نشری تقریریں

ریڈ مودودی ؒ   کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

عرضِ ناشر

ہم اس سے پہلے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودُودی صاحب کی نشری تقریروں کا ایک مجموعہ ’’اسلام کا نظام حیات‘‘ کے نام سے شائع کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ مولانا ممدوح کی کچھ نشری تقریریں اور بھی ہیں جو تقسیم سے پہلے آل انڈیا ریڈیو اور تقسیم کے بعد ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر ہوتی رہی ہیں۔ یہ مختلف اوقات میں منتشر طور پر تو شائع ہو چکی ہیں لیکن یکجا اور کتابی صورت میں ان کی اشاعت کی سعادت پہلی مرتبہ اس مجموعہ کی شکل میں ہمیں حاصل ہوئی ہے۔
بعض تقاریر کے حاشیہ میں جو عبارتیں بڑھائی گئی ہیں، وہ سب مصنف نے توضیح مدعا کے لیے بعد میں بڑھائی ہیں۔ ان میں سے کوئی عبارت اصلی نشری تقریر کا جزو نہیں ہے۔ اس مجموعہ میں تقاریر کی ترتیب ان کے مضامین کی مناسبت سے رکھی گئی ہے نہ کہ ان کی تاریخ ہائے نشر کے لحاظ سے۔
ہم ان تقاریر کی اشاعت کی اجازت کے لیے ریڈیو پاکستان اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب، دونوں کے شکر گزار ہیں۔

منیجنگ ڈائریکٹر

اسلام کی ابتدا (بچوں کے پروگرام میں)

اسلام کی ابتداء اسی وقت سے ہے جب سے انسان کی ابتداء ہوئی ہے۔ اسلام کے معنی ہیں ’’خدا کی تابعداری‘‘ اور یہ انسان کا پیدائشی مذہب ہے۔ کیونکہ خدا ہی انسان کا پیدا کرنے والا اور پالنے والا ہے۔ انسان کا اصل کام یہی ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی تابعداری کرے۔ جس دن خدا نے سب سے پہلے انسان، یعنی حضرت آدمؑ اور ان کی بیوی حضرت حوا کو زمین پر اتارا اسی دن اس نے انہیں بتا دیا کہ دیکھو تم میرے بندے ہو اور میں تمہارا مالک ہوں، تمہارے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ میری ہدایت پر چلو، جس چیز کا میں حکم دوں اسے مانو اور جس چیز سے منع کر دوں اس سے رک جائو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو میں تم سے راضی رہوں گا اور تمہیں انعام دوں گا اور اگر اس کے خلاف کرو گے تو میں تم سے ناراض ہوں گا اور سزا دوں گا۔ بس یہی مذہب اسلام کی ابتداء تھی۔
باوا آدمؑ اور اماں حوا نے اسی طریقہ کی تعلیم اپنی اولاد کو دی کچھ مدت تک سب آدمی اس پر چلتے رہے۔ پھر ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہونے لگے جنہوں نے اپنے خالق کی تابعداری چھوڑ دی۔ کسی نے دوسرں کو خدا بنا لیا، کوئی خود خدا بن بیٹھا، اور کسی نے کہا کہ میں آزاد ہوں، جو کچھ میرے جی میں آئے گا کروں گا، چاہے خدا کا حکم کچھ بھی ہو۔ اس طرح دنیا میں کفر کی ابتداء ہوئی جس کے معنی ہیں ’’خدا کی تابعداری سے انکار کرنا۔‘‘
جب انسانوں میں کفر بڑھتا گیا اور اس کی وجہ سے ظلم، فساد اور برائیوں کا طوفان اٹھنے لگا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو اس کام پر مقرر کیا کہ وہ ان بگڑے ہوئے لوگوں کو سمجھائیں اور ان کو پھر سے اللہ کا تابعدار بنانے کی کوشش کریں۔ یہ نیک بندے نبی اور پیغمبر کہلاتے ہیں۔ یہ پیغمبر کبھی تھوڑی اور کبھی زیادہ مدت کے بعد دنیا کے مختلف ملکوں اور قوموں میں آتے رہے۔ یہ سب بڑے سچے، ایماندار اور پاک لوگ تھے۔ ان سب نے ایک ہی مذہب کی تعلیم دی اوروہ یہی اسلام تھا۔ تم نے حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰ ؑاور حضرت عیسیٰ ؑ کے نام تو ضرور سنے ہوں گے۔ یہ سب خدا کے پیغمبر تھے اور ان کے علاوہ ہزارہا پیغمبر اور بھی گزرے ہیں۔
پچھلے کئی ہزار برس کی تاریخ میں ہمیشہ یہی ہوتا رہا کہ جب کفر زیادہ بڑھا تو کوئی بزرگ پیغمبر بنا کر بھیجے گئے۔ انہوں نے آکر لوگوں کو کفر سے روکنے اور اسلام کی طرف بلانے کی کوشش کی۔ کچھ لوگ ان کے سمجھانے سے مان گئے اور کچھ اپنے کفر پر اڑے رہے۔ جن لوگوں نے مان لیا وہ مسلمان ہوگئے اور انہوں نے اپنے پیغمبر سے اعلیٰ درجہ کے اخلاق سیکھ کر دنیا میں نیکی پھیلانی شروع کی۔ پھر ان مسلمانوں کی اولاد رفتہ رفتہ خود اسلام کو بھول کر کفر کے چکر میں پھنستی چلی گئی، اور کسی دوسرے پیغمبر نے آکر نئے سرے سے اسلام کو تازہ کیا۔ یہ سلسلہ جب ہزاروں برس تک چلتا رہا اور اسلام باربار تازہ ہو کر پھر بھلا دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے آخر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا جنہوں نے اسلام کو ایسا تازہ کیا کہ آج تک وہ قائم ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ قیامت تک قائم رہے گا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آج سے ۱۴۳۰ سال پہلے عرب کے مشہور شہر مکہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اس وقت صرف عرب ہی میں نہیں دنیا کے کسی ملک میں بھی اسلام باقی نہیں رہا تھا۔ اگرچہ پرانے پیغمبروں کی تعلیم کے تھوڑے بہت اثرات نیک لوگوں کے اندر موجود تھے، لیکن خالص خدا کی تابعداری، جس میں کسی دوسرے کی تابعداری شامل نہ ہو، ساری دنیا میں کہیں نہ پائی جاتی تھی۔ اسی وجہ سے لوگوں کے اخلاق بھی بگڑ گئے تھے۔ خدا کو بھول کر لوگ طرح طرح کی برایوں میں پھنس گئے تھے۔ اس حالت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں آنکھیں کھولیں۔ چالیس برس کی عمر تک آپ اپنے شہر میں ایک خاموش انسان کی طرح زندگی بسر کرتے رہے۔ سارا شہر آپ کی سچائی اور ایمانداری کی وجہ سے آپ کی عزت کرتا تھا، مگر کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہی شخص آگے چل کر دنیا کا سب سے بڑا رہنما بننے والا ہے آپ بھی دنیا کی برائیوں کو دیکھ دیکھ کر دل میں کڑھتے تھے مگر اس لیے خاموش تھے کہ آپ کو وہ طریقہ معلوم نہ تھا جس سے اس بگڑی ہوئی دنیا کو ٹھیک کر دیں۔ جب آپ چالیس برس کی عمر کو پہنچ گئے تو خدا نے آپ کو اپنا پیغمبر بنایا اور یہ خدمت آپ کے سپرد کی کہ پہلے اپنی قوم کو اور پھر دنیا بھر کے انسانوں کو کفر چھوڑ دینے اور اسلام قبول کرنے کی ہدایت فرمائیں۔
اس خدمت پر مقرر ہونے کے بعد آپ نے اپنے شہر کے لوگوں سے برملا کہنا شروع کیا کہ تم خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی بندگی نہ کرو۔ تمہارا مالک اور خالق صرف خدا ہے۔ اسی کی تم کو عبادت کرنی چاہیے اور اسی کا حکم تمہیں ماننا چاہیے۔ عام لوگ یہ آواز سن کر آپ کی مخالفت کے لیے کھڑے ہوگئے اور انہوں نے ہر طریقہ سے آپ کی زبان بند کرنی چاہی۔ لیکن قوم کے جتنے سچے اور اچھے لوگ تھے وہ رفتہ رفتہ آپ کے حامی بنتے چلے گئے۔ پھر مکہ سے باہر عرب کے دوسرے علاقوں میں بھی آپ کی تعلیم پہنچنے لگی اور وہاں بھی یہی ہوا کہ جاہل لوگ تو مخالفت پر تل گئے، مگر جن لوگوں میں عقل اور نیک دلی موجود تھی وہ آپ کی سچی باتوں پر ایمان لاتے چلے گئے۔ ۱۲ برس تک یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ ایک طرف آپ کی آواز ملک میں پھیل رہی تھی اور ہر جگہ نیک انسان اسلام قبول کرتے جارہے تھے۔ دوسری طرف جاہلوں کی مخالفت روز بروز سخت ہوتی جارہی تھی اور اسی طرح سے مسلمانوں کو ستایا جارہا تھا۔ آخر کار مکہ کے سرداروں نے آپس میں سازش کی کہ ایک رات اچانک آنحضرتؐ پر حملہ کرکے آپ کو قتل کر دیں اور اس کے بعد مسلمانوں کا نام و نشان دنیا سے مٹا دیں۔
جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو خدا نے آنحضرتؐ کو حکم دیا کہ آپ اور سارے مسلمان مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے جائیں۔ اس وقت مدینہ میں بہت سے لوگ مسلمان ہو چکے تھے اور وہ اسلام کا بول بالا کرنے کے لیے اپنی جان اور مال قربان کرنے پر آمادہ تھے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ٹھیک اسی رات کو مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے جس میں آپ کو قتل کر دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہی وہ مشہور واقعہ ہے جس کو ہجرت کہا جاتا ہے اور اسی واقعہ کی یادگار میں ہمارا ہجری ؁ جاری ہوا ہے۔
آنحضرت کے مدینہ پہنچتے ہی مسلمان بھی عرب کے ہر گوشے سے سمٹ سمٹ کر مدینے میں جمع ہونے شروع ہوگئے اور اس شہر میں اسلام کی باقاعدہ حکومت قائم ہوگئی۔
اب اسلام کے مخالف اور بھی زیادہ پریشان ہونے لگے۔ انہوں نے سوچا کہ پہلے تو یہ مسلمان جگہ جگہ منتشر اور بے بس تھے، ان کو مٹا دینا آسان تھا۔ مگر اب یہ ایک جمع ہوتے جارہے ہیں اور ان کی اپنی حکومت بن گئی ہے۔ اب اگر ان کو ذرا سی مہلت بھی مل گئی تو پھر یہ ایک زبردست طاقت بن جائیں گے۔ اس لیے جلدی سے جلدی کوشش کرنی چاہیے کہ ان پر حملہ کرکے انہیں ختم کر دیا جائے۔ اس خیال سے مکہ کے سرداروں نے آنحضرتؐ کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور سارے عرب کی طاقتوں کو اسلام کے مقابلہ میں اکٹھا کر لیا۔
لیکن نہ تو وہ لڑائیوں میں آپؐ کو شکست دے سکے اور نہ اسلام کی تبلیغ کو کسی طرح روک سکے۔ ان کی ساری کوششوں کے باوجود اسلام عرب میں پھیلتا چلا گیا، خود مخالفوں میں سے ٹوٹ ٹوٹ کر اچھے اچھے آدمی اسلام کی طرف آتے چلے گئے، اور پورے آٹھ برس نہ گزرے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مکہ کو فتح کرلیا۔ مکہ کا فتح ہونا تھا کہ سارے عرب میں کفر کی کمر ٹوٹ گئی اس کے بعد ایک سال کے اندر اندر پورا ملک مسلمان ہوگیا اور ۱۲ لاکھ مربع میل کے رقبہ پر اسلام کی ایک طاقتور حکومت قائم ہوگئی جس میں بادشاہی خدا کی تھی، قانون شریعت کا تھا، اور انتظام خدا کے نیک بندوں کے ہاتھ میں تھا۔ اس حکومت میں ظلم اور بداخلاقی کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ ہر طرف امن تھا، انصاف تھا، سچائی اور ایمانداری کا دور دورہ تھا، اور خدا کی تابعداری اختیار کرنے کی وجہ سے لوگوں میں بہترین اخلاق پیدا ہو گئے تھے۔
اس طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۳ سال کی مختصر مدت میں عرب کی پوری قوم کو بدل ڈالا اور اس کے اندر ایسی روح پھونک دی کہ وہ صرف خود ہی مسلمان نہیں ہوگئی بلکہ ساری دنیا میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ آنحضرتؐ یہ عظیم الشان کارنامہ انجام دینے کے بعد ۶۳ سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔
آپ کے بعد صحابہ کرام نے وہ کام سنبھال لیا جس کے لیے آپ دنیا میں تشریف لائے تھے۔ ان بزرگوں نے اسلام کی تعلیم عرب کے باہر دوسرے ملکوں میں پھیلانی شروع کی اور جو طاقتیں حق کے راستے میں مزاحم ہوئیں ان کو تلوار کے زور سے ہٹا کر پھینک دیا۔ ان کا سیلاب ایسا زبردست تھا کہ کسی کے روکے نہ رک سکا۔ چند سال کے اندر وہ سندھ سے لے کر اسپین تک پھیل گئے۔ ان کے اثر سے بڑی بڑی قومیں مسلمان ہوگئیں۔ ان کے قدم جہاں پہنچ گئے وہاں سے بے انصافی رخصت ہوگئی۔ انہوں نے خدا سے پھرے ہوئے انسانوں کو پھر سے خدا کا تابعدار بنایا، جہالت میں پڑے ہوئے لوگوں کو علم کی روشنی دی، انسانیت سے گرے ہوئے لوگوں کو اٹھا کر اخلاق کی بلندیوں پر پہنچایا، اور جباروں کا زور توڑ کر دنیا میں ایسا انصاف قائم کیا جس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
صحابہ کرام نے اس کے ساتھ دوسرا کام یہ کیا کہ خدا کی طرف سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کتاب لے کر آئے تھے اس کو انہوں نے لفظ بہ لفظ یاد بھی کرلیا اور لکھ کر بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔ آج یہ انہی بزرگوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ہمارے پاس قرآن ٹھیک ویسا ہی اسی زبان اور انہی الفاظ میں موجود ہے جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ساڑھے تیرہ سو برس پہلے خدا کی طرف سے پہنچایا تھا۔ اس میں ایک نقطہ کی کمی بیشی بھی نہیں ہوئی ہے۔
ایک اور کام انہوں نے یہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات، آپ کی تقریریں آپ کے ارشادات، آپ کے احکام، آپ کے اخلاق و عادات، غرض ہر چیز سے متعلق مفصل معلومات بعد کی نسلوں تک پہنچا دیں۔ اس سے دنیا کو یہ فائدہ پہنچا کہ پیغمبر کے جانے کے بعد بھی ہر زمانے کے لوگ پیغمبرؐ کو اسی طرح دیکھ سکتے ہیں جس طرح خود پیغمبر کی زندگی میں دیکھ سکتے تھے۔ ساڑھے تیرہ سو برس گزر جانے کے بعد بھی آج ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پڑھ کریہ معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا کا تابعدار بندہ کیسا ہونا چاہیے اور کس نمونے کے آدمی کو خدا پسند کرتا ہے۔
یہ دو چیزیں، یعنی قرآن اور سیرت محمدیؐ، ایسی ہیں جن کے محفوظ ہو جانے کی وجہ سے اسلام دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا ہے۔ پہلے دنیا میں اسلام بار بار تازہ ہو کر اس لیے بھلایا جاتا رہا کہ جو لوگ پیغمبروں پر ایمان لا کر مسلمان ہوتے تھے وہ خدا کی کتابوں اور اس کے پیغمبروں کی سیرتوں کو محفوظ رکھنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کرتے تھے۔ اس وجہ سے تھوڑی تھوڑی مدت بعد مسلمانوں کی اولاد خود ہی بگڑ جاتی تھی۔ لیکن اب خدا کی کتاب اور پیغمبر کی سیرت دونوں محفوظ ہیں اور اسی وجہ سے اسلام ہمیشہ کے لیے قائم ہوگیا ہے۔ کبھی خدانخواستہ اس کی تازگی میں کچھ کمی آ بھی جائے تو قرآن اور سیرت محمدیؐ کی مدد سے اس کو پھر تازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب دنیا کو کسی نئے پیغمبر کی ضرورت نہیں رہی۔ اب اسلام کو تازہ کرنے کے لیے صرف ایسے لوگ کافی ہیں جو قرآن اور سیرت محمدیؐ کو اچھی طرح جانیں، اس پر خود عمل کریں، اور دوسروں سے اس پر عمل کرانے کی کوشش کریں۔
۶، جولائی ۱۹۴۸ء؁

سرورِ عالم ﷺ

ہم مسلمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’سرورِ عالمؐ‘‘ کہتے ہیں۔ سیدھی سادی زبان میں اس کا مطلب ہے ’’دنیا کا سردار۔‘‘ ہندی میں اس کا ترجمہ ’’جگت گرو‘‘ ہوگا۔ اور انگریزی میں (leader of the world)بظاہر یہ بہت بڑا خطاب ہے، مگر جس بلند پایہ ہستی کو یہ خطاب دیا گیا ہے، اس کا کارنامہ واقعی ایسا ہے کہ اس کو سرور عالمؐ کہنا مبالغہ نہیں عین حقیقت ہے۔
دیکھئے، کسی شخص کو دنیا کا لیڈر کہنے کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہونی چاہئے کہ اس نے کسی خاص قوم یا نسل یا طبقہ کی بھلائی کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کی بھلائی کے لیے کام کیا ہو۔ ایک محب وطن یا ایک قوم پرست لیڈر کی آپ اس حیثیت سے جتنی چاہیں قدر کرلیں کہ اس نے اپنے لوگوں کی بڑی خدمت کی، لیکن اگر آپ اس کے ہم وطن یا ہم قوم نہیں ہیں تو وہ آپ کا لیڈر بہرحال نہیں ہوسکتا۔ جس شخص کی محبت، خیر خواہی اور کارگزاری سب کچھ چین یا ہسپانیہ تک محدود ہو، ایک ہندوستانی کو اس سے کیا تعلق کہ وہ اسے اپنا لیڈر مانے؟ بلکہ اگر وہ اپنی قوم کو دوسروں سے افضل ٹھیراتا ہو اور دوسروں کو گرا کر اپنی قوم کو چڑھانا چاہتا ہو تب تو دوسری قوموں کے لوگ الٹی اس سے نفرت کرنے پر مجبور ہیں۔ ساری قوموں کے انسان کسی ایک شخص کو اپنا لیڈر صرف اسی صورت میں مان سکتے ہیں جب کہ اس کی نگاہ میں سب قومیں اور سب آدمی یکساں ہوں، وہ سب کا یکساں خیر خواہ ہو اور اپنی خیر خواہی میں کسی طرح ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دے۔
دوسری اہم شرط جو دنیا کا لیڈر ہونے کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اس نے ایسے اصول پیش کیے ہوں جو دنیا کے انسانوں کی رہنمائی کرتے ہوں اور جن میں انسانی زندگی کے تمام اہم مسائل کا حل موجود ہو۔ لیڈر کے معنی ہی رہنما کے ہیں۔ لیڈر کی ضرورت ہوتی ہی اس لیے ہے کہ وہ فلاح اور بہتری کا راستہ بتائے۔ لہٰذا دنیا کا لیڈر وہی ہو سکتا ہے جو ساری دنیا کے انسانوں کو ایسا طریقہ بتائے جس میں سب کی فلاح ہو۔
تیسری لازمی شرط دنیا کا لیڈر ہونے کے لیے یہ ہے کہ اس کی رہنمائی کسی خاص زمانے کے لیے نہ ہو بلکہ ہر زمانے اور ہر حال میں یکساں مفید، یکساں صحیح اور یکساں قابل پیروی ہو۔ جس لیڈر کی رہنمائی ایک زمانہ میں کار آمد اور دوسرے زمانہ میں بیکار ہو اس کو دنیا کا لیڈر نہیں کہا جاسکتا۔ دنیا کا لیڈر تو وہی ہے کہ دنیا جب تک قائم رہے اس کی رہنمائی بھی کارآمد ہے۔
چوتھی اہم ترین شرط یہ ہے کہ اس نے صرف اصول پیش کرنے ہی پر اکتفا نہ کی ہو بلکہ اپنے پیش کردہ اصولوں کو زندگی میں عملاً جاری کرکے دکھایا ہو اور ان کی بنیاد پر ایک جیتی جاگتی سوسائٹی پیدا کر دی ہو۔ محض اصول پیش کرنے والا زیادہ سے زیادہ ایک مفکر (thinker) ہوسکتا ہے، لیڈر نہیں ہوسکتا۔ لیڈر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے اصولوں کو عمل میں لاکر دکھائے۔
آئیے اب ہم دیکھیں کہ چاروں شرطیں اس ہستی میں کہاں تک پائی جاتی ہیں جس کو ہم ’’سرورِ عالم‘‘ کہتے ہیں۔
پہلی شرط کو پہلے لیجئے۔ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ایک ہی نظر میں محسوس کریں گے کہ یہ کسی قوم پرست یا محب طن کی زندگی نہیں ہے بلکہ ایک محب انسانیت اور ایک عالمگیر نظریہ رکھنے والے انسان کی زندگی ہے۔ ان کی نگاہ میں تمام انسان یکساں تھے۔ کسی خاندان، کسی طبقے، کسی قوم، کسی نسل یا کسی ملک کے خاص مفاد سے انہیں دلچسپی نہ تھی۔ امیر اور غریب، اونچ اور نیچ، کالے اور گورے، عرب اور غیر عرب، مشرق اور مغربی، سامی اور آرین، سب کو وہ اس حیثیت سے دیکھتے تھے کہ یہ سب ایک ہی انسانی نسل کے افراد ہیں۔ ان کی زبان سے تمام عمر کوئی ایک لفظ یا ایک فقرہ بھی ایسا نہ نکلا، اور نہ زندگی بھر میں کوئی کام انہوں نے ایسا کیا جس سے یہ شبہ کیا جاسکتا ہو کہ انہیں ایک طبقۂ انسانی کے مفاد سے زیادہ تعلق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی ہی میں حبشی، ایرانی، رومی، مصری اور اسرائیلی، اسی طرح ان کے رفیق کار بنے جس طرح عرب۔ اور ان کے بعد زمین کے ہر گوشے میں ہر نسل اور ہر قوم کے انسانوں نے ان کو اسی طرح اپنا رہنما تسلیم کیا جس طرح خود اپنی قوم نے۔ یہ اسی خالص انسانیت ہی کا کرشمہ تو ہے کہ آج آپ ایک ہندوستانی کی زبان۱؎ سے اس شخص کی تعریف سن رہے ہیں جو صدیوں پہلے عرب میں پیدا ہوا تھا۔
اب دوسری اورتیسری شرط کو ایک ساتھ لیجئے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مخصوص قوموں اور مخصوص ملکوں کے وقتی اور مقامی مسائل سے بحث کرنے میں اپنا وقت ضائع نہیں کیا بلکہ اپنی پوری قوت دنیا میں انسانیت کے اس بڑے مسئلے کو حل کرنے میں صرف کر دی جس سے تمام انسانوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مسائل خود حل ہو جاتے ہیں۔ وہ بڑا مسئلہ کیا ہے؟ وہ صرف یہ ہے کہ:
’’کائنات کا نظام فی الواقع جس اصول پر قائم ہے، انسان کی زندگی کا نظام بھی اسی کے مطابق ہو۔ کیونکہ انسان اس کائنات کا ایک جز ہے اور جز کی حرکت کا کل کے خلاف ہونا ہی خرابی کا موجب ہے۔‘‘
اگر آپ اس بات کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کی آسان صورت یہ ہے کہ اپنی نگاہ کو ذرا کوشش کرکے زمان اور مکان کی قیود سے آزاد کر لیجئے اور پورے کرہ زمین پر اس طرح نظر ڈالیے کہ ابتدا سے آج تک اور آئندہ غیر محدود زمانہ تک بسنے والے تمام انسان بہ یک وقت آپ کے سامنے ہوں۔ پھر دیکھئے کہ انسان کی زندگی میں خرابی کی جتنی صورتیں پیدا ہوئی ہیں یا ہونی ممکن ہیں ان سب کی جڑ کیا ہے یا کیا ہوسکتی ہے۔ اس سوال پر آپ جتنا غور کریں گے، جتنی چھان بین اور تحقیق کریں گے، حاصل یہی نکلے گا کہ:
’’انسان کی خدا سے بغاوت تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔‘‘
اس لیے کہ خدا سے باغی ہو کر انسان لازمی طور پر دو صورتوں میں سے کوئی ایک ہی صورت اختیار کرتا ہے: یا تو وہ اپنے آپ کو خود مختار اور غیر ذمہ دار سمجھ کر من مانی کارروائیاں کرنے لگتا ہے اور یہ چیز اسے ظالم بنا دیتی ہے۔ یا پھر وہ خدا کے سوا دوسروں کے حکم کے آگے سر جھکانے لگتا ہے اور اس سے دنیا میں فساد کی بے شمار صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ خدا سے بے پروا ہو کر یہ خرابیاں کیوں پیدا ہوتی ہیں؟ اس کا سیدھا اور صاف جواب یہ ہے کہ ایسا کرنا چونکہ حقیقت کے خلاف ہے اس لیے اس کا نتیجہ برا نکلتا ہے۔ یہ ساری کائنات فی الواقع خدا کی سلطنت ہے۔ زمین، سورج، چاند، ہوا، پانی، روشنی، سب خدا کی ملک ہیں اور انسان اس سلطنت میں پیدائشی بندے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ پوری سلطنت جس نظام پر چل رہی ہے، اگر انسان اس کا ایک جزہونے کے باوجود اس سے مختلف رویہ اختیار کرے تو لامحالہ اس کا ایسا رویہ تباہ کن نتائج ہی پیدا کرے گا۔ اس کا یہ سمجھنا کہ مجھ سے اوپر کوئی مقتدرِ اعلیٰ نہیں ہے جس کے سامنے میں جوابدہ ہوں… واقعہ کے خلاف ہے۔ اس لیے جب وہ خود مختار بن کر غیر ذمہ دارانہ طریقہ پر کام کرتا ہے اور اپنا قانون زندگی آپ سے تجویز کرتا ہے تو نتیجہ برا نکلتا ہے۔ اسی طرح اس کا خدا کے سوا کسی اور کو صاحب اختیار و اقتدار ماننا اور اس سے خوف یا لالچ رکھنا اور اس کی آقائی کے آگے جھک جانا بھی حقیقت کے خلاف ہے، کیونکہ فی الحقیقت اس پوری کائنات میں خدا کے سوا کوئی بھی یہ حیثیت نہیں رکھتا۔ لہٰذا اس کا نتیجہ بھی برا ہی نکلتا ہے۔ صحیح نتیجہ برآمد ہونے کی صورت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ زمین و آسمان میں جو حقیقی حکومت ہے، انسان اس کے سامنے سر جھکا دے، اپنی خودی و خود سری کو اس کے آگے تسلیم کر دے، اپنی اطاعت اور بندگی کو اس کے لیے خالص کر دے، اور اپنی زندگی کا ضابطہ و قانون خود بنانے یا دوسروں سے لینے کے بجائے اس سے لے۔
یہ بنیادی اصلاح کی تجویز ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی زندگی کے لیے پیش کی ہے، یہ مشرق اور مغرب کی قید سے آزاد ہے۔ روئے زمین میں جہاں جہاں انسان آباد ہیں، یہی ایک اصلاحی تجویز ان کی زندگی کی بگڑی ہوئی کل کو درست کر سکتی ہے۔ اور یہ ماضی و مستقبل کی قید سے بھی آزاد ہے۔ ڈیڑھ ہزار برس پہلے یہ جتنی صحیح و کارگر تھی اتنی ہی آج بھی ہے اور اتنی ہی دس ہزار برس بعد بھی ہوگی۔
اب آخری شرط باقی رہ جاتی ہے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف خیالی نقشہ ہی پیش نہیں کیا بلکہ اس نقشہ پر ایک زندہ سوسائٹی پیدا کرکے دکھا دی۔ انہوں نے ۲۳ سال کی مختصر مدت میں لاکھوں انسانوں کو خدا کی حکومت کے آگے سراطاعت جھکانے پر آمادہ کرلیا۔ ان سے خود پرستی بھی چھڑوائی اور خدا کے سوا دوسروں کی بندگی بھی۔ پھر ان کو جمع کرکے خالص خدا کی بندگی پر ایک نیا نظام اخلاق، نیا نظام تمدن، نیا نظام معیشت اور نیا نظام حکومت بنایا اور تمام دنیا کے سامنے بات کا عملی مظاہرہ کر دیا کہ جو اصول وہ پیش کر رہے ہیں اس پر کیسی زندگی بنتی ہے اور دوسرے اصولوں کی زندگی کے مقابلہ میں وہ کتنی اچھی، کتنی پاکیزہ اور کتنی صالح ہے۔
یہ وہ کارنامہ ہے جس کی بنا پر ہم محمدﷺ کو سرور عالم یا سارے جہان کا لیڈر کہتے ہیں۔ ان کا یہ کام کسی خاص قوم کے لئے نہ تھا بلکہ تمام انسانوں کے لئے تھا۔ یہ انسانیت کی مشترک میراث ہے جس پر کسی کا حق کسی دوسرے سے کم یا زیادہ نہیں ہے۔ جو چاہے اس میراث سے فائدہ اٹھائے، میں نہیں سمجھتا کہ اس کے خلاف کسی کو تعصب رکھنے کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے۔
۱۰، اپریل ۱۹۴۱ء

