ہو جس کے ہوتے ہوئے عوام کے لیے یہ عملاً ناممکن ہو کہ وہ دعوت اسلام کو سن کر قبول کرسکیں تو ایسی حکومت کو رستے سے ہٹانا ضروری ہے۔اس حکومت کو ہٹانا دراصل عوام الناس کو عقیدہ وعمل کی آزادی بخشنے کا ہم معنی ہے۔ اس کا مقصود یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے، بلکہ اس کا مقصود صرف یہ ہے کہ ملک کے سیاسی نظام سے ان تمام موانع کا خاتمہ کردیا جائے جو حق کے ادراک اور اس کے اتباع میں مزاحم ہوتے ہیں۔
یہاں اس بات کی صراحت بھی مناسب ہوگی کہ آپ جس عبارت کے متعلق سوال کررہے ہیں، اس میں اسلامی دعوت وتبلیغ اور قانون صلح وجنگ کا کوئی مکمل اور جامع ضابطہ بیان نہیں کیا گیا ہے۔وہ تو ایک بڑے مسئلے کی طرف محض ایک سرسری اشارہ ہے۔ میں نے خاص اس موضوع پر اپنی کتابوں میں جو مفصل بحثیں کی ہیں،ان سب کو چھوڑ کر ایک ضمنی بحث کے چند فقرات چھانٹ لینا کسی آئین ِ انصاف وتحقیق کی رو سے بھی صحیح نہیں ہوسکتا۔
( ترجمان القرآن۔ شوال ۳۷۵اھ۔ جون ۱۹۵۶ء)

دارالاسلام کی ایک نئی تعریف:

سوال: میرے دو سوال حاضر خدمت ہیں،امید ہے کہ تسلی بخش جواب مرحمت فرمائیں گے۔
(۱) دارالکفر، دارالحرب اور دارالاسلام کی صحیح تعریف کیا ہے؟دارالکفراور دارالاسلام میں کس چیز کو ہم اصلی اور بنیادی قرار دے سکتے ہیں؟ مجھے اس مسئلے میں تردّد مولانا حسین احمد صاحب
مدنی ؒ کی حسب ذیل عبارت سے ہوا ہے؟
’’اگر کسی ملک میں اقتدار اعلیٰ کسی غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو لیکن مسلمان بھی بہرحال اس اقتدار میں شریک ہوں اور ان کے مذہبی ودینی شعائر کا احترام کیا جاتا ہو، تو وہ ملک حضرت شاہ صاحب(یعنی شاہ عبدالعزیز صاحبؒ) کے نزدیک بے شبہ دارالاسلام ہوگا اور ازروئے شرع مسلمانوں کا فرض ہوگا کہ وہ اس ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اس کے لیے ہر نوع کی خیر خواہی اور خیر اندیشی کا معاملہ کریں۔ ‘‘
(نقش حیات جلد دوم صفحہ ا۱)
آپ اس مسئلے میں میری رہنمائی فرمائیں۔
(۲) آیت وَيَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَo ابراہیم 25:14 میں لفظ لَعَلَّ آیا ہے جو شک کا کلمہ ہے، حالاں کہ اﷲ تعالیٰ کوہر چیز کا قطعی علم ہے۔ پھر اس کی کیا توجیہ کی جائے گی؟

جواب: آپ نے اپنا پہلا سوال مجھ سے کرنے کے بجائے مولانا حسین احمدصاحب ہی سے کیا ہوتا تو بہتر تھا۔ آپ ان سے پوچھیے کہ ہندوستان کی موجودہ حکومت میں مسلمان جس درجہ شریک ہیں اور ان کے مذہبی ودینی شعائر کا جیسا کچھ احترام کیا جاتا ہے، اس سے تو بدرجہ ہا زیادہ وہ انگریزی دَور میں شریک حکومت تھے، اور اس سے بہت زیادہ ان کے شعائر مذہبی کا احترام انگریزی دور میں ہو رہا تھا۔ اگر کسی کو اس سے انکار ہو تو انگریزی دور کے مسلم وزرا اور ایگزیکٹو کونسل کے مسلم ممبروں اور فوجی اور سول محکموں کے مسلم ملازموں کی تعداد کا موجودہ بھارتی حکومت کے ہر شعبے میں حصہ پانے والے مسلمانوں کی تعداد سے مقابلہ کرکے ہر وقت اسے قائل کیا جاسکتا ہے۔ رہا شعائر مذہبی کا احترام، تو موجودہ ہندو اقتدار کے دور میں مساجد کی جتنی بے حرمتی ہوئی ہے، اس کامقابلہ انگریزی دور سے کرکے دیکھ لیا جائے۔ اس دور میں مسلمانوں کی جان ومال اور ان کی عورتوں کی عصمت پر جتنے حملے ہوئے ہیں، ان کا مقابلہ انگریزی دور کے ایسے ہی حملوں سے کرلیا جائے۔ اور اس دور میں مسلمانوں کے پرسنل لا کا جو حشر ہوا ہے، اس کے مقابلے میں دیکھ لیا جائے کہ ڈیڑھ سو برس کے انگریزی دور میں اس پرسنل لا کا کیا حال رہا ہے۔ اب اگر’’ حضرت شاہ صاحب کی تعریف کے مطابق موجودہ بھارت بے شبہ دارالاسلام ہے‘‘ تو انگریزی دور کا ہندوستان کیوں نہ تھا؟آپ مولانا سے صاف صاف وہ وجہ فرق وامتیاز پوچھیں جس کی بِنا پر ان کو انگریزی دور کا ہندوستان تو دارالکفر نظر آتا تھا اور موجودہ ہندوستان دارالاسلام نظر آتا ہے۔ اس سوال کاجو جواب مولانا دیں،اس سے مجھے بھی مطلع فرمایے، تاکہ میں بھی اس نئی فقہی تحقیق سے فائدہ اٹھا سکوں۔میں یہ سمجھنا چاہتا ہوں کہ موجودہ بھارت بھی اگر دارالاسلام ہے تو پھر دنیا میں کوئی ملک دارالکفر ہو بھی سکتا ہے یا نہیں؟
مولانا حسین احمد صاحب کے معتقدین چاہے کتنا ہی برا مانیں مگر امر واقعہ یہ ہے کہ آج مولانا کی قیادت میں دیو بند اس مقام سے بھی بدرجہ ہا زیادہ فرو تر مقام پر کھڑا ہے جہاں انگریزی دور اقتدار کے آغاز میں علی گڑھ کھڑا ہوا تھا۔سرسیّد اور چراغ علی اور محسن الملک وغیر ہم نے انگریزی اقتدار کے ساتھ مصلحت کرنے میں اس تنزل کا عشر عشیر بھی اختیار نہیں کیا تھا جو اب مولانا حسین احمد اور ان کے ہم خیال علما نے ہند واقتدار کے ساتھ مصالحت میں اختیار کیا ہے۔ان نیچریوں نے اسلامی تصورات کو مسخ کرنے میں وہ جسارت کبھی نہ دکھائی تھی جس کا اظہار اب یہ سکہ بند علما کررہے ہیں، اور غضب یہ ہے کہ اپنے ساتھ خاندان شاہ ولی اﷲ اور اپنے دوسرے اکابر کو بھی لے ڈوبنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے تقدس پر آنچ نہ آنے دیں۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جن امور میں اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اختیار تفویض کیا ہے، ان میں اﷲ تعالیٰ انسان کی اصلاح کے لیے جو تدبیر اختیار فرماتا ہے،اس سے نتیجہ مطلوب کا برآمد ہونا اس پر موقوف ہے کہ انسان اپنے اختیار کو صحیح استعمال کرے۔ اور چوں کہ اﷲ تعالیٰ اسے ایسا کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہتا اس لیے اس نتیجہ ٔ مطلوب کے برآمد کرنے کا ذکر لَعَلَّ کے ساتھ کرتا ہے۔ یعنی اس نتیجے کا برآمد ہونا یقینی نہیں ہے، بلکہ اگر انسان صحیح طرز فکر اختیار کرلے تب ہی یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ نتیجہ رونما ہو۔ (ترجمان القرآن۔جمادی الاوخریٰ ۳۷۶اھ، مارچ ۹۵۷اء)

اسلامی حکومت یا فرقہ وارانہ حکومت:

سوال: مولانا حسین احمد صاحب مدنی مرحوم کی تصنیف’’نقش حیات‘‘ کی بعض قابل اعتراض عبارتوں کے بارے میں آپ سے پہلے خط وکتابت ہوئی تھی۔اس کے بعد میں نے مولانا مرحوم کو بعض دوسری عبارتوں کی طرف توجہ دلائی تھی اور انہوں نے وعدہ فرمالیا تھا کہ وہ آیندہ ایڈیشن میں قابل اعتراض عبارتوں کو یا تو بالکل تبدیل فرمادیں گے یا اس میں ایسی ترمیم فرمائیں گے کہ کسی کو ان کی طرف غیر اسلامی نظریات کے منسوب کرنے کا موقع نہ مل سکے گا۔مولانا کا جواب اس سلسلے میں درج ذیل ہے:
’’یہ اعتراض کہ حضرت سیّد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کا ارادہ کرنے والا اور صرف انگریزوں کانکالنے والا میں قرار دیتا ہوں،بالکل خلاف واقعہ اور تصریحات سے روگردانی ہے۔بہرحال یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں، اور اگر بالفرض کوئی عبارت ایسی ہے جس کی دلالت مطابقی یہی ہے،دوسری توجیہ اس میں نہیں ہوسکتی، تو وہ غلط ہے۔ ہندوستان کی حکومت کے شرم ناک کارناموں سے مجھے انکار نہیں،پھر میں کس طرح اس کو دارالاسلام قرار دے سکتا ہوں؟لیکن فرقہ وارانہ حکومت اور سیکولر اسٹیٹ کے درمیان بھی تو ایسی صورتیں ہیں جن کو اسلام قبول کرسکتاہے۔مغلیہ حکومت کو دیکھیے اور غور فرمایے۔‘‘
مولانا مرحوم کے جواب سے اس بات کی خوشی ضرور ہوئی کہ حضرت مولانا دارالکفر کو دارالاسلام نہیں سمجھتے، مگر اس کا افسوس بھی ہوا کہ میں ’’نقش حیات‘‘ کی تصریحات اور مولانا کے اس جواب میں کوئی مطابقت نہیں پاتا۔ میں اس سلسلے میں ابھی مزید خط وکتابت کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔

جواب: یہ دیکھ کر مجھے بھی بہت خوشی ہوئی کہ مولانا حسین احمد صاحب مرحوم کم ازکم ہندوستان کی موجودہ حکومت کو تو دارالاسلام قرار نہیں دیتے اور وہاں کی موجودہ حکومت کے ’’شرم ناک‘‘ کاموں سے انہوں نے اظہارِ براء ت فرمایا ہے۔ لیکن جیسا کہ آپ نے بھی محسوس کیا ہے، ان کی کتاب ’’نقش حیات‘‘ کی ایک دو نہیں ،متعدد عبارتیں ایک بہت ہی گمراہ کن نظریہ پیش کرتی ہیں۔ اس لیے ایک مجمل تردید یا استدراک کے بجائے اس نظریے کی مفصل تردید اور اس سے کلی براء ت کی ضرورت ہے۔ مولانا مرحوم حضرت سیّد احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے جہاد کا مقصد یہ بتاتے ہیں کہ بس ہندوستان اس بدیشی قوم(انگریز ) کے مظالم سے پاک ہوجائے اور ’’اس کے بعد ہندو اور مسلمان مل کر بادشاہت کے لیے جس کو مناسب سمجھیں، منتخب کریں۔‘‘ حالاں کہ اس کے ثبوت میں حضرت شہیدؒ کے جس خط کو وہ پیش کرتے ہیں،وہ ہندو مسلمانوں کی مشترک حکومت کے تخیل سے بالکل خالی ہے۔ پھر وہ حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی عبارات کا،جنہیں خود انہوں نے نقل کیا ہے،بالکل الٹا مطلب نکالتے ہیں کہ’’ اگر کسی ملک میں سیاسی اقتدار اعلیٰ کسی غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو لیکن مسلمان بھی بہرحال اس اقتدار میں شریک ہوں او ران کے مذہبی ودینی شعائر کا احترام کیا جاتا ہو تو وہ ملک حضرت شاہ صاحب کے نزدیک بے شبہ دارالاسلام ہوگا، اور ازروئے شرع مسلمانوں کا فرض ہوگا کہ وہ ا س ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اس کے لیے ہر نوع کی خیر خواہی اور خیر اندیشی کا معاملہ کریں۔‘‘ اس پر بھی وہ بس نہیں کرتے بلکہ ایک عجیب وغریب دعویٰ کرتے ہیں کہ سلطنت مغلیہ کے دورِ زوال میں جن علما نے بھی اصلاح احوال کی کوشش کی ’’ان کا مقصد ملک کی خوش حالی،امن وامان، سکون و اطمینان، ظلم وجور کی بیخ کنی، اور خلق خدا کی عام رفاہیت وبہبودی تھا، ان کو اس سے کوئی دل چسپی نہیں تھی کہ حکومت مسلمان کی ہو یا غیر مسلم کی۔‘‘ اس سے آگے بڑھ کر انتہائی گمراہ کن بات جو انہوں نے لکھی ہے، اور غضب یہ ہے کہ حضرت سیّد احمد شہیدؒ کی طرف بالکل غلط طور پر منسوب کرکے لکھی ہے، وہ یہ ہے:
’’ اعلائے کلمۃ اﷲ کا ذریعہ صرف یہی نہیں ہے کہ ایک ’’فرقہ وار‘‘گورنمنٹ قائم کی جائے اور خود حاکم بن کر دوسرے برادران وطن کو اپنا محکوم بنایا جائے ،بلکہ اس کا سب سے زیادہ مؤثر طریقہ یہ ہے کہ برادرانِ وطن کو سیاسی اقتدار میں اپنا شریک کرکے اسلامی فضائل اخلاق سے ان کے دلوں کو فتح کیا جائے۔‘‘ (نقش حیات،جلددوم،صفحہ ۲ا)
یہ عبارت سرے سے اسلامی حکومت کے تخیل ہی کی جڑ کاٹ دیتی ہے اور ایک ایسا نظریہ پیش کرتی ہے جو اسلامی نظریۂ ریاست کی بالکل ضد ہے۔اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ جہاں مسلم اور غیر مسلم ملے جلے آباد ہوں،وہاں اسلام کی حکومت قائم کرنا اگر غلط نہیں تو مرجوح طریقہ ضرور ہے۔ایسی حکومت کو مولانا اسلامی حکومت کہنے کے بجائے بار بار ایک’’فرقہ وار حکومت‘‘ کے نام سے یاد فرماتے ہیں ،اوربرادران وطن کو محکوم بنا کر خود حاکم بن جانا ان کی نگاہ میں اگر زیادتی نہیں تو کم ازکم نامناسب تو ہے ہی۔ وہ اعلائے کلمۃ اﷲ کے لیے افضل اور اولیٰ طریقہ اس کو سمجھتے ہیں کہ مسلم اور غیر مسلم کی مشترک حکومت بنائی جائے، جوبہرحال اسلامی حکومت نہ ہوگی،اور صرف فضائل اخلاق سے غیر مسلموں کا دل موہنے کی کوشش کی جائے۔ یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کی پوزیشن پھر کیا ہے،جس میں غیر مسلموں کی آبادی۸۰۔ ۹۰ فی صد سے کم نہ تھی،مگر اس کے باوجود ’’فرقہ وار گورنمنٹ‘‘ قائم کرکے مسلمان خود حاکم بن بیٹھے تھے،اور غیر مسلموں کو سیاسی اقتدار میں شریک کرنے کے بجائے اپنا محکوم انہوں نے بنالیا تھا؟بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اس کی زد خود نبیؐ پر بھی پڑتی ہے جنہوں نے ’’برادرانِ وطن‘‘ کو اقتدار میں شریک نہیںکیا تھا اور اسلام کی خالص ’’فرقہ وار گورنمنٹ‘‘ قائم کردی تھی۔ کیا مولانا یہ فرمائیں گے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اعلائے کلمۃ اﷲ کا بہتر اور زیادہ مؤثر طریقہ چھوڑ کر ایک کمتر درجے کا طریقہ اختیار فرمایا؟ یہی وہ باتیں ہیں جن کی بِنا پر میں سمجھتا ہوں کہ ہندو اقتدار کی آمد پر اس کے ساتھ مصالحت کرنے میں مولانا حسین احمد صاحب مرحوم جتنی دور چلے گئے ہیں، اتنی دور تو انگریزی اقتدار کے ساتھ مصالحت کرنے میں سرسیّد اور ان کے ساتھی بھی نہ گئے تھے۔ یہ خیالات تو اسلام کے متعلق مسلمانوں کے اصولی نقطۂ نظر تک کو بدل ڈالیں گے اور ایک مسلمان ان کو قبول کرنے کے بعد رسول ؐ اور اصحاب رسول صلوٰت اﷲ علیہم اجمعین کے مقابلے میں ہندوستانی سیکولر زم کے بانیوں کو زیادہ انصاف پسند سمجھنے لگے گا۔
مولانا مرحوم کی یہ مداہنت میری نگاہ میں ایک بہت بڑامظلمہ ہے اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ انہیں اس پر معاف فرمائے اور عامۃ المسلمین کو ایسے غلط نظریات کے برے اثرات سے بچائے۔(ترجمان القرآن۔ شوال ۳۷۷اھ، جولائی ۹۵۸اء)

اسلامی حکومت یا فرقہ وارانہ حکومت کی مزید وضاحت:

سوال: بہت دنوں سے ارادہ تھا کہ عریضہ ارسال خدمت کروں۔چند ضروری امور کے بارے میں عرض کرنا چاہتا تھا مگر فرصت نہ ملی کہ اطمینان خاطر کے ساتھ لکھ سکوں۔ایک نئی بات کی وجہ سے اب فوراًخط لکھا۔ پرسوں تازہ پرچہ ترجمان القرآن کا موصول ہوا۔ میرا معمول یہ ہے کہ رسالہ وصول کرتے ہی پہلی نشست میں تقریباًسارا رسالہ ختم کردیتا ہوں۔اس دفعہ’’رسائل ومسائل‘‘ میں جو کچھ آپ نے لکھا ہے،اس کو پڑھ کر طبیعت متاثر ہوئی اور دل کا شدید تقاضا ہوا کہ اس بارے میں آپ کی خدمت میں ضرور عریضہ لکھوں اور اپنے تاثرات کا اظہار کروں۔
میں حضرت مولانا مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا شاگرد اور مستر شد ہوں۔اس عام تعلق کے علاوہ بعض وجوہات کی بِنا پر حضرتؒ سے خصوصی ربط وتعلق بھی ہے۔ اور موجودہ دور کے تمام علما ومشائخ میں سب سے بڑھ کر مجھے عقیدت حضرت کے ساتھ ہے اور میں نے جو کمالات اور علمی وعملی فضائل کا ادراک ان کو دیکھ کر اور آزما کر کیا ہے،اب تک او رکہیں سے نہیں ہوا۔ لیکن اس قدر شدید تعلق اور عقیدت واحترام کا جذبہ رکھنے کے باوجود جماعت اسلامی کے بارے میں حضرت شیخ کی جو رائے تھی،چوں کہ میرا ایمانی ضمیر اس پر مطمئن نہیں تھا اس لیے میں نے حضرت کی رائے قبول نہیں کی۔ اگرچہ اس سے ان کی عقیدت میں بھی کوئی فرق اپنے اندر نہ آنے دیا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ شرعاً میرے لیے ضروری نہ تھا کہ اگرچہ مجھے شرح صدر نہ بھی ہوا ہو اور بات بالکل سمجھ میں نہ آتی ہو لیکن پھر بھی ضرور حضرت کی یہ رائے میں مان لوں اور جماعت اسلامی یا اس کے بارے میں وہ رائے رکھوں جو خود حضرت رکھتے تھے۔چوں کہ جماعت اسلامی کے بارے میںمیرا رویہ اپنی پوری جماعت مسلک دیو بند کے خلاف رہا، اس لیے بعض لوگوں نے اس کو اپنے اساتذہ سے بغاوت سمجھا اور اسی جرم میں آج تک میں بعض کے ہاں مغضوب ومعتوب ہوں، اور بعض کے ہاں ملوم و مخزول۔ کوئی احسان جتانا مقصود نہیں، محض اظہار واقعہ کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ محض اس ’’جرم‘‘ پر مجھے کافی دنیوی اور مادّی خسارہ بھی برداشت کرنا پڑا اور بہت سے فوائد ومنافع کے تمتع سے محروم رہا ہوں۔ اور مجھے اس کا کوئی افسوس نہیں، کیوں کہ میں نے جو روش اب تک اختیار کی ہے، خالص اﷲ تعالیٰ کی خاطر کی ہے اور میں اس کو ایمانی تقاضا سمجھتا ہوں۔بہرحال یہ تو ایک تمہید تھی۔ مقصد یہ ہے کہ میں جو کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں،یہ کسی گروہی عصبیت کی بِنا پر نہیں بلکہ میں خود دینی تقاضا اور خیر خواہی سمجھ کر یہ چند سطور لکھ رہا ہوں۔کچھ عرصہ قبل بھی ترجمان القرآن میں حضرت مدنی کی کتاب’’نقش حیات‘‘ کی ایک عبارت کے بارے میں آپ سے کسی نے سوال کیا تھا اور آپ نے اس کے جواب میں جو لکھا تھا،اس میں کافی تلخی اور تیزی وتندی پائی جاتی تھی۔ اوّل تو اس سوال کا جواب آپ کو دینا نہیں چاہیے تھا۔ سائل سے آپ یہ کہہ سکتے تھے، جیسا کہ ابتدائی جواب میں لکھا بھی گیا تھا کہ عبارت کا مطلب خود مولانا سے پو چھیے۔ان کی عبارت ہے وہ خود اس کی تشریح کردیں۔ لیکن آپ نے اپنی طرف سے خوا ہ مخواہ بلا ضرورت سخت کلمات لکھ دیے۔ میں نے وہ جواب پڑھا تو مجھے بھی مناسب معلوم نہ ہوا، مگر مجھے آپ سے بھی تعلق وعقیدت ہے اس لیے اس کی توجیہ وتاویل کی اور اپنے تأثر کو دبا دیا۔لیکن انہی ایام میں مجھے معلوم ہوا کہ بہت سے اہل علم جو جماعت کے ساتھ غیر رسمی طور سے وابستہ تھے اور بہت کام بھی کیا کرتے تھے ،اس طرز جواب پر سخت ناراض ہوگئے۔ان کی رائے آپ کے بارے میں بدلنے لگی اور انہوں نے جماعت کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا۔ مجھ سے بھی انہوں نے گفتگو کی، بلکہ مجھے مجبور کیا کہ میں آپ سے اس سلسلے میں خط وکتابت کروں کہ آپ یہ بالکل بلا ضرورت اس قدر دل آزاری کے کلمات کیوں شائع فرماتے ہیں۔ مگر میں نے اس وقت سکوت اختیا رکیا۔ تازہ پرچے میں پھر اسی بات کو ذرا اس سے بھی زیادہ تیزالفاظ میں دہرایا ہے۔ حضرت مدنیؒ کی وفات کے بعد پھر ایسی باتیں تازہ کرنا اور اس انداز کے ساتھ لکھنا تو اور بھی نامناسب ہے۔عام طور سے لوگ ایسا کیا کرتے ہیں، اور آپ کہہ سکتے ہیں کہ مولوی صاحبان اور دوسرے لوگ میرے بارے میں اور جماعت کے بارے میں ایسا ہی طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہیں۔ لیکن آپ کو ایسے امور میں دوسروں کی تقلید تو نہیں کرنی چاہیے۔ میں واقعے میں سمجھتا ہوں کہ ایک داعی حق ہونے کی حیثیت سے آپ کا مرتبہ بہت بلندہے اور یہ انداز ِتحریر آپ کی شان سے بہت ہی فرو تر ہے۔ اگر اس تحریر پر آپ کا نام نہ ہوتا تو میں تو اپنے ذوق کے مطابق یہ کبھی یقین نہ کرتا کہ آپ اس سطح پرآسکتے ہیں۔ بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر کسی نے یہ سوال آپ کے پاس بھیجا تو آپ کو اس کا جواب دینا ہی نہیں چاہیے تھا۔اگر مستفسر کو یہ افسوس ہے کہ’’نقش حیات‘‘ کی تصریحات اور مولانا کے اس جواب میں کوئی مطابقت نہیں تو اپنے اس افسوس کے ازالے کے لیے آخر وہ آپ سے کیوں خط وکتابت کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔یا تو وہ حضرت کی حیات میں ان سے خط وکتابت کرتے، یا ان کی وفات کے بعد ان کے کسی جانشین، تلمیذ خاص یا کسی اور متعلق سے پوچھ لیتے۔مولانا مرحوم کے ساتھ تو آپ کا کوئی تعلق نہیں تھا کہ ان کی متعارض عبارات کی تطبیق کی ذمہ داری آپ پر پڑتی ہے اور آپ خواہ مخواہ جواب دہ ہیں۔ میں تو آپ پر اس کی کوئی بدگمانی نہیں کرتا، لیکن یہاں بعض لوگوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ یہ مستفسر بھی بالکل فرضی ہے تاکہ اس طریقے سے اسی قسم کے جواب کی اشاعت کا موقع مہیا کردیا جائے۔ مولانا مرحوم کی عبارت سے جو نتائج آپ نے اخذ کیے ہیںاور پھر ان پر تنقید کی ہے، میرے خیال میں آپ نے اس میں بھی اپنے بلند مقام سے اتر کر گفتگو کی ہے۔ عام علما اگر آپ کی عبارات کے ساتھ یہی طریقہ برتتے ہیں تو جائز طور پر وجہ شکایت ہوتی ہے اور انصاف کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اس پر احتجاج کیا جائے۔اس لیے میں آپ سے بھی شکایت کو جائزاور احتجاج کو تقاضائے انصاف سمجھتا ہوں۔یہ جواب شائع کرکے واقعہ یہ ہے کہ آپ نے دینی لحاظ سے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔اقامت دین کی منزل قریب لانے میں بھی اس کا کوئی دخل نہیں بلکہ اس سے سیکڑوں نہیں ہزاروں ایسے اشخاص کی دل آزاری ہوئی جو آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کی جدوجہد کو ایک دینی جدوجہد سمجھ کر نظریہ یا عمل کے اعتبار سے آپ کے شریک کار ہیں۔ خواہ آپ اسے اندھی عقیدت وتقلید کہیں یا کچھ اور، لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ حضرت مدنیؒ کی محبت و عقیدت تمام علما اور دین دار طبقے کے سویدائے قلب میں جاگزین ہے۔ان کی کسی رائے یا فتویٰ کو ممکن ہے بعض حضرات کسی وجہ سے قبول نہ کریں، لیکن ان کی شان میں اگر ایسے کلمات کہے یا لکھے جائیں جن سے تنقیص وتوہین ہوتی ہو تو ان کو برداشت کرنا بڑا مشکل ہے۔پس ان کی وفات کے بعد جن باتوں کو چھیڑنے کی بالکل کوئی ضرورت نہیں اور ان کو چھیڑنے اور شائع کرنے سے دین کا ذرّہ برابر فائدہ نہ ہورہا ہو تو خواہ مخواہ کے لیے ایک نیا میدان جنگ کیوں گرم کردیا جائے۔موجودہ نازک حالات میں آنے والے انتخابات کی اہمیت کو محسوس فرما کر آپ نے بھی الاہم فالاہم کے اصول پر اور حکمت عملی سے کام لے کر دوسرے بہت سے امور میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کی ہے اور ایسا کرنا بھی چاہیے تھا، تو کیا یہ حکمت عملی میں شامل نہیں ہوسکتا کہ ان ایام میں علمائے کرام کو بالکل نہ چھیڑا جائے، خواہ ان میں سے بعض تجاوز بھی کرجائیں لیکن کوئی انتقامی کارروائی نہ کی جائے۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ حضرات کا تمام چھوٹے بڑے الزامات کے مقابلے میں سکوت اختیار کرنا اور مرّوا کرامًاپر عامل بن جانا، دین کے لحاظ سے زیادہ مفید ہے اور اسی میں جماعت کا وقار بھی ہے۔ بات بہت طویل ہوگئی،مقصد آپ مختصر اشارے سے بھی سمجھ سکتے تھے۔آپ ضرور اس بات پر غور فرما کر اس کا تدارک کریں اور اس کے مضر اثرات کو کسی احسن طریقے سے زائل کرنے کی کوشش کریں۔آپ کے بارے میں جو کچھ علما اعتراضات کررہے ہیں ،ہم کو تو شب وروز ان کی جواب دہی کرنی پڑتی ہے۔ میں تو رسمی طور سے متعلق نہ ہونے کے باوجود لوگوں کے خیال میں’’پکا مودودی‘‘ ہوں۔ میں ان اعتراضات کی مدافعت کرتا رہا ہوں۔ لیکن اس تازہ تحریر پر کوئی اعتراض کرے تو میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں، او رپھر آپ کے بارے میں کچھ کہا جائے،اس کی برداشت بھی مشکل سے ہوتی ہے کیوں کہ میں سمجھتا ہوں،اس کا اثر تحریک پر اور اس واسطے سے اقامت دین کے فریضے پر پڑ جاتا ہے۔ آپ کا بہت ساقیمتی وقت اس پریشان گوئی میں خرچ کردیا۔ مگر خدا کرے اس کا نتیجہ کوئی اچھا نکلے۔

جواب: مولانا مدنی مرحوم کے ساتھ آپ کے تعلق سے میں واقف ہوں، اور اس گہرے تعلق کے باوجود میرے اور جماعت اسلامی کے ساتھ آپ کا جو ربط ہے ،اسے میں آپ کی انصاف پسندی وحق پرستی کی کھلی دلیل سمجھتا ہوں، جس کی اگر قدر نہ کی جائے تو ظلم ہوگا۔ لیکن ’’رسائل ومسائل‘‘ میں ’’نقش حیات‘‘ کی جن عبارتوں کے متعلق ایک صاحب سے میری جو مراسلت شائع ہوئی ہے،اس پر آپ کے اعتراضات میری سمجھ میں نہیں آئے۔آپ خود بھی اگر مولانا کی عقیدت سے صر ف نظر کرکے دوبارہ اس مسئلے پر غور کریں تو مجھے امید ہے کہ آپ بھی اپنے ان اعتراضات میں کوئی معقولیت محسوس نہ فرمائیں گے۔
’’نقش حیات‘‘ جلد دوم کی جو عبارات زیر بحث ہیں،سب سے پہلے آپ خود ان کو مولانا کی کتاب میں پورے سیاق وسباق کے ساتھ ملاحظہ فرما لیں عبارات جسب ذیل ہیں:
۱۔ حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی شہید رحمۃ اللہ علیہ جو کہ اس تحریک کے سردار اور بانی ہیں،ان کے خط میں جو کہ وزیر گوالیار کے نام مدد طلب کرنے کے لیے لکھا گیا تھا( جس کو ہم بجنسہٖ آگے ذکر کریں گے) صاف طور پر ظاہر کیا گیا ہے کہ ہمارا مقصد ہندوستان کو اس بدیسی قوم (انگریز) کے مظالم سے پاک کرنا ہے۔اس کے بعد ہندو اور مسلم مل کر بادشاہت کے لیے جس کو مناسب سمجھیں، منتخب کریں۔‘‘ (نقش حیات صفحہ ۵)
آگے صفحہ ۳ا، ۴ا پر مولانا نے سیّد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کامذکورۂ بالا خط نقل فرمایا ہے مگر اس میں خط کشیدہ مضمون موجود نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس یہ لکھا گیاہے کہ’’ایں ضعفاء راازروساء کبارو عظماء عالی مقدار ہمیں قدر مطلوب است کہ خدمت اسلام بجان ودل کنند وبرمسند مملکت متمکن شوند۔‘‘
۲۔ ’’علاوہ ازیں کسی فرقے کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ اس فرقے کے لیے بھی حکومت کے عہدوں اور منصوبوں (منصبوں) کے دروازے ایسے ہی کھلے رکھے جائیں جیسے کہ خود اپنے فرقے کے لوگوں کے لیے اور ملکی و انتظامی معاملات میں کسی قسم کا کوئی تعصب نہ برتا جائے۔قرآن مجید کا حکم ہے ’’وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَانٌ قَوْمٌ‘‘ الآیۃ‘‘ (صفحہ ۰ا)
۳۔ ’’اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد اس میں اضمحلال آنا شروع ہوا اور حالات روز بروز بد سے بدتر ہوتے رہے۔ تو اب علما نے ان کی اصلاح کی کوشش کی اور اس کوشش سے ان کا مقصد ملک کی خوش حالی، امن وامان، سکون واطمینان، ظلم وجور کی بیخ کنی اور خلق خدا کی عام رفاہیت وبہبود تھا۔ان کو اس سے کوئی دل چسپی نہیں تھی کہ حکومت مسلمان کی ہو یا غیر مسلم کی۔وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ جس کی بھی حکومت ہو ،انصاف کرے۔‘‘(صفحہ اا)
۴۔ ’’شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فتوے کا جو اقتباس اوپر گزر چکا ہے،اس میں دو باتیں خاص طور پر لحاظ رکھنے کے قابل ہیں… (۲) شاہ صاحب کسی ملک کے دارالاسلام ہونے کے لیے اس میں محض مسلمانوں کی آبادی کو کافی نہیں سمجھتے،بلکہ اس کے لیے وہ یہ بھی ضروری جانتے ہیں کہ مسلمان باعزت طریقے پر رہیں اور ان کے شعائر مذہبی کا احترام کیا جائے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کسی ملک میں سیاسی اقتدار اعلیٰ کسی غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو لیکن مسلمان بھی بہرحال اس اقتدار میں شریک ہوں اور ان کے مذہبی ودینی شعائر کا احترام کیا جاتا ہو تو وہ ملک حضرت شاہ صاحب کے نزدیک بے شبہ دارالاسلام ہوگا۔‘‘(صفحہ ۱۱)
حضرت شاہ صاحبؒ کا فتویٰ مولانا نے صفحہ ۶،۷ پر نقل کیا ہے، وہ اس کے برعکس معنی دے رہا ہے۔اس میں تو شاہ صاحب یہ فرماتے ہیں کہ جہاں امام مسلمین کا حکم جاری نہ ہو بلکہ کفار کا حکم چل رہا ہو، وہاں بعض احکام اسلام سے تعرض نہ ہونا لاحاصل ہے۔ محض جمعہ وعیدین یا اذان وذبح بقر کی آزادی ایسی سرزمین کو دارالاسلام نہیں بنا سکتی۔
۵۔ ’’بے شک سیّد صاحب جگہ جگہ اعلائے کلمۃ اﷲ اور دین ربّ العالمین کی خدمت کا ذکر کرتے ہیں اور اسی کو اپنی مساعی کا محرک بتاتے ہیں،لیکن آپ یہ خوب سمجھتے تھے کہ اعلائے کلمۃ اﷲ کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ ایک فرقہ وار گورنمنٹ قائم کی جائے اور خود حاکم بن کر دوسرے برادران وطن کو اپنا محکوم بنایا جائے، بلکہ اس کا سب سے زیادہ مؤثر طریقہ یہ ہے کہ برادران وطن کو سیاسی اقتدار میں اپنا شریک کرکے اسلامی فضائل اخلاق سے ان کے دلوں کو فتح کیا جائے۔‘‘(صفحہ ۱۵)
عبارت نمبر ۱ کے متعلق تو کوئی شک کرنے کی گنجایش ہی نہیں کہ یہ مولانا کی اپنی نہیں ہے، کیوں کہ اس سے پہلے اور بعد کوئی علامت ایسی نہیں پائی جاتی جس کی بِنا پر یہ گمان کیا جاسکتا ہو کہ یہ کسی اور کی عبارت نقل کی گئی ہے۔ اس کے بعد صفحہ ۶ پر مولانا نے کسی البرہان نامی پرچے سے ایک اقتباس نقل فرمایا ہے، جو کتابت کے معروف قاعدے کے مطابق دونوں طرف حاشیہ چھوڑ کر متن کے قلم سے خفی تر قلم میں لکھا گیا ہے، اور یہ اقتباس صفحہ ۷ کی ابتدائی تین سطروں پر ختم ہوگیا ہے۔ پھر صفحہ ۷ سے مسلسل صفحہ ۱۶ تک ساری عبارت متن کے انداز میں چلتی ہے، جس کے اندر جگہ جگہ دوسری کتابوں کے اقتباسات مع حوالہ نقل ہوئے ہیں۔تحریر وکتابت کے جو معروف قواعد ہمارے ہاں رائج ہیں ،ان کے لحاظ سے جو شخص بھی ان صفحات کی عبارتوں کو پڑھے گا، وہ لامحالہ انہیں متن ہی کی عبارات سمجھے گا۔ لیکن صفحہ ۱۶ کا پہلا پیراگراف ختم ہوتے ہی یکایک ہمارے سامنے پھر ’’البرہان نمبر ۲،جلد ۲۱صفحہ ۷۴ تا ۸۷‘‘کا حوالہ آجاتا ہے اور الٹ پلٹ کر دیکھنے سے کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ البرہان سے نقل کردہ عبارت کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ہوسکتا ہے کہ یہ حوالہ صرف عبارت نمبر ۵ سے متعلق ہوجسے کسی طویل تحریر سے خلاصے کے طور پر لیا گیا ہو ، اور ہوسکتا ہے کہ عبارات نمبر ۲،۳،۴ بھی البرہان ہی سے منقول ہوں۔ اس البرہان کوہم نہیں جانتے کہ یہ کون سا پرچہ ہے۔ دہلی کا جریدۂ برہان تو اس سے مراد نہیں ہوسکتا،کیوں کہ اس کا نام برہان ہے، البرہان نہیں۔ اس لیے اصل کی طرف رجوع کرکے تحقیق کرنا مشکل ہے۔ تاہم اگر صفحہ ۶ سے ۱۶ تک کا پورا مضمون بھی(جس میں عبارات نمبر۲،۳،۴،۵ واقع ہوئی ہیں)البرہان کا مان لیا جائے تو اس سے پہلے ا ور اس کے بعد جو کچھ مولانا نے فرمایا ہے،اسے دیکھتے ہوئے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مولانا اس پورے بیان کی توثیق فرما رہے ہیں،اسے استشہاداً نقل فرما رہے ہیں،اور انہوں نے اشارتاً وکنایتاً بھی اس کے کسی جز سے اختلاف نہیں فرمایا ہے۔اس طرح جب کوئی شخص اپنے کسی بیان کی تائید میں کسی دوسرے کی عبارت نقل کرتا ہے اور اس کے کسی جزسے اختلاف کا اظہار کیے بغیر اس کی توثیق کردیتا ہے تو اس سے لازماً یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ اس کا ہم خیال ہے اور الفاظ میں نہیں تو معنی میں ضرور اس کے ساتھ اتفاق رکھتا ہے۔
اب ذرا ان عبارتوں کو آپ خود دیکھیے۔ان میں کوئی باریکی یا پیچیدگی نہیں ہے کہ ایک عام آدمی ان کا مطلب نہ سمجھ سکے اور تاویل سے ان کے مختلف مفہومات نکل سکتے ہوں۔ صاف صاف زبان میں جو کچھ کہا گیا ہے،وہ یہ ہے کہ:
۱۔ جس ملک میں مسلم اور غیر مسلم ملے جلے آباد ہوں،وہاں اسلامی حکومت قائم کرنا ایک نامناسب فعل ہے، کیوں کہ یہ ایک ’’فرقہ وارگورنمنٹ‘‘ ہوگی، اور اگر مسلمان اس میں خود حاکم بن کر دوسرے برادران وطن کو اپنا محکوم بنائیں تو یہ خلاف انصاف ہوگا۔ایسے ملک میںصحیح طریق کار یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی مشترکہ حکومت بنے اور یہی اعلائے کلمۃ اﷲ کا بھی سب سے زیادہ مؤثر طریقہ ہے۔
۲۔ کسی ملک کے دارالاسلام ہونے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہاں اسلام کے احکام جاری ہوں اور حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو۔ اقتدار اعلیٰ غیر مسلموں کے ہاتھ میں بھی ہو تو ملک دارالاسلام ہوسکتا ہے اگر مسلمان بھی فی الجملہ اقتدار میں شریک رہیں اور ان کے مذہبی شعائر کا احترام کیا جاتا رہے۔
۳۔ مسلمانوں کے ہاتھ میں بھی اگر حکومت ہو تو یہ ضروری ہے کہ غیر مسلموں کے لیے تمام عہدوں اور منصبوں کے دروازے کھلے رکھے جائیں۔یہ خود قرآن کی تعلیم ہے اور ایسا نہ کرنا خلاف عدل ہے۔
۴۔ پچھلے دو ڈھائی سو برس میں ہمارے علما وصلحا نے برعظیم ہند میں اصلاح احوال کی جتنی کوششیں کی ہیں،ان میں سے کسی کا مقصود بھی یہاں اسلامی حکومت قائم کرنانہ تھا۔ وہ صرف اچھی حکومت چاہتے تھے، خواہ اس کے حاکم مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔
۵۔ حضرت سیّد احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید رحمہما اللہ کی تحریک کا مقصود بھی اسلامی حکومت کا قیام نہ تھا۔ وہ صرف انگریزوں کو نکالنے کے لیے اٹھے تھے اور اس کے بعد ان کے پیش نظر یہ تھا کہ ہندو اور مسلمان مل کرایک مشترک حکومت قائم کرلیں۔
ان باتوں میں سے نمبر ۲ کے متعلق مولانا حسین احمد صاحب مرحوم نے توجہ دلانے پر صرف اتنی توضیح فرمائی تھی کہ وہ ہندوستان کی موجودہ حکومت پر دارالاسلام کی اصطلاح کا اطلاق نہیں فرماتے، اور نمبر ۵ کے متعلق صرف یہ تشریح کی تھی کہ ان کے نزدیک حضرت سیّد احمد شہید کے پیش نظر سیکولر اسٹیٹ(لادینی ریاست) قائم کرنا نہ تھا۔ لیکن آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ ان توضیحات سے ان اصولی باتوں میںقطعاً کوئی فرق نہیں ہوتا جو مذکورۂ بالا نکات میں بیان ہوئی ہیں۔ان میں سے ہر نکتہ اپنی جگہ جوں کا توں قائم ہے اور ہر ایک اسلام او رمسلمانوں کے لیے زہر قاتل ہے۔ اس کا زہریلا اثر صرف ہندوستان کے مسلمانوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ پاکستان تک بھی پہنچتا ہے۔یہاں بھی جو لوگ مولانا کے شاگرد،مرید یا عقیدت مند ہیں،یا دین کے معاملے میں ان کے علم پر اعتماد رکھتے ہیں، ان کی ایک کثیر تعداد مولانا کے ان خیالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی، اور ان خیالات کا اثر جو بھی قبو ل کرے گا ،اس کا نقطۂ نظر لازماً یہ بنے گا کہ پاکستان میں اسلامی حکومت قائم کرنا غلط اور مسلم وغیر مسلم کی مشترک حکومت قائم کرنا ہی صحیح ہے۔ اس کے ذہن میں دارالاسلام کی ایک سراسر غلط تعریف بیٹھ جائے گی۔ وہ ایک روادار لادینی حکومت کو بھی اطمینان کے ساتھ دارالاسلام سمجھ لے گا اور اس کے بعد مشکل سے ایک خالص اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے کوئی تڑپ اس کے دل میں باقی رہ جائے گی۔ وہ ماضی قریب کی تمام اسلامی تحریکوں کے متعلق بھی بالکل ایک غلط تصورلے کر بیٹھ جائے گا اور یہ باور کرلے گا کہ اس دور میں ہمارے تمام دینی پیشوا اسلامی حکومت قائم کرنے کے بجائے اصولاًاُسی طرز کی مشترک ہندو مسلم حکومت قائم کرنا چاہتے تھے جیسی ہندوستان کے کانگریسیوں نے قائم کی ہے اورپاکستان کے کانگریسی، عوامی لیگی، ری پبلکن اور نیشنل عوامی پارٹی کے لو گ قائم کرنا چاہتے ہیں۔پھر ان سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ یہ نقطۂ نظر جس شخص کا بھی بن جائے گا، وہ مشکل ہی سے اس الجھن میں مبتلا ہونے سے بچ سکے گا کہ اگر فی الحقیقت انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ مسلم وغیر مسلم کے مشترک وطن میں ایک ’’فرقہ وار گورنمنٹ‘‘ قائم نہ کی جائے تو پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے جو’’فرقہ وار گورنمنٹ‘‘ قائم کی تھی، جس کی مجلس شوریٰ میں ایک بھی غیر مسلم نہ تھا، جس میں کوئی جج،کوئی گورنر، کوئی عامل،کوئی سپہ سالار غیر مسلم نہ تھا، جس میں غیر مسلم ذمی بنائے گئے تھے اور ان پر جزیہ لگا یا گیا تھا، جس میں خالص اسلامی آئین و قانون رائج تھا اور نظم حکومت کی پالیسی متعین کرنے میں بھی غیر مسلموں کا کوئی دخل نہ تھا،آخر اس کو کس دلیل سے انصاف قرار دیا جائے گا؟ وہ اعلائے کلمۃ اﷲ کا راجح طریقہ قرارپائے گا یا مرجوح؟ وہ حکومت ہمارے لیے معیار قرارپائے گی یامغل حکومت جسے مولانا’’نقش حیات‘‘ میں بار بار نظیر کے طور پر پیش کرتے ہیں؟
یہ باتیں ہیں جن کے متعلق آپ مجھ سے چاہتے ہیں کہ میں ان پر گرفت نہ کروں اور ان کے معاملے میں خاموشی اختیار کروں۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ کسی وقت تنہائی میں خالصتاً لوجہ اﷲ اپنے ضمیر سے پوچھیے کہ کیا واقعی مجھ سے آپ کا یہ مطالبہ حق بجانب ہے؟ اس میں دین اور اس کی مصلحت کی بہ نسبت اپنا استاد اور اپنا گروہ تو آپ کے لیے عزیز تر نہیں ہوگیا ہے؟اس کے لیے جو دلائل ووجوہ آپ نے بیان کیے ہیں، ان میں سے کسی کے اندر بھی خود آپ کوئی وزن محسوس کرتے ہیں؟
آپ کہتے ہیں کہ حضرت مدنی کی وفات کے بعد ایسی باتیں کرنا مناسب نہ تھا؟ لیکن یہ بات صرف اسی صورت میں درست ہوسکتی ہے جب کہ حضرت موصوف کے ذاتی عیوب پر کوئی کلام کیا جائے۔ ایسی بات جو شخص بھی کرے ،اسے ملامت کرنے میں آپ کے ساتھ میں بھی شریک ہوں گا۔لیکن دینی معاملات یا اجتماعی مسائل میں کسی شخص کے خیالات پر بحث نہ کرنے کے لیے یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس کا انتقال ہوچکا ہے۔اس کا انتقال تو بے شک ہوچکا ہے مگر اس کے خیالات تو شائع شدہ صورت میں موجود ہیں اور رہیں گے اور لوگوں کے ذہن پر اثر ڈالتے رہیں گے۔ان پر اگر اس دلیل سے بحث کرنا غیر مناسب ہے کہ ان خیالات کا پیش کرنے والا دنیا سے رخصت ہوچکا ہے، تو یہ چیزمولانا حسین احمد مدنی صاحب ہی کے لیے خاص کیوں ہو۔پھر تو کسی وفات یافتہ شخص کے کارنامے پر بھی بحث کرنا درست نہ ہوگا اور ہمیں تمام ہی پچھلے لوگوں کے غلط خیالات کو پھیلنے کی کھلی چھٹی دینی پڑے گی۔
آپ کہتے ہیں کہ مستفسر نے مولانا مرحوم کے ارشادات کے متعلق تم سے جو سوال کیا تھا، اس کا جواب تمہارے ذمے تو نہ تھا، تمہیں اس کا جواب دینے کی کیا ضرورت تھی؟میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر مولانا کے سواکسی اور شخص کے گمراہ کن خیالات سے پریشان ہوکر کسی نے مجھ سے سوالات کیے ہوتے اور میں نے اس کے جواب میں ان خیالات کی تردید کرکے اسے اور دوسرے بندگان خدا کو ان سے بچانے کی کوشش کی ہوتی، تو کیا اس وقت بھی آپ مجھ سے یہی بات کہتے جو اب کہہ رہے ہیں؟اس سوال کا جواب مجھے دینے کے بجائے آپ اپنے ضمیر ہی کو دے لیں اور خود ہی غور کریں کہ اس خاص معاملے میں عام حالات سے مختلف طرز عمل جو آپ اختیار فرما رہے ہیں ،اس کا اصل محرک کون سا جذبہ ہے، اور آیا وہ ﷲ و فی اﷲ ایک محمود جذبہ ہے یا اس میںنادانستہ اسی تخرب اور اپنوں کی جانب داری کا وہ لوث شامل ہوگیا ہے جو خدا کے بے لاگ دین کی نظر میں کبھی محمود نہیں ہوسکتا۔
آپ کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ حضرت مدنی کی محبت وعقیدت تمام علما اور دین دارطبقے کے سویدائے قلب میں جاگزین ہے اور ان کے خیالات پر تنقید کرنا ان لوگوں کو ناگوار ہوتا ہے،اس لیے مجھے یہ کام نہ کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اس سے وہ لوگ میری اور جماعت کی تائید سے ہاتھ کھینچ لیں گے۔ میں اس کے جواب میں مختصراً صرف اتنا عرض کرنا کافی سمجھتا ہوں کہ جو شخص میرے اور جماعت اسلامی کے اس کام کومیرا اور جماعت کا کوئی ذاتی’’کاروبار‘‘سمجھتا ہو اور اس میں بطور احسان ہاتھ بٹانے آرہا ہو تو وہ سخت گنہگار ہے، کیوں کہ دین کے نام سے کاروبار کرنا اورا س کاروبار میں حصہ لینا وہ بدترین تجارت ہے جس سے زیادہ خسارے کا سودا شاید ہی کوئی ہو۔کسی نے اگر آج تک یہ سمجھتے ہوئے ہماری تائید کی ہے تو اب اسے توبہ کرنی چاہیے اور فوراًاس تائید سے دست کش ہوجانا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی ہمارے اس کام کو خالصتاً ﷲ دین کا کام سمجھ کر ہماری تائید کرنے آتا ہے، تو اس کے اور ہمارے درمیان جو معاملہ بھی ہوگا،خالص حق پرستی کی بنیاد پر ہو گا۔ نہ ہم اس سے کوئی مطالبہ حق کے خلا ف کرسکتے ہیں اور نہ وہ ہم سے خلاف حق کوئی مطالبہ کرسکتا ہے۔ کسی کے پاس اگر اس مطالبے کے لیے کوئی دلیل ہو کہ ’’دنیا میں اور جو بھی دینی تصورات اور اصولوں کے خلاف کوئی کام کرے اس کی تو خبر لے ڈالو مگر ہمارے حضرتوں میں سے کوئی یہ کام کرے تو اس پر دم نہ مارو‘‘ تو وہ براہِ کرم اپنی دلیل پیش کرے۔ ہم بھی غور کریں گے کہ قرآن و حدیث یا سلف صالحین کے اسوہ میں اس دلیل کو کوئی مقا م حاصل ہے یا نہیں۔ اور اگر ایسی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں ہے تو ہم صاف کہتے ہیں کہ اس کا یہ مطالبہ ماننے کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔اس طرح کی شرطیں لے کر جو لوگ خدا کا کام کرنے کے لیے ہمارے ساتھ آئیں،وہ ہمارے لیے سبب قوت نہیں بلکہ سراسر سبب ضعف ہیں۔ ایسے لوگ دنیا میں کبھی حق قائم نہیں کر سکتے۔وہ سب بیک وقت ہماری تائید سے دست کش ہوجائیں تو ہم اﷲ کا شکر کریں گے۔
آپ نے بار بار اس بات کی بھی شکایت کی ہے کہ میں نے حضرت مدنی ؒ کی عبارتوں پر تنقید کرنے میں بڑا دل آزار اندازِ بیان اختیار کیا ہے اور بہت نیچی سطح پر اتر گیا ہوں۔ میں عرض کرتا ہوں کہ ایک دل آزاری تو وہ ہے جو ایسی صورت میں لازماً ہر عقیدت مند آدمی کو ہوجاتی ہے جب کہ اس کے کسی محبوب بزرگ کے خیالات کی تردید کی جائے۔یہ چیز بجائے خود ہی تکلیف دہ ہے، اس لیے اس کا شکوہ آپ کریں تو میں اس کی کوئی تلافی نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر اس سے زائد کوئی چیز آپ کو میری تحریر میں نظر آئی ہو جس پر واقعی’’دل آزاری‘‘ کے معروف معنی کا اطلاق ہوسکتا ہو تو اس کی نشان دہی فرمائیں۔مجھے اس پراظہار معذرت کرنے میں ذرہ برابر تامل نہ ہوگا۔اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ اپنے بزرگوں کے معاملے میں شاگردوں اور مریدوں کی زبان استعمال کرنا آپ حضرات کے لیے تو بلاشبہ درست ہے اور آپ کو ایسا ہی کرنا چاہیے، مگر دنیا بھر سے آپ یہ مطالبہ نہیں کرسکتے کہ وہ بھی آپ کے بزرگوں کے سامنے شاگردانہ اور مریدانہ عجز ونیاز مندی اختیا رکرے۔ آپ کے اپنے گروہ میں دوسرے گروہوں کے بڑوں سے اختلاف کرتے ہوئے جو بہتر سے بہتر اسالیب بیان استعمال ہوتے ہیں،انہی کو آپ معیار مان لیں اور اس کے لحاظ سے دیکھیں کہ میری ان دونوں تحریروں میں، جن کا آپ نے شکوہ کیا ہے، کیا یہ چیز واقعی قابل شکایت ہے۔
آپ نے اشارتاً یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ میں نے مولانا مرحوم کی کتاب سے عبارات نقل کرنے اور ان سے نتائج نکالنے میں وہی طریقہ اختیار کیا ہے جو بعض مولوی صاحبان نے میرے ساتھ اختیار کیا ہے۔میں نے آپ کی اس تنبیہ کے بعد پھر ایک مرتبہ ’’نقش حیات‘‘ کو پڑھ کر یہ تحقیق کرنے کی پوری کوشش کی کہ کہیں واقعی مجھ سے ایسی کوئی زیادتی تو نہیں ہوگئی ہے،مگر خدا گواہ ہے کہ مجھے ایسی کوئی چیز نہ ملی۔ میں آپ کا شکر گزار ہوںگا اگر آپ واضح طور پر نشان دہی فرمائیں کہ میں نے کہاں عبارات میں کوئی تحریف کی ہے، یا سابق ولاحق سے کاٹ کر ان میں کوئی نئے معنی داخل کیے ہیں،یا ان سے ایسے نتائج اخذ کیے ہیں جو خود ان عبارات سے نہیں نکلتے۔ ایسی جس زیادتی کی بھی آپ نشان دہی فرمائیں گے مجھے اس پر اعتراف قصور اور اظہارِ ندامت میں ذرہ برابر تامل نہ ہوگا۔
آپ نے یہ خیال بھی ظاہر فرمایا ہے کہ میں نے ان عبارات پر گرفت کرنے میں انتقامی جذبے سے کام لیا ہے۔یہ بدگمانی آپ کرنا چاہیں تو کریں،مگر میں عند اﷲ دوسروں کے گمانوں کے لیے نہیں بلکہ اپنی نیت ہی کے لیے جواب دہ ہوں۔میرے نزدیک دین کا نام لے کر ذاتی محبت ونفرت یا نفسیاتی جذبات واغراض کے لیے کوئی بات یا کام کرنا بد ترین فریب کاری ہے اور میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔حقیقت یہ ہے کہ مولانا حسین احمد صاحب اور ان کے زیر قیادت دیو بند کے ایک خاص اسکول کی سیاست کو میں برسوں سے دیکھ رہا ہوں۔میں نے ہمیشہ اس کو پوری ایمان داری کے ساتھ غلط سمجھا اور کہا ہے۔ ا س سیاست کی تائید میں اسلام اور اسلامی تاریخ کی جو عجیب تعبیریں یہ سکول کرتا رہا ہے وہ میرے نزدیک نہایت غلط اور دین واہل دین کے لیے سخت مضر ہیں۔ اور میری قطعی رائے،خوب سوچی سمجھی رائے،بالکل بے لاگ رائے یہ ہے کہ انگریزی دور کی آمد پر سر سیّداسکول جس مقام پر کھڑا ہوا تھا،بدقسمتی سے ہندو دور کی آمد پر اسی مقام پردیو بند کا حسین احمد اسکول آکھڑا ہوا ،بلکہ مزید افسوس یہ ہے کہ اس سے بھی کچھ آگے بڑھ کر کھڑ اہو گیا۔ اس رائے کی بنیاد محض ’’نقش حیات‘‘ کی چند عبارات نہیں ہیں بلکہ اس اسکول کا وہ پورا کارنامہ ہے جو پچھلے پندرہ بیس سال کی مدت میں اس سے ظہور میں آیا ہے۔
آپ نے مولانا کے بعض عقیدت مندوں کی اس رائے کا ذکر بھی فرمایا ہے کہ یہ ’’مستفسر بھی بالکل فرضی ہے تاکہ اس طریقے سے اسی قسم کے جواب کی اشاعت کا موقع مہیا کردیا جائے۔‘‘ دوسرے الفاظ میں ا ن حضرات کا مطلب یہ ہے کہ دراصل مجھے کسی شخص نے ان عبارات کے متعلق کوئی خط نہیں لکھا تھا بلکہ میں خود مولانا حسین احمد مرحوم پر حملہ کرنا چاہتا تھا، اس لیے یوں ہی ایک خط وکتابت گھڑ لی گئی۔واقعہ کے اعتبار سے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصل خط وکتابت دفتر میں محفوظ ہے اور وہ صاحب بھی ہندوستان میں زندہ موجود ہیں جن کے خطوط کے جوابات میں نے دیے ہیں۔ آپ حضرات جب چاہیں وہ خط وکتابت دیکھ سکتے ہیں اور خود اصل کاتب سے بھی اس کی تصدیق کرسکتے ہیں۔رہی اس گمان کی اخلاقی حیثیت، تو جنہوں نے بے تکلف یہ افسانہ تصنیف کر ڈالا وہ خود اپنے گریبان میں منہ ڈال کر سوچیں کہ یہ کیسا تزکیۂ نفس واخلاق ہے جو مولانا مرحوم کے فیض صحبت سے ان کو میسر آیا ہے۔ اپنے گروہ کے لوگوں کے معاملے میں تو ان کے احساسات اتنے نازک ہیں کہ ان کی صریح غلطیوں پر بھی کوئی تنقید وہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، مگر دوسروں کے دین واخلاق پر ہر حملہ ان کے نزدیک بالکل مباح ہے،حتیٰ کہ اپنے دل سے ایک خیالی الزام بھی تصنیف کرکے وہ ان کے سر تھوپ سکتے ہیں۔ اس پر میں اس کے سوا اور کیا کہوں کہ خدا ان حضرات کوو ہ حقیقی تقویٰ عطافرمائے جس کی بِنا پر آدمی زبان سے ایک بات نکالنے سے پہلے سوچ لیتا ہے کہ وہ خدا کو اس کا کیا جواب دے گا۔
(ترجمان القرآن۔ذی قعدہ ۳۷۷اھ۔جولائی ۹۵۸اء)

