پردہ

  مغربی تہذیب کی برق پاشیوں اور جلوہ سامانیوں نے اہل ِمشرق کی عموماً اور مسلمانوں کی نظروں کو خصوصاً جس طرح خیرہ کیا ہے وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور عریانی نے جس سیل رواں کی شکل اختیار کی ہے اس نے ہماری ملی اور دینی اقدار کو خس و خاشاک کی طرح بہادیا گیا۔ اس کی چمک دمک نے ہمیں کچھ اس طرح مبہوت کردیا کہ ہم یہ بھی تمیز نہ کر سکے کہ اس چمکتی ہوئی شے میں زرِخالص کتنا ہے اور کھوٹ کتنا۔ اس تیز وتند سیلاب کے مقابلہ میں ہم اتنے بے بس ہو کر رہ گئے ہیں کہ ہماری اکثریت نے اپنے آپ کو پوری طرح اس کے حوالے کردیا۔ نیتجتاً ہمارا معاشرہ تلپٹ ہوگیا اور ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ کچھ اس طرح منتشر ہواکہ کوچہ کوچہ ہماری اس تہذیبی خودکشی پر نوحہ کر رہا ہے۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ ان با بصیرت اصحاب میں سے ہیں جنھوں نے اس سیلاب بلا خیز کی تباہ کا ریوں کا بروقت اندازہ لگا کر ملت کو اس عظیم خطرے سے متنبہ کیا اور اسے روکنے کے لیے مضبوط بند باندھنے کی کو شش کی۔

”پردہ “ آپ کی انھی کوششوں کی آئینہ دار ہے۔

عصرِ حاضر میں اس موضوع پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ،”پردہ “ان میں ممتاز مقام رکھتی ہے اس کا دل نشین اندازِ بیان، پرزوراستدلال اور حقائق سے لبریز تجزیے اپنے اندروہ کشش رکھتا ہے کہ کٹر سے کٹر مخالف بھی قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔یہی وجہ ہے کہ پورے عالمِ اسلام میں اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بہت کم کتابوں کو نصیب ہوئی ہے ۔مشرقِ وسطیٰ میں اس کا عربی ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ یہی حال اس کے اردو اور انگریزی ایڈیشن کا ہے۔

عرضِ ناشر

مغربی تہذیب کی برق پاشیوں اور جلوہ سامانیوں نے اہلِ مشرق کی عمومًا اور مسلمانوں کی نظروں کو خصوصًا جس طرح خیرہ کیا ہے وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں… اور عریانی نے جس سیلِ رواں کی شکل اختیار کی ہے اس نے ہماری ملی اور دینی اقدار کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیا ہے۔ اس کی چمک دمک نے ہمیں کچھ اس طرح مبہوت کر دیا کہ ہم یہ بھی تمیز نہ کر سکے کہ اس چمکتی ہوئی شے میں زرِ خالص کتنا ہے اور کھوٹ کتنا۔ اس تیز و تند سیلاب کے مقابلہ میں ہم اتنے بے بس ہو کر رہ گئے ہیں کہ ہماری اکثریت نے اپنے آپ کو پوری طرح اس کے حوالے کر دیا۔ نتیجتاً ہمارا معاشرہ تلپٹ ہو گیا اور ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ کچھ اس طرح منتشر ہوا کہ کوچہ کوچہ ہماری اس تہذیبی خود کشی پر نوحہ کر رہا ہے۔
مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ ان بابصیرت اصحاب میں سے ہیں جنھوں نے اس سیلابِ بلاخیز کی تباہ کاریوں کا بروقت اندازہ لگا کر ملت کو اس عظیم خطرہ سے متنبہ کیا اور اسے روکنے کے لیے مضبوط بند باندھنے کی کوشش کی۔ ’’پردہ‘‘ آپ کی انھی کوششوں کی آئینہ دار ہے۔
عصرِ حاضر میں اس موضوع پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، ’’پردہ‘‘ ان میں ممتاز مقام رکھتی ہے اس کا دل نشین اندازِ بیان، پرزور استدلال اور حقائق سے لبریز تجزیہ اپنے اندر وہ کشش رکھتا ہے کہ کٹر سے کٹر مخالف بھی قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ پورے عالمِ اسلام میں اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بہت کم کتابوں کو نصیب ہوئی ہے۔ مشرقِ وسطٰی میں اس کا عربی ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ یہی حال اس کے اردو اور انگریزی ایڈیشن کا ہے۔
ہم اس بلند پایہ کتاب کا یہ تازہ ایڈیشن پیش کر رہے ہیں۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ اس کے ظاہری حسن کو اس کی معنوی خوبیوں سے ہم آہنگ کرکے اسے جاذبِ نظر اور دل کش انداز میں پیش کریں جو اس کے شایانِ شان ہو۔
اس کتاب کی عظیم افادیت کی وجہ سے اکثر حضرات اس کتاب کو شادیوں کے موقع پر بطورِ تحفہ پیش کرتے ہیں۔ ایسے حضرات کے لیے ہم نے اس کتاب کا خصوصی ایڈیشن بھی شائع کیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ خصوصی ایڈیشن تحفہ کے تمام معیاروں پر پورا اترے گا۔

منیجنگ ڈائریکٹر
اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ

 

 

 

 

دیباچہ

پردے کے مسئلے پر اب سے چار سال پہلے مَیں نے ایک سلسلہ مضامین لکھا تھا جو ’’ترجمان القرآن‘‘ کے کئی نمبروں میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت بحث کے بعض گوشے قصدًا نظرانداز کر دیے گئے تھے اور بعض کو تشنہ چھوڑ دینا پڑا تھا کیوں کہ کتاب کے بجائے محض ایک مضمون ہی لکھنا مد نظر تھا۔ اب ان اجزا کو یک جا کرکے ضروری اضافوں اور تشریحات کے ساتھ یہ کتاب مرتب کی گئی ہے۔ اگرچہ یہ دعوٰی اب بھی نہیں کیا جا سکتا کہ یہ اس موضوع پر آخری چیز ہے۔ مگر مَیں کم از کم یہ توقع ضرور رکھتا ہوں کہ جو لوگ اس مسئلے کو واقعی سمجھنا چاہتے ہیں وہ اس کتاب میں بڑی حد تک اطمینان بخش مواد اور دلائل پائیں گے۔
وباللّٰہ التوفیق وھو المستعان۔

ابو الاعلیٰ
۲۲۔ محرم الحرام ۱۳۵۹ھ

کچھ جدید اڈیشن کے بارے میں

 

الحمد للہ! ’’پردہ‘‘ کا جدید اڈیشن شائع ہوگیا ہے۔ جس کو درج ذیل خوبیوں سے مزین کرنے کی کوشش کی گئی ہے:
۱۔ حوالہ جات کی تکمیل /تصحیح کر دی گئی ہے۔
۲۔ عربی عبارات /کو اصل مآخذ کے ساتھ تقابل کرکے درست کر دی گئیں ہیں۔
۳۔ عربی عبارات پر اعراب لگا دیے گئے ہیں۔
۴۔ پوری کتاب کی از سر نو پروف ریڈنگ کرکے اغلاط درست کر دئیے گئے ہیں۔
۵۔ عربی عبارات کے تراجم جو بعض جگہ چھوٹ گئے تھے، وہ کتاب کا حصہ بنا دئیے گئے ہیں۔
۶۔ مشکل الفاظ کے معانی الف بائی ترتیب سے شامل کر دئیے گئے ہیں۔
امید ہے کہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی یہ مقبول کتاب زیادہ آسان اور نفع بخش ثابت ہوگی(ان شاء اللّٰہ) اس سلسلے میں قارئین کی وقیع آراء کا خیر مقدم کیا جائے گا۔

ڈاکٹر نصیر خان

۱۔ نوعیتِ مسئلہ

انسانی تمدن کے سب سے مقدم اور سب سے زیادہ پیچیدہ مسئلے دو ہیں۔ جن کے صحیح اور متوازن حل پر انسان کی فلاح و ترقی کا انحصار ہے اور جن کے حل کرنے میں قدیم ترین زمانے سے لے کر آج تک دنیا کے حکما و عقلا پریشان و سرگرداں رہے ہیں۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں مرد اور عورت کا تعلق کس طرح قائم کیا جائے کیوں کہ یہی تعلق دراصل تمدن کا سنگِ بنیاد ہے اور اس کا حال یہ ہے کہ اگر اس میں ذرا سی بھی کمی آ جائے تو
تا ثریا می رود دیوار کج
] آسمان تک دیوار ٹیڑھی رہے گی[
اور دوسرا مسئلہ فرد اور جماعت کے تعلق کا ہے جس کا تناسب قائم کرنے میں اگر ذرا سی بے اعتدالی بھی باقی رہ جائے توصدیوں تک عالم انسانی کو اس کے تلخ نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔
ایک طرف ان دونوں مسائل کی اہمیت کا یہ حال ہے اوردوسری طرف ان کی پیچیدگی اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ جب تک فطرت کے تمام حقائق پر کسی کی نظر پوری طرح حاوی نہ ہو وہ اسے حل نہیں کر سکتا۔ سچ کہا تھا جس نے کہا تھا کہ انسان عالمِ اصغر ہے۔ اس کے جسم کی ساخت، اس کے نفس کی ترکیب، اس کی قوتیں اور قابلیتیں، اس کی خواہشات، ضروریات اور جذبات و احساسات، اور اپنے وجود سے باہر کی بے شمار اشیا کے ساتھ اس کے فعلی و انفعالی تعلقات، یہ سب چیزیں ایک دنیا کی دنیا اپنے اندر رکھتی ہیں۔ انسان کو پوری طرح نہیں سمجھا جا سکتا جب تک کہ اس دنیا کا ایک ایک گوشہ نگاہ کے سامنے روشن نہ ہو جائے، اور انسانی زندگی کے بنیادی مسائل حل نہیں کیے جا سکتے جب تک کہ خود انسان کو پوری طرح نہ سمجھ لیا جائے۔
یہی وہ پیچیدگی ہے جو عقل و حکمت کی ساری کاوشوں کا مقابلہ ابتدا سے کر رہی ہے اور آج تک کیے جا رہی ہے۔ اوّل تو اس دنیا کے تمام حقائق ابھی تک انسان پر کھلے ہی نہیں۔ انسانی علوم میں سے کوئی علم بھی ایسا نہیں ہے جو کمال کے آخری مرتبہ پر پہنچ چکا ہو، یعنی جس کے متعلق یہ دعوٰی کیا جا سکتا ہو کہ جتنی حقیقتیں اس شعبۂ علم سے تعلق رکھتی ہیں ان سب کا اس نے احاطہ کر لیا ہے۔ مگر جو حقائق روشنی میں آ چکے ہیں ان کی وسعتوں اور باریکیوں کا بھی یہ عالم ہے کہ کسی انسان کی بلکہ انسانوں کے کسی گروہ کی نظر بھی ان سب پر بیک وقت حاوی نہیں ہوتی۔ ایک پہلو سامنے آتا ہے اور دوسرا پہلو نظروں سے اوجھل رہ جاتا ہے۔ کہیں نظر کوتاہی کرتی ہے اور کہیں شخصی رجحانات حاجب نظر بن جاتے ہیں۔ اس دوہری کم زوری کی وجہ سے انسان خود اپنی زندگی کے ان مسائل کو حل کرنے کی جتنی تدبیریں بھی کرتا ہے وہ ناکام ہوتی ہیں اور تجربہ آخر کار ان کے نقص کو نمایاں کر دیتا ہے۔ صحیح حل صرف اسی وقت ممکن ہے جب کہ نقطہ عدل کو پا لیا جائے اور نقطہ عدل پایا نہیں جا سکتا جب تک کہ تمام حقائق نہ سہی، کم از کم معلوم حقائق ہی کے سارے پہلو یکساں طور پر نگاہ کے سامنے نہ ہوں۔ مگر جہاں منظر کی وسعت بجائے خود اتنی زیادہ ہو کہ بینائی اس پر چھانہ سکے اور اس کے ساتھ نفس کی خواہشات اور رغبت و نفرت کے میلانات کا یہ زور ہو کہ جو چیزیں صاف نظر آتی ہوں ان کی طرف سے بھی خود بخود نگاہ پھر جائے، وہاں نقطۂ عدل کس طرح مل سکتا ہے؟ وہاں تو جو حل بھی ہو گا اس میں لا محالہ اِفراط پائی جائے گی یا تفریط۔
اُوپر جن دو مسائل کا ذکر کیا گیا ہے اُن میں سے صرف پہلا مسئلہ اس وقت ہمارے سامنے زیربحث ہے۔ اس باب میں جب ہم تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں افراط اور تفریط کی کھینچ تان کا ایک عجیب سلسلہ نظر آتا ہے۔ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ وہی عورت جوماں کی حیثیت سے آدمی کو جنم دیتی اور بیوی کی حیثیت سے زندگی کے ہر نشیب و فراز میں مرد کی رفیق رہتی ہے، خادمہ بلکہ لونڈی کے مرتبے میں رکھ دی گئی ہے، اسے بیچا اور خریدا جاتا ہے۔ اسے ملکیت اور وراثت کے تمام حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، اسے گناہ اور ذلت کا مجسمہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی شخصیت کو ابھرنے اور نشوونما پانے کا کوئی موقع نہیں دیا جاتا۔ دوسری طرف ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ وہی عورت اٹھائی اور ابھاری جا رہی ہے مگر اس شان سے کہ اس کے ساتھ بداَخلاقی اور بد نظمی کا طوفان اُٹھ رہا ہے، وہ حیوانی خواہشات کا کھلونا بنائی جاتی ہے، اسے واقعی شیطان کی ایجنٹ بنا کر رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ابھرنے کے ساتھ انسانیت کے گرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
ان دونوں انتہائوں کو ہم محض نظری حیثیت سے افراط اور تفریط کے ناموں سے موسوم نہیں کرتے بلکہ تجربہ جب ان کے مضر نتائج کا پورا پورا ریکارڈ ہمارے سامنے لا کر رکھ دیتا ہے تب ہم اَخلاق کی زبان میں ایک انتہا کو افراط اور دوسری کو تفریط کہتے ہیں۔ تاریخ کا پس منظر جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔ ہمیں یہ بھی دکھاتا ہے کہ جب ایک قوم وحشت کے دَور سے نکل کر تہذیب و حضارت کی طرف بڑھتی ہے تو اس کی عورتیں لونڈیوں اور خدمت گاروں کی حیثیت سے اس کے مردوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ابتدا میں بدویانہ طاقتوں کا زور اسے آگے بڑھائے لیے جاتا ہے، مگر تمدنی ترقی کی ایک خاص منزل پر پہنچ کر اسے محسوس ہوتا ہے کہ اپنے پورے نصف حصہ کو پستی کی حالت میں رکھ کر وہ آگے نہیں جا سکتی۔ اسے اپنی ترقی کی رفتار رکتی نظر آتی ہے اور ضرورت کا احساس اسے مجبور کرتا ہے کہ اس نصف ثانی کو بھی نصف اول کے ساتھ چلنے کے قابل بنائے۔ مگر جب وہ اس نقصان کی تلافی شروع کرتی ہے تو صرف تلافی پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ آگے بڑھتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ عورت کی آزادی سے خاندانی نظام (جو تمدن کی بنیاد ہے) منہدم ہو جاتا ہے، عورتوں اور مردوں کے اختلاط سے فواحش کا سیلاب پھوٹ پڑتا ہے۔ شہوانیت اور عیش پرستی پوری قوم کے اَخلاق کو تباہ کر دیتی ہے اور اَخلاقی تنزل کے ساتھ ساتھ ذہنی، جسمانی اور مادّی قوتوں کا تنزل بھی لازمی طور پر رونما ہوتا ہے جس کا آخری انجام ہلاکت و بربادی کے سوا کچھ نہیں۔
٭…٭…٭…٭…٭

۲ ۔عورت مختلف اَدوار میں

یہاں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ تاریخ سے اس کی مثالیں زیادہ تفصیل کے ساتھ دی جا سکیں مگر توضیحِ مدعا کے لیے دو چارمثالیں ناگزیر ہیں:
۱۔ یونان
اقوامِ قدیمہ میں سے جس قوم کی تہذیب سب سے زیادہ شان دار نظرآتی ہے وہ اہلِ یونان ہیں۔ اس قوم کے ابتدائی دَور میں اخلاقی نظریہ، قانونی حقوق اور معاشرتی برتائو ہر اعتبار سے عورت کی حیثیت بہت گری ہوئی تھی۔ یونانی خرافیات (mythology) میں ایک خیالی عورت پانڈورا (Pandora) کو اسی طرح تمام انسانی مصائب کا موجب قرار دیا گیا تھا جس طرح یہودی خرافیات میں حضرت حوا علیہا السلام کو قرار دیا گیا ہے۔ حضرت حوا کے متعلق اس غلط افسانے کی شہرت نے عورت کے بارے میں یہودی اور مسیحی اقوام کے رویے پر جو زبردست اثر ڈالا ہے اور قانون، معاشرت، اَخلاق، ہر چیز کو جس طرح متاثر کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ قریب قریب ایسا ہی اثر پانڈورا کے توہم کا یونانی ذہن پر بھی ہوا تھا ان کی نگاہ میں عورت ایک ادنیٰ درجہ کی مخلوق تھی۔ معاشرت کے ہر پہلو میں اس کا مرتبہ گرا ہوا رکھا گیا تھا اور عزت کا مقام مرد کے لیے مخصوص تھا۔
تمدنی ارتقا کے ابتدائی مراحل میں یہ طرزِ عمل تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ برقرار رہا۔ تہذیب اور علم کی روشنی کا صرف اتنا اثر ہوا کہ عورت کا قانونی مرتبہ تو جوں کا توں رہا۔ البتہ معاشرت میں اسے نسبتاً ایک بلند تر حیثیت دے دی گئی۔ وہ یونانی گھر کی ملکہ تھی۔ اس کے فرائض کا دائرہ گھر تک محدود تھا۔ اور ان حدود میں وہ پوری طرح بااقتدار تھی۔ اس کی عصمت ایک قیمتی چیز تھی جسے قدروعزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ شریف یونانیوں کے ہاں پردے کا رواج تھا۔ ان کے گھروں میں زنان خانے مردان خانوں سے الگ ہوتے تھے۔ ان کی عورتیں مخلوط محفلوں میں شریک نہ ہوتی تھیں۔ نہ منظرِ عام پر نمایاں کی جاتی تھیں۔ نکاح کے ذریعہ سے کسی ایک مرد کے ساتھ وابستہ ہونا عورت کے لیے شرافت کا مرتبہ تھا اور اس کی عزت تھی اور بیسوا بن کر رہنا اس کے لیے ذلت کا موجب سمجھا جاتا تھا۔ یہ اس زمانہ کا حال تھا جب یونانی قوم خوب طاقت وَر تھی اور پورے زور کے ساتھ عروج و ترقی کی طرف جا رہی تھی۔ اس دور میں اَخلاقی خرابیاں ضرور موجود تھیں مگر ایک حد کے اندر تھیں۔ یونانی عورتوں سے اَخلاق کی جس پاکیزگی اور طہارت و عصمت کا مطالبہ کیا جاتا تھا اس سے مرد مستثنیٰ تھے۔ ان سے نہ اس کا مطالبہ تھا اور نہ اخلاقًا کسی مرد سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ پاک زندگی بسر کرے گا۔ بیسوا طبقہ یونانی معاشرت کا ایک غیر منفک جزو تھا، اور اس طبقہ سے تعلق رکھنا مردوں کے لیے کسی طرح معیوب نہ سمجھا جاتا تھا۔
رفتہ رفتہ اہلِ یونان پر نفس پرستی اور شہوانیت کا غلبہ شروع ہوا اور اس دَور میں بیسوا طبقہ کو وہ عروج نصیب ہوا جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ رنڈی کا کوٹھا یونانی سوسائٹی کے ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ طبقوں تک ہر ایک کا مرکز و مرجع بنا ہوا تھا۔ فلاسفہ، شعرا، مورخین، اہلِ ادب اور ماہرینِ فنون، غرض تمام سیارے اسی آفتاب کے گرد گھومتے تھے۔ وہ نہ صرف علم و ادب کی محفلوں میں صدر نشین تھی، بلکہ بڑے بڑے سیاسی معاملات بھی اسی کے حضور میں طے ہوتے تھے۔ قوم کی زندگی و موت کا فیصلہ جن مسائل کے ساتھ وابستہ تھا ان میں اس عورت کی رائے وقیع سمجھی جاتی تھی جس کی دو راتیں بھی کسی ایک شخص کے ساتھ وفاداری میں بسر نہ ہوتی تھیں۔ یونانیوں کے ذوقِ جمال اور حسن پرستی نے ان کے اندر شہوانیت کی آگ کو اور زیادہ بھڑکایا۔ وہ اپنے اس ذوق کا اظہار جن مجسموں (یا آرٹ کے عریاں نمونوں) میں کرتے تھے وہی ان کی شہوانیت کو اور زیادہ ہوا دیتے چلے جاتے تھے، یہاں تک کہ ان کے ذہن سے یہ تصور ہی محو ہو گیا تھا کہ شہوت پرستی بھی کوئی اخلاقی عیب ہے۔ ان کا معیارِ اخلاق اتنا بدل گیا تھا کہ بڑے بڑے فلاسفہ اور معلّمینِ اخلاق بھی زِنا اور فحش میں کوئی قباحت اور کوئی چیز قابلِ ملامت نہ پاتے تھے۔ عام طور پر یونانی لوگ نکاح کو ایک غیر ضروری رسم سمجھنے لگے تھے اور نکاح کے بغیر عورت اور مرد کا تعلق بالکل معقول سمجھا جاتا تھا جسے کسی سے چھپانے کی ضرورت نہ تھی۔ آخرکار ان کے مذہب نے بھی ان کی حیوانی خواہشات کے آگے سپر ڈال دی۔ ’’کام دیوی‘‘ (aphrodite) کی پرستش تمام یونان میں پھیل گئی۔ جس کی داستان ان کے خرافیات میں یہ تھی کہ ایک دیوتا کی بیوی ہوتے ہوئے اس نے تین مزید دیوتائوں سے آشنائی کر رکھی تھی، اور ان کے ماسوا ایک فانی انسان کو بھی اس کی جناب میں سرفرازی کا فخر حاصل تھا۔ اسی کے بطن سے محبت کا دیوتا کیوپڈ پیدا ہوا، جو اُن دیوی صاحبہ اور اُن کے غیر قانونی دوست کی باہمی لگاوٹ کا نتیجہ تھا۔ یہ اس قوم کی معبودہ تھی، اور اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جو قوم ایسے کریکٹر کو نہ صرف مثال (آئیڈیل) بلکہ معبودیت تک کا درجہ دے دے اس کے معیارِ اَخلاق کی پستی کا کیا عالم ہو گا۔ یہ اخلاقی انحطاط کا وہ مرتبہ ہے جس میں گرنے کے بعد کوئی قوم پھر کبھی نہ ابھر سکی۔ ہندوستان میں بام مارگ اور ایران میں مزوکیت کا ظہور ایسے ہی انحطاط کے دَور میں ہوا۔ بابل میں بھی قحبہ گری کو مذہبی تقدس کا درجہ ایسے ہی حالات میں حاصل ہوا جس کے بعد پھردنیا نے کبھی بابل کا نام افسانۂ ماضی کے سوا کسی دوسری حیثیت سے نہ سنا۔ یونان میں جب کام دیوی کی پرستش شروع ہوئی تو قحبہ خانہ عبادت گاہ میں تبدیل ہو گیا، فاحشہ عورتیں دیوداسیاں بن گئیں اور زنا ترقی کرکے ایک مقدس مذہبی فعل کے مرتبے تک پہنچ گیا۔
اسی شہوت پرستی کا ایک دوسرا مظہر یہ تھا کہ یونانی قوم میں عملِ قومِ لوط ایک وبا کی طرح پھیلا اور مذہب و اخلاق نے اس کا بھی خیرمقدم کیا۔ ہومر اور ہیلوڈ کے عہد میں اس فعل کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ مگر تمدن کی ترقی نے جب آرٹ اور ذوقِ جمال (aesthetics) کے مذہب ناموں سے عریانی اور لذاتِ نفس کی بندگی کو سراہنا شروع کیا تو شہوانی جذبات کا اشتعال بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گیا کہ فطرت کے راستہ سے تجاوزکرکے یونانیوں کو خلاف وضع فطرت میں تسکین کی جستجو کرنا پڑی۔ آرٹ کے ماہروں نے اس جذبہ کو مجسموں میں نمایاں کیا۔ معلّمینِ اَخلاق نے اسے دو شخصوں کے درمیان ’’دوستی کا مضبوط رشتہ‘‘ قرار دیا۔ سب سے پہلے دو یونانی انسان جو اس قدر کے مستحق سمجھے گئے کہ ان کے اہلِ وطن ان کے مجسمے بنا کران کی یاد تازہ رکھیں وہ ہر موڈیس اور ارسٹو گیٹن تھے جن کے درمیان غیر فطری محبت کا تعلق تھا۔
تاریخ کی شہادت تو یہی ہے کہ اس دَور کے بعد یونانی قوم کو زندگی کا کوئی دوسرا دَور پھر نصیب نہیں ہوا۔
۲۔ روم
یونانیوں کے بعد جس قوم کو دُنیا میں عروج نصیب ہوا وہ اہلِ روم تھے۔ یہاں پھر وہی اتار چڑھائو کا مرقع ہمارے سامنے آتا ہے جو اوپر آپ دیکھ چکے ہیں۔ رومی لوگ وحشت کی تاریکی سے نکل کر جب تاریخ کے روشن منظر پر نمودار ہوتے ہیں تو ان کے نظامِ معاشرت کا نقشہ یہ ہوتا ہے کہ مرد اپنے خاندان کا سردار ہے۔ اسے اپنے بیوی بچوں پر پورے حقوق مالکانہ حاصل ہیں۔ بلکہ بعض حالات میں وہ بیوی کو قتل کردینے کا بھی مجاز ہے۔
جب وحشت کم ہوئی اور تمدن و تہذیب میں رومیوں کا قدم آگے بڑھا تو اگرچہ قدیم خاندانی نظام بدستور قائم رہا مگر عملاً اس کی سختیوں میں کچھ کمی واقع ہوئی اور ایک حد تک اعتدالی حالت پیدا ہوتی گئی۔ رومی جمہوریت کے زمانۂ عروج میں یونان کی طرح پردے کا رواج تو نہ تھا، مگر عورت اور جوان نسل کو خاندانی نظام میں کس کر رکھا گیا تھا۔ عصمت و عفت، خصوصًا عورت کے معاملہ میں ایک قیمتی چیز تھی اور اسے معیارِ شرافت سمجھا جاتا تھا۔ اَخلاق کا معیار کافی بلند تھا۔ ایک مرتبہ رومی سینٹ کے ایک ممبر نے اپنی بیٹی کے سامنے اپنی بیوی کا بوسہ لیا تو اسے قومی اخلاق کی سخت توہین سمجھا گیا اور سینٹ میں اس پر ملامت کا ووٹ پاس کیا گیا۔ عورت اور مرد کے تعلق کی جائز اور شریفانہ صورت نکاح کے سوا کوئی نہ تھی۔ ایک عورت اسی وقت عزت کی مستحق ہو سکتی تھی جب کہ وہ ایک خاندان کی ماں (matron) ہو۔ بیسوا طبقہ اگرچہ موجود تھا اور مردوں کو ایک حد تک اس طبقہ سے ربط رکھنے کی آزادی بھی تھی، مگر عام رومیوں کی نگاہ میں اس کی حیثیت نہایت ذلیل تھی اور اس سے تعلق رکھنے والے مردوں کو بھی اچھی نظر سے نہ دیکھا جاتا تھا۔
تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ اہلِ روم کا نظریہ عورت کے بارے میں بدلتا چلا گیا اور رفتہ رفتہ نکاح و طلاق کے قوانین اور خاندانی نظام کی ترکیب میں اتنا تغیر رونما ہوا کہ صورتِ حال سابق حالات کے بالکل برعکس ہو گئی۔ نکاح محض ایک قانونی معاہدہ (civil contract) بن کر رہ گیا جس کا قیام و بقا فریقین کی رضا مندی پر منحصر تھا۔ ازدواجی تعلق کی ذمہ داریوں کو بہت ہلکا سمجھا جانے لگا۔ عورت کو وراثت اور ملکیتِ مال کے پورے حقوق دے دیے گئے اور قانون نے اسے باپ اور شوہر کے اقتدار سے بالکل آزاد کر دیا۔ رومی عورتیں معاشی حیثیت سے نہ صرف خودمختار ہو گئیں بلکہ قومی دولت کا ایک بڑا حصہ بتدریج ان کے حیطۂ اختیار میں چلا گیا۔ وہ اپنے شوہروں کو بھاری شرح سود پر قرض دیتی تھیں، اور مال دار عورتوں کے شوہر عملًا ان کے غلام بن کر رہ جاتے تھے۔ طلاق کی آسانیاں اس قدر بڑھیں کہ بات بات پر ازدواج کا رشتہ توڑا جانے لگا۔ مشہور رومی فلسفی و مدبر سنیکا (4ق۔م تا 65ئ) سختی کے ساتھ رومیوں کی کثرتِ طلاق پر ماتم کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’اب روم میں طلاق کوئی بڑی شرم کے قابل چیز نہیں رہی، عورتیں اپنی عمر کا حساب شوہروں کی تعداد سے لگاتی ہیں۔‘‘ اس دَور میں عورت یکے بعد دیگرے کئی کئی شادیاں کرتی جاتی تھی۔ مارشل (43ء تا104ء) ایک عورت کا ذکر کرتا ہے جو دس خاوند کر چکی تھی۔ جو دنیل (60ء تا130ء) ایک عورت کے متعلق لکھتا ہے کہ اس نے پانچ سال میں آٹھ شوہر بدلے۔ سینٹ جروم (340ء تا 420ء) ان سب سے زیادہ ایک باکمال عورت کا حال لکھتا ہے جس نے آخری بار تیسواں شوہر کیا تھا اور اپنے شوہر کی بھی وہ اکیسویں بیوی تھی۔
اس دَور میں عورت اور مرد کے غیر نکاحی تعلق کو معیوب سمجھنے کا خیال بھی دلوں سے نکلتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے معلّمین اخلاق بھی زنا کو ایک معمولی چیز سمجھنے لگے۔ کاٹو (Cato) جسے 184ء ۔ ق۔ م میں روم کا محتسب اخلاق مقرر کیا گیا تھا، صریح طور پر جوانی کی آوارگی کو حق بجانب ٹھہراتا ہے۔ سسرو جیسا شخص نوجوانوں کے لیے اَخلاق کے بند ڈھیلے کرنے کی سفارش کرتا ہے۔ حتّٰی کہ اپکٹیٹس(Epictetus) جو فلاسفہ روقیئن (stoics) میں بہت ہی سخت اخلاقی اصول رکھنے والا سمجھا جاتا تھا، اپنے شاگردوں کو ہدایت کرتا ہے کہ ’’جہاں تک ہو سکے شادی سے پہلے عورت کی صحبت سے اجتناب کرو۔ مگر جو اس معاملہ میں ضبط نہ رکھ سکیں انھیں ملامت بھی نہ کرو۔‘‘
اَخلاق اور معاشرت کے بند جب اتنے ڈھیلے ہو گئے تو روم میں شہوانیت، عریانی اور فواحش کا سیلاب پھوٹ پڑا۔ تھیٹروں میں بے حیائی و عریانی کے مظاہرے ہونے لگے۔ ننگی اور نہایت فحش تصویریں ہر گھر کی زینت کے لیے ضروری ہو گئیں۔ قحبہ گری کے کاروبار کو وہ فروغ نصیب ہوا کہ قیصر ٹائبیرئس (14ء تا 37ء) کے عہد میں معزز خاندانوں کی عورتوں کو پیشہ ور طوائف بننے سے روکنے کے لیے ایک قانون نافذ کرنے کی ضرورت پیش آ گئی۔ فلورا (Flora) نامی ایک کھیل رومیوں میں نہایت مقبول ہوا کیوں کہ اس میں برہنہ عورتوں کی دوڑ ہوا کرتی تھی۔ عورتوں اور مردوں کے برسرِ عام یک جا غسل کرنے کا رواج بھی اس دَور میں عام تھا۔ رومی لٹریچر میں فحش اور عریاں مضامین بے تکلف بیان کیے جاتے تھے اور عوام و خواص میں وہی ادب مقبول ہوتا تھاجس میں استعارہ و کنایہ تک کا پردہ نہ رکھا گیا ہو۔
بہیمی خواہشات سے اس قدر مغلوب ہو جانے کے بعد روم کا قصرِ عظمت ایسا پیوند خاک ہوا کہ پھر اس کی ایک اینٹ بھی اپنی جگہ پر قائم نہ رہی۔
۳۔مسیحی یورپ
مغربی دنیا کے اس اَخلاقی انحطاط کا علاج کرنے کے لیے مسیحیت پہنچی اور اول اول اس نے بڑی اچھی خدمات انجام دیں۔ فواحش کا انسداد کیا۔ عریانی کو زندگی کے ہر شعبے سے نکالا۔ قحبہ گری کو بند کرنے کی تدبیریں کیں۔ طوائف، مغنیہ اور رقاصہ عورتوں کو ان کے پیشہ سے توبہ کرائی۔ اور پاکیزہ اَخلاقی تصورات لوگوں میں پیدا کیے۔ مگر عورت اور صنفی تعلقات کے بارے میں آبائے مسیحین جو نظریات رکھتے تھے وہ انتہا پسندی کی بھی انتہا تھے، اور ساتھ ہی فطرتِ انسانی کے خلاف اعلانِ جنگ بھی۔
ان کا ابتدائی اور بنیادی نظریہ یہ تھا کہ عورت گناہ کی ماں اور بدی کی جڑ ہے۔ مرد کے لیے معصیت کی تحریک کا سرچشمہ اور جہنم کا دروازہ ہے۔ تمام انسانی مصائب کا آغاز اسی سے ہوا ہے۔ اس کا عورت ہونا ہی اس کے شرم ناک ہونے کے لیے کافی ہے۔ اسے اپنے حسن و جمال پر شرمانا چاہیے کیوں کہ وہ شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اسے دائمًا کفارہ ادا کرتے رہنا چاہیے کیوں کہ وہ دنیا اور دنیا والوں پر لعنت اور مصیبت لائی ہے۔
ترتولیاں (Tertullian) جو ابتدائی دور کے ائمہ مسیحیت میںسے تھا عورت کے متعلق مسیحی تصور کی ترجمانی ان الفاظ میں کرتا ہے:
وہ شیطان کے آنے کا دروازہ ہے وہ شجرِ ممنوع کی طرف لے جانے والی، خدا کے قانون کو توڑنے والی اور خدا کی تصویر، مرد کو غارت کرنے والی ہے۔
کرائی سوسٹم (Chrysostum) جو مسیحیت کے اولیائے کبار میں شمار کیا جاتا ہے، عورت کے حق میں کہتا ہے:
ایک ناگزیر بُرائی، ایک پیدائشی وسوسہ، ایک مرغوب آفت، ایک خانگی خطرہ، ایک غارت گر دل ربائی، ایک آراستہ مصیبت۔
ان کا دوسرا نظریہ یہ تھا کہ عورت اور مرد کا صنفی تعلق بجائے خود ایک نجاست اور قابلِ اعتراض چیز ہے، خواہ وہ نکاح کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو۔ اخلاق کا یہ راہبانہ تصور پہلے سے اشراقی فلسفہ (neo-platonism) کے زیرِ اثر مغرب میں جڑ پکڑ رہا تھا۔ مسیحیت نے آکر اسے حد کو پہنچا دیا۔ اب تجرد اور دوشیزگی معیارِ اَخلاق قرار پائی اور تاہل کی زندگی اَخلاقی اعتبار سے پست اور ذلیل سمجھی جانے لگی۔ لوگ ازدواج سے پرہیز کرنے کو تقوٰی، تقدس اور بلندیٔ اَخلاق کی علامت سمجھنے لگے۔ پاک مذہبی زندگی بسر کرنے کے لیے یہ ضروری ہو گیا کہ یا تو آدمی نکاح ہی نہ کرے، اگر نکاح کر لیا ہو تو میاں اور بیوی ایک دوسرے سے زن و شو کا تعلق نہ رکھیں۔ متعدد مذہبی مجلسوں میں یہ قوانین مقرر کیے گئے کہ چرچ کے عہدہ دار تخلیہ میں اپنی بیویوں سے نہ ملیں۔ میاں اور بیوی کی ملاقات ہمیشہ کھلی جگہ میں ہو اور کم از کم دو غیر آدمی موجود ہوں۔ ازدواجی تعلق کے نجس ہونے کا تخیل طرح طرح سے مسیحیوں کے دل میں بٹھایا جاتا تھا۔ مثلاً ایک قاعدہ یہ تھا کہ جس روز چرچ کا کوئی تہوار ہو اس سے پہلے کی رات جس میاں بیوی نے یک جا گزاری ہو وہ تہوار میں شریک نہیں ہوسکتے۔ گویا انھوں نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے جس سے آلودہ ہونے کے بعد وہ کسی مقدس مذہبی کام میں حصہ لینے کے قابل نہیں رہے۔ اس راہبانہ تصور نے تمام خاندانی علائق، حتّٰی کہ ماں اور بیٹے تک کے تعلق میں تلخی پیدا کر دی، اور ہر وہ رشتہ گندگی اور گناہ بن کر رہ گیا جو نکاح کا نتیجہ ہو۔
ان دونوں نظریات نے نہ صرف اخلاق اور معاشرت میں عورت کی حیثیت حد سے زیادہ گرا دی بلکہ تمدنی قوانین کو بھی اس درجہ متاثر کیا کہ ایک طرف ازدواجی زندگی مردوں اور عورتوں کے لیے مصیبت بن کر رہ گئی اور دوسری طرف سوسائٹی میں عورت کا مرتبہ ہر حیثیت سے پست ہو گیا۔ مسیحی شریعت کے زیرِ اثر جتنے قوانین مغربی دنیا میں جاری ہوئے ان سب کی خصوصیات یہ تھیں:
۱۔ معاشی حیثیت سے عورت کو بالکل بے بس کرکے مردوں کے قابو میں دے دیا گیا۔ وراثت میں اس کے حقوق نہایت محدود تھے اور ملکیت میں اس سے بھی زیادہ محدود۔ وہ خود اپنی محنت کی کمائی پر بھی اختیار نہ رکھتی تھی بلکہ اس کی ہر چیز کا مالک اس کا شوہر تھا۔
۲۔ طلاق اور خلع کی سرے سے اجازت ہی نہ تھی۔ زوجین میں خواہ کتنی ہی ناموافقت ہو، باہمی تعلقات کی خرابی سے خواہ گھر نمونہ جہنم بن گیا ہو، مذہب اورقانون دونوں انھیں زبردستی ایک دوسرے کے ساتھ بندھے رہنے پر مجبور کرتے تھے۔ بعض انتہائی شدید حالات میں زیادہ سے زیادہ جوتدارک ممکن تھا وہ صرف یہ تھا کہ زوجین میں تفریق (separation) کرا دی جائے۔ یعنی وہ ایک دوسرے سے بس الگ کر دیے جائیں۔ الگ ہو کر نکاحِ ثانی کرنے کا حق نہ عورت کو تھا نہ مرد کو۔ درحقیقت یہ تدارک پہلی صورت سے بھی بد تر تھا کیوں کہ اس کے بعد ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ یا تو وہ دونوں راہب اور راہبہ بن جائیں، یا پھر تمام عمر بدکاری کرتے رہیں۔
۳۔ شوہر کے مرنے کی صورت میں بیوی کے لیے اور بیوی کے مرنے کی صورت میں شوہر کے لیے نکاحِ ثانی کرنا سخت معیوب بلکہ گناہ قرار دیا گیا تھا۔ مسیحی علما کہتے تھے کہ یہ محض حیوانی خواہشات کی بندگی اور ہوس رانی ہے۔ ان کی زبان میں اس فعل کا نام ’’مہذب زناکاری‘‘ تھا۔ چرچ کے قانون میں مذہبی عہدہ داروں کے لیے نکاحِ ثانی کرنا جرم تھا۔ عام ملکی قوانین میں بعض جگہ اس کی سرے سے اجازت ہی نہ تھی اور جہاں قانون اجازت دیتا تھا وہاں بھی رائے عام جو مذہبی تصورات کے زیرِ اثر تھی اسے جائز نہ رکھتی تھی۔
۴۔ جدید یورپ
اٹھارہویں صدی عیسوی میں یورپ کے فلاسفہ اور اہلِ قلم نے جب سوسائٹی کے خلاف فرد کے حقوق کی حمایت میں آواز اٹھائی اور شخصی آزادی کا صور پھونکا تو ان کے سامنے وہی غلط نظامِ تمدن تھا جو مسیحی نظام اخلاق و فلسفہ زندگی اور نظامِ جاگیرداری (feudal system) کے منحوس اتحاد سے پیدا ہوا تھا اور جس نے انسانی رُوح کو غیر فطری زنجیروں میں جکڑ کر ترقی کے سارے دروازے بند کر رکھے تھے۔ اس نظام کو توڑ کر ایک نیا نظام بنانے کے لیے جو نظریات جدید یورپ کے معماروں نے پیش کیے اس کے نتیجے میں انقلاب فرانس رونما ہوا اور اس کے بعد مغربی تہذیب و تمدن کی رفتارِ ترقی ان راستوں پر لگ گئی جن پر بڑھتے بڑھتے وہ آج کی منزل پر پہنچی ہے۔
اس دَورِ جدید کے آغاز میں صنفِ اناث کو پستی سے اُٹھانے کے لیے جوکچھ کیا گیا۔ اجتماعی زندگی پر اس کے خوش گوار نتائج مرتب ہوئے۔ نکاح و طلاق کے پچھلے قوانین کی سختی کم کی گئی۔ عورتوں کے معاشی حقوق، جو بالکل سلب کر لیے گئے تھے، بڑی حد تک انھیں واپس دیے گئے۔ ان اخلاقی نظریات کی اصلاح کی گئی جن کی بِنا پر عورت کو ذلیل و حقیر سمجھا جاتا تھا۔ معاشرت کے ان اصولوں میں ترمیم کر دی گئی جن کی وجہ سے عورت فی الحقیقت لونڈی بن کر رہ گئی تھی۔ اعلیٰ درجہ کی تعلیم و تربیت کے دروازے مردوں کی طرح عورتوں کے لیے بھی کھولے گئے۔ ان مختلف تدابیر سے رفتہ رفتہ عورتوں کی وہ قابلیتیں جو غلط قوانینِ معاشرت اور جاہلانہ اَخلاقی تصورات کے بھاری بوجھوں تلے دبی ہوئی تھیں، اُبھر آئیں۔ انھوں نے گھروں کو سنوارا ۔ معاشرت میں نفاست پیدا کی۔ رفاہِ عامہ کے بہت سے مفید کام کیے۔ صحتِ عامہ کی ترقی، نئی نسلوں کی عمدہ تربیت، بیماروں کی خدمت اور فنونِ خانہ داری کی نشوونما، یہ سب کچھ اس بیداری کے ابتدائی پھل تھے جو تہذیبِ نو کی بدولت عورتوں میں رونما ہوئی لیکن جن نظریات کے بطن سے یہ نئی تحریک اُٹھی تھی ان میں ابتدا ہی سے افراط کا میلان موجود تھا۔ انیسویں صدی میں اس میلان نے بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کی اور بیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے مغربی معاشرت بے اعتدالی کی دوسری انتہا پر پہنچ گئی۔
۵۔ نئی مغربی معاشرت کے تین ستون
یہ نظریات جن پر نئی مغربی معاشرت کی بِنا رکھی گئی ہے، تین عنوانوں کے تحت آتے ہیں:
(۱) عورتوں اور مردوں کی مساوات
(۲) عورتوں کا معاشی استقلال (economic independence)
(۳) دونوں صنفوں کا آزادانہ اختلاط۔
ان تین بنیادوں پرمعاشرت کی تعمیر کرنے کا جو نتیجہ ہونا چاہیے تھا بالآخر وہی ظاہر ہوا۔
(۱) مساوات کے معنی یہ سمجھ لیے گئے کہ عورت اور مرد نہ صرف اَخلاقی مرتبہ اور انسانی حقوق میں مساوی ہوں، بلکہ تمدنی زندگی میں عورت بھی وہی کام کرے جو مرد کرتے ہیں، اور اَخلاقی بندشیں عورت کے لیے بھی اسی طرح ڈھیلی کر دی جائیں جس طرح مرد کے لیے پہلے سے ڈھیلی ہیں۔ مساوات کے اس غلط تخیل نے عورت کو اس کے ان فطری وظائف سے غافل اور منحرف کر دیا جن کی بجا آوری پر تمدن کی بقا بلکہ نوعِ انسانی کی بقا کا انحصار ہے۔ معاشی، سیاسی اور اجتماعی سرگرمیوں نے ان کی شخصیت کو پوری طرح اپنے اندر جذب کر لیا۔ انتخابات کی جدوجہد، دفتروں اور کارخانوں کی ملازمت، آزاد تجارتی و صنعتی پیشوں میں مردوں کے ساتھ مقابلہ، کھیلوں اور ورزشوں کی دوڑ دھوپ، سوسائٹی کے تفریحی مشاغل میں شرکت، کلب، اسٹیج اور رقص و سرود کی مصروفیتیں، یہ اور ان کے سوا اور بہت سی ناکردنی و ناگفتنی چیزیں۔ اس پر کچھ اس طرح چھا گئیں کہ ازدواجی زندگی کی ذمہ داریاں، بچوں کی تربیت، خاندان کی خدمت، گھر کی تنظیم، ساری چیزیں اس کے لائحہ عمل سے خارج ہو کر رہ گئیں، بلکہ ذہنی طور پر وہ ان مشاغل… اپنے اصلی فطری مشاغل… سے متنفر ہو گئی۔ اب مغرب میں خاندان کا نظام، جو تمدن کا سنگِ بنیاد ہے، بُری طرح منتشر ہو رہا ہے۔ گھرکی زندگی، جس کے سکون پر انسان کی قوتِ کارکردگی کی نشوونما کا انحصار ہے، عملًا ختم ہو رہی ہے۔ نکاح کا رشتہ، جو تمدن کی خدمت میں عورت اور مرد کے تعاون کی صحیح صورت ہے، تارِ عنکبوت سے بھی زیادہ کم زور ہو گیا ہے۔ نسلوں کی افزائش کو برتھ کنٹرول، اسقاطِ حمل اور قتلِ اولاد کے ذریعہ سے روکا جا رہا ہے۔ اَخلاقی مساوات کے غلط تخیل نے عورتوں اور مردوں کے درمیان بداَخلاقی میں مساوات قائم کر دی ہے۔ وہ بے حیائیاں جو کبھی مردوں کے لیے بھی شرم ناک تھیں، اب وہ عورتوں کے لیے شرم ناک نہیں رہیں۔
(۲) عورت کے معاشی استقلال نے اسے مرد سے بے نیاز کر دیا ہے۔ وہ قدیم اُصول کہ مرد کمائے اور عورت گھر کا انتظام کرے، اب اس نئے قاعدہ سے بدل گیا ہے کہ عورت اور مرد دونوں کمائیں اور گھر کا انتظام بازار کے سپرد کر دیا جائے۔ اس انقلاب کے بعد دونوں کی زندگی میں بجز ایک شہوانی تعلق کے اور کوئی ربط ایسا باقی نہیں رہا جو انھیں ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہونے پر مجبور کرتا ہو اور ظاہر ہے کہ محض شہوانی خواہشات کا پورا کرنا کوئی ایسا کام نہیں ہے جس کی خاطر مرد اور عورت لامحالہ اپنے آپ کو ایک دائمی تعلق ہی کی گرہ میں باندھنے اور ایک گھر بنا کر مشترک زندگی گزارنے پر مجبور ہوں۔ جو عورت اپنی روٹی آپ کماتی ہے، اپنی تمام ضروریات کی خود کفیل ہے، اپنی زندگی میں دوسرے کی حفاظت اور اعانت کی محتاج نہیں ہے، وہ آخر محض اپنی شہوانی خواہش کی تسکین کے لیے کیوں ایک مرد کی پابند ہو؟ کیوں اپنے اوپر بہت سی اَخلاقی اور قانونی بندشیں عائد کرے؟ کیوں ایک خاندان کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے؟ خصوصًا جب کہ اَخلاقی مساوات کے تخیل نے اس کی راہ سے وہ تمام رکاوٹیں بھی دُور کر دی ہوں جو اسے آزاد شہوت رانی کا طریقہ اختیار کرنے میں پیش آ سکتی تھیں تو وہ اپنی خواہشات کی تسکین کے لیے آسان، پُر لطف اور خوش نما راستہ چھوڑ کر قربانیوں اور ذمہ داریوں کے بوجھ سے لدا ہوا پرانا دقیانوسی (old fashioned) راستہ کیوں اختیار کرے؟ گناہ کا خیال مذہب کے ساتھ رخصت ہوا۔ سوسائٹی کا خوف یوں دُور ہو گیا کہ سوسائٹی اب اسے فاحشہ ہونے پر ملامت نہیں کرتی بلکہ ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے۔ آخری خطرہ حرامی بچے کی پیدائش کا تھا، سو اس سے بچنے کے لیے مانع حمل کے ذرائع موجود ہیں۔ ان ذرائع کے باوجود حمل قرار پا جائے تو اسقاط میں بھی کوئی مضایقہ نہیں۔ اس میں کام یابی نہ ہو تو بچے کو خاموشی کے ساتھ قتل کیا جا سکتا ہے اور اگر کم بخت جذبہ مادری نے (جو بد قسمتی سے ابھی بالکل فنا نہیں ہو سکا ہے) بچے کو ہلاک کرنے سے روک بھی دیا تو حرامی بچے کی ماں بن جانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ کیوں کہ اب ’’کنواری ماں‘‘ اور ’’ناجائز مولود‘‘ کے حق میں اتنا پروپیگنڈا ہو چکا ہے کہ جو سوسائٹی انھیں نفرت کی نگاہ سے دیکھنے کی جرات کرے گی، اسے خود تاریک خیالی کا اُلٹا الزام اپنے سر لینا پڑے گا۔
یہ وہ چیز ہے جس نے مغربی معاشرت کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ آج ہر ملک میں لاکھوں جوان عورتیں تجرد پسند ہیں جن کی زندگی آزاد شہوت رانی میں بسر ہو رہی ہے۔ ان سے بہت زیادہ عورتیں ہیں جو عارضی جذبات محبت کے زور سے شادیاں کر لیتی ہیں، مگر چوں کہ اب شہوانی تعلق کے سوا مرد اور عورت کے درمیان کوئی ایسا احتیاجی ربط باقی نہیں رہا ہے جو انھیں مستقل وابستگی پر مجبور کرتا ہو، اس لیے مناکحت کے رشتہ میں اب کوئی پائداری نہیں رہی۔ میاں اور بیوی جو ایک دوسرے سے بالکل بے نیاز ہو چکے ہیں، آپس کے تعلقات میں کسی مراعاتِ باہمی اور کسی مدارات (compromise)کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ نری شہوانی محبت کے جذبات بہت جلدی ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک ادنیٰ وجہ اختلاف بلکہ بسا اوقات صرف سرد مہری ہی انھیں ایک دوسرے سے جدا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیش تر نکاحوں کا انجام طلاق یا تفریق پر ہوتا ہے۔ مانع حمل، اسقاط، قتلِ اولاد، شرح پیدائش کی کمی اور ناجائز ولادتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بڑی حد تک اسی سبب کی رہین منت ہے۔ بدکاری، بے حیائی اور امراضِ خبیثہ کی ترقی میں بھی اس کیفیت کا بڑا دخل ہے۔
مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط نے عورتوں میں حسن کی نمائش، عریانی اور فواحش کو غیرمعمولی ترقی دے دی ہے۔ صنفی میلان (sexual attraction) جو پہلے ہی فطری طور پر مرد اورعورت کے درمیان موجود ہے اور کافی طاقت ور ہے، دونوں صنفوں کے آزادانہ میل جول کی صورت میں بہت آسانی کے ساتھ غیر معمولی حد تک ترقی کر جاتا ہے۔ پھر اس قسم کی مخلوط سوسائٹی میں قدرتی طور پردونوں صنفوں کے اندر یہ جذبہ اُبھر آتا ہے کہ صنف مقابل کے لیے زیادہ سے زیادہ جاذبِ نظر (attractive) بنیں اور اَخلاقی نظریات کے بدل جانے کی وجہ سے ایسا کرنا معیوب بھی نہ رہا ہو، بلکہ علانیہ شانِ دل ربائی پیدا کرنے کو مستحسن سمجھا جانے لگا ہو تو حسن و جمال کی نمائش رفتہ رفتہ تمام حدود کو توڑتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ برہنگی کی آخری حد کو پہنچ کر ہی دم لیتی ہے۔ یہی کیفیت اس وقت مغربی تہذیب میں پیدا ہو گئی ہے۔ صنفِ مقابل کے لیے مقناطیس بننے کی خواہش عورت میں اتنی بڑھ گئی ہے اور اتنی بڑھتی چلی جا رہی ہے کہ شوخ و شنگ لباسوں، غازوں، سرخیوں اور بنائو سنگار کے نت نئے سامانوں سے اس کی تسکین نہیں ہوتی۔ بے چاری تنگ آ کر اپنے کپڑوں سے باہر نکل پڑتی ہے، یہاں تک کہ بسا اوقات تارتک لگا نہیں رہنے دیتی۔ ادھر مردوں کی طرف سے ہر وقت ھل من مزید کا تقاضا ہے، کیوں کہ جذبات میں جو آگ لگی ہوئی ہے وہ حسن کی ہر بے حجابی پر بجھتی نہیں بلکہ اور زیادہ بھڑکتی ہے اور مزید بے حجابی کا مطالبہ کرتی ہے۔ ا ن غریبوں کی پیاس بھی بڑھتے بڑھتے تونس بن گئی ہے، جیسے کسی کو لو لگ گئی ہو اور پانی کا ہر گھونٹ پیاس کو بجھانے کی بجائے اور بھڑکا دیتا ہو۔ حد سے بڑھی ہوئی شہوانی پیاس سے بے تاب ہو کر بے چارے ہر وقت ہر ممکن طریقے سے اس کی تسکین کا سامان بہم پہنچاتے رہتے ہیں۔ یہ ننگی تصویریں، یہ صنفی لٹریچر، یہ عشق و محبت کے افسانے، یہ عریاں اور جوڑواں ناچ، یہ جذباتِ شہوانی سے بھری ہوئی فلمیں۔ آخر کیا ہیں؟ سب اسی آگ کو بجھانے … مگر دراصل بھڑکانے… کے سامان ہیں جو اس غلط معاشرت نے ہر سینے میں لگا رکھی ہے اور اپنی اس کم زوری کو چھپانے کے لیے اس کا نام انھوں نے رکھا ہے ’’آرٹ‘‘۔
یہ گھن بڑی تیزی کے ساتھ مغربی قوموں کی قوتِ حیات کو کھا رہا ہے، یہ گھن لگنے کے بعد آج تک کوئی قوم نہیں بچی۔ یہ ان تمام ذہنی اور جسمانی قوتوں کو کھا جاتا ہے جو قدرت نے انسانوں کو زندگی اور ترقی کے لیے عطا کی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ ہر طرف سے شیطانی محرکات میں گھرے ہوئے ہیں، جن کے جذبات کو ہر آن ایک نئی تحریک اور ایک نئے اشتعال سے سابقہ پڑے، جن پرایک سخت ہیجان انگیز ماحول پوری طرح چھا گیا ہو، جن کے خون کو عریاں تصویریں، فحش لٹریچر، ولولہ انگیز گانے، برانگیختہ کرنے والے ناچ، عشق و محبت کی فلمیں،دل چھیننے والے زندہ مناظر اور صنفِ مقابل سے ہر وقت کی مڈبھیڑ کے مواقع پیہم ایک جوش کی حالت میں رکھتے ہوں، وہ کہاں سے وہ امن، وہ سکون اور وہ اطمینان لا سکتے ہیں جو تعمیری اور تخلیقی کاموں کے لیے ضروری ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایسے ہیجانات کے درمیان انھیں، اور خصوصًا ان کی جوان نسلوں کو وہ ٹھنڈی اور پُرسکون فضا میسر ہی کہاں آ سکتی ہے جو ان کی ذہنی اور اخلاقی قوتوں کی نشوونما کے لیے ناگزیر ہے۔
ہوش سنبھالتے ہی تو بہیمی خواہشات کا دیو انھیں دبوچ لیتا ہے۔ اس کے چنگل میں پھنس کر وہ پنپ کیسے سکتے ہیں؟
۶۔ فکر ِ انسانی کی اَلم ناک نارسائی
تین ہزار سال کے تاریخی نشیب و فراز کی یہ مسلسل داستان ایک بڑے خطہ زمین سے تعلق رکھتی ہے جو پہلے بھی دو عظیم الشان تہذیبوں کا گہوارہ رہ چکا ہے، اور اب پھر جس کی تہذیب کا ڈنکا دنیا میں بج رہا ہے۔ ایسی ہی داستان مصر، بابل، ایران اور دوسرے ممالک کی بھی ہے اور خود ہمارا ملک ہندسان{ FR 6789 } بھی صدیوں سے افراط و تفریط میں گرفتار ہے۔ ایک طرف عورت داسی بنائی جاتی ہے۔ مرد اس کا سوامی اور پتی دیو، یعنی مالک اور معبود بنتا ہے۔ اسے بچپن میں باپ کی، جوانی میں شوہر کی اور بیوگی میں اولاد کی مملوکہ بن کر رہنا پڑتا ہے۔ اسے شوہر کی چتا پر بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ اسے ملکیت اور وراثت کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اس پر نکاح کے انتہائی سخت قوانین مسلط کیے جاتے ہیں جن کے مطابق وہ اپنی رضا اور پسند کے بغیر ایک مرد کے حوالہ کی جاتی ہے اورپھر زندگی کے آخری سانس تک اس کی ملکیت سے کسی حال میں نہیں نکل سکتی۔ اسے یہودیوں اور یونانیوں کی طرح گناہ اور اخلاقی و روحانی پستی کا مجسمہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی مستقل شخصیت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف جب اس پر مہر کی نگاہ ہوتی ہے تو اسے بہیمی خواہشات کا کھلونا بنا لیا جاتا ہے۔ وہ مرد کے اعصاب پر سوار ہو جاتی ہے اورایسی سوار ہوتی ہے کہ خود بھی ڈوبتی ہے اور اپنے ساتھ ساری قوم کو بھی لے ڈوبتی ہے۔ یہ لنگ اور یونی کی پوجا، یہ عبادت گاہوں میں برہنہ اور جوڑواں مجسمے، یہ دیو داسیاں (religious prostitutes) یہ ہولی کے کھیل اور یہ دریائوں کے نیم عریاں اشنان آخر کس چیز کی یاد گاریں ہیں؟ اس بام مارگی تحریک کی باقیات غیر صالحات ہی تو ہیں جو ایران، بابل، یونان اور روم کی طرح ہندوستان میں بھی تہذیب و تمدن کی انتہائی ترقی کے بعد وبا کی طرح پھیلی اور ہندو قوم کو صدیوں کے لیے تنزل اور انحطاط کے گڑھے میں پھینک گئی۔
اس داستان کو غائر نگاہ سے دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ عورت کے معاملہ میں نقطۂ عدل کو پانا، اسے سمجھنا اور اس پر قائم ہونا، انسان کے لیے کس قدر دشوار ثابت ہوا ہے۔ نقطہ عدل یہی ہو سکتا ہے کہ ایک طرف عورت کو اپنی شخصیت اور اپنی قابلیتوں کی نشوونما کا پورا موقع ملے، اور اسے اس قابل بنایا جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ترقی یافتہ صلاحیتوں کے ساتھ انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقا میں اپنا حصہ ادا کر سکے۔ مگردوسری طرف اسے اخلاقی تنزل و انحطاط کا ذریعہ اورانسانی تباہی کا آلہ نہ بننے دیا جائے، بلکہ مرد کے ساتھ اس کے تعاون کی ایسی سبیل مقررکر دی جائے کہ دونوں کا اشتراکِ عمل ہر حیثیت سے تمدن کے لیے صحت بخش ہو۔ اس نقطہ عدل کو دنیا صدہا برس سے تلاش کرتی رہی ہے مگر آج تک نہیں پا سکی۔ کبھی ایک انتہا کی طرف جاتی ہے اور انسانیت کے پورے نصف حصہ کو بے کار بنا کر رکھ دیتی ہے۔ کبھی دوسری انتہا کی طرف جاتی ہے اورانسانیت کے دونوں حصوں کو ملا کر غرق مئے ناب کر دیتی ہے۔
نقطۂ عدل ناپید نہیں، موجود ہے۔ مگر ہزاروں سال افرا و تفریط کے درمیان گردش کرتے رہنے کی وجہ سے لوگوں کا سرکچھ اتنا چکرا گیا ہے کہ وہ سامنے آتا ہے اور یہ پہچان نہیں سکتے کہ یہی تو وہ مطلوب ہے جسے ہماری فطرت ڈھونڈ رہی تھی۔ اس مطلوبِ حقیقی کو دیکھ کر وہ ناک بھوں چڑھاتے ہیں، اس پر آوازے کستے ہیں، اور جس کے پاس وہ نظر آتا ہے الٹا اسی کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی مثال اس بچے کی سی ہے، جو ایک کوئلے کی کان میں پیدا ہوا ہو اور وہیں جوانی کی عمر تک پہنچے۔ ظاہر ہے کہ اسے وہی کوئلے کی ماری ہوئی آب و ہوا اور وہی کالی کالی فضا عین فطری چیز معلوم ہو گی اور جب وہ اس کان سے نکال کر باہر لایا جائے گا توعالم فطرت کی پاکیزہ فضا میں ہر شے کو دیکھ دیکھ کر اول اول ضرور اپرائے گا۔ مگر انسان آخر انسان ہے۔ اس کی آنکھیں کوئلے کی چھت اور تاروں بھرے آسمان کا فرق محسوس کرنے سے کب تک انکار کر سکتی ہیں؟ اس کے پھیپھڑے گندی ہوا اور صاف ہوا میں آخر کب تک تمیز نہ کریں گے۔
٭…٭…٭…٭…٭

۳ ۔دَورِ جدید کا مسلمان

اِفراط و تفریط کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے والی دنیا کو اگر عدل کا راستہ دکھانے والا کوئی ہو سکتا تھا تو وہ صرف مسلمان تھا جس کے پاس اجتماعی زندگی کی ساری گتھیوں کے صحیح حل موجود ہیں مگر دنیا کی بد نصیبی کا یہ بھی ایک عجیب دردناک پہلو ہے کہ اس اندھیرے میں جس کے پاس چراغ تھا وہی کم بخت رتوند کے مرض میں مبتلا ہو گیا، دوسروں کوراستہ دکھانا تو درکنار خود اندھوں کی طرح بھٹک رہا ہے اور ایک ایک بھٹکنے والے کے پیچھے دوڑتا پھرتا ہے۔
’’پردے‘‘ کا لفظ جن احکام کے مجموعہ پر بطورِ عنوان استعمال کیا جاتا ہے وہ دراصل اسلامی ضابطہ معاشرت کے نہایت اہم اجزا پر مشتمل ہیں۔ اس پورے ضابطے کے سانچے میں ان احکام کو ان کے صحیح مقام پر رکھ کر دیکھا جائے تو کوئی ایسا شخص جس میں بقدرِ رمق بھی فطری بصیرت باقی ہو، یہ اعتراف کیے بغیر نہ رہے گا کہ معاشرت میں اس کے سوا اعتدال و توسط کی کوئی دوسری صورت نہیں ہو سکتی اور اگر اس ضابطہ کو ا س کی اصل روح کے ساتھ عملی زندگی میں برت کر دکھا دیا جائے تو اس پر اعتراض کرنا تو درکنار، مصائب کی ماری ہوئی دنیا سلامتی کے اس سرچشمہ کی طرف خود دوڑی چلی آئے گی اور اس سے اپنے امراضِ معاشرت کی دوا حاصل کرے گی مگر یہ کام کرے کون؟ جو اسے کر سکتا تھا وہ خود ایک مدت سے بیمار پڑا ہے۔ آئیے، آگے بڑھنے سے پہلے ایک نظر اس کے مرض کا بھی جائزہ لے لیں۔
۱۔ تاریخی پس منظر
اٹھارہویں صدی کا آخری اور انیسویں صدی کا ابتدائی زمانہ تھا۔ جب مغربی قوموں کی ملک گیری کا سیلاب ایک طوفان کی طرح اسلامی ممالک پر امنڈ آیا اور مسلمان ابھی نیم خفتہ و نیم بیدار ہی تھے کہ دیکھتے دیکھتے یہ طوفان مشرق سے لے کر مغرب تک تمام دنیائے اسلام پرچھا گیا۔ انیسویں صدی کے نصف آخر تک پہنچتے پہنچتے بیش تر مسلمان قومیں یورپ کی غلام ہوچکی تھیں اور جو غلام نہ ہوئی تھیں وہ بھی مغلوب و مرعوب ضرور ہو گئی تھیں۔ جب اس انقلاب کی تکمیل ہو چکی تو مسلمانوں کی آنکھیں کھلنا شروع ہوئیں۔ وہ قومی غرور جو صدہا برس تک جہاں بانی و کشور کشائی کے میدان میں سربلند رہنے کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھا، دفعۃً خاک میں مل گیا، اور اس شرابی کی طرح جس کا نشہ کسی طاقت وَر دشمن کی پیہم ضربات نے اتار دیا ہو، انھوں نے اپنی شکست اور فرنگیوں کی فتح کے اسباب پر غور کرنا شروع کیا۔ لیکن ابھی دماغ درست نہیں ہوا تھا۔ نشہ اتر گیا تھا، مگر توازن ابھی تک بگڑا ہوا تھا۔ ایک طرف ذلت کا شدید احساس تھا جو اس حالت کو بدل دینے پراصرار کر رہا تھا۔ دوسری طرف صدیوں کی آرام طلبی اور سہولت پسندی تھی جو تبدیل حال کا سب سے آسان اور سب سے قریب کا راستہ ڈھونڈنا چاہتی تھی۔ تیسری طرف سمجھ بوجھ اور غور و فکر کی زنگ خوردہ قوتیں تھیں جن سے کام لینے کی عادت سال ہا سال سے چھوٹی ہوئی تھی۔ ان سب پرمزید وہ مرعوبیت اور دہشت زدگی تھی جو ہر شکست خوردہ غلام قوم میں فطرتًا پیدا ہو جاتی ہے۔ ان مختلف اسباب نے مل جل کر اصلاح پسند مسلمانوں کو بہت سی عقلی اور عملی گم راہیوں میں مبتلا کر دیا۔ ان میں سے اکثر تو اپنی پستی اور یورپ کی ترقی کے حقیقی اسباب سمجھ ہی نہ سکے اور جنھوں نے انھیں سمجھا، ان میں بھی اتنی ہمت، جفاکشی اور مجاہدانہ اسپرٹ نہ تھی کہ ترقی کے دشوار گزار راستوں کو اختیار کرتے۔ مرعوبیت اس پرمستزاد تھی جس میں دونوں گروہ برابر کے شریک تھے۔ اس بگڑی ہوئی ذہنیت کے ساتھ ترقی کا سہل ترین راستہ جو انھیں نظر آیا وہ یہ تھا کہ مغربی تہذیب و تمدن کے مظاہر کا عکس اپنی زندگی میں اُتار لیں اور اس آئینہ کی طرح بن جائیں جس کے اندر باغ و بہار کے مناظر تو سب کے سب موجود ہوں گے مگر درحقیقت نہ باغ ہو نہ بہار۔
۲۔ ذہنی غلامی
یہی بحرانی کیفیت کا زمانہ تھا جس میں مغربی لباس، مغربی معاشرت، مغربی آداب و اطوار حتّٰی کہ چال ڈھال اور بول چال تک میں مغربی طریقوں کی نقل اُتاری گئی۔ مسلم سوسائٹی کو مغربی سانچوں میں ڈھالنے کی کوششیں کی گئیں۔ الحاد، دہریت اورمادّہ پرستی کو فیشن کے طور پر بغیر سمجھے بوجھے قبول کیا گیا۔ ہر وہ پختہ یا خام تخیل جو مغرب سے آیا، اس پر ایمان بالغیب لانا اور اپنی مجلسوں میں اسے معرض بحث بنانا روشن خیالی کا لازمہ سمجھا گیا۔ شراب، جوا، لاٹری، ریس، تھیٹر، رقص و سرود اور مغربی تہذیب کے دوسرے ثمرات کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ شائستگی، اخلاق، معاشرت، معیشت، سیاست، قانون، حتّٰی کہ مذہبی عقائد اور عبادات کے متعلق بھی جتنے مغربی نظریات یا عملیات تھے انھیں کسی تنقید اور کسی فہم و تدبر کے بغیر اس طرح تسلیم کر لیا گیا کہ گویا وہ آسمان سے اُتری ہوئی وحی ہیں جس پر سمعنا واطعنا کہنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ اسلامی تاریخ کے واقعات، اسلامی شریعت کے احکام اور قرآن و حدیث کے بیانات میں سے جس جس چیز کو اسلام کے پُرانے دشمنوں نے نفرت یا اعتراض کی نگاہ سے دیکھا اس پر مسلمانوں کو بھی شرم آنے لگی اور انھوں نے کوشش کی کہ اس داغ کو کسی طرح دھو ڈالیں۔ انھوں نے جہاد پر اعتراض کیا۔ انھوں نے عرض کیا کہ حضور بھلا ہم کہاں اور جہاد کہاں؟ انھوں نے غلامی پر اعتراض کیا۔ انھوں نے عرض کیا کہ غلامی تو ہمارے ہاں بالکل ہی ناجائز ہے۔ انھوں نے تعدد ازدواج پر اعتراض کیا۔ انھوں نے فورًا قرآن کی ایک آیت پر خطِ نسخ پھیر ڈالا۔ انھوں نے کہا کہ عورت اور مرد میں کامل مساوات ہونی چاہیے، انھوں نے عرض کیا کہ یہی ہمارا مذہب بھی ہے۔ انھوں نے قوانین نکاح و طلاق پر اعتراضات کیے۔ یہ ان سب میں ترمیم کرنے پر تل گئے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام آرٹ کا دشمن ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام تو ہمیشہ سے ناچ گانے اور مصوری و بت تراشی کی سرپرستی کرتا رہا ہے۔
۳۔ مسئلۂ حجاب کی ابتدا
مسلمانوں کی تاریخ کا یہ دور سب سے زیادہ شرم ناک ہے، اور یہی دَور ہے جس میں پردے کے سوال پر بحث چھڑی۔ اگر سوال محض اس قدر ہوتا کہ اسلام میں عورت کے لیے آزادی کی کیا حد مقرر کی گئی ہے تو جواب کچھ بھی مشکل نہ ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ جواختلاف اس باب میں پایا جاتا ہے وہ محض اس حد تک ہے کہ چہرہ اور ہاتھ کو کھولنا جائز ہے یا نہیں؟ اور یہ کوئی اہم اختلاف نہیں ہے لیکن دراصل یہاں معاملہ کچھ اور ہے۔ مسلمانوں میں یہ مسئلہ اس لیے پیدا ہوا کہ یورپ نے ’’حرم‘‘ اور پردہ و نقاب کو نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھا، اپنے لٹریچر میں اس کی نہایت گھنائونی اور مضحکہ انگیز تصویریں کھینچیں، اسلام کے عیوب کی فہرست میںعورتوں کی ’’قید‘‘ کو نمایاں جگہ دی۔ اب کیوں کر ممکن تھا کہ مسلمانوں کو حسبِ دستور اس چیز پر بھی شرم نہ آنے لگتی۔ انھوں نے جو کچھ جہاد، غلامی اور تعددِ ازدواج اور ایسے ہی دوسرے مسائل میں کیا تھا وہی اس مسئلہ میں بھی کیا۔ قرآن، حدیث اور اجتہاداتِ ائمہ کی ورق گردانی محض اس غرض سے کی گئی کہ وہاں اس ’’بدنما داغ‘‘ کو دھونے کے لیے کچھ سامان ملتا ہے یا نہیں۔ معلوم ہوا کہ بعض ائمہ نے ہاتھ اور منہ کھولنے کی اجازت دی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت اپنی ضروریات کے لیے گھر سے باہر بھی نکل سکتی ہے۔ یہ بھی پتا چلا کہ عورت میدانِ جنگ میں سپاہیوں کو پانی پلانے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے کے لیے بھی جا سکتی ہے۔ مسجدوں میں نماز کے لیے جانے، علم سیکھنے اوردرس دینے کی بھی گنجائش پائی گئی۔ بس اتنا مواد کافی تھا۔ دعوٰی کر دیا گیا کہ اسلام نے عورت کو پوری آزادی عطا کی ہے۔ پردہ محض ایک جاہلانہ رسم ہے جسے تنگ نظر اور تاریک خیال مسلمانوں نے قرونِ اولیٰ کے بہت بعد اختیار کیا ہے۔ قرآن اور حدیث پردہ کے احکام سے خالی ہیں، ان میں تو صرف شرم و حیا کی اَخلاقی تعلیم دی گئی ہے، کوئی ایسا ضابطہ نہیں بنایا گیا جو عورت کی نقل و حرکت پر کوئی قید عائد کرتا ہو۔
۴۔ اصلی محرکات
انسان کی یہ فطری کم زوری ہے کہ اپنی زندگی کے معاملات میں جب وہ کوئی مسلک اختیار کرتا ہے تو عمومًا اس کے انتخاب کی ابتدا ایک جذباتی غیر عقلی رجحان سے ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ اپنے اس رجحان کو معقول ثابت کرنے کے لیے عقل و استدلال سے مدد لیتا ہے۔ پردے کی بحث میں بھی ایسی ہی صورت پیش آئی۔ اس کی ابتدا کسی عقلی یا شرعی ضرورت کے احساس سے نہیں ہوئی بلکہ دراصل اس رجحان سے ہوئی جو ایک غالب قوم کے خوش نما تمدن سے متاثر ہونے اور اسلامی تمدن کے خلاف اس قوم کے پروپیگنڈا سے مرعوب ہو جانے کا نتیجہ تھا۔
ہمارے اصلاح طلب حضرات نے جب دہشت سے پھٹی ہوئی آنکھوں کے ساتھ فرنگی عورتوں کی زینت و آرائش اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت، اور فرنگی معاشرت میں ان کی سرگرمیوں کو دیکھا تو اضطراری طور پر ان کے دلوں میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش! ہماری عورتیں بھی اس روش پر چلیں تاکہ ہمارا تمدن بھی فرنگی تمدن کا ہم سر ہو جائے۔ پھر وہ آزادیٔ نسواں، اور تعلیمِ اناث، اور مساواتِ مرد و زن کے ان جدید نظریات سے بھی متاثر ہوئے جو طاقت وَر استدلالی زبان اور شان دار طباعت کے ساتھ بارش کی طرح مسلسل ان پر برس رہے تھے۔ اس لٹریچر کی زبردست طاقت نے ان کی قوتِ تنقید کو ماؤف کر دیا اور ان کے وجدان میں یہ بات اُتر گئی کہ ان نظریات پر ایمان بالغیب لانا اور تحریر و تقریر میں ان کی وکالت کرنا اور (بقدرِ جرات و ہمت) عملی زندگی میں بھی انھیں رائج کر دینا ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو ’’روشن خیال‘‘ کہلانا پسند کرتا ہو اور ’’دقیانوسیت‘‘ کے بدترین الزام سے بچنا چاہتا ہو۔ نقاب کے ساتھ سادہ لباس میں چھپی ہوئی عورتوں پر جب ’’متحرک خیمے اور کفن پوش جنازہ‘‘ کی پھبتیاں کسی جاتی تھیں تو یہ بے چارے شرم کے مارے زمین میں گڑ گڑ جاتے تھے۔ آخر کہاں تک ضبط کرتے؟ مجبور ہوکر یا مسحور ہو کر، بہرحال اس شرم کے دھبے کو دھونے پر آمادہ ہو ہی گئے۔
انیسویں صدی کے آخری زمانے میں آزادیٔ نسواں کی جو تحریک مسلمانوں میں پیدا ہوئی اس کے اصلی محرک یہی جذبات و رجحانات تھے۔ بعض لوگوں کے شعورِ خفی میں یہ جذبات چھپے ہوئے تھے اور انھیں خود بھی معلوم نہ تھا کہ دراصل کیا چیز انھیں اس تحریک کی طرف لے جا رہی ہے۔ یہ لوگ خود اپنے نفس کے دھوکے میں مبتلا تھے۔ اور بعض کو خود اپنے ان جذبات کا بخوبی احساس تھا، مگر انھیں اپنے اصلی جذبات کو ظاہر کرتے شرم آتی تھی۔ یہ خود تو دھوکے میں نہ تھے لیکن انھوں نے دنیا کو دھوکے میں ڈالنے کی کوشش کی۔ بہرحال دونوں گروہوں نے کام ایک ہی کیا اور وہ یہ تھا کہ اپنی تحریک کے اصل محرکات کو چھپا کر ایک جذباتی تحریک کی بجائے ایک عقلی تحریک بنانے کی کوشش کی۔ عورتوں کی صحت، ان کے عقلی و عملی ارتقا، ان کے فطری اور پیدائشی حقوق، ان کے معاشی استقلال، مردوں کے ظلم و استبداد سے ان کی رہائی، اور قوم کا نصف حصہ ہونے کی حیثیت سے ان کی ترقی پر پورے تمدن کی ترقی کا انحصار، اور ایسے ہی دوسرے حیلے جو براہِ راست یورپ سے برآمد ہوئے تھے، اس تحریک کی تائید میں پیش کیے گئے، تاکہ عام مسلمان دھوکے میں مبتلا ہو جائیں اور ان پر یہ حقیقت نہ کھل سکے کہ اس تحریک کا اصل مقصد مسلمان عورت کو اس روش پر چلانا ہے جس پر یورپ کی عورت چل رہی ہے اور نظامِ معاشرت میں ان طریقوں کی پیروی کرنا ہے جو اس وقت فرنگی قوموں میں رائج ہیں۔
۵۔ سب سے بڑا فریب
سب سے زیادہ شدید اور قبیح فریب جو اس سلسلہ میں دیا گیا وہ یہ ہے کہ قرآن اور حدیث سے استدلال کرکے اس تحریک کو اسلام کے موافق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، حالانکہ اسلام اور مغربی تہذیب کے مقاصد اور تنظیم معاشرت کے اصولوں میں زمین و آسمان کا بُعد ہے۔ اسلام کا اصل مقصد جیسا کہ ہم آگے چل کر بتائیں گے، انسان کی شہوانی قوت (sex energy) کو اخلاقی ڈسپلن میں لا کر اس طرح منضبط کرنا ہے کہ وہ آوارگی عمل اور ہیجانی جذبات میں ضائع ہونے کی بجائے ایک پاکیزہ اور صالح تمدن کی تعمیر میں صرف ہو۔ برعکس اس کے مغربی تمدن کا مقصد یہ ہے کہ زندگی کے معاملات اور ذمہ داریوں میں عورت اور مرد کو یکساں شریک کرکے مادی ترقی کی رفتار تیز کر دی جائے، اور اس کے ساتھ شہوانی جذبات کو ایسے فنون اور مشاغل میں استعمال کیا جائے جو کش مکش حیات کی تلخیوں کو لطف اور لذت میں تبدیل کر دیں۔ مقاصد کے اس اختلاف کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تنظیم معاشرت کے طریقوں میں بھی اسلام اور مغربی تمدن کے درمیان اصولی اختلاف ہو۔ اسلام اپنے مقصد کے لحاظ سے معاشرت کا ایسا نظام وضع کرتا ہے جس میں عورت اور مرد کے دوائر عمل بڑی حد تک الگ کر دیے گئے ہیں، دونوں صنفوں کے آزادانہ اختلاط کو روکا گیا ہے اور ان تمام اسباب کا قلع قمع کیا گیا ہے جو اس نظم و ضبط میں برہمی پیدا کرتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں مغربی تمدن کے پیشِ نظر جو مقصد ہے اس کا طبعی اقتضا یہ ہے کہ دونوں صنفوں کو زندگی کے ایک ہی میدان میں کھینچ لایا جائے، اور ان کے درمیان وہ تمام حجابات اٹھا دیے جائیں جو ان کے آزادانہ اختلاط اور معاملات میں مانع ہوں، اور انھیں ایک دوسرے کے حسن اور صنفی کمالات سے لطف اندوز ہونے کے غیر محدود مواقع بہم پہنچائے جائیں۔
اب ہر صاحبِ عقل انسان اندازہ کر سکتا ہے کہ جو لوگ ایک طرف مغربی تمدن کی پیروی کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف اسلامی نظمِ معاشرت کے قوانین کو اپنے لیے حجت بناتے ہیں وہ کس قدر سخت فریب میں خود مبتلا ہیں یا دوسروں کو مبتلا کر رہے ہیں۔ اسلامی نظم معاشرت میں تو عورت کے لیے آزادی کی آخری حد یہ ہے کہ حسبِ ضرورت ہاتھ اور منہ کھول سکے اور اپنی حاجات کے لیے گھر سے باہرنکل سکے۔ مگر یہ لوگ آخری حد تک کو اپنے سفر کا نقطہ آغاز بناتے ہیں۔ جہاں پہنچ کر اسلام رُک جاتا ہے وہاں سے یہ چلنا شروع کرتے ہیں اور یہاں تک بڑھ جاتے ہیں کہ حیا اور شرم بالائے طاق رکھ دی جاتی ہے۔ ہاتھ اور منہ ہی نہیں بلکہ خوب صورت مانگ نکلے ہوئے سر اور شانوں تک کھلی ہوئی بانہیں اور نیم عریاں سینے بھی نگاہوں کے سامنے پیش کر دیے جاتے ہیں، اور جسم کے باقی ماندہ محاسن کو بھی ایسے باریک کپڑوں میں ملفوف کیا جاتا ہے کہ وہ چیز ان میں سے نظر آ سکے جو مردوں کی شہوانی پیاس کو تسکین دے سکتی ہو۔ پھر ان لباسوں اور آرائشوں کے ساتھ محرموں کے سامنے نہیں بلکہ دوستوں کی محفلوں میں بیویوں، بہنوں، اور بیٹیوں کو لایا جاتا ہے اور انھیں غیروں کے ساتھ ہنسنے، بولنے اور کھیلنے میں وہ آزادی بخشی جاتی ہے جو مسلمان عورت اپنے سگے بھائی کے ساتھ بھی نہیں برت سکتی۔ گھر سے نکلنے کی جو اجازت محض ضرورت کی قید اور کامل سترپوشی و حیاداری کی شرط کے ساتھ دی گئی تھی، اسے جاذبِ نظر ساڑیوں، نیم عریاں بلائوزروں اور بے باک نگاہوں کے ساتھ سڑکوں پر پھرنے، پارکوں میں ٹہلنے، ہوٹلوں کے چکر لگانے اور سینمائوں کی سیر کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عورتوں کو خانہ داری کے ماسوا دوسرے اُمور میں حصہ لینے کی جومقید اور مشروط آزادی اسلام میں دی گئی تھی اسے حجت بنایا جاتا ہے اس غرض کے لیے کہ مسلمان عورتیں بھی فرنگی عورتوں کی طرح گھر کی زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کو طلاق دے کر سیاسی و معاشی اور عمرانی سرگرمیوں میں ماری ماری پھریں اور عمل کے ہر میدان میں مردوں کے ساتھ دوڑ دھوپ کریں۔
ہندوستان میں تو معاملہ یہیں تک ہے۔ مصر، ترکی اور ایران میں سیاسی آزادی رکھنے والے ذہنی غلام اس سے بھی دس قدم آگے نکل گئے ہیں۔ وہاں ’’مسلمان‘‘ عورتیں ٹھیک وہی لباس پہننے لگی ہیں جو یورپین عورت پہنتی ہے تاکہ اصل اور نقل میں کوئی فرق ہی نہ رہے اور اس سے بھی بڑھ کر کمال یہ ہے کہ ترکی خواتین کے فوٹو بارہا اس ہیئت میں دیکھے گئے ہیں کہ غسل کا لباس پہنے سمندر کے ساحل پر نہا رہی ہیں۔ وہی لباس جس میں تین چوتھائی جسم برہنہ رہتا ہے اور ایک چوتھائی حصہ اس طرح پوشیدہ ہوتا ہے کہ جسم کے سارے نشیب و فراز سطحِ لباس پر نمایاں ہو جاتے ہیں۔
کیا قرآن اور کسی حدیث سے اس شرم ناک طرزِ زندگی کے لیے بھی کوئی جواز کا پہلو نکالا جا سکتا ہے؟ جب تمھیں اس راہ پر جانا ہے تو صاف اعلان کرکے جائو کہ ہم اسلام سے اور اس کے قانون سے بغاوت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کیسی ذلیل منافقت اور بد دیانتی ہے کہ جس نظامِ معاشرت اور طرزِ زندگی کے اصول، مقاصد اور عملی اجزا میں سے ایک ایک چیز کو قرآن حرام کہتا ہے اسے علی الاعلان اختیارکرتے ہو، مگر اس راستہ پر پہلا قدم قرآن ہی کا نام لے کر رکھتے ہو تاکہ دنیا اس فریب میں مبتلا رہے کہ باقی قدم بھی قرآن ہی کے مطابق ہوں گے۔
۶۔ ہمارا پیشِ نظر کام
یہ دَورِ جدید کے ’’مسلمان‘‘ کا حال ہے۔ اب ہمارے سامنے بحث کے دو پہلو ہیں، اور اس کتاب میں انھی دونوں پہلوئوں کو ملحوظ رکھا جائے گا۔
اولاً ہمیں تمام انسانوں کے سامنے، خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، اسلام کے نظامِ معاشرت کی تشریح کرنی ہے اور یہ بتانا ہے کہ اس نظام میں پردے کے احکام کس لیے دیے گئے ہیں۔
ثانیاً ہمیں ان دَورِ جدید کے ’’مسلمانوں‘‘ کے سامنے قرآن و حدیث کے احکام اور مغربی تمدن و معاشرت کے نظریات و نتائج، دونوں ایک دوسرے کے بالمقابل رکھ دینا ہیں تاکہ یہ منافقانہ روش، جو انھوں نے اختیار کر رکھی ہے، ختم ہو اور یہ شریف انسانوں کی طرح دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت اختیار کر لیں۔ یا تو اسلامی احکام کی پیروی کریں۔ اگر مسلمان رہنا چاہتے ہیں۔ یا اسلام سے قطع تعلق کر لیں۔ اگر ان شرم ناک نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں جن کی طرف مغربی نظامِ معاشرت لامحالہ انھیں لے جانے والا ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭

 

