مسئلہ تعدد ازواج

ریڈ مودودی ؒ   کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

مسئلۂ تعدد ازواج

آج کل ایک گروہ یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ تعدد ازواج کے متعلق اسلامی قانون کا جو تصور آغازِ اسلام سے آج تک بالاتفاق مسلم چلا آرہا ہے، وہ قرآن کے خلاف ہے، اور وہ نئے تصورات، جواَب اس گروہ کی طرف سے پیش کیے جارہے ہیں، عین مطابق قرآن ہیں۔ اس بحث کو خالص علمی طریقے سے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس مسئلے کے متعلق قرآن کے اصل ارشادات کو بنظر غور دیکھیں، اور پھر اُن تاویلات کا جائزہ لیں جو آیات قرآنی کو نئے معنی پہنانے کے لیے ان حضرات کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں۔

اصل قانون

قرآن مجید کی وہ اصل آیت، جو اسلام کے قانون تعددِ ازواج کی بنیاد ہے، سورۂ نساء کے آغاز میں ہم کو حسب ذیل الفاظ میں ملتی ہے:
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ج فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِ لُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ط ذٰلِکَ اَدْنٰی اَلاَّ تَعُوْلُوْا۔
’’اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو عورتوں میں سے جو تم کو پسند آئیں ان سے نکاح کرلو، دو دو، تین تین، چار چار۔ لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو، یا ان عورتوں کو زوجیت میں لائو جو تمہارے قبضے میں آئی ہیں، بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین صواب ہے۔‘‘
اس آیت کے تین مفہوم اہل تفسیر نے بیان کیے ہیں:
(۱) حضرت عائشہؓ اس کی تفسیر میں فرماتی ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں جو یتیم بچیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں، ان کے مال اور ان کے حسن و جمال کی وجہ سے، یا اس خیال سے کہ ان کا کوئی سردھرا تو ہے نہیں، جس طرح ہم چاہیں گے دبا کر رکھیں گے، وہ ان کے ساتھ خود نکاح کرلیتے تھے اور پھر ان پر ظلم کیا کرتے تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کرسکو گے تو دوسری عورتیں دنیا میں موجود ہیں، ان میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان کے ساتھ نکاح کرلو۔ (اسی سورت میں انیسویں رکوع کی پہلی آیت اس تفسیر کی تائید کرتی ہے)۔
(۲) ابن عباسؓ اور ان کے شاگرد عِکْرِمہ اس کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ جاہلیت میں نکاح کی کوئی حد نہ تھی۔ ایک ایک شخص دس دس بیویاں کرلیتا تھا اور جب اس کثرت ازواج سے مصارف بڑھ جاتے تھے تو مجبور ہو کر اپنے یتیم بھتیجوں، بھانجوں اور دوسرے بے بس عزیزوں کے حقوق پر دست درازی کرتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے چار کی حد مقرر کر دی اور فرمایا کہ ظلم اور بے انصافی سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ ایک سے لے کر چار تک اتنی بیویاں کرو جن کے ساتھ تم عدل پر قائم رہ سکو۔
(۳)سعید بن جُبیر اور قتادہؒ اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ جہاں تک یتیموں کا معاملہ ہے، اہل جاہلیت بھی ان کے ساتھ بے انصافی کرنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ لیکن عورتوں کے معاملے میں ان کے ذہن عدل و انصاف کے تصور سے خالی تھے۔ جتنی چاہتے تھے شادیاں کرلیتے تھے اور پھر ان کے ساتھ ظلم و جور سے پیش آتے تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو عورتوں کے ساتھ بھی بے انصافی کرنے سے ڈرو۔ اوّل تو چار سے زیادہ نکاح ہی نہ کرو، اور اس چار کی حد میں بھی بس اتنی بیویاں رکھو جن کے ساتھ انصاف کرسکو۔
آیت کے الفاظ ان تینوں تفسیروں کے محتمل ہیں۔ اور عجب نہیں کہ تینوں مفہوم مراد ہوں۔ نیز اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ ویسے انصاف نہیں کرسکتے تو اُن عورتوں سے نکاح کرلو جن کے ساتھ یتیم بچے ہیں، تاکہ وہ یتیم تمہارے اپنے بچوں کی طرح ہو جائیں اور تم ان کے مفاد کا لحاظ کرنے لگو۔
اس بات پر تمام فقہائے امت کا اجماع ہے کہ یہ آیت ایک مسلمان مرد کو یہ اختیار دیتی ہے کہ چار کی حد تک وہ جتنی بیویاں چاہے کرلے، اور یہ فیصلہ اس کی اپنی ہی صواب دید پر چھوڑتی ہے کہ وہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے یا ایک سے زیادہ کو اپنی زوجیت میں لائے۔
اس بات پر بھی فقہائے امت کا قریب قریب اجماع ہے کہ اس آیت کی رُو سے تعددِ ازواج کو محدود کیا گیا ہے اور بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کو ممنوع کر دیا گیا ہے۔ روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے، چنانچہ احادیث میں آیا ہے کہ طائف کا رئیس غیلان جب اسلام لایا تو اس کی نو بیویاں تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ چار بیویاں رکھ لے اور باقی کو چھوڑ دے۔ اسی طرح ایک دوسرے شخص نوفل بن معاویہ کی پانچ بیویاں تھیں۔ آپؐ نے حکم دیا کہ ان میں سے ایک کو چھوڑ دے۔
نیزیہ آیت تعدُّد ازواج کو عدل کے ساتھ مشروط کرتی ہے۔ جو شخص ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کے بعد عدل کی شرط پوری نہیں کرتا، وہ درحقیقت شریعت کی دی ہوئی اجازت سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔ اسلامی حکومت کی عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جس بیوی یا جن بیویوں کے ساتھ وہ انصاف نہ کر رہا ہو ان کی داد رسی کرے۔

غلط مفروضہ

اس آیت کے الفاظ پر بار بار غور کیجیے۔ اس میں کہیں کوئی اشارہ اور کنایہ تک آپ ایسا نہ پائیں گے جس سے یہ بات نکلتی ہو کہ قرآن کی نگاہ میں تعدد ازواج فی الاصل کوئی برائی ہے اور وہ اس کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہمارے نئے دور کے یہ مفسرین دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن کا اصل مقصد تو تعدُّد ازواج کے طریقے کو مٹانا تھا، مگر چونکہ یہ بہت زیادہ رواج پاچکا تھا اس لیے اس پر صرف پابندیاں عائد کرکے چھوڑ دیا گیا، تاکہ آئندہ کسی مناسب موقع پر لوگ خود اسے ممنوع قرار دے لیں۔ سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو قرآن کا یہ منشا آخر کس ذریعے سے معلوم ہوا ہے؟ اگر ان کی اپنی رائے یہ ہے کہ تعدّد ازدواج فی نفسہٖ ایک بُرائی ہے تو انہیں یہ اختیار تو ضرور حاصل ہے کہ چاہیں تو قرآن کے علی الرغم اس کی مذمت کریں اور اسے موقوف کر دینے کا مشورہ دیں۔ لیکن یہ حق انہیں نہیں پہنچتا کہ اپنی رائے کو خواہ مخواہ قرآن کی طرف منسوب کریں۔ قرآن تو صریح الفاظ میں ان کو جائز قرار دیتا ہے اور اشارتاً و کنایتاً بھی اس کی مذمت میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کرتا جس سے معلوم ہو کہ فی الواقع وہ اسے ایک بُرائی سمجھتا ہے اور اس کو روکنا چاہتا ہے۔

