رسائل ومسائل (جلد اول)

ریڈ مودودی ؒ   کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

نواقضِ وضو:

سوال: اسلام نے جسم ولباس کی طہارت ونظافت کا جو لحاظ رکھا ہے اس کی قدر وقیمت سے عقلِ انسانی انکار نہیں کر سکتی۔ لیکن اس سلسلے میں بعض جزئیات بالکل ناقابل فہم معلوم ہوتے ہیں۔مثلاًریح کے نکلنے سے وضو کا ٹوٹ جانا، حالاں کہ جسم کے ایک حصے سے محض ایک ہوا کے نکل جانے میں بظاہر کوئی ایسی نجاست نہیں ہے جس سے وضو ساقط ہوجائے۔آخر اس ہوا سے کیا چیز گندی ہوجاتی ہے؟ اسی طرح پیشاب کرنے سے وضو کا سقوط، حالاں کہ اگر احتیاط سے پیشاب کیا جائے اورپھر اچھی طرح دھو لیا جائے تو کہیں کوئی نجاست لگی نہیں رہ جاتی۔یہی حال دوسرے نواقضِ وضو کا ہے، جس سے وضو ٹوٹنے اور تجدیدوضو لازم آنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔براہِ کرم اس اُلجھن کو اس طرح دور کیجیے کہ مجھے عقلی اطمینان حاصل ہوجائے۔

جواب: نواقضِ وضو کے مسئلے میں آپ کو جو شبہات پیش آئے ہیں،انہیں اگر آپ حل کرنا چاہیں تو اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ شریعت میں جن جن باتوں سے وضو کے ٹوٹنے اور تجدید وضو لازم آنے کا حکم لگایا گیا ہے پہلے ان سب کو اپنے ذہن سے نکال دیجیے،پھر خود اپنے طورپر سوچیے کہ عام انسانوں کے لیے(جن میں عالم اور جاہل،عاقل اور کم عقل،طہارت پسند اور طہارت سے غفلت کرنے والے،سب ہی قسم کے لوگ مختلف درجات وحالات کے موجود ہیں) آپ کو ایک ایسا ضابطہ بنانا ہے جس میں حسب ذیل خصوصیات موجود ہوں:
۱ ۔ لوگوں کو بار بار صاف اور پاک ہوتے رہنے پرمجبور کیا جائے اور ان میں نظافت کی حس اس قدر بیدار کردی جائے کہ وہ نجاستوں اور کثافتوں سے خود بچنے لگیں۔
۲۔ خدا کے سامنے حاضر ہونے کی اہمیت اور امتیازی حیثیت ذہن میں بٹھائی جائے تاکہ نیم شعوری طور پر آدمی خود بخود اپنے اندر یہ محسوس کرنے لگے کہ نماز کے قابل ہونے کی حالت دنیا کی دوسری مشغولیتوں کے قابل ہونے کی حالت سے لازماًمختلف ہے۔
۳۔ لوگوں کوا پنے نفس اوراس کے حال کی طرف توجہ رکھنے کی عادت ڈالی جائے تاکہ وہ اپنے پاک یا ناپاک ہونے ،اور ایسے ہی دوسرے احوال سے جو اُن پر وارد ہوتے رہتے ہیں، بے خبر نہ ہونے پائیں اور ایک طرح سے خود اپنے وجود کا جائزہ لیتے رہیں۔
۴۔ ضابطے کی تفصیلات کو ہر شخص کے اپنے فیصلے اور رائے پر نہ چھوڑا جائے بلکہ ایک طریقِ کار معین ہوتاکہ انفرادی طورپر لوگ طہارت میں افراط و تفریط نہ کریں۔
۵۔ ضابطہ اس طرح بنایا جائے کہ اس میں اعتدال کے ساتھ طہارت کا مقصد حاصل ہو،یعنی نہ اتنی سختی ہو کہ زندگی تنگ ہوکر رہ جائے اورنہ اتنی نرمی کہ پاکیزگی باقی نہ رہے۔
ان پانچ خصوصیات کو پیشِ نظر رکھ کر آپ خود ایک ضابطہ تجویز کریں اور خیال رکھیں کہ اس میں کوئی بات اس نوعیت کی نہ آنے پائے جس پر وہ اعتراضات ہوسکتے ہوں جو آپ نے تحریر فرمائے ہیں۔
اس قسم کا ضابطہ بنانے کی کوشش میں اگر آپ صرف ایک ہفتہ صرف کریں گے تو آپ کی سمجھ میں خود بخود یہ بات آجائے گی کہ ان خصوصیات کو ملحوظ رکھ کر صفائی وطہات کا کوئی ایسا ضابطہ نہیں بنایا جاسکتا جس پر اُس نوعیت کے اعتراضات وارد نہ ہوسکتے ہوں جو آپ نے پیش کیے ہیں۔آپ کو بہرحال کچھ چیزیں ایسی مقرر کرنی پڑیں گی جن کے پیش آنے پر ایک طہارت کو ختم شدہ فرض کرنا اور دوسری طہارت کو ضروری قرار دینا ہوگا۔ آپ کو یہ بھی متعین کرنا ہوگا کہ ایک طہارت کی مدت قیام(duration) کن حدود تک رہے گی اور کن حدود پر ختم ہوجائے گی۔اس غرض کے لیے جو حدیں بھی آپ تجویز کریں گے ،ان میں ناپاکی ظاہر اور نمایاں اور محسوس نہ ہوگی،بلکہ فرضی اور حکمی ہی ہو گی اور لامحالہ بعض حوادث ہی کو حد بندی کے لیے نشان مقرر کرنا ہوگا۔پھر آپ خود غور کیجیے کہ آپ کی تجویز کردہ حدیں ان اعتراضات سے کس طرح بچ سکتی ہیں جو آپ نے تحریر فرمائی ہیں۔
جب آپ اس زاویۂ نظر سے اس مسئلے پر غور کریں گے تو آپ خود بخود اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ شارع نے جو ضابطہ تجویز کردیا ہے وہی ان اغراض کے لیے بہترین اور غایت درجے معتدل ہے۔اس کے ایک ایک جزئیے کو الگ الگ لے کر علت ومعلول اور سبب و مسبّب کا ربط تلاش کرنا معقول طریقہ نہیں ہے۔دیکھنا یہ چاہیے کہ کیا بحیثیت مجموعی ان اغراض ومصالح کے لیے جواوپر بیان ہوئی ہیں،اس سے بہتر اور جامع تر کوئی ضابطہ تجویز کیا جاسکتا ہے؟لوگوں کو احکامِ وضو میں جو غلط فہمی پیش آتی ہے ،اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ اُس بنیادی حکمت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے جو بحیثیت مجموعی ان احکام میں ملحوظ رکھی گئی ہے، بلکہ ایک ایک جزوی حکم کے متعلق یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ فلاں فعل میں آخر کیا بات ہے کہ اس کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی ضرب آخر کس طرح شکست وضو کا سبب بن جاتی ہے۔ (ترجمان القرآن۔محرم،صفر ۶۳ھ، جنوری،فروری ۴۴ء)

آلات کے ذریعے سے توالد وتناسل:

سوال: کیمیاوی آلات کے ذریعے سے اگر مرد کا نطفہ کسی عورت کے رحم میں پہنچا دیا جائے اور اس سے اولاد پیدا ہو، تو یہ عمل مضرت سے خالی ہونے کی وجہ سے مباح ہے یا نہیں؟ اور اس عمل کی معمولہ زانیہ شمار کی جائے گی اور اس پر حد جاری ہوگی یا نہیں؟ اس امر کا خیال رکھیے کہ آج کل کی فیشن دار عورت مرد سے بے نیاز ہونا چاہتی ہے۔وہ اگر سائنٹفک طریقوں سے اپنے حصے کی نسل بڑھانے کا فریضہ ادا کردے تو پھر اس کے خلاف کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔امریکا میں اس طرح پیدا ہونے والی اولاد کو ازُروئے قانون جائز اولاد تسلیم کیا گیاہے۔

جواب: آلات کے ذریعے سے استقرار حمل کا جواز تو دور رہا،میرے لیے اس عمل کا تصور ہی ناقابلِ برداشت ہے کہ عورت گھوڑی کے مرتبے تک گرا دی جائے۔آخر انسان کی صنف اناث اور حیوانات کی مادہ میں کچھ تو فرق رہنے دیجیے۔حیوانات میں بھی اﷲ تعالیٰ نے توالد وتناسل کا جو طریقہ مقرر کیا ہے وہ نر اور مادہ کے اجتماع کا طریقہ ہی ہے۔ یہ انسان کی خود غرضی ہے کہ وہ گھوڑیوں کو اپنے نروں سے ملنے کالطف حاصل نہیں کرنے دیتااور ان سے صرف نسل کشی کا کام لیتا ہے۔ اب اگر انسان کی اپنی’’مادہ‘‘ کے ساتھ بھی یہی برتائو شروع ہوجائے تواس کے معنی انسانیت کی انتہائی تذلیل کے ہیں۔
آج کی ’’فیشن دار‘‘ عورت جو مرد سے بے نیاز ہونا چاہتی ہے ،دراصل اس کی فطرت کو مصنوعی فکری وصنفی ماحول نے مسخ کردیا ہے۔ ورنہ اگر وہ صحیح انسانی فطرت پر ہوتی تو اس قسم کی گری ہوئی خواہش کو دل میں جگہ دینا تو درکنار،ایسی تجویز سننابھی گوارا نہ کرتی۔ عورت محض نسل کشی کے لیے نہیں ہے بلکہ عورت اورمرد کا تعلق انسانی تمدن کی قدرتی بنیاد ہے۔ فطرتِ الٰہی نے عورت اور مرد کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ ان میں مودّت اوررحمت ہو،حسنِ معاشرت ہو،مل کر گھر بنائیں،گھر سے خاندان اور خاندان سے سوسائٹی نشو ونما حاصل کرے۔ اس مقصود کو ضائع کرکے عورت کو محض نسل کشی کا آلہ بنادینا فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ۝۰ۭ النسائ 4:119 (اﷲ کی بنائی ہوئی فطرت کو بدل دینے) کا مصداق ہے جسے قرآن ایک شیطانی فعل قرار دیتا ہے۔
خداوندتعالیٰ نے عورت اور مرد کے درمیان نکاح کا طریقہ مقرر فرمایا ہے، لہٰذا وہی اولاد جائز اولاد ہے جو قید نکاح میں پیدا ہو۔اسی سے وراثت او رنسب کی تحقیق ہوتی ہے۔اگر آلے کے ذریعے سے بچہ پیداکیا جائے تو اسے حلالی نہیںکہا جاسکتا۔شرعی نقطۂ نظر سے وہ حرامی ہی کہا جائے گا۔نیز اس کا سلسلۂ آبائی منقطع ہوگا اور وہ باپ کے ورثے سے محروم رہے گا جو قطعی طور پر اس کی حق تلفی ہے۔
پھر غور تو کیجیے کہ جس بچے کا کوئی باپ نہ ہو اس کی تربیت کا ذمہ دار کون ہوگا؟صرف ماں؟ کیا یہ ظلم نہیں کہ خدا نے انسان کے بچے کے لیے ماں اور باپ، چچا اور ماموں، داد ااور نانا وغیرہ لوگوں کی صورت میںجو مربی پیدا کیے ہیں،ان میں سے آدھے ساقط کردیے جائیں اور وہ صرف سلسلۂ مادری پر منحصر رہ جائے؟ کیا دنیا سے پدری محبت، پدرانہ ذمہ داریوں اور پدرانہ اخلاق کو فنا کردینا انسانیت کی کوئی خدمت ہے؟کیا یہ انصاف ہے کہ عور ت پر ماں ہونے کی ذمہ داری قائم رہے مگر مرد ہمیشہ کے لیے باپ ہونے کی ذمہ داری سے سبک دوش ہوجائے؟
پھر اگر یہی سلسلہ چل پڑا تو ایک روز عورت مطالبہ کرے گی کہ کوئی ترکیب ایسی ہونی چاہیے کہ انسان کا بچہ میرے رحم میں پرورش پانے کے بجائے’’امتحانی نلیوں‘‘ میں پالا جائے۔ یعنی انسان کیمیاوی معمل میں پیدا ہونے لگے۔ اور جب تک یہ حالت پیدا نہیں ہوتی،عورت چاہے گی کہ اسے صرف بچہ جننے کی تکلیف دی جائے،اس کے بعد ماں کے فرائض انجام دینے کے لیے وہ تیار نہ ہوگی۔
یہ صورت جب رونما ہوگی تو انسانی بچے اسی طرح ’’کثیر پیدا آوری‘‘(mass production) کے اصول پر فیکٹریوں میں ڈھل ڈھل کر نکلیں گے جس طرح اب جوتے اور موزے نکلتے ہیں۔ یہ انسانیت کے تنزل کا آخری مقام، اس کا اسفل السافلین ہوگا۔ ان ’’کارخانہ ہائے نسل کشی‘‘ سے انسان نہیں بلکہ دو ٹنگے جانور پیدا ہوں گے جن میں انسانی شرف اور پاکیزہ انسانی جذبات واحساسات کی خوبو برائے نام بھی نہ ہوگی اورسیرت کا وہ تنوع ناپید ہوگا جو تمدن کی رنگا رنگ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ ان کارخانوں سے کسی ارسطو اور ابن سینا، کسی غزالی اور رازی، کسی ہیگل اور کانٹ کے پیدا ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ میرے خیال میں تو وہ مادّہ پرستانہ تہذیب لعنت بھیجنے کے قابل ہے جس کے زیر سایہ ایسی تجویزیں انسان کے دماغ میں آتی ہیں۔اس قسم کی تجویزوں کا انسانی دماغوں میں آنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس تہذیب نے انسان کے ذہن میں خود انسانیت کے تصور کو نہایت پست اور ذلیل کردیا ہے۔
(ترجمان القرآن۔محرم،صفر۶۳ھ، جنوری،فروری ۴۴ء)

مشینی امامت:

سوال: ریڈیو ایک ایسا آلہ ہے جو ایک شخص کی آواز کو سیکڑوں میل دور پہنچا دیتا ہے۔اسی طرح گرامو فون کے ریکارڈوں میں انسانی آواز کومحفوظ کرلیا جاتا ہے اور پھر اسے خاص طریقوں سے دہرایا جاسکتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر کوئی امام ہزاروں میل کے فاصلے سے بذریعۂ ریڈیو امامت کرائے یا کسی امام کی آواز کو گرامو فون ریکارڈ میں منضبط کر لیا گیا ہو اور اسے دہرایا جائے، تو کیا ان آلاتی آوازوں کی اقتدا میں نماز کی جماعت کرنا جائزہے؟

جواب: ریڈیوپر ایک شخص کی امامت میں دُور دراز کے مقامات کے لوگوں کا نماز پڑھنا یا گراموفون کے ذریعے سے نماز کا ریکارڈ بنانا اور پھر کسی جماعت کا اس کی اقتدامیں نما زپڑھنا اصولاً صحیح نہیں ہے۔اس کے وجوہ پر آپ غور کریں تو خود آپ کی سمجھ میں آسکتے ہیں۔
امام کا کام محض نماز پڑھانا ہی نہیں ہے بلکہ وہ ایک طرح سے مقامی جماعت کا رہنما ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ اپنے مقام کے لوگوں سے شخصی ارتباط قائم کرے، ان کے اخلاق،معاملات اور مقامی حالات پر نظر رکھے، اور حسب موقع وضرورت اپنے خطبوں میں یا دوسرے مفید مواقع پر اصلاح وارشاد کے فرائض انجام دے۔یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں کی دوسری چیزوں کے ساتھ اس ادارے میں بھی اب انحطاط رونما ہوگیا ہے۔ لیکن بہرحال نفسِ ادارہ کو تو اپنی اصلی صورت پر قائم رکھنا ضروری ہے۔اگر ریڈیو پر نمازیں ہونے لگیں یا گرامو فون سے امامت وخطابت کا کام لیا جانے لگے تو امامت کی اصل رُوح ہمیشہ کے لیے فنا ہوجائے گی۔
نماز دوسرے مذاہب کی عبادتوں کی طرح محض’’پوجا‘‘نہیں ہے۔لہٰذا اس کی امامت سے شخصیت کو خارج کردینا اور اس میں’’مشینیت‘‘پیدا کردینا دراصل اس کی قدر وقیمت کو ضائع کردینا ہے۔
علاوہ بریں اگر کسی مرکزی مقام سے کوئی شخص ریڈیو یا گرامو فون کے ذریعے سے امامت وخطابت کے فرائض انجام دے اورمقامی امامتوں کا خاتمہ کردیا جائے، تو یہ ایک ایسی مصنوعی یکسانی ہوگی جو اسلام کی جمہوری روح کو ختم کردے گی اور اس کی جگہ ڈکٹیٹر شپ کو ترقی دے گی۔ یہ چیز ان نظامات کے مزاج سے مناسبت رکھتی ہے جن میں پوری پوری آبادیوں کو ایک مرکز سے کنٹرول کرنے اور تمام لوگوں کو ایک لیڈر کا بالکلیہ تابع بنادینے کا اُصول اختیار کیا گیا ہے، جیسے فاشزم اور کمیونزم ۔لیکن اسلام ایک مرکزی امام یا امیر کے اقتدار کو ایسا ہمہ گیر بنانا نہیں چاہتا کہ مقامی لوگوں کی باگ ڈور بالکل اس کے ہاتھوں میں چلی جائے اور خود ان کے اندر اپنے مفاد کو سوچنے،اپنے معاملات کو سمجھنے اور ان کو طے کرنے کی صلاحیت ہی نشو ونما نہ پاسکے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرنِ خیر القرون میں’’امام‘‘ محض پجاری کی حیثیت نہیں رکھتے تھے جن کا کام چند مذہبی مراسم کوادا کرادینا ہو، بلکہ وہ مقامی لیڈر کے طورپر مقررکیے جاتے تھے۔ان کاکام تعلیم وتزکیہ اور اصلاحِ تمدن ومعاشرت تھا، اور مقامی جماعتوں کو اس غرض کے لیے تیار کرنا تھا کہ وہ بڑی اور مرکزی جماعت کی فلاح وبہبود میں اپنی قابلیتوں کے مطابق حصہ لیں۔ایسے اہم مقاصد ریڈیو سیٹ یا گرامو فون سے کیوں کر پورے ہوسکتے ہیں۔آلات انسان کا بدل کبھی نہیں ہو سکتے، صرف مدد گار ہوسکتے ہیں۔ ان وجوہ سے میں سمجھتا ہوں کہ ’’مشینی امامت‘‘ اسلام کی روح کے بالکل خلاف ہے۔ (ترجمان القرآن۔محرم،صفر ۶۳ھ، جنوری فروری ۴۴ء)

اسلام اور آلاتِ موسیقی:

سوال : (۱) کیا آلاتِ موسیقی بنانا اور ان کی تجارت کرنا جائز ہے؟
(۲) کیا شادی بیاہ کے موقع پر باجے وغیرہ بجانا ناجائز ہیں؟نیز تفریحاًان کا استعمال کیسا ہے؟
(۳) اگر جواب نفی میں ہو تو ایسے لوگو ں کے لیے کیا حکم ہے جو خود ان کا استعمال نہیں کرتے لیکن ایسے تعلق داروں کے ہاں بخوف کشیدگی چلے جاتے ہیں جو آلات موسیقی کااستعمال کرتے ہیں؟
(۴) کیا ہمارے لیے ایسے نکاح میں شامل ہونے کی اجازت ہے جہاں آلاتِ موسیقی کا استعمال ہورہا ہو؟
(۵) آلاتِ لہو کے حامیوںکا خیال ہے کہ چوں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دف ہی ایک موسیقی کا آلہ عرب میں رائج تھا اور آپ نے اس کے استعمال کی اجازت دی ہے، لہٰذا ہمارے زمانے میں دف کی اگر متعدد ترقی یافتہ شکلیں مستعمل ہوگئی ہیں تو ان کا استعمال کیوں نہ رواہو؟
(۶) کیا دف آلاتِ لہو میں شامل ہے؟

جواب: (۱) حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں آلات موسیقی کو توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔‘‘ اب یہ کس طرح صحیح سکتا ہے کہ جو نبیؐ اس کام کے لیے بھیجا گیا ہو، اس کے پیرو انہی آلات کو بنانے اور بیچنے اور بجانے کے لیے اپنی قوتیں استعمال کریں۔
(۲) شادی بیاہ ہو یا کچھ اور، باجے بجانا کسی حال میں درست نہیں۔ حدیث میں جس حد تک اجازت پائی جاتی ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ شادی اور عید کے موقع پر دف کے ساتھ کچھ گا بجا لیا جائے۔
(۳) یہ محض ایمان کی کمزوری ہے کہ آدمی اپنے دوستوں اور عزیزوں کی ناراضی سے ڈرکرایک ناجائز کام میں حصہ لے۔رسول ؐاور اصحابِ رسولؐ کے ساتھ جو لوگ اپنا حشر چاہتے ہوں،اُن کے لیے تویہی مناسب ہے کہ ایسے لوگوں سے ربط ضبط نہ رکھیں جنہیں احکامِ شریعت کی پروا نہیں۔ ورنہ جن کو ان لوگوں کے تعلقات زیادہ عزیز ہیں،انہیںیہ سمجھ لینا چاہیے کہ فاجرین اورصالحین کے ساتھ بیک وقت تعلق نہیں رکھا جاسکتا۔ جب تمہاری دنیا فاجروں کے ساتھ ہے تو آخرت میں بھی انہی کا ساتھ نصیب ہوگا۔
(۴) جواب نمبر۳ملاحظہ ہو۔مگر یہ خیال رہے کہ مجلس نکاح میں جب کہ ایجاب و قبول ہورہا ہو اور منکرات وفواحش کی نمایش نہ ہورہی ہو،شرکت کرنے میں مضائقہ نہیں، بلکہ اَولیٰ یہ ہے کہ شرکت کی جائے اورجب موسیقی شروع ہوتو نہایت نرمی وشرافت کے ساتھ یہ کہہ کر دوستوں اور عزیزوں سے رخصت چاہی جائے کہ جہاں تک تمہارے جائزکاموں کا تعلق ہے ہم تمہاری مسرت میں دل سے شریک ہیں، اور جہاں تک ناجائز کاموں کا تعلق ہے ہم ان میں نہ خود شریک ہونا پسند کرتے ہیں نہ یہ گوارا کرتے ہیں کہ تم ان خرابیوں میں مبتلا ہو۔
(۵) یہ محض غلط ہے کہ دف کے سوااس زمانے میں اور کوئی دوسرا آلۂ موسیقی نہ تھا۔ایران اور روم اور مصر کی تمدنی تاریخ اور خود عرب جاہلیت کی تمدنی تاریخ سے جو شخص جاہلِ محض ہو، وہی یہ بات کہہ سکتا ہے۔متعدد باجوں کے نام تو خود اشعار جاہلیت میں ملتے ہیں۔
(۶) دف کا نام اگر آلات موسیقی میں شامل ہوبھی تو اس سے کیا ہوتا ہے۔ شادی بیاہ اور عید کے موقع پر نبیؐ نے اس کی اجازت دی ہے۔ اور یہ زیادہ سے زیادہ حد ہے جہاں تک آدمی جاسکتا ہے۔ اس آخری حد کو جو شخص نقطۂ آغاز بنانا چاہتا ہو، اس کو آخر کس نے مجبور کیا ہے کہ خواہ مخواہ اس نبیؐ کے پیرووں میں اپنا نام لکھوائے جو آلاتِ موسیقی توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہے؟‘‘
(ترجمان القرآن۔محرم،صفر۶۳ھ، جنوری،فروری ۴۴ء)

عذرِ مجبوری کے ساتھ غیر اﷲ کی اطاعت:

سوال: ایک شخص غیر اﷲ مثلاً بادشاہ یا حکومت باطلہ کی اطاعت کرتا ہے اور اعتقاداً بھی اسی کو حق سمجھتا ہے۔ دوسرا شخص اعتقاداً تو اس کی بندگی نہیں کرتا لیکن عملاً اس کے احکام کی اطاعت کرتا ہے اور اس کے لیے مجبوری کا عذر پیش کرتا ہے۔ کیا ان دونوں کے عمل میںکوئی تفریق کی جا سکتی ہے؟آپ کی تفسیرالٰہ وربّ کے لحاظ سے تو دونوں ایک ہی درجے میں ہوئے، حالاں کہ دونوں میں بعد المشرقین ہے۔

جواب: میں اپنے مضامین میں کئی جگہ اس بات کو واضح کرچکا ہوں کہ تمام انسان حسبِ ذیل چار طبقوں میں تقسیم ہوتے ہیں:
ا: مومن بالغیر و مسلم للغیر: یعنی جو غیر اﷲ کو مطاعِ برحق اور ماخذِ امر اعتقاداً بھی مانتے ہیں اور عملاًاس کی اطاعت بھی کرتے ہیں۔ یہ مکمل کافر ہیں۔
ب: مومن بالغیر ومسلم لِلّٰہ: یعنی جو ایمان غیر اﷲ پر رکھیں مگر اطاعت قوانین الٰہی کی کرتے ہیں۔یہ پوزیشن ذمیوں کی اور ایک حد تک منافقوں کی ہے۔
ج: مومن باللّٰہ ومسلم للغیر:یعنی اﷲ کو اعتقاداً مطاع برحق ماننے والے مگر غیر اﷲ کی اطاعت وبندگی بجا لانے والے۔ یہ پوزیشن ان مسلمانوں کی ہے جو کفار کے تابع فرمان ہو جائیں۔ اس حالت میں اگر مسلمان مبتلا ہو تو اسے اس پر نہ راضی ہونا چاہیے نہ مطمئن رہنا چاہیے، بلکہ اس کا فرض ہے کہ یا تو اس حالت کو بدلنے کی کوشش کرے یا اس سے نکل جائے۔
د: مومن باللّٰہ ومسلم للّٰہ: یعنی اﷲ ہی پر ایمان رکھنے والے اور اسی کی اطاعت کرنے والے۔ یہی مسلمانوں کی اصلی پوزیشن ہے اور قرآن کی دعوت تمام انسانوں کو یہی ہے کہ وہ یہی پوزیشن اختیا ر کرنے کی سعی کریں۔اس پوزیشن میں کوئی رخنہ اس وجہ سے واقع نہ ہوگا کہ کوئی شخص کسی غیرمسلم نظام میںمجبوراً اپنی کسی کوتاہی سے نہیں بلکہ حالات کے جبر سے گرفتار ہوجائے، جس طرح مکہ معظمہ میں مسلمان تھے ،یا جس طرح بہت سے صحابہ کرامؓ کفار کے ہاتھوں اسیر ہوئے یا جیساکہ اکثر انبیا کا حال رہا ہے کہ وہ نظامِ کفر ہی میں پیدا ہوئے۔ اس طرح کی مجبورانہ گرفتاری اسلام لغیر اﷲ کی تعریف میں نہیں آتی۔ کیوں کہ اوّل تو یہ چیز ان کی اختیار کردہ یا قبول کردہ نہ تھی بلکہ ان پر مسلط شدہ تھی۔دوسرے جب کوئی شخص مومن باﷲ وکافر بالغیر ہوچکا ہو اور اس کے ساتھ جس نے اپنی حد تک مسلم ﷲ ہونے اور عاصی للغیر ہونے میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ہو، اس پر مسلم للغیر ہونے کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔
نیزیہ بات یقینی ہے کہ طبقۂ ج کی پوزیشن طبقۂ الف اور ب کے لوگوں سے بالکل مختلف ہے۔مومن باﷲ ومسلم للغیر مشرک اور کافر ہرگز نہیں ہیں۔لیکن اگر وہ اس حالت پرراضی ہیں یا اسے بدلنے اور اس سے نکلنے کی امکانی سعی نہیں کرتے تو سخت گناہ گار ہیں،ایسے گناہ گار کہ ان کی ساری زندگی گناہ بن کر رہ جاتی ہے۔ (ترجمان القرآن۔محرم،صفر۶۴ھ، جنوری،فروری ۴۵ء)

خدا کے حضور دعا میں ہاتھ اٹھانا:

سوال: مقامی حلقوں میں میرے خلاف بعد نماز ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنے پر بہت لے دے ہو رہی ہے۔ یہاں بہت زیادہ آبادی ایک ایسے مسلک کے پیروں کی ہے جن کا امتیازی شعار ہی یہ ہے کہ دعا میں ہاتھ نہ اُٹھائے جائیں ۔یہ حضرات میرے خلاف اپنے اعتراض میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَۃً۝۰ۭ الاعراف 55:7 کے ارشاد کا تقاضا یہی ہے کہ دعا میں حد درجے اخفا برتا جائے۔ بخلاف اس کے ہاتھ اُٹھانے سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ بدیں وجہ دعا میں ہاتھ اُٹھانا قرآن کے منشا کے خلاف ہے۔ نیز احادیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس کاالتزام کیا ہو۔ اب عوام کو دلائل سے تو کچھ مطلب نہیں ہوتا،وہ لکیر کی فقیری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ چنانچہ مجھے صاف صاف کہہ دیاگیا ہے کہ میں ان کی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کاحق نہیں رکھتا۔اس حکم کے نافذ کرنے والوں میں بعض حضرات خوب اچھے تعلیم یافتہ بھی ہیں۔ خیر یہ جاہلیت کے کرشمے ہیں۔ مجھے صرف مذکورۃ الصدر آیت کی روشنی میں اصل مسئلے کو سمجھائیے۔

جواب: ان حضرات سے دریافت کیجیے کہ اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَۃً۝۰ۭ الاعراف 55:7 (اپنے ربّ کو پکارو عاجزی کے ساتھ اور چپکے چپکے) کا اگر وہی تقاضا ہے جو آپ لوگ سمجھتے ہیں تو یہ نماز کے لیے بلند آواز سے اذان، پھر علانیہ مسجدوں میں لوگوں کا مجتمع ہونا،پھر جماعت سے نماز پڑھنا، پھر نماز میں جہری قراء ت کرنا، یہ سب کچھ بھی تو پھر اس آیت کے خلاف قرار پائے گا۔نماز اصل میں تو ایک دعا ہی ہے۔اگر دعا کے لیے اِخفا ایسا ہی لازمی ہے کہ اظہار کی کوئی شکل اس میں ہونی ہی نہ چاہیے، تو ظاہر ہے کہ نماز باجماعت کی پوری صورت ہی اس کے خلاف ہے۔
پھر جو کچھ یہ حضرات فرماتے ہیں،وہ حدیث کے بھی خلاف ہے۔حدیث میں ہم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہدایت ملتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے جب دعا مانگی جائے تو ہاتھ اُٹھا کر مانگی جائے اور دعا سے فارغ ہوکر چہرے پر ہاتھ مل لیے جائیں۔ابودائود، ترمذی اور بیہقی میں اس مضمون کی متعدد روایات موجود ہیں۔ایک حدیث میں حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ:
اِنَّ رَبَّکُمْ حَییٌّ کَرِیْمٌ یَسْتَحْیٖ مِنْ عَبْدِہٖ اِذَا رَفَعَ یَدَیْہِ اَنْ یَرُدَّھُمَا صِفْراً۔
’’تمہارا ربّ بڑا با حیا اور کریم ہے۔بندہ جب اس کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے شرم آتی ہے کہ اس کو خالی ہاتھ واپس کردے۔‘‘
دوسری روایت میں حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیؐ جب دعا مانگتے تھے تو ہاتھ اٹھا کر مانگتے تھے اور اس کے بعد اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر لیتے تھے۔حاکم نے مستدرک میں حضرت علیؓ کا یہ ارشادنقل کیا ہے کہ ’’دعا میں ہاتھ اٹھانا اﷲ کے آگے عاجزی اور مسکنت کے اظہار کے لیے ہے۔‘‘
اس میں شک نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ طریقہ رائج نہ تھا جو اَب رائج ہے کہ نماز باجماعت کے بعد امام اور مقتدی سب مل کر دعا مانگتے ہیں۔ اس بِنا پر بعض علما نے اس طریقے کو بدعت ٹھیرایا ہے۔لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اگر اس کو لازم نہ سمجھ لیا جائے، اور اگر نہ کرنے والے کو ملامت نہ کی جائے، اور اگر کبھی کبھی قصداًاس کو ترک بھی کردیا جائے، تو پھر اسے بدعت قرار دینے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔خدا سے دعا مانگنا بجائے خود تو کسی حال میں برا فعل نہیں ہوسکتا۔
(ترجمان القرآن۔ربیع الاوّل،جمادی الثانیہ۶۴ھ،مارچ،جون ۴۵ء)

کرب کا علاج بذریعۂ موت:

سوال: اگر کسی مریض کے جاں بر ہونے کی قطعاً امید نہ رہی ہو اور شدت مرض کی وجہ سے وہ انتہائی کرب میں مبتلا ہو،یہاں تک کہ نہ غذا اندر جاتی ہو نہ دوا،توکیا ایسے حالات میں کوئی طبیب حاذق اس کو تکلیف سے نجات دینے کے لیے کوئی زہر دے کر اس کی زندگی کی درد ناک گھڑیاں کم کرسکتا ہے؟ اس قسم کی موت وارد کرنے سے کیا اس پر شرعاًقتل کا الزام آئے گا؟ حالاں کہ اس کی نیت بخیر ہے؟

جواب: یقیناً اس پر قتل کا الزام آئے گا۔اس معاملے میں نیت بخیر ہونے کا کوئی سوال نہیں ہے۔ جس جان کا وہ مالک نہیں ہے اورجس کے خلاف کوئی شرعی حق بھی قائم نہیں ہوا ہے،اس کو اگر اس نے قصداًہلاک کیا ہے تووہ قطعی طور پر قتل عمد کا مجرم ہے۔
طبیب کو اﷲ نے جو علم دیاہے اس کی غرض انسانی جان کی حفاظت کے لیے کوشش کرنا ہے نہ کہ اس کی موت کے لیے۔ جب تک کسی شخص کے اندر زندگی موجود ہو،طبیب کا فرض ہے کہ اسے بچانے کی کوشش کرتا رہے، اور جس حد تک اس کے امکان میں ہو ،اس کی تکلیف کو کم کرنے کے لیے بھی سعی کرے۔ لیکن یہ بات ایک طبیب کے اخلاقی وشرعی حدود عمل سے بالکل خارج ہے کہ وہ اس امر کا فیصلہ کرے کہ کون آدمی ہلاک کردیے جانے کا مستحق ہے۔ بلکہ یہ بات خود اس مریض کے اپنے حدود اختیار سے بھی باہر ہے کہ وہ اپنی زندگی کو ختم کرنے کا فیصلہ کرے۔اس لیے اگر مریض کا اپنا مطالبہ بھی ہو تب بھی طبیب کے لیے ایسا کوئی فعل ہرگز جائز نہیں ہے جو اسے ہلاک کرنے کی خاطر ہو۔
علاوہ بریں یہ بھی ایک قطعی غلط مفروضہ ہے کہ کوئی ڈاکٹر کسی مریض کے بارے میں یہ بالکل یقین کے ساتھ جان سکتا ہے کہ وہ ضرور مر جائے گا۔ ایسی مثالیں نادر نہیں ہیں جن میں ایک طبیب نے نہیں بلکہ متعدد طبیبوں نے بالاتفاق رائے قائم کی ہے کہ مریض نہیں بچے گا، او رپھر ان کے اندازوں کے بالکل خلاف اس کی جان بچ گئی ہے۔ اس لیے جو ڈاکٹر محض اندازے سے کسی شخص کے جاں بر نہ ہونے کا فیصلہ کرے گا اور اس کی تکلیف دُور کرنے کے لیے اسے ہلاک کردے گا، وہ دراصل ایک بہت بڑا مظلمہ اپنی گردن پر لے گا۔اپنے علم پر ایسا بے جا اعتماد ایک کافر ڈاکٹر تو کرسکتا ہے مگر یہ ایک مسلمان ڈاکٹر کے کرنے کا کام نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن۔محرم ۶۵ھ، دسمبر ۴۵ء)

سفر میں قصرِ صلوٰۃ:

سوال: (ا) قصر صلوٰۃ انگریزی میلوں کے حساب سے کتنے لمبے سفر میں واجب ہے؟
(ب) کیا یہ فاصلہ یک طرفہ سفر کے لیے ہے یا آمد ورفت کی دُہری مسافت بھی شمار ہوگی؟
(ج) کیا ایک مقررہ حلقے میں سفر کرنے پر بھی یہ رعایت حاصل ہوگی؟

جواب: (ا) فقہا کی آرا اس معاملے میں مختلف ہیں۔چنانچہ قصر صلوٰۃ کے لیے کم ازکم۹ میل اور زیادہ سے زیادہ ۴۸ میل کا نصاب مقرر کیا گیا ہے۔اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ آںحضورؐ سے اس معاملے میں کوئی صریح ارشاد منقول نہیں ہے اور نص صریح کی غیر موجودگی میں جن دلائل سے استنباط کیا گیا ہے، ان کے اندر مختلف اقوال کی گنجایش ہے۔ صحیح یہ ہے کہ قصر کے لیے مسافت کا ایسا تعین جس میں ایک نقطۂ خاص سے تجاوزکرتے ہی قصر کا حکم لگایا جاسکے شارع کا منشانہیں۔ شارعؐ نے ’’سفر‘‘ کے مفہوم کو عرف عام پر چھوڑ دیا ہے اور یہ بات ہر شخص خود بآسانی جان سکتا ہے کہ کب وہ سفر میں ہے اور کب سفر میں نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر ہم شہر جاتے ہیں تو کبھی مسافر ہونے کا احساس ہمارے ذہن میں نہیں ہوتا۔ بخلاف اِ س کے جب واقعتاً سفر درپیش ہوتا ہے تو ہم مسافرت کی کیفیت خود محسوس کرتے ہیں۔اسی احساس کے مطابق قصر اور اتمام کیا جاسکتا ہے۔البتہ یہ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ شرعی معاملات میں صرف اس شخص کا فتوائے قلب معتبر ہے جو شریعت کی پابندی کا ارادہ رکھتا ہو نہ کہ بہانہ بازی کا۔
(ب) اس حصے کا جواب اوپر ہی کی سطور میں موجود ہے۔ویسے جن فقہا نے مقدار سفر مقرر کرنے کی کوشش کی ہے ،ان کے پیشِ نظر یک طرفہ مسافت تھی۔
(ج) ہاں مقررہ حلقے میں سفر کرنے کی شکل میں بھی قصرِ صلوٰۃ کرنا چاہیے جس طرح اس حلقے سے باہر کے سفروں کے دوران میں۔ (ترجمان القرآن۔رجب ،شعبان ۶۴ھ، جولائی ،اگست ۴۵ء)

ہندستان میں گائے کی قربانی کا مسئلہ:

سوال: مسلمان قوم اگر ہندستان میں گائے کی قربانی کو روک دے تو اسلام کی نگاہ میں کوئی قیامت نہیں آجاتی، خصوصاً جب کہ اس فعل میں نفع کم اور نقصان زیادہ ہے۔پھرکیوں نہ ایک ہمسایہ قوم کا اتحاد حاصل کرنے کے لیے رعایت سے کام لیا جائے؟اکبراعظم، جہانگیر،شاہجہان اورموجودہ نظام حیدر آباد نے عملی مثالیں اس سلسلے میں قائم کی ہیں۔

جواب: آپ نے جن بڑے بڑے ’’اماموں‘‘ کا نام لیاہے مجھے ان میں سے کسی کی تقلید کا شرف حاصل نہیں ہے۔ میرے نزدیک مسلمانوں نے ہندستان میں ہندوئوں کو راضی کرنے کے لیے اگر گائے کی قربانی ترک کی تو چاہے وہ کائناتی قیامت نہ آجائے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے، لیکن ہندستان کی حد تک اسلام پر واقعی قیامت تو ضرور آجائے گی۔ افسوس یہ ہے کہ آپ لوگوں کانقطۂ نظر اس مسئلے میں اسلام کے نقطۂ نظر کی عین ضد ہے۔آپ کے نزدیک اہمیت صرف اس امر کی ہے کہ کسی طرح دوقوموں کے درمیان اختلاف ونزاع کے اسباب دُور ہوجائیں۔لیکن اسلام کے نزدیک اصل اہمیت یہ امر رکھتا ہے کہ توحید کا عقیدہ اختیا ر کرنے والوں کو شرک کے ہرممکن خطرے سے بچایا جائے۔
جس ملک میں گائے کی پوجا نہ ہوتی ہو اور گائے کو معبودوں میں شامل نہ کیاگیا ہو اور اس کے تقدس کا بھی عقیدہ نہ پایا جاتا ہو، وہاں تو گائے کی قربانی محض ایک جائز فعل ہے، جس کو اگر نہ کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔لیکن جہاں گائے معبود ہو اور تقدس کا مقام رکھتی ہو، وہاں تو گائے کی قربانی کا حکم ہے،جیسا کہ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا۔اگر ایسے ملک میں کچھ مدت تک مسلمان مصلحتاً گائے کی قربانی ترک کردیں اور گائے کا گوشت بھی نہ کھائیں تو یہ یقینی خطرہ ہے کہ آگے چل کر اپنی ہمسایہ قوموں کے گائو پرستانہ عقائدسے وہ متاثر ہوجائیں گے اور گائے کے تقدس کااثر ان کے قلوب میں اسی طرح بیٹھ جائے گا جس طرح مصر کی گائو پرست آبادی میں رہتے ہوئے بنی اسرائیل کاحال ہوا تھا کہ ’’وَاُشْرِبُوْا فِيْ قُلُوْبِہِمُ الْعِـجْلَ‘‘ البقرہ 93:2 پھر اس ماحول میں جو ہندو اسلام قبول کریں گے وہ چاہے اسلام کے اور دوسرے عقائد قبول کرلیں،لیکن گائے کی تقدیس ان کے اندر بدستورموجود رہے گی۔ اسی لیے ہندستان میں گائے کی قربانی کو میں واجب سمجھتا ہوں اور اس کے ساتھ میرے نزدیک کسی نو مسلم ہندوکا اسلام اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک وہ کم ازکم ایک مرتبہ گائے کا گوشت نہ کھالے۔ اسی کی طرف وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جس میں حضورؐ نے فرمایا کہ ’’جس نے نماز پڑھی جیسی ہم پڑھتے ہیں اور جس نے اسی قبلے کو اختیار کیا جو ہمارا ہے، اورجس نے ہمارا ذبیحہ کھایا وہ ہم میں سے ہے۔‘‘یہ’’ ہماراذبیحہ کھایا‘‘ دوسر ے الفاظ میں یہ معنی رکھتا ہے کہ مسلمانوں میں شامل ہونے کے لیے ان اوہام وقیود اور بندشوں کا توڑنا بھی ضروری ہے جن کا جاہلیت کی حالت میں کوئی شخص پابند رہا ہو۔
(ترجمان القرآن۔رجب،شعبان۶۴ھ، جولائی، اگست ۴۵ء)

جبری امتناع کی صورت میں مباحات کا وجوب:

سوال: ہمارے مقامی خطیب صاحب نے ایک وعظ میں یہ فرمایا ہے کہ اگر کسی ملک میں جبراً گائو کشی بند کردی جائے تو اس صورت میں ملک کے مسلمانوں پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس حکم امتناعی کی خلاف ورزی کریں۔یہ فتویٰ مجھے کچھ عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔آخر شریعت نے جن چیزوں کو حلال ٹھیرایا ہے ،وہ بس حلال ہی تو ہیں،واجب کیسے ہوگئیں؟مثلاًاونٹ کا گوشت کھانا حلال ہے،لیکن اگر کوئی نہ کھائے تو گناہ گار نہیں ہے۔ اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ حلت کے معنی وجوب کے نہیں ہیں۔پھر یہ مولوی صاحب فرضیت کا فتویٰ کہاں سے دیتے ہیں؟آپ فرمایئے کہ مذکورہ بالا فتویٰ کی حیثیت کیا ہے؟

جواب: یہ بات تو بہت صحیح ہے کہ جب کسی مباح چیز کو کوئی حکومت یا کوئی طاقت زبردستی حرام قرار دے دے تو اس کی قائم کی ہوئی حرمت کو تسلیم کرنا گناہ ہے اور اس کو توڑنا واجب ہے۔ لیکن سمجھ میں نہیں آتاکہ جو حضرات چھوٹے چھوٹے مباحات کے معاملے میں شریعت کے اس حکم سے واقف ہیں،ان کو یہ یادکیوں نہیں آتا کہ جس نظامِ حکومت میں وہ رہتے ہیں ،اس نے حلال وحرام قرار دینے کے پورے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں اور نماز،روزہ اور نکاح وطلاق کے چندمسائل کو چھوڑ کر خدا کی پوری شریعت کو منسوخ کردیا ہے۔اگر گائوکشی کی ممانعت پر گائوکشی مباح کے بجائے فرض ہوجاتی ہے تو پوری شریعت کی تنسیخ پر کیا کچھ فرض عائد ہوجاتا ہوگا، یہ ان مولوی صاحب سے پوچھیے!
شریعت ِ اسلامی کا یہ فطری تقاضا ہے کہ وہ زندگی میں اپنا پوراغلبہ بلاشرکتِ غیر چاہتی ہے۔ اور اگر غیر اﷲ کا کوئی اقتدار انسانوں پر اپنا دامن پھیلانا چاہتا ہو تو اسلامی شریعت اپنے متبعین کو اس کا باغی دیکھنا چاہتی ہے نہ کہ مطیع ووفا شعار ۔جس نظام حق کو گائے کی قربانی جیسے معمولی مسئلے میں غیر اﷲ کی مداخلت گوارا نہیں ہے، وہ آخر اسے کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ سیاست اور معیشت اور معاشرت کے اہم مسائل میں خدا سے سرکشی کرنے والی کوئی قوت اپنی مرضی کو اﷲ کے بندوں پر نافذ کرے۔
شریعت اسلامی کی یہی اسپرٹ ہمیشہ نظامِ کفر وجاہلیت کے خلاف اربابِ حق کو صف آرا کرتی رہی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی پوری ہوتی رہی ہے کہ میری امت میں جہاد قیامت تک جاری رہے گا،نہ کسی عادل کا عدل اسے ختم کرسکے گا نہ کسی ظالم کا ظلم۔ یہی اسپرٹ ہمیشہ تجدید اسلام کی تحریکوں کی محرک رہی ہے اور اسی نے صالحین کو ماحول کی خوف ناکیوں کے آگے جھک جانے سے روکا ہے۔
مگر جہاں یہ اسپرٹ مسلمانوں میںکمزور ہوگئی ہے وہاں انہوں نے اپنی اسلامیت میں کتر بیونت کرکے ہر قسم کے نظام ہائے طاغوت کو نہ صرف یہ کہ گوارا کرلیا ہے بلکہ حد یہ ہے کہ اسے چلانے اور مستحکم رکھنے اور اس کا تحفظ کرنے کی خدمات تک سرانجام دینے کے لیے تاویلیں کرلی ہیں۔
یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ گائو کشی اگر طاغوت کی روک سے مباح کے بجائے واجب ہوجاتی ہے تو پھرامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نظام کا قائم کرنا جو پہلے ہی فرض اور بہت بڑا فرض ہے، باطل کی طرف سے کسی مزاحمت کے پیدا ہوجانے پر دین کے ہر فرض سے بڑا فرض ہوجاتا ہے اور اس سے چشم پوشی کرکے اگر مسلمان ہزار نفلی عبادتیں بھی کرے تو وہ بے معنی ہیں۔
درحقیقت کسی غیر الٰہی طاقت کی مداخلت فی الدین چاہے کتنے ہی چھوٹے معاملے میں ہو، مسلمان کے عقیدۂ توحید پر براہ راست ضرب لگاتی ہے اور ہر ایسی مداخلت کے معنی یہ ہیں کہ مداخلت کرنے والے نے ایک خاص معاملے میں اپنی خدائی کا عملی اعلان کردیا ہے۔ظاہر ہے کہ اس اعلان پر مسلمان کا امن وسکون سے بیٹھے رہنا تک اس کے ایمان کو مشتبہ کردیتا ہے ،کجا یہ حال کہ اس اعلان کے اعلانچی خود مسلمان ہوں اور وہ دوسروں سے بالجبراسے منوانے کے لیے اپنی قوتیں باطل کے ہاتھ فروخت کردیں۔
پس اصلی مسئلہ قربانیِ گائو کانہیں ہے،بلکہ عقیدۂ توحید کی حفاظت کا ہے۔اس کی حفاظت میں کوتاہی کرکے ہم کس اُخروی بہبود کی امیدیں قائم کرسکتے ہیں!
(ترجمان القرآن۔ذی القعدہ۶۵ھ۔ اکتوبر۴۶ء)

تزکیۂ نفس کی حقیقت:

سوال: یہاں کی مقامی فضا تصوف کے چرچے سے معمور ہے۔اس سے اکثر طرح طرح کے پیچیدہ مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔اس وقت دو باتیں دریافت طلب ہیں:
ا۔ تزکیۂ نفس کی صحیح تعریف کیا ہے؟اس بارے میں رسولؐ اﷲکی تعلیم کیاتھی؟متصوفین کا اس سلسلے میں صحیح عمل کیا رہا ہے ؟نیز ایک مسلمان کو اپنی زندگی کے اس شعبے میں کیا صورت اختیار کرنی چاہیے؟
ب۔ کیا صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین بھی آج کل کے صوفیہ کی طرح تزکیۂ نفس کیا کرتے تھے اور عالم بالا کے مشاہدات ہوتے رہتے تھے؟

جواب: سوال کے پہلے جزو کے جواب میں یہ ذہن نشین کرلیجیے کہ عربی زبان میں تزکیہ کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے:ایک پاک صاف کرنا،دوسرے بڑھانا اور نشو ونما دینا۔اس لفظ کو قرآن مجید میں بھی انہی دونوں معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔پس تزکیہ کا عمل دو اجزا سے مرکب ہے۔ ایک یہ کہ نفسِ انسانی کو انفرادی طور پر اور سوسائٹی کو اجتماعی طور پر ناپسندیدہ صفات اور بری رسوم وعادات سے پاک صاف کیا جائے۔دوسرے یہ کہ پسندیدہ صفات کے ذریعے سے اس کو نشوونما دیا جائے۔
اگر آپ قرآن مجید کو اس نقطۂ نظر سے دیکھیں اور حدیث میں اور کچھ نہیں تو صرف مشکوٰۃ ہی پر اس خیال سے نظر ڈال لیں توآپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں وہ کون سی ناپسندیدہ صفات ہیں جن کو اﷲ اور اس کا رسولؐ دور کرنا چاہتے ہیں، اور وہ کون سی پسندیدہ صفات ہیں جن کو وہ افراد اور سوسائٹی میں ترقی دینا چاہتے ہیں۔ نیز قرآن وحدیث کے مطالعے ہی سے آپ کو ان تدابیر کی بھی پوری تفصیل معلوم ہوجائے گی جو اس غرض کے لیے اﷲ تعالیٰ نے بتائی ہیں اور اس کے رسولؐ نے استعمال کی ہیں۔
اہلِ تصوف میں ایک مدت سے تزکیۂ نفس کا جو مفہوم رائج ہو گیا ہے اور اس کے جو طریقے عام طور پر ان میں چل پڑے ہیں وہ قرآن و سنت کی تعلیم سے بہت ہٹے ہوئے ہیں۔
دوسرے جز کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے تو عالمِ بالا کے معاملے میں صرف رسولؐ کے اعتماد پرغیب کی ساری حقیقتوں کو مان لیا تھا، اس لیے مشاہدے کی نہ ان کو طلب تھی اور نہ اس کے لیے انہوں نے کوئی سعی کی۔وہ بجائے اس کے کہ پردۂ غیب کے پیچھے جھانکنے کی کوشش کرتے،اپنی ساری قوتیں اس جدوجہد میں صرف کرتے تھے کہ پہلے اپنے آپ کو اورپھر ساری دنیا کو خدائے واحد کا مطیع بنائیں اور دنیا میں عملاً وہ نظامِ حق قائم کردیں جو برائیوں کو دبانے اور بھلائیوں کو نشو ونما دینے والا ہو۔ (ترجمان القرآن۔رجب،شعبان۶۴ھ، جولائی ،اگست ۴۵ء)

الکوحل آمیز ادویہ کا استعمال:

سوال: اس زمانے میں انگریزی دوائیں جو عام طور پر رائج ہیں،ان میں سے ہر رقیق دوا میں الکوحل(جو ہرِ شراب) شامل ہوتا ہے۔میں ان سے اجتناب کرتا ہوں۔ لیکن عرض یہ ہے کہ تحریم خمر کے متعلق جو حکم قرآن میں ہے، اس میں اگر خمر کا مطلب’’نشہ آور چیز‘‘ لیا جائے تو دوا میں الکوحل اتنا کم ہوتا ہے کہ نشہ نہیں کرتا اور نہ کوئی اس مقصدسے پیتا ہے نہ اس ترکیب سے اس کو اپنے لیے حلال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں باریک بینی کی جائے تو ڈبل روٹی میں بھی آٹے کا خمیر اُٹھنے پر کچھ الکوحل بن جاتا ہے ،اور شربت جو بوتلوں میں آتے ہیں،ان میں بھی کچھ الکوحل ضرور بن جاتا ہے۔ بلکہ الکوحل تو باسی انگوروں میں بھی بنتا ہے۔اگر ان صورتوں میں کوئی وجۂ حرمت نمودار نہیں ہوتی تو آخر صرف دوا ہی کے اندر الکوحل کی شمولیت کیوں اتنی زیادہ قابل توجہ ہو؟
نیز اگر باعتبار لغت خمر کامطلب انگوری شراب لیا جائے تو الکوحل انگوری شراب نہیں ہے۔ اس لیے انگریزی دوائیں ناجائز نہ ہونی چاہییں۔ لیکن علما نے اس زمانے میں جب ایسی ادویات سامنے نہیں تھیں، ایسے سخت فتوے دے دیے کہ آج انہیں مختلف مواقع پر چسپاں کرنے سے بڑی مشکل پیش آرہی ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ آج کل یونانی ادویۂ مرکبہ کا خالص حالت میں دستیاب ہونا بہت ہی دشوار ہے۔خمیرہ مروارید میں بڑے سے بڑا متقی دوا ساز بھی مروارید کی جگہ صدف ملا دیتا ہے۔نیز جانیں بچانے کے لیے جب لوگ زیادہ ترقی یافتہ انگریزی طب اور جراحی کے ماہرین کی طرف متوجہ ہونے پرمجبور ہیں تو آخر وہ یونانی ادویہ تجویز کرکے تو دینے سے رہے! ان سارے پہلوئوں کو ملحوظ رکھ کر آپ اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں۔

جواب: خمر اگرچہ انگوری شراب کو کہتے ہیں لیکن اس سے مراد ہر نشہ آور چیز ہے۔چنانچہ خمر کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ’’الخمر ما خامر العقل‘‘ یعنی ہر وہ چیز خمر ہے جو عقل کو ڈھانک لے اور شریعت میں یہ اُصول بیان کیا گیا ہے کہ ’’ما اسکرکثیرہٗ فقلیلہٗ حرام‘‘یعنی جس چیزکی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرے اس کی کم مقدار بھی حرام ہے۔ یہ کم مقدار کی حرمت نشے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ کم مقدار استعمال کرلینے سے نفس کے اندر کی وہ رکاوٹ دور ہوجاتی ہے،یا کم ازکم کمزور پڑ جاتی ہے ،جوحرام چیز کے لیے نفس میں موجود ہوتی ہے۔
پھر یہ بات علمی طریق پرمعلوم ہے کہ تمام شرابوں میں وہ اصل چیز جو نشہ پیدا کرنے والی ہے، الکوحل ہی ہے۔ اس لیے کسی صورت میں اس کا استعمال جائز تو نہیں ہوسکتا۔ البتہ ایسے حالات میں جب کہ فن طب کی ترقی مسلمانوں کے ہاں ایک مدت سے بند ہوچکی ہے اور جدید زمانے میں اس فن کی تمام ترقیات ایسے لوگوں کے ہاتھوں ہوئی ہیں جو حرام وحلال کی تمیز سے خالی ہیں اور انہوں نے نئے زمانے کی بیش تر مؤثر دوائوں میں الکوحل کو ایک اچھا محلّل پاکر دو ا سازی میں بکثر ت استعمال کیا ہے،افراد کے لیے اضطرار کی صورت پیدا ہوگئی ہے۔ شریعت کسی انسان سے یہ مطالبہ نہیں کرتی کہ وہ اپنی صحت اور اپنی زندگی کی حفاظت کے صرف ان ذرائع پر انحصار کرے جو کسی خاص زمانے تک دریافت ہوئے ہوں اور اس زمانے کے بعد دریافت ہونے والے ذرائع خواہ کتنے ہی کارگر اور مفید ہوں،ان سے اجتناب کرکے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالے۔اس لیے افراد تو اضطرار کی بِنا پر ان ذرائع میں حرمت کا سبب موجود ہوتے ہوئے بھی ان کو اپنی زندگی کی حفاظت کے لیے استعمال کرسکتے ہیں،لیکن تمام مسلمان بحیثیت مجموعی اس وقت تک اس گناہ کے ذمہ دار بنتے رہیں گے جب تک وہ فن طب اور دوا سازی کی جدید ترقیات کو مسلمان بنالینے کی اجتماعی کوشش نہ کریں۔
جدید فنِ طب اور دو ا سازی کو مسلمان بنانے سے میر ی مراد یہ ہے کہ اس فن کی تمام موجودہ اور آیندہ ترقیات کو اسلام کے اُصولِ اخلاق کا پابند بنایا جائے اور دوا سازی کے تمام موجودہ اور آیندہ ترقی پذیر ذرائع کو اسلامی حدود کے سانچے میں ڈھال لیا جائے۔ یہ کام جب تک اجتماعی سعی سے نہ ہوگا، افراد تو اضطرار کی وجہ سے معاف ہوتے رہیں گے،لیکن جماعت کے نامۂ اعمال میں مسلسل گناہ لکھا جاتا رہے گا۔اجتماعی گناہوں کی یہی خاصیت ہے کہ ان کی وجہ سے افراد کے لیے انفرادی طور پر اضطرار کی حالت پیدا ہوجاتی ہے، مگر اجتماعی طور پر پوری جماعت گناہ گار قرارپاتی ہے۔
(ترجمان القرآن۔رجب ۶۵ ھ، جون ۴۶ء)

راجا کی غائبانہ سلامی:

سوال: سکول میں ڈرل کے بعد مہاراجا صاحب کی سلامی بینڈ پر اُتاری جاتی ہے۔یہ غائبانہ سلامی ہے اور اسے وفا داری کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔میں نے ایک بندے کو خدا کی معبودیت میں شریک ماننے سے قولاً وعملاًانکار کیا ہے۔ہیڈ ماسٹر صاحب نے مجھے غور کے لیے مہلت دی ہے۔ آپ میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب: آپ سلامی تو بہرحال نہ دیں،خواہ انجام کچھ بھی ہو،لیکن اپنی حد تک اس معاملے کو بخیر وخوبی ٹالنے کی کوشش کریں۔اس کی صورت یہ ہے کہ ہیڈ ماسٹر کو بہت ٹھنڈے طریقے سے یہ سمجھانے کی کوشش کیجیے کہ وہ اس معاملے کو طول دینے سے خود احتراز کرے۔ اگر آپ سلامی کے موقع پرٹل جایا کریں اور ہیڈماسٹر اس کو خاموشی کے ساتھ نظر اندا ز کرتا رہے تو بات چھو ٹی رہے گی۔لیکن اگر وہ مجبور کرے اور آپ کے انکار پر باز پرس کرے تو کیا عجب کہ بات طول کھینچ جائے،اور نہ صرف آپ کے مدرسے میں بلکہ ساری ریاست میں اس کا اثر پھیل جائے۔ یہی پہلو آپ ہیڈ ماسٹر کو سمجھا دیجیے گا۔اگرعقل مند ہوگا تو وہ خود خاموشی اختیار کرلے گا،ورنہ اس کو آخری مرحلے تک پہنچ جانے دیجیے اور سمجھیے کہ شاید آپ ہی کے ذریعے سے اﷲ تعالیٰ اس ریاست میں اس پیغام کو پھیلانے کا ایک موقع پیدا کرنا چاہتا ہے۔ایسی صورت پیش آجانے کے بعد اپنے آپ کو اچھی طرح تول لیجیے کہ پھر ذرّہ برابر کمزوری کا اظہار نہ ہونے پائے۔خواہ ملازمت سے برطرفی کی نوبت آئے یا ریاست سے اخراج کی۔میں بھی آپ کے لیے استقامت کی دعا کرتا ہوں۔
(ترجمان القرآن۔رجب،شعبان۶۲ھ،جولائی اگست ۴۳ء)

غیر حکیمانہ تبلیغ:

سوال: ایک شخص کوایک مدرسے میں تبلیغ کے لیے ملازم رکھا گیا ہے ۔اب مدرسے کے منتظمین خود ہی اس کی تبلیغی مساعی کوروکنا چاہتے ہیں۔مثلاً بعض آیات بچوں کو یاد کرانے میں وہ مانع ہوتے ہیں۔ ایسی چند آیات درج ذیل ہیں:
(۱) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ۝۰ۘؔ المائدہ 51:5
(۲) وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ۔ البقرہ 190:2
(۳) وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ… المائدہ 47:5
…ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ… المائدہ 5:45 ہُمُ الکٰفِرُوْنَ ۔ المائدہ5:44
اب ایسے شخص کے متعلق شریعت کا کیاحکم ہے؟اسے مدرسے میں رہنا چاہیے یانہیں۔

جواب: آپ جس طریقے سے سوال کررہے ہیں،اس سے شبہ ہوتا ہے کہ صورتِ واقعہ اس سے مختلف ہے اور آپ اسے ایک معصوم شکل میں پیش کرکے استفسار کررہے ہیں۔
تبلیغ کے معنی یہ نہیں ہیں کہ موقع ومحل کو دیکھے بغیر آدمی ہر جگہ ایک ہی طرح کی شدت برتے اور ہر مخاطب کے سامنے وہ انتہائی باتیں کہہ ڈالے جن کا تحمل ابتدائی مراحل میں کم ہی کوئی شخص کرسکتا ہے ۔جہاں لوگ توحید ورسالت اور آخرت کے ابتدائی تصورات تک سے بے گانہ ہوکر رہ گئے ہوں وہاں یکایک ان کے سامنے ان عقائد کا محض مکمل تصور ہی نہیں بلکہ اسے تسلیم کرنے کے تمام لوازم اور عملی تقاضے تک پیش کرڈالنا اور پھر اس پر اتنا اصرار کرنا کہ لوگوں میں چڑ پیدا ہوجائے، حکمت ِ تبلیغ کے خلاف ہے۔
اگر آپ کو، یا آپ کے کسی دوست کو،کسی وکیل یا جج کے ہاں بچوں کو پڑھانے کا اتفاق ہوا ہے تو آپ نے کیسی غلطی کی ہے کہ اس کے بچوں کو چن چن کر وہی آیتیں یادکرانی شروع کردیں جو آپ نے نقل فرمائی ہیں، اور اس طرح اسے مجبور کردیا کہ یا تو وہ قرآن کے مقابلے میں آکھڑا ہو، یا نہیں تو خود اپنے بچوں کی نگاہ میں کافر وفاسق قرارپائے۔ یہ طریقہ اختیار کرنے کے بجائے اگر آپ بتدریج ان بچوں کو اسلامی عقائد کے مبادی سے، پھر ان کی تفصیلات سے،پھر ان کے لوازم اور تقاضوں اور مطالبوں سے آگاہ کرتے ،اور ساتھ ساتھ قرآن مجید کے ذریعے سے یہ چیزیں ان کو سمجھاتے چلے جاتے تو خطرے کا الارم بھی نہ بجتا،بچوں کو دین کی تعلیم بھی اچھی طرح مل جاتی، اور ان کے والد صاحب چاہے جو کچھ بھی بنے رہتے،مگر ان کی اولاد درست ہوجاتی۔ آپ نے اِس کے برعکس کم سمجھ بچوں کو ایسی باتیں یاد کرانی شروع کردیں جن کی بِنا پر وہ ہر جگہ اُلٹے سیدھے فتوے جڑنے لگے ہوںگے۔یہی چیز خطرے کی گھنٹی بن گئی اور اس نے وہ صورتِ حال پیداکردی جس میں آپ کو یہ سوال کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔اب ظاہر ہے کہ وہ بچے کسی ایسے ہی معلم کے حوالے کیے جائیں گے جو مذہب کا ایسا تصور ان کے ذہن میں بٹھائے جس کی رُو سے خدا اور قیصر کے حقوق الگ الگ ہوں او ر ساتھ ساتھ بے کھٹکے ادا کیے جا سکیں۔
(ترجمان القرآن۔محرم،صفر ۶۴ھ،جنوری،فروری ۴۵ء)
……٭٭٭……

تقلید وعدمِ تقلید:

سوال: تقلید ِ ائمۂ اربعہ کے متعلق آپ کا نظریہ کیا ہے؟یعنی تقلید کو آپ کسی حد تک جائز سمجھتے ہیں یا نہیں؟اور اگر جائز سمجھتے ہیں تو کس حد تک؟ جہاں تک میری معلومات کام کرتی ہیں،آپ ایک وسیع المشرب مقلد ہیں؟

جواب: میر امسلک یہ ہے کہ ایک صاحب علم آدمی کو براہِ راست کتاب وسنت سے حکم صحیح معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس تحقیق وتجسس میں علمائے سلف کی ماہرانہ آرا سے بھی مدد لینی چاہیے۔نیز اختلافی مسائل میں اسے ہر تعصب سے پاک ہو کر کھلے دل سے تحقیق کرنا چاہیے کہ ائمۂ مجتہدین میں سے کس کا اجتہاد کتاب وسنت سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔پھر جو چیزحق معلوم ہو،اسی کی پیروی کرنی چاہیے۔
میں نہ مسلکِ اہل حدیث کو اس کی تمام تفصیلات کے ساتھ صحیح سمجھتا ہوں اور نہ حنفیت یا شافعیت ہی کا پابند ہوں۔ لیکن کوئی وجہ نہیں کہ جماعت اسلامی میں جو لوگ شریک ہوں،ان کا فقہی مسلک لازماً میرے فقہی مسلک کے مطابق یا اس کے تابع ہو۔ وہ اگر فرقہ بندی کے تعصبات سے پاک رہیں اور حق کو اپنے ہی گروہ میں محدود نہ سمجھیں تو وہ اس جماعت میں رہتے ہوئے اپنے اطمینان کی حد تک حنفی،شافعی، اہل حدیث یا دوسرے فقہی مسلک پر عمل کرنے میں آزاد ہیں۔

سوال: تقلیدِ ائمۂ اربعہ کو گروہِ’’ اہل حدیث‘‘ حرام وشرک بتاتا ہے ۔کیا یہ صحیح ہے؟کیا مقلدین اہل حدیث نہیں ہیں؟تقلید اصل میں کیا ہے؟ کیا یہ ضروری ہے؟

جواب: اسلام میں دراصل تقلید سوائے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی کی نہیں ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید بھی اس بِنا پر ہے کہ آپؐ جو کچھ فرماتے اور عمل کرتے ہیں وہ اﷲ کے اِذن اور فرمان کی بِنا پر ہے ۔ورنہ اصل میں تو مطاع اور آمر اﷲتعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔
ائمہ کی پیروی کی حقیقت صرف یہ ہے کہ ان ائمہ نے اﷲ اوررسولؐ کے احکام کی چھان بین کی،آیاتِ قرآنی اور سنتِ رسولؐ سے معلوم کیا کہ مسلمان کو عبادات اور معاملات میں کس طریقے پر چلنا چاہیے، اوراُصولِ شریعت سے جزئی احکام کا استنباط کیا۔ لہٰذا وہ بجائے خود آمروناہی نہیں ہیں، نہ بذات خود مطاع اور متبوع ہیں،بلکہ علم نہ رکھنے والے کے لیے علم کا ایک معتبر ذریعہ ہیں۔ جو شخص خود احکام الٰہی اور سنت نبوی میں نظر بالغ نہ رکھتا ہو اور خود اُصول سے فروع کا استنباط کرنے کا اہل نہ ہو،اس کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ علما اور ائمہ میں سے جس پر بھی اسے اعتماد ہو،اس کے بتائے ہوئے طریقے کی پیروی کرے۔اگر کوئی شخص اِ س حقیقت سے ان کی پیروی کرتا ہے تو اس پر کسی اعتراض کی گنجایش نہیں۔لیکن اگر کوئی شخص ان کو بطور خود آمرونا ہی سمجھے یا ان کی اطاعت اس انداز سے کرے جو اصل آمرونا ہی کی اطاعت ہی میں اختیار کیا جاسکتا ہے، یعنی ائمہ میں سے کسی کے مقرر کردہ طریقے سے ہٹنے کو اصل دین سے ہٹ جانے کا ہم معنی سمجھے اور اگر کسی ثابت شدہ حدیث یا صریح آیت قرآنی کے خلاف ان کا کوئی مسئلہ پایا جائے، تب بھی وہ اپنے امام ہی کی پیروی پر اصرار کرے،تو یہ بلاشبہ شرک ہوگا۔
(ترجمان القرآن۔رجب،شوال ۶۳ھ،جولائی،اکتوبر ۴۴ء)

وہابی اور وہابیت:

سوال: فرقہ ٔوہابیہ کا بانی کون تھا؟اس کے مخصوص عقائد کیا تھے؟ہندوستان میں اس کی تعلیمات کس طرح شائع ہوئیں؟کیا علمائے اسلام نے اس کی تردید نہیں کی؟اگر کی ہے تو کس طریقے پر؟ آیا اس فرقے نے اشاعتِ اسلام میں حصہ لیا ہے یا مخالفتِ اسلام میں؟

جواب: وہابی دراصل کسی فرقے کا نام نہیں ہے۔محض طنز اور طعن کے طور پر ان لوگوں کے لیے ایک نام رکھ دیا گیا ہے، جو یا تو اہلِ حدیث ہیں یا محمد ابن عبدالوہاب کے پیرو ہیں۔ اہلِ حدیث کا مسلک تو قدیم ہے۔ ائمۂ اربعہ کے زمانے سے چلا آتا ہے۔ اور یہ ان لوگوں کا گروہ ہے جو کسی امام کی تقلید اختیا رکرنے کے بجائے خود حدیث وقرآن سے احکام کی تحقیق کرتے ہیں۔رہے محمد بن عبدالوہاب کے پیرو،تو وہ دراصل حنبلی طریقے کے لوگ ہیں۔ان کی فقہ اور ان کے عقائد وہی ہیں جو امام احمد بن حنبلؒ کے تھے۔ہندوستان میں یہ مؤخر الذکر گروہ غالباًکہیں موجود نہیں ہے۔جن لوگوں کو یہاں وہابی کہا جاتا ہے وہ دراصل پہلے گروہ کے لوگ ہیں۔ ان لوگوں نے اوّل اوّل نہایت اچھا کام کیا اور اب بھی ان میں اچھے افراد پائے جاتے ہیں۔مگر ان میں بہت سے جاہل اور جھگڑالو آدمی بھی شامل ہوگئے ہیں جو خواہ مخواہ چھوٹے چھوٹے معاملات پر بحث و مناظرے کا بازار گرم کرتے پھرتے ہیں۔ اور ایسے ہی جاہل خود حنفی کہلانے والے گروہ میں بھی بکثرت موجود ہیں۔یہ ساری مناظرہ ومباحثہ اور فرقہ بازی کی گرمیِ بازار انہی دونوں فریقوں کی برکت ہے۔

سوال: کیا کسی حدیث میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ نجد سے ایک فتنہ اُٹھے گا ؟کیا یہ حدیث مذکورہ بالا فرقے پر منطبق ہوتی ہے؟

جواب: نجد یا مشرق کی طرف سے ایک فتنہ اُٹھنے کی خبر تو حدیث میں دی گئی ہے مگر اس کو محمد ابن عبدالوہاب پر چسپاں کرنا محض گروہ بندی کے اندھے جوش کا نتیجہ ہے ۔ایک فریق جب دوسرے فریق سے لڑنا چاہتا ہے تو ہر ہتھیار اس کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے، حتیٰ کہ خدا اور رسولؐ کو بھی ایک فریق جنگ بنانے میں دریغ نہیں کرتا۔
(ترجمان القرآن۔رجب،شوال۶۳ ھ، جولائی ،اکتوبر ۴۴ء)

مذہب ِ حنفی اورحدیث:

سوال: بعض اعمال میں اقوال حضرت امام اعظم بظاہر احادیث ِ صحیحہ کے خلاف پائے جاتے ہیں، جیسے فاتحہ خلف الامام، رفع یدین،آمین بالجہر، شر ط مصرفی صلوٰۃ الجمعہ وغیرہ تو کیا امام موصوف کے اقوال قرآن وحدیث سے مستنبط ہیں؟اگر ایسا ہے تو وہ احادیث کون سی ہیں ؟کیا وہ عندالمحدّثین صحیح ہیں؟

