مسئلہ قربانی

ریڈ مودودی ؒ   کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

مسئلۂ قربانی شرعی اور عقلی نقطۂ نظر سے پاکستان میں قربانی کے خلاف مہم

کئی سال سے مسلسل یہ دیکھا جارہا ہے کہ ہر بقر عید کے موقع پر اخبارات اور رسالوں کے ذریعہ سے بھی اور اشتہاروں اور پمفلٹوں کی صورت میں بھی قربانی کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان اٹھایا جاتا ہے اور ہزاروں بندگان خدا کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا جاتا ہے کہ یہ کوئی دینی حکم نہیں ہے بلکہ ایک غلط اور نقصان دہ رسم ہے جو ملائوں نے ایجاد کرلی ہے۔ اس وسوسہ اندازی کے خلاف قریب قریب ہر سال ہی علما کی طرف سے مسئلے کی پوری وضاحت کر دی جاتی ہے، قربانی کے ایک حکم شرعی ہونے، مسنون اور واجب ہونے کے دلائل دیے جاتے ہیں، اور مخالفین کے استدلال کی کم زوریاں کھول کر رکھ دی جاتی ہیں۔ لیکن ہر مرتبہ یہ سب کچھ ہو چکنے کے بعد دوسرے سال پھر دیکھا جاتا ہے کہ وہی لگی بندھی باتیں اسی طرح دہرائی جارہی ہیں، گویا نہ کسی نے قربانی کے مشروع ہونے کا کوئی ثبوت دیا اور نہ اس کے خلاف دلیلوں کی کوئی کم زوری واضح کی۔ بلکہ اب تو ایک قدم اور آگے بڑھا کر حکومت کو بے تکلف یہ مشورہ دیا جارہا ہے کہ وہ قربانی کو ازرُوئے قانون محدود کرنے کی کوشش کرے۔

اس پروپیگنڈے کا اثر ہندی مسلمانوں پر

ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جو ابھی چند سال پہلے تک متحدہ ہندوستان کا ایک حصہ تھا۔ ہماری سرحد کے اس پار ہمارے کروڑوں دینی بھائی اب بھی سابق متحدہ ہندوستان کے اس حصے میں موجود ہیں جس سے ہم الگ ہوئے تھے۔ انھیں آج بھی اسی قوم سے سابقہ درپیش ہے جس سے کبھی ہمیں درپیش تھا، بلکہ وہ آج تقسیم سے قبل کی بہ نسبت بدر جہا زیادہ کم زوری اور مغلوبی کی حالت میں مبتلا ہیں۔ ان پر جس قوم کو غلبہ حاصل ہے وہ سال ہا سال سے گائے کی قربانی پر ہمارے ساتھ سر پھٹول کرتی رہی تھی، اور تقسیم کے بعد جب اسے مسلمانوں پر پورا قابو حاصل ہواتو اس نے سب سے پہلے انھیں اسی حق سے محروم کیا۔ اب یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ پاکستان جو ہندو تہذیب و تمدن کے تسلط سے مسلمانوں کے تہذیب و تمدن کو بچانے کے لیے بنا تھا، وہی آگے بڑھ کر ہندوستان کے ہندوئوں کو یہ راہ نُمائی دے کہ مہاراج گائے کی قربانی کیسی، آپ تو ہر قسم کی قربانی ازروئے قانون بند کرسکتے ہیں۔ یہ چیز سرے سے شعائر اسلام میں داخل ہی نہیں ہے کہ اسے روک دینے پر آپ کو کسی مذہبی تعصب کا الزام دیا جاسکے۔ حق بجانب وہ مسلمان نہیں ہے جو اسے اپنا مذہبی حق کَہ کر اس پر اصرار کرتا ہے، بلکہ وہ ہندو ہے جو اس غیر مذہبی رسم سے اسے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمیں تو پاکستان میں اس جاہل مسلم اکثریت سے سابقہ ہے، اس لیے یہاں ہم بربنائے احتیاط بتدریج اسے محدود کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ آپ کو تو کسی کا ڈر نہیں ہے۔ آپ یک قلم اسے مسدود فرما دیں۔ اس معاملے میں شریعت ِ اسلام مسلمانوں کے ساتھ نہیں بلکہ آپ کے ساتھ ہوگی۔
کس قدر جلد بھُولے ہیں ہم اس حالت کو جس سے خدا نے ہمیں نکالا اور جس میں ہمارے کروڑوں بھائی اب بھی مبتلا ہیں۔ شاید برطانوی ہند میں ہندوئوں سے ہماری کش مکش صرف اس لیے تھی کہ اپنی تہذیب کا جھٹکا دوسروں سے کرانے کی بجائے ہم خود اسے حلال کرنا چاہتے تھے۔

شیطانی ذوق تفرقہ اندازی

مسلمانوں میں اختلافات کی پہلے ہی کوئی کمی نہ تھی۔ یہ تفرقوں کی ماری ہوئی قوم فی الواقع رحم کی مستحق تھی۔ کسی کے دل میں اس کی خیر خواہی کا جذبہ موجود ہوتا تو وہ یہ سوچتا کہ اس کے اختلافات میں اتفاق کی کوئی راہ دریافت کرے لیکن یہاں حال یہ ہے کہ جو لوگ خیر خواہی کے ارادے یا دعوے سے اٹھتے ہیں وہ ان چیزوں میں بھی اختلاف کی راہیں نکال رہے ہیں جن میں خوش قسمتی سے مسلمانوں کے درمیان ابتدا سے آج تک اتفاق موجود ہے۔ گویا ان حضرات کے نزدیک دین کی اصل خدمت اور ملت کی صحیح خیر خواہی یہ ہے کہ متفق علیہ مسائل کو بھی کسی نہ کسی طرح اختلافی بنا دیا جائے اور کوئی چیز ایسی نہ چھوڑی جائے جس کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ سب مسلمان اس میں متفق ہیں۔
قربانی کا مسئلہ ایسے ہی متفق علیہ مسائل میں سے ہے۔ پہلی صدی ہجری کے آغاز سے آج تک مسلمان اس پر متفق رہے ہیں۔ اسلامی تاریخ کی پوری پونے چودہ صدیوں میں آج تک اس کے مشروع اور مسنون ہونے میں اختلاف نہیں پایا گیا ہے۔ اس میں ائمۂ اربعہ اور اہل حدیث متفق ہیں۔ اس میں شیعہ اور سنی متفق ہیں۔ اس میںقدیم زمانے کے مجتہدین بھی متفق تھے اور آج کے سب گروہ بھی متفق ہیں۔ اب یہ تفرقہ و اختلاف کا شیطانی ذوق نہیں تو اور کیا ہے کہ کوئی شخص ایک نرالی بات لے کر اٹھے اور اس متفق علیہ اسلامی طریقے کے متعلق بیچارے عام مسلمانوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرے کہ یہ تو سرے سے کوئی اسلامی طریقہ ہی نہیں ہے۔

تفریق بین اللہ و الرسول

پھر یہ اختلاف بھی کسی معمولی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک بہت بڑی فتنہ انگیز بنیاد پر اٹھایا گیا ہے۔ یعنی سوال یہ چھیڑا گیا ہے کہ یہ بقر عید کی قربانی آخر تم کس سند Authority پر کرتے ہو، قرآن میں تو اس کا کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہوا کہ اسلام میں سند صرف ایک قرآن ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کوئی سند نہیں ہے۔ حالانکہ جس خدا نے قرآن نازل کیا ہے، اُسی نے اپنا رسولؐ بھی مبعوث کیا تھا۔ اس کا رسولؐ اسی طرح ایک اتھارٹی ہے جس طرح اس کی کتاب۔ اس کے رسولؐ کی اتھارٹی کسی طرح بھی اس کی کتاب کی اتھارٹی سے کم نہیں ہے، نہ وہ کتاب کے ساتھ کوئی ضمنی حیثیت رکھتی ہے، نہ اس کے ذریعے سے دیے ہوئے کسی حکم کے لیے قرآن کی توثیق کسی درجے میں بھی ضروری ہے، بلکہ حق تو یہ ہے کہ قرآن جس کی سند پر کلام اللہ مانا گیا ہے وہ بھی رسولؐ ہی کی سند ہے۔ اگر رسولؐ نے یہ نہ بتایا ہوتا کہ یہ قرآن خدا نے اسؐ پر نازل کیا ہے تو ہمارے پاس نہ یہ جاننے کا کوئی ذریعہ تھا اور نہ یہ ماننے کی کوئی وجہ تھی کہ یہ کتاب خدا کی کتاب ہے۔ اب یہ کس طرح صحیح ہوسکتا ہے کہ جو حکم رسولؐ نے دیا ہو اور جس طریقے پر رسولؐ نے خود عمل کیا اور اہل ایمان کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کی ہو، اس کے متعلق یہ کہا جائے کہ اس کا حکم قرآن میں ہو تو ہم مانیں گے ورنہ پیروی سے انکار کر دیں گے؟ اس کے معنی اس کے سوا اور کیا ہیں کہ خدا کی کتاب تو واجب الاتباع ہے مگر خدا کا رسولؐ واجب الاتباع نہیں ہے!

