ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔
عرض ناشر
دین سے ناواقفیت کی بنا پر اس وقت مسلمانوں میں جس بڑے پیمانہ پر فتنۂ ارتداد پھیل گیا ہے اس کے پیش نظر اس مسئلہ پر اسلام کے صحیح احکام پیش کرنے کی اس وقت جتنی ضرورت ہے اتنی اس سے قبل کبھی نہ تھی۔
عالم اسلام کے مایۂ ناز اور جید عالم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودُودیؒ صاحب نے اس مسئلہ پر قلم اٹھا کر اس کے تمام پہلوئوں کو پوری طرح واضح کر دیا ہے، اور نہایت مدلل و مؤثر انداز میں _____ عقلی اور نقلی دونوں پہلوئوں سے _____ اسلامی تعلیمات کی حقانیت کو ثابت کیا ہے،اور ان اعترضات کا مسکت جواب دیا ہے جو مخالفین اسلام کی طرف سے اس بارے میں کیے جاتے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ناواقف مسلمانوں کو اس فتنۂ عظیم سے بچانے کے لیے اس بیش قیمت کتاب کو بڑے پیمانے پر پھیلایا جائے۔
اس سے پہلے اس کتاب کے تین ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود ایک عرصہ سے یہ کتاب بازار میں موجود نہ تھی۔ اب ہم اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن آفسٹ کی کتابت و طباعت پر نئی آب و تاب کے ساتھ شائع کر رہے ہیں۔ ہمیں امید واثق ہے کہ ہمارے کرم فرما اس نئے اڈیشن کو پسند فرمائیں گے اور اس کی توسیع اشاعت میں اس تعاون کا اظہار فرمائیں گے جو ہماری دوسرے مطبوعات کے لیے کیا گیا ہے۔
۲۲۔ محرم الحرام ۱۳۸۳ھ نیاز مند
مطابق ۱۵۔ جون۱۹۶۳ء ڈائرکٹر
اسلامی پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور
تقریب
یہ مختصر مضمون ایک سوال کے جواب میں لکھا گیا تھا اور رسالہ ترجمان القرآن کے اکتوبر ۱۹۴۲ء سے جون ۱۹۴۳ء تک کے پرچوں میں شائع ہوا تھا۔ چونکہ اس میں اسلامی قانون کے ایک بڑے معرکہ آرا مسئلہ پر بحث کی گئی ہے جو اکثر لوگوں کے دلوں میں کھٹک پیدا کرتا رہتا ہے، اس لیے اب اسے الگ رسالے کی شکل میں شائع کیا جارہا ہے۔
سوال حسب ذیل تھا:
’’کیا اسلام نے مرتد کی سزا قتل قرار دی ہے؟ قرآن سے اس کا کیا ثبوت ملتا ہے؟ اگر قرآن سے یہ ثابت نہیں ہے کہ ارتداد کی سزا قتل ہے تو احادیث و سنت سے کہاں تک اس کا ثبوت فراہم کیا جاسکتا ہے؟ نیز حضرت ابوبکرؓ کے قتال مرتدین کی کیا توجیہ ہوسکتی ہے؟ عقلی حیثیت سے قتل مرتدین کا جواز کس طرح ثابت کیا جاسکتا ہے؟
کیا ایک صحیح اسلامی حکومت کے تحت غیر مسلموں کو اپنے مذاہب کی تبلیغ کا حق اسی طرح حاصل ہوگا جس طرح مسلمانوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق حاصل ہونا چاہیے؟ کیا خلافت ِ راشدہ اور بعد کی خلافتوں کے تحت کفار و اہل کتاب کو اپنے مذاہب کی تبلیغ کا حق حاصل تھا؟ قرآن و سنت اور عقلی حیثیت سے اس کے عدم جواز کا کہاں تک ثبوت ملتا ہے؟
ان دونوں امور کے متعلق میں نے بہت غورکیا مگر کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا ہوں، خلاف اور موافق دونوں دلائل وزن رکھتے ہیں اور قرآن و سنت میں ان امور کی بابت کوئی خاص تصریح نہیں ملتی، کم از کم جہاں تک میرا محدود علم رسائی کرتا ہے۔ اگر اس کا جواب ترجمان القرآن میں شائع ہو جائے تو اچھا ہے کیونکہ میرے سوا بہت سے لوگ اس بحث سے دل چسپی رکھتے ہیں۔‘‘
اس سوال میں دو امور تنقیح طلب ہیں:
۱۔ یہ کہ قتل مرتد اور غیر مسلم گروہوں کی مذہبی تبلیغ کے بارے میں اسلام کے واقعی احکام کیا ہیں۔
۲۔ ہمارے پاس کیا دلائل ایسے ہیں جن کی بنا پر ہم ان احکام کی معقولیت پر خود مطمئن ہیں اور دوسروں کو مطمئن کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔
آئندہ صفحات میں انھی دونوں امور پر بحث کی گئی ہے۔
مسئلہ قتل مرتد شرعی حیثیت سے
یہ بات اسلامی قانون کے کسی واقف کار آدمی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام میں اُس شخص کی سزا قتل ہے جو مسلمان ہو کر پھر کفر کی طرف پلٹ جائے۔ اس باب میں پہلا شک جو مسلمانوں کے اندر پیدا ہوا وہ انیسویں صدی کے دور آخر کی تاریک خیالی کا نتیجہ تھا۔ ورنہ اس سے پہلے کامل بارہ سو برس تک یہ تمام امت کا متفق علیہ مسئلہ رہا ہے، اور ہمارا پورا دینی لٹریچر شاہد ہے کہ قتل مرتد کے معاملے میں مسلمانوں کے درمیان کبھی دورائیں نہیں پائی گئیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین، صحابہ کبار، تابعین، ائمۂ مجتہدین، اور ان کے بعد ہر صدی کے علمائے شریعت کی تصریحات کتابوں میں موجود ہیں۔ ان سب کو جمع کرکے دیکھ لیجیے، آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ دَور نبوت سے لے کر آج تک اس مسئلے میں ایک ہی حکم مسلسل و متواتر چلا آرہا ہے اور کہیں سے اس شبہ کے لیے کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی کہ شاید مرتد کی سزا قتل نہ ہو۔
ایسے ثابت شدہ مسائل کے متعلق جن لوگوں نے موجودہ زمانے کی روشن خیالی سے متاثر ہو کر اختلافی بحث کا دروازہ کھولا اُن کی جسارت فی الواقع سخت حیرت انگیز ہے۔ انھوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اگر ایسے امور بھی مشکوک ہو جائیں جن کے لیے اس قدر تسلسل اور تواتر کے ساتھ شہادتیں پائی جاتی ہیں تو معاملہ ایک دو مسائل تک محدود کہاں رہتا ہے۔ اس کے بعد تو زمانۂ گزشتہ کی کوئی چیز بھی جو ہم تک روایتاًپہنچی ہے شک سے محفوظ نہیں رہتی، خواہ وہ قرآن ہو یا نماز یا روزہ۔ بلکہ سرے سے یہی بات مشکوک ہو جاتی ہے کہ آیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کبھی دنیا میں مبعوث ہوئے بھی تھے یا نہیں۔ اس قسم کے شکوک پیدا کرنے کے بجائے درحقیقت اُن لوگوں کے لیے زیادہ معقول طریقہ یہ تھا کہ جو کچھ واقعہ ہے اور مستند شہادتوں سے ثابت ہے اسے واقعہ کی حیثیت سے تسلیم کرلیتے اور پھر غور اس امر پر کرتے کہ آیا ہم اُس دین کا اتباع کریں یا نہ کریں جو مرتد کو موت کی سزا دیتا ہے۔ اپنے مذہب کی کسی ثابت و مسلم چیز کو اپنے عقلی معیاروں کے خلاف پاکر جو شخص یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ چیز سرے سے مذہب میں ہے ہی نہیں وہ دراصل یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ ’’کافر نتوانی شدناچار مسلماں شو‘‘ کی حالت میں مبتلا ہے۔ یعنی اس کا طریق فکر و نظر جس مذہب کے حقیقی راستے سے منحرف ہو چکا ہے، اس میں رہنے پر وہ صرف اس لیے اصرار کر رہا ہے کہ وہ مذہب اس نے باپ دادا سے پایا ہے۔
حکم قتل مرتد کا ثبوت قرآن سے
ذرائع معلومات کی کمی کی وجہ سے جن لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ ہے کہ شاید اسلام میں مرتد کی سزا قتل نہ ہو اور بعد کے ’’مولویوں‘‘ نے یہ چیز اپنی طرف سے اس دین میں بڑھا دی ہو، ان کو اطمینان دلانے کے لیے میں یہاں مختصراً اس کا ثبوت پیش کرتا ہوں۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِط وَنُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ وَاِنْ نَّکَثُوْٓ ا اَیْمَانَھُمْ مِّنْ م بَعْدِ عَھْدِھِمْ وَطَعَنُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ فَقَاتِلُوْٓا اَئِمَّۃَ الْکُفْرِلا اِنَّھُمْ لَآ اَیْمَانَ لَھُمْ لَعَلَّھُمْ یَنْتَھُوْنَo (التوبہ: ۹:۱۱۔۱۲)
’’پھر اگر وہ (کفر سے) توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو تمھارے دینی بھائی ہیں۔ ہم اپنے احکام اُن لوگوں کے لیے واضح طور پر بیان کر رہے ہیں جو جاننے والے ہیں۔ لیکن اگر وہ عہد (یعنی قبول اسلام کا عہد) کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمھارے دین پر زبان طعن دراز کریں تو پھر کفر کے لیڈروں سے جنگ کرو کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ شاید کہ وہ اس طرح باز آجائیں۔‘‘
یہ آیت سورۂ توبہ میں جس سلسلے میں نازل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ۹ ھ میں حج کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اعلان براء ت کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس اعلان کا مفاد یہ تھا کہ جو لوگ اب تک خدا اور اس کے رسول سے لڑتے رہے ہیں اور ہر طرح کی زیادتیوں اور بدعہدیوں سے خدا کے دین کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اُن کو اب زیادہ سے زیادہ چار مہینے کی مہلت دی جاتی ہے۔ اس مدت میں وہ اپنے معاملے پر غو کرلیں۔ اسلام قبول کرنا ہو تو قبول کرلیں، معاف کر دیے جائیں گے۔ ملک چھوڑ کر نکلنا چاہیں تو نکل جائیں، مدت مقررہ کے اندر ان سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ اس کے بعد جو لوگ ایسے رہ جائیں گے جنھوں نے نہ اسلام قبول کیا ہو اور نہ چھوڑا ہو اُن کی خبر تلوار سے لی جائے گی۔ اس سلسلے میں فرمایا گیا کہ ’’اگر وہ توبہ کرکے ادائے نماز و زکوٰۃ کے پابند ہو جائیں تو تمھارے دینی بھائی ہیں، لیکن اگر اس کے بعد وہ پھر اپنا عہد توڑ دیں تو کفر کے لیڈروں سے جنگ کی جائے۔‘‘ یہاں عہد شکنی سے مرادکسی طرح بھی سیاسی معاہدات کی خلاف ورزی نہیں لی جاسکتی۔ بلکہ سیاق عبارت صریح طور پر اس کے معنی ’’اقرار اسلام سے پھر جانا‘‘ متعین کر دیتا ہے۔ اور اس کے بعدفَقَاتِلُوْٓا اَئِمَّۃَ الْکُفْرِ کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتے کہ تحریک ارتداد کے لیڈروں سے جنگ کی جائے۔
حکم قتل مرتد کا ثبوت حدیث سے
یہ تو ہے قرآن کا حکم۔ اب حدیث کی طرف آیئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(۱) من بدل دینہ فاقتلوہ ۔
’’جو شخص (یعنی مسلمان) اپنا دین بدل دے اسے قتل کردو۔‘‘
یہ حدیث حضرت ابوبکر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت خالدبن ولید اور متعدد دوسرے صحابہ سے مروی ہے اور تمام معتبر کتب حدیث میں موجود ہے۔
(۲) حضرت عبداللہؓ بن مسعودروایت کرتے ہیں:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یحل دم امرء مسلم یشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وانی رسول اللّٰہ الا باحدی ثٰلث: النفس بالنفس، و الثیب الزانی، و المفارق لدینہ التارک للجماعۃ۔ (بخاری کتاب الدیات، و مسلم کتاب القاسمہ و المحاربین و القصاص و الدیات، و ابوداؤد کتاب الحدود باب لحکم فی من ارتد)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مسلمان ہو اور شہادت دیتا ہو اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اس بات کی کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اس کا خون تین جرائم کے سوا کسی صورت میں حلال نہیں: ایک یہ کہ اس نے کسی کی جان لی ہو اور قصاص کا مستحق ہوگیا ہو، دوسرے یہ کہ وہ شادی شدہ ہو اور زنا کرے، تیسرے یہ کہ اپنے دین کو چھوڑ دے اور جماعت سے الگ ہو جائے۔‘‘
(۴) حضرت عائشہؓ سے روایت ہے:
ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لا یحل دمرامرء مسلم الا رجل زنی بعد احصانہ او کفر بعد اسلامہ او النفس بالنفس (نسائی باب ذکرمایحل بہ دم المسلم)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کا ارشاد ہے کہ کسی مسلمان کا خون حلال نہیں الایہ کہ اس نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کی ہو، یا مسلمان ہونے کے بعد کفر اختیارکیا ہو، یا کسی کی جان لی ہو۔‘‘
(۴) حضرت عثمانؓ کی روایت ہے:
سمت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول لا یحل دم امرء مسلم الا باحدیٰ ثلٰث‘رجل کفر بعد اسلامہ او زنی بعد احصانہ او قتل نفسا بغیر نفس۔ (نسائی باب ایضاً)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ کسی مسلمان کا خون حلال نہیں ہے بجز تین صورتوں کے۔ ایک یہ کہ کوئی شخص اسلام لانے کے بعد کافر ہوگیا ہو، دوسرے یہ کہ شادی شدہ ہونے کے بعد اس نے زنا کی ہو، تیسرے یہ کہ وہ قتل کا مرتکب ہو بغیر اس کے کہ اسے جان کے بدلے جان لینے کا حق حاصل ہوا ہو۔‘‘
حضرت عثمانؓ ہی سے دوسری روایت ہے:
سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول لا یحل دم امرئٍ مسلم الا باحدیٰ ثلٰث رجل زنٰی بعد احصانہٖ فعلیہ الرجم اوقتل عمدًا فعلیہ القووا و ارتد بعد اسلامہ فعلیہ القتل۔ (نسائی باب الحکم فی المرتد)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ کسی مسلمان کا خون حلال نہیں مگر تین جرائم کی پاداش میں: ایک یہ کہ کسی نے شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کی ہو، اس کی سزا سنگساری ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی نے عمداً قتل کا ارتکاب کیا ہو، اس پر قصاص ہے۔ تیسرے یہ کہ کوئی اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا ہو، اس کی سزا قتل ہے۔‘‘
تاریخ کی تمام معتبر کتابوں سے ثابت ہے کہ یہ حدیث حضرت عثمانؓ نے اپنے مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر ہزاروں آدمیوں کے سامنے اس وقت بیان کی تھی جب کہ باغی آپ کے مکان کا محاصرہ کیے ہوئے تھے اور آپ کے قتل کے درپے تھے۔ باغیوں کے مقابلے میں آپ کے استدلال کی بنا یہ تھی کہ اس حدیث کی رو سے تین جرائم کے سوا کسی چوتھے جرم میں ایک مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں ہے اور مَیں نے ان میں سے کوئی جرم نہیں کیا ہے، لہٰذا مجھے قتل کرکے تم لوگ خود مجرم قرار پائو گے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح یہ حدیث حضرت عثمان کے حق میں باغیوں پر صریح حجت بن رہی تھی۔ اگر یہ امر ذرہ برابر بھی مشتبہ ہوتا کہ آیا یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں، تو سیکڑوں آوازیں بلند ہو جاتیں کہ آپ کا بیان غلط ہے یا مشکوک ہے، لیکن باغیوں کے پورے مجمع میں سے کوئی ایک شخص بھی اس حدیث کی صحت پر اعتراض نہ کرسکا۔
(۵) حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ:
ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعثہ الی الیمن ثم ارسل معاذ بن جبل بعد ذالک فلما قدم قال ایھا الناس انی رسول رسول اللہ الیکم فالقٰی لہ ابوموسٰی وسادۃ لیجلس علیھا فاتٰی رجل کان یھودیا فاسلم ثم کفر فقال معاذ لا اجلس حتٰی یقتل قضاؤ اللّٰہ و رسولہٖ ثلٰث مرات فلما قتل قعد (نسائی، باب حکم المرتد۔ بخاری باب حکم المرتد و المرتدۃ و استتابتہم ۔ ابودائود، کتاب الحدود باب الحکم فی من ارتد)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو (یعنی حضرت ابوموسیٰ کو) یمن کا حاکم مقرر کرکے بھیجا پھر اس کے بعد معاذ بن جبل کو ان کے معاون کی حیثیت سے روانہ کیا۔ جب معاذ وہاں پہنچے تو انھوں نے اعلان کیا کہ لوگو! میں تمھاری طرف اللہ کے رسول کا فرستادہ ہوں۔ ابوموسیٰ نے ان کے لیے تکیہ رکھا تاکہ اس سے ٹیک لگا کر بیٹھیں۔ اتنے میں ایک شخص پیش ہوا جو پہلے یہودی تھا پھر مسلمان ہوا پھر یہودی ہوگیا۔ معاذ نے کہا: مَیں ہرگز نہ بیٹھوں گا جب تک یہ شخص قتل نہ کر دیا جائے، اللہ اور اس کے رسول کا یہی فیصلہ ہے۔ معاذ نے یہ بات تین دفعہ کہی۔ آخر کار جب وہ قتل کر دیا گیا تو معاذ بیٹھ گئے۔‘‘