طریق انتخاب کے مسئلے میں ریفرنڈم:

سوال: طریق انتخاب کے مسئلے میں جماعت اسلامی نے ریفرنڈم کرانے کا جو مطالبہ کیا تھا، اس پر مختلف حلقوں کی طرف سے مختلف اعتراضات کیے گئے ہیں۔ میں ان کا خلاصہ پیش کرکے آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس ان اعتراضات کا کیا جواب ہے:
۱۔ جداگانہ انتخاب اگر دین اور شریعت کے اصول اور احکام کا لازمی تقاضا ہے تو اس پر عوام سے استصواب کے کیا معنی؟ کیا اسی طرح کل نماز اور روزے پر بھی استصواب کرایا جائے گا؟ کیا آپ یہ اصول قائم کرنا چاہتے ہیں کہ عوام کی اکثریت جس چیز کو حق کہے وہ حق، اور جس چیز کو باطل کہے وہ باطل؟ فرض کیجیے کہ ریفرنڈم میں اکثریت کا فیصلہ مخلوط انتخاب کے حق میں نکلے تو کیا آپ اس کو حق مان لیں گے اور پھر جداگانہ انتخاب اسلامی اصول واحکام کا تقاضا نہ رہے گا؟
۲۔ جداگانہ اور مخلوط دونوں ہی طریقے غیر اسلامی ہیں، کیوں کہ اسلام کی رو سے تو مجلس شوریٰ میں غیر مسلم کی نمایندگی ہی اصولاً غلط ہے۔آپ جب جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کرتے ہیں تو کیا اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آپ نے اسلامی ریاست کی مجلس شوریٰ میں غیر مسلم کی شرکت کا اصول مان لیا۔
۳۔ استصواب رائے کی تجویز لا کر آپ نے طریق انتخاب کے مسئلے کو اس خطرے میں ڈال دیا ہے کہ شاید اس کا فیصلہ مخلوط انتخاب کے حق میں ہو۔ آخر آپ کے پاس اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ اس کا نتیجہ لازماً جداگانہ طریق انتخاب ہی کے حق میں ہوگا۔
۴۔ یہ عجیب بات ہے کہ آپ مخلوط انتخاب کے مخالف ہیں مگر طریق انتخاب کا فیصلہ مخلو ط رائے شماری سے کرانے کے لیے تیار ہیں۔آخر ریفرنڈم بھی تو مخلوط ہی ہوگا۔
۵۔ آپ طریق انتخاب کے مسئلے پر ریفرنڈم کرانے کے بجائے یہ کیوں نہیں کرتے کہ ملک کے آیندہ انتخابات عام میں اس مسئلے پر الیکشن لڑیں؟ اگر عوام الناس جداگانہ انتخاب کے حامی ہیں تو وہ انہی لوگوں کو ووٹ دیں گے جو اس طریق انتخاب کے حامی ہوں گے۔اس طرح اس مسئلے کا تصفیہ ہوجائے گا۔
۶۔ ریفرنڈم کے لیے ملک کے موجودہ دستور میں کوئی گنجایش نہیں ہے،اس لیے ناگزیر ہوگا کہ پہلے قومی اسمبلی اس مقصد کے لیے دستور میں ترمیم کرے، اور ترمیم کے لیے لامحالہ ۳۔۲ اکثریت درکار ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ جب مخلوط انتخاب کے قانون کو بدلنے کے لیے مجرد اکثریت بہم نہیں پہنچ رہی ہے تو ریفرنڈم کے لیے ۳۔۲ اکثریت کہاں سے بہم پہنچے گی؟
۷۔ جمہوری ممالک میں بالعموم ریفرنڈم کے ذریعے سے ملکی مسائل کا فیصلہ کرنے کے بجائے پارلیمنٹ یا ایوان نمایندگان ہی کو آخری فیصلے کے اختیارات دیے گئے ہیں۔براہِ راست عوام سے مسائل کا تصفیہ کرانے میں بہت سی قباحتیں ہیں جن کی وجہ سے یہ طریقہ جمہوری ملکوں میں مقبول نہیں ہوا ہے۔
یہ ہیں وہ بڑے بڑے اعتراضات جو ریفرنڈم کی تجویز پر میں نے سنے یا پڑھے ہیں۔ان سے کم ازکم شک یا تذبذب کی کیفیت تو ذہنوں میں پیدا ہوہی جاتی ہے،اس لیے مناسب ہوگا کہ آپ ان سب کو صاف کرکے عوام کو اس مسئلے میں پوری طرح مطمئن کردیں۔

جواب: (۱) پہلا اعتراض جن اصحاب نے پیش فرمایا ہے،ان کو شاید معلوم نہیں ہے کہ پاکستان کا نظام حکومت ابھی تک دین اور شریعت کے اصول واحکام پر قائم نہیں ہوا ہے بلکہ یہ اس جمہوری دستور پر قائم ہے جو اکثریت کو فیصلہ کن اختیار دیتا ہے۔ اگر کہیں یہ بات یہاں طے ہوچکی ہوتی کہ جو کچھ دین اور شریعت کی رو سے ثابت ہو، وہی ملک کا قانون ہوگا، تو پھر رونا ہی کس بات کا تھا۔ یہی ایک مسئلہ کیا معنی، کسی مسئلے کو بھی دین کے منشا کے مطابق حل کرنے میں کوئی زحمت پیش نہ آتی۔جس مسئلے میں بھی دلائل شرعیہ سے ایک حکم ثابت کردیا جاتا وہ خود بخود قانون بن جاتا، اور اس کے خلاف جو قانون بھی ہوتاوہ آپ سے آپ منسوخ ہوجاتا۔لیکن آخر یہ بات کس سے چھپی ہوئی ہے کہ یہاں عملاً یہ صورت حال موجود نہیں ہے۔آپ کی آنکھوں کے سامنے نیشنل اسمبلی کی اکثریت نے مخلوط انتخاب کا قانون پاس کیا اور وہ ملک کا قانون بن گیا۔ اب اس قانون کو اگر بدلا جاسکتاہے تو اکثریت ہی کے فیصلے سے بدلا جاسکتاہے، ورنہ تمام علما مل کر بھی اگر متفقہ فتویٰ دے دیں کہ مخلو ط انتخاب اسلام کے خلاف ہے تب بھی قانون اپنی جگہ جوں کا توں قائم رہے گا۔ایسی حالت میں خواہ مخواہ خیالی باتیں کرنے سے کیا فائدہ؟ آپ طریق انتخاب کے اس ملحدانہ قانون کو واقعی بدلوانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے وہ طریقہ اختیار کیجیے جو موجودہ جمہوری نظام میں ممکن العمل اور مؤثر ہوسکتا ہے۔ایسا نہ کریں گے تو حاصل اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ آپ دلائل وبراہین کے انبار لگاتے رہیں گے اور انتخابات مخلوط بنیاد پر ہوتے رہیں گے۔
یہ کہنا کہ کیاکل نماز اور روزے پر بھی ریفرنڈم کرایا جائے گا،ایک اور بے خبری کی دلیل ہے۔ ان حضرات کو یہ معلوم نہیں ہے کہ یہاں آج نماز اور روزے کی جو آزادی حاصل ہے ،وہ بھی اس بِنا پر نہیں ہے کہ شریعت سے یہ احکام ثابت ہیں، بلکہ صرف اس بِنا پر ہے کہ دستور نے بنیادی حقوق کے سلسلے میں باشندوں کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کا حق دیا ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو ملک کی مجالس قانون ساز اکثریت کے ووٹ سے نماز اور روزے کے احکام میں بھی رد وبدل کرسکتی تھیں، اور اس کے ایسے قوانین سے نجات پانے کی کوئی سبیل اس کے سوا نہ ہو سکتی تھی کہ یا تو بغاوت کیجیے،ورنہ جمہوری طریقے سے فیصلہ کرانے کے لیے ریفرنڈم کا مطالبہ کیجیے۔
مجلس قانون ساز کے فیصلے اور ریفرنڈم کے فیصلے میں درحقیقت اصولی حیثیت سے کوئی فرق نہیں ہے۔دونوں جگہ اکثریت ہی کا فیصلہ مؤثر ہوتا ہے۔فرق صرف عملی صورت کا ہے۔ ایک جگہ مجلس قانون ساز کے ارکان کی اکثریت فیصلہ کرتی ہے، اور دوسری جگہ ملک کے عام باشندوں کی اکثریت۔ اب یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جو لوگ مجالس قانون ساز کے معاملے میں اکثریت کے اختیارات قانون سازی کو مانے بیٹھے ہیں ،وہ عوام کی اکثریت کے اختیار کا نام سن کر شور مچانے لگتے ہیں۔
ریفرنڈم کے متعلق یہ بات بھی ان حضرات کو معلوم نہیں ہے کہ وہ حق اور باطل کافیصلہ کرنے کے لیے نہیں ہوتا،بلکہ یہ فیصلہ کرنے کے لیے ہوتا ہے کہ ملک کا قانون کیا ہو اور کیا نہ ہو۔ جس چیز کو ہم باطل سمجھتے ہیں اگر ریفرنڈم میں اکثریت کا فیصلہ اس کی تائید میں ہوجائے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم اسے حق مان لیں گے ،بلکہ ا س کے معنی صرف یہ ہیں کہ ملک کا قانون وہ چیز قرارپائے گی جس کی تائید میں اکثریت نے فیصلہ دیا ہے۔ ہمیں اس کے بعد بھی یہ حق حاصل رہے گا کہ اسے باطل کہیں، اس کے بطلان پر دلائل لائیں، اور عوام کی رائے کو اس کے خلاف تیار کرتے رہیں، یہاں تک کہ عوام ہی کی اکثریت کو فیصلہ بدلنے پر راضی کرلیں۔ آخر اب جو اکثریت کے فیصلے سے ملک کی اسمبلیوں میں قوانین بنتے ہیں،ان میں سے کس قانون کا بن جانا یہ معنی رکھتا ہے کہ اقلیت نے اس کو حق مان لیا اور اس کے خلاف اپنی رائے کو باطل تسلیم کرلیا؟
۲۔ دوسرااعتراض جن لوگوں نے پیش کیا ہے ،ان کی پوزیشن بھی عجیب ہے۔ جب دستور میں غیرمسلموں کو نمایندگی کا حق دیا گیا ،اس وقت وہ خاموش رہے۔جب مخلوط انتخاب کا قانون پاس ہوا،اس وقت بھی وہ منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہے۔ آج بھی غیر مسلموں کے حق نمایندگی کو دستور سے منسوخ کرانے کے لیے وہ کوئی ایجی ٹیشن نہیں فرما رہے ہیں۔یہ نکتہ ان کو صرف اس وقت سوجھتا ہے جب جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔اس سے یہ بات خود واضح ہوجاتی ہے کہ دراصل یہ اپنے مخصوص پیشوائوں کی پیروی میں مسلم وغیر مسلم کی متحدہ قومیت کے قائل ہیں اور ان کے پیش نظر صرف یہ ہے کہ کسی طرح مخلوط انتخاب یہاں رائج ہوجائے۔ غیر مسلم کے حق نمایندگی کا انکار صرف ایک بہانہ ہے جو اپنی اغراض کے لیے انہوں نے استعمال کرنا شروع کیا ہے،ورنہ وہ بتائیں کہ اپنے ان پیشوائوں کے متعلق ان کی کیا رائے ہے جنہوں نے ہندوستان میں لادینی ریاست کے قیام کی حمایت فرمائی تھی۔
رہا ان کا اصل اعتراض ،تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے مخلو ط اور جداگانہ انتخاب کی حیثیت ہرگز یکساں نہیں ہے۔ مخلوط انتخاب کی بنیاد اس نظریے پر ہے کہ ایک ملک کے رہنے والے تمام باشندے،خواہ وہ مسلم ہوں یا ہندو یا عیسائی یا پارسی، سب ایک قوم ہیں، ملک کی حکومت اس واحد قومیت کی مشترک حکومت ہے،اور اسے چلانے کا کام ان لوگوں کے سپرد ہونا چاہیے جو بلا امتیاز دین و مذہب اس قوم کے تمام افراد کے مشترک نمایندے ہوں۔ یہ نظریہ سرے سے اسلامی ریاست ہی کے تصور کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔ اس پر جو نظام حکومت قائم ہوگا، وہ صرف لادینی ہوگا۔ اس میں اسلام اور دوسرے مذاہب ایک سطح پر آجائیں گے اور ان میں سے کسی کو بھی ملک کے معاملات میں دخل دینے کا حق نہ ہوگا۔ اس کی اسمبلیوں میں منتخب ہوکر آنے والے نمایندے اپنی شخصی حیثیت میں خواہ مسلم یا ہندو یا عیسائی ہوں، مگر نمایندہ ہونے کی حیثیت سے وہ صرف’’پاکستانی قوم‘‘ کے نمایندے ہوں گے اور ان کو کسی مذہب یا مذہبی گروہ کی طرف سے بولنے کا حق نہ ہوگا۔ اس کے بعد یہاں موجودہ د ستور کی ان دفعات کے بھی باقی رہنے کا کوئی امکان نہیں ہے جنہیں ہم اسلامی دفعات کہتے ہیں۔ کجا کہ یہاں کبھی پورے معنوں میں اسلامی حکومت قائم ہونے کی امید کی جا سکے۔ ا ب کون صاحب عقل آدمی کہہ سکتا ہے کہ یہ نظریہ اور جداگانہ انتخاب کا نظریہ دونوں اسلامی نقطۂ نظر سے برابر کی حیثیت رکھتے ہیں؟جداگانہ انتخاب قومیت کی بنیاد دین پر رکھتا ہے اور اس سے مسلمانوں کی مستقل قومیت برقرار رہتی ہے۔اس کے ذریعے سے مسلمان نمایندے صرف مسلمانوں کی رائے سے منتخب ہوں گے اور وہ اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے بولنے کے مجاز ہوں گے۔ان نمایندوں کی اکثریت اگر اسلامی ذہنیت رکھنے والی ہو تو وہ موجودہ دستور کی دی ہوئی گنجایشوں سے فائدہ اٹھا کر نظام حکومت کو اسلام کی راہ پر چلا سکے گی اور اس صورت میں ہر وقت یہ ممکن ہوگا کہ دستور کو بھی بدل کر پورا پورا اسلامی بنا دیا جائے۔اس نظام میں زیادہ سے زیادہ اگر کوئی قباحت ہے توصرف یہ کہ اس کے اندرغیر مسلم نمایندے بھی قانون سازی اور حکومت کی رہنمائی میں حصہ دار ہوں گے۔اس چیز کی اصلاح اس صورت میں تو کسی نہ کسی وقت ہوسکے گی جب کہ نظام حکومت کی بنیاد اسلامی رہے۔لیکن مخلوط وطنی قومیت کا نظریہ قائم ہوجانے کے بعد تو سرے سے یہ بنیاد ہی باقی نہ رہے گی۔
۳۔ تیسرا اعتراض صرف ایک واہمہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر پورے ملک میں طریق انتخاب کے مسئلے پر استصواب رائے ہو تو مخلوط انتخاب کے حق میں فیصلہ ہونے کا ایک فی صد بھی امکان نہیں ہے۔ جہاں تک مغربی پاکستان کا تعلق ہے،یہاں ہر شخص جانتا ہے کہ عوام اور خواص کی بڑی عظیم اکثریت اس طریق انتخاب کی سخت مخالف ہے، حتیٰ کہ اُن لوگوں کے خلاف یہاں شدید نفرت پائی جاتی ہے جو ا س لعنت کو پاکستان میں لانے کے موجب ہوئے ہیں۔ رہا مشرقی پاکستان، تو اپنے تجربے اور مشاہدے کی بِنا پر میں کہہ سکتا ہوں کہ وہاں مسلمانوں کی رائے کم ازکم ۹۰ فی صد جداگانہ انتخاب کے حق میںہے، اور اب تو وہاں کے عوام ہی نہیں، تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت بھی مخلوط انتخاب کی مخالف ہوچکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ خود غرض سیاسی لیڈر جو محض اپنے اقتدار کے لیے سودے بازی کرکے اس ملعون طریق انتخاب کو رائج کرنے کے ذمہ دار ہیں،ریفرنڈم کا نام سنتے ہی کانپ اٹھتے ہیں،کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔ ورنہ اگر ریفرنڈم میں ان کے جیتنے کا کچھ بھی امکان ہوتا تو وہ اس چیلنج کا سامنا کرنے سے یوں نہ گھبراتے۔
۴۔ چوتھے اعتراض کو پیش کرنے والے حضرات شاید اس غلط فہمی میں ہیں کہ یہاں غیر مسلموں کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہ تھا اور اب یہ بات ہم نے بطورِ خود تجویز کردی ہے کہ ریفرنڈم میں ان کی رائے بھی لی جائے۔حالاں کہ ملک کا دستور پہلے ہی یہ حق ان کو دے چکا ہے اور اس دستور کے تحت جو رائے شماری بھی کسی ملکی مسئلے پر ہوگی ،ان سے اس کو الگ نہ کیا جاسکے گا۔
۵۔ انتخابات عام سے پہلے جس بِنا پر ہم طریق انتخاب کے مسئلے کا فیصلہ ریفرنڈم کے ذریعے سے کرانا چاہتے ہیں،وہ یہ ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو لامحالہ ملک کے پہلے انتخابات مخلوط بنیاد ہی پر ہوں گے ،اور اس طریق انتخاب کی تبدیلی صرف انتخابات کے بعد ہی ہوسکے گی، جس کا کوئی فائدہ دوسرے انتخابات کی تبدیلی کی نوبت آنے تک مترتب نہ ہوسکے گا۔اب یہ بات ہم مشرقی پاکستان کے حلقہ ہائے انتخاب کاپورا تجزیہ کرکے ناقابل تردید اعداد وشمار سے ثابت کرچکے ہیں کہ پہلا ہی انتخاب جو مخلو ط بنیاد پر ہوگا، اس کی بدولت وہاں ایسے لوگ بڑی تعداد میں منتخب ہوکر آجائیں گے جو بنگالی قوم پرستی کے نشے میں سرشار ہیںاور آج بھی متحدہ بنگال کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ لوگ اگر وہاں طاقت پکڑ گئے تو دوسرے انتخاب کی نوبت آنے سے پہلے ہی چند سال کے اندر وہ پاکستان کی وحدت وسا لمیت پر ایک کاری ضرب لگا چکے ہوں گے۔ ا س خطرے کو جو لوگ برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں، انہیں اختیار ہے کہ ریفرنڈم کی مخالفت کرکے مخلوط بنیاد پر انتخابات عام منعقدکرانے کی راہ ہموار کرتے رہیں۔ لیکن جو لوگ اس کے خطرناک نتائج کا کوئی احساس کرتے ہیں،ان کی پوزیشن سمجھنے سے ہم بالکل قاصر ہیں۔
۶۔ چھٹا اعتراض ہمارے نزدیک دستوری پوزیشن سے سراسر ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ طریق انتخاب پر ریفرنڈم کرانے کے لیے دستور میں کسی ترمیم کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ دستور کی کوئی دفعہ اس خاص مسئلے پر یا کسی ملکی مسئلے پر بھی ریفرنڈم کرانے میں مانع نہیں ہے جسے بدلے بغیر یہ کام نہ کیا جاسکتا ہو۔ دستور نے طریق انتخاب کا فیصلہ کرنے کے لیے نیشنل اسمبلی کو صرف ایک دفعہ دونوں صوبائی اسمبلیوں سے رائے لے لینے کا پابند کیا تھا، سو یہ شرط پوری کی جاچکی ہے۔ اس پابندی کا تقاضا پورا ہوجانے کے بعد اب اسمبلی پرکوئی پابندی نہیں ہے جسے رفع کرنے کے لیے کسی دستوری ترمیم کی حاجت ہو۔ اور اس پابندی کو کسی ہیر پھیر سے بھی یہ معنی نہیں پہنائے جاسکتے کہ یہ نیشنل اسمبلی دونوں صوبائی اسمبلیوں سے رائے لینے کے علاوہ اگر کسی اور طریقے سے بھی رائے عام معلوم کرنے کی ضرورت محسوس کرے تو دستور ایسا کرنے میں مانع ہے۔اس لیے یہ اسمبلی جب چاہے ریفرنڈم کرانے کے لیے ایک مجرد اکثریت سے ایک قانون پاس کرسکتی ہے۔
۷۔ ساتویں اعتراض میں اوّل تو یہی بات غلط کہی گئی ہے کہ جمہوری ممالک میں بالعموم ریفرنڈم کا طریقہ رائج نہیں ہے۔ یہ بات صرف ان ممالک کے حق میں صحیح ہے جو برطانوی جمہوریت کے نقال یا فرانسیسی طرز جمہوریت کے مقلد ہیں۔ باقی رہے دوسرے جمہوری ممالک، تو ان میںیہ طریقہ بالعموم رائج ہے۔سوئٹزر لینڈ تو اس معاملے میں مشہور ہی ہے۔اس کے علاوہ آسٹریلیا،کینیڈا،نیوزی لینڈ اور آئرش فری اسٹیٹ کے دستوروں میں بھی اس کے متعلق واضح دفعات موجود ہیں۔آسڑیلیا میں۱۹۱۰ء سے ۱۹۲۵ء تک ۱۲ مرتبہ اور نیوزی لینڈ میں ۱۹۱۱ء سے ۱۹۲۸ء تک ۶ مرتبہ ریفرنڈم ہوچکا ہے۔ کینیڈا میں بھی کئی مرتبہ دستوری مسائل پر ریفرنڈم ہوا ہے اور لوکل گورنمنٹ کے مسائل کا فیصلہ کرنے کے لیے تو وہاں کثرت سے یہ طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یورپ میں آسٹریا،جرمنی، ایسٹونیا، لیتھوانیا، لٹیویا، اور چیکو سلوواکیہ کے جمہوری دستور ریفرنڈم کے متعلق اہم دفعات پر مشتمل ہیں۔ امریکا کی دو ریاستوں کے سوا باقی تمام ریاستوں میں دستوری مسائل پر ریفرنڈم کرانے کا طریقہ رائج ہے اور قانونی امور پر بھی ۱۴ ریاستوں میں ریفرنڈم کرایا جاسکتا ہے۔اس لیے یہ کہنا بالکل خلاف واقعہ ہے کہ جمہوری ممالک میں بالعموم پارلیمنٹ یا ایوان نمایندگان ہی کو فیصلے کے آخری اورقطعی اختیارات دے دیے گئے ہیں اور عوام کو قوانین بنانے یا بدلنے کے ہر اختیار سے محروم کرکے رکھ دیا گیا ہے۔
رہی یہ بات کہ عوام سے مسائل کا تصفیہ کرانے میں کچھ قباحتیں ہیں جن کی وجہ سے یہ طریقہ جمہوری ملکوں میں مقبول نہیں ہوا ہے، تو درحقیقت یہ بھی ایک دعویٰ ہے جو ناواقفیت کی وجہ سے کر دیا گیا ہے،ورنہ اصل معاملہ اس کے برعکس ہے۔ایوان نمایندگان کو آخری اور قطعی اختیارات دے دینے میں کچھ ایسی قباحتیں ہیں جن کاتجربہ کرنے کے بعد جمہوری ممالک میں ریفرنڈم کے طریقے کو مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔امریکا میں اس طریقے کا رواج بیسویں صدی کے آغاز سے ہوا ہے اور اس کی وجہ ایک ماہر دستوریات یہ بیا ن کرتا ہے:
’’ممالک متحدہ امریکامیں عوام کی طرف سے براہِ راست قانون سازی کا طریقہ رائج ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنی ریاستوں کے ارکان مجالس قانون ساز کی کارگزاری سے غیر مطمئن ہوگئے ہیں۔قابل اعتماد قیادت کا فقدان، مخصو ص مفادات رکھنے والوں کا ارکان مجالس سے مل مل کر ان کی رائے پر اثر انداز ہونا اور بعض بڑے بڑے سیاسی اجارہ داروں کا وقتاً فوقتاً قانون ساز مجالس پر حاوی ہوجانا،یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں دیکھ دیکھ کر انیسویں صدی کے آخری دور میں لوگ اپنے قانون سازوں سے غیر مطمئن ہوتے چلے گئے۔لوگوں نے محسوس کیا کہ اگر ہم براہِ راست کام کریں تو اس سے بدتر کارگزاری تو نہ دکھائیں گے،بلکہ شاید اس سے بہتر ہی کر دکھائیں۔اس بِنا پر انہوں نے قوانین بنانے اور مجالس قانون ساز کے بنائے ہوئے قوانین کو رد کرنے کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے،نہ اس غرض کے لیے کہ روز مرہ کے معاملات میں بالعموم وہ یہ کام کیا کریں ،بلکہ صرف اس غرض کے لیے کہ جب کسی دوسرے ذریعہ سے نتیجہ و مطلوب حاصل نہ ہو تو اس ذریعے کو استعمال کیا جائے۔‘‘(انسائیکلو پیڈیا آف سوشل سائنسز ،جلد ۸، صفحہ ا ۵)
اب ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ ہمارے ہاں اس آخری چارۂ کار کے اختیار کرنے کی ضرورت امریکا اور دنیا کے ہر دوسرے ملک سے زیادہ ہے جہاں کھلی کھلی دھاندلیوں اور جعل سازیوں اور زر پاشیوں سے کچھ لوگ زبردستی ایوان نمایندگان میں پہنچے ہوں،جہاں بڑے بڑے بااثر لوگ چور دروازوں سے پارلیمنٹ میں داخل ہوئے ہوں، جہاں سازشیں اور سودے بازیاں کرکے نہایت نازک اور اہم ملکی مسائل کے متعلق ایسے قوانین بنائے جاتے ہوں جن کا اصل مقصود بس چند لوگوں کو برسر اقتدار رکھنا ہو، اور جہاں حالت یہ ہو کہ ایک طرف سارا ملک چیخ رہا ہے اور دوسری طرف قانون سازی کے اجارہ دار اپنی من مانی کیے جارہے ہیں،ایسی جگہ تو عوام کے لیے ان بددیانت قانون سازوں کی زیادیتوں سے نجات پانے کا یہ راستہ لازماً کھلنا چاہیے، کہ جو قانون ان کی مرضی کے خلاف اور ان کے احتجاج کے علی الرغم بنایا گیا ہو، اسے وہ ریفرنڈم کے ذریعے سے بدل سکیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ جو لوگ جمہوریت پسندی کے دعوے کرتے ہیں وہ آخر کس منہ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ناجائز ہتھکنڈوں سے برسر اقتدار آنے والے لوگ چند سال کے لیے ملک میں مختار کل بنا کر رکھ دیے جائیں اور وہ اپنی اغراض کے لیے خواہ کیسے ہی ناروا قوانین بنا بیٹھیں ، عوام کے پاس ان کے فیصلے بدلوانے کا کوئی اختیار نہ ہو۔ (ترجمان القرآن۔شعبان ۳۷۷اھ، مئی ۹۵۸اء)

اسلامی ریاست اور خلافت کے متعلق چند سوالات:

سوال: یہ ایک سوال نامہ ہے جو جرمنی سے ایک طالب علم نے اسلامی ریاست اور خلافت کے بعض مسائل کی تحقیق کے لیے بھیجا ہے۔اصل سوالات انگریزی میں ہیں۔ذیل میں ہم ان کا ترجمہ دے رہے ہیں:
۱۔ کیا اسلامی ریاست کے سربراہ کے لیے صرف خلیفہ کی اصطلاح استعمال کی جاسکتی ہے؟
۲۔ کیا اموی خلفا صحیح معنوں میں خلفا کہلائے جانے کے مستحق ہیں؟
۳۔ خلفائے بنو عباس خصوصاً المامون کے متعلق آپ کی کیارائے ہے؟
۴۔ حضرت امام حسنؓ،حضرت امام حسینؓ اور ابن زبیرؓ کی سیاسی سرگرمیوں کے متعلق آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟آپ کی نظر میں ۶۸۰ء میں ملت اسلامیہ کا اصل رہنما کون تھا؟حسینؓ یا یزید؟
۵۔ کیااسلامی ریاست میں خروج ایک نیکی کا کام قرار پاسکتا ہے؟
۶۔ اگر خروج کرنے والے مساجد یا دوسرے مقدس مقامات(حرم اور کعبہ) میں پناہ گزیں ہوں تو ایسی صورت میں اسلامی ریاست کا ایسے لوگوں کے ساتھ کیا طرز عمل ہونا چاہیے؟
۷۔ وہ ایسے کون سے ٹیکس ہیں جو ایک اسلامی ریاست اپنے شہریوں سے ازروئے قرآن وسنت وصول کرنے کی مجاز ہے؟
۸۔ کیا کوئی خلیفہ ایسا کام بھی کرسکتا ہے جو سابق خلفا کے طرز عمل سے مختلف ہو؟
۹۔ حجاج بن یوسف کو بحیثیت گورنر اور منتظم آپ کیا حیثیت دیتے ہیں؟
۰ا۔ کیا اسلامی ریاست اس بات کا استحقاق رکھتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں پر ایسے ٹیکس عائد کرے جو نہ تو قرآن وسنت میں مذکور ہوں اور نہ ہی ان کی کوئی نظیر سابق خلفا کے ہاں ملتی ہو؟

