راقم الحروف کو پہلی دفعہ ۱۹۴۵ء میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی تصنیفات کے مطالعے کا موقع ملا۔ پانچ برس کی قید کے دن تھے اور ساہیوال سنٹرل جیل میں سوشلزم اور کمیونزم کے عالموں کا اجتماع تھا۔ جو مسلمان قید تھے ان میں تعلیم یافتہ شاذ ہی تھے اور جنھیں تعلیم یافتہ کہا جا سکتا تھا وہ سیاسی ہونے کے باوجود ادبی زیادہ تھے۔ ان کے وقت کا بیشتر حصہ نادلوں، افسانوں، غزلوں اور نظموں کی کتابوں میں کٹتا اور جب ان سے فرصت پاتے، تو خوش گپیوں میں وقت گزار دیتے تھے۔ جن دو چار آدمیوں کا تعلق مذہب سے تھا وہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر قرآن مجید پڑھنے اور کبھی کبھی سجدہ کر لینے کے سوا اور کوئی کام نہ جانتے تھے۔ وہ اپنے کامریڈوں کو قرآن سنانا یا ان کے سامنے قرآن پڑھنا غالباً معیوب سمجھتے تھے۔ انھیں اس بات کا خطرہ رہتا تھا کہ ان کے ساتھی انھیں فرقہ پرست نہ کہیں یا اس بات کا طعن نہ دیں کہ سائنس کے ترقی یافتہ دور میں تیرہ سوبرس پہلے کی کتاب کے ورق مفہوم جانے بغیر رٹے جا رہے ہیں۔اس کے برعکس سوشلسٹ اور کمیونسٹ دن رات اپنے تبلیغی مشن میں مشغول رہتے اور ان کی بالالتزام کوشش ہوتی کہ وہ حاضر ساتھیوں کو اپنے قریب کھینچیں، انھیں اپنے مبادیات سے آگاہ کریں، اپنے مقاصد سے روشناس کرائیں، اپنے نصب العین کی جدوجہد کے لیے تیار کریں اور وہ تعلیمات جن پر دنیا بھر کے کمیونسٹ اور سوشلسٹ ایک سی رائے رکھتے ہیں اور ایک سے نظریے کے زیرِ اثر کام کرتے ہیں، انھیں عام کریں۔
مجھے ان لوگوں کے حوصلے و استعداد اور مطالعے و مشاہدے کے ساتھ ساتھ ان کے تبلیغی انداز پر حیرت ہوتی اور جس ترتیب سے یہ ساتھیوں کو مارکسزم کا درس دیتے اس میں کشش کا خاص سامان ہوتا۔ میں احرار کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت میں قید ہوا تھا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ سوائے قید کے میرے جیبِ داماں میں کچھ نہ تھا، باہر بھی دیکھا اور اندر بھی۔ مجلسِ احرار کے زعما نے اپنے پیروئوں پر کبھی اپنے نصب العین کی عملی بنیادیں واضح نہ کیں۔ اس کے باوجود کہ وہ پاکستان کی آواز کے اٹھتے ہی حکومتِ الٰہیہ کے داعی بن گئے تھے۔ ان کے پیشِ نظر کوئی سائنٹیفک طریق کار نہ تھا۔ وہ اپنے نعرے کے عملی پہلوئوں کی وضاحت غیر ضروری سمجھتے تھے۔ انھوں نے کبھی اپنے گردوپیش بیٹھنے والوں کا کلمہ بھی درست نہ کرایا۔ اور صوم و صلوٰۃ کی پابندی کے باوجود اپنے متبعین کو یہ نہ بتایا کہ صوم وصلوٰۃ کے مطالبات کیا ہوتے ہیں، غالباً ذہن کی اس ناصافی کا ہی نتیجہ تھا کہ انھوں نے کانگرس کی ہم خیالی کے باوجود لیگ کے مقابلے میں اپنے تئیں مذہب کا دلدادہ ثابت کرنا چاہا اور جب جمعیۃ العلمائے ہند کا سوال سامنے آیا تو خود سیاسی بن گئے۔
