مسئلہ قومیت

ریڈ مودودی ؒ   کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

دیباچہ

قوم، قومیّت اور قوم پرستی کے الفاظ آج کل بکثرت لوگوں کی زبانوں پر چڑھے ہوئے ہیں، لیکن کم لوگ ہیں جن کے ذہن میں ان کے مفہوم کا کوئی صحیح تصور موجود ہے اور اس سے بھی کم تر لوگ ایسے ہیں جو قوم اور قومیّت اور قوم پرستی کے باب میں اسلام کے نقطۂ نظر کو سمجھتے ہوں۔ اسی ناواقفیت کی وجہ سے نہ صرف الفاظ کے استعمال میں، بلکہ خیالات اور اعمال میں بھی سخت غلطیاں رُونما ہورہی ہیں۔ ایک گروہ مسلمانوں کے لیے’’قوم‘‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے، مگر نہیں جانتا کہ اس جماعت پر ’’قوم‘‘ یا ’’اُمت‘‘ کے الفاظ کا اطلاق کس معنی میں ہوتا ہے اور اسلام کی ’’قومیّت‘‘ کس نوعیت کی ہے۔ نتیجہ یہ ہےکہ وہ مسلمانوں کو بھی اسی معنی میں ایک ’’قوم‘‘ سمجھنے لگتا ہے جیسے ہندو ایک قوم ہیں یا جرمن ایک قوم ہیں۔ اور یہ غلط فہمی اُس کے اَخلاق اور اجتماعی طرزِعمل اور سیاسی پالیسی کو اسلامی نقطۂ نظر سے سراسر غلط بلکہ مہلک بنادیتی ہے۔ دوسرا گروہ قومیّت اور قوم پرستی کے بارے میں اسلام کے اصول کو بالکل ہی بھول جاتا ہے ، اور صرف یہی نہیں کہ مسلمانوں کے لیے غیرمسلموں کے ساتھ متّحدہ قومیّت میں شریک ہونے کو جائز سمجھ لیتا ہے، بلکہ اس حد تک آگے بڑھ جاتا ہے کہ قوم پرستی (نیشنلزم) جیسی ایک ملعون چیز کو قبول کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے میں دریغ نہیں کرتا۔
اِن ہی غلط فہمیوں کو دُور کرنے کے لیے یہ مختصر رسالہ شائع کیا جارہا ہے۔ یہ میرے پانچ مختلف مضامین پر مشتمل ہے جو وقتاً فوقتاً ترجمان القرآن میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان شاء اللہ اُمید ہے کہ اس مجموعہ سے مسئلہ کے تمام پہلو ناظرین کے سامنے آجائیں گے۔

ابوالاعلیٰ
۲۰ ذی الحجہ ۱۳۵۹ھ (۱۹ جنوری ۱۹۴۱ء)

(قومیّت ِاسلام (قوم کا مفہوم

وحشت سے مدنیت کی طرف انسان کا پہلا قدم اُٹھتے ہی ضروری ہوجاتا ہے کہ کثرت میں وحدت کی ایک شان پیدا ہو اور مشترک اغراض و مصالح کے لیے متعدد افراد آپس میں مل کر تعاون اور اشتراکِ عمل کریں۔ تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس اجتماعی وحدت کا دائرہ بھی وسیع ہوتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ ا نسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس میں داخل ہوجاتی ہے ۔ اسی مجموعۂ افراد کا نام ’’قوم‘‘ ہے۔اگرچہ لفظ ’’قوم‘‘ اور ’’قومیّت‘‘ اپنے مخصوص اصطلاحی معنوں میں حدیث العہد ہیں مگر جس معنی پر ان کا اطلاق ہوتا ہے وہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود تمدن قدیم ہے۔ ’’قوم اور قومیّت‘‘ جس ہیئت کا نام ہے ، وہ بابل، مصر ، روم اور یونان میں بھی ویسی ہی تھی جیسی آج فرانس ، انگلستان ، جرمنی اور اٹلی میں ہے۔

قومیّت کے غیرمنفک لوازم

اس میں شک نہیں کہ قومیت کی ابتداء ایک معصوم جذبہ سے ہوتی ہے، یعنی اس کا مقصد اوّل یہ ہوتا ہے کہ ایک خاص گروہ کے لوگ اپنے مشترک مفاد و مصالح کے لیے عمل کریں اور اجتماعی ضرویات کے لیے ایک قوم بن کر رہیں لیکن جب ان میں ’’قومیّت‘‘ پیدا ہوجاتی ہے تو لازمی طور پر ’’عصبیّت‘‘ کا رنگ اس میں آجاتا ہے اور جتنی جتنی ’’قومیّت‘‘شدید ہوتی جاتی ہے اسی قدر ’’عصبیّت‘‘میں بھی شدت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جب کبھی ایک قوم اپنے مفاد کی خدمت اور اپنے مصالح کی حفاظت کے لیے اپنے آپ کو ایک رشتۂ اتحاد میں منسلک کرے گی یا بالفاظِ دگر اپنے گرد ’’قومیّت‘‘ کا حصار چُن لے گی تو لازماً وہ اس حصار کے اندر والوں اور باہر والوں کے درمیان اپنے اور غیر کا امتیاز کرے گی۔ اپنے کو ہرمعاملہ میں غیر پر ترجیح دے گی۔ غیر کے مقابلہ میں اپنے کی حمایت کرے گی۔ جب کبھی دونوں کے مفاد و مصالح میں اختلاف واقع ہوگا تو وہ اپنے کے مفاد کی حفاظت کرے گی اور اس پر غیرکے مفاد کو قربان کردے گی۔ انھی وجوہ سے ان میں صلح بھی ہوگی اور جنگ بھی مگر رزم اور بزم دونوں میں قومیّت کی حد ِ فاصل دونوں گروہوں کے درمیان قائم رہے گی۔ اسی چیز کا نام عصبّیت و حمیّت ہے اور قومیت کی یہ وہ لازمی خصوصیت ہے جو اس کے ساتھ پیدا ہوتی ہے۔

قومیت کے عناصر ترکیبی

قومیت کا قیام وحدت و اشتراک کی کسی ایک جہت سے ہوتا ہے، خواہ وہ کوئی جہت ہو۔ البتہ شرط یہ ہے کہ اس میں ایسی زبردست قوتِ رابطہ و ضابطہ ہونی چاہیے کہ َاجسام کے تعدُّد اور نفوس کے تکثُّرکے باوجود وہ لوگوں کو ایک کلمہ، ایک خیال، ایک مقصد اور ایک عمل پر جمع کردے اور قوم کے مختلف کثیرالتعداد اجزاء کو قومیّت کے تعلق سے اس طرح بستہ و پیوستہ کردے کہ وہ سب ایک ٹھوس چٹان بن جائیں اور افرادِ قوم کے دل و دماغ پر اتنا تسلُّط و غلبہ حاصل کرلے کہ قومی مفاد کے معاملہ میں وہ سب متَّحد ہوں اور ہر قربانی کے لیے آمادہ رہیں۔
یوں تو اِشتِراک اور وحدت کی جہتیں بہت سی ہونی ممکن ہیں لیکن آغازِ عہد ِ تاریخ سے آ ج تک دنیا میں جتنی قومیتیں بنی ہیں ان سب کی تعمیر بجز ایک اسلامی قومیت کے ، حسب ذیل اِشتِراکات میں سے کسی ایک قسم کے اِشتِراک پر ہوئی ہے اور اس عناصر کے ساتھ چند دوسرے اِشتِراکات بھی بطور مددگار کے شریک ہوگئے ہیں۔
اِشتِراکِ نسل، جس کو نسلیت کہتے ہیں۔
اِشتِراکِ مرزبوم، جس کو وطنیت کہتے ہیں۔
اِشتِراکِ زبان، جو وحدت خیال کا ایک زبردست ذریعہ ہونے کی وجہ سے قومیّت کی تعمیر میں خاص حصہ لیتا ہے۔
اِشتِراکِ رنگ، جو ایک رنگ کے لوگوں میں ہم جنسی کا احساس پیدا کرتا ہے اور پھر یہی احساس ترقی کرکے ان کودوسرے رنگ کے لوگوں سے احتراز و اجتناب پر آمادہ کردیتا ہے۔
معاشی اغراض کا اِشتِراک،جو ایک معاشی نظام کے لوگوں کو دوسرے معاشی نظام والوں کے مقابلہ میں ممتاز کرتا ہے، اور جس کی بناپروہ ایک دوسرے کے مقابلے میں اپنے معاشی حقوق و منافع کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔
نظامِ حکومت کا اِشتِراک،جو ایک سلطنت کی رعایا کو مشترک نظم و نسق کے رشتہ میں منسلک کرتا ہے اور دوسری سلطنت کی رعایا کے مقابلہ میں حدودِ فاصلہ قائم کردیتا ہے۔
قدیم ترین عہد سے لے کر آج بیسویں صدی کے روشن زمانے تک جتنی قومیتوں کے عناصرِ اصلیہ کا آپ تجسُّس کریں گے، ان سب میں آپ کو یہی مذکورہ بالا عناصر ملیں گے۔
اب سے دو تین ہزار برس پہلے یونانیت، رومیت، اسرائیلیت، ایرانیت وغیرہ بھی انھی بنیادوں پر قائم تھیں جن پر آج جرمنیت، اطالو ِیت، فرانسیسیت، انگریزیت اور جاپانیت وغیرہ قائم ہیں۔

شر اور فساد کا سرچشمہ

یہ بالکل صحیح ہے کہ یہ بنیادیں جن پر دنیا کی مختلف قومیتیں تعمیر کی گئی ہیں، انھوں نے بڑی قوت کے ساتھ جماعتوں کی شیرازہ بندی کی ہے مگر اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی ناقابلِ انکار ہے کہ اس قسم کی قومیتیں بنی نوع انسان کے لیے ایک شدید مصیبت ہیں۔ انھوں نے عالمِ انسانی کو سینکڑوں ہزاروں حصوں میں تقسیم کردیا ہے ، اور حصے بھی ایسے کہ ایک حصہ فنا کیا جاسکتا ہے، مگر دوسرے حصہ میں کسی طرح تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ایک نسل دوسری نسل میں نہیں بدل سکتی۔ ایک وطن دوسرا وطن نہیں بن سکتا۔ ایک زبان کے بولنے والے دوسری زبان کے بولنے والے نہیں بن سکتے۔ ایک رنگ دوسرا رنگ نہیں بن سکتا۔ ایک قوم کی معاشی اغراض بعینہٖ دوسری قوم کی اغراض نہیں بن سکتیں۔ ایک سلطنت کبھی دوسری سلطنت نہیں بن سکتی۔ نتیجہ یہ ہے کہ جو قومیتیں ان بنیادوں پر تعمیر ہوتی ہیں، ان کے درمیان مصالح کی کوئی سبیل نہیں نکل سکتی۔ قومی عصبیت کی بنا پر وہ ایک دوسرے کے خلاف مسابقت، مزاحمت اور منافست کی ایک دائمی کش مکش میں مبتلا رہتی ہیں۔ ایک دوسرے کو پامال کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ آپس میں لڑلڑ کر فنا ہوجاتی ہیں اور پھر انھی بنیادوں پر دوسری قومیتیں ایسے ہی ہنگامے برپا کرنے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ یہ فساد، بدامنی اور شرارت کا ایک مستقل سرچشمہ ہے، خدا کی سب سے بڑی لعنت ہے، شیطان کاسب سے زیاد ہ کامیاب حربہ ہے جس سے وہ اپنے اَزَلی دشمن کا شکار کرتا ہے۔

عصبیّت جاہلیہ

اس قسم کی قومیت کا فطری اِقتضا یہ ہے کہ وہ انسان میں جاہلانہ عصبیت پیدا کرے۔ وہ ایک قوم کو دوسری قوم سے مخالفت اور نفرت برتنے پر صرف اس لیے آمادہ کرتی ہے کہ وہ دوسری قوم کیوں ہے؟ اسے حق، صداقت، دیانت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ صرف یہ بات کہ ایک شخص کالا ہے، گورے کی نظر میں اسے حقیر بنادیتی ہے۔ صرف اتنی سی بات کہ ایک انسان ایشیائی ہے، فرنگی کی نفرتوں اور جابرانہ دراز دستیوں اور حق تلفیوں کو اس کے لیے وقف کردیتی ہے۔ آئن سٹائن جیسے فاضل کا اسرائیلی ہونا اس کے لیے کافی ہے کہ جرمن اس سے نفرت کرے۔ تشکیدی{ یہ بیچوانا لینڈ کے بامنگ واٹو قبیلہ کا سردار ہے جس کو حال ہی میں ایک یورپین پر سزائے تازیانہ جاری کرنے کے جرم میں سلطنت ِ برطانیہ نے حقوقِ ریاست سے محروم کر دیا تھا۔ حالانکہ دیسی باشندوں کے ساتھ اس فرنگی شخص کے افسوس ناک برتائو کا خود برٹش ہائی کمشنر کو بھی اعتراف تھا۔ بعد میں غریب تشکیدی کو صرف اس وقت بحال کیا گیا جب کہ اس نے ہمیشہ کے لیے یہ عہد کرلیا کہ وہ کبھی کسی ایسے مقدمہ کا فیصلہ نہ کرے گا جس کا تعلق کسی یورپین سے ہو۔ مگر ایسی کوئی شرط اس عہدنامہ میں نہ رکھی گئی کہ یورپین حضرات بھی دیسی باشندوں کی جان و مال اور عزت و آبرو سے تعرض نہ فرمائیں گے۔
} کا محض سیاہ فام حبشی ہونا، اس کو جائز کردیتی ہے کہ یورپین کو سزا دینے کے جرم میں اس کی ریاست چھین لی جائے۔ امریکہ کے مہذب باشندوں کے لیے یہ قطعاً جائز ہے کہ وہ حبشیوں کو پکڑ کر زندہ جلادیں کیونکہ وہ حبشی ہیں۔ جرمن کا جرمن ہونا اور فرانسیسی کا فرانسیسی ہونا اس بات کے لیے کافی ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے نفرت کریں اور دونوں کو ایک دوسرے کے محاسن یکسر معائب نظر آئیں۔ سرحد کےآزاد افغانیوں کا افغانی ہونا اور دمشق کے باشندوں کا عرب ہونا، انگریز اور فرانسیسی کو اس کا پورا حق بخش دیتا ہے کہ وہ ان کے سروں پر طیاروں سے بم برسائیں اور ان کی آبادیوں کا قتلِ عام کریں، خواہ یورپ کے مہذب شہریوں پر اس قسم کی گولہ باری کتنی ہی وحشیانہ حرکت سمجھی جاتی ہو۔ غرض یہ جنسی امتیاز وہ چیز ہے جو انسان کو حق اور انصاف کی طرف سے اندھا بنادیتی ہے ، اور اس کی وجہ سے عالمگیر اصولِ اخلاق و شرافت بھی قومیتوں کے قالب میںڈھل کر کہیں ظلم اور کہیں عدل، کہیں سچ اور کہیں جھوٹ، کہیں کمینگی اور کہیں شرافت بن جاتے ہیں۔
کیا انسان کے لیے اس سے زیادہ غیرمعقول ذہنیت اور کوئی ہوسکتی ہے کہ وہ نالائق، بدکار اور شریر آدمی کو ایک لائق، صالح اور نیک نفس آدمی پر صرف اس لیے ترجیح دے کہ پہلا ایک نسل میں پیدا ہوا ہے اور دوسرا کسی اور نسل میں؟ پہلا سپید ہے اور دوسرا سیاہ؟ پہلا ایک پہاڑ کے مغرب میں پیدا ہوا ہے اور دوسرا اس کے مشرق میں؟ پہلا ایک زبان بولتا ہے اور دوسرا کوئی اور زبان؟ پہلا ایک سلطنت کی رعایا ہے اور دوسرا کسی اور سلطنت کی؟ کیا جِلد کے رنگ کو رُوح کی صفائی و کدورت میں بھی کوئی دخل ہے؟ کیا عقل اس کو باور کرتی ہے کہ اَخلاق و اوصافِ انسانی کے صلاح و فساد سے پہاڑوں اور دریائوں کا کوئی تعلق ہے؟ کیا کوئی صحیح الدماغ انسان یہ تسلیم کرسکتا ہے کہ مشرق میں جو چیز حق ہو وہ مغرب میں باطل ہوجائے؟ کیا کسی قلب ِ سلیم میں اس چیز کے تصور کی گنجایش نکل سکتی ہے کہ نیکی، شرافت جو ہرانسانیت کو رگوں کے خون، زبان کی بولی ، مولد و مسکن کی خاک کے معیار پر جانچا جائے؟ یقینًا عقل ان سوالات کا جواب نفی میں دے گی، مگر نسلیت، وطنیت اور اس کے بہن بھائی نہایت بے باکی کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہاں ایسا ہی ہے۔

قومیت کے عناصر پر ایک عقلی تنقید

تھوڑی دیر کے لیے اس پہلو سے قطع نظر کرلیجیے۔ یہ جتنے اِشتِراکات آج قومیت کی بنیاد بنے ہوئے ہیں ان کو خود ان کی ذاتی حیثیت سے دیکھیے اور غور کیجیے کہ آیا یہ بجائے خود کوئی مضبوط عقلی بنیاد بھی رکھتے تھے یا ان کی حقیقت محض سرابِ تخیُّل کی ہے۔

نسلیّت

نسلیّت کیا ہے؟ محض خون کا اِشتِراک۔ اس کا نقطۂ آغاز ماں اور باپ کا نطفہ ہے جس سے چند انسانوں میں خونی رشتہ پیدا ہوتا ہے۔ یہی نقطہ پھیل کر خاندان بنتا ہے ، پھر قبیلہ، پھر نسل۔ اس آخری حد یعنی نسل تک پہنچتے پہنچتے انسان اپنے اس باپ سے جس کو اس نے اپنی نسل کا مورثِ اعلیٰ قرار دیا ہے، اتنا دُور ہوجاتا ہے کہ اس کی مورثیت محض ایک خیالی چیز بن جاتی ہے۔ نام نہاد نسل کے اس دریا میں بیرونی خون کے بہت سے ندی نالے آکر مل جاتے ہیں اور کوئی صاحب ِ عقل و علم انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ یہ دریا خالص اسی پانی کا ہے جو اپنے اصلی سرچشمہ سے نکلا تھا۔ پھر اگر اس خلط ملط کے باوجود خون کے اِشتِراک کی بنا پر انسان ایک ’’نسل‘‘ کو اپنے لیے مادئہ اتحاد قرار دے سکتا ہے، تو کیوں نہ اس خون کے اِشتِراک کو بنائے وحدت قرار دیا جاسکے جو تمام انسانوں کو ان کے پہلے باپ اور پہلی ماں سے ملاتا ہے؟ اور کیوں نہ تمام انسانوں کو ایک ہی نسل اور ایک ہی اصل کی طرف منسوب کیا جائے؟ آج جن لوگوں کو مختلف نسلوں کا بانی و مورث قرار دے لیا گیا ہے ان سب کا نسب اُوپر جاکر کہیں نہ کہیں ایک دوسرے سے مل جاتا ہے اور آخر میں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ سب ایک اصل سے ہیں۔ پھر یہ آریّت اور سامیّت کی تقسیم کیسی؟

وطنیت

مرزبوم کے اِشتِراک کی حقیقت اس سے زیادہ موہوم ہے، انسان جس جگہ پیدا ہوتا ہے اس کا رقبہ یقینًا ایک گز مربع سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اس رقبہ کو اگر وہ اپنا وطن قرار دے تو شاید وہ کسی ملک کو اپنا وطن نہیں کَہ سکتا۔ لیکن وہ اس چھوٹے سے رقبہ کے گرد میلوں اور کوسوں اور بسااوقات سینکڑوں اور ہزاروں میل تک ایک سرحدی خط کھینچ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہاں تک میرا وطن ہے اور اس سے باہر جو کچھ ہے اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ یہ محض اس کی نظر کی تنگی ہے، ورنہ کوئی چیز اسے تمام روئے زمین کو اپنا وطن کہنے سے مانع نہیں ہے۔ جس دلیل کی بنا پر وہ پھیل کر پورا کرئہ ارضی بھی بن سکتا ہے۔ اگر آدمی اپنے زاویۂ نظر کو تنگ نہ کرے تو وہ دیکھ سکتا ہے کہ یہ دریا اور پہاڑ اور سمندر وغیرہ جن کواس نے محض اپنے خیال میں حدودِ فاصل قرار دے کر ایک زمین اور دوسری زمین کے درمیان فرق کیا ہے، سب کے سب ایک ہی زمین کے اجزاء ہیں۔ پھر کس بنا پر اس نے دریائوں اور پہاڑوں اور سمندروں کو یہ حق دے دیا کہ وہ اسے ایک خاص خطہ میں قید کردیں؟ وہ کیوں نہیں کہتا کہ میں زمین کا باشندہ ہوں، ساراکرئہ زمین میرا وطن ہے، جتنے انسان ربع مسکون میں آباد ہیں، میرے ہم وطن ہیں۔ اس پورے سیارے پر مَیں وہی پیدائشی حقوق رکھتا ہوں جو اس گزبھر زمین پر مجھے حاصل ہیں جہاں مَیں پیدا ہوا ہوں؟