خیال رہے کہ یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں پیش آیا۔ اس وقت حضرت ابوموسیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گورنر کی حیثیت میں اور حضرت معاذ وائس گورنر کی حیثیت میں تھے۔ اگر ان کا یہ فعل واقعی اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے پر مبنی نہ ہوتا تو یقینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر باز پرس فرماتے۔
(۶) حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے:
کان عبداللّٰہ بن ابی سرح یکتب لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فازلہ الشیطان فَاَلْحق بالکفار فامر بہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یقتل یوم الفتح فاستجار لہ عثمان ابن عفان فاجارہ رسول اللّٰہ۔(ابودائود، کتاب الحدود، باب الحکم فی من ارتد)
’’عبداللہ بن ابی سرح کسی زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب (سکرٹری) تھا۔ پھر شیطان نے اس کو پھسلا دیا اور کفار سے جاملا۔ جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ مگر بعد میں حضرت عثمان نے اس کے لیے پناہ مانگی اور رسول اللہ نے اس کو پناہ دے دی۔‘‘
اس آخری واقعہ کی تشریح حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت میں ہم کو یہ ملتی ہے:
لما کان یوم فتح مکۃ اختبا عبداللّٰہ ابن سعد بن ابی سرح عند عثمان بن عفان فجاء بہ حتی اوقفہ علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال یا رسول اللّٰہ بایع عبداللّٰہ فرفع رأسہ فنظر الیہ ثلٰثاً کل ذٰلک یابی فبایعہ بعد ثلٰث ثم اقبل علٰی اصحابہٖ فقال اما فیکم رجل رشید یقوم الٰی ھذا حین رانی کففت یدی عن بیعتہٖ فیقتلہ فقالوا ما ندری یا رسول اللّٰہ ما فی نفسک الا او مأت الینا بعینک قال انہ لا ینبغی لنبی ان تکون لہ خائنۃ الاعین۔ (ابودائود، ایضاً)
’’جب مکہ فتح ہوا تو عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نے حضرت عثمانؓ بن عفان کے دامن میں پناہ لی۔ حضرت عثمانؓ اس کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ! عبداللہ کی بیعت قبول فرما لیجیے۔ حضورؐ نے سر اٹھایا اور اس کی طرف دیکھا اور چپ رہے۔ تین دفعہ یہی ہوا اور آپ اس کی طرف بس دیکھ دیکھ کر رہ جاتے تھے۔ آخر تین دفعہ کے بعد آپ نے اس کو بیعت میں لے لیا۔ پھر آپ اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کیا تمھارے اندر کوئی ایسا بھلا آدمی موجود نہ تھا کہ جب اس نے دیکھا کہ میں نے بیعت سے ہاتھ روک رکھا ہے تو آگے بڑھتا اور اس شخص کو قتل کر دیتا؟ لوگوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! ہمیں معلوم نہ تھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ آپ نے آنکھ سے اشارہ کیوں نہ فرما دیا؟ اس پرحضورؐ نے فرمایا کہ ایک نبی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ آنکھوں کی چوری کرے۔‘‘
(۷) حضرت عائشہؓ سے روایت ہے:
ان امرأۃ ارتدت یوم اُحد فامر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان تُستأب فان تابت والا قتلت۔ (بیہقی)
’’جنگ اُحد کے موقع پر (جب کہ مسلمانوں کو شکست ہوئی) ایک عورت مرتد ہو گئی۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے توبہ کرائی جائے اور اگر توبہ نہ کرے تو قتل کر دی جائے۔‘‘
(۸)حضرت جابرؓ بن عبداللہ سے روایت ہے:
ان امرأۃ ام رومان ارتدت فامر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بان یعرض علیھا الاسلام فان تابت والا قتلت۔ (دار قطنی، بیہقی)
’’ایک عورت ام رومان (یا ام مروان) نامی مرتد ہوگئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کے سامنے پھر اسلام پیش کیا جائے، پھر وہ توبہ کرلے تو بہتر ورنہ قتل کر دی جائے۔‘‘
بیہقی کی دوسری روایت اس سلسلے میں یہ ہے کہ فابت ان تسلم فقتلت ’’اس نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا، اس بنا پر قتل کر دی گئی۔‘‘
خلافت راشدہ کے نظائر
اس کے بعد دَور خلافت راشدہ کے نظائر ملاحظہ ہوں:
(۱) حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں ایک عورت جس کا نام ام قرفہ تھا اسلام لانے کے بعد کافر ہوگئی۔ حضرت ابوبکر نے اس سے توبہ کا مطالبہ کیا، مگر اس نے توبہ نہ کی۔ حضرت ابوبکر نے اسے قتل کرا دیا۔ (دارقطنی، بیہقی)
(۲)عمرو بن عاص حاکم مصر نے حضرت عمر کو لکھا کہ ایک شخص اسلام لایا تھا، پھر کافر ہوگیا۔ پھر اسلام لایا پھر کافر ہوگیا۔ یہ فعل وہ کئی مرتبہ کر چکا ہے۔ اب اس کا اسلام قبول کیا جائے یا نہیں۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ جب تک اللہ اس سے اسلام قبول کرتا ہے تم بھی کیے جائو۔ اس کے سامنے اسلام پیش کرو، مان لے تو چھوڑ دو ورنہ گردن مار دو۔ (کنز العمال)
(۳) سعد بن ابی وقاص اور ابو موسیٰ اشعری نے تُستُر کی فتح کے بعد حضرت عمرؓ کے پاس ایک قاصد بھیجا۔ قاصد نے حضرت عمرؓ کے سامنے حالات کی رپورٹ پیش کی۔ آخر میں حضرت عمرؓ نے پوچھا کوئی اور غیر معمولی بات؟ اس نے عرض کیا ہاں اے امیر المومنین! ہم نے ایک عرب کو پکڑا جو اسلام لانے کے بعد کافر ہوگیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا پھر تم نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ اس نے کہا ہم نے اسے قتل کر دیا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے کہا ’’تم نے ایسا کیوں نہ کیا کہ اسے ایک کمرے میں بند کرکے دروازہ کا تیغا لگا دیتے پھر تین دن تک روزانہ ایک روٹی اس کے پاس پھینکتے رہتے۔ شاید کہ وہ اس دوران میں توبہ کرلیتا۔ خدایا! یہ کام میرے حکم سے نہیں ہوا، نہ میرے سامنے ہوا، نہ میں اسے سن کر راضی ہوا۔‘‘ لیکن حضرت عمرؓ نے اس پر حضرت سعدؓ اور ابوموسیٰ اشعریؓ سے کوئی باز پُرس نہیں کی اور نہ کوئی سزا تجویز کی۔
(طحاوی کتاب السیر، بحث استتابۃ المرتد، نیز مؤطا، بیہقی، و کتاب الام للشافعی)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت سعد اور ابوموسیٰ کا فعل تھا تو قانون کی حدود کے اندر، لیکن حضرت عمرؓ کی رائے میں قتل سے پہلے اس شخص کو توبہ کا موقع دینا زیادہ بہتر تھا۔
(۴) حضرت عبداللہ ابن مسعود کو اطلاع ملی کہ بنی حنیفہ کی ایک مسجد میں کچھ لوگ شہادت دے رہے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ نے پولیس بھیجی اور ان کو گرفتار کرکے بلا لیا۔ جب وہ لوگ ان کے سامنے پیش ہوئے تو سب نے توبہ کرلی اور اقرار کیا کہ ہم آئندہ ایسا نہ کریں گے۔ حضرت عبداللہ نے اوروں کو توچھوڑ دیا مگر ان میں سے ایک شخص عبداللہ ابن النواحہ کو موت کی سزا دی۔ لوگوں نے کہا یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ نے ایک ہی مقدمے میں دو مختلف فیصلے کیے۔ حضرت عبداللہ نے جواب دیا کہ یہ ابن النواحہ وہ شخص ہے جو مسیلمہ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفیر بن کر آیا تھا۔ میں اس وقت حاضر تھا۔ ایک دوسرا شخص حجر بن وثال بھی اس کے ساتھ سفارت میں شریک تھا۔ آنحضرت نے ان دونوں سے پوچھا کیا تم شہادت دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ان دونوں نے جواب دیا کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے؟اس پر حضورؐ نے فرمایا کہ اگر سفارتی وفد کو قتل کرنا جائز ہوتا تو میں تم دونوں کو قتل کر دیتا۔ یہ واقعہ بیان کرکے حضرت عبداللہ نے کہا میں نے اسی وجہ سے ابن النواحہ کو سزائے موت دی ہے۔۱؎ (طحاوی حوالہ مذکور)
واضح رہے کہ یہ واقعہ حضرت عمرؓ کے زمانے کا ہے جب کہ حضرت عبداللہؓ ابن مسعود ان کے ماتحت کوفہ کے چیف جج تھے۔
(۵) کوفہ میں چند آدمی پکڑے گئے جو مسیلمہ کی دعوت پھیلا رہے تھے۔ حضرت عثمانؓ کو اس باب میں لکھا گیا۔ آپ نے جواب میں لکھا ان کے سامنے دین حق اور شہادت لا الٰہ الا اللہ و محمد رسول اللہ پیش کی جائے، جو اسے قبول کرے اور مسیلمہ سے براء ت کا اظہار کردے اُسے چھوڑ دیا جائے اور جو دین مُسیلمہ پر قائم رہے اسے قتل کر دیا جائے۔ (طحاوی حوالہ مذکور)
(۶) حضرت علیؓ کے سامنے ایک شخص پیش کیا گیا جو پہلے عیسائی تھا، پھر مسلمان ہوا پھر عیسائی ہوگیا۔ آپ نے اس سے پوچھا تیری اس روش کا کیا سبب ہے؟ اس نے جواب دیا میں نے عیسائیوں کے دین کو تمھارے دین سے بہتر پایا۔ حضرت علیؓ نے پوچھا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تیرا کیا عقیدہ ہے؟ اس نے کہا وہ میرے رب ہیں، یا یہ کہا کہ وہ علی کے رب ہیں۔ اس پر حضرت علیؓ نے حکم دیا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ (طحاوی، حوالہ مذکور)
(۷) حضرت علی کو اطلاع دی گئی کہ ایک گروہ عیسائی سے مسلمان ہوا پھر عیسائی ہوگیا۔ حضرت علیؓ نے ان لوگوں کو گرفتار کرا کے اپنے سامنے بلوایا اور حقیقت حال دریافت کی۔ انھوں نے کہا ہم عیسائی تھے، پھر ہمیں اختیار دیا گیا کہ عیسائی رہیں یا مسلمان ہو جائیں، ہم نے اسلام کو اختیار کرلیا، مگر اب ہماری رائے یہ ہے کہ ہمارے سابق دین سے افضل کوئی دین نہیں ہے، لہٰذا اب ہم عیسائی ہوگئے۔ اس پر حضرت علی کے حکم سے یہ لوگ قتل کر دیے گئے اور ان کے بال بچے غلام بنا لیے گئے۔ (طحاوی حوالہ مذکور)
(۸) حضرت علیؓ کو اطلاع دی گئی کہ کچھ لوگ آپ کو اپنا رب قرار دیتے ہیں۔ آپ نے انھیں بلا کر پوچھا تم کیا کہتے ہو؟ انھوں نے کہا آپ ہمارے رب ہیں اور ہمارے خالق و رازق ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا، تمھاری حالت پر افسوس ہے، میں تم جیسا ایک بندہ ہوں، تمھاری طرح کھاتا اور پیتا ہوں، اگر اللہ کی اطاعت کروں گا تو وہ مجھے اجر دے گا اور اس کی نافرمانی کروں گا تو مجھے خوف ہے کہ وہ مجھے سزا دے گا۔ لہٰذا تم خدا سے ڈرو اور اپنے اس عقیدہ کو چھوڑدو۔ مگر انھوں نے انکار کیا۔ دوسرے دن قنبر نے آکر عرض کیا کہ وہ لوگ پھر وہی بات کہہ رہے ہیں۔ آپ نے انھیں بلا کر دریافت کیا اور انھوں نے وہی سب باتیں دُہرا دیں۔ تیسرے روز حضرت علی نے انھیں بلا کر دھمکی دی کہ اگر اب تم نے وہ بات کہی تو میں تم کو بدترین طریقہ سے قتل کروں گا، مگر وہ اپنی بات پر اَڑے رہے۔ آخرکار حضرت علیؓ نے ایک گڑھا کھدوایا، اس میں آگ جلوائی، پھر ان سے کہا: دیکھو اب بھی اپنے اس قول سے باز آجائو ورنہ میں تمھیں اس گڑھے میں پھینک دوں گا، مگروہ اپنے اسی عقیدے پر قائم رہے۔ تب حضرت علیؓ کے حکم سے وہ سب اُس گڑھے میں پھینک دیے گئے۔ (فتح الباری جلد۱۲، ص ۲۳۸)
(۹) حضرت علی رَحبہ کے مقام پر تھے کہ آپ کو ایک شخص نے آکر اطلاع دی کہ یہاں ایک گھر کے لوگوں نے اپنے ہاں ایک بُت رکھ چھوڑا ہے اور اس کی پرستش کرتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت علیؓ خود وہاں تشریف لے گئے۔ تلاشی لینے پر بُت نکل آیا۔ حضرت علیؓ نے اس گھر میں آگ لگا دی اور وہ گھر والوں سمیت جل گیا۔ (فتح الباری جلد۱۲، صفحہ ۲۳۹)
(۱۰) حضرت علیؓ کے زمانے میں ایک شخص پکڑا ہوا آیا جو مسلمان تھا پھر کافر ہوگیا۔ آپ نے اسے ایک مہینے تک توبہ کی مہلت دی، پھر اس سے پوچھا، مگر اس نے توبہ سے انکار کر دیا۔ آخر کار آپ نے اسے قتل کرا دیا۔
(کنز العمال جلد۱،ص۸)
یہ دس نظیریں پورے دَور خلافت راشدہ کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ چاروں خلفا کے زمانے میں جب بھی ارتداد کا واقعہ پیش آیا ہے اس کی سزا قتل ہی دی گئی ہے، اور ان میں سے کسی واقعہ میں بھی نفس ارتداد کے سوا کسی دوسرے جرم کی شمولیت ثابت نہیں ہے جس کی بنا پر یہ کہا جاسکے کہ قتل کی سزا دراصل اس جرم پر دی گئی تھی نہ کہ ارتداد پر۔
مرتدوں کے خلاف خلیفۂ اوّل کا جہاد
مگر ان سب نظیروں سے بڑھ کر وزنی نظیر اہل رِدّہ کے خلاف حضرت ابوبکرؓ صدیق کا جہاد ہے۔ اس میں صحابہ کرام کی پوری جماعت شریک تھی۔ اس سے اگر ابتدا میں کسی نے اختلاف کیا بھی تھا تو بعد میں وہ اختلاف اتفاق سے بدل گیا تھا۔ لہٰذا یہ معاملہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ جن لوگوں نے براہِ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی تعلیم و تربیت پائی تھی ان سب کا متفقہ فیصلہ یہ تھا کہ جو گروہ اسلام سے پھر جائے اس کے خلاف اسلامی حکومت کو جنگ کرنی چاہیے۔
(۱) جہاد جن لوگوں کے خلاف کیا گیا تھا وہ سارے کے سارے مانعین زکوٰۃ ہی نہیں تھے بلکہ ان میں مختلف قسم کے مرتدین شامل تھے۔ کچھ لوگ ان مدعیان نبوت پر ایمان لے آئے تھے جنھوں نے عرب کے مختلف گوشوں میں اپنی نبوت کا اعلان کیا تھا۔ کچھ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا یقین نہ رہا تھا اور وہ کہتے تھے کہ لوکان محمد نبیًا ما مات (اگر محمد نبی ہوتے تو مرتے نہیں)۔ کچھ لوگ تمام ضروریات دین کے قائل تھے اور زکوٰۃ بھی ادا کرنے کے لیے تیار تھے، مگر ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم اپنی زکوٰۃ بطور خود جمع اور خرچ کریں گے، ابوبکر کے عاملوں کو نہیں دیں گے۔ کچھ اور لوگ کہتے تھے:
اطعنا رسول اللہ اذ کان بیننا
فواعجبا ما بال ملک ابی بکر
’’ہم نے خدا کے رسول کی پیروی کرلی جبکہ وہ ہمارے درمیان تھا، مگر مقام حیرت ہے کہ یہ ابوبکر کی حکومت ہم پر کیوں مسلط ہوئی۔‘‘
گویا انھیں اعتراض اس بات پر تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کا نظام قائم ہو اور سب مسلمانوں کو اُسی طرح اس مرکز سے وابستہ رہنے پر مجبور کیا جائے جس طرح وہ رسول اللہ کی شخصیت سے وابستہ تھے۔
(۲) ان سب مختلف قسم کے لوگوں کے لیے صحابہ نے باغی کے بجائے ’’مرتد‘‘ کا لفظ اور اس ہنگامے کے لیے بغاوت کے بجائے ’’ارتداد‘‘ کا لفظ استعمال کیا، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی نگاہ میں وہ اصل جرم جس کے یہ لوگ مرتکب ہوئے تھے، ارتداد تھا نہ کہ بغاوت۔ جنوب عرب میں جن لوگوں نے لقیط بن مالک الازدی کی نبوت تسلیم کرلی تھی اُن کے خلاف حضرت ابوبکر نے عکرمہ بن ابی جہل کو جہاد کے لیے روانہ کرتے وقت یہ ہدایت کی تھی کہ ومن لقیتہ من المرتدۃ بین عمان الی حضرموت و الیمن فنکل بہ (عمان سے حضر موت اور یمن تک جہاں مرتدوں کو پائو کچل ڈالو)۔