میلادُ النبیؐ

آج اُس عظیم الشان انسان کا یوم پیدائش ہے جو زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے رحمت بن کر آیا تھا اور وہ اصول اپنے ساتھ لایا تھا جس کی پیروی میں ہر فرد انسانی، ہر قوم وملک، اور تمام نوع انسان کے لیے یکساں فلاح اور سلامتی ہے۔ یہ دن اگرچہ ہر سال آتا ہے، مگر اب کے سال یہ ایسے نازک موقع پر آیا ہے جب کہ زمین کے باشندے ہمیشہ سے بڑھ کر اس دانائے کامل کی راہ نمائی کے محتاج ہیں۔ معلوم نہیں مسٹر برنارڈشا نے اچھی طرح جان بوجھ کر کہا تھا یا بے جانے بوجھے، مگر جو کچھ انھوں نے کہا وہ بالکل سچ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر اس وقت دُنیا کے ڈکٹیٹر ہوتے تودُنیا میں امن قائم ہو جاتا۔ میں اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر کہتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں موجود نہ سہی، ان کے پیش کردہ اصول تو بے کم وکاست موجود ہیں، ان کے اصولوں کو بھی اگر ہم راست بازی کے ساتھ ڈکٹیٹر مان لیں تو وہ سارے فتنے ختم ہو سکتے ہیں جن کی آگ سے آج نسل آدم کا گھر جہنم بنا ہوا ہے (خیال رہے کہ یہ جنگ عظیم دوم کے انتہائی زور کا زمانہ تھا)۔
اب سے چودہ سو برس پہلے جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں قدم رکھا تھا اس وقت خود ان کا اپنا وطن اخلاقی پستی، بدنظمی اور بدامنی کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ قرآن میں اس وقت کی حالت پر ان الفا ظ میں تبصرہ کیا گیا ہے کہ ’’تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے جس سے خدا نے تمھیں بچا لیا۔‘‘ اس سے کچھ بہتر حالت دنیا کے دوسرے ملکوں کی نہ تھی۔ ایران اور مشرقی رومی سلطنت اس وقت انسانی تہذیب کے دو سب سے بڑھے گہوارے تھے۔ اور ان دونوں کو ایک طرف آپس کی پیہم لڑائی اور دوسری طرف خود اپنے گھر کے معاشرتی امتیازات، معاشی ناہمواری اور مذہبی جھگڑوں نے تباہ کر رکھا تھا۔ ان حالات میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھے اور تیئس برس کے اندر انھوں نے نہ صرف عرب کو بدل ڈالا بلکہ ان کی راہ نمائی میں عرب سے جو تحریک اٹھی تھی اُس نے ایک چوتھائی صدی کے اندر ہندوستان کی سرحدوں سے شمالی افریقہ تک دنیا کے ایک بڑے حصہ کو اخلاق، تمدن، معیشت، سیاست، غرض ہر شعبہ زندگی میں درست کرکے رکھ دیا۔
یہ اصلاح کیوں کر ہوئی؟ ایک مختصر گفتگو میں اس کی ساری تفصیلات بیان کرنا ناممکن ہے لیکن اس کے موٹے موٹے اصول میں آپ کے سامنے بیان کروں گا۔
سب سے پہلی چیز جس پر انھوں نے زور دیا یہ تھی کہ تمام انسان صرف خدائے واحد کو اپنا آقا، مالک، معبود اور حاکم تسلیم کریں۔ خدا کے سوا کسی کی بندگی قبول نہ کریں۔ صرف مذہب کے محدود دائرے ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے سارے معاملات میں تنہا خدا کے اقتدار اعلیٰ کے آگے جھک جائیں۔ اس کے ساتھ دوسری اہم چیز ان کی تعلیم میں یہ تھی کہ انسان کی مطلق العنانی اور غیر ذمہ داری کو بالکل ختم کر دیا جائے۔ ہر انسان فردًا فردًا اپنے آپ کو خدا کے سامنے جواب دہ سمجھے اور اسی طرح انسانی جماعتیں بھی، خواہ وہ خاندانوں اور قبیلوں کی شکل میں ہوں یا طبقات کی شکل میں، قوموں کی شکل میں ہوں یا ریاستوں اورحکومتوں کی شکل میں، بہرحال خدا کے حضوراپنی ذمہ داری کو محسوس کریں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کا تصور ہی یہ پیش کیا ہے کہ وہ زمین پر خدا کا خلیفہ یا نائب ہے، اسے جس قدر اور جس حیثیت میں بھی کچھ اختیارات حاصل ہیں دراصل وہ اس کے ذاتی اختیارات نہیں ہیں بلکہ خدا کے دیے ہوئے ہیں اور ان کے استعمال میں وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔
خدائی اقتدارِ اعلیٰ اور انسانی خلافت کی بنیادوں پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نوع انسانی کے درمیان منصفانہ وحدت واتفاق کا وہ رشتہ فراہم کیا جو کسی دوسرے ذریعہ سے پیدا نہیں ہو سکتا، نسل، نسب، زبان، رنگ، وطن معاشی مفاد اور دوسری جتنی چیزیں سوسائٹی کی بنیاد بنتی ہیں۔ وہ لازمی طور پر انسانوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کا مدِّ مقابل بنا دیتی ہیں۔ ان میں اگر موافقت ہوتی بھی ہے تو اغراض کی بنا پر ایک ناپائدار عارضی موافقت ہوتی ہے۔ کش مکش اور جنگ اس تقسیم کی عین فطرت میں داخل ہے اور اس کا لازمی نتیجہ بے انصافی ہے۔ اس کو دور کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ تمام انسانوں کو خدا کی بندگی پر متحد کیا جائے اور خدا کے سامنے جواب دہ ہونے کا احساس پیدا کرکے انھیں انصاف پر آمادہ کیا جائے۔
قومیت اور طبقات کے بجائے خدا کی بندگی اور خلافت کے تصور پر جس عالم گیر سماجی زندگی کی بنیاد محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی اس کے ہر پہلو کو انھوں نے پائدار اخلاقی اصولوں پر ڈھال دیا۔ ان کے پیش کیے ہوئے اخلاقیات تارک الدنیا اوردرویشوں کے لیے نہیں تھے بلکہ دنیا کا کام چلانے والے لوگوں کے لیے تھے۔ کسان، زمین دار، مزدور، کارخانہ دار، تاجر، خریدار، پولیس مین، مجسٹریٹ، کلکٹر، جج، گورنر، سپاہی اور سپہ سالار، وزیر اور سفیر ہر ایک کو اس کے دائرہ عمل میں انھوں نے اخلاق کے ایسے ضابطوں سے باندھ دیا جس کی بندشوں کو کھولنا اور کسنا، جس کے اصولوں کو بنانا اور بگاڑنا افراد یا رائے عام کی خواہشات پر منحصر نہیں تھا۔ انھوں نے معاشرت اور شخصی تعلقات کو، آرٹ اور ادب کو، کاروبار اور لین دین کو، سیاست اور انتظام ملکی کو، بین الاقوامی تعلقات اور صلح وجنگ کو، غرض انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر شعبہ کا یہ حق تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ اخلاق کی بندشوں سے آزاد ہو کر نشوونما پائے۔
یہ وہ بڑے بڑے اصول تھے جن پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اصلاحی پروگرام مبنی تھا۔ اس پروگرام کو عمل میں لانے کے لیے انھوں نے جو طریقہ اختیار کیا وہ انفرادی اصلاح سے شروع ہوتا تھا۔ ان کی نگاہ سے یہ بات پوشیدہ نہ تھی کہ اجتماعی اصلاح کے ہر نقشہ کا دارومدار افراد ہی پر جا کر ٹھہرتا ہے۔ کوئی بہتر سے بہتر نظام بھی کم زور کیریکٹر اور ناقابل اعتماد سیرت کے لوگوں کو لے کر کام یابی کے ساتھ نہیں چلایا جا سکتا، افراد کی سیرت کی خامیوں سے ایک نظام کے عمل درآمد میں جو رخنے اور شگاف پڑتے ہیں، انھیں کاغذ پر نہیں بھرا جا سکتا۔ کاغذ کی دنیا میں آپ مختلف ممکن خرابیوں کے سدِّ باب کا جس قدر چاہیں خیالی انتظام کر لیں، لیکن عمل کی دنیا میں اس کاغذی نقشہ کو چلانے کا انحصار بہرحال کارکن افراد ہی پر ہو گا۔ یہ افراد اگربجائے خود خواہشات، اغراض اور تعصبات سے شکست کھا جانے والے لوگ ہوں، اگر ان کے اندر سچا ایمان اور پختہ کیریکٹر نہ ہو، تو آپ کی ساری خیالی احتیاطوں کے باوجود اس نظام میں رخنے پڑیں گے اور ایسی ایسی جگہوں سے پڑیں گے جہاں تک آپ کا تصور بھی نہ جا سکے گا۔ بخلاف اس کے کاغذ پر ایک نظام کو دیکھ کر آپ اس میں بہت سے رخنوں کا امکان ثابت کر سکتے ہیں لیکن اسے چلانے کے لیے اگر بھروسے کے قابل افراد موجود ہوں تو ان کا صحیح عمل ان سارے رخنوں کو بھر دے گا جس کے رونما ہونے کا امکان عالم خیال میں آپ کو نظر آتا ہو۔
اسی بنا پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اپنی ساری قوت ایسے افراد کو تیار کرنے پر صرف کی جو ان کے پروگرام کے مطابق بہترین طریقہ پر دنیا کی اصلاح کر سکتے ہوں۔ انھوں نے ایسے لوگ تیار کیے جو ہر حال میں خدا سے ڈر کر بدی سے پرہیز کرنے والے ہوں۔ جو اپنی زندگی کے ہر معاملہ میں خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری کو پیش نظر رکھنے والے ہوں۔ جو ہر اس کام سے رک جانے والے ہوں جس کے متعلق انھیں خدا کی ناراضی کا اندیشہ ہو اور ہر اس کام میں دل وجان سے کوشش کرنے والے ہوں جس کے متعلق انھیں معلوم ہو جائے کہ خدا اس سے خوش ہو گا۔ جنھیں خدا کی خوشنودی پر اپنی کسی چیز کو قربان کرنے میں تامل نہ ہو جن کے دل میں خدا کے سوا کسی کا خوف، کسی کی مہربانی کا لالچ، اور کسی کے انعام کی تمنا نہ ہو۔ جن کے لیے پبلک اور پرائیویٹ زندگی میں کوئی فرق نہ ہو۔ جو راز کے پردوں میں بھی اتنے ہی نیک، شریف اور پرہیز گارہوں، جتنے پبلک میں منظر عام پر آئیں۔ جن پر یہ بھروسا کیا جا سکے کہ بندگانِ خدا کی جان، مال، آبرو اگر ان کے چارج میں دے دی جائے تو خیانت کار ثابت نہ ہوں گے۔ اپنی ذات یا اپنی قوم اور حکومت کی طرف سے کوئی عہد کریں تو بے وفا نہ نکلیں گے۔ انصاف کی کرسی پر بٹھائے جائیں تو ظالم نہ پائے جائیں گے۔ لین دین کے بازار میں بیٹھیں تو بدمعاملگی نہ کریں گے۔ حق مانگنے میں چاہے سست ہوں مگر حق ادا کرنے میں سست نہ ہوں گے اور اپنی ذہانت، ہوشیاری، تدبر اور قوت وقابلیت کو راستی اور انصاف کے لیے اور انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال کریں گے نہ کہ شخصی یا قومی اغراض کی خاطر دوسروں کو بے وقوف بنانے اور دوسروں کے حق تلف کرنے کے لیے۔
کامل پندرہ سال تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے افراد کی تیاری میں لگے رہے۔ اس مدت میں آپ نے حق پرستوں کی ایک مٹھی بھر جماعت تیار کر لی۔ جو صرف عرب کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا کی اصلاح کے لیے سچا عزم رکھتی تھی اور جس میں عرب کے علاوہ دوسری قوموں کے افراد بھی شامل تھے۔
اس جماعت کو منظم کرنے کے بعد آپ نے وسیع پیمانہ پر سماج کی اصلاح کے لیے عملی جدوجہد شروع کی اور صرف آٹھ برس میں بارہ لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی سرزمین عرب کے اندر مکمل اخلاقی، معاشی، تمدنی اور سیاسی انقلاب برپا کرکے رکھ دیا۔
پھر وہی جماعت جسے آپ نے منظم کیا تھا عرب کی اصلاح سے فارغ ہو کر آگے بڑھی اور اس نے اس زمانہ کی مہذب دنیا کے بیشتر حصے کو اس انقلاب کی برکتوں سے مالا مال کر دیا جو عرب میں رونما ہوا تھا۔
آج ہم نئے نظام (نیو آرڈر) کی آوازیں ہر طرف سے سن رہے ہیں۔ لیکن یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ جن بنیادی خرابیوں نے پرانے نظام کو آخر کار فتنہ بنا کر چھوڑا وہی اگر صورت بدل کر کسی نئے نظام میں بھی موجود ہوں تو وہ نیا نظام ہوا کب۔ وہ تو وہی پرانا نظام ہو گا جس کے کاٹنے اور ڈسنے سے جاں بلب ہوجانے کے بعد ہم نئے نظام کا تریاق مانگ رہے ہیں انسانی اقتدارِ اعلیٰ، خدا سے بے نیازی وبے خوفی، قومی ونسلی امتیازات، ملکوں اور قوموں اور طبقوں کی سیاسی ومعاشی خود غرضیاں، اور ناخدا ترس افراد کا دنیا میں برسر اقتدار ہونا، یہ ہیں وہ اصلی خرابیاں جو اس وقت تک نوع انسانی کو تباہ کرتی رہی ہیں اور آئندہ بھی اگر ہماری زندگی کا نظام انھی خرابیوں کا شکار رہا تو یہ ہمیں تباہ کرتی رہیں گی۔ اصلاح اگر ہو سکتی ہے تو انھی اصولوں پر ہو سکتی ہے جن کی طرف انسانیت کے ایک سچے بہی خواہ نے اس سے صدیوں پہلے ہماری محض راہ نمائی ہی نہ کی تھی بلکہ عملاً اصلاح کرکے دکھا دی تھی۔

سرورِ عالم ﷺ کا اصلی کارنامہ

دنیا جانتی ہے کہ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے اس برگزیدہ گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جو قدیم ترین زمانہ سے نوعِ انسانی کو خدا پرستی اور حسنِ اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے اٹھتا ہے۔ ایک خدا کی بندگی اور پاکیزہ اخلاقی زندگی کا درس جو ہمیشہ سے دنیا کے پیغمبر، رِشی ]خدا پرست[ اور مُنی ]زاہد[ دیتے رہے ہیں وہی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دیا ہے۔ انھوں نے کسی نئے خدا کا تصور پیش نہیں کیا ہے اور نہ کسی نرالے اخلاق ہی کا سبق دیا ہے جو ان سے پہلے کے رہبرانِ انسانیت کی تعلیم سے مختلف ہو۔ پھر سوال یہ ہے کہ ان کا وہ اصلی کارنامہ کیا ہے جس کی بنا پر ہم انھیں تاریخِ انسانی کا سب سے بڑا آدمی قرار دیتے ہیں۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بے شک آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انسان خدا کی ہستی اور اس کی وحدانیت سے آشنا تھا، مگر اس بات سے پوری طرح واقف نہ تھا کہ اس فلسفیانہ حقیقت کا انسانی اخلاقیات سے کیا تعلق ہے۔ بلاشبہ انسان کو اخلاق کے عمدہ اصولوں سے آگاہی حاصل تھی، مگر اسے واضح طور پر یہ معلوم نہیں تھا کہ زندگی کے مختلف گوشوں اور پہلوئوں میں ان اخلاقی اصولوں کی عملی ترجمانی کس طرح ہونی چاہیے۔ خدا پر ایمان، اصولِ اخلاق اور عملی زندگی، یہ تین الگ الگ چیزیں تھیں جن کے درمیان کوئی منطقی ربط، کوئی گہرا تعلق اور کوئی نتیجہ خیز رشتہ موجود نہ تھا۔ یہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنھوں نے ان تینوں کو ملا کر ایک نظام میں سمو دیا اور ان کے امتزاج سے ایک مکمل تہذیب و تمدن کانقشہ محض خیال کی دنیا ہی میں نہیں بلکہ عمل کی دنیا میں بھی قائم کرکے دکھایادیا۔
انھوں نے بتایا کہ خدا پر ایمان محض ایک فلسفیانہ حقیقت کے مان لینے کا نام نہیں ہے بلکہ اس ایمان کا مزاج اپنی عین فطرت کے لحاظ سے ایک خاص قسم کے اخلاق کا تقاضا کرتا ہے اور اس اخلاق کا ظہور انسان کی عملی زندگی کے پورے رویہ میں ہونا چاہیے۔ ایمان ایک تخم ہے جو نفسِ انسانی میں جڑ پکڑتے ہی اپنی فطرت کے مطابق عملی زندگی کے ایک پورے درخت کی تخلیق شروع کر دیتا ہے اور اس درخت کے تنے سے لے کر اس کی شاخ شاخ اور پتی پتی تک میں اخلاق کا وہ جیون رَس جاری و ساری ہو جاتا ہے جس کی سوتیں تخم کے ریشوں سے ابلتی ہیں۔ جس طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ زمین میں بوئی تو جائے آم کی گٹھلی اور اس سے نکل آئے لیموں کا درخت، اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ دل میں بویا تو گیا ہو خدا پرستی کا بیج اور اس سے رونما ہو جائے ایک مادّہ پرستانہ زندگی جس کی رگ رگ میں بداخلاقی کی روح سرایت کیے ہوئے ہو۔ خدا پرستی سے پیدا ہونے والے اخلاق اور شرک، دہریت یا رہبانیت سے پیدا ہونے والے اخلاق یکساں نہیں ہو سکتے۔ زندگی کے یہ سب نظریے اپنا الگ الگ مزاج رکھتے ہیں اور ہر ایک کا مزاج دوسرے سے مختلف قسم کے اخلاقیات کا تقاضا کرتا ہے۔ پھر جو اخلاق خدا پرستی سے پیدا ہوتے ہیں وہ صرف ایک خاص عابد و زاہد کے گروہ کے لیے مخصوص نہیں ہیں کہ صرف خانقاہ کی چار دیواری اور عزلت کے گوشے ہی میں ان کا ظہور ہو سکے۔ ان کا اطلاق وسیع پیمانے پر پوری انسانی زندگی اور اس کے ہر ہر پہلو میں ہونا چاہیے۔ اگر ایک تاجر خدا پرست ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی تجارت میں اس کا خدا پرستانہ اخلاق ظاہر نہ ہو۔ اگر ایک جج خدا پرست ہے تو عدالت کی کرسی پر، اور ایک پولیس مین خدا پرست ہے تو پولیس پوسٹ پر اس سے غیر خدا پرستانہ اخلاق ظاہر نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح اگر کوئی قوم خدا پرست ہے تو اس کی شہری زندگی میں، اس کے انتظام ملکی میں، اس کی خارجی سیاست میں، اور اس کی صلح و جنگ میں خدا پرستانہ اخلاق کی نمود ہونی چاہیے۔ ورنہ اس کا ایمان باللہ محض ایک لفظ بے معنی ہے۔
اب رہی یہ بات کہ خدا پرستی کس قسم کے اخلاق کا تقاضا کرتی ہے اور اُن اخلاقیات کا ظہور کس طرح انسان کی عملی زندگی میں، اور انفرادی و اجتماعی رویہ میں ہونا چاہیے، تو یہ ایک وسیع مضمون ہے جسے ایک مختصر گفتگو میں سمیٹنا مشکل ہے۔ مگر مَیں نمونے کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات آپ کو سنائوں گا، جن سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتب کیے ہوئے نظامِ زندگی میں ایمان، اخلاق اور عمل کا امتزاج کس نوعیت کا ہے۔ سنیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
الایمان بضع وسبعون شعبۃ افضلھا قول لا الٰہ الا اللّٰہ و ادناھا امامۃ الاذٰی عن الطریق والحیاء شعبۃ من الایمان۔
’’ایمان کے بہت سے شعبے ہیں۔ اس کی جڑ یہ ہے کہ تم خدا کے سوا کسی کو معبود نہ مانو۔ اور اس کی آخری شاخ یہ ہے کہ راستے میں اگر تم کوئی ایسی چیز دیکھو جو بندگانِ خدا کو تکلیف دینے والی ہو تو اُسے ہٹا دو۔ اور حیا بھی ایمان ہی کا ایک شعبہ ہے۔‘‘
الطھور شطر الایمان۔
جسم و لباس کی پاکیزگی آدھا ایمان ہے۔
المؤمن من امنہ الناس علٰی دمائھم واموالھم۔
’’مومن وہ ہے جس سے لوگوں کو اپنے جان و مال کا کوئی خطرہ نہ ہو۔‘‘
لا ایمان لمن لا امانۃ لہ ولا دین لمن لا عہد لہٗ۔
اس شخص میں ایمان نہیں جس میں امانت داری نہیں اور وہ شخص بے دین ہے، جو عہد کا پابند نہیں۔
اذا سرّتک حَسَنَتُک وسا تک سیّئتک فانت مؤمن۔
جب نیکی کرکے تجھے خوشی ہو اور بُرائی کرکے تجھے پچھتاوا ہو تو تُو مومن ہے۔‘‘
الایمان الصبر والسماحۃ۔
’’ایمان، تحمل اور فراخ دلی کا نام ہے۔‘‘
افضل الایمان ان تحبَّ لِلّٰہ وتبغض لِلّٰہ وتعمل لسانک فی ذکر اللّٰہ وان تحب للناس ماتحب لنفسک وتکرہ لھم ماتکرہ لنفسک۔
’’بہترین ایمانی حالت یہ ہے کہ تیری دوستی اور دشمنی خدا واسطے کی ہو، تیری زبان پرخدا کا نام جاری ہو، اور تو دوسروں کے لیے وہی کچھ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور ان کے لیے وہی کچھ ناپسند کرے جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہے۔‘‘
اکمل المؤمن ایمانًا احسنھم خلقًا والطفھم باھلہٖ۔
’’تم میں سب سے زیادہ کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں اور جو اپنے گھر والوں کے ساتھ حُسنِ سلوک میں سب سے بڑھا ہوا ہے۔‘‘
من کان یؤمن باللّٰہ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فلیکرم ضیفَہٗ ومن کان یؤمن باللّٰہ والیوم الاٰخر فلا یوذ جَارہٗ ومن کان یُومِنَ باللّٰہ وَالیوم الاٰخرِ فَلْیَقُل خیرًا اولیصمت۔
’’جو شخص خدا اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیے، اپنے ہم سائے کو تکلیف نہ دینی چاہیے۔ اور اس کی زبان کھلے تو بھلائی پر کھلے ورنہ چپ رہے۔‘‘
لیس المؤمن بالطعان ولا باللعان ولا الفاحش ولا البذی۔
’’مومن کبھی طعنے دینے والا، لعنت کرنے والا، بدگو اور زبان دراز نہیں ہوا کرتا۔‘‘
یطبع المؤمن علی الخصال کلھا الا الخیانۃ والکذب۔
مومن سب کچھ ہو سکتا ہے مگر جھوٹا اور خائن نہیں ہو سکتا۔
واللّٰہ لایومن واللّٰہ لا یؤمن واللّٰہ لا یؤمن الذی لا یأمن جارہٗ بوائقہ۔
’’خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے، خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے، خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے جس کی بدی سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو۔‘‘
لیس المؤمن بالذی یشبع وجارہ جائع الٰی جنبہٖ۔
’’جو شخص خود پیٹ بھر کھالے اور اس کے پہلو میں اس کا ہم سایہ بھوکا رہ جائے وہ ایمان نہیں رکھتا۔‘‘
من کظم غیظًا وھو یقدر وعلٰی ان ینفذہ ملاُ اللّٰہ قلبہٗ امنًا وایمانًا۔
’’جو شخص اپنا غصہ نکال لینے کی طاقت رکھتا ہو اور پھر ضبط کر جائے اس کے دل کو خدا ایمان اور اطمینان سے لبریز کر دیتا ہے۔‘‘
من مشی مع ظالم لیقویہ وھو یعلم انہ ظالم فقد خرج من الاسلام۔
’’جو شخص کسی ظالم کو ظالم جانتے ہوئے اس کا ساتھ دے وہ اسلام سے نکل گیا۔‘‘
من صلّٰی یُرائی فقد اشرک ومن صام یُرائی فقد اشرک و من تصدق یرائی فقد اشرک۔
’’جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھی اُس نے شرک کیا۔ جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیا۔ اور جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے خیرات کی اس نے شرک کیا۔‘‘
اربع من کن فیہ کان منافقا خالصًا۔ اِذا ئتمن خان و اذا حدث کذب واذا عاھد غدر واذا خاصم فجر۔
’’چار صفات ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے۔ امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔ بولے تو جھوٹ بولے۔ عہد کرے تو اسے توڑ دے اور لڑے تو شرافت کی حد سے گزر جائے۔‘‘
عدلت الشھادۃ الزور بالاشراک باللّٰہ۔
’’جھوٹی گواہی اتنا بڑا گناہ ہے کہ شرک کے قریب جا پہنچتا ہے۔‘‘
المجاھد من جاھد نفسہ فی طاعۃ اللّٰہ والمھاجر من ھجر مانھی اللّٰہ۔
’’اصلی مجاہد وہ ہے جو خدا کی فرماں برداری میں خود اپنے نفس سے لڑے اور اصلی مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑے جنھیں خدا نے منع فرمایا ہے۔‘‘
اتدرون من السابقون الٰی ظل اللّٰہ عزوجل یوم القیمۃ قالوا اللّٰہ ورسولہ اعلم۔ قال الذین اذا عطرالحق قبلوہ واذا سئلوہ بذلرہ وحکموا للناس کحکمھم لانفسھم۔
’’جانتے ہو کہ قیامت کے دن خدا کے سائے میں سب سے پہلے جگہ پانے لوگ والے کون ہوں گے؟ وہ جن کا حال یہ رہا کہ جب بھی حق ان کے سامنے پیش کیا گیا تو انھوں نے مان لیا، اور جب بھی حق ان سے مانگا گیا تو انھوں نے کھلے دل سے دیا، اور دوسروں کے معاملہ میں انھوں نے فیصلہ کیا جو وہ خود اپنے معاملے میں چاہتے تھے۔‘‘
اضمنو الی ستاً من انفسکم اضمن لکم الجنۃ اصدقوا اذا حدثتم واوفوا اذا وعدتم وادو اذا تمنتم واحفظوا فروجکم وغضوا ابصارکم وکفوا ایدیکم۔
’’تم چھے باتوں کی مجھے ضمانت دو میں جنت کی تمھیں ضمانت دیتا ہو۔ بولو تو سچ بولو، وعدہ کرو تو وفا کرو، امانت میں پورے اترو، بدکاری سے پرہیز کرو، بد نظر سے بچو اور ظلم سے ہاتھ روکو۔‘‘
لا یدخل الجنۃ حب ولا بخیل ولا منان۔
’’دھوکا باز اور بخیل اور احسان جتانے والا آدمی جنت میں نہیں جا سکتا۔‘‘
لایدخل الجنۃ لحم نبت من السحت وکل لحم نبت من السحت فالنار اولٰی بہٖ۔
’’جنت میں وہ گوشت نہیں جا سکتا جو حرام کے لقموں سے بنا ہو۔ حرام خوری سے پلے ہوئے جسم کے لیے تو آگ ہی زیادہ موزوں ہے۔‘‘
من باع عیبًا لم ینبہ لم یزل فی مقت اللّٰہ ولم تزل الملئکۃ تلعنہ۔
’’جس شخص نے عیب دار چیز بیچی اور خریدار کو عیب سے آگاہ نہ کیا اس پرخدا کا غصہ بھڑکتا رہتا ہے اور فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔‘‘
لو ان رجلًا قتل فی سبیل اللّٰہ ثم عاش ثم قتل فی سبیل اللّٰہ ثم عاش ثم قتل فی سبیل اللّٰہ ثم عاش وعلیہ دین مادخل الجنۃ حتی یقضٰی دینہ۔
’’کوئی شخص خواہ کتنی ہی بار زندگی پائے اور خدا کی راہ میں جہاد کرکے جان دیتا رہے مگر وہ جنت میں نہیں جا سکتا اگر اس پر قرض ہو اور وہ ادا نہ کیا گیا ہو۔‘‘
ان الرجل لیعمل والمرأۃ بطاعۃ اللّٰہ ستین سنۃ ثم یحضرھما الموت فیضار ان فی الوصیۃ فتجب لھما النار۔
’’ایک شخص ۶۰ برس خدا کی عبادت کرتا ہے اور مرتے وقت ایک وصیت میں حق دار کی حق تلفی کرکے اپنے آپ کو دوزخ کا مستحق بنا لیتا ہے۔‘‘
لا یدخل الجنۃ سیی الملکہ۔
’’وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جو اپنے ماتحتوں پر بُری طرح افسری کرے۔‘‘
الا اخبرکم بافضل من درجۃ الصیام والصدقۃ والصلٰوۃ اصلاح ذات البین وافساد ذات البین ھی الحالقہ۔
’’میں تمھیں بتائوں کہ روزے اور خیرات اور نماز سے بھی افضل کیا چیز ہے؟ وہ ہے بگاڑ میں صلح کرانا۔ اور لوگوں کے باہمی تعلقات میں فساد ڈالنا وہ فعل ہے جو آدمی کی ساری نیکیوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔‘‘
ان المفلس من امتی من یاتی یوم القیمۃ بصلوۃ وصیام وزکٰوۃ ویاتی قد شتم ھذا اوقذف ھذا واکل مال ھذا وسفک دم ھذا وضرب ھذا فیعطی ھذا من حسناتہ وھٰذا من حسناتہ فان فنیت حسناتہ قبل ان یقضٰی ماعلیہ اخذ من خطا یاھم فطرحت علیہ ثم طرح فی النار۔
’’اصل مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن خدا کے حضور اس حال میں حاضر ہوا کہ اس کے ساتھ نماز، روزہ، زکوٰۃ سب ہی کچھ تھا، مگر اس کے ساتھ وہ کسی کو گالی دے کر آیا تھا، کسی پر بہتان لگا کر آیا تھا، کسی کا مال کھایا تھا، کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو پیٹ کر آیا تھا۔ پھر خدا نے اس کی ایک ایک نیکی ان مظلوموں پر بانٹ دی اور جب اس سے بھی حساب چکتا نہ ہوا تو ان کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیے اور اسے دوزخ میں جھونک دیا۔‘‘
لن یھلک الناس حتٰی یعذرو امن انفسھم۔
’’لوگ کبھی نجات سے محروم نہ ہوں اگر اپنی برائیوں کی تاویلیں کرکے اپنے نفس کو بُرائیوں پر مطمئن نہ کرتے رہیں۔‘‘
المحتکر ملعون۔
’’جو تاجر قیمتیں چڑھانے کے لیے مال روک رکھے وہ ملعون ہے۔‘‘
من احتکر طعامًا اربعین یوما یرید بہ الغلاء فقد بری من اللّٰہ وبری اللّٰہ منہ۔
’’جس نے چالیس دن غلہ اس نیت سے روک رکھا کہ قیمتیں چڑھ جائیں تو خدا اس سے اور اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
من احتکر طعامًا اربعین یومًا ثم تصدق بہ لم یکن لہ کفارۃ۔
’’چالیس دن غلہ روکنے کے بعد اگر آدمی اس غلہ کو خیرات بھی کر دے تو معاف نہ کیا جائے گا۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے اقوال میں سے یہ چند ہیں جو میں نے محض نمونے کے طور پر آپ کے سامنے پیش کیے ہیں۔ ان سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ حضورؐ نے ایمان سے اخلاق اور اخلاق سے زندگی کے تمام شعبوں کا تعلق کس طرح قائم کیا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ آپؐ نے ان باتوں کو صرف باتوں کی حد تک ہی نہ رکھا بلکہ عمل کی دنیا میں ایک پورے ملک کے نظامِ تمدن و سیاست کو انھی بنیادوں پر قائم کرکے دکھا دیا، اور آپؐ کا یہی وہ کارنامہ ہے جس کی بنا پر آپ نوعِ انسانی کے سب سے بڑے راہ نما ہیں۔

