ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔
عرض ناشر
اس سے پہلے اس کتاب کے مضامین حسب ذیل پمفلٹوں کی شکل میں طبع ہوچکے تھے۔
۱۔قادیانی مسئلہ
۲۔مقدمہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
۳۔ تحقیقاتی عدالت میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒکا پہلا بیان
۴۔ تحقیقاتی عدالت میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒکا دوسرا بیان
۵۔ تحقیقاتی عدالت میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا تیسرا بیان
اب ان تمام مضامین کو یکجا شائع کیاجارہاہے تاکہ قارئین بیک وقت اس پورے مسئلہ سے واقف ہوسکیں۔ اس کے ساتھ حسب ذیل مضامین کابھی اضافہ کردیاگیاہے۔
۱۔ قادیانیت … کی نظر میں علامہ محمد اقبالؒ
(۱) اس میں علامہ موصوف کی چند تحریروں کے اقتباسات ہیں جو آپ نے اس مسئلہ پر تحریر فرمائی تھیں۔ (۲) اس خط کا ترجمہ جو روزنامہ اسٹیٹسمین، کلکتہ کو اس مسئلہ کے بارے میں لکھاتھا۔ (۳)پنڈت جواہر لال نہرو کے ان سوالات کے جوابات جو پنڈت نہرو نے اس مسئلہ میں اٹھائے تھے۔
(۲) منشی محمد اکبر خاں صاحب ڈسٹرکٹ جج بہاولنگر کے اس مشہور فیصلہ کا ترجمہ جو آپ نے قادیانیوں کے بارے میں ایک مقدمہ پر قیام پاکستان سے قبل ۷/فروری ۱۹۳۵ء کو دیاتھا ۔
(۳)پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے ۳۳ جید علما کی متفقہ تجویز جو انھوںنے قادیانیوں کے بارے میں دستور ساز اسمبلی کے سامنے پیش کی تھی۔
(۴) شیخ محمد اکبر صاحب پی ۔ سی ۔ ایس ۔ ایڈیشنل سیشن جج راولپنڈی کا فیصلہ جو آپ نے قیام پاکستان کے بعد ۳/جون ۱۹۵۵ء کو قادیانیوں کے متعلق ایک مقدمہ میں دیاتھا۔
ہمیں یقین ہے کہ اب اس مجموعہ میں ہر اس شخص کی کامل تشفی کا سامان ہے جو قادیانیت کے مسئلہ کو سمجھنا چاہتاہے اور اس کے جو دینی ، سیاسی ، معاشرتی اور قانونی اثرات مرتب ہوتے ہیں ان سے کما حقہ و اقفیت حاصل کرنا چاہتاہے۔
وماتوفیقی الا باللّٰہ
نیاز مند
منیجنگ ڈائریکٹر
اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمٹیڈ، لاہور
دیباچہ
اس مختصر کتابچے میں وہ تمام دلائل جمع کردئیے گیے ہیں جن کی بنا پر ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دیا جائے۔ اس کے ساتھ ان تمام اعتراضات اور عذرات کا جواب بھی دیا گیاہے جو اس مطالبے کے خلاف مختلف حلقوں سے پیش کیے جاتے ہیں۔
جمہوری نظام کا یہ مسلّم قاعدہ ہے کہ یا تو دلیل سے بات مانو یا دلیل سے منوائو۔ محض طاقت کے بل پر ایک معقول و مدلل بات کو رد کردینا جمہوریت نہیں ہے۔ اس لیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک کے آئین ساز حضرات یاتو دلیل سے ہماری بات مانیں یا نہیں تو سامنے آکر اپنے وہ دلائل پیش کریں جن کی بنا پر وہ ہماری اس بات کو نہیں مانتے۔ محض اس بھروسے پر کہ مجلس آئین ساز میں انہیں اکثریت حاصل ہے اگر وہ ایک معقول عوامی مطالبے کو بلا دلیل رد کریں گے تو یہ ان کے اپنے ہی حق میں نقصان دہ ہوگا۔ عوامی مطالبہ آخرکار پورا ہوکر ہی رہے گا۔
ابوالاعلیٰ مودودی ؒ
باب اول: قادیانی مسئلہ
تمہید:
گذشتہ ماہ جنوری میں پاکستان کے ۳۳ سربرآوردہ علما نے تازہ دستوری سفارشات پر غور و خوض کرکے جو اصلاحات اور جوابی تجاویز مرتب کی ہیں، ان میں سے ایک اہم تجویز یہ بھی ہے کہ ان تمام لوگوں کو جو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہیں۔ ایک جداگانہ اقلیت قرار دیا جائے اور ان کے لیے پنجاب سے مرکزی اسمبلی میں ایک نشست مخصوص کردی جائے۔ جہاں تک علمائ کی دوسری تجاویز کا تعلق ہے ۔ ان کی معقولیت تو اتنی واضح ہے کہ علمائ کے مخالفین کو بھی ان پر کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوسکی اور اگر انھوں نے کچھ کہا بھی تو وہ جگر سوختہ کے دھوئیں سے زیادہ نہ تھا جس کا ملک کے پڑھے لکھے اور ذی فہم لوگوں کی نگاہ میں کوئی وزن نہیں ہوسکتا لیکن اس خاص تجویز کے بارے میں ہم محسوس کرتے ہیں کہ قادیانی مسئلے کا بہترین حل ہونے کے باوجود تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک تعداد ابھی تک اس کی صحت ومعقولیت کی قائل نہیں ہوسکی ہے اور پنجاب و بہاولپور کے ماسوا دوسرے علاقوں ،خصوصاً بنگال میں ابھی عوام الناس بھی پوری طرح اس کا وزن محسوس نہیں کررہے ہیں۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ان صفحات میں بھی پوری وضاحت کے ساتھ وہ دلائل بیان کردیں جن کی بنا پر علمائ نے بالاتفاق یہ تجویز پیش کی ہے۔
ختم نبوت کی نئی تفسیر:
واقعہ یہ ہے کہ قادیانیوں کا مسلمانوں سے الگ ایک اُمت ہونا اس پوزیشن کا ایک لازمی منطقی نتیجہ ہے جو انھوںنے خود اختیار کی ہے۔ وہ اسباب ان کے اپنے ہی پیداکردہ ہیں جو انہیں مسلمانوں سے کا ٹ کرایک جداگانہ ملت بنادیتے ہیں۔
پہلی چیز جو انہیں مسلمانوں سے جدا کرتی ہے وہ ختم نبوت کی نئی تفسیر ہے جو انھوںنے مسلمانوں کی متفق علیہ تفسیر سے ہٹ کر اختیارکی۔ ساڑھے تیرہ سو سال سے تمام مسلمان بالاتفاق یہ مانتے رہے ہیں اور آج بھی یہی مانتے ہیں کہ سید نامحمدﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور آپﷺ کے بعد اب کوئی نبیﷺ مبعوث ہونے والا نہیں ہے ۔ ختم نبوت کے متعلق قرآن مجید کی تصریح کا یہی مطلب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا تھا اور اسی لیے انھوںنے ہر اس شخص کے خلاف جنگ کی جس نے حضورﷺ کے بعد دعوائے نبوت کیا۔ پھر یہی مطلب بعد کے ہر دور میں تمام مسلمان سمجھتے رہے ۔ جس کی بنا پر مسلمانوں نے اپنے درمیان بھی کسی ایسے شخص کو برداشت نہیں کیا جس نے نبوت کا دعویٰ کیاہو ۔ لیکن قادیانی حضرات نے تاریخ میں پہلی مرتبہ ’’خاتم النبیین ‘‘کی یہ نرالی تفسیرکی کہ نبی اکرمﷺ ’’نبیوں کی مہر ‘‘ہیں اور اس کا مطلب یہ بیان کیا کہ حضوراکرمﷺ کے بعد اب جو بھی نبی آئے گا اس کی نبوت آپ کی مہر تصدیق لگ کر مصدقہ ہوگی۔
اس کے ثبوت میں قادیانی لٹریچر کی بکثرت عبارتوں کا حوالہ دیاجاسکتاہے مگر ہم صرف تین حوالوں پر اکتفاکرتے ہیں:
’’خاتم النبیین کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپﷺ کی مہر کے بغیر کسی کی نبوت کی تصدیق نہیں ہو سکتی ۔ جب مہر لگ جاتی ہے تو وہ کاغذ سند ہوجاتاہے ۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ کی مہر اور تصدیق جس نبوت پر نہ ہو وہ صحیح نہیں ہے۔ (ملفوظات احمدیہ :مرتبہ محمد منظور الٰہی صاحب قادیانی ، حصہ پنجم ص ۲۹۰)
’’ہمیں اس سے انکار نہیں کہ رسول اکرم ﷺ خاتم النبیین ہیں مگر ختم کے معنی وہ نہیں جو ’’احسان ‘‘ کا سواد اعظم سمجھتاہے اور جو رسول کریمﷺ کی شان اعلیٰ و ارفع کے سراسر خلاف ہے کہ آپﷺ نے نبوت کی نعمت عظمیٰ سے اپنی اُمت کو محروم کردیا بلکہ یہ ہیں کہ آپﷺ نبیوں کی مہر ہیں۔ اب وہی نبی ہوگا جس کی آپ تصدیق کریں گے …انہی معنوں میں ہم رسول کریمﷺ کو خاتم النبیین سمجھتے ہیں۔ ‘‘
(الفضل ،قادیان ، مورخہ ۲۲ ستمبر۱۹۳۹ئ)
’’خاتم مہر کو کہتے ہیں ۔ جب نبی کریمﷺ مہر ہوئے تو اگر ان کی اُمت میں کسی قسم کا نبی نہیں ہوگا تو وہ مہر کس طرح ہوئے یا مہر کس پر لگے گی ؟‘‘
(الفضل ،قادیان ، مورخہ ۲۲ مئی۱۹۲۲ئ)
تفسیر کا یہ اختلاف صرف ایک لفظ کی تاویل و تفسیر تک ہی محدود نہ رہا بلکہ قادیانیوں نے آگے بڑھ کر صاف صاف اعلان کردیا کہ نبی اکرمﷺ کے بعد ایک نہیں ہزاروںنبی آسکتے ہیں۔ یہ بات بھی ان کے اپنے واضح بیانات سے ثابت ہے جن میں سے صرف چند کو ہم نقل کرتے ہیں:
’’یہ بات بالکل روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔ ‘‘ (حقیقۃ النبوت مصنفہ مرزا بشیر الدین محمو داحمد، قادیان ص ۲۲۸)
’’انھوںنے (یعنی مسلمانوں نے ) یہ سمجھ لیا ہے کہ خدا کے خزانے ختم ہو گئے …ان کا یہ سمجھنا خدا تعالیٰ کی قدر کو ہی نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے ، ورنہ ایک نبی کیا میں تو کہتاہوں ہزاروں نبی ہوں گے۔ ‘‘ (انوارخلافت ،مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ، ص ۶۲)
’’اگر میری گردن کے دونوں طرف تلوار بھی رکھ دی جائے اور مجھے کہا جائے کہ تم یہ کہو آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو میں اسے ضرور کہوں گاکہ تو جھوٹاہے، کذاب ہے، آپ کے بعد نبی آسکتے ہیں اور ضرورآسکتے ہیں ۔‘‘ (انوار خلافت، ص ۶۵)
مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت:
اس طرح نبوت کا دروازہ کھول کر مرزا غلا م احمد صاحب نے خود اپنی نبوت کا دعویٰ کیا اور قادیانی گروہ نے ان کو حقیقی معنوں میں نبی تسلیم کیا۔ اس کے ثبوت میں قادیانی حضرات کی بے شمار مستند تحریرات میں سے چند یہ ہیں :
’’اورمسیح موعود (یعنی مرزا غلام احمد صاحب ) نے بھی اپنی کتابوں میں اپنے دعویٰ رسالت و نبوت کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے جیساکہ آپ لکھتے ہیں کہ ہمار ا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں۔ ( بدر ، ۵مارچ ۱۹۰۸ئ)
یاجیساکہ آپ نے لکھاہے کہ میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اگر میں اس سے انکار کروںتو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتاہے تو میں کیوں کر اس سے انکار کرسکتاہوں۔ میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک کہ اس دنیا سے گزر جائوں ۔ ‘‘ (خط حضرت مسیح موعود بہ طرف ایڈیٹر اخبار عام )
یہ خط حضرت مسیح موعود نے اپنی وفات سے صرف تین دن پہلے یعنی ۲۳مئی ۱۹۰۸ء کو لکھا اور آپ کے یوم وصال ۲۶مئی ۱۹۰۸ء کو اخبار میں شائع ہوا۔
(کلمۃ الفصل مصنفہ صاحبزادہ بشیر احمد قادیانی ۔ مندرجہ ریویو آف ریلیجنز نمبر۳،جلد ۱۴،ص ۱۱۰)
’’پس شریعت اسلامی نبی کے جو معنی کرتی ہے اس کے معنی سے حضرت صاحب (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی صاحب ) ہرگز مجازی نبی نہیں ہیںبلکہ حقیقی نبی ہیں ۔‘‘
(حقیقۃ النبوت ، مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ قادیان، ص ۱۷۴)
قادیانی ایک علیحدہ اُمت :
نبوت کے دعوے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جو شخص بھی اس نبوت پر ایمان نہ لائے وہ کافر قرار دیا جائے ۔ چنانچہ قادیانیوں نے یہی کیا۔ وہ ان تمام مسلمانوں کو اپنی تحریر و تقریر میں اعلانیہ کافر قرار دیتے ہیں جو مرزا غلا م احمد صاحب کو نبی نہیں مانتے۔ اس کے ثبوت میں ان کی چند صریح عبارتیں یہ ہیں :
’’کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے ، خواہ انھوںنے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا، وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ ‘‘
(آئینہ صداقت مصنفہ مرزابشیر الدین محمود احمدصاحب ، خلیفہ قادیان، ص ۳۵)
’’ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ کو مانتاہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا یا عیسیٰ کو مانتاہے مگر محمد ﷺ کو نہیں مانتا ہے یا محمدﷺکو مانتاہے مگر مسیح موعودکو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ‘‘
(کلمۃ الفصل ، مصنفہ صاحبزادہ بشیر احمدصاحب، قادیانی ، مندرجہ ریویو آف ریلیجنز، ص ۱۱۰)
’’ہم چونکہ مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں اور غیر احمدی آپ کو نبی نہیں مانتے، اس لیے قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق کہ کسی ایک نبی کا انکار بھی کفر ہے، غیر احمدی کافرہیں۔‘‘
(بیان مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب با جلاس سب جج عدالت گورداسپور مندرجہ اخبار الفضل مورخہ
۲۹/۲۶جون ۱۹۲۲ئ)
قادیانیوں کا مذہب مسلمانوں سے جدا ہے :
وہ صرف یہی نہیں کہتے کہ مسلمانوں سے ان کااختلاف محض مرزا صاحب کی نبوت کے معاملے میں ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا خدا ، ہمارا اسلام ، ہمارا قرآن ،ہماری نماز ، ہمارا روزہ ، غرض ہماری ہر چیز مسلمانوں سے الگ ہے۔ ۲۱/ اگست ۱۹۱۷ء کے الفضل میں خلیفہ صاحب کی ایک تقریر ’’طلبا کو نصائح ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی جس میں انھوںنے اپنی جماعت کے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے یہ بتایا تھاکہ احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان کیااختلاف ہے۔ اس میں وہ فرماتے ہیں :
’’ورنہ حضرت مسیح موعود نے تو فرمایا ہے کہ ان کا (یعنی مسلمانوں کا ) اسلام اور ہے اور ہمارا اور، ان کا خدا اور ہے اور ہمارا اور ،ہمارا حج اور ہے ان کا حج اور ، اسی طرح ان سے ہربات میں اختلاف ہے۔ ‘‘
۳۰ جولائی ۱۹۳۱ء کے الفضل میں خلیفہ صاحب کی ایک اور تقریر شائع ہوئی ہے جس میں وہ اس بحث کا ذکر کرتے ہیں جو مرزاغلام احمد صاحب کی زندگی میں اس مسئلے پر چھڑ گئی تھی کہ احمدیوں کو اپنا ایک مستقل مدرسہ دینیات قائم کرنا چاہیے یا نہیں۔ اس وقت ایک گروہ کی رائے یہ تھی کہ نہیں کرنا چاہیے اور ان کی دلیل یہ تھی کہ ’’ہم میں اور دوسرے مسلمانوںمیں چند مسائل کا اختلاف ہے ،ان مسائل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حل کردیا ہے اور ان کے دلائل بتادئیے ہیں ، باقی باتیں دوسرے مدرسوں سے سیکھی جاسکتی ہیں۔ ‘‘ دوسرا گروہ اس کے برعکس رائے رکھتاتھا۔ اس دوران میں مرزا غلام احمد صاحب آگئے اور انھوںنے یہ ماجرا سن کر اپنا فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کو خلیفہ صاحب ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:
’’یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح یا اور چند مسائل میں ہے۔ آپ نے فرمایااللہ تعالیٰ کی ذات ، رسول کریمﷺ، قرآن ، نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ غرض آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ان سے ہمیں اختلاف ہے۔ ‘‘
نئے مذہب کے نتائج :
اس ہمہ گیر اختلاف کو اس کے آخری منطقی نتائج تک بھی قادیانیوں نے خود ہی پہنچادیا اور مسلمانوں سے تمام تعلقات منقطع کرکے ایک الگ اُمت کی حیثیت سے اپنی اجتماعی تنظیم کرلی ۔ اس کی شہادت قادیانیوں کی اپنی تحریرات سے ہمیں یہ ملتی ہے:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سختی سے تاکید فرمائی ہے کہ کسی احمدی کو غیر احمدی کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ باہر سے لوگ اس کے متعلق بار بار پوچھتے ہیں۔ میں کہتاہوں تم جتنی دفعہ بھی پوچھوگے اتنی دفعہ ہی میں یہی جواب دوں گا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنی جائز نہیں ، جائز نہیں، جائز نہیں۔‘‘
(انوارخلافت، مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ قادیان ،ص ۸۹)
’’ہمارا یہ فرض ہے کہ غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں۔ ‘‘ (انوارخلافت ص ۹۰)
’’اگر کسی غیر احمدی کا چھوٹا بچہ مر جائے تو اس کاجنازہ کیوں نہ پڑھا جائے ، وہ تو مسیح موعود کا منکر نہیں ؟میں یہ سوال کرنے والے سے پوچھتاہوں کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہندوئوں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جاتا ؟ …غیر احمدی کا بچہ بھی غیراحمدی ہی ہوا، اس لیے اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا چاہیے۔ ‘‘ (انوارخلافت ،ص ۹۳)
’’حضرت مسیح موعود نے اس احمدی پر سخت ناراضگی کااظہار کیا ہے جو اپنی لڑکی غیراحمدی کو دے ۔ آپ سے ایک شخص نے بار بار پوچھااور کئی قسم کی مجبوریوں کو پیش کیا لیکن آ پ نے اس کو یہی فرمایا کہ لڑکی کو بٹھائے رکھو لیکن غیر احمدیوں میں نہ دو۔ آپ کی وفات کے بعد اس نے غیر احمدیوں کو لڑکی دے دی تو حضرت خلیفہ اول نے اس کو احمدیوں کی امامت سے ہٹادیا اور جماعت سے خارج کردیا اور اپنی خلافت کے چھ سالوں میں اس کی توبہ قبول نہ کی باوجود یکہ وہ بار بار توبہ کرتارہا۔ (انوارخلافت ،ص ۹۳۔۹۴)
’’حضرت مسیح موعود نے غیر احمدیوں کے ساتھ صرف وہی سلوک جائز رکھا ہے جو نبی کریم ﷺنے عیسائیوں کے ساتھ کیا۔ غیر احمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں، ان کو لڑکیا ں دینا حرام قرار دیا گیا، ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا ۔ اب باقی کیا رہ گیاہے جو ہم ان کے ساتھ مل کر کرسکتے ہیں ؟ دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں ۔ ایک دینی دوسرے دنیوی ۔ دینی تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ عبادت کااکٹھا ہوناہے اور دنیوی تعلق کا بھاری ذریعہ رشتہ وناطہ ہے ۔ سو یہ دونوں ہمارے لیے حرام قرار دئیے گئے ۔ اگر کہو کہ ہم کو ان کی لڑکیاں لینے کی اجازت ہے تو میں کہتاہوں نصاریٰ کی لڑکیاں لینے کی بھی اجازت ہے اور اگر یہ کہو کہ غیر احمدیوں کو سلام کیوں کہا جاتاہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث سے ثابت ہے کہ بعض اوقات نبی کریم ﷺ نے یہود تک کو سلام کا جواب دیا ہے۔ ‘‘
(کلمۃ الفصل مندرجہ ریویو آف ریلیجنز ،ص ۱۶۹)
قادیانیوں کو علیحدہ اُمت قرار دینے کامطالبہ :
یہ قطع تعلق صرف تحریر و تقریر ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ پاکستان کے لاکھوں آدمی اس بات کے شاہد ہیں کہ قادیانی عملاً بھی مسلمانوں سے کٹ کر ایک الگ اُمت بن چکے ہیں۔ نہ وہ ان کے ساتھ نماز کے شریک ، نہ جنازے کے، نہ شادی بیاہ کے ۔ اب اس کے بعد آخر کون سی معقول وجہ رہ جاتی ہے کہ ان کو اور مسلمانوں کو زبردستی ایک اُمت میں باندھ رکھاہے ؟ جو علیحدگی نظریے اور عمل میں فی الواقع رونما ہوچکی ہے اور پچاس برس سے قائم ہے ، آخر اب اسے آئینی طور پر کیوں نہ تسلیم کرلیا جائے؟
حقیقت یہ ہے کہ قادیانی تحریک نے ختم نبوت کی ان حکمتوں اور مصلحتوں کو اب تجربے سے ثابت کردیا ہے جنہیں پہلے محض نظری حیثیت سے سمجھنا لوگوں کے لیے مشکل تھا۔ پہلے ایک شخص یہ سوال کرسکتاتھاکہ آخر کیوں محمد عربیﷺ کی نبوت کے بعد دنیا سے ہمیشہ کے لیے انبیا کی بعثت کا سلسلہ منقطع کردیا گیا۔ لیکن اب اس قادیانی تجربے نے عملاً یہ ثابت کردیا کہ اُمت مسلمہ کی وحدت اور استحکام کے لیے ایک نبی کی متابعت پر تمام کلمہ گویان توحید کو مجتمع کردینا، اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی رحمت ہے اور نئی نئی نبوتوں کے دعوے کس طرح ایک اُمت کو پھاڑ کر اس کے اندر مزید اُمتیں بنانے اور اس کے اجزا کو پارہ پار ہ کردینے کے موجب ہوتے ہیں۔ اب اگر یہ تجربہ ہماری آنکھیں کھول دے اور اس نئی اُمت کو مسلمانوں سے کاٹ کر الگ کردیں تو پھر کسی کو نبوت کا دعویٰ لے کر اٹھنے اور اُمت مسلمہ کے اندر پھر سے قطع و برید کا سلسلہ شروع کرنے کی ہمت نہ ہوگی۔ ورنہ ہمارے اس قطع و برید برداشت کرلینے کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم ایسے ہی دوسرے بہت سے حوصلہ مندوں کی ہمت افزائی کررہے ہیں ۔ ہمارا آج کا تحمل کل دوسروں کے لیے نظیر بن جائے گا اور معاملہ ایک قطع و برید پر ختم نہ ہوگا بلکہ آئے دن ہمارے معاشرے کو نئی نئی پراگندگیوں کے خطرے سے دوچار ہوناپڑے گا۔
یہ ہے وہ اصل دلیل جس کی بنا پر ہم قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قراردینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس دلیل کاکوئی معقول جواب کسی کے پاس نہیں ہے مگر سامنے سے مقابلہ کرنے کے بجائے چند دوسرے سوالات چھیڑ ے جاتے ہیں جو براہ راست نفس معاملہ سے متعلق نہیںہیں۔ مثلاً کہاجاتاہے کہ مسلمانوں میں اس سے پہلے بھی مختلف گروہ ایک دوسرے کی تکفیر کرتے رہے ہیں اور آج بھی کررہے ہیں اگر اسی طرح ایک ایک کی تکفیر پر دوسرے کو اُمت سے کاٹ دینے کا سلسلہ شروع کردیا جائے تو سرے سے کوئی اُمت مسلمہ باقی ہی نہ رہے گی۔
یہ بھی کہاجاتاہے کہ مسلمانوں میں قادیانیوں کے علاوہ چند اور گروہ بھی ایسے موجود ہیں جو نہ صرف بنیادی عقائد میں سواد اعظم سے گہرا اختلاف رکھتے ہیں ۔ بلکہ عملاً انھوںنے اپنی اجتماعی شیرازہ بندی مسلمانوں سے الگ کر رکھی ہے اور قادیانیوں کی طرح وہ بھی سارے مذہبی و معاشرتی تعلقات مسلمانوں سے منقطع کیے ہوئے ہیں۔ پھر کیا ان سب کو بھی اُمت سے کاٹ پھینکا جائے گا؟ یا یہ معاملہ کسی خاص ضد کی وجہ سے صرف قادیانیوں کے ساتھ کیاجارہاہے ؟آخر قادیانیوں کا وہ خاص قصور کیاہے جس کی بنا پر اس طرح کے دوسرے گروہوں کو چھوڑ کر خصوصیت کے ساتھ ان ہی کو الگ کرنے کے لیے اتنا اصرار کیاجاتاہے۔
یہ بھی کہاجاتاہے کہ علیحدگی کا مطالبہ تو اقلیت کیا کرتی ہے مگر یہ عجیب ماجرا ہے کہ آج اکثریت کی طرف سے اقلیت کو الگ کرنے کا مطالبہ کیاجارہاہے حالانکہ اقلیت اس کے ساتھ رہنے پر مُصر ہے۔
بعض لوگوں کے ذہن پر یہ خیال بھی مسلط ہے کہ قادیانی حضرات ابتدا سے عیسائیوں، آریہ سماجیوں اور دوسرے حملہ آوروں کے مقابلے میں اسلام کی مدافعت کرتے رہے ہیں اور دنیا بھر میں وہ اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ یہ سلوک زیبا نہیں ہے اور آخر میں اب یہ بات بھی بڑے معتبر ذرائع سے سننے میں آئی ہے کہ قادیانیوں کے خلاف یہ قدم اٹھاناہمارے ذمہ داران حکومت کے نزدیک پاکستان کے لیے سیاسی حیثیت سے بہت نقصان دہ ہے کیونکہ ان کی رائے میں قادیانی وزیرخارجہ کا ذاتی اثر انگلستان اور امریکہ میں بہت زیادہ ہے اور ہم کو ان ملکوں سے جو کچھ بھی مل سکتا ہے، ان ہی کے توسط سے مل سکتاہے۔
ذمہ داران حکومت کا رویہ :
آخر ی بات چونکہ ذرا مختصر ہے اس لیے پہلے ہم اس کا جواب دیں گے پھر دوسرے سوالات پر بحث کریں گے۔
اگر یہ واقعہ ہے کہ ہمارے ذمہ داران حکومت یہی خیال رکھتے ہیں تو ہمارے نزدیک ایسے کوڑھ مغز اور کند ذہن لوگوں کی قیادت سے یہ ملک جتنی جلدی نجات پا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ جو لوگ ایک ملک کی قسمت کو کسی ایک شخص یا چند اشخاص پر منحصر سمجھتے ہیں وہ ہرگز اس لائق نہیں ہیں کہ ایک لمحہ کے لیے بھی پاکستان کی زمام کار ان کے ہاتھ میں رہنے دی جائے۔ انگلستان اور امریکہ میں کوئی سیاسی مدبر اتنا احمق نہیں ہوسکتا کہ وہ آٹھ کروڑ کی آبادی رکھنے والے ایک عظیم الشان ملک اور اس کے ذرائع و وسائل اور اس کے جغرافی محل وقوع کا وزن محسوس کرنے کی بجائے صرف ایک شخص کاوزن محسوس کرے اور اس ملک کے ساتھ جو کچھ بھی معاملہ کرے اس شخص کی خاطر کرے، اور اس شخص کے ہٹتے ہی پورے ملک سے اس لیے روٹھ جائے کہ تم نے اسی ایک آدمی کو ہٹادیا جس کے پاس خاطر سے تمھیں ’’روٹی کپڑا ‘‘ دے رہے تھے ۔ یہ احمقانہ بات اگر انگلستان اور امریکہ کے لوگ سن پائیں تو وہ ہمارے ’’مدبرین عظام ‘‘ کی عقل و خرد پر بے اختیار ہنس پڑیں گے اور انہیں سخت حیرت ہوگی کہ ایسے ایسے طفل مکتب اس بدقسمت ملک کے سربراہ کاربنے ہوئے ہیں جنہیں اتنی موٹی سی بات بھی معلوم نہیں ہے کہ باہر کی دنیامیں قادیانی وزیر خارجہ کو جو کچھ بھی اہمیت حاصل ہے پاکستان کانمائندہ ہونے کی وجہ سے ہے نہ کہ پاکستان کی اہمیت اس خاص وزیرخارجہ کے طفیل ۔
مسلمانوں میں شغل تکفیر:
اب ہم اوپر کے سوالات میں سے ایک ایک کو لے کر سلسلہ وار ان کاجواب دیتے ہیں۔ بلاشبہ مسلمانوں میں یہ ایک بیماری پائی جاتی ہے کہ ان کے مختلف گروہ ایک دوسرے کی تکفیر کرتے رہے ہیں اور اب بھی بعض گروہوں کا یہ شغل نامبارک جاری ہے۔لیکن اس کو حجت بناکرقادیانی گروہ کو امت مسلمہ میں شامل رکھناکئی وجوہ سے غلط ہے۔
اولاً، اس شغل تکفیر کی بعض غلط اور بری مثالوں کو پیش کرکے یہ کلی حکم نہیں لگایاجاسکتاکہ تکفیر ہمیشہ غلط ہی ہوتی ہے اور سرے سے کسی بات پر کسی کی تکفیر ہونی ہی نہ چاہیے۔ فروعات کے ذراذرا سے اختلافات پر تکفیرکردینااگر ایک غلط حرکت ہے تو اسی طرح دین کی بنیادی حقیقتوں سے کھلے کھلے انحراف پر تکفیر نہ کرنا بھی سخت غلطی ہے۔ جو لوگ بعض علمائ کی بے جا تکفیر بازی سے یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ ہر قسم کی تکفیر سرے سے ہی بے جا ہے، ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ کیا ہر شخص ہر حال میں مسلمان ہی رہتاہے خواہ وہ خدائی کا دعویٰ کربیٹھے یا نبوت کامدعی ہو یا اسلام کے بنیادی عقائد سے صریحاً منحرف ہو جائے؟
ثانیاً ، مسلمانوں کے جن گروہوں کی باہمی تکفیر بازی کو آج حجت بنایا جارہاہے ان کے سر برآوردہ علمائ ابھی ابھی کراچی میں سب کے سامنے جمع ہوئے تھے اور انھوںنے بالاتفاق اسلامی حکومت کے اصول مرتب کیے تھے۔ ظاہر ہے کہ انھوںنے ایک دوسرے کو مسلمان سمجھتے ہوئے ہی یہ کام کیا۔ اس سے بڑھ کر اس بات کاثبوت اور کیاہوسکتاہے کہ ایک دوسرے کے بعض عقائد کو کافرانہ عقائد کہنے اور سمجھنے کے باوجود وہ ایک دوسرے کو خارج از دائرہ اسلام نہ کہتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں ، لہٰذایہ اندیشہ بالکل فرضی ہے کہ قادیانیوں کو الگ کرنے کے بعد مختلف گروہوں کواُمت سے کاٹ پھینکنے کاایک سلسلہ چل پڑے گا۔
ثالثاً ، قادیانیوں کی تکفیر کا معاملہ دوسرے گروہوں کی باہمی تکفیر بازی سے بالکل مختلف نوعیت رکھتاہے،قادیانی ایک نئی نبوت لے کر اٹھے ہیں جو لازماًان تمام لوگوںکو ایک اُمت بناتی ہے جو اس نبوت پر ایمان لے آئیں اور ان تمام لوگوں کو کافر بنادیتی ہے جو اس پر ایمان نہ لائیں۔ اس بنا پر قادیانی تمام مسلمانوں کی تکفیرپر متفق ہیں اور تمام مسلمان ان کی تکفیرپر متفق ۔ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت بڑا بنیادی اختلاف ہے جس کو مسلمانوں کے باہمی فروعی اختلافات پر قیاس نہیں کیاجاسکتا۔
مسلمانوں میں دوسرے فرقے:
بلاشبہ مسلمانوں میں قادیانیوں کے علاوہ بعض اور گروہ بھی ایسے موجود ہیں جو اسلام کی بنیادی حقیقتوں میں مسلمانوں سے اختلاف رکھتے ہیں اور مذہبی و معاشرتی تعلقات منقطع کرکے اپنی جداگانہ تنظیم کر چکے ہیں۔ لیکن چند وجوہ ایسے ہیں جن کی بنا پر ان کا معاملہ قادیانیوں سے بالکل مختلف ہے۔
وہ مسلمانوں سے کٹ کر بس الگ تھلگ ہو بیٹھے ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے چند چھوٹی چھوٹی چٹانیں ہوں جو سرحد پر پڑی ہوئی ہوںاس لیے ان کے وجود پر صبر کیاجاسکتاہے۔ لیکن قادیانی مسلمانوں کے اندر مسلمان بن کر گھستے ہیں۔ اسلام کے نام سے اپنے مسلک کی اشاعت کرتے ہیں، مناظرہ بازی اور جارحانہ تبلیغ کرتے پھرتے ہیں اور مسلم معاشرے کے اجزائ کو توڑ توڑکر اپنے جداگانہ معاشرے میں شامل کرنے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں۔ ان کی بدولت مسلم معاشرے میں اختلال و انتشار کا ایک مستقل فتنہ برپاہے جس کی وجہ سے ان کے معاملے میں ہمارے لیے وہ صبر ممکن نہیں ہے جو دوسرے گروہوں کے معاملے میں کیاجاسکتاہے۔
ان گروہوںکا مسئلہ ہمارے لیے صرف ایک دینیاتی مسئلہ ہے کہ آیااپنے مخصوص عقائد کی بنا پر وہ اسلام کے پیروسمجھے جاسکتے ہیںیانہیں۔اگر بالفرض وہ اسلام کے پیرونہ بھی مانے جائیں تو جس جمود کی حالت میں وہ ہیں اس کی وجہ سے ان کا مسلمانوں میں شامل رہنا ہمارے لیے نہ خطرہ ایمان ہے اور نہ کوئی معاشرتی ، معاشی یا سیاسی مسئلہ ہی پیداکرتاہے۔ لیکن مسلمانوں میں قادیانی مسلک کی مسلسل تبلیغ ایک طرف لاکھوں ناواقف دین مسلمانوں کے لیے ایمان کا خطرہ بنی ہوئی ہے اور دوسری طرف جس خاندان میں بھی ان کی یہ تبلیغ کارگر ہوجاتی ہے وہاں فوراً ایک معاشرتی مسئلہ پیدا ہوجاتاہے۔ کہیں شوہر اور بیوی میں جدائی پڑ رہی ہے۔ کہیں باپ اور بیٹے ایک دوسرے سے کٹ رہے ہیں اور کہیں بھائی اور بھائی کے درمیان شادی و غم کی شرکت تک کے تعلقات منقطع ہو رہے ہیں۔ اس پر مزید یہ کہ قادیانیوں کی جتھہ بندی سرکاری دفتروں میں ، تجارت میں، صنعت میں، زراعت میں غرض زندگی کے ہر میدان میں مسلمانوں کے خلاف نبردآزما ہے جس سے معاشرتی مسئلے کے علاوہ اور دوسرے مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں۔
قادیانیوں کے سیاسی عزائم:
پھر دوسرے گروہوں کے کوئی ایسے سیاسی رجحانات نہیں ہیں جو ہمارے لیے کسی حیثیت سے خطرناک ہوں اور ہمیں مجبور کرتے ہوںکہ ہم فوراً ان کے مسئلے کو حل کرنے کی فکر کریں ۔ لیکن قادیانیوں کے اندر بعض ایسے خطرناک سیاسی رجحانات پائے جاتے ہیں، جن سے کسی طرح آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں ۔
ان کو ابتدا سے یہ احساس رہاہے کہ ایک نئی نبوت کادعویٰ لے کر جو شخص یا گروہ اٹھے اس کاکسی آزاد وباختیار مسلم سوسائٹی کے اندر پنپنا مشکل ہے۔ وہ مسلم قوم کے مزاج سے واقف ہیں کہ وہ طبعاً ایسے دعووں سے متنفر ہے جو ماننے اور نہ ماننے والوں کے درمیان کفر واسلام کی تفریق کرکے نظام دین کو اور اسلامی معاشرے کے نظام کو درہم برہم کرتے ہوں۔ وہ مسلمانوں کی تاریخ سے واقف ہیں کہ صحابہ کرام ؓ کے دور سے لے کر آج تک اس طرح کے مدعیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتارہاہے۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ جہاں حکومت مسلمانوں کے اپنے ہاتھ میں ہو وہاں نئی نئی نبوتوں کے چراغ نہ کبھی جلنے دئیے گئے ہیں اور نہ آئندہ کبھی اُمید کی جاسکتی ہے کہ جلنے دئیے جائیں گے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیںکہ صرف ایک غیر مسلم حکومت ہی میں آدمی کو یہ آزادی مل سکتی ہے کہ حکومت کو اپنی وفاداری و خدمت گزاری کا پورا اطمینان دلانے کے بعد مذہب کے دائرے میں جو دعویٰ چاہے کرے اور مسلمانوں کے دین ، ایمان اور معاشرے میں جیسے فتنے چاہے اٹھاتا رہے۔ اس لیے وہ ہمیشہ اسلام کی حکومت پر کفر کی حکومت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگرچہ ان کی شکار گاہ مسلمان قوم ہی ہے ، کیونکہ وہ اسلام کے نام پر اپیل کرتے ہیں اور قرآن و حدیث کے اسلحہ سے کام لیتے ہیں۔ لیکن ان کامفاد یہ مطالبہ کرتاہے کہ مسلمان قوم ایک کافر اقتدار کے پنجے میں بے بس ہو کر ان کی شکار گاہ بنی رہے اور یہ اس کافر اقتدار کے پکے وفادار بن کر اس کا شکار کرتے رہیں۔ ایک آزاد خود مختار مسلمان قوم ان کے لیے بڑی سنگلاخ زمین ہے جسے وہ دل سے پسند نہیں کرتے اور نہ ہی کرسکتے ہیں۔
اس کے ثبوت میں مرزا غلام احمد صاحب اور ان کی جماعت کے بکثرت بیانات میں سے صرف چند کا نقل کردیناہی کافی ہے :
’’بلکہ اس گورنمنٹ کے ہم پر اس قدر احسان ہیں کہ اگر ہم یہاں سے نکل جائیں تو ہمارا مکہ میں گزارا ہوسکتاہے اور نہ قسطنطنیہ میں تو پھر کس طرح ہوسکتاہے کہ ہم اس کے برخلاف کوئی خیال اپنے دل میں رکھیں۔ ‘‘ (ملفوظات احمدیہ، جلد اول،ص ۱۴۶)
’’میں اپنے کام کو نہ مکہ میں اچھی طرح چلا سکتاہوں، نہ مدینہ میں، نہ روم میں، نہ شام میں، نہ ایران میں، نہ کابل میں مگر اس گورنمنٹ میں جس کے اقبال کے لیے دعاکرتا ہوں۔‘‘ (تبلیغ رسالت مرزا غلام احمد صاحب، جلد ششم، ص ۹۹)
’’یہ تو سوچو کہ اگر تم اس گورنمنٹ کے سائے سے باہرنکل جائو تو پھر تمہارا ٹھکانہ کہاں ہے؟ ایسی سلطنت کا بھلا نام تو لو جو تمہیں اپنی پناہ میں لے لے گی۔ ہر ایک اسلامی سلطنت تمہارے قتل کرنے کے لیے دانت پیس رہی ہے ۔ کیونکہ ان کی نگاہ میں تم کافر اور مرتد ٹھہر چکے ہو۔ تم اس خدا داد نعمت کی قدر کرو اور تم یقیناً سمجھ لو کہ خدا تعالیٰ نے سلطنت انگریز تمہاری بھلائی کے لیے اس ملک میں قائم کی ہے اور اگر اس سلطنت پر کوئی آفت آئے تو وہ آفت تمہیں بھی نابود کردے گی …ذرا کسی اور سلطنت کے زیر سایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیاجاتاہے ۔ سنو انگریزی سلطنت تمہارے لیے ایک رحمت ہے۔ تمہارے لیے ایک برکت ہے اور خداکی طرف سے تمہاری وہ سپرہے پس تم دل و جان سے اس سپر کی قدر کرو اور ہمارے مخالف جو مسلمان ہیں، ہزار ہا درجہ ان سے انگریز بہتر ہیں کیونکہ وہ ہمیں واجب القتل نہیں سمجھتے ۔ وہ تمہیں بے عزت نہیں کرنا چاہتے ۔ ‘‘
(اپنی جماعت کے لیے ضروری نصیحت از مرزا غلا م احمد صاحب مندرجہ تبلیغ رسالت ، جلد دہم، ص ۱۲۳)
’’ایرانی گورنمنٹ نے جو سلوک مرزا علی محمد باب، بانی فرقہ بابیہ اور اس کے بے کس مریدوں کے ساتھ مذہبی اختلاف کی وجہ سے کیا اور جو ستم اس فرقے پر توڑے گئے، وہ ان دانش مند لوگوں پر مخفی نہیں ہیں جو قوموں کی تاریخ پڑھنے کے عادی ہیں ۔ اور پھر سلطنت ترکی نے جو ایک یورپ کی سلطنت کہلاتی ہے ، جو برتائو بہاء اللہ بانی فرقہ بابیہ بہائیہ اور اس کے جلا وطن شدہ پیروئوں سے ۱۸۶۳ء سے لے کر ۱۸۹۲ء تک پہلے قسطنطنیہ پھر ایڈربا نوپل اور بعد ازاں مکہ کے جیل خانے میں کیا، وہ بھی دنیا کے اہم واقعات پر اطلاع رکھنے والوں پر پوشیدہ نہیں ہے۔ دنیامیں تین ہی بڑی سلطنتیں کہلاتی ہیں۔ اور تینوں نے جو تنگ دلی اور تعصب کانمونہ اس شائستگی کے زمانے میں دکھایا وہ احمدی قوم کو یقین دلائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ احمدیوں کی آزادی تاج برطانیہ کے ساتھ وابستہ ہے …لہٰذا تمام سچے احمدی جو حضرت مرزا کو مامور من اللہ اور ایک مقدس انسان تصور کرتے ہیں بدوں کسی خوشامد اور چاپلوسی کے دل سے یقین کرتے ہیں کہ برٹش گورنمنٹ ان کے لیے فضل ایزدی اور سایہ رحمت ہے اور اس کی ہستی کو وہ اپنی ہستی خیال کرتے ہیں۔‘‘ (الفضل ،۱۳ستمبر۱۹۱۴ئ)
یہ عبارات اپنی زبان سے خودکہہ رہی ہیں کہ کفار کی غلامی جو مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے ، مدعیان نبوت اور ان کے پیروئوں کے لیے وہی عین رحمت اور فضل ایزدی ہے کیونکہ اسی کے زیرسایہ ان لوگوں کو اسلام میں نئی نئی نبوتوں کے فتنے اٹھانے اور مسلم معاشرے کی قطع و برید کرنے کی آزادی حاصل ہوسکتی ہے اور اس کے برعکس مسلمانوں کی اپنی آزاد حکومت ، جو مسلمانوں کے لیے ایک رحمت ہے ،ان لوگوں کے لیے وہی ایک آفت ہے کیونکہ بااختیار مسلمان بہرحال اپنے ہی دین کی تخریب اور اپنے ہی معاشرے کی قطع وبرید کو بخوشی برداشت نہیںکرسکتے۔
پاکستان میں قادیانی ریاست :
اس مستقل رحجان کے علاوہ اب ایک نیا رجحان قادیانی گروہ میں ابھر رہاہے کہ وہ پاکستان کے اندر ایک قادیانی ریاست کی بنا ڈالنا چاہتے ہیں۔ قیام پاکستان کو ابھی پورا ایک سال بھی نہ گزرنے پایاتھاکہ ۲۳جولائی ۱۹۴۸ء کو قادیانی خلیفہ صاحب نے کوئٹہ میں ایک خطبہ دیا جو ۱۳/اگست کے الفضل میں بایں الفاظ شائع ہواہے:
’’برٹش بلوچستان ، جو اب پاکی بلوچستان ہے ،کی کل آبادی پانچ یا چھ لاکھ ہے۔ یہ آبادی اگرچہ دوسرے صوبوں کی آبادی سے کم ہے مگر بوجہ ایک یونٹ ہونے کے اسے بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ دنیا میں جیسے افراد کی قیمت ہوتی ہے، یونٹ کی بھی قیمت ہوتی ہے۔ مثال کے طورپر امریکہ کی کانسٹی ٹیوشن ہے۔ وہاں اسٹیٹس سینٹ کے لیے اپنے ممبر منتخب کرتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتاکہ کسی اسٹیٹ کی آبادی دس کروڑ ہے یا ایک کروڑ ہے۔ سب اسٹیٹس کی طرف سے برابر ممبر لیے جاتے ہیں۔غرض پاکی بلوچستان کی آبادی پانچ یا چھ لاکھ ہے اور اگر ریاستی بلوچستان کو ملا لیا جائے تو اس کی آبادی گیارہ لاکھ ہے لیکن چونکہ یہ ایک یونٹ ہے اس لیے اسے بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ زیادہ آبادی کو تو احمدی بنانا مشکل ہے لیکن تھوڑے آدمیوں کو احمدی بنانا کوئی مشکل نہیں۔ پس جماعت اس طرف اگر پوری توجہ دے تو اس صوبے کو بہت جلداحمدی بنایاجاسکتاہے …یاد رکھو تبلیغ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ہماری (base)مضبوط نہ ہو۔ پہلے (base) مضبوط ہو تو پھر تبلیغ پھیلتی ہے۔ بس پہلے اپنی (base)مضبوط کرلو ۔ کسی نہ کسی جگہ اپنی (base)بنالو۔ کسی ملک میں ہی بنالو …اگر ہم سارے صوبے کو احمدی بنالیں تو کم ازکم ایک صوبہ تو ایسا ہوجائے گا جس کو ہم اپنا صوبہ کہہ سکیں گے اور یہ بڑی آسانی کے ساتھ ہوسکتاہے۔‘‘
یہ تقریر کسی تشریح کی محتاج نہیں ہے ۔ سوال یہ ہے کہ دوسرے گروہ جن کی موجودگی کا حوالہ دے کر قادیانیوں کو برداشت کرنے کا ہمیں مشورہ دیا جاتاہے، کیا ان میں سے بھی کسی کے ایسے منصوبے ہیں ؟ کیا ان میں سے بھی کوئی ایسا ہے جو اپنے مذہب کے لیے غیر مسلم اقتدار کو مفید سمجھتاہو اور مسلم اقتدار قائم ہوتے ہی ریاست کے اندر اپنی ریاست بنانے کی فکر میں لگ گیاہو ؟ اگر نہیںہے تو پھر ان کی مثال قادیانیوں پر کیوں چسپا ں کی جاتی ہے؟
قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ :
اب تیسرے سوال کو لیجیے ۔ یعنی یہ کہ علیحدگی کا مطالبہ تو اقلیتیں کیا کرتی ہیں ۔ یہاں یہ کیسی الٹی بات ہو رہی ہے کہ اکثریت اس کا مطالبہ لے کر اٹھی ہے۔
یہ سوال جو لوگ چھیڑتے ہیں کیا براہ کرم ان میں سے کوئی صاحب کسی سیاسی انجیل کی ایسی کوئی آیت پیش کرسکتے ہیں ، جس میں یہ قانون کلی بیان کیاگیاہو کہ علیحدگی کامطالبہ کرنا صرف اقلیت ہی کے لیے جائز ہے ،اکثریت ایسے کسی مطالبے کو پیش کرنے کی حق دار نہیں ہے ؟ ہمیں بتایا جائے کہ یہ اصول کہاں لکھا ہے اور کس نے اسے مقرر کیاہے؟
حقیقت یہ ہے کہ مطالبات ہمیشہ ضرورت کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں اور وہی ان کو پیش کرتاہے جسے ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ ایک مطالبہ جس ضرورت کی بنا پر کیاجارہاہے وہ بجائے خود معقول ہے یا نہیں ، یہاں اختلاط کانقصان اکثریت کو پہنچ رہاہے نہ کہ اقلیت کو۔ اس لیے اکثریت یہ مطالبہ کرنے پر مجبور ہوئی ہے کہ اس اقلیت کو آئینی طور پر الگ کردیا جائے جو ایک طرف عملاً الگ ہو کر علیحدگی کا پورا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اور دوسری طرف اکثریت کا جز بن کر اختلاط کے فوائد بھی سمیٹتی چلی جاتی ہے ۔ ایک طرف وہ مسلمانوں سے مذہبی و معاشرتی تعلقات منقطع کرکے اپنی الگ جتھہ بندی کرتی ہے اور منظم طریقے سے ان کے خلاف ہر میدان میں کشمکش کرتی ہے تو دوسری طرف مسلمانوں میں مسلمان بن کر گھستی ہے ، اپنی تبلیغ سے اپنی تعداد بڑھاتی ہے ، مسلم معاشرے میں تفریق کا فتنہ برپا کرتی ہے اور سرکاری ملازمتوں میں مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنے متناسب حصے کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ حصہ حاصل کرلیتی ہے ۔ اس صورت حال کا سراسر نقصان اکثریت کو پہنچ رہاہے اور بالکل ناجائز فائدہ اقلیت حاصل کررہی ہے۔ پھر آخر کون سی معقول وجہ ہے کہ ایسے حالات میں اگر اقلیت علیحدگی کا مطالبہ نہیںکرتی تو اسے زبردستی اکثریت کے سینے پر مونگ دلنے کے لیے بٹھائے رکھا جائے اور اکثریت کے مطالبہ علیحدگی کو رد کردیا جائے ؟ علیحدگی کے اسباب اکثریت نے نہیں بلکہ خود اقلیت نے پیدا کیے ۔ عملاً اپنا الگ معاشرہ اس نے خود بنایا۔ اکثریت سے مذہبی و معاشرتی روابط اس نے خود توڑے۔ اس روش کا فطری تقاضا یہ تھاکہ وہ خود اس علیحدگی کو تسلیم کرلیتی جو اس نے فی الواقع اختیار کی ہے۔ اسے اگر تسلیم کرنے سے وہ گریز کرتی ہے تو یہ اس سے پوچھیے کہ کیوں گریز کرتی ہے اور خدا نے آپ کو دیکھنے والی آنکھیں دی ہیں تو خود دیکھیے کہ اپنے ہی عمل کے لازمی نتائج قبول کرنے سے اسے کیوں گریز ہے۔ اس کی نیت اگر دغا اور فریب سے کام چلانے کی ہے تو آپ کی عقل کہاں چلی گئی ہے کہ آپ خود اس قوم کو اس کی دغا بازی کا شکار بنانے پر تلے ہوئے ہیں؟
قادیانیوں کی تبلیغ کی حقیقت :
آخری جواب طلب بات یہ رہ جاتی ہے کہ قادیانی حضرات اسلام کی مدافعت اور تبلیغ کرتے رہے ہیں، اس لیے ان سے ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔
یہ درحقیقت ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے جس میں بالعموم ہمارے نئے تعلیم یافتہ لوگ بُری طرح مبتلا ہیں۔ اس لیے ہم ان سے گزارش کرتے ہیں کہ ذرا آنکھیں کھول کر مرزا صاحب قادیانی کی حسب ذیل عبارتوں کو ملاحظہ فرمائیں ۔ یہ عبارتیںاس مذہب کے بانی کی نیت اور مقاصد کو خود ہی بڑی خوبی کے ساتھ بیان کررہی ہیں:
’’تریاق القلوب ‘‘ مطبوعہ مطبع ضیاء الاسلام قادیان ۲۸/اکتوبر ۱۹۰۲ ۶ضمیمہ نمبر۳ بعنوان ’’حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست ‘‘ میں مرزا غلام احمد صاحب لکھتے ہیں :
’’بیس برس کی مدت سے میں اپنے دلی جوش سے ایسی کتابیں زبان فارسی اور عربی اور اُردو اور انگریزی میں شائع کررہاہوں جن میں بار بار یہ لکھا گیا ہے کہ مسلمانوں کا فرض ہے ، جس کے ترک سے وہ خدا تعالیٰ کے گناہ گار ہوں گے کہ اس گورنمنٹ کے سچے خیر خواہ اور دلی جاں نثار ہو جائیں اور جہاد اور خونی مہدی کے انتظار وغیرہ بے ہودہ خیالات سے جو قرآن شریف سے ہرگز ثابت نہیں ہوسکتے، دست بردار ہوجائیں اور اگر وہ اس غلطی کو چھوڑنانہیں چاہتے تو کم سے کم یہ ان کا فرض ہے کہ اس گورنمنٹ محسنہ کے نا شکر گزار نہ بنیں اور نمک حرامی سے خدا کے گناہ گار نہ ٹھہریں ۔ ‘‘ (ص: ۳۰۷)
’’اب میں اپنی گورنمنٹ محسنہ کی خدمت میں جرأت سے کہہ سکتاہوں کہ وہ بست سالہ میری خدمت ہے جس کی نظیر برٹش انڈیا میں ایک بھی اسلامی خاندان پیش نہیں کرسکتا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس قدر لمبے زمانہ تک جو بیس برس کازمانہ ہے ایک مسلسل طور پر تعلیم مذکورہ بالا پر زور دیتے جانا کسی منافق اور خود غرض کاکام نہیں ہے بلکہ ایسے شخص کا کام ہے جس کے دل میں اس گورنمنٹ کی سچی خیرخواہی ہے۔ ہاں میں اس بات کا اقرار کرتاہوں کہ میں نیک نیتی سے دوسرے مذاہب کے لوگوں سے مباحثات بھی کیاکرتاہوں اور ایسا ہی پادریوں کے مقابل پر بھی مباحثات کی کتابیں شائع کرتارہاہوں اور میں اس بات کا بھی اقرار ی ہوں جب کہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہوگئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی اور بالخصوص پرچہ نور افشاں میں جو کہ ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتاہے، نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں اور مولفین نے ہمارے نبی اکرمﷺ کی نسبت نعوذباللہ ایسے الفاظ استعمال کیے کہ یہ شخص ڈاکو تھا ، چور تھا ، زنا کار تھااور صدہا پرچوںمیں یہ شائع کیا کہ یہ شخص اپنی لڑکی پر بدنیتی سے عاشق تھا اور بایں ہمہ جھوٹاتھا اور لو ٹ مار اور خون کرنا اس کا کام تھا تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہواکہ مبادا مسلمانوں کے دلوں پر جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے، ان کلمات کاکوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو تب میں نے ان جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنی صحیح اورپاک نیت سے یہی مناسب سمجھاکہ اس عام جوش کو دبانے کے لیے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کاکسی قدر سختی سے جواب دیا جائے تاکہ سریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہوجائیں اور ملک میں کوئی بدامنی پیدانہ ہو۔ تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بدزبانی کی گئی تھی چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں بالمقابل سختی تھی کیونکہ میرے کانشنس نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیاکہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش رکھنے والے آدمی موجود ہیں ،ان کے غیظ و غضب کی آگ بجھانے کے لیے یہ طریق کافی ہوگا ۔(ص ۳۰۸۔۳۰۹)
پھر چند سطور کے بعد لکھتے ہیں :
’’سو مجھ سے پادریوں کے مقابل پر جو کچھ وقوع میں آیا یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیاگیااور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ تمام مسلمانوں میں سے اول درجے کا خیرخواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں کیونکہ مجھے تین باتوں نے خیرخواہی میں اول درجے پر بنادیاہے اول والد مرحوم کے اثر نے، دوم اس گورنمنٹ عالیہ کے احسانوں نے، سوم تیسرے خداتعالی کے الہام نے۔‘‘ (ص ۳۰۹۔۳۱۰)
انگریزی حکومت کی وفاداری :
’’شہادۃ القرآن ‘‘ مطبوعہ پنجاب پریس سیالکوٹ طبع ششم کے ساتھ ایک ضمیمہ ہے جس کا عنوان ہے ’’گورنمنٹ کی توجہ کے لائق ‘‘ اس میں مرزا صاحب لکھتے ہیں:
’’سومیرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہر کرتاہوں ،یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کریں ۔ دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیاہو ، جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سائے میں ہمیں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے ۔ (ص ۳)
’’تبلیغ رسالت ‘‘جلد ہفتم مطبوعہ فاروق پریس قادیان (اگست ۱۹۲۲ء ) میں مرزا صاحب کی ایک درخواست ’’بحضور نواب لیفٹیننٹ گورنربہادر دام اقبالہ ‘‘ درج ہے جس میں وہ پہلے اپنے خاندان کی وفاداریوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ چٹھیا ں نقل کرتے ہیں جو ان کے والد مرزا غلام مرتضیٰ خان کو کمشنر لاہور ،فنانشل کمشنر پنجاب اور دوسرے انگریزافسروں نے ان کی وفادارانہ خدمات کے اعتراف میں عطا کی تھیں۔ نیز ان خدمات کو گنایا ہے جو ان کے خاندان کے دوسرے بزرگوں نے انجام دیں ۔ پھر لکھتے ہیں:
’’میں ابتدائی عمرسے اس وقت تک جو قریباً ساٹھ برس کی عمر تک پہنچا ہوں ، اپنی زبان اور قلم سے اس اہم کام میں مشغول ہوں تاکہ مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی محبت اور خیرخواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں اور ان کے بعض کم فہموں کے دلوں سے غلط خیال جہاد وغیرہ کو دور کروں جو ان کو دلی صفائی اور مخلصانہ تعلقات سے روکتے ہیں۔‘‘(ص ۱۰)
آگے چل کر لکھتے ہیں :
’’اور میں نے نہ صرف اس قدر کام کیاکہ برٹش انڈیا کے مسلمانوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی اطاعت کی طرف جھکایا بلکہ بہت سی کتابیں عربی اور فارسی اور اُردو میں تالیف کرکے ممالک اسلامیہ کے لوگوں کو بھی مطلع کیا کہ ہم لوگ کیوں کر امن اور آزادی سے گورنمنٹ انگلشیہ کے سایہ عاطفت میں زندگی بسر کررہے ہیں ۔ ‘‘ (ص ۱۰)
پھر وہ اپنی کتابوں کی ایک لمبی فہرست دیتے ہیں جن سے ان کی وفادارانہ خدمات کا ثبوت ملتاہے۔ پھر لکھتے ہیں :
’’گورنمنٹ تحقیق کرے کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہزاروں مسلمانوں نے جو مجھے کافر قراردیا اور مجھے اور میری جماعت کو جو ایک گروہ کثیر پنجاب اور ہندوستان میں موجود ہے ہر ایک طور کی بدگوئی اور بداندیشی سے ایذا دینا اپنا فرض سمجھا ۔ اس تکفیر اور ایذا کا ایک مخفی سبب یہ ہے کہ ان نادان مسلمانوں کے پوشیدہ خیالات کے برخلاف دل و جان سے گورنمنٹ انگلشیہ کی شکرگزاری کے لیے ہزار ہا اشتہارات شائع کیے گئے اور ایسی کتابیں بلادعرب و شام وغیرہ تک پہنچائی گئیں ؟ یہ باتیں بے ثبوت نہیں۔ اگر گورنمنٹ توجہ فرمادے تو نہایت بدیہی ثبوت میرے پاس ہیں۔ میں زور سے کہتاہوں اور میں دعویٰ سے گورنمنٹ کی خدمت میں اعلان دیتاہوں کہ باعتبار مذہبی اصول کے مسلمانوں کے تمام فرقوں میں سے گورنمنٹ کا اول درجے کا وفادار اور جاں نثار یہی نیا فرقہ ہے جس کے اصولوں میں سے کوئی اصول گورنمنٹ کے لیے خطرناک نہیں۔ ‘‘ (ص ۱۳)
آگے چل کر پھرلکھتے ہیں :
’’ اور میں یقین رکھتاہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے، ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرناہے۔‘‘ ( ص ۱۷)
تھوڑی دیر کے لیے اس سوال کو نظر انداز کردیجیے کہ یہ زبان اور یہ تحریر کسی نبی کی ہو بھی سکتی ہے یا نہیں ۔ ہم یہاں جس پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ اس مذہب کی تبلیغ و تلقین اور ’’مدافعت اسلام ‘‘ کے وہ مقاصد اور محرکات ہیں جو بانی مذہب نے خود بیان کیے ہیں ۔ کیا اس کے بعد بھی یہ نام نہاد ’’خدمت دین ‘‘ کسی قدر کی مستحق رہ جاتی ہے ؟ اس پر بھی اگر کوئی شخص اس خدمت دین کی حقیقت نہ سمجھ سکے تو ہم اس سے گزارش کریں گے کہ ذرا قادیانیوں کے اپنے اعترافات کو آنکھیں کھول کر پڑھے:
’’عرصہ دراز کے بعد اتفاقاً ایک لائبریری میں ایک کتاب ملی جو چھپ کر نایاب بھی ہوگئی تھی ۔ اس کتاب کا مصنف ہے ایک اطالوی انجینئر، جو افغانستان میں ذمہ دار عہدہ پر فائز تھا۔ وہ لکھتاہے کہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب (قادیانی) کو اس لیے شہید کیاگیا کہ وہ جہاد کے خلاف تعلیم دیتے تھے اور حکومت افغانستان کو خطرہ لاحق ہوگیاتھا کہ اس سے افغانوں کا جذبہ حریت کمزور ہوجائے گا اوران پر انگریزوں کااقتدار چھا جائے گا …ایسے معتبر راوی کی روایت سے یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچ جاتاہے کہ اگر صاحبزادہ عبداللطیف شہید خاموشی سے بیٹھے رہتے اور جہاد کے خلاف کوئی لفظ بھی نہ کہتے تو حکومت افغانستان کو انہیں شہید کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ ‘‘
(مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کاخطبہ جمعہ مندرجہ الفضل مورخہ ۶/اگست ۱۹۳۵ئ)
افغانستان گورنمنٹ کے وزیر داخلہ نے مندرجہ ذیل اعلان شائع کیاہے:
’’کابل کے دواشخاص ملا عبدالحلیم چہار آسیانی و ملانور علی دکاندار قادیانی عقائد کے گرویدہ ہوچکے تھے اور لوگوں کو اس عقیدہ کی تلقین کرکے انہیں اصلاح کی راہ سے بھٹکا رہے تھے …ان کے خلاف مدت سے ایک اور دعویٰ دائر ہوچکاتھا اورمملکت افغانیہ کے خلاف غیر ملکی لوگوں کے سازشی خطوط ان کے قبضے سے پائے گئے جن سے پایا جاتاہے کہ وہ افغانستان کے دشمنوں کے ہاتھ بک چکے تھے ۔ ‘‘
(اخبار الفضل بحوالہ امان افغان ۔ مورخہ ۳/ مارچ ۱۹۲۵ء)
’’روسیہ (یعنی روس ) میںمَیں اگرچہ تبلیغ احمدیت کے لیے گیاتھا لیکن چونکہ سلسلہ احمدیہ اور برٹش حکومت کے باہمی مفاد ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اس لیے جہاں میں اپنے سلسلے کی تبلیغ کرتاتھا وہاں لازماً مجھے گورنمنٹ انگریزی کی خدمت گزاری بھی کرنی پڑتی تھی۔ ‘‘ (بیان محمد امین صاحب قادیانی مبلغ ۔ مندرجہ اخبار الفضل مورخہ ۲۸ستمبر ۱۹۲۲ء )
’’دنیا ہمیں انگریزوں کا ایجنٹ سمجھتی ہے ، چنانچہ جب جرمنی میں احمدیہ عمارت کے افتتاح کی تقریب میں ایک جرمن وزیر نے شمولیت کی تو حکومت نے اس سے جواب طلب کیا کہ کیوں تم ایسی جماعت کی کسی تقریب میں شامل ہوئے جوانگریزوں کی ایجنٹ ہے ۔‘‘
(خلیفہ قادیان کا خطبہ جمعہ ، مندرجہ اخبار الفضل مورخہ یکم نومبر ۱۹۳۴ء )
’’ہمیں اُمید ہے کہ برٹش حکومت کی توسیع کے ساتھ ہمارے لیے اشاعت اسلام کا میدان بھی وسیع ہوجائے گا اور غیر مسلم کو مسلم بنانے کے ساتھ ہم مسلمان کو پھر مسلما ن کریں گے۔ ‘‘ (لارڈ بارڈنگ کی سیاست عراق پر اظہار خیال۔ مندرجہ الفضل ۱۱ /فروری ۱۹۱۰ء )
’’فی الواقع گورنمنٹ برطانیہ ایک ڈھال ہے جس کے نیچے احمدی جماعت آگے ہی آگے بڑھتی جاتی ہے ۔ اس ڈھال کو ذرا ایک طرف کردو اور دیکھو کہ زہریلے تیروں کی کیسی خطرناک بارش تمہارے سروں پر ہوتی ہے۔ پس کیوں ہم اس گورنمنٹ کے شکرگزار نہ ہوں ہمارے فوائد اس گورنمنٹ سے متحد ہو گئے ہیں اور اس گورنمنٹ کی تباہی ہماری تباہی ہے اور اس گورنمنٹ کی ترقی ہماری ترقی ۔ جہاں جہاں اس گورنمنٹ کی حکومت پھیلتی جاتی ہے ، ہمارے لیے تبلیغ کا ایک میدان نکلتا آتاہے۔ ‘‘ (الفضل ،۱۹/اکتوبر۱۹۱۵ء)
’’سلسلہ احمدیہ کو گورنمنٹ برطانیہ سے جو تعلق ہے وہ باقی تمام جماعتوں سے نرالا ہے۔ ہمارے حالات ہی اس قسم کے ہیں کہ گورنمنٹ اور ہمارے فوائد ایک ہوگئے ہیں۔ گورنمنٹ برطانیہ کی ترقی کے ساتھ ہمیں بھی آگے قدم بڑھانے کا موقع ملتاہے اور اس کو خدانخواستہ اگر کوئی نقصان پہنچے تو اس صدمے سے ہم بھی محفوظ نہیں رہ سکتے ۔ ‘‘
(خلیفہ قادیان کا اعلان مندرجہ اخبار الفضل ،۲۷/جولائی ۱۹۱۸ء )
قادیانیت کے بنیادی خدوخال :
اب قادیانی جماعت کی پوری تصویر آپ کے سامنے ہے۔ اس کے بنیادی خدوخال یہ ہیں :
(۱) پچاس برس سے زیادہ مدت ہوئی، جب کہ انگریزی دور حکومت میں مسلمان غلامی کی زندگی بسر کررہے تھے ، پنجاب میں ایک شخص نبوت کا دعویٰ لے کر اٹھا۔ جس قوم کو اللہ کی توحید اور رسالت محمدیﷺ کے اقرار نے ایک قوم ، ایک ملت اور ایک معاشرہ بنایاتھا اس کے اندر اس شخص نے یہ اعلان کیاکہ مسلمان ہونے کے لیے توحید و رسالت محمدیﷺ پر ایمان لانا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ میری نبوت پر ایمان لانابھی ضروری ہے جو اس پر ایمان نہ لائے وہ توحید و رسالت محمدیﷺ پر ایمان رکھنے کے باوجود کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
(۲) اس بنیادپر اس نے مسلم معاشرے میں کفر وایمان کی نئی تفریق پیدا کی اور جو لوگ اس پر ایمان لائے ان کو مسلمانوں سے الگ ایک اُمت اور ایک معاشرے کی شکل میں منظم کرنا شروع کردیا۔ اس نئی اُمت اور مسلمانوں کے درمیان اعتقاداً اور عملاً ویسی ہی جدائی پڑ گئی جیسی ہندوئوں اور عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان تھی۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ نہ عقیدے میں شریک رہی نہ عبادت میں ،نہ رشتے ناطے میں اور نہ شادی وغم میں۔
(۳) بانی مذہب کو اول روز سے یہ احساس تھاکہ مسلم معاشرہ اپنی اس قطع و برید کو بخوشی برداشت نہیں کرے گا اور نہیں کرسکتا۔ اس لیے اس نے اور اس کے جانشینوں نے نہ صرف ایک پالیسی کے طور پر انگریزی حکومت کی پختہ و فاداری و خدمت گزاری کا رویہ اختیار کیا بلکہ عین اپنے موقف کے فطری تقاضے سے ہی انھوںنے یہ سمجھاکہ ان کامفاد لازماً غلبہ کفر کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہندوستان ہی میں نہیں تمام دنیا میں اس بات کے خواہش مند رہے اور عملاً اس کے لیے کوشاں رہے کہ ًآزاد مسلمان قومیں بھی انگریزوں کی غلام ہوجائیں تاکہ ان میں اس نئے مذہب کی اشاعت کے لیے راہ ہموار ہوسکے۔
(۴) اس طرح بیرونی اقتدار سے گٹھ جوڑ کرکے اس جماعت نے مسلمانوں کی ان تمام کوششوں کو ناکام بنادیا جو گذشتہ نصف صدی میں اسے مسلمانوں سے خارج کرنے کے لیے کی گئیں اور انگریزی حکومت اس بات پر مصر رہی کہ یہ گروہ مسلمانوں سے الگ بلکہ ہر چیزمیں ان کامخالف ہونے کے باوجود ان ہی میں شامل رہے گا۔ اس تدبیر سے مسلمانوںکو دہرا نقصان اور قادیانی جماعت کو دہرا فائدہ پہنچایا گیا۔
(الف )عام مسلمانوں کو علمائ کی تمام کوششوں کے باوجود یہ باور کرایا جاتارہاکہ قادیانیت اسلام ہی کاایک فرقہ اور قادیانی گروہ مسلم معاشرے ہی کا ایک حصہ ہے۔ اس طرح قادیانیت کے لیے مسلمانوں میں پھیلنا زیادہ آسان ہوگیا کیونکہ اس صورت میں ایک مسلمان کو قادیانیت اختیار کرتے ہوئے یہ اندیشہ لاحق نہیں ہوتاکہ وہ اسلام سے نکل کر کسی دوسرے معاشرے میں جارہاہے۔ قادیانیوں کو اس سے یہ فائدہ پہنچاکہ وہ مسلمانوں میں سے برابر آدمی توڑ توڑ کر اپنی تعدادبڑھاتے رہے اور مسلمانوں کو یہ نقصان پہنچاکہ ان کے معاشرے میں ایک بالکل الگ اور مخالف معاشرہ سرطان کی طرح اپنی جڑیں پھیلاتا رہا۔ جس کی بدولت ہزارہا خاندانوں میں تفرقے برپا ہوگئے، خصوصیت کے ساتھ پنجاب اس کا سب سے زیادہ شکار ہوا کیونکہ یہ بلا اسی صوبے سے اٹھی تھی اور یہی وجہ ہے کہ آج پنجاب ہی کے مسلمان اس کے خلاف سب سے زیادہ مشتعل ہیں۔
(ب) انگریزی حکومت کی منظورنظر بن کر قادیانی جماعت انگریزی حکومت کی فوج ، پولیس ،عدالت اور دوسری ملازمتوں میں اپنے آدمی دھڑا دھڑ بھرتی کرتی چلی گئی اور یہ سب کچھ اس نے مسلمان بن کر ملازمتوں کے اس کوٹے سے حاصل کیا جو مسلمانوں کے لیے مخصوص تھا۔ مسلمانوں کو اطمینان دلایا جاتارہاکہ یہ ملازمتیں تم کو مل رہی ہیں ، حالانکہ وہ کثیر تعداد میں ان قادیانیوں کو دی جارہی تھیں جو مسلمانوں کے مدمقابل بن کر اپنی مخالفانہ جتھہ بندی کیے ہوئے تھے۔ ایسا ہی معاملہ ٹھیکوں اور تجارتوں اور زمینوں کے بارے میں بھی کیاگیا۔
(۵) اب یہ گروہ اپنے اس گہرے احساس کی بنا پر کہ پاکستان کا مسلم معاشرہ آزاد ہونے کے بعد زیادہ دیر تک اسے برداشت نہ کرے گا۔ ایک طرف اس کے تمام وہ افراد جو ذمہ دار سرکاری عہدوں پر ہیں، حکومت کے ہر شعبے میں اپنے آدمی بھر رہے ہیں اور معاشی وسائل و ذرائع پر بھی قادیانیوں کا زیادہ سے زیادہ قبضہ کرا رہے ہیں تاکہ تھوڑی مدت ہی میں ان کی طاقت اتنی مضبوط ہو جائے کہ پاکستان کے مسلمان آزاد و خود مختارہونے کے باوجود ان کاکچھ نہ بگاڑ سکیں ۔ دوسری طرف وہ اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ کم ازکم بلوچستان پر قبضہ کرکے پاکستان کے اندر اپنی ایک ریاست بنالیں۔
مسلمانوں کا مطالبہ :
ان وجوہ سے پاکستان کی تمام دینی جماعتوں نے بالاتفاق مطالبہ کیاہے کہ اس سرطان کے پھوڑے کو مسلم معاشرے کے جسم سے فوراً کا ٹ پھینکا جائے اور سرظفر اللہ خان کو وزارت کے منصب سے ہٹا دیا جائے جن کی بدولت ملک کے اندر بھی اور باہر کے مسلم ممالک میں بھی اس سرطان کی جڑیں پھیل رہی ہیں اور قادیانیوں کو پاکستان کے کلیدی مناصب سے ہٹانے اور ملازمتوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے ان کا حصہ مقرر کرنے کی جلدی سے جلدی فکر کی جائے۔
مگر حکومت پاکستان کو اس سے انکار ہے ، پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کو اس سے انکار ہے ، حکومت کے ذمہ دار عہدہ داروں کو اس سے انکار ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کی تعلیم یافتہ آبادی کاایک بڑا حصہ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ یہ محض مسلمانوں کی باہمی فرقہ وارانہ لڑائیوں کا ایک شاخسانہ ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جس کو بھی اس تجویز سے اختلاف ہے اس کے پاس آخر دلیل کیاہے ؟ ہم نے اپنے دلائل پوری وضاحت کے ساتھ پیش کردیے ہیں ۔ اب اگر کسی کے پاس جو اب میں کوئی دلیل ہے تو وہ سامنے لائے ورنہ بلادلیل ایک بات پر اڑ جانا، جس کا الزام کبھی ’’ملا ‘‘ کو دیا جاتاتھا اب اس کے مرتکب وہ لوگ ہوں گے جو ’’ملا‘‘ نہ ہونے پر فخر کرتے ہیں اور وہ یقین رکھیں کہ رائے عام اور دلیل کی متفقہ طاقت ان کوآخر کار نیچا دکھا کررہے گی۔
اس میں شک نہیں کہ اس مطالبے کے لیے عوام جس طریقے سے مظاہرے کررہے ہیں وہ شائستہ نہیںہے اور ملک کے تعلیم یافتہ اور سنجیدہ لوگ کسی طرح اس کو پسند نہیں کرسکتے ، مگر اپنی قوم کے عوام کو یہ تربیت دینے کی ذمہ داری کس پر ہے ؟ ابھی چند ہی سال پہلے اسی پنجاب میں ملک سر خضر حیات ٹوانہ کی وزارت کو توڑنے کے لیے مسلم لیگ نے جو ایجی ٹیشن کیاتھا وہ اس تازہ ایجی ٹیشن سے اپنی کون سی خصوصیات میں کچھ گھٹ کر تھا ؟ یہ تو موجودہ قائدین ملت کااپنا لگایاہوا، باغ ہے جس کی بہار دیکھ کر وہ آج گھبرا اٹھے ہیں۔ اب اس مظاہرہ ناشائستگی کا الزام ’’ملا‘‘ کو دیا جارہاہے ، مگر ہمیں بتایا جائے کہ خضر حیات خان کے خلاف جس شائستگی کے مظاہرے ہوئے تھے وہ کس ’’ملا‘‘ نے کرائے تھے ؟ اینٹی ملا حضرات کا تو اب یہ منہ نہیں ہے کہ شائستگی و ناشائستگی کا سوال چھیڑیں ۔ انہیں دیکھنا یہ چاہیے کہ مطالبہ معقول ہے یا نہیں؟ اور اس کی پشت پر رائے عام کی طاقت ہے یا نہیں؟ اگر یہ دونوں ثابت ہیں تو پھر جمہوری نظام میں کسی منطق سے ان کو رد نہیں کیاجاسکتا۔
قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے لیے علما کی متفقہ تجویز
پاکستان کے سربرآور دہ علما نے دستوری سفارشات میں جو ترمیمات پیش کی ہیں ،ان میں سے ایک ترمیم یہ بھی ہے کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دے کر پنجاب سے مرکزی اسمبلی میں ان کے لیے ایک نشست مخصوص کردی جائے اور دوسرے علاقوں کے قادیانیوں کو بھی اس نشست کے لیے کھڑے ہونے اور ووٹ کا حق دے دیا جائے۔ اس ترمیم کو علمائ نے ان الفاظ کے ساتھ پیش کیاہے۔