جواب: آپ کے ارسال کردہ سوالات کے مفصل جوابات لکھنے کے لیے تو فرصت درکار ہے جو مجھے میسر نہیں۔البتہ مختصر جوابات حاضر ہیں:
۱۔ اسلامی ریاست کے رئیس یا صدر کے لیے ’’خلیفہ‘‘ کا لفظ کوئی لازمی اصطلاح نہیں ہے۔ امیر، امام، سلطان وغیرہ الفاظ بھی حدیث، فقہ، کلام اور اسلامی تاریخ میں کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔ مگر اصولاً جو چیز ضروری ہے وہ یہ کہ ریاست کی بنیاد نظریۂ خلافت پر قائم ہو۔ ایک صحیح اسلامی ریاست نہ تو بادشاہی یا آمریت ہوسکتی ہے اور نہ ایسی جمہوریت جو حاکمیت عوام(popular sovereignty) کے نظریے پر مبنی ہو۔اس کے برعکس صرف وہی ریاست حقیقت میں اسلامی ہوسکتی ہے جو خدا کی حاکمیت تسلیم کرے، خدا اور اس کے رسول کی شریعت کو قانون برتر اور اوّلین ماخذ قوانین مانے، اور حدود اﷲ کے اندر رہ کر کام کرنے کی پابند ہو۔اس ریاست میں اقتدار کی اصل غرض خدا کے احکام کا اجرا اور ا س کی رضا کے مطابق برائیوں کا استیصال اور بھلائیوں کا ارتقا ہے۔اس ریاست کا اقتدار،اقتدار اعلیٰ نہیں ہے بلکہ خدا کی نیابت وامانت ہے۔یہی معنی ہیں خلافت کے۔
۲۔ اموی فرما ںرائوں کی حکومت حقیقت میں خلافت نہ تھی۔اگرچہ ان کی حکومت میں قانون اسلام ہی کا تھا،لیکن دستور (constitution) کے بہت سے اسلامی اصولوں کو انہوں نے توڑ دیا تھا۔نیز ان کی حکومت اپنی روح میں اسلام کی روح سے بہت ہٹی ہوئی تھی۔ اس فرق کو ان کی حکومت کے آغاز ہی میںمحسوس کرلیا گیا تھا۔چنانچہ اس حکومت کے بانی امیر معاویہ کا اپنا قول یہ تھا کہ انا اوّل الملوک (میں سب سے پہلا بادشاہ ہوں)۔اور جس وقت امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد مقرر کیا، اس وقت حضرت ابو بکر ؓکے صاحب زادے عبدالرحمنؓ نے اٹھ کر برملا کہا کہ ’’یہ تو قیصریت ہے کہ جب قیصر مرا تو اس کا بیٹا قیصر ہوگیا۔‘‘
۳۔ اصولی حیثیت سے خلافت عباسیہ کی پوزیشن بھی وہی ہے جو خلافت بنی امیہ کی ہے۔ فرق بس اتنا تھا کہ خلفائے بنی امیہ دین کے معاملے میں بے پروا (indifferent) تھے، اور اس کے برعکس خلفائے بنی عباس نے اپنی مذہبی خلافت اور روحانی ریاست کا سکہ بٹھانے کے لیے دین کے معاملے میں ایجابی طور پر دل چسپی لی۔ لیکن ان کی یہ دل چسپی اکثر دین کے لیے مضر ہی ثابت ہوئی۔ مثلاًمامون کی دل چسپی نے جو شکل اختیار کی،وہ یہ کہ اس نے ایک فلسفیانہ مسئلے کو، جو دین کا مسئلہ نہ تھا،خواہ مخواہ دین کا ایک عقیدہ بنایا اور پھر حکومت کی طاقت سے زبردستی ا س کو تسلیم کرانے کے لیے ظلم وستم کیا۔
۴۔ جس دور کے متعلق یہ سوال کیا گیا ہے ،وہ حقیقت میں فتنے کا دور تھا۔ مسلمان اس وقت سخت انتشارِ ذہنی میں مبتلا ہوگئے تھے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس وقت عملاً مسلمانوں کا حقیقی لیڈر کون تھا۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ یزید کا سیاسی اثر جو کچھ بھی تھا،صرف اس بِنا پر تھا کہ اس کے پاس طاقت تھی اور ا س کے والد نے ایک مضبوط سلطنت قائم کرنے کے بعد اسے اپنا ولی عہد بنادیا تھا۔ یہ بات اگر نہ ہوتی اور یزید عام مسلمانوں کی صف میں شامل ہوتا، تو شاید وہ آخری شخص ہوتا جس پر لیڈر شپ کے لیے مسلمانوں کی نگاہِ انتخاب پڑ سکتی۔ اس کے برعکس حسین ابن علیؓ اس وقت امت کے نمایاں آدمی تھے اور ایک آزادانہ انتخاب میں اغلب یہ ہے کہ سب سے زیادہ ووٹ ان کے حق ہی میں پڑتے۔
۵۔ ظالم امرا کے مقابلے میں خروج ایسی صورت میں نہ صرف جائز بلکہ فرض ہوجاتا ہے جب کہ ان کو ہٹا کر ایک صالح وعادل حکومت قائم کرنے کا امکان ہو۔ اس معاملے میں امام ابوحنیفہؒ کامسلک بہت واضح ہے جسے ابو بکر جصاص نے ’’احکام القرآن‘‘ اور الموفق المکی نے ’’مناقب ابوحنیفہ‘‘ میں نقل کیاہے۔ اس کے برعکس ایک حکومت عادلہ کے خلاف خروج بہت بڑا گناہ ہے اور تمام اہل ایمان پر لازم ہے کہ ایسے خروج کو دبا دینے میں حکومت کی تائید کریں۔بین بین حالت میں، جب کہ حکومت عادل نہ ہو مگر صالح انقلاب کے بھی امکانات واضح نہ ہوں، پوزیشن مشتبہ ہے اور ائمہ وفقہا نے اس معاملے میں مختلف طرز عمل اختیار کیے ہیں۔ بعض نے صرف کلمۂ حق کہنے پر اکتفا کیا مگر خروج کو ناجائز سمجھا۔بعض نے خروج کیا اور جام شہادت نوش کرنے کو ترجیح دی۔ اور بعض نے بامید اصلاح تعاون بھی کیا۔
۶۔ حکومت عادلہ کے مقابلے میں جو لوگ خروج کریں ،وہ اگر مساجد میں پناہ لیں تو ان کا محاصرہ کیا جاسکتا ہے، اور اگر وہ وہاں سے گولا باری کریں تو جوابی گولا باری بھی کی جاسکتی ہے۔ رہا حرم میں ان کا پنا ہ لینا، تو اس صورت میں صرف محاصرہ کرکے اس حد تک تنگ کیا جاسکتا ہے کہ بالآخر باغی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوجائیں۔ حرم میں قتل وخون کرنا یا حرم پر سنگ باری یا گولا باری کرنا درست نہیں ہے۔بخلاف اس کے ایک ظالم حکومت کا وجود خود گناہ ہے اور اپنے قیام وبقا کے لیے اس کی کوشش بھی گناہ میں اضافے کے سوا کچھ نہیں۔
۷۔ قرآن وسنت نے ٹیکسوں کا کوئی نظام تجویز نہیں کیا ہے بلکہ مسلمانوں پر زکوٰۃ بطور عبادت اور غیر مسلموں پر جزیہ(بطور علامت اطاعت) لازم کرنے کے بعد یہ بات حکومت کی صواب دید پر چھوڑی ہے کہ جیسی ملک کی ضروریات ہوں،ان کے مطابق باشندوں پر ٹیکس عائد کریں۔ خراج اور محاصل درآمد وبرآمد اس کی ایک مثال ہیں جنہیں قرآن وسنت میں شرعاًمقرر نہیں کیا گیا تھا اور حکومت اسلامی نے اپنی صواب دید کے مطابق انہیں خود مقرر کیا۔اس معاملے میں اصل معیار ملک کی حقیقی ضروریات ہیں۔ اگر کوئی فرما ں روا اپنے تصرف میںلانے کے لیے ٹیکس وصول کرے تو حرام ہے۔ ملک کی حقیقی ضروریات پر صرف کرنے کے لے لوگوں کی رضا مندی سے ان پر عائد کرے تو حلال ہے۔
۸۔ جی ہاں۔صرف یہی نہیں بلکہ خود اپنے کیے ہوئے سابق فیصلوں کو بھی بدل سکتا ہے۔
۹۔ حجاج بن یوسف دنیوی سیاست کے نقطۂ نظر سے بڑا لائق اور دینی نقطۂ نظر سے سخت ظالم حاکم تھا۔
۰ا۔ جی ہاں، ان شرائط کے ساتھ جو نمبر ۷ میں بیان ہوئی ہیں۔

دور جدید کی رہنما قوت،اسلام یا عیسائیت؟

سوال: بیسیویں صدی کے اس مہذب ترقی یافتہ دورکی رہنمائی مذہبی نقطۂ نظر سے اسلام کرسکتا ہے یا عیسائیت؟ کیا انسان کو سیکولرزم یا دہریت روحانی یا مادّی ترقی کی معراج نصیب کرا سکتی ہے؟ بالخصوص کمیونزم کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے اور ختم کرنے کی صلاحیت کس میں ہے؟

جواب: یہ سوال کئی سوالات کا مجموعہ ہے۔اس لیے ایک ایک جز پر علیحدہ علیحدہ بحث ہو گی۔
الف۔ جہاں تک عیسائیت کا تعلق ہے،اس دور کی رہنمائی سے وہ پہلے ہی دست بردار ہوچکی ہے۔بلکہ درحقیقت وہ کسی دور میں بھی انسانی تہذیب وتمدن کی رہنمائی نہیں کرسکی ہے۔ عیسائیت سے مراد اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وہ تعلیمات ہیں جو اب عیسائیوں کے پاس ہیں، تو بائبل کے عہد جدید کو دیکھ کر ہر شخص معلوم کرسکتا ہے کہ وہ انسانی تہذیب وتمدن کے متعلق کیا رہنمائی اور کتنی رہنمائی کرتی ہے؟اس میں چند مجرد(abstract) اخلاقی اصولوں کے سوا سرے سے کوئی چیز موجود نہیںجس سے انسان اپنی معاشرت اور اپنی معیشت اور سیاست اور عدالت اور قانو ن کے متعلق کوئی ہدایت حاصل کرسکے۔ لیکن اگر عیسائیت سے مراد وہ نظام زندگی ہے جو عیسائی پادریوں نے بنایا تھا، تو سب کو معلوم ہے کہ یورپ میں احیائے علوم کی نئی تحریک کے رونما ہونے کے بعد وہ ناکام ہوگیا اور مغربی قوموں نے اس کے بعد جتنی کچھ بھی مادی ترقی کی، وہ عیسائیت کی رہنمائی سے آزاد ہوکر ہی کی ہے،اگرچہ اسلام کے خلاف عیسائیت کا تعصب اور عیسائیت کے ساتھ ایک جذباتی تعلق اُن میں اس کے بعد بھی موجود رہا اور اب بھی ہے۔
ب۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے ،وہ اپنے آغاز ہی سے تمدن وتہذیب کے معاملے میں نہ صرف یہ کہ رہنمائی کرتا ہے بلکہ اس نے خود اپنا ایک مستقل تمدن اور اپنی ایک خاص تہذیب بھی پیدا کی ہے۔انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے متعلق قرآن مجید نے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو ہدایت نہ دی ہو اور ان ہدایات کے مطابق عملی ادارے قائم نہ کردیے ہوں۔ یہ چیزیں جس طرح ساتویں صدی عیسوی میں قابل عمل تھیں،اسی طرح بیسویں صدی میں بھی قابل عمل ہیں اور ہزاروں برس آیندہ بھی ان شاء اﷲ قابل عمل رہیں گی۔ اس ’’ترقی یافتہ دور‘‘ میں کسی ایسی چیز کی نشان دہی نہیں کی جاسکتی جس کی وجہ سے اسلام آج نہ چل سکتا ہو یا انسان کی رہنمائی نہ کر سکتا ہو۔ جو شخص اس معاملے میں اسلام کو ناقص سمجھتاہو،اس کا کام ہے کہ کسی ایسی چیز کی نشان دہی کرے جس کے معاملے میں اسلام اس کو رہنمائی سے قاصر نظر آتا ہو۔
ج۔ سیکولرزم یا دہریت درحقیقت نہ کسی روحانی ترقی میں مدد گار ہیں اور نہ مادی ترقی میں۔معراج نصیب کرنے کا ذکر ہی کیا ہے؟میں یہ سمجھتا ہوں کہ موجودہ زمانے کے اہل مغرب نے جو ترقی مادی حیثیت سے کی ہے ،وہ سیکولرزم یا مادہ پرستی یا دہریت کے ذریعے سے نہیں کی، بلکہ اس کے باوجود کی ہے۔ مختصراً میری اس رائے کی دلیل یہ ہے کہ انسان کوئی ترقی اس کے بغیر نہیں کرسکتا کہ وہ کسی بلند مقصد کے لیے اپنی جان ومال کی،اپنے اوقات اور محنتوں کی اور اپنے ذاتی مفاد کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو۔ لیکن سیکولرزم اور دہریت ایسی کوئی بنیاد فراہم کرنے سے قاصر ہیں جس کی بِنا پر انسان یہ قربانی دینے کو تیار ہوسکے۔اسی طرح کوئی انسانی ترقی اجتماعی کوشش کے بغیر نہیں ہوسکتی، اور اجتماعی کوشش لازماً انسانوں کے درمیان ایسی رفاقت چاہتی ہے جس میں ایک دوسرے کے لیے محبت اور ایثار ہو۔ لیکن سیکولر زم اور دہریت میں محبت وایثار کے لیے کوئی بنیاد نہیں ہے۔اب یہ ساری چیزیں مغربی قوموں نے مسیحیت سے بغاوت کرنے کے باوجود ان مسیحی اخلاقیات ہی سے لی ہیں جو ان کی سوسائٹی میں روایتاً باقی رہ گئی تھیں۔ان چیزوں کو سیکولرزم یا دہریت کے حساب میں درج کرنا غلط ہے۔سیکولرزم اور دہریت نے جو کام کیا ہے،وہ یہ کہ مغربی قوموں کو خدا اور آخرت سے بے فکر کرکے خالص مادہ پرستی کا عاشق اور مادی لذائذ فوائد کا طالب بنا دیا ہے۔ مگر ان قوموں نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جن اخلاقی اوصاف سے کام لیا، وہ ان کو سیکولرزم یا دہریت سے نہیں ملے بلکہ اس مذہب ہی سے ملے جس سے وہ بغاوت پر آمادہ ہو گئے تھے۔ اس لیے یہ خیال کرنا سرے سے غلط ہے کہ سیکولرزم یا دہریت ترقی کی موجب ہیں۔وہ تو اس کے برعکس انسان کے اندر خود غرضی، ایک دوسرے کے خلاف کش مکش اور جرائم پیشگی کے اوصاف پیدا کرتی ہیں، جو انسان کی ترقی میں مددگار نہیں بلکہ مانع ہیں۔
د۔ کمیونزم کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت کسی ایسے ہی نظام زندگی میں ہوسکتی ہے جو انسانی زندگی کے عملی مسائل کو اس سے بہتر طریقے پر حل کرسکے اور اس کے ساتھ انسان کو وہ روحانی اطمینان بھی بہم پہنچا سکے جس کا کمیونزم میں فقدان ہے۔ایسا نظام اگر بن سکتا ہے تو صرف اسلام کی بنیاد پر بن سکتا ہے۔ (ترجمان القرآن، جلد ۵۷،عدد ا۔اکتوبر ا۹۶اء)

الخلافت یا الحکومت:

سوال: اگر بیسیویں صدی میں بھی اسلام قابل نفاذ ہے تو موجودہ رجحان ونظریات کی جگہ لینے میں جو مشکلات یا موانع درپیش ہوں گے ان کا بہترین حل ابن خلدون کے ہر دو نظریہ حکومت وریاست یعنی الخلافت یا الحکومت کس سے ممکن ہے؟

جواب: اس زمانے میں اسلامی نظام کو جو چیز روک رہی ہے اور جو رجحانات اور نظریات اس کے راستے میں سد راہ ہیں،ان کا اگر تجزیہ کرکے دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ انہیں مسلمان ملکوں پر مغربی قوموں کے طویل سیاسی غلبے نے پیدا کیا ہے۔مغربی قومیں جب ہمارے ملکوں پر مسلط ہوئیں تو انہوں نے ہمارے قانون کو ہٹا کر اپنا قانون ملک میں رائج کیا۔ہمارے نظامِ تعلیم کو معطل کرکے اپنا نظامِ تعلیم رائج کیا۔تمام چھوٹی بڑی ملازمتوں سے ان سب لوگوں کو برطرف کیا جو ہمارے تعلیمی نظام کی پیدا وار تھے اور ہر ملازمت ان لوگوں کے لیے مخصوص کردی جو ان کے قائم کردہ نظام تعلیم سے فارغ ہوکر نکلے تھے۔ معاشی زندگی میں بھی اپنے ادارے اور طور طریقے رائج کیے اور معیشت کا میدان بھی رفتہ رفتہ ان لوگوں کے لیے مخصو ص ہوگیا جنہوں نے مغربی تہذیب وتعلیم کو اختیار کیا تھا۔اس طریقے سے انہوں نے ہماری تہذیب اور ہمارے تمدن اور اس کے اصولوں اور نظریات سے انحراف کرنے والی ایک نسل خود ہمارے اندر پیدا کردی جو اسلام اور اس کی تاریخ،اس کی تعلیمات اور اس کی روایات، ہر چیز سے عملی طور پر بھی بے گانہ ہے اور اپنے رجحانات کے اعتبار سے بھی بے گانہ۔یہی وہ چیز ہے جو دراصل ہمارے اسلام کی طرف پلٹنے میں مانع ہے اور یہی اس غلط فہمی کا موجب بھی ہے کہ اسلام اس وقت قابل عمل نہیں ہے۔جن لوگوں کو ساری تعلیم اور تربیت غیر اسلامی طریقے پر دی گئی ہو،وہ آخر اس کے سوا اور کہہ بھی کیا سکتے ہیں کہ اسلام قابل عمل نہیں ہے، کیوں کہ نہ تو وہ اسلام کو جانتے ہیں اور نہ اس پر عمل کرنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ جس نظام زندگی کے لیے وہ تیار کیے گئے ہیں، اسی کو وہ قابل عمل تصور کرسکتے ہیں۔ اب لامحالہ ہمارے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔ یا تو ہم من حیث القوم کافر ہوجانے پر تیار ہوجائیں اور خواہ مخواہ اسلام کا نام لے کر دنیا کو دھوکا دینا چھوڑ دیں، یا پھر خلوص اور ایمان داری کے ساتھ(منافقانہ طریق سے نہیں) اپنے موجودہ نظام تعلیم کا جائزہ لیں اور اس کا پورے طریقے سے تجزیہ کرکے دیکھیں کہ اس میں کیا کیا چیزیں ہم کو اسلام سے منحرف بنانے والی ہیں اور اس میں کیا تغیرات کیے جائیں جن سے ہم ایک اسلامی نظام کو چلانے کے قابل لوگ تیار کرسکیں۔ مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے تعلیمی کمیشن نے اس مسئلے کی طرف کوئی اچٹتی ہوئی توجہ بھی نہیں کی۔ یہ مسئلہ بڑی سنجیدگی سے غور کے قابل ہے اور جب تک ہم اسے حل نہیں کرلیں گے، اس وقت تک اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ کبھی ہموار نہ کرسکیں گے۔
ابن خلدون کے کسی نظریے کی طرف رجوع کرنے سے اس مسئلے کے حل کرنے میں مدد نہیں مل سکتی،کیوں کہ اس مسئلے کی جو نوعیت اب پیدا ہوئی ہے،وہ ابن خلدون کے زمانے میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔مسئلے کی حقیقی نوعیت یہ ہے کہ مغربی استعمار رخصت ہوتے ہوئے ہمارے ملکوں میں اس نسل کو حکمران بنا کر چھوڑ گیا ہے جس کو اس نے اپنی تعلیم اور اپنی تہذیب کا دودھ پلا پلا کر اس طرح تیار کیا تھا کہ وہ جسمانی حیثیت سے تو ہماری قوم کا حصہ ہے لیکن علمی اور ذہنی اور اخلاقی اعتبار سے انگریزوں ،فرانسیسیوں یا ولندیزیوں کا پورا جانشین ہے۔اس طبقے کی حکومت جو مشکلات پیدا کرتی ہے،ان کو رفع کرنے کا معاملہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے جسے حل کرنا ابن خلدون کے نظریات کا کام نہیں ہے۔اس کے لیے بڑے سنجیدہ غور وفکر کی اور حالات کو سمجھ کر اصلاح کے لیے نئی راہیں نکالنے کی ضرورت ہے۔ (ترجمان القرآن۔جلد ۵۷، عدد ا۔اکتوبر ا۹۶اء)

اسلامی ریاست میں ذمیوں کے حقوق:

سوال: اسلامی مملکت میں اقلیتی فرقوں کو،مثلاًعیسائی، یہودی،بدھ، جین،پارسی،ہندو وغیرہ کو کیا مسلمانوں کی طرح پورے حقوق حاصل ہوں گے؟کیا ان کو اپنے مذہب کی تبلیغ کی بھی اسی طرح کرنے کی اجازت ہوگی جیسا کہ آج کل پاکستان اور دیگر ممالک میں کھلے بندوں پرچار ہوتا ہے؟ کیا اسلامی مملکت میں ایسے مذہبی یا نیم مذہبی ادارے مثلاًادارہ مکتی فوج(salvation army) کیتھڈرل، کانونٹ، سینٹ جان یا سینٹ فرانسز وغیرہ جیسے ادارے قانوناً بند کردیے جائیں گے (جیسا کہ حال میں سیلون میں ہوا یا دو ایک ممالک میں ہوچکا ہے)، یا فراخ دلی سے مسلمان بچوں کو وہاں بھی ماڈرن ایجوکیشن حاصل کرنے کی عام اجازت ہوگی؟ کیا اس صدی میں بھی ان اقلیتی فرقوں سے جزیہ وصول کرنا مناسب ہوگا(عالمی حقوق انسانی کی روشنی میں بھی) جب کہ وہ نہ صرف فوج اور سرکاری عہدوں پر فائز اور حکومت کے وفا دار ہوں؟

جواب: اسلامی مملکت میں غیر مسلم گروہوں کو تمام مدنی حقوق(civil rights) مسلمانوں کی طرح حاصل ہوں گے مگر سیاسی حقوق(political rights) مسلمانوں کے برابر نہیں ہوسکتے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں ریاست کے نظام کو چلانا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور مسلمان اس بات پر مامور ہیں کہ جہاں بھی ان کو حکومت کے اختیارات حاصل ہوں، وہاں وہ قرآن اور سنت کی تعلیمات کے مطابق حکومت کا نظام چلائیں۔ چوں کہ غیر مسلم نہ قرآن اورسنت کی تعلیمات پر یقین رکھتے ہیں اور نہ اس کی اسپرٹ کے مطابق ایمان داری سے کام چلا سکتے ہیں اس لیے وہ اس ذمہ داری میں شریک نہیں کیے جاسکتے۔البتہ نظم ونسق میں ایسے عہدے ان کو دیے جاسکتے ہیں جن کا کام پالیسی بنانا نہ ہو۔ اس معاملے میں غیر مسلم حکومتوں کا طرز عمل منافقانہ ہے اور اسلامی حکومت کا طرز عمل صاف صاف ایمان دارانہ۔ مسلمان اس بات کو صاف صاف کہتے ہیں اور اس پر عمل درآمد کرنے میں خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری ملحوظ رکھتے ہوئے غیر مسلموں کے ساتھ انتہائی شرافت اور فراخ دلی کا برتائو کرتے ہیں۔غیر مسلم بظاہر کاغذ پر قومی اقلیتوں(national minorities) کو سب قسم کے حقوق دے دیتے ہیں، مگر عملاًانسانی حقوق تک نہیں دیتے۔ اس میں اگر کسی کو شک ہو تو دیکھ لے کہ امریکا میں سیاہ فام لوگوں (negroes) کے ساتھ اور روس میں غیر کمیونسٹ باشندوں کے ساتھ، اور چین وہندوستان میںمسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک ہورہاہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ خواہ مخواہ دوسروں سے شرما کر ہم اپنے مسلک کو صاف صاف کیوں نہ بیان کریں اور اس پرصاف صاف کیوں نہ عمل کریں۔
جہاں تک غیرمسلموں کی تبلیغ کا معاملہ ہے،اس کے بارے میں یہ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ جب تک ہم بالکل خودکشی کے لیے ہی تیار نہ ہوجائیں،ہمیں یہ حماقت نہیں کرنی چاہیے کہ اپنے ملک کے اندر ایک طاقت ور اقلیت پیدا ہونے دیں، جو غیر ملکی سرمایے سے پرورش پائے اور بڑھے، اور جس کی پشت پناہی بیرونی حکومتیںکرکے ہمارے لیے وہی مشکلات پیدا کریں جو ایک مدت دراز تک ترکی کے لیے عیسائی اقلیتیں پیدا کرتی رہی ہیں۔
عیسائی مشنریوں کو یہاں مدارس اور ہسپتال جاری رکھ کر مسلمانوں کے ایمان کو خریدنے کی کوشش کرنے اور مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اپنی ملت سے بے گانہ (de-nationalise) کرنے کی کھلی اجازت دینا بھی میرے نزدیک قومی خودکشی ہے۔ہمارے حکمران اس معاملے میں انتہائی کم نظری کا ثبوت دے رہے ہیں۔ ان کو قریب کے فائدے تو نظر آتے ہیں مگر دور رس نتائج دیکھنے سے ان کی آنکھیں عاجز ہیں۔
اسلامی حکومت میں غیر مسلموں سے جزیہ لینے کا حکم اس حالت کے لیے دیا گیا ہے جب کہ وہ یا تو مفتوح ہوئے ہوں یا کسی معاہدے کی رو سے جزیہ دینے کی واضح شرائط پر اسلامی حکومت کی رعایا بنائے گئے ہوں۔پاکستان میں چوں کہ یہ دونوں صورتیں پیش نہیں آئی ہیں اس لیے یہاں غیر مسلموں پر جزیہ عائد کرنا میرے نزدیک شرعاً ضروری نہیں ہے۔
(ترجمان القرآن، جلد ۵۷، عدد ا۔اکتوبر ا۹۶اء)

اسلامی حکومت میں متعصب مستشرقین کے افکا رکی اشاعت:

سوال: کیا اسلامی ملک میں ان مغربی مستشرقین،غیر مسلم اسکالرز او رپروفیسروں کو تعلیم یا تقریر کے لیے مدعو کیا جاسکتا ہے جنہو ں نے اپنے نقطۂ نظر سے اسلام کے موضوعات پر کتابیں لکھتے ہوئے نہ صرف اسلام پر بے جا تنقیدی تبصرے کیے ہیں، بلکہ عمداً یا کم علمی وتعصب سے اسلامی تاریخ لکھنے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اہل بیت، خلفائے راشدین، صحابۂ کرامؓ وائمۂ کرام (جن پر اسلام اور مسلمانوں کو فخر ہے) کی شان میں نازیبا فقرات لکھ کر ہدف ملامت بنایا ہے۔مثلاً امریکی و برطانوی قابل ترین پروفیسروں کی نظر ثانی شدہ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں بھی دیگر اعتراضات کے علاوہ رسول مقبو ل کی ازواج مطہرات کو(concubines)(لونڈیاں) لکھا ہے۔ ان میں سے اکثر کے یہاں آکر لیکچر اور خطبات دینے اور ان کی تشہیر کرنے پر کیا اسلامی حکومت بالکل پابندی عائد نہ کردے گی؟یا ان کتابوں اور زہر آلودہ لٹریچر کی ہماری لائبریریوں میں موجودگی گوارا کی جاسکتی ہے؟حکومت ان کے جوابات وتردید شائع کرنے ،ان کی تصحیح کرانے یا ان سے رجوع کرانے کے لیے کیا اقدام کرسکتی ہے؟

جواب: یہ زمانے کے انقلابات ہیں۔ ایک وقت وہ تھا کہ یورپ کے عیسائی اندلس (spain) جا کر مسلمانوں سے انجیل کا سبق لیا کرتے تھے۔اب معاملہ الٹا ہوگیا ہے کہ مسلمان یورپ والوں سے پوچھتے ہیں کہ اسلام کیا ہے اور اسلام کی تاریخ اور اس کی تہذیب کیا ہے۔ حتیٰ کہ عربی زبان بھی مغربی مستشرقین سے سیکھی جاتی ہے۔مغربی ممالک سے استاد درآمد کرکے ان سے اسلامی تاریخ پڑھوائی جاتی ہے۔اسلام اور مسلمانوں کے متعلق جو کچھ وہ لکھتے ہیں، نہ صرف اسے پڑھا جاتا ہے بلکہ اس پر ایمان بھی لایا جاتا ہے۔حالاں کہ یہ لوگ خود اپنے مذہب اور اس کی تاریخ کے متعلق اپنے ہم مذہبوں کے سوا کسی کی رائے کو ذرّہ برابر بھی دخل دینے کی اجازت نہیں دیتے۔یہودیوں نے اپنی انسائیکلو پیڈیا(jewish encyclopaedia) شائع کی ہے اور اس میں کوئی ایک مضمون(article) بھی کسی مسلمان تو درکنا رکسی عیسائی مصنف کا بھی نہیں ہے۔ بائبل کا ترجمہ بھی یہودیوں نے اپنا کیا ہے۔ عیسائیوں کے ترجمے کو وہ ہاتھ نہیں لگاتے۔ اس کے برعکس یہودی مصنّفین اسلام کے متعلق مضامین اور کتابیں لکھتے ہیں اور مسلمان ہاتھوں ہاتھ ان کو لیتے ہیں اور ان کا یہ حق مانتے ہیں کہ ہمارے مذہب اور ہماری فقہ اور ہماری تہذیب اور ہمارے بزرگوں کی تاریخ کے متعلق محققانہ کلام فرمائیں اور ہم یہ چیزیں ان سے سیکھیں۔ یہ صورت حال کسی صحیح اسلامی حکومت میں نہیں رہ سکتی اور نہ رہنی چاہیے، اور کوئی وجہ نہیں کہ رہ سکے۔ اسلامی حکومت بھی ہو اور اسلام اور مسلمان بھی یتیم ہوں،یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہیں۔ یہ رویہ مسلمانوں کی غیر اسلامی حکومت ہی کو مبارک رہے۔
(ترجمان القرآن۔جلد ۵۷،عدد۲۔ نومبر ا۹۶اء)

نظام عدل میں تغیرات اور ان کی نوعیت:

سوال: اس برصغیر میںچوں کہ تمام قانونی ضابطہ ہائے دیوانی، فوج داری،مالیاتی اور عمل درآمد کے قوانین(procedural law) وغیرہ عرصے سے ہر عدالت میں جاری وساری ہیں،اور چوں کہ ڈیڑھ صدی سے تما م لوگ بالخصوص جج اور وکلا وغیرہ نہ صرف ان قوانین سے پوری طرح مانوس بلکہ اس کا وسیع علم رکھتے ہیں، اس لیے بھی اسلامی مملکت کے قیام سے یہاں برطانوی دور کے نظام عدل(british rule of law) کا سارا ڈھانچا بدلنا ممکن نہ ہوگا۔ تو کیا پھر بھی عدالتی ریفارم لائی جائیں گی جب کہ اسلامی قانون کسی پہلو سے جامع،مرتب یا مکمل اور مدوّن (codified) نہیں ہے؟ اسلامی عدالتی نظام میں وکلا کی حیثیت کیا ہو گی؟ کیا اسی طرح (procedural law) کے تحت انہیں مقدمہ جات لڑنے اور مقدمہ بازی (litigation) کو طول دینے کا اختیار ہو گا؟ کیا اس موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی چور کا ہاتھ کاٹنے اور زانی کو سنگ سار کی سزائیں دی جائیں گی؟ اور کیا قاضیوں کو قانون شہادت (evidence law) کی مدد کے بغیر فیصلے صادر کرنے ہوں گے؟ پھر بین الاقوامی قسم کے ادارے مثلاً اقوام متحدہ(nnited nations) کی جنرل اسمبلی، سیکورٹی کونسل،بین الاقوامی عدالت انصاف یا کمرشل ٹربیونل او ر لیبر قوانین وغیرہ کی عمل داری، دخل اندازی یا انٹرنیشنل لا پر عمل پیرا ہونے اور ان کی من وعن قبولیت کے لیے اسلامی حکومت کا کیا رویہ ہو گا؟ اگر اسی قسم کے ادارے اسلامی کنفیڈریشن یا اسلامی بلاک بنا کر عمل میں لائے جائیں تو ان کو کیا حیثیت حاصل ہوگی؟ کیا اسلامی قانون ساز اسمبلی کے پاس شدہ یا اجتہادی احکام پر اسلامی عدلیہ کو نظر ثانی(review) کرنے کا اختیار ہوگا؟اسلامی ممالک اور مسلمانوں کو ایک اسٹیج پر لانے کے لیے اختلافات کس طرح رفع کیے جاسکتے ہیں؟

جواب: اس سوال کے جواب میں یہ بات پہلے ہی سمجھ لینی چاہیے کہ جب انگریزی حکومت اس ملک میں آئی تھی تو اس وقت سارا قانونی نظام(legal system) اسلامی فقہ پر قائم تھا۔ انگریزوں نے آکر اس کو یک لخت تبدیل نہیں کیا بلکہ انگریزی حکومت میں سال ہا سال تک اسلامی نظام ہی چلتا رہا۔ انگریز اس کوبتدریج تبدیل کرتے رہے اور رفتہ رفتہ انھوں نے اپنا نظام رائج کیا۔ اب اگر ہم اسلامی نظام قانون کو ازسر نو قائم کرنا چاہیں تو یہ تبدیلی بھی یک لخت نہیں،بتدریج ہی ہوگی، اور اس کے لیے بہت حکمت کے ساتھ ایک ایک قدم اٹھانا پڑے گا۔اسلامی قوانین اگر مدوّن (codified)نہیں ہیں تو ان کے مدون(codify) کرنے میں کوئی دقت نہیں ہے۔اسی طرح اسلامی قانون کی شرحیں کثرت سے موجود ہیں۔ان کو آسانی سے اردو زبان میں منتقل کیا جاسکتا ہے اور آگے نئی شرحوں کا سلسلہ چل سکتا ہے۔
اسی موجودہ ترقی یافتہ دَور میں سعودی عرب میں زنا اور چوری کی سزائیں جاری ہیں اور تجربے نے تمام دنیا کے سامنے یہ ثابت کردیا ہے کہ انہی سزائوں کی وجہ سے سعودی عرب میں جرائم کی اتنی کمی ہو گئی ہے جتنی دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہے۔ اب اگر اس دور کے ترقی یافتہ ہونے کے معنی یہی ہیں کہ جرائم میں ترقی ہو تو مغربی قانونی سسٹم پر شوق سے عمل کرتے رہیے۔ لیکن جرائم کا انسداد بھی اگر ترقی کے لیے ضروری ہے تو پھر یہ تجربے نے ثابت کردیا ہے کہ اسلامی قانون سے زیادہ کارگر کوئی قانون نہیں ہے۔ دراصل اس زمانے کی لادینی تہذیب کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی ساری ہم دردیاں مجرموں کے ساتھ ہیں۔اسی لیے یہ نقطۂ نظر پیش کیا جاتا ہے کہ یہ سزائیں وحشیانہ ہیں۔اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ چوری کرنا کوئی وحشیانہ کام نہیں ہے البتہ اس پر ہاتھ کاٹنا وحشیانہ کام ہے، اور زنا کا ارتکاب تو مغربی تہذیب میں ایک تفریح ہے ہی۔
مجھے نہیں معلوم کہ اس خیال کا ماخذ کیا ہے کہ اسلامی قانون میں قاضیوں کو قانون شہادت (evidence law)کی مدد کے بغیر فیصلہ کرنے کا اختیارحاصل ہے یا کوئی ایسا دستور العمل رہا ہے۔ حالاں کہ خود قرآن نے قانون شہادت کے بہت سے اصول بیان کیے ہیں اور اس کی بیش تر تشریحات حدیث اور خلفائے راشدین کے فیصلوں سے ملتی ہیں۔ بالخصوص فقہا نے ان اصولوں کو نہایت محنت سے ترتیب دیا ہے اور اسلامی دور میں کوئی ایسا قاضی نہیں گزرا جس نے ثبوت کے بغیر فیصلے صادر کیے ہوں۔
وکالت کے بارے میں میرے نزدیک صرف اتنی اصلاح درکار ہے کہ قانون کی پریکٹس بند کردی جائے اور وکلا کو اسٹیٹ معاوضہ دے۔اب بھی قانون کا نظریہ یہ ہے کہ وکیل کا اصل کام اپنے موکل کی حمایت کرنا نہیں ہے بلکہ عدالت کو قانون سمجھنے اور منطبق(apply) کرنے میں مدد دینا ہے۔ وکالت کے پیشہ بن جانے کی وجہ سے یہ خرا بی پیدا ہوئی ہے کہ وکیل عدالت کو گمراہ (mislead) کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔مقدمات کو طول بھی دیتے ہیں اور مقدمہ بازی کو بڑھاتے بھی ہیں۔
بین الاقوامی قسم کے تمام اداروں میں ہم شریک ہو سکتے ہیں۔ ان کے اندر اگر کوئی چیز بھی ہمارے اصول کے مطابق نہ ہوگی تو ہم اس کی حد تک اپنی الگ پالیسی بنائیں گے اور اسی حد تک ہماری شرکت میں استثنا ہو گا۔ مسلمان ممالک خود اپنی دولت متحدہ (common wealth) یا تحالف (confederation) بناسکتے ہیں اور اسلامی اصول کے مطابق باہمی تعلقات کے طریقے مقرر کرسکتے ہیں۔
اسلامی قانون ساز اسمبلی کے طے کیے ہوئے اجتہادی احکام پر اسلامی عدلیہ نظر ثانی (review) نہیں کرسکتی۔ البتہ اگر وہ احکام قانون ساز اسمبلی کے اختیار سے متجاوز ہوں تو ان کو حدود اختیار سے متجاوز قرار دے سکتی ہے۔
اسلامی ممالک اور مسلمانو ں کو ایک اسٹیج پر لانے کے لیے اختلافات رفع کرنے کی صورت ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ مسلمان ایمان داری کے ساتھ قرآن اور سنت کی ہدایات پر چلنے کے لیے تیار ہوں۔قرآن کی تاویل اور سنت کی تحقیق میں اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن وہ مل کر کام کرنے میں مانع نہیں ہوسکتے۔اگر ہم اس اصول کو مان لیں کہ جو شخص بھی قرآن اور سنت کو سند وحجت مان لے اور حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی دوسری نبوت کا قائل نہ ہو ،وہ ہماری برادری کا آدمی ہے، تو یہ چیز کسی آدمی کو ہماری برادری سے خارج نہیں کرسکتی کہ وہ قرآن کے معنی ہم سے مختلف سمجھ رہا ہے اور اس کے نزدیک کسی معاملے میں سنت سے کوئی اور بات ثابت ہوتی ہے۔اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ جتنی عدالتیں بھی پاکستان کے دستور اور قانون کو واجب الاطاعت قانون مان کر کام کرتی ہیں،وہ سب ا س ملک کی جائز عدالتیں ہیں۔اس کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام عدالتوں کے فیصلے بھی یکساں ہوں۔ (ترجمان القرآن۔جلد ۵۷،عدد ۲،نومبر ا۹۶اء)

سائنسی دور میں اسلامی جہاد کی کیفیت:

سوال: مسلمانوں کے جذبۂ ’’جہاد‘‘ کو زندہ رکھنے کے لیے آج بیسیویں صدی میں کیا طریق کار اختیار کیا جائے گا، جب کہ آج کی جنگ شمشیر وسناں سے یا میدان جنگ میں صف آرا ہو کر دست بدست نبرد آزمائی سے نہیں ہوتی، بلکہ سائنسی ہتھیاروں، جنگی چالوں(strategy) اور جاسوسی (secret service) سے لڑی جاتی ہے؟آپ ایٹم بم، راکٹ،میزائل اور مشینی ایجادات وغیرہ کا سہارا لے کر اس سائنسی وایٹمی دَور میں ’’جہاد‘‘ کی تشریح کس طرح کریں گے؟ کیا چاند، مریخ و مشتری پر اترنے اور سیٹلائٹ چھوڑنے یافضا میں راکٹ سے پرواز کرنے اور نت نئی ایجادات کرنے والے مجاہدین کے زمرے میں آ سکتے ہیں؟ انتظامی امور اور مملکتی نظام (civil aministration) میں فوج کو کیا مقام دیا جاسکتا ہے؟موجودہ دور کے فوجی انقلابات سے ملکی نظام میں فوج کی شمولیت اور افادیت بہت حد تک ثابت ہوچکی ہے۔کیوں نہ فوج کو دور امن میں بٹھا کر کھلانے کے بجائے ہر میدان میں قوم کی خدمت سپرد ہو؟

جواب: جہاد کے متعلق اوّلین بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ جہاد اور لڑاکا پن میں بہت فرق ہے۔ اسی طرح قومی اغراض کے لیے جہاد اور چیز ہے اور جہاد فی سبیل اﷲ اور چیز۔ مسلمانوں میں جس جذبۂ جہاد کے پید اکرنے کی ضرورت ہے،وہ اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتا جب تک ان کے اندر ایمان ترقی کرتے کرتے اس حد تک نہ پہنچ جائے کہ وہ خداکی زمین سے برائیوں کو مٹانے اور اس زمین میں خدا کا حکم بلند کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوجائیں۔ سردست تو ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ سب کچھ ا س جذبے کی جڑ کاٹ دینے کے لیے کیا جارہا ہے۔ تعلیم وہ دی جارہی ہے جو ایمان کے بجائے شک اور انکار پیدا کرے۔تربیت وہ دی جارہی ہے جس سے افراد میں اور سوسائٹی میں وہ برائیاں پھیلیں جنہیں ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام کے نزدیک وہ برائیاں ہیں۔اس کے بعد یہ سوال لاحاصل ہے کہ مسلمانوں میں جذبۂ جہاد کیسے پیدا ہوگا۔ موجودہ حالت میں یا تو مسلمان کرائے کا سپاہی(mercenary) بنے گا یا حد سے حد قومی اغراض کے لیے لڑے گا۔ رہے سائنسی ہتھیار اور جنگی چالیں (strategy)، تو یہ وہ اسباب ہیںجو جائز اغراض اور ناجائز اغراض سب کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔اگر مسلمان میں سچا ایمان موجود ہو اور اسلام کا نصب العین اس کا اپنا نصب العین بن جائے تو وہ پورے جذبے کے ساتھ تمام وہ قابلیتیں اپنے اندر پیدا کرے گا جو اس زمانے میں لڑنے کے لیے درکار ہیں، اور تمام وہ ذرائع اور وسائل فراہم کرے گا جو آج یا آیندہ جنگ کے لیے درکار ہوں۔
چاند اور مریخ اور مشتری پر اترنا اپنی نوعیت کے لحاظ سے کولمبس کے امریکا پر اترنے اور واسکوڈی گاما کے جزائر شرق الہند پر اترنے سے زیادہ مختلف نہیں۔ اگر یہ لوگ مجاہد فی سبیل اﷲ مانے جاسکتے ہیں تو چاند اور مریخ پر اترنے والے بھی مجاہدین بن جائیں گے۔
انتظامی امور اور مملکتی نظام(civil administration)میںفوج کا داخل ہونا فوج کے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی سخت تباہ کن ہے۔فوج بیرونی دشمنوں سے ملک کی حفاظت کرنے کے لیے منظم کی جاتی ہے،ملک پر حکومت کرنے کے لیے منظم نہیں کی جاتی۔اس کو تربیت دشمنوں سے لڑنے کی دی جاتی ہے۔اس تربیت سے پیدا ہونے والے اوصاف خود اپنے ملک کے باشندوںسے معاملہ کرنے کے لیے موزوں نہیں ہوتے۔ علاوہ بریں ملکی معاملات کو جو لوگ بھی چلائیں، خواہ وہ سیاست کار(politician) ہوں یا ملکی نظم ونسق کے منتظم(civil administration) ان کے کام کی نوعیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ ملک میں بہت سے لوگ اس سے خوش بھی ہوتے ہیں اور ناراض بھی۔ فوج کا اس میدان میں اترنا لامحالہ فوج کو غیر ہر دل عزیز (unpopular) بنانے کا موجب ہوتا ہے۔ حالاں کہ فوج کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ سارے ملک کے باشندے اس کی پشت پر ہوں اور جنگ کے موقع پر ملک کا ہر فرد اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہو۔ دنیا میں زمانۂ حال کے فوجی انقلابات نے ملکی نظام میں فوج کی شمولیت کو مفید ثابت نہیں کیا ہے،بلکہ درحقیقت تجربے نے اس کے برے نتا ئج ظاہر کردیے ہیں۔
(ترجمان القرآن۔جنوری ۹۶۲اء)