تاویل نمبر ۱

اپنے اس بے بنیاد دعوے پر یہ لوگ تاویلات کی جو عمارت کھڑی کرتے ہیں اس کا ہر جُز خود اس دعوے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ وہ کہتے ہیں:
’’یہ لوگوں کے منتخب نمائندوں کاکام ہے کہ وہ اس بارے میں ایک قانون بنائیں کہ آیا ایک مسلمان ایک سے زیادہ بیویاں کرسکتا ہے اور اگر کرسکتا ہے تو کن حالات میں اور کن شرائط کے ساتھ۔‘‘
اب ذرا اُس آیت کے الفاظ کو دیکھیے جس میں سے یہ ضابطہ نکالا جارہا ہے۔ اس کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ اس کے مخاطب افرادِ مسلمین ہیں۔ ان سے کہا جارہا ہے کہ ’’اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیموں کے معاملے میں تم انصاف نہ کرسکو گے تو جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرلو، دو دو سے، تین تین سے اور چار چار سے، لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ عدل نہ کرسکو گے تو ایک ہی سہی۔‘‘ ظاہر ہے کہ عورتوں کو پسند کرنا، ان سے نکاح کرنا اور اپنی بیویوں سے عدل کرنا یا نہ کرنا افراد کاکام ہے نہ کہ پوری قوم یا سوسائٹی کا۔ لہٰذا باقی تمام فقرے بھی جو بصیغۂ جمع مخاطب ارشاد ہوئے ہیں، ان کا خطاب بھی لامحالہ افراد ہی سے ماننا پڑے گا۔ اس طرح یہ پوری آیت اوّل سے لے کر آخر تک دراصل افراد کو ان کی انفرادی حیثیت میں مخاطب کر رہی ہے اور یہ بات انھی کی مرضی پر چھوڑ رہی ہے کہ اگر عدل کرسکیں تو چار کی حد تک جتنی عورتوں کو پسند کریں ان سے نکاح کرلیں، اور اگر یہ خطرہ محسوس کریں کہ عدل نہ کرسکیں گے تو ایک ہی پر اکتفا کریں۔ سوال یہ ہے کہ جب تک فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ اور فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا کے صیغۂ خطاب کو فضول اور بے معنی نہ سمجھ لیا جائے، اس آیت کے ڈھانچے میں نمائندگانِ قوم آخر کس راستے سے داخل ہو جائیں گے؟ آیت کا کون سا لفظ ان کے لیے مداخلت کا دروازہ کھولتا ہے؟ اور مداخلت بھی اس حد تک کہ وہی اس امر کا فیصلہ بھی کریں کہ ایک مسلمان دوسری بیوی کر بھی کرسکتا ہے یا نہیں، حالانکہ کر سکنے کا مجاز اسے اللہ تعالیٰ نے خود بالفاظ صریح کر دیا ہے، اور پھر ’’کرسکنے‘‘ کا فیصلہ کرنے کے بعد وہی یہ بھی طے کریں کہ ’’کن حالات میں اور کن شرائط کے مطابق کرسکتاہے‘‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ چیز فرد کے اپنے انفرادی فیصلے پر چھوڑی ہے کہ اگر وہ عدل کی طاقت اپنے اندر پاتا ہو تو ایک سے زائد کرے ورنہ ایک ہی پر اکتفا کرے۔

تاویل نمبر۲

دوسری بات وہ یہ کہتے ہیں کہ:
’’ایک سے زائد نکاح اگر کیے بھی جائیں تو ان کو لازمًا یتیموں کے فائدے کے لیے ہونا چاہیے، کیونکہ اسی غرض کے لیے تعددِ ازواج کی اجازت دی گئی ہے۔‘‘
یہ تاویل اس بنیاد پر کی گئی ہے کہ آیت میں ’’اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کرسکو گے‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ دوسری شادی کی اجازت صرف یتیموں کے ساتھ انصاف کرنے کی خاطر دی گئی ہے۔ لہٰذا وہ لازماً کسی ایسی عورت ہی سے ہونی چاہیے جو کسی یتیم بچے کی ماں ہو اور اس سے شادی کرنے والے کا اصل مقصد اس یتیم کے ساتھ انصاف کرنا ہو۔
لیکن اس تاویل کی یہ بنیاد ہی سرے سے غلط ہے کہ ’’یتیموں کے ساتھ انصاف‘‘ کے معاملے کو تعددِ ازدواج کی اجازت کے لیے شرط سمجھ لیا گیا ہے۔ قرآن مجید کو جس شخص نے بھی سمجھ کر پڑھا ہو وہ اس حقیقت سے ناواقف نہیں ہوسکتا کہ اس کتاب پاک میں بہت سے احکام کسی خاص موقع پر دیے گئے ہیں اور حکم دیتے وقت متعدد مواقع پر اس طرح کے الفاظ آئے ہیں کہ ’’اگر ایسی صورت پیش آگئی ہے تو اس کا یہ حکم ہے۔‘‘ ان تمام مقامات پر شرطیہ الفاظ کو اگر شرطِ حکم قرار دے لیا جائے تو اس سے شریعت کی صورت ہی مسخ ہو کر رہ جائے گی۔ مثال کے طور پر دیکھیے، عرب کے لوگ اپنی لونڈیوں کو پیشہ کمانے پر زبردستی مجبور کرتے تھے۔ اس کی ممانعت ان الفاظ میں فرمائی گئی ہے:
لَا تکْرِھُوْا فَتَیٰتِکُمْ عَلَی الْبِغَآئِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا۔ (النور: ۳۳)
’’اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو اگر وہ بچی رہنا چاہتی ہوں‘‘۔
کیا اس آیت کا یہ مطلب لینا صحیح ہوگا کہ یہ حکم صرف لونڈیوں سے متعلق ہے، اور یہ کہ لونڈی اگر خود زنا سے نہ بچنا چاہتی ہو تو اس سے پیشہ کرایا جاسکتا ہے؟
دوسری غلطی اس تاویل میں یہ کی گئی ہے کہ سورۂ نساء کی زیر بحث آیت کے متعلق یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ وہ دراصل تعددِ ازواج کی اجازت دینے کے لیے نازل ہوئی تھی، حالانکہ یہ مفروضہ بجائے خود بے بنیاد ہے۔ عرب میں اور قدیم زمانے کی پوری سوسائٹی میں ہزارہا برس سے تعددِ ازواج مطلقاً مباح تھا۔ انبیائے سابقین میں سے اکثر متعدد بیویاں رکھتے تھے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اس آیت کے نزول سے پہلے تین بیویاں موجود تھیں اور صحابہ کرامؓ بھی اس پر عامل تھے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جو طریقہ پہلے سے رائج چلا آرہا ہو اس کے لیے نئے سرے سے اجازت دینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ قرآن کا کسی رواج سے منع نہ کرنا خود ہی اس رواج کی اجازت کا ہم معنی تھا۔ اس لیے یہ بات سرے سے غلط ہے کہ یہ آیت تعددِ ازواج کی اجازت دینے کے لیے نازل ہوئی تھی۔ دراصل یہ جنگ اُحد کے بعد نازل ہوئی تھی اور اس کا مقصد یہ تھا کہ جو بہت سی عورتیں کئی کئی بچوں کے ساتھ بیوہ رہ گئی تھیں، ان کے مسئلے کو حل کرنے کا مناسب طریقہ بتایا جائے۔ اس میں مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی تھی کہ اگر تمہیں شہدائے اُحد کے یتیم بچوں کے ساتھ بے انصافی کا خطرہ ہے تو تمہارے لیے ایک سے زائد بیویاں کرنے کا دروازہ پہلے ہی کھلا ہوا ہے، شہدا کی بیوہ عورتوں میں سے جو تمہیں پسند ہوں ان کے ساتھ نکاح کرلو، تاکہ ان کے بچے تمہارے اپنے بچے بن جائیں اور تمہیں ان کے مفاد سے ذاتی دل چسپی پیدا ہو جائے۔ اس سے یہ نتیجہ کسی منطق کی رُو سے بھی نہیں نکالا جاسکتا کہ تعددِ ازواج صرف اُسی حالت میں جائز ہے جب کہ یتیم بچوں کی پرورش کا مسئلہ در پیش ہو۔ اس آیت نے اگر کوئی نیا قانون بنایا ہے تو وہ تعددِ ازواج کی اجازت دینا نہیں ہے، کیونکہ اس کی اجازت تو پہلے ہی تھی اور معاشرے میں ہزاروں برس سے اس کا رواج موجود تھا، بلکہ دراصل اس میں جو نیا قانون دیا گیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ بیویوں کی تعداد پر چار کی قید لگا دی گئی ہے جو پہلے نہ تھی، اور ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی اباحت کو عدل کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے جس کو پہلے ملحوظ نہیں رکھا جاتا تھا۔
اس تاویل کی غلطی بالکل کھل جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد نکاح کیے اور آپ کے کسی نکاح کا بھی اصل محرک یہ امر نہ تھا کہ آپ کچھ یتیم بچوں کی پرورش کے لیے کسی خاتون کو نکاح میں لانا چاہتے تھے۔ اسی طرح صحابہ کرامؓ نے بھی حضورؐ کے عہد میں اور آپ کے بعد بیویوں پر بیویاں کیں جن میں کنواریاں بھی تھیں اور بے اولاد مطلقہ یا بیوائیں بھی۔ اُس دَور سے لے کر آج تک فقہائے اسلام میں سے کسی نے بھی اِنْ خِفْتُمْ اَلاّ َتُقْسِطُوْا کا مطلب یہ نہیں سمجھا ہے کہ تعدُّدِ ازواج کی اجازت صرف یتیم بچوں کی پرورش کے لیے ہے اور دوسری بیوی لازماً کسی یتیم بچے کی ماں ہی ہونی چاہیے۔