جواب: امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام مالک کے مذہب میں بہت سے ایسے مسائل ہیں جن پر اہل حدیث کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ یہ حدیث کے خلاف ہیں اور ان ائمہ کے پیرووں کی طرف سے ان اعتراضات کے جواب بھی دیے گئے ہیں ۔جو شخص خود علم رکھتا ہو اور جس میں خود اجتہاد کی صلاحیت موجود ہو وہ فریقین کے درمیان محاکمہ کرسکتا ہے اور اسے حق ہے کہ حدیث سے جس طریقے کو ثابت پائے اسے اختیار کرے اور جسے ثابت نہ پائے اسے چھوڑ دے۔ لیکن یہ عام اہل حدیث جو ان مسائل پر بحث کرتے پھرتے ہیں،ان کاحال عام حنفیوں سے کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔ان کا علم بھی ویسا ہی تقلیدی ہے جیسا حنفیوں کا ہے۔ یہ اپنے ائمہ وعلما پر اعتماد کرتے ہیں، اور حنفی اپنے ائمہ وعلما پر۔ ان میں خود اجتہادی قابلیت نہیں، نہ یہ احادیث کا اتنا علم اور اُصول میں اتنی بصیرت رکھتے ہیں کہ احکام کی تحقیق کرسکیں۔ان کا یہ کہنا کہ فاتحہ خلف الامام یا رفع یدین یاآمین بالجہر حدیث سے ثابت ہے اور اس کاخلاف ثابت نہیں ہے، دراصل تقلید کی بنیاد پر ہے نہ کہ اجتہاد کی بنیاد پر۔ لہٰذا ان کے جواب میں خاموشی بہتر ہے ۔البتہ جو علم رکھتے ہیں،وہ ان مسائل پر بول سکتے ہیں۔
فاتحہ خلف الامام کے بارے میں جو کچھ میں نے تحقیق کیا ہے،اس کی رُو سے زیادہ صحیح مسلک یہ ہے کہ جب امام بآواز بلند پڑھ رہا ہوتو مقتدی خاموش رہیں اور جب امام آہستہ پڑھ رہا ہو تو مقتدی بھی فاتحہ پڑھیں۔ اس طرح کسی حکم قرآنی اور کسی حدیث کی خلاف ورزی کااندیشہ نہیں رہتا اور تمام مختلف دلائل دیکھ کر یہ ایک متوسط طریقہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ اما م مالکؒاور امام احمدؒ نے بھی اسی کو اختیار کیاہے۔ لیکن جو شخص امام کے پیچھے کسی صورت میں بھی فاتحہ نہیں پڑھتا یا ہرحال میں پڑھتا ہے،ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی نماز نہیں ہوتی۔کیوں کہ دونوں مسلکوں کی تائید میں دلائل موجود ہیں اور وہ شخص جان بوجھ کر حکم کی خلاف ورزی نہیں کررہا ہے، بلکہ جو حکم اس کے نزدیک دلیل سے ثابت ہے اسی پر عمل کررہا ہے۔لہٰذا اس پر وہ الزام نہیں رکھا جاسکتا ہے جو حکمِ شرعی کی بالقصد مخالفت کرنے والے پر رکھا جاتا ہے۔
رہا’’رفع یدین‘‘ اور’’ آمین بالجہر‘‘ تو ان کے فعل اور ترک دونوں کی تائید میں دلائل مجھ کو تقریباً مساوی الوزن نظر آتے ہیں۔اس لیے جو ان افعال کو کرتا ہے وہ بھی حدیث کی خلاف ورزی نہیں کررہا ہے، اور جو انہیں ترک کرتا ہے اسے بھی مخالفتِ حدیث کا الزام نہیں دیا جاسکتا۔ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ صاحب شریعت علیہ السلام نے مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے عمل کیا ہے، اور اسی طرح صحابہ کرامؓ نے بھی۔ اب ایک شخص جس طریقے کی بھی پیروی کرتا ہے وہ صاحبِ شریعتؐ ہی کا مطیع ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اسے غیریت اورنفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے، یا اسے اپنے ہی پسندیدہ طریقے کی طرف تشدّد سے کھینچا جائے۔ ہاتھ اُٹھانا یا نہ اُٹھانا، اور آمین زور سے کہنا یا آہستہ کہنا کوئی ایسی اہمیت نہیں رکھتا کہ ایک کا التزام اور دوسرے کے ترک کا اہتمام کیا جائے۔
نمازِ جمعہ میں شرطِ مصر کے متعلق مجھے علمائے حنفیہ سے اختلاف ہے،میری تحقیق یہ ہے کہ بعد کے لوگوں نے خود امام ابوحنیفہؒ ہی کے استدلال واستنباط کو اِ س معاملے میں نہیں سمجھا۔ امام صاحب کامدعاصرف یہ تھا کہ اقامتِ جمعہ ایسی آبادیوں میں ہو جو اپنے علاقے کے اندر مرکزی حیثیت رکھتی ہوں۔ اور یہ حدیث کے عین مطابق ہے۔ لیکن بعد کے لوگوں نے مصر کا مدلول متعین کرنے میں کھینچ تان کی اور متعدد ایسی شرطیں بڑھا دیں جن کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔اس مسئلے پر مفصل بحث ترجمان القرآن میں کی جاچکی ہے۔( ملاحظہ ہو تفہیمات، حصہ دوم از مصنف۔)
(ترجمان القرآن۔رجب،شوال ۶۳ھ، جولائی ،اکتوبر ۴۴ء)

حدیث کی تدوینِ جدید:

سوال: قرآن کے بعد احادیث نبویہؐ کو دینی حجت ماننے یا نہ ماننے میں ہمارے اہلِ فکر ونظر افراط وتفریط میں مبتلا ہیں۔میرے خیال میں تفریط تو یہ ہے کہ ذخیرہ حدیث کو تاریخی روایات کی حیثیت دی جائے اور افراط یہ ہے کہ احادیث صحاح ستّہ میں قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے جو کچھ بھی لکھا گیا ہو،اسے کلیتاً رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی حدیث سمجھ لیا جائے اور اس پر دین واعتقاد کی عمارت کھڑی کرلی جائے۔ میں اپنی معلومات کی کمی اور فکر ونظر کی کوتاہی کی وجہ سے اس بارے میں کوئی نقطۂ اعتدال نہیں پاسکا، براہ کرم آپ ہی رہنمائی فرمایئے اور ان شبہات کو صاف کر دیجیے۔
کیا احادیث کی تحقیق وتنقیح اور راویوں کے حالات کی تفتیش کا کام اگلے محققین پر ختم ہوگیا؟اگر جواب اثبات میں ہے تو اس دعوے کی دلیل کیا ہے؟ اور پھر اس کے کیا معنی کہ صحیح بخاری تک میں ایسی حدیثیں موجود ہیں جو نقلِ صحیح اور عقلِ سلیم کی روشنی میں محلِ اعتراض ہیں۔مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تین مرتبہ جھوٹ بولنا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ملک الموت کی آنکھ پر گھونسا مارنا وغیرہ روایات کو ملاحظہ کرلیجیے۔
نیز اگر جواب نفی میں ہو تو بتلایئے کیا وجہ ہے کہ اب تک صحیح اور غلط احادیث کو چھانٹ دینے کا فریضہ متاخرین علمائے اسلام نے انجام نہیں دیا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ مشتبہ روایات پر وارد ہونے والے اعتراضات تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

جواب: میں اپنے مضامین میں متعد د مقامات پر اس بات کو واضح کرچکا ہوں کہ احادیث کی تنقید وتحقیق وترتیب کا کام جو کچھ ابتدائی چار صدیوں میں ہوا ہے،وہ اگرچہ نہایت قابلِ قدر ہے مگر کافی نہیں ہے۔ابھی بہت کچھ اس سلسلے میں کرنا باقی ہے۔رہی یہ بات کہ علما نے پھر یہ کام کیوں نہیں کیا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جن علما نے چوتھی صدی کے بعد اجتہاد کو حرام قرار دیاہو، ان کے متعلق یہ پوچھنا ہی غلط ہے کہ انہوں نے حدیث کی چھانٹ پرکھ کا کام کیوں نہیں کیا۔
(ترجمان القرآن۔رجب،شوال ۶۳ھ،جولائی،اکتوبر۴۴ء)

کیا ایک فقہی مذہب چھوڑ کر دوسرامذہب اختیارکرنا گناہ ہے؟

سوال: ہمارے اس زمانے میں مذاہب ِ اربعہ میں سے کسی ایک کی پابندی پہلے سے زیادہ لازمی ہوگئی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا کوئی صاحب علم وفضل چار معروف مذاہب فقہ کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کرنے یا اجتہاد کرنے کا حق دار ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کس دلیل سے؟اور اگر جائز ہے تو پھر طحطاوی میں ایک بڑے صاحب کما ل فقیہ کے اس قول کا کیا مطلب ہے:
المنتقل من مذہب الٰی مذہب باجتہاد وبرھان اٰثم یستوجب التعزیر۔

جواب: میرے نزدیک صاحب علم آدمی کے لیے تقلید ناجائز اور گناہ بلکہ اس سے بھی کچھ شدید چیز ہے۔ مگر یہ یاد رہے کہ اپنی تحقیق کی بِنا پر کسی ایک سکول کے طریقے اور اُصول کا اتباع کرنا اور چیز ہے اور تقلید کی قسم کھا بیٹھنا بالکل دوسری چیز۔اور یہی آخری چیز ہے جسے میں صحیح نہیں سمجھتا۔ رہا طحطاوی کا وہ فتویٰ جو آپ نے نقل کیا ہے،تو وہ خواہ کتنے ہی بڑے عالم کا لکھا ہوا ہو،میں اس کو قابلِ تسلیم نہیں سمجھتا۔میرے نزدیک ایک مذہب فقہی سے دوسرے مذہب فقہی میں انتقال صرف اس صورت میں گناہ ہے جب کہ یہ فعل خواہش نفس کی بِنا پر ہو نہ کہ تحقیق کی بِنا پر۔
(ترجمان القرآن۔رجب،شوال ۶۳ھ، جولائی ،اکتوبر ۴۴ء)

کس قسم کا اجماع حجت ہے؟

سوال: ایسا اجماع جو کسی صحیح حدیث پرمؤسس ہو،واقعی شرعی حجت ہے اور ایسے اجماع کا منکر یقینا کافر ہے۔ لیکن ایسا اجماع جو علما نے کسی ایسے مقصد پر کرلیا ہو جو مخبرِ صادق ؐ کے لفظوں سے صراحتاً ثابت نہ ہو یا کسی ایسی حقیقت سے تعلق رکھتا ہو جس کی تصریح شارع علیہ السلام نے نہ کی ہو اور اسے مصلحتاً مجمل ہی رہنے دیا ہو،کیا یہ بھی شرعی حجت کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کا منکر کافر ہے؟

جواب: اجماع کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے۔یہاں اس کے تما م پہلوئوں پر بحث کرنا مشکل ہے۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ اجماع سے مراد اُمت کا متفقہ فیصلہ ہے، اور یہ متفقہ فیصلہ لامحالہ دو ہی قسم کے اُمور سے متعلق ہوسکتا ہے ۔ایک قسم کے اُمور وہ جو احکام شرعی میں سے ہوں۔دوسری قسم کے اُمور وہ جو دنیوی تدابیر کے قبیل سے ہوں۔پہلی قسم کے اُمور میں سے کسی امر میں اگر اُمت متفق ہو کر کسی حکمِ مخصوص کی تشریح کرے اور وہ تشریح کسی وقتی ضرورت یا مصلحت کو پیش نظر رکھ کر نہ کی گئی ہو، بلکہ اُصولاً شارع کا منشا یا سنت کا طریقہ بالا تفاق متعین کیا گیا ہو، تو ایسا اجماع یقینا حجت ہے اور ہمیشہ کے لیے حجت ہے۔ اور اگر کسی مصلحتِ وقتی کو ملحوظ رکھ کر کسی حکم کی تشریح کی گئی ہو تو ایسے اجماع کی پابندی اس وقت تک اُمت پر لازم ہوگی جس وقت تک وہ مصلحت باقی ہے۔ حالات بدل جانے کے بعد اس کی پابندی لازم نہیں رہے گی۔ بخلاف اس کے اگر کوئی اجماع کسی حکم شرعی کی تشریح کے متعلق نہ ہو، بلکہ کسی تدبیر دنیوی کے متعلق اُمت نے متفق ہوکر طے کرلیا ہو کہ اس طرح عمل کیا جائے گا، تو اگر اُصول شریعت میں اس طرزِ عمل کے لیے کوئی گنجایش موجود ہو تو ایسا اجماع واجب العمل ہوسکتا ہے ورنہ نہیں۔ نیز یہ کہ ایسا اجماع کبھی دائمی اور ابدی وجوب کا مرتبہ حاصل نہیں کر سکتا۔ عین ممکن ہے کہ ایک زمانے کے مسلمان یا ایک ملک یا ایک قوم کے مسلمان کسی تدبیر یا کسی کام پر اتفاق کریں اور دوسرے زمانے میں اسی قوم یا اسی ملک کے لوگ کسی اور امر پر اتفاق کرلیں۔ یہ ملکی اور قومی ا ور زمانی اجماع صرف ایک خاص زمانے اور خاص ملک یا قوم کے مسلمانوں ہی کے لیے واجب العمل ہوسکتے ہیں۔بعد کے زمانے والوں یا دوسرے ممالک کے مسلمانوں کو اگر اِ س میں تغیر وتبدل کی ضرورت محسوس ہو تو یہ دعویٰ کرنا صحیح نہ ہو گا کہ چوں کہ پہلے فلاں خاص امر پر اجماع ہوچکا ہے یا فلاں ملک میں اس پر اتفاق ہوچکا ہے اس لیے اب اس کے بارے میں کلام نہیں کیا جا سکتا۔
(ترجمان القرآن۔رجب ،شوال ۶۳ھ، جولائی،اکتوبر ۴۴ء)

فرقہ بندی کے معنی:

سوال آپ اپنی جماعت کے لوگوں کو سختی کے ساتھ فرقہ بندی سے منع کرتے ہیں۔اس ضمن میں میرا سوال یہ ہے کہ آخر صوم وصلوٰۃ وحج وغیرہ ارکان کو کسی نہ کسی مسلک کے مطابق ہی ادا کرنا ہوگا۔ تو پھر بتایئے کہ کوئی مسلمان فرقہ بندی سے کیسے بچ سکتا ہے؟میرا اپنا یہ خیال ہے کہ بموجب آپ کی رائے کے کہ قرآن وحدیث کے موافق جو مسئلہ ملے اس پر عمل کیا جائے، بجز اہلِ حدیث کے کسی فرقے کے ہاں جملہ جزئیات میں قرآ ن وحدیث سے مطابقت نہیں پائی جاتی۔پس میں نے فی الجملہ مسلک اہل ِ حدیث کو اپنے لیے پسند کیا ہے، پھر کیا میں بھی فرقہ بندی کے الزام کا مورد ٹھہروں گا؟

جواب: فقہ میں اپنی تحقیق یا کسی عالم کی تحقیق کی پیروی کرتے ہوئے کوئی ایساطرزِ عمل اختیا ر کرنا جس کے لیے شریعت میں گنجایش موجود ہو،فرقہ بندی نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی قباحت واقع ہوسکتی ہے۔ اِ س طریقے سے مختلف لوگوں کی تحقیقات اور ان کے طرزِ عمل میں جو اختلاف واقع ہوتا ہے وہ وہ مذموم تفرق واختلاف نہیں ہے جس کی برائی قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ایسے اختلافات خود صحابہ کرامؓ اور تابعین میں رہ چکے ہیں۔ دراصل فرقہ بندی جس چیز کا نام ہے وہ یہ ہے کہ فروع کے اختلافات کو اہمیت دے کر اُصولی اختلاف بنادیا جائے اور اس میں اتنا غلو کیا جائے کہ اسی پر الگ گروہ بنیں اور ہر گروہ اپنے مسلک کو بمنزلۂ دین قرار دے کر دوسرے گروہوں کی تکفیر وتضلیل کرنے لگے، اپنی نمازیں اور مسجدیں الگ کرے،شادی بیاہ اور معاشرتی تعلقات میں بھی علیحدگی اختیار کرے، اور دوسرے گروہوں کے ساتھ اس کے سارے جھگڑے انہی فروعی مسائل پر ہوں، حتیٰ کہ اصل دین کے کام میں بھی دوسرے گروہوں کے ساتھ اس کا تعاون ناممکن ہوجائے۔ اس قسم کی فرقہ بندی اگرپیدا نہ ہو اور فروع کو صرف فروع کی حیثیت ہی میں رہنے دیا جاے تو مسائل فقہیہ میں مختلف مسلکوں کے لوگ اپنے اپنے طریقے پر عمل کرتے ہوئے بھی ایک ساتھ اسلامی نظامِ جماعت میں منسلک رہ سکتے ہیں۔
(ترجمان القرآن۔ذی القعدہ ،ذی الحجہ ۶۳ھ، نومبر،دسمبر ۴۴ء)

فقہی اختلافا ت کی بِنا پر نمازوں کی علیحدگی:

سوال: فقہی اختلافات کی بِنا پر بعض صورتوں میں حنفی،اہل حدیث اور شافعی حضرات علیحد ہ علیحدہ نماز پڑھنے پرمجبور ہوجاتے ہیں۔مثلاً ایک گروہ اوّل وقت نماز پڑھنے کو ترجیح دیتا ہے اور دوسرا تاخیر کو افضل سمجھتا ہے۔اب ان سب کا مل کر ایک جماعت میں نماز پڑھنا کسی نہ کسی کو افضل نماز سے محروم ہی کرے گا۔اگر ’’افضل نماز‘‘ کی کوئی اہمیت ہے تو پھرآپ کیوں اس’’ایک ہی جماعت‘‘ کے اُصول پر اتنا زور دیتے ہیں؟

جواب: آپ کے نزدیک اگر کسی وقت پر نماز پڑھنا افضل اور اولیٰ ہو اور دوسرے مسلمانوں کے نزدیک کسی دوسرے وقت میں پڑھنا افضل ہو تو اس اختلاف کی بِنا پر جماعت سے الگ ہوکر نماز پڑھنا یا اپنے ہم خیالوں کی جماعت الگ قائم کرنا صحیح نہیں ہے،کیوں کہ افضل وقت کو چھوڑنے کی برائی سے جماعت کو ترک کرنے اور جماعتیں الگ کرلینے کی برائی زیادہ ہے۔

سوال: ایک صاحب نے ہمارے ایک سوال کے جواب میں آپ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ غیر صالح العقیدہ لوگوں کے پیچھے بھی عام مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھ لینی چاہیے اور تفرقے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ہمیں یاد ہے کہ آپ نے ایک خط میں ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں یہ فرمایا تھا کہ جس شخص کے متعلق مشرکانہ عقائد رکھنا بالکل متحقق ہوجائے اس کے پیچھے تو نماز پڑھنے سے احتراز کرنا چاہیے ،مگر جس شخص کے عقائد کی حقیقت معلوم نہ ہو اس کی امامت میں نماز پڑھنا چاہیے۔ان دونوں جوابات میں جو فرق ہے اس کی وجہ سے یہاں بہت پیچیدگی پیدا ہوگئی۔ ذرا وضاحت کے ساتھ صحیح مسلک کی نشان دہی فرمایئے۔

جواب: آ پ کوجو جواب یہاں سے دیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ کوئی صریح مشرکانہ فعل یا قول یا عقیدہ جس کے لیے تاویل کی قطعاً گنجایش نہ ہو اور جس کے ماننے والے یا کرنے والے کے لیے یہ فیصلہ کیے بغیر چارہ نہ ہو کہ وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے،ایسے قول یا فعل کے مرتکب کے پیچھے نماز نہ پڑھنی چاہیے۔ لیکن عام طور پر مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے درمیان بحثوں اورمناظروں اور نزاعو ںنے یہ کیفیت پیدا کردی ہے کہ ہر گروہ دوسرے کو گمراہ ٹھیرانے اور اس سے دُور بھاگنے کے لیے دلیلیں ڈھونڈتا ہے اور بات بات پر فرقے بنتے ہیں،مسجدیں الگ ہوتی ہیں اور شادی بیاہ کے تعلقات منقطع ہوتے ہیں۔یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔جو لوگ سب کی اصلاح کے لیے اُٹھے ہوں، ان کے لیے صحیح طریقہ یہی ہے کہ وہ سب مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھیں اور ان میں جو اخلاقی اور اعتقادی خرابیاں پائیں،ان کو ہم دردی اورمحبت کے ساتھ دُور کرنے کی کوشش کریں۔ورنہ نمازیں الگ کرلینے کا فائدہ بجز اس کے اور کچھ نہ ہوگا کہ ہم بھی ایک فرقہ بن کر رہ جائیں گے اور ہمارے اور عام مسلمانوں کے درمیان ایک دیوارکھڑی ہوجائے گی، جسے عبور کرنا محال ہوجائے گا۔
رہا یہ اندیشہ کہ جس شخص کو آپ اپنے نزدیک گمراہی اور شرک میں مبتلا پاتے ہیں اس کی نماز چوں کہ آپ کے عقیدے کے مطابق مقبول نہیں ہے اس لیے اگر آپ اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے تو آپ کی نماز نہ ہوگی،تو یہ اصلاًغلط ہے۔اوّل تو آپ یہ فیصلہ کرنے کے مجاز ہی نہیں ہیں کہ کس کی نمازمقبول ہوگی اور کس کی نہ ہوگی۔ ایسے فیصلے کرنے کے بجائے زیادہ بہتر یہ ہے کہ آپ اپنی نماز کی مقبولیت کے لیے بھی دعا کریں اور دوسروں کی نماز کی مقبولیت کے لیے بھی ۔دوسر ے یہ کہ جماعت کے ساتھ نما ز پڑھنے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ پوری جماعت کی نماز امام کی نماز کے ماتحت ایک مجموعے کی شکل میں اﷲتعالیٰ کے سامنے پیش ہوتی ہو، اور اگر امام کی نماز مقبول نہ ہو تو سارے مقتدیوں کی نماز بھی غیر مقبول ہوجائے۔ جماعت کی پابندی تو مسلمانوں کو ایک اُمت بنانے کے لیے ہے۔ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہر فرد کی نماز انفرادی حیثیت ہی سے خدا کے حضور پیش ہوتی ہے، اور اگر وہ مقبول ہونے کے قابل ہو تو بہرحال مقبول ہوکررہتی ہے، خواہ امام کی نماز مقبول ہو یا نہ ہو۔

سوال: میرا تعلق جس فرقے سے تھا، اس کے بعض سنجیدہ علما یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب آپ فقہی مسلک میں جماعت اسلامی کے ارکان کو آزادی دیتے ہیں اور واقعتاً جزوی معاملات میں مختلف گروہ متحد الخیال ہیں بھی نہیں، تو پھر آپ نماز کی جماعت میں سب کی شرکت کو لازمی کیوں قرار دیتے ہیں؟ خود نماز سے متعلقہ مسائل میں بہت اختلافات ہیں اور ان کی بِنا پر لوگ اپنی نمازیں الگ پڑھنا چاہتے ہیں!

جواب: فقہی اختلافات کی بِنا پر نمازوں کو الگ کرنے کا کوئی ثبوت سلف میں نہیں ہے۔ یہ فقہی اختلافات صحابہ کرام ؓ کے درمیان بھی تھے اور تابعین کے درمیان بھی اور تبع تابعین کے درمیان بھی۔ لیکن یہ سب لوگ ایک ہی جماعت میں نماز پڑھتے تھے۔یہی طریقہ ائمۂ مجتہدین کا بھی رہا۔ یہ بالکل ظاہر ہے کہ نماز دین کی بنیادوں میں سے ہے اور فقہی اختلافات بہرحال فروعی ہیں۔ان فروعی اختلافات کی بِنا پر نمازیں الگ کرنا تفرق فی الدین ہے، جس کو قرآن نے گمراہی قرار دیا ہے۔نمازیں الگ کرلینے کے بعد مسلمانوں کی ایک اُمت نہیں رہ سکتی اور اس کا امکان نہیں ہے کہ جو لوگ مل کر نماز نہیں پڑھ سکتے، وہ دین کو قائم کرنے اور قائم رکھنے کی سعی میںمتحد ہوکر کام کر سکیں گے۔یہ چیز اب نظری نہیں رہی ہے بلکہ صدیوں کے عملی تجربے نے اسے ثابت کردیا ہے۔لہٰذا جو لوگ اپنی فرقی اختلافات کی وجہ سے نمازوں کی علیحدگی پر اصرار کرتے ہیں،وہ دراصل دین کی جڑ پر ضرب لگاتے ہیں۔ (ترجمان القرآن۔ذی القعدہ،ذی الحجہ۶۳ھ،نومبر،دسمبر ۴۴ء)

اختلافی مسائل پر اُمت سازی کا فتنہ:

سوال: مجھے مذہبی تنازع اور تفرقے سے فطری بُعد ہے اور وہ تمام جزوی مسائل جن میں اختلاف کی گنجایش خود شریعت میں موجود ہے، ان میں اختلاف کو جائز رکھتا ہوں۔ اسی طرح اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی معاملے میں دو یا تین طریقہ ہائے عمل ثابت ہوں تو ان سب کو جائز اور سنت کی حدکے اندر شمار کرتا ہوں۔مثلاً نماز میں رفع یدین کرنا اور نہ کرنا میرے نزدیک دونوں برابر ہیں۔چنانچہ میں ان دونوں صورتوں پر عمل کرلیتا ہوں،کبھی اِس پر اور کبھی اُس پر۔مجھے اپنے اس مسلک پر پورا پورا اطمینان ہے اور میں نے سوچ سمجھ کر اِسے اختیار کیا ہے۔ مگر میرے والد مکرم،جو جماعت اسلامی کے رکن بھی ہیں، محض نماز میں رفع یدین کا التزام چھوڑدینے کی وجہ سے انہوں نے مجھے یہ نوٹس دے دیا ہے کہ اگر تم نے اپنی روش نہ بدلی تو پھر ہمارے تمہارے درمیان سلام کلام کا تعلق برقرار نہیں رہ سکتا۔ میں نے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ اب یہ قضیہ میرے اور والد مکرم کے حلقۂ تعارف میں بحث کا موضوع بن گیا ہے اور دونوں کی تائید وتردید میں لوگ زورِ استدلال صرف کررہے ہیں۔
مجھ پر جو بے سروپا اعتراضات عموماًہورہے ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے: تو حنفی ہوگیا ہے ۔تیرا دو طریقوں پر عمل کرنا دو عملی اور نفاق ہے ۔تم جماعت کی اکثریت سے مرعوب ہوگئے ہو۔تمہارا اصل مقصود جلبِ زر اور حصولِ عزت ہے ،تمہیں احناف نے یہ پٹی پڑھائی ہے۔ تو مودودی صاحب کا مقلد ہے وغیرہ۔
ان اعتراضات میں ایک دل چسپ ترین اعتراض یہ ہے کہ ہمیں پہلے ہی مودودی صاحب سے یہ اندیشہ تھا کہ وہ جماعت اسلامی کے نام پر اہلِ حدیث کو حنفی بنا کے رہیں گے۔چنانچہ یہ اندیشہ صحیح ثابت ہوا۔یعنی پہلے تو اس جماعت میں آنے والے سے کہا جاتا ہے کہ تمہارا فقہی مسلک جماعت میں آنے کے بعد بھی برقرار رہے گا، مگر جماعت میں آنے کے بعد ایسے طریقوں سے کام لیا جاتا ہے کہ کسی شخص کو خود کوئی احساس تک نہیں ہوتا اور اس کا مسلک سراسر بدل جاتا ہے۔
مَیں حسبِ موقع ان سب اعتراضات کے جواب دیتا رہا ہوں لیکن پھر بھی اپنے اطمینان کے لیے امورذیل کی وضاحت چاہتا ہوں:
ا۔ والدین کے حقوق کا دائرہ کتنا وسیع ہے؟کیا وہ اولاد سے مسائل کی تحقیق کا اور اپنی تحقیق کے مطابق عمل کرنے کا حق بھی سلب کرسکتے ہیں؟کیا میں والدین کی مرضی کے خلاف مسلکِ اہل حدیث کی خلاف ورزی( یعنی ترک رفع یدین) کرنے پر سخط الرب فی سخط الوالدین کی وعید کا مستوجب ہوجائوں گا؟
۲۔ ازُروئے شریعت نماز میں رفع یدین کرنے یا نہ کرنے کا مسئلہ کیا حیثیت رکھتا ہے؟کیا ترکِ رفع سے آدمی دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے؟
۳۔ کیا جماعت اسلامی کا ایک رکن دوسرے رکن سے اس بِنا پر مقاطعہ کرسکتا ہے کہ اس نے مزعومہ مسلکِ اہل حدیث کی خلاف ورزی کی ہے؟

جواب: جس نزاع کا آپ نے ذکر کیا ہے ،اس کا حال پڑھ کر مجھے بہت رنج ہوا۔ مجھ کو اس بات کی ہرگز توقع نہ تھی کہ جماعت اسلامی میں ایسے لوگ موجود ہوں گے جو فقہی مسائل میں تعصب اور تشدد کی اس حد کو پہنچے ہوئے ہوں گے۔اگر آپ جیسا قابلِ اعتماد آدمی ان حالات کا راوی نہ ہوتا اور ایک دوسری اطلاع سے آپ کے بیان کی تائید نہ کی گئی ہوتی تو شایدمیں اس بات کو باور کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا کہ واقعی ہماری جماعت میں ایسی صورت حال پیدا ہوئی ہو گی۔ بہرحال اب جب کہ اس نزاع نے سر اُٹھا ہی لیا ہے، میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ اس معاملے کی اُصولی اور فقہی اور جماعتی حیثیت کو صاف صاف واضح کردوں۔
۱۔ اُصولی حیثیت سے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ شرعی مسائل میں کسی شخص یا یاگروہ کا کسی خاص طریق تحقیق واستنباط یا کسی مخصوص مذہب فقہی کی پیروی کرنا اورچیز ہے اور اس کا اپنے خاص طریقے یا مذہب کے لیے متعصب ہونا اور اس کی بِنا پر جتھا بندی کرنا اور اس سے مختلف مذہب رکھنے والوں سے مغایرت ومنافرت برتنا اور اس کی پابندی ترک کرنے والوں کو اس طرح ملامت کرنا کہ گویا ان کے دین میں کوئی نقص آگیا ہے ،بالکل ایک دوسری چیز ہے۔پہلی چیز کے لیے تو شریعت میں پوری گنجایش ہے، بلکہ خود صحابہ وتابعین رضی اللہ عنہم کے طرزِ عمل سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے اور دین میں اس سے کوئی خرابی رونما نہیں ہوتی۔ لیکن دوسری چیز بعینہٖ وہ تفرق فی الدین ہے جس کی قرآن میں مذمت کی گئی ہے، اور اس تفرق کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ لوگ فقہی مسائل ہی کو اصل دین سمجھ بیٹھتے ہیں، پھر ان مسائل میں ذرا ذرا سے اختلاف پر ان کے درمیان الگ الگ اُمتیں بنتی ہیں،پھر ان فروعی بحثوں میں وہ اس قدر اُلجھتے اور ایک دوسرے سے بے گانہ ہوجاتے ہیں کہ ان کے لیے امت ِ مسلمہ کی زندگی کے اصل مقصد(یعنی اعلائے کلمۃ اﷲ)اور اقامت ِ دین کی خاطر مل کر جدوجہد کرنا غیر ممکن ہوجاتا ہے۔
مسلکِ فقہی کے اعتبار سے کسی کا طریق ِ اہل حدیث یا طریق ِ حنفی یاطریق ِ شافعی وغیرہ پر چلنا بجائے خود کسی قباحت کا موجب نہیں ہے۔لیکن اگر یہ چیزآگے بڑھ کر یہ صورت اختیار کرلے کہ مسلمان فی الحقیقت ایک اُمت نہ رہیں،بلکہ اہل حدیث، احناف، شوافع وغیرہ ناموں کے ساتھ الگ الگ مستقل اُمتیں بن جائیں، اور شرعی اعمال کی جو خاص صورتیں ان مختلف گروہوں نے اختیار کی ہیں،وہ ہر ایک گروہ کے مخصوص شعائر قرارپاجائیں جن کی بِنا پر ان گروہوں میں مغایرت اور امتیاز واقع ہو، تو پھر یقینا یہ دین کو ٹکڑے ٹکڑ ے کرنا ہے، اور میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ دین ِ اسلام میں اس تقسیم اور تعصب کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔رفع یدین کرنا یا نہ کرنا،آمین زور سے کہنا یا آہستہ کہنا، اور ایسے ہی دوسرے اُمور صرف اسی وقت تک شرعی اعمال ہیں جب تک کوئی شخص ان کے ترک یا فعل کو اس بِنا پر اختیا رکرے کہ اس کی تحقیق میں صاحب ِ ؐشریعت سے ایسا ہی ثابت ہے یا یہ کہ ایسا کرنا دلائل شرعیہ کی بِنا پر ارجح اور اَولیٰ ہے۔ مگر جب یہی اعمال کسی مخصوص فرقے کے شعار بن جائیں اور ان کا ترک یا فعل وہ علامت قرار پائے جس کی بِنا پر یہ فیصلہ کیا جانے لگے کہ آپ کس فرقے میں داخل اور کس سے خارج ہیں اور پھر انہی علامتوں کے لحاظ سے یہ طے ہونے لگے کہ کون اپنا ہے اور کون غیر،تو اس صورت میں رفع یدین کرنا اور نہ کرنا، یا آمین زور سے کہنا، یا آہستہ کہنا یا ایسے ہی دوسرے اُمور کا ترک اور فعل دونوں یکساں بدعت ہیں۔ اس لیے کہ سنت رسول اﷲ میں بجائے خود تو ان اعمال کا ثبوت ملتا ہے ،لیکن اس بات کاکوئی ثبوت نہیں ملتا ہے کہ ان اعمال کو مسلمانوں کے اندر گروہ بندیوں اور فرقہ سازیوں کے لیے علامات اور شعائر بنایا جائے۔ایسا کرنا دراصل حدیث کا نام لے کر صاحبِ حدیث علیہ السلام کے منشا کے بالکل برعکس کام کرنا ہے اور اس اصل کام کو غارت کرنا ہے جس کے لیے نبیؐ دنیا میں تشریف لائے تھے۔
۲۔ اب اس مسئلے کی فقہی حیثیت کو لیجیے۔ رفع یدین کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ مختلف طرزِ عمل منقول ہیں:
ا۔ ابن عمرؓ کی روایت جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ تین مواقع پر رفع یدین کرتے تھے۔ افتتاح صلوٰۃ کے وقت،رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے اُٹھ کر۔
ب۔ مالک بن حویرث کی روایت جس میں دو موقعوں پر رفع یدین کا ذکر ملتا ہے۔افتتاح صلوٰۃ کے وقت اور رکوع سے اُٹھ کر۔
ج۔ وائل بن حُجر کی روایت، جس میں چارمواقع پر اس کا ہونا مذکور ہے۔ افتتاحِ صلوٰۃ کے وقت۔ رکوع میںجاتے ہوئے۔رکوع سے اُٹھتے ہوئے۔سجدے کے موقع پر۔
د۔ ابو حمید ساعدی کی روایت۔ اس میں بھی چار مواقع پر رفع یدین کا ذکر ہے، مگرچوتھاموقع سجدے کے بجائے تیسری رکعت میں قعدے سے اُٹھنے پر بیان کیا گیا ہے۔
ر۔ عبداﷲ ابن مسعودؓ اور براء ابن عازبؓ کی روایت جس میں صرف ایک مرتبہ رفع یدین کرنے کا ذکر ہے، یعنی افتتاحِ صلوٰۃ کے موقع پر۔
ان مختلف روایات میں سے(ا) کو امام شافعیؒ،احمد اور ابو ثور نے،نیز اہل الحدیث اور اہل الظاہر کی اکثریت نے اختیار کیا اور ایک روایت امام مالک سے بھی یہی ہے کہ وہ اس کو ترجیح دیتے تھے۔ (د)کو اہل الحدیث کے ایک گروہ نے مرجح ٹھیرایا۔ اور(ر)کو ابراہیم نخعی، شعبی، سفیان ثوری،ابوحنیفہ اور تمام فقہائے کوفہ نے ترجیح دی۔ لیکن یہ واضح رہے کہ سوال صرف ترجیح کا ہے نہ کہ رد وقبول کا۔ائمۂ سلف میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ جن مختلف طریقوں کا ذکر مذکورہ بالا احادیث میں آیا ہے،ان میں سے کسی پر حضورؐ نے عمل نہیں کیا تھا۔ بلکہ کہتے صرف یہ ہیں کہ جس خاص طریقے کو ہم نے مرجح قرار دیا ہے ،وہ حضورؐ کا عام معمول تھا اور دوسرے طریقوں پر آپؐ کبھی کبھی عمل کرلیتے تھے۔پس جب معاملے کی حقیقت یہ ہے تو ان طریقوں میں سے جس پر بھی کوئی عمل کررہا ہے ،حدیث ہی کی پیروی کررہا ہے اور اس پر نکیر کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اتباع پیغمبرؐ پر نکیر کی جاتی ہے، جس کی جرأت مقلدین کو بھی زیبا نہیں، کجا کہ اہل حدیث اس کا ارتکاب کریں۔ پھر اگر کوئی شخص ان طریقوں میں سے کسی ایک طریقے پر جامد ہونے کے بجائے وقتاًفوقتاً ان سب طریقوں پر عمل کرتا رہے جو حدیث میں مذکور ہیں تو یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ صحیح ومکمل پیر وی ہوگی اور لفظ عمل بالحدیث کا اطلاق اس طرزِعمل پر زیادہ صحیح معنی میں ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ابتدا ہی میں ایک طریقے کو ترجیح دینے اور باقی سب طریقوں کو ترک کردینے کے بجائے ان سب طریقوں کو نماز میں اختیار کرنے کی گنجایش رکھی جاتی تو شاید بعدکے ادوار میں و ہ جمودوتعصب پیدا ہی نہ ہوتا جس کی بدولت نوبت یہ آگئی ہے کہ لوگ نماز کی جس صورت کے عادی ہیں،اس سے ذرا سی بھی مختلف صورت جہاں انہوں نے دیکھی،اور بس وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اس شخص کا دین بدل گیا ہے اور یہ ہماری اُمت سے نکل کر دوسری اُمت میں جاملاہے۔
یہ رائے جو میں عرض کررہا ہوں،یہ صرف میری انفرادی رائے ہی نہیں ہے بلکہ پہلے بھی متعدد اہلِ تحقیق اسی خیال کا اظہار کرچکے ہیں۔ اس وقت میرے پاس سفر(اس خط کا جواب دہلی میں لکھا گیا تھا۔) میںکتابیں موجود نہیں ہیں اس لیے میں زیادہ وسیع پیمانے پر شواہد پیش نہیں کرسکتا، لیکن ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ خوش قسمتی سے مل گئی ہے،اس سے چند حوالے یہاں نقل کرتا ہوں۔شاہ صاحب پہلے تو یہ اُصولی بات ارشاد فرماتے ہیں کہ:
الاصل ان یعمل بکل حدیث الا ان یمتنع العمل بالجمیع للتناقض۔
(باب القضاء فی الاحادیث المختلفۃ)
’’اُصولی بات یہ ہے کہ آدمی ہر حدیث پرعمل کرے ،اِلاّ یہ کہ کسی مسئلے میں سب حدیثوںپر عمل کرنا تناقض کی وجہ سے غیر ممکن ہو۔‘‘
پھر آگے چل کر فصل فی عدۃ اُمور مشکلہ من التقلید واختلاف المذاہب میں فرماتے ہیں:
ان اکثر صورالاختلاف بین الفقہاء لاسیما فی المسائل التی ظہر فیھا اقوال الصحابۃ فی الجانبین کتکبیرات التشریق وتکبیرات العیدین ونکاح المحرم وتشہد ابن عباس و ابن مسعود والاخفاء بالبسملۃ وبٰامین والاشفاع والایتار فی الاقامۃ ونحو ذٰلک، انما ھو فی ترجیح احد القولین وکان السلف لا یختلفون فی اصل المشروعیۃ وانما کان خلافہم فی اولی الامرین و نظیرہ اختلاف القرّآء فی وجوہ القرأۃ وقد عللوا کثیرًا من ھٰذا الباب بان الصحابۃ مختلفون وانہم جمیعًا علی الھدٰی ۔
واقعہ یہ ہے کہ فقہا کے درمیان اختلاف کی اکثر صورتیں،بالخصوص ان مسائل میں جن میں صحابہ ؓ کے اقوال دونوں طرف پائے جاتے ہیں مثلاًتکبیرات تشریق، تکبیراتِ عیدین، نکاحِ محرم،تشہد ابن عباس و ابن مسعود، بسم اﷲ اور آمین کا اخفا،تکبیر اقامت میں کلمات کو ایک ایک مرتبہ یا دو دو مرتبہ پڑھنا وغیرہ، ان میں اختلاف دراصل اس امر میں ہے کہ دو اقوال میں سے کس کو کس پر ترجیح ہے ۔ورنہ ان مختلف طریقوں کے بجائے خود مشروع ہونے میں سلف کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا۔ان کا اختلاف تو صرف اس اعتبار سے تھا کہ دو مختلف اُمور میں سے اولیٰ کون سا ہے، اور یہ اختلاف ایسا ہی ہے جیسے قرأت کی مختلف صورتوں میں قاریوں کے درمیان اختلاف ہے۔اس معاملے میں بیش تر اُمور کے اختلاف کی وجہ سلف نے یہ بتائی ہے کہ صحابہ کرامؓ خود ان میں مختلف تھے اور ظاہر ہے کہ صحابہؓ سب کے سب ہدایت پر تھے۔‘‘
پھر باب اذکار الصلٰوۃ وھیئآتھا المندوب الیھا میں فرماتے ہیں:
وھو (ای رفع الیدین) من الہیئآت وفعلہ النبی ﷺ مرۃ وترکہ مرۃ والکل سنۃ واخذ بکل واحد جماعۃ من الصحابۃ والتابعین ومن بعدھم وھذا احد المواضع التی اختلف فیھا الفریقان اہل المدینۃ والکوفۃ ولکل واحد اصل اصیل والحق عندی فی مثل ذٰلک ان الکل سنۃ۔
’’اور وہ( یعنی رفع الیدین) نماز کی ان ہئیتوں میں سے ہے جن کو نبیؐ نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا۔ اور یہ دونوں طریقے سنت ہیں،صحابہؓ اور تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے ایک ایک جماعت نے ان میں سے ایک ایک طریقے کو اختیار کیا ہے، اور یہ من جملہ ان معاملات کے ہیں جن میں اہلِ مدینہ اور اہلِ کوفہ کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے۔ لیکن ہر ایک کے لیے ایک ثابت شدہ اصل شریعت میں موجود ہے، اور ایسے مسائل میں میرے نزدیک حق یہ ہے کہ سب مختلف طریقے سنت ہیں۔‘‘
شاہ صاحب کی ان تصریحات کے بعد اس امر کی ضرورت نہیں رہتی کہ میں آمین کے مسئلے کے متعلق الگ بحث کروں۔تاہم اس معاملے میں صاحبِ ’’الجواہر النقی‘‘ کا یہ قول نقل کردینا کافی سمجھتا ہوں کہ:
والصواب ان الخبرین بالجہر بہا والمخافۃ صحیحان وعمل بکل من فعلیہ جماعۃ من العلماء۔
۳۔ ہماری جماعت کا ان اختلافی معاملات میں جو مسلک ہے،اس کی توضیح اس سے پہلے بارہا کی جاچکی ہے، اور میں اب ایک مرتبہ پھر اسے صاف صاف الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں۔ اس جماعت میں اہل حدیث، احناف،شوافع اور ایسے ہی دوسرے فقہی طریقوں پر چلنے والے مسلمانوں کے لیے اپنے اپنے فقہی مسلک پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے، بشرطیکہ وہ ان مسلکوں میں سے کسی کے لیے متعصب نہ ہوں اور ان اختلافات کو مغایرت اور جتھا بندی کا ذریعہ نہ بنائیں۔جماعت کے اندر جو لوگ بھی شامل ہوں،انہیں اسلامی عصبیت کے سوا اور ساری عصبیّتیں اپنے اندر سے نکالنی ہوںگی، خواہ وہ وطنی عصبّیتیں ہوں، نسلی ہوں، طبقاتی ہوں یا گروہی۔ان کو محبت اور د وستی کے رشتے میں جوڑنے والی چیز اسلام کے سوا اورکوئی نہ ہو۔اور ان کے اندر غصہ ونفرت کو بھڑکانے والی بھی اسلام سے دوری کے سوا کوئی دوسری چیز نہ ہو۔ کسی رکنِ جماعت کے لیے کسی دوسرے شخص کا اہل حدیث یا حنفی یا شافعی مسلک پر ہونا یا اختیار کرلینا نہ تو سببِ محبت ہی ہو اور نہ سبب نفرت۔اس لازمی وضروری شرط کے ساتھ اہل حدیث،اہل حدیث رہتے ہوئے اور حنفی ،حنفی رہتے ہوئے‘ اور شافعی ،شافعی رہتے ہوئے‘ جماعت اسلامی کا رکن ہوسکتا ہے۔ لیکن جو شخص کسی مخصو ص فقہی مذہب کے لے متعصب ہو اور اپنے مذہب کے پیرووں سے محبت اور دوسرے طریقے والوں سے نفرت رکھتا ہو،اور حنفی، شافعی یا اہل حدیث ہوجانے کو جرم سمجھتا ہو اس کے لیے ہماری اس جماعت میں کوئی جگہ نہیں۔
۴۔ میرے متعلق اس نزاع کے سلسلے میں جو کچھ کہا گیا ہے اس پر میں صبرکرتا ہوں اور اُن لوگوں کے معاملے کو خدا پر چھوڑتا ہوں جنہوں نے بغیر علم وتحقیق کے یہ بدگمانی لوگوں میں پھیلائی کہ میں اہلِ حدیث کو حنفی بنانے کی سازش کررہا ہوں۔کاش وہ لوگ جو فقہی جزئیات میں کتاب وسنت کی پیروی پر بڑا زور دیا کرتے ہیں، اخلاقی معاملات میں بھی کتاب وسنت کی کچھ پیروی کرلیا کریں۔
۵۔ آپ کے والد ماجد نے اس قضیے میں جو رویہ اختیارکیا ہے، اس کی دو حیثیتیں ہیں:ایک رکن جماعت ہونے کی حیثیت، اور دوسری آپ کے والد ہونے کی حیثیت۔ جہاں تک پہلی حیثیت کا تعلق ہے ،اس پر میں نمبر ۳ میں روشنی ڈال چکا ہوں، لہٰذا وہ براہ کرم اپنے متعلق فیصلہ کرلیں کہ آیا وہ اپنے رویے کو بدلناپسند فرماتے ہیں یاجماعت سے علیحدگی۔ رہی دوسری حیثیت ،تو اس کے متعلق میں مختصر طور پر صرف یہ کہہ دینا کافی سمجھتا ہوں کہ جہاں تک اُصول دین کا تعلق ہے،والدین کو نہ صرف یہ حق ہے بلکہ یہ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اعتقادی ضلالت یا اخلاقی فساد سے روکنے کی کوشش کریں۔ لیکن جہاں تک فقہی معاملات کا تعلق ہے، والدین کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اولاد کو اپنے مسلک خاص کی پیروی پر مجبور کریں۔ خصوصاً جب کہ اولاد صاحب علم ہو اور تحقیق کی بِنا پر والدین سے مختلف کسی دوسرے مسلکِ فقہی کو اختیار کرنا چاہے تو والدین کے لیے یہ مطالبہ کرنا کسی طرح درست نہیں ہے کہ وہ اپنی تحقیق کے خلاف عمل کرے۔اس معاملے میں سلف کا صحیح اتباع یہ ہے کہ والدین اور اولاد دونوں کو تحقیق کی آزادی اور اپنی تحقیق پر عمل کرنے کاحق ہونا چاہیے۔اس حق کو سلب کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر ایک شخص اہل حدیث یا حنفی یا شافعی ہو تو وہ اپنی آیندہ نسل کو بھی اہل حدیث، حنفی یا شافعی بنانے پر اصرار کرے گا اور دو چار پشتیں گزر جانے کے بعد یہ طریقے محض فقہی مسلک نہ رہیں گے بلکہ نسلی اُمتیں بن جائیں گے جن میں تعصب ہوگا،جمود ہوگا اور آبائی مسلک سے ہٹنا ارتداد کا ہم معنی قرار پائے گا۔آپ خود اپنے والد ماجد ہی سے دریافت فرمائیں کہ آیا وہ اپنی آیندہ نسل کو اسی فتنے میںمبتلا کرنا چاہتے ہیں؟
(ترجمان القرآن۔رجب،شعبان ۶۴ھ، جولائی،اگست ۴۵ء)

دو شبہات:

سوال: میں نے پورے اخلاص و دیانت کے ساتھ آپ کی دعوت کا مطالعہ کیا ہے جس کے نتیجے میں یہ ا قرار کرتا ہوں کہ اُصولاًصرف جماعت اسلامی ہی کا مسلک صحیح ہے۔ آپ کے نظریے کو قبول کرنا اور دوسروں میںپھیلانا ہر مسلمان کا فرض ہے۔میرا ایمان ہے کہ اس دور میں ایمان کو سلامتی کے ساتھ لے چلنے کے لیے وہی راہ اختیار کی جاسکتی ہے جو جماعت اسلامی نے اختیار کی ہے۔ چنانچہ میں ان دنوں اپنے آپ کو جماعت کے حوالے کردینے پر تُل گیا تھا، مگر ’’ترجمان القرآن‘‘ میں ایک دو چیزیں ایسی نظر سے گزریں کہ مزید غور وتامل کا فیصلہ کرنا پڑا۔میں نکتہ چیں اور معترض نہیں ہوں بلکہ حیران وسرگرداں مسافر کی حیثیت سے ،جس کو اپنی منزل مقصود کی محبت چین نہیں لینے دیتی، آپ سے اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہوں۔مشارالیہ مسائل کے متعلق میری گزارشات پر غور فرمائیں:
ا۔ آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ:
’’مجرد حدیث پر ایسی کسی چیز کی بِنا نہیں رکھی جاسکتی جسے مدار کفر وایمان قرار دیا جائے۔ احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی آئی ہیں جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تووہ محض گمانِ صحت ہے،نہ کہ علم الیقین‘‘۔
یہ عقیدہ، جہاں تک بندے کا خیال ہے ،محدثین کے بالکل خلاف ہے۔کتبِ اُصول میں بصراحت موجود ہے کہ جس طرح قرآن مجید مسلمانوں کے لیے قانونی کتاب ہے،اسی طرح حدیث، اور جس طرح قرآن مجید کے احکام،چاہے اصولی ہوں چاہے فروعی،ہمارے لیے حجت ہیں،اسی طرح احادیث بھی حجت ہیں۔آپ کے طرز تحریر سے کسی حد تک حدیث سے بے توجہی معلوم ہوتی ہے۔
۲۔ ڈاڑھی کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ِ صحیحہ موجود ہیں جن میں آپؐ نے ڈاڑھی بڑھانے کا حکم فرمایا ہے۔اس سے لازم آتا ہے کہ ڈاڑھی کو مطلقاً بڑھایاجائے۔آپ کترنے کی گنجایش نکالنا چاہیں تو زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے ہیں کہ ابن عمرؓکی روایت کے بموجب ایک مشت تک کٹوا دیں۔اس سے زیادہ کم کرنے کی گنجایش نظر نہیں آتی۔ باقی جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ صحابہؓ وتابعین کے حالات میں ان ڈاڑھیوں کی مقدارکا ذکرکہیں شاذ ونادر ہی ملتا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سلف میں یہ مسئلہ اتنی اہمیت نہیں رکھتاتھا جو آج اسے دے دی گئی ہے، تو اس کے متعلق گزارش ہے کہ اصل میں قرونِ ماضیہ میں لوگ اس کے اس قدر پابند تھے کہ اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔آپ کو معلوم ہے کہ آج سے چند سال پہلے عام مسلمان ڈاڑھی کے نہ صرف مونڈوانے بلکہ کتروانے تک کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ پس اس چیز کی وقعت اور قدر لوگوں کے دلوں سے کم نہ کیجیے بلکہ بحال رہنے دیجیے۔
ان دونوں شکو ک پر اپنے خیالات سے آگاہ فرمایئے۔

جواب: آپ کے شبہات کا جواب بالا ختصار دے رہا ہوں۔غالباً یہ چند سطور اطمینان کے لیے کافی ہوں گی:
۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل کو میں بھی قرآن کی طرح حجت مانتا ہوں، اور میرے نزدیک جو عقیدہ حضورؐ نے بیان کیا ہویاجوحکم آپؐ نے ارشاد فرمایاہو،وہ اسی طرح ایمان واطاعت کا مستحق ہے جس طرح کوئی ایسا عقیدہ یا حکم جو قرآن میں آیا ہو۔ لیکن قولِ رسولؐ اور وہ روایات جو حدیث کی کتابوں میں ملتی ہیں،لازماًایک ہی چیز نہیں ہیں، اور نہ ان روایات کو استناد کے لحاظ سے آیاتِ قرآنی کا ہم پلاّ قرار دیا جا سکتا ہے۔آیات قرآنی کے منزل من اﷲ ہونے میں تو کسی شک کی گنجایش ہی نہیں ہے ،بخلاف اس کے روایات میں اس شک کی گنجایش موجود ہے کہ جس قول یا فعل کو نبیؐ کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ واقعی حضورؐ کا ہے یا نہیں۔جو سنتیں تواتر کے ساتھ نبیؐ سے ہم تک منتقل ہوئی ہیں یا جو روایات محدثین کی مسلمہ شرائطِ تواتر پر پوری اترتی ہیں، وہ تو یقینا ناقابل انکار حجت ہیں۔ لیکن غیر متواتر روایات سے علم یقین حاصل نہیں ہوتا بلکہ صرف ظنِ غالب حاصل ہوتا ہے۔اسی وجہ سے علمائے اُصول میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ غیر متواتر روایات احکام کی ماخذ توہوسکتی ہیں لیکن ایمانیات کی ماخذ نہیں ہوسکتیں۔
(۲) جو باتیں آپ نے ڈاڑھی کے متعلق تحریر فرمائی ہیں،ان پر میں اس سے پہلے تفصیل کے ساتھ بحث کرچکا ہوں( یہ بحث فقہیات کے باب میں گزر چکی ہے اور آگے بھی آرہی ہے)اور اب خواہ مخواہ ایک ہی بات کو متھے جانے سے کچھ فائدہ نہیں۔صاف بات یہ ہے کہ اگر کسی فروعی مسئلے میں میرے دلائل سے آپ کا اطمینان ہوجائے تو بہتر ہے، اوراطمینان نہ ہو تب بھی کوئی مضائقہ نہیں ،آپ اس معاملے میں میری رائے کو غلط سمجھ کر ردّ کردیں اور جو کچھ خود صحیح سمجھتے ہوں،اس پر عمل کریں۔ اس قسم کے جزوی مسائل میں ہم مختلف رائیں رکھتے ہوئے بھی ایک ہی دین کے پیرو رہ سکتے ہیں اور اس دین کی اقامت کے لیے مل کر کام کرسکتے ہیں۔
آپ نے لکھا ہے کہ میں جماعت اسلامی میں شامل ہونے ہی والا تھا کہ یہ دو چیزیں میرے سامنے آگئیں اور انہیں دیکھ کر میں رُک گیا۔ اس رُک جانے کو آپ شاید کوئی تقویٰ کا فعل سمجھتے ہیں۔ لیکن آپ ذرا غور کریں گے تو آپ کو خودمعلوم ہوجائے گا کہ فی الواقع آپ نے تقویٰ کا مفہوم غلط سمجھا ہے اور اسی وجہ سے ایک غیر متقیانہ فعل کو متقیانہ فعل سمجھ کر آپ کر گزرے ہیں۔ آپ کواعتراف ہے کہ یہ جماعت اصل دین کی اقامت کے لیے بنی ہے جو ہر مومن کے عین ایمان کا مقتضا ہے۔آپ خود فرماتے ہیں کہ ’’اس دور میں ایمان کو سلامتی کے ساتھ لے چلنے کے لیے صرف جماعت اسلامی ہی کی راہ اختیار کی جاسکتی ہے۔‘‘اور یہ کہ’’اس نظریے کو قبول کرنا اور اسے پھیلانا ہر مسلما ن کا فرض ہے۔‘‘ اب سوال یہ ہے کہ اس تقاضائے ایمان اور اس فرض کی طرف بڑھتے بڑھتے آپ کا صرف اس لیے رک جانا کہ ایک علمی مسئلے کی تعبیر اور ایک جزوی فقہی مسئلے کی تحقیق میں آپ جماعت کے اس خادم کی رائے کو غلط پاتے ہیں،آخر کس قسم کا تقویٰ ہے؟ فقہی وعلمی اختلاف تو خیر بہت چھوٹی چیز ہے کہ اس کے لیے فریقین کے پاس شریعت سے دلائل موجود ہوتے ہیں، میں ثابت شدہ سنتوں کے متعلق آپ سے پوچھتا ہوں کہ ان کی خلاف ورزی دیکھ کر بھی اگر آپ اس فرض سے اجتناب کرجائیں تو کیا یہ پرہیز گاری ہے؟مثلاً آپ دیکھیں کہ امام نے مسجد میں داخل ہوتے وقت بایاں قدم پہلے رکھا اور یہ دیکھتے ہی آپ جماعت چھوڑ کر مسجد سے پلٹ آئیں، یا آپ دیکھیں کہ اسلامی فوج کے جنرل نے اُلٹے ہاتھ سے پانی پیا یا چھینک آنے پر الحمد ﷲ نہ کہا اور اس خلافِ سنت حرکت سے متنفر ہوکر آپ میدان جہاد سے پلٹ آئیں تو کیا واقعی اس کو آپ پرہیز گاری سمجھیں گے؟ آپ کو موازنہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ اس نے کیا چھوڑا تھا اور آپ نے کیا چھوڑ دیا۔وہ بڑا غلط کار تھا کہ اس نے ایک پیسا ضائع کیا۔ مگر آپ نے تو اس کے جواب میں خزانہ برباد کردیا۔پھر بتایئے کہ زیادہ بڑا غلط کار کون ہوا؟تاہم یہ آپ کا قصور نہیں ہے بلکہ آج کل دین داری کا عام ڈھنگ یہی ہے کہ اشرفیاں لُٹیں اور کوئلوں پر مہر۔
(ترجمان القرآن۔ربیع الاوّل ۶۵ھ، فروری ۴۶ء)

حدیث اور فقہ:

سوال: ذیل میں آپ کے لٹریچر سے چند اقتباسات دربارۂ مسئلۂ تقلید واجتہاد مرتب کرکے کچھ استفسارات کیے جاتے ہیں۔ان سے صرف علمی تحقیق مقصود ہے،بحث مدعا نہیں ہے:
۱۔ ’’تمام مسلمان چاروں فقہوں کوبرحق مانتے ہیں۔البتہ یہ ظاہر ہے کہ ایک معاملے میں ایک ہی طریقے کی پیروی کی جاسکتی ہے۔ اس لیے علما نے طے کردیا ہے کہ مسلمانوں کو ان چاروں میں سے کسی ایک ہی کی پیروی کرنی چاہیے۔‘‘ (رسالہ دینیات طبع دوم،ص ۲۵ا)
۲۔ ’’پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جس حدیث کو وہ (یعنی محدثین)صحیح قرار دیتے ہیں وہ حقیقت میں صحیح ہے؟صحت کاکامل یقین تو خود ان کو بھی نہ تھا۔وہ بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہتے تھے کہ اس حدیث کی صحت کاظنِ غالب ہے۔مزید برآں یہ ظن غالب جس بِنا پر ان کو حاصل ہوتا تھا وہ بلحاظ روایت تھا نہ کہ بلحاظ درایت۔ان کا نقطۂ نظر زیادہ تر اخباری تھا۔فقہ ان کا اصل موضوع ہی نہ تھا۔ اس لیے فقیہانہ نقطۂ نظر سے احادیث کے متعلق رائے قائم کرنے میں وہ فقہائے مجتہدین کی بہ نسبت کمزور تھے۔ پس ان کے جائز کمال کا اعتراف کرتے ہوئے یہ ماننا پڑے گا کہ احادیث کے متعلق جو کچھ بھی تحقیقات انہوں نے کی ہے ،اس میں دو طرح کی کمزوریاں موجود ہیں:ایک بلحاظ اسناد،دوسرے بلحاظ تفقہ۔‘‘ (تفہیمات مضمون مسلک اعتدال)
۳۔ ’’اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ رجال کے متعلق اچھی یا بری رائے قائم کرنے میں محدثین کے اپنے جذبات کا بھی کسی حد تک دخل ہوجائے۔‘‘ (ترجمان القرآن، جلد ۰ا، عدد،ص۰اا)
۴۔ ’’رہا فقیہانہ نقطۂ نظر، تو وہ ان کے موضوع خاص سے ایک حد تک غیر متعلق تھا۔ اس لیے اکثر وہ ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا تھا‘‘… ’’اسی وجہ سے اکثر ایسا ہوا ہے کہ ایک روایت کو انہوں نے صحیح قرار دیا ہے،حالاں کہ معنی کے لحاظ سے وہ زیادہ قابلِ اعتبار نہیں اور ایک دوسری روایت کو وہ قلیل الاعتبار قرار دے گئے ہیں، حالاں کہ وہ معناًصحیح ہے‘‘… ’’مگر جو لو گ شریعت میں نظر رکھتے ہیں ،ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ محدثانہ نقطۂ نظر فقیہانہ نقطۂ نظر سے بارہا ٹکرا گیا ہے اور محدثین کرام صحیح احادیث سے بھی احکام ومسائل کے استنباط میں وہ اعتدال ملحوظ نہیں رکھ سکے ہیں جو فقہا و مجتہدین نے ملحوظ رکھا ہے ۔روایت کو بالکلیہ رد کرنا بھی غلطی ہے اور روایات پر ہی اعتماد کرنا بھی غلطی ہے۔ بلکہ مسلک حق ان دونوں کے درمیان ہے اور یہی وہ مسلک ہے جو ائمۂ مجتہدین نے اختیارکیا ہے۔امام ابوحنیفہ کی فقہ میں آپ بکثرت ایسے مسائل دیکھیں گے جو مرسل اور معضل اور منقطع احادیث پر مبنی ہیں، یا جن میں ایک قوی الاسناد حدیث کو چھوڑ کر ضعیف الاسناد کو قبول کرلیاگیا ہے، یا جن میں احادیث کچھ کہتی ہیں اور امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کچھ کہتے ہیں۔‘‘
اب ان اقتباسات کو سامنے رکھ کر میرے حسب ذیل سوالات پر روشنی ڈالیے:
ا۔ مسلمان کا چاروں فقہوں کو ماننا کس نص کے ماتحت ہے؟
ب۔ اسناد حدیث اور تفقہِ مجتہدین میں سے کس کو کس پر فضیلت ہے؟
ج۔ تفقہ مجتہد اور اسنادِ حدیث میں سے کس میں زیادہ ظنّیت ہے؟
د۔ محدث وفقیہ ایک ہی آدمی ہوسکتا ہے یا نہیں؟
ر۔ کوئی نظیر بتائیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے متن کو ملحوظ رکھ کر ضعیف الاسناد حدیث کو قبول کیا اور قوی الاسناد کو چھوڑا ہو۔
س۔ کیا یہ قولِ ائمہ کہ ان کے فیصلوں کے مقابلے میں قوی الاسناد حدیث ہی قابلِ قبول ہے،صحیح ہے؟
ص۔ درایت کا معیار کیا ہے کہ اسے سامنے رکھ کر اسناد صحیحہ رکھنے کے باوجود حدیث قوی الاسناد کو رد کردیاجائے؟نیز بتایا جائے کہ کس نص نے یہ شرط درایت اور اس کا معیار قائم کیا ہے؟
ط۔ کیا کسی مسلمان کو یہ حق ہے کہ خدا و رسولؐ کا حکم ظنِ غالب کے بموجب اسے پہنچے اور اس میں درایت کی مداخلت کرکے اس سے گریز کرے اور اپنے تفقہ کی بِنا پر اس کی مخالفت کرے،جب کہ اس کے تفقہ میں بھی خطا کا امکان ہے؟

جواب: (الف) چاروں فقہوں کا برحق ماننا کسی نص کے ماتحت نہیں ہے بلکہ اس بِنا پر ہے کہ یہ چاروں فقہی مذاہب کتاب وسنت سے استنباط کرنے میں اُن اُصولوں کو اختیار کرتے ہیں جن کے لیے شریعت میں گنجایش او ربنیاد موجود ہے ۔چاہے جزوی اُمور میں ان کے درمیان کتنا ہی اختلاف ہو، اور جزوی اُمور میں ان سے اختلاف کرنے کے لیے کسی کے پاس کتنے ہی معقول وجوہ موجود ہوں،لیکن اصولاً استنباط احکام کے وہی طریقے ان مذاہب میں استعمال کیے گئے ہیں جو کتاب وسنت سے ثابت ہیں اور جن سے خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے استنباطِ مسائل میں کام لیا تھا۔
ب۔ اسناد حدیث اور تفقہ مجتہد میں سے کسی کو کسی پر مطلقاً تفوق نہیں دیا جاسکتا۔ اسناد حدیث اس بات کی ایک شہادت ہے کہ جو روایت نبیؐ سے ہم کو پہنچ رہی ہے، وہ کہاں تک قابل اعتبار ہے۔ اور تفقہِ مجتہد ایک ایسے شخص کی فیصلہ کن رائے (judgement) ہے جو کتاب وسنت میں گہری بصیرت رکھنے کے بعد ایک رپورٹ کے متعلق اندازہ کرتا ہے کہ وہ کہاں تک قابل قبول ہے اور کہاں تک نہیں،یا اس رپورٹ سے جو معنی اخذ ہوتے ہیں،وہ نظامِ شریعت میں کہاں تک نصب(Fit) ہوسکتے ہیں اور کہاں تک غیر متناسب(unfit) ثابت ہوتے ہیں۔یہ دونوں چیزیں اپنی اپنی الگ الگ حیثیت رکھتی ہیں،جس طرح عدالت میں شہادتیں اور جج کا فیصلہ دونوں کی الگ حیثیت ہے۔یعنی نہ مطلقاً یہ کہا جاسکتا ہے کہ جج کا فیصلہ شہادتوں پر بہرحال مقدم ہے اور نہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ شہادتیں ضرور جج کے فیصلے پر مقدم ہوتی ہیں۔اسی طرح محدث کی شہادت اور فقیہ کی اجتہادی تحقیق دونوں میں کسی کو بھی مطلقاً دوسرے پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔
ج۔ تفقہِ مجتہد میں بھی خطا کا امکان ہے اور اسنادِ حدیث میں بھی۔پس میرے نزدیک لازم ہے کہ ایک ذی علم آدمی مجتہدین کے اجتہادات اور احادیث کی روایات دونوں میں نظر کرکے حکم شرعی کی تحقیق کرے۔ رہے وہ لوگ جو حکم شرعی کی خود تحقیق نہیں کرسکتے تو ان کے لیے یہ بھی صحیح ہے کہ کسی عالم کے اوپر اعتماد کریں، اور یہ بھی صحیح ہے کہ جو مستند حدیث مل جائے،اس پر عمل کریں۔
د۔ ایک آدمی بیک وقت محدث اور فقیہ ہوسکتا ہے اور ایسا شخص نرے محدث یا نرے فقیہ کے مقابلے میں اُصولاً قابل ترجیح ہے۔ لیکن میرا یہ جواب صرف اُصولی حیثیت سے ہے۔کسی شخص خاص پر اس کا انطباق کرنے میں لازماًیہ دیکھنا پڑے گا کہ آیا تفقہ میں اس کا وہی مرتبہ ہے جو حفظِ حدیث میں ہے۔
ر۔ اس وقت میرے پیش نظر مطلوبہ نظیرنہیں ہے اور ویسے بھی نظیریں پیش کرنے سے بحث کا سلسلہ درازہوتا ہے۔
س۔ ائمۂ مجتہدین نے جو کچھ فرمایا ہے وہ بالکل صحیح ہے اور میں بھی اسی کا قائل ہوں۔ لیکن میں نے جو کچھ لکھا ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ بسا اوقات صحیح الاسناد حدیث متن کے اعتبار سے کمزور پہلو رکھتی ہے اور کتاب وسنت سے جو دوسری معلومات ہم کو حاصل ہوئی ہیں،ان کے ساتھ اس کا متن مطابقت نہیں رکھتا۔ایسے حالات میں ناگزیرہوجاتا ہے کہ یا اس حدیث کی تاویل کی جائے اور یا اسے ردّ کیا جائے۔
ص۔ درایت سے مراد وہ فہمِ دین ہے جس کو قرآن مجید میں’’حکمت‘‘سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ حکمت شریعت کی صحیح پیروی کے لیے وہی درجہ رکھتی ہے جو درجہ’’ حذاقت‘‘ کا فن طب میں ہے۔ جن لوگوں نے اس میں سے کم حصہ پایاہو یا جنہیں اس کی قدر وقیمت کا احساس نہ ہو،ان کے لیے تو یہی مناسب ہے کہ جیسا لکھا پائیں، ویسا ہی عمل کریں۔ لیکن جنہیں اس میں سے کچھ حصہ ملا ہو،وہ اگر اس بصیرت سے جو انہیں اﷲ کے فضل سے کتاب وسنت میں حاصل ہوئی ہو،کام نہ لیں تو میرے نزدیک گنہگار ہوں گے۔
میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جس سے میں آپ کو حکمت اور فقہ اور فہم دین کا کوئی ایسا معیار بتا سکوں جس پر آپ ناپ تول کر دیکھ لیں کہ کسی نے ان میں سے حصہ پایا ہے یا نہیں، اور پایا ہے تو کتنا پایا ہے۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے طبیب کی حذاقت کا،جوہری کی جوہر شناسی کا اور کسی صاحبِ فن کی فنی مہارت کا کوئی نپا تلا معیار مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ مگر اس چیز کے حدود معین نہ کیے جاسکنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ چیز سرے سے لاشے ہے یا شریعت میں اس کا کوئی مقام نہیں ہے۔
ط۔ اس سوال کا جواب اوپر کے جوابات میں ضم ہے۔صرف اتنا اور کہہ سکتا ہوں کہ بلاشبہ درایت کے استعمال میں خطا کا امکان ہے، لیکن ایسا ہی امکان کسی حدیث کو صحیح اور کسی کو ضعیف اور کسی کو موضوع قرار دینے میں بھی ہے۔ اگر کوئی مسلمان درایت کے استعمال میں غلطی کرکے مجرم ہوجاتا ہے تو وہ احادیث کے مرتبے کا تعین کرنے میں غلطی کرکے بھی ویسا ہی مجرم ہوگا۔ حالاں کہ شریعت انسان کی استعداد اور اس کے ممکنات کی حد تک ہی بار ڈالتی ہے اور اسی حد تک اسے مسئول قرار دیتی ہے۔ (ترجمان القرآن۔رجب،شوال ۶۳ھ، جولائی،اکتوبر ۴۴ء)

اسلامی نظامِ جماعت میں آزادیِ تحقیق:

سوال: ’’ تفہیمات‘‘ کا مضمون’’مسلک اعتدال‘‘جس میں صحابہ کرامؓ اور محدثین کی باہمی تجریحات کو نقل کیا گیا ہے اور اجتہادِ مجتہد اور روایتِ محدث کو ہم پلا قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے، اس مضمون سے حدیث کی اہمیت کم اور منکرین حدیث کے خیالات کو تقویت حاصل ہوتی ہے،یہ رائے نہایت درجہ ٹھنڈے دل سے غور وفکر کرنے کا نتیجہ ہے۔
اس قسم کے سوالات اگر آپ کے نزدیک بنیادی اہمیت نہیں رکھتے تو جماعت اسلامی کی ابتدائی منزل میںمحدثین وفقہا اور روایت ودرایت کے مسئلے پر قلم اُٹھانا مناسب نہیں تھا۔ اس مسئلے کے چھیڑ دینے سے غلط فہمیاں پھیل نکلی ہیں۔ اب بہتر یہ ہے کہ بر وقت ان غلط فہمیوں کا ازالہ کردیا جائے، کیوں کہ حدیث کی اہمیت کو کم کرنے والے خیالات جس لٹریچر میںموجود ہوں،اسے پھیلانے میں ہم کیسے حصہ لے سکتے ہیں،حالاں کہ نظم جماعت اسے ضروری قرار دیتا ہے۔
میرا ارادہ ہے کہ اس سلسلے میں آپ کی مطبوعہ وغیر مطبوعہ تحریریں مع تنقید اخبارات ورسائل میں شائع کردی جائیں۔