احرار میں انگریز دشمنی کا منفی جذبہ اخیری حد تک تھا، لیکن جن لوگوں کے ہاتھ میں رہنمائی کا عصا تھا وہ ذاتی طور پر مذہبی لوگ تھے۔ اس لیے ان کی لسانی فضا میں سیاست کے بجائے مذہب کا اثر زیادہ تھا۔ اس منفی جذبے کے ماتحت میں قید ہوا تھا، چونکہ میرا ماحول شروع ہی سے طبعی طور پر غریب و امیر کی کش مکش اور انگریز دشمنی کی جدوجہد سے عبارت تھا اس لیے جیل خانے کی چار دیواری میں مجھ پر ان لوگوں کے قرب کا زیادہ اثر پڑا جو بااثر بھی ہیں، مجھ سے زیادہ تیز بھی اور جن کے فلسفۂ حیات کی بنیاد ہی طبقاتی کش مکش پر ہے۔
میں نے مختلف پروفیسروں سے کمیونزم پڑھنا شروع کیا۔ دو سال تک پڑھتا رہا اور سچ تو یہ ہے کہ میری ذہنی بنیادیں ہل گئیں۔ میں خدا کے وجود سے لے کر عام اخلاقی اقدار تک کے عقیدے میں ڈانواں ڈول ہو گیا۔ میں نے قرآن مجید کی باقاعدہ تلاوت ترک کر دی، کیوںکہ میں سمجھتا تھا کہ مطلب جانے بغیر اس کی تلاوت بے فائدہ ہے۔ خداوند تبارک و تعالیٰ (نعوذ باللہ) کو فرصت کے قہقہوں کا موضوع سمجھتا تھا۔ اور ہر اس مسئلے کی تضحیک میں خوشی ہوتی جو مذہب کے ’’غیر عقلی‘‘ وجود سے پیدا ہوتا ہے۔ اسی اثنا میں مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نے مجھے مولاناابوالاعلیٰ مودودی کی ایک ضخیم تصنیف الجہاد فی الاسلام بھجوائی۔ میں نے سرورق دیکھا اور کتاب کو سرہانے رکھ چھوڑا۔ کچھ دنوں بعد میرا جیل خانے کے سپرنٹنڈنٹ سے کسی بات پرجھگڑا ہو گیا۔ اس نے مجھے تنہائی میں بھیج دیا اور مارکسزم کے موضوع کی تمام کتابیں روک لیں۔ میں نے اصرار کیا، لیکن وہ نہ مانا، جب دو چاردن بے مطالعہ تنہائی میں گزر گئے، تو میں نے محض دفع الوقتی کے لیے الجہاد فی الاسلام طلب کی۔ سپرنٹنڈنٹ ہندو تھا، اس لیے مذہبی کتاب سمجھ کر بھیج دینے پر راضی ہو گیا۔ میں نے تین دن میں تمام کتاب پڑھ ڈالی۔ یہ مطالعہ آنکھوں کی مشغولیت تک محدود رہا۔ دماغ میں اس کا ایک دھندلا سا نقش ہی قائم ہوسکا۔ البتہ دل نے ایک لطیف اثر قبول کیا۔ اب میں نے کتاب کے بیس صفحے بلاناغہ پڑھنا اور ان پر اپنے فہم کے مطابق سوچنا شروع کیا۔ جب میں کتاب ختم کر چکا، تو مجھے اپنے دماغ و دل میں حیرت انگیز تبدیلی محسوس ہوئی۔ میں نے قیدِ تنہائی سے نکلتے ہی کمیونزم اور سوشلزم کے معلمین سے بحث و مذاکرہ شروع کر دیا۔ جب وہ میری زبان سے اسلام کی تصریحات سنتے، تو اپنے سوالات بھول جاتے اور انھیں حیرت ہوتی کہ اسلام کا مفہوم مروجہ اصطلاحِ مذہب سے کتنا مختلف ہے۔
کچھ دنوں بعد میرے پاس مولانا ابوالکلام آزادؔ کا ترجمان القرآن حصہ اوّل بھی آ گیااور سید سلیمان ندویؔ کے خطباتِ مدراس بھی جو سیرت النبیؐ کی نادرہ روزگار تصویریں ہیں۔ میں نے غور سے پڑھنا شروع کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میرا اسلام عود کر آیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام عقلی حدود سے کوئی خارج فلسفہ نہیں ہے۔
