اُمت مسلمہ کے زوال کے اسباب پر اگرغور کیا جائے تو اس میں سر فہرست یہ سبب نظر آئے گا کہ اس نے قرانی تعلیمات کو فراموش کر دیا اور اس کی انقلابی دعوت سے نا آشنا ہوگئی۔ آج اگر ہم قرآن مجید کو پڑھتے ہیں تو اس کے معانی ومفہوم سے بے خبر اور محض رسماً۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے دکھوں کا علاج اور ترقی کا زینہ دنیا بھر کے افکار ونظریات میں تلاش کرتے ہیں لیکن خود نسخہ شفا سے استفادہ نہیں کرتے یا استفادے کی اہلیت نہیں رکھتے جواللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے نازل کیا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒنے اس کتاب کو لکھ کر قرآن کی اس ہی انقلابی دعوت کو واضح کیا ہے۔ جس نے اونٹوں کی نکیل پکڑنے والوں کو دنیا کا امام بنا دیا تھا اور اس کے ذریعے سے فہم قرآن کی راہ کو آسان بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا موصوف کو علوم قرانی میں جوگہری بصیرت عطا فرمائی ہے۔ یہ کتاب اس کی پوری طرح آئنہ دارہے۔
عرضِ ناشر
اُمّتِ مسلمہ کے زوال کے اسباب پر اگر غور کیا جائے تو اس میں سرِفہرست یہ سبب نظر آئے گا کہ اس نے قرآنی تعلیمات کو فراموش کر دیا، اور اس کی انقلابی دعوت سے ناآشنا ہو گئی۔ آج اگر ہم قرآن مجید کو پڑھتے بھی ہیں تو اس کے معانی ومفہوم سے بے خبر ہو کر محض رسماً ۔یہی وجہ ہے کہ اپنے د کھوں کا علاج اور ترقی کا زینہ دنیا بھر کے افکار ونظریات میں تلاش کرتے ہیں لیکن خود اس نسخۂ شفا سے استفادہ نہیں کرتے یا استفادہ کی اہلیت نہیں رکھتے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے نازل کیا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس کتاب کو لکھ کر قرآن کی اسی انقلابی دعوت کو واضح کیا ہے۔ جس نے اُونٹوں کی نکیل پکڑنے والوں کو دنیا کا امام بنا دیا تھا اور اس کے ذریعے سے فہمِ قرآن کی راہ کو آسان بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مولاناؒ موصوف کو علومِ قرآنی میں جو گہری بصیرت عطا فرمائی ہے یہ کتاب اس کی پوری طرح آئینہ دار ہے۔
اس کتاب کی معنوی خوبیوں کے پیش نظر ہم اس، کو کمپیوٹر کی حسین کتابت وطباعت سے مزیّن کرکے پیش کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ قارئین اس بلند پایہ کتاب کو اس شکل میں پسند فرمائیں گے۔
منیجنگ ڈائریکٹر
اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ
جدید ایڈیشن
الحمد للہ! امام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شاہ کار تصنیف ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ کا جدید تحقیق شدہ ایڈیشن شائع ہوگیا ہے جس کو درج ذیل خوبیوں سے مزّین کرنے کی کوشش کی گئی ہے:
۱۔ حوالہ جات کی تکمیل /تصحیح کر دی گئی ہے۔
۲۔ عربی عبارات اصل مآخذ کے ساتھ تقابل کرکے درست کر دی گئی ہیں۔
۳۔ عربی عبارات پر اِعراب لگا دیے گئے ہیں۔
۴۔ پوری کتاب کی از سر نو پروف ریڈنگ کرکے اغلاط درست کر دی گئی ہیں۔
۵۔ عربی عبارات کے تراجم جو بعض مقامات پر چھوٹ گئے تھے، وہ کتاب کا حصہ بنا دیے گئے ہیں۔
۶۔ کتاب کے آخر میں مشکل الفاظ کے معانی الف بائی ترتیب کے ساتھ شامل کر دیےگئے ہیں۔
امید ہے کہ یہ وقیع علمی کتاب اب زیادہ آسان اور نفع بخش ثابت ہوگی (ان شائ اللہ) اس سلسلے میں قارئین کی قیمتی آراء کا خیر مقدم کیا جائے گا۔
ڈاکٹر نصیر خان
مقدمہ
الٰہؔ، رَبّؔ، دینؔ اور عبادتؔ، یہ چار لفظ قرآن کی اصطلاحی زبان میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ قرآن کی ساری دعوت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا ربّ والٰہ ہے، اس کے سوا نہ کوئی الٰہ ہے نہ رب، اور نہ الوہیت وربوبیت میں کوئی اس کا شریک ہے، لہٰذا اُسی کو اپنا الٰہ اور ربّ تسلیم کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی الٰہیّت وربوبیت سے انکار کر دو، اس کی عبادت اختیار کرو اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، اس کے لیے اپنے دین کو خالص کر لو اور ہر دوسرے دین کو رَد ّکر دو۔
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِo (الانبیائ۲۱: ۲۵)
ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کی طرف یہی وحی کی ہے، کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے لہٰذا میری عبادت کرو۔
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــہًا وَّاحِدًا۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۰ۭ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَo (التوبہ۹: ۳۱)
اور انھیں کوئی حکم نہیں دیا گیا بجز اس کے کہ ایک ہی الٰہ کی عبادت کریں۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے، وہ پاک ہے اس شرک سے جو وہ کرتے ہیں۔
اِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً۰ۡۖ وَاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِo (الانبیا۲۱: ۹۲)
یقینا تمھارا (یعنی تمام انبیاکا) یہ گروہ ایک ہی گروہ ہے، اور میں تمھارا ربّ ہوں لہٰذا میری عبادت کرو۔
قُلْ اَغَيْرَ اللہِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّہُوَرَبُّ كُلِّ شَيْءٍ۰ۭ (الانعام۶: ۱۶۴)
کہو، کیا مَیں اللہ کے سوا کوئی اور ربّ تلاش کروں؟ حالانکہ وہی ہر چیز کا ربّ ہے۔
فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّہٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًاo (الکہف۱۸: ۱۱۰)
تو جو کوئی اپنے ربّ کی ملاقات کا امیدوار ہے اُسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اوراپنے ربّ کی عبادت میں کسی اور کی عبادت شریک نہ کرے۔
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۰ۚ
(النحل۱۶:۳۶)
ہم نے ہر قوم میں ایک رسول اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرواور طاغوت کی عبادت سے پرہیز کرو۔
اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللہِ يَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا وَّاِلَيْہِ يُرْجَعُوْنَo (آل عمران۳: ۸۳)
تو کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں، حالانکہ جتنی چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں سب چار وناچار اُسی کی مطیع ہیں اور اُسی کی طرف انھیں پلٹ کر جانا ہے۔
قُلْ اِنِّىْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّيْنَo (الزمر۳۹: ۱۱)
اے نبیؐ کہو کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت کروں، اپنے دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔
اِنَّ اللہَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْہُ۰ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌo (آل عمران۳: ۵۱)
اللہ ہی میرا ربّ بھی ہے اور تم سب کا بھی۔ لہٰذا اُسی کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔
یہ چند آیات محض نمونہ کے طور پر ہیں۔ ورنہ جو شخص قرآن کو پڑھے گا وہ اوّل نظر میں محسوس کر لے گا کہ قرآن کا سارا بیان انھی چار اصطلاحوں کے گرد گھوم رہا ہے۔ اس کتاب کا مرکزی خیال (Central Idea) یہی ہے کہ:
اللہ ربّ اورالٰہ ہے۔
اور ربوبیت والٰہیّت اللہ کے سوا کسی کی نہیں ہے۔
لہٰذا عبادت اُسی کی ہونی چاہیے۔
اور دین خالصًا اُسی کے لیے ہونا چاہیے۔
اصطلاحاتِ اربعہ کی اہمیت
اب یہ ظاہر بات ہے کہ قرآن کی تعلیم کو سمجھنے کے لیے ان چاروں اصطلاحوں کا صحیح اور مکمل مفہوم سمجھنا بالکل ناگزیر ہے۔ اگر کوئی شخص نہ جانتا ہو کہ الٰہ اور ربّ کا مطلب کیا ہے؟ عبادت کی کیا تعریف ہے؟ اور دین کسے کہتے ہیں؟ تو دراصل اس کے لیے پورا قرآن بے معنی ہو جائے گا۔ وہ نہ توحید کو جان سکے گا، نہ شرک کو سمجھ سکے گا، نہ عبادت کو اللہ کے لیے مخصوص کر سکے گا، اور نہ دین ہی اللہ کے لیے خالص کر سکے گا۔ اسی طرح اگر کسی کے ذہن میں ان اصطلاحوں کا مفہوم غیر واضح اور نامکمل ہو تو اُس کے لیے قرآن کی پوری تعلیم غیر واضح ہو گی اور قرآن پر ایمان رکھنے کے باوجود اس کا عقیدہ اور عمل دونوں نامکمل رہ جائیں گے۔ وہ لاالٰہ الّا اللہ کہتا رہے گا اور اس کے باوجود بہت سے اربابٌ من دون اللہ اس کے ربّ بنے رہیں گے۔ وہ پوری نیک نیتی کے ساتھ کہے گا کہ میں اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتا، اور پھر بھی بہت سے معبودوں کی عبادت میں مشغول رہے گا۔ وہ پورے زور کے ساتھ کہے گا کہ مَیں اللہ کے دین میں ہوں، اور اگر کسی دوسرے دین کی طرف اِسے منسوب کیا جائے تو لڑنے پر آمادہ ہوجائے گا۔ مگر اس کے باوجود بہت سے دینوں کا قلاوہ اس کی گردن میں پڑا رہے گا۔ اس کی زبان سے کسی غیر اللہ کے لیے ’’الٰہ‘‘ اور ’’رب‘‘ کے الفاظ تو کبھی نہ نکلیں گے، مگر یہ الفاظ جن معانی کے لیے وضع کیے گئے ہیں ان کے لحاظ سے اس کے بہت سے الٰہ او ربّ ہوں گے اور اس بے چارے کو خبر تک نہ ہو گی کہ میں نے واقعی اللہ کے سوا دُوسرے ارباب والٰہ بنا رکھے ہیں۔ اس کے سامنے اگر آپ کہہ دیں کہ تو دوسروں کی ’’عبادت‘‘ کر رہا ہے اور ’’دین‘‘ میں شرک کا مرتکب ہو رہا ہے تو وہ پتھر مارنے اور منہ نوچنے کو دوڑے گا مگر عبادت اور دین کی جو حقیقت ہے اس کے لحاظ سے واقعی وہ دوسروں کا عابد اور دوسروں کے دین مَیں داخل ہو گا اور نہ جانے گا کہ یہ جو کچھ مَیں کر رہا ہوں یہ حقیقت میں دوسروں کی عبادت ہے اور یہ حالت جس میں مبتلا ہوں یہ حقیقت میں غیر اللہ کا دین ہے۔
غلط فہمی کا اصل سبب
عرب میں جب قرآن پیش کیا گیا اس وقت ہر شخص جانتا تھا کہ الٰہ کے کیا معنی ہیں اور ربّ کسے کہتے ہیں، کیوں کہ یہ دونوں لفظ ان کی بول چال میں پہلے سے مستعمل تھے، انھیں معلوم تھا کہ ان الفاظ کا اطلاق کس مفہوم پر ہوتا ہے، اس لیے جب ان سے کہا گیا کہ اللہ ہی اکیلا الٰہ اور ربّ ہے اور الوہیت وربوبیت میں کسی کا قطعاً کوئی حصہ نہیں، تو وہ پوری بات کو پا گئے۔ انھیں بلا کسی التباس واشتباہ کے معلوم ہو گیا کہ دوسروں کے لیے کس چیز کی نفی کی جا رہی ہے اور اللہ کے لیے کس چیز کو خاص کیا جا رہا ہے۔جنھوں نے مخالفت کی، یہ جان کر کی کہ غیر اللہ کی الوہیت وربوبیت کے انکار سے کہاں کہاں ضرب پڑتی ہے، اور جو ایمان لائے وہ یہ سمجھ کر ایمان لائے کہ اس عقیدہ کو قبول کرکے ہمیں کیا چھوڑنا اور کیا اختیار کرنا ہو گا۔ اسی طرح عبادت اور دین کے الفاظ بھی ان کی بولی میں پہلے سے رائج تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ عبد کسے کہتے ہیں، عبودیت کس حالت کا نام ہے، عبادت سے کون سا رویہ مراد ہے، اور دین کا کیا مفہوم ہے، اس لیے جب ان سے کہا گیا کہ سب کی عبادت چھوڑ کر صرف اللہ کی عبادت کرو، اور ہر دین سے الگ ہو کر اللہ کے دین میں داخل ہو جائو، تو انھیں قرآن کی دعوت سمجھنے میں کوئی غلط فہمی پیش نہ آئی۔ وہ سنتے ہی سمجھ گئے کہ یہ تعلیم ہماری زندگی کے نظام میں کس نوعیت کے تغیر کی طالب ہے۔
لیکن بعد کی صدیوں میں رفتہ رفتہ ان سب الفاظ کے وہ اصل معنی جو نزولِ قرآن کے وقت سمجھے جاتے تھے، بدلتے چلے گئے یہاں تک کہ ہر ایک اپنی پوری وسعتوں سے ہٹ کر نہایت محدود بلکہ مبہم مفہومات کے لیے خاص ہو گیا۔ اس کی ایک وجہ تو خالص عربیت کے ذوق کی کمی تھی، اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اسلام کی سوسائٹی میں جو لوگ پیدا ہوئے تھے ان کے لیے الٰہ، ربّ، دین اور عبادت کے وہ معانی باقی نہ رہے تھے جو نزولِ قرآن کے وقت غیر مسلم سوسائٹی میں رائج تھے۔ انھی دونوں وجوہ سے دورِ اخیر کی کتب لغت وتفسیر میں اکثر قرآنی الفاظ کی تشریح اصل معانی لغوی کے بجائے ان معانی سے کی جانے لگی جو بعد کے مسلمان سمجھتے تھے۔ مثلاً:
لفظ الٰہ کو قریب قریب بتوں اور دیوتائوں کا ہم معنی بنا دیا گیا، ربّ کو پالنے اور پوسنے والے یا پروردگار کا مترادف ٹھہرایا گیا، عبادت کے معنی پوجا اور پرستش کے کیے گئے،
دین کو دھرم اور مذہب (Religion) کے مقابلہ کا لفظ قرار دیا گیا۔
طاغوت کا ترجمہ بت یا شیطان کیا جانے لگا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن کا اصل مدعا ہی سمجھنا لوگوں کے لیے مشکل ہو گیا۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کوالٰہ نہ بنائو، لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بتوں اور دیوتائوں کو چھوڑ دیا ہے لہٰذا قرآن کا منشا پورا کر دیا، حالانکہ الٰہ کا مفہوم اور جن جن چیزوں پر عائد ہوتا ہے ان سب کو وہ اچھی طرح پکڑے ہوئے ہیں اور انھیں خبر نہیں کہ ہم غیر اللہ کو الٰہ بنا رہے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو ربّ تسلیم نہ کرو۔ لوگ کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ کے سوا کسی کو پروردگار نہیں مانتے لہٰذا ہماری توحید مکمل ہو گئی، حالانکہ ربّ کا اطلاق اورجن مفہومات پر ہوتا ہے ان کے لحاظ سے اکثر لوگوں نے خدا کی بجائے دوسروں کی ربوبیت تسلیم کر رکھی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ طاغوت کی عبادت چھوڑ دو اور صرف اللہ کی عبادت کرو۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بتوں کو نہیں پوجتے، شیطان پر لعنت بھیجتے ہیں، اور صرف اللہ کو سجدہ کرتے ہیں، لہٰذا ہم نے قرآن کی یہ بات بھی پوری کر دی، حالانکہ پتھر کے بتوں کے سوا دوسرے طاغوتوں سے وہ چمٹے ہوئے ہیں اور پرستش کے سوا دوسری قسم کی تمام عبادتیں انھوں نے اللہ کی بجائے غیر اللہ کے لیے خاص کر رکھی ہیں۔ یہی حال دین کا ہے کہ اللہ کے دین کو خالص کرنے کا مطلب صرف یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی ’’مذہب اسلام‘‘ قبول کر لے اورہندو یا عیسائی یا یہودی نہ رہے۔ اس بنا پر ہر وہ شخص جو ’’مذہب ِ اسلام‘‘ میں ہے یہ سمجھ رہا ہے کہ میں نے اللہ کے دین کو خالص کر رکھا ہے، حالانکہ دین کے وسیع تر مفہوم کے لحاظ سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کا دین اللہ کے لیے خالص نہیں ہے۔
غلط فہمی کے نتائج
بس یہ حقیقت ہے کہ محض ان چار بنیادی اصطلاحوں کے مفہوم پر پردہ پڑ جانے کی بدولت قرآن کی تین چوتھائی سے زیادہ تعلیم، بلکہ اس کی رو ح نگاہوں سے مستور ہو گئی ہے، اور اسلام قبول کرنے کے باوجود لوگوں کے عقائد واعمال میں جو نقائص نظر آ رہے ہیں ان کا ایک بڑا سبب یہی ہے۔ لہٰذا قرآن مجید کی مرکزی تعلیم اور اس کے حقیقی مدعا کو واضح کرنے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ان اصطلاحوں کی پوری پوری تشریح کی جائے۔
اگرچہ مَیں اس سے پہلے اپنے متعدد مضامین میں ان کے مفہوم پر روشنی ڈالنے کی کوشش کر چکا ہوں لیکن جو کچھ اب تک میں نے بیان کیا ہے وہ نہ تو بجائے خود تمام غلط فہمیوں کو صاف کرنے کے لیے کافی ہے، اور نہ اس سے لوگوں کو پوری طرح اطمینان حاصل ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس مضمون میں میں کوشش کروں گا کہ ان چار اصطلاحوں کا مکمل مفہوم واضح کر دوں، اور کوئی ایسی بات بیان نہ کروں جس کا ثبوت لغت اور قرآن سے نہ ملتا ہو۔
خ خ خ
۱ اِلٰہ: لغوی تحقیق
اس لفظ کا مادہ ا ل ہ ہے۔ اس مادہ سے جو الفاظ لغت میں آئے ہیں ان کی تفصیل یہ ہے:
اَلِہَ اذا تحیّر، حیران وسرگشتہ ہوا۔
اَلِھْتُ اِلٰی فُلَانٍ اَیْ سَکَنْتُ اِلَیْہِ۔اس کی پناہ میں جا کر یا اس سے تعلق پیدا کرکے مَیں نے سکون واطمینان حاصل کیا۔
اَلِہَ الرَّجُلُ یَأْلَہُ اِذَا فَزِعَ مِنْ اَمْرٍ نَزَلَ بِہِ فَآلَھَہُ غَیْرُہ اَیْ اَجَارَہٗ۔آدمی کسی مصیبت یا تکلیف کے نزول سے خوف زدہ ہوا اور دوسرے نے اسے پناہ دی۔
اَلِہَ الرَّجُلُ اِلٰی الرَّجُلِ اِتَّجَہَ اِلَیْہِ لِشِدِّۃِ شَوْقِہٖ اِلَیْہِ۔آدمی نے دوسرے کی طرف شدّتِ شوق کی وجہ سے توجہ کی۔
اَلِہَ الْفَصِیْلُ اِذَا وَلِہَ بِاُمِّہِ۔اونٹنی کا بچہ جو اس سے بچھڑ گیا تھا ماں کو پاتے ہی اس سے چمٹ گیا۔
لَاہَ یَلِیْہُ لِیْھًا وَلَاھًا اِذَا احْتَجَبَ۔ پوشیدہ مستور ہوا۔ نیز ارتفع یعنی بلند ہوا۔
اِلٰہً اِلٰھۃً وَاُلُوْھَۃً وَاُلُوْھِیَّۃً عَبَدَ عبادت کی۔
ان تمام معانی مصدر پر یہ غور کرنے سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ اَلِہَ یَالَہُ اِلٰھَۃً کے معنی عبادت (پرستش)اور الٰہ کے معنی معبود کس مناسبت سے پیدا ہوئے:
۱۔ انسان کے ذہن میں عبادت کے لیے اولین تحریک اپنی حاجت مندی سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ کسی کی عبادت کا خیال تک نہیں کر سکتا جب تک اسے یہ گمان نہ ہو کہ وہ اس کی حاجتیں پوری کر سکتا ہے، خطرات اور مصائب میں اسے پناہ دے سکتا ہے، اضطراب کی حالت میں اسے سکون بخش سکتا ہے۔
۲۔ پھر یہ بات کہ آدمی کسی کو حاجت روا سمجھے اس تصور کے ساتھ لازم وملزوم کا تعلق رکھتی ہے کہ وہ اسے اپنے سے بالاتر سمجھے اور نہ صرف مرتبہ کے اعتبار سے اس کی برتری تسلیم کرے، بلکہ طاقت اور زور کے اعتبار سے بھی اس کی بالادستی کا قائل ہو۔
۳۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سلسلۂ اسباب وعلل کے تحت جن چیزوں سے بالعموم انسان کی ضروریات پوری ہوتی ہیں، اور جن کی حاجت روائی کا سارا عمل انسان کی آنکھوں کے سامنے یا اس کے حدودِ علم کے اندر واقع ہوتا ہے ان کے متعلق پرستش کا کوئی جذبہ اس میں پیدا نہیں ہوتا مثلاً مجھے خرچ کے لیے روپے کی ضرورت ہوتی ہے، میں جا کر ایک شخص سے نوکری یا مزدوری کی درخواست کرتاہوں، وہ میری درخواست کو قبول کرکے مجھے کوئی کام دیتا ہے اور اس کام کا معاوضہ مجھے دے دیتا ہے۔ یہ سارا عمل چونکہ میرے حواس اور علم کے دائرے کے اندر پیش آیا ہے اور مَیں جانتا ہوں کہ اس نے میری یہ حاجت کس طرح پوری کی ہے، اس لیے میرے ذہن میں اس کے لائق پرستش ہونے کا وہم تک نہیں گزرتا، پرستش کا تصور میرے ذہن میں صرف اسی حالت میں پیدا ہو سکتا ہے جب کہ کسی کی شخصیت یا اُس کی طاقت یا اس کی حاجت روائی واثر اندازی کی کیفیت پر راز کا پردہ پڑا ہوا ہو۔ اسی لیے معبود کے معنی میں وہ لفظ اختیار کیا گیا جس کے اندر رفعت کے ساتھ پوشیدگی اور حیرانی وسرگشتگی کا مفہوم بھی شامل ہے۔
۴۔ پھر جس کے متعلق بھی انسان یہ گمان رکھتا ہو کہ وہ احتیاج کی حالت میں حاجت روائی کر سکتا ہے، خطرات میں پناہ دے سکتا ہے، اضطراب میں سکون بخش سکتا ہے، اس کی طرف انسان کا اشتیاق کے ساتھ توجہ کرنا ایک امر ناگزیر ہے۔
پس معلوم ہوا کہ معبود کے لیے الٰہ کا لفظ جن تصورات کی بنا پر بولا گیا وہ یہ ہیں۔ حاجت روائی، پناہ دہندگی، سکون بخشی، بالاتری وبالادستی۔ ان اختیارات اور ان طاقتوں کا مالک ہونا جن کی وجہ سے یہ توقع کی جائے کہ معبود قاضی الحاجات اور پناہ دہندہ ہو سکتا ہے۔ اس کی شخصیت کا پُراسرار ہونا یا منظر عام پر نہ ہونا۔ انسان کا اس کی طرف مشتاق ہونا۔
اہلِ جاہلیت کا تصورِ اِلٰہ
اس لغوی تحقیق کے بعد ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اُلوہیّت کے متعلق اہلِ عرب اوراُممِ قدیمہ کے وہ کیا تصورات تھے جن کی تردید قرآن کرنا چاہتا ہے۔
(۱) وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اٰلِہَۃً لِّيَكُوْنُوْا لَہُمْ عِزًّاo (مریم۱۹: ۱۸)
اور انھوں نے اللہ کے سوا دوسرے الٰہ بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کے لیے ذریعہ قوت ہوں (یا ان کی حمایت میں آ کر وہ محفوظ رہیں)
وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اٰلِہَۃً لَّعَلَّہُمْ يُنْصَرُوْنَo (یٰسٓ۳۶: ۷۴)
اورانھوں نے اللہ کے سوا دوسرے الٰہ بنا لیے ہیں اس امید پر کہ ان کی مدد کی جائے گی (یعنی وہ الٰہ اُن کی مدد کریں گے)
ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ جاہلیت جنھیں الٰہ کہتے تھے ان کے متعلق وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ ان کے پشتی بان ہیں، مشکلات اور مصائب میں ان کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کی حمایت میں وہ خوف اور نقصان سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔
(۲) فَمَآ اَغْنَتْ عَنْہُمْ اٰلِہَتُہُمُ الَّتِيْ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ شَيْءٍ لَّمَّا جَاۗءَ اَمْرُ رَبِّكَ۰ۭ وَمَا زَادُوْہُمْ غَيْرَ تَتْبِيْبٍo (ہود۱۱: ۱۰۱)
جب تیرے ربّ کے فیصلہ کا وقت آ گیا تو ان کے وہ اٰلِھَہ جنھیں وہ اللہ کے بجائے پکارا کرتے تھے، ان کے کچھ بھی کام نہ آ سکے اور وہ ان کے لیے تباہی وہلاکت کے سوا کسی اور چیز میں اضافہ کا سبب نہ بنے۔
وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَـيْـــًٔـا وَّہُمْ يُخْلَقُوْنَo اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَاۗءٍ۰ۚ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۰ۙ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَo اِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۰ۚ
(النحل۱۶:۲۰۔۲۲)
اور اللہ کی بجائے جنھیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کے بھی خالق نہیں ہیں بلکہ وہ خود مخلوق ہیں، مردہ ہیں نہ کہ زندہ، اور انھیں یہ بھی خبر نہیں ہے کہ انھیں کب دوبارہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا۔ تمھارا الٰہ تو ایک ہی الٰہ ہے۔
لَا تَدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ۰ۘ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۰ۣ (القصص۲۸:۸۸)
اللہ کے ساتھ کسی دوسرے الٰہ کو نہ پکارو اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔{ FR 7423 }
وَمَا يَتَّبِـــعُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ شُرَكَاۗءَ۰ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَo (یونس:۱۰: ۶۶)
جو لوگ اللہ کی بجائے دوسرے شریکوں کو پکارتے ہیں وہ محض وہم پرچلتے ہیں اور نری اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔
ان آیات سے چند امور پر روشنی پڑتی ہے۔ ایک یہ کہ اہلِ جاہلیت جنھیں الٰہ کہتے تھے، انھیں مشکل کشائی وحاجت روائی کے لیے پکارتے یا بالفاظِ دیگر ان سے دُعا مانگتے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان کے یہ الٰہ صرف جن یا فرشتے یا دیوتاہی نہ تھے بلکہ وفات یافتہ انسان بھی تھے، جیسا کہ اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَاۗءٍ۰ۚ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۰ۙ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَo (النحل۱۶:۲۱) سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ تیسرے یہ کہ ان اِلٰہوں کے متعلق وہ یہ گمان رکھتے تھے کہ وہ ان کی دعائوں کو سنتے ہیں اور ان کی مدد کو پہنچنے پر قادر ہیں۔
یہاں دعا کے مفہوم اور اس امداد کی نوعیت کو ذہن نشین کر لینا ضروری ہے جس کی الٰہ سے توقع کی جاتی ہے۔ اگر مجھے پیاس لگتی ہے اور میں اپنے خادم کو پانی لانے کے لیے پکارتا ہوں، یا اگر مَیں بیمار ہوتا ہوں اور علاج کے لیے ڈاکٹر بلاتا ہوں، تو اس پر نہ دعا کا اطلاق ہوتا ہے اور نہ اس کے معنی خادم یا ڈاکٹر کو الٰہ بنانے کے ہیں۔ کیوں کہ یہ سب کچھ سلسلۂ اسباب کے تحت ہے نہ کہ اس سے مافوق۔ لیکن اگر مَیں پیاس کی حالت میں یا بیماری میں خادم یا ڈاکٹر کو پکارنے کی بجائے ولی یا کسی دیوتا کو پکارتا ہوں تو یہ ضرور اسے الٰہ بنانا ہے اور اس سے دعا مانگنا ہے، کیوں کہ جو ولی صاحب مجھ سے سیکڑوں میل دور کسی قبر میں آرام فرما رہے ہیں، انھیں پکارنے کے معنی یہ ہیں کہ میں انھیں سمیع وبصیر سمجھتا ہوں اور یہ خیال رکھتا ہوں کہ عالمِ اسباب پر ان کی فرماں روائی قائم ہے جس کی وجہ سے وہ مجھ تک پانی پہنچانے یا میری بیماری کو دُور کر دینے کا انتظام کر سکتے ہیں۔ علیٰ ہٰذا القیاس ایسی حالت میں کسی دیوتا کو پکارنے کے معنی یہ ہیں کہ پانی یا صحت یا مرض پر اس کی حکومت ہے اور وہ فوق الطبعی طور پر میری حاجت پوری کرنے کے لیے اسباب کو حرکت دے سکتا ہے۔ پس الٰہ کا وہ تصور جس کی بنا پر دعا مانگی جاتی ہے، لامحالہ ایک فوق الطبعی اقتدار (Supernatural Authority) اور اس کے ساتھ ہی فوق الطبیعی قوتوں کے مالک ہونے کا تصور ہے۔
(۳) وَلَقَدْ اَہْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَo فَلَوْلَا نَصَرَہُمُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ قُرْبَانًا اٰلِہَۃً۰ۭ بَلْ ضَلُّوْا عَنْہُمْ۰ۚ وَذٰلِكَ اِفْكُہُمْ وَمَا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَo (الاحقاف۴۶: ۲۷۔ ۲۸)
تمھارے ارد گرد جن بستیوں کے آثار ہیں انھیں ہم ہلاک کر چکے ہیں۔ انھیں ہم نے بار بار بدل کر اپنی نشانیاں دکھائی تھیں تاکہ وہ رجوع کریں تو جنھیں انھوں نے تقرّب کا ذریعہ سمجھ کر اللہ کے سوا اپنا اٰلھِہ بنایا تھا۔ انھوں نے نزولِ عذاب کے وقت کیوں نہ ان کی مدد کی؟ مدد تو درکنار وہ تو انھیں چھوڑ کر غائب ہو گئے۔ یہ تھی حقیقت ان کے جھوٹ اور ان کی من گھڑت باتوں کی۔
وَمَالِيَ لَآ اَعْبُدُ الَّذِيْ فَطَرَنِيْ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَo ءَ اَتَّخِذُ مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِــہَۃً اِنْ يُّرِدْنِ الرَّحْمٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغْنِ عَـنِّىْ شَفَاعَتُہُمْ شَـيْـــًٔا وَّلَا يُنْقِذُوْنِo
(یٰسٓ۳۶:۲۲۔۲۳)
کیوں نہ میں اس کی عبادت کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جن کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے؟ کیا اس کے سوا میں انھیں الٰہ بنائوں جن کا حال یہ ہے کہ اگر رحمن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے توان کی سفارش میرے کچھ کام نہیں آ سکتی اور وہ مجھے چھڑا نہیں سکتے۔
وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۰ۘ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللہِ زُلْفٰى۰ۭ اِنَّ اللہَ يَحْكُمُ بَيْنَہُمْ فِيْ مَا ہُمْ فِيْہِ يَخْتَلِفُوْنَ۰ۥۭ (الزمر۳۹:۳)
اور جن لوگوں نے اللہ کے سوا دوسرے حامی وکارساز بنا رکھے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ ہمیں وہ اللہ سے قریب کر دیں، اللہ ان کے درمیان اس معاملہ کا فیصلہ (قیامت کے روز) کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔
وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ وَيَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَ اللہِ۰ۭ (یونس۱۰:۱۸)
وہ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انھیں ضرر پہنچانے پر قادر ہیں نہ نفع، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔
ان آیات سے چند مزید باتوں پر روشنی پڑتی ہے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ جاہلیت اپنے اِلہٰوں سے متعلق یہ نہیں سمجھتے تھے کہ ساری خدائی انھی کے درمیان تقسیم ہو گئی ہے اور ان کے اوپر کوئی خداوندِ اعلیٰ نہیں ہے۔ وہ واضح طور پر ایک خداوندِ اعلیٰ کا تصور رکھتے تھے جس کے لیے ان کی زبان میں اللہ کا لفظ تھا، اور دوسرے اِلٰہوںکے متعلق ان کا اصل عقیدہ یہ تھا کہ اس خداوندِ اعلیٰ کی خدائی میں ان الٰہوں کا کچھ دخل اوراثر ہے، ان کی بات مانی جاتی ہے، ان کے ذریعہ سے ہمارے کام بن سکتے ہیں، ان کی سفارش سے ہم نفع حاصل کر سکتے ہیں اور نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔ انھی خیالات کی بنا پر وہ اللہ کے ساتھ انھیں بھی الٰہ قرار دیتے تھے۔ لہٰذا ان کی اصطلاح کے مطابق کسی کو خدا کے ہاں سفارشی قرار دے کر اس سے مدد کی التجا کرنا اور اس کے آگے مراسمِ تعظیم وتکریم بجا لانا اور نذرونیاز پیش کرنا اسے الٰہ بنانا ہے۔{ FR 7424 }
(۴) وَقَالَ اللہُ لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰـہَيْنِ اثْـنَيْنِ۰ۚ اِنَّمَا ہُوَاِلٰہٌ وَّاحِدٌ۰ۚ فَاِيَّايَ فَارْہَبُوْنِo (النحل۱۶:۵۱)
اللہ فرماتا ہے کہ دو الٰہ نہ بنائو، الٰہ تو ایک ہی ہے۔ لہٰذا تم مجھی سے ڈرو۔
وَلَآ اَخَافُ مَا تُشْرِكُوْنَ بِہٖٓ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ رَبِّيْ شَـيْــــًٔـا۰ۭ (انعام۶:۸۰)
اور ابراہیم ؑ نے کہا کہ میں ان سے ہرگز نہیں ڈرتا جنھیں تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو۔ الَّایہ کہ میرا ربّ ہی کچھ چاہے تو وہ البتہ ہو سکتا ہے۔
اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰىكَ بَعْضُ اٰلِہَتِنَا بِسُوْۗءٍ۰ۭ (ہود۱۱:۵۴)
ہود (علیہ السلام) کی قوم کے لوگوں نے اس سے کہا کہ ہم تو کہتے ہیں کہ تجھ پر ہمارے اِلٰہوں میں سے کسی کی مار پڑی ہے۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اہلِ جاہلیت اپنے اِلٰہوں سے یہ خوف رکھتے تھے کہ اگر ہم نے انھیں کسی طرح ناراض کر دیا، یا ان کی توجہات وعنایات سے محروم ہو گئے تو ہم پر بیماری، قحط، نقصانِ جان ومال اور دوسری قسم کی آفات نازل ہو جائیں گی۔