جواب: فقہی مسائل میں اجتہاد واستنباط کے اصول اور طریقوں کے متعلق غالباً پہلے بھی کبھی کوئی شخص ایسی بات نہیں کہہ سکا ہے جس سے کسی کو بھی اختلاف کی گنجایش نہ ہو اورجس پر سب لوگ متفق ہوجائیں۔ اور اگر آپ غور کریں تو آپ کوبآسا نی معلوم ہوسکتا ہے کہ ان اختلافات کے لیے کافی گنجایش خود کتاب اﷲ اور ذخیرۂ احادیث میںموجود ہے۔ اسی وجہ سے سلف صالحین کے درمیان ہر دور میں اختلافات ہوئے ہیں۔ پھر کیا ان اختلافات کا منشا یہی تھا کہ اصل دین کی دعوت اور اقامت کے لیے بھی مسلمان کبھی ایک جماعت نہ بن سکیں؟اور اگر صدیوں میں کوئی ایسی جماعت کبھی بنے تو فقہی مسائل پر کلام کرنا چھوڑ دیا جائے؟ یا نہیں تو پھر سارے فقہی اختلافات کو پہلے صاف کیا جائے؟
اگر آپ کا نقطۂ نظر یہی ہے تو مجھے اس پر افسوس ہے اور سوائے اس کے کہ میں اس کو بدقسمتی سمجھوں اور کیا کرسکتا ہوں۔لیکن اگر آپ کا نقطۂ نظر یہ نہیں ہے تو پھر براہ کرم اس بات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ ہماری یہ جماعت اصل دین کی دعوت و اقامت کے لیے کھڑی ہوئی ہے اور اس کام میں تمام ان فقہی مسالک کے آدمیوں کو مجتمع ہوجانا چاہیے جن کے اُصول اور طریقوں کے لیے قرآن و حدیث میں بنیادیں موجود ہیں۔ لیکن یہ اجتماع اسی طرح ممکن ہے کہ ہر شخص کو مسائل فقہیہ میں اصولی گنجایشوں کی حد تک تحقیق کی آزادی حاصل رہے،اور یہ آزادیِ تحقیق ان مختلف المسلک لوگوںکے درمیان ایسی نزاع کی موجب نہ بنے جو نفس اجتماع برائے اقامت دین میں مانع ہو۔ اسی وجہ سے میں اُس بحث کو ٹال رہا ہوں جسے آپ لوگ بار بار چھیڑ رہے ہیں۔مجھے افسوس ہے کہ فقہیات کو اصل دین سمجھنے کی جس ذہنیت کے باعث مسلمان مدتوں آپس میں جھگڑے کرتے رہے ہیںاور جس کی وجہ سے ان کا متحد ہونا اور اصل دین کے لیے مل کر کام کرنا غیر ممکن ہوگیا ہے،وہی ذہنیت بار بار بروئے کار آئے چلی جارہی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے گویا تمام دین کی اصل واساس بس وہی اُمور ہیں جو آپ معرض بحث میں لا رہے ہیں۔میں پہلے بھی عرض کرچکاہوں کہ مجھے ان چیزوں پر بحث کرنے کے لیے اتنا وقت حاصل نہیں ہے جتنا آپ حضرات کو حاصل ہے۔اس لیے مختصر مختصر جوابات اپنے خطوط میں دیتا رہا ہوں۔ لیکن اگر آپ کا منشا یہی ہے کہ میں اور سب کام چھوڑ کر انہی بحثوں میں اُلجھ جائوں تو بسم اﷲ،ایک اور مفصل مضمون روایت اوراجتہاد کی توضیح میں لکھ دوں گا۔مگریقیناً اس کا نتیجہ یہ نہیں ہوگا کہ آپ حضرات کو اطمینان ہوجائے، بلکہ ہوگا یہ کہ جماعت کے اندر اور باہر کے تمام اہل حدیث حضرات میرے ساتھ اس بحث میں اُلجھ جائیں گے اور ہمارے لیے ایک نصب العین پر جمع ہوکر کام کرنا محال ہوجائے گا۔پھر یہ فساد اس مقا م پر بھی ختم نہیں ہو گا، بلکہ جب ان بحثوں کا دروازہ کھلے گا تومیرے وہ مضامین بھی زیر بحث آجائیں گے جن پر کچھ حنفی حضرات آپ لوگوں کی طرح بگڑے بیٹھے ہیں، اور ایک دوسرے محاذ پر ایسی ہی ایک اور جنگ شروع ہوجائے گی۔لہٰذا آپ ایک مرتبہ پھر سوچ کرمجھے لکھیے کہ کیا یہی آپ کا منشا ہے۔
رہی یہ بات کہ اگر یہ باتیں بنیادی حیثیت نہیں رکھتیں تو جماعت کی ابتدائی زندگی میں ان پر قلم اٹھانا مناسب نہ تھا،تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اب تک میں نے کوئی چیزایسی نہیں لکھی ہے جس پر کسی نہ کسی گروہ کو چوٹ نہ لگی ہو اور اگر میں یہ فیصلہ کرلوں کہ کوئی ایسی چیز نہ لکھی جائے جو مسلمانوں کے کسی گروہ کو ناگوار ہو تو شاید کچھ بھی نہ لکھ سکوں۔ مگر یقین کیجیے کہ اس معاملے میں جتنا ناکام میں ہوا ہوں،اس سے شاید بہت زیادہ ناکام آپ حضرات ثابت ہوں گے۔ اگر آپ اس دعوت کے لیے کام کرنے کھڑے ہوں تو غالباً چند صفحے بھی ایسے نہ لکھ سکیں گے جو اہل حدیث حضرات کے سوا کسی دوسرے گروہ کو ناگوار ہوئے بغیر رہ سکتے ہوں۔پس خوب سمجھ لیجیے کہ اصل چیز ان مباحث سے پرہیز نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو کچھ لکھے یا کہے وہ معقولیت کو برقرار رکھتے ہوئے ،حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے، شان تحقیق کے ساتھ لکھے اور دوسرے لوگ جو اس کے سننے والے یا پڑھنے والے ہیں،ان کے اندر کچھ قوتِ تحمل، کچھ وسعتِ قلب، کچھ رواداری اور کچھ اصول وفروع کی تمیز موجود ہو۔
آپ کا یہ خیال تو بہت ہی عجیب وغریب ہے کہ جب لٹریچر میں کوئی وجہِ اختلاف موجود ہے تو اسے کیسے پھیلایا جاسکتا ہے۔ذرا مجھے کوئی ایسا لٹریچر بتادیجیے جس میں تمام چیزیں تمام لوگوں کے منشا کے مطابق ہی ہوں۔موجودہ دور میں نہیں،متقدمین کے دور میں ہی بتلادیجیے۔
اگر اس بحث کا فیصلہ اس طرح ہوسکے کہ آپ یا آپ کے ہم خیال حضرات میں سے کوئی صاحب میری تحریروں پر ایک تنقید لکھ کر شائع کر دیں تو میں اس کو دل سے پسند کروں گا اور اس تنقید کے جواب میں ایک حرف بھی نہ لکھوں گا،تاکہ کسی طرح اس قضیے کا خاتمہ تو ہو۔
(ترجمان القرآن، رجب،شوال ۶۳ھ،جولائی،اکتوبر ۴۴ء)

احادیث کی تحقیق میں اسناد اور تفقہ کا دخل:

سوال: خط وکتابت کے کئی مراحل طے ہوچکے ہیں،لیکن ابھی تک کوئی اطمینا ن بخش صورت ظاہر نہ ہوئی۔ تاہم اس خط سے محض ایک سوال کے حل پر ساری بحث ختم ہو سکتی ہے۔قابل غور امر یہ ہے کہ حدیث و فقہ کا ہم پلّا ہونا، اسناد حدیث میں خامیوں کا پایا جانا وغیرہ مضامین آپ کی نظر میں بنیادی ہیں یا فروعی؟اگر اُصولی اور بنیادی ہیں جیسا کہ جماعت کے مستقل کتابی لٹریچر میں اس کی اشاعت سے اندازہ ہوتا ہے تو پھر کسی مخالفت کا اندیشہ کیے بغیر جماعت اہلِ حدیث روایت کے باب میں جو غلو رکھتی ہے،اس کی اصلاح وتنقید کے لیے پورا زور قلم صرف کیجیے، جیسا کہ آپ نے لیگ اور کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے کیا ہے۔باقی رہا جماعت کے اندر اور باہر بحث کا دروازہ کھل جانے کا اندیشہ، تو یہ کوئی نئی بات نہ ہوگی۔ کیوں کہ اب سے پہلے بھی اخبار اہلِ حدیث امرتسر میں ’’تصدیق اہل حدیث‘‘ کے عنوان سے اس پر تنقید ہوچکی ہے اور اب بھی ایک مولوی صاحب… میں’’ تفہیمات‘‘ کے اقتباسات(مسلکِ اعتدال) سنا سنا کرجماعت اسلامی کے ہم خیال اہل حدیث افرادمیں بد دلی پید ا کررہے ہیں، اور پوری طرح فتنے کا سامان پیدا ہوگیا ہے اور جماعتی ترقی میںمزاحمت ہورہی ہے۔
لیکن اگر یہ مضامین فروعی اور ضمنی حیثیت رکھتے ہیں، جیسا کہ آپ کے مکتوبات سے معلوم ہوتا ہے، تو پھر تفہیمات جیسی اُصولی اور اہم کتاب اور مستقل لٹریچر کی صورت میں ان پر افہام وتفہیم کی ضرورت نہ تھی۔اس کے لیے صر ف ’’ترجمان‘‘ کے صفحات کافی تھے۔افسوس کہ جس چیز کو آپ فروعی تحریر فرماتے ہیں،وہی جماعت کی توسیع کے راستے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔خود آپ ہی دستور جماعت کی دفعہ ۵،جز(د) میں تحریر فرماتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے رکن کے لیے ان تمام بحثوں سے اپنی زندگی کو پا ک کرنا ضروری ہے جن کی کوئی اہمیت دین میں نہ ہو۔ پھر کیا وجہ ہے کہ غیر اہم کو اہم بنایا جارہا ہے اور اس کے لیے’’ تفہیمات‘‘ کے صفحے کے صفحے سیاہ کیے گئے ہیں؟کیا اس سے بڑھ کر بنیادی اصلاح کا کام باقی ہی نہ رہا تھا۔
پھر یہاں دو جدا جدا چیزیں ہیں جنہیں مخلوط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔فقہی جزئیات کی تعمیل میں کتاب وسنت کے ماتحت مختلف ہونا الگ معاملہ ہے اور اسے برداشت کیا جاسکتا ہے، یعنی اس بارے میں بنیادی اُمور کے اشتراک واتحاد کے لیے رواداری برتی جاسکتی ہے۔لیکن اُصولی طور پر روایت نبویؐ اور درایت مجتہد کو مساویانہ حیثیت دے دینا ناقابلِ برداشت ہے، بلکہ بعض حالات میں یہ معاملہ انکارِ حدیث کا متراد ف ہوسکتا ہے،خود اکابر حنفیہ بھی اس کے قائل نہیں، نیز امام ابوحنیفہؒ نے بھی اس قسم کے عقیدہ وخیال سے تبرّی اور بیزاری ظاہر کی ہے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’حجۃ اﷲ البالغہ‘‘ اور ’’شامی‘‘)۔
اب اس کش مکش کو رفع کرنے کی یہی صورت ہے کہ ’’مسلک اعتدال‘‘ والا مضمون آیندہ تفہیمات کے ایڈیشن میں شائع نہ کیا جائے اور ’’ترجمان القرآن‘‘ میں ایک مہذب ومؤدّب تنقیدی مضمون کی اشاعت کا موقع مرحمت فرمایا جائے۔ یہ تنقید ہم دردانہ اور جماعتی ترقی کے لیے ہوگی، مخالفانہ اور معاندانہ نہ ہوگی۔ واللّٰہ علٰی ما نقول شہید۔ ’’ترجمان القرآن‘‘ کی قدیمی وسعت ظرفی اور عالی ہمتی سے اس قسم کی اُمید وابستہ رکھنا بے جا نہ ہوگا۔

جواب: میں تو سمجھا تھا کہ میرے آخری خط سے آپ مطمئن ہوگئے ہوں گے۔ لیکن اب اس عنایت نامے کو پڑھ کر معلوم ہوا کہ میں آپ کو مطمئن کرنے میں کام یاب نہیں ہوسکا ہوں۔آپ نے اب جو سوال کیا ہے،اس کے سلسلے میں میرا بھی ایک سوال ہے ۔وہ یہ کہ میری کتابوں میںجنہیں آپ مستقل لٹریچر فرماتے ہیں، فروع وجزئیات کے متعلق صرف یہی ایک’’مسلک اعتدال‘‘ والی بحث آپ کو نظر آئی ہے یا اور بھی کسی مقام پر میں نے جزئیات وفروع سے بحث کی ہے؟ اگر دوسرے مقامات پر بھی ایسی بحثیں ہیں اور یقیناً ہیں تو جزئیات وفروع سے عدمِ تعرض اور کلیات واُصول تک تقریر وگفتگو کو محدود رکھنے پر اصرار کی ضرورت آپ کو صرف اسی جگہ کیوں محسوس ہوئی؟
پھر آپ کا یہ ارشاد کہ جزئیات وفروع پر سرے سے میری کتابوں میں بحث ہی نہ ہونی چاہیے، بجائے خود صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ شاید کوئی شخص بھی مجرد کلیات تک اپنی بحثوں کو محدود رکھنے پر قادرنہیں ہوسکتا۔ کبھی کلیات واصول کی توضیح میں اسے جزئیات سے بحث کرنی ہو گی، کبھی لوگوں کے شکو ک وشبہات اور استفسارات کے جواب میں اس کی ضرورت پیش آئے گی، اور کبھی خود تحقیق ِ مسائل کے سلسلے میں بہت سے جزئیات کو زیر بحث لانا پڑے گا۔ اور جب یہ چیزیں بحث میں آئیں گی تو لامحالہ بہت سے اُمور ایسے ہوں گے جو کسی نہ کسی گروہ کے مسلک سے مختلف ہوں گے،اس لیے سرے سے آپ کا یہ مطالبہ ہی صحیح نہیں ہے۔
افسوس یہ ہے کہ آپ نے میرے پچھلے خطوط پر غور نہیں کیا۔میں نے ان میں یہ بات عرض کی تھی کہ اقامت دین کی جدوجہد میں مختلف المسلک جماعتوں کو اکٹھا کرنے کے لیے یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ یا تو مسائل فقہیہ پر تحقیق کی آزادی سب لوگوں سے سلب کرلی جائے یا پہلے ان سارے مسائل کو طے کرکے ایک مسلک کی جماعت بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بجائے صحیح یہ ہے کہ تحقیق مسائل میں سب کے لیے آزادی رہے اور صرف تحقیق ہی کے لیے نہیں بلکہ اس کے اظہار وبیان کے لیے بھی آزادی رہے اور کسی کا مسلک کسی پر مسلط نہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں دستور کی جس دفعہ کا آپ نے حوالہ دیا ہے ،اس کا منشا وہ نہیں ہے جو آپ نے سمجھا ہے ،بلکہ اس کا منشا مناظرے اور معرکے بند کرنا ہے۔
میری پچھلی تحریروں سے جو عجیب عجیب معنی آپ نے پیدا کیے ہیں،ان پر مجھے افسوس بھی ہے اور حیرت بھی۔ تعجب ہے کہ آپ دوسرے شخص کے مسلک کو سمجھنے کی کوشش کے بجائے خود اپنی بدگمانی سے ایک بات وضع کرکے اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ آپ کا یہ فقرہ کہ’’اُصولی طور پر روایتِ نبویؐ اور درایتِ مجتہد کو مساویانہ حیثیت دے دینا ناقابل برداشت ہے،بلکہ بعض حالات میں یہ معاملہ انکار حدیث کا مترادف ہوسکتا ہے‘‘ یقینا میرے مسلک کی ترجمانی نہیں ہے۔ آپ خود ہی انصاف سے غور کیجیے کہ ’’تفہیمات‘‘ میں حدیث کے متعلق جو مضامین میں نے لکھے ہیںاور اپنی دوسری کتابوں اور مضامین میں جس طرح میں حدیث سے استدال واحتجاج کرتا رہا ہوں،کیا ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعدمیرے متعلق یہ شبہ کرنے کی کوئی گنجایش نکل سکتی ہے کہ میرا ذرّہ برابر بھی کوئی میلان منکرین حدیث کے مسلک کی طرف ہے یا ہوسکتا ہے؟ پھر اگر آپ مجھے مومن یا مسلمان سمجھتے ہیں تو آخر کس طرح آپ نے میرے متعلق یہ گمان کرلیا کہ میں کسی روایت کو فی الحقیقت حدیث رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مان لینے کے بعد پھر اس پر کسی کے تفقہ یا اپنے اجتہاد یا کسی امام کے قول کو ترجیح دے سکتا ہوں؟ ترجیح تو درکنار،اگر میں دونوں کو مساوی بھی سمجھوں بلکہ اس کا خیال بھی کروں تو مومن کیسے رہ جائوں گا؟
دراصل آپ لوگ جس غلط فہمی میںمبتلا ہیں،وہ یہی ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ہم اجتہاد وتفقہ کو حدیثِ رسولؐ پر ترجیح دیتے ہیں یا دونوں کو ہم پلاّ قرار دیتے ہیں۔ حالاں کہ اصل واقعہ یہ نہیں ہے۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ کوئی روایت جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو، اس کی نسبت کا صحیح و معتبر ہونا بجائے خود زیر بحث ہوتا ہے۔آپ کے نزدیک ہر اس روایت کو حدیثِ رسولؐ مان لینا ضروری ہے جسے محدثین سند کے اعتبار سے صحیح قرار دیں۔لیکن ہمارے نزدیک یہ ضروری نہیں ہے۔ہم سند کی صحتِ کو حدیث کے صحیح ہونے کی لازمی دلیل نہیں سمجھتے۔ ہمارے نزدیک سند کسی حدیث کی صحت معلوم کرنے کا واحد ذریعہ نہیں ہے بلکہ وہ ان ذرائع میں سے ایک ہے جن سے کسی روایت کے حدیث رسولؐ ہونے کا ظن غالب حاصل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہم یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ متن پر غور کیا جائے، قرآن وحدیث کے مجموعی علم سے دین کا جو فہم ہمیں حاصل ہوا ہے،اس کا لحاظ بھی کیا جائے، اور حدیث کی وہ مخصوص روایت جس معاملے سے متعلق ہے،اس معاملے میں قوی تر ذرائع سے جو سنت ثابتہ ہمیں معلوم ہو،اس پر بھی نظر ڈالی جائے۔علاوہ بریں اور بھی متعدد پہلو ہیں جن کا لحاظ کیے بغیر ہم کسی حدیث کی نسبت نبیؐ کی طرف کردینا درست نہیں سمجھتے۔پس ہمارے اور آپ کے درمیان اختلاف اس امر میں نہیں ہے کہ حدیثِ رسولؐ اور اجتہادِ مجتہد میں مساوات ہے یا نہیں۔ بلکہ اختلاف دراصل اس امر میں ہے کہ روایات کے ردوقبول اور ان سے احکام کے استنباط میں ایک محدث کی رائے بلحاظ سند،اور ایک مجتہد کی رائے بلحاظ درایت کا مرتبہ مساوی ہے یا نہیں؟ یا یہ کہ دونوں میں سے کس کی رائے زیادہ وزنی ہے؟اس باب میں اگر کوئی شخص دونوں کو ہم پلاّ قرارد یتا ہے تب بھی کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کرتااور اگر دونوں میں سے کسی کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے تب بھی کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا۔ لیکن آپ لوگ اس کو گناہ گار بنانے کے لیے اس پر خواہ مخواہ یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ حدیثِ کو حدیث رسولؐ مان لینے کے بعد پھر کسی مجتہد کی رائے کو اس کا ہم پلاّ یا اس پر قابلِ ترجیح قرار دیتا ہے،حالاں کہ اس چیز کا تصور بھی کسی مومن کے قلب میں جگہ نہیں پاسکتا۔
محدثین جن بنیادوں پر احادیث کے صحیح وغلط یاضعیف وغیرہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں،ان کے اندر کمزوری کے مختلف پہلو مَیں اپنے مضمون’’مسلکِ اعتدال‘‘ میں بیان کرچکا ہوں۔جن اُمور کو میں نے وہاں نظیر میں پیش کیا ہے وہ بیش تر علامہ ابن عبدالبر کی کتاب’’جامع بیان العلم‘‘ سے ماخوذ ہیں۔ آپ براہ کرم مجھے بتایئے کہ فی الواقع کمزوری کے وہ پہلو فن حدیث میں موجود ہیں یا نہیں؟اگر موجود ہیں تو پھر آخر آپ حضرات ہم سے محدثین کی آرا پر ایمان لے آنے کا مطالبہ کیوں اس شدّومد سے کرتے ہیں ؟ محدثین کو بالکل ناقابل اعتنا تو ہم نے کہا نہیں ہے،نہ کبھی ہم اس کا خیال بھی دل میں لاسکتے ہیں،بلکہ اس کے برعکس حدیث کی تحقیق میں سب سے پہلے ہم یہی دیکھنا ضروری سمجھتے ہیں کہ سند کے اعتبار سے حدیث کا کیا حال ہے اور اس معاملے میں جس پائے کے محدث نے اس کو اپنی کتاب میںجگہ دی ہو،اس کے مرتبے کے لحاظ سے ہم اس کی رائے کو پوری پوری وقعت بھی دیتے ہیں۔لیکن فنِ حدیث کی ان کمزوریوں کی بِنا پر، جن کا میں نے ذکر کیا ہے،ہم اس امر کا التزام نہیں کرسکتے کہ محض علم روایت کی بہم پہنچائی ہوئی معلومات پر پورا پورا اعتماد کرکے ہر اس حدیث کو ضرور ہی حدیثِ رسولؐ تسلیم کرلیں جسے اس علم کی رُو سے صحیح قرار دیا گیا ہو۔آپ ہماری اس رائے سے اتفاق نہ کریں جس طرح ہم آپ کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے،لیکن عدمِ اتفاق کا یہ نتیجہ تو نہ ہوناچاہیے کہ آپ ہم پر اس جرم کا الزام لگا دیں جو فی الواقع ہم نے نہیں کیا ہے۔
آپ اگر ’’مسلک اعتدال‘‘ پرعلمی تنقید فرمائیں تو میرے لیے باعث شکر گزاری ہوگا۔مجھ پر میر ی غلطی واضح ہوجائے تومجھے اس سے رجوع کرنے میں ہرگز تامّل نہ ہوگا۔
(ترجما ن القرآن۔ذی القعدہ،ذی الحجہ۶۳ھ۔نومبر،دسمبر ۴۴ء)

جُزئیاتِ شرع اور مُقتضیاتِ دین:

سوال: اجتماع(جماعت اسلامی کا وہ اجتماع عام مراد ہے جو ۱۹۴۵ء میں بمقام دارالاسلام (متصل پٹھان کوٹ) منعقد ہوا تھا۔ ) میں شرکت کرنے اور مختلف جماعتوں کی رپورٹیں سننے سے مجھے اور میرے رفقا کو اس بات کا پوری طرح احساس ہوگیا ہے کہ ہم نے جماعت کے لٹریچر کی اشاعت وتبلیغ میں بہت معمولی درجے کا کام کیا ہے۔ اس سفر نے گزشتہ کوتاہیوں پر ندامت اور مستقبل میں کامل عزم واستقلال اور اخلاص کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کردیا ہے۔ دعا فرمائیں کہ جماعتی ذمہ داریاں پوری پابندی اور ہمت وجرأت کے ساتھ ادا ہوتی رہیں۔
اس امید افزا اور خوش کن منظر کے ساتھ اختتامی تقریر(یہ تقریر روداد جماعت اسلامی حصہ سوم کے آخر میں درج ہے اور’’ تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں‘‘کے نام سے الگ بھی شائع ہوچکی ہے۔) کے بعض فقرے میرے بعض ہم درد رفقا کے لیے باعثِ تکدّر ثابت ہوئے اور دوسر ے مقامات کے مخلص ارکان وہم دردوں میں بھی بددلی پھیل گئی ۔عرض یہ ہے کہ منکرینِ خدا کا گروہ جب اپنی بے باکی اور دریدہ دہنی کے باوجود حلم،تحمل اور موعظۂ حسنہ کا مستحق ہے تو کیا یہ دین داروں کا متقشف تنگ نظر طبقہ اس سلوک کے لائق نہیں ہے ؟کیا ان کے اعتراضات وشبہات حکمت وموعظۂ حسنہ اور حلم وبردباری کے ذریعے دفع نہیں کیے جاسکتے؟اختتامی تقریر کے آخری فقرے کچھ مغلوبیتِ جذبات کا پتا دے رہے تھے۔
تقریر کی صحت میں کلام نہیں ،صرف انداز تعبیر اور طرزِ بیان سے اختلاف ہے۔قرآن کا اُصول تبلیغ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ۝۰ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۝۰۠ آل عمران159:3 سے اخذ کیا جاسکتا ہے، اور اس پر عمل پیرا ہونے سے ساری مشکلات حل ہوسکتی ہیں۔مجھے اس سے بھی انکار نہیں کہ آپ کی عام عادت تبلیغ وتفہیم میں حکیمانہ ہے۔ اسی بِنا پر اس دفعہ خلافِ عادت لب ولہجہ کو سخت دیکھ کر تعجب ہوا۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ حکمت ومصلحت شرعی کا تقاضا ہے کہ فروعی مسائل اور ظواہر سنن کی تغییر وتبدیل پر ابتدء ً اصرار نہ کیا جائے اور نہ خود عملاًایسا طرزاختیار کیا جائے جس سے مسلمانوں میں توحش وتنفر پیدا ہو۔ اسی وجہ سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم قتلِ منافقین اور تغییربنائے کعبہ سے محترز رہے ۔مجھے یہ تسلیم ہے کہ اِعفا اور تقصیرِ لحیہ کے بارے میںسلف میں اختلاف پایا جاتا ہے اور جو طرز ِعمل آپ نے اختیار کیا ہے،اس کی گنجایش نکلتی ہے۔ادھر مقدار قبضہ تک اعفا کے جواز سے آپ کو بھی انکار نہ ہوگا۔پھر کیا یہ مناسب اور حکیمانہ فعل نہ ہوگا کہ عوام کو توحش سے بچانے کے لیے آپ بھی اسی جواز پر عمل کرلیں، کیوں کہ ظاہری وضع قطع میں جو غلو کی صورت ہے،اس کی اصلاح بنیادی اُمور اور مہمات مسائل کے ذہن نشین کرانے کے بعد بھی ہوسکتی ہے۔ جماعت اسلامی سے مخلصانہ وابستگی اور دلی تعلق کی بِنا پر یہ چند سطور لکھ رہا ہوں۔اُمید ہے کہ غور فرمائیںگے۔

جواب: مجھے یہ معلوم کرکے تعجب ہوا کہ آپ اہل دین کے ساتھ بھی چاہتے ہیں کہ وہی سلوک کیاجائے جو منکرین کے ساتھ ہونا چاہیے۔نیز یہ کہ آپ نے فقط نرمی ہی کو تقاضائے حکمت سمجھا ہے، حالاں کہ قرآن وسنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حق کے مان لینے والوں سے جب خلافِ حق باتوں کا صدور ہو تو ان کے ساتھ ان لوگوں کی بہ نسبت مختلف برتائو کیا جاتا ہے جو سرے سے حق کو نہ ماننے والوں کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ اﷲ اور رسولؐ نے جہاں بعض مواقع پر انتہائی نرمی برتی ہوتی ہے اور وہ عین مقتضائے حکمت ہے،بعض دوسرے مواقع پر سخت لب ولہجہ بھی اختیار کیا ہے اور تیز وتند الفاظ سے بھی کام لیا ہے اور وہ بھی مقتضائے حکمت ہی رہا ہے۔میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ جو باتیں میں نے آخری تقریر میں کہی ہیں،کیا ان میں کوئی لفظ خلافِ حق تھا؟ نیز یہ کہ اس تقریر میں جو باتیں کہی گئی ہیں، کیا فی الواقع اس مرحلے پر ان کا کہنا ضروری نہیں تھا؟ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک بات بھی ہو تو آپ اسے ضرور تحریر فرمائیں۔ لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ باتیں جو کہی گئی ہیں،وہ حق تھیں اور لوگوں کو اصل مقتضیاتِ دین کی طرف توجہ دلانے کے لیے اس وقت انہیں صاف صاف بیان کرنے کی ضرورت بھی تھی تو پھر لب ولہجہ کی شکایت فضول ہے۔میں آپ کو اس با ت کا یقین دلاتا ہوں کہ میں جذبات سے مغلوب ہونے والا آدمی نہیں ہوں۔نرمی اور سختی جو کچھ بھی اختیارکرتا ہوں،جذبات کی بِنا پر نہیں،بلکہ ٹھنڈے دل سے یہ رائے قائم کرنے کے لیے اختیار کرتا ہوں کہ اس موقع پر واقعی ایسا کرنا چاہیے۔
آپ کے سامنے صرف اپنا قریبی ماحول ہے،مگر مجھ پر جس ذمہ داری کا بار ہے اس کی وجہ سے میں پوری جماعت اور تحریک کے حالات پر نگاہ رکھتا ہوں ۔مجھے یہ اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا کہ اگر اس موقع پر میں مقتضیات دین کو صاف اور واضح طریقے پر بیان نہ کردوں اور ان لوگوں کی غلطی کو بالکل کھول کر نہ رکھ دوںجو فروع کو اب تک اصل دین بنائے بیٹھے ہیں اور دین کے اصلی تقاضوں سے غفلت برتتے رہے ہیں تو اس کا نتیجہ ہماری تحریک کے حق میں نہایت مہلک ہو گا۔ کیوں کہ اس قسم کا ایک اچھا خاصا گروہ ہماری تحریک سے محض سطحی طور پر متاثرہوکر ہماری طرف کھنچنے لگا ہے لیکن اپنے سابق تعصبات اور اپنی سابق غلطیوں میں سے کسی چیزمیں بھی ذرّہ برابر ترمیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ اُلٹا ہم سے طالب ہے کہ ہم بھی ان غلطیوں میں مبتلا ہوکر وہی خرابیاں برپاکریں جو یہ لوگ اصلاح کے نام سے کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا اگر اس مرحلے پر میںصاف صاف ان کو متنبہ نہ کردیتا تو مجھے اندیشہ تھا کہ یہ لوگ جماعت کے اندر آکر یا جماعت کے دروازے پر کھڑے ہوکر ایسی پیچیدگیاں پیدا کردیتے جن سے کام بننے کے بجائے اُلٹا خراب ہوتا۔
دراصل جو باتیں میری اس تقریر کو سننے کے بعد اس گروہ کے لوگوں نے کی ہیں،ان سے تو مجھے یہ یقین حاصل ہوگیا ہے کہ یہ لوگ فی الواقع دین کے کسی کام کے نہیں اور یہ کہ ان کا ہمارے قریب آنا ان کے دُور رہنے،بلکہ مخالفت کرنے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔آپ خود ہی اندازہ کیجیے کہ جو لوگ قرآن وسنت کے لحاظ سے میری تقریر کے اندر کوئی لفظ بھی قابل گرفت نہیں بتا سکتے،بلکہ اس کے برعکس جو یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ جس چیز کو میں نے دین کا اصل مدعا بتایا ہے،واقعی قرآن وسنت کی رُو سے دین کا اصل مدعا وہی ہے،اور جن چیزوں کو میں مقدم ومؤخر کررہاہوں،وہ واقعی مقد م ومؤخر ہیں،مگر اس کے باوجود جنہیں میری اس تقریر پر اعتراض کرنے اور بددلی اور رنجش کا اظہار کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا، وہ آخرکس قدر عزت کے مستحق ہیں کہ ان کے جذبات وخیالات کا لحاظ کیا جائے۔ ایسے لوگ دراصل بندۂ حق نہیں،بلکہ بندۂ نفس ہیں۔ ان کے اندر خد ا کا اتنا خوف نہیں ہے کہ اپنی غلطیوں پر متنبہ ہونے کے بعد اپنی اصلاح کریں اور حق کے واضح طور پر سامنے آجانے کے بعد اسے قبول کریں۔اس کے بجائے وہ شکایت یہ کرتے ہیں کہ حق بات انہیں صاف صاف کیوں کہہ دی گئی اور کہنے والا انہی تعصبات میں کیوں مبتلا نہیں ہے جن میں وہ خود مبتلا ہیں۔ اس قسم کے لوگ اگر منکرین میں سے ہوتے تو ہم ان کی رعایت کچھ نہ کچھ کرسکتے تھے، مگر یہ لوگ اپنی اس نفس پرستی کے باوجود حق پرستوں کی صفِ اوّل میں کھڑے ہیں اور دین داری کا ڈھونگ رچاتے ہیں، اس لیے نہ یہ کسی رعایت کے مستحق ہیں اور نہ ایسے لوگوں کے دُور ہوجانے پر کوئی ایسا شخص افسوس کرسکتا ہے جو حق کے لیے کام کرنا چاہتا ہو۔یہ لوگ جو کچھ اب تک مذہب کے نام پر کرتے رہے ہیں،اس سے دین کی کوئی بات بن نہیں آئی ہے بلکہ کچھ بگڑتا ہی رہا ہے۔اب میں نے چاہا کہ ان کو صاف صاف بتائوں کہ اگر واقعی دین کی بات بنانا چاہتے ہو تو اس کا طریقہ کیا ہے اور تمہارے فہمِ دین میں کیاقصور ہے جس کی وجہ سے تم اب تک کچھ نہیں کرسکے۔اگر یہ لوگ واقعی دین کے ساتھ کوئی قلبی تعلق رکھنے والے ہوتے تو میر ی باتیں سن کر ان کی آنکھیں کھل جا تیں اور ان کے اندر توبہ وانابت کا جذبہ پیدا ہوتا، لیکن اس کے بجائے یہ لوگ اُلٹا مجھ سے بگڑ گئے اور اب بھی ان کے نزدیک مرجح یہی ہے کہ انہی تعصبات اور جزئیات پرستیوں میں مبتلا رہیں جن میں اب تک مبتلا رہے ہیں۔ ان کی اس کیفیت کو دیکھ لینے کے بعد میں بہت خوش ہوں اور خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ یہ فتنہ پسندگروہ قریب آنے کے بجائے دُور جارہا ہے۔
اگر خدا نخواستہ میں اس اجتماع کے موقع پر ان باتوں کو صاف صاف بیا ن کرنے میں کوئی کسر اُٹھا رکھتا توالبتہ یہ میری ایسی کوتاہی ہوتی جس پر میں بعد میں افسوس کرتا۔مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ خود ان لوگوں کویہ توفیق ہی نہیں دینا چاہتا کہ یہ لوگ اس کے دین کی کوئی خدمت کریں۔ جن فتنوں کی یہ خدمت کرتے رہے ہیں،اﷲ نے بھی غالباًیہ فیصلہ کرلیا ہے کہ ان کو انہی فتنوںکی توفیق عطا فرماتا رہے۔
ڈاڑھی کے متعلق جو آپ نے تحریر فرمایا ہے،اس کے متعلق یہ گزارش ہے کہ میں اپنے عمل سے اس ذہنیت کو غذا دینا پسند نہیں کرتا جس نے بدعت کو عین سنت بنا دینے تک نوبت پہنچا دی ہے۔میرے نزدیک کسی غیر منصوص چیز کو منصو ص کی طرح قرار دینا اور کسی غیر مسنون چیز کو(جو اصطلاح شرعی کے لحاظ سے سنت نہ ہو)سنت قرا ردینا بدعت ہے اور ان خطرناک بدعتوں میں سے ہے جو معلوم ومعروف بدعتوں کی بہ نسبت زیادہ تحریف دین کی موجب ہوئی ہیں۔ اسی قبیل سے یہ ڈاڑھی کا معاملہ ہے۔لوگوں نے غیر منصوص مقدار کو ایسی حیثیت دے دی ہے اور اس پر ایسا اصرار کرتے ہیں جیسا کسی منصوص چیزپر ہونا چاہیے ۔پھر اس سے زیادہ خطرناک غلطی یہ کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت کو بعینہٖ وہ سنت قرار دیتے ہیں جس کے قائم وجاری کرنے کے لیے آپؐ معبوث ہوئے تھے ،درآں حا لے کہ جو اُمور آپؐ نے عادتاً کیے ہیں،انہیں سنت بنادینا اور تمام دنیا کے انسانوں سے یہ مطالبہ کرناکہ وہ سب ان عادات کو اختیار کریں، اﷲ اور اس کے رسولؐ کا ہرگزمنشا نہ تھا۔یہ تحریف جو دین میںکی جارہی ہے،اگر میں اس کے آگے سپر ڈال دوں اور جس وضع قطع میں لوگ مجھے دیکھنا چاہتے ہیں،اس میں اپنے آپ کو ڈھال لوںتو میں ایک ایسے جرم کا مرتکب ہوں گا جس کے لیے اﷲ کے ہا ں مجھ سے سخت باز پرس ہوگی اوراس بازپرس میںکوئی میری مدد کے لیے نہ آسکے گا۔ لہٰذامیں اپنے آپ کو لوگوں کے مذاق کے خلاف بنائے رکھنا بدرجہا بہتر سمجھتا ہوں ،بجائے اس کے کہ اپنے آپ کو اس اخروی خطرے میں ڈالوں۔

سوال: ’’ حالیہ اجتماع(اشارہ ہے اسی اجتماع کی طرف جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ نیزجس تقریر پر اِس خط میں گفتگو کی گئی ہے وہ بھی وہی تقریر ہے جس کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے،یعنی ’’تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں‘‘۔) دارالاسلام کے بعد میں نے زبانی بھی عرض کیاتھا اور اب بھی اقامت دین کے فریضے کو فوق الفرائض بلکہ اصل الفرائض اور اسی راہ میں جدوجہد کرنے کو تقویٰ کی رُوح سمجھنے کے بعد عرض ہے کہ ’’مظاہر تقویٰ‘‘ کی اہمیت کی نفی میں جو شدت آپ نے اپنی اختتامی تقریر میں برتی تھی وہ ناتربیت یافتہ اراکین جماعت میں ’’عدم اعتنا بالسنۃ‘‘کے جذبات پیدا کرنے کاموحب ہوگی اور میں دیانتاً عرض کرتا ہوں کہ اس کے مظاہر میں نے بعد از اجلاس ملاحظہ کیے۔ اس شدت کا نتیجہ بیرونی حلقوں میں اوّلاً تویہ ہوگا کہ تحریک کومشکو ک نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔ کیوں کہ اس سے پہلے بھی بعض داعیین تحریک نے’’استہزاء بالسنۃ‘‘ کی ابتدا اسی طرح کی تھی کہ بعض مظاہر تقویٰ کو اہمیت دینے اور ان کامطالبہ کرنے میں شدت اختیار کرنے کی مخالفت جوش وخروش سے کی۔دوسرے یہ کہ شرارت پسند عناصر کو ہم خود گویا ایک ایسا ہوائی پستول فراہم کردیں گے جو چاہے درحقیقت گولی چلانے کا کام ہرگز نہ کرسکے مگر اس کے فائر کی نمایشی آواز سے حق کی طرف بڑھنے والوں کو بدکایا جاسکے گا۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے معاملات میں عوام کے مبتلائے فتنہ ہوسکنے کا لحاظ رکھا ہے۔چنانچہ بیت اﷲ کی عمارت کی اصلاح کا پروگرام حضورؐ نے محض قوم کی جہالت اور جدید العہد بالاسلام ہونے کے باعث ملتوی کردیا تھا اور پھر اتنی احتیاط برتی کہ کبھی کسی وعظ اور خطبے میں لوگوں کو اس کی طرف توجہ تک نہیں دلائی،بجز اس کے کہ درون خانہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے آپؐ نے اس کا تذکرہ ایک دفعہ کیا۔
علاوہ بریں مظاہر تقویٰ کے معاملے میں بھی دوسرے مسائل کی طرح خود داعی ومصلح اوّل صلوٰۃاللہ علیہ کے ذاتی اسوہ کا اتباع ہی راہِ ہدایت ہے۔اس امر کو تسلیم کرنے کے بعد یہ روایت مدنظر رکھیے کہ ’’کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کث اللحیۃ یملا صدرہ‘‘ اس اسوۂ رسولؐ کا اتباع کرتے ہوئے اگر آپ افراط وتفریط کی اصلاح کریں تو پھر اِدھر تو معترضین کو عیب چینی کے مواقع کم ملیں گے اور اُدھر مغربیت زدہ لوگوں کے لیے طغیانِ نفس واِبائے اطاعت کے لیے کم تر مواقع حاصل ہوں گے۔ اسی بِنا پر میں نے بوقت ملاقات عرض کیاتھا کہ آپ کا ذاتی تعامل باعفاء اللحیہ ودیگر پہلوئوں سے تکمیل ظواہر سنن بالیقین دین کے لیے مفید ہوگا۔ اس کا خیال ہے کہ اِدھر مذہبی مخالفین کا گروہ ہے جس کی اصلاح اس انداز سے کرنی ہے کہ مختلف اُمور دین کو ان کے اصل مقام پر رکھ کر انہیں ان کی صحیح حیثیت اور ان کی صحیح اہمیت سے آگاہ کرنا ہے، لیکن دوسری طرف جدید تعلیم یافتہ طبقہ ہے جس کے نزدیک مظاہر تقویٰ کے معاملے میں سنتِ انبیا خصوصاً ڈاڑھی کی سنت کا اتباع کرنا نہ صرف غیر ضروری بلکہ ذریعۂ نفرت وتمسخر ہے۔اس گروہ کی اصلاح بھی تو آخر ہمارے ہی ذمے ہے، تو پھر کیا یہ فرض پورا کرنے کے لیے وہی اثباتی شدت زیادہ کارآمد نہیںہے جو مظاہر تقویٰ کے تحفظ میں قدیم دین دار طبقے کی تلقینات کی رُوح تھی؟
مزید یہ کہ ہم اسلام کی اساسی حقیقتوں ہی کوجب پوری وسعت سے نہیں پھیلا چکے ہیں اور ابھی بے شمار بندگانِ خدا کے سینوں میں اُترنے کی مہم سر کرنی باقی ہے، تو کیا بہتر یہ نہ ہوگا کہ ہم فروعی اُمور کے کانٹوں سے دامن بچا کر بڑھتے جائیں اور اصل مقصد کی طرف بڑھتے ہوئے اپنا ایک لحظہ بھی ضائع نہ ہونے دیں۔ورنہ مجھے خطرہ ہے کہ ہم لوگ جن کا دن رات واسطہ متلاشیانِ اعوجاج ومبتغیان فتنہ وتاویل سے ہے،صرف انھی زائد از ضرورت مسائل میں اُلجھ کر رہ جائیں گے اور اصل مقصد فوت ہوجائے گا۔ پس بہتر یہی ہے کہ ’’مظاہر تقویٰ‘‘وغیرہ قسم کے مباحث پر تحریروں اور تقریروں میں درشت اور شدید طریقے سے بحث نہ کی جائے۔

جواب: آپ نے جو اُمور تحریر فرمائے ہیں،ان میں سے بیش تر کے جواب میں نے زبانی عرض کردیے تھے اور اب بھی اپنے ان زبانی جوابات پرکسی اضافے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔تاہم ایک دو امور اس سلسلے میں ایسے ہیں جن پرمختصراً کچھ اشارہ کرنا کافی سمجھتا ہوں۔
آپ نے بارہا اس بات کا اظہار کیا ہے کہ مظاہر تقویٰ کے متعلق میں نے کوئی شدت برتی ہے جو سنت کے استہزا کی تمہید بن سکتی ہے اور بعض لوگوں کے لیے سنت سے بے اعتنائی کی موجب ہوئی ہے۔ کیا آپ براہِ کرم یہ بتاسکتے ہیں کہ وہ کون سے الفاظ تھے جن کو آپ شدت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اگر الفاظ آپ کو یاد نہ ہوں تو آپ تھوڑا صبر فرمائیں۔ میں اپنی اس تقریر کو قلم بند کراکے ان شاء اﷲ عن قریب شائع کروں گا،اس وقت آپ اسے پڑھ لیجیے گا اور میرے وہ الفاظ نشان لگا کر میرے پاس بھیج دیجیے گا جن میں شدت پائی جائے۔ اسی طرح جن ارکانِ جماعت سے آپ کا تبادلۂ خیال ہوا اور آپ نے یہ محسوس کیا کہ میری اس تقریر کی بدولت ان میں سنت سے عدم اعتنا پیدا ہوا ہے، اگر آپ کو ان کے نام یاد ہوں یا کم سے کم یہی یاد ہو کہ وہ کس جگہ کی جماعت سے تعلق رکھتے تھے تو مجھے لکھ دیجیے تاکہ میں پوری طرح تشخیص کرسکوں کہ آیا ِان کے متعلق آپ کا اندازہ غلط تھا، یا میرے متعلق ان کا اندازہ۔
کیا آپ نے کبھی اس بات پر بھی غور کیا ہے کہ اس جماعت میں داخل ہونے کے بعد جن لوگوں کے چہرے پر ڈاڑھی آئی ہے، اتباع سنت کی تبلیغ کا دعویٰ رکھنے والے حضرات میں سے کسی کی تبلیغ سے ان کے چہرے کبھی ڈاڑھی سے مزین ہوسکتے تھے؟ حالاں کہ جماعت میں آنے کے بعد ہم نے کبھی ان سے ڈاڑھی یا دوسرے مظاہر تقویٰ کے متعلق اشارتاً بھی نہیں کہا کہ وہ فلاں چیز پر عمل کریں۔ باوجود اس کے ان لوگوں نے جو کبھی خواب میں بھی یہ دیکھنے کے لیے تیار نہ تھے کہ ان کے چہرے پر ڈاڑھی ہو،خودبخود ڈاڑھیاں رکھ لیں اور اپنے فیشن تبدیل کرنے شروع کردیے۔اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ہم نے اسی اصل چیز کی تعلیم وتلقین پر سارا زور صرف کیا جو پوری دین دارانہ زندگی کی جڑ ہے، یعنی خدا ورسولؐ کی وفا داری و اطاعت،اس کے بعد ہمیں کسی چیز کی الگ الگ تلقین کی ضرورت نہ رہی۔ جس جس بات کے متعلق ان کو معلوم ہوتا گیا کہ خدا ورسول کا حکم یہ ہے یا خدا ورسول کو یہ پسند ہے، اسے اختیار کرنے پر وہ اپنے نفس کو مجبور کرتے چلے گئے اور جس جس کے متعلق یہ معلوم ہوتا گیا کہ یہ خدا و رسولؐ کو ناپسند ہے اسے وہ خودبخو د چھوڑتے چلے گئے۔ اس سلسلے میں ان کے اندروہی تبدیلیاں نہیں ہوئیں جو آپ لوگوں کے نزدیک اتباعِ سنت رہی ہیں۔ بلکہ وہ تبدیلیاں بھی ہوئیں جن کے مقتضائے دین ہونے کے تصور سے بہت سے دورِ آخر کے پیشوایانِ دین تک خالی رہے ہیں۔
یہ سب کچھ دیکھ لینے کے بعد جب آپ مجھ سے کہتے ہیں کہ تیری باتوں سے لوگوں میں سنت سے عدمِ اعتنا اور استہزا کی کیفیت پیدا ہوگی یا ہوئی تو مجھے حیرت بھی ہوتی ہے اور افسوس بھی۔میں نے تو مجبور ہوکر بلکہ تنگ آکر صاف صاف بات اس وقت کہی ہے جب کہ ایک گروہ نے اپنے طرزِ عمل سے مجھ پر یہ ثابت کردیا کہ ایک طرف تو وہ ہماری دعوت پر لبیک کہتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے، مگر دوسری طر ف جزئیات کو اُصول وکلیات پر مقدم رکھنے اور تقریر، تحریر اور بحث وجدال کا سارا زور جزئیات پر ہی صرف کرنے کی پرانی بیماری اس کو ابھی تک لگی ہوئی ہے،اس سے مجھے خطرہ ہوا کہ اس بیماری کو لیے ہوئے اگر یہ گروہ جماعت میں آگیا تو یہاں پھر وہی سب کچھ ہونے لگے گا جو باہر مذہبی میدان میں ہوتا رہا ہے۔ اس لیے مجھے مجبوراً یہ بتادینا پڑا کہ ایسے لوگ ہمارے کسی کام کے نہیں ہیں اور ہماری دعوت کا مزاج ان کی افتادِ مزاج سے بالکل مختلف ہے۔وہ اگر اپنے دماغ کی اصلاح کرکے اوراپنے فہم دین کو درست کرکے آنا چاہیں تو چشمِ ماروشن،دلِ ماشاد! لیکن اگر وہ جماعت میں آکر یا جماعت میں رہ کر وہی سب کچھ کرنا چاہتے ہیں جو اس سے پہلے کرتے رہے ہیں اور جس کی بدولت دین کا کچھ کام بنانے کے بجائے کچھ بگاڑتے ہی رہے ہیں، تو بہتر ہے کہ وہ ہماری اس جماعت کو خراب کرنے کے بجائے اپنے پرانے مشاغل باہر ہی رہ کرجاری رکھیں۔
اس وجہ سے جو کچھ میں نے کیا اور جو کچھ میں نے کہا،خوب سوچ سمجھ کر ہی کیا اور کہا۔ خدا کے فضل سے میں کوئی کام یا کوئی بات جذبات سے مغلوب ہوکر نہیں کیا اور کہا کرتا۔ایک ایک لفظ جو میں نے اپنی تقریر میں کہا ہے،تو ل تول کر کہا ہے اور یہ سمجھتے ہوئے کہاہے کہ اس کا حساب مجھے خدا کو دیناہے، نہ کہ بندوں کو۔چنانچہ میں اپنی جگہ بالکل مطمئن ہوں کہ میں نے کوئی ایک لفظ بھی خلافِ حق نہیں کہا اور جو کچھ کہا ،اس کا کہنا خدمت دین کے اس مرحلے پر ناگزیر تھا۔اس کے کہنے پر نہیں، بلکہ نہ کہنے پر مجھے اندیشہ تھا کہ میں ماخوذ ہوںگا۔ اب جو باتیں آپ نے تحریر فرمائی ہیں،ان میں بھی کوئی ایک چیز ایسی نہیں ہے جس سے مجھے اپنی اس رائے میں ترمیم کرنے کی ضرورت پیش آئے۔
میں نے آپ سے زبانی بھی عرض کیا تھا اور اب تحریراً بھی عرض کرتا ہوں کہ میں دین کو جوکچھ سمجھتا ہوں اور شریعت کے متعلق جو کچھ مجھے علم ہے،اس کی بِنا پر میرا فرض ہے کہ نہ صرف اپنے قول سے بلکہ اپنے عمل سے بھی ان غلطیوں کی اصلاح کروں جو شریعت کے بارے میں لوگوں کے اندر پھیلی ہوئی ہیں ۔محض لوگوں کے مذاق کی رعایت کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس رنگ میں پیش کرنا جس میں وہ مجھے رنگا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کو اس غلط فہمی میں ڈالنا کہ شریعت کے اصل تقاضے وہی ہیں جو انہوں نے سمجھ رکھے ہیں،میرے نزدیک گناہ ہے۔میں اسوہ اور سنت اور بدعت وغیرہ اصطلاحات کے ان مفہومات کو غلط، بلکہ دین میں تحریف کا موجب سمجھتا ہوں جو بالعموم آپ حضرات کے ہاں رائج ہیں۔آپ کا یہ خیال کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جتنی بڑی ڈاڑھی رکھتے تھے اتنی ہی بڑی ڈاڑھی رکھنا سنت رسولؐ یا اسوۂ رسولؐ ہے،یہ معنی رکھتا ہے کہ آپ عادات رسول کو بعینہٖ وہ سنت سمجھتے ہیں جس کے جاری اور قائم کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیا علیہم السلام معبوث کیے جاتے رہے ہیں۔ مگر میر ے نزدیک صرف یہی نہیں کہ یہ سنت کی صحیح تعریف نہیں ہے، بلکہ میںیہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ اس قسم کی چیزوں کو سنت قرار دینا اور پھر ان کے اتباع پر اصرار کرنا ایک سخت قسم کی بدعت اور ایک خطرناک تحریفِ دین ہے جس سے نہایت برے نتائج پہلے بھی ظاہر ہوتے رہے ہیں اور آیندہ بھی ظاہر ہونے کا خطرہ ہے۔
آپ کو اختیار ہے کہ میری اس رائے سے اتفاق نہ کریں ،لیکن جب تک میں اپنے مطالعۂ کتاب وسنت کی بِنا پر یہ رائے رکھتا ہوں،اس وقت تک آپ لوگوں کا یہ مطالبہ کرنا کہ میں اپنے عقیدہ وعلم کے خلاف آپ لوگوں کی مزعومہ سنتوں کو اختیار کروں کسی طرح صحیح نہیں ہے۔پھر جب ایسا نہ کرنے کی صورت میں آپ لوگ مجھے یہ اندیشہ دلاتے ہیںکہ لوگ مجھ سے بدگمان ہوں گے اور یہ چیز ان کے اس دعوت کی طرف آنے میںمانع ہوگی تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ لوگ میری دعوت الی اﷲ کے جواب میں مجھ کو اُلٹی دعوت الی الناس دینا چاہتے ہیں۔جن لوگوں کے اندر حق اور غیر حق کی اتنی تمیز بھی باقی نہ رہی ہو کہ وہ یہ بھی نہ سمجھ سکیں کہ میںجس چیز کی طرف انہیں بلا رہا ہوں وہ دین میں کیا مقام رکھتی ہے اور وہ جن باتوں کی وجہ سے میری دعوت کو قبول کرنے میں تامل یا انکار کررہے ہیں ،ان کا دین میں کیا درجہ ہے،ایسے ناحق شناس اور خدا پرستی کے بھیس میں اپنے تخیلات کو پوجنے والے لوگ آخر کس وزن اور قدر کے مستحق ہیں کہ ان کے جذبات اور ان کے خیالات کی کوئی رعایت کی جائے۔ (ترجمان القرآن۔ربیع الاوّل، جمادی الثانیہ ۶۴ھ، مارچ،جون ۴۵ء)

سنت اور عادت کا اُصولی فرق:

سوال: آپ نے مظاہر تقویٰ پر اپنے خیالات کی توثیق فرماتے ہوئے سنت وبدعت کے بارے میں یہ الفاظ تحریر فرمائے ہیں کہ’’سنت وبدعت وغیرہ اصطلاحات کے ان مفہومات کو میں غلط،بلکہ دین میں تحریف سمجھتا ہوں جو آپ کے ہاں رائج ہیں‘‘۔عرض ہے کہ یہ مسئلہ دراصل اُصولی ہے۔اس پر اگر اطمینا ن بخش فیصلہ ہوجائے تو بہت سے جزوی مسائل ،بلکہ اکثر نزاعات اور ذہنی اُلجھنیں ختم ہوجائیں۔لہٰذا سنت اور عادت کی ایسی جامع تعریف فرما دیجیے جو مانع بھی ہو اوراس کے ساتھ ہی بدعت کے متعلق بھی اپنی تحقیق سے ممنون فرمائیں۔
مزید توضیحِ مقام کے لیے عرض ہے کہ آپ کا یہ ارشاد کہ:
’’آپ کا یہ خیال کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم جتنی بڑی ڈاڑھی رکھتے تھے،اتنی ہی بڑی ڈاڑھی رکھنا سنتِ رسولؐ یا اسوۂ رسولؐ ہے،یہ معنی رکھتا ہے کہ آپ عاداتِ رسولؐ کو بعینہٖ وہ سنت سمجھ رہے ہیں جس کے جاری اور قائم کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیا علیہم السلام مبعوث کیے جاتے رہے‘‘میرے حسب حال نہیں ہے ۔اگرچہ میں مطلق اعفائے لحیہ کو سنتِ رسولؐ سمجھتا ہوں،مگر اسے غرضِ بعثت ومقصدِ رسالت تو آج سے دس سال قبل بھی نہیں سمجھتا تھا اور نہ اب ہی اس غلط فہمی میںمبتلا ہوں۔ میں تو یہ یقین رکھتا ہوں کہ مقصدِ بعثت فقط ایک ہی سنت ہے اور وہ ہے اقامتِ دین،یا قیامِ اطاعت الٰہیہ۔ باقی اُمور علیٰ حسب المدارج اہمیت رکھتے ہیں۔اس سنت کے ہم پلاّ دیگر سنتیں تو کیا،فرائض شرعیہ مثلاً عمارت مسجد حرام اور سقایۃ الحاج وغیرہ اُمور بھی نہیں ہیں۔ اورمیرے نزدیک یہی وہ سنت ہے جس کے احیا کو مأۃِ شہید کے اجر کا ہم پلاّقرار دیا گیا ہے۔ہاں حضورؐ کے ذاتی اسوۂ اعفائے لحیہ وغیرہ کو سنت مابعد الفرائض الشرعیہ تاحال سمجھتا ہوں اور اسی کی توثیق یا تصحیح کے لیے فوق الصدر استفسار پیش خدمت ہے۔

جواب: سنت کے متعلق لوگ عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ اپنی زندگی میںکیا ہے،وہ سب سنت ہے۔لیکن یہ بات ایک بڑی حد تک درست ہونے کے باوجود ایک حد تک غلط بھی ہے۔دراصل سنت اس طریق عمل کو کہتے ہیں جس کے سکھانے اور جاری کرنے کے لیے اﷲتعالیٰ نے اپنے نبی کو مبعوث کیاتھا۔اس سے شخصی زندگی کے وہ طریقے خارج ہیں جو نبی نے بحیثیت ایک انسان ہونے کے یا بحیثیت ایک شخص ہونے کے، جو انسانی تاریخ کے خاص دور میں پیدا ہوا تھا،اختیار کیے۔یہ دونوں چیزیں کبھی ایک ہی عمل میں مخلوط ہوتی ہیں، اور ایسی صورت میں یہ فرق وامتیاز کرنا کہ اس عمل کا کون سا جز سنت ہے اور کون سا جز عادت،بغیر اس کے ممکن نہیں ہوتا کہ آدمی اچھی طرح دین کے مزاج کو سمجھ چکا ہو۔
اُصولی طور پر یوں سمجھیے کہ انبیا علیہم السلام انسان کو اخلاق صالحہ کی تعلیم دینے اور زندگی کے ایسے طریقے سکھانے کے لیے آتے رہے ہیں جو فِطْرَتَ اللہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا۝۰ۭ الروم 30:30 کے ٹھیک ٹھیک منشا کے مطابق ہوں۔ ان اخلاقِ صالحہ اور فطری طریقوں میں ایک چیز تو اصل ورُوح کی حیثیت رکھتی ہے اور دوسری چیز قالب ومظہر کی حیثیت۔ بعض اُمور میں رُوح اور قالب دونوں اسی شکل میں مطلوب ہوتے ہیں جس شکل میں نبیؐ اپنے قول وعمل سے ان کو واضح کرتا ہے، اور بعض اُمور میں رُوح اخلاق وفطرت کے لیے نبیؐ اپنے مخصوص تمدنی حالات اور اپنی مخصوص افتادِ مزاج کے لحاظ سے ایک خاص عملی قالب اختیار کرتا ہے اور شریعت کا مطالبہ ہم سے صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم اس روحِ اخلاق وفطرت کو اختیار کریں۔رہا وہ عملی قالب جو پیغمبرؐ نے اختیار کیاتھا، تو اسے اختیار کرنے یا نہ کرنے کی شرعاً ہم کو آزادی ہوتی ہے۔پہلی قسم کے معاملات میں سنت رُوح اورقالب دونوں کے مجموعے کا نام ہے، اور دوسری قسم کے معاملات میں سنت صرف وہ رُوح اِخلاق وفطرت ہے جو شریعت میں مطلوب ہے، نہ کہ وہ عملی قالب جو صاحب ِشریعتؐ نے اس کے اظہارکے لیے اختیار کیا۔
مثال کے طور پر دین کا منشا یہ ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کی عبادت اور اس کا ذکر کریں۔اس کے لیے نبی نے بعض اعمال تو ایسے اختیار کیے جن کی روح اور عملی قالب دونوں سنت ہیں اور دونوں کی پیروی ہم پر لازم ہے،مثلاً نماز،روزہ، حج ،زکوٰۃ وغیرہ۔ اور بعض طریقے آپؐ نے ایسے اختیار کیے جن کی رُوح تو ہمارے اعمال میں ضرور پائی جانی چاہیے لیکن قالب کی ہو بہو پیروی کرنا لازم نہیں ہے،بلکہ آزادی دی گئی ہے کہ ہم اس رُوح کے ظہور کے لیے جوعملی قالب مناسب سمجھیںاختیار کرلیں، مثلاً دُعائیں اور وہ عام اذکارجو حضورؐ وقتاًفوقتاً کرتے تھے،ہم پر یہ لازم نہیں ہے کہ ہم بعینہٖ انہی الفاظ میں دعائیں مانگیں جن الفاظ میں حضورؐ مانگتے تھے۔ البتہ سنت کی پیروی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان دعائوں کے طرز اور ان کی معنوی خصوصیات کو ملحوظ رکھیں اور جن الفاظ میں بھی دعائیں مانگیں ان کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائوں کی رُوح موجود ہو۔ اسی طرح اذکار میں سنت صرف یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے مختلف حالات واعمال میں خدا کو یاد کرتا رہے۔اس سے استفادہ کرے،اس سے مدد مانگے، اس کا شکر ادا کرے اور اس سے طلبِ خیر کرے۔ اس سنت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عملی زندگی میں ان مختلف اذکار کے ذریعے سے ظاہر اور جاری کیا جو حدیث میں مذکور ہیں۔اگر کوئی شخص ان اذکار کو لفظ بلفظ یاد کرکے اسی طرح ان کا التزام کرے جس طرح حدیث میں بیان ہوا ہے، تو یہ مستحسن یا مستحب تو ہوسکتا ہے لیکن اسے اتباع سنت کا لازمی تقاضا نہیں کہا جاسکتا۔ اگر کوئی شخص اس سنت کو اچھی طرح ذہن نشین کرکے کسی دوسرے طریقے سے اس پر عمل درآمد کرے اور اس کے لیے دوسرے الفاظ اختیار کرلے تب بھی وہ بدستور متبع سنت رہے گا اور اس پر خلا ف وزریِ سنت کا الزام عائد نہ ہوگا۔
یہی فرق تمدنی اور معاشرتی معاملات میں بھی ہے۔مثلاً لباس میں جن اخلاقی و فطری حدود کو قائم کرنانبیؐ کے مقاصد بعثت میں تھا وہ یہ ہیں کہ لباس ساتر ہو، اس میں اسراف نہ ہو، اس میںتکبر کی شان نہ ہو،اس میں تشبہّ بالکفار نہ ہو،وغیرہ۔ اس روحِ اخلاق وفطرت کا مظاہرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس لباس میں کیا،اس میں بعض چیزیں تو ایسی ہیں جن کی پیروی جوں کی توں کرنی چاہیے،جیسے ستر کے حدود اور اسبالِ ازار سے اجتناب اور ریشم وغیرہ کے استعمال سے پرہیز۔ اور بعض چیزیں ایسی ہیں جو حضورؐ کے اپنے شخصی مزاج اور قومی طرز معاشرت اور آپؐ کے عہد کے تمدن سے تعلق رکھتی ہیں۔ان کو سنت بنانا نہ تو مقصود تھا ،نہ ان کی پیروی پر اس دلیل سے اصرار کیا جاسکتا ہے کہ اس حدیث کی رو سے اس طرزِ خاص کا لبا س نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہنتے تھے،اور نہ شرائع الٰہیہ اس غرض کے لیے آیا کرتی ہیں کہ کسی شخص خاص کے ذاتی مذاق یا کسی قوم کے مخصوص تمدن یا کسی خاص زمانے کے رسم ورواج کو دنیا بھر کے لیے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سنت بنادیں۔
سنت کی اس تشریح کو اگر ملحوظ رکھا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ جو چیزیں اصطلاح شرعی میں سنت نہیں ہیں ،ان کو خواہ مخواہ سنت قرار دے دینا من جملہ ان بدعات کے ہے جن سے نظامِ دینی میں تحریف واقع ہوتی ہے۔
اب خاص اس ڈاڑھی کے معاملے کو لے لیجیے جس پر اس بحث کی ابتدا ہوئی ہے۔اس معاملے میں جس روحِ اخلاق وفطرت کو اﷲ تعالیٰ ہماری عملی زندگی میں نمایاں دیکھنا چاہتا ہے،وہ صرف یہ ہے کہ مونچھیں کم کی جائیں اور ڈاڑھی بڑھائی جائے۔ اسی کی ہدایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو دی ہے اور یہی سنت ہے۔ اب رہی اس کی عملی صورت، تو اس کا کوئی تعین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد سے نہیں فرمایا، حالاں کہ کوئی امر اس میں مانع نہیں تھا کہ آپ اعفائے لحیہ کی مقدار اور قصِّ شارب کی حد واضح طور پر مقرر فرما دیتے یا کم از کم یہی فرما دیتے کہ ڈاڑھی اور مونچھ کی ٹھیک ٹھیک وہی وضع رکھو جو میری ہے، جس طرح نماز کے متعلق حضورؐ نے فرما دیا کہ اسی طر ح پڑھو جس طرح میں پڑھتا ہوں۔ پس جب کہ آپؐ نے اس معاملے میں کوئی حد مقرر نہیں کی اور صرف ایک عام ہدایت دے کر ہم کو چھوڑ دیا تو اس سے یہ بات خودبخود ظاہر ہوتی ہے کہ جو روح اخلاق وفطرت اس معاملے میں مطلوب ہے، اس کامنشا پوراکرنے کے لیے صرف اتنی بات کافی اور ضروری ہے کہ آدمی ڈاڑھی رکھے اور مونچھ کم کرے۔اگر کوئی مقدار بھی اس کے ساتھ ضروری ہوتی اور اس مقدار کا قائم کرنا بھی حضورؐ کے مشن کا کوئی جز ہوتا تو آپؐ ہرگز اس کے تعین میں کوئی کوتاہی نہ کرتے۔ مجمل حکم کے دینے پر اکتفا کرنا اور تعین سے اجتناب کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ شریعت اس معاملے میں لوگوں کو آزادی دینا چاہتی ہے کہ وہ اعفائے لحیہ اور قصِّ شارب کی جو صورت اپنے مذا ق اور صورتوں کے تناسب کے لحاظ سے مناسب سمجھیں،اختیار کریں۔
اب اگر ایک شخص مونچھوں کے بال مونڈ ڈالتا ہو اور دوسرا شخص انہیں اس حد تک کُتر ڈالنا چاہتا ہو کہ کھانے اور پینے میں مونچھوں کے بال آلودہ نہ ہوں، تو ان دونوں کو اپنے عمل میں آزادی ہے اور یہ دونوں اپنی اپنی جگہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میرے نزدیک حکم کا منشا اُس طریقے سے پورا ہوتا ہے جو میں نے اختیار کیا ہے،لیکن ان میں سے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنی اس رائے کو تمام دوسرے انسانوں کے لیے شریعت بنانے کی کوشش کرے اور اس کے خلاف جو شخص عمل کررہا ہو اس کو ملامت کرے۔ اگر وہ اسے شریعت بنانے کی کوشش کرے گا اور اس کے خلاف عمل کرنے والوں کو ملامت کرے گا تو یہ بدعت ہوگی۔کیوں کہ جو چیز سنت نہیں ہے،اس کو وہ زبردستی سنت بنا رہا ہے۔سنت صرف قصِّ شارب ہے، نہ کہ اس کی کوئی خاص صورت جو کسی شخص نے اپنے استنباط واجتہاد سے یا اپنے رجحانِ طبع سے اختیار کی ہو۔
اسی طرح ڈاڑھی کے معاملے میں جو شخص حکم کا یہ منشا سمجھتا ہو کہ اسے بلا نہایت بڑھنے دیا جائے ،وہ اپنی اس رائے پر عمل کرے،اورجو شخص کم سے کم یک مشت کو حکم کا منشا پورا کرنے کے لیے ضروری سمجھتا ہو وہ اپنی رائے پر عمل کرے، اور جو شخص مطلقاً ڈاڑھی رکھنے والے کو( بلا قید مقدار) حکم کا منشا پورا کرنے کے لیے کافی سمجھتا ہو،وہ اپنی رائے پر عمل کرے،ان تینوں گروہوں میں سے کسی کوبھی یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ استنباط واجتہاد سے جو رائے اس نے قائم کی ہے، وہی شریعت ہے اور اس کی پیروی سب لوگوں پر لازم ہے۔ایسا کہنا اس چیز کو سنت قرار دینا ہے جس کے سنت ہونے کاکوئی ثبوت نہیں ہے، اور یہی وہ بات ہے جس کو میں بدعت کہتا ہوں۔
رہا یہ استدلال کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈاڑھی رکھنے کا حکم دیا اور اس حکم پر خود ایک خاص طرز کی ڈاڑھی رکھ کر اس کی عملی صورت بتا دی،لہٰذا حدیث میں حضورؐ کی جتنی ڈاڑھی مذکور ہے اتنی ہی اور ویسی ہی ڈاڑھی رکھنا سنت ہے، تو یہ ویسا ہی استدلال ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ حضورؐ نے ستر عورت کا حکم دیا اور ستر چھپانے کے لیے ایک خاص طرز کا لباس استعمال کرکے بتادیا، لہٰذا اسی طرز کے لباس سے تن پوشی کرنا سنت ہے۔اگر یہ استدلال درست ہے تو میرے نزدیک آج متبعین سنت میں سے کوئی شخص بھی اس سنت کا اتباع نہیں کررہا ہے۔جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں، تمدن ومعاشرت کے معاملات میں ایک چیز وہ اخلاقی اُصول ہیں جن کو زندگی میں جاری کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے اور دوسری چیز وہ عملی صورتیں ہیں جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اصولوں کی پیروی کے لیے خود اپنی زندگی میں اختیار کیا۔ یہ عملی صورتیں کچھ تو حضور ؐ کے شخصی مذاق اور طبیعت کی پسند پر مبنی تھیں،کچھ اس ملک کی معاشرت پر جس میں آپ ؐ پیدا ہوئے تھے، اور کچھ اس زمانے کے حالات پر جس میں آپؐ مبعوث ہوئے تھے۔ان میں سے کسی چیز کو بھی تمام اشخاص اور تمام اقوام اور تمام لوگوں کے لیے سنت بنادینا مقصود نہ تھا۔
(ترجمان القرآن۔صفر ۶۵ھ، جنوری ۴۶ء)
……٭٭٭……

مفتوح فاتح کی عدالت میں:

سوال: آج کل جنگی مجرموں(war criminals)کو کیفر کردار تک پہنچانے کا بہت چرچا ہے۔اسلا م کا اس ضمن میں کیا حکم ہے؟