لسانی امتیازات

اِشتِراکِ زبان کا فائدہ صرف اس قدر ہے کہ جو لوگ ایک زبان بولتے ہیں وہ باہمی تفاہُم اور تبادلۂ خیالات کے زیادہ مواقع رکھتے ہیں۔ اس سے اجنبیت کا پردہ بڑی حد تک اُٹھ جاتا ہے اور ایک زبان بولنے والے اپنے آپ کو ایک دوسرے سے قریب تر محسوس کرتے ہیں۔ مگر ادائے خیال کے وسیلہ کا مشترک ہونا، خود خیال کے اِشتِراک کو مستلزم نہیں ہے۔ ایک ہی خیال دس مختلف زبانوں میں ادا ہوسکتا ہے اور ان سب کے بولنے والوں کا اس خیال میں متَّحد ہوجانا ممکن ہے۔ بخلاف اس کے دس مختلف بیانات ایک زبان میں ادا ہوسکتے ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ اس ایک ہی زبان کے بولنے والے مختلف خیالات کے معتقد ہوکر باہم مختلف ہوجائیں۔ لہٰذا وحدت خیال جو حقیقتاً قوم کی جان ہے اِشتِراکِ زبان کا محتاج نہیں ہے اور نہ اِشتِراکِ زبان کے ساتھ وحدت خیال ضروری ہے۔ پھر ایک بڑا سوال یہ ہے کہ آدمی کی آدمیت اور اس کے ذاتی حُسن و قبح میں اس کی زبان کو کیا دخل ہے؟ ایک جرمن بولنے والے شخص کو ایک فرنچ بولنے والے کے مقابلہ میں کیا محض اس بنا پر ترجیح دی جاسکتی ہے کہ وہ جرمن زبان بولتا ہے؟ دیکھنے کی چیز اس کا جوہر ذاتی ہے نہ کہ اس کی زبان ۔زیادہ سے زیادہ اگر کچھ کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف یہ کہ ایک ملک کے انتظامی معاملات اور عام کاروبار میں وہی شخص مفید ہوسکتا ہے جو اس ملک کی زبان جانتا ہو مگر انسانیت کی تقسیم اور قومی امتیاز کے لیے یہ کوئی صحیح بنیاد نہیں ہے۔

امتیازِ رنگ

انسانی جماعتوں میں رنگ کا امتیاز سب سے زیادہ لغو اور مہمل چیز ہے۔ رنگ محض جسم کی صفت ہے، مگر انسان کو انسان ہونے کا شرف اس کے جسم کی بنا پر نہیں، اس کی روح اس کے نفسِ ناطقہ کی بنا پر ہے جس کا کوئی رنگ نہیں ہے۔ پھر انسان اور انسان میں زردی اور سرخی، سیاہی اور سپیدی کا امتیاز کیسا؟ ہم کالی گائے اور سپید گائے کے دودھ میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ اس کے لیے مقصود اس کا دودھ ہے نہ کہ اس کا رنگ۔ لیکن عقل کی بے راہ روی کا بُرا ہو کہ اس نے ہم کو انسان کی نفسی صفات سے قطع نظر کرکے اس کی جِلد کے رنگ کی طرف متوجہ کر دیا۔

معاشی قومیّت

معاشی اَغراض کا اِشتِراک انسانی خود غرضی کا ایک ناجائز بچہ ہے۔ قدرت نے اس کو ہرگز پیدا نہیں کیا۔ آدمی کا بچہ کام کرنے کی قوتیں ماں کے پیٹ سے لے کر پیدا ہوتا ہے۔ جدوجہد کے لیے اسے ایک وسیع میدان ملتا ہے اور زندگی کے بے شمار وسائل اس کا استقبال کرتے ہیں۔ مگر وہ اپنی معیشت کے لیے صرف اس کو کافی نہیں سمجھتا کہ اس کے لیے رزق کے دروازے کھلیں، بلکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ دوسروں کے لیے وہ بند ہوجائیں۔ اسی خودغرضی میں انسانوں کی کسی بڑی جماعت کے مشترک ہوجانے سے وہ وحدت پیدا ہوتی ہے جو انھیں ایک قوم بننے میں مدد دیتی ہے۔ بظاہر وہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے معاشی اَغراض کا ایک حلقہ قائم کرکے اپنے حقوق و مفاد کا تحفظ کرلیا۔ لیکن جب اسی طرح بہت سی جماعتیں اپنے گرد اسی قسم کے حصار کھینچ لیتی ہیں تو انسان پر اس کے اپنے ہاتھوں سے عرصۂ حیات تنگ ہوجاتا ہے۔ اس کی اپنی خودغرضی اس کے لیے پائوں کی بیڑی اور ہاتھ کی ہتھکڑی بن جاتی ہے۔ دوسروں کے لیے رزق کے دروازے بند کرنے کی کوشش میں وہ خود اپنے رزق کی کنجیاں گم کردیتا ہے۔ آج ہماری آنکھوں کے سامنے یہ منظر موجود ہے کہ یورپ، امریکہ اور جاپان کی سلطنتیں اسی کا خمیازہ بھگت رہی ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ان معاشی قلعوں کو کس طرح مسمار کریں جن کو انھوں نے خود ہی حفاظت کا بہترین وسیلہ سمجھ کر تعمیر کیا تھا۔ کیا اس کے بعد بھی ہم یہ نہ سمجھیں گے کہ کسب ِ معیشت کے لیے حلقوں کی تقسیم اور ان کی بناپر قومی امتیازات کا قیام ایک غیرعاقلانہ فعل ہے؟ خدا کی وسیع زمین پر انسان کو اپنے رب کا فضل تلاش کرنے کی آزادی دینے میں آخر کون سی قباحت ہے؟

سیاسی قومیّت

نظامِ حکومت کا اِشتِراک بجائے خود ایک ناپائیدار اور ضعیف البیان چیز ہے اور اس کی بناپر ہرگز کسی مستحکم قومیّت کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔ ایک سلطنت کی رعایا کو اس کی وفاداری کے رشتہ میں منسلک کرکے ایک قوم بنادینے کا خیال کبھی کامیاب نہیں ہوا۔ سلطنت جب تک غالب و قاہر رہتی ہے، رعایا اس کے قانون کی گرفت میں بندھی رہتی ہے۔ یہ گرفت جہاں ڈھیلی ہوئی مختلف عناصر منتشر ہوگئے۔ سلطنت ِ مغلیہ میں مرکزی طاقت کے کمزور ہونے کے بعد کوئی چیز ہندوستان کے مختلف علاقوں کو اپنی الگ الگ سیاسی قومیّتیں بنالینے سے نہ روک سکی۔ یہی حشر سلطنت ِ عثمانیہ کا ہوا۔ آخری دور میں جوان ترک نے عثمانی قومیّت کا قصر تعمیر کرنے کے لیے بہت کچھ زور لگایا مگر ایک ٹھیس لگتے ہی سب اینٹ پتھر جدا ہوگئے۔ تازہ ترین مثال آسٹریا ہنگری کی ہے اور تاریخ سے بہت سی مثالیں اور بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔ ان کو دیکھنے کے بعد جو لوگ سیاسی قومیتوں کی تعمیر ممکن سمجھتے ہیں وہ محض اپنے تخیل کی شادابی کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں۔

انسانیت و آفاقیت

اس تنقید سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نسلِ انسانی میں یہ جتنی تفریقیں کی گئی ہیں ان کے لیے کوئی عقلی بنیاد نہیں ہے۔ یہ صرف حسی اور مادی تفریقیں ہیں جن کا ہر دائرہ زاویۂ نظر کی ہروسعت پر ٹوٹ جاتا ہے۔ان کا قیام و بقا جہالت کی تاریکی، نگاہ کی محدودیت اور دل کی تنگی پر منحصر ہے۔ علم و عرفان کی روشنی جس قدر پھیلتی ہے بصیرت کی رسائی جس قدر بڑھتی ہے، قلب میں جتنی جتنی وسعت پیدا ہوتی جاتی ہے، یہ مادی اور حسی پردے اُٹھتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ نسلیت کو انسانیت کے لیے اور وطنیت کو آفاقیت کے لیے جگہ خالی کرنی پڑتی ہے۔ اختلاف رنگ و زبان میں جوہرِ انسانی کی وحدت جلوہ گر ہوتی ہے، خدا کی زمین میں خدا کے سب بندوں کی معاشی اَغراض مشترک پائی جاتی ہیں، اور سیاسی نظامات کے دائرے، محض چند سائے نظر آتے ہیں، جو آفتاب کی گردش سے روئے زمین پر چلتے پھرتے اور گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔

اسلام کا وسیع نظریہ

ٹھیک یہی بات ہے جو اسلام کہتاہے۔ اس نے انسان اور انسان کے درمیان کسی مادی اور حسی فرق کوتسلیم نہیں کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ سب انسان ایک ہی اصل سے ہیں:
خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًاکَثِیْرًا وَّ نِسَاءً (النساء)
’’خدا نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا۔ پھر اس سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو دُنیا میں پھیلا دیا‘‘۔
تمھارے درمیان مرزبوم اور مولد و مدفن کا اختلاف کوئی جوہری چیز نہیں ہے۔ اصل میں تم سب ایک ہی ہو۔
وَہُوَالَّذِيْٓ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّمُسْـتَوْدَعٌ (الانعام)
’’اور وہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا پھر ہر ایک کا ایک ٹھکانا ہے اور ایک جگہ اس کے سپردِ خاک ہونے کی ہے‘‘۔
اس کے بعد نسل اور خاندان کے اختلاف کی بھی یہ حقیقت بتا دی کہ:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۝۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ (الحجرات)
’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تم کو گروہ اور قبائل بنا دیا تاکہ تم آپس میں پہچانے جائو۔ مگر درحقیقت معزز تو تم میں وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔
یعنی یہ شعوب و قبائل کا اختلاف محض تعارف کے لیے ہے۔ آپس کے بُغض، ایک دوسرے پر تفاخر، ایک دوسرے سے جھگڑنے کے لیے نہیں ہے۔ اس اختلاف میں انسانی اصل کی وحدت کو نہ بھول جائو۔ تم میں اگر کوئی حقیقی تفریق ہے تو وہ اَخلاق و اعمال کی نیکی اور بدی کی بنا پر ہے۔
پھر فرمایا کہ یہ گروہوں کی تفریق اور جماعتوں کا اختلاف خدا کا عذاب ہے جو تم کو آپس کی دشمنی کا مزہ چکھاتا ہے۔
اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَّيُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ (الانعام)
’’یا تم کو گروہ گروہ بنا دے اور تمھیں ایک دوسرے کی قوت کا مزہ چکھائے‘‘۔
اس گروہ بندی کو اس نے من جملہ اُن جرائم کے قرار دیا ہے جن کی بنا پر فرعون لعنت و عذاب کا مستحق ہوا۔
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا (القصص)
’’فرعون نے زمین میں تکبر کیا اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا‘‘۔{ { اسی وجہ سے فقہائے اسلام کے ایک بڑے گروہ نے مکہ کی سرزمین پر کسی کے حق ملکیت کو تسلیم نہیں کیا۔ حضرت عمرؓ اہلِ مکہ کو گھروں کے دروازے تک بند کرنے سے روکتے تھے تاکہ حجاج و زائرین جہاں چاہیں اُتریں۔ حضرت عمر ابن عبدالعزیز مکہ میں مکانات کے کرائے لینے سے منع کرتے تھے اور انھوں نے امیرمکہ کو فرمان لکھا تھا۔ لوگوں کو اس سے روکیں۔ بعض فقہاء نے کہا ہے کہ جس نے اپنے خرچ سے وہاں مکان بنایا وہ اس کا کرایہ لے سکتا ہے مگر میدان اور خرابات اور مکانوں کے صحنوں پر سب کا حق ہے۔ رسولؐ اللہ کا ارشاد ہے کہ مکۃ حرام لا یحل بیع رباعھا ولا اجور بیوتھا ۔ ایک دوسرے موقع پر ارشاد ہوا: انما ھی مناخ من سبق۔یہ اس زمین کا حال ہے جس سے اسلام نے خصوصیت پیدا کی۔
} یہ آیت اس تاریخی جرم کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ فرعون نے مصر کے باشندوں میں قبطی اور غیرقبطی کی تفریق قائم کی اور دونوں کے ساتھ مختلف طرزِعمل اختیار کیا۔}
پھر کہا: زمین خدا کی ہے۔ اس نے نوعِ انسانی کو اس میں اپنی خلافت سے سرفراز کیا ہے، اس کی سب چیزوں کو انسان کے لیے مسخر کیا ہے، کچھ ضروری نہیں کہ انسان ایک خطہ کا بندہ بن کر رہ جائے۔ یہ وسیع زمین اس کے لیے کھلی ہوئی ہے، ایک جگہ اس کے لیے تنگ ہو تو دوسری جگہ چلا جائے، جہاں جائے گا خدا کی نعمتیں موجود پائے گا۔
اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً (البقرہ)
’’آدم ؑ کی تخلیق کے وقت خدا نے فرمایا کہ مَیں زمین میں ایک خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں‘‘۔
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ (الحج)
’’کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے تمھارے لیے ان چیزوں کو مسخر کردیا ہے جو زمین میں ہیں‘‘۔
اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوْا فِيْھَا (النساء)
’’کیا اللہ کی زمین وسیع اور کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرکے چلے جاتے؟‘‘
وَمَنْ يُّھَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِيْرًا وَّسَعَۃً (النساء)
’’جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں وافر جگہ اور کشائش پائے گا‘‘۔
آپ پورے قرآن کو دیکھ جایئے۔ اس میں ایک لفظ بھی آپ کو نسلیت یا وطنیت کی تائید میں نہ ملے گا۔ اس کی دعوت کا خطاب پوری نوعِ انسانی سے ہے۔ تمام روئے زمین کی انسانی مخلوق کو وہ خیروصلاح کی طرف بلاتا ہے۔ اس میں نہ کسی قوم کی تخصیص ہے اور نہ کسی سرزمین کی۔ اس نے اگر کسی زمین کے ساتھ خاص تعلق پیدا کیا ہے تو وہ صرف مکہ کی زمین ہے، لیکن اس کے متعلق بھی صاف کَہ دیا کہ سَوَآءَ نِ الْعَاکِفُ فِیْہِ وَالْبَادِ (الحج:۳) یعنی مکہ کے اصل باشندے اور باہروالے سب مسلمان برابر ہیں۔{ FR 6384 } اور جو مشرکین وہاں کے اصلی باشندے تھے ان کے متعلق کہا کہ وہ نجس ہیں، ان کو وہاں سے نکال باہر کرو۔
اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا(التوبہ:۲۸)
اس تصریح کے بعد اسلام میں وطنیت کا کُلی استیصال ہو جاتا ہے، اور درحقیقت ایک مسلمان یہی کَہ سکتا ہے کہ:
ہر ملک ملکِ ما است کہ ملکِ خدائے ماست

عصبیّت اور اسلام کی دشمنی

اسلام جب ظاہر ہوا تو اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی نسل و وطن کے تعصبات و امتیازات تھے۔
رسول اللہ ﷺکی اپنی قوم ان تعصبات میں سب سے پیش پیش تھی۔ خاندانوں کے مفاخر اور نسبی و ذاتی وجاہتوں کے تخیلات، ان کے اور اسلام کے درمیان شدت کے ساتھ حائل تھے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ قرآن اگر خدا کی طرف سے اُترتا تو مکہ یا طائف کے کسی بڑے آدمی پر اُترتا۔
وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ۝۳۱ (الزخرف)
’’انھوں نے کہا: یہ قرآن دو بستیوں میں سے کسی بستی کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ اُترا؟‘‘
ابوجہل سمجھتا تھا کہ محمد ﷺرسالت کا دعویٰ کر کے اپنے خاندانی مفاخر میں ایک اور فخر کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا قول تھا کہ ’’ہم سے اور بنوعبدمناف سے مقابلہ تھا۔ہم شاہسواری میں ان کے حریف تھے۔ کھانے اور کھلانے میں،عطا اور بخشش میں ان کے برابر تھے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں وحی آنی شروع ہوئی ہے۔ خدا کی قسم! ہم تو محمدؐ کی تصدیق نہ کریں گے‘‘۔ یہ صرف ابوجہل ہی کے خیالات نہ تھے بلکہ تمام مشرکین قریش کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کے پیش کردہ دین کا یہی عیب تھا کہ:
مذہبِ اُو قاطعِ ملک و نسب
از قریش و منکر از فضلِ عرب
در نگاہِ او یکے بالا و پست
باغلام خویش بریک خواں نشست
قدرِ اَحرارِ عرب نشناختہ
باکلفتانِ حبشی در ساختہ
اَحمراں با اَسوَداں آمیختند
آبروئے دو زمانے ریختند
اسی بنا پر قریش کے تمام خاندان بنی ہاشم سے بگڑ گئے اور بنی ہاشم نے بھی اسی قومی عصبیّت کی خاطر رسول اللہ ﷺکی حمایت کی، حالانکہ ان میں سے اکثر مسلمان نہ تھے۔ شعب ابی طالب میں بنی ہاشم کو اسی لیے محصور کیا گیا، اور تمام قریش نے اسی وجہ سے مقاطعہ کرلیا۔ جن مسلمانوں کے خاندان کمزور تھے ان کو شدید مظالم سے تنگ آکر حبش کی جانب ہجرت کرنی پڑی اور جن کے خاندان طاقت ور تھے وہ اپنی حق پرستی کی بنا پر نہیں بلکہ خاندانی طاقت کی بناپر قریش کے ظلم و ستم سے ایک حد تک محفوظ رہے۔
عرب کے یہودی انبیائے بنی اسرائیل کی پیش گوئیوں کی بنا پر مدتوں سے ایک نبی کے منتظر تھے۔ انھی کی دی ہوئی خبروں کا نتیجہ تھا کہ جب رسول اللہ ﷺکی دعوت شائع ہوئی تو مدینہ کے بہت سے باشندے مسلمان ہوگئے مگر خود یہودیوں کو جس چیز نے آپؐ کی تصدیق سے روکا وہ یہی نسلی عصبیت تھی۔ اُن کو اس پر اعتراض تھا کہ آنے والا نبی، بنی اسرائیل کے بجائے بنی اسماعیلؑ میں کیوں آیا؟ اس تعصب نے ان کو یہاں تک مدہوش کردیا کہ وہ موحدین کو چھوڑ کر مشرکین کے ساتھی ہوگئے۔
یہی حال نصاریٰ کا تھا۔ آنے والے نبی کے وہ بھی منتظر تھے۔ مگر ان کو توقع تھی کہ وہ شام میں پیدا ہوگا۔ عرب کے نبیؐ کو ماننے کے لیے وہ تیار نہ تھے۔ ہرقل کے پاس جب رسول اللہ ﷺکا فرمان پہنچا تو اس نے قریش کے تاجروں سے کہا کہ ’’مجھے معلوم تھا کہ ایک نبی ابھی اور آنے والا ہے۔ مگر یہ اُمید نہ تھی کہ وہ تم میں سے ہوگا‘‘۔
مقوقس مصر کے پاس جب دعوت نامۂ اسلام پہنچا تو اس نے بھی یہی کہا کہ ’’ابھی ایک نبی آنا باقی ہے، یہ مجھے معلوم ہے، مگر مجھےاُمید تھی کہ وہ شام میں آئے گا‘‘۔
اسی تعصب کا دور دورہ عجم میں بھی تھا۔ خسرو پرویز کے پاس جب حضوؐر کا نامۂ مبارک پہنچا تو کس چیز نے اس کو غضب ناک کیا؟ ’’یہی کہ ایک غلام قوم کا فرد اور بادشاہِ عجم کو اس طرح مخاطب کرے!‘‘ وہ عرب کی قوم کو ذلیل سمجھتا تھا۔ اپنے ماتحت خیال کرتا تھا۔ یہ بات ماننے کے لیے وہ کسی طرح تیار نہ تھا کہ ایسی قوم میں کوئی حق کی طرف بلانے والا پیدا ہوگا۔
اسلام کے خلاف اس کے دشمن یہودیوں کے پاس سب سے بڑا کارگر حربہ یہی تھا کہ مسلمانوں میں قبائلی عصبیت پیدا کریں۔ اسی بنیاد پر مدینہ کے منافقین سے ان کا سازباز تھا۔ ایک مرتبہ انھوں نے جنگ ِ بغاث کا ذکر چھیڑ کر انصار کے دونوں قبیلوں (اوس اور خزرج) میں عصبیت کی ایسی آگ بھڑکائی کہ تلواریں کھنچنے کی نوبت آگئی۔ اسی پر یہ آیت نازل ہوئی کہ:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِيْعُوْا فَرِيْقًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ يَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ كٰفِرِيْنَ۝۱۰۰ (آل عمران: ۱۰۰)
’’مسلمانو! اگر تم اہلِ کتاب کے ایک گروہ کی بات مانو گے تو وہ تم کو ایمان سے کفر کی طرف پھیر دیں گے ‘‘۔
یہی نسل و وطن کا تعصب تھا جس نے مدینہ میں قریش کے نبی کو حکمراں دیکھ کر، اور مہاجرین کو انصار کے باغوں اور نخلستانوں میں چلتے پھرتے دیکھ کر، مدینہ کے منافقین کو آتش زیرِپا کر رکھا تھا۔ عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین کہا کرتا تھا کہ ’’یہ قریش کے فقیر ہمارے ملک میں آکر پھل پھول گئے ہیں۔ ان کی مثل ایسی ہے کہ کتّے کو کھلا پلا کر موٹا کرتاکہ تجھی کو پھاڑ کھائے‘‘۔ وہ انصار سے کہتا تھا کہ ’’تم نے ان کو اپنے سر پر چڑھا لیا ہے۔ اپنے ملک میں جگہ دی۔ اپنے اموال میں ان کو حصہ دیا۔ خدا کی قسم! آج تم ان سے ہاتھ روک لو تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں گے‘‘۔ اُس کی ان باتوں کا جواب قرآنِ مجید میں اس طرح دیا گیا ہے:
ہُمُ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰي مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ حَتّٰى يَنْفَضُّوْا۝۰ۭ وَلِلہِ خَزَاۗىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَفْقَہُوْنَ۝۷ يَقُوْلُوْنَ لَىِٕنْ رَّجَعْنَآ اِلَى الْمَدِيْنَۃِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ۝۰ۭ وَلِلہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۸ۧ (المنافقون: ۷-۸)
’’یہی ہیں جو کہتے ہیں کہ رسولؐ اللہ کے ساتھ والوں پر کچھ خرچ نہ کرو تاکہ یہ تتربتر ہوجائیں حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانوں کا مالک اللہ ہے، مگر منافقین اس کو نہیں سمجھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم (میدانِ جنگ سے) مدینہ کی طرف واپس ہوئے تو جو عزت والا ہے وہ ذلّت والے کو وہاں سے نکال دے گا۔ حالانکہ عزت دراصل اللہ اور اس کے رسولؐ اور مومنوں کی ہے مگر منافقین اس بات کو نہیں جانتے‘‘۔
یہی عصبیت کا جوش تھا جس نے عبداللہ بن اُبی سے حضرت عائشہؓ پر تہمت لگوائی اور خزرج والوں کی حمایت نے اس دشمنِ خدا اور رسولؐکو اپنے کیے کی سزا پانے سے بچا لیا۔