(۳) جن لوگوں نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کیا تھا ان کے معاملے میں جب یہ شبہ ظاہر کیا گیا کہ ایسے لوگوں کے خلاف جنگ کرنا جائز بھی ہے یا نہیں تو حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا تھا: واللّٰہ لاقاتلن من فرق بین الصلوۃ و الزکوٰۃ (خدا کی قسم جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا میں اس سے جنگ کروں گا)۔اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ خلیفہ اوّل کی نگاہ میں ان کا اصل جرم ٹیکس نہ دینا نہیں تھا بلکہ دین اسلام کے دو ارکان میں سے ایک کو ماننا اور دوسرے کو نہ ماننا تھا۔ اور آخر کار جس بنا پر صحابہ کرام نے ان مانعین زکوٰۃ سے جنگ کرنے کے معاملے میں خلیفہ سے اتفاق کیا وہ یہی تھی کہ خلیفہ برحق کے دلائل سے انھیں اس امر کا پورا اطمینان ہوگیا کہ نماز اور زکوٰۃ میں تفریق کرنے کی وجہ سے یہ لوگ دائرۂ دین سے باہر نکل چکے ہیں۔
(۴) ان سب سے بڑھ کر فیصلہ کن چیز سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کا وہ فرمان عام (Proclamation)ہے جو آپ نے عرب کے مختلف گوشوں میں مرتدین کے خلاف جہاد کے لیے گیارہ فوجیں روانہ کرتے وقت ہر فوج کے کمانڈر کو لکھ کر دیا تھا۔ حافظ ابن کثیر نے اپنی کتاب البدایہ و النہایہ (جلد۶ ص ۳۱۶) میں یہ پورا فرمان نقل کیا ہے، اس کے حسب ذیل فقرے خاص طور پر قابل غور ہیں:
’’تم میں سے جن لوگوں نے شیطان کی پیروی قبول کی ہے اور جو اللہ سے بے خوف ہو کر اسلام سے کفر کی طرف پھر گئے ہیں ان کی اس حرکت کا حال مجھے معلوم ہوا، اب میں نے فلاں شخص کو مہاجرین اور انصار اور نیک نہاد تابعین کی ایک فوج کے ساتھ تمھاری طرف بھیجا ہے اور اسے ہدایت کر دی ہے کہ ایمان کے سوا کسی سے کچھ قبول نہ کرے، اور اللہ عزوجل کی طرف دعوت دیے بغیر کسی کو قتل نہ کرے۔ پس جو کوئی اُس کی دعوت الی اللہ کو قبول کرے گا اور اقرار کرنے کے بعد اپنا عمل درست رکھے گا اس کے اقرار کو وہ قبول کرلے گا اور اسے راہِ راست پر چلنے میں مدد دے گا۔ اور جو انکار کرے گا اس سے وہ لڑے گا یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرے۔ اس کو حکم دے دیا گیا ہے کہ انکار کرنے والوں میں سے جس پر وہ قابو پائے اسے جیتا نہ چھوڑے۔ ان کی بستیوں کو جلادے، ان کو نیست و نابود کردے، ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لے اور اسلام کے سوا کسی سے کچھ قبول نہ کرے۔ پس جو اس کی بات مان لے گا وہ اپنا ہی بھلا کرے گا اورجو نہ مانے گا وہ اللہ کو عاجز نہ کرسکے گا۔ میں نے اپنے فرستادہ امیر کو یہ بھی ہدایت کر دی ہے کہ میری اس تجویز کو تمھارے ہر مجمع میں سنا دے اور یہ کہ اسلام قبول کرنے کی علامت اذان ہے۔ جہاں سے اذان کی آواز آئے اس بستی سے تعرض نہ کرو اور جہاں سے یہ آواز نہ آئے وہاں کے لوگوں سے پوچھو کہ وہ کیوں اذان نہیں دیتے۔ اگر وہ انکار کریں تو ان پر ٹوٹ پڑو اور اگر اقرار کریں تو ان کے ساتھ وہی سلوک کرو جس کے وہ مستحق ہیں۔‘‘
ائمۂ مجتہدین کا اتفاق
اب بحث طویل ہو جائے گی اگر ہم پہلی صدی ہجری سے لے کر اس چودھویں صدی تک کے فقہا کی تحریریں مسلسل نقل کریں۔ لیکن ہم اتنا کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ مسئلہ کے جزئیات میں مذاہب اربعہ کے درمیان خواہ کتنا ہی اختلاف ہو، بہرحال بجائے خود یہ مسئلہ کہ ’’مرتد کی سزا قتل ہے‘‘ فقہ کے چاروں مذاہب میں متفق علیہ ہے۔
امام مالکؒ کا مذہب ان کی کتاب مؤطا میں یوں لکھا ہے:
’’زید بن اسلم سے مالک نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اپنا دین بدلے اس کی گردن ماردو۔ اس حدیث کے متعلق مالک نے کہا جہاں تک ہم سمجھ سکتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اسلام سے نکل کر کسی دوسرے طریقے کا پیرو ہو جائے مگر اپنے کفر کو چھپا کر اسلام کا اظہار کرتا رہے جیسا کہ زندیقوں۱؎ اور اسی طرح کے دوسرے لوگوں کا ڈھنگ ہے تو اس کا جُرم ثابت ہو جانے کے بعد اُسے قتل کر دیا جائے اور توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے کیونکہ ایسے لوگوں کی توبہ کا بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اور جو شخص اسلام سے نکل کر علانیہ کسی دوسرے طریقے کی پیروی اختیار کرے اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے،توبہ کرلے تو خیر ورنہ قتل کیا جائے۔ ‘‘ (باب القضاء فی من ارتد عن الاسلام)
حنابلہ کا مذہب ان کی مستند ترین کتاب ’’المغنی‘‘ میں اس طرح بیان ہوا ہے:
’’امام احمد بن حنبلؒ کی رائے یہ ہے کہ جو عاقل و بالغ مرد یا عورت اسلام کے بعد کفر اختیار کرے اسے تین دن تک توبہ کی مہلت دی جائے، اگر توبہ نہ کرے تو قتل کر دیا جائے۔ یہی رائے حسن بصری، زہری، ابراہیم نخعی، مکحول، حماد، مالک، لیث، اوزاعی، شافعی اور اسحاق بن راہویہ کی ہے۔ ‘‘
(جلد۱۰ ص ۷۴)
مذہب حنفی کی تصریح امام طحاوی نے اپنی کتاب شرح معانی الآثار میں اس طرح کی ہے:
’’اسلام سے مرتد ہونے والے شخص کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف اس امر میں ہے کہ آیا اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے یا نہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اگر امام اس سے توبہ کا مطالبہ کرے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ پھر اگر وہ شخص توبہ کرلے تو چھوڑ دیا جائے ورنہ قتل کر دیا جائے۔ امام ابوحنیفہ، ابویوسف اور محمد رحمۃ اللہ علیہم ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے یہ رائے اختیار کی ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ توبہ کا مطالبہ کرنے کی کوئی حاجت نہیں۔ ان کے نزدیک مرتد کی حیثیت حربی کافر کی سی ہے۔ جن حربی کافروں تک ہماری دعوت پہنچ چکی ہے ان کو جنگ شروع کرنے سے پیش تر اسلام کی طرف دعوت دینا غیر ضروری ہے، البتہ جنھیں دعوت نہ پہنچی ہو ان پر حملہ آور ہونے سے پہلے حجت تمام کرنی چاہیے۔ اسی طرح جو شخص اسلام سے ناواقفیت کی بنا پر مرتد ہوا ہو اس کو تو پہلے سمجھا کر اسلام کی طرف واپس لانے کی کوشش کرلینی چاہیے مگر جو شخص سوچ سمجھ کر اسلام سے نکلا ہو اسے توبہ کی دعوت دیے بغیر قتل کر دیا جائے۔ امام ابویوسف ؒ کا بھی ایک قول اسی رائے کی تائید میں ہے، چنانچہ وہ کتاب الاملاء میں فرماتے ہیں کہ مَیں مرتد کو قتل کروں گا اور توبہ کا مطالبہ نہ کروں گا، ہاں اگر وہ خود ہی جلدی کرکے توبہ کرلے تو میں اسے چھوڑ دوں گا اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے کروں گا۔‘‘ (کتاب السیر بحث استتابۃ المرتد)
مذہب حنفی کی مزید تصریح ہدایہ میں اس طرح ہے:
’’جب کوئی شخص اسلام سے پھر جائے (العیاذ باللہ) تو اس کے سامنے اسلام پیش کیا جائے۔ اگر اسے کوئی شبہ ہو تو اسے صاف کرنے کی کوشش کی جائے، کیونکہ بہت ممکن ہے وہ کسی شبہ میں مبتلا ہو اور ہم اس کا شبہ دُور کردیں تو اس کا شرایک بدتر صورت (یعنی قتل) کے بجائے ایک بہتر صورت (یعنی دوبارہ قبول اسلام)سے دفع ہو جائے۔ مگر مشائخ فقہا کے قول کے مطابق اس کے سامنے اسلام پیش کرنا واجب نہیں ہے کیونکہ اسلام کی دعوت تو اس کو پہنچ چکی۔‘‘ (باب احکام المرتدین)
افسوس ہے کہ فقہ شافعی کی کوئی معتبر کتاب اس وقت میرے پاس نہیں ہے، مگر ہدایہ میں ان کا جو مذہب نقل کیا گیا ہے وہ یہ ہے:
’’امام شافعی سے منقول ہے کہ امام کو لازم ہے کہ مرتد کو تین دن کی مہلت دے اور اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس سے پہلے اسے قتل کر دے۔ کیونکہ اس مسلمان کا ارتداد بظاہر کسی شبہ ہی کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ایک مدت ضرور ہونی چاہیے جس میں اس کے لیے غور و تامل کا موقع ہو، اور ہم اس غرض کے لیے تین دن کافی سمجھتے ہیں۔‘‘ (باب احکام المرتدین)
غالباً ان شہادتوں کے بعد کسی شخص کے لیے اس امر میں شبہ کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے، اور یہ سزا نفس ارتداد کی ہے نہ کہ کسی اور جرم کی جو ارتداد کے ساتھ شامل ہوگیا ہو۔
بعض لوگ حدیث اور فقہ کی باتیں سن کر یہ سوال کیا کرتے ہیں کہ قرآن میں یہ سزا کہاں لکھی ہے؟ ایسے لوگوں کی تسلی کے لیے اگرچہ ہم نے اس بحث کی ابتدا میں قرآن کا حکم بھی بیان کر دیا ہے، لیکن اگر بالفرض یہ حکم قرآن میں نہ بھی ہوتا تو حدیث کی کثیر التعداد روایات، خلفائے راشدین کے فیصلوں کی نظیریں، اور فقہا کی متفقہ رائیں اس حکم کو ثابت کرنے کے لیے بالکل کافی تھیں۔ ثبوت حکم کے لیے ان چیزوں کو ناکافی سمجھ کر جو لوگ اس کا حوالہ قرآن سے مانگتے ہیں ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ تمھاری رائے میں کیا اسلام کا پورا قانون تعزیرات وہی ہے جو قرآن میں بیان ہوا ہے؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو گویا تم کہتے ہو کہ قرآن میں جن افعال کو جرم قرار دے کر سزا تجویز کر دی گئی ہے ان کے ماسوا کوئی فعل اسلامی حکومت میں جرم مستلزمِ سزا نہ ہوگا۔ پھر ایک مرتبہ غور کرلو، کیا اس قاعدے پر تم دنیا میں کوئی حکومت ایک دن بھی کامیابی کے ساتھ چلا سکتے ہو؟ اور اگر اس کا جواب نفی میں ہے، اور تم خود بھی تسلیم کرتے ہو کہ قرآن کے بیان کردہ جرائم اور سزائوں کے علاوہ اسلامی نظام حکومت میں دوسرے جرائم بھی ہوسکتے ہیں اور ان کے لیے تفصیلی قانون تعزیرات کی ضرورت ہے، تو ہمارا دوسرا سوال یہ ہے کہ جو قانون نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی حکومت میں رائج تھا اور جس کو مسلسل تیرہ سو برس تک تمام امت کے جج، مجسٹریٹ اور علمائے قانون بالاتفاق تسلیم کرتے رہے ہیں، آیا وہ اسلامی قانون کہلانے کا زیادہ مستحق ہے یا وہ قانون جسے آج چند ایسے لوگ تجویز کریں جو غیر اسلامی علوم اور غیر اسلامی تہذیب و تمدن سے مغلوب و متاثر ہیں اور جن کو اسلامی علوم کی ادھوری تعلیم بھی میسر نہیں آئی ہے؟
دَارالاسلام میں تبلیغ کفر کا مسئلہ
یہاں تک ہماری بحث پہلے سوال سے متعلق تھی، یعنی یہ کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے یا نہیں۔ اب ہم دوسرے سوال کو لیتے ہیں جسے سائل نے ان الفاظ میں پیش کیا ہے:
’’کیا ایک صحیح اسلامی حکومت کے تحت غیر مسلموں کو اپنے مذاہب کی تبلیغ کا حق اسی طرح ہوگا جس طرح مسلمانوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق حاصل ہونا چاہیے؟ کیا خلافتِ راشدہ اور بعد کی خلافتوں کے تحت کفار و اہل کتاب کو اپنے مذاہب کی تبلیغ کا حق حاصل تھا؟‘‘
اس مسئلہ کا فیصلہ بڑی حد تک تو قتل مرتد کے قانون نے خود ہی کر دیا ہے۔ کیونکہ جب ہم اپنے حدود اقتدار میں کسی ایسے شخص کو جو مسلمان ہو اسلام سے نکل کر کوئی دوسرا مذہب و مسلک قبول کرنے کا ’’حق‘‘ نہیں دیتے تو لامحالہ اس کے معنی یہی ہیں کہ ہم حدود دارالاسلام میں اسلام کے بالمقابل کسی دوسری دعوت کے اٹھنے اور پھیلنے کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ دوسرے مذاہب و مسالک کو تبلیغ کا ’’حق‘‘ دینا، اور مسلمان کے لیے تبدیل مذہب کو جرم ٹھیرانا، دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں اور مؤخر الذکر قانون مقدم الذکر چیز کو خود بخود کالعدم کر دیتا ہے، لہٰذا قتل مرتد کا قانون فی نفسہٖ یہ نتیجہ نکالنے کے لیے کافی ہے کہ اسلام اپنے حدود اقتدار میں تبلیغ کفر کا روادار نہیں ہے۔
لیکن ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ قانون صرف مسلمانوں کو تبلیغ کفر کے اثرات سے محفوظ کرتا ہے، اس کے بعد یہ سوال پھر بھی باقی رہ جاتا ہے کہ آیا اسلام اپنے حدود میں رہنے والے غیر مسلموں اور باہر سے آنے والے داعیوں کو غیر مسلم آبادی میں اپنے اپنے مذاہب و مسالک کی دعوت پھیلانے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟
مسئلہ کی تحقیق
اس سوال کی تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام کے حقیقی موقف کو اور اسلامی حکومت کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لیں۔
اسلام کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ خود ایک راستہ نوع انسانی کے سامنے پیش کرتا ہے اور پوری قطعیت کے ساتھ دعویٰ کرتا ہے کہ یہی میرا راستہ صحیح ہے اور دوسرے سب راستے غلط ہیں، اسی میں انسان کی فلاح ہے اور دوسرے راستوں میں انسانیت کے لیے تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے، لہٰذا اسی راہ پر سب لوگوں کو آنا چاہیے اور دوسرے راستوں کو چھوڑ دینا چاہیے:
وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُج وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ۔ط (انعام ۶:۱۵۳)
’’اور یہ کہ میرا یہ راستہ ہی ایک سیدھا راستہ ہے پس تم اسی کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں کی پیروی نہ کرو ورنہ تم اللہ کے راستے سے ہٹ جائو گے۔‘‘
اس کی نگاہ میں ہر وہ طریق فکر و عمل جس کی طرف کوئی غیر مسلم دعوت دیتا ہے گمراہی ہے اور اس کی پیروی کا نتیجہ انسان کے لیے نقصان اور خالص نقصان کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
اُولٰٓئِکَ یَدْعُوْنَ اِلَی النَّارِج صلے وَاللّٰہُ یَدْعُوْآ اِلَی الْجَنَّۃِ وَ الْمَغْفِرَۃِ بِاِذْنِہٖ ۔
(البقرہ ۲:۲۲۱)
’’وہ آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے۔‘‘
اس دعوے اور اس دعوت میں اسلام اپنے اندر کوئی باطنی تذبذب نہیں رکھتا۔ وہ اس شک میں مبتلا نہیں ہے کہ شاید کوئی دوسرا راستہ بھی حق اور موجب فلاح انسانیت ہو۔ اس کو اپنے برحق اور دوسری تمام راہوں کے باطل ہونے کا پورا یقین ہے۔ وہ وثوق اور اخلاص اور سنجیدگی کے ساتھ یہی سمجھتا ہے کہ اور سب راستے انسان کو جہنم کی طرف لے جانے والے ہیں، اور صرف اس کا اپنا ہی راستہ انسان کے لیے ایک راہ نجات ہے۔