معراج کی رات

عام روایت کے مطابق آج کی رات معراج کی رات ہے۔ یہ معراج کا واقعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے سب سے زیادہ مشہور واقعات میں سے ہے لیکن یہ جس قدر مشہور ہے اسی قدر افسانوں کی تہیں اس پر چڑھ گئی ہیں۔ عام لوگ عجوبہ پسند ہوتے ہیں۔ ان کی عجائب پسندی کے جذبے کو بس اپنی تسکین کا سامان چاہیے۔ اس لیے معراج کی اصل روح اور اس کی غرض اور اس کے فائدوں اور نتیجوں کو تو انھوں نے نظر انداز کر دیا اور ساری گفتگو اس پر ہونے لگی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جسم کے ساتھ آسمان پر گئے تھے یا صرف رُوح گئی تھی۔ براق کیا تھا، جنت اور دوزخ کا حال آپ نے کیا دیکھا اور فرشتے کس شکل کے تھے۔ حالانکہ دراصل یہ واقعہ تاریخ انسانی کے ان بڑے واقعات میں سے ہے جنھوں نے زمانے کی رفتار کو بدلا اور تاریخ پر اپنا مستقل اثر چھوڑا ہے اور اس کی حقیقی اہمیت کیفیت ِ معراج میں نہیں بلکہ مقصد اور نتیجہ ٔ معراج میں ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ یہ کُرّۂ زمین جس پر ہم آپ رہتے ہیں خدا کی عظیم الشان سلطنت کا ایک چھوٹا سا صوبہ ہے۔ اس صوبے میں خدا کی طرف سے جو پیغمبر بھیجے گئے ہیں اُن کی حیثیت کچھ اس طرح کی سمجھ لیجیے جیسے دنیا کی حکومتیں اپنے ماتحت ملکوں میں گورنر یا وائسرائے بھیجا کرتی ہیں۔ ایک لحاظ سے دونوں میں بڑا بھاری فرق ہے۔ دنیوی حکومتوں کے گورنر اور وائسرائے محض انتظام ملکی کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں اور سلطان کائنات کے گورنر اور وائسرائے اس لیے مقرر ہوتے ہیں کہ انسان کو صحیح تہذیب، پاکیزہ اخلاق، اور سچے علم و عمل کے وہ اصول بتائیں جو روشنی کے مینارے کی طرح انسانی زندگی کی شاہراہ پر کھڑے ہوئے صدیوں تک سیدھا راستہ دکھاتے۔ مگر اس فرق کے باوجود دونوں میں ایک طرح کی مشابہت بھی ہے۔ دنیا کی حکومتیں گورنری جیسے ذمہ داری کے منصب انھی لوگوں کو دیتی ہے جو ان کے سب سے زیادہ قابل اعتماد آدمی ہوتے ہیں اور جب وہ انھیں اس عہدے پر مقرر کر دیتی ہیں تو پھر انھیں یہ دیکھنے اور سمجھنے کا پورا موقع دیتی ہیں کہ حکومت کا اندرونی نظام کس طرح کس پالیسی پر چل رہا ہے، اور ان کے سامنے اپنے وہ راز بے نقاب کر دیتی ہیں جو عام رعایا پر ظاہر نہیں کیے جاتے۔ ایسا ہی حال خدا کی سلطنت کا بھی ہے۔ وہاں بھی پیغمبری جیسے ذمہ داری کے منصب پر وہی لوگ مقرر ہوئے ہیں جو سب سے زیادہ قابلِ اعتماد تھے۔ اور جب انھیں اس منصب پر مقرر کر دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے خود ان کو اپنی سلطنت کے اندرونی نظام کا مشاہدہ کرایا اور ان پر کائنات کے وہ اسرار ظاہر کیے جو عام انسانوں پر ظاہر نہیں کیے جاتے۔
مثال کے طور پر حضرت ابراہیمؑ کو آسمان اور زمین کے ملکوت، یعنی اندرونی انتظام کا مشاہدہ کرایا گیا۱؎ اور یہ بھی آنکھوں سے دکھا دیا گیا کہ خدا کس طرح مُردوں کو زندہ۲؎ کرتا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کو طور پر جلوۂ ربانی دکھایا گیا اور ایک خاص بندے کے ساتھ کچھ مدت تک پھرایا گیا تاکہ اللہ کی مشیت کے تحت دنیا کا انتظام جس طرح ہوتا ہے اس کو دیکھیں اور سمجھیں۔۳؎ ایسے ہی کچھ تجربات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی تھے۔ کبھی آپ خدا کے مقرب فرشتے کو افق پر علانیہ دیکھتے ہیں،۴؎ کبھی وہ فرشتہ قریب ہوتے ہوتے اس قدر قریب آجاتا ہے کہ آپ کے اور اس کے درمیان دو کمانوں کے بقدر بلکہ اس سے بھی کچھ کم فاصلہ رہ جاتا ہے۔ کبھی وہی فرشتہ آپ کو سدرۃ المنتہیٰ، یعنی عالم مادی کی آخری سرحد پر ملتا ہے۔ اور وہاں آپ خدا کی عظیم الشان نشانیاں دیکھتے ہیں۔۵؎
اسی نوعیت کے تجربات میں سے ایک وہ چیز ہے جس کو معراج کہتے ہیں۔ معراج صرف سیر اور مشاہدے ہی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایسے موقعے پر ہوتی ہے جب کہ پیغمبر کو کسی کار خاص پر مقرر کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے اور اہم ہدایات دی جاتی ہیں۔ وہ موسیٰ ؑ کی معراج ہی تھی جب کہ ان کو وادیٔ سینا پر بلا کر احکام عشر (ten commandments)دیئے گئے اور ان کو حکم دیا گیا کہ مصر جاکر فرعون کو منشائے خداوندی کے مطابق نظام حکومت میں اصلاح کرنے کی دعوت دو۔ اسی طرح وہ حضرت عیسیٰ ؑ کی معراج تھی جب انھوں نے ساری رات پہاڑ پر گزاری اور پھر اٹھ کر بارہ رسول مقرر کیے اور وہ وعظ کہا جو پہاڑی کے وعظ کے نام سے مشہور ہے۔ ایسا ہی ایک اہم موقع وہ تھا جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو طلب کیا گیا۔
یہ وہ وقت تھا جب آپؐ کو اپنے مشن کی تبلیغ کرتے ہوئے تقریباً بارہ سال گزر چکے تھے۔ حجاز کے اکثر قبائل میں اور قریب کے ملک حبش میں آپؐ کی آواز پہنچ چکی تھی۔ اور آپ کی تحریک ایک مرحلے سے گزر کر دوسرے مرحلے میں قدم رکھنے کو تھی۔ دوسرے مرحلے سے میری مراد یہ ہے کہ اب وقت آگیا تھا کہ آپ مکہ کی ناموافق سرزمین کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف منتقل ہو جائیں جہاں آپ کی کامیابی کے لیے زمین تیار تھی۔ اس دوسرے مرحلے میں آپؐ کا مشن بہت پھیلنے والا تھا۔ صرف حجاز اور صرف عرب ہی نہیں بلکہ گرد و پیش کی دوسری قوموں سے بھی سابقہ پیش آنا تھا۔ اور اسلام کی تحریک ایک اسٹیٹ میں تبدیل ہونے کو تھی، اس لیے اس اہم موقعے پر آپ کو ایک نیا پروانہ تقرر اور نئی ہدایات دینے کے لیے بادشاہ کائنات نے اپنے حضور میں طلب فرمایا۔
اسی پیشی و حضوری کا نام معراج ہے۔ عالم بالا کا یہ حیرت انگیز سفر ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس سفر کے ضمنی واقعات احادیث میں آئے ہیں۔ مثلاً بیت المقدس پہنچ کر نماز ادا کرنا، آسمان کے مختلف طبقات سے گزرنا۔ پچھلے زمانے کے پیغمبروں سے ملنا اور پھر آخری منزل پر پہنچنا۔ لیکن قرآن ضمنی چیزوں کو چھوڑ کر ہمیشہ اصل مقصد تک اپنے بیان کو محدود رکھتا ہے۔ اس لیے اس نے کیفیت معراج کا ذکر نہیں کیا، بلکہ وہ چیز تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے جس کے لیے آنحضرتؐ کو بلایا گیا تھا۔ قرآن کی سترھویں سورت میں آپ کو یہ تفصیل مل سکتی ہے۔ اس کے دو حصے ہیں ایک حصے میں مکہ کے لوگوں کو آخری نوٹس دیا گیا کہ اگر تمھاری سختیوں کی وجہ سے خدا کا پیغمبر جلا وطنی پر مجبور ہوا تو مکہ میں تم کو چند سال سے زیادہ رہنے کا موقع نہ مل سکے گا۔۱؎ اور بنی اسرائیل کو جن سے عنقریب مدینہ میں پیغمبر سے براہ راست سابقہ پیش آنا تھا، خبردار کیا گیا کہ تم اپنی تاریخ میں دو زبردست ٹھوکریں کھا چکے ہو اور دو قیمتی موقعے کھو چکے ہو۔ اب تم کو تیسرا موقع ملنے والا ہے اور یہ آخری موقع ہے۔۲؎
دوسرے حصے میں وہ بنیادی اصول بتائے گئے جن پر انسانی تمدن و اخلاق کی تعمیر ہونی چاہیے۔ یہ ۱۴ اصول ہیں۔۳؎
۱۔ صرف اللہ کی بندگی کی جائے اور اقتدار اعلیٰ میں اس کے ساتھ کسی کی شرکت نہ تسلیم کی جائے۔
۲۔ تمدن میں خاندان کی اہمیت ملحوظ رکھی جائے، اولاد والدین کی فرماں بردار و خدمت گزار ہو اور رشتہ دار ایک دوسرے کے ہمدرد و مددگار ہوں۔
۳۔ سوسائٹی میں جو لوگ غریب یا معذور ہوں یا اپنے وطن سے باہر مدد کے محتاج ہوں وہ بے وسیلہ نہ چھوڑ دیئے جائیں۔
۴۔ دولت کو فضول ضائع نہ کیا جائے۔ جو مال دار اپنے روپے کو بُرے طریقے سے خرچ کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں۔
۵۔ لوگ اپنے خرچ کو اعتدال پر رکھیں، نہ بخل کرکے دولت کو روکیں اور نہ فضول خرچی کرکے اپنے لیے اور دوسرے کے لیے مشکلات پیدا کریں۔
۶۔ رزق کی تقسیم کا قدرتی انتظام جو خدا نے کیا ہے انسان اس میں اپنے مصنوعی طریقوں سے خلل نہ ڈالے، خدا اپنے انتظام کی مصلحتوں کو زیادہ بہتر جانتا ہے۔
۷۔ معاشی مشکلات کے خوف سے لوگ اپنی نسل کی افزائش نہ روکیں۔ جس طرح موجودہ نسلوں کے رزق کا انتظام خدا نے کیا ہے آنے والی نسلوں کے لیے بھی وہی انتظام کرے گا۔
۸۔ خواہش نفس کو پورا کرنے کے لیے زنا کا راستہ بُرا راستہ ہے لہٰذا نہ صرف زنا سے پرہیز کیا جائے بلکہ اس کے قریب جانے والے اسباب کا دروازہ بھی بند ہونا چاہیے۔
۹۔ انسانی جان کی حرمت خدا نے قائم کی ہے لہٰذا خدا کے مقرر کردہ قانون کے سوا کسی دوسری بنیاد پر آدمی کا خون نہ بہایا جائے، نہ کوئی اپنی جان دے، نہ دوسرے کی جان لے۔
۱۰۔ یتیموں کے مال کی حفاظت کی جائے، جب تک وہ خود اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوں ان کے حقوق کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔
۱۱۔ عہد و پیمان کو پورا کیا جائے، انسان اپنے معاہدات کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔
۱۲۔ تجارتی معاملات میں ناپ تول ٹھیک ٹھیک راستی پر ہونا چاہیے۔ اوزان اور پیمانے صحیح رکھے جائیں۔
۱۳۔ جس چیز کا تمھیں علم نہ ہو اس کی پیروی نہ کرو، وہم اور گمان پر نہ چلو، کیونکہ آدمی کو اپنی تمام قوتوں کے متعلق خدا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے کہ اس نے انھیں کس طرح استعمال کیا۔
۱۴۔ نخوت اور تکبر کے ساتھ نہ چلو، غرور کی چال سے نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ پہاڑوں سے اونچے ہو سکتے ہو۔
یہ ۱۴ اصول جو معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے تھے ان کی حیثیت صرف اخلاقی تعلیمات ہی کی نہ تھی، بلکہ یہ وہ پروگرام تھا جس پر آپ کو آئندہ سوسائٹی کی تعمیر کرنی تھی۔ یہ ہدایات اس وقت دی گئی تھیں جب آپؐ کی تحریک عنقریب تبلیغ کے مرحلے سے گزر کر حکومت اور سیاسی اقتدار کے مرحلے میں قدم رکھنے والی تھی۔ لہٰذا یہ گویا ایک مینی فیسٹو تھا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ خدا کا پیغمبر ان اصولوں پر تمدن کا نظام قائم کرے گا۔ اسی لیے معراج میں یہ ۱۴ نکات مقرر کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے تمام پیروان اسلام کے لیے پانچ وقت کی نماز فرض۱؎ کی۔ تاکہ جو لوگ اس پروگرام کو عمل کا جامہ پہنانے کے لیے اٹھیں ان میں اخلاقی انضباط پیدا ہو اور وہ خدا سے غافل نہ ہونے پائیں۔ ہر روز پانچ مرتبہ ان کے ذہن میں یہ بات تازہ ہوتی رہے کہ وہ خود مختار نہیں ہیں بلکہ ان کا حاکم اعلیٰ خدا ہے جس کو انھیں اپنے کام کا حساب دینا ہے۔