عصبیّت کے خلاف اسلام کا جہاد

اس بیان سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ کفر و شرک کی جہالت کے بعد اسلام کی دعوتِ حق کا اگر کوئی سب سے بڑا دشمن تھا تو وہ یہی نسل و وطن کا شیطان تھا اور یہی وجہ تھی کہ نبیﷺ نے اپنی ۲۳سالہ حیاتِ نبویہ میں ضلالت ِ کفر کے بعد سب سے زیادہ جس چیز کو مٹانے کے لیے جہاد کیا وہ یہی عصبیت ِ جاہلیہ تھی۔ آپ احادیث و سیر کی کتابوں کو اُٹھاکر دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ حضور سرورِ کائناتؐ نے کس طرح خون اور خاک، رنگ اور زبان، پستی اور بلندی کی تفریقوں کو مٹایا، انسان کے درمیان غیرفطری امتیازات کی تمام سنگین دیواروں کو مسمار کیا اور انسان ہونے کی حیثیت سے تمام بنی آدم کو یکساں قرار دیا۔ آنحضرتﷺ کی تعلیم یہ تھی کہ:
لَیْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلَی الْعَصْبِیَّۃِ لَیْسَ مِنَّا مَنْ دَعٰی اِلَی الْعَصْبِیَّۃِ
لَیْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَلَی الْعَصْبِیَّۃِ
’’جس نے عصبیّت پر جان دی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ جس نے عصبیّت کی طرف بلایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ جس نے عصبیت پر جنگ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔
آپؐ فرماتے تھے:
لَیْسَ لِاَحَدٍ فَضْلٌ عَلٰی اَحَدٍ اِلَّابِدِیْنٍ وَّتَقْویٰ
اَلنَّاسُ کُلُّھُمْ بَنُوْ اٰدَمَ وَاٰدَمُ مِنْ تُرَابٍ
’’پرہیزگاری اور دین داری کے سوا اور کسی چیز کی بنا پر ایک شخص کو دوسرے شخص پر فضیلت نہیں ہے، سب لوگ آدم ؑکی اولاد ہیں اور آدمؑ مٹی سے بنے تھے‘‘۔
نسل، وطن ، زبان اور رنگ کی تفریق کو آپؐ نے یہ کَہ کر مٹایا کہ:
لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍّ وَّلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ کُلُّکُمْ اَبْنَاءُ اٰدَمَ (بخاری و مسلم)
’’نہ کسی عربی کوعجمی پر فضیلت ہے اور نہ عجمی کو عربی پر۔ تم سب آدم ؑ کی اولاد ہو‘‘۔
لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍّ وَّلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَّلَا لِاَ بْیَضَ عَلٰی اَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی اَبْیَضَ اِلَّا بِالتَّقْوٰی (زاد المعاد)
’’کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر اور کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر فضیلت نہیں ہے، اگر فضیلت ہے تو وہ صرف پرہیزگاری کی بنا پر ہے‘‘۔
اِسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَلَوِ اسْتَعْمَلَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبَشِیٌّ کَانَ رَاْسُہٗ زَبِیْبَۃً (بخاری، کتاب الاحکام)
’’سنو اور اطاعت کرو چاہے تمھارے اُوپر کوئی حبشی غلام ہی امیر بنادیا جائے، جس کا سر کشمش جیسا ہو‘‘۔ { یہ خطاب شرفائے عرب سے ہو رہا ہے کہ اگر تمھارا امیر کوئی حبشی ہو تو اس کی اطاعت کرنا۔ کیا کوئی نیشنلسٹ اس چیز کا تصوّر بھی کرسکتا ہے؟}
فتح مکہ کے بعد جب تلوار کے زور نے قریش کی اکڑی ہوئی گردنوںکو جھکا دیا تو حضوؐر خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور اس میں پورے زور کے ساتھ یہ اعلان فرمایا:
اَلَا کُلُّ مَاْ ثَرَۃٍ اَوْدَمٍ اَوْ مَالٍ یُدْعٰی فَھُوَ تَحْتَ قَدَمَیَّ ھَاتَیْنِ
’’خوب سن رکھو کہ فخر و ناز کا ہر سرمایہ، خون اور مال کا ہر دعویٰ آج میرے ان قدموں کے نیچے ہے‘‘۔
یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ اِنَّ اللہَ اَذْھَبَ عَنْکُمْ نَخْوَۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ وَتَعَظُّمَھَا الْاٰبَاءَ
’’اے اہلِ قریش! اللہ نے تمھاری جاہلیت کی نخوت اور باپ دادا کی بزرگی کے ناز کو دُور کر دیا‘‘۔
اَیُّھَا النَّاسُ کُلُّکُمْ مِنْ اٰدَمَ وَ اٰدَمُ مِنْ تُرَابٍ لَا فَخْرَ لِلنَّسَبِ وَ لَا فَخْرَ لِلْعَرَبِیِّ عَلَی الْعَجَمِیِّ وَلَا لِلْعَجَمِیِّ عَلَی الْعَرَبِیِّ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ
’’اے لوگو! تم سب آدم ؑسے ہو اور آدم ؑ مٹی میں سے تھے۔نسب کے لیے کوئی فخر نہیں ہے۔ عربی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر کوئی فخر نہیں ہے۔ تم میں سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔
عبادتِ الٰہی کے بعد آپ اپنے خدا کے سامنے تین باتوں کی گواہی دیتے تھے۔ پہلے اس بات کی کہ ’’خدا کا کوئی شریک نہیں ہے‘‘۔ پھر اس بات کی کہ ’’محمدؐ اللہ کا بندہ اور رسول ہے‘‘۔ پھر اس بات کی کہ ’’اللہ کے بندے سب بھائی بھائی ہیں‘‘۔ (اَنَا لِعِبَادِکُلِّھِمْ اِخْوَۃٌ)

اسلامی قومیّت کی بنیاد

اس طرح اللہ اور اس کے رسولؐ نے جاہلیت کی اُن تمام محدود مادی، حسی اور وہمی بنیادوں کو جن پر دُنیا کی مختلف قومیتوں کی عمارتیں قائم کی گئی تھیں، ڈھا دیا۔ رنگ، نسل، وطن، زبان، معیشت اور سیاست کی غیرعقلی تفریقوں کو جن کی بنا پر انسان نے اپنی جہالت و نادانی کی وجہ سے انسانیت کو تقسیم کر رکھا تھا، مٹا دیا اور انسانیت کے مادے میں تمام انسانوں کو برابر اور ایک دوسرے کا ہم مرتبہ قرار دے دیا۔
اس تخریب کے ساتھ اس نے خالص عقلی بنیادوں پر ایک نئی قومیت تعمیر کی۔ اس قومیّت کی بنا بھی امتیاز پر تھی، مگر مادی اور غرضی امتیاز پر نہیں بلکہ روحانی اور جوہری امتیاز پر۔ اس نے انسان کے سامنے ایک فطری صداقت پیش کی جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔ اس نے خدا کی بندگی و اطاعت، نفس کی پاکیزگی و طہارت، عمل کی نیکی اور پرہیزگاری کی طرف ساری نوعِ بشر کو دعوت دی۔ پھر کَہ دیا کہ ایمان اور اسلام کی ہے اور جو اس کو رد کرے وہ دوسری قوم سے ہے۔ ایک قوم اس دعوت کو قبول کرے وہ ایک قوم سے ہے اور اس کے سب افراد ایک اُمت ہیں۔ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا ،اور ایک قوم کفر اور گمراہی کی ہے، اور اس کے متبعین اپنے اختلافات کے باوجود ایک گروہ ہیں: وَاللہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ۔
ان دونوں قوموں کے درمیان بنائے امتیاز نسل اور نسب نہیں، اعتقاد اور عمل ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک باپ کے دو بیٹے اسلام اور کفر کی تفریق میں جدا جدا ہوجائیں، اور دو بالکل اجنبی آدمی اسلام میں متَّحد ہونے کی وجہ سے ایک قومیت میں مشترک ہوں۔
وطن کا اختلاف بھی ان دونوں قوموں کے درمیان وجۂ امتیاز نہیں ہے۔ یہاں امتیاز حق اور باطل کی بنیاد پر ہے جس کا کوئی وطن نہیں۔ ممکن ہے کہ ایک شہر، ایک محلہ، ایک گھر کے دو آدمیوں کی قومیتیں اسلام اور کفر کے اختلاف کی وجہ سے مختلف ہوجائیں اور ایک حبشی رشتۂ اسلام میں مشترک ہونے کی وجہ سے ایک مراقشی کا قومی بھائی بن جائے۔
رنگ کا اختلاف بھی یہاں قومی تفریق کا سبب نہیں ہے۔ یہاں اعتبار چہرے کے رنگ کا نہیں اللہ کے رنگ کا ہے اور وہی بہترین رنگ ہے۔
صِبْغَۃَ اللہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ صِبْغَۃً ، ہوسکتا ہے کہ اسلام کے اعتبار سے ایک گورے اور ایک کالے کی ایک قوم ہو اور کفر کے اعتبار سے دو گوروں کی دو الگ قومیتیں ہوں۔
زبان کا امتیاز بھی اسلام اور کفر میں وجہِ اختلاف نہیں ہے۔ یہاں منہ کی زبان نہیں محض دل کی زبان کا اعتبار ہے جو ساری دنیا میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس کے اعتبار سے عربی اور افریقی کی ایک زبان ہوسکتی ہے، اور دو عربوں کی زبانیں مختلف ہوسکتی ہیں۔
معاشی اور سیاسی نظاموں کا اختلاف بھی اسلام اور کفر کے اختلاف میں بے اصل ہے۔ یہاں جھگڑا دولت ِ زر کا نہیں دولت ِ ایمان کا ہے۔ انسانی سلطنت کا نہیں خدا کی بادشاہت کا ہے۔ جولوگ حکومت ِ الٰہی کے وفادار ہیں، خواہ ہندوستان میں ہوںیا ترکستان میں اور جو خدا کی حکومت سے باغی ہیں اور شیطان سے جان و مال کا سودا کرچکے ہیں وہ ایک دوسری قوم ہیں۔ ہم کو اس سے کوئی بحث نہیں کہ وہ کس سلطنت کی رعایا ہیں اور کس معاشی نظام سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس طرح اسلام نے قومیّت کا جو دائرہ کھینچا ہے وہ کوئی حسی اور مادی دائرہ نہیں بلکہ ایک خالص عقلی دائرہ ہے۔ ایک گھر کے دو آدمی اس دائرے سے جدا ہوسکتے ہیں اور مشرق و مغرب کا بُعد رکھنے والے دو آدمی اس میں داخل ہوسکتے ہیں۔
سرِ عشق از عالم ارحام نیست
او زَ سام و حام و روم و شام نیست
کوکبِ بے شرق و غرب و بے غروب
در مدارش نے شمال و نے جنوب
اس دائرے کا محیط ایک کلمہ ہے: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ، اسی کلمہ پردوستی بھی ہے اور اسی پر دشمنی بھی۔اسی کا اقرار جمع کرتا ہے اور اسی کا انکار جدا کردیتا ہے۔ جن کو اس نے جدا کر دیا ہے ان کو نہ خون کا رشتہ جمع کرسکتا ہے، نہ خاک کا، نہ زبان کا، نہ رنگ کا، نہ روٹی کا، نہ حکومت کا۔ اور جن کو اس نے جمع کر دیا ہے انھیں کوئی چیز جدا نہیں کرسکتی۔ کسی دریا، کسی پہاڑ، کسی سمندر، کسی زبان، کسی نسل، کسی رنگ اور کسی زر و زمین کے قضیہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اسلام کے دائرے میں امتیازی خطوط کھینچ کر مسلمان اور مسلمان کے درمیان فرق کرے۔ ہرمسلمان خواہ وہ چین کا باشندہ ہو یا مراکش کا گورا ہو یا کالا، ہندی بولتا ہو یا عربی، سامی ہو یا آرِیَن، ایک حکومت کی رعیت ہو یا دوسری حکومت کی، مسلمان قوم کا فرد ہے۔ اسلامی سوسائٹی کا رکن ہے، اسلامی اسٹیٹ کا شہری ہے، اسلامی فوج کا سپاہی ہے، اسلامی قانون کی حفاظت کا مستحق ہے۔ شریعت اسلامیہ میں کوئی ایک دفعہ بھی ایسی نہیں ہے جو عبادات، معاملات، معاشرت، معیشت، سیاست، غرض زندگی کے کسی شعبہ میں جنسیت یا زبان یا وطنیت کے لحاظ سے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے مقابلہ میں کمتر یا بیشتر حقوق دیتی ہو۔

اسلام کا طریق جمع و تفریق

یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اسلام نے تمام انسانی اور مادی رشتوں کو قطع کردیا ہے۔ ہرگز نہیں۔ اس نے مسلمانوں کو صلہ رحمی کا حکم دیا ہے، قطع رحمی سے منع کیا ہے۔ ماں باپ کی اطاعت و فرمانبرداری کی تاکید کی ہے۔ خون کے رشتوں میں وراثت جاری کی ہے۔ خیروصدقات اور بذل و انفاق میں ذوی القربیٰ کو غیرذوی القربیٰ پر ترجیح دی ہے۔ اپنے اہل و عیال ، اپنے گھربار اور اپنے مال کو دشمنوں سے بچانے کا حکم دیا ہے۔ ظالم کے مقابلہ میں لڑنے کا حکم دیا ہے اور ایسی لڑائی میں جان دینے والے کو شہید قرار دیا ہے، زندگی کے تمام معاملات میں بلاامتیاز مذہب ہر انسان کے ساتھ ہمدردی، حُسنِ سلوک اور محبت سے پیش آنے کی تعلیم دی ہے۔ اس کے کسی حکم کو یہ معنی نہیں پہنائے جاسکتے کہ وہ ملک و وطن کی خدمت و حفاظت سے روکتا ہے یا غیرمسلم ہمسایہ کے ساتھ صلح و سالمیت کرنے سے باز رکھتا ہے۔{یہاں اس امر کی توضیح ضروری ہے کہ غیرقوموں کے ساتھ مسلمان قوم کے تعلقات کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت تو یہ ہے کہ انسان ہونے میں ہم اور وہ یکساں ہیں اور دوسری حیثیت یہ ہے کہ اسلام اور کفر کے اختلاف نے ہمیں ان سے جدا کر دیا ہے۔ پہلی حیثیت سے ہم ان کے ساتھ ہمدردی، فیاضی ، رواداری اور شرافت کا ہر وہ سلوک کریں گے جو انسانیت کا متقاضی ہے اور اگر وہ دشمنِ اسلام نہ ہوں تو ان سے دوستی، مصالحت اور مسالمت بھی کرلیں گے اور مشترک مقاصد کے لیے تعاون میں بھی دریغ نہ کریں گے۔ لیکن کسی طرح کا مادی اور دُنیوی اشتراک ہم کو اور ان کو اس طور سے جمع نہیں کرسکتا کہ ہم اور وہ مل کر ایک قوم بن جائیں، اور اسلامی قومیت کو چھوڑ کر کوئی مشترک ہندی یا چینی یا مصری قومیت قبول کرلیں۔ کیونکہ ہماری دوسری حیثیت اس قسم کے اجتماع میں مانع ہے اور کفر و اسلام کا مل کر ایک قوم بن جانا قطعاً محال ہے۔}
یہ سب کچھ ان مادی رشتوں کی جائز اور فطری مراعات ہے، مگر جس چیز نے قومیت کے معاملہ میں اسلام اور غیراسلام کے اصول میں فرق کر دیا ہے، وہ یہ ہے کہ دوسروں نے انھی رشتوں پر جداگانہ قومیتیں بنالی ہیں۔ اور اسلام نے ان کو بنائے قومیّت قرار نہیں دیا۔ وہ ایمان کے تعلق کو ان سب تعلقات پر ترجیح دیتا ہے اور وقت پڑے تو ان میں سے ہر ایک کو اس پر قربان کردینے کا مطالبہ کرتا ہے، وہ کہتا ہے:{ FR 6396 }
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ فِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗ۝۰ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ (الممتحنہ:۴)
’’تمھارے لیے ابراہیم ؑ اور ان کے ساتھیوں میں یہ قابلِ تقلید نمونہ تھا کہ انھوں نے اپنی وطنی و نسلی قوم سے صاف کَہ دیا کہ ہمارا تم سے اور تمھارے معبودوں سے جنھیں تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو، کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم نے تم کو چھوڑ دیا ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت اور دشمنی ہوگئی تاوقتیکہ تم ایک خدا پر ایمان نہ لائو‘‘۔
وہ کہتا ہے:
لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَاۗءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِيَاۗءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَي الْاِيْمَانِ۝۰ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۳ (التوبہ)
’’اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی دوست اور محبوب نہ رکھو۔ اگر وہ ایمان کے مقابلہ میں کفر کو محبوب رکھیں۔ تم میں سے جو کوئی ان کو محبوب رکھے گا وہ ظالموں میں شمار ہوگا‘‘۔
اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَاَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْہُمْ (التغابن)
’’تمھاری بیویوں اور تمھاری اولاد میں ایسے لوگ بھی ہیں جو تمھارے (بہ حیثیت مسلمان ہونے کے)دشمن ہیں، ان سے حذر کرو‘‘۔
وہ کہتاہے کہ اگر تمھارے دین اور تمھارے وطن میں دشمنی ہوجائے تو دین کی خاطر وطن کو چھوڑ کر نکل جائو۔ جو شخص دین کی محبت پر وطن کی محبت کوقربان کر کے ہجرت نہ کرے وہ منافق ہے اس سے تمھارا کوئی تعلق نہیں۔
فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِيَاۗءَ حَتّٰي يُھَاجِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ (النساء )
اس طرح اسلام اور کفر کے اختلاف سے خون کے قریب ترین رشتے کٹ جاتے ہیں۔ ماں،باپ، بھائی، بیٹے صرف اس لیے جدا ہوجاتے ہیں کہ وہ اسلام کے مخالف ہیں۔ ہم نسل قوم کو اس لیے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ خدا سے دشمنی رکھتی ہے ، وطن کو اس لیے خیرباد کہا جاتا ہے کہ وہاں اسلام اور کفر میں عداوت ہے۔ گویا اسلام دنیا کی ہرچیز پر مقدم ہے۔ ہرچیز اسلام پر قربان کی جاسکتی ہے اور اسلام کسی چیز پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔ اب دوسری طرف دیکھیے۔ یہی اسلام کا تعلق ہے جو ایسے لوگوں کو ملاکربھائی بھائی بنا دیتا ہے جن کے درمیان نہ خون کا رشتہ ہے، نہ وطن کا، نہ زبان کا، نہ رنگ کا۔ تمام مسلمانوں کو خطاب کرکے کہا جاتا ہے:
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۝۰۠ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا۝۰ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا(آل عمران)
’’تم سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوط تھامے رہو اور آپس میں متفرق نہ ہوجائو۔ اپنے اُوپر اللہ کے احسان کو یاد رکھو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارےدلوں میں باہمی اُلفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت اسلام کی بدولت بھائی بھائی بن گئے۔ تم آپس کی عصبیّت کی بدولت آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے۔ اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا‘‘۔