(۵) اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ۰ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــہًا وَّاحِدًا۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۰ۭ (التوبہ۹:۳۱)
انھوں نے اپنے علمااور راہبوں کو اللہ کے سوا اپنا ربّ بنا لیا، اور مسیح ابن مریم ؑ کو بھی ربّ ٹھہرایا، حالانکہ انھیں صرف ایک الٰہ کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا، جس کے سوا کوئی اورالٰہ نہیں ہے۔
اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ۰ۭ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَيْہِ وَكِيْلًاo (الفرقان۲۵:۴۳)
تیرا کیا خیال ہے اس شخص کے متعلق جس نے اپنی خواہشِ نفس کو الٰہ بنا لیا ہے؟ کیا تواس کی ذمہ داری لے سکتا ہے؟
وَكَذٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيْرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ قَتْلَ اَوْلَادِہِمْ شُرَكَاۗؤُہُمْ
(انعام۶:۱۳۷)
اس طرح بہت سے مشرکوں کے لیے ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں (یعنی شرکافی الالوہیت) نے اپنی اولاد کو قتل کرنے کا فعل خوش نما بنا دیا ہے۔
اَمْ لَہُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِہِ اللہُ۰ۭ (الشورٰی۴۲:۲۱)
کیا وہ ایسے شرکا(یعنی شرکافی الالوہیت) رکھتے ہیں جنھوں نے ان کے لیے از قسمِ دین ایسی شریعت مقرر کی ہے جس کی اجازت اللہ نے نہیں دی۔
ان آیات میں الٰہ کا ایک اور مفہوم ملتا ہے جو پہلے مفہومات سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں فوق الطبعی اقتدار کا کوئی تصور نہیں ہے جسے الٰہ بنایا گیا ہے وہ یا تو کوئی انسان ہے یا انسان کا اپنا نفس ہے۔ اور الٰہ اسے اس معنی میں نہیں بنایا گیا ہے کہ اس سے دعا مانگی جاتی ہو یا اسے نفع ونقصان کا مالک سمجھا جاتا ہو، اور اس سے پناہ ڈھونڈی جاتی ہو۔ بلکہ وہ الٰہ اس معنی میں بنایا گیا ہے کہ اس کے حکم کو قانون تسلیم کیا گیا، اس کے امر ونہی کی اطاعت کی گئی، اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام مان لیا گیا، اور یہ خیال کر لیا گیا ہے کہ اسے بجائے خود حکم دینے اور منع کرنے کا اختیار حاصل ہے، کوئی اور اقتدار اس سے بالاتر نہیں ہے جس کی سند لینے اور جس سے رجوع کرنے کی ضرورت ہو۔
پہلی آیت میں علمااور راہبوں کو الٰہ بنانے کا ذکر ہے۔ اس کی واضح تشریح ہمیں حدیث میں ملتی ہے۔حضرت عدی بن حاتم نے جب اس آیت کے متعلق نبی a سے سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ جس چیز کوتمھارے علمااور راہبوں نے حلال کیا اسے تم لوگ حلال مان لیتے تھے، اور جسے حرام قرار دیا اسے تم حرام تسلیم کر لیتے تھے اور اس بات کی کچھ پروا نہ کرتے تھے کہ اللہ کا اس بارے میں کیا حکم ہے۔{ FR 7425 }
رہی دوسری آیت تو اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ جو شخص اپنی خواہشِ نفس کی اطاعت کرتا ہو اور اسی کے حکم کو بالاتر رکھتا ہو، وہ دراصل اپنے نفس ہی کو اپنا الٰہ بنائے ہوئے ہے۔
اس کے بعد والی دونوں آیتوں میں اگرچہ الٰہ کی بجائے شریک کا لفظ آیا ہے، مگر جیسا کہ ہم نے ترجمہ میں واضح کیا ہے، شریک سے مراد اِلٰہیّت میں شریک ٹھہرانا ہے۔ اور یہ دونوں آیتیں صاف فیصلہ کرتی ہیں کہ جو لوگ اللہ کے حکم کی سند کے بغیر کسی کے مقرر کیے ہوئے رواج یا ضابطہ یا طریقہ کو جائز قانون سمجھتے ہیں وہ اس قانون ساز کو اِلٰہیّت میں خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں۔
اُلوہیّت کے باب میں ملاک اَمر
الٰہ کے یہ جتنے مفہومات اوپر بیان ہوئے ہیں ان سب کے درمیان ایک منطقی ربط ہے۔ جو شخص فوق الطبعی معنی میں کسی کو اپنا حامی ومددگار، مشکل کشا اور حاجت روا، دعائوں کا سننے والا اور نفع یا نقصان پہنچانے والا سمجھتا ہے۔ اس کے ایسا سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے نزدیک وہ ہستی نظامِ کائنات میں کسی نہ کسی نوعیت کا اقتدار رکھتی ہے۔ اس طرح جو شخص کسی سے تقویٰ اور خوف کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ناراضی میرے لیے نقصان کی اور رضامندی میرے لیے فائدے کا موجب ہے اس کے اس اعتقاد اور اس عمل کی وجہ بھی اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اپنے ذہن میں اس ہستی کے متعلق ایک طرح کے اقتدار کا تصور رکھتا ہے۔ پھر جو شخص خداوندِ اعلیٰ کے ماننے کے باوجود اس کے سوا دوسروں کی طرف اپنی حاجات کے لیے رجوع کرتا ہے اس کے اس فعل کی علت بھی صرف یہی ہے کہ خداوندی کے اقتدار میں وہ انھیں کسی نہ کسی طرح کا حصہ دار سمجھ رہا ہے۔ اور علیٰ ہذا القیاس وہ شخص جو کسی کے حکم کو قانون اور کسی کے امر ونہی کواپنے لیے واجب الاطاعت قرار دیتا ہے وہ بھی اسے مقتدر اعلیٰ تسلیم کرتا ہے۔ پس الوہیّت کی اصل رُوح اقتدار ہے، خواہ وہ اقتدار اس معنی میں سمجھا جائے کہ نظامِ کائنات پر اس کی فرماں روائی فوق الطبعی نوعیت کی ہے، یا وہ اس معنی میں تسلیم کیا جائے کہ دنیوی زندگی میں انسان اس کے تحتِ امر ہے اور اس کا حکم بذاتِ خود واجب الاطاعت ہے۔
قرآن کا استدلال
یہی اقتدار کا تصور ہے جس کی بنیاد پر قرآن اپنا سارا زور غیر اللہ کی اِلٰہیّت کے انکار اور صرف اللہ کی الٰہیّت کے اثبات پر صرف کرتا ہے۔ اس کا استدلال یہ ہے کہ زمین اور آسمان میں ایک ہی ہستی تمام اختیارات واقتدارات کی مالک ہے۔ خلق اسی کی ہے، نعمت اسی کی ہے، امر اسی کا ہے، قوت اور زور بالکل اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ہر چیز چار وناچار اسی کی اطاعت کر رہی ہے، اس کے سوا نہ کسی کے پاس کوئی اقتدار ہے، نہ کسی کا حکم چلتا ہے، نہ کوئی خلق اور تدبیر اورانتظام کے رازوں سے واقف ہے اور نہ کوئی اختیاراتِ حکومت میں ذرّہ برابر شریک وحصہ دار ہے۔ لہٰذااس کے سوا حقیقت میں کوئی الٰہ نہیں ہے، اور جب حقیقت میں کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے تو تمھارا ہر وہ فعل جو تم دوسروں کو الٰہ سمجھتے ہوئے کرتے ہو، اصلاً غلط ہے، خواہ وہ دعا مانگنے یا پناہ ڈھونڈنے کا فعل ہو، یا سفارشی بنانے کا فعل ہو، یا حکم ماننے اور اطاعت کرنے کا فعل ہو۔ یہ تمام تعلقات جو تم نے دوسروں سے قائم کر رکھے ہیں صرف اللہ کے لیے مخصوص ہونے چاہئیں، کیوں کہ وہی اکیلا صاحبِ اقتدار ہے۔
اس باب میں قرآن جس طریقہ سے استدلال کرتا ہے وہ اسی کی زبان سے سنیے:
وَہُوَالَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰہٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰہٌ۰ۭ وَہُوَالْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُo
(الزخرف۴۳:۸۴)
وہی ہے جو آسمان میں بھی الٰہ ہے اور زمین میں بھی الٰہ ہے، اور وہی حکیم اور علیم ہے( یعنی آسمان وزمین میں حکومت کرنے کے لیے جس علم اور حکمت کی ضرورت ہے وہ اسی کے پاس ہے)
اَفَمَنْ يَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ۰ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَo …… وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَـيْـــًٔـا وَّہُمْ يُخْلَقُوْنَo…… اِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۰ۚ
(النحل۱۶: ۱۷۔۲۰۔۲۲)
تو کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اور جو پیدا نہیں کرتا، دونوں یکساں ہو سکتے ہیں؟ کیا تمھاری سمجھ میں اتنی بات نہیں آتی؟… خدا کو چھوڑ کر یہ جن دوسروں کو پکارتے ہیں وہ تو کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کرتے، بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں… تمھارا الٰہ توایک ہی الٰہ ہے۔
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ۰ۭ ہَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللہِ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۰ۭ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۰ۡۖ فَاَنّٰى تُـؤْفَكُوْنَo (الفاطر۳۵: ۳)
لوگو! تم پر اللہ کا جو احسان ہے اس کا دھیان کرو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی دوسرا خالق ہے جو تمھیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو؟ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ پھر تم کدھر بھٹکائے جا رہے ہو؟
قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَخَذَ اللہُ سَمْعَكُمْ وَاَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلٰي قُلُوْبِكُمْ مَّنْ اِلٰہٌ غَيْرُ اللہِ يَاْتِيْكُمْ بِہٖ۰ۭ (الانعام۶:۴۶)
کہو تم نے کبھی سوچا کہ اللہ تمھاری سننے اور دیکھنے کی قوتیں سلب کر لے اور تمھارے دلوں پر مہر کر دے (یعنی عقل چھین لے) تو اللہ کے سوا کون سا الٰہ ہے جو یہ چیزیں تمھیں لا دے گا؟
وَہُوَاللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۰ۭ لَہُ الْحَمْدُ فِي الْاُوْلٰى وَالْاٰخِرَۃِ۰ۡوَلَہُ الْحُكْمُ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَo قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللہُ عَلَيْكُمُ الَّيْلَ سَرْمَدًا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَيْرُ اللہِ يَاْتِيْكُمْ بِضِيَاۗءٍ۰ۭ اَفَلَا تَسْمَعُوْنَo قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللہُ عَلَيْكُمُ النَّہَارَ سَرْمَدًا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَيْرُ اللہِ يَاْتِيْكُمْ بِلَيْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِيْہِ۰ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَo (القصص۲۸: ۷۰۔ ۷۲)
اور وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے۔ اسی کے لیے تعریف ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور وہی اکیلا صاحبِ حکم واقتدار ہے اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔ کہو تم نے کبھی غور کیا کہ اگر اللہ تم پر ہمیشہ کے لیے روزِ قیامت تک رات طاری کر دے تو اس کے سوا کون سا دوسرا الٰہ ہے جو تمھیں روشنی لا دے گا؟ کیا تم سنتے نہیں ہو؟ کہو تم نے کبھی اس پر غور کیا کہ اگر تمھارے اوپر ہمیشہ کے لیے دن طاری کر دے تو اس کے سوا اور کون سا الٰہ ہے جو تمھیں رات لا دے گا کہ اس میں تم سکون حاصل کرو؟ کیا تمھیں نظر نہیں آتا؟
قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ۰ۚ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَمَا لَہُمْ فِيْہِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَہٗ مِنْہُمْ مِّنْ ظَہِيْرٍo وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ۰ۭ (سبا۳۴: ۲۲۔۲۳)
کہو کہ اللہ کے سوا تم نے جن کو کچھ سمجھ رکھا ہے انھیں پکار دیکھو، وہ نہ آسمانوں میں ذرّہ برابر کسی چیز کے مالک ہیں اور نہ زمین میں، نہ آسمان وزمین کے انتظام میں ان کی کوئی شرکت ہے، نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے، اور نہ اللہ کے ہاں کوئی سفارش کام آتی ہے بجز اس کے جس کے حق میں اللہ خود ہی سفارش کی اجازت دے۔
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَـقِّ۰ۚ يُكَوِّرُ الَّيْلَ عَلَي النَّہَارِ وَيُكَوِّرُ النَّہَارَ عَلَي الَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۰ۭ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۰ۭ …… خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمٰنِيَۃَ اَزْوَاجٍ۰ۭ يَخْلُقُكُمْ فِيْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِيْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ۰ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ لَہُ الْمُلْكُ۰ۭ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۰ۚ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَo (الزمر۳۹: ۵۔۶)
اُس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ وہ رات کو دن پراور دن کو رات پر چڑھا کر لاتا ہے، اُس نے سورج اور چاند کو تابع کر رکھا ہے اور ہر ایک اپنی مدتِ مقررہ تک چل رہا ہے… اس نے ایک نفس سے تمھاری پیدائش کی ابتدا کی (یعنی انسانی زندگی کا آغاز کیا) پھر اسی نفس سے اس کا جوڑا بنایا اور تمھارے لیے مویشیوں کے آٹھ جوڑے اتارے۔ وہ تمھیں تمھاری مائوں کے پیٹ میں اسی طرح پیدا کرتا ہے کہ تین { FR 7426 } پردوں کے اندر تمھاری تخلیق کے یکے بعد دیگرے کئی مدارج طے ہوتے ہیں۔ یہی اللہ تمھارا ربّ ہے۔ اقتدارِ حکومت اسی کا ہے۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ پھر تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو؟
اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۰ۚ فَاَنْۢبَتْنَا بِہٖ حَدَاۗىِٕقَ ذَاتَ بَہْجَۃٍ۰ۚ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَـرَہَا۰ۭ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۰ۭ بَلْ ہُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَo اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّجَعَلَ خِلٰلَہَآ اَنْہٰرًا وَّجَعَلَ لَہَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا۰ۭ ءَاِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۰ۭ بَلْ اَكْثَرُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَo اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ۰ۭ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۰ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَo اَمَّنْ يَّہْدِيْكُمْ فِيْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ يُّرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِہٖ۰ۭ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۰ۭ تَعٰلَى اللہُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَo اَمَّنْ يَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ وَمَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۰ۭ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۰ۭ قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَo
(النمل۲۷: ۶۰۔۶۴)
کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمھارے لیے آسمان سے پانی برسایا پھر وہ خوش منظر باغ اگائے جن کے درخت اگانا تمھارے بس میں نہ تھا؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور اِلٰہ ان کاموں میں شریک ہے؟ مگر یہ لوگ حقیقت سے منہ موڑتے ہیں۔ پھر وہ کون ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس میں دریا جاری کیے اور اس کے لیے پہاڑوں کو لنگر بنایا اور دو سمندروں کے درمیان پردہ حائل کیا؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور اِلٰہ ان کاموں میں شریک ہے۔ مگر اکثر مشرکین بے علم ہیں۔ پھر وہ کون ہے جو اضطرار کی حالت میں آدمی کی دعا سنتا ہے اور تکلیف دور کرتا ہے؟ اور وہ کون ہے جو تم کو زمین میں خلیفہ بناتا ہے؟ (تصرّف کے اختیارات دیتا ہے) کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور اِلٰہ ان کاموں میں بھی شریک ہے؟ مگر تم کم ہی دھیان کرتے ہو۔ پھر وہ کون ہے جو تم کو خشکی اور تری کے اندھیروں میں راستہ دکھاتا ہے اور اپنی رحمت (یعنی بارش) سے پہلے خوش خبری لانے والی ہوائیں بھیجتا ہے؟ کیا اللہ کے سوا کوئی اور اِلٰہ ان کاموں میں بھی شریک ہے؟ اللہ بالاتر ہے ان کے اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں۔ پھر وہ کون ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا اور اس کا اعادہ کرتا ہے؟ اور کون تمھیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور اِلٰہ ان کاموں میں بھی شریک ہے؟ کہو اگر تم اپنے شرک میں سچے ہو تو اس پر دلیل لائو۔ { FR 7427 }
الَّذِيْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّہُ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِيْرًاo وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَۃً لَّا يَخْلُقُوْنَ شَـيْـــــًٔا وَّہُمْ يُخْلَقُوْنَ وَلَا يَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَّلَا يَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَيٰوۃً وَّلَا نُشُوْرًاo (الفرقان۲۵: ۲۔۳)
وہ جو آسمانوں اور زمین کی حکومت کا مالک ہے اور جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا اور اقتدارِ حکومت میں جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور ہر چیز کے لیے پورا پورا اندازہ مقرر کیا۔ لوگوں نے اسے چھوڑ کر ایسے اِلٰہ بنا لیے ہیں جو کسی کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں، جو خود اپنی ذات کے لیے بھی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے اور جنھیں موت اور زندگی اور دوبارہ پیدائش پر کسی قسم کا اقتدار حاصل نہیں ہے۔
بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ اَنّٰى يَكُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ۰ۭ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ۰ۚ وَہُوَبِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌo ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۰ۚ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوْہُ۰ۚ وَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌo (الانعام۶: ۱۰۱۔۱۰۲)
آسمان وزمین کو عدم سے وجود میں لانے والا۔ اس کا کوئی بیٹا کیسے ہو سکتا ہے جب کہ اس کی کوئی بیوی نہیں ہے۔ اس نے تو ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ یہ ہے اللہ تمھارا ربّ، کوئی اس کے سوا الٰہ نہیں ہے، ہر چیز کا خالق، لہٰذا تم اسی کی عبادت کرو اور وہی ہر چیز کی حفاظت وخبر گیری کا کفیل ہے۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَہُمْ كَحُبِّ اللہِ۰ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۰ۭ وَلَوْ يَرَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ۰ۙ اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلہِ جَمِيْعًا۰ۙ (البقرہ۲: ۱۶۵)
بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو خدائی کا شریک ومماثل قرار دیتے ہیں اور اللہ کی طرح انھیں بھی محبوب رکھتے ہیں، حالانکہ جو ایمان لانے والے ہیں وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ کاش یہ ظالم اس حقیقت کو جسے نزولِ عذاب کے وقت محسوس کریں گے، آج ہی محسوس کر لیتے کہ قوت ساری کی ساری اللہ ہی کے پاس ہے۔
قُلْ اَرَءَيْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَرُوْنِيْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَــہُمْ شِرْكٌ فِي السَّمٰوٰتِ۰ۭ…… وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَہٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ …… (الاحقاف۴۶: ۴۔۵)
کہو تم نے اپنے معبودوں کی حالت پر کبھی غور بھی کیا جنھیں تم خدا کی بجائے حاجت روائی کے لیے پکارتے ہو؟ مجھے دکھائو تو سہی کہ زمین کا کتنا حصہ ان کا بنایا ہوا ہے، یا آسمان کی پیدائش میں ان کی کس قدر شرکت ہے؟……اس سے بڑھ کر اور کون گم راہ ہو گا جو اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسے کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتا۔{ FR 7428 }
لَوْ كَانَ فِيْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا۰ۚ فَسُبْحٰنَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُوْنَo لَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَہُمْ يُسْــَٔــلُوْنَo (الانبیائ ۲۱: ۲۲۔۲۳)
اگر زمین وآسمان میں اللہ کے سوا اور بھی الٰہ ہوتے تو نظامِ عالم درہم برہم ہو جاتا۔ پس اللہ جو عرش (یعنی کائنات کے تختِ سلطنت) کا مالک ہے اُن تمام باتوں سے پاک ہے جو یہ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ وہ اپنے کسی فعل کے لیے جواب دہ نہیں ہے اور وہ سب جواب دہ ہیں۔
مَا اتَّخَذَ اللہُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَہٗ مِنْ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَہَبَ كُلُّ اِلٰہٍؚبِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلٰي بَعْضٍ۰ۭ (المومنون۲۳: ۹۱)
اللہ نے نہ کوئی بیٹا بنایا اور نہ اُس کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر الٰہ اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کو لے کر الگ ہو جاتا اور ہر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتا۔
قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَہٗٓ اٰلِـہَۃٌ كَـمَا يَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِي الْعَرْشِ سَبِيْلًاo سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا كَبِيْرًاo (بنی اسرائیل۱۷: ۴۲۔۴۳)
اے نبیؐ! کہو اگر اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ ہوتے جیسا کہ لوگوں کا بیان ہے، تو وہ مالکِ عرش کی حکومت پر قبضہ کرنے کے لیے ضرور تدبیریں تلاش کرتے۔ پاک ہے وہ اور بہت بالاتر ہے اُن باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔
ان آیات میں اوّل سے آخر تک ایک ہی مرکزی خیال پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ الٰہیّت واقتدار لازم وملزوم ہیں اور اپنی روح ومعنی کے اعتبار سے دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ جو اقتدارنہیں رکھتا وہ الٰہ نہیں ہو سکتا اور اسے الٰہ نہ ہونا چاہیے۔ کیوں کہ الٰہ سے تمھاری جس قدر ضروریات متعلق ہیں یا جن ضروریات کی خاطر تمھیں کسی کو الٰہ ماننے کی حاجت پیش آتی ہے، ان میں سے کوئی ضرورت بھی اقتدار کے بغیر پوری نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا غیر مقتدر کا اِلٰہ ہونا بے معنی ہے، حقیقت کے خلاف ہے، اور اس کی طرف رجوع کرنا لاحاصل ہے۔
اس مرکزی خیال کو لے کر قرآن جس طریقہ سے استدلال کرتا ہے اس کے مقدمات اور نتائج حسبِ ذیل ترتیب کے ساتھ اچھی طرح سمجھ میں آ سکتے ہیں:
۱۔ حاجت روائی، مشکل کشائی، پناہ دہندگی، امداد واعانت، خبر گیری وحفاظت اور استجابتِ دعوات، جنھیں تم نے معمولی کام سمجھ رکھا ہے، دراصل یہ معمولی کام نہیں ہیں بلکہ ان کا سررشتہ پورے نظامِ کائنات کی تخلیقی اور انتظامی قوتوں سے جا ملتا ہے۔ تمھاری ذرا ذرا سی ضرورتیں جس طرح پوری ہوتی ہیں اس پر غور کرو تو معلوم ہو کہ زمین وآسمان کے عظیم الشان کارخانہ میں بے شمار اسباب کی مجموعی حرکت کے بغیر ان کا پورا ہونا محال ہے۔ پانی کا ایک گلاس جو تم پیتے ہو، اور گیہوں کا ایک دانہ جو تم کھاتے ہو، اسے مہیا کرنے کے لیے سورج اور زمین اور ہوائوں اور سمندروں کو خدا جانے کتنا کام کرنا پڑتا ہے تب کہیں یہ چیزیں تمھیں بہم پہنچتی ہیں۔ پس تمھاری دعائیں سننے اور تمھاری حاجتیں رفع کرنے کے لیے کوئی معمولی اقتدار نہیں بلکہ وہ اقتدار درکار ہے جو زمین وآسمان پیدا کرنے کے لیے، سیاروں کو حرکت دینے کے لیے، ہوائوں کو گردش دینے اور بارش برسانے کے لیے، غرض پوری کائنات کا انتظام کرنے کے لیے درکا رہے۔
۲۔ یہ اقتدار ناقابل تقسیم ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ خلق کا اقتدار کسی کے پاس ہو، اور رزق کا کسی اور کے پاس، سورج کسی کے قبضہ میں ہو اور زمین کسی اور کے قبضہ میں، پیدا کرنا کسی کے اختیار میں ہو، بیماری وصحت کسی اور کے اختیار میں اور موت اور زندگی کسی تیسرے کے اختیار میں، اگر ایسا ہوتا تو یہ نظامِ کائنات کبھی چل ہی نہ سکتا۔ لہٰذا تمام اقتدارات واختیارات کا ایک ہی مرکزی فرماںروا کے قبضہ میں ہونا ضروری ہے۔ کائنات کا انتظام چاہتا ہے کہ ایسا ہو، اور فی الحقیقت ایسا ہی ہے۔
۳۔ جب تمام اقتدار ایک ہی فرماں روا کے ہاتھ میں ہے اور اقتدار میں کسی کا ذرّہ برابر کوئی حصہ نہیں ہے، تو لامحالہ الوہیّت بھی بالکلیہ اسی فرماںروا کے لیے خاص ہے اور اس میں بھی کوئی حصہ دار نہیں ہے۔ کسی میں یہ طاقت نہیں کہ تمھاری فریاد رسی کر سکے، دعائیں قبول کر سکے، پناہ دے سکے، حامی وناصر اور ولی وکارساز بن سکے، نفع یا نقصان پہنچا سکے۔ لہٰذا الٰہ کا جو مفہوم بھی تمھارے ذہن میں ہے، اس کے لحاظ سے کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے۔ حتّٰی کہ کوئی اس معنی میں بھی الٰہ نہیں کہ فرماںروائے کائنات کے ہاں مقرّبِ بارگاہ ہونے کی حیثیت ہی سے اس کا کچھ زور چلتا ہو اور اس کی سفارش مانی جاتی ہو۔ اس کے انتظامِ سلطنت میں کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں۔ کوئی اس کے معاملات میں دخل نہیں دے سکتا، اور سفارش قبول کرنا یا نہ کرنا بالکل اسی کے اختیار میں ہے۔ کوئی زور کسی کے پاس نہیں ہے کہ اس کے بل پر وہ اپنی سفارش قبول کرا سکے۔
۴۔ اقتدارِ اعلیٰ کی وحدانیت کا اقتضا یہ ہے کہ حاکمیت وفرماںروائی کی جتنی قسمیں ہیں سب ایک ہی مقتدرِ اعلیٰ کی ذات میں مرکوز ہوں اور حاکمیت کا کوئی جز بھی کسی دوسرے کی طرف منتقل نہ ہو۔ جب خالق وہ ہے اور خلق میں کوئی اس کے ساتھ شریک نہیں، جب رزاق وہ ہے اور رزق رسانی میں کوئی اس کے ساتھ شریک نہیں، جب پورے نظامِ کائنات کا مدبرومنتظم وہ ہے اور تدبیر وانتظام میں کوئی اس کے ساتھ شریک نہیں، تو یقینا حاکم وآمر اور شارع بھی اسی کو ہونا چاہیے اور اقتدار کی اس شق میں بھی کسی کے شریک ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ جس طرح اس کی سلطنت کے دائرے میں اس کے سوا کسی دوسرے کا فریاد رس اور حاجت روا اور پناہ دہندہ ہونا غلط ہے، اسی طرح کسی دوسرے کا مستقل بالذات حاکم اور خود مختار فرماں روا اور آزاد قانون ساز ہونا بھی غلط ہے۔ تخلیق اور رزق رسانی، احیااور اماتت تسخیرِ شمس وقمر اور تکویرِ لیل ونہار، قضا اور قدر، حکم اور بادشاہی، امر اور تشریع سب ایک ہی کلّی اقتدار وحاکمیت کے مختلف پہلو ہیں اور یہ اقتدار وحاکمیت ناقابل تقسیم ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے حکم کی سند کے بغیر کسی کے حکم کو واجب الاطاعت سمجھتا ہے تو وہ ویسا ہی شرک کرتا ہے جیسا کہ ایک غیر اللہ سے دعا مانگنے والا شرک کرتا ہے اور اگر کوئی شخص سیاسی معنی میں مالک الملک اور مقتدرِ اعلیٰ اور حاکمِ علی الاطلاق ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا یہ دعویٰ بالکل اسی طرح خدائی کا دعویٰ ہے جس طرح فوق الطبعی معنی میں کسی کا یہ کہنا کہ تمھارا ولی و کارساز اور مددگار ومحافظ مَیں ہوں۔ اسی لیے جہاں خلق اور تقدیر اشیااور تدبیر کائنات میں اللہ کے لاشریک ہونے کا ذکر کیا گیا ہے وہیں لَہُ الْحُکْمُ اور لَہُ الْمُلْکُ اور وَّلَمْ يَكُنْ لَّہٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ (بنی اسرائیل۱۷: ۱۱۱) بھی کہا گیا ہے جو اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ الوہیّت کے مفہوم میں بادشاہی وحکم رانی کا مفہوم بھی شامل ہے اور توحیدِ اِلٰہ کے لیے لازم ہے کہ اس مفہوم کے اعتبار سے بھی اللہ کے ساتھ کسی کی شرکت نہ تسلیم کی جائے اسے اور زیادہ کھول کر حسبِ ذیل آیات میں بیان کیا گیا ہے:
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۰ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۰ۭ (آل عمران۳: ۲۶)
کہو یااللہ، تو جو ملک کا مالک ہے، تجھے اختیار ہے جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے اور جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کر دے۔
فَتَعٰلَى اللہُ الْمَلِكُ الْحَقُّ۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۰ۚ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِo
(المومنون۲۳:۱۱۶)
پس بالا وبرتر ہے اللہ جو حقیقی بادشاہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ عرشِ بزرگ کا مالک ہے۔
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِo مَلِكِ النَّاسِo اِلٰہِ النَّاسِo (الناس۱۱۴: ۱۔۳)
کہو میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے ربّ کی، انسانوں کے بادشاہ کی، انسانوں کے اِلٰہ کی۔
اور اس سے زیادہ تصریح سورۃ المؤمن میں ہے جہاں فرمایا:
يَوْمَ ہُمْ بٰرِزُوْنَ۰ۥۚ لَا يَخْـفٰى عَلَي اللہِ مِنْہُمْ شَيْءٌ۰ۭ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ۰ۭ لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِo (المومن۴۰: ۱۶)
یعنی جس روز سب لوگ بے نقاب ہوں گے، کسی کا کوئی راز اللہ سے چھپا نہ ہو گا، اس وقت پکارا جائے گا کہ آج بادشاہی کس کی ہے؟ اور جواب اس کے سوا کچھ نہ ہو گا کہ اس اکیلے اللہ کی جس کا اقتدار سب پر غالب ہے۔
اس آیت کی بہترین تفسیر وہ حدیث ہے جو امام احمدؒ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کی ہے کہ نبی a نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