۴۔ نظریات

پردے کی مخالفت جن وجوہ سے کی جاتی ہے وہ محض سلبی نوعیت ہی کے نہیں ہیں بلکہ دراصل ایک ثبوتی و ایجابی بنیاد پر قائم ہیں۔ ان کی بنا صرف یہی نہیں ہے کہ لوگ عورت کے گھر میں رہنے اور نقاب کے ساتھ باہر نکلنے کوناروا قید سمجھتے ہیں اور بس اسے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ان کے پیشِ نظر عورت کے لیے زندگی کا دوسرا نقشہ ہے۔ تعلقاتِ مرد و زن کے بارے میں وہ اپنا ایک مستقل نظریہ رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ عورتیں یہ نہ کریں بلکہ کچھ اور کریں اور پردے پر ان کا اعتراض اس وجہ سے ہے کہ عورت اپنی اس خانہ نشینی اور روپوشی کے ساتھ نہ تو زندگی کا وہ نقشہ جما سکتی ہے، نہ وہ ’’کچھ اور‘‘ کر سکتی ہے۔
اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ ’’کچھ اور‘‘ کیا ہے اس کی تہ میں کون سے نظریات اور کون سے اُصول ہیں، وہ بجائے خود کہاں تک درست اورمعقول ہے، اورعملًا اس سے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ اگر ان کے نظریات اوراُصولوں کو جوں کا توں تسلیم کر لیا جائے تب تو پردہ، اور وہ نظامِ معاشرت جس کا جزو یہ پردہ ہے، واقعی سراسر غلط قرار پائے گا۔ مگر ہم بغیر کسی تنقید اور بغیر کسی عقلی اور تجربی امتحان کے آخر کیوں ان کے نظریات تسلیم کر لیں؟ کیا محض جدید ہونا، یا محض یہ واقعہ کہ ایک چیز دنیا میں زور شور سے چل رہی ہے، اس بات کے لیے بالکل کافی ہے کہ آدمی کسی جانچ پڑتال کے بغیر اس کے آگے سپر ڈال ہی دے؟
۱۔ اٹھارہویں صدی کا تصورِ آزادی
جیسا کہ اس سے پہلے اشارہ کر چکا ہوں، اٹھارہویں صدی میں جن فلاسفہ اورعلمائے طبیعین اور اہلِ ادب نے اصلاح کی آواز بلند کی تھی انھیں دراصل ایک ایسے نظامِ تمدن سے سابقہ درپیش تھا جس میں طرح طرح کی جکڑ بندیاں تھیں، جو کسی پہلو سے لوچ اور لچک نام کو نہ رکھتا تھا جو غیر معقول رواجوں، جامد قاعدوں اور عقل و فطرت کے خلاف صریح تناقضات سے لبریز تھا۔ صدیوں کے مسلسل انحطاط نے اسے ترقی کے ہر راستہ میں سنگِ گراں بنا دیا تھا۔ ایک طرف نئی عقلی و علمی بیداری طبقہ متوسط (بورثوا طبقے) میں ابھرنے اور ذاتی جدوجہد سے آگے بڑھنے کا پرجوش جذبہ پیدا کر رہی تھی اور دوسری طرف اُمرا اور پیشوایانِ مذہب کا طبقہ ان کے اوپر بیٹھا ہوا روایتی قیود کی گرہیں مضبوط کرنے میں لگا ہوا تھا۔ چرچ سے لے کر فوج اور عدالت کے محکموں تک شاہی محلوں سے لے کر کھیتوں اورمالی لین دین کی کوٹھیوں تک، زندگی کا ہر شعبہ، اور اجتماعی تنظیمات کا ہرادارہ اس طرح کام کر رہا تھا کہ محض پہلے سے قائم شدہ حقوق کے زور پر چند مخصوص طبقے ان نئے ابھرنے والے لوگوں کی محنتوں اور قابلیتوں کے ثمرات چھین لے جاتے تھے جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ہر وہ کوشش جو اس صورتِ حال کی اصلاح کے لیے کی جاتی تھی، برسرِ اقتدار طبقوں کی خود غرضی و جہالت کے مقابلہ میں ناکام ہو جاتی تھی۔ ان وجوہ سے اصلاح و تغیر کا مطالبہ کرنے والوں میں روز بروز اندھا انقلابی جوش پیدا ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ بالآخر اس پورے اجتماعی نظام اور اس کے ہر شعبے اور ہر جزو کے خلاف بغاوت کا جذبہ پھیل گیا اور شخصی آزادی کا ایک ایسا انتہا پسندانہ نظریہ مقبولِ عام ہوا جس کا مقصد سوسائٹی کے مقابلہ میں فرد کو حریتِ تامہ اور اِباحتِ مطلقہ عطا کر دینا تھا۔ کہا جانے لگا کہ فرد کو پوری خود مختاری کے ساتھ اپنی مرضی کے مطابق ہر وہ کام کرنے کا حق ہونا چاہیے جو اسے پسند آئے، اور ہر اس کام سے باز رہنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے جو اسے پسند نہ آئے۔ سوسائٹی کو اس کی انفرادی آزادی چھین لینے کا کوئی حق نہیںحکومت کا فرض صرف یہ ہے کہ افراد کی اس آزادیٔ عمل کو محفوظ رکھے، اور اجتماعی ادارات صرف اس لیے ہونے چاہییں کہ مرد کو اس کے مقاصد حاصل کرنے میں مدد دیں۔
آزادی کا یہ مبالغہ آمیز تصور، جودراصل ایک ظالمانہ اجتماعی نظام کے خلاف غصے کا نتیجہ تھا، اپنے اندر ایک بڑے اور عظیم تر فساد کے جراثیم رکھتا تھا۔ جن لوگوں نے اسے ابتدائً پیش کیا وہ خود بھی پوری طرح اس کے منطقی نتائج سے آگاہ نہ تھے۔ شاید ان کی رُوح کانپ اٹھتی اگر ان کے سامنے وہ نتائج متمثل ہو کر آ جاتے جن پرایسی بے قیدِ اباحت اور ایسی خود سرانہ انفرادیت لازمًا منتہی ہونے والی تھی۔ انھوں نے زیادہ تر ان ناروا سختیوں اور غیر معقول بندشوں کو توڑنے کے لیے اسے بطور ایک آلہ کے استعمال کرنا چاہا تھا جو ان کے زمانہ کی سوسائٹی میں پائی جاتی تھی۔ لیکن بالآخر اس تصور نے مغربی ذہن میں جڑ پکڑ لی اور نشوونما پانا شروع کر دی۔
۲۔انیسویں صدی کے تغیرات
فرانس کا انقلاب اسی تصورِ آزادی کے زیر اثر رونما ہوا۔ اس انقلاب میں بہت سے پرانے اخلاقی نظریات{ FR 6791 } اور تمدنی و مذہبی ضابطوں کی دھجیاں اُڑا دی گئیں اور جب ان کا اڑنا ترقی کا ذریعہ ثابت ہوا تو انقلاب پسند دماغوں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہر وہ نظریہ اور ہر وہ ضابطہ عمل جو پہلے سے چلا آ رہا ہے، ترقی کی راہ کا روڑا ہے، اسے ہٹائے بغیر قدم آگے نہیں بڑھ سکتا۔ چنانچہ مسیحی اخلاقیات کے غلط اصولوں کو توڑنے کے بعد بہت جلدی ان کی مقراضِ تنقید انسانی اخلاقیات کے اساسی تصورات کی طرف متوجہ ہو گئی۔ یہ عصمت کیا بلا ہے؟ یہ جوانی پر تقوٰی کی مصیبت آخر کیوں ڈالی گئی ہے؟ نکاح کے بغیراگر کوئی کسی سے محبت کرلے تو کیا بگڑ جاتا ہے؟ اور نکاح کے بعد کیا دل آدمی کے سینے سے نکل جاتا ہے کہ اس سے محبت کرنے کا حق چھین لیا جائے؟ اس قسم کے سوالات نئی انقلابی سوسائٹی میں ہر طرف سے اُٹھنے لگے اور خصوصیت کے ساتھ افسانوی گروہ (romantic school) نے انھیں سب سے زیادہ زور کے ساتھ اُٹھایا۔ انیسویں صدی کے آغاز میں ژور ژساں (George Sand) اس گروہ کی لیڈر تھی۔ اس عورت نے خود ان تمام اخلاقی اصولوں کو توڑا جن پر ہمیشہ سے انسانی شرافت اور خصوصًا عورت کی عزت کا مدار رہا ہے۔ اس نے ایک شوہر کی بیوی ہوتے ہوئے حصنِ نکاح سے باہر آزادانہ تعلقات قائم کیے۔ آخر کار شوہر سے مفارقت ہوئی۔ اس کے بعد یہ دوست پر دوست بدلتی چلی گئی اور کسی کے ساتھ دو برس سے زیادہ نباہ نہ کیا۔ اس کی سوانح حیات میں کم از کم چھے ایسے آدمیوں کے نام ملتے ہیں جن کے ساتھ اس کی علانیہ اور باقاعدہ آشنائی رہی ہے۔ اس کے انھی دوستوں میں سے ایک اس کی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے:
ژور ژساں پہلے ایک پروانے کو پکڑتی ہے اور اسے پھولوں کے پنجرے میں قید کرتی ہے۔ یہ اس کی محبت کا دَور ہوتا ہے۔ پھر وہ اپنی پِن سے اسے چبھونا شروع کرتی ہے اور اس کے پھڑپھڑانے سے لطف اٹھاتی ہے… یہ اس کی سرد مہری کا دَور ہوتا ہے اور دیر یا سویر یہ دور بھی ضرور آتا ہے… پھر وہ اس کے پر نوچ کر اس کا تجزیہ کرکے اسے ان پروانوں کے ذخیرے میں شامل کر لیتی ہے جن سے وہ اپنے ناولوں کے لیے ہیرو کا کام لیا کرتی ہے۔
فرانسیسی شاعر الفرے مسے (Alfred Musse) بھی اس کے عشاق میں سے تھا، اور آخرکار وہ اس کی بے وفائیوں سے اس قدر دل شکستہ ہوا کہ مرتے وقت اس نے وصیت کی کہ ژورژساں اس کے جنازے پر نہ آنے پائے۔ یہ تھا اس عورت کا ذاتی کیریکٹر جو کم و بیش تیس سال تک اپنی شاداب تحریروں سے فرانس کی نوخیز نسلوں پر گہرا اثر ڈالتی رہی۔
اپنے ناول لیلیا (Lelia)میں وہ لیلیا کی طرف سے استینو کو لکھتی ہے:
جس قدر زیادہ مجھے دنیا کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے، مَیں محسوس کرتی جاتی ہوں کہ محبت کے متعلق ہمارے نوجوانوں کے خیالات کتنے غلط ہیں۔ یہ خیال غلط ہے کہ محبت ایک ہی سے ہونی چاہیے اور اس کے دل پر پورا قبضہ ہونا چاہیے اور وہ ہمیشہ کے لیے ہونی چاہیے۔ بلاشبہ تمام مختلف خیالات کو گوارا کرنا چاہیے۔ مَیں یہ ماننے کے لیے تیار ہوں کہ بعض خاص روحوں کو ازدواجی زندگی میں وفادار رہنے کا حق ہے مگر اکثریت کچھ دوسری ضروریات اور کچھ دوسری قابلیتیں رکھتی ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ طرفین ایک دوسرے کو آزادی دیں، باہمی رواداری سے کام لیں، اور اس خود غرضی کو دل سے نکال دیں جس کی وجہ سے رشک و رقابت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ تمام محبتیں صحیح ہیں، خواہ وہ تیز و تند ہوں یا پُرسکون، شہوانی ہوں یا روحانی، پائدار ہوں یا تغیر پزیر، لوگوں کو خودکشی کی طرف لے جائیں یا لطف و مسرت کی طرف۔
اپنے ایک دوسرے ناول ’’ژاک‘‘ (Jaccuse)میں وہ اس شوہر کا کیریکٹر پیش کرتی ہے جو اس کے نزدیک شوہریت کا بہترین نمونہ ہو سکتا تھا۔ اس کے ہیرو ژاک کی بیوی اپنے آپ کو ایک غیر مرد کی آغوش میں ڈال دیتی ہے۔مگر فراخ دل شوہر اس سے نفرت نہیں کرتا اورنفرت نہ کرنے کی وجہ یہ بیان کرتا ہے کہ جو پھول میری بجائے کسی اور کو خوش بو دینا چاہتا ہے، مجھے کیا حق ہے کہ اسے پائوں تلے روند ڈالوں۔
آگے چل کر اسی ناول میں وہ ژاک کی زبان سے یہ خیالات ظاہر کراتی ہے:
مَیں نے اپنی رائے نہیں بدلی، مَیں نے سوسائٹی سے صلح نہیں کی، میری رائے میں نکاح تمام اجتماعی طریقوں میں وہ انتہائی وحشیانہ طریقہ ہے جس کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آخر کار یہ طریقہ موقوف ہو جائے گا۔ اگر نسلِ انسانی نے انصاف اور عقل کی طرف کوئی واقعی ترقی کی۔ پھر اس کی جگہ ایک دوسرا طریقہ لے گا جو نکاح سے کم مقدس نہ ہو گا مگر اس سے زیادہ انسانی طریقہ ہو گا۔ اس وقت انسانی نسل ایسے مردوں اور عورتوں سے آگے چلے گی جو کبھی ایک دوسرے کی آزادی پر کوئی پابندی عائد نہ کریں گے۔ فی الحال تو مرد اتنے خود غرض اور عورتیں اتنی بزدل ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی موجودہ قانون سے زیادہ شریفانہ قانون کا مطالبہ نہیں کرتا۔ ہاں! جن میں ضمیر اور نیکی کا فقدان ہے۔ انھیں تو بھاری زنجیروں میں جکڑا ہی جانا چاہیے۔
یہ وہ خیالات ہیں جو ۱۸۳۳ء اور اس کے لگ بھگ زمانہ میں ظاہر کیے گئے تھے۔ ژور ژساں صرف اسی حد تک جا سکی۔ اس تخیل کو آخری منطقی نتائج تک پہنچانے کی اسے بھی ہمت نہ ہوئی۔ بایں ہمہ آزاد خیالی، روشن دماغی اور پرانے روایتی اخلاق کی تاریکی پھر بھی کچھ نہ کچھ اس کے دماغ میں موجود تھی۔ اس کے تیس پینتیس سال بعد فرانس میں ڈراما نویسوں، ادیبوں اور اَخلاقی فلسفیوں کا ایک دوسرا لشکر نمودار ہوا جس کے سرخیل الکساندے دوما (Alexander Dumas) اور الفرے ناکے (Alfred Naquet) تھے۔ ان لوگوں نے سارا زور اس خیال کی اشاعت پر صَرف کیا کہ آزادی اور لطفِ زندگی بجائے خود انسان کا پیدائشی حق ہے اور اس حق پر ضوابطِ اخلاق و تمدن کی جکڑ بندیاں لگانا فرد پر سوسائٹی کا ظلم ہے۔ اس سے پہلے فرد کے لیے آزادی عمل کا مطالبہ محبت کے نام پر کیا جاتا تھا۔ بعد والوں کو یہ نری جذباتی بنیاد کم زور محسوس ہوئی۔ لہٰذا انھوں نے انفرادی خودسری، آوارگی اور بے قید آزادی کو عقل، فلسفہ اور حکمت کی مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کی کوشش کی تاکہ نوجوان مرد اور عورتیں جو کچھ بھی کریں قلب و ضمیر کے کامل اطمینان کے ساتھ کریں اور سوسائٹی صرف یہی نہیں کہ ان کی شورشِ شباب کو دیکھ کر دم نہ مار سکے، بلکہ اخلاقًا جائز و مستحسن سمجھے۔
انیسویں صدی کے آخری دور میں پال آدم (Paul Adam) ہنری بتائی (Henry Bataille) پیرلوئی (Pierne Louis) اور بہت سے دوسرے ادیبوں نے اپنا تمام زور نوجوانوں میں جرأتِ رندانہ پیدا کرنے پر صرف کیا تاکہ قدیم اَخلاقی تصورات کے بچے کھچے اثرات سے جو جھجک اور رکاوٹ طبیعتوں میں باقی ہے وہ نکل جائے چنانچہ پول اوان اپنی کتاب (La Morale De Lamour) میں نوجوانوں کو ان کی اس جہالت و حماقت پر دل کھول کر ملامت کرتا ہے کہ وہ جس (لڑکی یا لڑکے) سے محبت کے تعلقات قائم کرتے ہیں اسے جھوٹ موٹ یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اس پر مر مٹے ہیں اور اس سے حقیقی عشق رکھتے ہیں اور ہمیشہ اسی کے ہو کر رہیں گے۔ پھر کہتا ہے:
یہ سب باتیں اس لیے کی جاتی ہیں کہ جسمانی لذت کی اس صحیح خواہش کو، جو فطری طور پر ہر آدمی میں ہوتی ہے اور جس میں کوئی بات فی الحقیقت گناہ یا بُرائی کی نہیں ہے پُرانے خیالات کی بِنا پر معیوب سمجھا جاتا ہے، اور اس لیے آدمی خواہ مخواہ جھوٹے الفاظ کے پردے میں اسے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ لاطینی قوموں کی یہ کم زوری ہے کہ ان میں محبت کرنے والے جوڑے ایک دوسرے پر اس بات کا صاف صاف اظہار کرتے ہوئے جھجکتے ہیں کہ ملاقات سے ان کا مقصد محض ایک جسمانی خواہش کو پورا کرنا اور لطف اُٹھانا ہے۔
اور اس کے بعد نوجوانوں کو مشورہ دیتا ہے:
شائستہ اور معقول انسان بنو، اپنی خواہشات اور لذات کے خادموں{ FR 6794 } کو اپنا معبود نہ بنا لو۔ نادان ہے وہ جو محبت کا مندر تعمیر کرکے اس میں ایک ہی بت کا پجاری بن کر بیٹھ جاتا ہے۔ لطف کی ہر گھڑی میں ایک نئے مہمان کا انتخاب کرنا چاہیے۔
پیر لوئی نے ان سب سے چار قدم آگے بڑھ کر پورے زور کے ساتھ اس بات کا اعلان کیا کہ اخلاق کی بندشیں دراصل انسانی ذہن اور دماغی قوتوں کی نشوونما میں حائل ہوتی ہیں، جب تک انھیں بالکل توڑ نہ دیا جائے اور انسان پوری آزادی کے ساتھ جسمانی لذات سے متمتع نہ ہو، کوئی عقلی و علمی اور مادی و روحانی ارتقا ممکن نہیں ہے۔ اپنی کتاب افرودیت (Afrodite)میں وہ نہایت شدو مد کے ساتھ یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ بابل، اسکندریہ، ایتھنز، روم، وینس اور تمدن و تہذیب کے تمام دوسرے مرکزوں کی بہار اور عروج و شباب کا زمانہ وہ تھا جب وہاں رندی، آوارگی اور نفس پرستی (licentiousness) پورے زور پر تھی۔ مگر جب وہاں اخلاقی اور قانونی بندشیں انسانی خواہشات پر عائد ہوئیں تو خواہشات کے ساتھ ساتھ آدمی کی روح بھی انھی بندشوں میں جکڑ گئی۔
یہ پیرلوئی وہ شخص ہے جو اپنے عہد میں فرانس کا نام وَر ادیب، صاحبِ طرز انشا پرداز، اور ادب کے ایک مستقل اسکول کا راہ نما تھا، اس کے جلو میں افسانہ نگاروں، ڈرامہ نویسوں اور اخلاقی مسائل پر لکھنے والوں کا ایک لشکر تھا جو اس کے خیالات کو پھیلانے میں لگا ہوا تھا۔ اس نے اپنے قلم کی پوری طاقت عریانی اور مرد و زن کی بے قیدی کو سراہنے میں صرف کر دی۔ اپنی اس کتاب ’’افرودیت‘‘ میں وہ یونان کے اس دور کی حمد و ثنا کرتا ہے:
جب کہ برہنہ انسانیت…… مکمل ترین صورت جس کا ہم تصور کر سکتے ہیں اور جس کے متعلق اہلِ مذہب نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ خدا نے اسے خود اپنی صورت پر پیدا کیا ہے…… ایک مقدس بیسوا کی شکل میں باہزاراں ناز و ادا اپنے آپ کو ۲۰ ہزار زائرین کے سامنے پیش کر سکتی تھی۔ جب کہ کمال درجہ کی شہوانی محبت…… نہ گناہ تھی، نہ شرم کی چیز تھی، نہ گندی اور نجس تھی۔
حد یہ ہے کہ تمام شاعرانہ پردوں کو ہٹا کر اس نے صاف الفاظ میں یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں :
نہایت پُرزور اَخلاقی تعلیم کے ذریعہ سے اس مکروہ خیال کا استیصال کر دینا چاہیے کہ عورت کا ماں ہونا کسی حال میں شرم ناک ناجائز ذلیل اور پایہ شرف و عزت سے گرا ہوا بھی ہوتا ہے۔
۳۔بیسویں صدی کی ترقیات
انیسویں صدی میں خیالات کی ترقی یہاں تک پہنچ چکی تھی۔ بیسویںصدی کے آغاز میں نئے شاہ باز فضا میں نمودار ہوتے ہیں جو اپنے پیش روئوں سے بھی اونچا اڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ۱۹۰۸ء میں پیرو ولف (Pierre Wolff) اور گیستان لیرو (Gaston Lerouk) کا ایک ڈراما (Lelys) جس میں دو لڑکیاں اپنے جوان بھائی کے سامنے اپنے باپ سے اس مسئلے پر بحث کرتی نظر آتی ہیں کہ انھیں آزادانہ محبت کرنے کا حق ہے اور یہ کہ دل لگی کے بغیر زندگی گزارنا ایک نوجوان لڑکی کے لیے کس قدر الم ناک ہوتا ہے۔ ایک صاحب زادی کو بوڑھا باپ اس بات پر ملامت کرتا ہے کہ وہ ایک نوجوان سے ناجائز تعلقات رکھتی ہے۔ اس کے جواب میں صاحب زادی فرماتی ہیں:
مَیں تمھیں کیسے سمجھائوں، تم نے کبھی یہ سمجھا ہی نہیں کہ کسی شخص کو کسی لڑکی سے، خواہ وہ اس کی بہن ہو یا بیٹی ہی کیوں نہ ہو، یہ مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہے کہ وہ محبت کیے بغیر بوڑھی ہوجائے۔
جنگِ عظیم نے اس آزادی کی تحریک کو اور زیادہ بڑھایا، بلکہ انتہائی مراتب تک پہنچا دیا۔ مانع حمل کی تحریک کا اثر سب سے زیادہ فرانس پر ہوا تھا۔ مسلسل چالیس سال سے فرانس کی شرح پیدائش گر رہی تھی۔ فرانس کے ستاسی (۸۷) اضلاع میں سے صرف بیس (۲۰) اضلاع ایسے تھے جن میں شرح پیدائش شرح اموات سے زیادہ تھی۔ باقی ۶۷ اضلاع میں اموات کی شرح ، پیدائش کی شرح سے بڑھی ہوئی تھی۔ بعض اقطاعِ ملک کا تو یہ حال تھا کہ وہاں ہر سو بچوں کی پیدائش کے مقابلہ میں ۱۳۰۔۱۴۰ اور ۱۶۰ تک اموات کی تعداد کا اوسط تھا۔ جنگ چھڑی تو عین اس وقت جب کہ فرانسیسی قوم کی موت اور زندگی کا مسئلہ درپیش تھا، فرانس کے مدبروں کو معلوم ہوا کہ قوم کی گود میں لڑنے کے قابل نوجوان بہت ہی کم ہیں۔ اگر اس وقت ان قلیل التعداد جوانوں کو بھینٹ چڑھا کر قومی زندگی کو محفوظ کر بھی لیا گیا تو دشمن کے دوسرے حملہ میں بچ جانا محال ہو گا۔ اس احساس نے یکایک تمام فرانس میں شرح پیدائش بڑھانے کا جنون پیدا کر دیا اور ہر طرف سے مصنفوں نے، اخبار نویسوں نے، خطیبوں نے اور حد یہ ہے کہ سنجیدہ علما اور اہلِ سیاست تک نے ہم زبان ہو کر پکارنا شروع کیا کہ بچے جنو اور جنائو، نکاح کے رسمی قیود کی کچھ پروا نہ کرو، ہر وہ کنواری لڑکی اور بیوہ، جو وطن کے لیے اپنے رحم کو رضاکارانہ پیش کرتی ہے، ملامت کی نہیں، عزت کی مستحق ہے۔ اس زمانہ میں آزادی پسند حضرات کو قدرتی شہ مل گئی، اس لیے انھوں نے وقت کو سازگار دیکھ کر وہ سارے ہی نظریات پھیلا دیے جو شیطان کی زنبیل میں بچے کھچے رہ گئے تھے۔
اس زمانہ کا ایک ممتاز جریدہ نگار جو ’’لالیون ری پبلکن‘‘ (La Lvon Republican) کا ایڈیٹر تھا، اس سوال پر بحث کرتے ہوئے کہ ’’زنا بالجبر آخر کیوں جرم ہے؟‘‘ یوں اظہارِ خیال کرتا ہے:
غریب لوگ جب بھوک سے مجبور ہو کر چوری اور لوٹ مار کرنے پر اتر آتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ انھیں روٹی مہیا کرو، لوٹ مار آپ سے آپ بند ہو جائے گی۔ مگر عجیب بات ہے کہ ہم دردی اور مواسات کا جو جذبہ جسم کی ایک طبعی ضرورت کے مقابلہ میں ابھر آتا ہے۔ وہ دوسری ویسی ہی طبعی اور اتنی ہی اہم ضرورت، یعنی محبت کے لیے کیوں وسیع نہیں ہوتا۔ جس طرح چوری عمومًا بھوک کی شدت کا نتیجہ ہوتی ہے اسی طرح وہ چیز جس کا نتیجہ زنا بالجبر، اور بسا اوقات قتل ہے، اس ضرورت کے شدید تقاضے سے واقع ہوتی ہے جو بھوک اور پیاس سے کچھ کم طبعی نہیں ہے… ایک تن دُرُست آدمی، جو توانا اور جوان ہو، اپنی شہوت کو نہیں روک سکتا، جس طرح وہ اپنی بھوک کو اس وعدے پر ملتوی نہیں کر سکتا کہ آیندہ ہفتہ روٹی مل جائے گی۔ ہمارے شہروں میں، جہاں سب کچھ بافراط موجود ہے، ایک جوان آدمی کی شہوانی فاقہ کشی بھی اتنی ہی افسوس ناک ہے جتنی کہ مفلس آدمی کی شکمی فاقہ کشی۔ جس طرح بھوکوں کو روٹی مفت تقسیم کی جاتی ہے اسی طرح دوسری قسم کی بھوک سے جو لوگ مر رہے ہیں ان کے لیے بھی ہمیں کوئی انتظام کرنا چاہیے۔
بس اتنا اور سمجھ لیجیے کہ یہ کوئی مزاحیہ مضمون نہ تھا۔ پوری سنجیدگی کے ساتھ لکھا گیا اور سنجیدگی ہی کے ساتھ فرانس میں پڑھا بھی گیا۔
اسی دور میں پیرس کی فیکلٹی آف میڈیسن نے ایک فاضل ڈاکٹر کا مقالہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کرنے کے لیے پسند کیا اور اپنے سرکاری جریدہ میں اسے شائع کیا جس میں ذیل کے چند فقرے بھی پائے جاتے ہیں:
ہمیں توقع ہے کہ کبھی وہ دن بھی آئے گا جب ہم بغیر جھوٹی تعلّی اور بغیر کسی شرم و حیا کے یہ کہہ دیا کریں گے کہ مجھے بیس سال کی عمر میں آتشک ہوئی تھی جس طرح اب بے تکلف کہہ دیتے ہیں کہ مجھے خون تھوکنے کی وجہ سے پہاڑ پر بھیج دیا گیا… …یہ امراض تو لطفِ زندگی کی قیمت ہیں۔ جس نے اپنی جوانی اس طرح بسر کی کہ ان میں سے کوئی مرض لگنے کی بھی نوبت نہ آئی وہ ایک غیر مکمل وجود ہے۔ اس نے بزدلی یا سرد مزاجی یا مذہبی غلط فہمی کی بِنا پر اس طبعی وظیفہ کی انجام دہی سے غفلت برتی جو اس کے فطری وظائف میں شاید سب سے ادنیٰ] Primary [ وظیفہ تھا۔
۴۔ نومالتھوسی تحریک کا لٹریچر
آگے بڑھنے سے پہلے ایک نظر ان خیالات پر بھی ڈال لیجیے جو مانع حمل کی تحریک کے سلسلے میں پیش کیے گئے ہیں۔ اٹھارہویں صدی کے آخر میں جب انگریز ماہر معاشیات (Malthus) نے آبادی کی روز افزوں ترقی کو روکنے کے لیے ضبطِ ولادت کی تجویز پیش کی تھی اس وقت اس کے تو خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ آئی ہو گی کہ اس کی یہی تجویز ایک صدی بعد زنا اور فواحش کی اشاعت میں سب سے بڑھ کر مددگار ثابت ہو گی۔ اس نے تو آبادی کی افزائش کو روکنے کے لیے ضبطِ نفس اور بڑی عمر میں نکاح کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ مگر انیسویں صدی کے آخر میں جب نومالتھوسی تحریک (Neo- Malthusian Movement) اٹھی تو اس کا بنیادی اصول یہ تھا کہ نفس کی خواہش کو آزادی کے ساتھ پورا کیا جائے اور اس کے فطری نتیجہ، یعنی اولاد کی پیدائش کو سائینٹفک ذرائع سے روک دیا جائے۔ اس چیز نے بدکاری کے راستہ سے وہ آخری رکاوٹ بھی دور کر دی جو آزاد صنفی تعلقات رکھنے میں مانع ہو سکتی تھی، کیوں کہ اب ایک عورت بلا اس خوف کے اپنے آپ کو ایک مرد کے حوالے کر سکتی ہے کہ اس سے اولاد ہو گی اور اس پر ذمہ داریوں کا بوجھ آن پڑے گا۔ اس کے نتائج بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے۔ یہاں ہم ان خیالات کے چند نمونے پیش کرنا چاہتے ہیں جو برتھ کنٹرول کے لٹریچر میں کثرت سے پھیلائے گئے ہیں۔
اس لٹریچر میں نومالتھوسی مقدمہ عمومًا جس طرزِ استدلال کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:
ہر انسان کو فطری طور پر سب سے زیادہ قاہر اور پرزور تین حاجتوں سے سابقہ پڑتا ہے۔ ایک غذا کی حاجت، دوسرے آرام کی حاجت اور تیسری شہوت۔ فطرت نے ان تینوں کو پوری قوت کے ساتھ انسان میں ودیعت کر دیا ہے اور ان کی تسکین میں خاص لذت رکھی ہے تاکہ انسان ان کی تسکین کا خواہش مند ہو۔ عقل اور منطق کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی انھیں پورا کرنے کی طرف لپکے اور پہلی دو چیزوں کے معاملہ میں اس کا طرزِ عمل بھی یہی ہے۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ تیسری چیز کے معاملہ میں اس کا طرزِ عمل مختلف ہے۔ اجتماعی اَخلاق نے اس پر پابندی لگا دی ہے کہ صنفی خواہش کو حدودِ نکاح سے باہر پورا نہ کیا جائے۔ اور حدودِ نکاح میں زن و شو کے لیے وفاداری، اورعصمت مابی فرض کر دی گئی ہے اور اس پر مزید یہ شرط بھی لگا دی گئی ہے کہ اولاد کی پیدائش کو نہ روکا جائے۔ یہ سب باتیں سراسر لغو ہیں۔ عقل اور فطرت کے خلا ف ہیں، عین اپنے اصول میں غلط ہیں اور انسانیت کے لیے بدترین نتائج پیدا کرنے والی ہیں۔
ان مقدمات میں جن خیالات کی عمارت تعمیر ہوئی ہے اب ذرا وہ بھی ملاحظہ ہوں۔ جرمن سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کا لیڈر بیبل (Bebel) نہایت بے تکلّفانہ انداز میں لکھتا ہے:
عورت اور مرد آخر حیوان ہی تو ہیں۔ کیا حیوانات کے جوڑوں میں نکاح اور وہ بھی دائمی نکاح کا کوئی سوال پیدا ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر ڈریسڈیل (Drysdale) لکھتا ہے:
ہماری تمام خواہشات کی طرح محبت بھی ایک تغیر پزیر چیز ہے اسے ایک طریقہ کے ساتھ مخصوص کر دینا قوانینِ فطرت میں ترمیم کرنا ہے۔ نوجوان خصوصیت کے ساتھ اس تغیر کی طرف رغبت رکھتے ہیں، اور ان کی یہ رغبت فطرت کے اس عظیم الشان منطقی نظام کے مطابق ہے جس کا تقاضا یہی ہے کہ ہمارے تجربات متنوع ہوں… آزاد تعلق ایک برتر اَخلاق کا مظہر ہے اس لیے کہ وہ قوانین فطرت سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے، اور اس لیے بھی کہ وہ براہِ راست جذبات، احساس اور بے غرض محبت سے ظہور میں آتا ہے۔ جس میلان و رغبت سے یہ تعلق واقع ہوتا ہے وہ بڑی اَخلاقی قدر و قیمت رکھتا ہے۔ یہ بات بھلا اس تجارتی کاروبار کو کہاں نصیب ہو سکتی ہے جو نکاح کو درحقیقت پیشہ (prostitution) بنا دیتا ہے۔
دیکھیے اب نظریہ بدل رہا ہے، بلکہ الٹ رہا ہے۔ پہلے تو یہ کوشش تھی کہ زنا کو اخلاقًا معیوب سمجھنے کا خیال دلوںسے نکل جائے، اور نکاح و سفاح دونوں مساوی الدرجہ ہو جائیں۔ اب آگے قدم بڑھا کر نکاح کو معیوب اور سفاح کو اَخلاقی برتری کا مرتبہ دلوایا جا رہا ہے۔
ایک اور موقع پر یہی ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
ایسی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ شادی کے بغیر بھی محبت کو ایک معزز چیز بنا دیا جائے… یہ خوشی کی بات ہے کہ طلاق کی آسانی اس نکاح کے طریقہ کو آہستہ آہستہ ختم کر رہی ہے، کیوں کہ اب نکاح بس دو اشخاص کے درمیان مل کر زندگی بسر کرنے کا ایک ایسا معاہدہ ہے جسے فریقین جب چاہیں ختم کر سکتے ہیں۔ صنفی ارتباط کا یہی ایک صحیح طریقہ ہے۔
فرانس کا مشہور نومالتھوسی لیڈر پول روبین (Paul Robin) لکھتا ہے:
پچھلے ۲۵سال میں ہمیں اتنی کام یابی تو ہو چکی ہے کہ حرامی بچہ کو قریب قریب حلالی بچہ کا ہم مرتبہ کر دیا گیا ہے۔ اب صرف اتنی کسر باقی ہے کہ صرف پہلی ہی قسم کے بچے پیدا ہوا کریں تاکہ تقابل کا سوال ہی باقی نہ رہے۔
انگلستان کا مشہور فلسفی مل اپنی کتاب ’’آزادی‘‘ (On Liberty) میں اس بات پر بڑا زور دیتا ہے کہ ایسے لوگوں کو شادی کرنے سے قانونًا روک دیا جائے جو اس بات کا ثبوت نہ دے سکیں کہ وہ زندگی بھر کے لیے کافی ذرائع رکھتے ہیں لیکن جس وقت انگلستان میں قحبہ گری (prostitution) کی روک تھام کا سوال اُٹھا تو اسی فاضل فلسفی نے بڑی سختی سے اس کی مخالفت کی۔ دلیل یہ تھی کہ یہ شخصی آزادی پر حملہ ہے اور ورکرز کی توہین ہے۔ کیوں کہ یہ تو ان کے ساتھ بچوں کا سا سلوک کرنا ہوا!
غور کیجیے، شخصی آزادی کا احترام اس لیے ہے کہ اس سے فائدہ اٹھا کر زنا کیا جائے۔ لیکن اگر کوئی احمق اسی شخصی آزادی سے فائدہ اٹھا کر نکاح کرنا چاہے تو وہ ہرگز اس کا مستحق نہیں ہے کہ اس کی آزادی کا تحفظ کیا جائے۔ اس کی آزادی میں قانون کی مداخلت نہ صرف گوارا کی جائے بلکہ آزادی پسندفلسفی کا ضمیر اسے عین مطلوب قرار دے گا! یہاں اخلاقی نظریہ کا انقلاب اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ جو عیب تھا وہ صواب ہو گیا۔ جو صواب تھا وہ عیب ہو گیا۔
٭…٭…٭…٭…٭

۵ ۔نتائج

لٹریچر پیش قدمی کرتا ہے۔ رائے عام اس کے پیچھے آتی ہے۔ آخر میں اجتماعی اَخلاق، سوسائٹی کے ضوابط اور حکومت کے قوانین سب سپر ڈالتے جاتے ہیں۔ جہاں پیہم ڈیڑھ سو سال تک فلسفہ، تاریخ، اَخلاقیات، فنونِ حکمت، ناول، ڈراما، تھیٹر، آرٹ، غرض دماغوں کو تیار کرنے والے اور ذہنوں کو ڈھالنے والے تمام آلات اپنی متحدہ طاقت کے ساتھ ایک ہی طرز خیال کو انسانی ذہن کے ریشہ ریشہ میں پیوست کرتے رہیں، وہاں اس طرزِ خیال سے سوسائٹی کا متاثر نہ ہونا غیرممکن ہے۔ پھر جس جگہ حکومت اور ساری اجتماعی تنظیمات کی بنیاد جمہوری اصولوں پر ہو وہاں یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ رائے عام کی تبدیلی کے ساتھ قوانین میں تغیر نہ ہو۔
۱۔ صنعتی انقلاب اور اس کے اثرات
اتفاق یہ کہ عین وقت پر دوسرے تمدنی اسباب بھی سازگار ہو گئے۔ اسی زمانہ میں صنعتی انقلاب (industrial revolution) رو نما ہوا۔ اس سے معاشی زندگی میں جو تغیرات واقع ہوئے، اور تمدنی زندگی پر ان کے جو اثرات مرتب ہوئے وہ سب کے سب حالات کا رخ اسی سمت میں پھیر دینے کے لیے تیار تھے جدھر یہ انقلابی لٹریچر انھیں پھیرنا چاہتا تھا۔ شخصی آزادی کے جس تصور پر نظام سرمایہ داری کی تعمیر ہوئی تھی اسے مشین کی ایجاد اور کثیر پیداواری (mass production)کے امکانات نے غیر معمولی قوت بہم پہنچا دی۔ سرمایہ دار طبقوں نے بڑے بڑے صنعتی اور تجارتی ادارے قائم کیے۔ صنعت و تجارت کے نئے مرکز رفتہ رفتہ عظیم الشان شہر بن گئے۔ دیہات و متصلات سے لاکھوں کروڑوں انسان کھچ کھچ کر ان شہروں میں جمع ہوتے چلے گئے۔ زندگی حد سے زیادہ گراں ہو گئی۔ مکان، لباس، غذا اور تمام ضروریاتِ زندگی پر آگ برسنے لگی۔ کچھ ترقی تمدن کے سبب سے اور کچھ سرمایہ داروں کی کوششوں سے بے شمار نئے اسباب عیش بھی زندگی کی ضروریات میں داخل ہو گئے، مگر سرمایہ دارانہ نظام نے دولت کی تقسیم اِس طرز پر نہیں کی کہ جن آسائشوں، لذتوں اور آرائشوں کو اس نے زندگی کی ضروریات میں داخل کیا تھا، انھیں حاصل کرنے کے وسائل بھی اسی پیمانہ پر سب لوگوں کو بہم پہنچاتا۔ اس نے تو عوام کو اتنے وسائلِ معیشت بھی بہم نہ پہنچائے کہ جن بڑے بڑے شہروں میں وہ انھیں گھسیٹ لایا تھا، وہاں کم از کم زندگی کی حقیقی ضروریات… مکان، غذا اور لباس وغیرہ… ہی انھیں بآسانی حاصل ہو سکتیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شوہر پر بیوی اور باپ پر اولاد تک بارِ گراں بن گئی۔ ہر شخص کے لیے خود اپنے آپ ہی کو سنبھالنا مشکل ہو گیا، کجا کہ وہ دوسرے متعلقین کا بوجھ اٹھائے۔ معاشی حالات نے مجبور کر دیا کہ ہر فرد کمانے والا فرد بن جائے۔ کنواری، شادی شدہ اور بیوہ سب ہی قسم کی عورتوں کو رفتہ رفتہ کسبِ رزق کے لیے نکل آنا پڑا۔ پھر جب دونوں صنفوں میں ربط و اختلاط کے مواقع زیادہ بڑھے اور اس کے فطری نتائج ظاہر ہونے لگے تو اسی شخصی آزادی کے تصور اور اسی نئے فلسفۂ اخلاق نے آگے بڑھ کر باپوں اور بیٹیوں، بہنوں اور بھائیوں، شوہروں اور بیویوں، سب کو اطمینان دلایا کہ کچھ گھبرانے کی بات نہیں، جو کچھ ہو رہا ہے، خوب ہو رہا ہے، یہ گراوٹ نہیں اُٹھان (emancipation)ہے، یہ بد اخلاقی نہیں عین لطفِ زندگی ہے، یہ گڑھا جس میں سرمایہ دار تمھیں پھینک رہا ہے دوزخ نہیں جنت ہے جنت!
۲۔ سرمایہ دارانہ خود غرضی
اور معاملہ یہیں تک نہیں رہا۔ حریت شخصی کے اس تصور پر جس نظامِ سرمایہ داری کی بِنا اُٹھائی گئی تھی اس نے فرد کو ہر ممکن طریقہ سے دولت کمانے کا غیر مشروط اور غیر محدود اجازت نامہ دے دیا اور نئے فلسفہ اَخلاق نے ہر اس طریقہ کو حلال و طیب ٹھہرایا جس سے دولت کمائی جا سکتی ہو، خواہ ایک شخص کی دولت مندی کتنے ہی اشخاص کی تباہی کا نتیجہ ہو۔ اس طرح تمدن کا سارا نظام ایسے طریقے پر بنا کہ جماعت کے مقابلہ میں ہر پہلو سے فرد کی حمایت تھی اور فرد کی خود غرضیوں کے مقابلہ میں جماعت کے لیے تحفظ کی صورت نہ تھی۔ خود غرض افراد کے لیے سوسائٹی پر تاخت کرنے کے سارے راستے کھل گئے۔ انھوں نے تمام انسانی کم زوریوں کو چن چن کر تاکا اور انھیں اپنی اغراض کے لیے استعمال (exploit)کرنے کے نت نئے طریقے اختیار کرنا شروع کیے۔ ایک شخص اُٹھتا ہے اور وہ اپنی جیب بھرنے کے لیے لوگوں کو شراب نوشی کی لعنت میں مبتلا کرتا چلا جاتا ہے۔ کوئی نہیں جو سوسائٹی کو اس طاعون کے چوہے سے بچائے۔ دوسرا اٹھتا ہے اور وہ سود خواری کا خیال دنیا میں پھیلا دیتا ہے۔ کوئی نہیں جو اس جونک سے لوگوں کے خونِ حیات کی حفاظت کرے…… بلکہ سارے قوانین اسی جونک کے مفاد کی حفاظت کر رہے ہیں تاکہ کوئی اس سے ایک قطرہ خون بھی نہ بچا سکے…… تیسرا اُٹھتا ہے اور وہ قمار بازی کے عجیب طریقے رائج کرتا ہے، حتّٰی کہ تجارت کے بھی کسی شعبہ کو قمار بازی کے عنصر سے خالی نہیں چھوڑتا۔ کوئی نہیں جو اس تپ محرقہ سے انسان کی حیات معاشی کا تحفظ کر سکے ۔ انفرادی خود سری اور بغی و عدوان کے اس ناپاک دور میں غیر ممکن تھا کہ خود غرض افراد کی نظر انسان کی اس بڑی اور شدید ترین کم زوری… شہوانیت… پر نہ پڑتی جسے بھڑکا کر بہت کچھ فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا۔ چنانچہ اس سے بھی کام لیا گیا اور اتنا کام لیا گیا جتنا لینا ممکن تھا۔ تھیٹروں میں، رقص گاہوں میں اورفلم سازی کے مرکزوں میں سارے کاروبار کا مدار ہی اس پر قرار پایا کہ خوب صورت عورتوں کی خدمات حاصل کی جائیں، انھیں زیادہ سے زیادہ برہنہ اور زیادہ سے زیادہ ہیجان انگیز صورت میں منظر عام پر پیش کیا جائے اور اس طرح لوگوں کی شہوانی پیاس کو زیادہ سے زیادہ بھڑکا کر ان کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا جائے۔ کچھ دوسرے لوگوں نے عورتوں کو کرایہ پر چلانے کا انتظام کیا اور قحبہ گری کے پیشہ کو ترقی دے کر ایک نہایت منظم بین الاقوامی تجارت کی حد تک پہنچا دیا۔ کچھ اور لوگوں نے زینت اور آرائش کے عجیب عجیب سامان نکالے اور انھیں خوب پھیلایا تاکہ عورتوں کے پیدائشی جذبہ حسن آرائی کو بڑھا کر دیوانگی تک پہنچا دیں اور اس طرح دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹیں۔ کچھ اور لوگوں نے لباس کے نئے شہوت انگیز اور عریاں فیشن نکالے اور خوب صورت عورتوں کو اس لیے مقرر کیا کہ وہ انھیں پہن کر سوسائٹی میں پھریں، تاکہ نوجوان مرد کثرت سے راغب ہوں، اور نوجوان لڑکیوں میں اس لباس کے پہننے کا شوق پیدا ہو اور اس طرح موجدِ لباس کی تجارت فروغ پائے۔ کچھ اور لوگوں نے برہنہ تصویروں اور فحش مضامین کی اشاعت کو روپیہ کھینچنے کا ذریعہ بنایا اور اس طرح عوام کو اخلاقی جذام میں مبتلا کرکے خود اپنی جیبیں بھرنا شروع کر دیں۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مشکل ہی سے تجارت کا کوئی ایسا شعبہ باقی رہ گیا ہو جس میں شہوانیت کا عنصر شامل نہ ہو۔ کسی تجارتی کاروبار کے اشتہار کو دیکھ لیجیے۔ عورت کی برہنہ یا نیم برہنہ تصویر اس کی جزوِ لاینفک ہو گی۔ گویا عورت کے بغیر اب کوئی اشتہار، اشتہار نہیں ہو سکتا، ہوٹل، ریسٹوران، شوروم کوئی جگہ آپ کو ایسی نہ ملے گی جہاں عورت اس غرض سے نہ رکھی گئی ہو کہ مرد اس کی طرف کھچ کر آئیں۔ غریب سوسائٹی جس کا کوئی محافظ نہیں، صرف ایک ہی ذریعہ سے اپنے مفاد کی حفاظت کر سکتی تھی کہ خود اپنے اَخلاقی تصورات سے ان حملوں کی مدافعت کرتی اور اس شہوانیت کو اپنے اوپر سوار نہ ہونے دیتی۔ مگر نظامِ سرمایہ داری ایسی کچی بنیادوں پر نہیں اٹھا کہ یوں اس کے حملے کو روکا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک مکمل فلسفہ اور زبردست شیطانی لشکر…… لٹریچر بھی تو تھا جو ساتھ ساتھ اَخلاقی نظریات کی شکست و ریخت بھی کرتا جا رہا تھا۔ قاتل کا کمال یہی ہے کہ جسے قتل کرنے جائے اسے بطوع و رغبت قتل ہونے کے لیے تیار کر دے۔
۳۔ جمہوری نظامِ سیاست
مصیبت اتنے پر بھی ختم نہ ہوئی۔ مزید برآں، اسی تصورِ آزادی نے مغرب میں جمہوری نظامِ حکم رانی کو جنم دیا جو اس اَخلاقی انقلاب کی تکمیل کا ایک طاقت وَر ذریعہ بن گیا۔
جمہوریتِ جدیدہ کا اصل الاصول یہ ہے کہ لوگ خود اپنے حاکم اور خود اپنے قانون ساز ہیں، جیسے قوانین چاہیں اپنے لیے بنائیں اور جن قوانین کو پسند نہ کریں ان میں جیسی چاہیں ترمیم و تنسیخ کر دیں۔ ان کے اوپر کوئی ایسا بالاتر اقتدار نہیں جو انسانی کم زوریوں سے پاک ہو اور جس کی ہدایت و راہ نمائی کے آگے سرجھکا کرانسان بے راہ روی سے بچ سکتا ہو۔ ان کے پاس کوئی ایسا اساسی قانون نہیں جو اٹل ہو اور انسان کی دست رس سے باہر ہواور جس کے اصولوں کو ناقابلِ ترمیم و تنسیخ مانا جائے۔ ان کے لیے کوئی ایسا معیار نہیں جوصحیح اور غلط کی تمیز کے لیے کسوٹی ہو اور انسانی اہوا اور خواہشات کے ساتھ بدلنے والا نہ ہو بلکہ مستقل اور ثابت ہو۔ اس طرح جمہوریت کے جدید نظریہ نے انسان کو بالکل خود مختار اور غیر ذمہ دار فرض کرکے آپ ہی اپنا شارع بنا دیا اور ہر قسم کی قانون سازی کا مدار صرف رائے عام پر رکھا۔
اب یہ ظاہر ہے کہ جہاں اجتماعی زندگی کے سارے قوانین رائے عام کے تابع ہوں اور جہاں حکومت اسی جمہوریتِ جدیدہ کے اِلٰہ کی عبد ہو۔ وہاں قانون اور سیاست کی طاقتیں کسی طرح سوسائٹی کو اَخلاقی فساد سے نہیں بچا سکتیں۔ بلکہ بچانا کیا معنی، آخرکار وہ خود اسے تباہ کرنے میں معین و مددگار بن کر رہیں گی۔ رائے عام کے ہر تغیر کے ساتھ قانون بھی بدلتا چلا جائے گا۔ جوں جوں عام لوگوں کے نظریات بدلیں گے، قانون کے اصول اور ضوابط بھی ان کے مطابق ڈھلتے جائیں گے۔ حق، خیر اور اصلاح کا کوئی معیار اس کے سوا نہ ہوگا کہ ووٹ کس طرف زیادہ ہیں۔ ایک تجویز، خواہ وہ بجائے خود کتنی ہی ناپاک کیوں نہ ہو، اگر عوام میں اتنی مقبولیت حاصل کر چکی ہے کہ ۱۰۰ میں سے ۵۱ ووٹ حاصل کر سکتی ہے تو اسے تجویز کے مرتبے سے ترقی کرکے شریعت بن جانے سے کوئی چیز روک نہیں سکتی۔ اس کی بدترین عبرت انگیز مثال وہ ہے جو نازی دَور سے پہلے جرمنی میں ظاہر ہوئی۔ جرمنی میں ایک صاحب ڈاکٹر ماگنوس ہر شفیلڈ (Magnus Hirsch Feld) ہیں جو دُنیا کی مجلس اِصلاح صنفی (World League of Sexual Reform) کے صدر رہ چکے ہیں۔ انھوں نے عملِ قومِ لوط کے حق میں چھے سال تک زبردست پروپیگنڈا کیا۔ آخر کار جمہوریت کا اِلٰہ اس حرام کو حلال کرنے پر راضی ہو گیا اور جرمن پارلیمنٹ نے کثرتِ رائے سے یہ طے کر دیا کہ اب یہ فعل جرم نہیں ہے بشرطیکہ طرفین کی رضا مندی سے اس کا اِرتکاب کیا جائے اور معمول کے نابالغ ہونے کی صورت میں اس کا ولی ایجاب و قبول کی رسم ادا کر دے۔
قانون اس جمہوری اِلٰہ کی عبادت میں ذرا نسبتاً سست کار واقع ہوا ہے۔ اس کے اوامر کا اتباع کرتا تو ہے مگر کسل اور کاہلی کے ساتھ کرتا ہے۔ یہ نقص جو عبودیت کی تکمیل میں باقی رہ گیا ہے، اس کی کسر حکومت کے انتظامی کل پرزے پوری کر دیتے ہیں۔ جو لوگ ان جمہوری حکومتوں کے کاروبار چلاتے ہیں وہ قانون سے پہلے اس لٹریچر اور ان اَخلاقی فلسفوں کا اور ان عام رجحانات کا اثر قبول کر لیتے ہیں جو ان کے گرد و پیش پھیلے ہوتے ہیں۔ ان کی عنایت سے ہر وہ بداخلاقی سرکاری طور پر تسلیم کر لی جاتی ہے جس کا رواج عام ہو گیا ہو۔ جو چیزیں قانونًا ابھی تک ممنوع ہیں ان کے معاملہ میں عملًا پولیس اور عدالتیں قانون کے نفاذ سے احتراز کرتی ہیں اور اس طرح وہ گویا حلال کے درجے میں ہو جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر اسقاط ہی کو لے لیجیے۔ یہ مغربی قوانین میں اب بھی حرام ہے مگر کوئی ملک ایسا نہیں جہاں علی الاعلان اور بکثرت اس کا ارتکاب نہ ہو رہا ہو۔ انگلستان میں کم از کم اندازہ کے مطابق ہر سال ۹۰ ہزار حمل اسقاط کیے جاتے ہیں۔ شادی شدہ عورتوں میں سے کم از کم ۲۵ فی صدی ایسی ہیں جو یا تو خود اسقاط کر لیتی ہیں یا کسی ماہرِ فن کی مدد حاصل کرتی ہیں۔ غیرشادی شدہ عورتوں میں اس کا تناسب اس سے بھی زیادہ ہے۔ بعض مقامات پر عملاً باقاعدہ اسقاط کلب قائم ہیں۔ جنھیں خواتین کرام ہفتہ وار فیس ادا کرتی ہیں تاکہ موقع پیش آنے پر ایک ماہرِ اسقاط کی خدمات آسانی سے حاصل ہو جائیں۔ لندن میں ایسے بہت سے نرسنگ ہوم ہیں جہاں زیادہ ترمریضات وہ ہوتی ہیں جنھوں نے اسقاط کرایا ہوتا ہے۔{ FR 6796 }
اس کے باوجود انگلستان کی کتابِ آئین میں اسقاط ابھی تک جرم ہی ہے۔
۴۔حقائق و شواہد
اب مَیں ذرا تفصیل سے بتانا چاہتا ہوں کہ یہ تینوں عناصر، یعنی جدید اَخلاقی نظریات، سرمایہ دارانہ نظامِ تمدن اور جمہوری نظامِ سیاسی، مل جل کر اجتماعی اَخلاق اور مرد و عورت کے صنفی تعلق کو کس طرح متاثر کر رہے ہیں اور ان سے فی الحقیقت کس قسم کے نتائج رونما ہوئے ہیں۔ چوں کہ اس وقت تک میں نے زیادہ تر سرزمین فرانس کا ذکر کیا ہے جہاں سے اس تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ لہٰذا میں سب سے پہلے فرانس ہی کو شہادت میں پیش کروں گا۔{ FR 6798 }
۵۔ اَخلاقی حس کا تعطل
پچھلے باب میں جن نظریات کا ذکر کیا جا چکا ہے ان کی اشاعت کا اولین اثر یہ ہوا کہ صنفی معاملات میں لوگوں کی اخلاقی حس مفلوج ہونے لگی۔ شرم و حیا اور غیرت و حمیت روز بروز مفقود ہوتی چلی گئی۔ نکاح و سفاح کی تمیز دلوں سے نکل گئی اور زنا ایک معصوم چیز بن گئی جسے اب کوئی عیب یا قباحت کی بات سمجھا ہی نہیں جاتا کہ اسے چھپانے کا اہتمام کیا جائے۔
انیسویں صدی کے وسط بلکہ اخیر تک عام فرانسیسیوں کے اخلاقی نظریہ میں صرف اتنا تغیر ہوا تھا کہ مردوں کے لیے زنا کو بالکل ایک معمولی فطری چیز سمجھا جاتا تھا۔ والدین اپنے نوجوان لڑکوں کی آوارگی کو (بشرطیکہ وہ امراضِ خبیثہ یا عدالتی کارروائی کا موجب نہ بن جائے) بخوشی گوارا کرتے تھے، بلکہ اگر وہ مادی حیثیت سے مفید ہو، تو اس پر خوش بھی ہوتے تھے۔ ان کے خیال میں کسی مرد کا کسی عورت سے نکاح کے بغیر تعلق رکھنا کوئی معیوب فعل نہ تھا۔ ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ والدین نے اپنے نوجوان لڑکوں پر خود زور دیا ہے کہ وہ کسی بااثر مال دار عورت سے تعلقات قائم کرکے اپنا مستقبل درخشاں بنائیں۔ لیکن اس وقت تک عورت کے معاملہ میں نظریہ اس سے بہت مختلف تھا۔ عورت کی عصمت بہرحال ایک قیمتی چیز سمجھی جاتی تھی۔ وہی والدین جو اپنے لڑکے کی آوارگی کو جوانی کی ترنگ سمجھ کر گوارا کر لیتے تھے۔ اپنی لڑکی کے دامن پر کوئی داغ دیکھنے کے روادار نہ تھے۔ بدکار مرد جس طرح بے عیب سمجھا جاتا تھا، بدکار عورت اس طرح بے عیب نہ سمجھی جاتی تھی۔ پیشہ ور فاحشہ کا ذکر جس ذلت کے ساتھ کیا جاتاتھا، اس کے پاس جانے والے مرد کے حصہ میں وہ ذلت نہ آتی تھی۔ اسی طرح ازدواجی رشتہ میں بھی عورت اور مرد کی اَخلاقی ذمہ داری مساوی نہ تھی۔ شوہر کی بدکاری گوارا کر لی جاتی تھی مگر بیوی کی بدکاری ایک سخت ترین معیوب چیز تھی۔
بیسویں صدی کے آغاز تک پہنچتے پہنچتے یہ صورتِ حال بدل گئی۔ تحریکِ آزادی نسواں نے عورت اورمرد کی اَخلاقی مساوات کا جو صور پھونکا تھا اس کا اثر یہ ہوا کہ لوگ عام طور پر عورت کی بدکاری کو بھی اسی طرح غیر معیوب سمجھنے لگے جس طرح مرد کی بدکاری کو سمجھتے تھے، اور نکاح کے بغیر کسی مرد سے تعلق رکھنا عورت کے لیے بھی کوئی ایسا فعل نہ رہا جس سے اس کی شرافت و عزت پر بٹا لگتا ہو۔
پول بیورو لکھتا ہے:
نہ صرف بڑے شہروں میں بلکہ فرانس کے قصبات و دیہات میں اب نوجوان مرد اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ جب ہم عفیف نہیں ہیں تو ہمیں اپنی منگیتر سے بھی عفت کا مطالبہ کرنے اور یہ چاہنے کا کہ وہ ہمیں کنواری ملے، کوئی حق نہیں ہے۔ برگنڈی، بون اور دوسرے علاقوں میں اب یہ عام بات ہے کہ ایک لڑکی شادی سے پہلے بہت سی ’’دوستیاں‘‘ کر چکتی ہے اور شادی کے وقت اسے اپنے منگیتر سے اپنی گزشتہ زندگی کے حالات چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ لڑکی کے قریب ترین رشتہ داروں میں بھی اس کی بدچلنی پر کسی قسم کی ناپسندیدگی نہیں پائی جاتی۔ وہ اس کی ’’دوستیوں‘‘ کا ذکر آپس میں اس طرح بے تکلف کرتے ہیں گویا کسی کھیل یا روزگار کا ذکر ہے اور نکاح کے موقع پر دولھا صاحب جو اپنی بیوی کی سابق زندگی سے نہیں بلکہ ان کے ان ’’دوستوں‘‘ تک سے واقف ہوتے ہیں جو اب تک اس کے جسم سے لطف اٹھاتے رہے ہیں، اس امر کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ کسی کو اس بات کا شبہ تک نہ ہونے پائے کہ انھیں اپنی دولہن کے ان مشاغل پر کسی درجہ میں بھی کوئی اعتراض ہے۔ (ص:۹۴)
آگے چل کر لکھتا ہے:
فرانس میں متوسط درجہ کے تعلیم یافتہ طبقوں میں یہ صورت حال بکثرت دیکھی جاتی ہے اور اب اس میں قطعًا کوئی غیر معمولی پن نہیں رہا ہے کہ ایک اچھے خاندان کی تعلیم یافتہ لڑکی، جو کسی دفتر یا تجارتی فرم میں ایک اچھی جگہ پر کام کرتی ہے اور شائستہ سوسائٹی میں اٹھتی بیٹھتی ہے، کسی نوجوان سے مانوس ہو گئی اور اس کے ساتھ رہنے لگی۔ اب یہ بالکل ضروری نہیں کہ وہ آپس میں شادی کر لیں۔ دونوں شادی کے بغیر ہی ایک ساتھ رہنا مرجع سمجھتے ہیں۔ محض اس لیے کہ دونوں کے دل بھر جانے کے بعد الگ ہونے اور کہیں اور دل لگانے کی آزادی حاصل رہے۔ سوسائٹی میں ان کے تعلق کی یہ نوعیت سب کو معلوم ہوتی ہے۔ شائستہ طبقوں میں دونوں مل کر آتے جاتے ہیں۔ نہ وہ خود اپنے تعلق کو چھپاتے ہیں، نہ کوئی دوسرا ان کی ایسی زندگی میں کسی قسم کی بُرائی محسوس کرتا ہے۔ ابتدا میں یہ طرزِ عمل کارخانوں میں کام کرنے والے لوگوں نے شروع کیا تھا۔ اوّل اوّل اسے سخت معیوب سمجھا گیا۔ مگر اب یہ اُونچے طبقے میں عام ہو گیا ہے اور اجتماعی زندگی میں اس نے وہی جگہ حاصل کر لی ہے جو کبھی نکاح کی تھی۔ (ص ۹۴۔۹۶)
اس نوعیت کی داشتہ کو اب باقاعدہ تسلیم کیا جانے لگا۔ موسیو برتلیمی (M. Berthelemv) پیرس یونی ورسٹی کا معلمِ قانون لکھتا ہے کہ رفتہ رفتہ ’’داشتہ‘‘ کو وہی قانونی حیثیت حاصل ہوتی جا رہی ہے جو پہلے ’’بیوی‘‘ کی تھی۔ پارلیمنٹ میں اس کا تذکرہ آنے لگا ہے۔ حکومت اس کے مفادکی حفاظت کرنے لگی ہے۔ ایک سپاہی کی داشتہ کو وہی نفقہ دیا جاتا ہے جو اس کی بیوی کے لیے مقرر ہے۔ سپاہی اگر مرجائے تو اس کی داشتہ کو وہی پنشن ملتی ہے جو منکوحہ بیوی کو ملتی ہے۔
فرانسیسی اخلاقیات میں زنا کے غیر معیوب ہونے کی کیفیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ۱۹۱۸ء میں ایک مدرسہ کی معلمہ مس ہونے کے باوجود حاملہ پائی گئی۔ محکمہ تعلیم میں کچھ پرانے خیالات کے لوگ بھی موجود تھے۔ انھوں نے ذرا شور مچایا۔ اس پر معززین کا ایک وفد وزارتِ تعلیم میں حاضر ہوا اور اس کے حسبِ ذیل دلائل اتنے وزنی پائے گئے کہ معلمہ کا معاملہ رفع دفع کر دیا گیا:
۱۔ کسی کی پرائیویٹ زندگی سے لوگوں کو کیا مطلب؟
۲۔ اور پھر اس نے آخر کس جرم کا ارتکاب کیا ہے؟
۳۔ اورکیا نکاح کے بغیر ماں بننا زیادہ جمہوری طریقہ نہیں ہے؟
فرانسیسی فوج میں سپاہیوں کو جو تعلیم دی جاتی ہے اس میں من جملہ دوسرے ضروری مسائل کے یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ امراضِ خبیثہ سے محفوظ رہنے اور حمل روکنے کی کیا تدابیر ہیں۔ گویا یہ بات تو مسلم ہی ہے کہ ہر سپاہی زنا ضرور کرے گا۔ ۳؍مئی ۱۹۱۹ء کو فرانس کی ۱۲۷ ویں ڈویژن کے کمانڈر نے سپاہیوں کے نام ایک اعلان شائع کیا تھا جس کے الفاظ یہ ہیں:
معلوم ہوا ہے کہ فوجی قحبہ خانوں پربندوقچیوں کے ہجوم کی وجہ سے عام سوار اور پیادہ فوج کے سپاہیوں کو شکایت ہے۔ وہ گلہ کرتے ہیں کہ بندوقچیوں نے ان جگہوں پراپنا اجارہ قائم کر لیا ہے اور وہ دوسروں کو موقع ہی نہیں دیتے۔ ہائی کمانڈ کوشش کر رہا ہے کہ عورتوں کی تعداد میں کافی اضافہ کر دیا جائے، مگرجب تک یہ انتظام نہیں ہوتا، بندوقچیوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ زیادہ دیر تک اندر نہ رہا کریں اور اپنی خواہشات کی تسکین میں ذرا عجلت سے کام لیا کریں۔
غور تو کیجیے یہ اعلان دنیا کی ایک مہذب ترین حکومت کے فوجی محکمہ کی طرف سے باضابطہ سرکاری طور پر شائع کیا جاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ زنا کے اخلاقًا معیوب ہونے کا وہم تک ان لوگوں کے دل و دماغ میں باقی نہیں رہا ہے۔ سوسائٹی، قانون، حکومت سب کے سب اس تصور سے خالی ہو چکے ہیں۔{ FR 6800 }
جنگِ عظیم سے کچھ مدت پہلے فرانس میں ایک ایجنسی اس اصول پر قائم کی گئی تھی کہ ہر عورت خواہ وہ اپنے حالات، ماحول، مالی کیفیت اور عادی اخلاقی چال چلن کے اعتبار سے کیسی ہی ہو، بہرحال ’’ایک نئے تجربے‘‘ کے لیے آمادہ کی جا سکتی ہے۔ جو صاحب کسی خاتون سے تعلق پیدا کرنا چاہتے ہوں وہ بس اتنی زحمت اٹھائیں کہ ان لیڈی صاحبہ کا اتا پتا بتا دیں اور ۲۵ فرانک ابتدائی فیس کے طور پر داخل کر دیں۔ اس کے بعد صاحبہ موصوفہ کو معاملہ پر راضی کر لینا ایجنسی کا کام ہے۔ اس ایجنسی کے رجسٹر دیکھنے سے معلوم ہوا کہ فرنچ سوسائٹی کا کوئی طبقہ ایسا نہ تھا جس کے کثیر التعداد لوگوں نے اس سے ’’بزی نس‘‘ نہ کیا ہو اور یہ کاروبار حکومت سے بھی مخفی نہ تھا۔ (پول بیورو، صفحہ۱۶)
اس اخلاقی زوال کی انتہا یہ ہے کہ:
فرانس کے بعض اضلاع میں بڑے شہروں کی گھنی آبادی رکھنے والے حصوں میں قریب ترین نسبی رشتہ داروں کے درمیان حتّٰی کہ باپ اور بیٹی اور بھائی اور بہن کے درمیان صنفی تعلقات کا پایا جانا بھی اب کوئی انوکھا واقعہ نہیں رہا ہے۔
۶۔ فواحش کی کثرت
جنگِ عظیم سے پہلے موسیو بیولو (M.Bulot)فرانس کے اٹارنی جنرل نے اپنی رپورٹ میں ان عورتوں کی تعداد ۵ لاکھ بتائی تھی جو اپنے جسم کو کرایہ پر چلاتی ہیں۔ مگر وہاں کی زنانِ بازاری کو ہندوستان کی پیشہ ور فاحشات پر قیاس نہ کر لیجیے۔ شائستہ اور متمدن ملک ہے۔ اس کے سب کام شائستگی، تنظیم اور فی الجملہ بلند پیمانے پر ہوتے ہیں۔ وہاں اس پیشہ میں فن اشتہار سے پورا کام لیا جاتا ہے۔ اخبار، مصور، پوسٹ کارڈ، ٹیلی فون اور شخصی دعوت نامے، غرض تمام مہذب طریقے گاہکوں کی توجہ منعطف کرانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور پبلک کا ضمیر اس پر کوئی ملامت نہیں کرتا۔ بلکہ اس تجارت میں جن عورتوں کو زیادہ کام یابی نصیب ہو جاتی ہے وہ بسا اوقات ملکی سیاسیات، مالیات اور اعیان و امرا کے طبقوں میں کافی بااقتدار ہو جاتی ہیں۔ وہی ترقی جو کبھی یونانی تمدن میں اس طبقہ کی عورتوں کو نصیب ہوئی تھی۔
فرنچ سینٹ کے ایک رکن موسیو فروناں وریفو (M. Ferdinand Dreyfus) نے اب سے چند سال پہلے بیان کیا تھا کہ قحبہ گری کا پیشہ اب محض ایک انفرادی کام نہیں رہا ہے بلکہ اس کی ایجنسی سے جو عظیم مالی فوائد حاصل ہوتے ہیں ان کی وجہ سے اب یہ ایک تجارت (business) اور ایک منظم حرفہ (organised industry)بن گیا ہے۔ اس کے ’’خام پیداوار‘‘ مہیا کرنے والے ایجنٹ الگ ہیں، سفری ایجنٹ الگ ہیں۔ اس کی باقاعدہ منڈیاں موجود ہیں۔ جوان لڑکیاں اور کم سن بچیاں وہ تجارتی مال ہیں جس کی درآمد برآمد ہوتی ہے، اور دس سال سے کم عمر لڑکیوں کی مانگ زیادہ ہے۔
پول بیورو لکھتا ہے:
یہ ایک زبردست نظام ہے جو پورے منظم طریقہ سے تنخواہ یاب عہدہ داروں اور کارکنوں کے ساتھ چل رہا ہے۔ ناشرین اور اہلِ قلم (publicist)خطبا و مقررین، اطبا اور قابلات (mid wives) اور تجارتی سیاح اس میں باقاعدہ ملازم ہیں اور اشتہاراورمظاہرہ کے جدید طریقے اس کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
فحش کاری کے ان اڈوں کے ماسوا ہوٹلوں، چائے خانوں اور رقص خانوں میں علی الاعلان قحبہ گری کا کاروبار ہو رہا ہے اور بعض اوقات بہیمیت انتہائی ظلم اور قساوت کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ ۱۹۱۲ء میں ایک مرتبہ مشرقی فرانس کے ایک میربلد(mayor)کو مداخلت کرکے ایک ایسی لڑکی کی جان بخشی کرانا پڑی تھی جسے دن بھر میں ۴۷ گاہکوں سے پالا پڑ چکا تھا اور ابھی مزید گاہک تیار کھڑے تھے۔
تجارتی قحبہ خانوں کے علاوہ خیراتی ’’قحبہ خانوں‘‘ کی ایک نئی قسم پیدا کرنے کا شرف جنگِ عظیم کو حاصل ہوا۔ جنگ کے زمانہ میں محب وطن خواتین نے سرزمین فرانس کی حفاظت کرنے والے بہادروں کی ’’خدمت‘‘ فرمائی تھی اور جنھیں اس خدمت کے صلے میں بے باپ کے بچے مل گئے تھے، انھیں (war-god mothers)کا معزز لقب عطا ہوا۔ یہ ایسا اچھوتا تخیل ہے کہ اردو زبان اس کا ترجمہ کرنے سے عاجز ہے۔ یہ خواتین منظم صورت میں قحبہ گری کرنے لگیں اور ان کی امداد کرنا سیاہ کاروں کے لیے ایک اخلاقی کام بن گیا۔ بڑے بڑے روزانہ اخباروں اور خصوصًا فرانس کے دو مشہور مصور جریدوں فنتاسیو (Fantasion) اور لاوی پاریزیاں (La-vie-Parisienne)نے ان کی طرف ’’مردانِ کار‘‘ کی توجہ منعطف کرانے کی خدمت سب سے بڑھ کر انجام دی۔ ۱۹۱۷ء کے آغاز میں موخر الذکر اخبار کا صرف ایک نمبر ان عورتوں کے ۹۹ اشتہارات پر مشتمل تھا۔
۷۔شہوانیت اور بے حیائی کی وبا
فواحش کی یہ کثرت اور مقبولیت شہوانی جذبات کے جس اشتعال کا نتیجہ ہے وہ لٹریچر، تصاویر، سینما، تھیٹر، رقص اور برہنگی و بے حیائی کے عام مظاہروں سے رونما ہوتا ہے۔
خود غرض سرمایہ داروں کا ایک پورا لشکر ہے جو ہر ممکن تدبیر سے عوام کی شہوانی پیاس کو بھڑکانے میں لگا ہوا ہے اور اس ذریعہ سے اپنے کاروبار کو فروغ دے رہا ہے۔ روزانہ اور ہفتہ وار اخبارات، مصور جرائد اور نصف ماہی اور ماہ وار رسالے انتہا درجہ کے فحش مضامین اور شرم ناک تصویریں شائع کرتے ہیں۔ کیوں کہ اشاعت بڑھانے کا یہ سب سے زیادہ موثر ذریعہ ہے۔ اس کام میں اعلیٰ درجہ کی ذہانت، فن کاری اور نفسیات کی مہارت صرف کی جاتی ہے تاکہ شکار کسی طرف سے بچ کر نہ جا سکے۔ ان کے علاوہ صنفی مسائل پر حد درجہ ناپاک لٹریچر پمفلٹوں اور کتابوں کی شکل میں نکلتا رہتا ہے، جن کی کثرتِ اشاعت کا یہ حال ہے کہ ایک ایک ایڈیشن پچاس ہزار کی تعداد میں چھپتا ہے اور بسا اوقات ساٹھ ساٹھ ایڈیشنوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ بعض اشاعت خانے تو صرف اسی لٹریچر کی اشاعت کے لیے مخصوص ہیں۔ بہت سے اہلِ قلم ایسے ہیں جو اسی ذریعہ سے شہرت اور عزت کے مرتبے پر پہنچے ہیں۔ اب کسی فحش کتاب کا لکھنا کسی کے لیے بے عزتی نہیں ہے، بلکہ اگر کتاب مقبول ہو جائے تو ایسے مصنّفین فرنچ اکیڈمی کے ممبر یا کم از کم ’’کردے دانیو‘‘ (corix d honneus) { FR 7932 } کے مستحق ہو جاتے ہیں۔
حکومت ان تمام بے شرمیوں اور ہیجان انگیزیوں کو ٹھنڈے دل سے دیکھتی رہتی ہے۔ کبھی کوئی بہت ہی زیادہ شرم ناک چیز شائع ہو گئی تو پولیس نے بادل نخواستہ چالان کر دیا۔ مگر اوپر فراخ دل عدالتیں بیٹھی ہیں جن کی بارگاہِ عدل سے اس قسم کے مجرموں کو صرف تنبیہ کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کیوں کہ جو لوگ عدالت کی کرسیوں پر جلوہ فرما ہوتے ہیں ان میں سے اکثر اس لٹریچر سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں اور بعض حکامِ عدالت کا اپنا قلم فحش صنفی لٹریچر کی تصنیف سے آلودہ ہوتا ہے۔ اتفاقًا اگر کوئی مجسٹریٹ دقیانوسی خیال کا نکل آیا اور اس سے ’’بے انصافی‘‘ کا اندیشہ ہوا تو بڑے بڑے ادیب اور نام وَر اہلِ قلم بالاتفاق اس معاملہ میں مداخلت کرتے ہیں، اور زورشور سے اخبارات میں لکھا جاتا ہے کہ آرٹ اور لٹریچر کی ترقی کے لیے آزاد فضا درکار ہے، قرونِ مظلمہ کی سی ذہنیت کے ساتھ اَخلاقی بندشیں لگانے کے معنی تو یہ ہیں کہ فنونِ لطیفہ کا گلا گھونٹ دیا جائے۔
اور یہ فنونِ لطیفہ کی ترقی ہوتی کس کس طرح ہے؟ اس میں ایک بڑا حصہ ان ننگی تصویروں اور عملی تصویروں کا ہے جن کے البم لاکھوں کی تعداد میں تیار کیے جاتے ہیں اور نہ صرف بازاروں، ہوٹلوں اور چائے خانوں میں بلکہ مدرسوں اور کالجوں تک میں پھیلائے جاتے ہیں۔ امیل پوریسی (Emile Poureisy)نے جمعیت انسداد فواحش کے دوسرے اجلاس عام میں جو رپورٹ پیش کی تھی اس میں وہ لکھتا ہے:
یہ گندے فوٹو گراف لوگوں کے حواس میں شدید ہیجان و اختلال برپا کرتے ہیں اور اپنے بد قسمت خریداروں کو ایسے ایسے جرائم پر اکساتے ہیں جن کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں پر ان کا تباہ کن اثر حد بیان سے زیادہ ہے۔ بہت سے مدرسے اور کالج انھی کی بدولت اَخلاقی اور جسمانی حیثیت سے برباد ہو چکے ہیں۔ خصوصًا لڑکیوں کے لیے تو کوئی چیز اس سے زیادہ غارت گر نہیں ہو سکتی۔
اور انھی فنونِ لطیفہ کی خدمت تھیٹر، سینما، میوزک ہال اور قہوہ خانوں کی تفریحات کے ذریعہ سے ہو رہی ہے۔ وہ ڈرامے جن کی تمثیل کو فرنچ سوسائٹی کے اونچے سے اونچے طبقے دل چسپی کے ساتھ دیکھتے ہیں اور جن کے مصنّفین اور کام یاب نقالوں پر تحسین و آفرین کے پھول نچھاور کیے جاتے ہیں۔ بلا استثنا سب کے سب شہوانیت سے لبریز ہیں اور ان کی نمایاں خصوصیت بس یہ ہے کہ اَخلاقی حیثیت سے جو کریکٹر بدترین ہو سکتا ہے اسے ان میںمثل اعلیٰ اور اسوہ حسنہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ پول بیورو کے بقول ’’تیس چالیس‘‘ سال سے ہمارے ڈراما نگار زندگی کے جو نقشے پیش کر رہے ہیں انھیں دیکھ کر اگر کوئی شخص ہماری تمدنی زندگی کا اندازہ لگانا چاہے تو وہ بس یہ سمجھے گا کہ ہماری سوسائٹی میں جتنے شادی شدہ جوڑے ہیں سب خائن اور ازدواجی وفاداری سے عاری ہیں۔ شوہر یا بے وقوف ہوتا ہے یا بیوی کے لیے بلائے جان اور بیوی کی بہترین صفت اگرکوئی ہے تو وہ یہ ہے کہ ہر وقت شوہر سے دل برداشتہ ہونے اور ادھر ادھر دل لگانے کے لیے تیار رہے۔
اُونچی سوسائٹی کے تھیٹروں کا جب یہ حال ہے تو عوام کے تھیٹروں اور تفریح گاہوں کا جو رنگ ہو گا اس کا اندازہ بآسانی کیا جا سکتا ہے۔ بدترین آوارہ منش لوگ جس زبان، جن ادائوں اور جن عریانیوں سے مطمئن ہو سکتے ہیں وہ بغیر کسی شرم و حیا اور لاگ لپیٹ کے وہاں پیش کر دی جاتی ہیں اور عوام کو اشتہارات کے ذریعہ سے یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ تمھاری شہوانی پیاس جو جو کچھ مانگتی ہے وہ سب یہاں حاضر ہے۔ ہمار اسٹیج تکلف سے خالی اور حقیقت پر مبنی (realistic) ہے۔ امیل پوریسی نے اپنی رپورٹ میں متعدد مثالیں پیش کی ہیں جو مختلف تفریح گاہوں میں گشت لگا کر جمع کی گئی تھیں۔ ناموں کو اس نے حروفِ تہجی کے پردے میں چھپا دیا ہے۔
’’ب‘‘ میں ایکٹریس کے گیت، تکلمات (monologues) اور حرکات، انتہا درجہ کے فحش تھے اور پردہ پر جو پس منظر پیش کیا گیا تھا وہ بعض صنفی اختلاط کے آخری مدارج تک پہنچتے پہنچتے رہ گیا تھا۔ ایک ہزار سے زیادہ تماشائی موجود تھے جن میں شرفا بھی نظر آتے تھے اور سب عالمِ بے خودی میں صداہائے آفرین و مرحبا بلند کر رہے تھے۔
’’ن‘‘ میں چھوٹے چھوٹے گیت، ان کے درمیان چھوٹے چھوٹے بول اور ان کے ساتھ حرکات و سکنات، بے شرمی کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ بچے اور کم سن نوجوان اپنے والدین کے ساتھ بیٹھے ہوئے اس تماشے کو دیکھ رہے تھے اور پرجوش طریقے سے ہر شدید بے شرمی پر تالیاں بجاتے تھے۔
’’ل‘‘ میں حاضرین کے ہجوم نے پانچ مرتبہ شور مچا کر ایک ایسی ایکٹریس کو اعادے پر مجبور کیا جو اپنے ایکٹ کو ایک حد درجہ فحش گیت پر ختم کرتی تھی۔
’’ر‘‘ میں حاضرین نے ایسی ہی ایک اور ایکٹریس سے بار بار فرمائش کرکے ایک نہایت فحش چیز کا اعادہ کرایا۔ آخر اس نے بگڑ کر کہا ’’تم کتنے بے شرم لوگ ہو، دیکھتے نہیں کہ ہال میں بچے موجود ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایکٹ پورا کیے بغیر ہٹ گئی۔ چیز اتنی فحش تھی کہ وہ عادی مجرمہ بھی اس کی تکرارکو برداشت نہ کر سکتی تھی۔
’’ز‘‘ میں تماشا ختم ہونے کے بعد ایکٹرسوں پر لاٹری ڈالی گئی۔ لاٹری کے ٹکٹ خود ایکٹریسیں دس دس سانتیم میں فروخت کر رہی تھیں۔ جس شخص کے نام جو ایکٹریس نکل آئی وہ اس رات کے لیے اس کی تھی۔
پول بیورو لکھتا ہے کہ بسا اوقات اسٹیج پر بالکل برہنہ عورتیں تک پیش کر دی جاتی ہیں جن کے جسم پر کپڑے کے نام کا ایک تار بھی نہیں ہوتا۔اڈولف بریساں (Adolphe Briason) نے ایک مرتبہ فرانس کے مشہور اخبار ’’طان‘‘ (tamps) میں ان چیزوں پر احتجاج کرتے ہوئے لکھا کہ اب بس اتنی کسر رہ گئی ہے کہ اسٹیج پر فعل مباشرت کا منظر پیش کر دیا جائے۔‘‘ اور یہ سچ ہے کہ ’’آرٹ‘‘ کی تکمیل تو اسی وقت ہو گی!
مانع حمل کی تحریک اور صنفیات (sexual science) کے نام نہاد علمی اور طبی لٹریچر نے بھی بے حیائی پھیلانے، اور لوگوں کے اَخلاق بگاڑنے میں بڑا حصہ لیا ہے۔ پبلک جلسوں میں تقریروں اور میجک لینٹرن کے ذریعہ سے، اور مطبوعات میں تصاویر اور تشریحی بیانات کے ذریعہ سے حمل اور اس کے متعلقات اور مانع حمل آلات کے طریق استعمال کی وہ وہ تفصیلات بیان کی جاتی ہیں جن کے بعد کوئی چیز قابلِ اظہار باقی نہیں رہ جاتی۔ اسی طرح صنفیات کی کتابوں میں تشریحِ بدن سے لے کر آخر تک معاملات صنفی کے کسی پہلو کو بھی روشنی میں لائے بغیر نہیں چھوڑا جاتا۔ بظاہر ان سب چیزوں پر علم اور سائنس کا غلاف چڑھا دیا گیا ہے تاکہ یہ اعتراض سے بالاتر ہو جائیں۔ بلکہ مزید ترقی کرکے ان چیزوں کی اشاعت کو ’’خدمتِ خلق‘‘ کے نام سے بھی موسوم کر دیا جاتا ہے اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہم تو لوگوں کو صنفی معاملات میں غلطیاں کرنے سے بچانا چاہتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس لٹریچر اور اس تعلیم کی عام اشاعت نے عورتوں، مردوں اور کم سن نوجوانوں میں سخت بے حیائی پیدا کر دی ہے۔ اس کی بدولت آج یہ نوبت آ گئی ہے کہ ایک نوخیز لڑکی جو مدرسے میں تعلیم پاتی ہے اور ابھی سن بلوغ کو بھی پوری طرح نہیں پہنچتی ہے، صنفی معاملات کے متعلق وہ معلومات رکھتی ہے جو کبھی شادی شدہ عورتوں کو بھی حاصل نہ تھیںاور یہی حال نوخیز بلکہ نابالغ لڑکوں کا بھی ہے ان کے جذبات قبل از وقت بیدار ہو جاتے ہیں۔ ان میں صنفی تجربات کا شوق پیدا ہو جاتا ہے۔ پوری جوانی کو پہنچنے سے پہلے ہی وہ اپنے آپ کو خواہشاتِ نفسانی کے چنگل میں دے دیتے ہیں۔ نکاح کے لیے تو عمر کی حد مقرر کی گئی ہے مگر ان تجربات کے لیے کوئی حد مقرر نہیں۔ بارہ تیرہ سال کی عمر ہی سے ان کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
۸۔ قومی ہلاکت کے آثار
جہاں بد اخلاقی، نفس پرستی اور لذاتِ جسمانی کی بندگی اس حد کو پہنچ چکی ہو، جہاں عورت، مرد، جوان، بوڑھے سب کے سب عیش کوشی میں اس قدر منہمک ہو گئے ہوں اور جہاں انسان کو شہوانیت کے انتہائی اشتعال نے یوں آپے سے باہر کر دیا ہو، ایسی جگہ ان تمام اسباب کا بروئے کار آ جانا بالکل ایک طبعی امر ہے جو کسی قوم کی ہلاکت کا موجب ہوتے ہیں۔ لوگ اس قسم کی برسرِانحطاط علی شفا حفرۃ من النار قوموں کو برسر عروج دیکھ کر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ان کی عیش پرستی ان کی ترقی میں مانع نہیں ہے بلکہ الٹی مددگار ہے اور یہ کہ ایک قوم کے انتہائی عروج و ترقی کا زمانہ وہ ہوتا ہے جب وہ لذت پرستی کے انتہائی مرتبہ پر ہوتی ہے۔ لیکن یہ ایک سراسر غلط استنتاج ہے۔ جہاں تعمیر اور تخریب کی قوتیں ملی جلی کام کر رہی ہوں اور مجموعی حیثیت سے تعمیر کا پہلو نمایاں نظر آتا ہو، وہاں تخریبی قوتوں کو بھی اسبابِ تعمیر میں شمار کر لینا صرف اس شخص کا کام ہو سکتا ہے جس کی عقل خبط ہو گئی ہو۔
مثال کے طور پراگر ایک ہوشیار تاجر اپنی ذہانت، محنت اور آزمودہ کاری کے سبب لاکھوں روپیہ کما رہا ہے اور اس کے ساتھ وہ مے نوشی، قمار بازی اور عیاشی میں بھی مبتلا ہو گیا ہے، تو آپ کتنی بڑی غلطی کریں گے اگر اس کی زندگی کے ان دونوں پہلوئوں کو اس کی خوش حالی اور ترقی کے اسباب میں شمار کر لیں گے۔ دراصل اس کی صفات کا پہلا مجموعہ اس کی تعمیر کا موجب اور دوسرا مجموعہ اس کی تخریب میں لگا ہوا ہے۔ پہلے مجموعہ کی طاقت سے اگر عمارت قائم ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ دوسرے مجموعہ کی تخریبی طاقت اپنا اثر نہیں کر رہی ہے۔ ذرا گہری نظر سے دیکھیے تو پتا چلے گا کہ یہ تخریبی قوتیں اس کے دماغ اور جسم کی طاقتوں کو برابر کھائے جا رہی ہیں۔ اس کی محنت سے کمائی ہوئی دولت پر ڈاکا ڈال رہی ہیں، اور اسے بتدریج تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہر وقت اس تاک میں لگی ہوئی ہیں کہ کب ایک فیصلہ کن حملہ کا موقع ملے اور یہ ایک ہی وار میں اس کا خاتمہ کر دیں۔ قمار بازی کا شیطان کسی بُری گھڑی اس کی عمر بھر کی کمائی کو ایک سیکنڈ میں غارت کر سکتا ہے اور وہ اس گھڑی کا منتظر بیٹھا ہے۔ مے نوشی کا شیطان وقت آنے پر اس سے عالمِ مدہوشی میں ایسی غلطی کرا سکتا ہے جو یک لخت اسے دیوالیا بنا کر چھوڑ دے اور وہ بھی گھات میں لگا ہوا ہے۔ بدکاری کا شیطان بھی اس گھڑی کا انتظارکر رہا ہے جب وہ اسے قتل یا خود کشی یا کسی اور اچانک تباہی میں مبتلا کر دے۔ تم اندازہ نہیں کر سکتے کہ اگر وہ ان شیاطین کے چنگل میں پھنسا ہوا نہ ہوتا تو اس کی ترقی کا کیا حال ہوتا۔
ایسا ہی معاملہ ایک قوم کا بھی ہے۔ وہ تعمیری قوتوں کے بل پر ترقی کرتی ہے، مگر صحیح راہ نمائی نہ ملنے کی وجہ سے ترقی کی طرف چند ہی قدم بڑھانے کے بعد خود اپنی تخریب کے اسباب فراہم کرنے لگتی ہے۔ کچھ مدت تک تعمیری قوتیں اپنے زور میں اسے آگے بڑھائے لیے چلی جاتی ہیں مگر اس کے ساتھ تخریبی قوتیں اس کی زندگی کی طاقت کو اندر ہی اندر گھن کی طرح کھاتی رہتی ہیں۔ یہاں تک کہ آخر کار اسے اتنا کھوکھلا کرکے رکھ دیتی ہیں کہ ایک اچانک صدمہ اس کے قصرِ عظمت کو آن کی آن میں پیوندِ خاک کر سکتا ہے۔ یہاں مختصر طور پر ہم ان بڑے بڑے نمایاں اسبابِ ہلاکت کو بیان کریں گے جو فرنچ قوم کے اس غلط نظامِ معاشرت نے ان کے لیے پیدا کیے ہیں۔
۹۔ جسمانی قوتوں کا اِنحطاط
شہوانیت کے اس تسلط کا اولین نتیجہ یہ ہوا ہے کہ فرانسیسیوں کی جسمانی قوت رفتہ رفتہ جواب دیتی چلی جا رہی ہے۔ دائمی ہیجانات نے ان کے اعصاب کم زور کر دیے ہیں۔ خواہشات کی بندگی نے ان میں خبط اور برداشت کی طاقت کم ہی باقی چھوڑی ہے اور امراضِ خبیثہ کی کثرت نے ان کی صحت پر نہایت مہلک اثر ڈالا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز سے یہ کیفیت ہے کہ فرانس کے فوجی حکام کو مجبورًا ہر چند سال کے بعد نئے رنگروٹوں کے لیے جسمانی اہلیت کے معیار کو گھٹا دینا پڑتا ہے، کیوں کہ اہلیت کا جو پہلے معیار تھا اب اس معیار کے نوجوان قوم میں کم از کم تر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک معتبر پیمانہ ہے جو تھرما میٹر کی طرح قریب قریب یقین صحت کے ساتھ بتاتا ہے کہ فرنچ قوم کی جسمانی قوتیں کتنی تیزی کے ساتھ بتدریج گھٹ رہی ہیں۔ امراضِ خبیثہ اس تنزل کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہیں۔ جنگِ عظیم اوّل کے ابتدائی دو سالوں میں جن سپاہیوں کو محض آتشک کی وجہ سے رخصت دے کر ہسپتالوں میں بھیجنا پڑا ان کی تعداد ۷۵۰۰۰ تھی۔ صرف ایک متوسط درجہ کی فوجی چھائونی میں بیک وقت ۲۴۲ سپاہی اس مرض میں مبتلا ہوئے۔ ایک طرف اس وقت کی نزاکت کو دیکھیے کہ فرانسیسی قوم کی موت اور حیات کا فیصلہ درپیش تھا اور اس کے وجود و بقا کے لیے ایک ایک سپاہی کی جاں فشانی درکار تھی۔ ایک ایک فرانک بیش قیمت تھا اور وقت، قوت، وسائل ہر چیز کی زیادہ سے زیادہ مقدار دفاع میں خرچ ہونے کی ضرورت تھی۔ دوسری طرف اس قوم کے جوانوں کو دیکھیے کہ کتنے ہزار افراد اس عیاشی کی بدولت نہ صرف خود کئی کئی مہینوں کے لیے بے کار ہوئے بلکہ انھوں نے اپنی قوم کی دولت اور وسائل کو بھی اس آڑے وقت میں اپنے علاج پر ضائع کرایا۔
ایک فرانسیسی ماہر فن ڈاکٹر لیرید (Dr. Laredde) کا بیان ہے کہ فرانس میں ہر سال صرف آتشک اور اس کے پیدا کردہ امراض کی وجہ سے ۳۰ ہزار جانیں ضائع ہو جاتی ہیں اور دق کے بعد یہ مرض سب سے زیادہ ہلاکتوں کا باعث ہوتا ہے۔ یہ صرف ایک مرضِ خبیث کا حال ہے اور امراض خبیثہ کی فہرست صرف اسی ایک مرض پر مشتمل نہیں ہے۔
۱۰۔ خاندانی نظام کی بربادی
اس بے قید شہوانیت اور آوارہ منشی کے اس رواج عام نے دوسری عظیم الشان مصیبت جو فرانسیسی تمدن پر نازل کی ہے وہ خاندانی نظام کی تباہی ہے۔ خاندان کا نظام عورت اور مرد کے اس مستقل اور پائدار تعلق سے بنتا ہے جس کا نام نکاح ہے۔ اسی تعلق کی بدولت افراد کی زندگی میں سکون، استقلال اور ثبات پیدا ہوتا ہے۔ یہی چیز ان کی انفرادیت کو اجتماعیت میں تبدیل کرتی ہے اور انتشار (انارکی) کے میلانات کو دبا کر انھیں تمدن کا خادم بناتی ہے۔ اسی نظام کے دائرے میں محبت، امن اور ایثار کی وہ پاکیزہ فضا پیدا ہوتی ہے جس میں نئی نسلیں صحیح اخلاق، صحیح تربیت اور صحیح قسم کی تعمیر سیرت کے ساتھ پروان چڑھ سکتی ہیں۔ لیکن جہاں عورتوں اور مردوں کے ذہن سے نکاح اور اس کے مقصد کا تصور بالکل ہی نکل گیا ہو اور جہاں صنفی تعلق کا کوئی مقصد شہوانی آگ کو بجھا لینے کے سوا لوگوں کے ذہن میں نہ ہو اور جہاں ذواقین و ذواقات کے لشکر کے لشکر بھنوروں کی طرح پھول پھول کا رس لیتے پھرتے ہوں۔ وہاں یہ نظام نہ قائم ہو سکتا ہے۔ نہ قائم رہ سکتا ہے۔ وہاں عورتوں اور مردوں میں یہ صلاحیت ہی باقی نہیں رہتی کہ ازدواج کی ذمہ داریوں، اس کے حقوق و فرائض اور اس کے اَخلاقی انضباط کا بوجھ سہار سکیں اور ان کی اس ذہنی و اَخلاقی کیفیت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہر نسل کی تربیت پہلی نسل سے بدتر ہوتی ہے۔ افراد میں خود غرضی و خود سری اتنی ترقی کر جاتی ہے کہ تمدن کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ نفوس میں تلون اور سیماب وشی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ قومی سیاست اور اس کے بین الاقوامی رویہ میں بھی کوئی ٹھہرائو باقی نہیں رہتا۔ گھرکا سکون بہم نہ پہنچنے کی وجہ سے افراد کی زندگی تلخ اور تلخ تر ہوتی جاتی ہے اور ایک دائمی اضطراب انھیں کسی کل چین نہیں لینے دیتا۔ یہ دنیوی جہنم کا عذاب ہے جسے انسان اپنی احمقانہ لذت طلبی کے جنون میں خود مول لیتا ہے۔
فرانس میں سالانہ سات آٹھ فی ہزار کا اوسط اُن مردوں اور عورتوں کا ہے جو ازدواج کے رشتہ میں منسلک ہوتے ہیں۔ یہ اوسط خود اتنا کم ہے کہ اسے دیکھ کر آسانی کے ساتھ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آبادی کا کتنا کثیر حصہ غیر شادی شدہ ہے۔ پھر اتنی قلیل تعداد جو نکاح کرتی ہے ان میں بھی بہت کم لوگ ایسے ہیں جو باعصمت رہتے اور پاک اَخلاقی زندگی بسر کرنے کی نیت سے نکاح کرتے ہیں۔ اس ایک مقصد کے سوا ہردوسرا ممکن مقصد ان کے پیشِ نظر ہوتا ہے۔ حتّٰی کہ عامۃ الورود مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نکاح سے پہلے ایک عورت نے جو بچہ ناجائز طور پر جنا ہے، نکاح کرکے اسے مولود جائز بنا دیا جائے۔ چنانچہ پول بیورو لکھتا ہے کہ فرانس کے کام پیشہ لوگوں (working classes) میں یہ عام دستور ہے کہ نکاح سے پہلے عورت اپنے ہونے والے شوہر سے اس بات کا وعدہ لے لیتی ہے کہ وہ اس کے بچہ کو اپنا بچہ تسلیم کرے گا۔ ۱۹۱۷ء میں سین (Seine) کی عدالتِ دیوانی کے سامنے ایک عورت نے بیان دیا کہ ’’میں نے شادی کے وقت ہی اپنے شوہر کو اس بات سے آگاہ کر دیا تھا کہ اس شادی سے میرا مقصد صرف یہ ہے کہ قبل از نکاح آزادانہ تعلقات سے ہمارے جو بچے پیدا ہوئے ہیں انھیں ’’حلالی‘‘ بنا دیا جائے۔ باقی رہی یہ بات کہ مَیں اس کے ساتھ بیوی بن کر زندگی گزاروں تو یہ نہ اس وقت میرے ذہن میں تھی اور نہ اب ہے۔ اسی بِنا پر جس روز شادی ہوئی اسی روز ساڑھے پانچ بجے میں اپنے شوہر سے الگ ہو گئی اور آج تک اس سے نہیں ملی کیوں کہ مَیں فرائضِ زوجیت ادا کرنے کی کوئی نیت نہ رکھتی تھی۔‘‘ (صفحہ: ۵۵)
پیرس کے ایک مشہور کالج کے پرنسپل نے پول بیورو سے بیان کیا کہ عمومًا نوجوان نکاح میں صرف یہ مقصد پیشِ نظر رکھتے ہیں کہ گھر پر بھی ایک داشتہ کی خدمت حاصل کر لیں۔ دس بارہ سال تک وہ ہر طرف آزادانہ مزے چکھتے پھرتے ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ اس قسم کی بے ضابطہ، آوارہ زندگی سے تھک کر وہ ایک عورت سے شادی کر لیتے ہیں تاکہ گھر کی آسائش بھی کسی حد تک بہم پہنچے اور آزادانہ ذواقی کا لطف بھی حاصل کیا جاتا رہے۔ (صفحہ: ۵۶)
فرانس میں شادی شدہ اشخاص کا زنا کار ہونا قطعًا کوئی معیوب یا قابلِ ملامت فعل نہیں۔ اگرکوئی شخص اپنی بیوی کے علاوہ کوئی مستقل داشتہ رکھتا ہو تو وہ اسے چھپانے کی ضرورت نہیں سمجھتا اور سوسائٹی اس فعل کو ایک معمولی اور متوقع بات سمجھتی ہے۔ (صفحہ ۷۶۔۷۷)
ان حالات میں نکاح کا رشتہ اس قدر بودا ہو کر رہ گیا ہے کہ بات بات پر ٹوٹ جاتا ہے۔ بسا اوقات اس بے چارے کی عمر چند گھنٹوں سے متجاوز نہیں ہوتی۔ چنانچہ فرانس کے ایک معزز شخص نے جو کئی مرتبہ وزیر رہ چکا تھا، اپنی شادی کے صرف پانچ گھنٹا بعد اپنی بیوی سے طلاق حاصل کر لی۔ ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں طلاق کا موجب بن جاتی ہیں جنھیں سن کر ہنسی آتی ہے۔ مثلاً فریقین میں سے کسی ایک کا سوتے میں خراٹے لینا یا کتے کو پسند نہ کرنا۔ سین عدالت دیوانی نے ایک مرتبہ صرف ایک تاریخ میں ۲۹۴ نکاح فسخ کیے۔ ۱۸۴۴ء میں جب طلاق کا نیا قانون پاس ہوا تھا، چار ہزار طلاقیں واقع ہوئی تھیں۔ ۱۹۰۰ء میں یہ تعداد ساڑھے سات ہزار تک پہنچی۔ ۱۹۱۳ء میں ۱۶ ہزار اور ۱۹۳۱ء میں ۲۱ ہزار۔
۱۱۔ نسل کُشی
بچوں کی پرورش ایک اعلیٰ درجہ کا اخلاقی کام ہے جو ضبطِ نفس، خواہشات کی قربانی، تکلیفوں اور محنتوں کی برداشت اور جان و مال کا ایثار چاہتا ہے۔ خود غرض نفس پرست لوگ جن پر انفرادیت اور بہیمیت کا پورا تسلط ہو چکا ہو، اس خدمت کی انجام دہی کے لیے کسی طرح راضی نہیں ہوسکتے۔
ساٹھ ستر برس سے فرانس میں مانع حمل کی تحریک کا زبردست پرچار ہو رہا ہے۔ اس تحریک کی بدولت سرزمین فرانس کے ایک ایک مرد اور ایک ایک عورت تک ان تدابیر کا علم پہنچا دیا گیا ہے جن سے آدمی اس قابل ہو سکتا ہے کہ صنفی تعلق اور اس کی لذات سے متمتع ہونے کے باوجود اس فعل کے قدرتی نتیجہ، یعنی استقرار حمل اور تولید نسل سے بچ سکے۔ کوئی شہر، قصبہ یا گائوں ایسا نہیں ہے جہاں مانع حمل دوائیں اور آلات برسرِ عام فروخت نہ ہوتے ہوں اور ہر شخص انھیں حاصل نہ کر سکتا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آزاد شہوت رانی کرنے والے لوگ ہی نہیں بلکہ شادی شدہ جوڑے بھی کثرت سے ان تدابیر کو استعمال کرتے ہیں اور ہر زن و مرد کی یہ خواہش ہے کہ ان کے درمیان بچہ، یعنی وہ بلا جو تمام لطف و لذت کو کرکرا کر دیتی ہے، کسی طرح خلل انداز نہ ہونے پائے۔ فرانس کی شرح پیدائش جس رفتار سے گھٹ رہی ہے اسے دیکھ کر ماہرین فن نے اندازہ لگایا ہے کہ مانع حمل کی اس وبائے عام کی بدولت کم از کم ۶ لاکھ انسانوں کی پیدائش روک دی جاتی ہے۔
ان تدابیر کے باوجود حمل ٹھہر جاتے ہیں، انھیں اسقاط کے ذریعہ سے ضائع کیا جاتا ہے اور اس طرح مزید تین چار لاکھ انسان دنیا میں آنے سے روک دیے جاتے ہیں۔ اسقاطِ حمل صرف غیرشادی شدہ عورتیں ہی نہیں کراتیں بلکہ شادی شدہ بھی اس معاملہ میں ان کی ہم پلہ ہیں۔ اخلاقًا اس فعل کو ناقابلِ اعتراض، بلکہ عورت کا حق سمجھا جاتا ہے۔ قانون نے اس کی طرف سے گویا آنکھیں بند کر لی ہیں۔ اگرچہ کتاب آئین میں یہ فعل ابھی تک جرم ہے، لیکن عملًا یہ حال ہے کہ ۳۰۰ میں سے بمشکل ایک کے چالان کی نوبت آتی ہے، اور پھر جن کا چالان ہو جاتا ہے ان میں سے بھی ۷۵ فی صد عدالت میں جا کر چھوٹ جاتے ہیں۔ اسقاط کی طبی تدابیر اتنی آسان اور اس قدر معلوم عوام کر دی گئی ہیں کہ اکثر عورتیں خود ہی اسقاط کر لیتی ہیں اور جو نہیں کر سکتیں انھیں طبی امداد حاصل کرنے میں کوئی دقت نہیں۔ پیٹ کے بچے کو ہلاک کر دینا ان لوگوں کے لیے بالکل ایسا ہو گیا ہے جیسے کسی درد کرنے والے دانت کو نکلوا دینا۔
اس ذہنیت نے فطرتِ مادری کو اتنا مسخ کر دیا ہے کہ وہ ماں جس کی محبت کودنیا ہمیشہ سے محبت کا بلند ترین منتہیٰ سمجھتی رہی ہے، آج اپنی اولاد سے بے زار، متنفر بلکہ اس کی دشمن ہو گئی ہے۔ مانعِ حمل اور اسقاط سے بچ بچا کر جو بچے دنیا میں آ جاتے ہیں ان کے ساتھ سخت بے رحمی کا برتائو کیا جاتا ہے۔ اس دردناک حقیقت کو پول بیورو نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
آئے دن اخبارات میں ان بچوں کے مصائب کی اطلاعات شائع ہوتی رہتی ہیں جن پر ان کے ماں باپ سخت سے سخت ظلم ڈھاتے ہیں۔ اخباروں میں تو صرف غیر معمولی واقعات ہی کا تذکرہ آتا ہے۔ مگر لوگ واقف ہیں کہ عمومًا ان بچوں…… ناخواندہ مہمانوں…… کے ساتھ کیسا بے رحمانہ برتائو کیا جاتا ہے جن سے ان کے والدین صرف اس لیے دل برداشتہ ہیں کہ ان کم بختوں نے آ کر زندگی کا سارا لطف غارت کر دیا۔ جرأت کی کمی اسقاط میں مانع ہو جاتی ہے اور اس طرح ان معصوموں کو آنے کا موقع مل جاتا ہے، مگر جب یہ آ جاتے ہیں تو انھیں اس کی پوری سزا بھگتنا پڑتی ہے۔(صفحہ ۷۴)
یہ بے زاری اور نفرت یہاں تک پہنچتی ہے کہ ایک مرتبہ ایک عورت کا چھے ماہ کا بچہ مر گیا تو وہ اس کی لاش کو سامنے رکھ کر خوشی کے مارے ناچی اور گائی اور اپنے ہم سایوں سے کہتی پھری کہ ’’اب ہم دوسرا بچہ نہ ہونے دیں گے۔ مجھے اور میرے شوہر کو اس بچے کی موت سے بڑا اطمینان نصیب ہوا ہے۔ دیکھو تو سہی ایک بچہ کیا چیز ہوتا ہے۔ ہر وقت روں روں کرتا رہتا ہے، گندگی پھیلاتا ہے اور آدمی کو کبھی اس سے نجات نصیب نہیں ہوتی۔
اس سے بھی زیادہ دردناک بات یہ ہے کہ بچوں کو قتل کرنے کی وبا تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور فرانسیسی حکومت اور اس کی عدالتیں اسقاطِ حمل کی طرح اس جرمِ عظیم کے معاملہ میںبھی کمال درجہ کا تغافل برت رہی ہیں۔ مثلاً فروری ۱۹۱۸ء میں لوار (loire) کی عدالت میں دو لڑکیاں اپنے بچوں کے قتل کے الزام میں پیش ہوئیں اور دونوں بری کر دی گئیں۔ ان میں سے ایک لڑکی نے اپنے بچے کو پانی میں ڈبو کر ہلاک کیا تھا۔ اس کے ایک بچے کو اس کے رشتہ دار پہلے سے پرورش کر رہے تھے اور اس دوسرے بچے کو بھی وہ پرورش کرنے کے لیے آمادہ تھے، مگر اس نے پھر بھی یہی فیصلہ کیا کہ اس غریب کو جیتا نہ چھوڑے۔ عدالت کی رائے میں اس کا جرم قابلِ معافی تھا۔ دوسری لڑکی نے اپنے بچے کو گلا گھونٹ کر مار دیا اور جب گلا گھونٹنے پر بھی اس میں کچھ جان باقی رہ گئی تو دیوار پر مار کر اس کا سر پھوڑ دیا۔ یہ عورت بھی فرانسیسی ججوں اور جیوری کی نگاہ میں قصاص کی سزاوار نہ ٹھہری۔ اسی ۱۹۱۸ء کے ماہ مارچ میں سین کی عدالت کے سامنے ایک رقاصہ پیش ہوئی جس نے اپنے بچہ کی زبان حلق سے کھینچنے کی کوشش کی، پھر اس کا سرپھوڑا اور اس کا گلا کاٹ ڈالا۔ یہ عورت بھی جج اور جیوری کی رائے میں مجرم نہ تھی۔
جو قوم اپنی نسل کی دشمنی میں اس حد کو پہنچ جائے اسے دنیا کی کوئی تدبیر فنا ہونے سے نہیں بچا سکتی۔ نئی نسلوں کی پیدائش ایک قوم کے وجود کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ اگرکوئی قوم اپنی نسل کی دشمن ہے تو دراصل وہ آپ اپنی دشمن ہے، خود کشی کر رہی ہے، کوئی بیرونی دشمن نہ ہو تب بھی وہ آپ اپنی ہستی کو مٹا دینے کے لیے کافی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، فرانس کی شرح پیدائش گزشتہ ساٹھ سال سے پیہم گرتی جا رہی ہے۔ کسی سال شرح اموات شرحِ پیدائش سے بڑھ جاتی ہے، کسی سال دونوں برابر رہتی ہیں اور کبھی شرح پیدائش، شرح اموات کی بہ نسبت مشکل سے ایک فی ہزار زائد ہوتی ہے۔ دوسری طرف سرزمین فرانس میں غیر قوموں کے مہاجرین کی تعداد روز افزوں ہے۔ چنانچہ ۱۹۳۱ء میں فرانس کی ۴ کروڑ ۱۸ لاکھ کی آبادی میں ۲۸ لاکھ ۹۰ ہزار غیر قوموں کے لوگ تھے۔ یہ صورتِ حال یوں ہی رہی تو بیسویں صدی کے اختتام تک فرانسیسی قوم عجب نہیں کہ خود اپنے وطن میں اقلیت بن کر رہ جائے۔
یہ ا نجام ہے ان نظریات کا جن کی بنا پر عورتوں کی آزادی اور حقوقِ نسواں کی تحریک انیسویں صدی کے آغاز میں اٹھائی گئی تھی۔
٭…٭…٭…٭…٭