اسلامی حکومت میں خواتین کا دائرۂ عمل:

سوال: کیا اس دور میں اسلامی حکومت خواتین کو مردوں کے برابر ،سیاسی ،معاشی ومعاشرتی حقوق ادا نہ کرے گی جب کہ اسلام کا دعویٰ ہے کہ اس نے تاریک ترین دور میں بھی عورت کو ایک مقام(status) عطا کیا؟ کیا آج خواتین کو مردوں کے برابر اپنے ورثے کا حصہ لینے کا حق دیا جاسکتا ہے؟ کیا ان کو اسکولوں ،کالجوں اور یونی ورسٹی میں مخلوط تعلیم یا مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرکے ملک وقوم کی اقتصادی حالت بہتر بنانے کی اجازت نہ ہوگی؟فرض کیجیے اگر اسلامی حکومت خواتین کو برابر کا حق رائے دہندگی دے اور وہ کثرت آرا سے وزارت و صدارت کے عہدوں کے لیے الیکشن لڑکر کام یاب ہوجائیں تو موجودہ بیسویں صدی میں بھی کیا ان کو منصب اعلیٰ کا حق اسلامی احکام کی رو سے نہیں مل سکتا جب کہ بہت سی مثالیں ایسی آج موجود ہیں۔ مثلاً سیلون میں وزارت عظمیٰ ایک عورت کے پاس ہے،یا نیدر لینڈ میں ایک خاتون ہی حکمران اعلیٰ ہے، برطانیہ پر ملکہ کی شہنشاہیت ہے، سفارتی حد تک جیسے عابدہ سلطانہ دختر نواب آف بھوپال رہ چکی ہیں اور اب بیگم رعنا لیاقت علی خان نیدرلینڈ میں سفیر ہیں، یا دیگر جس طرح مسز وجے لکشمی پنڈت برطانیہ میں ہائی کمشنر ہیں اور اقوام متحدہ کی صدر رہ چکی ہیں۔ اور بھی مثالیں جیسے نور جہاں، جھانسی کی رانی، رضیہ سلطانہ، حضرت محل زوجہ واجد علی شاہ جو کہ(pride of women) کہلاتی ہیں، جنہوں نے انگریزوں کے خلاف لکھنو میں جنگ کی کمانڈ کی۔ اس طرح خواتین نے خود کو پورا اہل ثابت کردیا ہے۔ تو کیا اگر آج محترمہ فاطمہ جناح صدارت کا عہدہ سنبھال لیں تو اسلامی اصول پاکستان کے اسلامی نظام میں اس کی اجازت نہ دیں گے؟ کیا آج بھی خواتین کو ڈاکٹر، وکلا، مجسٹریٹ، جج، فوجی افسر یاپائلٹ وغیرہ بننے کی مطلق اجازت نہ ہو گی؟ خواتین کا یہ بھی کارنامہ کہ وہ نرسوںکی حیثیت سے کس طرح مریضوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں،قابل ذکر ہے۔خود اسلام کی پہلی جنگ میں خواتین نے مرہم پٹی کی، پانی پلایا اور حوصلے بلند کیے۔ تو کیا آج بھی اسلامی حکومت میں آدھی قوم کو مکانات کی چار دیواری میں مقید رکھا جائے گا؟

جواب: اسلامی حکومت دنیا کے کسی معاملے میں بھی اسلامی اصولوں سے ہٹ کر کوئی کام کرنے کی نہ تو مجاز ہے اور نہ وہ اس کا ارادہ ہی کرسکتی ہے، اگر فی الواقع اس کو چلانے والے ایسے لوگ ہوں جو اسلام کے اصولوں کو سچے دل سے مانتے ہوں اور اس پر عمل کرتے ہوں۔ عورتوں کے معاملے میں اسلام کا اصول یہ ہے کہ عورت اور مرد عزت واحترام کے لحاظ سے برابر ہیں۔ اخلاقی معیار کے لحاظ سے بھی برابر ہیں۔ آخرت میں اپنے اجر کے لحاظ سے بھی برابر ہیں۔ لیکن دونوں کا دائرۂ عمل ایک نہیں ہے۔سیاست او رملکی انتظام اور فوجی خدمات اور اسی طرح کے دوسرے کام مرد کے دائرۂ عمل سے تعلق رکھتے ہیں۔اس دائرے میں عورت کو گھسیٹ لانے کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ یا تو ہماری خانگی زندگی بالکل تباہ ہوجائے گی، جس کی بیش تر ذمہ داریاں عورتوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ یا پھر عورتوں پر دہرا بار ڈالا جائے گا کہ وہ اپنے فطری فرائض بھی انجام دیں جن میں مرد قطعاً شریک نہیں ہوسکتا، اور پھر مرد کے فرائض کا بھی نصف حصہ اپنے اوپر اٹھائیں۔ عملاً یہ دوسری صورت ممکن نہیں ہے، لازماً پہلی صورت ہی رونما ہو گی، اور مغربی ممالک کا تجربہ بتاتا ہے کہ وہ رونما ہوچکی ہے۔ آنکھیں بند کرکے دوسروں کی حماقتوں کی نقل اتارنا عقل مندی نہیں ہے۔
اسلام میں اس کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے کہ وراثت میں عورت کا حصہ مرد کے برابر ہو۔ اس باب میں قرآن کا صریح حکم مانع ہے۔ نیز یہ انصاف کے بھی خلاف ہے کہ عورت کا حصہ مرد کے برابر ہو۔ کیوں کہ اسلامی احکام کی رو سے خاندان کی پرورش کا سارا مالی بار مرد پر ڈالا گیا ہے۔ بیوی کا مہر اور نفقہ بھی اس پر واجب ہے۔ اس کے مقابلے میں عورت پر کوئی مالی بار نہیں ڈالا گیا ہے۔ اس صورت میں آخر عورت کو مرد کے برابر حصہ کیسے دلایا جاسکتا ہے۔
اسلام اصولاً مخلو ط سوسائٹی کا مخالف ہے اور کوئی ایسا نظام جو خاندان کے استحکام کو اہمیت دیتا ہو، اس کو پسند نہیں کرتا کہ عورتوں اور مردوں کی مخلوط سوسائٹی ہو۔ مغربی ممالک میں اس کے بدترین نتائج ظاہر ہوچکے ہیں۔ اگر ہمارے ملک کے لوگ ان نتائج کو بھگتنے کے لیے تیار ہوں تو شوق سے بھگتتے رہیں۔ لیکن آخر یہ کیا ضروری ہے کہ اسلام میں ان افعال کی گنجایش زبردستی نکالی جائے جن سے وہ شدت کے ساتھ روکتا ہے۔
اسلام میں اگر جنگ کے موقع پر عورتوں سے مرہم پٹی کا کام لیا گیا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ امن کی حالت میں عورتوں کو دفتروں اور کارخانوں اور کلبوں اور پارلی منٹوں میں لاکھڑا کیا جائے۔ مرد کے دائرۂ عمل میں آکر عورتیں کبھی مردوں کے مقابلے میں کام یاب نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے کہ وہ ان کاموں کے لیے بنائی ہی نہیںگئی ہیں۔ ان کاموں کے لیے جن اخلاقی اور ذہنی اوصاف کی ضرورت ہے، وہ دراصل مرد میں پیدا کیے گئے ہیں۔ عورت مصنوعی طور پر مرد بن کر کچھ تھوڑا بہت ان اوصاف کو اپنے اندر ابھارنے کی کوشش کرے بھی تو ان کا دہرا نقصان خود اس کو بھی ہوتا ہے اور معاشرے کو بھی۔ اس کا اپنا نقصان یہ ہے کہ وہ نہ پوری عورت رہتی ہے ،نہ پوری مرد بن سکتی ہے اور اپنے اصل دائرۂ عمل میں، جس کے لیے وہ فطرتاً پیدا کی گئی ہے ناکام رہ جاتی ہے۔ معاشرہ اور ریاست کا نقصان یہ ہے کہ وہ اہل کارکنوں کے بجائے نااہل کارکنوں سے کام لیتا ہے اور عورت کی آدھی زنانہ اور آدھی مردانہ خصوصیات سیاست او رمعیشت کو خراب کرکے رکھ دیتی ہیں۔ اس سلسلے میں گنتی کی چند سابقہ معروف خواتین کے نام گنانے سے کیا فائدہ۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ جہاں لاکھوں کارکنوں کی ضرورت ہو، کیا وہاں تمام خواتین موزوں ہوسکیں گی؟ ابھی حال ہی میں مصر کے سرکاری محکموں او رتجارتی اداروں نے یہ شکایت کی ہے کہ وہاں بحیثیت مجموعی ایک لاکھ دس ہزار خواتین جو مختلف مناصب پر کام کررہی ہیں، بالعموم ناموزوں ثابت ہورہی ہیں اور ان کی کارکردگی مردوں کی بہ نسبت ۵۵ فی صد سے زیادہ نہیں۔ پھر مصر کے تجارتی اداروں نے یہ عام شکایت کی ہے کہ عورتوں کے پاس پہنچ کر کوئی راز، راز نہیں رہتا۔ مغربی ممالک میں جاسوسی کے جتنے واقعات پیش آتے ہیں، ان میں بھی عموماً کسی نہ کسی طرح عورتوں کا دخل ہوتا ہے۔
عورتوں کی تعلیم سے اسلام ہرگز نہیں روکتا۔ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم ان کو دلوائی جانی چاہیے، لیکن چند شرطوں کے ساتھ۔ اوّل یہ کہ ان کو وہ تعلیم خا ص طور پر دی جائے جس سے و ہ اپنے دائرۂ عمل میں کام کرنے کے لیے ٹھیک ٹھیک تیار ہوسکیں، اور ان کی تعلیم بعینہٖ وہ نہ ہو جو مردوں کی ہو۔ دوسرے یہ کہ تعلیم مخلوط نہ ہو اور عورتوں کو زنانہ تعلیم گاہوں میں عورتوں ہی سے تعلیم دلوائی جائے۔ مخلوط تعلیم کے مہلک نتائج مغربی ترقی یافتہ ممالک میں اس حد تک سامنے آچکے ہیں کہ اب صرف عقل کے اندھے ہی ان کا انکار کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیے، امریکا میں ۱۷ سال تک کی عمر کی لڑکیاں جو ہائی اسکولوں میں پڑھتی ہیں، مخلوط تعلیم کی وجہ سے ہر سال ان میں سے اوسطاً ایک ہزار حاملہ نکلتی ہیں۔ گو ابھی یہ شکل ہمارے ہاں رونما نہیں ہوئی ہے، لیکن اس مخلوط تعلیم کے نتائج کچھ ہمارے سامنے بھی آنے شروع ہوگئے ہیں۔تیسرے یہ کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین سے ایسے اداروں میں کام لیا جائے جوصرف عورتوں کے لیے ہی مخصوص ہوں۔مثلاً زنانہ تعلیم گاہیں اور زنانہ ہسپتال وغیرہ۔ (ترجمان القرآن۔ جنوری ۹۶۲اء)

اسلامی حکومت میں معاشرے کی اصلاح وتربیت:

سوال: کیا اسلامی حکومت خواتین کی بڑھتی ہوئی آزادی کو سختی سے روکے گی؟جیسے ان کی زیبایش اور نیم عریاں لباس زیب تن کرنے اور فیشن کا رجحان، اور جیسے آج کل نوجوان لڑکیاں نہایت تنگ ودل فریب سینٹ سے معطر لباس اور غازہ وسرخی سے مزین اپنے ہر خدوخال اور نشیب و فراز کی نمایش برسر عام کرتی ہیں اور آج کل نوجوان لڑکے بھی ہالی وڈ کی فلموں سے متاثر ہوکر ٹیڈی بوائز بن رہے ہیں۔تو کیا حکومت قانون(legislation) کے ذریعے سے ہر مسلم وغیر مسلم لڑکے اور لڑکی کے آزادانہ رجحان کو روکے گی؟خلاف ورزی پر سزا دے گی؟والدین وسرپرستوں کو جرمانہ کیا جاسکے گا؟ تو اس طرح کیا ان کی شہری آزادی پر ضرب نہ لگے گی؟ کیا گرلز گائیڈ، اپوا (APWA)، یا دیگر وائی ،ایم ،سی ،اے (YMCA) اور وائی، ڈبلیو، سی، اے (YWCA) جیسے ادارے اسلامی نظام میں گوارا کیے جاسکتے ہیں؟کیا خواتین اسلامی عدلیہ سے خود طلاق لینے کی مجاز ہوسکیں گی؟ اور مردوں پر ایک سے زیادہ شادی کی پابندی آج جائز ہوگی؟یا خواہ اسلامی عدالت کے روبر وہی سہی،ان کو اپنی پسند سے(civil marriage) کرنے کا حق حاصل ہو سکتا ہے؟ کیا خواتین کو یوتھ فیسٹیول، کھیلوں، نمایش، ڈراموں، ناچ، فلموں یا مقابلہ حسن میں شرکت یا (air hostess) وغیرہ بننے کی آج بھی اسلامی حکومت مخالفت کرے گی۔ ساتھ ہی قومی کردار تباہ کرنے والے ادارے مثلاً سینما، فلمیں، ٹیلی ویژن، ریڈیو پر فحش گانے، یا عریاں رسائل ولٹریچر، موسیقی، ناچ ورنگ کی ثقافتی محفلوں وغیرہ کو بند کردیا جائے گا یا فائدہ اٹھانا ممکن ہوگا؟

جواب: اسلام معاشرے کی اصلاح وتربیت کا سارا کا م محض ڈنڈے سے نہیں لیتا، تعلیم، نشرواشاعت او ررائے عام کا دبائو اس کے ذرائع اصلاح میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان تمام ذرائع کے استعمال کے بعد اگر کوئی خرابی باقی رہ جائے تو اسلام قانونی وسائل اور انتظامی تدابیر استعما ل کرنے میں بھی تامل نہیں کرتا۔عورتوں کی عریانی اور بے حیائی فی الواقع ایک بہت بڑی بیماری ہے جسے کوئی سچی اسلامی حکومت برداشت نہیں کرسکتی۔یہ بیماری اگر دوسری تدابیر اصلاح سے درست نہ ہو یا اس کا وجود باقی رہ جائے تو یقینا اس کو ازروئے قانون روکنا پڑے گا۔ اس کا نام اگر شہری آزادی پر ضرب لگانا ہے تو جواریوں کو پکڑنا اور جیب کتروں کو سزائیں دینا بھی شہری آزادی پر ضرب لگانے کے مترادف ہے۔ اجتماعی زندگی لازماً افراد پر کچھ پابندیاں عائد کرتی ہے۔افراد کو اس کے لیے آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا کہ وہ اپنے ذاتی رجحانات اور دوسروں سے سیکھی ہوئی برائیوں سے اپنے معاشرے کو خراب کریں۔
گرل گائیڈز (girl guides) کے لیے اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔ اپوا(APWA) قائم رہ سکتی ہے بشرطیکہ وہ اپنے دائرہ عمل میں رہ کر کام کرے اور قرآن کا نام لے کر قرآن کے خلاف طریقے استعمال کرنا چھوڑ دے۔ (YMCA) عیسائی عورتوں کے لیے رہ سکتا ہے مگر کسی مسلمان عورت کو اس میں گھسنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ مسلمان عورتیں چاہیں تو (YWMA) بنا سکتی ہیں، بشرطیکہ وہ اسلامی حدود میں رہیں۔
مسلمان عورت اسلامی عدلیہ کے ذریعے سے خلع حاصل کر سکتی ہے۔ فسخ نکاح (nullification) اور تفریق(judicial separation) کی ڈگری بھی عدالت سے حاصل کرسکتی ہے، بشرطیکہ وہ شریعت کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق ان میں سے کوئی ڈگری عدالت سے حاصل کرنے کی مجاز ہو۔ لیکن طلاق(divorce) کے اختیارات قرآن نے صریح الفاظ میں صرف مرد کو دیے ہیں او رکوئی قانون مردوں کے اس اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ یہ اور بات ہے کہ قرآن کا نام لے کر قرآن مجید کے خلاف قوانین بنائے جانے لگیں۔ پوری اسلامی تاریخ عہد رسالت ؐ سے لے کر اس صدی تک اس تصور سے نا آشنا ہے کہ طلاق دینے کا اختیار مرد سے سلب کرلیا جائے اور کوئی عدالت یاپنچایت اس میں دخل دے۔ یہ تخیل سیدھا یورپ سے چل کر ہمارے ہاں درآمد ہوا ہے اور اس کے درآمدکرنے والوں نے کبھی آنکھیں کھول کر یہ نہیں دیکھا ہے کہ یورپ میں قانون طلاق کا پس منظر (background) کیا ہے اور وہاں اس کے کتنے برے نتائج رونما ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں جب گھروں کے سکینڈل نکل کر بازاروں میں پہنچیں گے تو لوگوں کو پتا چلے گا کہ خدا کے قوانین میں ترمیم کے کیا نتائج ہوتے ہیں۔
مردوں پر ایک سے زیادہ شادی کے معاملے میںازروئے قانون پابندی عائد کرنے کا یا اس میںرکا وٹ ڈالنے کا تخیل بھی ایک بیرونی مال ہے جسے قرآن کے جعلی پرمٹ پر درآمد کیا گیا ہے۔ یہ اس سوسائٹی میں سے آیاہے جس میں ایک ہی عورت اگر منکوحہ بیوی کی موجودگی میںداشتہ کے طور پر رکھی جائے تو نہ صرف یہ کہ وہ قابل برداشت ہے بلکہ اس کے حرامی بچوں کے حقوق محفوظ کرنے کی بھی فکر کی جاتی ہے (فرانس کی مثال ہمارے سامنے ہے) لیکن اگر اسی عورت سے نکاح کرلیا جائے تو یہ جرم ہے۔ گویا ساری پابندیاں حلال کے لیے ہیں،حرام کے لیے نہیںہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن مجید کی ابجد سے بھی واقف ہو تو کیا وہ یہ اقدار(values) اختیار کرسکتا ہے؟ کیا اس کے نزدیک زنا قانوناً جائز اور نکاح قانوناً حرام ہونے کا عجیب وغریب فلسفہ برحق ہوسکتا ہے؟ اس طرح کے قوانین بنانے کا حاصل اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ مسلمانوں میں زنا کا رواج بڑھے گا۔ گرل فرینڈز اور داشتائیں(mistresses) فروغ پائیں گی او ردوسری بیو ی ناپید ہوجائے گی۔ یہ ایک ایسی سوسائٹی ہوگی جو اپنے خدوخال میں اسلام کی اصل سوسائٹی سے بہت دُور اور مغربی سوسائٹی سے بہت قریب ہو گی۔ اس صورت حال کے تصور سے جس کا جی چاہے، مطمئن ہو۔ مسلمان کبھی مطمئن نہیں ہو سکتا۔
سول میرج کا سوال ظاہر ہے کہ مسلمان عورت کے ساتھ تو پیدا نہیں ہوتا۔ یہ سوال اگر پیدا ہوتا ہے تو کسی مشرک عورت سے شادی کرنے کے معاملے میں یا کسی ایسی عیسائی یا یہودی عورت سے شادی کے معاملے میں جو اسلامی قانون کے تحت کسی مسلمان سے نکاح کرنے کے لیے تیار نہ ہو اور مسلمان مرد اس کے عشق میں مبتلا ہوکر اس اقرارکے ساتھ شادی کرے کہ وہ کسی مذہب کا پابند نہ ہوگا۔یہ کام اگر کسی کو کرنا ہی ہو تو اسے اسلام سے فتویٰ لینے کی کیا ضرورت ہے؟اور اسلام کیوں اپنے ایک پیرو کو اس کی اجازت دے ؟اور ایک اسلامی عدالت کا یہ کام کب ہے کہ مسلمانوں کی اس طریقے پر شادیاں کروائے۔
اگر ایک اسلامی حکومت بھی یوتھ فیسٹیول(youth festival) اور کھیلوں کی نمائشوں اور ڈراموں اور رقص وسرود اور مقابلۂ حسن میں مسلمان عورتوں کو لائے یا ایئر ہوسٹس (air hostess)بنا کر مسافروں کے دل موہنے کی خدمت ان سے لے، تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلامی حکومت کی آخر ضرورت کیا ہے۔ یہ سارے کام تو کفر اور کفار کی حکومت میں بآسانی ہوسکتے ہیں بلکہ زیادہ آزادی کے ساتھ ہوسکتے ہیں۔
سینما، فلم، ٹیلی ویژن اور ریڈیو وغیرہ تو خدا کی پیدا کردہ طاقتیں ہیں، جن میں بجائے خود کوئی خرابی نہیں۔ خرابی ان کے اس استعمال میں ہے جو انسانی اخلاق کو تباہ کرنے والا ہے۔ اسلامی حکومت کا کام ہی یہ ہے کہ وہ ان ذرائع کو انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال کرے اور اخلاقی فساد کے لیے استعمال ہونے کا دروازہ بند کر دے۔ (ترجمان القرآن۔ جلد ۵۷، عدد۴، جنوری ۹۶۲اء)

پاکستان میں شرعی سزائوں کے نفاذ کا مسئلہ:

سوال: پاکستان میں جماعت اسلامی کے مخالف حضرات پھر اس مہم کو چلانے کی تیاریاں کررہے ہیں جو مارشل لا سے قبل اس کے چلانے میں سرگرمی دکھا رہے تھے۔ یعنی یہ کہ آپ اور جماعت اسلامی کو بدنام کیا جائے۔چنانچہ بعض خاص جرائد کے دیکھنے سے بخوبی واضح ہے۔ ان حضرات کی تقریروں میں بھی اس قسم کی باتیں عام اجتماعات اور اجلاسوں میں سنی جاتی ہیں اور منظر عام پر یہ باتیں آگئی ہیں۔
اس سلسلے میں وہ سب سے زیادہ زور اس مسئلے پر دیتے ہیں کہ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی پاکستان میں حدود و قصاص اور شرعی سزائوں کو ’’ظلم‘‘ کہتے ہیں، حالاں کہ یہ قرآن کی تجویز کردہ سزائیں ہیں۔ حال ہی میں ایک ممتاز عالم نے قومی اسمبلی میں آپ کے متعلق اس قسم کا بیان دیا ہے جو بعض جرائد میں شائع ہوچکا ہے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جب ہم جرائم کے انسداد کی غرض سے شرعی سزائوں کے نفاذ کے لیے کوئی بل پیش کرتے ہیں تو الحاد پرست ممبروں کی طرف سے ہماری مخالفت اس بنیاد پر کی جاتی ہے کہ مولانا مودودی نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ پاکستان کی مخلوط سوسائٹی میں حدود اور شرعی سزائوں کا نفاذ ظلم ہے۔ اور مولانا کی تحریریں پڑھ کر ہمیں سنائی جاتی ہیں۔ یہ حضرات اسمبلیوں سے باہر آکر لوگوں سے کہا کرتے ہیں کہ پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام اور حدودو قصاص اور شرعی سزائوں کے نفاذ کی راہ میں سب سے زیادہ رکاوٹ وہی لوگ ڈالتے ہیں جو خود اس ملک میں اسلامی نظام کے قیام کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں، یعنی آپ اور جماعت اسلامی۔
اس قسم کی بحثیں اب عام وخاص کی مجلسوں میں شروع ہوئی ہیں اور عام طور پر ان بحثوں اور مباحثوںکا اثر عوام اور خواص دونوں پر اچھا نہیں پڑ رہا ہے۔بلکہ وہ نئی نئی غلط فہمیوں اور بدگمانیوں میں پڑ رہے ہیں۔جس کے نتائج دُور رس اور اسلام اور عامۃ المسلمین کے حق میں خطرناک ثابت ہوں گے۔ اور جماعت کے کارکنوں کو بھی اس سے ہر جگہ مشکلات پیش آنے کا قوی اندیشہ ہے۔
اس سلسلے میں آپ کا وضاحتی بیان یا کوئی ایسا مضمون میری نظر سے نہیں گزرا ہے جو پاکستان میں بحالت موجودہ شرعی سزائوں کے نفاذ کے بارے میں آپ کے موقف کی وضاحت کے لیے کافی ہو۔

جواب: آپ کی نصح وخیر خواہی کی میں دل سے قدر کرتا ہوں۔ مگر آپ نے اس بات پر غور نہیں فرمایا کہ یہ حضرات جو کھیل کھیل رہے ہیں ،اس کی تہ میں کیا ہے۔شرعی سزائوں کے متعلق میری ایک عبارت کو خاص معنی پہنا کر اچھالنے اور جگہ جگہ اس کو پھیلانے کی جو خدمت وہ انجام دے رہے ہیں، یہ کام کیا فی الواقع کسی ایسے شخص ہی کے کرنے کا تھا جو پاکستان میں حدود شرعیہ کے اجرا کا دل سے خواہاں ہو؟ اخلاص کے ساتھ اس بات کی خواہش رکھنے والا انسان تو یہ کوشش کرے گا کہ اجرائے حدود کے معاملے کوتمام اہل دین کے متفق علیہ مسئلے کی حیثیت سے پیش کرے۔ لیکن یہ حضرات ایک ایسے خادم دین کو، جوبرسوں سے اسلامی قانون کے نفاذ کی خاطر لڑ رہا ہے اجرائے حدود کے مخالف کی حیثیت دے رہے ہیں اور اس کا نام اچھال اچھال کر دنیا کے سامنے یہ یقین دلانے کے لیے پیش کررہے ہیں کہ وہ پاکستان میں حدودِ شرعیہ کے نفاذ کو ظلم کہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اُس عبارت کا مفہوم ومدعا میں نے بیان کیا تھا یا وہ اس میں یہ مفہوم داخل کررہے ہیں؟ اس عبارت کی اشاعت عام میں کرر ہا ہوں یا وہ کر رہے ہیں؟ اس کو اجرائے حدود کے معاملے میں رکاوٹ ڈالنے کا ذریعہ میںبنارہا ہوں، یا وہ بنا رہے ہیں؟آج یہ لوگ نہایت مکاری کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’’جب ہم شرعی سزائوں کے نفاذ کے لیے کوئی بل پیش کرتے ہیں تو الحاد پرست ممبروں کی طرف سے ہماری مخالفت اس بنیاد پر کی جاتی ہے کہ مولانا مودودی نے یہ اور یہ فتویٰ دیا ہے۔‘‘ ان سے ذرا پوچھیے کہ مودودی کا یہ فتویٰ ان الحاد پرست ممبروں کے علم میں آپ لوگوں کے سوا اور کون لایا ہے؟ آپ لوگ ہی تو ہیں جو مودودی سے انتقام لینے کے لیے اس کی ایک عبارت کو زبردستی شرعی سزائوں کے خلا ف فتویٰ بنا کر اچھال رہے ہیں اور ہرروز اچھالے جارہے ہیں تاکہ کوئی الحاد پرست اس کو اپنی اغراض کے لیے ہتھیار بنائے۔
اور معاملہ صرف ایک عبارت ہی کا نہیں ہے۔آئے دن میری کتابوں اور عبارتوں میں سے ایک نئی چیز نکالی جارہی ہے اور ایک نیا الزام مجھ پر چسپاں کیا جارہا ہے۔میرے ساتھ ان لوگوں کا معاملہ وہی ہے جو اکابر دیو بند کے ساتھ بریلوی کرتے رہے ہیں۔ مجھے یقین ہوچکا ہے کہ یہ لوگ خدا اور آخرت سے بالکل بے فکر ہیں۔بلکہ ان کے انداز گفتگو میں دیانت تو درکنا ر شرافت تک کے آثار نہیں پائے جاتے۔ اس لیے میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ان کی کسی بات کی طرف التفات نہ کروں گا اور صبر کے ساتھ اپنا کام کرتا رہو ں گا۔ وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَo الشعرائ 227:26

سوال: تفہیمات کا مضمون( قطع ید اور دوسرے شرعی حدود)ایک عرصے سے عنوان بحث بنا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں جناب مفتی صاحب سے رجوع کیا گیا۔ انہوں نے مضمون متذکرہ کو غور سے مطالعہ کرنے کے بعد حکم دیا ہے کہ مندرجہ ذیل استفسار آںجناب سے کیا جائے:
۱۔ اسلام کے قانون واصول قطعی طورپر ناقابل تجزیہ ہیں؟یا کچھ گنجایش ہے؟ مثلا ً:اگر حکومت اجرائے حدود کا قانون پاس کردے اور جج حضرات ان قوانین کے عملی نفاذ کے مجاز ہوجائیں لیکن معاشرے کی حالت یہی رہے جو اب ہے اور اصلاح معاشرہ کے لیے کوئی قانون نافذہی نہ کیا جائے، تو اس صورت میں شرعی ثبوت کے بعد رجم اور جَلد کی سزا ظلم ہوگی یا نہیں؟
۲۔ آپ نے تفہیما ت میں لکھا ہے کہ نکاح، طلاق اور حجاب شرعی کے اسلامی قوانین اور اخلا ق صنفی کے متعلق اسلام کی تعلیمات سے ان حدود کا گہرا ربط ہے جسے منفک نہیں کیا جاسکتا۔حالاں کہ مندرجہ بالا صورت میں یہ ربط ٹوٹ جائے گا۔جو لوگ اس فعل کے ذمہ دارہوں گے(پارلیمنٹ یا حکومت) یقینا ان کا یہ فعل نامناسب ہوگا۔ مگر کیا ان قوانین کی رو سے عدالت جو حکم اور حد جاری کرے گی کیا یہ حکم اور حد جاری کرنا ظلم ہوگا؟
۳۔ کیا حکومت کو اصلاح معاشرہ کے لیے اجرائے حدود کو کچھ مدت کے لیے ملتوی رکھنا چاہیے اور احکام اسلامی کے اجرا میں کسی خاص ترتیب کو ملحوظ رکھنا چاہیے؟

جواب: میرے اس مضمون کے متعلق سوال کرنے سے پہلے اچھا ہوتا کہ اسی مضمون کے آخر میں اس کی جو تاریخ تحریر درج کی گئی ہے،اسے بھی دیکھ لیا جاتا اور یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی کہ مضمون کا اصل موضوع زیر بحث کیا تھا۔ تفہیمات حصہ دوم میں جہاں یہ مضمون درج ہے، وہیں آخر میں یہ نوٹ بھی موجود ہے کہ یہ مارچ ۹۳۹اء میں لکھا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت کوئی حکومت ایسی موجود نہیں تھی جس میں یہ سوال درپیش ہوتا کہ اب یہاں حدود شرعیہ جاری کی جائیں یا نہیں۔ پھر مضمون کا موضوع بھی یہ نہیں تھا کہ یہاں اجرائے حدود کی کیا صورت ہو۔ اس کا موضوع تو ان لوگوں کے اعتراضات کا جواب دینا ہے جو زنا اور قذف اور سرقے کی شرعی سزائوں کو انتہائی سخت قرار دیتے تھے اور وحشیانہ سزا کہنے سے بھی نہ چوکتے تھے۔ اس کے جواب میں ان کو سمجھایا گیا تھا کہ اسلام محض ان جرائم پر سزا ہی نہیں دیتا بلکہ ان کے ساتھ معاشرے میں ان اسباب کی روک تھام بھی کرتا ہے جن کی وجہ سے لوگ ان جرائم میں مبتلا ہوتے ہیں۔تم اسلام کی اس اصلاحی اسکیم کو نظر انداز کرکے معاشرہ تو وہ فرض کرتے ہو جس میں فسق وفجور کو بڑھانے کے لیے تمام اسباب فراہم کردیے گئے ہیں اور پھر یہ تصورکرکے چیخ اٹھتے ہو کہ اس صورت حال کو باقی رکھتے ہوئے اسلام کا محض قانو ن تعزیرات نافذ کردیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ تمہیں یہ سزائیں حد سے زیادہ سخت نظر آتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس بحث میں سے جن لوگوں نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ میں اجرائے حدود شرعیہ کا مخالف ہوں وہ کس حد تک نیک نیت ہیںاور ان کی نکتہ آفرینیاں کہاں تک قابل التفات ہیں؟
اب جو سوالات مفتی صاحب نے اٹھائے ہیں، ان کا مختصر جواب حاضر ہے:
اس وقت اگر کوئی مسلمان حکومت اسلام کے تمام احکام وقوانین اور اس کی ساری اصلاحی ہدایات کومعطل رکھ کر اس کے قوانین میں سے صرف حدود شرعیہ کو الگ نکال لے اور عدالتوں میں ان کو نافذ کرنے کا حکم دے دے تو جو قاضی یا جج کسی زانی یا سارق یا شارب خمر پرحد جاری کرنے کا حکم دے گا وہ تو ظالم نہیں ہوگا،البتہ وہ حکومت ضرور ظالم ہوگی جس نے شریعت الٰہیہ کے ایک حصے کو معطل او ردوسرے حصے کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں ایسی حکومت کو اس آیت قرآنی کا مصداق سمجھتا ہوں جس میں فرمایا گیا ہے:
اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ۝۰ۚ فَمَا جَزَاۗءُ مَنْ يَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يُرَدُّوْنَ اِلٰٓى اَشَدِّ الْعَذَابِ۝۰ۭ ( تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل وخوار ہو کررہیں اور روز قیامت وہ شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں گے۔)
البقرہ 85:2
میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ جو حکومت خود شراب بنانے اور بیچنے کے لائسنس دیتی ہو اور جس کی تقریبات میں خود حکومت کے کارفرما اور ان کے معزز مہمان شراب سے شغل کرتے ہوں،ان کے قانون میں اگر شارب خمر کے لیے ۸۰ کوڑے لگانے کی سزا مقرر کردی جائے تو اسے ہم اسلامی قانون نافذ کرنے والی حکومت کہنے میں حق بجانب ہوں گے۔ میں یہ نہیں مانتا کہ ایک طرف عورتوں اور مردوں کے آزادانہ اختلاط کو رواج دینا، لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک ساتھ کالجوں میں پڑھانا، عورتوں سے سرکاری دفاتر میں مردوں کے ساتھ کام لینا، ننگی تصویروں اور عریاں فلموں اور فحش لٹریچر کی بے روک ٹوک اشاعت جاری رکھنا، ۶ا سال سے کم عمر کی لڑکی اور ۸ا سال سے کم عمر کے لڑکے کا نکاح قانوناًممنوع ٹھیرانا،اور دوسری طرف زنا پر رجم اور کوڑوں کی سزا دینا فی الواقع اسلامی قانون کا اجرا ہے۔مجھے یہ ہرگز تسلیم نہیں ہے کہ سود اور قمار کو حلال کرنے والی اور ان محرمات کو خود رواج دینے والی حکومت چوری پر ہاتھ کاٹنے کا قانون نافذ کرکے اسلامی قانون نافذ کرنے والی حکومت قرار دی جاسکتی ہے۔اگر کوئی عالم دین اس متضاد طرز عمل کے جواز کے قائل ہوں اور ان کے نزدیک شریعت کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا اور اس کے اجزا میں سے بعض کو ترک اور بعض کو اخذ کرلینا ظلم نہیں بلکہ ایک نیکی ہو تو اپنے دلائل ارشادفرمائیں۔
دراصل یہ مسئلہ محض اس سادہ سے قانونی سوال پر بحث کرکے حل نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ حالات میں شرعی حدود کا نفاذ جائز ہے یا نہیں۔اﷲ اور اس کے رسولؐ نے ہم کو محض احکام ہی نہیں دیے ہیں بلکہ ان کے ساتھ کوئی حکمت بھی سکھائی ہے، جس سے کام لے کر ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ایک مدت دراز تک کفر وفسق کی فرماں روائی کے تحت رہنے کے بعد ہمارے ملک میں جو حالات پیدا ہوچکے ہیں،ان میں اقامت دین کا کام اب کس طرح ہونا چاہیے۔ جہاں تک میں نے شریعت کو سمجھا ہے، اس کے نظام میں اصلاح،سد باب ذرائع اور تعزیر کے درمیان ایک مکمل توازن قائم کیا گیا ہے۔ ایک طرف وہ ہر پہلو سے تزکیۂ اخلاق اور تطہیر نفوس کی تدابیر ہمیں بتاتی ہے، دوسری طرف وہ ایسی ہدایات ہمیں دیتی ہے جن پر عمل درآمد کرکے ہم بگاڑ کے اسباب کی روک تھام کرسکتے ہیں، اور تیسری طرف وہ تعزیرات کا ایک قانون ہمیں دیتی ہے تاکہ تمام اصلاحی وانسدادی تدابیر کے باوجود اگر کہیں بگاڑرونما ہوجائے تو سختی کے ساتھ اس کا تدارک کردیا جائے۔ شریعت کا منشا اس پوری اسکیم کو متوازن طریقے سے نافذ کرکے ہی پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کے کسی جز کو ساقط اور کسی کو نافذ کرنا حکمت دین کے بالکل خلاف ہے۔ اس کے جواز میں یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ جس جز کو ہم نافذ کررہے ہیں اس کے نفاذ کا حکم قرآن میں موجود ہے۔ اس استدلال کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک حکیم کا مرتب کردہ نسخہ کسی اناڑی کے ہاتھ آجائے اور وہ اس کے بہت سے اجزا میں سے صرف دوچار اجزا نکال کر کسی مریض کو استعمال کرائے اور اعتراض کرنے والے کا منہ بند کرنے کے لیے یہ دلیل پیش کرے کہ جو اجزا میں استعمال کرا رہا ہوں، وہ سب حکیم کے نسخے میں درج ہیں۔ اس کی اس دلیل کا جواب آخر آپ یہی تو دیں گے کہ بند ۂ خدا، حکیم کے نسخے میں جو مصلحات اور بدرقے درج تھے، ان سب کو چھوڑ کر تو صرف سمیات مریض کو استعمال کرارہا ہے اور نام حکیم کا لیتا ہے کہ میں اس کے نسخے سے علاج کررہا ہوں۔حکیم نے تجھ سے یہ کب کہا تھا کہ تو میرے نسخے میں سے جس جز کو چاہے چھانٹ کر نکال لے اور جس مریض کو چاہے کھلا دے۔
اس کے ساتھ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ شریعت آیا اپنے نفاذ کے لیے مومن ومتقی کارکن چاہتی ہے یا فاسق وفاجر لوگ اور وہ لوگ جو اپنے ذہن میں اس کے احکام کی صحت کے معتقد تک نہیں ہیں؟ اس معاملے میں بھی محض جواز اور عدم جواز کی قانونی بحث مسئلے کا فیصلہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ مجرد قانونی لحاظ سے ایک کام جائز بھی ہوتو یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ حکمت دین کے لحاظ سے وہ درست بھی ہے یا نہیں۔ کیا حکمت دین کا یہ تقاضا ہے کہ احکام شرعیہ کا اجرا ایسے حکام کے ذریعے سے کرایا جائے جن کی اکثریت رشوت خور، بدکردار اور خدا و آخرت سے بے خوف ہے اور جن میں ایک بڑی تعدادعقیدتاً مغربی قوانین کو برحق اور اسلامی قوانین کو غلط اور فرسودہ سمجھتی ہے؟ میرے نزدیک تو اسلام کو دنیا بھر میں بدنام کردینے اور خود مسلم عوام کو بھی اسلام سے مایوس کردینے کے لیے اس سے زیادہ کارگر نسخہ اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ ان لوگوں کے ہاتھوں احکام شریعت جاری کرائے جائیں۔اگر چند بندگان خدا پر بھی جھوٹے مقدمات بناکر سرقے اور زنا کی حد جاری کردی گئی تو آپ دیکھیں گے کہ اس ملک میں حدود شرعیہ کا نام لینامشکل ہوجائے گا اور دنیا میں یہ چیز اسلام کی ناکامی کا اشتہار بن جائے گی۔اس لیے اگر ہم دین کی کچھ خدمت کرنا چاہتے ہیں ،اس سے دشمنی نہیں کرنا چاہتے، تو ہمیں پہلے اس امر کی کوشش کرنی چاہیے کہ ملک کا انتظام ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوجائے جو دین کی سمجھ بھی رکھتے ہوں اور اخلاص کے ساتھ اس کو نافذ کرنے کے خواہش مند بھی ہوں۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہو گا کہ اسلام کی پوری اصلاحی اسکیم کو ہر جہت سے ہمہ گیر طریقے پر نافذ کیا جائے اور اسی سلسلے میں حدود شرعیہ کا اجرا بھی ہو۔ یہ کام بڑا صبر اور بڑی حکمت چاہتا ہے۔یہ ہتھیلی پر سرسوں جمانا نہیں ہے کہ آج مجلس قانون ساز میں ایک دو نشستیں ہاتھ آگئیں اورکل حدود شرعیہ جاری کرنے کے لیے ایک مسود ۂ قانون پیش کردیا گیا۔
اس سلسلے میں ایک بات اور بھی سمجھ لینی چاہیے۔ایک حالت تو وہ ہوتی ہے جس میں پہلے سے ملک کے اندر اسلامی قانون نافذ چلا آرہا ہو اور بعد میں بتدریج انحطاط رونما ہوتے ہوتے یہ نوبت آگئی ہو کہ شریعت کے بعض حصے متروک ہوگئے ہوں اور جن حصوں پر عمل ہو بھی رہا ہو،ان کونافذ کرنے والے بدکردار لوگ ہوں۔ اس حالت میں حکمت دین کا تقاضا یہ نہ ہوگا کہ شریعت کے جو حصے نافذ ہیں،ان کوبھی چھوڑ دیا جائے۔ بلکہ یہ ہوگا کہ عام اصلاح کی کوششیں کرکے ایک طرف صالح عناصر کو برسر اقتدار لایا جائے اور دوسری طرف شریعت کے باقی ماندہ حصوں کو نافذ کیا جائے۔ دوسری حالت وہ ہے جس میں کفر وفسق کا سیلاب سب کچھ بہا لے گیا ہو اور اب ہم کو نئے سرے سے تعمیر کا آغاز کرنا ہو۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ بنیادوں سے تعمیر شروع کرنی ہوگی نہ کہ اوپر کی منزلوں سے۔ (ترجمان القرآن۔ جلد ۵۹،عدد ا۔ اکتوبر ۹۶۲اء)

تعبیر دستور کا حق:

سوال: دستور کی تعبیر کا حق کس کو ہونا چاہیے؟ مقننہ کو یا عدلیہ کو؟ سابق میں یہ حق عدلیہ کو تھا اور موجودہ دستور میں یہ حق عدلیہ سے چھین کر مقننہ کو ہی دے دیا گیا ہے۔ا س پریہ اعتراض کیا گیا کہ عدالتوں کے اختیارات کو کم کردیا گیا ہے اور یہ حق عدلیہ کے پاس باقی رہنا چاہیے۔ اس مسئلے پر ایک صاحب نے یہ فرمایا ہے کہ اسلام کے دور اوّل میں عدالتوں کا کام صرف مقدمات کا فیصلہ کرنا تھا۔قانون کی تشریح اور تعبیر کا حق عدالتوں کو نہ تھا اور نہ عدالتیں یہ طے کرنے کی مجاز تھیں کہ قانون صحیح ہے یا غلط۔ یہ رائے کہاں تک درست ہے ؟( واضح رہے کہ اب دستور میں ترمیم ہو چکی ہے اور تعبیر دستور کا حق عدلیہ کو دیا جا چکا ہے۔)