’’یہ ایک نہایت ضروری ترمیم ہے جسے ہم پورے اصرار کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ملک کے دستور سازوں کے لیے یہ بات کسی طرح موزوں نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک کے حالات اور خصوصاً اجتماعی مسائل سے بے پرواہ ہو کر محض اپنے ذاتی نظریات کی بنا پر دستور بنانے لگیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ملک کے جن علاقوں میں قادیانیوں کی بڑی تعداد مسلمانوں کے ساتھ ملی جلی ہے وہاں اس قادیانی مسئلے نے کس قدر نازک صورت حال پیداکردی ہے۔ ان کو پچھلے دور کے حکمرانوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے جنھوں نے ہندو مسلم مسئلہ کی نزاکت کو اس وقت محسوس ہونے ہی نہ دیا جب تک متحدہ ہندوستان کا گوشہ گوشہ دونوں قوموں کے فسادات سے خون آلود نہ ہوگیا۔ جو دستور ساز حضرات خود اس ملک کے رہنے والے ہیں، ان کی یہ غلطی بڑی افسوس ناک ہوگی کہ وہ جب تک پاکستان میں قادیانی مسلم تصادم کو آگ کی طرح بھڑکتے ہوئے نہ دیکھ لیں …اس وقت تک انہیں اس بات کا یقین نہ آئے کہ یہاں ایک قادیانی مسلم مسئلہ موجود ہے جسے حل کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اس مسئلہ کو جس چیز نے نزاکت کی آخری حد تک پہنچادیا ہے وہ یہ ہے کہ قادیانی ایک طرف مسلمان بن کر مسلمانوں میں گھستے بھی ہیں اور دوسری طرف عقائد ، عبادات اور اجتماعی شیرازہ بندی میں مسلمانوں سے نہ صرف …الگ ہیں بلکہ ان کے خلاف صف آرا بھی ہیں اور مذہبی طور پر تمام مسلمانوں کو اعلانیہ کافر قرار دیتے ہیں۔ اس خرابی کاعلاج آج بھی یہی ہے اور پہلے بھی یہی تھا (جیساکہ علامہ اقبال مرحوم نے اب سے بیس برس پہلے فرمایاتھا ) کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دے دیا جائے ۔
علما کے نام
مولانا مفتی محمد حسن صاحب خلیفہ حاجی ترنگ زئی
مولانا ابوالحسنات صاحب مولانااطہر علی صاحب
مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی مولانا محمد اسماعیل صاحب
سید ابوالاعلیٰ مودودی مولانا حبیب اللہ صاحب
مولانا شمس الحق صاحب علامہ سید سلیمان ندوی صاحب
مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مولانا دائود غزنوی صاحب
مولانا خیر محمد صاحب مولانا احمد علی صاحب
مولانا احتشام الحق صاحب قاضی عبدالصمد صاحب سربازی
مولانا عبدالحامد قادری بدایونی مولانا ابو جعفر محمد صالح صاحب
مولانا محمدادریس صاحب مولانا محمد اسماعیل صاحب
حاجی محمد امین صاحب مولانا محمد صادق صاحب
٭…٭…٭…٭…٭
باب دوم: مقدمہ
اصل جرم :
مولانا مودودی کو جس دفعہ کے تحت سزائے موت کا حکم سنایاگیاوہ ضابطہ نمبر۸ مارشل لا بشمول دفعہ نمبر۱۵۳/الف۔ رعایا کے درمیان منافرت پھیلانا ہے نہ کہ ۱۲۴/الف کے تحت …یعنی حکومت کے خلاف بغاوت کرنا۔
بہ الفاظ دیگر مولانا مودودی محض ’’قادیانی مسئلہ ‘‘ نامی پمفلٹ لکھنے کے ہی جرم میں سزائے موت کے مستحق ٹھہرائے گئے ہیں۔
(ملاحظہ ہو: فوجی حکام کا خط بنام مولانا مودودی بہ سلسلہ اپیل ص (۹۸)
دیباچہ
جماعت اسلامی پاکستان کی دعوت اور مقصد سے نہ صرف ملک کے باشندے بلکہ بیرونی ممالک کے لوگ بھی اب ناواقف نہیں ہیں ۔ یہ جماعت گذشتہ بارہ سال سے اسلامی نظام کی مؤید ، حامی اور داعی ہی نہیں ہے بلکہ اس نظام کے قیام کے لیے عملاً کوشاں بھی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے اس کی کوششو ں کا مقصد اس سرزمین پاک پر اسلامی تہذیب کا احیا وبقا ، اس نئی مملکت کے دستور کی اسلامی خطوط پر ترتیب و تنفیذ اور اس مقصدی ریاست کی رہنمائی اور قیادت کے منصب پر مخلص ، قابل اور صالح افراد کا وجود و غلبہ ہے ۔
اس کام میں قدرتی طور پر بے شمار مشکلات حائل ہیں۔ لیکن سب سے بڑ ی دقت یہ ہے کہ ہماری قوم کے تعلیم یافتہ اور ذی اثر افراد کا ایک بڑا حصہ مغربی تعلیم و تہذیب سے متاثر ہونے کی بنا پر اسلامی تعلیمات سے ناواقف ، اسلامی تہذیب سے بدگمان اور اسلامی نظام کے نام سے خائف ہے۔ اس لیے اس طبقہ کی فکری پریشانیوں ، ذہنی الجھنوں اور عقلی اعتراضات اور شبہات کو دور کرنے کے لیے جماعت اسلامی نے وسیع ، جامع اور سائنٹیفک لٹریچر پیش کیاہے جو ایک طرف مذہب کے بارے میں ہر قسم کے شکوک عقلی استدلال سے رفع کرتاہے ، دوسری طرف اسلامی نظام کی صداقت اور اس کے دورِ جدیدمیں قابل عمل ہونے کے دعوے کو مضبوط دلائل سے ثابت کرتاہے اور تیسری طرف وقت کے تمام اہم مسائل کا اسلامی نقطۂ نظر سے قابل عمل اور اطمینان بخش حل پیش کرتاہے۔
جماعت اسلامی کی مخالفت
اس علمی ، فکری اور تعمیری کام کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی خالص جمہوری طریقہ سے اور قطعی آئینی خطوط پر پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد کررہی ہے اور بالکل ناگزیر طور پر اس راہ میں مخالفتوں، بدنامیوں اور سازشوں کا اسے مقابلہ کرناپڑتاہے لیکن اس کو جماعت کی بد قسمتی کہیے یا مخالفوں کی اخلاقی کمزوری کہ جماعت اسلامی کی دعوت ، مقصد اور طریق کار کو غلط، نقصان دہ یا ناقابل عمل ٹھہرا کر نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفاد کے خلاف اور اپنے مستقبل کے لیے خطرناک پا کر حریفوں کی طرف سے مخالفت میں ایسے ہتھکنڈے استعمال ہوئے ہیں جو نہ صرف یہ کہ غیر جمہوری ہیں بلکہ غیر شریفانہ بھی ہیں اور اس لحاظ سے قوم کی بہبود اور ملک کے مستقبل دونوں کے لیے یکساں طور پر غلط اور مُضر بھی۔
بظاہر یہ بات عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ پاکستان کی اس سرزمین پر، جو اسلام کے نام پر وجو دمیں آئی ، مسلمان کہلانے والے ایسے لوگ بھی موجود ہوں جو لادینیت کے پرستار اور خداکی شریعت کے مخالف ہوں ، لیکن بات اپنی جگہ خواہ کتنی ہی افسوسناک کیوں نہ ہو ، بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری صفوں میں مسلمانوں کے سے نام رکھنے والے ایسے افراد بھی موجود ہیںجن کو اسلامی نظام سے نفرت ، جماعت اسلامی کے نام سے چڑ اور مولانا مودودیؒ سے خدا واسطے کابیرہے۔
یہ گروہ اگرچہ بے حد قلیل التعداد ہے لیکن اقتدار کے اعلیٰ مناصب پر قابض ہونے کی وجہ سے ہر قسم کے جوڑ تو ڑ، شرارتیں اور سازشیں کرنے پر قادر ہے۔ یہ لوگ کھل کر اسلام کی مخالفت کرنے کی جرأت نہیں رکھتے۔ اس لیے ’’ملائیت ‘‘ اور ’’مذہبی جنون ‘‘ کے ناموں کی آڑ لے کر اسلام کے خلاف اپنے دل کا بخار نکالتے ہیں اور علمائ کی توہین اور اسلام پسند عناصر کی مخالفت کے پردہ میں پاکستان میں اسلامی دستور کے خلاف اور نظامِ اسلامی کے قیام کو روکنا چاہتے ہیں۔
دیانت داری کاتقاضا :
جماعت اسلامی یا اس کے رہنما مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ سے اختلاف کرنے، ان پر اعتراضات کرنے ، حتیٰ کہ ان کی عملی مخالفت کرنے کا بھی ہر شخص کو پورا پورا حق حاصل ہے، لیکن شرافت ، جمہوریت اور مردانگی کاتقاضایہ ہے کہ بدترین مخالفت بھی کھل کر کی جائے، سچائی اور دیانت کے ساتھ کی جائے اور مقابلہ علی الاعلان میدان میں آکر کیا جائے، اس کے بجائے پس پردہ رہ کر جھوٹے اعتراضات پیش کرنا، بے بنیاد الزامات لگانا اور غیر شریفانہ پروپیگنڈا کرنا، قومی اخلاق و کردار کے لیے تو تباہ کن ہے ہی لیکن یہ مخالفین کے اپنے کردار کی پستی،اخلاق کی بے حیائی اور ان کے موقف کی کمزوری کو بھی خود ہی نمایاں کردیتاہے۔
کسی کو یہ بات پسند ہو یا ناپسند ، بہرحال یہ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی اس ملک کی ایک نہایت منظم بااثر اور فعال جماعت ہے۔ پاکستان کی سیاست میں وہ بحیثیت حزب اختلاف کے، اپنا ایک خاص مقام اور درجہ رکھتی ہے اور ملک کی برسراقتدار پارٹی سے اصولی اختلاف رکھتے ہوئے اسے اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ وہ اس پارٹی کی حکومت کی پالیسیوں ، انتظامات اور تدابیر پر دلائل کے ساتھ تنقید کرکے اس کی کمزوریاں عوام کے سامنے لائے اور کھلے طور پر رائے عامہ کو ہموار کرکے ملکی عوام کی تائید و تعاون سے ملک کی حکمران پارٹی کو اس کے منصب سے آئینی طریقہ پر ہٹانے کی کوشش کرے۔
مخالفین کی بے بسی :
نشریاتی محکمے ، خبررساں ایجنسیاں ،نیم سرکاری اخبارات اور سیاسی لیڈر ملک کی ایک اہم حزب اختلاف کی تمام خبروں کا بلیک آئوٹ کرنے اور جماعت اسلامی کا نام تک نہ لینے کے بارے میں خواہ کتنی ہی متفقہ و منظم پالیسی کیوں نہ اختیار کریں لیکن ایک تنظیم اور تحریک اپنے وجود کو منوانے اور ملک کے باشندوں پر اثر انداز ہونے کے لیے کسی سرکاری اجازت اور حکومتی اعتراف پر انحصار نہیں کرتی ۔ جماعت اسلامی کا وجود و بقا اور اثر و ترقی بھی اس بات کی محتاج نہیں ہے کہ جب تک سرکاری طور پر تسلیم نہ کی جائے، اس کی طاقت اور وسعت محض خیالی اور ہوائی سمجھی جائے۔ دنیا میں حقائق سے منہ موڑ نے یا ان کا اعتراف نہ کرنے سے ان کی حقیقت بہرحال نہیں بدلی جاسکتی ۔
پھر جماعت اسلامی کے مخالفین کے لیے یہ بھی کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ وہ جبر و تشدد ، مکر وفریب اور ظلم و زیادتی سے جماعت کے کارکنوں کو خوف زدہ ، مجبور یا پست ہمت کرنا تو درکنار خاموش ہی کرسکیں۔یہ جماعت اللہ کی توفیق سے ہر قسم کی چال بازیوں اور سازشوں کا اب تک مقابلہ کرتی رہی ہے اور آئندہ بھی ان شاء اللہ کرتی رہے گی۔ لیکن پاکستان کے ہر بہی خواہ کو یہ سوچنا پڑے گا کہ ملک کی سیاسیات میں دھوکہ دہی ،دھاندلی ، بے انصافی اور دہشت انگیزی کی یہ روش آخری کن نتائج پر منتج ہوگی۔
مولانامودودی ؒ کا اصل جرم :
برسراقتدار طبقہ کے مغرب زدہ افراد کی نظروں میں مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ کا سب سے بڑا جرم یہی ہے کہ وہ اس ملک میں اسلامی نظام کے حامی اور اس کے لیے عملاً سرگرم ہیں۔ مولانا مودودیؒ ہی نے پاکستان میں سب سے پہلے اسلامی حکومت کی آواز بلند کی اور باشندگان ملک کو اسلامی دستور کے لیے متحد ومنظم کیا۔ ان ہی نے عوام کے اسلامی جذبات کو مشہور نو نکاتی مطالبے کی صورت میں سمیٹ کر مجلسِ دستور ساز کے سامنے رکھا جس کے نتیجہ میں قوم کی عظیم اکثریت نے پورے ملک میں اسلامی دستورکے لیے کامیاب ترین مہم چلائی اور مجلس دستور ساز کو مجبور کردیاکہ ۱۹۵۲ء کے اندر دستور ی سفارشات کے بارے میں بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ پیش کردے ۔ پھر ہر چند کہ یہ تازہ دستوری تجاویز اسلامی نقطۂ نظر سے خام اور تشنہ ہیں مگر اسلامی نظام کے مخالف اور لادینی طرز حکومت کے حامی افراد کے لیے یہ تجاویز اس لیے قابلِ برداشت نہیںکہ ان کے ذریعہ سے پاکستان میں اسلام کے آنے کا ’’خطرہ ‘‘ بڑھتاجارہاہے اور اس میں ان کو اپنامستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ اس قلیل التعداد مگر طاقتور اور ذی اقتدار گروہ کو اپنی مغرب زدگی اور فرنگیت مابی میں اصل خطرہ تو اسلامی شریعت سے ہے جو ان کی فاسقانہ زندگی پر یقیناً قیود عائد کرے گی ۔ لیکن یہ طبقہ بجائے کھل کر سامنے آنے کے’’ ملائیت‘‘’’رجعت پسندی ‘‘ اور’’مذہبی تنگ نظری ‘‘ کا نام لے کر اسلام اور اسلام پسند عناصر کے خلاف زہر اگلا کرتاہے اور ان کے پڑھے لکھے طبقہ کو اسلامی تعلیمات کے بارے میں شکوک و تذبذب رکھے اور علمائ و دینی اداروں اور اسلامی جماعتوں کے خلاف لوگوں کو طرح طرح سے بھڑکائے۔ چنانچہ اس گروہ کی طرف سے گذشتہ چھ سال کے عرصہ میں جہادکشمیر کو حرام ٹھہرانے ، فو ج میں بھرتی روکنے ، انڈونیشیا کی دارالسلام پارٹی سے گٹھ جوڑ کرنے اور بیرونی طاقتوں سے امداد حاصل کرنے کے انتہائی گھنائونے الزامات پے درپے جماعت اسلامی پر لگائے گئے ہیں۔ اگر ان میں سے کسی ایک الزام میں کچھ بھی صداقت ہوتی تو کیا آج اس جماعت کے کارکن پھانسیوں پر لٹکنے ، جلا وطن کیے جانے اور کوٹھڑیوں میں بند ہونے سے بچے رہ سکتے تھے ؟ آج تک ان میں سے کوئی ایک الزام بھی دلائل و شواہد سے ثابت نہیں کیاجاسکا ہے اور نہ قانونی طور پر ہی اس قسم کی تخریبی کارروائیوں کے لیے جماعت اسلامی کبھی مجرم گردانی گئی ہے۔ اس جماعت کے کثیر کارکنوں کو جب بھی پکڑا گیاہے ۔ سیفٹی ایکٹ کے ماتحت ہی نظر بند کیاگیاہے جو ان کی بے گناہی اور بے قصوری پر خود دلالت کرتاہے ۔ اور آج بھی پنجاب کے مختلف اضلاع میں مطالبہ تحریک تحفظ ختم نبوت کے شاخسانہ میں ، جماعت اسلامی کے تقریباً پچاس کارکن اسی کالے قانون کے تحت اپنے جرم بے گناہی کی سزا پا رہے ہیں ۔ البتہ امیرجماعت اسلامی پاکستان سیدمولاناابوالاعلیٰ مودودی پر مقدمہ چلا کر جماعت کی سرگرمیوں پر پہلی بار ’’قانونی چارہ جوئی ‘‘ کی گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کاموقع عام حالات میں نہیں بلکہ لاہور میں مارشل لا کے زمانہ میں مجرد عام قوانین ملک کے تحت نہیں بلکہ مارشل لا حکام کے قوانین کے ساتھ اور پھر ملک کی کسی سول عدالت میں نہیں بلکہ ایک فوجی عدالت میں پیش آیا۔
یہاں اس مقدمہ پر فی نفسہٖ کوئی تبصرہ مقصود نہیں ،بلکہ چند ایسے امور پبلک کے سامنے پیش کرنامقصود ہیں جن پر ہر سوچنے سمجھنے والے دماغ اور ملک کے مسائل سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کا غور کرنا ضروری بھی ہے اور مفید بھی ۔
جماعت اسلامی کے امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ملک کی ایک باضابطہ اور آئینی جماعت کے رہنما ہیں۔ برسراقتدار پارٹی سے ان کے اختلافات اصولی اور بنیادی ہیں۔ ان کی سیاسی جدوجہد نہ صرف آئینی ہے بلکہ اسلامی واخلاقی حدود کی بھی پابند ہے۔ اگر کبھی ان کی سرگرمیاں حدود سے متجاوز اور ملک و قوم کے لیے باعث تخریب نظر آئیں تو ملک کی عام عدالتیں اور قوانین ان کو روکنے اور ان پر قدغن لگانے کے لیے ہر وقت موجود ہیں۔ سیاسی نیک نامی اور قومی آبر و مندی کا تقاضا یہ ہے کہ سیاسی اختلافات رکھنے والے افراد اور جماعتوں پر جب کبھی بھی ہاتھ ڈالا جائے تو ان پر کھلم کھلا الزام لگایا جائے اور صفائی کا پورا پورا موقع دے کر کھلی عدالتوں میں عام ملکی قوانین کے تحت ان کے خلاف چارہ جوئی کی جائے۔ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ باشندگان ملک کو واقعات سے پوری طرح باخبر رکھا جائے تاکہ عوام الزامات کی نوعیت ،استغاثہ کے واقعات، صفائی کی شہادتوں اور فیصلہ کے دلائل دیکھ کر خود بھی کوئی رائے قائم کرسکیں اور کسی کے دل میں یہ کھٹک نہ رہ جائے کہ انصاف کا حق ادا نہیں ہوا یا اس شبہ کی گنجائش نہ ہو کہ قانون کی طاقت کو سیاسی اختلافات کابدلہ لینے کے لیے استعمال کیاجارہاہے۔
مقدمہ کا پس منظر:
مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے مقدمہ میں یہ بات پیش نظر رکھنی ضروری ہے کہ ان پر ضابطہ مارشل لا نمبر۸ بشمول تعزیرات پاکستان کی دفعات نمبر۱۵۳(رعایا کے درمیان منافرت پھیلانا اور نمبر۱۲۴/الف(حکومت کے خلاف بغاوت پر ابھارنا) کے تحت مقدمہ چلایا گیا …یہ وہی دفعات ہیں جن کے تحت حال ہی میں کراچی کے ایک انگریزی روزنامہ ’’ایوننگ ٹائمز ‘‘ کے ایڈیٹر مسٹر زیڈ ۔ اے سلہری پر حکومت کی طرف سے مقدمہ چلایا گیاتھا مگر بالآخر جسٹس لاری نے اپنے تاریخی فیصلہ میں ان کو دونوں الزامات سے نہ صرف بری قرار دیا بلکہ آزاد مملکت پاکستان کے مخصوص حالات میں ان دفعات کے اطلاق اور بغاوت کی تعریف پر سیرحاصل بحث بھی کی ہے۔ اس سلسلہ میں پہلی عجیب بات یہ ہے کہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کو گرفتاری کے وقت سے مقدمہ چلائے جانے سے دو دن پہلے تک جرم کی نوعیت سے آگاہ نہیں کیاگیا۔ یہی نہیں بلکہ گرفتاری کی تاریخ ۲۸مارچ سے لے کر ۳ مئی ۱۹۵۳ء تک کی مدت میں ان سے قلعہ لاہور میں ان دفعات کی خلاف ورزی کے جرم کی تحقیق و تفتیش کے بجائے، جماعت اسلامی کے ذرائع آمدنی ، بیت المال کے حسابات اور کسی فرضی خفیہ امداد کے بارے میں جرح و سوالات ہوتے رہے ۔ اگر ان کا جرم وہی تھاجس پر حراست کے ۳۷دن بعد مقدمہ چلایا گیاتو کیا وجہ تھی کہ اس پورے عرصہ میں نہ پبلک کو اور نہ خود ملزم ہی کو ان کے جرم سے واقف کیا گیا۔ اس سے تو مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے کہ دراصل نیت تو ان پر کسی اور نوعیت کا الزام لگانے کی تھی مگر جب سرتوڑ کوششوں کے باوجود تفتیش کنندگان کو کہیں سے کچھ مواد ہاتھ نہ لگا تو پھر یہ تلاش شروع ہوئی کہ آخرکار کون سا الزام لگایا جائے۔
اس دوران میں ۴ مئی ۱۹۵۳ء کو اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ مسٹر غلام محمد گورنر جنرل پاکستان ۳ مئی کو اچانک لاہور پہنچ گئے ہیں …چونکہ ناظم الدین وزارت کی برخواستگی کی وجہ سے عام خیال کے مطابق گورنر جنرل کی پوزیشن محض آئینی سربراہی کی نہیں رہی تھی بلکہ وہ براہ راست ملک کے روز مرہ کے معاملات میں گہری دلچسپی لیتے نظر آ رہے تھے ، اس لیے قدرتی طور پر لوگ لاہور میں مارشل لا کے اختتام کی خوش خبری سننے کے منتظر تھے ۔ مگر خبر یہ ملی کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ امیرجماعت اسلامی پاکستان پر ۵ مئی ۱۹۵۳ء سے مارشل لا ہی کے تحت فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا۔
سزائے موت :
۵ مئی ۱۹۵۳ء کو گورنر جنرل پاکستان واپس کراچی تشریف لے آئے اور ۹ مئی کو ان کی طرف سے ایک آرڈی ننس جاری ہوا جس کی رو سے فوجی عدالتوں کو اس بات کا قانونی طور پر مجاز قرار دیا گیاتھا کہ وہ مارشل لا کے نفاذ سے قبل سرزد ہونے والے جرائم کی بھی سماعت کرسکتی ہیں اور یہ کہ ایسی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ملک کی کسی عدالت میں اپیل نہیں ہوسکتی سوائے اس کے کہ مرکزی حکومت ہی ان پر نظرثانی کرے ۔ ۹ مئی کو مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے مقدمہ کی کارروائی ختم ہوگئی …اور ۱۱ مئی ۱۹۵۳ء کی رات کو مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کو سزائے موت کا حکم سنادیا گیا جسے بعد میں چودہ سال قید بامشقت میں تبدیل کردیا گیا۔
اس سزاپر پبلک کسی طرح مطمئن نہیں ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ نہ ’’قادیانی مسئلہ ‘‘ پر قلم اٹھانا کوئی جرم تھا اور نہ پارٹی حکومت پر تنقید کرنا۔ ان کا خیال ہے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کو حقیقت میں اسلامی نظام کے مطالبہ کی ہی سزا مل رہی ہے ۔ اس لیے مسلمان اس کو صریح ظلم قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف مختلف طریقوں سے اپنے رنج و اضطراب اور ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں اور پاکستان اور عالم اسلام سے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی فوری رہائی کے لیے برابر مطالبہ ہو رہاہے۔
ایک عجیب منطق :
اس عظیم احتجاج اور مطالبہ رہائی پر اب سرکاری حلقوں کی طرف سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ آخر کوئی بات تو تھی جو ملٹری کورٹ نے مودودی صاحب کو اتنی سخت سزا دی ۔ اس بات میںاس وقت تو کوئی وزن ہوسکتاتھا جب یا تو مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ پر کسی سول عدالت میں مقدمہ چلایا گیا ہوتا یا فوجی عدالت کے فیصلہ کے خلاف ملک کی عدالت عالیہ میں اپیل کرنے کا حق باقی رہنے دیا جاتا۔ قانون میں اپیل کی گنجائش اسی تصور کے تحت ہی تو رکھی جاتی ہے کہ ایک عدالت کا فیصلہ غلط بھی ہوسکتاہے اور یہ کسی عدالت سے مجرم قرار دئیے جانے کے باوجود بھی ایک شخص بے گناہ ہوسکتاہے ، مگر بحالت موجودہ اس استدلال کی روشنی میں تو گویا ایک عدالت کے فیصلہ کے خلاف دوسری عدالت میں اپیل کرسکنے کی گنجائش ہی بے معنی ہے کیونکہ ہر عدالتی فیصلہ کے بارے میں یہ کہاجاسکتاہے کہ آخر کوئی بات تو ہوگی جو عدالت نے مجرم کو سزا دی ۔
ساتھ ہی یہ بات بھی لوگوں کے کان میں پھونکی جارہی ہے کہ باقاعدہ عدالتی کارروائی کے نتیجہ میں سزا یافتہ شخص کو بے گناہ سمجھنا اور اس کے لیے احتجاج کرنا کیا معنی رکھتاہے؟ لیکن ہم جواباً یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ پبلک میں ملک کی عام عدالتوں کے سزا یافتہ افراد میں سے کسی ایک کی بھی سزا کے خلاف آج تک ایسا احتجاج ہواہے؟ یہی نہیں بلکہ قادیانی تحریک کے پورے عرصہ میں کسی ایک شخص کی سزا یابی پر بھی ایسی ہل چل مچی ہے ؟ آخر کوئی وجہ تو ہے کہ عوام اس ’’باقاعدہ کارروائی ‘‘ پر مطمئن نہیں اور پبلک کو مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی بے گناہی پر یقین بھی ہے اور اصرار بھی ۔
تاہم اگر حکومت کی نیک نیتی کالوگوں کو یقین ہی دلانامقصودہے تواس کابہترین ثبوت اس طرح دیاجاسکتا تھا کہ ان افراد کوچھوڑکرجن پرکسی نہ کسی قسم کے متعین الزامات عائدکرکے مقدمات چلائے گئے ،جماعت اسلامی کے بقیہ نظر بندوں کو،جن پرآج تک کوئی جرم ثابت نہیں کیاگیا، فی الفوررہاکردیاجاتا۔ نیزدفترجماعت کاریکارڈ، رجسٹر، کاغذات اوربیت المال کاروپیہ سیدھی طرح واپس کردیاجاتا۔لیکن ان میں سے کوئی کام بھی نہیں ہوا،اس لیے اگر حکومت کے خلاف عوام میں یہ رائے پائی جائے کہ یہ سب سیاسی اختلافات کاانتقام لیاجارہاہے تواس بدگمانی کے پیداکرنے کی ذمہ داری خودکارپر دازان حکومت ہی پرعائدہوتی ہے ۔
رہائی کامطالبہ بھی جرم؟
یہی نہیں بلکہ ہم تواس کے بالکل برعکس یہ دیکھ رہے ہیں کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں کی گرفتاریوں کاسلسلہ برابرجاری ہے ۔حال ہی میں لاہور کے مقامی دفترجماعت پرچھاپہ مارکرپولیس نے ’’سائیکلواسٹائل مشین ‘‘ٹائپ رائٹرمولانامودودی کی رہائی کے دستخطی محضرنامے اپنے قبضہ میں کیے ہیں ۔گویاعوام کااپنے لیڈرکی رہائی کاآئینی اورپرامن طریقہ پرمطالبہ کرنابھی جرم ہے ۔اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ معقول سے معقول اورجائزسے جائزمطالبہ کے لیے بھی کوئی قدم خواہ کتناہی پرامن اورجمہوری کیوں نہ ہواٹھانے کی گنجائش باقی نہیں رہ گئی ہے ۔یہ چیزعوام کے ذہنوں کوغیرآئینی راہوں پرڈالنے والی اورتخریب پسند عناصرکی حوصلہ افزائی کرنے والی ہے ۔اس لیے اس پالیسی کوجس قدرجلد ترک کیاجاسکے اتناہی ملک وقوم کے لیے بہترہے ۔
ہمارے صحافی اوران کاضمیر:
اس مقد مہ کے سلسلہ میں یہ بات بھی قابل غورہے کہ مولانامودودی کے ۲۷فروری اور۵مارچ ۱۹۵۳ئ کے جن دوبیانات کوحکومت کے خلاف بغاوت پھیلانے کے مترادف قراردیاگیاہے وہ لاہور ،کراچی اوردیگرمقامات کے اخبارات میں بھی شائع ہوئے لیکن مقدمہ صرف جماعت اسلامی کے ایک رکن کے اخبار روزنامہ ’’تسنیم ‘‘ ہی پر چلایا گیا اور اس کے ایڈیٹر کو تین سال قید با مشقت کی سزا دی گئی ، جس پر ہماری صحافتی برادری کے ضمیر آج تک خاموش ہیں۔
نیز جس پمفلٹ (قادیانی مسئلہ ) کی تصنیف پر مولانا مودودی سزائے موت({ FR 6479 }) کے مستحق ٹھہرائے گئے ۔ اس پر نہ مارشل لا کی پوری مدت میں فوجی حکام نے اور نہ آج تک کسی صوبائی اور مرکزی حکومت نے کسی قسم کی پابندی لگائی ہے۔ حالانکہ یہ پمفلٹ اب تک نوے ہزار کی تعداد میں اُردو، انگریزی ، سندھی ، گجراتی اور بنگلہ وغیرہ زبانوں میں شائع ہوکر لاکھوں افراد کی نظر سے گزر چکاہے۔
اس سے بھی بڑھ کر عجیب واقعہ یہ ہے کہ لاہور کے کتب فروشوں کی دوکانوں سے فوجی حکام نے اس پمفلٹ کے اسٹاک کو اٹھا کر پہلے تو اپنے قبضہ میں لے لیاتھا مگر پھر تفتیش و تحقیق کے بعد تمام کتابیں واپس کردیں اور کھلے عام فروخت کرنے پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی ۔ خود جماعت اسلامی کے مرکزی مکتبہ کے ناظم سید نقی علی جن کو اس پمفلٹ کا پرنٹرو پبلشر ہونے کی وجہ سے ۹ سال قید با مشقت کی سزا ملی ہے ۔ مارشل لا حکام کا ایک اعلان سن کر مذکورہ پمفلٹ لے کر اس کے بارے میں ان سے حکم دریافت کرنے گئے۔ لیکن اس کے بعد بھی اس کتاب کو ممنوع قرار نہیں دیاگیا۔
]({ FN 6479 }) یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مولانا مودودیؒ کو جس دفعہ کے تحت سزائے سزائے موت کا حکم سنایا گیاوہ ضابطہ نمبر ۷مارشل لائ بشمول دفعہ ۱۱۵۳ الف ہے۔ یعنی رعایا کے درمیان منافرت پھیلانا نہ کہ ۱۲۴الف کے تحت یعنی حکومت کے خلاف بغاوت کرنا۔ بالفاظ دیگر مولانا مودودیؒ محض ’’قادیانی مسئلہ‘‘ نامی پمفلٹ لکھنے کے ہی جرم میں سزائے موت کے مستحق پھہرائے گئے۔ ملاحظہ ہو فوجی حکام کا خط بنام مولانا مودودیؒ بہ سلسلہ اپیل‘[
اے پی پی کا افترا:
آخرمیں چندالفاظ پیش نظر پمفلٹ کے بارے میں عرض کرنا ہیں، ان سطور کی اشاعت کامقصد مولانا مودودی کے مقدمہ سے متعلق وہ تمام حالات عوام کے سامنے لانے ہیں جن کے جاننے کا لوگوں کو شدید اشتیاق ہے اور جن کو پیش نظر رکھے بغیر پبلک خود کوئی رائے قائم نہیں کرسکتی ۔ نیز اس سے مقصود اس پروپیگنڈے کاازالہ کرنا بھی ہے جو خود مرکزی حکومت کے انتہائی ذمہ دار افراد تک کی جانب سے سننے میں آ رہاہے کہ مولانا مودودی کو دراصل سزا مسلح افواج میں مضرت رساں پروپیگنڈا کرنے کے جرم میں دی گئی ہے اور اس کے ثبوت میں اے پی پی کی اس خبر کا حوالہ دیا جارہاہے جو مولانا مودودی کی گرفتاری کے تقریباً ایک ہفتہ بعد اخبارات میں شائع ہوئی تھی اور جس میں ’’باوثوق ذرائع‘‘ سے یہ بات معلوم ہونے کا اعلان کیاگیاتھاکہ مولانا مودودی کا عنقریب کورٹ مارشل کیا جائے گا۔ کیونکہ ان کے خلاف علاوہ دیگر الزامات کے فوج میں مضرت رساں پروپیگنڈا کرنے کا الزام بھی ہے۔ یہ خبر رساں ایجنسی جو ایک پبلک ادارہ ہونے کے باوجود ریڈیو کی طرح صرف حکومت کا پروپیگنڈا کرنے کے لیے مخصوص ہوچکی ہے یوں تو جماعت اسلامی کی بڑی سے بڑی خبر کو بھی دبا دینے اور مولانا مودودی کا نام تک اپنی نشریات میں نہ آنے دینے کا خاصاہتمام کرتی ہے لیکن اس بے بنیاد الزام ،صریح جھوٹ اور شرارت انگیز افواہ کو پھیلانے میں اس نے خاص دلچسپی کااظہار کیا ۔ اس کے کارپرداز شاید یہ سمجھتے ہوں گے کہ برسراقتدار گروہ کی خوشامدہی بس حاصل زندگی ہے اور اس کا عتاب تباہ کن ۔ لیکن وہ یہ بھولے ہوئے ہیں کہ ایک اقتدار اعلیٰ اور بھی ہے۔ ایک دن جس کے سامنے جھوٹ و افترا کے ایک ایک لفظ کا حساب دینا پڑے گا اور جس کی پکڑ اور عذاب کے آگے وقت کے نمرودوں اور فرعونوں تک کاعتاب بے حقیقت نظر آنے لگے گا۔
فرد جرم نمبر۱
بنام ملزمان :نمبر۱ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ولد احمد حسن، ذیلدار پارک اچھرہ لاہور۔
نمبر۲نصیر بیگ ولد امیربیگ، منیجرجدید اُردو پریس ، لاہور
نمبر۳محمد بخش ولد حاجی محمد اسماعیل الاٹی ،مرکنٹائل پریس لاہور
نمبر۴سید نقی علی ،ناظم مکتبہ مرکزی جماعت اسلامی اچھرہ لاہور
جرم مارشل لا ریگولیشن نمبر۸ مع دفعہ ۱۵۳/الف تعزیر ات پاکستان
ان پر یہ الزام لگایا جاتاہے کہ انھوںنے مشترکہ طور پر پاکستان میں مختلف طبقات کے درمیان دشمنی یا نفرت کے جذبات کو ابھارا اور اس طرح کہ لاہور میں ۶ اور ۱۳/مارچ کے درمیان ایک پمفلٹ اُردو میں ’’قادیانی مسئلہ ‘‘ اور انگریزی ’’قادیانی پرابلم ‘ ‘علی الترتیب لکھا، طبع کیا اور شائع کیا۔ اس صورت میں انھوںنے مارشل لا ریگولیشن نمبر۸ مع ۱۵۳/الف تعزیرات پاکستان کی رو سے جرم کیا۔
۳مئی ۱۹۵۳ء دستخط
لاہور پراسیکیوٹر
(شوکت سلطان )میجر
بیان نمبر۱: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
(جو انھوںنے فرد جرم زیر مارشل لا ضابطہ نمبر۸ بشمول دفعہ نمبر۱۵۳/الف کے جواب میں فوجی عدالت میں دیا )
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۲۷اور ۲۸مارچ کی درمیانی شب کو میرے مکان پر اچانک چھاپہ مارا گیا اور نہ صرف مجھے گرفتار کیا گیا بلکہ پولیس نے میرے مکان کی اور جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر کی پوری تلاشی لینے کے بعد میرے ذاتی حسابات اور جماعت کے حسابات کے تمام رجسٹروں پراور میرے اور جماعت کے دوسرے کاغذات پر قبضہ کرلیا۔ نیز جماعت کے خزانے کی پوری رقم بھی اپنی تحویل میں لے لی ۔ بعد میں مجھے معلوم ہواکہ شہر لاہور میں جماعت اسلامی کے بارہ ذمہ دار کارکنوں کو بھی اس رات گرفتار کیا گیا۔ اس کے بعد ایک مہینہ چھ دن تک جماعت کے حسابات اور دوسرے ریکارڈ کو خوب اچھی طرح خورد بین لگا لگا کر دیکھا گیا اور مجھ پر اور جماعت کے دوسرے بہت سے کارکنوں پر قلعہ لاہور میں لمبا چوڑا interrogationہوتا رہا جس کے سوالات کااندازصاف بتا رہاتھاکہ تحقیقات اس بات کی کی جارہی ہیں کہ جماعت کے فنڈز کہاں سے فراہم ہوتے ہیں اور بیرونی حکومتوں سے تو جماعت اسلامی کاتعلق نہیں ہے؟ یہ سب کچھ ہوجانے کے بعد اب اس معززعدالت کے سامنے دو مقدمے میرے خلاف پیش کیے گئے ہیں۔ جن میں سے ایک ’’قادیانی مسئلہ ‘‘ کی اشاعت کے متعلق اور دوسرا میرے ان بیانات کے متعلق ہے جو آخر فروری اور ۷ مارچ ۱۹۵۳ء کے درمیان میں نے پریس کو دئیے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ دراصل مقصد تو مجھ پر اور جماعت اسلامی پر کچھ دوسرے ہی سنگین الزامات لگاناتھا مگر جب کہیں سے کوئی چیز ایسی ہاتھ نہ آئی جس پر گرفت کی جاسکتی تو اب مجبوراً یہ دو مقدمے بنا کرپیش کیے جارہے ہیں، ورنہ ظاہر ہے اگر میرے گناہ وہی دو تھے جو اب پیش کیے جارہے ہیں تو ان میں سے کسی کے لیے بھی جماعت کے حسابات اور دوسرے ریکارڈ اور جماعت کے خزانے پر قبضہ کرنے کی حاجت نہیں تھی۔
اب تک جن الزامات پر میرا مقدمہ اس معزز عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے ان کے بارے میں قانونی بحثوں کو وکلا پر چھوڑتے ہوئے میں صرف اصل واقعات بلا کم و کاست عدالت کے سامنے پیش کرتاہوں ۔ مجھے اپنے اس بیان کو مرتب کرتے وقت یہ سہولت حاصل نہیں ہے کہ اپنے دفتر کے ریکارڈ سے فائدہ اٹھاسکوں ، اس لیے میں محض اپنی یاد کی بنا پر تاریخوں کے حوالے دوں گا ان میں تھوڑی بہت غلطی کا امکان ہے تاہم واقعات جو میں بیان کررہاہوں وہ اپنی جگہ پر بالکل صحیح ہیں۔
۱۔ جماعت اسلامی پاکستان کی ایک منظم جماعت ہے۔ جس کا دستور تحریری شکل میں شائع شدہ موجود ہے اور اس دستور کی دفعہ ۱۰ میں قطعی طور پر جماعت کی یہ پالیسی لکھی ہوئی ہے کہ وہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کبھی کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کرے گی جو فساد فی الارض کا موجب ہو۔ اس لیے یہ جماعت خود اپنے دستور کی رو سے پر امن ذرائع کی پابند ہے اور غیر آئینی ذرائع یا بدامنی پھیلانے والے ذرائع اختیار نہیں کرسکتی ۔
۲۔ جماعت اسلامی نے ابتدا سے جب کہ وہ اگست ۱۹۴۱ء میں قائم ہوئی تھی ، آج تک اپنے سامنے ایک ہی نصب العین رکھاہے جس کے لیے وہ قیام پاکستان سے پہلے بھی جدوجہد کرتی رہی ہے اور آج تک کیے جارہی ہے۔ وہ یہ ہے کہ زندگی کے پورے نظام کو اس کے اخلاقی، معاشرتی ، معاشی اور سیاسی پہلوئوں سمیت اسلام کے اصولوں پر قائم کیاجائے۔ اس نصب العین کے لیے اپنی جدوجہد میں آج تک جماعت اسلامی نے کبھی کوئی غیر آئینی اور فساد انگیز طریق کار اختیار نہیں کیاہے۔
۳۔ قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی نے جس مقصد پر اپنی کوششوں کو مرکوز کیا ہے، وہ یہ ہے کہ اس نئی ریاست کا دستور اسلامی اصولوں پر بنوایا جائے۔
۴۔ اپنی کوشش کے سلسلے میں جماعت اسلامی نے مئی ۱۹۵۲ء کے آغاز میں مجلس دستور ساز پاکستان کے سامنے ملک کا دستور جلدی سے جاری کرنے اور اسلامی اصولوں پر بنانے کے لیے ایک آٹھ نکاتی مطالبہ پیش کیااور اس کے لیے پورے ملک میں آئینی جدوجہد کاآغاز کردیا لیکن اس ماہ مئی کے آخرمیں جماعت احرار نے جس کو مسلم لیگ نے پنجاب اور بہاول پور کے انتخابات میں اپنا حامی اور مدد گار بنا کر از سر نو ملک کی پبلک لائف میں داخل ہونے کا موقع دے دیاتھا، قادیانی مسئلہ چھیڑ دیا۔
۵۔جماعت اسلامی کو اور خصوصاً ذاتی حیثیت سے مجھ کو قادیانی مسئلہ کی تاریخ کا پورا علم تھا۔ ہم یہ جانتے تھے کہ پچاس برس سے اس مسئلہ نے خصوصیت کے ساتھ پنجاب اور بہاولپور کے علاقوں میں مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان نہ صرف مذہبی حیثیت سے بلکہ معاشرتی اور معاشی حیثیت سے بھی اتنی تلخیاں پیدا کردی ہیں کہ اگر اس مسئلہ کو اس وقت چھیڑ دیا گیا اور احرار جیسے آتش بیان مقررین نے اس پر مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کردیاگیاتو دوسرے تمام ملکی مسائل حتیٰ کہ دستور اسلامی کے مسئلے تک سے مسلمانوں کی توجہ ہٹ جائے گی ،اس لیے جولائی ۱۹۵۲ء کے آغاز میں مَیں نے جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کا اجلاس لاہور میں بلایا اور مجلس شوریٰ نے اس معاملہ کے تمام پہلوئوں پر غور کرنے کے بعد ایک ریزولیوشن کی شکل میں ملک کے عوام سے یہ اپیل کی کہ وہ اس وقت اس مسئلہ کو ملتوی کرکے اپنی پوری توجہ اسلامی دستور بنوانے پر مرکوز کردیں اور یہ کہ جب اسلامی دستور بنے گا تو قادیانی مسئلہ آپ سے آپ حل ہوجائے گا۔
۶۔ لیکن اس وقت تک قادیانی مسئلہ پر عوام کا اشتعال اس حد تک بڑھ چکاتھا کہ جماعت اسلامی کی اس اپیل کا کوئی اثر نہ ہوسکا اور جولائی ۱۹۵۲ء کے تیسرے ہفتہ میں ملتان فائرنگ تک نوبت پہنچ گئی ۔
۷۔ اس حد تک حالات بگڑ جانے کے بعد میں نے اگست کے پہلے ہفتہ میں جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے ان ارکان کو جو لاہور میں موجود تھے، جمع کیا اور پوری صورت حال کا جائزہ لے کر یہ رائے قائم کی کہ اگر قادیانی مسئلہ پر پنجاب اور بہاولپور کے مسلمانوں کے اشتعال کو آئینی جدوجہد کی طرف نہ موڑا گیا تو نہ صرف یہ کہ اسلامی دستور کے مسئلہ کو نقصان پہنچے گا بلکہ ملک کے اندر سخت بدامنی رونما ہوجائے گی۔ اس لیے ہم نے باہمی مشورے کے بعد قادیانی مسئلے کے متعلق مسلمانوں کی جدوجہد کو آئینی جدوجہد کی طرف موڑنے کا فیصلہ کیا اس موقع پر میں نے جو بیان دیا وہ اخبارتسنیم میں دیکھا جاسکتاہے۔ اس سے عدالت کو خود معلوم ہوجائے گا کہ یہ فیصلہ ہم نے کس بنا پر کیاتھا ۔
۸۔ اس سے میری اور میر ے رفقا کی غرض یہ تھی کہ قادیانی مسئلہ کو دستور کے مسئلہ کا ایک جزو بنا کر مسلمانوں کو یہ سمجھایا جائے کہ اگر ان نکات کے مطابق اسلامی دستور بنے تو قادیانی مسئلہ آپ سے آپ حل ہوجائے گا۔ اس لیے اس مسئلہ پر الگ کسی ایجی ٹیشن کی حاجت نہیں ہے اور وہ آئینی جدوجہد جو ہم دستور کے لیے کررہے ہیں ہمارے تمام مقاصد کے لیے کافی ہے ۔ چنانچہ ہمیں اپنی اس تدبیر میں پوری طرح کامیابی ہوئی اور اگست سے لے کر دسمبر ۱۹۵۲ء تک ملک کے مسلمان اس جدوجہد میں پوری طرح منہمک ہوگئے جو آئینی اور پُرامن طریقے پر دستور اسلامی کے لیے جاری تھی ۔ اس دوران اس قادیانی مسئلہ پر کوئی فساد انگیز ایجی ٹیشن ملک میں نہ ہوسکا۔
۹۔ اس کے ساتھ ہی میں نے یہ محسوس کیا کہ حکومت پاکستان اور کانسی ٹیوٹ اسمبلی کے ارکان قادیانی مسئلہ کی اہمیت اور نزاکت سے بالکل ناواقف ہیں اور وہ اس کو محض ایک دینیاتی جھگڑا (theological controversy) اور فرقہ وارانہ نزاع (sectarian dispute) سمجھ رہے ہیں اور اس پر یا تو اسے حقارت سے نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا دفعہ ۱۴۴وغیرہ لگا کر طاقت سے دبا دینا چاہتے ہیں۔ اس لیے میں نے جولائی ۱۹۵۲ء سے مسلسل ایسے مضمون لکھنے شروع کیے جن میں حکام پاکستان اور ارکان دستور ساز اسمبلی کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ اس مسئلہ کی تاریخ کیاہے اور اس کے معاشرتی اور معاشی پہلو کیا ہیں اور یہ کہ اس مسئلہ کو سمجھ کر ٹھیک طریقے سے حل کردینا کتنا ضروری ہے۔اس کے لیے میں نے رسالہ ترجمان القرآن جون/ جولائی ۱۹۵۲ء کے مشترکہ نمبر میں ایک مفصل مضمون لکھا۔ اگست کے آغاز میں روزنامہ تسنیم میں ایک مفصل بیان دیا۔ پھر دستور ساز اسمبلی کی توجہ کے لیے ایک مضمون اگست ۱۹۵۲ء کے ترجمان القرآن میں لکھا جس میں دوسرے دستوری مسائل کے ساتھ قادیانی مسئلہ کو صحیح طور پر حل کرنے کی صورت مختصر دلائل کے ساتھ پیش کی ، لیکن افسوس ہے کہ میری ان ساری کوششوں کے باوجود اس مسئلہ کو حل کرنے کی طرف کوئی توجہ نہ کی گئی اور دسمبر ۱۹۵۲ء میں جو بی ۔ پی ۔ سی رپورٹ شائع ہوئی اس میں قادیانی مسئلہ کو بالکل نظر انداز کردیا گیا۔
۱۰۔ اس غلطی کی وجہ سے پنجاب اور بہاولپور کے عوام میں جن قادیانی مسئلہ کی پیدا کردہ معاشرتی پیچیدگیوں سے سب سے زیادہ سابقہ پیش آرہاتھا ، پھر ایک بے چینی پیدا ہوگئی۔ اور ان لوگوں کو جو اس مسئلہ پر ایجی ٹیشن برپا کرناچاہتے تھے، از سر نو اپنا کام کرنے کا موقع مل گیا۔
۱۱۔ جنوری ۱۹۵۳ء کے دوسرے ہفتہ میں کراچی میں پاکستان کے ۳۳ سربرآوردہ علمائ کی ایک کانفرنس بی ۔ پی ۔ سی رپورٹ پر غور کرنے کے لیے منعقد ہوئی جس کے اجلاس ۱۰ سے ۱۹/جنوری تک مسلسل ہوتے رہے ۔ علما کی اس کانفرنس میں مَیں بھی شریک تھا۔ کانفرنس میں بی۔ پی۔ سی رپورٹ کی تجاویز پر اپنی ترمیمات اور اصلاحات تفصیل کے ساتھ مرتب کی گئیں جن میں ایک تجویز قادیانی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے بھی شامل کی گئی تھی اور مجلس دستور ساز پاکستان کو مختصر طور پر یہ بھی بتایا گیاتھا کہ اس مسئلہ کی نزاکت کس نوعیت کی ہے اور اس کو آئینی طریقے پر حل کرنا کتنا ضروری ہے۔
۱۲۔ اس زمانے میں احرار اور جمعیت علما پاکستان کی دعوت پر کراچی میں ایک کنونشن منعقد ہوا جس کے اجلاس ۱۵/اور ۱۷/جنوری ۱۹۵۳ء کو ہوئے۔ دوسرے علما کے ساتھ میں بھی کنونشن میں شریک ہوا۔ کنونشن کے پہلے اجلاس میں ایک سبجیکٹس کمیٹی بنائی گئی جس کا ایک رکن میں بھی تھا۔ ۱۶/جنوری ۱۹۵۳ء کی رات کو اس سبجیکٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا اور میں نے کافی بحث کے بعد کمیٹی سے یہ بات تسلیم کرائی کہ علمائ کی کانفرنس نے جب قادیانی مسئلہ کے حل کو بھی بی۔ پی۔ سی رپورٹ کی اصلاح کے متعلق اپنی تجاویز میں شامل کرلیا ہے تو اس مسئلہ پر کسی الگ جدوجہد کی ضرورت نہیں ہے بلکہ علمائ کی ان تجاویز ہی کو آئینی جدوجہد کے ذریعے سے تسلیم کرانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن جب ۱۷/جنوری کو کنونشن کا اجلاس منعقد ہوا تو سبجیکٹس کمیٹی کی طے کردہ تجویز کو نا منظور کردیا گیا اور کنونشن کے ارکان کی اکثریت نے یہ پاس کردیا کہ قادیانی مسئلے پر الگ ہی جدوجہد کی جائے۔ اس کے بعد میں نے دوسری تجویز پیش کی کہ اس مسئلہ کے لیے جوجدوجہد بھی کی جائے ایک مرکزی مجلس عمل کی قیادت میں ہونی چاہیے اور کسی دوسرے شخص یا گروہ کو اس کے متعلق کوئی پروگرام بنانے یا نافذ کرنے کا حق نہ ہونا چاہیے۔ میری اس تجویز کو کنونشن میں منظور کرلیا گیا اور ایک مرکزی مجلس عمل بنادی گئی جس کا ایک رکن میں بھی تھا۔
۱۳۔اس مرکزی مجلس عمل کا کوئی اجلاس جب سے وہ بنائی گئی ۲۶جنوری تک نہیں ہوا۔ ۲۳فروری کو جو وفد وزیراعظم پاکستان سے ملا اور جس نے قادیانیوں کے متعلق چند مطالبات ان کے سامنے پیش کیے اور ان کو ان مطالبات کے تسلیم کرنے کے لیے ایک مہینے کی مہلت دیتے ہوئے ڈائریکٹ ایکشن کانوٹس دیا وہ ایک غیر مجاز (un-authorised) وفد تھا جسے نہ کنونشن نے بنایا تھا اور نہ مرکزی مجلس عمل نے، اور نہ اس کو ایسا کوئی نوٹس دینے کا کسی نے مجاز کیاتھا۔ میں نے اس بے ضابطہ کارروائی پر سخت اعتراض کیا اور۱۳فروری کو پنجاب کی کونسل آف ایکشن کا جو اجلاس لاہور میں منعقد ہوا ، اس میں میری طرف سے ملک نصراللہ خان صاحب عزیز نے جا کر تحریری صورت میں اس امر پر احتجاج کیا کہ ڈائریکٹ ایکشن کے سلسلے میں جو پروگرام بنایا اور نافذ کیاجارہاہے وہ بالکل خلافِ ضابطہ ہے نیز انھوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ مرکزی مجلس عمل کا اجلاس فوراً منعقد کیا جائے جس میں اس مسئلہ پر غور کیا جائے۔ چنانچہ مرکزی مجلس عمل کا اجلاس منعقد کرنے کے لیے ۱۷/فروری کی تاریخ مقرر کی گئی ۔
۱۴۔۱۷/فروری کے اجلاس کی شرکت کے لیے میں نے ملک نصراللہ خان صاحب عزیز اور میاں طفیل محمد صاحب سیکرٹری جماعت اسلامی کو اپنی طرف سے مقرر کیااور اپنے تمام اعتراضات جو اس وقت تک کی کارروائی پر مجھے تھے، تحریری شکل میں ان کے ذریعے سے بھیجے لیکن اس میٹنگ میں جا کر ان دونوں حضرات کو معلوم ہواکہ یہ مرکزی مجلس عمل کا اجلاس نہیں ہے تاہم میرے اعتراضات کو ان دونوں حضرات نے احرار اور جمعیت علما پاکستان کے ان لیڈروں تک پہنچادیا جو اس وقت ڈائریکٹ ایکشن کی تیاریاں کررہے تھے نیز ان کو مطلع کردیا کہ جب تک مرکزی مجلس عمل طے نہ کرے، آپ کوئی ڈائریکٹ ایکشن کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔
۱۵۔۱۸/۱۹/ فروری کے تسنیم میں میرے ایما پر جماعت اسلامی کے سیکرٹری میاں طفیل محمد نے یہ اعلان شائع کیا کہ ڈائریکٹ ایکشن کے لیے پنجاب کونسل آف ایکشن کی طرف سے جن حلف ناموں پر لوگوں سے دستخط کرائے جا رہے ہیں، جماعت اسلامی کے ارکان ان پر دستخط نہ کریںاور یہ کہ کسی پروگرام کو اس وقت تک تسلیم نہ کیا جائے جب تک کہ وہ مرکزی مجلس عمل کی طرف سے نہ ہو۔
۱۶۔۲۲ / فروری کو مجھے مرکزی مجلس عمل کے اجلاس کے لیے جو ۲۶/فروری کو کراچی میں منعقد ہو رہاتھا، دعوت نامہ وصول ہوا۔ میں نے اس اجلاس میں شرکت کے لیے سلطان احمد صاحب امیرجماعت اسلامی حلقہ سندھ و کراچی کو مقرر کیااور تحریری شکل میں ان کو ہدایات بھیجیں کہ وہ ان تمام بے ضابطہ کارروائیوں پر اعتراض کریں جو ڈائریکٹ ایکشن کے سلسلہ میں کی گئی تھیں اور قطعی طور پر مطالبہ کریں کہ اس پورے پروگرام کو منسوخ کیا جائے جو ڈائریکٹ ایکشن کے سلسلے میں بالکل خلافِ ضابطہ بنایا گیاہے نیز اس تحریرمیں میں نے ان کو یہ ہدایات بھی کی تھیں کہ اگر مرکزی مجلس عمل کے ارکان اس بات کو نہ مانیں تو وہ اس مجلس سے جماعت اسلامی کی لا تعلقی کا اعلان کردیں ۔ میری اس ہدایت کے مطابق سلطان احمد صاحب اس اجلاس میں شریک ہوئے لیکن جو لوگ ڈائریکٹ ایکشن پر تلے ہوئے تھے انھوںنے مرکزی مجلس عمل کو توڑ کر ایک ڈائریکٹ ایکشن کمیٹی بنالی جس کا نہ میں رکن تھا اورنہ جماعت اسلامی کا کوئی دوسرا آدمی ۔ اور اس کمیٹی نے ۲۷فروری کو ڈائریکٹ ایکشن شروع کرنے کا اعلان کیا۔
۱۷۔ اس دوران میں مَیں نے یہ دیکھ کر کہ ایک طرف کچھ لوگ قادیانی مسئلہ کو حل کرانے کے لیے حکومت پر ڈائریکٹ ایکشن کے ذریعے دبائو ڈالنے پر تلے ہوئے ہیں اور انھوںنے عوام کو شدت کے ساتھ مشتعل کردیا ہے اور دوسری طرف حکومت نہ پبلک کے مطالبہ کو منظور کرتی ہے اور نہ ہی اس کو رد کرنے کی وجہ بتاتی ہے اور نہ پبلک کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی کوشش کرتی ہے۔ یہ محسوس کیا کہ اس صورت حال میں سخت ناگوار واقعات پیش آجانے کا ہر وقت امکان ہے اور میرا یہ فرض ہے کہ ملک کے معاملات کو چلانے کی ذمہ داری جن لوگوں پر ہے ان کو خصوصیت کے ساتھ اور ملک کے تمام سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو بالعموم قادیانی مسئلہ کی اہمیت اور نزاکت اور اس کے حل کرنے کی ضرورت سمجھانے کے لیے ایک آخری کوشش کروں ۔ چنانچہ اسی غرض کے لیے میں نے ۲۰ فروری کو وہ مضمون لکھنا شروع کیا جو بعد میں ’’قادیانی مسئلہ ‘‘ کے نام سے پمفلٹ کی شکل میں شائع ہوا۔ میری یہ کوشش ان کوششوں کے سلسلے کی ایک کڑی تھی جن کا میں نے اوپر نمبر۹ میں ذکر کیاہے ۔ اس کے لکھنے سے میرا مقصد جو کچھ تھا وہ میں نے اُردو اور انگریزی ایڈیشنوں کے دیباچوں میں واضح طور پر بیان کردیا ہے ، اور معزز عدالت خود اس پمفلٹ کو پڑھ کرد یکھ سکتی ہے کہ اس کے الفاظ ، مضامین ، دلائل اور عام لہجے سے آیا مختلف فرقوں کے درمیان نفرت اور عداوت پھیلانے کی نیت ظاہر ہوتی ہے یا مسئلہ کو دلائل اور حقائق سے سمجھانے اور سلجھانے کی نیت ۔ میں یہ بات بھی واضح کردینا چاہتاہوں کہ اس پمفلٹ کی تصنیف اس وقت شروع کی گئی تھی جب طوفان برپا نہیں ہواتھا ۔ بلکہ طوفان اٹھنے کے آثار نظر آ رہے تھے اور اس کو میں نے ختم کرکے اشاعت کے لیے سید نقی علی صاحب ملزم نمبر۴ کے حوالے اس وقت کیا جب کہ ڈائریکٹ ایکشن کے سلسلے میں مظاہرے تو شروع ہوگئے تھے مگر کسی قسم کی بدامنی رونما نہیں ہوئی تھی ۔ استغاثہ کے گواہ محمد صدیق کاتب کی بھی یہ شہادت موجود ہے کہ ان کو فروری کے آخری ہفتے میں یہ پمفلٹ کتابت کے لیے ملاہے۔ اس کے ساتھ میں یہ بات بھی معزز عدالت کے نوٹس میں لانا چاہتاہوں کہ اس کا پہلا ایڈیشن ۵مارچ کو پریس سے نکلا اور جلدی سے جلدی اس کی کاپیاں پنجاب کے وزرا، پنجاب کے گورنر مسٹر چند ریگر ، وزیراعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین صاحب کو پہنچانے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے بعد اس وقت سے لے کر ۲۳مارچ تک یہ پمفلٹ ۳۷ہزا ر لاہور میں اور بیس ہزار کراچی سے شائع ہوا۔اور ۲۶مارچ تک لاہور کے بازاروں میں علی الاعلان فروخت ہوتا رہا، جس کا مارشل لا کے حکام کو پورا علم تھا۔ اس دوران میں مارشل لا اتھارٹی کی طرف سے اس پمفلٹ کی اشاعت پر کسی قسم کا اعتراض نہ ہونے سے میں یہ سمجھاکہ مارشل لا اتھارٹیز بھی میری اس کوشش کو جو میں نے سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ کو سمجھانے کے لیے کی ہے ، پسند کرتے ہیں ۔ پھر جب ۲۵مارچ کی رات کو میں نے ریڈیو پر چیف ایڈمنسٹریٹرمارشل لا کا آرڈر نمبر۴۸زیر ریگولیشن نمبر۸سنا ، جس میں خاص طور پر اس پمفلٹ کاکوئی ذکر نھیں تھا ، اس کے دوسرے ہی روز میں نے سید نقی علی صاحب ملزم نمبر ۴ کو اپنے حلقے کے سیکٹر کمانڈر کے پاس بھیجا کہ آیا اس پمفلٹ پر آرڈر نمبر۴۸ مذکورہ بالا کا اطلاق ہوتاہے یا نہیں۔ چنانچہ وہ ان کے پاس گئے اور وہاں ایک ذمہ دار افسر سے کہاکہ اگر اس پمفلٹ پر اس آرڈر کا اطلاق ہوتاہے تو اسی وقت ہم سارا اسٹاک لا کر آپ کے حوالے کردیتے ہیں ۔ افسر موصوف نے سیکٹر کمانڈر صاحب سے اس کے متعلق دریافت کرنے کے بعد یہ جواب دیا کہ وہ ان کو پڑھ کر کل یعنی ۲۸ مارچ کو ان کے متعلق اپنا فیصلہ دیں گے۔ لیکن قبل اس کے کہ ان کا فیصلہ ہمیں معلوم ہوتا ،۲۷اور ۲۸/مارچ کی درمیانی شب کو مجھے اور میرے دوسرے ساتھیوں کو مارشل لا کے احکام کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ تاہم جہاں تک مجھے معلوم ہے اس وقت تک بھی اس پمفلٹ کو ممنوع قرار نہیں دیا گیا جس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اس چارج شیٹ کے مرتب ہونے تک یہ بات صاف نہیں ہوسکی تھی کہ یہ پمفلٹ آرڈر نمبر۴۸کے تحت آتاہے یا نہیں۔ حالانکہ اس دوران میں بعض دوسری چیزوں کو نام لے کر ممنوع قرار دیا گیاہے۔
۱۸۔۲۷/فروری کو جب کراچی میں ڈائریکٹ ایکشن شروع کرنے والوں کو گرفتار کیاگیا اور اس پر گورنمنٹ کی طرف سے ایک کمیونکے شائع کیا گیا تو اس بارے میں میری پوزیشن یہ تھی کہ مرکزی وزارت نے اس مسئلہ کو تدبر کے ساتھ حل کرنے کی بجائے جو طریق کار اختیار کیاہے وہ کئی وجوہ سے غلط ہے۔ میں اپنے نقطۂ نظر کی توضیح میں وہ وجوہ پیش کرتاہوں جن کی بناپر میں مرکزی وزارت کے اس فیصلے کو غلط سمجھتاہوں ،اور جن کی بنا پر میں ان کو غلط کہنے اور ان کی اصلاح کی کوشش کرنے کو اپنا حق اور فرض سمجھتاہوں۔
الف۔ میں اس ملک میں ایک نکتہ خیال رکھنے والی جماعت کا لیڈر ہوں اور مجھے پورا حق پہنچتاہے کہ میں برسراقتدار پارٹی کی پالیسیوں پر تنقید کروں حتیٰ کہ میں اس کی غلطیاں واضح کرکے پبلک سے یہ اپیل کرنے کا حق بھی رکھتاہوں کہ اس پارٹی کو اقتدار کے منصب سے ہٹادیا جائے ۔ مسلح بغاوت کے سوا ، میں برسراقتدار پارٹی کو اقتدار کی جگہ سے ہٹانے کی ہر کوشش کرنے کامجاز ہوں ۔ ایک پارٹی گورنمنٹ کو (sedition)کا وہ مفہوم لینے کا کوئی حق نہیں ہے جو ایک بادشاہی حکومت میں لیا جاتاہے۔
ب۔ قادیانی مسئلہ ۱۹۵۳ء سے مسلسل ملک میں بے چینی پیدا کیے ہوئے تھا ۔اس وقت سے لے کر ۲۷ فروری تک ، ۹ مہینوں کے دوران میں دلائل کے ساتھ بھی حکومت کو یہ بتایا جا چکاتھاکہ قادیانیوں کے بارے میں مسلمانوں کے مطالبات معقول ہیں۔ جلسوں اور رائے عام کا اظہار کرنے کے دوسرے تمام طریقوں سے بھی یہ ثابت ہوچکاتھاکہ قوم کی رائے عام ان مطالبات کی پشت پر ہے ، لیکن حکومت کی طرف سے کبھی یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ ان مطالبات کو تسلیم نہ کرنے کے لیے کیا وجوہ اور دلائل رکھتی ہے۔
ج۔ ایک جمہوری نظام میں سرکاری ملازموں کی بجائے پبلک لیڈروں کو وزارت بنانے کی دعوت اس لیے دی جاتی ہے کہ پبلک لیڈر عوام سے اور عوام ان سے براہ راست واقف ہوتے ہیں۔ ان کے لیے یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ حکومت کی تجاویز اور اس کے کاموں میں پبلک کی رضا مندی کو شامل کرکے حکومت اور پبلک کے درمیان بدگمانی، مخالفت اور تصادم پیدا ہونے کے امکانات رونمانہ ہونے دیں ۔ لیکن اس مسئلہ میں ان پبلک لیڈروں نے جو مرکزی وزارت کے ارکان تھے، اپنے رویہ کے متعلق پبلک کو مطمئن کرنے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے معاملات اس حد تک بگڑ گئے کہ کچھ لوگ پبلک کو ڈائریکٹ ایکشن جیسے غیر آئینی طریقے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
د۔ میرے نزدیک مرکزی وزرا کے لیے صحیح طریقہ کار یہ تھاکہ یا تو وہ ان مطالبات کو جو دلائل اور رائے عام کی تائید کے ساتھ پیش کیے جارہے تھے تسلیم کرلیتے یا اگر ان کے نزدیک یہ مطالبات غلط تھے تو وہ پبلک پلیٹ فارم پر آتے اور اپنی قوم کے عوام کو یہ بتاتے کہ ان کے مطالبات میں کیاغلطی ہے ، ان کی قوم بہرحال اتنی سرپھری نہ تھی کہ اگر اس کو مدلل طریقے سے ان مطالبات کی غلطی سمجھائی جاتی تووہ پھر ان مطالبات پر اڑ جاتی اور خواہ مخواہ اپنی حکومت سے لڑ جاتی ہے۔
و۔ ایک قومی حکومت میں جو جمہوری حکومت ہونے کی بھی مدعی ہو ، پبلک کے پیش کیے ہوئے مطالبات کو بغیر کوئی وجہ بتائے رد کردینا قدرتی طور پر عام ناراضی پیدا کرنے کا موجب ہوتاہے اور پھر جب عوام یہ سنتے ہیںکہ ان کے مطالبات کو صرف رد کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا جارہا ہے بلکہ ان کو یہ بھی دھمکی دی جارہی ہے کہ اگر تم اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے کوئی ایجی ٹیشن کرو گے تو تمہارے ایجی ٹیشن کو سختی کے ساتھ دبا دیا جائے گا تو یہ چیز عوام میں قدرتی طور پر ایک غصہ پیدا کرتی ہے ۔ کیونکہ عوام اپنی قومی حکومت میں اپنے ہی منتخب کیے ہوئے نمائندوں سے اس قسم کے رویے کی ہرگز توقع نہیں رکھتے۔
یہ وجوہ تھے کہ جن کی بنا پر میرے نزدیک ۲۷فروری کو مرکزی وزارت نے کراچی میں ڈائریکٹ ایکشن کمیٹی کے ارکان کو گرفتارکرتے وقت جو کمیونکے شائع کیا وہ نہایت غیرمدبرانہ تھا۔ میرے نزدیک اگر ان لوگوں کو گرفتار کرنے کے ساتھ یہ اعلان کیا جاتاکہ حکومت جلدی سے جلدی ایک گول میز کانفرنس کرے گی جس میں اس مسئلہ سے تعلق رکھنے والے حلقوں کے ذمہ دارنمائندوں کو بلایا جائے گا اور گفت و شنید کے ذریعے اس کو حل کیا جائے گا، تو دائریکٹ ایکشن کی تحریک ملک میں ایک لمحے کے لیے بھی نہ چل سکتی اور وہ بدامنی ہرگز رونما نہ ہوتی جو بعد میں رونما ہوئی ۔
۱۹۔اس کے بعد جب پنجاب کے مختلف حصوں میں ڈائریکٹ ایکشن کا طوفان برپا ہوا اور اس سلسلے میں لاہور میں سخت بدامنی رونما ہونی شروع ہوئی تو میں نے وزیراعظم پاکستان کو ۴/مارچ کی رات کو اور ۵/مارچ کی صبح کو ، پے در پے دو تاردیے جن میں ان سے ملاقات اور گفتگو کی درخواست کی گئی تھی مگر مجھے ان کا جواب نہ دیاگیا۔ ۵ مارچ کو ۳ بجے گورنر پنجاب نے ایک کانفرنس کی جس میں مجھے بھی دعوت دی گئی ۔ میں نے اس کانفرنس میں یہ بات پیش کی کہ اتنی سخت بدامنی رونما ہونے کی اصل وجہ پبلک کے مطالبات کو بلا دلیل اور بلاوجہ رد کردیناہے ۔ اب حکومت کے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ یہ ہے کہ پبلک کو مطمئن کرکے امن قائم کیاجائے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ آج ہی وزیراعظم پاکستان کی طرف سے اعلان کیا جائے کہ حکومت پبلک کے مطالبات پر گفت و شنید کرنے کے لیے تیار ہے۔ میں یقین دلاتاہوں کہ یہ اعلان اگر آج رات کو کیاجائے تو کل ہی امن قائم کیاجاسکے گا اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ پوری طاقت کے ساتھ پبلک کے ایجی ٹیشن کو کچل ڈالا جائے۔ اب اگر حکومت پہلی صورت کو پسند کرتی ہے تو اس صورت میں ،میں بھی ہر خدمت کے لیے حاضر ہوں اور دوسرے پبلک لیڈرز بھی اس سلسلے میں کوشش کرسکتے ہیں لیکن اگر دوسرا راستہ ہی پسند ہے تو پھر پبلک لیڈروں کو کسی کانفرنس میں بلانے کی حاجت نہیں۔ آپ کے پاس پولیس اور فوج کافی تعداد میں موجود ہے ۔ بلائیے اور اپنی قوم کو دبادیجیے ۔ میری اس بات سے گورنر پنجاب نے متاثر ہو کر اس طریقے کو پسند کیا کہ پبلک کو مطمئن کرکے امن قائم کیا جائے ۔ انھوںنے مجھ سے اس سلسلے میں یہ خواہش ظاہر کی کہ میں اس کے لیے ایک باقاعدہ تجویز مرتب کرکے پیش کروں ۔ میں نے ایک تجویز اسی وقت لکھ کر پیش کی جسے گورنر صاحب نے پسند فرمایا۔ پھر انھوںنے مجھ سے فرمائش کہ میں اس اعلان کا مسودہ تیار کروں جو وزیراعظم پاکستان کی طرف سے اس سلسلے میں شائع ہونا چاہیے۔ میں نے اس کا مسودہ تیار کیا ۔ خلیفہ شجاع الدین صاحب سپیکر پنجاب اسمبلی ، علامہ علائو الدین صدیقی صاحب ، گورنر مسٹر چندریگر نے میرے تیار کیے ہوئے مسودے پر غور کرکے اور اس میں ترمیم و اصلاح کرکے اس کو آخری صورت دی ۔ اس کاخلاصہ یہ تھاکہ ایک طرف پبلک سے یہ اپیل کی گئی تھی کہ وہ ڈائریکٹ ایکشن بند کردے اور بالکل پُرامن رویہ اختیار کرے اور دوسری طرف یہ وعدہ کیاگیاتھاکہ جلدی سے جلدی عوام کے معتمد علیہ نمائندے بلا کر ان سے اس مسئلہ پر گفتگو کی جائے گی اور اس گفتگو کا جو کچھ بھی نتیجہ ہوگا وہ حکومت اور عوام کے نمائندوں کے نقطۂ نظر کی وضاحت کے ساتھ شائع کیا جائے گا۔ میرے اور گورنر صاحب کے درمیان یہ بات طے ہوگئی تھی کہ اس رات کو (یعنی ۵اور ۶کی درمیانی شب کو ) یہ اعلان ریڈیو پر نشر کردیا جائے گا۔ لیکن گورنمنٹ ہائوس سے گھر پہنچ کر جب میں نے ریڈیو کھولا تو میں نے گورنر صاحب کی طرف سے ایک دوسرے ہی مضمون کااعلان سنا جس میں امن کی اپیل تو تھی لیکن پبلک مطالبات پر گفتگو کادروازہ کھولنے کے متعلق کوئی وعدہ نہ تھا۔
۲۰۔پنجاب اور خصوصاً لاہور کے حالات بگڑتے دیکھ کر میں نے جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کو بذریعہ تار لاہور طلب کیا اور ۴/۵ مارچ کو جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر میں مجلس شوریٰ کے اجلاس ہوئے ۔ ان اجلاسوں میں پوری صورت حال کاجائزہ لے کر جو ریزولیوشن پاس کیا گیا وہ ۶ مارچ کی صبح کو اخبار تسنیم میں شائع ہوا۔ اس ریزولیوشن کے تین اجزا تھے ۔ اس کے پہلے جز میں ہم نے ان غلطیوں کووضاحت کے ساتھ بیان کیا جو قادیانی مسئلہ کے سلسلہ میں حکومت نے کی تھیں ۔ اس کے دوسرے جزمیں ہم نے ان غلطیوں کو بیان کیاجو اس سلسلے میں ڈائریکٹ ایکشن کی تحریک کے لیڈروں نے کی تھیں اور اس کے تیسرے حصے میں ہم نے یہ بتانے کے بعد کہ ڈائریکٹ ایکشن سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، ہم نے یہ بات واضح کی تھی کہ قادیانیوں کے متعلق پبلک کے اصل مطالبہ کو ہم صحیح سمجھتے ہیں اور اس کو منوانے کے لیے ہم اپنے اصولوں کے مطابق مؤثر تدابیر اختیار کریں گے۔ ان ریزولیوشن میں ہم نے اپنے ’’اصولوں ‘‘ کی اس لیے کوئی تشریح نہیں کی کہ وہ ہمارے دستور کی ایک دفعہ میں درج ہیں جیساکہ میں اپنے بیان کے پیرا نمبر ۱ میں بیان کرچکاہوں۔
۲۱۔ میں اپنی صفائی میں چند اہم گواہوں کو طلب کرناچاہتاتھا جس میں گورنر جنرل پاکستان مسٹر غلام محمد صاحب اور سابقہ گورنر مسٹر چندریگر بھی شامل ہیں۔ لیکن چونکہ عدالت کامنشا اس مقدمہ کو جلدی سے جلدی ختم کرنے کا ہے، اس لیے میں مجبوراً ان کوترک کررہاہوں۔
ابوالاعلیٰ ۔۷مئی ۱۹۵۳ء
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کے دو اخباری بیانات
مورخہ ۲۷فروری اور ۵ مارچ ۱۹۵۳ء جو فرد جرم زیر مارشل لا ضابطہ نمبر۸ بشمول دفعہ ۱۲۴/الف کا موجب بنے ۔
پہلا بیان تاریخ ۲۷فروری ۱۹۵۳ء
حکومت پاکستان کراچی میں مجلس عمل کے چند رہنمائوں کو اور دوسرے بے شمار افراد کو گرفتار کرکے پھر ایک مرتبہ اس امر کا ثبوت بہم پہنچایا ہے کہ ہماری حکومت اس وقت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو عقل و تدبیر سے محروم ہیں۔ پچھلے جنوری میں طلبہ پر تشدد کیاگیا تھا، اس وقت بھی میں نے ان لوگوں کی بے تدبیری کا ماتم کیاتھا اور آج پھر ا س کا ماتم کررہا ہوں ، کیا اس حکومت میں اب ایک آدمی بھی ایسا نہیں رہا جو ایک تھانے دار کی سطح سے زیادہ بلند سطح پر سوچ سکے ؟ آخر ان لوگوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ ایک جمہوری نظام میں عوام کے جائز اور مقبول اور معقول مطالبات کو ڈنڈے کے زور سے دبانے کی کوششیں حکومت کو غیرمقبول ، اور عوامی تائید سے محروم تو کرسکتی ہیں مگر اس کے مطالبات کو زیادہ دیر تک روک نہیں سکتیں۔
صحیح طریقہ کار :
جو لوگ عوام کے نمائندے بن کر حکومت کررہے ہوں ان کے لیے صحیح طریق کار یہ ہے کہ یا تو ایک قومی مطالبے کا جواب معقول دلیل سے دے کر قوم کو مطمئن کردیں کہ اس کامطالبہ صحیح نہیں ہے ، یا اس کو سیدھی طرح تسلیم کرلیں یا میدان سے ہٹ جائیں۔ حکومت پاکستان نے ان تینوں صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار نہیں کی اور اب اس مطالبہ کو جو قوم کے سواد اعظم کی طرف سے پیش کیاگیاہے ، قوت سے دبانے پر تل گئی ہے۔ اس احمقانہ زیادتی کا انجام یہ تو نہ ہوگا کہ قومی مطالبہ پورا نہ ہو۔ البتہ اس کاانجام صرف یہی ہوگا کہ ایسی چند حرکتیں کرکے یہ لوگ اپنی پبلک لائف کو ہمیشہ کے لیے ختم کرلیں گے اور انہیں قوم میں منہ دکھانے تک کی جگہ نہ رہے گی ۔
مجھے ان تازہ گرفتاریوں سے بھی بڑھ کر اس پریس نوٹ پر افسوس ہواہے جو اس اقدام کو جائز ثابت کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے شائع کیاگیا ہے۔ میرے نزدیک یہ بالکل ایک شرمناک پریس نوٹ ہے ، جس کی کسی معقول حکومت سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس میں یہ صریح غلط بیانی کی گئی ہے کہ اس مطالبہ کو محض قوم کے چند عناصر کی تائید حاصل ہے۔ اسی لاہور میں ابھی چند روز پہلے جو ہڑتال ہوئی تھی ، کیا وہ چند عناصر کی تائید کا مظاہرہ تھا؟ یا پوری قوم کی تائید کا ثبوت تھا؟ لاہور کے لاکھوں آدمی جو اس مظاہرے کو دیکھ چکے ہیں، ان کی نگاہ میں اس جھوٹ سے حکومت کی آخر کیا وقعت باقی رہ جائے گی ؟ پھر اس سے بھی زیادہ عجیب اخلاقی جسارت اس میں یہ دکھائی گئی ہے کہ احرار کو اس سارے ایجی ٹیشن کا ذمہ دار قرار دینے کے بعد ان کے سابق کانگریسی تعلق کا ذکر کیاگیاہے۔ اور یہ فرمایاگیاہے کہ یہ لوگ پہلے بھی پاکستان کے مخالف تھے اور آج بھی ہیں۔ میں پوچھتاہوں کہ کل ہی احرار جب پنجاب اور بہاول پور کے انتخابات میں مسلم لیگ کے ہمنوا تھے اور آپ لوگوں کی کامیابی کے لیے ایڑی چوٹی کازور لگا رہے تھے۔ اس وقت ان کی پوزیشن کیاتھی ؟ یہ آخر کیا اخلاق ہے اور کس قدر گھٹیا درجہ کی ذہنیت ہے کہ آج ایک شخص آپ کا ساتھ دیتاہے تو وہ پاکستان کا پکا خیر خواہ اور اس کا ماضی و حال سب آپ کی نگاہ میں شان دار ہے اور کل وہی شخص آپ کی پالیسی سے اختلاف کرتاہے تو وہ پاکستان کابدخواہ اور دشمنوں کا ایجنٹ اور اس کا ماضی و حال دونوں تاریک ۔ یہ باتیں کرکے عوام کو دھوکا تو نہیں دیا جاسکتا البتہ اپنی رہی سہی وقعت ضرور کھوئی جاسکتی ہے۔ پھر میں پوچھتاہوں کہ احرار تو پاکستان کے مخالف ٹھہرے مگر علامہ اقبال کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ۔ جنھوںنے سب سے پہلے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیاتھا۔
میں حکومت کو آگاہ کرتاہوں کہ قادیانیوں کو جداگانہ اقلیت بنانے کامطالبہ تمام مسلمانوں کا متفقہ مطالبہ ہے اور ایک مٹھی بھر اقلیت کے سوا اس کو سب کی تائید حاصل ہے۔ اس مطالبہ کو منوانے کے طریقوں میں ہمارے درمیان اختلاف ہوسکتاہے ۔ مگر بجائے خود اس مطالبہ میں قطعاً کسی اختلاف کی گنجائش نہیں ہے اور اسے بہرحال حکومت کو ماننا ہی پڑے گا۔ اس کو تشدد سے دبانے کی کوشش ہرگز کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔
دوسرا بیان بتاریخ ۵ مارچ ۱۹۵۳ء
جب سے پنجاب میںصورت حال بگڑنی شروع ہوئی ہے میںمسلسل اس امرکی کوشش کرتارہاہوںکہ کسی طرح یہ آگ بڑھتے بڑھتے خانہ سوز نہ بن جائے ۔اس سلسلے میں میری آخری کوششیںیہ تھیںکہ مولانامفتی محمدحسن صاحب اورمولانادائودغزنوی صاحب کے مشورے سے میںنے وزیراعظم پاکستان کوتاردیاکہ پنجاب کے حالات خطرناک حدتک نازک ہوچکے ہیں۔کیااس مسئلے پرگفت وشنیدکاکوئی امکان ہے؟فوراًتارکے ذریعے سے جواب دیجیے۔لیکن اس کاکوئی جواب نہ دیاگیا ۔مارچ کی صبح کومیںنے پھران کوتاردیاکہ حالات ہرہرگھنٹے خراب سے خراب ترہوتے جارہے ہیں،جلدی جواب دیجیے۔ لیکن اس کابھی کوئی جواب نہیںملا۔پھرآج ۵/مارچ کوگورنمنٹ ہائوس میںگورنرصاحب نے سیاسی پارٹیوںکے لیڈرزاورشہرکے عمائدین کی ایک کانفرنس کی جس میںمجھ کومدعوکیاگیا۔چنانچہ میںاس امیدپرہی وہاںگیاکہ اس آگ کوبجھانے کے لیے خدمت انجام دے سکوں۔میںنے صورت حال کوپوری وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کے بعدیہ تجویزپیش کی کہ ایک طرف ان تمام اسباب کاخاتمہ کیاجائے جن سے اپنی ہی قوم کی پولیس اورفوج‘اپنی ہی قوم کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ اوردوسری طرف عوام کے مطالبات پرگفتگوکی جائے اوردلیل کی طاقت سے عوام کی بات مانی جائے یاپھردلیل ہی کی طاقت سے عوام کوقائل کیاجائے۔میری اس بات کووہاںبالکل صحیح اورمعقول تسلیم کیاگیا۔لیکن ابھی ابھی گورنمنٹ کی طرف سے جواپیل میںنے ریڈیوپرسنی ہے اس پرمیںحیران رہ گیاکہ عوام کے مطالبات پرغورکرنے کاذکراس میںنہیںہے اورمحض امن کے وعظ پربات ختم کردی گئی ہے۔اوروہ بھی اس اندازسے کہ اس سارے معاملے میںقصورساراکاساراعوام ہی کاہے اور گورنمنٹ کادامن ہرغلطی سے پاک ہے۔ میں نہیں سمجھتاکہ اس حالت میںجب کہ پنجاب کابہت بڑاحصہ ایک آتش فشاںکی شکل اختیارکرچکاہے، ان باتوںسے کیافائدہ حاصل کیا جاسکتاہے۔
فرم جرم نمبر۲
بنام ملزمان:۔نمبرا۔مولاناابوالاعلیٰ مودودی ولداحمدحسن
ذیلدار پارک اچھرہ لاہور
نمبر۲۔نصراللہ خان عزیز ولد ملک محمد شریف
مین بازار گوالمنڈی لاہور
جرم :مارشل لا ریگولیشن نمبر۸ مع دفعہ ۱۲۴/الف تعزیرات پاکستان ان پر یہ الزام لگایا جاتاہے کہ انھوںنے مشترکہ طور پر پاکستان کی حکومت مجاز کے خلاف بغاوت پھیلائی اس صورت سے کہ لاہور میں ماہ فروری کے آخری ہفتہ اور ۷ مارچ ۱۹۵۳ء کے درمیانی وقفے میں ملزم نمبر ۱ نے اخباری بیان دیئے ۔ جنہیں ملزم نمبر۲ نے روزنامہ تسنیم لاہور ۷/ مارچ ۱۹۵۳ء میں شائع کیا اور اس طرح ارتکاب جرم کیا جو کہ مارشل لا ریگولیشن نمبر۸ مع دفعہ ۱۲۴/الف تعزیرات پاکستان کی رو سے مستوجب سزا ہے۔
۳ مئی ۱۹۵۳ئ دستخط
اسٹیشن :لاہور پراسیکیوٹر
(شوکت سلطان )میجر
٭…٭…٭…٭…٭
بیان نمبر۲ :مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی
(جوانھوں نے فردجرم ضابط نمبر۸مارشل لا بشمول دفعہ نمبر۱۲۴/الف کے جواب میں فوجی عدالت میںدیا۔)
اس مقدمے میںمیرابیان وہی ہے جومیںنے ’’قادیانی مسئلہ ‘‘کے مقدمے میں پیش کیاہے۔اس لیے اس کی نقل داخل کررہاہوں۔البتہ اس پرمیں چند نکات کااوراضافہ کرناچاہتاہوں۔میرے جن بیانات کوقابل اعتراض ٹھہرایاجارہاہے، ان کے بارے میںایک منصفانہ رائے قائم کرنے کے لیے صرف اتنی بات کافی نہیںہے کہ محض ان بیانات کی عبارتوںیاچندفقروںاورالفاظ ہی کودیکھاجائے۔بلکہ میرے اس پورے طرزعمل کونگاہ میںرکھناضروری ہے جومیںنے قادیانی مسئلہ کے متعلق ایجی ٹیشن کے آغازسے اب تک اختیارکیاہے۔بحیثیت مجموعی اس پورے منظرمیںرکھ کرمیرے بیانات کودیکھنے سے ہی میری پوزیشن عدالت کے سامنے صحیح طورپرواضح ہوسکتی ہے۔جوواقعات میں نے اپنے بیان میںپیش کیے ہیںاورجوباتیںدستاویزی اورشخصی شہادتوںسے عدالت کے سامنے آئی ہیںان سے یہ ثابت ہوتاہے کہ:
۱۔میںنے اپنی حدتک ڈائریکٹ ایکشن کوروکنے کی پوری کوشش کی ہے اورخوداس نظام میںجواس مسئلہ پرجدوجہدکرنے کے لیے بتایاگیاہے اس غلط طریق کارکی آخروقت تک مزاحمت کرتارہاہوں،یہاںتک کہ میری مزاحمت سے ہی آخرڈائریکٹ ایکشن کے حامیوںنے ۲۶فروری کومرکزی مجلس عمل توڑکراس کی جگہ ایک نئی ڈائریکٹ ایکشن کمیٹی بنائی اورڈائریکٹ ایکشن شروع کیا۔
۲۔میں نے ڈائریکٹ ایکشن میںنہ خودحصہ لیا،نہ اپنی جماعت کے کسی رکن کواس میںحصہ لینے کی اجازت دی، نہ عام لوگوںکواس میںشریک ہونے کامشورہ دیابلکہ میںنے اورمیر ی جماعت نے علی الاعلان اس طریق کارکوغلط ٹھہرایااورجماعت کے جن لوگوںنے جماعتی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرکے اس تحریک میںحصہ لیاانہیںمیںنے فوراًجماعت سے خارج کردیا۔
۳۔میںنے جولائی ۱۹۵۲ء سے اس تحریک کارخ پرامن آئینی جدوجہدکی طرف موڑنے کی مسلسل کوشش کی اورکم ازکم دسمبر۱۹۵۲ء تک میری ہی کوششوںسے یہ تحریک غیرآئینی طریقوںکی طرف جانے سے رکی رہی۔پھرمیںنے جنوری ۱۹۵۳ء میںبھی اسے ڈائریکٹ ایکشن کے راستے پرجانے سے روکا‘مگربی۔ پی۔ سی رپورٹ میں قادیانی مسئلہ کوقطعی نظراندازکرنے کی جوغلطی کی گئی تھی اس نے میرے ہاتھ کمزورکردئیے ۔کیونکہ اس کی وجہ سے مسلمان اس خاص معاملے میںآئینی طریق کارسے مایوس ہوگئے تھے اوران لوگوںپراعتمادکرنے لگے تھے جواس کوحل کرانے کے لیے غیرآئینی طریقوںکامشورہ دے رہے تھے۔میرے نزدیک جوبدامنی آخرکارمارچ ۱۹۵۳ء میںرونماہوئی اس کی ذمہ داری تنہاڈائریکٹ ایکشن کی تحریک کے رہنمائوںہی پرنہیںہے‘بلکہ اس میںمرکزی وزارت کی بے تدبیری اورغلط پالیسی بھی برابرکی شریک ہے۔اس پالیسی کی غلطیوں کومیںاس وقت سے محسوس کررہاہوںجب سے یہ مسئلہ ملک میںچھڑاتھااورمجھے یقین تھاکہ یہ پالیسی اگرقائم رہی توبدترین نتائج پیداکرکے رہے گی۔اس لیے میرافرض تھاکہ حکومت کوبھی اس کی غلط روش سے مطلع کردوںاوراسے تدبیرکے ساتھ معاملے کوسمجھنے اورحل کرنے پرآمادہ کروں۔اس فرض کے لیے میںجولائی ۱۹۵۲ ء سے مسلسل اورپے در پے مضامین لکھ لکھ کرحکومت کومسئلہ کی صحیح نوعیت سمجھانے کی کوشش کی اوراسے حل کرنے کے لیے تعمیری تجاویزپیش کیں۔پھرڈائریکٹ ایکشن کی تحریک کوطاقت سے کچل دینے کافیصلہ کیاگیاتومیںنے یکم مارچ ۱۹۵۳ء کے بیان میںحکومت کوآگاہ کیاکہ عوام کے مطالبات کوبلاوجہ ردکردینے اوردلیل کے بجائے طاقت سے ان کامقابلہ کرنے کی پالیسی تباہ کن ہے۔اس کے بعد۵/ مارچ کوگورنرپنجاب کی کانفرنس میںآخری مرتبہ یہ کوشش کی کہ حکومت طاقت کے بجائے عوام کوراضی اورمطمئن کرکے امن قائم کرے۔یہ تمام باتیںظاہرکرتی ہیںکہ میری نیت اس آگ کوبھڑکانے اوراس پرتیل چھڑکنے کی نہ تھی۔بلکہ میںاسے بجھانے کے درپے تھااوراس غرض کے لیے ایک طرف حکومت کوسمجھانے اوردوسری طرف ڈائریکٹ ایکشن کے حامیوں کو روکنے کی کوشش کررہاتھا۔ اس مجموعی پس منظر میں رکھ کر اگر میرے بیانات کو دیکھا جائے تو وہ اصلاح حال کی کوشش کے طویل سلسلہ کی ایک کڑی نظر آئیں گے۔ حکومت نے ان کو اگر بغاوت سمجھاہے تو میں نہیں کہہ سکتاکہ یہ میری بد قسمتی ہے یا اس ملک کی۔
(ابوالاعلیٰ مودودی)
٭…٭…٭…٭…٭
مضمون : سزائے موت کے خلاف رحم کی اپیل کی گنجائش
خفیہ
نمبرایم ایل /۱/الف
ہیڈکواٹربی ،سیکٹر
۱۱ /مئی ۱۹۵۳ء
بنام: مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ولد احمد حسن
مضمون : سزائے موت کے خلاف رحم کی اپیل کی گنجائش
مارشل لا کے تحت جو سزا دی جاتی ہے اس کی کوئی اپیل نہیں ہوتی ۔ البتہ آپ اپنی سزائے موت کے خلاف جو آپ کو مارشل لا نمبر۸ مع دفعہ ۱۵۳/ الف تعزیرات پاکستان دی گئی ہے ، اس ہیڈکوارٹر کی معرفت سات روز کے اندر اندر کمانڈر انچیف سے رحم کی اپیل کرسکتے ہیں۔
دستخط
اے جیلانی
میجر
٭…٭…٭…٭…٭
چنداہم نکات
(۱)سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ مولانامودودی کوفوج میں مضرت رساں پروپیگنڈاکرنے یاخفیہ بیرونی امدادحاصل کرنے کے الزام میںکبھی بھی ماخوذنہیںکیاگیا۔نیزباوجودکوشش جماعت اسلامی کے خلاف آج تک ایک واقعہ بھی ایسا ثابت نہیں کیا جاسکتا جس کو خلاف قانون یامنافی جمہوریت قراردیاجاسکے۔
(۲)تحریک راست اقدام یعنی ڈائریکٹ ایکشن کے سلسلہ میںجماعت اسلامی کا دامن ہرقسم کی غیرقانونی سرگرمیوںسے پاک رہا۔اس پروگرام سے جماعت کے اختلاف اورعلیحدگی سے لوگ بخوبی واقف تھے۔حتیٰ کہ وزیراعظم پاکستان پارلیمنٹ میںبرسراجلاس اس کااعتراف کیاتھا۔
(۳)جماعت اسلامی کے رہنمائوںنے ملک کے دیگرزعما کے ساتھ حکومت سے تعاون کرتے ہوئے لاقانونیت اوربدامنی کوروکنے کی ہرممکن کوشش کی تھی۔
(۴)حکومت کی غلط پالیسی اورارباب اختیاروممبران اسمبلی کی مسئلہ قادیانیت سے ناواقفیت کودیکھتے ہوئے مولانامودودی نے جولائی ۱۹۵۲ء سے مسلسل مضامین لکھ کراس مسئلہ کی مذہبی ‘سیاسی‘معاشی اورمعاشرتی نوعیت سے آگاہ کرنے اوراس پیچیدہ مسئلہ کامعقول عملی حل سمجھانے کی کوششیںکیں۔
(۵)’’قادیانی مسئلہ ‘‘نامی پمفلٹ فروری ۱۹۵۳ء کے تیسرے ہفتہ میں لکھا گیا اور اس ماہ میںاس کی کتابت بھی مکمل ہوگئی تھی۔
(۶)لاہورمیںمارشل لا کانفاد۶/مارچ۱۹۵۳ء سے ہوا۔مذکورہ پمفلٹ اس سے قبل ہی شائع ہوچکاتھا۔اخباری بیانات بھی ۲۸/فروری ۱۹۵۳ء اور۵/ مارچ ۱۹۵۳ء کوپریس کودے دیے گئے تھے۔اس لیے اگرکوئی مقدمہ قائم ہی کیاجاناتھاتواس کی سماعت سول کورٹ میںہونی چاہیے تھی۔کیونکہ یہ دونوںکام مارشل لا کے نفادسے قبل انجام دئیے جاچکے تھے۔
(۷)مولانامودودی اورجماعت اسلامی کے دیگر۱۲سرکردہ ارکان کی لاہورمیں گرفتاری ۲۸/مارچ ۱۹۵۳ء کوعمل آئی۔لیکن ۳/مئی ۱۹۵۳ء تک ان میںسے کسی کویہ پتہ نہیںچلاکہ آخراس کاجرم کیاہے؟
(۸)اگرمولانامودودی کاجرم صرف ایک پمفلٹ ’’قادیانی مسئلہ ‘‘لکھنا اور اخبارات کودوبیانات دیناہی تھاتوگرفتاریوںکے وقت بیت المال کاروپیہ‘حسابات کے رجسٹراوردفترجماعت کاریکارڈپولیس نے اپنے قبضہ میںکیوںلیا؟اوراب تک کیوںواپس نہیںکیاہے؟
(۹)پھرقلعہ لاہورمیںبجائے پمفلٹ یابیانات سے متعلق سوالات کرنے کے ایک مہینہ ۶دن تک مولانامودودی اوران کے رفقا سے جماعت اسلامی کے مالی وسائل،ذرائع آمدنی اورکسی بیرونی طاقت سے تعلق کے بارے میںتفتیش وجرح کس مقصدکے تحت ہوتی رہی؟
(۱۰)مولانامودودی اورملک نصراللہ خان عزیزوسیدنقی علی پربہرحال کسی نہ کسی قسم کا مقدمہ چلایاگیا۔لیکن جماعت اسلامی کے دیگراکابرمثلاًمولاناامین احسن اصلاحی‘ مولانا مسعودعالم ندوی‘مولاناعبدالغفارحسن‘حکیم عبدالرحیم اشرف‘غازی محمدعبدالجبار ‘ نعیم صدیقی اورطفیل محمدصاحب کاجرم کیاہے۔پھرمولاناامین احسن اصلاحی‘ نعیم صدیقی ‘ چودھری محمداکبر‘ فقیرحسین اورملک غلام علی وغیرہ کواڑتالیس گھنٹہ کی عارضی رہائی کے بعددوبارہ کیوں گرفتار کیاگیا؟آج تک ان پرکسی نہ کسی نوع کے الزام میںکوئی مقدمہ کیوں نہیں چلایا گیا؟ اوراب مارشل لا ختم ہوجانے کے بعدبھی ان بے گناہوں کو رہا کیوںنہیںکیاجاتا؟
(۱۱)یہ واقعہ ہے کہ ’’قادیانی مسئلہ‘‘پمفلٹ کے اردو‘انگریزی‘سندھی اورگجراتی زبانوںمیںکئی کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔عربی اوربنگلہ تراجم کوملاکراس کی اشاعت ایک لاکھ کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے۔لیکن آج تک نہ توسنٹرل گورنمنٹ نے پاکستان میں کسی جگہ اس کتاب کوقابل اعتراض ٹھہرایا،نہ کسی صوبائی حکومت نے اپنے علاقہ میںاس کوممنوع ٹھہرایانہ خودفوجی حکام نے مارشل لا کے زمانہ میںاس پمفلٹ پرکوئی پابندی لگائی‘یہی نہیںبلکہ مارشل لا حکام نے باوجوداستفسارکے اس کتابچہ کونہ صرف یہ کہ ضبط نہیںکیابلکہ بازارسے اپنی تحویل میںلیاہواسٹاک واپس کردیا۔جواسی زمانہ میںکھلے عام فروخت ہوتارہا۔یہ تمام شہادتیںفوجی عدالت کے ریکارڈمیںآچکی ہیں۔
(۱۲)یہ بات بھی قابل غورہے کہ مولانامودودی پر’’قادیانی مسئلہ ‘‘پمفلٹ لکھنے کی وجہ سے ضابطہ مارشل لا نمبر۸ بشمول تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۱۵۳/الف یعنی رعایاکے درمیان دشمنی ومنافرت پھیلانے اوردواخباری بیانات جاری کرنے کے سبب سے ضابطہ مارشل لا نمبر۸بشمول دفعہ ۱۲۴/الف یعنی حکومت کے خلاف بغاوت پھیلانے کے جرم میںمقدمہ چلاہے۔یہ وہی دفعات ہیںجن کے تحت یکم جنوری ۱۹۵۳ء کوکراچی میںشام کے انگریزی روزنامے ’’ایوننگ ٹائمز‘‘کے ایڈیٹرمسٹرزیڈاے سلہری پرمقدمہ چلاتھا۔جس میں آخرکارمسٹرجسٹس لاری نے ان کودونوںالزامات سے بری قراردیااوراپنے تاریخی فیصلہ میںنہ صرف حکومت پرتنقیدکرنے کے مسئلہ پرسیرحاصل بحث کی بلکہ پاکستان کی آزاد مملکت میںبدلے ہوئے حالات کے تحت بغاوت کے مفہوم اورقانونی تعریف پر نظر ثانی کیے جانے کی ضرورت کابھی اظہارفرمایا۔زیربحث پمفلٹ اوربیانات کی اشاعت خود استغاثہ کے اعتراف واقرارکے بموجب مارشل لا کے نفادسے قبل واقع ہوجانے کی وجہ سے فی الواقع مارشل لا کی زدمیںنہیںآتی تھی۔زیادہ سے زیادہ مذکورہ بالادودفعات کے ماتحت اوروہ بھی سول عدالت میںمقدمہ چلایا جاسکتا تھا، لیکن مارشل لاریگولیشن نمبر ۲۴ نافذشدہ ۱۱/مارچ ۱۹۵۳ء کی روسے فوجی حکام نے مارشل لا کے نفاذسے قبل سرزدہونے والے جرائم کی سماعت کااختیاربھی حاصل کرلیااورمارشل لا آرڈرنمبر۴۸زیرریگولیشن نمبر ۸‘ نافذشدہ ۲۶/مارچ ۱۹۵۳ء کی روسے قابل اعتراض مطبوعات وغیرہ کی سزاموت یا۱۴سال قیدبامشقت مقررکردی۔بعد میںگورنرجنرل پاکستان کے ۹مئی ۱۹۵۳ء کے خاص آرڈنینس نے فوجی عدالتوںکوقانونی لحاظ سے اس کامجازقراردیانیزان فیصلوںکے خلاف کسی عدالت میںاپیل دائرکرنے کاحق بھی سلب کرلیا۔
(۱۳)مولانامودودی کابیان روزنامہ ’’تسنیم‘‘لاہورمیںہی نہیںبلکہ لاہوروکراچی وغیرہ کے دیگراخبارات میںبھی شائع ہوالیکن مقدمہ صرف ایڈیٹر’’تسنیم‘‘پرہی چلا۔ نیز مارشل لا کے دوران لاہورمیںکئی اخبارات بندکیے گئے لیکن ’’تسنیم‘‘پریہ خاص عنایت کی گئی کہ اس کومارشل لا کے بعدسیفٹی ایکٹ کاشکاربھی بنالیاگیاہے۔
(۱۴)ماہ نامہ ’’ترجمان القرآن‘‘(مرتبہ: سیدابولاعلیٰ مودودی)کے لیے پریس کی تبدیلی کی درخواست جوعام طورپرچندگھنٹوںمیںمنظورہوجاتی ہے آج تین ماہ گزرجانے کے بعدبھی اس کی اجازت نہیںملی ہے۔
آخرمیںیہ عرض کرناضروری ہے کہ:
(۵)پاکستان ایک جمہوری مملکت ہونے کادعوی دارہے۔ہرجمہوری ملک میںچونکہ پارٹی گورنمنٹ کاطریقہ ہوتاہے‘اس لیے دوسری جماعتوںکوبرسراقتدارپارٹی کی غلطیوں کو عوام کے سامنے پیش کرنے کاپوراحق حاصل ہوتاہے۔بلکہ رائے عام کوہموارومنظم کرکے آئینی طریقہ پرحکمراںپارٹی کواقتدارسے ہٹانے کابھی تمام پارٹیوںکوحق ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک جمہوریت میںحزب اختلاف کواتنی ہی اہمیت حاصل ہوتی ہے جتنی کہ برسراقتدارپارٹی کو۔
پس مولانامودودی کوبھی ایک منظم پارٹی کے رہنمااورحزب اختلاف کے لیڈرکی حیثیت سے اس بات کوپوراپوراحق حاصل ہے بلکہ ان کافرض ہے کہ جس مسئلہ میںبھی وہ حکومت کے کسی اقدام یاپالیسی کوغلط سمجھتے ہوںاس پرکھلم کھلادلائل کے ساتھ تنقیدکرکے برسراقتدارپارٹی کے خلاف آئینی طریقہ پررائے عامہ کوتیارکریں۔
ان تمام واقعات کواگرپیش نظررکھاجائے تویہ چیزکھل کرسامنے آتی ہے کہ وہ لوگ جو فسادات کے اصل ذمہ دارقراردیے جاتے ہیںیاجن پرلوگوںکے مشتعل جذبات کو ہوا دینے کاالزام ہے‘ ان کے خلاف توسرے سے کوئی کاررائی ہی نہیںکی گئی‘اس کے برعکس مولانا مودودی جنھوںنے نہایت جرأت سے کام لے کر’’راست اقدام‘‘کوعلی الاعلان غلط قرار دیااوراس طرح اپنے اوپراعتراضات کی بوچھاڑکی دعوت عام دی اورجن کے اس طرزِعمل کی خودوزیراعظم پاکستان نے برسرعام تعریف کی‘انہیںسزائے موت کاحکم سنایاگیا۔
اسے ستم ظریفی نہیںتواورکیاکہیے کہ وہ شخص جومعاملہ کوٹھنڈاکرتاہے‘دستوری حدودکی سختی سے پابندی کرتاہے اورجوپیچیدہ قادیانی مسئلہ کامعقول عملی حل پیش کرتاہے اوراپنے رفقا ومتبعین کواحکام جاری کرتاہے کہ ان میںسے کوئی بھی حدودقانون کونہ توڑے‘تواسے وہ سزاملتی ہے جومولاناکودی گئی اوروہ لوگ جوسازش کرنے‘اشتعال پھیلانے اورفسادات برپاکرنے کے الزامات میںبدنام ہوئے‘ان کوصرف اپنے منصب سے مستعفی ہوکرولایت کی سیرکے لیے نکل جانے کی زحمت دی جاتی ہے۔
جب صورت حال یہ ہے تومولانامودودی جیسی شخصیت کاجوامن وقانون کی بحالی اور حمایت کاایک طاقتورذریعہ ہے‘محض سیاسی اختلافات کی بناپرمیدان سے ہٹنا‘ان لوگوں کے حوصلوںاورامیدوںپرایک ضرب کاری ہے جوپاکستان میںامن وقانون کی حکومت اوراسلام کاراج دیکھناچاہتے ہیں۔مقام افسوس ہے کہ مولانامودودی کی خدا داد صلاحیتیں اورمقناطیسی شخصی اثرات بجائے استحکام پاکستان کی خدمت بجالانے کے جیل کی کو ٹھڑیوں میںمحبوس ہوں۔
٭…٭…٭…٭…٭
باب سوم
فسادات کی تحقیقاتی عدالت
کے سامنے
مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی
کے بیانات
پہلابیان
(یہ بیان آنریبل کورٹ کی اجازت سے اخبارات میں شائع ہوا)
مجھے اپنے بیان میںجوباتیںپیش کرنی ہیںان کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ مجھے کو عدالت کے(terms of reference)کی ترتیب بدل کر… سب سے پہلے ان حالات پرگفتگوکرنی ہوگی جولاہورمیںمارشل لائ جاری کیے جانے کے موجب ہوئے۔
…اس کے بعدمیںاس سوال سے بحث کروںگاکہ ان ہنگاموںسے عہدہ برآ ہونے کے لیے صوبہ کے حکام نے جوتدابیراختیارکیںوہ کیسی تھیں۔
…پھریہ بتائوں گاکہ میرے نزدیک ان ہنگاموں کی ذمہ داری کس پرہے؟
…اورآخرمیں یہ عرض کروںگاکہ اس جھگڑے میںمیرااورمیری رہنمائی میں جماعت اسلامی کارویہ کیارہاہے۔
وہ حالات جولاہور میں مارشل لا جاری کرنے کے موجب ہوئے
اس سوال کواگرصرف ان حالات تک محدودرکھاجائے جومارشل لا سے پہلے قریبی زمانہ میںرونماہوئے تھے تومیرے نزدیک یہ اس تحقیقات کابہت ہی تنگ نقطہ نظرہوگاجسے اختیارکرکے کوئی صحیح نتیجہ اخذنہیںکیاجاسکتا۔معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ جس نزاع نے پنجاب میںبالآخرہنگامہ کی شکل اختیارکی‘جسے فروکرنے کے لیے مارشل لائ نافذکیاگیا‘سب سے پہلے اس کی اصل اوراس کے تاریخی ارتقا پرنظرڈال لی جائے اور پھر ان قریبی حالات کودیکھاجائے جواس قدیم نزاع کی بدولت حال ہی میں رونماہوئے۔
اصل مسئلہ اوراس کاپس منظر:
(۱)قادیانیوں اورمسلمانوںکے درمیان اختلاف کآغازبیسویںصدی کی ابتداسے ہوا۔انیسویںصدی کے خاتمہ تک اگرچہ مرزاغلام احمدصاحب مختلف قسم کے دعوے کرتے رہے تھے جن کی بناپرمسلمانوںمیںان کے خلاف عام بے چینی پیداہوچکی تھی مگراس وقت تک انھوںنے کوئی ایک قطعی دعویٰ نہیںکیاتھا۔۱۹۰۲ء میںانھوںنے نبوت کاصریح اورقطعی دعویٰ کیاجس سے ان کے ماننے والوںاورعام مسلمانوںکے درمیان ایک مستقل نزاع شروع ہوگئی۔
اس نزاع کی وجہ یہ تھی کہ نبوت اسلام کے بنیادی مسائل میںسے ایک ہے۔ایک شخص کے دعوائے نبوت کے بعدہرمسلمان کے لیے لازم ہوجاتاہے کہ اس پرایمان لانے یانہ لانے میںسے کسی ایک رویہ کافیصلہ کرے۔جولوگ اس پرایمان لائیںوہ آپ سے آپ ایک الگ اُمت بن جاتے ہیںاوران کے نزدیک ایسے سب لوگ کافرہوجاتے ہیں۔جنھوںنے اس کونہ ماناہواوراس کے برعکس جولوگ اس پرایمان نہ لائیںوہ خودبخود مقدم الذکرگردہ سے الگ ایک اُمت قرارپاتے ہیں۔وہ ایسے سب لوگوںکوکافرسمجھتے ہیںجوان کے نزدیک جھوٹے نبی پرایمان لائے ہوں۔یہی وجہ کہ ہے کہ دعوائے نبوت کے بعدسے مرزاصاحب کے ماننے والے اورنہ ماننے والے ایک دوسرے سے جداہوتے چلے گئے۔مرزاصاحب اوران کے بعدان کے خلفا نے اعلانیہ اپنی تقریروںاورتحریروں میںان تمام لوگوںکوقطعی کافرٹھہرایاجوان پرایمان نہیںلائے اورمسلمانوںکے تمام فرقوںنے (جن میںسنی‘شیعہ ‘اہل حدیث‘حنفی دیوبندی‘بریلوی سب شامل ہیں۔) بالاتفاق مرزاصاحب اوران سب لوگوںکوکافرقراردیاجوان پرایمان لے آئے۔
(۲)اس نزاع کوتین چیزیںروزبروزتیزکرتی چلی گئیں۔
ایک: اس نئے مذہب کے پیروئوںکی تبلیغی سرگرمی اوربحث ومناظرہ کی دائمی عادت جس کی بنا پران میںکاہرشخص اپنے ماحول میںہمیشہ ایک کشمکش پیداکرتارہاہے۔
دوسرے: ان تبلیغی سرگرمیوںاوربحثوںاورمناظروںکازیادہ ترمسلمانوںکے خلاف ہوناجس کی وجہ سے بالعموم مسلمان ہی ان کے خلاف مشتعل ہوئے ہیں۔
تیسرے: ان کامسلمانوںکے اندرشامل رہ کراسلام کے نام سے تبلیغ کرناجس کی وجہ سے ناواقف مسلمان یہ سمجھتے ہوئے بآسانی ان کے مذہب میںداخل ہوجاتے ہیںکہ وہ ملت اسلامیہ سے نکل کرکسی اورملت میںنہیںجارہے ہیں۔یہ چیزقدرتی طور پرمسلمانوں میں اس سے زیادہ غصہ پیداکرتی ہے جوعیسائیوںیاکسی دوسرے مذہب والے کی تبلیغ سے کسی مسلمان کے مرتدہوجانے پرپیداہوتاہے۔کیونکہ ان کی تبلیغ کسی مسلمان کواس دھوکے میںمبتلانہیںکرتی کہ وہ مسلمانوںمیںرہ کربھی مسلمانوںہی میںشامل ہے۔
معاشرتی پہلو:
(۳)آغازمیںیہ نزاع صرف ایک مذہبی نزاع تھی مگربہت جلدی اس نے مسلمانوںکے اندرایک پیچیدہ اورنہایت تلخ معاشرتی مسئلے کی شکل اختیارکرلی۔اس کی وجہ مرزاصاحب اوران کے خلفا کایہ فتویٰ تھاکہ احمدیوںاورغیراحمدیوںکے درمیان بس وہی تعلقات رہ سکتے ہیںجومسلمانوںاورعیسائیوںیایہودیوںکے درمیان ہوتے ہیں۔یعنی ایک احمدی کسی غیراحمدی کے پیچھے نمازنہیںپڑھ سکتا۔اس کی یااس کے بچے کی نمازجنازہ نہیںپڑھ سکتا۔اس کی بیٹی لے سکتاہے مگراس کوبیٹی دے نہیںسکتا۔اس فتوے کاردعمل مسلمانوںکی طرف سے بھی ایسے ہی طرزعمل کی صورت میںرونماہوااوراس طرح دونوں گروہوںکے درمیان معاشرتی مقاطعہ کی حالت پیداہوگئی۔اس مقاطعہ سے مسلم معاشرہ میںجوتفرقہ رونماہواوہ بس ایک وقتی تفرقہ ہی نہ تھاجوایک دفعہ رونماہوکررہ گیاہوبلکہ وہ ایک روزافزوںتفرقہ تھا،کیونکہ قادیانیت ایک تبلیغی تحریک تھی اوروہ آئے دن کسی نہ کسی مسلمان کوقادیانی بناکرایک نئے خاندان میںتفرقہ برپاکررہی تھی۔اپنے اس معاشرتی مقاطعہ کے رویہ کولے کروہ جس گھرجس خاندان ،جس گائوں، جس برداری اور جس بستی میں بھی پہنچی وہاں اس نے پھوٹ ڈال دی۔ اندازہ کیاجاسکتاہے کہ جہاں شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو اپنے لیے حرام سمجھنے لگیں یا کم ازکم اپنے تعلقات کے جائز ہونے میں شک کرنے لگیں اور جہاں ایک بھائی کے بچے کی نماز جنازہ دوسرا بھائی نہ پڑھے۔ جہاں بیٹا باپ سے اور باپ بیٹے سے کافروں سا معاملہ کرنے لگے اور جہاں ایک ہی خاندان یا برادری میں رشتے ناطے کے تعلقات ختم ہوجائیں، وہاں معاشرہ میں کیسی کچھ تلخیاں پیداہوسکتی ہیں۔
یہ تلخیاں قادیانیت کی رفتار اشاعت کے ساتھ پچھلے پچاس سال کے دوران میں برابربڑھتی چلی گئی ہیں اور سب سے زیادہ پنجاب کو ان سے سابقہ پیش آیا ہے، کیونکہ یہاں ہزار ہا خاندانوں میں اس کازہر پھیل چکاہے۔
معاشی پہلو:
(۴)کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ مسلمانوںاورقادیانیوںکی یہ نزاع معاش کے میدان میںبھی پہنچ گئی۔مسلمانوںکے ساتھ مذہبی اورمعاشرتی کشمکش کی وجہ سے اوربڑی حدتک نئے نئے مذہبی جوش کی وجہ سے بھی قادیانیوںکے اندرابتداہی سے جتھہ بندی کا ایک زبردست میلان پایاجاتاتھا۔انھوںنے منظم ہوکرمعیشت کے ہرشعبہ میں قادیانیوں کو غیرقادیانیوںپرترجیح دینے اورایک دوسرے کی مددکرکے آگے بڑھانے کاسلسلہ شروع کر دیااوراس سے ان کے اورمسلمانوںکے تعلقات کی تلخی روزبروزبڑھتی چلی گئی۔ خصوصیت کے ساتھ سرکاری ملازمتوںکے معاملہ میںدونوںگروہوںکی کشمکش زیادہ نمایاں رہی ہے۔اورقادیانی عہدہ داروںکی خویش پروری نے اس کومزیدہوادی ہے۔اس نزاع سے بھی پنجاب ہی کوسب سے زیادہ سابقہ پیش آیاہے کیونکہ قادیانیوںکی بڑی تعداداسی صوبہ میںآبادہے اوربیشتریہیںکی زراعت‘تجارت‘صنعت‘حرفت اور ملازمتوںمیںان کے اور مسلمانوںکے درمیان کشمکش برپارہی ہے۔اس موقع پریہ بات نہ بھولنی چاہیے کہ یہ اس نوعیت کی نزاع ہے جواس سے پہلے مسلمانوں اور ہندوئوں کو ایک دوسرے سے پھاڑ کر باہمی عداوت کی آخری حدودتک پہنچاچکی ہے۔
سیاسی پہلو:
(۵)جہاں دوگروہوں کے درمیان مذہب‘معاشرت اورمعیشت میںکشمکش ہو وہاں سیاسی کشمکش کارونماہوناایک بالکل قدرتی بات ہے۔مگرقادیانیوںاورمسلمانوںکے معاملہ میںسیاسی کشمکش کے اسباب اس سے کچھ زیادہ گہرے ہیں۔مرزاصاحب اوران کے پیروئوںکوابتداسے یہ احساس تھاکہ جس نبوت کادعویٰ وہ لے کراٹھے ہیںوہ مسلم معاشرہ کے اندرکفراورایمان کی ایک نئی تفریق پیداکرتی ہے اوران کویہ بھی معلوم تھاکہ اپنی ملت میںاس طرح کی ایک تفرقہ انگیزقوت(disintegrating force)کومسلمانوں نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے زمانے سے لے کرقاچاری اورعثمانی فرماںروائوںکے دورتک ’پچھلی بارہ صدیوں‘میںکبھی اُبھرنے نہیں دیا ہے۔اس لیے اُنہوںنے اپنی تحریک کے آغازہی سے انگریزی حکومت کی وفاداری کواپناجزوایمان بنایانہ صر ف زبان سے بلکہ پورے خلوص کے ساتھ دل سے بھی یہی سمجھاکہ ان کے بقااورنشوونمااورفلاح وکامیابی کا انحصار سراسرایک غیرمسلم حکومت کے سایۂ عاطفت پرہے ۔مسلمان غلام ہوںاورغیرمسلم ان پر حکمران ہوں۔ قادیانی ان غیرمسلم حکمرانوںکے پکے وفاداربن کران کی حمایت حاصل کریں اور پھر آزادی کے ساتھ بے بس مسلمانوںکواپنی تفرقہ انگیزتحریک کاشکاربنائیں۔ یہ تھاقادیانیت کی ترقی کاوہ مختصرفارمولاجومرزا غلام احمدصاحب نے بنایااوران کے بعدان کے خلفا اور ان کی جماعت کے تقریباتمام بڑے بڑے مصنفین اورمقررین نے اپنی بے شمار تحریروں اور تقریروں میںبارباردہرایا۔
قادیانیت کے اس سیاسی رجحان کوابتدا توانگریزخوداچھی طرح نہیںسمجھتے تھے۔ قادیانیوںنے بڑی کوششوںسے انہیںاپنے’’امکانات‘‘سمجھائے اورپھرانگریزوںنے ان کواپنی مسلم رعایاکاسب سے زیادہ قابل اعتمادعنصرسمجھ کرہندوستان میںبھی استعمال کیااورباہردوسرے مسلمان ممالک میںبھی۔
اس کے بعدجب ہندوستان میںہندوئوںاورمسلمانوںکی قومی کشمکش بڑھی تو کانگریس کے نیشنلسٹ لیڈروںکی نگاہ بھی قادیانیت کے’’امکانات‘‘پرپڑنی شروع ہوگئی ۔ یہ۱۹۳۰ء کے لگ بھگ زمانہ کی بات ہے جب کہ ایک بہت بڑے ہندولیڈرنے قادیانیت کی حمایت میںڈاکٹرعلامہ اقبال مرحوم سے مباحثہ فرمایاتھااورایک دوسرے نامورلیڈرنے اعلانیہ کہاتھاکہ مسلمانوںمیںہمارے نقطہ نظرسے سب سے زیادہ پسندیدہ عنصرقادیانی ہیں۔کیونکہ ان کانبی بھی دیسی (Indigenous)ہے اوران کے مقدس مقامات بھی اسی دیس میںواقع ہیں۔غرض اپنے مسلک خاص کی وجہ سے قادیانیوں کا سیاسی موقف ہے ہی کچھ اسی قسم کاکہ غیرمسلم کوان کوفطرتاًپُراُمیدنگاہوںسے اورمسلمان اندیش ناک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔مسلمانوںمیںہمیشہ یہ عام خیال موجودرہاہے کہ ملت اسلامیہ کی تخریب کے لیے خوداس ملت کے اندرسے جوعنصرسب سے بڑھ کردشمنانِ اسلام کاآلہ کاربن سکتاہے، وہ قادیانی عنصرہے اوراس خیال کوجن باتوںنے تقویت پہنچائی ہے، وہ یہ ہیںکہ پہلی جنگ عظیم میںجب بغداد‘بیت المقدس اورقسطنطنیہ پر انگریزوں کا قبضہ ہواتوپوری مسلم قوم کے اندروہ صرف قادیانی تھے جنھوںنے اس پرخوشیاں منائیں اور چراغاںکیے۔یہی نہیںبلکہ قادیانیوںکے خلیفہ صاحب نے علی الاعلان یہ فرمایاکہ انگریزی حکومت کی ترقی سے ہماری ترقی وابستہ ہے۔جہاںجہاںیہ پھیلے گی ہمارے لیے تبلیغ کامیدان نکلتاآئے گا۔ ان باتوںکے بعدیہ نہیںکہاجاسکتاکہ قادیانیوںکے متعلق مسلمانوںکی عام بدگمانی بے وجہ ہے۔
تلخی پیداہونے کے مزیدوجوہ:
(۶)تمام مسلمانوںکی تکفیراوران سے معاشرتی مقاطعہ اوران کے ساتھ معاشی کشمکش کی بناپرقادیانیوںاورمسلمانوںکے تعلقات میںجوتلخی پیداہوچکی تھی،اس کو مرزاغلام احمد صاحب اوران کے پیروئوںکی بہت سی تحریروںنے تلخ تر بنا دیا تھا جو مسلمانوں کے لیے سخت دل آزاراوراشتعال انگیزتھیں۔مثال کے طورپران کی چند عبارتیں حسب ذیل ہیں جن کودیکھ کرعدالت خوداندازہ کرسکتی ہے کہ ایک مسلمان کے لیے ان باتوںکوبرداشت کرنا کس قدرمشکل ہے۔
ایک غلطی کاازالہ (اشتہار)میںحضرت مسیح موعودنے فرمایا:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ
کے الہام میں’’محمدرسول اللہ‘‘سے مرادمیںہوںاورمحمدرسول اللہ خدانے مجھے کہاہے۔ (’’اخبارالفضل ‘‘قادیان ، جلد۲،ص ۱۰،۱۵جولائی۱۹۱۵ء)
’’پس ظلی نبوت نے مسیح موعودکے قدم کوپیچھے نہیںہٹایابلکہ آگے بڑھایااوراس قدر آگے بڑھایاکہ نبی کریمﷺ کے پہلومیںلاکھڑاکیا۔‘‘
(کلمتہ الفصل ،مصنفہ صاجنرادہ بشیراحمدقادیانی ،مندرجہ رسالہ ریویوآف ریلیجئس نمبر۳،جلد۱۴،ص ۱۱۳)
’’اس کے (یعنی نبی کریمﷺ کے)لیے چاندگرہن کانشان ظاہرہوااورمیرے لیے چاند اور سورج دونوںکا۔اب کیاتوانکارکرے گا۔‘‘
(اعجازاحمدی ،مصنفہ مرزاغلام احمدقادیانی،ص ۷۱)
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیںبڑھ کراپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیان میں
(ازقاضی محمدظہورالدین اکمل صاحب قادیانی)
(منقول ازاخبارپیغام صلح لاہور،مورخہ ۱۴مارچ ۱۹۱۶ء)
’’مجھ میںاورتمہارے حسین میںبڑافرق ہے کیونکہ مجھے توہرایک وقت خدائی تائید اورمددمل رہی ہے۔‘‘ (نزول المسیح مرزاغلام احمدصاحب، ص ۹۶)
’’اورمیںخداکاکشتہ ہوںاورتمہاراحسین دشمنوںکاکشتہ ہے۔پس فرق کھلاکھلااور ظاہرہے۔‘‘ (نزول المسیح مرزاغلام احمد،ص ۸۱)
کربلا لیست سیر ہر آنم
صد حسین است در گریبانم
(مرزاغلام احمدصاحب، منقول ازخطبہ جمعہ میاںمحموداحمد)
(مندرجہ’’الفضل‘‘قادیانی جلد۱۲،نمبر۸۰، ۲۶جنوری۱۹۲۶ء)
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے
(دافع البلاء ،ص ۲۰)
’’یسوع کے ہاتھ میںسوائے مکروفریب کے اورکچھ نہیںتھا۔پھرافسوس یہ کہ نالائق عیسائی ایسے شخص کوخدابنارہے ہیں،آپ کاخاندان بھی نہایت پاک ومطہرہے۔ تین دادیاں اورنانیاںآپ کی زناکاراورکسبی عورتیںتھیںجن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتہم، ص ۷،نورالقرآن ۲،ص ۱۲)
’’جوشخص تیری پیروی نہیںکرے گااورتیری بیعت میںداخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گاوہ خدااوررسول کی مخالفت کرنے والاجہنمی ہے۔‘‘
(الہام مرزاغلام احمدصاحب تبلیغ رسالت، جلدنہم، ص ۲۷)
’’کُل مسلمانوںنے مجھے قبول کرلیاہے اورمیری دعوت کی تصدیق کرلی ہے مگرکنجریوںاوربدکاروںکی اولادنے مجھے نہیںمانا۔‘‘ (آئینہ کمالات،ص ۵۴۷)
’’جوشخص میرامخالف ہے وہ عیسائی‘یہودی‘مشرک اورجہنمی ہے‘‘
(نزول المسیح ،ص ۴،تذکرہ ،ص ۲۲۷)
(تحفتہ گولڑویہ ص ۳۱،تبلیغ رسالت، جلدنہم، ص ۲۷)
’’بلاشبہ ہمارے دشمن بیابانوںکے خنزیرہوگئے اوران کی عورتیںکتیوںسے بھی بڑھ گئیں۔‘‘ (نجم الہدٰی، ص ۰،۱درثمین ص ۲۹۴)
’’جوشخص ہماری فتح کاقائل نہ ہوگاتوصاف سمجھاجائے گاکہ اس کوولدالحرام بننے کاشوق ہے۔‘‘ (انواراسلام، ص۳۰)
لازمی نتیجہ:
(۷)یہ اسباب نصف صدی سے اپناکام کررہے تھے اورانھوںنے خاص طورپر پنجاب میںقادیانیت کومسلمانوںکے لیے ایک ایسا مسئلہ بنادیاتھاجوچاہے کوئی بڑامسئلہ نہ ہومگراحساس کے لحاظ سے ایک تلخ مسئلہ ضرورتھاجس کی تلخی کوشہروںاوردیہات کے لاکھوںآدمی یکساںمحسوس کررہے تھے۔اس میںشک نہیںکہ یہ تلخی اس سے پہلے کسی بڑے ہنگامہ کی محرک نہ بنی تھی مگرپچھلے تیس چالیس سال کے دوران میںوہ برابرچھوٹے چھوٹے گھریلوخاندانی اورمقامی جھگڑے برپاکرتی رہی تھی جوبارہاعدالتوںتک بھی فوج داری اوردیوانی مقدمات کی صورت میںپہنچے ہیں۔مسلمانوںکے اونچے طبقے چاہے اس میںشریک نہ رہے ہوں مگرعوام اورنچلے متوسط طبقہ میںایک مدت سے یہ عام خواہش موجودرہی ہے کہ قادیانیوںکومسلمانوںسے علیحدہ ایک اقلیت قرار دے دیاجائے تاکہ انہیںمسلمانوںکے معاشرہ میںشامل رہ کراپنی تبلیغ سے اسی معاشرہ کے اجزا کوآئے دن پارہ پارہ کرتے رہنے کاموقع نہ ملے۔مسلمانوںکی اسی خواہش کی ترجمانی اب سے تقریباً بیس برس پہلے علامہ اقبال مرحوم نے اپنے رسالہ (islam and Ahmadism) میںفرمائی تھی اوراس کے حق میںبڑے مضبوط دلائل دیے تھے۔
(۸)انگریزی دورمیںمسلمان اس کی بہت کم امیدرکھتے تھے کہ وہ قادیانیوںکواپنے آپ سےالگ کرنے کی کوشش میںکامیاب ہوسکیںگے۔کیونکہ ایک بیرونی قوم سے قدرتی طورپریہ توقع نہیںکی جاسکتی تھی کہ وہ مسلمانوںکے ایک معاشرتی مسئلہ کوہمدردی کے ساتھ سمجھنے اورحل کرنے کی زحمت اٹھائے گی اورمسلمانوںکویہ بھی احساس تھاکہ انگریز قادیانیوں کو قصداًمسلمانوںکے اندرشامل رکھناچاہتے ہیںتاکہ بوقت ضرورت مسلم مفادکے خلاف ان کوآسانی کے ساتھ استعمال کیاجائے۔مگرجب پاکستان ایک خودمختار ریاست کی حیثیت سے وجودمیںآگیاتومسلمانوںنے بجاطورپراپنی قومی حکومت سے یہ توقع وابستہ کی کہ وہ دوسرے مسائل کی طرح قادیانیت کے مسئلہ کی طرف بھی توجہ کرے گی جوپچاس برس سے ان کی ملت میںمسلسل تفرقہ برپاکررہی تھی اورجس کی بدولت ایک ہی قوم کے اندردوایسے عنصرپیدا ہو رہے ہیں جو مذہبی‘ معاشرتی‘ معاشی اورسیاسی حیثیت سے باہم متصادم اور نبردآزما ہیں۔پاکستان کی عمرکے ساتھ یہ توقع بڑھتی اورپھربتدریج مایوسی اور بے چینی اورشکایت کی حدتک پہنچتی چلی گئی۔میںنے۱۹۵۰ء اور۱۹۵۱ء میں تقریباً پورے پنجاب کادورہ کیاہے اورشہروںکے علاوہ دیہاتی علاقوںتک بھی گیاہوں۔اس پورے دورے میںکوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاںمجھ سے قادیانیت کے بارے میںسوال نہ کیاگیاہو۔میںنے اسی وقت یہ محسوس کرلیاتھاکہ جس مسئلہ کے متعلق عام لوگوںکے دلوںمیںیہ احساسات موجودہوںاس کواگرحل نہ کیاگیاتووہ کبھی نہ کبھی ملک میںایک فتنہ اٹھاکررہے گا۔
قادیانیوں کی اشتعال انگیزی:
(۹)قیام پاکستان کے بعدخودقادیانیوںکی طرف سے پے درپے ایسی باتیںہوتی رہی ہیںجنھوںنے مسلمانوںکی تشویش میںمزیداضافہ کردیااورمسلمان یہ محسوس کرنے لگے کہ قادیانی مسئلہ انگریزی دورسے بھی بڑھ کران کے لیے اب ایک خطرناک مسئلہ بنتاجارہاہے۔چھوٹی چھوٹی باتوںکونظراندازکرکے میںصرف پانچ اہم باتوںکی طرف عدالت کوتوجہ لائوںگا۔
اول یہ کہ مرزابشیرالدین محموداحمدصاحب نے ۲۲/جولائی ۱۹۴۸ء کوکوئٹہ میں تقریر کرتے ہوئے اس خیال کااظہارفرمایاکہ وہ بلوچستان کوایک قادیانی صوبہ میںتبدیل کرنا چاہتے ہیںتاکہ پورے پاکستان پرقبضہ کرنے کے لیے وہ ایک (base)کے طورپرکام آئے۔ یہ خطبہ ۱۳/اگست ۱۹۴۸ء کے الفضل میںملاحظہ کیاجاسکتاہے۔مرزاصاحب نے اس خیال کوصرف ایک وقتی خواہش کے طورپرہی ظاہرنہیںکیاہے بلکہ وہ اس کا باربار اعادہ کرتے رہے ہیں۔چنانچہ ۵/جولائی ۱۹۵۰ء کے الفضل میں بھی ان کاایک خطبہ اسی خیال کا حامل ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک مستقل منصوبہ ہے جو ان کے ذہن میں پکتا ہے۔
دوم یہ کہ انھوںنے اپنے اس منصوبہ کا بھی بار بار علی الاعلان اظہار کیا ہے کہ باقاعدہ ایک منظم کوشش کے ساتھ مختلف سرکاری محکموں میں قادیانیوں کو داخل کیاجائے اور پھر سرکاری عہدوں پر قبضہ کرکے حکومت کی مشینری کو قادیانی جماعت کے مفاد میں استعمال کیاجائے۔ اس کی مثال میں خلیفہ صاحب کے صرف ایک خطبہ کی حسب ذیل عبارت نقل کردینا کافی ہے:
’’اگر وہ (قادیانی جماعت کی صوبائی شاخیں ) اپنے نوجوانوں کو دنیا کمانے پر لگائیں تواس طرح لگائیں کہ جماعت اس سے فائدہ اٹھاسکے۔ بھیڑ چال کے طور پر نوجوان ایک ہی محکمہ میں چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ متعدد محکمے ہیں جن کے ذریعے سے جماعت اپنے حقوق حاصل کرسکتی ہے اور اپنے آپ کو شر سے بچا سکتی ہے۔ جب تک ان سارے محکموں میںہمارے اپنے آدمی موجو نہ ہوں اس سے جماعت پوری طرح کام نہیں لے سکتی ۔ مثلاً موٹے موٹے محکموں میں سے فوج ہے ، پولیس ہے ، ایڈمنسٹریشن ہے، ریلوے ہے ، فنانس ہے،اکائونٹس ہے ، کسٹم ہے ، انجینئرنگ ہے۔ یہ آٹھ دس موٹے موٹے شعبے ہیں جن کے ذریعہ سے ہماری جماعت اپنے حقوق محفوظ کرسکتی ہے ۔ ہماری جماعت کے نوجوان فوج میںبے تحاشا جاتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ہماری نسبت فوج میں دوسرے محکموں کی نسبت سے بہت زیادہ ہے اور اس سے ہم اپنے حقوق کی حفاظت کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔ باقی محکمے خالی پڑے ہیں۔ بے شک آپ اپنے لڑکوں کو نوکری کرائیں لیکن وہ نوکری اس طرح کیوں نہ کرائی جائے جس سے جماعت فائدہ اٹھاسکے۔ ہمیں اس بارے میں خاص پلان بنانا چاہیے اور پھر اس کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ (الفضل ،۱۱جنوری ۱۹۵۲ئ)
سوم یہ کہ خلیفہ صاحب قیام پاکستان کے بعد سے اپنے پیروئوں کو مسلسل ’’دشمن ‘‘ کے مقابلہ پر اکساتے اور بھڑکاتے رہے ہیں اور ان کے اندر ایک جنگ جویانہ ذہنیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے ایک خطبہ کی ایک یہ عبارت ملاحظہ ہو:
’’لوگ گھبراتے ہیں کہ ان کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے۔ لوگ جھنجھلا اٹھتے ہیں کہ ان کی عداوت کیوں کی جاتی ہے۔ لوگ چڑتے ہیں کہ انہیں دکھ کیوں دیا جاتاہے ۔ لیکن اگر گالیاں دینے اور دکھ دینے کی یہی وجہ ہے کہ وہ ہمارا شکار ہیں ، تو پھر ہمیں گھبرانا نہیں چاہیے اور نہ کسی قسم کی فکر کرنا چاہیے بلکہ ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ دشمن یہ محسوس کرتاہے کہ اگر ہم میں کوئی نئی حرکت پیداہوئی تو ہم اس کے مذہب کو کھا جائیں گے۔ ‘‘ (الفضل، ۱۶جولائی ۱۹۴۹ء)
صریح طور پر دیکھاجاسکتاہے کہ اس عبارت میں ’’لوگ ‘‘سے مراد قادیانی ہیں۔ ’’دشمن ‘‘ سے مراد مسلمان ہیں۔ مرزا صاحب مسلمانوں کو اپنا ’’شکار ‘‘ قرار دے رہے ہیں اور اس بات پر مسرت کا اظہار فرمار ہے ہیں کہ مسلمان ان کی تحریک کو اپنے مذہب کے لیے تباہ کن خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ ایسے ہی جنگ جو یا نہ خطبے ۵ /جولائی ۱۹۵۰ء اور ۷/مئی ۱۹۵۱ء کے الفضل میں بھی موجود ہیں۔
چہارم یہ کہ قادیانی جماعت کی طرف سے جارحانہ ارادوں کا اظہار صرف جنگ جویانہ باتوں ہی کی شکل میں نہیں بلکہ عملی تدابیر کی شکل میں بھی ہوتارہاہے جن کی خبریں عام طور پر مسلمانوں میں پھیل کر اضطراب پیدا کرتی ہیں۔ مثلاً فوج میں فرقان بٹیلین کے نام سے خالص قادیانیوں پر مشتمل ایک بٹالین کا قیام ۔ قادیانیوں کے پاس اسلحہ سازی کے متعدد کارخانے ہونا اور قادیانیوں کو اسلحہ کے بکثرت لائسنس حاصل ہونا۔ ان چیزوں کو قادیانیوں نے خود ہی عوام کے سامنے بیان کر کرکے اپنا رعب بٹھانے کی کوشش کی ہے۔
پنجم یہ کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور ان کی جماعت کے دوسرے لوگوں نے ۱۹۵۲ء کے آغاز سے مسلمانوں کو کھلم کھلا دھمکیاں دینا شروع کردیں جن کا لہجہ روز بروز اشتعال انگیز ہوتا چلاگیا۔ مثال کے طور پر ان کی حسب ذیل عبارتیں ملاحظہ ہوں:
’’ہم فتح یاب ہوں گے ۔ ضرور تم مجرموں کی طرح ہمارے سامنے پیش ہوگے اس وقت تمہارا حشر بھی وہی ہوگا جو فتح مکہ کے دن ابوجہل اور اس کی پارٹی کا ہوا۔ ‘‘
(الفضل ،۳ جنوری ۱۹۵۲ء)
’’۱۹۵۲ء کو گزرنے نہ دیجیے جب تک کہ احمدیت کا رعب دشمن اس رنگ میں محسوس نہ کرے کہ اب احمدیت منائی نہیں جاسکتی اور وہ مجبورہو کر احمدیت کی آغوش میں آگرے۔‘‘ (الفضل ،۱۶جنوری ۱۹۵۲ء)
’’ہاں اب آخری وقت آن پہنچاہے ان تمام علمائے حق کے خون کابدلہ لینے کا جن کو شروع سے لے کر آج تک یہ خونی ملا قتل کراتے آئے ہیں۔ ان سب کے خون کابدلہ لیا جائے گا۔
۱۔ عطاء اللہ شاہ بخاری سے
۲۔ ملا بدایوانی سے ۔
۳۔ ملااحتشام الحق سے۔
۴۔ ملامحمد شفیع سے ۔
۵۔ ملا مودودی (پانچویں سوار ) سے ۔
(الفضل ،۱۵جولائی ۱۹۵۲ء)
مکروہ تقلید :
(۱۰) یہ ہے حالات کا وہ تاریخی پس منظر، جس میں احرار نے قادیانی مسئلہ پر ایجی ٹیشن کاآغاز کیا۔ میری سابق تصریحات سے یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ مسئلہ فی الواقع پنجاب میں موجود تھا اور عوام کے اندر اس کے بارے میں اتنی بے چینی بھی موجودتھی کہ اسے ایک فتنہ بننے کے لیے بس کسی نہ کسی کے چھیڑ دینے کی ضرورت تھی ۔ اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ وہ احراری ہی کیوں تھے جنھوںنے اسے چھیڑا ؟اس کے بارے میں آج حکومت کی طرف سے جو نظریات پیش کیے جارہے ہیں ان کوسراسرافترااوراخلاقی پستی کی انتہاسمجھتاہوں۔ درحقیقت جو لوگ بھی اس ملک کی تحریکات سے براہ راست واقفیت رکھتے ہیں، وہ اس امرواقعی سے آگاہ ہیں کہ احرار کے لیے اس مسئلہ سے تعرض کرنے کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا۔ پچھلے پچیس سال سے وہ قادیانیوں کے خلاف تقریریں کرتے رہے ہیں اور یہ بحث ان کی دلچسپیوں کا خاص موضوع رہی ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد جب ۱۹۴۹ء میں احرارنے اپنے پچھلے سیاسی مسلک سے توبہ کی اور اپنی سیاست کو مسلم لیگ کی سیاست میں مدغم کرنے کا اعلان کیا تو اس وقت انھوںنے یہ اعلان بھی کیاتھاکہ آئندہ وہ جماعتی حیثیت سے اپنی جدوجہد کو صرف ’’تحفظ ختم نبوت ‘‘ پر مرکوز رکھیں گے۔ اس کے بعد سے ۱۹۵۲ء تک وہ مسلم لیگ کے سیاسی حلیف رہے۔ پنجاب اور بہاول پور کے انتخابات میں انھوں نے مسلم لیگ کا پورا پورا ساتھ دیا۔ پاکستان کے دونوں سابق وزیراعظم (مسٹر لیاقت علی خان مرحوم اورخواجہ ناظم الدین ) مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے ان کی خدمات سے فائدہ اٹھاتے رہے۔انتخابی جلسوں میں بارہا احراری لیڈروں نے مرکزی وزرا اور پنجاب وبہاول پور کے وزرا کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر تقریریں کی ہیں اور خود ان تقریروں میں بھی انھوںنے قادیانی مسئلہ پر اظہار خیال کیا ہے ۔ اس پوری مدت میں ہم نے کبھی نہیںسنا کہ احراری اپنی سابق کانگریسیت کی وجہ سے پاکستان کی تخریب کے درپے ہیں یا باہر کی طاقتوں سے ان کا کوئی سازباز ہے۔ مگر جب انھوںنے حکمران پارٹی کی مرضی کے خلاف یہ تازہ ایجی ٹیشن شروع کیا تویکایک وہی پارٹی جس کے یہ احرارکل تک سیاسی حلیف تھے اپنے سرکاری بیانات میںہمیںیہ خبردینے لگے کہ یہ لوگ توکبھی پاکستان کے قیام سے راضی ہی نہیںہوئے اورانھوںنے محض دشمنوںکے اشارے پرپاکستان کی تخریب کے لیے یہ قادیانی مسئلہ چھیڑاہے۔میںاپنی پبلک لائف کے آغازسے احرارکاسیاسی مخالف رہا ہوں اورمیراان کے ساتھ کبھی کوئی حلیفانہ تعلق نہیں رہا ہے۔مگرانصاف اوردیانت کاتقاضایہ ہے کہ میںغداری اوربیرونی طاقتوںکے ساتھ سازبازکے ہراس الزام کوجومیرے ملک کے کسی شہری پرلگایاجائے اس وقت تک جھوٹاسمجھوںگاجب تک کہ اس کاثبوت کسی کھلی عدالت میںدے کرمجرم کواس کے جرم کی سزانہ دلوادی جائے۔ثبوت اورشہادت کے بغیرکسی شخص یاجماعت کے خلاف اس طرح کے گھنائونے الزامات لگانامیرے نزدیک سخت ناجائز ہے اورمیںاس کوروسیوںکی بہت ہی مکروہ تقلیدسمجھتاہوں۔اس لیے جب تک کوئی دوسری بات ثابت ہو‘میری ایمان دارانہ رائے یہ ہے کہ احرارنے قادیانیوںکے خلاف جوایجی ٹیشن شروع کیاوہ ان کے پچھلے پچیس سالہ جماعتی مسلک کاایک قدرتی تقاضا تھا۔ مسلم پبلک میںقادیانیوںکے متعلق جوجذبات اورمطالبات موجودتھے، ان کوایک تحریک کے راستہ پرڈالنے کے لیے اس ملک میںاگرکوئی جماعت تھی تووہ احراری جماعت ہی ہوسکتی تھی۔
جماعتیں مسئلے پیدانہیں کرسکتیں:
(۱۱)میری اوپرکی تصریحات سے حکومت اوراس کے حامیوںکے اس قیاس کی غلطی بھی واضح ہوجاتی ہے کہ یہ مسئلہ مصنوعی طورپراحرارکے اکسانے سے اچانک اٹھ کھڑا ہوا ہے۔یہ قیاس نہ صرف واقعہ کے خلاف ہے بلکہ عقل کے بھی خلاف ہے۔واقعات سے قطع نظرمحض عقلی حیثیت سے بھی اگردیکھاجائے تویہ بالکل ناممکن معلوم ہوتاہے کہ کوئی جماعت خواہ وہ کیسی ہی مقبول اورطاقتورکیوںنہ ہو‘کسی ملک کی عام آبادی کوکسی ایسے مسئلے پر بھڑکا سکے جس کے لیے خوداس آبادی میںحقیقی احساسات موجودنہ ہوں۔ جماعتیںمسئلے پیدا نہیں کرسکتیں، وہ صرف موجودمسائل میںسے کسی مسئلہ کولے کراس کے متعلق عوام کے دبے ہوئے احساسات کوعمل کاراستہ بتاسکتی ہیں۔رہااس معاملہ کاواقعاتی پہلوتودرحقیقت وہ سرکاری نظریہ کے بالکل برعکس صورت واقعہ پیش کرتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ احراراپنی سابق کانگریسیت کی وجہ سے مسلمانوں میں سخت غیرمقبول ہوچکے تھے اوران کی یہ حیثیت ہرگزنہیںرہی تھی کہ اپنے بل بوتے پراس ملک میںکوئی عام تحریک برپاکرسکتے…مگر قادیانیوںکے مسئلہ میںمسلمانوںکے عام احساسات اتنے تلخ تھے کہ احرارجیسی غیرمقبول جماعت بھی جب ان کی مانگ پوری کرنے کے لیے آگے بڑھی توشہروںاوردیہاتوںکے لاکھوںعوام ان کے پیچھے لگ گئے۔
شتابہ:
(۱۲)حالات یہاں تک پہنچ چکے تھے کہ ۱۸/مئی ۱۹۵۲ء کوقادیانی جماعت نے جہانگیرپارک کراچی میںایک جلسہ عام منعقد کیااوراس میںسرمحمدظفراللہ خان وزیرخارجہ پاکستان نے اعلانیہ شریک ہوکرتقریرکی ۔قیام پاکستان سے پہلے اوربعدیہ پہلاموقع تھاجب قادیانیوںنے علی الاعلان پبلک جلسہ کرکے اورعام لوگوںکواس میںشرکت کی دعوت دے کران کے سامنے اپنے مسلک کوپیش کرنے کی جرأت کی تھی ورنہ اس سے پہلے وہ یاتواپنی جماعت ہی کے جلسے کیاکرتے تھے یاپھرمناظرے کی مجلسوںمیںان کوعوام کے سامنے اپنی بات کہنے کاموقع ملتاتھا۔اس جرأت کے اظہارسے مسلمانوںنے یہ محسوس کیا کہ اب سرظفراللہ خان اپنی وزارت کارعب ڈال کرہم کوقادیانیت کی دعوت دیناچاہتے ہیں۔اس پرکراچی میںایک بڑاہنگامہ برپاہوگیاجسے رفع کرنے کے لیے پولیس نے لاٹھی چارج کیااورشہرمیںدفعہ ۱۴۴لگادی گئی۔
یہ تھاوہ شتابہ جس نے تمام ملک میںاورخصوصاًپنجاب میںآگ لگادی اوراسی سے قادیانی مسئلہ کے متعلق پبلک ایجی ٹیشن کاآغازہوا۔اس ایجی ٹیشن کی ابتدا کرنے والے بلاشبہ احرارتھے مگربہت جلدہی یہ احرارکانہیںبلکہ عام مسلمانوںکاایجی ٹیشن بن گیا۔اس موقع پراحرارنے جومطالبات پیش کیے اورجن کی تائیدمیںملک کے گوشے گوشے سے خصوصاًپنجاب کے قریہ قریہ سے آوازاٹھنی شروع ہوگئی وہ یہ تھے:
۱۔قادیانیوںکومسلمانوںسے الگ ایک اقلیت قراردیاجائے۔
۲۔سرظفراللہ خان کووزارت خارجہ سے ہٹایاجائے۔
۳۔ربوہ(چناب نگر) میںجوسرکاری زمین قادیانیوںکوکوڑیوںکے مول دی گئی ہے وہ واپس لی جائے اوراسے ایک خالص قادیانی بستی بننے سے روکاجائے۔
۴۔قادیانیوںکوکلیدی عہدوںسے ہٹایاجائے۔
جماعت اسلامی کی مساعی:
(۱۳)مئی ۱۹۵۲ء میں احرارنے پہلی مرتبہ قادیانیوں کے خلاف عام ایجی ٹیشن شروع کیا۔ حکومت نے اس وقت جگہ جگہ دفعہ ۱۴۴لگاکرلاٹھی چارج کرکے ائمہ مساجد پر دبائو ڈال کراسے دبانے کی کوشش کی۔حتیٰ کہ ملتان میںفائرنگ کی نوبت بھی آئی۔اس وقت سے لے کرمارچ ۱۹۵۳ء تک کے آغازتک میںنے اورجماعت اسلامی نے حکومت کوبارباریہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ قادیانی مصنوعی مسئلہ نہیں ہے بلکہ حقیقی مسئلہ ہے جس کے نہایت گہرے مذہبی‘معاشی‘سیاسی اورمعاشرتی اسباب ہیںاوریہ اسباب پچاس سال سے کام کررہے ہیں۔پنجاب کے لاکھوںمسلمانوںکی زندگی ان سے متاثرہے لہٰذا اس کواوپرسے دبانے کے بجائے اسے سمجھیے اورٹھنڈے دل ودماغ سے حل کرنے کی کوشش کیجیے ۔اس کے ثبوت میںمیرے وہ مضامین‘بیانات، پمفلٹ اورجماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے ریزولیوشتر موجودہیںجوماہ جون سے مارچ تک پے درپے شائع ہوتے رہے۔ میںنے پاکستان کی مجلس دستورسازکواگست۱۹۵۲ء میں یہ مشورہ بھی دیاکہ جودستوراس وقت زیر ترتیب ہے اس میںجس طرح دوسری اقلیتوں کے لیے جداگانہ انتخابات اور نشستوں کا تعین تجویزکیاجارہاہے اسی طرح قادیانیوںکے لیے بھی کر دیاجائے تاکہ مسلمانوںکی بے چینی رفع ہوجائے اوریہ مسئلہ خواہ مخواہ کسی ہنگامے کاموجب نہ بن سکے۔یہی رائے جنوری۱۹۵۳ء میںپاکستان کے ۳۳سربرآوردہ علما کی اس مجلس نے بھی دی جوکراچی میںمنعقدہوئی تھی۔لیکن حکومت نے نہ صرف یہ کہ ان مشوروںکی طرف کوئی توجہ نہ کی…بلکہ اس نے خوداپنی طرف سے بھی اس مسئلے کوحل کرنے کے لیے کچھ نہ کیا۔اس کارویہ اول روزسے یہی رہاکہ یہ مسئلہ صرف حقارت کے ساتھ ردکردینے ہی کے قابل ہے‘اس قابل نہیںہے کہ اسے سمجھااورحل کیاجائے۔
بے تدبیری کاقدرتی ردعمل:
(۱۴)مئی ۱۹۵۲ء کے بعدسے مسلسل کئی مہینے تک پنجاب اوربہاول پورکے (جہاں کا درحقیقت یہ معاشرتی اورمعاشی مسئلہ تھا)ہرحصے میںاس مسئلے کے متعلق بلامبالغہ ہزاروں جلسے ہوئے۔مسلم پبلک کے مطالبات قراردادوں کی شکل میںپاس ہوئے۔حکومت کے پاس وفودبھی گئے جنھوںنے براہ راست یہ مطالبات وزیراعظم کے سامنے پیش کیے۔مگران ساری کوششوںکاجونتیجہ نکلاوہ یہ تھاکہ۲۲/دسمبر۱۹۵۲ء کو جو (basic principles committees repot)شائع ہوئی اس میںسرے سے قادیانی مسئلہ کاکوئی حل پیش نہیںکیاگیاتھا۔اس چیزنے مسلم عوام کے اندرآئینی طریق کارسے عام مایوسی پیدا کردی اوردرحقیقت اسی چیزنے اس غیرآئینی طریق کارکے لیے زمین ہموارکی جو بعد میںاحرارنے ڈائریکٹ ایکشن کی شکل میںتجویزکیا۔میںاپنے ذاتی مشاہدے اور تجربے کی بناپریہ جانتاہوںکہ مسلمان فطرتاًشورش پسندنہیںہیںاورپاکستان کے مسلم عوام تو خصوصیت کے ساتھ یہ احساس رکھتے ہیںکہ خطرات کے درمیان گھرے ہوئے اس ملک میںامن و انتظام کودرہم برہم کرنے والی کوئی تحریک مناسب نہیں ہے۔ اس لیے میںیہ پورے وثوق کے ساتھ کہتاہوںکہ اگر ایک پبلک مطالبہ کوجس کے بارے میںلوگوںکے اندرتلخ احساسات موجودتھے یوں حقارت کے ساتھ مسلسل نہ ٹھکرایا جاتا اور لوگوںکوآئینی طریقہ کارسے مایوس نہ کردیا جاتا تو کوئی جماعت بھی یہاںکے عوام کو ڈائریکٹ ایکشن اورقانون شکنی پرآمادہ کرنے میں کامیاب نہیںہوسکتی تھی۔
عام ناراضگی کے اسباب:
(۱۵)اس سلسلے میںخصوصیت کے ساتھ جن باتوںنے لوگوںکے درمیان عام ناراضگی پیداکی وہ یہ تھیں:
اول یہ کہ حکومت نے اس پوری مدت میںکبھی زبان کھول کرلوگوںکویہ نہیںبتایاکہ اگروہ ان مطالبات کوقبول نہیںکرتی ہے توآخراس کے وجوہ کیاہیں؟ایک طرف سے مسلسل ایک مطالبہ ہواورعوام جذباتی حیثیت سے اس پرمشتعل ہی نہ ہوںبلکہ دلائل کی بنا پرمطمئن بھی ہوںکہ ان کامطالبہ معقول ہے۔دوسری طرف حکومت کوئی وجہ بتائے بغیراس کوبس یوںہی ٹھکرادے اورعوام کودلائل سے یہ سمجھانے کی کوشش نہ کرے کہ ان کے مطالبات کیوںقابل قبول نہیںہیں۔ا س کالازمی نتیجہ یہی ہوسکتاہے کہ عوام اس روش کوحکومت کی ہٹ دھرمی اورہیکڑی سمجھیںاوران کے اندراس کے خلاف غصہ پیداہوجائے۔یہ ڈھنگ ڈکٹیٹر شپ میںتوچل سکتے ہیںمگرایک جمہوری نظام میںخوداپنے بنائے ہوئے حکمرانوںکی طرف سے یہ سلوک برداشت کرناعوام کے لیے ممکن نہیں۔
دوم یہ کہ حکومت نے ڈائریکٹ ایکشن کاعلان ہوجانے کے بعدجب زبان کھولی تو ایسے غلط طریقے سے کھولی جولوگوںکومطمئن کرنے کے بجائے الٹااوراشتعال دلانے والا تھا۔ڈائریکٹ ایکشن کی تحریک کے لیڈروںکوگرفتارکرتے ہوئے جوسرکاری کمیونکے شائع کیاگیااوراس کے بعدمارشل لائ کے اجرائ کے وقت جودوسراکمیونکے کراچی سے شائع ہوا، ان دونوںمیںمخالف احمدیت تحریک کومسلمانوںکی وحدت ملّی میں تفرقہ ڈالنے والی تحریک قرار دیا گیا تھا۔ یہ بات مسلمانوں کے لیے اشتعال انگیزبھی تھی اور بجائے خودنامعقول بھی۔اشتعال انگیزاس لیے کہ اس میںگویاسرکاری طور پر احمدیوںکے ملت اسلامیہ میںشامل ہونے کااعلان کردیاگیاتھاحالانکہ مسلمانوں نے کبھی ان کواپنی ملت کاجزو نہیں مانتاہے اور تمام اسلامی فرقوں کے علمائ بالاتفاق ان کو خارج از ملت قرار دے چکے ہیں۔ نامعقول اس لیے کہ حکومت جس چیز کا الزام مخالف احمدیت تحریک کو دے رہی تھی درحقیقت وہ حکومت پر عائد ہوتاتھا اور اس کو یہ احساس تک نہ تھا کہ اس معاملہ میں وہ فی الواقع کیا پوزیشن لے رہی ہے۔ مخالف احمدیت تحریک تو اٹھی ہی اس بنیاد پر تھی کہ ملت اسلامیہ کی وحدت کو ان لوگوں کے ہاتھوں پارہ پارہ ہونے سے بچایاجائے، جو مرزا غلام احمد صاحب کی نبوت کو نہ ماننے پر تمام کلمہ گو مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور ان کی نماز جنازہ پڑھنے تک کو ناجائز کہتے ہیں اور انہیں بیٹی دینا ویسا ہی حرام سمجھتے ہیں جیسا یہودی یا عیسائی کو بیٹی دینا حرام ہے۔ اس کے برعکس حکومت کی اپنی پوزیشن یہ تھی کہ وہ ملت اسلامیہ کے اندر ایسے تفرقہ انگیز گروہ کو زبردستی شامل رکھنے پر مصر تھی تاکہ وہ مسلم معاشرہ میں مسلسل داخلی انتشار برپا کرتا رہے اور ہر روز ایک نئے خاندان اور ایک نئے گھر میں عقائد اور معاشرت کی پھوٹ ڈال دے مگر جس گناہ کی مجرم حکومت خود تھی اس کاالزام اس نے الٹا ان لوگوں پر ڈالا جو دراصل اس گناہ سے بازآجانے کا اس سے مطالبہ کررہے تھے ۔ اس صریح غیر معمولی بات کو شائع کرتے وقت حکومت نے ذرا نہ سوچاکہ آخر سارا ملک بیوقوفوں سے تو آباد نہیں ہے۔ عام لوگ اس طرح کی باتیں سرکاری اعلانات میں پڑھ کر اپنے حکمرانوں کے متعلق کیا رائے قائم کریں گے۔
سوم یہ کہ حکومت نے اپنے مذکورہ بالا اعلانات میں اس تحریک کو بالکل احراریوں کی ایک تحریک قرار دیا اور اس کاذکر اس انداز سے کیا گویا کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ کرنے کامطالبہ مسلمانوں کاکوئی عام قومی مطالبہ نہیں ہے بلکہ محض چند مٹھی بھر احراریوں کامطالبہ ہے۔ یہ بات بھی ایسی تھی جس نے عوام میں سخت ناراضی پیدا کی ۔ اس میں شک نہیں کہ اس تحریک کا آغاز کرنے والے احراری تھے مگر واقعہ یہ ہے کہ درحقیقت یہ مسلمانوں کی عام قومی تحریک بن گئی تھی اور وہ لاکھوں آدمی اس کے ہمدرد اور حامی تھے جو اس سے پہلے احرار کے مخالف اور تحریک پاکستان کے ہمدرد و حامی رہ چکے تھے ۔ پبلک نے حکومت کی اس غلط بیانی کو اس رنگ میں لیا کہ جس طرح کبھی انگریزی حکومت ہندوستانیوں کے مطالبہ آزادی کو محض چند کانگریسیوں کامطالبہ قرار دے کر عوام کو کچلنے کی کوشش کرتی تھی اور جس طرح کبھی ہندولیڈر مطالبہ پاکستان کو چند لیگیوں کامطالبہ قرار دے کر مسلمانوں کے ایک قومی مطالبہ کو نظر انداز کیا کرتے تھے ۔ وہی چال بازی اب ان کی اپنی قومی حکومت ان کے ساتھ رہی ہے اور اس طریقے سے ان کے ایک قومی مطالبہ کو محض چند احراریوں کا مطالبہ کہہ کر دبا دینا چاہتی ہے۔
چہارم یہ کہ حکومت نے اپنے اعلانات میں اس تحریک کو کچل دینے کاارادہ جس لہجے اور جن الفاظ میں بیان کیا اس سے صرف یہی ظاہر نہیں ہوتا تھاکہ وہ ڈائریکٹ ایکشن کو طاقت سے کچلنے کاارادہ رکھتی ہے بلکہ یہ بھی مترشح ہوتاتھا کہ اس کو سرے سے قادیانیوں کی مسلمانوں سے علیحدگی کا مطالبہ ہی گوارا نہیں ہے اور یہ کہ ڈائریکٹ ایکشن کے ساتھ اس مطالبہ کو بھی کچل دیناچاہتی ہے۔ عوام نے اس کامطلب یہ لیا کہ حکومت اب سرے سے مطالبہ کرنے کا حق ہی عوام سے چھین لینا چاہتی ہے نیز اس سے مسلمانوں میں یہ بھی عام خیال پیداہوگیاکہ حکومت ان کے مقابلے میں قادیانیوں کی حمایت پر اُتر آئی ہے۔
یہ اسباب تھے جنھوںنے فوری طور پر ڈائریکٹ ایکشن کی آگ پر تیل چھڑکنے کی خدمت انجام دی ۔ میرا خیال یہ ہے کہ اگر حکومت نے عوام کو اپنا نقطۂ نظر سمجھانے کی کچھ بھی کوشش کی ہوتی اور سرکاری اعلانات کسی دوسرے معقول اور ٹھنڈے انداز میں مرتب کیے گئے ہوتے تو عوام کے اندر اتنا اشتعال ہرگز پیدا نہ ہوتا۔ یہی نہیں بلکہ میری تو یہ رائے ہے کہ اگر حکومت نے ڈائریکٹ ایکشن شروع کرنے والے لیڈروں کو گرفتار کرنے کے بجائے یا ان کے ساتھ قادیانی مسئلہ کا فیصلہ کرنے کے لیے تمام گروہوں کی ایک رائونڈ ٹیبل کانفرنس بلانے کااعلان کردیا ہوتا تو سرے سے یہ ہنگامہ برپا ہی نہ ہوتا۔
ایں گنا ہیست کہ درشہر شمانیز کنند:
(۱۶) ۲۷فروری سے جب کہ ڈائریکٹ ایکشن کاآغاز ہوا۔ ۴ مارچ تک کے عوام کے مظاہروں نے اشتعال کے باوجود کہیں بھی بدامنی ، لوٹ مار، قتل،آتش زنی یاتخریب کا رنگ اختیار نہیں کیا تھا۔ میں اس زمانے میں نہ صرف لاہور کے حالات سے باخبر رہاہوں بلکہ پنجاب کے ہر حصے سے میری جماعت کے کارکن مجھے ٹیلی فون کے ذریعے سے حالات بتاتے رہے ہیں۔ میں وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتاہوں کہ اس مدت میں عوام نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو وہ اس سے پہلے آج کے حکمرانوں کی قیادت میں سرخضر حیات خاں کی وزارت توڑنے کے لیے کرچکے تھے ۔ ان کے نعروں کی زبان، ان کے جلوسوں کاانداز، ان کے سوانگ، بعض شخصیتوں پر ان کے حملے حتیٰ کہ ان کاڈائریکٹ ایکشن اور ان کا دفعہ ۱۴۴توڑنا بجائے خود کتنا ہی قابل اعتراض سہی لیکن آخر ان میں سے وہ کون سی چیز تھی جو پہلی مرتبہ ہی ان سے ظہور میں آئی ہو؟ یہ سب کچھ وہ اس سے پہلے خود ان لوگوں کی رہنمائی میں کرچکے تھے جو اس تازہ ڈائریکٹ ایکشن کے موقعہ پر صوبہ اور مرکزکی وزارتی کرسیوں پر تشریف فرماتھے کوئی وجہ نہ تھی کہ اب یہ حضرات اپنے ہی کیے اور سکھائے ہوئے کاموں کو ایسا سخت گناہ سمجھ لیتے کہ ان کے خلاف وہ کچھ کرنے پر اُتر آتے جو سر خضر حیات خاں نے نہ کیاتھا۔
ذمہ داری تمام تر بارڈر پولیس کے ظلم وستم پر ہے :
(۱۷) ۲ مارچ تک لاہور میں پولیس کا رویہ بہت نرم تھا مگر اس کے بعد یکایک نہایت بے دردی سے پرامن جتھوں پر لاٹھی چارج شروع کردیے گئے۔ ان لاٹھی چارجوں میں جگہ جگہ نہایت دردناک مناظر دیکھے گئے جن کی وجہ سے شہر کی عام آبادی بھڑک اٹھی اور لاٹھی کا جواب پتھر سے دینے پر اتر آئی ۔ اس پر پولیس نے اور خصوصاً بارڈر پولیس نے فائرنگ شروع کیا۔ یہ فائرنگ بالکل اندھا دھند تھا۔ راہ چلتے آدمیوں کو بے قصور مارا گیا۔ دفتروں سے چھٹی پا کر نکلنے والے سرکاری ملازموں اور تعلیم گاہوں سے نکلتے ہوئے طلبہ تک پر باڑھیں ماری گئیں۔ انسانوں کو اس طرح شکار کیاگیا جیسے کہ جانور یا پرندے ہیں۔ اس پر سارے شہر میں کہرام مچ گیا۔ بڑے بڑے سرکاری دفتروں کے ملازمین حتیٰ کہ پنجاب سول سیکرٹریٹ تک کے ملازمین نے احتجاج کے طور پر ہڑتال کردی حالانکہ سرکاری ملازمین کا ان سے زیادہ ذمہ دار کوئی طبقہ نہ ہوسکتاتھا۔ ڈاک، تار، ٹیلیفون، ریلوے غرض اکثر و بیشتر محکموں کے آدمیوں نے اس وقت تک کام کرنے سے انکار کردیا، جب تک فائرنگ کا سلسلہ بند نہ کیاجائے۔ شہر کے باشندوں میں ایک تھوڑے سے اونچے طبقے کو چھوڑ کر کوئی عنصر ایسا باقی نہ رہا جو اس ظلم کے خلاف غصہ اور نفرت سے نہ بھر گیاہو۔ یہ حالات تھے جب میرے علم کی حد تک ۴ مارچ کی شام سے بعض لوگوں نے قتل، لوٹ مار، آتش زنی اور تخریب کا ارتکاب شروع کیا۔ واقعات کی اس ترتیب کو دیکھتے ہوئے میں پورے انصاف کے ساتھ یہ کہتاہوں کہ عوام کی طرف بدامنی کے یہ جس قدر بھی افعال ہوئے ان کی کوئی ذمہ داری ڈائریکٹ ایکشن کی تحریک کے کارکنوں اور رہنمائوں پر نہیں ہے اس کی ذمہ داری تمام تر بارڈر پولیس کے ظلم و ستم پر ہے۔ ڈائریکٹ ایکشن کے لیڈروں نے ان حرکات پر لوگوں کو ہرگز نہیں اکسایا۔ بارڈر پولیس کے ظلم نے لوگوں کو دیوانہ کرکے ان سے یہ حرکات کرائیں۔
اصلاح حال کی کوشش :
(۱۸) ۴ اور ۵ مارچ کی درمیانی شب کو میں نے مولانا مفتی محمد حسن اور مولانا دائود غزنوی کی موافقت سے خواجہ ناظم الدین کو تار دیا کہ پنجاب کے حالات تیزی سے بگڑتے جا رہے ہیں اگر اب بھی کسی گفت و شنید کی گنجائش ہو تو ہمیں گفتگو کا موقع دیجیے۔ خواجہ صاحب کو معلوم تھاکہ مجھے وزرائے کرام کی کوٹھیوں پر حاضری دینے کا کبھی شوق نہیں رہاہے اور میں آخر ی شخص ہوسکتاہوں جو کسی وزیر سے خود ملنے کی درخواست کرے۔ انہیں سمجھنا چاہیے تھاکہ حالات کیسے خراب ہوں گے جب کہ میں نے ان سے یہ درخواست کی ہے۔ مگر انھوں نے میرے تار کاجواب تک دینے کی زحمت گوارانہ کی ۔ ۵ مارچ کی صبح کو میں نے پھر ان کو تار دیا کہ حالات ساعت بساعت بگڑ رہے ہیں۔ میرے تار کا فوراً جواب دیجیے۔ لیکن اس پر بھی کوئی توجہ نہ کی گئی ۔ اس سے اس سنگ دلی کااندازہ کیاجاسکتاہے جس کے ساتھ پنجاب کے حالات سے عہدہ برآ ہوا جارہاتھا۔
مسلم عوام سر پھرے نہیں ہیں :
(۱۹) ۵ مارچ کی سہ پہر گورنر پنجاب مسٹر چندریگر نے گورنمنٹ ہائوس میں ایک کانفرنس بلائی جس میں مجھے بھی مدعو کیاگیا تھا۔ اس کانفرنس میں تقریباً پچاس اصحاب و خواتین کااجتماع تھا۔ گورنر صاحب نے اپنی تقریر میں حاضرین سے اپیل کی کہ وہ امن قائم کرنے میں حکومت کی مدد کریں ۔ میں نے اس کے جواب میں جوکچھ کہا اس کاخلاصہ یہ ہے:
’’بدامنی کی یہ حالت حکومت کی اس غلطی کی وجہ سے پیداہوئی ہے کہ اس نے عوام کے مطالبات کو بغیر کوئی وجہ بتائے ٹھکرا دیاہے۔ ایک جمہوری نظام میں عوام اس طریقے کو برداشت نہیںکرسکتے ۔ اگر حکومت ان مطالبات کو نہ ماننے کے کچھ معقول وجوہ پیش کرتی تو اس ملک کے عوام کچھ ایسے سرپھرے نہ تھے کہ وہ خواہ مخواہ دنگے فساد پر اُتر آتے ۔ لیکن اس نے سمجھنے اور سمجھانے کی کوئی کوشش نہ کی اور بس یونہی عوام کے منہ پر ان کے مطالبات مار دئیے۔ اس کے بعد لوگوں میں غصہ پیداہوناایک قدرتی با ت ہے اور اب اس غصے کو فرو کرنے کے لیے آپ کی بارڈر پولیس لوگوں پر اندھا دھند گولیاں برسار ہی ہے۔ ان حالات میں آخر امن کی اپیل کیسے کارگر ہوسکتی ہے ؟ امن تو اب دو ہی طریقوں سے قائم ہو سکتاہے ۔ یا تو طاقت سے اپنی قوم کو زبردستی دبا دیجیے جس کے لیے آپ کو ہماری مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے پاس کافی فوج اور پولیس موجود ہے یا اپنی قوم کو راضی کرکے امن قائم کیجیے۔ جس کی واحد صورت یہ ہے کہ آپ آج رات کو ریڈیو پر اعلان کیجیے کہ وزیراعظم صاحب عوام کے مطالبات پر گفتگو کرنے کے لیے تیار ہیں اور میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ ۲۴ گھنٹے کے اندر امن قائم ہوجائے گا۔ ‘‘
میری اس تجویز کو گورنر صاحب نے پسند فرمایا۔ اسی وقت ایک اعلان کامسودہ تیار کیاگیا اور یہ طے ہواکہ رات کو وہ ریڈیو پر نشر کیاجائے گا ۔ اب یہ مسٹر چندریگر ہی بتاسکتے ہیںکہ یہ تجویز کس بنا پر رہ گئی اور آخر کیوں عوام کو راضی کرنے کی بجائے طاقت ہی سے دبا کر امن قائم کرنے کو ترجیح دی گئی ۔
مارشل لا :
(۲۰) یہ تھے وہ حالات جن میں ۶ مارچ کی دوپہر کو عین نماز جمعہ کے وقت مارشل لا کااعلان کیاگیا۔ میرے نزدیک یہ اعلان قطعاً غیرضروری اور بالکل بے جاتھا۔ اول تو جیساکہ میں اوپر بیان کرچکاہوں حالات کو خود حکومت کی ہٹ دھرمی ، ضد او رسخت غیر دانش مندانہ پالیسی نے اس درجہ بگاڑ ا تھا۔ پھر اگر حالات بگڑے بھی تھے تو ان کو بغیر کسی کشت و خون کے روبراہ لایا جاسکتاتھا بشرطیکہ حکومت آخر وقت پر ہی مسلمانوں کے ایک تلخ معاشرتی مسئلہ کو ہمدردی کے ساتھ سمجھنے اور حل کرنے پر آمادہ ہوجاتی ۔ تاہم اگر طاقت کااستعمال کرنا ضروری سمجھا گیاتھا تو مارشل لا جاری کرنے کی بجائے صرف ۱۲۹/ الف ضابطہ فوج داری کے تحت فوجی امداد لے کر امن قائم کیا جاسکتاتھا۔ ہندوستان میں ۱۹۱۷ء سے لے کر ۱۹۴۶ء تک بے شمار ہندو مسلم فسادات ہوئے جن میں سے بعض لاہور کے ہنگاموں سے بہت زیادہ قتل و غارت ، آتش زنی اور لوٹ مار کے واقعات پیش آئے مگر کبھی ان فسادات کو روکنے کے لیے مارشل لا جاری نہیں کیاگیا۔ ۱۹۲۱ء سے لے کر گاندھی جی کی آخری (quit india) ایجی ٹیشن تک اس برعظیم میں کئی مرتبہ سول نا فرمانی اور ستیہ گرہ کی تحریکیں اٹھیں جو کئی بار تشدد تک بھی پہنچ گئیں اور آخرالذکر تحریک میں تو بہت بڑے پیمانے پر تخریبی کارروائیاں کی گئیں، مگر اس پوری مدت میں کبھی انگریزی حکومت نے مارشل لائ جاری نہیں کیا۔ لاہور کا ہنگامہ ان تحریکوں کے مقابلے میں بہت کم درجہ کاتھا۔ اس ذرا سے ہنگامے کو فرو کرنے کے لیے مارشل لا جاری کرکے اور پھر اس کو سوا دومہینے سے زیادہ مدت تک طول دے کر حکومت نے بڑی کم حوصلگی کا اور پست ہمتی کا ثبوت دیاہے۔ کوئی ایسی حکومت جس کو اپنی طاقت پر اعتماد ہو، ایسے چھوٹے چھوٹے غیر معمولی حالات میں اتنی مضطرب نہیں ہوسکتی کہ اتنابڑا قدم اٹھانے پر اُتر آئے۔ میں اس فعل کو حکومت پاکستان کی محض پست ہمتی اور کم حوصلگی ہی نہیں سمجھتا بلکہ انتہائی سنگدلی بھی سمجھتاہوں۔ ابھی حال میں محض ٹراموے کے کرائے بڑھانے پر کلکتہ میں جو ہنگامے ہوئے ،وہ لاہور کے ہنگاموں سے بدرجہا زیادہ سخت تھے۔ ان میں اسلحہ اور بم تک پولیس کے مقابلہ میں استعمال کیے گئے اور بڑے پیمانے پر تخریبی کارروائیاں کی گئیں مگر اس ہنگامے کو دبانے کے لیے ہندوستان کی حکومت نے مارشل لا نہیں لگایا۔ اس سے تھوڑی مدت پہلے پرجا پریشد اور جن سنگھ کی تحریکوں نے بھی وسیع پیمانے پر بدامنی کی حالت پیدا کررکھی تھی مگر وہاں بھی اس کامقابلہ مارشل لا کے ذریعہ سے نہیں کیاگیا۔ حکومت پاکستان نے جس بے دردی کاسلوک اپنی قوم کے ساتھ کیاہے وہ فی الواقع اپنی نظیر آپ ہی ہے۔
(۲) اضطراب کو روکنے اور بعد میں ان سے عہدہ برآہونے کے لیے سول حکام کی تدابیر کا کافی یا ناکافی ہونا :
دوسرے امر تحقیق طلب کے بارے میں مجھے صرف دو باتیں یہاں بیان کرنی ہیں:
اول یہ کہ فروری کے اختتام تک پنجاب گورنمنٹ کی پالیسی ان اضطرابات کو روکنے کی طرف نہیں بلکہ ان کی سرپرستی اور ہمت افزائی کرنے کی طرف مائل تھی ۔ اس پالیسی کے محرکات کیاتھے اور عملاً اندر کیاکچھ ہوتا رہا ، اس کے متعلق تو میں کوئی بات بھی وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ اس کامیرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ بعض خاص خاص محکموں کے سرکاری کاغذات کی جانچ سے عدالت کو اصل حقائق معلوم ہوجائیں مگر بظاہر جو کچھ دیکھا گیاہے وہ یہ ہے کہ ان اضطرابات کاپورامواد اعلانیہ حکومت پنجاب کی ناک کے نیچے پکتا رہا اور اس حکومت نے جس کی عمل داری میں ذرا ذرا سی باتوں پر چوالیس ایکٹ ، سیفٹی ایکٹ اور دفعہ ۱۴۴حرکت میں آجایا کرتے ہیں ، اس کام میں ذرا مداخلت نہ کی۔ پھر یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ اس کام کو فروغ دینے میں زیادہ تر وہی لوگ پیش پیش تھے جن کے حکومت پنجاب سے مخصوص تعلقات عوام کو معلوم ہیں اور جو پنجاب کے پچھلے انتخابات میں مسلم لیگ پارٹی کے سرگرم حامی رہ چکے ہیں۔ مجھے پنجاب کے بعض علاقوں سے یہاں تک بھی اطلاعات ملی ہیں کہ فروری کے آخر تک اضلاع کے حکام خود اس تحریک میں حصہ لینے کے لیے لوگوں کو ابھارتے رہے ہیں۔
دوم یہ کہ جب ڈائریکٹ ایکشن عملاً شروع ہوگیا تو دوتین دن کے اندر ہی یکایک حکومت پنجاب کی پالیسی بدل گئی اور اس نے یک لخت ایسی سختی شروع کر دی جو کافی سے بہت زیادہ تھی ۔ اس نے صرف قانون شکنی کرنے والوں ہی پر نہیں بلکہ بالکل بے تعلق عوام پر بھی وحشیانہ ظلم ڈھائے ، جن کی وجہ سے مختلف مقامات پر عام آدمی سخت مشتعل ہوگئے۔ پھر اپنی بھڑکائی ہوئی اس آگ کو دیکھ کر بہت جلد سول حکام کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور انھوںنے معاملات فو ج کے حوالے کرنے میں بڑی بے صبری سے کام لیا ۔
(۳) اضطرابات کی ذمہ داری :
جو حالات میں نے اوپر بیان کیے ہیں ان کی بنا پر میرے نزدیک ان اضطرابات اور ہنگاموں کی ذمہ داری چار فریقوں پر بالکل برابر تقسیم ہوتی ہے۔
(۱) قادیانی جماعت: جس نے مسلمانوں میں شامل رہ کر اپنی تکفیر ، تبلیغ، جداگانہ تنظیم، معاشرتی مقاطعہ اور معاشی کشمکش سے مسلمانوں کے اندر پچاس برس سے مسلسل ایک تفرقہ برپا کررکھاتھا اور جس نے قیام پاکستان کے بعد اپنے خطرناک منصوبوں کے اظہار اور اپنی جنگ جو یانہ باتوں سے عوام کو اپنے خلاف پہلے سے زیادہ مشتعل کرلیا حالانکہ اگر وہ ’’بہائیوں ‘‘ کی پالیسی اختیار کرکے اپنامذہب الگ بنالیتے اور مسلمانوں کے معاشرے میں شامل ہو کر تفرقہ انگیز یاں نہ کرتے تو مسلمان اسی طرح ان کے ساتھ رواداری برتتے جس طرح وہ ہندوئوں ، عیسائیوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں سے برتتے ہیں۔
(۲) وہ جماعتیں جنھوںنے لوگوں کو ڈائریکٹ ایکشن کاراستہ دکھایا حالانکہ یہ بالکل بے موقع اور غیر ضروری تھا اور مسلم پبلک کے مطالبہ کو منوانے کے لیے آئینی ذرائع کے امکانات ابھی ختم نہیں ہوئے تھے ۔
(۳) مرکزی حکومت (جس سے میری مراد مرکزی وزارت ہے) جس نے مئی ۱۹۵۲ء سے مارشل لا کے اعلان تک مسلسل اپنی غیر دانشمندانہ پالیسی سے معاملات کو بگاڑ ا اور آخر کار ہزار ہا بندگان خدا کی تباہی کا سامان کیا۔
(۴) صوبائی حکومت (اس سے میری مراد صوبائی وزارت ہے) جس کی دورُخی پالیسی نے حالات کو خراب کرنے میں خاص حصہ لیا ہے۔
ان چاروں فریقوں میں سے کسی کا گناہ بھی دوسرے سے کم نہیں ہے اور یہ سب اس کے مستحق ہیں کہ ان پر مقدمہ چلایا جائے ۔ اگر یہاں نہ چلے گا تو ان شاء اللہ خدا وند عالم کی آخری عدالت میں چل کر رہے گا۔
قادیانی مسئلہ کے متعلق میرااور جماعت اسلامی کاطرزعمل
اس مسئلہ میں میری پالیسی اورمیری رہنمائی میںجماعت اسلامی کی پالیسی تین اجزا پرمشتمل رہی ہے۔
اول یہ کہ میں قادیانیوں کومسلمانوں سے الگ کرنے کامطالبہ بالکل برحق سمجھتاہوں اورتمام جائزذرائع سے اس کومنوانے کی کوشش کرتارہاہوں۔
دوم یہ کہ میںنے کبھی ڈائریکٹ ایکشن کی تائیدنہیںکی ہے۔اپنی امکانی حدتک اس کوروکنے کی پوری کوشش کی ہے۔میری جماعت نے خوداس میںکوئی حصہ نہیںلیاہے اورجماعت کے جن افرادنے جماعتی ضبط کوتوڑکراس میںحصہ لیا،ان کوجماعت سے الگ کردیاگیا۔
سوم یہ کہ میں نے اس قضیہ کے آغازسے لے کرمارشل لا کے نفاذتک حکومت کواس غیردانش مندانہ پالیسی سے بازرکھنے کی مسلسل کوشش کی ہے جوآخرکارتباہ کن ثابت ہو کر رہی۔
میںان تینوںاجزائ کی تشریح کرکے اپنی پوزیشن کی وضاحت کروںگا:
(۱)امراوّل کے متعلق گزارش یہ ہے کہ میںنے جس چیزکوحق سمجھاہے، دلائل کی بنا پرحق سمجھاہے اوراپنے دلائل پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیے ہیںبالفرض اگرکسی کے نزدیک وہ چیزحق نہیںہے جسے میںحق سمجھتاہوںتووہ اپنے دلائل دے سکتاہے مگرایک جمہوری نظام میںکسی کوبھی یہ حق نہیںپہنچتا‘خواہ وہ حکومت ہی کیوںنہ ہوکہ وہ کسی معاملہ میںمجھ کوایک رائے رکھنے سے اپنی رائے کومعقولیت کے ساتھ بیان کرنے سے یااس کی تائیدمیںرائے عام کوہموارکرنے کی جائزکوشش سے یااپنی رائے منوانے کی آئینی تدابیر استعمال کرنے سے بازرکھے۔محض یہ بات کہ جورائے میںرکھتاہوںوہی رائے کچھ دوسرے لوگ بھی رکھتے تھے اورانھوںنے اس رائے کومنوانے کے لیے غیرآئینی تدابیر اختیارکیں‘مجھے قابل الزام بنادینے کے لیے کافی نہیںہے۔جب میںخوداپنے خیالات کی ترویج کے لیے یااپنے کسی مطالبہ کومنوانے کے لیے تشددیاقانون شکنی کاطریقہ اختیار نہیں کرتامیںیقیناً اپنے جائزحدودکے اندرہوں۔اس صورت میںنہ تومیرے دوسرے ہم خیالوں کے غلط فعل کی ذمہ داری مجھ پرعائدہوتی ہے اورنہ اپنے خیالات کی ترویج کے لیے جائز ذرائع استعمال کرنے کاحق مجھ سے سلب کیاجاسکتاہے۔میںاس وقت تک بھی یہ نہیں سمجھ سکاہوںکہ اگرکوئی شخص معقول وجوہ اوردلائل کی بناپریہ رائے رکھتاہے کہ قادیانی گروہ مسلم ملت کا ایک جزونہیںہے اوراس کی تائیدمیںوہ خالص علمی استدلال کے ساتھ سنجیدہ اور مہذب زبان میںبحث کرتاہے یااگرکوئی شخص مسلمانوںکے اندرقادیانی گروہ کے شمول کو مسلم ملت کی وحدت اورسالمیت کے لیے نقصان دہ سمجھتاہے اوراپنے ملک کی دستور ساز مجلس سے مطالبہ کرتاہے کہ وہ دستورمملکت میںاس گروہ کومسلمانوںسے الگ ایک اقلیت قرار دے دے توآخروہ جرم کیاہے جس کاوہ مرتکب ہے؟اورپھرکیوںآج ہر اس شخص کی ٹانگ گھسیٹی جارہی ہے جس نے کبھی قادیانی مسئلہ پرگفتگوکی ہے۔قطع نظراس کے کہ عملاًاس کاپچھلے اضطرابات سے کوئی تعلق رہاہویانہ رہاہو؟
’’رواداری‘‘کانرالاتصور:
حال ہی میںبعض ذمہ داران حکومت کی طرف سے یہ نظریہ پیش کیاگیاکہ ملک کی فلاح اوربہبودکے لیے ’’رواداری‘‘کی سخت ضرورت ہے اورقادیانی مسئلہ پر گفتگو یا قادیانیوںکی علیحدگی کامطالبہ ’’نارواداری‘‘ہے‘اس لیے حکومت اس کوبجائے خودقابل اعتراض سمجھتی ہے اوراس کااستیصال کرناچاہتی ہے۔ میںکہتاہوںکہ یہ’’رواداری‘‘ اور ’’نارواداری‘‘کے الفاظ کاایک عجیب استعمال اوران کے مفہوم کابالکل ہی ایک نرالا تصور ہے جسے حاکمانہ طاقت سے ہم پرٹھونسنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اگرکسی نے یہ کہا ہوتاکہ فلاںگروہ کوملک میںجینے نہ دویااس کے شہری حقوق سلب کرلویااس کواپنے مذہب پرعقیدہ اورعمل رکھنے سے زبردستی روک دوتوبلاشبہ یہ نارواداری ہوتی اوراس طرح کے کسی خیال کی ترویج بجائے خودایک برائی ہوتی جس کے استیصال کواپنی پالیسی قراردینے میںحکومت بالکل حق بجانب تھی۔لیکن یہاںجس معاملہ پرلفظ ’’نارواداری‘‘کوچسپاںکیا جارہاہے وہ یہ ہے کہ مسلمان ایک ایسے گروہ کواپنے معاشرہ کاجزوبناکرنہیںرکھناچاہتے جو ایک طرف ان کے معاشرہ میںشامل بھی ہے اوردوسری طرف تمام مسلمانوںکوکافرکہہ کر اور ان سے معاشرتی مقاطعہ کرکے اوران کے مقابلہ میںاپنی جماعتی تنظیم اورمعاشی جتھہ بندی الگ کرکے اپنی تبلیغ سے پیہم اس معاشرہ میںاندرونی اختلال برپاکرتاجارہاہے۔ایسے گروہ کی علیحدگی کے مطالبہ کو ’’نارواداری‘‘قراردینے کے معنی یہ ہیںکہ ہمارے ارباب حکومت کے شاداب ذہن میں ’’رواداری‘‘کامطلب اپنی تخریب اوراپنے شیرازے کی پرا گندگی کے اسباب کوخوداپنے اندرپرورش کرناقرارپایاہے۔تصورات کی عجائب آفرینی کا یہی حال رہاتوبعیدنہیںکہ کل اسی ’’نارواداری‘‘کے الزام میںہروہ شخص ہسپتال سے جیل بھیج دیا جائے جواپنڈی سائٹس کاآپریشن کراناچاہتاہو۔
غلطی کوغلطی نہ کہو:
پچھلے دنوںحکومت کی طرف سے یہ بھی کہاگیاہے کہ جس وقت ملک میںقادیانی مسئلہ پرہنگامہ برپاتھا، اس وقت اس مسئلے میںمسلمانوںکے مطالبے کی صحت کودلائل سے ثابت کرنابجائے خودقابل اعتراض تھاکیونکہ اس ہنگامہ کوتقویت پہنچتی تھی۔میری طرف سے اس کاجواب یہ ہے کہ اگرملک کاایک مطالبہ اپنی جگہ بالکل معقول بنیادوںپرمبنی ہواور حکومت سراسرضداورہٹ دھرمی کی بناپربغیرکوئی معقول وجہ بتائے اس مطالبہ کو رد کردے اور میںاپنی آنکھوںسے دیکھوںکہ حکومت کی اس غلط پالیسی کی وجہ سے ملک کی تباہی آرہی ہے کہ وہ بالکل بے جااورنارواطریقے سے لوگوںکے سرتوڑتی رہے اورملک میںکوئی اللہ کا بندہ ایساموجودنہ ہوجواسے انصاف اورمعقولیت کی بات بتانے والا ہو؟ میرے علم اورمیری قوت بحث واستدلال کاآخرفائدہ ہی کیاتھااگرمیںٹھیک اس وقت استعمال نہ کرتاجب کہ تباہی کوروکنے کے لیے اس کے استعمال کی ضرورت تھی؟ جس مسئلہ کوحکومت نے صحیح طریقہ سے نہ سمجھ کراورحل نہ کرکے ملک میںایک فتنہ برپا کرادیاتھااس کی حقیقت اگرمیںاسی وقت نہ سمجھاتاجب کہ فتنہ اٹھتانظرآرہا تھاتوآخراس کے سمجھانے کاوقت اورکون ساہوسکتا تھا؟ میری اس کوشش کواگرحکومت فتنہ میںامدادکرنے سے بجاطورپرتعبیرکرسکتی تھی توصرف اس صورت میںجب کہ میںنے اپنی کسی تحریرمیںعلمی استدلال اورسنجیدہ بحث کے الفاظ سے ہٹ کرکوئی ایک فقرہ یالفظ ہی ایسااستعمال کرلیاہوتاجسے اشتعال انگیزیامنافرت انگیز کہا جا سکتاہو۔لیکن میںچیلنج کے ساتھ کہتاہوںکہ میری کسی تحریرمیںجومیںنے قادیانی مسئلہ کے متعلق لکھی ہے۔ایساکوئی فقرہ یالفظ نکال کرنہیںدکھایاجاسکتا۔
عدالت سے درخواست:
اس سلسلہ میں عدالت سے میری درخواست یہ ہے کہ وہ اصولی طورپردوچیزوں کا فرق واضح کردے۔
(۱)ایک چیزہے قادیانیوںکی علیحدگی کاآئینی مطالبہ۔دوسری چیزہے اس مطالبہ کو منوانے کے لیے کوئی غیرآئینی طریقہ اختیارکرنا۔کیاان دونوںکوایک ہی حیثیت میں رکھاجاسکتاہے؟اگرنہیںرکھاجاسکتاتواس حقیقت کوپوری طرح واضح ہوجاناچاہیے کیونکہ ان دونوںکوخلط ملط کرکے بہت سے ان لوگوںکومبتلائے مصیبت کیاگیاہے اور کیا جا رہاہے جنھوںنے اس مطالبے کومنوانے کے لیے کبھی کوئی غیرآئینی طریقہ اختیار نہیں کیا مگر آئینی اورجمہوری طریقوںسے وہ اس کومنوانے کی ضرورکوشش کرتے رہتے ہیں۔
اہم حقائق وواقعات
(۲)امرِدوم کے متعلق میں واقعات کوان کی صحیح صورت میںتاریخی ترتیب کے ساتھ عدالت کے سامنے رکھ دیتاہوںپھریہ رائے قائم کرناعدالت کاکام ہے کہ ڈائریکٹ ایکشن کے ساتھ میرااورجماعت اسلامی کاتعلق کیاتھااورکیانہ تھا۔مئی ۱۹۵۲ء میںجب احرارنے قادیانی مسئلہ پرایجی ٹیشن کاآغازکیاتواس وقت جماعت اسلامی کی رائے یہ تھی کہ قادیانیوںکومسلمانوںسے الگ کرکے ایک مستقل اقلیت قراردینے کامطالبہ بجائے خودصحیح ہے مگراس وقت جب کہ ملک کادستوربن رہاہے مسلمانوںکی توجہ کسی ضمنی مسئلہ کی طرف پھیردینادرست نہیںہے۔اس وقت تمام کوششوںکوایک صحیح اسلامی دستوربنوانے پر مر کو ز کیے رکھناچاہیے اوردستورہی میںقادیانی مسئلہ کوبھی حل کراناچاہیے۔یہی رائے جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے اپنے جون ۱۹۵۲ء کے ایک ریزولیوشن میںظاہرکی تھی۔جولائی ۱۹۵۲ء میںاحرارنے لاہورمیںتمام مذہبی جماعتوںکی ایک کنونشن منعقدکی اوراس میں جماعت اسلامی کوبھی دعوت دی۔جماعت کی طرف سے مولاناامین احسن صاحب اورملک نصراللہ خان صاحب عزیزاس میںشرکت کے لیے بھیجے گئے اورانھوںنے وہاںجماعت کے نقطہ نظرکی ترجمانی کردی۔اس کنونشن میںپنجاب کے لیے ایک مجلس عمل بنائی گئی اوراس میںجماعت اسلامی کوبھی دونشستیںپیش کی گئیںمگرجماعت نے اس مجلس میںشرکت قبول نہیںکی۔
مئی سے جولائی تک پنجاب میںجواضطرابات رونماہوئے ان کواورخصوصاًملتان کے ہنگامے کوجماعت اسلامی نے سخت تشویش کی نگاہ سے دیکھااوراس کے دووجوہ تھے۔ایک یہ کہ اس ہنگامہ خیزی سے عوام کی ذہنیت بگڑرہی ہے اورعوامی تحریکات کارخ شورش کی طرف مائل ہوتاجارہاہے جس کی وجہ سے ملک میںکسی سنجیدہ اورمعقول تحریک کے لیے کام کرنا مشکل ہوجائے گا۔دوسرے یہ کہ ایک ضمنی مسئلہ نے عوام کی توجہ کودستورکے بنیادی مسئلہ سے ہٹادیاہے اوراس حالت میںاگرکوئی غلط دستوربن جائے تواس کاخمیازہ ملک کوایک مدت درازتک بھگتناپڑے گا۔ان دونوںپہلوئوںپراچھی طرح غورکرنے کے بعد ہم نے اگست ۱۹۵۲ء کے آغازمیںیہ طے کیاکہ ہم اسلامی دستورکے لیے جدو جہد کر رہے ہیں۔اس کے مطالبات میںقادیانیوںکواقلیت قراردینے کامطالبہ بھی شامل کرلیا جائے۔ اس تدبیرسے ہمارے پیش نظردومقصدتھے‘ایک یہ کہ عوام کے لیے قادیانی مسئلہ پرالگ جدوجہدکرنے کی ضرورت باقی نہ رہے اور ان کی توجہ دستور کے مسئلہ پر مرکوز کی جاسکے۔ دوسرے یہ کہ عوام کی ذہنیت کو شورش اور ہنگامے سے ہٹا کر آئینی جدوجہد کی طرف موڑدیاجائے۔
ان دونوںمقاصدکومیںنے اپنے ایک بیان میںواضح کردیاتھاجوروزنامہ ’’تسنیم‘‘ ۴/اگست کی اشاعت میںشائع ہوا۔
اگست کے اواخریاستمبرکے اوائل میںمولاناعبدالحلیم صاحب قاسمی ناظم جمعیت علما اسلام پنجاب مجھ سے ملے اورانھوںنے مجھ سے کہاکہ آل مسلم پارٹیزکنونشن پنجاب نے جو مجلس عمل بنائی ہے اس میںایسے عناصر کاغلبہ ہے جن کارجحان قادیانی مسئلہ کوشورش اور ہنگامے کے ذریعے سے حل کرنے کی طرف ہے اورہم لوگ جواس تحریک کوغلط رخ پرجانے سے روکناچاہتے ہیں‘قلیل تعدادمیںہیں۔اس لیے ہم چاہتے ہیںکہ جماعت اسلامی مجلس عمل میںاپنے نمائندے بھیجناقبول کرلے تاکہ ہمارے ہاتھ مضبوط ہوںاورہم اس خطرے کی روک تھام کرسکیں۔میںنے محسوس کیاکہ ان کی اس بات میںوزن ہے اوراسی بنیاد پر میںنے جماعت اسلامی کے دونمائندے مجلس عمل کے لیے نامزدکیے جنھوںنے مجلس کے دوسرے سنجیدہ عناصرکے ساتھ تعاون کرکے متعددمواقع پرغلط رجحانات کا سدباب کیا۔ واقعات سے ثابت ہے کَہ اگست سے لے کرجنوری تک پھرکوئی شورش تحریک قادیانی مسئلہ کے متعلق نہ اٹھ سکی۔میںکہہ سکتاہوںکہ اس اصلاح حال میںجماعت کی مذکورہ بالادو تدبیروںکابھی بہت بڑاحصہ تھا۔
دسمبر۱۹۵۲ء میںمجلس دستورسازکی بیسک پرنسپل کمیٹی کی رپورٹ شائع ہوئی اور اس میںقادیانی مسئلہ کاکوئی حل تجویزنہیںکیاگیا۔ اس فروگذاشت نے ان کوششوںکوسخت نقصان پہنچایاجوہماری طرف سے اس تحریک کوآئینی طریقہ کار کاپابندرکھنے کے لیے کی جا رہی تھیں۔
جنوری ۱۹۵۳ء کے دوسرے ہفتہ میںپاکستان کے ۳۳سربرآوردہ علماکاایک اجتماع بی۔ پی۔ سی رپورٹ پرغورکرنے کے لیے کراچی میںمنعقدہوا۔اس اجتماع کاایک رکن میںبھی تھا۔علما نے اس اجتماع میںرپورٹ کاتفصیلی جائزہ لیااوراس کے دستوری خاکے میںبہت سی ترمیمات اوراصلاحات تجویزکیںجن میںسے ایک اصلاح یہ بھی تھی کہ رپورٹ میں جن اقلیتوںکے لیے جداگانہ انتخاب اورنشستوںکاتعین تجویزکیاگیاہے ان میں قادیانیوں کو بھی شامل کردیاجائے۔
اسی ماہ جنوری کے وسط میںکراچی ہی میںپورے پاکستان کی ایک آل مسلم پارٹیز کنونشن منعقدہوئی جس کامقصد’’تحفظ ختم نبوت‘‘کے مسئلہ پرغورکرناتھا۔مجھے بھی اس میں دعوت دی گئی تھی۔میںنے کنونشن کی سب جیکٹس کمیٹی (subjects committee) میں یہ تجویزپیش کی کہ جب علما نے بی۔پی سی رپورٹ پراپنی ترمیمات میںقادیانی مسئلہ کے آئینی حل کوشامل کرلیاہے تواس مسئلہ کے متعلق کوئی علیحدہ جدوجہدکرنے کی ضرورت نہیںہے بلکہ صرف وہی ایک جدوجہدتمام مقاصدکے لیے کافی ہے جوعلما کی تجویزکردہ ترمیمات کومنظورکرانے کے لیے کی جائے گی۔طویل مباحثہ کے بعدسب جیکٹس کمیٹی (subjects committee) نے میری اس رائے کومان لیامگرکھلے اجلاس میںکنونشن نے اسے ردکردیا۔
اس کے بعدمیںنے کنونشن میںدوسری تجویزیہ پیش کی کہ پورے پاکستان کی ایک مرکزی مجلس عمل بنائی جائے اورصرف وہی’’تحفظ ختم نبوت‘‘کے لیے پروگرام بنانے اور دوسرے اقدامات تجویزکرنے کی مجازہو۔اس مجلس کے سواکسی اورکوبطورخودکوئی قدم اٹھانے کا اختیارنہ ہوناچاہے۔میری یہ تجویزمان لی گئی اورپندرہ ارکان کی ایک مرکزی مجلس عمل بنادی گئی جن آٹھ ارکان اسی وقت منتخب کرلیے گئے اورطے ہواکہ سات ارکان بعد میں اس کے اندرشامل کیے جائیںجوارکان وہاںمنتخب کئے گئے تھے ان میںسے ایک مَیںبھی تھا۔
اس مرکزی مجلس عمل کاکوئی اجلاس ۲۶/فروری تک نہیںہوا۔اس میںجوسات مزیدار کان شامل کیے جانے تھے وہ بھی شامل نہیںکیے گئے۔جس کے معنی یہ ہیںکہ مجلس کی ترکیب ہی مکمل نہیںہوئی اورجیساکہ میںاوپربتاچکاہوںکنونشن کے مقصدپرعمل کرنے کے لیے پروگرام بنانے کی مجازصرف یہی مجلس تھی۔اس لیے۱۷جنوری سے ۲۶/فروری تک کنونشن کی ممبر جماعتوں میں سے بعض نے جتنی بھی کارروائیاںکیںوہ سب خلاف ضابطہ تھیں۔ ۲۳ /جنوری کوجو وفدوزیراعظم سے ملاوہ ان چندجماعتوںکاخودساختہ تھا۔کنونشن نے یامرکزی مجلس عمل نے اس وفدکوترتیب نہیںدیاتھا۔اس وفدنے وزیراعظم کوایک مہینہ کاجونوٹس دیااورمہینہ گزرنے کے بعدڈائریکٹ ایکشن شروع کرنے کاجواعلان کیااس کے لیے کسی نے اس کومجازنہیںکیاتھا۔اس کے بعد پنجاب آکران جماعتوںنے ڈائریکٹ ایکشن کی جوتیاریاں شروع کیںوہ سب کنونشن کے فیصلوںکے بالکل خلاف تھیں۔
میںنے ان بے ضابطگیوںکے خلاف سخت اعتراض کیا۔۲۳/فروری کومجلس عمل پنجاب کا جواجلاس ہوا،اس میںمیںنے اپنے اعتراضات تحریری صورت میںملک نصراللہ خان صاحب عزیزکے ذریعے سے بھیجے اوریہ مطالبہ کیاکہ مرکزی مجلس عمل کااجلاس منعقدکیاجائے اور تمام کارروائیوںکواس وقت تک روک دیاجائے جب تک مجلس کایہ اجلاس منعقدنہ ہو۔اس پرطے ہواکہ ۱۷/فروری کومرکزی مجلس عمل کااجلاس منعقد کیا جائے مگر۱۷ / کوکوئی اجلاس نہ ہوا اور میںنے دوبارہ اپنے اعتراضات تحریری صورت میںمیاںطفیل محمدصاحب، جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی اورملک نصراللہ خان عزیزکے ذریعے سے مجلس عمل پنجاب کو بھیجے۔ آخرکار ۲۶/فروری کی تاریخ مرکزی مجلس عمل کے اجلاس کے لیے مقررہوئی۔
۱۹/فروری کومیری ہدایات کے مطابق جماعت اسلامی کے سیکرٹری نے اعلان کیاکہ مجلس عمل پنجاب کی طرف سے ڈائریکٹ ایکشن کے لیے حلف ناموںپرجماعت اسلامی کاکوئی رکن دستحظ نہ کرے اوریہ کہ کسی پروگرام کواس وقت تک قبول نہ کیاجائے جب تک کہ وہ مرکزی مجلس عمل کاپہلااجلاس منعقدہوااورمیری طرف سے اس میںسلطان احمدصاحب امیرجماعت اسلامی کراچی وسندھ شریک ہوئے۔میںنے پھروہ اعتراضات جوان بے قاعدگیوںپرمجھے تھے، تحریری صورت میںسلطان احمدصاحب کے ذریعے سے بھیجے اورمطالبہ کیاکہ ڈائریکٹ ایکشن کاجوپروگرام بالکل خلاف ضابطہ بنایاگیاہے اس کو منسوخ کردیاجائے اورسلطان احمد صاحب کویہ ہدایت کی کہ اگریہ بات نہ مانی جائے تووہ مرکزی مجلس عمل سے جماعت اسلامی کی علیحدگی کاعلان کردیں۔اس نئی مجلس میںنہ میںشامل تھا اورنہ جماعت اسلامی کاکوئی اورشخص۔
چاراورپانچ مارچ کوجماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کااجلاس لاہورمنعقدہوااوراس نے ڈائریکٹ ایکشن سے جماعت اسلامی کی قطعی بے تعلقی کافیصلہ کیا۔اسی موقع پرمیںنے پنجاب کے تمام اضلاع سے جماعت کے ذمہ دارکارکنوںکولاہوربلاکرہدایات دیںکہ وہ جماعت کے کارکنوںکواس تحریک سے بالکل علیحدہ رکھیں۔اس کے بعدصرف دومقامات سے مجھے اطلاع ملی کہ جماعت کے دوارکان نے ڈائریکٹ ایکشن میںحصہ لیاہے اور میں نے فوراًان دونوں کو جماعت اسلامی سے خارج کردیا۔
اس پوری مدت میںمیرے یاجماعت اسلامی کے کسی فعل سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ ان اضطرابات کی ذمہ داری میںہماراکوئی ادنیٰ ساحصہ بھی ہے۔اس کے باوجود جس طرح مجھے اورجماعت کے بہت سے ارکان کوخواہ مخواہ اس کی ذمہ داری میں گھسیٹا گیا ہے اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ جیسے ایک شخص سڑک سے ہٹ کرکھیتوںمیںجاکھڑاہواور دوسرا شخص وہاںموٹرلے جاکراس سےٹکرادے۔
جماعت اسلامی کی دستاویزی شہادت:
(۳)امرسوم کے متعلق میں اپنے وہ تمام بیانات اورمضامین اورجماعت اسلامی کے وہ سب ریزولیوشن جوقادیانی مسئلہ سے متعلق جون ۱۹۵۲ء سے ۶مارچ ۱۹۵۳ء تک شائع ہوئے ہیں۔اس بیان کے ساتھ منسلک کررہاہوں۔ان کودیکھ کرمعلوم کیاجا سکتاہے کہ میںنے اورمیری جماعت نے کامل دس مہینہ تک کس کس طرح حکومت کواس مسئلہ کی حقیقت سمجھانے کی کوشش کی ہے اوراسے تدبراورمعاملہ فہمی کے ساتھ حل کرنے کامشورہ دیاہے۔میںان تحریروںکے متعلق خودکچھ کہنے کی بجائے اس امرکا فیصلہ عدالت پرچھوڑتا ہوںکہ جس شخص اورجماعت کی یہ تحریریںہیں،اس کی نیت آیااس ملک کے ایک اجتماعی مسئلہ کومعقولیت کے ساتھ حل کروانے کی تھی یاکسی قسم کافتنہ برپاکرنے کی۔اوریہ کہ وہ لوگ کس ذہنیت کے مالک تھے جنھوںنے آخروقت تک اس مسئلہ کوناخن تدبیرسے حل کرنے کی بجائے طاقت ہی سے دبانے پراصرار کیااورآخرکارکشت وخون برپاکرکے ہی چھوڑا۔
قادیانیوں کومشورہ:
اس بیان کوختم کرنے سے پہلے میں یہ بات بھی عدالت کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ میںنے جس طرح حکومت کواس غلط پالیسی سے اورڈائریکٹ ایکشن کے لیڈروں کو ان کے غلط فیصلہ سے روکنے کی آخروقت تک کوشش کی ہے اسی طرح میں قادیانیوںکوبھی ان کی غلطی سمجھانے اورصحیح مشورہ دینے کی پوری کوشش کرتارہاہوں۔
گزشتہ ماہ جولائی میںشیخ بشیراحمدصاحب ایڈووکیٹ لاہور،مولوی ابولعطا جالندھری اورجناب شمس صاحب کومیںنے سمجھایاتھاکہ جوباتیںانگریزی دورمیںنبھ گئیں،وہ اب اس آزادی کے دورمیںجب کہ جمہوری حکومت کے اختیارات مسلم اکثریت کے ہاتھ میںہیں‘ زیادہ دیرتک نہ نبھ سکیںگی۔لہٰذاقبل اس کے کہ آپ کی جماعت اور مسلمانوں کے تعلقات کی تلخی میںمزیداضافہ ہو، آپ لوگ معاملہ فہمی اورتدبرسے کام لیتے ہوئے دوصورتوںمیں سے کسی ایک صورت کواختیارکرلیں۔یاتواپنے عقائد اور طرز عمل میں ایسی ترمیم کیجئے کہ جس سے مسلمان آپ کو اپنے اندرشامل رکھنے پرراضی ہوسکی ںیاپھرخودہی مسلمانوںسے الگ ہوکرایک مستقل اقلیت کی حیثیت سے اپنے لیے وہی حقوق حاصل کر لیجیے جوپاکستان میں دوسری اقلیتوں کوحاصل ہیں۔مگرافسوس کہ انھوںنے میرے اس دوستانہ مشورہ کوقبول نہ کیا۔پھرمارشل لا کے زمانہ میں۲۰/مارچ کے قریب خواجہ نذیراحمد صاحب ایڈووکیٹ لاہورسے میری ملاقات ہوئی اوران سے میںنے کہاکہ مزرابشیرالدین محمودصاحب سے خودجاکرملیںاوران کومشورہ دیںکہ اگروہ واقعی مسلمانوںسے الگ ہونا پسندنہیںکرتے اورچاہتے ہیں کہ ان کی جماعت اسی ملت کاایک جزوبن کررہے تووہ صاف الفاظ میںحسب ذیل تین باتوں کااعلان کردیں:
۱۔یہ کہ وہ نبی اکرمﷺ کواس معنی میںخاتم النبیین مانتے ہیںکہ حضوراکرمﷺ کے بعدکوئی اور نبی مبعوث ہونے والانہیںہے۔
۲۔یہ کہ وہ مرزاغلام احمدصاحب کے لیے نبوت یاکسی ایسے منصب کے قائل نہیں ہیںجسے نہ ماننے کی وجہ سے کوئی شخص کافرہو۔
۳۔یہ کہ وہ تمام غیراحمدی مسلمانوںکومسلمان مانتے ہیںاوراحمدیوںکے لیے ان کی نمازجنازہ پڑھنا‘ان کے امام کی اقتدا میںنمازیںاداکرنا‘ان کوبیٹیاںدیناجائزسمجھتے ہیں۔
میںنے خواجہ صاحب سے کہاکہ اگرآج مرزاصاحب ان باتوںکاواضح طور پر اعلان کردیںتومیںآپ کویقین دلاتاہوںکہ یہ ساراجھگڑافوراًختم ہوجائے گا۔ بعدمیں مجھے معلوم ہواکہ خواجہ صاحب میری اس تجویزکولے کرمسٹرچندریگرسے ملے اورانھوںنے نہ صرف اس سے اتفاق کیابلکہ اس تجویزمیںخودبھی بعض الفاظ کااضافہ کیا۔پھرمجھے یہ بھی معلوم ہے کہ خواجہ صاحب نے ربوہ میںجاکراس پرمرزاصاحب سے گفتگو کی۔ اور مرزا صاحب نے وعدہ کیاکہ وہ اپنی جماعت کی مجلس شوریٰ بلاکراس پرغورکریںگے مگراسی دوران میںمیری گرفتاری عمل میںآگئی اوربعدکی کوئی اطلاع مجھے نہ مل سکی۔ غالباً مرزا صاحب نے یہ دیکھ کرکہ حکومت پوری طاقت سے ان کی حمایت اورمسلمانوںکی سرکوبی کر رہی ہے میری اس تجویزکودرخوراعتنانہ سمجھاہوگا۔کیونکہ اس وقت تک ان کی طرف سے ایساکوئی اعلان شائع نہیںہواجس میںان تین باتوںکی تصریح ہو۔
احسان شناسی:
بہرحال میری ان کوششوںسے یہ بات عیاںہے کہ میںنے اپنی حدتک اس نزاع کے تینوں فریقوں کومصالحت پرآمادہ کرنے میں کوئی کسرنہیں اٹھارکھی ہے۔مگرہرفریق نے مجھے ان کوششوں کی وہ بڑی سے بڑی سزادی ،جووہ دے سکتا تھا۔ایک فریق نے بھرے جلسوںمیںمتعددبارعوام کومیرے خلاف بھڑکایا۔یہاںتک کہ ۶/مارچ کی صبح کوایک مشتعل مجمع میرے مکان پرچڑھ آیا۔دوسرے فریق نے پانچ واجب القتل ’’خونی ملائوں‘‘میںمجھے بھی شمولیت کاشرف عطاکیا۔تیسرے فریق نے مجھے گرفتارکرکے میرا کورٹ مارشل کرایااورمجھے پہلے سزائے موت اورپھرچودہ سال قیدبامشقت کی سزا دلوائی۔
دوسرابیان
(جومورخہ ۸نومبر۱۹۵۳ء کوتحریری شکل میںعدالت مذکورمیںپیش کیاگیا۔)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
جناب والا!
گذشتہ ماہ ستمبرکے آغازسے آپ کی تحقیقاتی عدالت میںجوشہادتیںپیش ہوئی ہیں ان کی رودادیںاخبارات میںپڑھ کرمیںنے یہ محسوس کیاہے کہ بہت سے مسائل اور معاملات کے متعلق عدالت کے سامنے غلط یاناکافی معلومات پیش کی گئی ہیں۔ میںاپنایہ فرض سمجھتاہوںکہ اپنے علم کی حدتک عدالت کوصحیح معلومات بہم پہنچائوںاورصحیح نتائج تک پہنچنے میںآپ کی مددکروں۔اسی فرض کااحساس کرتے ہوئے میںنے ایک بیان گذشتہ ماہ جولائی کے آخرمیںارسال کیاتھااوراسی بنیادپردوسرابیان پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔
(۱)قادیانیوںکے متعلق مسلمانوںکی طرف سے جومطالبات پیش کیے گئے ہیں (یعنی یہ کہ آئندہ دستورمیںانہیںمسلمانوںسے الگ ایک اقلیت قراردیا جائے‘ سرظفر اللہ خان کووزارت خارجہ سے الگ کیاجائے اورقادیانیوںکوسرکاری محکموںمیںکلیدی مناسب سے ہٹادیاجائے)ان کے بارے میںمتعددسوالات عدالت میںاٹھائے گئے ہیںمگران کے صحیح اورمکمل جوابات نہیںدئیے گئے۔
قادیانیوں سے متعلق مطالبات بیک وقت سیاسی بھی ہیں اورمذہبی بھی:
(الف)یہ سوال باربارکیاگیاہے کہ یہ مطالبات مذہبی ہیں یاسیاسی ؟اوراکثراس کا جواب صرف یہ دے دیاگیاہے کہ یہ مذہبی مطالبات ہیں۔حالانکہ درحقیقت نہ یہ سوال صحیح ہے اورنہ اس کایہ جواب۔اس میں شک نہیں کہ جس نزاع کوحل کرنے کے لیے یہ مطالبات پیش کیے گئے ہیں،اس کی ابتدا ایک مذہبی اختلاف سے ہوئی ہے لیکن پچھلے پچاس سال کے تدریجی ارتقا سے اب وہ محض ایک مذہبی نزاع نہیںرہی ہے بلکہ ایک معاشرتی،معاشی اور سیاسی نزاع بھی بن گئی ہے کوئی مسئلہ اپنی اصل کے اعتبارسے خواہ مذہبی ہویااخلاقی، جب وہ عملاًمعاشرے میںپیچیدگیاںاورخرابیاںپیداکرنے لگتاہے تواس کولامحالہ دستور یا قانون یاانتظامی تدابیرکے ذریعے سے حل کرناپڑتاہے۔ایسے مواقع پریہ بحث پیدا نہیں کی جاتی کہ مسئلہ تومذہبی یااخلاقی ہے‘اس کوسیاسی وسائل سے کیوںحل کیا جا رہا ہے۔ یہاں مسلمانوںاورقادیانیوںکی مذہبی نزاع نے جوصورت اختیارکرلی ہے وہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے کے اندرایک جداگانہ مستقل اورمنظم جتھابن گیاہے جوعقیدے میں مسلمانوں سے بنیادی اختلاف رکھتاہے،معاشرت میںان سے مقاطعہ کرتاہے،معاشی میدان میںان کے خلاف منظم طورپربرسرپیکارہے، ہمیشہ ان کے ان مفادات کے خلاف کام کرتا رہا ہے۔ ان سب باتوںکے باوجودوہ مسلمانوںمیںشامل ہو کراپنی تبلیغ کے ذریعہ سے اپنی تعدادبڑھارہاہے اورمسلم معاشرے کے داخلی انتشارمیںروزبروزاضافہ کیے چلا جاتا ہے۔ اس پرمزیدوہ خطرات ہیںجوسرکاری ملازمتوںمیںاس گروہ کی انتہائی غیرمتناسب کثرت سے اوراس کے ان سیاسی منصوبوںسے جوبلوچستان کو بنیاد(base)بنا کر سارے پاکستان پرقبضہ کرنے کے لیے اس کی جانب سے، بارہاظاہرکیے گئے ہیں‘ مسلمانوں میں شدت کے ساتھ اضطراب پیداکررہے ہیں۔اس طرح کے ایک مسئلے کوآخر محض ایک مذہبی مسئلہ کیسے کہاجاسکتاہے اوراسے حل کرنے کے لیے دستوری‘قانونی اور سیاسی تدابیراستعمال کرنے کے سواآخراورکیاچارہ کارہے؟متحدہ ہندوستان میں ہندو مسلم نزاع بھی اصلاًایک مذہبی نزاع ہی تھی‘مگرجداگانہ انتخاب سے لے کرتقسیم ملک تک اس کوحل کرنے کے لیے جتنے مطالبے بھی کیے گئے وہ سب سیاسی نوعیت کے مطالبے تھے۔
مسلمانوں اورقادیانیوں کے اختلافات بنیادی ہیں:
(ب)مسلمانوں اورقادیانیوں کے اختلاف کومختلف فرقوں کے اختلافات کی نظیر فرض کرکے عدالت میں باربارعلما اورفرقوں کی باہمی کشمکش کے متعلق سوالات کیے گئے ہیں مگریہ محض ایک خلط مبحث ہے۔ان دونوںقسم کے اختلافات میںدرحقیقت کوئی مماثلت ہی نہیںہے کہ ایک کودوسرے کی نظیرقراردیاجاسکے۔بلاشبہ یہ ایک افسوس ناک واقعہ ہے کہ بعض فرقوںکے علمائ نے بعض دوسرے فرقوںاوران کے علمائ کی تکفیرکی ہے۔اوراپنے فتووئوںمیںحدسے زیادہ تجاوزبھی کیاہے،لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے جس سے انکارنہیںکیاجاسکتاکہ جن مسائل پریہ تکفیربازی کی گئی وہ محض چنددینیانی مسائل کی تعبیرات کے اختلافات تھے۔اسی بناپرمسلم ملت نے بحیثیت مجموعی تکفیرکے ان فتووئوں کو کبھی اہمیت نہ دی ۔محتاط علمائ نے ان کوہمیشہ ناپسندکیا۔کسی شخص یاگروہ کوخارج از ملت قرار دینے پرمسلمانوںکے درمیان کبھی اتفاق نہیںہوا۔مختلف فرقوںکے مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ نمازیںپڑھتے رہے،ایک دوسرے کی نمازجنازہ میںشریک ہوتے رہے،آپس میںشادی بیاہ کرتے رہے حتیٰ کہ سنیوں اور شیعوںکی باہمی مناکحت کی بھی ہزاروں مثالیں موجودہیںاورمجھے خودبارہاشیعوںکے ساتھ نمازپڑھنے کااتفاق ہواہے۔ پھر سب سے بڑھ کریہ کہ جب کبھی کوئی اہم قومی مسئلہ پیداہوا، تمام مسلمانوںنے مل کراس کے لیے جدوجہدکی۔ان کاقومی مفادایک رہااوران کے قومی جذبات اورسیاسی مقاصدمشترک رہے۔ اس کے برعکس قادیانیوں اور مسلمانوںکااختلاف ایک بنیادی اختلاف ہے۔کوئی شخص جو اسلام کے متعلق سرسری سی واقفیت بھی رکھتاہو‘اس امرسے بے خبرنہیںہوسکتاکہ نبوت کا عقیدہ اسلام کے اساسی عقائدمیںسے ہے اورایک شخص کے دعوائے نبوت پرایمان لانے یانہ لانے سے لازماً کفروایمان کی تفریق واقع ہوجاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مرزاغلام احمد صاحب کے دعوائے نبوت پران کے ماننے والوںاورنہ ماننے والوںکے درمیان اختلاف کی ایک ایسی دیوار حائل ہوگئی جواس سے پہلے کبھی مسلم فرقوںکے درمیان حائل نہ ہوئی تھی۔تمام فرقوںکے مسلمانوںنے بالاتفاق قادیانیوں کو کافر قرار دیا اور قادیانیوں نے اس کے برعکس ان سب لوگوںکوکافرٹھہرایاجومرزاصاحب کونبی نہ مانیں۔ دوسری تکفیروں کے برعکس اس تکفیرنے عملاًدونوںگروہوںکوایک دوسرے سے الگ کر دیا۔ عبادت سے لے کرمعاشرت تک ان کے درمیان ہرچیزمیںجدائی پڑگئی۔ان کے قومی مفاداورسیاسی حوصلے (political ambitions)تک ایک دوسرے سے مختلف ہوگئے اورعلیحدگی سے گزرکرنوبت کشمکش اورمخاصمت تک پہنچ گئی۔اس صریح فرق کوآخرکیسے نظراندازکیاجاسکتا ہے اورقادیانی مسلم اختلافات کوفرقوںکے باہمی اختلافات سے خلط ملط کردیناکس طرح صحیح ہوسکتاہے؟تاہم اگرایساکوئی فیصلہ کربھی دیاجائے توکیایہ ممکن ہے کہ عملاًوہ کشمکش ختم ہوجائے جوشہروںسے لے کردیہات تک ہزاروں خاندانوں میں اور دفتروں سے لے کر منڈیوںتک ہزاروں افراد میںبرپاہے؟
تمام منحرفین کواقلیت قراردینے کامطالبہ ضروری نہیں:
(ج)عدالت میں یہ سوال بھی بارباراٹھایاگیاہے کہ آیاان سب لوگوں کواسی طرح غیرمسلم اقلیت قراردینے کامطالبہ کیاجائے گاجواسلام کے بنیادی مسائل میںعام مسلمانوں سے مختلف نظریہ اختیارکریں۔مثلاًاہل قرآن اورایسے ہی دوسرے لوگ۔اس کاایک جواب اصولی پہلوسے ہے اوردوسراعملی پہلوسے۔اصولی پہلوسے اس کاجواب یہ ہے کہ جہاں تک تعبیر‘اجتہاداوراستنباط کاتعلق ہے،اس میںمختلف نقطۂ نظررکھنے والوںکے لیے اسلام میںزیادہ سے زیادہ ڈھیل کی گنجائش ہے۔ایسے امورمیںبڑی سے بڑی غلطی بھی گمراہی ہوسکتی ہے مگراس پرخروج ازاسلام کاحکم نہیںلگایاجاسکتا۔بخلاف اس کے،اسلام کے اساسی امورمیںجب کبھی کوئی ایساردوبدل کیاجائے کہ جس کے لیے دائرہ دین میںکوئی گنجائش نہ ہوتوایسی صورت میںیقیناخروج ازاسلام کاحکم لگایاجائے گابلالحاظ اس کے کہ اس کی زدکس پرپڑتی ہے۔عملی پہلوسے اس کاجواب یہ ہے کہ ایک فردیاچند منتشر افرادکا اسلام سے انحراف اورچیزہے، اورمسلم معاشرے کے اندرایک منحرف گروہ کی باقاعدہ جتھہ بندی‘ جو مسلسل تبلیغ سے اپنی تعدادبھی بڑھارہی ہوااورمعاشی وسیاسی حیثیت سے مسلمانوں کے مقابلے میںکشمکش بھی کررہی ہو، ایک بالکل ہی دوسری چیز۔اس دوسری قسم کے انحراف سے مسلسل نصف صدی تک زخم کھاتے رہنے کے بعداگرمسلمان تنگ آکرکچھ مطالبات پیش کرتے ہیںتواس موقع پرآخرپہلی قسم کے انحراف کی مثالیںکیوںیادکی جاتی ہیں؟ کیاعملاًیہ بات دنیابھرکے سامنے نمایاںنہیںہے کہ پہلی قسم کے منحرفین کے ساتھ مسلمانوںکااجتماعی طرز عمل دوسری قسم کے منحرفین کی بہ نسبت صریح طورپرمختلف ہے؟ مسلمان آخرکب یہ مطالبہ لے کراٹھے تھے کہ تمام منحرفین کوغیرمسلم اقلیتوں میں شامل کیا جائے؟
ظفراللہ خان کی علیحدگی کے مطالبے کے وجوہ:
(د)سرظفراللہ خان کے متعلق مسلمانوں کی طرف سے جومطالبہ کیاگیاہے وہ محض اس نظریے پرمبنی نہیں ہے کہ کسی غیرمسلم کواسلامی ریاست کاوزیرنہ ہوناچاہیے،بلکہ اس کی بنیاد یہ بھی ہے کہ صاحب موصوف نے اپنی سرکاری پوزیشن سے سراسرناجائزفائدہ اٹھا کر تقسیم ہندسے پہلے بھی قادیانی تحریک کوتقویت پہنچائی ہے اورقیام پاکستان کے بعدپہلے سے بھی بڑھ کروہ ایساکرتے رہے ہیں۔اس لیے ان کااقتدارکی کرسی پر بیٹھنا مسلمانوں کے لیے ایک مستقل وجہ شکایت بن گیاہے۔اب ہم سے کہاجاتاہے کہ ان کووزارت سے ہٹادیاجاتا توپاکستان کوامریکہ سے ایک دانہ گندم بھی نہ ملتا۔میںکہتاہوںکہ یہ بات اگرواقعی صحیح ہے تو اس معامہ کی نوعیت اوربھی زیادہ شدیدہوجاتی ہے۔اس کے توصاف معنی یہ ہیںکہ امریکہ نے اپناخاص ایجنٹ ہمارے محکمہ خارجیہ پرمسلط کردیاہے اور۱۰لاکھ ٹن گیہوںکے عوض ہماری خارجہ پالیسی رہن رکھی گئی ہے۔اس میںتوہمیںقادیانی تحریک کے بجائے امریکہ کی سیاسی غلامی سے نجات پانے کے لیے صاحب موصوف کی علیحدگی کامطالبہ کرناچاہیے۔یہ بات میںصرف اس مفروضے پرکہہ رہاہوںکہ حکومت امریکہ نے ایسی کوئی بات حکومت پاکستان سے صراحتہً یاکنایۃً کہی ہو۔مگرمجھے یہ یقین نہیںآتاکہ امریکی حکومت کاکوئی مدبرایسابے وقوف ہوسکتاہے کہ وہ پاکستان کے ساڑھے سات کروڑ باشندوں کی دوستی پرایک شخص کی دوستی کوترجیح دے۔اور۴۸کروڑروپے کے ایک دوستانہ تحفے سے باشندگان پاکستان کواحسان مندبنانے کے بجائے ان کے دلوںمیںاپنی قوم اورحکومت کے خلاف الٹے سیاسی شکوک پیداکرے۔
کلیدی مناصب کامفہوم اورمطالبہ علیحدگی کے لیے دلائل:
(ہ)قادیانیوںکوکلیدی مناصب سے ہٹانے کاجومطالبہ کیاگیاہے اس کی بنیادبھی صرف یہ نظریہ نہیںہے کہ اسلامی ریاست میںغیرمسلموںکوکلیدی مناصب پرمامورنہیںکیا جاسکتا، بلکہ یہ مطالبہ اس بناپرکیاگیاہے کہ(۱)پچھلے دورمیںانگریزوںکی غیرمعمولی عنایات سے اورموجودہ دورمیںپاکستان کے حکمرانوںکی غفلت اوربے حسی سے فائدہ اٹھا کر اس چھوٹے سے گروہ نے اپنی آبادی کے تناسب سے بدرجہازیادہ ملازمتوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ (۲)اس گروہ کاجوشخص بھی کسی اہم عہدے پرپہنچ گیاہے اس نے اپنے ہم مذہبوںکوبھرتی کرنے میںکوئی کسرنہیںاٹھارکھی ہے۔(۳)اس گروہ کے پیشوامرزا بشیرالدین محموداحمد صاحب نے اعلانیہ اپنے پیروئوںکوہدایت کی ہے کہ ایک منصوبہ بناکرتمام سرکاری محکموںمیںگھسنے کی کوشش کریں۔(۴)اس گروہ کے بااثرعہدہ داروںنے اکثراپنے مذہب کی تبلیغ اس طرح کی ہے کہ جوان کے دائرہ اثرمیںملازمت حاصل کرناچاہے وہ قادیانیت قبول کرلے اور(۵)اب ان کے حوصلے یہاںتک بڑھ گئے ہیںکہ اس راستے سے وہ پاکستان کی حکومت پرقبضہ کرنے کے خواب دیکھنے لگے ہیں۔اس صورت حال کودیکھ کرمجبوراً یہ مطالبہ کیاگیاہے کہ ان لوگوںکوکلیدی مناصب سے ہٹایا جائے۔اس مطالبے کے سیاق وسباق میںکلیدی مناصب کامفہوم وہ نہیںہے جو غیرمسلموں کو کلیدی مناصب نہ دینے کے اسلامی نظریے میںہے۔بلکہ یہاںکلیدی منصب سے ہروہ اہم عہدہ مرادہے جس پرفائز ہوکرقادیانی گروہ کاکوئی شخص اپنے گروہ کواس طرح کے ناجائز فائدے پہنچا سکتا ہو جن کااوپرذکرکیاگیاہے۔درحقیقت جیسی کچھ صورت حال اس گروہ نے اپنی روش سے پیدا کر دی ہے، اس کواگرانصاف کی نگاہ سے دیکھاجائے تومحسوس ہوگاکہ یہ مطالبہ اصلی ضرورت سے بہت کم ہے۔مطالبہ تواس کے ساتھ یہ بھی ہوناچاہیے تھاکہ آئندہ دس سال کے لیے تمام محکموںمیںقادیانیوںکی بھرتی بالکل بندکردی جائے تاکہ موجودہ عدم توازن کی کیفیت دورہوسکے۔
عدالت کے سامنے پیش کردہ قادیانیوں کی بناوٹی پوزیشن:
۲۔عدالت میںیہ خیال بھی ظاہرکیاگیاہے کہ صدرانجمن احمدیہ ربوہ کی طرف سے اس کے وکیل نے عدالت کے دئیے ہوئے سات سوالوںکے جواب میںجوبیان دیاہے اس سے مسلمانوںاورقادیانیوںکااختلاف رفع ہوجاتاہے۔میںنے اس بیان کوپورے غورکے ساتھ پڑھاہے، میری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ اس بیان سے پوزیشن میںذرہ برابر بھی تغیرواقع نہیںہوتااوراس کے باوجودنزاع واختلاف کے وہ تمام اسباب جوںکے توں باقی رہتے ہیںجواب تک خرابی کے موجب رہے ہیں۔اس بیان میںقادیانیوںنے پوری ہوشیاری کے ساتھ یہ کوشش کی ہے کہ اپنی اصلی پوزیشن کو تاویلوںکے پردے میںچھپا کرایک بناوٹی پوزیشن عدالت کے سامنے پیش کریںتاکہ عدالت اس سے دھوکہ کھاکران کے حق میںمفیدمطلب رپورٹ بھی دے دے اوروہ اپنی سابق روش پرعلی حالہٖ قائم بھی دہ سکیں۔ان کی سابقہ تحریروںاوران کے اب تک کے طرزعمل سے جوشخص کچھ بھی واقفیت رکھتاہووہ یہ محسوس کیے بغیرنہیںرہ سکتاکہ انھوںنے اس بیان میںاپنی پوزیشن بدل کرقریب قریب وہ پوزیشن اختیارکرلی ہے جولاہوری احمدیوںکی پوزیشن تھی۔لیکن یہ تبدیلی وہ صاف صاف یہ کہہ کراختیارنہیںکرتے کہ ہم مسلمانوںکے ساتھ نزاع ختم کرنے کے لیے اپنے عقیدے اورمسلک میںیہ تغیرکررہے ہیںبلکہ وہ اسے اس رنگ میںپیش کرتے ہیںکہ ہماری پوزیشن ابتدا سے یہی رہی ہے۔حالانکہ یہ صریح غلط بیانی ہے ۔اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ وہ عملاًاپنی سابق پوزیشن کی توثیق کررہے ہیںاورآئندہ بھی اسی پرقائم رہناچاہتے ہیں، البتہ عارضی طورپراس تحقیقات کے دوران میںانھوںنے ایک مناسب وقت پوزیشن اختیارکرلی ہے جوتحقیقات کادورگزرنے کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گی۔اس فریب کی حقیقت اچھی طرح واضح ہوجائے گی اگران کے بیان کاذراتفصیلی جائزہ لے کر دیکھ لیاجائے:
(الف)عدالت نے سوال کیاتھاکہ جومسلمان مرزاصاحب کونبی نہیںمانتے کیاوہ مومن اورمسلم ہیں؟جواب میںوہ کہتے ہیں:
’’کسی شخص کوحضرت بانی سلسلہ احمدیہ کونہ ماننے کی وجہ سے غیرمسلم نہیںکہاجاسکتا۔‘‘
مگریہ جواب دینے کے ساتھ ہی انہیں یادآجاتاہے کہ ان کی پچھلی تحریرات اس کے بالکل خلاف ہیں۔اس لیے وہ ان کی تاویل یوںکرتے ہیںکہ:
’’ممکن ہے ہماری بعض سابقہ تحریرات سے غلط فہمی پیداکرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے متعلق ہم کہہ دیناچاہتے ہیںکہ ہماری ان سابقہ تحریرات میںجواصطلاحات استعمال کی گئی ہیںوہ ہماری مخصوص ہیں۔عام محاورے کوجومسلمانوںمیںرائج ہے استعمال نہیں کیا گیاہے، کیونکہ ہم نے اس مسئلے پریہ کتابیںغیراحمدیوںکومخاطب کرکے شائع نہیں کیںبلکہ ہماری یہ تحریرات جماعت کے ایک حصے کومخاطب کرکے لکھی گئی ہیں۔اس لیے ان تحریرات میںان اصطلاحات کومدنظررکھناضروری نہیںتھاجودوسرے مسلمانوں میں رائج ہیں۔‘‘
اس عبارت سے صاف ظاہرہے کہ وہ اپنی سابق تحریرات کی تردیدنہیںبلکہ توثیق کر رہے ہیںاورعدالت کویقین دلاناچاہتے کہ ان تحریرات کامفہوم ان کے موجودہ جواب کے خلاف نہیںہے۔اب ذراان کی سابق تحریروںمیںسے صرف دوعبارتیںملاحظہ ہوں:
’’کُل مسلمان جوحضرت مسیح موعودکی بیعت میںشامل نہیںہوئے‘خواہ انھوںنے حضرت مسیح موعودکانام بھی نہیںسنا‘وہ کافراوردائرہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘
(آئینہ صداقت‘مصنفہ مرزابشیرالدین محموداحمدصاحب، ص۳۵)
’’ہرایک ایساشخص جوموسیٰ کامانتاہے مگرعیسیٰ کونہیںمانتا‘یاعیسیٰ کومانتاہے مگر محمد کو نہیں مانتا‘ یامحمدکومانتاہے مگرمسیح موعودکونہیںمانتا‘وہ نہ صرف کافربلکہ پکاکافراوردائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘ (کلمتہ الفضل ‘مصنفہ صاحب زادہ بشیراحمدصاحب ،ص۱۱۰)
صاف دیکھاجاسکتاہے کہ ان دونوںعبارتوںمیںمحض مرزاصاحب کے نہ ماننے کی وجہ سے مسلمانوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قراردیاگیاہے۔کیایہ باورکیاجاسکتاہے کہ یہ تینوںالفاظ قادیانیوں کی مخصوص اصطلاحات ہیںاوران کامفہوم وہ نہیںہے جو مسلمانوںمیںعام طورپررائج ہے؟اس طرح کی تحریروںکی یہ تاویل کس قدربھونڈی تاویل ہے کہ ہم نے یہ تحریرات جماعت کے ایک حصے(یعنی لاہوری احمدیوں)کومخاطب کرکے لکھی تھیں۔آخر کون نہیںجانتاکہ لاہوری احمدیوںسے قادیانیوںکاجس بات پر پچھلے ۳۵سال جھگڑارہاہے وہ اسی نکتے پرتھاکہ قادیانی مرزاصاحب کی نبوت تسلیم نہ کرنے والے سب مسلمانوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے تھے اور لاہوری ان کے اس عقیدے کو غلط ٹھہراتے تھے۔ اس مباحثے میں اگر فریقین کے نزدیک ’’کافر‘‘ اور دائرہ اسلام سے خارج کا مفہو م وہ نہ تھا جو مسلمانوں میں عام طور پر رائج ہے تو پھر جھگڑا کس بات پرتھا۔
(ب) عدالت کا دوسرا سوال یہ تھاکہ جو شخص مرزا کی نبوت تسلیم نہ کرے کیا وہ کافرہے؟صدرانجمن احمدیہ ربوہ کے وکیل صاحب اس کایہ جواب دیتے ہیںکہ:
’’کافرکے معنی عربی زبان میںنہ ماننے والے کے ہیں۔پس جوشخص کسی چیزکونہیں مانتااس کے لیے عربی زبان میںکافرکالفظ ہی استعمال ہوگا۔بس ایسے شخص کوجب تک وہ یہ کہتاہے کہ میںفلاںچیزکونہیںمانتااس کواس چیزکاکافرسمجھاجائے گا‘‘
اس عبارت سے عدالت کویہ باورکرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ مرزاصاحب کے نہ ماننے والوںکولغوی معنی میںکافرکہتے ہیںنہ کہ اسلام کے اصطلاحی معنی میں۔لیکن یہ صریح دھوکاہے۔اوپرمرزابشیرالدین محمودصاحب اورصاحب زادہ بشیراحمدکی جو دو عبارتیںنقل کی گئی ہیںان دونوںمیں’’کافر‘‘کی تشریح ’’دائرہ اسلام سے خارج‘‘ کے الفاظ میںکی گئی ہے اوراس کی مزیدتشریح مرزابشیرالدین محمودصاحب اورصاحب زادہ بشیراحمدصاحب کی یہ عبارات کرتی ہیں:
’’ہمارایہ فرض ہے کہ ہم غیراحمدیوںکومسلمان نہ سمجھیںاوران کے پیچھے نمازنہ پڑھیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خداتعالیٰ کے ایک نبی کے منکرہیں۔‘‘ (انوارخلافت، ص۹۰)
’’اب جب کہ یہ مسئلہ بالکل صاف ہے کہ مسیح موعودکے ماننے کے بغیرنجات نہیں ہو سکتی توکیوںخواہ مخواہ غیراحمدیوں کومسلمان ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘‘
(کلمتہ الفضل ،ص۱۴۸)
ان عبارتوں کی موجودگی میں یہ کیسے ماناجاسکتاہے کہ قادیانی حضرات مرزاصاحب کے منکرمسلمانوںکومحض’’نہ ماننے والے‘‘کے معنی میںکافرکہتے ہیں؟پھراس سے بھی زیادہ بڑادھوکہ اس بیان میںدیاگیاہے کہ:
’’ہمارے نزدیک آنحضرت ﷺ کے بعدکسی مامورمن اللہ کے انکارکے ہرگزیہ معنی نہ ہوںگے کہ ایسے لوگ اللہ اوررسول کریمﷺ کے منکرہوکراُمت محمدیہ سے خارج ہیںیایہ کہ مسلمانوںکے معاشرے سے خارج کردئیے گئے ہیں۔‘‘
اس عبارت میںخط کشیدہ الفاظ نہایت ہوشیاری کے ساتھ استعمال کیے گئے ہیں۔ ان میںمسلمانوںکے دائرہ اسلام سے خارج ہونے کی نفی نہیںکی گئی ہے بلکہ صرف امت محمدیہ ﷺ میںشامل ہونے کااثبات کیاگیاہے۔ظاہربات ہے کہ جوشخص محمدﷺ کومانتاہوااورمرزاصاحب کونہ مانتاہووہ ’’امت محمدیہ‘‘سے خارج نہیںہوسکتا۔ یہ بالکل ایساہی ہے جیسے حضرت عیسیٰ کوماننے والاآدمی محمدﷺ کاانکارکرنے کے باوجوداُمت حضرت عیسویہ میںاورحضرت موسیٰ کوماننے والاشخص حضرت عیسیٰ کے انکارکے باوجودامت موسویہ میںشمارہوگا۔البتہ ایسے کسی شخص کو’’دائرہ اسلام ‘‘میںداخل نہیں سمجھا جائے گا۔اسی طرح قادیانی حضرات مرزاصاحب کے منکرمسلمانوںکوامت محمدیہ میںتوضرورشامل سمجھتے ہیں‘کیونکہ وہ محمدﷺ کے منکرنہیںہیں‘مگردائرہ اسلام سے بہرحال خارج سمجھتے ہیں کیونکہ خداکے ایک نبی کاانکاربھی آدمی کودائرہ اسلام سے خارج کردیتاہے اوران کے نزدیک مرزاصاحب خداکے نبی ہیں۔پھردوسرے فقرے میںوہ جوکچھ کہتے ہیںوہ یہ نہیںہے کہ غیراحمدی مسلمان دائرہ اسلام سے خارج نہیں‘بلکہ ازراہ لطف وکرم صرف یہ کہتے ہیںکہ وہ’’مسلمانوںکے معاشرے ‘‘ سے خارج نہیں کردئیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کامعاشرہ ان کے قبضے میںنہیںہے جس سے وہ کسی کوخارج کرسکیں۔
(ج)عدالت کاتیسراسوال یہ تھاکہ ایسے کافرہونے کے دنیااورآخرت میں کیا نتائج ہیں؟اس کاجواب صدرانجمن احمدیہ ربوہ کے وکیل صاحب یہ دیتے ہیںکہ:
’’ایسے کافرکی کوئی دنیوی سزامقررنہیںہے۔وہ اسلامی حکومت میںویسے ہی حقوق رکھتاہے جوایک مسلمان کے ہوتے ہیں۔اسی طرح عام معاشرے کے معاملے میںبھی وہی حقوق رکھتاہے جوایک مسلمان کے ہیں۔ہاںخالص اسلامی حکومت میںوہ حکومت کاہیڈ نہیںبن سکتا۔باقی رہے اخروی نتائج سوان نتائج کاحقیقی علم توصرف اللہ کوہے۔‘‘
یہاںپھرعدالت کوبالکل غلط اطلاع بہم پہنچائی گئی ہے۔قادیانی حضرات مسلمانوں پرجس کفرکافتویٰ لگاتے ہیںاس کے دنیوی نتائج صاحب زادہ بشیراحمدصاحب کے الفاظ میںدراصل یہ ہیں:
’’حضرت مسیح موعودنے غیراحمدیوںکے ساتھ صرف وہی سلوک جائزرکھاہے جو نبی کریمﷺ نے عیسائیوںکے ساتھ کیا۔غیراحمدیوںسے ہماری نمازیںالگ کی گئیں‘ان کو لڑکیاںدنیاحرام قراردیاگیا‘ان کے جنازے پڑھنے سے روکاگیا۔اب باقی کیارہ گیاہے جوہم ان کے ساتھ مل کرکرسکتے ہیں؟
دوقسم کے تعلقات ہوتے ہیں۔ایک دینی‘دوسرے دنیوی۔دینی تعلق کاسب سے بڑاذریعہ رشتہ وناطہ ہے۔سویہ دونوںہمارے لیے حرام قراردیے گئے۔اگرکہوکہ ہم کوان کی لڑکیاںلینے کی اجازت ہے تومیںکہتاہوںنصاریٰ کی لڑکیاںلینے کی بھی اجازت ہے۔اور اگریہ کہوکہ غیراحمدیوںکوسلام کیوںکہاجاتاہے،تواس کاجواب یہ ہے کہ حدیث سے ثابت ہے کہ بعض اوقات نبی کریم ﷺنے یہودیوںتک کوسلام کاجواب دیاہے۔‘‘
(کلمتہ الفصل‘ص۱۶۹)
رہے اس کفرکے اُخروی نتائج تووہ خودمرزاغلام احمدصاحب پر’’نازل شدہ الہام ‘‘ کے بموجب یہ ہیں:
’’جوشخص تیری پیروی نہیںکرے گااورتیری بیعت میںداخل نہیںہوگااورتیرامخالف رہے گاوہ خدااوررسول کی مخالفت کرنے والاجہنمی ہے‘‘۔ (تبلیغ رسالت‘جلدنہم‘ص۲۷)
اب یہ بات ہرشخص سمجھ سکتاہے کہ قادیانی حضرات کی نگاہ میںجووزن مرزاصاحب کے الہام کاہوسکتاہے وہ شیخ بشیراحمدصاحب ایڈووکیٹ کے اس بیان کا نہیں ہوسکتا جو انھوں نے اس تحقیقات کی ضرورت سے صدرانجمن احمدیہ کے وکیل کی حیثیت میںدیاہے۔ نیز مرزاصاحب کے مسلک کی جوتفسیران کے’’اہل بیت‘‘میںسے ایک بزرگ نے فرما دی ہے اسے بہرحال وکیل صاحب کے بیان کی بہ نسبت زیادہ سنداعتبارحاصل ہوگی۔
(د)عدالت کاسوال یہ تھاکہ کیامرزاصاحب کورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اوراسی طریقہ سے الہام ہوتاتھا؟جواب میںاقرارکیاگیاہے کہ مرزاصاحب پروحی نازل ہوتی تھی اوراس کے ساتھ یہ بھی کہاگیاہے کہ یہ وحی مرتبے اورحیثیت میںاس وحی سے کم ترتھی جونبی ﷺ پرنازل ہواکرتی تھی۔لیکن یہ عدالت کے سوال کاصحیح جواب نہیں ہے۔ اس میںجوبات چھپائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ قادیانی عقیدے کے مطابق مرزاصاحب کی وحی اپنی نوعیت کے لحاظ سے ویسی ہی ہے جیسی نبی ﷺ کی وحی تھی اوراس کے نہ ماننے والے کی حیثیت وہی ہے جوقرآن کے نہ ماننے والے کی ہے۔یہ بات مرزاغلام احمدصاحب نے خودان الفاظ میںبیان کی ہے۔
آنچہ من بشنوم زوحی خدا
بخدا پاک دنمش زخطا
ہمچو قرآں منزہ اش دانم
ازخطاہا ہمیں ست ایمانم
بخدا ہست ایں کلام مجید
ازدہان خدائے پاک ووحید
آں یقینے کہ بود عیسیٰ را
بر کلامے کہ شد بر و القا
واں یقین کلیم بر تورات
واں یقین ہائے سیدالسادات
کم نیم زاں ہمہ بروئے یقین
ہرکہ گوید دروغ ہست لعین
(درثمین ،ص۲۸۷‘مجموعہ کلام مرزاغلام احمدصاحب ‘نزول المسیح‘ص۹۹)
(ہ)عدالت کاسوال تھاکہ کیااحمدیوںکے مذہب میںان لوگوںکی نمازجنازہ پڑھنے کے خلاف کوئی حکم موجودہے جومرزاصاحب کونہ مانتے ہوں؟ جواب میںاقرارکیاگیاہے کہ’’اس وقت تک جماعتی فیصلہ یہی رہاہے کہ غیرازجماعت لوگوںکی نمازجنازہ نہ پڑھی جائے۔‘‘اوراس کے بعدیہ بتایاگیاہے کہ اب مرزاصاحب کی ایک ایسی تحریرمل گئی ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ جوشخص حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کامکفریامکذب نہ ہواس کاجنازہ پڑھ لینے میںکوئی حرج نہیں۔‘‘لیکن اگرخط کشیدہ الفاظ پرغورکیاجائے توصاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس سے درحقیقت سابق کی پوزیشن میںکوئی تغیرواقع نہیںہوتا۔یہ ظاہربات ہے کہ مرزاصاحب نے نبوت کادعویٰ کیاہے۔ایک مدعی نبوت کے معاملے میںآدمی کے لیے دوہی رویے ممکن ہیں۔یااس کے دعویٰ کومان لے یااس کا انکار کردے۔ اقرار اور انکار کے درمیان کوئی مقام نہیںہے۔اب کوئی شخص ان کے دعوے کا انکار کرتاہے وہ چاہے مکفر نہ ہو، مگر مکذب ہونے سے کسی طرح نہیںبچ سکتا۔اس طرح غیراحمدی مسلمانوںکی نماز جنازہ کے معاملے میںقادیانیوںکی پوزیشن عملاًوہی رہتی ہے جوپہلے سے چلی آرہی ہے۔ یہ بات اچھی طرں سمجھ لینی چاہیے کہ ایک مدعی نبوت کے معاملے میںمکذب لازماًصرف اسی شخص کونہیںکہتے جوصاف الفاظ میںاس کوجھوٹاکہے بلکہ اس کے دعویٰ کاانکاربھی اس کی تکذیب ہی ہے۔
(و)عدالت کاسوال تھاکہ کیااحمدی اورغیراحمدی میںشادی جائزہے؟اورایسی شادی کے خلاف ممانعت کاکوئی حکم موجودہے؟جواب میںوکیل صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ’’احمدی مردکی غیراحمدی لڑکی سے شادی کی کوئی ممانعت نہیں۔البتہ احمدی لڑکی کے غیراحمدی مردسے نکاح کوضرورروکاجاتاہے۔‘‘نیزیہ کہ دراصل اس ممانعت کی بنااحمدیت سے بغض اورعداوت رکھنے والوںکے اثرسے لڑکیوںکابچاناتھااوریہ کہ کوئی احمدی اپنی لڑکی کانکاح غیراحمدی مردسے کردے تواس کے نکاح کوکالعدم قرارنہیںدیاجاتا‘‘۔لیکن اس جواب میںاصل پوزیشن عدالت کے سامنے پیش نہیںکی گئی۔اصل پوزیشن وہ ہے جو صاحب زادہ بشیراحمدصاحب نے کلمۃ الفصل میںبایںالفاظ بیان کی ہے:
’’حضرت مسیح موعودنے غیراحمدیوںکے ساتھ صرف وہی سلوک جائزرکھاہے جونبی کریمﷺ نے عیسائیوںکے ساتھ کیا۔غیراحمدیوںسے ہماری نمازیںالگ کی گئیں‘ان کو لڑکیاں دیناحرام قراردیاگیا‘ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا… اگرکہوکہ ہم کوان کی لڑکیاںلینے کی اجازت ہے تومیںکہتاہوںکہ نصاریٰ کی لڑکیاںلینے کی بھی اجازت ہے۔‘‘(ص۱۶۹)
(ز)صدرانجمن احمدیہ ربوہ کے وکیل صاحب نے اپنے بیان میںعدالت کویہ باور کرانے کی بھی کوشش کی ہے کہ قادیانیوںنے مسلمانوںکی تکفیراوران سے عبادت و معاشرت میںمقاطعہ کرنے کی جوروش اختیارکی ہے اس کی نوعیت عام مسلمانوںکی دینی و اخلاقی حالت پرمختلف اصلاح پسندلوگوںکی تنقیدوںاورعلمائ کے فتاوائے تکفیرسے مختلف نہیں ہے۔حالانکہ ان دونوںکے درمیان اصولاً بڑافرق ہے۔مسلمانوںکے بہت سے قدیم وجدیداصلاح پسندلوگوںنے اپنی تنقیدوںمیںقوم کی عام اخلاقی ودینی حالت پر تنقید کرتے ہوئے جوملامت آمیزباتیںکہیںاورلکھی ہیں، ان کامنشاساری قوم کی تکفیرکرنا نہیں ہے بلکہ ان کواصلی اورحقیقی اسلام کی طرف واپس آنے کے لیے اکساناہے اوروہ کوئی نئی بات منوانے کی کوشش نہیںکرتے بلکہ اسلام کے انہی عقائداوراحکام کی پیروی کامطالبہ کرتے ہیںجو سب مسلمانوںکے نزدیک مسلم ہیں۔ اسی طرح مختلف فرقوںکے علمائ نے ایک دوسرے کی تکفیرمیںجتنی تحریریںبھی لکھی ہیں، وہ زیادہ تراس بنیادپرہیںکہ ایک عالم کی رائے میںدوسرے فرقے کے لوگ اسلام کے مسلمہ عقائدسے ہٹ گئے ہیں، نہ اس بنیاد پر کہ وہ اس عالم کی پیش کردہ کسی نئی بات کونہیںمانتے۔اس کے برعکس قادیانیوںنے تمام غیراحمدی مسلمانوںکے مقابلے میںتکفیراورعبادت ومعاشرت کے مقاطعے کی جوروش اختیارکی ہے اس کی بنیادیہ ہے کہ وہ مرزاغلام احمدصاحب کے دعوائے نبوت کونہیںمانتے اور ظاہر ہے کہ یہ دعوائے نبوت ایک نئی چیزہے اوراس عقیدۂ ختم نبوت کے بالکل خلاف ہے جوتمام مسلمانوںکے نزدیک اسلام کامسلمہ عقیدہ ہے۔یہ بنیادی اوراصولی فرق اس واقعی فرق کے علاوہ ہے کہ قادیانی تکفیرکے سواکوئی دوسری تکفیرایسی نہیںہے جس نے مسلمانوںکے کسی فرقے کوعام مسلمانوںسے عبادات ‘شادی بیاہ‘معاشی مفاداورسیاسی آزوئوںاورتمنائوں میںعملاًبالکل الگ کردیاہواورزندگی کے ہرمیدان میں اس کوسواداعظم سے نبردآزما کر دیا ہو۔
قادیانیوں کی جارحانہ روش محض اتفاقی نہیں ہے:
۳۔عدالت میں یہ سوال بھی اٹھایاگیاہے کہ اگراحمدی اپنے جارحانہ طورطریقوں سے بازآجائیں اورریاست کے اندرایک ریاست قائم کرنے کی کوشش ترک کردیں تو کیا پھربھی انہیں ایک غیرمسلم اقلیت قراردینے کامطالبہ کیاجائے گا؟اس سوال کاجواب یہ ہے کہ جوکچھ اس وقت تک قادیانیوں سے ظہورمیں آیاہے وہ اتفاقی واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک امت کے اندردوسری امت بنانے کالازمی اورفطری نتیجہ ہے۔ہردعوائے نبوت عین اپنی فطرت کے تقاضے سے ایک مستقل امت پیداکرتاہے اوراسے ان سب لوگوںسے جدا کر دیتا ہے جواس دعوے کونہ مانیں۔یہ نئی امت اگرصاف اورسیدھے طریقے سے پہلی امت سے الگ ہوجائے تونزاع اورتصادم کی وہ خاص حالت کبھی پیدانہیںہوسکتی جو قادیانیوں اور مسلمانوں کے درمیان پیداہوئی۔لیکن اگروہ امت کے اندرایک امت بن کررہناچاہے تو کشمکش برپاہوناناگزیرہے۔کیونکہ اس صورت میںمذہبی نزاع کومعاشرتی نزاع بننے سے اورپھرمعاشی وسیاسی نزاع تک پہنچنے سے کسی طرح نہیں روکاجاسکتا۔لہٰذامحض خیالی مفروضات پرکوئی ایسی رائے قائم کرنالاحاصل ہے جوواقعات کی دنیامیںنہ چل سکتی ہو۔ قادیانیوں کے مسلمانوں میں شامل رہنے کی کوئی صورت اگرہے تووہ صرف یہ ہے کہ وہ مرزا صاحب کی نبوت کاعقیدہ چھوڑدیں۔اوراگروہ اسے نہیں چھوڑسکتے توپھر انہیں مسلمانوں سے الگ ایک امت بن کررہناچاہیے اوراس امرواقعی کودستوری وقانونی حیثیت سے تسلیم کیا جاناچاہیے۔
کفر‘تکفیراورخروج ازاسلام :
۴۔عدالت میں کفراورتکفیر کے متعلق کچھ اصولی سوالات بھی چھیڑے گئے ہیں مگران کے واضح اورتشفی بخش جوابات نہیں دئیے گئے۔اس سلسلے میں چند باتیں وضاحت کے ساتھ عدالت کے سامنے آجانی چاہئیں۔
(الف)’’کفر‘‘اور’’خروج ازاسلام‘‘ہرصورت اورہرحالت میںلازماًایک ہی چیز نہیںہیں۔جوکفرانسان کودائرہ اسلام سے خارج کریتاہے وہ صرف یہ ہے کہ آدمی(۱)ان بنیادی عقائدمیںسے کسی کاانکارکردے جن کے ماننے کااسلام میںمطالبہ کیاگیاہے،یا (۲) کسی ایسے قول یافعل کامرتکب ہوجوصریح طورپرانکارکامتراوف ہو‘مثلاً بت کوسجدہ کرنا یانبی ﷺ کوگالی دینایاقرآن کی بالارادہ توہین کرنایاخدااوررسول کے ثابت شدہ احکام میںسے کسی کوماننے سے انکارکردینا۔(۳)ایمانی عقائدمیںسے کسی کاانکارکر دے جس سے وہ عقیدہ بنیادی طورپربگڑجاتاہو‘مثلاًتوحیدکے ساتھ شرک جلی کی آمیزش یاانبیائ کے زمرے میںکسی غیرنبی کوشامل کرنااوراس کی تعلیمات کووحی منزل من اللہ ماننا۔