اِنَّہُ تَعَالٰی یَطْوِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِیَدِہِ ثُمَّ یَقُوْلُ اَنَا الْمَلِکُ اَنَا الْجَبَّارُ اَنَا الْمُتَکَبِّرُ اَیْنَ مُلُوْکُ الْاَرْضِ؟ اَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ؟ اَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَo { FR 7429 }
اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو اپنی مٹھی میں لے کر پکارے گا میں ہوں بادشاہ، میں ہوں جبّار، میں ہوں متکبر، کہاں ہیں وہ جو زمین میں بادشاہ بنتے تھے؟ کہاں ہیں جبار؟ کہاں ہیں متکبر۔ عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ جس وقت حضورؐ خطبہ میں یہ الفاظ فرما رہے تھے اس وقت آپ پر ایسا لرزہ طاری تھا کہ ہم ڈر رہے تھے کہ کہیں آپ منبر سے گر نہ پڑیں۔
خ خ خ
۲ رَبّ: لغوی تحقیق
اس لفظ کا مادّہ رؔ بؔ بؔ ہے جس کا ابتدائی واساسی مفہوم پرورش ہے۔ پھر اسی سے تصرُّف، خبر گیری، اصلاحِ حال اور اتمام وتکمیل کا مفہوم پیدا ہوا۔ پھر اسی بنیاد پر فوقیت، سیادت، مالکیت اور آقائی کے مفہومات اس میں پیدا ہو گئے۔ لغت میں اس کے استعمالات کی چند مثالیں یہ ہیں:
۱۔ پرورش کرنا، نشوونما دینا، بڑھانا، مثلاً ربیب اور ربیبہ پروردہ لڑکے اور لڑکی کو کہتے ہیں۔ نیز اس بچے کو بھی ربیب کہتے ہیں جو سوتیلے باپ کے گھر پرورش پائے۔ پالنے والی دائی کو بھی ربیبہ کہتے ہیں۔ رابہ سوتیلی ماں کو کہتے ہیں، کیوں کہ وہ ماں تو نہیں ہوتی مگر بچے کو پرورش کرتی ہے۔ اسی مناسبت سے رابّ سوتیلے باپ کو کہتے ہیں۔مربَّب یا مربّی اسی دوا کو کہتے ہیں جو محفوظ کرکے رکھی جائے۔ رَبَّ۔ یَرُبُّ۔ رَبّاً کے معنی اضافہ کرنے بڑھانے اور تکمیل کو پہنچانے کے ہیں۔ جیسے رَبَّ النِّعْمَۃَ، یعنی احسان میں اضافہ کیا یا احسان کی حد کر دی۔
۲۔ سمیٹنا، جمع کرنا، فراہم کرنا۔ مثلاً کہیں گے ۔فُلَانٌ یَرُبُّ النَّاسَ یعنی فلاں شخص لوگوں کو جمع کرتا ہے، یا سب لوگ اس شخص پر مجتمع ہوتے ہیں۔ جمع ہونے کی جگہ کو مرَبّ کہیں گے۔ سمٹنے اور فراہم ہو جانے کو تَرَبُّبْ کہیں گے۔
۳۔ خبر گیری کرنا، اصلاحِ حال کرنا، دیکھ بھال اور کفالت کرنا، مثلاً رَبَّ ضَیْعَتَہٗ کے معنی ہوں گے فلاں شخص نے اپنی جائداد کی دیکھ بھال اورنگرانی کی۔ ابوسفیان سے صفوان نے کہا تھا لِاَنْ یَرُبَّنِیْ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ یَرُبَّنِیْ رَجُلٌ مِنْ ھَوَازِنْ یعنی قریش میں سے کوئی شخص مجھے اپنی ربوبیت (سرپرستی) میں لے لے یہ مجھے زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس کے کہ ہوازن کا کوئی آدمی ایسا کرے۔ علقمہ بن عُبیدہ کا شعر ہے: ؎
وَکُنْتَ امْرِٔاً اَفْضَتْ اِلَیْکَ رَبَابَتِیْ
وَقَبْلَکَ رَبَتَّنِیْ فَضِعْتُ رُبُوْبیِ
یعنی تجھ سے پہلے جو رئیس میرے مربّی تھے انھیں مَیں نے کھو دیا، آخر کار اب میری کفالت ور بابت تیرے ہاتھ آئی ہے۔
فرزوق کہتا ہے:
کَانُوا کَسَائِلۃٍ حَمْقَائَ اِذْ حَقَنَتْ
سِلَائَ ھَا فِیْ اَدِیْمْ غَیْرِ مَرْبُوْبِ
یہ لوگ اس بے وقوف مانگنے والی کی طرح تھے جس نے اپنا صاف گھی اس چمڑے میں محفوظ کیا جسے دباغت دے کر درست نہ کیا تھا۔
اس شعر میں ادیم غیر مربوب سے مراد وہ چمڑا ہے جو کمایا نہ گیا ہو، جسے دباغت دے کر درست نہ کیا گیا ہو۔ فلان یرب صنعتہ عند فلان کے معنی ہوں گے فلاں شخص فلاں کے پاس اپنے پیشہ کا کام کرتا ہے یا اس سے کاری گری کی تربیت حاصل کرتا ہے۔
۴۔ فوقیت، بالادستی، سرداری، حکم چلانا، تصرُّف کرنا۔ مثلاً قد ربّ فلان قومَہ۔ یعنی فلاں شخص نے اپنی قوم کو اپنا تابع کر لیا۔ رَبَّیْتُ القومَ یعنی میں نے قوم پر حکم چلایا اور بالادست ہو گیا۔ لبیدبن ربیعہ کہتا ہے:
وَاَھْلَکْنَ یَوْمًا رَبَّ کِنْدَۃَ وَابْنَہٗ
وَرَبَّ مَعَدٍّ بَیْنَ خَبْتٍ وَعَرْعَرِ
انھوں نے کندہ کے سردار، اس کے بیٹے اور معد کے سردار کو کشادہ اور سرسبز نشیبی وادی میں درختوں کے درمیان قتل کیا۔
یہاں رب کندہ سے مراد کندہ کا سردار ہے جس کا حکم اس قبیلہ میں چلتا تھا۔ اس معنی میں نابغہ ذبیانی کا شعر ہے:
تَخِبُّ اِلٰی النُّعْمَانِ حَتّٰی تَنَالَہٗ
فِدًی لَکَ مِنْ رَّبٍّ تَلِیْدِی وَطَارِفِیْ
تو نعمان کی طرف بڑھتا ہے یہاں تک کہ اس کو پالیتا ہے تیرے لیے سردار کی طرف سے میرا موروثی اور ذاتی مال قربان ہے۔
۵۔ مالک ہونا، مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص سے نبی a نے پوچھا أَرَبُّ غَنَم اَمْ رَبُّ ابل؟ تو بکریوں کا مالک ہے یا اونٹوں کا؟{ FR 7430 } اس معنی میں گھر کے مالک کو رَبُّ الدَّارِ اُونٹنی کے مالک کو رَبُّ النَاقَہ ، جائداد کے مالک کو رب الضیعہ کہتے ہیں۔ آقا کے معنی میں بھی رب کا لفظ آتا ہے اور عبد، یعنی غلام کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے۔
غلطی سے رب کے لفظ کو محض پروردگار کے مفہوم تک محدود کرکے رکھ دیا گیا ہے اور ربوبیت کی تعریف میں یہ فقرہ چل پڑا ہے کہ ھُوَاَنْشَاَ الشَّیَٔ حَالًا فَحَالًا اِلٰی حَدِّالتَّمَامِ (یعنی ایک چیز کو درجہ بدرجہ ترقی دے کر پایۂ کمال کو پہنچانا)۔ حالانکہ یہ اس لفظ کے وسیع معانی میں سے صرف ایک معنی ہے۔ اس کی پوری وسعتوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ حسبِ ذیل مفہومات پر حاوی ہے:
۱۔ پرورش کرنے والا، ضروریات بہم پہنچانے والا، تربیت اور نشوونما دینے والا۔
۲۔ کفیل، خبر گیراں، دیکھ بھال اور اصلاح حال کا ذمہ دار۔
۳۔ وہ جو مرکزی حیثیت رکھتا ہو، جس میں متفرق اشخاص مجتمع ہوتے ہوں۔
۴۔ سید مُطاع، سردار ذی اقتدار، جس کا حکم چلے، جس کی فوقیت وبالادستی تسلیم کی جائے، جسے تصرُّف کے اختیارات ہوں۔
۵۔ مالک، آقا۔
قرآن میں لفظ ’’رَبّ‘‘ کے استعمالات
قرآن مجید میں یہ لفظ ان سب معانی میں آتا ہے۔ کہیں ان میں سے کوئی ایک یا دو معنی مرادہیں، کہیں اس سے زائد اور کہیں پانچوں معنی۔ اس بات کو ہم آیاتِ قرآنی سے مختلف مثالیں دے کر واضح کریں گے۔پہلے معنی میں:
قَالَ مَعَاذَ اللہِ اِنَّہٗ رَبِّيْٓ اَحْسَنَ مَثْوَايَ۰ۭ (یوسف۱۲: ۲۳)
اس نے کہا کہ پناہ بخدا! وہ تو میرا رب ہے{ FR 7431 } جس نے مجھے اچھی طرح رکھا۔
دوسرے معنی میں جس کے ساتھ پہلے معنی کا تصور بھی کم وبیش شامل ہے:
فَاِنَّہُمْ عَدُوٌّ لِّيْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِيْنَo الَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَہُوَيَہْدِيْنِo وَالَّذِيْ ہُوَيُطْعِمُنِيْ وَيَسْقِيْنِo وَاِذَا مَرِضْتُ فَہُوَيَشْفِيْنِo (الشعرائ ۲۶:۷۷۔۸۰)
تمھارے یہ معبود تو میرے دشمن ہیں، بجز ربِ کائنات کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، جو میری راہ نمائی کرتا ہے، جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو مجھے شفا دیتا ہے۔
وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْہِ تَجْــــَٔــرُوْنَo ثُمَّ اِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْكُمْ بِرَبِّہِمْ يُشْرِكُوْنَo (النحل۱۶: ۵۳۔۵۴)
تمھیں جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ ہی سے حاصل ہوئی ہے، پھر جب تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اُسی کی طرف تم گھبرا کر رجوع کرتے ہو مگر جب وہ تم پر سے مصیبت ٹال دیتا ہے تو کچھ لوگ تم میں ایسے ہیں جو اپنے رب کے ساتھ (اس نعمت کی بخشش اور اس مشکل کشائی میں) دوسروں کو شریک ٹھہرانے لگتے ہیں۔
قُلْ اَغَيْرَ اللہِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّہُوَرَبُّ كُلِّ شَيْءٍ۰ۭ (الانعام۶: ۱۶۴)
کہو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں، حالانکہ ہر چیز کا ربّ وہی ہے۔
رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَفَاتَّخِذْہُ وَكِيْلًاo (المزمل۷۳: ۹)
وہ مغرب ومشرق کا رب ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے، لہٰذا اُسی کو اپنا وکیل (اپنے سارے معاملات کا کفیل وذمہ دار) بنالے۔
تیسرے معنی میں:
ہُوَرَبُّكُمْ۰ۣ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَo (ہود۱۱:۳۴)
وہ تمھارا رب ہے اور اسی کی طرف تم پلٹا کر لے جائے جائو گے۔
ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ (الزمر۳۹:۷)
پھر تمھارے رب کی طرف تمھاری واپسی ہے۔
قُلْ يَجْمَعُ بَيْـنَنَا رَبُّنَا (سبا۳۴: ۲۶)
کہو کہ ہم دونوں فریقوں کو ہمارا رب جمع کرے گا۔
وَمَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْہِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ۰ۭ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّہِمْ يُحْشَرُوْنَo (الانعام۶: ۳۸)
زمین میں چلنے والا کوئی جان دار اور ہوا میں اڑنے والا کوئی پرندہ ایسا نہیں ہے جو تمھاری ہی طرح ایک امت نہ ہو، اور ہم نے اپنے دفتر میں کسی کے اندراج سے کوتاہی نہیں کی ہے۔ پھر وہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جائیں گے۔
وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَاِذَا ہُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّہِمْ يَنْسِلُوْنَo(یٰس۳۶: ۵۱)
اور جوں ہی کہ صور پھونکا جائے گا وہ سب اپنے ٹھکانوں سے اپنے رب کی طرف نکل پڑیں گے۔
چوتھے معنی میں جس کے ساتھ کم وبیش تیسرے معنی کا تصور بھی موجود ہے:
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ (التوبہ۹: ۳۱)
انھوں نے اللہ کے بجائے اپنے علمااور درویشوں کو اپنا رب بنا لیا۔
وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ۰ۭ (آل عمران۳: ۶۴)
اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے۔
دونوں آیتوں میں ارباب سے مراد وہ لوگ ہیں جنھیں قوموں اور گروہوں نے مطلقاً اپنا راہ نُما وپیشوا مان لیا ہو۔ جن کے امر ونہی، ضابطہ وقانون اور تحلیل وتحریم کو بلا کسی سند کے تسلیم کیا جاتا ہو۔ جنھیں بجائے خود حکم دینے اور منع کرنے کا حق دار سمجھا جاتا ہو۔
اَمَّآ اَحَدُكُمَا فَيَسْقِيْ رَبَّہٗ خَمْرًا۰ۚ ……وَقَالَ لِلَّذِيْ ظَنَّ اَنَّہٗ نَاجٍ مِّنْہُمَا اذْكُرْنِيْ عِنْدَ رَبِّكَ۰ۡفَاَنْسٰىہُ الشَّيْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّہٖ (یوسف۱۲: ۴۱۔۴۲)
یوسف (علیہ السلام) نے کہا کہ تم میں سے ایک تو اپنے رب کو شراب پلائے گا… اور ان دونوں میں سے جس کے متعلق یوسفؑ کا خیال تھا کہ رہا ہو جائے گا اس سے یوسفؑ نے کہا کہ اپنے رب سے میرا ذکر کرنا، مگر شیطان نے اسے بھلاوے میں ڈال دیا اور اسے اپنے رب سے یوسفؑ کا ذکر کرنے کا خیال نہ رہا۔
فَلَمَّا جَاۗءَہُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِـــعْ اِلٰي رَبِّكَ فَسْـــَٔـلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ الّٰتِيْ قَطَّعْنَ اَيْدِيَہُنَّ۰ۭ اِنَّ رَبِّيْ بِكَيْدِہِنَّ عَلِيْمٌo (یوسف۱۲: ۵۰)
جب پیغام لانے والا یوسفؑ کے پاس آیا تو یوسفؑ نے اس سے کہا کہ اپنے رب کے پاس واپس جائو اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ میرا رب تو ان کی چال سے باخبر ہے ہی۔
ان آیات میں حضرت یوسفؑ نے مصریوں سے خطاب کرتے ہوئے بار بار فرعونِ مصر کو ان کا رب قرار دیا ہے، اس لیے کہ جب وہ اس کی مرکزیّت اور اس کا اقتدارِ اعلیٰ اور اسے امر ونہی کا مالک تسلیم کرتے تھے، تو وہی ان کا رب تھا، برعکس اس کے خود حضرت یوسف ؑ اپنا رب اللہ کو قرار دیتے ہیں، کیوں کہ وہ فرعون کو نہیں، صرف اللہ کو مقتدراعلیٰ اور صاحبِ امر ونہی مانتے تھے۔
پانچویں معنی میں:
فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَيْتِo الَّذِيْٓ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍ۰ۥۙ وَّاٰمَنَہُمْ مِّنْ خَوْفٍo (قریش۱۰۶: ۳۔۴)
لہٰذا انھیں اس گھر کے مالک کی عبادت کرنی چاہیے جس نے ان کی رزق رسانی کا انتظام کیا ہے اور انھیں بدامنی سے محفوظ رکھا ہے۔
سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا يَصِفُوْنَo (الصافات ۳۷: ۱۸۰)
تیرا رب جو عزت واقتدار کا مالک ہے ان تمام صفاتِ عیب سے پاک ہے جو یہ لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
فَسُبْحٰنَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُوْنَo (الانبیائ۲۱: ۲۲)
اللہ جو عرش کا مالک ہے اُن تمام صفاتِ عیب سے پاک ہے جو یہ لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِo (المومنون۲۳: ۸۶)
پوچھو کہ ساتوں آسمانوں کااور عرشِ بزرگ کا مالک کون ہے؟
رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِo (الصافات۳۷: ۵)
وہ جو مالک ہے آسمانوں اور زمین کا اور اُن سب چیزوں کا جو آسمان وزمین کے درمیان ہیں اور سب چیزوں کا جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔
وَاَنَّہٗ ہُوَرَبُّ الشِّعْرٰىo (النجم۵۳: ۴۹)
اور یہ کہ شعرٰی کا مالک بھی وہی ہے۔
ربُوبیّت کے باب میں گم راہ قوموں کے تخیلات
ان شواہد سے لفظِ رب کے معانی بالکل غیر مشتبہ طور پر معین ہو جاتے ہیں۔ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ربوبیت کے متعلق گم راہ قوموں کے وہ کیا تخیّلات تھے جن کی تردید کرنے کے لیے قرآن آیا، اور کیا چیز ہے جس کی طرف قرآن بلاتا ہے۔ اس سلسلہ میں زیادہ مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن گم راہ قوموں کا ذکر قرآن نے کیا ہے انھیں الگ الگ لے کر ان کے خیالات سے بحث کی جائے تاکہ بات بالکل مُنَقَّح ہو جائے۔
قومِ نوحؑ
سب سے پہلی قوم جس کا ذکر قرآن کرتا ہے، حضرت نوحؑ کی قوم ہے۔ قرآن کے بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کی ہستی کے منکر نہ تھے۔ حضرت نوحؑ کی دعوت کے جواب میں ان کا یہ قول خود قرآن نے نقل کیا ہے:
مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۰ۙ يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَاَنْزَلَ مَلٰۗىِٕكَۃً۰ۚۖ (المومنون۲۳: ۲۴)
یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر تم جیسا ایک انسان، یہ دراصل تم پر اپنی فضیلت جمانا چاہتا ہے۔ ورنہ اگر اللہ کوئی رسول بھیجنا چاہتا تو فرشتوں کو بھیجتا۔
انھیں اللہ کے خالق ہونے اور پہلے دوسرے معنی میں اس کے رب ہونے سے بھی انکار نہ تھا۔ چنانچہ حضرت نوحؑ جب ان سے کہتے ہیں کہ
ہُوَرَبُّكُمْ۰ۣ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَo { FR 7432 } (ہود۱۱: ۳۲)
اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ غَفَّارًاo { FR 7433 } (نوح۷۱: ۱۰)اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاo وَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِيْہِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًاo وَاللہُ اَنْۢبَتَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًاo { FR 7434 } (نوح۷۱: ۱۵۔۱۷)
تو ان میں سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ اللہ ہمارا رب نہیں ہے، یا زمین وآسمان کو اور ہمیں اس نے پیدا نہیں کیا ہے، یا زمین وآسمان کا یہ سارا انتظام وہ نہیں کر رہا ہے۔پھر انھیں اب اس بات سے بھی انکار نہ تھا کہ اللہ ان کا الٰہ ہے۔ اسی لیے تو حضرت نوحؑ نے اپنی دعوت ان کے سامنے ان الفاظ میں پیش کی کہ مَالَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ (اس کے سوا تمھارے لیے کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے) ورنہ وہ اگر اللہ کے الٰہ ہونے سے منکر ہوتے تو دعوت کے الفاظ یہ ہوتے اِتَّخِذُوْا اللّٰہَ اِلٰھًا (اللہ کو اپنا اِلٰہ بنا لو)
اب سوال یہ ہے کہ ان کے اور حضرت نوحؑ کے درمیان نزاع کس بات پر تھا؟ آیاتِ قرآن کے تبتع سے معلوم ہوتا ہے کہ بنائے نزاع دو باتیں تھیں۔
ایک یہ کہ حضرت نوحؑ کی تعلیم یہ تھی کہ جو رب العالمین ہے، جسے تم بھی مانتے ہو کہ تمھیں اور تمام کائنات کو اسی نے وجود بخشا ہے اور وہی تمھاری ضروریات کا کفیل ہے، دراصل وہی اکیلا تمھارا الٰہ ہے، اس کے سوا کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے۔ کوئی اور ہستی نہیں ہے جو تمھاری حاجتیں پوری کرنے والی، مشکلیں آسان کرنے والی، دعائیں سننے اور مدد کو پہنچنے والی ہو۔ لہٰذا تم اسی کے آگے سر نیاز جھکائو۔
يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۰ۭ ……وَّلٰكِـنِّيْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَo اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّيْ (الاعراف۷: ۵۹۔۶۲)
اے برادران قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارے لیے کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے… مگر مَیں ربّ العٰلمین کی طرف سے پیغامبر ہوں۔ تمھیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں۔
برعکس اس کے وہ لوگ اس بات پر مُصر تھے کہ ربّ العٰلمین تو اللہ ہی ہے مگر دوسرے بھی خدائی کے انتظام میں تھوڑا بہت دخل رکھتے ہیں، اور ان سے بھی ہماری حاجتیں وابستہ ہیں، لہٰذا اللہ کے ساتھ ہم دوسروں کو الٰہ مانیں گے۔
وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا۰ۥۙ وَّلَا يَغُوْثَ وَيَعُوْقَ وَنَسْرًاo (نوح۷۱: ۲۳)
ان کے سرداروں اور پیشوائوں نے کہا کہ لوگو! اپنے الٰہوں کو نہ چھوڑو، ودّ اور سُواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو نہ چھوڑو۔
دوسرے یہ کہ وہ لوگ صرف اس معنی میںاللہ کو رب مانتے تھے کہ وہ ان کا خالق، زمین وآسمان کا مالک اور کائنات کا مدبّرِ اعلیٰ ہے۔ لیکن اس بات کے قائل نہ تھے کہ اخلاق، معاشرت، تمدن، سیاست اور تمام معاملاتِ زندگی میں بھی حاکمیت واقتدارِ اعلیٰ اسی کا حق ہے، وہی راہ نُما، وہی قانون ساز، وہی صاحبِ امر ونہی بھی ہے اور اسی کی اطاعت بھی ہونی چاہیے۔ ان سب معاملات میں انھوں نے اپنے سرداروں اور مذہبی پیشوائوں کو رب بنا رکھا تھا۔ برعکس اس کے حضرت نوحؑ کا مطالبہ یہ تھا کہ ربوبیت کے ٹکڑے نہ کرو۔ تمام مفہومات کے اعتبار سے صرف اللہ ہی کو رب تسلیم کرو، اور اس کا نمایندہ ہونے کی حیثیت سے جو قوانین اور احکام مَیں تمھیں پہنچاتا ہوں ان کی پیروی کرو۔
اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌo فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِo (الشعرا۲۶: ۱۰۷۔۱۰۸)
مَیں تمھارے لیے خدا کا معتبر رسول ہوں، لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
قومِ عاد
قومِ نوحؑ کے بعد قرآن عاد کا ذکر کرتاہے۔ یہ قوم بھی اللہ کی ہستی سے منکر نہ تھی۔ اس کے الٰہ ہونے سے بھی اسے انکار نہ تھا۔ جس معنی میں حضرت نوحؑ کی قوم اللہ کو رب تسلیم کرتی تھی اس معنی میں یہ قوم بھی اللہ کو رب مان رہی تھی البتہ بنائے نزاع وہی دو امور تھے جو اوپر قومِ نوحؑ کے سلسلہ میں بیان ہو چکے ہیں۔ چنانچہ قرآن کی حسبِ ذیل تصریحات اس پر صاف دلالت کرتی ہیں:
وَاِلٰي عَادٍ اَخَاہُمْ ہُوْدًا۰ۭ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۰ۭ……قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللہَ وَحْدَہٗ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا۰ۚ
(الاعراف۷: ۵۶۔۷۰)
عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ اس نے کہا، اے برادرانِ قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی الٰہ نہیں…انھوں نے جواب دیا: کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہم بس اکیلے اللہ ہی کی عبادت کریں اور ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کے وقتوں سے ہوتی آ رہی ہے؟
قَالُوْا لَوْ شَاۗءَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ مَلٰۗىِٕكَۃً ۔ (حٰم السجدہ۴۱۔۱۴)
انھوں نے کہا اگر ہمارا رب چاہتا تو فرشتے بھیج سکتا تھا۔
وَتِلْكَ عَادٌ۰ۣۙ جَحَدُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّہِمْ وَعَصَوْا رُسُلَہٗ وَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍo (ہود۱۱: ۵۹)
اور یہ عاد ہیں جنھوں نے اپنے رب کے احکام ماننے سے انکار کیا اس کے رسولوں کی اطاعت قبول نہ کی، اور ہر جبّار دشمنِ حق کی پیروی اختیار کر لی۔
قومِ ثمود
اب ثمود کو لیجیے جو عاد کے بعد سب سے بڑی سرکش قوم تھی۔ اصولاًاس کی گم راہی بھی اس قسم کی تھی جو قومِ نوحؑ اور قومِ عاد کی بیان ہوئی ہے ان لوگوں کو اللہ کے وجود اور اس کے الٰہ اور رب ہونے سے انکار نہ تھا، اس کی عبادت سے بھی انکار نہ تھا۔ بلکہ انکار اس بات سے تھا کہ اللہ ہی الٰہ واحد ہے، صرف وہی عبادت کا مستحق ہے، اور ربوبیت اپنے تمام معانی کے ساتھ اکیلے اللہ ہی کے لیے خاص ہے۔ وہ اللہ کے سوا دوسروں کو بھی فریاد رس، حاجت روا، اور مشکل کشا ماننے پر اصرار کرتے تھے۔ اور اپنی اخلاقی وتمدنی زندگی میں اللہ کی بجائے اپنے سرداروں اور پیشوائوں کی اطاعت کرنے اور ان سے اپنی زندگی کا قانون لینے پر مصر تھے۔ یہ چیز بالآخر اُن کے ایک فسادی قوم بن جانے اور مبتلائے عذاب ہونے کا موجب ہوئی۔ اس کی توضیح حسبِ ذیل آیات سے ہوتی ہے:
فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَo اِذْ جَاۗءَتْہُمُ الرُّسُلُ مِنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللہَ۰ۭ قَالُوْا لَوْ شَاۗءَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ مَلٰۗىِٕكَۃً فَاِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہٖ كٰفِرُوْنَo (حٰم السجدہ۴۱:۱۳۔۱۴)
اے محمدؐ!اگر یہ لوگ تمھاری پیروی سے منہ موڑتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ عاد اور ثمود کو جو سزا ملی تھی ویسی ہی ایک ہول ناک سزا سے مَیں تمھیں ڈراتا ہوں۔ جب ان قوموں کے پاس ان کے پیغمبر آگے اورپیچھے سے آئے اور کہا کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو تو انھوں نے کہا: ہمارا رب چاہتا تو فرشتے بھیجتا، لہٰذا تم جو کچھ لے کر آئے ہو اسے ہم نہیں مانتے۔
وَاِلٰي ثَمُوْدَ اَخَاہُمْ صٰلِحًا۰ۘ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۰ۭ …… قَالُوْا يٰصٰلِحُ قَدْ كُنْتَ فِيْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ھٰذَآ اَتَنْہٰىنَآ اَنْ نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا (ہود۱۱:۶۱۔۶۲)
اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو بھیجا۔ اس نے کہا اے برادرانِ قوم! اللہ کی پرستش وبندگی کرو۔ اس کے سوا تمھارا کوئی الٰہ نہیں ہے… انھوں نے کہا صالح! اس سے پہلے تو ہماری بڑی امیدیں تم سے تھیں، کیا تم ہمیں ان کی عبادت سے روکتے ہو جن کی عبادت باپ دادا سے ہوتی چلی آ رہی ہے۔
اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَo اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌo فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِo…… وَلَا تُطِيْعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِيْنَo الَّذِيْنَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَo (الشعرائ ۲۶:۱۴۲۔۱۴۳۔۱۵۱۔۱۵۲)
جب ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ کیا تمھیں اپنے بچائو کی کوئی فکر نہیں؟ دیکھو میں تمھارے اللہ کا معتبر رسول ہوں لہٰذا اللہ کی ناراضی سے بچو اور میری اطاعت قبول کرو… اور ان حد سے گزرنے والوں کی اطاعت نہ کرو جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔
قومِ ابراہیم ؑونمرود
اس کے بعد حضرت ابراہیمؑ کی قوم کا نمبر آتا ہے۔ اس قوم کا معاملہ خاص طور پر اس لیے اہم ہے کہ اس کے بادشاہ نمرود کے متعلق یہ عام غلط فہمی ہے کہ وہ اللہ کا منکر اور خود خدا ہونے کا مُدعی تھا۔ حالانکہ وہ اللہ کی ہستی کا قائل تھا، اس کے خالق ومدبّرِ کائنات ہونے کا معتقد تھا، اور صرف تیسرے، چوتھے اور پانچویں معنی کے اعتبار سے اپنی ربوبیت کا دعویٰ کرتا تھا۔ نیز یہ بھی عام غلط فہمی ہے کہ یہ قوم اللہ سے بالکل ناواقف تھی اور اس کے الٰہ اور رب ہونے کی سرے سے قائل ہی نہ تھی۔ حالانکہ فی الحقیقت اس قوم کا معاملہ قومِ نوح اور عاد و ثمود سے کچھ بھی مختلف نہ تھا۔ وہ اللہ کے وجود کو بھی مانتی تھی، اس کا رب ہونا اور خالقِ ارض وسما اورمدبّرِ کائنات ہونا بھی اسے معلوم تھا، اس کی عبادت سے بھی وہ منکر نہ تھی۔ البتہ اس کی گم راہی یہ تھی کہ ربوبیت بمعنی اول ودوم میں اجرامِ فلکی کو حصہ دار سمجھتی تھی۔ اور اس بِناپر اللہ کے ساتھ انھیں بھی معبود قرار دیتی تھی۔ اور ربوبیت بمعنی سوم وچہارم وپنجم کے اعتبار سے اس نے اپنے بادشاہوں کو رب بنا رکھا تھا۔ قرآن کی تصریحات اس بارے میں اتنی واضح ہیں کہ تعجب ہوتا ہے کہ کس طرح لوگ اصل معاملہ کو سمجھنے سے قاصر رہ گئے… سب سے پہلے حضرت ابراہیمؑ کے آغازِ ہوش کا وہ واقعہ لیجیے جس میں نبوت سے پہلے ان کی تلاشِ حق کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔
فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْہِ الَّيْلُ رَاٰ كَوْكَبًا۰ۚ قَالَ ہٰذَا رَبِّيْ۰ۚ فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَo فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ہٰذَا رَبِّيْ۰ۚ فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَىِٕنْ لَّمْ يَہْدِنِيْ رَبِّيْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّاۗلِّيْنَo فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَۃً قَالَ ہٰذَا رَبِّيْ ہٰذَآ اَكْبَرُ۰ۚ فَلَمَّآ اَفَلَتْ قَالَ يٰقَوْمِ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَo اِنِّىْ وَجَّہْتُ وَجْہِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَo
(الانعام۶: ۷۶۔۷۹)
جب اس پر رات طاری ہوئی تو اس نے ایک تارا دیکھا، کہنے لگا: یہ میرا رب ہے۔ مگر جب وہ تارا ڈوب گیا تو اس نے کہا: ڈوبنے والوں کو تو مَیں پسند نہیں کرتا، پھر جب چاند چمکتا ہوا دیکھا توکہا: یہ میرا رب ہے مگر وہ بھی غروب ہو گیا تو کہا: اگر میرے رب نے میری راہ نُمائی نہ فرمائی تو یہ خطرہ ہے کہ کہیں مَیں بھی گم راہ لوگوں میں شامل نہ ہو جائوں۔ پھر جب سورج کو روشن دیکھا تو کہا: یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے۔ مگر جب وہ بھی چھپ گیا تو وہ پکار اٹھا کہ اے برادرانِ قوم! جو شرک تم کرتے ہو اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ میں نے تو سب طرف سے منہ موڑ کر اپنا رُخ اس کی طرف پھیر دیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
خط کشیدہ فقروں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس سوسائٹی میں حضرت ابراہیمؑ نے آنکھ کھولی تھی اس میں آسمانوں اورزمین کے پیدا کرنے والے کا تصور،اور اس ذات کے رب ہونے کا تصور، ان سیاروں کی ربوبیّت کے تصور سے الگ موجود تھا۔ اور آخر کیوں نہ موجود ہوتا جب کہ یہ لوگ ان مسلمانوں کی نسل سے تھے جو حضرت نوحؑ پر ایمان لائے تھے، اور ان کی قریبی رشتہ دار ہم سایہ اقوام (عاد وثمود) میں پے درپے انبیاعلیہم السلام کے ذریعہ سے دینِ اسلام کی تجدید بھی ہوتی چلی آ رہی تھی (جَاۗءَتْہُمُ الرُّسُلُ مِنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ (فصلت۴۱: ۱۴) پس حضرت ابراہیمؑ کو اللہ کے فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ (الشوریٰ ۴۲: ۱۱) اور رَبّ ہونے کا تصور تو اپنے ماحول سے مل چکا تھا، البتہ جو سوالات ان کے دل میں کھٹکتے تھے وہ یہ تھے کہ نظامِ ربوبیت میں اللہ کے ساتھ چاند، سورج، اور سیّاروں کے شریک ہونے کا جو تخیّل ان کی قوم میں پایا جاتا ہے، اور جس کی بنا پر یہ لوگ عبادت میں بھی اللہ کے ساتھ انھیں شریک ٹھہرا رہے ہیں، یہ کہاں تک مبنی برحقیقت{ FR 7435 } ہے۔ چنانچہ نبوت سے پہلے اسی کی جستجو انھوں نے کی اور طلوع وغروب کا انتظام ان کے لیے اس امرِ واقعی تک پہنچنے میں دلیلِ راہ بن گیا کہ فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ (الشوریٰ ۴۲: ۱۱) کے سوا کوئی رب نہیں ہے۔ اسی بنا پر چاند کو غروب ہوتے دیکھ کر وہ فرماتے ہیں کہ اگر میرے رب، یعنی اللہ نے میری راہ نُمائی نہ فرمائی تو خوف ہے کہ کہیں میں بھی حقیقت تک رسائی پانے سے نہ رہ جائوں، اور ان مظاہر سے دھوکا نہ کھا جائوں جن سے میرے گرد وپیش لاکھوں انسان دھوکا کھا رہے ہیں۔
پھر جب حضرت ابراہیم ؑ نبوت کے منصب پر سرفراز ہوئے اور انھوں نے دعوتِ الی اللہ کا کام شروع کیا تو جن الفاظ میں وہ اپنی دعوت پیش فرماتے تھے ان پر غور کرنے سے وہ بات اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہے، فرماتے ہیں:
وَكَيْفَ اَخَافُ مَآ اَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّكُمْ اَشْرَكْتُمْ بِاللہِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِہٖ عَلَيْكُمْ سُلْطٰنًا۰ۭ (الانعام۶: ۸۱)