معراج کا پیغام

اسلامی تاریخ میں دو راتیں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک وہ رات جس میں نبی عربی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کا نزول شروع ہوا۔ دوسری وہ رات جس میں آپ کو معراج نصیب ہوئی۔ پہلی رات کی اہمیت تو سب کو معلوم ہے کہ اس میں نوع انسان کی رہنمائی کے لیے وہ روشن ہدایت نامہ بھیجا گیا جو باطل کی تاریکیوں میں حق کا نور صدیوں سے پھیلا رہا ہے اور قیامت تک پھیلاتا رہے گا۔ لیکن دوسری رات کی اہمیت بعض دینیاتی بحثوں میں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس رات میں انسانیت کی تعمیر کے لیے کتنا عظیم الشان کارنامہ انجام پایا۔آج اس مبارک رات کی یاد تازہ کرتے ہوئے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ یہ رات ہمارے لیے کیا پیغام لائی ہے۔
معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ معراج کا یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو توحید کی آواز بلند کرتے ہوئے ۱۲ سال گزر چکے تھے۔ باوجودیکہ آپ کے مخالفین نے آپ کا راستہ روکنے کے لیے سارے ہی جتن کر ڈالے تھے، پھر بھی آپ کی آواز عرب کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی تھی۔عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہ رہا تھا جس میں دو چار آدمی آپ کے ہم خیال نہ بن چکے ہوں۔ خود مکہ میں ایسے مخلص لوگوں کی ایک مختصر جماعت آپ کے گرد جمع ہوگئی تھی جن سے زیادہ سرگرم اور فدا کار حامی دنیا کی کسی تحریک کو کبھی نہیں ملے۔ اور مدینہ میں دو طاقتور اور خود مختار قبیلوں کی اکثریت آپ کی دعوت پر ایمان لاچکی تھی اب وہ وقت قریب آگیا تھا کہ آپ مکہ سے مدینے منتقل ہو جائیں، تمام ملک کے منتشر مسلمانوں کو اپنے پاس سمیٹ لیں، اور ان اصولوں پر ایک ریاست قائم کر دیں جن کی اب تک آپ تبلیغ کرتے رہے تھے۔ یہی وہ موقع تھا جب آپ کو معراج کا سفر پیش آیا۔
اس سفر سے واپس آکر جو پیغام آپ نے دیا وہ قرآن مجید کی سترھویں سورۃ، سورہ بنی اسرائیل میں آج تک لفظ بلفظ محفوظ ہے۔ اس کو دیکھیے اور اس کے تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھیے تو آپ کو صاف معلوم ہو جائے گا کہ اسلام کے اصولوں پر ایک نئی یاست کا سنگ بنیاد رکھنے سے پہلے وہ ہدایات دی جارہی ہیں جن پر نبیؐ اور اصحاب نبیؐ کو آگے کام کرنا تھا۔
اس پیغام میں معراج کا ذکر کرنے کے بعد سب سے پہلے بنی اسرائیل کی تاریخ سے عبرت دلائی گئی ہے۔ مصریوں کی غلامی سے نکل کر بنی اسرائیل نے جب آزاد زندگی شروع کی تھی تو خداوند عالم نے ان کی رہنمائی کے لیے کتاب عطا فرمائی تھی اور تاکید کر دی تھی کہ میرے سوا اب اپنے معاملات کو تکمیل کسی اور کے ہاتھ میں نہ دینا۔ مگر بنی اسرائیل نے خدا کی اس نعمت کا شکر ادا کرنے کے بجائے کفران نعمت کیا اور زمین میں مصلح بننے کے بجائے مفسد و سرکش بن کر رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خدا نے ایک مرتبہ ان کو بابل والوں سے پامال کرایا، اور دوسری مرتبہ رومیوں کو ان پر مسلط کر دیا۔ اس سبق آموز تاریخ کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ صرف قرآن ہی وہ چیز ہے جو تمہیں ٹھیک ٹھیک راستہ بتائے گی۔ اس کی پیروی میں کام کرو گے تو تمہارے لیے بڑے انعام کی بشارت ہے۔
دوسری اہم حقیقت جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ ہر انسان خود اپنی ایک مستقل اخلاقی ذمہ داری رکھتا ہے۔ اس کا اپنا عمل اس کے حق میں فیصلہ کن ہے۔ سیدھا چلے گا تو آپ اپنا بھلا کرے گا۔ غلط راہ پر جائے گا تو خود ہی نقصان اٹھائے گا۔ اس شخصی ذمہ داری میں کوئی کسی کا شریک نہیں ہے، اور نہ کسی کا بار دوسرے پر پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا ایک صالح معاشرے کے ہر ہر فرد کو اپنا ذاتی ذمہ داری پر نگاہ رکھنی چاہیے۔ دوسرے جو کچھ بھی کر رہے ہوں، اسے پہلی فکر یہ ہونی چاہیے کہ وہ خود کیا کر رہا ہے۔
تیسری بات جس پر متنبہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک معاشرے کو آخر کار جو چیز تباہ کرتی ہے وہ اس کے بڑے لوگوں کا بگاڑ ہے۔ جب کسی قوم کی شامت آنے کو ہوتی ہے تو اس کے خوش حال اور مال دار اور صاحب اقتدار لوگ فسق و فجور پر اتر آتے ہیں، ظلم و ستم اور بدکاریاں اور شرارتیں کرنے لگتے ہیں، اور آخر یہی فتنہ پوری قوم کو لے ڈوبتا ہے۔ لہٰذا جو معاشرہ آپ اپنا دشمن نہ ہو اسے فکر رکھنی چاہیے کہ اس کے ہاں سیاسی اقتدار کی باگیں اور معاشی دولت کی کنجیاں کم ظرف اور بداخلاق لوگوں کے ہاتھوں میں نہ جانے پائیں۔
پھر مسلمانوں کو وہ بات یاد دلائی گئی ہے جو قرآن میں بار بار دہرائی جاتی رہی ہے کہ اگر تمہارے پیش نظر صرف یہی دنیا اور اس کی کامیابیاں اور خوش حالیاں ہوں تو یہ سب کچھ تمہیں مل سکتا ہے۔ مگر اس کا آخری انجام بہت برا ہے۔ مستقل اور پائدار کامیابی جو اس زندگی سے لے کر دوسری زندگی تک کہیں نامرادی سے داغدار نہ ہونے پائے، تمہیں صرف اسی صورت میں مل سکتی ہے جب کہ تم اپنی کوششوں میں آخرت اور اس کی باز پرس کو پیش نظر رکھو۔ دنیا پرست کی خوشحالی بظاہر تعمیر کی شان رکھتی ہے مگر اس تعمیر میں ایک بہت بڑی خرابی کی صورت مضمر ہے۔ وہ اخلاق کی اس فضیلت سے محروم ہوتا ہے جو صرف آخرت کی جوابدہی کا احساس رکھنے ہی سے پیدا ہوا کرتی ہے۔ یہ فرق تم دنیا ہی میں دونوں طرح کے آدمیوں کے درمیان دیکھ سکتے ہو۔ یہی فرق بعد کی منازل حیات میں اور زیادہ نمایاں ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ ایک کی زندگی سراسر ناکامی اور دوسرے کی زندگی سراسر کامیابی بن کر رہے گی۔
ان تمہیدی نصیحتوں کے بعد وہ بڑے بڑے اصول بیان کیے گئے ہیں جن پر آئندہ اسلامی ریاست اور معاشرے کی تعمیر ہونی تھی۔ یہ ۱۴ اصول ہیں اور میں انہیں اسی ترتیب سے آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں جس طرح وہ معراج کے اس پیغام میں بیان کیے گئے ہیں۔
(۱) خدائے واحد کے سوا کسی کی خداوندی نہ مانی جائے۔ صرف وہی تمہارا معبود ہو۔ اسی کی تم بندگی و اطاعت کرو، اور اسی کے حکم کی پیروی تمہارا شعار رہے اگر اس کے علاوہ کسی اور کا اقتدار اعلیٰ تم نے تسلیم کیا، خواہ وہ کوئی غیر ہو یا تمہارا اپنا نفس، تو آخر کار تم قابل مذمت بن کر رہو گے اور ان برکتوں سے محروم ہو جائو گے جو صرف خدا کی تائید سے ہی حاصل ہوا کرتی ہیں۔( یہ صرف ایک مذہبی عقیدہ ہی نہ تھا بلکہ اس سیاسی نظام کا جسے بعد میں مدینہ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا، اولین بنیادی اصول بھی تھا۔ اس کی پوری عمارت اس نظریہ پر اٹھائی گئی تھی کہ خداوند عالم ہی ملک کا مالک اور بادشاہ ہے اور خدا کی شریعت ہی ملک کا قانون ہے)
(۲) انسانی حقوق میں سب سے اہم اور مقدم حق والدین کا ہے۔ اولاد کو والدین کا مطیع، خدمت گزار اور ادب شناس ہونا چاہیے۔ معاشرے کا اجتماعی اخلاق ایسا ہونا چاہیے جس میں اولاد والدین سے بے نیاز اور سرکش نہ ہو بلکہ ان سے نیک سلوک کرے، ان کا احترام ملحوظ رکھے اور بڑھاپے میں ان کی وہی ناز برداری کرے جو کبھی بچپن میں وہ اس کی کرچکے ہیں۔(اس دفعہ کی رو سے یہ طے کر دیا گیا کہ اسلامی نظام معاشرت کی بنا خاندان پر رکھی جائے گی اور خاندانی نظام کا محور والدین کا ادب و احترام ہوگا۔ بعد میں اسی دفعہ کے منشا کے مطابق والدین کے وہ شرعی حقوق معین کیے گئے جن کی تفصیلات ہم کو حدیث اور فقہ میں ملتی ہیں۔ نیز اسلامی معاشرہ کی ذہنی و اخلاقی تربیت میں اور مسلمانوں کے آداب تہذیب میں وہ خیالات و اطوار پیوست کر دیئے گئے جو خدا و رسولؐ کے بعد والدین کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ان چیزوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ اصول طے کر دیا کہ اسلامی ریاست اپنے قوانین اور انتظامی احکام کے ذریعہ سے خاندان کو کمزور کرنے کے بجائے مضبوط اور محفوظ کرنے کی کوشش کرے گی)
(۳) اجتماعی زندگی میں تعاون، ہمدردی، اور حق شناسی و حق رسانی کی روح جاری و ساری رہے۔ ہر رشتہ دار اپنے دوسرے رشتہ دار کا مددگار ہو۔ ہر محتاج انسان دوسرے انسانوں سے مدد پانے کا حق دار ہو۔ ایک مسافر جس بستی میں بھی جائے اپنے آپ کو مہمان نواز لوگوں کے درمیان پائے۔ معاشرے میں حق کا تصور اتنا وسیع ہو کہ ہر شخص ان سب انسانوں کے حقوق اپنے اوپر محسوس کرے جن کے درمیان وہ رہتا ہے۔ ان کی کوئی خدمت کرے تو یہ سمجھے کہ وہ ان کا حق ادا کر رہا ہے نہ کہ احسان کا بوجھ ان پر لاد رہا ہے۔ اور اگر کسی خدمت کے قابل نہ ہو تو معذرت کرے اور خدا سے فضل مانگے تاکہ وہ دوسروں کے کام آسکے۔(اس دفعہ کی بنیاد پر مدینہ طیبہ کے معاشرے میں صدقات واجبہ اور صدقات نافلہ کے احکام دیئے گئے وصیت، وراثت اور وقف کے طریقے مقرر کیے گئے۔ یتیموں کے حقوق کی حفاظت کا انتظام کیا گیا۔ ہر بستی پر مسافر کا یہ حق قائم کیا گیا کہ کم از کم تین دن تک اس کی ضیافت کی جائے۔ اور پھر اخلاقی تعلیمات کے ذریعہ سے پورے معاشرے میں فیاضی، ہمدردی اور تعاون کی ایسی روح پھونک دی گئی کہ لوگوں کے اندر قانونی حقوق کے ماسوا اخلاقی حقوق کا ایک وسیع ترین تصور پیدا ہوگیااور اس کی بنا پر لوگ خود بخود ایک دوسرے کے ایسے حق بھی پہچاننے اور ادا کرنے لگے جو کسی قانون کے زور سے نہ مانگے جاسکتے ہیں اور نہ دلوائے جاسکتے ہیں)
(۴) لوگ اپنی دولت کو غلط طریقوں سے ضائع نہ کریں۔ فخر اور ریا اور نمائش کے خرچ، عیاشی اور فسق و فجور کے خرچ جو انسان کی حقیقی ضروریات اور مفید کاموں میں صرف ہونے کے بجائے دولت کو غلط راستوں میں بہادیں دراصل خدا کی نعمت کا کفران ہیں۔ جو لوگ اس طرح اپنی دولت کو خرچ کرتے ہیں وہ حقیقت میں شیطان کے بھائی ہیں اور ایک صالح معاشرے کا فرض ہے کہ ایسے بے جا صرف مال کو اخلاقی تربیت اور قانونی پابندیوں کے ذریعہ سے روک دے۔
(۵) لوگوں میں اپنا اعتدال ہونا چاہیے کہ وہ نہ تو بخیل بن کر دولت کی گردش کو روکیں اور نہ فضول خرچ بن کر اپنی معاشی طاقت کو ضائع کریں۔ معاشرے کے افراد میں توازن کی ایک ایسی صحیح حس پائی جانی چاہیے کہ وہ بجا خرچ سے باز بھی نہ رہیں اور بیجا خرچ کی خرابیوں میں بھی مبتلا نہ ہوں۔ (مدینہ کی سوسائٹی میں ان دونوں دفعات کے منشا کی ترجمانی مختلف طریقوں سے کی گئی۔ ایک طرف فضول خرچی اور عیاشی کی بہت سی صورتوں کو ازروئے قانون حرام کر دیا گیا۔ دوسری طرف بالواسطہ قانونی تدابیر سے بھی بے جا صرف مال کی روک تھام کی گئی۔ تیسری طرف حکومت کو یہ اختیارات دیئے گئے کہ اسراف کی نمایاں صورتوں کو وہ اپنے انتظامی احکام کے ذریعے سے روک دے اور جو لوگ اپنے مال میں بہت زیادہ ناروا طریقوں سے تصرف کرنے لگیں ان کی جائداد کو عارضی طور پر خود اپنے انتظام میں لے لے۔ ان تدابیر کے علاوہ معاشرے میں ایک ایسی رائے عام بھی پیدا کی گئی جو فضول خرچیوں پر واہ واہ کرنے کے بجائے ملامت کرے، اور اخلاقی تعلیم کے ذریعہ سے افراد کے نفس کی اصلاح بھی کی گئی تاکہ وہ بجا اور بے جا خرچ کے فرق کو خود سمجھیں اور بے جا خرچوں سے آپ ہی آپ باز رہیں۔ اسی طرح بخل کو بھی جس حد تک قانون کے ذریعہ سے توڑا جاسکتا تھا اس کے لیے قانون سے کام لیا گیا اور باقی اصلاح کاکام رائے عام کے زور اور اخلاقی تعلیم کی طاقت سے لیا گیا۔ آج یہ اسی کا اثر ہے کہ مسلمان سوسائٹی میں کنجوسوں اور زر اندوزوں کو جس بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس کی مثال کسی دوسری سوسائٹی میں نہ ملے گی)
(۶) خدا نے اپنے رزق کی تقسیم کا جو نظام قائم کیا ہے، انسان اپنی مصنوعی تدبیروں سے اس میں دخل انداز نہ ہو۔ اس نے اپنے سب بندوں کو رزق میں مساوی نہیں رکھا ہے بلکہ ان کے درمیان کم و بیش کا فرق رکھا ہے۔ اس کے اندر بہت سی مصلحتیں ہیں جن کو وہ خود ہی بہتر جانتا ہے۔ لہٰذا ایک صحیح معاشی نظام وہی ہے جو خدا کے مقرر کیے ہوئے اس طریقہ سے قریب تر ہو۔ فطری نامساوات کو ایک مصنوعی مساوات میں تبدیل کرنا، یا نامساوات کو فطرت کی حدود سے بڑھا کر بے انصافی کی حد تک پہنچا دینا، دونوں یکساں غلط ہیں۔ (اس دفعہ میں قانون فطرت کے جس اصول کی طرف رہنمائی کی گئی تھی اس کی وجہ سے مدینے کے اصلاحی پروگرام میں یہ تخیل سرے سے کوئی راہ ہی نہ پا سکا کہ رزق اور وسائل رزق میں تفاوت اور تفاضل بجائے خود کوئی بے انصافی ہے اور انصاف قائم کرنے کے لیے امیری اور غریبی کا فرق مٹانا اور ایک ’’بے طبقات‘‘ معاشرہ پیدا کرنے کی کوشش کرنا کسی درجہ میں بھی مطلوب ہے۔ اس کے برعکس مدینہ طیبہ میں انسانی تمدن کو صالح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جو راہ عمل اختیار کی گئی وہ یہ تھی کہ فطرت اللہ نے انسانوں کے درمیان جو فرق رکھے ہیں ان کو اصل فطری حالت پر جوں کا توں برقرار رکھا جائے اور دفعات ۳، ۴،۵ کے مطابق سوسائٹی کے اخلاق و اطوار اور قوانین کی اس طرح اصلاح کر دی جائے کہ معاش کا فرق و تفاوت کسی ظلم و بے انصافی کا موجب بننے کے بجائے ان بے شمار اخلاقی و روحانی اور تمدنی فوائد کا ذریعہ بن جائے جن کی خاطر ہی دراصل خالق کائنات نے اپنے بندوں کے درمیان یہ فرق و تفاوت رکھا ہے)
(۷) نسلوں کی افزائش کو اس ڈر سے روک دینا کہ کھانے والے بڑھ جائیں گے تو معاشی ذرائع تنگ ہو جائیں گے، ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ جو لوگ اس اندیشے سے آنے والی نسلوں کو بلاک کرتے ہوئے وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ رزق کا انتظام ان کے ہاتھ میں ہے۔ حالانکہ رازق وہ خدا ہے جس نے انسانوں کو زمین میں بسایا ہے پہلے آنے والوں کے لیے بھی رزق کا سامان اسی نے کیا تھا اور بعد کے آنے والوں کے لیے بھی وہی سامان کرے گا۔جتنی آبادی بڑھتی ہے، خدا اسی نسبت سے معاشی ذرائع بھی وسیع کر دیتا ہے۔ لہٰذا لوگ خدا کے تخلیقی انتظامات میں بے جا دخل اندازی نہ کریں اور کسی قسم کے حالات میں بھی ان کے اندر ’’نسل کشی‘‘ کا میلان پیدا نہ ہونے پائے۔(یہ دفعہ ان معاشی بنیادوں کو قطعی طور پر منہدم کر دیتی ہے جن پر قدیم زمانے سے لے کر آج تک مختلف ادوار میں ضبط ولادت کی تحریک اٹھتی رہی ہے قدیم زمانے میں افلاس کا خوف قتل اطفال اور اسقاط حمل کا محرک ہوا کرتا تھا اور آج وہ ایک تیسری تدبیر، یعنی منع حمل کی طرف دنیا کو دھکیل رہا ہے۔ لیکن معراج کے پیغام کی یہ دفعہ انسان کو ہدایت دیتی ہے کہ وہ کھانے والوں کو گھٹانے کی تخریبی کوشش چھوڑ کر کھانے کے ذرائع بڑھانے کی تعمیری سعی میں اپنی قوتیں اور قابلیتیں صرف کرے)
(۸) زنا عورت اور مرد کے تعلق کی بالکل ایک غلط صورت ہے۔ اس کو نہ صرف بند ہونا چاہیے بلکہ معاشرے کے اندر ان اسباب کا بھی سدباب کیا جانا چاہیے جو انسان کو اس کے قریب لے جاتے ہیں۔(یہ دفعہ آخر کار اسلامی نظام زندگی کے ایک وسیع باب کی بنیاد بنی اس کے منشا کے مطابق زنا اور تہمت زنا کو فوجداری جرم قرار دیا گیا، پردے کے احکام جاری کیے گئے، فواحش کی اشاعت پر پابندیاں عائد کی گئیں، شراب اور موسیقی اور رقص اور تصاویر پر بندشیں لگائی گئیں، اور ایک ایسا ازدواجی قانون بنایا گیا جس سے نکاح نہایت آسان ہوگیا اور زنا کے معاشرتی اسباب کا خاتمہ کر دیا گیا)
(۹)انسانی جان کو اللہ تعالیٰ نے قابل احترام ٹھہرایا ہے۔ کوئی شخص نہ اپنی جان لینے کا حق رکھتا ہے اور نہ کسی دوسرے کی جان۔ خدا کی مقرر کی ہوئی یہ حرمت صرف اسی صورت میں ٹوٹ سکتی ہے جب کہ خدا ہی کا مقرر کیا ہوا کوئی حق اس کے خلاف قائم ہو جائے۔ پھر حق قائم ہو جانے کے بعد بھی خون ریزی صرف اس حد تک ہونی چاہیے جہاں تک حق کا تقاضا ہو۔ قتل میں اسراف کی تمام صورتیں بند ہو جانی چاہییں، مثلاً جوش انتقام میں مجرم کے علاوہ دوسروں کو قتل کرنا جن کے خلاف حق قائم نہیں ہوا ہے یا مجرم کو عذاب دے دے کر مارنا، یا مار دینے کے بعد اس کی لاش کی بے حرمتی کرنا، یا ایسی ہی دوسری انتقامی زیادتیاں جو دنیا میں رائج رہی ہیں۔(اس دفعہ کی بنیاد پر اسلامی قانون میں خود کشی کو حرام کیا گیا۔ قتل عمد کو جرم ٹھہرایا گیا۔ قتل خطا کی مختلف صورتوں کے لیے خون بہا اور کفارے تجویز کیے گئے۔ اور قتل بالحق کو صرف تین صورتوں میں مقید کر دیا گیا۔ ایک یہ کہ کوئی شخص قتل عمد کا مرتکب ہوا ہو، دوسرے یہ کہ کسی شادی شدہ مرد یا عورت نے زنا کا ارتکاب کیا ہو، تیسرے یہ کہ کسی شخص نے اسلامی نظام جماعت کے خلاف خروج کیا ہو۔ پھر قتل بالحق کا فیصلہ کرنے کے اختیارات بھی صرف قاضی شرع کو دیئے گئے، اور اس کا ایک مہذب ضابطہ بنا دیا گیا)
(۱۰) یتیموں کے مفاد کی اس وقت تک حفاظت ہونی چاہیے جب تک وہ خود اپنے بل بوتے پر کھڑے ہونے کے قابل نہ ہو جائیں۔ ان کے مال میں کوئی ایسا تصرف نہ ہونا چاہیے جو خود ان کے مفاد کے لیے بہتر نہ ہو۔ (یہ محض ایک اخلاقی ہدایت ہی نہ تھی، بلکہ یتامیٰ کے حقوق کی حفاظت کے لیے اسلامی نظام حکومت میں قانونی اور انتظامی دونوں طرح کی تدابیر اختیار کی گئیں جن کی تفصیلات ہم کو حدیث و فقہ کی کتابوں میں ملتی ہیں۔ پھر اسی دفعہ سے یہ وسیع اصول اخذ کیا گیا کہ ریاست اپنے ان تمام شہریوں کے مفاد کی محافظ ہے جو خود اپنے مفاد کی حفاظت کرنے کے قابل نہ ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد انا ولی من لاولی لہ اسی طرف اشارہ کرتا ہے اور یہ اسلامی قانون کے ایک وسیع باب کی بنیاد ہے)
(۱۱) عہد و پیمان خواہ افراد ایک دوسرے سے کریں، یا ایک قوم دوسری قوم سے کرے، بہرحال ایمانداری کے ساتھ پورے کیے جائیں۔ معاہدوں کی خلاف ورزی پر خدا کے ہاں باز پرس ہوگی۔ (یہ بھی صرف اسلامی اخلاقیات ہی کی ایک اہم دفعہ نہ تھی بلکہ آگے چل کر اسلامی حکومت نے اسی کو اپنی داخلی اور خارجی سیاست کا سنگ بنیاد قرار دیا)
(۱۲) ناپ کے پیمانےاور اوزان ٹھیک رکھے جائیں اور لین دین میں صحیح تول تولی جائے۔ (اس دفعہ کے مطابق اسلامی حکومت کے محکمۂ احتساب پر منجملہ دوسرے فرائض کے ایک فرض یہ بھی عائد ہوا کہ وہ منڈیوں میں اوزان اور پیمانوں کی نگرانی کرے اور تطفیف کو بزور بند کر دے۔ پھر اسی سے یہ وسیع اصول اخذ کیا گیا کہ تجارت اور معاشی لین دین میں ہر قسم کی بے ایمانیوں اور حق تلفیوں کا سدباب کرنا حکومت کا فرض ہے)
(۱۳)تم کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کے صحیح ہونے کا تمہیں علم نہ ہو۔ اپنی سماعت اور بینائی کا اور اپنے دلوں کی نیتوں اور خیالات اور ارادوں کا تمہیں خدا کو حساب دینا ہے(اس دفعہ کا منشا یہ تھا کہ مسلمان اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں وہم و گمان اور قیاس کے بجائے ’’علم‘‘ کی پیروی کریں۔ اس منشا کی ترجمانی اخلاق میں، قانون میں، ملکی نظم و نسق اور سیاست میں اور نظام تعلیم میں مختلف طریقوں سے بہت وسیع پیمانے پر کی گئی اور ان بے شمار خرابیوں سے اسلامی معاشرے کو بچا لیا گیا جو علم کے بجائے گمان کی پیروی کرنے سے زندگی کے مختلف پہلوئوں میں رونما ہوتی ہیں۔ اخلاق میں ہدایت کی گئی کہ بدگمانی سے بچو اور کسی شخص یا گروہ پر بلا تحقیق کوئی الزام نہ لگائو۔ قانون میں یہ مستقل اصول مقرر کیا گیا کہ محض شبہ پر کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے ۔ تفتیش جرائم میں یہ قاعدہ طے کر دیا گیا کہ گمان پر کسی کو پکڑنا اور مار پیٹ کرنا یا حوالات میں دے دینا قطعی ناجائز ہے۔ غیر قوموں کے ساتھ برتائو میں بھی یہ پالیسی معین کر دی گئی کہ تحقیق کے بغیر کسی کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے اور نہ شبہات پر افواہیں پھیلائی جائیں۔ نظام تعلیم میں بھی ان تمام نام نہاد ’’علوم‘‘ کو ناپسند کیا گیا جو محض ظن و تخمین اور لا طائل قیاسات پر مبنی ہیں اور مسلمانوں کے اندر ایک حقیقت پسندانہ ذہنیت پیدا کی گئی)
(۱۴) زمین میں جباروں اور متکبروں کی چال نہ چلو، تم نہ اپنی اکڑ سے زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ اپنے غرور میں پہاڑوں سے سر بلند ہوسکتے ہو۔ (یہ بھی محض ایک واعظانہ بات نہ تھی بلکہ درحقیقت اس میں مسلمانوں کو پیشگی تنبیہ کی گئ تھی کہ ایک حکمران گروہ بننے کے بعد وہ غرور و تکبر میں مبتلا نہ ہوں۔ یہ اسی ہدایت کا فیض تھا کہ جو حکومت اس منشور کے مطابق مدینہ طیبہ میں قائم کی گئی اس کے فرماں روائوں، گورنروں اور سپہ سالاروں کی زبان یا قلم سے نکلا ہوا ایک جملہ بھی آج ہمیں ایسا نہیں ملتا جس میں ادائے تکبر کا ادنیٰ شائبہ تک پایا جاتا ہو۔ حتیٰ کہ جنگ میں بھی انہوں نے کبھی فخر و غرور کی کوئی بات زبان سے نہ نکالی۔ ان کی نشست و برخاست، چال ڈھال اور عام برتائو، ہر چیز میں انکسار و تواضع کی شان پائی جاتی تھی، اور جب وہ فاتح کی حیثیت سے کسی شہر میں داخل ہوتے تھے اس وقت بھی اکڑ اور تبختر سے کبھی اپنا رعب جمانے کی کوشش نہ کرتے تھے)
یہی وہ اصول تھے جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے پہنچ کر اسلامی سوسائٹی اور اسلامی ریاست کی تعمیر فرمائی۔
۵، جون ۱۹۴۸ئ؁

معراج کا سفرنامہ

معراج، پیغمبرِ اسلام کی زندگی کے اُن واقعات میں سے ہے جنھیں دنیا میں سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی ہے۔ عام روایت کے مطابق یہ واقعہ ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے ۲۷ رجب کی رات کو پیش آیا۔ اس کا ذکر قرآن میں بھی ہے اور حدیث میں بھی۔ قرآن یہ بتاتا ہے کہ معراج کس غرض کے لیے ہوئی تھی اور خدا نے اپنے رسول کو بلا کر کیا ہدایات دی تھیں۔ حدیث یہ بتاتی ہے کہ معراج کس طرح ہوئی اور اس سفر میں کیا واقعات پیش آئے۔
اس واقعہ کی تفصیلات ۲۸ ہم عصر راویوں کے ذریعہ سے ہم تک پہنچی ہیں۔ سات راوی وہ ہیں جو خود معراج کے زمانہ میں موجود تھے۔ اور ۲۱ وہ جنھوں نے بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی زبان مبارک سے اس کا قصہ سنا۔ مختلف روایتیں قصہ کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتی ہیں اور سب کو ملانے سے ایک ایسا سفرنامہ بن جاتا ہے جس سے زیادہ دل چسپ، معنی خیز اور نظر افروز سفرنامہ انسانی لٹریچر کی پوری تاریخ میں نہیں ملتا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبری کے منصب پر سرفراز ہوئے ۱۲ سال گزر چکے تھے۔ ۵۲ برس کی عمر تھی۔ حرمِ کعبہ میں سو رہے تھے۔ یکایک جبریلؑ فرشتے نے آکر آپ کو جگایا۔ نیم خفتہ ونیم بیدار حالت میں اُٹھا کر آپ کو زَم زَم کے پاس لے گئے۔ سینہ چاک کیا۔ زَم زَم کے پانی سے اسے دھویا پھر اسے علم اور بُردباری اور دانائی اور ایمان ویقین سے بھر دیا۔ اس کے بعد آپ کی سواری کے لیے ایک جانور پیش کیا جس کا رنگ سفید اور قد خچر سے کچھ چھوٹا تھا۔ برق کی رفتار سے چلتا تھا اور اسی مناسبت سے اس کا نام ’’براق‘‘ تھا۔ پہلے انبیا بھی اس نوعیت کے سفر میں اسی سواری پر جایا کرتے تھے۔ جب آپ سوار ہونے لگے تو وہ چمکا۔ جبریل ؑنے تھپکی دے کر کہا، دیکھ کیا کرتا ہے، آج تک محمدؐ سے بڑی شخصیت کا کوئی انسان تجھ پر سوار نہیں ہوا ہے۔ پھرآپ اُس پر سوار ہوئے اور جبریل ؑآپ کے ساتھ چلے۔ پہلی منزل مدینہ کی تھی جہاں اُتر کر آپ نے نماز پڑھی۔ جبریل ؑ نے کہا اس جگہ آپ ہجرت کرکے آئیں گے۔ دوسری منزل طور سینا کی تھی جہاں خدا حضرت موسیٰ سے ہم کلام ہوا۔ تیسری منزل بیتِ لحم کی تھی جہاں حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے۔ چوتھی منزل پر بیت المقدس تھا جہاں بُراق کا سفر ختم ہوا۔
اس سفر کے دَوران میں ایک جگہ کسی پکارنے والے نے پکارا ادھر آئو۔ آپ نے توجہ نہ کی۔ جبریل ؑنے بتایا یہ یہودیت کی طرف بلا رہا تھا۔ دوسری طرف سے آواز آئی اِدھر آئو۔ آپ اس کی طرف بھی ملتفت نہ ہوئے۔ جبریل ؑنے کہا یہ عیسائیت کا داعی تھا۔ پھر ایک عورت نہایت بنی سنوری نظر آئی اور اس نے اپنی طرف بلایا۔ آپ نے اُس سے بھی نظر پھیر لی۔ جبریلؑ نے بتایا یہ دُنیا تھی۔ پھر ایک بوڑھی عورت سامنے آئی۔ جبریلؑ نے کہا دنیا کی عمر کا اندازہ اس کی عمر سے کر لیجیے۔ پھر ایک اور شخص ملا جس نے آپ کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا، مگر آپ اُسے بھی چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔ جبریلؑ نے کہا یہ شیطان تھا جو آپ کو راستے سے ہٹانا چاہتا تھا۔
بیت المقدس پہنچ کر آپ بُراق سے اُتر گئے اور اُسی مقام پر اُسے باندھ دیا جہاں پہلے انبیا اس کو باندھا کرتے تھے۔ ہیکل سلیمانی میں داخل ہوئے تو ان سب پیغمبروں کو موجود پایا جو ابتدائے آفرینش سے اُس وقت تک دنیا میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے پہنچتے ہی نماز کے لیے صفیں بندھ گئیں۔ سب منتظر تھے کہ امامت کے لیے کون آگے بڑھتا ہے۔ جبریلؑ نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھا دیا اور آپ نے سب کو نماز پڑھائی۔ پھر آپ کے سامنے تین پیالے پیش کیے گئے۔ ایک میں پانی، دوسرے میں دودھ، تیسرے میں شراب۔ آپ نے دُودھ کا پیالہ اُٹھا لیا۔ جبریلؑ نے مبارک باد دی کہ آپ فطرت کی راہ پا گئے۔
اس کے بعد ایک سیڑھی آپ کے سامنے پیش کی گئی اورجبریلؑ اس کے ذریعہ سے آپ کو آسمان کی طرف لے چلے۔ عربی زبان میں سیڑھی کو معراج کہتے ہیں اور اسی مناسبت سے یہ سارا واقعہ معراج کے نام سے مشہور ہوا ہے۔
پہلے آسمان پر پہنچے تو دروازہ بند تھا۔ محافظ فرشتوں نے پوچھا کون آتا ہے؟ جبریلؑ نے اپنا نام بتایا۔ پوچھا تمھارے ساتھ کون ہے؟ جبریلؑ نے کہا محمدﷺ۔ پوچھاکیا انھیں بلایا گیا ہے؟ کہا ہاں۔ تب دروازہ کھلا اور آپ کا پُرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔ یہاں آپ کا تعارف فرشتوں اور انسانی ارواح کی ان بڑی بڑی شخصیتوں سے ہوا جو اُس مرحلہ پر مقیم تھیں۔ ان میں نمایاں شخصیت ایک ایسے بزرگ کی تھی جو انسانی بناوٹ کا مکمل نمونہ تھے۔ چہرے مُہرے اور جسم کی ساخت میں کسی پہلو سے کوئی نقص نہ تھا۔ جبریلؑ نے بتایا یہ آدم ہیں، آپ کے مورثِ اعلیٰ۔ ان بزرگ کے دائیں بائیں بہت لوگ تھے۔ وہ دائیں جانب دیکھتے تو خوش ہوتے اوربائیں جانب دیکھتے تو روتے۔ پوچھا یہ کیا ماجرا ہے؟ بتایا گیا کہ یہ نسلِ آدم ہے۔ آدمؑ اپنی اولاد کے نیک لوگوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور بُرے لوگوں کو دیکھ کر روتے ہیں۔
پھر آپ کو تفصیلی مشاہدہ کا موقع دیا گیا۔ ایک جگہ آپ نے دیکھا کچھ لوگ کھیتی کاٹ رہے ہیں اور جتنی کاٹتے جاتے ہیں اتنی ہی وہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا یہ خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں۔
پھر دیکھا کچھ لوگ ہیں جن کے سر پتھروں سے کچلے جا رہے ہیں۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا۔ یہ وُہ لوگ ہیں جن کی سرگرانی انھیں نماز کے لیے اُٹھنے نہ دیتی تھی۔
کچھ اور لوگ دیکھے جن کے کپڑوں میں آگے اور پیچھے پیوند لگے ہوئے تھے اور وہ جانوروں کی طرح گھاس چر رہے تھے۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا یہ وہ ہیں جو اپنے مال سے زکوٰۃ خیرات کچھ نہ دیتے تھے۔
پھر ایک شخص کو دیکھا کہ لکڑیوں کا گٹھا جمع کرکے اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اور جب وہ نہیں اٹھتا تو اس میں کچھ اور لکڑیاں بڑھا لیتا ہے۔ پوچھا یہ کون احمق ہے؟ کہا گیا یہ وہ شخص ہے جس پر امانتوں اور ذمہ داریوں کا اتنا بوجھ تھا کہ اُٹھا نہ سکتا تھا مگر یہ انھیں کم کرنے کے بجائے اور زیادہ ذمہ داریوں کا بار اپنے اوپر لادے چلا جاتا تھا۔
پھر دیکھا کہ کچھ لوگوں کی زبانیں اورہونٹ قینچیوں سے کترے جا رہے ہیں۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا یہ غیر ذمہ دار مقرر ہیں جو بے تکلف زبان چلاتے اور فتنہ برپا کیا کرتے تھے۔
ایک اور جگہ دیکھا کہ ایک پتھر میں ذرا سا شگاف ہوا اور اس سے ایک بڑا موٹا سا بیل نکل آیا۔ پھر وہ بیل اسی شگاف میں واپس جانے کی کوشش کرنے لگا مگر نہ جا سکا۔ پوچھا یہ کیا معاملہ ہے؟ کہا گیا یہ اُس شخص کی مثال ہے جو غیر ذمہ داری کے ساتھ ایک فتنہ انگیز بات کر جاتا ہے پھر نادم ہو کر اس کی تلافی کرنا چاہتا ہے مگر نہیں کر سکتا۔
ایک اور مقام پر کچھ لوگ تھے جو اپنا گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا یہ دوسروں پر زبانِ طعن دراز کرتے تھے۔
انھی کے قریب کچھ اور لوگ تھے جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے منہ اور سینے نوچ رہے تھے۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی پیٹھ پیچھے ان کی بُرائیاں کرتے اور ان کی عزت پر حملے کیا کرتے تھے۔
کچھ اور لوگ دیکھے جن کے ہونٹ اونٹوں کے مشابہ تھے اور وہ آگ کھا رہے تھے پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا یہ یتیموں کا مال ہضم کرتے تھے۔
پھر دیکھا کچھ لوگ ہیں جن کے پیٹ بے انتہا بڑے اورسانپوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ آنے جانے والے ان کو روندتے ہوئے گزرتے ہیں مگر وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا یہ سود خور ہیں۔
پھر کچھ اور لوگ نظر آئے جن کے ایک جانب نفیس چکنا گوشت رکھا تھا اور دوسری جانب سڑا ہوا گوشت جس سے سخت بدبُوآ رہی تھی۔ وہ اچھا گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے تھے۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا یہ وہ مرد اور عورتیں ہیں جنھوں نے حلال بیویوں اور شوہروں کے ہوتے حرام سے اپنی خواہشِ نفس پوری کی۔
پھر دیکھا کچھ عورتیں اپنی چھاتیوں کے بل لٹک رہی ہیں۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا یہ وہ عورتیں ہیں جنھوں نے اپنے شوہروں کے سر ایسے بچے منڈھ دیئے جو اُن کے نہ تھے۔
اِنھی مشاہدات کے سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ایک ایسے فرشتے سے ہوئی جو نہایت تُرش روئی سے ملا، آپ نے جبریلؑ سے پوچھا، اب تک جتنے فرشتے ملے تھے سب خندہ پیشانی اور بشاش چہروں کے ساتھ ملے، ان حضرت کی خشک مزاجی کا کیا سبب ہے؟ جبریلؑ نے کہا اس کے پاس ہنسی کا کیا کام، یہ تو دوزخ کا داروغہ ہے۔ یہ سن کر آپ نے دوزخ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس نے یکایک آپ کی نظر کے سامنے سے پردہ اُٹھا دیا اور دوزخ اپنی تمام ہول ناکیوں کے ساتھ نمودار ہو گئی۔
اس مرحلہ سے گزر کر آپ دوسرے آسمان پر پہنچے۔ یہاں کے اکابر میں دو نوجوان سب سے ممتاز تھے۔ تعارُف پر معلوم ہوا یہ یحییٰ ؑاور عیسیٰ ؑہیں۔
تیسرے آسمان پر آپ کا تعارف ایک ایسے بزرگ سے کرایا گیا جن کا حُسن عام انسانوں کے مقابلہ میں ایسا تھا جیسے تاروں کے مقابلے میں چودھویں کا چاند۔ معلوم ہوا یہ یوسف علیہ السلام ہیں۔
چوتھے آسمان پر حضرت ادریسؑ، پانچویں پر حضرت ہارونؑ، چھٹے پر حضرت موسیٰؑ آپ سے ملے۔ ساتویں آسمان پر پہنچے تو ایک عظیم الشان محل (بیت المعمور) دیکھا جہاں بے شمار فرشتے آتے اور جاتے تھے۔ اس کے پاس آپ کی ملاقات ایک ایسے بزرگ سے ہوئی جو خود آپ سے بہت مشابہ تھے۔ تعارف پر معلوم ہوا حضرت ابراہیم ؑہیں۔
پھر مزید ارتقا شروع ہوا یہاں تک کہ آپ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچ گے جو پیش گاہِ ربُّ العزت اور عالم خلق کے درمیان حد فاصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ نیچے سے جانے والے یہاں رُک جاتے ہیں اور اوپر سے احکام اور قوانین براہِ راست یہاں آتے ہیں۔ اسی مقام کے قریب آپ کو جنت کا مشاہدہ کرایا گیا اور آپ نے دیکھا کہ اللہ نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ مہیا کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی ذہن میں اس کا تصور تک گزر سکا۔
سدرۃُ المنتہیٰ پر جبریلؑ ٹھہر گئے اور آپ تنہا آگے بڑھے۔ ایک بلند ہموار سطح پر پہنچے تو بارگاہِ جلال سامنے تھے۔ ہم کلامی کا شرف بخشا گیا۔ جو باتیں ارشاد ہوئیں ان میں سے چند یہ ہیں؟
(۱) ہر روز پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔
(۲) سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں تعلیم فرمائیں گئیں۔
(۳) شرک کے سوا دوسرے سب گناہوں کی بخشش کا امکان ظاہر کیا گیا۔
(۴) ارشاد ہوا کہ جو شخص نیکی کا ارادہ کرتا ہے اُس کے حق میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور جب وہ اس پر عمل کرتا ہے تو دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ مگر جو برائی کا ارادہ کرتا ہے اس کے خلاف کچھ نہیں لکھا جاتا اور جب وہ اس پر عمل کرتا ہے تو ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے۔
پیشی خداوندی سے واپسی پر نیچے اُترے توحضرت موسٰیؑ سے ملاقات ہوئی۔ اُنھوں نے رُودار سن کر کہا میں بنی اسرائیل کا تلخ تجربہ رکھتا ہوں، میرا اندازہ ہے کہ آپ کی امت پچاس نمازوں کی پابندی نہیں کر سکتی۔ جائیے اور کمی کے لیے عرض کیجیے۔ آپ گئے اور اللہ جل شانہٗ نے ۱۰ نمازیں کم کر دیں۔ پلٹے تو حضرت موسیٰؑ نے پھر وہی بات کہی۔ ان کے کہنے پر آپ باربار اوپر جاتے رہے اور ہر بار دس نمازیں کم کی جاتی رہیں۔ آخر پانچ نمازوں کی فرضیت کا حکم ہوا اور فرمایا گیا کہ یہی پچاس کے برابر ہیں۔
واپسی کے سفر میں آپ اسی سیڑھی سے اُتر کر بیت المقدس آئے۔ یہاں پھر تمام پیغمبر موجود تھے۔ آپ نے ان کو نماز پڑھائی جو غالباً فجر کی نماز تھی۔ پھر بُراق پر سوار ہوئے اور مکہ واپس پہنچ گئے۔
صبح سب سے پہلے آپ نے اپنی چچا زاد بہن اُمِّ ہانی کو یہ رُوداد سنائی۔ پھر باہر نکلنے کا قصد کیا۔ اُنھوں نے آپ کی چادر پکڑ لی اور کہا خدا کے لیے یہ قصہ لوگوں کو نہ سنائیے گا ورنہ اُن کو آپ کا مذاق اڑانے کے لیے ایک اور شوشہ ہاتھ آ جائے گا۔ مگر آپ یہ کہتے ہوئے باہرنکل گئے کہ مَیں ضرور بیان کروں گا۔ حرم کعبہ میں پہنچے تو ابوجہل سے آمنا سامنا ہوا۔ اُس نے کہا کوئی تازہ خبر؟ فرمایا، ہاں۔ پوچھا کیا۔؟ فرمایا کہ میں آج کی رات بیت المقدس گیا تھا۔ کہا بیت المقدس؟ راتوں رات ہو آئے؟ اور صبح یہاں موجود؟ فرمایا، ہاں۔ کہا قوم کو جمع کروں؟ سب کے سامنے یہی بات کہو گے؟ فرمایا بے شک۔ ابوجہل نے آوازیں دے دے کر سب کو جمع کر لیا اور کہا لو اب کہو۔ آپ نے سب کے سامنے پورا قصہ بیان کر دیا۔ لوگوں نے مذاق اُڑانا شروع کیا۔ دو مہینہ کا سفر ایک رات میں؟ ناممکن! محال! پہلے تو شک تھا، اب یقین ہو گیا کہ تم دیوانے ہو گئے ہو۔
آناً فاناً یہ خبر تمام مکہ میں پھیل گئی بہت سے مسلمان اسے سُن کر اسلام سے پھر گئے۔ لوگ اس امید پر حضرت ابوبکرؓ کے پاس پہنچے کہ یہ محمدؐ کے دستِ راست ہیں، یہ پھر جائیں تو اس تحریک کی جان ہی نکل جائے۔ انھوں نے یہ قصہ سن کر کہا اگر واقعی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ بیان کیا ہے تو ضرور سچ ہو گا، اس میں تعجب کی کیا بات ہے، میں تو روز سنتا ہوں کہ ان کے پاس آسمان سے پیغام آتے ہیں اوراس کی تصدیق کرتا ہوں۔
پھر حضرت ابوبکرؓ حرمِ کعبہ میں آئے۔ رسولؐ اللہ موجود تھے۔ اور ہنسی اُڑانے والا مجمع بھی۔ پوچھا کیا واقعی آپ نے ایسا فرمایا ہے؟ جواب دیا، ہاں۔ کہا بیت المقدس میرا دیکھا ہوا ہے، آپ وہاں کا نقشہ بیان کریں، آپ نے فورًا نقشہ بیان کرنا شروع کر دیا اور ایک ایک چیز اس طرح بیان کی گویا بیت المقدس سامنے موجود ہے اور دیکھ دیکھ کر اس کی کیفیت بتا رہے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کی اس تدبیر سے جھٹلانے والوں کو ایک شدید ضرب لگی۔ وہاں بکثرت ایسے آدمی موجود تھے جو تجارت کے سلسلہ میں بیت المقدس جاتے رہتے تھے۔ وہ سب دلوں میں قائل ہو گئے کہ نقشہ بالکل صحیح ہے۔ اب لوگ آپ کے بیان کی صحت کا مزید ثبوت مانگنے لگے۔ فرمایا جاتے ہوئے میں فلاں مقام پر فلاں قافلہ پر سے گزرا جس کے ساتھ یہ سامان تھا، قافلہ والوں کے اُونٹ براق سے بھڑکے۔ ایک اونٹ فلاں وادی کی طرف بھاگ نکلا، میں نے قافلہ والوں کو اس کا پتا دیا۔ واپسی میں فلاں وادی میں فلاں قبیلہ کا قافلہ مجھے ملا، سب لوگ سو رہے تھے۔ میں نے ان کے برتن سے پانی پیا اور اس بات کی علامت چھوڑ دی کہ اس سے پانی پیا گیا ہے۔ ایسے ہی کچھ اور اَتے پتے آپ نے دیے اور بعد میں آنے والے قافلوں سے اُن کی تصدیق ہوئی۔ اس طرح زبانیں بند ہو گئیں مگر دل یہی سوچتے رہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ آج بھی بہت سے لوگ سوچ رہے ہیں کہ یہ کیسے ہوا؟ (۳۰ جولائی ۱۹۴۳؁ء)