منصبِ رسولؐ

یہ بات حقیقت کے خلاف بھی ہے اور سخت فتنہ انگیز بھی۔
حقیقت کے خلاف یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ اللہ محض ایک ڈاکیا بنا کر نہیں بھیجا تھا کہ آپ کاکام اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچا دینے کے بعد ختم ہو جائے اور اس کے بعد بندے اللہ میاں کے نامۂ گرامی کو لے کر جس طرح ان کی سمجھ میں آئے اس کی تعمیل کرتے رہیں۔ خود قرآن کی رُو سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی نوعیت کفار کے لیے الگ اور اہل ایمان کے لیے الگ ہے۔ کفار کے لیے آپ صرف مبلغ اور داعی الی اللہ ہیں۔ مگر جو لوگ ایمان لے آئیں ان کے لیے تو آپ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے مکمل نمایندے ہیں۔ آپ کی اطاعت عین اللہ کی طاعت ہے۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہِ۔ آپ کے اتباع کے سوا اللہ کی خوشنودی کا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ[آل عمران3:31]اللہ نے آپؐ کو اپنی طرف سے معلم، مربی، راہ نما، قاضی، آمروناہی اور حاکم مطاع، سب کچھ بنا کر مامور فرمایا تھا۔ آپ کاکام یہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے عقیدہ و فکر، مذہب و اخلاق، تمدن و تہذیب، معیشت و سیاست، غرض زندگی کے ہر گوشے کے لیے وہ اصول، طریقے اور ضابطے مقرر کریں جو اللہ کی پسند کے مطابق ہوں اور مسلمانوں کا فرض یہ ہے کہ جو کچھ آپ نے سکھایا اور مقرر کیا ہے اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے کوئی شخص یہ حق نہیں رکھتا کہ رسول اللہؐ جو حکم دیں اس پر ان سے سند طلب کرے۔ رسولؐ کی ذات خود سند ہے۔ اس کا حکم بجائے خود قانون ہے۔ اس کے مقابلے میں کوئی مسلمان یہ سوال کرنے کا مجاذ نہیں ہے کہ جو حکم رسولؐ نے دیا ہے اس کا حوالہ قرآن میں ہے یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کوئی ہدایت خواہ اپنی کتاب کے ذریعہ سے دے یا اپنے رسولؐ کے ذریعہ سے، سند اور وزن کے اعتبار سے دونوں بالکل یکساں ہیں اور قانونِ الٰہی ہونے میں ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔

رسالت کا غلط تصوُّر

بالکل غلط کہتا ہے جو کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام، فیصلوں اور ہدایات کی قانونی حیثیت صرف اپنے عہد کے رئیس مملکت Head of the state ہونے کی بنا پر تھی۔ یعنی جب آپ رئیس مملکت تھے اس وقت آپ کی اطاعت واجب تھی اور اب جو رئیس مملکت یا مرکز ملت ہوگا اس کی اطاعت اب واجب ہوگی۔ یہ رسالت کا بدترین تصورہے جو کسی شخص کے ذہن میں آسکتا ہے۔ اسلامی تصور رسالت سے اسے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ رئیس مملکت کے منصب کو آخر رسولؐ کے منصب سے کیا نسبت ہے۔ اسے عام مسلمان منتخب کرتے اور وہی معزول کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ حالانکہ رسول کو خدا مقرر کرتا ہے اور خدا کے سوا کسی کو اسے معزول کرنے کا اختیار نہیں۔ رئیس مملکت جس علاقے کا رئیس ہو اور جب تک اس منصب پر رہے صرف اسی علاقے میں اسی وقت تک اسے رئیس ماننا واجب ہے اور پھر بھی اس پر ایمان لانے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی اسے نہ مانے تو ملت اسلام سے خارج ہو جائے۔ حالانکہ رسولؐ جس آن مبعوث ہوا اس وقت سے قیامت تک دنیا میں کوئی شخص اس پر ایمان لائے بغیر ملت اسلامیہ کا فرد نہیں بن سکتا۔ رئیس مملکت کو آپ دل میں برا جان سکتے ہیں، اسے برملا برا کہ سکتے ہیں، اس کے قول و فعل کو علانیہ غلط کہ سکتے ہیں، اور اس کے فیصلوں سے اختلاف کرسکتے ہیں۔ لیکن رسول کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرنا تو درکنار، اس کا خیال بھی اگر دل میں آجائے تو ایمان سلب ہو جائے۔ رئیس مملکت کے حکم کو ماننے سے آپ صاف انکار کرسکتے ہیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ بس ایک جرم ہوگا۔ مگر رسول کا حکم اگر یہ جاننے کے بعد کہ وہ رسولؐ کا حکم ہے، آپ ماننے سے انکار کر دیں تو قطعی خارج از اسلام ہو جائیں۔ اس کے حکم پر تو آپ چون و چرا تک نہیں کرسکتے، بلکہ اس کے خلاف دل میں کوئی تنگی تک محسوس کرنا ایمان کے منافی ہے۔ رئیس مملکت عوام کا نمایندہ ہے اور رسول خدا کا نمایندہ۔ رئیس مملکت کی زبان قانون نہیں ہے بلکہ الٹا قانون اس کی زبان پر حاکم ہے۔ مگر رسول خدا کی زبان قانون ہے، کیوں کہ خدا اسی زبان سے اپنا قانون بیان کرتا ہے۔ اب یہ کیسا سخت طغیانِ جاہلیت ہے کہ رسول کو محض ایک علاقے اور زمانے کے رئیس مملکت کی حیثیت دے کر کہا جائے کہ اس کے دیے ہوئے احکام اور ہدایت بس اسی زمانے اورعلاقے کے لوگوں کے لیے واجب الاتباع تھے، آج ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

غلط تصو ر کی فتنہ انگیزی

یہ تو ہے حقیقت کے خلاف اس تصور کی بغاوت۔ اب ذرا اس کی فتنہ انگیزی کا اندازہ کیجیے۔ آج جس چیز کو آپ اسلامی نظام حیات اور اسلامی تہذیب و تمدن کہتے ہیں، جس کے اصولوں اور عملی مظاہر کی یکسانی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک ملت بنا رکھا ہے۔ جس کی یک رنگی نے مسلم کو مسلم سے جوڑا اور کافر سے توڑا ہے، جس کی امتیازی خصوصیات نے مسلمانوں کو ساری دنیا میں غیر مسلموں سے ممیز کیا اور سب سے الگ ایک مستقل امت بنایا ہے، اس کا تجزیہ کرکے آپ دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس کا کم از کم ۱۰ /۹ حصہ وہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقتدار رسالت سے مسلمانوں میں رائج کیا ہے اور بمشکل ۱۰ /۱ حصہ ایسا ہے جس کی سند قرآن میں ملتی ہے۔ پھر اس۱۰/ ۱ کا حال بھی یہ ہے کہ اگر اس پر عمل در آمد کی صورت شریعت میں واجب الاتباع نہ ہو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی ہے تو دنیا میں مختلف مسلمان …… افراد بھی اور گروہ بھی اور ریاستیں بھی۔ اس پر عمل درآمد کی اتنی مختلف شکلیں تجویز کرلیں کہ ان کے درمیان کوئی وحدت یک رنگی باقی نہ رہے۔ اب خود اندازہ کر لیجیے کہ اگر وہ سب کچھ ساقط کر دیا جائے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رواج دینے سے مسلمانوں میں رائج ہے تو اسلام میں باقی کیا رہ جائے گا جسے ہم اسلامی تہذیب و تمدن کہ سکیں اور جس پر دنیا بھر کے مسلمان مجتمع رہ سکیں۔

چند مثالیں اور نتائج

مثال کے طور پر دیکھیے۔ یہ اذان جو دنیا بھر میں مسلمانوں کا سب سے زیادہ نمایاں ملی شعار ہے، جسے رُوئے زمین کے ہر گوشے میں ہر روز پانچ وقت مسلم اور کافر سب سنتے ہیں، اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے مقرر اور رائج کیا ہے۔ قرآن میں اس کا کوئی حکم نہیں۔ نہ وہ اس کے الفاظ بتاتا ہے نہ یہ حکم دیتا ہے کہ روزانہ پانچ وقت نمازوں سے پہلے یہ پکار بلند کی جائے۔ اس میں ایک جگہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ:
ا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ
الجمعہ62:9
’’جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے روز تو دوڑو اللہ کی یاد کی طرف۔‘‘
ظاہر ہے کہ یہ پکار سن کر دوڑنے کا حکم ہے، خود اس پکار کا حکم نہیں ہے، دوسری جگہ اہل کتاب کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ:
وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْھَا ھُزُوًا وَّ لَعِبًا المائدہ5:58
’’جب تم نماز کے لیے پکارتے ہو تو وہ اسے مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں۔‘‘
یہ سرے سے کوئی حکم ہی نہیں ہے بلکہ صرف ایک رائج شدہ چیز کا مذاق اڑانے پر اہل کتاب کی مذمت کی جارہی ہے سوا یہ ہے کہ اگر وہ اختیار و اقتدار جس نے اس اذان کے الفاظ مقرر کیے اور اسے مسلمانوں میں رواج دیا، دائمی عالم گیر شریعت مقرر کرنے کا مجاز نہ ہوتا تو کیا صرف ان دو آیتوں کی بنیاد پر آج دنیا میں آپ اذان کی آواز کہیں سن سکتے تھے؟
خود یہ نماز باجماعت جس کے لیے اذان دی جاتی ہے، اور یہ نماز جمعہ جس کی پکار سن کر دوڑنے کا حکم دیا گیا ہے، اور یہ عیدین کی نمازیں جو ہزارہا مسلمانوں کو اکٹھا کرتی ہیں، اور یہ مسجدیں جو دنیا بھر میں مسلم معاشرے کی اجتماعی زندگی کے لیے مرکز کی حیثیت رکھتی ہیں، ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جس کا حکم قرآن میں دیا گیا ہو۔ قرآن صرف نماز کا حکم دیتا ہے، باقاعدہ نماز باجماعت ادا کرنے کا کوئی صاف حکم نہیں دیتا۔ جمعہ کی نماز کے لیے وہ صرف یہ کہتا ہے کہ جب اس کے لیے پکارا جائے تو دوڑ پڑو۔ اسے خود نماز جمعہ قائم کرنے کا حکم مشکل ہی سے کہا جاسکتا ہے۔ عیدین کی نمازوں کا تو سرے سے اس میں کوئی ذکر ہی نہیں۔ رہیں مسجدیں تو ان کے احترام کا حکم ضرور قرآن میں دیا گیا ہے مگر یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ اے مسلمانو! تم اپنی ہر بستی میں مسجد تعمیر کرو اور اس میں ہمیشہ نماز باجماعت قائم کرنے کا اہتمام کرو۔ یہ ساری چیزیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اختیار و اقتدار کی بنا پر جس کے ساتھ اللہ نے آپ کو شارع مقرر کیا تھا، مسلمانوں میں رائج کی ہیں۔ اگر یہ اختیار و اقتدار مسلم نہ ہوتا تو اسلام کے یہ نمایاں ترین شعائر، جن کا مسلمانوں کو مجتمع کرنے اور ایک یک رنگ امت بنانے اور اسلامی تہذیب کی صورت گری کرنے میں سب سے زیادہ حصہ ہے، کبھی قائم نہ ہوتے اور مسلمان آج مسیحیوں سے بھی زیادہ منتشرو پراگندہ ہوتے۔
یہ صرف سامنے کی چند مثالیں ہیں۔ ورنہ تفصیل کے ساتھ دیکھا جائے تو معلوم ہو کہ اگر ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف ایک کتاب ہی ملی ہوتی اور اس کے ساتھ اللہ کے رسولؐ نے آکر انفرادی زندگی سے لے کر خاندان، معاشرے اور ریاست تک کے معاملات میں ہمارے لیے تہذیب کی ایک متعین صورت نہ بنا دی ہوتی تو آج ہم ایک ممتاز عالم گیر ملت واحدہ کی حیثیت سے موجود نہ ہوتے۔ اب جو شخص اس رسالت کی شرعی حیثیت اور اس کی قانونی سند کو چیلنج کرتا ہے اس کے اس چیلنج کی زد ایک قربانی کے مسئلے یا دو چار منفرد مسئلوں پر نہیں پڑتی، بلکہ اسلامی تہذیب کے پورے نظام اور ملتِ اسلامیہ کی اساس و بنیاد پر پڑتی ہے۔ جب تک ہم بالکل خود کشی پر آمادہ نہ ہو جائیں ہمارے لیے کسی کی یہ بات ماننا محال ہے کہ جس چیز کی سند قرآن میں ملے بس وہی باقی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سند پر جتنی چیزوں کا مدار ہے وہ سب ساقط کر دی جائیں۔