جواب: یہ’’جنگی مجرم‘‘ کی اصطلاح بھی ایک عجیب اصطلاح ہے جسے یورپ کے مکارانہ اخلاق نے موجودہ زمانے میں ایجاد کیا ہے۔اس کی اصلیت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایک قوم جس سے کسی دوسری قوم کی لڑائی محض قومی۱ غراض کے لیے ہوئی تھی، جنگ میں فتح یاب ہونے کے بعد مفتوح قوم کے جنگی وسیاسی لیڈروں سے انتقام لینا چاہتی ہے۔لڑائی دونوں طرف سے اقتدار اور منفعت طلبی کی خاطر ہوئی تھی۔ایک دنیا پر پہلے مسلط ہوچکا تھا اور چاہتا تھا کہ اپنے تسلط کو اور ان فائدوں کو جو اس جابرانہ وظالمانہ تسلط کی بدولت اسے حاصل ہورہے تھے،محفوظ رکھے۔ دوسرا بعد میں آیا اور اس نے پہلے کے تسلط واقتدار کو اپنی راہ میں رکاوٹ دیکھ کر اسے ہٹانا چاہا۔اس لحاظ سے دونوں کی لڑائی کسی پاکیزہ اخلاقی غرض پر مبنی نہ تھی۔ لیکن اب جب کہ ایک فریق غالب آگیا تو وہ اپنے اس غصے اور ا س انتقامی جذبے کو جو اس کے دل میں محض اس لیے بھڑکا تھا کہ مخالف فریق نے اس کے اقتدار کو چیلنج کیوں کیا، اخلاق کا رنگ دینے کی کوشش کرتا ہے اورکہتا ہے کہ ہم تو نہیں مگر ہمارا فریقِ مخالف ایک ڈاکو اور بدمعاش تھا اور اس نے دنیا کے امن کو غارت کیا(گویا کہ خود انہوں نے دنیا کے امن کو کبھی غارت نہیں کیا تھا )اس نے بستیوں پر ظلم ڈھائے(گویا کہ ظلم وستم ڈھانے کاارتکاب خود اُن سے کبھی نہ ہوا تھا)، اور اس نے عہد وپیمان توڑے( گویا کہ یہ ہمیشہ عہد وپیمان کے بڑے پابند تھے)،اس لیے اس کے بڑے بڑے لیڈر اور فوجی کمانڈرمجرم ہیں اور انہیں اسیرِ جنگ کے بجائے اخلاقی مجرم کی حیثیت سے سزا دی جانی چاہیے۔ حالاں کہ فی الواقع جس قومی جذبے میں یہ خود سرشار ہیں اور ان کے لیڈر جس جذبے کے تحت اپنی قومی سربلندی کو برقرار رکھنے کے لیے کوشش کرتے رہے ہیں، اسی جذبے سے ان کی مخالف قوم کے لیڈر بھی سرشار تھے اور اپنی قوم کے لیے سربلندی حاصل کرنے کی کوشش کررہے تھے، اور کوشش کے طریقوں میں اخلاقی نقطۂ نظر سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہ تھا۔ اب اصل غرض تو صرف یہ ہے کہ حریف قوم کے اندر جن لوگوں نے قومی جذبے کو بھڑکایا تھا اور جو اس امر کی قابلیت رکھتے تھے کہ اپنی قوم کو منظم کرکے اور اس کے وسائل کو ترقی دے کر میدان مقابلہ میں استعمال کرسکیں، انہیں ختم کردیا جائے، تاکہ یہ قوم ہمارے اقتدار اور ہمارے تسلط علی الارض کو چیلنج کرنے کے قابل نہ ہوسکے،لیکن اس خالص انتقامی جذبے کی گھنائونی صورت کو اخلاقی عدل کی خوش نما نقاب سے چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
یہ اخلاقی عدل کا ڈھونگ جس طرح ایک فریق کام یاب ہوجانے کے بعد رچا سکتا ہے،بعینہٖ اسی طرح دوسرا فریق بھی فتح یاب ہونے کے بعد رچا سکتا تھا، اور اس صورت میں بھی اخلاقی حیثیت سے یہ ایک نہایت ذلیل قسم کا مکرو فریب ہی ہوتا۔ میں حیران ہوں کہ موجودہ تہذیب نے دنیا کی بڑی بڑی متمدن اور ذی عزت قوموں اور ان کے مدبرین سلطنت کے اندر کس قسم کی بے حیائی پیدا کردی ہے اور ان قوموں کے علما و فضلا اور فلاسفۂ اخلاق کی اخلاقی حس کو کیسا کند کردیا ہے کہ ایسی ایسی صریح مکارانہ باتیں علی الاعلان کی جاتی ہیں اور کسی کو ان کے اندر نہ شرم محسوس ہوتی ہے اور نہ کوئی ان کے گھنائونے پن کو محسوس کرتا ہے ۔ کون صاحبِ عقل وتمیز آدمی،جو عدل کے معنی کا ذرہ برابر شعور رکھتا ہو،یہ تصور کرسکتا ہے کہ جنگ کا ایک فریق عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر دوسرے فریق کے ساتھ واقعی انصاف کرسکے گا؟اگر انفرادی زندگی میں کسی مقدمے کا ایک فریق دوسرے فریق کے لیے جج نہیں بن سکتا تو قومی زندگی میں آخر ایک فریقِ جنگ دوسرے فریقِ جنگ کے لیے جج کیسے بن سکتا ہے؟
آپ پوچھتے ہیں کہ اسلام کااس معاملے میںکیا حکم ہے ؟ میں کہتا ہوں کہ اسلام اس قسم کے مکر کو مکر ہی سمجھتا ہے۔اس کے نقطۂ نظر سے تمام وہ لوگ جو فریقین جنگ میں سے ایک دوسرے کے ہاتھ آئیں، اسیر جنگ ہیں اور اسیرانِ جنگ کے متعلق اسلام کے احکام جو کچھ ہیں وہ واضح طور پر میں اپنی کتاب’’ الجہاد فی الا سلام‘‘ میں بیان کرچکا ہوں۔ لڑائی کے بعد عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر مجرم کی حیثیت سے دشمن کو بلانا اور اس کا فیصلہ کرنے کے لیے خود بیٹھ جانا بہت بڑے پیمانے کی اخلاقی بے حیائی چاہتا ہے اور اسلام وہ دین ہے جو حیا کو محض شعبۂ اخلاق ہی نہیں بلکہ شعبۂ ایمان قرار دیتا ہے۔
(ترجمان القرآن،ربیع الاوّل جمادی الثانیہ ۶۴ھ، مارچ جون ۴۵ء)

میدانِ جنگ میں قحبہ گری کے انتظامات اور اسلام:

سوال: آج کل جنگ میں جہاں سپاہیوں کو وطن سے ہزاروں میل دور جانا پڑتا ہے اور ان کی واپسی کم ازکم دو سال سے پہلے ناممکن ہوجاتی ہے، سوشل قباحتیں مثلاً زنا وغیرہ کا پھیل جانا لازمی ہے، کیوں کہ جنگ کے جذبے کی بیداری کے ساتھ تمام جذباتِ سفلی بھی بھڑک اُٹھتے ہیں۔اس چیز کو روکنے کے لیے یا قابو میں لانے کے لیے فوجیوں کے لیے رجسٹر ڈ رنڈیاں بہم پہنچانے کی اسکیم پر عمل ہورہا ہے اور ان کے دلوں کو خوش رکھنے کے لیے(WACI) دفتروں میں ملازم رکھی جارہی ہیں۔یہ دونوں صورتیں قابل نفرین ہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی تردید کے بعد اسلام اس عقدے کے حل کا کیا طریق بناتا ہے؟ کنیزوں کا سسٹم کس حد تک اس قباحت کا ازالہ کرسکتا ہے اور کیا وہ بھی ایک طرح کی جائز قحبہ گری(prostitution) نہیں ہے؟

جواب: آپ کے سوال میں ایک پیچیدگی ہے جسے شاید آپ نے اپنا سوال تحریر کرتے دقت محسوس نہیں کیا۔آپ جس مسئلے کاحل دریافت کرنا چاہتے ہیں،اس میں آپ کے پیشِ نظر تو ہیں موجودہ زمانے کی فوجیں اور ان کی ضروریات،لیکن اس کا حل چاہتے ہیں آپ اسلام سے۔ حالاں کہ اسلام جن فوجوں کی ضروریات کا ذمہ لیتا ہے وہ اُس کی اپنی فوجیں ہیں نہ کہ فسّاق وفجّار اور جبابرہ کی فوجیں۔
موجود زمانے کی فوجوں کا حال یہ ہے کہ انہیں محض لڑنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے، اور جو سلطنتیں ان کو تیار کرتی ہیں،ان کے پیش نظرکوئی پاکیزہ اخلاقی نصب العین نہیں ہوتا۔ اگر وہ اپنی فوج تیار کرتی ہیںتو ان کے اندر صرف وہ اخلاقیات پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں جو قوم کا جھنڈا بلند کرنے اور بلند رکھنے کے لیے درکار ہیں، اور ظاہر ہے کہ ان اخلاقیات میں طہارتِ اخلاق کے عنصر کا کوئی مقام نہیں ہے اور اگر وہ اپنی محکوم قوموں میں سے اپنی اغراض کے لیے فوجیں تیار کرتی ہیں تو انہیں صرف اس اخلاق کی تربیت دیتی ہیں جو پالتو شکاری کتوں میں پیدا کیا جاتا ہے،یعنی یہ کہ روٹی دینے والے کے وفا دار رہیں اور شکار اس کے لیے ماریں،نہ کہ اپنے لیے۔ اس کے سوا کسی دوسرے اخلاق کی ا ہمیت سرے سے ان ’’مہذب‘‘ قوموں میں ہے ہی نہیں۔ رہیں زنا، شراب،جوا اور دوسری قسم کی بداخلاقیاں، تو نیچے سے لے کر اونچے طبقوں تک وہ ان کے ہاں پوری قوم کے اندر پھیلی ہوئی ہیں ۔نیز جب کہ ان کا اخلاقی نقطۂ نظر ہی یہ ہے کہ ’’بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کی فوجوں میں کسی قسم کا اخلاقی انضباط پایا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی فوجیں ماردھاڑ کے فنون میں تو انتہائی کمال کے درجے تک پہنچ جاتی ہیں،لیکن طہارتِ اخلاق کے نقطۂ نظر سے پستی کی اس حد تک گری ہوئی ہوتی ہیں جس کا مشکل سے ہی کوئی انسان تصور کرسکتا ہے۔انہیں کھانے کے لیے دل کھول کر راشن دیا جاتا ہے۔پینے کے لیے خم شراب کا منہ ہر وقت کھلا رکھا جاتا ہے۔خرچ کرنے کے لیے پیسے بھی کافی دیے جاتے ہیں۔پھر سانڈوں کی طرح انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اپنی خواہشاتِ نفس جہاں اور جس طرح چاہیں،پوری کرتے پھریں۔ حکومتیں خود بھی ان کے لیے قحبہ خانے تیار رکھتی ہیں،قوم کی لڑکیوں میں بھی یہ جذبہ پیداکیا جاتا ہے کہ وہ ملک وقوم کے لیے لڑنے والے سپاہیوں کی خاطر اپنے جسم رضا کارانہ طور پر پیش کرنے کو قومی ایثار اور سرمایۂ افتخار سمجھیں۔ اور اس پر بھی جب ان انسانی نروں کے بھڑکے ہوئے جذبات ٹھنڈے نہیں ہو سکتے تو ان کو پوری آزادی حاصل ہوتی ہے کہ انسانی گلے میں جہاں بھی مادائیں ان کو نظر آئیں، ان سے’’بزور‘‘ یا’’بزر‘‘ ان کے جسم خریدلیں یا چھین لیں۔ اس طرح جن فوجوں کوپالا گیا ہو،خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ جب وہ دشمنوں کے ممالک میں فاتحانہ داخل ہوتی ہوں گی، تو وہاں ان کی شہوانی ضروریات کتنی بڑھ جاتی ہوں گی اور کس قیامت خیز صورت میں وہ پوری کی جاتی ہوں گی۔
اب آپ خود ہی سوچ لیں کہ ایسی فوجوں کے مسائل اور ان کی ضروریات کا حل اسلام کیسے بتا سکتا ہے ۔انہیں مغرب ہی کے مادّہ پرستانہ اخلاق نے پیداکیا ہے اور ان کے شرم ناک مسائل کا حل بھی وہی پیش کرسکتا ہے۔اسلام جن فوجوں کو تیار کرتا ہے وہ سیاسی و معاشی جغرافیے کے اوراق پھاڑنے اور جوڑنے کے لیے تیار نہیں کی جاتیں، بلکہ صرف اس لیے تیار کی جاتی ہیں کہ دنیا اگر خدا کی اطاعت سے پھری ہوئی ہو اور دعوت وتبلیغ سے راہ راست پر نہ آئے تو اسے بزور شمشیر اتنا بے زور کردیا جائے کہ و ہ کم ازکم فتنہ وفسادسے تو باز آجائے۔ اس متعین مقصود کے لیے جو فوجیں جہاد کرتی ہیں،ان کا جہاد فی سبیل النفس نہیں بلکہ فی سبیل اﷲ ہوتا ہے اور وہ میدانِ جنگ میں بھی اسی جذبۂ عبادت کے ساتھ جاتی ہیں جس کے ساتھ وہ صحن مسجد میں قدم رکھتی ہیں۔پھر اس میدان میں ان کو اُتارنے سے پہلے تزکیۂ نفس اور تطہیرِ اخلاق کے ایک پورے کورس سے انھیں گزارا جاتا ہے۔انہیں خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کی سرکوبی کا کام سکھانے کے ساتھ یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ وہ اپنے نفس کو،اگروہ خدا سے پھرا ہوا ہو، کس طرح زیر کریں اوردوسروں کو احکا م الٰہی کا مطیع بنانے سے پہلے خود اپنے آپ کو کس طرح خدا کا مطیع بنائیں۔انہیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ میدان جنگ میں قدم قدم پر خدا کو یاد کرتے ہوئے بڑھیں،عین لڑائی کی حالت تک میں نماز اپنے وقت پر ادا کریں اور دن ان کے گھوڑے یا ٹینک کی پشت پر گزریں تو راتیں مصلے پر۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی تربیت یافتہ فوج جو ایک پاکیزہ اخلاقی مقصد کے لیے لڑ ے اور اپنے عقیدے کے مطابق زمانۂ جنگ کو زمانۂ عباد ت سمجھتی ہوئی رقبۂ جنگ میں رہے،اس کی شہوانی ضروریات موجودہ فوجوں کی ضروریات جیسی نہیں ہوسکتیں اورنہ وہ اپنی ان ضروریات کو پورا کرنے میں ان فوجوں کی طرح آزادی کی خواہش مندہوسکتی ہے۔
اگر چہ بعض روایات کے مطابق زمانۂ جنگ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کو جائز رکھا تھا (جسے عرب میں پہلے جائز سمجھا جاتا تھا) لیکن یہ بات ثابت ہے کہ بہت جلدی آپؐ نے اس کو ممنوع قرار دے دیا۔
اس میں شک نہیں کہ جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوئی ہوں،ان سے تمتع کرنے کی اجازت اسلام میں دی گئی ہے،مگر سخت جاہل ہے وہ شخص جس نے اس کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ جس طرح آج کل ناخدا ترس فوجیں غنیم کے ملک میں گھسنے کے بعد عورتوںکو آزادانہ پکڑتی پھرتی ہیں اور جہاں جس سپاہی کو جو عورت مل جاتی ہے، وہ اس سے زنا کرڈالتا ہے ،ایسی ہی اجازت اسلام نے بھی اپنی فوجوں کو دے دی ہے۔ دراصل یہ اجازت چند شرائط کے ساتھ ہے:
اوّل تو عورتوں کا پکڑنا فی نفسہٖ مقصود کی حیثیت نہیںرکھتا کہ خواہ مخواہ فوج کی شہوانی ضروریات پوری کرنے کی خاطر دشمن قوم کی عورتوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح پکڑ لایا جائے، بلکہ عہدِ نبویؐ اور زمانۂ خلافت راشدہ کی نظیروں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں جب کبھی گرفتار ہوں گی،دو ہی صورتوں میں ہوں گی۔ ایک اس صورت میں جب کہ وہ دشمن کے لشکر میں ہوں۔اس صورت میں جس طرح لشکر کے مرد گرفتار ہوں گے،اسی طرح عورتیں بھی گرفتار کرلی جائیں گی۔ دوسرے اس صورت میں جب کہ کوئی شہری آبادی اسلامی فوج کا مقابلہ کرے اور عنوۃً (by storm) فتح ہو۔ اس صورت میں اسلامی فوج کے کمانڈر کو حق ہے کہ ضرورت سمجھے تو پوری آبادی کو گرفتار کرلے۔ نیز اس صورت میں جو عورتیں اور بچے ایسے رہ جائیں جن کے سر پرست مرد مارے جاچکے ہوں،ان کو بھی اسلامی فوج اپنے چارج میں لے لے گی۔
پھر جو عورتیں ان صورتوں میں سے کسی صورت میں فوج کے قبضے میں آجائیں،انہیں کوئی سپاہی اس وقت تک ہاتھ نہیں لگا سکتا جب تک کہ اسلامی حکومت اس امر کا فیصلہ نہ کرلے کہ انہیں لونڈیاں بنا لینا ہے،اورجب تک کہ ان کو فوج میں باقاعدہ تقسیم نہ کردیا جائے۔ اور یہ فیصلہ صرف اس صورت میں کیا جائے گا جب کہ غنیم سے فدیے پر، یا اسیرانِ جنگ کے تبادلے پر کوئی معاملہ طے نہ ہوا ہو۔
اس طرح جو عورت حکومت کی جانب سے کسی مرد کی مِلک میں باقاعدہ دے دی گئی ہو، اس پرصرف وہی ایک مرد تصرف کرسکے گا، اور اس کے لیے بھی قانون یہ ہے کہ استبرائِ رحم کی خاطر وہ اس وقت تک صبر کرے جب تک کہ اس عورت کو ایک مرتبہ حیض نہ آ جائے۔ یہ اس غرض کے لیے ہے تاکہ اس امر کااطمینان ہوجائے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔ اور اگر حاملہ ہو تو پھر وضع حمل تک اس کو صبر کرنا چاہیے۔اس دوران میں وہ اس سے مباشرت کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
پھر جو عورت اس طریقے سے کسی شخص کی ملک میں دی گئی ہو،وہ اگر اس سے تمتع کرے تو جو اولاد اس کے بطن سے پیدا ہوگی ،وہ اس شخص کی جائز اولاد قرار پائے گی اور اس کی وارث ہوگی، نیز اولاد کی ماں بن جانے کے بعد پھر وہ شخص اس عورت کو بیچنے کا مجاز نہ رہے گا، اور اس کے مرنے کے بعد وہ خود بخود آزاد ہوجائے گی۔
یہ ہے جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں کے بارے میں اسلام کا اصل قانون۔اس کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ اسلام حالتِ جنگ میں اپنی فوجوں کی شہوانی ضروریات پوری کرنے کے لیے اخلاقی قیود میںکسی قسم کی ڈھیل پیدا کرتا ہے۔اس کے برعکس اسلام تو ان پر یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ جائز تعلق کے مواقع میسر آنے تک بہرحال وہ ضبطِ نفس سے کام لیں، خواہ ایسا موقع میسر آنے میں کتنی ہی مدت لگ جائے ۔
دوسری طرف احادیث وآثار کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی کمزوریوں کا لحاظ کرتے ہوئے یہ دیکھنا بھی اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ہے کہ اس کے سپاہی زیادہ مدت تک اپنی عورتوں سے علیحدہ رہ کر،اور ان کی عورتیں زیادہ دیر تک اپنے مردوں سے جدا رہ کر کہیں بداخلاقیوں میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ یہی غرض تھی جس کی خاطر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حرمت نساء المجاہدین علی القاعدین کحرمتۃ امھاتکم۔
’’مجاہدین کی بیویاں پیچھے رہنے والے مردوں کے لیے ویسی ہی حرام کی گئی ہیں جیسی خود اُن کی مائیں اُن پر حرام ہیں۔‘‘
اور یہ کہ:
ما من رجل من القاعدین یخلف رجلًا من المجاھدین فی اھلہ فیخونہ فیھم الا وقف لہ یوم القیٰمۃ فیاخذ من عملہ ما یشاء، فما ظنکم۔
’’پیچھے رہ جانے والے مردوں میں سے جو شخص مجاہدین میں سے کسی کے بال بچوں میں اس کا جانشین ہو اور پھر وہ ان کے معاملے میں اس کے ساتھ کسی قسم کی خیانت کرے ،وہ قیامت کے روز کھڑا کیا جائے گا اور اس مجاہد کو حق دیا جائے گا کہ اس شخص کے عمل میں سے جو کچھ چاہے لے لے۔پھر تمہارا کیا گمان ہے کہ وہ اس کے پاس کچھ چھوڑ دے گا؟‘‘
اور یہی وجہ تھی کہ حضرت عمرؓ نے مدینے کے دو خوب صورت نوجوانوں کو صرف اس لیے شہر سے منتقل کردیا کہ آپ نے بعض عورتوںکی زبان سے ان کے حسن کی تعریف سن لی تھی اور آپ کو اندیشہ ہوگیا تھا کہ کہیں یہ چیزان عورتوں کے حق میں فتنہ نہ بن جائے جن کے شوہر جہاد پر گئے ہوئے ہیں۔ اور یہی وجہ تھی کہ حضرت عمرؓ نے اعلان کردیا تھا کہ جو شخص کسی عورت سے تشبیب(یعنی اپنے اشعار میں اُس سے اظہارِ عشق کرے گا۔) کرے گا،اس کو درّے لگائے جائیں گے۔ اور یہی وجہ تھی کہ حضرت عمرؓ نے جب ایک مرتبہ ایک مجاہد کی بیوی کو اپنے شوہر کے فراق میں مشتاقانہ اشعار گاتے ہوئے سنا تو آکر پہلاحکم جو آپ نے جاری کیا وہ یہ تھا کہ آیندہ سے سپاہیوں کو اتنی طویل مدت تک ان کی بیویوں سے جدا نہ رکھا جائے جس سے ان کے کسی بداخلاقی میں ملوث ہوجانے کا احتمال ہو۔ بالفاظِ دیگر فوج میں رخصت (furlough) کا طریقہ اسلامی حکومت میں جاری ہی اس غرض کے لیے کیا گیا تھا کہ حکومت اپنے سپاہیوں اور ان کی عورتوں کے اخلاق کی حفاظت کرنا چاہتی تھی۔
رہا آپ کا یہ سوال کہ کیا کنیزوں کے استعمال کی اجازت ایک طرح کی جائز کردہ قحبہ گری نہ تھی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یا تو آپ قحبہ گری کے معنی نہیںجانتے یا کنیزوں سے تمتع کا اسلامی قانون آپ کو معلوم نہیںہے۔ قحبہ گری اس کو کہتے ہیں کہ ایک مرد کسی عورت سے اس کا جسم کرایے پر مستعار حاصل کرے۔ اور آج کل کی ’’مہذب‘‘ سوسائٹی میں ایک نئی قسم کی قحبہ گری بھی پیدا ہوگئی ہے جسے’’شوقیہ قحبہ گری‘‘ (amateurish prostitution)کہتے ہیں،جس میں یہی عارضی تعلق باقاعدہ طے شدہ کرائے کے معاوضے میں نہیں بلکہ ہدیوں اور تحفوں کے بدلے میں قائم ہوتا ہے اور سوسائٹی میں خاتون محترمہ کی عزت بدستور برقرار رہتی ہے۔رہا کنیزوں سے تمتع کا اسلامی قانون،تو وہ میں اوپر بیا ن کرچکا ہوں۔دونوں کا مقابلہ کرکے آپ خود دیکھ لیں۔
(ترجمان القرآن،ربیع الاوّل،جمادی الثانیہ ۶۴ھ، مارچ جون ۴۵ء)

ایک ہندو دوست کا خط اور اس کا جواب:

’’دیر کے بعد خط لکھ رہا ہوں۔اس طویل غیر حاضری کی وجہ صرف یہ خیال تھا کہ آپ کی جملہ تصنیفات کو مطالعہ کرنے کے بعد اپنے خیالات کو آپ کی خدمت میں وضاحت سے پیش کرسکوں گا۔سو اب آپ کی کلیات کا ایک مرتبہ سرسری مطالعہ کرچکا ہوں۔ فی الحقیقت اپنے مشن کے لیے جہاں تک اخلاص کا تعلق ہے، میں نے آپ کو شری… کے بعد واحد پہلا اور آخری رہنماپایا ہے۔ ’’آخری‘‘ کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے۔ شری… جی جنہیں میںموجودہ دور میں ہندوئوں کی عظیم ترین شخصیت سمجھتا ہوں، کی ذاتِ بابر کات کے لیے اپنے دل میں انتہائی عقیدت رکھنے کے باوجود، میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ان کے مشن کی تکمیل ہندو قوم پر جاکر ختم ہوتی ہے۔ ہندو قومیت میں کون سے عناصر شامل ہیں یا ہندو پن کیا ہے؟اس کی تسلی بخش تفسیر آج تک نہیں ہوسکی۔ گوشت خور بھی ہندو اور گوشت کا تارک بھی ہندو، وید مقدس کو ماننے والا بھی اور ویدوں کا منکر بھی ہندو، گائے کا پجاری بھی ہندو اور گائے کے چمڑے کے جوتے بنانے والا اور گائے کے چمڑے کے ساز وسامان سے گھر کو زینت دینے والا بھی ہندو،بتوں کا بچاری بھی ہندو اور بتوں کا کھنڈن کرنے والا بھی ہندو، آستک بھی ہندو اور ناستک بھی ہندو،کروڑوں دیویوں دیوتائوں کا ماننے والا بھی ہندو اور توحید کا قائل بھی ہندو۔ جو قطعی ایک دوسرے کی ضد ہیں! بھائی پرمانند جی نے اسی لیے ہندو کی ایک دو حرفی تعریف کی ہے کہ’’جو اپنے آپ کو ہندو سمجھتا ہے،وہ ہندو ہے۔‘‘ ویر ساور کرنے پولیٹیکل طور پر یہ تشریح کی ہے کہ’’جو اس دیش کو ماتری بھومی اور پنیہ بھومی سمجھتا ہے وہ ہندوہے۔‘‘ کچھ قوم پرست مسلمان اس ملک کو ماتری بھومی تو ماننے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں مگر پنیہ بھومی نہیں!تو اس طرح مسلمانوں کا سوال جوں کا توں رہا، اور ہندستان میں یہی ایک مسئلہ ہے جس کے حل کرنے پر ملک کے بہترین دماغ لگے ہوئے ہیں۔ آپ نے جو حل اس کا تجویز کیا ہے، وہ فی الواقع نہ صرف مسلمان نہ صرف ہندو،نہ صرف ہندستان، بلکہ تمام بنی نوعِ انسان کے لیے یکسانیت رکھتا ہے۔ چند ایک بنیادی اُصول ہیں جن کے ماننے والے ایک طرف، نہ ماننے والے دوسری طرف۔ ایک دو ٹوک(clear cut) واضح پالیسی ہے۔ (اسی لیے میں نے آپ کے لیے’’آخری ‘‘کا لفظ اوپر استعمال کیا ہے)۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ آپ کی کلیات کا ایک نظر سے مطالعہ کرلیا ہے۔ آپ نے جو خطبات تعلیمی درس گاہوں میں پڑھے ہیں اور موجودہ یونی ورسٹیوں کو قتل گاہوں (slaughter houses) سے مناسبت دے کر حقیقت کا اظہار فرمایا ہے، اس تلخ صداقت کو بے نقاب کرکے آپ نے جس اخلاقی جرأت اور دلیری کا ثبوت دیا ہے، اِ س کی جس قدر تعریف کی جائے،کم ہے۔ میں آپ کے ان خطبات کا جب ان کانووکیشن ایڈریسز سے موازنہ کرتا ہوں جو ملک کی چیدہ چیدہ نام ور ہستیوں کے ہیں،جن کے نام کے ساتھ بڑے بڑے سائن بورڈ چسپاں ہیں، تو یقین فرمایئے،میری طبیعت متلانے لگتی ہے۔
ایک طرف آپ کا قرآن کریم سے روشنی لے کر انسان کی فلاح کی خاطر اسلام کو روشناس کرانے کے لیے دعوت عام دینا اور چھوٹے چھوٹے ٹریکٹوں ’’سلامتی کا راستہ‘‘،’’دینِ حق‘‘،’’اسلام کا سیاسی نظریہ‘‘،’’اسلام کا اخلاقی نقطۂ نظر‘‘ وغیرہ لٹریچر کی اشاعت سے ذہنی انقلاب پیداکرنا میرے سامنے ہے اور دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ میری قوم کے لیڈر راستی سے بھٹک کر ادنیٰ مقاصد(minor causes) پر اپنی اور ساری قوم کی قوت ضائع کررہے ہیں۔ایک طرف آپ کا خطباتِ جمعہ تحریر کرکے ایک ایک مسجد میں اپنے نصب العین کو پہنچانے کی سبیل پیدا کرنا ہے اور دوسری طرف ہندوئوں کے گُرُوسوامی گنیش دت اور پنڈت مدن موہن مالوی بنارس ہندو یونی ورسٹی میںمندر کی تعمیر کے لیے لاکھوں روپیا اکٹھا کرنے کی فکر میں گھلے جارہے ہیں۔ آریہ سماج کے بارے میں تو میرا یہ عقیدہ ہے کہ اگر آج رشی دیانند کا ظہور ہو تو وہ سب سے پہلے آریہ سماج کا سُدھار کریں۔ کانگریس کے ہندو رہنمائوں کے بارے میں ایک مرتبہ لاہور کے عام جلسے میں چوہدری خلیق الزمان سابق صدر یو، پی مسلم لیگ نے فرمایا تھا کہ ہندوئوں کے بڑے سے بڑے سیاسی لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو سے زیادہ سیاست میرا کوچوان جانتا ہے۔ٹھیک یہی بات بھائی پرمانند جی فرماتے ہیں کہ ہندوئوں کی بدقسمتی سے شروع سے ہی کانگریس کے ایسے ہندولیڈروں کے ہاتھوں میں سیاست کی باگ ڈور رہی ہے جو ہندوستان کے مسلمانوں کے سامنے سیاست کے میدان میں طفلِ مکتب ہیں۔جب میں ان حالات پر غور کرتا ہوں تو شاعر کے یہ الفاظ ایک آہِ سرد بن کر بے ساختہ زبان سے نکل جاتے ہیں ؎
یاسیت کی گرد میں لپٹا ہوا
راستہ تاریک ویراں اور اداس
زندگی بے کیف و رنگ و نُور ہے
کارواں منزل سے کوسوں دُور ہے!
جہاں تک میری ذاتی رائے کا تعلق ہے،میں بلا مبالغہ عرض کروں گا کہ آپ کے پروگرام نے ملک کی دیگر تمام سیاسی تحریکوں پر سایہ(shade)ڈال دیا ہے۔آپ کا سارالٹریچر دیکھ جانے کے بعد مجھے بجز ایک کے اورکوئی بھی مسئلہ ایسا نظرنہیں آیا جس میں دیانت داری کے ساتھ آپ سے اختلاف کرسکوں۔ مانتا ہوں کہ آپ کا پروگرام ہر پہلو سے مکمل(complete)اور خود کفایت(self sufficient)ہے۔ صرف دو باتیں جو مجھے کھٹکتی ہیں،جناب کی خدمت میںعریاں پیش کرنے کی جرأت کرتا ہوں۔
آپ کی تصنیف ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کے مطالعے کے بعد میرا یقین تھا کہ سنسکرت زبان پر آپ کا عبور ایک لازمی چیز ہے۔ مگر اس شام سیر کے وقت دورانِ گفتگو میں آپ کا یہ فرمانا کہ آپ نے سب کچھ ویدوں کے بارے میں انگریزی کتابوں سے لیا ہے،سچ مُچ یہ جملہ سن کر ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی شخص برقی رَو کے چھو جانے سے جھٹکا سا محسوس کرتا ہے۔ جیسے آپ نے فرمایا تھا کہ ایچ جی ویلز کا اسلام کے بارے میں براہ راست کیا علم ہے جو انہوں نے اسلام اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پاکیزہ زندگی پربے معنی نکتہ چینی کرکے رکھ دی، بعینہٖ آپ کا سنسکرت زبان سے براہِ راست تعلق نہ ہونے کی وجہ سے وید بھگوان کے بارے میں آپ کے احساسات مستندنہیں کہے جاسکتے۔آپ تسلیم کریں گے کہ ایک زبان سے دوسری زبان میں آزادانہ ترجمہ کرنے پر بھی اصل منشا پورا نہیں ہوتا،چہ جائیکہ اسے پھر تیسری زبان میں پیش کیا جائے۔ رشی دیا نند نے تو مہی دھرا اور رسائن آچاریہ کے وید بھاشیہ کو ہی لغو ٹھیرایا ہے،پھر کہاں آپ ’’مَیکس مُلر‘‘ اور دیگر یورپین اصحاب کے ترجمے سے رائے قائم کرتے ہیں۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ان نیک اور بلند خواہشات کا جو آپ ہندوئوں کے دل ودماغ سے تعصب دُور کرکے انہیں اسلام سے صحیح طورپر روشناس کرانے کے لیے اپنے دل میں رکھتے ہیں،احترام کرتے ہوئے میں مؤدّبانہ گزارش کروں گا کہ آپ آیندہ اپنی ان کتابوں پر نظر ثانی فرماتے وقت،جن میں خاص طور پر ہندولٹریچر کے حوالے (references) پائے جاتے ہیں،کسی ایسے شخص کی امداد حاصل کریں جو ہندو ابھیاس اور ہندو لٹریچر پر براہِ راست عبور رکھتا ہو۔(مجھے ذاتی طور پر ایسے ایک دو اصحاب سے قربت کا فخر حاصل ہے)۔اُمید ہے کہ آپ کی ذات مبارک پر میرا منشا واضح ہوگیا ہوگا۔
آپ نے رسالہ’’ اسلام اور جاہلیت‘‘ کے اخیر میں یہ فرمایا ہے کہ تاریخ شاہد ہے کہ جیسے افراد اس نظریے پر تیار ہوگئے تھے ،نہ ان سے بہتر افراد کبھی رُوئے زمین پر پائے گئے، نہ اس اسٹیٹ سے بڑھ کر کوئی اسٹیٹ انسان کے لیے رحمت ثابت ہوا۔‘‘اگر صاف گوئی پر معاف فرمایا جائے تو میں نہایت ادب وانکسار سے گزارش کروں گا کہ آپ نے یہاں طرف داری سے کام لیا ہے،یہاں تعصب کی جھلک نظر آتی ہے۔ میںصرف ایک بھگوان کرشن کی شخصیت پیش کروں گا، جن کی دو حرفی تقریر نے کہ:
فعل سے وابستگی واجب نہیں تیرے لیے
فرض کی تکمیل کر، خواہش صلہ کی چھوڑ دے
ویر اَرجن جیسے مجاہد پر ایک ہیبت کا عالم طاری کر دیا اور اس کے بازو میں برقی طاقت پیدا کردی، اور اس تاریخی واقعے کی یادگار میںگیتا جیسی ممتاز کتاب ظہور میں آئی۔بڑے بڑے مخالف بھی کرشن بھگوان کی زندگی میں کوئی اخلاقی رخنہ نہ پیش کرسکے ۔’’بھگوان ‘‘کا لفظ میں نے صفتی معنوں میں لیا ہے،اوتار کے معنوں میں نہیں۔ آپ نے ایسی شخصیتوں کو نظر انداز کرکے اسلام سے پہلے کی تاریخ کے معاملے میں تعصب کا ثبوت دیا ہے۔سچ بات تو یہ ہے کہ میری آنکھیں ترستی رہیں کہ آپ کسی جگہ کسی ہندو کیرکٹر کا نمونہ پیش کریں ،مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
آپ نے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں میرے خطوط اور اپنے جوابات شائع فرما کر اسلامی پریس کے لیے دل چسپی کا سامان مہیا کردیا۔ دہلی کا ایک روزنامہ’’حکومت الٰہیہ اور پاکستان‘‘ کے عنوان سے ان خطوط کا حوالہ دے کر آپ پر خوب برسا ہے۔عجیب منطق ہے کہ دیدہ دانستہ عین اسلامی تعلیم کو جھٹلایا جارہا ہے۔
مرحوم مولانا محمد علی صاحب نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ ’’جہاں تک مسلمانوں کے ایمان کا تعلق ہے ،میں ایک فاسق وفاجر مسلمان کو گاندھی جی سے بہتر سمجھتا ہوں۔‘‘لیکن آپ نے اصل اسلام پیش کرکے اور مسلمانوں کی ایمانی قوت کو الم نشرح کرکے نہ صرف مسلمانوں کی ،بلکہ تمام انسانیت کی زبردست خدمت انجام دی ہے۔ آپ کے اسلامی لٹریچر کے طفیل وہ محسوس کررہے ہیں کہ انہیں کیا ہونا چاہیے تھا اور کیا ہوگئے ہیں۔مگر میری گزارش یہ ہے کہ جب آپ کی حکومتِ الٰہیہ ہر فر دِبشر کے لیے انسانیت کے ناطے سے یکساں جاذبیت رکھتی ہے اور آپ کا منشا بھی یہی ہے کہ بلحاظ مذہب وملت اسے عوام تک پہنچایا جائے ۔پھر آپ اپنی مساعی(struggle) کو صرف مسلمانوں تک کیوں محدود رکھتے ہیں؟‘‘

جواب: آپ کا یہ اعتراض صحیح ہے کہ میں نے سنسکرت زبان اور ہندوئوں کی مذہبی کتابوں سے براہِ راست واقفیت کے بغیر محض یورپین ترجموں کے اعتماد پر اپنی کتاب میں ویدوں سے کیوں بحث کی۔ لیکن آپ نے اس بات کا خیال نہیں کیا کہ الجہاد فی الاسلام بالکل میرے ابتدائی عہد کی تصنیف ہے جب مذاہب کے معاملے میں میرا رویہ پُوری طرح پختہ نہیں ہوا تھا اور نہ وہ احتیاط طبیعت میں پیدا ہوئی تھی جو تحقیق کے لیے ضروری ہے۔ اب اگر میں اس کتاب کو دوبارہ لکھوں گا تو ہر اس چیز کی جس کی براہِ راست واقفیت کا موقع مجھے نہیں ہے، ازسرِ نو تحقیق کروں گا۔آپ اگر اس تحقیق میں میری کچھ مدد کرسکتے ہیںتو میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں گا۔کوئی ہندو عالم جو محض حامی دین(defender of the faith) ہی نہ ہو، بلکہ خود محقق بھی ہو اور محققانہ انصاف بھی اپنے اندررکھتا ہو،اگر میری کتاب کے اِس حصے پر جو ہندوئوں سے متعلق ہے، تنقید کرکے مجھے بتائے کہ میں نے کہاں کہاں غلطی کی ہے تو اس سے مجھے بہت مدد ملے گی۔اس کے علاوہ اگر آپ مجھے کوئی ایسی کتاب بتائیں جس میں ہندو مذہب کے مقصدِ جنگ اور قوانین جنگ کو بناوٹ کے بغیر، جیسے کہ بجائے خود وہ ہیں، پیش کیا گیا ہو تو مزید باعثِ شکر گزاری ہوگا۔ ’’بناوٹ کے بغیر‘‘ کی شرط میں اس لیے لگا رہا ہوں کہ آج کل عام طور پر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایک مذہب پر،جیسا کہ وہ بجائے خود ہے،ایمان نہیں رکھتے مگر قومی عصبیت کی خاطر اس مذہب کو اور اپنے مذہبی طرز عمل کو ’’معقول‘‘بنانے کے لیے وہ اکثر موجودہ نظریات کے مطابق ایک نیا مذہب گھڑتے ہیں اورپرانے مذہب کے نام سے اسے پیش کرتے ہیں۔مجھے اس طریقے سے سخت نفرت ہے خواہ اسے مسلمان برتیں یا ہندو یا کوئی اور۔میرا خود بھی یہ طریقہ ہے اور میںپسند بھی صرف ایسے ہی لوگوں کو کرتا ہوں جو اصل مذہب کو، جیسا کہ فی الواقع وہ ہے،ویسا ہی رہنے دیں اور ویسا ہی اسے پیش کریں، پھر اگر وہ ماننے کے لائق ہو تو اُسے مانیں اور ماننے کے لائق نہ ہو تو اسے رد کردیں۔
دوسری چیز جس کی آپ نے شکایت کی ہے،اس پر آپ کو بجائے مجھ سے شکایت کرنے کے خود ہندوئوں سے شکایت کرنی چاہیے تھی اور مجھے بھی اس معاملے میں ان سے شکایت ہے۔ انہوں نے خود اپنے بزرگوں کی سیرتوں کو محفوظ نہ رکھا بلکہ ان کی حقیقی زندگیوں کو افسانوں سے خلط ملط کردیا، اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہودیوں کی طرح انہوں نے بھی اپنی اخلاقی کمزوریوں کو درست ثابت کرنے کے لیے بدترین اخلاقی کمزوریاں اپنے بزرگوں کی طرف منسوب کردیں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان کے جن بڑے بڑے اشخاص کی طرف نگاہیں اس توقع سے اُٹھتی ہیں کہ انہیں اخلاقی پاکیزگی اور عظمتِ انسانیت کے نمونے کی حیثیت سے لیا جاسکے گا، ان سب کے واقعاتِ زندگی تاریخی حیثیت سے مشتبہ بھی ہیں اور افسانویت سے آلودہ بھی۔ اور جن مآخذ کی سند سے ان کے روشن پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں،انہی کی سند سے ایسے تاریک ترین پہلو بھی آمنے آجاتے ہیں جنہیں کسی بڑے انسان کی طرف منسوب کرنا تو درکنار، کسی گھٹیا انسان کی طرف منسوب کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔اسی وجہ سے،نہ کہ کسی قومی یا مذہبی تعصب کی وجہ سے میں مجبوراًعربی تاریخ کے صرف ایک ہی دور کو کمالِ انسانیت کے نمونے کی حیثیت سے پیش کرتا ہوں، کیوں کہ وہ تاریخی حیثیت سے نہایت معتبر ہے۔افسانویت کا اضافہ کرنے کی اگر اس میں کوشش کی بھی گئی ہے تو تاریخی تنقید کے ایسے ذرائع موجود ہیں جن سے اس آلودگی کو پورے منصفانہ طریقے سے چھانٹ کر الگ کیا جاسکتا ہے، اور پھروہاں کسی اخلاقی گندگی کا سرے سے نام ونشان ہی نہیں ملتا۔ یہ تو خدا کی دین ہے جس کے نصیب میں آ جائے۔ اگر عرب نسل کے ایک مختصر گروہ کو یہ فضل نصیب ہوگیا تو اس پر کسی افسوس کی ضرورت نہیں اور نہ افسوس کرنے سے کچھ حاصل ہے ۔بلکہ اگر آپ ہندستانی یا ہندو کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو انسانیت کے لیے جو چیز قابلِ فخر ہے،اس پر آپ کو بھی اسی طرح فخر کرنا چاہیے جس طرح ایک عرب فخر کرسکتا ہے،کیوں کہ انسانیت کے نقطۂ نظر سے جو تاج کسی انسان یا کسی انسانی گروہ کو پہنایا گیا ،وہ ہم سب انسانوں کے لیے تاجِ فخر ہی ہے، خواہ وہ کسی عرب انسان کے سر پر نظر آئے یا ہندستانی انسان کے سر پر! (ترجمان القرآن۔ربیع الاوّل،جمادی الاخریٰ ۶۴ھ، مارچ جون۴۵ء)

گائے،تناسخ اور گرنتھ صاحب:

سوال: حسب ذیل اُمور کے متعلق اپنی معلومات کی روشنی میں حقیقت کی طرف رہنمائی فرمایئے:
(۱) گائے کی تعظیم وتقدیس جو ہندو بھائیوں میں رائج ہے،اس کی وجہ سے سیکڑوں دفعہ ہندو مسلم فسادات واقع ہوچکے ہیں۔آخر یہ کیا مسحوریت ہے کہ ہندوئوں میں بڑے بڑے معقول عالم موجود ہیں لیکن کوئی اس مسئلے کی نوعیت پر غور نہیں کرتا،حتیٰ کہ گاندھی جی جیسے فہمیدہ اور جہاں دیدہ لیڈ ر بھی مذہبیت کی اُسی کشتی پر سوار ہیںجسے عوام نے ایسے ہی چند مسائل پر جوڑ ملا کر تعمیر کیا ہے۔ آپ اس گائے کی پوجا پر روشنی ڈالیں اور واضح کریں کہ یہ کب سے شروع ہوئی اور کیسے پھیلی، تو ممکن ہے کہ کچھ حق پسند ہندو مطمئن ہوجائیں اور اپنی قوم کی اصلاح کریں۔
(۲) تناسخ کا عقیدہ ہندو قوم کے ہاں بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔مَیں نہیں کہہ سکتا کہ ہندوئوں کے سوا کوئی دوسری قوم بھی اس کی قائل ہوئی ہے یا نہیں،تاہم یہ عقیدہ بھی سنجیدہ تنقید کا مستحق ہے۔
(۳) سکھ قوم کی مذہبی کتاب ’’گرنتھ‘‘ صرف اخلاقی پندو نصائح کا مجموعہ ہے اوراس کو بلحاظ موضوع ومباحث ’’گلستاں‘‘،’’بوستاں‘‘ وغیرہ کتا بوں کی صف میں رکھا جاسکتا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مذاہب کے صالح اور صوفی منش بزرگوں کے ارشادات ونصائح اس میں جمع کیے گئے ہیں۔ کتاب کو مدوّن کرنے والے کا منشا کچھ اور معلوم ہوتا ہے۔ مگر اس منشا کے بالکل خلاف اب یہ ایک قوم کی الہامی کتاب بن گئی ہے۔ حالاں کہ اس میں نہ تو تمدنی مسائل سے بحث ہے ،نہ معاشرت سے کوئی سروکار،نہ معاشیات وسیاسیات میں اس میں کوئی رہنمائی مل سکتی ہے۔ مگر میری عقل کام نہیں کرتی کہ تعلیم یافتہ اور ذہین لوگ تک کیوں کر اس پر مطمئن ہیں؟

جواب: آپ نے جو استفسارات کیے ہیں،ان میں سے ہر ایک مفصل بحث چاہتا ہے، لیکن میرے لیے اس وقت ان چیزوں پر تفصیلی بحث کرنا مشکل ہے۔ نمبروار تینوں مسئلوں پر مختصراً اظہارِ خیال کرتا ہوں:
(۱) ہند ومذہب کے متعلق میری معلومات اتنی زیادہ وسیع نہیں ہیں کہ میں اس کے کسی مسئلے پر تحقیقی بحث کرسکوں، اور بغیر کافی معلومات کے کسی چیز پر بحث وتنقیدکرنا مناسب نہیں ہے۔جو تھوڑی بہت واقفیت مجھے حاصل ہے، اس کی بِنا پر میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ قدیم عہد میں جس کو ویدک عہد کہا جاتا ہے،گائے کی تقدیس کا عقیدہ موجود نہ تھا، یا اگر تھا تو بالکل ابتدائی حالت میں تھا۔چنانچہ اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ اس دور میں ہندو گائے کی قربانی کیا کرتے تھے۔ علم الاقوام کی رُو سے بھی یہ ثابت ہے کہ قدیم آریہ قوم خانہ بدوش گلہ بانوں کی تہذیب سے تعلق رکھتی تھی، جس میں گائو پرستی قطعاً مفقود تھی۔بعد میں اس کا سابقہ اس مادری تہذیب سے ہوا جو ہندوستان کی دراوڑی قوموں اور عراق،مغربی ایشیا اور مصر میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس تہذیب کی حامل اقوام زراعت پیشہ تھیں اور ان میں گائے کی تقدیس پائی جاتی تھی۔پس تحقیق اسی طرف ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل کو مصر سے گائو پرستی کی چھوت لگی اسی طرح قدیم آریوں کو بھی یہ چھوت ہندستان آکر لگی ہے۔ جہاں تک گائے کی پوجا کا تعلق ہے وہ تو ہندوئوں کے ایک خاص طبقے میں ہی پائی جاتی ہے لیکن اس کی تقدیس پوری ہندو قوم میں پھیلی ہوئی ہے،بلکہ جو لوگ ہندوئوں سے نکل کر اسلام یا عیسائی مذہب میں داخل ہوئے ہیںان کے بھی ایک اچھے خاصے عنصر میںاس کا کچھ نہ کچھ اثر محض اس لیے پایا جاتا ہے کہ ان کی تبدیلی ذہن پوری طرح نہیں ہوئی۔
خاص طور پر اس عقیدے کی تردید کے لیے کچھ کہنا غالباً مفید نہ ہوگا،کیوں کہ ایک غلط عقیدہ بہت سے دوسرے غلط عقائد کے ساتھ ہم رشتہ ہوتا ہے اور ایک ان سب کی اصل جڑ ہوا کرتی ہے۔ جب تک اصل اور شاخوں کے پورے سلسلے کی اصلاح نہ کی جائے، محض کسی ایک شاخ کو درست کرنے کی کوشش کام یاب نہیں ہوسکتی۔اس قسم کے تمام غلط عقائد کی جڑ یہ ہے کہ انسان اس کائنات کے نظام اور اُ س میں اپنے صحیح مقام اور مالکِ کائنات کے ساتھ اپنے اور دوسری موجودات کے تعلق کی نوعیت کو سمجھنے میں غلطی کرتا ہے۔اس ابتدائی اور بنیادی غلط فہمی سے نتیجے کے طور پر بے شمار غلط فہمیوں کا ایک سلسلہ پیدا ہوجاتا ہے جو سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہوتی ہیں اور ایک پورا نظامِ فکر اور نظامِ زندگی پیدا کردیتی ہیں۔اگر کوئی شخص اس بات کو سمجھ لے کہ اس ساری کائنات کا ایک ہی خالق اور ایک ہی مالک ومتصرف اور ایک ہی حاکم ومدّبر ہے اور انسان دنیا میں اس کے خلیفہ و نائب کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے اور دنیا کی ساری چیزیں انسان کے لیے خادم بنائی گئی ہیں تو ایسا شخص شرک اور مخلوق پرستی اور مادّی یا روحانی یا خیالی چیزوں کی تقدیس کے ہر شائبے سے خود بخود پاک ہوجائے گا اوراس کے دل میں ایک خدا کے سوا کسی کی عبودیت اور کسی کی تقدیس کے لیے جگہ باقی نہ رہے گی۔پھر اگر کسی شخص میں صحیح قسم کا معقول پسندانہ رویہ(true rationalism)موجود ہو تو وہ موروثی تعصبات اور قومی ونسلی تعصبات اور شخصی ونفسیاتی تعصبات سے خود بخود خالی ہوجائے گا اور اپنی فکر اور اپنے عمل کو پوری بے لوثی کے ساتھ اس طریقے پر قائم کرے گا جو سرا سر معقول ہو۔
آپ کو اس بات پر تعجب ہے کہ ہندوئوں میں بڑے بڑے معقول آدمی موجود ہیں جو وسیع علم اور وسیع نظر رکھتے ہیں مگر پھر بھی ان عقائد اور خیالات میں مبتلا ہیں جو سرسری نظر میں بھی جاہلیت کے عقائد اور خیالات محسوس ہوتے ہیں۔اس قسم کا تعجب آپ نے آخری سوال کے سلسلے میں بھی ظاہر کیا ہے۔لیکن آپ دیکھیں گے کہ یہ صورت حال محض کسی ایک قوم ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میںکثرت سے پھیلی ہوئی ہے۔دنیامیں بہت سے غلط فکری اور اعتقادی نظام پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے پیرو وں میں آپ کو ایسے لوگ ملیں گے جو اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ اور نہایت ذکی وفہیم اور اپنے مسلک کی مخصوص گمراہیوں کے سوا دنیا کے تمام دوسرے معاملات میں غایت درجے معقول ہوں گے۔اس کے باوجود ان لوگوں کا ایسی ایسی گمراہیوں میںمبتلا ہونا جن میں سے بعض تو ان کے مخصوص مسلک کو ماننے والوں کے سوا دوسرے تمام لوگوں کو صریحاً غیر معقول محسوس ہوتی ہیں ،بظاہر ایک حیران کن معاملہ نظر آتا ہے۔ مگر اس کی حقیقت پر غور کیا جائے تو اِ س میں حیرت کی کوئی بات نہیں رہتی۔ اس صورت حال کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ انسانوں میں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اپنی عقل اور علم کے استعمال کو زیادہ تر اپنے دنیوی کاروبار اور اپنی جسمانی زندگی کے معاملات ومسائل تک محدود رکھتے ہیں اور اس کی کچھ زیادہ پروا نہیں کرتے کہ جن فکری واخلاقی بنیادوں پر انہوں نے اپنی زندگی کو تعمیر کررکھا ہے یا جن بنیادوں پر تعمیر شدہ زندگی انہوں نے پہلے سے پائی ہے،ان کے متعلق تحقیق کرلیں کہ وہ بجائے خود صحیح بھی ہیں یا نہیں اور ان سے بہتر بنیادیں کہیں ان کو مل سکتی ہیں یا نہیں۔ اوراس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انسانوں میں بہت ہی کم آدمی ایسے ہیں جو نسلی، قومی،شخصی اور نفسانی تعصبات سے آزادہوکر خالص علمی تحقیق اور خالص معقولیت پر اپنے طرز فکر وعمل کی بِنا رکھنے کے لیے آمادہ ہوں ،اگرچہ اس کے مدعی آپ کو بہت ملیں گے۔
(۲) تناسخ کا عقیدہ ہندوئوں کے سوا بعض دوسری قوموں میں بھی پایا گیا ہے اور اب بھی پایا جاتا ہے اور ہندستان سے باہر بھی بعض فلسفیانہ نظاموں میں اس کا نشان ملتا ہے۔ لیکن ہندستان میں جتنی زیادہ گہری جڑیں اس نے پکڑی ہیں،اس کی نظیر دوسری جگہ نہیں ملتی۔اس عقیدے کی اصل دو سوال ہیں جن کو انسان نے ہمیشہ حل کرنے کی کوشش کی ہے اور جو اکثر اپنے آپ کو مختلف شکلوں میں آدمی کے سامنے لاتے رہتے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ دنیا میں مصائب اور آفات (جن میں موت بھی شامل ہے) کیوں پائے جاتے ہیں؟سراسر راحت،لذت، خوشی،سلامتی وعافیت اور ابدی زندگی ہی کیوں نہیں ہے؟اور دوسرا سوال یہ ہے کہ انسانی اعمال کے طبعی نتائج تو اس دنیا میں ایک مقرر ضابطے کے تحت نکلتے نظر آتے ہیں، لیکن اخلاقی نتائج (جن کے ظاہر ہونے کا انسانی فطرت آپ سے آپ مطالبہ کرتی ہے)کیوں ایک مقرر ضابطے کے مطابق ظاہر نہیں ہوتے؟اگر وہ سب یا ان کا ایک جز ظاہر ہونے کے لیے رُکا ہوا ہے تو اس کے ظہور کی شکل کیا ہے؟
ان دونوں سوالات کے بہت سے مختلف جوابات مختلف فلسفیانہ نظاموں میں ملتے ہیں مگر ان سب پر اس مختصر بحث میں گفتگو نہیں کی جاسکتی۔
ہندستان کے فلاسفہ نے،جن کے تصورات آگے چل کر مذاہب کی شکل اختیار کر گئے، ان سوالات کو کرم اور تناسخ کے عقیدے کی شکل میں حل کیا ہے۔وہ اس دنیا کو دارالامتحان کے بجائے ایک دارالعذاب اور ایک طرح کے جیل خانے کی حیثیت سے دیکھتے ہیں،حیاتِ جسمانی کو فی الاصل مصیبت سمجھتے ہیں، اور جسم اور جسمانیات کے ساتھ انسان کے تعلق کو اس بات کی وجہ قرار دیتے ہیں کہ روح قیدِ جسم سے چھوٹ چھوٹ کر بار بار پھر اسی قید خانے میں واپس آتی ہے۔اُن کے نزدیک مصائب اور آفات اور آلام اور اسی طرح خوش حالیاں اور کام یاب زندگیاں ان برے یا اچھے اعمال کا نتیجہ ہیں جو رُوح نے اس وقت کیے تھے جب وہ موجودہ زندگی سے پہلے قیدِجسم میں تھی۔مزید برآں ان کا خیال یہ ہے کہ اعمال کے جو اخلاقی نتائج ایک زندگی میں پوری طرح یا اپنی اصلی شکل میں ظاہر نہیں ہوتے ،ان کے ظہور کی صورت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ انسان اسی دنیا میں بار بار آکر ان کو وصول کرتا رہے۔
یہ ایک وسیع نظام فکر ہے جس کا محض ایک خلاصہ میں نے یہاں بیان کیا ہے۔ یہ پوری زندگی کے متعلق انسان کے نقطۂ نظر اور زندگی کے ہر پہلو کے متعلق اس کے رویے کو متاثر کرتا ہے۔ اس کے تمام فکری وعملی نتائج پر یہاں بحث کرنا مشکل ہے۔ میں صرف اتنا کہہ دینا کافی سمجھتا ہوں کہ دراصل یہ قیاسی فلسفوں(speculative philosophies)کے قبیل کی چیز ہے، اور اس قسم کے تمام فلسفیانہ نظامات کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے سامنے جو مسائل آتے ہیں،ان کو وہ محض تخیل اور منطق اور اٹکل سے کسی ایسے طور پر حل کرلینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کو اپنی حد تک اپنے پیش نظر مسائل کا اطمینان بخش اور دل کو لگتا ہوا جواب مل جائے، قطع نظر اس سے کہ علم،تجربہ،مشاہدہ اور آثارِ کائنات سے اس کی کوئی شہادت ملے یا نہ ملے۔ قیاسی فلسفی اس شہادت کی سرے سے کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔اسے تو فقط اپنے پیشِ نظر سوالات کا ایسا جواب درکار ہوتا ہے جس پر وہ اور اس کے طرز پر سوچنے والے لوگ مطمئن ہوجائیں۔ مگر یہ ظاہر ہے کہ ایسے قیاسات کا امرِ واقعی اور حقیقتِ نفس الامری کے مطابق ہونا کچھ ضروری نہیں ہے۔ بلکہ اس کی بہت کم توقع کی جاسکتی ہے۔ یہ تو ایک تیر ہے جو اندھیرے میں اٹکل سے چلایا جاتا ہے،نشانے پر لگے یا نہ لگے۔ تیر چلانے والے کو خود بھی اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی، بلکہ وہ اس کی بھی پروا نہیں کرتا کہ کسی جگہ اس کے لگنے سے’’کھٹ‘‘ کی آواز بھی آتی ہے یا نہیں۔اس کو مطمئن کرنے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ اپنے قیاس سے اس نے جس کو نشانے کا صحیح رُخ سمجھا، اس طرف اپنی حد تک ٹھیک ٹھیک شست باندھ کر تیر چلادیا۔ایسی تیر اندازی کا نشانے پر لگنا جتنا کچھ متوقع ہوسکتا ہے اتنی ہی کچھ قیاسی فلسفوں کے مطابق ِ حقیقت ہونے کی بھی توقع کی جاسکتی ہے۔
بہت سے قائلین ِ تناسخ خود بھی اپنے عقیدے کی اس خامی کو محسوس کرتے ہیں اور یہ اسی کی تلافی کی کوشش ہے جو کبھی کبھی اخبارات میں کسی ایسی بچی یا بچے کے ظہور کی اطلاع کی شکل میں رونما ہوتی رہتی ہے جو اپنے پچھلے جنم کے حالات سناتی یا سناتا ہے۔ لیکن اوّل تو یہی ایک عجیب بات ہے کہ ایسے بچے صرف ہندوئوں ہی میں پیدا ہوتے ہیں اور ہندو اخبارات تک ہی ان کی خبر پہنچتی ہے۔ دوسری اس سے عجیب تر بات یہ ہے کہ یہ حضرات اپنے فلسفے کی تائید میں تجربے و مشاہدے کے فقدان کی تلافی کے لیے کہیں ایک آدھ ایسے بچے کی پیدایش کو کافی سمجھ لیتے ہیں،حالاں کہ ان کے نظریے کی صحت کے لیے یہ ضروری ہے کہ سارے ہی بچے ایسے پیدا ہوں۔ اگر وہ سزا یا جزا جو انسان کو ایک جنم کے اعمال کی بنا پر دوسرے جنم میں ملتی ہے، طبعی جزا و سزا نہیں بلکہ اخلاقی جزا و سزا ہے تو ہر انسان کو اس کا شعور حاصل ہونا چاہیے کہ وہ کس چیز کی جزا یا سزا پا رہا ہے،کیوں کہ تمام اخلاقی اعمال لازمی طور پر شعوری اعمال ہوتے ہیں اور ان کا نتیجہ بھی لازماً شعوری ہی ہونا چاہیے۔
اس طریق کے برعکس جن لوگوں نے عقل اور اس کے مطالبات اور فطرت اور اس کے تقاضوں اور آثارِ کائنات اوراس کے اشاروں کو نظر انداز کرکے ٹھیٹھ ظاہر بینی کے ساتھ،اور ایک بڑی حد تک مذہبی طرز فکر سے انکار کی خواہش کے ساتھ،تجرہ ومشاہدہ پر اپنی رائے کی بنیاد رکھی ہے،انہوں نے پہلے سوال کی کنہ، کو پہنچنے کی تو ضرورت ہی محسوس نہیں کی بلکہ اپنی تحقیق ورائے کو ’’کیوں ہے‘‘ کے سوال کے بجائے بڑی حد تک صرف’’ کیا ہے‘‘ کے سوال تک محدود رکھا۔ رہا دوسرا سوال، تو اس کے متعلق انہوں نے کسی نہ کسی طرح اپنے نفس کو اس جواب ہی پر مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ سارے اخلاقی نتائج بس اسی دنیا کی ایک ہی زندگی میں ظاہر ہولیتے ہیں جو موت پر ختم ہوجاتی ہے، اور اگر بالفرض وہ ظاہر نہیں ہوتے تب بھی بہرحال موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے کیوں کہ وہ براہِ راست ہمارے تجرہ ومشاہدہ میں نہیں آئی لیکن انسان خواہ کتنی ہی کوشش کرے، اس جواب سے اس کے قلب کا اطمینان کسی طرح ممکن نہیں۔
اب رہایہ امر کہ انبیا علیہم السلام کے لائے ہوئے دین میں ان دونوں سوالات کا کیا جواب ہے اور وہ کن دلائل سے معقول ترین جواب ہے، تو اس پر میں اپنے مضامین مثلاً’’رسالۂ دینیات‘‘’’اسلامی تہذیب اور اس کے اُصول ومبادی‘‘، ’’زندگی بعد موت‘‘،’’ اسلام اور جاہلیت‘‘ اور تفسیر سورۂ اعراف میں تفصیل کے ساتھ بحث کرچکا ہوں۔ لہٰذا یہاں اس کے اعادے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ یہ واضح کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ تمام مابعد الطبیعیاتی مسائل میں یہ اُصول مشترک ہے کہ ان کا کوئی حل بھی، خواہ وہ نفی کی شکل میں ہو یا اثبات کی شکل میں ،ایسا قطعی الثبوت نہیں ہوسکتا جیسے دو اور دو کا چار ہونا قطعی الثبوت ہے کہ اس کو مان لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ایسے مسائل کا زیادہ سے زیادہ معقول حل، جس کے مطابق حقیقت ہونے کا اغلب گمان کیا جا سکتا ہو، صرف وہی ہو سکتا ہے جو عقل اور فطرت کے تمام مطالبوں اور تقاضوں کو پورا کرتا ہو، جس کی طرف آثارِ کائنات اور تجربات ومشاہدات میں واضح اشارات پائے جاتے ہوں،جس سے زندگی کے ان تمام مسائل کو حل کیا جاسکتا ہوجو اس خاص مسئلے سے دور یا قریب کا تعلق رکھتے ہیں، جس پر عقلاً کسی اعتراض کی گنجایش نہ ہو،جس کے مان لینے سے کچھ دوسرے ناقابلِ حل مسائل نہ پیدا ہوتے ہوں،جنہیں کسی دوسرے طریقے سے رفع کرنا ممکن نہ ہو، اور جس کے خلاف کوئی ثبوت نہ دیا جاسکتا ہو۔عقل زیادہ سے زیادہ ان سوالات کے کسی حل کو اغلبmost probable) (سمجھنے کی حد تک ہی ہمیں لے جاسکتی ہے۔اس کے آگے یقین حاصل کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ ایسا حل پیش کرنے والوں کی زندگیوں کو، ان کے پیش کردہ پورے نظامِ فکر وعمل کی معقولیت کو اور ان کے کام اور اس کے نتائج کو دیکھ کر ان پر ایمان بالغیب لایا جائے۔
(۳) گرنتھ صاحب کا مطالعہ میں نے خود تو نہیں کیا۔جس حد تک میں نے مطالعہ کرنے والوں سے معلومات حاصل کی ہیں،ان کی بِنا پر میں آپ کے اس خیال سے متفق ہوں کہ سکھ مذہب محض ایک صوفیانہ مذہب ہے اور اس میں انسان کی زندگی کے بڑے بڑے مسائل مثلاً تمدن ومعاشرت، سیاست و معیشت، عدالت وقانون، صلح وجنگ وغیرہ کے متعلق کوئی ایسی ہدایت موجود نہیں ہے جس پر دنیا میں ایک سوسائٹی اور ایک اسٹیٹ کی تعمیر ہوسکے۔لیکن جس وجہ سے سکھوں کے تعلیم یافتہ اور صاحب فکر وفہم لوگ اپنی جستجوئے حق اور تلاشِ ہدایت کو معطل کیے ہوئے اس مذہب پر قانع ہیں،اس کی تشریح میں پہلے سوال کے جواب میں کرچکا ہوں۔
(ترجمان القرآن۔ صفر ۶۵ھ، جنوری ۴۶ء)

علمِ ظاہر اور علمِ باطن:

سوال: اسلاف کی کتابیں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ’’علمِ باطنی‘‘ ایک ایسا علم ہے جو قرآن و حدیث وغیرہ علوم سے جدا محض ریاضات ومجاہدات سے حاصل ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اُمت مسلمہ میں بکثرت انسان ایسے ہوئے ہیں جن کی زندگیوں میں یہ ترتیب ملتی ہے کہ پہلے انہوں نے کتاب و سنت اور فقہ وکلام وغیرہ علوم کی تحصیل کی اور ان کو’’علمِ ظاہری‘‘ کا خطاب دیا۔ اس کے بعد’’ علوم باطنی‘‘ کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کے لیے سخت ریاضتیں کیں، تب کہیں جاکر انہیں’’روحانی ‘‘علوم حاصل ہوئے اور ان کو انہوں نے ہمیشہ علومِ ظاہری پر ترجیح دی۔ براہ کرم کچھ اس پر روشنی ڈالیں کہ اسلامی نقطۂ نظر سے علمِ باطنی کی کیا تعریف ہے؟اس کی حقیقت کیا تھی؟اس میں کتنی رنگ آمیزیاں ہوئیں؟کیا یہ علم ریاضات ومجاہدات کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا؟اور کیا علومِ ظاہری کی تحصیل کے بغیر بھی یہ علم حاصل ہوسکتا ہے؟

جواب: آپ کا سوال بہت تفصیل طلب ہے۔اس کے مختلف پہلوئوں پر میں بارہا اپنے مضامین میں روشنی ڈال چکا ہوں۔اگرچہ براہِ راست اس خاص موضوع پر کچھ نہیں لکھا ہے۔
ظاہر سے مراد اگر احکامِ شریعت ہوں اور باطن سے مراد حکمتِ دین،یا ظاہر سے مراد احکامِ شرعی کی تعمیل ہو اور باطن سے مراد یہ ہو کہ آدمی اس اعتقادی واخلاقی روح کو سمجھے اور اپنے نفس اور سیرت وکردار میں اسے جاری وساری کرے جو احکام شرعی کی تعمیل میں درحقیقت مطلوب ہے، تو یقینا ظاہر اور باطن کی یہ تفریق درست ہے، لیکن اس تفریق کے لحاظ سے باطن کا سرچشمہ بھی وہی ہے جو ظاہر کا سرچشمہ ہے،یعنی خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت۔ یہی تلاوت قرآن،یہی مطالعۂ سیرت پاک اور یہی صلوم وصلوٰۃ اور دوسرے شرعی احکام،جس طرح ظاہر کی اصلاح کے لیے کافی ہیں، اسی طرح باطن کی تکمیل کا ذریعہ بھی ہیں۔اس غرض کے لیے ان چیزوں سے الگ کسی مجاہدہ وریاضت کی ضرورت نہیں ہے۔
لیکن اگر باطن سے مراد وہ فلسفے ہیں جو یونا ن اور روم اور ایران اور ہند سے آئے اور تصوف کے نام سے مسلمانوں میں رائج ہوگئے، تو وہ چاہے جس چیز کا باطن بھی ہوں، بہرحال اسلام کا باطن تو نہیں ہیں۔ جو مشقیں اور ریاضتیں اس غرض سے کی جاتی ہیں کہ ان فلسفوں کی رُو سے جس شے کو ’’حقیقت‘‘ سمجھا گیا ہے ،اس کا مشاہدہ حاصل ہو اور آدمی کشف اور خرقِ عادت اور صدورعجائب پر قادر ہوجائے،ان کی شکلیں چاہے اسلامی نماز روزے سے ملتی جلتی ہی کیوں نہ ہوں، اور ان میں اسلامی اصطلاحات کا استعمال ہی کیوں نہ کیا جاتا ہو،بہرحال وہ اسلامی عبادات کی تعریف میں نہیں آتیں،کیوں کہ ان کی غرض اسلامی عبادات کی غرض سے،اور ان کا ضابطہ سنت نبوی کے مقرر کردہ ضابطے سے مختلف ہے۔ (ترجمان القرآن۔جمادی الاولیٰ ۶۵ھ، اپریل ۴۶ء)

حبش پر مسلمانوں کے حملہ آور نہ ہونے کی وجہ:

سوال: مصر کے مفتوح ہوجانے کے بعد خلافت راشدہ کے زمانے میں حبش کی جانب فتوحات کے لیے قدم کیوں نہ بڑھایا گیا؟ کیا محض اس وجہ سے کہ وہاں کے ایک سابق حکمران نے مسلمانوں کو پناہ دی تھی اور ایک سابق بادشاہ مسلمان ہوگیا تھا؟

جواب: اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمارے پاس مکمل مواد موجود نہیں ہے۔البتہ ابودائود اور مسند امام احمد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ملتا ہے جس میں حبش کے متعلق آپؐ نے یہ پالیسی متعین فرما دی تھی کہ دعوا الحبشۃ ما دعوکم دوسری روایت کے الفاظ ہیں: اترکوا الحبشۃ ما ترکوکم یعنی ’’حبش کے لوگ جب تک تمہیں چھوڑے رکھیں،تم بھی انہیں چھوڑے رکھو۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ اسی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے خلفائے راشدین کے دور میں حبش کی طرف کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔اس ارشاد میں جو مصلحت تھی، ممکن ہے کہ اس میں کسی حد تک اس بات کا لحاظ بھی ہو کہ اہلِ حبش نے مسلمانوں کو ان کی مصیبت کے وقت جو پناہ دی تھی ،اس کی رعایت کی جائے اور اپنی طرف سے ان کے خلاف پہل نہ کی جائے تاکہ دنیا کو کبھی یہ غلط فہمی لاحق نہ ہوسکے کہ مسلمان ایک احسان فراموش جماعت ہیں۔ لیکن اس کی ایک اوروجہ بھی نظر آتی ہے۔وہ یہ کہ حبش کی جغرافی پوزیشن اور اس کی سابق تاریخ کو دیکھتے ہوئے غالباً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خیال فرمایا ہوگا کہ اسلام کے جغرافی مرکز، یعنی حجاز کے تحفظ کے لیے حبش سے تعلقات کا درست رہنا ضروری ہے۔اسی مصلحت سے آپؐ نے یہ ہدایت فرمائی ہوگی کہ جہاں تک اسلام کی دعوت کا تعلق ہے ،وہ پُرامن طریقے سے اس ملک میں پھیلائی جاتی رہے،لیکن جنگ سے حتی الامکان پرہیز کیا جائے۔ (ترجمان القرآن۔رجب شعبان۶۳ھ، جولائی اگست ۴۳ء)

کائناتی اور حیاتی ارتقا:

سوال: آپ نے رسالہ ’’ترجمان القرآن’’ جلد۴، عدد۶، صفحہ ۳۹۶ تا ۳۹۷ میں اسلامی تہذیب اور اس کے اُصول ومبادی کے زیر عنوان نظام عالم کے انجام کے متعلق جو کچھ تحریر فرمایا ہے،اسے سمجھنا چاہتا ہوں۔آپ نے لکھا ہے کہ’’ اس نظام کے تغیرات وتحولات کا رُخ ارتقا کی جانب ہے۔ ساری گردشوں کا مقصود یہ ہے کہ نقص کو کمال کی طرف لے جائیں۔‘‘ وغیرہ۔ آخر یہ کس قسم کا ارتقا ہے؟ حیوانی زندگی میں؟ جماداتی یا انسانی زندگی میں؟ یا مجتمعا تمام نظامِ عالم کی زندگی میں یہ ارتقا کار فرما ہے؟ نیز اگر ہر بگاڑ سے ارتقائی اصلاح ظاہر ہوتی ہے تو پھر تو وہی بات ہوئی جو ہیگل نے (thesis and antithesis)اور ڈارون نے(survival of the fittest) میں پیش کی ہے۔براہِ کرم مدعا کی وضاحت کیجیے۔