شب برأت

شب برأت کو عموماً مسلمانوں کا ایک تہوار سمجھا جاتا ہے۔ اس کے کچھ مراسم بھی مقرر کر لیے گئے ہیں جن کی شدت سے پابندی کی جاتی ہے۔ دھوم دھام کے لحاظ سے تو گویا محرم کے بعد اسی کا نمبر ہے۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ یہ خواہ مخواہ کا بناوٹی تہوار ہے۔ نہ قرآن میں اس کی کوئی اصلیت ہے، نہ حدیث میں، نہ صحابۂ کرام کے دَور کی تاریخ ہی میں اس کا کوئی پتا نشان ملتا ہے اور نہ ابتدائی زمانہ کے بزرگانِ دین ہی میں کسی نے اسے اسلام کا تہوار قرار دیا ہے۔
اسلام دراصل رسموں اور تہواروں کا مذہب ہے ہی نہیں۔یہ تو ایک سیدھا اور معقول مذہب ہے جو انسان کو رسموں کی جکڑ بندیوں سے، کھیل تماشے کی بے فائدہ مشغولیتوں سے، اور فضول کاموں میں وقت، محنت اور دولت کی بربادیوں سے بچا کر زندگی کی ٹھوس حقیقتوں کی طرف توجہ دلاتا ہے اور اُن کاموں میں آدمی کو مشغول کرنا چاہتا ہے جو دنیا اور آخرت کی فلاح وبہبود کا ذریعہ ہوں۔ ایسے مذہب کی فطرت سے یہ بالکل بعید ہے کہ وہ سال میں ایک دن حلوے پکانے اور آتش بازیاں چھوڑنے کے لیے مخصوص کر دے اور آدمی سے کہے کہ تو مستقل طور پر ہر سال اپنی زندگی کے چند قیمتی گھنٹے اور اپنی محنت سے کمائے ہوئے بہت سے روپے ضائع کرتا رہا کر اور اس سے بھی زیادہ بعید یہ ہے کہ وہ کسی ایسی رسم کا انسان کو پابند بنائے جو صرف وقت اور روپیہ ہی برباد نہیں کرتی بلکہ بعض اوقات جانوں کو بھی ضائع کرتی ہے اور گھر تک پھونک ڈالتی ہے۔ اس قسم کی فضولیات کا حکم دینا تو درکنار، اگر ایسی کوئی رسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود ہوتی تو یقینا اسے حکماً روک دیا جاتا، اور جو ایسی رسمیں اس زمانہ میں موجودتھیں انھیں روکا ہی گیا۔
حلوے اور آتش بازی کا معاملہ تو خیر اس قدر کھلا ہوا ہے کہ جو شخص کچھ بھی اسلام کے متعلق جانتا ہے وہ پہلی ہی نظر میں کَہ دے گا کہ ان چیزوں کی پابندی اس مذہب کی روح کے خلاف ہے۔ مگر جب ہم تلاش کرتے ہیں کہ شعبان کے مہینا میں اس خاص دن کے ساتھ کوئی مستند مذہبی عقیدہ وابستہ ہے یاکوئی لازمی عبادت مقرر ہے تو ہمیں اس کا بھی کوئی نشان نہیں ملتا۔ زیادہ سے زیادہ اگر کوئی چیز اسلامی لٹریچر میں ملتی ہے تو وہ یہ ہے کہ ایک دفعہ شعبان کی پندرھویں شب کو حضرت عائشہ ؓ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہ پایا اور وہ آپؐ کو تلاش کرنے کے لیے نکلیں۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے بقیع کے قبرستان پہنچیں۔ وہاں آپؐ کو موجود پایا۔ وجہ دریافت کرنے پر آں حضرتؐ نے فرمایا کہ اس رات کو اللّٰہ تعالیٰ آسمانِ دنیا کی طرف توجہ فرماتا ہے اور قبیلۂ کلب کی بھیڑوں کے جس قدر بال ہیں اُس قدر انسانوں کے گناہ معاف کرتا ہے لیکن حدیث کے مشہور امام ترمذی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے اور اپنی تحقیق یہ بیان کی ہے کہ اس کی سند صحیح طور پر حضرت عائشہؓتک نہیں پہنچتی۔ بعض دوسری روایات میں، جو کم درجہ کی کتبِ حدیث میں ملتی ہیں، اس رات کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس میں قسمتوں کے فیصلے کیے جاتے ہیں اور پیدائش اور موت کے معاملات طے ہوتے ہیں لیکن یہ سب روایات ضعیف ہیں۔ ہر ایک کی سند میں کوئی نہ کوئی کم زوری موجود ہے۔ اس لیے حدیث کی قدیم تر اور زیادہ معتبر کتابوں میں کہیں ان کا ذکر نہیں ملتا۔ تاہم اگر ان کی کوئی اصلیت تسلیم بھی کر لی جائے تو حد سے حد بس اتنا ہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اس رات میں عبادت کرنا اور خدا سے مغفرت کی دُعا کرنا ایک اچھا فعل ہے جسے انفرادی طور پر لوگ کریں تو ثواب پائیں گے۔ اس سے بڑھ کر کوئی ایسی چیز ان روایتوں سے ثابت نہیں ہوتی جس سے یہ سمجھا جائے کہ چودھویں تاریخ کو یا پندرھویں شب کو اسلام میں عید قرار دیا گیا ہے یا کوئی اجتماعی عبادت مقرر کی گئی ہے۔
حدیث کی زیادہ معتبر کتابوں سے جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر رمضان کی آمد سے پہلے ہی شعبان کے مہینا میں ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ رمضان کا مہینا وہ مہینا ہے جس میں آپؐ کو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبری جیسے عظیم الشان منصب پر مامور کیا گیا اور قرآن جیسی لازوال کتاب کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس وجہ سے نہ صرف رمضان میں آپؐ غیر معمولی طور پر عبادت فرمایا کرتے تھے بلکہ اس سے پہلے ہی آپؐ کی لَو خدا سے لگ جاتی تھی۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ رمضان کے سوا سال کے باقی گیارہ مہینوں میں صرف شعبان ہی ایسا مہینا تھا جس میں آپ سب سے زیادہ روزے رکھتے تھے، بلکہ تقریباً پورا مہینا ہی روزہ رکھتے گزر جاتا تھا لیکن آپؐ کا یہ طرزِ عمل اپنی ذات کے لیے خاص تھا اور اس گہرے روحانی تعلق کی بِنا پر تھا جو نزولِ قرآن کے مہینے سے آپؐ کو تھا۔ رہے عام مسلمان، تو اُنھیں آپؐ نے ہدایت فرما دی تھی کہ ماہِ شعبان کے آخری پندرہ دنوں میں روزے نہ رکھا کریں کیوں کہ اس میں یہ اندیشہ تھا کہ اگر عادتاً لوگ اس مہینا کے آخری دنوں میں روزہ رکھنے لگے تو رفتہ رفتہ یہ ایک لازمی رسم بن جائے گی اور رمضان کے فرض روزوں پر خواہ مخواہ دس پندرہ مزید روزوں کا اضافہ ہو جائے گا اور اس طرح لوگوں پر وہ بار پڑ جائے گا جو خدا نے ان پر نہیں رکھا ہے۔
اسلام میں خاص طور پر یہ بات ملحوظ رکھی گئی ہے کہ جو کچھ خدا نے اپنے بندوں کے لیے لازم کیا ہے، اس کے سوا کوئی دوسری چیز بندے خود اپنے اوپر لازم نہ کر لیں۔ کوئی خُود ساختہ رسم، کوئی مصنوعی قاعدہ، کوئی اجتماعی عمل ایسا نہ ہو جس کی پابندی لوگوں کے لیے فرض کی طرح بن جائے۔ خدا زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اس کے بندوں کی بھلائی کن چیزوں کی پابندی میں ہے اور کس چیز کی کتنی پابندی میں ہے۔ اس کی قائم کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرکے بندوں کو بطور خود کوئی رسم مقرر نہیں کر لینی چاہیے۔ پچھلی قوموں نے یہی غلطی کی تھی کہ نئی نئی رسمیں ایجاد کرکے اپنے اوپر فرائض اور واجبات کے ردّے چڑھاتی چلی گئیں اور رفتہ رفتہ رسمیات کا ایک ایسا تانا بانا اپنے گرد بُن ڈالا جس کے جال نے آخر کار اُن کے ہاتھ پائوں جکڑ کر رکھ دیے۔ قرآن رسموں کو زنجیروں سے تشبیہ دیتا ہے اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کا ایک بڑا کام یہ بتانا ہے کہ ان زنجیروں کو کاٹ پھینکیں جن میں انسان نے اپنے آپ کو خود کس رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعتِ محمدی میں فرائض کا ایک نہایت ہلکا اور سادہ ضابطہ تجویز کرکے باقی تمام رسموں کا خاتمہ کر دیا گیا، عید الفطر اور بقر عید کے سوا کوئی تہوار نہ رکھا گیا، حج کے سوا کوئی یاترا نہ رکھی گئی، زکوٰۃ کے سوا کسی نذر نیاز یاد ان پُن کو فرض نہ کیا گیا، اور ہمیشہ کے لیے یہ اصول طے کر دیا گیا کہ انسان کو جس طرح خدائی فرض میں کوئی چیز کم کرنے کا حق نہیں ہے، اسی طرح کوئی چیز بڑھانے کا حق بھی نہیں ہے۔
ابتدائی زمانہ میں جو لوگ شریعتِ محمدی کی روح کو سمجھتے تھے وہ سختی کے ساتھ اس اصول کے پابند رہے۔ انھوں نے نئی رسمیں ایجاد کرنے سے انتہائی پرہیز کیا اور جو چیز لازمی رسم بنتی نظر آئی اس کی فورًاجڑ کاٹ کر رکھ دی۔ انہیں معلوم تھا کہ ایک چیز جس کو نیکی اور ثواب کا کام سمجھ کرابتدا میں بڑی نیک نیتی کے ساتھ شروع کیا جاتا ہے، وہ رفتہ رفتہ کس طرح سنت، پھر واجب، پھر فرض اور آخر کار فرضوں سے بھی زیادہ اہم بنتی چلی جاتی ہے اور جہالت کی بِنا پر لوگ اس نیکی کے ساتھ کس طرح بہت سی برائیاں ملا جلا کر ایک قبیح رسم بنا ڈالتے ہیں اور اس قسم کی رسمیں جمع ہو کر کس طرح انسانی زندگی کے لیے ایک وبال اور انسانی ترقی کی راہ میں ایک بھاری روک بن جاتی ہیں۔ اس لیے ابتدائی دَور کے علما اور امام اس بات کی سخت احتیاط رکھتے تھے کہ شریعت میں کسی نئی چیز کا اضافہ نہ ہونے پائے۔ ان کا یہ مستقل عقیدہ تھا کہ جو چیز شریعت میں نہیں ہے اسے شرعی حیثیت دینا یا جس چیز کی شریعت میں جو حیثیت ہے اس سے زیادہ اہمیت اسے دینا بدعت ہے اور ہر بدعت گم راہی ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ بعد کی صدیوں میں اس طرف سے انتہائی غفلت برتی گئی اور بتدریج مسلمان بھی اپنی خود ساختہ رسموں کے جال میں اسی طرح پھنستے چلے گئے جس طرح دنیا کی دوسری قومیں پھنسی ہوئی تھیں۔ اس خرابی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں جو قومیں اسلام کے دائرے میں داخل ہوئیں انھیں صحیح اسلامی تعلیم وتربیت نہ مل سکی۔ وہ اپنے ساتھ پرانے جاہلیت کے بہت سے خیالات اور بہت سے طور طریقے لیے ہوئے اسلام میں آ گئیں۔ انھیں صدہا برس سے رسمیات اور تہواروں اور میلوں ٹھیلوں اور یاترائوں کی عادت پڑی ہوئی تھی۔ اس کے بغیر ان کے لیے مذہبی زندگی میں گویا کوئی لطف ہی نہ تھا۔ اسلام کی سادہ شریعت کے دائرے میں آ کر بجائے اس کے کہ وہ پرانی رسموں کا بوجھ اترنے اور پرانی زنجیروں کے بند کٹنے سے اطمینان محسوس کرتیں، انھیں یہاں آتے ہی یہ فکر لاحق ہو گئی کہ کس طرح وہی بوجھ پھر اپنے اوپر لاد لیں جنھیں اسلام نے اتارا تھا اور وہی بیڑیاں پھر پہن لیں جنھیں اسلام نے کاٹا تھا۔ چنانچہ انھوں نے کچھ توپرانی، جاہلیت کی رسمیں ذرا سی ظاہری صورت بدل کر باقی رکھیں، کچھ نئی رسمیں خود ایجاد کیں، یہاں تک کہ اسلام کو بھی ویسا ہی رسموں اور تہواروں کا مذہب بناکر رکھ دیا جیسے ان کے پرانے مذہب تھے۔ ان نئی رسموں کی ایجاد میں ماشاء اللّٰہ خاصی باریک بینی سے کام لیا گیا۔ قرآن اور حدیث کو اس غرض کے لیے تو نہ چھانا گیا کہ اسلام نے انسانی زندگی کے لیے جو نظام نامہ مرتب کیا ہے اس کے اصول معلوم کیے جاتے، بلکہ ساری چھان بین اسی لیے کی گئی کہ کہاں ایک نئی رسم ایجاد کرنے کے لیے یا پرانی جاہلانہ رسموں کو جاری رکھنے کے لیے کوئی بہانہ مل سکتا ہے۔ پھر اگر کسی جگہ ایک بال کی نوک کے برابربھی کوئی اشارہ مل گیا تو اس پر ایک پہاڑ برابر عمارت تعمیر کر ڈالی گئی۔ لوگ اپنی جگہ خوش ہیں کہ اسلام میں تہواروں اور رسموں کی جو کمی تھی اس کو انھوں نے پورا کر لیا ہے۔ حالانکہ دراصل انھوں نے اپنی جہالت سے وہ ساری بیڑیاں پہن لی ہیں جو اللّٰہ نے اپنے نبی کے ہاتھوں سے کٹوا دی تھیں، اور اپنے آپ کو پھر اُس جال میں پھانس لیا ہے جس میں پھنس کر دنیا کی قوم کبھی نہ ابھر سکی۔

روزہ اور ضبطِ نفس

روزے کے بے شمار اَخلاقی و رُوحانی فائدوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ انسان میں ضبطِ نفس کی طاقت پیدا کرتا ہے۔ اس بات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم ضبطِ نفس کا مطلب سمجھ لیں، پھر یہ معلوم کریں کہ اسلام کس قسم کا ضبطِ نفس چاہتا ہے، اور اس کے بعد یہ دیکھیں کہ روزہ کس طرح یہ طاقت پیدا کرتا ہے۔
ضبطِ نفس سے مراد یہ ہے کہ آدمی کی خودی جسم اور اس کی طاقتوں پر اچھی طرح قابو یافتہ ہو اور نفس کی خواہشات و جذبات پر اس کی گرفت اتنی مضبوط ہو کہ وہ اس کے فیصلوں کے تابع ہو کر رہیں۔ انسان کے وجود میں خودی کا مقام وہی ہے جو ایک سلطنت میں حکمران کا مقام ہوا کرتا ہے۔ جسم اور اس کے اعضا خودی کے آلۂ کار ہیں۔ تمام جسمانی اور دماغی طاقتیں خودی کی خدمت کے لیے ہیں۔ نفس کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ خودی کے حضور اپنی خواہشات کو درخواست کے طور پر پیش کرے۔ فیصلہ خودی کے اختیار میں ہے کہ وہ ان آلات اور طاقتوں کو کس مقصد کے لیے استعمال کرے اور نفس کی گزارشات میں سے کسے قبول اور کسے رَدّ کر دے۔ اگر کوئی خودی اتنی کم زور ہو کہ جسم کی مملکت میں وہ اپنا حکم اپنے منشا کے مطابق نہ چلا سکے اور اس کے لیے نفس کی خواہشیں مطالبات اور احکام کا درجہ رکھتی ہوں تو وہ ایک مغلوب اور بے بس خودی ہے۔ اس کی مثال اس سوار کی سی ہے جو اپنے گھوڑے کے قابو میں آ گیا ہو۔ ایسے کم زور انسان دُنیا میں کسی قسم کی بھی کامیاب زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ تاریخِ انسانی میں جن لوگوں نے اپنا کوئی نقش چھوڑا ہے وہ وہی لوگ تھے جنھوں نے اپنے وجود کی طاقتوں کو بزور اپنا محکوم بنا کر رکھا ہے، جو خواہشاتِ نفس کے بندے اور جذبات کے غلام بن کر نہیں بلکہ ان کے آقا بن کر رہے ہیں، جن کے ارادے مضبوط اور عزم پختہ رہے ہیں۔
لیکن فرق اور بہت فرق ہے اس خودی میں جو خود خدا بن جائے، اور اس خودی میں جو خدا کی تابع فرمان بن کر کام کرے۔ کامیاب زندگی کے لیے خودی کا قابو یافتہ ہونا تو بہرحال ضروری ہے، مگر جو خودی اپنے خالِق سے آزاد اور دُنیا کے مالک سے بے نیاز ہو، جو کسی بالاتر اخلاقی قانون کی پابند نہ ہو، جسے کسی حساب لینے والے کی باز پُرس کا اندیشہ نہ ہو، وہ اگر اپنے جسم و نفس کی طاقتوں پر قابو پا کر ایک پُرزور خودی بن جائے تو وہ دُنیا میں فرعون اور نمرود، ہٹلر اور مسولینی جیسے بڑے بڑے مفسد ہی پیدا کر سکتی ہے۔ ایسا ضبطِ نفس نہ قابل تعریف ہے اور نہ وہ اسلام کو مطلوب ہے۔ اسلام جس ضبط کا قائل ہے وہ یہ ہے کہ پہلے انسان کی خودی اپنے خدا کے آگے سرتسلیم خم کر دے، اس کی رضا کی طلب اور اس کے قانون کی اطاعت کو اپنا شعار بنا لے، اس کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھ لے، پھر اس مسلم و مومن خودی کو اپنے جسم اور اس کی طاقتوں پر حاکمانہ اقتدار، اور اپنے نفس اور اس کی خواہشوں پر قاہرانہ تسلط حاصل ہو، تاکہ وہ دُنیا میں ایک مصلح قوت بن سکے۔
یہ ہے اسلامی نقطۂ نظر سے ضبطِ نفس کی اصل حقیقت۔ آیئے اب ہم دیکھیں کہ روزہ کس طرح انسان میں یہ طاقت پیدا کرتا ہے۔
اگر آپ نفس و جسم کے مطالبات کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ان میں تین مطالبے اصل و بنیاد کا حکم رکھتے ہیں اور وہی سب سے زیادہ طاقت وَر مطالبے ہیں۔
ایک غذا کا مطالبہ جس پر بقائے حیات کا انحصار ہے۔
دُوسرا صنفی مطالبہ جو بقائے نوع کا ذریعہ ہے۔
تیسرا آرام کا مطالبہ جو قوتِ کارکردگی کی بحالی کے لیے ضروری ہے۔
یہ تینوں مطالبے اگر اپنی حد کے اندر رہیں تو عین منشائے فطرت ہیں۔ لیکن نفس و جسم کے پاس یہی تین پھندے ایسے ہیں کہ ذرا سی ڈھیل پاتے ہی وہ ان کے جال میں پھانس کر آدمی کی خودی کو اُلٹا اپنا غلام بنا لیتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک مطالبہ بڑھ کر مطالبات کی ایک فہرست بن جاتا ہے اور ہر ایک زور لگاتا ہے کہ انسان اپنا مقصدِ زندگی، اپنے اُصول اور اپنے ضمیر کے فتوے بھول کر بس اسی کے تقاضے پورے کرنے میں لگا رہے۔ ایک کم زور خودی جب ان تقاضوں سے مغلوب ہو جاتی ہے تو غذا کا مطالبہ اسے بندۂ شکم بنا دیتا ہے۔ صنفی جذبہ اسے حیوانیت کے اسفل السافلین میں پہنچا دیتا ہے، اور جسم کی آرام طلبی اس کے اندر ارادے کی کوئی طاقت باقی نہیں رہنے دیتی۔ پھر وہ اپنے نفس و جسم کی حاکم نہیں بلکہ ان کی محکوم بن کر رہتی ہے اور اس کا کام بس یہ رہ جاتا ہے کہ اس کے احکام کو بھلے اور بُرے، جائز اور ناجائز، تمام طریقوں سے بجا لایا کرے۔
روزہ نفس کی انھی تین خواہشوں کو اپنے ضابطہ کی گرفت میں لیتا ہے اور خودی کو ان پر قابو پانے کی مشق کراتا ہے۔ وہ اس خودی کو جو خدا پر ایمان لا چکی ہے، یہ خبر دیتا ہے کہ تیرے خدا نے آج دن بھر کے لیے تجھ پر دانہ پانی حرام کر دیا ہے، اس مدت کے اندر تیرے مالک نے آج تیری صنفی خواہشات پر بھی پابندی عائد کر دی ہے، صبح صادِق سے غروبِ آفتاب تک تیرے لیے حلال طریقے سے بھی ان خواہشات کو پورا کرنا حرام ہے۔ وہ اُسے یہ اطلاع بھی دیتا ہے کہ تیرے رب کی خوشی اسی میں ہے۔ کہ دن بھر کی بھوک پیاس کے بعد جب تُو اِفطار کرے تو نڈھال ہو کر لیٹ نہ جا بلکہ اُٹھ کر عام دِنوں سے زیادہ اس کی عبادت کر۔ وہ اسے یہ حکم بھی پہنچاتا ہے کہ نماز کی لمبی رکعتوں سے فارغ ہو کر جب تُو آرام لے تو صبح تک مدہوش ہو کر نہ پڑ جا بلکہ معمول کے خلاف سحری کے لیے اُٹھ اور صبح سے پہلے اپنے جسم کو غذا دے۔ یہ سارے احکام پہنچا دینے کے بعد وہ ان کی تعمیل کا معاملہ خود اُسی پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس کے پیچھے کوئی پولیس، کوئی سی۔ آئی۔ ڈی کوئی خارجی دبائو ڈالنے والی طاقت نہیں لگائی جاتی۔ وہ چھپ کر کھائے پیے یا صنفی خواہشات پوری کر لے تو خدا کے سوا کوئی اُسے دیکھنے والا نہیں ہے۔ وہ تراویح سے بچنے کے لیے کوئی شرعی حیلہ کر دے تو کوئی دُنیوی طاقت اس کی گرفت نہیں کر سکتی۔ سب کچھ اس کے اپنے اُوپر منحصر ہے۔ اگر مومن کی خودی واقعی خدا کی مطیع ہو چکی ہے۔ اور اگر اس کے ارادے میں اتنا زور ہے کہ نفس پر قابو پا سکے تو وہ خود ہی غذا کی مانگ کو، صنفی خواہش کو اور آرام کی طلب کو اُس ضابطہ میں کَس دے گا جو آج خلافِ معمول اس کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے۔
یہ صرف ایک دن کی مشق نہیں ہے۔ ایسی مشق کے لیے ایک دن کافی بھی نہیں ہو سکتا۔ مسلسل ۳۰ دن خودی سے یہی مشق کرائی جاتی ہے۔ سال بھر میں پورے ۷۲۰ گھنٹے کے لیے یہ پروگرام بنا دیا گیا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اُٹھ کر سَحری کھائو، صبح پَو پھٹتے ہی کھانا پینا بند کر دو، دن بھر ہر قسم کی غذا سے پرہیز کرو، غروبِ آفتاب کے بعد ٹھیک وقت پر اِفطار کرو، پھر رات کا ایک حصہ تراویح کی غیر معمولی نماز میں کھڑے رہ کر گزارو، اور چند گھنٹے آرام لینے کے بعد پھر دُوسرے دن کے لیے یہی پروگرام شروع کر دو۔ اس طرح مہینا بھر تک پے در پے نفس کے ان تین سب سے بڑے اور سب سے زیادہ طاقت ور مطالبوں کو ضابطے میں کستے رہنے سے خودی کے اندر یہ طاقت پید ا ہو جاتی ہے کہ وہ خدا کی مرضی کے مطابق اپنے نفس و جسم پر حکومت کر سکے اور یہ عمر بھر میں صرف ایک ہی مرتبہ کا پروگرام نہیں ہے بلکہ سنِ بلوغ کو پہنچنے کے بعد سے مرتے دم تک ہر سال میں ایک مہینا اسی مشق کے لیے وقف کیا گیا ہے تاکہ نفس پر خودی کی گرفت بار بار تازہ اور سخت ہوتی رہے۔
یہ ساری مشق محض اس غرض کے لیے نہیں ہے کہ مومن کی خودی صرف اپنی بھوک، پیاس، شہوت اور آرام طلبی پر قابو پا لے۔ اور اس کی غرض یہ بھی نہیں ہے کہ اسے نفس و جسم پر قابو صرف ایک رمضان ہی کے مہینے میں حاصل رہے۔ دراصل اس کا مُدّعا یہ ہے کہ نفس کے ان تین سب سے زیادہ زور دار حربوں کا مقابلہ کرکے وہ اس کے سارے ہی جذبات اور ساری ہی خواہشات پر قابو یافتہ ہو جائے اور اس میں اتنی طاقت پیدا ہو جائے کہ محض رمضان ہی میں نہیں بلکہ رمضان کے بعد بھی باقی گیارہ مہینوں میں وہ ہر اس خدمت کے لیے اپنے جسم اور اس کی طاقتوں سے کام لے سکے، جو خدا نے اس پر فرض کی ہو، ہر اس بھلائی کے لیے کوشش کر سکے جس میں خدا کی رضا ہو، ہر اس بُرائی سے رُک سکے جو خدا کو ناپسند ہو، اور اپنی خواہشات و جذبات کو اُن حدود کا پابند بنا کر رکھ سکے جو خدا نے اس کے لیے مقرر کر دی ہیں۔ اس کی باگیں نفس کے قبضہ میں نہ ہوں کہ جدھر جدھر وہ چاہے اسے کھینچے کھینچے پھرے بلکہ عنانِ اقتدار اس کے اپنے ہاتھ میں رہے اور نفس کی جن خواہشوں کو، جس وقت، جس حد تک اور جس طرح پورا کرنے کی خدا نے اجازت دی ہے انھیں اسی ضابطہ کے مطابق پورا کرے۔ اس کا ارادہ اتنا کم زور نہ ہو کہ فرض کو فرض جانتا بھی ہو، ادا بھی کرنا چاہتا ہو، مگر جسم پر اس کا حکم ہی نہ چلتا ہو۔ نہیں، جسم کی مملکت میں وہ اس زبردست حاکم کی طرح رہے جو اپنے ماتحت عملہ سے ہر وقت اپنے حسبِ منشا کام لے سکتا ہو۔ یہی طاقت پیدا کرنا روزے کا اصل مقصد ہے۔ جس شخص نے روزے سے یہ طاقت حاصل نہ کی، اُس نے خواہ مخواہ اپنے آپ کو بھوک پیاس اور رت جگے کی تکلیف دی۔
قرآن اور حدیث دونوں میں اس بات کو صاف صاف واضح کر دیا گیا ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا کہ روزے تم پر اس لیے فرض کیے گئے ہیں کہ تمھارے اندر تقوٰی کی صفت پیدا ہو۔ حدیث میں نبی ؐنے فرمایا کہ جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا اس کا پانی اور کھانا چھڑوا دینے کی خدا کو کوئی حاجت نہیں۔ نیز حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جو روزے سے بھوک پیاس کے سِوا کچھ نہیں پاتے۔
۵ جولائی ۱۹۴۸ء؁