تاویل نمبر ۳

تیسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ:
’’اگر ایک مسلمان یہ کہہ سکتا ہے کہ میں ایک سے زیادہ بیویاں نہیں کروں گا کیونکہ میں اس کی استطاعت نہیں رکھتا ، تو آٹھ کروڑ مسلمانوں کی اکثریت بھی ساری قوم کے لیے یہ قانون بنا سکتی ہے کہ قوم کی معاشی، تمدنی اور سیاسی حالت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ اس کا کوئی فرد ایک سے زیادہ بیویاں کرے۔‘‘
اس عجیب طرزِ استدلال کے متعلق ہم عرض کریں گے کہ ایک مسلمان جب یہ کہتا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بیویاں نہ کرے گا تو وہ اس آزادی کواستعمال کرتا ہے جو اس کی خانگی زندگی کے بارے میں خدا نے اسے دی ہے۔ وہ اس آزادی کو شادی نہ کرنے کے بارے میں بھی استعمال کرسکتا ہے، ایک بیوی پر اکتفا کرنے میں بھی استعمال کرسکتا ہے، اور کسی وقت اس کی رائے بدل جائے تو ایک سے زائد بیویاں کرنے کا فیصلہ بھی کرسکتا ہے۔ لیکن جب قوم تمام افراد کے بارے میں کوئی مستقل قانون بنا دے گی تو فرد سے اس کی وہ آزادی سلب کرلے گی جو خدا نے اسے دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسی قیاس پر کیا قوم کسی وقت یہ فیصلہ کرنے کی بھی مجاز ہے کہ اس کے آدھے افراد شادی کریں اور آدھے نہ کریں؟ یا جس کی بیوی یا شوہر مر جائے وہ نکاح ثانی نہ کرے؟ ہر آزادی جو افراد کو دی گئی ہے اسے بنائے استدلال بنا کر قوم کو یہ آزادی دینا کہ وہ افراد سے ان کی آزادی سلب کرلے، ایک منطقی مغالطہ تو ہوسکتا ہے مگر ہمیں یہ نہیں معلوم کہ قانون میں یہ طرز استدلال کب سے مقبول ہوا ہے۔
تاہم تھوڑی دیر کے لیے ہم یہ مانے لیتے ہیں کہ آٹھ کروڑ مسلمانوں کی اکثریت مثلاً ان میں سے چار کروڑ ایک ہزار مل کر ایسا کوئی فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آٹھ کروڑ مسلمانوں میں سے صرف چند ہزار مل کر اپنی ذاتی رائے سے اس طرح کا کوئی قانون تجویز کریں اور اکثریت کی رائے کے خلاف اسے زبردستی ملک پر مسلط کر دیں تو ان کے اپنے بیان کردہ اصول کی رُو سے اُس کا کیا جواز ہوگا؟ آٹھ کروڑ مسلمانوں کی آبادی میں سے ایک لاکھ، بلکہ پچاس ہزار کا بھی نقطۂ نظر یہ نہیں ہے کہ قوم کی معاشی تمدنی اور سیاسی حالت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک مسلمان کے لیے ایک سے زائد بیویاں رکھنا تو قانوناً ممنوع ہو البتہ اس کا ’’گرل فرینڈز‘‘ سے آزادانہ تعلق، یا طوائفوں سے ربط ضبط، یا مستقل داشتہ رکھنا ازروئے قانون جائز رہے۔ خود وہ عورتیں بھی جن کے لیے سوکن کا تصور ہی تکلیف دہ ہے کم ہی ایسی ہوں گی جن کے نزدیک ایک عورت سے ان کے شوہر کا نکاح ہو جائے تو ان کی زندگی ستی سے بدتر ہو جائے گی، لیکن اسی عورت سے ان کے شوہر کا ناجائز تعلق رہے تو ان کی زندگی جنت کا نمونہ بنی رہے گی۔

تاویل نمبر۴

چوتھی چیز متجد دین کی طرف سے یہ پیش کی جاتی ہے کہ:
’’سورۂ نور کی آیت نمبر۳۳ میں طے کیا گیا ہے کہ جو لوگ شادی کرنے کے ذرائع نہ رکھتے ہوں ان کو شادی نہ کرنی چاہیے۔ اگر ذرائع کی کمی کے باعث ایک شخص کو ایک بیوی کرنے سے روکا جاسکتا ہے، تو انھی وجوہ یا ایسے ہی وجوہ کی بنا پر اسے ایک سے زیادہ بیویاں کرنے سے کیوں نہیں روکا جاسکتا؟‘‘
اس تاویل میں جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے اس کے اصل الفاظ یہ ہیں:
وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِکَاحًا حَتّٰی یُغْنِیَھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ۔
’’اور عفت مآبی سے کام لیں وہ لوگ جو نکاح کا موقع نہیں پاتے، یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے۔‘‘
ان الفاظ میں یہ مفہوم کہاں سے نکلتا ہے کہ ایسے لوگوں کو نکاح نہ کرنا چاہیے؟ ان میں تو صرف یہ کہا گیا ہے کہ جب تک اللہ نکاح کے ذرائع فراہم نہ کر دے اس وقت تک مجرد لوگ عفت مآب بن کر رہیں، بدکاری کرکے نفس کی تسکین نہ کرتے پھریں۔ تاہم اگر کسی نہ کسی طرح نکاح سے ممانعت کا مفہوم ان الفاظ میں داخل کر بھی دیا جائے، پھر بھی اس کاروئے سخن فرد کی طرف ہے نہ کہ قوم یا ریاست کی طرف۔ یہ بات تو فرد کی اپنی صواب دید پر چھوڑی گئی ہے کہ کب وہ اپنے آپ کو شادی کرلینے کے قابل پاتا ہے اور کب نہیں پاتا۔ اور اسی کو یہ ہدایت کی گئی ہے (اگر فی الواقع ایسی کوئی ہدایت کی بھی گئی ہے)کہ جب تک وہ نکاح کے ذرائع نہ پائے نکاح نہ کرے۔ اس میں قوم یا ریاست کو یہ حق کہاں دیا گیا ہے کہ وہ فرد کے اس ذاتی معاملے میں دخل دے اور یہ قانون بنا دے کہ کوئی شخص اس وقت تک نکاح نہ کرنے پائے جب تک وہ ایک عدالت کے سامنے اپنے آپ کو ایک بیوی اور گنتی کے چند بچوں کی (جن کی تعداد مقرر کر دینے کا حق بھی ان حضرات کی رائے میں یہی آیت ریاست کو عطا کرتی ہے) پرورش کے قابل ثابت نہ کردے؟ آیت کے الفاظ اگر کچھ اہمیت رکھتے ہیں تو اس معاملے میں ریاست کی قانون سازی کا جواز ہمیں بتایا جائے کہ اس کے کس لفظ سے نکلتا ہے؟ اور اگر نہیں نکلتا تو اس آیت کی بنیاد پر مزید پیش قدمی کرکے ایک سے زائد بیویوں اور مقرر تعداد سے زائد بچوں کے معاملے میں ریاست کو قانون بنانے کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے؟