(ب)مذکورۂ بالاکفرکے سواقرآن اورحدیث میںبہت سے ایسے کافرانہ یامنافقانہ افعال‘اخلاق اورخیالات کاذکرکیاگیاہے جن کے لیے یاتوکفرکالفظ استعمال ہواہے یایہ کہا گیاہے کہ ایسے لوگ مومن نہیںہیں‘یادوسرے ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیںجوسلب ایمان کے ہم معنی ہیں۔مثلاًاستطاعت کے باوجودحج نہ کرنے کوقرآن میںکفرسے تعبیرکیا گیاہے۔ترک نمازکو حدیث میںکفرکہاگیاہے۔جہادسے جی چرانے والوںپرقرآن وحدیث، دونوںمیںمنافقت کاحکم لگایاگیاہے۔بدعہدی اورخیانت کرنے والے کے متعلق حدیث میںصاف کہاگیاہے کہ اس کادین ہے نہ ایمان۔اس طرح کی آیات اوراحادیث کا صحیح مطلب نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض فرقوں(مثلاًمعتزلہ اورخوارج)نے اوربعض دوسرے غیرمحتاط لوگوںنے ہرایسے شخص کوخارج ازاسلام ٹھہرا دیا جو خدا اور رسولﷺ کے ان ارشادات کامصداق ہو۔مگرنہ توقرآن وحدیث کاسیاق وسباق یہ ظاہرکرتاہے کہ اس خاص نوعیت کاکفرونفاق آدمی کوخارج ازملت کردیتاہے،اورنہ نبیﷺاورصحابہ کرامؓ کے دورکاعمل ہی یہ ثابت کرتاہے کہ جن لوگوںمیںاس نوعیت کاکفرونفاق پایاگیاان کو مسلمانوںکی ملت سے نکال باہرکیاگیاہو۔اسی وجہ سے محتاط اہل علم نے ہمیشہ اس کفرونفاق اورخارج ازملت کردینے والے کفرکے درمیان فرق ملحوظ رکھاہے اورانہیںخلط ملط کردینے کی سخت مخالفت کی ہے۔مصلحین امت نے اگرکبھی اس نوعیت کے کافرانہ خصائل رکھنے والوںکوغیرمسلمان کہابھی ہے توڈرانے اوراطاعت کی طرف مائل کرنے کے لیے کہاہے نہ کہ واقعی دائرہ اسلام سے خارج کردینے کے لیے۔
(ج) کسی شخص کے قول یافعل سے اگرکوئی ایسامفہوم نکلتاہوجوکفرصریح کاہم معنی ہو تو اس پرتکفیرکافتویٰ دینے سے پہلے ضروری ہے کہ(۱)خوداس شخص سے اس کی بات کامطلب پوچھاجائے (۲)اس کے اقوال وافعال پربحیثیت مجموعی نگاہ ڈال کردیکھاجائے کہ اس کے اس خاص قول یافعل کاکون سامفہوم اس کے مجموعی طرزخیال و عمل سے مناسبت رکھتا ہے اور (۳)اگراس کے قول یافعل کی اچھی اوربری دونوں تاویلیںممکن ہوںتواچھی تاویل کوترجیح دی جائے اِلاّیہ کہ بری تاویل کوترجیح دینے کے لیے قوی قرائن موجود ہوں۔ اس میںشک نہیںکہ بہت سے علمائ نے ان ضروری احتیاطوںکالحاظ کیے بغیر دوسروں پر بے تحاشا تکفیر کے فتوے جڑدیے ہیں، مگراس طرح کی غیرمحتاط تکفیرکبھی یہ نتیجہ پیدانہ کرسکی کہ جس کی تکفیرکی گئی ہو، وہ واقعی خارج ازملت قرارپاگیاہو۔صرف یہی نہیںکہ ایسے مکفرین کے دلائل کو دوسرے علمائ کے دلائل نے بے وزن کردیا، بلکہ مسلمانوںکے اجتماعی ضمیرنے تکفیر کے ان فتوئوںکوقبول نہ کیا۔تاریخ میںصرف چندہی ایسی مثالیںملتی ہیںکہ کسی فرقے کے خارج ازملت ہونے پرمسلمانوںمیںاتفاق ہواہواورایسی ہرمثال میںخروج ازملت کا اتفاق کسی ایسے کفرصریح کی وجہ سے ہواہے جس میںواقعی کسی تاویل کی گنجائش نہ تھی۔ مثلاً نصیریوں کے معاملے میں‘جوحضرت علیؓ کوخداکہتے تھے یافرقہ یزیدیہ کے معاملے میں، جواس بات کے قائل تھے کہ محمدﷺ کے بعدایک اورنبی آئے گااوراس کے آنے پر شریعت محمدیہ منسوخ ہوجائے گا۔یافرقہ میمونیہ کے معاملے میںجوسورۂ یوسف کوقرآن کی ایک سورت ماننے سے انکارکرتے تھے۔ان گنی چنی مثالوںپراب صرف ایک قادیانی گروہ کااضافہ ہوا ہے جن کی تکفیر(معنی خروج ازملت)پرتمام علمائے اسلام اورعام مسلمان متفق ہوگئے ہیںکیونکہ وہ بات ہی ایسی لے کراٹھے ہیںجس کی موجودگی میںہمارااوران کابیک وقت مسلم و مومن ہوناممکن نہیںہے۔ان کانبی اگرسچاہے توہم کافرہیںاورجھوٹاہے تووہ کافرہیں۔
(د)بلاشبہ ایک حدیث میںیہ کہاگیاہے کہ اگرکوئی شخص دوسرے شخص کوکافرکہے اور وہ درحقیقت کافرنہ ہوتوکفراسی شخص کی طرف پلٹ جائے گاجس نے اسے کافر کہا تھا مگر اس کایہ مطلب ہرگزنہیںہے کہ جوکوئی میری تکفیرکرے، میںجواب میںاس کی تکفیر کر ڈالوں۔ یہ بات نہ حدیث کے الفاظ سے نکلتی ہے اور نہ آنحضرت ﷺ کایہ منشا ہوسکتا تھا کہ جھگڑالوشخصیتوںکوتکفیربازی کے لیے ایک ہتھیارفراہم کردیں۔حدیث کامنشا صرف یہ ہے کہ تکفیر کا فتویٰ دیتے ہوئے آدمی کو ڈرنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ جس کی وہ تکفیرکررہاہووہ حقیقت میںکافرنہ ہواورخداکے ہاںالٹایہ مفتی ہی کفربانٹنے کے جرم میں پکڑاجائے۔
گواہوں کاکٹہراعلمی بحث کے لیے موزوں نہیں:
۵۔عدالت میں اسلامی ریاست اس کے نظام اس میں ذمیوں کی حیثیت ‘پاکستان میںاس کے قیام اوراسلامی قوانین کے اجرا، فقہ اورسنت میںمسلم فرقوں کے اختلافات ‘ اسلام کے قوانین جنگ اوران میںخصوصیت کے ساتھ اسیران جنگ کی حیثیت، اوراسی طرح کے دوسرے دینی وعلمی مسائل بھی باربارزیربحث آئے ہیں۔میںمحسوس کرتاہوںکہ اس نوعیت کے جتنے سوالات بھی کیے گئے ہیںان کے کافی وشافی جوابات عدالت میںنہیںدئیے جاسکتے۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایسے مسائل پربحث وگفتگوکے لیے یہ کوئی موزوںشکل نہیںہے کہ سوال کرنے والاعدالت کی کرسی پرہواورجواب دینے والا گواہوں کے کٹہرے میںان تمام حدودکی پابندی کے ساتھ کھڑایابیٹھاہوجوعدالت میںایک گواہ کے لیے مخصوص ہیں۔نیزجس منتشراورغیرمرتب طریقے سے یہ سوالات گواہوںسے کیے گئے ہیںاس کے ساتھ کسی علمی اوردینی مسئلے پربھی تشفی بخش بحث نہیںہوسکتی ۔اس کے لیے توضروری ہے کہ آدمی کے سامنے ایک ایک سوال وضاحت کے ساتھ رکھاجائے‘پھراسے موقع دیاجائے کہ اس پرایک جامع تقریرکرکے اس کے ہرگوشے پرروشنی ڈالے اورجب تک وہ مسئلہ صاف نہ ہودوسراسوال نہ چھیڑاجائے۔عدالتی جرح کے اندازمیںسوال و جواب کسی علمی مسئلے کی بحث کومفیدنتیجے پرنہیںپہنچاسکتا۔علاوہ بریںیہ بات بھی واضح نہیں ہوسکی کہ یہ مسائل اس تحقیقات میںکس مناسبت سے زیربحث آئے ہیں۔ اگر مناسبت کا پہلوواضح ہوتاتوخاص طورپران مسائل کے اسی پہلوپراچھی طرح روشنی ڈالی جاتی جس کے لحاظ سے یہ موجودہ تحقیقات سے متعلق سمجھے گئے ہیں۔بہرحال چونکہ یہ مسائل زیربحث آگئے ہیںاورعدالت کی جورودادیںاخبارات میںشائع ہوئی ان سے ان مسائل کے بارے میںبکثرت غلط فہمیاںپیداہوگئی ہیں،اس لیے میںضروری سمجھتاہوںکہ اپنے اس بیان میںان پربھی کلام کروں۔
دستوریہ میں قائداعظمؒ کی افتتاحی تقریرکاصحیح مدعا:
۶۔اصولی سوالات پربحث کرنے سے پہلے میںاس غلط فہمی کوصاف کردینا چاہتا ہوں جوقائداعظم مرحوم کی اس تقریر({ FR 6480 })سے پیداہوئی ہے جوانھوںنے ۱۱/اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی مجلس دستورسازمیںکی تھی۔اس تقریرسے تین نتیجے نکالے جاتے ہیں۔اول یہ کہ قائداعظم مرحوم نے اس تقریرمیںایک ایسی ’’پاکستانی قومیت‘‘کی بناڈالنے کااعلان کیا تھاجووطنیت پرمبنی ہواورجس میںپاکستان کے ہندو‘مسلمان ‘عیسائی وغیرہ سب ایک قوم ہوں۔دوم یہ کہ مرحوم نے اس تقریرمیںیہ فیصلہ کردیاتھاکہ پاکستان کادستورغیرمذہبی نوعیت کایعنی (secular) ہوگا۔ سوم یہ کہ مرحوم کی اس تقریرکوکوئی ایسی آئینی حیثیت حاصل ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے باشندے یااس کے دستورسازاب اس کے کھینچے ہوئے خطوط سے ہٹ نہیںسکتے ۔میرے نزدیک یہ تینوںنکات جواس تقریرسے بطورنتیجہ نکالے جاتے ہیں، صحیح نہیںہیںاوراپنی اس رائے کے لیے میرے دلائل حسب ذیل ہیں:
(الف)قائداعظم مرحوم کی اس تقریرکے الفاظ خواہ بظاہرپہلے اوردوسرے مفہوم کے حامل ہوںمگرہمارے لیے یہ باورکرنابہت مشکل ہے کہ ان کامنشابھی حقیقت میںوہی تھا جوان کے الفاظ سے مترشح ہوتاہے۔اس لیے کہ ان کے مرتبے کے انسان سے ہم یہ توقع نہیںکرسکتے کہ وہ پاکستان کے قیام سے پہلے دس سال تک جن اصولوںکوبنیادبناکر لڑتے رہے تھے ان سے وہ پاکستان قائم ہوتے ہی یک لخت پلٹ گئے ہوںگے اورانہی اصولوں کے قائل ہوگئے ہوںگے جن کے خلاف انھوںنے اپنی ساری قوم کوساتھ لے کر جنگ کی تھی۔نیزہم یہ گمان بھی نہیںکرسکتے کہ وہ قیام پاکستان کے پہلے ہی دن یکایک اپنے ان تمام وعدوںسے پھرگئے ہوںگے جوانھوںنے بارہاصاف اورصریح الفاظ میں اپنی قوم سے کیے تھے اورجن کے اعتمادہی پرقوم ان کواپنالیڈرمان کراپنی جان ومال ان کے اشاروں پرقربان کرنے کے لیے آمادہ ہوئی تھی۔پھرہمارے لیے یہ ماننابھی ممکن نہیںہے کہ قائداعظم ایسی متضادباتیںکرسکتے تھے کہ ۱۱/اگست کوایک اعلان کریں اور پھر اس کے بعد بارباراس کے بالکل خلاف باتوںکامسلمان پبلک کویقین دلاتے رہیں۔اس لیے ہمارے نزدیک ان کی مذکورۂ بالاتقریرکوان کے اگلے اورپچھلے ارشادات کی روشنی میں سمجھنا زیادہ بہتر ہے، بہ نسبت اس کے کہ ہم اس کاکوئی ایسامفہوم لیںجوان کی تمام باتوں کے خلاف پڑتاہے جوانھوںنے اس سے پہلے فرمائیںاوراس کے بعدبھی فرماتے رہے۔
(ب)سب کومعلوم ہے کہ قائداعظم کی کانگریس سے لڑائی تھی ہی دوقومی نظریے کی بنیادپر۔۱۰/اگست ۱۹۴۷ء تک ان کامستقل نظریہ یہ تھاکہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور وہ غیر مسلموںکے ساتھ مل کرایک متحدہ وطنی قومیت نہیںبناسکتے۔اس کے متعلق ان کی بہت سی تحریروںاورتقریروںمیںسے صرف ایک تحریرکااقتباس میںیہاںنقل کروںگاجوستمبر ۱۹۴۴ء میںگاندھی جی کے ساتھ اپنی خط کتابت کے سلسلے میںلکھی تھی۔({ FR 6478 })
’’ہم اس کے قائل ہیں اورہمارایہ دعویٰ ہے کہ مسلمان اورہندودوبڑی قومیںہیںجو ’’قوم‘‘کی ہرتعریف اورمعیارپرپوری اترتی ہیں۔ہم دس کروڑکی ایک قوم ہیں۔مزید برآں ہم ایک ایسی قوم ہیںجوایک مخصوص اورممتازتہذیب وتمدن ‘زبان وادب‘آرٹ اور فن تعمیر‘احساس اقدارتناسب‘قانونی احکام واخلاقی ضوابط‘رسم ورواج اورتقویم (کیلنڈر) تاریخ اور روایات‘رجحانات اورعزائم کی مالک ہے۔خلاصہ بحث یہ ہے کہ زندگی اوراس کے متعلقات کے بارے میںہمارااپناایک امتیازی زاویہ نگاہ ہے۔ اورقانون بین الاقوامی کی ہردفعہ کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں۔‘‘ (مسٹرجناح کی تقریریںاورتحریریں۔مرتبہ جمیل الدین احمد‘ص۱۸۱)
اب کیاہم یہ باورکرلیںکہ ۱۱/اگست کویک لخت وہ تمام خصوصیتیںمٹ گئیں جومسلمانوں کو غیر مسلموں سے جداکرکے ایک قوم بناتی تھیںاوریکایک ایک ایسی نئی قومیت کے اسباب فراہم ہوگئے جس میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کا جذب ہونا ممکن ہوگیا؟ اگر ہم اس بات کو مان لیں تو قائد اعظم مرحوم کو اس الزام سے نہیں بچایاجاسکتا کہ وہ ایک بااصول آدمی نہ تھے بلکہ محض سیاسی مصلحتوں کی خاطر اصول بناتے اور بدلتے تھے ۔ مرحوم کی وفات کے پانچ سال بعد ان کی روح کو ایسے الزامات کا تحفہ پیش کرنے کے لیے میں تو کسی طرح تیار نہیں ہوسکتا۔
(ج)بے شمار شہادتیں اس امر کی موجود ہیں کہ پاکستان کےقیام سےپہلےبھی قائداعظم مرحوم مسلمانوںسے ایک ریاست کاوعدہ کرتے رہے تھے اوراس کے بعدبھی وہ اس وعدے کودہراتے رہے۔پہلے کے وعدوںمیںسے صرف چندمثالیںملاحظہ ہوں۔ ۲۱/ نومبر۱۹۴۵ء کوفرنٹیئر مسلم لیگ کانفرنس میںتقریرکرتے ہوئے انھوںنے فرمایا:۔
’’مسلمان پاکستان کامطالبہ کرتے ہیںجہاںوہ خوداپنے ضابطہ حیات‘ اپنے تہذیبی ارتقا،اپنی روایات اوراسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کرسکیں‘‘۔ (حوالہ مذکور‘ص ۴۷۳)
پھراسی کانفرنس میںانھوںنے ۲۴/نومبرکوتقریرکرتے ہوئے اس خیال کااظہار فرمایا:
’’ہمارادین‘ہماری تہذیب اورہمارے اسلامی تصورات وہ اصل طاقت ہیں جو ہمیں آزادی حاصل کرنے کے لیے متحرک کرتے ہیں۔‘‘ (حوالہ مذکور‘ص ۴۲۲)
پھراسی زمانے میںاسلامیہ کالج پشاورکے طلبہ کوخطاب کرتے ہوئے انھوںنے یہ الفاظ ارشادفرمائے:
’’لیگ ہندوستان کے ان حصوںمیںآزادریاستوںکے قیام کی علم بردارہے جہاں مسلمانوںکی اکثریت ہے تاکہ وہ وہاںاسلامی قانون کے مطابق حکومت کرسکیں‘‘
(حوالہ مذکور‘ص ۴۴۶)
۱۱/اگست والی تقریرسے صرف ایک مہینہ بارہ دن پہلے ۲۹/۳۰/جون ۱۹۴۷ء کومرحوم نے سرحدکے حالات پرایک بیان دیتے ہوئے لکھا:
’’مگرخان برادران نے اپنے بیانات میںاوراخباری ملاقاتوںمیںایک اورزہر آلود شوربرپاکیاہے کہ پاکستان کی دستورسازاسمبلی شریعت کے بنیادی اصولوںاورقرآنی قوانین سے انحراف کرے گی۔یہ بات بھی قطعی طورپرغلط ہے‘‘۔
(ڈان۔۳۰/جون۱۹۴۷ء)
دوسری طرف ۱۱/اگست ۱۹۴۷ء کے بعدجوارشادات قائداعظم کی زبان سے سنے گئے اوران کے معتمدترین رفیقوںنے ان کی جوترجمانی باربارخودان کی زندگی میںکی اورجس کی کوئی تردیدان کی جانب سے نہ ہوئی اس کے چندنمونے ملاحظہ ہوں:
’’پشاور۱۴/جنوری ۔پاکستان کے وزیراعظم مسٹرلیاقت علی خان نے اتحادویک جہتی کے لیے سرحدکے لوگوںسے اپیل کرتے ہوئے قائداعظم کے ان اعلانات کا پھر اعادہ کیا کہ پاکستان ایک مکمل اسلامی ریاست ہوگا……انھوںنے فرمایاکہ پاکستان ہماری ایک تجربہ گاہ ہوگااورہم دنیاکودکھائیںگے کہ تیرہ سوبرس پرانے اسلامی اصول ابھی تک کار آمد ہیں۔‘‘ (پاکستان ٹائمز۔۱۵/جنوری ۱۹۴۸ء)
’’کراچی ۱۹۴۸/جنوری۔قائداعظم محمدعلی جناح گورنرجنرل پاکستان نے ایک اعزازی دعوت میں(جوانہیںکراچی بارایسوسی ایشن کی طرف سے گذشتہ شام دی گئی) تقریر کرتے ہوئے فرمایاکہ’’میرے لیے وہ گروہ بالکل ناقابل فہم ہے جوخواہ مخواہ شرارت پیدا کرنا چاہتا ہے اوریہ پروپیگنڈہ کررہاہے کہ پاکستان کادستورشریعت کی بناپرنہیںبنے گا‘‘۔ (پاکستان ٹائمز۔۲۷جنوری ۱۹۴۸ء)
’’راولپنڈی۵/اپریل۔مسٹرلیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان نے آج راولپنڈی میںاعلان کیاکہ پاکستان کاآئندہ دستورقرآن مجیدکے احکام پرمبنی ہوگا۔انھوںنے فرمایا کہ قائداعظم اوران کے رفقا کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کانشوونماایک ایسی مضبوط اورمثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہوجواپنے باشندوںکوعدل وانصاف کی ضمانت دے سکے‘‘۔ (پاکستان ٹائمز۔۱۷/اپریل۱۹۴۸ء)
ان صاف اورصریح بیانات کی موجودگی میںقائداعظم کی ۱۱/اگست والی تقریرکاایک ایسامفہوم نکالناجوان کے تمام اگلے پچھلے ارشادات کے خلاف ہو،مرحوم کے ساتھ انصاف نہیںہے۔
کیاقائداعظمؒ کی تقریردستوریہ کوپابندکرسکتی ہے:
(د)علاوہ بریں،اگرقائداعظم کی اس تقریرکواس کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم میںبھی لے لیاجائے توہمیںجذبات سے قطع نظرکرتے ہوئے یہ غورکرناچاہیے کہ ان کے ان ملفوظات کی آئینی حیثیت کیاہےانھوںنے یہ تقریرخواہ صدرمجلس دستورسازکی حیثیت سے کی ہویاگورنرجنرل کی حیثیت سے‘بہرحال کسی حیثیت میںبھی وہ مجلس دستورساز‘ایک شاہانہ اختیارات رکھنے والے ادارے (sovereign body)کواس امرکاپابندنہیںکرسکتے تھے کہ وہ دستورانہی خطوط پربنائے جووہ کھینچ دیں۔رہی قوم ‘تواس نے مرحوم کواس لیے اپنا لیڈرماناتھاکہ وہ اس کے قومی عزائم اورمقاصدپورے کرنے میںاس کی رہنمائی کریں‘نہ اس لیے کہ کامیابی کے پہلے ہی روزوہ اس نصب العین کی رسم تجہیزوتکفین اداکردیںجس کے لیے لاکھوںمسلمانوںنے اپنی جانیںاورعزتیںاورجائیدادیںقربان کی تھیں۔یہ بات سمجھنے کے لیے کسی بڑے غوروفکرکی ضرورت نہیںہے کہ جوبات اگست۱۹۴۷ء میںکہی گئی تھی وہ اگرکہیںمارچ ۱۹۴۰ء میںکہہ دی جاتی توپاکستان کانعرہ دس کروڑ تو کیا دس ہزار مسلمانوں کو بھی جمع نہیںکرسکتا تھا۔
اسلامی ریاست نہ تھیاکریسی ہے اورنہ مغربی طرزکی جمہوریت:
اسلامی ریاست، جس کاقیام اورفروغ ہمارانصب العین ہے، نہ تومغربی اصطلاح کے مطابق مذہبی حکومت(theocracy)ہے اورنہ جمہوری حکومت (democracy) بلکہ وہ ان دونوںکے درمیان ایک الگ نوعیت کانظام سیاست وتمدن ہے جوذہنی الجھنیںآج کل مغربی تعلیم یافتہ لوگوںکے ذہن میں’’اسلامی ریاست‘‘کے تصورکے متعلق پائی جاتی ہیںوہ دراصل ان مغربی اصطلاحات کے استعمال سے پیداہوتی ہیںجولازماًاپنے ساتھ مغربی تصورات اورپیچھے مغرب کی تاریخ کاایک پوراسلسلہ بھی ان کے ذہن کے سامنے لے آتی ہیں۔مغربی اصطلاح میںمذہبی حکومت (theocracy)دوبنیادی تصوارت کامجموعہ ہے:
(۱)خداکی بادشاہی قانونی حاکمیت(sovereignty)کے معنی میںاور (۲)پادریوںاورمذہبی پیشوائوںکاایک طبقہ جوخداکانمائندہ اورترجمان بن کرخداکی اس بادشاہی کوقانونی اورسیاسی حیثیت سے عملاًنافذکرے۔
ان دوتصورات پرایک تیسرے امرواقعی کابھی وہاںاضافہ ہواہے اوروہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام انجیل کی اخلاقی تعلیمات کے سواکوئی قانونی ہدایت نامہ چھوڑ کرنہیں گئے۔اورسینٹ پال نے شریعت کولعنت قراردے کرعیسائیوںکواحکام تورات کی پابندی سے آزادکردیا۔اب اپنی عبادات‘معاشرت‘معاملات اورسیاست وغیرہ کے لیے عیسائیوں کوقوانین واحکام کی جوضرورت پیش آئی، اسے ان کے مذہبی پیشوائوںنے اپنے خودساختہ احکام سے پوراکیااوران احکام کوخدائی احکام کی حیثیت سے منوایا۔اسلام میںاس مذہبی حکومت(theocracy)کاصرف ایک جزوآیاہے‘اوروہ ہے خداکی حاکمیت کا عقیدہ۔ اس کادوسراجزواسلام میں قطعاً نہیں ہے۔ رہاتیسراجزو‘تواس کے بجائے یہاں قرآن اپنے جامع اوروسیع احکام کے ساتھ موجودہے اوراس کی تشریح کے لیے نبی ﷺ کی ایسی قولی اورعملی ہدایات موجودہیںجن کی روایات میںسے صحیح کوغلط سے ممیزکرنے کے مستندذرائع ہمیںحاصل ہیں۔ان دومآخذسے جوکچھ ہمیںملے صرف وہی من جانب اللہ ہے۔اس کے سواکسی فقیہ‘امام ‘ولی یاعالم کایہ مرتبہ نہیںہے کہ اس کے قول وفعل کوحکم خداوندی کی حیثیت سے بے چون وچرامان لیاجائے۔اس صریح فرق کے ہوتے ہوئے اسلامی ریاست کواصطلاح میںمذہبی حکومت(theocracy)کہناقطعاًغلط ہے۔
دوسری طرف مغرب میںجس چیزکوجمہوری حکومت(democracy) کہتے ہیں وہ بھی دوبنیادی تصورات کامجموعہ ہے:
(۱)عوام کی قانونی اورسیاسی حاکمیت جوعوام کی اکثریت یاان کے منتخب کیے ہوئے نمائندوںکی اکثریت کے ذریعہ سے عملاًظہورمیںآئے اور(۲)ریاست کاانتظام کرنے والی حکومت کاعوام کی آزادانہ خواہش سے بننااوربدل سکنا۔
اسلام اس کے صرف دوسرے جزوکولیتاہے۔رہاپہلاجزوتووہ اسے دوحصوں میں تقسیم کرکے قانونی حاکمیت اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص کرتاہے جس کے احکام (خواہ وہ کتاب اللہ میںہوںیاسنت رسول اللہﷺ میں)ریاست کے لیے ناقابل تغیروتبدل قانون کی حیثیت رکھتے ہیںاورسیاسی حاکمیت کو’’حاکمیت‘‘کے بجائے’’خلافت‘‘(یعنی اللہ حاکم حقیقی کی نیابت)قراردے کرریاست کے عام مسلمان باشندوںکے حوالے کردیتاہے۔یہ خلافت مسلم عوام کی اکثریت یاان کے معتمدعلیہ نمائندوںکی اکثریت کے ذریعے سے عملاً ظہور میں آئے گی۔اس بنیادی فرق کودیکھتے ہوئے اسلامی ریاست کومغربی اصطلاح کے مطابق جمہوریت (democracy) کہنابھی کسی طرح صحیح نہیںہے۔
اسلام میں قانون سازی:
۸۔پیراگراف نمبر۷میں جوکچھ کہاگیاہے اس سے یہ بات خودبخودواضح ہوجاتی ہے کہ اسلام جس نوعیت کی ریاست بناتاہے اس میں ایک مجلس قانون ساز (legislature) کی موجودگی ضروری ہے جومسلم عوام کے معتمدعلیہ نمائندوںپرمشتمل ہواورجن کے اجماع یا اکثریت کے فیصلے دارالاسلام میںقانون کی حیثیت سے نافذہوں۔ اس مجلس (legislature) کی ترکیب،اس کے کام کاضابطہ اوراس کے ارکان کے انتخاب کاطریقہ اسلام میںمقررنہیںکیاگیاہے،اس لیے ہرزمانے کے حالات وضروریات کے لحاظ سے اس کی الگ شکلیںاختیارکی جاسکتی ہیںمگرجوباتیںاصولاًطے کردی گئی ہیں وہ یہ ہیں: (۱)ریاست کاکام مشورے سے چلایاجائے۔(۲)فیصلے یاتواجماع (اتفاق رائے)سے ہوںیاجمہور(اکثریت)کی رائے کے مطابق۔(۳)قرآن وسنت کے خلاف کوئی فیصلہ اجماع سے نہیںکیاجاسکتا۔(۴)قرآن وسنت کے احکام کی جس تعبیرپراجماعی یاجمہوری فیصلہ ہوجائے وہ ملک کاقانون قرارپائے۔(۵)جن امور میں قرآن وسنت کاکوئی حکم موجودنہ ہوان میںمسلم عوام کے نمائندے خودقانون بناسکتے ہیںاوران کااجماعی یاجمہوری فیصلہ نافذہوگا۔(۶)اس امرکاکوئی موزوںانتظام ہونا چاہیے کہ افرادریاست کے درمیان یاحکومت کے مختلف شعبوںاوراجزا کے درمیان جونزاع بھی ہواس کافیصلہ کتاب اللہ، سنت رسول اللہﷺ کی روشنی میںکیاجاسکے۔
اسلامی ریاست کے مطالبے کے حق میں معقول وجوہ موجودہیں:
۹۔پاکستان کواس طرح کی ایک ریاست بنانے کے لیے ہمارامطالبہ بہت سے معقول وجوہ پرمبنی ہے جن میںسے اہم ترین وجوہ تین ہیں:ایک یہ کہ یہ عین ہمارے ایمان کا تقاضا ہے اورہم ہرگزاپنے ایمان میںمخلص نہیںہوسکتےاگرآزادی اور اختیارات پانے کے بعدبھی ہم اُس رسولﷺ کے احکام کونافذنہ کریںجس کے برحق ہونے پرہم ایمان رکھتے ہیں۔دوسرے یہ کہ پاکستان کے قیام کامطالبہ ہی اس لیے گیا تھاکہ یہاںایک اسلامی ریاست قائم کی جائے جس میںخدااوررسولﷺ کے احکام جاری ہوں اوراسی تمناکے پیچھے لاکھوںمسلمانوںنے اپنی جانیںاورعزتیںاورجائیدادیںقربان کیں۔ تیسرے یہ کہ پاکستان کے باشندوںکی عظیم الشان اکثریت چاہتی ہے کہ ان کی قومی ریاست ایک اسلامی ریاست ہواوراکثریت کی مرضی کوبہرحال نافذہوناچاہیے۔اس میں شک نہیںکہ یہاںکچھ تھوڑے سے لوگ ایسے ضرورموجودہیںجومغربی تہذیب وتمدن اوراس کے نظریات کوبرحق سمجھتے ہیںاوران کے لیے اسلامی ریاست کے تخیل سے اپنے ذہن کو مانوس کرنامشکل ہورہاہے،نیزپاکستان کی ملازمتوںمیںبھی ایک اچھی خاصی تعدادایسے لوگوںکی موجودہے جن کی ساری ذہنی وعملی تربیت مغربی طرزکانظام حکومت چلانے ہی کے لیے ہوئی ہے اورانہیںاسلامی ریاست کانظام آتے دیکھ کرطرح طرح کے خدشات لاحق ہورہے ہیں،مگران کے لیے مناسب یہی ہے کہ جوچیزہونی اورشدنی ہے، اس کے ساتھ اپنے آپ کومطابق بنائیںجس طرح ان کے بزرگوںنے انگریزی دورکی آمدپراپنے آپ کونئے دورکے مطابق بنایاتھا۔ان میںاکثرلوگ ایسے ہیںجواپنے آپ کوجمہوریت کا بڑا شیدائی ظاہرکرتے ہیں۔اب یہ سوچناان کااپناکام ہے کہ چند لوگوں یاخاندانوںکی سہولت کی خاطرایک ایسی چیزکی مزاحمت کرناکہاںتک صحیح ہے جسے باشندگان ملک کی اکثریت چاہتی ہو۔
اسلامی ریاست میں ذمیوں کی حیثیت:
۱۰۔اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کی حیثیت کے متعلق عدالت میں جوسوالات چھیڑے گئے ہیں،ان کے جوابات سلسلہ وارحسب ذیل ہیں:
(الف)اسلامی ریاست کی غیرمسلم رعایاکواسلامی اصطلاح میں’’ذمی‘‘ کہا جاتا ہے۔ ذمی کوئی گالی نہیںہے اورنہ یہ لفظ شودراورملیچھ کاہم معنی ہے۔ذمہ عربی زبان میں (guarantee)کوکہتے ہیںاورذمی وہ شخص ہے جس کے حقوق اداکرنے اورمحفوظ رکھنے کا اسلامی حکومت نے ذمہ لیاہو۔اسلامی حکومت یہ ذمہ محض اپنی طرف سے یامسلم باشندوں کی طرف سے نہیںبلکہ خدااوررسولﷺ کی طرف سے لیتی ہے اوراس کی اہمیت اس درجے کی ہے کہ اگرکسی غیرمسلم حکومت میںمسلمانوںکاقتل عام بھی کرڈالاجائے توہم انتقاماً اپنے ملک میںاس کے ہم مذہب ذمیوںکابال تک بیکانہیںکرسکتے۔ایک اسلامی حکومت میںکوئی پارلیمنٹ ان کے شرعی حقوق غصب کرنے کی سرے سے مجازہی نہیںہے۔
(ب)ذمیوںکی تین قسمیںہیں:اول وہ جوکسی معاہدے کے ذریعہ سے اسلامی حکومت کے تابع ہوئے ہوں۔دوم وہ جوبزورشمشیرفتح ہوئے ہوں۔سوم وہ جونہ مفتوح ہوںاورنہ جن سے کوئی باقاعدہ معاہدہ ہی ہواہو۔پہلی قسم کے ذمیوںسے اس معاہدے کے مطابق برتائوکیاجائے گاجوان سے طے کیاگیاہو۔دوسری قسم کے ذمیوںکووہ حقوق دئیے جائیںگے جوشریعت میںاہل ذمہ کے لیے مقررکیے گئے ہیں۔رہے تیسری قسم کے ذمی، توانہیں بہرحال دوسری قسم والوںکے حقوق تودئیے ہی جائیںگے،اورمزیدایسے حقوق بھی ہم ان کودے سکتے ہیںجواسلامی اصولوںسے نہ ٹکراتے ہوں اور جنھیں دیناہم اپنے حالات کے لحاظ سے مناسب سمجھیں۔
(ج)ذمیوںکے کم سے کم حقوق جوشریعت میںمقررکیے گئے ہیں‘یہ ہیں:مذہب کی پوری آزادی ‘مذہبی تعلیم کی اجازت‘مذہبی لٹریچرطبع اورشائع کرنے کی اجازت‘قانون کے حدودمیںمذہبی بحث کی آزادی،معابدکی حفاظت،پرسنل لاکی حفاظت،جان ومال اور عزت کی حفاظت‘دیوانی اورفوجداری قوانین میںمسلمانوںکے ساتھ پوری مساوات، حکومت کے عام برتائومیںذمی اورمسلم رعایاکے درمیان عدم امتیاز۔معاشی کاروبارکے ہر میدان میںمسلمانوںکی طرح یکساںمواقع، حاجت ہونے کی صورت میںمسلمان کی طرح ذمی کابھی بیت المال سے مددپانے کااستحقاق۔یہ حقوق اسلامی ریاست صرف کاغذ ہی پرنہیںدیتی بلکہ وہ اپنے دین وایمان کی روسے عملاًانہیںاداکرنے پر مجبور ہے۔قطع نظر اس سے کہ غیرمسلم ریاستیںمسلمانوںکو کاغذپرکیاحقوق دیتی ہیں اور عملاً کیا۔
(د)ذمیوںکوصرف امصارمسلمین میںنئے معابدبنانے سے روکاگیاہے البتہ اگر ان کے پرانے معابدوہاںموجودہوںتووہ ان کی حفاظت اورمرمت کرسکتے ہیں۔اب امصار مسلمین سے مرادوہ شہرہیںجومسلمانوںنے خاص اپنے لیے آبادکیے ہوں‘جیسے کوفہ اوربصرہ اورفسطاط۔باقی رہے ملک کے دوسرے شہراورقصبے اوردیہات ‘توان کو وہاں نئے معابد تعمیر کرنے اورپرانے معابدکی مرمت کرنے کی پوری آزادی ہوگی۔
(ہ)ذمیوں پر لباس وغیرہ کے متعلق جن قیودکاذکربعض فقہی کتابوںمیںکیاگیاہے اس سے کسی قسم کی غلط فہمی نہ ہونی چاہیے۔دراصل یہ تین قسم کی قیودتھیںجوپہلی دوسری صدی ہجری کے فقہائ نے حالات وضروریات کے لحاظ سے عائدکی تھیں:
پہلی قسم کی قیودوہ تھیںجن میںذمیوںکوفوجی وردی استعمال کرنے سے روکا گیا تھا۔ مسلمانوںکواس چیزسے اس لیے نہیںروکاگیاکہ ہربالغ مسلمان مردکے لیے اس وقت فوجی خدمت لازمی تھی اورذمی اس سے مستثنیٰ تھے۔
دوسری قسم کی قیودوہ تھیںجن میںمسلمانوںکوغیرمسلموںکے اورغیرمسلموںکو مسلمانوںکے مشابہ بننے سے روکاگیاتھا‘کیونکہ اس طرح کے تشبہ میںبہت سی قباحتیں ہیں۔ اس میںاندیشہ ہے کہ مختلف تہذبیوںکے مصنوعی اختلاط سے ایک دوغلی تہذیب پیدا ہوجائے گی۔اس میںیہ بھی اندیشہ ہے کہ مسلمانوںکے سیاسی غلبے سے مرعوب ہوکر غیرمسلموںمیںوہ غلامانہ خصوصیات پیداہوجائیںگی جن کی وجہ سے مغلوب قوم اپنے لباس اور اپنی معاشرت میںغالب قوم کی نقل اتارنے لگتی ہے۔اسلام اس طرح کی ذہنیت کوکسی کافرمیںبھی پرورش ہوتے نہیںدیکھناچاہتا۔اسی لیے غیرمسلموںکوحکم دیاگیاکہ وہ اپنی تہذیب ومعاشرت اوراپنے مذہب کی خصوصیات کومحفوظ رکھیںاورمسلمانوںکی ریس نہ کریں۔چنانچہ فقہ حنفی کی مشہورکتاب بدائع الصنائع میںیہ حکم ان الفاظ میںبیان ہواہے:
ان اھل الذمۃ یوخذون باظھارعلامات یعرفون بھاولایترکون یتشبھون بالمسلمین فی لباسھم: (جلد۷‘ص۱۱۱)
اہل ذمہ کوایسی علامت اورنشانیاںرکھنے کاپابندکیاجائے گاجن سے وہ پہچانے جائیں اوران کواپنے لباس میںمسلمانوںکے مشابہ بننے سے روکاجائے گا۔
علاوہ بریںاس میںقانونی پیچیدگیاںپیداہونے کابھی اندیشہ ہے۔مثلاً مسلمانوں کے لیے شراب پینا‘رکھنااوربیچنافوجداری جرم ہے اورذمیوںکے لیے یہ جرم نہیں ہے۔ اب اگرایک مسلمان ذمیوںکے مشابہ لباس پہنے تووہ پولیس کے مواخذہ سے بچ سکتا ہے اور اگرایک ذمی مسلمانوںکے مشابہ بن کررہے تووہ پولیس کی گرفت میںآسکتا ہے۔تیسری قسم کی قیوداس وقت کے مخصوص حالات کی وجہ سے عائدکی گئی تھیں۔اس وقت سندھ سے لے کراسپین تک بہت سے ممالک مسلمانوںکی تلوارسے مفتوح ہوئے تھے اورقدرتی طور پر ان سب ملکوںکی آبادی میںسابق حکمران طبقوںکے ایسے کثیرالتعدادلوگ موجودتھے جن میںاپناکھویاہوااقتدارواپس لینے کادم داعیہ تھا۔مسلمانوںنے دنیاکے دوسرے فاتحین کی طرح ان طبقوںکوتہ تیغ نہیںکیاتھا، بلکہ ذمی بناکرمحفوظ ومامون کردیاتھا۔مگربہرحال سیاسی مصالح کی بناپران کوکچھ نہ کچھ دباکررکھناضروری تھاتاکہ وہ پھرسراٹھانے کی ہمت نہ کریں۔اس لیے ان کواپنی سواریوںاوراپنے لباس اوردوسرے لوازم معاشرت میںوہ شان دکھانے سے روک دیاگیاجس سے ان کے دورحکمرانی کی یادتازہ ہوتی ہو۔اس طرح کے احکام وقتی تھے نہ کہ ابدی اوریہ احکام چاہے فقہ کی کتابوںہی میںلکھے گئے ہوں مگر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمام اہل ذمہ پران کوچسپاںنہیںکیاجاسکتا۔
(و)اسلامی حکومت میںکوئی غیرمسلم صدرریاست‘وزیر‘سپہ سالار‘قاضی اورایسے کلیدی مناصب کاحامل نہیںبن سکتاجہاںوہ حکومت کی پالیسی میںحصہ دارہوسکے۔اس کی وجہ کوئی تعصب نہیںہے بلکہ اس کی صاف اورسیدھی وجہ یہ ہے کہ اسلامی حکومت ایک نظریے کواچھی طرح سمجھتاہواوراس کی صحت وصداقت پرایمان رکھتاہو۔اسلامی حکومت چونکہ خلوص اورایمان داری پرقائم ہوتی ہے اس لیے وہ اپنی غیرمسلم رعایامیںبھاڑے کے ٹٹوئوںکی سی ذہنیت(mercenary spirit)پیداکرناپسندنہیںکرتی۔اس کے برعکس وہ ان سے کہتی ہے کہ اگرتم ہمارے نظریے اوراصولوںکوصحیح سمجھتے ہوتوان کی صداقت کاعلانیہ اقرارکرو‘تمہارے لیے حکمران جماعت میںشامل ہونے کے مواقع کھلے ہوئے ہیں۔ اور اگر تم ان کی صداقت پرایمان نہیںرکھتے تومحض پیٹ اورجاہ طلبی کی خاطراس نظام کوچلانے اورفروغ دینے کے لیے نہ آئوجسے عقیدتاًتم غلط سمجھتے ہو۔
(س)ہمارے لیے یہ سوال قطعاًکوئی اہمیت نہیںرکھتاکہ غیرمسلم حکومتیںاپنے دائرہ اقتدارمیںمسلمانوںکے ساتھ کیاسلوک کرتی ہیںاورکیانہیںکرتیں۔ہم جس چیزکوحق سمجھتے ہیںاس پراپنے ملک میںعمل کریںگے اوردوسرے جس چیزکوحق سمجھیںاسے عمل میں لانے کے لیے وہ آزادہیں۔آخرکارہمارااوران کامجموعی طرزعمل دنیاکی رائے عامہ کے سامنے واضح کردے گاکہ ہم کیاہیںاوروہ کیا۔ہم بہرحال یہ مکاری نہیںکرسکتے کہ اپنے دستورکے صفحات پرغیرمسلموںکوسارے نمائشی حقوق دے دیںمگرعملاًان کی وہ حالت بنا کررکھیںجوہندوستان میںمسلمانوںکی‘امریکہ میںجشیوںاورریڈانڈین قبائل کی اور روس میں غیراشتراکی لوگوںکی ہے۔رہایہ سوال کہ کیاایسی حالت میںغیرمسلم اقلیتیںاسلامی حکومت کی وفاداربن کررہ سکیںگی؟تواس کاجواب یہ ہے کہ وفاداری اورناوفاداری دستور کے چند لفظوںسے پیدانہیںہوتی بلکہ اس مجموعی برتائوسے پیداہوتی ہے جوحکومت اور اکثریت اپنی زیراثراقلیتوںکے ساتھ عملاًاختیارکرے۔
مرتدکی سزااسلام میں:
۱۱۔عدالت میں مرتدکی سزاکامسئلہ بھی چھیڑاگیاہے ۔اس کاجواب یہ ہے کہ اسلام میںمرتدکی انتہائی سزاقتل ہے۔اگرکوئی کہناچاہے کہ ایسانہ ہوناچاہے تویہ بات کہنے کااسے اختیارہے لیکن اگروہ کہتاہے کہ اسلام میںفی الواقع ایساکوئی قانون نہیںہے‘تووہ یاتواسلامی قانون سے ناواقف ہے یاپھر’’شماتت ہمسایہ‘‘سے شرماکراپنے دین کے ایک حکم پرپردہ ڈالتاہے۔اسلام کے اس قانون کوسمجھنے میںلوگوںکوجوالجھنیںپیش آتی ہیں، ان کے کئی وجودہ ہیں:
اول یہ کہ وہ اسلام بحیثیت مذہب اوراسلام بحیثیت ریاست کافرق نہیںسمجھتے اور ایک کاحکم دوسرے پرچسپاںکرنے لگتے ہیں، حالانکہ ان دونوںحیثیتوںاوران کے احکام میں فرق ہے۔
دوم یہ کہ وہ موجودہ حالات کونگاہ میںرکھ کراس حکم پرغورکرتے ہیںجب کہ غیرمسلم حکومتوںہی میںنہیں‘خودمسلمانوںکی اپنی حکومتوںمیںبھی غیراسلامی تعلیم اورغیراسلامی تہذیب کے غلبے سے مسلمانوںکی نئی نسلوںمیںبکثرت لوگ گمراہ ہوکراٹھ رہے ہیں۔ حالانکہ اگرایک صحیح اسلامی حکومت موجودہوتواس کااولیںفرض یہ ہے کہ وہ ان تمام اسباب کا سدباب کرے جن سے کوئی مسلمان واقعی اسلام سے غیرمطمئن اورارتدادپرآمادہ ہو سکتا ہو۔ جہاںاسلامی حکومت اپنے حقیقی فرائض انجام دے رہی ہو ‘وہاں تو غیرمسلموںکاکفرپر مطمئن رہنابھی مشکل ہے‘کجاکہ ایک مسلمان الٹااسلام سے غیرمطمئن ہو جائے۔
سوم یہ کہ وہ اس بات کوبھول جاتے ہیںکہ مسلم سوسائٹی ہی وہ چٹان ہے جس پراسلامی ریاست کاقصرتعمیرہوتاہے اوراسی چٹان کے استحکام پرریاست کے استحکام کا پورا انحصار ہے۔آخردنیامیںوہ کون سی ریاست ہے جواپنے اندراپنی تخریب کے اسباب و وسائل کو پرورش کرنایاگواراہی کرناپسندکرتی ہو؟ہم اپنی حدتک اپنی ریاست کی بنیادی چٹان کے ہرذرے کوچٹان سے بدل وجان وابستہ رکھنے کی پوری کوشش کریںگے۔پھربھی اگرکوئی ذرہ ایسانکل آئے جوعلیحدگی کوہی ترجیح دیتاہوتوہم اس سے کہیںگے کہ تمہیںعلیحدہ ہوناہے تو ہمارے حدودسے باہرنکل جائو، ورنہ یہاںہم تمہیںدوسرے ذروںکی پراگندگی کاسبب بننے کے لیے آزادنہ چھوڑیںگے۔
چہارم یہ کہ وہ اس غلط فہمی میںہیںکہ ہرقسم کے مرتدکوہرحال میںضرورقتل ہی کیا جائے گا۔حالانکہ ایک جرم کی انتہائی سزاشدیدترین نوعیت جرم پردی جاتی ہے نہ کہ مجردجرم پر۔ایک شخص عقائدکی حدتک اسلام سے منحرف ہوکررہ جاتاہے۔دوسراشخص اسلام کو اعلانیہ چھوڑکرکسی دوسرے مذہب میںجاملتاہے۔تیسراشخص مرتدہونے کے بعداسلام کی مخالفت میںعملی سرگرمیاںدکھانے لگتاہے۔کیسے تصورکیاجاسکتاہے کہ اسلامی قانون اس طرح کے تمام مختلف آدمیوںکوہرحال میںایک ہی نگاہ سے دیکھے گا؟
اسلامی قانون جنگ اورغلامی:
۱۲۔اسلامی قانون جنگ اورخصوصاًغلامی کے مسئلے پربھی عدالت میںکچھ سوالات کیے گئے ہیں۔اس سلسلے میںیہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام کاقانون جنگ حقیقت میں ایک قانون ہے جس پراسلامی ریاست میںلازماًعمل کیاجائے گا،قطع نظراس سے کہ دوسری قومیں‘جن سے ہماری جنگ ہو‘اس کے مقررکردہ قواعداورحدودکوملحوظ رکھیںیانہ رکھیں۔اس کے برعکس جس چیزکوبین الاقوامی قانون جنگ کہتے ہیںوہ حقیقت میں قانون نہیںہے بلکہ بین الاقوامی راضی ناموںکاایک مجموعہ ہے جس کے قواعداورحدودکی پابندی ہرقوم نے اس امیداورسمجھوتے پرقبول کی ہے کہ دوسری قومیںبھی جنگ میںانہیںملحوظ رکھیں گی۔اسلام نے ہمیںجنگ کے چندکم سے کم حدود تہذیب واخلاق کاتوپابند کر دیا ہے جنھیں اگر دوسرے توڑبھی دیںتوہم بہرحال نہیںتوڑسکتے اوران سے زائد اگرکچھ مزید مہذب قوانین پر دوسری قومیںراضی ہوںتوہم نہ صرف یہ کہ ان کے ساتھ ایسے سمجھوتے کرنے کے لیے آزادہیں، بلکہ ان سب سے بڑھ کریہ ہمارامنصب ہے کہ انہیں جنگ میںمزید تہذیب اختیار کرنے کی ترغیب دیں۔مثال کے طورپرغلامی ہی کے مسئلے کولے لیجیے۔اسلام نے اس کی اجازت اس حالت میںدی ہے جب کہ دشمن نہ تبادلہ اسیران جنگ پرراضی ہواورنہ فدیے کے عوض اپنے قیدی چھڑانااورہمارے قیدی چھوڑناقبول کرے۔ اس صورت میںاسلام نے قیدیوںکوجیلوںاوراجتماعی کیمپوںمیںرکھ کرجبری محنت لینا پسند نہ کیابلکہ انہیںافرادمیںتقسیم کردینے کوترجیح دی تاکہ ان کامسلمانوں میں جذب ہو جانا زیادہ آسانی کے ساتھ ممکن ہو۔یہ صحیح ہے کہ اس زمانے میںدنیاکے دوسرے ممالک بھی قیدیوںکوغلام ہی بناکررکھتے تھے اورغلامی کالفظ ہمارے اوران کے درمیان ضرورمشترک تھا مگر جہاں تک غلامی کی حقیقت کاتعلق ہے‘اسے جس طرح اسلام نے بدلا‘اس کی نظیردنیا میں نہیں ملتی۔ آخروہ دنیاکی کون سی قوم ہے جس میںاس کثرت سے غلام اورغلا م زادے امامت اور قضا اورسپہ سالاری اورامارت وفرمانروائی کے مرتبوںپرپہنچے ہوں؟یہ تووہ کم سے کم تہذیب وانسانیت کی حدتھی جس پراسلامی قانون نے ہمیںقائم کیا۔اب اگردنیاکی قومیں تبادلہ اسیران جنگ کاقاعدہ قبول کرچکی ہیںتواسلام میںکوئی چیزاس کاخیرمقدم کرنے سے ہم کو نہیںروکتی۔ہمارے لیے تویہ خوشی کامقام ہے کہ دنیابالآخراس بات پرراضی ہوگئی جس پرہم صدیوںپہلے اسے راضی کرناچاہتے تھے۔
اسلام اورفنون لطیفہ:
۱۳۔یہ سوال بھی اٹھایاگیاہے کہ اسلامی حکومت میںآرٹ کاکیاحشرہوگا؟اوراس سلسلہ میںتصور‘ڈرامے‘موسیقی‘سینمااورمجسموںکاخاص طورپرنام لیاگیاہے۔میںاس سوال کایہ مختصرجواب دوںگاکہ آرٹ توانسانی فطرت کی ایک پیدائشی امنگ ہے جسے خود خالق فطرت نے اپنے ہرکام میںملحوظ رکھاہے،اس لیے بجائے خوداس کے ناجائزیاممنوع ہونے کاکوئی سوال پیدانہیںہوتا۔مگرآرٹ کے مظاہرلازماًوہی نہیںہیںجواس وقت مغربی تہذیب میںپائے جاتے ہیںبلکہ ہرتہذیب اپنے اصول اورنظریات اوررجحانات کے مطابق فطرت کی اس امنگ کااظہارمختلف جاموںمیںکرتی ہے۔اوردوسری تہذیبوںکے اختیارکردہ جاموںکے جوازوعدم جوازکافیصلہ کیاکرتی ہے۔آخریہ کیوںفرض کرلیاگیاہے کہ’’آرٹ‘‘بس اسی چیزکانام ہے جومغرب سے درآمدہورہی ہے اوراگراس پرکسی قسم کی پابندیاں عائدکی گئیںتوبجائے خودآرٹ ہی کاخاتمہ ہوجائے گا۔اسلام آرٹ کے متعلق خود اپنا ایک نظریہ رکھتاہے۔وہ فطرت کی اس امنگ کوبت پرستی اورشہوانیت کی راہوں پر جانے سے روکتاہے اوراس کے ظہورکے لیے دوسرے راستے دکھاتاہے۔اس کی حکومت میں لازماً اس کااپناہی نظریہ فرماںرواہوگا‘مغربی تہذیب کے نظریات کی فرماںروائی بہرحال جاری نہ رہ سکے گی۔
فقہی اختلافات اسلامی ریاست کے قیام میں حائل نہیں:
۱۴۔یہ سوال بھی چھیڑاگیاہے کہ مسلمان فرقوںکے درمیان اعتقادی اورفقہی اختلافات کی کیانوعیت ہے اوریہ کہ جب ان کے درمیان بنیادی امورمیںبھی اتفاق نہیں ہے،حتیٰ کہ’’سنت‘‘تک شیعوںاورسنیوں میںمتفق علیہ نہیںہے توایک اسلامی ریاست کا نظام کیسے چل سکتاہے؟اس سوال کے جواب میںمیرے نزدیک صرف اتنی تصریح کافی ہے کہ پاکستان میںہم کوروایتی ۷۳فرقوںسے عملاًکوئی سابقہ درپیش نہیںہے اورہرنیاخیال جسے کسی شخص نے کسی اخباریارسالے میںپیش کیاہواورکچھ منتشرلوگوںنے قبول کرلیاہو، کوئی قابل ذکرفرقہ نہیںبنادیتا۔ہمارے ملک میںبالفعل صرف تین فرقے پائے جاتے ہیں: (۱)حنفی‘جودیوبندیوںاوربریلویوںمیںتقسیم ہونے کے باوجودفقہ میںمتفق ہیں۔ (۲)اہل حدیث اور(۳)شیعہ۔ان تین فرقوںکے اختلافات عملاًایک اسلامی ریاست کا نظام بننے اورچلنے میںکوئی مشکل پیدانہیںکرتے۔اگریہ اصول مان لیاجائے کہ پرسنل لا، مذہبی رسوم وعبادات اور مذہبی تعلیم کی حدتک ہرفرقے کامسلک دوسرے فرقے کی مداخلت سے محفوظ رہے گااورملک کاانتظام ان قواعداورقوانین کے مطابق چلے گاجو پارلیمنٹ کی اکثریت طے کرے۔اس سلسلے میںمناسب معلوم ہوتاہے کہ میں’’۷۳ فرقوں‘‘ کے اس افسانے کی حقیقت بھی کھول دوںجس سے خواہ مخواہ ناواقف لوگ اپنے ذہن کوبھی الجھاتے ہیںاوردوسروںکے ذہنوںمیںبھی الجھنیںپیداکرتے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ مسلمان فرقوں کی وہ کثیرتعدادجس کاذکرکتابوںمیںملتاہے‘اس کابہت بڑاحصہ کاغذی وجودکے سوانہ پہلے کوئی وجودرکھتاتھااورنہ اب رکھتاہے۔جس شخص نے بھی کوئی نرالاخیال پیش کیااوراس کے سو پچاس حامی پیداہوگئے اسے ہمارے مصنفین نے ایک فرقہ شمارکرلیا۔اس طرح کے فرقوں کے علاوہ ایک معتدبہ تعدادایسے فرقوںکی بھی ہے جو گذشتہ تیرہ سوبرس کی مدت میں بھی ہوئے اورمٹ بھی گئے۔اب دنیا میں مسلمانوںکے بمشکل ۶/۷فرقے باقی ہیں جنہیں اصولی اختلافات کی بنا پر مستقل فرقہ کہاجاسکتاہے اور جو اپنی تعدادکے لحاظ سے قابل ذکر ہیں۔ان میںبھی بعض فرقے بہت قلیل التعداد ہیں اور یا تو خاص علاقوںمیںمجتمع ہیں یا دنیابھرمیںاس طرح منتشرہیںکہ کہیںبھی کوئی قابلِ لحاظ آبادی نہیںہے۔دنیامیںبڑے مسلم فرقے صرف دوہی ہیں۔ایک سنی‘دوسرے شیعہ۔ ان میںسے امت کاسواداعظم سنیوںپرمشتمل ہے اوران کے ضمنی فرقوںمیںسے کوئی بھی ایسا نہیںہے جوحقیقتاً دوسرے سنی فرقوںسے کوئی اصولی اختلاف رکھتاہو۔یہ صرف مذاہب فکر (school of thought) ہیںجن کومناظرہ بازیوںنے خواہ مخواہ فرقوںکی شکل دے رکھی ہے۔اگرکوئی عملی سیاست دان دنیاکے کسی ملک میںاسلامی حکومت قائم کرنا چاہے توان اختلافات کی موجودگی کہیںبھی سدراہ نہیںہوسکتی۔
جماعت اسلامی اورڈائریکٹ ایکشن:
۱۵۔اب میںان حالات کوکسی قدرتفصیل کے ساتھ بیان کروںگاجوڈائریکٹ ایکشن اورمخالف احمدیت تحریک کے سلسلے میںبراہ راست مجھ سے متعلق ہیں۔میںنے اپنے ۲۹/جوالائی کے بیان میںاس قدرزیادہ تفصیلات پیش کرناغیرضروری سمجھا تھا مگر اب جوشہادتیںآپ کی عدالت میںپیش ہوئی ہیںان میںبکثرت باتیںخلاف واقعہ ہیں، اس لیے میںضرورت محسوس کرتاہوںکہ صحیح واقعات پوری وضاحت کے ساتھ تحریرکردوں۔
۱۶۔کنونشن کی سبجکٹس کمیٹی میں(جس کااجلاس ۱۶ / اور ۱۷یا۱۷ / اور ۱۸جنوری ۱۹۵۳ء کی درمیانی شب کوہواتھا)میری یہ تجویزکافی بحث کے بعدبالاتفاق پاس ہوئی تھی کہ قادیانیت کے بارے میںکوئی الگ جدوجہدنہ کی جائے بلکہ اس معاملے کو اس جدو جہد میںضم کر دیا جائے جوبی۔پی۔سی رپورٹ کی اصلاح کے لیے کی جانے والی ہے۔یہ فیصلہ اس وقت لکھ لیا گیاتھااورطے ہواتھاکہ دوسرے دن یہی تجویز سبجکٹس کمیٹی کی طرف سے کنونشن میںپیش کی جائے گی۔کم ازکم میرے سامنے کسی شخص نے اس فیصلے کے تحریر کیے جانے کے وقت اظہار اختلاف نہیںکیا۔
۱۷۔دوسرے روزغالباً۱۸ / جنوری کوجب میںکنونشن کے اجلاس میں پہنچا تو میرے بیٹھتے ہی صاحب صدرمولاناابوالحسنات نے اپنایہ فیصلہ سنایاکہ’’یہ کنونشن صرف تحفظ ختم نبوت کے لیے بلائی گئی ہے‘یہاںکوئی دوسرامسئلہ حتیٰ کہ اسلامی دستورکامسئلہ بھی نہیں چھیڑا جاسکتا۔‘‘اس کے بعدفوراًتاج الدین انصاری صاحب اٹھے اورانھوںنے ایک لکھا لکھایا ریزولیوشن پڑھناشروع کردیاجس میںوزیراعظم کے پاس وفدبھیجنے اور ان کومطالبات تسلیم کرنے کے لیے ایک مہینے کانوٹس دینے اورعدم تسلیم کی صورت میںڈائریکٹ ایکشن شروع کردینے کی تجویزدرج تھی۔مجھے اس وقت قطعاًیہ معلوم نہیںہواکہ میرے آنے سے پہلے ہی سبجکٹس کمیٹی کی طے کردہ تجویزکنونشن میں پیش بھی ہوچکی ہے اورردبھی کی جاچکی ہے۔یہ بات ایک مدت درازکے بعدمجھے اب معلوم ہوئی ہے۔بعض گواہوںنے غالباًصحیح واقعہ یادنہ ہونے کی وجہ سے یہ کہہ دیاہے کہ سبجکٹس کمیٹی کافیصلہ خودمیںنے کنونشن میںپیش کیاتھا۔واقعہ یہ ہے کہ سب کنونشن کے سامنے سرے سے وہ دلائل آئے ہی نہیں جو میںاس فیصلے کے حق میںرکھتاتھااورمجھے شبہ ہے کہ سبجکٹس کمیٹی کے جوارکان وہاں موجود تھے ‘انھوںنے بھی کنونشن کویہ بتانے کی کوشش نہیںکی کہ رات سبجکٹس کمیٹی کن وجوہ سے اس فیصلے پرپہنچی تھی۔میری غیرموجودگی میںیہ ایک لاوارث تجویزتھی جو حاضرین کے سامنے پیش کی گی اور مولانا عبدالحلیم قاسمی کی شہادت کے مطابق شوروہنگامہ میں ردکردی گئی۔
۱۸۔ڈائریکٹ ایکشن کاریزولیوشن جب پیش ہوااس وقت میرافوری ردعمل یہ تھاکہ اٹھ کراس کی مخالفت کروںاوراگریہ لوگ نہ مانیںتوکنونشن سے اپنی اور جماعت اسلامی کی علیحدگی کااعلان کردوں۔چنانچہ اسی نیت سے میںنے تقریرکی اجازت کے لیے صدرکوایک چٹ لکھ کربھی دے دی تھی لیکن مزیدغورکرنے کے بعدمیںاس نتیجہ پرپہنچاکہ علیحدگی اختیارکرکے میںاپنادامن توایک غلط اورنقصان دہ کارروائی کی ذمہ داری سے بچالوں گا مگر ملک کو، اورخصوصاًپنجاب کے مسلمانوںکوان نقصانات سے نہ بچا سکوں گا جو اس اقدام سے پہنچنے یقینی تھے۔اس لیے میںنے اپنی رائے بدل دی اوربراہ راست اس ریزولیوشن کی مخالفت کرنے کے بجائے یہ تجویزپیش کی کہ ایک مرکزی مجلس عمل بنائی جائے جوکنونشن کی شریک جماعتوںکے ذمہ دارلیڈروںپرمشتمل ہواوریہ پوری تحریک کلیتہً اسی مجلس کی رہنمائی میںچلائی جائے‘اس کے سواکسی اورکواس سلسلے میںکوئی پروگرام بنانے یا کارروائی کرنے کااختیارنہ ہو۔اس تجویزسے میرامقصدیہ تھاکہ معاملہ جب چندذمہ دار لیڈروںکے ہاتھ میںدیاجائے گاتوان کووہ نشیب وفرازاچھی طرح سمجھائے جاسکیںگے جو اس وقت کنونشن کے حاضرین نہیںسمجھ سکتے اوربہرحال اس طرح کی ایک مجلس اندھا دھند کارروائیاں کرنے پرآمادہ نہ ہوگی۔میری یہ تجویزوہاںمان لی گئی اورجہاںتک مجھے یاد ہے حسب ذیل آٹھ ارکان اسی وقت مرکزی مجلس کے رکن منتخب ہوگئے ۔ مولاناابوالحسنات صاحب، مولانا احتشام الحق صاحب‘مولانامحمداسماعیل صاحب (گوجرانوالہ)‘ حافظ کفایت حسین صاحب‘ ابوالاعلیٰ مودودی‘ پیرصاحب سرسینہ شریف ‘مولاناعطاء اللہ بخاری اورماسٹر تاج الدین انصاری۔ان آٹھ ارکان کویہ اختیاردیاگیاکہ اپنے ساتھ سات مزید ارکان کوشامل کرکے مجلس کی ترکیب مکمل کرلیں۔ارکان کے اس انتخاب کے بعدکنونشن نمازمغرب سے کچھ پہلے برخاست ہوگیا۔
۱۹۔۱۸ / جنوری کی رات کواگرمرکزی مجلس عمل کے کچھ ارکان کہیںجمع ہوئے اور انھوںنے کچھ فیصلے کیے تونہ ان کے اس اجتماع کومرکزی مجلس کااجلاس کہاجاسکتاہے اور نہ ان کے یہ فیصلے مجلس کے باضابطہ فیصلے کہے جاسکتے ہیں۔اس لیے کہ اس اجلاس کی کوئی اطلاع مجھے اورمجلس کے بعض دوسرے ارکان کونہیںدی گئی۔واقعہ یہ ہے کہ اب اخبارات میں مولاناابوالحسنات صاحب اوربعض دوسرے اصحاب کی شہادتیںپڑھ کریہ بات پہلی مرتبہ میرے علم میںآئی ہے کہ ان حضرات نے ۱۸/جنوری کی رات کوکسی دعوت کے موقع پر مجھے اس اجلاس کی دعوت دی تھی۔نیزیہ بیان بھی بالکل خلاف واقعہ ہے کہ اس اجلاس میںمیری طرف سے سلطان احمدصاحب شریک ہوئے۔
۲۰۔تاہم اگریہ مان بھی لیاجائے کہ ۱۸/جنوری کی رات کومرکزی مجلس کاکوئی اجلاس ہواتھاتواس وقت زیادہ سے زیادہ جوکارروائی ہوسکتی تھی وہ بس یہ ہوسکتی تھی کہ ساتھ آدمیوں کو(co-opt)کرنے کافیصلہ کیاجاتا۔اس کے بعدضروری تھاکہ ان سات آدموں کواس فیصلے کی اطلاع دی جاتی‘پھران کی منظوری حاصل کرنے کے بعدباقاعدہ اطلاع دے کر مجلس کامکمل اجلاس بلایاجاتااوراس اجلاس میںآگے کام کاکوئی پروگرام بنایا جاتا۔ آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ دوچاردن کے اندریہ سارے مراحل طے بھی ہوگئے ہوں اور ایک باقاعدہ اجلاس میںوہ وفدترتیب بھی دے دیاگیاہوجو۲۳/جنوری کوایک مہینے کانوٹس دینے کے لیے خواجہ ناظم الدین سے ملا۔حقیقت یہ ہے کہ میں۲۴/جنوری کی صبح تک کراچی میں رہا ہوںاوراس پوری مدت میںمجھے ان کارروائیوںکی کوئی خبر نہیںہوسکی جویہ چندحضرات بطور خودکرتے رہے۔۲۴/کی صبح کو کراچی سے روانہ ہونے کے بعدریل میںوفدکی ملاقات کاذکراخبارات میںمیری نگاہ سے گزرا اور میں اس پرحیران رہ گیا۔ میںپھراس بات کو پورے زورکے ساتھ دہراتا ہوں کہ اس وفدکونہ کنونشن نے ترتیب دیا تھا اور نہ مرکزی مجلس عمل کے کسی باقاعدہ اجلاس نے۔
۲۱۔پھراگرتھوڑی دیرکے لیے یہ بھی مان لیاجائے کہ یہ ایک باقاعدہ وفدتھاتوعقل عام اوردنیابھرکے مسلمہ طریق کارکاتقاضایہ تھاکہ یہ وفدوزیراعظم سے گفتگوکرنے کے بعدمرکزی مجلس عمل کواپنی رپورٹ پیش کرتا۔پھریہ فیصلہ کرنااس مجلس کاکام تھاکہ وزیراعظم کاجواب قابل اطمینان ہے یانہیںاوراس پرآگے کیاقدم اٹھاناچاہیے۔خواجہ ناظم الدین صاحب کے ساتھ وفدکی گفتگوکاخلاصہ مولاناعبدالحامدصاحب بدایونی نے اب عدالت کے سامنے بیان کیاہے۔یہ پہلی مرتبہ ان کی شہادت سے میرے علم میںآیاہے۔میںپورے وثوق کے ساتھ کہتاہوںکہ اگرمرکزی مجلس کاکوئی اجلاس ہوتااوراس میںیہ خلاصہ بیان کیاجاتاتومجلس کبھی اس نتیجے پرنہیںپہنچ سکتی تھی کہ خواجہ صاحب کاجواب اس حدتک ناقابل اطمینان ہے کہ اس پرآگے کسی مزیدگفت و شنید کا امکان نہیںاوربس اب ڈائریکٹ ایکشن ہی شروع کردیناچاہیے۔مگران حضرات نے وزیراعظم سے ملاقات کے بعدبطورخودہی یہ فیصلہ کردیاکہ ان کاجواب مایوس کن ہے اورپھربطورخودہی وہ کارروائی بھی شروع کردی جو اس مایوس کن جواب کے بعدوہ کرناچاہتے تھے۔اس وقت تک بھی ہمیںمعلوم نہیں ہو سکا ہے کہ ۲۳/ جنوری کے بعدسے۲۶/فروری تک جوسرگرمیاںمسلسل جاری رہیںاورایک مہینے کی معیادگزرنے پرجس اقدام کالوگوںکومتوقع کیاگیااس کافیصلہ مرکزی مجلس عمل کے کس اجلاس میں ہوا تھا اور کب یہ پروگرام بنایاگیاتھا؟
۲۲۔آگے بڑھنے سے پہلے میںایک خاص واقعے کی حقیقت کھولناضروری سمجھتا ہوں اوروہ یہ ہے کہ۱۵/فروری کوایک جلسہ عام میںمیرانام لے کریہ اعلان کیاگیاکہ اس نے جلسے میںعدم شرکت کی معذرت لکھ کربھیجی ہے اوریہ لکھاہے کہ میںآپ کے ساتھ ہوں۔ درحقیقت یہ محض ایک من گھڑت اعلان تھا۔میںنے ایساکوئی خط کسی کو نہیں لکھا۔ جس شخص کے متعلق آئے دن غلط بیانیاںہوتی رہتی ہوں،اس کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ ہر روزان کی تردیدکرتارہے۔
۲۳۔میرے لیے یہ بہت مشکل تھاکہ ایک نظام میںشریک ہوجانے کے بعداس کی غلطیوںاورخرابیوںکی اصلاح کاحق خوداس کے اندراداکرنے سے پہلے اس کے خلاف کھلم کھلاپبلک میںکوئی اظہارخیال شروع کردیتا۔اسی لیے میںنے اصلاح کی تمام ترکوشش نظام کے اندرہی رہتے ہوئے کی اور۱۳ / اور۱۷ / فروری کواپنے نمائندوںکے ذریعہ سے وہ اعتراضات بھیجے جن کاذکرمیںاپنے۲۹جولائی کے بیان میں کرچکا ہوں۔ میرے ہی اصرار پر۱۷فروری کویہ طے ہواکہ جلدی سے جلدی مرکزی مجلس عمل کااجلاس لاہور میں ہو گا اور پھر یکایک ۲۱فروری کوایک نیادعوت نامہ جاری ہوا(مجھے ۲۲ کوملا) جس میںخبردی گئی کہ یہ اجلاس لاہورکے بجائے کراچی میںہوگا۔میںاس زمانہ میں بیماری کے باعث سفرکرنے سے معذورتھا،اس لیے مجھے مجبوراًسلطان احمدصاحب کو لکھنا پڑا کہ وہ میری طرف سے اس اجلاس میںنمائندگی کریں۔۲۶فروری کایہ اجلاس حقیقت میںاس مجلس کا پہلا باقاعدہ اجلاس تھااوروہی آخری اجلاس بھی تھا،کیونکہ اس میںمجلس ہی توڑدینے کافیصلہ کر دیاگیا۔اس کے بعدمیںآزادتھاکہ پبلک میںان حضرات کے طریق کارسے اختلاف کروں۔ چنانچہ یہ اختلاف میںنے اپنے ۲۸/فروری کے بیان میں (جویکم مارچ کے تسنیم میں شائع ہوا)اوراپنے پمفلٹ ’’قادیانی مسئلہ‘‘کے اردو اور انگریزی‘دونوںایڈیشنوں کے آخری پیراگرافوںمیںکیا۔نیزجماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے اپنے اس ریزولیوشن میںبھی جو۷/مارچ کے تسنیم میںشائع ہواہے‘اس طریق کارسے علانیہ اظہاراختلاف کر دیا۔
۲۴۔۲۷/فروری کی شام کوسیدخلیل احمدصاحب اورحافظ خادم حسین صاحب مجھ سے ملے اورانھوںنے کہاکہ تحریک کے بڑے بڑے لیڈرگرفتارہوچکے ہیں‘اب آپ ہی باقی ہیں، لہٰذاآپ ہماری رہنمائی کریں۔میںنے ان سے کہاکہ مجلس عمل کے جولیڈرلاہور میں موجودہیں،انہیںآپ کل صبح میرے ہاںلے آئیے پھرمشورے کے بعدمیںکچھ عرض کرسکوںگا، اس سے زائداس وقت کوئی بات نہیںہوئی۔یہ محض ایک غلط بیانی ہے کہ اس وقت میںنے ان حضرات سے کہاکہ آپ والنٹیرکراچی بھیجنے کاسلسلہ جاری رکھیں۔
۲۵۔۲۷/فروری کی صبح کومیرے مکان پرحسب ذیل حضرات تشریف لائے۔ مولانا دائودغزنوی‘مولانامحمداسماعیل صاحب‘سیدخلیل احمدصاحب‘مولوی طفیل احمدصاحب (جمعیۃ علما ئے اسلام والے)ان کے علاوہ دوتین اصحاب اوربھی تھے جن کے نام میں نہیں جانتا اور نہ میری ان سے پہلے کی کوئی واقفیت تھی۔بعدمیںمولاناعبدالستارنیازی صاحب بھی تشریف لے آئے تھے۔اس موقع پرجوکچھ میںنے ان سے کہاجس کاخلاصہ یہ تھاکہ یہ ڈائریکٹ ایکشن ‘کنونشن کی بعض جماعتوںنے بالکل من مانے طریقے پرشروع کیاہے اورآپ لوگ جانتے ہیںکہ اس کاہرگزمویدنہ تھا۔میں بلاشبہ مقصدسے متفق ہوں‘ مگرطریق کارکوغلط اورنقصان دہ سمجھتاہوں۔میرے نزدیک اس سے نہ صرف یہ کہ اس مقصدکونقصان پہنچے گابلکہ تمام دینی جماعتوںکے وقارکواوران تمام دینی مقصدکوجن کے لیے ہم اب تک کوشش کرتے رہے ہیں، ایساصدمہ پہنچے گاجس کی تلافی مشکل ہی سے ہوسکے گی۔اب اس کے سوا چارہ نہیںہے کہ پنجاب میںبھی مجلس عمل کے نظام کو توڑ دیا جائے۔ جن جماعتوں نے یہ کام شروع کیاہے وہ اپنی ذمہ داری پراگراسے جاری رکھنا چاہیں تو رکھیں‘ مگر جو جماعتیں اس میںشریک نہیںہوناچاہتیں،انہیںاس سے علیحدہ رہنے دیا جائے۔ جماعت اسلامی کی حد تک میںصاف کہے دیتاہوںکہ ہم اس میںکوئی حصہ نہ لیںگے اوراپنے ایک آدمی کوبھی اس میںشریک ہونے کی اجازت نہ دیںگے۔البتہ اصل مقصدکے لیے ہم اپنے طریق کارکے مطابق کوشش جاری رکھیںگے اورآپ کے طریق کار سے مسلمانوں پر جو مصائب نازل ہوںگے‘ان سے بھی جہاںتک ہمارے بس میں ہوگا‘ انہیںبچانے کی پوری کوشش کریںگے۔اس کے ساتھ میںنے ان لوگوںسے یہ بھی عرض کیاکہ اگرآپ اصل مقصدکوعزیزرکھتے ہیںتوبراہ کرم ان لوگوںکواپنے ساتھ الجھانے کی کوشش نہ کریںجوآپ کے شریک کارہوناپسندنہیںکرتے۔اسی پربات ختم ہوگئی اورکم ازکم میرااحساس یہی ہے کہ میری یہ صاف گوئی اس وقت کسی کوناگوارنہیںتھی۔سیدخلیل احمد صاحب نے مجلس کے خاتمے پرمجھ سے کہاکہ اگرہم آپ سے کبھی مشورہ لیناچاہیںتوآپ ہمیںمشورہ دینے سے تو پرہیزنہ کریںگے؟میںنے کہاکہ’’کوئی مسلمان بھی جب میرا مشورہ طلب کرے تو میں جو کچھ صحیح سمجھتاہوں‘اسے بتانے میںتامل نہیںکرتا۔اوراس وقت میراپہلامشورہ آپ کویہ ہے کہ جلدی سے جلدی اس بدنظمی کودورکیجیے جویکایک عوام کے مظاہروںمیںرونماہوگئی ہے‘اپنی تحریک کواخلاق کے ان حدودمیںلائیے جو’’ختم نبوت‘‘ جیسے پاکیزہ نام پراٹھنے والی تحریک کے شایان شان ہے‘اوراپنی تحریک کوبدامنی اورتشددکے رخ پرجانے سے روکیے‘‘۔یہ میراپہلااورآخری مشورہ تھاکیونکہ اس کے بعدمجھ سے نہ کوئی مشورہ طلب کیاگیا اورنہ میںنے دیا۔اب اس مجلس اوراس گفتگوکویہ رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ گویا میںنے اس روزاپنے گھرپربیٹھ کرکوئی خفیہ سازش کی تھی اورمیراان سے یہ سمجھوتہ ہواتھا کہ تم ڈائریکٹ ایکشن کرکے جیلوں میں جائو اور میں گرفتاری سے بچ کرباہرکام کروںگا۔مگراس بدگمانی کے متعلق میںاس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتاکہ لوگ اپنی طینت اوراپنی افتادطبع ہی کے مطابق رائے قائم کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے لیے یہ تصورکرنامشکل ہے کہ دنیامیںکوئی شخص واقعی ایمان داراوربااصول اور حدود شناس بھی ہوسکتاہے۔
۲۶۔۲۷/فروری کے بعدجوجلسے لاہورمیںہوئے ان میںمتعددمرتبہ ڈائریکٹ ایکشن کی تحریک کے بعض غیرذمہ دارلیڈروںنے عوام کوجماعت اسلامی کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی۔اوراس بات پرلوگوںکواکسایاکہ وہ میرے مکان پرہجوم کرکے آئیںاورمجھے اس تحریک میںشامل ہونے پرمجبورکریں۔اس فتنے کوروکنے کے لیے طفیل محمد صاحب نے جوبیان ’’تسنیم‘‘میںشائع کرایاتھااس سے بھی یہ معنی نکالنے کی کوشش کی جار ہی ہے کہ جماعت اسلامی اورڈائریکٹ ایکشن کی تحریک کے لیڈروںمیںکوئی اندرونی سمجھوتہ تھا جس کے مطابق کچھ کام ہم نے اورکچھ انھوںنے اپنے ذمے لے رکھاتھا۔حالانکہ دراصل طفیل محمدصاحب کااشارہ اس گفتگوکی طرف تھاجس کاذکرمیںنے اوپرپیراگراف نمبر۲۵ میںکیاہے۔
۳۰/جنوری کی تقریرمیں فسادات کی دھمکی نہیں بلکہ تنبیہہ تھی:
۲۸۔میری۳۰/جنوری ۱۹۵۳ء کی اس تقریر کابھی باربارذکرکیاگیاہے جومیںنے موچی دروازے کے جلسے میںکی تھی۔اس تقریرکااصل موضوعبی۔ پی۔ سی رپورٹ پر تبصرہ تھا اوراس میںعلمائ کی تجاویزکی تشریح کرتے ہوئے میںنے اس تجویزکابھی ذکرکیا تھاجو قادیانیوںکے متعلق انھوںنے پیش کی تھی۔اس سوادوگھنٹے کی تقریرکاجوخلاصہ ’’کوثر‘‘ کے رپورٹرنے اپنے الفاظ میںبیان کیاتھااس کی دوچار سطروں سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ میںنے اس میںفسادات کی دھمکی دی تھی‘بلکہ لوگوںکواس بات پر اکسایا تھا کہ اگرتمہارے مطالبے نہ مانے جائیںتوتم فسادکرو۔لیکن میںیہ بات عدالت کے علم میں لانا چاہتاہوںکہ میری وہ تقریرجلسے ہی میںtape recorderپرریکارڈکرلی گئی تھی اور اسے ریکارڈرسے نقل کرکے جوںکاتوںشائع بھی کیاجاچکاہے۔عدالت چاہے توشائع شدہ پمفلٹ ملاحظہ کرلے اورچاہے تو ریکارڈر طلب کرکے اپنے کانوںسے سن لے۔اس کے بعدیہ فیصلہ کرناعدالت کااپناکام ہے کہ آیااس میںفسادکی دھمکی یاترغیب دی گئی تھی، یا آتے ہوئے طوفان کے آثاردیکھ کرقبل ازوقت متنبہ کیاگیاتھا،اوراس غرض کے لیے متنبہ کیا گیاتھاکہ خرابی کے رونماہونے سے پہلے اس کے اسباب کوحکمت کے ساتھ رفع کیا جائے۔ جومعنی آج میری اس تقریر کوپہنائے جارہے ہیں‘ان کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی طبیب کسی شخص میںدق کے آثارمحسوس کرکے اسے ضروری احتیاطوںکا مشورہ دے اور وہ شخص اس کے مشورے کی پرواہ نہ کرکے خود اپنی بے احتیاطیوں سے جب واقعی دق میںمبتلاہوجائے تو الٹا طبیب پرالزام رکھنے لگے کہ اسی نے مجھے دق میں مبتلا کیا ہے۔ آخر دنیامیںیہ پہلا واقعہ ہی تونہیںہے کہ کسی معاملہ فہم آدمی نے خطرے کی علامات کومحسوس کر کے اس کے پیش آنے قبل ازوقت خبردی ہواورحالات ٹھیک اس کے اندازے کے مطابق رونما ہوئے ہوں۔ اس سے پہلے بارہااس کی مثالیںپیش آچکی ہیںاورکبھی کسی صاحب عقل آدمی نے ایسے کسی موقع پریہ عجیب وغریب الزام نہیںلگایاکہ جس نے صدور واقعہ کی پیشگی تنبیہ کی تھی وہی دراصل سبب واقعہ ہے۔البتہ ضرورت سے زیادہ دانش مند لوگ ایسی باتیں پہلے بھی کرتے ہیں۔مجھے یادہے کہ۱۹۴۶ء میںقائداعظم مرحوم نے اپنی تقریروں میں حکومت برطانیہ کوجب باربارمتنبہ کیاکہ اگرتم معاملات کوجلدی نہ سلجھائوگے تو ہندوستان میںسخت بدامنی رونماہوگی‘توہندواخبارات نے اس پریہی شورمچایاتھاکہ یہ شخص فسادکی دھمکیاںدے کراپنے مطالبات منواناچاہتاہے اورمسلمانوںکوتعلیم دے رہاہے کہ تمہارے مطالبات منظورنہ ہوںتوتم فسادکرو۔
ڈائریکٹ ایکشن کارائج الوقت تصوراورمفہوم:
۲۸۔اب میںاس امرکی وضاحت کرناچاہتاہوںکہ ڈائریکٹ ایکشن سے میرے اختلاف کے وجوہ کیاتھے ۔اس طریق کارسے میرااختلاف اصولی بھی تھااورعملی پہلوسے بھی تھا۔میںیہاںعلی الترتیب دونوںپہلوئوںسے اپنے نقطہ نظرکی تشریح کروںگا۔
(الف)برعظیم ہندوپاکستان’’ڈائریکٹ ایکشن ‘‘کے تصورسے ابتداًکانگرس کے ذریعے سے روشناس ہواہے اوربعدمیںاس طریق کارکو۱۹۴۶ء اور۱۹۴۷ء میںمسلم لیگ نے بھی اختیارکیاتھاجب کہ قائداعظم مرحوم اس کے لیڈرتھے۔اس تاریخی پس منظرمیںاس لفظ کوان معنوںمیںنہیںلیاجائے گاجوامریکہ میںکبھی اس سے مرادلیے گئے تھے، بلکہ ان معنوں میںلیاجائے گاجوخودہمارے براعظم میںرائج رہے ہیں۔یہاںاس کاجوتصور رہا ہے وہ قائداعظم مرحوم کی ۲۹/جولائی۱۹۴۶ء والی تقریرسے جوانھوںنے آل انڈیامسلم لیگ کونسل کے اجلاس بمبئی میںفرمائی تھی‘بہترین طورپرواضح ہوتاہے۔انھوںنے فرمایا تھا:
’’آج جوکام ہم نے کیاہے وہ ہماری تاریخ میںیادگاررہے گا۔لیگ کی پوری تاریخ میںہم نے کبھی دستوری ذرائع اورآئین پسندی سے ہٹ کرکوئی قدم نہیںاٹھایاہے لیکن اب ہمیںیہ پوزیشن اختیارکرنے پرمجبورکردیاگیاہے۔آج کے دن ہم آئینی طریقوں کو الوداع کہہ رہے ہیں۔کابینہ کے وفداوروائسراے سے فیصلہ کن گفت وشنیدکے دوران میں مقابلے کے دونوںفریق …برطانیہ اورکانگرس…اپنے ہاتھ میںایک ایک پستول تھامے ہوئے تھے۔ ایک کے ہاتھ میںاقتداراورفوجی سازوسامان کاپستول تھااوردوسرے کے ہاتھ میںعوامی جدوجہداورعدم تعاون کا۔آج ہم نے بھی ایک پستول تیارکرلیاہے اورہم اس کے استعمال پرقادرہیں۔تجاویزکوردکرنے اورڈائریکٹ ایکشن شروع کرنے کافیصلہ جلدی میں نہیںکیاگیاہے بلکہ یہ فیصلہ پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ اورامکان کی حدتک کامل غوروخوض کے بعدکیاگیاہے‘‘۔
آگے چل کروہ اپنی اسی تقریرمیںفرماتے ہیں:
’’میںنہیںسمجھتاکہ کوئی ذمہ دارآدمی مجھ سے اس امرمیںاختلاف کرے گاکہ ہماری خواہش یہی تھی کہ صورت حال کواس حدتک نہ بگڑنے دیاجائے کہ خون خرابے اورسول وارکی نوبت آئے۔اگرممکن ہواتواس صورت حال سے احترازکیاجائے گا‘‘۔
اس تقریر کااختتام مرحوم نے ان الفاظ میںفرمایا:
’’اگرتم امن چاہتے ہوتوہم بھی جنگ نہیںچاہتے لیکن اگرتم لڑائی چاہتے ہوتوہم اسے بلاتامل قبول کریںگے۔‘‘ (مسٹرجناح کی تقریریںاورتحریریں‘جلددوم‘ص ۴۱۹تاصفحہ۴۲۲)
یہ ہے ڈائریکٹ ایکشن کی نظریاتی تشریح ۔اوراس کی عملی تشریح وہ ایجی ٹیشن ہے جو۱۹۴۷ء کے آغازمیںپنجاب مسلم لیگ نے سرخضرحیات خاںکی وزارت توڑنے کے لیے کیاتھا۔جس میںپنجاب کی موجودہ نون وزارت اورپچھلی دولتانہ وزارت اوراس سے پہلے کی ممدوٹ وزارت کے اکثروبیشترارکان نے سب سے آگے بڑھ کرقوانین توڑے تھے۔جس میں ایک اہم کرداراداکرنے کے لیے خواجہ ناظم الدین صاحب مرکزی مسلم لیگ کی طرف سے پنجاب بھیجے گئے تھے اورجس میںپبلک کے مظاہرات کارنگ ڈھنگ دیکھنے والی آنکھیں اب بھی موجودہیں۔
(ب)آل مسلم پارٹیزکنونشن کے اجلاس میںجب پہلی مرتبہ میرے سامنے تاج الدین انصاری صاحب کاریزولیوشن آیااوراس پرمیںنے ان کی اوردوسرے مویّدین کی تقریریںسنیںتومیںنے یہی سمجھاکہ یہ حضرات وہی قدم اٹھاناچاہتے ہیںجس کی تشریح اوپرضمنی پیراگراف (الف)میںکی گئی ہے۔خوداحراراپنی تاریخ میںاس سے پہلے کئی مرتبہ اسی طرح کے قدم اٹھاچکے ہیںاس لیے ان کی تجویزکاکوئی اورمفہوم میںنہیںسمجھ سکتا تھا۔ مجھے یادہے کہ اس موقع پرتقریروںمیں’’ڈائریکٹ ایکشن‘‘اور’’راست اقدام ‘‘دونوں اصطلاحیںاستعمال کی گئیںتھیںاور’’راست‘‘اور’’براہ راست ‘‘کادلچسپ فرق جواب کیا گیا ہے‘اس وقت پیش نظرنہیںتھا۔
ڈائریکٹ ایکشن قطعی حرام نہیں:
(ج)میرے نزدیک اس طرح کااقدام قطعی حرام نہیںہے‘مگریہ ایسامباح بھی نہیں ہے کہ جب حکومت کسی مطالبے کوردکردے تواسے منوانے کے لیے یہ قدم اٹھا دیا جائے۔ یہ ایک آخری چارۂ کارہے جسے اختیارکرناصرف اسی صورت میںجائزہے جب کہ ایک مطالبے کی صحت ومعقولیت دلائل سے خوب واضح کی جاچکی ہواوریہ بات اظہرمن الشمس ہوچکی ہوکہ حکومت سراسرغیرمعقول روش پرمصرہے(۲)یہ بات بھی ثابت کردی گئی ہوکہ باشندگان ملک کی اکثریت اس مطالبے کی حامی ہے اورحکمران اقلیت محض اپنی آئینی پوزیشن سے ناجائزفائدہ اٹھاکراسے ردکررہی ہے اور(۳)مطالبے کومنوانے کے لیے آئینی تدابیرکاحق بلحاظ وقت اوربلحاظ وسائل پوری طرح اداکیاجاچکاہویاحکومت نے سرے سے آئینی تدابیرکادروازہ ہی زبردستی بند کر دیاہو۔
راست اقدام کے لیے شرائط مکمل نہ تھیں:
(د)میرے نزدیک آل مسلم پارٹیزکنونشن میںجب راست اقدام یاڈائریکٹ ایکشن کی تجویزپیش کی گئی، اس وقت ان شرائط میںسے کوئی شرط بھی پوری نہ ہوئی تھی۔ (۱)مطالبات کے حق میںجذباتی تقریریںتوبہت کی گئی تھیںمگرمسلم اکثریت کامقدمہ ایسے مضبوط دلائل کے ساتھ تیارنہیںکیاگیاتھاجس کے مقابلے میںفریق مخالف تقریباً غیرمسلح ہو کررہ جائے۔ (۲)پنجاب اوربہاولپورکی حدتک توثابت ہوچکاتھاکہ وہ ان مطالبات کے بالاتفاق حامی ہیںمگرنہ توسندھ سرحد‘بلوچستان اوربنگال کی تائیدپوری طرح حاصل کی جا سکی تھی اورنہ خودپنجاب وبہاولپورکے تعلیم یافتہ طبقے کواچھی طرح مویّد بنایا جاسکا تھا۔
(۳)آئینی تدابیرکادروازہ بندبھی نہیںہواتھا۔ان تدابیرکواستعمال کرتے ہوئے کچھ بہت زیادہ مدت بھی نہیںگزری تھی اورساری تدبیریںآخری حدتک آزمائی بھی نہ جاچکی تھیںاس لیے اصولاًاس وقت تک ڈائریکٹ ایکشن کاآخری چارۂ کاراستعمال کرنے کے لیے کوئی جائزوجہ پیدانہ ہوئی تھی۔