جواب: موجودہ زمانے کے قانونی ودستوری مسائل پر اسلام کے دور اول کی نظیریں چسپاں کرنے کا رجحان آج کل بہت بڑھ گیا ہے۔ لیکن جولوگ اس طرح کے استدلال کرتے ہیں،وہ ہمیشہ اس عظیم الشان فرق کو نظر انداز کردیتے ہیں جو اس وقت کے معاشرے اور ہمارے آج کے معاشرے میں، اور اس وقت کے کارفرمائوں اور اس دَور کے کارفرمائوں میں فی الواقع موجود ہے۔
خلافت راشدہ میں خلیفہ خود قرآن وسنت کا بہت بڑا عالم ہوتا تھا اور اس کی متقیانہ سیرت کی وجہ سے مسلمان اس پر یہ اعتماد رکھتے تھے کہ زندگی کے کسی مسئلے میں بھی اس کا اجتہاد کبھی دین کے راستے سے منحرف نہ ہو گا۔ اس کی مجلس شوریٰ کے ارکان بھی سب کے سب بلا استثنا اس بنیاد پر رکنیت کا شرف حاصل کرتے تھے کہ وہ قوم میں سب سے زیادہ دین کے جاننے اور سمجھنے والے ہیں۔ ان کے زمرے میں کوئی ایسا آدمی بار نہیں پاسکتا تھا جو دین سے جاہل ہو،یانفسانیت کی بِنا پر دین میں تحریف کرنے والا ہو،یا جس سے مسلمانوں کو کسی بدعت یا غیر اسلامی رجحان کا اندیشہ ہو۔ معاشرے کی عظیم اکثریت بھی اس وقت دین کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی اور کوئی شخص اس ماحول میں جرأت یہ نہ کرسکتا تھا کہ اسلام کے احکام اور اس کی روح کے خلاف کوئی حکم دے یاکوئی قاعدہ و ضابطہ جاری کردے۔ یہی بلند معیار اس وقت کی عدالتوں کا بھی تھا۔ منصب قضا پر وہ لوگ سرفراز ہوتے تھے جو قرآن وسنت میں گہری بصیرت رکھتے تھے،کمال درجے کے متقی وپرہیز گار تھے، اور قانون خداوندی سے بال برابر بھی تجاوز کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان حالات میں مقننہ اور عدلیہ کے تعلقات کی وہی نوعیت تھی جو ایسے معاشرے میں ہونی چاہیے۔تمام جج مقدمات کے فیصلے براہِ راست قرآن وسنت کے احکام کی بنیاد پر کرتے تھے اور جن امور میں اجتہاد کی ضرورت پیش آتی تھی ،ان میں بالعموم وہ خود اجتہا دکرتے تھے۔البتہ جہاں معاملات کی نوعیت اس امر کا تقاضا کرتی تھی کہ جج اپنے انفرادی اجتہاد سے فیصلہ نہ کریں بلکہ خلیفہ کی مجلس شوریٰ ا ن میں شریعت کا حکم مشخص کرے، ان کے بارے میں اجتماعی اجتہاد سے ایک ایسا ضابطہ بنادیا جاتا تھا جو دین کے اصولوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مطابقت رکھنے والا ہوسکتا تھا۔ اس نظام میں کوئی وجہ نہ تھی کہ ججوں کو مجلس شوریٰ کے بنائے ہوئے قانون پر نظر ثانی کرنے کا اختیار ہوتا۔کیوں کہ وہ اگر کسی قانون کو رد کرنے کے مجاز ہوسکتے تھے تو اسی بنیاد پر تو ہوسکتے تھے کہ وہ اصل دستور(یعنی قرآن وسنت) کے خلاف ہے۔ اور قانون وہاں سرے سے کسی ایسے معاملے میں بنایا ہی نہیں جاتا تھا جس کے متعلق قرآن وسنت میں واضح حکم موجود ہو۔قانون سازی کی ضرورت صرف ان معاملات میں پیش آتی تھی جن میں نص موجود نہ ہونے کی وجہ سے اجتہاد ناگزیر ہوتا تھا۔ اور ایسے معاملات میں ظاہر ہے کہ انفرادی اجتہاد کی بہ نسبت اجتماعی اجتہاد زیادہ قابل اعتماد ہوسکتا تھا،خواہ بعض افراد کا ذاتی اجتہاد اس سے مختلف ہی کیوں نہ ہو۔
اب ظاہر ہے کہ اس وقت کی یہ دستوری نظیر آج کے حالات پر کسی طرح بھی چسپاں نہیں ہوتی۔ نہ آج کے حکمران اور مجالس قانون ساز کے ارکان خلفائے راشدین اور ان کی مجلس شوریٰ سے کوئی نسبت رکھتے ہیں، نہ آج کے جج اس وقت کے قاضیوں جیسے ہیں، اور نہ اس دور کی قانون سازی ان حدود کی پابند ہے جن کی پابندی اس دور میں کی جاتی تھی۔ اس لیے اب آخر اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ ہم اپنے دستوری ضابطے اس وقت کے حالات کو سامنے رکھ کر تجویز کریں اور خلاف راشدہ کی نظیروں پر عمل شروع کرنے سے پہلے وہ حالات پیدا کرنے کی فکر کریں جن سے وہ نظیریں عملاً تعلق رکھتی تھیں۔ موجودہ حالات میں جہاں تک شرعی معاملات کا تعلق ہے،آخری فیصلہ نہ انتظامیہ پر چھوڑا جاسکتا ہے،نہ مقننہ پر،نہ عدلیہ پر اور نہ مشاورتی کونسل پر۔ ان میں سے کوئی بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ مسلمان شرعی امو رمیں ان پر کامل اعتماد کرسکیں۔شریعت کو مسخ کرنے والے اجتہادات سے امن میسر آنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ مسلمانوں کی رائے عام کو بیدار کیا جائے اور قوم بحیثیت مجموعی اس قسم کے ہر اجتہاد کی مزاحمت کے لیے تیار ہو۔ رہے عام دستوری مسائل،جن میں شریعت کوئی منفی یا مثبت احکام نہیں دیتی، ان میں مقننہ کو آخری فیصلہ کن اختیارات دے دینا بحالات موجودہ خطرے سے خالی نہیں ہے۔اس کے لیے ایک غیر جانب دارادارہ ایسا موجودہونا چاہیے جو یہ دیکھ سکے کہ مقننہ نے کوئی قانون بنانے میں دستور کے حدود سے تجاوز تو نہیں کیا ہے۔ اور ایسا ادارہ ظاہر ہے کہ عدلیہ ہی ہوسکتا ہے۔
(ترجمان القرآن۔جلد ۵۹، عدد۳۔ دسمبر۹۶۲اء)

اسلام اور جمہوریت:

سوال: جمہوریت کو آج کل ایک بہترین نظام قرار دیا جاتا ہے۔اسلامی نظام سیاست کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بہت بڑی حد تک جمہوری اصولوں پر مبنی ہے۔مگر میری نگاہ میں جمہوریت کے بعض نقائص ایسے ہیں جن کے متعلق میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ اسلام انہیں کس طرح دور کرسکتا ہے۔ وہ نقائص درج ذیل ہیں:
۱۔ دوسرے سیاسی نظاموں کی طرح جمہوریت میں بھی عملاً آخر کار اقتدار جمہور کے ہاتھوں سے چھن کر اور چند افراد میں مرتکز ہوکر جنگ زر گری کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور (plutocracy) یا(obgrachy) کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔اس کا کیا حل ممکن ہے؟
۲۔ عوام کے متنوع اور متضاد مفادات کی بیک وقت رعایت ملحوظ رکھنا نفسیاتی طور پر ایک بڑا مشکل کام ہے۔ جمہوریت اس عوامی ذمہ داری سے کس شکل میں عہد ہ بر آ ہوسکتی ہے؟
۳۔ عوام کی اکثریت جاہل، ساد ہ لوح، بے حس اور شخصیت پرست ہے اور خود غرض عناصر انہیں برابر گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ان حالات میں نیابتی اور جمہوری ادارات کے لیے کامیابی سے کام کرنا بڑا دشوار ہے۔
۴۔ عوام کی تائید سے جو انتخابی اور نمایندہ مجالس وجود میں آتی ہیں،ان کے ارکان کی تعداد اچھی خاصی ہوتی ہے اور ان کے مابین باہمی بحث ومشاورت اور آخری فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔
آپ رہنمائی فرمائیں کہ آپ کے خیال میں اسلام اپنے جمہوری ادارات میں ان خرابیوں کو راہ پانے سے کیسے روکے گا؟

جواب: آپ نے جمہوریت کے بارے میں جوتنقید کی ہے،اس کے تمام نکات اپنی جگہ درست ہیں،لیکن اس مسئلے میں آخری رائے قائم کرنے سے پہلے چند اور نکات کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔
اوّلین سوال یہ ہے کہ انسانی معاملات کو چلانے کے لیے اصولاً کون سا طریقہ صحیح ہے؟ آیا یہ کہ وہ معاملات جن لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں،ان کی مرضی سے سربراہِ کار مقرر کیے جائیں اور وہ ان کے مشورے اور رضا مندی سے معاملات چلائیں اورجب تک ان کا اعتماد سربراہِ کاروں کو حاصل رہے،اسی وقت تک وہ سربراہِ کار رہیں؟یا یہ کہ کوئی شخص یا گروہ خود سربراہِ کار بن بیٹھے اور اپنی مرضی سے معاملات چلائے اور اس کے تقرر اور علیحدگی اور کار پردازی میں سے کسی چیز میں بھی ان لوگوں کی مرضی ورائے کا کوئی دخل نہ ہو جن کے معاملات وہ چلا رہا ہو؟اگر ان میں سے پہلی صورت ہی صحیح اور مبنی بر انصاف ہے تو ہمارے لیے دوسری صورت کی طرف جانے کا راستہ پہلے ہی قدم پر بند ہوجانا چاہیے، اور ساری بحث اس پر ہونی چاہیے کہ پہلی صورت کو عمل میں لانے کا زیادہ سے زیادہ بہتر طریقہ کیا ہے۔
دوسری بات جو نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ جمہوریت کے اصول کو عمل میں لانے کی جو بے شمار شکلیں مختلف زمانوں میں اختیار کی گئی ہیں یا تجویز کی گئی ہیں ،ان کی تفصیلات سے قطع نظر کرکے اگر انہیں صرف اس لحاظ سے جانچا اور پرکھا جائے کہ جمہوریت کے اصول اور مقصد کو پورا کرنے میں وہ کہاں تک کام یاب ہوتی ہیں، تو کوتاہی کے بنیادی اسباب صرف تین ہی پائے جاتے ہیں۔
اوّل یہ کہ ’’جمہور‘‘ کو مختار مطلق اور حاکم مطلق(sovereign) فرض کرلیا گیا اور اس بِنا پر جمہوریت کو مطلق العنا ن بنانے کی کوشش کی گئی۔ حالاں کہ جب بجائے خود انسان ہی اس کائنات میں مختار مطلق نہیں ہے تو انسانوں پر مشتمل کوئی جمہورکیسے حاکمیت کا اہل ہوسکتا ہے۔اسی بِنا پر مطلق ا لعنان جمہوریت قائم کرنے کی کوشش آخرکار جس چیز پر ختم ہوتی رہی ہے وہ جمہور پر چند آدمیوں کی عملی حاکمیت ہے۔ اسلام پہلے ہی قدم پر اس کا صحیح علاج کردیتا ہے۔ وہ جمہوریت کو ایک ایسے بنیادی قانون کا پابند بناتا ہے جو کائنات کے اصل حاکم(sovereign) نے مقرر کیا ہے۔اس قانون کی پابندی جمہور اور اس کے سربراہ کاروں کو لازماً کرنی پڑتی ہے اور اس بِنا پر وہ مطلق العنانی سرے سے پیدا ہی نہیں ہونے پاتی جو بالآخر جمہوریت کی ناکامی کا اصل سبب بنتی ہے۔
دوم یہ کہ کوئی جمہوریت اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک عوام میں اس کا بوجھ سہارنے کے لائق شعور اور مناسب اخلاق نہ ہوں۔ اسلام اسی لیے عام مسلمانوں کی فرداً فرداً تعلیم اور اخلاقی تربیت پر زور دیتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ایک ایک فرد مسلمان میں ایمان اور احساس ذمہ داری اور اسلام کے بنیادی احکام کا اور ان کی پابندی کا ارادہ پیدا ہو۔ یہ چیز جتنی کم ہوگی،جمہوریت کی کامیابی کے امکانات کم ہوں گے۔ اور یہ جتنی زیادہ ہوگی ،امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔
سوم یہ کہ جمہوریت کے کامیابی کے ساتھ چلنے کا انحصار ایک بیدار مضبوط رائے عام پر ہے اور اس طرح کی رائے عام اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب معاشرہ اچھے افراد پر مشتمل ہو، ان افراد کو صالح بنیادوں پر ایک اجتماعی نظام میں منسلک کیا گیا ہو، اور اس اجتماعی نظام میں اتنی طاقت موجود ہو کہ برائی اور برے اس میں نہ پھل پھول سکیں اور نیکی اور نیک لوگ ہی اس میں ابھر سکیں۔ اسلام نے اس کے لیے بھی ہم کو تمام ضروری ہدایات دے دی ہیں۔
اگر مندرجہ بالا تینوں اسباب فراہم ہوجائیں تو جمہوریت پر عمل درآمد کی مشینری خواہ کسی طرح کی بنائی جائے،وہ کامیابی کے ساتھ چل سکتی ہے، اور اس مشینری میں کسی جگہ کوئی قباحت محسوس ہو تو اس کی اصلاح کرکے بہتر مشینری بھی بنائی جاسکتی ہے۔اس کے بعد اصلاح و ارتقا کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ جمہوریت کو تجربے کا موقع ملے۔تجربات سے بتدریج ایک ناقص مشینری بہتر اور کامل تر بنتی چلی جائے گی۔ (ترجمان القرآن،جلد ۶۰، عدد ۳۔جون ۹۶۳اء)

صدر ریاست کو ویٹو کا حق:

سوال: کچھ عرصے سے اخبارات کے ذریعے سے تجاویز پیش کی جارہی ہیں کہ صدر پاکستان کو خلیفۃ المسلمین یا امیر المومنین کے معزز خطاب سے آراستہ کیا جائے۔اس تصور میں مزید جان ڈالنے کے لیے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ صدر کو حق تنسیخ ملنا چاہیے، کیوں کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے جلیل القدر صحابہ کے مقابلے میں ویٹو سے کام لیا اور منکرین زکوٰۃ ومدعیان نبوت کی سرکوبی کے لیے جہاد کا حکم دے کر صحابہ کرامؓ کی رائے کو ردّ کردیا۔ گویا اس دلیل سے شرعی حیثیت کے ساتھ ویٹو جیسے دھاندلی آمیز قانون کو مستحکم فرمایا جارہا ہے۔
ان حالات کی روشنی میں جناب والا کی خدمت میں چند سوالات پیش کیے جارہے ہیں، امید ہے کہ بصراحت جوابات سے مطمئن فرمائیں گے۔
۱۔ کیا حضرت ابوبکر ؓنے آج کے معنوں میں ویٹو استعمال فرمایا تھا؟ اور
۲۔ اگر استعمال فرمایا تھا تو ان کے پاس کوئی شرعی دلیل تھی یا نہیں؟

جواب: خلفائے راشدین کی حکومت کے نظام اور آج کل کے صدارتی نظام میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ان دونوں کو ایک چیز صرف وہی لوگ قرار دے سکتے ہیں جو اسلام کی تاریخ سے بالکل ناواقف ہیں۔ میں نے اس فرق پر مفصل بحث اپنی کتاب ’’اسلامی ریاست‘‘ میںصفحہ ا۳۳۔ ۳۳۳ پر کی ہے۔ اسے ملاحظہ فرما لیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ جس چیز کو خلافت کے نظام میں ’’ویٹو‘‘ کے اختیارات سے تعبیر کیا جارہا ہے،وہ موجودہ زمانے کی دستوری اصطلاح سے بالکل مختلف چیز تھی۔حضرت ابو بکرؓ کے صرف دو فیصلے ہیں جن کو اس معاملے میں بنائے استدلال بنایا جاتا ہے۔ ایک جیش اسامہ کا معاملہ۔ دوسرے مرتدین کے خلاف جہاد کا مسئلہ۔ ان دونوںمعاملات میں حضرت ابو بکرؓ نے محض اپنی ذاتی رائے پر فیصلہ نہیں کر دیا تھا، بلکہ اپنی رائے کے حق میں کتاب وسنت سے استدلال کیا تھا۔ جیش اسامہ کے معاملے میں ان کا استدلال یہ تھا کہ جس کام کا فیصلہ نبیؐ اپنے عہد میں کرچکے تھے، اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہونے کی حیثیت سے انجام دینا میرا فرض ہے۔ میں اسے بدل دینے کے اختیارات نہیں رکھتا۔ مرتد ین کے معاملے میں ان کا استدلال یہ تھا کہ جو شخص یا گروہ بھی نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرتا ہو اور یہ کہے کہ میں نماز تو پڑھوں گا مگر زکوٰۃ ادا نہیں کروں گا، وہ مرتد ہے، اسے مسلمان سمجھنا ہی غلط ہے، لہٰذا ان لوگوں کی دلیل قابل قبول نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ لاالٰہ الا اﷲ کے قائلین پر تم کیسے تلوار اٹھائوگے۔ یہی دلائل تھے جن کی بِنا پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے فیصلے کے آگے سر جھکا دیا۔ یہ اگر ’’ویٹو‘‘ ہے تو کتاب اﷲ اور سنت رسول اللہ کا ویٹو ہے نہ کہ سربراہِ ریاست کا۔
حقیقت میں اسے ویٹو کہنا ہی سرے سے غلط ہے، کیوں کہ حضرت ابو بکرؓ کے استدلال کو تسلیم کرلینے کے بعد اختلاف کرنے والے صحابہ کرامؓ اس کی صحت کے قائل ہوگئے تھے او راپنی سابقہ رائے سے انہوں نے رجوع کرلیا تھا۔
(ترجمان القرآن۔ جلد ا۶، عدد۲۔ نومبر ۹۶۳اء)

اقامت دین کے بارے میں چند ذہنی اشکالات:

سوال: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کی ذمہ داریاں جن جلیل القدر صحابہ کے کاندھوں پر ڈالی گئیں،ان کے بارے میں بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ وہ نوع انسانیت کے گل سرسبد تھے۔لیکن اس کے باوجود اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خلافت راشدہ کانظام جلد درہم برہم ہوگیا اور جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے حادثات رونما ہوئے، جن کا اسلامی تحریک کے ارتقا پر ناخوش گوار اثر پڑا۔ ان حالات سے پیدا شدہ چند سوالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں جن کے جوابات مطلوب ہیں۔ سوالات حسب ذیل ہیں:
۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے قریبی زمانے میں اور عہد نبوی میں تربیت یافتہ صحابہ کی موجودگی میں اگر مسلم سوسائٹی میں خلفشار پیدا ہوسکتا ہے تو آج ہم لوگ جو ان سلف صالحین کی بلندیوں کے تصور سے بھی عاجز ہیں، کس چیز پر فخر کرسکتے ہیں اور کیسے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہم ایک مکمل اسلامی ریاست قائم کرسکیں گے؟
۲۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسلام اس تیز رفتاری سے پھیل رہا تھا کہ اس مناسبت سے اس میں داخل اور شامل ہونے والوں کی تربیت کا انتظام نہیں ہوسکتا تھا، تو اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خلفائے اسلام نے نظام اسلامی اور مسلم معاشرے کو پورے طورپر استوار اور مستحکم (consolidate) کیے بغیر اس کی توسیع (expansion) کیوں ہونے دی؟
۳۔ اگر ہمارے پیش رو لغزشوں سے محفوظ نہیں رہ سکتے تو ہمارا دامن کیسے پاک رہ سکتا ہے اور اقامت دین کے لیے ہم میں جرأت عمل کیسے پیدا ہوسکتی ہے؟

جواب: آپ کے سوالات جتنے آسان اور مختصر معلوم ہوتے ہیں، ان کا جواب اتنے اختصار اور آسانی سے دینا محال ہے۔ ان مسائل پر مفصل بحث سردست مشکل ہے، صرف مجمل جوابی اشارات عرض ہیں۔ اﷲ نے چاہا تو انہی سے آپ کی تشفی ہوجائے گی۔
۱۔ اپنی قومی تاریخ میں ہمیں محض دھبوں ہی کی تلاش نہیں کرنی چاہیے اور صرف ان ہی کے تصور پر شرما کر نہیں رہ جانا چاہیے۔ ہماری تاریخ بہت سے روشن نشانات کی بھی حامل ہے۔ ہمیں ان پر بھی فخر کرنا چاہیے اور انہیں نگاہ میں رکھ کر امید اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ روشن نشانات کو دیکھنے سے گریز کرنا اور صرف دھبوں کا خیال کرکے دل مسوس کر بیٹھ جانا بہت بے جا قسم کی قنوطیت ہے۔
۲۔ توسیع اور استحکام کے درمیان توازن وتناسب ذہنی دنیا میں تو قائم کیا جاسکتا ہے مگر عملی دنیا میں یہ ممکن نہیں ہے۔ایک شخص اگر آپ کے پاس شرک یا کفر سے توبہ کرنے کے لیے آئے تو آخر کس عذر کی بِنا پر آپ اسے الٹا واپس کردیں گے؟کیا آپ اس سے یہ کہیں گے کہ اس وقت میں استحکام میں مصروف ہوں اور توسیع کا کام میں نے فی الحال بند کررکھا ہے؟
۳۔ انسان جب تک انسان ہے،اس کی سعی بشریت کے تقاضوں اور محدودیتوں سے پاک نہیں ہوسکتی۔ ہر شخص کو اپنی حد تک اپنا فرض بہتر سے بہتر طریقے سے انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ اﷲ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمیں ارادی لغزشوں سے بچائے اور غیر ارادی لغزشوں کو معاف فرمائے۔(ترجمان القرآن ،دسمبر ۹۵۳اء)

ایک مصالحانہ تجویز:

سوال: پاکستان دستور سازی کے نازک مرحلے سے گزر رہا ہے۔پاکستان کا ایک خاص طبقہ جماعت اسلامی سے گلو خلاصی حاصل کرنے کی فکر میں ہے۔ ایسے حالات میں جماعت اسلامی اور علمائے کرام کی باہمی چپقلش افسوس ناک ہے۔ جماعت اسلامی جس کے بنیادی مقاصد میں دستور اسلامی کا عنوان ابھرا ہوا رکھا گیا ہے، بھی اس اختلاف کے میدان میں ایک فریق کی حیثیت اختیار کرکے خم ٹھونک کر ڈٹ گئی ہے۔کیا اس معاملے کو اس طرح نہیں سلجھایا جاسکتا کہ چند نام ور علما کو (اس مقام پر مکتوب نگار نے پانچ بزرگوں کے نام دیے ہیں،ہم نے مصلحتاً ناموں کی اس فہرست کو حذف کرکے چند نام ورعلما کے الفاظ لکھ دیے ہیں) ثالث تسلیم کرتے ہوئے جماعت اسلامی فریق ثانی کو دعوت دے کہ وہ جماعت اسلامی کی تمام قابل اعتراض عبارتوں کو ان حضرات کی خدمت میں پیش کردے۔ ان علمائے کرام کی غیر جانب داری ،علم وتقویٰ اور پرہیز گاری شک وشبہ سے بالا ہے ( کمال یہ ہے کہ ان پانچ غیر جانب دار حضرات میں سے ایک گزشتہ انتخابات پنجاب میں جماعت اسلامی کی مخالفت میں سرگرم رہ چکے ہیں، اور دو بزرگ ان دنوں’’جہاد‘‘ میں مصروف ہیں)۔اگر کوئی عبارت قابل اعتراض نہ ہو تو مولانا مودودی کی عزت میںیقینا اضافہ ہوگا۔اور اگر علمائے کرام ان عبارتوں کو قابل اعتراض قرار دیں تو مولانا مودودی صاحب ان سے دست برداری کا اعلان فرما دیں۔ یہ تمام مراحل اس صورت میں طے ہوسکتے ہیں کہ اخلاص اور آخرت مطلوب ہو۔
نوٹ: اس تجویز کی نقول اخبار تسنیم، نوائے وقت اور نوائے پاکستان کو ارسال کردی گئی ہیں۔

جواب: آپ کا رجسٹری شدہ نامہ گرامی ملا جس میں آپ نے مجھے مخاطب کرکے ایک مصالحانہ تجویز پیش فرمائی ہے۔ پہلی بات تو میری سمجھ میں یہ نہیں آئی کہ آپ نے اس مصالحانہ تجویز کا مخاطب مجھے کیسے فرمایا۔ کیا آپ کو یہ نظر نہیں آتا کہ ابھی میں جیل ہی میں تھا کہ میرے خلاف بہتان وافترا کی ایک مہم شروع کردی گئی اور اس کے بعد میرے باہر آتے ہی الزامات کا ایک طوفان کھڑا کردیا گیا؟ پھر کیا آپ کو یہ خبر نہیں کہ جن حضرات نے مجھ پر یہ حملے کیے، ان پر نہ پہلے میں نے کبھی کوئی حملہ کیا تھا نہ بعد ہی میں ان کی کسی زیادتی کا کوئی جواب دیا؟ اب آخر یہ کس جذبہ انصاف نے آپ کو آمادہ کیا کہ مصالحت کی تجویز اُس شخص کے سامنے لے جائیں جس نے کسی سے کوئی لڑائی نہ کی تھی۔
دوسری بات یہ بھی میری سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ نے کس بِنا پر یہ فرمایا ہے کہ ’’جماعت اسلامی بھی اس اختلاف کے میدان میں ایک فریق کی حیثیت اختیار کر کے خم ٹھونک کر ڈٹ گئی ہے۔‘‘کیا یہ بات واقعی صداقت کے ساتھ کوئی شخص کہہ سکتا ہے؟ایک طرف ان حملوں کو دیکھیے جو مجھ پر اور جماعت اسلامی پر کیے گئے۔دوسری طرف یہ دیکھیے کہ میں خود اس معاملے میں برابر خاموش رہا ہوں۔ جماعت کا اخبار تسنیم بھی قریب قریب بالکل ہی خاموش رہا ہے۔جماعت کے ارکان میں سے بعض لوگ جن کے اپنے اخبار اور رسالے ہیں،صبر نہ کرسکے اور انہوں نے کچھ چیزیں لکھیں۔ مگر اوّل تو ان کی لکھی ہوئی چیزوں کو ان تحریروں سے کوئی نسبت ہی نہیں جو میرے اور جماعت کے خلاف لکھی گئی تھیں، پھر ان میں سے بھی بعض میرے منع کرنے پر رک گئے اور بعض کو میں برابر روکنے کی کوشش کررہا ہوں۔ اسے اگر آپ خم ٹھونک کر ڈٹ جانے سے تعبیر فرماتے ہیں تو میں اس کے سوا اور کیاکہوں کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو انصاف کی توفیق دے۔
اب میں مختصراً آپ کی اس تجویز کے متعلق کچھ عرض کرتا ہوں جو آپ نے’’مصالحانہ تجویز‘‘ کے نام سے پیش فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیںکہ فلاں فلاں بزرگوں کو ثالث تسلیم کرکے جماعت اسلامی کی تمام قابل اعتراض عبارتوں کو ان کے سامنے پیش کردیا جائے۔ مگر میں پوچھتا ہوں کہ صرف جماعت اسلامی ہی کی قابل اعتراض تحریریں کیوں، ان سب لوگوں کی تحریریں بھی کیوں نہیں جو کسی کے نزدیک قابل اعتراض ہوں؟ اصل بات یہ ہے کہ جو حضرات ہم پر معترض ہیں،وہ بھی زبان وحی سے کلام نہیں کرتے۔ ان کی تحریریں اور تقریریں بھی انسانی کلام ہی ہیں اور ان میں ہم کو بکثرت قابل اعتراض باتیں نظر آتی ہیں۔مگر فرق یہ ہے کہ ہم نے کبھی کسی کے ساتھ یہ بے ہودگی نہیں کی کہ اس کی عبارتیں چن چن کر نکالیں اور ا س کے خلاف مضمون بازی اور اشتہار بازی شروع کردیں۔ بخلاف اس کے ہمارے ساتھ یہ بے ہودگی برسوں سے کی جارہی ہے اور آج بھی اس کاسلسلہ جاری ہے۔اب کیا یہ ہم کو ہماری شرافت کا انعام دیا جارہا ہے کہ سارے ملک میں سے صرف ہم ہی اس ثالثی کے حضور ملزم کی حیثیت سے پیش کیے جانے والے منتخب فرمائے جاتے ہیں؟اور کیا دوسرے لوگ صرف اس لیے بخش دیے جاتے ہیں کہ ان کے خلاف ہم نے اس بے ہودگی کا طوفان نہیں اٹھایا؟
ایک اور مغالطے کا ازالہ اس موقع پر کردینا بہت ضروری معلوم ہوتا ہے۔ امر واقعہ یہ نہیں ہے کہ علمائے کرام بحیثیت مجموعی جماعت اسلامی کے خلاف محاذ آرا ہوگئے ہیں، بلکہ بیش تر سنجیدہ اور خدا ترس علما اپنے اختلافات پر قائم رہتے ہوئے اقامت دین کے مشترکہ مقصد میں جماعت اسلامی کے ساتھ تعاون کررہے ہیں اور جماعت کے خلاف اٹھائے جانے والے طوفان کو دل سے ناپسند کرتے ہیں اور اسے روکنے کے لیے اپنی سی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ مخالفانہ طوفان اٹھانے والوں میں کچھ لوگ ضرور ایسے بھی ہیں جو علم رکھنے کے باوجود اپنے مقام کی حرمت کو محسوس نہیںکررہے، لیکن یہ تمام تر’’ علمائے کرام‘‘ ہی نہیں ہیں،ان میں نہایت معمولی درجے کے سیاست باز حضرات بھی بکثرت شامل ہیں۔
آخری بات میں یہ عرض کیے دیتا ہوں کہ اس طرح کی تجویزوں سے آپ مجھے معاف رکھیں۔ میرے نزدیک اس طرح کی بہتان تراشیوں کا علاج ثالثیاں نہیں ہیں، بلکہ صرف یہ ہے کہ آدمی ایسے لوگوں کو قطعاً نظر انداز کرکے اپنا کام کیے چلا جائے اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے، تاکہ اگر یہ اپنی ساری عمر بھی اس بے ہودہ مشغلے میں کھپا دینا چاہتے ہوں تو کھپاتے رہیں۔
(ترجمان القرآن۔محرم ۳۷۵اھ، ستمبر ۹۵۵اء)

بے بنیاد اندیشے:

سوال: حال ہی میں(لاہور کے ایک اخبارکے ذریعے) علما کے بعض حلقوں نے آپ کی تیرہ برس پہلے کی تحریروں کو سیاق وسباق سے علیحدہ کرکے ان پر فتوے جڑ جڑ کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن میںان تحریروں سے گمراہ نہیں ہوسکا۔ لیکن آج ہی ایک شخص نے مجھے وہ مقالہ دکھایا جس میں آپ کی اور جمعیت العلماء پاکستان کے ایک اعلیٰ رکن کی گفتگو درج ہے۔ جس میں آپ کو کہا گیا ہے کہ آپ مہدی ہونے کا دعویٰ تو نہیں کریں گے، لیکن اندیشہ ہے کہ آپ کے معتقدین آپ کو مہدی سمجھنے لگ جائیں گے۔ چنانچہ مطالبہ کیا گیا کہ آپ اعلان فرما دیں کہ میرے بعد مجھے مہدی کوئی نہ کہے۔ لیکن آپ نے اس پر خاموشی اختیار کرلی، جس پر لوگوں کو اور بھی شک گزر رہا ہے۔

جواب: آپ برا نہ مانیں تو میںکہوں کہ مجھے آپ کی سادہ لوحی پر سخت تعجب ہے۔آپ کے خط کو پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ افترا پردازی کی مہم چلانے والے لوگ آپ ہی جیسے اصحاب کو نگاہ میں رکھ کر اپنا کاروبار چلایا کرتے ہیں،کیوں کہ وہ امیدرکھتے ہیں کہ دس بیس فریبوں میں سے کوئی ایک فریب تو ان پر چل ہی جائے گا۔ اب آپ خود دیکھیے کہ آپ نے جو معاملہ میرے سامنے پیش کیا ہے۔ اس میں آپ نے کس طرح فریب کھالیا ہے۔
ایک شخص مجھ سے کہتا ہے کہ تو خود تو مہدی ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا اور یہ بھی کہتا ہے کہ میں ان شاء اﷲ اپنے ربّ کے پاس ہر طرح کے دعووں سے پاک دام لے کر حاضر ہوجائوں گا، پھر دیکھوں گا کہ جو لوگ مجھ پر یہ الزامات لگا رہے ہیں، وہ اﷲ تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دہی کرتے ہیں۔ لیکن اس بات کا تو اندیشہ ہے کہ تیرے مرنے کے بعد کچھ لوگ تجھے مہدی قرار دے دیں،لہٰذا تو یہ بھی اعلان کردے کہ میرے بعد کوئی مجھے مہدی نہ کہے۔
ایک دیانت دار آدمی کو مطمئن کرنے کے لیے میرا یہ جواب کافی تھا۔ کیوں کہ اس میںمیں نے ایسے لوگوں کو جو میرے بعد میری طرف کوئی غلط بات منسوب کریں ،ان لوگوں سے تشبیہ دی ہے جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیچھے ان کو خدا کا بیٹا قرار دیا۔اس سے زیادہ سخت بات میں اور کیا کہہ سکتا تھا۔ مگر معترض نے اس بات کو نقل کرکے آپ جیسے لوگوں کو یہ فریب دیا کہ دیکھو اس شخص کے دل میں چور ہے، جبھی تو اس بات کا اعلان کرنے سے گریز کرتا ہے جس کا ہم مطالبہ کررہے ہیں۔اور داد کے قابل ہے آپ کی سادہ لوحی کہ آپ یہ فریب قبول کرکے آج میرے سامنے وہی مطالبہ دہرانے کے لیے تشریف لے آئے ہیں۔جب تک آپ جیسے لوگ دنیا میں موجود ہیں،فریب کار لوگوں کا کاروبار بند ہونے کی توقع نہیں ہے۔
آخر میں یہ بات بھی واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں نے نہ کسی دینی منصب کا دعویٰ کیا ہے، نہ اپنی ذات کی طرف دعوت دی ہے ،اس لیے سرے سے میرے کوئی’’معتقدین‘‘ہیں ہی نہیں۔ میں اور میرے ساتھی سب اﷲ اور اس کے رسولؐ کے معتقدین ہیں اور ہمارا تعلق صرف راہِ خدا میں ہم سفری کا ہے۔(ترجمان القرآن۔محرم ۳۷۵اھ، ستمبر ۹۵۵اء)

اﷲ کے حقوق ا ور والدین کے حقوق:

سوال: میں ایک سخت کش مکش میں مبتلا ہوں اور آپ کی رہنمائی کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔میںجماعت کا ہمہ وقتی کارکن ہوں اور اس وجہ سے گھر سے دُور رہنے پر مجبور ہوں۔والدین کا شدید اصرار ہے کہ میںان کے پاس رہ کر تجارتی کاروبار شروع کروں۔ وہ مجھے بار بار خطوط لکھتے رہتے ہیں کہ تم والدین کے حقوق کو نظر انداز کررہے ہو۔میں اس بارے میں ہمیشہ مشوش رہتا ہوں۔ ایک طرف مجھے والدین کے حقوق کا بہت احساس ہے،دوسری طرف میں محسوس کرتا ہوں کہ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے میرا جماعت کا کارکن بن کر رہنا ضروری ہے۔ آپ اس معاملے میں مجھے صحیح مشورہ دیں تاکہ میں افراط وتفریط سے بچ سکوں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ خیالات کے اختلاف کی وجہ سے گھر میں میری زندگی سخت تکلیف کی ہوگی۔لیکن شرعاً اگر ان کا مطالبہ واجب التعمیل ہے تو پھر بہتر ہے کہ میں اس تکلیف کو خوشی سے برداشت کروں۔ میرے والد صاحب میری ہر بات کو مورد اعتراض بنالیتے ہیں اور میر ی طرف سے اگر بہت ہی نرمی کے ساتھ جواب عرض کیا جائے تو اسے بھی سننا گوارا نہیں فرماتے۔

جواب: والدین کی اطاعت اور دین کی خدمت کے درمیان توازن کا مسئلہ بالعموم ان سب نوجوانوں کے لیے وجہ پریشانی بنا رہتا ہے جن کے والدین جماعت اسلامی اور اس کے مقصد سے ہم دردی نہیں رکھتے۔میں نے عموماً یہ دیکھا ہے کہ ایک بیٹا اگر سرکاری ملازمت میں ہو یا کسی اچھے کاروبار میں لگا ہوا ہو تو والدین اس کے ہزاروں میل دور رہنے کو بھی برداشت کرلیتے ہیں اور اس سے کبھی نہیںکہتے کہ تو ملازمت یا روزگار چھوڑ دے اور آکر ہماری خدمت کر۔ بیٹے کے اطوار اگر فاسقانہ بھی ہوں تو اعتراض کی زبان کھولنے کی ضرورت انہیں بالعموم محسوس نہیں ہوتی۔لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اپنے سارے حقوق انہیں صرف اسی وقت یاد آجاتے ہیں جب کوئی بیٹا اپنے آپ کو خدمت دین کے لیے وقف کردیتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر جماعت اسے معقول معاوضہ دے تب بھی وہ یہی ضد کرتے ہیں کہ بیٹا گھر میں بیٹھ کر ان کے’’حقوق‘‘ ادا کرے۔بلکہ حقوق ادا کرنے پر بھی ان کا دل ٹھنڈا نہیں ہوتا،اس کی ہر بات انہیں کھٹکتی ہے اور اس کی کسی خدمت سے بھی وہ خوش نہیں ہوتے۔یہ صورت حال میں ایک مدت سے دیکھ رہا ہوں اور جماعت کے بکثرت نوجوانوں کو اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے اور کرنا پڑ رہا ہے۔
میں نہیں کہہ سکتا کہ آپ کے ہاں فی الواقع کیا صورت حال ہے۔اگر وہی کچھ ہے جو آپ کے بیان سے سمجھ میں آرہی ہے تو یہ آپ کے والدین کی زیادتی ہے۔آپ جہاں کام کررہے ہیں، وہیں کرتے رہیں۔جو کچھ مالی خدمت آپ کے بس میں ہو،وہ بھی کرتے رہیں، بلکہ اپنے اوپر تکلیف اٹھا کر اپنی مقدرت سے کچھ زیادہ ہی بھیجتے رہیں، اور حسب ضرورت وقتاً فوقتاً ان کے پاس ہو آیا کریں۔ لیکن اگر صورت حال اس سے مختلف ہو اور فی الواقع آپ کے والدین اس بات کے محتاج ہوں کہ آپ کے لیے ان کے پاس رہ کر ہی خدمت کرنا ضروری ہو تو پھر مناسب یہی ہے کہ آپ ان کی بات مان لیں۔ (ترجمان القرآن۔ جمادی الاولیٰ۳۷۵اھ، جنوری ۹۵۶اء)

طریق انتخاب:

سوال: مجھے آپ کی خدمت میں ایک وضاحت پیش کرنا ہے۔میں نے کچھ عرصہ قبل اپنی ذاتی حیثیت میں تجربتاً دس سالوں کے لیے مخلو ط انتخاب کی حمایت کی تھی۔اپنے حق میں دلائل دینے کے ساتھ ہی میں نے یہ بھی کہا تھا کہ مخلوط انتخاب کی مخالفت میں سب سے اونچی آواز جماعت اسلامی کی طرف سے اٹھائی جارہی ہے۔پھر میں نے کم وبیش مندرجہ ذیل الفاظ کہے تھے:’’جماعت اسلامی میں ایسے لوگ ہیں جن کے لیے میرے قلب وجگر میں انتہائی احترام وعقیدت کا سرمایہ ہے، لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جماعت نے پاکستان کے لیے کوئی جدوجہد نہیں کی تھی اور اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو کیا اس صورت میں متحدہ ہندوستان میں جماعت اسلامی جداگانہ انتخابات کے حق میں آواز بلند کرتی؟ اس کے بعد جماعت کے بعض دوستوں نے مجھ سے گلہ کیا۔میں نے ان سے عرض کیا کہ میں ایک دلیل تعمیر کررہا تھا جس سے مقصود جماعت اسلامی پر حملہ کرنا نہیں تھا،بلکہ اپنے نقطۂ نگاہ کے جواز میں وزن پیدا کرنا تھا۔ میں نے آپ کی خدمت میں بھی اس صراحت کو پیش کرنا ضروری سمجھا تاکہ غلط فہمی رفع ہوجائے۔

جواب: میں نے اخبارات میں آپ کی تقریر کی رپورٹ تو پڑھی تھی لیکن میرے دل میں کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ آ پ جانتے ہیں کہ اس سے بہت زیادہ سخت دوسرے کہتے او رلکھتے رہے ہیں اور مجھے کبھی کسی سے کوئی شکایت پیدا نہ ہوئی۔ اس لیے آپ کی وضاحت میرے لیے تو غیر ضروری ہی تھی۔ تاہم میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے بطور خود اس کی ضرورت محسوس کی۔
البتہ مخلوط انتخاب کے حق میں استدلال کرتے ہوئے جو بات آپ نے جماعت اسلامی کے بارے میں کہی ہے، وہ بجائے خود صحیح نہیں ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے پہلے بھی جماعت کی پوزیشن سمجھنے کی کوشش نہیں کی تھی اور اب بھی آپ اسے صحیح طورپر نہیں سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں جماعت کی عدم شرکت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ جماعت تقسیم کی مخالف تھی یا متحدہ ہندوستان کی حامی تھی،ایک بہت ہی غلط استنتاج ہے۔ اگر آپ میری اس زمانے کی تحریریں تفصیل کے ساتھ پڑھیں تو آپ کو معلوم ہو کہ میں اس رہنمائی اور اس طریق کار سے غیر مطمئن تھا جو مسلمانوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک طرف مسلم نیشنلسٹ گروہ اور دوسری طرف نیشنلسٹ مسلم گروہ پیش کررہا تھا۔ دونوں کے متعلق میرے اس وقت کے جو اندازے تھے بعد میں وہ لفظ بلفظ پورے ہوئے اور ہورہے ہیں۔اسی عدم اطمینان کی وجہ سے میں ان دونوں سے الگ رہا اور جو کچھ میرے نزدیک درست تھا،اس کے لیے کا م کرتا رہا۔تقسیم ملک کی مخالفت اگر میں نے کسی روز کی ہو تو آپ اس کا حوالہ دیں۔ یا متحدہ قومیت یا متحدہ ہندوستان کی تائید میں کبھی میں نے کوئی بات کہی ہو تو اس کی نشان دہی بھی آپ فرما دیں۔ایسی کسی چیز کی غیر موجودگی میں مجھ سے یا جماعت اسلامی سے یہ سوال کرنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ اگر ہندوستان متحدرہتا تو کیا تم جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کرتے۔
اس کے علاوہ اس معاملے میں ایک پہلو اور بھی ہے جسے آپ نظر انداز کررہے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ غیر اسلامی نظام حکومت کے ساتھ کسی قسم کے تعاون یا اس میں کسی طرح کی حصہ داری کو جماعت اسلامی اصولاًغلط کہتی ہے۔اسی وجہ سے تقسیم سے قبل کے انتخاب میں ہم نے سرے سے دل چسپی ہی نہیں لی۔ اگر خدا نخواستہ ہندوستان متحد رہتا اور اس میں سیکولر نظام قائم ہوتا تو اس کے لادینی نظام حکومت کے انتخابات میں حصہ لینے کے سرے سے ہم قائل ہی نہ ہوتے، پھر جداگانہ یا مخلوط انتخاب کا سوال اس نظام میں ہمارے لیے کیسے پیدا ہوتا؟جماعت اسلامی اس طرح کے لادینی نظام میں کام کرنے کا جو نقشہ اپنے سامنے رکھتی تھی،اسے جماعت کے لٹریچر میں وضاحت کے ساتھ پیش کردیا گیا تھا۔آپ ہمارے اس طریق کار کو غلط سمجھنے اور کہنے کا حق رکھتے ہیں، مگر ہمارے حقیقی منشا کے خلاف ہماری باتوں کو یہ معنی پہنانا کہ ہم متحدہ ہندوستان کے طالب اور تقسیم ملک کے مخالف تھے،ایک ایسی زیادتی ہے جس کی ہم کم ازکم آپ جیسے معقول آدمیوں سے توقع نہیں رکھتے۔ (ترجمان القرآن۔ ربیع الاوّل۳۷۶اھ، نومبر ۹۵۶اء)

جماعت کا موقف اور طریق کار:

سوال: اگرچہ میں جماعت کا رکن نہیں ہوں، تاہم اس ملک میں مغربیت کے الحادی مضرات کا جماعت جس قدر مقابلہ کررہی ہے،اس نے مجھے بہت کچھ جماعت سے وابستہ کررکھا ہے، اور اسی وابستگی کے جذبے کے تحت اپنی ناقص آرا پیش کررہا ہوں۔
پاکستان میں دستور وانتخاب کا مسئلہ از سر نو قابل غور ہے اور نہایت احتیاط و تدبر سے کسی نتیجہ وفیصلہ پر پہنچنے کی ضرورت ہے،اس لیے کہ موجودہ دستور اپنی پوری ہیئت ترکیبی کے لحاظ سے قطعی طور پر اسلام کی حقیقی بالا دستی کو تسلیم نہیں کرتا۔کتاب وسنت سے ثابت شدہ متفق علیہ احکام کا اجراونفاذ بھی موجودہ دستو رکی رو سے لیجسلیچر او رصدر مملکت کی منظور ی کا محتاج ہے۔قطع نظر اس بات کے کہ ایسی صورت میں قوانین الٰہیہ بھی انسانی آرا کی منظوری کے محتاج بن جاتے ہیں،سخت اندیشہ ہے کہ تعبیرات کی تبدیلی سے بہت سے وہ کام جو اسلام کی نظر میں اب تک ناجائز نہیں رہے ہیں، اس ملک کی تعزیرات میں جرائم کی فہرست میں شامل ہوجائیں، اور بہت سے وہ کام جنہیں اسلام قطعاً پسند نہیں کرتا،مباحات کی فہرست میں داخل کردیے جائیں۔ موجودہ دستور نے قرآ ن وسنت کو ایک طرف اسمبلی کی کثرت آرا کی منظوری وتعبیر فرمائی کا تابع بنا دیا ہے، دوسری طرف صدر مملکت کی رضا مندی اور دستخطوں کا پابند بنادیا ہے، اور تیسری طرف عدالتوں کی تشریح وتوضیح کا محتاج بنادیا ہے۔حالاں کہ پورے دستور میں صدر مملکت، ارکان وزارت،ارکان اسمبلی اور ارکان عدالت کی اسلامی اہلیت کے لیے ایک دفعہ بھی بطور شرط لازم نہیں رکھی گئی ہے اور ان کے لیے اسلامی علم وتقویٰ کے معیار کو سرے سے ضروری سمجھا ہی نہیں گیا ہے۔ایسی صورت میں اس دستور کو اسلامی دستور کہنا اور سمجھنا ہی قابل اعتراض ہے، کجا کہ اسے قبول کرنا اور قابل عمل بنانا۔
مخلو ط انتخاب سے پاکستان کی وہ حیثیت تو بلاشبہ کمزور ہوجاتی ہے جسے اسلام کے نام سے نمایاں کیا گیا ہے،لیکن جداگانہ انتخاب سے سوائے مسلم قوم پرستی کے اور کیا حاصل ہوسکتا ہے؟ اسلام کے حق میں تو ایسا جداگانہ انتخاب قطعی بے معنی بلکہ نقصان رساں ہے جس کے بعد بھی اسمبلی میں مسلم وغیر مسلم دونوں کو مساوی حق رائے دہی حاصل ہو، اسمبلی کا صدر ونائب صدر مسلم وغیر مسلم دونوں بن سکتے ہوں، نمایندہ وزارت میں دونوں لیے جاسکتے ہوں، اور احکام اسلامی کی توضیح وتنقید، اتفاق واختلاف آرا اور ووٹنگ میں کلمہ گو اور غیر کلمہ گو دونوں یکساں طور پر حصہ لے سکتے ہوں۔ ایسی صورت میں اسلام کو کوئی حقیقی فائدہ پہنچنے کے بجائے اسلام کی عمومیت وعالم گیریت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔اسلام کا دوسروں کے مقابلے میں فریق جنگ بن جانے کا خطرہ ہے۔ غیر مسلم قومیں خواہ مخواہ اسے اپنا سیاسی و معاشی حریف سمجھنے لگیں گی، غیر مسلموں کے دل اسلام کی طرف سے اور مقفل ہوجائیں گے، ملک میں دوسری قوموں سے کش مکش زیادہ سے زیادہ بڑھتی جائے گی‘ اور ہوسکتا ہے کہ آیند ہ چل کر پاکستان میں اسلام بھی بنی اسرائیل کی طرح مسلمانوں کا قومی مذہب بن کر رہ جائے۔ اگر مسلمانوں کی پوزیشن اس ملک میں وہی رہے جو آج ہے، تو کوئی حقیقی اسلامی فائدہ حاصل ہونے کی توقع نہیںکی جاسکتی ہے۔
ان معروضات میں اگر کوئی وزن اور حقیقت محسوس فرمائی جائے تو میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ ضرور اس پر غور فرمائیں اور ان نازک مواقع پر ملت اسلامیہ کی صحیح صحیح رہبری فرمانے سے دریغ نہ کیا جائے۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو اسے صحیح طور پر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے اور مسلمانوں کے دل آپ کی حمایت واعانت کے لیے کھول دے۔

جواب: آپ کے قیمتی خیالات قابل غور اور مفید مشورے لائق شکریہ ہیں۔میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ جماعت سے دل چسپی رکھنے والے طبقے میں ایسے صاحب فکر لوگ موجود ہیں جو خود اپنی جگہ بھی معاملات پر غور کرتے ہیں اور اپنے مشوروں سے ہماری مدد کرنے میں بھی دریغ نہیں کرتے۔
آپ نے جن مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے،ان کے متعلق ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہم اپنی تحریک خلا میں نہیں چلا رہے ہیں بلکہ واقعات کی دنیا میں چلا رہے ہیں۔ اگر ہمارا مقصد محض اعلان واظہار حق ہوتا تو ہم ضرور صرف بے لاگ حق بات کہنے پر اکتفا کرتے۔لیکن ہمیں چوں کہ حق کو قائم بھی کرنے کی کوشش کرنی ہے اور اس کی اقامت کے لیے اسی واقعات کی دنیا میں سے راستہ نکالنا ہے،اس لیے ہمیں نظریات(idealogy)اور حکمت عملی(policy) کے درمیا ن توازن برقرار رکھتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔آئیڈیلزم کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے آخری مقصو د کو نہ صرف خود پیش نظر رکھیں بلکہ دنیا کو بھی اس کی طرف بلا تے اور رغبت دلاتے رہیں۔ اور حکمت عملی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے مقصود کی طرف بتدریج بڑھیں اور واقعات کی دنیا میں ہم کو جن حالات سے سابقہ ہے، ان کو اپنے مقصد کی طرف موڑنے ،اس کے لیے مفید بنانے اور مزاحمتوں کو ہٹانے کی کوشش کرتے رہیں۔ اس غرض کے لیے ہمیں اپنے آخری مقصد کے راستے میں کچھ درمیانی مقاصد اور قریب الحصول مقاصد بھی سامنے رکھنے ہوتے ہیں،تاکہ ا ن میں سے ایک ایک کو حاصل کرتے ہوئے ہم آگے بڑھتے جائیں۔
مثال کے طور پر بین الاقوامی دنیا میں ہمارا آخری مقصود ایک عالم گیر مثالی ریاست ہے۔اس کے راستے میں ایک طرف مغربی استعمار اور روسی اشتراکیت بڑی عظیم رکاوٹیں ہیں،دوسری طرف مسلمان قوموں کی موجودہ حالت بڑی رکاوٹ ہے۔ ان رکاوٹوں کو دُورکرنا ہمارے درمیانی مقاصد میں شامل ہے۔مسلمان ریاستوں کی باہمی پھوٹ، ان کا مختلف بلاکوں میں بٹ جانا، ان کے اندر وطنی نیشنلزم کا پیدا ہونا اور ان میںلادینی نظریات پر حکومتیں قائم ہونا،یہ سب ہمارے راستے میں حائل ہیں اور ان سب سے ہمیں عہدہ برآ ہونا ہے۔اس غرض کے لیے اگر ہم کبھی کسی قریبی مقصود کے لیے کوئی بات کہیں یا کریں تو آپ کو یہ شبہ نہ ہونا چاہیے کہ ہم نے اپنے آخری مقصود کو چھوڑ دیا ہے یا اس کے خلاف کوئی بات کی ہے۔
اسی طرح دستور اسلامی کے بارے میں جو باتیں آپ نے لکھی ہیں، ان میں سے کوئی بھی ہم سے پوشیدہ نہیں ہے نہ کبھی پوشیدہ تھی۔لیکن یہاں ایک کھلی کھلی لادینی ریاست کا قائم ہوجانا ہمارے مقصد کے لیے اس سے بہت زیادہ نقصان دہ ہوتا جتنا اب اس نیم دینی نظام کا نقصان آپ کو نظر آرہا ہے۔ بلاشبہ ہم نے پوری چیز حاصل نہیں کی ہے مگر کش مکش کے پہلے مرحلے میں ہم نے اتنا فائدہ ضرور حاصل کیا ہے کہ ریاست کو ایک قطعی لادینی ریاست بننے سے روک دیا ،اور اسلام کی چند ایسی بنیادی باتیں منوا لیں جن پر آگے کام کیا جاسکتاہے۔ ہم اس غلط فہمی میں نہیں ہیں کہ ہمارا مقصود حاصل ہوگیا ہے۔ہم اس مقام پر ٹھیرجانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔بلکہ جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے،اسے مزید مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں اور اب ہم پیش قدمی کے لیے اس سے بہتر پوزیشن میں ہیں جو اس قریبی مقصد کے حاصل نہ ہونے کی صورت میں ہماری ہوتی۔
طریق انتخاب کے بارے میں بھی آپ نے ہمارے نقطۂ نظر کو اچھی طرح نہیں سمجھا ہے۔ میں نے اپنے پمفلٹ’’مخلو ط انتخاب کیوں اور کیوںنہیں‘‘ کے آخری حصے میں جو کچھ عرض کیا ہے، اسے پھر بغور ملاحظہ فرمائیں اور خود بھی غور کریں کہ اگر مخلو ط انتخاب اپنے وطنی قومیت کے نظریے اور لادینی پس منظر کے ساتھ رائج ہو تو وہ ہمارے آخری مقصود کی راہ میں زیاد ہ رکاوٹ ثابت ہو گایا جداگانہ انتخاب ان قباحتوں کے ساتھ جن کی آپ نشان دہی کر رہے ہیں، زیادہ رکاوٹ ثابت ہو گا؟ نیز یہ کہ جداگانہ انتخاب سے پیدا ہونے والی قباحتوں کو رفع کرنا آسان ہے یا مخلوط انتخاب کی قباحتوں کو؟ ان امور پر غور کرکے آپ خود ایک رائے قائم کریں اور اس بات کو نہ بھولیں کہ ہمارا آخری مقصود کبھی ہماری نگاہ سے اوجھل نہیں ہوا ہے۔ ہمیں بڑھنا اسی کی طرف ہے، مگر درمیانی مقاصد کو حاصل کرتے ہوئے اور راہ کی رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔دفعتاً چھلانگ لگا کر پہنچ جاناممکن نہیں ہے۔

سوال نمبر۲: اﷲ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے کہ آپ نے میری معروضات پر توجہ فرمائی اور انہیں قابل التفات سمجھا۔آپ کے حوصلہ افزا جواب کے بعد ا س سلسلے میں چند اور گزارشات آپ تک پہنچادینا ضروری سمجھتا ہوں، اسے خدا نخواستہ تحریری مباحثہ نہ تصور فرما لیا جائے،بلکہ یہ ایک ایسے شخص کے افکار پریشاں ہیںجو سال ہا سال سے مسلمانو ں کی سیاست اور عالمی پیچیدگیوں کاطالب علمانہ مطالعہ کرتا چلا آرہا ہے، اور اس بات کو اپنا ایمان ویقین تصور کرتا ہے کہ اسلام ہی انسانیت کا دنیا وآخرت میں واحد ذریعۂ نجات ہے۔
اگر انتخابات سے ہمارا آخری مقصود یہ ہی ہے کہ موجودہ نیم دینی دستور کو کامل اسلامی دستور میں تبدیل کرانے کی کوشش کی جائے اور دستورکے اسلامی تقاضوں کو بغیر کسی تحریف کے صحیح طور پر پورا کیا جا سکے، تو اس کے لیے پہلا اور زیادہ بہتر طریقہ یہی تھا کہ کتاب وسنت کا علم رکھنے والے، اہل تقویٰ اور اہل بصیرت، مسلمانوں پر مشتمل، لیجسلیچر کا قیام عمل میںلایا جائے اور براہِ راست اس کے لیے جدوجہد کی جاتی رہے۔ بالخصوص ایسے وقت میں اس براہِ راست کوشش کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے جب کہ ملک بھر میں مختلف ومتضاد طبقے، دستور کے نام پر اسلام کی عجیب وجدید تعبیر کرنے میںلگے ہوئے ہیں۔ لیکن جماعت کے اہل الرائے حضرات کی اکثریت اگر اسے مناسب نہیں سمجھتی ہے،تو پھر جداگانہ اور مخلوط طریق انتخاب کے درمیان پوری توجہ کے ساتھ تمیز کی جانی چاہیے کہ کون سا طریقہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے زیاد ہ آسان اور اقرب الی الصواب ہے۔
جداگانہ انتخاب کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی، نفسیاتی وابستگی ہے، جو گزشتہ پچاس ساٹھ سال سے برابر چلی آرہی ہے۔ جداگانہ انتخاب، الیکشن میں بطور نمایندگی کے، ہندوئوں کی عددی اکثریت کے مقابلے پر وجود میں آیا تھا، اور بدقسمتی سے یہ مسلمانان ہند کی سیاست کا واحد شاہکار بن کر رہ گیا۔ اب اگر اس ذریعے کو اسلامی دستور کے مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان میں استعمال کیا گیا تو بوجوہ ذیل ان مقاصد کا حاصل کرنا نہایت مشکل ہوجائے گا:
اوّلاً، اس صورت میں اسلامی پروگرام رکھنے والے فریق کی بہ نسبت اسلامی نام اور غیر مسلموں کی مخالفت کے نعروں اور سنسنیوں سے ووٹروں کو اپیل کرنے والا فریق ہمیشہ پیش پیش رہے گا، جیسا کہ گزشتہ پچا س سال سے وہ پیش پیش رہتا چلا آ رہا ہے۔ اس فریق نے پہلے بھی اسلام کا مقدس نام اپنی خواہشات کے لیے استعمال کیا اور اسلام کی غلط نمایندگی کی۔ آج بھی اس کی ذہنیت اور عملی زندگی بدستور سابق ہے، اور پہلے کی بہ نسبت کامیابی کے ذرائع آج اس کے پاس بہت زیادہ ہیں۔
ثانیاً، مسلمان کثرت تعداد کے باوجود خود غرض سیاست دانوں کی دانش فریبیوں کے ہاتھوں غیر مسلموں کے مقابلے میں خوف واحساس کم تری کی ہسٹریائی کیفیت میں بآسانی مبتلا رکھے جائیں گے۔
ثالثاً، مسلمان رائے دہندوں کے سامنے اپنے حلقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان امیدواروں کو کام یاب بنادینا ہی اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ بن کر رہ جایا کرے گا۔
رابعاً ،مسلم حلقوں میں ایک سے زیادہ مسلمان امید واروں کے درمیان اسلام کے نام پر جو کش مکش برپا کی جاتی رہے گی، وہ بجائے خوداسلام اور مسلمانوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔
خامساً، غیر مسلم حلقے زیادہ سے زیادہ متحد ہوتے رہیں گے اور آگے چل کر وہ ایک ایسا متحدہ بلا ک بن سکتے ہیں جو غیر ملکی طاقتوں کا آلۂ کار ہو سکتا ہے اور جن کی ہم دردی میں غیر ملکی طاقتیں معاملات میں ایسی مداخلتیں کرسکتی ہیں جن سے ملک میں اعصابی جنگ اور کش مکش جاری رہے۔
سادساً ،آیندہ خطرہ ہے کہ ملک کی اس فرقہ وارانہ سیاست میں اسلام کی حیثیت ثانوی نہ رہ جائے، اسلام کی عمومی دعوت کے امکانات کم سے کم نہ ہوتے جائیں اور ملک کے اندر باہر غیر مسلم حلقے، اسلام کے مستقل حریف نہ بنتے جائیں۔
سابعاً ،غیر اسلامی ملکوں میں اسلام کے قیام کے لیے کام کرنے والوں کے واسطے یہ ایک ایسی مثال ہوگی جس سے ان کی مشکلات میں بے اندازہ اضافہ ہوجائے گا اور وہ غیر مسلم اقوام وعوام کو انسانیت کی سطح پر اپیل کرنے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں رہیں گے۔
اور آخر میں یہ کہ ہمارے اس ملک میں اہل ثروت واہل ریاست کو جو اثر حاصل ہے،اور جس طرح وہ فسق وفجور کی امامت میں پیش پیش ہیں،جداگانہ انتخاب کے بعد ان کے ہاتھ اور مضبوط ہوجائیں گے۔ ان کے حلقے الیکشن کے لیے جس طرح آج ان کی بلا شرکت غیرے میراث بنے ہوئے ہیں،جداگانہ انتخاب سے وہ مستحکم تر ہوتے چلے جائیں گے۔ اب یا تو ان کی ثروت وریاست ختم ہو،یا ان کے مزاج اسلامی بنیں۔ اور یہ دونوں چیزیں اﷲ کی خاص مہربانی سے ہی ممکن ہیں،بندوں کے اختیار وتدبیر سے مشکل ہیں۔
اس کے برخلاف،مخلوط انتخاب کی صورت میں،جسے بجائے مخلوط کے عمومی انتخابات کہنا زیادہ موزوں ہو گا، پارٹی پروگرام پر کامیابی کی بنیاد رہ جائے گی، اگرچہ اس وقت اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والی جماعت کو پوری پوری تن دہی اور جاں فشانی سے کام لینا ہوگا لیکن وہ اسلام کو پارٹی پروگرام بنا کر،اوّل تو ملک کے تمام باشندوں کو اپیل کرنے کی پوزیشن میں آجائے گی، دوسرے یہ کہ وہ اس پروگرام کو نظری طور پر بین الاقوامی تحریک کی پوزیشن میں لا سکے گی، اور اسلام کے لیے، اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں کام کرنے والوں کے درمیان نقطۂ اتحاد کا کام دے سکے گی۔ تیسرے یہ کہ مقابلہ اشخاص سے اشخاص کا نہیں رہے گا بلکہ جماعتوں کے اصول اور پروگرام کا ایک دوسرے سے مقابلہ ہوگا۔ہم اسلام کے اصول اور پروگرام کو لے کر پوری قوم اور پورے ملک کے پاس جائیں گے۔ اس طرح اصول اور پروگرام پر دوسرے خود غرض اور مفاد پرست گروہوں سے کھلا ہوا آزادانہ اور مساویانہ مقابلہ ممکن ہوسکے گا۔ اور چوتھے یہ کہ جب بھی اسلامی جماعت کام یاب ہوگی،دوسرے عناصر کے تعاون کی محتاج ہوئے بغیر نہایت آسانی سے ملک کی پوری ہیئت ترکیبی کو اسلامی قالب میں تبدیل کرسکے گی اور ایک مثالی ریاست کا نمونہ پیش کرنے کے قابل بن سکے گی۔ آپ کے پمفلٹ’’مخلوط انتخاب کیوں اور کیوں نہیں‘‘ میں اس حیثیت سے مسئلۂ انتخاب کا تجزیہ نہیں کیا گیاہے۔ میں گزارش کروں گا کہ آپ ان پہلوئوں پر بھی غور فرمائیں۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ مخلوط انتخاب کے موجودہ حامیوں کے ساتھ میں ہرگز متفق نہیں ہوں، اس لیے کہ ان کا مقصد اس سے ایک ایسی پاکستانی نیشن بنانا ہے جس میں نہ کوئی مسلمان،مسلمان رہے اور نہ کوئی ہندو،ہندو۔جب کہ میرا مقصد اس سے پاکستان میں ایک ایسی نیشن بنانا ہے جو خالص مسلمان ہی مسلمان ہو۔ اگر سوئے تدبیر سے مخلوط انتخاب کو اوّل مقصد کے لیے ذریعہ بنایا گیا تو یقینا میرا تعاون جداگانہ انتخاب کے ساتھ ہو گا۔ تاہم میری ہنوز دیانت دارانہ اور مخلصانہ رائے یہ ہی ہے کہ اسلام کو، پارٹی پروگرام بنا کر، مخلوط انتخابات کو ذریعہ نمایندگی بنایا جائے، بشرطیکہ خالص اسلامی لیجسلیچر کا قیام فی الوقت ممکن نہ ہو۔ اس طرح اسلامی مقاصد بہتر طریقے پر اور آسانی سے حاصل کیے جاسکیں گے، اور جداگانہ انتخاب کے مقابلے میں کم رکاوٹیں پیش آئیں گی۔
آپ نے اپنے مکتوب کے دوسرے پیراگراف کے آخری حصے میں تحریر فرمایا ہے کہ’’ہمیں اپنے آخری مقصود کے راستے میں کچھ درمیانی مقاصد اور قریب الحصول مقاصد بھی سامنے رکھنے ہوتے ہیں، تاکہ ان میں سے ایک ایک کو حاصل کرتے ہوئے ہم آگے بڑھتے جائیں۔‘‘ دراصل یہ ایک سخت مغالطہ ہے جو بہت سی تحریکات کو، بالخصوص مسلمانوں کی بیش تر جماعتوں کو پیش آتا رہا اور وہ کسی قریب الحصول مقصد میں ایسے ڈوبے کہ:
دریں ورطہ کشی فروشد ہزار!
کہ پیدا نہ شد تختۂ برکنار
کا مصداق بن کر رہ گئے۔ حالاں کہ درمیانی چیزوں کو زیادہ سے زیادہ کوئی حیثیت حاصل ہے تو محض ایک ذریعہ ہونے کی۔اگرچہ آپ کا یہ اہتمام قابل ستایش ہے کہ ’’آخری مقصود نگاہوں سے اوجھل نہ رہے‘‘ لیکن میرے نزدیک درمیانی چیزوں کو قریب الحصول مقصد کا درجہ دینا ہی خطرے سے خالی نہیں۔ ان کی حیثیت محض ذریعے کی رہنی چاہیے،مقصد کی حیثیت سے ان پر ہرگز زور نہ دینا چاہیے۔
آئیڈیلزم اور حکمت عملی کے درمیان توازن برقرار رکھنے کا صحیح طریقہ جماعت کے مقصد اورطریق کار میں یکسانیت وہمواریت کا برقرار رہنا ہے۔نیز مقصد اور طریق کار کے درمیان ایسا ربط قائم رکھنا ہے جو ہر معاملے پر راستے کے ہرموڑ کو منزل کی طرف پھیر دینے والا ہو،موجودہ دور کے ذہنی انتشار اور پراگندگی افکار پر غالب آنے کے لیے سب سے بڑی دانائی اور حکمت عملی یہ ہی ہے کہ مقصد کی ہمہ گیری کو کمزور نہ ہونے دیا جائے۔
لادینی دستور کی موجودگی میں ہماری جنگ ایک کھلے دشمن کے ساتھ تھی۔فرعون اور ابولہب کی ذہنیتوں سے مقابلہ درپیش تھا۔ آہن وسیف اور خار وآتش سے گزرنے والا وہ راستہ اگرچہ خوف ناک ضرور تھا مگر فریب ناک نہیں تھا۔ لیکن ایک نیم دینی دستو رکی موجودگی میں ہمارا سابقہ منافقانہ ذہنیتوں سے پڑ جاتا ہے۔جس طرح حضرت علیؓ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کو پیش آیا تھا۔ پھر نیم ملا ّ خطرۂ ایمان کی مشہور کہاوت سے بھی آپ بے خبر نہیں ہوں گے۔میرے نزدیک جہاں ریاست کو ایک قطعی لادینی ریاست بننے سے روک دینا بڑی کامیابی ہے ،وہاں ریاست کا نیم دینی ریاست بن کر رہ جانا بھی ایک بہت بڑے خطرے کا آغاز ہوسکتا ہے جس سے نہ صرف پاکستان کے مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ اسلام کے لیے بھی بہت سے داخلی فتنے پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس لیے اس صورت حال کا جلد سے جلد تدارک کیا جانا نہایت ضروری ہے ورنہ دستور کا نام اسلامی دستورہونا برعکس نہند نام زنگی کافور کا مصداق ہوجائے گا، اور دستور کا یہ اعلان کہ کوئی قانون، کتاب وسنت کے خلاف نہ بنایا جائے گا، ۱۸۵۷ء کے ملکۂ وکٹوریہ کے مشہور اعلان کی طرح کامحض کاغذی محضر بن کررہ جائے گا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’مذہبی معاملات میں حکومت کی طرف سے کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔‘‘
فی الحقیقت،جب تک خدا کی حاکمیت کو واضح طور پر نہ تسلیم کیا جائے، کتاب وسنت کو مثبت طور پر قانون سازی کا ماخذ اور دستور پر بالا دست نہ مان لیا جائے، کتاب وسنت کا علم رکھنے والے اہل تقویٰ واہل بصیرت ارکان پر مشتمل لیجسلیچر کا قیام عمل میں نہ آجائے اور کتاب وسنت کی تعبیر وتوضیح کا حق اصول سلف کے مطابق،ماہرین علوم اسلامیہ وحاملین شریعت کے لیے خاص نہ کردیا جائے، اس وقت تک ذرا سی غفلت سے موجودہ دستور کو غیر اسلامی مقاصد کے لیے بڑی آسانی اور آزادی کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے اور پھر ان مردود مقاصد کو اسلامی مقاصد کی حیثیت سے عام کیا جاسکتا ہے۔
آخر میں جماعت کے متعلق بھی مجھے عرض کرنا ہے۔ میرے قریبی حلقوں میں جماعت کے کارکن حضرات،جن کے اخلاص،دیانت اور سرگرمی کامیں دل سے قدر داں ہوں اور جن کے احترام سے میرا قلب ہر وقت معمور رہتا ہے ،وہ اپنے عام اجتماعات میں نہ تو دستور کے ان ناقص پہلوؤں پر عوام کو توجہ دلاتے ہیں اور نہ مسئلۂ انتخاب کے سلسلے میں خالص اسلامی مجلس شوریٰ کا نظریہ عوام کے سامنے رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں کہ ہمارے ملک کا دستور کامل اسلامی دستور بن چکا ہے، صرف جداگانہ انتخاب کی ایک آخری اسلامی مہم باقی ہے۔پھر عوام سے ربط بڑھانے کا طریقہ بھی تنقیدی اور منفی ڈھنگ کا ہوتا ہے جس سے خواہ مخواہ مقامی، شخصی اور جزوی اختلافات کو ابھرنے کا موقع ملتا ہے۔جماعتی عصبیت میں اتنے کلیت پسند بن جاتے ہیں کہ بعض سیاسی ومذہبی امور پر جزوی وفروعی اختلاف کو بھی جماعت سے ذاتی یا گروہی عناد کا درجہ دے دیتے ہیں، اور اس ملک کی گزشتہ سیاسی ومذہبی تاریخ سے شاید پوری طرح واقف نہ ہونے کی بِنا پر یا جماعتی غلو کے غیر شعوری جذبے کی بِنا پر موجودہ حالات کو گزشتہ معاملات سے اس طرح کڑی در کڑی ملاتے ہیں کہ پیش روئوں کے کاموں کی اکثر غلط ترجمانی ہوتی ہے اور اسلاف کی بصیرت اسلامی اور خلوص مشکوک نظر آنے لگتا ہے۔اگرچہ اس بارے میں جماعت کے بعض اہل قلم اور آپ سے بھی کم وبیش شکایت ہوسکتی ہے، لیکن ہمارے قریبی کارکن اور معزز ارکان جماعت تو اس بارے میں بجائے خود بہت سی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیںاور اس وقت اور اس ماحول کے معیار پر گزشتہ معاملات کو قیاس کرنے کے عادی سے بن گئے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وسیع النظری اور وسیع القلبی سے کام کیاجائے اور مقصد سے نیچے نہ آیا جائے۔بایں ہمہ موجودہ سوسائٹی میں مجھے یہ سب سے زیادہ عزیز اور قابل احترام ہیں۔اﷲ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے دین کی صحیح صحیح خدمت لینے کے قابل بنائے۔