تاویل نمبر ۵

اس سے بھی زیادہ مضحکہ انگیز استدلال یہ لوگ سورۂ نساء کی آیت نمبر۱۲۹ سے کرتے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں:
وَلَنْ تَسْتَطِیَعُوْآ اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآئِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فتَذَرُوْھَا کَالْمُعَلَّقَۃِ وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۔
’’اور تم ہرگز یہ استطاعت نہیں رکھتے کہ عدل کرو عورتوں (یعنی بیویوں) کے درمیان، خواہ تم اس کے کیسے ہی خواہش مند ہو، لہٰذا (ایک بیوی کی طرف بالکل نہ جھک پڑو کہ دوسری کو) معلق چھوڑ دو۔ اور اگر تم اپنا طرز عمل درست رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو اللہ یقینا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔
ان الفاظ کی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء کی آیت ۳ میں عدل کی شرط کے ساتھ تعددِ ازواج کی اجازت دی ہے، اور پھر اسی سورت کی آیت ۱۲۹ میں یہ بات خود ہی واضح کر دی ہے کہ بیویوں کے درمیان عدل کرنا انسانی ہستیوں کے بس میں نہیں ہے۔ اب یہ ریاست کاکام ہے کہ ان دونوں آیتوں میں تطبیق دینے کے لیے ایک قانون بنائے اور ایک سے زیادہ بیویاں کرنے پر پابندیاں عائد کردے۔ وہ کہہ سکتی ہے کہ دو بیویاں کرنے کی صورت میں چونکہ سال ہا سال کے تجربات سے یہ بات ظاہر ہو چکی ہے، اور قرآن میں بھی یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ دونوں بیویوں کے ساتھ یکساں برتائو نہیں ہوسکتا، لہٰذا یہ طریقہ ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاتا ہے۔‘‘
ہمیں سخت حیرت ہے کہ اس آیت میں سے اتنا بڑا مضمون کس طرح اور کہاں سے نکل آیا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ تو ضرور فرمایا ہے کہ انسان دو یا زائد بیویوں کے درمیان پورا پورا عدل اگر کرنا چاہے بھی تو نہیں کرسکتا، مگر کیا اس بنیاد پر اس نے تعددِ ازواج کی وہ اجازت بھی واپس لے لی جو عدل کی شرط کے ساتھ اس نے خود ہی سورۂ نساء کی آیت نمبر ۳ میں دی تھی؟ آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ اس فطری حقیقت کو صریح لفظوں میں بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ دو یا زائد بیویوں کے شوہر سے صرف یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایک بیوی کی طرف اس طرح ہمہ تن نہ مائل ہو جائے کہ دوسری بیوی یا بیویوں کو معلق چھوڑ دے۔ بالفاظ دیگر پورا پورا عدل نہ کرسکنے کا حاصل قرآن کی رُو سے یہ نہیں ہے کہ تعددِ ازواج کی اجازت ہی سرے سے منسوخ ہو جائے، بلکہ اس کے برعکس اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ شوہر ازدواجی تعلق کے لیے ایک بیوی کو مخصوص کرلینے سے پرہیز کرے اور ربط و تعلق سب بیویوں سے رکھے، خواہ اس کا دلی میلان ایک ہی کی طرف ہو۔ یہ حکم ریاست کو مداخلت کا موقع صرف اُس صورت میں دیتا ہے جب کہ ایک شوہر نے اپنی دوسری بیوی یا بیویوں کو معلق کرکے رکھ دیا ہو۔ اسی صورت میں وہ بے انصافی واقع ہوگی جس کے ساتھ تعدد ازواج کی اجازت سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ لیکن کسی منطق کی رُو سے بھی اس آیت کے الفاظ اور اس کی ترکیب اور فحویٰ سے یہ گنجائش نہیں نکالی جاسکتی کہ معلق نہ رکھنے کی صورت میں ایک ہی شخص کے لیے تعددِ ازواج کو ازرُوئے قانون ممنوع ٹھیرایا جاسکے، کجا کہ اس میں سے اتنا بڑا مضمون نکال لیا جائے کہ ریاست تمام لوگوں کے لیے ایک سے زائد بیویاں رکھنے کو مستقل طور پر ممنوع ٹھیرا دے۔ قرآن کی جتنی آیتوں کو بھی آدمی چاہے ملا کر پڑھے، لیکن قرآن کے الفاظ میں قرآن ہی کا مفہوم پڑھنا چاہیے، کوئی دوسرا مفہوم کہیں سے لاکر قرآن میں پڑھنا اور پھر یہ کہنا کہ یہ مفہوم قرآن سے نکل رہا ہے، کسی طرح بھی درست طریق مطالعہ نہیں ہے، کجا کہ اسے درست طریق اجتہاد مان لیا جائے۔