اب ظاہر ہے کہ جب اسلام کا اصل موقف یہ ہے تو اس کے لیے اس بات کو پسند کرنا تو درکنار، گوارا کرنا بھی سخت مشکل ہے کہ بنی آدم کے اندر وہ دعوتیں پھیلیں جو ان کو ابدی تباہی کی طرف لے جانے والی ہیں۔ وہ داعیان باطل کو اس امر کا کھلا لائسنس نہیں دے سکتا کہ وہ جس آگ کے گڑھے کی طرف خود جارہے ہیں اسی کی طرف دوسروں کو بھی کھینچیں۔ زیادہ سے زیادہ جس چیز کو وہ بادل ناخواستہ گوارا کرتا ہے وہ بس یہ ہے کہ جو شخص خود کفر پر قائم رہنا چاہتا ہو اسے اختیار ہے کہ اپنی فلاح کے راستے کو چھوڑ کر اپنی بربادی کے راستے پر چلتا رہے۔ اور یہ بھی وہ صرف اس لیے گوارا کرتا ہے کہ زبردستی کسی کے اندر ایمان اتار دینا قانون فطرت کے تحت ممکن نہیں ہے۔ ورنہ انسانیت کی خیر خواہی کا اقتضا یہ تھا کہ اگر کفر کے زہر سے لوگوں کو بجبر بچانا ممکن ہوتا تو ہر اُس شخص کا ہاتھ پکڑ لیا جاتا جو اس زہر کا پیالہ پی رہا ہو۔ اس جبری حفاظت اور نجات دہندگی سے اسلام کا اجتناب اس بنا پر نہیں ہے کہ وہ تباہی کے گڑھے کی طرف جانے کو لوگوں کا ’’حق‘‘ سمجھتا ہے اور انھیں روکنے اور بچانے کو ’’باطل‘‘ خیال کرتا ہے، بلکہ اس کار خیر سے اس کے اجتناب کی وجہ صرف یہ ہے کہ خدا نے جس قانون پر کائنات کا موجودہ نظام بنایا ہے اس کی رُو سے کوئی شخص کفر کے تباہ کُن نتائج سے نہیں بچایا جاسکتا، جب تک کہ وہ خود کافرانہ طرز فکر و عمل کی غلطی کا قائل و معترف ہو کر مسلمانہ رویہ اختیار کرنے پر آمادہ نہ ہو جائے۔ اس لیے اور صرف اسی لیے اسلام اللہ کے بندوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ اگر وہ تباہی و بربادی ہی کے راستہ پر چلنا چاہتے ہوں تو چلیں۔ لیکن اس سے یہ امید کرنا عبث ہے کہ وہ اس اختیار کے ساتھ ان خود کشی کرنے والوں کو یہ اختیار بھی دے گا کہ جس تباہی کی طرف وہ خود جارہے ہیں اس کی طرف دوسرے بندگان خدا کو بھی چلنے کی ترغیب دیں۔ جہاں اس کا بس نہیں چلتا وہاں تو وہ مجبور ہے، لیکن جہاں اس کی اپنی حکومت قائم ہو اور اللہ کے بندوں کی فلاح و بہبود کا ذمہ اس نے لیا ہو وہاں اگر چوری اور ڈاکے اور قحبہ گری اور افیون نوشی اور زہر خوری کی تبلیغ کا لائسنس دینا اس کے لیے ممکن نہیں ہے تو اس سے بدرجہ ہا زیادہ مہلک چیز کفر و شرک اور دہریت اور خدا سے بغاوت کی تبلیغ کا لائسنس دینا اس کے لیے کس طرح ممکن ہوسکتا ہے؟
اسلامی حکومت کا بنیادی مقصد
اسلام جس غرض کے لیے اپنی حکومت قائم کرتا ہے وہ محض انتظام ملکی نہیں ہے بلکہ اس کا ایک واضح اور متعین مقصد ہے جسے وہ ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ ٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہ ٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ لا وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَo (التوبہ۹:۳۳)
’’وہ اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کر دے، خواہ شرک کر نے والوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘
وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہ ٗ لِلّٰہِ۔ج
(الانفال۸:۳۹)
’’اور تم ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے۔‘‘
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْ نُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ۔ط (البقرہ۲:۱۴۳)
’’اور اس طرح ہم نے تم کو ایک امت وسط (بہترین گروہ) بنا دیا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔‘‘
ان آیات کی رُو سے پیغمبر کے مشن کا اصل مدعا یہ ہے کہ جس ہدایت اور دین حق کو وہ خدا کی طرف سے لایا ہے اسے ہر اُس نظام زندگی کے مقابلے میں غالب کر دے جو ’’دین‘‘ کی نوعیت رکھتا ہو۔ اس سے لامحالہ یہ بات لازم آتی ہے کہ جہاں پیغمبر کو اپنے اس مشن میں کامیابی حاصل ہو جائے وہاں وہ کسی ایسی دعوت کو نہ اٹھنے دے جو خدا کی ہدایت اور اس کے دین کے مقابلے میں کسی دوسرے دین یا نظام زندگی کے غلبے کی کوشش کرنا چاہتی ہو۔
پیغمبر کے بعد جس طرح اس کے جانشین اس دین کے وارث ہوتے ہیں جو وہ خدا کی طرف سے لایا تھا، اسی طرح وہ اس مشن کے بھی وارث ہوتے ہیں جس پر اللہ نے اسے مامور کیا تھا۔ ان کی تمام جدوجہد کا مقصود ہی یہ قرار پاتا ہے کہ دین پورا کا پورا اللہ کے لیے مخصوص ہو۔
لہٰذا جہاں معاملات زندگی اُن کے قبضہ و اختیار میں آجائیں اور جس ملک یا جس سرزمین کے انتظام کے متعلق انھیں پوری طرح خدا کے سامنے ذمہ دارانہ گواہی دینی ہو، وہاں ان کے لیے یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنی حفاظت و نگرانی میں خدا کے دین کے بالمقابل کسی دوسرے دین کی دعوت کو پھیلنے کا موقع دیں۔ اس لیے کہ ایسا موقع دینے کے معنی لازماً یہ ہیں کہ دین پورا کا پورا اللہ کے لیے نہ ہونے پائے اور کسی غلط نظام زندگی کا فتنہ اگر باقی ہے تو وہ اور زیادہ بڑھے۔ آخر وہ خدا کے سامنے گواہی کس چیز کی دیں گے، کیا اس چیز کی کہ جہاں تو نے ہمیں حکمرانی کی طاقت بخشی تھی وہاں ہم تیرے دین کے مقابلے میں ایک فتنے کو سر اٹھانے کا موقع دے آئے ہیں؟
دارالاسلام میں ذمیوں اور مستامنوں کی حیثیت
اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کو اپنے دین پر قائم رہنے کی جو آزادی بخشی گئی ہے اور جزیہ کے معاوضے میں ان کی جان و مال اور ان کی مذہبی زندگی کے تحفظ کا جو ذمہ لیا گیا ہے اس کامآل زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہے کہ جس طریقے پر وہ خود چلنا چاہتے ہیں اس پر چلتے رہیں۔ اس سے تجاوز کرکے اگر وہ اپنے طریقے کو غالب کرنے کی کوشش کریں گے تو کوئی اسلامی حکومت جو اس نام سے موسوم کیے جانے کے قابل ہو، انھیں اس کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتی۔ جزیہ کا قانون قرآن مجید کی جس آیت میں بیان ہوا ہے اس کے صاف الفاظ یہ ہیں کہ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّ ھُمْ صٰغِرُوْنَo (التوبہ ۹:۲۹) (یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں)۔اس آیت کی رُو سے ذمیوں کی پوزیشن اسلامی حکومت میں یہ ہے کہ وہ ’’صاغرون‘‘ بنے رہنے پر راضی ہوں۔ ’’کابرون‘‘ بننے کی کوشش وہ ذمی ہوتے ہوئے نہیں کرسکتے۔ اسی طرح باہر سے آنے والے غیر مسلم جو مستامن کی حیثیت سے دارالاسلام میں داخل ہوں، تجارت، صنعت و حرفت، سیاست، حصول تعلیم، اور دوسرے تمام تمدنی مقاصد کے لیے تو ضرور آسکتے ہیں، لیکن اس غرض کے لیے ہرگز نہیں آسکتے کہ اللہ کے کلمہ کے مقابلے میں کوئی دوسرا کلمہ بلند کریں۔ اللہ نے کفار کے خلاف جو مدد اپنے پیغمبر کو اور اس کے بعد مسلمانوں کو دی یا آئندہ دے گا، اور جس کے نتیجے میں دارالاسلام پہلے قائم ہوا یا آئندہ کبھی قائم ہوگا، اس کی غرض صرف یہ تھی، اور آئندہ بھی یہی ہوگی کہ کفر کا بول نیچا ہو اور اللہ کا بول بالا ہو کر رہے۔فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہ‘ عَلَیْہِ وَاَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی ط وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا۔ط (التوبہ ۹:۴۰) پس مسلمان سخت احسان فراموش اور کافر نعمت ہوں گے اگر اللہ کی اس مدد سے فائدہ اٹھانے کے بعد وہ اپنے حدودِ اختیار میں کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا کو سُفْلٰی سے پھر عُلْیَا ہونے کے لیے کوشش کرنے دیں۔
دور نبوت اور خلافت راشدہ کا طرز عمل
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانے میں حکومت کی مستقل پالیسی یہی تھی جو اوپر بیان ہوئی۔ عرب میں مسیلمہ، اسود عنسی، طُلَیْحَہ اسدی، سجاح، لَقِیط بن مالک اَزدی اور ان کے سوا جو بھی اسلام کے مقابلے پر کوئی دعوت لے کر اٹھا، اسے بزور دبا دیا گیا۔ جن غیر مسلم قوموں نے جزیہ پر معاہدہ کرکے اسلامی حکومت میں ذمی بن کر رہنا قبول کیا ان میں سے اکثر کے معاہدے لفظ بہ لفظ حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ ان میں تمام حقوق و مراعات کی تفصیل پائی جاتی ہے مگر اس ’’حق‘‘ کا کہیں ذکر نہیں ہے کہ وہ اپنے دین کی دعوت حدودِ دارالاسلام میں پھیلا سکیں گی۔ جن غیر مسلموں کو مسلمانوں نے خود اپنی فیاضی سے ذمیت کے حقوق عطا کیے، ان کے حقوق کی تفصیل بھی فقہ کی کتابوں میں موجود ہے مگر اس نام نہاد ’’حق‘‘ کے ذکر سے وہ بھی خالی ہیں۔ مستامن بن کر باہر سے آنے والے غیر مسلموں کے ساتھ حکومت اسلامی کا معاملہ جیسا کچھ بھی ہونا چاہیے اس کو فقہا نے پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس میں بھی کہیں کوئی اشارہ تک ہمیں ایسا نہیں ملتا کہ اسلامی حکومت کسی ایسے شخص کو آکر اپنے حدود میں کام کرنے کی اجازت دے سکتی ہے جو کسی دوسرے مذہب و مسلک کا پرچار کرنا چاہتا ہو۔ اب اگر بعد کے دنیا پرست ’’خلفا‘‘ اور بادشاہوں نے اس کے خلاف کوئی عمل کیا ہے تو وہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ اسلام کا قانون اس کی اجازت دیتا ہے، بلکہ وہ دراصل اس کا ثبوت ہے کہ یہ لوگ ایک حقیقی اسلامی حکومت کے فرائض سے ناواقف یا ان سے منحرف ہو چکے تھے۔ ’’رواداری‘‘ کے موجودہ تصور کو جن لوگوں نے معیار حق سمجھ رکھا ہے وہ بڑے فخر کے ساتھ بادشاہوں کے یہ کارنامے داد طلبی کے لیے غیر مسلموں کے سامنے پیش کرسکتے ہیں کہ فلاں مسلمان بادشاہ نے غیر مسلم معبدوں اور مدرسوں کے لیے اتنی جائدادیں وقف کیں، اور فلاں کے دَور میں ہر مذہب و ملت کے لوگوں کو اپنے اپنے دین کے پرچار کی پوری آزادی حاصل تھی۔ مگر اسلامی نقطۂ نظر سے یہ سب کارنامے ان بادشاہوں کے جرائم کی فہرست میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔
قتل ِ مرتد پر عقلی بحث
اب ہمیں سوال کے دوسرے پہلو سے بحث کرنی ہے، یعنی یہ کہ اگر اسلام میں واقعی مرتد کی سزا قتل ہے اور وہ فی الواقع اپنے حدود میں کسی حریف دعوت کے اٹھنے اور پھیلنے کا روادار نہیں ہے، تو ہمارے پاس وہ کیا دلائل ہیں جن کی بنا پر ہم اس کے اس رویہ کو صحیح اور معقول سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم پہلے قتل مرتد کے مسئلہ پر گفتگو کریں گے پھر تبلیغ کفر کی ممانعت کے سوال کو لیں گے۔
معترضین کے دلائل
قتل ِ مرتد پر زیادہ سے زیادہ جو اعتراضات ممکن ہیں وہ یہ ہیں:
اوّلاً، یہ چیز آزادی ضمیر کے خلاف ہے۔ ہر انسان کو یہ آزادی حاصل ہونی چاہیے کہ جس چیز پر اُس کا قلب مطمئن ہو اسے قبول کرے اور جس چیز پر اس کا اطمینان نہ ہو اُسے قبول نہ کرے۔ یہ آزادی جس طرح ایک مسلک کو ابتداء ً قبول کرنے یا نہ کرنے کے معاملہ میں ہر آدمی کو ملنی چاہیے اسی طرح ایک مسلک کو قبول کرنے کے بعد اس پر قائم رہنے یا نہ رہنے کے معاملہ میں بھی حاصل ہونی چاہیے۔ جو شخص کسی مسلک کی پیروی اختیار کرنے کے بعد اُسے چھوڑنے پر آمادہ ہوتا ہے وہ آخر اسی بنا پر تو آمادہ ہوتا ہے کہ پہلے اس مسلک کے برحق ہونے کا جو یقین اسے تھا وہ اب نہیں رہا۔ پھر یہ کس طرح جائز ہوسکتا ہے کہ عدم یقین کی بنا پر جب وہ اس مسلک کو چھوڑنے کا ارادہ کرے تو اس کے سامنے پھانسی کا تختہ پیش کر دیا جائے؟ اس کے معنی تو یہ ہیں کہ تم جس شخص کی رائے دلائل سے نہیں بدل سکتے اس کو موت کا خوف دلا کر مجبور کرتے ہو کہ اپنی رائے بدلے۔ اور اگر وہ نہیں بدلتا تو اسے اس بات کی سزا دیتے ہو کہ اس نے اپنی رائے کیوں نہ بدلی؟
ثانیاً، جو رائے اس طرح جبراً بدلی جائے، یا جس رائے پر سزائے موت کے خوف سے لوگ قائم رہیں وہ بہرحال ایمان دارانہ رائے تو نہیں ہوسکتی۔ اس کی حیثیت محض ایک ایسے منافقانہ اظہار رائے کی ہوگی جسے جان بچانے کے لیے مکر کے طور پر اختیار کیا گیا ہو۔ آخر اس مکاری و منافقت سے ایک مذہب کس طرح مطمئن ہوسکتا ہے؟ مذہب و مسلک خواہ کوئی سا بھی ہو، اس کی پیروی کوئی معنی نہیں رکھتی اگر آدمی سچے دل سے اس پر ایمان نہ رکھتا ہو۔ اور ایمان ظاہر ہے کہ زبردستی کسی کے اندر پیدا نہیں کیا جاسکتا نہ زبردستی باقی رکھا جاسکتا ہے۔ زور زبردستی سے آدمی کی گردن ضرور جھکوائی جاسکتی ہے لیکن دل و دماغ میں اعتقاد و یقین پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا جو شخص اندر سے کافر ہو چکا ہو وہ اگر سزائے موت سے بچنے کے لیے منافقانہ طریقہ سے بظاہر مسلمان بنا رہے تو اس کا فائدہ کیا ہے؟ نہ وہ اسلام کا صحیح پیرو ہوگا، نہ خدا کے ہاں یہ ظاہری اسلام اس کی نجات کا ذریعہ ہوسکتا ہے، اور نہ ایسے شخص کے شامل رہنے سے مسلمانوں کی جماعت میں کسی صالح عنصر کا اضافہ ہوسکتا ہے۔
ثالثاً، اگر اس قاعدے کو تسلیم کرلیا جائے کہ ایک مذہب اُن تمام لوگوں کو اپنی پیروی پر مجبور کرنے کا حق رکھتا ہے جو ایک مرتبہ اس کے حلقۂ اتباع میں داخل ہو چکے ہوں، اور اس کے لیے اپنے دائرہ سے نکلنے والوں کو سزائے موت دینا جائز ہے، تو اس سے تمام مذاہب کی تبلیغ و اشاعت کا دروازہ بند ہو جائے گا اور خود اسلام کے راستے میں بھی یہ چیز سخت رکاوٹ بن جائے گی کیونکہ جتنے انسان ہیں وہ بہرحال کسی نہ کسی مذہب و مسلک کے پیرو ضرور ہیں، اور جب ہر مذہب ارتداد کی سزا قتل تجویز کرے گا تو صرف یہی نہ ہوگا کہ مسلمانوں کے لیے کسی دوسرے مذہب کو قبول کرنا مشکل ہوگا بلکہ اسی طرح غیر مسلموں کے لیے بھی اسلام کو قبول کرنا مشکل ہو جائے گا۔
رابعاً، اس معاملے میں اسلام نے بالکل ایک متناقض رویہ اختیار کیا ہے۔ ایک طرف وہ کہتا ہے کہ دین میں جبر و اکراہ کا کوئی کام نہیں (لَا اِکْرَاہَ فِیالِدّیْنِ) جس کا جی چاہے ایمان لائے اور جس کا جی چاہے کفر اختیار کرے (فَمَنْ شَائَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَائَ فَلْیَکْفُرْ)دوسری طرف وہ خود ہی اُس شخص کو سزائے موت کی دھمکی دیتا ہے جو اسلام سے نکل کر کفرکی طرف جانے کا ارادہ کرے ایک طرف وہ نفاق کی سخت مذمت کرتا ہے اور اپنے پیروؤں کو صادق الایمان دیکھنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف وہ خود ہی ایسے مسلمانوں کو جن کا اعتقاد اسلام پر سے اٹھ گیا ہے موت کا خوف دلا کر منافقانہ اظہار ایمان پر مجبور کرتا ہے۔ ایک طرف وہ اُن غیر مسلموں کے خلاف سخت احتجاج کرتا ہے جو اپنے ہم مذہبوں کو اسلام قبول کرنے سے روکتے ہیں۔ دوسری طرف وہ خود مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ تمھارے ہم مذہبوں میں سے جو کسی دوسرے مذہب میں جانا چاہے اسے قتل کر دو۔
یہ اعتراضات بظاہر اتنے قوی نظر آتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے ایک گروہ کو تو ان کے مقابلے میں ہارمان کر شکست خوردہ لوگوں کی اس پرانی پالیسی پر عمل کرنا پڑا کہ اپنے دین کے جس مسئلے پر معترضین کی گرفت مضبوط پڑے اسے اپنی کتاب آئین میں سے چھیل ڈالو اور صاف کہہ دو کہ یہ مسئلہ سرے سے ہمارے دین میں ہے ہی نہیں۔ رہا دوسرا گروہ جس کے لیے پہلے گروہ کی طرح حقیقت کا انکار کر دینا ممکن نہ تھا، سو اس نے امر واقعی کے اظہار کا حق تو ادا کر دیا، لیکن ان عقلی اعتراضات کا کوئی معقول جواب اُس سے بن نہ پڑا، حتیٰ کہ اس کی کمزور دلیلوں سے راسخ العقیدہ مسلمانوں کے دلوں میں بھی یہ بات بیٹھ گئی کہ قتل مرتد کا حکم اسلام میں ہے تو ضرور مگر اسے معقول ثابت کرنا مشکل ہے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ اب سے تقریباً ۱۸ برس پہلے جب ہندوستان میں ایک موقع پر قتل مرتد کا مسئلہ زور شور سے چھڑ گیا تھا اور چاروں طرف سے اس پر اعتراضات کی بوچھاڑ ہوئی تھی، اس وقت مولانا محمد علی مرحوم جیسا سچا مسلمان بھی ان دلائل سے شکست کھائے بغیر نہ رہ سکا۔ علما میں سے متعدد بزرگوں نے اُس موقع پر اصل مسئلہ شرعی کو تو اسی طرح بیان کیا جیسا کہ اس کا حق تھا، مگر عقلی اعتراضات کے جواب میں ایسی بے جان دلیلیں پیش کیں جن سے شبہ ہوتا تھا کہ شاید وہ خود بھی اپنے دلوں میں اس مسئلے کو عقلی حیثیت سے کمزور محسوس کر رہے ہیں۔ اس ضعیف مدافعت کے اثرات آج تک باقی ہیں۔