۶ ۔چند اور مثالیں

۱۔امریکا
ہم نے محض تاریخی بیان کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے فرانس کے نظریات اور فرانس ہی کے نتائج بیان کیے ہیں۔ لیکن یہ گمان کرنا صحیح نہیں ہو گا کہ فرانس اس معاملہ میں منفرد ہے۔ فی الحقیقت آج اُن تمام ممالک کی کم و بیش یہی کیفیت ہے جنھوں نے وہ اَخلاقی نظریات اور معاشرے کے وہ غیر متوازن اصول اختیار کیے ہیں جن کا ذکر پچھلے ابواب میں کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ممالک متحدہ امریکا کو لیجیے جہاں یہ نظامِ معاشرت اس وقت اپنے پورے شباب پر ہے۔
بچوں پر شہوانی ماحول کے اثرات
جج بن لنڈسے (Ben Lindsey) جسے ڈنور (Denver) کی عدالت جرائمِ اطفال (juvenile court) کا صدر ہونے کی حیثیت سے امریکا کے نوجوانوں کی اَخلاقی حالت سے واقف ہونے کا بہت زیادہ موقع ملا ہے۔ اپنی کتاب “Revolf of Modern Youth” میں لکھتا ہے کہ امریکا میں بچے قبل از وقت بالغ ہونے لگے ہیں اور بہت کچی عمر میں ان کے اندر صنفی احساسات بیدار ہو جاتے ہیں۔ اس نے نمونہ کے طور پر ۳۱۲ لڑکیوں کے حالات کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ان میں ۲۵۵ ایسی تھیں جو گیارہ اور تیرہ برس کے درمیان عمر میں بالغ ہو چکی تھیں اور ان کے اندر ایسی صنفی خواہشات اور ایسے جسمانی مطالبات کے آثار پائے جاتے تھے جو ایک ۱۸برس اور اس سے بھی زیادہ عمر کی لڑکی میں ہونے چاہییں۔ (صفحہ ۸۲ تا ۸۶)
ڈاکٹر ایڈتھ ہو کر (Edith Hooker) اپنی کتاب “Laws of Sex” میں لکھتی ہے کہ ’’نہایت مہذب اور دولت مند طبقوں میں بھی یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے کہ سات آٹھ برس کی لڑکیاں اپنے ہم عمر لڑکوں سے عشق و محبت کے تعلقات رکھتی ہیں، جن کے ساتھ بسا اوقات مباشرت بھی ہو جاتی ہے۔‘‘
اس کا بیان ہے:
ایک سات برس کی چھوٹی سی لڑکی جو ایک نہایت شریف خاندان کی چشم و چراغ تھی خود اپنے بڑے بھائی اور اس کے چند دوستوں سے ملوث ہوئی۔ ایک دوسرا واقعہ یہ ہے کہ پانچ بچوں کا ایک گروہ جو دو لڑکیوں اور تین لڑکوں پر مشتمل تھا اور جن کے گھر پاس پاس واقع ہوئے تھے باہم شہوانی تعلقات میں وابستہ پائے گئے اور انھوں نے دوسرے ہم سن بچوں کو بھی اس کی ترغیب دی۔ ان میں سب سے بڑے بچے کی عمر صرف دس سال کی تھی۔ ایک اور واقعہ ایک ۹ سال کی بچی کا ہے جو بظاہر بہت حفاظت سے رکھی جاتی تھی۔ اس بچی کو متعدد ’’عشاق‘‘ کی منظورِ نظر ہونے کا فخر حاصل تھا۔‘‘ (صفحہ ۳۲۸)
بالٹی مور (baltimore) کے ایک ڈاکٹر کی رپورٹ ہے کہ ایک سال کے اندر اس کے شہر میں ایک ہزار سے زیادہ ایسے مقدمات پیش ہوئے جن میں بارہ برس سے کم عمر کی لڑکیوں کے ساتھ مباشرت کی گئی تھی۔ (صفحہ:۱۷۷)
یہ پہلا ثمرہ ہے اس ہیجان انگیز ماحول کا جس میں ہر طرف جذبات کو برانگیختہ کرنے والے اسباب فراہم ہو گئے ہوں۔ امریکا کا ایک مصنف لکھتا ہے کہ ہماری آبادی کا اکثر و بیش تر حصہ آج کل جن حالات میں زندگی بسر کر رہا ہے وہ اس قدر غیر فطری ہیں کہ لڑکے اور لڑکیوں کو دس پندرہ برس کی عمر ہی میں یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ عشق رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ نہایت افسوس ناک ہے۔ اس قسم کی قبل از وقت صنفی دل چسپیوں سے بہت بُرے نتائج رونما ہو سکتے ہیں اور ہوا کرتے ہیں۔ ان کا کم از کم نتیجہ یہ ہے کہ نو عمر لڑکیاں اپنے دوستوں کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں یا کم سنی میں شادیاں کر لیتی ہیں اور اگر محبت میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے تو خود کشی کر لیتی ہیں۔

(۲)تعلیم کا مرحلہ
اس طرح جن بچوں میں قبل از وقت صنفی احساسات بیدار ہو جاتے ہیں ان کے لیے پہلی تجربہ گاہ مدارس ہیں۔ مدرسے دو قسم کے ہیں۔ ایک قسم ان مدرسوں کی ہے جن میں ایک ہی صنف کے بچے داخل ہوتے ہیں۔ دوسری قسم اُن مدرسوں کی ہے جن میں تعلیم مخلوط ہے۔
پہلی قسم کے مدرسوں میں ’’صحبت ہم جنس‘‘ (homo-sexuality) اور خود کاری (masturbation) کی وبا پھیل رہی ہے، کیوں کہ جن جذبات کو بچپن ہی میں بھڑکایا جا چکا ہے اور جنھیں مشتعل کرنے کے سامان فضا میں ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں، وہ اپنی تسکین کے لیے کوئی نہ کوئی صورت نکالنے پرمجبور ہیں۔ ڈاکٹر ہوکر لکھتی ہے کہ اس قسم کی تعلیم گاہوں، کالجوں، نرسوں کے ٹریننگ سکولوں اور مذہبی مدرسوں میں ہمیشہ اس قسم کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن میں ایک ہی صنف کے دو فرد آپس میں شہوانی تعلق رکھتے ہیں اور صنف مقابل سے ان کی دل چسپی فنا ہو چکی ہے۔
اس سلسلہ میں اس نے بکثرت واقعات ایسے بیان کیے ہیں جن میں لڑکیاں لڑکیوں کے ساتھ اور لڑکے لڑکوں کے ساتھ ملوث ہوئے اور دردناک انجام سے دوچار ہوئے۔ بعض دوسری کتابوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ’’صحبت ہم جنس‘‘ کی وبا کس قدر کثرت سے پھیلی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر لوری (Dr. Lowry) اپنی کتاب Hereself میں لکھتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر نے چالیس خاندانوں کو خفیہ اطلاع دی کہ ان کے لڑکے اب مدرسہ میں نہیں رکھے جا سکتے۔ کیوں کہ ان میں ’’بداخلاقی کی ایک خوف ناک حالت‘‘ کا پتا چلا ہے۔ (صفحہ:۱۷۹)
اب دوسری قسم کے مدارس کو لیجیے جن میں لڑکیاں اور لڑکے ساتھ مل کر پڑھتے ہیں۔ یہاں اشتعال کے اسباب بھی موجود ہیں اور اسے تسکین دینے کے اسباب بھی۔ جس ہیجان جذبات کی ابتدا بچپن میں ہوئی تھی، یہاں پہنچ کر اس کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ بدترین فحش لٹریچر لڑکوں اور لڑکیوں کے زیر مطالعہ رہتا ہے۔ عشقیہ افسانے، نام نہاد ’’آرٹ‘‘ کے رسالے صنفی مسائل پر نہایت گندی کتابیں اور مانع حمل کی معلومات فراہم کرنے والے مضامین ہیں۔ یہ ہیں وہ چیزیں جو عنفوانِ شباب میں مدرسوں اور کالجوں کے طالبین اور طالبات کے لیے سب سے زیادہ جاذبِ نظر ہوتی ہیں۔ مشہور امریکن مصنف ہینڈ رچ فان لون (Hendrich Von Loain)کہتا ہے کہ:
یہ لٹریچر جس کی سب سے زیادہ مانگ امریکن یونی ورسٹیوں میں ہے، گندگی، فحش اور بے ہودگی کا بدترین مجموعہ ہے جو کسی زمانہ میں اس قدر آزادی کے ساتھ پبلک میں پیش نہیں کیا گیا۔
اس لٹریچر سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں، دونوں صنفوں کے جوان افراد ان پر نہایت آزادی اور بے باکی سے مباحثے کرتے ہیں اور اس کے بعد عملی تجربات کی طرف قدم بڑھایا جاتا ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں مل کر (petting parties) کے لیے نکلتے ہیں جن میں شراب اور سگریٹ کا استعمال خوب آزادی سے ہوتا ہے اور ناچ رنگ سے پورا لطف اٹھایا جاتا ہے۔{ FR 6804 }
لنڈسے کا اندازہ ہے کہ ہائی سکول کی کم از کم ۴۵ فی صدی لڑکیاں مدرسہ چھوڑنے سے پہلے خراب ہو چکتی ہیں اور بعد کے تعلیمی مدارج میں اوسط اس سے بہت زیادہ ہے۔ وہ لکھتا ہے:
ہائی سکول کا لڑکا بمقابلہ ہائی سکول کی لڑکی کے جذبات کی شدت میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ عمومًا لڑکی ہی کسی نہ کسی طرح پیش قدمی کرتی ہے اور لڑکا اس کے اشاروں پر ناچتا ہے۔
(۲) تین زبردست محرکات
مدرسے اور کالج میں پھر بھی ایک قسم کا ڈسپلن ہوتا ہے جو کسی حد تک آزادی عمل میں رکاوٹ پیدا کر دیتا ہے لیکن یہ نوجوان جب تعلیم گاہوں سے مشتعل جذبات اور بگڑی ہوئی عادات لیے ہوئے زندگی کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو ان کی شورش تمام حدود و قیود سے آزاد ہو جاتی ہے۔ یہاں ان کے جذبات کوبھڑکانے کے لیے ایک پورا آتش خانہ موجود رہتا ہے اور ان کے بھڑکتے ہوئے جذبات کی تسکین کے لیے ہرقسم کا سامان بھی کسی دقت کے بغیر فراہم ہو جاتا ہے۔
ایک امریکن رسالہ میں ان اسباب کو ’’جن کی وجہ سے وہاں بداخلاقی کی غیرمعمولی اشاعت ہو رہی ہے‘‘ اس طرح بیان کیا گیا ہے:
تین شیطانی قوتیں ہیں جن کی تثلیت آج ہماری دنیا پر چھا گئی ہے۔ اور یہ تینوں ایک جہنم تیارکرنے میں مشغول ہیں۔ فحش لٹریچر، جو جنگِ عظیم کے بعد حیرت انگیز رفتار کے ساتھ اپنی بے شرمی اور کثرتِ اشاعت میں بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ متحرک تصویریں جو شہوانی محبت کے جذبات کو نہ صرف بھڑکاتی ہیں بلکہ عملی سبق بھی دیتی ہیں۔ عورتوں کا گرا ہوا اخلاقی معیار جو ان کے لباس اور بسا اوقات ان کی برہنگی اور سگریٹ کے روزافزوں استعمال، اور مردوں کے ساتھ ان کے ہر قید و امتیاز سے ناآشنا اختلاط کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ تین چیزیں ہمارے ہاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور ان کا نتیجہ مسیحی تہذیب و معاشرت کا زوال اور آخر کار تباہی ہے۔ اگر انھیں نہ روکا گیا تو ہماری تاریخ بھی روم اور ان دوسری قوموں کے مماثل ہو گی جنھیں یہی نفس پرستی اور شہوانیت ان کی شراب، عورتوں اور ناچ رنگ سمیت فنا کے گھاٹ اُتار چکی ہے۔
یہ تین اسباب جو تمدن و معاشرت کی پوری فضا پر چھائے ہوئے ہیں ہر اُس جوان مرد اور جوان عورت کے جذبات میں ایک دائمی تحریک پیدا کرتے رہتے ہیں جس کے جسم میں تھوڑا سا بھی گرم خون موجود ہے۔ فواحش کی کثرت اس تحریک کا لازمی نتیجہ ہے۔

(۳) فواحش کی کثرت
امریکا میں جن عورتوں نے زنا کاری کو مستقل پیشہ بنا لیا ہے ان کی تعداد کا کم از کم اندازہ چارپانچ لاکھ کے درمیان ہے{ FR 6807 }۔ مگر امریکا کی بیسوا کو ہندوستان کی بیسوا پر قیاس نہ کر لیجیے۔ وہ خاندانی بیسوا نہیں ہے بلکہ وہ ایک ایسی عورت ہے جو کل تک کوئی آزاد پیشہ کرتی تھی۔ بُری صحبت میں خراب ہو گئی اور قحبہ خانے میں آ بیٹھی۔ چند سال یہاں گزارے گی۔ پھر اس کام کو چھوڑ کر کسی دفتر یا کارخانہ میں ملازم ہو جائے گی۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ امریکا کی ۵۰ فی صد بیسوائیں خانگی ملازموں domestic servant میں سے بھرتی ہوتی ہیں اور باقی ۵۰ فی صد ہسپتالوں، دفتروں اور دکانوں کی ملازمتیں چھوڑ کر آتی ہیں۔ عمومًا پندرہ اور بیس سال کی عمر میں یہ پیشہ شروع کیا جاتا ہے اور پچیس تیس سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد وہ عورت جو کل بیسوا تھی قحبہ خانے سے منتقل ہو کر کسی دوسرے آزاد پیشے میں چلی جاتی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امریکا میں چار پانچ لاکھ بیسوائوں کی موجودگی درحقیقت کیا معنی رکھتی ہے۔ جیسا کہ پچھلے باب میں بیان کیا جا چکا ہے، مغربی ممالک میں فاحشہ گری ایک منظم بین الاقوامی کاروبار کی حیثیت رکھتی ہے۔ امریکا میں نیویارک، ریوڈی جینر اور بیونس آئرس اس کاروبار کی بڑی منڈیاں ہیں۔ نیو یارک کی دو سب سے بڑی ’’تجارتی کوٹھیوں‘‘ میں سے ہر ایک کی ایک ایک انتظامی کونسل ہے جس کے صدر اور سیکرٹری باقاعدہ انتخاب کیے جاتے ہیں۔ ہر ایک نے قانونی مشیر مقرر کر رکھے ہیں تاکہ کسی عدالتی قضیہ میں پھنس جانے کی صورت میں ان کے مفاد کی حفاظت کریں۔ جوان لڑکیوں کو بہکانے اور اڑا کر لانے کے لیے ہزارہا دلال مقرر ہیں جو ہر جگہ شکار کی تلاش میں پھرتے رہتے ہیں۔ ان شکاریوں کی دست برد کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ شکاگو آنے والے مہاجرین کی لیگ کے صدر نے ایک مرتبہ ۱۵ مہینوں کے اعداد و شمار جمع کیے تھے تو معلوم ہوا کہ اس مدت میں ۷۲۰۰ لڑکیوں کے خطوط لیگ کے دفتر کو موصول ہوئے جن میں لکھا تھا کہ وہ شکاگو پہنچنے والی ہیں مگر ان میں سے صرف (۱۷۰۰) اپنی منزلِ مقصود کو پہنچ سکیں۔ باقی کا کچھ پتا نہ چل سکا کہ کہاں گئیں۔
قحبہ خانوں کے علاوہ بکثرت ملاقات خانے (assignation houses) اور (call houses) ہیں جو اس غرض کے لیے آراستہ رکھے جاتے ہیں کہ ’’شریف‘‘ اصحاب اور خواتین جب باہم ملاقات فرمانا چاہیں تو وہاں ان کی ملاقات کا انتظام کر دیا جائے۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ایک شہر میں ایسے ۷۸ مکان تھے۔ ایک دُوسرے شہر میں ۴۳۔ ایک اور شہر میں ۱۳،{ FR 6810 } ان مکانوں میں صرف بن بیاہی خواتین ہی نہیں جاتیں بلکہ بہت سی بیاہی ہوئی خواتین کا بھی وہاں سے گزر ہوتا رہتا ہے۔{ FR 6811 }
ایک مشہور ریفارمر کا بیان ہے کہ:
نیو یارک کی شادی شدہ آبادی کا پورا ایک تہائی حصہ ایسا ہے جو اخلاقی اورجسمانی حیثیت سے اپنی ازدواجی ذمہ داریوں میں وفادار نہیں ہے اور نیویارک کی حالت ملک کے دوسرے حصوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔
امریکا کے مصلحینِ اَخلاق کی ایک مجلس (committee of fourteen) کے نام سے مشہور ہے۔ اس مجلس کی طرف سے بداخلاقی کے مرکزوں کی تلاش اور ملک کی اَخلاقی حالت کی تحقیقات اور اِصلاحِ اَخلاق کی عملی تدابیر کا کام بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے۔ اس کی رپورٹوں میں بیان کیا گیا ہے کہ امریکا کے جتنے رقص خانے، نائٹ کلب، حسن گاہیں (beauty saloons)ہاتھوں کو خوب صورت بنانے کی دکانیں (manicure shops)، مالش کدے (massage rooms)، اور بال سنوارنے کی دکانیں (hair dressings) ہیں قریب قریب سب باقاعدہ قحبہ خانے بن چکے ہیں، بلکہ ان سے بھی بدتر، کیوں کہ وہاں ناقابلِ بیان افعال کا اِرتکاب کیا جاتا ہے۔
(۴) امراضِ خبیثہ
فواحش کی اس کثرت کا لازمی نتیجہ امراضِ خبیثہ کی کثرت ہے۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ امریکا کی قریب قریب ۹۰ فی صد آبادی ان امراض سے متاثر ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے سرکاری دواخانوں میں اوسطًا ہر سال آتشک کے دو لاکھ اور سوزاک کے ایک لاکھ ۶۰ہزار مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ ۶۵ دواخانے صرف انھی امراض کے لیے مخصوص ہیں۔ مگر سرکاری دوا خانوں سے زیادہ مرجوعہ پرائیویٹ ڈاکٹروں کا ہے جن کے پاس آتشک کے ۶۱ فی صد اور سوزاک کے ۶۹ فی صدی مریض جاتے ہیں۔ (جلد ۲۳۔ صفحہ۴۵)
تیس اور چالیس ہزار کے درمیاں بچوں کی اموات صرف موروثی آتشک کی بدولت ہوتی ہیں۔ دق کے سوا باقی تمام امراض سے جتنی موتیں واقع ہوتی ہیں ان سب سے زیادہ تعداد ان اموات کی ہے، جو صرف آتشک کی بدولت ہوتی ہیں۔ سوزاک کے ماہرین کا کم از کم تخمینہ ہے کہ ۶۰ فی صد جو ان اشخاص اس مرض میں مبتلا ہیں، جن میں شادی شدہ بھی ہیں اور غیر شادی شدہ بھی۔ امراضِ نسواں کے ماہرین کا متفقہ بیان ہے کہ شادی شدہ عورتوں کے اعضائے جنسی پر جتنے آپریش کیے جاتے ہیں، ان میں سے ۷۵ فی صدی ایسی نکلتی ہیں جن میں سوزاک کا اثر پایا جاتا ہے۔{ FR 6813 }
(۵) طلاق اورتفریق
ایسے حالات میں ظاہر ہے کہ خاندان کا نظم اور ازدواج کا مقدس رابطہ کہاں قائم رہ سکتا ہے۔ آزادی کے ساتھ اپنی روزی کمانے والی عورتیں جنھیں شہوانی ضروریات کے سوا اپنی زندگی کے کسی شعبہ میں بھی مرد کی ضرورت نہیں ہے اور جنھیں شادی کے بغیر آسانی کے ساتھ مرد بھی مل سکتے ہیں، شادی کو ایک فضول چیز سمجھتی ہیں۔ جدید فلسفہ اور مادّہ پرستانہ خیالات نے ان کے وجدان سے یہ احساس بھی دور کر دیا ہے کہ شادی کے بغیر کسی شخص سے تعلقات رکھنا کوئی عیب یا گناہ ہے۔ سوسائٹی کو بھی اس ماحول نے اس قدر بے حس بنا دیا ہے کہ وہ ایسی عورتوں کو قابلِ نفرت یا قابلِ ملامت نہیں سمجھتی۔ جج لنڈسے امریکا کی عام لڑکیوں کے خیالات کی ترجمانی ان الفاظ میں کرتا ہے:
مَیں شادی کیوں کروں؟ میرے ساتھ کی جن لڑکیوں نے گزشتہ دو سال میں شادیاں کی ہیں، ہر دس میں سے پانچ کی شادی کا انجام طلاق پر ہوا۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس زمانہ کی ہر لڑکی محبت کے معاملہ میں آزادی عمل کا فطری حق رکھتی ہے۔ ہمیں مانع حمل کی کافی تدبیریں معلوم ہیں۔ اس ذریعہ سے یہ خطرہ بھی دور کیا جا سکتا ہے کہ ایک حرامی بچہ کی پیدائش کوئی پیچیدہ صورتِ حال پیدا کر دے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ روایتی طریقوں کو اس جدید طریقہ سے بدل دینا عقل کا مقتضا ہے۔
ان خیالات کی بے شرم عورتوں کو اگر کوئی چیز شادی پر آمادہ کرتی ہے تو وہ صرف جذبۂ محبت ہے لیکن اکثر یہ جذبہ بھی دل اور روح کی گہرائی میں نہیں ہوتا، بلکہ محض ایک عارضی کشش کا نتیجہ ہوتا ہے۔ خواہشات کا نشہ اتر جانے کے بعد زوجین میں کوئی الفت باقی نہیں رہتی۔ مزاج اور عادات کی ادنیٰ ناموافقت ان کے درمیان منافرت پیدا کر دیتی ہے۔ آخر کار عدالت میں طلاق یا تفریق کا دعوٰی پیش ہو جاتا ہے۔ لنڈسے لکھتا ہے:
۱۹۲۲ء میں ڈنور میں ہر شادی کے ساتھ ایک واقعہ تفریق کا پیش آیا، اور دو شادیوں کے مقابلہ میں ایک مقدمہ طلاق کا پیش ہوا۔ یہ حالت محض ڈنور ہی کی نہیں ہے۔ امریکا کے تقریباً تمام شہروں کی قریب قریب یہی حالت ہے۔
پھر لکھتا ہے:
طلاق اور تفریق کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں اور اگر یہی حالت رہی جیسی کہ امید ہے تو غالبًا ملک کے اکثر حصوں میں جتنے شادی کے لائسنس دیے جائیں گے اتنے ہی طلاق کے مقدمے پیش ہوں گے۔
کچھ عرصہ ہوا کہ ڈیٹرائے (Detroit) کے اخبار ’’فری پریس‘‘ میں ان حالات پر ایک مضمون شائع ہوا تھا جس کا ایک پیرا یہ ہے:
نکاحوں کی کمی، طلاقوں کی زیادتی اور نکاح کے بغیر مستقل یا عارضی ناجائز تعلقات کی کثرت یہ معنی رکھتی ہے کہ ہم حیوانیت کی طرف واپس جا رہے ہیں۔ بچے پیدا کرنے کی فطری خواہش مٹ رہی ہے، پیدا شدہ بچوں سے غفلت برتی جا رہی ہے اور اس امر کا احساس رخصت ہو رہا ہے کہ خاندان اور گھر کی تعمیر، تہذیب اور آزاد حکومت کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ اس کے برعکس تہذیب اور حکومت کے انجام سے ایک بے دردانہ بے اعتنائی پیدا ہو رہی ہے۔
طلاق اور تفریق کی اس کثرت کا علاج اب یہ نکالا گیا ہے کہ (commissionate marriage) یعنی ’’آزمائشی نکاح‘‘ کو رواج دیا جائے۔ مگر یہ علاج اصل مرض سے بھی بدتر ہے۔ آزمائشی نکاح کے معنی یہ ہیں کہ مرد اور عورت ’’پرانے فیشن کی شادی‘‘ کیے بغیر کچھ عرصہ تک باہم مل کر رہیں۔ اگر اس یک جائی میں دل سے دل مل جائے تو شادی کر لیں ورنہ دونوں الگ ہو کرکہیں اور قسمت آزمائی کریں۔ دورانِ آزمائش میں دونوں کو اولاد پیدا کرنے سے پرہیز کرنا لازمی ہے، کیوں کہ بچے کی پیدائش کے بعد انھیں باضابطہ نکاح کرنا پڑے گا۔ یہ وہی چیز ہے جس کا نام روس میں آزاد محبت (free love) ہے۔
(۶) قومی خود کشی
نفس پرستی، ازدواجی ذمہ داریوں سے نفرت، خاندانی زندگی سے بے زاری اور ازدواجی تعلقات کی ناپائداری نے عورت کے اس فطری جذبہ مادری کو قریب قریب فنا کر دیا ہے جو نسوانی جذبات میں سب سے زیادہ اشرف و اعلیٰ روحانی جذبہ ہے، اور جس کی بقا پر نہ صرف تمدن و تہذیب، بلکہ انسانیت کی بقا کا انحصار ہے۔ مانع حمل، اسقاطِ حمل، اور قتلِ اطفال اسی جذبہ کی موت سے پیدا ہوئے ہیں۔ مانع حمل کی معلومات ہر قسم کی قانونی پابندیوں کے باوجود ممالک متحدہ امریکا میں ہر جوان لڑکی اور لڑکے کو حاصل ہیں۔ مانع حمل دوائیں اور آلات بھی آزادی کے ساتھ دکانوں پر فروخت ہوتے ہیں۔ عام آزاد عورتیں تو درکنار مدرسوں اور کالجوں کی لڑکیاں بھی اس سامان کو ہمیشہ اپنے پاس رکھتی ہیں، تاکہ اگر ان کا دوست اتفاقًا اپنا سامان بھول آئے تو ایک پرلطف شام ضائع نہ ہونے پائے۔
ہائی اسکول کی کم عمر والی ۴۹۵لڑکیاں جنھوں نے خود مجھ سے اقرار کیا کہ انھیں لڑکوں کے صنفی تعلقات کا تجربہ ہو چکا ہے۔ ان میں سے صرف ۲۵ ایسی تھیں جنھیں حمل ٹھہر گیا تھا۔ باقی میں سے بعض تو اتفاقًا بچ گئی تھیں لیکن اکثر کو مانع حمل کی مؤثر تدابیرکا کافی علم تھا۔ یہ واقفیت ان میں اتنی عام ہو چکی ہے کہ لوگوں کو اس کا صحیح اندازہ نہیں ہے۔
کنواری لڑکیاں ان تدابیر کو اس لیے استعمال کرتی ہیں کہ ان کی آزادی میں فرق نہ آئے۔ شادی شدہ عورتیں اس لیے ان سے استفادہ کرتی ہیں کہ بچہ کی پیدائش سے نہ صرف ان پر تربیت اور تعلیم کا بار پڑ جاتا ہے، بلکہ شوہر کو طلاق دینے کی آزادی میں بھی رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے اور تمام عورتیں اس لیے ماں بننے سے نفرت کرنے لگی ہیں کہ زندگی کا پورا پورا لطف اٹھانے کے لیے انھیں اس جنجال سے بچنے کی ضرورت ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ ان کے نزدیک بچے جننے سے ان کے حسن میں فرق آ جاتا ہے۔{ FR 6815 }
بہرحال اسباب خواہ کچھ بھی ہوں، ۹۵ فی صد تعلقات مرد و زن ایسے ہیں جن میں اس تعلق کے فطری نتیجہ کو مانع حمل کی تدبیروں سے روک دیا جاتا ہے۔ باقی ماندہ پانچ فی صد حوادث جن میں اتفاقًا حمل قرار پا جاتا ہے، ان کے لیے اسقاط اور قتل اطفال کی تدبیریں موجود ہیں۔ لنڈسے کا بیان ہے کہ امریکا میں ہر سال کم از کم ۱۵ لاکھ حمل ساقط کیے جاتے ہیں اور ہزارہا بچے پیدا ہوتے ہی قتل کر دیے جاتے ہیں۔ (صفحہ ۲۲۰)
۲۔ انگلستان کی حالت
مَیں ان افسوس ناک تفصیلات کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتا۔ مگر نامناسب ہے کہ اس حصۂ بحث کو جارج رائیلی اسکاٹ کی تاریخ الفحشا”A history of prostitution” کے چند اقتباسات نقل کیے بغیر ختم کر دیا جائے۔ اس کتاب کا مصنف ایک انگریز ہے اور اس نے زیادہ تر اپنے ہی ملک کی اخلاقی حالت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:
جن عورتوں کی بسر اوقات کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ اپنے جسم کو کرایہ پر چلا کر روزی کمائیں۔ ان کے علاوہ ایک بہت بڑی تعداد ان عورتوں کی بھی ہے (اور وہ روز بروز زیادہ ہو رہی ہے) جو اپنی ضروریات زندگی حاصل کرنے کے لیے دوسرے ذرائع رکھتی ہیں اور ضمنی طور پر اس کے ساتھ فاحشہ گری بھی کرتی ہیں تاکہ آمدنی میں کچھ اور اضافہ ہو جائے۔ یہ پیشہ ور فاحشات سے کچھ بھی مختلف نہیں ہیں، مگر اس نام کا اطلاق ان پر نہیں کیا جاتا۔ ہم انھیں غیر پیشہ ور فاحشات (amateur prostitutes) کہہ سکتے ہیں۔
ان شوقین یا غیر پیشہ ور فاحشات کی کثرت آج کل جتنی ہے اتنی کبھی نہ تھی۔ سوسائٹی کے نیچے سے لے کر اوپر تک ہر طبقہ میں یہ پائی جاتی ہیں۔ اگر ان معزز خواتین کو کہیں اشارے کنایے میں بھی ’’فاحشہ‘‘ کہہ دیا جائے تو یہ آگ بگولا ہو جائیں گی۔ مگر ان کی ناراضی سے حقیقت نہیں بدل سکتی۔ حقیقت بہرحال یہی ہے کہ ان میں اور پکاڈلی کی کسی بڑی سے بڑی بے شرم بیسوا میں بھی اَخلاقی حیثیت سے کوئی وجہ امتیاز نہیں ہے… اب جوان لڑکی کے لیے بد چلنی اور بے باکی، بلکہ سوقیانہ اطوار تک فیشن میں داخل ہو گئے ہیں اور سگریٹ پینا، تلخ شرابیں استعمال کرنا، ہونٹوں پر سرخی لگانا، صنفیات اور مانع حمل کے متعلق اپنی واقفیت کا اظہار کرنا، فحش لٹریچر پر گفتگو کرنا، یہ سب چیزیں بھی ان کے لیے فیشن بنی ہوئی ہیں … ایسی لڑکیوں اور عورتوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جو شادی سے پہلے صنفی تعلقات بلاتکلف قائم کر لیتی ہیں اور وہ لڑکیاں اب شاذ کے حکم میں ہیں جو کلیسا کی قربان گاہ کے سامنے نکاح کا پیمانِ وفا باندھتے وقت صحیح معنوں میں دوشیزہ ہوتی ہیں۔
آگے چل کر یہ مصنف ان اسباب کا تجزیہ کرتا ہے جو حالات کو اس حد تک پہنچا دینے کا موجب ہوئے ہیں اور مناسب تو یہ ہے کہ اس تجزیہ کو بھی اسی کے الفاظ میں نقل کیا جائے:
سب سے پہلے اس شوقِ آرائش کو لیجیے جس کی وجہ سے ہر لڑکی میں نئے فیشن کے قیمتی لباسوں اور حسن افزائی کے مختلف النوع سامانوں کی بے پناہ حرص پیدا ہو گئی ہے۔ یہ اس بے ضابطہ فاحشہ گری کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے۔ ہر شخص جو دیکھنے والی آنکھیں رکھتا ہے اس بات کو بآسانی دیکھ سکتا ہے کہ وہ سیکڑوں ہزاروں لڑکیاں جو اس کے سامنے روزانہ گزرتی ہیں عمومًا اتنے قیمتی کپڑے پہنے ہوئے ہوتی ہیں کہ ان کی جائز کمائی کسی طرح بھی ایسے لباسوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا آج بھی یہ کہنا اتنا ہی صحیح ہے جتنا نصف صدی پہلے صحیح تھا کہ مرد ہی ان کے لیے کپڑے خریدتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے جو مرد ان کے لیے کپڑے خریدتے تھے وہ ان کے شوہر یا باپ بھائی ہوتے تھے اور اب ان کی بجائے کچھ دوسرے لوگ ہوتے ہیں۔
عورتوں کی آزادی کا بھی ان حالات کی پیدائش میں بہت کچھ دخل ہے۔ گزشتہ چند سالوںمیں لڑکیوں پر سے والدین کی حفاظت و نگرانی اس حد تک کم ہو گئی ہے کہ تیس چالیس سال قبل لڑکوں کو بھی اتنی آزادی حاصل نہ تھی جتنی اب لڑکیوں کو حاصل ہے۔
ایک اور اہم سبب، جو سوسائٹی میں وسیع پیمانہ پر صنفی آوارگی پھیلنے کا موجب ہوا، یہ ہے کہ عورتیں روز افزوں تعداد میں تجارتی کاروبار، دفتری ملازمتوں اور مختلف پیشوں میں داخل ہو رہی ہیں جہاں شب و روز انھیں مردوں کے ساتھ خلط ملط ہونے کا موقع ملتا ہے۔ اس چیز نے عورتوں اور مردوں کے اَخلاقی معیار کو بہت گرا دیا ہے۔ مردانہ اقدامات کے مقابلہ میں عورتوں کی قوتِ مزاحمت کو بہت کم کر دیا ہے، اور دونوں صنفوں کے شہوانی تعلق کو تمام اخلاقی بندشوں سے آزاد کر کے رکھ دیا ہے۔ اب جوان لڑکیوں کے ذہن میں شادی اور باعصمت زندگی کا خیال آتا ہی نہیں۔ آزادانہ ’’خوش وقتی‘‘ جسے پہلے کبھی آوارہ قسم کے مرد ڈھونڈتے پھرتے تھے، آج ہر لڑکی اس کی جستجو کرتی پھرتی ہے۔ دوشیزگی اور بکارت کو ایک دقیانوسی چیز سمجھا جاتا ہے اور دورِ جدید کی لڑکی اسے ایک مصیبت خیال کرتی ہے۔ اس کے نزدیک زندگی کا لطف یہ ہے کہ عہدِ شباب میں لذاتِ نفس کا جام خوب جی بھر کے پیا جائے۔ اسی چیز کی تلاش میں وہ رقص خانوں، نائٹ کلبوں، ہوٹلوں اور قہوہ خانوں کے چکر لگاتی ہے اور اسی کی جستجو میں وہ بالکل اجنبی مردوں کے ساتھ موٹر کی سیر کے لیے بھی جانے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ جان بوجھ کر خود اپنی خواہش سے اپنے آپ کو ایسے ماحول میں اور ایسے حالات میں پہنچا دیتی ہے اورپہنچاتی رہتی ہے جو صنفی جذبات کو مشتعل کرنے والے ہیں اور پھر اس کے جو قدرتی نتائج ہیں ان سے وہ گھبراتی نہیں ہے بلکہ ان کا خیر مقدم کرتی ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭

۷۔ فیصلہ کن سوال

ہمارے ملک میں اور اسی طرح دوسرے مشرقی ممالک میں بھی جو لوگ پردے کی مخالفت کرتے ہیں ان کے سامنے دراصل زندگی کا یہی نقشہ ہے۔ اسی زندگی کے تاب ناک مظاہر نے ان کے حواس کو متاثر کیا ہے۔ یہی نظریات، یہی اَخلاقی اصول، اور یہی مادّی و حسی فوائد و لذائذ ہیں جن کے روشن پہلو نے ان کے دل و دماغ کو اپیل کیا ہے۔ پردہ سے ان کی نفرت اِسی بِنا پر ہے کہ اس کا بنیادی فلسفہ اَخلاق اس مغربی فلسفہ اَخلاق کی ضد ہے جس پر یہ ایمان لائے ہیں۔ اور عملًا ان فائدوں اور لذتوں کے حصول میں مانع ہے جنھیں ان حضرات نے مقصود بنایا ہے۔ اب یہ سوال کہ اس نقشہ زندگی کے تاریک پہلو، یعنی اس کے عملی نتائج کو بھی یہ لوگ قبول کرنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں، تو اس بات میں ان کے درمیان اتفاق نہیں ہے۔
ایک گروہ ان نتائج کو جانتا ہے اور انھیں قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ درحقیقت اس کے نزدیک یہ بھی مغربی زندگی کا روشن پہلو ہی ہے نہ کہ تاریک۔
دوسرا گروہ اس پہلو کو تاریک سمجھتا ہے، ان نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، مگر ان فائدوں پر بُری طرح فریفتہ ہے جو اس طرزِ زندگی کے ساتھ وابستہ ہیں۔
تیسرا گروہ نہ تو نظریات ہی کو سمجھتا ہے، نہ ان کے نتائج سے واقف ہے، اور نہ اس بات پر غورو فکر کی زحمت اُٹھانا چاہتا ہے کہ ان نظریات اور ان نتائج کے درمیان کیا تعلق ہے۔ اسے تو بس وہ کام کرنا ہے جو دنیا میں ہو رہا ہے۔
یہ تینوں گروہ باہم کچھ اس طرح مخلوط ہو گئے ہیں کہ گفتگو کرتے وقت بسا اوقات یہ تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ہمارا مخاطب دراصل کس گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی اختلاط کی وجہ سے عمومًا سخت خلطِ مبحث پیش آتا ہے۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ انھیں چھانٹ کر ایک دُوسرے سے الگ کیا جائے اور ہر ایک سے اس کی حیثیت کے مطابق بات کی جائے۔
۱۔ مشرقی مستغربین
پہلے گروہ کے لوگ اس فلسفے اور ان نظریات پر، اور ان تمدنی اُصولوں پر علیٰ وجہ البصیرت ایمان لائے ہیں جن پر مغربی تہذیب و تمدن کی بِنا رکھی گئی ہے وہ اسی دماغ سے سوچتے ہیں اور اسی نظر سے زندگی کے مسائل کو دیکھتے ہیں جس سے جدید یورپ کے معماروں نے دیکھا اور سوچا تھا اور وہ خود اپنے اپنے ملکوں کی تمدنی زندگی کو بھی اسی مغربی نقشہ پر تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ عورت کی تعلیم کا منتہائے مقصود ان کے نزدیک واقعی یہی ہے کہ وہ کمانے کی قابلیت بہم پہنچائے اوراس کے ساتھ دل لبھانے کے فنون سے بھی کماحقہٗ واقف ہو۔ خاندان میں عورت کی صحیح حیثیت ان کے نزدیک دَرحقیقت یہی ہے کہ وہ مرد کی طرح خاندان کا کمانے والا رکن بنے اور مشترک بجٹ میں اپنا حصہ پورا ادا کرے۔ سوسائٹی میں عورت کا اصل مقام ان کی رائے میں یہی ہے کہ وہ اپنے حُسن، اپنی آرائش اور اپنی ادائوں سے اجتماعی زندگی میں ایک عنصرِ لطیف کا اضافہ کرے، اپنی خوش گفتاری سے دلوں میں حرارت پیدا کرے، اپنی موسیقی سے کانوں میں رس بھر دے، اپنے رقص سے رُوحوں کو وجد میں لائے اور تھرک تھرک کر اپنے جسم کی ساری خوبیاں آدم کے بیٹوں کو دکھائے تاکہ ان کے دل خوش ہوں، ان کی نگاہیں لذت یاب ہوں، اور ان کے ٹھنڈے خون میں تھوڑی سی گرمی آ جائے۔ حیات قومی میں عورت کا کام ان کے خیال میں فی الواقع اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ سوشل ورک کرتی پھرے، میونسپلٹیوں اور کونسلوں میں جائے، کانفرنسوں اور کانگریسوں میں شریک ہو، سیاسی، تمدنی اور معاشرتی مسائل کو سلجھانے میں اپنا وقت اور دماغ صرف کرے۔ ورزشوں اور کھیلوں میں حصہ لے، تیراکی، دوڑ اور کود پھاند اور لمبی لمبی اُڑانوں میں ریکارڈ توڑے، غرض وہ سب کچھ کرے جو گھر سے باہر ہے اور اس سے کچھ غرض نہ رکھے جو گھر کے اندر ہے۔ اس زندگی کو وہ آئیڈیل زندگی سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک دنیوی ترقی کا یہی راستہ ہے اور اس راستہ پر جانے میں جتنے پرانے اَخلاقی نظریات مانع ہیں وہ سب کے سب محض لغو اور سراسر باطل ہیں۔ نئی زندگی کے لیے پُرانی اَخلاقی قدروں (moral values)کو انھوں نے اسی طرح نئی قدروں سے بدل لیا ہے جس طرح یورپ نے بدلا ہے۔ مالی فوائد اور جسمانی لذتیں ان کی نگاہ میں زیادہ بلکہ اصلی قدر و قیمت رکھتی ہیں، اور ان کے مقابلہ میں حیا، عصمت، طہارت اخلاق، ازدواجی زندگی کی وفاداری، نسب کی حفاظت اور اسی قبیل کی دوسری تمام چیزیں نہ صرف یہ کہ بے قدر ہیں، بلکہ دقیانوسی، تاریک خیالی کے ڈھکوسلے ہیں جنھیں ختم کیے بغیر ترقی کا قدم آگے نہیں بڑھ سکتا۔
یہ لوگ دراصل دین مغربی کے سچے مومن ہیں اور جس نظریہ پر ایمان لائے ہیں اسے ان تمام تدبیروں سے، جو یورپ میں اس سے پہلے اختیار کی جا چکی ہیں، مشرقی ممالک میں پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
۲۔ نیا ادب
سب سے پہلے ان کے لٹریچر کو لیجیے جو دماغوں کو تیار کرنے والی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس نام نہاد ادب… دراصل بے ادبی… میں پوری کوشش اس امر کی، کی جا رہی ہے کہ نئی نسلوں کے سامنے اس نئے اَخلاقی فلسفے کو مزین بنا کر پیش کیا جائے اور پُرانی اَخلاقی قدروں کو دل اور دماغ کے ایک ایک ریشہ سے کھینچ کر نکال ڈالا جائے۔ مثال کے طور پر میں یہاں اُردو کے نئے ادب سے چند نمونے پیش کروں گا۔
ایک مشہور ماہ نامے میں، جسے ادبی حیثیت سے اس ملک میں کافی وقعت حاصل ہے، ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے ’’شیریں کا سبق‘‘۔ صاحبِ مضمون ایک ایسے صاحب ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ، ادبی حلقوں میں مشہوراور ایک بڑے عہدے پر فائز ہیں۔ مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک نوجوان صاحب زادی اپنے استاذ سے سبق پڑھنے بیٹھی ہیں اوردرس کے دوران میں اپنے ایک نوجوا ن دوست کا نامہ محبت استاد کے سامنے بغرض مطالعہ و مشورہ پیش فرماتی ہیں۔ اس ’’دوست‘‘ سے ان کی ملاقات کسی ’’چائے پارٹی‘‘ میں ہو گئی تھی۔ وہاں ’’کسی لیڈی نے تعارف کی رسم ادا کر دی، اس دن سے میل جول اور مراسلت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اب صاحب زادی یہ چاہتی ہیں کہ استاد جی اُسے اس کے دوست کے محبت ناموں کا ’’اخلاقی جواب‘‘ لکھنا سکھا دیں۔ استاد کوشش کرتا ہے کہ لڑکی کو ان بے ہودگیوں سے ہٹا کر پڑھنے کی طرف راغب کرے۔ لڑکی جواب دیتی ہے کہ:
پڑھنا تو مَیں چاہتی ہوں مگر ایسا پڑھنا جو میرے جاگتے کے خوابوں کی آرزوئوں میں کام یاب ہونے میں مدد دے۔ نہ ایسا پڑھنا جو مجھے ابھی سے بڑھیا بنا دے۔
اُستاد پوچھتا ہے:
کیا ان حضرات کے علاوہ تمھارے اور بھی کچھ نوجوان دوست ہیں؟‘‘
لائق شاگرد جواب دیتی ہے:
کئی ہیں۔ مگر اس نوجوان میں یہ خصوصیت ہے کہ بڑے مزے سے جھڑک دیتا ہے۔
استاد کہتا ہے کہ:
اگر تمھارے ابا کو تمھاری اس خط و کتابت کا پتا چل جائے تو کیا ہو؟
صاحب زادی جواب دیتی ہے:
کیا ابا نے شباب میں اس قسم کے خط نہ لکھے ہوں گے؟ اچھے خاصے فیشن ایبل ہیں۔ کیا تعجب ہے اب بھی لکھتے ہوں۔ خدا نخواستہ بوڑھے تو نہیں ہو گئے ہیں۔
استاد کہتا ہے کہ
اب سے پچاس برس پہلے تو یہ خیال بھی ناممکن تھا کہ کسی شریف زادی کو محبت کا خط لکھا جائے۔
شریف زادی صاحبہ جواب میں فرماتی ہیں:
تو کیا اُس زمانہ کے لوگ صرف بد ذاتوں ہی سے محبت کرتے تھے۔ بڑے مزے میں تھے اس زمانہ کے بد ذات اور بڑے بدمعاش تھے اس زمانہ کے شریف۔
’’شیریں‘‘ کے آخری الفاظ، جن پر مضمون نگار نے گویا اپنے ادیبانہ تفلسف کی تان توڑی ہے، یہ ہیں:
ہم لوگوں (یعنی نوجوانوں) کی دوہری ذمہ داری ہے۔ وہ مسرتیں جو ہمارے بزرگ کھو چکے ہیں، زندہ کریں، اور وہ غصہ اور جھوٹ کی عادتیں جو زندہ ہیں، انھیں دفن کر دیں۔
ایک اور نام وَر ادبی رسالہ میں اب سے ڈیڑھ سال پہلے ایک مختصر افسانہ ’’پشیمانی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس کا خلاصہ سیدھے سادے الفاظ میں یہ تھا کہ ایک شریف خاندان کی بِن بیاہی لڑکی ایک شخص سے آنکھ لڑاتی ہے، اپنے باپ کی غیر موجودگی، اور ماں کی لاعلمی میں اسے چپکے سے بلا لیتی ہے۔ ناجائز تعلقات کے نتیجہ میں حمل قرار پا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے اس ناپاک فعل کو حق بجانب ٹھہرانے کے لیے دل ہی دل میں یوں استدلال کرتی ہے:
مَیں پریشان کیوں ہوں؟ میرا دل دھڑکتا کیوں ہے؟… کیا میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا ہے؟ کیا میں اپنی کم زوری پر نادم ہوں؟ شاید ہاں۔ لیکن اس رومانی چاندنی رات کی داستان تو میری کتابِ زندگی میں سنہری الفاظ سے لکھی ہوئی ہے۔ شباب کے مست لمحات کی اس یاد کو تو اب بھی میں اپنا سب سے زیادہ عزیز خزانہ سمجھتی ہوں۔ کیا میں ان لمحات کو واپس لانے کے لیے اپنا سب کچھ دینے کے لیے تیار نہیں؟
پھر کیوں میرا دل دھڑکتا ہے؟ کیا گناہ کے خوف سے؟ کیا میںنے گناہ کیا؟ نہیں میں نے گناہ نہیں کیا۔ مَیں نے کس کا گناہ کیا؟ میرے گناہ سے کس کو نقصان پہنچا؟ مَیں نے تو قربانی کی۔ قربانی اس کے لیے۔ کاش کہ میں اس کے لیے اور بھی قربانی کرتی! گناہ سے میں نہیں ڈرتی۔ لیکن، ہاں شاید میں اس چڑیل سوسائٹی سے ڈرتی ہوں۔ اس کی کیسی کیسی معنی خیز اشتباہ آمیز نظریں مجھ پر پڑتی ہیں…
آخر میں اس سے کیوں ڈرتی ہوں؟ اپنے گناہ کے باعث؟لیکن میرا گناہ ہی کیا ہے؟ کیا جیسا مَیں نے کیا، ایسا ہی سوسائٹی کی کوئی اور لڑکی نہ کرتی؟ وہ سہانی رات اور وہ تنہائی۔ وہ کتنا خوب صورت تھا۔ اس نے کیسے میرے منہ پر اپنا منہ رکھ دیا اور اپنی آغوش میں مجھے کھینچ لیا، بھینچ لیا۔ اُف اس کے گرم اور خوش بو دار سینے سے میں کس اطمینان کے ساتھ چمٹ گئی۔ میں نے ساری دنیا ٹھکرا دی اور اپنا سب کچھ ان لمحات عیش پر تج دیا۔ پھر کیا ہوا؟ کوئی اور کیا کرتا؟ کیا دنیا کی کوئی عورت اس وقت اسے ٹھکرا سکتی تھی…؟
گناہ؟ مَیں نے ہرگز گناہ نہیں کیا۔ مَیں ہرگز نادم نہیں ہوں۔ میں پھر وہی کرنے کو تیار ہوں… عصمت؟ عصمت ہے کیا؟ صرف کنوار پن؟ یا خیالات کی پاکیزگی؟ میں کنواری نہیں رہی، لیکن کیا میں نے اپنی عصمت کھو دی…؟
فسادی چڑیل سوسائٹی کو جو کچھ کرنا ہو کر لے۔ وہ میرا کیا کر سکتی ہے؟ کچھ نہیں۔ میں اس کی پرحماقت انگشت نمائی سے کیوں جھینپوں؟ مَیں اس کی کانا پھوسی سے کیوں ڈروں؟ کیوں اپنا چہرہ زرد کر لوں؟ میں اس کے بے معنی تمسخر سے کیوں منہ چھپائوں؟ میرا دل کہتا ہے کہ مَیں نے ٹھیک کیا، اچھا کیا، خوب کیا، پھر مَیں کیوں چور بنوں؟ کیوں نہ ببانگ دہل اعلان کر دوں کہ مَیں نے ایسا کیا اور خوب کیا۔
یہ طرزِ استدلال اور یہ طرزِ فکر ہے جو ہمارے زمانے کا نیا ادیب ہر لڑکی … شاید خود اپنی بہن اور اپنی بیٹی کو بھی سکھانا چاہتا ہے۔ اس کی تعلیم یہ ہے کہ ایک جوان لڑکی کو چاندنی رات میں جو گرم سینہ بھی مل جائے اس سے اُسے چمٹ جانا چاہیے کیوں کہ اس صورتِ حال میں یہی ایک طریقِ کار ممکن ہے اور جو عورت بھی ایسی حالت میں ہو، وہ اس کے سوا کچھ کر ہی نہیں سکتی۔ یہ فعل گناہ نہیں بلکہ قربانی ہے اور اس سے عصمت پر بھی کوئی حرف نہیں آتا۔ بھلا خیالات کی پاکیزگی کے ساتھ کنوار پن قربان کر دینے سے بھی کہیں عصمت جاتی ہو گی! اس سے تو عصمت میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسا شان دار کارنامہ ہے کہ ایک عورت کی زندگی میں سنہری الفاظ سے لکھا جانا چاہیے اور اس کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اس کی ساری کتابِ زندگی ایسے ہی سنہرے الفاظ میں لکھی ہوئی ہو۔ رہی سوسائٹی، تو وہ اگر ایسی عصمت ماب خواتین پر حرف رکھتی ہے تو و ہ فسادی اور چڑیل ہے۔ قصور وار وہ خود ہے کہ ایسی ایثار پیشہ لڑکیوں پر حرف رکھتی ہے، نہ کہ وہ صاحب زادی جو ایک رومانی رات میں کسی کھلی ہوئی آغوش کے اندر بھینچے جانے سے انکار نہ فرمائیں۔ ایسی ظالم سوسائٹی جو اتنے اچھے کام کو بُرا کہتی ہے، ہرگز اس کی مستحق نہیں کہ اس سے ڈرا جائے، اور یہ کارِ خیر انجام دے کر اس سے منہ چھپایا جائے۔ نہیں، ہر لڑکی کو علانیہ اور بے باکانہ اس فضیلت اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور خود شرمندہ ہونے کی بجائے، ہو سکے تو الٹا سوسائٹی کو شرمندہ کرنا چاہیے۔ یہ جرأت و جسارت کبھی بازار میں بیٹھنے والی بیسوائوں کو بھی نصیب نہ تھی، کیوں کہ ان بدنصیبوں کے پاس ایسا فلسفہ اخلا ق نہ تھا جو گناہ کو ثواب اور ثواب کو گناہ کر دیتا۔ اس وقت کی بیسوا عصمت تو بیچتی تھی مگر اپنے آپ کو خود ذلیل اور گناہ گار سمجھتی تھی… مگر اب نیا ادب ہر گھر کی بہو اور بیٹی کو پہلے زمانہ کی بیسوائوں سے بھی دس قدم آگے پہنچا دینا چاہتا ہے کیوں کہ یہ بدمعاشی و فحش کاری کی پشتی بانی کے لیے ایک نیا فلسفہ اَخلاق پیدا کر رہا ہے۔
ایک اور رسالہ میں، جسے ہمارے ملک کے ادبی حلقوں میں کافی مقبولیت حاصل ہے، ایک افسانہ ’’دیور‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ مصنف ایک ایسے صاحب ہیں جن کے والد مرحوم کو عورتوں کے لیے بہترین اَخلاقی لٹریچر پیدا کرنے کا شرف حاصل تھا، اور اسی خدمت کی وجہ سے غالبًا وہ ہندوستان کی اردو خواں عورتوں میں مقبول ترین بزرگ تھے… اس افسانہ میں نوجوان ادیب صاحب ایک ایسی لڑکی کے کیریکٹر کو خوش نمابنا کر اپنی بہنوں کے لیے نمونہ کے طور پر پیش کرتے ہیں جو شادی سے پہلے ہی اپنے ’’دیور کی بھرپور جوانی اور شباب کے ہنگاموں کا خیال کرکے‘‘ اپنے جسم میں تھرتھری پیدا کر لیا کرتی تھی، اور کنوارپنے ہی میں جس کا مستقل نظریہ یہ تھا کہ ’’جو جوانی خاموش اور پرسکون گزر جائے، اس میں اور ضعیفی میں کوئی فرق نہیں۔ میرے نزدیک تو جوانی کے ہنگامے ضروری ہیں جن کا ماخذ کش مکش حسن و عشق ہے۔‘‘ اس نظریہ اور ان ارادوں کو لیے ہوئے جب یہ صاحب زادی بیاہی گئیں تو اپنے ڈاڑھی والے شوہر کو دیکھ کر ان کے جذبات پر اوس پڑ گئی‘‘ اور انھوں نے پہلے سے سوچے ہوئے نقشے کے مطابق فیصلہ کر لیا کہ اپنے شوہر کے حقیقی بھائی سے دل لگائیں گی۔ چنانچہ بہت جلد ہی اس کا موقع آ گیا۔ شوہر صاحب حصولِ تعلیم کے لیے ولایت چلے گئے اور ان کے پیچھے بیوی نے شوہر کی اور بھائی نے بھائی کی خوب دل کھول کر اور مزے لے لے کر خیانت کی۔ مصنف نے اس کارنامے کو خود اس مجرمہ کے قلم سے لکھا ہے۔ وہ اپنی ایک سہیلی کو، جس کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے، اپنے تمام کرتوت آپ اپنے قلم سے لکھ کر بھیجتی ہے، اور وہ تمام مراحل پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرتی ہے جن سے گزر کر دیور اور بھاوج کی آشنائی آخری مرحلے تک پہنچی۔ قلب اور جسم کی جتنی کیفیات صنفی اختلاط کی حالت میں واقع ہو سکتی ہیں ان میں سے کسی ایک کو بھی بیان کرنے سے وہ نہیں چوکتی۔ بس اتنی کسر رہ گئی ہے کہ فعلِ مباشرت کی تصویر نہیں کھینچی گئی۔ شاید اس کوتاہی میں یہ بات مد نظر ہو گی کہ ناظرین و ناظرات کا تخیل تھوڑی سی زحمت اٹھا کر خود ہی اس کی خانہ پُری کر لے۔
اس نئے ادب کا اگر فرانس کے اس ادب سے مقابلہ کیا جائے جس کے چند نمونے ہم نے اس سے پہلے پیش کیے ہیں تو صاف نظر آئے گا کہ یہ قافلہ اسی راستے سے اسی منزل کی طرف جا رہا ہے، اسی نظامِ زندگی کے لیے ذہنوں کو نظری اور اَخلاقی حیثیت سے تیار کیا جا رہا ہے اور عنانِ توجہ خاص طور پر عورتوں کی طرف منعطف ہے تاکہ ان کے اندر حیا کی ایک رمق بھی نہ چھوڑی جائے۔
۳۔ تمدّنِ جدید
یہ فلسفہ اَخلاق اور یہ نظریہ زندگی میدان میں اکیلا نہیں ہے۔ اس کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظامِ تمدن اور مغربی جمہوریت کے اصول بھی برسرکار آ گئے ہیں، اور یہ تینوں طاقتیں مل جل کر زندگی کا وہی نقشہ بنا رہی ہیں جو مغرب میں بن چکا ہے۔ صنفیات پر بدترین قسم کا فحش لٹریچر شائع کیا جا رہا ہے جو مدرسوں اور کالجوں کے طالبین و طالبات تک کثرت سے پہنچتا ہے۔ عریاں تصویریں اور آبروباختہ عورتوں کی شبیہیں ہر اخبار، ہر رسالے، ہر گھر اور ہر دکان کی زینت بن رہی ہیں۔ گھر گھر اور بازار بازار گراموفون کے وہ ریکارڈ بج رہے ہیں جن میں نہایت رکیک اور گندے گیت بھرے جاتے ہیں۔ سینما کا سارا کاروبار جذبات شہوانی کی انگیخت پر چل رہا ہے، اور پردۂ سیمیں پر فحش کاری و بے حیائی کو ہر شام اتنا مزین بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ لڑکی اور لڑکے کی نگاہ میں ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی زندگی اسوۂ حسنہ بن کر رہ جاتی ہے۔ ان شوق پرور اور تمنا آفرین کھیلوں کو دیکھ کر دونوں صنفوں کے نوجوان جب تماشا گاہ سے نکلتے ہیں تو ان کے بے چین ولولے ہر طرف عشق اور رومان کے مواقع ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کی بدولت بڑے شہروں میں وہ حالات بڑی تیزی کے ساتھ پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں جن میں عورتوں کے لیے اپنی روزی آپ کمانا ناگزیر ہو جاتا ہے اور اسی ظالمانہ نظام کی مدد پر مانع حمل کا پروپیگنڈا اپنی دوائوں اور اپنے آلات کے ساتھ میدان میں آ گیا ہے۔
جدید جمہوری نظام نے، جس کی برکات زیادہ تر انگلستان اور فرانس کے توسط سے مشرقی ممالک تک پہنچی ہیں، ایک طرف عورتوں کے لیے سیاسی اور اجتماعی سرگرمیوں کے راستے کھول دیے ہیں، دوسری طرف ایسے ادارات قائم کیے ہیں جن میں عورتوں اور مردوں کے خلط ملط ہونے کی صورتیں لازمًا پیدا ہوتی ہیں، اور تیسری طرف قانون کی بندشیں اتنی ڈھیلی کر دی ہیں کہ فواحش کا اظہار ہی نہیں بلکہ عملی ارتکاب اکثر و بیش تر حالات میں جرم نہیں ہے۔
ان حالات میں جو لوگ پورے انشراحِ قلب کے ساتھ زندگی کے اس راستے پر جانے کا فیصلہ کر چکے ہیں، ان کے اخلاقیات اور ان کی معاشرت میں قریب قریب مکمل انقلاب واقع ہو گیا ہے۔ ان کی خواتین اب ایسے لباسوں میں نکل رہی ہیں کہ ہر عورت پر فلم ایکٹریس کا دھوکا ہوتا ہے۔ ان کے اندر پوری بے باکی پائی جاتی ہے، بلکہ لباس کی عریانی، رنگوں کی شوخی، بنائو سنگار کے اہتمام اور ایک ایک ادا سے معلوم ہوتا ہے کہ صنفی مقناطیس بننے کے سوا کوئی دوسرا مقصد ان خواتین کے پیشِ نظر نہیں ہے۔ حیا کا یہ عالم ہے کہ غسل کا لباس پہن کر مردوں کے ساتھ نہانا، حتّٰی کہ اس حالت میں اپنے فوٹو کھنچوانا اور اخبارات میں شائع کرا دینا بھی اس طبقہ کی کسی شریف خاتون کے لیے موجبِ شرم نہیں ہے، بلکہ شرم کا سوال وہاں سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا۔ جدید اخلاقی تصورات کے لحاظ سے انسانی جسم کے سب حصے یکساں ہیں۔ اگر ہاتھ کی ہتھیلی اور پائوں کے تلوے کو کھولا جا سکتا ہے تو آخر کنج ران اور بن پستان ہی کو کھول دینے میں کیا مضایقہ ہے؟ زندگی کا لطف جس کے مظاہر کا مجموعی نام آرٹ ہے، ان لوگوں کے نزدیک ہر اخلاقی قید سے بالاتر، بلکہ بجائے خود معیارِ اخلاق ہے، اسی بنا پر باپ اوربھائی اس وقت فخر و مسرت کے مارے پھولے نہیں سماتے۔ جب ان کی آنکھوں کے سامنے کنواری بیٹی اور بہن اسٹیج پر موسیقی، رقص اور معشوقانہ اداکاری کے کمالات دکھا کر سیکڑوں پرجوش ناظرین و سامعین سے دادِ تحسین حاصل کرتی ہے۔ مادی کام یابی جس کا دوسرا نام مقصدِ زندگی ہے ان کی رائے میں ہر اس ممکن چیز سے زیادہ قیمتی ہے جسے قربان کرکے یہ شے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ جس لڑکی نے اس گوہر مقصود کے حصول کی قابلیت اور سوسائٹی میں مقبول ہونے کی لیاقت بہم پہنچا لی، اس نے اگر عصمت کھو دی تو گویا کچھ بھی نہ کھویا، بلکہ سب کچھ پا لیا۔ اسی بِنا پر یہ بات کسی طرح ان کی سمجھ میں آتی ہی نہیں کہ کسی لڑکی کا لڑکوں کے ساتھ مدرسے یا کالج میں پڑھنا، یا عالمِ جوانی میں تنہا حصولِ تعلیم کے لیے یورپ جانا آخر کیوں قابلِ اعتراض ہو۔
۴۔ مستغربین سے فیصلہ
یہ ہیں وہ لوگ جو پردے پر سب سے زیادہ اعتراض کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ پردہ ایک ایسی حقیر بلکہ بدیہی البطلان چیز ہے کہ اس کی تضحیک کر دینا اور اس پر پھبتیاں کس دینا ہی اس کی تردید کے لیے کافی دلیل ہے۔ لیکن یہ رویہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص انسانی چہرے پر سرے سے ناک کی ضرورت ہی کا قائل نہ ہو اور اُس بِنا پر وہ ہر اس شخص کا مذاق اُڑانا شروع کر دے جس کے چہرے پر اسے ناک نظر آئے۔ اس قسم کی جاہلانہ باتوں سے صرف جاہل ہی مرعوب ہو سکتے ہیں۔ انھیں، ’’اگر ان کے اندر کوئی معقولیت موجود ہے‘‘ یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارے اور ان کے درمیان دراصل قدروں کا بنیادی اختلاف ہے۔ جن چیزوں کو ہم قیمتی سمجھتے ہیں وہ ان کے نزدیک بے قیمت ہیں۔ لہٰذا اپنے معیار قدر کے لحاظ سے جس طرزِ عمل کو ہم ضروری سمجھتے ہیں وہ لامحالہ ان کی نگاہ میں قطعًا غیر ضروری بلکہ مہمل ٹھہرنا ہی چاہیے۔ مگر ایسے بنیادی اختلاف کی صورت میں وہ صرف ایک خفیف العقل آدمی ہی ہو سکتا ہے جو اصل بنائے اختلاف پر گفتگو کرنے کی بجائے فروع پر حملہ شروع کردے۔ انسانی قدروں کے تعین میں فیصلہ کن چیز اگر کوئی ہے تو وہ قوانینِ فطرت ہیں۔ قوانینِ فطرت کے لحاظ سے انسان کی ساخت جس چیز کی مقتضی ہو، اور جس چیز میں انسان کی صلاح وفلاح ہو، وہی دراصل قدر کی مستحق ہے۔ آئو اس معیار پر جانچ کر دیکھ لیں کہ قدروں کے اختلاف میں ہم راستی پر ہیں یا تم ہو۔ علمی دلائل جو کچھ تمھارے پاس ہیں انھیں لے آئو، اور جو دلائل ہم رکھتے ہیں انھیں ہم پیش کرتے ہیں۔ پھر راست باز اور ذی عقل انسانوں کی طرح دیکھو کہ وزن کس طرف ہے۔ اس طریقہ سے اگر ہم اپنے معیارِ قدر کو صحیح ثابت کر دیں تو تمھیں اختیار ہے، چاہے ان قدروں کو قبول کرو جو خالص علم اور عقل پرمبنی ہیں،چاہے انھی قدروں کے پیچھے پڑے رہو، جنھیں مجرد نفسانی رجحان کی بِنا پر تم نے پسند کیا ہے۔ مگر اس دوسری صورت میں تمھاری اپنی پوزیشن اس قدر کم زور ہو جائے گی کہ ہمارے طرزِ عمل کی تضحیک کرنے کی بجائے تم خود تضحیک کے مستحق بن کر رہ جائو گے۔
۵۔ دُوسرا گروہ
اس کے بعد ہمارے سامنے دوسرا گروہ آتا ہے۔ پہلے گروہ میں تو غیرمسلم اور نام نہاد مسلمان، دونوں قسم کے لوگ شامل ہیں۔ مگر یہ دوسرا گروہ تمام تر مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ان لوگوں میں آج کل حجاب اور نیم بے حجابی کی ایک عجیب معجوب مرکب استعمال کی جا رہی ہے۔ یہ مُّذَبْذَبِيْنَ بَيْنَ ذٰلِكَ۝۰ۤۖ لَآ اِلٰى ہٰٓؤُلَاۗءِ وَلَآ اِلٰى ہٰٓؤُلَاۗءِ۝۰ۭ النسائ 143:4 کے صحیح مصداق ہیں۔ ایک طرف تو یہ اپنے اندر اسلامی جذبات رکھتے ہیں۔ اخلاق، تہذیب، شرافت اور حسنِ سیرت کے ان معیاروں کو مانتے ہیں جنھیں اسلام نے پیش کیا ہے۔ اپنی عورتوں کو حیا اور عصمت کے زیوروں سے آراستہ اور اپنے گھروں کو اَخلاقی نجاستوں سے پاک رکھنے کے خواہش مند ہیں اور ان نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو مغربی تمدن اور معاشرت کے اصولوں کی پیروی سے رونما ہوئے ہیں اور ہونے چاہییں۔ مگر دوسری طرف اسلامی نظم معاشرت کے اصول و قوانین کو توڑ کر کچھ رکتے کچھ جھجکتے اسی راستہ کی طرف اپنی بیویوں، بہنوں اور بیٹیوں کو لیے جا رہے ہیں جو مغربی تہذیب کا راستہ ہے۔ یہ لوگ اس غلط فہمی میں ہیں کہ آدھے مغرب اور آدھے اسلامی طریقوں کو جمع کرکے یہ دونوں تہذیبوں کے فوائد و منافع اکٹھے کر لیں گے، یعنی ان کے گھروں میں اسلامی اَخلاق بھی محفوظ رہیں گے، ان کی خاندانی زندگی کا نظم بھی برقرار رہے گا، اور اس کے ساتھ ان کی معاشرت اپنے اندر مغربی معاشرت کی برائیاں نہیں، بلکہ صرف اس کی دل فریبیاں اس کی لذتیں اور ان کی مادّی منفعتیں جمع کرے گی لیکن اول تو دو مختلف الاصل اور مختلف المقصد تہذیبوں کی آدھی آدھی شاخیں کاٹ کر پیوند لگانا ہی درست نہیں۔ کیوں کہ اس طرح کے بے جوڑ امتزاج سے دونوں کے فوائد جمع ہونے کی بجائے دونوں کے نقصانات جمع ہو جانا زیادہ قریب از قیاس ہے۔ دوسرے یہ بھی خلافِ عقل اور خلافِ فطرت ہے کہ ایک مرتبہ اسلام کے مضبوط اَخلاقی نظام کی بندشیں ڈھیلی کرنے اور نفوس کو قانون شکنی سے لذت آشنا کر دینے کے بعد آپ اس سلسلہ کو اس حد پر روک رکھیں گے جسے آپ نے خالی از مضرت سمجھ رکھا ہے۔ یہ نیم عریاں لباسوں کا رواج، یہ زینت و آرائش کا شوق، یہ دوستوں کی محفلوں میں بے باکی کے ابتدائی سبق، یہ سینما اور برہنہ تصویروں اور عشقی افسانوں سے بڑھتی ہوئی دل چسپی، یہ مغربی ڈھنگ پر لڑکیوں کی تعلیم، بہت ممکن ہے کہ اپنا فوری اثر نہ دکھائے، لیکن بہت ممکن ہے کہ موجودہ نسل اس کی مضرتوں سے محفوظ رہ جائے، لیکن یہ سمجھنا کہ آیندہ نسلیں بھی اس سے محفوظ رہیں گی، ایک صریح نادانی ہے۔ تمدن اور معاشرت میں ہر غلط طریقے کی ابتدا بہت معصوم ہوتی ہے۔ مگر ایک نسل سے دوسری نسل اور دوسری سے تیسری نسل تک پہنچتے پہنچتے وہی چھوٹی سی ابتدا ایک خوف ناک غلطی بن جاتی ہے۔ خود یورپ اور امریکا میں بھی جن غلط بنیادوں پر معاشرت کی تنظیم جدید کی گئی تھی اس کے نتائج فورًا ظاہر نہیں ہو گئے تھے بلکہ اس کے پورے پورے نتائج اب تیسری اور چوتھی پشت میں ظاہر ہوئے ہیں۔ پس یہ مغربی اور اسلامی طریقوں کا امتزاج اور یہ نیم بے حجابی دراصل کوئی مستقل اور پائدار چیز نہیں ہے۔ اصل میں اس کا فطری رجحان انتہائی مغربیت کی طرف ہے اور جو لوگ اس طریقے پر چل رہے ہیں انھیں سمجھ لینا چاہیے کہ انھوں نے فی الحال اس سفرکی ابتدا کی ہے جس کی آخری منزلوں تک اگر وہ نہیں تو ان کی اولاد اوراولاد کی اولاد پہنچ کر رہے گی۔
۶۔ فیصلہ کن سوال
ایسی حالت میں قدم آگے بڑھانے سے پہلے ان لوگوں کو خوب غور و خوض کرکے ایک بنیادی سوال کا فیصلہ کر لینا چاہیے جو مختصرًا حسبِ ذیل ہے:
کیا آ پ مغربی معاشرت کے اُن نتائج کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہیں جو یورپ اور امریکا میں رونما ہو چکے ہیں اورجو اس طرزِ معاشرت کے طبعی اور یقینی نتائج ہیں؟ کیا آپ اسے پسند کرتے ہیں کہ آپ کی سوسائٹی میں بھی وہی ہیجان انگیزاور شہوانی ماحول پیدا ہو؟ آپ کی قوم میں بھی اس طرح بے حیائی، بے عصمتی اور فواحش کی کثرت ہو؟ امراضِ خبیثہ کی وبائیں پھیلیں؟ خاندان اور گھر کا نظام درہم برہم ہو جائے؟ طلاق اور تفریق کا زور ہو؟ نوجوان مرد اور عورتیں آزاد شہوت رانی کی خوگر ہو جائیں؟ مانع حمل، اسقاطِ حمل اور قتلِ اولاد سے نسلیں منقطع کی جائیں؟ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں حدِ اعتدال سے بڑھی ہوئی شہوانیت میں اپنی بہترین عملی قوتوں کو ضائع اور اپنی صحتوں کو برباد کریں؟حتّٰی کہ کم سن بچوں تک میں قبل از وقت صنفی میلانات پیدا ہونے لگیں اور اس سے ان کی دماغی و جسمانی نشوونما میں ابتدا ہی سے فتور برپا ہو جایا کرے؟
اگر مادی منفعتوں اور حسی لذتوں کی خاطر آپ ان سب چیزوں کو گوارا کرنے کے لیے تیار ہیں، تو بلا تامل مغربی راستے پر تشریف لے جائیے اور اسلام کا نام بھی زبان پر نہ لائیے۔ اس راستے پر جانے سے پہلے آپ کو اسلام سے قطع تعلق کا اعلان کرنا پڑے گا تاکہ آپ بعد میں اس نام کو استعمال کرکے کسی کو دھوکا نہ دے سکیں، اور آپ کی رسوائیاں اسلام اور مسلمانوں کے لیے موجبِ ننگ و عار نہ بن سکیں۔
لیکن اگر آپ ان نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اگر آپ کو ایک ایسے صالح اور پاکیزہ تمدن کی ضرورت ہے جس میں اخلاقِ فاضلہ اور ملکات شریفہ پرورش پا سکیں، جس میں انسان کو اپنی عقلی، روحانی اور مادّی ترقی کے لیے ایک پُرسکون ماحول مل سکے جس میں عورت اور مرد بہیمی جذبات کی خلل اندازی سے محفوظ رہ کر اپنی بہترین استعداد کے مطابق اپنے اپنے تمدنی فرائض انجام دے سکیں، جس میں تمدن کا سنگِ بنیاد یعنی خاندان پورے استحکام کے ساتھ قائم ہو، جس میں نسلیں محفوظ رہیں اور اختلافِ انساب کا فتنہ برپا نہ ہو، جس میں انسان کی خانگی زندگی اس کے لیے سکون و راحت کی جنت اور اس کی اولاد کے لیے مشفقانہ تربیت کا گہوارہ اور خاندان کے تمام افراد کے لیے اشتراکِ عمل اور امداد باہمی کی انجمن ہو، تو ان مقاصد کے لیے آپ کو مغربی راستہ کا رخ بھی نہ کرنا چاہیے کیوں کہ وہ بالکل مخالف سمت کو جا رہا ہے اور مغرب کی طرف چل کر مشرق کو پہنچ جانا عقلًا محال ہے۔ اگر فی الحقیقت آپ کے مقاصد یہی ہیں تو آپ کو اسلام کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
مگر اس راستہ پر قدم رکھنے سے پہلے آپ کو غیر معتدل مادّی منفعتوں اور حسی لذتوں کی طلب اپنے دل سے نکالنا ہو گی جو مغربی تمدن کے دل فریب مظاہر کو دیکھ کر پیدا ہو گئی ہے۔ ان نظریات اور تخیلات سے بھی اپنے دماغ کو خالی کرنا ہو گا جو یورپ سے اس نے مستعار لے رکھے ہیں۔ ان تمام اصولوں اور مقصدوں کو بھی طلاق دینا پڑے گی جو مغربی تمدن و معاشرت سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اسلام اپنے الگ اصول اورمقاصد رکھتا ہے۔ اس کے اپنے مستقل عمرانی نظریات ہیں۔ اس نے ویسا ہی ایک نظامِ معاشرت وضع کیا ہے جیسا کہ اس کے مقاصد اور اس کے اُصول اور اس کے عمرانی نظریات کا طبعی اقتضا ہے۔ پھر اس نظامِ معاشرت کا تحفظ وہ ایک خاص ڈسپلن اور ایک خاص ضابطے کے ذریعہ سے کرتا ہے جس کے مقرر کرنے میں غایت درجہ کی حکمت اور نفسیاتِ انسانی کی پوری رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے، جس کے بغیر یہ نظامِ معاشرت اختلال و برہمی سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ یہ افلاطون کی جمہوریت کی طرح کوئی خیالی اور وہمی نظام (utopia)نہیں ہے، بلکہ ساڑھے تیرہ صدیوں کے زبردست امتحان میں پورا اتر چکا ہے اور اس طویل مدت میں کسی ملک اور کسی قوم کے اندر بھی اس کے اثر سے ان خرابیوں کا عشرِ عشیر بھی رونما نہیں ہوا ہے جو مغربی تمدن کے اثر سے صرف ایک صدی کے اندر پیدا ہو چکی ہیں، پس اگر اس محکم اور آزمودہ نظامِ معاشرت سے آپ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو آپ کو اس کے ضابطہ اور اس کے ڈسپلن کی پوری پوری پابندی کرنا ہو گی اور یہ حق آپ کو ہرگز حاصل نہ ہو گا کہ اپنی عقل سے نکالے ہوئے یا دوسروں سے سیکھے ہوئے نیم پختہ خیالات اور غیر آزمودہ طریقوں کو، جو اس نظامِ معاشرت کی طبیعت اور اس کے مزاج کے بالکل خلاف ہوں، خواہ مخواہ اس میں ٹھونسنے کی کوشش کریں۔
تیسرا گروہ چوں کہ سفہا اور مغفلین پر مشتمل ہے، جن میں خود سوچنے، سمجھنے اور رائے قائم کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، لہٰذا وہ کسی توجہ کا مستحق نہیں بہتر یہی ہے کہ ہم اسے نظر انداز کرکے آگے بڑھیں۔
٭…٭…٭…٭…٭