جواب: افسوس ہے کہ آپ نے میرے پچھلے خط کے اس فقر ے پر غور نہیں کیا کہ ہم اپنی تحریک خلامیں نہیں چلا رہے ہیں بلکہ واقعات کی دنیا میں چلا رہے ہیں اور ہمیں محض اعلان واظہار حق ہی نہیں کرنا ہے بلکہ اقامت حق کے لیے بھی کوشش کرنی ہے، جس کے لیے ہم کو اسی واقعات کی دنیا میں سے راستہ نکالنا ہوگا۔یہ بات میں نے اپنے جواب کی ابتدا ہی میں اس لیے لکھ دی تھی کہ مجھے آپ کے خط کو پڑھ کر یہ محسوس ہوگیا تھا کہ آپ اپنے خیالات کی دنیا میں اس قد ر گم ہیں کہ واقعات کی اس دنیا پر آپ کی نگاہ نہیں جاتی جس میں ہم اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ میرے اس اندیشے کی تصدیق آپ کے دوسرے خط سے ہوگئی اور معلوم ہوا کہ میرے توجہ دلانے پر بھی آپ اس پہلو کی طرف دیکھنے پر مائل نہیں ہوسکے ہیں۔
دوسری بات میں نے ابتدا ہی میں یہ عرض کی تھی کہ جسے واقعات کی دنیا میں صرف اعلان حق ہی نہیں بلکہ اقامت دین کا کام بھی کرنا ہو،اس کے لیے ضروری ہے کہ نظریت اور حکمت عملی کے درمیان زیادہ سے زیادہ توازن برقرار رکھے۔اس بات کو بھی آپ نے پوری طرح سمجھنے کی کوشش نہیںفرمائی۔ میںمحسوس کرتا ہوں کہ جب تک یہ دوسری بات بھی اچھی طرح آپ کے ذہن نشین نہ ہوجائے،آپ کے لیے ہماری تحریک کے طریق کار کو سمجھنا مشکل ہوگا۔ اس لیے آپ کے ارشادات پر کلام کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ میں ان دونوں باتوں کو پھر کھول کر بیان کردوں۔
ہم جس ملک اورجس آبادی میں بھی ایک قائم شدہ نظام کو تبدیل کرکے دوسرا نظام قائم کرنے کی کوشش کریں گے،وہاں ایسا خلا ہم کو کبھی نہ ملے گا کہ ہم بس اطمینا ن سے’’براہِ راست‘‘ اپنے مقصود کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے۔ لامحالہ اس ملک کی کوئی تاریخ ہوگی۔اس آبادی کی مجموعی طور پر اور اس کے مختلف عناصر کی انفرادی طور پر کچھ روایات ہوں گی۔ کوئی ذہنی اور اخلاقی اور نفسیاتی فضا بھی وہاں موجود ہو گی۔ ہماری طرح کچھ دوسرے دماغ اور دست وپا بھی وہاں پائے جاتے ہوں گے جو کسی اور طرح سوچنے والے اور کسی اور راستے کی طرف ا س ملک اور اس آبادی کو لے چلنے کی سعی کرنے والے ہوں گے۔ ان مختلف عوامل میں سے کچھ ہمارے موافق ہوں گے، تو کچھ ناموافق اور مزاحم ہوں گے۔ اور قائم شدہ نظام کاکسی کم یا زیادہ مدت سے وہاں قائم ہونا خود اس بات کی دلیل ہوگا کہ یہ عوامل ہماری موافقت میںکم اور اس کی موافقت میں زیادہ ہیں۔ علاوہ بریں یہ بات بالکل فطری اور عین متوقع ہے کہ ہمارے مقابلے میں یہ نظام ضرور ان تمام عوامل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا جو اس کے لیے سازگار ہیں یا بن سکتے ہیں۔اور ایسے تمام عوامل کو ہمارے لیے ناموافق یا کم ازکم غیر مفید بنانے کی بھی سعی کرے گا جنہیں وہ سمجھتا ہے کہ وہ ہمارے حق میں سازگار ہیں۔ اور وہ تمام دوسری تحریکیں بھی جو ہمارے مقصد کی مخالف ہیں، یا تو قائم شدہ نظام کی حمایت کریں گی یا پھر موجود الوقت عوامل کو حتی الامکان ہمارے خلاف استعمال کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گی۔
ان حالات میں نہ تو اس امر کا کوئی امکان ہے کہ ہم کہیں اور سے پوری تیاری کرکے آئیں اور یکایک اس نظام کو بدل ڈالیں جو ملک کے ماضی اور حال میں اپنی گہری جڑیں رکھتا ہے، نہ یہ ممکن ہے کہ اسی ماحول میں رہ کر کش مکش کیے بغیر کہیں الگ بیٹھے ہوئے اتنی تیاری کرلیں کہ میدان مقابلہ میں اترتے ہی سیدھے منزل مقصود پر پہنچ جائیں، اور نہ اس بات ہی کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ ہم اس کش مکش میں سے گزرتے ہوئے کسی طرح ’’براہِ راست‘‘ اپنے مقصود تک جا پہنچیں۔ ہمیں لامحالہ واقعات کی اس دنیا میں موافق عوامل سے مدد لیتے ہوئے اور مزاحم طاقتوں سے کش مکش کرتے ہوئے بتدریج اپنا راستہ نکالنا ہو گا۔ ہر قدم جس کے لیے گنجایش نکل آئے، فوراً اور برو قت اٹھا دینا ہو گا۔ دوسرے قدم کی گنجایش پیدا کرنے کے لیے پورا زور لگانا پڑے گا اور سمت مخالف کی دھکا پیل اگر ہمیں پیچھے دھکیلے تو اس بات کی کوشش کرنی ہوگی کہ پہلے قدم کی جگہ پائوں تلے سے نہ نکل جائے۔ اس کش مکش کے دوران میں جتنی ضروری بات یہ ہے کہ ہمارا آخری اور اصلی مقصود ہماری نگاہوں سے اوجھل نہ ہو، اتنی ہی ضروری یہ بات بھی ہے کہ ہم اس کی سمت میں بڑھنے کے لیے ہر درمیانی قدم کو مقصدی اہمیت دیں، جو قدم رکھا جاچکاہے، اسے زیادہ سے زیادہ مضبوط بنائیں،آگے کے قدم کے لیے زیادہ سے زیادہ قوت فراہم کریں، اور جوں ہی کہ اس کے لیے جگہ پیدا ہو،اس پر فوراً قبضہ کر لیں۔ آخری مقصود پر نگاہ جمانا اگر اس لیے ضروری ہے کہ ہماراکوئی قدم غلط سمت میں نہ اٹھے، تو درمیان کے ہر قدم کو اس کے وقت پر قریبی مطمح نظر (Immediate Objective)کی حیثیت دینا اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر پیش قدمی کا امکان ہی نہیں رہتا۔ جسے صرف تمنائیں بیان کرنے پر اکتفا کرنا نہ ہو بلکہ منزل مقصود کی طرف واقعی چلنا بھی ہو،اسے تو ہر قدم جمانے اور دوسرا قدم اٹھانے کے لیے تمام ممکن الحصول موافق طاقتوں سے اس طرح کام لینا اور تمام موجود مزاحمتوں کو ہٹانے کے لیے اس طرح لڑنا ہوگا کہ گویا اس وقت کرنے کا کام یہی ہے۔
اس معاملے میں صرف نظریت کام نہیں دیتی بلکہ اس کے ساتھ عملی حکمت ناگزیر ہے۔اس حکمت کو نظر انداز کردینے والا نظری آدمی طرح طرح کی باتیں کرسکتاہے۔ کیوں کہ وہ یا توقافلے میں شامل ہی نہیں ہوتا، یا پھر قافلے کو لے کر چلنے کی ذمہ داری اس پر نہیں ہوتی۔ مگر جسے چلنا ہی نہ ہو بلکہ چلانا بھی ہو، وہ ہر بات کو محض اس کے خیالی حسن کی بنیاد پر قبول نہیں کرسکتا۔ اسے تو عملی نقطۂ نظر سے تول کر دیکھنا ہوتا ہے کہ جن حالات میں وہ کام کررہا ہے،جو قوت اس وقت اس کے پاس موجود ہے، یا فراہم ہونی ممکن ہے اور جو جو مزاحمتیں راستے میں موجود ہیں، ان سب کو دیکھتے ہوئے کون سی بات قابل قبول ہے او رکون سی نہیں، اور یہ کہ کس بات کو قبول کرنے کے نتائج کیا ہوں گے۔نظری آدمی تو بے تکلف کسی مرحلے پر بھی کہہ سکتا ہے کہ ایک ایک قدم اٹھانے اور قدم قدم کی جگہ کے لیے کش مکش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ’’براہِ راست‘‘ کیوں نہیں بڑھ جاتے۔ مگر کام کرنے والا یہ سوچنے پرمجبور ہے کہ راستے کی مزاحم طاقتوں کے ہجوم میں سے آخر براہِ راست کیسے بڑھ جائوں؟ ان کے سر پر سے چھلانگ لگا کر جائوں؟ زمین کے نیچے سے سرنگ لگا کر جاپہنچوں؟یاکوئی تعویذ ایسا لائوں کہ اسے دیکھتے ہی یہ سارا ہجوم چھٹ جائے اور میں اپنے قافلے کو لیے ہوئے سیدھا اپنی منزل کی طرف بڑھتا چلاجائوں؟ نظری آدمی اس کش مکش کے دوران میں کسی جگہ بھی ٹھیر جانے یا پیچھے ہٹ جانے کا بڑے اطمینان سے مشورہ دے سکتا ہے۔وہ کہہ سکتا ہے کہ ٹھیر کر یا پیچھے ہٹ کر تیاری کرو اور پھر اس شان سے آئو کہ بس ایک ہی ہلے میں سابق نظام ختم اور نیا نظام پورا کا پورا قائم ہو جائے۔ مگر کام کرنے والے کو ایسے مشورے قبو ل کرنے سے پہلے یہ دیکھناپڑتا ہے کہ مزاحم طاقتوں کی موجودگی میں کش مکش روک کر ٹھیر جانا ممکن بھی ہے یا نہیں؟ پیچھے ہٹوں تو بیک وھلہ منزل پر پہنچنا تو درکنار اس جگہ واپس آنے کا بھی کوئی امکان باقی رہ جاتا ہے جہاں سے پلٹنے کے لیے کہا جارہا ہے؟اور کیا میرے ٹھیرنے یا ہٹنے کی صورت میں مزاحم طاقتیں بھی ٹھیریا ہٹ جائیں گی کہ وہ ماحول کو میرے لیے اور زیادہ ناساز گار بنانے سے رک جائیں اور میں اسے خوب ساز گار بنا کر اور خود پوری طرح تیار ہوکر بڑے اطمینا ن سے ایک بھرپور حملہ کر سکوں؟ غرض نظری آدمی کے لیے ہر قابل تصور تجویز لے آنا ممکن ہے، کیوں کہ جن تخیلات کے عالم میں وہ رہتا ہے، وہاں حالات اور واقعات موجود نہیں ہوتے، صرف خیالات ہی خیالات ہوتے ہیں،مگر کام کرنے والا واقعات کی دنیا میں کام کرتا ہے اور اس پر کام چلانے کی ذمہ داری ہوتی ہے،اس لیے وہ عملی مسائل کو کسی حال میں نظر انداز نہیں کرسکتا۔
ایک اور حیثیت سے بھی نظریت اور حکمت عملی میں ٹھیک ٹھیک توازن قائم رکھنا اس شخص کے لیے ضروری ہے جو واقعا ت کی دنیا میں عملاً اپنے نصب العین تک پہنچنا چاہتا ہو۔ آئیڈیلزم کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اپنے نصب العین کی انتہائی منزل سے کم کسی چیز کو آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے،اور جن اصولوں کو وہ پیش کرتا ہے،ان پر سختی کے ساتھ جما رہے۔ مگر واقعات کی دنیا میں یہ بات جوں کی توں کبھی نہیں چل سکتی۔ یہاں نصب العین تک پہنچنے کا انحصار ایک طرف ان ذرائع پر ہے جو کام کرنے والے کو بہم پہنچیں۔ دوسری طرف ان مواقع پر ہے جو اسے کام کرنے کے لیے حاصل ہوں۔اور تیسری طرف موافق اور ناموافق حالات کے اس گھٹتے بڑھتے تناسب پر ہے جس سے مختلف مراحل میں اسے سابقہ پیش آئے۔ یہ تینوں چیزیں مشکل ہی سے کسی کو بالکل ساز گار مل سکتی ہیں۔ کم ازکم اہل حق کو تو یہ کبھی سازگار نہیں ملی ہیں اور نہ آج ملنے کے کوئی آثار ہیں۔اس صورت حال میں جو شخص یہ چاہے کہ پہلا قدم آخری منزل ہی پر رکھوں گا،او رپھر دوران سعی میں کسی مصلحت وضرورت کی خاطر اپنے اصولوں میں کسی استثنا اور کسی لچک کی گنجایش بھی نہ رکھوں گا،وہ عملاً اس مقصد کے لیے کوئی کام نہیں کرسکتا۔ یہاں آئیڈیلزم کے ساتھ برابر کے تناسب سے حکمت عملی کا ملنا ضروری ہے۔وہی یہ طے کرتی ہے کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے راستے کی کن چیزوں کو آگے کی پیش قدمی کا ذریعہ بنانا چاہیے، کن کن مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے، کن کن مواقع کے ہٹانے کومقصدی اہمیت دینی چاہیے اور اپنے اصولوں میں سے کن میں بے لچک ہونا اور کن میں اہم تر مصالح کی خاطر حسب ضرورت لچک کی گنجایش نکالنا چاہیے۔
اس معاملے میں توازن کا بہترین نمونہ نبیؐ کے طرز عمل میں ملتا ہے۔آپ کی زندگی میں اس کی جو بے شمار مثالیں ملتی ہیں، ان میں سے میں یہاں صرف ایک مثال پیش کروں گا۔ آپؐ جو نظام زندگی قائم کرنے کے لیے مبعوث ہوئے تھے، وہ پوری نوع انسانی کے لیے تھا، صرف عرب کے لیے نہ تھا۔ مگر عرب میں اس کا قائم ہونا اورپوری طرح جم جانا دنیا میں اس کے قیام کا ایک ناگزیر ذریعہ تھا۔ کیوں کہ آپ کو اپنے مشن کی کامیابی کے لیے جو مواقع عرب میں حاصل تھے وہ اور کہیں نہ تھے۔ اس لیے آپ نے اس کو مقصدی اہمیت دی، بیرونی دنیا میں دعوت پہنچانے کی صرف ابتدائی تدبیروں پر اکتفافرمایا، اپنی پوری توجہ اور پوری طاقت صرف عرب میں اقامت دین پر صرف فرمائی اور بین الاقوامیت کی خاطر کوئی ایسا کام نہ کیا جو عرب میں ا س مقصد عظیم کی کامیابی کے لیے نقصان دہ ہو۔اسلامی نظام کے اصولوں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ تمام نسلی اور قبائلی امتیازات کو ختم کرکے اس برادری میں شامل ہونے والے سب لوگوں کو یکساں حقوق دیے جائیں اور تقویٰ کے سوا فرق مراتب کی کوئی بنیاد نہ رہنے دی جائے۔ اس چیز کو قرآن مجید میں بھی پیش کیا گیااور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بار بار اس کو نہ صرف زبا ن مبارک سے بیان فرمایا، بلکہ عملاًموالی اور غلام زادوں کو امارت کے مناصب دے کر واقعی مساوات قائم کرنے کی کوشش بھی فرمائی۔ لیکن جب پوری مملکت کی فرما ں روائی کا مسئلہ سامنے آیا تو آپ نے ہدایت دی کہ ’’الائمۃ من قریش‘‘’’امام قریش میں سے ہوں‘ ‘۔ ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ ا س خا ص معاملے میں یہ ہدایت، مساوات کے اس عام اصول کے خلاف پڑتی ہے جو کلیے کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے ایسے اہم اصول میں اتنے بڑے استثنا کی گنجایش کیوں پیدا کی گئی؟اس کا جواب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس وقت عرب کے حالات میں کسی غیر عرب تو درکنار، کسی غیر قریشی کی خلافت بھی عملاًکام یاب نہیں ہو سکتی تھی، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے معاملے میں مساوات کے اس عام اصول پر عمل کرنے سے صحابہ کو روک دیا، کیوں کہ اگر عرب ہی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلامی نظام درہم برہم ہوجاتا تو دنیا میں اقامت دین کا فریضہ کون انجام دیتا ({ FR 5911 }) یہ اس بات کی صریح مثال ہے کہ ایک اصول کو قائم کرنے پر ایسا اصرار جس سے اس اصول کی بہ نسبت بہت زیادہ اہم دینی مقاصد کو نقصان پہنچ جائے، حکمت عملی ہی نہیں حکمت دین کے بھی خلاف ہے۔ مگر یہ معاملہ اسلام کے سارے اصولوں کے بارے میں یکساں نہیں ہے۔ جن اصولوں پر دین کی اساس قائم ہے، مثلاً توحید اور رسالت وغیرہ،ان میں عملی مصالح کے لحاظ سے لچک پیدا کرنے کی کوئی مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں نہیں ملتی ، نہ اس کا تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔
ان امور کو آپ ذہن نشین کرلیں تو خود ہی اپنی بہت سی باتوں کا جواب پاسکتے ہیں۔ تاہم میں کوشش کروں گا کہ آپ کی باتوں پر سلسلہ وار مختصر گفتگو کرکے بھی اپنا موقف واضح کردوں۔
۱۔ آپ کا خیال ہے کہ موجودہ نیم اسلامی دستور کو کامل اسلامی دستور میں تبدیل کرنے کے لیے پہلا اور زیادہ بہترطریقہ یہ ہے کہ کتاب وسنت کا علم رکھنے والے اہل تقوی اور اہل بصیرت مسلمانوں پر مشتمل لیجسلیچر کا قیام عمل میں لایا جائے۔اس غرض کے لیے آپ براہِ راست جدوجہد کو ترجیح دیتے ہیں اور اس براہِ راست جدوجہد کی ضرورت آپ کے نزدیک اس بِنا پر اور بھی زیادہ ہے کہ ملک میں مختلف ومتضاد طبقے دستور کے نام پر اسلام کی عجیب وغریب اور جدید تعبیریں کرنے میںلگے ہوئے ہیں۔ تاہم آپ بدرجۂ آخر یہ گوارا کرنے کے لیے تیار ہیں کہ اس مقصد کے لیے انتخابات کو ذریعہ بنایا جائے۔
اس ارشاد میں جتنی باتیں آپ نے فرمائی ہیں،ان میں سے کسی کے بھی عملی پہلو پر آپ نے غور نہیں فرمایا۔ واقعات کی دنیا میں ہم جس صورت حال سے دوچار ہیں،وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مجالس قانون ساز کے قیام کی ابتدا انگریزوں کے دور حکومت میں ہوئی۔ اس نظام کو انہوں نے اپنے نظریات کے مطابق قومی جمہوری، لادینی ریاست کے اصولوں پر قائم کیا۔ انہی اصولوں پر سال ہا سال تک اس کا مسلسل ارتقا ہوتا رہا اور انھی اصولوں پر نہ صرف پوری ریاست کا نظام تعمیر ہوا،بلکہ نظام تعلیم نے ان کے مطابق ذہن تیار کیے۔ ہمارے معاشرے کے مختلف بااثر طبقات نے ان کو پوری طرح اپنا لیا،اور بحیثیت مجموعی سارے معاشرے نے ان کے ساتھ مطابقت پیدا کر لی۔ ان واقعات کی موجودگی میں جتنے کچھ ذرائع ہمارے (یعنی دینی نظام کے حامیوں کے) پاس تھے ،ان کو دیکھتے ہوئے یہ بھی کوئی آسان کام نہ تھا کہ کم ازکم آئینی حیثیت سے اس عمارت کی اصل کافرانہ بنیاد( لادینیت) کو بدلوا کر اس کی جگہ وہ بنیاد رکھ دی گئی جس کی بِنا پر آپ موجودہ دستور کو نیم دینی تسلیم کررہے ہیں۔ پچھلے نو سال میں یہ کام جن مشکلوں سے ہوا ہے، ان کو آپ بھول نہ جائیں، اور اب بھی لادینی رجحانات رکھنے والے بااثر طبقے اس کو ڈھادینے کے لیے جس طرح زور لگا رہے ہیں،اس کی طرف سے آنکھیں بند نہ کر لیں۔ کیا ان حالات میں یہ بات عملاًممکن تھی کہ ٹھیٹ اسلامی تصور کے مطابق ایک لیجسلیچر قائم ہوسکتی؟ اور کیا ہماری طرف سے یہ عقل مندی ہوتی کہ جو کم سے کم قابل قبول چیز اس وقت حاصل ہورہی ہے ،اسے لے کر آیندہ کی پیش قدمی کا ذریعہ بنانے کے بجائے ہم پوری مطلوب چیز پر اصرار کرتے او رنہ ملتی تو جو کچھ مل رہا تھا،اسے بھی رد کردیتے؟
اب اس نیم اسلامی دستور کو کامل اسلامی دستور میں تبدیل کرانے کا مسئلہ ہمارے سامنے درپیش ہے، تاکہ آپ کے بقول’’ دستور کے اسلامی تقاضوں کو بغیر کسی تحریف کے صحیح طور پر پورا کیا جاسکے۔‘‘ آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ اس کے لیے ایک ایسی لیجسلیچر کی ضرورت ہے جو کتاب وسنت کا علم رکھنے والے اہل تقویٰ واہل بصیرت مسلمانوں پر مشتمل ہو۔مگراس کے لیے آپ انتخابات کے بجائے براہِ راست جدوجہد کو ترجیح دیتے ہیں۔ذرا اس کا عملی پہلو بھی دیکھیے۔ اس طرح کی لیجسلیچر کے لیے موزوں آدمی نام زد کرنے کا کام تو ظاہر ہے کہ کسی کو نہیں سونپا جاسکتا۔یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ ان افراد کے انتخاب کا حق صرف مدارس دینیہ اور مذہبی جماعتوں اور دین دار لوگوں تک محدود رکھا جائے۔ اور اگر ایسا کیابھی جائے تو ان کے ووٹوں سے بحالت موجودہ جیسے لوگ منتخب ہوکر آئیں گے، ان کے ہاتھوں شاید ہمیشہ کے لیے اسلامی ریاست کے تصور ہی کی مٹی پلید ہوجائے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ عوام کے حق رائے دہندگی کے سوا انتخاب کی اور کوئی صورت نہ تو ممکن ہے اور نہ مقابلتاً زیادہ مناسب۔ اس بات کو آپ سمجھ لیں تو یہ بات بھی آپ کی سمجھ میں خود بخود آجائے گی کہ اب اس نیم دینی دستور کے کامل اسلامی دستور میں تبدیل ہونے اور اس کے اسلامی تقاضوں کو بلا تحریف پورا کرنے کا سارا انحصار اس پر ہے کہ ملک کی عام آبادی کو ذہنی اور اخلاقی حیثیت سے اس قابل بنانے کی کوشش کی جائے کہ وہ کتاب وسنت کا علم رکھنے والے اہل تقویٰ و اہل بصیرت لوگوں کے طالب بھی ہوں اور ان کی تلاش بھی کر سکیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کام بتدریج ایک طویل ہمہ گیر اور جاں گسل محنت سے ہوگا۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ کام خلا میں نہ ہوگا بلکہ ایسی حالت میں ہو گا کہ مزاحم طاقتیں بہت بڑے پیمانے پر زبردست ذرائع اور قوتوں کے ساتھ اسی آبادی کے ذہن اور اخلاق کو بالکل برعکس نوعیت کے انتخاب کے لیے تیار کرتی رہیںگی اور ساتھ ساتھ اپنی اس تیاری کی فصل ہر انتخاب میں کاٹتی بھی رہیں گی، جس سے ان کی قوت مزاحمت یا تو بڑھے گی یا کم ازکم برقرا ر رہے گی۔اس حالت میں انتخابات کو نظر انداز کرکے صرف براہِ راست جدوجہد پر اکتفا کرنے کا آخر کیا حاصل آپ کی سمجھ میں آتاہے؟ ’’براہِ راست جدوجہد‘‘ کو اگر اس معنی میں لیا جائے کہ آپ خارجی دبائو ڈال کر مطلوبہ نوعیت کی لیجسلیچر کو ازروئے دستور لازم کرانا چاہتے ہیں، یا اس معنی میں کہ آپ ملک میں وہ عام ذہنی واخلاقی انقلاب لانا چاہتے ہیں جس سے کتاب وسنت کا علم رکھنے والے اہل تقویٰ واہل بصیرت لوگ لیجسلیچر پر غالب یا پوری طرح قابض ہوجائیں، دونوں صورتوں میں یہ نتیجہ عملاً جب بھی رونما ہو گا، محض باہر سے براہِ راست نہ ہوگا، بلکہ انتخابی نظام کے توسط ہی سے ہو گا، خواہ اس واسطے کو آپ آج استعمال کریں یا دس بیس یا پچاس سال کے بعد۔ پھر جب صورت واقعہ یہ ہے تو یہ براہِ راست جدوجہد انتخابات کو نظر انداز کرنے کے بجائے ان کے ساتھ ساتھ کیوں نہ ہو؟ کیوں نہ ایساہو کہ عام ذہنی واخلاقی انقلاب کے لیے براہِ راست جدوجہد بھی پوری طاقت کے ساتھ کی جائے، اور اس میں جتنی جتنی کامیابی نصیب ہو،اسے انتخابات پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر انداز ہونے کے لیے استعمال بھی کیا جاتا رہے۔اس محاذ کو مزاحم طاقتوں کے لیے بالکل کھلا چھوڑ دینے میں آپ کیا فائدہ دیکھتے ہیں، اور کیا آپ کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جتنی مدت بھی آپ اسے ان کے لیے خالی چھوڑنے کے بعد اس کی طرف رجوع کریں گے(اور رجوع بہرحال آپ کو اپنے مقصد کے لیے کبھی نہ کبھی کرنا پڑے گا)قدم رکھنے کی جگہ کو تنگ سے تنگ تر ہی پائیں گے۔
۲۔ مخلوط انتخاب کے حق میں جو بحث آپ نے کی ہے،اس سے پھر یہی محسوس ہوتا ہے کہ آپ واقعی صورت حال کو نظر انداز کرکے ایک ایساخلا فرض کررہے ہیںجس میں آپ کی خیالی تجویزیں آپ کے حسب منشا نافذ ہو سکتی ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ یہاں مجرد ایک انسانی آبادی رہتی ہے جس کا نہ کوئی ماضی ہے نہ حال۔ اس سادہ وبے رنگ مجموعے کے سامنے بس ایک اسلامی پروگرام رکھ دینا ہے۔حالاں کہ یہاں ایک ایسی آبادی رہتی ہے جس پر ایک طویل مدت سے جمہوریت، لادینیت اور وطنی قومیت کے تصورات پر مبنی ایک نظام عملاً مسلط رہا ہے۔ اس نظام کی جڑیں نہ صرف نظام حکومت میں، بلکہ نظام تعلیم اور نظام تمدن میں بھی دُور دُور تک پھیلی ہوئی اور گہری جمی ہوئی ہیں، اور اس نظام کے تینوں بنیادی تصورات ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزم کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ دوسرا امر واقعہ جس سے ہم دوچار ہیں، یہ ہے کہ اس آبادی میں صرف انسان نہیں ہیں بلکہ مسلمان اور غیر مسلم دو بڑے عنصر بستے ہیں اور غیر مسلم عنصر کا بڑا حصہ ہندوئوں پر مشتمل ہے۔مسلمانوں میں سے جس طبقے یا جن طبقات کے ہاتھ میں عملاً اس وقت زمام کار ہے، وہ ذہنی طور پر اس دینی نظام کا مخالف ہے جس کی طرف ہم ملک کو کھینچ ر ہے ہیں اور اس لادینیت کا حامی ہے جو ایک مدت دراز سے مسلط چلی آرہی تھی۔ غیر مسلموں میں جس ہند وعنصر کی غالب اکثریت ہے،اس کو وطنی قومیت کے تصور سے نہ صرف جذباتی وابستگی ہے بلکہ اس کی ساری تمنائیں اور اس کے سارے مفاد اس امر سے وابستہ ہیں کہ یہاں اسی تصور قومیت پر لادینی نظام قائم ہو۔ان حالات میں مخلوط انتخاب اس سادہ شکل میں نہ آئے گا جس میں آپ اسے اسلامی پروگرام پیش کرنے کے لیے موزوں سمجھتے ہیں،بلکہ اپنے اس پورے تاریخی اورموجودہ پس منظر کے ساتھ آئے گا،اور ان تمام عناصر کا آلۂ کار بن کر آئے گا جو وطنی قومیت اور لادینیت کے حامی ہیں۔خصوصیت کے ساتھ مشرقی پاکستان کے حالات پر جس کی نگاہ ہو،وہ کبھی اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہو سکتا کہ وہاں مخلوط انتخاب لادینی اور بنگلے قوم پرستی کی بہ نسبت اسلامی پروگرام کے لیے زیادہ ساز گار ہوسکے گا۔دونوںکی پشت پر جوقوتیں اور جو موافق اسباب ووسائل وہاں موجود ہیں، ان کا موازنہ کرنے سے یہ خوش فہمی بآسانی دور ہو سکتی ہے۔ جداگانہ انتخاب کے جتنے نقصانات اور مخلو ط انتخابات کے جتنے فوائد بھی آپ گنائیں، ان کو جوں کا توں مان لینے کے بعد بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ جس واقعی صورت حال سے ہم کو اس وقت سابقہ درپیش ہے ،اس کو نظر انداز کرکے ان کے درمیان موازنہ کرنا اور ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرلینا حکمت عملی کے لحاظ سے کہاں تک درست ہے۔
اس بحث میں آپ اس بات کو بھی بھول گئے ہیں کہ اسلامی پروگرام پیش کرنے کا ہر جگہ ایک ہی لگا بندھا طریقہ نہیں ہے، بلکہ حال اور مقام کے لحاظ سے اس کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔ ایک جگہ وہ ہوتی ہے جہاں سب غیر مومن ہوتے ہیں۔دوسری جگہ وہ ہوتی ہے جہاں اگرچہ مومن موجود ہوتے ہیں مگر غلبہ کفار کا ہوتا ہے اور کفر ہی کا نظام مسلط رہتا ہے۔ تیسری جگہ وہ ہوتی ہے جہاں اسلام کا اقرار کرنے والوں کا غلبہ ہوتا ہے مگر وہ غافل اور گمراہ ہوکر سراسر کافرانہ نظام پر چل رہے ہوتے ہیں۔ ایک اور جگہ ایسی ہوتی ہے جہاں تسلط تو کافرانہ نظام کا ہی ہوتا ہے مگر اقرار اسلام کرنے والوں کی اکثریت اسلامی نظام کی خواہش مند ہوتی ہے۔ اور ان سب سے مختلف پوزیشن اس جگہ کی ہوتی ہے جہاں اسلام کا اقرار کرنے والے نہ صرف غالب ہوتے ہیں بلکہ اسلامی نظام کی نیو بھی رکھی جاچکی ہوتی ہے اور پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ اب اس ادھورے کام کی تکمیل کرنی ہے۔ پاکستان میں ہم پہلی چار حالتوں سے نہیں بلکہ اس آخری حالت سے دوچار ہیں۔ یہاں آپ کو سب سے پہلے ان لوگوں کو پکارنا ہے جو اسلام کا اقرار کرتے ہیں، اس غرض کے لیے پکارنا ہے کہ وہ ا س ادھوری تعمیر کی تکمیل کے لیے تیار ہوں،اور وہ پروگرام پیش کرنا ہے جو اس مرحلے کے لیے درکار ہے۔ اس موقع پر اگر طریق انتخاب مخلوط ہو گا تو آپ کو بہت پیچھے ہٹ کر اس جگہ سے دعوت کا آغاز کرنا ہو گا جو مسلم اور غیر مسلم سب کو یکساں اپیل کرسکے اور رکھی ہوئی نیو کو نظر انداز کرکے بجائے خود نیو رکھنے کی بات شروع کرنی پڑے گی، جس پر ہر وہ شخص آپ کی عقل مندی پر ہنس دے گا جو واقعی صورت حال کو آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اور اگر آپ ایسا نہ کریں گے بلکہ پروگرام اس ادھورے کام کی تکمیل ہی کے لیے پیش کریں گے تو مجھے بتایئے کہ کس عقل کی رُو سے آپ غیر مسلم آبادی کے پاس یہ دعوت لے کر جائیں گے کہ نیم دینی دستورکو کامل اسلا می دستور میں تبدیل کرنے اور دستور اسلامی کے تقاضوں کو بلا تحریف پورا کرنے کے لیے کتاب وسنت کا علم رکھنے والے اہل تقویٰ یا اہل بصیرت درکار ہیں،آئو ہمارے ساتھ تم بھی مل کر ان کا انتخاب کرو اور چھوڑ دو ان لوگوں کو جو اس رکھی ہوئی نیو کو ڈھا کر وطنی قومیت کی تصویر پر لادینی نظام تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
پھر یہاں سوال صرف عقل وحکمت ہی کانہیں، اسلام کے اس آئین کا بھی ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ یہ آئین اسلام کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کو بہرحال ایک حیثیت میں نہیں رکھتا۔ ماننے والے خواہ ایمان اور عمل کے لحاظ سے کتنے ہی مختلف مراتب میں ہوں،خواہ ان میں سے کوئی صدیقیت کا مرتبہ رکھتا ہو اور کوئی اسلام کی بالکل ابتدائی سرحد پر کھڑا ہو،بہرحال آئینی پوزیشن میں وہ سب برابر کے شریک ہیں، اور نہ ماننے و الوں کی آئینی پوزیشن ان سے مختلف ہے۔ اسلامی نظام جب بھی قائم ہو گا، اسلام کے آئین کی رو سے اس کی عمارت مسلم معاشرے کی بنیاد ہی پر اٹھائی جائے گی، اس کے مدار کار وہی لوگ ہوں گے جو اس کے حق ہونے کا اقرار کرتے ہیں نہ کہ وہ جو اس کا اقرار نہیں کرتے۔ اور اس کے اصحاب امر کا انتخاب اور ان کا عزل ونصب ماننے والوں ہی کے ہاتھ میں ہوگا نہ کہ نہ ماننے والوں کے ہاتھ میں۔ یہ ا متیازاسلام خود قائم کرتا ہے۔اس کا پورا تقاضا تو یہ ہے کہ اسلامی ریاست کی مجلس شوریٰ صرف مسلمانوں پر مشتمل ہو۔لیکن اگر وقت اور حالات کی رعایت سے اس میں غیر مسلموں کی شرکت بھی قبول کرلی جائے تو کم ازکم اس کے مسلم ارکان کو مسلمانوں کی رائے سے منتخب ہونا چاہیے،اس میں غیر مسلموں کی رائے کا دخل ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ اس سے تعصب پیدا ہوتا ہے تو ہو۔دعوت اسلامی میں رکاوٹیں پڑتی ہیں تو پڑا کریں۔ہم اسلام کے موجد تو نہیں ہیں کہ اپنی مرضی سے جیسا چاہیں پروگرام بنائیں اور دعوت اسلامی کا مفاد جس طریقے میں ہم کو نظر آئے،اس کو اختیار کرلیں۔ خود اسلام ہی جب اپنے نظام میں مسلم اور غیر مسلم کا امتیاز کرتا ہے تو ہم اسلام سے بڑھ کر اس کے مفاد کو جاننے والے کون ہیں کہ اس امتیاز کو نظر انداز کرکے ایک نرالے اسلامی نظام کی تعمیر کا پروگرام لے کر اٹھیں۔
۳۔ آپ نے موجودہ نیم اسلامی دستور کے جتنے خطرات بتائے ہیں،وہ سب صحیح ہیں۔ اس میں قریب کے جتنے پہلو آپ نے گنائے ہیں،ان سے بہت زیادہ کے ہم قائل ہیں۔ اس کو پورے اسلامی دستور سے بدلنے کی جدوجہد پر جتنا بھی زور آ پ دیں، بالکل حق بجانب ہے۔ مگر جب ان چیزوں کے بیان میں آپ اتنا مبالغہ کرتے ہیں کہ اس نیم دینی دستور کی بہ نسبت لادینی دستو ربن جانا قابل ترجیح ٹھیرتا ہے، تو آپ سے اتفاق کرنا ہمارے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کفار کی ریاست کا کفر پر قائم ہونا اور چیز ہے اور مسلمانوں کی قومی ریاست کا کفر پر قائم ہوجانا بالکل ایک دوسری ہی چیز۔ ان دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔اگر شروع ہی میں پاکستان کی اس نوزائیدہ ریاست کو اس راستے پر جانے سے روکنے کی کوشش شروع نہ کردی جاتی اور مسلمانوں کے قومی جذبات کو اسلامی ریاست کے مطالبے کی طرف نہ موڑ دیا جاتا تو یہاں تھوڑی ہی مدت کے اندر اسلامی نظام کی جدوجہد کے راستے میں موجودہ حالت کی بہ نسبت بدرجہ ہا زیادہ سخت مشکلات پیدا ہوجاتیں۔یہ کوئی عقل مندی نہیں ہے کہ آدمی محض کوہ کنی کے ذوق میں اپنے آگے مشکلات کے پہاڑ قائم ہو جانے دے، پھر ان کو توڑنے کی فکر کرے۔ سب سے بڑی سہولت جو اس نیم دینی دستور کی ساری پرفریبیوں اور خطر ناکیوں کے باوجود ہمارے لیے پیدا ہو گئی ہے، وہ یہ ہے کہ اب آئینی وجمہوری طریقوں سے مطلوبہ تبدیلی لانے کا راستہ کھل گیا ہے۔ اب ہم صحیح توازن کے ساتھ یہ کوشش کرسکتے ہیں کہ ایک طرف باشندگان ملک کے افکار وتصورات اور اخلاقی قدروں کو بدلتے چلے جائیں اور دوسری طرف جتنی جتنی یہ تبدیلی ہوتی جائے ،اسی تناسب کے ساتھ ہم انتخابات پر اثر انداز ہوکر وہ طاقت پیدا کرتے جائیں جس سے ملک کے نظام زندگی کو عملاً اسلامی نظام میں تبدیل کرنے کے لیے ریاست کے ذرائع استعمال کیے جاسکیں۔ یہاں تک کہ اس تدریجی نشو ونما سے ایک وقت وہ آجائے جب معاشرہ اور ریاست دونوں ٹھیک اسلام کے مطابق ہوجائیں۔ خاص لادینی دستور بن جانے کی صورت میں یہ راستہ ہمارے لیے بالکل بند رہتا۔ ہمیں اس مقصد کے لیے دوسرے بدرجہ ہا زیادہ کٹھن راستے ڈھونڈنے پڑتے۔ اور پھر بھی آخر وقت تک یہ سوال ہمارے لیے سخت پریشان کن رہتا کہ وہ آخری فعل(final act) کیا ہو جس سے ریاست کی کافرانہ نوعیت عملاًاسلامی نوعیت میں تبدیل ہوجائے۔
علاوہ بریں یہ بات کہ ہم نے پچھلے آٹھ نو سال کی جدوجہد میں صرف اتنا ہی کام کیا ہے کہ ریاست کوایک قطعی لادینی ریاست بن جانے سے روک دیا اور ایک نیم دینی دستور بنوالیا، ایک بہت بڑی غلط فہمی اور اصل حقیقت کا بڑا غلط اندازہ ہے۔اصل معاملہ یہ ہے کہ ہماری دستوری جدوجہد محض دستور بنوالینے کی جدوجہد تھی ہی نہیں۔ وہ دراصل یہاں دو رجحانات کی کش مکش تھی۔ایک لادینی رجحان پوری طرح ملک پر قابض تھا۔ اس کی پشت پر صرف حکومت ہی کے تمام ذرائع نہ تھے بلکہ پوری دنیا کے غالب نظام کا فکری سرمایہ اور ہماری اپنی قوم کے سب سے زیادہ طاقت ور اور ذی اثر طبقوں کا ذہنی اور عملی تعاون بھی تھا اور اسی رجحان کو یہ فیصلہ کرنے کے آئینی اختیارات بھی کلیتاً حاصل تھے کہ اس نوزائیدہ مملکت کا آیندہ نظام کن تصورات اور کن اصولوں پر قائم ہو۔ کیوں کہ دستور ساز اسمبلی ایک فرد واحد کے سوا پوری کی پوری ان لوگوں پر مشتمل تھی جو یا تو بالکل لادینی رجحانات رکھتے تھے یا اسلامی رجحان کے معاملے میں کم ازکم بے پروا تھے۔دوسری طرف اسلامی رجحان کی پشت پر اسلام کے ساتھ مسلمان عوام کی جذباتی وابستگی کے سوا کوئی دنیوی طاقت نہ تھی، اور اس جذباتی وابستگی کا حال یہ تھا کہ اسے مذہب کے نام پر کوئی نمایشی کھلونا دے کر بہلایا جاسکتا تھا، بلکہ پیٹ اور روٹی کے نام پر اس کارخ اشتراکیت تک کی طرف موڑ دینا ممکن تھا۔ اسلامی حکومت کی جو مبہم سی خواہش لوگوں میں پائی جاتی تھی ،اس کا کوئی واضح تصور ذہنوں میں موجود نہ تھا، حتیٰ کہ اچھے خاصے اہل علم اصحاب کے ذہن کی رسائی بھی شیخ الاسلامی اور قضاء شرعی سے آگے کسی چیز تک نہ جاتی تھی۔ اس مقام سے جدوجہدکی ابتدا ہوکر موجودہ نیم دینی دستور بننے تک جو نوبت پہنچی تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کام بحیثیت مجموعی دینی رحجان کی طاقت بڑھنے اور لادینی رحجان کا زور گھٹنے کے بغیر ہی ہوگیا یا ہوسکتا تھا؟ یہ تو ایک صریح پیمانہ ہے اس امر کا کہ اس آٹھ نوسال کی مدت میں دونوں رجحانات کی طاقتوں کا تناسب کس حد تک بدلا ہے۔آخر یہ نتیجہ محض ایک مطالبۂ دستوری ہی سے تو رونما نہیں ہوگیا ہے۔ جو کچھ آج آپ کے سامنے ہے،وہ اس چیز کا نتیجہ ہے کہ عوام کے جذبات کو جو کسی رخ پر بھی موڑے جاسکتے تھے، قطعیت کے ساتھ اسلامی رجحان کی طرف موڑ دیا گیا۔ اسلامی نظام اور اسلامی ریاست کا ایک صاف اور واضح تصور ان کے سامنے لایا گیا۔ ان کے اندر اس کی اتنی پہچان پیدا کی گئی کہ کسی نمایشی لیبل سے دھوکا نہ کھا سکیں۔ان میں اس کی پیاس نہیں تو کم ازکم اتنی طلب پیداکردی گئی کہ اس کے سوا کسی چیز پر راضی نہ ہوسکیں۔ان کی رائے عام کو ہموار کرکے اسلامی نظام کی پشت اتنی مضبوط کردی گئی کہ ملک کو کسی اور طرف لے جانا مشکل ہوگیا، اور اب جہاں تک قدم بڑھ چکا ہے،اس سے پیچھے ہٹنا بھی آساں نہ رہا۔ پھر ذہین طبقے کو بھی اسلامی نظام زندگی،اسلامی قانون اور اسلامی دستور کے بارے میں مطمئن کرنے اور ان کی ذہنی الجھنوں کو دُور کرنے کے لیے اچھا خاصا کام کیا گیا ہے، جس کی بدولت آج اس طبقے کا جتنا حصہ لادینی نظام کا مؤید ہے ،اس سے زیادہ حصہ اسلامی نظام کی طرف مائل ہے۔ اس پر مزید یہ کہ اسی مدت میں اسلام کے لیے عملاً کام کرنے والوں اور ان کا ساتھ دینے والوں کی تعداد میں بھی معتدبہ اضافہ ہوا، جس کو اس جدوجہد کے آغاز کی حالت کے مقابلے میں دیکھا جائے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج اس رجحان کی خدمت کے لیے پہلے سے بہت زیادہ ہاتھ اور دماغ اور وسائل فراہم ہوچکے ہیں۔ یہ سب کچھ نیم دینی دستور بنوا کر ختم نہیں ہوگیا ہے۔ یہی ہمارے آگے کے کام کا سرمایہ ہے۔خدا کے فضل کے بعد اگر کسی چیز کے بل بوتے پر ہم آگے کی تعمیر واصلاح کے لیے کچھ سوچ سکتے ہیں تو وہ یہی پچھلے کام کا فراہم کیا ہوا سرمایہ ہے۔اس کی قدر وقیمت کا انداز ہ کرنے میں مبالغہ جتنا غلط ہے،اتنا ہی غلط اس کا کم اندازہ کرنا بھی ہے۔حقیقت سے زیادہ اندازہ کرنے کا نتیجہ اگر یہ ہوگا کہ ہم وہ کام کرنے کے لیے چل پڑیں گے جس کی طاقت ہمارے پاس نہیں ہے، تو حقیقت سے کم اندازہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جو کچھ ہم اس وقت کرسکتے ہیں ،اس کے لیے اقدام کرنے سے رہ جائیں گے۔ اور ہوسکتا ہے کہ اس کے مواقع پھر نہ ملیں یا آج کی بہ نسبت بہت کم رہ جائیں۔
۴۔ جماعت اسلامی کے جن لوگوں نے اپنی باتوں سے یا اپنے طرز عمل سے آپ کو اس شکایت کا موقع دیا ہے جو آپ نے اپنے عنایت نامے کے آخری حصے میں بیان کی ہے، ان کے حال پر مجھے افسوس ہے۔ اگر ہمیں معلوم ہو کہ وہ کون لوگ ہیں،تو ہم تحقیق کریں گے اور ان کی اصلاح کے لیے کوشش میں دریغ نہ کریں گے۔مگر جماعت نے بحیثیت مجموعی نہ تو موجودہ دستور کے ناقص پہلو بیان کرنے اور کامل اسلامی دستور کا تصور دلانے میں کوتاہی کی ہے اور نہ کبھی عوام کو اس غلط فہمی میںمبتلا کیا ہے کہ اسلامی دستور تو پورا کا پورا بن چکا ہے، اب صرف طریق انتخاب کی آخری مہم باقی ہے۔دوسری جن کوتاہیوں کا آپ نے ذکر فرمایا ہے،انہیں دور کرنے کی ان شاء اﷲ ضرور کوشش کی جائے گی۔ بہرحال انسانی کام بالکل معیارِ کمال پر پہنچے ہوئے تو نہیں ہوسکتے۔ میں آپ کا شکر گزار ہوںگا اگر آپ جماعت کی کوتاہیوں سے بھی مجھے خبر دار کرتے رہیں اور میری اپنی کوتاہیوں سے بھی۔ خصوصیت کے ساتھ مجھے یہ ضرور بتایئے کہ میں نے کہاں پیش روئوں کے کاموں کی غلط ترجمانی کی ہے یا اسلاف کی اسلامی بصیرت اور خلوص کو مشکو ک بنایا ہے۔میں اپنی ہر بات کی اصلاح کے لیے تیار ہوں جس کے غلط ہونے پر مجھے مطمئن کردیا جائے۔ آپ یقین کریں کہ ایسا کوئی کام مجھ سے ہوا بھی ہے تو دانستہ نہیں ہوا ہے۔

کیا اقامتِ دین فرضِ عین ہے؟

سوال: خاکسار کچھ سوالات کرکے جناب کو جواب دینے کی زحمت دینا چاہتا ہے، اگرچہ جناب کی مصروفیتوں کے پیش نظر مناسب نہیں معلوم ہوتا، تاہم میں جناب ہی سے ان سوالات کے جوابات معلوم کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہوں، کیوں کہ ان میں بعض اہم سوالات اس نصب العین اور اس تنظیم سے متعلق ہیں جن کا شہود اور جس کا وجود اس دور میں آپ کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے۔ میں ۹ سال سے اس جماعت سے تعلق رکھتا ہوں۔ اس عرصے میں ،میں نے اس کی تقریباً تمام کتابیں پورے غور وخوض کے ساتھ پڑھیں اور ایک قلبی احساس فرض کے تحت بلکہ ایک اندرونی دبائو کے تحت اس میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کی۔میں نے قرآن وسنت کے دلائل سے مطمئن ہوکر ا س جماعت کے نظم سے منسلک ہونا اپنے ایمان واصلاح کا تقاضا سمجھا۔ میں جذباتی طور پر نہیں بلکہ پورے عقل وہوش کے ساتھ یہ خیالات رکھتا ہوں کہ جس شخص پر اس جماعت کا حق ہونا واضح نہ ہوا ہو ،اس کا معاملہ تو اﷲ تعالیٰ کے یہاں لائق عفو ودرگزر ہے، لیکن جس شخص کے دل ودماغ نے پکار کر یہ کہہ دیا ہو کہ اس برصغیر میں یہی ایک جماعت ایسی ہے جو اس دور میں حق کا کام صحیح طریق پر کررہی ہے اور اس جماعت کے علاوہ اس سرزمین میں اور کوئی جماعت ایسی نہیں جس کا دامن فکر وکردار من حیث الجماعت اس طرح ہر آمیزش سے پاک ہو، تو اس پر عند اﷲ یہ فرض عین ہوجاتا ہے کہ وہ اس جماعت سے منسلک ہو اور اگر وہ اس وقت کسی دنیوی مصلحت کے پیش نظر یا کسی نفسانیت کی بِنا پر اس جماعت سے اپنا تعلق منقطع کرے تو اﷲ تعالیٰ کے یہاں اس سے مواخذہ ہو گا۔ اﷲ جانتا ہے کہ میں نے ان سطور میں کسی گروہی عصبیت یا مبالغے سے کام نہیں لیا ہے، بلکہ اس ناچیز نے جو کچھ سمجھا ہے،وہ ظاہر کردیا ہے۔ اگر اس میں غلط فہمی کام کررہی ہے تو اسے رفع فرمایئے۔
یہاں میں سات آٹھ ما ہ سے مقیم ہوں اور میری ایک ایسے بزرگ سے ملاقات ہے جو عالم دین ہیں، جماعت کی دعوت اور طریق کار کو عین حق سمجھتے ہیں اور جماعت سے باقاعدہ متفق بھی ہیں۔ اس کے باوجود ان کا خیال یہ ہے کہ فریضۂ اقامت دین جس کے لیے یہ جماعت کام کررہی ہے ، وہ فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے۔ اس لیے جب اس میں کچھ لوگ حصہ لے رہے ہیں تو کوئی ضروری نہیں کہ اس میں ہر ایک شخص حصہ لے۔اگر کسی شخص کی دنیوی مصلحتیں اسے اس کام سے روکتی ہیں اور وہ ان کی وجہ سے اس جماعت سے ہر قسم کا تعلق توڑ لیتا ہے اور اقامت دین کے لیے ذاتی طور پر بھی علیحدہ سے کوئی کام نہیں کرتا تو وہ کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا اور اس سے اﷲ تبارک و تعالیٰ کے یہاں کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ اس کی مثال تو بس نماز جنازہ کی سی ہے۔اگر کسی شخص کے پاس وقت اور فرصت ہے اور اس کی طبیعت چاہتی ہے تو وہ اس میں شرکت کرے اور اگر وقت وفرصت نہیں ہے اور طبیعت نہیں چاہتی تو اسے پورا اختیار ہے کہ اس میں حصہ نہ لے۔
یہ بات تو وہ فریضۂ اقامت دین کے بارے میں کہتے ہیں۔اب رہی جماعت کی تنظیم،اس سے منسلک ہونا،اس کے امیر کی اطاعت ،اس راہ میں آنے والی مشکلات پر صبر، اور اس نصب العین کے لیے ہرقسم کی جانی ومالی قربانیاں، تو ان امور کو وہ بالکل نوافل کا درجہ دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ یہ امور تو ایسے ہیں جیسے نماز تہجد، جو اﷲ تعالیٰ کے یہاں مراتب عالیہ کے حصول کے لیے تو ضروری ہے لیکن محض بخشش و نجات کے لیے ضروری نہیں ہے۔جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں نے اس راہ پر اپنی جانیں نثار کردیں اور اپنی اولاد اور اپنے خاندان کی مستقبل کی زندگیوں کے بارے میں کچھ نہیں سوچا تو کیا انہوں نے یہ سب کچھ محض ایک نفل کام کے لیے کیا؟تو وہ اس کا جواب اثبات میں دیتے ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ ان کی وہ ساری قربانیاں محض بلند مراتب کے حصول کے لیے تھیں،ورنہ ایسا کرنا ان پر فرض نہیں تھا۔ انہوں نے یہ باتیں اس وقت کہیں جب ان کے سامنے اخوان کے مثال پیش کی گئی۔ان کا انداز استدلال اس قسم کا ہے کہ اگر اس کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو اخوان اور ایسے ہی دوسرے اہل حق جنہوں نے اﷲ کے لیے اپنی جانیں نثار کردیں، وہ لائق ستایش ٹھیرانے کے بجائے الٹے لائق ملامت ٹھیریں گے، کیوں کہ محض نفل کام کے لیے اپنی جان دینا اور اپنے پس ماندگان کو کس مپرسی کی حالت میں چھوڑ جانا غلو فی الدین نہیں تو اور کیا ہے، اور اس کا مرتکب اﷲ کے نزدیک مستحق عذاب ہی ہوسکتا ہے۔
نظم جماعت کی پابندی اور اطاعت امیر کا جب ذکر آتا ہے تو وہ کہتے ہیں ایسی مختلف تنظیمیں جو مختلف ادوار اور مختلف ممالک میں دین کا کام کرنے کے لیے قائم ہوں،ان کے نظم کی پابندی ا ور ان کے اولی الامر کی اطاعت فرض نہیں ہے۔اطاعت تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی فرض تھی نہ کہ ایسی جماعتوں کے امرا کی جو وقتاًفوقتاً مختلف ملکوں میں دین کا کام کرنے کے لیے تشکیل پاتی رہیں۔ گویا کہ اب کوئی اور کام کرنے کا رہا نہیں ہے۔حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اگر اس دور میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہوجائے تو اس کے امیر کی اطاعت بھی اسی طرح فرض ہوگی جیسے خلفائے راشدین کے دور میں تھی۔
ایک عالم دین کی زبان سے یہ باتیں سن کر میں سکتے میں رہ جاتا ہوں۔میں نے اپنے ناقص علم کی حد تک انہیں مطمئن کرنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کا اوّل اور آخر جملہ یہی ہے کہ یہ باتیں فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ یا نفل کا درجہ رکھتی ہیں۔یہ وہ انداز فکر ہے جو تحریک اسلامی کے نشو ونما کے لیے سم قاتل ہے۔اس کا کسی ایسے نوجوان کے کانوں میں پڑ جانا جس نے ابھی اس راہ میں قدم رکھا ہی ہو،اس کے قوائے عمل کو مفلوج کردینے کے لیے کافی ہے۔پس اس لیے نہیں کہ ان صاحب کو مطمئن کرنا ہے،بلکہ اس لیے کہ اس کے اثرات دوسروں پر متعدی ہوسکتے ہیں،ان غلط خیالات کی تردید بہت ضروری معلوم ہوتی ہے۔یوں تو جماعت کا تمام لٹریچر ان کاجواب پیش کرتا ہے، لیکن غالباً کسی ایک جگہ اس کا مختصر او رمدلل جواب موجود نہیں ہے۔
ان صاحب کا ذہن فقہی اصطلاحات میں اس طرح الجھا ہوا ہے کہ جماعت کے لٹریچر کے سارے دلائل انہیں بے وزن معلوم ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جماعت کی کتابوںمیں دلائل نہیں ہوتے۔ پہلے تو میں ان کے اس جملے کا مطلب نہیں سمجھ سکا۔کیوں کہ جماعت کے لٹریچر کا دلائل سے مسلح ہونا ہی تو وہ وصف ہے جس کا لوہا مخالفین بھی مانتے ہیں۔اس لیے جب ان سے وضاحت چاہی گئی تو کہنے لگے کہ اس میں فقہ حنفی یا دیگر مکاتب فقہ کی کتابوں کاحوالہ نہیں ہوتا۔قرآن وسنت سے محض اپنے ہی نقطۂ نظر سے استدلال کیا جاتا ہے۔ ان کی گفتگو کا لب لباب یہ ہے کہ اگر فقہ حنفی کی کسی کتاب میں یہ دکھا دیا جائے کہ اقامت دین اور اس کے لیے ایک جماعت کا قیام اور پھر اس کے نظم سے وابستگی اور اس کے امیر کی اطاعت فرض عین ہے،تب تو وہ مانیں گے،ورنہ وہ اس کے لیے تیار ہیں کہ اگر جماعت کے اجتماعات میں شرکت پر ان سے اصرار کیا جائے اور ہفتہ وار رپورٹ طلب کی جائے تو وہ ’’متفقیت‘‘ سے بھی مستعفی ہوجائیں گے۔ اس لیے میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر جواب میں فقہ حنفی کی کتابوں کا حوالہ بھی ممکن ہو تو دیا جائے، شاید کہ ان کے دل کی گرہیں کھل جائیں۔
ایک سوال میں اپنی طرف سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ اکثر میرے ذہن میں یہ سوال ابھرتا رہا ہے کہ اسلام کے ارکان کی حیثیت سے پانچ چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ،ان میں فریضۂ اقامت دین کی جدوجہد شامل نہیں ہے، حالاں کہ اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے چھٹے رکن کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے تھی۔اگر ایسا ہوتا تو اسلام محض نماز،روزہ،حج اور زکوٰۃ تک محدود نہیں رہ سکتا تھا، بلکہ اس کے وہ تقاضے بھی ہر مسلمان کے سامنے ہمیشہ موجود رہتے جن کا شعور پیدا کرنے کے لیے علیحدہ سے ہر دور میں تحریکیں اٹھتی رہی ہیں۔ صراحتاً تحریر فرمایئے کہ دین کے اوامر میں فریضۂ اقامت دین کی کیا حیثیت ہے۔
ایک اور بزرگ ہیں جو پہلے تو جماعت سے اس حد تک تعلق رکھتے تھے کہ رکنیت کی درخواست دینے والے تھے لیکن یکایک ان کے ذہن رسا میں ایک نکتہ پیدا ہوا اور وہ اپنا دامن جھاڑ کر جماعت سے اتنی دُور جاکھڑے ہوئے گویا انہیں جماعت سے کبھی کوئی تعلق رہا ہی نہیں تھا۔وہ فرماتے ہیں کہ اسلامی دستور کی تشکیل کے بعد پاکستان ایک اسلامی ریاست بن چکا ہے اور یہاں تمام مسلمان شہری ایک نظام اطاعت میں منسلک ہوچکے ہیں۔یہ نظام اطاعت سب کو جامع اور سب پر فائق ہے۔اب سب کی اطاعتیں اس بڑے نظام اطاعت کے گرد جمع ہوچکی ہیں۔لہٰذا اس کی موجودگی میں کسی اور نظم کا قائم ہونا اور افراد سے اپنی اطاعت کا مطالبہ کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک حکومت کے اندر ایک متوازی حکومت کا قائم کرنا۔خلاصہ یہ کہ اب کسی جماعت، کسی تنظیم اور کسی امیر کی ضرورت نہیں ہے۔پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے ،حکومت اس کا تنظیمی مظہر ہے، تمام مسلمان شہری اب کسی جماعت کے نہیں بلکہ اس ریاست کی ہمہ گیر تنظیم کے رکن ہیں، اور ان کی تمام اطاعتیں اور وفا داریاں اسی تنظیم کاحق ہیں نہ کہ کسی اور جماعت کا۔ اب اطاعت کسی کی نہیں بلکہ ریاست کے صدر کی ہونی چاہیے۔ یہ وہ طرز استدلال ہے کہ اس کے نتیجے میں شہریوں کا حق انجمن سازی (right to form association) ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اور نہ صرف ختم ہوجاتا ہے بلکہ اس کا ذکر کرنا بھی حکومت کے خلاف بغاو ت کرنے کے مترادف ہے۔آپ کے پاس اس استدلال کا کیا جواب ہے؟کیا اسلامی ریاست واقعی ایک ایسی ریاست ہوگی جس میں کسی دوسری پارٹی کو جنم لینے اور جینے کا موقع نہیں ملے گا؟اگر ملے گا تو ایک نظام اطاعت کے لحاظ سے اس کی کیا حیثیت ہوگی؟کیا اب کسی مسلمان کا یہ استدلال درست ہے کہ اب اسے اسلام کے اجتماعی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کسی جماعت میں شریک ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ وہ ایک اسلامی ریاست کا ایک شہری ہے۔علمی حیثیت سے یہ سوالات خاص اہمیت رکھتے ہیں اور ان کا جواب علمی طریق پر ہی دیا جانا چاہیے۔
ایک سوال یہ ہے کہ شریعت میں نماز باجماعت کی کیا حیثیت ہے؟یہ واجب ہے، یا سنت مؤکدہ ہے‘ یا واجب بالکفایہ‘ یا سنت مؤکدہ بالکفایہ ہے؟ کن حالات یا عذرات میں اس کے وجوب یا تاکید کی سختی کم ہوجاتی ہے؟یہاں مسجدیں کم اور دور دور ہیں، لہٰذا اکثر لوگ گھروں میں نماز پڑھتے ہیں۔ حالاں کہ اگر وہ چاہیں تو تھوڑی سی زحمت گوارا کرکے مسجد میں پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن کوئی تو قافلے کا عذر کرتا ہے ،کوئی اندھیر ی رات کا،کوئی پانی اور کیچڑ اور راستے کی خرابی کا۔ کیا یہ عذر معقول ہیں؟ بعض لوگ ہیں جو اپنی دکان پر ہی نما زپڑھتے ہیں اور تنہا ہونے کا عذر پیش کرتے ہیں۔ان میں جماعت کے ارکان اور متفقین بھی ہیں۔ یہ لوگ اجتماع کرتے رہتے ہیں اور جماعت کا وقت نکل جاتا ہے۔بعد میں فرداً فرداً ادا فرماتے ہیں۔تحریر فرمایئے کہ یہ سب باتیں کہاں تک درست ہیں؟
کبائر میں جھوٹ کا کیا درجہ ہے؟کتاب وسنت میں اس کی جس قدر مذمت آئی ہے اور اس کے مرتکب کے لیے جتنی وعیدیں آئی ہیں،بیان فر مایئے۔کیا بعض حالات ایسے بھی ہیں جن میں جھوٹ بولنا مباح ہوجائے۔
لیکن اگر کسی شخص کے پاس ۲۔۱ ۵۲ تولے چاندی کی قیمت سے زیادہ قیمت کا سونا لیکن ۲۔۱ ۷ تولے سے کم ہے اور چاندی بالکل نہیں ہے اور نہ روپیا پس انداز ہوسکتا ہے‘ تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی یا نہیں؟ یہ سوال اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ سونے کا نصاب ۲۔۱ ۷ تولے ہے۔
اکثر لوگ وتر کی تیسری رکعت میں بالالتزام سورۂ اخلاص پڑھتے ہیں اور یہ بات خاص طور سے رمضان میں نظر آتی ہے جب تراویح کے بعد وتر جماعت کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں۔کیا یہ التزام کسی دلیل پر مبنی ہے یا محض رواج پر؟کیا یہ التزام درست ہے؟
فطرہ کی مقدار کے بارے میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔کوئی سوا سیر گیہوں دیتا ہے تو کوئی پونے دو سیر‘ اور کوئی سوا دوسیر۔ صحیح مقدار کیا ہے اور اس سلسلے میں آپ کا عمل کیا ہے؟فطرہ کے سلسلے میں دوسری بات یہ دریافت کرنی ہے کہ اگر کوئی شخص خود صاحب نصاب نہیں ہے بلکہ اس کی بیوی صاحب نصاب ہے توفطرہ محض بیوی پر واجب ہوگا یا شوہر پر بھی؟ اور یہ کہ اولاد کی طرف سے بھی فطرہ دیا جائے گا یا نہیں؟