تمام غیرمسلموں کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:
فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ(التوبہ)
’’اگر وہ کفر سے توبہ کرلیں، نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں تو وہ تمھارے دینی بھائی ہیں‘‘۔
اور مسلمانوں کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ (الفتح)
’’محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں‘‘۔
نبیﷺ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیاہے یہاں تک کہ لوگ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمدﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، نیز وہ ہمارے قبلہ کی طرف منہ پھیریں، ہمارا ذبیحہ کھائیں اور ہماری طرح نماز پڑھیں، جونہی انھوں نے ایسا کیا، ہم پر ان کے خون اور ان کے مال حرام ہوگئے ، اِلّا یہ کہ حق ہیں جو سب کے ہیں اور ان پر وہی واجبات ہیں جو سب مسلمانوں پر ہیں‘‘۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد)
پھر یہی نہیں کہ حقوق اور فرائض میں مسلمان برابر ہیں اور ان میں کسی فرق و امتیاز کی گنجائش نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد نبویؐ ہے کہ:
اَلْمُسْلِمُ لِلْمُسْلِمِ کَالْبُنْیَانِ یَشُدُّ بَعْضُہٗ بَعْضًا
’’مسلمان کے ساتھ مسلمان کا تعلق ایسا ہے جیسے ایک دیوار کے اجزاء جن کو ایک دوسرے سے پیوستہ کر دیا جاتا ہے‘‘۔
اور:
مَثَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِیْ تَوَادِّھِمْ وَتَرَاحُمِھِمْ وَتَعَاطُفِھِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ الْوَاحِدِ اِذَا اشْتَکٰی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعَی لَہٗ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّھْرِ وَالْحُمّٰی
’’آپس کی محبت اور رحمت و مہربانی میں مسلمانوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک جسم کہ اگر اس کے ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم اس کے لیے بے خواب و بے آرام ہوجاتا ہے‘‘۔
ملّت ِ اسلامی کے اس جسمِ نامی کو رسول اللہ ﷺ نے’’جماعت‘‘ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے اور اس کے متعلق آپؐ کا فرمان ہے:
یَدُ اللہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ وَمَنْ شَامٰی شند فی النار
’’جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے جو اس سے بچھڑا وہ آگ میں گیا‘‘۔
اور:
مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا خَلَعَ رِبْقَۃَ الْاِسْلَامِ مِنْ عُنُقِہٖ
’’جو ایک بالشت بھر بھی جماعت سے جدا ہوا اس نے اسلام کا حلقہ اپنی گردن سے اُتار پھینکا‘‘۔
اسی پر بس نہیں بلکہ یہاں تک فرمایا کہ:
مَنْ اَرَادَاَنْ یُّفَرِّقَ جَمَاعَتَکُمْ فَاقْتُلُوْہُ
’’جو تمھاری جماعت میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کرے اس کو قتل کر دو‘‘۔
اور:
مَنْ اَرَادَاَنْ یُّفَرِّقَ اَمْرَ الْاُمَّۃِ وَھِیَ جَمِیْعٌ فَاضْرِبُوْہُ بِالسَّیْفِ کَائِنًا مَّنْ کَانَ (مسلم، کتاب الامارۃ)
’’جو کوئی اس اُمت کے بندھے ہوئے رشتہ کو پارہ پارہ کرنے کا ارادہ کرے، اس کی تلوار سے خبر لو ، خواہ وہ کوئی ہو‘‘۔

اسلامی قومیت کی تعمیر کس طرح ہوئی؟

اس جماعت میں جس کی شیرازہ بندی اسلام کے تعلق کی بنا پر کی گئی تھی خون اور خاک، رنگ اور زبان کی کوئی تمیز نہ تھی۔ اس میں سلمانؓ ایرانی تھے جن سے ان کا نسب پوچھا جاتا تو فرماتے کہ ’’سلمان بن اسلام‘‘۔حضرت علیؓ ان کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلِ الْبَیْتِ ’’سلمانؓ ہم اہلِ بیت میں سے ہیں‘‘۔ اس میں بازان بن ساسان اور ان کے بیٹے شہر بن باذان تھے جن کا نسب بہرام گور سے ملتا تھا۔ رسولِ اکرمﷺ نے حضرت باذان کو یمن کا اور ان کے صاحبزادے کو صنعاء کا والی مقرر فرمایا تھا۔ اس جماعت میں بلال حبشیؓ تھے جن کے متعلق حضرت عمرؓ فرمایا کرتے کہ بِلَالٌ سَیِّدُ نَا وَ مَوْلیٰ سَیِّدِ نَا ’’بلالؓ ہمارے آقا کا غلام اور ہمارا آقا ہے‘‘۔
اس جماعت میں صہیب رومیؓ تھے جنھیں حضرت عمرؓ نے اپنی جگہ نماز میں امامت کے لیے کھڑا کیا۔ اس میں حضرت ابوحذیفہؓ کے غلام سالمؓ تھے جن کے متعلق حضرت عمرؓ نے اپنے انتقال کے وقت فرمایا کہ اگر آج وہ زندہ ہوتے تو مَیں خلافت کے لیے انھی کو نامزد کرتا۔ اس میں زیدؓ بن حارثہ ایک غلام تھے جن کے ساتھ رسول اللہ ﷺنے خود اپنی پھوپھی کی بیٹی اُم المومنین حضرت زینبؓ کو بیاہ دیا تھا۔ ان میں حضرت زیدؓ کے بیٹے اسامہؓ تھے جن کو رسول اللہ ﷺنے ایک ایسے لشکر کا سردار بنایا تھا جس میں حضرت ابوبکر صدیق ، عمر فاروق ، ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ شریک تھے۔ انھی اسامہ کے متعلق حضرت عمرؓ اپنے بیٹے عبداللہ ؓ سے فرماتے ہیں کہ ’’اسامہ کا باپ تیرے باپ سے افضل تھا اور اسامہ خود تجھ سے افضل ہے‘‘۔

مہاجرین کا اسوہ

اس جماعت نے اسلام کے تبر(کلہاڑے) سے عصبیت کے ان تمام بتوں کو توڑ ڈالا جو نسل اور وطن، رنگ اور زبان وغیرہ کے نام سے موسوم ہیں اور جن کی پرستش قدیم جاہلیت سے جدید جاہلیت کے زمانہ تک دُنیا میں ہورہی ہے۔ رسول اللہ ﷺنے خود اپنے وطن مکہ کو چھوڑا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ اس کے یہ معنی تھے کہ آپ کو اور مہاجرین کو اپنے وطن سے وہ فطری محبت نہ تھی جو انسان کو ہوا کرتی ہے۔ مکہ کو چھوڑتے وقت آپؐ نے فرمایا تھا کہ ’’اے مکہ! تو مجھ کو دُنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہے، مگر کیا کروں کہ تیرے باشندے مجھ کو یہاں رہنے نہیں دیتے‘‘۔
حضرت بلالؓ جب مدینہ جاکر بیمار ہوئے تو مکہ کی ایک ایک چیز کو یاد کرتے تھے۔ ان کی زبان سے نکلے ہوئے یہ حسرت بھرے اشعار آج تک مشہور ہیں:
الالیت شعری ھل ابیتن لیلۃ
بفخ وحولی اذخر و جلیل
وھل اردن یوما میاہ مجنۃ
وھل تبدو الٰی شامۃ وطفیل
مگر اس کے باوجود حُب ِوطن{ رسول اللہ ﷺپر یہ بہتان گھڑا گیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: حب الوطن من الایمان، حالانکہ ایسی کوئی صحیح حدیث آپؐ سے ماثور نہیں ہے۔
نے ان بزرگوں کو اسلام کی خاطر ہجرت کرنے سے باز نہ رکھا۔

انصار کا طرزِعمل

دوسری طرف اہلِ مدینہ نے رسول اکرمﷺاور مہاجرین کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور اپنے جان و مال خدمت ِ اقدس میں پیش کر دیے۔ اسی بنا پر حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’مدینہ قرآن سے فتح ہوا‘‘۔ نبی اکرمﷺ نے انصار اور مہاجرین کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا تو یہ ایسے بھائی بھائی بنے کہ مدتوں اُن کو ایک دوسرے کی میراث ملتی رہی۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر اس توارث کو بند کیا۔
وَاُوْلُوْا الْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ
’’یعنی وراثت میں خونی رشتوں کے لوگ ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں‘‘۔

رشتہ دین پر مادی علائق کی قربانی

پھر جنگ ِ بدر اور جنگ ِ اُحد میں مہاجرین مکہ دین کی خاطر خود اپنے رشتہ داروں سے لڑے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے بیٹے عبدالرحمٰن پر تلوار اُٹھائی۔ حضرت حذیفہؓ نے اپنے باپ حذیفہ پر حملہ کیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ماموں کے خون میں ہاتھ رنگے خود رسول اکرمﷺ کے چچا عباس ؓ، چچازاد بھائی عقیلؓ، داماد ابوالعاصؓ بدر میں گرفتار ہوئے اور عام قیدیوں کی طرح رکھے گئے۔ حضرت عمرؓ تو یہاں تک آمادہ ہوگئے تھے کہ سب قیدیوں کو قتل کر دیا جائے اور ہرشخص اپنے عزیز کو قتل کرے۔
فتح مکہ کے موقع پر رسول اکرمﷺ غیرقبیلہ اور غیرعلاقہ والوں کو لے کر خود اپنے قبیلہ اور اپنے وطن پر حملہ آور ہوئے۔ غیروں کے ہاتھوں اپنوں کی گردنوں پر تلوار چلائی۔ عرب کے لیے یہ بالکل نئی بات تھی کہ کوئی شخص خود اپنے قبیلہ اور اپنے وطن پر غیرقبیلہ والوں کو چڑھا لائے اور وہ بھی کسی انتقام یا زر و زمین کے قبضہ کی بنا پر نہیں بلکہ محض ایک کلمۂ حق کی خاطر جب قریش کے اوباش مارے جانے لگے تو ابوسفیان نے آکر عرض کیا کہ: ’’یارسولؐ اللہ! قریش کے نونہال کٹ رہے ہیں۔ آج کے بعد قریش کا نام و نشان نہ رہے گا‘‘۔ رحمۃ للعالمینؐ نے یہ سن کر اہلِ مکہ کو امان دے دی۔ انصار سمجھے کہ رسولؐ اللہ کا دل اپنی قوم کی طرف مائل ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا: حضوؐر ! آخر آدمی ہی تو ہیں۔ اپنے خاندان والوں کا پاس کر ہی گئے‘‘۔ رسولؐ اللہ کو ان باتوں کی خبر پہنچی تو انصار کو جمع کیا اور فرمایا: ’’مجھے خاندان والوں کی محبت نے ہرگز نہیں کھینچا ۔ میں اللہ کا بندہ اور رسولؐ ہوں۔ اللہ کے لیے تمھارے پاس ہجرت کرکے جاچکا ہوں۔ اب میرا جینا تمھارے ساتھ ہے اور مرنا تمھارے ساتھ۔ یہ جو کچھ حضوؐر نے فرمایا تھا، اسے لفظ بلفظ سچ کرکے دکھایا باوجودیکہ مکہ معظمہ کے فتح ہوجانے کے بعد وہ علّت باقی نہ رہی تھی جس کی بنا پر حضوؐر ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تھے مگر آپؐ نے مکہ میں قیام نہ فرمایا۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ رسولِؐ خدا نے مکہ پر کسی وطنی یا انتقامی جذبہ کے تحت حملہ نہ کیا تھا بلکہ محض اعلائے کلمۃ الحق مقصود تھا۔
اس کے بعد جب ہوازن اور ثقیف کے اموال فتح ہوئے تو پھر وہی غلط فہمی پیدا ہوئی۔ حضوؐر نے غنیمت میں سے قریش کے نومسلموں کو زیادہ حصہ دیا۔ انصار کے بعض نوجوان سمجھے یہ قومی پاسداری کی وجہ سے ہے۔ انھوں نے بگڑ کر کہاکہ ’’خدا رسولؐ اللہ کو معاف کرے وہ قریش کو دیتے ہیں اور ہم کو چھوڑتے ہیں حالانکہ اب تک ہماری تلواروں سے ان کے خون ٹپک رہے ہیں‘‘۔ اس پر رسولؐ اللہ نے ان کو پھر جمع کیا اور فرمایا کہ ’’میں ان لوگوں کو اس لیے زیادہ دیتا ہوں کہ یہ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہیں، محض ان کی تالیف ِ قلب مقصود ہے۔ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ یہ دُنیا کا مال لے جائیں اور تم خدا کے رسولؐ کو لے جائو؟‘‘
غزوئہ بنی المصطلق میں ایک غفاری اور ایک عوفی میں جھگڑا ہوگیا۔ غفاری نے عوفی کو تھپڑ مارا۔ بنی عوف انصار کے حلیف تھے۔ اس لیے عوفی نے انصار کو مدد کے لیے پکارا۔ بنی غفار نے مہاجرین کو آواز دی، قریب تھا کہ فریقین کی تلواریں کھینچ جائیں ۔ رسولؐ اللہ کو خبر ہوئی تو آپؐ نے فریقین کو بلا کر فرمایا کہ یہ کیا جاہلیت کی پکار تھی جو تمھاری زبانوں سے نکل رہی تھی؟ (مَا لَکُمْ وَلِدَ عْوَۃِ الْجَاھِلِیَّۃِ ) انھوں نے کہا کہ ایک مہاجر نے انصاری کو مارا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تم اس جاہلیت کی پکار کو چھوڑ دو۔ یہ بڑی گھنائونی چیز ہے‘‘۔
اس غزوہ میں مدینہ کا مشہور قوم پرست لیڈر عبداللہ بن ابی بھی شریک تھا۔ اس نے جو سنا کہ مہاجرین کے حلیف نے انصار کے حلیف کو مارا ہے تو کہا کہ ’’یہ ہمارے ملک میں آکر پھل پھول گئے ہیں اور اب ہمارے ہی سامنے سر اُٹھاتے ہیں۔ ان کی مثل تو ایسی ہے کہ کتے کو کھلاپلا کر موٹا کر، تاکہ وہ تجھی کو پھاڑ کھائے۔بخدا مدینہ واپس پہنچ کر جو ہم میں سے عزت والا ہوگا وہ ذلت والے کو نکال باہر کرے گا۔ پھر اس نے انصار سے کہا کہ ’’یہ تمھارا ہی کیا دھرا ہے۔ تم نے ان لوگوں کو اپنے ملک میں جگہ دی اور اپنے اموال ان پر بانٹ دیے۔ خدا کی قسم! آج تم ان سے ہاتھ کھینچ لو تو یہ ہوا کھاتے نظر آئیں گے‘‘۔
یہ باتیں رسولؐ اللہ تک پہنچیں تو آپؐ نے عبداللہ بن ابی کے بیٹے حضرت عبداللہؓ کو بلا کر فرمایا کہ تمھارا باپ یہ کہتا ہے۔ وہ اپنے باپ سے غایت درجہ محبت رکھتے تھے اور ان کو فخر تھا کہ خزرج میں کوئی بیٹا اپنے باپ سے اتنی محبت نہیں کرتا۔ مگر یہ قصہ سن کر انھوں نے عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ! اگر حکم ہو تو میں اس کا سر کاٹ لائوں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں ، پھر جب جنگ سے واپس ہوئے تو مدینہ پہنچ کر حضرت عبداللہؓ اپنے باپ کے آگے تلوار سونت کر کھڑے ہوگئے اور کہا کہ ’’تو مدینہ میں گھس نہیں سکتا جب تک کہ رسولؐ اللہ اجازت نہ دیں۔ تو کہتا ہے کہ ہم میں سے جو عزت والا ہے وہ ذلّت والے کو مدینہ سے نکال دے گا تو اب تجھے معلوم ہو کہ عزت صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کے لیے ہے‘‘۔ اس پر ابن ابی چیخ اُٹھا کہ ’’لو سنو اے اہلِ خزرج ! اب میرا بیٹا مجھ کو گھر میں گھسنے نہیں دیتا‘‘۔لوگوں نے آکر حضرت عبداللہؓ کو سمجھایا، مگر انھوں نے کہا کہ’’ رسولؐ اللہ کی اجازت کے بغیر یہ مدینہ کے سائے میں بھی پناہ نہیں لے سکتا‘‘۔ آخرکار لوگ رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ واقعہ عرض کیا: آپؐ نے فرمایا کہ جاکر عبداللہؓ سے کہو کہ ’’ان کا حکم ہے تو اب یہ جاسکتا ہے‘‘۔{ اس واقعہ کی پوری تفصیل ابن جریر کی تفسیر (جلد۲۸، صفحہ ۶۶ تا ۷۰) میں ملاحظہ فرمایئے۔}
بنوقینقاع پر جب حملہ کیا گیا تو حضرت عبادہؓ بن الصامت کو ان کے معاملہ میں حکم بنایا گیا اور انھوں نے فیصلہ دیا کہ اس پورے قبیلہ کو مدینہ سے جلاوطن کردیا جائے۔ یہ لوگ حضرت عبادہؓ کے قبیلے خزرج کے حلیف تھے مگر انھوں نے اس تعلق کا ذرہ برابر خیال نہ کیا۔ اسی طرح بنوقریظہ کے معاملہ میں اوس کے سردار سعدؒ بن معاذ کو حکم بنایا گیا اور ان کا فیصلہ یہ تھا کہ بنوقریظہ کے تمام مردوں کو قتل کر دیا جائے۔ عورتوں اور بچوں کو سبایا اور ان کے اموال کو غنیمت قرار دیا جائے۔ اس معاملہ میں حضرت سعدؓ نے اُن حلیفانہ تعلقات کا ذرا خیال نہ کیا۔ ان حلیفانہ تعلقات کا ذرا خیال نہ کیا جو اوس اور بنوقریظہ کے درمیان مدت سے قائم تھے حالانکہ عرب میں حلف کی جو اہمیت تھی وہ سب کو معلوم ہے اور مزید برآں یہ لوگ صدیوں سے انصار کے ہم وطن تھے۔

جامعہ اسلامیہ کی اصلی رُوح

ان شواہد سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی قومیّت کی تعمیر میں نسل و وطن اور زبان و رنگ کا قطعاً کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس عمارت کو جس معمار نے بنایا ہے اس کا تخیل ساری دنیا سے نرالا تھا، اس نے تمام عالمِ انسانی کے موادِ خام پر نظر ڈالی جہاں جہاں سے اس کو اچھا اور مضبوط مسالہ ملا، اس کو چھانٹ لیا۔ ایمان اور عملِ صالح کے پختہ چُونے سے ان متفرق اجزاء کو پیوستہ کر دیا اور ایک عالم گیر قومیّت کا قصر تعمیر کیا جو سارے کرئہ ارضی پر چھایا ہوا ہے۔ اس عظیم الشان عمارت کا قیام و دوام منحصر ہے اس پر کہ اس کے تمام مختلف الاصل، مختلف الشکل، مختلف المقام اجزاء اپنی جدا جدا اصلیتوں کو بھول کر صرف ایک اصل کو یاد رکھیں۔ اپنے جدا جدا رنگ چھوڑ کر ایک رنگ میں رنگ جائیں۔ اپنے الگ الگ مقاموں سے قطع نظر کرکے ایک مخرج صدق سے نکلیں اور ایک مدخل صدق میں داخل ہوجائیں۔ یہی وحدت ملّی اس بنیان مرصوص کی جان ہے۔ اگر یہ وحدت ٹوٹ جائے اگر اجزائے ملت میں اصلوں اور نسلوں کے جدا جدا ہونے، اپنے وطن اور مقام کے مختلف ہونے، اپنے رنگ و شکل کے متنوع ہونے اور اپنی اَغراض دنیوی کے متضاد ہونے کا احساس پیدا ہوجائے تو اس عمارت کی دیواریں پھٹ جائیں گی ، اس کی بنیادیں ہل جائیں گی، اور اس کے تمام اجزاء پارہ پارہ ہوجائیں گے جس طرح ایک سلطنت میں کئی سلطنتیں نہیں بن سکتیں، اسی طرح ایک قومیّت میں کئی قومیتیں بھی نہیں بن سکتیں۔ اسلامی قومیت کے اندر نسلی، وطنی، لسانی اور لونی قومیتوں کا جمع ہونا قطعاً محال ہے۔ ان دونوں قسم کی قومیتوں میں سے ایک ہی قائم رہ سکتی ہے اس لیے کہ:
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
پس جو مسلمان ہے اور مسلمان رہنا چاہتا ہے اسے تمام قومیتوں کے احساس کو باطل اور سارے خاک و خون کے رشتوں کو قطع کرنا پڑے گا اور جو ان رشتوں کو قائم رکھنا چاہتا ہے اس کے متعلق ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ اسلام اس کے قلب و روح میں نہیں اُترا۔ جاہلیت اس کے قلب و دماغ پر چھائی ہوئی ہے۔ آج نہیں تو کل وہ اسلام سے چھوٹے گا اور اسلام اس سے۔