اور آخر میں ان سے کس طرح ڈر سکتا ہوں جنھیں تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو، جب کہ تم اللہ کے ساتھ انھیں شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے جن کے الٰہیّت اور ربوبیّت میں شریک ہونے پر اللہ نے تمھارے پاس کوئی سند نہیں بھیجی ہے۔
وَاَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ (مریم۱۹: ۴۸)
تم اللہ کے سوا اور جن جن سے دعائیں مانگتے ہو ان سے میں دست کش ہوتا ہوں۔
قَالَ بَلْ رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الَّذِيْ فَطَرَہُنَّ۰ۡۖ …… قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَـيْــــًٔا وَّلَا يَضُرُّكُمْo
(الانبیائ۲۱: ۵۶۔۶۶)
کہا، تمھارا رب تو صرف آسمانوں اور زمین کا رب ہی ہے جس نے ان سب چیزوں کو پیدا کیا ہے… کہا پھر کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو تمھیں نفع ونقصان پہنچانے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے؟
اِذْ قَالَ لِاَبِيْہِ وَقَوْمِہٖ مَاذَا تَعْبُدُوْنَo اَىِٕفْكًا اٰلِــہَۃً دُوْنَ اللہِ تُرِيْدُوْنَo فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَo (الصافات۳۷: ۸۵تا ۸۷)
جب ابراہیم ؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا، یہ تم کن کی عبادت کر رہے ہو؟ کیا اللہ کے سوا اپنے خود ساختہ الٰہوں کی بندگی کا ارادہ ہے؟ پھر رب العٰلمین کے متعلق تمھارا کیا خیال ہے؟
اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ (الممتحنہ۶۰: ۴)
(ابراہیم ؑ اور اس کے ساتھی مسلمانوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے صاف کہہ دیا) کہ ہمارا تم سے اور اللہ کے سوا جن جن کی عبادت تم کرتے ہو ان سب سے کوئی تعلق نہیں، ہم تمھارے طریقے کو ماننے سے انکار کر چکے ہیں اور ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے بغض وعداوت کی بِنا پڑ گئی ہے جب تک کہ تم اکیلے اللہ پر ایمان نہ لائو۔
حضرت ابراہیم ؑ کے ان تمام ارشادات کو دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مخاطب وہ لوگ نہ تھے جو اللہ سے بالکل ناواقف اور اس کے رب العٰلمین اور معبود ہونے سے منکر یا خالی الذہن ہوتے۔ بلکہ وہ لوگ تھے جو اللہ کے ساتھ ربوبیت (بمعنی اول ودوم) اور الٰہیت میں دوسروں کو شریک قرار دیتے تھے۔ اسی لیے تمام قرآن میں کسی ایک جگہ بھی حضرت ابراہیمؑ کا کوئی ایسا قول موجود نہیں ہے جس میں انھوں نے اپنی قوم کو اللہ کی ہستی اور اس کے الٰہ اور رب ہونے کا قائل کرنے کی کوشش کی ہو گی، بلکہ ہر جگہ وہ دعوت اس چیز کی دیتے ہیںکہ اللہ ہی رب اور الٰہ ہے۔
اب نمرود کے معاملہ کو لیجیے۔ اُس سے حضرت ابراہیم ؑ کی جو گفتگو ہوئی اسے قرآن اس طرح نقل کرتا ہے:
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ حَاۗجَّ اِبْرٰھٖمَ فِيْ رَبِّہٖٓ اَنْ اٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْكَ۰ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّيَ الَّذِيْ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ۰ۙ قَالَ اَنَا اُحْيٖ وَاُمِيْتُ۰ۭ قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللہَ يَاْتِيْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِيْ كَفَرَ۰ۭ
(البقرہ۲: ۲۵۸)
تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے ابراہیم ؑ سے اس کے رب کے بارے میں بحث کی، اس بنا پر کہ اللہ نے اسے حکومت دے رکھی تھی۔ جب ابراہیم ؑ نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے، تو اس نے کہا: زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے۔ ابراہیم ؑ نے کہا: اچھا تو حقیقت یہ ہے کہ اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اب تو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا۔ یہ سن کر وہ کافر مبہوت ہو کر رہ گیا۔
اس گفتگو سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ جھگڑا اللہ کے ہونے یا نہ ہونے پر نہ تھا بلکہ اس بات پر تھا کہ ابراہیم علیہ السلام ’’رب‘‘ کِسے تسلیم کرتے ہیں۔ نمرود اوّل تو اُس قوم سے تعلق رکھتا تھا جو اللہ کی ہستی کو مانتی تھی۔ دوسرے جب تک کہ وہ بالکل ہی پاگل نہ ہو جاتا وہ ایسی صریح احمقانہ بات کبھی نہ کہہ سکتا تھا کہ زمین وآسمان کا خالق اور سورج اور چاند کو گردش دینے والا وہ خود ہے۔ پس دراصل اس کا دعوٰی یہ نہ تھا کہ میں اللہ ہوں، یا رب السٰمٰوت والارض ہوں، بلکہ اس کا دعویٰ صرف یہ تھا کہ میں اس مملکت کا ’’رب‘‘ ہوں جس کی رعیت کا ایک فرد ابراہیم ؑ ہے۔ اور یہ رب ہونے کا دعوٰی بھی اسے ربوبیت کے پہلے اور دوسرے مفہوم کے اعتبار سے نہ تھا، کیوں کہ اس اعتبار سے تو وہ خود چاند اور سورج اور سیاروں کی ربوبیت کا قائل تھا، البتہ وہ تیسرے، چوتھے اور پانچویں مفہوم کے اعتبار سے اپنی مملکت کا رب بنتا تھا۔ یعنی اس کا دعویٰ یہ تھا کہ میں اس ملک کا مالک ہوں، اس کے سارے باشندے میرے بندے، میرا مرکزی اقتدار ان کے اجتماع کی بنیاد ہے، اور میرا فرمان اُن کے لیے قانون ہے۔اَنْ اٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْكَ۰ۘ (البقرہ۲: ۲۵۸) کے الفاظ صریحاً اس بات کی طرف اشارہ کر رہے کہ اس دعوائے ربوبیت کی بنیاد بادشاہی کے زعم پر تھی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ اس کی رعیت میں سے ابراہیم ؑ نامی ایک نوجوان اٹھا ہے جو نہ چاند اور سورج اور سیاروں کی فوق الفطری ربوبیت کا قائل ہے اور نہ بادشاہ وقت کی سیاسی وتمدنی ربوبیت تسلیم کرتا ہے، تو اسے تعجب ہوا اور اس نے حضرت ابراہیم ؑ کو بلا کر دریافت کیا کہ آخر تم کسے رب مانتے ہو؟ حضرت ابراہیمؑ نے پہلے فرمایا کہ میرا رب وہ ہے جس کے قبضۂ قدرت میں زندگی اور موت کے اختیارات ہیں۔ مگر اس جواب سے وہ بات کی تہہ کو نہ پہنچ سکا اور یہ کہہ کر اس نے اپنی ربوبیت ثابت کرنی چاہی کہ زندگی اور موت کے اختیارات تو مجھے حاصل ہیں جسے چاہوں قتل کرا دوں اور جس کی چاہوں جان بخشی کر دوں۔ تب حضرت ابراہیمؑ نے اسے بتایا کہ میں صرف اللہ کو رب مانتا ہوں، ربوبیت کے جملہ مفہومات کے اعتبار سے میرے نزدیک تنہا اللہ ہی رب ہے، اس نظامِ کائنات میں کسی دوسرے کی ربوبیت کے لیے گنجائش ہی کہاں ہو سکتی ہے جب کہ سورج کے طلوع وغروب پر وہ ذرّہ برابر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ نمرود آدمی ذی ہوش تھا۔ اس دلیل کو سن کر اس پر یہ حقیقت کھل گئی کہ فی الحقیقت اللہ کی سلطنت میں اس کا دعوائے ربوبیت بجز ایک زعمِ باطل کے اور کچھ نہیں ہے، اسی لیے وہ دم بخود ہو کر رہ گیا، مگر نفس پرستی اور شخصی وخاندانی اغراض کی بندگی ایسی دامن گیر ہوئی کہ حق کے ظہور کے باوجود وہ خود مختارانہ حکم رانی کے منصب سے اتر کر اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت پر آمادہ نہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اس گفتگو کو نقل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَo (آل عمران۳: ۸۶)(مگر اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا) یعنی اس ظہورِ حق کے بعد جو رویہ اسے اختیار کرنا چاہیے تھا اسے اختیار کرنے کے لیے جب وہ تیار نہ ہوا اور اس نے غاصبانہ فرماں روائی کرکے دنیا پر اور خود اپنے نفس پر ظلم کرنا ہی پسند کیا تو اللہ نے بھی اسے ہدایت کی روشنی عطا نہ کی، کیوںکہ اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جو خود ہدایت کا طالب نہ ہو اس پر زبردستی اپنی ہدایت مسلّط کر دے۔
قومِ لُوطؑ
قومِ ابراہیم ؑ کے بعد ہمارے سامنے وہ قوم آتی ہے جس کی اصلاح پر حضرت ابراہیمؑ کے بھتیجے حضرت لوطؑ مامور کیے گئے تھے۔ اس قوم کے متعلق بھی قرآن سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ تو اللہ کے وُجود کی منکر تھی نہ اس بات کی منکر تھی کہ اللہ خالق اور رب بمعنی اول ودوم ہے۔ البتہ اسے انکار اس سے تھا کہ اللہ ہی کو تیسرے، چوتھے اور پانچویں معنی میں بھی رب مانے اور اس کے معتمد علیہ نمایندے کی حیثیت سے رسول کے اقتدار کو تسلیم کرے۔ وہ چاہتی تھی کہ اپنی خواہشِ نفس کے مطابق خود جس طرح چاہے کام کرے۔ یہی اس کا اصلی جرم تھا اور اسی بنا پر وہ عذاب میں مبتلا ہوئی۔ قرآن کی حسبِ ذیل تصریحات اس پر شاہد ہیں:
اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَo اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌo فَاتَّــقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِo وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْہِ مِنْ اَجْرٍ۰ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِيْنَo وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ۰ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَo (الشعرائ۲۶:۱۶۱۔۱۶۵)
جب ان کے بھائی لوط علیہ السلام نے ان سے کہا کہ تم تقویٰ اختیار کرو، دیکھو میں تمھارے لیے امانت دار رسول ہوں۔ لہٰذا اللہ کے غضب سے بچو اورمیری اطاعت کرو۔ اس کام پر میں تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا، میرا معاوضہ تو صرف رب العٰلمین کے ذمہ ہے۔ کیا دنیا کے لوگوں میں سے تم لڑکوں کی طرف جاتے ہو اور تمھارے رب نے تمھارے لیے جو بیویاں پیدا کی ہیں انھیں چھوڑ دیتے ہو؟ تم بڑے ہی حد سے گزرنے والے لوگ ہو۔
ظاہر ہے کہ یہ خطاب ایسے ہی لوگوں سے ہو سکتا تھا جو اللہ کے وجود اور اس کے خالق اور پروردگار ہونے کے منکر نہ ہوں۔ چنانچہ جواب میں وہ بھی یہ نہیں کہتے کہ اللہ کیا چیز ہے؟ یا وہ پیدا کرنے والا کون ہوتا ہے؟ یا وہ کہاں سے ہمارا رب ہو گیا؟ بلکہ کہتے ہیں کہ:
لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَہِ يٰلُوْطُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِيْنَo (الشعرائ۲۶: ۱۶۷)
اے لوط ؑ! اگر تم اپنی باتوں سے باز نہ آئے تو ملک سے نکال باہر کیے جائو گے۔
دوسری جگہ اس واقعہ کو یوں فرمایا گیا ہے:
وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ۰ۡمَا سَبَقَكُمْ بِہَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَo اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ۰ۥۙ وَتَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ۰ۭ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللہِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَo (العنکبوت۲۹: ۲۸۔۲۹)
اور ہم نے لوط کو بھیجا۔ جب اس نے قوم سے کہا کہ تم لوگ وہ فعلِ شنیع کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہ کیا تھا، کیا تم مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو، راستوں پر ڈاکے مارتے ہو، اور اپنی مجلسوں میں علانیہ ایک دوسرے کے سامنے بدکاریاں کرتے ہو؟ تو اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ لے آئو ہم پر اللہ کا عذاب اگر تم سچے ہو۔
کیا یہ جواب کسی منکرِ خدا قوم کا ہو سکتا تھا؟ پس معلوم ہوا کہ ان کا اصلی جُرم انکار الوہیّت وربوبیّت نہ تھا، بلکہ یہ تھا کہ وہ فوق الفطری معنی میں اللہ کو الٰہ اور رب مانتے تھے۔ لیکن اپنے اخلاق، تمدن اور معاشرت میں اللہ کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی کرنے سے انکار کرتے تھے اور اس کے رسول کی ہدایت پر چلنے کے لیے تیار نہ تھے۔
قومِ شعیبؑ
اس کے بعد اہلِ مدین اور اصحاب الایکہ کو لیجیے جن میں حضرت شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔ ان لوگوں کے متعلق ہمیں معلوم ہے کہ یہ حضرت ابراہیمؑ کی اولاد سے تھے۔ اس لیے یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ وہ اللہ کے وجود اور اس کے الٰہ اور رب ہونے کے قائل تھے یا نہ تھے۔ ان کی حیثیت دراصل ایک ایسی قوم کی تھی جس کی ابتدا اسلام سے ہوئی اور بعد میں وہ عقائد واعمال کی خرابیوں میں مبتلا ہو کر بگڑتی چلی گئی۔ بلکہ قرآن سے تو کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ مومن ہونے کے بھی مدعی تھے۔ چنانچہ بار بار حضرت شعیب ؑ ان سے فرماتے ہیں کہ ’’اگر تم مومن ہو‘‘ تو تمھیں یہ کرنا چاہیے۔ حضرت شعیبؑ کی ساری تقریروں اور ان کے جوابات کو دیکھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی قوم تھی جو اللہ کو مانتی تھی۔ اسے معبود اور پروردگار بھی تسلیم کرتی تھی، مگر دو طرح کی گم راہیوں میں مبتلا ہو گئی تھی۔ ایک یہ کہ وہ فوق الفطری معنی میں اللہ کے سوا دوسروں کو بھی الٰہ اور رب سمجھنے لگی تھی، اس لیے اس کی عبادت صرف اللہ کے لیے مختص نہ رہی تھی۔ دوسرے یہ کہ اس کے نزدیک اللہ کی ربوبیت کو انسان کے اخلاق، معاشرت، معیشت اور تمدن وسیاست سے کوئی سروکار نہ تھا، اس بنا پر وہ کہتی تھی کہ اپنی تمدنی زندگی میں ہم مختار ہیں، اپنے معاملات کو جس طرح چاہیں چلائیں۔
قرآن کی حسبِ ذیل آیات ہمارے اس بیان کی تصدیق کرتی ہیں:
وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاہُمْ شُعَيْبًا۰ۭ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۰ۭ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ بَيِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْـيَاۗءَہُمْ وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَo…… وَاِنْ كَانَ طَاۗىِٕفَۃٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِيْٓ اُرْسِلْتُ بِہٖ وَطَاۗىِٕفَۃٌ لَّمْ يُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰي يَحْكُمَ اللہُ بَيْنَنَا۰ۚ وَہُوَخَيْرُ الْحٰكِمِيْنَo
(الاعراف۷: ۸۵۔۸۷)
اورمدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا: اے برادرانِ قوم! اللہ کی بندگی کرو کہ اس کے سوا تمھارا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس روشن ہدایت آ چکی ہے۔ پس تم ناپ تول ٹھیک کرو، لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دیا کرو، اور زمین میں فساد نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح کی جا چکی تھی۔ اسی میں تمھاری بھلائی ہے اگر تم مومن ہو… اگر تم میں سے ایک گروہ اس ہدایت پر ’’جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں‘‘ ایمان لاتا ہے اور دُوسرا ایمان نہیں لاتا تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے اور وہی بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
وَيٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيْزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْـيَاۗءَہُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَo بَقِيَّتُ اللہِ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۰ۥۚ وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيْظٍo قَالُوْا يٰشُعَيْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِيْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰۗؤُا۰ۭ اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِيْمُ الرَّشِيْدُo
(ہود۱۱: ۸۵۔۸۷)
اے برادرانِ قوم! پیمانے اور ترازو انصاف کے ساتھ پورے پورے ناپو اور تولو، لوگوں کو اُن کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو، اور زمین میں فساد نہ برپا کرتے پھرو، اللہ کی عنایت سے کاروبار میں جو بچت ہو وہی تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم مومن ہو۔ اور میں تمھارے اوپر کوئی نگاہ بان نہیں ہوں۔ انھوں نے جواب دیا: اے شعیب! کیا تمھاری نماز تمھیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا سے ہوتی چلی آ رہی ہے، یا یہ کہ ہم اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرّف کرنا ترک کر دیں؟ تم ہی تو ایک بردبار اور راست باز رہ گئے ہو!
آخری خط کشیدہ الفاظ خصوصیت کے ساتھ اس بات کو واضح کر دیتے ہیں کہ ربوبیت والُوہیّت کے بارے میں ان کی اصل گم راہی کیا تھی۔
فرعون اور آلِ فرعون
اب ہمیں فرعون اور اس کی قوم کو دیکھنا چاہیے جس کے باب میں نمرود اور اس کی قوم سے بھی زیادہ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ فرعون نہ صرف خدا کی ہستی کا منکر تھا بلکہ خود خدا ہونے کا مدعی تھا۔ یعنی اس کا دماغ اتنا خراب ہو گیا تھا کہ دنیا کے سامنے کھلم کھلا یہ دعوٰی کرتا تھا کہ میں خالقِ ارض وسما ہوں، اور اس کی قوم اتنی پاگل تھی کہ اس کے دعوے پر ایمان لاتی تھی۔ حالانکہ قرآن اور تاریخ کی شہادت سے اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ الوہیّت وربوبیت کے باب میں اس کی گم راہی نمرود کی گم راہی سے اور اس کی قوم کی گم راہی قومِ نمرود کی گم راہی سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی۔ فرق جو کچھ تھا وہ صرف اس بِناپر تھا کہ یہاں سیاسی اسباب سے بنی اسرائیل کے ساتھ ایک قوم پرستانہ ضد اور متعصبانہ ہٹ دھرمی پیدا ہو گئی تھی، اس لیے محض عناد کی بِنا پر اللہ کو الٰہ اور رب ماننے سے انکار کیا جاتا تھا اگرچہ دلو ں میں اس کا اعتراف چھپا ہوا تھا۔ جیسا کہ آج کل بھی اکثر دہریوں کا حال ہے۔
اصل واقعات یہ ہیں کہ حضرت یوسفؑ کو جب مصر میں اقتدار حاصل ہوا تو انھوں اپنی پوری قوت اسلام کی تعلیم پھیلانے میں صرف کر دی۔ اور سرزمینِ مصر پر اتنا گہرا نقش مرتسم کیا کہ صدیوں تک کسی کے مٹائے نہ مٹ سکا۔ اُس وقت چاہے تمام اہل مصر نے دین حق قبول نہ کر لیا ہو۔ مگر یہ ناممکن تھا کہ مصر میں کوئی شخص اللہ سے ناواقف رہ گیا ہو اور یہ نہ جان گیا ہو کہ وہی خالقِ ارض وسما ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کی تعلیمات کا کم از کم اتنا اثر ہر مصری پر ضرور ہو گیا تھا کہ وہ فوق الفطری معنوں میں اللہ کو اِلٰہ الاٰلِھَہ اور رب الارباب تسلیم کرتا تھا اور کوئی مصری اللہ کی الوہیّت کا منکر نہ رہا تھا۔ البتہ جو ان میں کفر پر قائم رہ گئے تھے وہ الوہیت وربوبیت میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے تھے۔ یہ اثرات حضرت موسیٰ ؑ کی بعثت کے وقت تک باقی تھے۔{ FR 7436 } چنانچہ اس کا صریح ثبوت وہ تقریر ہے جو فرعون کے دربار میں ایک قبطی سردار نے کی تھی۔ جب فرعون نے حضرت موسیٰ کے قتل کا ارادہ ظاہر کیا تواس کے دربار کا یہ امیر جو مسلمان ہو چکا تھا مگر اپنا اسلام چھپائے تھا، بے قرار ہو کر بول اٹھا:
اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللہُ وَقَدْ جَاۗءَكُمْ بِالْبَيِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ۰ۭ وَاِنْ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيْہِ كَذِبُہٗ۰ۚ وَاِنْ يَّكُ صَادِقًا يُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِيْ يَعِدُكُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِيْ مَنْ ہُوَمُسْرِفٌ كَذَّابٌo يٰقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظٰہِرِيْنَ فِي الْاَرْضِ۰ۡفَمَنْ يَّنْصُرُنَا مِنْۢ بَاْسِ اللہِ اِنْ جَاۗءَنَا۰ۭ …… يٰقَوْمِ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ مِّثْلَ يَوْمِ الْاَحْزَابِo مِثْلَ دَاْبِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ وَالَّذِيْنَ مِنْۢ بَعْدِہِمْ۰ۭ …… وَلَقَدْ جَاۗءَكُمْ يُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنٰتِ فَمَازِلْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّمَّا جَاۗءَكُمْ بِہٖ۰ۭ حَتّٰٓي اِذَا ہَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَّبْعَثَ اللہُ مِنْۢ بَعْدِہٖ رَسُوْلًا۰ۭ…… وَيٰقَوْمِ مَا لِيْٓ اَدْعُوْكُمْ اِلَى النَّجٰوۃِ وَتَدْعُوْنَنِيْٓ اِلَى النَّارِo تَدْعُوْنَنِيْ لِاَكْفُرَ بِاللہِ وَاُشْرِكَ بِہٖ مَا لَيْسَ لِيْ بِہٖ عِلْمٌ۰ۡوَّاَنَا اَدْعُوْكُمْ اِلَى الْعَزِيْزِ الْغَفَّارِo
(المومن۴۰: ۲۸ تا ۳۱۔۳۴،۴۱ تا۴۲)
کیا تم ایک شخص کو اس لیے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔ حالانکہ وہ تمھارے رب کی طرف سے تمھارے سامنے کھلی کھلی نشانیاں لایا ہے۔ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اس پر ضرور پڑے گا۔ لیکن اگر وہ سچا ہے تو جس انجام سے وہ تمھیں ڈرا رہا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ تو تم پر نازل ہو کے رہے گا۔ یقین جانو کہ اللہ کسی حد سے بڑھے ہوئے جھوٹے آدمی کو فلاح کا راستہ نہیں دکھاتا۔ اے برادرانِ قوم! آج تمھارے ہاتھ میں حکومت ہے، زمین میں تم غالب ہو، مگر کل اللہ کا عذاب ہم پر آ جائے تو کون ہماری مدد کرے گا؟… اے برادران قوم! میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم پر وہ دن نہ آ جائے جو بڑی بڑی قوموں پر آ چکا ہے، اور وہی انجام تمھارا نہ ہو، جو قومِ نوح اور عاد اور ثمود اور بعد کی قوموں کا ہوا… اس سے پہلے یوسف (علیہ السلام) تمھارے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے تو تم اس چیز کے متعلق شک میں پڑے رہے جسے وہ لائے تھے۔ پھر جب ان کا انتقال ہو گیا تو تم نے کہا کہ اللہ ان کے بعد کوئی رسول نہ بھیجے گا… اور اے برادران قوم! یہ عجیب معاملہ ہے کہ مَیں تمھیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آگ کی طرف دعوت دیتے ہو۔ تم مجھے اس طرف بلاتے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اس کے ساتھ انھیں شریک ٹھہرائوں جن کے شریک ہونے پر میرے پاس کوئی علمی ثبوت نہیں ہے، اور میں تمھیں اس کی طرف بلاتا ہوں جو سب سے زبردست ہے اور بخشنے والا ہے۔
یہ پوری تقریر اس بات پر شاہد ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی عظیم الشان شخصیت کا اثر کئی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس وقت تک باقی تھا اور اس جلیل القدر نبی کی تعلیم سے متاثر ہونے کے باعث یہ قوم جہالت کے اس مرتبے پر نہ تھی کہ اللہ کی ہستی سے بالکل ہی ناواقف ہوتی یا یہ نہ جانتی کہ اللہ رب اور الٰہ ہے اور قوائے فطرت پر اس کا غلبہ وقہر قائم ہے اور اس کا غضب کوئی ڈرنے کی چیز ہے۔ اس کے آخری فقرے سے یہ بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم اللہ کی الوہیّت اور ربوبیت کی قطعی منکر نہ تھی بلکہ ان کی گم راہی وہی تھی جو دوسری قوموں کی بیان ہو چکی ہے۔ یعنی ان دونوں حیثیتوں میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانا۔
شبہ جس وجہ سے واقع ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ فرعون حضرت موسیٰ ؑ کی زبان سے اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (ہم ربّ العٰلمین کے رسول ہیں) سن کر پوچھتا ہے: وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ (ربّ العٰلمین کیا چیز ہے؟) اپنے وزیر ہامان سے کہتا ہے کہ میرے لیے ایک اونچی عمارت بنا کہ میں موسیٰ کے الٰہ کو دیکھوں۔ حضرت موسیٰ ؑ کو دھمکی دیتا ہے کہ میرے سوا کسی اور کو تم نے الٰہ بنایا تو میں تمھیں قید کر دوں گا۔ ملک بھر میں اعلان کرتا ہے کہ میں تمھارا رب اعلیٰ ہوں۔ اپنے درباریوں سے کہتا ہے کہ میں اپنے سوا تمھارے کسی الٰہ کو نہیں جانتا۔ اس قسم کے فقرات دیکھ کر لوگوں کو گمان ہوا ہے کہ شاید وہ اللہ کی ہستی ہی کا منکر تھا، رب العالمین کے تصور سے بالکل خالی الذہن تھا اور اپنے آپ ہی کو واحد معبود سمجھتا تھا۔ مگر اصل واقعہ یہ ہے کہ اس کی یہ تمام باتیں قوم پرستانہ ضد کی وجہ سے تھیں۔ حضرت یوسفؑ کے زمانہ میں صرف یہی نہیں ہوا تھا کہ آں جناب کی زبردست شخصیت کے اثر سے اسلام کی تعلیمات مصر میں پھیل گئی تھیں، بلکہ حکومت میں جو اقتدار انھیں حاصل ہوا تھا ان کی بدولت بنی اسرائیل مصر میں بہت بااثر ہو گئے تھے۔ تین چار سو سال تک یہ اسرائیلی اقتدار مصر پر چھایا رہا۔ پھر وہاں اسرائیلیوں کے خلاف قوم پرستانہ جذبات پیدا ہونا شروع ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کے اقتدار کو الٹ پھینکا گیا اور ایک مصری قوم پرست خاندان فرماں روا ہو گیا۔ ان نئے فرماں روائوں نے محض اسرائیلیوں کو دبانے اور کچلنے ہی پر اکتفا نہ کیا بلکہ دَورِ یوسفی کے ایک ایک اثر کو مٹانے اور اپنے قدیم جاہلی مذہب کی روایات کو تازہ کرنے کی کوشش کی۔ اس حالت میں جب حضرت موسیٰ ؑ تشریف لائے تو ان لوگوں کو خطرہ ہوا کہ کہیں اقتدار پھر ہمارے ہاتھ سے نکل کر اسرائیلیوں کے ہاتھ میں نہ چلا جائے۔ یہی عناد اور ہٹ دھرمی کا جذبہ تھا جس کی بنا پر فرعون چندرا چندرا کر حضرت موسیٰ ؑ سے پوچھتا تھا کہ رب العٰلمین کیا ہوتا ہے؟ میرے سوا اور الٰہ کون ہو سکتا ہے؟ دراصل وہ رب العٰلمین سے بے خبرنہ تھا۔ اس کی اور اس کے اہل دربار کی گفتگوئیں اور حضرت موسیٰؑ کی جو تقریریں قرآن میں آئی ہیں، ان سب سے یہ حقیقت بیّن طور پر ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً ایک موقع پر فرعون اپنی قوم کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ موسیٰ ؑ خدا کے پیغمبر نہیں ہیں، کہتا ہے:
فَلَوْلَآ اُلْقِيَ عَلَيْہِ اَسْوِرَۃٌ مِّنْ ذَہَبٍ اَوْ جَاۗءَ مَعَہُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ مُقْتَرِنِيْنَo
(الزخرف۴۳:۵۳)
تو کیوں نہ اس کے لیے سونے کے کنگن اتارے گئے؟ یا فرشتے صف بستہ ہو کر اس کے ساتھ کیوں نہ آئے؟
کیا یہ بات ایک ایسا شخص کہہ سکتا تھا جو اللہ اور ملائکہ کے تصور سے خالی الذہن ہوتا؟ ایک اور موقع پر فرعون اور حضرت موسیٰ کے درمیان یہ گفتگو ہوتی ہے:
……فَقَالَ لَہٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰي مَسْحُوْرًاo قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ ہٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَاۗىِٕرَ۰ۚ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًاo
(بنی اسرائیل۱۷:۱۰۱۔۱۰۲)
پس فرعون نے اس سے کہا کہ اے موسیٰ میں تو سمجھتا ہوں کہ تیری عقل خبط ہو گئی ہے۔ موسیٰ نے جواب دیا: تو خوب جانتا ہے کہ یہ بصیرت افروز نشانیاں ربِ زمین وآسمان کے سوا کسی اور کی نازل کی ہوئی نہیں ہیں۔ مگر میرا خیال ہے کہ اے فرعون تیری شامت ہی آ گئی ہے۔
ایک اورمقام پر اللہ تعالیٰ فرعونیوں کی قلبی حالت اس طرح بیان فرماتا ہے:
فَلَمَّا جَاۗءَتْہُمْ اٰيٰتُنَا مُبْصِرَۃً قَالُوْا ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌo وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَيْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا۰ۭ (النمل۲۷: ۱۳۔۱۴)
جب ہماری نشانیاں ان کے سامنے علانیہ نمایاں ہو گئیں تو انھوں نے کہا یہ صریح جادو ہے۔ ان کے دل اندر سے قائل ہو چکے تھے مگر انھوں نے محض شرارت اور تکبر وسرکشی کی بِنا پر ماننے سے انکار کیا۔
ایک اور مجلس کا نقشہ قرآن یوں کھینچتا ہے:
قَالَ لَہُمْ مُّوْسٰى وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَي اللہِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ۰ۚ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰىo فَتَنَازَعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَيْنَہُمْ وَاَسَرُّوا النَّجْوٰىo قَالُوْٓا اِنْ ھٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ يُرِيْدٰنِ اَنْ يُّخْرِجٰكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِہِمَا وَيَذْہَبَا بِطَرِيْقَتِكُمُ الْمُثْلٰىo (طٰہٰ۲۰: ۶۱۔۶۳)
موسیٰ ؑ نے ان سے کہا تم پر افسوس ہے۔ اللہ پر جھوٹ افترانہ باندھو ورنہ وہ سخت عذاب سے تمھیں تباہ کر دے گا۔ اور افتراجس نے بھی باندھا ہے وہ نامراد ہو کر ہی رہا ہے۔ یہ سن کر لوگ آپس میں ردوکد کرنے لگے اور خفیہ مشورہ ہوا جس میں کہنے والوں نے کہا: یہ دونوں (موسیٰ وہارون) تو جادوگر ہیں۔ چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تمھیں تمھاری سرزمین سے بے دخل کر دیں اور تمھارے مثالی (آئیڈل) طریقِ زندگی کو مٹا دیں۔
ظاہر ہے کہ اللہ کے عذاب سے ڈرانے اور افتراکے انجام سے خبردار کرنے پر ان کے درمیان ردّوکد اسی لیے شروع ہو گئی تھی کہ ان لوگوں کے دلوں میں کہیں تھوڑا بہت اثر خدا کی عظمت اور اس کے خوف کا موجود تھا۔ لیکن جب ان کے قوم پرست حکم ران طبقہ نے سیاسی انقلاب کا خطرہ پیش کیا، اور کہا کہ موسیٰؑ اور ہارونؑ کی بات ماننے کا انجام یہ ہو گا کہ مصریت پھر اسرائیلیّت سے مغلوب ہو جائے گی تو ان کے دل پھر سخت ہو گئے اور سب نے بالاتفاق رسولوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔
اس حقیقت کے واضح ہو جانے کے بعد ہم بآسانی یہ تحقیق کر سکتے ہیں کہ حضرت موسیٰ اور فرعون کے درمیان اصل جھگڑا کس بات پر تھا، فرعون اور اس کی قوم کی حقیقی گم راہی کس نوعیت کی تھی، اور فرعون کس معنی میں الوہیت وربوبیت کا مدعی تھا۔ اس غرض کے لیے قرآن کی حسب ذیل آیات ترتیب وار ملاحظہ کیجیے۔