ایک بنیادی غلط فہمی
حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلام کی حیثیت فی الواقع اسی معنی میں ایک ’’مذہب‘‘ کی ہوتی جس معنی میں یہ لفظ آج تک بولا جاتا ہے تو یقینا اس کا ان لوگوں کے لیے قتل کی سزا تجویز کرنا سخت غیر معقول فعل ہوتا جو اس کے اصولوں سے غیر مطمئن ہو کر اس کے دائرے سے باہر نکلنا چاہیں۔ مذہب کا موجودہ تصور یہ ہے کہ وہ مابعد الطبیعی مسائل کے متعلق ایک عقیدہ و خیال ہے جسے آدمی اختیار کرتا ہے اور حیات بعد الموت میں نجات حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے جس پر انسان اپنے عقیدے کے مطابق عمل کرتا ہے۔ رہی سوسائٹی کی تنظیم اور معاملات دنیا کی انجام دہی اور ریاست کی تشکیل، تو وہ ایک خالص دنیوی معاملہ ہے جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اس تصور کے مطابق مذہب کی حیثیت صرف ایک رائے کی ہے، اور رائے بھی ایسی جو زندگی کے ایک بالکل ہی دُور از کار پہلو سے تعلق رکھتی ہے، جس کے قائم ہونے اور بدلنے کا کوئی قابل لحاظ اثر حیات انسانی کے بڑے اور اہم شعبوں پر نہیں پڑتا۔ ایسی رائے کے معاملے میں آدمی کو آزاد ہونا ہی چاہیے۔ کوئی معقول وجہ نہیں کہ امور مابعد الطبیعت کے بارے میں ایک خاص رائے کو اختیار کرنے میں تو وہ آزاد ہو، مگر جب اس کے سامنے کچھ دوسرے دلائل آئیں جن کی بنا پر وہ سابق رائے کو غلط محسوس کرنے لگے تو اس کے بدل دینے میں وہ آزاد نہ ہو۔ اور اسی طرح کوئی وجہ نہیں کہ جب ایک طریقہ کی پیروی میں اسے اپنی نجات اُخروی کی توقع ہو تو اسے اختیار کرسکے اور جب وہ محسوس کرے کہ نجات کی امید اس راستے میں نہیں، کسی دوسرے راستے میں ہے، تو اسے پچھلے راستے کو چھوڑنے اور نئے راستے کے اختیار کرلینے کا حق نہ دیا جائے۔ پس اگر اسلام کی حیثیت یہی ہوتی جو مذہب کی حیثیت آج کل قرار پا گئی ہے تو اس سے زیادہ نامعقول کوئی بات نہ ہوتی کہ وہ آنے والوں کے لیے تو اپنا دروازہ کھلا رکھے مگر جانے والوں کے لیے دروازے پر جلاد بٹھا دے۔
لیکن دراصل اسلام کی یہ حیثیت سرے سے ہے ہی نہیں۔ وہ اصطلاح جدید کے مطابق محض ایک ’’مذہب‘‘ نہیں ہے بلکہ ایک پورا نظام زندگی ہے۔ اس کا تعلق صرف مابعد الطبیعت ہی سے نہیں ہے بلکہ طبیعت اور مافی الطبیعت سے بھی ہے۔ وہ محض حیات بعد الموت کی نجات ہی سے بحث نہیں کرتا بلکہ حیات قبل الموت کی فلاح و بہتری اور تشکیل صحیح کے سوال سے بھی بحث کرتا ہے اور نجات بعد موت کو اسی حیات قبل الموت کی تشکیل صحیح پر منحصر قرار دیتا ہے۔ مانا کہ پھر بھی وہ ایک رائے ہی ہے، مگر وہ رائے نہیں جو زندگی کے کسی دُور ازکار پہلو سے تعلق رکھتی ہو بلکہ وہ رائے جس کی بنیاد پر پوری زندگی کا نقشہ قائم ہوتا ہے۔ وہ رائے نہیں جس کے قائم ہونے اور بدلنے کا کوئی قابل لحاظ اثر زندگی کے بڑے اور اہم شعبوں پر نہ پڑتا ہو بلکہ وہ رائے جس کے قیام پر تمدن اور ریاست کا قیام منحصر ہے اور جس کے بدلنے کے معنی نظام تمدن و ریاست کے بدل جانے کے ہیں۔ وہ رائے نہیں جو صرف انفرادی طور پر ایک شخص اختیار کرتا ہو بلکہ وہ رائے جس کی بنا پر انسانوں کی ایک جماعت تمدن کے پورے نظام کو ایک خاص شکل پر قائم کرتی ہے اور اسے چلانے کے لیے ایک ریاست وجود میں لاتی ہے۔ ایسی رائے اور ایسے نظریہ کو انفرادی آزادیوں کا کھلونا نہیں بنایا جاسکتا، نہ اس جماعت کو جو اس رائے پر تمدن وریاست کا نظام قائم کرتی ہے، رہگذر بنایا جاسکتا ہے کہ جب فضائے دماغی میں ایک لہر اُٹھے تو اس میں داخل ہو جایئے اور جب دوسری لہر اٹھے تو اس سے نکل جایئے اور پھر جب جی چاہے اندر آیئے اور جب چاہے باہر چلے جایئے۔ یہ کوئی کھیل اور تفریح نہیں ہے جس سے بالکل ایک غیر ذمہ دارانہ طریقہ پر دل بہلایا جائے۔ یہ تو ایک نہایت سنجیدہ اور انتہائی نزاکت رکھنے والا کام ہے جس کے ذرا ذرا سے نشیب و فراز سوسائٹی اور سٹیٹ کے نظام پر اثر انداز ہوتے ہیں، جس کے بننے اور بگڑنے کے ساتھ لاکھوں کروڑوں بندگان خدا کی زندگیوں کا بنائو اور بگاڑ وابستہ ہوتا ہے، جس کی انجام دہی میں ایک بہت بڑی جماعت اپنی زندگی و موت کی بازی لگاتی ہے۔ ایسی رائے اور ایسی رائے رکھنے والی جماعت کی رکنیت کو انفرادی آزادیوں کا کھلونا دنیا میں کب بنایا گیا ہے اور کون بناتا ہے کہ اسلام سے اس کی توقع رکھی جائے۔
منظم سوسائٹی کا فطری اقتضا
ایک منظم سوسائٹی جو ریاست کی شکل اختیار کر چکی ہو ایسے لوگوں کے لیے اپنے حدود عمل میں بمشکل ہی گنجائش نکال سکتی ہے جو بنیادی امور میں اس سے اختلاف رکھتے ہوں۔ فروعی اختلافات تو کم و بیش برداشت کیے جاسکتے ہیں، لیکن جو لوگ سرے سے اُن بنیادوں ہی سے اختلاف رکھتے ہوں جن پر سوسائٹی اور ریاست کا نظام قائم ہوا ہو، ان کو سوسائٹی میں جگہ دینا اور اسٹیٹ کا جُز بنانا سخت مشکل ہے۔ اس معاملے میں اسلام نے جتنی رواداری برتی ہے، دنیا کی تاریخ میں کبھی کسی دوسرے نظام نے نہیں برتی۔ دوسرے جتنے نظام ہیں وہ اساسی اختلاف رکھنے والوں کو یا تو زبردستی اپنے اصولوں کا پابند بناتے ہیں یا انھیں بالکل فنا کر دیتے ہیں۔ وہ صرف اسلام ہی ہے جو ایسے لوگوں کو ذمی بنا کر اور انھیں زیادہ سے زیادہ ممکن آزادی عمل دے کر اپنے حدود میں جگہ دیتا ہے اور ان کے بہت سے ایسے اعمال کو برداشت کرتا ہے جو براہ راست اسلامی سوسائٹی اور اسٹیٹ کی اساس سے متصادم ہوتے ہیں۔ اس رواداری کی وجہ صرف یہ ہے کہ اسلام انسانی فطرت سے مایوس نہیں ہے۔ وہ خدا کے بندوں سے آخر وقت تک یہ امید وابستہ رکھتا ہے کہ جب انھیں دین حق کے ماتحت رہ کر اس کی نعمتوں اور برکتوں کے مشاہدہ کا موقع ملے گا تو بالآخر وہ اس حق کو قبول کرلیں گے جس کی روشنی فی الحال انھیں نظر نہیں آتی۔ اسی لیے وہ صبر سے کام لیتا ہے اور ان سنگ ریزوں کو جو اس کی سوسائٹی اور ریاست میں حل نہیں ہوتے اس امید پر برداشت کرتا رہتا ہے کہ کبھی نہ کبھی ان کی قلب ماہیت ہو جائے گی اور وہ تحلیل ہونا قبول کرلیں گے۔ لیکن جو سنگ ریزہ ایک مرتبہ تحلیل ہونے کے بعد پھر سنگ ریزہ بن جائے اور ثابت کر دے کہ وہ سرے سے اس نظام میںحل ہونے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا، اس کی انفرادی ہستی خواہ کتنی ہی قیمتی ہو، مگر بہرحا ل وہ اتنی قیمتی تو نہیں کہ سوسائٹی کے پورے نظام کی خرابی اس کی خاطر گوارا کرلی جائے۔
اعتراضات کا جواب
قتل مرتد کو جو شخص یہ معنی پہناتا ہے کہ یہ محض ایک رائے کو اختیار کرنے کے بعد اسے بدل دینے کی سزا ہے وہ دراصل ایک معاملہ کو پہلے خود ہی غلط طریقے سے تعبیر کرتا ہے اور پھر خود ہی اس پر ایک غلط حکم لگاتا ہے۔ جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جاچکا ہے، مرتد کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ اپنے ارتداد سے اس بات کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے کہ سوسائٹی اور اسٹیٹ کی تنظیم جس بنیاد پر رکھی گئی ہے اس کو وہ نہ صرف یہ کہ قبول نہیں کرتا بلکہ اس سے کبھی آئندہ بھی یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ اسے قبول کرے گا۔ ایسے شخص کے لیے مناسب یہ ہے کہ جب وہ اپنے لیے اُس بنیاد کو ناقابل قبول پاتا ہے جس پر سوسائٹی اور اسٹیٹ کی تعمیر ہوئی ہے تو خود اس کے حدود سے نکل جائے۔ مگر جب وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کے لیے دو ہی علاج ممکن ہیں: یا تو اسے اسٹیٹ میں تمام حقوق شہریت سے محروم کرکے زندہ رہنے دیا جائے، یا پھر اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا جائے۔ پہلی صورت فی الواقع دوسری صورت سے شدید تر سزا ہے کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ لَا یَمُوْتُ فِیْھَا وَلَا یَحْیٰیکی حالت میں مبتلا رہے، اور اس صورت میں سوسائٹی کے لیے بھی وہ زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے کیونکہ اس کی ذات سے ایک مستقل فتنہ لوگوں کے درمیان پھیلتا رہے گا۔ اور دوسرے صحیح و سالم اعضا میں بھی اس کے زہر کے سرایت کر جانے کا اندیشہ ہوگا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اسے موت کی سزا دے کر اس کی اور سوسائٹی کی مصیبت کا بیک وقت خاتمہ کر دیا جائے۔
قتل ِ مرتد کو یہ معنی پہنانا بھی غلط ہے کہ ہم ایک شخص کو موت کا خوف دلا کر منافقانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ دراصل معاملہ اس کے برعکس ہے۔
ہم ایسے لوگوں کے لیے اپنی جماعت کے اندر آنے کا دروازہ بند کر دینا چاہتے ہیں جو تلون کے مرض میں مبتلا ہیں اور نظریات کی تبدیلی کا کھیل تفریح کے طور پر کھیلتے رہتے ہیں اور جن کی رائے اور سیرت میں وہ استحکام سرے سے موجود ہی نہیں ہے جو ایک نظام زندگی کی تعمیر کے لیے مطلوب ہوتا ہے۔ کسی نظام زندگی کی تعمیر ایک نہایت سنجیدہ کام ہے۔ جو جماعت اس کام کے لیے اٹھے اس میں لہری طبیعت کے کھلنڈرے لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔ اس کو صرف ان لوگوں سے مرکب ہونا چاہیے جو واقعی سنجیدگی کے ساتھ اس نظام کو قبول کریں، اورجب قبول کرلیں تو دل و جان سے اس کے قیام اور اس کی تعمیر میں لگ جائیں۔ لہٰذا یہ عین حکمت و دانش ہے کہ ہر اس شخص کو جو اس جماعت کے اندر آنا چاہے پہلے مطلع کردیا جائے کہ یہاں سے پلٹ کر جانے کی سزا موت ہے، تاکہ وہ داخل ہونے سے پہلے سو مرتبہ سوچ لے کہ آیا اسے ایسی جماعت میں داخل ہونا چاہیے یا نہیں۔ اس طرح جماعت میں آئے گا ہی وہ جسے کبھی باہر جانا نہ ہوگا۔
تیسرے نمبر پر جو اعتراض ہم نے نقل کیا ہے اس کی بنیاد بھی غلط ہے۔ معترضین کے پیش نظر دراصل اُن ’’مذاہب‘‘ کا اور انھی کے پرچار کا معاملہ ہے جن کی تعریف ہم ابتدا میں کرچکے ہیں۔ ایسے مذاہب کو واقعی اپنا دروازہ آنے اور جانے والوں کے لیے کھلا رکھنا چاہیے۔ وہ اگر جانے والوں کے لیے اسے بند کریں گے تو ایک بے جا حرکت کریں گے۔ لیکن جس مذہب فکر و عمل پر سوسائٹی اور اسٹیٹ کی تعمیر کی گئی ہو اسے کوئی معقول آدمی جو اجتماعیات میں کچھ بھی بصیرت رکھتا ہو، یہ مشورہ نہیں دے سکتا کہ وہ اپنی تخریب اور اپنے اجزائے تعمیر کے انتشار اور اپنی بندش وجود کی برہمی کا دروازہ خود ہی کھلا رکھے۔ منظم سوسائٹی اور اسٹیٹ وہ چیز ہے جس کا بنانا اور بگاڑنا ہمیشہ ہی سے جان جوکھوں کاکام رہا ہے اور اپنی فطرت کے لحاظ سے یہ کام ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔ دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا اور نہ آئندہ کبھی اس کی امید ہے کہ آگ اور خون کا کھیل کھیلے بغیر کسی نظام زندگی کو تبدیل کر دیا جائے۔ کسی مزاحمت کے بغیر خود تبدیل ہونے کے لیے صرف وہی نظام زندگی تیار ہوسکتا ہے جس کی جڑیں گل چکی ہوں اور جس کی بنیاد میں اپنے استحقاق وجود کا یقین باقی نہ رہا ہو۔
رہا تناقض کا اعتراض، تو اوپر کی بحث کو بغور پڑھنے سے بڑی حد تک وہ خودبخود رفع ہو جاتا ہے۔ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کے معنی یہ ہیں کہ ہم کسی کو اپنے دین میں آنے کے لیے مجبور نہیں کرتے۔ اور واقعی ہماری روش یہی ہے۔ مگر جسے آکر واپس جانا ہو اسے ہم پہلے ہی خبردار کر دیتے ہیں کہ یہ دروازہ آمد و رفعت کے لیے کھلا ہوا نہیں ہے، لہٰذا اگر آتے ہو تو یہ فیصلہ کرکے آئو کہ واپس نہیں جانا ہے، ورنہ براہ کرم آئو ہی نہیں۔ کوئی بتائے کہ آخر اس میں تناقض کیا ہے؟ بلاشبہ ہم نفاق کی مذمت کرتے ہیں اور اپنی جماعت میں ہر شخص کو صادق الایمان دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر جس شخص نے اپنی حماقت سے خود اُس دروازے میں قدم رکھا جس کے متعلق اسے معلوم تھا کہ وہ جانے کے لیے کھلا ہوا نہیں ہے، وہ اگر نفاق کی حالت میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے۔ اس کو اس حالت سے نکالنے کے لیے ہم اپنے نظام کی برہمی کا دروازہ نہیں کھول سکتے۔ وہ اگر ایسا ہی راستی پسند ہے کہ منافق بن کر نہیں رہنا چاہتا بلکہ جس چیز پر اب ایمان لایا ہے اس کی پیروی میں صادق ہونا چاہتا ہے تو اپنے آپ کو سزائے موت کے لیے کیوں نہیں پیش کرتا؟
ہاں یہ اعتراض بظاہر کچھ وزن رکھتا ہے کہ اسلام جب خود اپنے پیروئوں کو تبدیل مذہب پر سزا دیتا ہے اور اسے قابل مذمت نہیں سمجھتا تو دوسرے مذاہب کے پیرو اگر اپنے ہم مذہبوں کو اسلام قبول کرنے پر سزا دیتے ہیں تو وہ ان کی مذمت کیوں کرتا ہے؟ لیکن ان دو رویوں میں بظاہر جو تناقض نظر آتا ہے فی الواقع وہ نہیں ہے۔ بلکہ اگر دونوں صورتوں میں ایک ہی رویہ اختیار کیا جاتا تو البتہ تناقض ہوتا۔ اسلام اپنے آپ کو حق کہتا ہے اور بالکل خلوص کے ساتھ حق ہی سمجھتا ہے، اس لیے وہ حق کی طرف آنے والے اور حق سے منہ موڑ کر واپس جانے والے کو مساوی مرتبہ پر ہرگز نہیں رکھ سکتا۔ حق کی طرف آنے والے کے لیے یہ حق ہے کہ اس کی طرف آئے اور جو اس کی راہ میں مزاحمت کرتا ہے وہ مذمت کا مستحق ہے۔ اور حق سے واپس جانے والے کے لیے یہ حق نہیں ہے کہ اس سے واپس جائے اور جو اس کی راہ روکتا ہے وہ مذمت کا مستحق نہیں ہے۔ تناقض اس رویہ میں نہیں ہے، البتہ اگر اسلام اپنے آپ کو حق بھی کہتا اور پھر ساتھ ہی اپنی طرف آنے والے اور اپنے سے منہ موڑ کر جانے والے کو ایک ہی مرتبہ میں رکھتا تو بلاشبہ یہ ایک متناقض طرز عمل ہوتا۔
مجرد مذہب اور مذہبی ریاست کا بنیادی فرق
اوپر ہم نے قتل مرتد پر اعتراض کرنے والوں کے جو دلائل نقل کیے ہیں اور ان کے جواب میں اپنی طرف سے جو دلائل پیش کیے ہیں ان کا مقابلہ کرنے سے ایک بات بالکل واضح طور پر نظر کے سامنے آجاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ معترضین مرتد کی سزا پر جتنے اعتراض کرتے ہیں محض ایک ’’مذہب‘‘ کو نگاہ میں رکھ کر کرتے ہیں، اور اس کے برعکس ہم اس سزا کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے جو دلائل دیتے ہیں ان میں ہمارے پیش نظر مجرد ’’مذہب‘‘ نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسا اسٹیٹ ہوتا ہے جو کسی خاندان یا طبقہ یا قوم کی حاکمیت کے بجائے ایک دین اور اس کے اصولوں کی حاکمیت پر تعمیر ہوا ہو۔
جہاں تک مجرد مذہب کا تعلق ہے، ہمارے اور معترضین کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایسا مذہب مرتد کو سزا دینے کا حق نہیں رکھتا، جب کہ سوسائٹی کا نظم و نسق اور ریاست کا وجود عملاً اس کی بنیاد پر قائم نہ ہو۔ جہاں اور جن حالات میں اسلام فی الواقع ویسے ہی ایک مذہب کی حیثیت رکھتا ہے جیسا کہ معترضین کا تصورِ مذہب ہے، وہاں ہم خود بھی مرتد کو سزائے موت دینے کے قائل نہیں ہیں۔ فقہ اسلامی کی رُو سے محض ارتداد کی سزا ہی نہیں، اسلام کے تعزیری احکام میں سے کوئی حکم بھی ایسے حالات میں قابل نفاذ نہیں رہتا جب کہ اسلامی ریاست (یا با صطلاح شرع ’’سلطان‘‘) موجود نہ ہو۔ لہٰذا مسئلہ کے اس پہلو میں ہمارے اور معترضین کے درمیان بحث خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔
اب قابل بحث صرف دوسرا پہلو رہ جاتا ہے یعنی یہ کہ جہاں مذہب خود حاکم ہو، جہاں مذہبی قانون ہی ملکی قانون ہو، اور جہاں مذہب ہی نے امن و انتظام کے برقرار رکھنے کی ذمے داری اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہو، آیا وہاں بھی مذہب ایسے لوگوں کو سزا دینے کا حق رکھتا ہے یا نہیں جو اس کی اطاعت و وفاداری کا عہد کرنے کے بعد اس سے پھر جائیں؟ ہم اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہیں۔ کیا ہمارے معترضین کے پاس اس کا جواب نفی میں ہے؟ اگر نہیں تو اختلاف بالکل ہی دُور ہو جاتا ہے۔ اور اگر ہے تو ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ اس پر انھیں کیا اعتراض ہے اور کیا ان کے دلائل ہیں؟
ریاست کا قانونی حق
یہ ایک الگ بحث ہے کہ آیا مذہبی ریاست بجائے خود صحیح ہے یا نہیں۔ چونکہ اہل مغرب کی پشت پر پاپایان روم کی ایک الم ناک تاریخ ہے جس کے زخم خوردہ ہونے کی وجہ سے وہ مذہبی ریاست کا نام سنتے ہی خوف سے لرز اٹھتے ہیں، اس لیے جب کبھی کسی ایسی چیز کے متعلق انھیں گفتگو کا اتفاق ہوتا ہے جس پر ’’مذہبی ریاست‘‘ ہونے کا گمان کیا جاسکتا ہو (اگرچہ اس کی نوعیت پاپائی سے بالکل مختلف ہی کیوں نہ ہو) تو جذبات کا ہیجان ان کو اس قابل نہیں رہنے دیتا کہ بے چارے اس پر ٹھنڈے دل سے معقول گفتگو کرسکیں۔ رہے ان کے مشرقی شاگرد، تو اجتماعی و عمرانی مسائل پر ان کا سرمایۂ علم جو کچھ بھی ہے، مغرب سے مانگے پر لیا ہوا ہے، اور یہ اپنے استادوں سے صرف ان کی معلومات ہی ورثے میں حاصل نہیں کرتے بلکہ میراث علمی کے ساتھ ساتھ ان کے جذبات، رجحانات اور تعصبات بھی لے لیتے ہیں، اس لیے قتل مرتد اور اس نوعیت کے دوسرے مسائل پر جب بحث کی جاتی ہے تو خواہ اہل مغرب ہوں یا ان کے مشرقی شاگرد، بالعموم دونوں ہی اپنا توازن کھو دیتے ہیں اور اصل قانونی و دستوری سوال کو ان بحثوں میں الجھانے لگتے ہیں جو مذہبی ریاست کے بذات خود صحیح یا غلط ہونے کی بحث سے تعلق رکھتی ہیں۔ حالانکہ اگر بالفرض اسلامی ریاست انھی معنوں میں ایک ’’مذہبی ریاست‘‘ ہو جن معنوں میں اہل مغرب اسے لیتے ہیں، تب بھی اس مسئلہ میں یہ بحث بالکل غیر متعلق ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ جو ریاست کسی خطۂ زمین پر حاکمیت رکھتی ہو، آیا وہ اپنے وجود کی حفاظت کے لیے ایسے افعال کو جرم قرار دینے کا حق رکھتی ہے یا نہیں جو اُس کے نظام کو درہم برہم کرنے والے ہوں۔ اس پر اگر کوئی معترض ہو تو وہ ہمیں بتائے کہ دنیا میں کب ریاست نے یہ حق استعمال نہیں کیا ہے؟ اور آج کون سی ریاست ایسی ہے جو اس حق کو استعمال نہیں کر رہی ہے؟ اشتراکی اور فاشست ریاستوں کو چھوڑیے۔ ان جمہوری ریاستوں ہی کو دیکھ لیجیے جن کی تاریخ اور جن کے نظریات سے موجود زمانے کی دنیا نے جمہوریت کا سبق سیکھا ہے اور جن کو آج جمہوری نظام کی علم برداری کا شرف حاصل ہے۔ کیا یہ اس حق کو استعمال نہیں کر رہی ہیں؟
انگلستان کی مثال
مثال کے طور پر انگلستان کو لیجیے۔ انگریزی قانون جن لوگوں سے بحث کرتا ہے وہ دو بڑی قسموں پر تقسیم ہوتے ہیں: ایک برطانوی رعایا (British Subjects) دوسرے اغیار( Aliens)۔ برطانوی رعایا کا اطلاق اولاً ان لوگوں پر ہوتا ہے جو برطانوی حدود کے اندر یا باہر ایسے باپوں کی نسل سے پیدا ہوئے ہوں جو شاہ برطانیہ کی اطاعت و وفاداری کے ملتزم ہوں۔ یہ فطرتاً پیدائشی رعایائے برطانیہ (Natural Born British Subjects) کہلاتے ہیں اور ان کو آپ سے آپ اطاعت و وفاداری کا ملتزم قرار دیا جاتا ہے بغیر اس کے کہ انھوں نے بالارادہ شاہ برطانیہ کی وفاداری کا حلف لیا ہو۔ ثانیاً یہ لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو پہلے اغیار میں سے تھے اور پھر چند قانونی شرائط کی تکمیل کے بعد انھوں نے شاہ برطانیہ کی وفاداری کا حلف لے کر برطانوی رعایا ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا ہو۔ رہے اغیار، تو اس سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جو کسی دوسری قومیت سے تعلق رکھتے ہوں اور کسی دوسرے اسٹیٹ کی وفاداری کے ملتزم ہوں مگر برطانوی مملکت کی حدود میں مقیم ہوں۔ ان مختلف قسم کے اشخاص کے متعلق انگریزی قانون کے حسب ذیل اصول قابل ملاحظہ ہیں:
(۱)اغیار میں سے ہر شخص جو برطانوی رعایا ہونے کے لیے ضروری قانونی شرائط کی تکمیل کر چکا ہو، یہ اختیار رکھتا ہے کہ اپنی سابق قومیت ترک کرکے برطانوی قومیت میں داخل ہونے کی درخواست کرے۔ اس صورت میں سکرٹری آف اسٹیٹ اس کے حالات کی تحقیق کرنے کے بعد شاہ برطانیہ کی اطاعت ووفاداری کا حلف لے کر اسے برطانوی قومیت کا سرٹیفکیٹ عطا کر دے گا۔
(۲) کوئی شخص خواہ پیدائشی رعایائے برطانیہ ہو، یا باختیار خود برطانوی رعایا میں داخل ہوا ہو، ازروئے قانون یہ حق نہیں رکھتا کہ مملکت برطانیہ کے حدود میں رہتے ہوئے کسی دوسری قومیت کو اختیار کرلے اور کسی دوسرے اسٹیٹ کی وفاداری کا حلف اٹھائے، یا جس قومیت سے وہ پہلے تعلق رکھتا تھا اس کی طرف پھر واپس چلا جائے۔ یہ حق اسے صرف اس صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب کہ وہ برطانوی حدود سے باہر مقیم ہو۔
(۳) برطانوی حدود سے باہر مقیم ہونے کی صورت میں رعایائے برطانیہ کا کوئی فرد (خواہ وہ پیدائشی رعیت ہو یا رعیت بن گیا ہو) یہ حق نہیں رکھتا کہ حالت جنگ میں برطانوی قومیت ترک کرکے کسی ایسی قوم کی قومیت اور کسی ایسے اسٹیٹ کی وفاداری اختیار کرے جو شاہ برطانیہ سے برسر جنگ ہو۔ یہ فعل برطانوی قانون کی رُو سے غدر کبیر (High Treason)ہے جس کی سزا موت ہے۔
(۴) برطانوی رعایا میں سے جو شخص برطانوی حدود کے اندر یا باہر رہتے ہوئے بادشاہ کے دشمنوں سے تعلق رکھے اور ان کو مدد اور آسائش بہم پہنچائے یا کوئی ایسا فعل کرے جو بادشاہ کے دشمنوں کو تقویت پہنچانے والا یا بادشاہ اور ملک کی قوت حملہ و مدافت کو کمزور کرنے والا ہو وہ بھی غدر کبیر کا مرتکب ہے اور اس کی سزا بھی موت ہے۔
(۵) بادشاہ، ملکہ یا ولی عہد کی موت کے درپے ہونا یا اس کا تصور کرنا، بادشاہ کی رفیقہ یا اس کی بڑی بیٹی یا ولی عہد کی بیوی کو بے حرمت کرنا، بادشاہ کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرنا یا نشانہ تاکنا یا ہتھیار اس کے سامنے لانا جس سے مقصود اس کو نقصان پہنچانا یا خوف زدہ کرنا ہو، اسٹیٹ کے مذہب کو تبدیل کرنے یا اسٹیٹ کے قوانین کو منسوخ کرنے کے لیے قوت استعمال کرنا، یہ سب افعال بھی غدر کبیر ہیں اور ان کا مرتکب بھی سزائے موت کا مستحق ہے۔
(۶) بادشاہ کو اس کے منصب، اعزاز یا القاب سے محروم یا معزول کرنا بھی جرم ہے جس کی سزا حبس دوام تک ہوسکتی ہے۔
ان سب امور میں بادشاہ سے مراد وہ شخص ہے جو بالفعل (De Facto) بادشاہ ہو، خواہ بالحق (De Jure)بادشاہ ہو یا نہ ہو۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ قوانین کسی جذباتی بنیاد پر مبنی نہیں ہیں بلکہ اس اصول پر مبنی ہیں کہ قائم شدہ ریاست، جس کے قیام پر ایک خطہ زمین میں سوسائٹی کے نظم کا قیام منحصر ہو، اپنے اجزائے ترکیبی کو انتشار سے بجبر روکنے اور اپنے نظام کو خرابی سے بچانے کے لیے طاقت کے استعمال کا حق رکھتی ہے۔
اب دیکھیے کہ برطانوی قانون جنھیں ’’اغیار‘‘ کہتا ہے، ان کی حیثیت تھوڑے سے فرق کے ساتھ وہی ہے جو اسلامی قانون میں اُن لوگوں کی حیثیت ہے جو ’’ذمی ۱؎ ‘‘کہلاتے ہیں۔ جس طرح ’’برطانوی رعایا‘‘ کا اطلاق پیدائشی اور اختیاری رعایا پر ہوتا ہے اُسی طرح اسلام میں بھی ’’مسلمان‘‘ کا اطلاق دو قسم کے لوگوں پر ہوتا ہے: ایک وہ جو مسلمانوں کی نسل سے پیدا ہوں، دوسرے وہ جو غیر مسلموں میں سے باختیار خود اسلام قبول کریں۔ ’’برطانوی قانون‘‘ بادشاہ اور شاہی خاندان کو صاحب حاکمیت ہونے کی حیثیت سے جو مقام دیتا ہے اسلامی قانون وہی حیثیت خدا اور اس کے رسول کو دیتا ہے۔ پھر جس طرح برطانوی قانون برطانوی رعایا اور اغیار کے حقوق واجبات میں فرق کرتا ہے اسی طرح اسلام بھی مسلم اور ذمی کے حقوق و واجبات میں فرق کرتا ہے۔ جس طرح برطانوی قانون برطانوی رعایا میں سے کسی شخص کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ حدودِ مملکت برطانیہ میں رہتے ہوئے کسی دوسری قومیت کو اختیار کرے اور کسی دوسرے اسٹیٹ کی وفاداری کا حلف اٹھائے، یا اپنی سابق قومیت کی طرف پلٹ جائے، اسی طرح اسلامی قانون بھی کسی مسلم کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ دارالاسلام کے اندر رہتے ہوئے کوئی دوسرا دین اختیار کرے یا اس دین کی طرف پلٹ جائے جسے ترک کرکے وہ دین اسلام میں آیا تھا۔ جس طرح برطانوی قانون کی رُو سے برطانوی رعایا کا وہ فرد سزائے موت کا مستحق ہے جو برطانوی حدودکے باہر رہتے ہوئے شاہ برطانیہ کے دشمنوں کی قومیت اختیار کرلے اور کسی دشمن سلطنت کی وفاداری کا حلف اٹھائے، اسی طرح اسلامی قانون کی رُو سے وہ مسلمان بھی سزائے موت کا مستحق ہے جو دارالاسلام کے باہر رہتے ہوئے حربی کافروں کا دین اختیار کرلے۔ اور جس طرح برطانوی قانون ان لوگوں کو ’’اغیار‘‘ کے سے حقوق دینے کے لیے تیار ہے جنھوں نے برطانوی قومیت چھوڑ کر کسی برسرصلح قوم کی قومیت اختیار کرلی ہو اسی طرح اسلامی قانون بھی ایسے مرتدین کے ساتھ معاہد قوم کے کافروں کا سا معاملہ کرتا ہے جو دارالاسلام سے نکل کر کسی ایسی کافر قوم سے جاملے ہوں جس سے اسلامی حکومت کا معاہدہ ہو۔ اب یہ ہمارے لیے ایک ناقابل حل معما ہے کہ جن لوگوں کی سمجھ میں اسلامی قانون کی پوزیشن نہیں آتی ان کی سمجھ میں برطانوی قانون کی پوزیشن کیسے آجاتی ہے۔
امریکا کی مثال
برطانیہ کے بعد اب دنیا کے دوسرے علم بردار جمہوریت ملک امریکا کو لیجیے۔ اس کے قوانین اگرچہ تفصیلات میں کسی حد تک برطانیہ سے مختلف ہیں، لیکن اصول میں وہ بھی اس کے ساتھ پوری موافقت رکھتے ہیں۔ فرق بس یہ ہے کہ یہاں جو مقام بادشاہ کو دیا گیا ہے وہاں وہی مقام ممالک متحدہ کی قومی حاکمیت اور وفاقی دستور کودیا گیا ہے۔ ممالک متحدہ کا پیدائشی شہری ہر وہ شخص ہے جو شہری کی اولاد سے پیدا ہوا ہو، خواہ ممالک متحدہ کے حدود میں پیدا ہوا ہو یا ان سے باہر۔ اور اختیاری شہری ہر وہ شخص ہوسکتا ہے جو چند قانونی شرائط کی تکمیل کے بعد دستورِ ممالکِ متحدہ کے اصولوں کی وفاداری کا حلف اٹھائے۔ ان دونوں قسم کے شہریوں کے ماسوا باقی سب لوگ امریکی قانون کی نگاہ میں ’’غیر‘‘ ہیں۔ شہری اور اغیار کے حقوق و واجبات کے درمیان مریکی قانون وہی فرق کرتا ہے جو برطانوی قانون ’’رعیت‘‘ اور ’’اغیار‘‘ کے حقوق و واجبات میں کرتا ہے۔ ایک غیر شخص شہریت کی قانونی شرطیں پوری کرنے کے بعد ممالک متحدہ کا شہری بن جانے میں تو آزاد ہے مگر شہری بن جانے کے بعد پھر اسے یہ آزادی حاصل نہیں رہتی کہ ممالک متحدہ کے حدود میں رہتے ہوئے وہ اس شہریت کو ترک کرکے پھر اپنی سابق قومیت کی طرف پلٹ جائے۔ اسی طرح کسی پیدائشی شہری کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ ممالک متحدہ کے حدود میں کسی دوسری قومیت کو اختیار کرے اور کسی دوسری اسٹیٹ کی وفاداری کا حلف اٹھالے۔ علیٰ ہذا القیاس شہریوں کے لیے غدر اور بغاوت قوانین ممالک متحدہ میں بھی انھی اصولوں پر مبنی ہیں جن پر برطانوی قوانین غدر و بغاوت کی اساس رکھی گئی ہے۔
اور یہ کچھ انھی دونوں سلطنتوں پر موقوف نہیں ہے بلکہ دنیا کے جس ملک کا قانون بھی آپ اٹھا کر دیکھیں گے، وہاں آپ کو یہی اصول کام کرتا نظر آئے گا کہ ایک اسٹیٹ جن عناصر کے اجتماع سے تعمیر ہوتا ہے ان کو وہ منتشر ہونے سے بزور روکتا ہے اور ہر اس چیز کو طاقت سے دباتا ہے جو اس کے نظام کو درہم برہم کرنے کا رجحان رکھتی ہو۔
ریاست کا فطری حق
یہ ایک جداگانہ بحث ہے کہ ایک اسٹیٹ کا وجود بجائے خود جائز ہے یا نہیں۔ اس معاملہ میں ہمارا اور دنیوی ریاستوں (Secular States) کے حامیوں کا نقطۂ نظر بالکل مختلف ہے۔ ہمارے نزدیک خدا کی حاکمیت کے سوا ہر دوسری حاکمیت پر ریاست کی تعمیر سرے سے ناجائز ہے، اس لیے جو ریاست بجائے خود ناجائز بنیاد پر قائم ہو اس کے لیے ہم اس بات کو جائز تسلیم نہیں کرسکتے کہ وہ اپنے ناجائز وجوداور غلط نظام کی حفاظت کے لیے قوت استعمال کرے۔ اس کے برعکس ہمارے مخالفین الٰہی ریاست کو ناجائز اور صرف دنیوی ریاست ہی کو جائز سمجھتے ہیں، اس لیے ان کے نزدیک دنیوی ریاست کا اپنے وجود و نظام کی حفاظت میں جبر سے کام لینا عین حق اور الٰہی ریاست کا یہی فعل کرنا عین باطل ہے۔ لیکن اس بحث سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ قاعدہ اپنی جگہ عالم گیر مقبولیت رکھتا ہے کہ ریاست اور حاکمیت کی عین فطرت اس امر کی مقتضی ہے کہ اسے اپنے وجود اور اپنے نظام کی حفاظت کے لیے جبر اور قوت کے استعمال کا حق حاصل ہو۔ یہ حق ریاست من حیث الریاست کا ذاتی حق ہے اور اگر کوئی چیز اس حق کو باطل بنا سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ جو ریاست اس حق سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہو وہ آپ ہی باطل پر قائم ہوئی ہو۔ اس لیے کہ باطل کا وجود بجائے خود ایک جرم ہے اور اگر وہ اپنے قیام و بقا کے لیے طاقت سے کام لیتا ہے تو یہ شدید تر جرم ہو جاتا ہے۔
کافر اور مُرتد کے ساتھ مختلف معاملہ کیوں ہے؟