جواب: جماعت کے متعلق آپ نے اپنا جو نقطۂ نظر بیان کیا ہے،قریب قریب وہی نقطۂ نظر تشکیل جماعت کے موقع پر میں نے بیان کیا تھا اور اس کے بعد برابر میں یہ بات لوگوں کے ذہن نشیں کرتا رہا ہوں کہ حق واضح ہوجانے اور یہ بات سمجھ لینے کے بعد کہ یہ جماعت برسر حق ہے ،اس کا ساتھ نہ دینا اﷲ تعالیٰ کے ہاں قابل مؤاخذہ ہے۔البتہ وہ لوگ معافی کے مستحق ہوسکتے ہیں جو جماعت کے موقف کے بارے میں کوئی شک رکھتے ہوں، یا اخلاص ودیانت کے ساتھ اس سے مطمئن نہ ہوں۔
آپ نے جن عالم دین کا ذکر کیا ہے ،ان کو یہ غلط فہمی ہے کہ اقامت دین کی سعی ہر حال میں صرف فرض کفایہ ہے۔حالاں کہ یہ فرض کفایہ صرف اسی حالت میں ہے جب کہ آدمی کے اپنے ملک یا علاقے میں دین قائم ہوچکا ہو،اور کفار کی طرف سے اس دارالاسلام پر کوئی ہجوم نہ ہو، اور پیش نظر یہ کام ہو کہ آس پاس کے علاقوں میں بھی اقامت دین کی سعی کی جائے۔ اس حالت میں اگر کوئی گروہ اس فریضے کو انجام دے رہا ہو تو باقی لوگوں پر یہ فرض ساقط ہوجاتا ہے اور معاملے کی نوعیت نماز جنازہ کی سی ہوتی ہے۔لیکن اگر دین خود اپنے ہی ملک میں مغلوب ہو، اور خدا کی شریعت متروک ومنسوخ کرکے رکھ دی گئی ہو،اور علانیہ منکرات اور فواحش کا ظہور ہورہا ہو اور حدود اﷲ پامال کی جارہی ہوں،یا اپنا ملک دارالاسلام تو بن چکا ہو مگر اس پر کفار کے غلبے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہو، تو ایسی حالتوں میں یہ فرض کفایہ نہیں بلکہ فرض عین ہوتا ہے، اور ہر وہ شخص قابل مؤاخذہ ہوگا جو قدرت واستطاعت کے باوجود اقامت دین او رحفاظت دین کے لیے جان لڑانے سے گریز کرے گا۔ اس معاملے میں کتب فقہیہ کی ورق گردانی کرنے سے پہلے صاحب موصوف کو قرآن مجید پڑھنا چاہیے جس میں جہاد سے جی چرانے والوں کو سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں، حتیٰ کہ انہیں منافق تک ٹھیرایا گیا ہے۔ حالاں کہ وہ نماز روزے کے پابند تھے۔ قرآن اس طرح کے حالات میں جہاد ہی کو ایمان کی کسوٹی قرار دیتا ہے اور اس سے دانستہ گریز بلکہ تساہل برتنے والوں کی کسی اطاعت کو بھی لائق اعتنا نہیں سمجھتا۔ اس کے بعد اگر کسی توثیق کی ضرورت صاحب موصوف کو محسوس ہو تو وہ فقہ کی کتابوں میں جہاد کی بحث نکال کر دیکھ لیں کہ دارالاسلام پر ہجوم عدو کی صورت میں جہاد فرض کفایہ ہے یا فرض عین۔جس زمانے میں فقہ کی یہ کتابیں لکھی گئی تھیں اس وقت ممالک اسلامیہ میں سے کسی جگہ بھی اسلامی قانون منسوخ نہیں ہوا تھا اور نہ حدود شرعیہ معطل ہوئی تھیں۔ اس لیے انہوں نے صرف ہجوم عدو ہی کی حالت کا حکم بیان کیا ہے۔ لیکن جب کہ مسلمانوں کے اپنے وطن میں کفر کا قانون نافذ اور اسلام کا قانون منسوخ اور اختیار ان لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو حدود اﷲ کی اقامت کو وحشیانہ فعل قرار دیتے ہیں، تو معاملہ ہجوم عدو کی بہ نسبت کئی گنا زیادہ سخت ہوجاتا ہے، اور اس صورت میں کوئی شخص جو دین کا کچھ فہم بھی رکھتا ہو،اقامت دین کی سعی کو محض فرض کفایہ نہیں کہہ سکتا۔
رہا نظم جماعت، تو اس کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ احکام کفر کے مقابلے میں احکام الٰہی کے اجرا کی کوشش بہرحال منظم اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتی۔لہٰذا اس کے لیے جماعت کا وجود اور جو جماعت موجود ہو، اس کا التزام ضروری ہے۔اس مضمون پر کثیر التعداد احادیث دلالت کرتی ہیں۔البتہ جہاں تمام اہل ایمان کی ایک جماعت موجود نہ ہو اور اس مقصد عظیم کے لیے اجتماعی قوت پیدا کرنے کی مختلف کوششیںہورہی ہوں،تو التزام جماعت کے ان احکام کا اطلاق تو نہ ہوگا جو الجماعت کی موجودگی میں شارع نے دیے ہیں،لیکن کوئی ایسا شخص جو اقامت دین کے معاملے کی شرعی اہمیت سے واقف ہو اور اس معاملے میں ایک مومن کے فرض کا احساس رکھتا ہو،ان کوششوں کے ساتھ بے پروائی کا رویہ اختیار نہیں کرسکتا۔ اس لیے لازم ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ ان کا جائزہ لے اور جس کوشش کے بھی صحیح وبرحق ہونے پر مطمئن ہوجائے ،اس میں خود بھی حصہ لے۔ پھر حصہ لینے کی صورت میں(یعنی جب کہ آدمی ایک جماعت کو برحق جان کر اس سے وابستہ ہوچکا ہو) نظم و اطاعت کا التزام نہ کرنا سراسرایک غیر اسلامی فعل ہے۔یہ اطاعت محض نفل نہیں بلکہ فرض ہے، کیوں کہ اس کے بغیر فریضۂ اقامت دین عملاًادا نہیں ہوسکتا۔احادیث میں اطاعت امر کے جو احکام آئے ہیں، اور خود قرآن میں اطاعت اولوا ا لامر کا جو فرمان خداوندی آیا ہے، ان کے متعلق یہ سمجھنے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ احکام صرف رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عہد کے لیے تھے۔ اگر یہ بات ہو تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اب نہ کوئی اسلامی حکومت چل سکتی ہے اور نہ کبھی جہاد فی سبیل اﷲ ہوسکتا ہے، کیوں کہ نظام کی پابندی اور سمع وطاعت کے بغیر ان چیزوں کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔میں سخت حیران ہوں کہ کوئی شخص جس کو علم دین کی ہوا بھی لگی ہو، ایسی بے سروپا باتیں کیسے کہہ سکتا ہے۔
دوسرے جن صاحب کا آپ نے ذکر کیا ہے، ان کی عقل نے وہ نکتہ پیدا کیا جو ابھی تک موجودہ ’’امراء المومنین‘‘ کو بھی نہیں سوجھا ہے۔اگر یہ بات انہیں سوجھ جائے تو ملک کی تمام جماعتوں کو بیک جنبش قلم ختم کرکے ہمیشہ کے لیے ہر اس شخص کا منہ بند کردیں جو یہاں احکام اسلامی کے اجرا کا نا م لے اور پھر یہاں صرف رقص وسرود اور فسق وفجور ہی ہوتا رہے۔اس کے بعد تو یہاں اطمینان کے ساتھ انگریزی دور کے قوانین چلتے رہیں گے، اور شریعت کے نفاذ کی جدوجہد کرنے والے دنیا ہی میں نہیں ،آخرت میں بھی سیاہ رو اور مستحق عذاب ٹھیریں گے،کیوں کہ شرعاً وہ نفاذ شریعت کی سعی کرنے کے مجاز ہی نہ ہوں گے۔مجھے تو یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ جن صاحب کی عقل وخرد کا یہ حال تھا،وہ جماعت کو چھوڑ کر دُور چلے گئے۔
اب آپ کے سوالات کا مختصر جواب عرض ہے:
۱۔ فریضۂ اقامت دین کی حیثیت سمجھنے کے لیے آپ کو الجھن اس لیے پید اہوئی ہے کہ آپ ارکان اسلام اور فرائض اہل ایمان میں فرق نہیں کررہے ہیں۔ارکان اسلام وہ ہیں جن پر اسلامی زندگی کی عمارت قائم ہوتی ہے‘ اور فرائض اہل ایمان وہ مقتضیات ایمان ہیں جنہیں اسلامی زندگی کی تعمیر کے بعد پورا کیا جانا چاہیے۔ارکان اسلام قائم نہ ہوں تو سرے سے اسلامی زندگی کی عمارت کھڑی ہی نہ ہوگی۔لیکن اس عمارت کے کھڑے ہوجانے کے بعد اگر مقتضیات ایمان پورے نہ کیے جائیں تو یہ ایسا ہوگا جیسے جنگل میں ایک بے مصرف اور ویران عمارت کھڑی ہے۔ فریضۂ اقامت دین اسلام کا ستون نہیں ہے بلکہ وہ اسلام کی عمارت تعمیر کرنے کے مقاصد میں سے اہم ترین مقصد ہے‘ اور مزید برآں اسی پر اس عمارت کے استحکام اور اس کی آبادی اور اس کی توسیع کا انحصار ہے۔اگر اس فرض کو مہمل چھوڑ دیا جائے تو اسلام کی عمارت بتدریج بوسیدہ ہوجائے گی، اور اس میں فسق وکفر کو قدم جمانے کا موقع مل جائے گا، اور اس کے وسیع ہوکر جمیع خلائق کے لیے پناہ گاہ بننے کا کوئی امکان ہی نہ ہوگا۔ اس لیے اس کام کو اسلام میں مسلمان کی زندگی کے مقصد کی حیثیت سے بیان کیا گیاہے: جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ البقرہ 143:2 اور كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ آل عمران 110:3
۲۔ اسلامی ریاست کی ایک حالت وہ ہوتی ہے جس میں ریاست صرف نظریے کے اعتبار ہی سے اسلامی نہ ہو بلکہ عملاً حکومت بھی اسلامی ہو،صالح ومتقی اہل ایمان اس کو چلا رہے ہوں،شوریٰ کا نظام اپنی حقیقی اسلامی روح کے ساتھ قائم ہو‘ اور پورا نظام حکومت ان مقاصد کے لیے کام کررہا ہو جس کی خاطر اسلام اپنی ریاست قائم کرنا چاہتا ہے۔اس صورت میں ریاست کا صدر ہی تمام اہل ایمان کا لیڈر ہوگا اور اس کی قیادت میں تمام اہل ایمان ایک جماعت ہوں گے۔ اس وقت جماعت کے اندر جماعت بنانے کی ہر کوشش غلط ہوگی اور ایک امام کے سوا کسی دوسرے کی بیعت یا اطاعت کا کوئی جواز نہ ہو گا۔دوسری حالت وہ ہے جس میں ریاست صرف نظریے کے اعتبار سے اسلامی ہو۔ باقی خصوصیات اس میں نہ پائی جاتی ہوں۔اس حالت کے مختلف مدارج ہیں اور ہر درجے کے احکام الگ ہیں۔بہرحال ایسی حالت میں اصلاح کے لیے منظم اجتماعی کوشش کرنا ناجائز تو کسی طرح نہیں ہے‘ اور بعض صورتوں میں ایسا کرنا فرض بھی ہوجاتا ہے۔اسے ناجائز قرار دینے کا خیال اسلامی ریاست کے فاسق حکمران کریں تو کریں،لیکن یہ عجیب بات ہوگی کہ اس کے صالح شہری بھی اسے ناجائز مان لیں، درآں حالے کہ اس کے عدم جواز کی کوئی شرعی دلیل سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اگر یہ چیز ناجائزہو تو آخر ان ائمۂ مجتہدین کا کیا مقام قرار پائے گا جنہوں نے بنی امیہ کے خلاف اٹھنے والوں کی خفیہ اور علانیہ تائید کی؟
نماز کے بارے میںشرعی حکم یہی ہے کہ جہاں تک اذان کی آواز پہنچتی ہو وہاں کے لوگوں کو مسجد میں حاضر ہونا چاہیے۔ الا یہ کہ کوئی عذر شرعی مانع ہو۔عذر شرعی یہ ہے کہ آدمی بیمار ہو،یا اسے کوئی خطرہ لاحق ہو،یا کوئی ایسی چیز مانع ہو جس کا شریعت میںاعتبار کیا گیا ہو۔بارش اور کیچڑ پانی ایسے ہی موانع میں سے ہیں۔ چنانچہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ اس حالت میں اذان کے ساتھ الا صلوا فی رحا لکم کی آواز لگا دیتے تھے، تاکہ لوگ اذان سن کر اپنی اپنی جگہ ہی نماز پڑھ لیں۔ جماعت کے لوگ اگر اجتماع کرتے رہیں اور نماز باجماعت پڑھنے کے بجائے بعد میں فرداً فرداً نماز پڑھ لیا کریں تو یہ چیز سخت قابل اعتراض ہے،اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔
کبائر میں جھوٹ بہت بڑا گناہ ہے۔حتیٰ کہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے علامت نفاق میں شمار کیا ہے۔اس کے جواز کی گنجایش صرف اسی صورت میں نکلتی ہے جب کہ جھوٹ سے بڑی کسی برائی کو رفع کرنے کے لیے اس کی ضرورت ہو۔ مثلاًکسی مظلوم کو ظالم کے چنگل سے چھڑانا،یا میاں بیوی کے درمیان تعلقات کی خرابی کوروکنا وغیرہ۔
اگرکسی کے پاس مقدار نصاب سے کم سونا ہو تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے،خواہ اس کی قیمت چاندی کے نصاب کی قیمت سے کتنی ہی زیادہ ہو۔
کسی نماز میں کسی خاص سورت کا التزام کرلینا درست نہیں ہے۔عادتاً پڑھنے میں مضائقہ نہیں، مگر کبھی کبھی اس کے خلاف بھی کرلینا چاہیے، تاکہ بدعت کی سی صورت نہ پیدا ہو۔
فطرہ کی مقدار میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں جو اوزان اور پیمانے اس وقت رائج تھے،ان کو موجودہ زمانے کے اوزان اور پیمانوں کے مطابق بنانے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔مختلف اہل علم نے اپنی تحقیق سے جو کچھ اوزان بیان کیے ہیں، عام لوگ ان میں سے جس کے مطابق بھی فطرہ دیں گے،سبک دوش ہوجائیں گے۔ اس معاملے میں زیادہ تشدد کی ضرورت نہیں ہے۔فطرہ ہر اس شخص کو دینا چاہیے جو عید کے روز اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد فطرہ نکالنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ اور بیوی مستطیع ہو تو وہ بیوی ہی پر واجب ہوگا،کیوں کہ اس کے شوہر کا نفقہ اس کے ذمے نہیں ہے۔لیکن میرے خیال میں اسے اولا دکا فطرہ نکالنا چاہیے۔
(ترجمان القرآن۔شوال ۳۷۶اھ، جولائی ۹۵۷اء)

تبلیغی جماعت کے ساتھ تعاون:

سوال: ایک بات عرصے سے میرے ذہن میں گشت کررہی ہے جو بسا اوقات میرے لیے ایک فکر کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ میں اﷲ سے خصوصی طور پر اس امر کے لیے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان ذی علم ا ور باصلاحیت حضرات کو اس طرف متوجہ کردے جن کی کوششوں میں بہت سی تاثیر پوشیدہ ہے،جن کے قلب ودماغ کی طاقت سے بہت کچھ بن سکتا ہے اور بگڑ سکتا ہے،امت کی اصلاح بھی ہوسکتی ہے ،تفرقے بھی مٹ سکتے ہیں،تعمیری انقلاب بھی برپا ہوسکتا ہے‘ اور وہ سب کچھ ہوسکتا ہے جو ناممکن نظر آتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کی قوت فکر کی یک جائی اور ہم آہنگی کے لیے ہم اﷲ تعالیٰ سے دعا گو ہیں۔
جس بات کو ہم کہنا چاہتے ہیں وہ بہت بڑی اورالجھی ہوئی ہے اور مجھ جیسے کم صلاحیت انسان کے لیے یہ ہرگز زیبا نہیں کہ ایسے اہم معاملے پر قلم اٹھائے۔لیکن اﷲ تعالیٰ کی مدد اور اس کی رحمت کے بھروسے پر ہم نے یہ مخاطبت شروع کی ہے۔ شاید کہ وہ کوئی مفید نتیجہ پیدا کردے۔
آپ نے اپنی تحریرات میں متعدد جگہ اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ یہ کام ہم نے اﷲ کے لیے اور اﷲ کے ہی بھروسے پر شروع کیا ہے،اگر مجھ سے غلطی ہورہی ہے تو وہ میری اصلاح کردے۔ نیز آپ نے اس طرح کے اختلاف پر بھی فراخ دلی کے ساتھ غور وخوض کرنے کا علی الاعلان اطمینان دلایا ہے جو حق پسندی اور نیک نیتی پر مبنی ہو،اور ہم اس بات پر پوری طرح مطمئن ہیں کہ آپ نے واقعتا ایسے مواقع پر کسی طرح کی تنگ دلی کا اظہار نہیں فرمایا ہے۔
آپ کو شاید معلوم ہوگا کہ میں نے دین کا ابتدائی شعور تبلیغی جماعت سے حاصل کیا۔اب تک میرا تعلق اس جماعت سے قائم ہے۔اﷲ اس کو قائم رکھے اور اس سے زیادہ کی توفیق عطا فرمائے۔لیکن اس کے ساتھ ہی میرا گہرا ربط جماعت اسلامی سے بھی پیدا ہوچکا ہے اور اب میرا زیادہ وقت اسی جماعت کے کاموں میں صرف ہوتا ہے۔ میں فخر نہیں کرتا بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی اب ایک زندہ جماعت ہے اور دین دار طبقے کی نگاہ بھی اب اس طرف مرکوز ہو رہی ہے۔ لیکن جو بات کہ میرے نزدیک انتہائی افسوس ناک ہے،وہ تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کی کشاکش ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں اپنے تبلیغی احباب سے جو اس حلقے میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں، گفتگو کی اور بالکل بے تکلفانہ یہ اعتراض کیا کہ آپ غیر مسلموں کے قبول اسلام اور ہدایت کے لیے دعا کرسکتے ہیں لیکن آپ کے دل میں وسعت نہیں ہے تو صرف جماعت اسلامی کے لیے۔آپ ایک فاسق وفاجر مسلمان کے عقیدہ وعمل کی اصلاح کے لیے ہرطرح کی محنت کرسکتے ہیں اور مشقت اٹھا سکتے ہیں۔ان کی ہر بداخلاقی اور ٹھوکر کو برداشت کرسکتے ہیں۔ لیکن جماعت اسلامی جو آپ کی نگاہ میں گمراہ ہے ،وہ قابل توجہ نہیں ہے اور نہ اس کی ضرورت آپ کے نزدیک ہے۔ ان سے ملنا، ان کی باتوں کو سننا اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اس کو سمجھنا بھی آپ کے نزدیک گمراہی کو دعوت دینا ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی جماعت اسلامی کے احباب کی حالت بھی اس لحاظ سے ان سے کچھ بہترنہیں ہے۔ہم اپنے تجربے کی بِنا پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ تبلیغی لوگوں کو دیکھ کر ان میں ایک حرارت پیدا ہوجاتی ہے۔میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہم نے ہر چند ان سے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ تبلیغی جماعت دین ہی کی تبلیغ تو کرتی ہے، کوئی بددینی تو نہیں پھیلاتی،اگرصرف کلمہ اور نماز کی ہی حد تک مان لیا جائے تو کیا یہ دین کی تبلیغ نہیں ہے؟کیا یہ بنیادی چیز نہیں ہے جس کے بغیر کوئی مسلمان خواہ وہ علم وعمل کے کسی مقام پر ہو،زندہ نہیں رہ سکتا؟ کیا ان کی شب وروز کی محنتیں خالصتاً لوجہ اﷲ نہیں ہیں۔ ہم نے مانا کہ ان کے دماغ میں وہ وسعت نہیں ہے، لیکن ایک کمزور اور نحیف شخص کی کمزور سی محنت جو دین کے لیے ہو، کیا یہ اﷲ کی بارگاہ قابل قبول نہیں ہے؟میں تو کہتا ہوں کہ ایک سادہ لوح انسان جو اپنی تمام بے وقوفیوں اور کمزوریوں کے ساتھ اﷲ کی رضا کے لیے اس کے دین کی سربلندی کی کوشش کرے،وہ شاید اس اعتبار سے بڑھ جائے گی کہ اس میں آمیزش کا امکان نہیں ہے۔بخلاف اس کے ایک ذی علم اور باصلاحیت انسان کے اس توشۂ معاد میں آمیزش کا امکان ہوسکتا ہے۔ اس کو اپنے علم وعمل وحکمت پر تکبر آسکتا ہے۔
بہرحال یہ بات تو اپنے اپنے لیے ہوئی۔جہاں تک دینی مفاد کا تعلق ہے، نہ معلوم میرا یہ خیال کس حد تک صحیح ہے کہ ایسے ہی لوگ اگران کے ذہن میں اسلامی نظام کی اہمیت پیدا ہوجائے تو میرے لیے ممد ہوسکتے ہیں۔ ایسا مخلص گروہ جو اس دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کی ہوس نہ کرے بلکہ جو کچھ سوچے سمجھے اور چاہے وہ صرف آخرت کے لیے، اس سے زیادہ مفید انسان بنے بنائے اور کہاں مل سکتے ہیں۔ہم اس پر اصرار تو نہیں کرسکتے لیکن اپنے علم وفہم کی حد تک اس خیال کو بہت قریب پاتے ہیں کہ خلافت راشدہ کا قیام ایسے ہی لوگوں پر تھا۔
میری اس مخاطبت کااصل مدعا یہ ہے کہ اگر ہم ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں اور ان کو بڑھ کر اپنا لینے کی کوشش کریں تو یہ کس حد تک ممکن العمل او رموجب خیر ہوگا؟ میرا یہ مقصد نہیں کہ ایک جماعت دوسرے میں ضم ہوجائے۔نہیں بلکہ جو جس طور پر کام کررہا ہے،کرتا جائے۔اپنے اپنے حدود میں رہتے ہوئے ہم ان کے ہم درد ہوجائیں اور وہ ہمارے لیے دعا گو بن جائیں۔ مسلمانوں کے دو گروہوںکے درمیان سے اختلاف کامٹ جانا ہی بہت بڑی چیز ہے۔

جواب: دوسری دینی جماعتوں کے متعلق میر انقطۂ نظر ہمیشہ سے یہ رہا ہے اور میں اس کا اظہار بھی کرتا رہا ہوں کہ جو جس درجے میں بھی اﷲ کے دین کی کوئی خدمت کررہا ہے، بسا غنیمت ہے۔ مخالف دین تحریکوں کے مقابلے میں دین کا کام کرنے والے سب حقیقت میں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں، اور انہیں ایک دوسرے کو اپنا مددگار ہی سمجھنا چاہیے۔ رقابت کا جذبہ اگر پیدا ہوسکتا ہے تو اسی وقت جب کہ ہم خدا کے نام پر دکان داری کررہے ہوں۔ اس صورت میں تو بے شک ہر دکان دار یہی چاہے گا کہ میرے سوا اس بازار میںکوئی اور دکان نظر نہ آئے۔لیکن اگر ہم یہ دکان داری نہیں کررہے ہیں بلکہ اخلاص کے ساتھ خدا کا کام کررہے ہیں تو ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ہمارے سوا کوئی اور بھی اسی خدا کا کام کررہا ہے۔اگر کوئی کلمہ پڑھوا رہا ہے تو وہ بھی بہرحال خدا ہی کی راہ میں ایک خدمت انجام دے رہا ہے اور اگر کوئی وضو اور غسل کے مسائل بتا رہا ہے تو وہ بھی اس راہ کی ایک خدمت ہی کررہا ہے۔ آخر اس کو مجھ سے اور مجھے اس سے رقابت کیوں ہو اور ہم ایک دوسرے کی راہ میں روڑے کیوں اٹکائیں؟ کلمات خبیثہ کی اشاعت کرنے والوں کے مقابلے میں تو کلمۂ طیبہ پڑھوانے والا بھی مجھے محبوب ہی ہونا چاہیے۔
میں نے جماعت اسلامی کے کارکنوں میں بھی ہمیشہ یہی جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے خلاف کسی روش کو میں نے کبھی پسند نہیں کیا ہے۔اگر آپ نے کہیںجماعت میں اس سے مختلف کوئی جذبہ وعمل پایا ہو تو مجھے تعین مقام واشخاص کے ساتھ اس کی خبر دیجیے تاکہ میں اس کی اصلاح کرسکوں۔
خاص طور پر تبلیغی جماعت کا چوں کہ آپ نے ذکر کیا ہے،اس لیے میں عرض کرتا ہوں کہ اس جماعت کے حق میں بھی میں نے ہمیشہ اپنے دل میں جذبۂ خیر ہی کو جگہ دی ہے اور اپنی زبان و قلم سے اس کے لیے کلمۂ خیر ہی ادا کیا ہے۔مولانا محمد الیاس مرحوم کی زندگی میں خود ان کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔میوات کے علاقے میں ان کے ساتھ دورہ کرکے ان کے کام کا قریب سے مطالعہ کیا تھا۔اس کے بعد ان کے کام میں جو پہلو میں نے خیر وبرکت کے محسوس کیے تھے،ان کا ’’ترجمان‘‘ کے ذریعے سے تفصیلی تعارف کرایا تھا، اور جن پہلوئوں سے کوئی کمی یا تشنگی محسوس کی تھی، انہیں خاموشی کے ساتھ صرف مولانا مرحوم کی خدمت میں عرض کردینے پر اکتفا کیا تھا۔( ملاحظہ ہو ترجمان القرآن شعبان ۵۸ھ، اکتوبر ۳۹ء)
اس کے بعد سے آج تک کوئی مثال اس امر کی پیش نہیں جاسکتی کہ میں نے اس جماعت کے خلاف یا اس کے رہنمائوں کے خلاف کوئی بات کبھی کہی ہو یا لکھی ہو، یا جماعت اسلامی کے کارکنوں نے کبھی اس کے کام میں روڑے اٹکائے ہوں۔ لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تبلیغی جماعت کا رویہ میرے اور جماعت اسلامی کے ساتھ اس سے بہت مختلف رہا ہے۔ اس کے عام کارکنوں ہی نے نہیں ،اس کے اکابر تک نے جماعت اسلامی کے ساتھ متعدد مواقع پر ایسی روش اختیار کی ہے جس کی مجھے ایک دفعہ تحریری شکایت بھی کرنی پڑی۔( ملاحظہ ہو رسائل و مسائل جلد دوم صفحہ ۵۴۴۔۵۵۰)
مگر انہوں نے کوئی اصلاح نہ کی۔ حال میں اس کے ایک ممتاز رہنما نے اپنے رسالے میں مجھ پر اور جماعت اسلامی پر پے درپے جو عنایات فرمائی ہیں، وہ بھی آپ نے دیکھی ہوں گی۔ پچھلے دنوں مشرقی پاکستان میں یہ حضرات جماعت اسلامی کے خلاف علمائے دیو بند کے فتووں کی کاپیاں بھی بڑی تعداد میں پھیلا چکے ہیں۔حالاں کہ وہاں کی بڑھتی ہوئی بے دینی کی زد کو روکنے کے لیے جماعت جو کوشش کررہی تھی،کوئی خیر خواہ دین اگر ان کوششوں میں اس کا ہاتھ نہ بٹا سکتا تھا تو کم ازکم اسے اس موقع پر بے دینوں کے مقابلے میں اس جماعت کو زک پہنچانے کی کوشش تو نہ کرنی چاہیے تھی۔ان ساری باتوں کے بعد اب آپ مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں۔ دشمنی کا ہاتھ تو ادھر سے بڑھتا رہا ہے اور اب بھی بڑھا ہوا ہے۔ دوستی کا ہاتھ آخر کہاں جاکر اس سے ملے؟ افسوس کہ ان کے ہاں کا اکرام مسلم بھی فسق وفجور کے علم برداروں کے لیے ہے، ہمارے لیے نہیں ہے۔ اور کچھ نہیں تو یہ حضرات کم از کم یہی سوچیں کہ جس طرح وہ مجھے اور جماعت اسلامی کو مطعون فرماتے ہیں اگر اسی طرح میں بھی ان کو اور ان کی جماعت کو مطعون کرنا شروع کردوں تو آخر کار اس کانتیجہ اس کے اور کیا ہوگا کہ عام لوگوں کی نگاہ میں دونوں ہی ساقط الاعتبار ہوکر رہیں گے اور دین کا کام کرنے کے لائق نہ ہم رہیں گے نہ وہ۔ یہی کچھ نتائج دینی جماعتوں کے ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے اور ایک دوسرے کی بیخ کنی کرنے سے برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس کا حاصل بجز اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ بحیثیت مجموعی تمام اہل دین کی عزت اور ان کا اعتماد عوام کی نگاہ میں ختم ہوجائے اور لادینی کی تحریکیں اس سے فائدہ اٹھائیں۔ یہی وجہ ہے کہ میںصبر کے ساتھ ان حملوں کو ٹالتا رہتا ہوں جو مجھ پر کیے جاتے ہیں، اور جماعت کے لوگوں کو بھی صبر کی تلقین کرتا رہتا ہوں،ورنہ ظاہر ہے کہ اگر میں ا ن حضرات کو مطعون کرنے پر اتر آئوں تو ان میں سے کوئی صاحب بھی زبان وحی سے کلام نہیں فرماتے ہیں کہ گرفت کرنے کے لیے کہیں کوئی گنجایش مجھے نہ مل سکے۔ (ترجمان القرآن، جلد۵۰، عدد ۶، ستمبر ۹۵۸اء)

امارتِ شرعیہ بہار کا سوال نامہ اور اس کا جواب:

سوال: دارالافتا امارت ِ شرعیہ بہار واڑیسہ (ہند) کے پاس جماعت اسلامی سے متعلق سوالات آتے رہتے ہیں جن میں اس طرف زیادتی ہے۔ سوالات میں زیادہ جماعت اسلامی اور اس کے ممبروں کی دینی حیثیت کے متعلق دریافت کیا جاتاہے۔ہم نے مناسب سمجھا کہ جماعت اسلامی کے ذمہ داروں سے براہِ راست ذیل کے دفعات(جن کے متعلق سوالات آتے ہیں) سے متعلق استفسار کرایا جائے اور آپ حضرات سے ان کے جوابات طلب کرلیے جائیں، تاکہ ان جوابات کی روشنی میں ہمیں جماعت اسلامی اور ا س کے ممبروں اور ہم دردوںکی دینی حیثیت کے متعلق رائے قائم کرنے میں اور شرعی حکم بتلانے میں سہولت ہو۔ ہمارے خیال میں اس طرح اطمینان حاصل کیے بغیر کوئی شرعی حکم لگانا احتیاط کے خلاف ہوگا۔آپ سے عرض ہے کہ مندرجہ ذیل سوالات کے جواب پورے اختصار کے ساتھ حتی الامکان محض نفی واثبات میں اس طرح تحریر فرمائیں کہ ہمیں واضح طور پر معلو م ہوجائے کہ اس مسئلے میں جماعت اور اس کے ذمہ داروں کا مسلک اور رائے یہ ہے۔ یہ خیال رہے کہ بعض دفعہ تطویل سے بات واضح ہوجانے کے بجائے اور مشتبہ ہوجاتی ہے۔ ہمارا مقصد آپ پر کوئی اعتراض کرنا نہیں ہے بلکہ جماعت کے متعلق مندرجہ ذیل مسائل میں تشفی کرنا ہے،اور جماعت اور اس کے ممبروںکی دینی حیثیت بتلانے میں اپنے لیے سہولت مہیا کرنا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ ہم درد کے سوالات سمجھ کر جواب تحریر فرمائیں گے۔
۱۔ آپ حضرات کے خیال میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اجماع شرعی طور پر حجت ہے یا نہیں؟
۲۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کو برا بھلا کہنے والا، ان کی طرف ایسی باتوں کو منسوب کرنے والا جو دین داروں کی شان سے بعید ہیں،فاسق وگنہگار ہے یا نہیں؟
۳۔ فرائض کا تارک اور گناہِ کبیرہ کا مرتکب آپ حضرات کے خیال میں مسلمان ہے یا نہیں؟
۴۔ تصوف( مروّجے نہیں) جس کی دوسری تعبیر احسان وسلوک بھی ہے،جس کی تعلیم اکابر نقشبندیہ،چشتیہ،سہروردیہ قادریہ وغیرہ نے دی ہے،جیسے حضرت شیخ شہاب الدین محمد نقشبند، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی، حضرت شیخ محیی الدین عبدالقادر جیلانی اس تصوف کو آپ حضرات دین کے لیے مفید سمجھتے ہیں یامضر؟
۵۔ کسی روایت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلمکی طرف انتساب کرنے میں اوّل درجہ صحت روایت کو ہے یا درایت کو۔ وہ درایت جو حدیث کی صحت کی جانچ کے لیے مدار بنے،آپ کے نزدیک اس کی تعریف کیا ہے؟
۶۔ جماعت اسلامی کے ممبروں اور ہم دردوں کے سوا ہندوستان کے عام مسلمان جو اپنے آپ کو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں اور جو آپ کی اصطلاح میں محض نسلی مسلمان ہیں،وہ شرعی اعتبار سے دائرۂ اسلام میں ہیں یا اس سے خارج؟
۷۔ آپ کے نزدیک معیار حق ہونے کا مطلب کیا ہے اور اس مطلب کے مطابق صحابۂ کرام معیار حق ہیں یا نہیں؟
۸۔ ایک مسلمان کے لیے مسلمان ہونے کی حیثیت سے نفس تقلید فرض ہے یا نہیں؟ اور تقلید شخصی کا درجہ آپ کے نزدیک کیا ہے؟ اور آپ کے نزدیک تقلید شخصی کو واجب کہنے والے لائق تحسین ہیں یا قابل ملامت؟
۹۔ کیا آپ اس کے قائل ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے بالارادہ انبیائے کرام سے لغزش کرائی ہے؟
۰ا۔ نماز،روزہ،زکوٰۃ ،حج اور جہاد ان عبادات میں شرعاً مقصود بالذات کون سی عبادت ہے اور اولیٰ درجہ کس کو حاصل ہے؟ کیا نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اسلام میں مقصود نہیں بلکہ ان کی حیثیت ذرائع اور وسائل کی ہے،مقصود دراصل جہاد ہے؟یہ عقیدہ آپ کا ہے یا نہیں؟
۱۱۔ کلمۂ شہادت پر اقرار کے چارپانچ روز یا چار پانچ گھنٹے بعد ایک شخص کی وفات ہوگئی اور باوجود استطاعت کے اس نے ایک مسلمان قرض خواہ کے قرض کو ادا نہیں کیا۔ کیا آپ اس کو مسلمان سمجھتے ہوئے جنازہ کی نما ز پڑھیں گے یا نہیں؟
۱۲۔ ایسے مسلمان جو سرکاری دفاتر میں ملازم ہیں یا گورنمنٹ کی عدالتوں میں جج اور مجسٹریٹ ہیںاور ان کے ہاتھوں قانو ن ہند کا نفاذ ہوتا ہے، یا مجالس قانون سازکے رکن ہیں اور قانون سازی میں حصہ لیتے ہیں،یہ لوگ آپ کے نقطۂ نظر سے دائرۂ اسلام میں داخل ہیں یا نہیں؟ اور آپ حضرات کے نزدیک شرعی نقطۂ نظر سے ایسے لوگوں کا کیا حکم ہے؟

جواب: یاد فرمائی کا شکریہ!میری سمجھ میں نہیں آتا کہ دوسروں کے متعلق فتوے دینے کی ذمہ داری آپ حضرات خواہ مخواہ اپنے ذمے لیتے ہی کیوں ہیں۔اگر کوئی شخص آپ لوگوں کے متعلق مجھ سے دریافت کرے تو میں پہلے ہی معذرت پیش کردوں گا اور کوئی سوال نامہ مرتب کرکے آپ کے پاس نہ بھیجوں گا۔تاہم چوں کہ آپ نے یہ سوالات بھیجنے کی تکلیف اٹھائی ہے اس لیے مختصر جوابات حاضر ہیں۔
۱۔ جی ہاں!میرے نزدیک صحابۂ کرام ؓ کا اجماع حجت ہے۔
۲۔ صحابۂ کرام ؓکو برا کہنے والا میرے نزدیک صرف فاسق ہی نہیں ہے،بلکہ اس کا ایمان بھی مشتبہ ہے۔ من ابغضھم فببغضی ابغضھم۔
۳۔ ہم اسے مسلمان مانتے ہیں،مگر اس کی اصلاح کے لیے کوشش کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔
۴۔ ہمارے نزدیک ہر وہ چیز جو کتاب اﷲ وسنت رسول اﷲ سے مطابقت رکھتی ہے وہ مفید ہے اور جو مطابقت نہیں رکھتی وہ مضر ہے۔ اسی کلیے میں تصوف بھی آجاتا ہے۔ تصوف میں بھی کتاب وسنت کے مطابق جو کچھ ہے، حق ہے، اس کا مفید ہونا شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ لیکن جو آمیزش بھی کتاب وسنت سے ہٹی ہوئی ہے، اس سے ہم اجتناب کرتے ہیں، اور دوسروں کو بھی اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔
۵۔ احادیث کی تحقیق میں دیکھنے کی پہلی چیزحدیث کی سند ہے۔ اس کے بعد درایت کا درجہ آتا ہے۔درایت سے مراد یہ ہے کہ حدیث کے مضمون پر غو رکرکے دیکھا جائے کہ وہ قرآن مجید اور سنت ثابتہ کے خلاف تو نہیں پڑتی؟ اس کی تائید کرنے والی دوسری روایات موجود ہیں یا نہیں؟ کوئی بات اگر فرمائی گئی ہے یا کوئی عمل اگر کیا گیا ہے تو کس موقع پر کیا گیا ہے اور اس موقع سے اس کی مناسبت کیا ہے، وغیرہ۔
۶۔ جماعت اسلامی میں شامل ہونا ہمارے نزدیک مسلمان ہونے کے لیے شرط نہ کبھی تھا نہ اب ہے، نہ ہم اس حماقت میں ان شاء اﷲ کبھی مبتلا ہوسکتے ہیں کہ جو اس جماعت میں نہیں ہے، وہ مسلمان نہیں ہے۔ جماعت سے باہر کے تمام مسلمانوں کو ہم نے ’’نسلی مسلمان‘‘ نہیں کہا ہے، بلکہ ان لوگوں کو کہاہے جو دین کے علم وعمل سے بے بہرہ ہیں اور اپنے اخلاق وعادات اور اعمال میں اسلام کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
۷۔ ہمارے نزدیک معیار حق سے مراد ہے وہ چیز جس سے مطابقت رکھنا حق ہو اور جس کے خلاف ہونا باطل ہو۔ اس لحاظ سے معیار حق صرف خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت ہے۔صحابۂ کرامؓ معیار حق نہیں ہیں بلکہ کتاب وسنت کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔کتاب وسنت کے معیارپر ہی جانچ کر ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ گروہ برحق ہے۔ان کے اجماع کو ہم اس بِنا پر حجت مانتے ہیں کہ ان کا کتاب وسنت کی ادنیٰ سی خلاف ورزی پر بھی متفق ہوجانا ہمارے نزدیک ممکن نہیں ہے۔
۸۔ مسلمان کے لیے مسلمان ہونے کی حیثیت سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید فرض ہے۔رہی ائمۂ مجتہدین میں سے کسی کی تقلید تو ہم ایسے مسلمانوں کے لیے اس کو ضروری سمجھتے ہیں جو خود مسائل شرعیہ کی تحقیق کرنے کے اہل نہ ہوں۔ رہے تحقیق کی قابلیت رکھنے والے لوگ،تو اگر وہ کسی اما م مجتہد کے اقوال کی صحت پر مطمئن ہوں تو ہمارے نزدیک ان کا اتباع قابل اعتراض نہیں ہے۔لیکن اگر تحقیق سے وہ کسی مسئلے میں اپنے امام کے سوا کسی دوسرے امام کے قول کو اوفق بالکتاب والسنہ سمجھتے ہوں، لیکن قصداً اپنے امام ہی کی تقلید کریں تو یہ ہمارے نزدیک جائزنہیں ہے۔
۹۔ جی نہیں! میرا خیال یہ ہے کہ انبیا علیہم السلام چوں کہ اﷲ تعالیٰ کی نگرانی میں کام کرتے ہیں، اس لیے ان سے لغزش کا صدور اس بِنا پر نہیں ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نعوذ باﷲ، کسی وقت ان سے غافل ہوگیا تھا،بلکہ اس بِنا پر ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے وہ لغزش ان سے صادر ہوجانے دی، تاکہ دنیا پر یہ بات بھی واضح ہوجائے کہ وہ بندے اور بشر ہی ہیں، خدائی صفات کے حامل نہیں ہیں۔
۰ا۔ میرے نزدیک مقصود دراصل اقامت دین ہے۔ ان اقیموا الدین ولا تتفرقوافیہ۔ نماز، روزہ، حج اورزکوٰۃ اس دین کے ارکان ہیں جن پر یہ دین قائم ہوتا ہے اس لیے ان کو قائم کرنا اقامت دین کے لیے مطلوب ہے‘ اور جہاد چوں کہ دین کو اس کے پورے نظام کے ساتھ قائم کرنے کا ذریعہ ہے اس لیے وہ بھی اقامت دین ہی کے لیے مطلوب ہے۔ سوال کے آخری حصے کا جواب حضرت معاذ بن جبل والی حدیث میں موجود ہے۔ الا ادلک برأس الامر و عمودہ وذروۃ سنامہ؟ قال بلی یارسول اللّٰہ، قال راس الامر الاسلام وعمودہ الصلٰوۃ وذروۃ سنامہ الجھاد۔
۱۱۔ یقیناً میں اس کی نماز جنازہ پڑھوں گا۔
۱۲۔ میرے نزدیک وہ دائرۂ اسلام سے خارج نہیں۔میں ان کو مسلمان سمجھتے ہوئے ہی یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ تم وہ کام کررہے ہو جو مسلمان کے کرنے کا نہیں ہے۔
( ترجمان القرآن۔اگست ا۹۶اء)
……٭٭٭……