۱۔ فرعون کے درباریوں میں سے جو لوگ حضرت موسیٰ ؑ کی دعوت کا استیصال کرنے پر زور دیتے تھے وہ ایک موقع پر فرعون کو خطاب کرکے کہتے ہیں:
اَتَذَرُ مُوْسٰي وَقَوْمَہٗ لِيُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِہَتَكَ۰ۭ(الاعراف۷: ۱۲۷)
کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑ دیں گے کہ وہ ملک میں فساد پھیلائے اور آپ اور آپ کے الٰہوں کو چھوڑ دے۔
دوسری طرف انھی درباریوں میں سے جو شخص حضرت موسیٰ ؑ پر ایمان لے آیا تھا وہ ان لوگوں کو خطاب کرکے کہتا ہے:
تَدْعُوْنَنِيْ لِاَكْفُرَ بِاللہِ وَاُشْرِكَ بِہٖ مَا لَيْسَ لِيْ بِہٖ عِلْمٌ۰ۡ (المومن۴۰:۴۲)
تم مجھے اس طرف بلاتے ہو کہ مَیں اللہ سے کفر کروں اور اس کے ساتھ انھیں شریک کروں جن کے شریک ہونے کے لیے میرے پاس کوئی علمی ثبوت نہیں۔
ان دونوں آیتوں کو جب ہم ان معلومات کے ساتھ ملا کر دیکھتے ہیں جو تاریخ وآثارِ قدیمہ کے ذریعہ سے ہمیں اس زمانہ کے اہلِ مصر کے متعلق حاصل ہوئی ہیں تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ فرعون خود بھی اور اس کی قوم کے لوگ بھی ربوبیت کے پہلے اور دوسرے معنی کے اعتبار سے بعض دیوتائوں کو خدائی میں شریک ٹھہراتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اگر فرعون فوق الفطری معنوں میں خدا ہونے کا مدعی ہوتا، یعنی اگر اس کا دعوٰی یہی ہوتا کہ سلسلۂ اسباب پر وہ خود حکم ران ہے اور اس کے سوا زمین وآسمان کا الٰہ ورب کوئی نہیں ہے، تو وہ دوسرے الٰہوں کی پرستش نہ کرتا۔{ FR 7437 }
۲۔ فرعون کے یہ الفاظ جو قرآن میں نقل کیے گئے ہیں کہ:
يٰٓاَيُّہَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرِيْ۰ۚ (القصص۲۸: ۳۸)
لوگو! مَیں تو اپنے سوا کسی الٰہ کو جانتا نہیں ہوں۔
لَىِٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰــہًا غَيْرِيْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِيْنَo (الشعرائ۲۶: ۲۹)
اے موسیٰ! اگر میرے سوا تو نے کسی کو الٰہ بنایا تو میں تجھے قیدیوں میں شامل کر دوں گا۔
ان الفاظ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فرعون اپنے سوا دوسرے تمام الٰہوں کی نفی کرتا تھا، بلکہ اس کی اصل غرض حضرت موسیٰ کی دعوت کو رد کرنا تھا۔ چوں کہ حضرت موسیٰ ؑ ایک ایسے الٰہ کی طرف بلا رہے تھے جو صرف فوق الفطری معنی ہی میں معبود نہیں ہے بلکہ سیاسی وتمدنی معنی میں امر ونہی کا مالک اور اقتدارِ اعلیٰ کا حامل بھی ہے، اس لیے اس نے اپنی قوم سے کہا کہ تمھارا ایسا الٰہ تو میرے سوا کوئی نہیں ہے، اور حضرت موسیٰ ؑ کو دھمکی دی کہ اس معنی میں میرے سوا کسی کو الٰہ بنائو گے تو جیل کی ہوا کھائو گے۔
نیز قرآن کی ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے، اور تاریخ وآثارِ قدیمہ سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ فراعنۂـ مصر محض حاکمیت مطلقہ (Absolute Sovereignty) ہی کے مدعی نہ تھے بلکہ دیوتائوں سے اپنا رشتہ جوڑ کر ایک طرح کی قدوسیت کا بھی دعوٰی رکھتے تھے تاکہ رعایا کے قلب وروح پر ان کی گرفت خوب مضبوط ہو جائے۔ اس معاملہ میں تنہا فراعنہ ہی منفرد نہیں ہیں، دنیا کے اکثر ملکوں میں شاہی خاندانوں نے سیاسی حاکمیت کے علاوہ فوق الفطری الوہیّت وربوبیّت میں بھی کم وبیش حصہ بٹانے کی کوشش کی ہے اور رعیّت کے لیے لازم کیا ہے کہ وہ ان کے آگے عبودیّت کے کچھ نہ کچھ مراسم ادا کرے۔ لیکن دراصل یہ محض ایک ضمنی چیز ہے۔ اصل مقصد سیاسی حاکمیت کا استحکام ہوتا ہے اور اس کے لیے فوق الفطری الوہیّت کا دعویٰ محض ایک تدبیر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی لیے مصر میں اور دوسرے جاہلیت پرست ملکوں میں بھی ہمیشہ سیاسی زوال کے ساتھ ہی شاہی خاندانوں کی الوہیّت بھی ختم ہوتی رہی ہے۔ اور تخت جس جس کے پاس گیا ہے الوہیّت بھی اسی کی طرف منتقل ہوتی چلی گئی ہے۔
۳۔ فرعون کا اصلی دعوٰی فوق الفطری خدائی کا نہیں بلکہ سیاسی خدائی کا تھا۔ وہ ربوبیّت کے تیسرے چوتھے اور پانچویں معنی کے لحاظ سے کہتا تھا کہ مَیں سر زمینِ مصر اور اس کے باشندوں کا ربِّ اعلیٰ (Over-Lord) ہوں۔ اس ملک اور اس کے تمام وسائل وذرائع کا مالک میں ہوں۔ یہاں کی حاکمیتِ مطلقہ کا حق مجھی کو پہنچتا ہے یہاں کے تمدّن واجتماع کی اساس میری ہی مرکزی شخصیت ہے۔ یہاں قانون میرے سوا کسی اور کا نہ چلے گا۔ قرآن کے الفاظ میں اس کے دعویٰ کی بنیاد یہ تھی:
وَنَادٰى فِرْعَوْنُ فِيْ قَوْمِہٖ قَالَ يٰقَوْمِ اَلَيْسَ لِيْ مُلْكُ مِصْرَ وَہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِيْ۰ۚ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَo (الزخرف۴۳: ۵۱)
اور فرعون نے اپنی قوم میں منادی کی کہ اے قوم! کیا میں ملک مصر کا مالک نہیں ہوں؟ اور یہ نہریں میرے ماتحت نہیں چل رہی ہیں؟ کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟
یہ وہی بنیاد تھی جس پر نمرود کا دعوائے ربوبیت مبنی تھا( حَاۗجَّ اِبْرٰھٖمَ فِيْ رَبِّہٖٓ اَنْ اٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْكَ۰ۘ البقرہ۲: ۲۵۸ )اور اسی بنیاد پر حضرت یوسفؑ کا ہم عصر بادشاہ بھی اپنے اہلِ ملک کا رب بنا ہوا تھا۔
۴۔ حضرت موسیٰ کی دعوت جس پر فرعون اور آلِ فرعون سے ان کا جھگڑا تھا، دراصل یہ تھی کہ رب العٰلمین کے سوا کسی معنی میں بھی کوئی دوسرا الٰہ اور رب نہیں ہے۔ وہی تنہا فوق الفطری معنی میں بھی الٰہ اور رب ہے، اور سیاسی واجتماعی معنی میں بھی۔ پرستش بھی اسی کی ہو، بندگی واطاعت بھی اسی کی ، اور پیروی قانون بھی اسی کی۔ نیز یہ کہ صریح نشانیوں کے ساتھ اس نے مجھے اپنا نمایندہ مقرر کیا ہے، میرے ذریعہ سے وہ اپنے امر ونہی کے احکام دے گا، لہٰذا اس کے بندوں کی عنانِ اقتدار تمھارے ہاتھ میں نہیں، میرے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ اسی بنا پر فرعون اور اس کے اعیانِ حکومت بار بار کہتے تھے کہ یہ دونوں بھائی ہمیں زمین سے بے دخل کرکے خود قابض ہونا چاہتے ہیں اور ہمارے ملک کے نظامِ مذہب وتمدن کو مٹا کر اپنا نظام قائم کرنے کے درپے ہیں۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍo اِلٰي فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕہٖ فَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ فِرْعَوْنَ۰ۚ وَمَآ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيْدٍo (ہود۱۱: ۹۶۔۹۷)
ہم نے موسیٰ کو اپنی آیات اور صریح نشانِ ماموریت کے ساتھ فرعون اور اس کے سردارانِ قوم کی طرف بھیجا تھا، مگر ان لوگوں نے فرعون کے امر کی پیروی کی۔ حالانکہ فرعون کا امر راستی پر نہ تھا۔
وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَہُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاۗءَہُمْ رَسُوْلٌ كَرِيْمٌo اَنْ اَدُّوْٓا اِلَيَّ عِبَادَ اللہِ۰ۭ اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌo وَّاَنْ لَّا تَعْلُوْا عَلَي اللہِ۰ۚ اِنِّىْٓ اٰتِيْكُمْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍo (الدّخان۴۴:۱۷۔۱۹)
اور ہم نے ان سے پہلے فرعون کی قوم کو آزمائش میں ڈالا تھا۔ ایک معزز رسول ان کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کرو۔ مَیں تمھارے لیے امانت دار رسول ہوں۔ اور اللہ کے مقابلہ میں سرکشی نہ کرو، مَیں تمھارے سامنے صریح نشانِ ماموریت پیش کرتا ہوں۔
اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاہِدًا عَلَيْكُمْ كَـمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًاo فَعَصٰى فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنٰہُ اَخْذًا وَّبِيْلًاo (المزمل۷۳:۱۵۔۱۶)
(اے اہلِ مکہ!) ہم نے تمھاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر گواہی دینے والا ہے، اسی طرح جیسے ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا۔ پھر فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے اسے سختی کے ساتھ پکڑا۔
قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا يٰمُوْسٰىo قَالَ رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰىo
(طٰہٰ۲۰: ۴۹۔۵۰)
فرعون نے کہا: اے موسیٰ (اگر تم نہ دیوتائوں کو رب مانتے ہو نہ شاہی خاندان کو)تو آخر تمھارا رب کون ہے؟ موسیٰ ؑنے جواب دیا، ہمارا رب وہی ہے جس نے ہر چیز کو اس کی مخصوص ساخت عطا کی، پھر اسے اس کے کام کرنے کا طریقہ بتایا۔
قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَo قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا۰ۭ اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِيْنَo قَالَ لِمَنْ حَوْلَہٗٓ اَلَا تَسْتَمِعُوْنَo قَالَ رَبُّكُمْ وَرَبُّ اٰبَاۗىِٕكُمُ الْاَوَّلِيْنَo قَالَ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِيْٓ اُرْسِلَ اِلَيْكُمْ لَمَجْنُوْنٌo قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَہُمَا۰ۭ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَo قَالَ لَىِٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰــہًا غَيْرِيْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِيْنَo (الشعرائ۲۶: ۲۳۔۲۹)
فرعون نے کہا: اور یہ ربّ العٰلمین کیا ہے؟ موسیٰ نے جواب دیا: زمین وآسمان اور ہر اس چیز کا ربّ جو ان کے درمیان ہے اگر تم یقین کرنے والے ہو۔ فرعون اپنے گرد وپیش کے لوگوں سے بولا، سنتے ہو؟ موسیٰ ؑ نے کہا: تمھارا رب بھی اور تمھارے آبائو اجداد کا رب بھی۔ فرعون بولا: تمھارے یہ رسول صاحب جو تمھاری طرف بھیجے گئے ہیں، بالکل ہی پاگل ہیں۔ موسیٰ ؑ نے کہا: مشرق اور مغرب اور ہر اس چیز کا رب جو ان کے درمیان ہے اگر تم کچھ عقل رکھتے ہو۔ اس پر فرعون بول اٹھا کہ اگر میرے سوا تو نے کسی اور کو الٰہ بنایا تو میں تجھے قیدیوں میں شامل کر دوں گا۔
قَالَ اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يٰمُوْسٰىo (طٰہٰ۲۰:۵۷)
فرعون نے کہا: اے موسیٰ! کیا تو اس لیے آیا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے ہمیں ہماری زمین سے بے دخل کر دے؟
وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِيْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰى وَلْيَدْعُ رَبَّہٗ۰ۚ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّبَدِّلَ دِيْنَكُمْ اَوْ اَنْ يُّظْہِرَ فِي الْاَرْضِ الْفَسَادَo (المومن۴۰: ۲۶)
اور فرعون نے کہا: چھوڑو مجھے کہ میں موسیٰ ؑ کو قتل کر دوں اور وہ اپنے رب کو مدد کے لیے پکار دیکھے۔ مجھے خطرہ ہے کہ وہ تمھارے دین کو بدل ڈالے گا یا ملک میں فساد برپا کرے گا۔
قَالُوْٓا اِنْ ھٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ يُرِيْدٰنِ اَنْ يُّخْرِجٰكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِہِمَا وَيَذْہَبَا بِطَرِيْقَتِكُمُ الْمُثْلٰىo (طٰہٰ۲۰:۶۳)
انھوں نے کہا: کہ یہ دونوں تو جادو گر ہیں۔ چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمھاری زمین سے بے دخل کریں اور تمھارے مثالی طریقِ زندگی کو مٹا دیں۔
ان تمام آیات کو ترتیب وار دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ربوبیت کے باب میں وہی ایک گم راہی جو ابتدا سے دنیا کی مختلف قوموں میں چلی آ رہی تھی ارضِ نیل میں بھی ساری ظلمت اسی کی تھی اور وہی ایک دعوت جو ابتدا سے تمام انبیادیتے چلے آ رہے تھے، موسیٰ وہارون علیہما السلام بھی اُسی کی طرف بلاتے تھے۔
یہود ونصارٰی
قومِ فرعون کے بعد ہمارے سامنے بنی اسرائیل اور وہ دوسری قومیں آتی ہیں جنھوں نے یہودیّت اور عیسائیت اختیار کی۔ ان کے متعلق یہ تو گمان بھی نہیں کیا جا سکتا کہ یہ لوگ اللہ کی ہستی کے منکر ہوں گے یا اسے الٰہ اور رب نہ مانتے ہوں گے۔ اس لیے خود قرآن نے ان کے اہلِ کتاب ہونے کی تصدیق کی ہے پھر سوال یہ ہے کہ ربوبیت کے باب میں ان کے عقیدے اور طرزِ عمل کی وہ کون سی خاص غلطی ہے؟ جس کی بِنا پر قرآن نے ان لوگوں کو گم راہ قرار دیا ہے اس کا مجمل جواب خود قرآن ہی سے ملتا ہے:
قُلْ يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَہْوَاۗءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِo (المائدہ۵:۷۷)
کہو اے اہلِ کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو، اور ان قوموں کے فاسد خیالات کی پیروی نہ کرو جو تم سے پہلے گم راہ ہو چکی ہیں، جنھوں نے بہتوں کو گم راہی میں مبتلا کیا اور خود بھی راہِ راست سے بھٹک گئیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہودی اور عیسائی قوموں کی گم راہی بھی اصلاً اسی نوعیت کی ہے جس میں ان سے پہلے کی قومیں ابتداسے مبتلا ہوتی چلی آئی ہیں۔ نیز اس سے یہ بھی پتا چل گیا کہ یہ گم راہی ان کے اندر غلو فی الدین کے راستہ سے آئی ہے۔ اب دیکھیے کہ اس اجمال کی تفصیل قرآن کس طرح کرتا ہے:
وَقَالَتِ الْيَہُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللہِ۰ۭ
(التوبہ۹: ۳۰)
یہودیوں نے کہا کہ عُزیر اللہ کا بیٹا ہے، اورنصارٰی نے کہا کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ہُوَالْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ۰ۭ وَقَالَ الْمَسِيْحُ يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اعْبُدُوا اللہَ رَبِّيْ وَرَبَّكُمْ۰ۭ (المائدہ۵: ۷۲)
کفرکیا ان عیسائیوں نے جنھوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے۔ حالانکہ مسیح نے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی۔
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ثَالِثُ ثَلٰــثَۃٍ۰ۘ وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّآ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۰ۭ
(المائدہ۵:۷۳)
کفر کیا ان لوگوں نے جنہوںنے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے۔ حالانکہ ایک الٰہ کے سوا کوئی دوسرا الٰہ ہے ہی نہیں۔
وَاِذْ قَالَ اللہُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَاُمِّيَ اِلٰــہَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللہِ۰ۭ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ۰ۤ بِحَقٍّ۰ۭ۬
(المائدہ۵:۱۱۶)
اور جب اللہ پوچھے گا کہ اے مریم کے بیٹے عیسیٰ! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی الٰہ بنا لو، تو وہ جواب میں عرض کریں گے کہ سبحان اللہ میری کیا مجال تھی کہ میں وہ بات کہتا کہ جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہ تھا۔
مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤْتِيَہُ اللہُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَo وَلَا يَاْمُرَكُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰۗىِٕكَۃَ وَالنَّبِيّٖنَ اَرْبَابًا۰ۭ اَيَاْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَo
(آلِ عمران۳:۷۹۔۸۰)
کسی انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تو اسے کتاب اور حکم اور نبوت سے سرفراز کرے اور پھر وہ لوگوں سے یہ کہے کہ تم اللہ کو چھوڑ کرمیرے بندے بن جائو، بلکہ وہ تو یہی کہے گا کہ ربّانی (خدا پرست) بنو۔ جس طرح تم خدا کی کتاب میں پڑھتے پڑھاتے ہو اور جس کے درس دیا کرتے ہو۔ اور نہ نبی کا یہ کام ہے کہ وہ تمھیں یہ حکم دے کہ ملائکہ اور پیغمبروں کو رب بنالو۔ کیا وہ تمھیں کفر کی تعلیم دے گا جب کہ تم مسلمان ہو چکے ہو۔
ان آیات کی رُوسے اہل کتاب کی پہلی گم راہی یہ تھی کہ جو بزرگ ہستیاں … انبیا، اولیا اور ملائکہ وغیرہ… دینی حیثیت سے قدر ومنزلت کی مستحق تھیں، انھیں انھوں نے ان کے حقیقی مرتبہ سے بڑھا کر خدائی کے مرتبہ میں پہنچا دیا، کاروبارِ خداوندی میں انھیں دخیل وشریک ٹھہرایا، ان کی پرستش کی، ان سے دعائیں مانگیں۔ انھیں فوق الفطری ربوبیت اور اُلوہیّت میں حصہ دار سمجھا، اور یہ گمان کیا کہ وہ بخشش اور مددگاری اور نگاہ بانی کے اختیارات رکھتی ہیں۔
اس کے بعد ان کی دوسری گم راہی یہ تھی کہ:
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ ۔ (التوبہ۹: ۳۱)
انھوں نے اللہ کے سوا اپنے علما اور مشائخ کو بھی اپنا رب بنا لیا۔
یعنی نظامِ دینی میں جن لوگوں کی حیثیت صرف یہ تھی کہ خدا کی شریعت کے احکام بتائیں اور خدا کی مرضی کے مطابق اخلاق کی اصلاح کریں، انھیں رفتہ رفتہ یہ حیثیت دے دی کہ باختیارِ خود جس چیز کو چاہیں حرام اور جسے چاہیں حلال ٹھہرا دیں اور کتابِ الٰہی کی سند کے بغیر جو حکم چاہیں دیں، جس چیز سے چاہیں منع کر دیں اور جو سنت چاہیں جاری کریں۔ اس طرح یہ لوگ انھی دو عظیم الشان بنیادی گم راہیوں میں مبتلا ہو گئے جن میں قومِ نوح ؑ، قومِ ابراہیمؑ، عاد، ثمود، اہلِ مدین اور دُوسری قومیں مبتلا ہوئی تھیں۔ ان کی طرح انھوں نے بھی فوق الطبیعی ربوبیت میں فرشتوں اور بزرگوں کو اللہ کا شریک بنایا۔ اور انھی کی طرح انھوں نے تمدنی وسیاسی ربوبیت اللہ کے بجائے انسانوں کو دی اور اپنے تمدن، معاشرت، اخلاق اور سیاست کے اصول واحکام اللہ کی سند سے بے نیاز ہو کر انسانوں سے لینا شروع کر دیے حتّٰی کہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ:
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ
(النسائ۴: ۵۱)
تم نے دیکھا ان لوگوں کو جنھیں کتاب اللہ کا ایک حصہ ملا ہے اور ان کی حالت یہ ہے کہ جبت اور طاغوت کو مان رہے ہیں۔
قُلْ ہَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ مَثُوْبَۃً عِنْدَ اللہِ۰ۭ مَنْ لَّعَنَہُ اللہُ وَغَضِبَ عَلَيْہِ وَجَعَلَ مِنْہُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَـنَازِيْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوْتَ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضَلُّ عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِo (المائدہ۵: ۶۰)
کہو! مَیں تمھیں بتائوں اللہ کے نزدیک فاسقین سے بھی زیادہ بدتر انجام کس کا ہے؟ وہ جن پر اللہ نے لعنت کی ، جن پر اُس کا غضب ٹوٹا، جن میں بہت سے لوگ اس کے حکم سے بندر اور سؤر تک بنائے گئے اور انھوں نے طاغوت کی بندگی کی، وہ سب سے بدتر درجہ کے لوگ ہیں اور راہِ راست سے بہت زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔
’’جبت‘‘ کا لفظ تمام اوہام وخرافات کے لیے جامع لفظ ہے جس میں جادو، ٹونے، ٹوٹکے، کہانت، فال گیری، سعدونحس کے تصورات، غیر فطری تاثیرات، غرض جملہ اقسام کے توہمات شامل ہیں۔ اور ’’طاغوت‘‘ سے مراد ہر وہ شخص یا گروہ یا ادارہ ہے جس نے خدا کے مقابلہ میں سرکشی اختیار کی ہو، اوربندگی کی حد سے تجاوز کرکے خداوندی کا عَلم بلند کیا ہو۔ پس یہودونصارٰی جب مذکورہ بالا دو قسم کی گم راہیوں میں پڑ گئے تو پہلی قسم کی گم راہی کا نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ ہر قسم کے توہمات نے ان کے دلوں اور دماغوں پر قبضہ کر لیا، اور دوسری گم راہی نے انھیں علما ومشائخ اور زہاد وصوفیہ کی بندگی سے بڑھا کر ان جباروں اور ظالموں کی بندگی واطاعت تک پہنچا دیا جو کھلم کھلا خدا سے باغی تھے۔
مشرکینِ عرب
اب دیکھنا چاہیے کہ وہ عرب کے مشرکین جن کی طرف نبی a مبعوث ہوئے، اور جو قرآن کے اوّلین مخاطب تھے، اس باب میں ان کی گم راہی کس نوعیت کی تھی؟ کیا وہ اللہ سے ناواقف تھے یا اس کی ہستی کے منکر تھے اور نبی a اس لیے بھیجے گئے تھے کہ انھیں وجودِ باری کا معترف بنائیں؟ کیا وہ اللہ کو الٰہ اور رب نہیں مانتے تھے اور قرآن اس لیے نازل ہوا تھا کہ انھیں حق جلّ شانہٗ کی الٰہیّت وربوبیت کا قائل کرے؟ کیا انھیں اللہ کی عبادت وپرستش سے انکار تھا؟ یا وہ اللہ کو دعائیں سننے والا اور حاجتیں پوری کرنے والا نہیں سمجھتے تھے؟ کیا ان کا خیال یہ تھا کہ لاتؔ اور مناتؔ اور عُزّیٰؔ اور ہُبلؔ اور دوسرے معبود ہی اصل میں کائنات کے خالق، مالک، رازق، اور مدبر ومنتظم ہیں؟ یا وہ اپنے ان معبودوں کو قانون کا منبع اور اخلاق وتمدن کے مسائل میں ہدایت وراہ نُمائی کا سرچشمہ مانتے تھے؟ ان میں سے ایک ایک سوال کا جواب ہمیں قرآن سے نفی کی صورت میں ملتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ عرب کے مشرکین نہ صرف یہ کہ اللہ کی ہستی کے قائل تھے،بلکہ اسے تمام کائنات کا اور خود اپنے معبودوں تک کا خالق، مالک اور خداوندِ اعلیٰ مانتے تھے اسے رَبّ اور الٰہ تسلیم کرتے تھے۔ مشکلات اور مصائب میں آخری اپیل وہ جس سرکار میں کرتے تھے وہ اللہ ہی کی سرکار تھی۔ انھیں الہ کی عبادت وپرستش سے بھی انکار نہ تھا۔ ان کا عقیدہ اپنے دیوتائوں اور معبودوں کے بارے میں نہ تو یہ تھا کہ وہ ان کے اور کائنات کے خالق ورازق ہیں اور نہ یہ کہ یہ معبود زندگی کے تمدنی واخلاقی مسائل میں ہدایت وراہ نُمائی کرتے ہیں۔ چنانچہ ذیل کی آیات اس پر شاہد ہیں:
قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِيْہَآ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ۰ۭ قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَo قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِo سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ۰ۭ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَo قُلْ مَنْۢ بِيَدِہٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّہُوَيُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْہِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ۰ۭ قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُوْنَo بَلْ اَتَيْنٰہُمْ بِالْحَقِّ وَاِنَّہُمْ لَكٰذِبُوْنَo (المومنون۲۳: ۸۴۔۹۰)
اے نبیؐ! ان سے کہو، زمین اور جو کچھ زمین میں ہے وہ کس کی مِلک ہے؟ بتائو اگر تم جانتے ہو؟ وہ کہیں گے کہ اللہ کی ملک ہے۔ کہو پھر بھی تم نصیحت قبول نہیں کرتے؟ کہو، ساتوں آسمانوں اور عرشِ عظیم کا رب کون ہے؟ وہ کہیں گے اللہ۔ کہو پھر بھی تم نہیں ڈرتے؟ کہو ہر چیز کے شاہانہ اختیارات کس کے ہاتھ میں ہیں؟ اور وہ کون ہے جو پناہ دیتا ہے مگر اس کے مقابلہ میں پناہ دینے کی طاقت کسی میں نہیں بتائو اگر تم جانتے ہو؟ وہ کہیں گے یہ صفت اللہ ہی کی ہے۔ کہو پھر کہاں سے تمھیں دھوکا لگتا ہے؟ حق یہ ہے کہ ہم نے صداقت ان کے سامنے پیش کر دی ہے اور یہ لوگ یقینا جھوٹے ہیں۔
ھُوَالَّذِيْ يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۰ۭ حَتّٰٓي اِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ۰ۚ وَجَرَيْنَ بِہِمْ بِرِيْحٍ طَيِّبَۃٍ وَّفَرِحُوْا بِہَا جَاۗءَتْہَا رِيْحٌ عَاصِفٌ وَّجَاۗءَھُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ اُحِيْطَ بِہِمْ۰ۙ دَعَوُا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۰ۥۚ لَىِٕنْ اَنْجَيْـتَنَا مِنْ ہٰذِہٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَo فَلَمَّآ اَنْجٰىھُمْ اِذَا ھُمْ يَبْغُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ۰ۭ (یونس۱۰:۲۲۔۲۳)
وہ اللہ ہی ہے جو تمھیں خشکی اور تری میں چلاتا ہے حتّٰی کہ جس وقت تم کشتی میں سوار ہو کر بادِ موافق پر فرحاں وشاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک بادِ مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور تم سمجھتے ہو کہ طوفان میں گِھر گئے اُس وقت سب اللہ ہی کو پکارتے ہیں اور اسی کے لیے اپنے دین کو خالص کرکے دعائیں مانگتے ہیں کہ اگر تو نے اس بلا سے ہمیں بچا لیا تو ہم تیرے شکر گزار بندے بنیں گے، مگر جب وہ انھیں بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہو کر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں۔
وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاہُ۰ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ۰ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًاo (بنی اسرائیل۱۷:۶۷)
جب سمندر میں تم پر کوئی آفت آتی ہے تو اس ایک رب کے سوا اور جن جن کو تم پکارتے ہو وہ سب گم ہو جاتے ہیں مگر جب وہ تمھیں بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے پھر جاتے ہو۔ سچ یہ ہے کہ انسان بڑا ناشکرا ہے۔
اپنے معبودوں کے متعلق ان کے جو خیالات تھے وہ خود انھی کے الفاظ میں قران اس طرح نقل کرتا ہے:
وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۰ۘ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللہِ زُلْفٰى۰ۭ
(الزمر۳۹: ۳)
جن لوگوں نے اللہ کے سوا دُوسرے ولی اور کارساز ٹھہرا رکھے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں۔
وَيَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَ اللہِ۰ۭ (یونس۱۰: ۱۸)
اور وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے حضور میں ہمارے سفارشی ہیں۔
پھر وہ اپنے معبودوں کے بارے میں اس قسم کا بھی کوئی گمان نہ رکھتے تھے کہ وہ مسائل زندگی میں ہدایت بخشنے والے ہیں۔ چنانچہ سورۂ یونس میں اللہ اپنے نبی a کو حکم دیتا ہے کہ:
قُلْ ہَلْ مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ مَّنْ يَّہْدِيْٓ اِلَى الْحَقِّ۰ۭ (یونس۱۰:۳۵)
ان سے پوچھو، تمھارے ٹھیرائے ہوئے ان شریکوں میں سے کوئی حق کی طرف راہ نُمائی کرنے والا بھی ہے؟
لیکن یہ سوال سن کر ان پر سکوت چھا جاتا ہے ان میں سے کوئی یہ جواب نہیں دیتا کہ ہاں لات یا منات یا عزّٰی یا دوسرے معبود ہمیں فکر وعمل کی صحیح راہیں بتاتے ہیں اور وہ دنیا کی زندگی میں عدل اور سلامتی اور امن کے اُصول ہمیں سکھاتے ہیں اور ان کے سرچشمۂ علم سے ہمیں کائنات کے بنیادی حقائق کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ تب اللہ اپنے نبی ؐسے فرماتا ہے:
قُلِ اللہُ يَہْدِيْ لِلْحَقِّ۰ۭ اَفَمَنْ يَّہْدِيْٓ اِلَى الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ يُّتَّبَعَ اَمَّنْ لَّا يَہِدِّيْٓ اِلَّآ اَنْ يُّہْدٰى۰ۚ فَمَا لَكُمْ۰ۣ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَo (یونس۱۰:۳۵)
کہو، مگر اللہ حق کی طرف راہ نُمائی کرتا ہے، پھر بتائو کون اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے؟ وہ جو حق کی طرف راہ نُمائی کرتا ہے، یا وہ جو خود ہدایت نہیں پاتا الّا یہ کہ اس کی راہ نُمائی کی جائے؟ تمھیں کیا ہو گیا ہے، کیسے فیصلے کر رہے ہو؟
ان تصریحات کے بعد اب یہ سوال حل طلب رہ جاتا ہے کہ ربوبیت کے باب میں ان کی وہ اصل گم راہی کیا تھی؟ جس کی اصلاح کرنے کے لیے اللہ نے اپنے نبی کو بھیجا اور کتاب نازل کی۔ اس سوال کی تحقیق کے لیے جب ہم قرآن میں نظر کرتے ہیں تو ان کے عقائد واعمال میں بھی ہمیں انھی دو بنیادی گم راہیوں کا سراغ ملتا ہے جو قدیم سے تمام گم راہ قوموں میں پائی جاتی رہی ہیں، یعنی:
ایک طرف فوق الطبیعی ربوبیت والٰہیت میں وہ اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہوں اور ارباب کو شریک ٹھہراتے تھے، اور یہ سمجھتے تھے کہ سلسلۂ اسباب پر جو حکومت کار فرما ہے اس کے اختیارات واقتدارات میں کسی نہ کسی طور پر ملائکہ اور بزرگ انسان اور اجرامِ فلکی وغیرہ بھی دخل رکھتے ہیں اسی بنا پر دعا اور استعانت اور مراسمِ عبودیت میں وہ صرف اللہ کی طرف رجوع نہیں کر تے تھے بلکہ ان بناوٹی خدائوں کی طرف بھی رجوع کیا کرتے تھے۔
دُوسری طرف تمدنی وسیاسی ربوبیت کے باب میں ان کا ذہن اس تصور سے بالکل خالی تھا کہ اللہ اس معنی میں بھی رب ہے، اس معنی میں وہ اپنے مذہبی پیشوائوں، اپنے سرداروں اور اپنے خاندان کے بزرگوں کو رب بنائے ہوئے تھے اور انھی سے اپنی زندگی کے قوانین لیتے تھے۔
چنانچہ پہلی گم راہی کے متعلق قرآن یہ شہادت دیتا ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللہَ عَلٰي حَرْفٍ۰ۚ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَيْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِہٖ۰ۚ وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُۨ انْقَلَبَ عَلٰي وَجْہِہٖ۰ۣۚ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃَ۰ۭ ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُo يَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَضُرُّہٗ وَمَا لَا يَنْفَعُہٗ۰ۭ ذٰلِكَ ہُوَالضَّلٰلُ الْبَعِيْدُo يَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّہٗٓ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِہٖ۰ۭ لَبِئْسَ الْمَوْلٰى وَلَبِئْسَ الْعَشِيْرُo (الحج۲۲: ۱۱۔۱۳)
انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو خدا پرستی کی سرحد پرکھڑا ہو کر اللہ کی عبادت کرتا ہے۔فائدہ ہوا تو مطمئن ہو گیا اور جو کوئی تکلیف پہنچ گئی تو اُلٹا پھر گیا۔ یہ شخص دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ اُٹھانے والا ہے۔ وہ اللہ سے پھر کر انھیں پکارنے لگتا ہے جو نہ اسے نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ فائدہ پہنچانے کی۔ یہی بڑی گم راہی ہے۔ وہ مدد کے لیے انھیں پکارتا ہے جنھیں پکارنے کا نقصان بہ نسبت نفع کے زیادہ قریب ہے کیسا بُرا مولیٰ ہے اور کیسا برا ساتھی ہے۔
وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ وَيَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَ اللہِ۰ۭ قُلْ اَتُنَبِّـــــُٔوْنَ اللہَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ۰ۭ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَo (یونس۱۰:۱۸)
یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر اُن کی عبادت کرتے ہیں جو نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان اور کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے حضور ہمارے سفارشی ہیں، کہو (اے پیغمبرﷺ!)کیا تم اللہ کو اس بات کی خبر دیتے ہو جو اس کے علم میں نہ آسمانوں میں ہے نہ زمین{ FR 7438 } میں؟ اللہ پاک ہے اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں۔
قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَہٗٓ اَنْدَادًا۰ۭ
(حٰم السجدہ۴۱: ۹)
اے نبیؐ! ان سے کہو، کیا واقعی تم اُس خدا سے جس نے دو دن میں زمین کو پیدا کر دیا کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہم سَر اور مدِّمقابل بناتے ہو؟
قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا۰ۭ وَاللہُ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُo (المائدہ۵: ۷۶)
کہو، کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُن کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمھارے لیے نقصان کا کچھ اختیار رکھتے ہیں نہ فائدے کا؟ حالانکہ سننے اور جاننے والا تو اللہ ہی ہے۔
وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّہٗ مُنِيْبًا اِلَيْہِ ثُمَّ اِذَا خَوَّلَہٗ نِعْمَۃً مِّنْہُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُوْٓا اِلَيْہِ مِنْ قَبْلُ وَجَعَلَ لِلہِ اَنْدَادًا لِّيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِہٖ۰ۭ
(الزمر۳۹: ۸)
اور جب انسان پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو یک سُو ہو کر اپنے رب ہی کو پکارتا ہے، مگر جب وہ اپنی نعمت سے اسے سرفراز کرتا ہے تو یہ اس مصیبت کو بھول جاتا ہے جس میں مدد کے لیے اس سے پہلے اللہ کوپکار رہا تھا اور اللہ کے ہم سَر ٹھہرانے لگتا ہے۔{ FR 7439 } تاکہ یہ حرکت اسے اللہ کے راستہ سے بھٹکا دے۔
وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْہِ تَجْــــَٔــرُوْنَo ثُمَّ اِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْكُمْ بِرَبِّہِمْ يُشْرِكُوْنَo لِيَكْفُرُوْا بِمَآ اٰتَيْنٰہُمْ۰ۭ فَتَمَتَّعُوْا۰ۣ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَo وَيَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا يَعْلَمُوْنَ نَصِيْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰہُمْ۰ۭ تَاللہِ لَتُسْـــَٔـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَo (النحل ۱۶: ۵۳۔۵۶)
تمھیں جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ کی بخشش سے حاصل ہے۔ جب تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اللہ ہی کی طرف فریاد لے کر تم جاتے ہو، مگر جب وہ اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتا ہے تو تم میں سے کچھ لوگ ہیں جو (اس مشکل کشائی میں) دوسروں کو شریک ٹھہرانے لگتے ہیں تاکہ ہمارے احسان کا جواب احسان فراموشی سے دیں۔ اچھا مزے کر لو۔ عن قریب تمھیں اس کا انجام معلوم ہو جائے گا۔ یہ لوگ جنھیں نہیں جانتے ان کے لیے ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے حصے{ FR 7440 } مقرر کرتے ہیں۔ خدا کی قسم جو افترا پردازیاں تم کرتے ہو ان کی باز پرس تم سے ہو کر رہے گی۔
رہی دُوسری گم راہی تو اس کے متعلق قرآن کی شہادت یہ ہے:
وَكَذٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيْرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ قَتْلَ اَوْلَادِہِمْ شُرَكَاۗؤُہُمْ لِيُرْدُوْہُمْ وَلِيَلْبِسُوْا عَلَيْہِمْ دِيْنَہُمْ۰ۭ (الانعام۶: ۱۳۷)
اور اسی طرح بہت سے مشرکین کے لیے ان کے بنائے ہوئے شریکوں نے اپنی اولاد کا قتل پسندیدہ بنا دیا تاکہ انھیں ہلاکت میں مبتلا کریں اور ان کے دین کو ان کے لیے مشتبہ بنا دیں۔
ظاہر ہے کہ یہاں ’’شریکوں‘‘ سے مراد بت اور دیوتا نہیں ہیں بلکہ وہ پیشوا اور راہ نُما ہیں جنھوں نے قتلِ اولاد کو اہلِ عرب کی نگاہ میں ایک بھلائی اور خوبی کا کام بنایا اور حضرت ابراہیم ؑ واسماعیل ؑ کے دین میں اس رسمِ قبیح کی آمیزش کر دی۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ خدا کے ’’شریک‘‘ اس معنی میں قرار نہیں دیے گئے تھے کہ اہلِ عرب انھیں سلسلۂ اسباب پر حکم ران سمجھتے تھے یا ان کی پرستش کرتے اور ان سے دعائیں مانگتے تھے، بلکہ انھیں ربوبیت والٰہیت میں شریک اس لحاظ سے ٹھہرایا گیا تھا کہ اہلِ عرب ان کے اس حق کو تسلیم کرتے تھے کہ تمدنی ومعاشرتی مسائل اور اخلاقی ومذہبی اُمور میں وہ جیسے چاہیں قوانین مقرر کر دیں۔
اَمْ لَہُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِہِ اللہُ۰ۭ (الشوریٰ۴۲: ۲۱)
کیا یہ ایسے شریک بنائے بیٹھے ہیں جنھوں نے ان کے لیے دین کی قسم سے وہ قانون بنا دیا جس کا اللہ نے کوئی اِذن نہیں دیا ہے۔
لفظ ’’دین‘‘ کی تشریح آگے چل کر بیان ہو گی اور وہیں اس آیت کے مفہوم کی وسعت بھی پوری طرح واضح ہو سکے گی، لیکن یہاں کم از کم یہ بات تو صاف معلوم ہو جاتی ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر ان کے پیشوائوں اور سرداروں کا ایسے ضابطے اور قاعدے مقرر کرنا جو ’’دین‘‘ کی نوعیت رکھتے ہوں اور اہلِ عرب کا ان ضابطوں اور قاعدوں کو واجب التقلید مان لینا یہی ربوبیت والٰہیت میں ان کا خدا کے ساتھ شریک بننا اور یہی اہلِ عرب کا ان کی شرکت کو تسلیم کر لینا تھا۔
قرآن کی دعوت
گم راہ قوموں کے تخیّلات کی یہ تحقیق جو پچھلے صفحات میں کی گئی ہے۔ اس حقیقت کو بالکل بے نقاب کر دیتی ہے کہ قدیم ترین زمانہ سے لے کر زمانۂ نزولِ قرآن تک جتنی قوموں کا ذکر قرآن نے ظالم، فاسد العقیدہ اور بدراہ ہونے کی حیثیت سے کیا ہے، ان میں سے کوئی بھی خدا کی ہستی کی منکر نہ تھی، نہ کسی کو اللہ کے مطلقاً رب اور الٰہ ہونے سے انکار تھا، البتہ ان سب کی اصل گم راہی اور مشترک گم راہی یہ تھی کہ انھوں نے ربوبیت کے اُن پانچ مفہومات کو جو ہم ابتدا میں لغت اور قرآن کی شہادتوں سے متعین کر چکے ہیں، دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
ربّ کا یہ مفہوم کہ وہ فوق الفطری طور پر مخلوقات کی پرورش، خبر گیری، حاجت روائی اور نگاہ بانی کا کفیل ہوتا ہے، ان کی نگاہ میں ایک الگ نوعیت رکھتا تھا، اور اس مفہوم کے اعتبار سے وہ اگرچہ ربِّ اعلیٰ تو اللہ ہی کو مانتے تھے، مگر اس کے ساتھ فرشتوں اور دیوتائوں کو، جنوں کو، غیر مرئی قوتوں کو، ستاروں اور سیاروں کو، انبیا اور اولیا اور روحانی پیشوائوں کو بھی ربوبیت میں شریک ٹھیراتے تھے۔
اور ربّؔ کا یہ مفہوم کہ وہ امر ونہی کا مختار، اقتدارِ اعلیٰ کا مالک، ہدایت وراہ نُمائی کا منبع، قانون کا ماخذ، مملکت کا رئیس اور اجتماع کا مرکز ہوتا ہے، ان کے نزدیک بالکل ہی ایک دوسری حیثیت رکھتاتھا اور اس مفہوم کے اعتبار سے وہ یا تو اللہ کی بجائے صرف انسانوں کو رب مانتے تھے یا نظریے کی حد تک اللہ کو رب ماننے کے بعد عملاً انسانوں کی اخلاقی وتمدنی اور سیاسی ربوبیت کے آگے سرِ اطاعت خم کیے دیتے تھے۔
اسی گم راہی کو دور کرنے کے لیے ابتدا سے انبیا علیہم السلام آتے رہے ہیں اور اسی کے لیے آخر کار محمد a کی بعثت ہوئی۔ ان سب کی دعوت یہ تھی کہ ان تمام مفہومات کے اعتبار سے رب ایک ہی ہے اور وہ اللہ جل شانہ ہے۔ ربوبیت ناقابلِ تقسیم ہے۔ اس کا کوئی جز کسی معنی میں بھی کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہے۔ کائنات کا نظام ایک کامل مرکزی نظام ہے جسے ایک ہی خدا نے پیدا کیا۔ جس پر ایک خدا فرماں روائی کر رہا ہے، جس کے سارے اختیارات واقتدارات کا مالک ہی خدا ہے۔ نہ اس نظام کے پیدا کرنے میں کسی دوسرے کا کچھ دخل ہے، نہ اس کی تدبیر وانتظام میں کوئی شریک ہے، اور نہ اس کی فرماں روائی میں کوئی حصہ دار ہے۔ مرکزی اقتدار کا مالک ہونے کی حیثیت سے وہی اکیلا خدا تمھارا فوق الفطری رب بھی ہے اور اخلاقی وتمدنی اور سیاسی رب بھی۔ وہی تمھارا معبود ہے۔ وہی تمھارے سجدوں اور رکوعوں کا مرجع ہے۔ وہی تمھاری دعائوں کا ملجا وماوٰی ہے۔ وہی تمھارے توکل واعتماد کا سہارا ہے۔ وہی تمھاری ضرورتوں کا کفیل ہے اور اسی طرح وہی بادشاہ ہے۔ وہی مالک الملک ہے۔ وہی شارع وقانون ساز اور امر ونہی کا مختار بھی ہے۔ ربوبیت کی یہ دونوں حیثیتیں جنھیں جاہلیت کی وجہ سے تم نے ایک دوسرے سے الگ ٹھہرا لیا ہے، حقیقت میں خدائی لازمہ اور خدا کے خدا ہونے کا خاصہ ہیں۔ انھیں نہ ایک دُوسرے سے منفک کیا جا سکتا ہے، اور نہ ان میں سے کسی حیثیت میں بھی مخلوقات کو خدا کا شریک ٹھیرانا دُرست ہے۔
اس دعوت کو قرآن جس طریقہ سے پیش کرتا ہے وہ خود اسی کی زبان سے سنیے:
اِنَّ رَبَّكُمُ اللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِـتَّۃِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ۰ۣ يُغْشِي الَّيْلَ النَّہَارَ يَطْلُبُہٗ حَثِيْثًا۰ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍؚبِاَمْرِہٖ۰ۭ اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۰ۭ تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَo
(الاعراف۷: ۵۴)
حقیقت میں تمھارا رب تو اللہ ہے جس نے آسمان وزمین کو چھے دن میں پیدا کیا اور پھر اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ افروز ہو گیا، جو دن کو رات کا لباس اڑھاتا ہے اور پھر رات کے تعاقب میں دن تیزی کے ساتھ دوڑ آتا ہے، سورج اور چاند اور تارے سب کے سب جس کے تابع فرماں ہیں۔ سنو! خلق اسی کی ہے اور فرماں روائی بھی اسی کی۔ بڑا بابرکت ہے وہ کائنات کا رَبّ۔
قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْـحَيِّ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ۰ۭ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللہُ۰ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَo فَذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ۰ۚ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ۰ۚۖ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَo (یونس۱۰: ۳۱۔۳۲)
ان سے پوچھو، کون تم کو آسمان وزمین سے رزق دیتا ہے؟ کانوں کی شنوائی اور آنکھوں کی بینائی کس کے قبضہ واختیار میں ہے؟ کون ہے جو بے جان کو جان دار میں سے اور جان دار کو بے جان میں سے نکالتا ہے؟ اور کون اس کارگاہِ عالم کا انتظام چلا رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے اللہ، کہو، پھر تم ڈرتے نہیں ہو؟ جب یہ سارے کام اسی کے ہیں تو تمھارا حقیقی رب اللہ ہی ہے۔ حقیقت کے بعد گم راہی کے سوا اورکیا رہ جاتا ہے؟ آخر کہاں سے تمھیں یہ ٹھوکر لگتی ہے کہ حقیقت سے پھرے جاتے ہو؟
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَـقِّ۰ۚ يُكَوِّرُ الَّيْلَ عَلَي النَّہَارِ وَيُكَوِّرُ النَّہَارَ عَلَي الَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۰ۭ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۰ۭ…… ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ لَہُ الْمُلْكُ۰ۭ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۰ۚ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَo (الزمر۳۹: ۵۔۶)
اس نے زمین وآسمان کو برحق پیدا کیا ہے۔ رات کو دن پر اور دن کو رات پر وہی لپیٹتا ہے۔ چاند اور سورج کو اسی نے ایسے ضابطے کا پابند بنایا ہے کہ ہر ایک اپنے مقررہ وقت تک چلے جا رہا ہے… یہی اللہ تمھارا رب ہے۔ بادشاہی اسی کی ہے۔ اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں۔ آخر یہ تم کہاں سے ٹھوکر کھا کر پھرے جاتے ہو؟
اَللہُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوْا فِيْہِ وَالنَّہَارَ مُبْصِرًا۰ۭ …… ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ۰ۘ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۰ۡۚ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَo …… اَللہُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً وَّصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ۰ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ۰ۚۖ فَتَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَo ہُوَالْـحَيُّ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَفَادْعُوْہُ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۰ۭ (المومن۴۰: ۶۱۔۶۵)
اللہ جس نے تمھارے لیے رات بنائی کہ اس میں تم سکون حاصل کرو۔ اور دن کو روشن کیا… وہی تمھارا اللہ تمھارا رب ہے، ہر چیز کا خالق، کوئی اور معبود اس کے سوا نہیں، پھر یہ کہاں سے دھوکا کھا کر تم بھٹک جاتے ہو؟… اللہ جس نے تمھارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا، اور آسمان کا گنبد بنا دیا، تمھاری صورتیں بنائیں اور خوب ہی صورتیں بنائیں، اور تمھاری غذا کے لیے پاکیزہ چیزیں مہیا کیں، وہی اللہ تمھارا رب ہے، بڑا بابرکت ہے وہ کائنات کا رب۔ وہی زندہ ہے۔ کوئی اور معبود اس کے سوا نہیں۔ اسی کو تم پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کرکے۔
وَاللہُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ……يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّہَارِ وَيُوْلِجُ النَّہَارَ فِي الَّيْلِ۰ۙ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۰ۡۖ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۰ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ لَہُ الْمُلْكُ۰ۭ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍo اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ۰ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ۰ۭ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ۰ۭ (فاطر۳۵: ۱۱ ۔۱۴)
اللہ نے تم کو مٹی سے پیدا کیا… وہ رات کو دن میں پرو دیتا ہے اور دن کو رات میں، اس نے چاند اور سورج کو ایسے ضابطہ کا پابند بنایا ہے کہ ہر ایک اپنے مقرر وقت تک چلے جا رہا ہے۔ یہی اللہ تمھارا رب ہے۔ بادشاہی اسی کی ہے۔ اس کے سوا جن دوسری ہستیوں کو تم پکارتے ہو ان کے ہاتھ میں ایک ذرّہ کا اختیار بھی نہیں ہے۔ تم پکارو تو وہ تمھاری پکاریں سن نہیں سکتے، اور سن بھی لیں تو تمھاری درخواست کا جواب دینا اُن کے بس میں نہیں۔ تم جو انھیں شریکِ خدا بناتے ہو اس کی تردید وہ خود قیامت کے دن کر دیں گے۔
وَلَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ كُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَo …… ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ۰ۭ ہَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ شُرَكَاۗءَ فِيْ مَا رَزَقْنٰكُمْ فَاَنْتُمْ فِيْہِ سَوَاۗءٌ تَخَافُوْنَہُمْ كَخِيْفَتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ۰ۭ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَo بَلِ اتَّبَعَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَہْوَاۗءَہُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ۰ۚ …… فَاَقِـمْ وَجْہَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا۰ۭ فِطْرَتَ اللہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا۰ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللہِ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ۰ۤۙ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَo
(الروم۳۰:۲۶۔۳۰)
آسمانوں کے رہنے والے ہوں یا زمین کے، سب اس کے غلام اور اس کے تابع فرمان ہیں… اللہ خود تمھاری اپنی ذات سے ایک مثال تمھارے سامنے بیان کرتا۔ کیا تمھارے غلاموں میں سے کوئی اُن چیزوں کی ملکیت میں تمھارا شریک ہوتا ہے جو ہم نے تمھیں بخشی ہیں؟ کیا ان چیزوں کے اختیارات وتصرفات میں تم اور تمھارے غلام مساوی ہوتے ہیں؟ کیا تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنے برابر والوں سے ڈرا کرتے ہو؟ جو لوگ عقل سے کام لینے والے ہیں ان کے لیے تو ہم حقیقت تک پہنچا دینے والی دلیلیں اس طرح کھول کر بیان کر دیتے ہیں مگر ظالم لوگ علم کے بغیر اپنے بے بنیاد خیالات کے پیچھے چلے جا رہے ہیں… لہٰذا تم بالکل یک سُو ہو کر حقیقی دین کے راستہ پر اپنے آپ کو ثابت قدم کر دو اللہ کی فطرت پر قائم ہو جائو۔ جس پر اس نے سب انسانوں کوپیدا کیا ہے۔ اللہ کی خلقت کو بدلانہ جائے۔ یہی ٹھیک سیدھا طریقہ ہے، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔
وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ۰ۤۖ وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِہٖ۰ۭ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَo (الزمر۳۹: ۶۷)
ان لوگوں نے اللہ کی عظمت وکبریائی کا اندازہ جیسا کہ کرنا چاہیے تھا، نہیں کیا۔ قیامت کے روز یہ دیکھیں گے کہ زمین پوری کی پوری اس کی مٹھی میں ہے اور آسمان اس کے ہاتھ میں سمٹے ہوئے ہیں۔ اس کی ذات منزّہ اور بالاترہے اس سے کہ کوئی اس کا شریک ہو، جیسا کہ یہ لوگ قرار دے رہے ہیں۔
فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَرَبِّ الْاَرْضِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo وَلَہُ الْكِبْرِيَاۗءُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰۠ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَـكِيْمُo (الجاثیہ۴۵: ۳۶۔۳۷)
پس ساری تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو زمین وآسمان اور تمام کائنات کا رب ہے۔ کبریائی اسی کی ہے۔ آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی۔ اور وہ سب پر غالب اور حکیم ودانا ہے۔
رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا فَاعْبُدْہُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہٖ۰ۭ ہَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِيًّاo (مریم۱۹: ۶۵)
وہ زمین اور آسمانوں کا مالک اور ان ساری چیزوں کا مالک ہے جو زمین وآسمان میں ہیں۔ لہٰذا تو اسی کی بندگی کر اور اس کی بندگی پر ثابت قدم رہ۔ کیا اس جیسا کوئی اور تیرے علم میں ہے؟
وَلِلہِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِلَيْہِ يُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّہٗ فَاعْبُدْہُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْہِ۰ۭ (ہود۱۱: ۱۲۳)
زمین اور آسمانوں کی ساری پوشیدہ حقیقتیں اللہ کے علم میں ہیں اور سارے معاملات اسی کی سرکار میں پیش ہوتے ہیں۔ لہٰذا تو اسی کی بندگی کر اور اسی پر بھروسا کر۔
رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَفَاتَّخِذْہُ وَكِيْلًاo (المزمل۷۳: ۹)
مشرق اور مغرب سب کا وہی مالک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ لہٰذا تُو اسی کو اپنا مختارِ کار بنا لے۔
اِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً۰ۡۖ وَاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِo وَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَيْنَہُمْ۰ۭ كُلٌّ اِلَيْنَا رٰجِعُوْنَo (الانبیا۲۱: ۹۲۔۹۳)
حقیقت میں تمھاری یہ امت ایک ہی امت ہے۔ اور میں تمھارا رب ہوں۔ لہٰذا تم میری ہی بندگی کرو۔ لوگوں نے اس کارِ ربوبیت اور اس معاملہ بندگی کو آپس میں خود ہی تقسیم کر لیا ہے مگر ان سب کو بہرحال ہماری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے۔
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۰ۭ (الاعراف۷:۳)
پیروی کرو اس کتاب کی جو تمھارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اور اسے چھوڑ کر دوسرے کارسازوں کی پیروی نہ کرو۔
قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍؚبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ۰ۭ
(آلِ عمران۳: ۶۴)
کہو، اے اہلِ کتاب آئو اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے یہ کہ ہم نہ تو اللہ کے سوا کسی کی بندگی کریں، نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیں اور نہ ہم میں سے کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنائے۔
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِo مَلِكِ النَّاسِo اِلٰہِ النَّاسِo (الناس۱۱۴: ۱۔۳)
کہو مَیں پناہ ڈھونڈتا ہوں اس کی جو انسانوں کا رب ،انسانوں کا بادشاہ اور انسانوں کا معبود ہے۔
فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّہٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًاo (الکہف۱۸: ۱۱۰)
پس جو اپنے رب کی ملاقات کا اُمیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی اور کی بندگی شریک نہ کرے۔
ان آیات کو سلسلہ وار پڑھنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ قرآن ربوبیت کو بالکل حاکمیت اور سلطانی (Sovereignty) کا ہم معنی قرار دیتا ہے اور ’’ربّ‘‘ کا یہ تصور ہمارے سامنے پیش کرتا ہے کہ وہ کائنات کا سلطانِ مطلق اور لاشریک مالک وحاکم ہے۔
اسیؔ حیثیت سے وہ ہمارا اور تمھارا، جہان کا پروردگار، مربی اور حاجت روا ہے۔
اسیؔ حیثیت سے اس کی وفاداری وہ قدرتی بنیاد ہے جس پر ہماری اجتماعی زندگی کی عمارت صحیح طور پر قائم ہوتی ہے۔ اور اس کی مرکزی شخصیت سے وابستگی تمام متفرق افراد اور گروہوں کے درمیان ایک امت کا رشتہ پیدا کرتی ہے۔
اسیؔ حیثیت سے وہ ہماری اور تمام مخلوقات کی بندگی، اطاعت اور پرستش کا مستحق ہے۔
اسیؔ حیثیت سے وہ ہمارا اور ہر چیز کا مالک، آقا اور فرماں روا ہے۔
اہلِ عرب اور دُنیا کے تمام جاہل لوگ ہر زمانہ میں اس غلطی میں مبتلا تھے اور اب تک ہیں کہ ربوبیت کے اس جامع تصور کو انھوں نے پانچ مختلف النّوع ربوبیتوں میں تقسیم کر دیا۔ اور اپنے قیاس وگمان سے یہ رائے قائم کی کہ مختلف قسم کی ربوبیتیں مختلف ہستیوں سے متعلق ہو سکتی ہیں اور متعلق ہیں قرآن اپنے طاقت وَر استدلال سے ثابت کرتا ہے کہ کائنات کے اس مکمل مرکزی نظام میں اس بات کی مطلق گنجائش نہیں ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ جس کے ہاتھ میں ہے اس کے سوا ربوبیت کا کوئی کام کسی دوسری ہستی سے کسی درجہ میں بھی متعلق ہو۔ اس نظام کی مرکزیت خود گواہ ہے کہ ہر طرح کی ربوبیت اُسی خدا کے لیے مختص ہے جو اس نظام کو وجود میں لایا۔ لہٰذا جو شخص اس نظام کے اندر رہتے ہوئے ربوبیت کا کوئی جز کسی معنی میں بھی خدا کے سوا کسی اور سے متعلق سمجھتا ہے یا متعلق کرتا ہے، وہ دراصل حقیقت سے لڑتا ہے، صداقت سے منہ موڑتا ہے، حق کے خلاف بغاوت کرتا ہے اور امرِواقعی کے خلاف کام کرکے اپنے آپ کو خود نقصان اور ہلاکت میں مبتلا کرتا ہے۔
خ خ خ
۳ عبادت: لغوی تحقیق
عربی زبان میں عبودۃ، عبودیہ اور عبدیۃ کے اصل معنی خضوع اور تذلّل کے ہیں۔ یعنی تابع ہو جانا، رام ہو جانا، کسی کے سامنے اس طرح سپر ڈال دینا کہ اس کے مقابلہ میں کوئی مزاحمت یا انحراف وسرتابی نہ ہو، اور وہ اپنے منشا کے مطابق جس طرح چاہے خدمت لے۔ اسی اعتبار سے اہلِ عرب اُس اونٹ کو بعیر مُعبّد کہتے ہیں جو سواری کے لیے پوری طرح رام ہو چکا ہو، اور اس راستے کو طریقِ معبّد جو کثرت سے پامال ہو کر ہموار ہو گیا ہو۔ پھر اسی اصل سے اس مادّہ میں غلامی، اطاعت، پوجا، ملازمت اور قید یا رُکاوٹ کے مفہومات پیدا ہوئے ہیں۔ چنانچہ عربی لغت کی سب سے بڑی کتاب ’’لسان العرب‘‘ میں اس کی جو تشریح کی گئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ اَلْعَبْدُ، اَلْممُلُوْکُ، خِلَافُ الْحُرِّ۔عبد وہ ہے جو کسی کی ملک ہو اور یہ لفظ حرّ (آزاد) کی ضد ہے۔ تعبَّدَالرّجلَ ’’آدمی کو غلام بنا لیا اس کے ساتھ غلام جیسا معاملہ کیا۔ یہی معنی عَبَّدَہٗ، اَعْبَدَ اور اعتَبَدَہٗ کے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے۔ ثَلٰثَۃٌ اَنَا خَصْمُھُمْ، رَجُلٌ اِعْتَبَدَ مُحرّرًا، (وفی روایۃ اعبد محررًا){ FR 7441 }تین آدمی ہیں جن کے خلاف قیامت کے دن میں مستغیث بنوں گا۔ من جملہ ان کے ایک وہ شخص ہے جو کسی آزاد کو غلام بنانے یا غلام کو آزاد کرنے کے بعد پھر اس سے غلام کا سا معاملہ کرے۔‘‘ حضرت موسیٰ نے فرعون سے کہا تھا:وَتِلْكَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَيَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَo (الشعرائ۲۶: ۲۲) اور تیرا وہ احسان جس کا طعنہ تو مجھے دے رہا ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا۔
۲۔ اَلْعِبَادَۃُ اَلطَّاعَۃُ مَعَ الْخُضُوْعِعبادت اس طاعت کو کہتے ہیں، جو پوری فرماں برداری کے ساتھ ہو۔ عَبَدَ الطَّاغُوْتَ اَیْ اَطَاعَہٗ،طاغوت کی عبادت کی، یعنی اس کا فرماں بردار ہو گیا۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ، اَیْ نُطِیْعُ الطَّاعَۃَ اَلَّتِیْ یَخْضَعُ مَعَھَا ہم تیری عبادت کرتے ہیں یعنی ہم تیری اطاعت پوری فرماں برداری کے ساتھ کرتے ہیں۔ اُعْبُدُوْا رَبَّکُمْ اَیْ اَطِیْعُوْا رَبَّکُمْ اپنے رب کی عبادت کرو، یعنی اس کی اطاعت کرو۔ قَوْمُھُمَا لَنَا عَابِدُوْنَ اَیْ دَائِنُوْنَ وکل من دان لملک فھو عابد لہ وقال ابن الانباری فلان عابد وھو الخاضع لربّہ المستسلم المنقاد لامرہ۔یعنی فرعون نے جو یہ کہا تھا کہ موسیٰ ؑ اور ہارونؑ کی قوم ہماری عابد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہماری تابع فرمان ہے۔ جو شخص کسی بادشاہ کا مطیع ہے وہ اس کا عابد ہے۔ اور ابن الانباری کہتا ہے فلان عابد کے معنی ہیں ۔وہ اپنے مالک کا فرماں بردار اور اس کے حکم کا مطیع ہے۔
۳۔ عبدہ عبادۃ ومعبدًا ومعبدۃ تَألَّہ لہ،اس کی عبادت کی، یعنی اس کی پوجا کی۔ التعبد التنسک،تعبّد سے مراد ہے کسی کا پرستار اور پجاری بن جانا۔ شاعر کہتا ہے اری المال عند الباخلین معبّدًا۔میں دیکھتا ہوں کہ بخیلوں کے ہاں روپیہ پُجتا ہے۔
۴۔ عبدہ وعبدبہ لزمہٗ فلم یفارقہ، عَبَدَہُ اور عَبَدَبِہٖ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ وابستہ ہو گیا اور جدا نہ ہوا، اس کا دامن تھام لیا اورچھوڑا نہیں۔
۵۔ ماعبدک عنی ای ماحبسک۔ جب کوئی شخص کسی کے پاس آنے سے رک جائے، تو وہ یوں کہے گا کہ ماعبدک عنّی، یعنی کس چیز نے تجھے میرے پاس آنے سے روک دیا۔
اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مادۂ عَبَدَ کا اساسی مفہوم کسی کی بالادستی وبرتری تسلیم کرکے اس کے مقابلہ میں اپنی آزادی وخود مختاری سے دست بردار ہو جانا، سرتابی ومزاحمت چھوڑ دینا اور اس کے لیے رام ہو جانا ہے یہی حقیقت بندگی وغلامی کی ہے۔ لہٰذا اس لفظ سے اوّلین تصوّر جو ایک عرب کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ بندگی وغلامی (۱) ہی کا تصور ہے۔ پھر چوں کہ غلام کا اصلی کام اپنے آقا کی اطاعت وفرماں برداری ہے، اس لیے لازماً اس کے ساتھ ہی اطاعت(۲) کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ اور جب کہ ایک غلام اپنے آقا کی بندگی واطاعت میں محض اپنے آپ کو سپرد ہی نہ کر چکا ہو بلکہ اعتقادًا اس کی برتری کا قائل اور اس کی بزرگی کا معترف بھی ہو، اور اس کی مہربانیوں پر شکر واحسان مندی کے جذبہ سے بھی سرشار ہو، تو وہ اس کی تعظیم وتکریم میں مبالغہ کرتا ہے، مختلف طریقوں سے اعترافِ نعمت کا اظہار کرتا ہے اور طرح طرح سے مراسمِ بندگی بجا لاتا ہے۔ اسی کا نام پرستش(۳) ہے اور یہ تصور عبدیّت کے مفہوم میں صرف اس وقت شامل ہوتا ہے جب کہ غلام کا محض سر ہی آقا کے سامنے جھکا ہوا نہ ہو بلکہ اس کا دل بھی جھکا ہوا ہو۔ رہے باقی دو تصورات تو وہ دراصل عبدیّت کے ضمنی تصورات ہیں، اصلی اور بنیادی نہیں ہیں۔
لفظِ عباد ت کا استعمال قرآن میں
اس لغوی تحقیق کے بعد جب ہم قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کتابِ پاک میں یہ لفظ تمام تر پہلے تین معنوں میں استعمال ہوا ہے کہیں معنیٔ اوّل ودوم ایک ساتھ مراد ہیں، کہیں معنیٔ دوم اور کہیں صرف معنیٔ سوم مراد لیے گئے ہیں، اور کہیں تینوں معنی بیک وقت مقصود ہیں۔