جواب: جس ارتقا کا میں نے ذکر کیا ہے،وہ ہیگل اور ڈارون دونوں کے نقطۂ نظر سے مختلف ہے۔ ہیگل تو تصورات اور خیالات کی نزاع کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اسی نزاع کی بدولت تصورات کا ارتقا ہوتا ہے اور ڈارون حیات کے ارتقا کا ذکر کرتا ہے اور اس کے نزدیک یہ ارتقا تنازع للبقا (struggle for existance)، انتخاب طبعی(natural selection) اور بقائے اصلح(survival of the fittest) کے اصول سہ گانہ کے ماتحت واقع ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف میں نے آپ کی دریافت کردہ عبارت میں جو بات کہی ہے وہ یہ ہے کہ قدرت الٰہی کم تر درجے کی چیزوں سے تخلیق کی ابتدا کرکے بتدریج بلند تر درجے کی چیزیں پیدا کرتی رہی ہے۔مثلاً جمادات پہلے پیدا کیے گئے،اس کے بعد نباتات،پھر حیوانات، اور حیوانات میں بھی کم تر درجے کے حیوانات پہلے پیدا کیے گئے اور پھر بتدریج اعلیٰ قسم کے حیوانات پیدا کیے جاتے رہے، یہاں تک کہ بلند ترین نوع یعنی انسان کو پیدا کیا گیا۔قدرت کا یہی قاعدہ اس عالم پر بحیثیت مجموعی بھی جاری ہونا چاہیے،یعنی موجودہ نظام عالم بحیثیت مجموعی ناقص ہے، لہٰذا اس کے بعد ایک دوسرا نظامِ عالم ہونا چاہیے جو اس سے کامل تر ہو، اور اسی نظام کا نام عالمِ آخرت ہے۔ گویامیرے نزدیک موجودہ نظامِ عالم کے بعد عالمِ آخرت کا آنا قدرت کے قانون ارتقا کا ایک لازمی تقاضا ہے۔
(ترجمان القرآن۔محرم،صفر ۶۴ھ، جنوری فروری ۴۵ء)
……٭٭٭……

سرکاری نرخ بندی پر چند سوالات:

سوال: حکومت ایک جماعت کو کچھ اشیا ارزاں قیمت پر مہیا کرتی ہے ۔دوسری جماعت کے افراد اس رعایت سے محروم رکھے جاتے ہیں۔پھر کیا مؤخر الذکر طبقے کا کوئی فرد پہلی جماعت کے کسی فرد کے ذریعے حکومت کی اس رعایت سے استفادہ کرسکتا ہے؟مثلاً مروّت یا دبائو سے رعایت پانے والی جماعت کا کوئی فرد محرومِ رعایت جماعت کے کسی فرد کو کوئی چیز اپنے نام سے کم قیمت پر خرید کر دے سکتا ہے؟یا اس کی کسی پرانی چیز کو نئی چیز سے بدلوانے کا شرعاً مجاز ہے؟

جواب: آپ نے جس معاملے کا ذکر کیا ہے وہ دراصل دو مختلف پہلو رکھتا ہے، جن کا حکم الگ الگ ہے۔
اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ کسی خاص گروہ کے لیے نرخوں میں جو رعایت کی گئی ہے،اس سے دوسرے لوگ فائدہ اُٹھائیں۔ یہ بات حکومت کے قانو ن کی رُو سے ناجائز ہو تو ہو،اخلاقاً اس میں مجھے کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔درحقیقت اس وقت قیمتوں کا چڑھائو کسی اصلی گرانی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محض ایک مصنوعی چڑھائو ہے جو حکومت اور ملک کے سرمایہ دار طبقے نے بالکل ارادتاً پیداکیا ہے۔(واضح رہے کہ یہ جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔) عام باشندے اس گرانی سے خواہ مخواہ مبتلائے مصیبت کردیے گئے ہیں۔بعض خاص گروہوں کے ساتھ جو رعایت کی جارہی ہے، درحقیقت تمام باشندگانِ ملک اس کے مستحق تھے، لیکن حکومت نے ملک میں عام گرانی پیدا کرکے اپنی خاص خدمات انجام دینے والوں کے لیے کچھ رعایتیں اس غرض سے رکھ دی ہیں کہ ان رعایتوں کے لالچ سے لوگوں میں ان خدمات کی طرف میلان پیدا ہو اور جن خادموں کے ساتھ یہ رعایات کی گئی ہیں وہ حکومت کے احسان مند ہوں۔یہ غرض بجائے خود ناجائز ہے،اس لیے اگر کوئی اس بندش میں رخنہ پیدا کرے تو میں نہیں سمجھتا کہ وہ کسی اخلاقی قانون کی خلاف ورزی کا مجرم ہوگا۔تاہم زبردستی کا قانون ایک الگ چیز ہے جس کے لیے کسی اخلاقی بنیاد کی ضرورت نہیں۔
معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پرانی چیز دے کر کسی خفیہ طریقے سے نئی چیز اس کے بدلے میں حاصل کرلی جائے۔ یہ البتہ ایک خلافِ اخلاق فعل ہے جس سے ہر ایمان دار آدمی کو اجتناب کرنا چاہیے۔

سوال: آج کل کنٹرول کا زمانہ ہے، مگر کوئی مال دکان دار کو کنٹرول نرخ پر دستیاب نہیں ہوتا۔ وہ چور بازار (black market)سے مال خرید کر گاہکوں کو سپلائی کرتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ ایسے مال کو کنٹرول ریٹ پر بیچنے میں اسے خسارہ ہوتا ہے۔لامحالہ وہ زیادہ نرخ لگاتا ہے، مگر بعض لوگ اس خرید وفروخت کو بے ایمانی اور فریب قرار دیتے ہیں اورپولیس بھی اس پر گرفت کرتی ہے۔ اس باب میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب: اخلاقی حیثیت سے حکومت کو تسعیر(نرخ بندی)(price control) کرنے کا اس وقت تک کوئی حق نہیں ہے جب تک کہ وہ اپنی مقرر کردہ قیمتوں پر لوگوں کو مال دلوانے کا انتظام نہ کرے۔اس چیز کا انتظام کیے بغیر محض اشیا کے نرخ مقرر کردینے کے معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں کے پاس اشیا کے ذخائز ہوں وہ ان کو چھپا دیں اورپھر یاتو ان کا بیچنا بند کردیں یا قانون کی گرفت سے بچتے ہوئے خفیہ طور پر زائد قیمتوں پر بیچیں۔ جو حکومت اس نتیجے سے محض عقلاً ہی واقف نہیں ہے بلکہ تجربے اور مشاہدے کی رو سے بھی واقف ہوچکی ہے ،وہ اگر اس پر بھی نرخ مقرر کرنے کا طریقہ اختیار کرتی ہے تو اسے اخلاقاً یہ مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ عام خریدار اور بیوپاری اس کے مقرر کردہ نرخوں کی پابندی کریں۔
اس وقت یہ صریح طور پر نظر آرہا ہے کہ عام خریدار اور چھوٹے چھوٹے خردہ فروش تاجر اگر بڑے صاحبِ ذخیرہ تاجروں سے حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر کوئی چیز لینا چاہتے ہیں تو انہیں کچھ نہیں ملتا،اور اگر وہ ان سے چور بازارکی قیمتوں پر مال خریدتے ہیں تو پھر ان کے لیے یہ کسی طرح ممکن نہیں رہتا کہ اسی مال کو آگے کھلے بازار میں حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر فروخت کرسکیں۔ ایسی حالت میں جو شخص اپنی روزی کمانے یا اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے چور بازار سے مال خریدتا ہے وہ ہرگز کسی اخلاقی جرم کا ارتکاب نہیں کرتا، اور اگر وہ آگے اس طرح کے مال کو سرکاری نرخ سے زیادہ قیمتوں پر فروخت کرتا ہے،تب بھی وہ کسی قاعدے سے اخلاقی مجرم نہیں ہے۔ایسے شخص کو گرفتار کرکے اگر اسے سزا دی جائے گی تویہ حکومت کا مزید ایک ظلم ہوگا۔
جماعت اسلامی کے ارکان میں سے جو لوگ تاجر ہیں،انہیں ایسی صورت پیش آئے تو ان کو چاہیے کہ کچہری میں وکیل کے بغیر حاضر ہوں،معاملے کی اس صورت کو صاف صاف مجسٹریٹ کے سامنے رکھ دیں، اور پھر بلا تامل اس سے کہیں کہ اگر اس صورت حال میں بھی آپ کی حسِ انصاف ہمیں مجرم سمجھتی ہے تو ضرور سزا دیجیے، ہم آپ کی ان عدالتوں سے بالا تر ایک عدالت سے توقع رکھتے ہیں کہ آخر کار وہ ہمارا اور آپ کا انصاف ضرور کرے گی۔
’’تسعیر‘‘ کے سلسلے میں چوں کہ ذکر آگیا ہے اس لیے میں مختصراً یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس معاملے میں اسلام کی پالیسی کیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک مرتبہ مدینہ طیبہ میں قیمتیں چڑھ گئیں۔ لوگوں نے حضورؐ سے عرض کیا کہ آپؐ قیمتیں مقرر فرمادیں۔آپ ؐ نے جواب دیا:
ان السعر غلأوہ ورخصہ بید اللّٰہ وانی ارید ان القی اللّٰہ ولیس لاحد عندی مظلمۃ یطلبنی بھا۔
’’قیمتوں کا چڑھنا اور گرنا اﷲ کے ہاتھ میں ہے (یعنی قدرتی قوانین کے تحت ہے) اور میں چاہتا ہوں کہ اپنے خدا سے ملوں تو اس حال میں ملوں کہ کوئی شخص میرے خلاف ظلم وبے انصافی کی شکایت کرنے والا نہ ہو۔‘‘
اس کے بعد آپؐ نے مسلسل اپنے خطبوں میں،بات چیت میں،اور لوگوں سے ملاقاتوں میں یہ فرمانا شروع کیا کہ:
الجالب مرزوق والمحتکر ملعون۔
’’ضروریاتِ زندگی کو بازار میں لانے والا خدا سے رزق اور رحمت پاتا ہے اور ان کو روک رکھنے والا خدا کی لعنت کا مستحق ہوتا ہے۔‘‘
من احتکر طعامًا اربعین یومًا یرید بہ الغلاء فقد بریٔ من اللّٰہ وبری اللّٰہ منہ۔
’’جس نے چالیس دن تک غلہ روک کر رکھا تاکہ قیمتیں چڑھیں ، تو اﷲ کا اس سے اور اس کا اﷲ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
بئس العبد المحتکر ان ارخص اللّٰہ الا سعارحزن وان اغلاھا فرح۔
کتنا برا ہے وہ شخص جو اشیائے ضرورت کو روک کر رکھتا ہے۔ارزانی ہوتی ہے تو اس کا دل دُکھتا ہے، گرانی بڑھتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے۔
من احتکر طعامًا اربعین یومًا ثم تصدق بہٖ لم یکن لہ کفارۃ۔
’’جس نے چالیس دن تک غلا کوروک رکھا، پھر اگر وہ اس غلّے کو خیرات بھی کردے تو اس گناہ کی تلافی نہ ہوگی جو ان چالیس دنوں کے دوران میں کرچکا ہے۔‘‘
اس طرح نبیؐ احتکار کے خلاف مسلسل تبلیغ وتلقین فرماتے رہے، یہاں تک کہ تاجروں کے نفس کی اصلاح خودبخود ہوگئی اور جو ذخیرے روکے گئے تھے، وہ سب بازار میں آگئے۔
یہ شان ہے اس حکمران کی جس کی حکومت اخلاق فاضلہ کی بنیادوں پر قائم ہو۔اس کی اصل قوت پولیس اور عدالت اور کنٹرول اور آرڈی نینس نہیں ہوتے، بلکہ وہ انسانوں کے قلب وروح کی تہوں میں برئی کی جڑوں کا استیصال کرتا ہے،نیتوں کی اصلاح کرتا ہے، خیالات اور ذہنیتیں بدلتا ہے، معیارِ قدربدلتا ہے اورلوگوں سے رضاکارانہ اپنے ان احکام کی پابندی کراتا ہے جو بجائے خود صحیح اخلاقی بنیادوں پر مبنی ہوتے ہیں۔برعکس اس کے یہ دنیوی حکام،جن کی اپنی نیتیں درست نہیں ہیں،جن کے اپنے اخلاق فاسد ہیں،اور جن کی حکمرانی کے لیے جابرانہ تسلط کے سوا کوئی دوسری بنیادبھی موجود نہیں ہے،انہیں جب کبھی اس طرح کے حالات سے سابقہ پیش آتا ہے جیسے آج کل درپیش ہیں،تو یہ سارا کام جبر سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیںا ور اخلاق کی اصلاح کرنے کے بجائے عامۃ الناس کے اخلاقی بگاڑمیں جو تھوڑی بہت کسررہ گئی ہے ،اسے بھی پورا کرکے چھوڑتے ہیں۔

(ترجمان القرآن۔رجب،شوال ۶۳ھ، جولائی اکتوبر ۴۴ء)

سرکاری نرخ بندی کے سلسلے میں مزید ایک سوال:

سوال: آڑھت کے سلسلے میں ہم کو گندم خریدنی پڑتی ہے ۔گندم کی خرید وفروخت کے لیے اس وقت کنٹرول ریٹ مقرر ہے،لیکن اس مقررہ نرخ پر گندم ملنی ممکن نہیں ہے۔منڈی کے تمام بیوپاری قدرے گراں نرخ سے خرید وفروخت کرتے ہیں مگر رجسٹروں میں اندراج کنٹرول ریٹ کے مطابق کرتے ہیں۔دکان دار خرید وفروخت میں کنٹرول ریٹ سے زائد جو قیمت لیتا دیتا ہے، اس کا حساب دکان دار کے کھاتوں سے نہیں بلکہ اس کی جیب سے متعلق ہوتا ہے۔ اب آپ فرمایئے کہ کیا اپنے استعمال کے لیے اور تجارت کے لیے اس ڈھنگ پر گندم خریدنا جائز ہے؟ نیز یہ امر بھی واضح ہونا چاہیے کہ اگر اس قسم کا کوئی معاملہ عدالت کی گرفت میں آجائے جس کا ہر وقت امکان ہے، تو کیا یہ جائز ہوگاکہ عدالت میں بھی کھاتے کے جھوٹے اندراجات کے مطابق بیان دیا جائے؟واضح رہے کہ سچ بولنے سے ڈیفنس آف انڈیا رولز کے تحت عدالت مقررہ سزا نافذ کردے گی۔

جواب: ان حالات میں آپ اپنے استعمال کے لیے تو بہرحال گیہوں خرید ہی سکتے ہیں۔کیوں کہ اس صورت میں حساب رکھنے کا کوئی سوال نہیں ہے۔البتہ دکان کے معاملے میں ایک قباحت یہ ہے کہ جس بھائو سے فی الواقع مال خریدا جاتا ہے ،اس کا کھاتے میں اندراج پُر خطر بنادیا گیا ہے۔اگر اس کاروبارسے بچنے کی صورت ہو تو بہتر ہے، اور اگر آپ کے لیے بس یہی ایک ذریعۂ معاش ہو،اور اس کے سوا کسی دوسرے کام سے رزق پیدا کرنا آپ کے لیے ممکن نہ ہوتو پھر جائز طور پر جو طریق کار آپ اختیار کرسکتے ہیں،وہ یہ ہے کہ اپنے حسابات اپنے واقعی لین دین کے مطابق ہی رکھیں،اور جب گرفتار کیے جائیں تو عدالت میں بالکل ٹھیک ٹھیک بیان دے دیں۔عدالت سے صاف کہیے کہ اس حکومت نے اپنی غلط پالیسی سے پورے ملک کوجھوٹا بننے پر مجبور کردیا ہے۔کنٹرول کیا تھا تو کنٹرول ریٹ پر اشیائے ضرورت کی فراہمی کا ذمہ بھی اس کو لینا چاہیے تھا۔ لیکن اس نے یہ انتظام توکیا نہیں اور نرخ مقرر کردیے۔ اب اگر ہم اس کے مقرر کیے ہوئے نرخوں کے مطابق مال خریدنے پر اصرار کرتے ہیں تو بازار سے ضروریات زندگی فراہم کرنا غیر ممکن ہے ۔ کنٹرول ریٹ کا نام لیا جائے تو بائع سرے سے مال ہونے کا ہی انکار کردیتا ہے، اور بلیک مارکیٹ سے اپنی ضروریات پوری کی جائیں تو آپ گلا دبانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ بہرحال ہم نے جتنے میں مال خریدا ہے ہم تو وہی ظاہر کریں گے۔آپ کے قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے جھوٹ بولنے کی وہ پالیسی ہم اختیار نہیں کرسکتے جو ملک کے لاکھوں کروڑوں باشندوں نے مجبوراً اختیار کررکھی ہے۔ آپ کا انصاف اگر ہمیں مجرم سمجھتا ہے تو ضرور سزا دیجیے۔ مگر انصاف کے جن اصولوں سے انسانی عقلِ عام واقف ہے،ان کی رُو سے تو کنٹرول آرڈی نینس جاری کرنے والے بزرگ سے لے کر نیچے تک وہ سارا عملہ اصل مجرم ہے جو ان احکام کو نافذ کررہا ہے اورجس کی زبردستی سے سارا ملک جھوٹ اور بے ایمانی کے طریقے اختیارکرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔

(ترجمان القرآن۔ ربیع الثانی ۶۵ھ، مارچ ۴۶ء)

بِکر ی ٹیکس:

سوال: میں بزازی کا کاروبار کرتا ہوں۔یکم اپریل ۴۸ء سے ہم پر بِکری ٹیکس لگایا گیا ہے اور ہمیں اختیار دیا گیا ہے کہ یہ ٹیکس اپنے گاہکوں سے وصول کرلیں۔لیکن عام دکان دار نہ تو گاہکوں سے یہ ٹیکس وصول کرتے ہیں اور نہ خود ادا کرتے ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ اپنی روزمرہ کی اصل فروخت کا حساب وہ اپنے باقاعدہ رجسٹروں میں درج ہی نہیں کرتے۔حکومت کے کارندوں کو وہ اپنے فرضی رجسٹر دکھاتے ہیں اور جب ان کے رجسٹروں پر کسی شک کا اظہار کیا جاتا ہے تو رشوت سے منہ بند کردیتے ہیں۔ دوسرے دکان داروں کے لیے تو یہ جعل اور رشوت آسان ہے مگر ایک ایمان دار تاجر کیا کرے؟ وہ خریداروں سے ٹیکس وصول کرتا ہے تو اس کا مال فروخت نہیں ہوتا کیوں کہ پاس ہی ایک ایسا دکان دار بیٹھا ہے جو ٹیکس لیے بغیر اس کے ہاتھ مال فروخت کرتا ہے۔ اور اگر وہ خریدار سے ٹیکس وصول نہیں کرتا تو اسے اپنے منافع میں سے یہ ٹیکس دینا پڑتا ہے۔اس صورت میں بسا اوقات اسے کچھ نہیں بچتا بلکہ بعض چیزوں میں تو نفع اتنا کم ہوتا ہے کہ پورا نفع دے دینے کے بعد تاجر کو کچھ اپنی گرہ سے بھی دینا پڑ جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ ہم تجارت چھوڑ دیں یا فرضی حسابات رکھنے شروع کردیں؟
مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم جو صحیح حسابات رکھتے ہیں،انہیں بھی سرکاری کارندے فرضی سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ جہاں۹۹فی صدی تاجروں کے حسابات فرضی ہوں وہاں ایک فی صدی کے متعلق انہیں یقین نہیں آتا کہ اس کا حساب صحیح ہوگا۔ اس لیے وہ اپنے قاعدے کے مطابق ہماری بکری کا اندازہ بھی زیادہ لگا کر ہم سے زیادہ ٹیکس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اب کیا ہم اس سے بچنے کے لیے انہیں رشوت دیں؟یا ایمان داری کی پاداش میں زائد ٹیکس کا جرمانہ بھی ادا کریں؟

جواب: یہ سوال دراصل ہم سے نہیں بلکہ حکومت سے کیا جانا چاہیے تھا۔ اس کی پیداکی ہوئی مشکلات کا حل خود اسی کو تجویز کرنا چاہیے۔ اس نوعیت کے سوالات اگر اس کے پاس بھیجے جائیں تو کیا عجب کہ ذمہ دارانِ حکومت کا ضمیر انہیں یہ سوچنے پرمجبور کردے کہ ان کے طریقِ کار میں آخر وہ کیا غلطی ہے جس کی وجہ سے ساری قوم کو جھوٹ،خیانت اور بے ایمانی کی تربیت مل رہی ہے۔
پھر یہ بھی ایک قابلِ غور معاملہ ہے کہ پہلے تو ایک بیرونی قوم اپنے مفاد کے لیے ہم پر حکومت کررہی تھی اس لیے لوگوں کو نہ اس پر اعتمادتھا،نہ اس سے کوئی دل چسپی اور محبت تھی، اور نہ اس کاکوئی حق وہ اپنے اوپر مانتے تھے۔ مگر اب تو وہ پاکستان بن چکا ہے جس کے عشق میں ساری قوم برسوں سے دیوانی ہورہی تھی، اور اس کا انتظام وہ لوگ سنبھالے ہوئے ہیں جو قوم کے محبوب رہنما تھے۔اب کیا بات ہے کہ اسی پاکستان کا نظم ونسق چلانے اور اسے مستحکم کرنے اور ترقی دینے کے لیے جب ٹیکس لگائے جاتے ہیں تو قوم کی بہت بڑی اکثریت ان کو ادا کرنے سے جی چراتی ہے؟کیا اس کی وجہ محض قوم کی بے حسی اور نالائقی ہے؟یا اس میں کچھ ہمارے سربراہ کار وں کی اپنی کوتاہیوں کا بھی دخل ہے؟اگر ٹیکس دینے والا یہ دیکھتا کہ پاکستان کے لیے جس اثیار وقربانی کا اس سے مطالبہ کیا جاتا ہے اُسی اثیار سے حکومت کے کارفرما حضرات خود بھی کام لے رہے ہیں اور اگر ٹیکس دینے والے کو یہ اطمینان ہوتا کہ جو کچھ اس سے لیا جارہا ہے وہ واقعی اس کی اور ملک کی فلاح وبہبود پرخرچ ہوتا ہے نہ کہ چند لوگوں کی عیاشیوں پر،تو کیا پھر بھی وہ اپنی حکومت کے مصارف میں حصہ لینے سے یوںہی گریز کرتا؟
سائل کو اور اس جیسے تمام ایمان دار تاجروں کو میرا مشورہ ہے کہ اوّل تو وہ حکومت کے ٹیکس پوری طرح ادا کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن اگر یہ بالکل ناممکن ہوجائے اور اس طرح ان کے لیے اپنا پیٹ پالنا بھی مشکل ہوجائے تو پھر صرف اس حد تک عام دکان داروں کی تقلید کرسکتے ہیں کہ اپنی بِکری کا ایک حصہ رجسٹروں میں درج کریں اور ایک حصہ درج نہ کریں۔ مگر سرکاری کارندوں کے سامنے انہیں جھوٹ نہ بولنا چاہیے، نہ ان کو رشوت دینی چاہیے۔ بلکہ ان سے صاف کہنا چاہیے کہ ہمارے حسابات ادھورے ہیںاور ہم اس کے لیے تیار ہیں کہ آپ ہم پر مقدمہ چلادیں۔ پھر اگر مقدمہ چلایا جائے تو انہیں عدالت کے سامنے بازارکی تمام صورت حال صاف صاف بیان کردینی چاہیے اور یہ بھی بتا دینا چاہیے کہ ان حالات نے ایک ایمان دار تاجر کے لیے روٹی کمانا کس قدر دشوارکردیا ہے۔کاش کچھ صاحبِ ہمت لوگ ایسے ہوں جو اس طریقے پر عمل کرگزریں۔ اس طرح قوم کے ضمیر کو یہ احساس دلانا آسان ہوگاکہ موجودہ غلط نظامِ حکومت کی وجہ سے کس طرح ایمان داری خطا اور بے ایمانی صواب بن کر رہ گئی ہے۔

(ترجمان القرآن۔شوال۶۷ھ، اگست ۴۸ء)

مکانوں کے کرایوں میں بلیک مارکیٹنگ:

سوال: جس مکان میںمیں رہتا ہوں ،وہ مجھ سے پہلے ایک کرایہ دار نے پینتالیس روپے ماہانہ کرائے پر مالکِ مکان سے اس شرط پر لیا تھا کہ دو ماہ کے نوٹس پر خالی کردیں گے۔ان کرایہ دار سے یہ مکان انھی شرائط پر میرے بھائی نے لیا اور میں بھی ان کے ساتھ رہنے لگا۔دو ماہ کے بعد میرے کہنے پر مالک مکان میرے نام سے رسید کاٹنے لگے۔آٹھ ماہ تک برابر ہم پینتالیس روپے ماہانہ ادا کرتے رہے اور اس دوران میں کرایے کی زیادتی ہمارے لیے سخت موجب تکلیف رہی اور کئی مرتبہ ارادہ کیا کہ رینٹ کنٹرولر کے یہاں درخواست دے کر کرایہ کم کرایا جائے، مگر اس صورت پر دلی اطمینان نہ ہوسکا۔ستمبر میں مالک ِمکان کو سفیدی وغیرہ کرانے کے لیے کہاگیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ توکرایہ دار کے فرائض میں سے ہے۔ آس پاس کے لوگوں نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی ،لیکن انہوں نے اپنا سکوت توڑتے ہوئے یہ کہا کہ دو ماہ بعد جواب دوں گا(شاید مکان خالی کرانے کی دھمکی اس جواب میں مضمر تھی)۔ اس پر کسی قدر تیز گفتگو ہوئی۔ جس کے نتیجے میں،میں نے رینٹ کنٹرولر کے یہاں کرایہ تشخیص کرنے کی درخواست دے دی۔ وہاں سے سولہ روپے گیارہ آنے ماہوار کے حساب سے کرایہ مقرر کردیا گیا۔ مگرمیرا ضمیر اس پر اب بھی مطمئن نہیں ہے۔
جن صاحب کے ذریعے یہ مکان حاصل ہوا تھا،ان کے اور ان کے عزیزوں کے کہنے سننے سے میں نے یہ صورت منظور کرلی کہ پینتیس روپے ماہوار میں اس شرط پر دوں گا کہ میں مکان میں جب تک چاہوں رہوں،لیکن اگر کبھی مالکِ مکان نے مکان خالی کرایاتو پھر شروع سے کرایہ سولہ روپے گیارہ آنے ماہوار کے حساب سے محسوب ہوگا اور زائد وصول شدہ رقم مالک مکان کو واپس کرنی ہوگی۔مالکِ مکان فی الحال اس شرط پر راضی نہیں ہے،لیکن ظاہر بات ہے کہ ان کو راضی ہونا پڑے گا۔
اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے میرے لیے کون سی صورت صحیح ہوگی؟ کیا میں پینتالیس روپے ماہوار دیتا رہوں یا سولہ روپے گیارہ آنے ادا کیا کروں؟ نیز کیا میرے لیے ضروری ہے کہ جب مالکِ مکان ،مکان کے خالی کرنے کامطالبہ کرے تو لازماًخالی کردوں یا اس امرِ واقعہ کو جانتے ہوئے کہ اسے مکان کی خود ضرورت نہیں ہے بلکہ محض کرایہ بڑھانے کے لیے دوسرے کرایہ دار کو دینا مطلوب ہے،میرے لیے جائز ہے کہ میںمطالبے کی تعمیل سے انکار کردوں؟واضح رہے کہ مکانوں کی غیر معمولی قلت کی بِنا پر پینتالیس کے بجائے پچاس روپے دینے والے کرایہ دار بھی مل سکتے ہیں۔
مجھے صاف اور دو ٹوک جواب دیا جائے۔جواب میں یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ میں مالک مکان کو نصیحت کروں یا اس کا ظلم اس پر واضح کروں، کیوں کہ یہ چیز بے کار ہوگی۔
جہاں تک مجھ سے ہوسکا ہے ،حقیقتِ واقعہ جیسی کچھ ہے ،میں نے صاف صاف عرض کردی ہے۔

جواب: موجودہ حالات میں بڑے شہروں کے مالکانِ مکان مکانات کی قلت سے اور لوگوں کی، خصوصاًمہاجرین کی حاجت مندی سے انتہائی ناجائز فائدہ اُٹھانے پرتُل گئے ہیں۔ان کے ساتھ اگر کوئی شخص معاہدہ کرتا بھی ہے تو برضا ورغبت نہیں بلکہ اسی طرح کی مجبوری سے کرتا ہے جیسی سود پر قرض لینے والے حاجت مند کو لاحق ہوتی ہے۔اس لیے ایسے معاہدات کی کوئی اخلاقی قدر و قیمت نہیں ہے،اور درحقیقت یہ معاہدے اس وجہ سے ہورہے ہیں کہ حکومت کی طرف سے انصاف قائم کرنے اور لوگوں کی ضروریات منصفانہ شرائط پر بہم پہنچانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔اب اگر حکومت نے منصفانہ کرائے مقرر کرنے کا کوئی انتظام کیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ اور دوسرے لوگ اس سے فائدہ نہ اُٹھائیں۔جس مکان کا کرایہ ازرُوئے انصاف سولہ روپے ہے، اگر ایک مالک مکان اس کا کرایہ پینتالیس روپے وصول کرتا ہے تو یقینا وہ لٹیرا ہے۔وہ آخر کون سا اخلاقی حق رکھتا ہے کہ آپ پر اس کا احترام کرنا واجب ہو۔کل جو شخص غلّے کی کمی کی وجہ سے بلیک مارکیٹنگ کرنے پر اُتر آئے اور اپنا دس روپے من خریدا ہوا غلّہ اسّی روپے من کے حساب سے بیچنے لگے، تو کیا اس کے بھی حقوق ملکیت کا احترام کیا جائے گا؟اگر ہم حکومت کی مدد سے ایسے لوگوں کو مناسب شرح پر اپنا مال بیچنے پر مجبور کرسکتے ہیں تو کیوں نہ کریں؟

اسلامی اُصولوں پر بینکنگ کی ایک اسکیم:

سوال: اسلامی اُصولوں پر ایک غیر سودی بینک چلانے کے لیے ایک اسکیم بھیجی جارہی ہے۔ اس کو ملاحظہ فرما کر ہماری رہنمائی کیجیے کہ کیا شرعاً یہ اسکیم مناسب ہے؟یا اس میں کسی ترمیم واضافہ کی ضرورت ہے؟
اسکیم کا خلاصہ:
مسلما ن زمیں دار،تجار اور اہل حرفہ مدتوں سے ساہوکاروں کے پنجے میں پھنستے جارہے ہیں اور ۲۵،۲۵ فی صدی تک سود ادا کرتے کرتے تباہ ہورہے ہیں۔بڑے تاجر اور زمیں دار تو خیر بری بھلی طرح پنپ بھی رہے ہیں لیکن کم استطاعت مسلمانوں کا حال سودی قرضوں نے بہت ہی پتلا کردیا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ ایک مسلم بینک مسلمانوں کو غیر سودی قرض دینے اور زکوٰۃکی وصولی کا انتظام کرنے کے لیے قائم ہو۔ ابتداء ً ایک ضلع میں اس کا تجربہ کیا جائے اور پھر ملک بھرمیں اسے پھیلا دیا جائے۔مجوزہ بینک کے لیے ذیل میں چند اُصول ومبادی درج کیے جاتے ہیں:
(۱) یہ بینک قانونِ شریعت کا پورا پورا پابند ہوگا اور مفرد اور مرکب ہر طرح کے سود سے دامن پاک رکھ کے کاروبار کرے گا۔ اس بینک سے حاجت مند مسلمانوں کو جائدادی کفالتوں پر اور تجارت پیشہ لوگوں کو مضاربت کے اُصولوں پر کاروبار چلانے کے لیے سرمایہ فراہم کیا جائے گا۔قرض دارکو ازرُوئے معاہدہ اس امر کا پابندہونا پڑے گا کہ وہ اپنے اموال اور کاروباری سرمائے پر ایک خاص عرصے تک باقاعدگی سے بینک کو زکوٰۃادا کرے۔اس طریقے سے ایک تو بلا سود سرمایہ حاصل کرکے مسلمان تاجر یا صناع اپنا کاروبار بخوبی چلا سکے گا اور اپنے سرمائے پر سود ادا کرنے والے غیر مسلم حریفوں کا بخوبی مقابلہ کرنے کے قابل ہوجائے گا، اور دوسری طرف نظامِ زکوٰۃ کے احیا میں وہ حصہ دار بنے گا جس کے مٹ جانے کی وجہ سے ہمارے عوام کی غریبی اور بے روزگاری لاعلاج ہوکے رہ گئی ہے۔
(۲) یہ بینک چوں کہ بہت ہی سادہ اور پاکیزہ طریق پر عوام سے معاہداتی معاملہ کرے گا،اس لیے یہ بآسانی ممکن ہے کہ حکومت سے قانونی طور پراس کی توثیق کرا لی جائے۔ضرورت ہوتو اسمبلی میں بل پیش کیا جاسکتا ہے۔پہلے زکوٰۃ کی جبری وصولی کے لیے ایک دفعہ حکومت کے سامنے سوال اُٹھایا گیا تھا تو یہ اس وجہ سے نامنظور ہوا تھا کہ اس سے مسلمانوںکی ’’متوازی‘‘حکومت قائم ہوتی ہے ۔لیکن ہماری تجویز کے مطابق زکوٰۃ کی جبری وصولی اس معاہدے کے زیر اثر ہوگی جو بینک اپنے مقروض سے طے کرے گا۔کوئی حکومت معاہداتی معاملات کی تصدیق سے انکار نہیں کرسکتی۔
(۳) یہ بینک زکوٰۃ اور دوسرے صدقات کی منظم وصولی کا فریضہ بھی اپنے ذمے لیتا ہے۔انفرادی طورپر زکوٰۃ تقسیم کردینا ایک ناقص طریقہ ہے۔ شریعت اس کا اجتماعی نظم چاہتی ہے۔لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم پریس اور پلیٹ فارم کو ہماری اس تجویز کی پوری پوری پشت پناہی کرنی چاہیے۔
(۴) اس بینک کا منظور شدہ اور ادا شدہ سرمایہ کم ازکم۵ لاکھ روپے ہوگا جو دس دس روپے کے پچاس ہزار حصص پر مشتمل ہو گا۔ ۴لاکھ کا سرمایہ مناسب صنعتی کاروبار میں لگا کر کم از کم ۶فی صدی سالانہ منافع حاصل کیا جاسکے گا۔بقیہ ایک لاکھ ادنیٰ طبقے کے مسلمان کاری گروں اور پیشہ وروں کو قرضہ دینے کے لیے مخصوص کردیا جائے گا۔ اور ابتداء ً قلّت ِ سرمایہ کی وجہ سے قلیل مدت کے لیے قرضے جاری کیے جائیں گے۔
انتظامی مصارف کو تجارتی سرمایے کے منافع کے ۲۵ فی صدی یعنی چھ ہزار روپیا سالانہ کے اندر اندر پورا کیا جائے گا۔ اخراجات کا تخمینہ حسب ذیل ہے:
ایک منیجر ۲۰۰ روپے ماہوار ۲۴۰۰ سالانہ
ایک اکائونٹنٹ ۱۰۰ روپے ماہوار ۱۲۰۰ سالانہ
ایک اسٹینو گرافر ۵۰ روپے ماہوار ۶۰۰ سالانہ
دوکلرک ۳۰ روپے ماہوار ۷۲۰سالانہ
دوچیراسی ۲۰ روپے ماہوار ۴۸۰سالانہ
متفرق مصارف ۱۲۰سالانہ
میزان: ۶۰۰۰ روپے سالانہ
پہلے سال چند ہزار روپے فرنیچر، ٹائپ مشینوں اور آہنی الماریوں وغیرہ پر بھی صرف ہوں گے۔اس لیے چار لاکھ کے کاروباری سرمایے پر متوقع ۶ فیصدی منافع میں سے ۲فی صدی الگ کرکے بھی ہم ۴ فی صدی حصے داروں میں تقسیم کر سکیں گے، اور اگر ان’’ امانتوں‘‘ کا منافع بھی محسوب کیا جائے جو ہمارے بینک کے حوالے کی جائیں گی، تو یقیناً حصے داروں کو زیادہ منافع ملے گا۔
زکوٰۃ کی رقم کو ٹھیک ٹھیک شرعی مصارف پر صرف کیا جائے گا اور دوسرے صدقات بھی مسلمان عوام کی بہبود کے لیے ڈائریکٹروں کی ’’شوریٰ‘‘ کے مشورے سے خرچ کیے جائیں گے۔ڈائریکٹروں کی تجویز کے مطابق منافعوں کا ایک مناسب حصہ فلاحِ عامہ کے فنڈ میں بھی شامل ہوتا رہے گا۔’’شوریٰ‘‘ صرف ایسے اصحاب پر مشتمل ہوگی جو بااثر ہوں اور مختلف طبقات کے مفاد کی نمایندگی کرسکیں۔
(۵) بینک اس کامجاز ہوگا کہ میعادی امانتوں(fixed deposits) کی جو رقمیں اس کے پاس ہوں،انہیں صنعتی،تجارتی اور زرعی بیوپاروں میں لگا کر منافع حاصل کرے۔ایسے منافع میں سے ایک حصہ امانت داروں کو تقسیم کردیا جائے گا تاکہ لوگوں میں ہمارے پاس امانتیں رکھوانے کی طرف رغبت پیدا ہو۔
ہمارے بینک کے امتیازات یہ ہوں گے کہ:
ا۔ اس کی اساس لوٹ کھسوٹ کی خواہش پر نہیں بلکہ خدمت اور تعاون کے جذبے پر ہوگی اور اس وجہ سے اس کی کشش ہر اس شخص کے لیے ہے جو نفع اندوزی کی جگہ خدمت کرنا چاہے،خواہ وہ ہندو ہو یا مسلم۔
ب۔ یہ بینک ان لوگوں سے بھی زکوٰۃ جمع کرنے کی کوشش کرے گا جو بینک کے مقروض نہ ہوں، مگر زکوٰۃ کو اجتماعی نظم کے ساتھ اداکرنا چاہیں۔
ج۔ ’’میعادی امانتوں‘‘پر یہ بینک سودنہیں دے گا بلکہ اس کے بجائے ان امانتوں کو کاروبار میں لگا کر منافع حاصل کرے گا اور اس کاحصہ امانت داروں کو دے گا۔

جواب: غیر سودی بینک کی یہ تجویزبجائے خود تو بہت مبارک ہے اور میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ اس کا تجربہ ضرور کیجیے۔ لیکن میری رائے یہ ہے کہ اس کاروبار کو زکوٰۃ وصدقات کے ساتھ خلط ملط کردینا مناسب نہیں ہے۔کاروباری ادارہ لازماً کاروباری نوعیت ہی کی فکر،صلاحیت اور مصروفیت چاہتا ہے،اورخیراتی ادارہ بالکل ایک دوسرے طرز کی فکر،صلاحیت اور مصروفیت کاطالب ہے۔ ان دونوں چیزوں کوخلط ملط کردینے سے اندیشہ ہے کہ یا تو خیرات کا پہلو نقصان اُٹھائے گا یا کاروبار کاپہلو۔ لہٰذا اگر آپ زکوٰۃ وصدقات کی تنظیم چاہتے ہیں تو اس کے لیے الگ انتظام سوچیے اور اس غرض کے لیے ایک مستقل ادارہ بنایئے۔ جہاں تک اس کے انتظامی مصارف کا تعلق ہے ،اس کا سوال شریعت نے خود ہی پہلے سے حل کررکھا ہے۔زکوٰۃ کی تحصیل اور خرچ کا انتظام کرنے والوں کو شرعاً مالِ زکوٰۃ سے تنخواہیں لینے کا حق ہے۔
بینک کے کام میں زکوٰۃ وصداقات کی وصولی اور خرچ کو شامل کردینے سے ایک خطر ہ یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ دینے والے بینک میں اپنی زکوٰۃ اس لالچ سے داخل کرائیں گے کہ وہاں سے ان کو قرضے حاصل کرنے میں آسانی ہو اور یہ اس ذہنیت کے بالکل خلاف ہے جس کے تحت ایک مسلمان کو زکوٰۃ دینی چاہیے۔
بینک کے لیے تو مناسب صورت یہی ہے کہ اس کو بالکل کاروباری اغراض کے لیے کاروباری طریقوں پر چلایا جائے۔مختصراً اس کے اُصول حسب ذیل ہونے چاہئیں:(اِس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو کتاب: سود، حصہ دوم، از مصنف۔)
۱۔ اس کا سرمایہ دو طریقوں سے حاصل ہو۔ایک شرکا کے حصص(shares)، دوسرے ان لوگوں کی امانتیں(deposits) جو سود نہیں لینا چاہتے۔
۲۔ وہ تین قسم کے کام کرے:ایک مختلف صنعتی اور تجارتی کاموں کو سرمایہ فراہم کرنا اور’’حصہ داری‘‘ کے اُصول پر ان کے منافع میں سے اپنا متناسب حصہ وصول کرلینا۔دوسرے بینک کاری کی وہ ساری جائز خدمات انجام دیناجو آج کل بینک عموماً انجام دیا کرتے ہیں، اور ان کی فیس وصول کرنا۔ تیسرے حاجت مند لوگوں کو قابلِ اطمینان ضمانتوں یا جائداد کی کفالتوں پر غیر سودی قرض دینا۔ اور اسی طرح تاجروںکی ہنڈیاں بلا سود بھنانا اور ان کو کم مدت کے قرضے بلاسود دینا۔
۳۔ ان میں سے پہلی دو مدّوںسے جو آمدنی حاصل ہو ،وہ بینک کے انتظامی مصارف نکالنے کے بعد حصہ داروں اور امانت داروں،دونوں قسم کے لوگوں میںمتناسب طریقے پر تقسیم کردی جائے۔
۴۔ اس بینک میں روپیا رکھوانے اور اس کے حصص خریدنے کے لیے تین محرک کافی ہیں:ایک سود سے بچنے کی خواہش، دوسرے حلال منافع حاصل کرنے کی توقع،تیسرے اپنے مال کے تحفظ کا اطمینان۔

(ترجمان القرآن۔شعبان ۶۵ھ، جولائی ۴۶ء)

کاروبار میں اسلامی اصولِ اخلاق کا استعمال:

سوال: ہم نے غلہ کی ایک دکان کھول رکھی ہے ۔موجودہ کنٹرول سسٹم کے تحت شہروں میںجمعیت ہائے تاجرانِ غلّہ (foodgrains association)قائم ہیں۔ ان جمعیتوں کو حکومت کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ وہ اپنی’’فوڈ گرین سنڈیکیٹس‘‘ بنائیں۔ گورنمنٹ ہر سنڈیکیٹ کو اشیائے خوردنی کے پرمٹ دے گی اور آیندہ غلے کا سارا کاروبار صرف سنڈیکیٹ ہی کی معرفت ہوا کرے گا۔ نفع نقصان سب حصے داروں پر تقسیم ہوجایا کرے گا۔چنانچہ ہمارے شہر میں ایسی سنڈیکیٹ بن چکی ہے۔ پورے شہر کے غلّے کا کاروبار کئی لاکھ کا سرمایہ چاہتا ہے اور پورا چوں کہ سنڈیکیٹ کے شرکا فراہم نہیں کرسکتے، لہٰذا بینک سے سودی قرض لیں گے اور اس سودی قرض کی غلاظت سے جملہ شرکا کے ساتھ ہمارا دامن بھی آلودہ ہوگا۔ہم نے اس سے بچنے کے لیے یہ صورت سوچی ہے کہ ہم اپنے حصے کا پورا سرمایہ نقد ادا کردیں اور بینک کے قرض میں حصہ دار نہ ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر پورے کاروبار کو سنڈیکیٹ سنبھالنے کے قابل نہ ہوئی تو شاید سنڈیکیٹ ایسے سوداگر مقرر کردے جنہیں ایک چوتھائی سرمایہ سنڈیکیٹ دے گی اور بقیہ تین چوتھائی سوداگر اپنی گرہ سے لگائے گا اور اسے اختیار ہوگا کہ وہ ضروری سرمایہ بینک سے قرض لے،جس کا سود سنڈیکیٹ ادا کرے گی۔ اگر یہ صورت ہوئی تو ہمارا ارادہ ہے کہ ہم پور ے کا پورا سرمایہ اپنی گرہ سے لگائیں گے اور بینک کے قرض اور سود سے اپنا کاروبارگندا نہ ہونے دیں گے۔ہماری ان دونوں تجویزوں کو سنڈیکیٹ نے قبول کرلیا ہے کہ ان میں جو شکل بھی ہم چاہیں، اختیار کرسکتے ہیں۔اس معاملے میں جتنے لوگوں سے ہماری تفصیلی گفتگو ہوئی اور ہمیں اپنے نصب العین کو ان پر واضح کرنے کا موقع ملا،وہ سب ہمارے اُصول کی بہت قدرکررہے ہیں۔ تمام بیوپاری ہندو ہیں اور بہت حیران ہیں کہ یہ کیسے مسلمان ہیں کہ اپنے اُصول کی خاطر ہر فائدے کو چھوڑنے پر آمادہ ہیں۔ان پر ہمارے اس رویے کا اخلاقی اثر اس درجے گہرا ہوا ہے کہ اب وہ ہر کام میں ہم سے مشورہ طلب کرتے ہیں اور ہم پر پورا اعتماد کرتے ہیں۔ایک تازہ مثال یہ ہے کہ حال میں ایک جگہ سے دس ہزار بوری گندم خریدنے کا فیصلہ ہوا۔ ایک ہندو بیوپاری کو خریداری کے لیے مقرر کیا گیا۔ مگر ایسوسی ایشن کا اصرار تھا کہ اس کے ساتھ ہم میں سے بھی کوئی جائے۔ہم نے لاکھ کہا کہ ہمیں کاروبار کا کچھ زیادہ تجربہ نہیں ہے مگر ان کی ضد قائم رہی۔آخر راقم الحروف کا جانا طے ہو گیا۔ بعد میں جب میں نے اس کی وجہ پوچھی تو ان میں سے ایک شخص نے صاف کہا کہ اور جو کوئی بھی جائے گا،کسی نہ کسی قسم کی بے ایمانی کرے گا مگر آپ لوگوں میں سے جو گیا وہ نہ خود بے ایمانی کرے گا نہ دوسروں کو کرنے دے گا۔
اس سلسلے میں حسب ذیل اُمور کے متعلق آپ کی ہدایت درکار ہے:
۱۔ سرِدست تو ہمارا اور ان غیر مسلم تاجروں کا ساتھ نبھ رہا ہے،لیکن آگے چل کر اگر یہ ساتھ نہ نبھ سکا تو پھر کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ہم اپنی ایک الگ’’مسلم ٹریڈنگ ایسوسی ایشن‘‘ بنالیں اور خدا کی نافرمانی سے ہر ممکن حد تک بچ کر اپنا کاروبار چلائیں؟
۲۔ ہندو مسلم مخاصمت کی وجہ سے یہاںکی فضا حد درجے خراب ہے، اور چوں کہ مارکیٹ پر ہندوئوں کا قبضہ ہے، اس لیے مسلمانوں کو ضروریاتِ زندگی حاصل کرنے میں تکلیف پیش آرہی ہے۔ان حالات میں ایک مسلم ٹریڈنگ ایسوسی ایشن قائم کی گئی ہے جس کا مطالبہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے حصے کا پورا کوٹا اسی کو ملے۔ہمیں بعض اصحاب مشورہ دے رہے ہیں کہ تم بھی اس میں شامل ہوجائو۔ مگر ہمیں اس کے اندر قوم پرستانہ کش مکش کی بُو محسوس ہوتی ہے اور اسی بِنا پر ہم اس سے پرہیز کررہے ہیں۔کیا یہ رویہ ہمارے لیے مناسب ہے؟
۳۔ بعض ہندو حضرات جو ہمارے اُصول واخلاق کے قدر دان ہیں ہمیں بَہ اخلاص یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر بینک سے آپ لوگ معاملہ نہ کریں گے تو سنڈیکیٹ کے ساتھ آپ کے لیے کام کرنا مشکل ہوجائے گا بلکہ علیحدہ ہوکر بھی آپ کاروبار نہ چلاسکیں گے۔سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ایسی صورت پیش آجائے تو ہم کیا کریں؟کیا اضطرار اًبینک سے معاملہ کرلیں؟
۴۔ پنجا ب انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے فیکٹری لگانے والوں کو سالانہ گرانٹ ملتی ہے،اس وجہ سے کہ گورنمنٹ انڈسٹری کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ہمارے ہاں کھڈیوں کا کارخانہ بھی ہے۔ایک دوست کا مشورہ ہے کہ ہم بھی حکومت سے گرانٹ کی درخواست کریں۔ مگر ہمیں شک ہے کہ ارکانِ جماعت ہوتے ہوئے ہم ایسا کر سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب: آپ نے غیرمسلموں کے ساتھ شرکت میں سود سے بچنے کا جو اہتما م کیا ہے،اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیے۔اگرچہ اس میں بہت سے نقصانات کے اندیشے آپ کے سامنے آئیں گے اور بہت سے فائدے بھی ہاتھ سے جاتے محسوس ہوں گے، مگر مآلِ کار میں اس کے اتنے فائدے ہیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔اس سے نہ صرف آپ کی اپنی عاقبت درست ہوگی بلکہ ان شاء اﷲ بہت سے دوسرے بندگانِ خدا کو بھی ہدایت نصیب ہوگی۔ آپ نے خود بھی چند ہی روز کے تجربے سے دیکھ لیا ہے کہ اگر مسلمان ٹھیک ٹھیک اسلامی اُصولوں پر کام کرے تو اس کا کیسا زبردست اخلاقی اثر اس کے پورے ماحول پر چھا جاتا ہے۔
آپ نے جو سوالات کیے ہیں،ان کے جوابات حسب ذیل ہیں:
۱۔ اگر کبھی غیر مسلم شرکا سے آپ کا ساتھ نہ نبھ سکے اور آپ کو اپنی الگ تجارتی جمعیت بنانی پڑے تو اس کا نام ’’مسلم ٹریڈنگ ایسوسی ایشن‘‘رکھنے کے بجائے(fair dealers association) یا اسی طرح کا کوئی دوسرا اُردو یا انگریزی نام رکھیے اور اس میں شرکت کے لیے انصاف و دیانت کے چند ایسے اُصول مقرر کیجیے جن کو دیکھ کر ہر شخص پکار اُٹھے کہ یہی انصاف ہے اور اسی کا نام ایمان داری ہے۔مثلاًیہ کہ سود نہ لیں گے،سٹہ نہ کریں گے،ایک مقرر فی صدی سے زیادہ منافع نہ لیں گے،جعلی کھاتے نہ رکھیں گے،جھوٹ نہ بولیں گے،خریدار کو مال کا حسن وقبح ٹھیک ٹھیک بتا دیں گے، ناپ تول میں کمی نہ کریں گے، وغیرہ۔ پھر اس کا دروازہ ہندو،مسلمان،سکھ،سب کے لیے کھلا رکھیے اور اعلان کردیجیے کہ ان شرائط پر جو شخص بھی ہمارے ساتھ شریک ہونا چاہے، ہوسکتا ہے۔
۲۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کی قومی کش مکش سے اپنے آپ کو قطعاًبالاتر رکھیے۔اگر کبھی غیر مسلموں سے آپ کو تجارتی شرکت توڑنی پڑے بھی تو اسے قومی جھگڑے کی بِنا پر نہ توڑئیے بلکہ اُصول کی لڑائی لڑ کر توڑیے۔ اور اُن سے الگ ہوکر جو تجارتی جمعیت آپ بنائیں،اسے بھی کسی ایک قوم کے تاجروں تک محدود نہ رکھیے، بلکہ چند معروف اُصولوں پر قائم کرکے صلائے عام کیجیے کہ جو ان اُصولوں کو قبول کرے ،وہ ہمارے ساتھ شریک ہوسکتا ہے۔آپ کی تو کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہر قوم کے لوگوں کے ساتھ آپ کا زیادہ سے زیادہ سابقہ اور معاملہ پیش آئے، تاکہ آپ اپنی اُصولی دعوت کو اور اپنے اخلاقی اثرات کو ہر طرف بے روک ٹوک پھیلا سکیں۔قوم پرستانہ کشاکش میںاپنا دامن آپ نے اُلجھا لیا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ گویا آپ نے ہر چار دروازوںمیں سے تین دروازے اپنے اوپر خود بند کرلیے۔
۳۔ اگر کسی وقت آپ دیکھیں کہ سودی معاملات کیے بغیر بڑ ے پیمانے پر تجارت نہیں کی جاسکتی تو بجائے اس کے کہ آپ’’ اضطرار‘‘ کے بہانے سودی معاملات کریں،بڑے پیمانے کی تجارت چھوڑدیجیے اور صرف اُس تھوڑی سی بقدر کفاف آمدنی پر قناعت کیجیے جو اﷲ حلال ذرائع سے آپ کو دے۔آپ کا یہ سوال کہ’’ کیا ہم اضطراراًبینک سے معاملہ کرلیں؟‘‘ بڑا ہی عجیب سوال ہے۔کیا واقعی بہت کمانے کے لیے بھی آدمی کبھی مجبورومضطر ہوسکتا ہے؟ کوئی بھوکا مررہا ہو تو بے شک وہ کہہ سکتا ہے کہ میں حرام کے چند لقمے حاصل کرنے پر مجبور ہوں،مگر کھاتا پیتا آدمی کہے کہ حرام کے ہزاروں روپے کمانے پر مجبور ہوں، تو یہ بالکل ایک نرالی قسم کی مجبوری ہوگی۔ایسے حیلوں سے حرام کو اپنے لیے حلال کرنے کا تصور بھی آپ کے ذہن میںکبھی نہ آنا چاہیے۔پھرذرا یہ بھی تو سوچیے کہ اپنے اصولوں کی اس قدر ’’شورا شوری‘‘ کے بعد آخر کار آپ نے یہ بے نمکی دکھائی کہ ذرا سے تجارتی مفاد کو نقصان پہنچتے دیکھ کر بینک کے دروازے پر توبہ توڑ بیٹھے تو آج تک آپ نے جو کچھ کیا ہے، اس سب پر کس بُری طرح پانی پھر جائے گا۔یہ حرکت کرکے تو گویا آپ خود ہی یہ ثابت کردیں گے کہ اسلام کے اُصول صرف بیان کرنے کے لیے ہیں، برتنے کے لیے نہیں ہیں۔جو ہندو دوست آپ کو یہ مشورہ دے رہے ہیں،ان کو جواب دیجیے کہ آپ کی ہم دردی کا بہت شکریہ، مگر بجائے اس کے کہ ہم آپ کا مشورہ قبول کرکے اپنے اُصولوں کے خلاف سودی کاروبار میں مبتلا ہوں،ہم آپ کو مشورہ دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ مل کر ایک مرتبہ آپ غیر سودی اُصولوں پر لین دین کر نے کا تجربہ کر دیکھیں۔ اس تجربے سے آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ یہ چیز ہمارے اور آپ کے اور سب لوگوں کے لیے سودی کاروبار سے بہتر ہے۔اگر آپ تعاون کرنے پر آمادہ ہوں تو ہم ایک غیر سودی بینک قائم کرکے اور کام یابی کے ساتھ اس کو چلا کر عملاًاس کا فائدہ آپ کو دکھا سکتے ہیں۔
۴۔ حکومت سے گرانٹ کی درخواست آپ رکنِ جماعت ہوتے ہوئے نہیں کر سکتے۔ البتہ اگر حکومت آپ سے یہ درخواست کرے کہ آپ اس کی گرانٹ قبو ل کرلیں، اور اس بات کا اطمینان دلائے کہ وہ یہ گرانٹ محض ملکی صنعت کی ترقی کے لیے دینا چاہتی ہے ،آپ کا ضمیر خریدنا اس کے پیشِ نظر نہیں ہے، تو اس درخواست پرہم دردانہ غور کیا جاسکتا ہے۔
(ترجمان القرآن،شعبان ۶۵ھ، جولائی ۴۶ء)
……٭٭٭……

سرکار ی نرخ پر خرید کر چور بازار میں بیچنا:

سوال: ایک تاجر اپنے کاروبار میں پوری طرح راست باز اور دیانت دار ہے اور احکامِ شریعت کی پابندی کرتا ہے۔سامانِ تجارت اسے کنٹرول ریٹ پر حاصل ہوتا ہے،لیکن بازار میں چور بازاری کی وجہ سے بعض اشیا کی قیمتیں بہت چڑھی ہوئی ہیں،اس صورت میں کیا وہ مروجہ نرخ پر اپنا مال فروخت کرنے کا حق رکھتا ہے؟

جواب: کنٹرول ریٹ سے خریدا ہوا مال کنٹرول ریٹ پر ہی بیچنا چاہیے۔ کنٹرو ل ریٹ پر خرید کر بلیک مارکیٹ میںمال فروخت کرنا تو ان لوگوں کا کام ہے جن کے اندر نفع اندوزی کی حرص کے سوا اور کوئی شریفانہ جذبہ باقی نہیں رہا۔ البتہ اضطراراً وہ چھوٹے تاجر ایک حد تک بلیک مارکیٹنگ کرنے کی گنجایش رکھتے ہیں جنہیں مالِ تجارت ملتا ہی بلیک مارکیٹ سے ہو اور کنٹرول ریٹ پر حاصل ہونا ناممکن ہوجائے،نیزانہیںکوئی دوسرا مشغلہ یا پیشہ اختیار کرنے کی بھی استطاعت نہ ہو۔

نقد کی قیمت اور، ادھار کی اور:

سوال: اگر کوئی دکان دار اس اُصول پر عمل پیرا ہو کہ وہ نقد خریدنے والے گاہک سے اشیا کی کم قیمت لے اور اُدھار لینے والے سے زیادہ، توکیا وہ سود خوری کا مرتکب ہوگا؟ایک دوسری صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ فروخت پر کچھ معمولی سا کمیشن رکھا جاتا ہے،مثلاً ایک پیسا فی روپیا، اور یہ صرف نقد خریداری کی صورت میں گاہک کو اداکیاجاتا ہے ۔اس کی حیثیت کیا ہے؟

جواب: پہلی صورت تو صریحاً سودکی ہے۔ رہی دوسری شکل، تو اگرچہ اصطلاحاً یہ سودکی تعریف میں نہیں آتی ،لیکن اس کے اندر روح تو سود ہی کی موجود ہے۔فقہ کی زبان میں یہ’’ربوا‘‘نہیں ہے مگر ’’ریبہ‘‘ ضرور ہے، اور ریبہ بھی پرہیز کے لائق چیز ہے۔ دعوا الربٰو والر یبہ۔ ( الحدیث)

محصول سے بچنے کی کوشش:

سوال: ہمارے شہر میں اور عام طور پر ملک بھر میں اربابِ تجارت کاطریقِ کار یہ ہے کہ باہر سے آنے والے مال کو چنگی سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اوّل تو چوری چھپے مال دکان پر پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے،یہ نہ ہو سکے تو محرر چونگی کو کچھ دے دلا کر کام چلاتے ہیں۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کم مال ظاہر کرنے والے نقلی بیچک بنا کر اس کے مطابق کم چونگی ادا کرتے ہیں اور دکان کے رجسٹروں میں اسی نقلی بیچک کے مطابق اندراجات کرتے ہیں۔وہ مال رجسٹروں میں دکھایا ہی نہیں جاتا جس پر چونگی ادا نہ کی گئی ہو۔اس طرح مال کی آمد،بِکری اور منافع سبھی واقعی سے کم دکھائے جاتے ہیں۔کیا یہ طریقے جائز ہیں؟

جواب: معاملے کی اس پوری شکل کے ناجائزہونے میں کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا ۔اگرچہ موجودہ نظامِ حکومت کے عائد کیے ہوئے ٹیکس بجائے خود ناجائزہیں اور ناروا اغراض کے لیے استعمال ہوتے ہیں،لیکن اس استحصالِ ناجائز سے بچنے کے لیے جھوٹ اور جعل وفریب اور رشوت کے ہتھیار استعمال کرنا کسی طرح جائز نہیں ہے۔ اس طرح اپنے مال کو تو بچایاجاسکتا ہے لیکن متاعِ اخلاق برباد ہوجائے گی اور اندیشہ ہے کہ رفتہ رفتہ لوگوں کے اندر وہ اخلاقی حس ہی مفقود ہونی شروع ہوجائے گی جو انسان کو اپنے معاملا ت میں صداقت ودیانت سے کام لینے پر آمادہ کرتی ہے۔

رشوت دینے کی مجبوری:

سوال: ریلوے اسٹیشنوں سے جب مال کی بلٹیاں چھڑوانے جاتے ہیں تو ریلوے کے کلرک رشوت کا مطالبہ کرتے ہیں، جسے اگر رد کیا جائے تو طرح طرح سے نقصان اور تکلیف پہنچاتے ہیں۔ایسے حالات میں ایک مومن تاجر کیا کرے؟

جواب: عجیب معاملہ ہے کہ یہ لوگ جب حکومت سے اپنی تنخواہیں اور الائونس بڑھوانے کے لیے ہڑتالیں کرتے ہیں تو پبلک کی ہم دردی حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور جب اُدھر سے اپناکام نکال لیتے ہیں تو اسی پبلک کو طرح طرح سے پریشان کرکے اس کی جیبوں پر ڈاکے ڈالتے ہیں۔ درحقیقت یہ نہایت ضروری ہے کہ ان لوگوں کو صاف صاف متنبہ کردیا جائے کہ اگر تم پبلک کے ساتھ ایمان دارانہ رویہ اختیار نہ کرو گے تو اپنے مطالبات میں پبلک سے کسی ہم دردی کی توقع نہ رکھو۔
رہا نفسِ سوال، تو اِ س کے متعلق پہلے بھی میں بیان کرچکا ہوں کہ حکومت کے ملازموں سے ناروا فائدے اُٹھانے کے لیے ان کو رشوت دینا قطعی حرام ہے ۔لیکن اگر اپنے جائز حقوق بھی آپ اُن کو رشوت دیے بغیر نہ حاصل کرسکیں،اور ان کا نقصان بھی آپ کے لیے قابلِ برداشت نہ ہو،نیز اس قسم کے رشوت خور ملازموں کی شکایت اُن کے افسروں سے کرنے کا بھی موقع نہ ہو یا اس سے کوئی نتیجہ نکلنے کی توقع نہ ہو،تو مجبوراًان کو رشوت دیجیے اور ہمیشہ ان کو نصیحت کرتے رہیے کہ یہ حرام خوری ہے جو تم کررہے ہو اور تمہارا اپنا بھلا اسی میں ہے کہ تم اس سے بچو!