تاویل نمبر ۶

ایک اور تاویل یہ بھی کی جاتی ہے کہ سورۂ نساء کی آیت ۳ تعددِ ازواج کو زیادہ سے زیادہ بس مباح ہی قرار دیتی ہے، اُسے لازم تو نہیں کرتی۔ اب اگر کوئی اسلامی حکومت یہ دیکھے کہ اس اجازت سے عام طور پر لوگ ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں، اور وہ اس مباح فعل سے لوگوں کو روک دے تو اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ بہت سے مباح افعال ایسے ہیں جن پر حکومت پابندیاں عائد کرتی رہتی ہے اور آپ اسے دین میں مداخلت نہیں کہتے۔ مثلاً سڑک پر دائیں اور بائیں چلنا دونوں مباح ہیں۔ حکومت یہ پابندی عائد کر دیتی ہے کہ دائیں نہ چلو اور صرف بائیں چلو۔ کیا یہ دین میں مداخلت ہے؟ گوشت ہر روز ہر وقت کھانا مباح ہے۔ حکومت کسی مصلحت سے ایک دن یا دو دن گوشت کھانے سے روک دیتی ہے۔ کیا یہ بھی دین میں مداخلت ہے؟ پھر آخر تعددِ ازواج ہی ایک ایسا مباح فعل کیوں ہو کہ اس پر پابندیاں عائد کرنا دین میں مداخلت قرار پائے۔
بظاہر یہ تاویل بڑی معقول نظر آتی ہے، مگر درحقیقت یہ ایک کھلا مغالطہ ہے۔ ایک قسم کے معاملات وہ ہیں جن کے متعلق شریعت نے بالکل سکوت اختیار کیا ہے۔ نہ ان کو منع کیا ہے، نہ ان کی اجازت دی ہے، نہ ان کا حکم دیا ہے۔ ایسے معاملات میں حکومت پوری طرح آزاد ہے کہ اجتماعی مصالح کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے بارے میں جیسا قانون چاہے بنائے۔ دوسری قسم کے معاملات وہ ہیں جن میں شریعت نے قانون سازی خود اپنے ہاتھ میں لی ہے اور منع کرنے، یا اجازت دینے، یا حکم دینے کی صورت میں ان کے متعلق ایک ضابطہ بنا دیا ہے۔ ایسے معاملات میں اگر شریعت کے حکم کو بدل کر کوئی حکومت ممنوع کو جائز، یا جائز کو ممنوع کرتی ہے تو وہ خدا کے قانون میں ترمیم کی مرتکب ہوتی ہے۔ اس لیے کہ یہاں ایک نص صریح نے ایک فعل کو منع کیا ہے، یا مباح قرار دیا ہے۔ اس ممانعت کو اجازت سے یا اجازت کو ممانعت سے بدلنا مداخلت فی الدین، بلکہ تحریف دین نہیں تو اور کیا ہے۔ قرآن مجید ایک فعل کے متعلق صاف طور پر کہتا ہے کہ تم اسے کرنے کے مجاز ہو۔ آپ اس کے مقابلے میں کہتے ہیں کہ تم یہ فعل کرنے کے مجاز نہیں ہو۔ کیا یہ قرآن کی کھلی مخالفت نہیں ہے؟
بعینہٖ یہی آئینی نوعیت اُس صورت میں بھی ہوگی جب کہ کوئی شخص تعددِ ازواج کو ممنوع قرار دینے کے بجائے اُس پر وہ پابندیاں لگائے جو قرآن کی لگائی ہوئی پابندیوں سے مختلف ہوں۔ قرآن اس فعل کو مباح قرار دینے کے بعد اس پر صرف دو پابندیاں لگاتا ہے۔ ایک یہ کہ آدمی بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں نہ رکھے۔ دوسرے یہ کہ جب اس کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان کے درمیان نفقے اور ازدواجی تعلق میں مساوات برتے۔ ان دونوں پابندیوں کو اگر کوئی حکومت پُوری طاقت کے ساتھ نافذ کرے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا۔ وہ چار کی حد سے تجاوز کرنے والے کو سخت سزا دے سکتی ہے۔ وہ بیویوں کے درمیان عدل نہ کرنے والے کو عدل پر مجبور کرسکتی ہے۔ اسے پورا حق ہے کہ جو شخص عدل نہ کرے اس کے لیے سزا تجویز کردے۔ لیکن اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس اباحت پر جو پابندیاں قرآن نے نہیں لگائی ہیں وہ اپنی طرف سے لگا دے۔ مثلاً قرآن مجید ایک سے زائد بیویاں کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ فرد کے اپنے اختیارِ تمیزی (Discretion)پر چھوڑتا ہے۔ حکومت اگر اس اختیارِ تمیزی کو فرد سے سلب کرکے کسی پنچایت یا عدالت کی طرف منتقل کر دے تو یہ قرآن کے قانون میں کھلی ترمیم ہوگی۔ قرآن یہ رائے قائم کرنے کا ذمہ دار فرد کو قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو عدل پر قادر پاتا ہے یا نہیں۔ حکومت اگر یہ اختیار کسی دوسرے شخص یا ادارے کو سونپتی ہے کہ وہ کسی شخص کے نکاح ثانی سے پہلے اس کے عدل پر قادر ہونے یا نہ ہونے کا حکم لگائے تو یہ بھی قرآن کے قانون میں ترمیم ہی ہے۔ قرآن ایک بالغ مسلمان مرد کو اپنے نکاح کے معاملے میں (خواہ وہ پہلا نکاح ہو یا دوسرا یا تیسرا یا چوتھا) کسی سے اجازت لینے کا پابند نہیں کرتا۔ حکومت اگر اس کو کسی کی اجازت کا بھی پابند کرتی ہے تو قرآن کے قانون میں ترمیم کرتی ہے۔ قرآن تعددِ ازواج کی اباحت کو ضرورت کے ساتھ مشروط نہیں کرتا۔ جو حکومت اسے خاص ضرورتوں کے ساتھ مشروط کرتی ہے اور فرد کو اس کا پابند کرتی ہے کہ نکاح ثانی سے پہلے کسی شخص یا ادارے کو اس بات پر مطمئن کرے کہ اسے ان خاص ضرورتوں میں سے کوئی ضرورت فی الواقع لاحق ہے، وہ یقینا قرآن کے قانون میں ترمیم کا ارتکاب کرتی ہے۔

غلط تاویلات کی اصل وجہ

آگے بڑھنے سے پہلے ہم اس طرح کی تاویلات کرنے والے حضرات کو ایک سوال پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی جن آیات پر وہ کلام فرما رہے ہیں ان کو نازل ہوئے ۱۳۸۰ سال گزر چکے ہیں۔ اس پوری مدت میں مسلم معاشرہ دنیا کے ایک بڑے حصے میں مسلسل موجود رہا ہے۔ آج کسی ایسی معاشی یا تمدنی یا سیاسی حالت کی نشان دہی نہیں کی جاسکتی جو پہلے کسی دَور میں بھی مسلم معاشرے کو پیش نہ آئی ہو۔ لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ پچھلی صدی کے اواخر سے پہلے پوری دنیائے اسلام میں کبھی یہ تخیل پیدا نہ ہوا کہ تعددِ ازواج کو روکنے یا اس پر سخت پابندیاں لگانے کی ضرورت ہے؟ کیا اس کی کوئی معقول توجیہ اس کے سوا کی جاسکتی ہے کہ اب ہمارے ہاں یہ تخیل اُن مغربی قوموں کے غلبے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جو ایک سے زائد بیوی رکھنے کو ایک قبیح و شنیع فعل، اور خارج از نکاح تعلقات کو (بشرطِ تراضیِ طرفین) حلال و طیب یا کم از کم قابل درگزر سمجھتی ہیں، جن کے ہاں بیوی کی موجودگی میں داشتہ رکھنا تو جرم نہیں ہے مگر اسی داشتہ سے نکاح کرلینا جرم ہے۔ اگر صداقت کے ساتھ فی الواقع اس کے سوا اس تخیل کے پیدا ہونے کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی توہم پوچھتے ہیں کہ اس طرح خارجی اثرات سے متاثر ہو کر قرآنی آیات کی تعبیریں کرنا کیا کوئی صحیح طریق اجتہاد ہے؟ اور کیا عام مسلمانوں کے ضمیر کو ایسے اجتہاد پر مطمئن کیا جاسکتا ہے؟