عبادت بمعنی غلامی واطاعت
پہلے اور دوسرے معنی کی مثالیں حسب ذیل ہیں:
ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى وَاَخَاہُ ہٰرُوْنَ۰ۥۙ بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍo اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕہٖ فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا عَالِيْنَo فَقَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَo (مومنون۲۳: ۴۵۔۴۷)
پھر ہم نے موسیٰ ؑاور اس کے بھائی ہارونؑ کو اپنی نشانیوں اور صریح دلیلِ ماموریت کے ساتھ فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت کی طرف بھیجا۔ مگر وہ تکبر سے پیش آئے، کیوں کہ وہ بااقتدار لوگ تھے۔ انھوں نے کہا کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں کا کہا مان لیں اور آدمی بھی وہ جن کی قوم ہماری عابد ہے۔
وَتِلْكَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَيَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَo (الشعرائ۲۶: ۲۲)
(فرعون نے جب موسیٰ ؑکو طعنہ دیا کہ ہم نے تجھے اپنے ہاں بچپن سے پالا ہے تو موسیٰ ؑ نے کہا) اور تیرا وہ احسان جس کا تو مجھے طعنہ دے رہا ہے۔ یہی تو ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو اپنا عبد بنا لیا۔
دونوں آیتوں میں عبادت سے مراد غلامی اور اطاعت وفرماں برداری ہے۔ فرعون نے کہا موسیٰ ؑ اور ہارون کی قوم ہماری عابد ہے، یعنی ہماری غلام ہے اور ہمارے فرمان کی تابع ہے۔ اور حضرت موسیٰ ؑنے کہا کہ تو نے بنی اسرائیل کو اپنا عبد بنا لیا ہے، یعنی انھیں غلام بنا لیا ہے اور ان سے من مانی خدمت لیتا ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَاشْكُرُوْا لِلہِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاہُ تَعْبُدُوْنَo (البقرہ۲: ۱۷۲)
اے ایمان لانے والو! اگر تم ہماری عبادت کرتے ہو تو ہم نے جو پاک چیزیں تمھیں بخشی ہیں انھیں کھائو اور خدا کا شکر ادا کرو۔
اس آیت کا موقع ومحل یہ ہے کہ اسلام سے پہلے عرب کے لوگ اپنے مذہبی پیشوائوں کے احکام اور اپنے آبائو اجداد کے اوہام کی پیروی میں کھانے پینے کی چیزوں کے متعلق طرح طرح کی قیود کی پابندی کرتے تھے۔ جب ان لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اگر تم ہماری عبادت کرتے ہو، تو ان ساری پابندیوں کو ختم کرو اور جو کچھ ہم نے حلال کیا ہے اسے حلال سمجھ کر بے تکلف کھائو پیو۔‘‘ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر تم اپنے پنڈتوں اور بزرگوں کے نہیں بلکہ ہمارے بندے ہو، اور اگر تم نے واقعی ان کی اطاعت وفرماں برداری چھوڑ کر ہماری اطاعت وفرماں برداری قبول کی ہے تو اب تمھیں حلّت وحرمت اور جواز وعدمِ جواز کے معاملہ میں ان کے بنائے ہوئے ضابطوں کی بجائے ہمارے ضابطہ کی پیروی کرنا ہو گی۔ لہٰذا یہاں بھی عبادت کا لفظ غلامی اور اطاعت ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
قُلْ ہَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ مَثُوْبَۃً عِنْدَ اللہِ۰ۭ مَنْ لَّعَنَہُ اللہُ وَغَضِبَ عَلَيْہِ وَجَعَلَ مِنْہُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَـنَازِيْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوْتَ۰ۭ (المائدہ۵: ۶۰)
کہو! میں بتائوں تمھیں کہ اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ برا انجام کن لوگوں کا ہے؟ وہ جن پر اللہ کی پھٹکار ہوئی اور اس کا غضب ٹوٹا، جن میں سے بہت سے لوگ بندر اور سؤر تک بنا دیے گئے، جنھوں نے طاغوت کی عبادت کی۔
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۰ۚ
(النحل۱۶: ۳۶)
ہم نے ہر قوم میں ایک پیغمبر یہ تعلیم دینے کے لیے بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت سے باز رہو۔
وَالَّذِيْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ يَّعْبُدُوْہَا وَاَنَابُوْٓا اِلَى اللہِ لَہُمُ الْبُشْرٰى۰ۚ
(الزمر۳۹: ۱۷)
اور خوش خبری ہے ان لوگوں کے لیے جنھوں نے طاغوت کی عبادت کو چھوڑ کر اللہ کی طرف رجوع کیا۔
تینوں آیتوں میں طاغوت کی عبادت سے مراد طاغوت کی غلامی اور اطاعت ہے، جیسا کہ اس سے پہلے ہم اشارہ کر چکے ہیں، قرآن کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد ہر وہ ریاست واقتدار اور ہر وہ راہ نُمائی وپیشوائی ہے جو خدا سے باغی ہو کر خدا کی زمیں میں اپنا حکم چلائے اور اس کے بندوں کو زور وجبر سے یا تحریص واطماع سے یا گم راہ کن تعلیمات سے اپنے تابع امر بنائے۔ ایسے ہر اقتدار اور ایسی ہر پیشوائی کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا اور اس کی بندگی اختیار کرکے اس کا حکم بجا لانا طاغوت کی عبادت ہے۔
عبادت بمعنی اطاعت
اب ان آیات کو لیجیے جن میں عبادت کا لفظ صرف معنی دوم میں استعمال ہوا ہے:
اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ۰ۚ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌo
(یٰسٓ۳۶: ۶۰)
اے بنی آدم! کیا مَیں نے تمھیں تاکید نہ کی تھی کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا۔ کیوں کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔
ظاہر ہے کہ شیطان کی پرستش تو دنیا میں کوئی بھی نہیں کرتا۔ بلکہ ہر طرف سے اس پر لعنت اورپھٹکار ہی پڑتی ہے۔ لہٰذا بنی آدم پر جو فردِ جرم اللہ تعالیٰ کی طرف سے قیامت کے روز لگائی جائے گی، وہ اس بات کی نہ ہو گی کہ انھوں نے شیطان کی پوجاکی بلکہ اس بات کی ہو گی کہ وہ شیطان کے کہنے پر چلے اور اس کے احکام کی اطاعت کی اور جس جس راستہ کی طرف وہ اشارہ کرتا گیا اس پر دوڑے چلے گئے۔
اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَہُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَo مِنْ دُوْنِ اللہِ فَاہْدُوْہُمْ اِلٰى صِرَاطِ الْجَحِيْمِo …… وَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاۗءَلُوْنَo قَالُوْٓا اِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَاْتُوْنَنَا عَنِ الْيَمِيْنِo قَالُوْا بَلْ لَّمْ تَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَo وَمَا كَانَ لَنَا عَلَيْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ۰ۚ بَلْ كُنْتُمْ قَوْمًا طٰغِيْنَo
(الصافات۳۷: ۲۲۔۳۰)
(جب قیامت برپا ہوگی تو اللہ فرمائے گا) تمام ظالموں اور ان کے ساتھیوں کو اور معبودان غیر اللہ کو جن کی وہ عبادت کرتے تھے جمع کرو اور انھیں جہنم کا راستہ دکھائو… پھر وہ آپس میں ایک دوسرے سے ردّوکد کرنے لگیں گے۔ عبادت کرنے والے کہیں گے کہ تم وہی لوگ تو ہو جو خیر کی راہ سے ہمارے پاس آتے تھے۔ ان کے معبود جواب دیں گے کہ اصل میں تم خود ایمان لانے پر تیار نہ تھے ہمارا کوئی زور تم پر نہ تھا۔ تم آپ ہی نافرمان لوگ تھے۔
اس آیت میں عابدوں اور معبودوں کے درمیان جو سوال وجواب نقل کیا گیا ہے اس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں معبودوں سے مراد بت اور دیوتا نہیں ہیں جن کی پوجا کی جاتی تھی، بلکہ وہ پیشوا اور راہ نُما ہیں جنھوں نے سجادوں اور تسبیحوں اور جُبّوں اور گلیموں سے بندگان خدا کودھوکا دے دے کر اپنا معتقد بنایا جنھوں نے اصلاح اور خیر خواہی کے دعوے کرکے شر اور فساد پھیلائے۔ ایسے لوگوں کی اندھی تقلید اور ان کے احکام کی بے چون وچرا اطاعت کرنے ہی کو یہاں عبادت سے تعبیر کیا گیا ہے:
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ۰ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــہًا وَّاحِدًا۰ۚ (التوبہ۹: ۳۱)
انھوں نے اپنے علما اور مشائخ کو خدا کی بجائے اپنا رب بنا لیا اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ انھیں ایک الٰہ کے سوا کسی کی عبادت کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔
یہاں علما اور مشائخ کو رب بنا کر عبادت کرنے سے مراد انھیں امر ونہی کا مختار اور خدا وپیغمبر کی سند کے بغیر ان کے احکام کی اطاعت بجا لانا ہے۔ اسی معنی کی تصریح روایاتِ صحیحہ میں خود نبی a نے فرما دی ہے۔ جب آپ سے عرض کیا گیا کہ ہم نے علما اور مشائخ کی پرستش تو کبھی نہیں کی۔ تو آپؐ نے جواب دیا کہ جس چیز کو انھوں نے حلال ٹھہرایا، کیا تم نے اسے حلال نہیں سمجھ لیا؟ اور جسے انھوں نے حرام قرار دیا کیا تم نے اسے حرام نہیں بنا لیا؟{ FR 7442 }
عبادت بمعنی پرستش
اب تیسرے معنی کی آیات کو لیجیے۔ اس سلسلہ میں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ قرآن کی رُو سے عبادت بمعنی پرستش میں دو چیزیں شامل ہیں۔
ایک یہ کہ کسی کے لیے سجدہ ورکوع اور دست بستہ قیام اور طواف اور آستانہ بوسی اور نذرونیاز اور قربانی وغیرہ کے وہ مراسم ادا کیے جائیں جو بالعموم پرستش کی غرض سے ادا کیے جاتے ہیں قطع نظر اس سے کہ اسے مستقل بالذات معبود سمجھا جائے یا بڑے معبود کے ہاں تقرب اور سفارش کا ذریعہ سمجھ کرایسے کیا جائے، یا بڑے معبود کے ماتحت خدائی کے انتظام میں شریک سمجھتے ہوئے یہ حرکت کی جائے۔
دُوسرے یہ کہ کسی کو عالمِ اسباب پر ذی اقتدار خیال کرکے اپنی حاجتوں میں اس سے دعا مانگی جائے، اپنی تکلیفوں اور مصیبتوں میں اس کو مدد کے لیے پکارا جائے اور خطرات ونقصانات سے بچنے کے لیے اس سے پناہ مانگی جائے۔
یہ دونوں قسم کے فعل قرآن کی رُو سے یکساں پرستش کی تعریف میں آتے ہیں۔
مثالیں
قُلْ اِنِّىْ نُہِيْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَمَّا جَاۗءَنِيَ الْبَيِّنٰتُ مِنْ رَّبِّيْ۰ۡوَاُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَo (المومن۴۰: ۶۶)
کہو، مجھے تو اس سے منع کر دیا گیا ہے کہ اپنے رب کی طرف سے صریح ہدایات پا لینے کے بعد میں ان کی پرستش کروں جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو۔
وَاَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَاَدْعُوْا رَبِّيْ۰ۡۖ …… فَلَمَّا اعْتَزَلَہُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۰ۙ وَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ (مریم۱۹: ۴۸۔۴۹)
(ابراہیم ؑ نے کہا) مَیں تمھیں اور اللہ کے ماسوا جنہیں تم پکارتے ہو، ان سب کو چھوڑتا ہوں۔ اور اپنے رب کو پکارتا ہوں… پس جب وہ ان سے اور ان کے سوا جن کی وہ عبادت کرتے تھے۔ ان سب سے الگ ہو گیا تو ہم نے اُسے اسحق جیسا بیٹا دیا…
وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَہٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ وَہُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕہِمْ غٰفِلُوْنَo وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَہُمْ اَعْدَاۗءً وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِہِمْ كٰفِرِيْنَo (الاحقاف۴۶: ۵۔۶)
اور اس سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہو گا جو اللہ کو چھوڑ کر انھیں پکارے جو قیامت تک اُس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے، جنھیں خبر تک نہیں کہ انھیں پکارا جا رہا ہے۔ اور جو روز حشر میں (جب کہ لوگ جمع کیے جائیں گے) اپنے ان پکارنے والوں کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کا انکار کریں گے۔{ FR 7443 }
تینوں آیتوں میں قرآن نے خود ہی تصریح کر دی ہے کہ یہاں عبادت سے مراد دعا مانگنا اور مدد کے لیے پکارنا ہے۔
بَلْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ۰ۚ اَكْثَرُہُمْ بِہِمْ مُّؤْمِنُوْنَo (سبا۳۴: ۴۱)
بلکہ وہ جنّوںکی عبادت کرتے تھے اور ان میں سے اکثر ان پر ایمان لائے ہوئے تھے۔
یہاں جنّوں کی عبادت اور ان پر ایمان لانے سے جو کچھ مراد ہے اس کی تشریح سورۂ جن کی یہ آیت کرتی ہے:
وَّاَنَّہٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ يَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ (الجن۷۲: ۶)
اور یہ کہ انسانوں میں سے بعض اشخاص جنوں میں سے بعض اشخاص کی پناہ ڈھونڈتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ جنّوں کی عبادت سے مراد ان کی پناہ ڈھونڈنا ہے اور خطرات ونقصانات کے مقابلہ میں ان سے حفاظت طلب کرنا ہے اوران پر ایمان لانے سے مراد ان کے متعلق یہ اعتقاد رکھنا ہے کہ وہ پناہ دینے اور حفاظت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
وَيَوْمَ يَحْشُرُہُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ فَيَقُوْلُ ءَ اَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِيْ ہٰٓؤُلَاۗءِ اَمْ ہُمْ ضَلُّوا السَّبِيْلَo قَالُوْا سُبْحٰنَكَ مَا كَانَ يَنْۢبَغِيْ لَنَآ اَنْ نَّــتَّخِذَ مِنْ دُوْنِكَ مِنْ اَوْلِيَاۗءَ …… (الفرقان۲۵: ۱۷۔۱۸)
جس روز اللہ انھیں اور ان کے معبودوں کو جمع کرے گا جن کی یہ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے تو وہ ان سے پوچھے گا کہ میرے ان بندوں کو تم نے بہکایا تھا یا خود راہِ راست سے بہک گئے؟ وہ عرض کریں گے سبحان اللہ! ہمیں کب زیبا تھا کہ حضور کو چھوڑ کر کسی کو ولی ورفیق بنائیں۔
یہاں اندازِ بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ معبودوں سے مراد اولیا اور صلحا ہیں اور ان کی عبادت سے مراد انھیں بندگی کی صفات سے بالاتر اور خدائی کی صفات سے متصف سمجھنا، انھیں غیبی امداد اور مشکل کشائی وفریاد رسی پر قادر خیال کرنا اور ان کے لیے تعظیم کے وہ مراسم ادا کرنا جو پرستش کی حد تک پہنچے ہوئے ہوں۔
وَيَوْمَ يَحْشُرُہُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ يَقُوْلُ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اَہٰٓؤُلَاۗءِ اِيَّاكُمْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَo قَالُوْا سُبْحٰنَكَ اَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُوْنِہِمْ۰ۚ (سبا۳۴: ۴۰۔۴۱)
جس روز اللہ سب کو اکٹھا کرے گا، پھر فرشتوں{ FR 7444 }سے پوچھے گا، کیا وہ تم ہو جن کی یہ لوگ عبادت کرتے تھے؟ تو وہ کہیں گے، سبحان اللہ! ہمیں ان سے کیا تعلق؟ ہمارا تعلق تو آپ سے ہے۔
یہاں فرشتوں کی عبادت سے مراد ان کی پرستش ہے جو ان کے استھان اور ہیکل اور خیالی مجسمے بنا کر کی جاتی تھی اور اس پوجا سے مقصود یہ ہوتا تھا کہ انھیں خوش کرکے ان کی نظرِ عنایت اپنے حال پر مبذول کرائی جائے، اور اپنے دنیوی معاملات میں ان سے مدد حاصل کی جائے۔
وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ وَيَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَ اللہِ۰ۭ (یونس۱۰: ۱۸)
وہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے تھے جو نہ انھیں نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔
وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۰ۘ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللہِ زُلْفٰى۰ۭ
(الزمر۳۹: ۳)
جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا ولی بنا رکھا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں۔
یہاں بھی عبادت سے مراد پرستش ہے اور اُس غرض کی بھی تشریح کر دی گئی ہے جس کے لیے یہ پرستش کی جاتی ہے۔
عبادت بمعنی بندگی واطاعت وپرستش
اُوپر کی مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن میں عبادت کا لفظ کہیں غلامی واطاعت کے معنی میں استعمال ہوا ہے، کہیں مجرّد اطاعت کے معنی میں۔ اب قبل اس کے کہ ہم وہ مثالیں پیش کریں جن میں یہ لفظ عبادت کے ان تینوں مفہومات کا جامع ہے، ایک مقدمہ ذہن نشین کر لینا ضروری ہے۔
اُوپر جتنی مثالیں پیش کی گئی ہیں ان سب میں اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کا ذکر ہے۔ جہاں عبادت سے مراد غلامی واطاعت ہے وہاں معبود یا تو شیطان ہے یا وہ باغی انسان ہیں جنھوں نے طاغوت بن کر خدا کے بندوں سے خدا کی بجائے اپنی بندگی واطاعت کرائی، یا وہ راہ نُما وپیشوا ہیں جنھوں نے کتاب اللہ سے بے نیاز ہو کر اپنے خود ساختہ طریقوں پر لوگوں کو چلایا۔ اور جہاں عبادت سے مراد پرستش ہے وہاں معبود یا تو اولیا، انبیا اور صلحا ہیں جنھیں ان کی تعلیم وہدایت کے خلاف معبود بنایا گیا، یا فرشتے اور جن ہیں جنھیں محض غلط فہمی کی بنا پر فوق الطبیعی ربوبیت میں شریک سمجھ لیا گیا، یہ خیالی طاقتوں کے بت اور تماثیل ہیں جو محض شیطانی اغوا سے مرکزِ پرستش بن گئے۔ قرآن ان تمام اقسام کے معبودوں کو باطل اور ان کی عبادت کو غلط ٹھہراتا ہے، خواہ ان کی غلامی کی گئی ہو یا اطاعت یا پرستش، وہ کہتا ہے کہ تمھارے یہ سب معبود جن کی تم عبادت کرتے رہے ہو، اللہ کے بندے اور غلام ہیں۔ نہ انھیں یہ حق پہنچتا ہے کہ ان کی عبادت کی جائے اور نہ ان کی عبادت سے بجز نامرادی اور ذلت ورسوائی کے تمھیں کچھ حاصل ہو سکتا ہے۔ حقیقت میں ان کا اور ساری کائنات کا مالک اللہ ہی ہے، اس کے ہاتھ میں تمام اختیارات ہیں لہٰذا عبادت کا مستحق اکیلے اللہ کے سوا کوئی نہیں۔
اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ فَادْعُوْہُمْ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَo ……وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَآ اَنْفُسَہُمْ يَنْصُرُوْنَo (الاعراف۷: ۱۹۴۔۱۹۷)
اللہ کو چھوڑ کر جنھیں تم پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں، جیسے تم خود بندے ہو، انھیں پکار کر دیکھ لو۔ اگر تمھارا عقیدہ ان کے بارے میں صحیح ہے تو وہ تمھاری پکار کا جواب{ FR 7445 } دیں… اللہ کے سوا جنھیں تم پکارتے ہو وہ نہ تو تمھاری کوئی مدد کر سکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد پر قادر ہیں۔
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَہٗ۰ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَo لَا يَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِاَمْرِہٖ يَعْمَلُوْنَo يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا يَشْفَعُوْنَ۰ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَہُمْ مِّنْ خَشْيَتِہٖ مُشْفِقُوْنَo (الانبیا۲۱: ۲۶۔۲۸)
یہ لوگ کہتے ہیں کہ رحمن نے کسی کو بیٹا بنایا۔ بالاتر ہے وہ اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو۔ جنھیں یہ اس کی اولاد کہتے ہیں وہ دراصل اس کے بندے ہیں جنھیں عزت دی گئی ہے ان کی اتنی مجال نہیں کہ وہ خود سبقت کرکے اللہ کے حضور کچھ عرض کر سکیں بلکہ جیسا وہ حکم دیتا ہے اسی کے مطابق وہ عمل کرتے ہیں۔ جو کچھ ان پر ظاہر ہے اسے بھی اللہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے پوشیدہ ہے اس کی بھی اللہ کو خبر ہے۔ وہ اللہ کے حضور کسی کی سفارش نہیں کر سکتے بجز اس کے کہ جس کی سفارش خود اللہ ہی قبول کرنا چاہے اور ان کا حال یہ ہے کہ اللہ کے خوف سے سہمے رہتے ہیں۔{ FR 7446 }
وَجَعَلُوا الْمَلٰۗىِٕكَۃَ الَّذِيْنَ ہُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا۰ۭ (الزخرف۴۳: ۱۹)
ان لوگوں نے فرشتوں کو جو دراصل رحمن کے بندے ہیں دیویاں بنا رکھا ہے۔
وَجَعَلُوْا بَيْنَہٗ وَبَيْنَ الْجِنَّۃِ نَسَـبًا۰ۭ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّۃُ اِنَّہُمْ لَمُحْضَرُوْنَo
(الصافات۳۷: ۱۵۸)
انھوں نے جنّوں کے اور خدا کے درمیان نسبی تعلق فرض کر لیا ہے حالانکہ جنّ خود بھی جانتے ہیں کہ ایک دن انھیں حساب کے لیے اس کے حضور پیش ہونا ہے۔
لَنْ يَّسْتَنْكِفَ الْمَسِيْحُ اَنْ يَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلہِ وَلَا الْمَلٰۗىِٕكَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ۰ۭ وَمَنْ يَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُہُمْ اِلَيْہِ جَمِيْعًاo
(النسائ۴: ۱۷۲)
نہ مسیح نے کبھی اسے اپنے لیے عار سمجھا کہ وہ اللہ کا بندہ ہو اور نہ مقرّب فرشتوں نے۔ اور جو کوئی اس کی بندگی وغلامی میں عار سمجھے اور تکبر کرے (وہ بھاگ کر جا کہاں سکتا ہے) ایسے سب لوگوں کو اللہ اپنے حضور کھینچ بلائے گا۔
اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْـبَانٍo وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدٰنِo (الرحمٰن۵۵: ۵۔۶)
سورج اور چاند سب گردش میں لگے ہیں اور تارے اوردرخت خدا کے آگے سرِ اطاعت جھکائے ہوئے ہیں۔
تُـسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْہِنَّ۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِيْحَہُمْ۰ۭ (بنی اسرائیل۱۷: ۴۴)
ساتوں آسمان اور زمین اور جس قدر موجودات آسمان وزمین میں ہیں سب کے سب اللہ کی تسبیح کرر ہے ہیں، کوئی چیز ایسی نہیں جو حمدوثنا کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کرتی ہو۔ مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔
وَلَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ كُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَo (الروم۳۰: ۲۶)
آسمانوں اور زمین کی کل موجودات اس کی مِلک ہیں اور ساری چیزیں اس کے فرمان کی تابع ہیں۔
مَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ اِلَّا ہُوَاٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِہَا۰ۭ (ہود۱۱: ۵۶)
کوئی جاندار ایسا نہیں جو اللہ کے قبضہ قدرت میں جکڑا ہوا نہ ہو۔
اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًاo لَقَدْ اَحْصٰىہُمْ وَعَدَّہُمْ عَدًّاo وَكُلُّہُمْ اٰتِيْہِ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ فَرْدًاo (مریم ۱۹: ۹۳۔۹۵)
زمین اور آسمانوں کے باشندوں میں سے کوئی نہیں جو رحمن کے سامنے غلام کی حیثیت سے پیش ہونے والا نہ ہو۔ اس نے سب کا شمار کر رکھا ہے اور قیامت کے روز سب اس کے حضور فردًافردًاپیش ہوں گے۔
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۰ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo (آل عمران۳:۲۶)
کہو ! خدایا! ملک کے مالک! تو جسے چاہے ملک د ے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کر دے بھلائی تیرے اختیار میں ہے، یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے۔
اس طرح ان سب کو جن کی عبادت کسی شکل میں کی گئی ہے، اللہ کا غلام اور بے اختیار ثابت کر دینے کے بعد قرآن تمام جنّ وانس سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہر مفہوم کے لحاظ سے عبادت صرف اللہ کی ہونی چاہیے۔ غلامیؔ ہو تو اس کی، اطاعت ہو تو اُس کی پرستش ہو تو اس کی، ان میں سے کسی نوع کی عبادت کا شائبہ تک بھی غیر اللہ کے لیے نہ ہو۔
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۰ۚ
(النحل۱۶: ۳۶)
ہم نے ہر قوم میں ایک رسول یہی پیغام دے کر بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت سے پرہیز کرو۔
وَالَّذِيْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ يَّعْبُدُوْہَا وَاَنَابُوْٓا اِلَى اللہِ لَہُمُ الْبُشْرٰى۰ۚ
(الزمر۳۹: ۱۷)
خوش خبری ہے ان کے لیے جنھوں نے طاغوت کی عبادت سے پرہیز کیا اور اللہ کی طرف رجوع کر لیا۔
اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ۰ۚ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌo وَّاَنِ اعْبُدُوْنِيْ۰ۭؔ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَــقِيْمٌo (یٰسٓ۳۶: ۶۰۔۶۱)
اے بنی آدم! کیا مَیں نے تمھیں تاکید نہ کی تھی کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، وہ تمھارا کھلا دشمن ہے اور میری عبادت کرنا، یہی سیدھا راستہ ہے۔
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ …… وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــہًا وَّاحِدًا۰ۚ (التوبہ۹: ۳۱)
انھوں نے اللہ کی بجائے اپنے علما اور مشائخ کو اپنا رب بنا لیا، حالانکہ انھیں حکم دیا گیا تھا کہ ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَاشْكُرُوْا لِلہِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاہُ تَعْبُدُوْنَo (البقرہ۲: ۱۷۲)
اے ایمان لانے والو! اگر تم نے واقعی ہماری عبادت اختیار کی ہے تو جو پاک چیزیں ہم نے تمھیں بخشی ہیں انھیں بے تکلف کھائو اور خدا کا شکر ادا کرو۔
ان آیات میں اللہ کے لیے اس عبادت کو مخصوص کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو بندگی وغلامی اور اطاعت وفرماں برداری کے معنی میں ہے۔ اور اس کے لیے صاف قرینہ موجود ہے کہ طاغوت اور شیطان اور احبار ورہبان اور آبائو اجداد کی اطاعت وبندگی سے پرہیز کرکے اللہ کی اطاعت وبندگی اختیار کرنے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔
قُلْ اِنِّىْ نُہِيْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَمَّا جَاۗءَنِيَ الْبَيِّنٰتُ مِنْ رَّبِّيْ۰ۡوَاُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَo (المومن۴۰: ۶۶)
کہو، مجھے اس سے منع کیا گیا ہے کہ میں اپنے رب کو چھوڑ کر ان کی عبادت کروں جنھیں تم اللہ کے بجائے پکارتے ہو، جب کہ میرے رب کی طرف سے میرے پاس بیّنات بھی آ چکی ہیں۔ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ربّ العٰلمین کے آگے سر تسلیم خم کروں۔
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۰ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِيْنَo (المومن۴۰: ۶۰)
اور تمھارے رب نے فرمایا ہے کہ مجھے پکارو، مَیں تمھاری پکار کا جواب دوں گا۔ اور جو لوگ میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں وہ یقینا جہنم میں جھونکے جائیں گے۔
يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّہَارِ وَيُوْلِجُ النَّہَارَ فِي الَّيْلِ۰ۙ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۰ۡۖ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۰ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ لَہُ الْمُلْكُ۰ۭ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍo اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ۰ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ۰ۭ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ۰ۭ
(فاطر۳۵:۱۳۔۱۴)
وہی اللہ تمھارا رب ہے، بادشاہی اسی کی ہے، اس کے سوا تم جن کو پکارتے ہو ان کے اختیار میں ذرّہ برابر کچھ نہیں۔ تم انھیں پکارو تو وہ تمھاری پکار سن نہیں سن سکتے اور سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے۔ اور قیامت کے روز وہ تمھارے اس شرک کا انکار کریں گے۔
قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا۰ۭ وَاللہُ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُo (المائدہ۵: ۷۶)
کہو، کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمھیں نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں، نہ نفع پہنچانے کی، سب کچھ سننے اور جاننے والا تو اللہ ہی ہے۔
ان آیات میں اس عبادت کو اللہ کے لیے مختص کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جو پرستش کے معنی میں ہے۔ اور اس کے لیے بھی صاف قرینہ موجود ہے کہ عبادت کو دعا کے مترادف کی حیثیت سے استعمال کیا گیا ہے ا ور ماقبل ومابعد کی آیات میں ان معبودوں کا ذکر پایا جاتا ہے جنھیں فوق الطبیعی ربوبیت میں اللہ کا شریک قرار دیا جاتا ہے۔
اب کسی صاحبِ بصیرت آدمی کے لیے یہ سمجھ لینا کچھ بھی مشکل نہیں کہ جہاں جہاں قرآن میں اللہ کی عبادت کا ذکر ہے اور آس پاس کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں ہے جو لفظِ عبادت کو اس کے مختلف مفہومات میں سے کسی ایک مفہوم کے لیے خاص کرتا ہو، ایسے تمام مقامات میں عبادت سے مراد، غلامی، اطاعت اور پرستش، تینوں مفہوم ہوں گے۔ مثال کے طور پر حسب ذیل آیات کو دیکھیے:
اِنَّنِيْٓ اَنَا اللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِيْ۰ۙ (طٰہٰ۲۰:۱۴)
مَیں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی الٰہ نہیں، لہٰذا میری ہی عبادت کر۔
ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۰ۚ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوْہُ۰ۚ وَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌo (الانعام۶: ۱۰۲)
وہی اللہ تمھارا رب ہے۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، ہر چیز کا خالق، لہٰذا تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر شے کی خبر گیری کا متکفل ہے۔
قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِيْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ اَعْبُدُ اللہَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ۰ۚۖ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَo (یونس۱۰: ۱۰۴)