سنت، قرآن کی عملی تشریح ہے

اعتراض کی اس غلط بنیاد اور اس کے خطرناک نتائج کو سمجھ لینے کے بعد اب بجائے خود اس مسئلے کو دیکھیے جس پر اعتراض کیا جارہا ہے۔ قربانی کے متعلق یہ کہنا کہ قرآن میں سرے سے اس کا کوئی حکم ہی نہیں ہے، خلاف واقعہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ قرآن وہ اصولی حقائق بیان کرتا ہے جن کی بنا پر انسان کو اللہ تعالیٰ کے لیے جانوروں کی قربانی کرنی چاہیے، اور پھر اس کا عام حکم دے کر چھوڑ دیتا ہے۔اس حکم پر عمل درآمد کیسے کیا جائے، اس کی کوئی تصریح وہ نہیں کرتا۔ یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا کہ آپ اسی خدا کی ہدایت کے تحت جس نے قرآن آپ پر نازل کیا تھا، اس کی عملی صورت، اس کا وقت، اس کی جگہ اور اس کے ادا کرنے کا صحیح طریقہ مسلمانوں کوبتائیں اور خود اس پر عمل کرکے دکھائیں۔ یہ کام تنہا ایک قربانی کے متعلق ہی نہیں، قرآن کے دوسرے احکام کے متعلق بھی حضورؐ نے کیا ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، نکاح، طلاق، وراثت، غرض مسلم معاشرے کے مذہب، تمدن و معاشرت، معیشت و سیاست، قانون و عدالت اور صلح و جنگ کے تمام معاملات میں یہی کچھ ہوا ہے کہ قرآن نے کسی کے بارے میں مختصر اور کسی کے بارے میں کچھ تفصیل کے ساتھ احکام دیے، یا صرف اشارۃً اللہ تعالیٰ کی مرضی بیان کر دی، اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عملی جامہ پہنانے کی صورتیں واضح حدود کے ساتھ متعین فرمائیں، ان پر خود کام کرکے دکھایا، اور اپنی راہ نمائی میں انھیں رائج کیا۔ کوئی صاحب عقل آدمی اس میں شک نہیں کرسکتا کہ کتابی راہ نمائی کے ساتھ یہ عملی راہ نمائی بھی انسانوں کو درکار تھی اور اس راہ نمائی کے لیے اللہ کے رسولؐ کے سوا کوئی دوسرا نہ موزوں ہوسکتا تھا نہ مجاز۔

قربانی کے قرآنی احکام اور ان کی حکمت

قرآن میں اس مسئلے کے متعلق جو اصولی باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں وہ یہ ہیں:
۱۔ عبادت کی تمام وہ صورتیں جو انسان نے غیر اللہ کے لیے اختیار کی ہیں، دین حق میں وہ سب غیر اللہ کے لیے حرام اور خالصًا اللہ تعالیٰ کے لیے واجب کر دی گئیں۔ مثلاً: انسان غیر اللہ کے آگے جھکتا اور سجدے کرتا تھا۔ دین حق نے اسے اللہ کے لیے مخصوص کر دیا اور اس کے لیے نماز کی صورت مقرر کر دی۔ انسان غیر اللہ کے سامنے مالی نذرانے پیش کرتا تھا۔ دین حق نے اسے اللہ کے لیے خاص کر دیا اور اس کی عملی صورت زکوٰۃ مقرر کر دی۔ انسان غیر اللہ کے نام پر روزے رکھتا تھا۔ دین حق نے اسے بھی اللہ کے لیے مختص کر دیا اور اس غرض کے لیے رمضان کے روزے فرض کر دیے۔ انسان غیر اللہ کے لیے تیرتھ یاترا کرتا اور استھانوں کے طواف کرتا تھا۔ دین حق نے اس کے لیے ایک بیت اللہ بنایا اور اس کا حج اور طواف فرض کر دیا۔ اسی طرح انسان قدیم ترین زمانے سے آج تک غیر اللہ کے لیے قربانی کرتا رہا ہے۔ دین حق نے اسے بھی غیر اللہ کے لیے حرام کر دیا اور حکم دیا کہ یہ چیز بھی صرف اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔ چنانچہ دیکھیے، ایک طرف قرآن مجیداُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ [المائدہ5:3] (جسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو)اور وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ [المائدہ5:3](جسے استھانوں پر ذبح کیا گیا ہو) کو قطعی حرام قرار دیتا ہے اور دوسری طرف حکم دیتا ہے کہفَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ [الکوثر108:2] اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھ اور اُسی کے لیے قربانی کر۔
۲۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں بھی عطا فرمائی ہیں ان سب کا شکریہ اس پر واجب ہے۔ اور یہ شکریہ ہر نعمت کے لیے قربانی اور نذرانہ کی شکل میں ہونا چاہیے۔ ذہن اور نفس کے عطیے کا شکریہ اسی شکل میں ادا ہوسکتا ہے کہ آدمی ایمان و طاعت کی راہ اختیار کرے۔ جسم اور اس کی طاقتوں کا عطیہ یہی شکریہ چاہتا ہے کہ آدمی نماز اور روزے کی شکل میں اسے ادا کرے۔ مال کے عطیے کا شکریہ زکوٰۃ ہی کی صورت میں ادا کیا جاسکتا ہے، اور زکوٰۃ بھی اس طرح کہ سیم و زر کی زکوٰۃ اسی سیم و زر سے، زرعی پیداوار کی زکوٰۃ اسی پیداوار میں سے اور مواشی کی زکوٰۃ انھی مواشی میں سے نکالی جائے۔ اسی طرح اپنے پیدا کیے ہوئے جانوروں پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو قدرت بخشی ہے اور ان سے طرح طرح کے بے شمار فائدے اٹھانے کا موقع اس نے دیا ہے۔ اس کے شکریے کی بھی یہی صورت ہے کہ انسان ان جانوروں ہی میں سے اللہ تعالیٰ کے حضور قربانی پیش کرے۔ چنانچہ سورۂ حج میں قربانی کی ہدایت فرمانے کے بعد اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہکَذٰلِکَ سَخَّرْنٰھَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ [الحج22:36]اسی طرح ہم نے انھیں تمھارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔
۳۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوںپر جو اقتدار اور تصرف کا اختیار بخشا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی بالادستی اور حاکمیت و مالکیت کا اعتراف کرتا رہے تاکہ اسے کبھی یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ سب کچھ میرا ہے اور میں ہی اس کا خود مختار مالک ہوں۔ اس بالاتری کے اعتراف کی مختلف شکلیں اللہ کے مختلف عطیوں کے معاملے میں رکھی گئی ہیں۔ جانوروں کے معاملہ میں اس کی شکل یہ ہے کہ انھیں اللہ کے نام پر قربان کیا جائے۔ چنانچہ اسی سورۂ حج میں اسی سلسلۂ کلام میں آگے چل کر فرمایا گیا کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ [الحج22:37] اسی طرح اللہ نے انھیں تمھارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم اس کی بڑائی کا اظہار کرو اس ہدایت پر جو اس نے تمھیں بخشی۔‘‘
یہی تین وجوہ ہیں جن کی بنا پر قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیشہ سے تمام شرائع الٰہیہ میں تمام امتوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے قربانی کا طریقہ مقرر کیا ہے:
وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْم بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ الحج22:34
’’اور ہر اُمت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک طریقہ مقرر کیا تاکہ وہ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انھیں بخشے ہیں۔‘‘
اور یہ طریقہ جس طرح دوسری امتوں کے لیے تھا اسی طرح شریعت محمدیؐ میں امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی مقرر کیا گیا:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ
الانعام6:162-163
’’اے محمدؐ، کہو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے میں سرِ اطاعت جھکانے والا ہوں۔‘‘
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ الکوثر108:2
’’پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔‘‘
یہ حکم عام تھا جو قربانی کے لیے قرآن میں دیا گیا۔ اس میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ قربانی کب کی جائے، کہاں کی جائے، کس پر واجب ہے، اور اس حکم پر عمل درآمد کرنے کی دوسری تفصیلات کیا ہیں۔ ان چیزوں کو بیان کرنے اور ان پر عمل کرکے بتانے کاکام اللہ نے اپنے رسولؐ پر چھوڑ دیا کیوں کہ رسولؐ اس نے بلا ضرورت نہیں بھیجا تھا۔ کتاب کے ساتھ رسولؐ بھیجنے کی غرض یہی تھی کہ وہ لوگوں کو کتاب کے مقصد و منشا کے مطابق کام کرنا سکھائے۔