نئی نئی شرطیں

بعض حضرات انھی خارجی اثرات سے متاثر ہو کر تعددِ ازواج کی اجازت کو صرف اُن حالات تک محدود رکھنے پر اصرار کرتے ہیں جب کہ ایک شخص کی بیوی بانجھ ہو، یا اتنی بیمار ہو کہ ازدواجی تعلق کے لائق نہ رہے، یا اور ایسی ہی کوئی ناگزیر مجبوری درپیش ہو۔ لیکن ان کے اس خیال کی کھلی تردید خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ہو جاتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ حضورؐ نے جو ایک سے زائد نکاح کیے ان کی وجہ یہ نہ تھی کہ بیوی بیمار تھی، یا بانجھ تھی، یا اولادِ نرینہ نہ تھی، یا کچھ یتیموں کی پرورش کا مسئلہ درپیش تھا۔ ان محدود شخصی ضروریات کے بغیر آپؐ نے تمام نکاح یا تو تبلیغی و تعلیمی ضروریات کے لیے کیے، یا اصلاح معاشرہ کے لیے، یا سیاسی و اجتماعی مقاصد کے لیے۔ سوال یہ ہے کہ جب اللہ نے خود تعددِ ازواج کو اُن چند گنی چنی مخصوص اغراض تک جن کا آج نام لیا جارہا ہے، محدود نہیں رکھا، اور اللہ کے رسول نے ان کے سوا بہت سے دوسرے مقاصد کے لیے متعدد نکاح کیے، تو کوئی دوسرا شخص کیا حق رکھتا ہے کہ قانون میں اپنی طرف سے چند قیود تجویز کرے اور اوپر سے دعویٰ یہ کرے کہ یہ حد بندیاں وہ شریعت کے مطابق کر رہا ہے۔ دراصل ان ساری حد بندیوں کی جڑ یہ مغربی تخیل ہی ہے کہ تعددِ ازواج بجائے خود ایک بُرائی ہے۔ اسی تخیل کی بنا پر یہ نظریہ پیدا ہوا ہے کہ یہ ’’فعل ِ حرام‘‘ اگر کبھی حلال ہو بھی سکتا ہے تو صرف شدید ناگزیر ضروریات کے لیے ہوسکتا ہے۔ لیکن اس درآمد شدہ تخیل پر اسلام کا جعلی ٹھپا لگانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کی جائے، قرآن و سنت اور پوری امت مسلمہ کالٹریچر اس سے قطعا ًناآشنا ہے۔
پھر یہ لوگ ’’ناگزیر ضرورت‘‘ کی شرط پر مزید دو شرطوں کا اضافہ کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کسی عدالت، یا ازروئے قانون مقرر کیے ہوئے کسی سرپنچ یا پنچایت کو اس بات پر مطمئن کرے کہ اسے فی الواقع دوسری بیوی کی ضرورت ہے۔ دوسرے یہ کہ اپنی پہلی بیوی کو اس پر راضی کرے یا اس سے نکاح ثانی کی اجازت لے۔
یہ دونوں بالکل نرالے اور اجنبی تخیلات ہیں جنہیں اسلامی قانون میں زبردستی داخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسلامی قانون تعددِ ازواج کے لیے ’’ناگزیر ضرورت‘‘ کی شرط ہی سے ناآشنا ہے، کجا کہ اس پر ان دو شرطوں کا اور اضافہ کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ان شرطوں کا ماخذ کیا ہے اور یہ کہاں سے لائی گئی ہیں؟ کیا قرآن میں کہیں ان کا ذکر ہے؟ کیا کسی حدیث میں ان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؟ کیا اسلام کی پوری تاریخ میں کبھی تعددِ ازواج کے لیے یہ شرطیں لگائی گئی ہیں؟ کیا کوئی شہادت اس امر کی موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیوی کے بعد جتنی شادیاں کیں، ان میں سے کسی شادی سے پہلے آپ نے صحابہ کرامؓ کو جمع کرکے انہیں اس بات پر مطمئن کیا ہو کہ مجھے مزید ایک بیوی کی ضرورت ہے؟ یا صحابہ کرامؓ میں سے کسی کو دوسری شادی کرنے سے پہلے اس بات پر مجبور کیا گیا ہو کہ وہ حضورؐ کے سامنے یا صحابہ کی کسی پنچایت کے سامنے اپنی ضرورت ثابت کریں؟ رہی پہلی بیوی سے اجازت، تو یہ عجیب بات ہے کہ ایک مسلمان مرد اپنے نکاح کے معاملے میں اپنے باپ اور اپنی ماں سے تو اجازت لینے کا پابند نہ ہو، مگر بیوی سے اجازت لینے کا اسے پابند کیا جائے! غالباً یہ تجویز کسی ایسے زن مرید کے ذہن کی آفریدہ ہے جس کے نزدیک شادی ہو جانے کے بعد ایک آدمی کا تعلق ماں باپ سے کٹ جاتا ہے اور صرف بیوی ہی اس کی اکیلی سرپرست رہ جاتی ہے۔ اگر بیوی کی رضامندی کو اس بنا پر ضروری قرار دیا جاتا ہے کہ شوہر کے گھر میں ایک دوسری بیوی کا آجانا اس کے لیے پیچیدگیاں پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے، تو ہم پوچھتے ہیں کہ بیٹے کے گھر میں ایک اور بہو کا آجانا کیا وہ باپ اور ماں کے لیے کوئی پیچیدگی پیدا نہیں کرتا؟ آپ کی نگاہ میں ان بے چاروں کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟

آخری سہارا

ان تمام غلط تاویلات اور من گھڑت شرطوں کے بعد آخری سہارا اس واقعے سے لیا جاتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے دوسری شادی کرنی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس سے روک دیا۔ اس واقعے سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ دوسری شادی کرنا فی الواقع ایک بُری بات ہے، اسی لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو اس سے روک دیا۔ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ دلیل لائی جاتی ہے کہ ایک شخص کا نکاح ثانی اس کی بیوی اور سسرال والوں کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے، اسی لیے تو حضورؐ نے خود اپنی بیٹی پر سوکن کا آنا گوارا نہ فرمایا۔ لہٰذا اگر حضورؐ کی تقلید میں تمام لوگوں کو تعددِ ازواج سے روک دیا جائے تو آخر مضائقہ کیا ہے۔ یہ توعین سنت ِ رسول کی پیروی ہوگی۔
اب ذرا اصل واقعے کو دیکھیے جسے اسلام کے پورے قانونِ تعددِ ازواج پر خط ِنسخ پھیر دینے کے لیے بہانہ بنایا جارہا ہے۔
تفصیل اس قصے کی یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب ابوجہل کا خاندان مسلمان ہوگیا تو حضرت علیؓ نے اس کی بیٹی سے (جس کا نام کسی نے جویریہ، کسی نے غوراء اور کسی نے جمیلہ بیان کیا ہے) نکاح کرنا چاہا۔ لڑکی کے خاندان والوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی پر بیٹی نہ دیں گے جب تک آپؐ سے پوچھ نہ لیں۔ چنانچہ انہوں نے اس کا ذکر حضورؐ سے کیا۔ ایک روایت کی رُو سے خود حضرت علیؓ نے بھی اشارتاً کنایتاً حضورؐ سے اجازت طلب کی، اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بھی اس معاملے کا چرچا سن لیا اور جاکر اپنے والد ماجد سے اس کی شکایت کی۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا:
ان بنی ھشام بن المغیرۃ استاذ نونی ان ینکحوا ابنتھم علی ابن ابی طالب فلا اٰذن،ثم لا اٰذن، ثم لا اٰذن الا ان یرید ابن ابی طالب ان یطلق ابنتی و ینکج ابنتھم فانما ھی بضعۃ من یریبنی ما ارابھا و یوذینی ما اٰذا ھا۔
و انی لست احرامًا حلالا ولا احل حراماً ولکن و اللہ لا تجتمع بنت رسول اللہ و بنت عدو اللہ ابدًا (و فی روایۃ) ان فاطمۃ منی و انا اتخوف ان تفتن فی دینھا۔
بنی ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے اس بات کی اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی علی ابن ابی طالب کے نکاح میں دیں۔ میں اس کی اجازت نہیں دیتا، نہیں دیتا، نہیں دیتا، الایہ کہ ابوطالب کا بیٹا میری لڑکی کو طلاق دے کر ان کی لڑکی سے نکاح کرلے۔ میری لڑکی میرا ٹکڑا ہے، جو کچھ اسے ناگوار ہوگا وہ مجھے ناگوار ہوگا۔ اور جو چیز اسے تکلیف دے گی وہ مجھے تکلیف دے گی۔
میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کرتا۔ مگر خدا کی قسم! اللہ کے رسولؐ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی۔ (ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا) فاطمہ مجھ سے ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ وہ اپنے دین کے معاملے میں کہیں فتنے میں نہ پڑ جائے۔
اس واقعے پر آدمی کو یہ شبہ لاحق ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی بہت سی شادیاں کیں اور عام لوگوں کو بھی چار تک بیویاں بیک وقت رکھنے کی اجازت دی، مگر خود اپنی بیٹی پر ایک سوکن کا آنا بھی آپ نے گوارا نہ کیا۔ سوکن کے آنے سے جو اذیت آپؐ کی بیٹی کو اور بیٹی کی خاطر خود آپؐ کو ہوسکتی تھی، وہی اذیت دوسری عورتوں اور ان کے ماں باپ کو بھی تو لاحق ہوتی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آپؐ نے اپنے حق میں تو اسے برداشت نہ کیا اور دوسروں کے حق میں اسے جائز رکھا۔
بظاہر یہ ایک سخت اعتراض ہے اور معاملے کی سادہ صورت دیکھ کر آدمی بڑی الجھن میں پڑ جاتا ہے۔ لیکن تھوڑا سا غور کیا جائے تو اس کی حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے۔ یہ بات ناقابل انکار ہے کہ ایک عورت کا شوہر اگر دوسری بیوی لے آئے تو اس عورت کو فطرتاً ناگوار ہوتا ہے اور اس کے ماں باپ، بھائی بہن اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی اس سے اذیت ہوتی ہے۔ شریعت نے ایک سے زیادہ نکاحوں کی اجازت اس مفروضے پر نہیں دی ہے کہ یہ چیز اس عورت کو اور اس کے رشتہ داروں کو ناگوار نہیں ہوتی جس پر سوکن آئے، بلکہ اس امر واقعہ کو جانتے ہوئے شریعت نے اسے اس لیے حلال کیا ہے کہ دوسری اہم تر اجتماعی اور معاشرتی مصلحتیں اس کو جائز کرنے کی متقاضی ہیں۔ شریعت یہ بھی جانتی ہے کہ سوکنیں بہرحال سہیلیاں اور شوہر شریک بہنیں بن کر نہیں رہ سکتیں۔ ان کے درمیان کچھ نہ کچھ کش مکش اور چپقلش ضرور ہوگی اور خانگی زندگی تلخیوں سے محفوظ نہ رہ سکے گی۔ لیکن یہ انفرادی قباحتیں اس عظیم تر اجتماعی قباحت سے کم تر ہیں جو یک زوجی کو بطور قانون لازم کر دینے سے پورے معاشرے میں پیدا ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے شریعت نے تعددِ ازواج کو حلال قرار دیا ہے۔
اب دیکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں کیا پیچیدگی واقع ہوتی ہے۔ شرعاً آپ کی بیٹی پر بھی سوکن لانا آپ کے داماد کے لیے حلال تھا۔ اسی وجہ سے حضرت علیؓ نے ایسا کرنے کا ارادہ کیا، اور اسی وجہ سے حضورؐ نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ ان کے لیے یہ فعل حرام ہے، بلکہ آپ نے خود تصریح فرمائی کہ میں حلال کو حرام نہیں کرتا۔ لیکن یہاں حضورؐ کی ایک ہی شخصیت میں دو مختلف حیثیتیں جمع تھیں۔ ایک حیثیت میں آپؐ انسان تھے اور فطرتاً یہ ممکن نہ تھا کہ آپ کی صاحب زادی کے گھر میں سوکن آنے سے جو تلخی پیدا ہو اس کا تھوڑا یا بہت اثر آپؐ کی طبیعت پر نہ پڑے۔ دوسری حیثیت میں آپؐ اللہ کے رسول تھے اور رسول کی حیثیت سے آپؐ کا مقام یہ تھا کہ آپؐ کے ساتھ اگر کسی شخص کے تعلقات خراب ہو جائیں اور کوئی شخص آپؐ کے لیے موجب اذیت بن جائے تو اس کے دین و ایمان کی بھی خیر نہ تھی۔ اسی وجہ سے حضورؐ نے حضرت علیؓ کو بھی اور بنی ہشام بن مغیرہ کو بھی اس کام سے روک دیا۔ کیونکہ اگرچہ شرعاً یہ حلال تھا مگر اس کے کرنے سے یہ اندیشہ تھا کہ یہ چیز حضرت علیؓ اور ان کی دوسری بیوی اور اس کے خاندان والوں کے ایمان اور ان کی عاقبت کو خطرے میں ڈال دے گی۔
ایک اور بات جس کا حضورؐ نے اپنے خطبے میں ذکر فرمایا وہ یہ تھی کہ بنی ہشام بن مغیرہ اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین دشمن رہ چکے تھے اور فتح مکہ کے بعد تازہ تازہ مسلمان ہوئے تھے۔ خود اس لڑکی کے باپ ابوجہل کے متعلق تو سب کو معلوم ہے کہ حضورؐ کی دشمنی میں وہ تمام کفار سے بازی لے گیا تھا۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ جنگ بدر میں وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا اور اس کا خاندان برسوں اس کے جذبۂ انتقام میں تڑپتا رہا۔ اب اگرچہ یہ لوگ اسلام قبول کرچکے تھے، لیکن یہ تحقیق ہونا ابھی باقی تھا کہ یہ قبول اسلام واقعی پورے اخلاص اور قلوب کی مکمل تبدیلی کا ثمرہ ہے یا محض شکست کا نتیجہ۔ اس حالت میں اس خاندان کی لڑکی اور وہ بھی خاص ابوجہل کی بیٹی کا اُس گھر میں سوکن بن کر پہنچ جانا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادی ملکۂ بیت تھیں، بڑے فتنوں کا سبب بن سکتا تھا۔ ان لوگوں کی تالیف قلب تو کی جاسکتی تھی اور کی بھی گئی، لیکن اسلام کے ساتھ ان کے تعلق کا حال جب تک ٹھیک ٹھیک معلوم نہ ہو جائے انہیں عین خاندان رسالت میں گھسا لانا اور خود رسول اکرم کی صاحب زادی کے بالمقابل لاکھڑا کرنا سخت نامناسب اور پر خطر تھا۔ اس وجہ سے بھی حضورؐ نے اس رشتے کو ناپسند فرمایا اور علی الاعلان کہا کہ خدا کے رسول کی بیٹی اور خدا کے دشمن کی بیٹی ایک گھر میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ نیز اس بات کی طرف بھی آپؐ نے اشارہ فرما دیا کہ اس سے فاطمہؓ کے فتنے میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک فرد کو اپنے بیاہ شادی کے معاملے میں (اگرچہ وہ بجائے خود حلال ہی سہی) ایسی آزادی نہیں دی جاسکتی جس سے ایک پوری ملت کے لیے فتنہ و شر کا خطرہ پیدا ہو جائے۔
بے شک یہاں یہ اعتراض اٹھ سکتا ہے کہ ابوجہل کے خاندان سے ابوسفیان کا خاندان اسلام کی عداوت میں کچھ کم نہ تھا، پھر اگر ابوجہل کے خاندان کی لڑکی کا خانوادۂ رسالت میں آنا موجب فتنہ ہوسکتا تھا تو ابوسفیان کی صاحب زادی (حضرت ام حبیبہؓ) کا خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں شامل ہو جانا کیوں خطرے سے خالی تھا؟ لیکن دونوں کے حالات کا فرق نگاہ میں ہو تو یہ اعتراض آپ سے آپ ختم ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ابوجہل کی لڑکی اور ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ کا سرے سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ ابوجہل کی لڑکی اور اس کے چچا اور بھائی، سب کے سب فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے۔ ان کے بارے میں یہ امتحان ہونا ابھی باقی تھا کہ ان کا ایمان کس حد تک اخلاص پر مبنی ہے اور کہاں تک اس میں شکست خوردگی کا اثر ہے۔ بخلاف اس کے حضرت ام حبیبہؓ اس بڑے سے بڑے امتحان سے گزر کر، جو اکابر صحابہ میں سے بھی کم ہی کسی کو پیش آیا تھا، اپنے کمال اخلاص اور اپنی صداقت ایمانی کا ثبوت دے چکی تھیں۔ انہوں نے دین کی خاطر وہ قربانیاں کی تھیں جن کی نظیر مشکل ہی سے کہیں اور نظر آسکتی ہے۔ ذرا غور کیجیے! ابوسفیان کی بیٹی، ہند بنت عتبہ (مشہور ہند جگر خوار) کی لخت جگر، جس کی پھوپھی وہ عورت تھی جسے قرآن میں حما لۃالحطب کا خطاب دیا گیا ہے، جس کا نانا عتبہ بن ربیعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن تھا، اس خاندان سے اور اس ماحول سے نکل کر وہ حضرت عمرؓ اور حضرت حمزہؓ سے بھی پہلے ایمان لاتی ہیں۔ اپنے شوہر کو مسلمان کرتی ہیں۔ خاندان والوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مہاجرین حبشہ کے ساتھ ہجرت کر جاتی ہیں۔ حبش جاکر شوہر عیسائی ہو جاتا ہے اور وہ دین کی خاطر اس کو بھی چھوڑ دیتی ہیں۔ غریب الوطنی کی حالت میں تن تنہا ایک چھوٹی سی بچی کے ساتھ رہ جاتی ہیں مگر ان کے عزم ایمانی میں ذرہ برابر تزلزل نہیں آتا۔ کئی برس جب اس حالت میں گزر جاتے ہیں اور ایک بے سہارا خاتون دیارِ غیر میں ہر طرز کے مصائب جھیل کر یہ ثابت کر دیتی ہے کہ دین کو جس پائے کا خلوص، جس مرتبے کی سیرت اور جس درجے کا کردار مطلوب ہے، وہ سب یہاں موجود ہے، تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ انتخاب ان پر پڑتی ہے اور آپ حبش ہی میں ان کو نکاح کا پیغام بھیجتے ہیں۔ غزوۂ خیبر کے بعد وہ حبش سے واپس آکر حرم نبوی میں داخل ہوتی ہیں۔ اس کے تھوڑی ہی مدت بعد قریش صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں اور ان کو اندیشہ ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اب مکے پر چڑھائی کر دیں گے۔ اس موقع پر ابوسفیان صلح کی بات چیت کے لیے مدینے آتا ہے اور اس امید پر بیٹی کے ہاں پہنچتا ہے کہ اس کے ذریعہ صلح کی شرائط طے کرنے میں سہولت ہوگی۔ برسوں کی جدائی کے بعد پہلی مرتبہ باپ سے بیٹی کو ملنے کا موقع ملتا ہے، مگر جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرش پر بیٹھنے کا ارادہ کرتا ہے تو بیٹی فوراً یہ کہہ کر فرش اٹھا لیتی ہے کہ رسول خدا کے فرش پر ایک دشمن اسلام نہیں بیٹھ سکتا۔
ایسی خاتون کا خانوادۂ رسالت میں داخل ہونا تو ہیرے کا ہار میں ٹھیک اپنی جگہ پالینا تھا۔ اس سے کسی فتنے کے رُونما ہونے کا کوئی بعید ترین امکان کیا، وہم بھی نہ ہوسکتا تھا۔ البتہ اُس لڑکی کا اس خاندان میں آنا ضرور فتنے کے امکانات اپنے اندر رکھتا تھا جسے اور جس کے خاندان کو صرف فتح مکہ نے اسلام میں داخل کیا تھا اور اسلام میں آئے ہوئے جس کو ابھی صرف چند مہینے ہی ہوئے تھے۔ اسی کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوسکتا تھا کہ اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت کے اثرات سے اس کا اور اس کے خاندان والوں کا دل پوری طرح پاک ہوا ہے یا نہیں۔
یہ ہے اس واقعے کی اصل حقیقت۔ اس مخصوص واقعے میں مخصوص حالات کی بنا پر جو حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا اُس کو ایسی قانون سازی کے لیے آخر کس طرح دلیل بنایا جاسکتا ہے جو قرآن اور سنت اور دَور صحابہ سے لے کر آج تک کے متفق علیہ قانون کو منسوخ کرکے رکھ دے۔