۸ ۔قوانینِ فطرت

فطرت نے تمام انواع کی طرح انسان کو بھی ’’زوجین‘‘ یعنی دو ایسی صنفوں کی صورت میں پیدا کیا ہے جو ایک دوسرے کی جانب طبعی میلان رکھتی ہیں۔ مگر دوسری انواع حیوانی کا جس حد تک مطالعہ کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اس صنفی تقسیم اور اس طبعی میلان کا مقصد محض بقائے نوع ہے۔ اسی لیے ان میں یہ میلان صرف اس حد تک رکھا گیا ہے جو ہر نوع کی بقا کے لیے ضروری ہے، اور ان کی جبلت میں ایسی قوتِ ضابطہ رکھ دی گئی ہے جو انھیں صنفی تعلق میں اس حدِّمقرر سے آگے نہیں بڑھنے دیتی۔ اس کے برعکس انسان میں یہ میلان غیر محدود، غیر منضبط اور تمام دوسری انواع سے بڑھا ہوا ہے۔ اس کے لیے وقت اور موسم کی کوئی قید نہیں ہے۔ اس کی جبلت میں کوئی ایسی قوت ضابطہ بھی نہیں ہے جو اسے کسی حد پر روک دے، مرد اور عورت ایک دوسرے کی طرف دائمی میلان رکھتے ہیں۔ ان کے اندر ایک دوسرے کی طرف جذب و انجذاب اور صنفی کشش کے غیر محدود اسباب فراہم کیے گئے ہیں۔ ان کے قلب میںصنفی محبت اور عشق کا ایک زبردست داعیہ رکھا گیا ہے۔ ان کے جسم کی ساخت اور اس کے تناسب اور اس کے رنگ و روپ، اور اس کے لمس اور اس کے ایک ایک جز میں صنف مقابل کے لیے کشش پیدا کر دی گئی ہے۔ ان کی آواز، رفتار، انداز و ادا، ہر ایک چیز میں کھینچ لینے کی قوت بھر دی گئی ہے اور گرد و پیش کی دنیا میں بے شمار ایسے اسباب پھیلا دیے گئے ہیں جو دونوں کے داعیات صنفی کو حرکت میں لاتے اور انھیں ایک دوسرے کی طرف مائل کرتے ہیں۔ ہوا کی سرسراہٹ، پانی کی روانی، سبزہ کا رنگ، پھولوں کی خوش بو، پرندوں کے چہچہے، فضا کی گھٹائیں، شب مہ کی لطافتیں، غرض جمالِ فطرت کا کوئی مظہر اور حسنِ کائنات کا کوئی جلوہ ایسا نہیں ہے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اس تحریک کا سبب نہ بنتا ہو۔
پھر انسان کے نظامِ جسمانی کا جائزہ لیجیے تو معلوم ہو گا کہ اس میں طاقت کا جو زبردست خزانہ رکھا گیا ہے۔ وہ بیک وقت قوتِ حیات اور قوتِ عمل بھی ہے، اور صنفی تعلق کی قوت بھی۔ وہی غدود (glands) جو اس کے اعضا کو جیون رس (harmone)بہم پہنچاتے ہیں، اور اس میں چستی، توانائی، ذہانت اور عمل کی طاقت پیدا کرتے ہیں، انھی کے سپرد یہ خدمت بھی کی گئی ہے کہ اس میں صنفی تعلق کی قوت پیدا کریں، اس قوت کو حرکت میں لانے والے جذبات کو نشوونما دیں، ان جذبات کو اُبھارنے کے لیے حسن، روپ، نکھار اور پھبن کے گوناگوں آلات بہم پہنچائیں اور ان آلات سے متاثر ہونے کی قابلیت اس کی آنکھوں، اس کے کانوں، اس کی شامہ اور لامسہ حتّٰی کہ اس کی قوتِ متخیلہ تک میں فراہم کر دیں۔
قدرت کی یہی کار فرمائی انسان کے قوائے نفسانی میں بھی نظر آتی ہے۔ اس کے نفس میں جتنی محرک قوتیں پائی جاتی ہیں ان سب کا رشتہ دوزبردست داعیوں سے ملتا ہے۔ ایک وہ داعیہ جو اسے خود اپنے وجود کی حفاظت اور اپنی ذات کی خدمت پر اُبھارتا ہے۔ دوسرا وہ داعیہ جو اسے اپنے مقابل کی صنف سے تعلق پر مجبور کرتا ہے۔ شباب کے زمانہ میں جب کہ انسان کی عملی قوتیں اپنے پورے عروج پر ہوتی ہیں، یہ دوسرا داعیہ اتنا قوی ہوتا ہے کہ بسا اوقات پہلے داعیہ کو بھی دبا لیتا ہے اور اس کے اثر سے انسان اس قدر مغلوب ہو جاتا ہے کہ اسے اپنی جان تک دے دینے اور اپنے آپ کو جانتے بوجھتے ہلاکت میں ڈال دینے میں بھی تامل نہیں ہوتا۔
تمدن کی تخلیق میں صنفی کشش کا اثر
یہ سب کچھ کس لیے ہے؟ کیا محض بقائے نوع کے لیے؟ نہیں۔ کیوں کہ نوعِ انسانی کو باقی رکھنے کے لیے اس قدر تناسل کی بھی ضرورت نہیں ہے جس قدر مچھلی، بکری اور ایسی ہی دوسری انواع کے لیے ہے۔ پھر کیا وجہ ہے؟ کہ فطرت نے ان سب انواع سے زیادہ صنفی میلان انسان میں رکھا ہے اور اس کے لیے سب سے زیادہ اسبابِ تحریک فراہم کیے ہیں کیا یہ محض انسان کے لطف اور لذت کے لیے ہے؟ یہ بھی نہیں۔ فطرت نے کہیں بھی لطف اور لذت کو مقصود بالذات نہیں بنایا ہے۔ وہ تو کسی بڑے مقصد کی خدمت پر انسان اور حیوان کو مجبور کرنے کے لیے لطف اور لذت کو محض چاشنی کے طور پر لگا دیتی ہے تاکہ وہ اس خدمت کو غیر کا نہیں بلکہ اپنا کام سمجھ کر انجام دیں۔ اب غور کیجیے کہ اس معاملہ میں کون سا بڑا مقصد فطرت کے پیشِ نظر ہے؟ آپ جتنا غور کریں گے کوئی اور وجہ اس کے سوا سمجھ میں نہ آئے گی کہ فطرت دوسری تمام انواع کے خلاف، نوعِ انسانی کو متمدّن بنانا چاہتی ہے۔
اسی لیے انسان کے قلب میں صنفی محبت اور عشق کا وہ داعیہ رکھا گیا ہے جو محض جسمانی اِتصال اور فعل تناسل ہی کا تقاضا نہیں کرتا بلکہ ایک دائمی معیت اورقلبی وابستگی اور روحانی لگائو کا مطالبہ کرتا ہے۔
اسی لیے انسان میں صنفی میلان اس کی واقعی قوتِ مباشرت سے بہت زیادہ رکھا گیا ہے۔ اس میں جتنی صنفی خواہش اور صنفی کشش رکھی گئی ہے۔ اگر اسی نسبت سے، بلکہ ایک اور دس کی نسبت سے بھی وہ فعلِ تناسل کا اِرتکاب کرے تو اس کی صحت جواب دے دے اور عمرِ طبعی کو پہنچنے سے پہلے ہی اس کی جسمانی قوتیں ختم ہو جائیں۔ یہ بات اس امر کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ انسان میں صنفی کشش کی زیادتی کا مقصود یہ نہیں ہے کہ وہ تمام حیوانات سے بڑھ کر صنفی عمل کرے۔ بلکہ اس سے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کرنا اور ان کے باہمی تعلق میں استمرار و استقلال پیدا کرنا ہے۔
اسی لیے عورت کی فطرت میں صنفی کشش اور صنفی خواہش کے ساتھ شرم و حیا اور تمانع، فرار اور رکاوٹ کا مادّہ رکھا گیا ہے جو کم و بیش ہر عورت میں پایا جاتا ہے۔ یہ فرار اور منع کی کیفیت اگرچہ دوسرے حیوانات کے اناث میں بھی نظر آتی ہے، مگر انسان کی صنفِ اناث میں اس کی قوت و کمیت بہت زیادہ ہے اور اسے جذبہ شرم و حیا کے ذریعہ سے اور زیادہ شدید کر دیا گیا ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان میں صنفی مقناطیسیت کا مقصد ایک مستقل وابستگی ہے، نہ کہ ہر صنفی کشش ایک صنفی عمل پر منتج ہو۔
اسی لیے انسان کے بچے کو تمام حیوانات کے بچوں سے زیادہ کم زور اور بے بس کیا گیا ہے۔ بخلاف دوسرے حیوانات کے انسان کا بچہ کئی سال تک ماں باپ کی حفاظت اور تربیت کا محتاج ہوتا ہے اور اس میں اپنے آپ کو سنبھالنے اور اپنی مدد آپ کرنے کی قابلیت بہت دیر میں پیدا ہوتی ہے۔ اس سے بھی یہ مقصود ہے کہ عورت اور مرد کا تعلق محض تعلقِ صنفی کی حد تک نہ رہے بلکہ اس تعلق کا نتیجہ انھیں باہمی ارتباط اور تعاون پر مجبور کر دے۔
اسی لیے انسان کے دل میں اولاد کی محبت تمام حیوانات سے زیادہ رکھی گئی ہے۔ حیوانات ایک قلیل مدت تک اپنے بچوں کی پرورش کرنے کے بعد ان سے الگ ہو جاتے ہیں۔ پھر ان میں کوئی تعلق باقی نہیں رہتا۔ بلکہ وہ ایک دوسرے کوپہچانتے بھی نہیں۔ بخلاف اس کے انسان ابتدائی پرورش کا زمانہ گزر جانے کے بعد بھی اولاد کی محبت میں گرفتار رہتا ہے۔ حتّٰی کہ یہ محبت اولاد کی اولاد تک منتقل ہوتی ہے اور انسان کی خود غرض حیوانیت اس محبت کے اثر سے اس درجہ مغلوب ہو جاتی ہے کہ وہ جو کچھ اپنی ذات کے لیے چاہتا ہے اس سے زیادہ اپنی اولاد کے لیے چاہتا ہے اور اس کے دل میں اندر سے یہ امنگ پیدا ہوتی ہے کہ اپنی حدِ امکان تک اولاد کے لیے بہتر سے بہتر اسبابِ زندگی بہم پہنچائے اور اپنی محنتوں کے نتائج ان کے لیے چھوڑ جائے۔ اس شدید جذبۂ محبت کی تخلیق سے فطرت کا مقصد صرف یہی ہو سکتا ہے کہ عورت اور مرد کے صنفی تعلق کو ایک دائمی رابطہ میں تبدیل کر دے، پھر اس دائمی رابطہ کو ایک خاندان کی ترکیب کا ذریعہ بنائے۔ پھر خونی رشتوں کی محبت کا سلسلہ بہت سے خاندانوں کو مصاہرت کے تعلق سے مربوط کرتا چلا جائے، پھر محبتوں اور محبوبوں کا اشتراک ان کے درمیان تعاون اور معاملت کا تعلق پیدا کر دے، اور اس طرح ایک معاشرہ اور ایک نظامِ تمدن وجود میں آ جائے۔
۱۔تمدن کا بنیادی مسئلہ
اس سے معلوم ہوا کہ یہ صنفی میلان جو انسانی جسم کے ریشے ریشے اور اس کے قلب و روح کے گوشے گوشے میں رکھا گیا ہے اور جس کی مدد کے لیے بڑے وسیع پیمانہ پر کائنات کے چپے چپے میں اسباب و محرکات فراہم کیے گئے ہیں۔ اس کا مقصد انسان کی انفرادیت کو اجتماعیت کی طرف مائل کرنا ہے۔ فطرت نے اس میلان کو تمدنِ انسانی کی اصل قوتِ محرکہ بنایا ہے۔ اس میلان وکشش کے ذریعہ سے نوعِ انسانی کی دو صنفوں میں وابستگی پیدا ہوتی ہے اور پھر اس وابستگی سے اجتماعی زندگی (social life) کا آغاز ہوتا ہے۔
جب یہ امر متحقق ہو گیا، تو یہ بات بھی آپ سے آپ ظاہر ہو گئی کہ عورت اور مرد کے تعلق کا مسئلہ دراصل تمدن کا بنیادی مسئلہ ہے اور اسی کے صحیح حل پر تمدن کی صلاح و فساد اور اس کی بہتری و بدتری، اور اس کے استحکام و ضعف کا انحصار ہے۔ نوعِ انسانی کے ان دونوں حصوں میں ایک تعلق حیوانی یا بالفاظ دیگر خالص صنفی اورسراسر شہوانی ہے جس کا مقصود بقائے نوع کے سوا کچھ نہیں۔ اور دوسرا تعلق انسانی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ دونوں مل کر مشترک اغراض کے لیے اپنی اپنی استعداد اور اپنی اپنی فطری صلاحیتوں کے مطابق تعاون کریں۔ اس تعاون کے لیے ان کی صنفی محبت ایک واسطہ اتصال کے طور پر کام دیتی ہے، اور یہ حیوانی و انسانی عناصر، دونوں مل کر بیک وقت ان سے تمدن کا کاروبار چلانے کی خدمت بھی لیتے ہیں اور اس کاروبار کو جاری رکھنے کے لیے مزید افراد فراہم کرنے کی خدمت بھی۔ تمدن کی صلاح و فساد کا مدار اس پر ہے کہ دونوں عناصر کا امتزاج نہایت متناسب اور معتدل ہو۔
۲۔مدنیتِ صالحہ کے لوازم
آئیے اب ہم اس مسئلہ کا تجزیہ کرکے یہ معلوم کریں کہ ایک صالح تمدن کے لیے عورت اور مرد کے حیوانی اور انسانی تعلق میں معتدل اور متناسب امتزاج کی صورت کیا ہے اور اس امتزاج پر بے اعتدالی کی کن کن صورتوں کے عارض ہونے سے تمدن فاسد ہو جاتا ہے۔
(۱) میلانِ صنفی کی تعدیل
سب سے اہم اور مقدم سوال خود اس صنفی کشش اور میلان کا ہے کہ اسے کس طرح قابو میں رکھا جائے۔ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ انسان کے اندر یہ میلان تمام حیوانات سے زیادہ طاقت ور ہے۔ نہ صرف یہ کہ انسانی جسم کے اندر صنفی تحریک پیدا کرنے والی قوتیں زیادہ شدید ہیں، بلکہ باہر بھی اس وسیع کائنات میں ہر طرف بے شمار صنفی محرکات پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ چیز جس کے لیے فطرت نے خود ہی اتنے انتظامات کر رکھے ہیں، اگر انسان بھی اپنی توجہ اور قوتِ ایجاد سے کام لے کر اسے بڑھانے اور ترقی دینے کے اسباب مہیا کرنے لگے اور ایسا طرزِ تمدن اختیار کرے جس میں اس کی صنفی پیاس بڑھتی چلی جائے اور پھر اس پیاس کو بجھانے کی آسانیاں بھی پیدا کی جاتی رہیں تو ظاہر ہے اس صورت میں یہ حدِ مطلوب سے بہت زیادہ متجاوز ہو جائے گی، انسان کا حیوانی عنصر اس کے انسانی عنصر پر پوری طرح غالب ہو جائے گا اور یہ حیوانیت اس کی انسانیت اور اس کے تمدن دونوں کو کھا جائے گی۔
صنفی تعلق اور اس کے مبادی اور محرکات میں سے ایک ایک چیز کو فطرت نے لذیذ بنایا ہے۔ مگر جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں، فطرت نے یہ لذت کی چاٹ محض اپنے مقصد یعنی تعمیرِ تمدن کے لیے لگائی ہے۔ اس چاٹ کا حد سے بڑھ جانا اور اسی میں انسان کا منہمک ہوجانا نہ صرف تمدن بلکہ خود انسان کی بھی تخریب و ہلاکت کا موجب ہو سکتا ہے، ہو رہا ہے اور بارہا ہوچکا ہے۔ جو قومیں تباہ ہو چکی ہیں ان کے آثار اور ان کی تاریخ کو دیکھیے۔ شہوانیت ان میں حد سے متجاوز ہو چکی تھی۔ ان کے لٹریچر اسی قسم کے ہیجان انگیز مضامین سے لبریز پائے جاتے ہیں۔ ان کے تخیلات، ان کے افسانے، ان کے اشعار، ان کی تصویریں، ان کے مجسمے، ان کے عبادت خانے، ان کے محلات سب کے سب اس پر شاہد ہیں۔ جو قومیں اب تباہی کی طرف جا رہی ہیں ان کے حالات بھی دیکھ لیجیے۔ وہ اپنی شہوانیت کو آرٹ، ادبِ لطیف، ذوقِ جمال اور ایسے کتنے ہی خوش نما اور معصوم ناموں سے موسوم کر لیں، مگر تعبیر کے بدل جانے سے حقیقت نہیں بدلتی۔ یہ کیا چیز ہے کہ سوسائٹی میں عورت کوعورتوں سے زیادہ مرد کی صحبت اور مرد کو مردوں سے زیادہ عورتوں کی معیت مرغوب ہے؟ یہ کیوں ہے کہ عورتوں اور مردوں میں تزئین و آراش کا ذوق بڑھتا چلا جا رہا ہے؟ اس کی کیا وجہ ہے کہ مخلوط سوسائٹی میں عورت کا جسم لباس سے باہر نکلا پڑتا ہے؟ وہ کون سی شے ہے جس کے سبب سے عورت اپنے جسم کے ایک ایک حصے کو کھول کھول کر پیش کر رہی ہے اور مردوں کی طرف سے ھل من مزید کا تقاضا ہے؟ اس کی کیا علت ہے کہ برہنہ تصویریں، ننگے مجسمے اور عریاں ناچ، سب سے زیادہ پسند کیے جاتے ہیں؟ اس کا کیا سبب ہے کہ سینما میں اُس وقت تک لطف ہی نہیں جب تک کہ عشق و محبت کی چاشنی نہ ہو اور اس پر صنفی تعلقات کے بہت سے قولی اور فعلی مبادی کا اضافہ نہ کیا جائے؟ یہ اور ایسے ہی بہت سے مظاہر اگر شہوانیت کے مظاہر نہیں تو کس چیز کے ہیں؟ جس تمدن میں ایسا غیر معتدل شہوانی ماحول پیدا ہو جائے اس کا انجام تباہی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔
ایسے ماحول میں صنفی میلان کی شدت اور پیہم ہیجان اور مسلسل تحریک کی وجہ سے ناگزیر ہے کہ نسلیں کم زور ہو جائیں، جسمانی اور عقلی قوتوں کی نشوونما بگڑ جائے۔ قوائے ذہنی پراگندہ { FR 6819 } ہو جائیں، فواحش کی کثرت ہو، امراضِ خبیثہ کی وبائیں پھیلیں، مانع حمل، اسقاطِ حمل اور قتلِ اطفال جیسی تحریکیں وجود میں آئیں، مرد اور عورت بہائم کی طرح ملنے لگیں، بلکہ فطرت نے ان کے اندر جو صنفی میلان تمام حیوانات سے بڑھ کر رکھا ہے اسے وہ مقاصد فطرت کے خلاف استعمال کریں اوراپنی بہیمیت میں تمام حیوانات سے بازی لے جائیں، حتّٰی کہ بندروں اور بکروں کو بھی مات کر دیں۔ لامحالہ ایسی شدید حیوانیت انسانی تمدن و تہذیب بلکہ خود انسانیت کو بھی غارت کر دے گی اور جو لوگ اس میں مبتلا ہوں گے ان کا اَخلاقی انحطاط انھیں ایسی پستی میں گرائے گا جہاں سے وہ پھر کبھی نہ اُٹھ سکیں گے۔
ایسا ہی انجام اس تمدن کا بھی ہو گا جو تفریط کا پہلو اختیار کرے گا۔ جس طرح صنفی میلان کا حدِ اعتدال سے بڑھ جانا مضر ہے اسی طرح اسے حد سے زیادہ دبانا اور کچل دینا بھی مضر ہے۔ جو نظامِ تمدن انسان کو سنیاس اور برہمچریہ اور رہبانیت کی طرف لے جانا چاہتا ہے وہ فطرت سے لڑتا ہے اور فطرت اپنے مدِ مقابل سے کبھی شکست نہیں کھاتی بلکہ خود اسی کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ خالص رہبانیت کا تصور تو ظاہر ہے کہ کسی تمدن کی بنیاد بن ہی نہیں سکتا۔ کیوں کہ وہ دراصل تمدن و تہذیب کی نفی ہے۔ البتہ راہبانہ تصورات کو دلوں میں راسخ کرکے نظامِ تمدن میں ایک ایسا غیر صنفی ماحول ضرور پیدا کیا جا سکتا ہے جس میں صنفی تعلق کو بذاتِ خود ایک ذلیل، قابلِ نفرت اور گھنائونی چیز سمجھا جائے، اس سے پرہیز کرنے کو معیارِ اَخلاق قرار دیا جائے اور ہر ممکن طریقے سے اس میلان کو دبانے کی کوشش کی جائے۔ مگر صنفی میلان کا دبنا دراصل انسانیت کا دبنا ہے وہ اکیلا نہیں دبے گا بلکہ اپنے ساتھ انسان کی ذہانت، قوتِ عمل، عقلی استعداد، حوصلہ و عزم اور ہمت وشجاعت سب کو لے کر دب جائے گا۔ اس کے دبنے سے انسان کی ساری قوتیں ٹھٹھر کر رہ جائیں گی۔ اس کا خون سرد اور منجمد ہو کر رہ جائے گا۔ اس میں اُبھرنے کی کوئی صلاحیت باقی نہ رہے گی۔ کیوں کہ انسان کی سب سے بڑی محرک طاقت یہی صنفی طاقت ہے۔
پس صنفی میلان کو افراط و تفریط سے روک کر توسط و اعتدال کی حالت پر لانا اور اسے ایک مناسب ضابطے سے منضبط (regulate) کرنا ایک صالح تمدن کا اولین فریضہ ہے۔ اجتماعی زندگی کا نظام ایسا ہونا چاہیے کہ وہ ایک طرف غیر معتدل (abnormal) ہیجان و تحریک کے ان تمام اسباب کو روک دے جنھیں انسان خود اپنے ارادے اور اپنی لذت پرستی سے پیدا کرتا ہے اور دوسری طرف فطری (normal) ہیجانات کی تسکین و تشفی کے لیے ایسا راستہ کھول دے جو خود منشائے فطرت کے مطابق ہو۔
(۲) خاندان کی تاسیس
اب یہ سوال خود بخود ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ فطرت کا منشا کیا ہے؟ کیا اس معاملہ میں ہمیں بالکل تاریکی میں چھوڑ دیا گیا ہے کہ آنکھیں بند کرکے ہم جس چیز پر چاہیں ہاتھ رکھ دیں اور وہی فطرت کا منشا قرار پائے؟ یا نوامیسِ فطرت پرغور کرنے سے ہم منشائے فطرت تک پہنچ سکتے ہیں؟ شاید بہت سے لوگ صورتِ اول ہی کے قائل ہیں اور اسی لیے وہ نوامیس فطرت پر نظر کیے بغیر ہی کیف ماا تفق جس چیز کو چاہتے ہیں، منشائے فطرت کہہ دیتے ہیں، لیکن ایک محقق جب حقیقت کی جستجو کے لیے نکلتا ہے تو چند ہی قدم چل کر اسے یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ گویا فطرت آپ ہی اپنے منشا کی طرف صاف صاف انگلی اُٹھا کر اشارہ کر رہی ہے۔
یہ تو معلوم ہے کہ تمام انواعِ حیوانی کی طرح انسان کو بھی زوجین یعنی دو صنفوں کی صورت میں پیدا کرنے اور ان کے درمیان صنفی کشش کی تخلیق کرنے سے فطرت کا اولین مقصد بقائے نوع ہے لیکن انسان سے فطرت کا مطالبہ صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ وہ اس سے بڑھ کرکچھ دوسرے مطالبات بھی اس سے کرتی ہے اور باادنیٰ تامل ہمیں معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ مطالبات کیا ہیں اور کس نوعیت کے ہیں۔
سب سے پہلے جس چیز پر نظر پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ تمام حیوانات کے برعکس انسان کا بچہ نگاہ داشت اور پرورش کے لیے بہت زیادہ وقت، محنت اور توجہ مانگتا ہے۔ اگر اسے مجرد ایک حیوانی وجود ہی کی حیثیت سے لے لیا جائے تب بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی حیوانی ضروریات پوری کرنے… یعنی غذا حاصل کرنے اور اپنے نفس کی مدافعت کرنے… کے قابل ہوتے ہوئے وہ کئی سال لے لیتا ہے اور ابتدائی دو تین سال تک تو وہ اتنا بے بس ہوتا کہ ماں کی پیہم توجہ کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔
لیکن یہ ظاہر ہے کہ انسان خواہ وحشت کے کتنے ہی ابتدائی درجہ میں ہو، بہرحال نرا حیوان نہیں ہے۔ کسی نہ کسی مرتبہ کی مدنیت بہرحال اس کی زندگی کے لیے ناگزیر ہے اور اس مدنیت کی وجہ سے پرورشِ اولاد کے فطری تقاضے پر لامحالہ اور تقاضوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایک یہ کہ بچہ کی پرورش میں ان تمام تمدنی وسائل سے کام لیا جائے جو اس کے پرورش کرنے والے کو بہم پہنچ سکیں۔ دوسرے یہ کہ بچے کو ایسی تربیت دی جائے کہ جس تمدنی ماحول میں وہ پیدا ہوا ہے وہاں تمدن کے کارخانے کو چلانے اور سابق کارکنوں کی جگہ لینے کے لیے وہ تیار ہو سکے۔
پھر تمدن جتنا زیادہ ترقی یافتہ اور اعلیٰ درجہ کا ہوتا جاتا ہے، یہ دونوں تقاضے بھی اتنے ہی زیادہ بھاری اور بوجھل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایک طرف پرورشِ اولاد کے ضروری وسائل و لوازم بڑھتے جاتے ہیں اور دوسری طرف تمدن نہ صرف اپنے قیام و بقا کے لیے اپنے مرتبے کے مطابق اچھے تعلیم و تربیت یافتہ کا رکن مانگتا ہے، بلکہ اپنے نشو و ارتقا کے لیے یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ ہر نسل پہلی نسل سے بہتر اُٹھے، یعنی دوسرے الفاظ میں ہر بچے کا نگاہ بان اسے خود اپنے آپ سے بہتر بنانے کی کوشش کرے… انتہا درجہ کا ایثار جو انسان سے جذبہ خود پسندی تک کی قربانی مانگتا ہے۔
یہ ہیں فطرتِ انسانی کے مطالبات اور ان مطالبات کی اوّلین مخاطب ہے عورت۔ مرد ایک ساعت کے لیے عورت سے مل کر ہمیشہ کے لیے اس سے اور اس ملاقات کی ذمہ داری سے الگ ہو سکتا ہے۔ لیکن عورت کو تو اس ملاقات کا قدرتی نتیجہ برسوں کے لیے بلکہ عمر بھر کے لیے پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ حمل قرار پانے کے بعد سے کم از کم پانچ برس تک تو یہ نتیجہ اس کا پیچھا کسی طرح چھوڑتا ہی نہیں اور اگر تمدن کے پورے مطالبات ادا کرنا ہوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ مزید پندرہ سال تک وہ عورت، جس نے ایک ساعت کے لیے مرد کی معیت کا لطف اٹھایا تھا، اس کی ذمہ داریوں کا بار سنبھالتی رہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک مشترک فعل کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تنہا ایک فریق کس طرح آمادہ ہو سکتا ہے؟ جب تک عورت کو اپنے شریکِ کار کی بے وفائی کے خوف سے نجات نہ ملے، جب تک اسے اپنے بچے کی پرورش کا پورا اطمینان نہ ہو جائے، جب تک اسے خود اپنی ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کے کام سے بھی ایک بڑی حد تک سبک دوش نہ کر دیا جائے، وہ اتنے بھاری کام کا بوجھ اُٹھانے پر کیسے آمادہ ہو جائے گی؟ جس عورت کا کوئی قوام (protector provider) نہ ہو اس کے لیے تو حمل یقینا ایک حادثہ اور مصیبت، بلکہ ایک خطرناک بلا ہے جس سے چھٹکارا پانے کی خواہش اس میں طبعی طور پر پیدا ہونی چاہیے آخر وہ اسے خوش آمدید کیسے کہہ سکتی ہے؟
لامحالہ یہ ضروری ہے…… اگر نوع کی بقا اور تمدن کا قیام اور ارتقا ضروری ہے…… کہ جو مرد جس عورت کو بار آور کرے وہی اس بار کو سنبھالنے میں اس کا شریک بھی ہو۔ مگر اس شرکت پر اسے راضی کیسے کیا جائے؟ وہ تو فطرتًا خود غرض واقع ہوا ہے۔ جہاں تک بقائے نوع کے طبعی فریضے کا تعلق ہے، اس کے حصے کا کام تو اسی ساعت پورا ہو جاتا ہے جب کہ وہ عورت کو بار آور کر دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ بار تنہا عورت کے ساتھ لگا رہتا ہے اور مرد سے وہ کسی طرح بھی چسپاں نہیں ہوتا۔ جہاں تک صنفی کشش کا تعلق ہے وہ بھی اسے مجبور نہیں کرتی کہ اسی عورت کے ساتھ وابستہ رہے۔ وہ چاہے تو اسے چھوڑ کر دوسری اور دوسری کوچھوڑ کر تیسری سے تعلق پیدا کر سکتا ہے اور ہر زمین میں بیج پھینکتا پھر سکتا ہے۔ لہٰذا اگر یہ معاملہ محض اس کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ بخوشی اس بار کو سنبھالنے کے لیے آمادہ ہو جائے۔ آخر کون سی چیز اسے مجبورکرنے والی ہے کہ وہ اپنی محنتوں کا پھل اس عورت اور اس بچے پر صرف کرے؟ کیوں وہ ایک دوسری حسین دوشیزہ کو چھوڑ کر اس پیٹ پھولی عورت سے اپنا دل لگائے رکھے؟ کیوں وہ گوشت پوست کے ایک بے کار لوتھڑے کو خواہ مخواہ اپنے خرچ پر پالے؟ کیوں اس کی چیخوں سے اپنی نیند حرام کرے؟ کیوں اس چھوٹے سے شیطان کے ہاتھوں اپنا نقصان کرائے جو ہر چیز کو توڑتا پھوڑتا اور گھر بھر میں گندگی پھیلاتا پھرتا ہے اورکسی کی سن کر نہیں دیتا۔
فطرت نے کسی حد تک اس مسئلہ کے حل کا خود بھی اہتمام کیا ہے۔ اس نے عورت میں حُسن، شیرینی، دل لبھانے کی طاقت اور محبت کے لیے ایثار و قربانی کرنے کی صلاحیت پیدا کی ہے تاکہ ان ہتھیاروں سے مرد کی خود غرضانہ انفرادیت پر فتح پائے اوراسے اپنا اسیر بنا لے۔ اس نے بچے کے اندر بھی ایک عجیب قوتِ تسخیر بھر دی ہے تاکہ وہ اپنی تکلیف دہ، برباد کن، پاجیانہ خصوصیات کے باوجود ماں باپ کو اپنے دامِ محبت میں گرفتار رکھے۔ مگر صرف یہی چیزیں ایسی نہیں ہیں کہ بجائے خود ان کا زور انسان کو اپنے اَخلاقی، فطری، تمدنی فرائض ادا کرنے کے لیے برسوں نقصان، اذیت، قربانی کرنے پر مجبورکر سکے۔ آخر انسان کے ساتھ اس کا وہ ازلی دشمن بھی تو لگا ہوا ہے جو اسے فطرت کے راستے سے منحرف کرنے کی ہر وقت کوشش کرتا رہتا ہے جس کی زنبیلِ عیاری میں ہر زمانے اور ہر نسل کے لوگوں کو بہکانے کے لیے طرح طرح کی دلیلوں اور ترغیبات کا نہ ختم ہونے والا ذخیرہ بھرا ہوا ہے۔
یہ مذہب کا معجزہ ہے کہ وہ انسان کو…… مرد اور عورت دونوں کو …… نوع اور تمدن کے لیے قربانی پر آمادہ کرتا ہے اور اس خود غرض جانور کو آدمی بنا کر ایثار کے لیے تیار کر دیتا ہے۔ وہ خدا کے بھیجے ہوئے انبیا ہی تھے جنھوں نے فطرت کے منشا کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر عورت اور مرد کے درمیان صنفی تعلق اور تمدنی تعاون کی صحیح صورت، نکاح تجویز کی۔ انھی کی تعلیم و ہدایت سے دنیا کی ہر قوم اور روئے زمین کے ہر گوشے میں نکاح کا طریقہ جاری ہوا۔ انھی کے پھیلائے ہوئے اخلاقی اصولوں سے انسان کے اندر اتنی روحانی صلاحیت پیدا ہوئی کہ وہ اس خدمت کی تکلیفیں اور نقصانات برداشت کرے، ورنہ حق یہ ہے کہ ماں اور باپ سے زیادہ بچے کا دشمن اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا، انھی کے قائم کیے ہوئے ضوابطِ معاشرت سے خاندانی نظام کی بِنا پڑی جس کی مضبوط گرفت لڑکیوں اور لڑکوں کو اس ذمہ دارانہ تعلق اور اس اشتراکِ عمل پر مجبور کرتی ہے، ورنہ شباب کے حیوانی تقاضوں کا زور اتنا سخت ہوتا ہے کہ محض اخلاقی ذمہ داری کا احساس کسی خارجی ڈسپلن کے بغیر انھیں آزاد شہوت رانی سے نہ روک سکتا تھا۔ شہوت کا جذبہ بجائے خود اجتماعیت کا دشمن (anti social)ہے۔ یہ خود غرضی، انفرادیت اور انارکی کا میلان رکھنے والا جذبہ ہے۔ اس میں پائداری نہیں۔ اس میں احساسِ ذمہ داری نہیں۔ یہ محض وقتی لطف اندوزی کے لیے تحریک کرتا ہے۔ اس دیو کو مسخر کرکے اس سے اجتماعی زندگی کی…… اس زندگی کی جو صبر و ثبات، محنت، قربانی، ذمہ داری اور پیہم جفاکشی چاہتی ہے… خدمت لیناکوئی آسان کام نہیں۔ وہ نکاح کا قانون اور خاندان کا نظام ہی ہے جو اس دیو کو شیشے میں اُتار کر اس سے شرارت اور بدنظمی کی ایجنسی چھین لیتا ہے اور اسے مرد و عورت کے اس لگاتار تعاون و اشتراکِ عمل کا ایجنٹ بنا دیتا ہے جو اجتماعی زندگی کی تعمیر کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ نہ ہو تو انسان کی تمدنی زندگی ختم ہو جائے، انسان حیوان کی طرح رہنے لگیں اور بالآخر نوعِ انسانی صفحہ ہستی سے ناپید ہو جائے۔
پس صنفی میلان کو انارکی اور بے اعتدالی سے روک کر اس کے فطری مطالبات کی تشفی و تسکین کے لیے جو راستہ خود فطرت چاہتی ہے کہ کھولا جائے وہ صرف یہی ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان نکاح کی صورت میں مستقل وابستگی ہو، اور اس وابستگی سے خاندانی نظام کی بِنا پڑے۔ تمدن کے وسیع کارخانے کو چلانے کے لیے جن پُرزوں کی ضرورت ہے وہ خاندان کی اسی چھوٹی کارگاہ میں تیار کیے جاتے ہیں۔ یہاں لڑکیوں اور لڑکوں کے جوان ہوتے ہی کارگاہ کے منتظمین کو خود بخود یہ فکر لگ جاتی ہے کہ حتی الامکان ان کے ایسے جوڑ لگائیں جوایک دوسرے کے لیے زیادہ مناسب ہوں تاکہ ان کے ملاپ سے زیادہ سے زیادہ بہتر نسل پیدا ہو سکے۔ پھر ان سے جو نسل نکلتی ہے، اس کارگاہ کا ہر کارکن اپنے دل کے سچے جذبہ سے کوشش کرتا ہے کہ اسے جتنا بہتر بنا سکتا ہے بنائے۔ زمین پرا پنی زندگی کا پہلا لمحہ شروع کرتے ہی بچے کو خاندان کے دائرہ میں محبت، خبر گیری، حفاظت اور تربیت کا وہ ماحول ملتا ہے جو اس کی نشوونما کے لیے آبِ حیات کا حکم رکھتا ہے۔ درحقیقت خاندان ہی میں بچے کو وہ لوگ مل سکتے ہیں جو اس سے نہ صرف محبت کرنے والے ہوں، بلکہ جو اپنے دل کی امنگ سے یہ چاہتے ہوں کہ بچہ جس مرتبہ پر پیدا ہوا ہے اس سے اونچے مرتبے پر پہنچے۔ دنیا میں صرف ماں اور باپ ہی کے اندر یہ جذبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو ہر لحاظ سے خود اپنے سے بہتر حالت میں اور خود اپنے سے بڑھا ہوا دیکھیں۔ اس طرح وہ بِلا ارادہ، غیر شعوری طور پر آیندہ نسل کو موجودہ نسل سے بہتر بنانے اور انسانی ترقی کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی اس کوشش میں خود غرضی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ وہ اپنے لیے کچھ نہیں چاہتے۔ وہ بس اپنے بچے کی فلاح چاہتے ہیں اور اس کے ایک کام یاب اور عمدہ انسان بن کر اٹھنے ہی کو اپنی محنت کا کافی صلہ سمجھتے ہیں۔ ایسے مخلص کارکن (labourers) اور ایسے بے غرض خادم (workers) تمھیں خاندان کی اس کارگاہ کے باہر کہاں ملیں گے جو نوعِ انسانی کی بہتری کے لیے نہ صرف بِلامعاوضہ محنت صرف کریں، بلکہ اپنا وقت، اپنی آسائش، اپنی قوت و قابلیت اور اپنی محنت کا سب کچھ اس خدمت میں صَرف کر دیں؟ جو اس چیز پر اپنی ہر قیمتی شے قربان کرنے کے لیے تیار ہوں جس کا پھل دوسرے کھانے والے ہوں؟ جو اپنی محنتوں کا صلہ بس اسے سمجھیں کہ دوسرے کے لیے انھوں نے بہتر کارکن اور خادم فراہم کر دیے۔ کیا اس سے زیادہ پاکیزہ اور بلند ترین ادارہ انسانیت میں کوئی دوسرا بھی ہے؟
ہر سال نسلِ انسانی کو اپنی بقا کے لیے اور تمدن انسانی کو اپنے تسلسل و ارتقا کے لیے ایسے لاکھوں اور کروڑوں جوڑوں کی ضرورت ہے جو بخوشی و رضا اپنے آپ کو اس خدمت اور اس کی ذمہ داریوں کے لیے پیش کریں، اور نکاح کرکے اس نوعیت کی مزید کارگاہوں کی بِنا ڈالیں۔ یہ عظیم الشان کارخانہ جو دنیا میں چل رہا ہے، یہ اسی طرح چل اور بڑھ سکتا ہے کہ اس قسم کے رضا کار پیہم خدمت کے لیے اٹھتے رہیں اور اس کارخانہ کے لیے کام کے آدمی فراہم کرتے رہیں۔ اگر نئی بھرتی نہ ہو اور قدرتی اسباب سے پُرانے کارکن بے کار ہو کر ہٹتے جائیں تو کام کے آدمی کم اور کم تر ہوتے چلے جائیں گے اور ایک دن یہ ساز ہستی بالکل بے نوا ہو کر رہ جائے گا۔ ہر آدمی جو اس تمدن کی مشین کو چلا رہا ہے، اس کا فرض صرف یہی نہیں ہے کہ اپنے جیتے جی اسے چلائے جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ اپنی جگہ لینے کے لیے اپنے ہی جیسے اشخاص مہیا کرنے کی کوشش کرے۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو نکاح کی حیثیت صرف یہی نہیں ہے کہ وہ صنفی جذبات کی تسکین و تشفی کے لیے ہی ایک جائز صورت ہے۔ بلکہ دراصل یہ ایک اجتماعی فریضہ ہے، یہ فرد پر جماعت کا فطری حق ہے اور فرد کو اس بات کا اختیار ہرگز نہیں دیا جا سکتا کہ وہ نکاح کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ خود اپنے لیے محفوظ رکھے۔ جو لوگ بغیر کسی معقول وجہ کے نکاح سے انکار کرتے ہیں وہ جماعت کے نکھٹو افراد (parasites)بلکہ غدار اور لٹیرے ہیں۔ ہر فرد جو زمین پر پیدا ہوا ہے اس نے زندگی کا پہلا سانس لینے کے بعد جوانی کی عمر کو پہنچنے تک اس بے حد و حساب سرمایہ سے استفادہ کیا ہے جو پچھلی نسلوں نے فراہم کیا تھا۔ ان کے قائم کیے ہوئے ادارات ہی کی بدولت اسے زندہ رہنے، بڑھنے، پھولنے اور آدمیت میں نشوونما پانے کا موقع ملا۔ اس دوران میں وہ لیتا ہی رہا۔ اس نے دیا کچھ نہیں۔ جماعت نے اس امید پر اس کی ناقص قوتوں کی تکمیل کی طرف لے جانے میں اپنا سرمایہ اور اپنی قوت صرف کی کہ جب وہ کچھ دینے کے قابل ہو گا تو دے گا۔ اب اگر وہ بڑا ہو کر اپنے لیے شخصی آزادی اور خود مختاری کا مطالبہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مَیں صرف اپنی خواہشات پوری کروں گا۔ مگر ان ذمہ داریوں کا بوجھ نہ اٹھائوں گا جو ان خواہشات کے ساتھ وابستہ ہیں، تو دراصل وہ اس جماعت کے ساتھ غداری اور دھوکا بازی کرتا ہے۔ اس کی زندگی کا ہر لمحہ ایک ظلم اور بے انصافی ہے۔ جماعت میں اگر شعور موجود ہو تو وہ اس مجرم کو جنٹلمین، یا معزز لیڈی، یا مقدس بزرگ سمجھنے کی بجائے اُس نظر سے دیکھے، جس سے وہ چوروں، ڈاکوئوں اور جعل سازوں کو دیکھتی ہے۔ ہم نے خواہ چاہا ہو یا نہ چاہا ہوبہرطور ہم اس تمام سرمایہ اور ذخیرہ کے وارث ہوئے ہیں جو ہم سے پہلے کی نسلوں نے چھوڑا ہے۔ اب ہم اس فیصلہ میں آزاد کیسے ہو سکتے ہیں کہ جس فطری قانون کے مطابق یہ ورثہ ہم تک پہنچا ہے اس کے منشا کو پورا کریں یا نہ کریں؟ ایسی نسل تیار کریں یا نہ کریں جو نوعِ انسانی کے اس سرمایہ اور ذخیرہ کی وارث ہو؟ اسے سنبھالنے کے لیے دوسرے آدمی اسی طرح تیار کریں یا نہ کریں جس طرح ہم خود تیارکیے گئے ہیں؟
(۳) صنفی آوارگی کا سدِّباب
نکاح اور تاسیسِ خاندان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ حصنِ نکاح سے باہر خواہشاتِ صنفی کی تسکین کا دروازہ سختی کے ساتھ بند کیا جائے کیوں کہ اس کے بغیر فطرت کا وہ منشا پورا نہیں ہو سکتا جس کے لیے وہ نکاح اور تاسیسِ خاندان کا تقاضا کرتی ہے۔
پُرانی جاہلیت کی طرح اس نئی جاہلیت کے دَور میں بھی اکثر لوگ زنا کو ایک فطری فعل سمجھتے ہیں اور نکاح ان کے نزدیک محض تمدن کی ایجاد کردہ مصنوعات یا زوائد میں سے ایک چیز ہے۔ ان کا خیال ہے کہ فطرت نے جس طرح ہر بکری کو ہر بکرے کے لیے اور ہر کتیا کو ہر کتے کے لیے پیدا کیا ہے۔ اسی طرح ہر عورت کو بھی ہر مرد کے لیے پیدا کیا ہے اور فطری طریقہ یہی ہے کہ جب خواہش ہو، جب موقع بہم پہنچ جائے، اور جب دونوں صنفوں کے کوئی سے دو فرد باہم راضی ہوں، تو ان کے درمیان اسی طرح صنفی عمل واقع ہو جائے جس طرح جانوروں میں ہو جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ فطرتِ انسانی کی بالکل غلط تعبیر ہے۔ ان لوگوں نے انسان کو محض ایک حیوان سمجھ لیا ہے لہٰذا جب کبھی یہ فطرت کے لفظ بولتے ہیں تو اس سے ان کی مراد حیوانی فطرت ہوتی ہے نہ کہ انسانی فطرت۔ جس منتشر تعلق کو یہ فطری کہتے ہیں وہ حیوانات کے لیے تو ضرور فطری ہے مگر انسان کے لیے ہرگز فطری نہیں۔ وہ نہ صرف انسانی فطرت کے خلاف ہے، بلکہ اپنے آخری نتائج کے اعتبار سے اس حیوانی فطرت کے بھی خلاف واقع ہو جاتا ہے جو انسان کے اندرموجود ہے۔ اس لیے کہ انسان کے اندر انسانیت اور حیوانیت دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ دراصل ایک وجود کے اندر دونوں مل کر ایک ہی شخصیت بناتی ہیں اور دونوں کے مقتضیات باہم ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح وابستہ ہو جاتے ہیں کہ جہاں تک ایک منشا سے منہ موڑا گیا دوسری کا منشا بھی خودبخود فوت ہو کر رہ جاتا ہے۔
زِنا میں بظاہر آدمی کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کم از کم فطرتِ حیوانی کے اقتضا کو تو پورا کر دیتا ہے کیوں کہ تناسل اور بقائے نوع کا مقصد مجرد صنفی عمل سے پورا ہو جاتا ہے۔ عام اس سے کہ وہ نکاح کے اندر ہو یا باہر۔ لیکن اس سے پہلے جو کچھ ہم بیان کر چکے ہیں اس پر پھر ایک نگاہ ڈال کر دیکھ لیجیے۔ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ فعل جس طرح فطرتِ انسانی کے مقصد کو نقصان پہنچاتا ہے اسی طرح فطرتِ حیوانی کے مقصد کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ فطرتِ انسانی چاہتی ہے کہ صنفی تعلق میں استحکام اور استقلال ہو تاکہ بچہ کو ماں اور باپ مل کر پرورش کریں اور ایک کافی مدت تک مرد نہ صرف بچہ کا بلکہ بچہ کی ماں کا بھی کفیل رہے۔ اگر مرد کو یقین نہ ہو کہ بچہ اسی کا ہے تو وہ اس کی پرورش کے لیے قربانی اور تکلیفیں برداشت ہی نہ کرے گا اور نہ یہی گوارا کرے گا کہ وہ اس کے بعد اس کے ترکہ کا وارث ہو۔ اسی طرح اگر عورت کو یقین نہ ہو کہ جو مرد اسے بارآور کر رہا ہے وہ اس کی اور اس کے بچے کی کفالت کے لیے تیار ہے تو وہ حمل کی مصیبت اٹھانے کے لیے تیار ہی نہ ہو گی۔ اگر بچہ کی پرورش میں ماں اور باپ تعاون نہ کریں تو اس کی تعلیم و تربیت اور اس کی اَخلاقی، ذہنی اور معاشی حیثیت کبھی اس معیار پر نہ پہنچ سکے گی جس سے وہ انسانی تمدن کے لیے کوئی مفید کارکن بن سکے۔ یہ سب فطرتِ انسانی کے مقتضیات ہیں اور جب ان مقتضیات سے منہ موڑ کر محض حیوانوں کی طرح مرد اور عورت عارضی تعلق قائم کرتے ہیں تو وہ خود فطرتِ حیوانی کے اقتضا (یعنی توالد و تناسل) سے بھی منہ موڑ جاتے ہیں، کیوں کہ اس وقت توالدو تناسل ان کے پیشِ نظر نہیں ہوتا اور نہیں ہو سکتا۔ اس وقت ان کے درمیان صنفی تعلق صرف خواہشاتِ نفس کی تسکین اور صرف لذت طلبی و لطف اندوزی کے لیے ہوتا ہے جو سرے سے منشائے فطرت ہی کے خلاف ہے۔
جاہلیتِ جدیدہ کے علَم بردار اس پہلو کو خود بھی کم زور پاتے ہیں۔ اس لیے وہ اس پر ایک اور استدلال کا اضافہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر جماعت کے دو فرد آپس میں مل کر چند ساعتیں لطف اور تفریح میں گزار دیں تو اس میں آخر سوسائٹی کا بگڑتا کیا ہے کہ وہ اس میں مداخلت کرے؟ سوسائٹی اس صورت میں تو ضرور مداخلت کا حق رکھتی ہے جب کہ ایک فریق دوسرے پرجبر کرے، یا دھوکے اور فریب سے کام لے، یا کسی جماعتی قضیہ کا سبب بنے لیکن جہاں ان میں سے کوئی بات بھی نہ ہو، اور صرف دو اشخاص کے درمیان لذت اندوزی ہی کا معاملہ ہو تو سوسائٹی کو ان کے بیچ میں حائل ہونے کا کیا حق ہے؟ لوگوں کے ایسے پرائیویٹ معاملات میں بھی اگر دخل دیا جائے تو شخصی آزادی محض ایک لفظ بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔
شخصی آزادی کا یہ تصور اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی ان جہالتوں میں سے ایک ہے جن کی تاریکی، علم اور تحقیق کی پہلی کرن نمودار ہوتے ہی کافور ہو جاتی ہے۔ تھوڑے سے غور و خوض کے بعد ہی آدمی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ جس آزادی کا مطالبہ افراد کے لیے کیا جا رہا ہے اس کے لیے کوئی گنجائش جماعتی زندگی میں نہیں ہے۔ جسے ایسی آزادی مطلوب ہو اسے جنگل میں جا کر حیوانوں کی طرح رہنا چاہیے۔ انسانی اجتماع تو دراصل علائق اور روابط کے ایسے جال کا نام ہے جس میں ہر فرد کی زندگی دوسرے بے شمار افراد کے ساتھ وابستہ ہے، ان پر اثر ڈالتی ہے اور ان سے اثر قبول کرتی ہے۔ اس تعلق باہمی میں انسان کے کسی فعل کو بھی خالص شخصی اور بالکل انفرادی نہیں کہا جا سکتا کسی ایسے شخصی فعل کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جس کا اثر بحیثیتِ مجموعی پوری جماعت پر نہ پڑتا ہو۔ افعالِ جوارح تو درکنار، دل میں چھپا ہوا کوئی خیال بھی ایسا نہیں جو ہمارے وجود پر اور اس سے منعکس ہو کر دوسروں پراثر انداز نہ ہوتا ہو۔ ہمارے قلب وجسم کی ایک ایک حرکت کے نتائج ہم سے منتقل ہو کر اتنی دور تک پہنچتے ہیں کہ ہمارا علم کسی طرح ان کا احاطہ کر ہی نہیں سکتا۔ ایسی حالت میں یہ کیوں کر کہا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کا اپنی کسی قوت کا استعمال کرنا اس کی اپنی ذات کے سوا کسی پر اثر نہیں ڈالتا، لہٰذا کسی کو اس سے کوئی سروکار نہیں اور اسے اپنے معاملہ میں پوری آزادی حاصل ہونی چاہیے؟ اگر مجھے یہ آزادی نہیں دی جا سکتی کہ ہاتھ میں لکڑی لے کر جہاں چاہوں گھمائوں، اپنے پائوں کو حرکت دے کر جہاں چاہوں گھس جائوں۔ اپنی گاڑی کو جس طرح چاہوں چلائوں، اپنے گھر میں جتنی غلاظت چاہوں جمع کر لوں، اگر یہ اور ایسے ہی بے شمار شخصی معاملات اجتماعی ضوابط کے پابند ہونے ضروری ہیں، تو آخر میری قوتِ شہوانی ہی تنہا اس شرف کی حق دار کیوں ہو کہ اسے کسی اجتماعی ضابطہ کا پابند نہ بنایا جائے اورمجھے بالکل آزاد چھوڑ دیا جائے کہ اسے جس طرح چاہوں صرف کروں؟
یہ کہنا کہ ایک مرد اور ایک عورت باہم مل کر ایک پوشیدہ مقام پر سب سے الگ جو لطف اُٹھاتے ہیں اس کا کوئی اثر اجتماعی زندگی پر نہیں پڑتا، محض بچوں کی سی بات ہے۔ دراصل اس کا اثر صرف اس سوسائٹی پر ہی نہیں پڑتھا، جس سے وہ براہِ راست متعلق ہیں، بلکہ پوری انسانیت پر پڑتا ہے اور اس کے اثرات صرف حال کے لوگوں ہی تک محدود نہیں رہتے بلکہ آیندہ نسلوں تک منتقل ہوتے ہیں۔ جس اجتماعی و عمرانی رابطہ میں پوری انسانیت بندھی ہوئی ہے اس سے کوئی فرد کسی حال میں کسی محفوظ مقام پر بھی الگ نہیں ہے۔ بند کمروں میں، دیواروں کی حفاظت میں بھی وہ اسی طرح جماعت کی زندگی سے مربوط ہے جس طرح بازار یا محفل میں ہے، جس وقت وہ خلوت میں اپنی تولیدی طاقت کو ایک عارضی اور غیر نتیجہ خیز لطف اندوزی پر ضائع کر رہا ہوتا ہے تو اس وقت دراصل وہ اجتماعی زندگی میں بد نظمی پھیلانے اور نوع کی حق تلفی اور جماعت کو بے شمار اَخلاقی، مادّی، تمدنی نقصانات پہنچانے میں مشغول ہوتا ہے۔ وہ اپنی خود غرضی سے ان تمام اجتماعی ادارت پر ضرب لگاتا ہے جن سے اس نے جماعت کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے فائدہ تو اٹھایا مگر ان کے قیام و بقا میں اپنا حصہ ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ جماعت نے میونسپلٹی سے لے کر اسٹیٹ تک، مدرسہ سے لے کر فوج تک، کارخانوں سے لے کر علمی تحقیقات کی مجلسوں تک جتنے بھی ادارے قائم کر رکھے ہیں، سب اسی اعتماد پر قائم کیے ہیں کہ ہر وہ فرد جو ان سے فائدہ اٹھا رہا ہے، ان کے قیام اور ان کی ترقی میں اپنا واجبی حصہ ادا کرے گا لیکن جب اس بے ایمان نے اپنی قوتِ شہوانی کو اس طرح استعمال کیا کہ اس میں توالد و تناسل اور تربیتِ اطفال کے فرائض انجام دینے کی سرے سے نیت ہی نہ تھی تو اس نے ایک ہی ضرب میں اپنی حد تک اس پورے نظام کی جڑ کاٹ دی۔ اس نے اس اجتماعی معاہدہ کو توڑ ڈالا جس میں وہ عین اپنے انسان ہونے ہی کی حیثیت سے شریک تھا۔ اس نے اپنے ذمہ کا بار خود اٹھانے کی بجائے دوسروں پر سارا بار ڈالنے کی کوشش کی۔ وہ کوئی شریف آدمی نہیں ہے بلکہ ایک چور، خائن اور لٹیرا ہے۔ اس سے رعایت کرنا پوری انسانیت پر ظلم کرنا ہے۔
اجتماعی زندگی میں فرد کا مقام کیا ہے، اس چیز کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اس امر میں کوئی شک باقی نہیں رہ سکتا کہ ایک ایک قوت جو ہمارے نفس اور جسم میں ودیعت کی گئی ہے محض ہماری ذات کے لیے نہیں ہے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہمارے پاس امانت ہے اور ہم ان میں سے ہر ایک کے لیے پوری انسانیت کے حق میں جواب دہ ہیں۔ اگر ہم خود اپنی جان کو یا اپنی قوتوںمیں سے کسی کو ضائع کرتے ہیں یا اپنی غلط کاری سے اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں تو ہمارے اس فعل کی اصلی حیثیت یہ نہیں ہے کہ جو کچھ ہمارا تھا اسے ہم نے ضائع کیا یا نقصان پہنچا دیا۔ بلکہ دراصل اس کی حیثیت یہ ہے کہ تمام عالمِ انسانی کے لیے جو امانت ہمارے پاس تھی، اس میں ہم نے خیانت کی اور اپنی اس حرکت سے پوری نوع کو نقصان پہنچایا۔ ہمارا دنیا میں موجود ہونا خود اس بات پر شاہد ہے کہ دوسرے نے ذمہ داریوں اور تکلیفوں کا بوجھ اٹھا کر زندگی کا نور ہماری طرف منتقل کیا تب ہی ہم اس عالم میں آئے۔ پھر اسٹیٹ کی تنظیم نے ہماری جان کی حفاظت کی۔ حفظانِ صحت کے محکمے ہماری زندگی کے تحفظ میں لگے رہے۔ لاکھوں کروڑوں انسانوں نے مل کر ہماری ضروریات فراہم کیں۔ تمام اجتماعی اداروں نے مل کر ہماری قوتوں کو سنوارنے اور تربیت دینے کی کوشش کی اور ہمیں وہ کچھ بنایا جو ہم ہیں۔ کیا ان سب کا یہ جائز بدلہ ہو گا، کیا یہ انصاف ہو گا کہ جس جان اور جن قوتوں کے وجود، بقا، نشوونما میں دوسروں کا اتنا حصہ ہے اسے ہم ضائع کر دیں یا مفید بنانے کی بجائے مضر بنائیں؟ خودکشی اس بِنا پر حرام ہے۔ ہاتھ سے شہوت رانی کرنے والے کو اسی وجہ سے دنیا کے سب سے بڑے حکیم نے ملعون کہا ہے۔ (ناکح الید ملعون) { FR 6820 }عملِ قومِ لوط کو اسی بنیاد پر بدترین جرم قرار دیا گیا ہے اور زنا بھی اسی وجہ سے انفرادی تفریح اور خوش وقتی نہیں ہے بلکہ پوری انسانی جماعت پر ظلم ہے۔
۳۔ زِنا اور اجتماعی مظالم
غور کیجیے، فعلِ زِنا کے ساتھ کتنے اجتماعی مظالم کا قریبی اور گہرا رشتہ ہے۔
(۱) سب سے پہلے ایک زانی اپنے آپ کو امراضِ خبیثہ کے خطرہ میں ڈالتا ہے۔ اور اس طرح نہ صرف اپنی جسمانی قوتوں کی اجتماعی افادیت میں نقص پیدا کرتا ہے بلکہ جماعت اور نسل کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ سوزاک کے متعلق ہر طبیب آپ کو بتا دے گاکہ مجرائے بول کا یہ قرحہ شاذونادر ہی کامل طور پر مندمل ہوتا ہے۔ ایک بڑے ڈاکٹر کا قول ہے کہ ’’ایک دفعہ سوزاک ہمیشہ کے لیے سوزاک‘‘ اس سے جگر، مثانہ، انثیین وغیرہ اعضا بھی بسا اوقات آفت رسیدہ ہو جاتے ہیں۔ گنٹھیا اور بعض دوسرے امراض کا بھی یہ سبب بن جاتا ہے۔ اس سے مستقل بانجھ پن پیدا ہو جانے کا بھی امکان ہے۔ اور یہ دوسروں کی طرف متعدی بھی ہوتا ہے۔ رہا آتشک تو کسے معلوم نہیں کہ اس سے پورا نظامِ جسمانی مسموم ہو جاتا ہے۔ سر سے پائوں تک کوئی عضو بلکہ جسم کا کوئی جزو ایسا نہیں جس میں اس کا زہر نفوذ نہ کر جاتا ہو۔ یہ نہ صرف خود مریض کی جسمانی قوتوں کو ضائع کرتا ہے بلکہ ایک شخص سے نہ معلوم کتنے اشخاص تک مختلف ذرائع سے پہنچ جاتا ہے۔ پھر اس کی بدولت مریض کی اولاد اور اولاد کی اولاد تک بے قصور سزا بھگتتی ہے۔ بچوں کا اندھا، گونگا، بہرا، فاتر العقل پیدا ہونا لطف کی ان چند گھڑیوں کا معمولی ثمرہ ہے جنھیں ظالم باپ نے اپنی زندگی میں متاعِ عزیز سمجھا تھا۔
(۲) امراضِ خبیثہ میں تو ہر زانی کا مبتلا ہو جانا یقینی نہیں ہے، مگر ان اخلاقی کم زوریوں سے کسی کا بچنا ممکن نہیں جو اس فعل سے لازمًا تعلق رکھتی ہیں۔ بے حیائی، فریب کاری، جھوٹ، بدنیتی، خود غرضی، خواہشات کی غلامی، ضبطِ نفس کی کمی، خیالات کی آوارگی، طبیعت میں ذواقی اور ہرجائی پن اور ناوفاداری۔ یہ سب زنا کے وہ اخلاقی اثرات ہیں جو خود زانی کے نفس پر مترتب ہوتے ہیں۔ جو شخص یہ خصوصیات اپنے اندر پرورش کرتا ہے اس کی کم زوریوں کا اثر محض صنفی معاملات ہی تک محدود نہیں رہتا بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں اس کی طرف سے یہی ہدیہ جماعت کو پہنچتا ہے۔ اگر جماعت میں کثرت سے لوگوں کے اندر یہ اوصاف نشوونما پا گئے ہوں تو ان کی بدولت آرٹ اور ادب، تفریحات اور کھیل، عام اور فنون، صنعت اور حرفت، معاشرت اور معیشت، سیاست اور عدالت، فوجی خدمات اور انتظامِ ملکی، غرض ہر چیز کم و بیش مائوف ہو کر رہے گی۔ خصوصًا جمہوری نظام میں تو افراد کی ایک ایک اخلاقی خصوصیت کا پوری قوم کی زندگی پر منعکس ہونا یقینی ہے۔ جس قوم کے بیش تر افراد کے مزاج میں کوئی قرار و ثبات نہ ہو اور جس قوم کے اکثر اجزائے ترکیبی وفا سے، ایثار سے اور خواہشات پر قابو رکھنے کی صفات سے عاری ہوں اس کی سیاست میں استحکام آخر آئے کہاں سے؟
(۳) زِنا کو جائز رکھنے کے ساتھ یہ بھی لازم ہو جاتا ہے کہ سوسائٹی میں فاحشہ گری کا کاروبار جاری رہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ ایک جوان مرد کو ’’تفریح‘‘ کا حق حاصل ہے، وہ گویا ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں ایک معتدبہ طبقہ ایسی عورتوں کا موجود رہنا چاہیے جو ہر حیثیت سے انتہائی پستی و ذلت کی حالت میں ہوں۔ آخر یہ عورتیں آئیں گی کہاں سے؟ اس سوسائٹی ہی میں سے تو پیدا ہوں گی۔ بہرحال کسی کی بیٹی اور بہن ہی تو ہوں گی۔ وہ لاکھوں عورتیں جو ایک ایک گھر کی ملکہ، ایک ایک خاندان کی بانی، کئی کئی بچوں کی مربی بن سکتی تھیں، انھی کو لا کر تو بازار میں بٹھانا پڑے گا تاکہ میونسپلٹی کے پیشاب خانوں کی طرح وہ آوارہ مزاج مردوں کے لیے رفع حاجت کا محل بنیں۔ ان سے عورت کی تمام شریفانہ خصوصیات چھینی جائیں، انھیں ناز فروشی کی تربیت دی جائے، انھیں اس غرض کے لیے تیار کیا جائے کہ اپنی محبت، اپنے دل، اپنے جسم اور حسن اور اپنی ادائوں کو ہر ساعت ایک نئے خریدار کے ہاتھ بیچیں اور کوئی نتیجہ خیز و بار آور خدمت کی بجائے تمام عمر دوسروں کی نفس پرستی کے لیے کھلونا بنی رہیں۔
(۴) زنا کے جواز سے نکاح کے تمدنی ضابطہ کو لامحالہ نقصان پہنچتا ہے، بلکہ انجام کار نکاح ختم ہو کر صرف زِنا ہی زِنا رہ جاتا ہے۔ اول تو زنا کا میلان رکھنے والے مردوں اور عورتوں میں یہ صلاحیت ہی بہت کم باقی رہ جاتی ہے کہ صحیح ازدواجی زندگی بسر کر سکیں۔ کیوں کہ جو بد نیتی، بدنظری، ذواقی اور آوارہ مزاجی اس طریقِ کار سے پیدا ہوتی ہے اور ایسے لوگوں میں جذبات کی بے ثباتی اور خواہشاتِ نفس پر قابو نہ رکھنے کی جو کم زوری پرورش پاتی ہے، وہ ان صفات کے لیے سمِ قاتل ہے جو ایک کام یاب ازدواجی تعلق کے لیے ضروری ہیں۔ وہ اگر ازدواج کے رشتہ میں بندھیں گے بھی تو ان کے درمیان وہ حُسنِ سلوک، وہ سنجوگ، وہ باہمی اعتماد، اور وہ مہر و وفا کا رابطہ کبھی اُستوار نہ ہو گا جس سے اچھی نسل پیدا ہوتی ہے اور ایک مسرت بھرا گھر وجود میں آتا ہے۔ پھر جہاں زِنا کی آسانیاں ہوں وہاں عملًا یہ ناممکن ہے کہ نکاح کا تمدن پرور طریقہ قائم رہ سکے کیوں کہ جن لوگوں کو ذمہ داریاں قبول کیے بغیر خواہشاتِ نفس کی تسکین کے مواقع حاصل ہوں انھیں کیا ضرورت ہے کہ نکاح کرکے اپنے سر پر بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ لاد لیں؟
(۵) زِنا کے جواز اور رواج سے نہ صرف تمدن کی جڑ کٹتی ہے، بلکہ خود نسلِ انسانی کی جڑ بھی کٹتی ہے۔ جیسا کہ پہلے ثابت کیا جا چکا ہے، آزادانہ صنفی تعلق میں مرد اور عورت دونوں میں سے کسی کی بھی یہ خواہش نہیں ہوتی اور نہیں ہو سکتی کہ بقائے نوع کی خدمت انجام دیں۔
(۶) زِنا سے نوع اور سوسائٹی کو اگر بچے ملتے ہیں تو حرامی بچے ہوتے ہیں۔ نسب میں حلال اور حرام کی تمیز محض ایک جذباتی چیز نہیں ہے جیسا کہ بعض نادان لوگ گمان کرتے ہیں۔ دراصل متعدد حیثیات سے حرام کا بچہ پیدا کرنا خود بچے پر اورپورے انسانی تمدن پر ایک ظلمِ عظیم ہے۔ اول تو ایسے بچہ کا نطفہ ہی اس حالت میں قرار پاتا ہے جب کہ ماں اور باپ دونوں پر خالص حیوانی جذبات کا تسلط ہوتا ہے۔ ایک شادی شدہ جوڑے میں صنفی عمل کے وقت جو پاک انسانی جذبات ہوتے ہیں وہ ناجائز تعلق رکھنے والے جوڑے کو کبھی میسر ہی نہیں آ سکتے۔ انھیں تو مجرد بہیمیت کا جوش ایک دوسرے سے ملاتا ہے اور اس وقت تمام انسانی خصوصیات برطرف ہوتی ہیں۔ لہٰذا ایک حرامی بچہ طبعًا اپنے والدین کی حیوانیت کا وارث ہوتا ہے۔ پھر وہ بچہ جس کا خیر مقدم کرنے کے لیے نہ ماں تیار ہو نہ باپ، جو کہ مطلوب چیز کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ناگہانی مصیبت کی حیثیت سے والدین کے درمیان آیا ہو، جسے باپ کی محبت اور اس کے وسائل بالعموم میسر نہ آئیں، جو صرف ماں کی یک طرفہ تربیت پائے اور وہ بھی ایسی جس میں بے دلی اور بے زاری شامل ہو، جسے دادا، دادی، چچا، ماموں اوردوسرے اہلِ خاندان کی سرپرستی حاصل نہ ہو، وہ بہرحال ایک ناقص ونامکمل انسان ہی بن کر اُٹھے گا۔ نہ اس کا صحیح کریکٹر بن سکے گا۔ نہ اس کی صلاحیتیں چمک سکیں گی۔ نہ اسے ترقی اور کار پردازی کے پورے وسائل بہم پہنچ سکیں گے۔ وہ خود بھی ناقص، بے وسیلہ، بے یار و مددگار اور مظلوم ہو گا اور تمدن کے لیے کسی طرح اتنا مفید نہ بن سکے گا جتنا وہ حلال ہونے کی صوت میں ہو سکتا تھا۔
آزاد شہوت رانی کے حامی کہتے ہیں کہ بچوں کی پرورش اور تعلیم کے لیے ایک قومی نظام ہونا چاہیے تاکہ بچوں کو ان کے والدین اپنے آزادانہ تعلق سے جنم دیں اور قوم انھیں پال پوس کر تمدن کی خدمت کے لیے تیار کرے۔ اس تجویز سے ان لوگوں کا مقصد یہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کی آزادی اور ان کی انفرادیت محفوظ رہے اور ان کی نفسانی خواہشات کو نکاح کی پابندیوں میں جکڑے بغیر تولید نسل و تربیت اطفال کا مدعا حاصل ہو جائے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جن لوگوں کو موجودہ نسل کی انفرادیت اتنی عزیز ہے وہ آیندہ نسل کے لیے قومی تعلیم یا سرکاری تربیت کا ایسا سسٹم تجویز کرتے ہیں جس میں انفرادیت کی نشوونما اور شخصیت کے ارتقا کی صورت نہیں ہے۔ اس قسم کے ایک سسٹم میں جہاں ہزاروں لاکھوں بچے بیک وقت ایک نقشے، ایک ضابطے اور ایک ہی ڈھنگ پر تیار کیے جائیں، بچوں کا انفرادی تشخص ابھر اور نکھر ہی نہیں سکتا۔ وہاں تو ان میں زیادہ سے زیادہ یکسانی اور مصنوعی ہمواری پیدا ہو گی۔ اس کارخانے سے بچے اُسی طرح ایک سی شخصیت لے کر نکلیں گے جس طرح کسی بڑی فیکٹری سے لوہے کے پرزے یکساں ڈھلے ہوئے نکلتے ہیں۔ غور تو کرو انسان کے متعلق ان کم عقل لوگوں کا تصور کتنا پست اور کتنا گھٹیا ہے۔ یہ باٹا کے جوتوں کی طرح انسانوں کو تیار کرنا چاہتے ہیں۔ انھیں معلوم نہیں کہ بچے کی شخصیت کو تیار کرنا ایک لطیف ترین آرٹ ہے۔ یہ آرٹ ایک چھوٹے نگار خانے ہی میں انجام پا سکتا ہے جہاں ہر مصور کی توجہ ایک ایک تصویر پر مرکوز ہو۔ ایک بڑی فیکٹری میں جہاں کرایہ کے مزدور ایک ہی طرز کی تصویریں لاکھوں کی تعداد میں تیار کرتے ہیں، یہ آرٹ غارت ہو گا نہ کہ ترقی کرے گا۔
پھر قومی تعلیم و تربیت کے اس سسٹم میں آپ کو بہرحال ایسے کارکنوں کی ضرورت ہو گی جو سوسائٹی کی طرف سے بچوں کی پرورش کا کام سنبھالیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس خدمت کو انجام دینے کے لیے ایسے ہی کارکن موزوں ہو سکتے ہیں جو اپنے جذبات اور خواہشات پر قابو رکھتے ہوں اور جن میں خود اخلاقی انضباط پایا جاتا ہو۔ ورنہ وہ بچوں میں اَخلاقی انضباط کیسے پیدا کر سکیں گے؟ اب سوال یہ ہے کہ ایسے آدمی آپ لائیں گے کہاں سے؟ آپ تو قومی تعلیم و تربیت کا سسٹم قائم ہی اس لیے کر رہے ہیں کہ مردوں اور عورتوں کو اپنی خواہشات پوری کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا جائے۔ اس طرح جب آپ نے سوسائٹی میں سے اخلاقی انضباط اور خواہشات کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت کا بیج ہی مار دیا تو اندھوں کی بستی میں آنکھوں والے دست یاب کہاں ہوں گے کہ وہ نئی نسلوں کو دیکھ کر چلنا سکھائیں؟
(۷) زِنا کے ذریعہ سے ایک خود غرض انسان جس عورت کو بچہ کی ماں بنا دیتا ہے اُس کی زندگی ہمیشہ کے لیے تباہ ہو جاتی ہے اور اس پر ذلت اور نفرت عامہ اور مصائب کا ایسا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے کہ جیتے جی وہ اس کے بوجھ تلے سے نہیں نکل سکتی۔ نئے اخلاقی اصولوں نے اس مشکل کا حل یہ تجویز کیا ہے کہ ہر قسم کی مادریت کو مساوی حیثیت دے دی جائے، خواہ وہ قید نکاح کے اندر ہو یا باہر۔ کہا جاتا ہے کہ مادریت بہرحال قابلِ احترام ہے اور یہ کہ جس لڑکی نے اپنی سادگی سے یا بے احتیاطی سے ماں بننے کی ذمہ داری قبول کر لی اس پر یہ ظلم ہے کہ سوسائٹی میں اسے مطعون کیا جائے لیکن اول تو یہ حل ایسا ہے کہ اس میں ایسی فاحشہ عورتوں کے لیے چاہے کتنی ہی سہولت ہو، سوسائٹی کے لیے بحیثیت مجموعی سراسر مصیبت ہی مصیبت ہے۔ سوسائٹی فطرتًا حرامی بچہ کی ماں کو جس نفرت اور ذلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے وہ ایک طرف افراد کو گناہ اور بدکاری سے روکنے کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ہے اور دوسری طرف وہ خود سوسائٹی میں بھی اخلاقی حس کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔ اگر حرامی بچہ کی ماں اور حلالی بچہ کی ماں کو مساوی سمجھا جانے لگے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جماعت سے خیر اور شر، بھلائی اور بُرائی، گناہ اور ثواب کی تمیز ہی رخصت ہو گئی۔ پھر بالفرض اگر یہ ہو بھی جائے تو کیا اس سے فی الواقع وہ مشکلات حل ہو جائیں گی جو حرامی بچہ کی ماں کو پیش آتی ہیں۔ تم اپنے نظریہ میں حرام اور حلال دونوں قسم کی مادریت کو مساوی قرار دے سکتے ہو، مگر فطرت ان دونوں کو مساوی نہیں کرتی اور حقیقت میں وہ کبھی مساوی ہو ہی نہیں سکتیں۔ ان کی مساوات عقل، منطق، انصاف، حقیقت، ہر چیز کے خلاف ہے۔ آخر وہ بے وقوف عورت جس نے شہوانی جذبات کے وقتی ہیجان سے مغلوب ہو کر اپنے آپ کو ایک ایسے خود غرض آدمی کے حوالہ کر دیا جو اس کی اور اس کے بچہ کی کفالت کا ذمہ لینے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس عقل مند عورت کے برابر کس طرح ہو سکتی ہے جس نے اپنے جذبات کو اس وقت تک قابو میں رکھا جب تک اسے ایک شریف ذمہ دار آدمی نہ مل گیا؟ کون سی عقل ان دونوں کو یکساں کہہ سکتی ہے؟ تم چاہو تو نمائشی طور پر انھیں برابر کر دو مگر تم اس بے وقوف عورت کو وہ کفالت و حفاظت، وہ ہم دردانہ رفاقت، وہ محبت آمیز نگاہ داشت، وہ خیر خواہانہ دیکھ بھال اور وہ سکینت وطمانیت کہاں سے دلوائو گے جو صرف ایک شوہر والی عورت ہی کو تو مل سکتی ہے؟ تم اس کے بچہ کو باپ کی شفقت اور پورے سلسلۂ پدری کی محبت و عنایت کس بازار سے لا دو گے؟ زیادہ سے زیادہ تم قانون کے زور سے اسے نفقہ دلوا سکتے ہو۔ مگر کیا ایک ماں اور ایک بچہ کو دنیا میں صرف نفقہ ہی کی ضرورت ہوا کرتی ہے؟ پس یہ حقیقت ہے کہ حرام اور حلال کی مادریت کو یکساں کر دینے سے گناہ کرنے والیوں کو خارجی تسلی چاہے کتنی ہی مل جائے، بہرحال یہ چیز انھیں ان کی حماقت کے طبعی نتائج سے ان کے بچوں کو اس طرح کی پیدائش کے حقیقی نقصانات سے نہیں بچا سکتی۔
ان وجوہ سے یہ بات جماعتی زندگی کے قیام اور صحیح نشوونما کے لیے اہم ضروریات میں سے ہے کہ جماعت میں صنفی عمل کے انتشار کو قطعی روک دیا جائے اور جذباتِ شہوانی کی تسکین کے لیے صرف ایک ہی دروازہ…… ازدواج کا دروازہ کھولا جائے۔ افراد کو زنا کی آزادی دینا ان کے ساتھ بے جا رعایت اور سوسائٹی پر ظلم، بلکہ سوسائٹی کا قتل ہے۔ جو سوسائٹی اس معاملہ کو حقیر سمجھتی ہے اور زنا کو محض افراد کی ’’خوش وقتی‘‘ (having a good time) سمجھ کر نظر انداز کر دینا چاہتی ہے۔ اور ’’آزادانہ تخم ریزی‘‘ (Sowing Wild Oats) کے ساتھ رواداری برتنے کے لیے تیار ہے، وہ دراصل ایک جاہل سوسائٹی ہے۔ اسے اپنے حقوق کا شعور نہیں ہے۔ وہ آپ اپنے ساتھ دُشمنی کرتی ہے۔ اگر اسے اپنے حقوق کا شعور ہو اور وہ جانے اور سمجھے کہ صنفی تعلقات کے معاملہ میں انفرادی آزادی کے اثرات جماعتی مفاد پر کیا مرتب ہوتے ہیں تو وہ اس فعل کو اسی نظر سے دیکھے جس سے چوری، ڈاکا اور قتل کو دیکھتی ہے بلکہ یہ چوری سے اشد ہے۔ چور، قاتل اور ڈاکو زیادہ سے زیادہ ایک فرد یا چند افراد کا نقصان کرتے ہیں۔ مگر زانی پوری سوسائٹی پر اور اس کی آیندہ نسلوں پر ڈاکا ڈالتا ہے۔ وہ بیک وقت لاکھوں کروڑوں انسانوں کی چوری کرتا ہے۔ اس کے جرم کے نتائج ان سب مجرموں سے زیادہ دُور رس اور زیادہ وسیع ہیں۔ جب یہ تسلیم ہے کہ افراد کی خود غرضانہ دست درازیوں کے مقابلہ میں سوسائٹی کی مدد پر قانون کی طاقت ہونی چاہیے اور جب اسی بنیاد پر چوری، قتل، لوٹ مار، جعل سازی اور غصبِ حقوق کی دوسری صورتوں کو جرم قراردے کر تعزیر کے زور سے ان کا سدِّ باب کیا جاتا ہے، تو کوئی وجہ نہیں کہ زِنا کے معاملہ میں قانون سوسائٹی کا محافظ نہ ہو اور اسے تعزیری جرم قرار نہ دیا جائے۔
اصولی حیثیت سے بھی یہ کھلی ہوئی بات ہے کہ نکاح اور سفاح دونوں بیک وقت ایک نظامِ معاشرت کے جزو نہیں ہو سکتے۔ اگر ایک شخص کے لیے ذمہ داریاں قبول کیے بغیر خواہشاتِ نفس کی تسکین جائز رکھی جائے تو اسی کام کے لیے نکاح کا ضابطہ مقرر کرنا محض بے معنی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ریل میں بلا ٹکٹ سفر کرنے کو جائز بھی رکھا جائے اور پھر سفر کے لیے ٹکٹ کا قاعدہ بھی مقرر کیا جائے۔ کوئی صاحبِ عقل آدمی ان دونوں طریقوں کو بیک وقت اختیار نہیں کر سکتا۔ معقول صورت یہی ہے کہ یا تو ٹکٹ کا قاعدہ سرے سے اڑا دیا جائے یا اگر یہ قاعدہ مقرر کرنا ہے تو بلا ٹکٹ سفر کرنے کو جرم قرار دیا جائے۔ اسی طرح نکاح اور سفاح کے معاملہ میں بھی دو عملی ایک قطعی غیر معقول چیز ہے۔ اگر تمدن کے لیے نکاح کا ضابطہ ضروری ہے، جیسا کہ پہلے بدلائل ثابت کیا جا چکا ہے، تو اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ سفاح کو جرم قراردیا جائے۔{ FR 6822 } جاہلیت کی خصوصیات میں سے یہ بھی ایک نمایاں خصوصیت ہے کہ جن چیزوں کے نتائج محدود ہوتے ہیں اور جلدی اور محسوس شکل میں سامنے آ جاتے ہیں ان کا تو ادراک کر لیا جاتا ہے مگر جن کے نتائج وسیع اور دور رس ہونے کی وجہ سے غیر محسوس رہتے ہیں اور دیر میں مرتب ہوا کرتے ہیں انھیں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، بلکہ ناقابل اعتنا سمجھا جاتا ہے۔ چوری، قتل اور ڈکیتی جیسے معاملات کو اہم اور زنا کو غیر اہم سمجھنے کی وجہ یہی ہے۔ جو شخص اپنے گھر میں طاعون کے چوہے جمع کرتا ہے یا متعدی امراض پھیلاتا ہے۔ جاہلیت کا تمدن اسے تو معافی کے قابل نہیں سمجھتا کیوں کہ اس کا فعل صریح طور پر نقصان رساں نظر آتا ہے۔ مگر جو زنا کار اپنی خود غرضی سے تمدن کی جڑ کاٹتا ہے، اس کے نقصانات چوں کہ محسوس ہونے کی بجائے معقول ہیں اس لیے وہ جاہلوں کو ہر رعایت کا مستحق نظر آتا ہے بلکہ ان کی سمجھ میں یہ آتا ہی نہیں کہ اس کے فعل میں جرم کی آخر کون سی بات ہے۔ اگر تمدن کی بنیاد جاہلیت کی بجائے عقل اور علم فطرت پر ہو تو یہ طرزِ عمل کبھی اختیار نہ کیا جائے۔
۴۔ انسدادِ فواحش کی تدابیر
تمدن کے لیے جو فعل نقصان دِہ ہو اسے روکنے کے لیے صر ف اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ اسے بس قانونًا جرم قرار دیاجائے اور اس کے لیے ایک سزا مقرر کر دی جائے، بلکہ اس کے ساتھ چار قسم کی تدبیریں اور بھی اختیار کرنا ضروری ہیں:
ایک یہ کہ تعلیم و تربیت کے ذریعہ سے افراد کی ذہنیت درست کی جائے اور ان کے نفس کی اس حد تک اصلاح کر دی جائے کہ وہ خود اس فعل سے نفرت کرنے لگیں، اسے گناہ سمجھیں اور ان کااپنا اخلاقی وجدان انھیں اس کے ارتکاب سے باز رکھے۔
دوسرے یہ کہ جماعتی اخلاق اور رائے عام کو اس گناہ یا جرم کے خلاف اس حد تک تیار کر دیا جائے کہ عام لوگ اسے عیب اور لائقِ شرم فعل سمجھنے اور اس کے مرتکب کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں تاکہ جن افراد کی تربیت ناقص رہ گئی ہو، یا جن کا اخلاقی وجدان کم زور ہو انھیں رائے عام کی طاقت ارتکابِ جرم سے باز رکھے۔
تیسرے یہ کہ نظامِ تمدن میں ایسے تمام اسباب کا انسداد کر دیا جائے جو اس جرم کی تحریک کرنے والے اور اس کی طرف ترغیب وتحریص دلانے والے ہوں اور اس کے ساتھ ہی ان اسباب کو بھی حتی الامکان دور کیا جائے جو افراد کو اس فعل پر مجبور کرنے والے ہوں۔
چوتھے یہ کہ تمدنی زندگی میں ایسی رکاوٹیں اور مشکلات پیدا کر دی جائیں کہ اگر کوئی شخص اس جرم کا ارتکاب کرنا بھی چاہے تو آسانی سے نہ کر سکے۔
یہ چاروں تدبیریں ایسی ہیں جن کی صحت اور ضرورت پرعقل شہادت دیتی ہے۔ فطرت ان کا مطالبہ کرتی ہے اور بالفعل ساری دنیا کا تعامل بھی یہی ہے کہ سوسائٹی کا قانون جن جن چیزوں کو جرم قرار دیتا ہے ان سب کو روکنے کے لیے تعزیر کے علاوہ یہ چاروں تدبیریں بھی کم و بیش ضرور استعمال کی جاتی ہیں۔ اب اگر یہ مسلم ہے کہ صنفی تعلقات کا انتشار تمدن کے لیے مہلک ہے اور سوسائٹی کے خلاف ایک شدید جرم کی حیثیت رکھتا ہے تو لامحالہ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسے روکنے کے لیے تعزیر کے ساتھ ساتھ وہ سب اصلاحی و انسدادی تدابیر استعمال کرنا ضروری ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ اس کے لیے افراد کی تربیت بھی ہونی چاہیے، رائے عام کو بھی اس کی مخالفت کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ تمدن کے دائرے سے ان تمام چیزوں کو خارج بھی کرنا چاہیے جو افراد کے شہوانی جذبات کو مشتعل کرتی ہیں، نظامِ معاشرت سے ان رکاوٹوں کو بھی دور کرنا چاہیے جو نکاح کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہیں اور مردوں اور عورتوں کے تعلقات پر ایسی پابندیاں بھی عائد کرنی چاہییں کہ اگر وہ دائرہ ازدواج کے باہر صنفی تعلق قائم کرنے کی طرف مائل ہوں تو ان کی راہ میں بہت سے مضبوط حجابات حائل ہو جائیں۔ زنا کو جرم اور گناہ تسلیم کر لینے کے بعد کوئی صاحبِ عقل آدمی ان تدابیر کے خلاف ایک لفظ نہیں کہہ سکتا۔
بعض لوگ ان تمام اخلاقی و اجتماعی اصولوں کو تسلیم کرتے ہیں جن کی بنیاد پر زنا کو گناہ قرار دیا گیا ہے، مگر ان کا اصرار یہ ہے کہ اس کے خلاف تعزیری اور انسدادی تدابیر اختیار کرنے کی بجائے صرف اصلاحی تدبیروں پر اکتفا کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’تعلیم اور تربیت کے ذریعہ سے لوگوں میں اتنا باطنی احساس، ان کے ضمیر کی آواز میں اتنی طاقت اور ان کے اَخلاقی وجدان میں اتنا زور پیدا کر دو کہ وہ خود اس گناہ سے رُک جائیں۔ ورنہ اصلاحِ نفس کی بجائے تعزیری اور انسدادی تدابیر اختیار کرنے کے معنی تو یہ ہوں گے کہ تم آدمیوں کے ساتھ بچوں کا سا سلوک کرتے ہو، بلکہ آدمیت کی توہین کرتے ہو۔‘‘ہم بھی ان کے ارشاد کو اس حد تک تسلیم کرتے ہیں کہ اصلاحِ آدمیت کا اعلیٰ اور اشرف طریقہ وہی ہے جو وہ بیان فرماتے ہیں۔ تہذیب کی غایت فی الحقیقت یہی ہے کہ افراد کے باطن میں ایسی قوت پیدا ہو جائے جس سے وہ خود بخود سوسائٹی کے قوانین کا احترام کرنے لگیں اور خود ان کا اپنا ضمیر انھیں اَخلاقی ضوابط کی خلاف ورزی سے روک دے۔ اسی غرض کے لیے افراد کی تعلیم و تربیت پر سارا زور صرف کیا جاتا ہے۔ مگر کیا فی الواقع تہذیب اپنی اس غایت کو پہنچ چکی ہے؟ کیا حقیقت میں تعلیم اور اَخلاقی تربیت کے ذرائع سے افراد انسانی کو اتنا مہذب بنایا جا چکا ہے کہ ان کے باطن پر کامل اعتماد کیا جا سکتا ہو اور جماعتی نظام کی حفاظت کے لیے خارج میں کسی انسدادی اورتعزیری تدبیرکی ضرورت باقی نہ رہی ہو؟ زمانہ قدیم کا ذکر چھوڑئیے کہ آپ کی زبان میں وہ ’’تاریک‘‘ دور تھا۔ یہ بیسویں صدی، یہ ’’قرنِ منور‘‘ آپ کے سامنے موجود ہے۔ اس زمانہ میں یورپ اور امریکا کے مہذب ترین ممالک کو دیکھ لیجیے جن کا ہر باشندہ تعلیم یافتہ ہے، جنھیں اپنے شہریوں کی اعلیٰ تربیت پر ناز ہے، کیا وہاں تعلیم اور اصلاح نفس نے جرائم اور قانون شکنی کو روک دیا ہے؟ کیا وہاں چوریاں نہیں ہوتیں؟ ڈاکے نہیں پڑتے؟ قتل نہیں ہوتے؟ جعل اور فریب اور ظلم اور فساد کے واقعات پیش نہیں آتے؟ کیا وہاں افراد کے اندر اَخلاقی ذمہ داری کا اتنا احساس پیدا ہو گیا ہے کہ اب ان کے ساتھ ’’بچوں کا سا سلوک‘‘ نہیں کیا جاتا؟ اگر واقعہ یہ نہیں ہے، اگر اس روشن زمانہ میں بھی سوسائٹی کے نظم و آئین کو محض افراد کے اخلاقی وجدان پر نہیں چھوڑا جا سکا ہے، اگر اب بھی ہر جگہ ’’آدمیت کی یہ توہین‘‘ ہو رہی ہے کہ جرائم کے سدِّ باب کے لیے تعزیری اور انسدادی دونوں قسم کی تدبیریں استعمال کی جاتی ہیں، تو آخر کیا وجہ ہے کہ صرف صنفی تعلقات ہی کے معاملہ میں آپ کو یہ توہین ناگوار ہے؟ صرف اسی ایک معاملہ میں کیوں ان ’’بچوں‘‘ سے ’’بڑوں‘‘ کا سلوک کیے جانے پر آپ کو اصرار اور اتنا اصرار ہے؟ ذرا ٹٹول کر دیکھیے، کہیں دل میں کوئی چور تو چھپا ہوا نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جن چیزوں کو تم شہوانی محرکات قرار دے کر تمدن کے دائرے سے خارج کرنا چاہتے ہو وہ تو سب آرٹ اورذوقِ جمال کی جان ہیں، انھیں نکال دینے سے تو انسانی زندگی میں لطافت کا سرچشمہ ہی سوکھ کر رہ جائے گا، لہٰذا تمھیں تمدن کی حفاظت اور معاشرت کی اصلاح جو کچھ بھی کرنا ہے اس طرح کرو کہ فنونِ لطیفہ اور جمالیت کو ٹھیس نہ لگنے پائے۔ ہم بھی ان حضرات کے ساتھ اس حد تک متفق ہیں کہ آرٹ اور ذوقِ جمال فی الواقع قیمتی چیزیں ہیں جن کی حفاظت بلکہ ترقی ضرور ہونی چاہیے مگر سوسائٹی کی زندگی اور اجتماعی فلاح ان سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے۔ اسے کسی آرٹ اورکسی ذوق پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔ آرٹ اور جمالیت کو اگر پھلنا پھولنا ہے تو اپنے لیے نشوونما کا وہ راستہ ڈھونڈیں جس میں وہ اجتماعی زندگی اور فلاح کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکیں۔ جو آرٹ اور ذوقِ جمال زندگی کی بجائے ہلاکت اور فلاح کی بجائے فساد کی طرف لے جانے والا ہو اسے جماعت کے دائرے میں ہرگز پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا جا سکتا۔ یہ کوئی ہمارا انفرادی اور خانہ زاد نظریہ نہیں ہے بلکہ یہی عقل و فطرت کا مقتضا ہے، تمام دنیا اسے اصولًا تسلیم کرتی ہے اور اسی پر ہر جگہ عمل بھی ہو رہا ہے۔ جن چیزوں کو بھی دنیا میں جماعتی زندگی کے لیے مہلک اور موجبِ فساد سمجھا جاتا ہے انھیں کہیں آرٹ اورذوقِ جمال کی خاطر گوارا نہیں کیا جاتا، مثلاً جو لٹریچر فتنہ و فساد اور قتل و غارت گری پر اُبھارتا ہو اسے کہیں بھی محض اس کی ادبی خوبیوں کی خاطر جائز نہیں رکھا جاتا۔ جس ادب میں طاعون یا ہیضہ پھیلانے کی ترغیب دی جائے اسے کہیں برداشت نہیں کیا جاتا۔ جو سینما یا تھیٹر امن شکنی اور بغاوت پر اکساتا ہو اسے دنیا کی کوئی حکومت منظرِ عام پر آنے کی اجازت نہیں دیتی۔ جو تصویریں ظلم اور فسادات اور شرارت کے جذبات کی مظہر ہوں یا جن میں اخلاق کے تسلیم شدہ اصول توڑے گئے ہوں اور خواہ کتنی ہی کمالِ فن کی حامل ہوں، کوئی قانون اور کسی سوسائٹی کا ضمیر انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جیب کترنے کا فن اگرچہ ایک لطیف ترین فن ہے اور ہاتھ کی صفائی کا اس سے بہتر کمال شاید ہی کہیں پایا جاتا ہو، مگر کوئی اس کے پھلنے پھولنے کا روادار نہیں ہوتا۔ جعلی نوٹ، چیک اور دستاویزیں تیار کرنے میں حیرت انگیز ذہانت اور مہارت صرف کی جاتی ہے، مگر کوئی اس آرٹ کی ترقی کو جائز نہیں رکھتا۔ ٹھگی میں انسانی دماغ نے اپنی قوتِ ایجاد کے کیسے کیسے کمالات کا اظہار کیا ہے مگر کوئی مہذب سوسائٹی ان کمالات کی قدر کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ پس یہ اصول بجائے خود مسلم ہے کہ جماعت کی زندگی، اس کا امن، اس کی فلاح و بہبود، ہر فنِ لطیف اور ہر ذوقِ جمال و کمال سے زیادہ قیمتی ہے اور کسی آرٹ پر اسے قربان نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اختلاف جس امر میں ہے وہ صرف یہ ہے کہ ایک چیز کو ہم جماعتی زندگی اور فلاح کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں اور دوسرے ایسا نہیں سمجھتے۔ اگر اس امر میں ان کا نقطہ نظر بھی وہی ہوجائے جو ہمارا ہے تو انھیں بھی آرٹ اور ذوقِ جمال پر وہی پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگے گی جن کی ضرورت ہم محسوس کرتے ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ناجائز صنفی تعلقات کو روکنے کے لیے عورتوں اور مردوں کے درمیان حجابات حائل کرنا اور معاشرت میں ان کے آزادانہ اختلاط پر پابندیاں عائد کرنا دراصل ان کے اخلاق اور ان کی سیرت پر حملہ ہے۔ اس سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ گویا تمام افراد کو بدچلن فرض کر لیا گیا ہے اور یہ کہ ایسی پابندیاں لگانے والوں کو نہ ہی اپنی عورتوں پر اعتماد ہے نہ مردوں پر۔ بات بڑی معقول ہے۔ مگر اسی طرزِ استدلال کو ذرا آگے بڑھائیے۔ ہر قفل جو کسی دروازے پر لگایا جاتاہے گویا اس امرکا اعلان ہے کہ اس کے مالک نے تمام دنیا کو چور فرض کیا ہے۔ ہر پولیس مین کا وجود اس پر شاہد ہے کہ حکومت اپنی تمام رعایا کو بدمعاش سمجھتی ہے۔ پھر لین دین میں جو دستاویز لکھائی جاتی ہے وہ اس امر کی دلیل ہے کہ ایک فریق نے دوسرے فریق کو خائن قرار دیا ہے۔ ہر وہ انسدادی تدبیر جو ارتکاب جرائم کی روک تھام کے لیے اختیار کی جاتی ہے، اس کے عین وجود میں یہ مفہوم شامل ہے کہ ان سب لوگوں کو امکانی مجرم فرض کیا گیا ہے جن پر اس تدبیر کا اثر پڑتا ہو۔ اس طرزِ استدلال کے لحاظ سے توآپ ہر آن چور، بدمعاش، خائن اور مشتبہ چال چلن کے آدمی قرار دیے جاتے ہیں۔ مگر آپ کی عزتِ نفس کو ذرا سی ٹھیس بھی نہیں لگتی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ صرف اسی ایک معاملہ میں آپ کے احساسات اتنے نازک ہو گئے ہیں؟
اصل بات وہی ہے جس کی طرف ہم اوپر اشارہ کر چکے ہیں۔ جن لوگوں کے ذہن میں پرانے اَخلاقی تصورات کا بچا کھچا اثر ابھی باقی ہے وہ زنا اور صنفی انارکی کو بُرا تو سمجھتے ہیں، مگر ایسا زیادہ بُرا نہیں سمجھتے کہ اس کے قطعی انسداد کی ضرورت محسوس کریں۔ اسی وجہ سے اصلاح و انسداد کی تدابیر میں ہمارا اور ان کا نقطہ نظر مختلف ہے۔ اگر فطرت کے حقائق ان پر پوری طرح منکشف ہو جائیں اور وہ اس معاملہ کی صحیح نوعیت سمجھ لیں تو انھیں ہمارے ساتھ اس امر میں اتفاق کرنا پڑے گا کہ انسان جب تک انسان ہے اور اس کے اندر جب تک حیوانیت کا عنصر موجود ہے اس وقت تک کوئی ایسا تمدن، جو اشخاص کی خواہشات اور ان کے لطف و لذت سے بڑھ کر جماعتی زندگی کی فلاح کو عزیز رکھتا ہو، ان تدابیر سے غافل نہیں ہو سکتا۔
۵۔ تعلقِ زَوجین کی صحیح صورت
خاندان کی تاسیس اور صنفی انتشار کا سدِّباب کرنے کے بعد ایک صالح تمدن کے لیے جو چیز ضروری ہے وہ یہ ہے کہ نظامِ معاشرت میں مرد اور عورت کے تعلق کی صحیح نوعیت متعین کی جائے، ان کے حقوق ٹھیک ٹھیک عدل کے ساتھ مقررکیے جائیں، ان کے درمیان ذمہ داریاں پوری مناسبت کے ساتھ تقسیم کی جائیں اور خاندان میں ان کے مراتب اور وظائف کا تقرر اس طور پر ہو کہ اعتدال اور توازن میں فرق نہ آنے پائے۔ تمدن کے جملہ وسائل میں یہ مسئلہ سب سے زیادہ پیچیدہ ہے، مگر انسان کو اس گتھی کے سلجھانے میں اکثر ناکامی ہوئی ہے۔
بعض قومیں ایسی ہیں جن میں عورت کو مرد پر قوام بنایا گیا ہے۔ مگر ہمیں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ اس قسم کی قوموں سے کوئی قوم تہذیب و تمدن کے کسی اعلیٰ مرتبہ پرپہنچی ہو۔ کم از کم تاریخی معلومات کے ریکارڈ میں تو کسی ایسی قوم کا نشان پایا نہیں جاتا جس نے عورت کو حاکم بنایا ہو پھر دنیا میں عزت اور طاقت حاصل کی ہو یا کوئی کارِ نمایاں انجام دیا ہو۔
بیش تر اقوامِ عالم نے مرد کو عورت پر قوام بنایا، مگر اس ترجیح نے اکثر ظلم کی شکل اختیار کر لی ہے۔ عورت کو لونڈی بنا کر رکھا گیا۔ اس کی تذلیل و تحقیر کی گئی۔ اسے کسی قسم کے معاشی اورتمدنی حقوق نہ دیے گئے۔ اسے خاندان میں ایک ادنیٰ خدمت گار اور مرد کے لیے آلۂ شہوت رانی بنا کر رکھا گیا اور خاندان سے باہر عورتوں کے ایک گروہ کو کسی حد تک علم اور تہذیب کے زیوروں سے آراستہ کیا بھی گیا تو صرف اس لیے کہ وہ مردوں کے صنفی مطالبات زیادہ دلاویز طریقے سے پورا کریں، ان کے لیے اپنی موسیقی سے لذتِ گوش اور اپنے رقص اور ناز و ادا سے لذتِ نظر اور اپنے صنفی کمالات سے لذتِ جسم بن جائیں۔ یہ عورت کی توہین و تذلیل کا سب سے زیادہ شرم ناک طریقہ تھا جو مرد کی نفس پرستی نے ایجاد کیا، اور جن قوموں نے یہ طریقہ اختیار کیا وہ خود بھی نقصان سے نہ بچ سکیں۔
جدید مغربی تمدن نے تیسرا طریقہ اختیارکیا ہے۔ یعنی یہ کہ مردوں اور عورتوں میں مساوات ہو، دونوں کی ذمہ داریاں یکساں اور قریب قریب ایک ہی طرح کی ہوں، دونوں ایک ہی حلقہ عمل میں مسابقت کریں، دونوں اپنی روزی آپ کمائیں اور اپنی ضروریات کے آپ کفیل ہوں۔ معاشرت کی تنظیم کا یہ قاعدہ ابھی تک پوری طرح تکمیل کو نہیں پہنچا ہے۔ کیوں کہ مرد کی فضیلت و برتری اب بھی نمایاں ہے، زندگی کے کسی شعبہ میں بھی عورت مرد کی ہم پلہ نہیں ہے اور اسے وہ تمام حقوق حاصل نہیں ہوئے ہیں جو کامل مساوات کی صورت میں اسے ملنے چاہییں۔ لیکن جس حد تک بھی مساوات قائم کی گئی ہے اس نے ابھی سے نظامِ تمدن میں فساد برپا کر دیا ہے۔ اس سے پہلے ہم تفصیل کے ساتھ اس کے نتائج بیان کر چکے ہیں لہٰذا یہاں اس پر مزید تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ تینوں قسم کے تمدن، عدل، توازُن اور تناسب سے خالی ہیں کیوں کہ انھوں نے فطرت کی راہ نمائی کو سمجھنے اور ٹھیک ٹھیک اس کے مطابق طریقہ اختیار کرنے میں کوتاہی کی ہے۔ اگر عقلِ سلیم سے کام لے کر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ فطرت خود ان مسائل کا صحیح حل بتا رہی ہے۔ بلکہ یہ بھی دراصل فطرت ہی کی زبردست طاقت ہے جس کے اثر سے عورت نہ تو اس حد تک گر سکی جس حد تک اسے گرانے کی کوشش کی گئی اور نہ اس حد تک بڑھ سکی جس حد تک اس نے بڑھنا چاہا یا مرد نے اسے بڑھانے کی کوشش کی۔ افراط اور تفریط کے دونوں پہلو انسان نے غلط اندیش عقل اور اپنے بہکے ہوئے تخیلات کے اثر سے اختیار کیے ہیں۔ مگر فطرتِ عدل اور تناسب چاہتی ہے اور خود اس کی صورت بناتی ہے۔
اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انسان ہونے میں مرد اور عورت دونوں مساوی ہیں۔ دونوں نوعِ انسانی کے دو مساوی حصے ہیں۔ تمدن کی تعمیر اور تہذیب کی تاسیس و تشکیل اور انسانیت کی خدمت میں دونو ںبرابر کے شریک ہیں۔ دل، دماغ، عقل، جذبات، خواہشات اور بشری ضروریات دونوں رکھتے ہیں۔ تمدن کی صلاح و فلاح کے لیے دونوں کی تہذیب نفس، دماغی تربیت اور عقلی و فکری نشوونما یکساں ضروری ہے تاکہ تمدن کی خدمت میں ہر ایک اپنا پورا پورا حصہ ادا کر سکے۔ اس اعتبار سے مساوات کا دعوٰی بالکل صحیح ہے اور ہر صالح تمدن کا فرض یہی ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی اپنی فطری استعداد اور صلاحیت کے مطابق زیادہ سے زیادہ ترقی کرنے کا موقع دے۔ انھیں علم اور اعلیٰ تربیت سے مزین کرے، انھیں بھی مردوں کی طرح تمدنی و معاشی حقوق عطا کرے اور انھیں معاشرت میں عزت کا مقام بخشے تاکہ ان میں عزتِ نفس کا احساس پیدا ہو اور ان کے اندر وہ بہترین بشری صفات پیدا ہو سکیں جو صرف عزتِ نفس کے احساس ہی سے پیدا ہو سکتی ہیں۔ جن قوموں نے اس قسم کی مساوات سے انکار کیا ہے، جنھوں نے اپنی عورتوں کو جاہل، ناتربیت یافتہ، ذلیل اور حقوقِ مدنیت سے محروم رکھا ہے، وہ خود پستی کے گڑھے میں گر گئی ہیں، کیوں کہ انسانیت کے پورے نصف حصہ کو گرا دینے کے معنی خود انسانیت کو گراں دینے کے ہیں۔ ذلیل مائوں کی گودیوں سے عزت والے، اور ناتربیت یافتہ مائوں کی آغوش سے اعلیٰ تربیت والے اور پست خیال مائوں کے گہوارے سے اُونچے خیال والے انسان نہیں نکل سکتے۔
لیکن مساوات کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں کا حلقہ عمل ایک ہی ہو، دونوں ایک ہی طرح سے کام کریں، دونوں پر زندگی کے تمام شعبوں کی ذمہ داریاں یکساں عائد کر دی جائیں اور نظامِ تمدن میں دونوں کی حیثیتیں بالکل ایک سی ہوں۔ اس کی تائید میں سائنس کے مشاہدات اور تجربات سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ عورت اور مرد اپنی جسمانی استعداد اور قوت کے لحاظ سے مساوی (equipotential) ہیں مگر صرف یہ امر کہ ان دونوں میں اس قسم کی مساوات پائی جاتی ہے، اس امر کا فیصلہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ فطرت کا مقصود بھی دونوں سے ایک ہی طرح کے کام لینے ہیں۔ ایسی رائے قائم کرنا اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا۔ جب تک یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ دونوں کے نظامِ جسمانی بھی یکساں ہیں۔ دونوں پر فطرت نے ایک ہی جیسی خدمات کا بار بھی ڈالا ہے اور دونوں کی نفسی کیفیات بھی ایک دوسرے کے مماثل ہیں۔ انسان نے اب تک جتنی سائنٹیفک تحقیقات کی ہیں ان سے ان تینوں تنقیحات کا جواب نفی میں ملتا ہے۔
علم الحیات (biology) کی تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ عورت اپنی شکل و صورت اور ظاہری اعضا سے لے کر جسم کے ذرات اور نسیجی خلا یا (protein molecules of tissue cells) تک ہر چیز میں مرد سے مختلف ہے۔ جس وقت رحم میں بچے کے اندر صنفی تشکیل (sex formation) واقع ہوتی ہے اسی وقت سے دونوں صنفوں کی جسمانی ساخت بالکل ایک دوسرے سے مختلف صورت میں ترقی کرتی ہے۔ عورت کا پورا نظام جسمانی اس طور پر بنایا جاتا ہے کہ وہ بچہ جننے اور اس کی پرورش کرنے کے لیے مستعد ہو۔ ابتدائی جنینی تشکیل سے لے کر سنِ بلوغ تک اس کے جسم کی پوری نشوونما اسی استعداد کی تکمیل کے لیے ہوتی ہے اور یہی چیز اس کی آیندہ زندگی کا راستہ متعین کرتی ہے۔
بالغ ہونے پر ایامِ ماہواری کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے اثر سے اس کے جسم کے تمام اعضا کی فعلیت متاثر ہو جاتی ہے۔ اکابرِ فنِ حیاتیات و عضویات کے مشاہدات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایامِ ماہواری میں عورت کے اندر حسبِ ذیل تغیرات ہوتے ہیں:
(۱) جسم میں حرارت کو روکنے کی قوت کم ہو جاتی ہے۔ اس لیے حرارت زیادہ خارج ہوتی ہے اور درجہ حرارت گر جاتا ہے۔
(۲) نبض سست ہو جاتی ہے۔ خون کا دبائو کم ہو جاتا ہے۔ خلایائے دم [blood cells] کی تعداد میں فرق واقع ہو جاتا ہے۔
(۳) درُونِ افرازی غدد (endocrines)گلے کی گلٹیوں (tonsils) اور غدد لمفاوی (lymphatic glands)میں تغیر واقع ہو جاتا ہے۔
(۴) پروٹینی تحول (protein metabolism) میں کمی آ جاتی ہے۔
(۵) فاسفیٹس اور کلورائیڈس کے اخراج میں کمی اور ہوائی تحول (gaseous metabolism)میں انحطاط رونما ہوتا ہے۔
(۶) ہضم میں اختلاط واقع ہوتا ہے اور غذا کے پروٹینی اجزا اور چربی کے جزو بدن بننے میں کمی ہو جاتی ہے۔
(۷) تنفس کی قابلیت میں کمی اور گویائی کے اعضا میں خاص تغیرات واقع ہوتے ہیں۔
(۸) عضلات میں سستی اور احساسات میں بلادت آ جاتی ہے۔
(۹) ذہانت اور خیالات کو مرکوز کرنے کی طاقت کم ہو جاتی ہے۔
یہ تغیرات ایک تن دُرُست عورت کو بیماری کی حالت سے اس قدر قریب کردیتے ہیں کہ درحقیقت اس وقت صحت اور مرض کے درمیان کوئی واضح خط کھینچنا مشکل ہوتا ہے۔ سو (۱۰۰) میں سے بمشکل تیئس عورتیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں ایامِ ماہواری بغیر کسی درد اور تکلیف کے آتے ہوں۔ ایک مرتبہ ۱۰۲۰ عورتوں کو بلا انتخاب لے کر ان کے حالات کی تحقیق کی گئی تو ان میں ۸۴ فی صدی ایسی نکلیں جنھیں ایامِ ماہواری میں درد اور دوسری تکلیفوں سے سابقہ پیش آتا تھا۔
ڈاکٹر امیل نووک جو اس شعبہ علم کا بڑا محقق ہے، لکھتا ہے:
’’حائضہ عورتوں میں عموماً جو کیفیات پائی جاتی ہیں وہ یہ ہیں:
دَردِ سر، تکان، اعضا شکنی، اعصابی کم زوری، طبیعت کی پستی، مثانہ کی بے چینی، ہضم کی خرابی، بعض حالات میں قبض، کبھی کبھی متلی اور قے۔ اچھی خاصی تعداد ایسی عورتوں کی ہے جن کی چھاتیوں میں ہلکا سا درد ہوتا ہے اور کبھی کبھی وہ اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ ٹیسیں سی اُٹھتی معلوم ہوتی ہیں۔ بعض عورتوں کا غدّہ ورقہ (تھائی رائڈ) اس زمانہ میں سوج جاتا ہے جس سے گلا بھاری ہو جاتا ہے۔ بسا اوقات فتورِ ہضم کی شکایت ہوتی ہے اوراکثر سانس لینے میں دقت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر کریگر نے جتنی عورتوں کا معاینہ کیا ہے ان میں سے آدھی ایسی تھیں جنھیں ایامِ ماہواری میں بدہضمی کی شکایت ہو جاتی تھی اور آخری دنوں میں قبض ہو جاتا تھا۔ ڈاکٹر گب ہارڈ کا بیان ہے کہ ایسی عورتیں بہت کم مشاہدہ میں آئی ہیں جنھیں زمانۂ حیض میں کوئی تکلیف نہ ہوتی ہو۔ بیش تر ایسی ہی دیکھی گئی ہیں جنھیں دردِ سر، تکان، زیر ناف درد اور تھوک کی کمی لاحق ہوتی ہے۔ طبیعت میں چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے اور رونے کو جی چاہتاہے۔‘‘
ان حالات کے اعتبار سے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ ایامِ ماہواری میں ایک عورت دراصل بیمار ہوتی ہے۔ یہ ایک بیماری ہی ہے جو اسے ہر مہینہ لاحق ہوتی رہتی ہے۔
ان جسمانی تغیرات کا اثر لامحالہ عورت کے ذہنی قوٰی اور اس کے افعال اعضا پر بھی پڑتا ہے۔ ۱۹۰۹ء میں ڈاکٹر (Voicechevsky) نے گہرے مشاہدہ کے بعد یہ نتیجہ ظاہر کیا تھا کہ اس زمانے میں عورت کے اندر مرکزیت خیال اور دماغی محنت کی طاقت کم ہو جاتی ہے پروفیسر (Krschiskersky)نفسیاتی مشاہدات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس زمانہ میں عورت کا نظامِ عصبی نہایت اشتعال پزیر ہو جاتا ہے۔ احساسات میں بلادت اور ناہمواری پیدا ہو جاتی ہے۔ مرتب انعکاسات کو قبول کرنے کی صلاحیت کم اور بسا اوقات باطل ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ پہلے سے حاصل شدہ مرتب انعکاسات میں بھی بد نظمی پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اس کے وہ افعال بھی درست نہیں رہتے جن کی وہ اپنی روز مرہ زندگی میں خوگر ہوتی ہے۔ ایک عورت جو ٹرام کی کنڈکٹر ہے اس زمانہ میں غلط ٹکٹ کاٹ دے گی اور ریز گاری گننے میں الجھے گی۔ ایک موٹر ڈرائیور عورت گاڑی آہستہ اورڈرتے ڈرتے چلائے گی اور ہر موڑ پر گھبرائے گی۔ ایک لیڈی ٹائپسٹ غلط ٹائپ کرے گی، دیرمیں کرے گی۔ کوشش کے باوجود الفاظ چھوڑ جائے گی، غلط جملے بنائے گی، کسی حرف پر انگلی مارنا چاہے گی اور ہاتھ کسی پر جا پڑے گا۔ ایک بیرسٹر عورت کی قوتِ استدلال درست نہ رہے گی اور اپنے مقدمہ کو پیش کرنے میں اس کا دماغ اور اس کی قوتِ بیان دونوں غلطی کریں گے۔ ایک مجسٹریٹ عورت کی قوتِ فہم اور قوتِ فیصلہ دونوں متاثر ہو جائیں گی۔ ایک دندان ساز عورت کو اپنا کام کرتے وقت مطلوبہ اوزار مشکل سے ملیں گے۔ ایک گانے والے عورت اپنے لہجہ اور آواز کی خوبی کو کھو دے گی حتّٰی کہ ایک ماہر نطقیات محض آواز سن کر بتا دے گا کہ گانے والی اس وقت حالتِ حیض میں ہے۔ غرض یہ کہ اس زمانہ میں عورت کے دماغ اور اعصاب کی مشین بڑی حد تک سست اور غیر مرتب ہو جاتی ہے، اس کے اعضا پوری طرح اس کے ارادے کے تحت عمل نہیں کر سکتے، بلکہ اندر سے ایک اضطراری حرکت اس کے ارادے پر غالب آ کر اس کی قوتِ ارادی اور قوتِ فیصلہ کو مائوف کر دیتی ہے۔ اس سے مجبورانہ افعال سرزد ہونے لگتے ہیں۔ اس حالت میں اس کی آزادی عمل باقی نہیں رہتی اور وہ کوئی ذمہ دارانہ کام کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔
پروفیسر لاپنسکی (Lapinsky) اپنی کتاب (The Development of Personality in Woman) میں لکھتا ہے کہ زمانۂ حیض عورت کو اس کی آزادیٔ عمل سے محروم کر دیتا ہے۔ وہ اس وقت اضطراری حرکات کی غلام ہوتی ہے اور اس میں بالارادہ کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کی قوت بہت کم ہو جاتی ہے۔
یہ سب تغیرات ایک تن دُرُست عورت میں ہوتے ہیں اور بآسانی ترقی کرکے مرض کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ ریکارڈ پر ایسے واقعات بکثرت موجود ہیں کہ اس حالت میں عورت دیوانی سی ہو جاتی ہے۔ ذرا سے اشتعال پر غضب ناک ہو جانا، وحشیانہ اور احمقانہ حرکات کر بیٹھنا، حتّٰی کہ خود کشی تک کر گزرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ ڈاکٹرکرافت ایبنگ (Kraft Ebing) لکھتا ہے کہ روز مرہ کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ جو عورتیں نرم مزاج، سلیقہ مند اور خوش خلق ہوتی ہیں ان کی حالت ایامِ ماہواری کے آتے ہی یکایک بدل جاتی ہے۔ یہ زمانہ ان کے اوپر گویا ایک طوفان کی طرح آتا ہے۔ وہ چڑچڑی، جھگڑالو اور کٹ کھنی ہو جاتی ہیں۔ نوکر، بچے اور شوہر سب ان سے نالاں ہوتے ہیں۔ حتّٰی کہ وہ اجنبی لوگوں سے بھی بُری طرح پیش آتی ہیں بعض دوسرے اہلِ فن گہرے مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ عورتوں سے اکثر جرائم حالتِ حیض میں سرزد ہوتے ہیں کیوں کہ وہ اس وقت اپنے قابو میں نہیں ہوتیں۔ ایک اچھی خاصی نیک عورت اس زمانہ میں چوری کر گزرے گی اور بعد میں خود اسے اپنے فعل پر شرم آئے گی…… وائن برگ (Weinberg) اپنے مشاہدات کی بنا پر لکھتا ہے کہ خود کشی کرنے والی عورتوں میں ۵۰ فی صدی ایسی پائی گئی ہیں جنھوں نے حالتِ حیض میں یہ فعل کیا ہے۔ اسی بِنا پر ڈاکٹر کرافت ایبنگ کی رائے یہ ہے کہ بالغ عورتوں پر جب کسی جرم کی پاداش میں مقدمہ چلایا جائے توعدالت کو اس امر کی تحقیق کر لینی چاہیے کہ جرم کہیں حالتِ حیض میں تو نہیں کیا گیا۔
ایامِ ماہواری سے بڑھ کر حمل کا زمانہ عورت پر سخت ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ریپریف (Reprev) لکھتا ہے کہ حمل کے زمانہ میں عورت کے جسم سے فضلات کا اخراج بسا اوقات فاقہ زدگی کی حالت سے بھی زیادہ مقدار میں ہوتا ہے۔ اس زمانہ میں عورت کے قوٰی کسی طرح بھی جسمانی اور دماغی محنت کا وہ بار نہیں سنبھال سکتے جو حمل کے ماسوا دوسرے ایام میں سنبھال سکتے ہیں۔ جو حالات اس زمانہ میں عورت پر گزرتے ہیں وہ اگر مرد پر گزریں یا غیر زمانہ حمل میں خود عورت پر گزریں تو قطعی بیماری کا حکم لگا دیا جائے۔ اس زمانہ میں کئی مہینے تک اس کا نظامِ عصبی مختل رہتا ہے۔ اس کا دماغی توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس کے تمام عناصر روحی ایک مسلسل بدنظمی کی حالت میں ہوتے ہیں۔ وہ مرض اور صحت کے درمیان معلق رہتی ہے اور ایک ادنیٰ سی وجہ اسے بیماری کی سرحد میں پہنچا سکتی ہے۔ ڈاکٹر فشر کا بیان ہے کہ ایک تن درست عورت بھی حمل کے زمانہ میں سخت نفسی اضطراب میں مبتلا رہتی ہے۔ اس میں تلون پیدا ہو جاتا ہے، خیالات پریشان رہتے ہیں، ذہن پراگندہ ہوتا ہے۔ شعور، غور و فکر اور سمجھ بوجھ کی صلاحیت بہت کم ہو جاتی ہے۔ ہیولاک ایلیس اور البرٹ مول اور بعض دوسرے ماہرین کی متفقہ رائے یہ ہے کہ زمانۂ حمل کا آخری ایک مہینا تو ہرگز اس قابل نہیں ہوتا کہ اس میں عورت سے کوئی جسمانی یا دماغی محنت لی جائے۔
وضع حمل کے بعد متعدد بیماریوں کے رونما ہونے اور ترقی کرنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ زچگی کے زخم زہریلے اثرات قبول کرنے کے لیے مستعد رہتے ہیں۔ قبلِ حمل کی حالت پر واپس جانے کے لیے اعضا میں ایک حرکت شروع ہوتی ہے جو سارے نظامِ جسمانی کو درہم برہم کر دیتی ہے۔ اگر کوئی خطرہ بھی نہ پیش آئے تب بھی اسے اپنی اصلی حالت پر آنے میں کئی ہفتے لگ جاتے ہیں۔ اس طرح استقرارِ حمل کے بعد سے پورے ایک سال تک عورت درحقیقت بیمار یا کم از کم نیم بیمار ہوتی ہے اور اس کی قوتِ کارکردگی عام حالات کی بہ نسبت آدھی بلکہ اس سے بھی کم رہ جاتی ہے۔
پھر رضاعت کا زمانہ ایسا ہوتا ہے جس میں درحقیقت وہ اپنے لیے نہیں جیتی بلکہ اُس امانت کے لیے جیتی ہے جو فطرت نے اس کے سپرد کی ہے۔ اس کے جسم کا جوہر اس کے بچے کے لیے دودھ بنتا ہے۔ جو کچھ غذا وہ کھاتی ہے اس میں صرف اس قدر حصہ اس کے جسم کو ملتا ہے جس قدر اسے زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے باقی سب کا سب دودھ کی پیدائش میں صرف ہوتا ہے۔
اس کے بعد ایک مدتِ دراز تک بچہ کی پرورش، نگاہ داشت اور تربیت پر اسے تمام تر توجہ صرف کرنا پڑتی ہے۔
موجودہ زمانہ میں مسئلہ رضاعت کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ بچوں کو خارجی غذائوں پر رکھا جائے۔ لیکن یہ کوئی صحیح حل نہیں ہے اس لیے کہ فطرت نے بچہ کی پرورش کا جو سامان ماں کے سینے میں رکھ دیا ہے اس کا صحیح بدل اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ بچے کو اس سے محروم کرنا ظلم اور خود غرضی کے سوا کچھ نہیں۔ تمام ماہرینِ فن اس بات پر متفق ہیں کہ بچے کی صحیح نشوونما کے لیے ماں کے دودھ سے بہتر کوئی غذا نہیں ہے۔
اسی طرح تربیتِ اطفال کے لیے نرسنگ ہوم اور تربیت گاہ اطفال کی تجویزیں نکالی گئی ہیں تاکہ مائیں اپنے بچوں سے بے فکر ہوکر بیرون خانہ کے مشاغل میں منہمک ہو سکیں۔ لیکن کسی نرسنگ ہوم اور کسی تربیت گاہ میں شفقتِ مادری فراہم نہیں کی جا سکتی۔ طفولیت کا ابتدائی زمانہ جس محبت اور جس دردمندی و خیر سگالی کا محتاج ہے وہ کرایہ کی پالنے پوسنے والیوں کے سینے میں کہاں سے آ سکتا ہے۔ تربیتِ اطفال کے یہ جدید طریقے ابھی تک آزمودہ نہیں ہیں۔ ابھی تک وہ نسلیں پھل پھول بھی نہیں لائیں جو بچے پالنے کے ان نئے کارخانوں میں تیار کی گئی ہیں۔ ابھی تک ان کی سیرت ان کے اخلاق، ان کے کارنامے دنیا کے سامنے نہیں آئے ہیں کہ اس تجربہ کی کام یابی و ناکامی کے متعلق کوئی رائے قائم کی جا سکے۔ لہٰذا اس طریقے کے متعلق یہ دعوٰی کرنا قبل از وقت ہے کہ دنیا نے ماں کی آغوش کا صحیح بدل پا لیا ہے۔ کم از کم اس وقت تو یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ بچہ کی فطری تربیت گاہ اس کی ماں کی آغوش ہی ہے۔
اب یہ بات ایک معمولی عقل کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر عورت اور مرد دونوں کی جسمانی اور دماغی قوت و استعداد بالکل مساوی بھی ہے۔ تب بھی فطرت نے دونوں پرمساوی بار نہیں ڈالا ہے۔ بقائے نوع کی خدمت میں تخم ریزی کے سوا اور کوئی کام مرد کے سپرد نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد وہ بالکل آزاد ہے۔ زندگی کے جس شعبہ میں چاہے کام کرے۔ بخلاف اس کے اس خدمت کا پورا بار عورت پر ڈال دیا گیا ہے۔ اسی بار کے سنبھالنے کے لیے اسے اس وقت سے مستعد کیا جاتا ہے جب کہ وہ ماں کے پیٹ میں محض ایک مضغۂ گوشت ہوتی ہے۔ اس کے لیے اس کے جسم کی ساری مشین موزوں کی جاتی ہے۔ اس کے لیے اس پر جوانی کے پورے زمانے میں ایامِ ماہواری کے دورے آتے ہیں جو ہر مہینے میں تین سے لے کر سات یا دس دن اسے کسی بڑی ذمہ داری کا بار سنبھالنے اور کوئی اہم جسمانی یا دماغی محنت کرنے کے قابل نہیں رکھتے۔ اسی کے لیے اس پر حمل اور مابعد حمل کا پورا ایک سال سختیاں جھیلتے گزرتا ہے جس میں وہ درحقیقت نیم جاں ہوتی ہے۔ اسی کے لیے اس پر رضاعت کے پورے دو سال اس طرح گزرتے ہیں کہ وہ اپنے خون سے انسانیت کی کھیتی کو سینچتی ہے اور اسے اپنے سینے کی نہروں سے سیراب کرتی ہے۔ اسی کے لیے اس پر بچے کی ابتدائی پرورش کے کئی سال اس محنت و مشقت میں گزرتے ہیں کہ اس پر رات کی نیند اور دن کی آسائش حرام ہوتی ہے اور وہ اپنی راحت، اپنے لطف، اپنی خوشی، اپنی خواہشات، غرض ہر چیز کو آنے والی نسل پر قربان کر دیتی ہے۔
جب حال یہ ہے تو غور کیجیے کہ عدل کا تقاضا کیا ہے؟ کیا عدل یہی ہے کہ عورت سے ان فطری ذمہ داریوں کی بجا آوری کا بھی مطالبہ کیا جائے جن میں مرد اس کا شریک نہیں ہے اور پھر ان تمدنی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اس پر مرد کے برابر ڈال دیا جائے جنھیں سنبھالنے کے لیے مرد فطرت کی تمام ذمہ داریوں سے آزاد رکھا گیا ہے؟ اس سے کہا جائے کہ تو وہ ساری مصیبتیں بھی برداشت کر جو فطرت نے تیرے اوپر ڈالی ہیں اور پھر ہمارے ساتھ آ کر روزی کمانے کی مشقتیں بھی اٹھا، سیاست، عدالت، صنعت و حرفت، تجارت و زراعت، قیامِ امن اور مدافعتِ وطن کی خدمتوں میں بھی برابرکا حصہ لے، ہماری سوسائٹی میں آ کر ہمارا دل بھی بہلا اور ہمارے لیے عیش و مسرت اور لطف و لذت کے سامان بھی فراہم کر؟ یہ عدل نہیں ظلم ہے، مساوات نہیں صریح نامساوات ہے۔ عدل کا تقاضا تو یہ ہونا چاہیے کہ جس پر فطرت نے بہت زیادہ بار ڈالا ہے اسے تمدن کے ہلکے اور سبک کام سپرد کیے جائیں اور جس پر فطرت نے کوئی با رنہیں ڈالا اس پر تمدن کی اہم اور زیادہ محنت طلب ذمہ داریوں کا بار ڈالا جائے اور اسی کے سپرد یہ خدمت بھی کی جائے کہ وہ خاندان کی پرورش اور اس کی حفاظت کرے۔
صرف یہی نہیں کہ عورت پر بیرون خانہ کی ذمہ داریاں ڈالنا ظلم ہے۔ بلکہ درحقیقت وہ ان مردانہ خدمات کو انجام دینے کی پوری طرح اہل بھی نہیں ہے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ ان کاموں کے لیے وہی کارکن موزوں ہو سکتے ہیں جن کی قوتِ کارکردگی پائدار ہو، جومسلسل اور علی الدوام اپنے فرائض کو یکساں اہلیت کے ساتھ انجام دے سکتے ہوں اور جن کی دماغی و جسمانی قوتوں پر اعتماد کیا جا سکتا ہو۔ لیکن جن کارکنوں پر ہمیشہ ہر مہینا ایک کافی مدت کے لیے عدم اہلیت یا کمی اہلیت کے دورے پڑتے ہوں اور جن کی قوتِ کارکردگی بار بار معیارِ مطلوب سے گھٹ جایا کرتی ہو، وہ کس طرح ان ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھا سکتے ہیں؟ اس فوج یا اس بحری بیڑے کی حالت کا اندازہ کیجیے جو عورتوں پرمشتمل ہو اور جس میں عین موقع کار زار پرکئی فی صدی ایام ماہواری کی وجہ سے نیم بے کار ہو رہی ہوں، ایک اچھی خاصی تعداد زچگی کی حالت میں بستروں پر پڑی ہو، اور ایک معتدبہ جماعت حاملہ ہونے کی وجہ سے ناقابلِ کار ہو رہی ہو۔ فوج کی مثال کو آپ کہہ دیں گے کہ یہ زیادہ سخت قسم کے فرائض سے تعلق رکھتی ہے۔ مگر پولیس، عدالت، انتظامی محکمے، سفارتی خدمات، ریلوے، صنعت و حرفت اور تجارت کے کام، ان میں سے کس کی ذمہ داریاں ایسی ہیں جو مسلسل قابلِ اعتماد کارکردگی کی اہلیت نہ چاہتی ہوں، پس جو لوگ عورتوں سے مردانہ کام لینا چاہتے ہیں ان کا مطلب شاید یہ ہے کہ یا تو سب عورتوں کو ناعورت بنا کر نسلِ انسانی کا خاتمہ کر دیا جائے یا یہ کہ ان میں سے چند فی صدی لازمًا ناعورت بننے کی سزا کے لیے منتخب کی جاتی رہیں یا یہ کہ تمام معاملاتِ تمدن کے لیے اہلیت کا معیار بالعموم گھٹا دیا جائے۔
مگر خواہ آپ ان میں سے کوئی صورت بھی اختیار کریں، عورت کو مردانہ کاموں کے لیے تیار کرنا عین اقتضائے فطرت اور وضع فطرت کے خلاف ہے اور یہ چیز نہ انسانیت کے لیے مفید ہے نہ خود عورت کے لیے۔ چوں کہ علم الحیات کی رُو سے عورت کو بچہ کی پیدائش اور پرورش کے لیے بنایا گیا ہے، اس لیے نفسیات کے دائرے میں بھی اس کے اندر وہی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں جو اس کے فطری وظیفہ کے لیے موزوں ہیں۔ یعنی محبت، ہم دردی، رحم وشفقت، رقتِ قلب، ذکاوتِ حس اور لطافتِ جذبات اور چوں کہ صنفی زندگی میں مرد کو فعل کا اور عورت کو انفعال کا مقام دیا گیا ہے۔ اس لیے عورت کے اندر تمام وہی صفات پیدا کی گئی ہیں جو اسے زندگی کے صرف منفعلانہ پہلو میں کام کرنے کے لیے تیار کرتی ہیں۔ اس کے اندر سختی اور شدت کی بجائے نرمی، نزاکت اور لچک ہے۔ اس میں اثر اندازی کی بجائے اثر پزیری ہے، فعل کی بجائے انفعال ہے، جمنے اور ٹھہرنے کی بجائے جھکنے اور ڈھل جانے کی صلاحیت ہے، بے باکی اور جسارت کی بجائے منع، فرار اوررکاوٹ ہے، کیا ان خصوصیات کو لے کر وہ کبھی ان کاموں کے لیے موزوں ہو سکتی ہے اور ان دوائر حیات میں کام یاب ہو سکتی ہے جو شدت، تحکم، مزاحمت اور سرد مزاجی چاہتے ہیں، جن میں نرم جذبات کی بجائے مضبوط ارادے اور بے لاگ رائے کی ضرورت ہے؟ تمدن کے ان شعبوں میں عورت کو گھسیٹ لانا خود اسے بھی ضائع کرنا ہے اور ان شعبوں کو بھی۔
اس میں عورت کے لیے ارتقا نہیں بلکہ انحطاط ہے۔ ارتقا اسے نہیں کہتے کہ کسی کی قدرتی صلاحیتوں کو دبایا اور مٹایا جائے اور اس میں مصنوعی طور پر وہ صلاحیتیں پیدا کرنے کی کوشش کی جائے جو فطری طور پر اس کے اندر نہ ہوں، بلکہ ارتقا اس کا نام ہے کہ قدرتی صلاحیتوں کو نشوونما دی جائے، انھیں نکھارا اورچمکایا جائے اورا ن کے لیے بہتر سے بہتر عمل کے مواقع پیدا کیے جائیں۔
اس میں عورت کے لیے کام یابی نہیں بلکہ ناکامی ہے۔ زندگی کے ایک پہلو میں عورتیں کم زور ہیں اور مرد بڑھے ہوئے ہیں۔ دوسرے پہلو میں مرد کم زور ہیں اور عورتیں بڑھی ہوئی ہیں۔ تم غریب عورتوں کو اس پہلو میں مرد کے مقابلہ پر لاتے ہو جس میں وہ کم زور ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہو گا کہ عورتیں ہمیشہ مردوں سے کم تر رہیں گی۔ تم خواہ کتنی ہی تدبیریں کر لو، ممکن نہیں ہے کہ عورتوں کی صنف سے ارسطو، ابن سینا، کانٹ، ہیگل، خیام، شیکسپئر، سکندر، نپولین، صلاح الدین، نظام الملک طوسی، اور سمارک کی ٹکر کا ایک فرد بھی پیدا ہو سکے۔ البتہ تمام دنیا کے مرد چاہے کتنا ہی سرمار لیں، وہ اپنی پوری صنف میں سے ایک معمولی درجہ کی ماں بھی پیدا نہیں کر سکتے۔
اس میں خود تمدن کا بھی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے۔ انسانی زندگی اور تہذیب کو جتنی ضرورت غلظت، شدت اور صلابت کی ہے، اتنی ہی ضرورت رقت، نرمی اور لچک کی بھی ہے۔ جتنی ضرورت اچھے سپہ سالاروں، اچھے مدبروں اور اچھے منتظمین کی ہے، اتنی ہی ضرورت اچھی مائوں، اچھی بیویوں اور اچھی خانہ داروں کی بھی ہے۔ دونوں عنصروں میں جسے بھی ساقط کیا جائے گا تمدن بہرحال نقصان اٹھائے گا۔
یہ وہ تقسیمِ عمل ہے جو خود فطرت نے انسان کی دونوں صنفوں کے درمیان کر دی ہے۔ حیاتیات، عضویات، نفسیات اورعمرانیات کے تمام علوم اس تقسیم کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ بچہ جننے اور پالنے کی خدمت کا عورت کے سپرد ہونا ایک ایسی فیصلہ کن حقیقت ہے جوخود بخود انسانی تمدن میں اس کے لیے ایک دائرہ عمل مخصوص کر دیتی ہے اور کسی مصنوعی تدبیر میں یہ طاقت نہیں ہے کہ فطرت کے اس فیصلہ کو بدل سکے۔ ایک صالح تمدن وہی ہو سکتا ہے جو اولًا اس فیصلہ کو جوں کا توں قبول کرے۔ پھر عورت کو اس کے صحیح مقام پر رکھ کر اسے معاشرت میں عزت کا مرتبہ دے۔ اس کے جائز تمدنی و معاشی حقوق تسلیم کرے، اس پر صرف گھر کی ذمہ داریوں کا بار ڈالے اور بیرون خانہ کی ذمہ داریاں اور خاندان کی قوامیت مرد کے سپرد کر دے۔ جو تمدن اس تقسیم کو مٹانے کی کوشش کرے گا وہ عارضی طور پر مادی حیثیت سے ترقی اور شان و شوکت کے کچھ مظاہر پیش کر سکتا ہے، لیکن بالاخر ایسے تمدن کی بربادی یقینی ہے کیوں کہ جب عورت پر مرد کے برابر معاشی و تمدنی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا جائے گا تو وہ اپنے اوپر سے فطری ذمہ داریوں کا بوجھ اتار پھینکے گی اور اس کا نتیجہ نہ صرف تمدن بلکہ خود انسانیت کی بربادی ہو گا۔ عورت اپنی افتاد طبع اور اپنی فطری ساخت کے خلاف اگر کوشش کرے تو کسی نہ کسی حد تک مرد کے سب کاموں کا بوجھ سنبھال لے جائے گی۔ لیکن مرد کسی طرح بھی اپنے آپ کو بچے جننے اور پالنے کے قابل نہیں بنا سکتا۔
فطرت کی اس تقسیمِ عمل کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاندان کی جو تنظیم اور معاشرت میں مرد و عورت کے وظائف کی جو تعیین کی جائے گی اس کے ضروری ارکان لامحالہ حسب ذیل ہوں گے:
۱۔ خاندان کے لیے روزی کمانا، اس کی حمایت و حفاظت کرنا اور تمدن کی محنت طلب خدمات انجام دینا مرد کا کام ہو اور اس کی تعلیم و تربیت ایسی ہو کہ وہ ان اغراض کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید بن سکے۔
۲۔ بچوں کی پرورش، خانہ داری کے فرائض اور گھر کی زندگی کو سکون و راحت کی جنت بنانا عورت کا کام ہو اور اسے بہتر سے بہتر تعلیم و تربیت دے کر انھی اغراض کے لیے تیار کیا جائے۔
۳۔ خاندان کے نظم کو برقرار رکھنے اور اسے طوائف الملوکی سے بچانے کے لیے ایک فرد کو قانونی حدود کے اندر ضروری حاکمانہ اختیارات حاصل ہوں تاکہ خاندان ایک بن سری فوج بن کر نہ رہ جائے۔ ایسا فرد صرف مرد ہی ہو سکتا ہے کیوں کہ جس رکنِ خاندان کی دماغی اور قلبی حالت باربار ایامِ ماہواری اور حمل کے زمانہ میں بگڑتی ہو وہ بہرحال ان اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے قابل نہیں ہو سکتا۔
۴۔ تمدن کے نظام میں اس تقسیم اور ترتیب و تنظیم کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری تحفظات رکھے جائیں تاکہ بے عقل افراد اپنی حماقت سے مردوں اورعورتوں کے حلقہ ہائے عمل مخلوط کرکے اس صالح تمدنی نظام کو درہم برہم نہ کر سکیں۔
٭…٭…٭…٭…٭