آڑھت کے بعض ناجائز طریقے:

سوال: آڑھت کی شرعی پوزیشن کیا ہے؟آڑھتی کے پاس دو قسم کے بیوپاری آتے ہیں۔پہلی قسم کے بیوپاری اپنے سرمایے سے کوئی جنس خرید کر لاتے ہیں اور آڑھتی کی وساطت سے فروخت کرتے ہیں۔دوسری قسم کے بیوپاری وہ ہوتے ہیں جو کچھ معمولی سا سرمایہ اپنا لگاتے ہیں اور بقیہ آڑھتی سے اس شرط پر قرض لیتے ہیں کہ اپنا خریدا ہوا مال اسی آڑھتی کے ہاتھ فروخت کریں گے اور بوقت فروخت مال آڑھتی کا روپیا بھی ادا کردیں گے۔ آڑھتی پہلی قسم کے بیوپاریوں سے اگر ایک پیسا فی روپیا کمیشن لیتا ہے تو اس دوسری قسم کے بیوپاریوں سے دو پیسے فی روپیہ لے گا۔ یہ صورت حرام ہے یاناجائز؟

جواب: یہ فرق جو آڑھتی اپنے کمیشن میں رکھتا ہے ،غلط ہے۔قرض لینے والے سے دو پیسے اور قرض نہ لینے والے سے ایک پیسا فی روپیا آڑھت لینا تو سود کی تعریف میں آجاتا ہے۔چاہیے یہ کہ قرض کا معاملہ الگ رہے۔البتہ یہ پابندی جائز ہوسکتی ہے کہ مارکیٹ ریٹ پر بیوپاری اپنا مال خاص اُسی آڑھتی کے ہاتھ لا کر فروخت کیا کرے جس کے روپے سے وہ کاروبار چلا رہا ہے۔

سوال: آڑھتی بائع اور خریدار سے کمیشن لینے کے علاوہ ایک حرکت یہ بھی کرتا ہے کہ مال کا سودا ہوجانے کے بعد اس میں سے کچھ مقدار’’چونگی‘‘ کے نام سے لے لیتا ہے۔مثلاًپھل ہوں تو ان میں سے چند دانے لے لے گا اور سبزی ہو تو اس میںاپنا حصہ لگائے گا۔اس چونگی کی حیثیت کیاہے؟

جواب: یہ چونگی لینا آڑھتی کی زیادتی ہے۔وہ جب اپنا طے شدہ کمیشن لے چکا تو اب اسے اورکچھ لینے کا حق نہیں۔حقیقت میں یہ’’دست درازی‘‘ ہے جس کا ایک معصوم نام ’’چونگی‘‘رکھ لیا گیا ہے۔

زمین داری کے مکروہات:

سوال: میں جماعت اسلامی کا لٹریچر پڑھ کر کافی متاثر ہوں،ذہن کا سانچا بدل چکا ہے اور یہ سانچا موجودہ ماحول کے ساتھ کسی طرح سازگار نہیں ہورہا۔مثلاً ایک اہم اُلجھن کو لیجیے۔ہمار ا آبائی پیشہ زمین داری ہے اور والد صاحب نے مجھے اسی پر مامور کردیا ہے۔زمین داری کا عدالت اور پولیس وغیرہ سے چولی دامن کا ساتھ ہوگیا ہے۔عدالت اور پولیس سے بے تعلقی کا اظہار زمین دار کی کامل معاشی موت ہے۔ حدیہ کہ عدالت اور پولیس کی پُشت پناہی سے بے نیا زہوتے ہی خود اپنے ملازمین اور مزارعین پر زمین دار کا کوئی اثر نہیں رہ جاتا۔خود پولیس جب یہ دیکھتی ہے کہ کوئی زمین دار اس کی ’’بالائی آمدنی‘‘ میں حائل ہورہا ہے تو وہ اسی کے مزارعین اور ملازمین کو اُکسا کر اس کے مقابلے پر لاتی ہے۔اسی طرح عدالتوں کا ہوّا جہاں کارندوںکے سامنے سے ہٹا، پھر ان کو ضمیر کی آواز کے سوا کوئی چیز فرائض پر متوجہ نہیں رکھ سکتی، اور حال یہ ہے کہ ان لوگوں کے لیے مادّی فائدے سے بڑھ کر کسی شے میں اپیل نہیں ہے۔مزید وضاحت کے لیے ایک مثال کافی ہوگی۔ہمارے ہاں دستور تھا کہ کارندوں کے کام میں نقص رہے یا وہ کسی قسم کا نقصان کردیں تو ان سے تاوان وصول کیا جاتا تھا۔ہم نے یہ تاوان وصول کرنا بند کردیا،کیوں کہ پولیس کی مدد کے بغیر یہ سلسلہ چل نہیں سکتا۔رویے کی اس تبدیلی کے ساتھ معاً کاشت کاروں نے نقصان کرنا شروع کردیا اور کارندوں نے بھی جرمانے کی رقم میں سے جو حصہ ملنا تھا،اس سے مایوس ہوکر چشم پوشی اختیار کی۔ اب حالات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ میں زمین داری کو سرے سے ختم کرنے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہورہا ہوں ۔آپ کی رائے میں چارۂ کار کیا ہے؟

جواب: زمین داری میں پولیس اور عدالت سے تعلق رکھنے کی جو ضرورت اس کافرانہ نظام میں پیدا ہوگئی ہے،اس سے ہم ناواقف نہیں ہیں اور ہم کو یہ بھی معلوم ہے کہ قانون کی حدود سے بے نیاز ہوکر ایک زمین دار کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ جس شخص کو دعوت اسلامی کا کام کرنا ہو ،اُسے اپنے جملہ معاملات قانون کے سہارے کے بجائے اخلاقی بنیادوں پر قائم کرنے چاہییں اور اِ س سلسلے میں جونقصانات بھی پہنچیںانہیں برداشت کرنا چاہیے۔ اب یہ فیصلہ کرنا آپ کا اپنا کام ہے کہ آیا آپ دعوتِ اسلامی کا کام کریں یا قانو ن کے سہارے زمین داری چلائیں۔ بہرحال یہ دونوں کام ایک ساتھ نہیں نبھ سکتے۔جن لوگوں پر آپ پولیس اور عدالت کے ذریعے سے اپنی زمین داری کا زور چلائیں گے،وہ آپ کے اخلاقی اثر سے کبھی متاثر نہیں ہو سکتے اور نہ آپ کی اس دعوت میں کوئی صداقت محسوس کرسکتے ہیں کہ حکم صرف اﷲ کے لیے ہے اور قانون صرف خدا کا چلنا چاہیے۔

گڑیوں کاحکم:

سوال: کیا بچوں کے کھیل کا سامان، مثلاً چینی کی گولیاں،تاش،ربڑ کی چڑیاں اور لڑکیوں کے لیے گڑیاں وغیرہ فروخت کرنا جائز ہے،نیز ہندوئوں کی ضرورت کی گڑیاں بھی کیا بیچی جاسکتی ہیں؟

جواب: بچوں کے کھلونے بیچنا بجائے خود ناجائز نہیں ہے اِلّایہ کہ کسی خاص کھلونے یا کھیل کے سامان میں کوئی شرعی قباحت ہو۔رہے جانوروں اور آدمیوں کے مجسّمے، توان کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ پوری باریکی سے تمام خدوخال کے ساتھ انہیں بنایا گیا ہو۔دوسرے یہ کہ محض ایک سرسری سا ڈھانچا کسی جان دار کا ہو، جیسے لکڑی کے گھوڑے اور کپڑے کی گڑیاں۔ پہلی قسم کے مجسّموں کی فروخت جائز نہیں ہے۔البتہ دوسری قسم کے کھلونے آپ بیچ سکتے ہیں۔ رہیں ہندوئوں کی ضرورت کی گڑیاں، تو اگر وہ مشرکانہ تخیلات کی نمائندہ ہوں،مثلاًکشن جی کی مورتی یا رام چندر جی کا مجسمہ وغیرہ،تو ان کی فروخت حرام ہے۔

اشتہاری تصویریں:

سوال: اشتہار کے لیے کیلنڈر وغیرہ پر آ ج کل عورتوں کی تصاویر بنانے کا بہت رواج ہے،نیز مشہور شخصیتوں اور قومی رہبروں کی تصاویر بھی استعمال کی جاتی ہیں، علاوہ بریں تجارتی اشیا کے ڈبوں اور بوتلوں اور لفافوں پر چھاپی جاتی ہیں۔ ان مختلف صورتوں سے ایک مسلمان تاجر اپنا دامن کیسے بچا سکتا ہے؟

جواب: اگر کوئی اشتہار یا کیلنڈر خودآپ چھپوائیں تو اسے تصویر سے پاک رکھیں۔ اور ضرورتاً اگر آپ کو اپنی ذات کے لیے کیلنڈروںوغیرہ کا استعمال کرنا پڑے تو اوّل تو بے تصویر لیجیے، ورنہ تصاویر کو چھپا دیجیے یامسخ کردیجیے۔لیکن ڈبوں اور بوتلوں اور لفافوں پر آپ کہاں تک تصاویر کومٹا سکتے ہیں۔ موجودہ تصویر پرست دنیا نے قسم کھالی ہے کہ کسی چیز کو تصویر سے خالی نہ چھوڑے گی۔ڈاک کے ٹکٹوں اور سکّوں تک پر تصاویر موجود ہیں۔یہ ہمہ گیر نظامِ طاغوت اپنی ناپاکیوں اور غلاظتوں کو جڑ سے لے کر شاخوں اور پتوں تک پھیلاتا چلا جارہا ہے۔بس اپنی حدِ امکان تک اپنا دامن بچایے اور اس حد سے آگے جو کچھ ہے،اس سے اپنے آپ کو اور دنیا کو بچانے کے لیے یہ سعی کیجیے کہ نظامِ باطل کا تسلط ختم ہو اور نظامِ حق کا اقتدار جمے۔ اس کی جڑ کٹے گی تو شاخیں آپ ہی جھڑ جائیں گی۔

’’سیپ‘‘ اور ’’دلّالی‘‘:

سوال: ہرگائوں میں عموماً ایک لوہار اور ایک بڑھئی ضرور ہوتا ہے۔ان لوگوں سے زمین دار کام لیتے ہیں اور معاوضہ نقد ادا نہیں کرتے،نہ تنخواہ دیتے ہیں،بلکہ فصل کے فصل ایک مقررہ مقدار غلّے کی انہیں دے دی جاتی ہے۔ اس صورت معاملہ کو’’سیپ‘‘ کہا جاتا ہے۔زمین دار لوگ جب کبھی لوہے یا لکڑی کا کوئی سامان خریدنا چاہتے ہیں تو اپنے لوہار یا بڑھئی کے ذریعے خریدتے ہیں جو بعض کارخانوں ا ور دکانوں سے خاص تعلق رکھتے ہیں اور وہاں سے سامان خریدواتے ہیں، اور ہوتا یوں ہے کہ یہ لوگ دکان پر جاتے ہی آنکھوں کے اشاروں سے دلّالی کی فیس دکان دار سے طے کرلیتے ہیں جس سے زمین دار بے خبر رہتا ہے۔ اگر دکان دارلوہار یا بڑھئی کی دلاّلی کا کمیشن ادا نہ کرے تو پھر وہ کبھی بھی اپنے زمین داروں کو اس کی دکان پر نہ لائے گا بلکہ کسی دوسری جگہ ساز باز کرے گا۔اور جو دکان داران کا کمیشن دینے پر راضی ہو،وہ خراب مال بھی اگر دکھائے تو یہ خاص قسم کے دلّال اس کی تعریف کریں گے اور اسے بکوانے کی کوشش کریں گے۔ یہ سازش اگر زمین دار پر آشکارا ہوجائے تو وہ اپنے بڑھئی یا لوہار کو ایک دن بھی گائوں میںنہ رہنے دے۔ یہ صورتِ معاملہ کیسی ہے؟

جواب: ’’سیپ‘‘ معاملے کی ایک ایسی شکل ہے جو دیہاتی زندگی میں’’معروف‘‘کی حیثیت اختیار کرچکی ہے،اس لیے اسے ناجائز نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس میں بیگارکا عنصر شامل نہ ہونے پائے۔یعنی فی الواقع جن لوگوں سے جتنی خدمت لی جائے،ان کو اس کا مناسب معاوضہ ادا کیا جائے۔ مقررہ خدمات سے زائد کوئی کام لینا ہو تو اس کا حق الگ اسے دینا چاہیے۔محض زمین داری کی دھونس میں لوگوں سے بے جا خدمت لینا ظلم ہے۔
دلّالی کی جوشکل آپ نے لکھی ہے اس کے ناجائزہونے میں تو کوئی کلام نہیں ہوسکتا، مگر واقعہ یہ ہے کہ یہ دراصل زمین داروں کی زیادتی کا نتیجہ ہے۔پیشہ ور لوگ محض اُن کے دبائو سے مجبوراً اپنے کام کاج کا ہرج کرکے ان کے ساتھ مال خریدوانے جاتے ہیں اور اس کا معاوضہ دکان داروں سے گویا اِ س قرارداد پر وصو ل کرتے ہیں کہ اگر تم ہمیں کمیشن دیتے رہو گے تو ہم تمہارا بُرا مال بھی ان زمین داروں کے ہاتھ بکوا دیں گے۔اس طرح یہ مال فروخت کروانے والا اور دکان دار اور ان کے ساتھ زمین دار بھی، تینوں ایک قسم کے اخلاقی جرم کاارتکاب کرتے ہیں۔ اگر زمین دار ان لوگوں سے مفت کی خدمت لینا چھوڑ دیں اور انصاف کے ساتھ ان کا حق المحنت انہیں دیا کریں تو یہ بداخلاقی رُونما نہ ہو۔

تجارت میں’’عرف‘‘ کی حیثیت:

سوال: چمڑے کے کاروبار میں کروم ایک ایسی چیز ہے جس پر فٹ کی پیمائش کا اندراج بہت غلط ہوتا ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ مال کلکتے میں تیار ہوتا ہے۔مال تیار کرنے والے ہر تھان پر اصل پیمایش سے زائد فٹ لکھ دیتے ہیں۔ مثلاًدس فٹ کے تھان کو بارہ فٹ ظاہر کرتے ہیں۔اس کے بعد کلکتہ کے تاجر یہ مال خریدتے ہیں اور یہ کچھ اور فٹ بڑھا دیتے ہیں۔اس کے بعد جب باہر کے تاجر ان سے مال خرید لے جاتے ہیں تو پھر وہ مزید فٹ بڑھاتے ہیں۔ یہاں آکر تھان پر فٹوں کا پکا اندراج ہوجاتا ہے اور پھر وہ آخر تک یہی اندراج قائم رہتا ہے۔صحیح فٹ والا مال مارکیٹ میں نہیں ملتا۔ تقریباً سبھی کارخانے اور تاجر یہی کچا فٹ استعمال کرتے ہیں۔عام طور پر گاہک اس صورت حال سے آگاہ ہوتے ہیں اور اس وجہ سے ہم پیمایش کی اس گڑبڑ کے متعلق کوئی توضیح نہیں کرتے۔لیکن اگر کوئی گاہک پوچھے تو اسے صاف بتا دیتے ہیں کہ اس مال پر کچے ( یعنی غلط نمبر) فٹوں کا نمبر لگا ہوا ہے۔ ہم اسی کچے فٹ کے حساب سے خریدتے ہیں اور اسی کے حساب سے منافع لگا کر فروخت کرتے ہیں۔ مثلاًایک کچا فٹ اگر۱۲/ میں آتا ہے تو ہم ایک کچے فٹ کے۰۱۲ / لگائیں گے۔شرعاً ایسے کاروبار کی کیا حیثیت ہے؟

جواب: تجارت میں جب یہ چیز معروف ہے ،یعنی دکان دار اور خریدار سب اس بات سے واقف ہیں کہ کچے اور پکے اوزان یا پیمانوں میں کیا فرق ہے اور کون سی چیز پکے پیمانوں کے حساب سے ملتی ہے اور کون سی کچے پیمانوں کے حساب سے، تو اس صورت میں یہ معاملہ جائز شمار ہوگا۔ لیکن یہ کوئی اچھا طریقہ نہیں ہے کہ گوناگوں اوزان اور پیمانے رائج رہیں۔اس سے ناواقف لوگ نقصان اٹھاتے ہیں۔ایک اچھے نظامِ حکومت کا فرض ہے کہ وہ تجارت کو ان’’اِسرارِ نہاں‘‘ سے پاک کرے۔ (ترجمان القرآن،رمضان ۶۵ھ، اگست ۴۶ء)
……٭٭٭……

اسلامی ریاست میں ذِمّی رعایا:

سوال: میں ہندو مہا سبھا کا ورکر ہوں۔ سالِ گزشتہ صوبے کی ہندو سبھا کا پروپیگنڈا سیکرٹری منتخب ہوا تھا۔میں حال ہی میں جناب کے نام سے شناسا ہوا ہوں۔آپ کی چند کتابیں ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ حصہ اوّل وسوم، ’’اسلام کا نظریۂ سیاسی‘‘، ’’اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘‘ ،’’سلامتی کا راستہ‘‘ وغیر ہ دیکھی ہیں ،جن کے مطالعے سے اسلام کے متعلق میرا نظریہ قطعاً بد ل گیا ہے اور میں ذاتی طور پر یہ خیال کرتا ہوں کہ اگر یہ چیز کچھ عرصہ پہلے ہوگئی ہوتی تو ہندو مسلم کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ نہ ہوتا۔جس حکومت ِالٰہیہ کی آپ دعوت دے رہے ہیں،اس میں زندگی بسر کرنا قابل فخر ہوسکتا ہے مگر چند اُمور دریافت طلب ہیں۔خط وکتابت کے علاوہ ضرورت ہوگی تو جناب کا نیاز بھی حاصل کروں گا۔
سب سے پہلی چیز جو دریافت طلب ہے وہ یہ ہے کہ ہندوئوں کو حکومتِ الٰہیہ کے اندر کس درجے میں رکھا جائے گا؟آیا ان کو اہل کتاب کے حقوق دیے جائیں گے یا ذمی کے؟اہلِ کتاب اور ذمی لوگوںکے حقوق کی تفصیل ان رسائل میں بھی نہیں ملتی۔ مجھے جہاں تک سندھ پر عربی حملے کی تاریخ کا علم ہے،محمد بن قاسم اور اس کے جانشینوں نے سندھ کے ہندوئوں کو اہلِ کتاب کے حقوق دیے تھے۔اُمید ہے کہ آپ اس معاملے میں تفصیلی طور پر اظہارِ خیال فرمائیں گے۔
نیز یہ بھی فرمایے کہ اہل کتاب اور ذمی کے حقوق میں کیا فرق ہے؟ کیا وہ ملک کے نظم و نسق میں برابر کے شریک ہوسکتے ہیں؟کیا پولیس ،فوج اور قانون نافذ کرنے والی جماعت میں ہندوئوں کاحصہ ہوگا ؟اگر نہیں تو کیا ہندوئوں کی اکثریت والے صوبوں میں آپ مسلمانوں کے لیے وہ پوزیشن قبول کرنے کو تیار ہوں گے جو کہ آپ حکومتِ الٰہیہ میں ہندوئوں کو دیں گے؟
دوسری دریافت طلب چیز یہ ہے کہ کیا قرآن کے فوج داری اور دیوانی احکام مسلمانوں کی طرح ہندوئوں پر بھی حاوی ہوں گے ؟کیا ہندوئوں کا قومی قانون(personal law) ہندوئوں پر نافذ ہوگا یا نہیں؟ میر امدعا یہ ہے کہ ہندو اپنے قانونِ وراثت،مشترکہ فیملی سسٹم اور متبنّٰی وغیرہ بنانے کے قواعد( مطابق منوشاستر) کے مطابق زندگی بسر کریں گے یا نہیں؟
واضح رہے کہ یہ سوالات محض ایک متلاشیِ حق کی حیثیت سے پیش کیے جارہے ہیں۔

جواب: میں آپ کے ان خیالات کی دل سے قدر کرتا ہوں جو آپ نے اپنے عنایت نامے میں ظاہر کیے ہیں۔ یہ واقعہ ہے کہ ہندستان میں ہندو مسلم مسئلے کو پیچیدہ اور ناقابلِ حل حد تک پیچیدہ بنادینے کی ذمہ داری اُن لوگوںپر ہے جنہوں نے اُصولِ حق اور راستی کی بنیادوں پر مسائل زندگی کو حل کرنے کے بجائے شخصی، خاندانی،طبقاتی،نسلی اور قومی بنیادوں پر انہیں دیکھنے اور حل کرنے کی کوشش کی۔اس کا انجام وہی کچھ ہونا چاہیے تھا جو آج ہم دیکھ رہے ہیں، اور اس بدقسمتی میں ہم آپ سب برابر کے شریک ہیں،کوئی بھی فائدے میں نہیں ہے۔
آپ نے جو سوالات کیے ہیں،ان کے مختصرجوابات نمبر وار درج ذیل ہیں:
۱۔ اگر حکومتِ الہٰیہ قائم ہو تو اس کی حیثیت یہ نہ ہوگی کہ ایک قوم دوسری قوم یا اقوام پرحکمران ہے،بلکہ اس کی اصل حیثیت یہ ہوگی کہ ملک پر ایک اُصول کی حکومت قائم ہے۔ظاہر بات ہے کہ ایسی حکومت کو چلانے کی ذمہ داری باشندگانِ ملک میں سے وہی لوگ اُٹھا سکیں گے جو اس اُصول کو مانتے ہوں۔ دوسرے لوگ جو اس اُصول کو نہ مانتے ہوں یا کم ازکم اس پر مطمئن نہ ہوں،ان کو اس حکومت میں قدرتی طور پر’’اہلِ ذمہ‘‘ کی حیثیت حاصل ہوگی،یعنی جن کی حفاظت کی ذمہ داری وہ لوگ لیتے ہیں جو اس اصولی حکومت کو چلانے والے ہیں۔
۲۔ ’’اہلِ کتاب‘‘ اور ’’عام اہلِ ذمّہ‘‘ کے درمیان اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہے کہ اہل کتاب کی عورتوں سے مسلمان نکاح کر سکتے ہیں اور دوسرے ذمیوںکی عورتوں سے نہیں کرسکتے۔لیکن حقوق میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
۳۔ ذمّیوں کے حقوق کے بارے میں تفصیلات تو میں اس خط میں نہیں دے سکتا،البتہ اُصولی طور پر آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ ذمّی دو طرح کے ہوسکتے ہیں:ایک وہ جو اسلامی حکومت کا ذمہ قبول کرتے وقت کوئی معاہدہ کریں، اور دوسرے وہ جو بغیر کسی معاہدے کے ذمہ میں داخل ہوں۔ پہلی قسم کے ذمیوں کے ساتھ تو وہی معاملہ کیا جائے گا جو معاہدے میں طے ہوا ہو۔رہے دوسری قسم کے ذمّی، تو ان کا ذمّی ہونا ہی اس بات کو مستلزم ہے کہ ہم ان کی جان اور مال اور آبرو کی اُسی طرح حفاظت کرنے کے ذمہ دار ہیں جس طرح خود اپنی جان اور مال اور آبرو کی کریں گے۔ان کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو مسلمانوں کے ہوں گے۔ان کے خون کی قیمت وہی ہوگی جو مسلمان کے خون کی ہے۔ان کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہوگی۔ان کی عبادت گاہیں محفوظ رہیں گی ۔ان کو اپنی مذہبی تعلیم کا انتظام کرنے کا حق دیا جائے گا اور اسلامی تعلیم بہ جبراُن پر نہیں ٹھونسی جائے گی۔
ذمّیوں کے متعلق اسلام کے دستوری قانون کی تفصیلات ان شاء اللہ ہم ایک کتاب کی شکل میں الگ شائع کریں گے۔ (اِس موضوع پر جما عت اسلامی کی طرف سے دو مستقل رسالے شائع ہوچکے ہیں۔)
۴۔ جہاں تک ذمیوں کے پرسنل لا کا تعلق ہے وہ ان کی مذہبی آزادی کا ایک لازمی جز ہے۔اس لیے اسلامی حکومت ان کے قوانین نکاح وطلاق اور قوانینِ وراثت وتبنیّت کو، اور ایسے ہی دوسرے تمام قوانین کو جو ملکی قانون(law of the land) سے نہ ٹکراتے ہوں ،ان پر جاری کرے گی اور صر ف ان اُمور میں ان کے پرسنل لا کے نفاذ کو برداشت نہ کرے گی جن میں ان کا برا اثر دوسروں پر پڑتا ہو۔مثال کے طور پر اگر کوئی ذمی قوم سود کو جائز رکھتی ہو تو ہم اُس کو اسلامی حکومت میں سودی لین دین کی اجازت نہ دیں گے، کیوں کہ اس سے پورے ملک کی معاشی زندگی متاثر ہوتی ہے، یا مثلاًاگر کوئی ذمی قوم زنا کو جائز رکھتی ہو تو ہم اسے اجازت نہ دیں گے کہ وہ اپنے طور پر بدکاری(prostitution) کاکاروبار جاری رکھ سکے کیوں کہ یہ اخلاقِ انسانی کے مسلمات کے خلاف ہے اور یہ چیز ہمارے قانون تعزیرات (criminal law) سے بھی ٹکراتی ہے، جوظاہر ہے کہ ملکی قانون بھی ہوگا۔ اسی پر آپ دوسرے اُمور کو قیاس کرسکتے ہیں۔
۵۔ آپ کا یہ سوال کہ آیا ذمی ملک کے نظم ونسق میں برابر کے شریک ہوسکتے ہیں۔ مثلاً پولیس ،فوج اور قانون نافذ کرنے والی جماعت میں ہندوئوں کا حصہ ہوگا یا نہیں؟اگر نہیں تو کیا ہندوئوں کی اکثریت والے صوبوں میں آپ مسلمانوں کے لیے وہ پوزیشن منظور کریں گے جو آپ ہندوئوں کو حکومتِ الٰہیہ میں دیں گے؟ یہ سوال میرے نزدیک دو غلط فہمیوں پر مبنی ہے۔ایک یہ کہ اُصولی غیر قومی حکومت (ideological non-national state) کی صحیح حیثیت آپ نے اس میں ملحوظ نہیں رکھی ہے۔دوسرے یہ کہ کاروباری لین دین کی ذہنیت اس میں جھلکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
جیسا کہ میں نمبر اوّل میں تصریح کرچکا ہوں،اُصولی حکومت کو چلانے اور اس کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری صرف وہی لوگ اُٹھا سکتے ہیں جو اس اُصول پر یقین رکھتے ہوں۔وہی اس کی روح کو سمجھ سکتے ہیں،انہی سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ پورے خلوص کے ساتھ اپنا دین وایمان سمجھتے ہوئے اس ’’ریاست‘‘ کے کام کو چلائیں گے، اور انہی سے یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ اس ریاست کی حمایت کے لیے اگر ضرورت پڑے تو میدانِ جنگ میں قربانی دے سکیں گے۔دوسرے لوگ جو اس اُصول پر ایمان نہیں رکھتے،اگر حکومت میں شریک کیے بھی جائیں گے تو نہ وہ اس کی اُصولی اور اخلاقی روح کو سمجھ سکیں گے ،نہ اس روح کے مطابق کام کرسکیں گے اور نہ ان کے اندران اصولوں کے لیے اخلاص ہوگاجن پر اس حکومت کی عمارت قائم ہوگی۔سول محکموں میں اگر وہ کام کریں گے تو ان کے اندر ملازمانہ ذہنیت کارفرما ہوگی اور محض روزگار کی خاطر وہ اپنا وقت اور اپنی قابلیتیں بیچیں گے اور اگر وہ فوج میں جائیں گے تو ان کی حیثیت کرائے کے سپاہیوں(merecenaries) جیسی ہوگی اور وہ ان اخلاقی مطالبات کو پورا نہ کرسکیں گے جو اسلامی حکومت اپنے مجاہدوں سے کرتی ہے۔اس لیے اُصولاًاور اخلاقی اعتبار سے اسلامی حکومت کی پوزیشن اس معاملے میں یہ ہے کہ وہ فوج میں اہلِ ذمہ سے کوئی خدمت نہیں لیتی بلکہ اس کے برعکس فوجی حفاظت کا پورا پورا بار مسلمانوں پر ڈا ل دیتی ہے اور اہلِ ذمہ سے صرف ایک دفاعی ٹیکس لینے پر اکتفا کرتی ہے۔لیکن یہ ٹیکس اورفوجی خدمت دونوں بیک وقت اہلِ ذمہ سے نہیں لیے جاسکتے ۔اگر اہلِ ذمہ بطور خود فوجی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں تو وہ ان سے قبول کرلی جائے گی اور اس صورت میں دفاعی ٹیکس ان سے نہ لیا جائے گا۔رہے سول محکمے، تو ان میں سے کلیدی مناصب(key positions) اور وہ عہدے جو پالیسی کے تعین وتحفظ سے تعلق رکھتے ہیں بہرحال اہل ذمّہ کو نہیں دیے جاسکتے۔البتہ کارکنوں کی حیثیت سے ذمیوں کی خدمات حاصل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔اسی طرح جو اسمبلی شُوریٰ کے لیے منتخب کی جائے گی ،اس میں بھی اہلِ ذمہ کو رکنیت یا رائے دہندگی کا حق نہیں ملے گا۔ البتہ ذمیوں کی الگ کونسلیں بنا دی جائیں گی جو ان کی تہذیبی خود اختیاری کے انتظام کی دیکھ بھال بھی کریں گی اور اس کے علاوہ ملکی نظم ونسق کے متعلق اپنی خواہشات،اپنی ضروریات اور شکایات اور اپنی تجاویز کا اظہار بھی کرسکیں گی، جن کا پورا پورا لحاظ اسلامی مجلسِ شُوریٰ(assembly) کرے گی۔
صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ حکومتِ ا لہٰیہ کسی قوم کا اجارہ نہیں ہے۔جو بھی اس کے اُصول کو تسلیم کرے ،وہ اس حکومت کو چلانے میں حصے دار ہوسکتا ہے۔خواہ وہ ہندو زادہ ہو یا سکھ زادہ۔لیکن جو اس کے اُصول کوتسلیم نہ کرے ،وہ خواہ مسلم زادہ ہی کیوں نہ ہو،حکومت کی محافظت (protection) سے فائدہ تو اُٹھا سکتا ہے لیکن اس کے چلانے میں حصہ دار نہیں ہوسکتا۔
آپ کا یہ سوال کہ ’’کیا ہندو اکثریت والے صوبوں میںمسلمانوں کی وہی پوزیشن قبول کرو گے جو حکومتِ الٰہیہ میں ہندوئوں کو دو گے؟‘‘ دراصل مسلم لیگ کے لیڈروںسے کیا جانا چاہیے تھا، کیوں کہ لین دین کی باتیں وہی کرسکتے ہیں۔ہم سے آپ پوچھیں گے تو ہم تو اس کا بے لاگ اُصولی جواب دیں گے۔
جہاں حکومت قائم کرنے کے اختیارات ہندوئوں کو حاصل ہوں وہاں آپ اُصولاً دو ہی طرح کی حکومتیں قائم کرسکتے ہیں:
یاا یسی حکومت جو ہندو مذہب کی بنیاد پر قائم ہو۔
یا پھر ایسی حکومت جو وطنی قومیت کی بنیاد پر ہو۔
پہلی صورت میں آپ کے لیے یہ کوئی سوال نہیں ہونا چاہیے کہ جیسے حقوق حکومتِ الٰہیہ میں ہندوئوں کو ملیں گے ویسے ہی حقوق ہم’’رام راج‘‘ میں مسلمانوں کو دے دیں گے۔ بلکہ آپ کو اس معاملے میں اگر کوئی رہنمائی ہندو مذہب میں ملتی ہے تو بے کم وکاست اسی پر عمل کریں،قطع نظر اس سے کہ دوسرے کس طرح عمل کرتے ہیں۔اگر آپ کا معاملہ ہمارے معاملے سے بہتر ہوگا تو اخلاق کے میدان میں آپ ہم پر فتح پالیں گے، اور بعید نہیں کہ ایک روز ہماری حکومتِ الٰہیہ آپ کے رام راج میں تبدیل ہوجائے۔اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا، تو ظاہر ہے کہ دیر یاسویر نتیجہ بھی برعکس نکل کر ہی رہے گا۔
رہی دوسری صورت کہ آپ کی حکومت وطنی قومیت کی بنیاد پر قائم ہو، تو اس صورت میں بھی آپ کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ یا تو جمہوری (democratic) اصول اختیار کریں اور مسلمانوں کو ان کی تعداد کے لحاظ سے حصہ دیں، یا پھر صاف صاف کہہ دیں کہ یہ ہندو قوم کی حکومت ہے اور مسلمانوں کو اس میں ایک مغلوب قوم(subject nation) کی حیثیت سے رہنا ہوگا۔
ان دونوں صورتوں میں سے جس صورت پر بھی آپ چاہیں مسلمانوں سے معاملہ کریں۔ بہرحال آپ کے برتائو کو دیکھ کر اسلامی ریاست اُن اُصولوں میں ذرہ برابر بھی کوئی تغیر نہ کرے گی جو ذمّیوں سے معاملہ کرنے کے لیے قرآن وحدیث میں مقرر کردیے گئے ہیں۔ آپ چاہیں تو اپنی قومی ریاست میںمسلمانوں کا قتلِ عام کردیں اور ایک مسلمان بچے تک کو زندہ نہ چھوڑیں۔ اسلامی ریاست میں اس کا انتقام لینے کے لیے کسی ذمی کا بال تک بیکا نہ کیا جائے گا۔اس کے برعکس آپ کا جی چاہے تو ہندو ریاست میں صدر جمہوریہ اور وزیراعظم اور کمانڈر اِن چیف سب ہی کچھ مسلمان باشندوں کو بنا دیں۔ بہرحال اس کے جوا ب میں کوئی ایک ذمّی بھی کسی ایسی پوزیشن پر مقرر نہیں کیا جائے گا جو اسلامی ریاست کی پالیسی کی شکل اور سمت معیّن کرنے میں دخل رکھتی ہو۔
(ترجمان القرآن،رجب شوال ۶۳ھ، جولائی،اکتوبر۴۴ء)

مزید تصریحات:

سوال: آپ کی جملہ تصانیف اور سابق عنایت نامہ پڑھنے کے بعد میں یہ فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہوں کہ آپ خالص اسلامی طرز کی حکومت قائم کرنے کے خواہاں ہیں اور اس اسلامی حکومت کے عہد میں ذمی اور اہلِ کتاب کی حیثیت بالکل ایسی ہی ہوگی جیسی ہندوئوں میں اچھوتوں کی۔
آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’ہندوئوں کی عبادت گاہیں محفوظ رہیں گی،ان کو مذہبی تعلیم کا انتظام کرنے کاحق دیا جائے گا‘‘۔مگر آپ نے یہ نہیں تحریر فرمایا کہ آیا ہندوئوں کو تبلیغ کا حق بھی حاصل ہوگا یا نہیں؟آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’جو بھی اس حکومت کے اصول کو تسلیم کرلے وہ اس کے چلانے میں حصے دار ہوسکتا ہے،خواہ وہ ہندو زادہ ہو یا سکھ زادہ‘‘۔ براہ کر م اس کی توضیح کیجیے کہ ایک ہندو،ہندو رہتے ہوئے بھی کیا آپ کی حکومت کے اُصولوں پر ایمان لا کر اسے چلانے میں شریک ہوسکتا ہے؟
پھر آپ نے فرمایا ہے کہ’’ اہلِ کتاب کی عورتوں سے مسلمان نکاح کرسکتے ہیں‘‘ مگر آپ نے ساتھ ہی یہ واضح نہیں کیا کہ آیا اہلِ کتاب بھی مسلم عورتوں سے نکاح کرسکتے ہیں یا نہیں؟اگر جواب نفی میں ہے تو کیا آپ اس احساسِ برتری(superiority complex)کے بارے میں مزید روشنی ڈالیں گے؟اگر آپ اس کے اثبات (justification) کے لیے اسلام پر ایمان کی اوٹ لیں تو کیا آپ یہ ماننے کے لیے تیار ہیں کہ موجودہ نام نہاد مسلمان آپ کے قول کے مطابق ان اسلامی قواعد اورکیرکٹر کے اُصولوں پر پورے اُتریں گے؟ آج کے مسلمان کی بات تو الگ رہی، کیا آپ یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ خلافتِ راشدہ کے عہد میں اکثر وبیش تر جو لوگ اسلام لائے،وہ زیادہ تر سیاسی اقتدار کے خواہاں تھے؟ اگر آپ یہ تسلیم کرنے سے قاصر ہیں تو فرمایئے کہ پھر وہ اسلامی حکومت کیوں صرف تیس پینتیس سال چل کر رہ گئی؟ پھر کیوں حضرت علیؓ جیسے مدبر اور مجاہدکی اس قدر مخالفت ہوئی اور مخالفین میں حضرت عائشہؓ صاحبہ تک تھیں؟
آپ حکومت ِالٰہیہ کے خواہاں ہوتے ہوئے پاکستان کی مخالفت کرتے ہیں۔ کیا آپ اپنی حکومت ِالٰہیہ ملکی حدود کے بغیر ہی نافذ کرسکیں گے؟یقینا نہیں، تو پھر آپ کی حکومتِ الٰہیہ کے لیے ملکی حد ود بہرحال وہی موزوں ہوسکتی ہیں جہاں مسٹر جناح اور ان کے ساتھی پاکستان کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔آپ پاکستان کی حدود کے علاوہ کیوں سارے ہندستان میں حکومت الٰہیہ نافذ کریں گے؟نیز یہ گرہ بھی کھولیے کہ آپ موجودہ ماحول میں اس طرزِ حکومت کو چلانے کے لیے ایسے بلند اخلاق اور بہترین کیرکٹر کی شخصیتیں کہاں سے پیدا کریں گے؟جب کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ،حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان غنیؓ جیسے عدیم المثال بزرگ اسے چند سالوں سے زیادہ نہ چلاسکے۔چودہ سو سال کے بعد ایسے کون سے موافق حالات آپ کے پیشِ نظر ہیں جن کی بِنا پر آپ کی دُور رَس نگاہیں حکومتِ الٰہیہ کو عملی صورت میں دیکھ رہی ہیں؟اس میں شک نہیں کہ آپ کا پیغام ہر خیال کے مسلمانوں میں زور شور سے پھیل رہا ہے اور مجھے جس قدر بھی مسلمانوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے ،وہ سب اس خیال کے حامی ہیں کہ آپ نے جو کچھ کہا ہے وہ عین اسلام ہے۔ مگر ہر شخص کا اعتراض یہی ہے جو میںنے گذشتہ سطورمیں پیش کیا ہے، یعنی آپ کے پاس عہدِ خلافت ِ راشدہ کی اُصولی حکومت چلانے کے لیے فی زمانہ کیرکٹر کے آدمی کہاں ہیں؟ پھر جب کہ وہ بہترین نمونے کی ہستیاں اس نظام کو نصف صدی تک بھی کام یابی سے نہ چلا سکیں تو اس دور میں اس طرز کی حکومت کا خیال خوش فہمی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟
علاوہ بریں ایک چیز اور بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ مدت پہلے میرا یہ خیال تھا کہ صرف ہم ہندوئوں میں ہی ایک مشترکہ نصب العین نہیں ہے۔ بخلاف اس کے مسلمانوں میں اجتماعی زندگی ہے اور ان کے سامنے واحد نصب العین ہے۔ لیکن اب اسلامی سیاست کا بغور مطالعہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہاں کاحال ہم سے بھی دگرگوں ہے۔آپ سے چھپائوں نہیں میں نے تقریباً مختلف مراکز فکر کے مسلم رہنمائوں سے ان کے نصب العین اورطریقۂ کار کے بارے میں ایک متلاشیِ حق کی حیثیت سے چند ایک امور جو میرے لیے تحقیق طلب تھے،دریافت کیے۔ ان کے جوابات موصول ہونے پر میرا پہلا خیال غلط نکلا اور معلوم ہوا کہ مسلمانوں میں بھی طریقۂ کار اور نصب العین کے بارے میں زبردست اختلاف پایا جاتا ہے۔
(اس موقع پر مستفسر نے جماعت اسلامی سے اختلاف رکھنے والے بعض اصحاب کی تحریروں سے چند سطور نقل کی ہیں۔انہیں حذف کیا جاتا ہے)۔
ملاحظہ فرمایا آپ نے؟ آپ کے مشترک العقیدہ رہنما کس شدید اختلافِ آرا میں مبتلا ہیں۔ان ٹھوس حقائق اور واقعات کو نظر انداز کرکے محض کتابوں کے صفحات پر ایک چیز کو نظریے کی شکل میں پیش کردینا اور بات ہے اور اسے عملی جامہ پہنانا قطعاً مختلف چیز ہے۔سیاست ایک ٹھوس حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔کیا آپ میرے اس سارے التماس کو سامنے رکھ کراپنے طریقۂ کار اور راہِ عمل سے بہ تفصیل مطلع فرمائیں گے؟

جواب: آپ کے سوالات کا سرا حقیقت میں ابھی تک میں نہیں پاسکاہوں۔اس وجہ سے جو جوابات میں دیتا ہوں،ان میں سے کچھ اور ایسے سوالات نکل آتے ہیں جن کے نکلنے کی مجھے توقع نہیں ہوتی۔اگر آپ پہلے بنیادی امور سے بات شروع کریں اور پھر بتدریج فروعی معاملات اور وقتی سیاسیات(Current politics) کی طرف آئیں تو چاہے آپ مجھ سے متفق نہ ہوں لیکن کم ازکم مجھے اچھی طرح سمجھ ضرور لیں گے۔سرِدست تو میں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ میری پوزیشن آپ کے سامنے پوری طرح واضح نہیں ہے۔
آپ نے اپنے عنایت نامے میںتحریر فرمایا ہے کہ’ ’جس اسلامی حکومت کا میں خواب دیکھ رہا ہوں ،اس میں ذمّی اور اہلِ کتاب کی حیثیت وہی ہوگی جو ہندوئوں میں اچھوتوں کی ہے‘‘۔مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا ۔یا تو آپ ذمّیوں کی حیثیت میرے صاف صاف بیان کردینے کے باوجود نہیں سمجھے ہیں ’یا ہندوئوں‘ میں اُچھوتوں کی حیثیت سے واقف نہیں ہیں۔اوّل تو اچھوتوں کی جو حیثیت ’’منّو‘‘ کے ’’دھرم شاستر‘‘ سے معلوم ہوتی ہے،اس کو ان حقوق ومراعات سے کوئی نسبت نہیں ہے جو اسلامی فقہ میں ذمّیوں کو دیے گئے ہیں۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اچھوت پن کی بنیادنسلی امتیازپر ہے اور ذمیت کی بنیادمحض عقیدے پر۔ اگر ذمی اسلام قبول کرلے تو وہ ہمارا امیر وامام تک بن سکتا ہے۔ مگر کیا ایک شودر کسی عقیدہ ومسلک کو قبول کرلینے کے بعد ورن آشرم کی پابندیوں سے بری ہوسکتا ہے؟
آپ کا یہ سوال بہت ہی عجیب ہے کہ’’ کیا ایک ہندو ہندو رہتے ہوئے بھی آپ کی حکومت کے اُصولوں پر ایمان لاکر اسے چلانے میں شریک ہوسکتا ہے ؟‘‘شاید آپ نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اسلامی حکومت کے اُصولوں پر ایمان لے آنے کے بعد ہندوہندو کب رہے گا ،وہ تو مسلم ہوجائے گا۔آج جو کروڑوں ’’ہندو زادے‘‘اس ملک میں مسلمان ہیں، وہ اسلام کے اُصولوں پر ایمان لا کر ہی تو مسلمان ہوئے ہیں۔اسی طرح آیندہ جو ہندو زادے اسے مان لیں گے،وہ بھی مسلم ہوجائیں گے۔ اور جب وہ مسلم ہوجائیں گے تو یقینا اسلامی حکومت کو چلانے میں وہ ہمارے ساتھ برابر کے شریک ہوں گے۔
آپ کا یہ سوال کہ آیا ہندوئوں کو اسلامی ریاست میں تبلیغ کا حق بھی حاصل ہوگا یا نہیں، جتنا مختصر ہے اس کا جواب اتنا مختصر نہیں ہے۔تبلیغ کی کئی شکلیں ہیں۔ ایک شکل یہ ہے کہ کوئی مذہبی گروہ خود اپنی آیندہ نسلوں کو اور اپنے عوام کو اپنے مذہب کی تعلیم دے۔ اس کا حق تمام ذمّی گروہوں کوحاصل ہو گا۔ دوسری شکل یہ ہے کہ کوئی مذہبی گروہ تحریر یا تقریر کے ذریعے سے اپنے مذہب کو دوسروں کے سامنے پیش کرے اور اسلام سمیت دوسرے مسلکوں سے اپنے وجوہِ اختلاف کو علمی حیثیت سے بیان کرے۔ اس کی اجازت بھی ذمّیوں کو ہوگی،مگر ہم کسی مسلمان کو اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے اپنا دین تبدیل کرنے کی اجازت نہ دیں گے۔ تیسری شکل یہ ہے کہ کوئی گروہ اپنے مذہب کی بنیاد پر ایک منظم تحریک ایسی اُٹھائے جس کی غرض یا جس کا مآل یہ ہو کہ ملک کا نظامِ زندگی تبدیل ہوکر اسلامی اُصولوں کے بجائے اس کے اُصولوں پر قائم ہوجائے۔ایسی تبلیغ کی اجازت ہم اپنے حدود اقتدار میں کسی کو نہیں دیں گے۔اس مسئلے پر میرا مفصل مضمون’’ اسلام میں قتل ِ مرتد کا حکم‘‘ ملاحظہ فرمایئے۔( یہ مضمون اب کتابی شکل میں شائع کیا جاچکا ہے۔)
اہلِ کتاب کی عورتوں سے مسلمان کانکاح جائز اور مسلمان عورتوں سے اہلِ کتاب کا نکاح ناجائز ہونے کی بنیاد کسی احساسِ برتری پر نہیں ہے، بلکہ یہ ایک نفسیاتی حقیقت پر مبنی ہے۔مرد بالعموم متاثر کم ہوتا ہے اور اثر زیادہ ڈالتا ہے۔عورت بالعموم متاثر زیادہ ہوتی ہے اور اثر کم ڈالتی ہے۔ ایک غیر مسلمہ اگر کسی مسلمان کے نکاح میں آئے تو اس کا امکان کم ہوتا ہے کہ وہ اس مسلمان کو غیر مسلم بنالے گی، اور اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ وہ مسلمان ہوجائے گی۔ لیکن ایک مسلمان عورت اگر کسی غیر مسلم کے نکاح میں چلی جائے تو اس کے غیر مسلمہ ہوجانے کا بہت زیادہ اندیشہ ہے اور اس بات کی توقع بہت کم ہے کہ وہ اپنے شوہر کو اور اپنی اولاد کو مسلمان بناسکے گی۔ اسی لیے مسلمانوں کو اس کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اپنی لڑکیوں کا نکاح غیر مسلموں سے کریں۔ البتہ اگر اہل کتاب میں سے کوئی شخص خود اپنی بیٹی مسلمان کو دینے پر راضی ہو تو مسلمان اس سے نکاح کرسکتا ہے۔لیکن قرآن میں جہاں اس چیز کی اجازت دی گئی ہے وہاں ساتھ ہی ساتھ یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ اگر غیر مسلم بیوی کی محبت میں مبتلا ہوکر تم نے ایمان کھو دیا تو تمہارا سب کیا کرایا برباد ہوجائے گا اور آخرت میں تم خسارے میں رہو گے۔نیز یہ اجازت ایسی ہے جس سے خاص ضرورتوں کے مواقع پر ہی فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ یہ کوئی پسندیدہ فعل نہیں ہے جسے قبولِ عام حاصل ہو،بلکہ بعض حالات میں تو اس سے منع بھی کیاگیا ہے تاکہ مسلمانوںکی سوسائٹی میں غیر مسلم عناصر کے داخل ہونے سے کسی نامناسب اخلاقی اور اعتقادی حالت کا نشو ونما نہ ہوسکے۔
آپ کا یہ سوال کہ اسلامی حکومت صرف تیس پینتیس سال چل کر کیوں رہ گئی، ایک اہم تاریخی مسئلے سے متعلق ہے۔اگر آپ اسلامی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو اس کے اسباب سمجھنا آپ کے لیے کچھ زیادہ مشکل نہ ہوگا۔ کسی خاص اُصول کی علم برادر جماعت جو نظامِ زندگی قائم کرتی ہے، اس کا اپنی پوری شان کے ساتھ چلنا اور قائم رہنا اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ لیڈر شپ ایک ایسے چیدہ گروہ کے ہاتھ میں رہے جو اس اصول کاسچا اور سرگرم پیرو ہے۔ اور لیڈر شپ ایسے گروہ کے ہاتھ میں صرف اسی حالت میں رہ سکتی ہے جب کہ عام باشندوں پر اس گروہ کی گرفت قائم رہے اوران کی عظیم اکثریت کم ازکم اس حد تک تعلیم وتربیت پائے ہوئے ہو کہ اسے اس خاص اُصول کے ساتھ گہری وابستگی بھی ہو اور وہ ان لوگوں کی بات سننے کے لیے تیار بھی نہ ہو جو اس اُصول سے ہٹ کر کسی دوسرے طریقے کی طرف بلانے والے ہوں۔یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینے کے بعد اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو تمدنی انقلاب رونما ہوا اور جو نیا نظامِ زندگی قائم ہوا،اس کی بنیاد یہ تھی کہ عرب کی آبادی میں ایک طرح کا اخلاقی انقلاب(Moral Revolution)واقع ہوچکا تھا اور آنحضرت ؐ کی قیادت میں صالح انسانوں کاجو مختصر گروہ تیار ہوا تھا،اس کی قیادت تمام اہلِ عرب نے تسلیم کرلی تھی ۔لیکن آگے چل کر عہدِ خلافت ِ راشدہ میں جب ملک پر ملک فتح ہونے شرو ع ہوئے تو اسلام کی مملکت میں توسیع بہت تیزی کے ساتھ ہونے لگی اور استحکام اتنی تیزی کے ساتھ نہ ہوسکا۔ چوں کہ اس زمانے میں نشرو اشاعت اور تعلیم وتبلیغ کے ذرائع اتنے نہ تھے جتنے آج ہیں اور نہ وسائلِ حمل ونقل موجوہ زمانے کے مانند تھے، اس لیے جو فوج در فوج انسان اس نئی مسلم سوسائٹی میں داخل ہونے شروع ہوئے،ان کو اخلاقی،ذہنی اور عملی حیثیت سے اسلامی تحریک میں مکمل طورپر جذب کرنے کا انتظام نہ ہو سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانو ں کی عام آبادی میں صحیح قسم کے مسلمانوں کا تناسب بہت کم رہ گیا اور خام قسم کے مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی۔ لیکن اُصولاً ان مسلمانوں کے حقوق اور اختیارات اور سوسائٹی میں اُ ن کی حیثیت صحیح قسم کے مسلمانوں کی بہ نسبت کچھ بھی مختلف نہ ہوسکتی تھی۔اسی وجہ سے جب حضرت علیؓ کے زمانے میں ارتجاعی تحریکیں(یعنی جن کا مقصد اسلام سے پھر کسی نہ کسی طرح کی جاہلیت کی طرف پلٹ جانا تھا۔)(reactionary movements)رونما ہوئیں تو مسلمان پبلک کا ایک بہت بڑا حصہ ان سے متاثر ہوگیا اورلیڈر شپ ان لوگوں کے ہاتھ سے نکل گئی جو ٹھیٹھ اسلامی طرز پر کام کرنے والے تھے۔اس تاریخی حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد ہمیں یہ واقعہ ذرہ برابر بھی دل شکستہ نہیں کرتا کہ خالص اسلامی حکومت تیس پینتیس سال سے زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکی۔
آج اگر ہم ایک صالح گروہ اس ذہنیت، اس اخلاق،اور اس سیرت کے انسانوں کا منظم کرسکیں جو اسلام کے منشا کے مطابق ہو، تو ہم اُمید رکھتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے ذرائع ووسائل سے فائدہ اُٹھا کر نہ صرف اپنے ملک بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ہم ایک اخلاقی وتمدنی انقلاب برپا کرسکیں گے، اور ہمیں پورا یقین ہے کہ ایسے گروہ کے منظم ہوجانے کے بعد عام انسانوں کی قیادت اس گروہ کے سواکسی دوسری پارٹی کے ہاتھ میں نہیں جاسکتی۔آپ مسلمانو ں کی موجودہ حالت کو دیکھ کر جو رائے قائم کررہے ہیں،وہ اس حالت پر چسپاں نہیں ہوسکتی جو ہمارے پیشِ نظر ہے۔
اگر صحیح اخلاق کے حامل انسان میدانِ عمل میں آجائیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلمان عوام ہی نہیں بلکہ ہندو،عیسائی، پارسی اور سکھ سب ان کے گرویدہ ہوجائیں گے اور خود اپنے ہم مذہب لیڈروں کو چھوڑ کر اُن پر اعتماد کرنے لگیں گے۔ ایسے ہی ایک گروہ کو تربیت اور تعلیم اور تنظیم کے ذریعے سے تیار کرنا اس وقت میرے پیش نظر ہے،اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اس کام میں وہ میری مدد کرے۔
’’حکومتِ الٰہیہ‘‘ اور’’پاکستان ‘‘کے فرق کے متعلق جو سوال آپ نے کیا ہے،اس کا جواب آپ میری کتابوں میں پاسکتے تھے مگر وہ شاید آپ کی نظر سے نہیں گزریں۔پاکستان کے مطالبے کی بنیاد قومیت کے اُصول پر ہے،یعنی مسلمان قوم کے افراد جہاں اکثریت میں ہوں ،وہاں انہیں اپنی حکومت قائم کرنے کا حق حاصل ہو۔بخلاف اس کے تحریکِ حکومتِ الٰہیہ کی بنیاد اسلام کا اُصول ہے۔ پاکستان صرف ان لوگوں کو اپیل کرسکتا ہے جو مسلمان قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن حکومت الٰہیہ کی دعوت تمام انسانوں کو اپیل کرسکتی ہے،خواہ وہ پیدایشی مسلمان ہوں یا پیدایشی ہندو یا کوئی اور… پاکستان صرف وہیں قائم ہوسکتا ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اس بات کی بہت کم توقع ہے کہ اس تحریک کے نتیجے میں ایک خالص اسلامی حکومت قائم ہوگی،کیوں کہ خالص اسلامی حکومت کا قیام جس اخلاقی انقلاب پر منحصر ہے، وہ پاکستان کی تحریک سے رُونما نہیں ہوسکتا۔ لیکن حکومتِ الٰہیہ اس کی محتاج نہیں ہے کہ کسی جگہ مسلمان قوم کی اکثریت پہلے سے موجود ہو۔ وہ تو ایک اخلاقی اور ذہنی اور تمدنی انقلاب کی دعوت ہے اور سارے انسانوں کے لیے خود انہی کی فلاح کے چند اصول پیش کرتی ہے۔ اس دعوت کو اگر پنجاب یا سندھ سب سے پہلے آگے بڑھ کر قبو ل کرلیں تو حکومت ِ الٰہیہ یہاں قائم ہوسکتی ہے اور اگر مدراس یا بمبئی یا کوئی دوسرا علاقہ پیش قدمی کرکے اسے قبول کرلے تو حکومت ِ الٰہیہ وہاں قائم ہوسکتی ہے۔ہم اس دعوت کو مسلمان،ہندو ،سکھ، عیسائی،ہر ایک کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ مسلمانوں کی کوئی قومی جائدا د نہیں ہے ،بلکہ تمام مسلمانوں کی فلاح کے چند اُصول ہیں۔ہوسکتا ہے کہ پیدایشی مسلمان اس دعوت کو قبول کرنے میں کوتاہی دکھائیں اور پیدایشی ہندو آگے بڑھ کر اسے قبول کرلیں۔
آپ کایہ خیال بالکل صحیح ہے کہ اس وقت مسلمانو ںمیں ایک مشترکہ مقصد اور نصب العین کا فقدان ہندوئوں سے بھی کچھ زیادہ پایا جاتا ہے۔درحقیقت یہ سب کچھ نتیجہ ہے اسلام سے بے نیاز ہوکر دنیوی معاملات کو خواہشاتِ نفس اور غیر مسلم طور طریقوں کی تقلید سے حل کرنے کی کوشش کا۔اگر مسلمان خالص اسلامی اُصول پر اپنے انفرادی واجتماعی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے تو آپ ان کو ایک ہی مقصد اور ایک ہی نصب العین کے پیچھے اپنی ساری قوتیں صَرف کرتے ہوئے پاتے۔ آپ نے مسلمانوں کے اندر خیالات اور اعمال کا جو انتشار محسوس کیا ہے اسے میں بھی ایک مدت سے دیکھ رہا ہوں اور ہماری اسلامی تحریک کے ساتھ مسلمانوں کے مختلف طبقوں کا جو رویہ ہے وہ بھی میر ی نگاہ میں ہے۔ مگر ان چیزوں سے میرے اندر کوئی بددلی پیدا نہیں ہوتی۔ کیوں کہ ان باتوں کی تہ میں جو اصلی خرابی ہے ،اسے میں اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ صرف یہی نہیں کہ میں بددل نہیں ہوں بلکہ ایک بڑی حد تک پراُمیدہوں ۔جیسا کہ آپ نے خود بھی تحریر فرمایاہے ،مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ بڑی تیزی کے ساتھ اس بات کو تسلیم کرتا جارہا ہے کہ جو چیز میں پیش کررہا ہوں، یہی اصلی اور خالص اسلام ہے۔ اس کے ساتھ میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ مسلمانوں کے موجودہ مختلف گروہ جس طرز پر کام کررہے ہیں،اس سے ان کافلاح کی منزل تک پہنچنا تقریباًمحال ہے۔لہٰذا اس امر کا قوی امکان ہے کہ مستقبل قریب میں مسلمان نوجوان ان مختلف گروہوں سے اور ان کی سیاست سے مایوس ہوجائیں گے اور ان کے لیے خالص اسلام کے اُصولوں پر کام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا۔صرف یہی نہیں بلکہ میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ ہندوئوں میں بھی جب قوم پرستی سیاسی آزادی کی منزل پر پہنچ جائے گی تو انہیں سیاست اور معاشرت اور تمدن کی مشینری کو چلانے کے لیے کچھ اُصول درکار ہوں گے اور وہ گاندھی جی کے فلسفے میں ،یاکانگریس کی وطن پرستی اور ہندو مہا سبھا کی قوم پرستی میں نہ مل سکیں گے۔اس وقت ان کے لیے صرف دو ہی راستے ہوں گے۔ یا اشتراکیت کے اُصولوں کو اختیار کریں، یا پھر اسلام کے اُصولوں کو قبول کر لیں۔ اس موقع کے پیش آنے تک اگر ہم اُصولِ اسلام کے بے لاگ داعیوں کا ایک صالح گروہ منظم کرنے میں کام یاب ہوگئے تومجھے ۸۰ فی صدی اُمید ہے کہ ہم اپنے ہندو اور سکھ بھائیوں کو اشتراکیت سے بچانے اور اسلام کے اُصولوں کی طرف کھینچ لانے میں کام یاب ہوجائیں گے۔
ہمارے اس مقصد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمانوں اور ہندوئو ں کی موجودہ قومی کش مکش ہے۔مگر ہم اُ مید کرتے ہیں کہ جس طریقے پر ہم اس وقت کام کررہے ہیں،اس سے ہم ہندوئوں اورسکھوں اور دوسری غیر مسلم قوموں کے اس تعصب کو جو وہ اسلام کے خلاف رکھتے ہیںبالآخر دور کردیں گے اور انہیں اس بات پر آمادہ کرلیں گے کہ وہ اسلام کو خالص اُصولی حیثیت سے دیکھیں نہ کہ اس قوم کے مذہب کی حیثیت سے جس کے ساتھ دنیوی اغراض کے لیے ان کی مدتوں سے کش مکش برپا ہے۔

( ترجما ن القرآن۔ذی القعدہ،ذی الحجہ۶۳ھ۔ نومبر،دسمبر ۴۴ء)

مسلم لیگ سے اختلاف کی نوعیت:

سوال: (یہ دراصل سوال نامہ ہے جو مسلم لیگ کی مجلس عمل کی جانب سے جاری کیا گیا تھااور من جملہ دوسرے اصحاب اور ادارات کے مدیر ’’ترجمان القرآن‘‘ کو بھی بھیجا گیا تھا۔) کن اُصول،خطوط اور بنیادوں پر ہندستانی مسلمانوںکی سیاسی ومعاشی اصلاح، ان حالات کے اندر رہتے ہوئے جن میں وہ گھرے ہوئے ہیں،اسلامی اُصول،روایات اور نقطۂ نظر کے مطابق ممکن ہے؟براہِ کرم حسبِ ذیل خطوط پر اپنی تفصیلی رائے تحریر کیجیے:
(الف) ایک ایسا قابلِ عمل دستور تجویز کیجیے جس کے ذریعے قومی احیا کے مشترکہ مقصد کے لیے مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور مدارسِ فکر کو متحد اور مربوط کیا جاسکے۔
(ب) ایک ایسا اقتصادی نقشہ ونظام مرتب کیجیے جو اُصولِ اسلام کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔
(ج) ہندستانی مسلمان جن مخصوص حالات میں گھرے ہوئے ہیں،انہیں ذہن میں رکھ کر بتایئے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اگر اور جب وہ ایسی آزاد ریاستیں حاصل کرلیں جن میں ان کی اکثریت ہو،تو ایک ایسا نظامِ حکومت قائم کرسکیں جس میں مذہب اور سیاست کے درمیان ایک خوش آیندہم آہنگی پیدا ہوجائے۔
(د) اسلامی اُصول، روایات، تصورات اورنظریات کے مطابق ایک ایسی اسکیم مرتب کیجیے جو مسلمانوں کے معاشرتی،تہذیبی اور تعلیمی پہلوئوں پر حاوی ہو۔
(ر) مجموعی قومی بہبودی کی خاطر مذہبی ادارات یعنی اوقاف اور دوسرے ذرائع آمدنی کو ایک مرکز کے ماتحت منظم کرنے کے لیے طریقِ کار اور نظام اس طرح مرتب کیجیے کہ ان اداروں پر قبضہ رکھنے والے اشخاص کے احساسات،میلانات،اغراض اورمختلف نظریات کا لحاظ رہے۔

جواب: آپ نے جو تفصیلی سوالات دریافت کیے ہیں،وہ دراصل ایک ہی بڑے سوال کے اجزا ہیں۔پھر کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ان مسائل کو الگ الگ لینے اور ان پر الگ الگ رائے ظاہر کرنے کے بجائے اسی بڑے سوال کو بیک وقت سامنے لے آیا جائے جس کے یہ سب اجزا ہیں۔ اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان کس طرح وہ اصلی مسلمان بنیں جنہیں بنانا قرآن کا اصل منشا تھا۔ یہ ہے اصل سوال، اوراس کے حل ہونے سے باقی سب سوالات خود بخود حل ہوجائیں گے۔
میرے پاس اس سوال کا سیدھا اور صاف جواب یہ ہے کہ پہلے اسلام کو،جو کچھ وہ ہے اور جو کچھ انسان سے اس کے مطالبات ہیں،واضح طور پر مسلمانوں کے سامنے رکھ دیا جائے اور ان سے شعوری طور پر اسے قبول کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔ پھر جو لوگ اسے جاننے اور سمجھنے کے بعد قبول کریں اور اپنے طرزِ عمل سے ثابت کریں کہ واقعی انہوں نے اسے قبول کیا ہے ،ان کو ایک پارٹی کی صورت میں منظم کرنا شروع کیا جائے اور باقی مسلمانوں میں مسلسل تبلیغ وتلقین کا سلسلہ اس ارادے کے ساتھ جاری رکھا جائے کہ بالآخر ہمیں اس پارٹی میں پوری قوم کو جذب کرلینا ہے۔
اس پارٹی کے سامنے صرف ایک ہی نصب العین ہو، یعنی اسلام کو بہ حیثیت ایک نظامِ زندگی کے عملاًزمین پر قائم کرنا۔ اور اس کا ایک ہی اُصول ہو، یعنی اسلام کے خالص طریقے پر چلنا( خواہ یہ طریقہ دنیا کو مرغوب ہو یا نہ ہو) اور غیر اسلام کے ساتھ ہر مدارات و مصالحت (compromise) اور ہر آمیزش واختلاط کو قطعی چھوڑ دینا۔ اس نصب العین اور اس اُصول پر جو پارٹی کام کرے گی،اس کے لیے وہ سوالات جو آپ کے سامنے آرہے ہیں،اوّ ل تو سرے سے پیدا ہی نہ ہوں گے اور اگر ان میں سے بعض سوالات پیدا ہوئے بھی تو وہ اس شکل میں نہیں ہوں گے جس شکل میں آپ کے سامنے اَب یہ سوالات آرہے ہیں۔انہیں کوئی نئی اسکیم وضع نہیں کرنی ہوگی بلکہ صرف وہ قوت فراہم کرنا ہوگی جس سے بنی ہوئی اسکیم کو نافذ کرسکیں۔ وہ اس کی پروا نہیں کریں گے کہ موجودہ حالات ہماری اسکیم کے نفاذ کے لیے ساز گار ہیں یا نہیں۔ وہ ناساز گار حالات کو بزور بدلیں گے تاکہ وہ اس اسکیم کے لیے ساز گاری کرنے پر مجبور ہوں۔غرض یہ کہ ان کا نقطۂ نظر اِس معاملے میں اس نقطۂ نظر سے بالکل مختلف ہوگا جو آپ حضرات نے اختیارکیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ آپ حضرات ایک ایسی پیچیدگی میں پڑ گئے ہیں جس کا کوئی حل شاید آپ نہ پاسکیں گے۔وہ پیچیدگی یہ ہے کہ ایک طرف تو آپ اس پوری مسلمان قوم کو’’مسلمان‘‘ کی حیثیت سے لے رہے ہیں جس کے ننانوے فی صدی افراد اسلام سے جاہل اور پچانوے فی صدی منحرف اور نوے فی صدی انحراف پر مصر ہیں۔یعنی وہ خود اسلام کے طریقے پر چلنا نہیں چاہتے اور نہ اس منشا کو پورا کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے ان کو مسلمان بنایا گیا ہے ۔دوسری طرف آپ حالات کے اس پورے مجموعے کو جو اس وقت عملاً قائم ہے، تھوڑی سی ترمیم کے بعد قبول کرلیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حالات تو یہی رہیں اور پھر ان کے اندر کسی اسلامی اسکیم کے نفاذ کی گنجایش نکل آئے۔یہی چیز آپ کے لیے ایک بڑی پیچیدگی پیدا کرتی ہے، اور اسی وجہ سے میرا یہ خیال ہے کہ جن مسائل سے آپ حضرات تعرض کررہے ہیں،ان کا کوئی حل آپ کچھ نہ پاسکیں گے۔
سوال: آپ کو علم ہوگا کہ مسلم لیگ نے کام کو آگے بڑھانے کے لیے ایک مجلسِ عمل کا تقرر کیا ہے۔ پھر اس مجلسِ عمل نے مختلف ذیلی مجالس مسلمانوں کی اصلاح وترقی کے لیے مقرر کردی ہیں۔ انہی میں سے ایک مذہبی ومعاشرتی حالات کی اصلاح کے لیے ہے جس کے داعی کی طرف سے آپ کو ایک سوال نامہ غالباً موصول ہوچکا ہوگا۔(یہ وہی سوال نامہ ہے جو اوپر ہمارے جواب سمیت درج ہوچکا ہے۔) اس سوال نامے کو خاص توجہ کا مستحق سمجھیے اور ہر طرح کے اختلافات کو نظر انداز کرکے فکری تعاون فرمایئے۔غنیمت سمجھنا چاہیے کہ ابھی تک مسلمانوں نے اپنی مذہبیت کو مغرب، کے سیلابِ الحاد کے مقابلے میں بچا رکھا ہے۔اگر اس نازک لمحے میں اُن کی صحیح رہنمائی نہ کی گئی تو ممکن ہے کہ نوجوانانِ ملت ترکی اور ایران کے نقشِ قدم پر چل نکلیں۔
جواب: آپ کا عنایت نامہ آنے سے پہلے ہی میں لیگ کی مجلسِ عمل کو متذکرہ سوال نامے کا جواب دے چکا ہوں۔آپ حضرات ہرگزیہ گمان نہ کریں کہ میں اس کام میں کسی قسم کے اختلافات کی وجہ سے حصہ لینا نہیں چاہتا۔ دراصل میری مجبوری یہ ہے کہ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ حصہ لوں تو کس طرح۔ ادھوری تدابیر(half measures) میرے ذہن کو بالکل اپیل نہیں کرتیں۔ نہ داغ دوزی(patch work) سے ہی مجھ کو کبھی دل چسپی رہی ہے۔ اور مجلس عمل کے پیشِ نظر یہی کچھ ہے۔ اگر کلی تخریب اور کلی تعمیر پیشِ نظر ہوتی تو میں بہ دل وجان اس میں ہرخدمت انجام دینے کے لیے تیار تھا۔لیکن یہاں کل کو بجنسہٖ برقرار رکھتے ہوئے اس کے بعض اجزا کو ہٹا کر ان کی جگہ بعض دوسرے اجزا لارکھنا مطلوب ہے، جس کے لیے کوئی قابلِ عمل اور نتیجہ خیز صورت سوچنے سے میرا ذہن عاجز ہے۔میرے لیے یہی مناسب ہے کہ اس باب میں عملاً کوئی خدمت انجام دینے کے بجائے ایک طالب علم کی طرح دیکھتا رہوں کہ سوچنے والے اس جزوی اصلاح وتعمیر کی کیا صورتیں نکالتے ہیں اور کرنے والے اسے عمل میں لاکر کیا نتائج پیدا کرتے ہیں۔ اگر فی الواقع انہوں نے اس طریقے سے کوئی بہتر نتیجہ نکال کر دکھادیا تو وہ میرے لیے ایک انکشاف ہوگا، اور ممکن ہے کہ اس کو دیکھ کر میں مسلکِ کلی سے مسلکِ جزوی کی طرف منتقل(convert) ہوجائوں۔ (ترجمان القرآن۔رجب ،شوال۶۳ھ۔ جولائی،اکتوبر ۴۴ء)

مطالبۂ پاکستان:

سوال: ہمارا عقیدہ ہے کہ مسلمان آدم علیہ السلام کی خلافت ِارضی کا وارث ہے۔مسلمان کی زندگی کا مقصد صرف اﷲ پاک کی رضا اور اس کے مقدس قانون پر چلنا اور دوسروں کو چلنے کی ترغیب دینا ہے۔اس لیے اس کا فطری نصب العین یہ قرار پاتا ہے کہ سارے عالم کو قانونِ الٰہیہ کے آگے مفتوح کر دے۔
لیکن مسٹر جناح اور ہمارے دوسرے مسلم لیگی بھائی پاکستان چاہتے ہیں۔ہندستان کی زمین کا ایک گوشہ!… تاکہ ان کے خیال کے مطابق مسلما ن چین کی زندگی گزار سکیں۔کیا خالص دینی نقطۂ نظر سے یہ قابلِ اعتراض نہیں؟
یہودی قوم مقہور ومغضوب قوم ہے۔ اﷲ پاک نے اس پر زمین تنگ کردی ہے اور ہر چند کہ اس قوم میں دنیا کے بڑے سے بڑے سرمایہ دار اور مختلف علوم کے ماہرین موجود ہیں لیکن ان کے قبضے میں ایک انچ زمین بھی نہیں ہے۔آج وہ اپنا قومی وطن بنانے کے لیے کبھی انگریزوں سے بھیک مانگتے ہیں اور کبھی امریکا والوں سے۔
میرے خیال میں مسلمان… یا بالفاظِ دیگر مسلم لیگ بھی یہی کررہی ہے۔وہ یہودیوں کی طرح پاکستان کی بھیک کبھی ہندوئوں سے اور کبھی انگریزوں سے مانگتی پھر رہی ہے۔ تو پھر کیا یہ ایک مقہور اور مغضوب قوم کی پیروی نہیں ہے ؟اور کیا ایک مقہور ومغضوب قوم کی پیروی مسلمانوں کو بھی اسی صف میں لاکھڑا نہ کردے گی؟

جواب: مطالبۂ پاکستان کے متعلق آپ میرے مفصل خیالات’’ مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ حصہ سوم میں ملاحظہ فرمایئے۔ میرے نزدیک پاکستان کے مطالبے پر یہودیوں کے قومی وطن کی تشبیہ چسپاں نہیں ہوتی۔فلسطین فی الواقع یہودیوں کا قومی وطن نہیں ہے۔ان کو وہاں سے نکلے ہوئے دو ہزار برس گزر چکے ہیں۔اُسے اگر ان کا قومی وطن کہا جاسکتا ہے تو اسی معنی میں جس معنی میں جرمنی کی آریہ نسل کے لوگ وسط ایشیا کو اپنا قومی وطن کہہ سکتے ہیں۔یہودیوں کی اصل پوزیشن یہ نہیں ہے کہ ایک ملک واقعی ان کا قومی وطن ہے اور وہ اسے تسلیم کرانا چاہتے ہیں۔ بلکہ ان کی اصل پوزیشن یہ ہے کہ ایک ملک اُ ن کا قومی وطن نہیں ہے اور ان کا مطالبہ یہ ہے کہ ہم کو دنیا کے مختلف گوشوں سے سمیٹ کر وہاں لا بسایا جائے اور اسے بزور ہمارا قومی وطن بنادیا جائے۔ بخلاف اس کے مطالبۂ پاکستان کی بنیاد یہ ہے کہ جس علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے، وہ بالفعل مسلمانوں کا قومی وطن ہے۔مسلمانوں کا کہنا صرف یہ ہے کہ موجودہ جمہوری نظام میں ہندستان کے دوسرے حصوں کے ساتھ لگے رہنے سے ان کے قومی وطن کی سیاسی حیثیت کو جو نقصان پہنچتا ہے،اس سے اس کو محفوظ رکھا جائے اور متحدہ ہندستان کی ایک آزاد حکومت کے بجائے ہندوہندستان اور مسلم ہندستان کی دو آزاد حکومتیں قائم ہوں۔بالفاظ دیگر مسلمان یہ نہیں کہتے کہ ہمارے لیے ایک قومی وطن بنایا جائے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا قومی وطن جو بالفعل موجود ہے، اس کو اپنی آزاد حکومت الگ قائم کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔
یہ چیز وہی ہے جو آج کل دنیا کی ہر قوم چاہتی ہے، اور اگر مسلمانو ں کے مسلمان ہونے کی حیثیت کو نظر اندازکرکے انہیں صرف ایک قوم کی حیثیت سے دیکھا جائے تو ان کے اس مطالبے کے حق بجانب ہونے میں کوئی کلام نہیں کیا جاسکتا۔ہم اُصولاً اس بات کے مخالف ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم کسی دوسری قوم پر سیاسی ومعاشی حیثیت سے مسلط ہو۔ ہمارے نزدیک اُصولاً یہ ہر قوم کا حق ہے کہ اس کی سیاسی ومعاشی باگیں اس کے اپنے ہاتھوں میں ہوں۔اس لیے ایک قوم ہونے کی حیثیت سے اگر مسلمان یہ مطالبہ کریں تو جس طرح دوسری قوموں کے معاملے میں یہ مطالبہ صحیح ہے، اسی طرح ان کے معاملے میں بھی صحیح ہے۔
ہمیں اس چیز کونصب العین بنانے پر جو اعتراض ہے، وہ صرف یہ ہے کہ مسلمانوں نے ایک اُصولی جماعت اور ایک نظام کی داعی اور علم بردار جماعت ہونے کی حیثیت کو نظر انداز کرکے صرف ایک قوم ہونے کی حیثیت اختیا ر کرلی ہے۔اگر وہ اپنی اصلی حیثیت کو قائم رکھتے تو ان کے قومی وطن اور اس کی آزادی کا سوال ایک نہایت حقیر سوال ہوتا، بلکہ حقیقتاً سرے سے وہ ان کے لیے پیدا ہی نہ ہوتا۔ اب وہ کروڑوں ہوکر ایک ذرا سے خطے میں اپنی حکومت حاصل کرلینے کو ایک انتہائی نصب العین سمجھ رہے ہیں، لیکن اگر وہ نظامِ اسلامی کے داعی ہونے کی حیثیت اختیار کریں تو تنہا ایک مسلمان ساری دنیا پر اپنی، یعنی درحقیقت اپنے اس نظام کی جس کا وہ داعی ہے،حکومت کا مدعی ہوسکتاہے اور صحیح طور پر سعی کرے تو اسے قائم بھی کرسکتا ہے۔
(ترجمان القرآن۔رجب،شوال۶۳ھ۔ جولائی ،اکتوبر ۴۴ء)

جماعت ِاسلامی اور صوبۂ سرحد کا ریفرنڈم:

سوال: جیسا کہ آپ کو معلوم ہے صوبۂ سرحد میں اس سوال پر ریفرنڈم ہورہا ہے کہ اس صوبے کے لوگ تقسیمِ ہند کے بعد اپنے صوبے کوہندستان کے ساتھ شامل کرانا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ وہ لوگ جو جماعت اسلامی پر اعتماد رکھتے ہیں،ہم سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کو اس استصواب میں رائے دینی چاہیے اور کس طرف سے رائے دینی چاہیے؟کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اس استصواب میں بھی ہماری پالیسی اسی طرح غیر جانب دارانہ ہونی چاہیے جیسے مجالسِ قانون ساز کے سابق انتخابات میں رہی ہے، ورنہ ہم پاکستان کے حق میں اگر ووٹ دیں گے تو یہ ووٹ آپ سے آپ اس نظام حکومت کے حق میں بھی شمار ہوگا جس پر پاکستان قائم ہورہا ہے۔

جواب: استصوابِ رائے کا معاملہ مجالسِ قانون ساز کے انتخابات کے معاملے سے اُصولاً مختلف ہے۔ استصوابِ رائے صرف اس امر سے متعلق ہے کہ تم کس ملک سے وابستہ رہنا چاہتے ہو۔ ہندستان سے یا پاکستان سے ؟اس معاملے میں رائے دینا بالکل جائز ہے اور اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔ لہٰذا جن جن علاقوں میں استصوابِ رائے کیا جارہا ہے وہاں کے ارکانِ جماعت اسلامی کو اجازت ہے کہ اس میں رائے دیں۔
رہا یہ سوال کہ کس چیز کے حق میں رائے دیں، تو اس معاملے میںجماعت کی طرف سے کوئی پابندی نہیں عائد کی جاسکتی، کیوں کہ جماعت اپنے ارکان کو صرف ان اُمور میں پابند کرتی ہے جو تحریک اسلامی کے اُصول اور مقصد سے تعلق رکھتے ہیں،اور یہ معاملہ نہ اُصولی ہے نہ مقصدی۔ اس لیے ارکانِ جماعت کو اختیار ہے کہ وہ اپنی صواب دید کے مطابق جو رائے چاہیںدے دیں۔البتہ شخصی حیثیت سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر میں خود صوبۂ سرحد کا رہنے والا ہوتا تو استصوابِ رائے میں میرا ووٹ پاکستان کے حق میں پڑتا۔اس لیے کہ جب ہندستان کی تقسیم ہندو اور مسلم قومیت کی بنیاد پر ہورہی ہے تولامحالہ ہر اُس علاقے کو جہاں مسلمان قوم کی اکثریت ہو،اس تقسیم میں مسلم قومیت ہی کے علاقے کے ساتھ شامل ہونا چاہیے۔
پاکستان کے حق میں ووٹ دینالازماً اس نظامِ حکومت کے حق میں ووٹ دینے کا ہم معنی نہیں ہے جو آیندہ یہاں قائم ہونے والا ہے۔وہ نظام اگر فی الواقع اسلامی ہو، جیسا کہ وعدہ کیا جاتارہا ہے، تو ہم دل وجان سے اس کے حامی ہوں گے، اور اگر وہ غیر اسلامی نظام ہوا تو ہم اسے تبدیل کرکے اسلامی اُصولوں پر ڈھالنے کی جدوجہد اسی طرح کرتے رہیں گے جس طرح موجودہ نظام میں کررہے ہیں۔ (سہ روزہ کوثر،مؤرخہ ۵جولائی۱۹۴۷ء)

حکومت ِالٰہیہ اور پاپائیت کا اصولی فرق:

سوال: رسالہ ’’پیغامِ حق‘‘میں ابو سعید بزمی صاحب نے اپنے ایک مضمون کے سلسلے میں لکھا ہے:
’’اسلامی ریاست کا ایک تصور وہ بھی ہے جسے حال ہی میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے بڑے زور شورکے ساتھ پیش کیا ہے اور جس کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ حکومت عوام کے سامنے جواب دہ نہ ہو۔ تاریخی حیثیت سے یہ اُصول نیا نہیں۔ یورپ میں ایک عرصے تک تھیاکریسی (theocracy) کے نام سے اس کا چرچا رہا اور رُوم کے پاپائے اعظم کا اقتدار اسی تصور کا نتیجہ تھا۔ لیکن لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ چوں کہ خدا کوئی ناطق ادارہ نہیں، اس لیے جس شخص کو خدا کے نام پر اختیار واقتدار مل جائے،وہ بڑی آسانی سے اس کا غلط استعمال کر سکتا ہے۔ مولانا مودودیؒ کے حلقۂ خیال کے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا تصورِ سیاست پاپائے اعظم کے تصور سے مختلف ہے۔لیکن چوں کہ وہ حکومت کو عوام کے سامنے جواب دہ قرار نہیں دیتے اور اسی بنیاد پر جمہوریت کو غلط سمجھتے ہیں، اس لیے نتیجتاً ان کا تصور پاپائے اعظم ہی کا تصور ہوکر رہ جاتا ہے۔‘‘
پھر بزمی صاحب اپنی طرف سے ایک حل پیش کرتے ہیں،لیکن وہ بھی وجہ تسلی نہیں ہوتا۔ آپ براہِ کرم ’’ترجمان القرآن‘‘ کے ذریعے سے اس غلط فہمی کا ازالہ فرما دیں اور صحیح نظریے کی توضیح کر دیں۔