رسولؐ اللہ کی آخری وصیت

رسول اللہﷺ کو اپنے آخری زمانہ میں سب سے زیادہ خطرہ جس چیز کا تھا وہ یہی تھی کہ کہیں مسلمانوں میں جاہلی عصبیتیں پیدا نہ ہوجائیں اور ان کی بدولت اسلام کا قصرِ ملّت پارہ پارہ نہ ہوجائے، اسی لیے حضوؐر بار بار فرمایا کرتے تھے کہ:
لَا تَرْجِعُوْنَ بَعْدِیْ کُفَّارًا یَّضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ (بخاری، کتاب الفتن)
’’کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بعد تم پھر کفر کی طرف پلٹ کر آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔
اپنی زندگی کے آخری حج حجۃ الوداع کے لیے تشریف لے گئے تو عرفات کے خطبہ میں عام مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا:
’’سن رکھو کہ اُمورِ جاہلیت میں سے ہر چیز آج میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ہے۔ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ تم سب آدم کی اولاد سے ہو اور آدم مٹی سے تھے۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور سب مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ جاہلیت کے سب دعوے باطل کر دیئے گئے۔ اب تمھارے خون اور تمھاری عزتیں اور تمھارے اموال ایک دوسرے کے لیے ویسے ہی حرام ہیں جیسے آج حج کا دن تمھارے اس مہینا، تمھارے اس شہر میں حرام ہے‘‘۔
پھر منیٰ میں تشریف لے گئے تواس سے بھی زیادہ زور کے ساتھ اس تقریر کو دُہرایا اور اس پر یہ اضافہ کیا:
’’دیکھو میرے بعد پھر گمراہی کی طرف پلٹ کر ایک دوسرے کی گردنیں نہ مارنے لگنا۔ عنقریب تم اپنے رب سے ملنے والے ہو۔ وہاں تمھارے اعمال کی تم سے بازپُرس ہوگی۔ سنو! اگر کوئی نکٹا حبشی بھی تمھارا امیر بنا دیا جائے اور وہ تم کو کتاب اللہ کے مطابق چلائے تو اس کی بات ماننا اور اطاعت کرنا‘‘۔
یہ ارشاد فرما کر پوچھا کہ ’’کیا میں نے تم کو یہ پیغام پہنچا دیا؟‘‘
لوگوں نے کہا: ہاں یارسولؐ اللہ!
فرمایا: ’’اے خدا تو گواہ رہیو‘‘۔اور لوگوں سے کہا کہ ’’جو موجود ہے وہ اس پیغام کو ان لوگوں تک پہنچا دے جو موجود نہیں ہیں‘‘۔
حج سے واپس ہوکر شہدائے اُحد کے مقام پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا:
’’مجھے اس کا خوف نہیں ہے کہ میرے بعد تم شرک کرو گے مگر ڈرتا اس سے ہوں کہ کہیں تم دنیا میں مبتلا نہ ہوجائو اور آپس میں لڑنے نہ لگو۔ اگر ایسا کرو گے تو ہلاک ہوجائو گے جس طرح پہلی اُمتیں ہلاک ہوچکی ہیں‘‘۔

اسلام کے لیے سب سے بڑا خطرہ

یہ فتنہ جس کے ظاہر ہونے کا سیّدالکونینؐ کو اندیشہ تھا، حقیقت میں ویسا ہی مہلک ثابت ہوا جیسا آپؐ نے فرمایا تھا۔ قرنِ اوّل سے آج تک اسلام اور مسلمانوں پر جو تباہی بھی نازل ہوئی ہے اسی کی بدولت ہوئی ہے۔ وصالِ نبویؐ کے چند ہی برس بعد ہاشمی اقتدار کے خلاف اُموی عصبیّت کا فتنہ اُٹھا اور اس نے اسلام کے اصلی نظامِ سیاست کو ہمیشہ کے لیے درہم برہم کر دیا۔ پھر اس نے عربی عجمی اور ترکی عصبیت کی شکل میں ظہور کیا اور اسلام کی سیاسی وحدت کا بھی خاتمہ کر دیا۔ پھر مختلف ممالک میں جو مسلمان سلطنتیں قائم ہوئیں ، ان سب کی تباہی میں سب سے زیادہ اسی فتنہ کا ہاتھ تھا۔ قریب ترین زمانہ میں دو سب سے بڑی مسلمان سلطنتیں ہندوستان اور ترکی کی تھیں۔ ان دونوں کو اسی فتنہ نے تباہ کیا۔ ہندوستان میں مغل اور ہندوستانی کی تفریق نے سلطنت مغلیہ کو ختم کیا اور ترکی میں ترک، عرب اور کرد کی تفریق تباہی کی موجب ہوئی۔
اسلام کی پوری تاریخ اُٹھا کر دیکھ جایئے، جہاں کوئی طاقت ور سلطنت آپ کو نظر آئے گی، اس کی بنیاد میں آپ کو بلاامتیاز جنسیت ، مختلف نسلوں اور مختلف قوموں کا خون ملے گا۔ ان کے مدبر، ان کے سپہ سالار، ان کے اہلِ قلم، ان کے اہلِ سیف ، سب کے سب مختلف الاجناس پائے جائیں گے۔ آپ عراقی کو افریقہ میں، شامی کو ایران میں، افغانی کو ہندوستان میں، مسلمان حکومتوں کی اسی جاں بازی، دیانت، صداقت اور امانت کے ساتھ خدمت کرتے ہوئے دیکھیں گے جس سے وہ خود اپنے وطن کی خدمت کرتا۔ مسلمان سلطنتیں کبھی اپنے مردانِ کار کی فراہمی میں کسی ایک ملک یا ایک نسل کے وسائل پر منحصر نہیں رہیں، ہر جگہ سے قابل دماغ اور کارپرداز ہاتھ ان کے لیے جمع ہوئے اور انھوں نے ہر دارالاسلام کو اپنا وطن اور گھر سمجھا۔
مگر جب نفسانیت ، خود غرضی اور عصبیت کا فتنہ اُٹھا اور مسلمانوں میں مرزبوم اور رنگ و نسل کے امتیازات نے راہ پائی تو وہ ایک دوسرے سے بُغض و حسد کرنے لگے۔ دھڑے بندیوں اور سازشوں کا دور دورہ ہوا۔ جو قوتیں دشمنوں کے خلاف صرف ہوتی تھیں، وہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صرف ہونے لگیں۔ مسلمانوں میں خانہ جنگی برپا ہوئی اور بڑی بڑی مسلمان طاقتیں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔

مغرب کی اندھی تقلید

آج مغربی قوموں سے سبق سیکھ کر ہر جگہ کے مسلمان نسلیت اور وطنیت کے راگ الاپ رہے ہیں۔ عرب عربیت پر ناز کر رہا ہے۔ مصری کو اپنے فراعنہ یاد آرہے ہیں۔ ترک اپنی ترکیت کے جوش میں چنگیزخاں اور ہلاکو سے رشتہ جوڑ رہا ہے۔ ایرانی اپنی ایرانیت کے جوش میں کہتا ہے یہ محض عرب امپریلزم کا زور تھا کہ حسینؓ اور علیؓ ہمارے ہیرو بن گئے حالانکہ حقیقت میں ہمارے قومی ابطال تو رستم و اسفند یار تھے۔ ہندوستان میں بھی ایسے لوگ پیدا ہورہے ہیں جو اپنے آپ کو ہندوستانی قومیت سے منسوب کرتے ہیں۔ وہ لوگ بھی یہاں موجود ہیں جو آبِ زم زم سے قطع تعلق کرکے آبِ گنگا سے وابستگی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو بھیم اور ارجن کو اپنا قومی ہیرو قرار دینے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ان نادانوں نے نہ اپنی تہذیب کو سمجھا ہے اور نہ مغربی تہذیب کو، اصول اور حقائق ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ وہ محض سطح بیں ہیں اور سطح پر جو نقوش ان کو زیادہ نمایاں اور زیادہ خوش رنگ نظر آتے ہیں انھی پر لوٹ پوٹ ہونے لگتے ہیں۔ ان کو خبر نہیں کہ جو چیز مغربی قومیت کے لیے آبِ حیات ہے، وہی چیز اسلامی قومیت کے لیے زہر ہے۔ مغربی قومیتوں کی بنیاد نسل، وطن اور زبان و رنگ کی وحدت پر قائم ہوئی ہے اس لیے ہرقوم مجبور ہے کہ ہراس شخص سے اجتناب کرے جو اس کا ہم قوم، ہم نسل، ہم زبان نہ ہو، خواہ وہ اس کی سرحد سے ایک ہی میل کے فاصلہ پر کیوں نہ رہتا ہو۔ وہاں ایک قوم کا آدمی دوسری قوم کا سچا وفادار نہیں ہوسکتا۔ کوئی قوم کسی دوسری قوم کے فرد پر اعتماد نہیں کرسکتی کہ وہ اس کے مفاد کو اپنی قوم کے مفاد پر ترجیح دے گا مگر اسلامی قومیت کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں قومیت کی بنیاد نسل، وطن کے بجائے اعتقاد و عمل پر رکھی گئی ہے۔ تمام دنیا کے مسلمان ہرجنسی امتیاز کے بغیر ایک دوسرے کے شریکِ حال اور معاون ہیں۔ ایک ہندی مسلمان مصر کا ویسا ہی وفادار شہری بن سکتا ہے جیساکہ وہ خود ہندوستان کا ہے۔ ایک افغانی مسلمان شام کی حفاظت کے لیے اسی جانبازی کے ساتھ لڑسکتا ہے جس کے ساتھ وہ خود افغانستان کے لیے لڑتا ہے۔ اس لیے ایک ملک کے مسلمان اور دوسرے ملک کے مسلمان میں جغرافی یا نسلی تفریق کی کوئی وجہ نہیں۔ اس معاملہ میں اسلام کے اصول اور مغرب کے اصول ایک دوسرے کی ضد واقع ہوئے ہیں۔ جو وہاں سبب ِ قوت ہے وہ یہاں عین سبب ضُعف ہے۔ اور جو یہاں مایۂ حیات ہے وہ وہاں بعینہٖ سمِ قاتل ہے۔ اقبال نے اس حقیقت کو کس خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے۔
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
بعض لوگ اس خیالِ خام میں مبتلا ہیں کہ وطنی یا نسلی قومیت کے احساسات پیدا ہونے کے بعد بھی اسلامی قومیت کا رشتہ مسلمانوں کے درمیان باقی رہ سکتا ہے، اس لیے وہ اپنے نفس کو یہ کَہ کر دھوکا دیتے ہیں کہ یہ دونوں قسم کی قومیتیں ساتھ ساتھ چلیں گی، ایک سے دوسری پر آنچ نہ آئے گی، اور ہم ان دونوں کے فوائد جمع کرلیں گے۔ لیکن یہ محض جہل اور قلت ِ فکر کا کرشمہ ہے۔ جس طرح خدا نے ایک سینے میں دو قلب نہیں رکھے، اسی طرح ایک قلب میں دو قومیتوں کے متضاد اور متصادم جذبات کو جمع کرنے کی گنجائش بھی نہیں رکھی ہے۔
احساسِ قومیت کا لازمی نتیجہ اپنے اور غیر کا امتیاز ہے۔ اسلامی قومیت کے احساس کا فطری مقتضا یہ ہے کہ آپ مسلم کو اپنا اور غیرمسلم کو غیر سمجھیں اور وطنی یا نسلی قومیت کے احساس کا طبعی اقتضا یہ ہے کہ آپ ہر اس شخص کو اپنا سمجھیں جو آپ کا ہم وطن یا ہم نسل ہو اور اس کو غیر سمجھیں جو دوسرے ملک یا نسل سے تعلق رکھتے ہو۔ اب کوئی صاحب ِ عقل ہمیں سمجھا دے کہ یہ دونوں احساس ایک جگہ کیسے جمع ہوسکتے ہیں؟ کیوں کر ممکن ہے کہ آپ اپنے غیرمسلم ہم وطن کو اپنا بھی سمجھیں اور غیر بھی؟ اور غیروطنی مسلمان سے بعید بھی ہوں اور قریب بھی؟
ھَلْ یَجْتَمِعَانِ مَعًا؟ اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ
پس یہ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمان میں ہندیت ، ترکیت ، افغانیت، عربیت اور ایرانیت کے احساسات کا پیدا ہونا اسلامی قومیت کا احساس مٹنے اور اسلامی وحدت کے پارہ پارہ ہونے کو مستلزم ہے اور یہ نتیجہ محض عقلی نہیں ہے بلکہ بارہا مشاہدہ میں آچکا ہے۔ مسلمانوں میں جب کبھی وطنی یا نسلی تعصبات پیدا ہوئے تو مسلمان کا گلا ضرور کاٹا اور :
لَا تَرْجِعُوْنَ بَعْدِیْ کُفَّارً ایَّضْرِبُ بَعْضُکُمْ رَقَابَ بَعْضٍ
کے اندیشہ ِ نبویؐ کی تصدیق کر کے ہی چھوڑی ۔لہٰذا وطنیت کے داعیوں کو اگر یہ کام کرنا ہی ہے تو بہتر ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور دُنیا کو دھوکا نہ دیں بلکہ جو کچھ کریں یہ جان کر کریں کہ وطنی قومیت کی دعوت محمدؐ رسول اللہ کی دعوت کی عین ضد ہے۔
(ترجمان القرآن، رجب شعبان ۱۳۵۲ھ، نومبر، دسمبر ۱۹۳۳ء)