میں نے کچھ دوستوں کو خطوط لکھے، انھوں نے مجھے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی بعض دوسری کتابیں بھجوا دیں۔ میں نے انھیں اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ ان کے مطالعے سے میرے ذہن سے شک و شبہے کے کانٹے نکل گئے اور میں نے پہلی دفعہ اسلام کی عملی بنیادوں کومحسوس کیا۔ میں ان بنیادوں کے بارے میں اپنے ہمراہیوں سے بے تکلف گفتگو کرتا۔ انھیں اپنے تصورات سمجھاتا اور ان کے تصورات سے موازنہ کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اسلام پر ایمان لے آتے یا ان میں سے کچھ اسلام کی عقلی بنیادوں کو تسلیم کرتے، لیکن ان کی ایک بڑی مشکل یہ تھی کہ وہ ان کتابوں کی زبان کو اچھی طرح نہ سمجھ سکتے تھے۔ اور دوسرے وہاں کوئی ایسا فرد موجود نہ تھا جوانھیں عربی الفاظ و مصطلحات کا حقیقی پس منظر سمجھا سکتا۔
جب میں قید سے چھوٹا، تو میرے لیے یہ اطمینان کا موجب تھا کہ میرا ذہن اعتقاداً مسلمان تھا اور اس کا عظیم سبب مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابیں تھیں۔
اس قید سے رہائی کو چھہ سال گزر چکے ہیں۔ میں نے اس عرصے میں ملک کے طول و عرض کا سفر کیا اور نہایت قریب سے عوامی ذہن کو پڑھا ہے۔ ہمارا معاشرہ آج جن حالات سے دوچار ہے اور ملک کے ذہن پر مختلف عقائد کی جو یلغار ہو رہی ہے اس کے مخصوص معاشی و معاشرتی وجوہ ہیں۔ ان وجوہ کے علیٰ الرغم مسلمان نوجوان کی اسلامیت کو جو تھوڑا بہت سہارا مل رہا ہے، اس کی بڑی وجہ جماعت اسلامی کا ادب ہے، اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی پاکستان بھر میں تنہا آواز ہیں جس سے الحادوزندقہ کی صر صر کو ضعف پہنچا ہے۔
میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے اعمال و افعال میں ابھی تک اسلام و ایمان کی حقیقی روح پیدا نہیں ہوئی۔ اگرایسا ہوتا، تو واضح ٹھکانا جماعت اسلامی تھا، لیکن اس کوتاہی کے باوجود میں دیکھ رہا ہوں کہ میری طرح کے سیکڑوں نوجوان جماعت اسلامی کے دینی افکار کی بدولت گمراہی کے راستے سے محفوظ ہو گئے ہیں۔
خدا معلوم ہماری گورنمنٹ کی کون سی مصلحتیں ہیں جوابھی تک مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی رہائی کے راستے میں مانع ہیں۔ فرض کیجیے اگر ان کے کسی عمل سے حکومت کے کسی عمل کو نقصان پہنچا ہے، تو وہ اس فائدے کے مقابلے میں ہیچ ہے جو ان کی ذات سے خود پاکستان کو پہنچا اور اسلام کو پہنچ رہا ہے۔
۱۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی واحد شخص ہیں جنھوں نے پاکستان کے ذہنی مواد کی عقلی شاہراہ کا پتا بتا دیا۔
۲۔انھوں نے اس وقت اسلام کو ایک فلسفۂ حیات کے طور پر پیش کیا جب ہماری اسلامیت کو دو صد سالہ غلامی نے متروک العمل قرار دے دیا تھا۔
۳۔ ان کی تحریک ہی ایک ایسی تحریک ہے جس کا علم و نظر جدید یورپی نظریات سے ٹکر لینے پر قادر ہے۔
۴۔ ان کے افکار میں اسلام کی روحیت اس درجہ موجود ہے کہ نئی پود کا نوجوان اس کو اپنے اندر من و عن قبولنے پر آمادہ ہو سکتا ہے۔