جواب: بزمی صاحب نے غالباًمیرا مضمون’’اسلام کا نظریۂ سیاسی‘‘ملاحظہ نہیں فرمایا ہے، ور نہ وہ دیکھتے کہ جو اعتراضات انہوں نے میرے مسلک پر کیے ہیں،ان کا پورا جواب اس مضمون میں موجو د ہے۔ لیکن اگر انہوں نے اس مضمون کو پڑھا ہے اور پھر یہ اعتراضات کیے ہیں تو میں سوائے اس کے کہ اظہار تعجب کروں، اور کچھ عرض نہیں کرسکتا۔ میرے اس مضمون میں یہ عبارتیں قابلِ ملاحظہ ہیں:
٭ ’’ مگر یورپ جس تھیاکریسی سے واقف ہے،اسلامی تھیا کریسی اس سے بالکل مختلف ہے۔یورپ اس تھیا کریسی سے واقف ہے جس میں ایک مخصوص مذہبی طبقہ خدا کے نام سے خود اپنے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرتا ہے اور عملاً اپنی خدائی تمام باشندوں پر مسلط کردیتا ہے ۔ایسی حکومت کو الٰہی حکومت کہنے کے بجائے شیطانی حکومت کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔ بخلاف اس کے اسلام جس تھیا کریسی کو پیش کرتا ہے،وہ کسی مخصوص مذہبی طبقے کے ہاتھ میں نہیں ہوتی بلکہ عام مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور یہ عام مسلمان اسے خدا کی کتاب اور رسولؐ کی سنت کے مطابق چلاتے ہیں۔اگر مجھے ایک نئی اصطلاح وضع کرنے کی اجازت دی جائے تو میں اس طرزِ حکومت کو الٰہی جمہوری حکومت (theo-democratic state)کے نام سے موسوم کروں گا، کیوں کہ اس میں خدا کی حاکمیت اور اس کے اقتدارِ اعلیٰ کے تحت مسلمانوں کو ایک محدود عمومی حکومت عطا کی گئی ہے۔ اس میں عاملہ مسلمانوں کی رائے سے بنے گی، مسلمان ہی اس کو معزول کرنے کے مختار ہوں گے، سارے انتظامی معاملات اور تمام وہ مسائل جن کے متعلق خدا کی شریعت میں کوئی صریح حکم موجود نہیں ہے مسلمانوں کے اجماع ہی سے طے ہوں گے ،اور الٰہی قانون جہاں تعبیر طلب ہوگاوہاں کوئی مخصوص طبقہ یا نسل نہیں بلکہ عام مسلمانوں میں سے ہر وہ شخص اس کی تعبیر کا مستحق ہوگا جس نے اجتہاد کی قابلیت بہم پہنچائی ہو۔‘‘
پھر میں نے اوپر کی عبارت کے نیچے حاشیے میں اس کی مزید تشریح کی ہے کہ:
’’عیسائی پاپائوں اور پادریوں کے پاس مسیح ؑ کی چند اخلاقی تعلیمات کے سوا کوئی شریعت سرے سے تھی ہی نہیں، لہٰذا وہ اپنی مرضی سے اپنی خواہشاتِ نفس کے مطابق قوانین بناتے تھے اور انہیں یہ کہہ کر نافذ کرتے تھے کہ یہ خدا کی طرف سے ہیں۔‘‘
کوئی شخص جو مسیحی مذہب اور پاپائیت کی تاریخ سے واقف ہے، میرے اِ س اشارے کو جو میں نے ان چند فقروں میں کیا ہے، سمجھنے سے قاصر نہیں رہ سکتا۔یورپ کا پاپائی نظام سینٹ پال کا پیرو تھا جس نے موسوی شریعت کو لعنت قرار دے کرمسیحیت کی بنیاد صرف ان اخلاقی تعلیمات پررکھی تھی جو ’’نئے عہد نامے‘‘ میں پائی جاتی ہیں۔ ان اخلاقی تعلیمات میں کوئی ایسا قانون موجود نہیں ہے جس پر ایک تمدن اور ایک سیاست کا نظام چلایا جاسکے۔ مگرجب پاپائوں نے یورپ میں بلاواسطہ یا بالواسطہ تھیا کریسی قائم کی تو اس کے لیے ایک قانون شریعت بھی وضع کیا ،جو ظاہر ہے کہ کسی وحی والہام سے ماخوذ نہ تھا، بلکہ خود ان کا گھڑا ہوا تھا۔اس میں انہوں نے جو نظام عقائد، جو مذہبی اعمال ورسوم، جو نذریں اور نیازیں، جو معاشرتی ضوابط وغیرہ تجویز کیے تھے، ان میں سے کسی کی سند بھی ان کے پاس کتاب اﷲ سے نہ تھی۔ اسی طرح انہوں نے خدا اور بندے کے درمیان مذہبی منصب داروں کو جو ایک مستقل واسطہ قرار دے دیا تھا، یہ بھی ان کا خود ساختہ تھا۔ نیز انہوں نے نظامِ کلیسا کے کار پردازوں کے لیے جوحقوق اور اختیارات تجویز کیے تھے اورجو مذہبی ٹیکس لوگوں پر لگائے تھے، ان کے لیے بھی کوئی ماخذ اُن کی اپنی ہو ائے نفس کے سوانہ تھا۔ ایسے نظام کا نام چاہے انہوں نے تھیا کریسی رکھ دیا ہو، لیکن وہ فی الحقیقت تھیا کریسی نہیں تھا۔ اس کو آخر اسلام کی حکومتِ الٰہیہ یا شرعی حکومت سے کیامماثلت ہوسکتی ہے جس کے لیے کتاب وسنت کی صورت میں بالکل واضح اور ناقابلِ خذف وترمیم قانون موجود ہے، اور جس کو چلانا کسی مخصوص مذہبی طبقے کا اجارہ نہیں ہے۔
پھر بزمی صاحب کا یہ ارشاد بالکل عجیب ہے کہ ہم خلیفہ کو وہی حیثیت دیتے ہیں جو خود عیسائیوں میں پوپ کی حیثیت ہے اور یہ کہ ہم اسے عوام کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتے۔ اس کے جواب میں میں پھر اپنے اسی مضمون کی چند عبارتیں نقل کردینا کافی سمجھتا ہوں۔میں نے آیت وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰۠ النور 55:24 سے استنباط کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’دوسری کانٹے کی بات اس آیت میں یہ ہے کہ خلیفہ بنانے کا وعدہ تمام مومنوں سے کیا گیا ہے۔یہ نہیں کہا کہ ان میں سے کسی کو خلیفہ بنائوں گا۔اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ سب مومن خلافت کے حامل ہیں۔ خدا کی طرف سے جو خلافت مومنوں کو عطا ہوئی ہے، وہ عمومی خلافت ہے۔
پھر آگے چل کر میں نے لکھا ہے کہ:
’’یہاں ہر شخص خلیفہ ہے،کسی شخص یا گروہ کو حق نہیں ہے کہ عام مسلمانوں سے ان کی خلافت کو سلب کرکے خود حاکمِ مطلق بن جائے۔یہاں جو شخص حکمران بنایا جاتا ہے ،اس کی اصلی حیثیت یہ ہے کہ تمام مسلمان،یا اصطلاحی الفاظ میں تمام خلفا اپنی رضا مندی سے اپنی خلافت کو انتظامی اغراض کے لیے اس شخص کی ذات میں مرکوز کردیتے ہیں۔ وہ ایک طر ف خدا کے سامنے جواب دہ ہے اور دوسری طرف ان عام خلفا کے سامنے جنہوں نے اپنی خلافت اس کو تفویض کی ہے۔‘‘
اس کے بعد میں نے پھر اسی مضمون میں دوسرے مقام پر تصریح کی ہے کہ:
’’اسلامی اسٹیٹ میں امام یا امیر یا صدر حکومت کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں کہ عام مسلمانوں کو جو خلافت حاصل ہے،اس کے اختیارات وہ اپنے میں سے ایک بہترین شخص کا انتخاب کرکے امانت کے طور پر اس کے سپرد کردیتے ہیں۔ اس کے لیے خلیفہ کا جولفظ استعمال کیا جاتا ہے،اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بس وہی اکیلا خلیفہ ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام مسلمانوں کی خلافت اس کی ذات میں مرتکز ہوگئی ہے۔‘‘
اس کے بعد یہ فقرہ بھی میرے اسی مضمون میں موجود ہے کہ:
’’ امیر تنقید سے بالاتر نہ ہوگا۔ ہر عامی مسلمان اس کے پبلک کاموںہی پر نہیں،بلکہ اس کی پرائیویٹ زندگی پر بھی نکتہ چینی کرنے کا مجاز ہوگا۔وہ قابلِ عزل ہوگا۔ قانو ن کی نگاہ میں اُ س کی حیثیت عام شہریوں کے برابر ہوگی۔اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائرکیا جاسکے گا اور وہ عدالت میں کسی امتیازی برتائو کا مستحق نہ ہوگا۔امیر کو مشورے کے ساتھ کا م کرنا ہوگا۔مجلس شوریٰ ایسی ہوگی جسے عام مسلمانوں کا اعتماد حاصل ہو۔اس امر میں بھی کوئی مانع شرعی نہیں ہے کہ اِ س مجلس کو مسلمانوں کے ووٹوں سے منتخب کیا جائے۔ہر صورت میں عامۂ مسلمین اس بات پر نظر رکھیں گے کہ امیر اپنے ان وسیع اختیارات کو تقویٰ اور خوف ِ خدا کے ساتھ استعمال کرتا ہے یا نفسانیت کے ساتھ؟بصورت دیگر رائے عام اس امیر کو مسندِ امارت سے نیچے بھی اُتار لا سکتی ہے۔‘‘
ان تصریحات کے بعد بھی اگر کوئی شخص ہماری تھیاکریسی کو پاپایانِ رُوم کی قائم کردہ تھیاکریسی سے مشابہ قرار دے تو بہرحال ہم اسے اس کی آزادیِ رائے سے محروم کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ مگر یہ ضرور عرض کریں گے کہ یہ رائے علم ودلیل سے آزاد ہے۔
( ترجمان القرآن۔رجب ۶۵ھ، جون ۴۶ء)

نظامِ کفر کی قانون ساز مجالس میں مسلمانو ں کی شرکت کا مسئلہ:

سوال: آپ کی کتاب’’اسلام کا نظریۂ سیاسی‘‘ پڑھنے کے بعد یہ حقیقت تو دل نشین ہوگئی ہے کہ قانون سازی کا حق صرف خدا ہی کے لیے مختص ہے، اور اس حقیقت کے مخالف اُصولوں پر بنی ہوئی قانون ساز اسمبلیوں کا ممبر بننا عین شریعت کے خلاف ہے۔مگر ایک شبہ باقی رہ جاتا ہے کہ اگر تمام مسلمان اسمبلیوں کی شرکت کو حرام تسلیم کرلیں توپھر سیاسی حیثیت سے مسلمان تباہ ہوجائیں گے۔ظاہر ہے کہ سیاسی قوت ہی سے قوموں کی فلاح وبہبود کا کام کیا جاسکتا ہے اور ہم نے اگر سیاسی قوت کو بالکلیہ غیروں کے حوالے ہوجانے دیا تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ اغیار مسلم دشمنی کی وجہ سے ایسے قوانین نافذ کریں گے اور ایسا نظام مرتب کریں گے جس کے نیچے مسلمان دب کر رہ جائیں۔پھر آپ اس سیاسی تباہی سے بچنے کی کیا صورت مسلمانوں کے لیے تجویز کرتے ہیں؟

جواب: آپ نے اپنے سوال میں سوچنے کا اندازغلط اختیارکیا ہے۔یہ بات تو آپ کی سمجھ میں آگئی ہے کہ وہ نظام جس میں انسان خود اپنا قانو ن ساز بنتا ہے یا دوسرے انسانوں کو قانون سازی کا حق دیتا ہے،سرے سے غلط ہے۔نیز یہ بات بھی آپ سمجھ چکے ہیں کہ امرِ حق یہی ہے کہ حکم صرف اﷲ کے لیے ہے اور انسان کا کام اس کے حکم کا اتباع کرنا ہے نہ کہ خود واضع حکم بن جانا۔ اب آپ کو یہ سوچنا چاہیے کہ مسلمان جن کے مفاد کی آپ فکر کررہے ہیں،کس غرض کے لیے ’’مسلم‘‘نامی ایک جماعت بنانے گئے تھے؟ آیا اس غرض کے لیے کہ وہ ا س امرِحق کو جو قرآن سے ثابت ہے دنیا کے سامنے پیش کریں، اس کو تسلیم کرائیں، خود اپنی زندگی کو اس پر قائم کریں اور دنیا میں اس کو جاری کرنے کے لیے اپنی پوری قوت صرف کردیں؟یا اس غرض کے لیے کہ اس کے بالکل برخلاف جو باطل بھی دنیا میں قائم ہوجائے (اورخود ان کی اپنی غفلتوں کی بدولت قائم ہو)اس کی موافقت کریں اور اس کو اپنالیں اور اسے مٹانے کی سعی سے اس لیے گریز کرتے رہیں کہ کہیں اُن کے مفاد کو نقصان نہ پہنچ جائے؟اگر پہلی بات ہے تو مسلمان آج جوکچھ کررہے ہیںغلط کررہے ہیں، اور ان کا مفاد اگر اس غلطی سے وابستہ ہے تو ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ ایسے مفاد کی پروا کی جائے۔ ایسی صورت حال میں ایک سچے مسلمان کو اپنی قوم کے ساتھ لگ کر جہنم کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے امرِ حق کو قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے،خواہ اس کی قوم اس کا ساتھ دے یا نہ دے۔ لیکن اگر آپ دوسری بات کے قائل ہیں تو پھر مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے،حق کوحق جاننے کے باوجود خلافِ حق طریقے پر اگر محض قومی مفاد کی خاطر آپ جانا چاہیں تو جاسکتے ہیں۔
یہ اندیشہ اکثر پیش کیا جاتا ہے کہ اگر ہم اسمبلیوں سے پرہیز کریں تو ان پر غیرمسلم قابض ہوکر نظامِ حکومت کے تنہا مالک ومتصرف بن جائیں گے، اور اگرنظامِ باطل کے کل پُرزے ہم نہ بنیں تو دوسرے بن جائیں گے اور اس طرح زندگی کے سارے کاروبار پر قابض ہوکر وہ ہماری ہستی ہی کو ختم کردیں گے، حتیٰ کہ اسلام کا نام لینے والے باقی ہی نہ رہیں گے کہ تم ان سے خطاب کرسکو۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ اندیشے جتنے ہول ناک ہیں ،اس سے زیادہ خام خیالی کے نمونے ہیں۔ اگر ہم نے یہ کہا ہوتا کہ صرف ایک منفی پالیسی اختیار کرکے مسلمان زندگی کا سارا کاروبار چھوڑ دیں اور گوشوں میں جابیٹھیں، تو یہ اندیشے ضرورکسی حقیقت پر مبنی ہوتے۔لیکن ہم اس نفی کے ساتھ ساتھ ایک اثبات بھی تو پیش کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اس نظام کے ساتھ ساز گاری کرنے کے بجائے دنیا میں نظامِ حق قائم کرنے کے لیے منظم سعی شروع کردیں۔ دوسری قوموں کے ساتھ اپنے دنیوی مفاد کے لیے کش مکش اور مزاحمت کرنے کے بجائے ان کے سامنے وہ دین حق پیش کریں جس کی پیروی میں تما م انسانوں کی فلاح ہے اور قرآن کے ذریعے سے،سیرتِ رسولؐ کے ذریعے سے، اور اخلاق اسلامی کے ذریعے سے دنیامیں فکری،اخلاقی،معاشی ،تمدنی اور سیاسی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کریں۔
ہماری اس دعوت کے جواب میں دو صورتیں پیش آسکتی ہیں:
ایک یہ کہ تما م ہندستان کے مسلمان جن کی تعداد دس کروڑ ہے اور جن کے پاس مادی وسائل اور ذہنی اور دماغی قوتوں اور ہاتھ پائوں کی طاقتوں کی کمی نہیں ہے،بیک وقت ہماری اس دعوت کو قبول کرلیں، ذہنی اور اخلاقی اور عملی تمام حیثیتوں سے اسلام کے سچے داعی بن جائیں۔اگر ایسا ہوجائے(جس کی بظاہر کوئی توقع نہیں ہے) تو آپ تو یہ اندیشہ کررہے ہیں کہ کچھ آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا،اور میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ ہندستان ہی نہیں ،دنیا کا ایک بڑا حصہ آپ کے ہاتھ آجائے گا، ہندستان میں اقلیت اور اکثریت کا جھگڑا دیکھتے دیکھتے ختم ہوجائے گا، ہندستان میں خالص اسلامی حکومت کو قائم ہونے سے کوئی طاقت نہ روک سکے گی ،بہت قلیل مدت کے اندر مسلمان ممالک کی بھی کایا پلٹ جائے گی اور خود وہ قوتیں بھی جو آج ساری دنیا پر چھائی ہوئی ہیں،مسخر ہونے سے محفوظ نہ رہ سکیں گی۔
دوسری صورت یہ پیش آسکتی ہے (اور یہی اس وقت متوقع بھی ہے) کہ مسلمانوں میں سے بتدریج تھوڑی تھوڑی تعداد میں پاک نفس اور اعلیٰ درجے کے ذہن رکھنے والے لوگ ہماری اس دعوت کو قبول کرتے جائیں گے اور جب تک صالحین کا یہ گروہ منظم ہوکر ایک طاقت بنے،عام مسلمان اپنے لیڈروں کی پیروی میں وہی کچھ کرتے رہیں گے جو ایک مدت سے کرتے آرہے ہیں اور آج کررہے ہیں۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ وہ خطرہ پیش نہیں آسکتا جس کا آپ اندیشہ ظاہر کررہے ہیں۔کیوں کہ غلط کار مسلمانوں کی عظیم الشان اکثریت وہ سارے کام کرنے کے لیے موجود رہے گی جن کے نہ کرنے سے آپ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کا قومی مفاد خاک میں مل جائے گا۔ البتہ اگر یہ سارے کام ہوتے رہیں اور صرف وہی ایک کام نہ ہو جس کی طرف ہم بُلا رہے ہیں اور اگر ہم بھی امرِ حق اور اس کے تقاضوں سے آنکھیں بند کرکے محض قوم اور اس کے مفاد کی فکر میں ان باطل کاریوں کی طرف دوڑ جائیں جو آج اسلام اور مسلم مفاد کے نام سے ہورہی ہیں، تو یقین رکھیے کہ اسلام کا جھنڈا تو خیر کیا بلند ہوگا،مسلمان قوم اس ذلت وخواری اور اس پستی کے گڑھے سے بھی نہ نکل سکے گی جس میں وہ یہودیوں کی طرح صرف اس لیے مبتلا ہوئی ہے کہ خدا کی کتاب رکھتے ہوئے اس نے اس کتاب کا منشا پورا کرنے سے منہ موڑ ا۔

(ترجمان القرآن۔محرم ۶۵ھ۔ دسمبر ۴۵ء)

غیر اسلامی اسمبلیوں کی رکنیت اور نظامِ کفر کی ملازمت شرعی نقطۂ نظر سے:

سوال:مسلمانوں کو بحیثیت مسلمان ہونے کے اسمبلی کی ممبری جائز ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ یہاں مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوںکے نمایندے اسمبلی کی رکنیت کے لیے کھڑے ہورہے ہیں اور ان کی طرف سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے مجھ پر دبائو پڑ رہا ہے، حتیٰ کہ علما تک کا مطالبہ یہی ہے۔ اگر چہ مجملاً جانتا ہوں کہ انسانی حاکمیت کے نظریے پر قائم ہونے والی اسمبلی اور اس کی رکنیت دونوں شریعت کی نگاہ میں ناجائز ہیں، مگر تاوقتیکہ معقول وجوہ پیش نہ کرسکوں،ووٹ کے مطالبے سے چھٹکارا پانا دشوار ہے۔
یہ امر بھی دریافت طلب ہے کہ سرکاری ملازمت کی حیثیت کیا ہے؟اس معاملے میں بھی سرسری طور پر میری رائے عدم جواز کی طرف مائل ہے مگر واضح دلائل سامنے نہیں ہیں۔

جواب: اصولی حیثیت سے یہ بات واضح طور پر سمجھ لیجیے کہ موجودہ زمانے میں جتنے جمہوری نظام بنے ہیں(جن کی ایک شاخ ہندستان کی موجودہ اسمبلیاں بھی ہیں) وہ اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ باشندگانِ ملک اپنے دنیوی معاملات کے متعلق تمدن، سیاست،معیشت،اخلاق اور معاشرت کے اُصول خود وضع کرنے اور ان پر تفصیلی قوانین و ضوابط بنانے کاحق رکھتے ہیں اور اس قانون سازی کے لیے رائے عام سے بالاتر کسی سند کی ضرورت نہیں ہے۔یہ نظریہ ، اسلام کے نظریے کے بالکل برعکس ہے۔اسلام میں توحید کے عقیدے کا لازمی جز یہ ہے کہ لوگوں کا اور تمام دنیا کا مالک اور فرماں روا اللہ تعالیٰ ہے، ہدایت اور حکم دینا اس کا کام ہے اور لوگوں کا کام یہ ہے کہ اس کی ہدایت اور اس کے حکم سے اپنے لیے قانونِ زندگی اخذ کریں،نیزاگر اپنی آزادیِ رائے اختیار کریں بھی تو اُن حدود کے اندر کریں جن میں خود اﷲ تعالیٰ نے ان کو آزادی دے دی ہے۔ اِس نظریے کی رُو سے قانو ن کا ماخذ اور تمام معاملاتِ زندگی میں مرجع اﷲ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت قرار پاتی ہے،اور اس نظریے سے ہٹ کر اوّل الذکر جمہوری نظریے کو قبو ل کرنا گویا عقیدۂ توحید سے منحرف ہوجانا ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جو اسمبلیاں یا پارلیمینٹیں موجودہ زمانے کے جمہوری اُصول پر بنی ہیں، ان کی رکنیت حرام ہے اور ان کے لیے ووٹ دینا بھی حرام ہے۔کیوں کہ ووٹ دینے کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہم اپنی رائے سے کسی ایسے شخص کو منتخب کرتے ہیں جس کا کام موجودہ دستور کے تحت وہ قانون سازی کرنا ہے جو عقیدۂ توحید کے سراسر منافی ہے۔اگر علمائے کرام میں سے کوئی صاحب اس چیز کو حلال اور جائز سمجھتے ہیں توان سے اس کی دلیل دریافت کیجیے۔اس مسئلے کی تفصیل اگر آپ سمجھنا چاہیں تو میر ی کتاب’’سیاسی کش مکش‘‘حصہ سوم اور ’’اسلام کا نظریۂ سیاسی‘‘ملاحظہ فرمائیں۔
اس قسم کے معاملات میں یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ چوں کہ یہ نظام مسلط ہوچکا ہے اور زندگی کے سارے معاملات اس سے متعلق ہیں،اس لیے اگر ہم انتخابات میں حصہ نہ لیں اور نظامِ حکومت میں شریک ہونے کی کوشش نہ کریں تو ہمیں فلاں اور فلاں نقصانات پہنچ جائیں گے۔ ایسے دلائل سے کسی ایسی چیز کو جو اُصولاًحرام ہو،حلال ثابت نہیں کیا جاسکتا،ورنہ شریعت کی کوئی حرام چیز ایسی نہ رہ جائے گی جس کو مصلحتوں اور ضرورتوں کی بِنا پر حلال نہ ٹھیرا لیا جائے۔ اضطرار کی بِنا پر حرام چیزیں استعمال کرنے کی اجازت شریعت میںپائی توجاتی ہے لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ پہلے آپ خود اپنی غفلتوں سے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرکے اضطرار کی حالتیں پیدا کریں، پھر اس اضطرار کو دلیل بنا کر تمام محرمات کو اپنے لیے حلال کرتے جائیں اور بجائے خود اس اضطرار کی حالت کو ختم کرنے کے لیے کوئی کوشش نہ کریں۔جو نظام اس وقت مسلمانوں پر مسلط ہوا ہے،جس کے تسلط کو وہ اپنے لیے دلیل ِ اضطرار بنا رہے ہیں،وہ آخر ان کی اپنی ہی غفلتوں کا تو نتیجہ ہے ۔پھر اب بجائے اس کے کہ اپنا سرمایۂ وقت وعمل اس نظام کو بدلنے اور خالص اسلامی نظام قائم کرنے کی سعی میں صرف کریں، وہ اس اضطرار کوحجت بنا کر اسی نظام کے اندر حصہ دار بننے اور پھلنے پھولنے کی کوشش کررہے ہیں۔
دوسری چیز جو آپ نے دریافت کی ہے،اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک انفرادی معاملات کا تعلق ہے،ایک فردِ مسلم اگر کسی فردِ غیر مسلم سے اُجرت یا تنخواہ پر کسی خدمت کے ادا کرنے کا معاملہ طے کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ،بشرطیکہ وہ خدمت براہِ راست کسی حرام سے متعلق نہ ہو۔ لیکن علما کا ایک بڑا گروہ اس بنیادپر حکومت کفر کی ملازمت کو جائز ٹھیرانے کی جو کوشش کرتا ہے ،وہ صحیح نہیں ہے۔ یہ لوگ اس اُصولی فرق کو نظرا نداز کردیتے ہیں جو ایک فردِ غیر مسلم کے شخصی کاروبار اور ایک غیر اسلامی نظام کے اجتماعی کاروبار میں ہے۔ایک غیر اسلامی نظام تو قائم ہوتا ہی اس غرض کے لیے ہے اور اس کے سارے کاروبار کے اندر ہرحال اور ہرپہلو میں مضمر ہی یہ چیز ہوتی ہے کہ اسلام کے بجائے غیر اسلام، طاعت کے بجائے معصیت، اور خلافت ِ الٰہی کے بجائے خدا سے بغاوت انسانی زندگی میں کارفرما ہو،اور ظاہر ہے کہ یہ چیز حرام اور تمام محرمات سے بڑھ کر حرام ہے۔لہٰذا ایسے نظام کو چلانے والے شعبوں میں یہ تفریق نہیں کی جاسکتی کہ فلاں شعبے کا کام جائز نوعیت کا ہے اور فلاں شعبے کا ناجائز۔ کیوں کہ یہ سارے شعبے مل جل کر ایک بہت بڑی معصیت کو قائم کررہے ہیں۔اس معاملے کی ٹھیک ٹھیک نوعیت سمجھنے کے لیے یہ مثال کافی ہوگی کہ اگر کوئی ادارہ اس غرض کے لیے قائم ہو کہ عامۃ الناس میں کفر کی اشاعت کرے اور مسلمانوں کو مرتد بنائے تو اس ادارے کا کوئی کام اجرت پر کرنا، خواہ و ہ کام بجائے خود حلال قسم کا ہو (مگر اس ادارے کی تقویت اور اس کے کام کو فروغ دینے کے لیے بہرحال ناگزیر ہو)کسی مسلمان کے لیے جائزنہیں ہوسکتا۔
اس معاملے میں بھی آخرکار مسلمان اضطراروالی حجت پیش کرنے پر اُتر آتے ہیں کہ اگر ہم اس حکومت کی مشینری میں کل پُرزے نہ بنیں گے تو غیر مسلم اس پر قابض ہوجائیں گے اور تمام اقتدار اُن کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔لیکن اس کا جواب وہی ہے جو پہلے مسئلے میں اضطرار کی دلیل پر دیا گیا ہے۔

(ترجمان القرآن۔محرم ۶۵ھ۔ دسمبر۴۵ء)

پُرامن انقلاب کا راستہ:

سوال:ذیل میں دو شبہات پیش کرتاہوں۔براہِ کرم صحیح نظریات کی توضیح فرما کر انہیں صاف کردیجیے:
۱۔ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے گزشتہ سے پیوستہ پرچے میں ایک سائل کا سوال شائع ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی منظم اسٹیٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا ،مگر حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے ایک منظم اسٹیٹ تھا اور انہوں نے جب ریاست کو اقتدار کلی منتقل کرنے پر آمادہ پایا تو اسے بڑھ کر قبول کرلیا اور یہ طریقِ کار اختیار نہیں کیاکہ پہلے مومنین صالحین کی ایک جماعت تیار کریں۔کیا آج بھی جب کہ اسٹیٹ اس دور سے کئی گنازیادہ ہمہ گیر ہوچکا ہے،اس قسم کا طریق کار اختیار کیا جاسکتا ہے؟اس سوال کے جواب میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے،اس سے مجھے پور اپورا اطمینان نہیں ہوا ۔(یہ خط اور اس کا جواب اس مجموعے کے آخری باب میں ’’ہمہ گیر ریاست میں تحریک ِ اسلامی کا طریق کار‘‘ کے زیر عنوان درج ہے۔)مجھے یہ دریافت کرنا ہے کہ ہم کو حضرت یوسف علیہ السلام کا اتباع کرنا ہی کیوں چاہیے؟ ہمارے لیے تو صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ واجب الاتباع ہے۔آپؐ نے اہلِ مکہ کی بادشاہت کی پیش کش کو رَدّ کرکے اپنے ہی خطوط پر جداگانہ ریاست کی تعمیر وتشکیل کا کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اور ہمارے لیے بھی طریقِ کار اَب یہی ہے۔واضح فرمایئے کہ میری یہ رائے کس حد تک صحیح یا غلط ہے۔
۲۔ آپ نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ کسی مرحلے پر اگر ایسے آثار پیدا ہوجائیں کہ موجود الوقت دستوری طریقوں سے نظامِ باطل کو اپنے اُصول پر ڈھالا جاسکے تو ہمیں اس موقع سے فائدہ اُٹھانے میں تامل نہ ہوگا۔ اس جملے سے لوگوں میں یہ خیال پیداہورہا ہے کہ جماعت اسلامی بھی ایک حد تک اسمبلیوں میں آنے کے لیے تیار ہے اور الیکشن کو جائز سمجھتی ہے ۔اس معاملے میں جماعتی مسلک کی توضیح فرمایئے۔

جواب: ہمارے لیے سارے انبیا علیہم السلام واجب الاتباع ہیں۔خود نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کو بھی یہی ہدایت تھی کہ اسی طریق پر چلیں جو تمام انبیا کا طریق تھا۔ جب قرآن کے ذریعے سے ہمیں معلوم ہوجائے کہ کسی معاملے میں کسی نبی نے کوئی خاص طرزِ عمل اختیار کیا تھا اور قرآن نے اس طریق کار کو منسوخ بھی نہ قرار دیا ہو تو وہ ویسا ہی دینی طریقِ کار ہے جیسے کہ وہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسنون ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو بادشاہی پیش کی گئی تھی وہ اس شرط کے ساتھ مشروط تھی کہ آپؐ اس دین کو اور اس کی تبلیغ کو چھوڑ دیں تو ہم سب مل کر آپؐ کو اپنابادشاہ بنالیں گے۔ یہ بات اگر یوسف علیہ السلام کے سامنے بھی پیش کی جاتی تو وہ بھی اسی طرح اس پر لعنت بھیجتے جس طرح نبی کریمؐ نے اس پر لعنت بھیجی اور ہم بھی اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کو جو اختیارات پیش کیے گئے تھے، وہ غیر مشروط اور غیر محدود تھے اور ان کے قبول کرلینے سے حضر ت یوسف علیہ السلام کو یہ اقتدارحاصل ہورہا تھا کہ ملک کے نظام کو اس ڈھنگ پر چلائیں جو دین ِ حق کے مطابق ہو۔ یہ چیز اگر نبی کریم ؐ کے سامنے پیش کی جاتی تو آپؐ بھی اسے قبول کرلیتے اور خواہ مخواہ لڑ کر ہی وہ چیز حاصل کرنے پر اصرار نہ کرتے جو بغیر لڑے پیش کی جارہی ہو۔اسی طرح کبھی ہم کو اگر یہ توقع ہو کہ ہم رائے عام کی تائید سے نظامِ حکومت پر اس طرح قابض ہوسکیں گے کہ اس کو خالص اسلامی دستور پر چلا سکیں تو ہمیں بھی اس کے قبول کرلینے میں کوئی تامل نہ ہوگا۔
۲۔ الیکشن لڑنا اور اسمبلی میںجانا اگر اس غرض کے لیے ہو کہ ایک غیراسلامی دستور کے تحت ایک لادینی(secular) جمہوری(democratic) ریاست کے نظام کو چلایا جائے تو یہ ہمارے عقیدۂ توحید اور ہمارے دین کے خلاف ہے۔لیکن اگر کسی وقت ہم ملک کی رائے عام کو اس حد تک اپنے عقیدہ ومسلک سے متفق پائیں کہ ہمیں یہ توقع ہو کہ عظیم الشان اکثریت کی تائید سے ہم ملک کا دستورِ حکومت تبدیل کرسکیں گے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اس طریقے سے کام نہ لیں۔ جو چیز لڑے بغیر سیدھے طریقے سے حاصل ہوسکتی ہو ،اس کو خواہ مخواہ ٹیڑھی انگلیوں ہی سے نکالنے کا ہم کو شریعت نے حکم نہیں دیا ہے۔مگر یہ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ ہم یہ طریقِ کار صرف اس صورت میں اختیار کریں گے جب کہ:
اوّلاً، ملک میں ایسے حالات پیدا ہوچکے ہوں کہ محض رائے عام کا کسی نظام کے لیے ہموار ہوجانا ہی عملاً اس نظام کے قائم ہونے کے لیے کافی ہوسکتا ہو۔
ثانیاً، ہم اپنی دعوت و تبلیغ سے باشندگانِ ملک کی بہت بڑی اکثریت کو اپنا ہم خیال بناچکے ہوں اور غیر اسلامی نظام کے بجائے اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے ملک میں عام تقاضا پیدا ہوچکا ہو۔
ثالثاً، انتخابات غیر اسلامی دستور کے تحت نہ ہوں بلکہ بنائے انتخاب ہی یہ مسئلہ ہو کہ ملک کا آیندہ نظام کس دستورپر قائم کیا جائے۔ (ترجمان القرآن، محرم ۶۵ھ،دسمبر ۴۵ء)

ملک کے نظم اور امن کی پاس داری:

سوال: کیا ایک کافر حکومت کے اندر رہتے ہوئے یہ جائز ہے کہ آدمی لائسنس کے بغیر یا مقررہ موسموں اور اوقا ت میں شکار کھیلے اور بغیرلیمپ کے راتوں کو موٹر یا بائیسکل چلائے؟

جواب: جب کہ آپ ایک کافر حکومت کے اندر رہتے ہیں تو انتظامِ ملکی کو برقرا ررکھنے کے لیے جو ضابطے اس نے بنائے ہیں، اور جو قوانین ایک منظم سوسائٹی کو بحال رکھنے کے لیے بہرحال ضروری ہیں،انہیں خواہ مخواہ توڑنا آپ کے لیے درست نہیں ہے۔قانون شکنی ہم صرف اس وقت کرسکتے ہیں جب کہ ہم ایسی پوزیشن میں ہوں کہ موجودہ نظم(order) کو توڑ کر جلدی سے جلدی دوسرا صالح ترنظم قائم کرسکیں، اور اُس صورت میں بھی صرف وہ قوانین توڑے جائیں گے جن کا توڑنا اس مقصدِ خاص کے لیے مفید اور ضروری ہو۔ورنہ قانون شکنی کے معنی بدنظمی(disorder) پیدا کرنے کے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے منشا کے خلاف ہے۔اﷲ تعالیٰ اپنی زمین میں نظم دیکھنا چاہتا ہے نہ کہ بدنظمی۔ اس لیے اگر آپ خواہ مخواہ اس کی زمین کا نظم بگاڑیں گے تو اس کی تائید سے محروم رہیں گے۔
(ترجمان القرآن۔محرم،صفر ۶۴ھ۔جنوری،فروری ۴۵ء)

غیر اسلامی حکومت کے ذریعے سے زکوٰۃ کی تحصیل

سوال: حالاتِ حاضرہ کا پیدا کردہ ایک سوال دریافت کرتا ہوں۔یہ کہ کیا ہماری شریعت میں کسی کافر کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ہم سے صدقاتِ واجبہ وصول کرے یا یہ کہ حکومتِ کفر کی قانونی قوت کے ذریعے ان کی وصولی کا اہتمام کیا جائے، اور وہ اس طرح کہ اسمبلی میں ایک زکوٰۃ بل پاس کرالیا جائے؟اُمید ہے کہ واضح جواب دیا جائے گا۔

جواب: زکوٰۃ کی تحصیل اور اس کی تقسیم کا نظام اگر قائم ہوسکتا ہے تو صرف اس طرح کہ مسلمانوں کا کوئی آزاد اجتماعی نظام ہوجو بااختیار بھی ہو اور وہ اس کو انجام دے۔رہی یہ صورت کہ ایک ایسی اسمبلی میںزکوٰۃبل پاس کرایا جائے جس کی اکثریت غیر مسلم ہے اور جو قانونِ اسلام کو بالاتر قانون تسلیم نہیں کرتی تو یہ چیز شرعاً بالکل غلط ہے اور اس طریقے سے اگر غیر مسلم حکومت کے زیرِ اثر زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کا انتظام کیا گیا تو شرعاً زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔
(ترجمان القرآن۔شوال ۶۵ھ۔ ستمبر۴۶ء)
……٭٭٭……

تحریکِ اقامت ِدین کے بارے میں چند سوالات:

سوال: جماعت اسلامی کی شرکت کو اپنے لیے لازمی سمجھ لینے کے باوجود مجھے چند شبہات اپنے دل میں کھٹکتے محسوس ہورہے ہیں۔اگر ممکن ہو تو اپنی بصیرت سے ان اُلجھنوں کو صاف کردیجیے۔ شبہات یہ ہیں:
۱۔ آپ اپنی تحریروں کے ذریعے برسوں سے اقامت ِ دین کی دعوت دے رہے ہیں۔دو سال سے جماعت بھی قائم ہے۔بقول آپ کے اس تحریک کے مزاج کے مطابق بہت تھوڑے آدمی ملے ہیں، اور جو ملے ہیں ان میں وہ صفات بہت کم ہیںجن صفات کے آدمیوں کی ضرورت ہے۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہ صفات لوگوں میں کیسے پیدا ہوا کرتی ہیں۔ جہاں تک اُمت کی تاریخ کا تعلق ہے،خلافتِ راشدہ کے بعد اقامتِ دین کی منظم تحریک کبھی بروئے کار آئی ہی نہیں۔ مجددین نے زبان وقلم یا جسم سے جو کیا،ذاتی طورپر کیا۔شاید پورے اسلامی دور میں صرف حضرت سیّد احمد بریلوی کے زیر عَلم ایک منظم جہاد اس مقصد کے لیے کیا گیا۔میں ان کے رفقا کے عزم وعمل پر غور کرتا ہوں تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان میں وہ والہانہ او رمجنونانہ جذب وجوش کیسے پیدا ہوا۔کسی جماعت میں وہ نشہ کیسے چڑھا کرتا ہے جب وہ اپنا سب کچھ اﷲ کی راہ میںقربان کردینا ہی اپنا عزیز فرض سمجھنے لگتی ہے؟کیا یہ سب کچھ تحریری اور تقریری دعوت وتفہیم سے ہوجاتا ہے یا محض عمدہ اور صحیح لٹریچر فراہم کردینے سے؟میرا یہ خیال ہے کہ یہ سب چیزیں ذہنی اصلاح تو کردیتی ہیں لیکن جنونِ عمل پیدا کرنے والی کوئی اور ہی چیز ہوتی ہے۔
جب ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ عہد کرکے اس کا حق ادا نہیں کرتے اور خلوص وایثار کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا تو خودبخود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس جذبے کو کیسے پیدا کیا جاسکتا ہے؟ میں آپ کا لٹریچر پڑھ کر اور قرآنِ حکیم کا مطالعہ کرکے خود اپنے اندر یہ خواہش پاتا ہوں کہ میرے عمل میں انقلاب ہو۔لیکن جس چیز کی ضرورت محسوس کرتا ہوں ،وہ پیدا نہیں ہوتی۔معلوم نہیں وہ کون سی طاقت ہے جو اس ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ مگر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جب تک جماعت اسلامی میں یہ طاقت نمودار نہ ہوگی،شرکائے جماعت میں ایثار وعمل کا مطلوبہ جذبہ پیدا نہ ہوگا اور تحریک ٹھنڈی پڑ جائے گی۔
۲۔ ایک اُلجھن اقامت ِدین کی راہ کے نشانات او رمراحل کے متعلق پیدا ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں جس طرح کے مراحل دیے گئے ہیں،ان میں جس طرح کی رہنمائی ہوتی گئی اور جس طرح کی غیبی نصرت وتائید کا ظہور ہوتا گیا،ان سب میں ذاتِ رسولؐ اور وحی کی رہنمائی موجود تھی۔ اب یہ کون بتائے گا کہ ہمارے راستے کے مراحل کون کون سے ہیںاور ان کو کس کس طرح عبور کرنا ہے؟
۳۔ صحابہؓ کی زندگی کو دیکھیے تو تعجب ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے، اُونچے نیچے، محتاج اور غنی مصیبتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک وسیع خاندان کے رشتے میں پروئے گئے تھے۔ ایک کی تکلیف سب کی تکلیف ہوتی تھی اور ایک کا فاقہ سب کا فاقہ ہوتا تھا۔ایک کا بوجھ اُٹھانے کے لیے سب کے بازو حرکت میں آجاتے تھے۔مگر ہمارا حال کیا ہے؟اگر ہمارے بچے فاقہ کشی کررہے ہیں اور ہم فکر ِمعاش میں بدحواس ہورہے ہیں تو ہم اُن رفیقوں کے ساتھ کیسے چل سکتے ہیں جو اِن مشکلات کی تلخیوں سے نا آشنا ہیں۔ کبھی کبھی اس اُلجھن میں پڑ جاتا ہوں کہ وہ زندگی جو عہدِ رسالت وصحابہ کے اندر پیدا ہوگئی تھی اس عہد کے لیے خاص تو نہ تھی ۔کبھی یہ خیال گزرتا ہے کہ اس زندگی کی فطرت ہی ایسی ہے کہ یہ عام نہیں ہوسکتی۔میں سوچتا ہوں کہ ہمیں اپنے جذبۂ رفاقت کو اتنا زور دار بنانا چاہیے کہ جماعت ایک خاندان کی شکل اختیا رکرجائے، اور جماعت کے استحکام کے لیے یہ ایک لازمی چیز ہے۔

جواب: (۱) اس مسئلے پر میں خود برسوں غور کرتا رہا ہوں اور آخر کار اس مختصر سے فقرے نے جو عام طور پر مسلمانوں کی زبانوں پر چڑھا ہوا ہے،مجھے مطمئن کردیا ،یعنی السعی منی والاتمام من اللّٰہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم جس بات پر مامور ہیں، وہ صرف یہ ہے کہ مختلف راہوں میں سے اس راہ کو اپنے لیے منتخب کرلیں جسے ’’صراطِ مستقیم‘‘ کہا گیا ہے، اور اپنی تمام ممکن سعی وجہد اس پر چلنے میں صرف کردیں۔ اس کے بعد اسباب کی فراہمی اور راہ نوردی کی قوت اور مشکلاتِ راہ کی تسہیل، یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کی توفیق پر منحصر ہے۔میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ اگر بڑے پیمانے پر سعی کرنے اور بلند درجے پر پہنچنے کی توقع نہ ہو تو ہم صحیح راہ کو چھوڑ کرکسی ایسی غلط راہ کی طرف چل پڑیں جس میں کچھ بڑے اور بلند درجے کا کام کیا جاسکتا ہو۔ہمیں بہرحال صحیح کام کرنا ہے،خواہ وہ بڑے پیمانے پر ہو یا چھوٹے پیمانے پر۔
یہ تو اس معاملے کاایک پہلو ہے۔دوسراپہلو یہ ہے کہ جن غیر معمولی اخلاقی قوتوں کی اس کام کے لیے ضرورت ہے اور جیسی مؤثر شخصیت یا شخصیتیں اس کام میں جان ڈالنے کے لیے ضروری ہیں، وہ بہرحال حجروں میں پیدا نہیں ہوسکتیں، بلکہ اس راہ کی عملی جدوجہد کے نتیجے ہی میں پیدا ہوا کرتی ہیں۔ ابھی اس سعی کی ابتدا ہے اور آزمایش کے لمحات بہت کم آئے ہیں، اس وجہ سے اس سعی کے مردم سازاثرات آپ کے سامنے پوری طرح نمایاں نہیں ہو سکے ہیں۔ لیکن آگے چل کر جیسے جیسے امتحان کے مواقع سامنے آتے جائیں گے،آپ دیکھیں گے کہ جو لوگ اﷲ سے گہرا تعلق رکھنے والے نہیں ہیں، وہ کسی نہ کسی امتحان کی گھڑی پر اپنی کمزوری کے خود شکار ہوجائیں گے اور راستے سے ہٹ جائیں گے، اور جن لوگوں کو فی الواقع اﷲ سے تعلق ہو گاوہ نہ صرف یہ کہ ایک ایک امتحان کے موقع پر کامیاب ہوں گے بلکہ ہر امتحان اُن کی سیرت میں ایک نئی طاقت پیدا کردے گا، ان کے اندر کی بہت سی کھوٹ نکال دے گا اور بالآخر وہ زرِ خالص بن جائیں گے۔ پھر رفتہ رفتہ انہی لوگوں میں پارس کی سی خصوصیات پیدا ہوجائیں گی کہ جو اُن سے چھو گیا وہ سونا بن گیا۔
بہرحال میں اس معاملے میں مطمئن ہوچکا ہوں کہ اس کام کو شروع کرنے سے پہلے مکمل شخصیت یا شخصیتوں کے موجود ہونے کی شرط لگانا غلط ہے۔یہ شرط کبھی متحقق نہیں ہوسکتی۔ بلکہ اس کے برعکس صحیح یہ ہے کہ ایک مرتبہ خلوصِ نیت کے ساتھ یہ کام شروع کردیا جائے تو رفتہ رفتہ یہی کام خود مکمل شخصیتیں بناتا چلا جاتا ہے، اور جتنا جتنا یہ اپنی تکمیل کے مراحل کی طرف بڑھتا ہے اتنی ہی بلندتر شخصیتیں اس کے کارکنوں میں سے اُبھرتی چلی آتی ہیں۔سمندر کی موجوں سے لڑنے کے لیے آپ ایسے آدمی کبھی نہیں لاسکتے جو سمندر کے اندر اُترنے سے پہلے اس کی موجوں سے لڑنے کی قوت فراہم کرچکے ہوں۔ یہ قوت تو بہرحال سمندر میں کودنے اور موجوں سے لڑنے ہی سے پیدا ہوسکتی ہے۔ جو کمزور ہیں وہ اسی سمندر میں ڈوب مرتے ہیں، اور جن کے دست وبازو میں اﷲ نے قوت پیداکی ہے وہ تھپیڑے کھا کھا کر اورموجوں سے لڑ لڑ کر بالآخر پیراکوں کے پیراک بن جاتے ہیں۔
۲۔ اقامت ِدین کی راہ کے مراحل مقرر نہیں ہیں۔بلکہ ان مراحل کو جدوجہد اوروہ حالات جو جدوجہدکے دوران میں پیش آئیں،اور وہ بصیرت جو اسلام کی روح کو سمجھنے والے رہنما کے اندر ہوتی ہے،یہ سب چیزیں مل جل کر معیّن کرتی ہیں۔ انبیا علیہم السلام کی زندگیوں میں ہم کو یہی نظر آتا ہے کہ سب کے سب ایک ہی قسم کے مراحل سے نہیں گزرے ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ،حضرت موسیٰ ؑ، حضرت یوسف ؑ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاکی زندگیوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔ دراصل جو چیز درکار ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے مقصد معین ہو اور ہمارے اندر وہ حکمت موجود ہو جو اس مقصد تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے اور ہم انبیا علیہم السلام کے طریق ِ کار کو اچھی طرح سمجھ کر عملاًجدوجہد شروع کردیں۔ پھرجو جو مراحل سامنے آتے جائیں گے، ان میں سے ہر مرحلے کے تقاضوں کو ہم اپنی حکمت سے سمجھتے جائیں گے اور اﷲ کے بھروسے پر اُن کے لیے مناسب تدابیر اختیار کرتے جائیں گے۔
رہا آپ کا یہ خیال کہ پہلے تو وحی کی رہنمائی کام کرتی تھی اس لیے صحیح وقت پر صحیح تدبیر اختیار کرلی جاتی تھی، مگر اب کیا ہوگا؟ تو اس کاجواب قرآن مجید میں دے دیا گیا ہے کہ وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا۝۰ۭ العنکبوت69:29 وہ خدا جو پہلے رہنمائی کرتا تھا وہی اب بھی رہنمائی کرنے کے لیے موجود ہے۔اس کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھانے والے موجود ہونے چاہییں۔ ہمارے اندر اگر ایک دو آدمی بھی ایسے موجود رہیں جو قرآن کی روح اپنے اندر جذب کرچکے ہوں،اور جماعت میں کم ازکم ایک معتدبہ اکثریت ایسے لوگوں کی موجود رہے جو قلب ِ سلیم کی نعمت سے بہرہ ور ہوں اور صحیح وغلط رہنمائی میں امتیاز کرسکتے ہوں اورجن میں صحیح رہنمائی کے لیے سمع وطاعت کا مادّہ موجود ہو، تو ان شاء اﷲ، خدا کی رہنمائی بھی ہمیں ہرمرحلے پر حاصل ہوگی اور ہم اس کی رہنمائی سے فائدہ بھی اُٹھا سکیں گے۔
۳ ۔ صحابہؓ کی جماعت کے متعلق جو نقشہ تذکروں میں کھینچا گیا ہے ،اس میں ایک حد تک تو مبالغہ ہے اور ایک حد تک حقیقت ہے ۔پھر جو حقیقت ہے وہ بھی پوری طرح اس وقت برسر کار آئی تھی جب ایک طویل مدت کی جدوجہد نے ان کے اندر باہمی رفاقت کی اسپرٹ پیدا کردی تھی۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ جو خصوصیات ان کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسے زبردست رہنما کی رہنمائی سے چودہ پندرہ سال کی مسلسل تربیت کے بعد پیدا ہوئی تھیں،انہیں ہم پہلے ہی مرحلے پر موجود دیکھنا چاہتے ہیں۔پھر مدینہ طیبہ میں صحابہؓ کے درمیان رفاقت کی جو اسپرٹ تھی،اس میں بہت بڑا دخل ان کی یک جائی کو بھی تھا۔ منتشر طور پر عرب کے مختلف حصوں میں جو لوگ پھیلے ہوئے تھے، ان کے ساتھ وہ رفاقت ممکن نہیں تھی، جو مدینے میں سمٹ آنے والے لوگوں کے ساتھ تھی، مگر یہاں ابھی تک ہماری اجتماعی زندگی سرے سے بنی ہی نہیں ہے۔منتشر افراد ملک کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں جوا بھی ایک دوسرے سے آشنا تک نہیں۔ان کے اندر آخر رفاقت کی وہ شان کیسے پیدا ہوسکتی ہے جو صرف یک جائی زندگی ہی میں ممکن ہے؟
میں چاہتا ہوں کہ جو لوگ ہمارے ہم خیال ہیں، وہ عہدِ صحابہؓ کو مجرد کرامتوں اور معجزات کی اسپرٹ میں سمجھنے کے بجائے فطری اسباب کے مطابق سمجھنے کی کوشش کریں۔ ورنہ ہر وہ چیز جو اس دور میں پیدا ہوئی تھی،اس کے متعلق ہم چاہیں گے کہ بس وہ چشم زدن میں کرامت کے طور پر رونما ہوجائے، اور جب وہ اِ س طرح رونما نہ ہوسکے گی تو ہمارے دل ٹوٹ جائیں گے۔ اس ذہنیت کے ساتھ ہم کبھی ان فطری اسباب کو فراہم کرنے کی کوشش کریں گے ہی نہیں جن سے وہ کیفیات یا کم ازکم اس نوعیت کی کیفیات پیدا ہوسکتی ہیں۔ملیے اور مل کر کام کیجیے اور مل کر اس راہ میں مصیبتیں اُٹھایئے۔ پھر اس طرز کی رفاقت کا ظہور نہ ہو تو البتہ آپ کو حق ہے کہ اِ س خدمت کی انجام دہی کے لیے معجزے کی شرط لگائیں اور پھر اپنے خدا سے مطالبہ کریں کہ اگر یہ خدمت ہم سے لینا چاہتا ہے تو معجزے صادر کرے۔
اس سلسلے میں سوچنے والے اکثر جو غلطیاں کرتے ہیں،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اس کام میں جن جن چیزوں کی کمی محسوس کرتے ہیں،ان کا ذکر کچھ اس انداز سے کرنے لگتے ہیں کہ گویا ان ساری کمیوں کو پوراکرنا اور تمام ضروری چیزوں کو مہیا کردینا کسی اور کا کام ہے اور خود ان پر اس باب میں کوئی فرض عائد نہیں ہوتا۔ حالاں کہ درحقیقت یہ کسی ایک شخص کا انفرادی کاروبار نہیں ہے بلکہ ہم سب کا مشترک کام ہے اور اس میں کوئی شخص بھی محض چند خامیوں کی نشان دہی اور چند چیزوں کی ضرورت ظاہر کرکے اپنے فرض سے سبک دوش نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ خود اس کمی کو پورا کرنے اور اس چیز کو مہیا کرنے میں اپنے حصے کی خدمت انجام نہ دے جس کی ضرورت وہ بیان کررہا ہے۔
(ترجمان القرآن۔جمادی الاول وثانی۶۳ھ، مئی جون، ۴۴ء)

مخالفتیں اور مزاحمتیں:

سوال: میں اپنے حالات مختصراً پیش کرتا ہوں ۔مجھے بتلایئے کہ کون سا ایسا طریق ِکار اختیار کروں کہ میرے اسلام میں فرق نہ آئے۔
۱۔ والدین اُٹھتے بیٹھتے اصرار کررہے ہیں کہ ملازمت پر واپس چلا جائوں۔ بحالت موجودہ وہ نہ صرف اپنا بلکہ خدا کا نافرمان بھی گردانتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ صرف ایسے وقت پر والدین کی نافرمانی جائز ہے جب وہ یہ کہیں کہ خدا کو نہ مانو۔باقی تمام اُمور میں والدین کا حکم شرعی طور پر واجب التعمیل ہے۔ عن قریب وہ اعلان کرنے والے ہیں کہ نوکری پر چلاجائوں تو بہتر، ورنہ میرا ان سے کوئی تعلق نہ رہ سکے گا۔بس وہ اتنی رعایت مجھے دیتے ہیں کہ اگر میں مستقل طورپر ملازمت اختیار کرنا نہیں چاہتا تو کم از کم سال ڈیڑھ سال اور اختیار کیے رکھوں، حتیٰ کہ میرے چھوٹے بھائی بی اے کرلیں اور میری خالی جگہ کو پُرکرسکیں۔ اس سلسلے میں گناہ وہ اپنے سرلیتے ہیں۔
۲۔ ادھر عوام میں میری بے اثری بڑھ رہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس ذوق وشوق سے دورانِ ملازمت میں میری بات سنا کرتے تھے یا حمایت کا دم بھرا کرتے تھے ، اب وہ ختم ہورہا ہے۔ بلکہ میری باتوں کا اُن پر اُلٹا اثر ہوتا ہے۔
۳۔ بڑے بھائی بتلاتے ہیں کہ اگر نوکری حرام ہے تو زمین داری کون سی حلا ل ہے۔ ہماری زمین سرکار( ایک ریاست) نے ہمارے آبائو اجداد کو بخشش کے طور پر دی تھی ۔وہ تو تمھارے نظریے کی رُو سے حلال آمدنی قطعاً نہیں دے سکتی۔علاوہ بریں اسلام میں زمین دارہ سسٹم سرے سے ناجائزہے۔یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے دادا نے اپنی جائداد بروئے شریعت تقسیم نہیں کی تھی۔ ان کی وراثت صرف نرینہ اولاد میں چلی ہے اور مستورات کو محروم رکھا گیا ہے۔پھر نوکری کو حرام کہنے کے بعد ایسی جائدادپر کوئی شخص کیسے بسر اوقات کرسکتاہے؟
۴۔ مسلمانوں کی اکثریت جہالت اور شر ک میںمبتلا ہے۔قبروں پر حاجات لے کر جانے اور نہ جانے کا سوال بہت اہمیت اختیار کیے ہوئے ہے۔اس سلسلے میں اگر مصلحتاً سکوت کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حق کو قبول کرنے کے ساتھ لوگ شرک کرنے کی گنجایش کو بھی بحال رکھیں۔ یوں بھی مصلحت اندیشی تابکَے، آخر بھانڈ اپھوٹتا ہے اور لوگوں کو معلوم ہوکے رہتا ہے کہ ہم قبروں پر جاکر حاجات طلب کرنے کے خلاف ہیں۔ جہاں یہ بات کھلی بس فوراًہی آدمی کو وہابی کا سرٹیفکیٹ ملا اور کسی کو وہابی قراردینے کے بعد لوگ اس کی بات سننے پر آمادہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اس سے بدکنے لگتے ہیں کہ کہیں یہ بلّوریں عقائد کے اس محل پر پتھر نہ پھینک مارے جس کی تعمیر میں ان کے آبائو اجداد نے پسینے بہائے ہیں اور جس کی حفاظت میں عمریں گزار دی گئی ہیں ۔میں بھی اسی خدشے کا ہدف بن رہا ہوں۔

جواب: آپ کا عنایت نامہ ملا۔ آپ اب اسی مرحلے پر پہنچ گئے ہیں جس سے میں نے آپ کو یہاںپہلے ہی آگاہ کردیا تھا۔میں اس معاملے میں آپ سے یہ نہیں کہوں گا کہ آپ کیا رویہ اختیار کریں۔اس کا فیصلہ آپ کو بالکل اپنے قلب وضمیر کی آوازپر کرنا چاہیے اور اپنی ہمت کا جائزہ لے لینا چاہیے ۔بہرحال جو فیصلہ بھی آپ کریں ، ٹھنڈے دل سے کریں اور خدا سے دعا مانگتے رہیں کہ آپ کوئی ایسا قدم نہ اُٹھائیں جس کے بعدپسپائی کی نوبت آئے۔ پسپا ہونے سے اقدام نہ کرنا زیادہ بہتر ہے۔
فیصلے کو آپ کے اپنے ضمیر پر چھوڑنے کے بعد میں صرف اُن دلائل کا جواب دیے دیتا ہوں جو آپ کے مقابلے میں پیش کیے جاتے ہیں:
(۱) عذاب وثواب کوئی کسی کا نہیں اُٹھا سکتا۔ہر شخص اپنے عذاب وثواب کا خود حامل ہے۔ میرے کہنے سے اگر آپ کوئی گناہ کریں تو میں کہنے کا گناہ گار ہوں گا اور آپ کرنے کے گناہ گارہوں گے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کے کرنے کا گناہ بھی کہنے والے کی طرف منتقل ہوجائے۔ اور آپ اس وجہ سے چھوڑ دیے جائیں کہ آپ نے دوسرے کے کہنے پر گناہ کیا تھا۔
(۲) والدین کی فرماں برداری صرف اسی حد تک ہے جس حد تک ان کی فرماں برداری سے خالق کی نافرمانی لازم نہ آتی ہو۔ اگر وہ کسی معصیت کا حکم دیں تو ان کی اطاعت کرنا صرف یہی نہیں کہ فرض نہیں ہے بلکہ الٹا گناہ ہے۔
(۳) جس فعل کو آپ خود معصیت سمجھتے ہیں،اسے ڈیڑھ یا دو سال تک صرف اس لیے کرتے رہنا کہ خاندان کا ایک اور فرد آپ کے بجائے اس معصیت کے لیے تیار ہوجائے، بالکل ایک غلط فعل ہے ۔ اگر آپ اپنے عقیدے میں صادق ہیں تو آپ کی یہ دلی خواہش ہونی چاہیے کہ نہ صرف آپ خود اس سے بچیں بلکہ خدا کا ہر بندہ اس سے محفوظ رہے۔
(۴) یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام میں زمین داری سرے سے ناجائز ہے۔ البتہ ہندستان(موجودہ برعظیم ہندو پاکستان) میں زمین داری کی بعض شکلیں ایسی ضرور رائج ہوگئی ہیں جو جائز نہیں ہیں۔ اگر شرعی طریقے پر آپ زمین داری کریں اور ناجائز فائدے اٹھانے سے بچیں تو اس میں کوئی حر ج نہیں۔
(۵) جوجائداد کسی شخص کو آبائو اجداد سے ملی ہو ،اس کی سابق تاریخ دیکھنے کا شریعت نے اسے مکلف نہیں کیا۔ اس معاملے میں قرآن کا قانون گزشتہ پر گرفت نہیں کرتا بلکہ حال اور مستقبل کی اصلاح ہی پر اکتفا کرتا ہے۔اس کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ جب وہ جائداد اس کی ملکیت میں آئے،اس وقت سے وہ اس میں شرعی طریقے پر تصرف کرے اور سابق میں جن لوگوں نے اس کو غلط طریقے سے حاصل کیا تھا اور اس میں غلط تصرفات کیے تھے،ان کے معاملے کو خدا پر چھوڑ دے۔البتہ اگر کوئی چیز آپ کے قبضے میں ایسی ہو جس کے بارے میں آپ کو متعین طور پر معلوم ہو کہ اس میں فلاں فلاںلوگوں کے غصب شدہ حقوق شامل ہیں اور وہ لو گ بھی موجود ہوں،نیز اُن کا حصہ بھی متعین طورپر معلوم ہو، تو اپنی حد تک ان کے حقوق واپس کر دیجیے۔
(۶) ملازمت کے زمانے میں آپ کے ذاتی اور خاندانی اثر کی بدولت جو لوگ آپ کا اثر قبول کررہے تھے،وہ حقیقت میں دین کی دعوت سے متاثرنہیں ہورہے تھے، بلکہ وہ جاہ ومال کے بُت کی پوجا کررہے تھے۔ اور آیندہ بھی اگر آپ اس پوزیشن پر رہیں تویہ دھوکا نہ کھایئے گا کہ لوگوں کو آپ خدا پرست بنا رہے ہیں۔سچے خدا پرست تو وہی لوگ ہوں گے جو آپ کی دنیوی پوزیشن کو دیکھ کر نہیں بلکہ آپ کی دعوت کی سچائی اور آپ کے تقویٰ کو دیکھ کر متاثر ہوں گے۔میرے نزدیک تو آپ صحیح معنوں میں دعوتِ حق کے داعی اسی وقت بنیں گے جب تمام اعزازات آپ سے چھن جائیں، زمین آپ کو جگہ دینے سے انکار کردے اور وہ سب جو کل تک آپ کے سامنے جھکے پڑتے تھے، آپ کو ردّ کرنے اور آپ سے منہ پھیرنے پر اُتر آئیں۔ یہ صورتِ حال ہے تو بہت خطرناک لیکن اس راہ میں یہی کچھ مفید ہے۔اگر خدا نے آپ کو اتنی طاقت دی کہ آپ اسے برداشت کرنے کے قابل ہوجائیں تو اس کا حقیقی فائدہ آپ کو آگے چل کر معلوم ہوگا اور اسی وقت آپ کو اﷲ تعالیٰ جھوٹے رفیقوں کی رفاقت سے بچاکر سچے رفیق بہم پہنچائے گا۔
(۷) عوام کے عقائد پر خواہ مخواہ باوّلِ وہلہ ضرب لگانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ لیکن اپنے عقائد پر پردہ ڈالنے کی بھی ضرورت نہیں۔’’وہابیت‘‘ کے الزام سے بچنے کا اہتمام نہ کیجیے۔لوگوں نے درحقیقت مسلمان کے لیے یہ دوسرا نام تجویز کیا ہے۔وہ گالی مسلمان کو دینا چاہتے ہیں، لیکن مسلمان کہہ کر گالی دیں تواپنا اسلام خطرے میں پڑتا ہے، اس لیے ’’وہابی‘‘ کہہ کر گالی دیتے ہیں۔ اس حقیقت کو جب آپ سمجھ جائیں گے تو پھر وہابی کے خطاب سے آپ کو کوئی رنج نہ ہوگا۔ جو عقائد اور جو اعمال مشرکانہ ہیں،ان سے بہرحال پرہیز کیجیے اور توحید کو اس کے اصلی تقاضوں کے ساتھ بے تکلف بیان کیجیے۔ شرک اور مشرکانہ باتوں سے پرہیز اور توحید اور مقتضیاتِ توحید کی پابندی اگر وہابیت ہے تو خدا اپنے ہر بندے کو وہابی ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور غیر وہابی ہونے سے بچائے۔

سوال: صوبہ جاتی اجتماع سے واپس آنے پر میں یکایک ان پریشانیوں میں مبتلا ہوگیا ہوں جو میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھیں۔آپ کی شدید مصروفیات کا علم رکھنے کے باوجود ان احوال کا تفصیلی تذکرہ آپ ہی کے اس ارشاد کی بِنا پر کررہا ہوں کہ اس نوعیت کے اُمور سے آپ کو پوری طرح مطلع رکھنا ضروری ہے۔ خیر تو ۱۹؍ اکتوبر کو والد مکرم کا جو گرامی نامہ موصول ہوا ہے،وہ لفظ بلفظ (خط کا کچھ حصہ حذف کردیا گیا ہے۔) درج ذیل ہے:
’’برخوردارِ نورِ چشم… بعد دعائے ترقی درجات کے واضح ہو کہ اب تم خود مختار ہوگئے ہو،ہماری سرپرستی کی ضرورت نہیں،کیوں کہ ہم مکان پر بیمار پڑے ہیں اور تم کو جلسوں( اشارہ ہے جماعت اسلامی کے اجتماع کی طرف۔) کی شرکت لازم اور ضروری۔ اب اﷲ کے فضل سے نوکر ہوگئے ہو۔ہم نے اپنی تمام کوشش سے تعلیم میں کام یاب کرایا اور اس کا نتیجہ پالیا۔عالم باعمل ہوگئے کہ باپ کا حکم ماننا ظلم اور حکمِ خدا کے خلاف قرار پایا۔ اوروں کا حکم ماں باپ سے زیاد ہ افضل!خیر تمہاری کمائی سے ہم نے اپنی ضعیفی میں بڑا آرام پا لیا۔ آیندہ ایک پیسا بھی ہم لینا نہیں چاہتے۔جو تمہارا جی چاہے کرو اور جہاں چاہے رہو، خواہ سسرال میں یا کسی اورجگہ۔ البتہ ہم اپنی صورت اس وقت تک نہیں دکھلانا چاہتے جب تک جماعت سے استعفا نہ دے دو۔تم نے برابر اس مراق میں(یعنی تحریک اسلامی کی خدمت میں) سب تعلیم کاکام خراب کردیا۔مگر ہمارا نصیحت کرنابے کار ہے۔ بس یہ واضح رہے کہ ہمارے سامنے نہ آنا۔ ہمار اغصہ بہت خراب ہے۔ فقط۔‘‘
والدِ مکرم کے اس خط کا جواب راقم الحروف نے یہ لکھ دیا:
’’محترمی!کل آپ کا گرامی نامہ بدست… موصول ہوا۔اسے دیکھ کر اور آپ کی بیماری کا حال معلوم کرکے بڑا افسوس ہوا۔یقین جانیے مجھے خبر تک نہ تھی کہ آپ بیمار ہیں۔نہ آپ نے کوئی خط لکھا نہ مجھے کسی اور ذریعے سے حال معلوم ہوا، ورنہ میں یقینا وہاں نہ جاتا۔ یہ ایک عذرِ شرعی تھا جس کی بِنا پر سفر کو ملتوی کیا جاسکتا تھا۔
والدین کے احسانات اور ان کی مہربانیوں کا کون انکار کرسکتا ہے۔پھر آپ نے تو اعلیٰ تربیت کی اور دینی تعلیم سے آراستہ کیا۔اسی تعلیم سے مجھے یہ یقین حاصل ہوا کہ دین کو دنیا میں غالب کرنا،خدا کے کلمے کو بلند کرنا، دنیا میں اسلام کا سکہ چلانا اور اس کے لیے کوشش کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔میں نے گردو پیش کی دنیا پر نظر ڈالی اور مجھے ایک ہی جماعت اس مقصد کے لیے صحیح طریقے اور اصلی اوربہترین ڈھنگ سے کام کرتی ہوئی نظر آئی، اور وہ جماعت’’جماعت ِ اسلامی‘‘ ہے۔ اس لیے اگر مجھے دین کو دنیا میں غالب کرنے کے لیے کوشش کرنی ہے تو اس سے منسلک رہنا ضروری ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ دین کے غلبے کی کوشش اگر مسلمان کی زندگی کا مقصد نہیں تو پھر اور کیا مقصد ہے!
والدین کا حکم ماننا ضروری!ان کی اطاعت فرض! لیکن کہاں تک،جب تک خدا ورسولؐ کے حکم کے خلاف نہ ہو۔ اگر دین کو غالب کرنا ضروری ہے تو وہ کیا یوں ہی آرام سے بیٹھے ہوئے، بے اَن تھک کوشش کیے ہوئے ہوسکتا ہے؟ کیا یہ کوئی بہت سہل کام ہے؟کیا دین کے لیے اتنی قوت اور اتنا وقت بھی صرف نہیں کرنا چاہیے جتنا ہم اپنے پیٹ کے لیے کرتے ہیں؟کیا یہ کام تنہا ایک آدمی کے کرنے کا ہے؟بہرحال دین کے لیے جس جماعت میں بھی رہ کر کام کیا جائے گا،اس میں وقت بھی صرف ہوگا،مال بھی خرچ کرناہوگا، تکلیف بھی ہوگی ،کچھ دنیوی کاموں کا حرج بھی ہوگا،اور کسی نہ کسی قوت سے تصادم کا ڈر بھی ہوگا اور آپ پھر منع فرمائیںگے۔پھر لِلّٰہ! آپ ہی بتایئے کہ اس کام کی اور کیاصورت ہوسکتی ہے؟آپ کی سرپرستی سے محروم ہوجانا میری انتہائی بدنصیبی ہے۔لیکن یہ تو خیال فرمایئے کہ آپ کس چیز سے مجھے منع فرمار ہے ہیں۔ذرا غور تو کیجیے، کہیں یہ حکم خدا کے خلاف تو نہیں ہے۔
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَہَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِيْ سَبِيْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَo التوبہ 24:9
’’اے نبیؐ ! فرما دیجیے کہ اگر تمہارے باپ،تمہارے بیٹے، تمہارے خاندان، تمہارے وہ اموال جو تم نے محنت سے کمائے ہیں اور تمہاری وہ سوداگری جس میں گھاٹا پڑجانے سے تم ڈرتے ہو، اور تمہاری مرغوب آرام گاہیں تمہیں اﷲ، اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں سرتوڑ کوشش کرنے کے مقابلے میں محبوب ترہوں، تو انتظار کرواس گھڑی کا کہ اللہ کا فیصلہ صادر ہوجائے، اوریاد رکھو کہ اﷲ فاسقوں کو ہدایت نہیں بخشتا۔‘‘
میں سخت حیرت اور انتہائی افسوس کے ساتھ دیکھ رہا ہوں کہ دین کے غلبے کے لیے جوکوشش میں کررہا ہوں ،اس پر آپ ناراض ہیں۔آخر آپ ہی فرمایئے کہ اس صورت میں میرا فرض کیا ہے؟مندرجہ بالاآیت کو ملحوظ رکھ کر سوچیے۔
حاضر ہونے کو جی چاہتا ہے مگر آپ کے عتاب سے خائف ہوں ۔دیکھیے آپ کیا اجازت فرماتے ہیں۔‘‘
یہ جواب اس پس منظر کی بِنا پر لکھا گیا تھا کہ والد صاحب وقت کی اضاعت، صَرفِ مال اور خوفِ قوتِ متسلّطہ کی بِنا پر جماعت میں کام کرنے سے منع کرتے ہیں، نیز یہ کہ ان کے اشارے پر…سے ایک بہت مدلل قسم کا طویل وعریض خط آیا تھا، جس کا ماحصل یہ تھا کہ بہرحال حق واسلام جماعت اسلامی میں منحصر نہیں، تنہا کام کیجیے یا کسی اور جماعت میں رہ کر۔
والد محترم کی طرف سے مجھے ابھی تک منقولہ بالا عریضے کا جواب نہیں ملا ہے۔ اندریں حالات مناسب ہدایات سے مستفید فرمایئے۔‘‘

جواب: آپ نے والد کے عتاب پر جو جواب دیا ہے ،وہ بہت معقول ہے۔مسلمان کی زندگی ایک نہایت متوازن زندگی کا نام ہے جس میں تمام حقوق وفرائض کا مناسب لحاظ ہونا چاہیے اور کسی حق یا فرض کی اضاعت نہ ہونی چاہیے، اِلّایہ کہ ایک حق کو دوسرے حق پر اس حد تک قربان کیا جائے جس حد تک ایسا کرنا شرعاً ضروری ہو۔ والدین کا حق خدا کے حق کے بعد سب سے بڑا ہے۔ لیکن بہرحال خدا کے حقوق کے بعد ہی، اس پر مقدّم کسی طرح نہیں ہے۔ پس جہاں خدا کا حق اداکرنے کے لیے والدین کے حق میں کوئی کمی کرنا بالکل ناگزیر ہو وہاں موقع ومحل کو ٹھیک ٹھیک ملحوظ رکھتے ہوئے صرف اس حد تک کمی کی جائے اور ساتھ ساتھ ان کے عتاب اور خشم کو نہایت تحمل اور تواضع کے ساتھ برداشت کیا جائے۔ ان کی سختی کے مقابلے میں اُف تک نہ کیجیے مگر جس چیز کو آپ اپنی دینی بصیرت کے مطابق دین سمجھتے ہیں اس سے والدین کو خوش کرنے کے لیے بال برابر بھی نہ ہٹیے۔ اولاد پر والدین کی خدمت،اطاعت اور ادب فرض ہے لیکن ان کی خاطر ضمیر کی قربانی فرض نہیں ہے،خصوصاً اس ضمیر کی جو دین کی روشنی سے منورہوچکا ہو۔
اس معاملے میں آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرنی چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی متعدد صحابہ کرامؓ کو یہ مشکل پیش آچکی ہے۔اس وقت حضورؐ کی رہنمائی میں صحابہ کرامؓ نے اپنے ان والدین کے ساتھ جو راہِ حق میں کسی نہ کسی طرح مزاحم ہورہے تھے،جو طرز اختیار کیا،اس کو ملحوظ رکھیے۔