عید قربان

تہوار اور انسان کی سماجی زندگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب سے آدمی نے اس زمین پر سماجی زندگی بسر کرنی شروع کی ہے، غالبًا اسی وقت سے تہوار منانے کا سلسلہ بھی چلا آرہا ہے۔ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے، اور کبھی نہیں رہی جس نے سال میں دو چار یا دس پانچ دن اس غرض کے لیے مخصوص نہ کیے ہوں۔ یہ تہوار دراصل سماج کی جان ہیں۔ لوگوں کا ایک جگہ جمع ہونا، مشترک جذبات کا مظاہرہ کرنا، مل کر خوشیاں منانا، ایک ہی قسم کی مقرر رسمیں ادا کرنا، یہ اپنے اندر سریش کی سی خاصیت رکھتا ہے جس سے افراد آپس میں جڑ کر ایک مربوط سوسائٹی بنتے ہیں اور ان میں اجتماعی روح نہ صرف پیدا ہوتی ہے بلکہ تھوڑے تھوڑے وقفوں سے تازہ اور بیدار ہوتی رہتی ہے۔
عموماً جو تہوار دنیا کے مختلف ملکوں اور قوموں میں منائے جاتے ہیں ان کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر تہوار یا تو کسی اہم تاریخی واقعہ کی یادگار میں منایا جاتا ہے، یا کسی بڑے شخص کی ذات سے منسوب ہوتا ہے، یا کسی خاص مذہبی تقریب سے تعلق رکھتا ہے۔ بہرحال تہوار کے لیے کوئی نہ کوئی ایسی تقریب ضروری ہے جو ایک قوم کے افراد یا ایک ملک کے باشندوں کے لیے مشترک دلچسپی کی چیز ہو اور جس سے ان کے گہرے جذبات وابستہ ہوں۔ اسی وجہ سے ایک قوم یا ملک کے تہواروں میں دوسری قوم یا ملک کے لوگ دلچسپی نہیں لیتے، اور کسی مصلحت سے بہ تکلف دلچسپی لینا چاہیں بھی تو نہیں لے سکتے، کیونکہ ایک قوم کا تہوار جن روایات سے تعلق رکھتا ہے وہ دوسری قوم کے جذبات و احساسات میں وہ حرکت پیدا نہیں کرتیں جو خود اس قوم میں پیدا کرتی ہیں۔
تہوار منانے کے طریقے بھی دنیا کی مختلف قوموں میں بے شمار ہیں۔ کہیں صرف کھیل کود اور راگ رنگ اور لطف و تفریح تک ہی تہوار محدود رہتا ہے۔ کہیں تفریحات تہذیب کی حد سے گزر کر فسق و فجور اور ناشائستگی کی حد تک پہنچ جاتی ہیں۔ کہیں تفریحات کے ساتھ کچھ سنجیدہ مراسم بھی ادا کیے جاتے ہیں۔ اور کہیں ان اجتماعی تقریبوں سے فائدہ اٹھا کر لوگوں میں اعلیٰ درجہ کی اخلاقی روح پھونکنے اور کسی بلند نصب العین کے ساتھ محبت اور گرویدگی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غرض ایک قوم کے تہوار منانے کا طریقہ گویا ایک پیمانہ ہے جس سے آپ اس کے مزاج اور اس کے حوصلوں اور امنگوں کو علانیہ ناپ کر دیکھ سکتے ہیں۔ جتنی بلند اخلاقی روح کسی قوم میں ہوگی اتنے ہی اس کے تہوار مہذب اور پاکیزہ ہوں گے۔ اور اسی طرح اخلاقی اعتبار سے کوئی قوم جتنی پست ہوگی وہ اپنے تہواروں میں اتنے ہی مکروہ مناظر پیش کرے گی۔
اسلام چونکہ ایک عالمگیر اصلاحی تحریک ہے جو کسی خاص ملک یا قوم سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کو ایک خدا پرستانہ تہذیب کا پیرو بنانا چاہتی ہے، اس لیے اس نے جہاں زندگی کے ہر شعبہ کو اپنے خاص ڈھنگ پر ڈھالا ہے، اسی طرح تہواروں کو بھی ایک نئی شکل دی ہے جو دنیا بھر کے تہواروں سے مختلف ہے، سماجی زندگی میں تہوار کی جو اہمیت ہے، اور سماج میں اجتماعی تقریبات کے لیے جو ایک قدرتی پیاس پائی جاتی ہے، اس کو تو اسلام نے نظر اندازنہیں کیا ہے بلکہ اس سے فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کی ہے، مگر تہوار کی تقریب اور تہوار منانے کے طریقے اور تہوار کی اخلاقی روح میں بنیادی تغیر کر دیا ہے۔ جس کی تین اہم خصوصیات کی طرف میں آپ کی توجہ دلائوں گا۔
(۱) ایک عالمگیر تحریک قومی تہواروں کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ سکتی۔ جن تہواروں کی بنیاد الگ الگ قوموں کی روایات پر ہو، جن کے ساتھ ایک ہی قوم کے جذبات اور دلچسپیاں وابستہ ہوں، اور جن میں ایک قوم کے ساتھ دوسری قوم فطرتاً شریک نہ ہوسکتی ہو۔ وہ دراصل انسانیت کی قومی تقسیم و تفریق کو مضبوط کرنے والی طاقت ہیں۔ ایسے تہوار جس طرح ایک قوم کو اپنے اندر منظم ہونے میں مدد دیتے ہیں اسی طرح وہی ہر قوم کو دوسری قوم سے پھاڑنے اور الگ کرنے کی خدمت بھی انجام دیتے ہیں۔ لہٰذا کوئی ایسی تحریک جو قومیتوں سے بالاتر ہو، انسانیت سے بحث کرتی ہو اور تمام دنیا کے انسانوں کو ایک تہذیب کے رشتے میں پرونا چاہتی ہو، اس قسم کے تہواروں کو صرف یہی نہیں کہ قبول نہیں کرسکتی بلکہ گوارا بھی نہیں کرسکتی، کیونکہ وہ اس کے مقصد کی راہ میں بالفعل ایک رکاوٹ ہوتے ہیں۔ اس کے پیش نظر مقصد کا فطری اقتضا یہی ہے کہ جو قومیں اس کے زیر اثر آئیں ان سے وہ قومی تہوار چھڑوا دے اور ایسے تہوار مقرر کرے جن میں وہ سب شریک ہو سکتی ہوں، جو بیک وقت قومی بھی ہوں اور بین الاقوامی بھی، جن کی بنیاد قومی روایات و جذبات پر نہ ہو بلکہ انسانیت کے لیے مشترک اہمیت رکھنے والے جذبات و روایات پر ہو۔
(۲) پھر جو تحریک عالمگیر ہونے کے ساتھ خدا پرستانہ بھی ہو وہ ایسے تہواروں کو گوارا نہیں کرسکتی جن میں شرک اور مخلوق پرستی اور مشرکانہ توہمات کا کوئی ادنیٰ شائبہ بھی پایا جاتا ہو۔ وہ اپنے مشن کی عین فطرت کے لحاظ سے مجبور ہے کہ جن جن قوموں اور ملکوں میں اس کا اثر پھیلے ان کے پرانے مذہبی تہواروں کو اور ان سب تقریبات کو جو قدیم عقائد کی یادتازہ کرنے والی ہوں، بند کر دے اور ان کی جگہ ایسے تہوار مقرر کرے جو خدا پرستی کا گہرا رنگ لیے ہوئے ہوں۔
(۳) خدا پرستی کے ساتھ لازمی طور پر اخلاق کا بھی ایک بلند نصب العین پیدا ہوتا ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ ایک خدا پرستانہ تحریک اپنے پیروئوں کو ایسے تہوار دے جو فسق و فجور اور ناشائستگی سے بالکل خالی ہوں، جن میں لطف و تفریح تہذیب کے ساتھ اور اظہار مسرت سنجیدگی کے ساتھ ہو، جو محض کھیل کود ہی پر ختم نہ ہو جائیں بلکہ جماعتی زندگی میں تہوار سے جو ایک حرکت پیدا ہو جاتی ہے اس کو اعلیٰ درجہ کے اخلاقی مقاصد کے لیے پوری طرح استعمال کیا جائے۔
اسلام نے اپنے پیرئوں کے لیے جو تہوار مقرر کیے ہیں ان میں تینوں خصوصیتیں نمایاں نظر آتی ہیں۔ عرب، ایران، مصر، شام اور دوسرے ملکوں میں جن قوموں نے اسلام قبول کیا ان کے تمام مذہبی اور قومی تہوار اسلام نے چھڑوا دئیے، اور ان کی جگہ دو تہوار رائج کیے جنہیں آپ عید اور بقر عید کے نام سے جانتے ہیں۔ ان میں سے پہلا تہوار تو اس خوشی میں منایا جاتا ہے کہ خدا کے نام پر رمضان کے تیس روزے رکھنے کا جو حکم ہم کو دیا گیا تھا اس کی تعمیل کرنے میں ہم کامیاب ہوگئے۔ لہٰذا اس تعمیل فرمان سے فارغ ہو کر ہم اپنے مالک کا شکر بجالاتے ہیں۔ رہا دوسرا تہوار تو وہ اس بے نظیر قربانی کی یادگار ہے جو اب سے چار ہزار برس پہلے خدا کے ایک سچے فرمانبردار بندے نے اپنے مالک کے حضور پیش کی تھی۔ ان دونوں تہواروں میں آپ صریحاً دیکھ سکتے ہیں کہ کسی مخصوص قومیت یا وطنیت کا لگائو بالکل نہیں ہے بلکہ وہ ایسی چیزوں کو تہوار کی بنیاد بنایا گیا ہے جن سے دنیا کے سارے خدا پرست انسانوں کے جذبات یکساں وابستہ ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح دونوں تہواروں میں خداوند عالم کی خالص بندگی کا گہرا رنگ پایا جاتا ہے۔ کسی قسم کی اکابر پرستی (heroworship) کا یا کسی مخلوق کی پرستاری کا ادنیٰ شائبہ بھی آپ ان میں نہیں پاسکتے۔ پھر ان تہواروں کے منانے کا طریقہ جو مقرر کیا گیا ہے وہ بھی اتنا پاکیزہ ہے کہ اس سے زیادہ نفیس، مہذب اور اخلاقی فائدوں سے لبریز تصور میں نہیں آسکتا۔ بعد کے مسلمانوں نے اسلامی عید کی اصلی شان کو کسی حد تک جاہلیت کے افعال سے داغدار کر دیا ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں جس طرح عید منائی جاتی تھی اس کا نقشہ میں آپ کے سامنے کھینچتا ہوں جس سے آپ اس تہوار کی پاکیزگی کا صحیح اندازہ کرسکیں گے۔
عید کے روز صبح کو تمام مسلمان، عورت، مرد، بچے غسل کرتے تھے اور اچھے سے اچھے کپڑے جو خدا نے ان کو دیئے ہوں پہن کر نکلتے تھے۔ رمضان کی عید میں نماز کے لیے جانے سے پہلے تمام خوش حال لوگ ایک مقرر مقدار میں کھانے کا سامان یا اس کی قیمت غریبوں کو دیتے تھے تاکہ کوئی شخص عید کے روز بھوکا نہ رہ جائے۔ بقر عید میں اس کے برعکس نماز کے بعد گھر واپس آکر قربانی کی جاتی تھی اور اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا تھا۔ ذرا دن چڑھنے پر سب لوگ گھروں سے نکل کھڑے ہوتے تھے۔ حکم تھا کہ عورت، مرد، بچے سب نکلیں تاکہ مسلمانوں کی کثرت اور ان کی شان کا اظہار ہو، خدا سے مانگنے میں بھی سب شریک ہوں، اور اس اجتماعی مسرت میں بھی سب کو شرکت کا موقع مل جائے۔ عید کی نماز مسجد کے بجائے بستی کے باہر میدان میں ہوتی تھی تاکہ بڑا مجمع ہوسکے۔ نماز کے لیے وقت سارے مسلمان یہ تکبیر پڑھتے ہوئے چلتے تھے۔
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُولِلّٰہُ الْحَمْدُ۔
’’اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ ہی سب سے بڑا ہے اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے، ساری تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔‘‘
ہر گلی، ہر کوچے، ہر محلے، ہر بازار اور ہر سڑک پر یہی نعرے لگتے تھے جن سے ساری بستی گونج اٹھتی تھی۔
عید گاہ کے میدان میں جب سب لوگ جمع ہو جاتے تو صفیں باندھ کر سارا مجمع رسول خدا کی امامت میں پوری باقاعدگی کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کرتا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے۔ جمعہ کی نماز کے برعکس یہ خطبہ نماز کے بعد ہوتا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ آدمی اپنے لیڈر کی اس اہم تقریر کے وقت موجود رہیں جس کا موقع سال میں صرف دو ہی مرتبہ آتا ہے پہلے ایک تقریر مردوں کے سامنے ہوتی۔ پھر آپ میدان کے اس حصہ کی طرف تشریف لے جاتے جہاں عورتیں جمع ہوتی تھیں۔ اور وہاں بھی تقریر فرماتے تھے۔ ان تقریروں میں تعلیم و تلقین اور وعظ و نصیحت کے علاوہ اسلامی جماعت کے متعلق ان تمام اہم مسائل پر بھی روشنی ڈالی جاتی تھی جو اس وقت درپیش ہوتے تھے۔ کوئی فوجی یا سیاسی مہم اگر پیش نظر ہوتی تو اس کا انتظام بھی وہیں اسی مجمع میں کر دیا جاتا۔ جماعتی ضروریات کی طرف بھی لوگوں کو توجہ دلائی جاتی اور ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق ان کے پورا کرنے میں حصہ لیتا، حتیٰ کہ روایات میں آیا ہے کہ عورتیں اپنے زیور تک اتار اتار کر خدا کے دین اور جماعت مسلمین کی خدمت کے لیے پیش کر دیتی تھیں۔
پھر یہ مجمع عیدگاہ سے پلٹتا تھا اور حکم یہ تھا کہ جس راستہ سے آتے ہو اس کے خلاف دوسرے راستے سے گھروں کی طرف واپس جائو تاکہ بستی کا کوئی حصہ تمہاری چہل پہل سے اور تمہاری تکبیروں کی گونج سے خالی نہ رہ جائے۔
نماز سے فارغ ہو کر بقر عید کے روز تمام ذی استطاعت مسلمان قربانی کرتے تھے۔ اس قربانی کا مقصد اس واقعہ کی یاد ہی کو نہیں بلکہ ان جذبات کو بھی تازہ کرنا تھا جن کے ساتھ عراق کا رہنے والا ایک غریب الوطن بوڑھا انسان مکہ میں خدا کا اشارہ پاتے ہی خود اپنے بیٹے کو خدا کی محبت پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوگیا تھا اور عین وقت پر خدا نے اپنے رحم و کرم سے اس کو بیٹے کے بدلے مینڈھے کی قربانی پیش کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ ٹھیک اسی تاریخ کو اسی وقت تمام مسلمان وہی فعل عملاً کرکے اس جذبے کو تازہ کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کی طرح وہ بھی خدا کے مسلم اور مطیع فرمان بندے ہیں، انہی کی طرح اپنی جان، مال، اولاد ہر چیز کو خدا کے حکم اور اس کی محبت پر قربان کرنے کے لیے تیار ہیں اور ان کا جینا اور مرنا سب کچھ خدا کے لیے ہے۔ اس نیت کا اظہار جانور کو ذبح کرنے کے فعل سے اور ان الفاظ سے ہوتا ہے جو ذبح کے وقت زبان سے ادا کیے جاتے ہیں۔
اِنِّىْ وَجَّہْتُ وَجْہِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ عَلٰی مِلَّۃِ اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفًا وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ اِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ ومَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذَالَکُ امِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ۔ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔
’’میں نے اپنا رخ پھیر دیا اس ذات کی طرف جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ میں ٹھیک اسی طریقہ کا پیروں ہوں جو ابراہیمؑ کا طریقہ تھا۔ میں خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیرانے والوں میں سے نہیں ہوں۔ میری نماز اور میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اللہ پروردگار عالم کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں خدا کے فرماں بردار بندوں میں سے ہوں۔ خدایا! یہ تیرا ہی دیا ہوا مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے، بسم اللہ اللہ اکبر۔‘‘
یہ الفاظ زبان سے ادا کرتے ہوئے جانور ذبح کیا جاتا تھا اور اس منظر کو گھر کی عورتیں اور بچے سب دیکھتے تھے تاکہ سب کے دلوں میں وہی قربانی اور خدا کی محبت و فرماں برداری کے جذبات تازہ ہو جائیں۔ پھر یہ گوشت غریبوں اور رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا اور اس کا ایک حصہ گھر میں اپنے کھانے کے لیے بھی رکھ لیا جاتا تھا۔ جانور کی کھال یا اس کی قیمت غریب لوگوں کو دے دی جاتی تھی۔ اور اس کے علاوہ بھی دل کھول کر خیرات کی جاتی تھی تاکہ عید صرف خوش حال لوگوں ہی کا تہوار بن کر نہ رہ جائے۔
بس یہ عید تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں منائی جاتی تھی۔ ان ’’سرکاری‘‘ مراسم کے علاوہ ’’غیر سرکاری‘‘ طور پر جو ان لوگ کچھ کھیل کود بھی لیتے تھے اور گھروں کی لڑکیاں بالیاں مل بیٹھ کر کچھ گیت بھی گا لیا کرتی تھیں۔ مگر یہ چیز بس ایک حد کے اندر ہی تھی، اس سے آگے قدم بڑھانے کی اجازت نہ تھی۔ بلکہ سوسائٹی کے لیڈرتو جوانوں کی ان جائز اور معصوم خوش فعلیوں میں بھی حصہ لینے سے اجتناب کرتے تھے تاکہ ان کی اتنی ہمت افزائی نہ ہو جس سے وہ ناروا مظاہرے کرنے کی جرأت کرنے لگیں۔
اس معاملہ میں لیڈروں کا جو طرز عمل تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوسکتا ہے جو مستند روایات میں بیان ہوا ہے۔ ایک دفعہ عید کے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا حضرت عائشہؓ کے پاس پڑوس کی دو لڑکیاں بیٹھی گیت گارہی ہیں۔ گیت کچھ عشق و عاشقی اورشراب و کباب کے مضمون کے نہ تھے بلکہ جنگ بعاث کے زمانہ کے گیت تھے۔ لڑکیاں بھی کوئی پیشہ ور فن کار و موسیقار نہ تھیں بلکہ گھروں کی بہو بیٹیاں تھیں جو کبھی دل بہلانے کو آپس میں بیٹھ کر معصومانہ گیت گالیا کرتی ہیں۔ رسول اللہؐ نے ان کی اس تفریح میں دخل نہ دیا اور خاموشی کے ساتھ ایک گوشہ میں جاکر چادر اوڑھ کر لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد حضرت ابوبکرؓ آئے اور انہوں نے اپنی صاحبزادی کو ڈانٹ پلائی کہ رسولؐ کے گھر میں یہ کیا شیطانی حرکت ہے۔ ان کی آواز سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا’’ رہنے دو، ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے، آج ہماری عید ہے۔‘‘ آنحضرتؐ کا یہ ارشاد سن کر حضرت ابوبکرؓ خاموش ہوگئے‘ مگر وہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ ان کے پیٹھ موڑتے ہی حضرت عائشہؓ نے لڑکیوں کو آنکھ کا اشارہ کیا اور وہ اپنے گھروں کو بھاگ گئیں۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو ان لوگوں کے معصومانہ کھیل کود اور کچھ گا بجا لینے کو جائز تو رکھا جاتا تھا مگر بڑے لوگ خود ان دلچسپیوں میں حصہ لے کر ان کی ہمت نہیں بڑھاتے تھے۔ بعد میں سب بڑوں نے حدود کی نگہداشت چھوڑ دی تو رسی ڈھیلی ہی ہوتی چلی گئی حتیٰ کہ ناچ رنگ سے گزر کر معاملہ یہاں تک پہنچا کہ ؎
روز عید است لب خشک زمے ٓلود کنید
چارۂ کار خود اے تشنہ لباں زُود کنید
۲۹۔ دسمبر ۱۹۴۱ئ ؁