(ہ)اس اصولی حیثیت کے علاوہ میرے نزدیک عملی حیثیت سے بھی یہ اقدام سخت غیرمناسب تھا۔جیساکہ میںاوپرضمنی پیراگراف (د)میںبیان کرچکاہوںاس وقت صرف پنجاب اورکسی حدتک بہاولپورکے عوام کوجذباتی تقریریںپلاپلاکران مطالبات کے حق میںجدوجہدکرنے پرآمادہ کرلیاگیاتھامگرملک کے دوسرے صوبے اچھی طرح یہ بھی نہ جانتے تھے کہ یہ معاملہ فی الواقع ہے کیا؟اورخودپنجاب وبہاولپورمیںبھی اہل دماغ طبقہ اس مسئلے کونہ پوری طرح سمجھاتھااورنہ مطالبات کی صحت پرمطمئن تھا۔اس صورت میںمحض ان دوصوبوںکے عوام کولے کرڈائریکٹ ایکشن کربیٹھناصریحاًایک غیردانش مندانہ فعل تھا جس کانتیجہ میرے نزدیک یہی ہوسکتاتھاکہ یہاںکے عوام بری طرح کچلے جائیںاورحکومت کویہاںکی سیاسی زندگی پربھی وہی موت جاری کرنے کاموقع مل جائے جواس سے پہلے صوبہ سرحدپرطاری کی جاچکی ہے۔
حکومت کی تنگ ظرفی سے جوابی تشددکاخطرہ تھا:
(و)دوسری طرف میںیہ بھی جانتاتھاکہ ملک کی حکومت اس وقت ایسے لوگوںکے ہاتھ میںہے جوکم حوصلہ بھی ہیںاورپبلک تائیدسے محروم ہونے کی وجہ سے اپنی پوزیشن کی کمزوری کاشدیداحساس بھی رکھتے ہیں۔ایک معمولی ساخطرہ‘بلکہ خطرے کااندیشہ بھی ان کوبہت جلدی بوکھلادیتاہے اورجب وہ بوکھلاجاتے ہیںتوکوئی بدترسے بدترکارروائی کرنے میںبھی باک نہیںکرتے ۔اسی ماہ جنوری میںجب کہ ڈائریکٹ ایکشن کایہ ریزولیوشن پیش کیاگیاتھا‘دس ہی دن پہلے کراچی میںطلبہ کے ایک معمولی سے ایجی ٹیشن پران لوگوںنے جوظلم وستم ڈھایاتھا، اسے میںاپنی آنکھوںسے دیکھ چکاتھا۔اس صورت حال میںمجھے یقین تھاکہ ڈائریکٹ ایکشن کانام سنتے ہی یہ لوگ بھڑک اٹھیںگے اوروہ کچھ کرگزریںگے جوانگریزبھی غیرقوم ہونے کے باوجودہمارے ساتھ نہ کرتا۔اسی لیے میں چاہتاتھاکہ اپنی قوم کوان برے نتائج سے بچائوںجوسامنے آتے نظرآرہے تھے۔میری نگاہ میںخون مسلماںاتناارزاںنہ تھاکہ میںپنجاب کی زمین پراس کے پانی کی طرح بہائے جانے کوٹھنڈے دل سے گوارہ کرتا۔
ڈائریکٹ ایکشن کی علانیہ مخالفت نہ کرنے کی وجہ:
(ز)مگراس تباہی وہلاکت کی روک تھام کاسخت خواہش مندہونے کے باوجودمیں ایسابھی کوئی قدم اٹھانامناسب نہیںسمجھتاتھاجس سے مسلمانوںمیںاختلاف برپاہوجائے اوراس سے فائدہ اٹھاکرقادیانیوںاورحکومت کاگٹھ جوڑمسلمانوںکے جائزمطالبات کو شکست دینے میںکامیاب ہوجائے۔اس لیے میںنے۲۸/فروری تک پبلک میںاس تحریک کی کوئی مخالفت نہ کی اوراندرونی طورپراسے غلط راہ پرجانے سے روکنے کی جو تدبیریںمیرے بس میںتھیں‘انھیں استعمال کرتارہا۔لیکن سمجھ میںنہیںآتاکہ اس تحریک کے لیڈروںکوایک مہینے کے نوٹس اوراس کے بعدبہرحال ڈائریکٹ ایکشن شروع کردینے پراس قدرشدیداصرارکیوںتھااوروہ اپنے اس منصوبے کوعمل میںلانے پرکیوںتلے ہوئے تھے؟
تیسرابیان (جومورخہ ۱۳/فروری ۱۹۵۴ء کوتحریری شکل میں عدالت مذکور میں پیش کیاگیا۔)
تحقیقاتی عدالت نے اپنی تفتیش کے دوران میںتحقیقاتی کارروائی میںشامل ہونے والے جملہ فریقوںکونوٹس دیاتھاکہ وہ بحث میںعلاوہ دیگرامورکے مندرجہ ذیل دس نکات کے بارے میںاپنانقطہ نظرواضح کریںاوراپنی تائیدمیںاسناداورحوالہ جات بھی پیش کریں۔
۱۔ ظہورمسیح ومہدی۔
۲۔ کیاظاہرہونے والے مسیح اورعیسیٰ ابن مریم ؑ ایک ہی شخصیت ہیں؟
۳۔ کیامسیح اورمہدی کوایک نبی کامنصب حاصل ہوگااورانہیں وحی یاالہام ہوگا؟
۴۔ کیاوہ دونوںیاان میںسے کوئی ایک قرآن وسنت کے کسی حکم کومنسوخ کریں گے؟
۵۔ نبی ﷺ پروحی کس شکل میںنازل ہوتی تھی؟کیاحضرت جبریل ؑ آپﷺ کے سامنے مرئی صورت میںظاہرہوتے تھے؟
۶۔ کیاخاتم النبین کی وہ تعبیرجوآل مسلم پارٹیزکنونشن نے پیش کی ہے وہ مسلم عقیدے کالازمی جزورہی ہے؟
۷۔ قرآن وسنت کی وہ نصوص جوایسے دینی وسیاسی نظام کی تائیدکرتی ہیں جس میں غیر مسلموں کو ایک اجنبی کی حیثیت سے علیحدہ رکھا جاتاہے۔ اس علیحدگی کے حدود مع تاریخی حوالہ جات ۔ ایسے نظام میں غیر مسلموں کے اعلانیہ تبلیغ مذہب کے حقوق … گناہ کی مشترک اور نیابتی ذمہ داری ۔
۸۔ ڈائریکٹ ایکشن کاجواز ۔
۹۔ احمدیوں کی مطبوعات جو عامۃ المسلمین کے دینی جذبات کو مشتعل کرنے والی ہیں۔
۱۰۔ دوسرے مسلمانوں کی مطبوعات جو احمدیوں کے عقائد کے لحاظ سے اشتعال انگیز ہیں۔
ان نکات کاجواب مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے ایک مفصل تحریری بیان کی شکل میں دیاہے جسے پمفلٹ کی صورت میں شائع کیاجاچکاہے۔ یہ بیان ۱۳فروری ۱۹۵۴ء کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔
اس محترم عدالت نے جو دس امور تنقیح طلب خاص طور پر بحث کے لیے تجویز کیے ہیں ، ان میں سے پہلے آٹھ امور پر اس بیان میں بحث کی گئی ہے۔ باقی ماندہ دو نکات میں سے نمبر۱۰ کا جواب ہم سے متعلق نہیں ہے اور نمبر۹ کے متعلق ضروری مواد جماعت اسلامی الگ پیش کرے گی۔
اس بیان میں پہلے سات نکات پر صرف سنی مسلمانوں کا نقطہ نظر پیش کیاگیاہے ، جس میں حنفی، شافعی ،مالکی، حنبلی اور اہل حدیث سب شامل ہیں۔ نیز حنفیوں کے دونوں بڑے مسلک (دیو بندی اور بریلوی ) بھی ان نکات میں پوری طرح متفق ہیں ۔ شیعہ حضرات کا مسلک اگرچہ ہمیں معلوم ہے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ مسئلہ مہدی کے سو اباقی تمام مسائل میں وہ ہم سے متفق ہیں ، نیز ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ مہدی منتظر امام معصوم ہونے کے باوجود ان کے ہاں بھی نبی کا مرتبہ نہیں رکھتے ، لیکن ہم نے ان کے مسلک پر اس لیے کلام نہیں کیا ہے کہ ہم بہرحال ان کے مسلک کو قابل اعتماد طریقہ سے بیان کرنے کی حیثیت میں نہیں ہیں۔
بیان کے دوران میں جن اہم مسائل پر تفصیل کے ساتھ اسناد پیش کرنے کی ضرورت تھی، ان کو ہم نے بیان میں درج کرنے کے بجائے الگ الگ ضمیموں میں جمع کردیا ہے جو اس بیان کے ساتھ منسلک ہیں۔
چونکہ پہلے ۶ نکات ہی وہ اصل نکات ہیں جو مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان متنازع فیہ ہیں ، اس لیے ان کے بارے میں اور ان سے پیداہونے والے اعتقادی اور عملی نتائج کے بارے میں قادیانی مسلک کو ہم نے خود ان کے معتبر حوالوں سے ایک مستقل ضمیمے میں مرتب طریقہ سے بیان کردیاہے، تاکہ محترم عدالت پر واضح ہوجائے کہ ان مسائل پر قادیانی تحریک کے مختلف مراحل میںمرزا غلام احمد صاحب اور ان کے پیروئوں کا نقطہ نظر کیارہاہے اور فریقین کے درمیان نزاع کے بنیادی اسباب کیاہیں؟ اس ضمیمے کا نمبر ۷ ہے اور یہ بھی اس بیان کے ساتھ منسلک ہے۔
ان تمہیدی تصریحات کے بعد اب ہم زیر بحث نکات کو علی الترتیب لے کر ان کے متعلق اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔
بجواب نکتہ اول :(الف) درباب نزول مسیح علیہ السلام
(۱) مسیح علیہ السلام کانزول ثانی مسلمانوں کے درمیان ایک متفق علیہ مسئلہ ہے اور اس کی بنیادقرآن، حدیث اور اجماع اُمت پر ہے۔ قرآن میں اگرچہ اس کی تصریح نہیں ہے مگر دو آیتیں ایسی ہیں جن سے اس کا اشارہ نکلتاہے اور بکثرت مفسرین نے ان کا یہی مطلب لیا ہے کہ مسیح علیہ السلام آخری زمانے میں دوبارہ آئیں گے ۔ پہلی آیت سورۂ نساء میں ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :
وَ اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ ج وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا النسآئ159:4
اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے اور قیامت کے روز ان پر وہ گواہ ہوگا۔
اگرچہ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتاہے اور لیا بھی گیاہے کہ ’’اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے ۔ ‘‘ لیکن اس کا وہ مطلب بھی ہوسکتاہے اور لیا گیاہے جو ہم نے ترجمہ میں بیان کیا ہے۔
دوسری آیت سورۂ زخرف (سورہ نمبر۴۳) میں ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں :
وَاِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ الزخرف 61:43
اور درحقیقت وہ قیامت کی ایک نشانی ہے۔
اس کے بھی دو مطلب ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ مسیح علیہ السلام کی پیدائش ان نشانیوں میں سے ایک ہے جو آخرت کے امکان پر دلالت کرتی ہیں ۔ دوسرا یہ کہ وہ قیامت سے پہلے قرب قیامت کی علامات میں سے ایک ہے ۔ مفسرین کی بہت بڑی اکثریت نے ان دونوں مفہومات میں سے دوسرے کو ترجیح دی ہے۔
بہرحال جہاں تک قرآن کا تعلق ہے وہ صریح الفاظ میں اس مضمون کی تصریح نہیں کرتا۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہاجاسکتاہے کہ وہ اس کی طرف اشارہ کررہاہے۔
بخلاف اس کے حدیث سے یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے مسیح ؑ کے نزول کی خبر دی ہے۔ اس باب میں ۷۰ سے زیادہ حدیثیں تقریباً ۲۴ صحابیوں نے نبیﷺ سے روایت کی ہیں۔ جن راویوں نے یہ احادیث صحابہ ؓ سے سنیں اور پھر بیچ کے جو راوی انہیں کتب حدیث کے مصنفین تک پہنچانے والے ہیں ، ان کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہے ۔ ان میں بکثرت ثقہ لوگ ہیں ۔ وہ یمن سے لے کر آذر بائیجان تک اور مصر سے لے کر ماوراء ُالنہر اور سیستان تک مختلف علاقوں کے لوگ ہیں۔ اور بکثرت روایتوں کی سند کتب حدیث کے مصنفین سے لے کر نبی ﷺ تک بالکل متصل ہے جس میں کوئی کڑی چھوٹی ہوئی نہیں ہے۔ اتنے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ، اس قدر کثیر التعداد انسانوں کے متعلق یہ باور کرنا ہمارے لیے بہت مشکل ہے کہ ان سب نے کسی وقت کوئی کانفرنس کرکے باہم یہ قرار داد منظور کرلی ہو گی کہ نزول مسیح ؑ کی ایک داستان گھڑ کر خدا کے رسولﷺ کی طرف منسوب کرنی ہے۔ اور اگر وہ ایسا کرتے بھی ہیں تو ان کی تصنیف کردہ داستانوں میںوہ مطابقت اور مناسبت پیداہونی محال تھی جو نزول مسیح کی احادیث میں ہم کو نظر آ رہی ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان روایتوں کے مضمون میں دو تین فروعی اختلافات کے سوا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سب روایتیں مل کر ایک مربوط اور مسلسل قصہ بناتی ہیں جس کے تمام اجزا ایک دوسرے کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔ ہم نے ضمیمہ نمبر(۱) میں ۲۰ معتبر ترین احادیث لفظ بلفظ نقل کردی ہیں جو ۱۳صحابیوں سے مروی ہیں۔ ان کو دیکھ کر محترم عدالت خود معلوم کرسکتی ہے کہ ان مختلف صحابیوں کی روایات قصے کے تمام ضروری اجزا میں بالکل متفق ہیں (صرف ایک معاملہ میں روایت نمبر۴ و ۲۰دوسری روایتوں کے خلاف یہ کہتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ مسلمانوں کی نماز کے امام ہوں گے اور روایات نمبر۲،۶،۸،۱۴،۱۵یہ کہتی ہیں کہ امام جماعت مسلمانوں کا خلیفہ ہوگا اور حضرت عیسیٰ ؑ اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے ۔ اسی وجہ سے مفسرین و محدثین نے بالاتفاق اس بات کو تسلیم کیاہے جو روایات کی اکثریت سے ثابت ہے۔ ) اس بنا پر یہ بات یقینی ہے اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ نبی ﷺ نے مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کی ضرورخبر دی ہے۔ یہ بات خواہ کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے ، مگر یہ امر واقعہ کہ حضور ؐ نے ایسی خبر دی ہے ، ناقابل تردید شہادتوں سے ثابت ہے۔ اگر ایسی شہادتوں کو بھی رد کیاجاسکتاہے تو پھر دنیاکا کوئی تاریخی واقعہ بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح پہلی صدی ہجری سے آج تک اُمت کے تمام علما اور فقہا اور مفسرین و محدثین کا بھی اس بات پر اجماع ہے کہ مسیح ؑ کی آمدثانی کی خبر صحیح ہے۔ ضمیمہ نمبر۳ اور ۵ میں اکابر علما کے اقوال ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں ۔ صرف معتزلہ اور جہینیہ اور بعض ایسے ہی دوسرے فرقوں کے چند لوگوں نے اس کو ختم نبوت کے منافی سمجھ کر ردکیاہے۔
(۲) جو کچھ احادیث سے ثابت ہے اور جس پر اُمت کا اجماع ہے وہ کسی مثیل مسیح کی ’’پیدائش ‘‘ نہیں ہے بلکہ عیسیٰ ؑ ابن مریم کا ’’نزول ‘‘ہے۔ تمام احادیث بلااستثنا اس امرکی تصریح کرتی ہیں کہ آنے والے وہی ہیں۔ کسی حدیث میں عیسیٰ ؑ کسی میں ابن مریم ، کسی میں مسیح ابن مریم ، اور کسی میں عیسیٰ ابن مریم کے الفاظ ہیں۔ ظاہر ہے کہ عیسیٰ ابن مریم ایک شخص خاص کا ذاتی نام ہے اور اس کے نزول کی خبر لا محالہ اس کی ذات کے نزول کی خبر ہی ہوسکتی ہے ۔ اگر کوئی اس خبر کو قبول کرے تو اسے یہ قبول کرنا ہوگاکہ وہی شخص خاص دوبارہ آئے گا جو اب سے دو ہزار برس پہلے بنی اسرائیل میں مریم علیہا السلام کے بطن سے پیداہوا تھا۔ اور اگر کوئی اس کو رد کرے تو اسے سرے سے اس ’’مسیح موعود ‘‘ کے تخیل ہی کو رد کردیناہوگا۔ بہرحال یہ بالکل ایک لغو بات ہے کہ عیسیٰ ابن مریم کے نزول کی خبروںکو بنیاد بنا کر ایک مثیل مسیح کے ظہور کو ثابت کیا جائے اور اس سے زیادہ لغو بات یہ ہے کہ ان خبروں کی بنیاد پر مسیح کے ’’بروز ‘‘ (incarnation)کا خیال پیش کیاجائے جو سراسر ایک ہندوانہ تخیل ہے اور ان سب سے زیادہ لغو بات یہ ہے کہ کوئی شخص خود تمثیلی رنگ میں اپنے بطن سے پیداہوکر یہ اعلان کرے کہ جس عیسیٰ ابن مریم کے ’’نزول ‘‘ کی خبر دی گئی تھی ، وہ پیداہوگیاہے۔ (ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۷،پیرا گراف نمبر۱۲۔ اقتباس نمبر۷)
(۳)احادیث میں نزول مسیح کی غرض اور وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ آخر زمانے میں ایک عظیم الشان دجال (فریبی و جعل سازآدمی ) اپنے آپ کو مسیح کی حیثیت سے پیش کرے گا اور یہودی اس کے پیچھے لگ جائیں گے اور اس کا فتنہ دنیامیں بہت بڑی گمراہی اور ظلم و ستم کا موجب بن جائے گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اصلی مسیح کو دنیا میں واپس بھیجے گا تاکہ اس فتنے کا قلع قمع کرے (ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۱،روایات نمبر۵ ، ۸،۱۴،۲۰)۔ نبی ﷺ نے اپنی اُمت کو یہ خبر اس لیے دی تھی کہ مسلمان دجال کو مسیح ماننے سے بچیں اور اس کے زمانے میں اصلی مسیح کی آمد کاانتظار کریں اور ان کی آمد پر فتنہ دجال کے استیصال میں ان کا ساتھ دیں۔ یہ خبر آپ نے اس لیے نہیں دی تھی کہ آپ کی ان پیشین گوئیوں کا سہارا لے کر کوئی ’’مثیل مسیح ‘‘یا ’’بروز مسیح ‘‘ اُٹھ کر آپ کی اُمت میں اپنی ایک اُمت آسانی کے ساتھ بنالے۔
(۴) احادیث اس امر کی بھی تصریح کرتی ہیں کہ نزول کے نتیجے میں تمام ملتیں ختم ہوجائیں گی اور صرف ملت اسلام باقی رہ جائے گی (ملاحظہ ہو ضمیمہ ۱،روایت نمبر۵،۱۴) ۔ روایت نمبر۱،۲،۵ضمیمہ اول میں صلیب کو توڑ دینے یا محو کردینے یا پاش پاش کردینے اور خنزیر کو ہلاک کردینے کا مطلب تمام محدثین نے یہ لیا ہے کہ عیسائیت اور اسلام کا جھگڑا ختم ہوجائے گا اور دونوں ملتیں ایک ہوجائیں گی۔ روایات نمبر۸، ۱۴اور ۲۰ سے معلوم ہوتاہے کہ یہودیت دجال کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گی اور مذکورہ بالا روایات میں ’’جنگ ‘‘ اور ’’جزیے‘‘اور ’’خراج ‘‘ کو ساقط کردینے کا مطلب بالاتفاق یہ سمجھا گیا ہے کہ تمام ملتوں کے ختم ہوجانے اور صرف ملت اسلام کے باقی رہ جانے کی وجہ سے جنگ بھی ختم ہوجائے گی اور جزیہ و خراج کسی پر عائد کرنے کا سوال ہی باقی نہ رہے گا۔
(۵)یہ امر خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ نزول مسیح کا عقیدہ ، جس طرح کہ وہ احادیث میں بیان ہواہے اور جس طرح کہ علمائے اُمت نے اس کو سمجھا ہے ، کسی طرح عقیدہ ختم نبوت سے متصادم نہیں ہوتا (ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۳) اور اس کے برعکس ’’مسیح موعود ‘‘کا قادیانی تخیل قطعی طور پر اس سے متصادم ہوتاہے۔ اس کے وجوہ حسب ذیل ہیں :
(الف) عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایمان لائے ، تمام مسلمان ہمیشہ سے ان پر ایمان لاتے رہے اور آئندہ بھی جو مسلمان ہوگا وہ ان پر ضرور ایمان لائے گا، اب بھی جو ان کو نہ مانے وہ بالاتفاق کافراور خارج از ملت ہے۔ اس لیے ا ن کی آمد ثانی پر کسی نئے کفر وایمان کامسئلہ پیدا نہیں ہو گا۔ امکان عقلی کی حد تک اگر کوئی اختلاف ہوسکتاہے تو اس واقعہ میں ہوسکتاہے کہ جو صاحب نازل ہوئے ہیں وہ عیسیٰ ابن مریم ہیں یا نہیں ، لیکن اس امر میں نہیں ہوسکتا کہ اگر یہ ابن مریم ہیں تو ماننے کے قابل ہیں یا نہیں۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ عیسیٰ ابن مریم کی آمد سے مسلمانوں میں کفر وایمان کی کوئی نئی تفریق رونما نہیں ہوسکتی ۔ اس کے برعکس جو شخص ’’نازل ‘‘ نہ ہو بلکہ ہمارے درمیان ’’پیدا ‘‘ ہو کر یہ دعویٰ کرے کہ میں مسیح ہوں ، میرے اوپر ایمان لائو ، اس کا دعویٰ لازماً اُمت میں کفر وایمان کی ایک نئی تقریق برپا کرتاہے اور اس کے انکار پر نئے سرے سے ان لوگوں کے خارج از ملت قرار پا جانے کاامکان پیداہوجاتاہے جنھیں ختم نبوت کے عقیدے نے ہمیشہ کے لیے ایک ملت بنا کر بنیادی تفرقے سے محفوظ کردیا ہے۔ قادیانی ’’مسیح ‘‘ کے دعوے سے یہ امکان اب واقعہ کی صورت اختیار کرچکاہے۔
(ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۷۔ پیراگراف نمبر۱۴،اقتباس نمبر۵تا۲۲)
(ب) احادیث میں صراحتاً یا اشارتاً کہیں بھی آنے والے مسیح ابن مریم کو اس حیثیت سے پیش نہیں کیاگیاہے کہ وہ آکر اپنی نبوت کا دعویٰ پیش کرے گا، لوگوں کو اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دے گا ، اپنے ماننے والوں کو ایک اُمت یا جماعت بنائے گا اور نہ ماننے والوں کو مسلمانوں میں سے الگ کردے گا ۔احادیث اس کو ایک نیا اور مستقل مشن لے کر آنے والے شخص کی حیثیت سے پیش نہیں کرتیں بلکہ اس حیثیت سے پیش کرتی ہیں کہ وہ آکر مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوجائے گا، اس کے زمانے میں مسلمانوں کا جو بھی امیر یا امام یا سردار جماعت ہوگا اس کی قیادت تسلیم کرے گا اور صرف فتنہ دجال کو ختم کرنے کی وہ خدمت انجام دے گا جو اس کے سپرد کی گئی ہوگی۔ اسی لیے وہ احتیاطاً نماز میں بھی مسلمانوں کی امامت نہ کرے گا بلکہ انہی کے اما م کااقتداکرے گا تاکہ اس شبہ کی گنجائش بھی نہ رہے کہ وہ اپنی سابق حیثیت (یعنی محمد ﷺ کی حیثیت ) میں واپس آیا ہے ۔ ضمیمہ نمبر۱ کی روایات نمبر۲،۶،۸،۱۴،۱۵اور ضمیمہ نمبر۳ کے پیرا گراف ۵،۶اس مسئلے میں ناطق ہیں۔ مگر ’’مسیح موعود ‘‘ کا قادیانی عقیدہ اس کے بالکل برعکس ہے اور برعکس نتائج پیدا کرتا ہے۔
(ملاحظہ ہو، ضمیمہ نمبر۷،پیرا گراف نمبر۹،۱۲،۱۴)
(ج) مسلمان جس حیثیت سے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے نزول کو مانتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگرچہ وہ اپنی پہلی بعثت میں نبی کی حیثیت سے آئے تھے اور اگرچہ نبوت کا فضل و شرف ان سے سلب نہیں ہوگیاہے ، لیکن چونکہ محمدﷺ کی بعثت کے ساتھ ہی ان کا (عیسیٰ علیہ السلام کا ) زمانہ نبوت ختم ہوگیاہے اور اب قیامت تک آنحضرت ﷺ کا عہد نبوت ہے ، اس لیے عیسیٰ علیہ السلام اب نبی کی حیثیت میں نہیں آئیں گے بلکہ آنحضرتﷺکے پیرو اور آپ ہی کی شریعت کے منبع ہوں گے اور ان کا کام اپنی رسالت کو پیش کرنا، یا نئے احکام دینا، یا پچھلے احکام میںردوبدل کرنا نہ ہوگا بلکہ شریعت محمدیہ کے مطابق اس خدمت خاص کو انجام دیناہوگا جس کے لیے وہ نازل کیے جائیں گے۔ اس مسئلے میں امام رازی ، امام نووی ، علامہ تفتازانی ، شیخ اسماعیل حنفی اور علامہ آلوسی کی تصریحات خاص طور پر قابل غور ہیں ۔
(ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۳،پیرا گراف ۲،۳،۵،۱۳اور ضمیمہ نمبر ۵پیرا گراف ۱۰)
اس تخیل کو اس مثال سے بآسانی سمجھا جاسکتاہے کہ خواجہ ناظم الدین اگرچہ اپنے وقت میں پاکستان کے گورنر جنرل تھے ، اور سابق گورنر جنرل ہونے کااعزاز ان سے چھن نہیںگیاہے ، مگر مسٹر غلام محمد کے دور میں وہ ہمارے درمیان گورنر جنرل کی حیثیت میں نہیں بلکہ رعیت دولت پاکستان کے ایک فرد کی حیثیت میں ہیں۔ اس طرح مسیح ابن مریم کا نزول عقیدۂ ختم نبوت کے ساتھ بالکل ہموار ہوجاتاہے اور اس امر کا شبہ تک باقی نہیں رہتا کہ ان کی آمد سے ایک نئے پیشوا کے اتباع کا سوال پیدا ہوگا جسے قبول کرنے پر کسی شخص کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کاانحصار ہو۔ بخلاف اس کے ’’مسیح موعود ‘‘ کا قادیانی تخیل ایک نئے پیشوا کو ہمارے سامنے لاتاہے جو نبوت کے تمام اعتقادی اور شرعی حقوق کا ہم سے مطالبہ کرتاہے اور وہ تمام دعوے لے کر اٹھتاہے جو ایک مستقل رسالت کے ساتھ آنے والے شخص کے سوا کوئی دوسرا انسان پیش نہیں کرسکتا۔ (ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۷ ، پیرا گراف ۹،اقتباس نمبر۳ ، ۴۔ پیرا گراف ۱۱،اقتباس نمبر۹،۱۰،۱۱۔ پیراگراف نمبر۱۳۔ پیراگراف نمبر۱۴،اقتباس نمبر۵تا۲۲)۔ ان دعوئوں کی نوعیت میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مدعی اپنے آپ کو ’’اُمتی ‘‘ اور ’’تابع شرع محمدی ‘‘ کی حیثیت میں رکھتاہے یا کسی اور حیثیت میں اصل چیز جو اس کے دعوئوں کی نوعیت کو نزول مسیح کے اسلامی عقیدہ سے اساسی طور پر قطعی مختلف کردیتی ہے وہ یہ ہے کہ نزول مسیح کااسلامی عقیدہ، ایک نئے پیشوا کی اطاعت و اتباع کو کفر وایمان کامدار نہیں بناتا اور مسیح موعود کا قادیانی عقیدہ اس کو مدار کفر وایمان بناتاہے۔
(ب)درباب ظہورمہدی:
(۶)’’مہدی‘‘کے مسئلے کی نوعیت نزول مسیح کے مسئلے سے بہت مختلف ہے۔اس مسئلے میںدوقسم کی احادیث پائی جاتی ہیں۔ایک وہ جن میںلفظ ’’مہدی‘‘کی تصریح ہے۔دوسری وہ جن میںصرف ایک ایسے خلیفہ کی خبردی گئی ہے جوآخرزمانے میں پیدا ہوگا اور اسلام کوغالب کردے گا۔ان دونوںقسم کی روایات میںسے کسی ایک کابھی بلحاظ سندیہ پایہ نہیںہے کہ امام بخاریؒکے معیارتنقیدپرپورااترتا۔ چنانچہ انھوں نے اپنے مجموعہ حدیث میںکسی کوبھی درج نہیںکیا۔مسلم نے صرف ایک روایت درج کی ہے جولفظ مہدی سے خالی ہے۔(ملاحظہ ہوضمیمہ۲‘روایت نمبر۱۶)دوسری کتابوںمیںجس قدر روایات موجود ہیں، قریب قریب ان سب کوہم نے ضمیمہ ۲میںجمع کردیاہے۔ان روایات میں‘سند سے قطع نظرکرتے ہوئے‘کمزوری کے متعددپہلوہیں:
(الف)ان کے نفس مضمون میںصریح اختلافات ہیں۔روایات نمبر۲‘ ۳‘ ۱۰‘۱۴ اور ۱۵کہتی ہیںکہ وہ خاندان اہل بیت سے ہوگا۔نمبر۱۸ اور ۱۹کہتی ہیںکہ اس کاظہور عباسی خاندان میںہوگا۔نمبر۴ / اس کے ظہورکادائرہ تمام اولادعبدالمطلب تک پھیلادیتی ہے۔ نمبر ۵ / اس دائرے کوپھیلاکرتمام امت تک وسیع کردیتی ہے اور نمبر۱۷ / کہتی ہے کہ وہ اہل مدینہ میںسے ایک شخص ہوگا۔پھرروایت نمبر۱۱ اور۳ا کہتی ہیںکہ اس کانام محمدﷺ کے نام پرہوگااورنمبر۱۴ / کہتی ہے اس کانام اوراس کے باپ کانام، دونوں آنحضرت ﷺ کے اسم گرامی اورآپﷺ کے والدکے نام پرہوںگے۔ان سب کے برعکس نمبر۱۲کی روسے اس کانام حارث ہوگااوروہ آل محمدﷺ کی فرماںروائی کے لیے زمین ہموارکرے گا۔
(ب)متعددروایات میںاس امرکی اندرونی شہادت موجودہے کہ ابتدائے اسلام میںجن مختلف پارٹیوںکے درمیان سیاسی کشمکش برپاتھی‘انھوںنے اپنے مفادکے مطابق اس پیشین گوئی کوڈھالنے کی کوشش کی ہے اوریہ روایات ان کے سیاسی کھیل کاکھلونابننے سے محفوظ نہیںرہ سکی ہیں۔مثلاًروایت نمبرایک میںخراسان کی طرف آنے والے سیاہ جھنڈوںکاذکرہے جوصاف بتاتاہے کہ عباسیوںنے اس روایت میںاپنے مطلب کی بات داخل کی ہے،کیونکہ سیاہ رنگ عباسیوںکاشعارتھااورابومسلم خراسانی نے عباسی سلطنت کے لیے زمین ہموارکی تھی۔اسی طرح روایات نمبر۲‘۳‘۱۰‘ ۱۴ور۱۵کو اگر نمبر۴‘ ۱۸اور۱۹کے مقابلہ میںرکھ کردیکھاجائے توصاف معلوم ہوتاہے کہ ایک طرف اس پیشین گوئی کوبنی فاطمہ نے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی ہے تودوسری طرف بنی عباس اسے اپنی جانب کھینچ لے گئے ہیں۔
(۷)تاہم یہ کہنامشکل ہے کہ یہ تمام روایات بالکل ہی بے اصل ہیں۔تمام آمیزشوںسے الگ کرکے ایک بنیادی حقیقت ان سب میںمشترک ہے اوروہی اصل حقیقت ہے کہ نبی ﷺ نے آخرزمانے میںایک ایسے لیڈرکے ظہورکی پیشین گوئی فرمائی ہے جوزمین کوعدل وانصاف سے بھردے گا‘ظلم وستم مٹادے گا‘سنت نبیﷺ پرعمل کرے گا،اسلام کوغالب کردے گااورخلق خدامیںعام خوش حالی پیداکردے گا۔
(۸)مہدی کے ظہورکاخیال بہرحال انہی روایات پرمبنی ہے اوریہ روایات اس تخیل سے بالکل خالی ہیںکہ مہدی ‘نبوت کے منصب کی طرح کسی دینی منصب کانام ہے جسے ماننا اورتسلیم کرناکسی درجے میںبھی شرعاًضروری ہو۔نبی ﷺ نے اگریہ لفظ استعمال کیاہے توشخص موعودکے لیے بطورایک اسم صفت کے استعمال کیاہے کہ وہ ایک ’’ہدایت یافتہ‘‘شخص ہوگا۔اورایک روایت (نمبر۱۲)میںصرف اتناکہاگیاہے کہ ’’ہرمومن پراس کی مددواجب ہے‘‘۔یہ بات اگرفی الواقع حضور(ﷺ ) نے فرمائی ہے تواس کا مطلب زیادہ سے زیادہ صرف یہ ہے کہ جس طرح ہرمجاہدفی سبیل اللہ اورحامی حق کی مدد کرنا اورراہ خدامیںاس کاساتھ دینامسلمانوںکے لیے واجب ہے اسی طرح شخص موعودکی مدد کرنابھی واجب ہوگا۔اس کو کسی کھینچ تان سے بھی یہ معنی نہیںپہنائے جاسکتے کہ ’’منصب مہدویت‘‘کے نام سے اسلام میں کوئی دینی منصب پایاجاتاہے جس کوماننایاجس پرایمان لانا واجب ہواورجس کونہ ماننے سے دنیاوآخرت میںکچھ مخصوص اعتقادی ومعاشرتی نتائج پیدا ہوتے ہوں۔پھراحادیث میںکہیںاس عجیب وغریب حرکت کے لیے بھی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ کوئی آدمی اناالمہدی کے نعرے سے ہی دین کاکام کرنے اٹھے اورپھراپنی طاقت کا بڑا حصہ صرف اپنے آپ کومہدی منوانے ہی پرصرف کردے۔
(۹)یہ امربھی قابل ذکرہے کہ مہدی کے متعلق کوئی خاص عقیدہ اسلامی عقائد میں شامل نہیںہے۔اہل سنت کی کتب عقائداس سے بالکل خالی ہیںاورتاریخ کے دوران میںجتنے لوگوںنے بھی مہدویت کادعویٰ کرکے اپنے نہ ماننے والوںکوکافریاگمراہ یا دائرۂ دین سے خارج ٹھہراکراپنے ماننے والوںکی الگ جماعت بندی کی ہے۔علمائے اسلام نے ان سب کی مخالفت کی اورامت کی عظیم اکثریت نے ان کوردکردیا۔
بجواب نکتہ دوم:
(۱۰)یہ بات کہ مسیح موعودجن کے آنے کی مسلمان توقع رکھتے ہیںعیسیٰ ابن مریم ہی ہیں‘ان تمام روایات سے جوضمیمہ نمبر۱میں، اوران تمام اقوال علما سے جوضمیمہ نمبر۳میںجمع کر دئیے گئے ہیں‘ثابت ہے۔ہمیںکوئی روایت‘حدیث کی کسی کتاب میںایسی نہیںملی جس میںآنے والے مسیح کاذکرعیسیٰ ابن مریم ‘مسیح ابن مریم‘یاابن مریم کے سواکسی اورایسے لفظ سے کیاگیاہوجس سے یہ گمان کیاجاسکے کہ شایدآنے والامسیح حضرت عیسیٰ ابن مریم کے سوا کوئی اورہو۔صرف ایک روایت ایسی ہے جس میںمحض ’’مسیح‘‘کالفظ آیاہے۔(ضمیمہ نمبر۲‘ روایت نمبر۸)۔مگروہ بھی بعض دوسری سندوں سے جن الفاظ میںمروی ہوئی ہے اس میں یا توعیسیٰ کی تصریح ہے یاابن مریم کی۔ نیزابتداسے آج تک کے علمائے اسلام میںکوئی قابل ذکرعالم کم ازکم ہمارے علم کی حدتک نہیںہے‘جس نے کبھی اس خیال کااظہارکیاہوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کے آنے کی خبردی ہے وہ عیسیٰ ابن مریم نہیںبلکہ صفات اورحالات میںان سے مشابہ کوئی غیرابن مریم ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ جب مرزاغلام احمدصاحب کانظریہ ’’مثیل مسیح‘‘نہ چل سکاتوانھوںنے تمثیلی رنگ میںاپنے آپ کومریم اورپھرخوداپنے ہی بطن سے پیداشدہ عیسیٰ ابن مریم قراردیااورجب یہ پوزیشن بھی قابل قبول قرارنہ پائی گئی تویہ عجیب وغریب خیال ظاہرکیاکہ چونکہ میںکسی سلسلہ تصوف میںمریدنہیںہوںاورمیراکوئی والدروحانی (پیر)نہیںہے‘اس لیے گویامیںعیسیٰ علیہ السلام کی طرح بے باپ پیداہوا ہوں۔ (ملاحظہ ہوضمیمہ نمبر۷‘پیراگراف ۱۲‘اقتباسات نمبر۱‘۲‘۳‘۴‘۷‘۸‘)
بجواب نکتہ سوم:
(۱۱)جہاںتک حضرت مسیح کے نزول کاتعلق ہے‘علمائے اسلام یہ تصریح کرتے ہیں کہ یہ نزول نبی کی حیثیت میںنہیںہوگا(ملاحظہ ہوضمیمہ ۳)۔بلکہ شرح عقائد نسفی‘ تفسیر روح البیان اورتفسیرروح المعانی میںیہ صاف صاف کہاگیاہے کہ ان کی طرف نہ وحی ہوگی اورنہ وہ احکام مقرر کریںگے۔(ضمیمہ نمبر۳‘پیراگراف۹و۳اضمیمہ نمبر۵‘پیراگراف ۱۰)نیز احادیث میںکہیںکوئی اشارہ تک ایسانہیںپایاجاتاجس سے حضرت عیسیٰ کے نبی کی حیثیت سے آنے اوربذریعہ شرعی احکام پانے کاشبہ کیاجاسکتاہو۔
رہے مہدی‘توان کے بارے میںنبوت اوروحی کاسرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیںہوتا۔پیراگراف نمبر۸و۹میںجوکچھ بیان کیاجاچکاہے وہ اس نکتے کی توضیح کے لیے کافی ہے۔
بجواب نکتہ چہارم:
(۱۲)قرآن اورسنت کے کسی حکم کومنسوخ کرنا‘یاکسی حکم میںردوبدل کرناعیسیٰ ابن مریم اورمہدی‘دونوںکے اختیارات سے قطعاًخارج ہے۔ ضمیمہ۱‘۲‘۳‘ میںجواحادیث اور اقوال علما جمع کیے گئے ہیںوہ اس سوال کے جواب میںبالکل ناطق ہیں۔اگرکوئی احادیث میںیضع الحرب‘یضع الجزیہ‘یضع الخراج وغیرہ الفاظ دیکھ کریہ سمجھتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑآکرجہادبالسیف کوممنوع قراردیںگے اورجزیہ وخراج سے ذمیوں کو معاف کر دیں گے تووہ صریح غلط بات سمجھ بیٹھتاہے۔اول تواحادیث میںخودہی یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی آمدپرملتوںکااختلاف ختم ہوجائے گااورایک ہی ملت رہ جائے گی اس لیے جنگ اورجزیہ وخراج خودختم ہوجائیں گے۔دوسرے ضمیمہ نمبراکی روایت نمبر۲۰ میں کسرصلیب‘قتل خنزیراوروضع جزیہ کوحضرت عیسیٰ ؑکے بجائے مسلمانوںکافعل بتایاگیاہے اور ظاہرہے کہ نسخ احکام کے مجازعام مسلمان توبہرحال نہیںہوسکتے۔تیسرے یہ کہ محدثین نے اس کے معنی بالاتفاق وہی بیان کیے ہیںجوابھی ہم بیان کرآئے ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن حزم لکھتے ہیں:
’’فیکسرالصلیب ویقتل الخنزیرکامطلب یہ ہے کہ وہ دین نصرانیت کوختم کر دیںگے‘صلیب کوحقیقتاًتوڑدیںگے‘اوردوسرے فقرے سے یہ معنی نکلتے ہیںکہ سور کا گوشت کھانے کوحرام کردیںگے۔ویضع الحرب۔کشمہینی کی روایت میںحرب کے بجائے جزیہ کالفظ ہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ دین ایک ہوجائے گااوراہل ذمہ باقی ہی نہ رہیں گے کہ کوئی جزیہ اداکرے‘‘۔ (المحلیٰ‘ابن حزم‘جلد۱‘ص۹)
بجواب نکتہ پنجم:
(۱۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم پروحی مختلف طریقوںسے آتی تھی۔اس کی تفصیل علامہ ابن قیم نے زادالمعادمیںاس طرح کی ہے:
۱۔سچاخواب، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پروحی کی ابتدائی صورت تھی۔آپ جوخواب بھی دیکھتے تھے وہ اس طرح صاف صاف آتاتھاجیسے سپیدۂ صبح ۔
۲۔فرشتہ آپ کے ذہن وقلب میںایک بات ڈالتاتھابغیراس کے کہ وہ آپ کو نظر آئے۔اس کی مثال وہ حدیث ہے جس میںنبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںکہ روح القدس (جبریلؑ)نے میرے ذہن میںیہ بات ڈالی ہے(یاپھونکی ہے)کہ کوئی متنفس ہرگزنہ مرے گاجب تک کہ اپنے حصے کاپورا رزق نہ پالے‘لہٰذااللہ سے ڈرکرکام کرواورطلب رزق کااچھاطریقہ اختیارکرواوررزق میںتاخیرتم کواس بات پرآمادہ نہ کرے کہ تم اسے اللہ کی نافرمانی کے ساتھ طلب کرنے لگو‘کیونکہ جوکچھ اللہ کے پاس ہے(یعنی اس کاانعام)وہ صرف اس کی اطاعت ہی سے حاصل ہوتاہے۔
۳۔فرشتہ آپ کے سامنے بصورت انسان نمودارہوکربات کرتاتھااوراس وقت تک مخاطب رہتاتھاجب کہ آپ اس کی بات پوری طرح ذہن نشین نہ کرلیں۔اس صورت میںکبھی کبھی ایسابھی ہواہے کہ صحابہؓ نے بھی اس کودیکھاہے۔
۴۔وحی سے پہلے آپﷺ کے کان میںایک گھنٹی سی بجنی شروع ہوتی تھی اوراس کے ساتھ پھرفرشتہ بات کرتاتھا۔یہ وحی کی شدیدترین شکل تھی جس سے سخت جاڑے میںبھی آپﷺ پسینہ پسینہ ہوجاتے تھے۔اگرآپﷺ اونٹ پرسوارہوتے تھے تووہ بوجھ کے مارے بیٹھ جاتاتھا۔ایک دفعہ اس حال میںوحی آئی کہ آپﷺ زیدبن ثابت کے زانوپرسررکھے لیٹے تھے۔اس وقت ا ن پر اتنا بوجھ پڑاکہ ان کی ران ٹوٹنے لگی تھی۔
۵۔آپ فرشتے کواس کی اصلی صورت میںدیکھتے تھے جس میںاللہ نے اسے پیدا کیا ہے‘ پھرجوکچھ اللہ کاحکم ہوتا‘اسے وہ آپ پروحی کرتاتھا۔یہ شکل دومرتبہ پیش آئی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ نجم میںبیان کیاہے۔
۶۔براہ راست اللہ تعالیٰ نے آپ پروحی کی جب کہ آپ معراج میں آسمانوں پر تھے اوروہاںنمازفرض کی اوردوسری باتیںارشادفرمائیں۔
۷۔اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے توسط کے بغیرآپ سے گفتگوکی جس طرح موسیٰ علیہ السلام سے کی تھی۔حضرت موسیٰ ؑکے لیے تویہ مرتبہ قرآن سے ثابت ہے۔رہے نبیﷺ‘ توآپ کے حق میںاس کاذکرمعراج کی حدیث میںآیاہے۔
ان کے علاوہ بعض لوگوںنے ایک آٹھویںشکل بھی بیان کی ہے اوروہ یہ کہ اللہ نے بے پردہ ہوکرآپ سے گفتگوکی۔یہ ان لوگوںکامذہب ہے جواس بات کے قائل ہیںکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خداکودیکھامگراس مسئلے میںسلف اورخلف کے درمیان اختلاف ہے‘‘۔ (زادالمعاد‘جلد اول‘ص ۲۴۔۲۵)
سیوطی نے اتقان جلداول میںایک پوری فصل اسی مضمون پرلکھی ہے جس کاخلاصہ یہ ہے۔
’’چالیس سال کی عمرمیںجب آپﷺ نبی ہوئے توابتدائی تین سال تک اسرافیلؑ آپﷺ کی تعلیم وتربیت پرماموررہے اوران کے ذریعہ سے قرآن کاکوئی حصہ نازل نہیں ہوا۔ پھر جبرائیل وحی لانے پرمقررہوئے اوروہ ۲۰ سال تک قرآن لاتے رہے۔وحی کی صورتیں حسب ذیل تھیں:
۱۔کان میںگھنٹی بجنی شروع ہوتی اورپھرفرشتے کی آوازآتی۔
اس میںحکمت یہ تھی کہ پہلے آپ سب طرف سے توجہ ہٹاکراس آوازکوسننے کے لیے ہمہ تن متوجہ ہوجائیں۔حضورﷺ کابیان ہے کہ یہ شکل آپ کے لیے سب سے زیادہ شدیدتھی۔
۲۔آپﷺ کے ذہن وقلب میںایک بات ڈالی جاتی تھی‘جیساکہ آپ نے خودبیان فرمایاہے۔
۳۔فرشتہ آپ سے انسانی شکل میںآکربات کرتاتھا۔نبی ﷺ فرماتے ہیںکہ وحی کی یہ صورت میرے لیے سب سے زیادہ ہلکی ہوتی ہے۔
۴۔فرشتہ خواب میںآکرآپﷺ سے بات کرتا۔
۵۔اللہ تعالیٰ آپ سے براہ راست کلام کرتا‘خواہ بیداری میںیاخواب میں۔
بجواب نکتہ ششم:
(۱۴)ختم نبوت کی یہ تعبیرکہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکوئی نبی اورکسی نوعیت کانبی نہیںآسکتا، اوریہ کہ آپﷺ آخری نبی ہیںجن کے بعدنبوت ورسالت کاسلسلہ منقطع ہوگیا اوریہ کہ آپﷺ کے بعدجونبوت کادعویٰ کرے اورجواس کومانے وہ کاذب اورکافراوردائرۂ ملت سے خارج ہے‘یہ آغازاسلام سے آج تک تمام مسلمانوںکامتفقہ عقیدہ ہے جس میںاسلامی فرقوںکے درمیان کوئی اختلاف نہیںہے۔اس عقیدے کی بنیادقرآن‘سنت اوراجماع امت پرہے۔
(الف)قرآن میںاللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوبالفاظ صریح خاتم النبیین قراردیاہے۔
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ
الاحزاب 40:33
محمدﷺ نہیںہیںتمہارے مردوںمیںسے کسی کے باپ مگروہ اللہ کے رسول ہیںاور خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ۔
خاتم کے لفظ کوخواہ بالکسرخاتم پڑھاجائے یابالفتح خاتم۔دونوںصورتوںمیںنتیجہ ایک ہی ہے۔خاتم لفظ ختم سے نکلاہے جس کے معنی مہرکرنے یالگانے کے ہیں۔اگرخاتِم پڑھا جائے تویہ مہرکرنے والے کے معنی ہوگا۔اوراگرخاتَم پڑھاجائے تواس کے معنی خودمہرکے ہیں۔دونوںصورتوںمیںمطلب صاف طورپریہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے انبیا کے سلسلے پرمہرلگ گئی ہے۔
یہ آیت جس سیاق وسباق میںآئی ہے وہ اس معنی کوقطعی طورپرثابت کردیتاہے اورکسی دوسرے معنی کی گنجائش نہیںچھوڑتا۔سیاق و سباق یہ ہے کہ عرب میںمنہ بولے بیٹے کوبالکل صلبی بیٹے کی طرح سمجھاجاتاتھاجس سے بے اولادلوگوںکے دوسرے رشتے داروراثت سے محروم ہوجاتے تھے اورگھرمیںایک غیرصلبی بیٹے کااصلی بیٹے کی طرح رہنابہت سی معاشرتی خرابیاںپیداکرتاتھا۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے سورۂ احزاب کے پہلے رکوع میں متبنیٰ کی نفی فرمائی‘پھرجب نبی ﷺ کے متبنیٰ حضرت زیدبن حارثہ ؓنے اپنی بیوی حضرت زینبؓ کوطلاق دی تواللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کوحکم دیاکہ آپﷺ خود حضرت زینبؓ سے شادی کرکے عرب کی اس رسم کوعملاًتوڑدیں۔چنانچہ آپﷺ نے اس پرعمل کیااوراس پرنہ صرف مدینے میںبلکہ عرب کے دوسرے حصوںمیںبھی نبی ﷺ کے خلاف پروپیگنڈے کاایک سخت طوفان اٹھ کھڑاہوا۔منافقین‘یہوداورمشرکین سب یہ کہتے تھے کہ انھوںنے اپنی بہوسے شادی کرلی ہے اورجب یہ کہاجاتاتھاکہ جس شخص کی مطلقہ بیوی سے شادی کی گئی ہے وہ آپ کاصلبی بیٹانہ تھااس لیے اس سے شادی کرنا جائز تھا‘ توجواب میںوہ کہتے تھے کہ بالفرض یہ جائزہی سہی‘مگراس فعل کاکرناکیاتھا؟ ان اعتراضات کے جواب میںسورہ الاحزاب کاپانچواںرکوع نازل ہواجس میںپہلے تواللہ تعالیٰ صاف طورپرفرماتاہے کہ نبی نے یہ فعل ہمارے حکم سے کیاہے‘پھرمذکورۂ بالاآیت میں معترضین کوتین جواب دیتاہے:
۱۔یہ کہ محمدﷺتمہارے مردوںمیںسے کسی کے باپ نہیں‘یعنی جونکاح انھوںنے کیاہے‘وہ ’’بہو‘‘سے ہواہی نہیں‘پھراس پراعتراض کیسا۔
۲۔یہ کہ محمدﷺاللہ کے رسول ہیں‘یعنی ان کافرض ہے کہ شریعت الٰہی کے احکام کونہ صرف بیان کریںبلکہ خودان پرعمل بھی کریںاورغیرشرعی رسموںکومٹائیں۔
۳۔یہ کہ وہ خاتم النبیین ہیں‘یعنی وہ رسول بھی ایسے ہیںکہ ان کے بعدکوئی رسول یانبی آنے والا نہیںہے‘اگروہ کسی خرابی کوباقی رہنے دیںتویہ امیدنہیںکی جاسکتی کہ بعد میں کوئی دوسراآکراس کی اصلاح کردے گا۔
اس سیاق وسباق میںنہ یہ معنی لیے جاسکتے ہیںکہ وہ اپنی مہرلگاکرآئندہ نئے نبی بناتے رہیںگے اورنہ یہ معنی لیے جاسکتے ہیںکہ وہ خاتم النبیین بمعنی افضل النبیین ہیںجن پر نبوت کے کمالات توختم ہوگئے مگرسلسلہ نبوت بندنہ ہوا۔ان دونوںمن گھڑت معنوں میں سے جوبھی لیے جائیںگے‘خاتم النبیین کافقرہ اس سیاق وسباق میںبالکل مہمل ہوجائے گا۔
(تقابل کے لیے ملاحظہ ہوضمیمہ نمبر۱۷پیراگراف۱۰)
(ب)نبی ﷺ نے دونہایت واضح الفاظ میںمختلف مواقع پرمختلف طریقوںسے اس کی تشریح فرمادی ہے جس کے بعدکوئی شخص جس کے دل میںذرہ برابربھی ایمان ہو‘کسی دوسری تعبیروتاویل کاتصورتک نہیںکرسکتا۔ضمیمہ نمبر۴میںہم نے وہ تمام احادیث جمع کردی ہیںجواس آیت کی تفسیرمیںنہایت مضبوط سندوںکے ساتھ کتب حدیث میں نبیﷺ سے منقول ہیں۔ان احادیث کودیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ نے یہ مضمون ایک دفعہ نہیں‘بارہابیان کیاہے اورایسے صریح الفاظ میںبیان کیا ہے جن سے زیادہ صریح الفاظ اس کے لیے اورکوئی نہیں ہو سکتے۔
(ج)قدیم زمانے سے آج تک امت کے تمام علمائ اس آیت کے وہی معنی سمجھتے رہے ہیںجواوپرہم نے بیان کیے ہیں۔ضمیمہ نمبر۵میںہم نے تیسری صدی سے لے کر تیرہویںصدی تک کے تمام اکابرمفسرین کی تفسیریںنقل کردی ہیںجنھیں دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ ہرزمانے میںہرملک کے مفسراس کاصرف یہی ایک مطلب لیتے رہے ہیں۔ اس کے سواکسی مفسرکاکوئی قول پیش نہیںکیاجاسکتا۔
(د)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے متصلاً بعدصحابہ کرامؓ نے بالاتفاق ان سب لوگوںکے خلاف جنگ کی جنھوںنے نبوت کادعویٰ کیایااس دعوے کومانا۔اس سلسلے میںخصوصیت کے ساتھ مسیلمۂ کذاب کامعاملہ قابل ذکرہے۔معتبرروایات سے یہ ثابت ہے کہ مسیلمۂ نے نبی ﷺ کی نبوت کاانکارنہیںکیاتھا۔وہ آپﷺکونبی تسلیم کرتاتھا۔ البتہ خوداپنی نبوت کابھی مدعی تھا۔طبری وہ خط نقل کرتاہے جومسیلمہ نے حضورﷺکی وفات سے پہلے آپﷺ کولکھاتھا۔اس میںوہ لکھتاہے:
من مسیلمۃ رسول اللّٰہ الی محمدرسول اللّٰہ سلام علیک فانی قد اشرکت فی الامرمعک۔
مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمدرسول اللہ کی طرف ۔آپ پرسلام ہو۔ آپ کو معلوم ہوکہ میںآپ کے ساتھ امرنبوت میںشریک کیاگیاہوں۔ (جلددوم‘ص ۳۹۹)
مگراس کے باوجودوہ کافراورخارج ازملت قراردیاگیا۔پھرتاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ بنوحنیفہ نیک نیتی کے ساتھ(in good faith)اس پرایمان لائے تھے۔ البدایہ والنہایہ میںابن کثیرنے تفصیل کے ساتھ وہ وجوہبتائے ہیںجن کی بناپربنو حنیفہ اس کے فتنے میںمبتلاہوئے۔اس سلسلے میںوہ بتاتے ہیںکہ ایک شخص رحال بن عنفوہ پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکرمسلمان ہوااورکچھ مدت رہ کرقرآن سیکھتارہا۔پھروہ مسیلمہ کے پاس جاکراس کی نبوت پرایمان لیے آیااوراس نے بنوحنیفہ کویقین دلایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوداس کوشریک فی الامر کیا ہے۔ نیزجوقرآن اس کویادتھااسے اس شخص نے مسیلمہ پرنازل شدہ کلام کی حیثیت سے بنوحنیفہ کے سامنے پیش کیا۔یہی چیزبنوحنیفہ کے لیے سب سے بڑھ کرفتنے کاموجب بنی۔ (جلدپنجم‘صفحہ ۵۱) مگراس نیک نیتی کے باوجود صحابہ کرام نے بنوحنیفہ کومسلمان تسلیم نہیںکیا، اوران پرفوج کشی کی۔
پھریہ کہنے کی بھی گنجائش نہیںہے کہ مسیلمہ اوربنوحنیفہ کے خلاف صحابہ کرامؓ کی جنگ بربنائے دعوائے نبوت نہ تھی بلکہ بربنائے خروج وبغاوت تھی۔اس کی دلیل یہ ہے کہ اسلامی قانون میںجن لوگوںکے خلاف خروج وبغاوت کے جرم میںفوج کشی کی جاتی ہے ان کے اسیروںکوغلام نہیںبنایاجاتا‘خواہ وہ مسلمان ہوںیاذمی۔مگرمسیلمہ کے پیروئوںکے خلاف جوفوج کشی کی گئی تھی‘اس کے آغازہی میںحضرت ابوبکرؓنے یہ اعلان فرمایاتھاکہ:
ان یسبی النساء والذرای ولایقبل من احدغیرالاسلام۔
ان کے بچوںاورعورتوںکوغلام بنالیاجائے گااوران سے اسلام کے سواکوئی چیز قبول نہ کی جائے گی یعنی وہ ذمی نہیںبنائے جائیںگے۔ (البدایہ والنہایہ جلد۶‘صفحہ ۳۱۶)
اورواقعتابھی یہی ہواکہ بنوحنیفہ کے اسیرغلام بنائے گئے اوریہ مشہورواقعہ ہے کہ انہی میںسے ایک لونڈی حضرت علیؓ کے حصے میںآئی۔حضرت علیؓ کے نامور صاجنرادے محمدبن حنیفہ اسی حنفی لونڈی کے بطن سے تھے۔ (البدایہ والنہایہ جلد۶‘صفحہ ۳۲۵)
یہ تھاختم نبوت اورارتدادکے مسئلے میںصحابہؓ کرام کی پوری جماعت کامتفقہ فیصلہ۔ اسلام اوراس کے اصول وقوانین کے لیے قرآن وحدیث کے بعداجماع صحابہؓ سے بڑھ کرکوئی سندنہیںہے اورکم ازکم کوئی معقول آدمی تویہ بات نہیںمان سکتاکہ جن لوگوںنے نبی اکرمﷺ سے براہ راست تعلیم وتربیت پائی تھی ان کی متفقہ رائے تواسلام کی صحیح ترجمان نہ ہواورآج کوئی زیدیابکرجس چیزکواپنی جگہ اسلام سمجھ بیٹھاہووہ اصلی اسلام ہو۔
(ہ)دورصحابہؓ کے بعدسے لے کرآج تک ختم نبوت کے بارے میںامت کے فقہا، محدثین اورمفسرین کاکیامسلک رہاہے‘اسے ہم نے ضمیمہ نمبر۵‘۶میںپیش کردیاہے۔اس میںیہ بات دیکھی جاسکتی ہے کہ ایک ہی بات ہے جسے پہلی صدی ہجری کے امام ابوحنیفہ سے لے کرتیرھویںصدی کے علامہ آلوسی تک سب کہتے چلے آرہے ہیں۔ان میںہندوستان کے مصنّفین فتاوائے عالمگیری‘ایران کے امام غزالی‘ماوراء النہرکے ملاعلی قاری‘ترکی کے اسماعیل حقی‘عراق کے علامہ الوسی‘شام کے علامہ ابن کثیر‘مصرکے امام سیوطی‘یمن کے امام شوکانی‘مراکش کے قاضی عیاض اوراندلس کے ابن حزم سب شامل ہیں۔پھران میں زمخشری معتزلی ہیںتوامام رازی اشعری‘شوکانی اہل حدیث ہیںتوابن حزم ظاہری‘ابن کثیرحنبلی ہیںتوامام غزالی شافعی‘قاضی عیاض مالکی ہیںتواسماعیل حقی اورآلوسی اورابن نجیم وغیرہ حنفی۔اس سے صاف ظاہرہوجاتاہے کہ اس مسئلے میںمشرق سے مغرب تک اورشمال سے جنوب تک ہرملک ‘ہرزمانے اورہرمسلک ومذہب کے مسلمانوںکاعقیدہ ایک ہی رہا ہے اور وہ وہی ہے جسے یہاںآل مسلم پارٹیزکنونشن نے پیش کیاہے۔
۱۵۔یہ امرنظراندازنہ کیاجاناچاہیے کہ ختم نبوت کایہ عقیدہ محض ایک اعتقادی مسئلہ نہیںہے جس میںاختلاف رونماہونے کے اثرات ونتائج صرف فکروخیال کی دنیاتک محدودرہ سکتے ہوں‘بلکہ یہی وہ واحدبنیادہے جس پرمسلمانوںکی پوری قومی عمارت قائم رہ سکتی ہے‘جس کے بقا پرمسلم ملت کی وحدت اوراس کااستحکام منحصرہے اورجس کے متزلزل ہوجانے کے اثرات ونتائج محض’’مذہب‘‘کے دائرے تک محدودرہ جانے والے نہیں ہیں بلکہ تمدنی اورسیاسی اورمعاشی اوربین الاقوامی ہرحیثیت سے ہمارے لیے سخت مہلک ہیں۔ تاریخ میںمسلمانوںکے درمیان عقائداوراصول اورفروع میں بے شمار اختلافات رونما ہوچکے ہیںاوراب بھی ہوئے جارہے ہیںجن کے نہایت برُے اثرات ہمارے اجتماعی زندگی پرمرتب ہوئے ہیںاورہورہے ہیں۔مگرشروع سے آج تک جس چیز نے تمام تفرقوںاوراختلافات کے باجودہم سب کوایک ملت بنارکھاہے اورجس چیزکی بدولت ہمیشہ قومی خطرات ومصائب کے وقت یااہم قومی مسائل پیش آنے پر ہمارا متحد ہوکر کام کرناممکن ہواہے وہ صرف ایک رسول کی پیروی پرہمارامتفق ہوناہے۔یہ ایک بنیادبھی اگرمتزلزل ہوجائے اورنئے نئے رسولوںکی دعوتیںاٹھ کرہمیںالگ الگ امتوں میں بانٹنا شروع کردیںتوپھرکوئی طاقت ہمیںمستقل طورپرپراگندہ ہونے سے نہ بچا سکے گی اورکوئی چیزایسی باقی نہ رہے گی جوہم کوکبھی جمع کرسکے۔اس فتنہ عظیم سے جو لوگ ’’رواداری‘‘برتنے کاہمیںمشورہ دے رہے ہیںوہ صرف یہی نہیںکہ رواداری کے معنی اوراس کے حدود نہیں جانتے اورصرف یہی نہیںکہ وہ اسلام سے ناآشناہیں‘بلکہ درحقیقت وہ بڑی نادانی وبے فکری کے ساتھ مسلم ملت کی قبرکھودناچاہتے ہیں۔خصوصیت کے ساتھ پاکستان کے حق میںتوان کی یہ غلطی قطعی طورپرہلاکت کاپیغام ہے اوراس ریاست کاکوئی بڑے سے بڑابدخواہ بھی اس کے ساتھ وہ بدخواہی نہیںکرسکتاجویہ رواداری کے پیغمبرکررہے ہیں۔یہ ملک مسلمانوںکی متفقہ قومی خواہش سے بناہے اوراسی وقت تک یہ ایک خودمختارریاست کی حیثیت سے قائم ہے جب تک مسلمانوںکی متفقہ قومی خواہش اس کی پشت پناہ ہے۔ دنیا کے دوسرے مسلم ممالک میں‘جہاںزبان ایک ہے‘نسل ایک ہے اورجغرافی حیثیت سے قومی وطن یکجا ہے‘ مسلمانوںکواپنی قومیت کے لیے اسلام کے سوا دوسری بنیادیںبھی مل سکتی ہیں۔ مگرپاکستان جس میں نسل ایک نہ زبان ایک ‘اورجغرافی حیثیت سے جس کے دوٹکڑے ایک ہزارمیل کے فاصلے پرواقع ہیں‘یہاںقومیت کی کوئی دوسری نبیادتلاش کرنے والا اور اس کوممکن سمجھنے والاصرف وہی شخص ہوسکتاہے جولاطائل خیالات کی دنیامیںرہتاہواورجسے عملی سیاست کی ہواتک نہ لگی ہو۔یہاںمسلمانوںکے لیے بنائے وحدت اسلام کے سو ا اور کوئی نہیںہے اوراسلام میںبھی صرف ایک ختم نبوت وہ چیزہے جواس وقت عملاًبنائے وحدت بنی ہوئی ہے۔اس بنیادکورواداری کی مقدس دیوی کے آستانے پربھینٹ چڑھا دیجیے۔پھردیکھیے کہ کون سی طاقت اس عمارت کومسمارہونے سے بچاسکتی ہے۔آج اس اجرائے سلسلہ نبوت کے اثرات زیادہ ترپنجاب تک محدودہیں‘ اس لیے اس کے پورے کرشمے ہماری قومی قیادت کونظرنہیںآتے مگرجب یہ فتنہ اپنی تبلیغ سے دوسرے صوبوںتک پھیل جائے گاتب ان عقلائے روزگارکورواداری کے معنی اچھی طرح معلوم ہو جائیں گے۔
بجواب نکتہ ہفتم:
(۱۶)نکتہ ہفتم متعددسوالات پرمشتمل ہے جن پرہم الگ الگ بحث کریںگے۔
۱۔یہ امرکہ ایک اسلامی ریاست میںغیرمسلم کلیدی مناسب پرفائزنہیںہوسکتا‘ قرآن کی صریح ہدایات پرمبنی ہے۔قرآن نے اس قاعدے کوایجابی (positve) اور سلبی (negative) دونوںطریقوںسے بیان کیاہے۔ایجابی طریقے سے وہ کہتاہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ۔ النسا ء59:4
اے لوگو!جوایمان لائے ہو،اطاعت کرواللہ کی اوراطاعت کرورسول کی اور ان اولوالامرکی جوتم میںسے ہوں۔پھراگرتمہارے درمیان کسی امرمیںنزاع ہو جائے تواس کوپھیرواللہ کی طرف اوررسول کی طرف اگرتم ایمان رکھتے ہو خدا پراورروزآخرت پر۔
اس آیت سے صاف ظاہرہوتاہے کہ ایک اسلامی ریاست کے اولوالامرصرف مسلمان ہی ہوسکتے ہیں۔البتہ احکام دینے والے بااختیارلوگوںکے ماتحت غیر مسلموں کے اہل کارہونے میںیہ آیت مانع نہیںہے۔
دوسری طرف سلبی حیثیت سے سورہ آل عمران میںفرمایاگیاہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ۔ آل عمران 118:3
اے لوگوجوایمان لائے ہواپنے سوا(یعنی مسلمانوںکے سوا)دوسرے لوگوں کو شریک رازنہ بنائو۔
’’شریک راز‘‘ہم نے لفظ بطانہ کاترجمہ کیاہے۔زمخشری نے ‘جوعربی زبان کے مسلم ماہرین میںشمارہوتاہے ۔اس لفظ کی تشریح یوںکی ہے:
بطانتہ خلاف الظھارۃ‘بطانتہ الثوب باطنہ‘بطانتہ الرجل وولیجتہ‘ خصیصہ وصفیہ الذی یطلع علی داخل امر۔
بطانہ کالفظ ظہارہ کی ضدہے۔کپڑے کے استرکوکپڑے کابطانہ کہتے ہیں۔ آدمی کابطانہ اورولیجہ اس شخص کوکہتے ہیںجواس کامخصوص دوست اورچیدہ ساتھی ہو‘جواس کے اندورنی معاملات پرمطلع ہو۔
سورہ توبہ میںپھرارشادہوتاہے:
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلَارَسُوْلِہٖ وَلَاالْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَۃً وَاللّٰہُ خَبِیْرٌمبِمَا تَعْمَلُوْنo التوبہ 16:9
کیاتم لوگوںنے یہ سمجھ رکھاہے کہ تم یونہی چھوڑدئیے جائوگے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تودیکھاہی نہیںکہ تم میںسے کون ہیںوہ لوگ جنھوںنے اللہ اوررسول اورمومنوںکے سواکسی کواپنے معاملات میںدخیل نہیں بنایا اور اللہ باخبرہے ان اعمال سے جوتم لوگ کرتے ہو۔
اپنے معاملات میں’’دخیل‘‘لفظ’’ولیجہ‘‘کاترجمہ کیاگیاہے۔یہ لفظ ولوج سے نکلاہے جس کے معنی گھسنے اورداخل ہونے کے ہیں۔اس کے معنی کی تشریح راغب اصفہانی نے مخصوص لغت قرآن میںاس طرح کی ہے۔
الولیجتہ کل مایتخذہا الانسان معتمداًعلیہ ولیس من اھلہ من قبلھم فلان ولیجتہ فی القوم اذالحق بھم ولیس منھم انساناکان اوغیرہ۔
ولیجہ ہراس چیزکوکہتے ہیںجس کو انسان اپنامعمتدعلیہ بنائے اوردرحقیقت اس کا رفیق نہ ہو۔اہل عرب کے محاورے میںکہتے ہیںکہ فلاں فلاںقوم کاولیجہ ہے یعنی وہ درحقیت ان میںسے نہیںہے مگران کے ساتھ لاحق ہو گیا ہے۔ اس لفظ کااطلاق انسان اورغیرانسان دونوں پر ہوتا ہے۔
قرآن مجیدکی ان ہدایات کامنشایہ ہے کہ غیرمسلموںکورازوںمیںشریک نہ کیاجائے اور حکومت کے نظام کی رہنمائی اورپالیسی کی تشکیل میںان کودخیل نہ بنایاجائے۔ان ہدایات پرنبی اکرمﷺ اورخلفائے راشدین کے عہدمیںجس طریقے سے عمل کیاگیاوہ یہ تھاکہ اس پورے دورحکومت میںکسی غیرمسلم کونہ مجلس شوریٰ میںشریک کیاگیا‘نہ کسی صوبے کا گورنربنایاگیا‘نہ کسی فوج کاسالاربنایاگیا‘نہ قاضی بنایاگیااورنہ کوئی دوسراایسامنصب دیا گیا جوکلیدی منصب کی تعریف میںآتاہو‘یعنی جس کاپالیسی بنانے میںکوئی دخل ہویاجس کے ذریعہ سے وہ پالیسی پراثراندازہوسکے۔اگرچہ حکومت کی خدمات میںغیرمسلم شریک ضرورکیے گئے تھے۔مگرکلیدی مناصب سے فروتر مناصب ہی پررکھے گئے تھے۔حالانکہ نبی اکرمﷺ کی حکومت میںیہودی‘عیسائی اورمجوسی بڑی تعدادمیںذمیوںکی حیثیت سے موجود تھے اورخلفائے راشدین کے زمانہ میںسلطنت کی رعایا مسلمانوںکی بہ نسبت غیر مسلموں پر بہت زیادہ مشتمل تھی۔
۲۔یہ امرکہ غیرمسلموںکواپنے مذہب کی اعلانیہ اشاعت کاحق حاصل ہے یا نہیں؟ اس باب میں‘جہاںتک ہمیںعلم ہے نفیاًیااثباتاًکوئی احکام نہیںدئیے گئے ہیںنہ اس کی صاف صاف اجازت ہی کاکوئی حکم ہے‘نہ اس کی صریح ممانعت ہی پائی جاتی ہے۔ لہٰذا ہمارے نزدیک ایک اسلامی ریاست کے اہل حل وعقد‘اسلام کی عمومی پالیسی کومد نظر رکھتے ہوئے‘اس کے متعلق خودہی مناسب حدودتجویزکرسکتے ہیں۔
۳۔اس سلسلے کاآخری مسئلہ جو(vicarious liability in sin)کے عنوان سے پیش کیاگیاہے اس سے اگرعدالت کامنشایہ معلوم کرناہے کہ اسلام میںایک شخص کے گناہ کی ذمہ داری میںدوسرے لوگ کس حدتک اورکس حیثیت سے شریک ہیں‘تواس کا جواب یہ ہے کہ اسلام میںمعاشرے کی فلاح وبہبودمعاشرے کے تمام افرادکی مشترک ذمہ داری ہے‘اس لیے ہرفعل جومعاشرے میںکسی نوعیت کی خرابی پیداکرتاہوایک شخص کا محض ذاتی گناہ نہیںہے بلکہ ایک اجتماعی گناہ ہے‘اس کوروکنے کی کوشش کرناہرشخص کافرض ہے‘نہ روکے توگناہ کی اشاعت میںحصہ دارہوگااورجوشخص معاشرے میںجتنی زیادہ طاقت اورذمہ دارانہ حیثیت رکھتاہے وہ اس خرابی سے رواداری برت کراتناہی زیادہ سخت جواب دہی کامستحق ہوگا۔قرآن اورحدیث میںاس اجتماعی فریضے کے لیے امربالمعروف اورنہی عن المنکرکاعنوان اختیارکیاگیاہے اوراس کواتنی کثرت سے‘اتنے مختلف طریقوںسے زوردے دے کربیان کیاگیاہے کہ اس کامعتدبہ جزبھی اس بیان میںنقل نہیں کیا جا سکتا۔ تو ضیح مدعاکے لیے یہاںہم صرف دوحدیثیں نقل کرنے پراکتفاکرتے ہیں۔
الا‘کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ فالامام الذی علی الناس راع وھومسؤل عن رعیتہ‘والرجل راع علی اھل بیتہ وہومسؤل عن رعیتہ‘ والمراۃ راعیۃ علی اھل بیت زوجھاوولدہ وھی مسؤلۃ عنھم وعبد الرجل راع علی مال سیدہ وھومسؤل عنہ‘الافکلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ۔ (مشکوۃ‘بحوالہ بخاری ومسلم)
خبرداررہوتم میںسے ہرایک راعی ہے اورہرایک اپنی رعیت کے لیے جواب دہ ہے۔ امام جوسب لوگوںکافرماںرواہے وہ اپنی پوری رعیت کے لیے جواب دہ ہے۔مرداپنے اہل خانہ کاراعی اوروہ اپنی رعیت کے لیے جواب دہ ہے۔عورت اپنے شوہرکے گھروالوںاوراس کی اولادکی راعی ہے اوروہ اپنی رعیت کے لیے جواب دہ ہے۔غلام اپنے آقاکے مال کاراعی ہے اوروہ اس کے لیے جواب دہ ہے۔پس خبردار‘تم سب راعی ہواورتم میںسے ہرایک اپنی رعیت کے لیے جواب دہ ہے۔
اس سے معلوم ہواکہ جس کادائرہ اثرجتناوسیع ہے‘اس کی ذمہ داری بھی اتنی ہی زیادہ ہے۔ایک دوسری حدیث میںنبی اکرمؐ فرماتے ہیں:
مامن رجل یکون فی قوم یعمل فیھم بالمعاصی یقدرون علی ان یغیروا علیہ ولایغیرون الاصابھم اللّٰہ منہ بعقاب قبل ان یموتوا۔
(مشکوۃ بحوالہ ابودائود)
کبھی ایسانہیںہوتاکہ کوئی شخص کسی قوم میںرہ کرمعصیتوںکاارتکاب کرے اوراس قوم کے لوگ اس کوبدلنے کی قوت رکھنے کے باوجوداس کونہ بدلیں اور پھراللہ تعالیٰ مرنے سے پہلے ہی ان لوگوںکواس کی سزانہ دے۔
قرآن مجیدمیںہم کواس مضمون کی ایک سے زیادہ مثالیںملتی ہیںکہ معصیت اورغلط کاری کے ذمہ دارتنہاوہی لوگ نہیںہیںجواس کاارتکاب کریں،بلکہ وہ لوگ بھی ہیںجواس پرراضی ہوںاوروہ لوگ بھی ہیںجواس سے رواداری برت کراسے پھیلنے کاموقع دیں۔ چنانچہ قرآن قوموںپرعام عذاب نازل ہونے کی وجہ یہی بیان کرتاہے کہ اگرچہ ایسی قوموں کے سب لوگ یکساںمرتکب معصیت نہ تھے مگرمعصیت پرراضی ہوکراوراس سے رواداری برت کرسب گناہ میںشریک ہوگئے تھے‘اس لیے خدانے عام اورخاص سب کو مبتلائے عذاب کیا۔
بجواب نکتہ ہشتم:
(۱۷)آٹھویںنکتے کومحترم عدالت نے جن الفاظ میںبیان فرمایاہے اس سے یہ بات واضح نہیںہوتی کہ آیاڈائریکٹ ایکشن کے جوازوعدم جوازپراصولی حیثیت سے بحث مطلوب ہے یاصرف وہ خاص ڈائریکٹ ایکشن زیربحث ہے جوختم نبوت کے سلسلے میں کیا گیاتھا۔ہم یہ فرض کرتے ہوئے کہ محترم عدالت کامنشادونوںپہلوئوںپرحاوی ہے۔اس مسئلہ پردونوںحیثیتوںسے گفتگوکریںگے۔
(۱۸)ڈائریکٹ ایکشن سے مرادہمارے نزدیک (civil disobedience) ہے یعنی ’’پرامن نافرمانی‘‘یا’’نافرمانی بلاتشدد‘‘یا’’غیرمسلح نافرمانی ‘‘ہندوستان وپاکستان کی تاریخ میںیہ لفظ آج تک انہی معنوںمیںاستعمال ہواہے اوریہاںکے عوام وخواص اس کایہی مفہوم سمجھتے ہیں۔
اس میںکوئی شک نہیںکہ یہ ایک غیرآئینی طریق کارہے‘کیونکہ آئین ملکی حکومت کی پالیسی پراثراندازہونے یااس سے مطالبات تسلیم کرانے کے جوطریقے مقرر کرتا یا جائزرکھتا ہے‘یہ طریقہ ان میںشامل نہیںہے اورکوئی آئین احکام کی نافرمانی یاقوانین کی خلاف ورزی کوجائزنہیںرکھتالیکن صرف یہ بات کہ یہ ایک غیرآئینی طریق کارہے‘اس کوحق اور انصاف کے خلاف کردینے کے لیے کافی نہیںہے۔انسانی عقل عام حق اور انصاف کے جن تصورات کوہمیشہ سے قبول کرتی رہی ہے اورآج بھی قبول کرتی ہے‘ان کی روسے ایک حکومت‘قطع نظراس سے کہ وہ جمہوری ہویاشخصی یاکسی اورقسم کی‘اطاعت کاغیرمشروط اور غیر محدودرہناچاہیے کہ اس کے احکام ‘ساتھ قوانین‘نظریات اورحکمت عملی معقولیت پر مبنی ہوںاورملک کے عام باشندے ان پرمطمئن ہوں۔کسی حکومت کویہ حق نہیںپہنچتا کہ لوگوں پران کی مرضی کے خلاف ایک نظام یانظریہ یاحکم مسلط کردے جودلیل سے معقول اورجائزثابت نہ کیاجاسکتاہواورجس کا برا اثر لوگوںکے مذہب، یااخلاق یانظم تمدن و معاشرت یامادی مفاد پر پڑتا ہو۔آئین کااحترام اوراس کی پابندی بلاشبہ ملک کے امن و امان کے لیے ضروری ہے اورامن و امان نہایت قیمتی چیزہے مگرایک حکومت غیرمعقول رویہ اختیارکرکے اورعوام کی مرضی کے خلاف ان پراپنی مرضی زبردستی ٹھونس کراوران کے جائزمطالبات اوراظہارناراضی کو ٹھکراکرخودآئین کے بے احترامی کادروازہ کھولتی ہے اورایسارویہ اختیارکرنے کے بعداسے یہ مطالبہ کرنے کاحق باقی نہیںرہتاکہ لوگ اس کے آئین کااحترام کریں۔اس معاملہ میںحکمرانوںکانقطہ نظربالعموم یہ رہاہے کہ لوگوں کو بہرحال اطاعت امرکرنی چاہیے خواہ حکومت معقول رویہ اختیارکرے یاغیرمعقول اورخواہ وہ ظلم کرے یا انصاف۔ نمرودیت اورفرعونیت ہمیشہ اسی اصول کاسہارالیتی رہی ہے مگرانسانیت کے ضمیرنے کبھی اس اصول کوتسلیم نہیںکیاہے اوراسی بناپرانسانیت نے ہمیشہ ان لوگوںکو سراہاہے جنھوںنے ظلم اورجبراورناروااستبدادکامقابلہ کیاہے۔انسان کی حس انصاف نے ’’پرامن نافرمانی‘‘ہی نہیںبلکہ مسلح بغاوت تک کی ایسے حالات میںحمایت کی ہے جب کہ حکمراں(خواہ وہ ملکی ہوںیاغیرملکی)باشندوںکی مرضی پراپنی اورغیرمعقول مرضی زبردستی ٹھونسنے پرمصررہیںاوراصلاح کی معقول اورپرامن تدبیروںکااثرقبول کرنے سے انکار کیے چلے جائیں۔
اس مختصربحث سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ کسی’’پرامن نافرمانی‘‘کے جائزیاناجائزہونے کافیصلہ کرنے کے لیے اصولاًیہ دیکھناضروری ہے کہ:
(الف)مطالبات بجائے خودمعقول ہیںیانامعقول اوران کے مقابلے میں حکومت کارویہ کسی معقول دلیل پرمبنی ہے یانہیں۔
(ب) مطالبات کی پشت پر ان لوگوں کی بڑی اکثریت ہے یا نہیں جن کے اخلاقی و روحانی یا مادی مفاد سے وہ مطالبات متعلق ہیں اور
(ج) ان کو تسلیم کرانے کے لیے جائز، پرامن، آئینی تدابیر کا حق پوری طرح ادا کیا جاچکاہے یا نہیں۔
ان تینوں حیثیتوں سے جو نا فرمانی جواز کی تمام شرائط پوری کرچکی ہو اسے حق اور انصاف کے انسانی تصورات بہرحال سند جواز دیں گے ، خواہ وقت کے قانون کا فتویٰ اس کے معاملے میںکچھ ہی ہو۔
(۱۹)جوکچھ پیراگراف نمبر۱۸میںعرض کیاگیاہے‘وہی اس معاملے میںاسلام کانقطہ نظرہے۔اسلام بدنظمی اوربدامنی کونہایت ناپسندکرتاہے۔وہ امن اورنظم کی حمایت میںیہاںتک جاتاہے کہ اس کے نزدیک ایک برانظام بھی قابل برداشت ہے،بہ نسبت اس کے کہ اس کی جگہ بدنظمی لے لے۔مگراس کے ساتھ وہ یہ اصول بھی مقررکرتاہے کہ خدا کی نافرمانی میںکسی کے لیے اطاعت نہیںہے۔معصیت کاحکم بہرحال نہیںمانا جا سکتا اور دین کے اصولوںمیںترمیم یامنصوص احکام میںتغیرکی بہرحال مزاحمت کی جائے گی۔ قرآن مجیدمیںخودرسول اللہﷺ تک کی اطاعت کو’’فی المعروف‘‘کی شرط سے مشروط کیا گیا ہے چنانچہ سورہ ممتحنہ میںرسولﷺ سے بیعت کاجوفارمولابیان ہواہے اس میںیہ الفاظ ہیں:
وَلاَ یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ الممتحنہ 12:60
اور وہ ’’معروف ‘‘ میں تیری نا فرمانی نہ کریں ۔
اگرچہ نبی اکرم ﷺ سے کبھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ آپ کا حکم ’’منکر ‘‘ پر بھی مبنی ہوسکتاہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اصول حق کی توضیح کے لیے خود آپ کی بیعت کو بھی ’’معروف‘‘ سے مشروط کرکے یہ ظاہر کردیا کہ ’’اطاعت فی المنکر ‘‘ کسی کے لیے بھی نہیں ہے۔
اسی بات کونبی اکرمﷺ نے اپنے بکثرت ارشادات میںواضح فرمایاہے‘جنانچہ بخاری ومسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
السمع والطاعتہ علی المرء المسلم فی مااحب وکرہ مالم یومر بمعصیۃ فاذا امر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعتہ۔
مسلمان پر واجب ہے کہ حکم سنے اور اطاعت کرے، خواہ حکم اسے پسند ہو یا نا پسند ،جب تک کہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے ، مگر جب معصیت کا حکم دیا جائے تو نہ سنا جائے اور نہ مانا جائے۔
ایک اور حدیث میں آپﷺ کا ارشاد ہے :
لاطاعۃ فی معصیۃ انما الطاعتہ فی المعروف۔ (بخاری ومسلم)
معصیت میں کوئی اطاعت نہیں ہے اطاعت تو صرف معروف میں ہے۔
یہی بات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کی پہلی تقریر میں فرمائی تھی:
اطیعونی مااطعت اللّٰہ ورسولہ فان عصیت اللّٰہ ورسولہ فلا طاعۃ لی علیکم (الصدیق۔ محمد حسین ہیکل صفحہ ۶۷)
میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کرتارہوں۔ لیکن اگر میں اللہ اوررسول کی نا فرمانی کروں تو میری کوئی اطاعت تم پر واجب نہیں ہے۔
(۲۰) یہی اصول ہے جسے دنیا کی ان تمام بڑی بڑی شخصیتوں نے ہمیشہ اختیار کیاہے جن کو انسانی تاریخ عظیم الشان لیڈروں کی حیثیت سے پیش کرتی ہے ۔ دور کیوں جائیے خود پاکستان کے بانی مسٹر جناح مرحوم ، جو متحدہ ہندوستان کے سب سے بڑے آئین پسند (constitutionalised)لیڈر سمجھے جاتے تھے ، آخر کار اس کے قائل ہوئے۔ ان کی صدارت میں مسلم لیگ نے جولائی ۱۹۴۶ء میں ڈائریکٹ ایکشن کاریزولیوشن پاس کیا اور چاہے آج مسلم لیگ کے لیڈر لارڈ ریڈنگ اور سرمیلکم ہیلی کی زبان بولنے لگے ہوں مگر ۱۹۴۷ء میں اس وقت جب کہ مسٹر جناح مرحوم اس جماعت کے لیڈر تھے۔ میاں ممتاز ، محمد خاں دولتانہ اور ملک فیروز خان نون اور نواب صاحب ممدوٹ ایک آئینی طور پر قائم شدہ وزارت کو توڑنے کے لیے ڈائریکٹ ایکشن کرچکے ہیں اور خواجہ ناظم الدین صاحب اس کی حمایت کرچکے ہیں ۔ اس وقت ان میں سے کوئی صاحب بھی اس اصول کے قائل نہ تھے کہ ’’مطالبات کے اوصاف ‘‘ (merit)خواہ کچھ بھی ہوں، مگر کسی حکومت سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ سول نا فرمانی اور غیر قانونی کارروائی کی دھمکی کے آگے جھک جائے گی اور کسی حکومت کو اس کے آگے نہ جھکنا چاہیے۔ ‘‘
(۲۱) کسی عوامی مطالبے کے جواب میں حکمرانوں کامحض یہ کہہ دینا کہ یہ مطالبات غیر معقول ہیں ، یا یہ کہ ان کو قبول کرنا ملک کے لیے نقصان دہ ہے ، کوئی وزن نہیں رکھتا، الا یہ کہ وہ سامنے آکر تفصیلی دلائل کے ساتھ یہ بتائیں کہ مطالبات کیوں نا معقول ہیں اور ان سے ملک کو کیا نقصان پہنچتاہے؟ ایک جمہوری نظام میں لوگوں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ حکمرانوں کے مبہم ارشادات پر ایمان بالغیب لے آئیں گے اور ان کو ایسا عقل کل مان لیں گے کہ ان کاکسی بات کو غیر معقول کہہ دینا بجائے خود اس کو غیر معقول تسلیم کرلینے کے لیے کافی ہو۔ نیز ایک جمہوری نظام میں یہ بات نہیں مانی جاسکتی کہ قوم خود اپنے مفاد کی دشمن ہے اور اس کے مفاد کو چند وزرا یا سیکریٹریٹ کے چند عہدہ دار یا پولیس کے چند افسر زیادہ جانتے ہیں۔ جمہوریت کا تو تقاضا ہی یہ ہے کہ جس بات کو قوم کی اکثریت چاہتی ہے ، عمل اسی پر ہونا چاہیے اور جو لوگ اپنے نزدیک اس ملک کے لیے نقصان دہ سمجھ کر اس پر عمل نہ کرنا چاہتے ہوں ، وہ پہلے استعفیٰ دے کر حکومت کی کرسیاں چھوڑیں ، پھر قوم کی رائے کو اپنے نقطۂ نظر کے مطابق ہموار کرنے کی کوشش فرمائیں۔ لیکن اگر وہ کرسیاں نہ چھوڑنا چاہتے ہوں تو یا قوم کی بات مانیں یا پھر اس کو اپنی پالیسی پر مطمئن کریں۔
(۲۲)اصولی بحث کوختم کرکے آگے بڑھنے سے پہلے ہم اس بات کوبھی واضح کر دینا چاہتے ہیںکہ جماعت اسلامی نے اپنے دستورکی دفعہ۱۰شق(۳) میںاپنے آپ کوآئینی طریق کارکاپابندکیاہے کیونکہ وہ یہ امیدرکھتی ہے کہ یہاںکی حکومت جس جمہوریت کی مدعی ہے۔ اس کے بنیادی اصولوںاورتقاضوںکی وہ بھی پابندرہے گی اورملک کے نظام میںکسی ایسے تغیرکولاناغیرممکن نہ بنادے گی جس کی ضرورت معقول دلائل سے ثابت کردی جائے۔ جس کوباشندوںکی اکثریت چاہتی ہواورجس کے لیے آئینی تدابیر ایک جمہوری نظام میں بہرحال کافی ہونی چاہئیں۔ مگر ہم حکومت کی ’’ظل الٰہی ‘‘پر ایمان نہیں رکھتے کہ اپنے اوپر اس کے خدائی حقوق مان لیں اور خداوند عالم کی قہاری کی طرح اس کی قہاری کو بھی برحق تسلیم کرلیں۔
(۲۳)اب ہم اس خاص ڈائریکٹ ایکشن کو لیتے ہیں جو ختم نبوت کے سلسلے میں کیا گیا۔ اس کے متعلق ہماری راے یہ ہے کہ :
الف) یہ ڈائریکٹ ایکشن حق بجانب نہ تھا۔
(ب) مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا بھی صحیح نہیں ہے کہ اس معاملے میں حق حکومت کی جانب تھا۔
اس راے کے دونوں اجزا ایک دوسرے کے ساتھ منطقی ربط رکھتے ہیں اور محترم عدالت کو ایک منصفانہ اور متوازن رائے قائم کرنے میں مدد دینے کے لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ان دونوں اجزا کو پوری وضاحت کے ساتھ پیش کردیں ۔ یہ توضیح خصوصیت کے ساتھ اس لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے کا گہر ا تعلق فسادات کے اسباب سے ہے اور فسادات کے اسباب کاگہراتعلق ذمہ داری کی تشخیص کے ساتھ ہے۔ لہٰذا اگر اس مسئلے کے متعلق کوئی متوازن اور جامع اور مبنی برحقیقت رائے قائم نہ کی گئی تو ذمہ داری کی تشخیص میں غلطی ہوجانے کااندیشہ ہے جو لامحالہ انصاف پر اثر انداز ہوگی۔
(۲۳)ہم جن وجوہ سے اس ڈائریکٹ ایکشن کو حق بجانب نہیں سمجھتے، وہ یہ ہے کہ اس میں وہ شرائط تمام و کمال پوری نہیں ہوئی تھیں جو ہمارے نزدیک ایک حق بجانب ڈائریکٹ ایکشن میں پوری ہونی چاہئیں ۔ جیساکہ ہم پیرا گراف نمبر۸ کے آخری حصے میں بیان کرچکے ہیں۔ ’’تمام و کمال ‘‘ کے لفظ کو خاص طور پر نوٹ فرمایا جائے ، اس سے ہمارا منشا یہ ہے کہ وہ شرائط اس میں جزوی طور پر تو ضرورپوری ہوئی ہیں مگر جیساکہ ان کے پورے ہونے کا حق ہے اس طرح پوری نہ ہوئی تھیں۔ ہم سمجھتے ہیںکہ اگر جوشیلی اور جذباتی تقریروں اور تحریروں سے کام لینے کے بجائے دلائل کی طاقت سے حکومت کو پوری طرح غیر مسلح کردیا جاتا ، اور اگر پنجاب کی طرح پاکستان کے دوسرے صوبوں کی ، خصوصاً بنگال کی راے عام کو مطالبات کی تائید میں متحرک کردیا جاتا اور اگر آئینی تدابیر کو محض وزیراعظم سے وفود کی ملاقاتوں تک محدود نہ رکھاجاتا بلکہ دوسری تدابیر بھی اختیار کی جاتیں ، تو اغلب یہی تھاکہ ڈائریکٹ ایکشن کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔ یہی بات تھی جو میں اس تحریک کے لیڈروں کو سمجھانا چاہتاتھا۔ اسی غرض کے لیے میں نے جنوری ۱۹۵۳ء کے کنونشن کے آخری اجلاس میں ایک مرکزی مجلس عمل کے سپرد سارا معاملہ کردینے کی تجویز پیش کی تھی ۔ میرے پیش نظر یہ تھاکہ جو بات کنونشن کے گرم ماحول میں عام لوگ نہیں سمجھ سکتے، اسے مرکزی مجلس عمل کے چند معاملہ فہم ارکان بآسانی سمجھ لیں گے اور ان کو ڈائریکٹ ایکشن سے باز رہنے پر آمادہ کیاجاسکے گا۔ مگر افسوس ہے کہ اس مجلس کااجلاس ہی منعقد نہ ہوا۔
(۲۵) دوسری طرف ہم جن وجوہ سے یہ راے رکھتے ہیں کہ حکومت اس پورے قضیے میں حق بجانب نہ تھی وہ حسب ذیل ہیں :
الف۔ اس وقت کی حکومت کے ذمہ دار لوگوں نے صاف اس امر کا اعتراف کیاہے کہ ان مطالبات کو عوام کی بہت بڑی اکثریت کی تائید حاصل تھی۔ اس موضوع پر متعدد صریح شہادتیں اس محترم عدالت کے سامنے آچکی ہیں ۔ مثال کے طور پر چند شہادتوں کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں۔
خواجہ ناظم الدین صاحب :
’’تقریباً ‘‘ تمام علما ان مطالبات کے حق میں متفق تھے ، اگرچہ وہ اس امر میں متفق نہ تھے کہ الٹی میٹم دینا یاڈائریکٹ ایکشن کرنا مناسب ہے۔ ‘‘
’’ان مطالبات کو رد کردینے کا فیصلہ اگر کردیا جاتا تو اس کانتیجہ یہ ہوتاکہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کا قتل عام کرنا پڑتا…بلکہ اگر میں اس معاملہ میں پیش دستی کرتا اور ملک کو ایک مذہبی جنگ میں جھونک دیتا تو مجھے یقین ہے کہ میں اس دنیامیں بھی اور آخرت میں بھی مطعون ہوتا۔ ‘‘
’’سیکروفون کام نہیں کررہا تھا اور ٹیلی فون ایسے اہل کاروں کے قبضے میں تھا جو صریح طور پر ایجی ٹیشن کے ہمدرد تھے۔‘‘
میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ :
’’مطالبات بجا طور پر یابے جاطور پر ،ایک ایسے عقیدے پر مبنی تھے جس کی پشت پر پبلک کی عام تائید تھی ۔ ‘‘
’’میں مسلم لیگ کی تنظیم کا ایک کارکن تھا جو باشندگان ملک کے سامنے ایک سخت آزمائش کے مقام پر کھڑی تھی ، وہ ایسے مسائل کے معاملے میں سردمہری کا یا خاموشی کارویہ اختیار نہ کرسکتی تھی جو باشندوں کی ایک عظیم اکثریت کے جذبات کو بھڑکا رہے تھے ۔‘‘
’’اس موقع پر مسلم لیگ کے کونسلرز کی بہت بڑی اکثریت یہ راے رکھتی تھی کہ تحریک ختم نبوت کے مطالبات فوراً تسلیم کیے جانے چاہئیں۔ ‘‘
’’میرے سوا پاکستان بھر میں لیگ کا کوئی ایک کارکن بھی ایسا نہ تھا جو پبلک میں آنے اور ان مطالبات کی صحت کے متعلق شک کا اظہار کرنے کی جرأت کرتا۔‘‘
’’یہ بہت ممکن تھاکہ (۲۷فروری اور چھ مارچ کے درمیان ) اگر ہم مسلم لیگ کو نسل کا اجلاس بلاتے تو ممبروں کی راے پر اثر ڈالنے اور ان کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہ ہوسکتے۔‘‘
’’صورت حال یہ تھی کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد مطالبات کے حق میں تھی ، اس لیے ایسے مقبول عام مطالبات کا لحاظ کرکے ہم (۶مارچ کو) اس بات پر تیار تھے کہ ان کو اپنی تائید کے ساتھ مرکزی حکومت کے سامنے پیش کردیں ۔ ‘‘
میجرجنرل محمد اعظم خاں :
’’سیکریٹریٹ تک نے ہڑتال کردی ۔ ‘‘
’’۹۰ہزار آدمیوں کا جلوس ان لوگوں کاجنازہ لے کر چلا جنھیں وہ شہید کہتے تھے۔‘‘
خان قربان علی خان (سابق انسپکٹر جنرل پولیس ، پنجاب ):
’’اگر برسراقتدار حکومت ان مطالبات کو رد کرنے کا فیصلہ صادر کردے تو مسلمانوں کی اکثریت اس کی مخالف ہوجائے۔ اس صورت حال کے پیش آجانے میں ذرہ برابر شبہ نہیں۔ ‘‘ (خان صاحب کا نوٹ مورخہ ۱۴جولائی ۱۹۵۲ء)
میاں انور علی (سابق انسپکٹر جنرل پولیس ، پنجاب):
’’اس ملک کی پوری تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہواکہ سیکریٹریٹ کے کلرک دفتروں سے باہر نکل آئیں اور مظاہرہ کریں اور چیف سیکرٹری ، ہوم سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کے ساتھ ناشائستہ برتائو کریں جیساکہ ان فسادات کے زمانہ میںہوا۔ دوسرے سرکاری ملازمین بھی جو ٹیلی گراف ، ریلوے ، ٹیلی فون اور اکائونٹنٹ جنرل کے محکموں سے تعلق رکھتے تھے، باہر نکل آئے۔ حتیٰ کہ سیکریٹریٹ کے کلرکوں کی یہ جرأت ہوگئی کہ اس امر کا تحریری نوٹس دے دیں کہ وہ مستقل طور پر کام چھوڑ بیٹھیں گے جب تک یہ مطالبات قبول نہ کیے جائیں گے اور سرظفر اللہ خاں کو وزارت سے الگ نہ کردیاجائے گا۔‘‘
مسلم لیگیوں کی ایک کثیر تعداد جن میں مسلم لیگ کے ایم ایل اے اور کونسلرز بھی شامل تھے کھلم کھلا اس تحریک کے حامی ہوگئے۔
(سرکاری ملازموں کے متعلق میاں صاحب نے کہا) ’’پبلک سروس میں سے صرف ایک پولیس ایسی رہ گئی تھی جس نے ایجی ٹیشن کرنے والوں کی ہمدردی میں کوئی مظاہرہ یا کسی اور قسم کااظہار دلچسپی نہیں کیا۔ ‘‘
ان شہادتوں سے یہ بات بالکل ناقابل انکار حد تک ثابت ہوجاتی ہے کہ قوم کی بڑی اکثریت ان مطالبات کی نہ صرف حامی بلکہ پرجوش حامی تھی اور صرف مذہبی جماعتیں ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ کی اکثریت بھی ان کے حق میں تھی۔ اب یہ سوال عدالت کی توجہ کامستحق ہے کہ اگر یہ ایک جمہوری نظام ہے تو اس میں ان لوگوں کو قوم کی اکثریت کے خلاف اپنی مرضی چلانے کا حق کیاتھا؟ کیاپاکستان ان کی ذاتی ملکیت تھاکہ پاکستانیوں کی مرضی کے بجائے ان کی ذاتی رائے چلنی چاہیے؟ واقعات کی ترتیب سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ پہلے عوام کے مطالبات ٹھکرائے گئے تب عوام میں ناراضی پیداہوئی اور ڈائریکٹ ایکشن تک نوبت پہنچی، پھر عوامی مظاہروں کوپولیس کے بے تحاشاتشدد سے دبانے کی کوشش کی گئی تب لوگوں کا جوش عام طور پر بھڑک اٹھا، پھر عوام کے غصے کو اندھا دھند گولیاں چلاکر ٹھنڈاکرنے کی کوشش کی گئی تب فسادات تک نوبت پہنچی اور ان کو فرو کرنے کے لیے مارشل لا کاآخری ہتھیار استعمال کرڈالا گیا۔ یہ ترتیب واقعات تمام شہادتوں سے قطعی طور پر ثابت ہوچکی ہے۔ اس صورت حال میں کیا کوئی شخص یہ بات انصاف اور دیانت کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ ڈائریکٹ ایکشن تو حق بجانب نہ تھا،مگر وہ لوگ حق بجانب تھے جنھوںنے قوم کی بھاری اکثریت کے مطالبات کو ٹھکرایا اور پھر قوم کی جیب سے تنخواہ پانے والے ملازموں کو خود قوم ہی کے خلاف استعمال کیا؟ یہ سوال صرف سابق حکومت پنجاب اور سابق مرکزی حکومت ہی کے معاملے میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ پنجاب اور مرکز کی موجودہ حکومتوں کے بارے میں بھی پیداہوتاہے کیونکہ اصل مطالبات کے بارے میں ان کی روش بھی وہی ہے۔
ب۔ اس وقت کے ذمہ داران حکومت کی شہادتوں سے یہ بھی ثابت ہوچکاہے کہ مطالبات کے حسن و قبح کے بارے میں حکومت نے اپنا نقطۂ نظر پبلک کو سمجھانے اور لوگوں کو اپنی رائے کی صحت پر مطمئن کرنے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی ، بلکہ عوام کو صاف صاف یہ نہیں بتایا کہ حکومت کانقطۂ نظر ان مطالبات کے بارے میں کیاہے۔ اس بیان کی تائید میں ہم چند خاص خاص شہادتوں کی طرف محترم عدالت کو توجہ دلاتے ہیں۔
خواجہ ناظم الدین صاحب :
’’مرکزی حکومت نے مارشل لا کے اعلان سے پہلے ۱۹۵۳ء میں ان مطالبات کے متعلق کوئی اعلان شائع نہیں کیا۔ ‘‘
’’میں نے کبھی مطالبات کو حتمی طور پر رد نہیں کیا ، اگرچہ میں نے وفد لانے والوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ ان پر زور نہ دیں ۔ ‘‘
میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ :
’’پاکستان بھر میں میرے سوا مسلم لیگ کے کسی سیاسی کارکن نے یہ ہمت نہ کی کہ پبلک میں نکل کر آتا اور ان مطالبات کی صحت کے متعلق کسی شبہ کا اظہار کرتا۔‘‘
حافظ عبدالمجید (سابق چیف سیکرٹری پنجاب گورنمنٹ ):
’’صوبہ کی حکومت نے اس ایجی ٹیشن کامقابلہ کرنے کے لیے کوئی نظریاتی (ideological)کوشش نہیں کی۔ ‘‘
’’حکومت پنجاب نے اس نظریاتی موقف (ideological stand)کے متعلق اپنی پوزیشن واضح نہیںکی جو ختم نبوت کے متعلق لیا جاناتھا ۔‘‘
’’میں نے اس موضوع کے متعلق کوئی تجویز پیش نہیں کی ۔ ‘‘
’’میں نے یہ تجویز پیش کی کہ احرار اور ان کے ساتھیوں کے خلاف تعزیری کارروائی کی جانی چاہیے۔‘‘
مسٹر غیاث الدین (ہوم سیکرٹری پنجاب گورنمنٹ):
’’مگر اس تحریک سے محض امن و انتظام (law and order)کے دائرہ عمل میں عہدہ برا ہونے کی کوشش کرکے اس کو فنا کردینا نہ اس وقت ممکن تھا اور نہ اب ممکن ہے۔ ‘‘
ان اعترافات کی موجودگی میں یہ سوال عدالت کے لیے قابل توجہ ہوجاتاہے کہ وہ حکومت کیسے حق بجانب ہوسکتی ہے جو پبلک کے مطالبات کو ، یہ جاننے کے باوجود کہ وہ بہت بڑی اکثریت کے مطالبات ہیں ، بغیر کوئی معقول وجہ بتائے یونہی ٹھکرادے۔ اگر انصاف کی نگاہ میں پبلک بے صبرہو کر ڈائریکٹ ایکشن پر اتر آنے میں حق بجانب نہ تھی ، تو حکومت یہ رویہ اختیار کرنے میں کس طرح حق بجانب قرار دی جاسکتی ہے ؟
(ج) اس وقت تک حکومت کی جانب سے جتنے عذرات بھی ان مطالبات کو قبول نہ کرنے کے حق میں ہمارے سامنے آئے ہیں وہ سب کے سب بے وزن اور غیراطمینان بخش ہیں اور کسی جمہوری ملک میں ایسے عذرات پبلک کو مطمئن نہیں کرسکتے۔
اختصار کے ساتھ یہاں ہم ان تمام عذرات کو بیان کرکے ان پر تنقید کرتے ہیں:
۱۔ یہ کہ یہ مطالبات ملک کے لیے نقصان دہ ہیں۔
۲۔ یہ کہ وہ رواداری کے خلاف ہیں۔
۳۔ یہ کہ اس طرح مزید مسلم فرقوں کی علیحدگی کے مطالبات کا دروازہ کھل جائے گا اور مسلم ملت ہی ختم ہوجائے گی۔
۴۔ یہ کہ اس طرح اسلام دنیا میں مضحکہ بن جائے گا، کیونکہ یہاں جو لوگ کافر قرار دئیے جائیں گے وہ دوسرے مسلم ممالک میں مسلمان ہی سمجھے جاتے رہیں گے۔
۵۔ یہ کہ ایک اقلیت تو اپنے تحفظ کے لیے اپنی علیحدہ ہستی تسلیم کرانے کا مطالبہ کرسکتی ہے ، مگر اکثریت کااپنے تحفظ کے لیے اقلیت کو الگ کرنے کامطالبہ ایک نرالی بات ہے۔
ان عذرات میں سے پہلا عذرتو محض ایک دعویٰ ہے نہ کہ دلیل ۔ اس وقت تک یہ نہیں بتایاگیاکہ اس سے ملک کو کیا نقصان پہنچتاہے۔ بخلاف اس کے ہم واضح دلائل کے ساتھ یہ بتا چکے ہیں کہ ان کو قبول نہ کرنا ملک کے لیے کیوں نقصان دہ ہے اور اس سے کیا نقصان پہنچتاہے؟
دوسرا عذر صریح مہمل ہے جسے کوئی صاحب عقل و خرد آدمی نہیں مان سکتا۔ یہ عذر پیش کیاجاسکتاتھا تو اس صورت میں جب کہ کسی نے قادیانیوں کے حقوق شہریت سلب کرنے یا ان کے مذہب میں مداخلت کرنے کا مطالبہ کیاہوتا۔ مگر رواداری کے نام پر ایک ملت سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ اپنے اندر ایک دوسری ملت کی تشکیل اور پیہم توسیع اور خود اپنی مسلسل تحلیل (disintegration)کو برداشت کرے ، لفظ رواداری کا بالکل ایک بے جا استعمال ہے جس کی کسی تعلیم یافتہ اور ذی عقل آدمی سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ کیا یہ لوگ پھر اسی اصول پر ریاست کے اندر ایک ریاست کی تشکیل و توسیع کو بھی جائز ٹھہرائیں گے؟ اور پھر رواداری کا یہ وعظ ان لوگوں کی زبان سے آخر کس طرح اثر انگیز ہوسکتاہے جو اپنے سیاسی مخالفوں سے انتقام لینے کے لیے سیفی ایکٹ جیسے اندھے ہتھیار سے کام لینے پر بھی قناعت نہیں کرتے ، بلکہ بدامنی کے بہانے مارشل لا نافذ کرکے اس سے سیاسی حسابات صاف کرنے کا کام لیتے ہیں۔
تیسر ا عذر درحقیقت عذر یا دلیل نہیں ہے بلکہ پوری مسلم قوم کے خلاف ایک بدگمانی ہے اور اس کی تاریخ اور اس کے مزاج سے ناواقفیت کاایک کھلا ثبوت ہے۔ بلاشبہ مسلمانوں میں ایسے عناصربھی پائے جاتے ہیں جو فروعی باتوں پر ایک دوسرے کی تکفیر کرتے اور مقاطعے پر اتر آتے ہیں۔ لیکن مسلمان قوم کا مزاج بحیثیت مجموعی اس طرح کا نہیں ہے۔ مسلمانوں میں ہمیشہ ایسے سنجیدہ اور معاملہ فہم اہل علم موجود رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں جو بے جا طریقے سے کسی فرقے کو ملت سے جداکرنے کی ہر تجویز کے مقابلے میں سینہ سپر ہوسکتے ہیں اور ایسے لوگوں کی موجودگی کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم قوم معقول وجوہ اور مضبوط دلائل کے بغیر کبھی کسی گروہ کی علیحدگی کے مطالبے پر متفق نہیں ہوسکتی ۔ تاریخ میں بہت ہی کم ایسا ہوا ہے کہ کسی گروہ کو خارج از ملت قرار دینے پر مسلمانوں میں اتفاق ہوا اور جس گروہ کے مقابلے میں بھی ایسا ہوا ہے ، نہایت مضبوط دلائل کی بنا پر ہواہے ۔ لہٰذایہ اندیشہ کرنے کے لیے واقعی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے کہ اگر آج قادیانیوں کے الگ کرنے کا فیصلہ کیاگیا (جس کے لیے نہایت معقول وجوہ پائے جاتے ہیں ) تو کل دوسرے بہت سے گروہوںکی علیحدگی کامطالبہ بھی اُٹھ کھڑا ہوگا۔
چوتھا عذر بھی درحقیقت عذر نہیں ہے بلکہ ایک بے بنیاد اندیشہ ہے۔ قادیانیوں کے متعلق ہندوستان ہی نہیں ، قریب قریب تمام دنیاے اسلام کے علما کا یہ متفقہ فتویٰ ہے کہ وہ خارج از ملت ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی ایسا مسلمان نہ ملے گا جو اسلام کاکچھ علم رکھتاہو اور پھریہ نہ مانتاہوکہ محمدﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والا اور اس پر ایمان لانے والا شخص دائرہ اسلام میں نہیں رہ سکتا ۔ لہٰذا یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ قادیانیوں کو اگر پاکستان میں مسلمانوں سے الگ ایک ملت قرار دیا جائے گا تو دنیاے اسلام اس فیصلے کو قبول نہ کرے گی اور انہیں مسلم ملت ہی کاایک جزوماننے پر اصرا ر کرتی رہے گی ۔ یہ صورت حال اگر کہیں پیش آسکتی ہے تو صرف اس جگہ جہاں کے لوگوں کو قادیانیوں کے عقائد کاعلم نہ ہو۔
پانچویں عذرکا تفصیلی جواب ہم اپنے شائع کردہ پمفلٹ ’’قادیانی مسئلہ ‘‘ میں دے چکے ہیں۔ یہ عذر مسٹر دولتانہ نے پیش کیاہے جن کی ذہانت نے یہ تو محسوس کرلیا کہ دستوری تاریخ میںاکثریت کی طرف سے اقلیت کے مقابلے میں ’’تحفظ ‘‘ کامطالبہ ایک نادر بات ہے مگر یہ محسوس نہ کیاکہ ایک ملت کی بنیادوں سے اختلاف بھی کرنا اور پھر اسی ملت کاجز وبھی بنے رہنا اور پھر اس ملت کے اندر ایک ملت بنانے کی کوشش کرنا اور اس کے اندر سے توڑ توڑ کر اپنے اندر نئے نئے اجزاروز شامل کرنے کی سعی کیے چلے جانا اور الگ ملت بن جانے کے باوجود وہ تمام فوائد سمیٹ لینا جو اصل ملت میں شامل رہنے سے حاصل ہوسکتے ہیں ، یہ سب کچھ بھی ایک نادر واقعہ ہی ہے اور جہاں یہ نادرواقعہ پیش آ چکاہو وہاں وہ نادر واقعہ پیش آناکوئی قابل تعجب بات نہیں ہے۔
د۔ جو سرکاری شہادتیں اس تحقیقات کے دوران میں ہمارے سامنے آئی ہیں، ان سے یہ ثابت ہوتاہے کہ ہمارے ملک کی حکومت کو پبلک سے اس قدر افسوس ناک طریقے پر جس چیز نے متصادم کرادیا وہ یہ تھی کہ غیر جمہوری طریقوں سے برسراقتدار آنے اور برسراقتدار رہنے کی کوششیں کرکے یہ حکومت پبلک تائید سے محروم ہو کر مستقل ملازمتوں (permanent services)کی محتاج و دست نگر ہوچکی تھی اور ان ملازمتوں کے اہم ترین ذمہ دارانہ عہدوں پر ایسے لوگ فائز تھے جو اپنے مخصوص انفرادی رجحانات کی بنا پر ایک ایسی پالیسی حکومت پر ٹھونس رہے تھے جس کالازمی نتیجہ حکومت اور قوم کاتصادم تھا۔ ان لوگوں کے مخصوص رجحانات کیاتھے ، اس کااندازہ کرنے کے لیے ہم ذیل کی چند شہادتوں کی طرف محترم عدالت کو توجہ دلاتے ہیں:
خان قربان علی خان (سابق انسپکٹر جنرل پولیس ، پنجاب ):
’’یہ بات اکثر لوگ سمجھ چکے ہیں کہ کوئی گورنمنٹ، خواہ وہ کسی پارٹی کی ہو ، ان سفارشات (یعنی مطالبات ) کو نہیں مان سکتی۔ تاہم قیام پاکستان کے بعد ،یہ وہ اہم ترین مسئلہ ہوگا جس پر اس امید کے ساتھ لیگ کو چیلنج کیاجائے گا کہ برسراقتدار حکومت ان مطالبات کو رد کرنے کا فیصلہ کردے تو مسلمانوں کی اکثریت اس کی مخالف ہوجائے گی۔ اس نتیجے کے رونما ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے اگر اس دوران میں حکومت اس شرارت کا توڑ کرنے کے لیے ذرائع و وسائل اختیار نہیں کرتی اور یہ شرارت اب پورے زور کے ساتھ شروع ہوچکی ہے۔ ‘‘ (نوٹ مورخہ ۱۴جولائی ۱۹۵۲ء )
اس تحریر میں خان قربان علی خان ایک سرکاری ملازم کے بجائے ایک سیاسی آدمی نظر آ رہے ہیں جو حکومت کی پالیسی پر عمل درآمد کرنے والے نہیں بلکہ پالیسی بنانے والے ہیں،جن کو فکر بھی لاحق ہے کہ آئندہ کسی انتخاب میں مسلم لیگ کی حکومت عوامی ناراضی کے سبب سے ہارنہ جائے اور اس کے ساتھ انہیں یہ فکر بھی ہے کہ حکومت ان مطالبات کو تسلیم نہ کرے جو چاہے عوام کو پسند ہوں مگر خود انہیں پسند نہیں ہیں۔ ان کی دلچسپی اس معاملے میں یہاں تک بڑھی ہوئی ہے کہ وہ ان مطالبات کو ، یا لیگ کے لیے خطرہ پیدا کرنے والے طریقہ سے انہیں پیش کرنے کو ، ایک شرارت (mischeif) قرار دیتے ہیں اور حکومت کو اس کامقابلہ کرنے کے لیے اکساتے ہیں۔
میاں انور علی (سابق ڈی آئی جی سی آئی ڈی اور بعد میں انسپکٹر جنرل پولیس ، پنجاب ):
’’مسلم لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے صورت حال سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ۔ کوئی سیاسی لیڈر یہ کہنے کی طاقت نہ رکھتاتھا کہ یہ مطالبات غیر معقول ہیں۔ اس کے برعکس سب نے اپنے آپ کو ایجی ٹیشن کی لہروںکے حوالے کردیا۔ ‘‘
’’فی الواقع بہت سے مسلم لیگی لیڈر خود ایجی ٹیشن میں شامل ہو رہے تھے تاکہ ہردلعزیزی حاصل کریں ۔ ‘‘
’’اس وقت کے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کے ساتھ علما کی بار بار ملاقاتوں نے یہ احساس پیدا کردیاتھاکہ یہ مطالبات، جو کسی مہذب سلطنت میں پیش نہیں کیے جاسکتے ، کلی طور پر یاجزوی طور پر مانے جانے والے ہیں۔ ‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ ایک اسلامی دستور کی گفتگو اور وزیراعظم تک علما کی بآسانی پہنچ کا سرکاری ملازمتوں پر کیا اثر پڑ رہاتھا۔ میاں انور علی نے فرمایاکہ ’’اس نے اونچے درجہ کے سرکاری ملازموں کے ایک بڑے طبقے کی گرم جوشی کو سرد کردیا جو دوسری تمام حیثیتوں سے محب وطن ، لائق اور وفادار تھے۔‘‘
ان شہادتوں میں اس وقت کی پولیس کے افسر اعلیٰ کی یہ ذہنیت سامنے آتی ہے کہ وہ ایک ملازم سرکار ہونے کے باوجود پبلک کی عظیم الشان اکثریت کے جانے بوجھے مطالبات کے خلاف نہایت سخت راے رکھنے والے تمام سیاسی لیڈروں کو بے ایمان سمجھتاہے اور یہ تصور تک کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ کچھ لوگ ایمان داری کے ساتھ بھی ان مطالبات کے حامی ہوسکتے ہیں۔ پھر اس کا سخت نوکر شاہی ذہن یہ تک گوارا نہیں کرتاکہ ایک جمہوری حکومت کا وزیراعظم ، جمہور قوم کے مطالبات پر جمہور کے نمائندوں سے گفت و شنید کرے اور وہ آسانی کے ساتھ اس تک پہنچ سکیں۔ پھر وہ نہ صرف اپنا،بلکہ اپنے طبقے کے سرکاری ملازموں کا یہ عام مخالف مذہب رجحان ہمارے سامنے اعلانیہ بیان کرتاہے کہ اسلامی ریاست کی گفتگو ان کو یہاں تک ناگوار ہے کہ اسے سن سن کر ہی ان کاجذبہ خدمت وطن سردہوا جاتاہے۔
میاں انور علی صاحب کے تحریری بیان سے ایک دلچسپ حقیقت اور بھی ہمارے علم میں آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ صاحب موصوف کی نگاہ میں قابل وقعت رائے ان لاکھوں، کروڑوں مسلمانوں کی نہیں ہے جن کامرنا جینا سب کچھ اسی پاکستان کے ساتھ وابستہ ہے ، بلکہ ان چند خاندانوں کی ہے جو خطرے کی پہلی علامت دیکھتے ہی کینیڈا بھاگ جانے کے لیے بستر باندھ لیتے ہیں۔
میجر جنرل محمداعظم خان:
’’ہمیں خبر ملی کہ ۹۰ ہزار آدمیوں کا ایک جلوس اب قبرستان کی طرف ان لوگوں کی لاشیں لے کر جارہاہے جن کو وہ شہید کہہ رہے تھے اور حکومت اس جلوس کو محض ایک پر امن جلوس سمجھ رہی تھی ۔ میں نے ان لوگوں (یعنی ارباب حکومت ) سے التجا کی کہ اس مجمع کو اکٹھا ہونے یا جنازے لے کر جانے نہ دیا جائے ۔ وزیراعلیٰ نے مجھ سے پوچھا ، جنرل صاحب آپ کتنی فوج رکھتے ہیں ؟ میں نے کہا، جتنی درکار ہو ، اگر آپ مجھے ان کو منتشر کرنے کا حکم دیں۔ انھوںنے کہایہ ایک سیاسی مسئلہ ہے ، آپ ان میں سے کتنوں کو مار سکتے ہیں ؟ میں نے کہایہ ایک امن وانتظام کامسئلہ ہے اور جونہی سخت کارروائی کی گئی یہ منتشر ہوجائیں گے۔‘‘
اس بیان میں ہم کو ایسا محسوس ہوتاہے کہ جیسے ابھی تک ہم انگریزی دور حکومت میں ہیں اور اس دور کا کوئی جنرل ڈائریا کرنل جانسن ہمارے سامنے بول رہاہے ۔ میجر جنرل صاحب کو یہ تک ناگوار ہے کہ جن مسلمانوں کو حکومت کی پولیس یا فوج مار دے انھیں عام مسلمان ’’شہید ‘‘ کہیں یا سمجھیں۔ مسلمانوں کو ماردینے سے بھی ان کا دل ٹھنڈا نھیں ہوتا بلکہ وہ انہیں جہنم بھی بھجوانا چاہتے ہیں۔ انہیں یہ بھی گوارا نہیں کہ مسلمان ایسے لوگوں کا جنازہ قبرستان لے جائیں اور نماز پڑھ کر انہیں دفن کریں ۔ چاہے جنازے کا یہ جلوس کوئی بدامنی کا فعل کرے یا نہ کرے ،مگر مجرد یہ بات کہ حکومت کے مارے ہوئے چند مسلمانوں کو یہ لوگ شہید سمجھ کر دفن کرنے لے جارہے تھے۔ میجر جنرل صاحب کے نزدیک اس کو غیر ’’پرامن ‘‘ جلوس قرار دینے کے لیے کافی تھی اور ان کی خواہش یہ تھی کہ بس انہیں حکم مل جائے تو وہ ایک فوج لے کر اسے منتشر کردیں خواہ اس کارروائی میں انھیں کتنے ہی مزید مسلمانوں کو مار دینے کی ضرورت پیش آئے ۔ یہ تھااس شخص کے ذہن کا حال جس کے سپرد اس وقت دیوانی حکومت کو قیام امن کے لیے فوجی مدد دینے کی خدمت تھی۔ اپنی تمام شہادت کے دوران میں وہ اس بات پر سخت ناراض نظر آتے ہیں کہ جمہوری حکومت کے سیاسی حکمران پبلک کوراضی اور ٹھنڈا کرکے امن قائم کرنا مرجح سمجھتے تھے۔ ان کا سارا رجحان اس طرف تھاکہ یہ ہے ’’لا اینڈ آرڈر ‘‘ کا مسئلہ اور اس کا حل صرف یہ ہے کہ اس پبلک کو بس کچل ڈالا جائے۔
مسلم لیگ کی حکومت، پبلک تائید سے محروم ہونے کے بعد ،اپنے اقتدار کے لیے اس طرح کے افسروں کی حمایت پر منحصر ہوچکی تھی اور یہ لوگ ان رجحانات اور اس ذہنیت کے مالک تھے۔ ان کے رجحانات کے علی الرغم پبلک کے مطالبات کو ماننا اس حکومت کے بس میں نہ تھا ،مگر ان کو رد کردینے کے نتائج سے بھی وہ ڈرتی تھی ، اس لیے وہ ایک مدت تک ان مطالبات کو ٹالتی رہی ۔ آخر کار ایک طرف عجلت پسند عناصر ایک موقع ڈائریکٹ ایکشن شروع کربیٹھے اور دوسری طر ف یہ شدید نوکر شاہی ذہن اور مذہب دشمن رجحان رکھنے والے افسر حکومت کاگلا پکڑکر اسے عوام کے مقابلے میں کھینچ لائے ۔ اس کشمکش کانتیجہ اس تباہی کی صورت میں ظاہر ہوا جو پنجاب پر عموماً اور لاہور پر خصوصاً نازل ہوئی۔ اب یہ کہناکسی طرح مبنی بر انصاف نہیں ہوسکتاکہ صرف وہی لوگ غیر حق بجانب تھے جنھوںنے ڈائریکٹ ایکشن کیا۔ نہیں ، بلکہ اتنے ہی اور شاید ان سے زیادہ غیر حق بجانب وہ سیاسی لیڈر ہیں جنھوںنے ایک جمہوری نظام کو غیر جمہوری طریقوں پر چلا کر اپنی گردن نوکر شاہی کے قبضے میں دے دی ہے۔ اور ان سب سے بڑھ کر غیر حق بجانب وہ عالی مقام افسر ہیں جو ملازم ہونے کے باوجود سیاسی لیڈر اور پالیسی مقررکرنے والے بھی بنتے ہیں اور ایک شدید مذہبی رجحان رکھنے والی قوم میں ریاست کی طاقت کو مخالف مذہب راستے پر زبردستی لے جانے پر مصر ہیں۔ اور اپنے ملک کی پبلک کو اسی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس سے کوئی غیر ملکی نوکر شاہی اسے دیکھ سکتی ہے۔ اس طرح کی نوکرشاہی ایک جمہوری نظام اور ایک قومی حکومت کے لیے انتہائی غیر موزوں ہے۔ خدانخواستہ اگر یہی نوکر شاہی ہمارے ملک پر مسلط رہی تو ۱۹۵۳ء کے حوادث محض چند وقتی و ہنگامی حوادث نہیں بلکہ بہت سے مزید حوادث کی تمہید ثابت ہوں گے اور یہاں جمہوریت کا چلنا سخت مشکل ہوجائے گا۔ اس ملک کو تباہ کن انقلابات سے بچانے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ یہاں کے حکام عالی مقام اگر اپنے کچھ مضبوط سیاسی و مذہبی افکار رکھتے ہیں تو نوکری چھوڑ کر سیدھی طرح سیاسیات میں داخل ہوجائیں، ورنہ پھر اس طرح نوکر ی کریں جس طرح انگلستان کے مستقل سرکاری ملازمین کرتے ہیں۔ بہرحال انہیں کسی طرح بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ پبلک کے ملازم ہونے کی حیثیت سے جو اختیارات ان کو دئیے گئے ہیں ان کو خود پبلک کے خلاف اپنے ذاتی افکار و تصورات کی حمایت میں استعمال کریں ۔
ضمیمہ نمبر۱
احادیث درباب نزول عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات
(۱) عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکما عدلا فیکسر الصلیب و یقتل الخنزیرویضع الحرب ویفیض المال حتی لایقلبہ احد حتی تکون السجدۃ الواحدۃ خیرامن الدنیاومافیھا۔
(مشکوۃ کتاب الفتن‘باب نزول عیسیٰ ‘بحوالہ بخاری ومسلم)
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میںمیری جان ہے ضروراتریںگے تمہارے درمیان ابن مریم حاکم عادل بن کر‘پھروہ توڑدیںگے صلیب کواورقتل کر دیں گے سورکو اورختم کردیںگے جنگ کو(دوسری روایت میںحرب کے بجائے جزیہ کے الفاظ ہیں‘یعنی ختم کردیںگے جزیہ کو)اورکثرت ہوجائے گی مال کی یہاںتک کوئی قبول نہ کرے گااورلوگوںکے نزدیک ایک دفعہ (خداکے حضور)سجدہ کرنادنیامافیہا کی دولت سے زیادہ بہتر ہوگا۔‘‘
(۲) عن ابی ہریرۃ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال کیف انتم اذانزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم۔ (مشکوۃ‘باب مذکوربحوالہ بخاری ومسلم)
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ’’کیسے ہوگے تم اس وقت جب کہ تمہارے درمیان ابن مریم اتریںگے اورتمہاراامام اس وقت خودتم میںسے ہوگا۔‘‘
(۳) عن ابی ہریرۃ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال ینزل عیسی ابن مریم فیقتل الخنزیرویمحواالصلیب وتجمع لہ الصلوۃ ویعطی المال حتیٰ لایقبل ویضع الخراج وینزل الروحافیحج منھا‘اویعتمریجمعھما۔
(مسنداحمد‘بسلسلہ مرویات ابوہریرہ رضی اللہ ۔مسلم نے بھی اس مضمون کی ایک روایت کتاب الحج میںنقل کی ہے۔)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاعیسیٰ ابن مریم اتریںگے اورخنزیرکوقتل کردیںگے اور صلیب کو مٹا دیں گے، ان کے لیے نمازجمع کی جائے گی(یعنی ان کی امامت میںنمازپڑھی جائے گی)وہ اتنامال تقسیم کریںگے کہ اسے قبول کرنے والاکوئی نہ رہے گا‘خراج ساقط کردیںگے اور روحاکے مقام پرمنزل کرکے وہاںسے وہ حج کریںگے(راوی کوشک ہے کہ عمرہ الگ کریںگے یاحج اورعمرہ ایک ساتھ اداکریںگے)۔
(۴) عن ابی ہریرۃ(بعدذکرخروج الدجال)فبیناھم یعدون للقتال یسوون الصفوف اذا قیمت الصلٰوۃ فینزل عیسی ابن مریم فامھم فاذا راہ عدواللّٰہ یذوب کمایذوب الملح فی الماء فلوترکہ لانناب حتٰی یھلک ولکن یقتلہ اللّٰہ بیدہ فیریھم دمتہ فی حربتہ۔
(مشکوۃ کتاب الفتن‘باب الملاحم‘بحوالہ مسلم)
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروری ہے (انھوںنے دجال کے خروج کاذکرکرتے ہوئی نبی اکرمﷺ نے کایہ ارشادبیان کیا)کہ اس اثنامیںکہ مسلمان جنگ کی تیاری کررہے ہوں گے‘ صفیںباندھ رہے ہوںگے‘ اورنمازکے لیے تکبیراقامت کہی جاچکی ہوگی کہ عیسیٰ ابن مریم نازل ہوجائیںگے‘پھروہ مسلمانوںکی امامت کریںگے اوراللہ کادشمن (یعنی دجال)ان کودیکھتے ہی اس طرح گھل جائے گاجیسے نمک پانی میںگھل جاتاہے۔اگرعیسیٰ علیہ السلام اس کواس کے حال پرچھوڑدیںتب بھی مرجائے‘مگراللہ اس کوان کے ہاتھ سے قتل کرائے گااوروہ اپنے نیزے میںاس کاخون مسلمانوںکو دکھائیں گے۔‘‘
(۵) عن ابی ہریرۃ ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لیس بینی وبینہ نبی یعنی عیسیٰ)وانہ نازل فاذا رایتموہ فاعرفوہ رجل مربوع الی الحمرۃ والبیاض بین ممصرتین کان راسہ یقطروان لم یصبہ بلل فیقاتل الناس علی الاسلام فیدق الصلیب ویقتل الخنزیرویضع الجزیۃ ویھلک اللّٰہ فی زمان الملل کلھاالا الاسلام ویھلک المسیح الدجال فیمکث فی الارض اربعین سنۃ ثم یتوفی فیصلی علیہ المسلمون۔
(ابودائود‘کتاب الملاحم‘مسنداحمدبسلسلہ مرویات ابوہریرہ رضی اللہ عنہ)
ترجمہ: ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا’’میرے اوران کے یعنی عیسیٰ علیہ السلام) کے درمیان کوئی نبی نہیںاوریہ کہ وہ اترنے والے ہیں۔ پس جب تم ان کودیکھوتوپہچان لینا‘وہ ایک میانہ قدآدمی ہیں‘ان کارنگ مائل بسرخی وسپیدی ہے‘دوکپڑے پہنے ہوئے ہوںگے جو زرد رنگ کے ہوں گے‘ ان کے سرکے بال ایسے ہوںگے کہ گویااب ان سے پانی ٹپکنے والاہے حالانکہ وہ بھیگے ہوئے نہ ہوںگے۔وہ اسلام پر(یعنی اسلام کے لیے یااس کی حمایت میں) لوگوںسے جنگ کریںگے‘صلیب کوپاش پاش کردیں گے‘ خنزیرکوقتل کردیںگے‘جزیہ ختم کردیںگے اوران کے زمانے میںاللہ اسلام کے سواتمام ملتوںکومٹادے گااوروہ مسیح دجال کو(یعنی اس دجال کوجس نے مسیح ہونے کادعویٰ کیاہوگا)ہلاک کردیںگے اورزمین میںچالیس سال رہیں گے‘پھران کاانتقال ہوجائے گااورمسلمان ان کی نمازجنازہ پڑھیں گے۔‘‘
جابرعبداللہ رضی اللہ عنہ:
(۶)عن جابر بن عبداللّٰہ قال سمعت رسول اللّٰہ ﷺ… فینزل عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فیقول امیرھم تعال فصل فیقول لاان بعضکم علی بعض امراء تکرمتہ اللّٰہ ھذہ الامتہ۔
(مسند احمد ،بسلسلہ روایات جابر ابن عبداللہ ۔ مسلم نے بھی اس روایت کو نقل کیاہے)
ترجمہ :جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا …پھر عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے ، مسلمانوں کا امیر ان سے کہے گا آیئے! آپ نماز پڑھایئے، مگر وہ کہیں گے کہ نہیں،تم لوگ ایک دوسرے کے امیر ہو۔ یہ وہ اس عزت کا لحاظ کرتے ہوئے کہیں گے جو اللہ نے اس امت کو دی ہے۔ ‘‘
(۷) عن جابر بن عبداللّٰہ (فی قصۃ ابن صیاد) فقال عمر بن الخطاب ائذن لی فاقتلہ یارسول اللّٰہ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یکن ھو فلست صاحبہٗ انما صاحبہ عیسیٰ بن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام وان یکن فلیس لک ان تقتل رجلامن اھل العھد۔
(مشکوٰۃ ،کتاب الفتن، باب قصہ ابن صیاد، بحوالہ شرح السنہ بغوی)
ترجمہ: جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ (ابن صیاد کا قصہ بیان کرتے ہوئے انھوںنے کہا) تب حضرت عمر بن خطابؓ بولے کہ یارسول اللہﷺ مجھے اجازت دیجیے کہ میں اسے قتل کردوں ۔ اس پر رسول اللہ ﷺنے فرمایا اگر یہ وہی ہے (یعنی دجال ہے) تو اس کے قتل کرنے والے تم نہیں ہو بلکہ عیسیٰ ابن مریم ہیں ، اور اگریہ وہ نہیں ہے تو تمہیں اہل عہد ( یعنی ذمیوں ) میں سے ایک شخص کو قتل کر دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ‘‘
(۸)عن جابر بن عبداللّٰہ (فی قصۃ الدجال) فاذاھم بعیسیٰ بن مریم علیہ السلام فتقام الصلوٰۃ فیقال لہ تقدم یاروح اللّٰہ فیقول لیتقدم امامکم فلیصل بکم فاذا صلی صلوٰۃ الصبح خرجوا الیہ۔ قال فحین یری الکذاب بنماث کمابنماث الملح فی الماء فیمشنی الیہ فیقتلہ حتیٰ ان الشجر والحجر ینادی یاروح اللّٰہ ھذا الیھودی، فلایترک ممن کان یتبعہ احد الاقتلہ۔ (مسند احمد ،بسلسلہ روایات جابرؓ)
ترجمہ: جابر بن عبداللہؓ (دجال کاقصہ بیان کرتے ہوئے) روایت کرتے ہیںکہ اس اثنامیں مسلمانوں کے درمیان عیسیٰ علیہ السلام آجائیں گے پھر نماز کھڑی ہوگی اور ان سے کہا جائے گاکہ اے روح اللہ ، آپ آگے بڑھیں، مگر وہ کہیں گے کہ نہیں تمہارے ہی امام کو آگے بڑھنا چاہیے، وہی نماز پڑھائیں۔ پھر جب صبح کی نماز پڑھ چکیں گے تو مسلمان دجال کے مقابلے پر نکلیں گے ۔ فرمایا جب وہ کذاب (یعنی دجال ) ان کو دیکھے گا تو اس طرح گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتاہے۔ پھر وہ اس کی طرف بڑھیں گے اور اسے قتل کردیں گے اور نوبت یہ آجائے گی کہ درخت اور پتھر پکار اٹھیں گے کہ اے روح اللہ ، یہ یہودی میرے پیچھے چھپاہواہے ۔ دجال کے پیروئوں میں سے کوئی نہ بچے گا جو قتل نہ کردیا جائے۔ ‘‘
نواس بن سمعان الکلابی رضی اللہ عنہ :
(۹) عن نواس بن سمعان (فی قصۃ الدجال) فبینماھوکذالک اذ بعث اللّٰہ المسیح ابن مریم فینزل عندالمنارۃ البیضاء شرقی دمشق بین مھروذتین واضعا کفیہ علی اجنحۃ ملکین اذا طاطاء راسہ قطرو اذا رفعہ تحدرمنہ جمان کاللولوء فلایحل لکافر یجدریع نفسہ الامات ونفسہ ینتھی الی حیث ینتھی طرفہ فیطلبہ حتیٰ یدرکہ بباب لد فیقتلہ۔
(مشکوٰۃ، کتاب الفتن، باب العلامات بین یدی الساعۃ وذکر الدجال، بحوالہ مسلم و ترمذی ، ابو دائود ، کتاب الملاحم)
ترجمہ:نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ (قصہ دجال بیان کرتے ہوئے) روایت کرتے ہیںکہ اس اثنامیں کہ وہ (یعنی دجال ) یہ کچھ کررہاہوگا، اللہ تعالیٰ عیسیٰ ابن مریم کو بھیج دے گا اوروہ دمشق کے مشرقی حصے میں سفیدمینارکے پاس اتریں گے۔ وہ دو زرد رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے۔دوفرشتوں کے پروں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے ہوئے ہوں گے۔جب وہ سرجھکائیں گے تو ایسامحسوس ہوگاکہ قطرے ٹپک رہے ہیں۔جب سراٹھائیں گے تو موتی کی طرح قطرے ٹپکتے ہوئے محسوس ہوں گے۔ ان کے سانس کی ہوا جس کا فر تک پہنچے گی،اوروہ ان کی حدنظرتک جائے گی،وہ زندہ نہ بچے گا ۔وہ دجال کا پیچھا کریں گے اور لد (lydda)کے دروازے پر اسے جا پکڑیں گے اور قتل کردیں گے۔
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ :
(۱۰) عن عبداللّٰہ ابن عمرو قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخرج الدجال فی امتی فیمکث اربعین (لاادری اربعین یوما او اربعین شہرا اواربعین عاما) فیبعث اللّٰہ عیسیٰ ابن مریم کانہ عروۃ بن مسعود فیطلبہ فیھلکہ ثم یمکث الناس سبع سنین لیس بین اثنین عداوۃ۔
(مشکوٰۃ،کتاب الفتن، باب لاتقوم الساعۃ الاعلی شرار الناس ،بحوالہ مسلم)
ترجمہ:عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ میری اُمت میں دجال نکلے گا اور چالیس (مجھے ،یعنی حضرت عبداللہ کو نہیں معلوم کہ چالیس دن، یا چالیس مہینے ، یا چالیس سال) رہے گا۔ پھر اللہ عیسیٰ ابن مریم کو بھیجے گا، ان کا حلیہ عروہ بن مسعود (ایک صحابی) سے مشابہ ہوگا وہ اس کاپیچھا کریں گے اور اسے ہلاک کردیں گے، پھر سات سال تک لوگ اس حال میں رہیں گے کہ دو آدمیوں کے درمیان بھی عداوت نہ ہوگی ۔ ‘‘
حذیفہ رضی اللہ عنہ بن اسید غفاری :
(۱۱) عن حذیفۃ بن اسیدالغفاری قال اطلع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علینا ونحن نتذاکر فقال ماتزکرون قالوانذکر الساعتہ قال انھا لن تقوم حتیٰ ترون قبلھا عشرایات فذکر الدخان والدجال والدابتہ و طلوع الشمس من مغربھا ونزول عیسیٰ ابن مریم ویاجوج وماجوج و ثلثۃ خسوف خسف بالمشرق وخسف بالمغرب و بجزیرۃ العرب واخرذالک نارتخرج من الیمن تطردالناس الیٰ محشر ہم۔
(مشکوٰۃ، کتاب الفتن، باب العلامات بین یدی الساعہ، بحوالہ مسلم)
ترجمہ:حذیفہ رضی اللہ عنہ بن اسید غفاری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ ہماری مجلس میں تشریف لائے اور ہم باہم بات چیت کررہے تھے۔ آپ ﷺ نے پوچھاکیا بات ہو رہی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہم قیامت کا ذکر کر رہے تھے ۔ فرمایا وہ ہرگز قائم نہ ہوگی جب تک کہ اس سے پہلے دس نشانیاں ظاہرنہ ہوجائیں۔پھرآپﷺ نے وہ دس نشانیاں یہ بتائیں۔ ۱۔دھواں۔۲۔ دجال۔ ۳۔دابہ(جانور)۔۴۔سورج کا مغرب سے طلوع ہونا۔۵عیسیٰ ابن مریم کانزول۔ ۶۔یاجوج،ماجوج۔۷۔تین بڑے خسوف (landslides)ایک مشرق میں۔ ۸۔دوسرا مغرب میں۔۹۔ تیسرا جزیرتہ العرب میں ۔۱۰۔سب سے آخر میں ایک زبردست آگ ہوگی جو یمن سے اُٹھے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی ان کومحشر کی طرف لے جائی گی ۔
ثوبان رضی اللہ عنہ مولیٰ رسول اللہﷺ:
(۱۲)عن ثوبان مولی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عصابتان من امتی احزرھمااللّٰہ تعالیٰ من النار‘عصابۃ تغزواالھند‘وعصابۃ تکون مع عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام۔
(نسائی‘کتاب الجہاد‘مسنداحمد‘بسلسلہ روایات ثوبان)
ترجمہ: نبی اکرمﷺ کے آزادکردہ غلام ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیںکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایامیری امت کے دولشکرایسے ہیںجن کواللہ نے آتش دوزخ سے بچالیا‘ایک وہ لشکر جو ہندوستان پرحملہ کرے گادوسراوہ جوعیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہوگا‘‘۔
مجمع بن جاریہ انصاری رضی اللہ عنہ:
(۱۳) سمعت رسول اللّٰہ علیہ وسلم یقول یقتل ابن مریم الدجال بباب لد۔
(امام احمدنے مسندمیںیہ حدیث چارطریقوں(یعنی چارسندوں)سے روایت کی ہے۔نیزترمذی نے بھی اسے نقل کیاہے۔)
ترجمہ: میںنے رسول اللہﷺ سے سناہے کہ ابن مریم لدکے دروازے پردجال کوقتل کریںگے۔
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ:
(۱۴) عن ابی امامۃ الباھلی (فی حدیث من ذکرالدجال)فبینماامامھم قدتقدم یصلی بھم الصبح اذنزل علیہم عیسیٰ ابن مریم فرجع ذٰلک الامام ینکص یمشی قہقری لیقدم عیسیٰ فیضع عیسیٰ یدہ بین کتفیہ ثم یقول لہ تقدم فصل فانھالک اقیمت فیصلی بھم امامھم فاذا انصرف قال عیسیٰ علیہ السلام افتحوالباب فیفتح وورأہ الدجال و معہ سبعون الف یھودی کلھم ذوسیف محلی وساج فاذانظرالیہ الدجال ذاب کمایذوب الملح فی الماء وینطلق ھارباویقول عیسیٰ ان لی فیک ضربۃ لن تسبقنی بھافیدرکہ عندباب لد الشرقی فیھزم اللّٰہ الیھودوتملا الارض من المسلم کمایملاء الاناء من الماء وتکون الکلمۃ واحدۃ فلایعبدالااللّٰہ تعالیٰ۔ (ابودائود‘ابن ماجہ)
ترجمہ: ابوامامہ باہلی رضی اللہ علیہ(ایک طویل حدیث میںدجال کاذکر کرتے ہوئے) روایت کرتے ہیںکہ حضوراکرمﷺ نے فرمایا‘اس اثنا میں کہ مسلمانوںکاامام صبح کی نمازپڑھانے کے لیے آگے بڑھ چکاہوگا‘یکایک عیسیٰ ابن مریم ؑ اترآئیںگے۔امام پیچھے پلٹے گاتاکہ عیسیٰ علیہ السلام آگے بڑھیں‘ مگرعیسیٰ ابن مریم علیہ السلام اس کے دونوںشانوںکے درمیان ہاتھ رکھ کر کہیں گے تم ہی آگے بڑھ کرنمازپڑھائوکیونکہ یہ تمہارے ہی لیے قائم کی گئی ہے۔ چنانچہ ان کاامام نمازپڑھائے گا۔سلام پھیرنے کے بعدعیسیٰ علیہ السلام کہیںگے کہ دروازہ کھولو‘چنانچہ وہ کھولا جائے گا۔ باہردجال ۷۰ہزار مسلح یہودیوںکے ساتھ موجودہوگا۔عیسیٰ علیہ السلام کودیکھتے ہی دجال اس طرح گھل جائے گاجیسے نمک پانی میںگھل جاتاہے‘اوروہ بھاگ نکلے گا۔عیسیٰ ؑ کہیں گے میرے پاس تیرے لیے ایک ایسی ضرب ہے جس سے توبچ کرنہ جا سکے گا۔پھروہ اسے لدکے مشرقی دروازے پر جالیں گے۔ اوراللہ یہودیوں کو شکست دے گا…….اورزمین مسلمانوں سے اس طرح بھرجائے گی جیسے برتن پانی سے بھرجائے اورسب دنیاکاکلمہ ایک ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے سواکسی کی عبادت نہ ہوگی۔
عثمان ابن ابی العاص رضی اللہ عنہ:
(۱۵)سمعت رسول اللّٰہ علیہ وسلم یقول…وینزل عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام عنہ صلوۃ الفجرفیقول لہ امیرھم یاروح اللّٰہ تقدم‘صل‘ فیقول ھذہ الامۃ لامراء بعضھم علی بعض فیقدم امیرھم فیصلی فاذاقضی صلوتہ اخذعیسیٰ حربتہ فیذھب نحوالدجال فاذایراہ الدجال ذاب کمایزوب الرصاص فیضح حربتہ بین شندوبتہٖ فیقتلہ وینھزوم اصحابہ لیس یومئذشئی یواری منھم احداحتیٰ ان الشجرۃ لتقول یامومن ھذاکافرویقول الحجریامومن ھذاکافر۔
(مسنداحمدبسلسلہ روایات عثمان بن ابی العاص‘نیزطبرانی اورحاکم نے بھی اسے نقل کیاہے)
ترجمہ:میںنے رسول اللہﷺ کویہ فرماتے سناہے…اورعیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فجرکی نمازکے وقت اتریںگے۔مسلمانوںکاامیران سے کہے گاکہ اے روح اللہ آگے بڑھیے ‘نمازپڑھائیے‘وہ کہیںگے کہ اس امت کے لوگ خودہی ایک دوسرے پرامیرہیں‘تب مسلمانوںکاامیرآگے بڑھ کر نمازپڑھائے گا۔پھرنمازسے فارغ ہوکرعیسیٰ علیہ السلام اپنانیزہ لے کردجال کی طرف چلیں گے۔ دجال جب ان کودیکھے گاتواس طرح پگھل جائے گاجیسے سیسہ پگھلتاہے۔پھرعیسیٰ علیہ السلام نیزہ مارکراس کوقتل کر دیں گے اوراس کے ساتھی شکست کھاجائیںگے۔اس روزان لوگوں کے لیے کہیں چھپنے کوجگہ نہ ہو گی‘درخت پکاریںگے کہ اے مومن یہ کافر یہاں موجودہے اورپتھر پکاریں گے کہ اے مومن یہ کافر یہاں موجود ہے۔
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ:
(۱۶) عن سمرۃ بن جندب عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (فی حدیث طویل)فیصبح فیھم عیسٰی ابن مریم فیھزمہ اللّٰہ وجنودہ حتیٰ ان اجزم الحائط واصل الشجرینادی یامومن ھذاکافریستتربی فتعال اقتلہ۔
(مسنداحمد‘مرویات سمرہ بن جندب میں‘نیزحاکم نے مستدرک میںبھی اسے نقل کیاہے)
ترجمہ : سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ (ایک طویل حدیث میں)نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیںکہ پھرصبح کے وقت مسلمانوںمیںعیسٰی ابن مریم آجائیںگے اوراللہ تعالیٰ دجال اوراس کے لشکر کو شکست دے گا یہاں تک کہ دیواریں اور درختوں کی جڑیں پکاراٹھیںگی کہ اے مومن یہ کافر یہاں چھپا ہواہے‘آاوراسے قتل کر۔‘‘
(۱۷)عن عمران بن حصین ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لاتذال طائفۃ من امتی علی الحق ظاہرین علی من ناؤاھم حتی یاتی امراللّٰہ تبارک وتعالیٰ وینزل عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام۔ (مسنداحمد‘مرویات عمران بن حصینؓ)
ترجمہ: عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میری امت میںسے ایک گروہ ایساضروررہے گاجوحق پرقائم اور مخالفوں پر بھاری رہے گا۔یہاںتک کہ اللہ کافیصلہ آجائے اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نازل ہوں۔
(۱۸)عن عائشۃ (فی قصۃ الدجال)فینزل عیسیٰ علیہ السلام فیقتلہ ثم یمکث عیسیٰ علیہ السلام فی الارض اربعین سنۃ اماماعادلا وحکما مقسطا۔ (مسنداحمد‘مرویات عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا)
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا(دجال کے قصے میںنبی اکرمﷺ سے)روایت کرتی ہیں’’پھرعیسیٰ علیہ السلام اتریںگے اوراسے قتل کریں گے۔پھر عیسیٰ السلام زمین میںچالیس سال تک ایک امام عادل اورحاکم منصف کی حیثیت سے رہیںگے۔
سفینہ رضی اللہ مولیٰ رسول اللہﷺ:
عن سفینۃ مولٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (فی قصۃ الدجال) فینزل عیسیٰ علیہ السلام فیقتلہ اللّٰہ تعالیٰ عندعقبۃ افیق۔(مسنداحمد‘مرویات سفینہ)
ترجمہ:رسول اللہ ﷺکے آزادکردہ غلام سفینہ رضی اللہ عنہ (دجال کے قصے میںحضور اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں)پھرعیسیٰ علیہ السلام اتریںگے اوراللہ تعالیٰ دجال کوافیق کی گھاٹی کے قریب ہلاک کردے گا۔
(۲۰) عن حذیفۃ (فی ذکرالدجال)فلماقاموایصلون نزل عیسیٰ ابن مریم امامھم فصلی بھم فلماانصرف قال ھکذافرجوابینی وبین عدو اللّٰہ …یسلط اللّٰہ علیھم المسلمین فیقتلونھم حتی ان الشجر والحجرلینادی یاعبداللّٰہ یاعبدالرحمن یامسلم ھذا الیھودی فاقتلہ فیفنیھم اللّٰہ تعالیٰ ویظہرالمسلمون فیکسرون الصلیب ویقتلون الخنزیرویضعون الجزیتہ۔
(مستدرک حاکم۔مسلم میںبھی یہ روایت اختصارکے ساتھ آئی ہے۔اورحافظ ابن حجرنے فتح الباری
جلد۶صفحہ۴۵۰۰میںاسے صحیح قراردیاہے۔)
ترجمہ:حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بن یمان(دجال کے ذکرمیںروایت کرتے ہیں)پھرجب مسلمان نمازپڑھنے کے لیے کھڑے ہوںگے توعیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ان کے سامنے آئیںگے اوران کونمازپڑھائیں گے۔ پھرسلام پھیرنے کے بعدوہ ہاتھ کے اشارے سے کہیںگے کہ ہٹ جائو میرے اوراس دشمن خداکے درمیان سے…..اور اللہ تعالیٰ دجال کے ساتھیوںپرمسلمانوںکومسلط کردے گااوروہ انہیں خوب ماریںگے یہاں تک کہ درخت اورپتھرپکاراٹھیںگے کہ اے عبداللہ ‘اے عبدالرحمن‘اے مسلمان‘یہ یہاں ایک یہودی موجود ہے‘ ماراسے‘اس طرح اللہ تعالیٰ ان کوفناکردے گا اورمسلمان غالب ہوںگے اورصلیب توڑدیں گے اورخنزیرکوقتل کر دیں گے اورجزیہ ساقط کردیں گے۔
ضمیمہ نمبر(۲)
احادیث درباب ظہورمہدی
اس باب میںدوقسم کی احادیث ہیں۔ایک وہ جن میںمہدی کاذکرلفظ ’’مہدی‘‘ کی صراحت کے ساتھ کیاگیاہے۔دوسری وہ جن میںلفظ مہدی استعمال کیے بغیرایک خلیفہ عادل کے ظہورکی خبردی گئی ہے اورچونکہ ان احادیث کامضمون پہلی قسم کی احادیث سے مشابہت رکھتاہے۔ اس لیے محدثین نے یہ سمجھاکہ ان میںبھی اس خلیفہ سے مرادمہدی ہی ہے۔
قسم اول کی احادیث:
(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذارایتم الرایات السود قد جائت من قبل خراسان فاتوھافان فیھاخلیفۃ اللہ المھدی۔
(مسنداحمد‘بسلسلہ مرویات ثوبان بیہقی ‘دلائل النبوۃ۔اسی مضمون کی ایک روایت ابن ماجہ ‘ کتاب
الفتن‘باب خروج المہدی میںبھی ہے۔)
ترجمہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ جب تم دیکھوکہ خراسان کی طرف سے کالے جھنڈے آرہے ہیںتوان کے ساتھ شامل ہوجائوکیونکہ ان میںاللہ کاخلیفہ ’’المہدی‘‘ ہوگا۔
(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المھدی منااھل البیت یصلحہ اللّٰہ فی لیلتہ۔ (مسنداحمد‘مرویات علی رضی اللہ عنہ)
ترجمہ: ’’رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ’’المہدی‘‘ہم اہل بیت میںسے ہوگا۔ اللہ اس کوایک رات میںتیارکردے گا۔‘‘
(۳) عن ام سلمۃ قالت سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول المھدی من عترتی من ولدفاطمۃ۔ (ابودائود،کتاب الفتن و الملاحم۔ ذکر المہدی)
ترجمہ:ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، وہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سناکہ ’’المہدی ‘‘ میری نسل سے ، فاطمہ کی اولاد میں سے ہوگا۔
(۴) قالت ام سلمۃ سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نحن ولد عبد المطلب سادۃ اھل الجنتہ انا وحمزۃ وعلی وجعفروالحسن و الحسین والمھدی۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب خروج المہدی)
ترجمہ : ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ ہم اولاد عبدالمطلب جنت کے سردار ہیں ، میں اور حمزہ اور علی اور جعفر اور حسن اور حسین اور المہدی۔
(۵) قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یکون فی امتی المھدی ان قصر فسبع والافتسع فتنعم فیہ امتی۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب خروج المہدی)
ترجمہ:’’نبی اکرمﷺ نے فرمایا ، میری اُمت میں المہدی ہوگا، اگر کم مدت ہوئی تو سات ورنہ نو (غالباً سات یا نوسال ) اس زمانے میں میری اُمت خوش حال ہوگی۔ ‘‘
(۶) عن ابی سعید الخدری قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المھدی منی اجلی الجبھہ، اقنی الانف، یملا الارض قسطا وعدلاً کما ملئت ظلماوجوراویملک سبع سنین۔ (ابودائود،کتاب الفتن والملاحم، ذکر المہدی)
ترجمہ: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا المہدی مجھ سے ہوگا۔ روشن اور چوڑی پیشانی والا ، اونچی ناک والا، زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھردے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر گئی ہوگی اور سات سال حکمران رہے گا۔
(۷) عن ابی سعید فی قصۃ المھدی قال فیجی الرجل فیقول یا مھدی اعطنی فیحثی لہ فی ثوبہ مااستطاع ان یحملہ۔ (مشکوٰۃ، باب اشراط الساعہ، بحوالہ ترمذی)
ترجمہ :’’ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ مہدی کا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک شخص آئے گا اور کہے گا کہ اے مہدی مجھے دے، مجھے دے، تو لپیں بھر بھرکراس کے کپڑے میں اتنا ڈال دے گا جسے وہ اٹھا سکے۔ ‘‘
(۸) عن جعفر الصادق عن ابیہ عن جدہ قال قال رسول اللّٰہ …کیف تھلک امۃ انا اولھا والمھدی وسطھاوالمسیح اخرھا۔
(مشکوٰۃ،باب ثواب ہذہ الامۃ، بحوالہ رزین)
ترجمہ: ’’امام جعفر صادق اپنے والد (امام محمد باقر) سے اور وہ اپنے والد (امام زین العابدین ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیسے ہلاک ہوسکتی ہے وہ اُمت جس کے آغاز میں مَیں ہوں اور جس کے وسط میں مہدی ہے اور جس کے آخرمیں مسیح ہے۔‘‘
قسم دو م کی احادیث :
(۹) لولم یبق من الدنیا الا یوم لیبعث اللّٰہ عزوجل رجلامنا یملاھاعدلا کما ملئت جورا۔ (مسنداحمد،بسلسلہ روایت علی ؓ)
ترجمہ: اگر دنیا کے ختم ہونے میں صرف ایک ہی دن باقی ہو ا، پھر بھی اللہ تعالیٰ ہم میں سے ایک ایسا شخص اٹھائے گا جو دنیا کو اسی طرح عدل سے بھر دے گا جس طرح کہ وہ جور سے بھری ہوگی ۔
(۱۰) عن علی عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لولم یبق من الدھر الایوم لبعث اللّٰہ رجلامن اھل بیتی یملاھا عدلاکما ملئت جورا۔
(ابودائود، کتاب الفتن والملاحم، ذکر المہدی)
ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ اگر دنیا کی مدت میں صرف ایک ہی دن باقی ہو پھر بھی اللہ تعالیٰ میرے اہل بیت سے ایک ایسا شخص اٹھائے گا جو اس کو عدل سے اسی طرح بھردے گا جس طرح وہ ظلم سے بھری ہوگی۔
(۱۱) قال علی رضی اللّٰہ عنہ ونظر الی ابنہ الحسن فقال ان ابنی ھذا سید کما سماہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسیخرج من صلبہ رجل یسمی باسم نبیکم صلی اللّٰہ علیہ وسلم یشبھہ فی الخُلق ولایشبھہ فی الخَلق، ثم ذکر قصۃ یملاء الارض عدلا۔ (ابودائود،کتاب الفتن ذکر المہدی)
ترجمہ: علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ کر فرمایاکہ میرا یہ بیٹا سید (سردار ) ہے جیساکہ نبی اکرم ﷺنے اس کو موسوم فرمایا اور اس کے صلب سے ایک شخص نکلے گا جس کا نام تمہارے نبی کا نام ہوگا (یعنی محمد) وہ نبی اکرمﷺ سے اخلاق میں مشابہ ہوگا مگر شکل و صورت میں مشابہ نہ ہو گا۔ ‘‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا کہ وہ زمین کو عدل سے بھردے گا۔
(۱۲) عن علی قال قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخرج رجل من وراء النھر یقال لہ الحارث حراث علی مقدمۃ رجل یقال لہ منصور یوطی او یمکن لآل محمد کمامکنت قریش لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وجب علی کل مومن نصرہ، اوقال اجابتہ۔ (ابودائود، کتاب الفتن ذکر المہدی)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص ماوراء النہر سے نکلے گا جس کا نام حارث ہوگا اس کے ہراول پر ایک شخص ہوگا جس کو منصور کے نام سے یاد کیاجاتاہوگا ۔ وہ (یعنی منصور ) آل محمد کے لیے اس طرح زمین ہموار کرے گا (یا اسباب اقتدار فراہم کرے گا ) جس طرح قریش نے اللہ کے رسول ﷺ کے لیے کیا۔ واجب ہے ہر مومن پر اس کی مددکرنا، یا فرمایا اس کی دعوت پر لبیک کہنا۔
(۱۳) لاتقوم الساعتہ حتی یلی (وفی روایتہ لا تنقضی الایام حتی یملک العرب) رجل من اھل بیتی یواطی اسمہ اسمی۔
(مسند احمد،بسلسلہ مرویات عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ )
ترجمہ: ’’قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ فرماں رواں نہ ہوجائے (اور ایک دوسری روایت میں ہے زمانہ ختم نہ ہوگا جب تک عرب کا فرماں روا نہ ہو جائے) ایک ایسا شخص جو میرے اہل بیت میں سے ہوگا اور جس کا نام میرے نام کے مطابق ہوگا۔‘‘
(۱۴) عن عبداللّٰہ بن مسعود عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لولم یبق من الدنیا الایوم و فی روایۃ (لطول اللّٰہ ذٰلک الیوم) حتی یبعث اللّٰہ فیہ رجلامن اھل بیتی یواطی اسمہ اسمی واسم ابیہ اسم ابی (وفی روایۃ)یملا الارض قسطاوعدلاکما ملئت ظلماوجورا۔(وفی روایۃ) یملا الارض قسطاوعد لا کما ملئت ظلماوجورا۔(وفی روایۃ اخری) لا تذھب اولا تنقضی الدنیا حتی یملک العرب من اھل بیتی یواطی اسمہ اسمی۔
(ابودائود ،کتاب الفتن والملاحم، ذکر المہدی،آخری روایت (لاتذھب الدنیا)
ترمذی میں بھی ابن مسعود ؓ سے مروی ہے)
ترجمہ: ’’عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایاکہ اگر دنیا کی زندگی میں صرف ایک ہی دن باقی رہ جائے (ایک روایت میں یہ فقرہ زائد ہے۔ تو اللہ اس دن کو طول دے گا ) یہاں تک کہ میرے اہل بیت میں سے ایک ایسے شخص کو اٹھائے گا جس کانام میرے نام کے اور جس کے باپ کا نام میرے والد کے نام کے مطابق ہوگا۔ ‘‘ایک اور روایت میں اس پر اتنا اضافہ اور ہے ’’جوزمین کو اسی طرح عدل وانصاف سے بھردے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی ‘‘ایک اور روایت میں الفاظ یہ ہیں ’’دنیا ختم نہ ہوگی جب تک کہ میرے خاندان میں سے ایک شخص ، جس کانام میرے نام کے مطابق ہوگا ، عرب کا فرماں روانہ ہوجائے۔‘‘
(۱۵)عن ابی سعید الخدری قال ذکر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلاء یصیب ھذہ الامتہ حتی لایجدالرجل ملجاء الیہ من الظلم، فیبعث اللّٰہ رجلامن عترتی واھل بیتی فیملابہ الارض قسطا وعدلاکما ملئت ظلماوجورایرضی عنہ ساکن السماء وساکن الارض لاتدع السماء من قطرھاشیئاً الا صبۃ مدرارا ولاتدع الارض من نبھاتھاشیئاً الا اخرجتہ حتی یتمنی الاحیاء الاموات یعیش فی ذٰلک سبع سنین او ثمان سنین اوتسع سنین۔ (مشکوٰۃ، باب اشراط الساعہ، بحوالہ مستدرک حاکم)
ترجمہ: ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک بلا کاذکر کیا جو اس اُمت پر آئے گی۔ یہاں تک کہ آدمی کو ظلم سے کہیں پناہ نہ ملے گی ۔ اس سلسلے میں آپﷺ نے فرمایا ’’پھر اللہ میرے خاندان اور اہل بیت سے ایک شخص کو اٹھائے گا اور اس کے ذریعہ سے زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھردے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی۔ اس سے آسمان والے بھی خوش ہوں گے اور زمین والے بھی ۔ نہ آسمان اپنا ایک قطرہ برسائے بغیر رہے گا اورنہ زمین اپنی روئیدگی نکالنے میں کوئی کسر اٹھا رکھے گی ، یہاں تک کہ زندہ لوگ تمنا کریں گے کہ کاش ان کے وہ عزیز اور دوست جو مرچکے ہیں،یہ زمانہ دیکھیں۔ اس حالت میں وہ سات برس رہے گا ، یاآٹھ برس ،یا نوبرس ۔
(۱۶) عن جابرقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یکون فی اخر الزمان خلیفۃ یقسم المال ولایعدہ (وفی روایتہ)یکون فی اخرامتی خلیفۃ یحثی المال حثیاولایعدہ عدا۔ (مشکوۃ‘باب اشراط الساعہ‘ بحوالہ مسلم)
ترجمہ : جابررضی اللہ عنہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا آخری زمانے میںایک خلیفہ ہوگاجوبے شمارمال تقسیم کرے گا۔‘‘ دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں ’’میری امت کے آخری زمانے میںایک خلیفہ ہوگا جو لپیں بھربھرکرمال دے گااورشمارنہ کرے گا۔