سوال: ہمارے ہاں کے ایک نوجوان رکنِ جماعت اپنے بڑے بھائی کی زیر سرپرستی تجارت کررہے ہیں۔لین دین میں احکامِ شریعت کی پابندی اور وقت پر نماز پڑھنے کے لیے چلے جانے کی بِنا پر ان کے بڑے بھائی سخت برہم ہیں اور ان پر سختی کررہے ہیں۔اب تک ان کے کئی خطوط میرے نام آچکے ہیں جن میں انہوں نے لکھا ہے کہ’’تیری(یعنی راقم الحروف کی) وجہ سے میرا بھائی خراب ہوگیا ہے،اس پردیوانگی طاری ہے، کاروبار میں اسے کوئی دل چسپی نہیں رہی، رات دن تیرا وظیفہ پڑھتا ہے،تو شیطان ہے،انسان کی شکل میں ابلیس ہے،ماں باپ اور اولاد میں اور بھائیوں میں جدائی ڈالتا ہے،میرے بھائی سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھ،اس کے نام نہ خط لکھ نہ سہ ماہی اجتماع میں شرکت کی دعوت دے، بلکہ اس کو جماعت سے خارج کردے ورنہ…!‘‘ اِ س سلسلے میں مناسب ہدایات سے سرفراز کیجیے۔

جواب: جہاں خاندان کے لوگ جاہلیت میں مبتلا ہوں اور راہِ راست پر چلنے میں اپنے بھائی بندوں کی مزاحمت کرتے ہوں،وہاں تو فی الواقع جدائی ڈالنا ہی ہمارا کام ہے۔ایسے اعزّہ واقربا اور دوستوں سے اہلِ ایمان کو ملانا نہیں بلکہ توڑنا اور کاٹنا ہی ہمارے پیشِ نظر ہے۔ لہٰذاجو الزام ہمارے رفیق کے بھائی نے آپ پر لگایا ہے ،اس کی تردید کی ضرورت نہیں بلکہ صاف صاف اعتراف کی ضرورت ہے اور بہت نرمی کے ساتھ ان کو اس بات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ اس جدائی کو میل اور موافقت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو خدا پرستی اور دین داری میں مزاحم ہونے کے بجائے مددگار اور ساتھی بننے کی کوشش کریں، ورنہ ہم اور ہمارا رفیق اپنے طرزِ عمل پر قائم رہیں گے اور آپ کو اختیار ہے کہ جو سلوک آپ کا نفس ہمارے ساتھ کرنا چاہتا ہے وہ کرے۔
البتہ یہ خیال رکھیے کہ آپ کی طرف سے کوئی بات ضد یا اشتعال دلانے والی نہ ہو،بلکہ صبر وتحمل کے ساتھ اس شخص کے نفس کی اصلاح کرنے کی کوشش کیجیے جس کو جاہلیت کے غلبے نے اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ وہ اس آیت کا مصداق بن گیا: اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يَنْہٰىo عَبْدًا اِذَا صَلّٰىo العلق96:10-9
درحقیقت یہ دیکھ کر بڑ ادکھ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے گروہ میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن کو نماز کی پابندی تک گوارا نہیں ہے۔خود پابندی کرنا تو درکنار، دوسرااگر ایسا کرتا ہے تو اس پر بھی بگڑتے ہیں۔ایسے مسلمانوں کی حالت پر اگر کبھی ہم تلخ تنقید کرجاتے ہیں تو ہمیں خارجیت کا طعنہ دیا جاتا ہے۔

سوال: میں بغرضِ تعلیم اسی سال… چلاگیا تھا۔ ڈاڑھی رکھ کر گھر واپس آیا تو تمام دوست و احباب نے تنگ کرنا شروع کردیا۔حتیٰ کہ خود والد مکرم بھی بہ شدت مجبور کررہے ہیں کہ ڈاڑھی صاف کرا دو،کیوں کہ اس کی وجہ سے تم بڑے بوڑھے معلوم ہوتے ہو۔اگر اصرار سے کام لو گے تو ہم تم سے کوئی تعلق نہ رکھیں گے۔ گھر سے نکلنے پر دوست بہت تنگ کرتے ہیں ۔اس لیے مجبوراً خانہ نشینی اختیار کرلی ہے ۔لیکن ستم تو یہ ہے کہ اب چند اصحاب کی طرف سے یہ پیغام ملا ہے کہ اگر آٹھ یوم میں ہمارا مطالبہ پورا نہ کیا گیا یعنی ڈاڑھی نہ منڈوائی گئی تو تمام برادری سے متفقہ بائیکاٹ کرایا جائے گا۔بڑی عمر میں بشوق رکھ لینا، مگر اب اگر تم رکھو گے تو زبردستی سے کام لیا جائے گا۔میں ڈاڑھی کو پابندیِ احکام شریعت میں بہت ممد پاتا ہوں۔مثلاً مجھے سینما بینی کا شوق تھا مگر ڈاڑھی رکھنے کے بعد سینما ہال میں جانے سے شرم معلوم ہوتی ہے ۔لیکن جب مخالفین کے دلائل سنتا ہوں تو کبھی کبھی یہ شبہ ہوتا ہے کہ شاید یہی لوگ ٹھیک کہتے ہیں۔ مگر پھر یہ جذبہ کا م کرنے لگ جاتا ہے کہ چاہے پوری دنیا میری مخالفت پر اُتر آئے، میرے رویے میں کوئی تبدیلی نہ ہو گی۔ لِلّٰہ میری رہنمائی کیجیے تاکہ مجھے اطمینان نصیب ہو۔

جواب: جب آپ نے سنتِ رسولؐ سمجھ کر یہ کام کیا ہے تو پھر کسی کے اعتراض و مخالفت کی پروا نہ کیجیے اور سب سے کہہ دیجیے کہ یہ ڈاڑھی رہنے کے لیے آئی ہے، جانے کے لیے نہیںآئی، اس کے ہوتے ہوئے اگر آپ میرے ساتھ تعلقات رکھ سکتے ہیں تو رکھیے، اور آپ کے لیے سنتِ رسولؐ اس قدر ناقابلِ برداشت ہے کہ اس کی وجہ سے میرے ساتھ بھی تعلقات رکھنا ناگوار ہے تو بخوشی قطع تعلق کرلیجیے،میرے لیے خدا ورسولؐ کافی ہیں۔
(ترجمان القرآن۔رجب،شعبان ۶۴ھ۔ جولائی اگست ۴۵ء)

جذباتی اور غیر حکیمانہ طرزِ تبلیغ:

سوال: میں نے ایک طالب علم کو جماعت اسلامی کا لٹریچر پڑھنے کی ترغیب دی اور زبانی طورپر بھی اس کو جماعت کے نصب العین کی طرف دعوت دیتا رہا،جس کا خاطر خواہ اثر ہوا اور اب وہ اس مقصد کے لیے اپنے آپ کو بالکل وقف کرنے کا تہیہ کرچکا ہے۔نتیجے کے طورپر اس کا ماحول بھی اس کا دشمن ہورہا ہے اور وہ بھی اس سے سخت بیزار ہے۔اب اس کی خواہش یہ ہے کہ اپنے مقصد کی خاطر ہجرت کرکے دارالاسلام چلا جائے۔ اس کی والدہ بعض شرائط پر راضی ہوگئی ہیں مگر والد سے اجازت ملنے کی کوئی توقع نہیں۔ اس لیے اس نے مجھ سے استفسار کیا تھا کہ کیا والدین کی اجازت اور مرضی کے علی الرغم دارالاسلام ہجرت کر جائوں؟‘‘ میں نے اس کو جواب دے دیا ہے کہ ’’مکہ سے مدینہ جانے سے قبل تمام مہاجرین نے اپنے والدین سے اجازت نہیں مانگی تھی۔‘‘ اس کا دوسرا استفسار یہ تھا کہ’’ کیا جماعت میری پشت پناہی پر آمادہ ہوگی؟کہیں ایسا نہ ہو کہ میں… وہاں برے سلوک اور مصائب سے دوچار ہوں۔ ‘‘ اس کے جواب میں میں نے اس کو لکھ دیا ہے کہ ’’گو اس کے متعلق صاف صاف کچھ کہنا میرے لیے مشکل ہے، مگر اتنا یاد رکھنا چاہیے کہ نظامِ باطل کے تحت ہزاروں روپے کی کمائی۱ ور ساری دنیوی لذتیں نظامِ حق کی جدوجہد کی خاطر فقر وفاقہ کی زندگی کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔رسولِ عربیؐ کا اسوہ،جس کے اتباع کا ہم مسلمان دم بھرتے ہیں، ہم کو یہی بتاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود تم کو یقین رکھنا چاہیے کہ جماعت ہمیشہ اور ہر وقت ایسے لوگوں کی پُشت پناہی پر آمادہ ہے جونظامِ باطل سے بھاگ کر نظامِ حق کی طرف آرہے ہوں۔ بلکہ وہ ایسے لوگوں کا خیر مقدم کرے گی بشرطیکہ وہ صرف حق پرست اور حق طلب ہوکر جارہے ہوں۔‘‘
ا ب ان امور کے متعلق براہِ راست آپ سے ہدایتیں مطلوب ہیں۔
اس سلسلے میں ایک چیز اور بھی سامنے آگئی ہے۔جیسا کہ آپ کو معلوم ہے ،میں ایک مدرسے میں معلم ہوں۔جب میری ان تبلیغی سرگرمیوں کی اطلاع حکومت کے محکمۂ تعلیمات کو ملی تو اس نے مجھ سے چند سوالات کیے، جن میں مجھ سے جماعت کی حیثیت ،اس کے مقاصد، امیرِ جماعت کی شخصیت وغیرہ اُمور کی بابت استفسار کرتے ہوئے یہ جواب طلب کیا گیا ہے کہ تم ایک فرقہ وار جماعت کے رُکن کیوں ہو اور فلاں طالب علم کو کیوں اس بات پر ورغلاتے ہو کہ وہ موجودہ نظامِ تعلیم کو ترک کرکے خلاف مرضیِ والدین دیگر ممالک کو ہجرت کرجائے… وغیر ذالک۔ فرمایئے اس مراسلے کا کیا جواب دوں ؟ میرا ارادہ تو صاف صاف اظہارِ حق کا ہے ۔

جواب: آپ نے یہ غلطی کی کہ لوگوں کو تبلیغ کی تیز خوراکیں دے کر ہجرت اور ترکِ علائق پر آمادہ کرنا شروع کردیا۔ حالاں کہ میں صحیح پوزیشن کئی مرتبہ واضح کرچکا ہوں۔ ہم ابھی تک اس مرحلے میں نہیںپہنچے ہیں جب کہ مختلف مقامات سے اپنے سب ہم خیالوں کو ایک جگہ سمٹ آنے کی دعوت دے سکیں۔ نہ ہمار ے پاس جگہ ہے،نہ ذرائع ہیں،نہ صحیح معنوں میں ایسا دار الاسلام بن گیا ہے جس کی طرف دارالکفر سے ہجرت کرنا ضروری ہو، اور نہ اُصولاً یہ بات صحیح ہے کہ ’’مکی زندگی‘‘ کی بھٹی سے اچھی طرح گزرے بغیر لوگ مجرد عقیدہ ونصب العین قبول کر کرکے کسی ایک مقام پر جمع ہونے لگیں۔کیوں کہ اس طرح وہ مضبوط سیرت تو کبھی بن ہی نہیں سکتی جو ایک کافی مدت تک مخالف ماحول میں کش مکش کرنے اور استقامت دکھانے سے بنا کرتی ہے۔ لہٰذا اس وقت لوگوں کو ہجرت کی دعوت دینا ہمارے کام کے لیے اُصولاً غلط بھی ہے اور بے حد نقصان دہ بھی، اور اس پالیسی کے بھی خلاف ہے جس پر ہم اس وقت کام کررہے ہیں۔
ہم اپنے مرکز کو ذرائع کی کمی اور مشکلات کے باوجود بتدریج مضبوط بنا رہے ہیں اور اس مرحلے پر صرف ان لوگوں کو بلا رہے ہیں جن کی فی الواقع ہم کو ضرورت ہے۔اِ س تدریجی نقشے کے خلاف ایک زائد آدمی کا آجانا بھی ہماری مشکلات میں غیر معمولی اضافہ کر دیتا ہے۔پھر ہماری کوشش یہ ہے کہ اس مرحلے پر ہم صرف آزمود ہ آدمیوں ہی کو بلائیں جن کے متعلق ہمیں پوری طرح اطمینان ہو کہ وہ ساری اسکیموں میں ٹھیک ٹھیک مدد گارہوسکتے ہیں۔ ناآزمودہ آدمیوں کے بلا انتخاب جمع ہوجانے سے بڑی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اور ایسے اشخاص کے اجتماع سے کام میں مدد ملنے کے بجائے اُلٹی خرابیاں رُونما ہونے لگتی ہیں۔جب تک میں اپنے نقشے کے مطابق ایک صحیح و مستحکم ماحول پیدا نہ کرلوں جس پر مجھے یہ اطمینان ہو کہ اب جو اس ماحول میں آئے گا وہ اس کے مزاج کے مطابق ڈھلتا چلا جائے گا،اس وقت تک میں یہ مناسب نہیں سمجھتا کہ غیر معلوم الحال اصحاب بطورِ خود مرکز میں آکر رہنا شروع کردیں۔سرِدست جو لوگ مرکز میں آنے کے امیدوار ہوں،ان کو ایک کافی مدت تک اپنے ماحول میں رہ کر مشکلات کا مقابلہ کرکے،مخالفتوں کے مقابلے میں صبر واستقامت دکھا کر اپنی اس قابلیت کا ثبوت دینا چاہیے کہ وہ مرکز میں بلائے جانے کے لائق ہیں۔
اب اخلاقی جرأت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ خود اُن نوجوان دوست کولکھیں کہ آپ نے جو ہجرت کرنے کی ترغیب دی تھی وہ آپ کی غلطی تھی اور آپ سے یہ غلطی جماعتی پالیسی کے خلاف سرزد ہو گئی تھی۔ اس کے ساتھ آپ انہیں تلقین کیجیے کہ وہ ایک طرف اپنی دینی معلومات کو ضروری حد تک مکمل کرنے کی کوشش کریں اور دوسری طرف ہماری جماعت کے نام پر کوئی کام کرنے سے پہلے ہمارے لٹریچر کو اچھی طرح پڑھ کر ہمارے مسلک اور طریقِ کار کو سمجھ لیں،پھر اس کے مطابق اپنے ماحول میں ٹھیک ٹھیک کام کرنے کی کوشش کریں۔
آپ کی یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ آپ نے عزیزِ موصوف کو ان کے والد کے علی الرغم ہجرت کرنے کی رائے دی۔اوّل تو مکہ میں مشرک وکافر ماں باپ کے متعلق جو طرز عمل اختیار کیا گیا تھا،وہ بعینہٖ ان مسلمان ماں باپ کے معاملے میں اختیار کرنا درست نہیں ہے جو ہمارے نزدیک خواہ کتنی ہی غفلت وضلالت میںمبتلا ہوں مگر بہرحال ہیں مسلمان۔ دوسرے یہ کہ اگر کسی مرحلے پر والدین کی اجازت کے بغیر،بلکہ ان کے حکم کے خلاف کوئی اقدام کرنا اولاد کے لیے جائز ہوبھی سکتا ہے تو صرف اس صورت میں جب کہ ا میرِ جماعت تمام شرعی پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر ایسا کرنے کا حکم دے۔ایسے باضابطہ حکم کے بغیر کسی شخص کا بطور خود یہ فیصلہ کرلینا کہ یہ وقت والدین کی نافرمانی کر گزرنے کا ہے ،کسی طرح صحیح نہیں ہے۔
عزیز موصوف کا جو خط براہِ راست میرے پاس آیا ہے، اس کو دیکھنے سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ جماعت کو، اس کے نظام کو، اور اس کے طریق کار کو بالکل نہیں سمجھے ہیں اور ان کے ذہن میں جماعت کی پوزیشن کا کچھ عجیب تصور قائم ہوگیا ہے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ شاید اس جماعت نے اپنا کوئی اسٹیٹ قائم کرلیا ہے اور وہ اسٹیٹ بھی بڑا دولت مند ہے۔ اس لیے ان کا خیال یہ ہے کہ انہیں یہاں آنے کے مصارف ہم بھیجیں گے،یہاں اُن کی ضروریات کی کفالت بھی ہم ہی کریں گے، اور ان کو سال میں دو مرتبہ گھر بھی ہم اپنے ہی خرچ پر بھیجتے رہا کریں گے۔ظاہر ہے کہ اس تصور کو لیے ہوئے اگر وہ دارالاسلام آنے پر آمادہ نہ ہوتے تو اور کیا کرتے، اور اگر ہماری دعوت ایسی ہی فیاضانہ ہو تو نیک نیت اہلِ ایمان میں سے کس کو اپنی نوکری چھوڑ دینے یامدرسے سے نکل آنے میں تامل ہوسکتا ہے۔ان کی اس بات سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آپ کا طرزِ تبلیغ بہت خام ہے جس میں فہم کا عنصر کم اور جذباتی جوش کا عنصر زیادہ ہے،اسی وجہ سے ایسے لوگ جو ہمارے مسلک وطریق کار کو پانچ فی صدی بھی نہیں سمجھے ہیں، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہمارے ساتھ آملنے کو پچانوے فی صدی آمادہ ہوجاتے ہیں۔ براہِ کرم اِ س طرزِتبلیغ کی اصلاح کیجیے، ورنہ جوپیچیدگی ان عزیز کے معاملے میں پیش آئی ہے،اس سے زیادہ آیندہ پیش آنے کا خطرہ ہے۔
یہ بات بھی اس سے پہلے آپ کو بتا چکا ہوں کہ جب تک آپ سرکاری ملازمت میں ہیں،قواعدِ ملازمت کے اندر رہتے ہوئے کام کیجیے۔ اوّل تو کسی سے تنخوا ہ لینے کے بعد ان شرائط کی پابندی نہ کرنا جن کے تحت و ہ تنخواہ دے رہا ہے،اخلاقی اعتبار سے درست نہیں ہے ۔دوسرے یہ کہ اگر آپ قواعد کے خلاف کام کریں گے اور اس کی پاداش میں برطرفی یا کسی اور قسم کی سزا پائیں گے تو اس سے آپ کی اخلاقی پوزیشن اُلٹی کمزور ہوجائے گی،حالاں کہ اس وقت نظامِ جاہلیت کے خلاف ہمارا سب سے بڑا سلاحِ جنگ اگرکوئی ہے تو وہ اخلاق ہی ہے۔ اِ س لیے آپ نے طالب علم مذکور کوجس طرز کی تبلیغ کی اور اس کی وجہ سے جو باز پُرس آپ سے ہوئی،وہ ان ہدایات کے خلاف ہیں جو آپ کو مرکز سے دی گئی تھیں۔ اب آپ کو ان سوالات کے جواب میںجو آپ سے کیے گئے ہیں، بالکل سیدھے اور صاف طریقے سے صحیح صحیح بیان دینا چاہیے، لیکن جواب آپ کا سخت نہ ہونا چاہیے ۔زبان اور لب ولہجے میںپوری طرح معقولیت ہو۔ جو غلطی ہے اس کوغلطی تسلیم کرلیجیے اور آپ کی اور اس جماعت کی جو صحیح پوزیشن ہے اس کو بے تکلف بیان کردیجیے۔
(ترجما ن القرآن۔ ذی القعدہ، ذی الحجہ ۶۴ھ۔ نومبر،دسمبر ۴۵ء)

عملی اسلام سے اجتناب کا مشورہ:

سوال: تحریک اسلامی سے مجھے بہت دل چسپی ہے مگر چند روز سے ایک اہم اعتراض دماغ میں چکر لگا رہا ہے،جسے آپ کے سامنے رکھ کر رہنمائی چاہتا ہوں کہ اگر مسلمان موجودہ طاغوتی نظام سے بالکل علیحدگی اختیار کرلیں تو ان کی حیثیت ہندستان میں غلام یا اچھوت کی سی رہ جائے گی۔پس کیایہ اچھا نہ ہوگا کہ آپ جیسے اعلیٰ دماغ حضرات مسلمانوں کو اس نظام سے فائدہ اُٹھانے کی گنجایش دے کر ذہنی تربیت کا کام کرتے رہیں، تا آں کہ پوری مسلمان قوم کی ذہنیت ایک ہی طرزِ فکر کی حامل ہوجائے اور پھر موقع آنے پر وہ یک دم نظامِ حق کے لیے اُٹھ کھڑی ہو۔
اگر تمام مسلمان آپ کی تحریک اسلامی کے ساتھ ہوگئے ہوتے تب تو طاغوتی نظام میں جذب ہوئے بغیر کام یابی کا امکان تھا،مگر اب جب کہ مسلمانوں کی اکثریت تحریک اسلامی کے نام سے بھی واقف نہیں اور علما جن کا فرض ہی احیائے دین کی جدوجہد ہے ،اس کو ناقابل عمل بتاتے ہیں،نظامِ باطل سے کٹ کر کام یابی حاصل کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔پھر کیا آپ اس پر متفق نہیں ہوں گے کہ ابھی آپ صرف تبلیغی کام کرتے رہیں اور جب بالعموم مسلمانوں کے ذہن تحریکِ اسلامی کو سمجھنے لگیں اس وقت عملی کا م کا آغاز کیا جائے؟

جواب: آپ کا مطلب جہاں تک آپ کے خط سے سمجھ میں آیا ہے،یہ ہے کہ موجودہ حالات میں صرف زبانی تبلیغ تقریر و تحریر اور مضامین ورسائل کے ذریعے سے جاری رکھی جائے، اور جن اُصولوں کی تبلیغ کی جائے ان پر نہ خود عمل کیا جائے نہ دوسروں کو ان پر عمل کرنے کی دعوت دی جائے،پھر جب سارے مسلمانوں کے ذہن ہمارے خیالات سے متاثر ہوجائیں تب دفعتاً اُٹھ کر انقلاب پید ا کر دیا جائے۔
خیال تو بہت بے ضرر اور بے خطر ہے، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ تبلیغ اور انقلاب کی فطرت اس کے خلاف واقع ہوئی ہے۔ مؤثر اور نتیجہ خیز تبلیغ ہوتی ہی اس وقت ہے جب کہ تبلیغ کرنے والی پارٹی اپنے اُصولوں پر عمل کرتی ہے اور ان پر عمل کرنے والوں کی تنظیم کرتی ہے۔خالی خولی وعظ تو بہت دنوں سے اس ملک میں ہورہے ہیں۔ان کا کیا نتیجہ ہوا؟
یہ عجیب معاملہ ہے کہ کچھ لوگ تو ہم کو یہ طعنہ دیتے ہیں کہ تم لکھتے اور چھاپتے ہو، کوئی عملی قدم نہیں اُٹھاتے، اور کچھ آپ جیسے لوگ مشورہ دیتے ہیں کہ صرف لکھو اور چھاپو، مسلمانوں کو عمل کرنے کے خطرے میں کیوں ڈالتے ہو۔ہماری درخواست یہ ہے کہ ان طعنوں اور مشوروں سے پہلے لوگ یہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ ہم اپنی دعوت اور طریقِ دعوت دونوں میں حضرات انبیائے کرامؑ کے پیرو ہیں۔ اس وجہ سے جس کو ہمیں کوئی مشورہ دینا ہو یا ہم پر اعتراض کرنا ہو،وہ اپنے مشورے اور اعتراض پر حضرات انبیاؑ کے قول اور عمل کی دلیل پیش کرے۔ صرف مصلحت بازی اور خیال آرائی یا اندیشہ سازی ہماری نگاہوں میں کوئی وُقعت نہیں رکھتی ،پس بہتر ہے کہ لوگ ہمیں اس سے معاف رکھیں۔

(ترجمان القرآن ،ربیع الثانی ۶۵ھ، مارچ ۴۶ء)

اسلام بلا جماعت:

سوال: جو شخص آپ کی جماعت کے اُصولوں کے مطابق اپنی جگہ حتی المقدور صحیح اسلامی زندگی بسر کررہا ہو ،وہ اگر بعض اسباب کے ماتحت باقاعدہ جماعت میں شریک نہ ہو تو اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب: اس کے متعلق میرا وہی خیال ہے جو احادیث سے ثابت ہے کہ صحیح اسلامی زندگی جماعت کے بغیر نہیں ہوتی۔ زندگی کے صحیح اسلامی زندگی ہونے کے لیے سب سے مقدم چیز اسلام کے نصب العین(اقامتِ دینِ حق) سے وابستگی ہے۔ اس وابستگی کا تقاضا ہے کہ آدمی نصب العین کے لیے جدوجہد کرے۔ اور جدوجہد اجتماعی طاقت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا جماعت کے بغیر کسی زندگی کو صحیح اسلامی زندگی سمجھنا بالکل غلط ہے۔یہ دوسری بات ہے کہ کوئی شخص ہماری اس جماعت میں شامل نہ ہو اور کسی اور ایسی جماعت سے اس کا تعلق ہو جو یہی نصب العین رکھتی ہو اور جس کا نظامِ جماعت اور طریقِ جدوجہد بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو۔اس صورت میں ہم اس کو برسر ہدایت ماننے میں کوئی تامل نہیں کرتے۔ لیکن یہ بات ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے کہ آدمی صرف ان طریقوں کی پابندی پر اکتفا کرتا رہے جو شخصی کردار کے لیے شریعت میں بتائے گئے ہیں اور اقامت ِ دین کی جدوجہد کے لیے کسی جماعت سے وابستہ نہ ہو۔ہم ایسی زندگی کو کم ازکم نیم جاہلیت کی زندگی سمجھتے ہیں۔ ہمارے علم میں اسلامیت کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ اگرآدمی کو اپنے گردو پیش ایسی کوئی جماعت نظر نہ آتی ہو جو اسلام کے اجتماعی نصب العین کے لیے اسلامی طریقے پر سعی کرنے والی ہو تو اسے سچے دل سے ایسی ایک جماعت کے وجود میںلانے کی سعی کرنی چاہیے اور اس کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ جب کبھی ایسی جماعت پائی جائے ،وہ اپنی انانیت چھوڑ کر ٹھیک ٹھیک جماعتی ذہنیت کے ساتھ اس میں شامل ہوجائے ۔(اِس مسئلے پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو’’شہادت حق‘‘ازمصنف۔)
(ترجمان القرآن۔ جمادی الاولیٰ ۶۵ھ ۔ اپریل ۶۴ء)

جماعت ِ اسلامی کے متعلق چندشبہات:

سوال: جماعت اسلامی کی دعوت پر کچھ سنجیدہ اصحاب کی طرف سے حسب ذیل اعتراضات کیے گئے ہیں،براہِ کرم اپنے جوابات سے آگاہ فرمائیں:
۱۔ جماعت اسلامی کی تحریک سے مسلمانوں میں ایک نیا فرقہ بن جائے گا۔اس خطرے کا کیا سدِّباب کیا گیا ہے؟
۲۔ یہ تحریک محمد بن عبدالوہاب نجدی ہی کی تحریک ہے۔جب آپ کے ساتھ اچھی خاصی جمعیت ہوجائے گی تو آپ کا رویہ بھی ابن عبدالوہاب ہی کی طرح کا ہوگا۔
۳۔ آپ بزرگانِ دین کا احترام بھی نہیں کرتے۔ سلف کے جن حضرات نے بڑی بڑی خدمات انجام دی ہیں،ان کی کارگزاریوں پر آپ قلم پھیر دینا چاہتے ہیں اور خود کو اُن سے بہتر کام کرنے کا اہل پاتے ہیں۔
۴۔ آپ ارکانِ جماعت اسلامی کے سوا باقی سب مسلمانوںکو کافر سمجھتے ہیں۔

جواب: (۱) میں اپنی حد تک انتہائی احتیاط کررہا ہوں اورمیرے رفقا بھی خدا کے فضل سے اس معاملے میں چوکنّے ہیں کہ ہماری یہ جماعت مسلمانوں میں ایک نیا فرقہ نہ بننے پائے۔اگرچہ ہم سے اختلاف کرنے والوں میں ایک گروہ یہ دلی خواہش رکھتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح ہم سے اس نوعیت کی کوئی غلطی سرزد ہوجائے، تاکہ اصلاح کی بہت سی پچھلی کوششوں کی طرح ہماری اس کوشش کو بھی خاک میں ملایا(بلکہ بعض لوگ تو غلطی کے صدور کا انتظار کرتے کرتے جب تھک گئے تو وہ زبردستی ہم کو ایک فرقہ قرار دینے پر تل گئے۔ کیوں کہ اِس کے بغیر اُن کا غیظ تسکین نہیں پاسکتا تھا۔معلوم نہیں آپ کے ’’سنجیدہ اصحاب‘‘ کن لوگوں میں شامل ہیں۔غلطی کے صدور کا انتظار کرنے والوں میں؟یا بلا صدور ہی حکم چسپاں کردینے والوں میں؟) جاسکے۔ لیکن الحمد ﷲ ہمارے اندر وہ بیماریاں موجود نہیں ہیں جن کی بِنا پر نئے فرقے بنا کرتے ہیں۔ہم اس فتنے سے خداکی پنا ہ مانگتے ہیں۔جہاں تک ہمارے بس میں ہے ہم اس خطرے کا سدِّباب کررہے ہیں۔لیکن شیطان کی شرارتوں کا ایسا کامل سدّباب کہ اسے کسی طرح گھس آنے کا موقع نہ ملے، انبیا علیہم السلام بھی نہ کرسکے تو ہم کیا چیزہیں کہ اس میں پوری طرح کام یاب ہونے کا دعویٰ کرسکیں۔بندے کا کام اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ اپنی حدِّ امکان تک کوشش کرے اور آگے کے لیے اﷲ سے دعا مانگے۔(اِ س اعتراض کا زیادہ تفصیلی جواب ’’شہادتِ حق‘‘ میں دیا گیا ہے۔)
(۲) ہمارے لٹریچر اور کام کو دیکھنے کے بعد اگر کوئی شخص اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یہ ابن عبدالوہاب نجدی کی تحریک ہے یا آگے چل کر وہی کچھ بن جائے گی تو وہ اپنی رائے کا مختار ہے۔ہم کسی شخص کو رائے رکھنے کے اختیار سے محروم نہیں کرسکتے اور ہمارے پاس اس قسم کی فضول بحثوں کے لیے وقت بھی نہیں ہے۔
(۳) میں تمام بزرگانِ دین کا احترام کرتا ہوں، مگر پرستش ان میں سے کسی کی نہیں کرتا، اور انبیاکے سوا کسی کو معصوم بھی نہیں سمجھتا۔ میرا طریقہ یہ ہے کہ میں بزرگانِ سلف کے خیالات اور کاموں پر بے لاگ تحقیقی وتنقیدی نگاہ ڈالتا ہوں۔جو کچھ ان میں حق پاتا ہوںاسے حق کہتا ہوں، اور جس چیز کو کتاب وسنت کے لحاظ سے یا حکمت عملی کے اعتبار سے درست نہیں پاتااس کو صاف صاف نادرست کہہ دیتا ہوں۔میرے نزدیک کسی غیر نبی کی رائے یا تدبیر میں خطا پائے جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی عظمت وبزرگی میں کوئی کمی آئے۔اس لیے میں سلف کی بعض رایوں سے اختلاف کرنے کے باوجود ان کی بزرگی کا بھی قائل رہتا ہوں اور میرے دل میں ان کا احترام بھی بدستور باقی رہتا ہے۔ لیکن جو لوگ بزرگی اورمعصومیت کو ہم معنی سمجھتے ہیں،اور جن کے نزدیک اُصول یہ ہے کہ جو بزرگ ہے وہ خطا نہیں کرتا، اور جو خطا کرتا ہے وہ بزرگ نہیں ہے،وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بزرگ کی رائے یا طریقے کو نادرست قرار دینالازمی طو رپر یہ معنی رکھتا ہے کہ ایسا خیال ظاہر کرنے والا ان کی بزرگی کا احترام نہیں کرتا اور ان کی خدمات پر قلم پھیرنا چاہتا ہے۔پھر وہ اس مقام پر بھی نہیں رُکتے، بلکہ آگے بڑھ کر اس پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ان سے بڑا سمجھتا ہے۔حالاں کہ علمی معاملات میں ایک شخص کا دوسرے کی رائے سے اختلاف کرنا اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ وہ جس سے اختلاف کررہا ہو،اس کے مقابلے میں اپنے آ پ کو بڑا بھی سمجھے اور اس سے بہتر بھی۔امام محمدؒ اور امام ابو یوسفؒ نے بکثرت معاملات میں امام ابوحنیفہؒ کی رائے سے اختلاف کیا ہے اور ظاہر ہے، کہ یہ اختلاف یہی معنی رکھتا ہے کہ وہ مختلف فیہ معاملات میں اپنی رائے کو صحیح او رامام صاحب کی رائے کو غلط سمجھتے تھے۔لیکن کیا اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ یہ دونوں حضرات امام ابوحنیفہؒ کے مقابلے میں اپنے آپ کو افضل سمجھتے تھے؟
(۴) یہ الزام کہ ہم ارکان جماعت اسلامی کے سوا باقی سب مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں، اگر ہماری ان تمام تحریرات کو پڑھنے کے بعد لگایا گیا ہے جو ہم نے اس الزام کی تردید میں بار بار لکھی ہیں، تو اس کا جواب صبر کے سوا نہیں ہے۔(یہ تحریریں اِس کتاب میں بھی موجود ہیں اور زیادہ تفصیل کے ساتھ تفہیمات حصہ دوم میں ملیں گی۔) آخر سارے معاملات کا فیصلہ اسی دنیا میں تونہیں ہوجانا ہے، کوئی عدالت آخرت میں بھی تو قائم ہوگی۔

(ترجمان القرآن۔رجب ۶۵ھ۔ جون ۴۶ء)

ہمہ گیر ریاست میں تحریکِ اسلامی کا طریقِ کار:

سوال: یہ بات تو اب کسی مزید استدلال کی محتاج نہیں رہی کہ ایک مسلمان کے لیے، بشرطیکہ وہ اسلام کا صحیح شعور حاصل کرچکا ہو،صرف ایک ہی چیز مقصد زندگی قرارپاسکتی ہے ،اور وہ ہے حکومتِ الٰہیہ کا قیام۔ظاہر ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لیے صرف وہی طریقِ کار اختیار کیا جاسکتا ہے جو اس کی فطرت سے عملاً مناسبت رکھتا ہو اور جو اس کے اصلی داعیوں نے عملاًاختیار کیا ہو۔ حکومتِ الٰہی کے نصب العین کے داعی انبیائے کرام ہیں۔ اس لیے طریقِ کار بھی وہی ہے جو انبیا کا طریقِ کار ہو۔
انبیا کی زندگیوں پر نظر ڈالتے ہوئے ہمیں فی الجملہ دو قسم کے پیغمبر دکھائی دیتے ہیں:
ایک تو وہ جن کی دعوت کے ظہور کے وقت اسٹیٹ ایک منظم اور مؤثر طاقت کی حیثیت سے سوسائٹی میں کارفرما نظر آتا ہے۔ اور اکثر حالات میں وہ ایسا اسٹیٹ ہوتا ہے جس میں اقتدار اعلیٰ کلّی طور پر شخص واحد میںمرکوز ہوتا ہے۔ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام۔
دوسرے وہ جن کا واسطہ ایک ایسی سوسائٹی سے پڑتا ہے جس میں اسٹیٹ ابھی بالکل ابتدائی حالت میں تھا اور زیادہ سے زیادہ سرقبیلی(patriachal) قسم کا اسٹیٹ تھا۔ جیسے خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم۔
دونوں صورتوں میں طریقِ کار کا اختلاف نمایاں ہے جو غالباًاسی سیاسی اختلاف احوال کا نتیجہ ہے۔
لیکن جتنی جامعیت او رہمہ گیری اسٹیٹ نے اب حاصل کرلی ہے اور جس طرح اس نے آج کل فرد کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور جتنی منظم ومؤثر اور مضبوط طاقت، فکری اور عملی دونوں حیثیتوں سے اس نے اب اختیار کرلی ہے،اس کی مثال شاید پچھلی تاریخ میں نہ مل سکے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہی طریق کار جو تقریباًغیر ریاستی (stateless) سوسائٹی یا حدسے حد سرقبیلی حکومت میںکام یاب طورپر استعمال کیا گیاتھا، اب بھی اس قسم کی کام یابی کا ضامن ہوسکتا ہے؟کیا آج کل کے بدلے ہوئے حالات میں اسی مقصد کے لیے کام کرنے والی پارٹی کو اپنا فنِ انقلاب انگیزی کافی حد تک بدلنا پڑے گا؟
خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی منظم اسٹیٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔اس کے برعکس حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے ایک منظم اسٹیٹ تھا۔ چنانچہ انہوںنے جب قوتِ متسلّطہ (sovereign power) کو ا قتدار منتقل کرنے پر آمادہ پایا تو اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ یوسف55:12 کہہ کر اقتدار سنبھال لیا،اور اس طرح اپنا مشن پورا کرنے کے لیے پہلے کے قائم شدہ اسٹیٹ کو استعمال میں لے آئے۔ موجودہ زمانے کا اسٹیٹ حضرت یوسف علیہ السلام کے عہد کے اسٹیٹ سے کہیں زیادہ جامع،ہمہ گیر اور منظم ہے۔ اس کو اکھیڑ کر ایک نیا اسٹیٹ وجودمیں لانے کے لیے جو انقلاب بھی ہو گا، اس کا راستہ خون کے لالہ زاروں سے ہوکر گزرے گا۔ جیسا کہ بالشویک روس میں ہوا۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ اسلام محض توڑ پھوڑ قسم کا انقلاب نہیں چاہتا، بلکہ اس کا پروگرام کچھ زیادہ نازک ہے۔ان حالات میں تو زیادہ موزوں طریقہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ بجائے کلی انقلاب کے جتنا کچھ اقتدار حاصل ہوسکے، اسے قبول کرکے کام کو آگے بڑھایا جائے۔اگر اس پوزیشن کو قبول کرلیا جائے تو نہ صرف یہ کہ ملک کی موجودہ مسلمان جماعتوں کے خلاف کوئی کارروائی درست نہیں ہوگی، بلکہ تائید بھی ضروری ہوجائے گی۔
یہ بات واضح کرنے کی ضرورت نہیں کہ اقتدار سے مراد سول سروس کے مناصب نہیں، جیسا کہ کسی نواب صاحب نے ’’ترجمان‘‘ کی ایک اشاعت میںیوسف علیہ السلام کے سلسلے میں فرمایا ہے، بلکہ ایک منظم جماعت کی جدوجہد کے بعد جماعتی حیثیت سے قوت حاکمہ (sovereign power) سے اختیارات لے کر اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا مراد ہے۔

جواب: بلاشبہ ایسی حالت میںجب کہ غیر اسلامی اسٹیٹ ہمہ گیر ہو ،اس حالت کی بہ نسبت جب کہ فاسد سماجی نظام بالکل ابتدائی نوعیت کا ہو، بہت کچھ فرق واقع ہوجاتا ہے، اور اس کے لحاظ سے طریقِ کار میں بھی کم ازکم صورت کے لحاظ سے تغیر کرنا ضروری ہے۔لیکن اُصولی حیثیت سے طریقِ کار میں کسی تغیر کی ضرورت نہیں ہے۔اُصولی طریقِ کار یہی ہے کہ پہلے ہم اپنی دعوت پیش کریں گے۔پھر ان لوگوں کو جو ہماری دعوت پر لبیک کہیں، منظم کرتے جائیں گے۔ پھر اگر رائے عام کی موافقت سے یا حالات کی تبدیلی سے کسی مرحلے پر ایسے حالات پید اہوجائیں کہ موجود الوقت دستوری طریقوں ہی سے نظامِ حکومت کا ہمارے ہاتھوں میں آجانا ممکن ہو اور ہمیں توقع ہو کہ ہم سوسائٹی کے اخلاقی،تمدنی اور سیاسی ومعاشی نظام کو اپنے اُصول پر ڈھال سکیں گے، توہمیں اس موقع سے فائدہ اُٹھانے میں کوئی تامل نہ ہوگا۔ اس لیے کہ ہمیں جو کچھ بھی واسطہ ہے،اپنے مقصد سے ہے نہ کہ کسی خاص طریقِ کار(method) سے۔ لیکن اگر پُرامن ذرائع سے جوہرِ اقتدار(substance of power) ملنے کی توقع نہ ہو تو پھر ہم عام دعوت جاری رکھیں گے اورتمام جائز شرعی ذرائع سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش کریں گے۔
( ترجمان القرآن۔رمضان، شوال ۶۴ھ۔ ستمبر، اکتوبر ۴۵ء)

وقت کے سیاسی مسائل میں جماعتِ اسلامی کا مسلک:

سوال: اس وقت مسلمانانِ ہند دو فتنوں میںمبتلا ہیں:اوّل کانگریس کی وطنی تحریک کا فتنہ جو واحد قومیت کے مفروضے اورمغربی ڈیمو کریسی کے اصول پر ہندستان کی اجتماعی زندگی کی تشکیل کرنا چاہتی ہے۔دوم مسلم نیشنل ازم کی تحریک جسے لیگ چلا رہی ہے اور جس پر ظاہر میں تو اسلام کا لیبل لگا ہوا ہے مگر باطن میں روحِ اسلامی سراسر مفقود ہے۔’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ کے مطالعے سے یہ بات ہم پر واضح ہو چکی ہے کہ یہ دونوں تحریکیں اسلام کے خلاف ہیں۔ لیکن حدیث میں آیاہے کہ انسان جب دو بلائوںمیں مبتلا ہو تو چھوٹی بلا کو قبول کرلے۔اب کانگریس کی تحریک تو سراسر کفر ہے۔اس کا ساتھ دینا مسلمانوں کی موت کے مرادف ہے۔اس کے مقابلے میں لیگ کی تحریک اگرچہ غیر اسلامی ہے،لیکن اس سے یہ خطرہ تو نہیں کہ دس کروڑ مسلمانانِ ہند کی قومی ہستی ختم ہوجائے۔لہٰذا کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ہم لیگ سے باہر رہتے ہوئے اس کے ساتھ ہم دردی کریں؟ اس وقت ہندستان میں انتخابات کی مہم درپیش(اشارہ ہے ۹۴۶اء کے انتخابات کی طرف۔) ہے اور یہ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک طرف تمام غیر لیگی عناصر مل کر مسلم لیگ کو پچھاڑنے کی کوشش کررہے ہیں جن میں اگر وہ کام یاب ہوجائیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ کانگریس کی وطنی تحریک مسلمانوں پر زبردستی مسلّط ہوکے رہ جائے گی۔دوسری طرف مسلم لیگ یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ مسلمان ایک مستقل قوم ہیں اور وہ اپنی قومی حکومت قائم کرنے کے خواہش مند ہیں۔ان دونوں کا فیصلہ رائے دہندوں کے ووٹ پر منحصر ہے۔ایسی صورت میں ہم کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟کیا ہم لیگ کے حق میں ووٹ دیں اور دلوائیں؟یا خاموش بیٹھے رہیں؟یا خود اپنے نمایندے کھڑے کریں؟

جواب: آپ کے ذہن پر ملک کے موجودہ سیاسی حالات کا غلبہ ہے۔اس لیے آپ کو صرف دو ہی فتنے نظر آئے جن میں ہندستان کے مسلمان مبتلا ہیں۔ حالاں کہ اگر آپ ذرا وسیع نگاہ سے دیکھتے تو ان دو فتنوں کے علاوہ آپ کو اور بہت سے اخلاقی،فکری، تمدنی، مذہبی اور سیاسی ومعاشی فتنے نظر آتے جو اس وقت مسلمانوں پر ہجوم کیے ہوئے ہیں۔دراصل یہ ایک فطری سزا ہے جو اﷲ کی طرف سے ہر اُس قوم کو ملا کرتی ہے جو کتاب اﷲ کی حامل ہونے کے باوجود اس کے اتباع سے منہ موڑتی اور اس کے منشا کے مطابق کام کرنے سے جی چراتی ہے ۔اس سزا سے اگر مسلمان کبھی بچ سکتے ہیں توصرف اس طرح کہ اپنے اس اصلی وبنیادی جرم سے باز آجائیں جس کی پاداش میں ان پر یہ فتنے مسلّط ہوئے ہیں اور اس کام کے لیے کھڑے ہوجائیں جس کی خاطر انہیں کتاب اﷲ دی گئی تھی۔لیکن اگر وہ اس سے منہ موڑتے ہیں تو پھر جو تدبیریں چاہیں کرکے دیکھ لیں،یقین جانیے کہ کسی ایک فتنے کا بھی سدّ باب نہ ہوگا بلکہ ہر تدبیر چند اور فتنے قائم کردے گی۔
آپ نے جو سوال پیش کیا ہے، اس کے متعلق میں دو باتیں واضح طور پر عرض کیے دیتا ہوں، تاکہ آپ کو اور آپ کی طرح سوچنے والے اصحاب کو آیندہ اِ س سلسلے میں کوئی اُلجھن پیش نہ آئے۔
اوّل یہ کہ جماعت اسلامی کے مقصدِ قیام کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔یہ جماعت کسی ملک یا قوم کے وقتی مسائل کو سامنے رکھ کر وقتی تدابیر سے ان کو حل کرنے کے لیے نہیں بنی ہے، نہ اس کی بنائے قیام یہ قاعدہ ہے کہ پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے جس وقت جو اُصول بھی چلتے نظر آئیں،ان کو اختیار کرلیا جائے۔ اس جماعت کے سامنے تو صرف ایک ہی عالم گیر اور ازلی وابدی مسئلہ ہے جس کی لپیٹ میں ہر ملک اور ہر قوم کے سارے وقتی مسائل آجاتے ہیں، اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ انسان کی دنیوی فلاح اور اُخروی نجات کس چیز میںہے؟ پھر اس مسئلے کا ایک ہی حل اس جماعت کے پاس ہے،اور وہ یہ ہے کہ تمام بندگانِ خدا (جن میں ہندستان کے مسلمان بھی شامل ہیں) صحیح معنوں میں خدا کی بندگی اختیار کریں اور اپنی پوری انفرادی واجتماعی زندگی کو اس کے سارے پہلوئوں سمیت ان اُصولوں کی پیروی میں دے دیں جو خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت میں پائے جاتے ہیں۔ ہمیں اس مسئلے اور اس کے اِس واحد حل کے سوا دنیا کی کسی دوسری چیز سے قطعاً کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ جو شخص ہمارے ساتھ چلنا چاہتا ہو،اسے لازم ہے کہ ہر طرف سے نظر ہٹا کر پوری جمعیت ِ خاطر کے ساتھ اس شاہ راہ پر قدم جمائے چلتا رہے۔ اور جو شخص اتنی ذہنی وعملی یک سُوئی بہم نہ پہنچا سکے، جس کے ذہن کو اپنے ملک یا اپنی قوم کے وقتی مسائل بار بار اپنی طرف کھینچتے ہوں،اورجس کے قدم بار بار ڈگمگا کر ان طریقوں کی طرف پھسلتے ہوں جو دنیا میں آج رائج ہیں، اُن کے لیے زیادہ مناسب یہ ہے کہ پہلے ان ہنگامی تحریکوں میں جاکر اپنا دل بھرلیں۔
دوم یہ کہ ووٹ اور الیکشن کے معاملے میں ہماری پوزیشن کوصاف صاف ذہن نشین کرلیجیے۔پیش آمدہ انتخاب یا آیندہ آنے والے اسی طرح کے انتخابات کی اہمیت جو کچھ بھی ہواور ان کا جیسا کچھ بھی اثر ہماری قوم یا ہمارے ملک پر پڑتا ہو،بہرحال ایک بااُصول جماعت ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے یہ ناممکن ہے کہ کسی وقتی مصلحت کی بِنا پر ہم ان اُصولوںکی قربانی گوارا کرلیں جن پر ہم ایمان لائے ہیں۔موجودہ کافرانہ نظام کے خلاف ہماری لڑائی ہی اس بنیاد پر ہے کہ یہ نظام حاکمیتِ جمہور کے اُصول پر قائم ہوا ہے اور جمہور جس پارلیمنٹ یا اسمبلی کو منتخب کریں،یہ اس کو قانون بنانے کا غیر مشروط حق دیتا ہے، جس کے لیے کوئی بالا تر سند اس کو تسلیم نہیں ہے۔بخلاف اس کے ہمارے عقیدۂ توحید کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ حاکمیت جمہور کی نہیں بلکہ خدا کی ہو، اور آخری سند خدا کی کتاب کو مانا جائے، اور قانون سازی جو کچھ بھی ہوکتابِ الٰہی کے تحت ہو نہ کہ اس سے بے نیاز۔یہ ایک اصولی معاملہ ہے جس کا تعلق عین ہمارے ایمان اور ہمارے اساسی عقیدے سے ہے۔اگر ہندستان کے علما او رعامۂ مسلمین اس حقیقت سے ذہول برت رہے ہوں اور وقتی مصلحتیں ان کے لیے مقتضیاتِ ایمانی سے اہم تر بن گئی ہوں، تو اس کی جواب دہی وہ خود اپنے خدا کے سامنے کریں گے۔ لیکن ہم کسی فائدے کے لالچ اور کسی نقصان کے اندیشے سے اس اصولی مسئلے میں موجودہ نظام کے ساتھ کسی قسم کی مصالحت نہیں کرسکتے۔آپ خود ہی سوچ لیجیے کہ توحید کا یہ عقیدہ رکھتے ہوئے آخر ہم کس طرح انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں؟ کیا ہمارے لیے یہ جائزہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو ہم کتا ب اﷲ کی سند سے آزاد ہو کر قانون سازی کرنے کو شرک قرار دیں اور دوسری طرف خود اپنے ووٹوں سے ان لوگوں کو منتخب کرنے کی کوشش کریں جو خدا کے اختیارات غصب کرنے کے لیے اسمبلیوں میں جانا چاہتے ہیں؟اگر ہم اپنے عقیدے میں صادق ہیں تو ہمارے لیے اس معاملے میں صرف ایک ہی راستہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنا سارا زور اس اُصول کے منوانے میں صرف کردیں کہ حاکمیت صرف خدا کی ہے اور قانون سازی کتاب الٰہی کی سند پر مبنی ہونی چاہیے ۔جب تک یہ اُصول نہ مان لیا جائے، ہم کسی انتخاب اور کسی رائے دہی کو حلال نہیں سمجھتے۔

( ترجمان القرآن۔رمضان ،شوال ۶۴ھ۔ ستمبر، اکتوبر ۴۵ء)

مزدوروں کی ہڑتالوں میں جماعت ِ اسلامی کی پالیسی:

سوال: آج کل ملک میں ہڑتالوں کا دور دورہ ہے۔ہم لوگ جو جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں اور محنت پیشہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں،ایسے موقع پر کیا روش اختیار کریں جب کہ ہمارے کارخانے یا محکمے میں ہڑتال ہو؟

جواب: سرِدست اس معاملے میں ہماری پالیسی یہ ہے:
(۱) جو مزدور یا محنت پیشہ لوگ ہمارے مسلک سے متاثر ہوں وہ ہڑتال کے زمانے میں کام پر تو نہ جائیں لیکن ہڑتالوں کے ہنگاموں اور مظاہروں سے بھی الگ رہیں۔
(۲) جن مطالبات کے لیے ہڑتال کی گئی ہو ،ان کے متعلق یہ رائے قائم کریں کہ آیا وہ منصفانہ ہیںیا غیر منصفانہ۔
(الف) منصفانہ مطالبات کو تمام جائز ومعقول اور پُرامن طریقوں سے تسلیم کرانے میں حصہ لیں مگر کسی فساد اور جھگڑے میں حصہ نہ لیں۔
(ب) غیرمنصفانہ مطالبات کے معاملے میں اپنے ہم پیشہ ہڑتالیوں سے صاف کہہ دیں کہ ہم تمہارے مطالبات کو صحیح نہیں سمجھتے، لیکن ہم قصداً تمہاری ہڑتال کو ناکام بنانے کی کوشش بھی نہیں کرنا چاہتے، اس لیے جب تک تم کام پر نہ جائو گے ہم بھی نہیں جائیں گے۔
(ج) اگر مطالبات کا کچھ حصہ منصفانہ اور کچھ حصہ غیر منصفانہ ہو تو ہڑتالیوں اور مستاجروں(employers) دونوں کو مطلع کردیں کہ ہم ان مطالبات کے اتنے حصے کو صحیح اور اتنے حصے کو غلط سمجھتے ہیں۔
(۳) جب کبھی کسی ہڑتال میں ،یا مزدوروں کی کسی تحریک کے سلسلے میں سوشلزم کے نظریات کارفرما نظر آئیں ،مثلاً مطالبات کی بنیاد یہ بیان کی جارہی ہو کہ طبقاتی جنگ ایک تاریخی تقاضا ہے، یامقصد ونصب العین یہ پیش کیا جارہا ہو کہ تمام ذرائع پیدا وار پر سے شخصی ملکیت ختم کردی جائے اور انہیں قومی ملکیت بنادیا جائے، تو ایسے کسی موقع پر خاموش نہ رہنا چاہیے بلکہ ان نظریات کی کھلم کھلا تردید کرنی چاہیے اورمزدوروں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ یہ نظریات بجائے خود بھی غلط ہیں اور ان میں تمہاری اپنی فلاح بھی درحقیقت مضمر نہیں ہے۔ ان کے بجائے زیادہ صحیح اُصول یہ ہیں جو اسلام پیش کرتا ہے۔ حقیقی انصاف اگرقائم ہوسکتا ہے تو ان اُصولوں پر ہی ہوسکتا ہے ۔
آخرکار جو چیزہمارے پیشِ نظر ہے ،وہ یہ ہے کہ مزدوروں اور کسانوں کی تحریکیں اشتراکیوںکے زیر اثر نہ رہیں بلکہ ہمارے زیراثرآجائیں، تاکہ ہم طبقاتی جنگ کے بجائے طبقاتی صلح اور مارکسی اشتراکیت کے بجائے اسلامی عدل کے اُصولوں پر محنت پیشہ طبقوں کو ان کے جائز حقوق دلواسکیں۔

(ترجمان القرآن۔رجب ۶۵ھ۔ جون ۴۶ء)

ملکی فسادات میں ہمار افرض:

سوال: ہم ایک ہندو اسٹیٹ میں رہتے ہیں جہاں برطانوی ہندکے مقابلے میں کتنی ہی زائد پابندیاں عائدہیں۔ محض نماز روزے کی آزادی ہے، اور یہ آزادی بھی برادرانِ وطن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ان کو تو ہمارے نام سے نفرت ہے اور جو مسلمان جتنا ہی زیادہ پابندِشرع ہے، وہ اتنا ہی زیادہ ان کے بُغض کا مستحق ہے۔ان حالات میں آپ کا کہنا کہ ’’جماعت اسلامی کی پالیسی تو فسادات میں غیر جانب داررہنے کی ہے‘‘، اور یہ کہ’’یہ جماعت تو مظلوم کو مظلوم اور ظالم کو ظالم کہے گی اور بوقت ضرورت بے لاگ گواہیاں دے گی‘‘ اکثر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا۔ چناںچہ میرے ایک دوست پوچھتے ہیں کہ کیا ہم اس وقت تک خاموش بیٹھے رہیں جب کہ ہمیں گواہی دینے کا موقع آئے؟شہر میں فساد کے شعلے بھڑک اُٹھیں اور ہم بس یہ دیکھتے رہیں کہ کون کس پر ظلم کرتا ہے؟پھر جو قوم صرف مسلمان کے نام کی دشمن ہے،وہ ایسے مواقع پر خود ہم پر ہاتھ اُٹھانے سے کب باز رہ جائے گی؟ وہ اس بات کا لحاظ ہی کیوں کرنے لگی کہ یہ فساد میں شریک نہیںہیں،صرف تماش بین کی حیثیت رکھتے ہیں؟ نیز اگر میرے کسی مسلمان پڑوسی پر غیر مسلموں نے ظالمانہ طورپرحملہ کردیا تو اسلامی نقطۂ نظر سے میرے لیے یہ جائز کیسے ہوسکتا ہے کہ خاموش بیٹھا رہوں اور اس کی جان بچانے کے لیے اپنی جان خطرے میں نہ ڈال دوں؟
موصوف یہ خیال کرتے ہوئے بطور خود کتاب وسنت کی روشنی میں اس کے دو حل بتاتے ہیں:
ایک تو یہ کہ اگر ہم مقابلے کی قدرت رکھتے ہوں تب تو اپنی مدافعت کی خاطر ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ چوں کہ ہم اقلیت میں ہیں اس لیے ایسی جگہ ہجرت کرجائیں جہاں ہماری اکثریت ہو۔
اُمید ہے کہ آں جناب ان حالات میں ہماری مناسب رہنمائی فرمائیں گے۔اِدھر ریاست کے مسلمانو ںکا حال یہ ہے کہ ان میں پچاس فی صدی بالکل جاہل اور آبا پرست اور پچیس فی صدی نیم خواندہ مگر پکے پیر پرست،بقیہ پچیس فی صدی تعلیم یافتہ مگر ان میں سے بیس علمِ دین سے کورے اور خانقاہیت سے متاثر، اور باقی پانچ دنیا کے بندے۔

جواب: آپ نے ریاست گوالیار کے مسلمانوںکی جو حالت لکھی ہے اس کو پڑھ کر افسوس ہوا،لیکن افسوس کرنے سے وہ حق ادا نہیں ہوتا جو ہم پر اور آپ پر عائد ہوتا ہے ۔بندگانِ خدا جس قدر زیادہ گمراہی اور اخلاقی پستی میں مبتلا ہوں،اُسی قدر زیادہ شدت کے ساتھ ایک مومن پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ان کی اصلاح کے لیے کوشش کرے۔
آپ نے جن صاحب کا سوال نقل کیا ہے ،ان کی خدمت میں میری طرف سے عرض کردیجیے کہ اگر سوال محض بیٹھنے اور تماشا دیکھنے کا ہوتا تو یقینا میرا جواب کچھ اور ہوتا۔میں نے جو جواب اس سے پہلے متوقع فساد کے سلسلے میں دیا تھا،وہ دراصل ان لوگوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دیا تھا جو جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں،اور ظاہر ہے کہ جماعت اسلامی محض بیٹھ کر تماشا دیکھنے کے لیے نہیں بنی ہے۔
اس جماعت کے لوگوں کا فرض یہ ہے کہ دنیا میں خیر و عدل کا نظام قائم کرنے کے لیے جدوجہد کریں۔اس جدوجہد میں یہ ضروری ہے کہ وہ قومی نفسانیتوں اور قومیت کے جھگڑوں سے الگ رہ کر خالص حق کے حامی وداعی کی حیثیت سے کام کریں۔ بلاشبہ عامۂ مسلمین کے ساتھ ان کا قومی تعلق ضرور ہے، اور اگر عام مسلمانوں اور ان کے غیر مسلم ہمسایوں کے درمیان فی الواقع دین کی بِنا پر لڑائی ہو تو اس سے الگ رہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔لیکن افسوس ہے کہ نہ مسلمان دین کے لیے کھڑے ہوئے ہیں اور نہ وہ کش مکش، جو ان کے اور غیر مسلموں کے درمیان برپا ہے،اس کی بنیاد یا اس کا مقصود دین ہے۔ اس لیے ہم اِ س کش مکش میں مسلمانوں کے مبتلا ہونے اور مظلوم یا ظالم بننے پر افسوس تو کرسکتے ہیں، لیکن اس میںان کے ساتھ شریک نہیں ہوسکتے۔
ہماری یہ عدمِ شرکت اس معنی میں نہیں ہے کہ ہم محض تماش بین ہونے کی حیثیت سے بیٹھے دیکھتے رہیں گے، بلکہ ہم عملاً فسادیوں کو نیکی اور انصاف کی تلقین کریں گے، برائی سے روکیں گے، ظالم کی مخالفت کریں گے، خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، اور اپنے طرزِ عمل سے ثابت کریں گے کہ ہم فی الواقع انصاف کے علم بردار اور بھلائی کے داعی ہیں۔
اس سلسلے میں ایک شبہ اور باقی رہتا ہے، جس کو صاف کرنا ضروری ہے۔وہ یہ کہ ہم خواہ کتنے ہی انصاف کے ساتھ غیر جانب دار بنیں لیکن جب کہ ہمارے نام،لباس اور معاشرت عام مسلمانوں کے ساتھ مشترک ہیں، یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم خود بھی اِن مظالم کے اندر رہ کر ان بے انصافیوں کا تختۂ مشق بننے سے بچ جائیں جو کسی مقام کی غیر مسلم اکثریت غلبہ پانے کی صورت میں عام مسلمانوں پر کررہی ہو؟
اس کاایک جواب یہ ہے کہ اگر آپ کسی مقصدِ عظیم کے لیے جدوجہد کررہے ہیں تو اس جدوجہد کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنی تمام قوتوں کو صرف اسی ایک مقصد کی خدمت کے لیے وقف رکھیں اور کوئی ایسا کام نہ کریں جو اس مقصد کو نقصان پہنچانے والا ہو۔ اس طرزِ عمل پر ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہنے میں جو خطرات اور نقصانات بھی ہوں،بہرحال ان کو برداشت کرنا چاہیے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ ہمارے نزدیک مسلمان کے لیے اس کے تحفظ کی کوئی گارنٹی اس کے اپنے اخلاق کے سوا نہیں ہے۔ عام مسلمانوں نے اپنے آپ کو اس وقت جس حالت میں مبتلاکرلیا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اﷲ کے دین کے لیے جینا اور مرنا چھوڑ دیا ہے اور ان اخلاقِ فاضلہ سے بھی کنارہ کشی کرلی ہے جو اہلِ ایمان کے امتیازی اخلاق تھے۔اسی چیزنے ان کو کمزور بھی کیا اور ان کے وقار کو بھی صدمہ پہنچایا۔اب اگر اس حالت سے آپ نکل سکتے ہیں تو اس طرح نہیں کہ انہی غلطیوں میں اور انہی کے نتائج میں اُلجھتے چلے جائیں جو اَب تک ہوتی رہی ہیں۔ بلکہ صرف اس طرح نکل سکتے ہیں کہ جس جس مسلمان کو بھی ہوش آتا جائے ،وہ نفسانیت او ردنیا پرستی سے بالاتر ہوکر دعوت الی الخیر کو اپنا مشغلۂ زندگی بناتا جائے، اور ان اخلاقِ فاضلہ سے اپنے آپ کو سنوارے جو داعیانِ حق کے شایانِ شاں ہوں۔ جو شخص بھی ایسا کرے گا وہ اپنے گرد وپیش کے سارے انسانوں پر، خواہ وہ کسی مذہب وملّت سے تعلق رکھتے ہوں، اپنا ایسا اخلاقی وقار قائم کردے گا جو کسی پولیس یا فوج کی مدد سے قائم نہیں ہوسکتا۔
آپ کہتے ہیں کہ ہم ہندو ریاست میں ہیں اور قلیل التعداد ہیں اور وہاں مسلمانوں کے لیے کوئی عزت اور امن نہیں ہے۔ لیکن کیا آپ بھول گئے ہیں کہ اب سے آٹھ نو سو برس پہلے خواجہ معین الدین رحمۃ اللہ علیہ اجمیر کی ہندو ریاست میں جب آکر مقیم ہوئے تھے تو حالات اس سے بہتر تھے یا بدتر؟ اس وقت کس چیز نے ان کی حفاظت کی تھی؟
میرے برادرانِ دینی خواہ میری بات سنیں یا نہ سنیں، مگر میں تو یہی کہتا رہوں گا کہ تمہارے لیے اب اس کے سوا کسی چیز میں خیریت نہیں ہے کہ سچے مسلمان بنو اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے تمہارا جو فرض ہے،اسے ادا کرو۔

(ترجمان القرآن۔رمضان ۶۵ھ۔ اگست ۴۶ء)

قضیۂ فلسطین میں جماعت کا رویّہ:

سوال: بعض اصحاب پوچھتے ہیں کہ فلسطین کی سیاست میں امریکا اور برطانیہ کی خود غرضی و اسلام دشمنی کے نتائج آشکارا ہیں۔جماعت اسلامی نے اس معاملے میں کبھی اپنی پالیسی کا اظہار کیوں نہ کیا؟

جواب: ہم وقتی مسائل کو اتنی اہمیت نہیں دیتے کہ اپنے اصل کام کو چھوڑ کر ان کے پیچھے پڑ جائیں۔ہمارے نزدیک برطانیہ اور امریکا سخت ظلم کررہے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین کے معاملے میں انہوں نے بے انصافی کی حد کردی ہے۔ اہلِ فلسطین سے ہم دردی کرنا ہر انسان کا انسانی فرض ہے، اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے یہ فرض کئی گنا زیادہ سخت ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ہم دردی کریں۔پھر فلسطین کا مسئلہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اگر خدا نخواستہ وہاں یہودی ریاست بن گئی تو اس سے مرکزِ اسلام( حجاز) کو بھی متعدد قسم کے خطرات لاحق ہوجائیں گے۔اس معاملے میں دنیا کے مسلمان مدافعت کے لیے جو کچھ بھی کریں،ہم اُن کے ساتھ ہیں۔ لیکن ہمارے نزدیک اصل مسئلہ فلسطین یا ہندستان یا ایران باتر کا نہیں ہے۔ بلکہ اصل مسئلہ کفر واسلام کی کش مکش کا ہے اور ہم اپنا سارا وقت،ساری قوت اور ساری توجہ صرف اس مسئلے پر صرف کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔جب تک یہ مسئلہ حل نہ ہوگا،دوسرے مسائل کے حل ہوجانے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔

(ترجمان القرآن، شوال۶۵ھ،ستمبر۴۶ء)

نظامِ اسلامی کے قیام کی صحیح ترتیب:

سوال: جن لوگوں سے پاکستان کے آیندہ نظام کے متعلق گفتگو ہوتی ہے وہ اکثر اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ آپ اور دوسرے اہلِ علم اسلامی حکومت کا ایک دستور کیوں نہیں مرتب کرتے تاکہ اسے آئین ساز اسمبلی میں پیش کرکے منظور کرایا جائے؟ اس سوال سے صرف مجھ کو ہی نہیں، دوسرے کارکنوں کو بھی اکثر وبیش تر سابقہ پیش آتا ہے۔گو ہم اپنی حد تک لوگوں کو بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں،لیکن ضرورت ہے کہ آپ اس سوال کا جواب ’’ترجمان القرآن‘‘ میں دیں، تاکہ وہ بہت سی غلط فہمیاں صاف ہوسکیں جن پر یہ سوال مبنی ہے۔

جواب: آپ نے جو سوال کیا ہے اس کا مفصل جواب تو سر دست نہیں دیا جاسکتا، لیکن مختصر طور پر میں ایک بات عرض کروں گا جس سے امید ہے کہ آپ معاملے کی اصل حقیقت تک پہنچ جائیں گے۔
ہم یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں کہ جہاں نہ معاشرہ صحیح معنوں میں اسلامی ہو،نہ اخلاق اسلامی، جہاں کا سیاسی و معاشی اور تعلیمی نظام بھی اب تک غیر اسلامی خطوط پر ترقی کرتا رہا ہو،اور جہاں ایک مجرد سیاسی تحریک کی بدولت ایک آزاد ریاست بننے کی یکایک نوبت آگئی ہو ،وہاں اسلامی نظام کا قیام صرف اتنی سی بات پر اٹکا ہو کہ ہم ایک دستور مرتب کرکے پیش کریں اور برسرِ اقتدار لوگ اسے لے کر نافذ کردیں۔یہ تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ گمان کرے کہ ایک مدرسے یا ایک بینک کو ہسپتال بنا دینے میں بس اتنی کسر ہے کہ چند ڈاکٹر مل کر ایک اچھے ہسپتال کا خاکہ مرتب کردیں اور وہ مدرسے کے معلّمین یا بینک کے اسٹاف کو دے دیا جائے، تاکہ وہ اسے دیکھ دیکھ کر سارا کام کرتے چلے جائیں۔ تعجب ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں اچھے خاصے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی اس سادگی کے ساتھ سوچ رہے ہیں ۔شاید دستو ر کو انہوں نے کوئی تعویذ سمجھا ہے!
واضح طور پر سمجھ لیجیے کہ یہاں اسلامی نظام کا قیام صرف دو طریقوں سے ممکن ہے:
ایک یہ کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت زمامِ کار ہے وہ اسلام کے معاملے میں اتنے مخلص اور اپنے ان وعدوں کے بارے میں جو انہوں نے اپنی قوم سے کیے تھے ،اتنے صادق ہوں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کی جو اہلیت ان کے اندر مفقود ہے اسے خود محسوس کرلیں اور ایمان داری کے ساتھ یہ مان لیں کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد ان کا کام ختم ہوگیا ہے اور یہ کہ اب یہاں اسلامی نظام تعمیر کرنا ان لوگوںکا کام ہے جو اس کے اہل ہوں۔ اس صورت میں معقول طریقِ کار یہ ہے کہ پہلے ہماری دستور ساز اسمبلی ان بنیادی اُمور کا اعلان کرے جو ایک غیر اسلامی نظام کو اسلامی نظام میں تبدیل کرنے کے لیے اُصولاً ضروری ہیں( جنہیں ہم نے اپنے ’’مطالبہ‘‘ میں بیان کردیا ہے)، پھر وہ اسلام کا علم رکھنے والے لوگوں کو دستور سازی کے کام میں شریک کرے اور ان کی مدد سے ایک مناسب ترین دستور بنائے،پھر نئے انتخابات ہوں اور قوم کو موقع دیا جائے کہ وہ زمامِ کار سنبھالنے کے لیے ایسے لوگوں کو منتخب کرے جو اس کی نگاہ میں اسلامی نظام کی تعمیر کے لیے اہل ترین ہوں۔ اس طرح صحیح جمہوری طریق پر اختیارات اہل ہاتھوں میں بہ سہولت منتقل ہوجائیں گے اور وہ حکومت کی طاقت اور ذرائع سے کام لے کر پورے نظامِ زندگی کی تعمیرِ جدید اسلامی طرز پر کرسکیں گے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ معاشرے کوجڑ سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک عمومی تحریکِ اصلاح کے ذریعے سے اس میں خالص اسلامی شعور وارادے کو بتدریج اس حد تک نشو ونما دیا جائے کہ جب وہ اپنی پختگی کو پہنچے تو خود بخود اس سے ایک مکمل اسلامی نظام وجود میں آجائے۔
ہم اس وقت پہلے طریقے کو آزما رہے ہیں۔اگر اس میں ہم کام یاب ہوگئے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ پاکستان کے قیام کے لیے ہماری قوم نے جو جدوجہد کی تھی،وہ لاحاصل نہ تھی بلکہ اسی کی بدولت اسلامی نظام کے نصب العین تک پہنچنے کے لیے ایک سہل ترین اور قریب ترین راستہ ہمارے ہاتھ آگیا۔ لیکن اگر خدا نخواستہ ہمیں اس میں ناکامی ہوئی اوراس ملک میں ایک غیر اسلامی ریاست قائم کردی گئی، تو یہ مسلمانوں کی ان تمام محنتوں اور قربانیوں کا صریح ضیاع ہوگا جو قیامِ پاکستان کی راہ میں انہوں نے کیں، اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم پاکستان بننے کے بعد بھی اسلامی نقطۂ نظر سے اسی مقام پر ہیں جہاں پہلے تھے۔اس صورت میں ہم پھر دوسرے طریقے پر کام شروع کردیں گے جس طرح پاکستان بننے سے پہلے کررہے تھے۔
امید ہے کہ اس توضیح سے لوگ ہماری پوزیشن کو اچھی طرح سمجھ جائیں گے۔ہم کوئی کام وقت سے پہلے نہیں کرنا چاہتے۔ سرِدست ہم نے اسلامی نظام کے بنیادی امور کو ایک مطالبے کی شکل میں پیش کردیا ہے۔اگر اسے قبول کرلیا جائے تو دستور سازی کے کام میں جس حد تک ممکن ہوگا،ہم پوری مدد کریں گے۔ لیکن اگر سرے سے یہ بنیادی امور ہی برسرِ اقتدارلوگوں کو منظور نہ ہوں، تو پھر دستور کا خاکہ پیش کرنے سے آخر کیا فائدہ متصور ہے؟
(ترجمان القرآن،ذی القعدہ ۳۶۷اھ، ستمبر۹۴۸اء)
……٭٭٭……