۵۔ حکومت جو بہرحال ایک عارضی سفر پورا کر کے ختم ہو جاتی ہے کسی ملک کی جسمانی بغاوت کو اور وہ بھی ایک مخصوص مدت کے لیے قانون کے بل پر دبا سکتی ہے، لیکن ذہنی بغاوت کو ختم کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی قوت اور کوئی تعزیر نہیں۔ ہمارا معاشرہ شعوری اورغیر شعوری طور پر بعض معلوم اسباب کے باعث اسلام سے ذہنی بغاوت کے سانچے میں ڈھل رہا ہے۔ اگر اس کا مقابلہ کرنے کی سکت کسی میں ہے، تو وہ صرف مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور ان کی فکری جماعت ہے۔ ان کے علاوہ ذہنی مزاج کے سیلاب کو نہ تو شیخ الاسلام کی تاویلات کا الجھا ہوا انداز روک سکتا ہے اور نہ فقہیہِ شہر کی ’’شرعی تشریحات‘‘ جو ان کی دستارِ فضیلت کے پیچ و خم کی طرح ہر نئی قوت کے ساتھ اپنے اجتہاد کا رنگ بدلتی رہتی ہے۔ معلوم نہیں ان کی قید کو اتنا طول کیوں دیا جا رہا ہے؟
کیا اس لیے کہ انھوں نے جنگِ کشمیر کے متعلق اجتہادی طور پر مختلف رائے کا اظہار کیا تھا اور جب اصل حالات سامنے آئے، تو انھوں نے اپنی رائے میں ترمیم کر لی۔ کیا ان کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے حکام پاکستان کو ان کی بدعنوانیوں پرٹوکا اور صحیح مسلمان بن جانے کی ہدایت دی۔
اگر یہ دعوت جرم ہے تو شاید وہ اس دعوت سے کبھی نہیں رک سکتے، کیوںکہ اس طرح کلمۃ اللہ کا اِخفا اور کتمانِ شہادت ہوتا ہے۔ آخر ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ، الااللہ‘‘ کہنے والوں کے حدود و اربعہ میں اسلام ہی محبوس کیوں ہے؟تعجب کی بات ہے جن لوگوں نے قومی اموال میں خیانت کی، پاکستان کے ملکی ناموس کو گزند پہنچایا، نظم و نسق میں خلل ڈالا، اقربانوازی اور خویش پروری میں کسر نہ اٹھا رکھی اور رشوت ستانی میں اخلاق و سیرت کے تمام حدود پھاند گئے۔ ان کے متعلق تو صرف اتنا کہہ کر برأت کا اظہار کر دیا جاتا ہے کہ واضح شہادت میسر نہیں آ سکی ہے، لیکن مولانا ابوالاعلیٰ مودودی جن کی قید حقیقت میں اسلام کی قید ہے، صرف اس جرم میں اندر پڑے ہوئے ہیں کہ انھیں زیادہ سے زیادہ کسی مسئلے میں اجتہادی اختلاف تھا اور وہ ہم سب کو مسلمان بن جانے کی دعوت دیتے تھے۔
دنیا کیا کہے گی کہ پاکستان کے قانون میں قومی چوروں، ملکی خائنوں، مجلسی لٹیروں اور سیاسی غداروں کے لیے لوچ اورلچک ہے، لیکن ایک راست باز زبان کے لیے نہیں۔ جس کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ اسلام کا مطالبہ پیش کرتی ہے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی آواز اٹھاتی ہے؟
اپنے ذہنی تغیر کا واقعہ لکھنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ جن تبدیلیوں پر قانون کی سنگینی قادر نہیں وہ علم و نظر کی ایک صحبت سے طے پا جاتی ہیں۔ میں جن لوگوں میں رہتا ہوں وہ عوام ہیں، مجھے ایک جیب تراش سے لے کر ایک وزیراعظم تک کی نفسیات کا اندازہ ہے اور یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ہمارا معاشرہ کدھر جا رہا ہے، ہمارے ادب میں کون سی روح بول رہی ہے، ہماری معیشت، ہماری سیاست، ہماری معاشرت، ہماری تہذیب، ہمارا تمدن اور ہماری ثقافت کے تیور کیا ہیں۔ کیا ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر پاکستان کے اربابِ حل و عقد اپنی گدیوں سے نیچے اتر کر دیکھیں اور لوگوں کے ذہنی مزاج کا جائزہ لیں، تو وہ خود ہی محسوس کرنے لگیں گے کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی آزادی، مملکتِ پاکستان کے لیے نفع رساں ہے یا قید؟
کیا ہمیں لازم نہیں کہ ہم کمیونزم کے لیے جگہ خالی کرنے کے بجائے اسلام کے لیے جگہ خالی کر دیں؟
(۲)
’’مولانا جس مقام پر کھڑے ہیں اب امتدادِ زمانہ کی گردشیں بھی انھیں اس مقام سے اتارنے پر قادر نہیں اور نہ ان کی علمی وجاہت اور دینی ثبات اتنی ارزاں ہیں کہ ہر کہ ومہ انھیں کانچ کی شیشیاں سمجھ کر کلوخ اندازی سے توڑ سکتا ہے۔‘‘
’’مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے بارے میں ہمارے خیالات ہمیشہ سے والہانہ رہے ہیں۔ ہم ان کے بارے میں جو کچھ لکھتے ہیں وہ علیٰ وجہ البصیرت لکھتے ہیں۔ آج کے لوگ نہ جانیں یا ان پر بہتان تراش کر اپنے نامۂ اعمال کو گندہ کر لیں، لیکن وہ دن ضرور آئے گا کہ جب دنیا انھیں اسلام کے محسنوں میں شمار کرے گی اور وہ اس صف میں نظر آئیں گے جہاں ہمارے بڑے بڑے دینی اکابر کھڑے ہیں، مگر جوشِ ارادت میں یہ لکھ دینا کہ ’’جس دن مولانا مودودی جیسا شخص معافی مانگنے پر اتر آئے گا اس دن پھر اور کوئی نہ رہے گاکہ جس کے کیریکٹر پر دنیا اعتماد کر سکے۔‘‘
ایک ایسا خیال ہے جس میں ایک گونا سچائی کے باوجود ایک گونا تعلّی ہے۔
حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے وصالِ مبارک پر جب صحابہ میں سے اکثر بے اختیار ہو کر اسلام ہی کو ختم سمجھنے لگے تھے، تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تلوار نکال کر اعلان کیا تھا کہ اللہ اور اس کا دین حضور رسالت مآب (فداہ امی وابی) کی رحلت کے باوجود زندہ ہے اور جو ایسا نہیں سمجھتا وہ فرمودۂ خداوندی میں تحریف کرتا ہے۔ میرے اور اس کے درمیان یہ تلوار ہی فیصلہ کر سکتی ہے۔
یہ واقعہ بجائے خود اس کا مظہر ہے کہ خدا کا دین اور اس کی ضرورتیں اگرچہ اس کے نیک بندوں کی معرفت سرانجام پاتی ہیں اور دنیا کے لیے ہر زمانے میں رہنما شخصیتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں، مگر کسی کے لیے یہ مقدر نہیں ہوتا کہ وہ حرفِ آخر ہو، یا اس سے کوئی لغزش سرزد ہو گئی تو پھر دنیا کس پر اعتماد کرے گی؟
مولانا مودودی کا کریکٹر مثالی ہے۔ انھوں نے موت کی سزا پر جس ایمان کا ثبوت بہم پہنچایا اس پر جتنا بھی فخر کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔ ہر شخص اتنے ثبات کے ساتھ موت کی کوٹھڑی میں داخل نہیں ہو سکتا۔ مگر اس کے معنی یہ نہیں کہ یہ دولت دوسروں سے سلب کر لی گئی ہے یا اب دنیا میں کوئی اور شخص اس کی مقدرت نہیں رکھتا۔‘‘
…٭…
آغا شورش کاشمیری