دو ٹوک بات

اس بحث کو ختم کرنے سے پہلے ہم نئے دَور کے ان مجتہدین سے ایک بات صاف صاف عرض کر دینا چاہتے ہیں:
اوّل یہ کہ دنیا میں جہاں بھی قانونی یک زوجی (Legal Monogamy) رائج کی گئی ہے وہاں غیر قانونی تعددِ ازواج (lllegal polygamy) کو فروغ نصیب ہو کر رہا ہے۔ آپ کوئی مثال ایسی پیش نہیں کرسکتے کہ قانونی یک زوجی نے کہیں کسی زمانے میں بھی عملی یک زوجی کی شکل اختیار کی ہو۔ اس کے برعکس اس قانونی پابندی کا نتیجہ ہر جگہ یہی ہوا ہے کہ آدمی کی جائز بیوی تو صرف ایک ہوتی ہے، مگر حدود نکاح سے باہر وہ عورتوں کی غیر محدود تعداد سے عارضی اور مستقل، ہر طرح کے ناجائز تعلقات پیدا کرتاہے، جن کی کوئی ذمہ داری وہ قبول نہیں کرتا، جن کے کوئی حقوق اس پر عائد نہیں ہوتے، جن سے پیدا ہونے والی ناجائز اولاد سے بھی وہ بالکل بری الذمہ ہوتا ہے۔ اب آپ کے سامنے اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ آپ یک زوجی کو اختیار کریں یا تعدد ازواج کو۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ قانونی تعددِ ازواج کو قبول فرماتے ہیں یا غیر قانونی تعددِ ازواج کو؟ اگر پہلی چیز آپ کو قبول نہیں ہے تو دوسری چیز آپ کو لازمًا قبول کرنی پڑے گی، اور اس کے ساتھ کنواری مائوں اور حرامی بچوں کی اُس روز افزوں تعداد کا بھی خیر مقدم کرنا ہوگا جو قانونی یک زوجی پر عمل کرنے والے ملکوں کے لیے ایک پریشان کن مسئلہ بن چکی ہے۔ اگر آپ اس خیال خام میں مبتلا ہیں کہ جس حماقت کے بُرے نتائج دوسرے دیکھ چکے ہیں اُس کا ارتکاب کرکے وہ نتائج دیکھنے سے آپ بچے رہ جائیں گے، تو تجربہ آپ کوبتا دے گا کہ آپ احمقوں کی جنت میں بستے تھے۔ مگر اُس وقت آپ کی آنکھیں کھلیں گی بھی تو اس کا فائدہ کچھ نہ ہوگا۔ کیونکہ جس فساد کا دروازہ آپ کھول چکے ہوں گے اسے بند کرنا آپ کے بس میں نہ ہوگا۔
ایک طرف تو آپ مغرب کی اندھی تقلید میں فحش لٹریچر، عریاں تصاویر، شہوانی موسیقی، اورہیجان انگیز فلموں کا سیلاب ملک میں لارہے ہیں جو لوگوں کے صنفی جذبات کو ہر وقت بھڑکاتا رہتا ہے۔ دوسری طرف آپ مخلوط تعلیم کو رواج دے رہے ہیں، ’’ثقافت‘‘ کے پروگرام چلا رہے ہیں، روز بروز زیادہ سے زیادہ عورتوں کو ملازمتوں میں کھینچ کھینچ کر لارہے ہیں، جس کی بدولت بنی سنوری عورتوں کے ساتھ مردوں کے
اختلاط کے مواقع بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اس کے بعد اب آپ کے تازہ اقدامات یہ ہیں کہ تعددِ ازواج پر آپ نے ایسی پابندیاں لگانی شروع کی ہیں جن سے وہ عملاً ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہو جاتا ہے، اور ۱۶ سال سے کم عمر کی لڑکی اور ۱۸ سال سے کم عمر کے لڑکے کی شادی آپ نے قانوناً ممنوع کر دی ہے۔ کیا اس کا صاف مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے اس ملک کوزناکے طوفان میں غرق کر دینے ہی کا فیصلہ کرلیا ہے؟