کلمۂ جامعہ

(یہ ایک مختصر تقریر ہے جو ربیع الاوّل ۵۳ھ میں انجمن مجددیہ حیدرآباد کے سالانہ جلسہ کے موقع پر کی گئی تھی)
الحمد للّٰہ رب العٰلمین والصلوۃ والسلام علٰی نبیہ محمد
سیّدالمرسلین وخاتم النبیین
برادرانِ ملّت!
کیا میں آپ کو بتائوں کہ دُنیا میں سب سے بڑھ کر روح کو بالیدگی اور دل کو فرحت بخشنے والا نظارہ کون سا ہے؟ اس نظارہ کو بیان کرنے کے لیے الفاظ سے تصویر کھینچنے کی ضرورت نہیں۔ جس چیز کا آنکھیں یہیں اسی وقت مشاہدہ کرسکتی ہیں، اسے بیان کرنے کے لیے زبان کو تکلیف دینے کی کیا حاجت؟ وہ نظارہ یہی ہے جو میں اس وقت دیکھ رہا ہوں اور آپ میں سے ہرشخص دیکھ رہا ہے یعنی مسلمانوں کا اجتماع مسلمان ہونے کی حیثیت سے، خدا پرست ہونے کی حیثیت سے ، اُمت محمدؐ ہونے کی حیثیت سے یہ اجتماع صرف میرے اور آپ کے لیے ہی دل خوش کن نہیں ہے۔
اس کو خدا نے بھی پسند کیا ہے، اور وہ بھی اس کا عاشق ہے۔
اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِہٖ صَفًّا كَاَنَّہُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ۝۴ (الصف:۴)
’’اللہ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر جنگ کرتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیو ار ہیں‘‘۔
پسندیدگی صرف اسی صف بندی کے لیے نہیں ہے جو جنگ میں کی جاتی ہے بلکہ اس صف بندی کے لیے بھی ہے جو آپ نماز میں خدا کی عبادت کے لیے کرتے ہیں۔ چنانچہ اسی لیے آپ کو حکم دیا جاتا ہے اور کیسی تاکید کے ساتھ حکم دیا جاتا ہے کہ:
اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہِ وَذَرُوا الْبَيْعَ (الجمعہ:۹)
’’جب جمعہ کے روز نماز کے لیے ندا کی جائے تو خدا کی یاد کے لیے دوڑو اور سب کاروبار چھوڑ دو‘‘۔
یہی نہیں بلکہ خدا کی محبت اس پورے اسلامی اجتماع کے ساتھ ہے جو مشرق کے انتہائی کناروں سے لے کر مغرب کے انتہائی کناروں تک پھیلا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو اپنی نعمت قرار دیتا ہے اور احسان جتاتا ہے۔
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۝۰۠ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا۝۰ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا (آل عمران:۱۰۳)
’’یاد کرو اپنے اُوپر اللہ کے احسان کو کہ تم آپس میں دشمن تھے۔ اس نے تمھارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈال دی اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ سے بھرے ہوئے گڑھے کے کنارے پر تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا‘‘۔
حضرات!
غور کیجیے کہ وہ کیا چیز ہے جو آپ کو ایک بنیانِ مرصوص بناتی ہے؟ آپ میں سے ہرشخص اپنا ایک الگ وجود رکھتا ہے۔ہرشخص کا جسم الگ ہے، جان الگ ہے، طبیعتیں علیحدہ علیحدہ ہیں، مزاج مختلف ہیں، خیالات مختلف ہیں مگر اس کے باوجود کوئی چیز ہے جو آپ کے درمیان مشترک ہے اور وہی ایک چیز کبھی آپ کو مسجد میں کھینچ لاتی ہے اور ایک صف میں محمود و ایاز سب کو کھڑا کر دیتی ہے۔ وہی چیز کبھی آپ کو میدانِ جنگ میں کھینچ لے جاتی ہے اور ایک مشترک مقصد کے لیے آپ سے سرفروشی کراتی ہے، وہی چیز آپ کے درمیان شادی بیاہ کے تعلقات قائم کراتی ہے۔ وہی آپ کو ایک دوسرے کا ہمدرد، رفیق، غم گسار بنا دیتی ہے، اور وہی آپ میں اور دوسری قوموں میں خط ِ امتیاز کھینچتی ہے مگر وہ کوئی رسی نہیں ہے جو لکڑیوں کو ایک دوسرے سے باندھ کر جکڑ دیتی ہو، وہ کوئی چُونا نہیں ہے جو اینٹوں کو جوڑ کر پیوستہ کردیتا ہو، وہ محض ایک کلمہ ہے جس کو مَیں کلمۂ جامعہ کے لفظ سے اسی لیے تعبیر کرتا ہوں کہ اس میں انسانوں کو جمع کرنے کی خاصیت ہے۔
کلمہ سے مراد الفاظ نہیں ہیں، بلکہ معانی ہیں۔ اعتقاد اور تخیل کو بھی اس لحاظ سے کلمہ کہتے ہیں کہ وہ الفاظ ہی کا جامہ پہن کر ذہن سے باہر آتا ہے اس اعتبار سے ہر وہ تخیل کلمۂ جامعہ کہا جاسکتا ہے جو انسانوں کی کسی بڑی تعداد کو جمع کر کے ایک قوم بنا دیتا ہو۔ وہ تخیل بھی کلمۂ جامعہ ہے جس کی بناپر تمام ترکی النسل قوموں کو ایک قوم بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وہ تخیل بھی کلمۂ جامعہ ہے جو آسٹریا اور جرمنی کے باشندوں کے اتحاد کی کوششوں میں کام کر رہا ہے ۔ وہ تخیل بھی کلمۂ جامعہ ہے جو سلافی نسل کی قوموں کو ایک مرکز پر جمع کرنے کے لیے سرگرم ہے اور وہ سب تخیلات بھی جامع کلمات ہیں جو ایک زبان بولنے والوں یا ایک نسل کے فرزندوں یا ایک ملک کے باشندوں کو ایک قوم بناتے ہیں مگر یہ جتنے کلمات ہیں ان سب کی جامعیت محدود ہے ، کسی کلمہ کی وسعت کو کوئی دریا روک دیتا ہے۔ کسی کی حدبندیاں پہاڑ اور سمندر کر دیتے ہیں۔ کسی کی وسعت ایک خاص زبان کی وسعت کے ساتھ مقید ہے۔ کسی کا پھیلائو بس اسی حد تک ہے جس حد تک کوئی خاص نسل پھیلی ہوئی ہے۔ ایسے کلمات کو ایک ملک کے لیے جامع کہا جاسکتا ہے۔ ایک نسل کے لیے جامع کہا جاسکتا ہے، مگر تمام دنیا کے لیے جامع نہیں کہا جاسکتا۔
اب دیکھیے کہ کیا وہ کلمہ بھی انھی معنوں میں جامع ہے جس نے آپ کو جمع کیا ہے؟ کیا آپ سب اس لیے جمع ہیں کہ آپ ایک ملک کے رہنے والے ہیں؟ کیا آپ کو خون کی وحدت نے بنیان مرصوص بنایا ہے؟ کیا آپ اس لیے ایک قوم ہیں کہ آپ کی سیاسی اَغراض ایک ہیں؟ آپ یقینًا جواب دیں گے کہ نہیں اگر کوئی عربی بولنے والا عرب اور پشتو بولنے والا افغانی یہاں موجود ہو تو کیا آپ اس کو اپنی جماعت سے نکال دیں گے؟ اگر کوئی حبش کا زنگی یا پولینڈ کا فرنگی یہاں آئے تو کیا اسے آپ اپنی جماعت میں شریک نہ کریں گے؟ آپ اس کا جواب بھی نفی میں دیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کو جمع کرنے والا وہ نہیں ہے جس کو پہاڑ اور دریا محدود کرسکتے ہوں۔ نہ وہ ہے جس کو کوئی نسل محدود کرسکتی ہو، بلکہ یہ وہ کلمہ ہے جو تمام روئے زمین پر محیط ہے، جو ساری نوعِ انسانی کو اپنی آغوش میں لے سکتا ہے، جس کو پھیلنے اور چھا جانے سے دنیا کی کوئی مادی چیز روک نہیں سکتی، جس کی بندش میں کالے اور گورے زرد اور سفید مغربی اور مشرقی سب یکساں بندھ سکتے ہیں۔ اس کلمہ کو ہم اسی غیرمحدود وسعت کے لحاظ سے جامع کہتے ہیں۔ یہ اسی لیے جامع ہے کہ تمام عالم کے انسانوں کو جمع کرنے کی قابلیت اس میں موجود ہے۔
حضرات! میں آپ سے پھر ایک گہری نظر کا مطالبہ کروں گا آپ ایک مسلم کی سی بصیرت سے دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دنیا میں اس صفت اور اس خاصیت کا ایک ہی کلمہ ہوسکتا ہے۔ اس بات کو آپ ایک مثال سے بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ دیواریں جو آپ کے سامنے کھڑی ہیں اور یہ ستون جو آپ کے سامنے ایستادہ ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنا ایک الگ اور مستقل وجود رکھتا ہے۔ یہ چھت اور یہ فرش بھی بجائے خود الگ الگ ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنے اندر بہت سے پتھروں اور اینٹوں کو لیے ہوئے ہے، ان کے درمیان اختلاف کے سیکڑوں مادے ہیں، ان کی وضع مختلف ہے، ان کے مقام مختلف ہیں، ان کی سمتیں مختلف ہیں، ان کے رنگ مختلف ہیں، ان کے وزن و حجم مختلف ہیں، غرض بہت سی چیزیں ہیں جو ان کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہیں مگر ایک چیز ان میں مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سب ایک ہی عمارت کے اجزاء ہیں۔ ایک ہی مقصد کی خدمت کے لیے ان کو بنایا گیا ہے اور ایک ہی انجینیران کا بنانے والا ہے۔ یہ ایک مادۂ اِشتِراک تو ان سب کو متفق و متَّحد کرسکتا ہے، باقی جتنے مادے ہیں، سب اختلاف کے مادے ہیں، نہ کہ اِشتِراک کے۔ بس اسی طرح دنیا کے مختلف رنگ، مختلف زبانیں، مختلف نسلیں اور مختلف وطن رکھنے والی قومیں اگر مل کر ایک قوم بن سکتی ہیں تو صرف اسی صورت سے کہ وہ سب خداوند عالم اور اس کے ملائکہ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور اس کے پاس حاضری کے دن پر ایمان لائیں۔ اس کے سوا اور کوئی چیز ان کو جمع کرنے والی نہیں ہے۔
پھر اسی دیوار کی مثال کو لے کر دیکھیے۔ اس کا رنگ سفید ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی یرقان کا مریض اس کو زرد کہے، ہوسکتا ہے کہ کسی کی آنکھ پر رنگین عینک چڑھی ہوئی ہو اور وہ اسے سرخ یا سبز کَہ دے، ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص ضد کی وجہ سے اس کو سیاہ یا نیلا کَہ دے۔ بہرحال اس کے اصلی رنگ کے سوا جتنے رنگ بھی دنیا میں موجود ہیں ان سب کا اطلاق اس پر کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ جتنے اطلاقات ہوں گے، سب کے سب جھوٹے ہوں گے اور کبھی دیکھنے والی دنیا ان مختلف رنگوں کے اطلاق پر جمع نہ ہوسکے گی کیونکہ دنیا کبھی جھوٹ پر متفق نہیں ہوسکتی۔ اتفاق اگر ممکن ہے تو صداقت ہی پر ممکن ہے۔ اس لیے اگر سب دیکھنے والے کسی قول پر متفق ہوسکتے ہیں تو وہ یہی ہے کہ اس دیوار کو سفید کہا جائے۔ اسی طرح کائنات کے خالق اور پروردگار کے متعلق بھی بے شمار اقوال ممکن ہیں اور کہے گئے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ دو خدا ہیں، کوئی تین کہتاہے، کوئی لاکھوں اور کروڑوں ہستیوں میں خدائی کو تقسیم کردیتا ہے لیکن سچی بات جس پر آسمان اور زمین کا ہر ذرّہ گواہ ہے ، وہ یہی کلمہ ہے۔ اس کے سوا جتنے کلمے ہیں سب جدا کرنے والے اور اختلاف برپا کرنے والے ہیں، جوڑنے اور ملانے والے نہیں ہیں، نہ ہوسکتے ہیں۔
اور آگے بڑھیے ملائکہ کے متعلق بہت سے اقوال ممکن ہیں اور کہے گئے ہیں۔ کسی نے ان کو دیوتا بنایا، کسی نے انھیں شفیع ٹھیرایا، کسی نے ان کو خدائی میں شریک کیا، لیکن سچی بات ایک ہی ہے کہ ملائکہ خدا کے خادم ہیں اور امرالٰہی کے خلاف حرکت کرنے کی قدرت ان میں ذرّہ برابر بھی نہیں ہے۔ اگر دنیا میں اتفاق ممکن ہے تو اسی سچی بات پر ممکن ہے۔ باقی سب اختلافات کی بنیادیں ہیں۔
یہی معاملہ انبیاء اور کتابوں کا ہے۔ ہر قوم اپنے اپنے پیشوا اور اپنی اپنی کتاب کو لے کر الگ ہوسکتی ہے۔ کُلُ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ ،ہرقوم کَہ سکتی ہے کہ میرا پیشوا سچا اور سب جھوٹے۔ ہرقوم کَہ سکتی ہے کہ میری کتاب سچی اور باقی کتابیں جھوٹی ہیں۔ یہ مختلف اقوال قوموں کو ملانے والے نہیں بلکہ جدا کرنے والے ہیں۔ سب کو ملا کر ایک قوم بنانے والا اگر کوئی قول ہوسکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ خدا کے جتنے رسول مختلف زمانوں اور مختلف قوموں میں آئے ہیں سب سچے تھے۔ جتنی کتابیں خدا کی طرف سے مختلف قوموں کے رسول لے کر آئے، سب حق اور نیکی کی تعلیم دینے والی تھیں۔
اسی طرح دُنیا کے انجام اور نوعِ انسانی کے خاتمہ کے متعلق بھی مختلف باتیں کہی جاسکتی ہیں اور کہی گئی ہیں لیکن دل جس صداقت پر ٹھکتا ہے وہ ایک ہی ہے کہ ہم سب کو ایک دن اپنے خالق کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب پیش کرنا ہے۔ اگر دنیا متفق ہوسکتی ہے تو اسی صداقت پر ہوسکتی ہے، باقی جتنی باتیں اس کے خلاف ہیں ان میں اختلاف کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
یہی پانچ چیزیں ہیں جن کے اعتقاد کا نام ہم نے کلمۂ جامعہ رکھا ہے۔
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ۝۰ۭ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَكُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ۝۰ۣ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ۝۰ۣ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝۰ۤۡ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ۝۲۸۵
’’رسولؐ ایمان لایا اس کتاب پر جو اس کی طرف اس کے رب کی جانب سے اُتار دی گئی ہے اور مومن بھی اس پر ایمان لائے۔ سب کے سب ایمان لائے اللہ پر اور اس کے ملائکہ پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں ؑ پر اور کہا کہ ہم اس کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ پروردگار ! ہم تیری ہی مغفرت کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف واپس جانا ہے‘‘۔
ان پانچوں صداقتوں کا ظاہر کرنے والا خدا ہے اور دُنیا میں پیش کرنے والا خدا کا رسولؐ ہے۔ اس لیے ان سب کے تفصیلی بیان کو مختصر کرکے ایک چھوٹا سا کلمہ بنا دیا گیا ہے اور وہ کلمہ ہے لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۔خدا کی یکتائی کے ساتھ محمدﷺ کی پیغمبری کا اقرار یہ معنی رکھتا ہے کہ آپ ان سب صداقتوں پر ایمان لے آئیں جو محمدﷺنے خدا کی طرف سے پیش فرمائی ہیں۔
حضرات!
یہی وہ قول ہے جس کو بھاری اور ثقیل کہا گیا ہے:
اِنَّا سَـنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَـقِيْلًا۝۵ (المزمل:۵)
یہ کسی پتّے یا کاغذ کے ٹکڑے کی طرح نہیں ہے کہ معمولی ہوا کے جھونکے اس کو اُڑا لے جائیں، جس کو ایک جگہ قرار نصیب نہ ہو، جو ہر نئے اکتشاف، ہر نئے نظریے، ہر نئے تخیل کے ساتھ پلٹیاں کھاتا چلا جائے، یہ تو پہاڑ کی طرح بھاری بھرکم قول ہے کہ ہوا کے طوفان آئیں اور گزر جائیں۔ پانی کے سیلاب اُمڈیں اور بیٹھ جائیں مگر یہ اپنی جگہ سے ہلنے والا نہیں۔ یہی بات ہے جس کو دوسری جگہ فرمایا گیا ہے کہ:
اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا كَلِمَۃً طَيِّبَۃً كَشَجَرَۃٍ طَيِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِي السَّمَاۗءِ۝۲۴ۙ تُؤْتِيْٓ اُكُلَہَا كُلَّ حِيْنٍؚبِـاِذْنِ رَبِّہَا۝۰ۭ وَيَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ۝۲۵ وَمَثَلُ كَلِمَۃٍ خَبِيْثَۃٍ كَشَجَرَۃٍ خَبِيْثَۃِۨ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَہَا مِنْ قَرَارٍ۝۲۶ يُثَبِّتُ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ وَيُضِلُّ اللہُ الظّٰلِــمِيْنَ۝۰ۣۙ وَيَفْعَلُ اللہُ مَا يَشَاۗءُ۝۲۷ (ابراہیم: ۲۴-۲۷)
’’کیا نہیں دیکھتے کہ اللہ نے اچھے کلمہ کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ وہ ایک اچھی ذات کے درخت کی طرح ہے جس کی جڑیں زمین میں خوب جمی ہوئی ہیں اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ وہ ہر وقت اپنے رب کے اِذن سے پھل لاتا ہے اور اللہ لوگوں کے سامنے یہ مثالیں اس لیے بیان کرتا ہے کہ وہ سبق حاصل کریں اور بُرے کلمہ کی مثال ایک بُرے بداصل درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح ہی پر سے اُکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اس کو کوئی جمائو نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں کو ایک مضبوط قول کے ساتھ دنیا میں بھی ثبات بخشتا ہے اور آخرت میں بھی اور جو ظالم اس قول سے انکار کرتے ہیں ان کو وہ بھٹکا دیتا ہے اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے‘‘۔
اس تمثیل نے بات کو بالکل واضح کر دیا۔ زمین میں ثبات اور قرار اور پھیلائو اسی کلمہ کو نصیب ہوسکتا ہے جو پاک اور سچا اور جامع کلمہ ہے۔ اس کے سوا جتنے کلمے ہیں، سب کے سب بداصل کلمے ہیں۔ کسی کو ثبات و قرار نصیب ہونے والا نہیں۔ وہ خود رَو درخت ہیں۔ آج اُگے اور کل اکھڑ گئے۔ زمانہ کا ہر نیا حادثہ، وقت کا ہر نیا تغیر ایک نیا پودا اُگاتا ہے اور پچھلے پودوں کو اُکھاڑ پھینکتا ہے۔ ان پودوں میں برگ و بار لانے کی صلاحیت نہیں۔ اگر یہ بار لاتے بھی ہیں تو کڑوے کسیلے، بلکہ زہریلی گیسیں نکلتی ہیں، کہیں ان سے پھٹنے اور آگ لگانے والے بم جھڑتے ہیں۔ کہیں ان سے نفاق اور عداوت اور حسد و بُغض کے بیج نکلتے ہیں جن کی قسمت میں خدا کا عذاب لکھا ہے، انھیں چھوڑ دیجیے کہ وہ ان پودوں سے دل بہلائیں، آپ کے پاس تو وہ پاک اور صحیح الاصل درخت موجود ہے جو ہبوطِ آدم کے وقت سے آج تک کبھی نہ اکھڑا، نہ بے برگ و بار ہوا، اس کی جڑیں زمین میں گہری جمی ہوئی ہیں اور اس درخت سے ہمیشہ امن اور سلامتی کا پھل پیدا ہوا ہے۔ یہ آدم ؑ کے کسی بیٹے اور بیٹی کو اپنے سایہ میں پناہ لینے اور اپنے پھلوں کا فائدہ اُٹھانے سے نہیں روکتا، یہ کسی سے نہیں پوچھتا کہ تو کس نسل سے ہے؟ کیا زبان بولتا ہے؟ کہاں کا باشندہ ہے؟ اس کے سایہ کی خاصیت یہ ہے کہ جو اس کے نیچے آگیا وہ انساب کا تفاخر بھول گیا۔ زبانوں کا فرق رنگوں کا امتیاز ملکوں کا اختلاف اس کی نگاہ میں ہیچ ہوگیا، اور اس کی روح میں یہ تعلیم سما گئی کہ:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ تَرٰىہُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا (الفتح:۲۹)
’’محمدؐ رسول اللہ اور ان کے ساتھی کفار پر سخت اور آپس میں نرم ہیں۔ تم جب کبھی ان کو دیکھو گے انھیں اسی حال میں پائو گے کہ یا تو وہ رکوع و سجود میں مشغول ہیں یا پھر اپنے رب کے فضل (پاک رزق) کی تلاش میں گئے ہیں‘‘۔
برادرانِ ملّت!
یہ کلمہ اس لیے پیش کیا گیا تھا کہ تمام نوعِ انسانی ایک بڑی اور عالم گیر صداقت پر متفق ہوسکے اور بے شمار مالی و عقلی اختلافات کے باوجود ایک امر مشترک ایسا ہو جس میں سب بنی آدم ایک دوسرے کے بھائی بن سکیں اسی لیے ایمان کی بنا ایسے اُمور پر رکھی گئی جن میں بڑی وسعت ہے اور جو ساری نوعِ انسانی کو اپنے دامن میں لے سکتے ہیں اسی لیے اس کلمہ کے پیش کرنے والے (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیا گیا کہ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا ۔ اسی لیے کہا گیاکہ جو اس کلمہ کا قائل ہوجائے اس کا خون حرام ہے، اس کی عزت حرام ہے، وہ تمھارا بھائی ہے، اس کو قتل کرنے والا دائمی عذاب و جہنّم کا سزاوار ہے اور اس کی عزت پر حملہ کرنے والا فاسق ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے کہ ہم نے اس سب سے بڑے جامع کلمہ کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کرڈالے ۔ خدا کا فرمان تھا کہ جو کوئی خدا، ملائکہ، کتابوں، رسولوں اور یومِ آخر کو مانے وہ مسلّم ہے مگر ہم نے کچھ دوسری چیزوں پر کفرواسلام کا مدار رکھا اور ان پانچوں اُمور پر ایمان لانے والوں میں بھی بے تکلف کفر کی لعنت تقسیم کی۔ اس کلمۂ جامعہ کے ہوتے ہوئے بھی ہم اس طرح بچھڑ گئے کہ گویا ہمارے دین الگ الگ ہیں، ہم نےعملاً اپنی قومیں الگ بنالیں، اپنی مسجدیں الگ کرلیں، اپنی نمازیں الگ کرلیں، اپنے درمیان شادی بیاہ کے رشتے توڑ دیے اور اس برادری کے تعلق کو قطع کردیا جو اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ کَہ کر جوڑا گیا تھا۔ اس کے بعد ایک اور مصیبت آئی۔ دوسری قوموں سے ہم نے وطنی اور نسلی قومیتوں کا نیا سبق حاصل کیا جو اسلام کی روح اور اس کی تعلیم کے سراسر منافی ہے۔ جن جاہلی عصبیتوں کا مٹانا اسلامی تعلیم کے اوّلین مقاصد میں سے تھا وہ سب ہم میں پیدا ہوگئیں۔ کسی نے پین تورانی تحریک کا علَم بلند کیا، کسی نے پین عرب تحریک اُٹھائی، کسی نے آریائی نسلیت کا چرچا کیا، کسی نے وطنی قومیتوں میں جذب ہوجانے کا اعلان کیا۔ غرض مختلف مذہبی اور سیاسی تحریکوں نے اپنی پوری قوت اسلام کے اس کلمۂ جامعہ کو پارہ پارہ کرنے میں صرف کر دی جو انھی تمام تفریقوں کو مٹاکر نوعِ انسانی کی ایک عالم گیر برادری قائم کرنے کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ میرا یہ مُدعا ہرگز نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہے کہ اس کلمۂ جامعہ کا مقصد تمام اختلافات کو مٹا دینا تھا۔ اختلاف تو ایک فطری امر ہے جس کا مٹنا ممکن نہیں۔ نہ رنگوں اور نسلوں کا اختلاف مٹ سکتا ہے، نہ زبانوں اور ملکوں کا اختلاف مٹ سکتا ہے، نہ خیالات اور طبائع کا اخلاف مٹ سکتا ہے اور جب یہ نہیں مٹ سکتا تو ظاہر ہے کہ کسی نہ کسی طور سے نوعِ انسانی کے گروہوں میں اعتقاد اور اَغراض کے لحاظ سے اختلاف ضرور باقی رہے گا لیکن کلمۂ جامعہ کے بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ ان تمام مادی اور حسی اختلافات کے درمیان ایک عقلی، اَخلاقی اور تہذیبی رابطہ پیدا کیا جائے جس کو نوعِ انسانی کے تمام افراد قبول کرسکتے ہوں، اور جس کو قبول کرکے وہ سب اپنے جغرافی ، نسلی، معاشی، لونی اور لسانی اختلافات کے باوجود ایک قوم بن سکتے ہوں۔ اسی مقصد کے لیے ایک جامع کلمہ کے ساتھ نماز میں جماعت کی تاکید کی گئی۔ تمام دُنیا کے لیے ایک قبلہ مقرر کیا گیا۔ روزے اور حج کو اجتماعی صورت دی گئی۔ معاشرتی اور سماجی امتیازات کو مٹایا گیا۔ تمام مسلمانوں کو مساوی قانونی مرتبہ دیا گیا اور سب کو ایک عالم گیر تہذیب کے رنگ میں رنگ دیا گیا۔ یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ دین کا اتحاد تمام چھوٹے اختلافات پر غالب ہوجائے اور دُنیا میں ایک ایسی قومیت بن جائے جو تمام نوعِ انسانی کو اپنے دائرے میں لے سکتی ہو۔ لیکن افسوس ہے اور غیر مسلموں سے بڑھ کر مسلمانوں کے حال پر افسوس ہے کہ جو نعمت ِ عظمیٰ ان کے رب نے ان کو دی تھی، اسے آدم ؑ کی اولاد پر عام کرنے کے بجائے وہ خود وطنی اور لسانی اور نسلی اور معاشی قومیتوں کے سراسر جاہلی تصورات کو قبول کر رہے ہیں حالانکہ پچھلی تاریخ ہی نہیں، جدید دور کے روشن ترین واقعات شہادت دے رہے ہیں کہ انھی قومیتوں سے امپریلزم اور ڈکٹیٹرشپ اور ظلم و استبداد اور چنگ و پیکار کے فتنے پیدا ہوئے جنھوں نے ساری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیا اور روئے زمین کو مظلوموں کے خون سے لالہ زار کر دیا۔
بھائیو!
اگر تمھارے شہر سے متصل کوئی بڑا زبردست بند کسی دریا کے سیلاب کو روکے کھڑا ہو، اور تمھارے شہر کی سلامتی اس بند کی مضبوطی پر منحصر ہو، اور تم اپنی ساری قوتیں ان شگافوں کو بھرنے اور اس بند کی حفاظت کرنے میں صرف کردو گے لیکن مجھے تعجب ہے کہ دنیا میں فتنہ و فساد اور حسد و نفاق اور عداوت و دشمنی کے عظیم الشان اور ہولناک سیلاب کو جو بند روکے ہوئے ہے، اور جس کی مضبوطی پر سارے عالم کا بقا و تحفظ منحصر ہے اس میں ہر طرف سے شگاف پڑ رہے ہیں، مگر تم کو اس کی کچھ فکر نہیں۔ میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ اس بند ِ عظیم کی حفاظت اتنا مقدس کام ہے کہ اگر کوئی شخص اس کے شگافوں کو بھرنے کے لیے اپنا سر بھی دے دے تو اس کام کی نسبت سے یہ کوئی بڑی قربانی نہ ہوگی۔ اس سے بھی بڑی قربانی اگر کوئی ممکن ہوتی تو اس کے لیے وہ بھی کرنی چاہیے تھی۔(ترجمان القرآن، ربیع الاوّل ۱۳۵۳ھ، جولائی ۱۹۳۴ء)