قربانی

آج سے چار ہزار برس پہلے کی بات ہے کہ عراق کی سرزمین میں ایک شخص پیدا ہوا تھا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریخ پر اپنا ایک مستقل نشان چھوڑ گیا ہے۔ جس زمانے میں اس نے آنکھیں کھولیں اس وقت تمام دنیا شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھی، جس قوم میں وہ پیدا ہوا وہ ایک ستارہ پرست قوم تھی، چاند سورج اور دوسرے سیارے اس کے خدا تھے اور شاہی خاندان انہی خدائوں کی اولاد ہونے کی حیثیت سے اہل ملک کا رب مانا جاتا تھا۔ جس خاندان میں وہ پیدا ہوا وہ پروہتوں کا خاندان تھا اور اپنی قوم کو ستارہ پرستی کے جال میں پھانسے رکھنے کا اصل ذمہ دار وہی تھا۔
ایسے زمانے، ایسی قوم، اور ایسے خاندان میں یہ شخص پیدا ہوا دنیا کی عام روش پر چلنے والا ہوتا تو وہ بھی اسی راستے پر جاتا جس پر اس کے خاندان کے لوگ، اس کے ملک کے لوگ اور اس کے زمانے کے لوگ چلے جارہے تھے۔ کوئی ایسی روشنی بظاہر اس وقت دنیا میں کہیں موجود بھی نہ تھی جو کسی دوسرے راستے کی طرف رہنمائی کرنے والی ہو۔ اور اس کے ذاتی و خاندانی مفاد کا تقاضا بھی یہی تھا کہ وہ کسی اور راستے کا خیال بھی اپنے دل میں نہ لاتا، کیونکہ اس کے خاندان کی مذہبی دکان تو اسی ستارہ پرستی کے بل پر زور شور سے چل رہی تھی۔ لیکن وہ ان انسانوں میں سے نہ تھا جو بے شعور خس و خاشاک کی طرف اسی رخ پر اڑنے لگتے ہیں جدھر کی ہوا ہو۔ وہ موروثی تعصب کی بنا پر باپ دادا اور قوم کے طریقے کو بے چون و چرا قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اس نے ہوش سنبھالتے ہی یہ تحقیق کرنا ضروری سمجھا کہ جن عقیدوں اور اصولوں پر اس کے بزرگوں نے اور اس کی ساری قوم نے اپنی زندگی کی عمارت قائم کر رکھی ہے وہ بجائے خود صحیح بھی ہیں یا نہیں۔ اس آزادانہ تحقیقات کے سلسلے میں اس نے سورج، چاند، زہرہ اور ان سب معبودوں پر نگاہ ڈالی جن کی خدائی کے چرچے وہ بچپن سے سنتا آیا تھا۔ ایک ایک کو جانچ کر دیکھا کہ اس پر خدائی کا گمان کہاں تک سچا ہے۔ اور آخر کار یہ بے لاگ رائے قائم کی کہ دراصل یہ سب بندے ہیں۔ خدائی صرف اس ایک ہستی کی ہے جس نے زمین و آسمان کوپیدا کیا۔
پھر جب یہ حقیقت اس پر منکشف ہوگئی تو اس نے ان لوگوں کی سی روش اختیار نہیں کی جو ایک بات کو حق جاننے اور سمجھنے کے باوجود اسے قبول نہیں کرتے اس نے حق کو حق جاننے کے بعد اسے ماننے میں ایک لمحہ کی بھی دیر نہ کی۔ فوراً اقرار کیا کہ ’’میں جھک گیا اس خدا کے آگے جو زمین اور آسمانوں کا خالق ہے۔‘‘ اور اس اقرار کے ساتھ اپنی برادری اور قوم کے سامنے یہ اعلان بھی کر دیا کہ میرا راستہ تم سے الگ ہے۔ میں اس شرک اور بت پرستی میں تمہارے ساتھ نہیں ہوں۔ یہ اس شخص کی پہلی قربانی تھی۔ یہ پہلی چھری تھی جو اس نے باپ دادا کی اندھی تقلید پر، خاندانی اور قومی تعصبات پر، اور نفس کی ان تمام کمزوریوں پر پھیر دی جن کی وجہ سے آدمی اپنے ضمیر کی آواز کے خلاف ایک راستے پر صرف اس لیے چلتا رہتا ہے کہ برادری اور قوم دیا اور اسی پر چلی جارہی ہے۔
اس اقرار و اعلان کے بعد یہ شخص خاموش نہیں بیٹھ گیا۔ اس پر یہ حقیقت کھل گئی تھی کہ کائنات کی اصل حقیقت توحید ہے اور شرک سراسر ایک بے بنیاد چیز ہے۔ اس حقیقت کو جان لینے کے بعد وہ خود ہی یہ بھی جان گیا تھا کہ وہ سب انسان جو توحید کے بجائے شرک کے عقیدوں اور مشرکانہ اصولوں پر اپنے مذہب، اخلاق اور تمدن کی عمارت قائم کیے ہوئے ہیں انہوں نے دراصل ایک ایسی شاخ نازک پر آشیانہ بنا رکھا ہے جو سخت ناپائیدار ہے۔ اس احساس نے اس کو بے چین کر دیا۔ وہ پورے احساس فرض کے ساتھ کھڑا ہوگیا کہ اپنی قوم کو شرک سے روکے اور توحید کی طرف دعوت دے۔ اسے معلوم تھا کہ قومی مذہب کے خلاف اس طرح کی علانیہ تبلیغ کرکے وہ خود پروہت کی گدی سے محروم ہو جائے گا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کا خاندان اگر قومی مذہب سے پھرگیا تو وہ ساری وجاہت ختم ہو جائے گی جو اسے ملک میں حاصل ہے۔ اس کو یہ بھی خبر تھی کہ اس تبلیغ کی وجہ سے ساری قوم کا غصہ اس پر بھڑک اٹھے گا۔ وہ اس بات سے بھی بے خبر نہ تھا کہ یہ تبلیغ اسے حکومت کے عتاب میں مبتلا کر دے گی کیونکہ شاہی خاندان کے اقتدار کی بنیاد ہی وہاں یہ عقیدہ تھا کہ وہ دیوتائوں کی اولاد ہے اور اس بنا پر توحید لازماً حکومت کے بنیادی نظریے سے ٹکراتی تھی۔ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ اپنا فرض ادا کرنے کے لیے اٹھا، اپنے باپ کو، اپنے خاندان کو، اپنی قوم کو اور بادشاہ تک کو اس نے شرک سے باز آنے اور توحید کا عقیدہ قبول کرنے کی دعوت دی۔ اور جتنی زیادہ اس کی مخالفت کی گئی اتنی ہی زیادہ اس کی سرگرمی بڑھتی چلی گئی۔ آخر کار نوبت یہ آگئی کہ ایک طرف وہ تن تنہا انسان تھا اور دوسری طرف اس کے مقابلہ میں بادشاہ، ملک، برادری، خاندان، حتیٰ کہ اس کا اپنا باپ تک صف آرا تھا۔ اب پورے ملک میں کوئی اس کا دوست نہ تھا۔ ہر طرف دشمن ہی دشمن تھے۔ ایک ہمدردی کی آواز بھی اس کے حق میں اٹھنے والی نہ تھی۔ اس پر بھی جس اس نے ہمت نہ ہاری اور توحید کی دعوت پیش کرنے سے اس کی زبان نہ تھکی تو فیصلہ کیا گیا کہ برسرعام اسے زندہ جلا دیا جائے۔ مگر اس ہولناک سزا کا خوف بھی اسے باطل کو باطل اور حق کو حق کہنے سے باز نہ رکھ سکا۔ اس نے آگ کے الائو میں پھینکا جانا گوارا کرلیا مگر یہ گوارا نہ کیا کہ جس حقیقت پر وہ ایمان لاچکا تھا اس سے پھر جائے اور اسے حقیقت کہنا چھوڑ دے۔ یہ اس کی دوسری عظیم الشان قربانی تھی۔
نہ معلوم کس طرح خدا نے اسے آگ سے جلنے سے بچا لیا۔ اس خطرے سے بخریت گزر جانے کے بعد اس کے لیے ملک میں ٹھہرنا غیر ممکن تھا۔ آخر کار اس نے جلاوطنی کی زندگی اختیار کی۔ آس پاس کے سارے ملک جن میں وہ جاسکتا تھا اس وقت بت پرست تھے۔ کہیں کوئی ایسی چھوٹی سی چھوٹی برادری یا سوسائٹی بھی موجود نہ تھی جو توحید کی قائل ہوتی، جس کے پاس وہ پناہ لے کر امن کی زندگی پاسکتا۔ اس حالت میں امن پانے کی صرف یہی ایک صورت تھی کہ وہ اپنے ملک سے نکل جانے کے بعد دعوت توحید سے زبان بند کرلیتا۔ انفرادی طور پر ایک اجنبی آدمی کسی مذہب کا پیرو ہو تو دوسرے ملکوں کے لوگ اسے خواہ مخواہ چھیڑنے کی تکلیف کیوں کرنے لگے تھے۔ بلکہ انہیں یہ معلوم ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس کا مذہب کیا ہے۔ مگر یہ خدا کا بندہ دوسرے ملکوں میں بھی جاکر خاموش نہ رہا۔ جہاں بھی گیا اس نے خدا کے سب بندوں کو یہی دعوت دی کہ دوسروں کی بندگی چھوڑو اور صرف اسی ایک خدا کے بندے بن کر رہو جو حقیقت میں تمہارا خدا ہے۔ اس تبلیغ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے ملک سے نکل کر بھی اسے کہیں چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا۔ کبھی شام میں ہے تو کبھی فلسطین میں، کبھی مصر میں ہے تو کبھی حجاز میں۔ غرض ساری عمر یونہی ملک ملک کی خاک چھانتے گزر گئی۔ اس کو آرام کے ٹھکانے کی طلب نہ تھی۔ اس کو گھر اور کھیت اور مویشی اور کاروبار کی طلب نہ تھی۔ اس کو دنیا کے عیش اور زندگی کے سروسامان کی طلب نہ تھی۔ اسے صرف اس چیز کی طلب تھی کہ جس حق پر وہ ایمان لایا ہے اس کا کلمہ بلند ہو اور اس کے بنی نوع گمراہی کو چھوڑ کر اس سیدھی راہ پر چلنے لگیں جس میں ان کا اپنا بھلا ہے۔ یہی طلب اسے جگہ جگہ لیے پھرتی تھی اور اسی طلب کے پیچھے اس نے اپنے ہر مفاد کو تج دیا۔ یہ اس کی تیسری قربانی تھی۔
اس خانہ بدوشی اور بے سروسامانی کے عالم میں پھرتے پھرتے جب عمر تمام ہونے کو آئی تو خدا نے اسے ایک بیٹا دیا۔ اس بچے کو پالا پوسا۔ یہاں تک کہ وہ اس عمر کو پہنچا جب اولاد والدین کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹانے اور زندگی کی دوڑ دھوپ میں ان کا ساتھ دینے کے قابل ہوتی ہے۔ بیٹا اور وہ بھی اکلوتا بیٹا۔ پھر عنفوان شباب کو پہنچا ہوا اور باپ زندگی کے اس مرحلہ میں جب کہ آدمی جوان اولاد کے سہارے کا سب سے بڑا محتاج ہوتا ہے۔ ہر شخص اس صورت حال کا تصور کرکے اندازہ کرسکتا ہے کہ اس باپ کو وہ بیٹا کیسا کچھ عزیز ہوگا۔ مگر مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ اسے خدا اور اس کی مرضی سے بڑھ کر کوئی چیز بھی عزیز نہ ہو۔ اس لیے وہ ساری قربانیاں بھی کافی نہ سمجھی گئیں جو یہ بندہ اپنے خدا کے لیے ساری عمرکرتا رہا تھا۔ ان سب کے بعد اس کا آخری امتحا ن لینا ضروری سمجھا گیا اور وہ یہ تھا کہ یہ بندہ مسلم اپنے اس عزیز ترین بیٹے کی محبت کو بھی خدا کی محبت پر قربان کرسکتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ یہ امتحان بھی لے ڈالا گیا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ بوڑھا انسان اپنے خدا کا صریح حکم نہیں، محض ایک اشارہ پاتے ہی اکلوتے نوجوان بیٹے کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ یہ اور بات ہے کہ خدا نے عین ذبح کے وقت لڑکے کی جگہ مینڈھے کو قبول کر لیا، کیونکہ خدا کو لڑکے کا خون مطلوب نہ تھا، محض محبت کی آزمائش مقصود تھی، لیکن اس سچے مسلمان نے اپنی نیت کی حد تک تو اپنا لخت جگر اپنے خدا کے اشارے پر قربان کر ہی دیا تھا۔ یہ تھی وہ آخری اور سب سے بڑی قربانی جسے اس شخص نے اپنے اسلام اور ایمان، اور خدا کے ساتھ اپنی وفاداری کے ثبوت میں پیش کیا تھا۔ اسی کے صلہ میں خدا نے اسے تمام دنیا کے انسانوں کا امام بنایا اور اپنی دوستی کے مرتبہ پر سرفراز کیا۔
آپ سمجھے کہ یہ کس شخص کا ذکر ہے؟ یہ اس ذات گرامی کا ذکر ہے جسے آج ہم سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام سے جانتے ہیں۔ اور یہی وہ قربانی ہے جس کی یادگار آج دنیا بھر کے مسلمان جانوروں کی قربانی کرکے مناتے ہیں۔ اس یادگار کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان کے اندر قربانی کی وہی روح‘ اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور خدا کے ساتھ محبت و وفاداری کی وہی شان پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی پوری زندگی میں کیا ہے۔ اگر کوئی شخص محض ایک جانور کے گلے پر چھری پھیرتا ہے اور اس کا دل اس روح سے خالی رہتا ہے تو وہ ناحق ایک جاندار کا خون بہاتا ہے۔ خدا کو اس کے خون اور گوشت کی کوئی حاجت نہیں۔ وہاں تو جو چیز مطلوب ہے وہ دراصل یہ ہے کہ جو شخص کلمہ لا الہٰ الا اللہ پر ایمان لائے وہ مکمل طور پر بندۂ حق بن کر رہے۔ کوئی تعصب، کوئی دلچسپی، کوئی ذاتی مفاد، کوئی دبائو اور لالچ، کوئی خوف اور نقصان، غرض کوئی اندر کی کمزوری اور باہر کی طاقت اس کو حق کے راستے سے نہ ہٹا سکے۔ وہ خدا کی بندگی کا اقرار کرنے کے بعد پھر کسی دوسری چیز کی بندگی قبول نہ کرے۔ اس کے لیے ہر تعلق کو قربان کر دینا آسان ہو، مگر اس تعلق کو قربان کرنا کسی طرح ممکن نہ ہو جو اس نے اپنے خدا سے قائم کیا ہے۔ یہی قربانی اسلام کی اصل حقیقت ہے اور آج ہر زمانے سے بڑھ کر ہم اس کے محتاج ہیں کہ یہ حقیقت ہماری سیرتوں میں پیوست ہو۔ مسلمانوں نے جب کبھی دنیا میں چوٹ کھائی ہے اسلام کی اسی حقیقت سے خالی ہو کر کھائی ہے۔

اکتوبر ۱۹۴۷ئ؁

پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے

(یہ ایک مباحثہ ہے جو مئی ۱۹۴۸ئ میں ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر ہوا تھا۔ اس مباحثہ میں سائل کی حیثیت سے جناب وجیہ الدین صاحب بول رہے تھے اور مجیب کی حیثیت سے ابوالاعلیٰ مودودی)
س۔ اس بحث کو شروع کرنے سے پہلے غالبًا یہ جان لینا ضروری ہے کہ آپ کے ذہن میں مذہبی ریاست کا کیا تصور ہے؟
م۔ ظاہر بات ہے کہ ایک مسلمان جب مذہب کا لفظ بولے گا تو اسی کے ذہن میں اسلام ہی مراد ہوگا۔ میں جب کہتا ہوں کہ پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے تو اس سے میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے ایک اسلامی ریاست ہونا چاہیے۔ یعنی ایک ایسی ریاست جو اخلاق، تہذیب، تمدن، معاشرت، قانون، سیاست اور معیشت کے ان اصولوں پر قائم ہو جو اسلام نے ہم کو دیے ہیں۔
س۔ آپ نے مذہبی ریاست کا جو مفہوم بیان فرمایا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ریاست کا سیاسی اقتدار ماہرین دینیات کے ایک مخصوص طبقے کے ہاتھ میں ہوگا۔ اس طبقہ کاکام یہ ہوگا کہ وہ سیاسی اور انتظامی امور کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر سے تحقیق و تفتیش کرے، ریاستی قوانین وضع کرے اور شرعی احکامات کی بنا پر ہر سیاسی گتھی کو سجھائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طبقے کی پشت پناہ کون لوگ ہوں گے؟ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اقتصادی لحاظ سے ہماری سماج مختلف طبقوں میں منقسم ہے۔ ہر طبقہ اس کوشش میں ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مذہبی جواز تلاش کرے اور مذہبی نعروں کو استعمال میں لائے۔ ماہرین دینیات اس طبقات کش مکش سے بے نیاز اور غیر متعلق نہیں رہ سکتے۔ ان کے لیے لازم ہے کہ یا تو وہ عوامی طاقتوں کا ساتھ دیں، یا اپنے آپ کو سرمایہ دارا اور جاگیر دار طبقہ سے وابستہ کردیں۔ اس صورت میں قرآنی اصولوں سے جو بھی تفسیر پیش کی جائے گی وہ ان کے سیاسی رجحان کی آئینہ دار ہوگی۔ مختلف سیاسی خیالات رکھنے والے مفسروں میں اہم ترین مسائل پر شدید ترین اختلاف رائے پیدا ہو جائے گا۔ اقتصادی کشمکش ایک لامتناہی فقیہانہ بحث کی صورت اختیار کرلے گی۔ اور وہ مسائل جن کا مناسب حل ڈھونڈنا اس وقت اشد ضروری ہے جوں کے توں دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
م۔جس طبقاتی کش مکش کی طرف آپ اشارہ فرما رہے ہیں وہ دراصل پیدا ہی اس لیے ہوئی ہے کہ مدتوں سے غیر اسلامی اثرات کے تحت رہتے رہتے ہمارا معاشرہ اخلاق کی اس روح سے اور انصاف کے ان اصولوں سے محروم ہوگیا ہے جو اسلام نے ہم کو دیے تھے۔ جس مادہ پرستی نے دنیا کے دوسرے معاشرے کو طبقات میں تقسیم کیا اور ان کے درمیان اغراض و مفاد کا تصادم پیدا کیا وہی بدقسمتی سے اب ہمارے معاشرے کو پھاڑنے اور باہم ٹکرا دینے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ ابھی ابھی ہم فرقہ ورانہ کشاکش کے ہولناک نتائج بھگت چکے ہیں اور اس سے لگے ہوئے زخم ابھی بھرے بھی نہیں ہیں۔ اب ہم اس کے لیے تیار نہیں ہیں کہ آپ اپنے آپ کو ان اجتماعی فلسفوں کے حوالہ کر دیں جو ہمارے اندر ایک دوسری جنگ۔ طبقاتی جنگ۔ برپا کر دیں اور ہمیں اس وقت تک امن کی صورت نہ دیکھنے دیں جب تک ہمارا کوئی ایک طبقہ دوسرے طبقوں کو ملیامیٹ نہ کر دے۔ دوسری قوموں نے تو ان اجتماعی فلسفوں کو شاید اس لیے قبول کرلیا کہ ان کے پاس اخلاق اور انصاف کے وہ اصول موجود نہ تھے جو طبقاتی خود غرضیوں کے نشوونما کو روک سکتے اور مختلف عناصر کو ایک عادل برادری میں جمع کر دیتے۔ لیکن ہم خوش قسمتی سے ایک ایسا نظام حیات رکھتے ہیں جو ہمیں اس خطرے سے بچا سکتا ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر سے ان لوگوں کو ابھاریں جو اسلام کی روح کو پوری طرح سمجھتے ہوں اور طبقاتی تعصبات سے بالاتر ہو کر اسلام کے قوانین کی بے لاگ تعبیر کرسکتے ہوں۔ پھر یہ لوگ بالاتفاق، یا اکثریت کے ساتھ، جو تعبیر ہمارے سامنے پیش کریں اسے ہم سب مان لیں اور ہم میں سے کوئی طبقہ اپنے ہی مطلب کی تعبیر لینے پر اصرار نہ کرے۔ ایسے لوگوں کی پشت پناہی ساری قوم کو بحیثیت مجموعی کرنی چاہیے نہ کہ کسی ایک طبقے یا طبقوں کو ہمیں ان کے انتخاب میں صرف اس معیار کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ وہ بھروسے کے قابل سیرت رکھتے ہوں، اور اسلام کی صحیح تعبیر کے اہل ہوں۔ (وقت کی کمی کے باعث سائل کو اس شبہ کا تفصیلی جواب نہ دیا جاسکا کہ اسلامی ریاست کو چلانا کسی مخصوص ’’مذہبی طبقے‘‘ کاکام ہوگا۔ سائل نے یہ شبہ ’’مسیحی تھیاکریسی‘‘ اور ’’پاپائی نظام‘‘ اور ’’پریسٹ ہڈ‘‘ سے اخذ کیا تھا اور اس کا تفصیلی جواب ریڈیو کی مختصر گفتگو میں ممکن نہ تھا۔ یہاں اشارۃً صرف اتنا ہی بتانے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ اسلامی ریاست کے چلانے والے لوگوں کو عوام الناس اپنے ووٹوں سے منتخب کریں گے اور یہ انتخاب ان کی سیرت اور قابلیت کے لحاظ سے ہوگا نہ کہ کسی ’’طبقہ‘‘ کی رکنیت کے لحاظ سے۔ اس مسلہ پر تفصیل کے لیے مصنف کی تالیف ’’اسلامی ریاست‘‘ حصہ اول مطبوعہ اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ لاہور مطالعہ فرمائیے)
س۔ میری ناچیز رائے میں سیاسی نظام کے مرتب کرنے میں صرف خلوص اور ایمانداری ہی سے کام نہیں چل سکتا ہمارے سامنے اس وقت بہت سے پیچیدہ سیاسی اور معاشی مسائل ہیں جن پر سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ ذرائع پیداوار کو قومی ملکیت قرار دیا جائے یا شخصی ملکیت؟ ریاست میں ایک ہی سیاسی پارٹی ہونی چاہیے یا ایک سے زیادہ سیاسی پارٹیوں کا ہونا جمہوریت کے لیے ضروری ہے؟ مزدوروں کو ہڑتال کا حق ہونا چاہیے یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ آپ ان گتھیوں کو مذہبی پیشوائوں کے حوالہ کر دیجیے، آپ دیکھیں گے کہ وہ کسی فیصلہ کن نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ریاست کی تعمیر کے لیے فقیہانہ تحقیق و تجسس اور مذہبی کتب کی چھان بین کے بجائے سیاسی تجزیے اور تاریخی شعور کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں دینیات کے ماہروں کی بہ نسبت سیاسیات اور اقتصادیات کے ماہرین ہماری بہتر رہنمائی کرسکتے ہیں۔
م۔ آپ جب ’’دینیات‘‘ کا لفظ بوتے ہیں تو شاید ’’دنیویات‘‘ کو اس سے خارج کر دیتے ہیں۔ اسی لیے آپ کو بجا طور پر یہ اندیشہ ہوا کہ اگر ہم نے اپنے سیاسی اور معاشی مسائل کا حل ان ’’ماہرین دینیات‘‘ کے حوالہ کر دیا جو دنیویات سے ناواقف ہیں تو ہمارا کوئی مسئلہ بھی حل نہ ہوسکے گا۔ لیکن آپ ذرا اس پہلو پر بھی غور فرمائیں کہ اگر ہم نے اپنے تمدن، اپنی سیاست اور اپنی معیشت کے مسائل ان ’’ماہرین دنیویات‘‘ کے حوالہ کیے جو مغربی نظریات و عملیات سے واقف ہیں اور اسلامی تعلیمات سے کوئی مس نہیں رکھتے تو ہم کہاں پہنچیں گے۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ لوگ ماہرین دینیات کی بہ نسبت ہماری بہتر رہنمائی کرسکیں گے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ یہ رہنمائی ہمیں اسی منزل پر لے جائے گی جس پر آج دنیا کی بڑی بڑی قومیں پہنچ چکی ہیں، یعنی گھر کے اندر طبقاتی خود غرضیوں کی کشاکش اور گھر کے باہر بین الاقوامی خود غرضیوں کی کھینچ تان، کیا اس سے بہتر یہ نہ ہوگا کہ ہم اپنی قوم میں ان لوگوں کو تلاش کریں جو دین اور دنیا، دونوں کو اچھی طرح جانتے ہوں، جن کی نگاہ قرآن و حدیث کی تعلیمات پر اور سیاسیات و معاشیات وغیرہ کے مسائل پر یکساں ہو، اور وہ سر جوڑ کر ہماری گتھیوںں کا ایسا حل پیش کریں جو ہماری قومی زندگی کو ساری دنیا کے لیے قابل تقلید نمونہ بنا دے۔(وقت کی کمی کے سبب سے ان اقتصادی مسائل پر روشنی نہیں ڈالی جاسکتی جنہیں سائل نے اپنے سوال میں چھیڑا تھا۔ ان مسائل پر تفصیلی گفتگو کے لیے ملاحظہ ہو۔ مصنف کی کتاب ’’سود‘‘ اور ’’انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل‘‘ مطبوعہ اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور)
س۔ ریاست پاکستان کو اسلامی شریعت کے مطابق تنظیم دینے اور شرعی احکامات کا موجودہ حالات پر اطلاق کرنے میں ہمیں ایک اور مشکل پیش آئے گی۔ ہم بسا اوقات مذہبی احکامات کی روح کو فراموش کر دیتے ہیں اور ان کی لفظی حیثیت ہمارے پیش نظر رہتی ہے۔ اس طرح وسائل اور مقاصد ایک دوسرے سے خلط ملط ہو کر رہ جاتے ہیں۔ سود ہی کو لیجیے۔ سود کو ناجائز قرار دینے کا مقصد یہی تھا کہ اقتصادی استحصال کو روکا جائے۔ اسی طرح اجارہ، احتکار اور چور بازاری کی مخالفت کی گئی۔ لیکن جائز تجارت کو روا رکھا گیا، کیونکہ اس زمانے میں سرمایہ داری نظام ابھی طفولیت کی حالت میں تھا اور صنعتی سرمایہ کی طرح ظلم و استبداد کا آلہ نہ تھا۔ آج حالات بدل چکے ہیں۔ آج بیرونی تجارت کا مفہوم یہ ہے کہ سامراجی نظام کو تقویت دی جائے اور دوسری قوموں کو اقتصادی اور سیاسی طور پر محکوم بنایا جائے۔ جائز اور ناجائز تجارت کا فرق مٹ چکا ہے۔ لیکن ہمارے علمائ جب اقتصادیات پر فتویٰ لگاتے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ موجودہ اقتصادی نظام میں مہاجنی سود کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ غربت اور بدحالی اس شے کی پیداوار ہے جسے وہ جائز قرار دیتے ہیں، یعنی صنعتی سرمایہ داری اور بینکنگ۔
م۔ یہ خرابی جس کا آپ سے ذکر فرما رہے ہیں ہر اس جگہ پیدا ہو جاتی ہے۔ جہاں قانون کے منشا اور اس کی روح کو چھوڑ کر صرف اس کے الفاظ لے لیے جاتے ہیں۔ کہیں یہ خرابی علم اور بصیرت کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور کہیں اس وجہ سے کہ لوگ اپنی اغراض کے لیے قانون کی روح سے بغاوت کرنا چاہتے ہیں مگر ظاہر داری کو قائم رکھنے کے لیے قانون کی شکل بدلنے سے احتراز کرتے ہیں۔ ہمیں اس خرابی سے اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ صرف یہ کہ عام مسلمانوں میں اسلام کا شعور اور اس کی واقعی پیروی کا ارادہ موجود ہو۔ یہ چیز جب موجود ہوگی تو وہ اسلامی قوانین کی تعبیر کے لیے اپنے اندر سے انہی لوگوں کو منتخب کریں گے جو قرآن و سنت کے محض الفاظ ہی نہ جانتے ہوں بلکہ ان کی روح کو بھی سمجھتے ہوں۔ ۱؎
س۔ شریعت کے مفسرین اور شارحین میں سیاسی اختلافات کے علاوہ جو خالصتہً مذہبی اختلافات ہیں۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ کی نظر میں یہ اختلافات کے سیاسی اور سماجی نظام کا تصور قائم کرنے میں رکاٹ نہ ڈالیں گے؟
م۔ ان اختلافات کی نوعیت وہی کچھ ہے جو ہمارے دوسرے اختلافات کی ہے۔ اور انہیں بھی ہم اسی طرح حل کرسکتے ہیں جس طرح دوسرے اختلافات کو حل کیا کرتے ہیں۔ کوئی معاشرہ جو انسانوں پر مشتمل ہو، ایسا نہیں ہوسکتا جس میں زندگی کے مختلف مسائل کے متعلق مختلف نظریے نہ پائے جاتے ہوں لیکن ان اختلافات کو کہیں بھی ایسی رکاوٹ بننے کی کی اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ زندگی کی گاڑی کو آگے چلنے ہی نہ دیں۔ اختلافات کو حل کرنے کا جمہوری طریقہ یہ ہے کہ ریاست کا نظام اس نقطۂ نظر کے مطابق چلایا جائے جس کو اکثریت قبول کرتی ہو، اور قلیل التعداد گروہوں کے نقطۂ نظر کی زیادہ سے زیادہ اتنی رعایت کی جائے جس کی اصول میں گنجائش ہو۔ نیز اقلیت کی حیثیت سے ان کے حقوق کا منصفانہ تحفظ کر دیا جائے۔ ہم کوشش کریں گے کہ پاکستان کی ریاست اسلام کے ان وسیع ترین اصولوں پر قائم ہو جن پر مسلمانوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ اتفاق پایا جاتا ہے۔ تاہم کچھ ایسے گروہ باقی رہ سکتے ہیں جو اس وسیع ترین اصولوں میں بھی اکثریت کے ساتھ متفق نہ ہوں۔ اس صورت میں ہم کو وہی جمہوری طریقہ اختیار کرنا پڑے گا جس کا ابھی میں ذکر کر چکا ہوں ورنہ یہ بالکل ایک عجیب بات ہوگی کہ ہم سب غیر اسلام پر اس لیے اتفاق کرلیں کہ اسلام پر ہم متفق نہ ہوسکے۔
س۔ مسلمانوں کے اندرونی اختلافات کے علاوہ ریاست پاکستان میں اقلیتوں کا مسئلہ بھی قابل غور ہے۔ آپ کس طرح ان کو اس بات پر راضی کرسکتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی مذہبی ریاست کا قیام گوارا کرلیں اور اس کے وفادار ہیں؟
م۔ اس گتھی کا حل بھی وہی ہے جو مسلمانوں کے اندرونی اختلافات کا ہے جمہوری طریقہ پر ایک ملک کا نظام انہی اصولوں کے مطابق بنتا اور چلتا ہے جو اکثریت کی رائے میں صحیح ہوں۔ اقلیت یہ مطالبہ ضرور کرسکتی ہے کہ اس کے نقطۂ نظر پر بھی غور کیا جائے، نیز یہ کہ اس کے حقوق شہریت اور اس کے پرسنل لا کو محفوظ رکھا جائے۔ لیکن ازروئے انصاف وہ یہ مطالبہ نہیں کرسکتی کہ اکثریت اس کی خاطر اپنی رائے بدل دے۔ اس ملک کی اکثریت ایمانداری کے ساتھ یہ رائے رکھتی ہے کہ اسلام کے اصولوں کی پیروی میں پاکستان کے باشندوں کی فلاح ہے۔ اقلیت اس سے اپنے حقوق کا تحفظ مانگ سکتی ہے، مگر یہ کہنے کا اسے حق نہیں ہے کہ اکثریت اسلام کے بجائے کچھ دوسرے اصولوں میں اپنی فلاح تلاش کرے۔ رہا وفاداری کا سوال تو حقیقت یہ ہے کہ وفاداری کا تعلق کسی ریاست کے مذہبی یا غیر مذہبی ہونے سے نہیں ہے، بلکہ وہ انصاف شرافت اور فیاضی پر منحصر ہے جو اکثریت کی طرف سے اقلیت کے ساتھ برتی جائے۔ آپ اقلیت کو محض اس ریاکاری سے مطمئن نہیں کرسکتے کہ دیکھو ہم نے تمہاری خاطر اپنے مذہب تک کو چھوڑ دیا اور ایک غیر مذہبی ریاست بنالی۔ اقلیت تو یہ دیکھے گی کہ آپ اس کے ساتھ انصاف کرتے ہیں یا نہیں؟ آپ کا برتائو تعصب اور تنگ دلی پر مبنی ہے یا رواداری اور فیاضی پر؟ یہی تجربہ دراصل فیصلہ کرے گا کہ اقلیت کو اس ریاست میں وفادار بن کر رہنا ہے یا بیزار بن کر۔
س۔ میری رائے میں ہر ملک کا سیاسی نظام اس کے باشندوں کے رسم و رواج، اخلاق، عادات و خصائل اور اعتقادات و توہمات کا پر تو ہوتا ہے۔ ریاستی نظام بجائے خود کسی فلسفے یا مذہب کا حامل نہیں ہوسکتا۔ اگر اسے ایسا بنانے کی کوشش کی جائے تو وہ ایک مصنوعی اور عارضی کوشش ہوگی۔ قدیم یونان کی شہری ریاست افلاطون کے تخیل کی پیداوار نہیں تھی بلکہ اس انداز فکر اور فلسفہ زندگی کی پیداوار تھی جو یونان کے باشندوں میں مشترک تھا۔ اسی طرح اگر ہم اسلامی ریاست کی تعمیر چاہتے ہیں تو ہمیں چاہے کہ پاکستان کے باشندوں میں صحیح اسلامی سپرٹ پیدا کریں اور انہیں دین کی اصلی اقدار سے روشناس کرائیں۔ جب یہ اقدار مضبوط ہو جائیں گی اور ہمارے قومی کیرکٹر میں اسلامی تصورات پوری طرح سرایت کر جائیں گے، اس وقت ہمارا سیاسی نظام خود بخود اسلامی رنگ اختیار کرلے گا۔ ہم اس وقت تک اسلامی ریاست کی داغ بیل نہیں ڈال سکتے جب تک ہماری روحانی، شخصی اور سماجی زندگی میں اسلامی روایات پوری تابندگی سے جلوہ گر نہ ہوں۔ میری نظر میں وہ وقت ابھی دور ہے جب ہم مکمل طور پر اسلامی تصورات کو قبول کریں گے اس لیے اسلامی ریاست کو قائم کرنےکی تمام کوششیں پیش از وقت ہیں ہماری بنیادیں ابھی اتنی استوار نہیں ہیں کہ ہم ان پر ایک عمارت کھڑی کرسکیں۔
م۔ آپ نے سچ فرمایا کہ ایک ملک کا سیاسی نظام اس کے باشندوں کی اخلاقی اور ذہنی حالت کا پر تو ہوا کرتا ہے۔ اب اگر پاکستان کے باشندے اسلام کی طرف ایک پر زور میلان رکھتے ہیں اور ان کے اندر اسلام کے راستے پر آگے بڑھنے کی خواہش موجود ہے تو کیوں نہ ان کی قومی ریاست ان کے اس میلان اور اس خواہش کا پرتو ہو؟ آپ کا یہ ارشاد بھی بالکل درست ہے کہ اگر ہم پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں پاکستان کے باشندوں میں اسلامی شعور، اسلامی ذہنیت اور اسلامی اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مگر میں نہیں سمجھا کہ اس کوشش میں حصہ لینے سے آپ خود ریاست کو کیوں مستثنیٰ رکھنا چاہتے ہیں۔ ۱۵۔ اگست ۷۴ئ؁ سے پہلے کی صورت حال تو یہ تھی کہ ہمارے اوپر ایک غیر مسلم اقتدار مسلط تھا، اس جہ سے ہم اسلامی خطوط پر اپنی ملت کی تعمیر میں ریاست اور اس کی طاقتوں اور اس کے ذرائع سے کوئی مدد نہیں پارہے تھے، بلکہ درحقیقت اس وقت ریاست کا پورا ارادہ اپنے زور سے ہمیں ایک دوسری طرف کھینچے لیے جارہا تھا اور ہم انتہائی ناسازگار حالات میں اسلامی زندگی کی تعمیر کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ اب جو سیاسی انقلاب ۱۵ اگست کو رونما ہوا ہے اس کے بعد ہمارے سامنے یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ آیا اب ہماری قومی ریاست اسلامی زندگی کی تعمیر میں وہ حصہ لے گی جو ایک معمار کا حصہ ہوتا ہے؟ یا وہ طرز عمل اختیار کرے گی جو ایک بے نیاز غیر جانبدار کا ہوا کرتا ہے؟ یا اب بھی وہی پچھلی صورت حال برقرار رہے گی کہ ہمیں حکومت کی مدد کے بغیر ہی نہیں بلکہ اس کی مزاحمت کے باوجود اسلامی زندگی کی تعمیر کاکام کرنا ہوگا؟ اس وقت چونکہ پاکستان کا آئندہ نظام زیر تشکیل ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ایسی ریاست بن جائے جو اسلامی زندگی کی معمار بن سکے۔ ہماری یہ خواہش اگر پوری ہوگئی تو ریاست کے وسیع ذرائع اور طاقتوں کو استعمال کرکے پاکستان کے باشندوں میں ذہنی اور اخلاقی انقلاب برپا کرنا بہت زیادہ آسان ہو جائے گا۔ پھر جس نسبت سے ہمارا معاشرہ بدلتا جائے گا اسی نسبت سے ہماری ریاست بھی ایک مکمل اسلامی ریاست بنتی چلی جائے گی۔
۱۸، مئی ۱۹۴۸ئ؁