اوقاتِ قربانی کی تعیین

اب ہمیں یہ بتانا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کیا شکل متعین فرمائی ہے اور اس کا ثبوت کیا ہے کہ یہ شکل حضورؐ ہی کی متعین فرمائی ہوئی ہے۔
اولاً: حضورؐ نے یہ بات لوگوں کی مرضی پر نہیں چھوڑ دی کہ فردًا فردًا جس مسلمان کا جب جی چاہے اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی جانور قربانی کر دے، بلکہ آپؐ نے تمام امت کے لیے تین دن مقرر فرما دیے تاکہ تمام دنیا کے مسلمان ہر سال انھی خاص دنوں میں اپنی اپنی قربانیاں ادا کریں۔ یہ بات ٹھیک اسلام کے مزاج کے مطابق ہے۔ نماز کے معاملے میں بھی یہی کیا گیا ہے کہ فرض نمازوں کو پانچوں وقت جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا گیا، ہفتے میں ایک مرتبہ جمعہ کی نماز لازم کی گئی تاکہ پنج وقتہ نمازوں سے زیادہ بڑے اجتماعات کی شکل میں مسلمان اسے ادا کریں، اور سال میں دو مرتبہ عیدین کی نمازیں مقرر کیں تاکہ انھیں ادا کرنے کے لیے جمعہ سے بھی زیادہ بڑے اجتماعات منعقد ہوں۔ اسی طرح روزوں کے معاملہ میں بھی تمام مسلمانوں کے لیے ایک مہینا مقرر کر دیا گیا تاکہ سب مل کر ایک ہی زمانے میں یہ فرض ادا کریں۔ اجتماعی عبادت کا یہ طریقہ اپنے اندر بے شمار فوائد رکھتا ہے۔ اس سے پورے معاشرے میں اس خاص عبادت کا ماحول طاری ہو جاتا ہے جسے اجتماعی طور پر ادا کیا جارہا ہو۔ اس سے مسلمانوں میں وحدت و یگانگت پیدا ہوتی ہے۔ اس سے خدا پرستی کی اخلاقی و روحانی بنیاد پر مسلمان ایک دوسرے سے متحد اور دوسروں سے ممیز ہوتے ہیں۔ اور اس سے ہر وہ فائدہ بھی ساتھ ساتھ حاصل ہوتا ہے جو انفرادی طور پر عبادت بجا لانے سے حاصل ہوسکتا ہے۔
ثانیاً، اس کے لیے آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر ایک یوم عید مقرر فرمایا اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ سب مل کر پہلے دو رکعت نماز ادا کریں، پھر اپنی اپنی قربانیاں کریں، یہ ٹھیک قرآنی اشارے کے مطابق ہے۔ قرآن میں نماز اور قربانی کا ساتھ ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے اور نماز کو قربانی پر مقدم رکھا گیا ہے۔ اِنَّ صَلاَ تِیْ وَنُسُکِیْ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَاْنْحَرْ۔پھر یہ مسلم معاشرے کی ایک اہم ضرورت بھی پوری کرتی ہے۔ ہر معاشرہ فطری طور پر یہ چاہتا ہے کہ اسے کچھ اجتماعی تہوار دیے جائیں جن میں اس کے سب افراد مل جل کر خوشیاں منائیں۔ اس سے ان میں ایک جذباتی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ اور تہوار کی یہ خاص صورت کہ اس کا آغاز اللہ کی ایک عبادت، یعنی نماز سے ہو، اور اس کا پورا زمانہ اس طرح گزرے کہ ہر وقت کسی نہ کسی گھر میں اللہ کی ایک دوسری عبادت یعنی قربانی انجام دی جارہی ہو، اور اس عبادت کے طفیل ہر گھر کے لوگ اپنے دوستوں، عزیزوں، اور غریب ہم سایوں کو ہدیے اور تحفے بھی بھیجتے رہیں، یہ اسلام کی روح اور مسلم معاشرے کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسلام ناچ رنگ اور لہو و لعب اور فسق و فجور کے میلے نہیں چاہتا۔ وہ اپنے بنائے ہوئے معاشرے کے لیے میلوں کی فطری مانگ ایسی ہی عید سے پوری کرنا چاہتا ہے جو خدا پرستی، الفت و محبت اورہم دردی و مؤاسات کی پاکیزہ رُوح سے لبریز ہو۔

قربانی کا تاریخی پس منظر

ثالثاً، اس کے لیے حضورؐ نے وہ خاص دن انتخاب فرمایا جس دن تاریخ اسلام کا سب سے زیادہ زریں کارنامہ حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام نے انجام دیا تھا یعنی یہ کہ بوڑھا باپ اپنے ربّ کا ایک اشارہ پاتے ہی اپنے اکلوتے جوان بیٹے کو قربان کر دینے کے لیے ٹھنڈے دل سے آمادہ ہوگیا، اور بیٹا بھی یہ سن کر کہ مالک اس کی جان کی قربانی چاہتا ہے، چھری تلے گردن رکھ دینے پر بخوشی راضی ہوگیا۔ اس طرح یہ محض قربانی عبادت ہی نہ رہی بلکہ ایک بڑے تاریخی واقعہ کی یادگار بھی بن گئی جو ایمانی زندگی کے اس منتہائے مقصود، اس کے اس آئیڈیل مثل اعلیٰ کو مسلمانوں کے سامنے تازہ کرتی ہے کہ انھیں اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ قربانی کا حکم بجا لانے اور عید کا تہوار منانے کے لیے سال کا کوئی دن بھی مقرر کیا جاسکتا تھا۔ اس سے دوسرے تمام فوائد حاصل ہو جاتے، مگر یہ فائدہ حاصل نہ ہوتا۔ اس کے لیے اس خاص تاریخ کا انتخاب ’’بیک کرشمہ دو کار‘‘ کا مصداق ہے۔ ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس انتخاب کی یہ وجہ بیان فرمائی ہے۔ آپ سے پوچھا گیا مَا ھٰذِہِ الْاَضَاحِیْ، یہ قربانیاں کیسی ہیں؟ فرمایا: سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْمَ، یہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے (مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس واقعہ کے بعد ہر سال اسی تاریخ کو جانور قربان فرمایا کرتے تھے۔ حضورؐ نے اس سنت کو زندہ کیا اور اپنی امت کو ہدایت فرمائی کہ قرآن میں قربانی کا جو عام حکم دیا گیا ہے اس کی تعمیل خصوصیت کے ساتھ اس روز کریں جس روز حضرت ابراہیم ؑ اپنی اس عظیم الشان قربانی کی یادتازہ کیا کرتے تھے۔ اپنی تاریخ کے یادگار واقعات کا ’’یوم‘‘ دنیا کی ہر قوم منایا کرتی ہے۔ اسلام کا مزاج یادگار منانے کے لیے بھی اس دن کا انتخاب کرتا ہے جس میں دو بندوں کی طرف سے خدا پرستی کے انتہائی کمال کا مظاہرہ ہوا۔

اسے عالم گیر بنانے میں مصلحت

رابعاً، قربانی کے لیے اس دن کے انتخاب میں ایک اور مصلحت بھی تھی ہجرت کے بعد پہلے ہی سال جب حج کا زمانہ آیا تو مسلمانوں کو یہ بات بری طرح کَھل رہی تھی کہ کفار نے ان پر حرم کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس غم کی تلافی اس طرح فرمائی کہ ایام حج کو مدینے میں ان کے لیے ایام عید بنا دیا۔ آپؐ نے انھیں ہدایت فرمائی کہ ۹۔ ذی الحجہ (یعنی یوم الحج) کی صبح سے جب کہ حاجی عرفات کے لیے روانہ ہوتے ہیں، وہ ہر نماز کے بعد اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدْ کا ورد شروع کریں اور۱۳۔ذی الحجہ تک (یعنی جب تک حجاج منیٰ میں ایام تشریق گزارتے ہیں) اس کا سلسلہ جاری رکھیں۔ نیز۱۰۔ ذی الحجہ کو جب کہ حجاج مزدلفہ سے منیٰ کی طرف پلٹتے ہیں اور قربانی اور طواف کی سعادت حاصل کرتے ہیں، وہ بھی دوگانہ نماز ادا کرکے قربانی کریں۔ یہ طریقہ فتح مکہ سے پہلے تک تو مسلمانوں کے لیے گویا ایک طرح کی تسلی کا ذریعہ تھا کہ حج سے محروم کر دیے گئے تو کیا ہوا، ہمارا دل حج میں مشغول ہے اور ہم اپنے گھر ہی میں بیٹھے ہوئے حجاج کے شریک حال ہیں۔ لیکن فتح مکہ کے بعد اسے جاری رکھ کر عملاً اسے تمام دنیائے اسلام کے لیے حج کی توسیع بنا دیا گیا۔ اس کے معنی یہ ہوگئے کہ حج صرف مکہ میں حاجیوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ جس زمانے میں چند لاکھ حاجی وہاں مناسک حج ادا کر رہے ہوتے ہیں اسی زمانے میں ساری دنیائے اسلام کے کروڑوں مسلمان ان کے شریک حال ہوتے ہیں، ہر مسلمان، جہاں بھی وہ ہے، اس کا دل ان کے ساتھ ہوتا ہے، اس کی زبان اللہ اکبر کی تکبیر بلند کرتی رہتی ہے، وہ ان کی قربانی اور طواف کے وقت اپنی جگہ ہی نماز اور قربانی ادا کر رہا ہوتا ہے۔