یہاں پہنچ کر ایک عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال الجھن پیدا کرنے لگتا ہے کہ ابتداء ً کافر ہونے اور اسلام سے مرتد ہو کر کافر بن جانے میں آخر کیا فرق ہے؟ وہ پوچھتا ہے کہ جو قانون ایک شخص کے ابتداء ً کافرہونے کو برداشت کرلیتا ہے اور اسے اپنے حدود میں امن کی جگہ عطا کرتا ہے وہ آخر اُسی شخص کے اسلام میں داخل ہونے کے بعد پھر کافر ہو جانے کو، یا ایک پیدائشی مسلمان کے کفر اختیار کرلینے کو کیوں برداشت نہیں کرتا؟ پہلی قسم کے کافر کا کفر اس دوسری قسم کے کافر کے کفر سے اصولاً کیا اختلاف رکھتا ہے کہ وہ تو قانون کی نگاہ میں مجرم نہ ہو اور یہ مجرم ہو، اس کو ذمی بنا کر اس کی جان و مال کی حفاظت کی جائے اور اسے زندگی کے جملہ حقوق سے محروم کرکے دار پر چڑھا دیا جائے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ نہ ملنے والے اور مل کر الگ ہو جانے والے کے درمیان انسانی فطرت لازماً فرق کرتی ہے۔ نہ ملنا تلخی، نفرت اور عداوت کو مستلزم نہیں ہے۔ مگر مل کر الگ ہو جانا قریب قریب سو فی صد حالات میں ان جذبات کو مستلزم ہے۔ نہ ملنے والا کبھی ان فتنوں کا موجب نہیں بن سکتا جن کا موجب مل کر الگ ہو جانے والا بنتا ہے۔ نہ ملنے والے کے ساتھ آپ تعاون، دوستی، راز داری، لین دین، شادی بیاہ اور بے شمار قسم کے تمدنی و اخلاقی رشتے قائم نہیں کرتے جو ملنے والے کے ملاپ پر اعتماد کرکے اس کے ساتھ قائم کرلیتے ہیں۔ اس لیے نہ ملنے والا، کبھی ان نقصانات کا سبب نہیں بن سکتا جن کا موجب مل کر الگ ہو جانے والا بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نہ ملنے والوں کی بہ نسبت ان لوگوں کے ساتھ فطرتاً بالکل دوسری ہی قسم کا برتائو کرتا ہے جو مل کر الگ ہو جاتے ہیں۔ انفرادی زندگی میں اتصال کے بعد افتراق کا نتیجہ محدود ہوتا ہے اس لیے عموماً کشیدگی تک پہنچ کر رہ جاتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں یہ چیز زیادہ بڑے پیمانے پر نقصان کی موجب ہوتی ہے اس لیے فرد کے خلاف جماعت کی کارروائی بھی زیادہ سخت ہوتی ہے۔ اور جہاں الگ ہونے والا کوئی فردِ واحد نہیں بلکہ کوئی بڑا گروہ ہوتا ہے وہاں نقصان کا پیمانہ بہت بڑھ جاتا ہے اس لیے اس کا نتیجہ لازماً جنگ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
جو لوگ اس بات پر تعجب کرتے ہیں کہ کافر اور مرتد کے ساتھ اسلام دو مختلف رویے کیوں اختیار کرتا ہے، انھیں شاید معلوم نہیں ہے کہ دنیا میں کوئی اجتماعی نظام ایسا نہیں ہے جو اپنے اندر شامل نہ ہونے والوں اور شامل ہو کر الگ ہو جانے والوں کے ساتھ یکساںبرتائو کرتا ہو۔ الگ ہونے والوں کو اکثر کسی نہ کسی نوعیت کی سزا ضرور دی جاتی ہے اور بارہا ان کو واپس آنے پر مجبور بھی کیا جاتا ہے۔ خصوصاً جو نظام جتنی زیادہ اہم اجتماعی ذمہ داریوں کا حامل ہو اس کا رویہ اس معاملہ میں اتنا ہی زیادہ سخت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر فوج کو لیجیے۔ قریب قریب تمام دنیا کے فوجی قوانین میں یہ بات مشترک ہے کہ فوجی ملازمت اختیار کرنے پر تو کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا مگر جو شخص باختیارِ خود فوجی ملازمت میں داخل ہو چکا ہو اسے ملازمت میں رہنے پر لازماً مجبور کیا جاتا ہے۔ وہ استعفادے تو ناقابل قبول ہے۔ خود چھوڑ جائے تو مجرم ہے۔ جنگ کی عملی خدمت (Active Service)سے فرار ہو تو سزائے موت کا مستحق ہے۔ عام فوجی خدمات سے بھاگے تو حبس دوام تک سزا پاسکتا ہے۔ اور جو کوئی اس بھاگنے والے کو پناہ دے یا اس کے جرم پر پردہ ڈالے تو وہ بھی مجرم ٹھیرتا ہے۔ یہی طرز عمل انقلابی پارٹیاں اختیار کرتی ہیں۔ وہ بھی کسی کو اپنے اندر شامل ہونے پر مجبور نہیں کرتیں مگر جو شامل ہو کر الگ ہو جائے اسے گولی مار دیتی ہیں۔
یہ معاملہ تو فرد اور جماعت کے درمیان ہے۔ اور جہاں جماعت اور جماعت کے درمیان یہ صورت پیش آتی ہے وہاں اس سے زیادہ شدید معاملہ کیا جاتا ہے۔ وفاق (Federation)اور تحالف کے متعلق اکثر آپ نے سنا ہوگا کہ جو ریاستیں اس قسم کے اتحاد میں شریک ہوتی ہیں ان کو شریک ہونے یا نہ ہونے کا اختیار تو دیا جاتا ہے مگر شریک ہو چکنے کے بعد الگ ہو جانے کا دروازہ ازروئے دستوربند کر دیا جاتا ہے۔ بلکہ جہاں دستور میں اس قسم کی کوئی تصریح نہیں ہوتی وہاں بھی علیحدگی کے حق کا استعمال اکثر جنگ تک نوبت پہنچا دیتا ہے۔ انیسویں صدی میں دو لڑائیاں اسی مسئلہ پر ہو چکی ہیں۔ پہلی لڑائی سوئٹزرلینڈ میں ہوئی جب کہ ۱۸۴۷ء میں سات رومن کیتھولک ریاستوں نے کانفیڈریسی سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس پر کانفیڈریسی کے باقی شرکا ان الگ ہونے والی ریاستوں سے برسرپیکار ہوگئے اور انھوں نے لڑ کر انھیں مجبور کیا کہ پھر ان کی وفاقی ریاست میں شامل ہو جائیں۔ دوسری لڑائی امریکا کی خانہ جنگی (American Civil War)کے نام سے مشہور ہے۔ ۱۸۶۰ء میں ممالک متحدہ امریکا کے اتحاد سے سات ریاستیں الگ ہوگئیں اور انھوں نے اپنا علیحدہ تحالف قائم کرلیا۔ بعد میں چار مزید ریاستیں الگ ہو کر اس جتھے میں آملیں۔ نیز چھ ریاستوں کی رائے عام یہ تھی کہ اصولاً ہر ریاست کو الگ ہو جانے کا حق حاصل ہے اور وفاقی حکومت کو یہ حق نہیں ہے کہ انھیں زبردستی ممالک متحدہ کے وفاق میں واپس آنے پر مجبور کرے۔ اس پر ۱۸۶۱ء میں وفاقی حکومت نے ان ریاستوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور تین چار سال کی شدید خون ریزی کے بعد انھیں پھر اتحاد میں شریک ہونے پر مجبور کر دیا۔
افتراق بعد اتصال کے خلاف بالعموم تمام اجتماعی نظام اور بالخصوص سیاسی و فوجی نوعیت کے نظام یہ سخت کارروائی کیوں کرتے ہیں؟ اس کے حق میں قوی ترین دلیل یہ ہے کہ جماعتی نظم اپنی کام یابی کے لیے فطرتاً استحکام کا مقتضی ہوتا ہے اور یہ استحکام سراسر اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ جن عناصر کے ملاپ سے یہ نظم وجود میں آیا ہو ان کے ملاپ پر زیادہ سے زیادہ اعتماد کیا جاسکے۔ ناقابل اعتماد، متزلزل اور انتشار پذیر عناصر کا اجتماع جس کے قائم رہنے پر بھروسا نہ کیا جاسکے اور جس کے ثابت قدم رہنے کا تیقن نہ ہو، کبھی کوئی صحیح قسم کی جماعتی زندگی پیدا نہیں کرسکتا۔ خصوصاً جو اجتماعی ادارہ تمدن کی اہم خدمات کا بار اٹھانے والا ہو وہ تو کبھی اس خطرے کو مول لینے پر آمادہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کی ترکیب ایسے اجزا سے ہو جو ہر وقت پارہ پارہ ہوسکتے ہوں۔ انتشار پذیر اینٹوں اور پتھروں سے بنی ہوئی عمارت ویسے بھی انسانی سکونت کے لیے کوئی قابل اطمینان چیز نہیں ہوتی کجا کہ ایک قلعہ جس پر ایک پورے ملک کے امن کا انحصار ہو ایسے بکھر جانے والے اجزا سے بنا ڈالا جائے۔ تفریحی انجمنیں جن کی حیثیت بچوں کے گھروندوں سے زیادہ نہ ہو، افراد کی شخصی آزادی کو اپنے جماعتی وجود کے مقابلے میں ضرور ترجیح دے سکتی ہیں، لیکن کسی بڑے جماعتی مقصد کے لیے جان جوکھوں کا کھیل کھیلنے والے ادارے اس کے لیے کبھی تیار نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا ریاست اور فوج اور وہ پارٹیاں جو سنجیدگی کے ساتھ کسی اہم اجتماعی نصب العین کی خدمت کا پُر خطر کام کرنے کے لیے بنی ہوں، اور اسی نوعیت کے دوسرے نظام اس امر پر قطعی مجبور ہیں کہ واپس جانے والوں کے لیے اپنے دروازے بند کر دیں اور اپنے اجزائے ترکیبی کو منتشر ہونے سے باز رکھیں۔ مستحکم اور قابل اعتماد اجزا حاصل کرنے کا اس سے زیادہ کام یاب ذریعہ اور کوئی نہیں ہے کہ آنے والے کو پہلے ہی آگاہ کر دیا جائے کہ یہاں سے جانے کا نتیجہ موت ہے۔ کیونکہ اس طرح کمزور قوت فیصلہ رکھنے والے لوگ خود ہی اندر آنے سے باز رہیں گے۔ اسی طرح موجودہ اجزا کو بکھرنے سے باز رکھنے کا بھی قوی ترین ذریعہ یہی ہے کہ جو اجزا بکھرنے پر اصرار کریں انھیں کچل ڈالا جائے تاکہ جہاں جہاں علیحدگی کے میلانات پرورش پارہے ہوں وہاں ان کا خود بخود قلع قمع ہو جائے۔
البتہ یہاں اس حقیقت کو پھر ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ جماعتی نظم کے لیے اس تدبیر کو صحیح قرار دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر جماعتی نظم کے لیے اس تدبیر کا استعمال برحق ہے قطع نظر اس سے کہ وہ بجائے خود صالح ہو یا فاسد۔ یہ چیز حق صرف اس جماعتی نظم کے لیے ہے جو اپنی ذات میں صالح ہو۔ رہا ایک فاسد نظام، تو جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں، اس کا وجود بجائے خود ایک ظلم ہے اور اگر وہ اپنے اجزا کو سمٹائے رکھنے کے لیے جابرانہ قوت استعمال کرے تو یہ اس سے زیادہ بڑا ظلم ہے۔
جوابی کارروائی کا خطرہ
پچھلے صفحات میں ہم نے دنیا کے دوسرے نظاموں سے سزائے ارتداد کی جو مثالیں پیش کی ہیں وہ ایک اور الجھن کو بھی رفع کر دیتی ہیں جو اس مسئلہ میں اکثر سطحی النظر لوگوں کے دماغ کو پریشان کیا کرتی ہے۔ یہ لوگ سوچتے ہیں کہ اگر دوسرے ادیان بھی اسی طرح اپنے دائرے سے باہر جانے والوں کے لیے سزائے موت کا قانون مقرر کر دیں جس طرح اسلام نے کیا ہے، تو یہ چیز اسلام کی تبلیغ کے راستے میں بھی ویسی ہی رکاوٹ بن جائے گی جیسی دوسرے ادیان کی راہ میں بنتی ہے۔ اس کا اصولی جواب اس سے پہلے ہم دے چکے ہیں، مگر یہاں ہمیں اس کا عملی جواب بھی مل جاتا ہے۔ معترضین ناواقفیت کی بنا پر اپنا اعتراض لفظ ’’اگر‘‘ کے ساتھ پیش کرتے ہیں، گویا کہ واقعہ یہ نہیں ہے، حالانکہ دراصل وہ چیز جس کا یہ اندیشہ ظاہر کرتے ہیں، واقعہ کی صورت میں موجود ہے۔ دنیا میں جو دین بھی اپنی ریاست رکھتا ہے وہ اپنے حدود اقتدار میں ارتداد کا دروازہ بزور بند کیے ہوئے ہیں۔ غلط فہمی صرف اس وجہ سے واقع ہوتی ہے کہ آج کل عیسائی قومیں اپنی مملکتوں میں عیسائیت سے مرتد ہو جانے والوں کو کسی قسم کی سزا نہیں دیتیں اور ہر شخص کو آزادی عطا کر دیتی ہیں کہ جس مذہب کو چاہے اختیار کرلے۔ اس سے لوگ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ ان کے قانون میں ارتداد جرم نہیں ہے، اور یہ ایک رحمت ہے، جس کی وجہ سے مذہبی تبلیغ تمام رکاوٹوں سے آزاد ہے۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ عیسائیت ان قوموں کے افراد کا محض ایک شخصی مذہب ہے، ان کا ’’اجتماعی دین‘‘ نہیں ہے جس پر ان کی سوسائٹی کا نظام اور ان کے اسٹیٹ کی عمارت قائم ہو، اس لیے عیسائیت سے پھر جانے کو وہ کوئی اہمیت نہیں دیتیں کہ اس پر رکاوٹ عائد کرنے کی ضرورت محسوس کریں۔ رہا ان کا ’’اجتماعی دین‘‘ جس پر ان کی سوسائٹی اور ریاست کی بنیاد قائم ہوتی ہے، تو اس سے مرتد ہونے کو وہ بھی اسی طرح جرم قرار دیتی ہیں جس طرح اسلام اسے جرم قرار دیتا ہے اور اس کو دبانے کے معاملے میں وہ بھی اتنی ہی سخت ہیں جتنی اسلامی ریاست سخت ہے۔ انگریزوں کا اجتماعی دین عیسائیت نہیں ہے بلکہ برطانوی قوم کا اقتدار اور برطانوی دستور و آئین کی فرماں روائی ہے جس کی نمائندگی تاج برطانیہ کرتا ہے۔ ممالک متحدہ امریکا کا اجتماعی دین بھی عیسائیت نہیں بلکہ امریکی قومیت اوروفاقی دستور کا اقتدار ہے جس پر ان کی سوسائٹی ایک ریاست کی شکل میں منظم ہوتی ہے۔ اسی طرح دوسری عیسائی قوموں کے اجتماعی دین بھی عیسائیت کے بجائے ان کے اپنے قومی اسٹیٹ اور دستور ہیں۔ ان ادیان سے ان کا کوئی پیدائشی یا اختیاری پیرو ذرا مرتد ہو کر دیکھ لے ، اسے خود معلوم ہو جائے گا کہ ان کے ہاں ارتداد جرم ہے یا نہیں۔
اس معاملے کو انگریزی قانون کے ایک مصنف نے خوب واضح کر دیا ہے، وہ لکھتا ہے:
’’یہاں ہم تفصیل کے ساتھ اُن وجوہ کی تحقیق نہیں کرنا چاہتے جن کی بنیاد پر ریاست نے مذہب کے خلاف بعض جرائم پر سزا دینے کا اختیار اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ بس اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ تجربے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ بعض خاص افعال یا طرز عمل جو مذہب میں ممنوع ہیں، اجتماعی زندگی کے لیے بھی خرابی اور بدنظمی کے موجب ہوتے ہیں اس لیے یہ افعال غیر قانونی اور ان کے مرتکب مستلزم سزا قرار دیے گئے ہیں، نہ اس وجہ سے کہ وہ خدا کے قانون کو توڑتے ہیںبلکہ اس وجہ سے کہ وہ ملکی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔‘‘
آگے چل کر وہ پھر لکھتا ہے:
’’ایک زمانہ دراز تک انگریزی قانون میں ارتداد، یعنی عیسائیت سے بالکل پھر جانے کی سزا موت تھی۔ بعد میں یہ قانون بنایا گیا کہ اگر کوئی شخص جس نے عیسائیت کی تعلیم حاصل کی ہو یا عیسائی مذہب کی پیروی کا اقرار کیا ہو، تحریر یا طباعت یا تعلیم یا سوچی سمجھی ہوئی تقریر کے سلسلے میں اس خیال کا اظہار کرے کہ خدا ایک کے بجائے متعدد ہیں، یا عیسائی مذہب کے حق ہونے سے یا کتاب مقدس کے من جانب اللہ ہونے سے انکار کرے، تو پہلی خطا پر وہ ملکی اور فوجی ملازمت میں داخل ہونے سے محروم کیا جائے گا اور دوسری خطا پر اسے تین سال کے لیے قید کی سزا دی جائے گی۔ لیکن یقین کیا جاتا ہے کہ اس قانون کے تحت کبھی کسی شخص پر مقدمہ نہیں چلایا گیا۔‘‘۱؎
چند سطور کے بعد پھر لکھتا ہے:
’’کہا گیا ہے کہ عیسائیت انگریزی قانون کا ایک جز ہے اور اس کے خلاف کسی فاحش حملہ کے ارتکاب پر ریاست کی طرف سے سزا دی جاتی ہے۔ اس جرم کے حدود میں تحریر یا تقریر کے ذریعے سے خدا کی ہستی یا اس کی تقدیر کا انکار، ہمارے خداوند اور منجی مسیح کی اہانت اورکتب مقدسہ یا ان کے کسی جز کا استہزا شامل ہے۔ اس پر صرف اتنا اضافہ کرنے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ اس قانون کو شاذ و نادر ہی کبھی استعمال کیا گیا ہے۲؎۔‘‘
اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ عیسائیت (یعنی جسے وہ خدا کا ’’قانون‘‘ کہتے ہیں) چونکہ اب ملکی قانون نہیں ہے، اس لیے ریاست اوّل تو اس کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو سزا دینے کی ذمہ داری اپنے سر لیتی ہی نہیں، یا اگر اس بنا پر کہ ابھی تک یہ عیسائیت حکمراں افراد کا مذہب ہے، وہ برائے نام اس ذمہ داری کو قبول کرتی بھی ہے تو عملاً اس کو ادا کرنے سے پہلو تہی کرتی ہے۔ لیکن خود ملکی قانون جو دراصل ان کا اجتماعی دین ہے، کیا اس کے معاملے میں بھی ان کا طرز عمل یہی ہے؟ اس کا جواب آپ عملاً پا سکتے ہیں اگر ذرا ہمت کرکے برطانوی رعایا کا کوئی فرد برطانوی حدود میں رہتے ہوئے تاج برطانیہ کے اقتدار علیٰ اور سلطنت کے آئین کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔
پس در حقیقت وہ حالت تو عملاً قائم ہے جس کے متعلق غلط فہمی کی بنا پر یہ کہا جاتا ہے کہ ’’اگر‘‘ ایسا ہوا تو کیا ہوگا، لیکن اس حالت کے قائم ہونے سے موجودہ زمانے کی مذہبی تبلیغ میں کوئی رکاوٹ اس لیے واقع نہیں ہوتی کہ آج کل دنیا میں جن مختلف مذاہب کی تبلیغ کی جارہی ہے ان میں سے کسی مذہب کو چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب میں چلے جانے سے دنیوی مملکتوں کے ’’اجتماعی دین‘‘ میں کوئی رخنہ نہیں پڑتا۔ تمام مذاہب بالفعل اس اجتماعی دین کے تابع بن کر رہتے ہیں اور اُن حدود کی پابندی کرتے ہیں جن میں اس نے انھیں محدود کر دیا ہے، لہٰذا اس کے تابع فرمان اور مطیع امر رہتے ہوئے اگر آپ نے ایک مذہبی عقیدہ و عمل کو چھوڑ کر دوسرا مذہبی عقیدہ و عمل اختیار کرلیا تو اجتماعی دین کے نقطہ نظر سے فی الواقع آپ کے اندر کوئی فرق رونما نہیں ہوا، نہ آپ نے کسی ارتداد کا ارتکاب کیا کہ وہ آپ سے باز پرس کرے۔ ہاں اگر آ پ اس اجتماعی دین کے اعتقاداً و عملاً کافر بن جائیں اور کسی دوسرے اجتماعی دین کے اعتقادی مومن بن کر عملی مسلم بننے کی کوشش کریں، تو آج کا ہر حکمران آپ کے ساتھ وہی کچھ کرنے کے لیے تیار ہے جو آج سے ساڑھے تین ہزار برس پہلے کا حکمران حضرت موسیٰ کے ساتھ کرنے کے لیے تیار ہوا تھا کہذَرُوْنِیْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰی وَلْیَدْعُ رَبَّہ‘ط ج اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِیْنَکُمْ اَوْاَنْ یُّظْھِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ o (المومن۴۰:۲۶)