(۱۷) عن ام سلمۃ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال یکون اختلاف عندموت خلیفۃ فیخرج رجل من اھل المدینۃ ھارباالی مکۃ فیاتیہ ناس من اھل مکۃ فیخرجونہ وہوکارہ فیبایعونہ بین الرکن والمقام یبعث الیہ بعث من الشام فیخسف بھم بالبیداء فاذارای الناس ذٰلک اتاہ ابدال الشام وعصائب اھل العراق فیبایعونہ ینشارجل من قریش اخوالہ کلب فیبعث الیھم بعثافیظھرون علیھم وذٰلک بعث الکلب و الخیبۃ لمن لم یشھدغنیمۃ کلب فیقسم المال ویعمل فی الناس بسنۃ نبیھم صلی اللّٰہ علیہ وسلم ویلقی الاسلام بحیرانہ الی الارض فیلبث سبع سنین ثم یتوفی ویصلی علیہ المسلمون۔
(ابودائود،کتاب النقن والملاحم‘ذکرالمہدی)
ترجمہ: ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیںکہ نبی اکرم ﷺنے فرمایاکہ ایک خلیفہ کی موت کے بعداختلاف برپاہوگا۔اس موقع پرایک شخص اہل مدینہ سے نکل کرمکہ بھاگ جائے گا (اس اندیشہ سے کہ کہیںاسے خلیفہ نہ بنالیاجائے)مکہ مکرمہ کے لوگ اس کے پاس آئیں گے اوراس کونکال لائیںگے۔اوراس کو مجبورکرکے رکن اورمقام کے درمیان اس کے ہاتھ پربیعت کرلیں گے۔ پھر اس کے مقابلہ پرایک لشکرشام کی طرف بھیجاجائے گا‘مگر وہ لشکر بیدا میں (مکہ اورمدینہ کے درمیان ایک علاقہ)زمین دوزہوجائے گا۔جب لوگ اس لشکر کایہ انجام دیکھیںگے توشام سے ابدال اوراہل عراق کے دستے اس کے پاس آئیںگے اوراس کے ہاتھ پربیعت کریں گے۔ پھر ایک شخص قریش کے خاندان سے اٹھے گاجس کی ننھیال قبیلہ کلب کی ہوگی۔وہ اس کے خلاف لشکر بھیجے گامگریہ لشکر(یعنی بنی کلب کالشکر)بھی شکست کھائے گا۔نامرادہے وہ جو اس وقت قبیلہ کلب کامال غنیمت تقسیم ہونے پرموجودنہ ہو۔پھروہ خوب مال تقسیم کرے گااورلوگوںکے درمیان سنت پیغمبرﷺکے مطابق عمل کرے گااور اسلام زمین پرخوب پھیل جائے گااوروہ سات سال رہے گا‘ پھر اس کاانتقال ہوجائے گااوراس پرمسلمان نمازجنازہ پڑھیںگے۔
(۱۸) عن ابی ہریرۃ مرفوعایاعم ان اللّٰہ تعالیٰ ابتداء الاسلام بی وسیختمہ بغلام من ولدک وہوالذی یتقدم عیسیٰ ابن مریم۔
(کنزالعمال جلد۷صفحہ ۱۸۸)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ کی طرف نسبت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیںکہ آپﷺ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایاکہ چچا جان‘ اللہ نے اسلام کو مجھ سے شروع کیااورایک ایسے لڑکے پراس کوختم کرے گا جو آپ کی اولادسے پیدا ہو گا اور وہی ہوگاجس کے پیچھے عیسیٰ ابن مریم نماز پڑھیںگے۔
(۱۹) عن عماربن یاسرمرفوعایاعباس ان اللّٰہ تعالیٰ یدابی ھذا الامر وسیختمہ بغلام من ولدک یملاھاعدلاکماملئت جور اوہو الذی یصلی بعیسیٰ علیہ السلام۔ (کنزالعمال حوالہ مذکور)
ترجمہ : ’’عماربن یاسررضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ سے منسوب کرتے ہوئے روایت کرتے ہیںکہ اے عباس رضی اللہ عنہ ‘اللہ تعالیٰ نے اس دین کومجھ سے شروع کیااورایک ایسے لڑکے پرختم ہوگاجوتمہاری اولادسے ہوگا‘زمین کواسی طرح عدل سے بھردے گاجس طرح وہ ظلم سے بھری ہوگی اوراسی کے پیچھے عیسیٰ علیہ السلام نمازپڑھیںگے۔‘‘
ایک منفردروایت جودونوںقسم کی روایتوںسے مختلف ہے۔
(۲۰) عن انس ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال ولایزداد الامر الا شدۃ ولاالدنیاالا ادباراولاالناس الاشحارولاتقوم الساعۃ الاعلی شرار الناس ولامہدی الاعیسیٰ بن مریم۔ (ابن ماجہ‘کتاب النقن‘باب شدۃ الزمان)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ حالات بگڑتے جائیں گے اوردنیاپیچھے ہی پلٹتی جائے گی اورلوگوںمیںتنگ نظری بڑھتی چلی جائے گی اورقیامت قائم نہ ہوگی مگربدترین لوگوںپر۔نیز آپ نے فرمایاکہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے سواکوئی مہدی نہیںہے۔
تشریح: یہ روایت ان تمام روایات کے خلاف ہے جومہدی اورعیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے بارے میںتمام کتب حدیث میںواردہوئی ہیںاورکوئی دوسری روایت اس کی تائیدمیںبھی موجودنہیںہے۔اس حدیث پرمحدثین کی تنقیدات حسب ذیل ہیں:
حافظ ابن حجرعسقلانی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھاہے کہ یہ تمام صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ (فتح الباری‘جلد۶‘ص۳۵۸)
علامہ قرطبی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے’’تذکرہ‘‘میںلکھاہے کہ اس کی سندضعیف ہے اورمزیدبراںجودوسری احادیث نبیﷺ سے مروی ہوئی ہیں،وہ تصریح کرتی ہیںکہ مہدی آنحضرتﷺ کی عترت سے اوراولادفاطمہ رضی اللہ عنہاسے ہوگا۔یہ احادیث اس حدیث سے صحیح ترہیںاس لیے اس کے بجائے انہی کوماناجائے گا…ایک احتمال یہ ہے کہ شاید لا مہدی الاعیسیٰ کہنے سے نبی اکرمﷺ کی مرادیہ ہوکہ مہدی (معنی ہدایت یافتہ)کامل طورپر اور معصومانہ شان کے ساتھ صرف عیسیٰ علیہ السلام ہوںگے۔
(الحادی للفتاویٰ صفحہ ۸۵۔۸۲)
علامہ ابن کثیررحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیںکہ’’یہ حدیث‘‘جیساکہ صاف نظرآتاہے تمام ان احادیث کے خلاف ہے جویہ بتاتی ہیںکہ مہدی اورہوںگے اورعیسیٰ ابن مریم اور۔تاہم غورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ان کے خلاف نہیںہے بلکہ اس قول سے مرادیہ ہے کہ پورے ہدایت یافتہ‘جیساکہ ہوناچاہیے ‘عیسیٰ ؑ ہی ہوںگے اوراس سے یہ لازم نہیںآتاکہ دوسرامہدی نہ ہو۔‘‘ (الحادی للتفاوی صفحہ۸۶)
امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے ابن ماجہ کی شرح’’مصباح الزجاجہ‘‘میںمفصل تنقید کرکے اس کوناقابل قبول قراردیاہے۔
ضمیمہ نمبر(۳)
فقہا،محدثین اورمفسرین کی تصریحات اس باب میںکہ عیسیٰ علیہ السلام کادوبارہ نزول نبی ہونے کی حیثیت سے نہ ہوگابلکہ وہ محمدﷺ کے پیروکی حیثیت سے آئیںگے ‘اس لیے ان کانزول ختم نبوت کے منافی نہیںہے۔
اس مسئلے کے متعلق زمحشری‘بیضاوی ‘حافظ الدین نسفی‘سیوطی اورشیخ اسماعیل کی تصریحات ضمیمہ نمبر۵میںدرج کی گئی ہیں(ملاحظہ ہوضمیمہ ۵نمبر۳‘۵‘۶‘۹‘۱۰۔باقی اقوال درج ذیل ہیں۔
(۱)علامہ ابن حزم۳۸۴ھ‘۹۹۴ء۔۴۵۶ھ‘۱۰۶۴ء:
لایقدح فی کونہ خاتم الانبیاء والمرسلین نزول عیسیٰ بعدہ لانہ یکون علی دینہ مع ان المرادانہ اخرمن نبی (المحلی،جلد۵،ص:۲۶۷)
نبی اکرم ﷺکے خاتم الانبیا والمرسلین ہونے میں حضرت عیسیٰ ؑ کا آپﷺ کے بعد نازل ہونا قادح نہیں ہے کیونکہ وہ آپ کے ہی دین پر ہوں گے۔ علاوہ اس کے آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ آخری شخص ہوں گے جو نبی بنادئیے گئے۔
(۲)امام رازی ۵۴۳ھ،۱۱۴۹ء۔۶۰۶،۱۲۰۹ء:
قال بعض المتکلمین انہ لا یمنع نزولہ من السماء الی الدنیا‘الاانہ انماینزل عنہ ارتفاع التکالیف اوبحیث لایعرف‘ اذلونزل مع بقاء التکلیف علی وجہ یعرف انہ عیسیٰ لکان اماان یکون نبیاولانبی بعدمحمدعلیہ الصلوۃ والسلام اوغیرنبی وذٰلک غیرجائزعلی الانبیاء وھذاالاشکال عندی ضعیف‘لان انتھاء الانبیاء الی مبعث محمدصلی اللّٰہ علیہ وسلم فعنہ مبعث انتھت تلک المدۃ فلایبعدان یصیربعدنزولہ تبع المحمد۔ (تفسیرکبیرجلد۳۔ص۳۴۳)
بعض متکلمین کہتے ہیںکہ’’عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے دنیاکی طرف نازل ہونے سے توہمیںانکارنہیںہے مگرہمارے نزدیک وہ یاتواس وقت اتریںگے جب کہ انسان کی ذمہ داری ختم ہوچکی ہوگی‘یعنی توبہ وایمان کے مطالبے کاسوال ہی ختم ہو چکا ہوگا‘ یا اس طرح اُتریںگے کہ پہچانے نہ جائیں گے۔ کیونکہ اگروہ ایسی حالت میںنازل ہوں جب کہ انسان ابھی مکلف ہواوراس طرح نازل ہوںکہ ان کاعیسیٰ ہوناپہچان لیا جائے‘ تو دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت لامحالہ ہوگی۔یاتووہ نبی ہوںگے‘حالانکہ محمدﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔یاوہ غیرنبی ہوںگے‘حالانکہ انبیا کے معاملہ میںایسا ہونا جائز نہیں (کہ ایک شخص نبی ہونے کے بعدنبی نہ رہے۔)‘‘لیکن یہ اشکال میرے نزدیک کمزورہے۔کیونکہ انبیا کازمانہ محمدﷺ کی بعثت تک ہے جب آپﷺ مبعوث ہوگئے توزمانہ انبیا ختم ہوگیا۔اب عیسیٰ نازل ہوںگے تویہ بات بعیدازقیاس نہیںہے کہ وہ محمدﷺکے تابع ہوں۔
(۳)امام نووی۶۳۱ھ‘۱۲۳۳ء۔۶۷۶ھ‘۱۲۷۷ء:
ینزل عیسیٰ ابن مریم حکماای حاکمابھذہ الشریعۃ ولاینزل برسالۃ مستقلۃ وشریعۃ ناسخۃ بل ہوحاکم بن حکام ھذا الامتہ۔
(شرح مسلم جلد۲‘ص۱۸۹)
عیسیٰ ابن مریم حکم بن کرنازل ہوںگے‘یعنی اس شریعت کے مطابق حکم کرنے والے ۔وہ کسی مستقل رسالت اورکسی ایسی شریعت کے ساتھ نازل نہ ہوں گے جوموجودہ شریعت کو منسوخ کرنے والی ہو‘بلکہ وہ اس اُمت کے حاکموں میںسے ایک حاکم ہوںگے۔‘‘
اسی کتاب میںایک دوسری جگہ امام نووی لکھتے ہیں:
وانکرذٰلک بعض المعتزلۃ الجھمیۃ ومن وافقھم وزعمواان ھذہ الاحادیث مردودۃ بقولہ تعالی وخاتم النبیین وبقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لانبی بعدی وباجماع المسلمین انہ لا نبی بعدنبیناوان شریعتہ موبدۃ الی یوم القیامتہ لاتنسخ ۔وھذااستدلال فاسدلانہ لیس المرادبنزول عیسیٰ انہ ینزل نبیابشرع ینسخ شرعنا‘ولافی ھذہ الاحادیث ولافی غیرھاشیء من ھذابل صحت ھذہ الاحادیث ھناوماسبق فی کتاب الایمان وغیرہاانہ ینزل حکمامقسطابحکم شرعناویحیی من امورشرعناماھجرہ الناس۔ (شرح مسلم جلد۱۸،ص ۷۵)
بعض معتزلہ اورجہمیہ اوران کے ہم خیال لوگوںنے اس کا(یعنی نزول عیسیٰ کا) انکارکیاہے اوریہ خیال ظاہرکیاہے کہ یہ حدیثیںناقابل قبول ہیںکیونکہ اللہ تعالیٰ کے قول خاتم النبیین اوررسول خداﷺکے قول’’لانبی بعدی‘‘ اور مسلمانوںکے اس اجماع کے خلاف پڑتی ہیںکہ ہمارے نبی کے بعدکوئی نبی نہیںاورآپﷺ کی شریعت قیامت تک رہنے والی ہے، منسوخ ہونے والی نہیں ہے۔مگریہ استدلال غلط ہے‘کیونکہ عیسیٰ ؑ کے نزول سے یہ مرادنہیںہے کہ وہ نبی کی حیثیت سے ایک ایسی شریعت لے کرنازل ہوںگے جوہماری شریعت کومنسوخ کردے۔یہ بات نہ اس باب کی احادیث میںکہیں ہے اور نہ دوسری احادیث میں۔بلکہ ان احادیث اورکتاب الایمان وغیرہ میںگزری ہوئی دوسری احادیث سے یہ ثابت ہوتاہے کہ وہ ہماری شریعت کے مطابق حکم کرنے والے حاکم منصف بن کراتریںگے اورہماری شریعت کے ایسے امور کوزندہ وتازہ کریںگے جن کولوگوںنے چھوڑدیا۔
(۴)علائوالدین بغدادی ‘صاحب تفسیر’’خازن‘‘۷۲۵ھ:
فان قلت قدصح ان عیسیٰ علیہ السلام ینزل فی آخرالزمان بعدہ وہو نبی‘قلت انی عیسیٰ علیہ السلام ممن نبی قبلہ وحین ینزل فی اخر الزمان ینزل عاملابشریعۃ محمدصلی اللّٰہ علیہ وسلم ومصلیاالی قبلتہ کان بعض امتہ۔ (ص۴۷۱۔۴۷۲)
اگرکہوکہ آپ کے بعدآخرزمانہ میںعیسیٰ علیہ السلام کانزول ثابت ہے اوروہ نبی ہیں‘ تو میںکہوںگاکہ عیسیٰ علیہ السلام توان لوگوںمیںسے ہیںجوآپ سے پہلے نبی بنائے جاچکے تھے اورجب وہ آخرزمانے میںنازل ہوںگے تواس حیثیت سے نازل ہوںگے کہ شریعت محمدﷺپرعامل ہوںگے اورآپﷺ کے قبلے کی طرف نمازپڑھیںگے اورآپ کی امت کے افراد میںسے ایک فردہوں گے۔
(۷)علامہ بدرالدین عینی ۸۵۵ء۔۱۴۵۱ء:
وفی کتاب الفتن لابی نعیم ’’ینزل ابن مریم فیجدخلیفتھم یصلی بھم فیتاخرفیقول للخلیفتہ صل فقدرضی اللّٰہ عنک فانی انمابعثت وزیر ولم ابعث امیرا…لاینزل بشریعۃ متجددۃ بل ینزل علی شریعتہ نبینا محمدویکون من اتباعہ۔ (عمدۃ القاری جلد۱۶،ص ۴۰)
ابونعیم کی کتاب الفتن میںجوحدیث آئی ہے اس میںہے کہ’’ابن مریم جب اتریں گے تو مسلمانوںکاخلیفہ اس وقت ان کونمازپڑھارہاہوگا۔خلیفہ پیچھے ہٹنے لگے گامگرابن مریم اس سے کہیںگے کہ نہیںتم ہی پڑھائو‘اللہ تم سے راضی ہے‘میںوزیربناکربھیجاگیاہوںنہ کہ امیر‘‘ … ابن مریم کوئی نئی شریعت لے کرنہ اتریںگے بلکہ ہمارے نبیﷺ کی شریعت پر اتریں گے اورآپ کے پیروئوں میںسے ہوںگے۔
(۸)علامہ قسطلانی ۸۵۱ھ‘۱۴۴۸ء۔۹۲۳ھ‘۱۵۱۷ء:
خاتم النبیین ای‘اخرھم الذی ختمھم اوختموابہ ولایقدح فیہ نزول عیسیٰ بعدہ لانہ اذاانزل یکون علی دینہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مع ان المرادانہ اخرمن نبی۔ (ارشادالساری جلد۶،ص۱۸)
خاتم النبیین‘یعنی آخری نبی جس نے سلسلہ انبیا پرمہرلگادی ۔اوراس میں عیسیٰ علیہ السلام کاآپ کے بعدنازل ہوناقادح نہیںہے کیونکہ جب وہ اتریںگے توآپ ہی کے دین پرہوںگے علاوہ بریںخاتم النبیین سے مرادیہ ہے کہ آپ وہ آخری شخص ہیںجسے نبی بنایاگیا۔
(۹)ابن حجرہتیمی ۹۰۹ھ‘۱۵۰۴ء۔۹۷۳ھ‘۱۵۶۵ء:
الذی نص علیہ العلماء بل اجمعواعلیہ انہ یحکم بشریعۃ محمدصلی اللّٰہ علیہ وسلم وعلی ملتہ…وفی حدیث۔ابن عساکرالاان ابن مریم لیس بینی وبینہ نبی ولارسول الاانہ خلیفۃ فی امتی من بعدی وقدصرح السبکی بانہ یحکم بشریعۃ نبیناصلی اللّٰہ علیہ وسلم بالقران والسنۃ۔
(فتاوی حدیثیہ‘ص ۱۲۸۔۱۲۹)
جس بات کوعلما نے بصراحت بیان کیاہے بلکہ جس پرتمام علما کااجماع ہے وہ یہ ہے کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام محمدﷺ کی شریعت کے مطابق حکم کریںگے اورآپ ہی کی ملت پر ہوں گے… اور ابن عساکرکی روایت کردہ حدیث میںیہ الفاظ ہیںکہ’’البتہ میرے اورابن مریم علیہ السلام کے درمیان کوئی رسول اورنبی نہیںہے اورابن مریم علیہ السلام جب آئیںگے تومیرے بعدمیری امت میںخلیفہ ہوںگے‘‘اورسبکی نے تصریح کی ہے کہ وہ ہمارے نبی اکرمﷺ کی شریعت پرحکم کریںگے‘یعنی قرآن اورسنت کے مطابق۔
(۱۰)شیخ عبدالحق محدث دہلوی۹۵۸ھ‘۱۵۵۱ء۔۱۰۵۲ھ‘۱۶۴۲ء :
بتحقیق ثابت شدہ است باحادیث صحیحہ کہ عیسیٰ فرودمی آیدومی باشدتابع دین محمدوحکم می کند‘بشریعت آنحضرتﷺ۔ (اشعتہ اللمعات شرح مشکوۃ جلد۴۔صفحہ۳۷۳)
احادیث صحیحہ سے بتحقیق ثابت ہوچکاہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوںگے اوردین محمدﷺکے تابع ہوںگے اورآنحضرتﷺ کی شریعت کے مطابق حکم کریںگے۔
(۱۱)علامہ زرقانی ۱۱۶۲ھ:
وعیسیٰ اذانزل یحکم بشرعہ…وارادۃ اللّٰہ ان لا ینسخ شریعتہ بل من شرفہ نسخھالجمیع الشرائع ولھذااذاانزل عیسیٰ انمایحکم بھا۔
(شرح مواہب اللدنیہ جلد۳،ص۱۱۶)
اورعیسیٰ علیہ السلام جب نازل ہوںگے توآپ ہی کی شرع کے مطابق حکم کریں گے…اوراللہ کا ارادہ یہ ہے کہ آپ کی شریعت کومنسوخ نہ کرے‘بلکہ آپﷺ کویہ شرف حاصل ہے کہ آپ کی شریعت تمام شریعتوںکی ناسخ ہے۔اسی لیے جب عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوںگے تواسی کے مطابق حکم کریںگے۔
(۱۲)علامہ شوکانی ۱۲۵۵ھـ:
وقدثبت فی الاحادیث الصحیحۃ ان عیسیٰ علیہ السلام ینزل فی اخرالزمان…ویحکم بین العبادبالشریعۃ المحمدیۃ۔ (فتح القدیر)
احادیث صحیحہ میںثابت ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آخرزمانے میںنازل ہوں گے…اور لوگوںکے درمیان شریعت محمدیہ کے مطابق حکم کریںگے۔
(۱۳)علامہ آلوسی۱۲۷۰ھ۔۱۸۵۳ء:
ثم انہ علیہ السلام حین ینزل باق علیٰ نبوت السابقۃ لم یعزل عنھابحال لکنہ لایتعبدبھالنسخھافی حقہ وحق غیرہ وتکلیفہ باحکام ھذہ الشریعۃ اصلاوفرعافلایکون الیہ علیہ السلام وہی ولانصب احکام بل یکون خلیفۃ الرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم وحاکمامن حکام ملتہ بین امتہ۔
(روح المعانی ‘جلد۲۲‘ص۳۲)
پھرعیسیٰ علیہ السلام جب نازل ہوںگے تواپنی نبوت پرباقی ہوںگے جوان کوپہلے مل چکی تھی‘بہرحال اس سے معزول نہ ہوجائیںگے مگروہ اپنی پچھلی شریعت کے پیرونہ ہوںگے کیونکہ وہ ان کے اوردوسرے سب لوگوںکے حق میںمنسوخ ہوچکی ہے اوراب وہ اصول اورفروع میںاسی شریعت کی پیروی پر مکلف ہیں۔لہٰذاان پرنہ تووحی ہوگی اورنہ ان کواحکام مقررکرنے کا اختیار ہو گا بلکہ وہ رسول اللہ ﷺکے خلیفہ اورآپﷺ کی امت میںآپﷺ کی ملت کے حکام میں سے ایک حاکم ہوںگے۔
ضمیمہ نمبر۴ : احادیث درباب ختم نبوت
(۱) قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانت بنواسرائیل تسوسھم الانبیاء کلماھلک نبی خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی وسیکون خلفائ۔
(بخاری‘کتاب المناقب ‘باب ماذکرعن بنی اسرائیل)
نبی اکرمﷺ نے فرمایاکہ بنی اسرائیل کاحال یہ تھاکہ ان کی قیادت کیاکرتے تھے‘جب کوئی نبی مرجاتاتودوسرانبی اس کی جان نشینی کرتا مگرمیرے بعدکوئی نبی نہیںہے بلکہ خلفا ہوںگے۔
(۲)قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان مثلی ومثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنیٰ بیتافاحسنہ واجملہ الاموضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون ھلاوضعت ھذہ اللبنۃ فانااللبنۃ واناخاتم النبیین۔ (بخاری‘کتاب المناقب‘باب خاتم النبیین)
نبی اکرم ﷺنے فرمایاکہ میری اورمجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیا کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اورخوب حسین وجمیل بنائی مگرایک کونے میںایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اوراس کی خوبی پراظہارحیرت کرتے تھے مگرکہتے تھے کہ اس اینٹ کی جگہ پُرکیوںنہ کردی گئی؟تووہ اینٹ میںہوںاورمیںخاتم النبیین ہوں۔‘‘
اسی مضمون کی چارحدیثیںمسلم‘کتاب الفضائل‘باب خاتم النبیین میں ہیں اور آخری حدیث میںیہ الفاظ زائدہیں‘فجئت وختمت الانبیائ(پس میں آیا اور میںنے انبیا کے سلسلے پرمہرلگادی)یہی حدیث انہی الفاظ میںترمذی کتاب المناقب،باب فضل النبی اور کتاب الاداب‘باب الامثال میںبھی موجود ہے۔ مسندابودائودوطیالسی میںبھی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے سلسلے میںیہ حدیث درج کی گئی ہے اوراس کے آخری الفاظ یہ ہیں:ختم بی الانبیا(مجھ سے انبیا کے سلسلے پرمہرلگادی گئی) مسند احمد میں حضرت ابی بن کعبؓ کی روایات کے سلسلے میںبھی اس مضمون کی ایک حدیث موجود ہے، اگرچہ اس کے الفاظ مختلف ہیں،مگرمضمون یہی ہے(اسی مضمون کی ایک اورحدیث امام احمد نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے روایات میںبھی نقل کی ہے جس کامضمون یہی ہے۔)
(۳) ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال فضلت علی الانبیاء بست اعطیت جوامع الکلم ونصرت بالرعب واحلت لی الغنائم وجعلت لی الارض مسجداًوطہوراً وارسلت الی الخلق کافۃ‘وختم بی النبیون۔
(مسلم‘ترمذی‘ابن ماجہ‘مشکوۃ میںیہ حدیث صرف مسلم کے حوالہ باب فضائل سیدالمرسلین میںدرج کی گئی ہے۔)
رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ مجھے چھ باتوںمیںانبیا پرفضیلت دی گئی ہے۔ مجھے جامع ومختصربات کہنے کی صلاحیت دی گئی۔رعب کے ذریعے سے میری نصرت فرمائی گئی۔میرے لیے غنیمت کوحلال کیاگیا۔میرے لیے زمین کومسجدبھی بنادیا گیا اور پاکیزگی حاصل کرنے کاذریعہ بھی(یعنی وضوکی جگہ تیمم جائزکیاگیا۔)مجھے تمام دنیاکے لیے رسول بناکر بھیجا گیا اورمجھ سے انبیا کے سلسلے پرمہرلگادی گئی۔
(۴) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلارسول بعدی ولانبی۔
(ترمذی‘کتاب الرویا‘باب ذہاب النبوۃ)مسنداحمدمیںبھی یہ حدیث بسلسلہ
مرویات انس بن مالک رضی اللہ عنہ موجودہے۔)
رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ رسالت اورنبوت کاسلسلہ اب منقطع ہوچکاہے۔ میرے بعد نہ کوئی نبی ہے اورنہ رسول ۔
(۵) قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم انامحمد،وانااحمد،واناالماحی الذی یمحیٰ بی الکفرواناالحاشرالذی یحشرالناس علیٰ عقبی وانا العاقب ،والعاقب الذی لیس بعدہ نبی۔
(بخاری۔مسلم۔کتاب الفضائل۔باب اسماء النبی۔ ترمذی۔کتاب الآداب۔باب اسماء النبی۔ المستدرک للحاکم، کتاب التاریخ،باب اسماء النبی)
نبی اکرمﷺ نے فرمایاکہ میں محمد ہوں‘ میںاحمدہوں‘میںماحی ہوںکہ میرے ذریعے سے کفر کو محو کیا جائے گا‘میںحاشرہوںکہ میرے بعدحشربرپا ہو گا اورمیںعاقب ہوںاورعاقب وہ ہے جس کے بعدکوئی نبی نہ ہو۔‘‘
(۶) ان اللّٰہ لم یبعث نبیاالاحذرامتہ الدجال وانااخرالانبیاء وانتم اخر الامم وھوخارج فیکم لامعالۃ۔ (ابن ماجہ‘کتاب الفتن‘باب الدجال)
اللہ نے کوئی نبی نہیںبھیجاجس نے اپنی امت کودجال کے فتنے سے نہ ڈرایا ہو اور میں نبیوں میں سب سے آخری ہوںاورتم امتوںمیں سب سے آخری ہو،لہٰذااب وہ (یعنی فجال)لامحالہ تمہارے ہی اندرنکلے گا۔
یعنی مجھ سے پہلے انبیا کی امتوںمیںسے وہ نہیںنکلاتواب اس کوتم ہی میںنکلناہے۔
(۷) عن عبدالرحمن بن جبیرقال سمعت عبداللہ بن عمرویقول خرج علینارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوماکالمودع فقال اَنا محمد النبی الامی ثلاثاولانبی بعدی۔‘‘ (مسنداحمد‘بسلسلہ مرویات عبداللہ بن عمروضی اللہ عنہ بن عاص)
عبدالرحمن بن جبیرؓکہتے ہیںکہ میںنے حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ کویہ کہتے سناکہ ایک روزنبی اکرمﷺ اپنے مکان سے نکل کرہمارے سامنے تشریف لائے اوراس اندازسے کہ گویاآپ ہم سے رخصت ہو رہے ہیں، پس یہ فرمایا ’’میںمحمدﷺنبی اُمی ہوں(تین باریہ فقرہ آپﷺ نے دہرایا) اورمیرے بعدکوئی نبی نہیں۔‘‘
(۸) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لانبوۃ بعدی الا المبشرات‘ قیل وماالمبشرات یارسول اللّٰہ ؟قال الرویاالحسنۃ اوقال الرویا الصالحۃ۔
(مسنداحمدبسلسلہ مرویات ابوالطفیل رضی اللہ عنہ ۔اسی مضمون کی احادیث نسائی اور ابودائودمیںبھی ہیں۔)
رسول اللہ ﷺنے فرمایا’’میرے بعدنبوت نہیںہے صرف بشارت دینے والی باتیں ہیں۔‘‘ عرض کیا گیا وہ بشارت دینے والی باتیں کیا ہیں یارسول اللہﷺ ؟ فرمایا ’’اچھا خواب‘‘ یا فرمایا ’’صالح خواب‘‘
(۹) قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لوکان بعدی نبی لکان عمربن الخطاب۔
(ترمذی‘کتاب المناقب)
نبی اکرمﷺ نے فرمایاکہ اگرمیرے بعدکوئی نبی ہوتاتوعمربن خطاب ہوتا۔
(۱۰) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لعلی انت منی بمنزلۃ ھارون من موسی الاانہ لانبی بعدی حین خلفہ فی غزوۃ تبوک۔
(مسلم ‘کتاب فضائل الصحابہ۔ بخاری ‘کتاب فضائل الصحابہ)
رسول اللہ ﷺنے غزوہ تبوک کے موقع پرحضرت علی رضی اللہ عنہ کوپیچھے چھوڑتے وقت فرمایامیرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہے جوہارون کی موسیٰ کے ساتھ تھی‘مگرمیرے بعدکوئی نبی نہیںہے۔
بخاری اورمسلم نے غزوہ تبوک کے سلسلے میںبھی اس حدیث کونقل کیا ہے۔ مسند احمد میںاس مضمون کی دوحدیثیںحضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی مرویات میںدرج ہیںجن میںسے ایک حدیث میںیہ الفاظ ہیں۔الاانہ لانبوۃ بعدی یعنی مگرمیرے بعد کوئی نبوت نہیںہے۔
تشریح: محمدبن اسحاق‘ابن ہشام ‘ابودائودطیالسی اورامام احمدبن حنبل نے اس سلسلے میںجوروایات نقل کی ہیںان سے معلوم ہوتاہے کہ جب رسول اللہﷺ نے غزوہ تبوک کے موقع پرحضرت علی رضی اللہ عنہ کوعورتوںاوربچوںکی خبرگیری کے لیے مدینے میںچھوڑنے کا فیصلہ کیاتومنافقین نے طرح طرح کی باتیںحضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کہنی شروع کر دیں۔اس پرحضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا’’یارسول اللہ ﷺ کیاآپ مجھے عورتوں اور بچوں میںچھوڑرہے ہیں؟‘‘تب آپﷺ نے فرمایا:
’’یاعلی اماترضی ان تکون منی بمنزلت ھارون من موسیٰ‘‘
اے علی کیاتم اس بات پرراضی نہیںہوکہ مجھ سے تم کووہی نسبت ہوجو موسیٰ علیہ السلام سے ہارونؑ کوتھی۔یعنی جس طرح حضرت موسیٰ ؑنے کوہ طورپرجاتے وقت حضرت ہارونؑ کوبنی اسرائیل کی نگرانی وحفاظت کے لیے چھوڑاتھااسی طرح میںتم کومدینے کی حفاظت کے لیے چھوڑرہاہوں۔مگرساتھ ہی حضورﷺکواندیشہ ہواکہ کہیں بعد میں حضرت ہارون کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوتشبیہ دیناکسی فتنے کاموجب نہ بن جائے۔ اس لیے فوراًآپ نے یہ فقرہ ارشادفرمایاکہ الاانہ لانبی بعدی یالانبوۃ بعدی۔
اس ساتھ یہ امربھی قابل غورہے کہ حضرت ہارونؑ کی تشبیہ کے ساتھ جب حضورﷺنے لانبی بعدی یالانبوت بعدی فرمایاتواس سے یہ اشارہ بھی نکلاکہ حضورﷺکے بعد تشریعی ہی نہیںبلکہ غیرتشریعی نبوت کادروازہ بھی بندہے،کیونکہ حضرت ہارونؑ غیرتشریعی نبی تھے۔ شریعت ان کونہیںبلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کودی گئی تھی۔
(۱۱) عن ثوبان قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم…وانہ سیکون فی امتی کذابون ثلثون کلھم یزعم انہ نبی واناخاتم النبیین لانبی بعدی۔
(ابودائود‘کتاب الفتن)
ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا…اوریہ کہ میری امت میںتیس بڑے جھوٹے ہوںگے جن میںسے ہرایک دعویٰ کرے گاکہ وہ نبی ہے‘حالانکہ میںخاتم النبیین ہوںمیرے بعدکوئی نبی نہیں۔
اسی مضمون کی ایک اورحدیث ابودائودنے کتاب الملاعم میںحضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے۔ترمذی نے بھی حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ اورحضرت ابوہریرہؓکی یہ دونوںحدیثیںروایت کی ہیںاوردوسری روایت کے الفاظ یہ ہیںحتی یبعث دجالون کذابون قریب من ثلثین کلھم یزعم انہ رسول اللّٰہ۔’’یہاںتک کہ اٹھیںگے تیس کے قریب دجال جن میںسے ہرایک دعویٰ کرے گاکہ وہ اللہ کارسول ہے۔‘‘
(۱۲)قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لقدکان فیمن کان قبلکم من بنی اسرائیل رجال یکلمون من غیران یکونواانبیاء فان یکن من امتی احدفعمر۔ (بخاری‘کتاب المناقب)
نبی اکرمﷺ نے فرمایاکہ تم سے پہلے جوبنی اسرائیل گزرے ہیںان میں ایسے لوگ تھے جن سے کلام کیاجاتاتھابغیراس کے کہ وہ نبی ہوں۔ اگر میری امت میںسے کوئی ہواتوعمرہوگا۔
مسلم میںاس مضمون کی جوحدیث ہے اس میںیکلمون کے بجائے محدثون کالفظ ہے مگرمکلم اورمحدث کے معنی ایک ہی ہیں۔)
اس سے معلوم ہواکہ نبی ہی نہیںمکلم اورمحدث بھی اب کوئی نہیںہوسکتا۔ اگر ہوتا تو حضرت عمررضی اللہ عنہ ہوتے یاہوئے ہوںگے۔
(۱۳) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لانبی بعدی ولاامتہ بعد امتی۔
(بیہقی‘کتاب الرویا‘طبرانی نے بھی اس حدیث کوروایت کیاہے۔)
نبی اکرمﷺ نے فرمایاکہ میرے بعدکوئی نبی نہیںاورمیری امت کے بعدکوئی امت (یعنی کسی نبی کی امت)نہیں۔
(۱۴) فانی اخرالانبیاء وان مسجدی اخرالمساجد۔ (شرح مسلم‘نووی‘جلد۹،ص۱۶۴)
میںآخری نبی ہوںاورمیری مسجدآخری مسجد(یعنی آخری مسجدنبوی ہے۔)
ضمیمہ نمبر(۵)
(آیت ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین کی تفسیرمیںتیسری صدی ہجری سے تیرھویںصدی ہجری تک کے تمام اکابرمفسرین کے اقوال)
(۱)علامہ ابن جریرطبری(۲۲۴ھ/ ۸۳۹ئ۔۳۱۰ھ/۹۲۳ء)
ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین الذی ختم النبوۃ فطبع علیھافلا تفتح لا حدبعدہ‘الی قیام الساعۃ…واختلفت القراء فی قراۃ قولہ وخاتم النبیین فقراذٰلک قراء الامصارسوی الحسن وعاصم بکسر التاء من خاتِم النبیین…وقراء ذلک فیمایذکرالحسن وعاصم خاتَم النبیین بفتح التاء بمعنی انہ اخرالنبیین۔ (جلد۲۲‘صفحہ۱۲۔۱۳)
مگروہ اللہ کارسول ہے اورخاتم النبیین ہے۔‘‘یعنی جس نے نبوت کوختم کر دیا اوراس پرمہرلگادی کہ اس کے بعدقیامت تک وہ کسی کے لیے نہ کھلے گی… اورلفظ خاتم النبیین کی قرات میں قاریوں کے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ حسن اورعاصم کے سواتمام ممالک کے قاریوںنے اس کوخاتم النبیین بالکسر پڑھاہے اس معنی میںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبیوںکے سلسلے پرمہر لگا دی… اورجیساکہ بیان کیاجاتاہے حسن اورعاصم نے اس کوخاتم النبیین بالفتح پڑھاہے اس معنی میں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔
(۲)محی السنہ بغوی‘صاحب’’معالم التنزیل‘‘متوفی ۵۱۰ء۔
ختم اللّٰہ بہ النبوۃ فہوخاتمھم…وترٰوی عن ابن عباس ان اللّٰہ تعالیٰ حکم ان لانبی بعدہ۔ (جلد۳‘صفحہ۳‘ص ۱۵۸)
اللہ نے آپ کے ذریعہ سے نبوت کوختم کیاپس آپ انبیا کے خاتم ہیں… اورابن عباس سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کردیاکہ آپ کے بعدکوئی نبی نہیں۔
(۳)علامہ زمخشری صاحب
تفسیرکشاف۴۶۷ھ/۱۰۷۵ء۔۵۳۸ھ/۱۱۴۴ء
فان قلت کیف کان اخرالانبیاء وعیسیٰ ینزل فی اخرالزمان قلت معنیٰ کونہ اخرالانبیاء انہ لاینبااحدبعدہ وعیسیٰ ممن نبی قبلہ وحین ینزل ینزل عاملاعلی شریعۃ محمدمصلیاالیٰ قبلتہ کانہ بعض امتہ۔ (جلد۲،ص ۲۱۵)
اگرتم کہوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی کیسے ہوئے جب کہ عیسیٰ آخری زمانے میںنازل ہوںگے؟تومیںکہوںگاکہ آپ کاآخری نبی ہونااس معنی میںہے کہ آپﷺ کے بعدکوئی نبی نہ بنایا جائے گا اور عیسیٰ ان لوگوںمیںسے ہیںجوآپ سے پہلے نبی بنائے جاچکے تھے‘اورجب وہ نازل ہوں گے توشریعت محمدیﷺ پرعمل کرنے والے اورآپ کے قبلے کی طرف نماز پڑھنے والے بن کر نازل ہوں گے کہ وہ آپﷺ کی امت کے ایک فردہیں۔‘‘
(۴)امام رازی‘صاحب تفسیرکبیر۵۴۳ھ/۱۱۴۹ئ۔۶۰۶ھ/۱۲۰۹ئ۔
وخاتم النبیین وذٰلک لان النبی الذی یکون بعدہ نبی ان ترک شیئًا من النصیحۃ والبیان یستدرکہ من یاتی بعدہ وامامن لانبی بعدہ یکون اشفق علیٰ امتہ واھدی لھم واجدی اذھوکوالدلولدہ لیس لہ غیرہ من احد۔
(جلد۶،ص۵۸۱)
اس سلسلہ بیان میں’’اورخاتم النبیین‘‘اس لیے فرمایاکہ جس نبی کے بعدکوئی دوسرانبی ہووہ اگرنصیحت اورتوضیح احکام میںکوئی کسرچھوڑجائے تواس کے بعدآنے والانبی اس کسر کو پورا کر دیتا ہے‘مگرجس کے بعدکوئی نبی آنے والانہ ہووہ اپنی امت پرزیادہ شفیق ہوتاہے اوراس کوزیادہ واضح ہدایات دیتا ہے، کیونکہ اس کی مثال ایسے باپ کی ہوتی ہے جوایسے بیٹے کاباپ ہے جس کا کوئی ولی وسرپرست اس باپ کے سوانہیںہے۔
(۵)قاضی بیضاوی‘صاحب تفسیر’’انوارالتنزیل‘‘متوفی ۶۸۵ھ/۱۲۸۲ئ۔
ای اخرھم الذی ختمھم اوختموا۔ولایقدح فیہ نزول عیسیٰ بعدہ لانہ اذانزل کان علی دینہ۔ (جلد۴‘صفحہ۱۶۴)
یعنی آپ انبیا میںسب سے آخری ہیںجس نے ان پرمہرکردی یاجس سے وہ مہرکیے گئے اورعیسیٰ کاآپ کے بعدنازل ہونااس میںقادح نہیںہے، کیونکہ جب وہ نازل ہوںگے توآپ ہی کے دین پرہوںگے۔
(۶)حافظ الدین عبداللہ بن احمدالنسفی
صاحب’’مدارک التنزیل‘‘ متوفی ۷۱۰ھ /۱۳۱۰ء۔
وخاتم النبیین…ای اخرھم‘یعنی لاینباء احدبعدہ وعیسیٰ ممن نبی قبلہ وحین ینزل عاملاًعلیٰ شریعۃ محمدصلی اللّٰہ علیہ وسلم کانہ بعض امتہ۔
(ص۴۷۱)
وخاتم النبیین …یعنی انبیا میںسب سے آخری نبی‘یعنی آپ کے بعدکوئی اورشخص نبی نہ بنایاجائے گا۔رہے عیسیٰ تووہ آپ سے پہلے نبی بنائے جاچکے تھے اورجب وہ نازل ہوںگے توشریعت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پرعامل ہوں گے‘ گویاکہ وہ آپ کی امت ہی کے ایک فردہیں۔
(۷)علائوالدین علی بن محمدبغدادی صاحب تفسیر’’خازن‘‘
وخاتم النبیین‘ختم اللّٰہ بہ النبوۃ فلانبوۃ بعدہ ولامعہ…وکان اللّٰہ بکل شی ئٍ علیما‘ای دخل فی علمہ ان لانبی بعدہ۔ (ص ۴۷۱۔۴۷۲)
وخاتم النبیین‘یعنی اللہ نے آپﷺ سے نبوت ختم کردی ‘پس نہ آپﷺ کے بعدکوئی نبوت ہے اورنہ آپ کے ساتھ کسی اورکی نبوت …وکان اللّٰہ بکل شی ئٍ علیمایعنی یہ بات اللہ کے علم میںہے کہ آپ کے بعدکوئی نبی نہیں۔
(۸)علامہ ابن کثیردمشقی‘صاحب تفسیرشہور‘متوفی۷۷۴ھ۔
فھٰذہ الایۃ نص فی انہ لانبی بعدہ واذاکان لانبی بعدہ فلارسول بالطریق الاولیٰ والاخریٰ لان مقام الرسالۃ اخص من مقام النبوۃ فان کل رسول نبی ولاینعکس۔ (جلد۳۔ص۴۹۳)
پس یہ آیت اس باب میںنص ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکوئی نبی نہیںتورسول تو بدرجہ اولیٰ نہیںہے۔کیونکہ مقام رسالت بہ نسبت مقام نبوت کے اخص ہے،ہررسول نبی ہوتاہے اور اس کے برعکس ہرنبی رسول نہیں ہوتا۔
(۹)علامہ جلال الدین سیوطی‘صاحب ’’تفسیرجلالین‘‘ متوفی۹۱۱ھ/۱۵۰۵ء
وکان اللّٰہ بکل شئی علیماای علیما بان لانبی بعدہ واذانزل عیسیٰ یحکم بشریعتہ۔ (ص ۷۶۸)
یعنی اللہ اس بات کوجانتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکوئی نبی نہیں،اورعیسیٰؑ جب نازل ہوںگے توآپ کی شریعت کے مطابق حکم کریںگے۔
(۱۰)شیخ اسماعیل حقی‘صاحب تفسیر’’روح البیان ‘‘متوفی۱۱۳۷ھ۔
وخاتم النبیین‘قراء عاصم بفتح التاء وھوآلۃ الختم بمعنی مایختم بہ کا لطابع بمعنی مایطبع بہ والمعنی وکان اخرھم الذی ختموابہ وبالفا ر سیۃ مہرپیغمبراں‘یعنی بدومہرکردہ شددرنبوت وپیغمبراں رابدو ختم کردہ اند‘وقراالباقون بکسرالتاء ای کان خاتمھم ای فاعل الختم بالفارسیہ مہرکنندہ پیغمبراںاست وھوبالمعنی الاول…فکانت علماء امۃ ورثۃ علیہ السلام من جھۃ الولایۃ وانقطع ارث النبوۃ بختمیۃ ولایقدح فی کونہ خاتم النبیین نزول عیسیٰ بعدہ لان معنی کونہ خاتم النبیین انہ لاینباء بعدہ احد کما قال لعلی انت منی بمنزلہ ہارون من موسیٰ الا انہ ’’لانبی بعدی‘‘ وعیسیٰ ممن تنباقبلہ وحین ینزل انما ینزل علی شریعۃ محمد علیہ السلام مصلیا الیٰ قبلتہ کانہ بعض امتہ فلایکون الیہ وحی ولا نصب احکام بل یکون خلیفۃ رسول اللّٰہ (جلد۲۲،صفحہ ۱۸۸)
وخاتم النبیین ،عاصم نے اس کو’’ت‘‘ کی فتح کے ساتھ پڑھاہے جس کے معنی ہیں آلہ ختم کے جس سے مہر کی جاتی ہے جیسے طابع اس چیز کو کہتے ہیں جس سے ٹھپہ لگایا جائے، مراد یہ ہے کہ نبیﷺ انبیا میں سب سے آخر تھے جن سے نبیوں پر مہر لگائی گئی ۔ فارسی میں اسے ’’مہر پیغمبراں ‘‘ کہیں گے، یعنی آپﷺ سے نبوت کے دروازے پر مہرلگادی گئی اور پیغمبروں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ باقی قاریوں نے اس لفظ کو’’ ت‘‘ کی کسر کے ساتھ پڑھا ہے یعنی آپ خاتم بمعنی فاعل ختم تھے۔ فارسی میں اس کو ’’مہر کنندہ ٔ پیغمبراں ‘‘کہیں گے۔ اس طرح یہ لفظ بھی خاتم ہی کا ہم معنی ہے …پس آپ کی اُمت کے علما ولایت کے اعتبار سے آپﷺ کے وارث ہیں۔ اور آپ کی غنیمت سے نبوت کی میراث منقطع ہوچکی ہے۔ اور آپﷺ کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام ) کانزول آپﷺ کے خاتم النبیین ہونے میں قادح نہیں ہے ، کیونکہ آپ کے خاتم النبیین ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہ بنایاجائے گا جیساکہ آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا ’’تم میرے ساتھ وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون ؑ کی موسیٰ ؑکے ساتھ تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ ‘‘ اور عیسیٰ ؑان لوگوں میں سے تھے جو آنحضرت ﷺ سے پہلے نبی ہوئے تھے ۔ اور جب وہ نازل ہوں گے تو شریعت محمد علیہ السلام پر نازل ہوں گے اور آپ کے قبلے کی طرف نمازپڑھیں گے، گویا کہ وہ آپﷺ کی اُمت کے افراد میں سے ہیں پس ان کی طرف نہ وحی ہوگی نہ وہ نئے احکام قائم کریں گے، بلکہ رسول اللہﷺ کے خلیفہ ہوں گے۔
(۱۱)علامہ شوکانی ، صاحب تفسیر ’’فتح القدیر ‘‘ متوفی ۱۲۵۵ھ
قراء الجمہور خاتم بکسر التاء وقراء عاصم بفتح تاومعنی القراۃ الاولیٰ انہ ختمھم ای جاء اخرھم ومعنی القراۃ الثانیۃ انہ صار کالخاتم لھم الذی یختمون بہ ویتزینون بکونہ منھم (جلد۴،ص۲۷۵)
جمہور نے اس لفظ کو خاتم ’’ت‘‘ کی کسر کے ساتھ پڑھاہے اور عاصم نے ’’ت‘‘ کے فتح کے ساتھ (خاتم ) پہلی قرات کے معنی یہ ہیںکہ آپﷺ نے انبیا پر مہر کردی ، یعنی سب کے آخر میں آئے اور دوسری قرات کے معنی یہ ہیںکہ آپﷺ ان کے لیے مہر کی طرح ہوگئے جس کے ذریعہ سے ان پر مہر کی گئی اور جس کے شمول سے انبیا کاگروہ مزین ہوا۔
(۱۲) علامہ آلوسی بغدادی
صاحب تفسیر ’’روح المعانی ‘‘ متوفی ۱۲۷۰ھ/۱۸۵۳ء
والمراد بالنبی ماھواعم من الرسول فیلزم من کونہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتم النبیین کونہ خاتم المرسلین والمراد یکون علیہ السلام خاتمھم انقطاع حدوث وصف النبوۃ فی احد من الثقلین بعد تحلیہ علیہ السلام بھا فی ھذہ النشاۃ (جلد۲۲،ص ۲۳)
لفظ نبی بہ نسبت رسول کے عام ہے۔ لہٰذا رسول اللہ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے سے لازم آتاہے کہ آپﷺ خاتم المرسلین بھی ہوں اور ان کے خاتم ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس زندگی میں نبیﷺ کے نبوت سے آراستہ ہوجانے کے بعد اب جن و انس میں سے کسی شخص کے اندر از سر نو وصف نبوت پیدانہ ہوگا۔
٭…٭…٭…٭…٭
ضمیمہ نمبر۶
عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت اور مدعی نبوت کی تکفیر کے باب میں علما اُمت کے اقوال
(۱) امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (۸۰ھ۔۱۵۰ھ)
وتنبارجل فی زمن ابی حنیفۃ وقال امھلونی حتیٰ اجی بالعلامات فقال ابوحنیفۃ من طلب منہ علامۃ فقد کفر لقولہ علیہ السلام لانبی بعدی۔ روح البیان (جلد ۲۲،ص ۱۸۸ومناقب الامام اعظم لابن احمد مکی، متوفی ۵۶۸ھ)
ایک شخص نے امام ابو حنیفہؒ کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کیااور کہاکہ مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی علامات پیش کروں ۔ اس پر امام ابوحنیفہ ؒ نے فرمایاکہ جو شخص اس سے علامات کامطالبہ کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماچکے ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔
(۲)علامہ ابن حزمؒ (۳۸۴ھ۹۹۴ئ۔۴۵۶ھ ۔۱۰۶۴ئ)
وان الوحی قد انقطع مذمات النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، برھان ذٰلک ان الوحی لا یکون الا الی نبی وقد قال عزوجل ماکان محمد ابا احدمن رجالکم ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین۔ (المحلی جلد ۱ ص ۲۶)
اور یقیناً وحی کا سلسلہ نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد سے منقطع ہوچکاہے ۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ وحی نہیں ہوتی مگر ایک نبی کی طرف اور اللہ عزو جل فرما چکاہے کہ محمدﷺ نہیں ہیں تم میں سے کسی کے باپ مگر وہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم ہیں نبیوں کے ۔
(۳) امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ( ۴۵۰ھ۔۱۰۵۸ئ۔۵۰۵ھ ۔۱۱۱۱ء)
ان الامۃ فھمت بالاجماع من ھذا اللفظ انہ افھم عدم نبی بعدہ ابدا اوعدم رسول بعدہ ابداوانہ لیس فی تاویل ولاتخصیص ومن اولہ بتخصیص فکلامہ من انواع الھذیان لا یمنع الحکم بتکفیر لانہ مکذب ھذا النص اجمعت الامۃ علی انہ غیر ماؤل ولا مخصوص۔
(الاقتصاد فی الاعتقاد ،ص ۱۱۳)
امت نے اس لفظ (لانبی بعدی) سے بالاجماع یہ سمجھاہے کہ نبی اکرم ﷺ نے یہ بتادیاہے کہ آپﷺ کے بعد کبھی نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ رسول ۔ اوریہ کہ اس میں کسی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے جو شخص اس کی تاویل کرکے اسے خاص معنی کے ساتھ مخصوص کرے اس کا کلام مجنونانہ بکواس کی قسم سے ہے اور یہ تاویل اس پر تکفیرکاحکم لگانے میں مانع نہیں ہے کیونکہ وہ اس نص کو جھٹلا رہا ہے جس کے متعلق تمام امت کا اجماع ہے کہ اس کی تاویل و تخصیص نہیں کی جاسکتی۔
(۴)قاضی عیاضؒ (۵۴۴ھ۔۱۱۴۹ء)
ومن ادعی النبوۃ لنفسہ اوجوز اکتسابھاوالبلوغ بصفاء القلب الٰی مرتبتھاکالفلاسفۃ وغلاۃ والمتصوفۃ وکذٰلک من ادعی منھم انہ یوحیٰ الیہ وان لمیدعی النبوۃ…فھولاء کلھم کفار مکذبون للنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لانہ اخبر صلی اللّٰہ علیہ وسلم انہ خاتم النبیین لانبی بعدہ واخبر عن اللّٰہ تعالیٰ انہ خاتم النبیین وانہ ارسل کافۃ للناس واجمعت الامۃ علی حمل ھذا الکلام علی ظاہرہ وان مفھومہ والمراد بہ دون تاویل ولا تخصیص فلاشک فی کفر ھولاء الطوائف کلھا قطعا اجما عاوسمعا… وکذٰلک من ادعی نبوۃ احد مع نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم اوبعدہ
(شفاء جلد۲،صفحہ ۲۷۰،۲۷۱)
جو شخص خود اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرے یا جو نبوت کے اکتساب اور صفائی قلب کے ذریعہ سے مرتبہ نبوت تک پہنچ جانے کو جائز رکھے جیساکہ فلسفی لوگ اور غالی متصوفین کہتے ہیں اور اسی طرح جو دعویٰ کرے کہ اس پر وحی آتی ہے اگرچہ نبی ہونے کا دعویٰ نہ کرے …ایسے سب لوگ کافر ہیں اور نبی اکرم ﷺ کی تکذیب کرنے والے ہیں کیونکہ آپﷺ نے خبر دی ہے کہ آپﷺ خاتم النبیین ہیں کوئی نبی آپﷺ کے بعد آنے والانہیں اور آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایاہے کہ آپﷺ خاتم النبیین ہیں جنھیں تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہے اور تمام اُمت کا اس بات پر اجتماع ہے کہ یہ کلام اپنے ظاہر پر محمول ہے اور اس مفہوم و مراد میں تاویل و تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا ان تمام لوگوں کے کفر میں شک کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے ، بربنائے اجماع بھی اور بربنائے نقل بھی… اور اسی طرح وہ بھی کافر ہے جو نبی اکرمﷺ کے ساتھ یا آپﷺ کے بعد کسی کی نبوت کا قائل ومدعی ہو۔
(۵) علامہ شہر ستانی( ۵۴۸ھ۔۱۱۵۳ء)
وکذالک من قال …او ان بعد محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نبیا غیرعیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فانہ لایختلف اثنان فی تکفیرہ
(الملل والنحل،جلد۳ ، ص ۲۴۹)
اور اسی طرح جو کہے …یا یہ کہ محمدﷺ کے بعد عیسیٰ ابن مریم کے سوا کوئی نبی ہے تو اس کی تکفیر میں دوآدمیوں کے درمیان بھی اختلاف نہیں ہے۔
(۶)علامہ ابن کثیر( ۷۷۴ھ۔۱۳۷۳ء )
ان کل من ادعی ھذاالمقام بعدہ فھوکذاب افاک دجال ضال مضل۔
(تفسیر القرآن جلد ۳ ، ص ۴۹۴)
ہر وہ شخص جو نبی اکرم ﷺ کے بعد اس مقام (نبوت ) کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا، مفتری ،دجال ،گمراہ اور گمراہ کرنے والاہے۔
(۷)علامہ ابن نجیم( ۹۷۰ھ۔ ۱۵۶۲ء)
اذالم یعرف ان محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم آخرالانبیاء فلیس بمسلم لانہ من الضروریات (الاشباہ والنظائر، کتاب السیر،باب الردۃ) (ص ۱۷۹)
اگر آدمی یہ نہ سمجھے کہ محمدﷺ سب سے آخری نبی ہیں تو وہ مسلمان نہیںہے۔ کیونکہ یہ ان باتوں میں سے ہے جن کا جاننا اور ماننا دین میں ضروری ہے ۔
(۸) ملاعلی قاری( ۱۰۱۶ھ)
ودعویٰ النبوۃ بعد نبیناصلی اللّٰہ علیہ وسلم کفر بالاجماع۔
(شرح فقہ اکبر، ص ۲۰۲)
اور ہمارے نبی اکرم ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کفر ہے باجماع اُمت۔
(۹)شیخ اسماعیل حقی( ۱۱۳۷ھ۔۱۷۲۴ئ)
وقال اھل السنۃ والجماعت لانبی بعد نبینا لقولہ تعالیٰ ولکن رسول اللّٰہ و خاتم النبیین وقولہ علیہ السلام لانبی بعدی ومن قال بعد نبینانبی یکفر ولانہ انکرالنص وکذٰلک لوشک فیہ لان الحجۃ تبین الحق من الباطل ومن ادعی النبوۃ بعد موت محمد لایکون دعوٰہ الاباطلا۔
(روح البیان جلد ۲۲، ص ۱۸۸)
اہل سنت والجماعۃ اس بات کے قائل ہیں کہ ہمارے نبی اکرمﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماچکاہے ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین اور رسول اللہﷺ فرماچکے ہیںکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اب جو کوئی کہے کہ ہمارے نبی کے بعد کوئی نبی ہے تو اس کی تکفیر کی جائے گی کیونکہ اس نے نص کاانکار کیا ۔ اسی طرح اس شخص کی تکفیر بھی کی جائے گی جو اس میں شک کرے۔ کیونکہ حجت نے حق کو باطل سے الگ کردیا ہے اور جو شخص محمدﷺ کی وفات کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے اس کادعویٰ باطل کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔
(۱۰)فتاویٰ عالمگیری (بارھویں صدی ہجری ):
اذا لم یعرف الرجل ان محمدصلی اللّٰہ علیہ وسلم اخر الانبیاء فلیس بمسلم ولو قال انا رسول اللّٰہ اوقال بالفارسیتہ من پیغمبرم یریدبہ من پیغمبرم می برم یکفر۔ (جلد ۲ ،ص ۱۶۳)
اگر آدمی یہ نہ جانے کہ محمدﷺ سب سے آخری نبی ہیں تو وہ مسلمان نہیں ہے۔ اور اگر کہے کہ میں رسول اللہ ہوں یا فارسی میں کہے کہ من پیغمبرم اور اس کی مراد یہ ہوکہ وہ پیغام لانے والا ہے تو اس کی تکفیر کی جائے گی ۔
(۱۱)علامہ آلوسی( ۱۲۷۰ھ۔۱۸۵۳ء)
وکونہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتم النبیین مما نطق بہ الکتاب وصدعت بہ السنۃ واجمعت علیہ الامتہ فیکفر مدعی خلافہ ویقتل ان اصر۔
(روح المعانی جلد ۲۲،ص ۳۹)
اور نبی اکرم ﷺ کا خاتم النبیین ہونا ان باتوںمیں سے ہے جن کی کتاب اللہ نے تصریح کی اور سنت نے واشگاف بیان کیااور اُمت نے اس پر اجماع کیا ، لہٰذا اس کے خلاف دعویٰ کرنے والے کی تکفیر کی جائے گی اور اگر اصرار کرے تو قتل کیا جائے گا۔
ضمیمہ نمبر (۷)
(مرزا غلام احمد صاحب کی تحریک کے مختلف مراحل ، ان میں مرزا صاحب کے مختلف دعوے اور قادیانی عقیدہ وعمل پر ان دعوئوں کے اثرات )
مرزا غلام احمد صاحب۱۸۸۰ء میں ایک مبلغ اور مناظر اسلام کی حیثیت سے مسلمانوں میں نمودار ہوئے۔ اس وقت سے لے کر اپنی وفات (۲۶مئی ۱۹۰۸ ء ) تک اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں انھوںنے جن عقائد اور خیالات کااظہار کیا ان کو بیان کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتاہے کہ ہم ان مراحل کو تاریخی ترتیب کے لحاظ سے مرتب کردیں تاکہ ہر مرحلے کے بیانات سے ان کا فرق اچھی طرح سمجھاجاسکے ۔
تاریخی ترتیب :
(۱) ۱۸۸۰ء تا ۱۸۸۸ء : اس دور میں مرزا صاحب محض ایک مبلغ اسلام اور غیر مسلم حملہ آوروں کے مقابلے میں اسلام کی مدافعت کرنے والے مناظرتھے۔ ان کو پورا اصرار تھاکہ ان کے عقائد تمام مسائل میں وہی ہیں جو عام مسلمانوں کے ہیں۔ اگرچہ ان کی تحریروں میں طرح طرح کے مخفی دعوے دیکھ کر مسلمان کھٹکتے تھے ، مگر مرزا صاحب اپنے اقوال کی توجیہات کرکے مسلمانوں کو مطمئن کردیتے تھے۔
(۲) دسمبر ۱۸۸۸ء میں انھوںنے بیعت کے لیے اشتہار دیا اور ۱۸۸۹ء کے آغاز سے بیعت لینی شروع کی ۔ اس وقت انھوںنے صرف ’’مجدد وقت‘‘ اور ’’مامور من اللہ ‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا اور مسیح علیہ السلام سے اس بنا پر اپنی مماثلت ظاہر کی کہ جس فروتنی اور مسکینی کی حالت میں وہ تھے، اسی حالت میں مرزا صاحب بھی دعوت وتبلیغ کا کام کررہے ہیں۔ اس زمانہ میں عام مسلمان مرزا صاحب کے متعلق اچھے خیالات رکھتے تھے ۔ البتہ یہ دیکھ کر کھٹکتے تھے کہ مرزا صاحب اپنے آپ کو تمام اولیائے اُمت سے افضل کہتے تھے ۔
(سیرۃ المہدی مصنف صاحب زادہ بشیر احمد صاحب حصہ اول صفحہ ۱۴۔۳۱۔۸۹ ، تبلیغ رسالت جلد اول ص۱۱۔۱۲و۱۵)
(۳) ۱۸۹۱ء میں انھوںنے مسیح علیہ السلام کی موت کا اعلان اور خود مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کیا جس سے مسلمانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ (سیرۃ المہدی صفحہ ۳۱،۸۹) اس دورکے آغاز میں مرزا صاحب خود لکھتے ہیں کہ ’’پھر میں تقریباً بارہ برس تک جو ایک زمانہ دراز ہے ، بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہاکہ خدا نے مجھے بڑی شد و مد سے براہین (یعنی براہین احمدیہ) میں مسیح موعود قرار دیا ہے اور میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کے رسمی عقیدے پر جما رہا۔ جب بارہ برس گزر گئے تب وہ وقت آیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے۔ تب تواتر سے اس بارے میں الہامات شروع ہوئے کہ تو ہی مسیح موعود ہے ۔ ‘‘ (اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح صفحہ ۷) دوسری جگہ لکھتے ہیں :’’اگرچہ خدا نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسیٰ رکھااور یہ بھی مجھے فرمایاکہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسولﷺ نے دی تھی مگر چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جما ہواتھا اور میرا بھی یہی اعتقاد تھاکہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے نازل ہوں گے اس لیے میں نے خدا کی وحی کے ظاہر پر عمل کرنا نہ چاہا بلکہ اس وحی کی تاویل کی اور اپنا اعتقاد وہی رکھا جو عام مسلمانوں کاتھا اور اسی کو براہین احمدیہ میں شامل کیا۔ لیکن بعد اس کے اس بارے میں بارش کی طرح وحی نازل ہوتی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والاہے تو ہی ہے۔ ‘‘ (حقیقتہ الوحی،ص ۱۴۹)
(۴) ۱۹۰۰ء میں مرزا صاحب کے خاص خاص مریدوں نے ان کو صاف صاف نبی کہنا شروع کیا اور ان کو وہی حیثیت دینی شروع کردی جو قرآن کی رو سے انبیا علیہم السلام کی ہے۔ مرزا صاحب کبھی ان کے اس قول کی تصدیق و تائید کرتے تھے اور کبھی نبوت کے الفاظ کی توجیہ ناقص نبی ، جزوی نبی ، محدث وغیرہ الفاظ سے کرکے ان لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے تھے جو نبوت کے دعوے پر ایمان لانے میں متامل تھے۔اس دور میں ۷ / اگست ۱۹۰۰ء کو مرزا صاحب کے ایک مرید خاص مولوی عبدالکریم صاحب نے خود مرزا صاحب کی موجودگی میں ایک خطبہ جمعہ پڑھا جس میں انھوںنے احمدیوں کو مخاطب کرکے کہاکہ ’’اگر تم مسیح موعود کو ہرایک امر میں حکم نہیں ٹھہرائو گے اور اس پر ایمان نہیں لائو گے جیساکہ صحابہ نبی اکرمﷺ پر ایمان لائے تو تم بھی ایک گونہ غیر احمدیوں کی طرح اللہ کے رسولوں میں تفریق کرنے والے ہوگے ۔ ‘‘مرزا صاحب نے جمعہ کے بعد ان الفاظ میںاس کی توثیق کی کہ ’’یہ بالکل میرا مذہب ہے جو آپ نے بیان کیا۔ ‘‘ (کلمۃ الفصل ، صاحبزادہ بشیر احمد صاحب ، صفحہ ۱۶۷) مگر اس توثیق کے باوجود مرزا صاحب خود نبوت کے صریح دعوے سے مجتنب رہے ۔ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کے بقول اس زمانہ میں مرزا صاحب کاعقیدہ یہ تھاکہ آپ کو حضرت مسیح پر جزوی فضیلت ہے اور آپ کو جو نبی کہا جاتاہے تو یہ ایک قسم کی جزوی نبوت ہے اور ناقص نبوت ۔ (القول الفصل ،ص ۲۴)۔ نیز مزید توضیح کے لیے ملاحظہ ہو۔ (منکرین خلافت کاانجام از جلال الدین صاحب شمس ،ص ۱۹)
(۵) ۱۹۰۱ ء میں مرزا صاحب نے اپنے نبی اور رسول ہونے کا صاف صاف اعلان کیا اور اپنی اکثر تحریروں میں اس نبوت و رسالت کو ’’ناقص‘‘ ، ’’جزوی ‘‘ اور ’’محدثیت‘‘ وغیرہ الفاظ سے محدود کرنا ترک کردیا۔ (سیرۃ المہدی حصہ اول، ص ۳۱) جلال الدین شمس اپنی کتاب ’’منکرین خلافت کا انجام ‘‘ میں اس کے متعلق یہ تشریح کرتے ہیں کہ ’’۱۹۰۱ ء سے پہلے کی بعض تحریرات میں حضرت اقدس (یعنی مرزا صاحب) نے اپنے نبی ہونے سے انکار کیا اور لکھاکہ آپ نبی نہیں بلکہ محدث ہیں لیکن ۱۹۰۱ء کے بعد کی تحریرات میں آپ نے اپنی نبوت کو نہ جزئی قرار دیا نہ ناقص، نہ محدثیت والی نبوت، بلکہ صاف الفاظ میں اپنے آپ کو نبی لکھتے رہے۔ ‘‘(صفحہ ۱۹) اسی کے متعلق مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب فرماتے ہیں ’’۱۹۰۱ء میں اپنے عقیدے میں تبدیلی کی ہے اور ۱۹۰۰ ء ایک درمیانی عرصہ ہے جو دونوں خیالات کے درمیان برزخ کے طور پر حد فاصل ہے …پس یہ ثابت ہے کہ ۱۹۰۱ ء سے پہلے کے حوالے ، جن میں آپ نے نبی ہونے سے انکار کیاہے ، اب منسوخ ہیں اور ان سے حجت پکڑنی غلط ہے۔ ‘‘ (حقیقۃالنبوت ،ص ۱۲۱)
(۶) ۱۹۰۴ء میں مرزا صاحب نے منجملہ اور دعاوی کے ایک دعویٰ یہ بھی کیا کہ وہ کرشن ہیں۔ (لیکچر سیالکوٹ از مرزا صاحب ،مورخہ ۲ نومبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۳۴)
ان مختلف مراحل میں مرزا صاحب نے ان مسائل کے متعلق جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان مابہ النزاع رہے ہیں ، کیا بیانات دئیے اور ان کی جماعت کاکیا موقف رہا، اس کو ہم علیحدہ علیحدہ عنوانات کے تحت ذیل میں درج کرتے ہیں۔
ابتدائی عقیدہ ختم نبوت:
(۷) ختم نبوت کے متعلق مرزا صاحب کا ابتدائی عقیدہ وہی تھا جو تمام مسلمانوں کاہے ، یعنی یہ کہ محمدﷺ پر نبوت ختم ہوگئی اور آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ، چنانچہ وہ اپنی متعدد کتابوں میں اس کی یوں تصریح کرتے ہیں:
۱۔ ’’کیا تو نہیں جانتاکہ پروردگار رحیم و صاحب فضل نے ہمارے نبیؐ کا بغیر استثنا کے خاتم النبیین نام رکھا اور ہمارے نبی نے اہل طلب کے لیے اس کی تفسیر اپنے قول لانبی بعدی میں واضح طور پر فرمادی اور اگر ہم اپنے نبی اکرم ؐ کے بعد کسی نبی کا ظہور جائز قرار دیں تو گویا ہم باب وحی بند ہو جانے کے بعد اس کاکھلنا جائز قرار دیں گے اور یہ صحیح نہیں جیساکہ مسلمانوں پر ظاہر ہے اور ہمارے رسول اللہ ؐ کے بعد نبی کیونکر آسکتاہے درآنحالیکہ آپؐ کی وفات کے بعد وحی منقطع ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے آپؐ پر نبیوں کا خاتمہ فرمادیا۔ ‘‘
(حمامۃ البشریٰ ، مرزا غلام احمد صاحب، ص ۳۴)
۲۔’’آنحضرت ؐنے باربارفرمایاتھاکہ میرے بعدکوئی نبی نہیںآئے گااورحدیث لانبی بعدی ایسی مشہورتھی کہ کسی کواس کی صحت میںکلام نہ تھااورقرآن شریف جس کالفظ لفظ قطعی ہے‘اپنی آیت ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین سے بھی اس بات کی تصدیق کرتاتھاکہ فی الحقیقت ہمارے نبیؐ پرنبوت ختم ہوچکی ہے۔‘‘
(کتاب البریہ‘مرزاغلام احمدصاحب، ص۱۷۴)
۳۔’’کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبی اکرمؐ کے بعدہرگزنہیںآسکتا۔‘‘
(ازالہ اوہام‘مرزاغلام احمدصاحب ‘ص ۵۷۷)
۴۔’’قرآن کریم بعدخاتم النبیین کسی رسول کاآناجائزنہیںرکھتا‘خواہ وہ نیاہویا پرانا۔‘‘ (ازالہ اوہام‘ص۷۶۱)
۵۔’’پس یہ کس قدرجرات اوردلیری اورگستاخی ہے کہ خیالات رکیکہ کی پیروی کرکے نصوص صریحہ قرآن کو عمداً چھوڑ دیا جائے اور خاتم الانبیا کے بعد ایک نبی کا آنا مان لیا جائے۔ ‘‘ (ایام الصلح ، مرزا غلام احمد صاحب، ص ۱۴۶)
۶۔’’میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیساکہ سنت جماعت کاعقیدہ ہے، ان سب باتوں کو مانتاہوں جو قرآن اور حدیث کی رو سے مسلم الثبوت ہیں اور سیدنا و مولانا محمدؐ ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت و رسالت کو کافر اور کاذب جانتاہوں۔ ‘‘(اشتہار مورخہ ۲ / اکتوبر ۱۸۹۱ء از مرزا صاحب مندرجہ تبلیغ رسالت ،جلد دوم ص ۲)
۷۔’’اب میں مفصلہ ذیل امور کا مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرار اس خانہ خدا (جامع مسجد دہلی ) میں کرتاہوںکہ میں جناب خاتم الانبیا کی ختم نبوت کاقائل ہوں اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔‘‘
(تحریری بیان از مرزا غلام احمد صاحب جو ۲۳اکتوبر ۱۸۹۱ء کو جامع مسجد دہلی میں پڑھا گیا۔
مندرجہ تبلیغ رسالت جلد دوم صفحہ ۴۴)
(ب) ابتدائی دعوئوں کی توجیہات :
(۸) مرزا صاحب کی جن تحریرات سے مسلمانوں کے دلوں میں یہ شبہ پیداہواتھا کہ وہ نبوت کے مدعی ہیں یا دعویٰ کرنے والے ہیں ، ان کی حسب ذیل توجیہات کرکے ابتداً وہ مسلمانوں کو مطمئن کرتے رہے۔‘‘
۱۔ ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں اور لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ کے قائل ہیں اور آنحضرت ؐ کی ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیںاور وحی نبوت نہیں بلکہ وہ وحی ولایت، جو زیرسایہ نبوت محمدیہ اور باتباع آں حضرت محمد ؐ اولیاء اللہ کو ملتی ہے ، اس کے ہم قائل ہیں… غرض نبوت کا دعویٰ اس طرف بھی نہیں صرف ولایت اور مجددیت کا دعویٰ ہے۔
(اشتہار از مرزا غلام احمد صاحب، مندرجہ تبلیغ رسالت جلد ۶،ص ۳۰۲)
۲۔’’یہ عاجزنہ نبی ہے اور نہ رسول ہے ، صرف اپنے نبی معصوم محمد مصطفی ﷺکا ایک ادنیٰ خادم اور پیرو ہے۔ ‘‘
(ارشاد مرزا غلام احمد صاحب مندرجہ قمر الہدیٰ ، مولفہ قمر الدین صاحب جہلمی ، ص۵۸)
۳۔’’یہ سچ ہے کہ وہ الہام جو خدا نے اس بندے پر نازل فرمایااس میں اس بندے کی نسبت نبی اور رسول اور مرسل کے لفظ بکثرت موجود ہیں۔ سو یہ حقیقی معنوں پر محمول نہیں ہیں …ہم اس بات کے قائل اور معترف ہیں کہ نبوت کے حقیقی معنوں کی رو سے بعد آنحضرت ؐ نہ کوئی نیا نبی آسکتاہے اور نہ پرانا۔ قرآن ایسے نبیوں کے ظہور سے مانع ہے ۔ مگر مجازی معنوں کی رو سے خدا کا اختیار ہے کہ کسی ملہم کو نبی کے لفظ سے یا رسول کے لفظ سے یاد کرے۔
(سراج منیر، مرزا غلام احمد صاحب ،ص ۳۰۲)
۴۔ ’’اگرچہ عرصہ بیس سال سے متواتر اس عاجز کو الہام ہواہے اکثر دفعہ ان میں رسول یانبی کا لفظ آگیاہے ، لیکن وہ شخص غلطی کرتاہے جو ایسا سمجھتاہے کہ اس نبوت اور رسالت سے مراد حقیقی نبوت اور رسالت ہے …سو چونکہ ایسے لفظوں سے جو محض استعارے کے رنگ میں ہیں، اسلام میں فتنہ پڑتاہے اور اس کانتیجہ سخت بدنکلتاہے ، اس لیے اپنی جماعت کی معمولی بول چال اور دن رات کے محاورات میں یہ لفظ نہیں آنے چاہییں۔
مرزا صاحب کا خط مندرجہ اخبار ۔ الحکم قادیان ، مورخہ ۱۷ / اگست ۱۸۹۹ء ۔منقول از مسیح موعود اور ختم نبوت، مولوی محمد علی صاحب ایم اے ، ص ۴)
۵۔ ’’میں نبی نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے محدث اور اللہ کا کلیم ہوں۔ ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، مرزا غلام احمد صاحب ، ص ۳۸۳)
۶۔ میں نے ہرگز نبوت کادعویٰ نہیں کیا اور نہ میں نے انہیں کہاہے کہ میں نبی ہوں لیکن ان لوگوں نے جلدی کی اور میرے قول کے سمجھنے میں غلطی کی …میں نے لوگوں سے سوائے اس کے جو میں نے اپنی کتابوں میں لکھاہے اور کچھ نہیں کہاکہ میں محدث ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے اسی طرح کلام کرتاہے جس طرح محدثین سے ۔
(حمامتہ البشریٰ ،مرزا غلام احمد صاحب، ص ۹۶)
۷۔ ’’محدث جو مرسلین میں سے اُمتی بھی ہوتاہے اور ناقص طور پر نبی بھی۔ ‘‘
(ازالہ اوہام ، مرزا غلام احمد صاحب، ص ۵۶۹)
۸۔ ’’محدث بھی ایک معنی سے نبی ہی ہوتاہے ، گواس کے لیے نبوت تامہ نہیں، مگر جزئی طور پر وہ ایک نبی ہی ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا ایک شرف رکھتاہے۔ امور غیبیہ اس پر ظاہر کیے جاتے ہیں اور نبیوں کی وحی کی طرح اس کی وحی کو بھی دخل شیطان سے منزہ کیاجاتاہے۔ ‘‘ (توضیح مرام، مرزا غلام احمد صاحب، ص ۱۸)
۹۔ ’’اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت بھی حقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا اور غیرحقیقی طور پر کسی لفظ کو استعمال کرنا اورلغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزم کفر نہیں ،مگر میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اس میں عام مسلمانوں کو دھوکا لگ جانے کا احتمال ہے۔ ‘‘ (انجام آتھم ، مرزا غلام احمد صاحب ، ص ۲۷)
۱۰۔ ’’پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی ، یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ و مخاطبہ رکھتے ہیں، اس کی کثرت کانام بموجب حکم الٰہی نبوت رکھتاہوں ، ولکل ان یصطلع ‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی، مرزا غلام احمد ، ص ۶۸)
۱۱۔ ’’تمام مسلمانوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس عاجز کے رسالہ فتح الاسلام و توضیح المرام وازالہ اوہام میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے ، یا یہ کہ محدثیت جزوی نبوت ہے یا یہ کہ محدثیت نبوت ناقصہ ہے ، یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں میں محمول نہیں ہیں بلکہ صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں کی رو سے بیان کیے گئے ہیں ، ورنہ حاشاوَکَلاَّ مجھے نبوت حقیقی کا ہرگز دعویٰ نہیں ہے …سو میں تمام مسلمان بھائیوں کی خدمت میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ ان لفظوں سے ناراض ہیں اور ان کے دلوں پر یہ الفاظ شاق ہیں تو وہ ان الفاظ کو ترمیم شدہ تصور فرماکر بجائے اس کے محدث کا لفظ میری طرف سے سمجھ لیں ، کیونکہ کسی طرح مجھ کو مسلمانوں میں تفرقہ اور نفاق ڈالنا منظور نہیں ہے …بجائے لفظ نبی کے محدث کا لفظ ہر ایک جگہ سمجھ لیں اور اس کو یعنی لفظ نبی کو کاٹاہوا خیال فرمالیں ۔ ‘‘
(تحریری بیان مورخہ ۳ فروری ۱۸۹۲ء جو جلسہ عام میں پڑھا گیا ۔ مندرجہ تبلیغ رسالت، جلد ۲ ، ص ۹۵)
(ج)نبوت کے مختلف دعوے:
۶۔پھرمرزاصاحب نے نبوت کادعویٰ کیااوراس دعوے کی بھی ایک شکل نہ تھی بلکہ مختلف مواقع پرمتعددشکلیں تھیں۔
۱۔اُمتی نبی:
’’بعدمیںخداکی وحی بارش کی طرح میرے پرنازل ہوئی۔اس نے مجھے اس عقیدے پرقائم نہ رہنے دیااورصریح طورپرنبی کاخطاب مجھے دیاگیا۔مگراس طرح سے کہ ایک پہلوسے نبی اورایک پہلوسے اُمتی۔‘‘ (حقیقتہ الوحی‘مرزاغلام احمدصاحب ‘ص ۱۴۹)
(تتمہ حقیقتہ الوحی‘مرزاغلام احمدصاحب ‘ص ۸۴)
۲۔غیرصاحب شریعت:
’’اب بجزمحمدی نبوت کے سب نبوتیںبندہیں۔شریعت والانبی کوئی نہیںآسکتااور بغیرشریعت کے نبی ہونہیںسکتامگروہی جوپہلے سے امتی ہے‘پس اس بناپرمیںامتی بھی ہوں اورنبی بھی۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ‘مرزاغلام احمدصاحب ‘ص ۲۴)