متَّحدہ قومیّت اور اسلام

اس عنوان سے جناب مولانا حسین احمد صاحب ، صدر دارالعلوم دیوبند کا ایک رسالہ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔{ مجلس قاسم العلوم دیوبند سے ملتا ہے۔
} ایک نامور عالمِ دین اور ہندوستان کی سب سے بڑی دینی درس گاہ کے صدر ہونے کی حیثیت سے مصنف کا جو مرتبہ ہے اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہمیں توقع تھی کہ اس رسالہ میں ’’قومیت‘‘ کے اہم اور نہایت پیچیدہ مسئلہ کی تنقیح و تحقیق خالص علمی طریقہ پر کی گئی ہوگی، اور اس باب میں اسلام کا نقطۂ نظر پوری طرح واضح کر دیا گیا ہوگا لیکن ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے اس رسالہ کو اپنی توقعات سے اور مصنف کی ذمہ دارانہ حیثیت سے بہت فروتر پایا۔ یہ ایسا زمانہ ہے جس میں جاہلی تصورات نے ہر طرف سے اسلامی حقائق پر نرغہ کر رکھا ہے اور اسلام اپنے گھر ہی میں غریب ہورہا ہے۔ خود مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ وہ خالص اسلامی نگاہ سے مسائل کو نہیں دیکھتے اور کمیِ علم کی وجہ سے نہیں دیکھ سکتے۔
پھر قومیّت کا مسئلہ اتنا اہم ہے کہ اس صاف اور واضح فہم و ادراک ہی پر ایک قوم کی زندگی کا مدار ہوتا ہے۔ اگر کوئی قوم اپنی قومیت کے اساسیات ہی کو اجنبی اصول و مبادی میں خلط ملط کردے تو وہ قوم سرے سے قوم ہی نہیں رہ سکتی۔ ایسے نازک مسئلہ پر قلم اُٹھاتے ہوئے مولانا حسین احمد صاحب جیسے شخص کو اپنی ذمہ داری کا پورا احساس ہونا چاہیے تھا ،اس لیے کہ وہ امانت ِ انبیاء ؑ کے امین ہیں اور جب اسلامی حقائق جاہلیت کے گردوغبار میں چھپ رہے ہوں تو یہ انھی جیسے لوگوں کا کام ہے کہ انھیں صاف اور منقح کرکے روشنی میں لائیں۔ ان کو یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ اس فتنہ کے دور میں ان کی ذمہ داری عام مسلمانوں کی ذمہ داری سے زیادہ سخت ہے اور اگر مسلمان کسی گمراہی میں مبتلا ہوں تو سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر وہی ماخوذ ہونے والے ہیں لیکن ہمیں پھر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مولانا کا یہ رسالہ اس ذمہ داری کے احساس سے بالکل خالی ہے۔

غیرعلمی زاویۂ نظر

ایک مصنف کی تصنیف میں سب سے پہلے جس چیز کو تلاش کرنا چاہیے، وہ اس کا زاویۂ نظر ہے۔ اس لیے کہ اپنے موضوع کے ساتھ مصنف کا برتائو اور اس کا صحیح یا غلط نتائج پر پہنچنا تمام تر اس کے زاویۂ نظر ہی پر منحصر ہوتا ہے۔ سیدھا اور صحیح زاویۂ نظر یہ ہے کہ آدمی محض امرحق کا طالب ہو اور مسئلے کو جیسا کہ وہ فطرتاً و حقیقتاً ہے، اس کے اصلی رنگ میں دیکھے اور حقیقت کا یہ مشاہدہ جس نتیجہ پر بھی پہنچاتا ہو، اس پر پہنچ جائے، بلا اس لحاظ کے کہ وہ کس کے خلاف پڑتا ہے، اور کس کے موافق یہ بحث و تحقیق کا فطری اور علمی زاویۂ نظر ہے اور اسلامی زاویۂ نظر بھی اس کے سوا کوئی نہیں کہ اسلام کی روح ہی اَلْحُبُّ فِی اللہِ وَالْبُغْضُ فِی اللہِ ہے۔اس سیدھے زاویۂ نظر کے علاوہ بہت سے ٹیڑھے زاویہ ہائے نظر بھی ہیں، مثلاً ایک یہ کہ آپ کسی کی محبت میں مبتلا ہیں۔ اس لیے صرف اسی نتیجہ پر جانا چاہتے ہیں جو اس کے موافق ہو۔ اور دوسرا یہ کہ آپ کو کسی سے بُغض و عداوت ہے، اس لیے آپ کو تلاش صرف انھی چیزوں کی ہے جو آپ کے مبغوض کی مخالف ہوں، اس قسم کے ٹیڑھے زاویے جتنے بھی ہیں سب کے سب خلافِ حق ہیں۔ انھیں اختیار کرکے کوئی بحث کسی صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتی۔ کسی عالم اور متقی انسان کے لیے زیبا نہیں کہ ایسے کسی زاویہ سے کسی مسئلہ پر نگاہ ڈالے، اس لیے کہ یہ اسلامی نہیں بلکہ جاہلی زاویۂ نظر ہے۔
اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ مولانا نے اس رسالہ میں کون سا زاویۂ نظر اختیار فرمایا ہے۔ اپنی بحث کے آغاز میں وہ فرماتے ہیں:
’’ضروری معلوم ہوا کہ اُن غلطیوں کا ازالہ کر دوں جو اس قسم کی قومیت متَّحدہ سے مخالفت اور اس کو خلافِ دیانت قرار دینے کے متعلق شائع ہوئی ہیں یا شائع کی جارہی ہیں۔ کانگریس ۱۸۸۵ء سے اہلِ ہندستان سے بنابر وطنیت اس اتحاد قومی کا مطالبہ کرتی ہوئی بیش از بیش جدوجہد عمل میں لارہی ہے اور اس کی مقابل و مخالف قوتیں اس کے غیرقابلِ قبول ہونے بلکہ ناجائز اور حرام ہونے کی انتہائی کوششیں عمل میں لارہی ہیں۔ یقینًا برٹش شہنشاہیت کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی خطرناک چیز نہیں ہے۔ یہ چیز میدان میں آج سے نہیں بلکہ تقریباً ۱۸۸۷ء یا اس سے پہلے لائی گئی ہے اور مختلف عنوانوں سے اس کی وحی ہندوستانیوں کے دل و دماغ پر عمل میں لائی جاتی ہے‘‘۔ (صفحہ ۵-۶)
پھر چند سطروں کے بعد فرماتے ہیں:
’’اگرچہ بہت سے ان لوگوں سے جن کو برطانیہ سے گہرا تعلق ہے یا جن کے دماغ اور قلب برطانوی مدبرین کے سحر سے مائوف ہوچکے ہیں ، اُمید نہیں ہے کہ وہ اس کو قبول کریں گے‘‘۔
اسی سلسلہ میں ڈاکٹر اقبال مرحوم کے متعلق فرماتے ہیں کہ ان کی ہستی کوئی معمولی ہستی نہ تھی۔ وہ ایسے اور ایسے تھے مگر ’’باوجود کمالاتِ گوناگوں کے ساحرین برطانیہ کے سحر میں مبتلا ہوگئے تھے‘‘۔
پھر ایک طویل بحث کے بعد اپنے زاویۂ نظر کا صاف صاف اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’ہندوستانیوں کا وطنیت کی بنا پر متَّحدہ قومیت بنا لینا انگلستان کے لیے جس قدر خطرناک ہے، وہ ہم نے پروفیسر سیلے کے مقالہ سے نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جذبہ ضعیف سے ضعیف بھی اگر ہندوستانیوں میں پیدا ہوجائے تو اگرچہ ان میں انگریزوں کے نکالنے کی طاقت موجود نہ بھی ہو مگر فقط اس وجہ سے کہ ان میں یہ خیال جاگزیں ہوجائے گا کہ اجنبی قوم کے ساتھ ان کے لیے اِشتِراکِ عمل شرمناک امر ہے، انگریزی شہنشاہیت کا خاتمہ ہوجائے گا‘‘۔ (صفحہ ۳۸)
آگے چل کر ایک حیرت انگیز رائے کا اظہار فرماتے ہیں جسے پڑھ کر آدمی ششدر رہ جاتا ہے کہ کیا یہ کسی متقی عالم کی تحریر ہوسکتی ہے:
’’اگر قومیت ایسی ہی ملعون اور بدترین چیز ہے تو چوں کہ یورپ نے اس کو استعمال کرکے اسلامی بادشاہوں اور عثمانی خلافت کی جڑ کھودی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے تھا کہ اسی ملعون ہتھیار کو برطانیہ کی جڑ کھودنے کے لیے استعمال کرتے‘‘۔ (ص ۳۸)
اسی بحث کے دوران میں مولانا پہلے تو اس امر کا اعتراف فرماتے ہیں کہ پچھلی دو صدیوں میں مسلمان سلطنتوں کو جس قدر بھی نقصان پہنچا ہے کہ یورپ نے اسلامی وحدت کے خلاف سخت پروپیگنڈا کیا، اور مسلمانوں میں نسلی، وطنی، لسانی امتیاز و افتراق پیدا کر دیا۔ اور ان میں یہ اسپرٹ پیدا کی کہ ’’جہاد مذہبی و روحانی نہ ہو بلکہ نسلوں اور اوطان کے لیے کیا جائے اور مذہبیت کی اسپرٹ درمیان سے نکال دی جائے‘‘ (صفحہ ۳۵-۳۶)۔ لیکن امرحق کے اس قدر قریب پہنچ جانے کے بعد پھر وہی برطانیہ کا ہوّا مولانا کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے اور وہ فرماتے ہیں:
’’افسوس ! مسلمانوں میں اُس وقت کوئی شخص مسلمانوں کی متَّحدہ قومیت اور الغائے وطنیت، نسل و لسان وغیرہ کا واعظ کھڑا نہ ہوا اور نہ یورپ کے اخبار و رسائل اور لیکچراروں کی بے حد و بے شمار آندھیوں کا مقابلہ کیا گیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پان اسلام ازم ایک قصہ پارینہ ہوکر فنا کے گھاٹ اُتر گیا اور ممالک ِ اسلامیہ یورپین اقوام کے لیے لقمۂ تر بن کر رہ گئے۔ اب جب کہ مسلمانوں کو افریقہ، یورپ، ایشیا وغیرہ میں پارہ پارہ کر کے فنا کی گود میں ڈال دیا گیا ہے تو ہم کو کہا جاتا ہے کہ اسلام صرف ملّی اتحاد کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ کسی غیرمسلم جماعت سے متَّحد نہیں ہوسکتا اور نہ کسی غیرمسلم قوم کے ساتھ متَّحدہ قومیت بناسکتا ہے‘‘۔ (صفحہ ۳۶-۳۷)
مندرجہ بالا عبارات سے صاف ظاہر ہے کہ مولانا کی نگاہ میں حق اور باطل کا معیار صرف برطانیہ بن کر رہ گیا ہے۔ وہ مسئلہ کو نہ تو علمی زاویۂ نظر سے دیکھتے ہیں کہ حقائق اپنے اصلی رنگ میں نظر آسکیں، نہ وہ مسلمانوں کے لیے خیرخواہی کےزاویۂ نظر سے اس پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ جو کچھ مسلمانوں کے لیے زہر ہے وہ انھیں زہر دکھائی دے سکے۔ ان دونوں زاویوں کے بجائے ان پر فقط برطانیہ کی عداوت کا زاویۂ نظر مستولی ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ہر وہ چیزان کو تریاق نظر آتی ہے جس کے متعلق کسی طرح ان کو معلوم ہوجائے کہ وہ برطانیہ کے لیے زہر ہے۔
اب اگر کوئی شخص اسی چیز کو مسلمانوں کے لیے زہر سمجھتا ہو اور اس بنا پر اس کی مخالفت کرے تو وہ ان کے نزدیک برطانیہ پرست کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ ان کو مسلمانوں کی زندگی سے اتنی دلچسپی نہیں جتنی برطانیہ کی موت سے ہے اور جب یہ بات ان کے دل میں بیٹھ چکی ہے کہ ’’متَّحدہ قومیت‘‘ برطانیہ کے لیے مہلک ہے تو جو شخص اس کی مخالفت کرتا ہے وہ ’’برطانیہ پرست‘‘ کے سوا اور ہو ہی کیا سکتا ہے۔
خیریت یہ ہوگئی کہ کسی نے مولانا کو برطانیہ کی ہلاکت کا ایک دوسرا نسخہ نہ بتادیا جو متَّحدہ قومیت سے بھی زیادہ کارگر ہے، یعنی یہ کہ ہندوستان کی ۳۵کروڑ آبادی یک بارگی خودکشی کرلے جس سے برطانوی سلطنت آن کی آن میں ختم کی جاسکتی ہے۔ یہ تیر بہدف تدبیر اگر مولانا کے دل میں بیٹھ جاتی تو وہ بے تکلف فرماتے کہ جو شخص ہندوستان کے باشندوں کو خودکشی سے روکتا ہے، وہ برطانیہ پرست ہے۔ خودکشی اگرچہ ’’ملعون‘‘ اور ’’بدترین ‘‘ فعل سہی مگر جب کہ اس سے برطانیہ کی جڑ کھودی جاسکتی ہے تو فرض ہوجاتا ہے کہ اس فعل قبیح کا ارتکاب کیا جائے۔ ایسی ہی باتوں سے یہ راز سمجھ میں آتا ہے کہ دین میں الحب فی اللہ والبغض فی اللہ کو معیارِ حق کیوں قرار دیا گیا ہے۔ اگر خدا کا واسطہ درمیان سے ہٹ جائے اور بجائے خود کوئی شے محبوب یا مبغوض بن جائے تو عصبیت ِ جاہلیہ کی سرحد شروع ہوجاتی ہے جس میں وہ تمام ذرائع و وسائل جائز کر لیے جاتے ہیں جن سے انسان کے جذبات محبت و عداوت کی تشفی ہوسکے، قطع نظر اس سے کہ وہ قانونِ الٰہی کے مطابق ہوں یا اس کے خلاف۔ اسی لیے کہنے والے نے کہا کہ ذاتی عداوت تو شیطان سے بھی نہ ہونی چاہیے۔ اس میں بھی خدا کا واسطہ بیچ میں رہنا ضروری ہے، ورنہ وہ خود ایک قانون بن جائے گی اور تم شیطان کی دشمنی میں خدا کے حدود توڑو گے، یعنی اپنے دشمن شیطان ہی کا کام کرو گے۔

اثباتِ مُدعا کے لیے حقائق سے چشم پوشی

اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ مولانا اپنے مُدعا کو ثابت کرنے کے لیے تاریخ کے مشہور اور بیّن واقعات کو بھی صاف نظرانداز کرجاتے ہیں۔ یورپ جب مسلمانوں میں نسلی، وطنی اور لسانی قومیتوں کی تبلیغ کر رہا تھا تو کیا مسلمانوں میں کوئی اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کھڑا نہیں ہوا؟ کیا ٹیپوسلطان، جمال الدین افغانی، مفتی محمد عبدُہٗ، مصطفیٰ کامل مصری، امیرشکیب ارسلان، انورپاشا، جلال نوری بے، شبلی نعمانی، سیّد سلیمان ندوی، محمودالحسن ، محمدعلی، شوکت علی، اقبال، ابوالکلام… کسی کا نام بھی مولانا نے نہیں سنا؟ کسی کے کارنامے ان تک نہیں پہنچے؟ کیا ان میں سے کسی نے بھی مسلمانوں کو متنبہ نہیں کیا کہ یہ جاہلیت کی تفریق تم کو تباہ کرنے کے لیے برپا کرائی جارہی ہے؟ شاید مولانا ان سوالات کا جواب نفی میں نہ دیں گے۔ مگر وہ ان سب واقعات کی طرف سے آنکھیں بند کرکے فرماتے ہیں کہ ’’افسوس مسلمانوں میں اُس وقت کوئی مسلمانوں کی متَّحدہ قومیت کا واعظ کھڑا نہ ہوا‘‘…ایسا غلط دعویٰ کرنے کی آخر ضرورت کیا تھی؟ مقصود صرف یہ ثابت کرنا تھا کہ پہلے مسلمانوں کی قومی وحدت برطانوی مفاد کے خلاف تھی، اس لیے سب مسلمان نسلی، وطنی اور لسانی امتیازات پھیلانے میں لگے ہوئے تھے، اور اب اسلامی وحدت برطانوی اَغراض کے لیے مفید ہوگئی ہے، اس لیے اس کا وعظ ابھی ابھی شروع ہوا ہے، لہٰذا ثابت ہوا کہ وطن پرستی کے مخالف سب کے سب برطانیہ پرست ہیں اور محض ساحر ِ برطانیہ کا سحر ان کے اندر بول رہا ہے… یہ ہے نتیجہ عصبیت ِ جاہلیہ کا۔ چونکہ حق و باطل کا معیار ’’برطانیہ‘‘ ہوگیا ہے اس لیے خلافِ واقعہ باتوں کی تصنیف بھی جائز ہوگئی۔ اگر ان سے برطانیہ کے خلاف کوئی کام لیا جاسکے۔
یہی ذہنیت ہے جو ہمیں پورے رسالہ میں کارفرما نظر آتی ہے۔ لغت کو،آیاتِ قرآنی کو، اخبار و احادیث کو، تاریخی واقعات کو، غرض ہر چیز کو توڑ مروڑ کر اپنا مُدعا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور ہر اُس چیز کو بلاتکلف نظرانداز کردیا گیا ہے جو مُدعا کے خلاف ہو، چاہے وہ کیسی ہی ظاہروباہر حقیقت کیوں نہ ہو۔ حد یہ ہے کہ لفظی مغالطے دینے اور قیاس مع الفارق اور بنافاسد علی الفاسد کا ارتکاب کرنے میں بھی تامل نہیں فرمایا گیا۔ ایک عالم اور متقی عالم کا یہ کارنامہ دیکھ کر آدمی انگشت بدنداں رہ جاتا ہے کہ اسے کیا کہیے۔

قومیں اوطان سے کہاں بنتی ہیں؟

مولانا فرماتے ہیں کہ ’’فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘ لیکن یہ ایک قطعی غلط اور سراسر بے بنیاد دعویٰ ہے۔ پوری انسانی تاریخ سے ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جاسکتی کہ کوئی قوم محض وطن سے بنی ہو۔ آج اس زمانہ میں بھی دُنیا کی تمام قومیں مولانا کے سامنے موجود ہیں۔ وہ فرمائیں کہ ان میں سے کون سی قوم وطن سے بنی ہے؟ کیا امریکا کے حبشی اور ریڈ انڈین اور سفید فام ایک قوم ہیں؟ کیا جرمنی کے یہودی اور جرمن ایک قوم ہیں؟ کیا پولینڈ، روس، ترکی، بلغاریہ، یونان، یوگوسلاویہ، چیکوسلوواکیہ، لتھوانیا، فن لینڈ، کسی جگہ بھی خاکِ وطن کے اِشتِراک نے ایک قوم بنائی؟ کیا ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ یہودی جو روئے زمین کے اطراف و اکناف میں منتشر ہیں کسی جگہ بھی وطنی قومیت میں جذب ہوگئے ہیں؟ کیا یورپ کے مختلف ممالک میں جرمن، مگیار، سلافی، مورادین وغیرہ مختلف قومی اقلیتیں کسی جگہ بھی وطنی رشتۂ اِشتِراک میں گم ہوئیں؟ واقعات تو بہرحال واقعات ہیں۔ آپ ان کو اپنی خواہشات کا تابع نہیں بناسکتے، آپ کو یہ کہنے کا حق ہے۔ اگر آپ ایسا کہنا چاہیں کہ اب قوموں کو اوطان سے بننا چاہیے لیکن آپ کو ثبوت اور شہادت سے بے نیاز ہوکر دنیا کو یہ غلط خبر دینے کا کیا حق ہے کہ اب قومیں اوطان سے بننے لگی ہیں؟
ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنِ
اس میں شک نہیں کہ ایک ملک کے باشندوں کو باہر والے ان کے ملک کی طرف منسوب کرتے ہیں، مثلاً امریکن، خواہ حبشی ہو یا فرنگی، باہر والے اس کو امریکن ہی کہیں گے۔ مگر کیا اس سے یہ حقیقت بدل جاتی کہ امریکا میں دو الگ الگ قومیں ہیں، نہ کہ ایک قوم؟ یہ بھی صحیح ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں ایک شخص اصطلاحاً اس سلطنت کا ’’نیشنل‘‘ کہلاتا ہے جس کی وہ رعایا ہو۔ مثلاً اگر مولانا حسین احمد صاحب بیرونِ ہند تشریف لے جائیں تو ان کو ’’برٹش نیشنلٹی‘‘ (برطانوی قومیت) سے منسوب کیا جائے گا لیکن کیا یہ اصطلاحی قومیت حقیقت میں بھی مولانا کی قومیت بدل دے گی؟ پھر بھلا علمی حیثیت سے اس استدلال کی کیا وقعت ہوسکتی ہے کہ ’’اس وطن کے رہنے والے کی حیثیت سے سب (عیسائی، پارسی وغیرہ) ایک ہی شمار ہوتے ہیں؟‘‘ شمار ہونے اور فی الواقع ہونے میں بڑا فرق ہے۔ ایک کو دوسرے کے لیے نہ تو دلیل بنایا جاسکتا ہے اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کو فی الواقع وہی ہونا چاہیے جیسے وہ شمار کیے جاتے ہیں۔