کہو، کہ اے لوگو! اگر تمھیں ابھی تک معلوم نہیں ہے کہ میرا دین کیا ہے تو تمھیں معلوم ہو جائے کہ اللہ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا بلکہ مَیں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمھاری رُوحیں قبض کرتا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ مَیں ایمان لانے والوں میں شامل ہو جائوں۔
مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَاۗءً سَمَّيْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ۰ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ (یوسف۱۲: ۴۰)
اللہ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو ان کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی دلیلِ معبودیّت نازل نہیں کی ہے۔ اقتدار صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ خود اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے یہی سیدھا طریقہ ہے۔
وَلِلہِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِلَيْہِ يُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّہٗ فَاعْبُدْہُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْہِ۰ۭ (ہود۱۱: ۱۲۳)
آسمانوں اور زمین کی جس قدر حقیقتیں بندوں سے پوشیدہ ہیں ان کاعلم اللہ ہی کو ہے اور سارے معاملات اسی کی سرکار میں پیش ہوتے ہیں۔ لہٰذا تو اسی کی عبادت کر اور اسی پر بھروسا رکھ۔
لَہٗ مَا بَيْنَ اَيْدِيْــنَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذٰلِكَ۰ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِـيًّاo رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا فَاعْبُدْہُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہٖ۰ۭ (مریم۱۹: ۶۴۔۶۵)
جو کچھ ہمارے سامنے ہے اور جو کچھ ہم سے پوشیدہ ہے اور جو کچھ ان دونوں حالتوں کے درمیان ہے، سب کا مالک وہی ہے، اور تیرا رب بھولنے والا نہیں ہے۔ وہ مالک ہے آسمان اور زمین کا اور ان ساری چیزوں کا جو زمین وآسمان کے درمیان ہیں لہٰذا تو اسی کی عبادت کر اور اسی کی عبادت پر ثابت قدم رہ۔
قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰـــہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۰ۚ (الکہف۱۸: ۱۱۰)
پس جو اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو وہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کی عبادت شریک نہ کرے۔
کوئی وجہ نہیں کہ ان آیات اور ایسی ہی دوسری تمام آیات میں عبادت کے لفظ کو محض پرستش یا محض بندگی واطاعت کے لیے مخصوص ٹھہرا لیا جائے۔ اس طرح کی آیات میں دراصل قرآن اپنی دعوت پیش کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ قرآن کی دعوت یہی ہے کہ بندگی، اطاعت، پرستش جو کچھ بھی ہو اللہ کی ہو۔ لہٰذا ان مقامات پر عبادت کے معنی کو کسی ایک مفہوم میں محدود کرنا حقیقت میں قرآن کی دعوت کو محدود کرنا ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ قرآن کی دعوت کا ایک محدود تصور لے کر ایمان لائیں گے وہ اس کی ناقص وناتمام پیروی کریں گے۔
خ خ خ
۴ دین: لغوی تحقیق
کلامِ عرب میں لفظ دین مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
(۱) غلبہ واقتدار،حکم رانی وفرماں روائی، دُوسرے کو اطاعت پر مجبور کرنا، اس پر اپنی قوتِ قاہرہ (Sovereignty) استعمال کرنا، اسے اپنا غلام اور تابع امر بنانا۔ مثلاً کہتے ہیں دَانَ النَّاسَ، اَیْ قَھَرَھُمْ عَلَی الطَّاعَۃِ (یعنی لوگوں کو اطاعت پر مجبور کیا) دِنْتُھُمْ فَدَانُوْا اَیْ قَھَرْتُھُمْ فَاَطَاعُوْا(یعنی میں نے انھیں مغلوب کیا اور وہ مطیع ہو گئے) دِنْتُ الْقُوْمَ اَیْ ذَلَّلْتُھُمْ وَاسْتَعْبَدْتُّھُمْ (میں نے فلاں گروہ کو مسخر کر لیا اور غلام بنا لیا) دَان الرّجل اذا عزّ (فلاں شخص عزت اور طاقت والا ہو گیا) دنت الرجل حملتُہٗ علٰی مایکرہ۔ (میں نے اس کو ایسے کام پر مجبور کیا جس کے لیے وہ راضی نہ تھا) ۔دِیْنَ فُلَانٌ۔ اِذَا حَمَلَ عَلٰی مَکْرَوْہٍ (فلاں شخص اس کام کے لیے بزور مجبور کیا گیا)۔ دَنْتُہٗ ای سُسْتُہٗ وَمَلَکْتُہٗ (یعنی میں نے اس پر حکم چلایا اور فرماں روائی کی) دَیَّنْتُہُ الْقَوْمَ وَلَّیْتُہٗ سَیَاَسَتَھُمْ (یعنی میں نے لوگوں کی سیاست وحکم رانی فلاں شخض کے سپرد کر دی) اسی معنی میں حطیئہ اپنی ماں کو خطاب کرکے کہتا ہے:
لَقَدْ دَیَّنْتِ اَمْرَ بَنِیْکِ حَتّٰی تَرَکْتِھِمْ اَدَقَّ مِنَ الطَّحِیْنِ
تو اپنے بچوں کے معاملات کی نگراں بنائی گئی تھی۔ آخر کار تو نے انھیں آٹے سے بھی زیادہ باریک کرکے چھوڑا۔)
حدیث میں آتا ہے: اَلْکَیَّسْ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَالْمُوْتِ{ FR 7447 } یعنی ’’عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو مغلوب کر لیا اور وہ کام کیا جو اس کی آخرت کے لیے نافع ہو۔‘‘ اسی معنی کے لحاظ سے دیّان اسے کہتے ہیں جو کسی ملک یا قوم یا قبیلے پر غالب وقاہر ہو اور اس پر فرماں روائی کرے۔ چنانچہ اعشی الحرمازی نبی a کو خطاب کرکے کہتا ہے:
یاسیّد النَّاس ودیّان العرب اور اسی لحاظ سے مدین کے معنی غلام اور مدینہ کے معنی لونڈی، اور ابن مدینہ کے معنی لونڈی زادہ کے آتے ہیں۔ اخطل کہتا ہے: ربت وربافی حجرھا ابن مدینۃ۔
اور قرآن کہتا ہے:
فَلَوْلَآ اِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِيْـنِيْنَo تَرْجِعُوْنَہَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَo
(الواقعہ۵۶: ۸۶۔۸۷)
یعنی اگر تم کسی کے مملوک، تابع، ماتحت نہیں ہو تو مرنے والے کو موت سے بچا کیوں نہیں لیتے؟ جان کو واپس کیوں نہیں پلٹا لاتے؟
(۲) اطاعت، بندگی، خدمت، کسی کے لیے مسخر ہو جانا، کسی کے تحتِ امر ہونا، کسی کے غلبہ وقہر سے دب کر اس کے مقابلہ میں ذلت قبول کر لینا۔ چنانچہ کہتے ہیں دِنْتُھُمْ فَدَانُوْا اَیْ قَھَرْتُھُمْ فَاَطَاعُوْا (یعنی میں نے انھیں مغلوب کر لیا اور وہ لوگ مطیع ہو گئے)دِنْتُ الرَّجُلَ، ای خَدِمْتُہُ (یعنی میں نے فلاں شخص کی خدمت کی) حدیث میں آتا ہے کہ حضورؐ نے فرمایا:
اُرِیْدُ مِنْ قُرَیْش کَلِمَۃً تَدِیْنُ لَھُمْ بِھَا الْعَرَبُ اَیْ تُطِیْعُھُمْ وَتَخْضَعُ لَھُمْ۔{ FR 7448 }
میں قریش کو ایک ایسے کلمہ کا پیرو بنانا چاہتا ہوں کہ اگر وہ اسے مان لے تو تمام عرب اس کا تابع فرمان بن جائے اور اس کے آگے جھک جائے۔
اسی معنی کے لحاظ سے اطاعت شعار قوم کو قومِ دیّن کہتے ہیں۔ اور اسی معنی میں دین کا لفظ حدیثِ خوارج میں استعمال کیا گیا:
یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّینَ مُرُوقَ السَّھْمِ مِنَ الرَّمِیَّۃِ۔{ FR 7449 }
(۳) شریعت، قانون، طریقہ، کیش وملت، رسم وعادت، مثلاً کہتے ہیں: مَازَالَ ذٰلِکَ دِیْنِیْ وَدَیْدَنِیْ۔یعنی یہ ہمیشہ سے میرا طریقہ رہا ہے۔ یُقَالُ دَانَ، اِذَا اَعْتَادَ خَیْرًا وَشَرًّا۔یعنی آدمی خواہ بُرے طریقہ کا پابند ہو یا بھلے طریقہ کا، دونوں صورتوں میں اس طریقہ کو جس کا وہ پابند ہے دین کہیں گے۔ حدیث میں ہے کَانَتْ قُرَیْشٌ وَمَنْ دَانَ دِیْنَھَا۔{ FR 7450 } ’’قریش اور وہ لوگ جو اُن کے مسلک کے پیرو تھے۔‘‘ اور حدیث میں ہے اِنَّہُ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَانَ عَلٰی دِیْنِ قَوْمِہِ۔{ FR 7451 } ’’نبی a نبوت سے پہلے اپنی قوم کے دین پر تھے۔‘‘ یعنی نکاح، طلاق میراث اور دوسرے تمدنی ومعاشرتی امور میں انھی قاعدوں اور ضابطوں کے پابند تھے جو اپنی قوم میں رائج تھے۔
(۴) اجرا عمل، بدلہ، مکافات، فیصلہ، محاسبہ، چنانچہ عربی میں مثل ہے کما تدین تدان، یعنی جیسا توکرے گا ویسا بھرے گا، قرآن میں کفار کا یہ قول نقل فرمایا گیا ہے اَئِ نَّا لَمَدِیْنُوْنَ؟ ’’کیا مرنے کے بعد ہم سے حساب لیا جانے والا ہے اور ہمیں بدلہ ملنے والا ہے‘‘ عبداللہ ابن عمرؓ کی حدیث میں آتا ہے: لَاتَسُبُّوا السُّلْطٰنَ فِاِنْ کَانَ لَابُدَّفَقُوْلُوْا اَللّٰھُمَّ دِنْھُمْ کما یدینون۔{ FR 7452 } ’’اپنے حکم رانوں کو گالیاں نہ دو۔ اگر کچھ کہنا ہی ہو تو یوں کہو کہ خدایا جیسا یہ ہمارے ساتھ کر رہے ہیں ویسا ہی توان کے ساتھ کر۔‘‘ اسی معنی میں لفظ دیّان بمعنی قاضی وحاکم عدالت آتا ہے۔ چنانچہ کسی بزرگ سے جب حضرت علیؓ کے متعلق دریافت کیا گیا توانھوں نے کہا: کان دیان ھذہ الامّۃ بعد نبیّھا۔’’یعنی نبی aکے بعد وہ امت کے سب سے بڑے قاضی تھے۔‘‘
قرآن میں لفظِ ’’دین‘‘ کا استعمال
ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لفظِ دین کی بنیاد میں چار تصورات ہیں، یا بالفاظِ دیگر یہ لفظ عربی ذہن میں چار بنیادی تصورات کی ترجمانی کرتا ہے۔
۱۔ غلبہ وتسلط، کسی ذی اقتدار کی طرف سے۔
۲۔ اِطاعت، تعبد اور بندگی صاحبِ اقتدار کے آگے جھک جانے والے کی طرف سے۔
۳۔ قاعدہ وضابطہ اور طریقہ جس کی پابندی کی جائے۔
۴۔ محاسبہ اور فیصلہ اور جزا وسزا۔
انھی تصورات میں سے کبھی ایک کے لیے اور کبھی دوسرے کے لیے اہلِ عرب مختلف طور پر اس لفظ کو استعمال کرتے تھے، مگر چوں کہ ان چاروں اُمور کے متعلق عرب کے تصورات پوری طرح صاف نہ تھے اور کچھ بہت زیادہ بلند بھی نہ تھے اس لیے اس لفظ کے استعمال میں ابہام پایا جاتا تھا۔ اور یہ کسی باقاعدہ نظامِ فکر کا اصطلاحی لفظ نہ بن سکا۔ قرآن آیا تو اس نے اس لفظ کو اپنے منشا کے لیے مناسب پاکر بالکل واضح ومتعین مفہومات کے لیے استعمال کیا اور اسے اپنی مخصوص اصطلاح بنا لیا۔ قرآنی زبان میں لفظ دین ایک پورے نظام کی نمایندگی کرتا ہے جس کی ترکیب چار اجزا سے ہوتی ہے۔
۱۔ حاکمیت واقتدارِ اعلیٰ
۲۔ حاکمیت کے مقابلہ میں تسلیم واطاعت۔
۳۔ وہ نظامِ فکرو عمل جو اس حاکمیت کے زیر اثر بنے۔
۴۔ مکافات جو اقتدارِ اعلیٰ کی طرف سے اس نظام کی وفاداری واطاعت کے صلے میں یا سرکشی وبغاوت کی پاداش میں دی جائے۔
قرآن کبھی لفظِ دین کا اطلاق معنیٔ اوّل ودوم پر کرتا ہے، کبھی معنیٔ سوم پر، کبھی معنیٔ چہارم پر اور کہیں الدین بول کر یہ پورا نظام اپنے چاروں اجزا سمیت مراد لیتا ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے حسبِ ذیل آیاتِ قرآنی ملاحظہ ہوں۔
دین بمعنی اوّل ودُوُم
اَللہُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً وَّصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ۰ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ۰ۚۖ فَتَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَo ہُوَالْـحَيُّ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَفَادْعُوْہُ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۰ۭ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo (المومن۴۰: ۶۴۔۶۵)
وہ اللہ جس نے تمھارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا اور اُوپر آسمان کا گنبد بنایا، جس نے تمھاری صورتیں بنائیں، جس نے پاکیزہ چیزوں سے تمھیں رزق بہم پہنچایا، وہی اللہ تمھارا رب ہے اور بڑی برکتوں والا ہے وہ رب العالمین ہے۔ وہی زندہ ہے۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ لہٰذا تم اسی کو پکارو دین کو اسی کے لیے خالص کرکے۔ تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
قُلْ اِنِّىْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّيْنَo وَاُمِرْتُ لِاَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ الْمُسْلِمِيْنَo …… قُلِ اللہَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّہٗ دِيْنِيْo فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ۰ۭ …… وَالَّذِيْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ يَّعْبُدُوْہَا وَاَنَابُوْٓا اِلَى اللہِ لَہُمُ الْبُشْرٰى۰ۚ (الزمر۳۹:۱۱۔۱۷)
کہو، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خاص کرکے اسی کی بندگی کروں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں خود سرِ اطاعت جھکائوں… کہو میں تو دین کو اللہ کے لیے خالص کرکے اسی کی بندگی کروں گا۔ تمھیں اختیار ہے اس کے سوا جس کی چاہو بندگی اختیار کرتے پھرو… اور جو لوگ طاغوت کی بندگی کرنے سے پرہیز کریں اور اللہ کی طرف رجوع کریں اُن کے لیے خوش خبری ہے۔
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّيْنَo اَلَا لِلہِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ۰ۭ (الزمر۳۹: ۲۔۳)
ہم نے تمھاری طرف کتاب برحق نازل کر دی ہے لہٰذا تم دین کو اللہ کے لیے خالص کرکے صرف اسی کی بندگی کرو۔ خبردار! دین خالصۃً اللہ ہی کے لیے ہے۔
وَلَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَہُ الدِّيْنُ وَاصِبًا۰ۭ اَفَغَيْرَ اللہِ تَتَّقُوْنَo
(النحل۱۶: ۵۲)
زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اللہ کے لیے ہے اور دین خالصًا اسی کے لیے ہے۔ پھرکیا اللہ کے سوا تم کسی اور سے تقوٰی کرو گے؟ (یعنی کیا اللہ کے سوا کوئی اور ہے جس کے حکم کی خلاف ورزی سے تم بچو گے اور جس کی ناراضی سے تم ڈرو گے؟)
اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللہِ يَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا وَّاِلَيْہِ يُرْجَعُوْنَo (آلِ عمران۳: ۸۳)
کیا یہ لوگ اللہ کے سوا کسی اور کا دین چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان وزمین کی ساری چیزیں چاروناچار اللہ ہی کی مطیع فرماں ہیں اور اُسی کی طرف انھیں پلٹ کر جانا ہے۔
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ (البینہ۹۸: ۵)
اور انھیں اس کے سوا کوئی اور حکم نہیں دیا گیا تھا کہ یک سو ہو کر دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے صرف اسی کی بندگی کریں۔
ان تمام آیات میں دین کا لفظ اقتدارِ اعلیٰ اور اُس اقتدار کو تسلیم کرکے اُس کی اطاعت وبندگی قبول کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ کے لیے دین کو خالص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی حاکمیت، فرماں روائی، حکم رانی اللہ کے سوا کسی کی تسلیم نہ کرے، اور اپنی اطاعت وبندگی کو اللہ کے لیے اس طرح خالص کر دے کہ کسی دوسرے کی مستقل بالذّات بندگی واطاعت اللہ کی اطاعت کے ساتھ شریک نہ کرے۔{ FR 7453 }
دین بمعنی سوم
قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِيْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ اَعْبُدُ اللہَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ۰ۚۖ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَo وَاَنْ اَقِمْ وَجْہَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا۰ۚ وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَo
(یونس۱۰: ۱۰۴۔۱۰۵)
کہو کہ اے لوگو! اگر تمھیں میرے دین کے بارے میں کچھ شک ہے (یعنی اگر تمھیں صاف معلوم نہیں ہے کہ میرا دین کیا ہے) تو لو سنو! میں ان کی بندگی وعبادت نہیں کرتا جن کی بندگی واطاعت تم اللہ کو چھوڑ کر کر رہے ہو، بلکہ میں اس کی بندگی کرتا ہوں جو تمھاری روحیں قبض کرتا ہے۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ مَیں ان لوگوں میں شامل ہو جائوں جو اسی اللہ کے ماننے والے ہیں، اور یہ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ تو یک سو ہو کر اسی دین پر اپنے آپ کو قائم کر دے اور شرک کرنے والوں میں شامل نہ ہو۔
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ (یوسف۱۲: ۴۰)
حکم رانی اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے اس کا فرمان ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو یہی ٹھیک ٹھیک صحیح دین ہے۔
وَلَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ كُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَo …… ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ۰ۭ ہَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ شُرَكَاۗءَ فِيْ مَا رَزَقْنٰكُمْ فَاَنْتُمْ فِيْہِ سَوَاۗءٌ تَخَافُوْنَہُمْ كَخِيْفَتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ۰ۭ …… بَلِ اتَّبَعَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَہْوَاۗءَہُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ۰ۚ …… فَاَقِـمْ وَجْہَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا۰ۭ فِطْرَتَ اللہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا۰ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللہِ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ۰ۤۙ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَo (الروم۳۰: ۲۶۔۳۰)
زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے سب اُسی کے مطیع فرمان ہیں… وہ تمھیں سمجھانے کے لیے خود تمھارے اپنے معاملہ سے ایک مثال پیش کرتا ہے۔ بتائو یہ غلام تمھارے مملوک ہیں؟ کیا ان میں سے کوئی ان چیزوں میں جو ہم نے تمھیں دی ہیں تمھارا شریک ہے؟ کیا تم انھیں اس مال کی ملکیت میں اپنے برابر حصہ دار بناتے ہو۔ کیا تم ان سے اپنے ہم چشموں کی طر ح ڈرتے ہو؟… سچی بات یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ علم کے بغیر محض اپنے تخیّلات کے پیچھے چلے جا رہے ہیں… پس تم یک سو ہو کر اپنے آپ کو اس دین پر قائم کر دو۔ اللہ نے جس فطرت پر انسانوں کو پیدا کیا ہے اسی کو اختیار کر لو۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو بدلا نہ جائے۔{ FR 7454 } یہی ٹھیک ٹھیک صحیح دین ہے۔ مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں۔
اَلزَّانِيَۃُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ۰۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِيْ دِيْنِ اللہِ (النور۲۴: ۲)
زانیہ عورت اور زانی مرد دونوں کو سو سو کوڑے مارو اور اللہ کے دین کے معاملہ میں تمھیں ان پر رحم نہ آئے۔
اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِيْ كِتٰبِ اللہِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ۔(التوبہ۹: ۳۶)
اللہ کے نوشتے میں تو اس وقت سے مہینوں کی تعداد بارہ ہی چلی آتی ہے۔ جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کوپیدا کیا ہے۔ ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرام ہیں۔ یہی ٹھیک ٹھیک صحیح دین ہے۔
كَذٰلِكَ كِدْنَا لِيُوْسُفَ۰ۭ مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاہُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ (یوسف۱۲: ۷۶)
اس طرح ہم نے یوسف کے لیے تدبیر نکالی۔ اس کے لیے جائز نہ تھا کہ اس بادشاہ کے دین میں اپنے بھائی کو پکڑتا۔
وَكَذٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيْرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ قَتْلَ اَوْلَادِہِمْ شُرَكَاۗؤُہُمْ لِيُرْدُوْہُمْ وَلِيَلْبِسُوْا عَلَيْہِمْ دِيْنَہُمْ۰ۭ (الانعام۶: ۱۳۷)
اور اس طرح بہت سے مشرکین کے لیے ان کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں { FR 7455 }نے اپنی اولاد کے قتل کو ایک خوش آیند فعل بنا دیا تاکہ انھیں ہلاکت میں ڈالیں اور ان کے لیے ان کے دین کو مشتبہ بنائیں۔{ FR 7456 }
اَمْ لَہُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِہِ اللہُ۰ۭ (الشوریٰ۴۲: ۲۱)
کیا انھوں نے کچھ شریک ٹھہرا رکھے ہیں جو ان کے لیے دین کی قِسم سے ایسے قوانین بناتے ہیں جن کا اللہ نے اذن نہیں دیا ہے؟
لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِo (الکافرون۱۰۹: ۶)
تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین۔
ان سب آیا ت میں دین سے مراد قانون، ضابطہ، شریعت، طریقہ اور وہ نظامِ فکر وعمل ہے جس کی پابندی میں انسان زندگی بسر کرتا ہے۔ اگر وہ اقتدار جس کی سند پر کسی ضابطہ ونظام کی پابندی کی جاتی ہے۔ خدا کااقتدار ہے تو آدمی دینِ خدا میں ہے۔ اگر وہ کسی بادشاہ کا اقتدار ہے تو آدمی دینِ بادشاہ میں ہے۔ اگر وہ پنڈتوں اور پروہتوں کا اقتدار ہے تو آدمی ان کے دین میں ہے۔ اور اگر وہ خاندان، برادری، یا جمہورِ قوم کا اقتدار ہے تو آدمی ان کے دین میں ہے۔ غرض جس کی سند کو آخری سند اور جس کے فیصلے کو منتہائے کلام مان کر آدمی کسی طریقے پر چلتا ہے اسی کے دین کا وہ پیرو ہے۔
دین بمعنی چہارم
اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌo وَّاِنَّ الدِّيْنَ لَوَاقِــعٌo (الذّٰریات۵۱: ۵۔۶)
وہ خبر جس سے تمھیں آگاہ کیا جاتا ہے۔ (یعنی زندگی بعد موت) یقینا سچی ہے اور دین یقینا ہونے والا ہے۔
اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِo فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَo وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِo (الماعون۱۰۷: ۱۔۳)
تم نے دیکھا اُس شخص کو جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر نہیں اُکستاتا۔
وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِo ثُمَّ مَآ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِo يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَـيْــــًٔا۰ۭ وَالْاَمْرُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلہِo (الانفطار۸۲: ۱۷۔۱۹)
تمھیں کیا خبر کہ یوم الدین کیا ہے۔ ہاں تم کیا جانو کیا ہے یوم الدین۔ وہ دن ہے کہ جب کسی متنفس کے اختیار میں کچھ نہ ہو گا کہ دوسرے کے کام آ سکے، اس روز سب اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہو گا۔
ان آیات میں دین بمعنی محاسبہ وفیصلہ وجزائے اعمال استعمال ہوا ہے۔
دین ایک جامع اصطلاح
یہاں تک تو قرآن اس لفظ کو قریب قریب انھی مفہومات میں استعمال کرتا ہے جن میں یہ اہلِ عرب کی بول چال میں مستعمل تھا۔ لیکن اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لفظ دین کو ایک جامع اصطلاح کی حیثیت سے استعمال کرتا اور اس سے ایک ایسا نظامِ زندگی مراد لیتا ہے جس میں انسان کسی کا اقتدارِ اعلیٰ تسلیم کرکے اس کی اطاعت وفرماں برداری قبول کر لے، اس کے حدود وضوابط اور قوانین کے تحت زندگی بسر کرے، اس کی فرماں برداری پر عزت، ترقی اور انعام کا امیدوار ہو اور اس کی نافرمانی پر ذلت وخواری اور سزا سے ڈرے۔ غالباً دنیا کی کسی زبان میں کوئی اصطلاح ایسی جامع نہیں ہے جو اس پورے نظام پرحاوی ہو۔ موجودہ زمانہ کا لفظ ’’اسٹیٹ‘‘ کسی حد تک اس کے قریب پہنچ گیا ہے۔ لیکن ابھی اسے ’’دین‘‘ کے پورے معنوی حدود پر حاوی ہونے کے لیے مزید وسعت درکار ہے۔
حسب ذیل آیات میں ’’دین‘‘ اسی اصطلاح کی حیثیت سے استعمال ہوا ہے۔
قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَۃَ عَنْ يَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَo (التوبہ۹: ۲۹)
اہلِ کتاب میں سے جو لوگ(۱) نہ اللہ کو مانتے ہیں (یعنی اسے واحد مقتدر اعلیٰ تسلیم نہیں کرتے)(۲) نہ یوم آخرت (یعنی یومُ الحساب اور یوم الجزاء) کو مانتے ہیں(۳) نہ ان چیزوں کو حرام مانتے ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے(۴) اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور چھوٹے بن کر رہیں۔
اس آیت میں ’’دینِ حق‘‘ اصطلاحی لفظ ہے جس کے مفہوم کی تشریح واضع اصطلاح جل شانہٗ نے پہلے تین فقروں میں خود کر دی ہے۔ ہم نے ترجمہ میں نمبر لگا کر واضح کر دیا ہے کہ لفظِ دین کے چاروں مفہوم ان فقروں میں بیان کیے گئے ہیں اور پھر ان کے مجموعے کو ’’دینِ حق‘‘سے تعبیر کیا گیا ہے۔
وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِيْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰى وَلْيَدْعُ رَبَّہٗ۰ۚ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّبَدِّلَ دِيْنَكُمْ اَوْ اَنْ يُّظْہِرَ فِي الْاَرْضِ الْفَسَادَo (المومن۴۰: ۲۶)
فرعون نے کہا چھوڑو مجھے، میں اس موسیٰ کو قتل ہی کیے دیتا ہوں اور اب پکارے وہ اپنے رب کو، مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ تمھارا دین نہ بدل دے، یا ملک میں فساد نہ کھڑا کر دے۔
قرآن میں قصۂ فرعون وموسیٰ کی جتنی تفصیلات آئی ہیں، انھیں نظر میں رکھنے کے بعد اس امر میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ یہاں دین مجرد’’مذہب‘‘ کے معنی میں نہیں آیا ہے بلکہ ریاست اور نظامِ تمدّن کے معنی میں آیا ہے۔ فرعون کا کہنا یہ تھا کہ اگر موسیٰ اپنے مشن میں کام یاب ہو گئے تو اسٹیٹ بدل جائے گا۔ جو نظامِ زندگی اس وقت فراعنہ کی حاکمیت اور رائج الوقت قوانین ورسوم کی بنیادوں پر چل رہا ہے وہ جڑ سے اکھڑ جائے گا اور اس کی جگہ یا تو دوسرا نظام بالکل دوسری ہی بنیادوں پر قائم ہو گا، یا نہیں توسرے سے کوئی نظام قائم ہی نہ ہوسکے گا بلکہ تمام ملک میں بد نظمی پھیل جائے گی۔
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۰ۣ (آلِ عمران۳: ۱۹)
اللہ کے نزدیک دین تو دراصل ’اسلام‘ ہے۔
وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ۰ۚ (آلِ عمران۳: ۸۵)
اور جو ’اِسلام‘ کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے گا۔ اس سے وہ دین ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔
ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَo (التوبہ۹: ۳۳)
وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولوں کو صحیح راہ نُمائی اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کر دے اگرچہ شرک کرنے والوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ۰ۚ (الانفال۸: ۳۹)
اور تم ان سے لڑے جائو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین بالکلیہ اللہ ہی کا ہو جائے۔
اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُo وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللہِ اَفْوَاجًاo فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْہُ۰ۭؔ اِنَّہٗ كَانَ تَوَّابًاo (النّصر۱۱۰: ۱۔۳)
جب اللہ کی مدد آ گئی اور فتح نصیب ہو چکی اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اب اپنے رب کی حمد وثنا اور اس سے درگزر کی درخواست کرو، وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔
ان سب آیات میں دین سے پورا نظامِ زندگی اپنے تمام اعتقادی، نظری، اخلاقی، اور عملی پہلوئوں سمیت مراد ہے۔
پہلی دو آیتوں میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ کے نزدیک انسان کے لیے صحیح نظامِ زندگی صرف وہ ہے جو خود اللہ ہی کی اطاعت وبندگی (اسلام) پر مبنی ہو۔ اس کے سوا کوئی دوسرا نظام، جس کی بنیاد کسی دوسرے مفروضہ اقتدار کی اطاعت پر ہو، مالکِ کائنات کے ہاں ہرگز مقبول نہیں ہے، اور فطرتاً نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ انسان جس کا مخلوق، مملوک اور پروردہ ہے، اور جس کے ملک میں رعیت کی حیثیت سے رہتا ہے، وہ تو کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ انسان خود اس کے سوا کسی دوسرے اقتدار کی بندگی واطاعت میں زندگی گزارنے اور کسی دوسرے کی ہدایات پر چلنے کا حق رکھتا ہے۔
تیسری آیت میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ نے اپنے رسولؐ کو اسی صحیح وبرحق نظامِ زندگی یعنی اسلام کے ساتھ بھیجا ہے اور اس کے مشن کی غایت یہ ہے کہ اس نظام کو تمام دوسرے نظاموں پر غالب کرکے رہے۔
چوتھی آیت میں دینِ اسلام کے پیروئوں کو حکم دیا گیا ہے کہ دنیا سے لڑو اور اس وقت تک دم نہ لو جب تک فتنہ، یعنی اُن نظامات کا وجود دنیا سے مٹ نہ جائے جن کی بنیاد خدا سے بغاوت پر قائم ہے۔ اور پورا نظامِ اطاعت وبندگی اللہ کے لیے خالص نہ ہو جائے۔
پانچویں آیت میں نبی a سے اس موقع پر خطاب کیا گیا ہے جب کہ ۲۳ سال کی مسلسل جدوجہد سے عرب میں انقلاب کی تکمیل ہو چکی تھی، اسلام اپنی پوری تفصیلی صورت میں ایک اعتقادی وفکری، اخلاقی وتعلیمی، تمدنی ومعاشرتی اورمعاشی وسیاسی نظام کی حیثیت سے عملاً قائم ہو گیا تھا اور عرب کے مختلف گوشوں سے وفد پر وفد آ کر اس نظام کے دائرے میں داخل ہونے لگے تھے۔ اس طرح جب وہ کام تکمیل کو پہنچ گیا جس پر محمد a کو مامور کیا گیا تھا تو آپؐ سے ارشاد ہوتا ہے کہ اس کارنامے کو اپنا کارنامہ سمجھ کر فخر نہ کرنے لگنا، نقص سے پاک بے عیب ذات اور کامل ذات صرف تمھارے ربّ ہی کی ہے، لہٰذا اس کارِ عظیم کی انجام دہی پر اس کی تسبیح اور حمد وثنا کرو اور اس ذات سے درخواست کرو کہ مالک! اس ۲۳ سال کے زمانۂ خدمت میں اپنے فرائض ادا کرنے میں جو خامیاں اور کوتاہیاں مجھ سے سرزد ہو گئی ہوں انھیں معاف فرما دے۔
خ خ خ
زبان: اُردو
صفحات: 136
اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، منصورہ ملتان روڈ، لاہور۔