زندگی بعد موت

موت کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے یا نہیں؟ اور ہے تو کیسی ہے؟ یہ سوال حقیقت میں ہمارے علم کی رسائی سے دور ہے کیوں کہ ہمارے پاس وہ آنکھیں نہیں، جن سے ہم موت کی سرحد کے اس پار جھانک کر دیکھ سکیں، کہ وہاں کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ ہمارے پاس وہ کان نہیں، جن سے ہم ادھر کی کوئی آواز سن سکیں۔ ہم کوئی ایسا آلہ بھی نہیں رکھتے، جس کے ذریعے سے تحقیق کے ساتھ معلوم کیا جا سکے کہ اِدھر کچھ ہے یا کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا جہاں تک سائنس کا تعلق ہے، یہ سوال اس کے دائرے سے قطعی خارج ہے جو شخص سائنس کا نام لے کر کہتا ہے کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے وہ بالکل ایک غیر سائنٹیفک بات کہتا ہے۔ سائنس کی رو سے نہ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی زندگی ہے اور نہ یہ کہ کوئی زندگی نہیں ہے۔ جب تک ہم کوئی یقینی ذریعۂ علم نہیں پاتے، کم ازکم اس وقت تک تو صحیح سائنٹیفک رویہ یہی ہو سکتا ہے کہ ہم زندگی کے بعد موت کا نہ انکار کریں نہ اقرار۔
مگر کیا عملی زندگی میں ہم اس سائنٹیفک رویے کو نباہ سکتے ہیں؟ شاید نہیں، بلکہ یقینا نہیں۔ عقلی حیثیت سے تو یہ ممکن ہے کہ جب ایک چیز کو جاننے کے ذرائع ہمارے پاس نہ ہوں، تو اس کے متعلق ہم نفی اور اثبات دونوں سے پرہیز کریں، لیکن جب اُسی چیز کا تعلق ہماری عملی زندگی سے ہو، تو ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ یا تو انکار پر اپنا طرزِ عمل قائم کریں، یا اقرار پر۔ مثلاً ایک شخص ہے جس سے آپ واقف نہیں ہیں، اگر اس کے ساتھ آپ کا کوئی معاملہ درپیش نہ ہو، تو آپ کے لیے یہ ممکن ہے کہ اس کے ایمان دار ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی حکم نہ لگائیں، لیکن جب آپ کو اس سے معاملہ کرنا ہو، تو آپ مجبور ہیں کہ یا تو اسے ایمان دار سمجھ کر معاملہ کریں، یا بے ایمان سمجھ کر۔ اپنے ذہن میں آپ ضرور یہ خیال کر سکتے ہیں کہ جب تک اس کا ایمان دار ہونا یا نہ ہونا ثابت نہ ہو جائے، اس وقت تک ہم شک کے ساتھ معاملہ کریں گے، مگر اس کی ایمان داری کو مشکوک سمجھتے ہوئے جو معاملہ آپ کریں گے، عملاً اس کی صورت وہی تو ہو گی جو اس کی ایمان داری کا انکار کرنے کی صورت میں ہو سکتی تھی۔ لہٰذا فی الواقع انکار اور اقرار کے درمیان شک کی حالت صرف ذہن ہی میں ہو سکتی ہے۔ عملی رویہ کبھی شک پر قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے تو اقرار یا انکار بہرحال ناگزیر ہے۔
یہ بات تھوڑے ہی غور و فکر سے آپ کی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ زندگی بعد موت کا سوال محض ایک فلسفیانہ سوال نہیں ہے، بلکہ ہماری عملی زندگی سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔ دراصل ہمارے اخلاقی رویے کا سارا انحصار ہی اس سوال پر ہے۔ اگر میرا یہ خیال ہو کہ زندگی جو کچھ ہے بس یہی دنیوی زندگی ہے، اور اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے، تو میرا اخلاقی رویہ ایک طرح کا ہو گا۔ اگر میں یہ خیال رکھتا ہوں کہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی بھی ہے۔ جس میں مجھے اپنی موجودہ زندگی کا حساب دینا ہو گا اور وہاں میرا اچھا یا برا انجام میرے یہاں کے اعمال پر منحصر ہو گا، تو یقینا میرا اخلاقی طرزِ عمل بالکل ایک دوسری ہی طرح کا ہو گا، اس کی مثال یوں سمجھیے، جیسے ایک شخص یہ سمجھتے ہوئے سفر کر رہا ہے کہ اسے بس یہاں سے کراچی تک جانا ہے، اور کراچی پہنچ کر نہ صرف یہ کہ اس کا سفر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا، بلکہ وہ وہاں پولیس اور عدالت اور ہر اس طاقت کی دسترس سے باہر ہو گا، جو اس سے کسی قسم کی باز پرس کر سکتی ہو۔ برعکس اس کے ایک دوسرا شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہاں سے کراچی تک تو اس کے سفر کی صرف ایک ہی منزل ہے۔ اس کے بعد اسے سمندر پار ایک ایسے ملک میں جانا ہو گا جہاں کا بادشاہ وہی ہے جو پا کستان کا بادشاہ ہے، اور اس بادشاہ کے دفتر میں میرے اس پورے کارنامے کا خفیہ ریکارڈ موجود ہے، جو میں نے پاکستان میں انجام دیا ہے، اور وہاں میرے ریکارڈ کو جانچ کر فیصلہ کیا جائے گا کہ میں اپنے کام کے لحاظ سے کس درجے کا مستحق ہوں۔ آپ بآسانی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان دونوں شخصوں کا طرزِ عمل کس قدر ایک دوسرے سے مختلف ہو گا۔ پہلا شخص یہاں سے کراچی تک کے سفر کی تیاری کرے گا، اور دوسرے کی تیاری بعد کی طویل منزلوں کے لیے بھی ہو گی۔ پہلا شخص یہ سمجھے گا کہ نفع یا نقصان جو کچھ بھی ہے کراچی پہنچنے تک ہے، آگے کچھ نہیں، اور دوسرا یہ خیال کرے گا کہ اصل نفع و نقصان سفر کے پہلے مرحلے میں نہیں ہے، بلکہ آخری مرحلے میں ہے۔ پہلا شخص اپنے افعال کے صرف اُنھی نتائج پر نظر رکھے گا جو کراچی تک کے سفر میں نکل سکتے ہیں۔ لیکن دوسرے شخص کی نگاہ ان نتائج پر ہو گی جو سمندر پار دوسرے ملک میں پہنچ کر نکلیں گے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں شخصوں کے طرز عمل کا یہ فرق براہِ راست نتیجہ ہے ان کی اس رائے کا جو وہ اپنے سفر کی نوعیت کے متعلق رکھتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ہماری اخلاقی زندگی میں بھی وہ عقیدہ فیصلہ کن اثر رکھتا ہے جو ہم زندگی کے بعد موت کے بارے میں رکھتے ہیں۔ عمل کے میدان میں جو قدم بھی ہم اٹھائیں گے، اس کی سمت کا تعین اس بات پر منحصر ہو گا کہ آیا ہم اسی زندگی کو پہلی اور آخری زندگی سمجھ کر کام کر رہے ہیں یا کسی بعد کی زندگی اور اس کے نتائج کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ پہلی صورت میں ہمارا قدم ایک سمت اٹھے گا اور دوسری صورت میں اس کی سمت بالکل مختلف ہو گی۔
اس سے معلوم ہوا کہ زندگی بعد موت کا سوال محض ایک عقلی اور فلسفیانہ سوال نہیں ہے، بلکہ عملی زندگی کا سوال ہے، اور جب بات یہ ہے تو ہمارے لیے اس معاملے میں شک اور تردد کے مقام پر ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں۔ شک کے ساتھ جو رویہ ہم زندگی میں اختیار کریں گے، وہ بھی لامحالہ انکار ہی کے رویے جیسا ہو گا۔ لیکن ہم بہرحال اس امر کا تعین کرنے پر مجبور ہیں کہ آیا موت کے بعد کوئی اور زندگی ہے یا نہیں، اگر سائنس اس کے تعین میں ہماری مدد نہیں کرتا، تو ہمیں عقلی استدلال سے مدد لینی چاہیے۔
اچھا تو عقلی استدلال کے لیے ہمارے پاس کیا مواد ہے؟
ہمارے سامنے ایک تو خود انسان ہے، اور دوسرے یہ نظامِ کائنات، ہم انسان کو اس نظامِ کائنات کے اندر رکھ کر دیکھیں گے کہ جو کچھ انسان میں ہے، آیا اس کے سارے مقتضیات اس نظام میں پورے ہوجاتے ہیں، یا کوئی چیز بچی رہ جاتی ہے، جس کے لیے کسی دوسری نوعیت کے نظام کی ضرورت ہو۔
دیکھیے، انسان ایک تو جسم رکھتا ہے، جو بہت سے معدنیات، نمکیات پانی اور گیسوں کا مجموعہ ہے۔ اس کے جواب میں کائنات کے اندر بھی مٹی، پتھر، دھاتیں، نمک، گیسیں، دریا اور اسی جنس کی دوسری چیزیں موجود ہیں۔ ان چیزوں کو کام کرنے کے لیے قوانین کی ضرورت ہے، وہ سب کائنات کے اندر کار فرما ہیں، اور جس طرح وہ باہر کی فضا میں پہاڑوں، دریائوں اور ہوائوں کو اپنے حصے کا کام پورا کرنے کا موقع دے رہے ہیں، اسی طرح انسانی جسم کو بھی ان قوانین کے تحت کام کرنے کا موقع حاصل ہے۔
پھر انسان ایک زندہ وجود ہے، جو اپنے ارادے سے حرکت کرتا ہے، اپنی غذا خود اپنی کوشش سے فراہم کرتا ہے، اپنے نفس کی آپ حفاظت کرتا ہے اور اپنی نوع کو باقی رکھنے کا انتظام کرتا ہے۔ کائنات میں اس جنس کی بھی دوسری بہت سی قسمیں موجود ہیں۔ خشکی، تری اور ہوا میں بے شمار حیوانات پائے جاتے ہیں اور وہ قوانین بھی تمام و کمال یہاں کار فرما ہیں، جو ان زندہ ہستیوں کے پورے دائرۂ عمل پر حاوی ہونے کے لیے کافی ہیں۔
ان سب سے اوپر انسان ایک اور نوعیت کا وجود بھی رکھتا ہے، جسے ہم اخلاقی وجود کہتے ہیں، اس کے اندر نیکی اور بدی کرنے کا شعور ہے، نیک اور بد کی تمیز ہے، نیکی اور بدی کرنے کی قوت ہے، اور اس کی فطرت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ نیکی کا اچھا اور بُرائی کا بُرا نتیجہ ظاہر ہو، اور وہ ظلم اور انصاف، سچائی اور جھوٹ، حق اور ناحق، رحم اور بے رحمی احسان اور احسان فراموشی، فیاضی اور بخل، امانت اور خیانت اور ایسی ہی مختلف اخلاقی صفات کے درمیان فرق کرتا ہے۔ یہ صفات عملًا اس کی زندگی میں پائی جاتی ہیں، اور یہ محض خیالی چیزیں نہیں ہیں، بلکہ بالفعل ان کے اثرات انسانی تمدن پر مرتب ہوتے ہیں، لہٰذا انسان جس فطرت پر پیدا ہوا ہے، اس کا شدت کے ساتھ یہ تقاضا ہے کہ جس طرح اس کے افعال کے طبعی نتائج رونما ہوتے ہیں، اسی طرح اخلاقی نتائج بھی رونما ہوں۔
مگر نظامِ کائنات پر گہری نگاہ ڈال کر دیکھیے، کیا اس نظام میں انسانی افعال کے اخلاقی نتائج پوری طرح رونما ہو سکتے ہیں؟ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہاں اس کا امکان نہیں ہے، اس لیے کہ یہاں کم از کم ہمارے علم کی حد تک کوئی دوسری ایسی مخلوق نہیں پائی جاتی جو اخلاقی وجود رکھتی ہو۔ سارا نظامِ کائنات طبعی قوانین کے ماتحت چل رہا ہے۔ اخلاقی قوانین کسی طرف کارفرما نظر نہیں آتے، یہاں روپے میں وزن اور قیمت ہے۔ مگر سچائی میں نہ وزن ہے نہ قیمت۔ یہاں آم کی گٹھلی سے ہمیشہ آم پیدا ہوتا ہے۔ مگر حق پرستی کا بیج بونے والے پر کبھی پھولوں کی بارش ہوتی ہے اور کبھی بلکہ اکثر جوتیوں کی۔ یہاں مادی عناصر کے لیے مقرر قوانین ہیں جن کے مطابق ہمیشہ مقرر نتائج نکلتے ہیں ، مگر اخلاقی عناصر کے لیے کوئی مقرر قانون نہیں ہے کہ ان کی فعلیت سے ہمیشہ مقرر نتیجہ نکل سکے۔ طبعی قوانین کی فرماں روائی کے سبب سے اخلاقی نتائج کبھی تو نکل ہی نہیں سکتے، کبھی نکلتے ہیں تو صرف اس حد تک جس کی اجازت طبعی قوانین دے دیں، اور بارہا ایسا بھی ہوتا ہے کہ اخلاق ایک فعل سے ایک خاص نتیجہ نکلنے کا تقاضا کرتا ہے، مگر طبعی قوانین کی مداخلت سے نتیجہ بالکل برعکس نکل آتا ہے۔ انسان نے خود اپنے تمدنی و سیاسی نظام کے ذریعے سے تھوڑی سی کوشش اس امر کی کی ہے کہ انسانی اعمال کے اخلاقی نتائج ایک مقرر ضابطے کے مطابق برآمد ہو سکیں۔ مگر یہ کوشش بہت محدود پیمانے پر ہے اور بے حد ناقص ہے۔ ایک طرف طبعی قوانین اسے محدود اورناقص بناتے ہیں، اور دوسری طرف انسان کی اپنی بہت سی کم زوریاں اس انتظام کے نقائص میں اور زیادہ اضافہ کرتی ہیں۔
مَیں اپنے مدعا کی توضیح چند مثالوں سے کروں گا۔ دیکھیے ایک شخص اگر کسی دوسرے شخص کا دشمن ہو، اور اس کے گھر میں آگ لگا دے تو اس کا گھر جل جائے گا۔ یہ اس کے افعال کا طبعی نتیجہ ہے، اس کا اخلاقی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ اس شخص کو اتنی ہی سزا ملے جتنا اس نے ایک خاندان کو نقصان پہنچایا ہے، مگر اس نتیجے کا ظاہر ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ آگ لگانے والے کا سراغ ملے، وہ پولیس کے ہاتھ آ سکے، اس پر جرم ثابت ہو، عدالت پوری طرح اندازہ کر سکے کہ آگ لگنے سے اس خاندان کو اور اس کی آیندہ نسلوں کو ٹھیک ٹھیک کتنا نقصان پہنچا ہے۔ اور پھر انصاف کے ساتھ اس مجرم کو اتنی ہی سزا دے۔ اگر ان شرطوں میں سے کوئی شرط بھی پوری نہ ہو، تو اخلاقی نتیجہ یا تو بالکل ہی ظاہر نہ ہو گا یا اس کا صرف ایک تھوڑا سا حصہ ظاہر ہو کر رہ جائے گا، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے حریف کو برباد کرکے وہ شخص دنیا میں مزے سے پھولتا پھلتا رہے۔
اس سے بڑے پیمانے پر ایک اور مثال لیجیے۔ چند اشخاص اپنی قوم میں اثر پیدا کر لیتے ہیں، اور ساری قوم ان کے کہے پرچلنے لگتی ہے، اس پوزیشن سے فائدہ اٹھا کر وہ لوگوں میں قوم پرستی کا اشتعال اور ملک گیری کا جذبہ پیدا کرتے ہیں، گرد و پیش کی قوموں سے جنگ چھیڑ دیتے ہیں، لاکھوں آدمیوں کو ہلاک کرتے ہیں، ملک کے ملک تباہ کر ڈالتے ہیں۔ کروڑوں انسانوں کو ذلیل اورپست زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتے ہیں، اورانسانی تاریخ پر اُن کی کارروائیوں کا ایسا زبردست اثر پڑتا ہے، جس کاسلسلہ آیندہ سیکڑوں برس تک پشت در پشت اور نسل در نسل پھیلتا جائے گا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ چند اشخاص جس جرمِ عظیم کے مرتکب ہوئے ہیں اس کی مناسب اورمنصفانہ سزا انھیں کبھی اس دنیوی زندگی میں مل سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر ان کی بوٹیاں بھی نوچ ڈالی جائیں، اگر انھیں زندہ جلا ڈالا جائے یا کوئی اور ایسی سزا دی جائے جو انسان کے بس میں ہے، تب بھی کسی طرح وہ اس نقصان کے برابر سزا نہیں پا سکتے جو انھوں نے کروڑہا انسانوں کو اور ان کی آیندہ بے شمار نسلوں کو پہنچایا ہے، موجودہ نظامِ کائنات جن طبعی قوانین پر چل رہا ہے، ان کے تحت کسی طرح یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے جرم کے برابر سزا پا سکیں۔
اسی طرح اُن نیک انسانوں کو لیجیے جنھوں نے نوعِ انسانی کو حق اور راستی کی تعلیم دی، اور ہدایت کی روشنی دکھائی جس کے فیض سے بے شمار انسانی نسلیں صدیوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں، اور نہ معلوم آیندہ کتنی صدیوں تک اٹھائی چلی جائیں گی، کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کی خدمات کا پورا صلہ ان کو اس دنیا میں مل سکے؟ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ موجودہ طبعی قوانین کی حدود کے اندر ایک شخص اپنے اس عمل کا پورا صلہ حاصل کر سکتا ہے، جس کا ردِّ عمل اس کے مرنے کے بعد ہزاروں برس تک اور بے شمار انسانوں تک پھیل گیا ہو؟
جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں، اوّل تو موجودہ نظامِ کائنات جن قوانین پر چل رہا ہے، ان کے اندر اتنی گنجائش ہی نہیں ہے کہ انسانی افعال کے اخلاقی نتائج پوری طرح مرتب ہو سکیں۔ دوسرے یہاں چند سال کی زندگی میں انسان جو عمل کرتا ہے اس کے ردِّ عمل کا سلسلہ اتنا وسیع ہوتا ہے اور اتنی مدت تک جاری رہتا ہے کہ صرف اسی کے پورے نتائج وصول کرنے کے لیے ہزاروں بلکہ لاکھوں برس کی زندگی درکار ہے، اور موجودہ قوانینِ قدرت کے ماتحت انسان کو اتنی زندگی ملنا ناممکن ہے تو موجودہ طبعی دنیا(physical world) اور اس کے طبعی قوانین کافی ہیں، مگر اس کے اخلاقی عنصر کے لیے یہ دنیا بالکل ناکافی ہے اس کے لیے ایک دوسرا نظامِ عالم درکار ہے جس میں حکمران قانون (governing law) اخلاق کا قانون ہو، اور طبعی قوانین اس کے ماتحت محض مددگار کی حیثیت سے کام کریں جس میں زندگی محدود نہ ہو، بلکہ غیر محدود ہو، جس میں وہ تمام اخلاقی نتائج جو یہاں مرتب ہونے سے رہ گئے ہیں، یا اُلٹے مرتب ہوئے ہیں، اپنی صحیح صورت میں پوری طرح مرتب ہو سکیں، جہاں سونے اور چاندی کی بجائے نیکی اور صداقت میں وزن اور قیمت ہو۔ جہاں آگ صرف اس چیز کو جلائے جو اخلاقًا جلنے کی مستحق ہو۔ جہاں عیش اسے ملے جو نیک ہو، اور مصیبت اس کے حصے میں آئے جو بد ہو، عقل چاہتی ہے، فطرت مطالبہ کرتی ہے کہ ایک ایسا نظامِ عالم ضرور ہونا چاہیے۔
جہاں تک عقلی استدلال کا تعلق ہے وہ ہمیں صرف ’’ہونا چاہیے‘‘ کی حد تک لے جا کر چھوڑ دیتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ آیا واقعی کوئی ایسا عالم ہے بھی، تو ہماری عقل اور ہمارا علم، دونوں اس کا حکم لگانے سے عاجز ہیں، یہاں قرآن ہماری مدد کرتا ہے، وہ کہتا ہے کہ تمھاری عقل اور تمھاری فطرت جس چیز کا مطالبہ کرتی ہے، فی الواقع وہ ہونے والی ہے موجودہ نظام عالم جو طبعی قوانین پر بنا ہے، ایک وقت میں توڑ ڈالا جائے گا، اس کے بعد ایک دوسرا نظام بنے گا، جس میں زمین و آسمان اور ساری چیزیں ایک دوسرے ڈھنگ پر ہوں گی، پھر اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے تھے، دوبارہ پیدا کر دے گا اور بیک وقت ان سب کو اپنے سامنے جمع کرے گا، وہاں ایک ایک شخص کا، ایک ایک قوم کا اور پوری انسانیت کا ریکارڈ ہر غلطی اور ہر فروگذاشت کے بغیر محفوظ ہو گا، ہر شخص کے ایک ایک عمل کا جتنا ردِّ عمل دنیا میں ہوا ہے اس کی پوری روداد موجود ہو گی۔ وہ تمام نسلیں گواہوں کے کٹہرے میں حاضر ہوں گی جو اس ردِّ عمل سے متاثر ہوئیں، ایک ایک ذرہ جس پر انسان کے اقوال اور افعال کے نقوش ثبت ہوئے اپنی داستان سنائے گا۔ خود انسان کے ہاتھ اورپائوں، آنکھ اور زبان اور تمام اعضا شہادت دیں گے کہ ان سے اس نے کس طرح کام لیا، پھر اس روداد پر وہ سب سے بڑا حاکم پورے انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا کہ کون کتنے انعام کا مستحق ہے اور کون کتنی سزا کا۔ یہ انعام اور یہ سزا دونوں چیزیں اتنے بڑے پیمانے پر ہوں گی جس کا کوئی اندازہ موجودہ نظامِ عالم کی محدود مقداروں کے لحاظ سے نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں وقت اور جگہ کے معیار کچھ اور ہوں گے۔ وہاں کی مقداریں کچھ اور ہوں گی وہاں کے قوانینِ قدرت کسی اور قسم کے ہوں گے۔ انسان کی جن نیکیوں کے اثرات دنیا میں ہزاروں برس چلتے رہے ہیں، وہاں وہ ان کا بھرپور صلہ وصول کر سکے گا، بغیر اس کے کہ موت اور بیماری اور بڑھاپا اس کے عیش کا سلسلہ توڑ سکیں، اور اسی انسان کی جن برائیوں کے اثرات دنیا میں ہزارہا برس تک اور بے شمار انسانوں تک پھیلتے رہے ہیں، وہ ان کی پوری سزا بھگتے گا، بغیر اس کے کہ موت اور بے ہوشی آ کر اسے تکلیف سے بچا سکے۔
ایسی ایک زندگی اور ایسے ایک عالم کو جو لوگ ناممکن سمجھتے ہیں، مجھے ان کے ذہن کی تنگی پر ترس آتا ہے، اگر ہمارے موجودہ نظامِ عالم کا موجودہ قوانین قدرت کے ساتھ موجود ہونا ممکن ہے، تو آخر ایک دوسرے نظامِ عالم کا دوسرے قوانین کے ساتھ وجود میں آنا کیوں ناممکن ہو؟ البتہ یہ بات کہ واقع میں ایسا ضرور ہو گا تو اس کا تعین نہ دلیل سے ہو سکتا ہے اور نہ علمی ثبوت سے اس کے لیے ایمان بالغیب کی ضرورت ہے۔