۹ ۔انسانی کوتاہیاں

گزشتہ صفحات میں خالص علمی تحقیق اور سائنٹیفک مشاہدات و تجربات کی مدد سے ہم نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر انسانی فطرت کے مقتضیات اور انسان کی ذہنی افتاد اور جسمانی ساخت کی تمام دلالتوں کا لحاظ کرکے تمدن کا ایک صحیح نظام مرتب کیا جائے تو صنفی معاملات کی حد تک اس کے ضروری اصول و ارکان کیا ہونے چاہییں۔ اس بحث میں کوئی چیز ایسی بیان نہیں کی گئی ہے جو متشابہات میں سے ہو، یا جس میں کسی کلام کی گنجائش ہو۔ جو کچھ کہا گیا ہے وہ علم و حکمت کے محکمات میں سے ہے اور عمومًا سب ہی اہلِ علم و عقل اس سے واقف ہیں۔ لیکن انسانی عجز کا کمال دیکھیے کہ جتنے نظام تمدن خود انسان نے وضع کیے ہیں ان میں سے ایک میں بھی فطرت کی ان معلوم و معروف ہدایات کو بہ تمام و کمال اور بحسن تناسب ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ انسان خود اپنی فطرت کے مقتضیات سے ناواقف نہیں ہے۔ اس سے خود اپنی ذہنی کیفیات اور جسمانی خصوصیات چھپی ہوئی نہیں ہیں۔ مگر اس کے باوجود یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ آج تک وہ کوئی ایسا معتدل نظامِ تمدن وضع کرنے میں کام یاب نہ ہو سکا جس کے اصول و مناہج میں پورے توازن کے ساتھ ان سب مقتضیات و خصوصیات اور سب مصالح و مقاصد کی رعایت کی گئی ہو۔
۱۔ نارسائی کی حقیقی علت
اس کی وجہ وہی ہے جس کی طرف ہم اس کتاب کی ابتدا میں اشارہ کر چکے ہیں۔ انسان کی یہ فطری کم زوری ہے کہ اس کی نظر کسی معاملہ کے تمام پہلوئوں پر من حیث الکل حاوی نہیں ہو سکتی۔ ہمیشہ کوئی ایک پہلو اسے زیادہ اپیل کرتا ہے اور اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ پھر جب وہ ایک طرف مائل ہو جاتا ہے تو دوسری اطراف یا تو اس کی نظر سے بالکل ہی اوجھل ہو جاتی ہیں یا وہ قصدًا انھیں نظر انداز کر دیتا ہے۔ زندگی کے جزئی اور انفرادی معاملات تک میں انسان کی یہ کم زوری نمایاں نظر آتی ہے۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ تمدن و تہذیب کے وسیع تر مسائل، جن میں سے ہر ایک اپنے اندر بے شمار جلی و خفی گوشے رکھتا ہے، اس کم زوری کے اثر سے محفوظ رہ جائیں۔ علم اور عقل کی دولت سے انسان کو سرفراز تو ضرور کیا گیا ہے، مگر عمومًا زندگی کے معاملات میں خالص عقلیت اس کی راہ نما نہیں ہوتی۔ جذبات اور رجحانات پہلے اسے ایک رُخ پر موڑ دیتے ہیں، پھر جب وہ اس خاص رُخ کی طرف ہو جاتا ہے، تب عقل سے استدلال کرتا ہے اور علم سے مدد لیتا ہے۔ اس حالت میں اگر خود اس کا علم اسے معاملے کے دوسرے رُخ دکھائے اور اس کی اپنی عقل اس کی ایک رخی پر متنبہ کرے تب بھی وہ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا بلکہ علم و عقل کو مجبور کرتا ہے کہ اس کے رجحان کی تائید میں دلائل اور تاویلات فراہم کریں۔
۲۔ چند نمایاں مثالیں
معاشرت کے جس مسئلے سے اس وقت ہم بحث کر رہے ہیں، اس میں انسان کی یہی یک رُخی اپنی افراط و تفریط کی پوری شان کے ساتھ نمایاں ہوئی ہے۔
ایک گروہ اَخلاق اور روحانیت کے پہلو کی طرف جھکا اور اس میں یہاں تک غلو کر گیا کہ عورت اور مرد کے صنفی تعلق ہی کو سرے سے ایک قابل نفرت چیز قرار دے بیٹھا۔ یہ بے اعتدالی ہمیں بدھ مت، مسیحیت اور بعض ہندو مذاہب میں نظر آتی ہے۔ اور اسی کا اثر ہے کہ اب تک دنیا کے ایک بڑے حصہ میں صنفی تعلق کو بجائے خود ایک بدی سمجھا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ ازدواج کے دائرے میں ہو یا اس سے باہر۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ یہ کہ رہبانیت کی غیر فطری اور غیر متمدن زندگی کو اخلاق اور طہارتِ نفس کا نصب العین سمجھا گیا۔ نوعِ انسانی کے بہت سے افراد نے، جن میں مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی، اپنی ذہنی اور جسمانی قوتوں کو فطرت سے انحراف بلکہ جنگ میں ضائع کر دیا اور جو لوگ فطرت کے اقتضا سے باہم ملے بھی تو اس طرح جیسے کوئی شخص مجبورًا اپنی کسی گندی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کا تعلق نہ تو زوجین کے درمیان محبت اور تعاون کا تعلق بن سکتا ہے اور نہ اس سے کوئی صالح اور ترقی پزیر تمدن وجود میں آ سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ نظامِ معاشرت میں عورت کے مرتبہ کو گرانے کی ذمہ داری بھی بڑی حد تک اسی نظامِ معاشرت میں عورت کے مرتبہ کو گرانے کی ذمہ داری بھی بڑی حد تک اسی نام نہاد اخلاقی تصور پر ہے۔ رہبانیت کے پرستاروں نے صنفی کشش کو شیطانی وسوسہ اور کشش کی محرک، یعنی عورت کو شیطان کا ایجنٹ قرار دیا اور اسے ایک ناپاک وجود ٹھہرایا جس سے نفرت کرنا ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو طہارتِ نفس چاہتا ہے۔ مسیحی، بدھ اور ہندو لٹریچر میں عورت کا یہی تصور غالب ہے اور جو نظامِ معاشرت اس تصور کے ماتحت مرتب کیا گیا ہو اس میں عورت کا مرتبہ جیسا کچھ ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔
اس کے برعکس دوسرے گروہ نے انسان کے داعیات جسمانی کی رعایت کی تو اس میں اتنا غلو کیا کہ فطرتِ انسانی تو درکنار، فطرتِ حیوانی کے مقتضیات کو بھی نظر انداز کر دیا۔ مغربی تمدن میں یہ کیفیت اس قدر نمایاں ہو چکی ہے کہ اب چھپائے نہیں چھپ سکتی۔ اس کے قانون میں زِنا کوئی جرم ہی نہیں ہے۔ جرم اگر ہے تو جبر و اکراہ ہے، یا کسی دوسرے کے قانونی حق میں مداخلت۔ان دونوں میں سے کسی جرم کی مشارکت نہ ہو تو زنا (یعنی صنفی تعلقات کا انتشار) بجائے خود کوئی قابلِ تعزیر جرم، حتّٰی کہ کوئی قابلِ شرم اخلاقی عیب بھی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ وہ کم از کم حیوانی فطرت کی حد میں تھا۔ لیکن اس کے بعد وہ اس سے بھی آگے بڑھا۔ اس نے صنفی تعلق کے حیوانی مقصد یعنی تناسل اور بقائے نوع کو بھی نظر انداز کر دیا، اسے محض جسمانی لطف و لذت کا ذریعہ بنا لیا۔ یہاں پہنچ کر وہی انسان جو احسن تقویم پر پیدا کیا گیا تھا، اسفل سافلین میں پہنچ جاتا ہے۔ پہلے وہ اپنی انسانی فطرت سے انحراف کرکے حیوانات کا سا منتشر صنفی تعلق اختیار کرتا ہے جو کسی تمدن کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ پھر وہ اپنی حیوانی فطرت سے بھی انحراف کرتا ہے اور اس تعلق کے فطری نتیجہ یعنی اولاد کی پیدائش کو بھی روک دیتا ہے تاکہ دنیا میں اس کی نوع کو باقی رکھنے والی نسلیں وجود ہی میں نہ آنے پائیں۔
ایک جماعت نے خاندان کی اہمیت کو محسوس کیا تو اس کی تنظیم اس قدر بندشوں کے ساتھ کی کہ ایک فرد کو جکڑ کر رکھ دیا اور حقوق و فرائض میں کوئی توازن ہی باقی نہ رکھا۔ اس کی ایک نمایاں مثال ہندوئوں کا خاندانی نظام ہے۔ اس میں عورت کے لیے ارادے اور عمل کی کوئی آزادی نہیں۔ تمدن اور معیشت میں اس کا کوئی حق نہیں۔ وہ لڑکی ہے تو لونڈی ہے۔ بیوی ہے تو لونڈی ہے۔ ماں ہے تو لونڈی ہے۔ بیوہ ہے تو لونڈی سے بھی بد تر زندہ درگور ہے۔ اس کے حصہ میں صرف فرائض ہی فرائض ہیں، حقوق کے خانہ میں ایک عظیم الشان صفر کے سوا کچھ نہیں۔ اس نظامِ معاشرت میں عورت کو ابتدا ہی سے ایک بے زبان جانور بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اس میں سرے سے اپنی خودی کا کوئی شعور پیدا ہی نہ ہو۔ بلاشبہ اس طریقہ سے خاندان کی بنیادوں کو بہت مضبوط کر دیا گیا اور عورت کی بغاوت کا کوئی امکان باقی نہ رہا۔ لیکن جماعت کے پورے نصف حصہ کو ذلیل اور پست کرکے اس نظامِ معاشرت نے درحقیقت اپنی تعمیر میں خرابی کی ایک صورت اور بڑی ہی خطرناک صورت پیدا کر دی جس کے نتائج اب خود ہندو بھی محسوس کر رہے ہیں۔
ایک دوسری جماعت نے عورت کے مرتبے کو بلند کرنے کی کوشش کی اور اسے ارادہ و عمل کی آزادی بخشی تو اس میں اتنا غلو کیا کہ خاندان کا شیرازہ درہم برہم کر دیا۔ بیوی ہے تو آزاد، بیٹی ہے تو آزاد، بیٹا ہے تو آزاد، خاندان کا درحقیقت کوئی سر دھرا نہیں۔ کسی کو کسی پر اقتدار نہیں۔ بیوی سے شوہر نہیں پوچھ سکتا کہ تُو نے رات کہاں بسر کی۔ بیٹی سے باپ نہیں پوچھ سکتا کہ تو کس سے ملتی ہے اورکہاں جاتی ہے۔ زوجین درحقیقت دو برابر کے دوست ہیں جو مساوی شرائط کے ساتھ مل کر ایک گھر بناتے ہیں، اوراولاد کی حیثیت اس ایسوسی ایشن میں محض چھوٹے ارکان کی سی ہے۔ مزاج اور طبائع کی ایک ادنیٰ ناموافقت اس بنے ہوئے گھر کو ہر وقت بگاڑ سکتی ہے، کیوں کہ اطاعت کا ضروری عنصر، جو ہر نظم کو برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہے، اس جماعت میں سرے سے موجود ہی نہیں۔ یہ مغربی معاشرت ہے، وہی مغربی معاشرت جس کے علم برداروں کو اصول تمدن و عمران میں پیغمبری کا دعوٰی ہے۔ ان کی پیغمبری کا صحیح حال آپ کو دیکھنا ہو تو یورپ اور امریکا کی کسی عدالتِ نکاح و طلاق یا کسی عدالتِ جرائمِ اطفال (juvenile court)کی روداد اُٹھا کر دیکھ لیجیے۔ ابھی حال میں انگلستان کے ہوم آفس سے جرائم کے جو اعداد و شمار شائع ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کم سن لڑکوں اور لڑکیوں میں جرائم کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے اور اس کی خاص وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ خاندان کا ڈسپلن بہت کم زور ہو گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو):
“Blue Book of Crime Statistics for 1934”
انسان اور خصوصًا عورت کی فطرت میں شرم و حیا کا جو مادہ رکھا گیا ہے اسے ٹھیک ٹھیک سمجھنے اور عملًا لباس اور طرزِ معاشرت کے اندر اس کی صحیح ترجمانی کرنے میں تو کسی انسانی تمدن کو کام یابی نہیں ہوئی۔ شرم و حیا کو انسان اور خاص کر عورت کی بہترین صفات میں شمار کیا گیا ہے۔ مگر لباس و معاشرت میں اس کا ظہور کسی عقلی طریقے اور کسی ہموارضابطہ کی صورت میں نہیں ہوا۔ سترِ عورت کے صحیح حدود معین کرنے اور یکسانی کے ساتھ انھیں ملحوظ رکھنے کی کسی نے کوشش نہیں کی۔ مردوں اور عورتوں کے لباس اور ان کے آداب و اطوار میں حیاداری کی صورتیں کسی اصول کے تحت مقرر نہیں کی گئیں۔ معاشرت میں مرد اور مرد، عورت اور عورت، مرد اور عورت کے درمیان کشف و حجاب کی مناسب اور معقول حد بندی کی ہی نہیں گئی۔ تہذیب و شائستگی اور اخلاقِ عامہ کے نقطہ نظر سے یہ معاملہ جتنا اہم تھا، اتناہی اس کے ساتھ تغافل برتا گیا۔ اسے کچھ تو رسم و رواج پر چھوڑ دیا گیا، حالانکہ رسم و رواج اجتماعی حالات کے ساتھ بدل جانے والی چیز ہے اور کچھ افراد کے ذاتی رجحان اور انتخاب پر منحصر کر دیا، حالانکہ نہ جذبہ شرم و حیا کے اعتبار سے تمام اشخاص یکساں ہیں اور نہ ہر شخص اتنی سلامت ذوق اور صحیح قوتِ انتخاب رکھتا ہے کہ اپنے اس جذبہ کے لحاظ سے خود کوئی مناسب طریقہ اختیار کر سکے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ مختلف جماعتوں کے لباس اور معاشرت میں حیاداری اور بے حیائی کی عجیب آمیزش نظر آتی ہے جس میں کوئی عقلی مناسبت، کوئی یکسانی، کوئی ہمواری، کسی اصول کی پابندی نہیں پائی جاتی۔ مشرقی ممالک میں تو یہ چیز صرف بے ڈھنگے پن ہی تک محدود رہی، لیکن مغربی قوموں کے لباس اور معاشرت میں جب بے حیائی کا عنصر حد سے زیادہ بڑھا تو انھوں نے سرے سے شرم و حیا کی جڑ ہی کاٹ دی۔ ان کا جدید نظریہ یہ ہے کہ ’’شرم و حیا دراصل کوئی فطری جذبہ ہی نہیں ہے بلکہ محض لباس پہننے کی عادت نے اسے پیدا کر دیا ہے۔ سترِ عورت اور حیا داری کا کوئی تعلق اخلاق اور شائستگی سے نہیں ہے بلکہ وہ تو درحقیقت انسان کے داعیاتِ صنفی کو تحریک دینے والے اسباب میں سے ایک سبب { FR 6824 } ہے۔‘‘اسی فلسفہ بے حیائی کی عملی تفسیریں ہیں وہ نیم عریاں لباس، وہ جسمانی حسن کے مقابلے، وہ برہنہ ناچ، وہ ننگی تصویریں، وہ اسٹیج پر فاحشانہ مظاہرے، وہ برہنگی (nudism) کی روز افزوں تحریک، وہ حیوانیتِ محضہ کی طرف انسان کی واپسی۔
یہی بے اعتدالی اس مسئلہ کی دُوسری اطراف میں بھی نظر آتی ہے۔ جن لوگوں نے اَخلاق اور عصمت کو اہمیت دی انھوں نے عورت کی حفاظت ایک جان دار، ذی عقل، ذی رُوح وجود کی حیثیت سے نہیں کی، بلکہ ایک بے جان زیور، ایک قیمتی پتھر کی طرح کی اس کی تعلیم و تربیت کے سوال کو نظر انداز کر دیا۔ حالانکہ تہذیب وتمدن کی بہتری کے لیے یہ سوال عورت کے حق میں بھی اتنا ہی اہم تھا جتنا مرد کے لیے تھا۔ بخلاف اس کے جنھوں نے تعلیم و تربیت کی اہمیت کو محسوس کیا انھوں نے اَخلاق اورعصمت کی اہمیت کو نظر انداز کرکے ایک دوسری حیثیت و تہذیب کی تباہی کا سامان مہیا کر دیا۔
جن لوگوں نے فطرت کی تقسیمِ عمل کا لحاظ کیا انھوں نے تمدن و معاشرت کی خدمات میں سے صرف خانہ داری اور تربیتِ اطفال کی ذمہ داریاں عورت پر عائد کیں اور مرد پررزق مہیا کرنے کا بار ڈالا۔ لیکن اس تقسیم میں وہ توازن برقرار نہ رکھ سکے۔ انھوں نے عورت سے تمام معاشی حقوق سلب کر لیے۔ وراثت میں اسے کسی قسم کا حق نہ دیا۔ ملکیت کے تمام حقوق مرد کی طرف منتقل کر دیے اور اس طرح معاشی حیثیت سے عورت کو بالکل بے دست و پا کرکے عورت اورمرد کے درمیان درحقیقت لونڈی اور آقا کا تعلق قائم کر دیا۔ اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا گروہ اُٹھا جس نے اس بے انصافی کی تلافی کرنا چاہی اور عورت کو اس کے معاشی و تمدنی حقوق دلانے کا ارادہ کیا۔ مگر یہ لوگ ایک دوسری غلطی کے مرتکب ہو گئے۔ ان کے دماغوں پرمادیت کا غلبہ تھا۔ اس لیے انھوں نے عورت کو معاشی و تمدنی غلامی سے نجات دلانے کے معنی یہ سمجھے کہ اسے بھی مرد کی طرح خاندان کا کمانے والا فرد بنا دیا جائے اورتمدن کی ساری ذمہ داریوں کے سنبھالنے میں اس کے ساتھ برابر کا شریک کیا جائے۔ مادیت کے نقطہ نظر سے اس طریقہ میں بڑی جاذبیت تھی، کیوں کہ اس سے نہ صرف مرد کا بار ہلکا ہو گیا بلکہ کسبِ معیشت میں عورت کے ساتھ شریک ہو جانے سے دولت کے حصول اور اسبابِ عیش کی فراہمی میں قریب قریب دو چند کا اضافہ بھی ہو گیا۔ مزید برآں قوم کی معاشی اور عمرانی کو چلانے کے لیے پہلے کے مقابلے میں دوگنے ہاتھ اور دوگنے دماغ مہیا ہو گئے۔ جس سے یکایک تمدن کے ارتقا کی رفتار تیز ہو گئی لیکن مادی اور معاشی پہلو کی طرف اس قدر حد سے زیادہ مائل ہو جانے کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے پہلو جو درحقیقت اپنی اہمیت میں اس ایک پہلو سے کچھ کم نہ تھے، ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئے اور بہت سے پہلوئوں کو انھوں نے جانتے بوجھتے نظر انداز کر دیا۔ انھوں نے قانونِ فطرت کو جاننے کے باوجود قصدًا اس کی خلاف ورزی کی جس پر خود ان کی اپنی سائنٹیفک تحقیقات شہادت دے رہی ہیں۔ انھوں نے عورت کے ساتھ انصاف کرنے کا دعوٰی کیا مگر درحقیقت بے انصافی کے مرتکب ہوئے جس پر خود ان کے اپنے مشاہدات اور تجربات گواہ ہیں۔ انھوں نے عورت کو مساوات دینے کا ارادہ کیا مگردرحقیقت نامساوات قائم کربیٹھے جس کا ثبوت خود ان کے اپنے علوم و فنون فراہم کر رہے ہیں۔ انھوں نے تمدن و تہذیب کی اصلاح کرنا چاہی، مگر درحقیقت اس کی تخریب کے نہایت خوف ناک اسباب پیدا کر دیے جن کی تفصیلات خود انھی کے بیان کردہ واقعات اور خود ان کے اپنے فراہم کردہ اعداد و شمار سے ہمیں معلوم ہوئی ہیں۔ ظاہرہے کہ وہ ان حقائق سے بے خبر نہیں ہیں۔ مگر جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں، یہ انسان کی کم زوری ہے کہ وہ خود اپنی زندگی کے لیے قانون بنانے میں تمام مصلحتوں کی معتدل اور متناسب رعایت ملحوظ نہیں رکھ سکتا۔ ہوائے نفس اسے افراط کے کسی ایک رُخ پر بہا لے جاتی ہے اور جب وہ بہہ جاتا ہے تو بہت سی مصلحتیں اس کی نظر سے چھپ جاتی ہیں اور بہت سی مصلحتوں اور حقیقتوں کو دیکھنے اور جاننے کے باوجود وہ ان کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتا ہے، اس قصدی و ارادی اندھے پن کا ثبوت ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں دے سکتے کہ خود ایک ایسے اندھے ہی کی شہادت پیش کر دیں۔ روس کا ایک ممتاز سائنس دان انتون نیملاف (Anton Nemilov)جو سو فی صدی کمیونسٹ ہے اپنی کتاب{ FR 6825 }
(The Biological Tragedy of Woman) میں سائنس کے تجربات اورمشاہدات سے خود ہی عورت اورمرد کی فطری نامساوات ثابت کرنے پر تقریباً دو سو صفحے سیاہ کرتا ہے مگر پھر خود ہی اس تمام سائنٹیفک تحقیق کے بعد لکھتا ہے:
آج کل اگر یہ کہا جائے کہ عورت کو نظامِ تمدن میں محدود حقوق دیے جائیں تو کم از کم آدمی اس کی تائید کریں گے۔ ہم خود اس تجویز کے سخت مخالف ہیں۔ مگر ہمیں اپنے نفس کو یہ دھوکا نہ دینا چاہیے کہ مساواتِ مرد و زن کو عملی زندگی میںقائم کرنا کوئی سادہ اور آسان کام ہے۔ دنیا میں کہیں بھی عورت اور مرد کو برابر کر دینے کی اتنی کوشش نہیں کی گئی جتنی سوویت روس میں کی گئی ہے ۔ کسی جگہ اس باب میں اس قدر غیر متعصبانہ اور فیاضانہ قوانین نہیں بنائے گئے۔ مگر اس کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ عورت کی پوزیشن خاندان میں بہت کم بدل سکی ہے۔‘‘ (صفحہ :۷۲)
نہ صرف خاندان بلکہ سوسائٹی میں بھی:
اب تک عورت اور مرد کی نامساوات کا تخیل، نہایت گہرا تخیل، نہ صرف ان طبقوں میں جو ذہنی حیثیت سے ادنیٰ درجہ کے ہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ سوویت طبقوں میں بھی جما ہوا ہے اور خود عورتوں میں اس تخیل کا اتنا گہرا اثر ہے کہ اگر ان کے ساتھ ٹھیٹھ مساوات کا سلوک کیا جائے تو وہ اسے مرد کے مرتبہ سے گرا ہوا سمجھیں گی، بلکہ اسے مرد کی کم زوری اور نامردی پر محمول کریں گی۔ اگر ہم اس معاملہ میں کسی سائنٹسٹ، کسی مصنف، کسی طالب علم، کسی تاجر، یا کسی سو فی صدی کمیونسٹ کے خیالات کا تجسس کریں تو بہت جلدی یہ حقیقت منکشف ہو جائے گی کہ عورت کو وہ اپنے برابر کا نہیں سمجھتا۔ اگر ہم زمانہ حال کے کسی ناول کو پڑھیں، خواہ وہ کیسے آزاد خیال مصنف کا لکھا ہوا ہو، یقینا اس میں ہمیں کہیں نہ کہیں ایسی عبارتیں ملیں گی جو عورت کے متعلق اس تخیل کی چغلی کھا جائیں گی۔ (صفحہ ۱۹۵۔۱۹۴)
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں انقلابی اصول ایک نہایت اہم صورت واقعی سے ٹکرا جاتے ہیں، یعنی اس حقیقت سے کہ حیاتیات (biology) کے اعتبار سے دونوں صنفوں کے درمیان مساوات نہیں ہے اور دونوں پر مساوی بار نہیں ڈالا گیا ہے۔ (صفحہ:۷۷)
ایک اقتباس اور دیکھ لیجیے، پھر نتیجہ آپ خود نکال لیں گے:
سچی بات تو یہ ہے کہ تمام عمال (workers) میں صنفی انتشار (sexual anarchv) کے آثار نمایاں ہو چکے ہیں، یہ ایک نہایت پر خطر حالت ہے جو سوشلسٹ نظام کو تباہ کرنے کی دھمکی دے رہی ہے، ہر ممکن طریقے سے اس کا مقابلہ کرنا چاہیے، کیوں کہ اس محاذ پر جنگ کرنے میں بڑی مشکلات ہیں۔ مَیں ہزارہا ایسے واقعات کا حوالہ دے سکتا ہوں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہوانی بے قیدی (sexual licentiousness) نہ صرف ناواقف لوگوں میں بلکہ طبقہ عمال کے نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور عقلی حیثیت سے ترقی یافتہ افراد میں پھیل گئی ہے۔(صفحہ ۲۰۳۔۲۰۲)
ان عبارتوں کی شہادت کیسی کھلی ہوئی شہادت ہے۔ ایک طرف یہ اعتراف ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان فطرت نے خود ہی مساوات نہیں رکھی، عملی زندگی میں بھی مساوات قائم کرنے کی کوششیں کام یاب نہیں ہوئیں، اور جس حد تک فطرت سے لڑ کر اس قسم کی مساوات قائم کی گئی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فواحش کا ایک سیلاب امنڈ آیا جس سے سوسائٹی کا سارا نظام خطرہ میں پڑ گیا۔ دوسری طرف یہ دعوٰی ہے کہ نظامِ اجتماعی میں عورت کے حقوق پر کسی قسم کی حد بندیاں نہ ہونی چاہییں اور اگر ایسا کیا جائے گا تو ہم اس کی مخالفت کریں گے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت اس امر کا ہو گا کہ انسان…… جاہل نہیں بلکہ عالم، عاقل، نہایت باخبر انسان بھی…… اپنے نفس کے رجحانات کا کیسا غلام ہوتا ہے کہ خود اپنی تحقیق کو جھٹلاتا ہے، اپنے مشاہدات کی نفی کرتا ہے اور ہر طرف سے آنکھیں بند کرکے ہوائے نفس کے پیچھے ایک ہی رخ پر انتہا کو پہنچ جاتا ہے، خواہ اس افراط کے خلاف اس کے اپنے علوم کتنی ہی محکم دلیلیں پیش کریں، اس کے کان کتنے ہی واقعات سن لیں اور اس کی آنکھیں کتنے ہی بُرے نتائج کا مشاہدہ کر لیں۔
اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــہَہٗ ہَوٰىہُ وَاَضَلَّہُ اللہُ عَلٰي عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰي سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰي بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً۝۰ۭ فَمَنْ يَّہْدِيْہِ مِنْۢ بَعْدِ اللہِ۝۰ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَo الجاثیہ 23:45
پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گم راہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟
۳۔ قانونِ اِسلامی کی شانِ اعتدال
بے اعتدالی اور افراط و تفریط کی اس دنیا میں صرف ایک نظامِ تمدن ایسا ہے جس میں غایت درجہ کا اعتدال و توازن پایا جاتا ہے۔ جس میں فطرتِ انسانی کے ایک ایک پہلو، حتّٰی کہ نہایت خفی پہلو کی بھی رعایت کی گئی ہے۔ انسان کی جسمانی ساخت، اس کی حیوانی جبلت، اس کی انسانی سرشت، اس کی نفسی خصوصیات اور اس کے فطری داعیات کے متعلق نہایت مکمل اور تفصیلی علم سے کام لیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک ایک چیز کی تخلیق سے فطرت کا جو مقصد ہے اسے بتمام و کمال اس طریقہ سے پورا کیا گیا ہے کہ کسی دوسرے مقصد حتّٰی کہ چھوٹے سے چھوٹے مقصد کو بھی نقصان نہیں پہنچتا اور بالآخر یہ سب مقاصد مل کر اس بڑے مقصد کی تکمیل میں مددگار ہوتے ہیں جو خود انسان کی زندگی کا مقصد ہے۔ یہ اعتدال، یہ توازن، یہ تناسب اتنا مکمل ہے کہ کوئی انسان خود اپنی عقل اور کوشش سے اسے پیدا کر ہی نہیں سکتا۔ انسان کا وضع کیا ہوا قانون ہو اور اس میں کسی جگہ بھی یک رُخی ظاہر نہ ہو، ناممکن، قطعی ناممکن! خود وضع کرنا تو درکنار، حقیقت یہ ہے کہ معمولی انسان تو اس معتدل و متوازن اور انتہائی حکیمانہ قانون کی حکمتوں کو پوری طرح سمجھ بھی نہیں سکتا جب تک کہ وہ غیر معمولی سلامت طبع نہ رکھتا ہو اور اس پر سال ہا سال تک علوم اورتجربات کا اکتساب نہ کر لے اور پھر برسوں غور و خوض نہ کرتا رہے۔ مَیں اس قانون کی تعریف اس لیے نہیں کرتا ہوں کہ میں اسلام پر ایمان لایا ہوں بلکہ دراصل میں اسلام پر ایمان لایا ہی اس لیے ہوں کہ مجھے اس کمال درجہ کا توازن، تناسب اور قوانین کے ساتھ تطابق نظر آتا ہے، جسے دیکھ کر میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یقینا اس قانون کا واضع وہی ہے جو زمین و آسمان کا فاطراور غیب و شہادت کا عالم ہے اور حق یہ ہے کہ مختلف سمتوں میں بہک جانے والے بنی آدم کو عدل و توسط کا محکم طریقہ وہی بتا سکتا ہے۔
قُلِ اللّٰہُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيْ مَا كَانُوْا فِيْہِ يَخْتَلِفُوْنَo الزمر 46:39
کہو خدایا! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، حاضر و غائب کے جاننے والے، تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔
٭…٭…٭…٭…٭

۱۰ ۔اسلامی نظامِ معاشرت

۱۔ اساسی نظریات
یہ بات اسلام کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ اپنے قانون کی حکمت پر بھی خود ہی روشنی ڈالتا ہے۔ معاشرت میں عورت اور مرد کے تعلقات کو منضبط کرنے کے لیے جو قانون اسلام میں پایا جاتا ہے اس کے متعلق خود اسلام ہی نے ہمیں بتا دیا ہے کہ اس قانون کی بنیاد کن اصولِ حکمت اور کن حقائقِ فطرت پر ہے۔
(۱)زوجیت کا اساسی مفہوم
اس سلسلہ میں سب سے پہلی حقیقت جس کی پردہ کشائی کی گئی ہے، یہ ہے:
وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ ( الذٰریٰت49:51)
اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کیے۔
اس آیت میں قانون زوجی (law sex) کی ہمہ گیری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کارگاہِ عالَم کا انجینئر خود اپنی انجینئری کا یہ راز کھول رہا ہے کہ ُاس نے کائنات کی یہ ساری مشین قاعدۂ زوجیت پر بنائی ہے۔ یعنی اس مشین کے تمام کَل پرزے جوڑوں (pairs) کی شکل میں بنائے گئے ہیں اور اس جہانِ خلق میں جتنی کاری گری تم دیکھتے ہو، وہ سب جوڑوں کی تزویج کا کرشمہ ہے۔
اب اس پر غور کیجیے کہ زوجیت کیا شے ہے۔ زوجیت میں اصل یہ ہے کہ ایک شے میں فعل ہو اور دوسری شے میں قبول و انفعال۔ ایک شے میں تاثیر ہو اور دوسری شے میں تاثر۔ ایک شے میں عاقدیت ہو اور دوسری شے میں منعقدیت۔ یہی عقد و انعقاد، فعل و انفعال، تاثیر و تاثر اور فاعلیت و قابلیت کا تعلق دوچیزوں کے درمیان زوجیت کا تعلق ہے۔ اسی تعلق سے تمام ترکیبات واقع ہوتی ہیں۔ اور انھی ترکیبات سے عالمِ خلق کا سارا کارخانہ چلتا ہے۔ کائنات میں جتنی چیزیں ہیں وہ سب اپنے اپنے طبقہ میں زوج زوج اورجوڑ جوڑ پیدا ہوئی ہیں، اور ہر دو زوجین کے درمیان اصلی و اساسی حیثیت سے زوجیت کا یہی تعلق پایا جاتا ہے کہ ایک فعال ہے اور دوسرا قابل و منفعل۔ اگرچہ مخلوقات کے ہر طبقے میں اس تعلق کی کیفیت مختلف ہوتی ہے۔ مثلًا ایک تزویج وہ ہے جو بسائط اور عناصرمیں ہوتی ہے، ایک وہ جو مرکباتِ غیر نامیہ میں ہوتی ہے، ایک وہ جو اجسامِ نامیہ میں ہوتی ہے۔ ایک وہ جو انواع حیوانی میں ہوتی ہے۔ یہ سب تزویجیں اپنی نوعیت، کیفیت اور فطری مقاصد کے لحاظ سے مختلف ہیں لیکن اصل زوجیت ان سب میں وہی ایک ہے۔ ہر نوع میں، خواہ وہ کسی طبقہ کی ہو، فطرت کے اصل مقصد، یعنی وقوعِ ترکیب اور حصولِ ہیئت ترکیبی کے لیے ناگزیر ہے کہ زوجین میں سے ایک میں قوتِ فعل ہو اوردوسرے میں قوتِ انفعال۔
آیت مذکورہ بالا کا یہ مفہوم متعین ہوجانے کے بعد اس سے قانونِ زوجیت کے تین ابتدائی اصول مستنبط ہوتے ہیں۔
۱۔ اللہ تعالیٰ نے جس فارمولے پر تمام کائنات کی تخلیق کی ہے اور جس طریقے کو اپنے کارخانے کے چلنے کا ذریعہ بنایا ہے وہ ہرگز ناپاک اورذلیل نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اپنی اصل کے اعتبار سے وہ پاک اور محترم ہی ہے اور ہونا چاہیے۔ کارخانہ کے مخالف اسے گندہ اور قابلِ نفرت قرار دے کر اس سے اجتناب کر سکتے ہیں، مگر خود کارخانہ کا صانع اور مالک تو یہ کبھی نہ چاہے گا کہ اس کا کارخانہ بند ہو جائے۔ اس کا منشا تو یہی ہے کہ اس کی مشین کے تمام پرزے چلتے رہیں اور اپنے اپنے حصے کا کام پورا کریں۔
۲۔ فعل اور انفعال دونوں اس کارخانے کو چلانے کے لیے یکساں ضرور ہیں۔ فاعل اور منفعل دونوں کا وجود اس کارگاہ میں یکساں اہمیت رکھتا ہے۔ نہ فاعل کی حیثیت فعلی میں کوئی عزت ہے اور نہ منفعل کی حیثیتِ انفعالی میں کوئی ذلت۔ فاعل کا کمال یہی ہے کہ اس میں قوتِ فعل اور کیفیاتِ فاعلیہ پائی جائیں تاکہ وہ زوجیت کے فعلی پہلو کا کام بخوبی ادا کر سکے اور منفعل کا کمال یہی ہے کہ اس میں انفعال اور کیفیتِ انفعالیہ بدرجہ اتم موجود ہوں تاکہ وہ زوجیت کے انفعالی اور قبولی پہلو کی خدمت باحسن وجوہ بجا لا سکے۔ ایک معمولی مشین کے پرزے کو بھی اگرکوئی شخص اس کے اصلی مقام سے ہٹا دے اور اس سے وہ کام لینا چاہے جس کے لیے وہ دراصل بنایا ہی نہیں گیا ہے، تو و ہ احمق اور اناڑی سمجھا جائے گا۔ اول تو اپنی اس کوشش میں اسے کام یابی ہی نہ ہو گی، اور اگر وہ بہت زور لگائے تو بس اتنا کر سکے گا کہ مشین کو توڑ دے۔ ایسا ہی حال اس کائنات کی عظیم الشان مشین کا بھی ہے۔ جو احمق اور اناڑی ہیں وہ اس کے زوج فاعل کو زوج منفعل کی جگہ یا زوج منفعل کو زوج فاعل کی جگہ رکھنے کا خیال کر سکتے ہیں اور اس کی کوشش کرکے اور اس میں کام یابی کی امید رکھ کر مزید حماقت کا ثبوت بھی دے سکتے ہیں مگر اس مشین کا صانع تو ہرگز ایسا نہ کرے گا۔ وہ تو فاعل پرزے کو فعل ہی کی جگہ رکھے گا اور اسی حیثیت سے اس کی تربیت کرے گا اور منفعل پرزے کو انفعال ہی کی جگہ رکھے گا اور اس میں انفعالی استعداد ہی پرورش کرنے کا انتظام کرے گا۔
۳۔ فعل اپنی ذات میں قبول و انفعال پر بہرحال ایک طرح کی فضیلت رکھتا ہے۔ یہ فضیلت اس معنی میں نہیں ہے کہ فعل میں عزت ہو اور انفعال اس کے مقابلے میں ذلیل ہو بلکہ فضیلت دراصل غلبہ، قوت اور اثر کے معنی میں ہے جو شے کسی دوسری شے پر فعل کرتی ہے وہ اسی وجہ سے تو کرتی ہے کہ وہ اس پر غالب ہے، اس کے مقابلے میں طاقت وَر ہے، اور اس پر اثر کرنے کی قوت رکھتی ہے اور جو شے اس کے فعل کو قبول کرتی ہے اور اس سے منفعل ہوتی ہے اس کے قبول و انفعال کی وجہ یہی تو ہے کہ وہ مغلوب ہے، اس کے مقابلے میں کم زور ہے اورمتاثر ہونے کی استعداد رکھتی ہے۔ جس طرح وقوع فعل کے لیے فاعل اور منفعل دونوں کا وجود یکساں ضروری ہے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ فاعل میں غلبہ اور قوتِ تاثیر ہو اور منفعل میں مغلوبیت اور قبولِ اثر کی استعداد۔ کیوں کہ اگر دونوں قوت میں یکساں ہوں اور کسی کو کسی پر غلبہ حاصل نہ ہو تو ان میں کوئی کسی کا اثر قبول نہ کرے گا اور سرے سے فعل واقع ہی نہ ہو گا۔ اگر کپڑے میں بھی وہی سختی ہو جو سوئی میں ہے تو سینے کا فعل پورا نہیں ہو سکتا۔ اگر زمین میں نرمی نہ ہو جس کی وجہ سے کدال اور ہل کا غلبہ قبول کرتی ہے تو زراعت اور تعمیر ناممکن ہو جائے، غرض دنیا میں جتنے افعال واقع ہوتے ہیں ان میں سے کوئی بھی واقع نہیں ہو سکتا اگر ایک فاعل کے مقابلہ میں ایک منفعل نہ ہو اور منفعل میں فاعل کے اثر سے مغلوب ہونے کی صلاحیت نہ ہو۔ پس زوجین میں سے زوجِ فاعل کی طبیعت کا اقتضا یہی ہے کہ اس میں غلبہ، شدت اور تحکم ہو جسے مردانگی اور رجولیت سے تعبیر کیا جاتا ہے، کیوں کہ فعلی پرزے کی حیثیت سے اپنی خدمت بجا لانے کے لیے اس کا ایسا ہی ہونا ضروری ہے۔ اس کے برعکس زوج منفعل کی فطرتِ انفعالیہ کا یہی تقاضا ہے کہ اس میں نرمی ونزاکت، لطافت اور تاثر ہو جسے انوثت یا نسائیت کہا جاتا ہے، کیوں کہ زوجیت کے انفعالی پہلو میں یہی صفات اسے کام یاب بنا سکتی ہیں۔ جو لوگ اس رازکو نہیں جانتے وہ یا تو فاعل کی ذاتی فضیلت کو عزت کا ہم معنی سمجھ کر منفعل کو بالذات ذلیل قرار دے بیٹھے ہیں، یا پھر سرے سے اس فضیلت کا انکار کرکے منفعل میں بھی وہی صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو فاعل میں ہونا چاہییں۔ لیکن جس انجینئر نے ان دونوں پرزوں کو بنایا ہے وہ انھیں مشین میں اس طور پر نصب کرتا ہے کہ عزت میں دونوں یکساں، اور تربیت و غایت میں دونوں برابر، مگر فعل و انفعال کی طبیعت جس غالبیت اور مغلوبیت کی مقتضی ہے وہی ان میں پیدا ہو، تاکہ وہ تزویج کے منشا کو پورا کر سکیں، نہ کہ یہ دونوں ایسے پتھر بن جائیں جو ٹکرا تو سکتے ہیں مگر آپس میں کوئی امتزاج اور کوئی ترکیب قبول نہیں کر سکتے۔
یہ وہ اصول ہیں جو زوجیت کے ابتدائی مفہوم ہی سے حاصل ہوتے ہیں۔ محض ایک مادی وجود ہونے کی حیثیت سے عورت اور مرد کا زوج زوج ہونا ہی اس کا مقتضی ہے کہ ان کے تعلقات میں یہ اصولِ مرعی رکھے جائیں۔ چنانچہ آگے چل کر آپ کو معلوم ہو گا کہ فاطر السموات والارض نے جو قانون معاشرت بنایا ہے اس میں ان تینوں کی پوری رعایت کی گئی ہے۔
(۲) انسان کی حیوانی فطرت اور اس کے مقتضیات
اب ایک قدم اور آگے بڑھیے، عورت اور مردکا وجود محض ایک مادی وجود ہی نہیں ہے بلکہ وہ ایک حیوانی وجود بھی ہے۔ اس حیثیت سے ان کا زوج ہونا کس چیز کا مقتضی ہے؟ قرآن کہتا ہے۔
جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَّمِنَ الْاَنْعَامِ اَزْوَاجًا۝۰ۚ يَذْرَؤُكُمْ فِيْہِ۝۰ۭ
(الشوریٰ 11:42)
اللہ نے تمھارے لیے خود تمھی میں سے جوڑے بنائے اور جانوروں میں سے بھی جوڑے بنائے۔ اس طریقہ سے وہ تمھیں روئے زمین پر پھیلاتا ہے۔
نِسَاۗؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ۝۰۠ (البقرہ 223:2)
تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں۔
پہلی آیت میں انسان اور حیوان دونوں کے جوڑے بنانے کا ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور اس کا مشترک مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے زوجی تعلق سے تناسل کا سلسلہ جاری ہو۔
دوسری آیت میں انسان کو عام حیوانات سے الگ کرکے یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ انواعِ حیوانات میں سے اس خاص نوع کے زوجین میں کھیتی اور کسان کا سا تعلق ہے۔ یہ ایک حیاتیاتی حقیقت (biological fact) ہے۔ حیاتیات کے نقطہ نظر سے بہترین تشبیہ جو عورت اور مرد کو دی جا سکتی ہے ۔ وہ یہی ہے۔
ان دونوں آیتوں سے تین مزید اُصول حاصل ہوتے ہیں:
(۱) اللہ تعالیٰ نے تمام حیوانات کی طرح انسان کے جوڑے بھی اس مقصد کے لیے بنائے کہ ان کے صنفی تعلق سے انسانی نسل جاری ہو۔ یہ انسان کی حیوانی فطرت کا مقتضا ہے جس کی رعایت ضروری ہے۔ خدا نے نوعِ انسانی کو اس لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ اس کے چند افراد زمین پر اپنے نفس کی پرورش کریں اور بس ختم ہو جائیں۔ بلکہ اس کا ارادہ ایک اجل معین تک اس نوع کو باقی رکھنے کا ہے، اور اس نے انسان کی حیوانی فطرت میں صنفی میلان اسی لیے رکھا ہے کہ اس کے زوجین باہم ملیں اور خدا کی زمین کو آباد رکھنے کے لیے اپنی نسل جاری کریں۔ پس جو قانون خدا کی طرف سے ہو گا وہ کبھی صنفی میلان کو کچلنے اور فنا کرنے والا نہیں ہو سکتا۔ اس سے نفرت اور کلی اجتناب کی تعلیم دینے والا نہیں ہو سکتا، بلکہ اس میں لازمًا ایسی گنجائش رکھی جائے گی کہ انسان اپنی فطرت کے اس اقتضا کو پورا کر سکے۔
(۲) عورت اور مرد کو کھیتی اور کسان سے تشبیہ دے کر بتایا گیا ہے کہ انسانی زوجین کا تعلق دوسرے حیوانات کے زوجین سے مختلف ہے۔ انسانی حیثیت سے قطع نظر، حیوانی اعتبار سے بھی ان دونوں کی ترکیبِ جسمانی اس طور پر رکھی گئی ہے کہ ان کے تعلق میں وہ پائداری ہونی چاہیے جو کسان اور اس کے کھیت میں ہوتی ہے۔ جس طرح کھیتی میں کسان کا کام محض بیج پھینک دینا ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ اسے پانی دے، کھاد مہیا کرے اور اس کی حفاظت کرتا رہے، اسی طرح عورت بھی وہ زمین نہیں ہے جس میں ایک جانور چلتے پھرتے کوئی بیج پھینک جائے اور وہ ایک خود رو درخت اُگا دے، بلکہ جب وہ بارآورہوتی ہے تو درحقیقت اس کی محتاج ہوتی ہے کہ اس کا کسان اس کی پرورش اور اس کی رکھوالی کا پورا بار سنبھالے۔
(۳) انسان کے زوجین میں جو صنفی کشش ہے وہ حیاتیاتی حیثیت سے (biologically) اسی نوعیت کی ہے جو دوسری انواعِ حیوانی میں پائی جاتی ہے۔ ایک صنف کا ہر فرد صنف مقابل کے ہر فرد کی طرف حیوانی میلان رکھتا ہے اور تناسل کا زبردست داعیہ، جو ان کی سرشت میں رکھا گیا ہے، دونوں صنفوں کے ان تمام افراد کو ایک دوسرے کی طرف کھینچتا ہے، جن میں تناسل کی حیثیت بالفعل موجود ہو۔ پس فاطر کائنات کا بنایا ہوا قانون انسان کی حیوانی فطرت کے اس کم زور پہلو سے بے پروا نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس میں صنفی انتشار (sexul anarchy) کی طرف … شدید میلان چھپا ہوا ہے جو تحفظ کی خاص تدابیر کے بغیر قابو میںنہیں رکھا جا سکتا، اور ایک مرتبہ اگر وہ بے قابو ہو جائے تو انسان کو پورا حیوان بلکہ حیوانات میں بھی سب سے ارذل بن جانے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍo ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَo
(التین95:5- 4)
ہم نے انسان کو بہت ہی اچھی صورت میں پیدا کیا۔ پھر (رفتہ رفتہ) اس (کی حالت) کو (بدل کر) پست سے پست کر دیا مگر جو لوگ ایمان لائے اورنیک عمل کرتے رہے۔
(۳) فطرتِ انسانی اور اس کے مقتضیات
جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، طبیعتِ حیوانیہ، خلقت انسانی کی تہ میں زمین اور بنیاد کے طور پر ہے، اور اسی زمین پر انسانیت کی عمارت قائم کی گئی ہے۔ انسان کے انفرادی وجود اور اس کی نوعی ہستی، دونوں کو باقی رکھنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان میں سے ہر ایک کی خواہش اور ہر ایک کے حصول کی استعداد اللہ تعالیٰ نے اس کی حیوانی سرشت میں رکھ دی ہے اور فطرتِ الٰہی کا منشا یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان خواہشات میں سے کسی خواہش کو پورا نہ ہونے دیا جائے یا ان استعدادات میں سے کسی استعداد کو فنا کر دیا جائے، کیوں کہ یہ سب چیزیں بھی بہرحال ضروری ہیں اور ان کے بغیر انسان اور اس کی نوع زندہ نہیں رہ سکتی۔ البتہ فطرتِ حق یہ چاہتی ہے کہ انسان اپنی ان خواہشات کو پورا کرنے اور ان استعدادات سے کام لینے میں نرا حیوانی طریقہ اختیار نہ کرے بلکہ اس کی انسانی سرشت جن امور کی مقتضی ہے اور اس میں جن فوق الحیوانی امور کی طلب رکھی ہے، ان کے لحاظ سے اس کا طریقہ انسانی ہونا چاہیے۔ اسی غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے حدودِ شرعی مقرر فرمائی ہیں تاکہ انسان کے افعال کو ایک ضابطہ کا پابند بنایا جائے۔ اس کے ساتھ یہ تنبیہ بھی کر دی گئی ہے کہ اگر افراط یا تفریط کا طریقہ اختیار کرکے ان حدود سے تجاوز کرو گے تو اپنے آپ کو خود تباہ کر لو گے۔
وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ۝۰ۭ (الطلاق 1:65)
جس نے اللہ کی حدود سے تجاوز کیا پس اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا۔
اب دیکھیے کہ صنفی معاملات میں قرآن مجید انسانی فطرت کی کن خصوصیات اور کن مقتضیات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
۱۔ دونوں صنفوں کے درمیان جس قسم کا تعلق انسانی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے، اس کی تشریح یہ ہے:

خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْہَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً۝۰ۭ
(الروم 21:30)
اللہ نے تمھارے لیے خود تمھی میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو، اور اس نے تمھارے درمیان مودّت اور رحمت رکھ دی ہے۔
ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ۝۰ۭ (البقرہ 187:2)
وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔
اس سے پہلے جس آیت میں انسان اور حیوان دونوں کے جوڑے بنانے کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا وہاں تخلیقِ زوجین کا مقصد صرف بقائے نسل بتایا گیا تھا۔ اب حیوان سے الگ کرکے انسان کی یہ خصوصیت بتائی گئی ہے کہ اس میں زوجیت کا ایک بالاتر مقصد بھی ہے اور وہ یہ کہ ان کا تعلق محض شہوانی تعلق نہ ہو بلکہ محبت اور انس کا تعلق ہو، دل کے لگائو اور روحوں کے اتصال کا تعلق ہو، وہ ایک دوسرے کے راز دار اور شریکِ رنج و راحت ہوں، ان کے درمیان ایسی معیت اور دائمی وابستگی ہو جیسی لباس اور جسم میں ہوتی ہے۔ دونوں صنفوں کا یہی تعلق انسانی تمدن کی عمارت کا سنگِ بنیاد ہے جیسا کہ ہم بتفصیل بیان کر چکے ہیں۔ اس کے ساتھ لِتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا سے اس طرف بھی اشارہ کر دیا گیا کہ عورت کی ذات میں مرد کے لیے سرمایۂ سکون و راحت ہے، اور عورت کی فطری خدمت یہی ہے کہ وہ اس جدوجہد اور ہنگامہ عمل کی مشقتوں بھری دنیا میں سکون و راحت کا ایک گوشتہ مہیا کرے۔ یہ انسان کی خانگی زندگی ہے، جس کی اہمیت کو مادی منفعتوں کی خاطر اہلِ مغرب نے نظر انداز کر دیا ہے۔ حالانکہ تمدن و عمران کے شعبوں میں جو اہمیت دوسرے شعبوں کی ہے وہی اس شعبے کی بھی ہے اور تمدنی زندگی کے لیے یہ بھی اتنا ضروری ہے جتنے دوسرے شعبے ضروری ہیں۔
۲۔ یہ صنفی تعلق صرف زوجین کی باہمی محبت ہی کا مقتضی نہیں ہے بلکہ اس امر کا بھی مقتضی ہے کہ اس تعلق سے جو اولاد پیدا ہو اس کے ساتھ بھی ایک گہرا روحانی تعلق ہو۔ فطرتِ الٰہی نے اس کے لیے انسان کی اور خصوصًا عورت کی جسمانی ساخت اور حمل و رضاعت کی طبعی صورت ہی میں ایسا انتظام کر دیا ہے کہ اس کی رگ رگ اور ریشے ریشے میں اولاد کی محبت پیوست ہو جاتی ہے، چنانچہ قرآن مجید کہتا ہے:
حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰي وَہْنٍ وَّفِصٰلُہٗ فِيْ عَامَيْنِ (لقمان 14:31)
اس کی ماں نے اسے جھٹکے پر جھٹکے اٹھا کر پیٹ میں رکھا۔ پھر وہ دو سال کے بعد ماں کی چھاتی سے جدا ہوا۔
حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ كُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ كُرْہًا۝۰ۭ وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًا۝۰ۭ (الاحقاف 15:46)
اس کی ماں نے اسے تکلیف کے ساتھ پیٹ میں رکھا، تکلیف کے ساتھ جنا اور اس کے حمل اور دودھ چھٹائی میں تیس مہینے صرف ہوئے۔
ایسا ہی حال مرد کا ہے، اگرچہ اولاد کی محبت میں وہ عورت سے کم تر ہے:
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ (آل عمران 14:3)
لوگوں کے لیے خوش آیند ہے۔ مرغوب چیزوں کی محبت، جیسے عورتیں، اولاد اور…
یہی فطری محبت انسان اور انسا ن کے درمیان نسبی اور صِہری رشتے قائم کرتی ہے، پھر ان رشتوں سے خاندان اور خاندانوں سے قبائل اور قومیں بنتی ہیں، اور ان کے تعلقات سے تمدن وجود میں آتا ہے۔
وَہُوَالَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَاۗءِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّصِہْرًا۝۰ۭ ( الفرقان 54:25)
اور وہ خدا ہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا پھر اسے نسب اور شادی بیاہ کا رشتہ بنایا۔
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۝۰ۭ ( الحجرات 13:49)
لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، پھر تمھاری، قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔
پس اَرحام، اَنساب اور مصاہرت کے رشتے دراصل انسانی تمدن کے ابتدائی اور طبعی موسسات ہیں اور ان کے قیام کا انحصار اس پر ہے کہ اولاد اپنے معلوم و معروف ماں باپ سے ہو اور انساب محفوظ ہوں۔
۳۔ انسانی فطرت کا اقتضا یہ بھی ہے کہ وہ اپنی محنتوں کے نتائج اور اپنی گاڑھی کمائی میں سے اگر کچھ چھوڑے تو اپنی اولاد اور اپنے عزیزوں کے لیے چھوڑے جن کے ساتھ وہ تمام عمر خونی اور رحمی رشتوں میں بندھا رہا ہے۔
وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللہِ۝۰ۭ (الانفال 75:8)
اور اللہ کے قانون میں رشتہ دار ایک دوسرے کی وراثت کے زیادہ حق دار ہیں۔
وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَاۗءَكُمْ اَبْنَاۗءَكُمْ۝۰ۭ ( الاحزاب 4:33)
جنھیں تم منہ بولا بیٹا بنا لیتے ہو، انھیں خدا نے تمھارا بیٹا نہیں بنایا ہے۔
پس تقسیمِ میراث کے لیے بھی تحفظِ انساب کی ضرورت ہے۔
۴۔ انسان کی فطرت میں حیا کا جذبہ ایک فطری جذبہ ہے۔ اس کے جسم کے بعض حصے ایسے بھی ہیں جن کے چھپانے کی خواہش خدا نے اس کی جبلت میں پیدا کی ہے۔ یہی جبلی خواہش ہے جس نے ابتدا سے انسان کو کسی نہ کسی نوع کا لباس اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اس باب میں قرآن قطعیت کے ساتھ جدید نظریہ کی تردید کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسانی جسم کے جن حصوں میں مرد اور عورت کے لیے صنفی جاذبیت ہے۔ ان کے اظہار میں شرم کرنا اور انھیں چھپانے کی کوشش کرنا انسانی فطرت کا اقتضا ہے۔ البتہ شیطان یہ چاہتا ہے کہ وہ انھیں کھول دے۔
فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّيْطٰنُ لِيُبْدِيَ لَہُمَا مَا وٗرِيَ عَنْہُمَا مِنْ سَوْاٰتِہِمَا (الاعراف 20:7)
پھر شیطان نے آدم اور ان کی بیوی کو بہکایا تاکہ ان کے جسم میں سے جو ان سے چھپایا گیا تھا اسے ان پر ظاہر کر دے۔
فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَہُمَا سَوْاٰتُہُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْہِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ۝۰ۭ ( الاعراف 22:7)
پس جب انھوں نے اس شجر کو چکھا تو ان پر ان کے جسم کے پوشیدہ حصے کھل گئے اور وہ انھیں جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے۔
پھر قرآن کہتا ہے کہ اللہ نے لباس اسی لیے اتارا ہے کہ وہ تمھارے لیے ستر پوشی کا ذریعہ بھی ہو اور زینت کا ذریعہ بھی۔ مگر محض ستر چھپا لینا کافی نہیں۔ اس کے ساتھ ضروری ہے کہ تمھارے دلوں میں تقوٰی بھی ہو۔
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا۝۰ۭ وَلِبَاسُ التَّقْوٰى۝۰ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ۝۰ۭ ( الاعراف 26:7)
اے اولادِ آدمؑ! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمھارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمھارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو اور بہترین لباس تقوٰی کا لباس ہے۔
یہ اسلامی نظامِ معاشرت کے اساسی تصورات ہیں۔ ان تصورات کو ذہن نشین کرنے کے بعد اب اس نظامِ معاشرت کی تفصیلی صورت ملاحظہ کیجیے جو ان تصورات کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے۔ اب مطالعہ کے دوران میں آپ کو گہری نظر سے اس امرکا تجسس کرنا چاہیے کہ اسلام جن نظریات کو اپنے قانون کی اساس قرار دیتا ہے انھیں عملی جزئیات و تفصیلات میں نافذ کرتے ہوئے کہاں تک یکسانی و ہمواری اور منطقی ربط و مطابقت قائم رکھتا ہے۔ انسان کے بنائے ہوئے جتنے قوانین ہم نے دیکھے ہیں ان سب کی یہ مشترک اور نمایاں کم زوری ہے کہ ان کے اساسی نظریات اور عملی تفصیلات کے درمیان پورا منطقی ربط قائم نہیں رہتا۔ اصول اور فروغ میں صریح تناقض پایا جاتا ہے۔ کلیات جو بیان کیے جاتے ہیں ان کا مزاج کچھ اور ہوتا ہے اور عمل درآمد کے لیے جو جزئیات مقرر کیے جاتے ہیں ان کا مزاج کوئی اور صورت اختیار کر لیتا ہے۔ فکر و تعقل کے آسمانوں پر چڑھ کر ایک نظریہ پیش کر دیا جاتا ہے، مگر جب عالمِ بالا سے اُتر کر واقعات اور عمل کی دنیا میں آدمی اپنے نظریہ عمل کو جامہ پہنانے کی کوشش کرتا ہے تو یہاں عملی مسائل میں وہ کچھ ایسا کھویا جاتا ہے کہ اسے خود اپنا نظریہ یاد نہیں رہتا۔ انسانی ساخت کے قوانین میں سے کوئی ایک قانون بھی اس کم زوری سے خالی نہیں پایا گیا۔ اب آپ دیکھیں، اور خردبین لگا کر انتہائی نکتہ چینی کی نگاہ سے دیکھیں کہ یہ قانون جو ریگستان عرب کے ایک ان پڑھ انسان نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، جس کے مرتب کرنے میں اس نے کسی مجلسِ قانون ساز اور کسی سلکٹ کمیٹی سے مشورہ تک نہیں لیا، اس میں بھی کہیں کوئی منطقی بے ربطی اور کسی تناقص کی جھلک پائی جاتی ہے؟
۲۔ اُصول و ارکان
تنظیم معاشرت کے سلسلہ میں سب سے اہم سوال، جیسا کہ ہم کسی دوسرے موقع پر بیان کر چکے ہیں، صنفی میلان کو انتشارِ عمل سے روک کر ایک ضابطہ میں لانے کا ہے۔ کیوں کہ اس کے بغیر تمدن کی شیرازہ بندی ہی نہیں ہو سکتی اور اگر ہو بھی جائے تو اس شیرازہ کو بکھرنے اور انسان کو شدید اخلاقی و ذہنی انحطاط سے بچانے کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ اس غرض کے لیے اسلام نے عورت اور مرد کے تعلقات کو مختلف حدود کا پابند کرکے ایک مرکز پر سمیٹ دیا ہے۔
(۱)محرمات
سب سے پہلے اسلامی قانون اُن تمام مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کے لیے حرام کرتا ہے جو باہم مل کر رہنے یا نہایت قریبی تعلقات رکھنے پر مجبور ہیں۔ مثلاً ماں اور بیٹا، باپ اور بیٹی، بھائی اور بہن، پھوپھی اور بھتیجا، چچا اور بھتیجی، خالہ اور بھانجا، ماموں اور بھانجی، سوتیلا باپ اور بیٹی، سوتیلی ماں اور بیٹا، ساس اور داماد، خسر اور بہو، سالی اور بہنوئی (بہن کی زندگی میں) اور رضاعی رشتہ دار (سورہ نساء:۲۳۔۲۴) ان تعلقات کی حرمت قائم کرکے انھیں صنفی میلان سے اس قدر پاک کر دیا گیا ہے کہ ان رشتوں کے مرد اور عورت یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ ایک دوسرے کی جانب کوئی صنفی کشش رکھتے ہیں۔ (بجز ایسے خبیث بہائم کے جن کی بہیمیت کسی اخلاقی ضابطہ کی حد میں رہنا قبول نہیں کرتی)۔
(۲)حرمتِ زِنا
اس حد بندی کے بعد دوسری قید یہ لگائی گئی کہ ایسی تمام عورتیں بھی حرام ہیں جو بالفعل کسی دوسرے کے نکاح میں ہوں۔
وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَاۗءِ (النسا 24:4)
ان کے بعد جو عورتیں باقی بچتی ہیں ان کے ساتھ ہر قسم کے بے ضابطہ صنفی تعلق کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّہٗ كَانَ فَاحِشَۃً۝۰ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًاo ( بنی اسرائیل 32:17)
زناکے پاس بھی نہ پھٹکو، کیوں کہ وہ بے حیائی ہے اور بہت بُرا راستہ ہے۔
(۳) نکاح
اس طرح حدود و قیود لگا کر صنفی انتشار کے تمام راستے بند کر دیے گئے مگر انسان کی حیوانی سرشت کے اقتضا اور کارخانہ قدرت کے مقررہ طریقہ کو جاری رکھنے کے لیے ایک دروازہ کھولنا بھی ضرور تھا۔ سو وہ دروازہ نکاح کی صورت میں کھولا گیا اور کہہ دیا گیا کہ اس ضرورت کو تم پورا کرو۔ مگر منتشر اور بے ضابطہ تعلقات میں نہیں، چوری چھپے بھی نہیں، کھلے بندوں بے حیائی کے طریقہ پر بھی نہیں، بلکہ باقاعدہ اعلان و اظہار کے ساتھ، تاکہ تمھاری سوسائٹی میں یہ بات معلوم اور مسلم ہو جائے کہ فلاں مرد اور عورت ایک دوسرے کے ہو چکے ہیں۔
وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاۗءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ۝۰ۭ o فَانْكِحُوْھُنَّ بِـاِذْنِ اَھْلِہِنَّ…….مُحْصَنٰتٍ غَيْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ۝۰ۚ
(النسائ 24-25:4)
ان عورتوں کے سوا جوعورتیں ہیں تمھارے لیے حلال کیا گیا کہ تم اپنے اموال کے بدلہ میں (مہر دے کر) ان سے احصان (نکاح) کا باضابطہ تعلق قائم کرو نہ کہ آزاد شہوت رانی کا… پس ان عورتوں کے متعلقین کی رضا مندی سے ان کے ساتھ نکاح کرو… اس طرح کہ وہ قیدِ نکاح میں ہوں نہ یہ کہ کھلے بندوں یا چوری چھپے آشنائی کرنے والیاں۔‘‘
یہاں اسلام کی شانِ اعتدال دیکھیے کہ جو صنفی تعلق دائرہ ازدواج کے باہر حرام اور قابلِ نفرت تھا وہی دائرۂ ازدواج کے اندر نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے، کارِ ثواب ہے، اسے اختیارکرنے کا حکم دیا جاتا ہے، اس سے اجتناب کرنے کو ناپسند کیا جاتا ہے اور زوجین کا ایسا تعلق ایک عبادت بن جاتا ہے۔ حتّٰی کہ اگر عورت اپنے شوہر کی جائز خواہش سے بچنے کے لیے نفل روزہ رکھ لے یا نمازو تلاوت میں مشغول ہو جائے تو وہ الٹی گناہ گار ہو گی۔ اس باب میں نبی اکرم a کے چند حکیمانہ اقوال ملاحظہ ہوں:
عَلَیْکُمْ بِالْبَئَۃِ فَاِنَّہُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَ أَحْصَنُ لِلْفَرَجِ فَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ الْبَائَۃَ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ وَإِنَّ الصَّوْمَ لَہُ وِجَائٌ۔
(سنن الترمذی، ابواب النکاح، باب ما جائ فی فضل الترویج، حدیث: ۱۰۰۱)
تمھیں نکاح کرنا چاہیے کیوں کہ وہ آنکھوں کو بد نظری سے روکنے اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے کی بہترین تدبیر ہے اور تم میں سے جو شخص نکاح کی قدرت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے کیوں کہ روزہ شہوت کو دبانے والا ہے۔
وَاللّٰہِ اِنّیِ لَاَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَاَتْقَاکُمْ لَہُ لٰکِنّیِ اَصُوْمُ وَاُفْطِرُ وَاُصَلِّی وَاَرْقُدُ وَاَتَزَوَّجُ النِّسَائَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ۔
(صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح، حدیث ۴۶۷۵)
بخدا میں خدا سے ڈرنے اور اس کی ناراضی سے بچنے میں تم سب سے بڑھ کر ہوں، مگر مجھے دیکھو کہ روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور راتوں کو سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، یہ میرا طریقہ ہے اور جو میرے طریقہ سے اجتناب کرے اس کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں۔
لَاتَصُوْمُ الْمَرْأۃُ وَبَعْلُھَا شَاھِدٌ اِلاَّ بِاِذْنِہِ۔
(صحیح البخاری،کتاب النکاح، باب صوم المراۃ باذن زوجہا تطوعا، حدیث: ۴۷۹۳)
عورت اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کے اذن کے بغیر نفل روزہ نہ رکھے۔
إِذَابَاتَتْ الْمَرْ أَۃُ مُھَاجِرَۃٌ فِرَاشَ زَوْجِھَا لَعَنتْھَا الْمَلَائِکۃُ حَتّٰی تَرْجِعَ۔
(صحیح بخاری، کتاب النکاح باب اذا باتت المرأۃ مھاجرۃ فراش زوجھا، حدیث: ۴۷۹۵)
جو عورت اپنے شوہر سے اجتناب کرکے اس سے الگ رات گزارے، اس پر ملائکہ لعنت بھیجتے ہیں جب تک کہ وہ رجوع نہ کرے۔
إِذَا رَأی اَحَدُکُمْ إِمْرَأۃً فَاَعْجَبَتْہُ فَلْیَأْتِ أَھْلَہُ فَإِنَّ مَعَھَا مِثْلَ الَّذِی مَعَھَا۔
(سنن ترمذی کتاب الرضاع، باب ماجاء الرجل یری المراۃ فتعجبہ، حدیث ۱۰۷۸)
جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو دیکھ لے اور اس کے حسن سے متاثر ہو تو اپنی بیوی کے پاس چلا جائے کیوں کہ اس کے پاس وہی ہے جو اس کے پاس تھا۔
ان تمام احکامات و ہدایات سے شریعت کا منشا یہ ہے کہ صنفی انتشار کے تمام دروازے مسدود کیے جائیں، زوجی تعلقات کو دائرہ ازدواج کے اندرمحدود کیا جائے، اس دائرہ کے باہر جس حد تک ممکن ہو کسی قسم کی صنفی تحریکات نہ ہوں اور جو تحریکات خود طبیعت کے اقتضا یا اتفاقی حوادث سے پیدا ہوں ان کی تسکین کے لیے ایک مرکز بنا دیا جائے۔ عورت کے لیے اس کا شوہر اور مرد کے لیے اس کی بیوی…… تاکہ انسان تمام غیر طبعی اور خود ساختہ ہیجانات اور انتشار عمل سے بچ کر اپنی مجتمع قوت (conservated energy) کے ساتھ نظامِ تمدن کی خدمت کرے اور وہ صنفی محبت اور کشش کا مادہ جو اللہ تعالیٰ نے اس کارخانہ کو چلانے کے لیے ہر مرد و عورت میں پیدا کیا ہے، تمام تر ایک خاندان کی تخلیق اور اس کے استحکام میں صرف ہو۔ ازدواج ہر حیثیت سے پسندیدہ ہے، کیوں کہ وہ فطرتِ انسانی اور فطرتِ حیوانی دونوں کے منشا اور قانونِ الٰہی کے مقصد کو پورا کرتا ہے اور ترکِ ازدواج ہر حیثیت سے ناپسندیدہ، کیوں کہ وہ دو برائیوں میں سے ایک برائی کا حامل ضرور ہو گا یا تو انسان قانونِ فطرت کے منشا کو پورا ہی نہ کرے گا اور اپنی قوتوں کو فطرت سے لڑنے میں ضائع کر دے گا یا پھر وہ اقتضائے طبیعت سے مجبور ہو کر غلط اور ناجائز طریقوں سے اپنی خواہشات کو پورا کرے گا۔
(۴)خاندان کی تنظیم
صنفی میلان کو خاندان کی تخلیق اور اس کے استحکام کا ذریعہ بنانے کے بعد اسلام خاندان کی تنظیم کرتا ہے اور یہا ں بھی وہ پورے توازن کے ساتھ قانونِ فطرت کے ان تمام پہلوئوں کی رعایت ملحوظ رکھتا ہے جس کا ذکر اس سے پہلے کیا جا چکا ہے۔ عورت اور مرد کے حقوق متعین کرنے میں جس درجہ عدل و انصاف اس نے ملحوظ رکھا ہے، اس کی تفصیلات مَیں نے ایک الگ کتاب میں بیان کی ہیں جو ’’حقوق الزوجین‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے اس کی طرف مراجعت کرنے سے آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ دونوں صنفوں میں جس حد تک مساوات قائم کی جا سکتی تھی وہ اسلام نے قائم کر دی ہے۔ لیکن اسلام اُس مساوات کا قائل نہیں ہے جو قانونِ فطرت کے خلاف ہو۔ انسان ہونے کی حیثیت سے جیسے حقوق مرد کے ہیں ویسے ہی عورت کے ہیں۔
لَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ ۔ (البقرہ۲: ۲۲۸)
لیکن زوج فاعل ہونے کی حیثیت سے ذاتی فضیلت (بمعنی عزت نہیں بلکہ بمعنی غلبہ تقدم) مرد کو حاصل ہے، وہ اس نے پورے انصاف کے ساتھ مرد کو عطا کی ہے۔
وَلِلرِّجَالِ عَلَيْہِنَّ دَرَجَۃٌ۝۰ۭ (البقرہ 228:2)
اس طرح عورت اور مرد میں فاضل اور مفضول کا فطری تعلق تسلیم کرکے اسلام نے خاندان کی تنظیم حسبِ ذیل قواعد پر کی ہے۔
(۵)مرد کی قوامیت
خاندان میں مرد کی حیثیت قوام کی ہے، یعنی وہ خاندان کا حاکم ہے، محافظ ہے، اخلاق اور معاملات کا نگران ہے، اس کی بیوی اور بچوں پر اس کی اطاعت فرض ہے (بشرطیکہ وہ اللہ اور رسول کی نافرمانی کا حکم نہ دے) اور اس پر خاندان کے لیے روزی کمانے اور ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کی ذمہ داری ہے۔
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ۝۰ۭ ( النسائ 34:4)
مرد عورتوں پر قوام ہیں اس فضیلت کی بنا پر جو اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر عطا کی ہے اور اس بِنا پر کہ وہ ان پر (مہر و نفقہ کی صورت میں) اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
اَلرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی اَھْلِہِ وَھُوَ مَسْئُولٌ ۔
(صحیح بخاری، کتاب النکاح باب قواانفسکم و اھلیکم ناراً، حدیث:۴۷۸۹)
مرد اپنے بیوی بچوں پر حکم ران ہے اور اپنی رعیت میں اپنے عمل پر وہ خدا کے سامنے جواب دِہ ہے۔
فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللہُ۝۰ۭ (النسائ 34:4)
صالح بیویاں شوہروں کی اطاعت گزار اور اللہ کی توفیق سے شوہروں کی غیر موجودگی میں ان کے ناموس کی محافظ ہیں۔
إِنَّ الْمَرْأَۃَ إِذَا خَرَجَتْ مِنْ بَیْتِھَا وَزَوْجُھَا کَارِۃٌ لِذَالِکَ لَعَنَھَا کُلُّ مَلَکٌ فِی السَّمَائِ وَکُلُّ شَی ئٍ تَمُرُّ عَلَیْہِ غَیَر الْجِنِّ وَالْاِنْسِ حَتّٰی تَرْجِعَ۔
(المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث:۵۲۰)
نبی اکرم a نے فرمایا کہ جب عورت اپنے شوہر کی مرضی کے خلاف گھر سے نکلتی ہے تو آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت بھیجتا ہے اور جن و انس کے سوا ہر وہ چیز جس پر سے وہ گزرتی ہے پھٹکار بھیجتی ہے، تاوقتیکہ وہ واپس نہ ہو۔
وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاہْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِــعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ۝۰ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْہِنَّ سَبِيْلًا۝۰ۭ (النسائ 34:4)
اور جن بیویوں سے تمھیں سرکشی و نافرمانی کا خوف ہو انھیں نصیحت کرو، (نہ مانیں تو) خواب گاہوں میں ان سے ترکِ تعلق کرو، (پھر بھی باز نہ آئیں تو)مارو۔ پھر اگر وہ تمھاری اطاعت کریں تو ان پر زیادتی کرنے کے لیے کوئی بہانہ نہ ڈھونڈو۔
وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لَا طَاعَۃَ لِمَنْ لَمْ یُطِعِ اللّٰہَ عزوجل (مسنداحمد، حدیث: ۱۲۷۴۸) ولا طاعۃ فی معصیۃ اللّٰہ ۔
(صحیح البخاری، کتاب أخبار الآحاد، باب ماجائ فیإجازۃ خبر الواحد، حدیث: ۶۷۱۶)
نبی اکرم a کا ارشاد ہے کہ جو شخص خدا کی اطاعت نہ کرے اس کی اطاعت نہ کی جائے۔ اللہ کی نافرمانی میں کسی شخص کی فرماں برداری نہیں کی جا سکتی۔ فرماں برداری صرف معروف میں ہے۔ (یعنی ایسے حکم میں جو جائز اور معقول ہو)
وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْہِ حُسْـنًا۝۰ۭ وَاِنْ جَاہَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا۝۰ۭ ( العنکبوت8:29)
اور ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ادب سے پیش آئے لیکن اگر وہ تجھے حکم دیں کہ تو میرے ساتھ کوئی شریک ٹھہرائے جس کے لیے تیرے پاس کوئی دلیل ہی نہیں ہے تو اس معاملے میں ان کی اطاعت نہ کر۔
اس طرح خاندان کی تنظیم اس طور پر کی گئی ہے کہ اس کا ایک سر دھرا اور صاحبِ امر ہو۔ جو شخص اس نظم میں خلل ڈالنے کی کوشش کرے اس کے حق میں نبی اکرم a کی یہ وعید ہے کہ:
مَنْ اَفْسَدَ إِ مْرأَۃً عَلٰی زَوْجِھَا فَلَیْسَ مِنَّا۔
(السنن الکبریٰ للنسائی، کتاب عشرۃ النسائ، باب من أفسد امرأۃ علی زوجھا، حدیث: ۹۲۱۴)
جوکوئی کسی عورت کے تعلقات اس کے شوہر سے خراب کرنے کی کوشش کرے اس کا کچھ تعلق ہم سے نہیں۔
(۶)عورت کا دائرۂ عمل
اس تنظیم میں عورت کو گھر کی ملکہ بنایا گیا ہے۔ کسب مال کی ذمہ داری اس کے شوہر پر ہے اور اس مال سے گھر کا انتظام کرنا اس کا کام ہے۔
اَلْمَرأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ زَوْجِھَا وَھِیَ مَسْئُولَۃٌ۔
(صحیح البخاری،کتاب النکاح، باب قوا انفسکم واہلیکم نارا، حدیث: ۴۷۸۹)
عورت اپنے شوہر کے گھر کی حکم ران ہے اور وہ اپنی حکومت کے دائرہ میں اپنے عمل کے لیے جواب دہ ہے۔
اسے ایسے تمام فرائض سے سبک دوش کیا گیا ہے جو بیرونِ خانہ کے امور سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ مثلاً
٭ اس پر نمازِ جمعہ واجب نہیں۔
(سنن ابی دائود،کتاب الصلاۃ باب الجمعہ للملوک والمراۃ، حدیث:۹۰۱)
٭ اس پر جہاد بھی فرض نہیں، اگرچہ بوقتِ ضرورت وہ مجاہدین کی خدمت کے لیے جا سکتی ہے جیسا کہ آگے چل کر بہ تحقیق بیان ہو گا۔
٭ اس کے لیے جنازوں کی شرکت بھی ضروری نہیں، بلکہ اس سے روکا گیا ہے۔
(صحیح البخاری،کتاب الجنائزہ باب اتباع النساء الجنائز، حدیث: ۱۱۹۹)
٭ اس پر نماز باجماعت اور مسجدوں کی حاضری بھی لازم نہیں کی گئی۔ اگرچہ چند پابندیوں کے ساتھ مسجد میں آنے کی اجازت ضرور دی گئی ہے، لیکن اسے پسند نہیں کیا گیا۔
٭ اسے محرم کے بغیر سفر کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔
(ترمذی،کتاب الرضاع، باب ماجاء فی کراہیۃ ان تسافر المراۃ وحدہا۔ ابودائود، باب فی المراۃ تحج بغیر محرم)
غرض ہر طریقہ سے عورت کے گھر سے نکلنے کو ناپسند کیا گیا ہے اور اس کے لیے قانونِ اسلامی میں پسندیدہ صورت یہی ہے کہ وہ گھر میں رہے، جیسا کہ آیت وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ { FR 6826 }(الاحزاب33:33 )کا صاف منشا ہے لیکن اس باب میں زیادہ سختی اس لیے نہیں کی گئی کہ بعض حالات میں عورتوں کے لیے گھر سے نکلنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک عورت کا کوئی سر دھرا نہ ہو۔ یہ بھی ممکن ہے محافظِ خاندان کی مفلسی، قلتِ معاش، بیماری، معذوری یا اور ایسے ہی وجوہ سے عورت باہر کام کرنے پر مجبور ہو جائے۔ ایسی تمام صورتوں کے لیے قانون میں کافی گنجائش رکھی گئی ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:
قَدْ اَذِنَ اللّٰہُ لَکُنَّ اَنْ تَخْرُجْنَ لِحَوائِجِکُنَّ۔
(صحیح البخاری،کتاب النکاح باب خروج النساء لحوائجہن، صحیح مسلم، کتاب السلام، باب اباحۃ الخروج النساء لِقفائ حاجۃ الانسان)
اللہ تعالیٰ نے تمھیں اجازت دی ہے کہ تم اپنی ضروریات کے لیے گھر سے نکل سکتی ہو۔
مگر اس قسم کی اجازت جو محض حالات اور ضروریات کی رعایت سے دی گئی ہے، اسلامی نظامِ معاشرت کے اس قاعدے میں ترمیم نہیں کرتی کہ عورت کا دائرۂ عمل اس کا گھر ہے۔ یہ تو محض ایک وسعت اور رخصت ہے اور اسے اسی حیثیت میں رہنا چاہیے۔
(۷)ضروری پابندیاں
بالغ عورت کو اپنے ذاتی معاملات میں کافی آزادی بخشی گئی ہے، مگر اسے اس حد تک خود اختیاری عطا نہیں کی گئی جس حد تک بالغ مرد کو عطا کی گئی ہے۔مثلاً:
مرد اپنے اختیار سے جہاں چاہے جا سکتا ہے لیکن عورت خواہ کنواری ہو یا شادی شدہ یا بیوہ، ہر حال میں ضروری ہے کہ سفر میں اس کے ساتھ ایک محرم ہو۔
لَا یَحِلُّ لاِ مْرأَۃٍ تُوْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَومِ الْآخِرِ اَنْ تُسَافِرَ سَفَرًا یَکُونُ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ فَصَاعِدَا اِلاَّ وَمَعَھَا اَبُوھَا وَاَخُوھَا اَوزَوْجُھَا اَوْااِبْنُھَااَوذُومَحْرَمٍ مِنْھَا۔
(سنن ابی دائود، کتاب المناسک، باب فی المرأۃ تحج بغیر محرم، حدیث: ۱۴۶۶)
کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتی ہو۔ یہ حلال نہیں کہ وہ تین دن یا اس سے زیادہ سفر کرے بغیر اس کے کہ اس کے ساتھ اس کا باپ یا بھائی یا شوہر یا بیٹا یا کوئی محرم مرد ہو۔
وعن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہُ قَالَ لَا تُسَافِرُ الْمَرأۃُ مَسِیْرۃَ یَومٍ وَلَیْلَۃٍ اِلاَّ مَعَ ذِی مَحَرمٍ۔ وَالْعَمَلُ عَلٰی ھٰذا عِنْدَاَھْلِ الْعِلْمِ۔
(سنن الترمذی، باب ما جاء فی کراھیۃ ان تسافر المراۃ وحدہا، حدیث:۱۰۸۹)
اور ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم a نے فرمایا عورت ایک دن رات کا سفر نہ کرے جب تک کہ اس کے ساتھ کوئی محرم مرد نہ ہو اور اہل علم کے ہاں اسی پر عمل ہے۔
وعن ابی ھریرۃ ایضًا ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ لَا یَحِلُّ لاِمْرأۃٍ مُسْلِمَۃٍ تُسَافِرُ مَسِیرَۃَ لَیلَۃٍ اِلاَّ وَمَعھَا رَجُلٌ ذُوحُرْمَۃٍ مِنْھَا۔
(سنن ابو دائود،کتاب المناسک، باب فی المراۃ تحج بغیر محرم حدیث:۱۴۶۵)
اور حضرت ابوہریرہؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ نبی اکرم a نے فرمایا کسی مسلمان عورت کے لیے حلال نہیں کہ ایک رات کا سفر کرے مگر یہ کہ اس کے ساتھ ایسا مرد ہو جو اس کا محرم ہو۔
ان روایات میں جو اختلاف مقدار سفر کی تعیین میں ہے وہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ دراصل ایک دن یا دو دن کا سوال اہمیت نہیں رکھتا، بلکہ اہمیت صرف اس امر کی ہے کہ عورت کو تنہا نقل و حرکت کرنے کی ایسی آزادی نہ دی جائے جو موجبِ فتنہ ہو۔ اسی لیے حضور اکرم a نے مقدارِ سفر معین کرنے میں زیادہ اہتمام نہ فرمایا اور مختلف حالات میں وقت اور موقع کی رعایت سے مختلف مقداریں اِرشادفرمائیں۔
مرد کو اپنے نکاح کے معاملہ میں پوری آزادی حاصل ہے۔ مسلمان یا کتابیہ عورتوں میں سے جس کے ساتھ چاہے وہ نکاح کر سکتا ہے اور لونڈی بھی رکھ سکتا ہے، لیکن عورت اس معاملہ میں کلیۃً خود مختار نہیں ہے۔ وہ کسی غیر قوم سے نکاح نہیں کر سکتی۔
لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ يَحِلُّوْنَ لَہُنَّ۝۰ۭ (الممتحنہ 10:60)
نہ یہ ان کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ ان کے لیے حلال۔
وہ اپنے غلام سے بھی تمتع نہیں کر سکتی۔ قرآن میں جس طرح مرد کو لونڈی سے تمتع کی اجازت دی گئی ہے اس طرح عورت کو نہیں دی گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک عورت نے ماملکت ایمانکم… کی غلط تاویل کرکے اپنے غلام سے تمتع کیا تھا۔ آپ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے یہ معاملہ صحابہ کی مجلسِ شورٰی میں پیش کیا اور سب نے بالاتفاق فتویٰ دیا کہ
تَاَوَّلَتْ کِتَابَ اللّٰہِ تعالٰی عَلٰی غَیْرِ تَأوِئلہِ۔ (مصنف عبدالرزاق، ج۷، ص۲۰۹)
اس نے کتاب اللہ کو غلط معنی پہنائے۔
ایک اور عورت نے حضرت عمرؓ سے ایسے ہی ایک فعل کی اجازت مانگی تو آپ نے اسے سخت سزا دی اور فرمایا:
لَنْ تَزَالَ الْعَرَبُ بخَیْرِ مَا مَنَعَتْ نِسَاؤُ ھَا۔ (جلال الدین السیوطی، جامع الاحادیث:۲۹۷۹۲)
یعنی عرب کی بھلائی اسی وقت تک ہے جب تک اس کی عورتیں محفوظ ہیں۔
غلام اور کافر کو چھوڑ کر آزاد مسلمان مردوں میں سے عورت اپنے لیے شوہر کا انتخاب کر سکتی ہے، لیکن اس معاملہ میں بھی اس کے لیے اپنے باپ، دادا، بھائی اور دوسرے اولیا کی رائے کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ اولیا کو یہ حق نہیں کہ عورت کی مرضی کے خلاف کسی سے اس کا نکاح کر دیں، کیوں کہ ارشادِ نبوی ہے:
اَلْاَیِّمُ اَحَقُّ بِنَفْسِھَا مِنْ وَلِّیِھَا۔
(صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب استیذان الثیب فی النکاح، حدیث ۲۵۴۵)
بیوہ اپنے معاملہ میں فیصلہ کرنے کا حق اپنے ولی سے زیادہ رکھتی ہے۔
اور
لَاتُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتّٰی تُستَاَذنَ۔
(صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب لاینکح الا ٔب وغیرۃ البکر، حدیث:۴۷۴۱)
باکرہ لڑکی کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے اجازت نہ لی جائے۔
مگر عورت کے لیے بھی یہ مناسب نہیں کہ اپنے خاندان کے ذمہ دار مردوں کی رائے کے خلاف جس کے ساتھ چاہے نکاح کر لے۔ اسی لیے قرآن مجید میں جہاں مرد کے نکاح کا ذکر ہے وہاں نکح ینکح کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی خود نکاح کر لینے کے ہیں، مثلاً:
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ ( البقرہ 221:2)
مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو۔
فَانْكِحُوْھُنَّ بِـاِذْنِ اَھْلِہِنَّ (النسائ 25:4)
ان سے ان کے گھر والوں کی اجازت لے کر نکاح کر لو۔
مگر جہاں عورت کے نکاح کا ذکر آیا ہے وہاں عمومًا باب افعال سے انکاح کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی نکاح کر دینے کے ہیں۔ مثلاً:
وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ (النور 32:24)
اپنی بے شوہر عورتوں سے نکاح کرو۔
وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا۝۰ۭ (البقرہ 221:2)
اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح شادی شدہ عورت اپنے شوہر کی تابع ہے اسی طرح غیر شادی شدہ عورت اپنے خاندان کے ذمہ دار مردوں کی تابع ہے۔ مگر یہ تابعیت اس معنی میں نہیں ہے کہ اس کے لیے ارادہ و عمل کی کوئی آزادی نہیں یا اسے اپنے معاملہ میں کوئی اختیار نہیں۔ بلکہ اس معنی میں ہے کہ نظامِ معاشرت کو اختلال و برہمی سے محفوظ رکھنے اور خاندان کے اخلاق و معاملات کو اندرونی و بیرونی فتنوں سے بچانے کی ذمہ داری مرد پر ہے اور اس نظم کی خاطر عورت پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے کہ جو شخص اس نظم کا ذمہ دار ہو اس کی اطاعت کرے، خواہ وہ اس کا شوہر ہو یا باپ یا بھائی۔
(۸)عورت کے حقوق
اس طرح اسلام نے بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ (النسائ 34:4 )کو ایک فطری حقیقت تسلیم کرنے کے ساتھ ہی وَلِلرِّجَالِ عَلَيْہِنَّ دَرَجَۃٌ۝۰ۭ (البقرہ 228:2 ) کی بھی ٹھیک ٹھیک تعیین کر دی ہے۔ عورت اورمرد میں حیاتیات اور نفسیات کے اعتبار سے جو فرق ہے اسے وہ بعینہٖ قبول کرتا ہے، جتنا فرق ہے اسے جوں کا توں برقرار رکھتا ہے اورجیسا فرق ہے اس کے لحاظ سے ان کے مراتب اور وظائف مقرر کرتا ہے۔
اس کے بعد ایک اہم سوال عورت کے حقوق کا ہے۔ ان حقوق کی تعیین میں اسلام نے تین باتوں کو خاص طور پر ملحوظ رکھا ہے۔
٭ ایک یہ کہ مرد کو جو حاکمانہ اختیارات محض خاندان کے نظم کی خاطر دیے گئے ہیں ان سے ناجائز فائدہ اٹھا کر وہ ظلم نہ کر سکے اور ایسا نہ ہو کہ تابع و متبوع کا تعلق عمومًا لونڈی اور آقا کا تعلق بن جائے۔
٭ دوسرے یہ کہ عورت کو ایسے تمام مواقع بہم پہنچائے جائیں جن سے فائدہ اٹھا کر وہ نظامِ معاشرت کے حدود میں اپنی فطری صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ ترقی دے سکے اور تعمیرِ تمدن میں اپنے حصے کا کام بہتر سے بہتر انجام دے سکے۔
٭ تیسرے یہ کہ عورت کے لیے ترقی اور کام یابی کے بلند سے بلند درجوں تک پہنچنا ممکن ہو، مگر اس کی ترقی اور کام یابی جو کچھ بھی ہو عورت ہونے کی حیثیت سے ہو۔ مرد بننا تو اس کا حق ہے، نہ مردانہ زندگی کے لیے اسے تیار کرنا اس کے لیے اور تمدن کے لیے مفید ہے اور نہ مردانہ زندگی میں وہ کام یاب ہو سکتی ہے۔
مذکورہ بالا تینوں امور کی پوری پوری رعایت ملحوظ رکھ کر اسلام نے عورت کو جیسے وسیع تمدنی و معاشی حقوق دیے ہیں، اور عزت و شرف کے جو بلند مراتب عطا کیے ہیں، اور ان حقوق و مراتب کی حفاظت کے لیے اپنی اخلاقی اور قانونی ہدایات میں جیسی پائدار ضمانتیں مہیا کی ہیں، ان کی نظیر دنیا کے کسی قدیم و جدید نظامِ معاشرت میں نہیں ملتی۔
(۹)معاشی حقوق
سب سے اہم اور ضروری چیز جس کی بدولت تمدن میں انسان کی منزلت قائم ہوتی ہے اور جس کے ذریعہ سے وہ اپنی منزلت کو برقرار رکھتا ہے، وہ اس کی معاشی حیثیت کی مضبوطی ہے۔ اسلام کے سوا تمام قوانین نے عورت کو معاشی حیثیت سے کم زور کیا ہے اور یہی معاشی بے بسی معاشرت میں عورت کی غلامی کا سب سے بڑا سبب بنی ہے۔ یورپ نے اس حالت کو بدلنا چاہا مگر اس طرح کہ عورت کو ایک کمانے والا فرد بنا دیا۔ یہ ایک دوسری عظیم تر خرابی کا باعث بن گیا۔ اسلام بیچ کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ وہ عورت کو وراثت کے نہایت وسیع حقوق دیتا ہے۔ باپ سے، شوہر سے، اولاد سے اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے اسے وراث{ FR 6828 } ملتی ہے۔ نیز شوہر سے اسے مہر بھی ملتا ہے اور ان تمام ذرائع سے جو کچھ مال اسے پہنچتا ہے اس میں ملکیت اور قبض و تصرف کے پورے حقوق اسے دیے گئے ہیں جن میں مداخلت کا اختیار نہ اس کے باپ کو حاصل ہے، نہ شوہر کو، نہ کسی اور کو۔ مزید برآں اگر وہ کسی تجارت میں روپیہ لگا کر، یا خود محنت کرکے کچھ کمائے تو اس کی مالک بھی کلیۃً وہی ہے اور ان سب کے باوجود اس کا نفقہ ہر حال میں اس کے شوہر پر واجب ہے۔ بیوی خواہ کتنی ہی مال دار ہو، اس کا شوہر اس کے نفقہ سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔ اس طرح اسلام میں عورت کی معاشی حیثیت اتنی مستحکم ہو گئی ہے کہ بسا اوقات وہ مرد سے زیادہ بہتر حالت میں ہوتی ہے۔
(۱۰)تمدنی حقوق
۱۔ عورت کو شوہر کے انتخاب کا پورا حق دیا گیا ہے۔ اس کی مرضی کے خلاف یا اس کی رضا مندی کے بغیر کوئی شخص اس کا نکاح نہیں کر سکتا اور اگر وہ خود اپنی مرضی سے کسی مسلم کے ساتھ نکاح کر لے تو کوئی اُسے روک نہیں سکتا۔ البتہ اگر اس کی نظر ِ انتخاب کسی ایسے شخص پر پڑے جو اس کے خاندان کے مرتبے سے گرا ہوا ہو تو صرف اس صورت میں اس کے اولیا کو اعتراض کا حق حاصل ہے۔
۲۔ ایک ناپسندیدہ یا ظالم یا ناکارہ شوہر کے مقابلہ میں عورت کو خلع اور فسخ و تفریق کے وسیع حقوق دیے گئے ہیں۔
۳۔ شوہر کو بیوی پر جو اختیارات اسلام نے عطا کیے ہیں ان کے استعمال میں حسن سلوک اور فیاضانہ برتائو کی ہدایت کی گئی ہے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے:
وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۚ ( النسائ 19:4)
عورتوں کے ساتھ نیکی کا برتائو کرو۔
اور
تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ۝۰ۭ (البقرہ 237:2)
آپس کے تعلقات میں فیاضی کو نہ بھول جائو۔
نبی اکرم a کا ارشاد ہے:
] اِنَّ مِنْ اَکْمَلِ الْمُومِنِیْنَ اِیْمَاناً أَحْسَنُھُمْ خُلُقًا أَلْطَفَھُمْ بِأَھْلِہٖ۔
(سنن الترمذی، کتاب الایمان، باب ماجائ فی استکمال الایمان، حدیث۲۵۳۷)
اہل ایمان میں کامل تر وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ لطف و مہربانی کا سلوک کرنے والا ہو۔
خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہِ وَأَناَ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِی۔
(سنن الترمذی، کتاب المناقب، باب فضل أزواج النبیؐ، حدیث:۳۸۳۰)
تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔[
یہ محض اخلاقی ہدایت ہی نہیں ہے۔ اگر شوہر اپنے اختیارات کے استعمال میں ظلم سے کام لے تو عورت کو قانون سے مدد لینے کا حق بھی حاصل ہے۔
۴۔ بیوی اور مطلقہ عورتوں اور ایسی تمام عورتوں کو جن کے نکاح ازروئے قانون فسخ کیے گئے ہوں یا جنھیں حکم تفریق کے ذریعہ سے شوہر سے جدا کیا گیا، نکاحِ ثانی کا غیر مشروط حق دیا گیا ہے اور اس امر کی تصریح کر دی گئی ہے کہ ان پر شوہر سابق یا اس کے کسی رشتہ دار کا کوئی حق باقی نہیں۔ یہ وہ حق ہے جو آج تک یورپ اور امریکا کے بیش تر ممالک میں بھی عورت کونہیں ملا ہے۔
۵۔ دیوانی اور فوج داری قوانین میں عورت اور مرد کے درمیان کامل مساوات قائم کی گئی ہے۔ جان و مال اور عزت کے تحفظ میں اسلامی قانون عورت اور مرد کے درمیان کسی قسم کا امتیاز نہیں رکھتا۔
(۱۱)عورتوں کی تعلیم
عورتوں کو دینی اور دنیوی علوم سیکھنے کی نہ صرف اجازت دی گئی ہے بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کو اُسی قدر ضروری قراردیا گیا ہے جس قدر مردوں کی تعلیم و تربیت ضروری ہے۔ نبی اکرمa سے دین و اخلاق کی تعلیم جس طرح مرد حاصل کرتے تھے اسی طرح عورتیں بھی حاصل کرتی تھیں۔ آپ نے ان کے لیے اوقات معین فرما دیے تھے جن میں وہ آپ سے علم حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوتی تھیں۔ آپ کی ازواجِ مطہرات اور خصوصًا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نہ صرف عورتوں کی، بلکہ مردوں کی بھی معلمہ تھیں اور بڑے بڑے صحابہ و تابعین ان سے حدیث، تفسیر اور فقہ کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اشراف تو درکنار، نبی اکرم a نے لونڈیوں تک کو علم اور ادب سکھانے کا حکم دیاتھا۔ چنانچہ حضور اکرم a کا ارشاد ہے کہ:
اَیُّمَا رَجُلٍ کَانَتْ عِنْدَہُ وَلِیْدَۃٌ فَعَلَّمَھَا فَاَحْسَنَ تَعْلِیَمَھَا وَاَدَّبَھَا فَأ حَسَنَ تَادِیْبَھَا ثُمَّ اَعْتَقَھَا وَتَزَّوَجَھَا فَلَہُ اَجْرَانِ۔
(صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب اتخاذ السراری و من اعتق جاریۃ، حدیث:۴۶۹۳)
جس شخص کے پاس کوئی لونڈی ہو اور وہ اسے خوب تعلیم دے اور عمدہ تہذیب و شائستگی سکھائے پھر اسے آزاد کرکے اس سے شادی کر لے اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔
پس جہاں تک نفس تعلیم و تربیت کا تعلق ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان کوئی امتیاز نہیں رکھا ہے۔ البتہ نوعیت میں فرق ضرور ی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے عورت کی صحیح تعلیم و تربیت وہ ہے جو اسے ایک بہترین بیوی، بہترین ماں، اور بہترین گھر والی بنائے۔ اس کا دائرہ عمل گھر ہے۔ اس لیے خصوصیت کے ساتھ اسے ان علوم کی تعلیم دی جانی چاہیے جو اس دائرہ میں اسے زیادہ مفید بنا سکتے ہوں۔ مزید برآں وہ علوم بھی اس کے لیے ضروری ہیں جو انسان کو انسان بنانے والے، اس کے اخلاق کو سنوارنے والے اور اس کی نظر کو وسیع کرنے والے ہیں۔ ایسے علوم اور ایسی تربیت سے آراستہ ہونا ہر مسلمان عورت کے لیے لازم ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی عورت غیرمعمولی عقلی وہ ذہنی استعداد رکھتی ہو، اور ان علوم کے علاوہ دوسرے علوم و فنون کی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرنا چاہ تو اسلام اس کی راہ میں مزاحم نہیں ہے، بشرطیکہ وہ ان حدود سے تجاوز نہ کرے جو شریعت نے عورتوں کے لیے مقررکیے ہیں۔
(۱۲)عورت کی اصلی اٹھان (emancipation)
یہ تو صرف حقوق کا ذکر ہے۔ مگر اس سے اُس احسان عظیم کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا جو اسلام نے عورت پر کیا ہے۔ انسانی تمدن کی پوری تاریخ اس پر گواہ ہے کہ عورت کا وجود دنیا پر ذلت، شرم اور گناہ کا وجود تھا۔ بیٹی کی پیدائش باپ کے لیے سخت عیب اور موجبِ ننگ و عار تھی۔ سسرالی رشتے ذلیل سمجھے جاتے تھے حتّٰی کہ سسر اور سالے کے الفاظ اسی جاہلی تخیل کے تحت آج تک گالی کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ بہت سی قوموں میں اسی ذلت سے بچنے کے لیے لڑکیوں کو قتل کر دینے کا رواج ہو گیا تھا{ FR 6830 }۔ جہلا تو درکنار علما اور پیشوایانِ مذہب تک میں مدتوں یہ سوال زیرِ بحث رہا کہ آیا عورت انسان بھی ہے یا نہیں؟ اور خدا نے اسے روح بخشی ہے یا نہیں؟ ہندو مذہب میں ویدوں کی تعلیم کا دروازہ عورت کے لیے بند تھا۔ بدھ مت میں عورت سے تعلق رکھنے والے کے لیے نروان کی کوئی صورت نہ تھی۔ مسیحیت اور یہودیت کی نگاہ میں عورت ہی انسانی گناہ کی بانی مبانی اور ذمہ دار تھی۔ یونان میں گھر والیوں کے لیے نہ علم تھا نہ تہذیب و ثقافت تھی اور نہ حقوقِ مدنیت۔ یہ چیزیں جس عورت کو ملتی تھیں وہ رنڈی ہوتی تھی۔ روم، ایران، چین، مصر اور تہذیبِ انسانی کے دوسرے مرکزوں کا حال بھی قریب قریب ایسا ہی تھا۔ صدیوں کی مظلومی و محکومی اور عالم گیر حقارت کے برتائو نے خود عورت کے ذہن سے بھی عزتِ نفس کا احساس مٹا دیا تھا۔ وہ خود بھی اس امر کو بھول گئی تھی کہ دنیا میں وہ کوئی حق لے کر پیدا ہوئی ہے یا اس کے لیے بھی عزت کا کوئی مقام ہے۔مرد اس پر ظلم و ستم کرنا اپنا حق سمجھتا تھا اور وہ اس کے ظلم کو سہنا اپنا فرض جانتی تھی۔ غلامانہ ذہنیت اس حد تک اس میں پیدا کر دی گئی تھی کہ وہ فخر کے ساتھ اپنے آپ کو شوہر کی ’’داسی‘‘ کہتی تھی۔ ’’پتی ورتا‘‘ اس کا دھرم تھا اور پتی ورتا کے معنی یہ تھے کہ شوہر اس کا معبود اور دیوتا ہے۔
اس ماحول میں جس نے نہ صرف قانونی اورعملی حیثیت سے بلکہ ذہنی حیثیت سے بھی ایک انقلاب عظیم برپا کیا وہ اسلام ہے۔ اسلام ہی نے عورت اور مرد دونوں کی ذہنیتوں کو بدلا ہے۔ عورت کی عزت اور اس کے حق کا تخیل بھی انسان کے دماغ میں اسلام کا پیدا کیا ہوا ہے۔ آج حقوقِ نسواں اور بیداری اناث کے جو الفاظ آپ سن رہے ہیں، یہ سب اسی انقلاب انگیز صدا کی باز گشت ہیں جو محمد a کی زبان سے بلند ہوئی تھی اور جس نے افکارِ انسانی کا رخ ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ وہ محمد a ہی ہیں جنھوں نے دنیا کو بتایا کہ عورت بھی ویسی ہی انسان ہے جیسا مرد ہے۔
خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا (النسائ 1:4)
اللہ نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کے جوڑے کو پیدا کیا۔
خدا کی نگاہ میں عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَـسَبُوْا۝۰ۭ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَـسَبْنَ۝۰ۭ ( النسائ 32:4)
مرد جیسے عمل کریں ان کا پھل وہ پائیں گے اور عورتیں جیسے عمل کریں ان کا پھل وہ پائیں گی۔
ایمان اور عملِ صالح کے ساتھ روحانی ترقی کے جو درجات مرد کو مل سکتے ہیں وہی عورت کے لیے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ مرد اگر ابراہیم بن ادہم بن سکتا ہے تو عورت کو بھی رابعہ بصریہ بننے سے کوئی شے نہیں روک سکتی۔
فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى۝۰ۚ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ۝۰ۚ (آل عمران 195:3)
ان کے رب نے ان کی دعا کے جواب میں فرمایا کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہ کروں گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت تم سب ایک دوسرے کی جنس سے ہو۔
وَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَھُوَمُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا يُظْلَمُوْنَ نَقِيْرًاo (النسائ 124:4)
اور جو کوئی بھی نیک عمل کرے، خواہ مرد ہو یا عورت، مگر ہو ایمان دار، تو ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر رتی برابر ظلم نہ ہو گا۔
پھر وہ محمد a ہی ہیں جنھوں نے مرد کو بھی خبردار کیا اور عورت میں بھی یہ احساس پیدا کیا کہ جیسے حقوق عورت پر مرد کے ہیں ویسے ہی مرد پر عورت کے ہیں۔
وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْہِنَّ (البقرہ 228:2)
عورت پر جیسے فرائض ہیں ویسے ہی اس کے حقوق بھی ہیں۔
پھر وہ محمد a ہی کی ذات ہے جس نے ذلت اور عار کے مقام سے اٹھا کر عورت کو عزت کے مقام پر پہنچایا۔ وہ حضور اکرم a ہی ہیں جنھوں نے باپ کو بتایا کہ بیٹی کا وجود تیرے لیے ننگ و عار نہیں ہے بلکہ اس کی پرورش اور اس کی حق رسانی تجھے جنت کا مستحق بناتی ہے۔
مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتّٰی تَبْلُغَا جَائَ یَومَ الْقِیَامَۃِ اَنَا وَھُوَ وَضَمَّ اَصَاَبِعَہُ۔
(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والادب، باب فضل الاحسان إبی البنات، حدیث:۴۷۶۵)
جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بلوغ کو پہنچ گئیں تو قیامت کے روز مَیں اور وہ اس طرح آئیں گے جیسے میرے ہاتھ کی دو انگلیاں ساتھ ساتھ ہیں۔
مَنْ ابْتُلِیَ مِنَ الْبَنَاتِ بِشَی ئٍ فَأَحْسَنَ إ لَیْھِنَّ کُنَّ لَہُ سِتْرًا مِّنَ النَّارِ۔
(ایضاً، حدیث:۴۷۶۳)
جس کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوں اور وہ اچھی طرح ان کی پرورش کرے تو یہی لڑکیاں اس کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گی۔
حضور اکرم a ہی نے شوہر کو بتایا کہ نیک بیوی تیرے لیے دنیا میں سب سے بڑی نعمت ہے:
خَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا اَلْمَرأَۃُ الصَّالِحَہُ۔
(صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ، حدیث۲۶۶۸)
دُنیا کی نعمتوں میں بہترین نعمت نیک بیوی ہے۔
حُبِّبَ إلَّیَ مِنَ الدُّنْیَا اَلنِّسَائُ وَ الطّیْبُ، وَجُعِلَ قُرَّۃُ عَیْنیِ فِی الصَّلٰوۃ۔
(سنن النسائی، کتاب عشرۃ النسا، باب حب النسائ، حدیث ۳۸۷۸)
دُنیا کی چیزوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب عورت اور خوش بو ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔
لَیْسَ مِنْ مَتَاعِ الدُّنْیَا شَی ئٌ افْضَلَ مِنَ الْمَرْأَۃ الصَّالِحَۃِ۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب افضل النسائ، حدیث۱۸۴۵)
دنیا کی بہترین نعمتوں میں کوئی چیز نیک بیوی سے بہتر نہیں ہے۔
حضور اکرم a ہی نے بیٹے کو بتایا کہ خدا اور رسول کے بعد سب سے زیادہ عزت اور قدر و منزلت اور حُسنِ سلوک کی مستحق تیری ماں ہے۔
سَألَ رَجُلٌ یَارَسُولَ اللہِ مَنْ أَحَقُ النَّاسِ بِحُسَنِ صَحَابَتِیْ قَالَ اُمُّکَ قَالَ ثُمَّ مَنَ قَالَ اُمُّکَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ اُمُّکَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ اَبُوْکَ۔
(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب من احق الناس بحسن صحابتی، حدیث۵۵۱۴)
ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ! مجھ پر حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ فرمایا تیری ماں، اس نے پوچھا پھر کون؟ فرمایا تیری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ فرمای تیری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ فرمایا تیرا باپ۔‘‘
اِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ عُقُوْقَ الاُمَّھَاتِ۔
(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب ما ینھی عن اضاعۃ المال،۲۲۳۱)
بے شک اللہ نے تم پر مائوں کی نافرمانی اور حق تلفی حرام کر دی ہے۔
حضور اکرم a ہی نے انسان کو اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ جذبات کی فراوانی، حسیات کی نزاکت اور انتہا پسندی کی جانب میل و انعطاف عورت کی فطرت میں ہے۔ اسی فطرت پر اللہ نے اسے پیدا کیا ہے اور یہ انوثت کے لیے عیب نہیں ہے۔ اس کا حسن ہے۔ تم اس سے جو کچھ بھی فائدہ اٹھا سکتے ہو اس فطرت پر قائم رکھ کر ہی اٹھا سکتے ہو۔ اگر اسے مردوں کی طرح سیدھا اور سخت بنانے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دو گے۔
اَلْمَرْأَۃُ کَالضِّلْعِ اِنْ اَقَمْتَھَا کَسَرْ تَھَا وَاِنْ اسْتَمْتَعْتَ بِھَا اسْتَمْتَعْتَ بِھَا وَفِیھَا عِوَجٌ۔ (صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب المداراۃ مع النسائ، حدیث ۴۷۸۶)
]عورت پسلی کی طرح ہے اگر تم اس کو سیدھا کرنا چاہو تو توڑ دو گے اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو ٹیڑھ پن کے باوجود اٹھائو۔[
اسی طرح محمد a وہ پہلے اور درحقیقت وہ آخری شخص ہیں جنھوں نے عورت کی نسبت نہ صرف مرد کی، بلکہ خود عورت کی اپنی ذہنیت کو بھی بدل دیا اور جاہلی ذہنیت کی جگہ ایک نہایت صحیح ذہنیت پیدا کی، جس کی بنیاد جذبات پر نہیں بلکہ خالص عقل اور علم پر تھی۔ پھر آپ نے باطنی اصلاح ہی پر اکتفا نہ فرمایا بلکہ قانون کے ذریعہ سے عورتوں کے حقوق کی حفاظت اور مردوں کے ظلم کی روک تھام کا بھی انتظام کیا اور عورتوں میں اتنی بیداری پیدا کی کہ وہ اپنے جائز حقوق کو سمجھیں اور ان کی حفاظت کے لیے قانون سے مدد لیں۔
سرکارِ رسالت ماب a کی ذات میں عورتوں کو ایک ایسا رحیم و شفیق حامی اور ایسا زبردست محافظ مل گیا تھا کہ اگر ان پر ذرا سی بھی زیادتی ہوتی تو وہ شکایت لے کر بے تکلف حضور اکرمa کے پاس دوڑ جاتی تھیں اور مرد اس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں ان کی بیویوں کو آں حضرت a تک شکایت لے جانے کا موقع نہ مل جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب تک حضور اکرم a زندہ رہے ہم اپنی عورتوں سے بات کرنے میں احتیاط کرتے تھے کہ مبادا ہمارے حق میں کوئی حکم نازل نہ ہو جائے۔ جب حضور اکرمa نے وفات پائی تب ہم نے کھل کر بات کرنا شروع کی۔
(صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الوصاۃ بالنسائ، حدیث:۴۷۸۸)
ابنِ ماجہ میں ہے کہ حضور اکرم a نے بیویوں پر دست درازی کرنے کی عام ممانعت فرما دی تھی۔ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شکایت کی کہ عورتیں بہت شوخ ہو گئی ہیں، انھیں مطیع کرنے کے لیے مارنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ آپ نے اجازت دے دی۔ لوگ نہ معلوم کب سے بھرے بیٹھے تھے۔ جس روز اجازت ملی اسی روز ستر عورتیں اپنے گھروں میں پیٹی گئیں۔ دوسرے دن نبی اکرم a کے مکان پر فریادی عورتوں کا ہجوم ہو گیا۔ سرکار نے لوگوں کو جمع ہونے کا حکم دیا، خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور فرمایا:
لَقَدْ طَافَ اللَّیْلَۃَ بِاٰلِ مُحمَّدٍ سَبْعُونَ اِمْرأَۃٗ کُلُّ اِمْرأَۃٍ تَشْتَکِی زَوْجَھَا فَلَا تَجِدُونَ اُولٰئَکَ خِیَارَکُمْ۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب ضرب النسائ، حدیث۱۹۷۵)
آج محمد a کے گھر والوں کے پاس ستر عورتوں نے چکر لگایا ہے۔ ہر عورت اپنے شوہر کی شکایت کر رہی تھی۔ جن لوگوں نے یہ حرکت کی ہے وہ تم میں ہرگز اچھے لوگ نہیں ہیں۔
اسی اخلاقی اور قانونی اصلاح کا نتیجہ ہے کہ اسلامی سوسائٹی میں عورت کو وہ بلند حیثیت حاصل ہوئی جس کی نظیر دنیا کی سوسائٹی میں نہیں پائی جاتی۔ مسلمان عورت دنیا اور دین میں مادی، عقلی اور روحانی حیثیات سے عزت اور ترقی کے ان بلند سے بلند مدارج تک پہنچ سکتی ہے جن تک مرد پہنچ سکتا ہے اور اس کا عورت ہونا کسی مرتبہ میں بھی اس کی راہ میں حائل نہیں ہے۔ آج اس بیسویں صدی میں بھی دنیا اسلام سے بہت پیچھے ہے۔ افکارِ انسانی کا ارتقا اب بھی اس مقام تک نہیں پہنچا ہے جس پر اسلام پہنچا ہے۔ مغرب نے عورت کو جو کچھ دیا ہے عورت کی حیثیت سے نہیں دیا ہے بلکہ مرد بنا کر دیا ہے۔ عورت درحقیقت اب بھی اس کی نگاہ میں ویسی ہی ذلیل ہے جیسی پرانے دورِ جاہلیت میں تھی۔ گھر کی ملکہ، شوہر کی بیوی، بچوں کی ماں، ایک اصلی اور حقیقی عورت کے لیے اب بھی کوئی عزت نہیں۔ عزت اگر ہے تو اس مردِ مونث یا زنِ مذکر کے لیے جو جسمانی حیثیت سے تو عورت مگر دماغی اور ذہنی حیثیت سے مرد ہو اور تمدن و معاشرت میں مرد ہی کے سے کام کرے۔ ظاہر ہے کہ یہ انوثت کی عزت نہیں، رجولیت کی عزت ہے، پھر احساسِ پستی کی ذہنی اُلجھن (inferiority complex) کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ مغربی عورت مردانہ لباس فخر کے ساتھ پہنتی ہے، حالانکہ کوئی مرد زنانہ لباس پہن کر برسرِ عام آنے کا خیال بھی نہیں کر سکتا۔ بیوی بننا لاکھوں مغربی عورتوں کے نزدیک موجبِ ذلت ہے، حالانکہ شوہر بننا کسی مرد کے نزدیک ذلت کا موجب نہیں۔ مردانہ کام کرنے میں عورتیں عزت محسوس کرتی ہیں، حالانکہ خانہ داری اورپرورشِ اطفال جیسے خالص زنانہ کاموں میں کوئی مرد عزت محسوس نہیں کرتا۔ پس بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ مغرب نے عورت کو بحیثیت عورت کے کوئی عزت نہیں دی ہے۔ یہ سارا کام اسلام اور صرف اسلام نے کیا ہے کہ عورت کو تمدن و معاشرت میں اس کے فطری مقام ہی پر رکھ کر عزت و شرف کا مرتبہ عطا کیا اور صحیح معنوں میں انوثت کے درجہ کو بلند کر دیا۔ اسلامی تمدن عورت کو عورت اور مرد کو مرد رکھ کر دونوں سے الگ الگ وہی کام لیتا ہے جس کے لیے فطرت نے انھیں بنایا ہے اور پھر ہر ایک کو اس کی جگہ ہی پر رکھتے ہوئے عزت، ترقی اور کام یابی کے یکساں مواقع بہم پہنچاتا ہے۔ اس کی نگاہ میں انوثت اور رجولیت دونوں انسانیت کے ضروری اجزا ہیں۔ تعمیرِ تمدن کے لیے دونوں کی اہمیت یکساں ہے۔ دونوں اپنے اپنے دائرے میں جو خدمات انجام دیتے ہیں وہ یکساں مفید اور یکساں قدر کی مستحق ہیں۔ نہ رجولیت میں کوئی شرف ہے نہ انوثت میں کوئی ذلت۔ جس طرح مرد کے لیے عزت، ترقی اور کام یابی اسی میں ہے کہ وہ مرد رہے اور مردانہ خدمات انجام دے۔ اسی طرح عورت کے لیے بھی عزت، ترقی اور کام یابی اسی میں ہے کہ وہ عورت رہے اور زنانہ خدمات انجام دے۔ ایک صالح تمدن کا کام یہی ہے کہ وہ عورت کو اس کے فطری دائرۂ عمل میں رکھ کر پورے انسانی حقوق دے، عزت اور شرف عطا کرے۔ تعلیم و تربیت سے اس کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو چمکائے اور اسی دائرے میں اس کے لیے ترقیوں اور کام یابیوں کی راہیں کھولے۔
۳۔ تحفظات
یہ اسلامی نظامِ معاشرت کا پورا خاکہ تھا۔ اب آگے بڑھنے سے پہلے اس خاکہ کی اہم خصوصیات کو پھر ایک نظر دیکھ لیجیے:
۱۔ اس نظام کا منشا یہ ہے کہ اجتماعی ماحول کو حتی الامکان شہوانی ہیجانات اور تحریکات سے پاک رکھا جائے، تاکہ انسان کی جسمانی و ذہنی قوتوں کو ایک پاکیزہ اور پرسکون فضا میں نشو و ارتقا کا موقع ملے اور وہ اپنی محفوظ اور مجتمع قوت کے ساتھ تعمیرِ تمدن میں اپنے حصے کا کام انجام دے سکے۔
۲۔ صنفی تعلقات بالکل دائرۂ ازدواج میں محدود ہوں اور اس دائرے کے باہر نہ صرف انتشارِعمل کو روکا جائے بلکہ انتشارِ خیال کا بھی امکانی حد تک سدِّباب کر دیا جائے۔
۳۔ عورت کا دائرہ عمل مرد کے دائرے سے الگ ہو، دونوں کی فطرت اور ذہنی و جسمانی استعداد کے لحاظ سے تمدن کی الگ الگ خدمات ان کے سپرد کی جائیں، اور ان کے تعلقات کی تنظیم اس طورپر کی جائے کہ وہ جائز حدود کے اندر ایک دوسرے کے مددگار ہوں، مگر حدود سے تجاوزکرکے کوئی کسی کے کام میں خلل انداز نہ ہو سکے۔
۴۔ خاندان کے نظم میں مرد کی حیثیت قوام کی ہو اور گھر کے تمام افراد صاحبِ خانہ کے تابع رہیں۔
۵۔ عورت اور مرد دونوں کو پورے انسانی حقوق حاصل ہوں، اور دونوں کو ترقی کے بہتر سے بہتر مواقع بہم پہنچائے جائیں، مگر دونوں میں سے کوئی بھی ان حدود سے تجاوز نہ کر سکے جو معاشرت میں اس کے لیے مقرر کر دی گئی ہیں۔
اس نقشے پر جس نظامِ معاشرت کی تاسیس کی گئی ہے اسے چند ایسے تحفظات کی ضرورت ہے جن سے اس کا نظم اپنی جملہ خصوصیات کے ساتھ برقرار رہے۔ اسلام میں یہ تحفظات تین قسم کے ہیں:
۱۔ اصلاحِ باطن ۲۔تعزیری قوانین ۳۔انسدادی تدابیر
یہ تینوں تحفظات نظامِ معاشرت کے مزاج اور مقاصد کی ٹھیک مناسبت ملحوظ رکھ کر تجویز کیے گئے ہیں اور مل جل کر اس کی حفاظت کرتے ہیں۔
اصلاحِ باطن کے ذریعہ سے انسان کی تربیت اس طور پر کی جاتی ہے کہ وہ خود بخود اس نظامِ معاشرت کی اطاعت پر آمادہ ہو، عام اس سے کہ خارج میں کوئی طاقت اس کی اطاعت پر مجبور کرنے والی ہو یا نہ ہو۔
تعزیری قوانین کے ذریعہ سے ایسے جرائم کا سدِّباب کیا جاتا ہے جو اس نظام کو توڑنے اور اس کے ارکان کو منہدم کرنے والے ہیں۔
انسدادی تدابیر کے ذریعہ سے اجتماعی زندگی میں ایسے طریقے رائج کیے گئے ہیں جو سوسائٹی کے ماحول کو غیر طبعی ہیجانات اور مصنوعی تحریکات سے پاک کر دیتے ہیں اور صنفی انتشار کے امکانات کو کم از کم حد تک گھٹا دیتے ہیں۔ اخلاقی تعلیم سے جن لوگوں کی اصلاحِ باطن مکمل نہ ہوئی ہو اور جنھیں تعزیری قوانین کا خوف بھی نہ ہو، ان کی راہ میں یہ طریقے ایسی رکاوٹیں ڈال دیتے ہیں کہ صنفی انتشار کی جانب میلان رکھنے کے باوجود ان کے لیے عملی اقدام بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ علاوہ بریں یہی وہ طریقے ہیں جو عورت اور مرد کے دائروں کو عملًا الگ کرتے ہیں، خاندان کے نظم کو اس کی صحیح اسلامی صورت پر قائم کرتے ہیں اور ان حدود کی حفاظت کرتے ہیں جو عورتوں اور مردوں کی زندگی میں امتیاز قائم رکھنے کے لیے اسلام نے مقرر کی ہیں۔
۱۔ اصلاحِ باطن
اسلام میں اطاعتِ امر کی بنیاد کلیۃً ایمان پر رکھی گئی ہے۔ جو شخص خدا اور اس کی کتاب اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو وہی شریعت کے اوامر و نواہی کا اصل مخاطب ہے اور اسے اوامر کا مطیع اورنواہی سے مجتنب بنانے کے لیے صرف یہ علم ہو جانا کافی ہے کہ فلاں امر خدا کا امر ہے اور فلاں نہی خدا کی نہی ہے۔ پس جب ایک مومن کو خدا کی کتاب سے یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ فحش اوربدکاری سے منع کرتا ہے تو اس کے ایمان کا اقتضا یہی ہے کہ وہ اس سے پرہیز کرے اور اپنے دل کو بھی اس کی طرف مائل ہونے سے پاک رکھے۔ اسی طرح جب ایک مومن عورت کو یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ اور اس کے رسول a نے معاشرت میں اس کے لیے کیا حیثیت مقرر کی ہے تو اس کے بھی ایمان کا اقتضا یہی ہے کہ وہ برضا و رغبت اس حیثیت کو قبول کرے اور اپنی حد سے تجاوز نہ کرے۔ اس لحاظ سے زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح اخلاق اور معاشرت کے دائرے میں بھی اسلام کے صحیح اور کامل اتباع کا مدار ایمان پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اخلاق اور معاشرت کے متعلق ہدایات دینے سے پہلے ایمان کی طرف دعوت دی گئی ہے اور دلوں میں اسے راسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ تو اصلاحِ باطن کا وہ اساسی نظریہ ہے جس کا تعلق صرف اخلاقیات ہی سے نہیں بلکہ پورے نظامِ اسلامی سے ہے۔ اس کے بعد خاص کر اَخلاق کے دائرے میں اسلام نے تعلیم و تریت کا ایک نہایت حکیمانہ طریقہ اختیار کیا ہے جسے مختصرًا ہم یہاں بیان کرتے ہیں۔
(۱)حیا
پہلے اشارتًا یہ کہا جا چکا ہے کہ زِنا، چوری، جھوٹ اور تمام دوسرے معاصی، جن کا ارتکاب فطرتِ حیوانی کے غلبہ سے انسان کرتا ہے، سب کے سب فطرتِ انسانی کے خلاف ہیں۔ قرآن ایسے تمام افعال کو منکر کے جامع لفظ سے تعبیر کرتا ہے۔ ’’منکر‘‘ کا لفظی ترجمہ ’’مجہول‘‘ یا ’’غیر معروف‘‘ ہے۔ ان افعال کو منکر کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ایسے افعال ہیں جن سے فطرتِ انسانی آشنا نہیں ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جب انسان کی فطرت ان سے ناآشنا ہے اور حیوانی طبیعت اس پر زبردستی ہجوم کرکے اسے ان افعال کے ارتکاب پرمجبور کرتی ہے، تو خود انسان ہی کی فطرت میں کوئی ایسی چیز بھی ہونی چاہیے جو تمام منکرات سے نفرت کرنے والی ہو۔ شارع حکیم نے اس چیز کی نشان دہی کر دی ہے۔ وہ اسے ’’حیا‘‘ سے تعبیرکرتا ہے۔
حیا کے معنی شرم کے ہیں۔ اسلام کی مخصوص اصطلاح میں حیا سے مراد وہ ’’شرم‘‘ ہے جو کسی امرِ منکر کی جانب مائل ہونے والا انسان خود اپنی فطرت کے سامنے اور اپنے خدا کے سامنے محسوس کرتا ہے۔ یہی حیا وہ قوت ہے جو انسان کو فحشا اور منکر کا اقدام کرنے سے روکتی ہے اور اگر وہ جبلتِ حیوانی کے غلبہ سے کوئی بُرا فعل کر گزرتا ہے تو یہی چیز اُس کے دل میں چٹکیاں لیتی ہے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیم و تربیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ حیا کے اسی چھپے ہوئے مادے کو فطرتِ انسانی کی گہرائیوں سے نکال کر علم و فہم اور شعور کی غذا سے اس کی پرورش کرتی ہے اور ایک مضبوط حاسہ اخلاقی بنا کر اس کو نفسِ انسانی میں ایک کوتوال کی حیثیت سے متعین کر دیتی ہے۔ یہ ٹھیک ٹھیک اس حدیث نبوی کی تفسیر ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ
] اِنَّ لِکُلِّ دِیْنٍ خُلُقاً وَاِنَّ خُلُقَ الْاِسْلَامِ الْحیَائُ۔[
(سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب الحیائ، حدیث۴۱۷۲)
ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیا ہے۔
اور وہ حدیث بھی اسی مضمون پر روشنی ڈالتی ہے جس میں سرورِ کائنات رسالت مابa نے فرمایا:
اِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَاشِئْتَ۔
(صحیح البخاری، کتاب أحادیث الانبیائ، جاب حدیث الغار، حدیث۳۲۲۴)
جب تجھ میں حیا نہیں تو جو تیرا جی چاہے کر۔
کیوں کہ جب حیا نہ ہو گی تو خواہشات جس کا مبدا جبلتِ حیوانی ہے، تجھ پر غالب آ جائے گی، اورکوئی منکر تیرے لیے منکر ہی نہ رہے گا۔
انسان کی فطری حیا ایک ایسے اَن گھڑ مادے کی حیثیت رکھتی ہے جس نے ابھی کوئی صورت اختیار نہ کی ہو۔ وہ تمام منکرات سے بالطبع نفرت تو کرتی ہے مگر اس میں سوجھ بوجھ نہیں ہے، اس وجہ سے وہ نہیں جانتی کہ کسی خاص فعل منکر سے اسے کس لیے نفرت ہے، یہی نادانستگی رفتہ رفتہ اس کے احساسِ نفرت کو کم زور کر دیتی ہے حتّٰی کہ حیوانیت کے غلبہ سے انسان منکرات کا ارتکاب کرنے لگتا ہے اور اس ارتکاب کی پیہم تکرار آخر کار حیا کے احساس کو بالکل باطل کر دیتی ہے۔ اسلام کی اَخلاقی تعلیم کا مقصد اسی نادانی کو دُور کرنا ہے۔ وہ اسے نہ صرف کھلے ہوئے منکرات سے روشناس کراتی ہے، بلکہ نفس کے چور خانوں تک میں نیتوں، ارادوں اور خواہشوں کی جو بُرائیاں چھپی ہوئی ہیں انھیں بھی اس کے سامنے نمایاں کر دیتی ہے اور ایک ایک چیز کے مفسدوں سے اسے خبردار کرتی ہے تاکہ علی وجہ البصیرت اس سے نفرت کرے۔ پھراخلاقی تربیت اس تعلیم یافتہ شرم و حیا کو اس قدر حساس بنا دیتی ہے کہ منکر کی جانب سے ادنیٰ سے ادنیٰ میلان بھی اس سے مخفی نہیں رہتا اور نیت و خیال کی ذرا سی لغزش کو بھی وہ تنبیہ کیے بغیر نہیں چھوڑتی۔
اسلامی اخلاقیات میں حیا کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ زندگی کا کوئی شعبہ اس سے چھوٹا ہوا نہیں ہے۔ چنانچہ تمدن و معاشرت کا جو شعبہ انسان کی صنفی زندگی سے تعلق رکھتا ہے اس میں بھی اسلام نے اصلاحِ اخلاق کے لیے اسی چیز سے کام لیا ہے۔ وہ صنفی معاملات میں نفسِ انسانی کی نازک سے نازک چوریوں کو پکڑ کر حیا کو ان سے خبردار کرتا ہے اور اس کی نگرانی پر مامور کر دیتا ہے یہاں تفصیل کا موقع نہیں اس لیے ہم صرف چند مثالوں پر اکتفا کریں گے۔
(۲)دل کے چور
قانون کی نظر میں زِنا کا اطلاق صرف جسمانی اِتصال پر ہوتا ہے۔ مگر اخلاق کی نظر میں دائرۂ ازدواج کے باہر صنف مقابل کی جانب ہر میلان، ارادے اور نیت کے اعتبار سے زنا ہے۔ اجنبی کے حسن سے آنکھ کا لطف لینا، اس کی آواز سے کانوں کا لذت یاب ہونا، اس سے گفتگو کرنے میں زبان کا لوچ کھانا، اس کے کوچے کی خاک چھاننے کے لیے قدموں کا بار بار اُٹھنا، یہ سب زنا کے مقدمات اورخود معنوی حیثیت سے زنا ہیں۔ قانون اس زنا کو نہیں پکڑتا۔ یہ دل کا چور ہے اور صرف دل ہی کا کوتوال اسے گرفتار کر سکتا ہے۔ حدیث نبوی اس کی مخبری اس طرح کرتی ہے:
اَلْعَیْنَانِ تَزْنِیَانِ وَزِنَا ھُمَا النَّظَرُ وَالْیَدَانِ تْزَنیَانِ وَزِنَاھُمَا اَلْبَطْشُ وَالرِّجْلَانِ تَزْنِیَانِ وَزِنَاھُمَا الْمَشْیُ۔
(سنن ابی دائود، کتاب النکاح، باب مایؤمر من غض البصر، حدیث: ۱۸۴۰)
وزِنَا اللّسَانِ النْطْقُ وَالنَّفْسُ تَتَمَنّیِ وَتَشْتَھِی وَالْفَرْجُ یُصَدِّقُ ذلِکَ وَیُکَذِّبُہُ۔
(شعب الایمان، الباب السابع و التلاثون، حدیث ۵۴۲۷)
آنکھیں زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا نظر ہے اور ہاتھ زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا دست درازی ہے اور پائوں زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا اس راہ میں چلنا ہے اور زبان کا زنا گفتگو ہے اور دل کا زنا تمنا اور خواہش ہے۔ آخر میں صنفی اعضا یا تو ان سب کی تصدیق کر دیتے ہیں یا تکذیب۔
(۳)فتنۂ نظر
نفس کا سب سے بڑا چور نگاہ ہے، اس لیے قرآن اور حدیث دونوں سب سے پہلے اس کی گرفت کرتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ۝۰ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَہُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَo وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ (النور 30-31:24)
اے نبی مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظروں کو (غیر عورتوں کی دید سے) باز رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اس سے اللہ باخبر ہے۔ اور اے نبی مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ اپنی نگاہوں کو (غیر مردوں کی دید سے) باز رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔
حدیث میں ہے:
اِبنَ آدَمَ لَکَ اَوَّلُ نَظْرَۃٍ وَاِیِاَّکَ وَالثَّانِیَۃَ۔
(احکام القرآن للجصاص تفسیر سورۃ النور، ج۸، ص۱۶۳)
آدمی زادے! تیری پہلی نظر تو معاف ہے مگر خبردار دوسری نظر نہ ڈالنا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:
یَاعَلیِ لَاُ تَتْبِعِ النَظَرَۃَ النَظَرَۃَ فَاِنَّ لَکَ الاُولٰی وَ لَیْسَ لَکَ الآخِرَۃُ۔
(سنن ابودائود،کتاب النکاح، باب مایومربہ من غض البصرحدیث ۱۸۳۷)
اے علیؓ! ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالو۔ پہلی نظر تو معاف ہے مگر دوسری نہیں۔
حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ ’’اچانک نظر پڑ جائے تو کیا کروں؟ فرمایا: ’’تو فورًا نظر پھیر لو۔‘‘ (ایضاً، حدیث۱۸۳۶)
(۴) جذبۂ نمائشِ حُسن
اسی فتنہ نظر کا ایک شاخسانہ وہ بھی ہے جو عورت کے دل میں یہ خواہش پیدا کرتا ہے کہ اس کا حسن دیکھا جائے۔ یہ خواہش ہمیشہ جلی اور نمایاں ہی نہیں ہوتی، دل کے پردوں میں کہیں نہ کہیں نمائشِ حسن کا جذبہ چھپا ہوا ہوتا ہے اور وہی لباس کی زینت میں، بالوں کی آرائش میں، باریک اور شوخ کپڑوں کے انتخاب میں اور ایسے ایسے خفیف جزئیات تک میں اپنا اثر ظاہر کرتا ہے۔ جن کا احاطہ ممکن نہیں۔ قرآن نے ان سب کے لیے ایک جامع اصطلاح ’’تبرج جاہلیۃ‘‘استعمال کیا ہے۔ ہر وہ زینت اور ہر وہ آرائش جس کا مقصد شوہر کے سوا دوسروں کے لیے لذتِ نظر بننا ہو، تبرجِ جاہلیت کی تعریف میں آ جاتی ہے۔ اگر برقع بھی اس غرض کے لیے خوب صورت اور خوش رنگ انتخاب کیا جائے کہ نگاہیں اس سے لذت یاب ہوں تو یہ بھی تبرج جاہلیت ہے۔ اس کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کا تعلق عورت کے اپنے ضمیر سے ہے۔ اسے خود ہی اپنے دل کا حساب لینا چاہیے کہ اس میں کہیں یہ ناپاک جذبہ تو چھپا ہوا نہیں ہے۔ اگر ہے تو وہ اس حکمِ خداوندی کی مخالفت ہے کہ
وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاہِلِيَّۃِ الْاُوْلٰى (الاحزاب 33:33)
اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں جس بنائو سنگار کی نمائش کرتی پھرتی تھیں وہ اب نہ کرو۔
جو آرائش ہر بُری نیت سے پاک ہو، وہ اسلام کی آرائش ہے اور جس میں ذرہ برابر بھی بُری نیت شامل ہو وہ جاہلیت کی آرائش ہے۔
(۵) فتنۂ زبان
شیطان نفس کا ایک دوسرا ایجنٹ زبان ہے۔ کتنے ہی فتنے ہیں جو زبان کے ذریعہ سے پیدا ہوتے اور پھیلتے ہیں۔ مرد اور عورت بات کر رہے ہیں۔ کوئی بُرا جذبہ نمایاں نہیں ہے۔ مگر دل کاچھپا ہوا چور آواز میں حلاوت، لہجے میں لگاوٹ، باتوں میں گھلاوٹ پیدا کیے جا رہا ہے۔ قرآن اس چور کو پکڑ لیتا ہے:
اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo (الاحزاب 32:33)
اگر تمھارے دل میں خداکا خوف ہے تو دبی زبان سے بات نہ کرو کہ جس شخص کے دل میں (بدنیتی کی بیماری ہو وہ تم سے کچھ امیدیں وابستہ کر لے گا۔ بات کرو تو سیدھے سادے طریقے سے کرو۔ جس طرح انسان انسان سے بات کرتا ہے۔
یہی دل کا چور ہے جو دوسروں کے جائز یا ناجائز صنفی تعلقات کا حال بیان کرنے میں بھی مزے لیتا ہے اور سننے میں بھی۔ اس لطف کی خاطر عاشقانہ غزلیں کہی جاتی ہیں اور عشق و محبت کے افسانے جھوٹ سچ ملا کر جگہ جگہ بیان کیے جاتے ہیں اور سوسائٹی میں ان کی اشاعت اس طرح ہوتی ہے جیسے پولے پولے آنچ لگتی چلی جائے۔ قرآن اس پر بھی تنبیہ کرتا ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَۃُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۰ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ۭ ( النور 19:24)
جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے گروہ میں بے حیائی کی اشاعت ہو ان کے لیے دنیا میں بھی درد ناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔
فتنہ زبان کے اور بھی بہت سے شعبے ہیں اور ہر شعبے میں دل کا ایک نہ ایک چور اپنا کام کرتا ہے۔ اسلام نے ان سب کا سراغ لگایا ہے اور ان سے خبردار کیا ہے۔ عورت کو اجازت نہیں کہ اپنے شوہر سے دوسری عورتوں کی کیفیت بیان کرے۔
لَاتُبَاشِرِ الْمَرأَۃُ الْمَرأَۃَ فَتَنْعَتَھاَ لِزوْجِھَا کَأَنَّہُ یَنْظُرُ اِلَیْھَا۔
(صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب لا تباشر المرأۃ المرأۃ، حدیث۴۸۳۹)
عورت عورت سے خلا ملا نہ کرے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اس کی کیفیت اپنے شوہر سے اس طرح بیان کر دے کہ گویا وہ خود اسے دیکھ رہا ہے۔
عورت او ر مرد دونوں کو اس سے منع کیا گیا ہے کہ اپنے پوشیدہ ازدواجی معاملات کا حال دوسرے لوگوں کے سامنے بیان کریں کیوں کہ اس سے بھی فحش کی اشاعت ہوتی ہے اور دلوں میں شوق پیدا ہوتا ہے۔
(سنن ابودائود کتاب النکاح، باب مایکرہ من ذکر الرجل مایکون من اصابتہ اہلہ، حدیث:۱۸۵۹)
نمازِ باجماعت میں اگر امام غلطی کرے، یا اسے کسی حادثہ پر متنبہ کرنا ہو تو مردوں کو سبحان اللہ کہنے کا حکم ہے، مگر عورتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ صرف دستک دیں اور زبان سے کچھ نہ بولیں۔ (سنن ابودائود،کتاب الصلاۃ، باب التصفیق فی الصلوۃ، حدیث:۸۰۴)
(۶) فتنۂ آواز
بسا اوقات زبان خاموش رہتی ہے مگر دوسری حرکات سے سامعہ کو متاثر کیا جاتا ہے۔ اس کا تعلق بھی نیت کی خرابی سے ہے اور اسلام اس کی بھی ممانعت کرتا ہے۔
وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِہِنَّ۝۰ۭ (النور 31:24)
اور وہ اپنے پائوں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلیں کہ جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہے (یعنی جو زیور وہ اندر پہنے ہوئے ہیں) اس کا حال معلوم ہو (یعنی جھنکار سنائی دے)
(۷)فتنۂ خوش بو
خوش بو بھی ان قاصدوں میں سے ایک ہے جو ایک نفسِ شریر کا پیغام دوسرے نفسِ شریر تک پہنچاتے ہیں۔ یہ خبر رسانی کا سب سے زیادہ لطیف ذریعہ ہے جسے دوسرے تو خفیف ہی سمجھتے ہیں، مگر اسلامی حیااتنی حساس ہے کہ اس کی طبع نازک پر یہ لطیف تحریک بھی گراں ہے۔ وہ ایک مسلمان عورت کو اس کی اجازت نہیں دیتی کہ خوش بو میں بسے ہوئے کپڑے پہن کر راستوں سے گزرے یا محفلوں میں شرکت کرے۔ کیوں کہ اس کا حسن اور اس کی زینت پوشیدہ بھی رہی تو کیا فائدہ، اس کی عطریت تو فضا میں پھیل کر جذبات کو متحرک کر رہی ہے۔
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اَلْمَرأَۃُ اِذَا اِسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ بِالْمَجْلِسِ فَھِیَ کَذَا وَکَذَا یَعْنِی زَانِیَۃٌ۔
(سنن ترمذی،کتاب الا ٔدب، باب ما جاء فی کراہیۃ خروج المرأۃ، حدیث۲۷۱۰)
نبی اکرم a نے فرمایا کہ جو عورت عطر لگا کر لوگوں کے درمیان سے گزرتی ہے، وہ آوارہ قسم کی عورت ہے۔
اِذَا شَھِدَتْ اِحْدَاکُنَّ الْمَسْجِدَ فَلَا تَمَسَّ طِیْباً۔
(صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب خروج النسائ إلیٰ المساجد، حدیث ۶۷۴)
جب تم میں سے کوئی عورت مسجد میں جائے تو خوش بو نہ لگائے۔
طِیْبُ الرِّجَالِ مَا ظَھَرَ رِیْحُہُ وَخَفِیَ لَوْنُہُ وَطِیْبُ النِّسَائِ مَا ظَھَرَلَونُہُ وَخَفِیَ رِیْحُہُ۔ (سنن ترمذی، باب ما جاء فی طیب الرجال والنسا، حدیث ۲۷۱۱)
مردوں کے لیے وہ عطر مناسب ہے جس کی خوش بو نمایاں اور رنگ مخفی ہو اور عورتوں کے لیے وہ عطر مناسب ہے جس کا رنگ نمایاں اور خوش بو مخفی ہو۔
(۸)فتنۂ عریانی
ستر کے باب میں اسلام نے انسانی شرم و حیا کی جس قدر صحیح اورمکمل نفسیاتی تعبیر کی ہے اس کا جواب دنیا کی کسی تہذیب میں نہیں پایا جاتا۔ آج دنیا کی مہذب ترین قوموں کا بھی یہ حال ہے کہ ان کے مردوں اور ان کی عورتوں کو اپنے جسم کا کوئی حصہ کھول دینے میں باک نہیں۔ ان کے ہاں لباس محض زینت کے لیے ہے ستر کے لیے نہیں ہے۔ مگر اسلام کی نگاہ میں زینت سے زیادہ ستر کی اہمیت ہے۔ وہ عورت اور مرد دونوں کو جسم کے وہ تمام حصے چھپانے کا حکم دیتا ہے جن میں ایک دوسرے کے لیے صنفی کشش پائی جاتی ہے۔ عریانی ایک ایسی ناشائستگی ہے جسے اسلامی حیا کسی حال میں بھی برداشت نہیں کرتی۔ غیر تو غیر اسلام اسے بھی پسند نہیں کرتا کہ میاں اور بیوی ایک دوسرے کے سامنے برہنہ ہوں۔
اِذَا أَتٰی أَحَدُکُمْ اَھْلَہُ فَلْیَسْتَتُرْ وَلَا یَتَجَرَّدْ تَجَرُّدَ الْعِیْرَیْنِ۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب التسترعند الجماع، حدیث۱۹۱۱)
جب تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس جائے تو اسے چاہیے کہ ستر کا لحاظ رکھے۔ بالکل گدھوں کی طرح دونوں ننگے نہ ہو جائیں۔
قالت عائشۃ مَا نَظَرْتُ فَرْجَ رَسُولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
(سنن ابن ماجۃ، کتاب الطھارۃ و سننھا، باب النھی اُنْ یری عورۃ اخیہ، حدیث۶۵۴)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ a کو کبھی برہنہ نہیں دیکھا۔
اس سے بڑھ کر شرم و حیا یہ ہے کہ تنہائی میں بھی عریاں رہنا اسلام کو گوارا نہیں اس لیے کہ
اَللہُ اَحَقُّ ان یُسْتَحْیَا مِنْہُ۔ (سنن ترمذی،کتاب الا ٔدب، باب ماجائ فی حفظ العورۃحدیث ۲۶۹۳)
اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔
حدیث میں آتا ہے کہ
اِیَّاکُمْ وَالتَّعَرِی فَإِنَّ مَعَکُمْ مَنْ لَّا یُفَارِقُکُمْ اِلاَّ عِنْدَ الْغَائِطِ وَحِیْنَ یُفْضِی الرَّجُلُ اِلٰی أَھْلِہِ فَاسْتَحْیُوھُمْ وَاَکْرِمُوھُمْ۔
(سنن الترمذی، کتاب الا ٔدب، باب ماجائ فی الاستتار عندالجماع، حدیث ۲۷۲۴)
خبردار کبھی برہنہ نہ رہو کیوں کہ تمھارے ساتھ خدا کے فرشتے لگے ہوئے ہیں جو تم سے جدا نہیں ہوتے بجز ان اوقات کے جن میں تم رفع حاجت کرتے ہو یا اپنی بیویوں کے پاس جاتے ہو لہٰذا تم ان سے شرم کرو اور ان کی عزت کا لحاظ رکھو۔
اسلام کی نگاہ میں وہ لباس درحقیقت لباس ہی نہیں ہے جس میں سے بدن جھلکے اور ستر نمایاں ہو۔
قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نِسَائٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ مُمِیلَاتٌ، مَائِلاتٌ رُٔوسُھُنَّ کَأَسْنِمَۃِ الْبُخْتِ الْمَائِلَۃِ لَایَدْخُلْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا یَجِدْنَ رِیحَھَا۔
(صحیح مسلم، کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمھاو أھلھا، باب النار یدخلھا الجبارون، حدیث ۵۰۹۸)
رسول اللہ a نے فرمایا کہ جو عورتیں کپڑے پہن کر بھی ننگی ہی رہیں اور دوسروں کو رجھائیں اور خود دوسروں پر ریجھیں اور بختی اونت کی طرح ناز سے گردن ٹیڑھی کرکے چلیں وہ جنت میں ہرگز داخل نہ ہوں گی اور نہ اس کی بو پائیں گی۔
یہاں استیعاب مقصود نہیں۔ ہم نے صرف چند مثالیں اس غرض سے پیش کی ہیں کہ ان سے اسلام کے معیارِ اخلاق اور اس کی اخلاقی اسپرٹ کا اندازہ ہو جائے۔ اسلام سوسائٹی کے ماحول اور اس کی فضا کو فحشا و منکر کی تمام تحریکات سے پاک کر دینا چاہتا ہے۔ ان تحریکات کا سرچشمہ انسان کے باطن میں ہے۔ فحشا و منکر کے جراثیم وہیں پرورش پاتے ہیں اور وہیں سے ان چھوٹی چھوٹی تحریکات کی ابتدا ہوتی ہے جو آگے چل کر فساد کا موجب بنتی ہیں۔ جاہل انسان انھیں خفیف سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے مگر حکیم کی نگاہ میں دراصل وہی اخلاق اور تمدن و معاشرت کو تباہ کر دینے والی خطرناک بیماریوں کی جڑ ہیں۔ لہٰذا اسلام کی تعلیم اخلاقِ باطن ہی میں حیا کا اتنا زبردست احساس پیدا کر دینا چاہتی ہے کہ انسان خود اپنے نفس کا احتساب کرتا رہے اور بُرائی کی جانب ادنیٰ سے ادنیٰ میلان بھی اگر پایا جائے تو اسے محسوس کرکے وہ آپ ہی اپنی قوتِ ارادی سے اس کا استیصال کرے۔
۲۔ تعزیری قوانین
اسلام کے تعزیری قوانین کا اصل الاصول یہ ہے کہ انسان کو ریاست کے شکنجہ میں اس وقت تک نہ کسا جائے جب تک وہ نظامِ تمدن کو برباد کرنے والی کسی حرکت کا بالفعل مرتکب نہ ہو جائے۔ مگر جب وہ ایسا کر گزرے تو پھر اسے خفیف سزائیں دے دے کر گناہ کرنے اور سزا بھگتنے کا خوگر بنانا درست نہیں ہے۔ ثبوتِ جرم کی شرائط بہت سخت رکھو{ FR 6831 }۔ لوگوں کو حدود قانون کی زد میں آنے سے جہاں تک ممکن ہو بچائو{ FR 6832 }مگر جب کوئی شخص قانون کی زد میں آ جائے تو اسے ایسی سزا دو کہ نہ صرف وہ خود اس جرم کے اعادہ سے عاجز ہو جائے بلکہ دوسرے ہزاروں انسان بھی جو اس فعل کی جانب اقدام کرنے والے ہوں اس عبرت ناک سزا کو دیکھ کر خوف زدہ ہو جائیں ، کیوں کہ قانون کا مقصد سوسائٹی کو جرائم سے پاک کرنا ہے۔ نہ یہ کہ لوگ بار بار جرم کریں اور بار بار سزا بھگتیں۔
نظامِ معاشرت کی حفاظت کے لیے اسلامی تعزیرات نے جن افعال کو جرم مستلزم سزا قرار دیا ہے وہ صرف دو ہیں۔ ایک زنا، دوسرے قذف (یعنی کسی پر زِنا کی تہمت لگانا)۔
(۱)حدِّ زِنا
زِنا کے متعلق ہم اس سے پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اخلاقی حیثیت سے یہ فعل انسان کی پستی کا نتیجہ ہے۔ جو شخص اس کا ارتکاب کرتا ہے وہ دراصل اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ اس کی انسانیت حیوانیت سے مغلوب ہو چکی ہے اور وہ انسانی سوسائٹی کا ایک صالح رکن بن کر نہیں رہ سکتا۔ اجتماعی نقطہ نظر سے یہ ان عظیم ترین جرائم میں سے ایک ہے جو انسانی تمدن کی عین بنیاد پر حملہ کرتے ہیں۔ ان وجوہ سے اسلام نے اسے بجائے خود ایک قابلِ تعزیر گناہ قرار دیا ہے، خواہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا جرم مثلاً جبر و اکراہ یا کسی شخص غیر کی حق تلفی شریک ہو یا نہ ہو، قرآن مجید کا حکم یہ ہے کہ:
اَلزَّانِيَۃُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ۝۰۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِيْ دِيْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۚ وَلْيَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَاۗىِٕفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَo (النور 2:24)
زِنا کار عورت اور زنا کار مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور قانونِ الٰہی کے معاملہ میں تمھیں ان پر ہرگز رحم نہ کھانا چاہیے۔ اگر تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور جب انھیں سزا دی جائے تو مسلمانوں میں سے ایک جماعت اسے دیکھنے کے لیے حاضر رہے۔
اس باب میں اسلامی قانون اور مغربی قانون میں بہت بڑا اختلاف ہے۔ مغربی قانون زِنا کو بجائے خود کوئی جرم نہیں سمجھتا۔ اس کی نگاہ میں یہ فعل صرف اس وقت جرم ہوتا ہے جب کہ اس کا اِرتکاب جبر و اکراہ کے ساتھ کیا جائے یا کسی ایسی عورت کے ساتھ کیا جائے جو دوسرے شخص کے نکاح میں ہو۔ بالفاظ دیگر اس قانون کے نزدیک زنا خود جرم نہیں ہے بلکہ جرم دراصل جبر یا حق تلفی ہے۔ بخلاف اس کے اسلامی قانون کی نظر میں یہ فعل خود ایک جرم ہے اور جبر و اکراہ یا حقِ غیر میں مداخلت سے اس پر ایک اور جرم کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس بنیادی اختلاف کی وجہ سے سزا کے باب میں بھی دونوں کے طریقے مختلف ہو جاتے ہیں۔ مغربی قانون زنا بالجبر میں صرف سزائے قید پر اکتفا کرتا ہے اور منکوحہ عورت کے ساتھ زنا کرنے پر عورت کے شوہر کو صرف تاوان کا مستحق قرار دیتا ہے۔ یہ سزا جرم کو روکنے والی نہیں بلکہ لوگوں کو اور جرأت دلانے والی ہے۔ اسی لیے ان ممالک میں جہاں یہ قانون رائج ہے، زنا کا ارتکاب بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں اسلامی قانون زنا پر ایسی سخت سزا دیتا ہے جو سوسائٹی کو اس جرم اور ایسے مجرموں سے ایک مدت کے لیے پاک کر دیتی ہے جن ممالک میں زنا پر یہ سزا دی گئی ہے وہاں اس فعل کا ارتکاب کبھی عام نہیں ہوا۔ ایک مرتبہ حد شرعی جاری ہو جائے، پھر پورے ملک کی آبادی پر ایسی ہیبت چھا جاتی ہے کہ برسوں تک کوئی شخص اس کے ارتکاب کی جرأت نہیں کر سکتا۔ یہ مجرمانہ میلانات رکھنے والوں کے ذہن پر ایک طرح کا نفسیاتی اپریشن ہے۔ جس سے ان کے نفس کی خود بخود اصلاح ہو جاتی ہے۔
مغربی ضمیر سو کوڑوں کی سزا پر نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ انسان کو جسمانی تکلیف پہنچاناپسند نہیں کرتا بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کے اخلاقی شعور کی نشوونما ابھی تک ناقص ہے۔ وہ زنا کو پہلے صرف ایک عیب سمجھتا تھا اور اب اسے محض ایک کھیل، ایک تفریح سمجھتا ہے جس سے دو انسان تھوڑی دیر کے لیے اپنا دل بہلا لیتے ہیں اس لیے وہ چاہتا ہے کہ قانون اس فعل سے رواداری برتے اور اس وقت تک کوئی باز پرس نہ کرے جب تک کہ زانی دُوسرے شخص کی آزادی یا اس کے قانونی حقوق میں خلل انداز نہ ہو۔ پھر اس میں خلل اندازی کی صورت میں بھی وہ اسے ایسا جرم سمجھتا ہے جس سے بس ایک ہی شخص کے حقوق متاثر ہوتے ہیں، اس لیے معمولی سزا یا تاوان اس کے نزدیک ایسے جرم کی کافی سزا ہے۔
ظاہر ہے کہ جو شخص زنا کا یہ تصور رکھتا ہو وہ اس فعل پر سو کوڑوں کی سزا کو ایک ظالمانہ سزا ہی سمجھے گا۔ مگر جب اس کا اخلاقی و اجتماعی شعور ترقی کرے گا اور اسے معلوم ہو گا کہ زنا خواہ بالرضا ہو یا بالجبر اور خواہ بیاہی ہوئی عورت کے ساتھ ہو یا بن بیاہی کے ساتھ، بہرحال وہ ایک اجتماعی جرم ہے اور پوری سوسائٹی پر اس کے نقصانات عائد ہوتے ہیں، تو سزا کے متعلق بھی اس کا نظریہ خود بخود بدل جائے گا۔ اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ سوسائٹی کو ان نقصانات سے بچانا ضروری ہے اور چوں کہ زِنا کی تحریک کرنے والے اسباب انسان کی حیوانی جبلت میں نہایت گہری جڑیں رکھتے ہیں اور ان جڑوں کو محض قید و بند اور مالی تاوان کے زور سے نہیں اکھاڑا جا سکتا، لہٰذا اس کا سدباب کرنے کے لیے شدید تدابیر استعمال کیے بغیر چارہ نہیں۔ ایک شخص یا دو شخصوں کو شدید جسمانی آزار پہنچا کر لاکھوں اشخاص کو بے شمار اخلاقی اور عمرانی مضرتوں سے بچا دینا اس سے بہتر ہے کہ مجرموں کو تکلیف سے بچا کر ان کی پوری قوم کو ایسے نقصانات میں مبتلا کیا جائے جو آنے والی بے گناہ نسلوں تک بھی متوارث ہونے والے ہوں۔
سو کوڑوں کی سزا کو ظالمانہ سزا قرار دینے کی ایک وجہ اور بھی ہے جو مغربی تہذیب کی بنیادوں پر غور کرنے سے بآسانی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، اس تہذیب کی ابتدا ہی جماعت کے مقابلہ میں فرد کی حمایت کے جذبہ سے ہوئی ہے اور اس کا سارا خمیر انفرادی حقوق کے ایک مبالغہ آمیز تصور سے تیار ہوا ہے۔ اس لیے فرد خواہ جماعت پر کتنا ہی ظلم کرے، اہلِ مغرب کو کچھ زیادہ ناگوار نہیں ہوتا، بلکہ اکثر حالات میں وہ اسے بخوشی گوارا کر لیتے ہیں۔ البتہ جماعتی حقوق کی حفاظت کے لیے جب فرد پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو ان کے رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں اور ان کی ساری ہم دردیاں جماعت کی بجائے فرد کے ساتھ ہوتی ہیں۔ علاوہ بریں تمام اہلِ جاہلیت کی طرح جاہلیت مغرب کے پیروئوں کی بھی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ معقولات کی بجائے محسوسات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جو نقصان ایک فرد پرمترتب ہوتا ہے وہ چوں کہ محدود شکل میں محسوس طور پر ان کے سامنے آتا ہے اس لیے وہ اسے ایک امر عظیم سمجھتے ہیں۔ بخلاف اس کے وہ اس نقصان کی اہمیت کا ادراک نہیں کر سکتے۔ جو وسیع پیمانہ پر تمام سوسائٹی اور اس کی آیندہ نسلوں کو پہنچتا ہے، کیوں کہ وہ اپنی وسعت اور اپنی دور رسی کی بنا پر محسوس نہیں ہوتاے۔
(۲)حدِ قذف
زنا کے جونقصانات ہیں انھی سے ملتے جلتے نقصانات تہمتِ زنا (قذف) کے بھی ہیں کہ یہ شریف عورت پرزنا کی جھوٹی تہمت لگانا تنہا اسی کے لیے بدنامی کا موجب نہیں بلکہ اس سے خاندانوں میں دشمنی پھیلتی ہے، انساب مشتبہ ہوتے ہیں، ازدواجی تعلقات میں خرابی واقع ہوتی ہے اور ایک شخص محض ایک مرتبہ زبان ہلا کر بیسیوں انسانوں کو برسوں کے لیے عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ قرآن نے اس جرم کے لیے بھی سخت سزا تجویز کی ہے:
وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَاۗءَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا۝۰ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَo (النور 4:24)
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر الزام لگائیں پھر چار گواہ اس کے ثبوت میں پیش نہ کریں، انھیں اسّی (۸۰) کوڑے لگائو اور آیندہ کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، ایسے لوگ خود ہی بدکار ہیں۔
۳۔ انسدادی تدابیر
اس طرح اسلام کا قانون فوج داری اپنی سیاسی طاقت سے ایک طرف تو بدکاری کو زبردستی روک دیتا ہے اور دوسری طرف سوسائٹی کے شریف ارکان کو بد نیت لوگوں کی بدزبانی سے بھی محفوظ کر دیتا ہے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیم انسان کو اندر سے درست کرتی ہے تاکہ اس میں بدی اور گناہ کی طرف رجحان ہی پیدا نہ ہو اور اس کا تعزیری قانون اسے باہر سے دُرُست کرتا ہے تاکہ اَخلاقی تربیت کے ناقص رہ جانے سے اگر اس قسم کے رُجحانات پیدا ہو جائیں، اور قوت سے فعل میں آنے لگیں، تو انھیں بجبر روک دیا جائے۔ ان دونوں تدبیروں کے درمیان چند مزید تدبیریں اس غرض کے لیے اختیار کی گئی ہیں کہ اصلاحِ باطن کی اخلاقی تعلیم کے لیے مددگار ہوں۔ ان تدبیروں سے نظامِ معاشرت کو اس طرح درست کیا گیا ہے کہ اخلاقی تربیت کے نقائص سے جو کم زوریاں افراد جماعت میں باقی رہ جائیں انھیں ترقی کرنے اور قوت سے فعل میں آنے کا موقع ہی نہ مل سکے، سوسائٹی میں ایک ایسا ماحول پیدا ہو جائے جس میں بُرے میلانات کو نشوونما دینے والی آب و ہوا مفقود ہو، ہیجان انگیز تحریکات ناپید ہوں۔ صنفی انتشار کے اسباب انتہائی حد تک کم ہو جائیں اور ایسی تمام صورتوں کا سدِّباب ہو جائے جن سے نظامِ تمدن میں برہمی پیدا ہونے کا امکان ہو۔
اب ہم تفصیل کے ساتھ ان تدبیروں میں سے ایک ایک کو بیان کرتے ہیں۔
(۱)لباس اور ستر کے احکام
احکامِ معاشرت کے سلسلہ میں اسلام کا پہلا کام یہ ہے کہ اس نے برہنگی کا استیصال کیا اور مردوں اور عورتوں کے لیے ستر کے حدود مقرر کر دیے۔ اس معاملہ میں عرب جاہلیت کا جو حال تھا، آج کل کی مہذب ترین قوموں کا حال اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ وہ ایک دوسرے کے سامنے بے تکلف ننگے ہو جاتے تھے{ FR 6833 }۔ غسل اور قضائے حاجت میں پردہ کرنا ان کے نزدیک غیرضروری تھا۔ کعبہ کا طواف بالکل برہنہ ہو کر کیا جاتا تھا اور اسے ایک اچھی عبادت سمجھا جاتا تھا{ FR 6834 }۔ عورتیں تک طواف کے وقت برہنہ ہو جاتی تھیں{ FR 6835 }۔ ان کی عورتوں کا لباس ایسا تھا جس میں سینے کا کچھ حصہ کھلا رہتا تھا اور بازو، کمر اور پنڈلیوں کے بعض حصے کھل جاتے تھے{ FR 6836 }۔ بالکل یہی کیفیت آج یورپ، امریکا اور جاپان کی بھی ہے اور مشرقی ممالک میں بھی کوئی دوسرا نظامِ معاشرت ایسا نہیں ہے جس میں کشف و ستر کے حدود باقاعدہ مقرر کیے گئے ہوں۔
اسلام نے اس باب میں انسان کو تہذیب کا پہلا سبق سکھایا۔ اس نے بتایا کہ:
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا۝۰ۭ (الاعراف 26:7)
اے اولادِ آدم اللہ نے تم پر لباس اسی لیے اتارا ہے کہ تمھارے جسموں کو ڈھانکے اور تمھارے لیے موجبِ زینت ہو۔
اس آیت کی رو سے جسم ڈھانکنے کو ہر مرد و عورت کے لیے فرض کر دیا گیا۔ نبی اکرم a نے سخت احکام دیے کہ کوئی شخص کسی کے سامنے برہنہ نہ ہو۔
مَلْعُونٌ مَنْ نَظَرَ اِلٰی سَوْأَۃَ اَخِیْہِ ۔ (احکام القرآن للجصاص، سورۃ الاعراف)
ملعون ہے وہ جو اپنے بھائی کے ستر پر نظر ڈالے۔
لَایَنْظُر الرَّجُلُ اِلٰی عَورَۃِ الرَّجُلِ وَلَا الْمَرأَۃُ اِلٰی عَورَۃِ الْمَرأَۃِ۔
(صحیح مسلم،کتاب الحیض، باب تحریم النظر الی العورات، حدیث:۵۱۲)
کوئی مرد کسی مرد اور کوئی عورت کسی عورت کو برہنہ نہ دیکھے۔
لَأَنْ اَخِرَّ مِنَ السَّمَائِ فَانْقَطَعَ نِصْفَینِ أَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ أَنظُرَ اِلٰی عَورَۃِ أَحدٍ أَوْیَنْظُرَ اَحَدٌ اِلٰی عَورَتِی۔ (المبسوط، کتاب الاستحسان، باب النظر الی الا ٔجنبیات)
خدا کی قسم! مَیں آسمان سے پھینکا جائوں اور میرے دو ٹکڑے ہو جائیں، یہ میرے لیے زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ میں کسی کے پوشیدہ مقام کو دیکھوں یا کوئی میرے پوشیدہ مقام کو دیکھے۔
اِیَّاکُمْ وَالتَّعْرِی فَاِنَّ مَعَکُمْ مَنْ لَا یُفَارِقُکُمْ اِلاَّ عِنْدَ الْغَائِطِ وَحِیْنَ یَفْضِی الرَّجُلُ اِلٰی اَھْلِہِ۔ (سنن ترمذی،کتاب الا ٔدب، باب ما جاء فی الاستتارعند الجماع، حدیث۲۷۲۴)
خبردار کبھی برہنہ نہ رہو، کیوں کہ تمھارے ساتھ وہ ہے جو تم سے کبھی جدا نہیں ہوتا، سوائے قضائے حاجت اور مباشرت کے وقت کے۔
إِذَا أَتٰی اَحَدُکُمْ اَھْلَہُ فَلْیَسْتَتُرْ وَلَا یَتَجَرَّدْ تَجَرُّدَ الْعَیْرَینِ۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب التستر عند الجماع، حدیث ۱۹۱۱)
جب تم میںسے کوئی اپنی بیوی کے پاس جائے تو اس وقت بھی ستر ڈھانکے اور بالکل گدھوں کی طرح ننگا نہ ہو جائے۔
ایک مرتبہ آں حضرت a زکوٰۃ کے اونٹوں کی چراگاہ میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ چرواہا جنگل میں ننگا لیٹا ہے۔ آپ نے اسی وقت اسے معزول کر دیا اور فرمایا:
لَایَعْمَلُ لَنَا مَنْ لَا حَیَاَئ لَہُ ۔ (المبسوط، کتاب الاستحسان، باب النظر إلی الا ٔجنبیات)
جو شخص بے شرم ہے وہ ہمارے کسی کام کا نہیں۔
(۲)مردوں کے لیے ستر کے حدود
ا ن احکام کے ساتھ عورتوں اور مردوں کے لیے جسم ڈھانکنے کے حدود بھی الگ الگ مقرر کیے گئے۔ اصطلاحِ شرعی میں جسم کے اُس حصہ کو ستر کہتے ہیں جس کا ڈھانکنا فرض ہے۔ مرد کے لیے ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ ’’ستر‘‘ قرار دیا گیا ہے اور حکم دیا گیا کہ اسے نہ کسی کے سامنے کھولیں اور نہ کسی دوسرے شخص کے اس حصہ پر نظر ڈالیں۔
عن ابی ایوب الانصاری عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم مَافَوْقَ الرُّکْبَتَینِ مِنَ الْعَوَرۃِ وَمَا اَسْفَلَ مِنَ السُّرَّۃِ مِنَ الْعَورَۃِ۔
(سنن الدارقطنی، کتاب الصلاۃ، باب الا ٔمر بتعلیم الصلوات، حدیث:۹۰۲)
حضرت ابو ایوب الانصاریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم a نے ارشاد فرمایا: جو کچھ گھٹنے کے اوپر ہے وہ چھپانے کے لائق ہے اور جو کچھ ناف کے نیچے ہے وہ چھپانے کے لائق ہے۔
عَوْرَۃُ الرَّجُلِ مَابَیْنَ سُرَّتِہِ اِلِیٰ رُکْبَتِہِ ۔ (المبسوط، ج۱۰، ص۲۵۱)
مرد کے لیے ناف سے گھٹنے تک کا حصہ چھپانے کے لائق ہے۔
عَنْ عَلِیّ ابْنِ اَبیِ طَالِبٍ عَنِ النَّبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَاتَبْرُزْ فَخِذَکَ وَلَاتَنْظُرْ؟ اِلٰی فَخِذِ حَیّ وَلَامَیّتٍ۔
( سنن ابی دائود، کتاب الجنائز، باب فی ستر المیت عند غسلہ، حدیث۳۱۴۰)
حضرت علیؓ بن ابی طالب سے روایت ہے کہ نبی کریم a نے ارشاد فرمایا: اپنی ران کو کسی کے سامنے نہ کھول اور نہ کسی زندہ شخص یا مردہ شخص کی ران پر نظر ڈال۔
اِحْفَظْ عَورَتَکَ اِلاَّ مِنْ زَوْجَتِکِ أَوْمَامَلَکَتْ یَمِیْنُکَ۔
(سنن ابی دائود، کتاب الحمام، باب ماجائ فی التعری، حدیث ۳۵۰۱)
اپنے ستر کی حفاظت کرو بجز اپنی بیویوں اور ان لونڈیوں کے جو تمھارے تصرف میں ہوں۔
(۳)عورتوں کے لیے ستر کے حدود
عورتوں کے لیے ستر کے حدود اس سے زیادہ وسیع رکھے گئے ہیں۔ انھیں حکم دیا گیا کہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کے سوا تمام جسم کو تمام لوگوں سے چھپائیں۔ اس حکم میں باپ، بھائی اور تمام رشتہ دار مرد شامل ہیں اور شوہر کے سوا کوئی مرد اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
لَا یَحِلُّ لِامْأَۃٍ تُوْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِر اَنْ تَخْرُجَ یَدَیْھَا اِلاَّ اِلٰی ھٰھُنَا وَقَبَضَ نِصْفَ الذِرَاعِ۔ (تفسیر ابن جریرتفسیر سورہ النور، آیت۳۱)
نبی اکرم a نے فرمایا کہ ’’کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتی ہو، جائز نہیں کہ وہ اپنا ہاتھ اس سے زیادہ کھولے: یہ کہہ کر آپ نے اپنی کلائی کے نصف حصہ پر ہاتھ رکھا۔
اَلْجَارِیَۃُ اِذَا حَاضَتْ لَمْ یُصْلِحْ اَن یُّرٰی مِنْھَا اِلاَّ وَجْھَھَا وَیَدَھَا اِلَی الْمَفْصَلِ۔
(فتح القدیر، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ التی تتقد مھا)
جب عورت بالغ ہو جائے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہ آنا چاہیے سوائے چہرہ ا ور کلائی کے جوڑ تک ہاتھ کے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اپنے بھتیجے عبداللہ بن الطفیل کے سامنے زینت کے ساتھ آئی تو نبی اکرم a نے اسے ناپسند کیا۔
مَیں نے عرض کیا یارسول اللہ a یہ تو میرا بھتیجا ہے۔ حضور اکرم aنے فرمایا:
إِذَا عَرَقَتْ الْمَرْأۃُ لَمْ یَحِلُّ لَھَا اَنْ تُظْھِرَاِلاَّ وَجْھَھَا وَاِلاَّ مَادُونَ ھٰذَا وَقَبَضَ عَلٰی ذِرَاعِ نَفْسِہِ فَتَرَکَ بَیْنَ بَیْنَ قَبْضَتِہِ وَبَیْنَ الْکَفِّ مِثْلَ قَبْضَتِہِ اُخْرٰی۔
(تفسیرابن جریرالنور: ۳۱)
جب عورت بالغ ہو جائے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ اپنے جسم میں سے کچھ ظاہر کرے سوائے چہرے کے اور سوائے اس کے۔ یہ کہہ کر آپ نے اپنی کلائی پر اس طرح ہاتھ رکھا کہ آپ کی گرفت کے مقام اور ہتھیلی کے مقام کے درمیان صرف ایک مٹھی بھر جگہ باقی تھی۔
حضرت اسما بنت ابی بکرؓ جو آں حضرت a کی سالی تھیں ، ایک مرتبہ آپ کے سامنے باریک لباس پہن کر حاضر ہوئیں اس حال میں کہ جسم اندر سے جھلک رہا تھا۔ حضوراکرم a نے فورًا نظر پھیر لی اور فرمایا:
یَااَسْمائُ اِنَّ الْمَرْأَۃَ اِذَا بَلَغَتْ الْمَحِیْضَ لَمْ یُصْلِحْ أَنْ یُریٰ مِنْھَا اِلاَّ ھٰذَا وَھٰذَا وَاَشَارَاِلٰی وَجْھِہِ وَکَفِّہِ۔ ( فتح القدیر کتاب الکراھیۃ، فصل فی الوط ئ و النظر و اللمس)
اے اسما عورت جب سنِ بلوغ کو پہنچ جائے تو دُرُست نہیں کہ اس کے جسم میں سے کچھ دیکھا جائے بجز اس کے اور اس کے۔ یہ کہہ کر آپ نے اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف اشارہ فرمایا۔
حفصہ بنت عبدالرحمن حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ وہ ایک باریک دوپٹا اوڑھے ہوئے تھیں۔ حضرت عائشہؓ نے اسے پھاڑ دیا اور ایک موٹی اوڑھنی ان پر ڈالی۔
(موطا امام مالک کتاب الجامع، باب مایکرہ اللنسائ لبسہ من الثیاب، حدیث۱۴۲۰)
نبی اکرم a کا اِرشاد ہے کہ
لَعَنَ اللہُ الْکَاسِیَاتِ الْعَارِیَاتِ۔ (المبسوط، کتاب الاستحسان، باب النظرإ لیٰ الا ٔجنبیات)
اللہ کی لعنت ہے اُن عورتوں پر جو لباس پہن کر بھی ننگی کی ننگی رہیں۔
حضرت عمرؓ کا ارشاد ہے کہ اپنی عورتوں کو ایسے کپڑے نہ پہنائو جو جسم پر اس طرح چست ہوں کہ سارے جسم کی ہیئت نمایاں ہو جائے۔ (المبسوط، کتاب الاستحسان‘ باب النظرإلیٰ الاجنبیات)
ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کے سوا عورت کا پورا جسم ستر میں داخل ہے جسے اپنے گھر میں اپنے قریب ترین عزیزوں سے بھی چھپانا اس پر واجب ہے۔ وہ شوہر کے سوا کسی کے سامنے اپنے ستر کو نہیں کھول سکتی، خواہ وہ اس کا باپ، بھائی یا بھتیجا ہی کیوں نہ ہو۔ حتّٰی کہ وہ ایسا باریک لباس بھی نہیں پہن سکتی جس میں ستر نمایاں ہوتا ہو۔
اس باب میں جتنے احکام ہیں وہ سب جوان عورت کے لیے ہیں۔ ستر کے احکام اس وقت سے عائد ہوتے ہیں جب سے عورت سنِ رشد کے قریب پہنچ جائے، اور اس وقت تک نافذ رہتے ہیں جب تک اس میں صنفی کشش باقی رہے۔ اس عمر سے گزر جانے کے بعد ان میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے:
وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا يَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْہِنَّ جُنَاحٌ اَنْ يَّضَعْنَ ثِيَابَہُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍؚبِزِيْنَۃٍ۝۰ۭ وَاَنْ يَّسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّہُنَّ۝۰ۭ (النور 60:24)
اور بوڑھی عورتیں جو نکاح کی امید نہیں رکھتیں اگر اپنے دوپٹے اتار رکھا کریں تو اس میں کوئی مضایقہ نہیں بشرطیکہ اپنی زینت کی نمائش مقصود نہ ہو اور اگر وہ احتیاط رکھیں تو یہ ان کے لیے بہتر ہے۔
یہاں تخفیف کی علت صاف بیان کر دی گئی ہے۔ نکاح کی امید باقی نہ رہنے سے ایسی عمر مراد ہے جس میں صنفی خواہشات فنا ہو جاتی ہیں اور کوئی کشش بھی باقی نہیں رہتی۔ تاہم مزید احتیاط کے طورپر یہ شرط لگا دی گئی کہ زینت کی نمائش مقصود نہ ہو۔ یعنی اگر صنفی خواہشات کی ایک چنگاری بھی سینہ میں باقی ہو تو دوپٹا وغیرہ اُتار کر بیٹھنا دُرُست نہیں۔ تخفیف صرف ان بوڑھیوں کے لیے ہے جنھیں سن رسیدگی نے لباس کی قیود سے بے پروا کر دیا ہو اور جن کی طرف بجز احترام کی نظروں کے اور کسی قسم کی نظریں اٹھنے کا کوئی امکان نہ ہو۔ ایسی عورتیں گھر میں بغیر دوپٹے اور اوڑھنی کے بھی رہ سکتی ہیں۔
(۴)استیذان
اس کے بعد دوسری حد یہ قائم کی گئی کہ گھر کے آدمیوں کو بلا اطلاع اچانک گھروں میں داخل ہونے سے منع کر دیا تاکہ عورتوں کو کسی ایسے حال میں نہ دیکھیں جس میں مردوں کو نہیں دیکھنا چاہیے۔
وَاِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَاْذِنُوْا كَـمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰ۭ ( النور 59:24)
اور جب تمھارے لڑکے سنِ بلوغ کو پہنچ جائیں تو چاہیے کہ وہ اسی طرح اجازت لے کر گھر میں آئیں جس طرح ان کے بڑے ان سے پہلے اجازت لے کر آتے تھے۔
یہاں بھی علتِ حکم پر روشنی ڈال دی گئی ہے۔ استیذان کی حد اسی وقت شروع ہوتی ہے جب کہ صنفی احساس پیدا ہو جائے۔ اس سے پہلے اجازت مانگنا ضروری نہیں۔
اس کے ساتھ غیر لوگوں کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہوں:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَاتَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَہْلِہَا۝۰ۭ (النور 27:24)
اے اہلِ ایمان! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک کہ اہلِ خانہ سے پوچھ نہ لو اور جب داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کرو۔
اصل مقصد اندرونِ خانہ اور بیرونِ خانہ کے درمیان حد بندی کرنا ہے تاکہ اپنی خانگی زندگی میں عورتیں اور مرد اجنبیوں کی نظروں سے محفوظ رہیں۔ اہلِ عرب ابتدا میں ان احکام کی علت کو نہ سمجھ سکے، اس لیے بسا اوقات وہ گھر کے باہر سے گھروں میں جھانک لیتے تھے۔ ایک مرتبہ خود آں حضرت a کے ساتھ بھی یہ واقعہ پیش آیا۔ آپ اپنے حجرے میں تشریف رکھتے تھے۔ ایک شخص نے تاب دان میں سے جھانکا۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’’اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تُو جھانک رہا ہے تو مَیں تیری آنکھ میں کوئی چیز چبھو دیتا۔ استیذان کا حکم تو نظروں سے بچانے ہی کے لیے دیا گیا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الاستیذان ،باب الاستیذان من اجل البصر، حدیث:5772)
اس کے بعد آپ نے اعلان فرمایا کہ ’’اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں بِلا اجازت دیکھے تو گھر والوں کو حق ہے کہ اس کی آنکھ پھوڑ دیں۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الاداب ، باب تحریم النظر فی بیت غیرہ، حدیث:4013)
پھر اجنبی مردوں کو حکم دیا گیا کہ کسی دوسرے کے گھر سے کوئی چیز مانگنا ہو تو گھر میں نہ چلے جائیں بلکہ باہر پردے کی اوٹ سے مانگیں:
وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔــلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَاۗءِ حِجَابٍ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ اَطْہَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِہِنَّ۝۰ۭ (الاحزاب 53:33)
اور جب تم عورتوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگو۔ اس میں تمھارے دلوں کے لیے بھی پاکیزگی ہے اور ان کے دلوں کے لیے بھی۔
یہاں بھی حد بندی کے مقصد پر ذٰلِكُمْ اَطْہَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِہِنَّ۝۰ۭ(الاحزاب 53:33) سے پوری روشنی ڈال دی گئی ہے۔ عورتوں اور مردوں کو صنفی میلانات اور تحریکات سے بچانا ہی اصل مقصود ہے اور یہ حدبندیاں اسی لیے کی جا رہی ہیں کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان خلا ملا اور بے تکلفی نہ ہونے پائے۔
یہ احکام صرف اجانب ہی کے لیے نہیں بلکہ گھر کے خدام کے لیے بھی ہیں۔ چنانچہ روایت میں آیا ہے کہ حضرت بلال یا حضرت انسؓ نے سیّدہ فاطمہؓ سے آپ کے کسی بچے کو مانگا تو آپ نے پردے کے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر دیا۔ حالانکہ یہ دونوں حضور نبی اکرم a کے خدامِ خاص تھے اور آپ کے پاس گھر والوں کی طرح رہتے تھے۔ (فتح القدیر)
(۵)تخلیہ اور لمس کی ممانعت
تیسری حد بندی یہ کی گئی کہ شوہر کے سوا کوئی مرد کسی عورت کے پاس نہ تخلیہ میں رہے اور نہ اس کے جسم کو مس کرے، خواہ وہ قریب ترین عزیز ہی کیوں نہ ہو:
عن عقبۃ بن عامر اَنَّ رَسُولَ اللہِ قَالَ اِیَّاکُمْ وَالدُّخُولَ عَلٰی النِّسَائِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْاَنْصَارِ یَارَسُولَ اللہِ اَفَرَأَیْتَ الْحَمْوَ قَالَ اَلْحَمْوُالْمَوتُ۔
(صحیح البخاری،کتاب النکاح، باب لا یدخلون رجل بامرائۃ الاذو محرم۔صحیح مسلم، باب تحریم الخلو بالاجنبیہ، حدیث: ۴۸۳۱)
عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ حضور اکرم a نے فرمایا: خبردار عورتوں کے پاس تنہائی میں نہ جائو۔ انصار میں سے ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ ؐ! دیور اور جیٹھ کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: ’’وہ موت ہے۔‘‘
لَاتَلِجُوْا عَلی الْمُغِیْبَاتِ فَإِنَّ الشَّیْطٰنَ یَجْرِی مِنْ اَحَدِکُمْ مَجْرَی الدَّمِ۔
(سنن الترمذی، کتاب الرضاع ، باب کراہیۃ الدخول علی المغیبات، حدیث ۱۰۹۲)
شوہروں کی غیر موجودگی میں عورتوں کے پاس نہ جائو کیوں کہ شیطان تم میں سے کسی کے اندر خون کی طرح گردش کر رہا ہے۔
عَنْ عَمْروا بْنِ عَاصٍ قَالَ نَھَانَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَدْخُلَ عَلٰی النِّسَائَ بِغَیرِ اِذْنِ اَزْوَاجِھِنَّ۔
(سنن ترمذی،کتاب الا ٔدب، باب فی النہی عن الدخول علی النساإلا باذن ازواجہن حدیث: ۲۷۰۳)
عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں عورتوں کے پاس ان کے شوہروں کی اجازت کے بغیر جانے سے منع فرما دیا۔
لَایَدْ خُلَنَّ رَجُلٌ بَعْدَ یَومِی ھَذَا عَلٰی مُغِیْبَۃِ اِلَّامَعَہَ رَجُلٌ اَوْاِثْنَانِ۔
(صحیح مسلم،کتاب السلام، باب تحریم الخلوۃ الاجنبیۃ حدیث۴۰۳۹)
آج کے بعد سے کوئی شخص کسی عورت کے پاس اس کے شوہر کے غیاب میں نہ جائے تاوقتیکہ اس کے ساتھ ایک دو آدمی اور نہ ہوں۔ایسے ہی احکام لمس کے متعلق بھی ہیں:
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم منَ مَسَّ کَفَّ اِمْرَأۃٍ لَیْسَ مِنْھَا بِسَبِیْلٍ وَضَعَ عَلٰی کَفَّہِ جَمْرَۃً یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ (نصب الرایۃ، ج۸،ص۱۰۹)
حضور اکرم a نے فرمایا جو شخص کسی عورت کا ہاتھ چھوئے گا جس کے ساتھ اس کا جائز تعلق نہ ہو، اس ہتھیلی پر قیامت کے روز انگارا رکھا جائے گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی اکرم a عورتوں سے صرف زبانی اقرار لے کر بیعت لیا کرتے تھے، ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں نہ لیتے تھے۔ آپ نے کبھی ایسی عورت کے ہاتھ کو مس نہیں کیا جو آپ کے نکاح میں نہ ہو۔
(صحیح البخاری،کتاب الا ٔحکام، باب بیعۃ النسا۔صحیح مسلم،کتاب الامارۃ، باب کیفیۃ بیعۃ النسائ،حدیث:۶۶۷۴ )
امیمہ بن رقیقہ کا بیان ہے کہ میں چند عورتوں کے ساتھ حضور اکرم a سے بیعت کرنے حاضر ہوئی۔ آپ ؐ نے ہم سے اقرار لیا کہ شرک، چوری، زِنا، بہتان تراشی و افترا پردازی، اور نبی کی نافرمانی سے احتراز کرنا۔ جب اقرار ہو چکا تو ہم نے عرض کیا کہ تشریف لائیے تاکہ ہم آپ ؐ سے بیعت کریں۔ آپ ؐ نے فرمایا۔ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، صرف زبانی اقرار کافی ہے۔ (سنن النسائی ،کتاب البیعۃ، باب بیعۃ النسا، حدیث۴۱۱۰)
یہ احکام بھی صرف جوان عورتوں کے لیے ہیں۔ سِن رسیدہ عورتوں کے ساتھ خلوت میں بیٹھنا جائز ہے اور انھیں چھونا بھی ممنوع نہیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ کے متعلق منقول ہے کہ وہ ایک قبیلہ میں جاتے تھے جہاں انھوں نے دودھ پیا تھا اور آپ اس قبیلہ کی بوڑھی عورتوں سے مصافحہ کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ کے متعلق یہ روایت ہے کہ وہ ایک بوڑھی عورت سے پائوں اور سر دبوا لیا کرتے تھے۔ یہ امتیاز جو بوڑھی اور جوان عورتوں کے درمیان کیا گیا ہے، خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دراصل دونوں صنفوں کے درمیان ایسے اختلاط کو روکنا مقصود ہے جو فتنے کا سبب بن سکتا ہے۔
(۶)محرموں اور غیر محرموں کے درمیان فرق
یہ تو وہ احکام تھے جن میں شوہر کے سوا تمام مرد شامل ہیں خواہ وہ محرم ہوں یا غیر محرم۔ عورت ان میں سے کسی کے سامنے اپنا ستر، یعنی چہرے اور ہاتھ کے سوا جسم کا کوئی حصہ نہیں کھول سکتی۔ بالکل اسی طرح جس طرح مرد کسی کے سامنے اپنا ستر یعنی ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ نہیں کھول سکتا۔ سب مردوں کو گھروں میں اجازت لے کر داخل ہونا چاہیے اور ان میں سے کسی کا عورت کے پاس خلوت میں بیٹھنا یا اس کے جسم کو ہاتھ لگانا جائز نہیں۔{ FR 6837 }
اس کے بعد محرموں اور غیر محرموں کے درمیان تفریق کی جاتی ہے۔ قرآن اور حدیث میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ آزادی اور بے تکلفی کے کون سے مدارج ایسے ہیں جو صرف محرم مردوں کے سامنے برتے جا سکتے ہیں اور غیر محرم مردوں کے سامنے برتنے جائز نہیں ہیں۔ یہی چیز ہے جسے عرفِ عام میں پردہ یا حجاب سے تعبیرکیا جاتا ہے۔