قربانی کی حقیقی روح

خامساً، قربانی کا جو طریقہ حضورؐ نے سکھایا وہ یہ تھا کہ عیدالاضحی کی دوگانہ نماز ادا کرنے کے بعد قربانی کی جائے اور جانور ذبح کرتے وقت یہ کہا جائے:
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o اِنَّ صَلاَ تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لَاشَرِیْکَ لَہ‘ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ o اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَک۔
’’میں نے یک سُو ہو کر اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بے شک میری نماز اور قربانی اور میرا مرنا اور جینا سب اللہ رب العٰلمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔ خدایا یہ تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے۔‘‘
ان الفاظ پر غور کیجیے۔ ان میں وہ تمام وجوہ شامل ہیں جن کی بنیاد پر قرآن مجید میں قربانی کا حکم دیا گیا ہے۔ ان میں اس بات کا اعلان ہے کہ دیوتائوں کے لیے قربانیاں کرنے والے مشرکین کے برعکس ہم صرف خدائے وحدہ‘ لاشریک کے لیے قربانی کی عبادت بجالارہے ہیں۔ ان میں اس بات کا اعلان بھی ہے کہ اپنے پیدا کیے ہوئے جانوروں سے فائدہ اٹھانے کی جو نعمت اللہ تعالیٰ نے ہمیں بخشی ہے اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے یہ نذر ہم اس کے حضور پیش کر رہے ہیں۔ ان میں یہ اعلان بھی ہے کہ اس مال کے اصل مالک ہم نہیں ہیں، بلکہ یہ اللہ کے جانور ہیں جن پر اس نے ہمیں تصرف کا اختیار بخشا ہے، اور اس کی کبریائی کے اعتراف میں یہ نذرانہ ہم اس کے حضور گزران رہے ہیں۔ اس میں یہ اظہار بھی ہے کہ جس طرح ہمیں حکم دیا گیا تھا ٹھیک اسی طرح ہم ابھی صرف اللہ کے لیے نماز ادا کرکے آئے ہیں اور اب خالصًا اسی کے لیے قربانی کے فرمان کی تعمیل کر رہے ہیں۔ پھر، ان سب سے بڑھ کر، ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ عہد و پیمان بھی ہے کہ ہماری نماز اور قربانی ہی نہیں، ہمارا مرنا اور جینا بھی صرف اسی کی ذات پاک کے لیے ہے۔ اور یہ عہد و پیمان اس تاریخی دن میں کیا جاتا ہے جس دن اللہ کے دو بندوں نے اپنے عمل سے بتایا تھا کہ جینا اور مرنا اللہ کے لیے ہونے کا مطلب کیا ہے۔

نبیؐ کی خدا داد بصیرت

یہ پانچ نکات جو اوپر عرض کیے گئے ہیں انھیں ذرا آنکھیں کھول کر دیکھیے۔ آپ کو ان میں ایک نبیؐ کی خداداد بصیرت اور ہدایت یافتہ حکمت ایسی نمایاں نظر آئے گی کہ اگر اس قربانی کے سنت رسولؐ ہونے کی کوئی اور شہادت موجود نہ ہوتی تب بھی اس کے اس طریقے کی اندرونی شہادت خود یہ بتا دینے کے لیے کافی تھی کہ اسے اسی خدا کے رسول نے مقرر کیا ہے جس خدا نے قرآن نازل کیا ہے۔ قرآنِ مجید میں قربانی کے متعلق جو کچھ اور جتنا کچھ ارشاد فرمایا گیا تھا اسے پڑھ کر کوئی غیر نبی، چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم اور دانش مند ہی کیوں نہ ہوتا، اس سے زیادہ کوئی نتیجہ اخذ نہ کرتا کہ مسلمان وقتًا فوقتًا اللہ تعالیٰ کے لیے قربانی کی عبادت بجا لاتے رہیں۔ وہ کبھی ان ارشادات سے یہ منشا نہ پاسکتا کہ ساری دنیائے اسلام کے لیے قربانی کا ایک دن مقرر کیا جائے، اس دن کو یوم العید قرار دیا جائے، وہ دن حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کی قربانی کا دن ہونا چاہیے، وہ دن اور اس کے سابق ولاحق ایام زمانۂ حج کے بھی مطابق ہونے چاہییں، اور یہ قربانی ایسے طریقے سے ادا کی جانی چاہیے کہ اس سے اسلام کی پوری روح تازہ ہو جائے۔ یہ منشا ایک نبی کے سوا اور کون پاسکتا تھا؟ اس منشا کو پانا اس نبیؐ کے سوا اورکس کاکام ہوسکتا تھا جس پر خدا نے اپنا قرآن نازل فرمایا تھا؟
مگر اس کے سنتِ رسولؐ ہونے کی اس اندرونی شہادت کے علاوہ اس کی خارجی شہادتیں بھی اتنی زیادہ اور اتنی مضبوط ہیں کہ بجز ایک ہٹ دھرم آدمی کے کوئی ان کا انکار نہیں کرسکتا۔

احادیث سے قربانی کا ثبوت

اس کی پہلی شہادت وہ کثیر روایات ہیں جو حدیث کی تمام معتبر کتابوں میں صحیح اور متصل سندوں کے ساتھ بہت سے صحابہ کرامؓ سے یہ بات نقل کرتی ہیں کہ حضورؐ نے عید الاضحیٰ کی قربانی کا حکم دیا، خود اس پر عمل فرمایا اور مسلمانوں میں اسے سنت الاسلام کی حیثیت سے رواج دیا۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال مقیم رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔ (ترمذی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کرتا رہوں، چنانچہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کرتا ہوں۔ (ابودائود، ترمذی)
حضرت برا بن عازب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا کہ اوّل مانبد أبِہٖ فی یومنا ھٰذا ان نصلی ثم نرجع فننحر فمن فعل ذالک فقد اصاب سنتنا۔ ’’آج کے دن ہم پہلے نماز پڑھتے ہیں، پھر پلٹ کر قربانی کرتے ہیں۔ پس جس نے اس طریقے کے مطابق عمل کیا اس نے ہماری سنت پالی۔‘‘ (بخاری و مسلم)
حضرت عائشہؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا الاضحی یوم یضحی الناس ’’الاضحی وہ دن ہے جس میں لوگ قربانی کرتے ہیں۔‘‘ (ترمذی)
حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا من وجد سعۃً فلم یضح فلا یقربن مصلا نا۔ ’’جو شخص طاقت رکھتا ہو اور پھر قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔‘‘ (مسند احمد۔ ابن ماجہ)
حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا مَا مَاعَمِل ابنُ اٰدم یوم النحر عملاً احبَّ الٰی اللّٰہ من اِھراق الدّم۔ ’’قربانی کے دن آدم کی اولاد کا کوئی فعل اللہ کو اس سے زیادہ پسند نہیں کہ وہ خون بہائے۔‘‘ (ترمذی۔ ابن ماجہ)
حضرت بُریدہؓ کہتے ہیں کہ عیدالاضحی کے دن حضورؐ عیدگاہ سے واپسی تک کچھ نہ کھاتے پیتے تھے اور واپس آکر اپنی قربانی کا گوشت تناول فرماتے تھے۔(مسند احمد)
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدُالاضحی کی نماز پڑھی، پھر جب آپؐ پلٹے تو آپؐ کے حضور ایک مینڈھا لایا گیا اور آپ نے اسے ذبح فرمایا۔ (مسند احمد، ترمذی، ابودائود)
امام زین العابدینؒ حضرت ابورافع ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ عیدالاضحی کے لیے دو موٹے تازے بڑے سینگوں والے چتکبرے مینڈھے خریدتے تھے اور عید کی نماز اور خطبے سے فارغ ہونے کے بعد ایک مینڈھا اپنی تمام امت کی طرف سے اور ایک اپنی اور اپنی آل کی طرف سے قربان فرماتے تھے۔ (مسند احمد)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ ہی میں ذبح اور نحر فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری، نسائی، ابن ماجہ، ابودائود)
حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی میں دو چتکبرے بڑے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی دی (بخاری، مسلم) اور یہی مضمون حضرت جابر بن عبداللہ سے بھی مروی ہے (ابودائود، ابن ماجہ بیہقی)
برا بن عازب، جندب بن سفیان اَلبُجَلِیْاور انس بن مالک رضی اللہ عنہم کی متفقہ روایات یہ ہیں، حضورؐ نے فرمایا کہ ’’جس شخص نے عید کی نماز سے پہلے ذبح کرلیا اس کی قربانی نہیں ہوئی، اور جو نماز کے بعد ذبح کرے اس کی قربانی ہوگئی اور اس نے سنت مسلمین پر عمل کیا۔‘‘ (بخاری، مسلم، مسند احمد)
حضرت جابر عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ہمیں قربانی کے دن نماز پڑھائی، اس کے بعد کچھ لوگوں نے آگے بڑھ کر حضورؐ سے پہلے قربانی کرلی۔ اس پر آپؐ نے حکم دیا کہ ’’جس کسی نے ایسا کیا ہے اسے پھر قربانی کرنی چاہیے اور کسی کو اُس وقت تک قربانی نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ نبی اپنی قربانی نہ کرلے۔‘‘ (مسلم، مسند احمد)
یہ روایات، اوربکثرت دوسری روایات جو احادیث میں آئی ہیں، سب اپنے مضمون میں متفق ہیں، اور کوئی ایک ضعیف سے ضعیف روایت بھی کہیں موجود نہیں جو یہ بتاتی ہو کہ عیدالاضحی کی یہ قربانی سنت رسولؐ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ حج کے موقع پر مکہ معظمہ میں نہ کوئی عیدالاضحی منائی جاتی ہے اور نہ کوئی نماز قربانی سے پہلے پڑھی جاتی ہے، اس لیے ان تمام احادیث میں لازمًا صرف اسی عید اور قربانی کا ذکر ہے جو مکہ سے باہر ساری دنیا میں ہوتی ہے۔اس کی پہلی شہادت وہ کثیر روایات ہیں جو حدیث کی تمام معتبر کتابوں میں صحیح اور متصل سندوں کے ساتھ بہت سے صحابہ کرامؓ سے یہ بات نقل کرتی ہیں کہ حضورؐ نے عید الاضحیٰ کی قربانی کا حکم دیا، خود اس پر عمل فرمایا اور مسلمانوں میں اسے سنت الاسلام کی حیثیت سے رواج دیا۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال مقیم رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔ (ترمذی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کرتا رہوں، چنانچہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کرتا ہوں۔ (ابودائود، ترمذی)
حضرت برا بن عازب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا کہ اوّل مانبد أبِہٖ فی یومنا ھٰذا ان نصلی ثم نرجع فننحر فمن فعل ذالک فقد اصاب سنتنا۔ ’’آج کے دن ہم پہلے نماز پڑھتے ہیں، پھر پلٹ کر قربانی کرتے ہیں۔ پس جس نے اس طریقے کے مطابق عمل کیا اس نے ہماری سنت پالی۔‘‘ (بخاری و مسلم)
حضرت عائشہؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا الاضحی یوم یضحی الناس ’’الاضحی وہ دن ہے جس میں لوگ قربانی کرتے ہیں۔‘‘ (ترمذی)
حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا من وجد سعۃً فلم یضح فلا یقربن مصلا نا۔ ’’جو شخص طاقت رکھتا ہو اور پھر قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔‘‘ (مسند احمد۔ ابن ماجہ)
حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا مَا مَاعَمِل ابنُ اٰدم یوم النحر عملاً احبَّ الٰی اللّٰہ من اِھراق الدّم۔ ’’قربانی کے دن آدم کی اولاد کا کوئی فعل اللہ کو اس سے زیادہ پسند نہیں کہ وہ خون بہائے۔‘‘ (ترمذی۔ ابن ماجہ)
حضرت بُریدہؓ کہتے ہیں کہ عیدالاضحی کے دن حضورؐ عیدگاہ سے واپسی تک کچھ نہ کھاتے پیتے تھے اور واپس آکر اپنی قربانی کا گوشت تناول فرماتے تھے۔(مسند احمد)
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدُالاضحی کی نماز پڑھی، پھر جب آپؐ پلٹے تو آپؐ کے حضور ایک مینڈھا لایا گیا اور آپ نے اسے ذبح فرمایا۔ (مسند احمد، ترمذی، ابودائود)
امام زین العابدینؒ حضرت ابورافع ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ عیدالاضحی کے لیے دو موٹے تازے بڑے سینگوں والے چتکبرے مینڈھے خریدتے تھے اور عید کی نماز اور خطبے سے فارغ ہونے کے بعد ایک مینڈھا اپنی تمام امت کی طرف سے اور ایک اپنی اور اپنی آل کی طرف سے قربان فرماتے تھے۔ (مسند احمد)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ ہی میں ذبح اور نحر فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری، نسائی، ابن ماجہ، ابودائود)
حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی میں دو چتکبرے بڑے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی دی (بخاری، مسلم) اور یہی مضمون حضرت جابر بن عبداللہ سے بھی مروی ہے (ابودائود، ابن ماجہ بیہقی)
برا بن عازب، جندب بن سفیان اَلبُجَلِیْاور انس بن مالک رضی اللہ عنہم کی متفقہ روایات یہ ہیں، حضورؐ نے فرمایا کہ ’’جس شخص نے عید کی نماز سے پہلے ذبح کرلیا اس کی قربانی نہیں ہوئی، اور جو نماز کے بعد ذبح کرے اس کی قربانی ہوگئی اور اس نے سنت مسلمین پر عمل کیا۔‘‘ (بخاری، مسلم، مسند احمد)
حضرت جابر عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ہمیں قربانی کے دن نماز پڑھائی، اس کے بعد کچھ لوگوں نے آگے بڑھ کر حضورؐ سے پہلے قربانی کرلی۔ اس پر آپؐ نے حکم دیا کہ ’’جس کسی نے ایسا کیا ہے اسے پھر قربانی کرنی چاہیے اور کسی کو اُس وقت تک قربانی نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ نبی اپنی قربانی نہ کرلے۔‘‘ (مسلم، مسند احمد)
یہ روایات، اوربکثرت دوسری روایات جو احادیث میں آئی ہیں، سب اپنے مضمون میں متفق ہیں، اور کوئی ایک ضعیف سے ضعیف روایت بھی کہیں موجود نہیں جو یہ بتاتی ہو کہ عیدالاضحی کی یہ قربانی سنت رسولؐ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ حج کے موقع پر مکہ معظمہ میں نہ کوئی عیدالاضحی منائی جاتی ہے اور نہ کوئی نماز قربانی سے پہلے پڑھی جاتی ہے، اس لیے ان تمام احادیث میں لازمًا صرف اسی عید اور قربانی کا ذکر ہے جو مکہ سے باہر ساری دنیا میں ہوتی ہے۔