پیدائشی مسلمانوں کا مسئلہ
اس سلسلے میں ایک آخری سوال اور باقی رہ جاتا ہے جو ’’قتل مُرتد‘‘ کے حکم پر بہت سے دماغوں میں تشویش پیدا کرتا ہے۔ وہ یہ کہ جو شخص پہلے غیر مسلم تھا، پھر اس نے باختیار خود اسلام قبول کیا اور اس کے بعد دوبارہ کفر اختیار کرلیا، اس کے متعلق تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے جان بوجھ کر غلطی کی۔ کیوں نہ وہ ذمی بن کر رہا اور کیوں ایسے اجتماعی دین میں داخل ہوا جس سے نکلنے کا دروازہ اسے معلوم تھا کہ بند ہے۔ لیکن اس شخص کا معاملہ ذرا مختلف ہے جس نے اسلام کو خود نہ قبول کیا ہو بلکہ مسلمان ماں باپ کے گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے اسلام آپ سے آپ اس کا دین بن گیا ہو۔ ایسا شخص اگر ہوش سنبھالنے کے بعد اسلام سے مطمئن نہ ہو اور اس سے نکل جانا چاہے تو یہ بڑا غضب ہے کہ آپ اسے بھی سزائے موت کی دھمکی دے کر اسلام کے اندر رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف ایک زیادتی معلوم ہوتی ہے بلکہ اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی ہے کہ پیدائشی منافقوں کی ایک اچھی خاصی تعداد اسلام کے اجتماعی نظام کے اندر پرورش پاتی رہے۔
اس شبہ کا ایک جواب اصولی ہے اور ایک عملی۔ اصولی جواب یہ ہے کہ پیدائشی اور اختیاری پیرووں کے درمیان احکام میں فرق نہ کیا جاسکتا ہے اور نہ کسی دین نے کبھی ان کے درمیان فرق کیا ہے۔ ہر دین اپنے پیرووں کی اولاد کو فطرتاً اپنا پیرو قرار دیتا ہے اور ان پر وہ سب احکام جاری کرتا ہے جو اختیاری پیروؤں پر جاری کیے جاتے ہیں۔ یہ بات عملاً ناممکن اورعقلاً بالکل لغو ہے کہ پیروان دین، یا سیاسی اصطلاح میں رعایا اور شہریوں کی اولاد کو ابتداء ً کفار یا اغیار (Aliens)کی حیثیت سے پرورش کیا جائے اور جب وہ بالغ ہو جائیں تو اس بات کا فیصلہ ان کے اختیار پر چھوڑ دیا جائے کہ آیا وہ اس دین کی پیروی یا اس اسٹیٹ کی وفاداری قبول کرتے ہیں یا نہیں جس میں وہ پیدا ہوئے ہیں۔ اس طرح تو کوئی اجتماعی نظام دنیا میں کبھی چل ہی نہیں سکتا۔ اجتماعی نظام کے بقا و استحکام کا زیادہ تر انحصار اس مستقل آبادی پر ہوتا ہے جو اس کی پیروی پر ثابت و قائم اور اس کے تسلسل حیات کی ضامن ہو۔ اور ایسی مستقل آبادی صرف اسی طرح بنتی ہے کہ نسل کے بعد نسل آکر اس نظام کو جاری رکھنے کی ذمہ داری لیتی چلی جائے۔ اگر پیرووں اور شہریوں کی ہر نسل کے بعد دوسری نسل کا اس پیروی و شہریت پر قائم رہنا اور اس نظام کو برقرار رکھنا مشتبہ اور غیر یقینی ہو، تو اجتماعی نظام کی بنیاد دائماً متزلزل رہے گی اور کبھی اس کو استحکام نصیب ہی نہ ہوگا۔ لہٰذا پیدائشی پیروی و شہریت کو اختیاری میں تبدیل کر دینا، اور ہر بعد کی نسل کے لیے دین اور دستور و آئین اور تمام وفاداریوں سے انحراف کا دروازہ کھلا رکھنا، ایک ایسی تجویز ہے جو بجائے خود سخت نامعقول ہے، اور دنیا میں آج تک کسی دین، کسی اجتماعی نظام اور کسی ریاست نے اس کو اختیار نہیں کیا ہے۔
اس کا عملی جواب یہ ہے کہ جو اندیشہ ہمارے معترضین بیان کرتے ہیں وہ درحقیقت عملی دنیا میں کبھی رونما نہیں ہوتا۔ ہر اجتماعی نظام جس میں کچھ بھی زندگی کی طاقت اور خواہش موجود ہو، پوری توجہ کے ساتھ اس کا انتظام کیا کرتا ہے کہ اپنے دائرے میں پیدا ہونے والی نئی نسلوں کی طرف اپنی روایات، اپنی تہذیب، اپنے اصولوں، اور اپنی وفاداریوں کو منتقل کرے اور انھیں اپنے لیے زیادہ سے زیادہ قابل اعتماد بنائے۔ اس تعلیم و تربیت کی وجہ سے نئی نسلوں کی بہت بڑی اکثریت ۹۹۹ فی ہزار سے بھی زیادہ اکثریت، اس نظام کے اتباع پر راضی اور اس کی وفادار بن کر اٹھتی ہے جس میں وہ پیدا ہوتی ہے۔ ان حالات میں صرف چند ہی افراد ایسے پیدا ہوسکتے ہیں جو مختلف وجوہ سے انحراف و بغاوت کا میلان لیے ہوئے اٹھیں یا بعد میں اس کا اکتساب کرلیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے چند افراد کی خاطر اصول میں کوئی ایسا تغیر نہیں کیا جاسکتا جس سے پوری سوسائٹی کی زندگی خطرے اور بے اطمینانی میں مبتلا ہو جائے۔ ایسے چند افراد اگر اجتماعی دین سے انحراف کرنا چاہیں تو ان کے لیے دو دروازے کھلے ہوئے ہیں: یا تو ریاست کے حدود سے باہر جاکر اس سے انحراف کریں۔ یا اگر وہ اپنے اس انحراف میں راسخ ہیں، اور جس دوسرے نظام کو انھوں نے پسند کیا ہے اس کی پیروی میں صادق الایمان ہیں، اور اپنے آبائی دین کی جگہ اسے قائم کرنے کا سچا عزم رکھتے ہیں، تو اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالیں اور جان جوکھوں کا وہ کھیل کھیلیں جس کے بغیر کسی نظام کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
پس جہاں تک نفس مسئلہ کا تعلق ہے، وہ بہرحال یہی رہے گا کہ مسلمانوں کی نسل سے پیدا ہونے والی اولاد مسلمان ہی سمجھی جائے گی اور قانون اسلام کی طرف سے ان کے لیے ارتداد کا دروازہ ہرگز نہ کھولا جائے گا، اگر ان میں سے کوئی اسلام سے پھرے گا تو وہ بھی اسی طرح قتل کا مستحق ہوگا جس طرح وہ شخص جس نے کفر سے اسلام کی طرف آکر پھر کفر کا راستہ اختیار کیا ہو۔ یہ تمام فقہائے اسلام کا متفق علیہ فیصلہ ہے اور اس بات میں ماہرین شریعت کے درمیان قطعاً کوئی اختلاف نہیں ہے۔ البتہ اس معاملے کا ایک پہلو ایسا ہے جس میں مجھے کچھ پیچیدگی نظر آتی ہے۔ وہ یہ کہ ایک مدت دراز سے ہمارا اجتماعی نظام نہایت ڈھیلا اور سست رہا۔ ہمارے ہاں کئی نسلیں ایسی گزر چکی ہیں کہ ہر نسل نے بعد کی نسل کو اسلامی تعلیم و تربیت دینے میں سخت کوتاہی کی ہے۔ خصوصاً پچھلے دَورِ غلامی میں تو ہماری قومی بے شعوری اس حد کو پہنچ گئی کہ ہمارے لاکھوں افراد نے بے پروائی کے ساتھ، اور ہزاروں نے جان بوجھ کر اپنی اولاد کو کافرانہ تعلیم و تربیت کے حوالے کر دیا۔ اس وجہ سے ہمارے ہاں اسلام سے بغاوت و انحراف کے میلانات رکھنے والوں کا تناسب خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے اور بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اگر آگے چل کر کسی وقت اسلامی نظام حکومت قائم ہو ۱؎ اور قتل مرتد کا قانون نافذ کرکے اُن سب لوگوں کو بزور اسلام کے دائرے میں مقید کر دیا گیا جو مسلمانوں کی اولاد ہونے کی وجہ سے اسلام کے پیدائشی پیر و قرار دیے جاتے ہیں تو اس صورت میں بلاشبہ یہ اندیشہ ہے کہ اسلام کے نظام اجتماعی میں منافقین کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہو جائے گی جس سے ہر وقت ہر غداری کا خطرہ رہے گا۔
میرے نزدیک اس کا حل یہ ہے واللّٰہ الموفق للصواب، کہ جس علاقہ میں اسلامی انقلاب رُونما ہو وہاں کی مسلمان آبادی کو نوٹس دے دیا جائے کہ جو لوگ اسلام سے اعتقاداً و عملاً منحرف ہو چکے ہیں اور منحرف ہی رہنا چاہتے ہیں وہ تاریخ اعلان سے ایک سال کے اندر اندر اپنے غیر مسلم ہونے کا باقاعدہ اظہار کرکے ہمارے نظام اجتماعی سے باہر نکل جائیں۔ اس مدت کے بعد ان سب لوگوں کو جو مسلمانوں کی نسل سے پیدا ہوئے ہیں مسلمان سمجھا جائے گا، تمام قوانین اسلامی ان پر نافذ کیے جائیں گے، فرائض و واجبات دینی کے التزام پر انھیں مجبور کیا جائے گا، اور پھر جو کوئی دائرۂ اسلام سے باہر قدم رکھے گا اُسے قتل کر دیا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد انتہائی کوشش کی جائے کہ جس قدر مسلمان زادوں اور مسلمان زادیوں کو کفر کی گود میں جانے سے بچایا جا سکتا ہے بچا لیا جائے، پھر جو کسی طرح نہ بچائے جاسکیں، انھیں دل پر پتھر رکھ کر ہمیشہ کے لیے اپنی سوسائٹی سے کاٹ پھینکا جائے اور اس عمل تطہیر کے بعد اسلامی سوسائٹی کی نئی زندگی کا آغاز صرف ایسے مسلمانوں سے کیا جائے جو اسلام پر راضی ہوں۔
تبلیغ کفر کے باب میں اسلامی رویے کی معقولیت
سائل کا آخری سوال یہ ہے کہ اگر اسلامی حکومت کے دائرے میں تبلیغ کفر کی اجازت نہیں ہے تو عقلی حیثیت سے اس ممانعت کو کیسے جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟
اس باب میں کوئی بحث کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ جس تبلیغ کفر کی اسلام ممانعت کرتا ہے اس کی نوعیت واضح طور پر سمجھ لی جائے۔ اسلام اس چیز میں مانع نہیں ہے کہ دارالاسلام کے حدود میں کوئی غیر مسلم اپنی اولاد کو اپنے مذہب کی تعلیم دے یا اپنے مذہب کے عقائد اور اصول لوگوں کے سامنے تحریر یا تقریر کے ذریعے سے بیان کرے، یا اسلام پر اگر وہ کچھ اعتراضات رکھتا ہو تو انھیں تہذیب کے ساتھ تقریر و تحریر میں پیش کرے۔ نیز اسلام اس میں بھی مانع نہیں ہے کہ کسی غیر مسلم کے خیالات سے متاثر ہو کر دارالاسلام کی ذمی رعایا میں سے کوئی شخص اس کا مذہب قبول کرلے۔ ممانعت دراصل جس چیز کی ہے وہ یہ ہے کہ کسی مذہب یا نظام فکر و عمل کی تائید میں کوئی ایسی منظم تحریک اٹھائی جائے جو دارالاسلام کے حدود میں رہنے والوں کو اس مذہب یا نظام کی طرف دعوت دیتی ہو۔ ایسی منظم دعوت، قطع نظر اس سے کہ وہ ذمیوں میں سے اٹھے یا باہر سے آنے والے غیر مسلموں کی طرف سے، بہرحال اسلام اپنے حدود میں اس کے ظہور کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس کی صاف اور سیدھی وجہ یہ ہے کہ ایک منظم دعوت لا محالہ یا تو سیاسی نوعیت کی ہوگی یا مذہبی و اخلاقی نوعیت کی۔ اگر وہ سیاسی نوعیت کی ہو اور اس کے پیش نظر نظام زندگی کا تغیر ہو تو جس طرح دنیا کی ہر ریاست ایسی دعوت کی مزاحمت کرتی ہے، اسی طرح اسلامی ریاست بھی کرتی ہے۔ اور اگر وہ دوسری نوعیت کی دعوت ہو تو خالص دنیوی ریاستوں کے برعکس اسلام اُسے اس لیے گوارا نہیں کرسکتا کہ کسی اعتقادی و اخلاقی گمراہی کو اپنی نگرانی و حفاظت میں سر اٹھانے کا موقع دینا قطعی طور پر اُس مقصد کی ضد ہے جس کے لیے اسلام ملک کی زمام کار اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔ اس معاملہ میں خالص دنیوی حکومتوں کا طرز عمل اسلامی حکومت کے طرز عمل سے یقینا مختلف ہے، کیونکہ دونوں کے مقاصد حکومت مختلف ہیں۔ دنیوی حکومتیں ہر جھوٹ، ہر اعتقادی فساد اور ہر قسم کی بدعملی و بداخلاقی کو، اور اسی طرح ہر مذہبی گمراہی کو بھی، اپنے حدود میں پھیلنے کی اجازت دیتی ہیں اور خوب ڈھیلی رسی چھوڑے رکھتی ہیں جب تک کہ ان مختلف چیزوں کے پھیلانے والے ان کے وفادار رہیں، ان کو ٹیکس ادا کرتے رہیں اور ایسی کوئی حرکت نہ کریں جس سے ان کے سیاسی اقتدار پر آنچ آتی ہو۔ البتہ جن تحریکوں سے اپنے سیاسی اقتدار پر آنچ آنے کا انھیں ذرا سا بھی خطرہ ہو جاتا ہے اُن کو خلاف قانون قرار دینے اور قوت سے کچل دینے میں وہ ذرا برابر تأمل نہیں کرتیں۔ ان کے اس طرز عمل کی وجہ یہ ہے کہ انھیں بندگان خدا کی اخلاقی اور روحانی فلاح سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ اُن کے لیے تو اپنا سیاسی اقتدار اور اپنی مادّی اغراض ہی سب کچھ ہیں۔ مگر اسلام کو اصل دل چسپی خدا کے بندوں کی روحانی و اخلاقی فلاح ہی سے ہے اور اسی کی خاطر وہ انتظام ملکی اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔ اس لیے وہ سیاسی فساد یا انقلاب برپا کرنے والی تحریکوں کی طرح ان تحریکوں کو بھی برداشت نہیں کرسکتا جو اخلاقی فساد یا اعتقادی گمراہی پھیلانے والی ہوں۔
یہاں پھر وہی سوال ہمارے سامنے آتا ہے جو قتل مرتد کے مسئلہ میں آیا کرتا ہے، یعنی یہ کہ اگر غیر مسلم حکومتیں بھی اسی طرح اپنے حدود میں اسلام کی دعوت کو خلاف قانون قرار دے دیں تو کیا ہو؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اسلام اس قیمت پر حق و صداقت کی اشاعت کی آزادی خریدنا نہیں چاہتا کہ اس کے جواب میں اسے جھوٹ اور باطل کی اشاعت کی آزادی دینی پڑے۔ وہ اپنے پیرووں سے کہتا ہے کہ ’’اگر تم سچے دل سے مجھے حق سمجھتے ہو اور میری پیروی ہی میں اپنی اور انسانیت کی نجات دیکھتے ہو تو میری پیروی کرو، مجھے قائم کرو، اور دنیا کو میری طرف دعوت دو، خواہ اس کام میں تم کو گلزار ابراہیم ؑ سے سابقہ پیش آئے یا آتش نمرود سے گزرنا پڑے۔ یہ تمھارے اپنے ایمان کا تقاضا ہے اور یہ بات تمھاری خدا پرستی پر منحصر ہے کہ اس کی رضا چاہتے ہو تو اس تقاضے کو پورا کرو ورنہ نہ کرو۔ لیکن میرے لیے یہ ناممکن ہے کہ تمھیں اس راہ کی خطرناکیوں سے بچانے اور اس کام کو تمھارے حق میں سہل بنانے کی خاطر باطل پرستوں کو یہ جوابی ’’حق‘‘ عطا کروں کہ وہ خدا کے بندوں کو گمراہ کریں اور ایسے راستوں پر انھیں ہانک لے جائیں جن میں مجھے معلوم ہے کہ ان کے لیے تباہی و بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔‘‘ یہ اسلام کا ناقابل تغیر فیصلہ ہے اور اس میں وہ کسی سے مصالحت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر غیر مسلم حکومتیں آج یا آئندہ کسی وقت اسلام کی تبلیغ کو اسی طرح جرم قرار دیں جس طرح وہ پہلے اسے جرم قرار دیتی رہی ہیں تب بھی اس فیصلہ میں کوئی ترمیم نہ کی جائے گی۔ بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اسلام کے لیے وہ گھڑی بہت منحوس تھی جب کفار کی نگاہ میں وہ اتنا بے ضرر بن گیا کہ اس کی دعوت و تبلیغ کو وہ بخوشی گوارا کرنے لگے اور قانون کفر کی حفاظت و نگرانی میں اسے پھیلنے کی پوری سہولتیں بہم پہنچنے لگیں۔ اسلام کے ساتھ کفر کی یہ رعایتیں حقیقت میں خوش آئند نہیں ہیں۔ یہ تو اس بات کی علامت ہیں کہ اسلام کے قالب میں اس کی روح موجود نہیں رہی ہے۔ ورنہ آج کے کافر کچھ نمرود و فرعون اور ابوجہل و ابولہب سے بڑھ کر نیک دل نہیں ہیں کہ اس مسلم نما قالب میں اسلام کا اصلی جوہر موجود ہو اور پھر بھی وہ اسے اپنی سرپرستی و حمایت سے سرفراز کریں یا کم از کم اسے پھیلنے کی آزادی ہی عطا کر دیں۔ جب سے ان کی عنایات کی بدولت اسلام کی دعوت محض گلزار ابراہیم ؑ کی گل گشت بن کر رہ گئی اسی وقت سے اسلام کو یہ ذلت نصیب ہوئی کہ وہ ان مذاہب کی صف میں شامل کر دیا گیا جو ہر ظالم نظام تمدن و سیاست کے ماتحت آرام کی جگہ پاسکتے ہیں۔ بڑی مبارک ہوگی وہ ساعت جب یہ رعایتیں واپس لے لی جائیں گے اور دین حق کی طرف دعوت دینے والوں کی راہ میں پھر آتش نمرود حائل ہو جائے گی۔ اسی وقت اسلام کو وہ سچے پیرو اور داعی ملیں گے جو طاغوت کا سر نیچا کرکے حق کو اس پر غالب کرنے کے قابل ہوں گے۔
زبان: اُردو
صفحات: 82
اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، منصورہ ملتان روڈ، لاہور۔