۱۱ ۔پردہ کے احکام

قرآن مجید کی جن آیات میں پردہ کے احکام بیان ہوئے ہیں وہ حسبِ ذیل ہیں:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ۝۰ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَہُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَo وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰي جُيُوْبِہِنَّ۝۰۠ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اٰبَاۗىِٕہِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اَبْنَاۗىِٕہِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِہِنَّ اَوْ نِسَاۗىِٕہِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْہَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ۝۰۠ وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِہِنَّ۝۰ۭ (النور 30-31:24)
اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے پاکیزگی کا طریقہ ہے۔ یقینا اللہ جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اور مومن عورتوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اوراپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس زینت کے جو خود ظاہر ہو جائے اور وہ اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بکل مار لیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر ان لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، خسر، بیٹے، سوتیلے بیٹے، بھائی، بھتیجے، بھانجے، اپنی عورتیں، اپنے غلام، وہ مرد خدمت گار جو عورتوں سے کچھ مطلب نہیں رکھتے۔ وہ لڑکے جو ابھی عورتوں کی پردہ کی باتوں سے آگاہ نہیں ہوئے ہیں۔ (نیز انھیں حکم دو کہ) وہ چلتے وقت اپنے پائوں زمین پر اس طرح نہ مارتی چلیں کہ جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہے(آواز کے ذریعہ) اس کا اظہار ہو۔
يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاہِلِيَّۃِ الْاُوْلٰى (الاحزاب 32-33:33)
اے نبیؐ کی بیبیو! تم کچھ عام عورتوں کی طرح تو ہو نہیں۔ اگر تمھیں پرہیز گاری منظور ہے تو دبی زبان سے بات نہ کرو کہ جس شخص کے دل میں کوئی خرابی ہے وہ تم سے کچھ توقعات وابستہ کر بیٹھے۔ بات سیدھی سادی طرح کرو اور اپنے گھروں میں جمی بیٹھی رہو اور اگلے زمانہ جاہلیت کے سے بنائو سنگار نہ دکھاتی پھرو۔
يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ۝۰ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ۝۰ۭ (الاحزاب 59:33)
اے نبی ؐ! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگٹ ڈال لیا کریں۔ اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہچانی جائیں گی اور انھیں ستایا نہ جائے گا۔
ان آیات پر غور کیجیے۔ مردوں کو تو صرف اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ اپنی نگاہیں پست رکھیں اور فواحش سے اپنے اخلاق کی حفاظت کریں۔ مگر عورتوں کو مردوں کی طرح ان دونوں چیزوں کا حکم بھی دیا گیا ہے اور پھر معاشرت اور برتائو کے بارے میں چند مزید ہدایتیں بھی دی گئی ہیں۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ان کے اخلاق کی حفاظت کے لیے صرف غض بصر اور حفظ فروج کی کوشش ہی کافی نہیں ہے بلکہ کچھ اور ضوابط کی بھی ضرورت ہے۔ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ان مجمل ہدایات کو نبی اکرم a اور آپؐ کے صحابہ نے اسلامی معاشرت میں کس طرح نافذ کیا ہے اور ان کے اقوال اور اعمال سے ان ہدایات کی معنوی اور عملی تفصیلات پر کیا روشنی پڑتی ہے۔
۱۔ غضِ بصر
سب سے پہلا جو حکم مردوں اور عورتوں کو دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ غض بصر کرو۔ عمومًا اس لفظ کا ترجمہ ’’نظریں نیچی رکھو‘‘ یا ’’نگاہیں پست رکھو‘‘ کیا جاتا ہے مگر اس سے پورا مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ حکمِ الٰہی کا اصل مقصد یہ نہیں ہے کہ لوگ ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہیں اور کبھی اوپر نظر ہی نہ اٹھائیں۔ مدعا دراصل یہ ہے کہ اس چیز سے پرہیز کرو جسے حدیث میں آنکھوں کا زنا کہا گیا ہے۔ اجنبی عورتوں کے حسن اور ان کی زینت کی دید سے لذت اندوز ہونا مردوں کے لیے اور اجنبی مردوں کو مطمح نظر بنانا عورتوں کے لیے فتنے کا موجب ہے۔ فساد کی ابتدا طبعًا و عادتًا یہیں سے ہوتی ہے۔ اس لیے سب سے پہلے اسی دروازے کو بند کیا گیا ہے اور یہی ’’غضِ بصر‘‘ کی مراد ہے۔ اردو زبان میں ہم اس لفظ کا مفہوم ’’نظر بچانے‘‘ سے بخوبی ادا کر سکتے ہیں۔
یہ ظاہر ہے کہ جب انسان آنکھیںکھول کر دنیا میں رہے گا تو سب ہی چیزوں پر اس کی نظر پڑے گی۔ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ کوئی مرد کسی عورت کو اور کوئی عورت کسی مرد کو کبھی دیکھے ہی نہیں۔ اس لیے شارع نے فرمایا کہ اچانک نظر پڑ جائے تو معاف ہے، البتہ جو چیز ممنوع ہے وہ یہ ہے کہ ایک نگاہ میں جہاں تمھیں حسن محسوس ہو وہاں دوبارہ نظر دوڑائو اور اسے گھورنے کی کوشش کرو۔
عَنْ جَرِیرٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ نَظْرَۃِ الْفُجْأَۃِ فَقَالَ اصْرِفْ بَصَرَکَ۔
(سنن ابی دائود، کتاب النکاح، باب مایومربہ من غض البصر، حدیث۱۸۳۶)
حضرت جریر ؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ a سے پوچھا کہ اچانک نظر پڑ جائے تو کیا کروں؟ آپؐ نے فرمایا کہ نظر پھیر لو۔
عَنْ بُرَیْدَۃَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہِ عَلَیہِ وَسَلَّمَ لِعَلّیٍ یَا عَلِیٌّ لَاتُتْبِعِ النَّظْرَۃَ النَّظْرَۃَ فَإِنَّ لَکَ الأُولٰی وَلَیْسَ لَکَ الآخِرَۃُ۔ (ایضاً، حدیث۱۸۳۷)
حضرت بریدہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا، اے علیؓ ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالو۔ پہلی نظر تمھیں معاف ہے مگر دوسری نظر کی اجازت نہیں۔
عَنِ النَیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ نَظَرَ اِلٰی مَحَاسِنِ إِمْرأَۃٍ أَجْنَبِیَّۃٍ عَنْ شَھْوَۃٍ صُبَّ فِی عَیْنَیْہِ الْاٰنُکَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ (نصب الرایۃ، ج۸،ص۱۰۸)
نبی اکرمؐ نے فرمایا جو شخص کسی اجنبی عورت کے محاسن پر شہوت کی نظر ڈالے گا تو قیامت کے روز اس کی آنکھوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔
مگر بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جن میں اجنبیہ کو دیکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ مثلاً کوئی مریضہ کسی طبیب کے زیرِ علاج ہو، یا کوئی عورت کسی مقدمہ میں قاضی کے سامنے بحیثیت گواہ یا بحیثیت فریق پیش ہو، یا کسی آتش زدہ مقام میں کوئی عورت گھر گئی ہو یا پانی میں ڈوب رہی ہو، یا اس کی جان یا آبرو کسی خطرے میں مبتلا ہو۔ ایسی صورتوں میں چہرہ تو درکنار حسبِ ضرورت ستر کو بھی دیکھا جا سکتا ہے، جسم کو ہاتھ بھی لگایا جا سکتا ہے، بلکہ ڈوبتی ہوئی یا جلتی ہوئی عورت کو گود میں اٹھا کر لانا بھی صرف جائز ہی نہیں، فرض ہے۔ شارع کا حکم یہ ہے کہ ایسی صورتوں میں جہاں تک ممکن ہو اپنی نیت کو پاک رکھو۔ لیکن اقتضائے بشریت سے اگر جذبات میں کوئی خفیف سی تحریک پیدا ہو جائے تب بھی کوئی گناہ نہیں، کیوں کہ ایسی نظر اور ایسے لمس کے لیے ضرورت داعی ہوئی ہے کہ فطرت کے مقتضیات کو بالکل روک دینے پر انسان قادر نہیں ہے۔{ FR 6838 }
اسی طرح اجنبی عورت کو نکاح کے لیے دیکھنا اور تفصیلی نظر کے ساتھ دیکھنا نہ صرف جائز ہے، بلکہ احادیث میں اس کا حکم وارد ہوا ہے اور خود نبی اکرم a نے اس غرض کے لیے عورت کو دیکھا ہے۔
عَن الْمُغِیرَۃِ ابنِ شُعْبَۃَ اَنَّہُ خَطَبَ أِمْرَأَۃً فَقَالَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ اُنْظُرْ إِلَیْھَا فَإِنَّہُ أَحْرٰی أَنْ یُؤْدَمَ بَیْنَکُمَا۔
(سنن ترمذی،کتاب النکاح، باب ما جاء فی النظر الی المخطوبۃحدیث:۱۰۰۷)
مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا۔ نبی اکرمa نے ان سے فرمایا کہ اسے دیکھ لو، کیوں کہ یہ تم دونوں کے درمیان محبت و اتفاق پیدا کرنے کے لیے مناسب تر ہو گا۔
عَنْ سَھْلِ ابْنِ سَعْدٍ أَنَّ إِمْرأَۃً جَائَ تْ إِلٰی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ یَارَسُوْلَ اللہِ جِئْتُ لِأَھَبَ لَکَ نَفْسِی فَنَظَرَ إِلَیْھَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَعَّدَ النَّظَرَ إِلَیْھَا۔
(صحیح البخاری،کتاب النکاح، باب النظر الی المراۃ قبل الترویج، حدیث ۴۷۳۱)
سہل ابن سعد سے روایت ہے کہ ایک عورت آں حضرت a کے پاس حاضر ہوئی اور بولی کہ مَیں اپنے آپ کو حضور اکرم a کے نکاح میں دینے کے لیے آئی ہوں اس پر رسول اللہa نے نظر اٹھائی اور اسے دیکھا۔
عَنْ اَبیِ ھُرَیْرَۃَ قَالَ کُنْتُ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ فَأَتَاہُ رَجُلٌ فَأَخْبَرَہُ أَنَّہُ تَزَوَّجَ إِمْرأَۃً مِنَ الْاَنْصَارِ فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ اَنَظَرْتَ إِلَیْھَا؟ قَالَ لَا۔ قَالَ فَاذْھَبْ فَانْظُرْ إِلَیْھَا فَإِنَّ فِی أَعْیُنِ الْاَنْصَارِ شَیْئًا۔
(صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب ندب النظر إلی وجہ المرأۃ، حدیث۲۵۵۲)
حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ مَیں نبی اکرم a کے پاس بیٹھا تھا۔ ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نے انصار میں سے ایک عورت کے ساتھ نکاح کا ارادہ کیا ہے۔ حضوراکرمa نے پوچھا کیا تو نے اسے دیکھا ہے؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ آپؐ نے فرمایا جا اور اسے دیکھ لے، کیوں کہ انصار کی آنکھوں میں عمومًا عیب ہوتا ہے۔
عَنْ جَابِرْ بنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ أَحَدُکُمْ الْمَرْأَۃَ فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ یَنْظُرَ إِلٰی مَا یَدْعُوہُ إِلٰی نِکَاحِھَا فَلْیَفْعَلْ۔
(سنن ابی دائود، کتاب النکاح، باب فی الرجل، ینظر الی المراۃ و ہویرید تزویجہا، حدیث۱۷۸۳)
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو نکاح کا پیغام دے تو حتی الامکان اسے دیکھ لینا چاہیے کہ آیا اس میں کوئی چیز ہے جو اسے اس عورت کے ساتھ نکاح کی رغبت دلانے والی ہو۔
ان مستثنیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شارع کا مقصد دیکھنے کو کلیۃً روک دینا نہیں ہے بلکہ دراصل فتنے کا سدباب مقصود ہے اور اس غرض کے لیے صرف ایسے دیکھنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے جس کی کوئی حاجت بھی نہ ہو۔ جس کا کوئی تمدنی فائدہ بھی نہ ہو اور جس میں جذباتِ شہوانی کو تحریک دینے کے اسباب بھی موجود ہوں۔
یہ حکم جس طرح مردوں کے لیے ہے اُسی طرح عورتوں کے لیے بھی ہے۔ چنانچہ حدیث میں حضرت اُمّ سلمہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ وہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا{ FR 6839 } آں حضرت کے پاس بیٹھی تھیں۔ اتنے میں حضرت ابن ام مکتوم آئے جو نابینا تھے۔ حضور اکرم a نے فرمایا ان سے پردہ کرو۔ حضرت ام سلمہ نے عرض کیا، کیا یہ نابینا نہیں ہیں؟ نہ وہ ہمیں دیکھیں گے، نہ ہمیں پہچانیں گے۔ حضور اکرمa نے جواب دیا، کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟ کیا تم انھیں نہیں دیکھتی ہو؟{ FR 6840 }
مگر عورت کے مردوں کو دیکھنے اور مرد کے عورتوں کو دیکھنے میں نفسیات کے اعتبار سے ایک نازک فرق ہے۔ مرد کی فطرت میں اقدام ہے، کسی چیز کو پسند کرنے کے بعد وہ اس کے حصول کی سعی میں پیش قدمی کرتا ہے۔ مگر عورت کی فطرت میں تمانع اور فرار ہے، جب تک کہ اس کی فطرت بالکل ہی مسخ نہ ہو جائے۔ وہ کبھی اس قدر دراز دست، جری اور بے باک نہیں ہو سکتی کہ کسی کو پسند کرنے کے بعد اس کی طرف پیش قدمی کرے۔ شارع نے اس فرق کو ملحوظ رکھ کر عورتوں کے لیے غیر مردوں کو دیکھنے کے معاملہ میں وہ سختی نہیں کی ہے جو مردوں کے لیے غیر عورتوں کو دیکھنے کے معاملہ میں کی ہے۔ چنانچہ احادیث میں حضرت عائشہؓکی یہ روایت مشہور ہے کہ آں حضرت a نے عید کے موقع پر انھیں حبشیوں کا تماشا دکھایا تھا{ FR 6841 }۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا مردوں کو دیکھنا مطلقًا ممنوع نہیں ہے، بلکہ ایک مجلس میں مل کر بیٹھنا اور نظر جما کر دیکھنا مکروہ ہے اور ایسی نظر بھی جائز نہیں جس میں فتنے کا احتمال ہو۔ وہی نابینا صحابی، ابن مکتوم جن سے نبی اکرم a کو پردہ کرنے کا حکم دیا تھا، ایک دوسرے موقع پر حضور اکرمa انھی کے گھر میں فاطمہ بن قیس کو عدت بسر کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ { FR 6842 }قاضی ابوبکر ابن العربی نے اپنی احکام القرآن میں اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے کہ فاطمہ بنت قیس ام شریک کے گھر میں عدت گزارنا چاہتی تھیں۔ حضوراکرمa نے فرمایا کہ اس گھر میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں، تم ابن مکتوم کے ہاں رہو کیوں کہ وہ ایک اندھا آدمی ہے اور اس کے ہاں تم بے پردہ رہ سکتی ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل مقصد فتنے کے احتمالات کو کم کرنا ہے۔ جہاں فتنے کا احتمال زیادہ تھا وہاں رہنے سے منع فرما دیا۔ جہاں احتمال کم تھا وہاں رہنے کی اجازت دے دی، کیوں کہ بہرحال اس عورت کو کہیں رہنا ضرور تھا۔ لیکن جہاں کوئی حقیقی ضرورت نہ تھی وہاں خواتین کو ایک غیر مرد کے ساتھ ایک مجلس میں جمع ہونے اور رُو برُو اسے دیکھنے سے روک دیا۔
یہ سب مراتب حکمت پر مبنی ہیں اور جو شخص مغزِ شریعت تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہو وہ بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ غضِ بصر کے احکام کن مصالح پر مبنی ہیں اور ان مصالح کے لحاظ سے ان احکام میں شدت اور تخفیف کا مدار کن امور پر ہے۔ شارع کا اصل مقصد تمھیں نظر بازی سے روکنا ہے، ورنہ اسے تمھاری آنکھوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ یہ آنکھیں ابتدا میں بڑی معصوم نگاہوں سے دیکھتی ہیں۔ نفس کا یہ شیطان ان کی تائید میں بڑے بڑے پرفریب دلائل پیش کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ یہ ذوقِ جمال ہے جو فطرت نے تم میں ودیعت کیا ہے۔ جمالِ فطرت کے دوسرے مظاہر و تجلیات کو جب تم دیکھتے ہو اور ان سے بہت ہی پاک لطف اٹھاتے ہو تو جمالِ انسانی کو بھی دیکھو اور روحانی لطف اٹھائو مگر اندر ہی اندر یہ شیطان لطف اندوزی کی لے کو بڑھاتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ ذوق جمال ترقی کرکے شوق وصال بن جاتا ہے۔ کون ہے جو اس حقیقت سے انکار کی جرات رکھتا ہو کہ دنیا میں جس قدر بدکاری اب تک ہوئی ہے اور اب ہو رہی ہے اس کا پہلا اور سب سے بڑا محرک یہی آنکھوں کا فتنہ ہے؟ کون یہ دعوٰی کر سکتا ہے کہ اپنی صنف کے مقابل کے کسی حسین اور جوان فرد کو دیکھ کر اس میں وہی کیفیات پیدا ہوتی ہیں جو ایک خوب صورت پھول کو دیکھ کر ہوتی ہیں؟ اگر دونوں قسم کی کیفیات میں فرق ہے اور ایک کے برخلاف دوسری کیفیت کم و بیش شہوانی کیفیت ہے تو پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ ایک ذوقِ جمال کے لیے بھی وہی آزادی ہونی چاہیے جو دوسرے ذوقِ جمال کے لیے ہے؟ شارع تمھارے ذوق جمال کو مٹانا تو نہیں چاہتا وہ کہتا ہے کہ تم اپنی پسند کے مطابق اپنا ایک جوڑا انتخاب کر لو۔ اور جمال کا جتنا ذوق تم میں ہے اس کا مرکز صرف اسی ایک کو بنا لو۔ پھر جتنا چاہو اس سے لطف اٹھائو۔ اس مرکز سے ہٹ کر دیدہ بازی کرو گے تو فواحش میں مبتلا ہو جائو گے۔ اگر ضبطِ نفس یا دوسرے موانع کی بنا پر آوارگی عمل میں مبتلا نہ بھی ہوئے تو وہ آوارگی خیال سے کبھی نہ بچ سکو گے۔ تمھاری بہت سی قوت آنکھوں کے راستے ضائع ہو گی۔ بہت سے ناکردہ گناہوں کی حسرت تمھارے دل کوناپاک کرے گی۔ بار بار فریبِ محبت میں گرفتار ہو گے اور بہت سی راتیں بیداری کے خواب دیکھنے میں جاگ جاگ کر ضائع کرو گے۔ بہت سے حسین ناگوں اور ناگنوں سے ڈسے جائو گے۔ تمھاری بہت سی قوتِ حیات دل کی دھڑکن اور خون کے ہیجان میں ضائع ہو جائے گی۔ یہ نقصان کیا کچھ کم ہے؟ اور یہ سب اپنے مرکز دید سے ہٹ کر دیکھنے ہی کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا اپنی آنکھوں کو قابو میں رکھو۔ بغیر حاجت کے دیکھنا اور ایسا دیکھنا جو فتنے کا سبب بن سکتا ہو، قابلِ عذر ہے۔ اگر دیکھنے کی حقیقی ضرورت ہو یا اس کا کوئی تمدنی فائدہ ہو تو احتمالِ فتنہ کے باوجود دیکھنا جائز ہے اور اگر حاجت نہ ہو اور فتنے کا بھی احتمال نہ ہو تو عورت کے لیے مرد کو دیکھنا جائز ہے، مگر مرد کے لیے عورت کو دیکھنا جائز نہیں، الا یہ کہ اچانک نظر پڑ جائے۔
۲۔ اظہارِ زینت کی ممانعت اور اس کے حدود
غضِ بصر کا حکم عورت اور مرد دونوں کے لیے تھا۔ اس کے چند احکام خاص عورتوں کے لیے ہیں۔ ان میں سے پہلا حکم یہ ہے کہ ایک محدود دائرے کے باہر اپنی ’’زینت‘‘ کے اظہار سے پرہیز کرو۔
اس حکم کے مقاصد اور اس کی تفصیلات پر غور کرنے سے پہلے ان احکام کو پھر ایک مرتبہ ذہن میں تازہ کر لیجیے جو اس سے پہلے لباس اور ستر کے باب میں بیان ہو چکے ہیں۔ چہرے اور ہاتھوں کے سوا عورت کا پورا جسم ستر ہے جسے باپ، چچا، بھائی اور بیٹے تک کے سامنے کھولنا جائز نہیں۔ حتّٰی کہ عورت پر بھی عورت کے ستر کا کھلنا مکروہ ہے{ FR 6843 }۔ اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھنے کے بعد اظہارِ زینت کے حدود ملاحظہ کیجیے:
۱۔ عورت کو اجازت دی گئی ہے کہ اپنی زینت کو ان رشتہ داروں کے سامنے ظاہر کرے: شوہر، باپ، خسر، بیٹے، سوتیلے بیٹے، بھائی، بھتیجے اور بھانجے۔
۲۔ اسے یہ بھی اجازت دی گئی ہے کہ اپنے غلاموں کے سامنے اظہارِ زینت کرے (نہ کہ دوسروں کے غلاموں کے سامنے)
۳۔ وہ ایسے مردوں کے سامنے بھی زینت کے ساتھ آ سکتی ہے جو تابع یعنی زیر دست اور ماتحت ہوں اور عورتوں کی طرف میلان و رغبت رکھنے والے مردوں میں سے نہ ہوں۔{ FR 6844 }
۴۔ عورت ایسے بچوں کے سامنے بھی اظہارِ زینت کر سکتی ہے جن میں ابھی صنفی احساسات پیدا نہ ہوئے ہوں۔ قرآن میں اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْہَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ۝۰۠ (النور 31:24 ) فرمایا گیا ہے جس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ’’ایسے بچے جو ابھی عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے آگاہ نہ ہوئے ہوں۔
۵۔ اپنے میل جول کی عورتوں کے سامنے بھی عورت کا زینت کے ساتھ آنا جائز ہے۔ قرآن میں النسا (عورتوں) کے لیے الفاظ نہیں کہے گئے بلکہ نسائھن (اپنی عورتوں) کے الفاظ کہے گئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوا کہ شریف عورتیں، یا اپنے کنبے یا رشتے، یا اپنے طبقے کی عورتیں مراد ہیں۔ ان کے ماسوا غیر عورتیں، جن میں ہر قسم کی مجہو ل الحال، اور مشتبہ چال چلن والیاں، اور آوارہ و بدنام سب ہی شامل ہوتی ہیں، اس اجازت سے خارج ہیں کیوں کہ وہ بھی فتنہ کا سبب بن سکتی ہیں۔ اسی بنا پر جب شام کے علاقہ میں مسلمان گئے اور ان کی خواتین وہاں کی نصرانی اور یہودی عورتوں کے ساتھ بے تکلف ملنے لگیں تو حضرت عمرؓ نے امیرِ شام حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کو لکھا کہ مسلمان عورتوں کو اہلِ کتاب کی عورتوں کے ساتھ حماموں میں جانے سے منع کر دو۔ (ابن جریر۔ تفسیر آیہ مذکورہ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے تصریح کی ہے کہ ’’مسلمان عورت کفار او ر اہل الذمہ کی عورتوں کے سامنے اس سے زیادہ ظاہر نہیں کر سکتی جو اجنبی مردوں کے سامنے ظاہر کر سکتی ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر۔آیہ مذکورہ)
اس سے کوئی مذہبی امتیاز مقصود نہ تھا، بلکہ مسلمان عورتوں کو ایسی عورتوں کے اثرات سے بچانا مقصود تھا جن کے اخلاق اور تہذیب کا صحیح حال معلوم نہ ہو، یا جس حد تک معلوم ہو وہ اسلامی نقطہ نظر سے قابلِ اعتراض ہو۔ رہیں وہ غیر مسلم عورتیں جو شریف، باحیا اور نیک خصلت ہوں تو وہ نِسَآئِھِنَّ ہی میں شمار ہوں گی۔
ان حدود پر غور کرنے سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں:
ایک یہ کہ جس زینت کے اظہار کی اجازت اس محدود حلقہ میں دی گئی ہے وہ ستر عورت کے ماسوا ہے۔ اس سے مراد زیور پہننا، اچھے ملبوسات سے آراستہ ہونا، سرمہ، حنا اوربالوں کی آرائش اوردوسری وہ آرائشیں ہیں جو عورتیں اپنی انوثت کے اقتضا سے اپنے گھر میں کرنے کی عادی ہوتی ہیں۔
دوسرے یہ کہ اس قسم کی آرائشوں کے اظہار کی اجازت، یا تو ان مردوں کے سامنے دی گئی ہے جنھیں ابدی حرمت نے عورتوں کے لیے حرام کر دیا ہے۔ یا ان لوگوں کے سامنے جن کے اندر صنفی میلانات نہیں ہیں، یا ان کے سامنے جو فتنے کا سبب نہ بن سکتے ہوں۔ چنانچہ عورتوں کے لیے نِسَآئِھِنَّ کی قید ہے۔ تابعین] نوکر وغیرہ[ کے لیے غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ کی ، اور بچوں کے لیے لَمْ یَظْھَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآئِ کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ شارع کا منشا عورتوں کے اظہارِ زینت کو ایسے حلقے میں محدود کرنا ہے جس میں ان کے حسن اور ان کی آرائش سے کسی قسم کے ناجائز جذبات پیدا ہونے اور صنفی انتشار کے اسباب فراہم ہو جانے کا اندیشہ نہیں ہے۔
اس حلقے کے باہر جتنے مرد ہیں ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ ان کے سامنے اپنی زینت کا اظہار نہ کرو، بلکہ چلنے میں پائوں بھی اس طرح نہ مارو کہ چھپی ہوئی زینت کا حال آواز سے ظاہر ہو اور اس ذریعہ سے توجہات تمھاری طرف منعطف ہوں۔ اس فرمان میں جس زینت کو اجانب سے چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ وہی زینت ہے جسے ظاہر کرنے کی اجازت اوپر کے محدود حلقہ میں دی گئی ہے۔ مقصود بالکل واضح ہے۔ عورتیں اگر بن ٹھن کر ایسے لوگوں کے سامنے آئیں گی جو صنفی خواہشات رکھتے ہیں اور جن کے داعیات نفس کو ابدی حرمت نے پاکیزہ اور معصوم جذبات سے مبدل بھی نہیں کیا ہے، تو لامحالہ اس کے اثرات وہی ہوں گے جو مقتضائے بشریت ہیں۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ ایسے اظہارِ زینت سے ہر عورت فاحشہ ہی ہو کر رہے گی اور ہر مرد بالفعل بدکار ہی بن کر رہے گا۔ مگر اس سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ زینت و آرائش کے ساتھ عورتوں کے علانیہ پھرنے اور محفلوں میں شریک ہونے سے بے شمار جلی اور خفی، نفسانی اور مادی نقصانات رونما ہوتے ہیں۔ آج یورپ اور امریکا کی عورتیں اپنی اور اپنے شوہروں کی آمدنی کا بیش تر حصہ اپنی آرائش پرخرچ کر رہی ہیں اور روز بروز ان کا یہ خرچ اتنا بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ ان کے معاشی وسائل اس کے تحمل کی قوت نہیں رکھتے{ FR 6845 }۔ کیا یہ جنون انھی پُرشوق نگاہوں نے پیدا نہیں کیا ہے جو بازاروں، دفتروں اور سوسائٹی کے اجتماعات میں آراستہ خواتین کا استقبال کرتی ہیں؟ پھر غور کیجیے کہ آخر عورتوں کی آرائش کا اس قدر شوق پیدا ہونے اور طوفان کی طرح بڑھنے کا سبب کیا ہے؟ یہی ناکہ وہ مردوں سے خراجِ تحسین وصول کرنا اور ان کی نظروں میں کھب جانا چاہتی ہیں{ FR 6846 }۔
یہ کس لیے؟ کیا یہ بالکل ہی معصوم جذبہ ہے؟ کیا اس کی تہ میں وہ صنفی خواہشات چھپی ہوئی نہیں ہیں جو اپنے فطری دائرے سے نکل کر پھیل جانا چاہتی ہیں اور جن کے مطالبات کا جواب دینے کے لیے دوسری جانب بھی ویسی خواہشات موجود ہیں؟ اگر آپ اس سے انکار کریں گے تو شاید کل آپ یہ دعوٰی کرنے میں بھی تامل نہ کریں کہ جوالا مکھی پہاڑ پر جو دھواں نظرآتا ہے اس کی تہ میں کوئی لاوا باہر نکلنے کے لیے بے تاب نہیں ہے۔ آپ اپنے عمل کے مختار ہیں جو چاہے کیجیے۔ مگر حقائق سے انکار نہ کیجیے۔ یہ حقیقتیں اب کچھ مستور بھی نہیں رہیں سامنے آ چکی ہیں اور اپنے آفتاب سے زیادہ روشن نتائج کے ساتھ آ چکی ہیں۔ آپ ان نتائج کو دانستہ یا نادانستہ قبول کرتے ہیں، مگر اسلام انھیں ٹھیک اسی مقام پر روک دینا چاہتا ہے جہاں سے ان کے ظہور کی ابتدا ہوتی ہے۔ کیوں کہ اس کی نظرِ اظہار زینت کے بظاہر معصوم آغاز پر نہیں بلکہ اس نہایت غیر معصوم انجام پر ہے جو تمام سوسائٹی پر قیامت کی سی تاریکی لے کر پھیل جاتا ہے:
مَثَلُ الرَّافِلَۃِ فِی الزِّیْنَۃِ فِی غَیْرِ أَھْلِھَا کَمَثَلِ ظُلْمَۃِ یَومَ الْقِیٰمَۃِ لَانُوْرَلَھَا۔
(سنن ترمذی،کتاب الرضاع، باب ما جاء فی کراہیۃ خروج النسا فی الزینتہ، حدیث۱۰۸۷)
اجنبیوں میں زینت کے ساتھ ناز و انداز سے چلنے والی عورت ایسی ہے جیسے روزِ قیامت کی تاریکی کہ اس میں کوئی نور نہیں۔
قرآن میں جہاں اجنبیوں کے سامنے زینت کا اظہار کرنے کی ممانعت ہے۔ وہاں ایک استثنا بھی ہے۔ الا ماظھر منھا جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی زینت کے ظاہر ہونے میں کوئی مضایقہ نہیں ہے جو خود ظاہر ہو جائے۔ لوگوں نے اس استثنا سے بہت کچھ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ ان الفاظ میں کچھ زیادہ فائدہ اٹھانے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ شارع صرف یہ کہتا ہے کہ تم اپنے ارادہ سے غیروں کے سامنے اپنی زینت ظاہر نہ کرو، لیکن جو زینت خود ظاہر ہوجائے یا اضطرارًا ظاہر ہی رہنے والی ہو اس کی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ مطلب صاف ہے تمھاری نیت اظہار زینت کی نہ ہونی چاہیے۔ تم میں یہ جذبہ، یہ ارادہ، ہرگز نہ ہونا چاہیے۔ کہ اپنی آرائش غیروں کو دکھائو اور کچھ نہیں تو چھپے ہوئے زیوروں کی جھنکار ہی سنا کر ان کی توجہ اپنی طرف مائل کرو۔ تمھیں اپنی طرف سے تو اخفائے زینت کی اختیاری کوشش کرنی چاہیے۔ پھر اگر کوئی چیز اضطرارًا کھل جائے تو اس پر خدا تم سے کوئی مواخذہ نہ کرے گا۔ تم جن کپڑوں میں زینت کو چھپائو گی وہ تو بہرحال ظاہر ہی ہوں گے۔ تمھارا قدوقامت، تناسب جسمانی، ڈیل ڈول تو ان میں محسوس ہو گا۔ کسی ضرورت یا کام کاج کے لیے کبھی ہاتھ یا چہرے کا کوئی حصہ تو کھولنا ہی پڑے گا۔ کوئی حرج نہیں اگر ایسا ہو۔ تمھاری نیت اس کے اظہار کی نہیں۔ تم اس کے اظہار پرمجبور ہو۔ اگر ان چیزوں سے بھی کوئی کمینہ لذت لیتا ہے تو لیا کرے۔ اپنی بدنیتی کی سزا خود بھگتے گا۔ جتنی ذمہ داری تمدن اور اخلاق کی خاطر تم پر ڈالی گئی تھی۔ اسے تم نے اپنی حد تک پورا کر دیا۔
یہ ہے صحیح مفہوم اس آیت کا۔ مفسرین کے درمیان اس کے مفہوم میں جتنے اختلافات ہیں، ان سب پر جب آپ غور کریں گے تو معلوم ہو گا کہ تمام اختلافات کے باوجود ان کے اقوال کا مدعا وہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہے
ابن مسعود، ابراہیم نخعی اور حسن بصری کے نزدیک زینت ظاہرہ سے مراد وہ کپڑے ہیں جن میں زینت باطنہ کو چھپایا جاتا ہے، مثلاً برقع یا چادر۔
ابن عباس، مجاہد، عطا ابن عمر، انس، ضحاک، سعید بن جبیر، اوزاعی اور عامہ حنفیہ کے نزدیک اس سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں اوروہ اسباب زینت بھی اس استثنا میں داخل ہیں جو چہرے اور ہاتھ میں عادتًا ہوتے ہیں، مثلاً ہاتھ کی حنا، انگوٹھی اور آنکھوں کا سرمہ وغیرہ۔
سعید بن المسیب کے نزدیک صرف چہرہ مستثنیٰ ہے اور ایک قول حسن بصری سے بھی ان کی تائید میں منقول ہے۔
حضرت عائشہؓ چہرہ چھپانے کی طرف مائل ہیں۔ ان کے نزدیک زینت ظاہرہ سے مراد ہاتھ اور چوڑیاں، کنگن اور انگوٹھیاں ہیں۔
مسور بن محزمہ اور قتادہ ہاتھوں کو ان کی زینت سمیت کھولنے کی اجازت دیتے ہیں مگر چہرے کے باب میں ان کے اقوال سے ایسا متبادر ہوتا ہے کہ پورے چہرے کی بجائے وہ صرف آنکھیں کھولنے کو جائز رکھتے ہیں۔{ FR 6847 }
ان اختلافات کے منشا پر غور کیجیے۔ ان سب مفسرین نے الا ماظھر منھا سے یہی سمجھا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی زینت کو ظاہر کرنے کی اجازت دیتا ہے جو اضطرارًا ظاہر ہو جائے یا جسے ظاہر کرنے کی ضرورت پیش آ جائے۔ چہرے اور ہاتھوں کی نمائش کرنا یا انھیں مطمح انظار بنانا ان میں سے کسی کا بھی مقصود نہیں۔ ہر ایک نے اپنے فہم اور عورتوں کو ضروریات کے لحاظ سے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ ضرورت کس حد تک کسی چیز کو بے حجاب کرنے کے لیے داعی ہوتی ہے، یا کیا چیز اضطرارًا کھل سکتی ہے، یا عادتًا کھلتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ اِلاَّ مَا ظَھَرَ مِنْھَاکو ان میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی مقید نہ کیجیے۔ ایک مومن عورت جو خدا اور رسولؐ کے احکام کی سچے دل سے پابند رہنا چاہتی ہے، اور جسے فتنے میں مبتلا ہونا منظور نہیں ہے، وہ خود اپنے حالات اور ضروریات کے لحاظ سے فیصلہ کر سکتی ہے کہ چہرہ اور ہاتھ کھولے یا نہیں، کب کھولے اور کب نہ کھولے، کس حد تک کھولے اور کس حد تک چھپائے۔ اس باب میں قطعی احکام نہ شارع نے دیے ہیں، نہ اختلاف احوال و ضروریات کو دیکھتے ہوئے یہ مقتضائے حکمت ہے کہ قطعی احکام وضع کیے جائیں۔ جو عورت اپنی حاجات کے لیے باہر جانے اور کام کاج کرنے پر مجبور ہے۔ اسے کسی وقت ہاتھ بھی کھولنے کی ضرورت پیش آ ئے گی اور چہرہ بھی۔ ایسی عورت کے لیے بلحاظ ضرورت اجازت ہے اور جس عورت کا حال یہ نہیں ہے اس کے لیے بلا ضرورت قصدًا کھولنا درست نہیں۔ پس شارع کا مقصد یہ ہے کہ اپنا حسن دکھانے کے لیے اگر کوئی چیز بے حجاب کی جائے تو یہ گناہ ہے۔ خود بخود اگر کچھ ظاہر ہو جائے تو کوئی گناہ نہیں۔ حقیقی ضرورت اگر کچھ کھولنے پر مجبور کرے تو اس کا کھولنا جائز ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ اختلاف احوال سے قطع نظر کرکے نفس چہرہ کا کیا حکم ہے؟ شارع اس کے کھولنے کو پسند کرتا ہے یا ناپسند؟ اس کے اظہار کی اجازت محض ناگزیر ضرورت کے طور پر دی گئی ہے یا اس کے نزدیک چہرہ غیروں سے چھپانے کی چیز ہی نہیں ہے؟ ان سوالات پر سورۂ احزاب والی آیت میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
۳۔ چہرے کا حکم
سورۂ احزاب کی جس آیت کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:
يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ۝۰ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ۝۰ۭ (الاحزاب 59:33)
اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگٹ ڈال لیا کریں۔ اس تدبیر سے یہ بات زیادہ متوقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی اور انھیں ستایا نہیں جائے گا۔
یہ آیت خاص چہرے کو چھپانے کے لیے ہے۔ جلابیب جمع ہے جلباب کی جس کے معنی چادر کے ہیں۔ ادناء کے معنی ارخاء یعنی لٹکانے کے ہیں۔ یدنین علیھن من جلابیبھن کا لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’اپنے اوپر اپنی چادروں میں سے ایک حصہ لٹکا لیا کریں۔ یہی مفہوم گھونگٹ ڈالنے کا ہے۔ مگر اصل مقصد وہ خاص وضع نہیں ہے۔ جسے عرفِ عام میں گھونگٹ سے تعبیر کیا جاتا ہے بلکہ چہرے کو چھپانا مقصود ہے، خواہ گھونگٹ سے چھپایا جائے یا نقاب سے یا کسی اور طریقے سے۔ اس کا فائدہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب مسلمان عورتیں اس طرح مستور ہو کر باہر نکلیں گی تو لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ شریف عورتیں ہیں، بے حیا نہیں ہیں، اس لیے کوئی ان سے تعرض نہ کرے گا۔
قرآن مجید کے تمام مفسرین نے اس آیت کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت سے نکلیں تو سر کے اوپر سے اپنی چادروں کے دامن لٹکا کر اپنے چہروں کو ڈھانک لیا کریں۔ (تفسیر ابن جریر، جلد ۲۲۔ صفحہ ۲۹)
امام محمد بن سیرین نے حضرت عبیدہ بن سفیان بن الحارث الحضرمی سے دریافت کیا کہ اس حکم پر عمل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ انھوں نے چادر اوڑھ کر بتایا اور اپنی پیشانی، ناک اور آنکھ کو چھپا کر صرف ایک آنکھ کھلی رکھی۔ (تفسیر ابن جریر، حوالہ مذکور۔ ا حکام القرآن جلد سوم، صفحہ ۴۵۷)
علامہ ابن جریر طبری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
اے نبی ؐ! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ جب اپنے گھروں سے کسی حاجت کے لیے نکلیں تو لونڈیوں کے سے لباس نہ پہنیں کہ سر اور چہرے کھلے ہوئے ہوں بلکہ وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگٹ ڈال لیا کریں تاکہ کوئی فاسق ان سے تعرض نہ کر سکے اور سب جان لیں کہ وہ شریف عورتیں ہیں۔ (تفسیر ابن جریر، حوالہ مذکور)
علامہ ابو بکر جصاص لکھتے ہیں:
یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو ان عورت کو اجنبیوں سے چہرہ چھپانے کا حکم ہے اور اسے گھر سے نکلتے وقت پردہ داری اور عفت مابی کا اظہار کرنا چاہیے تاکہ بد نیت لوگ اس کے حق میں طمع نہ کر سکیں۔ (احکام القرآن، جلد سوم، صفحہ ۴۵۸)
علامہ نیشا پوری اپنی تفسیر غرائب القرآن میں لکھتے ہیں:
ابتدائے عہدِ اسلام میں عورتیں زمانہ جاہلیت کی طرح قمیص اوردوپٹے کے ساتھ نکلتی تھیں اور شریف عورتوں کا لباس ادنیٰ درجہ کی عورتوں سے مختلف نہ تھا۔ پھر حکم دیا گیا کہ وہ چادریں اوڑھیں اور اپنے سر اور چہرے کو چھپائیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ وہ شریف عورتیں ہیں فاحشہ نہیں ہیں۔ (تفسیر غرائب القرآن برحاشیہ ابن جریر، جلد ۲۲، صفحہ ۳۲)
امام رازی لکھتے ہیں:
جاہلیت میں اشراف کی عورتیں اور لونڈیاں سب کھلی پھرتی تھیں اور بدکار لوگ ان کا پیچھا کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے شریف عورتوں کوحکم دیا کہ وہ اپنے اوپر چادر ڈالیں اور یہ فرمایا کہ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ۝۰ۭ ( الاحزاب 59:33 ) تو اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ اس لباس سے پہچان لیا جائے گا کہ وہ شریف عورتیں ہیں اور ان کا پیچھا نہ کیا جائے گا۔ دوسرے یہ کہ اس سے معلوم ہو جائے گا کہ وہ بدکار نہیں ہیں کیوں کہ وہ عورت چہرہ چھپائے گی، درآنحالیکہ چہرہ عورت{ FR 6848 } نہیں ہے جس کا چھپانا فرض ہو، تو کوئی شخص اس سے یہ توقع نہ کرے گا کہ ایسی شریف عورت کشف ’’عورت‘‘ پر آمادہ ہو جائے گی۔ پس اس لباس سے ظاہر ہو جائے گا کہ وہ ایک پردہ دار عورت ہے اور اس سے بدکاری کی توقع نہ کی جا سکے گی۔ (تفسیر کبیر، جلد۶، صفحہ ۵۹۱)
قاضی بیضاوی لکھتے ہیں:
يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ۝۰ۭ(الاحزاب59:33 ) یعنی جب وہ اپنی حاجات کے لیے باہر نکلیں تو اپنی چادروں سے اپنے چہروں اور اپنے جسموں کو چھپا لیں۔ یہاں لفظ من تبعیض کے لیے ہے۔ یعنی چادروں کے ایک حصہ کو منہ پر ڈالا جائے اور ایک حصہ کو جسم پر لپیٹ لیا جائے ذلک ادنی ان یعرفن یعنی اس سے ان کے اور لونڈیوں اور مغنیات کے درمیان تمیز ہو جائے گی۔ فلا یُؤذَیْنَ اور مشتبہ چال چلن کے لوگ اس سے تعرض کی جرات نہ کر سکیں گے۔‘‘ (تفسیر بیضاوی، جلد۴، صفحہ ۱۶۸)
ان اقوال سے ظاہر ہے کہ صحابہ کرامؓ کے مبارک دَور سے لے کر آٹھویں صدی تک ہر زمانے میں اس آیت کا ایک ہی مفہوم سمجھا گیا ہے اور وہ مفہوم وہی ہے جو اس کے الفاظ سے ہم نے سمجھا ہے۔ اس کے بعد احادیث کی طرف رجوع کیجیے تو وہاں بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد سے عہد نبوی میں عام طور پر مسلمان عورتیں اپنے چہروں پر نقاب ڈالنے لگی تھیں اور کھلے چہروں کے ساتھ پھرنے کا رواج بند ہو گیا تھا۔ ابودائود، ترمذی، موطا اور دوسری کتب حدیث میں لکھا ہے کہ آں حضرت a نے عورتوں کو حالتِ احرام میں چہروں پر نقاب ڈالنے اور دستانے پہننے سے منع فرما دیا تھا:
اَلْمُحْرِمَۃُ لَا تَنْتَقِبْ وَلَا تَلْبِسِ الْقُفَّازَینِ۔
] محرم عورت نقاب نہ کرے اور دستانے نہ پہنے۔[
(سنن ابی دائود، کتاب المناسک، باب مایلبس المحرم، حدیث۱۵۵۵)
وَنَھَی النِّسَائَ فِی إحْرَامِھِنَّ عَنِ الْقُفَّازَینِ وَالّنقَابٍ۔
(سنن ابی دائود، کتاب المناسک، باب مایلبس المحرم، حدیث۱۵۵۶)
اس سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اس عہد مبارک میں چہروں کو چھپانے کے لیے نقاب اور ہاتھوں کو چھپانے کے لیے دستانوں کا عام رواج ہو چکا تھا۔ صرف احرام کی حالت میں اس سے منع کیا گیا۔ مگر اس سے بھی یہ مقصد نہ تھا کہ حج میں چہرے منظر عام پر پیش کیے جائیں، بلکہ دراصل مقصد یہ تھا کہ احرام کی فقیرانہ وضع میں نقاب عورت کے لباس کا جزو نہ ہو، جس طرح عام طور پر ہوتا ہے۔ چنانچہ دوسری احادیث میں تصریح کی گئی ہے کہ حالتِ احرام میں بھی ازواجِ مطہرات اور عام خواتینِ اسلام نقاب کے بغیر اپنے چہروں کو اجانب سے چھپاتی تھیں۔
ابودائود میں ہے:
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَانَ الرُّکْبَانُ یَمُرُّوْنَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُحْرِمَاتٌ فَاذَا حَاذُوا بِنَا سَدَلَتْ إحْدَانَا جِلْبَابَھَا مِنْ رَأسِھَا عَلٰی وَجْھِھَا فَإِذَا جَاوَزُوْنَا کَشَفْنَاہُ۔ ( کتاب المناسک فی المحرمۃ تغطی وجہھا)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ سوار ہمارے قریب سے گزرتے تھے اور ہم عورتیں رسول اللہ a کے ساتھ حالتِ احرام میں ہوتی تھیں۔ پس جب وہ لوگ ہمارے سامنے آ جاتے تو ہم اپنی چادریں اپنے سروں کی طرف سے اپنے چہروں پر ڈال لیتیں اور جب وہ گزر جاتے تو منہ کھول لیتی تھیں۔
موطا امام مالک میں ہے:
عن فاطمۃ بنت المنذر قَالَتْ کُنَّانُخَمِّرُ وُجُوھَنَا وَنَحْنُ مُحْرِمَاتُ وَنَحْنُ مَعَ أسْمائ بِنْتِ اَبِی بَکرِ الصِّدِیقِ۔ (مؤطا مالک، کتاب الحج، باب تخمیر المحرم وجھہ، حدیث۱۱۷۶)
فاطمہ بنت منذر کا بیان ہے کہ ہم حالتِ احرام میں اپنے چہروں پر کپڑا ڈال لیا کرتی تھیں۔ ہمارے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کی صاحب زادی حضرت اسماءؓ تھیں۔ (یعنی انھوں نے یہ نہیں کہا کہ احرام کی حالت میں نقاب استعمال کرنے کی جو ممانعت ہے اس کا اطلاق ہمارے اس فعل پر ہوتا ہے۔
فتح الباری، کتاب الحج میں حضرت عائشہؓ کی ایک روایت ہے:
تُسْدِلُ الْمَرْأَۃُجِلْبَابَھَا مِنْ فَوقِ رَأسِھَا عَلٰی وَجْھِھَا۔ (باب مایلبس المحرم من الثیاب)
عورت حالتِ احرام میں اپنی چادر اپنے سر پر سے چہرے پر لٹکا لیا کرے۔