فقہائے اُمّت کا اِتفاق

دوسری اہم شہادت عہد نبوت سے قریب زمانے کے فقہائے امت کی ہے جو سب بالاتفاق اس قربانی کو مسنون اور مشروع کہتے ہیں اور کسی ایک فقیہ کا قول بھی اس کے خلاف نہیں ملتا۔ ان فقہا سے یہ بات بالکل بعید تھی کہ سب کے سب بلاتحقیق ایک فعل کو سنت مان بیٹھتے۔ اور وہ ایسے زمانے میں تھے جب یہ تحقیق کرنے کے تمام ذرائع موجود تھے کہ یہ کام جو مسلمان کر رہے ہیں آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ سنت ہی ہے یا کسی اور کی رائج کردہ بدعت۔
مثلاً: امام ابوحنیفہؒ کو دیکھیے۔ وہ ۸۰ھ میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے درمیان صرف ۷۰ سال کا فاصلہ ہے۔ ان کے زمانے میں بعض طویل العمر صحابہ موجود تھے۔ اور ایسے لوگ تو ہزاروں کی تعداد میں جگہ جگہ پائے جاتے تھے جنھوں نے خلفائے راشدین کا زمانہ دیکھا تھا اور صحابۂ کرام کی صحبت پائی تھی۔ پھر کوفہ جو امام صاحب کا وطن تھا، کئی سال تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دارالخلافہ رہ چکا تھا۔ امام صاحب کی پیدائش اور حضرت علیؓ کی شہادت کے درمیان صرف ۴۰ سال کا زمانہ گزرا تھا۔ اس شہر میں ان لوگوں کا شمار نہ کیا جاسکتا تھا جو خلیفۂ رابع کا عہد دیکھ چکے تھے۔ کیا کوئی شخص تصور کرسکتا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کو یہ تحقیق کرنے میں کوئی مشکل پیش آسکتی تھی کہ قربانی کا یہ طریقہ کب سے اور کیسے شروع ہوا ہے اور کس نے اسے جاری کیا ہے؟
اسی طرح امام مالکؒ کی مثال لیجیے۔ وہ ۹۳ھ میں مدینۂ طیبہ میں پیدا ہوئے اور وہیں ساری عمر گزاری۔ اس شہر میں سیکڑوں خاندان ایسے موجود تھے جن کے بڑے بوڑھوں اور بڑی بوڑھیوں نے خلافتِ راشدہ کا عہد دیکھا تھا، صحابہ کرامؓ کی گودوں میں پرورش پائی تھی، اور جن کے اپنے بزرگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے۔ کیا کوئی شخص باور کرسکتا ہے کہ اس شہر کے لوگ اتنی قلیل مدت میں عہد نبوی کی روایات گم کر چکے تھے اور وہاں کوئی یہ بتانے والا نہ تھا کہ عید الاضحیٰ کی یہ قربانی کس نے رائج کی ہے؟
یہی حال پہلی اور دوسری صدی ہجری کے تمام فقہا کا ہے۔ وہ سب عہد نبوت سے اتنے قریب زمانے میں تھے کہ ان کے لیے سنت اور بدعت کی تحقیق کرنا کوئی بڑا مشکل کام نہ تھا اور وہ آسانی کے ساتھ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوسکتے تھے کہ جو چیز سنت نہ ہو اسے سنت سمجھ بیٹھیں۔

اُمّت کا تواتر عمل

تیسری اہم ترین شہادت اُمت کے متواتر عمل کی ہے۔ عیدالاضحی اور اس کی قربانی جس روز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع کی اُسی روز سے وہ مسلمانوں میں عملاً رائج ہوگئی اور اُس وقت سے آج تک تمام دنیا میں پوری مسلم امت ہر سال مسلسل اس پر عمل کرتی چلی آرہی ہے۔ اس کے تسلسل میں کبھی ایک سال کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا ہے۔ ہر نسل نے پہلی نسل سے اسے سنت ِ اسلام کے طور پر لیا ہے اور بعد والی نسل کی طرف اسے منتقل کیا ہے۔ یہ ایک عالم گیر عمل ہے جو ایک ہی طرح دنیا کے ہر اس گوشے میں ہوتا رہا ہے جہاں کوئی مسلمان پایا جاتا ہے۔ اور یہ ایک ایسا متواتر عمل ہے جس کی زنجیر ہمارے عہد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد تک اس طرح مسلسل قائم ہے کہ اس کی ایک کڑی بھی کہیں سے غائب نہیں ہے۔ درحقیقت یہ ویسا ہی تواتر ہے جس تواتر سے ہمیں قرآن پہنچا ہے اور یہ خبر پہنچی ہے کہ چودہ سو سال پہلے عرب میں محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) مبعوث ہوئے تھے۔ کوئی فتنہ پرداز اس تواتر کو بھی اگر مشکوک ٹھہرا دے تو پھر اسلام میں کیا چیز شک سے محفوظ رہ جاتی ہے۔
اس معاملے کی اصل نوعیت یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہماری تاریخ کا کوئی دَور ایسا گزرا ہو جس میں قربانی اور اس کی عید رائج نہ رہی ہو، پھر کسی قدیم نوشتے میں اس کا حکم لکھا ہوا مل گیا ہو اور کچھ ملائوں نے اٹھ کر لوگوں سے کہا ہو کہ دیکھو فلاں جگہ ہمیں یہ لکھا ملا ہے لہٰذا اے مسلمانو! آئو ہم عید الاضحی منایا کریں اور اس میں جانوروں کی قربانی دیا کریں۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو تاریخ میں کہیں اس کا سراغ ملتا کہ یہ واقعہ کب اور کہاں پیش آیا اور کون لوگ اس کے ذمے دار تھے۔ پھر کسی ملاّ کی کبھی مسلمانوں میں یہ حیثیت نہیں رہی کہ وہ کسی پرانے نوشتے سے ایک حکم نکال کر دکھائے اور تمام دنیا کے مسلمان بالاتفاق اور بے چون و چرا اس کی بات مان کر اس کی پیروی شروع کر دیں اور کوئی یہ نوٹ تک نہ کرے کہ یہ طریقہ پہلے ہم میں رائج نہ تھا، فلاں ملا صاحب کے کہنے سے اب حال ہی میں اس پر عمل شروع ہوا ہے۔

ہمارا اَخلاقی انحطاط

یہ تین قسم کی شہادتیں ایک دوسری سے پوری طرح مطابقت کر رہی ہیں۔ حدیث کی کثیر التعداد مستند و معتبر روایات، امت کے تمام معتمد علیہ فقہا کی تحقیقات، اور پوری امت کا مسلسل و متواتر عمل، تینوں سے ایک ہی بات ثابت ہو رہی ہے۔ اس کے بعد اس امر میں کس شک کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا مقرر کیا ہوا ہے؟ اب اگر اس کے مقابلے میں کسی شخص کے پاس کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ درجے کی شہادت بھی ایسی ہے جس سے وہ یہ ثابت کرسکے کہ یہ حضورؐ کا مقرر کیا ہوا نہیں ہے، تو وہ اسے سامنے لائے اور ہمیں بتائے کہ اسے کب، کس ملانے، کہاں گھڑا اور کیسے تمام دنیا کے مسلمان اتنا بڑا دھوکا کھا گئے کہ اسے سنت رسولؐ مان لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ذہنی انحطاط اور اخلاقی تنزل کی اس سے زیادہ شرم ناک تصویر اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ ہمارے درمیان جو شخص چاہتا ہے اٹھ کر ہمارے دین کے بالکل ثابت شدہ، مسلم اور متفق علیہ حقائق کو، بلکہ اس کی بنیادوں تک کو بے تکلف چیلنج کر دیتا ہے اور دیکھتے دیکھتے اس کی تائید میں آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں، حالانکہ اس کے پاس اس کے اپنے مجرّد دعوے کے سوا نہ کوئی دلیل ہوتی ہے نہ شہادت۔

مخالفین کے دلائل کا دینی تجزیہ

لے دے کر بس یہ ایک بات عوام کو فریب دینے کے لیے بڑی وزنی سمجھ کر بار بار پیش کی جاتی ہے کہ قربانی پر ہر سال لاکھوں روپیہ ’’ضائع‘‘ہوتا ہے، اسے جانوروں کی قربانی کی بجائے رفاہِ عام یا قومی ترقی کے کاموں پر صرف ہونا چاہیے۔ لیکن یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے۔
اوّل یہ کہ جس چیز کا قرآن اور سنت سے حکمِ خدا رسول ہونا ثابت ہو اس کے بارے میں کوئی مسلمان… اگر وہ واقعی مسلمان ہے… یہ خیال نہیں کرسکتا کہ اس پر مال یا وقت یا محنت صرف کرنا اسے ضائع کرنا ہے۔ ایسی بات جو شخص سوچتا ہے وہ ان سب سے زیادہ قیمتی چیز، یعنی اپنا ایمان ضائع کرتا ہے۔
دوسرے یہ کہ اسلام کی نگاہ میں رفاہِ عام اور قومی ترقی کے کاموں کی بھی ایک قیمت ہے، مگر ان سے بدرجہا زیادہ قیمت اس کی نگاہ میں اس بات کی ہے کہ مسلمان شرک سے ہر طرح محفوظ ہوں، توحید پر ان کا عقیدہ ہر لحاظ سے خیال اور عمل میں مستحکم ہو، اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی کبریائی کا اعتراف اور اس کی عبادت و بندگی بجا لانے کی عادت ان کی زندگی میں پوری طرح جڑ پکڑے رہے، اور وہ اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لیے مستعد رہیں۔ ان مقاصد کے لیے جن کاموں کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے ضروری قرار دیا ہے ان میں سے ایک یہ قربانی بھی ہے۔ اس پر مال کا صرف رفاہِ عام اور قومی ترقی کے ہر کام سے بہت زیادہ قیمتی کام پر صرف ہے۔ اسے ضیاع صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس کی قدریں اسلام کی قدروں سے اصلاً مختلف ہو چکی ہیں۔
تیسرے یہ کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے جس عبادت کی جو شکل مقرر کر دی ہے، کوئی چیز اس کا بدل نہیں ہوسکتی، الاّیہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ برحق نے خود ہی دو یا تین متبادل صورتیں تجویز کرکے ہمیں ان میں سے کسی ایک کا اختیار دے دیا ہو۔ ہمارا فرض ہر حکم کو اسی صورت میں بجا لانا ہے جو شارع نے اس کے لیے مقرر کی ہے۔ ہم خود مختار بن کر اس کا بدل آپ ہی آپ تجویز نہیں کرسکتے۔ نماز کی بجائے اگر کوئی شخص اپنی ساری دولت بھی خیرات کر دے تو وہ ایک وقت کی نماز کا بدل بھی نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح قربانی کی بجائے آپ خواہ کوئی بڑی سے بڑی نیکی بھی کر ڈالیں، وہ عیدالاضحی کے تین دنوں میں جان بوجھ کر قربانی نہ کرنے کا معاوضہ ہرگز نہ بن سکے گی، بلکہ اگر یہ حرکت اس نظریے کی بنا پر کی جائے کہ اس عبادت کے لیے ہم نے خدا اور رسولؐ کی مقرر کر دہ صورت سے بہتر صورت تجویز کی ہے تو یہ نیکی کیسی، ایک بدترین معصیت ہوگی۔

اجتماعی نقطۂ نظر سے جائزہ

پھر ذرا دینی نقطۂ نظر سے ہٹ کر محض اجتماعی نقطۂ نظر سے بھی اس ’’ضیاع‘‘ کے عجیب تصور پر غور کیجیے۔ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں ہے جو اپنی تقریبات پر، اپنے میلوں پر، اور اپنے قومی اور بین الاقوامی تہواروں پر لاکھوں کروڑوں روپیہ صرف نہ کرتی ہو۔ ان چیزوں کے تمدنی و اجتماعی اور اخلاقی فوائد اس سے بہت زیادہ ہیں کہ کوئی قوم محض دولت کے گز سے انھیں ناپے اور روپے کے وزن سے انھیں تولے۔ آپ یورپ اور امریکا کے کسی سخت مادہ پرست آدمی کو بھی اس بات کا قائل نہیں کرسکتے کہ کرسمس پر ہر سال جو بے شمار دولت ساری دنیائے عیسائیت مل کر صرف کرتی ہے یہ روپے کا ضیاع ہے۔ وہ آپ کی اس بات کو آپ کے منہ پر مار دے گا اور بلا تامل یہ کہے گا کہ دنیا بھر میں بٹی ہوئی بے شمار فرقوں اور سیاسی قومیتوں میں تقسیم شدہ مسیحی ملت کو اگر ایک بین الاقوامی تہوار بالاتفاق منانے کا موقع ملتا ہے تو اس کے اجتماعی اور اخلاقی فوائد اس کے خرچ سے بہت زیادہ ہیں۔ ہندوئوں جیسی زرپرست قوم تک اپنے میلوں اور تہواروں کو اس مال کی میزان میں تولنے کے لیے تیار نہیں ہے جو ان تقریبات پر صرف ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یہ چیز ان کے اندر وحدت پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ یہ نہ ہو تو ان کے تفرقے اور اختلافات اور طرح طرح کے باہمی امتیازات اتنے زیادہ ہیں کہ وہ کبھی جمع ہو کر ایک قوم نہ بن سکیں۔ یہی معاملہ ان دوسری اجتماعی تقریبات کا ہے جو دنیا کی مختلف قومیں وقتًا فوقتاً مشترک طور پر مناتی ہیں۔ ہر ایک تقریب اپنی ایک محسوس صورت چاہتی ہے اور اس صورت کو عمل میں لانے پر بہت کچھ صرف ہوتا ہے۔ مگر کوئی قوم بھی یہ حماقت کی بات نہیں سوچتی کہ بس ہسپتال، مدرسے اور کارخانے ہی ایک چیز ہیں جن پر سب کچھ لگ جانا چاہیے اور یہ تہوار اور تقریبات سب فضول ہیں۔ حالانکہ دنیا کی کسی قوم کی تقریبات اور تہواروں میں وہ بلند اور پاکیزہ روحانی، اعتقادی اور اخلاقی روح موجود نہیں ہے جو ہماری عیدالاضحی میں پائی جاتی ہے، اور کسی تہوار اور تقریب کے منانے کی صورت ہر طرح کے شرک و فسق اور مکروہات سے اس درجہ خالی نہیں ہے جتنی ہماری عیدیں ہیں۔ اور کسی تہوار کے متعلق، کسی قوم کے پاس خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کا حکم موجود نہیں ہے جیسا ہمارے پاس ہے۔ اب کیا ہم مادہ پرستی میں سب سے بازی لے جانے کا عزم کر چکے ہیں؟
اور یہ قربانی پر روپیہ ’’ضائع‘‘ ہونے کا آخر مطلب کیا ہے؟ یہ کہاں ضائع ہوتا ہے؟ قربانی کے لیے جو جانور خریدے جاتے ہیں ان کی قیمت ہماری ہی قوم کے ان لوگوں کی جیبوں میں تو جاتی ہے جو ان جانوروں کو پالتے اور ان کی تجارت کرتے ہیں۔ اسی کا نام اگر ضائع ہونا ہے تو اپنے ملک کے سارے بازار اور سب دکانیں بند کر دیجیے، کیوں کہ ان سے مال خریدنے پر کروڑوں روپیہ روز ضائع ہو رہا ہے۔ پھر جو جانور خریدے جاتے ہیں کیا وہ زمین میں دفن کر دیے جاتے ہیں یا آگ میں جھونک دیے جاتے ہیں؟ ان کا گوشت انسان ہی تو کھاتے ہیں۔ یہ اگر ضیاع ہے تو سال بھر انسانی خوراک پر جو کچھ صرف ہوتا رہتا ہے اس کے بند کرنے کی بھی کوئی سبیل ہونی چاہیے۔
اب کچھ لوگوں نے یہ محسوس کرکے کہ یہ ضائع ہونے کی بات چلتی نظر نہیں آتی، یہ افسانہ تراشا ہے کہ بقر عید میں بہت سا گوشت سڑ کر پھِک جاتا ہے۔ حالانکہ ہم بھی اس ملک میں ایک مدت سے جی رہے ہیں، ہمیں تو کبھی سڑے ہوئے گوشت کے ڈھیر نظر نہیں آئے۔ وہ بتائیں انھیں کہاں ان کا دیدار میسرہوا ہے۔
حال میں ایک اور آواز اٹھی ہے کہ ملک میں روز بروز جانوروں کی کمی ہوتی جارہی ہے اور اسی وجہ سے دودھ اور گھی کی فراہمی بھی کم ہو رہی ہے۔ حکومت نے اسی لیے ہفتہ میں ایک کی بجائے دو دن گوشت کا ناغہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ مگر اس سے بھی کام نہ چلا۔ اب شاید اسے بڑھا کر جلدی ہی تین دن ناغہ کرنا پڑے۔ اس حالت میں بقر عید کی قربانی پر پابندی لگانا ناگزیر ہے۔ کیوں کہ اگر اسی طرح ہزارہا جانور اس موقع پر کٹتے رہے تو جانوروں کا، اور اس کے ساتھ دودھ گھی کا بھی قحط رونما ہو جائے گا۔
جہاں تک جانوروں کی کمی کا تعلق ہے، اسے بڑھا کر قحط کی حد تک نوبت پہنچا دینے کا غالبًا اس سے زیادہ کار گر نسخہ اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ ان کی کھپت روز بروز کم کی جاتی رہے۔ کیوں کہ جانور پالنے والے بھی اس کے ساتھ ساتھ ہی روز بروز گلہ بانی کے پیشے سے دست کش ہوتے چلے جائیں گے۔ جب ان کے مال کی مانگ اس قدر کم ہو جائے کہ سال بھر میں ۱۵۶ دن تک ویسے ہی اس کی فروخت بند رہے، اور سال کے وہ تین دن بھی، جن کی اُمید میں وہ ہزارہا جانور پورے سال پالتے رہتے تھے، ان کے لیے کساد بازاری کی نذر ہو جائیں، تو ظاہر ہے کہ ان کے لیے اس کام میں کوئی کشش باقی نہیں رہ سکتی۔ وہ اپنی روزی کسی اور کام میں تلاش کرنے پر مجبور ہوں گے اور جانور پالنا کم کرتے چلے جائیں گے۔ پھر جب جانوروں کی فراہمی میں مزید کمی واقع ہوگی اور ہمارے ضرورت سے زیادہ عقل مند مدبرین ہفتہ میں مزید چند روز گوشت بند کرکے اور بقر عید کی قربانی بالکل ممنوع کرکے اس کا مداوا فرماتے رہیں گے تو ایک روز آپ سے آپ یہ ملک اہنسا کا گہوارہ اور جَین مت کی جنت بن کر رہے گا۔ نہ معلوم ان حضرات کو کس حکیم نے یہ مشورہ دیا ہے کہ جانوروں کی کمی کا علاج ان کی افزائش نسل کے لیے سہولتیں بہم پہنچانے اور گلہ بانی کی ہمت افزائی کرنے کی بجائے بازار میں اس جنس کی مانگ کم کرتے چلے جانا ہے۔
رہی دودھ اور گھی کی کمی، تو اس کا رشتہ جانوروں کے ذبیحے سے لے جا کر جوڑنا صرف ان لوگوں کاکام ہوسکتا ہے جو اس ملک میں باہر سے آکر حکم رانی کرنے والوں کی طرح رہتے ہیں۔ بالکل ایک غیر ملکی مبصر کی طرح انھوں نے اپنے کمرے میں بیٹھ کر قیاس فرما لیا کہ ضرور دودھ دینے والے جانور ہی دھڑا دھڑ ذبح کیے جارہے ہوں گے، تب ہی تو ملک میں دودھ اور گھی کی فراہمی کم ہورہی ہے۔ حالانکہ اگر وہ اس ملک میں چل پھر کر معلوم کرتے کہ یہاں دودھ دینے والے جانوروں کی قیمتیں کیا ہیں، اور گوشت کا نرخ کیا ہے، اور یہاں کے ایک جانور میں اوسطاً کتنا گوشت نکلتا ہے، تو انھیں خود معلوم ہو جاتا کہ صرف وہی قصاب دودھ دینے والا جانور کاٹ کر گوشت بیچ سکتا ہے جو کچھ کمانے کی بجائے اپنے گھر سے خریداروں کو کھلانے کی پاکیزہ نیت رکھتا ہو، اور صرف وہی شخص بقر عید میں دودھ دینے والا جانور خرید کر قربان کرسکتا ہے جس کی ماہوار آمدنی سیکڑوں سے متجاوز ہو کر ہزاروں تک پہنچی ہوئی ہو۔