۴۔ نقاب
جو شخص آیت قرآنی کے الفاظ اور ان کی مقبول عام اور متفق علیہ تفسیر اور عہد نبویa کے تعامل کو دیکھے گا اس کے لیے اس حقیقت سے انکار کی مجال باقی نہ رہے گی کہ شریعتِ اسلامیہ میں عورت کے لیے چہرے کو اجانب سے مستور رکھنے کا حکم ہے اور اس پر خود نبی اکرم a کے زمانہ سے عمل کیا جا رہا ہے۔ نقاب اگر لفظًا نہیں تو معنی و حقیقتاً خود قرآن عظیم کی تجویز کردہ چیز ہے۔ جس ذات مقدس پر قرآن نازل ہوا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے خواتین اسلام نے اس چیز کو اپنے خارج البیت لباس کا جزو بنایا تھا اور اس زمانہ میں بھی اس چیز کا نام ’’نقاب‘‘ ہی تھا۔
جی ہاں! یہ وہی ’’نقاب‘‘ (veil) ہے جسے یورپ انتہا درجہ کی مکروہ اور گھنائونی چیز سمجھتا ہے، جس کا محض تصور ہی فرنگی ضمیر پر ایک بارِ گراں ہے، جسے ظلم، تنگ خیالی اور وحشت کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ ہاں یہ وہی چیز ہے جس کا نام کسی مشرقی قوم کی جہالت اور تمدنی پسماندگی کے ذکر میں سب سے پہلے لیا جاتا ہے اور جب یہ بیان کرنا ہوتا ہے کہ کوئی مشرقی قوم تمدن و تہذیب میں ترقی کر رہی ہے تو سب سے پہلے جس بات کا ذکر بڑے انشراح و انبساط کے ساتھ کیا جاتا ہے وہ یہی ہے کہ اس قوم سے ’’نقاب‘‘ رخصت ہو گئی ہے۔ اب شرم سے سر جھکا لیجیے کہ یہ چیز بعد کی ایجاد نہیں، خود قرآن نے اسے ایجاد کیا ہے اور محمدa اسے رائج کر گئے ہیں۔ مگر محض سر جھکانے سے کام نہ چلے گا۔ شتر مرغ اگر شکاری کو دیکھ کر ریت میں سر چھپا لے تو شکاری کا وجود باطل نہیں ہو جاتا۔ آپ بھی اپنا سر جھکائیں گے تو سر ضرور جھک جائے گا مگر قرآن کی آیت نہ مٹے گی، نہ تاریخ سے ثابت شدہ واقعات محو ہو جائیں گے۔ تاویلات سے اس پر پردہ ڈالیے گا تو یہ ’’شرم کا داغ‘‘ اور زیادہ چمک اٹھے گا۔ جب وحی مغربی پر ایمان لا کر آپ اسے ’’شرم کا داغ‘‘ مان ہی چکے ہیں، تو اسے دور کرنے کی اب ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ اس اسلام ہی سے اپنی برأت کا اعلان فرما دیں جو نقاب، گھونگٹ، سترِ وجوہ جیسی ’’گھنائونی‘‘ چیز کا حکم دیتا ہے۔ آپ ہیں ’’ترقی‘‘ کے خواہش مند۔ آپ کو درکار ہے ’’تہذیب‘‘ آپ کے لیے وہ مذہب کیسے قابلِ اتباع ہو سکتا ہے جو خواتین کو شمعِ انجمن بننے سے روکتا ہو، حیااور پردہ داری اور عفت مابی کی تعلیم دیتا ہو، گھر کی ملکہ کو اہلِ خانہ کے سوا ہر ایک کے لیے قرۃ العین بننے سے منع کرتا ہو، بھلا ایسے مذہب میں ’’ترقی‘‘ کہاں! ایسے مذہب کو تہذیب سے کیا واسطہ! ’’ترقی‘‘ اور ’’تہذیب‘‘ کے لیے ضروری ہے کہ عورت…… نہیں لیڈی صاحبہ…… باہر نکلنے سے پہلے دو گھنٹے تک تمام مشاغل سے دست کش ہو کر صرف اپنی تزئین و آرائش میں مشغول ہو جائیں، تمام جسم کو معطر کریں، رنگ اور وضع کی مناسبت سے انتہا درجہ کا جاذبِ نظر لباس زیبِ تن فرمائیں، مختلف قسم کے غازوں سے چہرے اور بانہوں کی تنویر بڑھائیں، ہونٹوں کو لپ اسٹک سے مزین کریں، کمان ابرو کو درست اور آنکھوں کو تیر اندازی کے لیے چست کر لیں اور ان سب کرشموں سے مسلح ہو کر گھر سے باہر نکلیں تو شان یہ ہو کہ ہر کرشمہ دامن دل کو کھینچ کھینچ کر ’’جا ایں جااست‘‘کی صدا لگا رہا ہو! پھر اس سے بھی ذوق خود آرائی کی تسکین نہ ہو، تو آئینہ اور سنگار کا سامان ہر وقت ساتھ رہے تاکہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اسبابِ زینت کے خفیف ترین نقصانات کی بھی تلافی کی جاتی رہے۔
جیسا کہ ہم بار بار کہہ چکے ہیں، اسلام اور مغربی تہذیب کے مقاصد میں بعد المشرقین ہے اور وہ شخص سخت غلطی کرتا ہے جو مغربی نقطۂ نظر سے اسلامی احکام کی تعبیر کرتا ہے۔ مغرب میں اشیا کی قدر و قیمت کا جومعیار ہے، اسلام کا معیار اس سے بالکل مختلف ہے۔ مغرب جن چیزوں کو نہایت اہم اورمقصودِ حیات سمجھتا ہے، اسلام کی نگاہ میں ان کی کوئی اہمیت نہیں اور اسلام جن چیزوں کو اہمیت دیتا ہے، مغرب کی نگاہ میں وہ بالکل بے قیمت ہیں۔ اب جو مغربی معیار کا قائل ہے، اسے تو اسلام کی ہر چیز قابلِ ترمیم ہی نظر آئے گی۔ وہ اسلامی احکام کی تعبیر کرنے بیٹھے گا تو ان کی تحریف کر ڈالے گا اور تحریف کے بعد بھی انھیں اپنی زندگی میں کسی طرح نصب نہ کر سکے گا۔ کیوں کہ قدم قدم پر قرآن اور سنت کی تصریحات اس کی مزاحمت کریں گی۔ ایسے شخص کو عملی طریقوں کے جزئیات پرنظر ڈالنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ جب مقاصد کے لیے ان طریقوں کو اختیار کیا گیا ہے وہ خود کہاں تک قابلِ قبول ہیں۔ اگر وہ مقاصد ہی سے اتفاق نہیں رکھتا تو حصولِ مقاصد کے طریقوں پر بحث کرنے اور انھیں مسخ و محرف کرنے کی فضول زحمت کیوں اٹھائے؟کیوں نہ اس مذہب ہی کو چھوڑ دے جس کے مقاصد کو وہ غلط سمجھتا ہے؟ اور اگر اسے مقاصد سے اتفاق ہے تو بحث صرف اس میں رہ جاتی ہے کہ ان مقاصد کے لیے جو عملی طریقے تجویز کیے گئے ہیں وہ مناسب ہیں یا نامناسب اور اس بحث کو بآسانی طے کیا جا سکتا ہے لیکن یہ طریقہ صرف شریف لوگ ہی اختیار کر سکتے ہیں۔ رہے منافقین، تو وہ خدا کی پیدا کی ہوئی مخلوقات میں سب سے ارذل مخلوق ہیں۔ انھیں یہی زیب دیتا ہے کہ دعوٰی ایک چیز پر اعتقاد رکھنے کا کریں اور درحقیقت اعتقاد دوسری چیز پر رکھیں۔
نقاب اور برقع کے مسئلے میں جس قدر بحثیں کی جا رہی ہیں وہ دراصل اسی نفاق پر مبنی ہیں۔ ایڑی سے چوٹی تک کا زور یہ ثابت کرنے میں صرف کیا گیا ہے کہ پردے کی یہ صورت اسلام سے پہلے کی قوموں میں رائج تھی اور جاہلیت کی یہ میراث عہدِ نبویa کے بہت مدت بعد مسلمانوں میں تقسیم ہوئی۔ قرآن کی ایک صریح آیت اور عہدِ نبوی کے ثابت شدہ تعامل اور صحابہ و تابعین کی تشریحات کے مقابلہ میں تاریخی تحقیقات کی یہ زحمت آخر کیوں اٹھائی گئی؟ صرف اس لیے کہ زندگی کے وہ مقاصد پیشِ نظر تھے اور ہیں جو مغرب میں مقبولِ عام ہیں۔ ’’ترقی‘‘ اور ’’تہذیب‘‘ کے وہ تصورات ذہن نشین ہو گئے ہیں جو اہلِ مغرب سے نقل کیے گئے ہیں۔ چوں کہ برقع اوڑھنا اور نقاب ڈالنا ان مقاصد کے خلاف ہے اور ان تصورات سے کسی طرح میل نہیں کھاتا، لہٰذا تاریخی تحقیق کے زور سے اس چیز کومٹانے کی کوشش کی گئی جو اسلام کی کتاب آئین میں ثبت ہے، یہ کھلی ہوئی منافقت، جو بہت سے مسائل کی طرح اس مسئلہ میں بھی برتی گئی ہے، اس کی اصلی وجہ وہی بے اصولی، عقل کی خفت اور اخلاقی جرأت کی کمی ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اتباعِ اسلام کا دعوٰی کرنے کے باوجود قرآن کے مقابلہ میں تاریخ کو لا کر کھڑا کرنے کا خیال بھی ان کے ذہن میں نہ آتا۔ یا تو یہ اپنے مقاصد کو اسلام کے مقاصد سے بدل ڈالتے (اگر مسلمان رہنا چاہتے) یا اعلانیہ اس مذہب سے الگ ہو جاتے جو ان کے معیار ترقی کے لحاظ سے مانع ترقی ہے۔
جو شخص اسلامی قانون کے مقاصد کو سمجھتا ہے اور اس کے ساتھ کچھ عقل عام (common sense) بھی رکھتا ہے اس کے لیے یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ عورتوں کو کھلے چہروں کے ساتھ باہر پھرنے کی عام اجازت دینا ان مقاصد کے بالکل خلاف ہے جنھیں اسلام اس قدر اہمیت دے رہا ہے۔ ایک انسان کو دوسرے انسان کی جو چیز سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ اس کا چہرہ ہی تو ہے۔ انسان کی خلقی و پیدائشی زینت، یا دوسرے الفاظ میں انسانی حسن کا سب سے بڑا مظہر چہرہ ہے۔ نگاہوں کو سب سے زیادہ وہی کھینچتا ہے۔ جذبات کو سب سے زیادہ وہی اپیل کرتا ہے۔ صنفی جذب و انجذاب کا سب سے زیادہ قوی ایجنٹ وہی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے نفسیات کے کسی گہرے علم کی بھی ضرورت نہیں۔ خود اپنے دل کو ٹٹولیے۔ اپنی آنکھوں سے فتوٰی طلب کیجیے۔ اپنے نفسی تجربات کا جائزہ لے کردیکھ لیجیے۔ منافقت کی بات تو دوسری ہے۔ منافق اگر آفتاب کے وجود کو بھی اپنے مقصد کے خلاف دیکھے گا تو دن دیہاڑے کہہ دے گا کہ آفتاب موجود نہیں۔ البتہ صداقت سے کام لیجیے گا۔ تو آپ کو اعتراف کرنا پڑے گا کہ صنفی تحریک (sex appeal) میں جسم کی ساری زینتوں سے زیادہ حصہ اس فطری زینت کا ہے جو اللہ نے چہرے کی ساخت میں رکھی ہے۔ اگر آپ کو کسی لڑکی سے شادی کرنی ہو اورآ پ اسے دیکھ کر آخری فیصلہ کرنا چاہتے ہوں تو سچ بتائیے کہ کیا دیکھ کر آپ فیصلہ کریں گے؟ ایک شکل اس کے دیکھنے کی یہ ہو سکتی ہے کہ چہرے کے سوا وہ پوری کی پوری آپ کے سامنے ہو۔ دوسری شکل یہ ہو سکتی ہے کہ ایک جھروکے میں وہ صرف اپنا چہرہ دکھا دے۔ بتائیے کہ دونوں شکلوں میں سے کون سی شکل کو آپ ترجیح دیں گے؟ سچ بتائیے کیا سارے جسم کی بہ نسبت چہرے کا حسن آپ کی نگاہ میں اہم ترین نہیں ہے؟
اس حقیقت کے مسلم ہو جانے کے بعد آگے بڑھیے۔ اگر سوسائٹی میں صنفی انتشار اور لامرکزی ہیجانات و تحریکات کو روکنا مقصود ہی نہ ہو، تب تو چہرہ کیا معنی، سینہ، بازو، پنڈلیاں اور رانیں سب کچھ ہی کھو ل دینے کی آزادی ہونی چاہیے، جیسی کہ اس وقت مغربی تہذیب میں ہے۔ اس صورت میں ان حدود و قیود کی کوئی ضرورت ہی نہیں جو اسلامی قانون حجاب کے سلسلہ میں آپ اوپر سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں لیکن اگر اصل بات اسی طوفان کو روکنا ہو تو اس سے زیادہ خلاف حکمت اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ اسے روکنے کے لیے چھوٹے چھوٹے دروازوں پر تو کنڈیاں چڑھائی جائیں اور سب سے بڑے دروازے کا چوپٹ کھلا چھوڑ دیا جائے۔
اب آ پ سوال کر سکتے ہیں کہ جب ایسا ہے تو اسلام نے ناگزیر حاجات و ضروریات کے لیے چہرہ کھولنے کی اجازت کیوں دی؟ جیسا کہ تم خود پہلے بیان کر چکے ہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کوئی غیر معتدل اور یک رخا قانون نہیں ہے۔ وہ ایک طرف مصالحِ اخلاقی کا لحاظ کرتا ہے تو دوسری طرف انسان کی حقیقی ضرورتوں کا بھی لحاظ کرتا ہے اور ان دونوں کے درمیان اس نے غایت درجہ کا تناسب اور توازن قائم کیا ہے۔ وہ اخلاقی فتنوں کا سدِّباب بھی کرنا چاہتا ہے اور اس کے ساتھ کسی انسان پر ایسی پابندیاں بھی عائد کرنا نہیں چاہتا جن کے باعث وہ اپنی حقیقی ضروریات کو پورا نہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے عورت کے لیے چہرے اور نقاب کے باب میں ویسے قطعی احکام نہیں دیے جیسے ستر پوشی اور اخفائے زینت کے باب میں دیے ہیں۔ کیوں کہ سترپوشی اور اخفائے زینت سے ضروریات زندگی کو پورا کرنے میں کوئی حرج واقع نہیں ہوتا۔ مگر چہرے ا ور ہاتھوں کو دائمًا چھپائے رکھنے سے عورتوں کو اپنی حاجات میں سخت مشکل پیش آ سکتی ہے پس عورتوں کے لیے عام قاعدہ یہ مقرر کیا گیا کہ چہرے پر نقاب یا گھونگٹ ڈالے رہیں اور اس قاعدہ میں الا ما ظھر منھا کے استثنا سے یہ آسانی پیدا کر دی گئی کہ اگر حقیقت میں چہرہ کھولنے کی ضرورت پیش آ جائے تو وہ اسے کھول سکتی ہے، بشرطیکہ نمائشِ حسن مقصود نہ ہو بلکہ رفع ضرورت مدِّنظر ہو پھر دوسری جانب سے فتنہ انگیزی کے جو خطرات تھے ان کا سدباب اس طرح کیا گیا کہ مردوں کو غضِ بصر کا حکم دیا گیا تاکہ اگر کوئی عفت ماب عورت اپنی حاجات کے لیے چہرہ کھولے تو وہ اپنی نظریں نیچی کر لیں اور بے ہودگی کے ساتھ اسے گھورنے سے باز رہیں۔
پردہ داری کے ان احکام پر آپ غورکریں گے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اسلامی پردہ کوئی جاہلی رسم نہیں بلکہ ایک عقلی قانون ہے۔ جاہلی رسم ایک جامد چیز ہوتی ہے۔ جو طریقہ جس صورت سے رائج ہو گیا، کسی حال میں اس کے اندر تغیر نہیں کیا جا سکتا۔ جو چیز چھپا دی گئی وہ بس ہمیشہ کے لیے چھپا دی گئی۔ آپ مرتے مر جائیں مگر اس کا کھلنا غیر ممکن۔ بخلاف اس کے عقلی قانون میں لچک ہوتی ہے۔ اس میں احوال کے لحاظ سے شدت اور تخفیف کی گنجائش ہوتی ہے۔ موقع و محل کے اعتبار سے اس کے عام قواعد میں استثنائی صورتیں رکھی جاتی ہیں۔ ایسے قوانین کی پیروی اندھوں کی طرح نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لیے عقل اور تمیز کی ضرورت ہے۔ سمجھ بوجھ رکھنے والا پیرو خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ کہاں اسے عام قاعدے کی پیروی کرنی چاہیے اور کہاں قانون کے نقطہ نظر سے ’’حقیقی ضرورت‘‘ درپیش ہے جس میں استثنائی رخصتوں سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ پھر وہ خود ہی یہ رائے قائم کر سکتا ہے کہ کس محل پر رخصت سے کس حد تک استفادہ کیا جائے اور استفادہ کی صورت میں مقصد قانون کو کس طرح ملحوظ رکھا جائے۔ ان تمام امور میں دَرحقیقت ایک نیک نیت مومن کا قلب ہی سچا مفتی بن سکتا ہے، جیسا کہ نبی اکرم a نے فرمایا: اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ اور دَعْ مَا حَاکَ فیِ صَدْرِکَ (اپنے دل سے فتوٰی طلب کرو اور جو چیز دل میں کھٹکے اسے چھوڑ دو)یہی وجہ ہے کہ اسلام کی صحیح پیروی جہالت اور ناسمجھی کے ساتھ نہیں ہو سکتی۔ یہ عقلی قانون ہے اور اس کی پیروی کے لیے قدم قدم پر شعور اور فہم کی ضرورت ہے۔

۱۲۔ باہر نکلنے کے قوانین

لباس اور ستر کے حدود مقرر کرنے کے بعد آخری حکم جو عورتوں کو دیا گیا ہے وہ یہ ہے:
وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاہِلِيَّۃِ الْاُوْلٰى (الاحزاب 33:33)
اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ بیٹھی رہو اور زمانہ جاہلیت کے سے بنائو سنگار نہ دکھاتی پھرو۔
وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِہِنَّ۝۰ۭ (النور 31:24)
اور اپنے پائوں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلیں کہ جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہے وہ معلوم ہو جائے۔
فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ (الاحزاب 32:33)
پس دبی زبان سے بات نہ کرو کہ جس شخص کے دل میں مرض ہو وہ طمع میں مبتلا ہوجائے۔
وقرن کی قرأت میں اختلاف ہے۔ عام قراء مدینہ اور بعض کوفیوں نے اسے وقرن بفتح پڑھا ہے جس کا مصدر قرار ہے۔ اس لحاظ سے ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’اپنے گھروں میں ٹھہری رہو یا جمی رہو۔‘‘ عام قراء بصرہ و کوفہ نے وقرن بکسر قاف پڑھا ہے جس کا مقصد وقار ہے۔ اس لحاظ سے معنی یہ ہوں گے کہ ’’اپنے گھروں میں وقار اور سکینت کے ساتھ رہو۔ ‘‘
تبرج کے دو معنی ہیں۔ ایک زینت اور محاسن کا اظہار۔ دوسرے چلنے میں ناز و انداز دکھانا، تبختر کرتے ہوئے چلنا، اٹھلانا، لچکے کھانا، جسم کو توڑنا، ایسی چال اختیار کرنا جس میں ایک ادا پائی جاتی ہو۔ آیت میں یہ دونوں معنی مراد ہیں۔ جاہلیتِ اُولیٰ میں عورتیں خوب بن سنور کر نکلتی تھیں۔ جس طرح دورِ جدید کی جاہلیت میں نکل رہی ہیں۔ پھر چال بھی قصدًا ایسی اختیار کی جاتی تھی کہ ہر قدم زمین پر نہیں بلکہ دیکھنے والوں کے دلوں پر پڑے۔ مشہور تابعی و مفسر قرآن قتادہ بن دعامہ کہتے ہیں کہ
کَانَتْ لَھُنَّ مَشْیَۃٌ وَتُکَسِّرُ وَتُغَنِّجُ فَنَھَا ھُنَّ اللّٰہَ عَنْ ذٰلِکَ۔(تفسیر الطبری، الاحزاب:۳۲)
]ان کی چال میں ناز و نخرہ تھا، چنانچہ اللہ ان کو اس سے منع فرمایا۔[
اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے کسی تاریخی بیان کی حاجت نہیں۔ کسی ایسی سوسائٹی میں تشریف لے جائیے جہاں مغربی وضع کی خواتین تشریف لاتی ہوں۔ جاہلیتِ اولیٰ کی تبرج والی چال آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ اسلام اسی سے منع کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اول تو تمھاری صحیح جائے قیام تمھارا گھر ہے۔ بیرونِ خانہ کی ذمہ داریوں سے تمھیں اسی لیے سبک دوش کیا گیا کہ تم سکون و وقار کے ساتھ اپنے گھروں میں رہو اور خانگی زندگی کے فرائض ادا کرو۔ تاہم اگر ضرورت پیش آئے تو گھر سے باہر نکلنا بھی تمھارے لیے جائز ہے۔ لیکن نکلتے وقت پوری عصمت مابی ملحوظ رکھو۔ نہ تمھارے لباس میں کوئی شان اور بھڑک ہونی چاہیے کہ نظروں کو تمھاری طرف مائل کرے۔ نہ اظہارِ حسن کے لیے تم میں کوئی بے تابی ہونی چاہیے کہ چلتے چلتے کبھی چہرے کی جھلک دکھائو اور کبھی ہاتھوں کی نمائش کرو۔ نہ چال میں کوئی خاص ادا پیدا کرنی چاہیے کہ نگاہوں کو خود بخود تمھاری طرف متوجہ کر دے۔ ایسے زیور بھی پہن کر نہ نکلو جن کی جھنکار غیروں کے لیے سامعہ نواز ہو۔ قصدًا لوگوں کو سنانے کے لیے آواز نہ نکالو۔ ہاں اگر بولنے کی ضرورت پیش آئے تو بولو، مگر رس بھری آواز نکالنے کی کوشش نہ کرو۔ ان قواعد اور حدود کو ملحوظ رکھ کر اپنی حاجات کے لیے تم گھر سے باہر نکل سکتی ہو۔
یہ ہے قرآن کی تعلیم آئیے اب حدیث پر نظر ڈال کر دیکھیں کہ نبی اکرمaنے اس تعلیم کے مطابق سوسائٹی میں عورتوں کے لیے کیا طریقے مقرر فرمائے تھے اورصحابہ کرامؓ اور ان کی خواتین نے ان پر کس طرح عمل کیا۔
۱۔حاجات کے لیے گھر سے نکلنے کی اجازت
حدیث میں ہے کہ احکامِ حجاب نازل ہونے سے پہلے حضرت عمر کا تقاضا تھا کہ یارسول اللہ اپنی خواتین کو پردہ کرائیے۔ ایک مرتبہ ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ رات کے وقت باہر نکلیں تو حضرت عمرؓ نے انھیں دیکھ لیا اور پکارکر کہا کہ سودہ! ہم نے تمھیں پہچان لیا۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح خواتین کا گھروں سے نکلنا ممنوع ہو جائے۔ اس کے بعد جب احکامِ حجاب نازل ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بن آئی۔ انھوں نے عورتوں کے باہر نکلنے پر زیادہ روک ٹوک شروع کر دی۔ ایک مرتبہ پھر حضرت سودہؓ کے ساتھ وہی صورت پیش آئی۔ وہ گھر سے نکلیں اور عمرؓ نے انھیں ٹوکا۔ انھوں نے حضور اکرمa سے شکایت کی۔ حضور اکرم a نے فرمایا:
قد اذن اللّٰہ لکن ان تخرجن لحوائجکن…
اللہ نے تمھیں اپنی ضروریات کے لیے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے۔{ FR 6849 }
اس سے معلوم ہوا کہ وقرن فی بیوتکن کے حکم قرآنی کا منشا یہ نہیں ہے کہ عورتیں گھر کے حدود سے قدم کبھی باہر نکالیں ہی نہیں۔ حاجات و ضروریات کے لیے انھیں نکلنے کی پوری اجازت ہے۔ مگر یہ اجازت نہ غیر مشروط ہے نہ غیر محدود۔ عورتیں اس کی مجاز نہیں ہیں کہ آزادی کے ساتھ جہاں چاہیں پھریں اور مردانہ اجتماعات میں گھل مل جائیں۔ حاجات و ضروریات سے شریعت کی مراد ایسی واقعی حاجات و ضروریات ہیں جن میں درحقیقت نکلنا اور باہر کام کرنا عورتوں کے لیے ناگزیر ہو۔ اب یہ ظاہر ہے کہ تمام عورتوں کے لیے تمام زمانوں میں نکلنے اور نہ نکلنے کی ایک ایک صورت بیان کرنا اور ہر ہر موقع کے لیے رخصت کے علیحدہ علیحدہ حدود مقرر کر دینا ممکن نہیں ہے۔ البتہ شارع نے زندگی کے عام حالات میں عورتوں کے لیے نکلنے کے جو قاعدے مقرر کیے تھے اور حجاب کی حددد میں جس طرح کمی و بیشی کی تھی اس سے قانونِ اسلامی کی سپرٹ اور اس کے رجحان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور اس کی سمجھ کو انفرادی حالات اورجزئی معاملات میں حجاب کے حدود اور موقع ومحل کے لحاظ سے ان کی کمی و بیشی کے اصول ہر شخص خود معلوم کر سکتا ہے۔ اس کی توضیح کے لیے ہم مثال کے طور پر چند مسائل بیان کرتے ہیں۔
۲۔مسجد میں آنے کی اجازت اور اس کے حدود
یہ معلوم ہے کہ اسلام میں سب سے اہم فرض نماز ہے اور نماز میں حضور مسجد اور شرکتِ جماعت کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ مگر نماز باجماعت کے باب میں جو احکام مردوں کے لیے ہیں ان کے بالکل برعکس احکام عورتوں کے لیے ہیں۔ مردوں کے لیے وہ نماز افضل ہے جومسجد میں جماعت کے ساتھ ہو اور عورتوں کے لیے وہ نماز افضل ہے جو گھر میں انتہائی خلوت کی حالت میں ہو۔ امام احمد اور طبرانی نے ام حمید ساعدیہ کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ:
قَالَتْ یَارَسُولَ اللہِ إِنّیِ أَحَبُّ الصَّلوٰۃَ مَعَکَ۔ قَالَ قَدْ عَلِمَتُ أَنَّکِ تُحِبِیّنَ الصَّلوٰۃَ مَعِیَ وَ صَلوٰتِکِ فِی بَیْتِکِ خَیْرٌ لَکِ مِنْ صَلٰوتِکِ فِیْ حُجْرَتِکِ وَصَلٰوتُکِ فِی حُجْرَتِکِ خَیرٌ مِنْ صَلٰوتِکِ فِی دَارِکِ، وَصَلٰوتُکِ فِی دَارِکِ خَیْرٌ مِنْ صَلٰوتِکِ فِی مَسْجِدِ قَومِکِ وَصَلوٰتُکِ فِی مَسْجِدِ قَومِکِ خَیْرُ مِنْ صَلوٰتِکِ فِی مَسْجِدِ الْجُمُعَۃِ۔ (مسند احمد، حدیث ۲۵۸۴۲)
انھوں نے عرض کیا یارسول اللہa میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کے ساتھ نماز پڑھوں۔ حضور اکرم a نے فرمایا مجھے معلوم ہے۔ مگر تیرا ایک گوشے میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تُو اپنے حجرے میں نماز پڑھے اور تیرا حجرے میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تو اپنے گھر کے دالان میں نماز پڑھے اور تیرا دالان میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تو اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھے اور تیرا اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ جامع مسجد میں نماز پڑھے۔{ FR 6850 }
اسی مضمون کی حدیث ابودائود میں ابن مسعودؓ سے منقول ہے جس میں حضور اکرمa نے فرمایا کہ
صَلٰوۃُ الْمَرْأَۃِ فِی بَیْتِھَا أَفْضَلُ مِنْ صَلوٰتِھَا فِی حُجْرَتِھَا وَصَلٰوتُھَا فِی مَخْدَعِھَا أَفْضَلُ مِنْ صَلوٰتِھَا فِی بَیْتِھَا۔ (کتاب الصلوٰۃ، باب ما جاء فی خروج النساء الی المساجد، حدیث ۴۸۳)
عورت کا اپنی کوٹھڑی میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے کمرے میں نماز پڑھے اور اس کا اپنے چور خانہ میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنی کوٹھڑی میں نماز پڑھے۔
دیکھیے یہاں ترتیب بالکل الٹ گئی ہے۔ مرد کے لیے سب سے ادنیٰ درجہ کی نماز یہ ہے کہ وہ ایک گوشہ تنہائی میں پڑھے اور سب سے افضل یہ کہ وہ بڑی سے بڑی جماعت میں شریک ہو۔ مگر عورت کے لیے اس کے برعکس انتہائی خلوت کی نماز میں فضیلت ہے، اور اس خفیہ نماز کو نہ صرف نماز باجماعت پر ترجیح دی گئی ہے، بلکہ اس نماز سے بھی افضل کہا گیا ہے جس سے بڑھ کر کوئی نعمت مسلمان کے لیے ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ یعنی مسجد نبوی کی جماعت، جس کے امام خود امام الانبیا محمد a تھے۔ آخر اس فرق و امتیاز کی وجہ کیا ہے؟ یہی ناکہ شارع نے عورت کے باہر نکلنے کو پسند نہیں کیا اور جماعت میں ذکور و اناث کے خلط ملط ہونے کو روکنا چاہا۔
مگر نماز ایک مقدس عبادت ہے اور مسجد ایک پاک مقام ہے۔ شارع حکیم نے اختلاط صنفین کو روکنے کے لیے اپنے منشا کا اظہار تو فضیلت اور عدم فضیلت کی تفریق سے کر دیا، مگر ایسے پاکیزہ کام کے لیے ایسی پاک جگہ پر آنے سے عورتوں کو منع نہیں کیا۔ حدیث میں یہ اجازت جن الفاظ کے ساتھ آئی ہے وہ شارع کی بے نظیر حکیمانہ شان پر دلالت کرتے ہیں۔ فرمایا:
لاَ تَمْنَعُوْا إِمَائَ اللہِ مَسَاجِدَ اللہِ۔(صحیح البخاری، کتاب الجمعۃ، باب ھل علی من لم یشھد الجمعۃ، حدیث۸۴۹)
إِذَا اسْتَأذَنَتْ إِمْرَأَۃُ‘ اَحَدُکُمْ إِلٰی الْمَسْجِدِ فَلاَ یَمْنَعْھَا۔
(ایضاً، کتاب الا ٔذان، باب استیذان المرأۃ، حدیث۸۲۶)
خدا کی لونڈیوں کو خدا کی مسجدوں میں آنے سے منع نہ کرو۔ جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد جانے کی اجازت مانگے تو وہ اسے منع نہ کرے۔
لَاتَمْنَعُوا نِسَائَ کُمْ الْمَسَاجِدَ وَبُیْوْتُھُنَّ خَیْرٌ لَھُنَّ۔
(سنن ابی دائود، کتاب اصلوٰۃ، باب ماجائ فی خروج النسائ الی المسجد، حدیث۴۸۰)
اپنی عورتوں کو مسجدوں سے نہ روکو مگران کے گھر ان کے لیے زیادہ بہتر ہیں۔
یہ الفاظ خود ظاہر کر رہے ہیں کہ شارع عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکتا تو نہیں ہے، کیوں کہ مسجد میں نماز کے لیے جانا کوئی بُرا فعل نہیں جسے ناجائز قرار دیا جا سکے۔ مگر مصالح اس کے بھی مقتضی نہیں کہ مساجد میں ذکور و اناث کی جماعت مخلوط ہو جائے۔ لہٰذا انھیں آنے کی اجازت تو دے دی، مگر یہ نہیں فرمایا کہ عورتوں کو مسجدوں میں بھیجو، یا اپنے ساتھ لایا کرو، بلکہ صرف یہ کہا ہے کہ اگر وہ افضل نماز کو چھوڑ کر ادنیٰ درجہ کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آنا ہی چاہیں اور اجازت مانگیں تو منع نہ کرو۔ حضرت عمرؓ جو روحِ اسلام کے بڑے رازدان تھے، شارع کی اس حکمت کو خوب سمجھتے تھے۔ چنانچہ موطا میں مذکور ہے کہ ان کی بیوی عاتکہ بنتِ زید سے ہمیشہ اس معاملہ میں ان کی کش مکش رہا کرتی تھی۔ حضرت عمرؓ نہ چاہتے تھے کہ وہ مسجد میں جائیں۔ مگر انھیں جانے پر اصرار تھا۔ وہ اجازت مانگتیں تو آپ ٹھیک ٹھیک حکم نبوی پر عمل کرکے بس خاموش ہو جاتے۔ مطلب یہ تھا کہ ہم تمھیں روکتے نہیں ہیں، مگر صاف صاف اجازت بھی نہ دیں گے۔ وہ بھی اپنی بات کی پکی تھیں۔ کہا کرتی تھیں کہ خدا کی قسم میں جاتی رہوں گی جب تک کہ صاف الفاظ میں منع نہ کریں گے۔{ FR 6851 }
۳۔مسجد میں آنے کی شرائط
حضورِ مساجد کی اجازت دینے کے ساتھ چند شرائط بھی مقرر کر دی گئیں۔ ان میں سے پہلی شرط یہ ہے کہ دن کے اوقات میں مسجد میں نہ جائیں۔ بلکہ صرف ان نمازوں میں شریک ہوں جو اندھیرے میں پڑھی جاتی ہوں یعنی عشا اور فجر :
عَنِ ابْنِ عُمَرَقَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِئْذَنُوْاللِنِّسَائِ بِالَّلیْلِ إلیالْمَسَاجِدِ۔ (سنن الترمذی، باب خروج النساء الی المسجدحدیث۵۲۰ وفی ہذا المعنی حدیث اخرجہ، البخاری فی باب خروج النساء الی المساجد باللیل والغلس)
قال نافع مولی ابن عمر وَکَأَنَّ اِخْتِصَاصُ اللَّیلِ بِذَالِکَ لِکَونِہِ أَسْتَرُ۔
(فتح الباری، ج۳، ص۲۶۶)
حضرت ابن عمرؓ کے شاگرد خاص حضرت نافع کہتے ہیں کہ رات کی تخصیص اس لیے کہ رات کی تاریکی میں اچھی طرح پردہ داری ہوسکتی ہے۔
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَیُصَلِّی فَیَنْصَرِفُ النِّسَائَ مُتَلَّفِعَاَتٍ بِمُروطِھِنَّ مَا یَعْرِفَنَ مِنَ الْغَلَسِ۔{ FR 6852 }
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ a صبح کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ جب عورتیں نماز کے بعد اپنی اوڑھنیوں میں لپٹی ہوئی مسجد سے پلٹتیں تو تاریکی کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں۔
دوسری شرط یہ ہے کہ مسجد میں زینت کے ساتھ نہ آئیں اور نہ خوش بو لگا کر آئیں۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرم a مسجد میں تشریف فرما تھے کہ قبیلہ مزینہ کی ایک بہت بنی سنوری ہوئی عورت بڑے ناز و تبختر کے ساتھ چلتی ہوئی آئی۔حضوراکرم a نے فرمایا، لوگو! اپنی عورتوں کو زینت اور تبختر کے ساتھ مسجد میں آنے سے روکو۔ (ابن ماجہ، باب فتنہ النسا)
خوش بو کے متعلق فرمایا کہ جس رات تمھیں نماز میں شریک ہونا ہو اس رات کو کسی قسم کا عطر لگا کر نہ آئو، نہ بخور استعمال کرو۔ بالکل سادہ لباس میں آئو۔ جو عورت خوش بو لگا کر آئے گی اس کی نماز نہ ہو گی۔
تیسری شرط یہ ہے کہ عورتیں جماعت میں مردوں کے ساتھ خلط ملط نہ ہوں اور نہ آگے کی صفوں میں آئیں۔ انھیں مردوں کی صفوں کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے۔ فرمایا کہ:
خَیْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ أَوَّلُھَا وَشَرُّھَا آخِرُھَا۔ وَخَیْرُ صُفُوفِ النِّسَائِ آخِرُھَا وَشَرُّھَا اَوُّلُھَا۔ (صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب تسویۃ الصفوف، حدیث۶۶۴)
مردوں کے لیے بہترین مقام آگے کی صفوں میں ہے اور بدترین مقام پیچھے کی صفوں میں اور عورتوں کے لیے بہترین مقام پیچھے کی صفوں میں ہے اور بدترین مقام آگے کی صفوں میں۔
جماعت کے باب میں حضور اکرمa نے یہ قاعدہ بھی مقرر کر دیا تھا کہ عورت اور مرد پاس پاس کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھیں خواہ وہ شوہر اور بیوی یا ماں اور بیٹا ہی کیوں نہ ہوں۔
حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ میری نانی ملیکہؓ نے آں حضرت a کی دعوت کی۔ کھانے کے بعد آپ a نماز کے لیے اٹھے۔مَیں اور یتیم (یہ غالبًا حضرت انسؓ کے بھائی کا نام تھا) حضور اکرم a کے پیچھے کھڑے ہوئے اور ملیکہؓ ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں۔ { FR 6853 }
حضرت انسؓ کی دوسری روایت ہے کہ حضور اکرمa نے ہمارے گھر میں نماز پڑھی۔ مَیں اور یتیم آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور میری ماں ام سلیمؓ ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں۔{ FR 6854 }
حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم a نماز کے لیے اٹھے۔ مَیں آپ کے پہلو میں کھڑا ہوا اور حضرت عائشہؓ ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں۔{ FR 6855 }
چوتھی شرط یہ ہے کہ عورتیں نماز میں آواز بلند نہ کریں۔ قاعدہ یہ مقرر کیا گیا ہے کہ اگر نماز میں امام کو کسی چیز پر متنبہ کرنا ہو تو مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتیں دستک دیں۔{ FR 6856 }
ان تمام حدود و قیود کے باوجود جب حضرت عمرؓ کو جماعت میں ذکور و اناث کے خلط ملط ہونے کا اندیشہ ہوا تو آپ نے مسجد میں عورتوں کے لیے ایک دروازہ مختص فرما دیا اور مردوں کو اس دروازہ سے آنے جانے کی ممانعت کر دی۔{ FR 6857 }
۴۔ حج میں عورتوں کا طریقہ
اسلام کا دوسرا اجتماعی فریضہ حج ہے۔ یہ مردوں کی طرح عورتوں پر بھی فرض ہے۔ مگر حتی الامکان عورتوں کو طواف کے موقع پر مردوں کے ساتھ خلط ملط ہونے سے روکا گیا ہے۔
بخاری میں عطار سے روایت ہے کہ عہدِ نبوی میں عورتیں مردوں کے ساتھ طواف کرتی تھیں مگر خلط ملط نہ ہوتی تھیں۔{ FR 6858 }
فتح الباری میں ابراہیم نخعی سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے طواف میں عورتوں اور مردوں کو گڈ مڈ ہونے سے روک دیا تھا۔ ایک مرتبہ ایک مرد کو آپ نے عورتوں کے مجمع میں دیکھا تو پکڑ کر کوڑے لگائے۔{ FR 6859 }
موطا میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنے بال بچوں کو مزدلفہ سے منیٰ آگے روانہ کر دیا کرتے تھے، تاکہ لوگوں کے آنے سے پہلے صبح کی نماز اور رمی سے فارغ ہو جائیں۔
نیز حضرت ابوبکرؓکی صاحب زادی حضرت اسماءؓ صبح اندھیرے منہ منیٰ تشریف لے جاتی تھیں کہ نبی اکرم a کے عہد میں عورتوں کے لیے یہی دستور تھا۔{ FR 6860 }
۵۔جمعہ و عیدین میں عورتوں کی شرکت
جمعہ و عیدین کے اجتماعات اسلام میں جیسی اہمیت رکھتے ہیں محتاج بیان نہیں۔ ان کی اہمیت کو مدِّنظر رکھ کر شارع نے خاص طور پر ان اجتماعات کے لیے وہ شرط اڑا دی جو عام نمازوں کے لیے تھی، یعنی یہ کہ عورتیں دن میں شریکِ جماعت نہ ہوں۔ اگرچہ جمعہ کے متعلق یہ تصریح ہے کہ عورتیں فرضیت جمعہ سے مستثنیٰ ہیں (ابودائود، باب الجمعۃ للمملوک) اور عیدین میں بھی عورتوں کی شرکت ضروری نہیں، لیکن اگر وہ چاہیں تو نماز باجماعت کی دوسری شرائط کی پابندی کرتے ہوئے ان جماعتوں میں شریک ہو سکتی ہیں۔ حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ a خود اپنی خواتین کو عیدین میں لے جاتے تھے:
عَنْ اُمِّ عَطِیَّہَ قَالَتْ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُخْرِجُ الْأبْکَارَ وَالْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُوْرِ وَالحُیَّضَ فِی الْعِیْدَینِ فَأَمَّا الْحُیَّضَ فَیَعْتَزِلْنَ الْمُصَلیّٰ وَیَشْھَدْنَ دَعْوَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ۔
(سنن الترمذی، کتاب الجمعۃ، باب خروج النساء فی العیدین، حدیث۴۹۵)
امِّ عطیہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ aکنواری اور جوان لڑکیوں اور گھر گرہستنوں اور ایام والی عورتوں کو عیدین میں لے جاتے تھے۔ جو عورتیں نماز کے قابل نہ ہوتیں وہ جماعت سے الگ رہتیں اور دعا میں شریک ہو جاتی تھیں۔
عن ابن عباس اَنَّ النَبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وسَلَّمَ کَانَ یُخْرِجُ بَنَاتِہِ وَنِسَائَہُ فِی الْعِیْدَیْنِ۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب إقامۃ اصلوٰۃ و السنۃ فیھا، باب ما جاء فی خروج النساء فی العیدین، حدیث۲۱۹۹)
ابن عباس کی روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو عیدین میں لے جاتے تھے۔
۶۔ زیارتِ قبور و شرکتِ جنازات
مسلمان کے جنازے میں شریک ہونا شریعت میں فرض کفایہ قرار دیا گیا ہے اور اس کے متعلق جو تاکیدی احکام ہیں، واقف کاروں سے پوشیدہ نہیں۔ مگر یہ سب مردوں کے لیے ہیں۔ عورتوں کو شرکتِ جنازات سے منع کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس ممانعت میں سختی نہیں ہے اور کبھی کبھی اجازت بھی دی گئی ہے۔ لیکن شارع کے ارشادات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کا جنازوں میں جانا کراہت سے خالی نہیں۔ بخاری میں ام عطیہ کی حدیث ہے :
نُھَیْنَا عَنْ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ ولَمْ یُعْزَمْ عَلَیْنَا۔
(کتاب الجنائز، باب اتباع النساء الجنازۃ، حدیث ۱۱۹۹)
ہمیں جنازوں کی مشایعت سے منع کیا گیا تھا مگر سختی کے ساتھ نہیں۔
ابنِ ماجہ اور نسائی میں روایت ہے کہ رسول اللہ a ایک جنازہ میں شریک تھے۔ ایک عورت نظر آئی۔ حضرت عمرؓ نے اسے ڈانٹا۔ حضور اکرم a نے فرمایا: یاعمر دعھا۔ ’’اے عمرؓ! اسے چھوڑ دے‘‘(کتاب ماجائ فی الجنائز، باب ماجائ فی البکائ علی المیت، حدیث۱۵۷۶)
معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت میت کی کوئی عزیز قریب ہو گی۔ شدتِ غم سے مجبور ہو کر ساتھ چلی آئی ہو گی۔ حضور اکرمa نے اس کے جذبات کی رعایت کرکے حضرت عمرؓ کو ڈانٹ ڈپٹ سے منع فرما دیا۔
ایسی ہی صورت زیارتِ قبور کی بھی ہے۔ عورتیں رقیق القلب ہوتی ہیں۔ اپنے مردہ عزیزوں کی یاد ان کے دلوں میں زیادہ گہری ہوتی ہے۔ ان کے جذبات کو بالکل پامال کر دینا شارع نے پسند نہ فرمایا۔ مگر یہ صاف کہہ دیا کہ عورتوں کا کثر ت سے قبروں پر جانا ممنوع ہے۔
ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث ہے :
لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَوَّارَتُ الْقُبُوْرِ۔
(سنن الترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی کراہیۃ زیارۃ القبور للنسا{ FR 6861 } حدیث:۹۷۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت قبروں پر جانے والیوں کو ملعون ٹھہرایا تھا۔
حضرت عائشہ ؓ اپنے بھائی حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر کی قبر پر تشریف لے گئیں تو فرمایا:
وَاللّٰہِ لَوْشَھِدْتُکَ مَازُرْتُکَ۔(سنن الترمذی،کتاب الجنائز، باب ما جاء فی زیارۃ القبور للنسا، حدیث۹۷۵)
بخدا اگر مَیں تمھاری وفات کے وقت موجود ہوتی تو اب تمھاری قبر کی زیارت کو نہ آتی۔
انس ؓ بن مالک کی روایت ہے کہ نبی اکرم a نے ایک عورت کو قبر کے پاس بیٹھے روتے دیکھا تو اسے منع نہ فرمایا بلکہ صرف اِتَّقیِ اللّٰہَ وَاصْبِرِیْ فرما دیا۔
(صحیح البخاری،کتاب الجنائز، باب زیارۃ القبور،حدیث۱۲۰۳)
ان احکام پر غور کیجیے۔ نماز ایک مقدس عبادت ہے۔ مسجد ایک پاک مقام ہے۔ حج میں انسان انتہائی پاکیزہ خیالات کے ساتھ خدا کے دربار میں حاضر ہوتا ہے۔ جنازوں اور قبروں کی حاضری میں ہر شخص کے سامنے موت کا تصور ہوتا ہے اور غم و الم کے بادل چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ سب مواقع ایسے ہیں جن میں صنفی جذبات یا تو بالکل مفقود ہوتے ہیں یا رہتے ہیں تو دوسرے پاکیزہ تر جذبات سے مغلوب ہو جاتے ہیں مگر اس کے باوجود شارع نے ایسے اجتماعات میں بھی مردوں اور عورتوں کی سوسائٹی کا مخلوط ہونا پسند نہ کیا۔ مواقع کی پاکیزگی، مقاصد کی طہارت اور عورتوں کے جذبات کی رعایت ملحوظ رکھ کر انھیں گھر سے نکلنے کی اجازت تو دے دی اور بعض مواقع پر خود بھی ساتھ لے گئے۔ لیکن حجاب کی اتنی قیود لگا دیں کہ فتنے کے ادنیٰ احتمالات بھی باقی نہ رہیں۔ پھر حج کے سوا تمام دوسرے اُمور کے متعلق فرما دیا کہ ان میں عورتوں کا شریک نہ ہونا زیادہ بہتر ہے۔
جس قانون کا یہ رجحان ہو، کیا اس سے آپ توقع رکھتے ہیں کہ وہ مدرسوں اور کالجوں میں، دفتروں اور کارگاہوں میں، پارکوں اور تفریح گاہوں میں، تھیٹروں اور سینمائوں میں، قہوہ خانوں اور رقص گاہوں میں اختلاط صنفین کو جائز رکھے گا؟
۷۔ جنگ میں عورتوں کی شرکت
حدودِ حجاب کی سختی آپ نے دیکھ لی۔ اب دیکھیے کہ ان میں نرمی کہاں اور کس ضرورت سے کی گئی ہے۔
مسلمان جنگ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ عام مصیبت کا وقت ہے۔ حالات مطالبہ کرتے ہیں کہ قوم کی پوری اجتماعی قوت دفاع میں صَرف کر دی جائے۔ ایسی حالت میں اسلام قوم کی خواتین کو عام اجازت دیتا ہے کہ وہ جنگی خدمات میں حصہ لیں۔ مگر اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اس کے پیشِ نظر ہے کہ جو ماں بننے کے لیے بنائی گئی ہے وہ سر کاٹنے اور خون بہانے کے لیے نہیں بنائی گئی۔ اس کے ہاتھ میں تیر و خنجر دینا اس کی فطرت کو مسخ کرنا ہے۔ اس لیے اسلام عورتوں کو اپنی جان اور آبرو کی حفاظت کے لیے تو ہتھیار اٹھانے کی اجازت دیتا ہے مگر بالعموم عورتوں سے مصافی خدمات لینا اور انھیں فوجوں میں بھرتی کرنا اس کی پالیسی سے خارج ہے۔ وہ جنگ میں ان سے صرف یہ خدمت لیتا ہے کہ زخمیوں کی مرہم پٹی کریں، پیاسوں کو پانی پلائیں، سپاہیوں کے لیے کھانا پکائیں اور مجاہدین کے پیچھے کیمپ کی حفاظت کریں۔ ان کاموں کے لیے پردے کی حدود انتہائی کم کر دی گئی ہیں، بلکہ ان خدمات کے لیے تھوڑی ترمیم کے ساتھ وہی لباس پہننا شرعًا جائز ہے جو آج کل عیسائی ننیں پہنتی ہیں۔
تمام احادیث سے ثابت ہے کہ جنگ میں ازواجِ مطہرات اور خواتین اسلام آں حضرت a کے ساتھ جاتیں اور مجاہدین کو پانی پلانے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے کی خدمات انجام دیتی تھیں۔ یہ طریقہ احکامِ حجاب نازل ہونے کے بعد بھی جاری رہا۔
(صحیح البخاری، باب حمل الرجل المرأۃ فی الغزو)
ترمذی میں ہے ام سلیم اور انصار کی چند دوسری خواتین اکثر لڑائیوں میں حضور اکرمa کے ساتھ گئی ہیں۔ (ترمذی، باب ما جاء فی خروج النساء فی الغزو)
بخاری میں ہے کہ ایک عورت نے حضور اکرم a سے عرض کیا:
میرے لیے دُعا فرمائیے کہ مَیں بھی بحری جنگ میں جانے والوں کے ساتھ رہوں۔
آپؐ نے فرمایا: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا مِنْھُمْ۔] یااللہ! اس عورت کو ان میں شامل فرما۔[
(صحیح البخاری، باب غزوۃ المراۃ فی البحر)
جنگِ اُحد کے موقع پر جب مجاہدین اسلام کے پائوں اکھڑ گئے تھے۔ حضرت عائشہؓ اور ام سلیمؓ اپنی پیٹھ پر پانی کے مشکیزے لاد لاد کر لاتی تھیں اور لڑنے والوں کو پانی پلاتی تھیں۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ اس حال میں، مَیں نے انھیں پائنچے اُٹھائے دوڑ دوڑ کر آتے جاتے دیکھا ان کی پنڈلیوں کا نچلا حصہ کھلا ہوا تھا۔
(صحیح البخاری، باب غزوۃ النساء وقتالہن مع الرجال۔ صحیح مسلم، باب غزوۃ النساء مع الرجال جلد۲، صفحہ ۷۶)
ایک دوسری خاتون اُمِّ سلیط کے متعلق حضرت عمرؓ نے خود رسول اللہ aکا یہ قول نقل کیا ہے:
جنگ احد میں دائیں اور بائیں جدھر میں دیکھتا ام سلیط میری حفاظت کے لیے جان لڑاتی ہوئی نظر آتی تھی۔
اسی جنگ میں ربیع بنت معوذ اور ان کے ساتھ خواتین کی ایک جماعت زخمیوں کی مرہم پٹی میں مشغول تھی اور یہی عورتیں مجروحین کو اُٹھا اُٹھا کر مدینے لے جا رہی تھیں۔
(صحیح البخاری، باب مداوات النساء البحرحی فی الغزو)
جنگِ حنین میں ام سلیمہ ایک خنجر ہاتھ میں لیے پھر رہی تھیں۔
حضور اکرم a نے پوچھا یہ کس لیے ہے؟ کہنے لگیں کہ اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو اس کا پیٹ پھاڑ دوں گی۔ (صحیح مسلم، باب غزوۃ النساء مع الرجال)
اُم عطیہ سات لڑائیوں میں شریک ہوئیں۔ کیمپ کی حفاظت، سپاہیوں کے لیے کھانا پکانا، زخمیوں اور بیماروں کی تیمار داری کرنا ان کے سپرد تھا۔
(سنن ابنِ ماجہ، باب العبید والنساء یشہدون مع المسلمین)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ علیہ کا بیان ہے کہ جو خواتین اس قسم کی جنگی خدمات انجام دیتی تھیں انھیں اموالِ غنیمت میں سے انعام دیا جاتا تھا۔ (صحیح مسلم، باب النساء الغازیات یرضح لہن)
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی پردہ کی نوعیت کسی جاہلی رسم کی سی نہیں ہے جس میں مصالح اور ضروریات کے لحاظ سے کمی بیشی نہ ہو سکتی ہو۔ جہاں حقیقی ضروریات پیش آ جائیں وہاں اس کے حدود کم بھی ہو سکتے ہیں، نہ صرف چہرہ اور ہاتھ کھولے جا سکتے ہیں، بلکہ جن اعضا کو سترِ عورت میں داخل کیا گیا ہے ان کے بھی بعض حصے اگر حسبِ ضرورت کھل جائیں تو مضایقہ نہیں لیکن جب ضرورت رفع ہوجائے تو حجاب کو پھر انھی حدود پر قائم ہو جانا چاہیے جو عام حالات کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ جس طرح یہ پردہ جاہلی پردہ نہیں ہے، اسی طرح اس کی تخفیف بھی جاہلی آزادی کی مانند نہیں۔ مسلمان عورت کا حال یورپین عورت کی طرح نہیں ہے کہ جب وہ ضروریاتِ جنگ کے لیے اپنی حدود سے باہر نکلی، تو اس نے جنگ ختم ہونے کے بعد اپنی حدود میں واپس جانے سے انکار کر دیا۔

۱۳۔ خاتمہ

یہ ہے وہ نقطہ عدل اورمقامِ توسط جس کی دنیا اپنی ترقی اور خوش حالی، اخلاقی امن کے لیے محتاج اور سخت محتاج ہے۔ جیسا کہ ابتدا میں بیان کر چکا ہوں، دنیا ہزاروں سال سے تمدن میں عورت کا …… یعنی عالمِ انسانی کے پورے نصف حصے کا……مقام متعین کرنے میں ٹھوکریں کھا رہی ہے۔ کبھی افراط کی طرف جاتی ہے اور کبھی تفریط کی طرف، اور یہ دونوں انتہائیں اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی ہیں۔ تجربات اور مشاہدات اس نقصان پر شاہد ہیں۔ ان انتہائوں کے درمیان عدل و توسط کا مقام، جو عقل و فطرت کے عین مطابق اور انسانی ضروریات کے لیے عین مناسب ہے، وہی ہے جو اسلام نے تجویز کیا ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں متعدد ایسے موانع پیدا ہو گئے ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کے لیے اس صراطِ مستقیم کو سمجھنا اور اس کی قدر کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
ان موانع میں سب سے اہم مانع یہ ہے کہ زمانہ جدید کا انسان عمومًا ’’یرقان‘‘ میں مبتلا ہوگیا ہے اور مشرق کے فرنگیت زدہ لوگوں پر اس یرقان کی ایک اور زیادہ خطرناک قسم کا حملہ ہوا ہے جسے مَیں ’’یرقانِ ابیض‘‘ کہتا ہوں۔ مَیں اپنی اس صاف گوئی پر اپنے دوستوں اوربھائیوں سے معافی کا خواست گار ہوں۔ مگر جو حقیقت ہے اس کے اظہار میں کوئی مروت مانع نہ ہونی چاہیے۔ یہ ایک امر واقعہ ہے کہ اسلام کا کوئی حکم اورکوئی مسئلہ ایسا نہیں جو ثابت شدہ علمی حقائق کے خلاف ہو۔ بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ جو کچھ علمی حقیقت ہے وہی عین اسلام ہے۔ مگر اسے دیکھنے کے لیے بے رنگ نگاہ کی ضرورت ہے تاکہ ہر چیز کو اس کے اصلی رنگ میں دیکھ سکے۔ وسیع نظر کی ضرورت ہے تاکہ ہر چیز کے تمام پہلوئوں کودیکھ سکے، کھلے دل اور سلیمِ فطرت کی ضرورت ہے تاکہ حقائق جیسے کچھ بھی ہوں انھیں ویسا ہی تسلیم کرے اور اپنے رُجحانات کے تابع بنانے کی بجائے رجحاناتِ نفس کو ان کے تابع کر دے۔ جہاں یہ چیز نہ ہو وہاں اگر علم ہو بھی تو بے کار ہے۔ رنگین نگاہ جو کچھ دیکھے گی اسی رنگ میں دیکھے گی جو اس پر چڑھا ہوا ہے۔ محدود نظر مسائل اور معاملات کے صرف انھی گوشوں تک جا سکے گی جو اس زاویہ کے سامنے واقع ہوں جس سے وہ انھیں دیکھ رہی ہے۔ پھر ان سب کے باوجود جو علمی حقائق اپنی اصلی حالت میں اندر تک پہنچ جائیں گے ان پر بھی دل کی تنگی اور فطرت کی کجی اپنا عمل کرے گی۔ وہ حقائق سے مطالبہ کرے گی کہ اس کے داعیاتِ نفس اور اس کے جذبات و رجحانات کے موافق ڈھل جائیں اور اگر وہ نہ ڈھلیں گے تو وہ انھیں حقائق جاننے کے باوجود نظرانداز کر دے گی اور اپنی خواہشات کا اتباع کرے گی۔ ظاہر ہے کہ اس مرض میں جب انسان گرفتار ہو تو علم، تجربہ، مشاہدہ کوئی چیز بھی اس کی راہ نمائی نہیں کر سکتی اور ایسے مریض کے لیے قطعی ناممکن ہے کہ وہ اسلام کے کسی حکم کو ٹھیک ٹھیک سمجھ سکے، کیوں کہ اسلام دینِ فطرت بلکہ عین فطرت ہے۔ دنیائے مغرب کے لیے اسلام کو سمجھنا اسی لیے مشکل ہو گیا ہے کہ وہ اس بیماری میں مبتلا ہو گئی ہے۔ اس کے پاس جتنا بھی ’’علم‘‘{ FR 6862 }ہے وہ سب کا سب ’’اسلام‘‘ ہے۔ مگر خود اس کی اپنی نگاہ رنگین ہے۔ پھر یہی رنگ ’’یرقانِ ابیض‘‘ بن کر مشرق کے نئے تعلیم یافتہ طبقہ کی نگاہ پر چھا گیا ہے اور یہ بیماری انھیں بھی حقائق علمیہ سے صحیح نتائج نکالنے اور مسائلِ حیات کو فطری نگاہ سے دیکھنے میں مانع ہوتی ہے۔ ان میں سے جو مسلمان ہیں وہ ہو سکتا ہے کہ دینِ اسلام پر ایمان رکھتے ہوں۔ اس کی صداقت کے معترف بھی ہوں۔ اتباعِ دین کے جذبے سے بھی خالی نہ ہوں۔ مگر وہ غریب اپنی آنکھوں کے یرقان کا کیا کریں کہ جو کچھ ان آنکھوں سے دیکھتے ہیں اس کا رنگ ہی انھیں صبغۃ اللہ کے خلاف نظر آتا ہے۔
دوسری وجہ جو فہم صحیح میں مانع ہوتی ہے، یہ ہے کہ عام طور پر لوگ جب اسلام کے کسی مسئلہ پر غور کرتے ہیں تو اس نظام اور سسٹم پر بہ حیثیت مجموعی نگاہ نہیں ڈالتے جس سے متعلق وہ مسئلہ ہوتا ہے، بلکہ نظام سے الگ کر کے مجرد اس خاص مسئلے کو زیرِ بحث لے آتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مسئلہ تمام حکمتوں سے خالی نظر آنے لگتا ہے اور اس میں طرح طرح کے شکوک ہونے لگتے ہیں۔ سود کے مسئلہ میں یہی ہوا کہ اسے اسلام (یعنی فطرت) کے اصولِ معیشت اور نظامِ معاشی سے الگ کرکے دکھایا گیا۔ ہزاروں سقم اس میں نظر آنے لگے، یہاں تک کہ بڑے بڑے صاحبِ علم لوگوں کو بھی مقاصدِ شریعت کے خلاف اس میں ترمیم کی ضرورت محسوس ہوئی۔ غلامی، تعدادِ ازدواج، حقوق الزوجین اور ایسے ہی بہت سے مسائل میں اسی بنیادی غلطی کا اعادہ کیا گیا ہے اور پردہ کا مسئلہ بھی اسی کا شکار ہوا ہے۔ اگر آپ پوری عمارت دیکھنے کی بجائے صرف ایک ستون کو دیکھیں گے تو لامحالہ آپ کو حیرت ہو گی کہ یہ آخر کیوں لگایا گیا ہے۔ آپ کو اس کا قیام تمام حکمتوں سے خالی نظر آئے گا۔ آپ کبھی نہ سمجھیں گے کہ انجینئر نے عمارت کو سنبھالنے کے لیے کس تناسب اور موزونیت کے ساتھ اسے لگایا ہے اور اسے گرا دینے سے پوری عمارت کو کیا نقصان پہنچے گا۔ بالکل ایسی ہی مثال پردے کی ہے۔ جب وہ اس نظامِ معاشرت سے الگ کر لیا جائے گا جس میں وہ عمارت کے ستون کی طرح ایک ضرورت اور مناسبت کو ملحوظ رکھ کر نصب کیا گیا ہے تو وہ تمام حکمتیں نگاہوں سے اوجھل ہو جائیں گی جو اس سے وابستہ ہیں اور یہ بات کسی طرح سمجھ میں نہ آ سکے گی کہ نوعِ انسانی کی دونوں صنفوں کے درمیان یہ امتیازی حدود آخر کیوں قائم کیے گئے ہیں۔ پس ستون کی حکمتوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس پوری عمارت کو دیکھ لیا جائے جس میں وہ نصب کیا گیا ہے۔
اب اسلام کا حقیقی پردہ آپ کے سامنے ہے۔ وہ نظامِ معاشرت بھی آپ کے سامنے ہے جس کی حفاظت کے لیے پردے کے ضوابط مقرر کیے گئے ہیں۔ اس نظام کے وہ تمام ارکان بھی آپ کے سامنے ہیں جن کے ساتھ ایک خاص توازن کو ملحوظ رکھ کر پردہ کا رکن مربوط کیا گیا ہے۔ وہ تمام ثابت شدہ علمی حقائق بھی آپ کے سامنے ہیں جن پر اس پورے نظامِ معاشرت کی بنا رکھی گئی ہے۔ ان سب کو دیکھ لینے کے بعد فرمائیے کہ اس میں کہاں آپ کم زوری پاتے ہیں؟ کس جگہ بے اعتدالی کا کوئی ادنیٰ سا شائبہ بھی نظر آتا ہے؟ کون سا مقام ایسا ہے جہاں… کسی خاص گروہ کے رجحان سے قطع نظر محض علمی و عقلی بنیادوں پر… کوئی اصلاح تجویز کی جا سکتی ہو؟ میں علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ زمین اور آسمان جس عدل پر قائم ہیں، کائنات کے نظام میں جو کمال درجہ کا تسویہ پایا جاتا ہے، ایک ذرہ کی ترکیب اور نظامِ شمسی کی بندش میں جیسا مکمل توازن و تناسب آپ دیکھتے ہیں، ویسا ہی عدل و تسویہ اور توازن و تناسب اس نظامِ معاشرت میں بھی موجود ہے۔ افراط اور تفریط اور یک رخی جو انسانی کاموں کی ناگزیر کم زوری ہے اس سے یہ نظام یک سر خالی ہے۔ اس میں اصلاح تجویز کرنا انسان کی قدرت سے باہر ہے۔ انسان اپنی عقل خام کی مداخلت سے اگر اس میں کوئی ادنیٰ رد و بدل بھی کرے گا تو اس کی اصلاح نہ کرے گا بلکہ اس کے توازن کو بگاڑ دے گا۔
افسوس! میرے پاس ایسے ذرائع نہیں ہیں کہ اپنے ان انسانی بھائیوں تک اپنی آواز پہنچا سکوں جو یورپ، امریکا، روس اور جاپان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک صحیح معتدل نظامِ تمدن نہ پانے ہی کی وجہ سے اپنی زندگی کو تباہ کر رہے ہیں اور دنیا کی دوسری قوموں کی تباہی کا بھی موجب بن رہے ہیں۔ کاش مَیں ان تک وہ آبِ حیات پہنچا سکتا جس کے وہ درحقیقت پیاسے ہیں، چاہے وہ اس پیاس کو محسوس نہ کرتے ہوں! تاہم میرے اپنے ہم سایہ ملک کے ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی میری دست رس سے قریب ہیں۔ ان میں اکثر میری زبان بھی سمجھتے ہیں۔ مَیں انھیں دعوت دیتا ہوں کہ مسلمانوں کے ساتھ تاریخی اور سیاسی جھگڑوں کی بدولت جو تعصب ان کے دلوں میں اسلام کے خلاف پیدا ہو گیا ہے اس سے اپنے دلوں کو صاف کرکے محض طالبِ حق ہونے کی حیثیت سے اسلام کے اس نظامِ معاشرت کو دیکھیں جسے ہم نے بے کم و کاست اس کتاب میں بیان کر دیا ہے۔ پھر اس مغربی نظامِ معاشرت سے اس کا موازنہ کریں جس کی طرف وہ بے تحاشا دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ اور آخر میں میری یا کسی اور کی خاطر نہیں بلکہ خود اپنی بھلائی کی خاطر فیصلہ کریں کہ ان کی حقیقی فلاح کس طریقہ میں ہے۔
اس کے بعد مَیں عام ناظرین کی طرف سے رُخ پھیر کر چند الفاظ اپنے ان گم راہ بھائیوں سے عرض کروں گا جو مسلمان کہلاتے ہیں۔
ہمارے بعض نئے تعلیم یافتہ مسلمان بھائی ان تمام باتوں کو تسلیم کرتے ہیں جو اُوپر بیان کی گئی ہیں۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ اسلام کے قوانین میں حالات زمانہ کے لحاظ سے شدت اور تخفیف کی تو کافی گنجائش ہے جس سے تم خود بھی شاید انکار نہیں کر سکتے۔ پس ہماری خواہش صرف اس قدر ہے کہ اسی گنجائش سے فائدہ اٹھایا جائے۔ موجودہ زمانے کے حالات پردہ میں تخفیف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ مسلمان عورتیں مدرسوں اورکالجوں میں جائیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ ایسی تربیت حاصل کریں جس سے ملک کے تمدنی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی مسائل کو سمجھنے اور انھیں حل کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اس کے بغیر مسلمان زندگی کی دوڑ میں ہم سایہ قوموں سے پیچھے رہے جاتے ہیں اور آگے چل کر اندیشہ ہے کہ اور زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔ ملک کی سیاسی زندگی میں عورتوں کو جو حقوق دیے جا رہے ہیں اگر ان سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت مسلمان عورتوں میں پیدا نہ ہوئی، اور پردے کی قیود کے سبب سے وہ فائدہ نہ اٹھا سکیں گی، تو ملک کے سیاسی ترازو میں مسلمانوں کا وزن بہت کم رہ جائے گا۔ دیکھو، دنیائے اسلام کی ترقی یافتہ اقوام مثلاً: ترکی اور ایران نے بھی زمانے کے حالات دیکھ کر اسلامی حجاب میں بہت کچھ تخفیف{ FR 6863 } کر دی ہے اور اس سے چند ہی سال کے اندر نمایاں فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ اگر ہم بھی انھی کے نقشِ قدم پر چلیں تو آخر اس میں کیا قباحت ہے؟
یہ جتنے خطرات بیان کیے جاتے ہیں۔ ہم ان سب کو جوں کا توں تسلیم کرتے ہیں۔ بلکہ اگر خطرات کی فہرست میں اس سے دس گنا اور اضافہ ہو جائے تب بھی کوئی مضایقہ نہیں۔ بہرحال اس نوعیت کے کسی خطرے کی بنا پر بھی اسلام کے قانون میں ترمیم یا تخفیف جائز نہیں ہو سکتی۔ دراصل ایسے تمام خطرات کی نوعیت یہ ہے کہ مثلاً آپ قصدًا اپنی حماقت سے یا مجبورًا اپنی کم زوری کی وجہ سے ایک کثیف اور مضرِ صحت ماحول میں رہتے ہوں اور وہاں حفظانِ صحت کے اُصولوں پر عمل کرنا آپ کے لیے نہ صرف مشکل ہو رہا ہوں، بلکہ گندے لوگوں کی بستی میں آپ کے لیے گندگی اختیار کیے بغیر جینا تک دشوار ہو۔ ایسی حالت میں ظاہر ہے کہ حفظانِ صحت کے اُصولوں کی ترمیم یا تخفیف کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ ان اصولوں کوصحیح سمجھتے ہیں تو آپ کا فرض ے کہ اپنے ماحول سے لڑ کر اسے پاک بنائیں۔ اگر لڑنے کی جرأت و ہمت نہیں اور اپنی کم زوری کی وجہ سے آپ اپنے ماحول سے مغلوب ہیں تو جائیے اور جوجو کثافتیں بھی آپ پر مسلط ہوں ان میں آلودہ ہو جائیے۔ آخر آپ کے لیے قوانینِ صحت میں ترمیم یا تخفیف کیوں کی جائے؟ اور اگر آپ واقعی ان قوانین کو غلط سمجھتے ہیں اور اس گندگی سے آپ کی اپنی طبیعت بھی مانوس ہو چکی ہے تو آپ اپنے لیے جو چاہے قانون بنا لیجیے۔ پاکی اورطہارت کے قانون میں تو ان لوگوں کی خواہشات کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی جو گندگی کی طرف میلان رکھتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ ہر قانون کی طرح اسلامی قانون میں بھی حالات کے لحاظ سے شدت اور تخفیف کی گنجائش ہے، مگر ہر قانون کی طرح اسلامی قانون بھی اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ شدت یا تخفیف کا فیصلہ کرنے کے لیے حالات کو اسی نظر سے اور اسی اسپرٹ میں دیکھا جائے جو اسلام کی نظر اور اسلام کی اسپرٹ ہے۔ کسی مختلف نقطہ نگاہ سے حالات کو دیکھنا اور پھر تخفیف کی قینچی لے کر دفعاتِ قانون پر حملہ آور ہو جانا تخفیف کی تعریف میں نہیں آتا بلکہ یہ سادہ اور صریح تحریف ہے۔ جن حالات کو غیر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھ کر قانون اسلامی میں ’’تخفیف‘‘ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، انھیں اگر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ایسے حالات میں تخفیف کی نہیں بلکہ مزید شدت کی ضرورت ہے۔ تخفیف صرف اس وقت کی جا سکتی ہے جب کہ قانون کے مقاصد دوسرے ذرائع سے پورے نہ ہو رہے ہوں، بلکہ دوسری تمام قوتیں انھیں ضائع کرنے میں لگی ہوئی ہوں، اور ان کے مقاصد کے حصول کا تمام تر مدار صرف تحفظات ہی پر آ ٹھہرا ہو، تو ایسی حالت میں صرف وہی شخص تخفیف کا خیال کر سکتا ہے جو قانون کی اسپرٹ سے قطعی نابلد ہو۔
پچھلے اوراق میں ہم تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے ہیں کہ اسلامی قانون معاشرت کا مقصد ضابطہ ازدواج کی حفاظت، صنفی انتشار کی روک تھام اور غیر معتدل شہوانی تحریکات کا انسداد ہے۔ اس غرض کے لیے شارع نے تین تدبیریں اختیارکی ہیں۔ ایک اصلاحِ اخلاق۔ دوسرے تعزیری قوانین۔ تیسرے انسدادی تدابیر یعنی ستر و حجاب۔ یہ گویا تین ستون ہیں جن پر یہ عمارت کھڑی کی گئی ہے، جن کے استحکام پر اس عمارت کا استحکام منحصر ہے اور جن کا انہدام دراصل اس پوری عمارت کا انہدام ہے۔ آئیے اب اپنے ملک کے موجودہ حالات پر نظر ڈال کردیکھیے کہ ان تینوں ستونوں کا آپ کے ہاں کیا حال ہے؟
پہلے اپنے اخلاقی ماحول کو لیجیے۔ آپ اس ملک میں رہتے ہیں جس کی پچھتر فی صدی آبادی آپ ہی کی اگلی پچھلی کوتاہیوں کو وجہ سے اب تک غیر مسلم ہے، جس پر ایک غیر مسلم قوم حکم ران ہے، جس پر ایک غیر مسلم تہذیب آندھی اور طوفان کی طرح چھائی چلی جا رہی ہے{ FR 6864 }۔ پلیگ اور ہیضہ کے جراثیم کی طرح غیر اسلامی اخلاق کے اصول اور غیر اسلامی تہذیب کے تخیلات تمام فضا میں پھیل گئے ہیں۔ آب و ہوا ان سے مسموم ہو چکی ہے۔ ان کی سمیت نے ہر طرف سے آپ کا احاطہ کر لیا ہے۔ فحش اور بے حیائی کی جن باتوں کے خیال سے بھی چند سال پہلے تک آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے وہ اب اس قدر عام ہو چکی ہیں کہ آپ انھیں روز مرہ کے معمولات سمجھ رہے ہیں۔ آپ کے بچے تک اخباروں، رسالوں اور اشتہاروں میں فحش تصویریں روز دیکھتے ہیں اور بے حیائی کے عادی ہوتے جاتے ہیں۔ آپ کے بوڑھے، جوان اور بچے سب کے سب سینما دیکھ رہے ہیں، جہاں عریانی، بے حیائی اور شہوانی محبت سے زیادہ دل چسپ چیز اورکوئی نہیں۔ باپ اور بیٹے، بھائی اور بہنیں، مائیں اور بیٹیاں، سب ایک دوسرے کے پہلو میں بیٹھ کر علانیہ بوس و کنار اور اختلاط و ملاعبت کے مناظر دیکھتے ہیں اور کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ انتہا درجہ کے گندے اور ہیجان انگیز گیت گھر گھر اور دکان دکان بج رہے ہیں اورکسی کے کان ان آوازوں سے محفوظ نہیں۔ ہندی اور فرنگی اعلیٰ سوسائٹی کی خواتین نیم عریاں لباسوں کے ساتھ پھر رہی ہیں اور نگاہیں ان لباسوں کی اس قدر خوگر ہو چکی ہیں کہ کوئی شخص ان میں کسی قسم کی بے حیائی محسوس نہیں کرتا۔ اخلاق کے جو تصورات مغربی تعلیم و تربیت کے ساتھ پھیل رہے ہیں ان کی بدولت نکاح کو ایک فرسودہ رسم، زنا کو ایک تفریح، مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو ایک ناقابلِ اعتراض بلکہ مستحسن چیز، طلاق کو ایک کھیل، ازدواجی فرائض کو ایک ناقابلِ برداشت بندھن، توالد و تناسل کو ایک حماقت، شوہر کی اطاعت کو ایک نوع کی غلامی، بیوی بننے کو ایک مصیبت اورمعشوق بننے کو ایک خیالی جنت سمجھا جا رہا ہے۔
پھر دیکھیے کہ اس ماحول کے اثرات آپ کی قوم پر کیا پڑ رہے ہیں۔ کیا آپ کی سوسائٹی میں اب غضِ بصر کا کہیں وجود ہے؟ کیا لاکھوں میں ایک آدمی بھی کہیں ایسا پایا جاتا ہے جو اجنبی عورتوں کے حسن سے آنکھیں سینکنے میں باک کرتا ہو؟ کیا اعلانیہ آنکھ اور زبان کا زنا نہیں کیا جا رہا ہے؟ کیا آپ کی عورتیں بھی تبرج جاہلیہ، اظہارِ زینت اور نمائشِ حُسن سے پرہیز کر رہی ہیں؟ کیا آج آپ کے گھروں میں ٹھیک وہی لباس نہیں پہنے جا رہے ہیں جن کے متعلق آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ نساء کاسیات عاریات حمیلات مائلات؟ کیا آپ اپنی بہنوں، بیٹیوں اور مائوں کو وہ لباس پہنے نہیں دیکھ رہے ہیں جنھیں مسلمان عورت اپنے شوہر کے سوا کسی کے سامنے نہیں پہن سکتی؟ کیا آپ کی سوسائٹی میں فحش قصے اور عشق و محبت کے گندے واقعات بے تکلفی کے ساتھ کہے اور سنے نہیں جاتے؟ کیا آپ کی محفلوں میں لوگ خود اپنی بدکاری کے حالات بیان کرنے میں بھی کوئی شرم محسوس کرتے ہیں؟ جب حال یہ ہے تو فرمائیے کہ طہارتِ اَخلاق کا وہ پہلا اور سب سے زیادہ مستحکم ستون کہاں باقی رہا جس پرا سلامی معاشرت کا ایوان تعمیر کیا گیا تھا؟ اسلامی غیرت تو اب اس حد تک مٹ چکی ہے کہ مسلمان عورتیں صرف مسلمانوںہی کے نہیں، کفار کے ناجائز تصرف میں آ رہی ہیں۔ انگریزی حکومت میں نہیں، مسلمان ریاستوں تک میں اس قسم کے واقعات علیٰ رؤس الاشہاد پیش آ رہے ہیں۔ مسلمان ان واقعات کو دیکھتے ہیں اور ان کے خون متحرک نہیں ہوتے۔ ایسے بے غیرت مسلمان بھی دیکھے گئے ہیں جن کی اپنی بہنیں کسی غیر مسلم کے تصرف میں آئیں اور انھوں نے فخریہ اس کا اظہار کیا کہ ہم فلاں کافرکے برادرِ نسبتی ہیں{ FR 6865 }۔ کیا اس کے بعد بھی بے حیائی اور اَخلاقی انحطاط کا کوئی درجہ باقی رہ جاتا ہے؟
اب ذرا دوسرے ستون کا حال بھی دیکھیے۔ تمام ہندوستان سے اسلامی تعزیرات کا پورا قانون مٹ چکا ہے۔ زنا اور قذف کی حد نہ مسلمان ریاستوں میں جاری ہوتی ہے نہ برٹش انڈیا میں۔ صرف یہی نہیں بلکہ جو قانون اس وقت ملک میں نافذ ہے وہ سرے سے زنا کو جرم ہی نہیں سمجھتا۔ اگر کسی شریف بہو بیٹی کو کوئی شخص بہکا کر بدکار بنانا چاہے تو آپ کے پاس کوئی قانونی ذریعہ ایسا نہیں ہے جس سے اس کی عصمت محفوظ رکھ سکیں۔ اگر کوئی شخص کسی بالغ عورت پر اس کی رضامندی سے ناجائز تصرف کرے تو آپ کسی قانون کے ذریعہ سے اسے سزا نہیں دلوا سکتے اگر کوئی عورت اعلانیہ فحش کاری پراتر آئے تو آپ کے پاس کوئی قوت ایسی نہیں جس سے آپ اسے روک سکیں۔ قانون صرف زِنا بالجبر کو جرم ٹھہراتا ہے مگر جو لوگ قانون پیشہ ہیں ان سے پوچھیے کہ زنا بالجبر کا ثبوت کس قدر مشکل ہے۔ منکوحہ عورت کو بھگا لے جانا بھی جرم ہے۔ مگر انگریزی قانون جاننے والوں سے دریافت کیجیے کہ اگر منکوحہ عورت خود اپنی رضامندی سے کسی کے گھر جا پڑے تو اس کے لیے آپ کے فرماں روائوں کی عدالت میں کیا چارہ کار ہے؟
غور کیجیے۔ یہ دونوں ستون منہدم ہو چکے ہیں۔ اب آپ کے نظم معاشرت کی پوری عمارت صرف ایک ستون پر قائم ہے۔ کیا آپ اسے بھی مسمار کر دینا چاہتے ہیں؟ ایک طرف پردے کے وہ نقصانات ہیں جنھیں آپ نے اوپر گنایا ہے۔ دوسری طرف پردہ اٹھا دینے میں اخلاق اور نظامِ معاشرت کی کامل تباہی ہے۔ دونوں کے درمیان موازنہ کیجیے۔ مصیبتیں دونوں ہیں اور ایک کو بہرحال قبول کرنا ہے۔ اب آپ خود ہی اپنے دل سے فتوٰی طلب کیجیے کہ ان میں سے کون سی مصیبت کم تر ہے؟
پس اگر احوالِ زمانہ ہی پر فیصلہ کا انحصار ہے تو مَیں کہتا ہوں کہ یہاں کے احوال پردے کی تخفیف کے نہیں اور زیادہ اہتمام کے مقتضی ہیں۔ کیوں کہ آپ کے نظامِ معاشرت کی حفاظت کرنے والے دو ستون گر چکے ہیں اور اب تمام دار و مدار صرف ایک ہی ستون پر ہے۔ تمدن، معیشت اور سیاست کے مسائل آپ کو حل کرنا ہیں تو سر جوڑ کر بیٹھیے، غور کیجیے، اسلامی حدود کے اندر اس کے حل کی دوسری صورتیں بھی نکل سکتی ہیں مگر اس بچے کھچے ستون کو، جو پہلے ہی کافی کم زور ہو چکا ہے اور زیادہ کم زور نہ بنائیے۔ اس میں تخفیف کرنے سے پہلے کم از کم اتنی قوت پیدا کرنی چاہیے کہ اگرکوئی مسلمان عورت بے نقاب ہو تو جہاں اسے گھورنے کے لیے دو آنکھیں موجود ہوں، وہیں ان آنکھوں کو نکال لینے کے لیے پچاس ہاتھ بھی موجود ہوں۔
٭…٭…٭…٭…٭