معترضین کے چند مزید سہارے

حال میں ایک صاحب نے کچھ شرعی سہارے اس غرض کے لیے تلاش کیے ہیں کہ قربانی بند نہ سہی محدود ہی ہو جائے اور حکومت اسے محدود کرکے حد مقرر سے زائد قربانیوں کا روپیہ خیراتی کاموں میں صرف کرنے کا انتظام کردے۔ ان سہاروں کی نوعیت بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔
وہ کہتے ہیں کہ قربانی صرف امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک واجب ہے، باقی ائمہ دین اسے صرف سنت مانتے ہیں۔ حالانکہ ان کی یہ بات بھی غلط ہے کہ اسے صرف امام اعظم واجب قرار دیتے ہیں، اوریہ بھی غلط کہ باقی ائمہ اسے سنت اس معنی میں مانتے ہیں کہ اس پر عمل کرنے یا نہ کرنے کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ جن ائمہ نے اسے واجب قرار دیا ہے ان میں امام مالکؒ اور امام اوزاعیؒ بھی شامل ہیں، اور امام شافعیؒ وغیرہ جنھوں نے اسے سنت مانا ہے وہ سب اسے سنت موکدہ کہتے ہیں جس کا ترک جائز نہیں۔
ان کا بیان ہے کہ شارع کا منشا قربانی کو محدود کرنا تھا کیوں کہ حضورؐ نے قربانی کا حکم صرف ذی استطاعت لوگوں کو دیا ہے اور حدیث میں یہ بھی فرمایا ہے کہ علیٰ کل اھل بیت فی کل عام اضحیۃ وعتیرۃ (ہر گھر کے لوگوں پر ہر سال ایک قربانی بقرعید کی اور ایک رجب کی لازم ہے)۔ حالانکہ ترمذی کے بقول یہ حدیث غریب اور ضعیف السند ہے اور ابودائود نے صراحت کی ہے کہ رجب کی قربانی کا حکم حضورؐ نے منسوخ فرما دیا تھا۔ تاہم اس بحث کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو سوال یہ ہے کہ شارعؐ نے ایک چیز کو لازم کرتے ہوئے اگر اس کی ایک کم از کم حد مقرر کی ہو تو کیا واقعی اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ شارع اس پر عمل کو محدود کرنا چاہتا ہے؟ نماز صرف پانچ وقت کی چندرکعتیں فرض ہیں۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ شارع نماز کو محدود رکھنا چاہتا ہے اور فرض رکعتوں سے زیادہ پڑھنا اسے پسند نہیں؟ روزے صرف رمضان کے فرض ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ روزوں کو محدود کرنا ہی مقصود ہے اور زائد روزے ناپسندیدہ ہیں؟ زکوٰۃ کی ایک محدود مقدار صرف صاحب نصاب پر لازم کی گئی ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کو محدود کرنا پیش نظر ہے اور غیر صاحب نصاب اگر راہ خدا میں مال صرف کرے یا صاحب نصاب زکوٰۃ کے علاوہ کچھ خیرات کرے تو یہ ناپسندیدہ بات ہوگی؟
وہ قرآن سے بعض نظیریں پیش کرتے ہیں کہ حج کی بعض رعایات سے فائدہ اٹھانے والوں اور بعض کوتاہیوں کا ارتکاب کرنے والوں پر جو قربانی لازم کی گئی ہے اس کا بدل روزوں کی شکل میں یا مالی انفاق کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے خود تجویز فرمایا ہے۔ اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ بقر عید کی قربانی کا بدل بھی اسی طرح تجویز کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ یہ استدلال اصولاً غلط ہے۔ وہاں شارع نے دو تین متبادل صورتیں ایک واجب سے سبک دوش ہونے کے لیے خود تجویز کی ہیں۔ یہاں آپ شارع کی ایک ہی مقرر کردہ شکل عبادت کا بدل تجویز فرما رہے ہیں۔ یہ اختیار آپ کو کس نے دیا ہے؟ کیا اسی طرح آپ نماز، روزے، زکوٰۃ، حج اور دوسرے فرائض و واجبات کے بدل بھی، آپ ہی آپ تجویز کرلینے کے لیے آزاد ہیں؟
پھر وہ ہدایہ کی ایک عبارت سے یہ بالکل غلط مفہوم نکالتے ہیں کہ قربانی کے دنوں میں اگرچہ قربانی ہی کرنا افضل ہے، مگر اس کی بجائے جانور کی قیمت صدقہ کر دینا بھی جائز ہے۔ حالانکہ کوئی فقیہ اس بات کا قائل نہیں ہے کہ بقر عید کے ایام میں جانور کی قیمت کا صدقہ قربانی کا بدل ہوسکتا ہے۔ صاحب ہدایہ غریب کو اگر معلوم ہوتا کہ کسی وقت ان کے الفاظ التضحیہ فیھا افضل من التصدق بثمن الاضحیۃ کا مطلب یہ نکالا جائے گا کہ قربانی کے دنوں میں قربانی کی بجائے جانور کی قیمت صدقہ کر دینا بھی درست ہے تو وہ دس بار اس پر توبہ کرتے۔ آخر فقہ حنفی کی ایک کتاب ہدایہ ہی تو نہیں ہے۔ دوسری بے شمار کتابیں بھی دنیا میں موجود ہیں اور قریب قریب سب ہی میں بالفاظ صریح یہ بات لکھی گئی ہے کہ ان دنوں میں کوئی صدقہ قربانی کا بدل نہیں ہوسکتا۔
ایک دل چسپ استدلال ان کا یہ بھی ہے کہ اب لوگوں کے اندر خلوص و تقوٰی کم ہے اور اس کی بجائے فخر، ریا اور نام و نمود کی خاطر لوگ قربانیاں کرتے ہیں۔ گویا جب یہی لوگ قربانی کی بجائے قومی فنڈز میں … اور وہ بھی سرکاری فنڈ میں… بڑھ چڑھ کر چندے دیں گے تو اس وقت یہ کام غایت درجہ خلوص و تقوٰی کے ساتھ ہوگا اس کے بعد بعید نہیں کہ ہر مسجد پر ایک محتسب خلوص پیما آلات لیے ہوئے موجود رہے اور اس سے ناپ ناپ کر ہر ’’ریا کار‘‘ نمازی کو حکم دے کہ نوافل اور سنتیں چھوڑ کر ان کے بدلے قومی فنڈ میں روپیہ داخل کرو۔
ان کم زور سہاروں پر یہ عمارت کھڑی کی گئی ہے کہ قربانی کو محدود کر دینا شریعت کے منشا کے مطابق ہے۔
٭…٭…٭