لُغت اور قرآن سے غلط استدلال

اس کے بعد مولانا لُغت عربی کی طرف رجوع فرماتے ہیں اور شواہد سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ عربی زبان میں قوم کے معنی ہیں ’’مردوں کی جماعت، یا مردوں اور عورتوں کا مجموعہ‘‘۔ یا ایک شخص کے اقربا‘‘ یا ’’دشمنوں کی جماعت‘‘۔ اس کا ثبوت انھوں نے آیاتِ قرآنی سے بھی پیش فرمایا ہے، مثلاً وہ آیات جن میں کفار کو نبی کی یا مسلمانوں کی ’’قوم‘‘ قرار دیا گیا ہے جو صریحاً تیسرے اور چوتھے معنی پر دلالت کرتا ہے ۔ یا وہ آیات جن میں لفظ ’’قوم‘‘ پہلے یا دوسرے معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ لیکن اس پوری بحث میں مولانا کو ایک مرتبہ بھی یہ خیال نہ آیا کہ اس وقت جو بحث درپیش ہے وہ لفظ قوم کے لغوی معنی، قدیم معنی سے متعلق نہیں ہے بلکہ موجودہ زمانہ کی اصطلاح سے تعلق رکھتی ہے۔
جواہر لال اور سیّد محمود لغت ِ عرب اور قرآنی زبان میں کلام نہیں کرتے۔ نہ کانگریس کی کارروائیوں میں یہ پُرانی زبان استعمال ہوتی ہے۔ ان کے الفاظ کا تو وہی مفہوم ہے اور وہی ہوسکتا ہے جو آج کل ان سے مراد لیا جاتا ہے۔ آج کل اُردو زبان میں ’’قوم‘‘ اور ’’قومیت‘‘ کے الفاظ انگریزی زبان کے الفاظ (Nation) اور (Nationality) کے مقابلہ میں بولے جاتے ہیں جن کی تشریح لارڈ برائس نے اپنی کتاب ’’بین الاقوامی تعلقات‘‘ (International Relations) میں بدین الفاظ کی ہے:
’’ایک قومیت سے مراد اشخاص کا ایسا مجموعہ ہے جس کو چند مخصوص جذبات (Sentiments) نے ملا کر باہم مربوط کردیا ہو۔ ان میں سے بڑے اور طاقت ور جذبے تو دو ہیں: ایک جذبہ نسل، دوسرا جذبہ دین۔ لیکن ایک مشترک زبان کے استعمال اورمشترک لٹریچر سے دل چسپی، اور زمانہ ماضی کے مشترک قومی کارناموں اور مشترک مصائب کی یاد اور مشترک رسوم و عوائد، مشترک تخیلات و افکار اور مشترک مقاصد اور حوصلوں کا بھی اس احساسِ جمعیت کی پیدائش میں بہت کچھ دخل ہوتا ہے۔ کبھی یہ سب رابطے یکجا موجود ہوتے ہیں اور مجموعہ افراد کو بستہ و پیوستہ رکھتے ہیں اور کبھی ان میں سے بعض رابطے موجود نہیں ہوتے لیکن قومیت پھر بھی موجود ہوتی ہے‘‘۔ (صفحہ۱۱۷)
اس کی تشریح ’’اَخلاق و ادیان کی دائرۃ المعارف (Encyclopedia of Religion and Ethics) میں یوں کی گئی ہے:
’’قومیت وہ وصف ِ عام یا متعدد اوصاف کا ایسا مرکب ہے جو ایک گروہ کے افراد میں مشترک ہو اور ان کو جوڑ کر ایک قوم بنا دے… ہر ایسی جماعت ان افراد پر مشتمل ہوتی ہے جو نسل، مشترک روایات، مشترک مفاد، مشترک عادات و رسوم اور مشترک زبان کے رابطوں سے باہم مربوط ہوتے ہیں، اور ان سب سے اہم رابطہ ان کے درمیان یہ ہوتا ہے کہ وہ باہم ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، بلاارادہ ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں اور ان کے درمیان مختلف حیثیات سے اُلفت و موانست ہوتی ہے۔ غیرقوم کا آدمی ان کو غیر اور اجنبی محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس کی دلچسپیاں اور اس کی عادات انھیں نرالی معلوم ہوتی ہیں، اور ان کے لیے اس کے اندازِ طبیعت اور اس کے خیالات و جذبات کو سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے قدیم زمانہ کے لوگ غیرقوم والوں کو شبہ کی نظر سے دیکھتے تھے اور اسی وجہ سے آج کا مہذب آدمی بھی غیرقوم والے کی عادات اور طرزِ زندگی کو اپنے مزاج کے خلاف پاکر ناک بھوں چڑھاتا ہے‘‘۔
کیا کوئی شخص کَہ سکتا ہے کہ قرآنِ مجید نے اس معنی میں کفار و مشرکین اور مسلمانوں کا ایک قومیت میں جمع ہونا جائز رکھا ہے؟ یا کوئی نبی دُنیا میں کبھی اس غرض کے لیے بھی بھیجا گیا ہے کہ مومن اور غیرمومن سب کو اس معنی میں ایک قوم بنائے؟ اگر نہیں تو یہ فضول لغوی بحث آخر کیوں چھیڑی جاتی ہے؟ لفظ اپنے معنی تاریخ کے دوران میں بارہا بدلتا ہے۔ کل ایک لفظ کسی معنی میں استعمال ہوتا تھا آج کسی اور معنی میں ہوتا ہے۔ اب یہ لفظ مغالطہ نہیں تو اور کیا ہے کہ آپ معنوی تغیرات کو نظرانداز کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش فرمائیں کہ قرآن کی رُو سے ’’قومیت میں اِشتِراک مسلم اور کافر کا ہوسکتا ہے‘‘ درآں حالیکہ قومیت کا مفہوم قرآن کی زبان میں تھا۔ اس کو آج کے مفہوم سے ذرّہ برابر کوئی علاقہ نہیں۔ متقدمین نے ’’مکروہ‘‘ اور ’’حرام‘‘ میں اصطلاحی فرق نہیں کیا تھا اس لیے اکثر مقامات پر ان عبارتوں میں مکروہ بمعنی حرام مستعمل ہوا ہے۔ لیکن اب جب کہ ممنوعیت کے ان دونوں مدارج کے لیے الگ اصطلاحیں بن چکی ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی حرام کو محض مکروہ بمعنی اصطلاحی ٹھہرائے اور حجت کے طور پر سلف کی کوئی عبارت پیش کرے تو کیا یہ مغالطہ کے سوا کچھ اور ہوگا؟ اسی طرح لفظ قومیت بھی اصطلاح بن چکا ہے۔ اب مسلم و کافر کے لیے مشترک قومیت کا لفظ استعمال کرنا اور معترض کا منہ بند کرنے کے لیے اس لفظ کے پرانے استعمالات کو حجت میں پیش کرنا بھی محض ایک مغالطہ ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔

ایک اور لفظی مغالطہ

آگے چل کر مولانا دعویٰ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے مدینہ طیبہ میں یہود اور مسلمانوں کی متَّحدہ قومیت بنائی تھی، اور اس کے ثبوت میں وہ معاہدہ پیش کرتے ہیں جو ہجرت کے بعد حضور اکرمﷺاور یہودیوں کے درمیان ہوا تھا۔ اس معاہدہ میں کہیں یہ فقرہ مولانا کے ہاتھ آگیا کہ:
وَاَنَّ یَھُوْدَ بَنِیْ عَوْفَ اُمَّۃٌ مَّعَ الْمُؤْمِنِیْنَ
’’بنی عوف کے یہودی مسلمانوں کے ساتھ ’ایک اُمت‘ ہوں گے‘‘۔
بس یہ فقرہ کہ ’’یہودی اور مسلمان ایک اُمت ہوں گے‘‘، یہ دعویٰ کرنے کے لیے کافی سمجھ لیا گیا کہ آج بھی مسلمانوں اور غیرمسلموں کی متَّحدہ قومیت بن سکتی ہے۔ لیکن یہ پھر لفظی مغالطہ ہے۔ لغت ِ عرب میں اُمت سے مراد وہ جماعت ہے جس کو کوئی چیز جمع کرتی ہو۔ اس لحاظ سے اگر دو مختلف قومیں کسی ایک مشترک مقصد کے لیے عارضی طور پر متفق ہوجائیں تو ان کو بھی ایک اُمت کہا جاسکتا ہے۔ چنانچہ صاحب لسان العرب لکھتے ہیں:
وَقَوْلُہٗ فِی الْحَدِیْثِ اَنَّ یَھُوْدَ بَنِیْ عَوْفَ اُمَّۃٌ مَّعَ الْمُؤْمِنِیْنَ یُرِیْدُ اَنَّھُمْ بِالصُّلْحِ الَّذِیْ وَقَعَ بَیْنَھُمْ وَبَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ کَجَمَاعَۃٍ مِّنْھُمْ کَلِمَتُھُمْ وَاَیْدِیْھِمْ وَاحِدَۃٌ
’’حدیث میں رسول اللہﷺکا یہ ارشاد کہ ان یھود بنی عوف امۃ من المومنین اس سے مراد ہے کہ یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان جو صلح واقع ہوئی ہے اس کی وجہ سے وہ گویا مسلمانوں ہی کی ایک جماعت ہوگئے ہیں اور ان کا معاملہ واحد ہے‘‘۔
اُس لغوی ’’اُمت‘‘ کو آج کی اصطلاحی ’’متَّحدہ قومیت‘‘ سے کیا واسطہ؟ زیادہ سے زیادہ اس کو آج کل کی سیاسی زبان میں فوجی اتحاد (Military alliance) کَہ سکتے ہیں۔ یہ محض ایک تحالُف تھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ یہود اپنے دین پر اور مسلمان اپنے دین پر رہیں گے، دونوں کی تمدنی و سیاسی ہیئتیں الگ الگ رہیں گی، البتہ ایک فریق پر جب کوئی حملہ کرے گا تو دونوں فریق مل کر لڑیں گے ، اور دونوں جنگ میں اپنا اپنا مال خرچ کریں گے۔دو تین سال کے اندر ہی اس تحالُف کا خاتمہ ہوگیا اور مسلمانوں نے کچھ یہودیوں کو جلاوطن کیا اور کچھ کو ہلاک کردیا۔ کیا اسی کا نام ’’متَّحدہ قومیت‘‘ ہے؟ کیا کسی معنی میں بھی یہ چیز اُس ’’متَّحدہ قومیت‘‘ سے مماثلت رکھتی ہے جو اس وقت معرضِ بحث میں ہے؟ کیا وہاں کوئی مشترک مجلس قانون ساز بنائی گئی تھی اور یہ طے ہوا تھا کہ یہودی اور مسلمان ایک مجموعہ ہوں گے اور اس مجموعہ میں سے جس کی اکثریت ہوگی وہی مدینہ پر حکومت کرے گا اور اسی کے منظور کیے ہوئے قوانین مدینہ میں نامزد ہوں گے؟ کیا وہاں مشترک عدالتیں قائم ہوئی تھیں جن میں یہودیوں اور مسلمانوں کے قضایا یک جا اور ایک ہی ملکی قانون کے تحت فیصلہ ہوتا ہو؟ کیا وہاں کوئی وطنی کانگریس بنائی گئی تھی جس میں یہودی اکثریت کا منتخب کیا ہوا ہائی کمانڈ اپنی اُنگلیوں پر یہودی اور مسلمان سب کو رقص کراتا ہو؟ کیا وہاں رسولؐ اللہ سے معاہدہ کرنے کے بجائے کعب بن اشرف اور عبداللہ بن ابی براہِ راست افرادِ مسلمین سے ماس کانٹیکٹ کرنے آئے تھے؟ کیا وہاں بھی وردہا سکیم کے طرز کی کوئی تعلیمی تصنیف کی گئی تھی تاکہ مسلمان اور یہودی بچے ایک مشترک سوسائٹی بنانے کے لیے تیار کیے جائیں اور ان کو یہودیت اور اسلام کی صرف مشترک سچائیاں ہی پڑھائی جائیں؟ کیا وہاں بھی کسی ابورافع نے کوئی صومعہ اسکیم تمام اہلِ مدینہ کے لیے بنائی تھی اور رسول اللہﷺنے ان تعلیمی صومعوں میں مسلمان بچوں کو بھیجا جانا قبول فرما لیا تھا؟ مولانا آخر فرمائیں تو کہ جس ’’متَّحدہ قومیت‘‘ کو وہ رسولِؐ خدا کی طرف منسوب کر رہے ہیں۔ اس میں آج کل کی ’’متَّحدہ قومیت‘‘ کے عناصر ترکیبی میں سے کون سا عنصر پایا جاتا تھا؟ اگر وہ کسی ایک عنصر کا بھی پتہ نہیں دے سکتے، اور مَیں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہرگز نہیں دے سکتا تو کیا مولانا کو خدا کا خوف نہیں کہ محض اُمۃ من المومنین یا امۃ مع المومنین کے الفاظ معاہدئہ نبوی میں دیکھ کر وہ مسلمانوں کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ جیسی متَّحدہ قومیت آج کانگریس بنا رہی ہے ویسی متَّحدہ قومیت کل نبیﷺ بھی بنا چکے ہیں۔ لہٰذا آئو اور اطمینان سے اس میں جذب ہوجائو؟ الفاظ کا سہارا لے کر مولانا نے اپنا مُدعا ثابت کرنے کی کوشش تو بہت خوبی کے ساتھ کر دی، مگر انھیں یہ خیال نہ آیا کہ حدیث کے الفاظ کو مفہوم نبویؐ کے خلاف کسی دوسرے مفہوم پر چسپاں کرنا ، اور مفہوم کو نبی کی طرف منسوب کردینا مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا کی زد میں آجاتا ہے۔ مولانا خود ایک جلیل القدر عالم اور محدث ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص حدیث ِ عائشہؓ کَانَ النَّبِیُّ یُقَبِّلُ وَیُبَاشِرُ وَھُوَ صَائِمٌ کے لفظ مباشرت کو اُردو کے معروف معنوں میں لے لے اور اس سے یہ استدلال کرے کہ روزے میں مباشرت کرنا نعوذ باللہ سنت سے ثابت ہے، لہٰذا سب مسلمانوں کو روزے میں مباشرت کرنی چاہیے تو آپ اس پر کیا حکم لگائیں گے؟ دونوں استدلالوں کی نوعیت ایک ہے، لہٰذا ان کا حکم بھی ایک ہی ہونا چاہیے اور کوئی وجہ نہیں کہ مستدل کی شخصیت کو دیکھ کر اس باب میں رعایت کی جائے بلکہ اگر مستدل ان لوگوں میں سے ہے جن کی طرف مسلمان اعتماد اور بھروسے کے ساتھ اپنے دین کا علم حاصل کرنے کے لیے رجوع کرتے ہیں، تو معاملہ اور زیادہ اشد ہوجاتا ہے۔ جب شفاخانہ ہی سے زہرتقسیم ہونے لگے تو امرت کہاں تلاش کیا جائے؟

بناء فاسد علی الفاسد

پھر مولانا اس متَّحدہ قومیت کے جواز میں ایک اور دلیل پیش فرماتے ہیں اور وہ یہ ہے:
’’ہم روزانہ مفاد ہائے مشترکہ کے لیے ہیئاتِ اجتماعیہ بناتے ہیں اور ان میں نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ ان کی ممبری اور شرکت کے لیے انتہائی جدوجہد کرتے ہیں… ٹائون ایریا، نوٹیفائیڈ ایریا، میونسپل بورڈ، ڈسٹرکٹ بورڈ، کونسلات، اسمبلیاں، ایجوکیشنل ایسوسی ایشن اور اس قسم کی سینکڑوں ایسوسی ایشنیں اور انجمنیں ہیں جو کہ انھی اصولوں اور قواعد سے عبارت ہیں جو کہ خاص مقصد کے ماتحت ہیئت اجتماعیہ کے لیے بنائے گئے ہیں، تعجب ہے کہ ان میں حصہ لینا اور مکمل یا غیرمکمل جدوجہد کرنا ممنوع قرار نہیں دیا جاتا مگر اسی قسم کی کوئی انجمن اگر آزادیِ ملک اور برطانوی اقتدار کے خلاف قائم ہو تو وہ حرام، خلافِ دیانت، خلافِ تعلیماتِ اسلامیہ اور خلافِ عقل و دانش وغیرہ ہوجاتی ہے‘‘۔(صفحہ۴۱)
یہ بناء فاسد علی الفاسد ہے۔ ایک گناہ کو جائز فرض کر کے اس کی حجت پر مولانا اسی قسم کے دوسرے گناہ کو جائز ثابت کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ دونوں میں ایک ہی علّت ِ حرمت پائی جاتی ہے اور مقیس و مقیس علیہ دونوں ناجائز ہیں تاوقتیکہ یہ علّت ان سے دُور نہ ہو۔ علمائے کرام مجھے معاف فرمائیں۔ میں صاف کہتا ہوں کہ ان کے نزدیک کونسلوں اور اسمبلیوں کی شرکت کو ایک دن حرام اور دوسرے دن حلال کر دینا ایک کھیل بن گیا ہے، اس لیے کہ ان کی تحلیل و تحریم حقیقت نفس الامری کے ادراک پر تو مبنی ہے نہیں، محض گاندھی جی کی جنبش لب کے ساتھ ان کا فتویٰ گردش کیا کرتاہے۔ لیکن میں اسلام کے غیرتغیر پذیر اصولوں کی بنا پر یہ کہتا ہوں کہ ہر اس اجتماعی ہیئت کو تسلیم کرنا مسلمانوں کے لیے ہمیشہ گناہ رہے گا جس کا دستور انسانوں کو اس امر کا اختیار دیتا ہو کہ وہ ان مسائل کے متعلق قانون بنائیں یا ان مسائل کا تصفیہ کریں، جن پر خدا اور اس کا رسولؐ پہلے اپنا ناطق فیصلہ دے چکا ہے۔ اور یہ گناہ اس صورت میں اور زیادہ شدید ہوجاتا ہے جب کہ ایسے اختیارات رکھنے والی اجتماعی ہیئت میں اکثریت غیرمسلموں کی ہو، اور فیصلہ کا مدار کثرتِ رائے پر ہو۔ ان اجتماعی ہیئتوں کے حدودِ اختیار ردعمل کو خدا کی شریعت کے حدود سے الگ کر دینا مسلمانوں کا اوّلین فرض ہے اور اصلی جنگ ِ آزادی ان کے لیے یہی ہے۔ اگر یہ حدود الگ ہوجائیں تو البتہ کسی ایسی جماعت سے دوستی یا معاہدہ اور تعاون کرنا مسلمانوں کے لیے جائز ہوگا جو مسلمانوں اور غیرمسلموں کی مشترک اَغراض کے لیے بنائی جائے۔ عام اس سے کہ وہ کسی مشترک دشمن کے مقابلہ میں مدافعت کے لیے ہو، یا کسی معاشی یا صنعتی کاروبار کے لیے۔ لیکن جب تک حدود ایک دوسرے سے گڈمڈ ہیں، اِشتِراک و تعاون تو درکنار، ایسے دستور کے تحت زندگی بسر کرنا بھی مسلمانوں کے لیے گناہ ہے اور یہ اجتماعی گناہ ہے جس میں من و تو کی تمیز نہیں۔ ساری قوم اس وقت تک گناہ گار رہے گی جب تک کہ وہ اس دستور کو پارہ پارہ نہ کردے اور اس میں ان لوگوں کا گناہ شدید تر ہوگا جو اس دستور پر راضی ہوں گے اور اسے چلانے میں حصہ لیں گے اور اس شخص کا گناہ شدید ترین ہوگا جو خدا کی شریعت اور اس کے رسولؐ کی سنت کو اس کے لیے دلیل جواز بنائے گا۔ کَائِنًا مَنْ کَانَ ۔
میرے نزدیک یہ نہ تفقہ ہے اور نہ تقویٰ کہ جس چیز میں ایک علّت حُرمت کی اور دوسری علّت جواز کی بیک وقت پائی جاتی ہو، اس میں سے محض علّت ِ جواز کو الگ نکال کر حکم لگا دیا جائے اور علّت حُرمت کی طرف سے آنکھیں بند کرلی جائیں۔ آپ آزادیٔ ملک اور برطانوی اقتدار کے خلاف جدوجہد کا نام تو جھٹ لے دیتے ہیں کہ اسے کون نہ جائز بلکہ فرض کہے گا۔لیکن یہ نام لیتے وقت آپ کو یہ یاد نہیں آتا کہ جو انجمن اس زُعم کے مطابق آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے ، وہی انجمن اس دستور کو قبول کرتی ہے، اسے چلاتی ہے، اور اسی کو درجۂ کمال تک پہنچانے کے لیے لڑ رہی ہے جو انسانی مجالس قانون ساز کو خدا کے قانون میں ترمیم کرنے کا اختیار دیتا ہے، جس کی رُو سے خدا کا قانون اگر نافذ ہو بھی سکتا ہے تو صرف اس وقت جب کہ اسے لیجسلیچر کی منظور ی حاصل ہوجائے، جس کے تحت غیرمسلم اکثریت کو مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا نقشہ بنانے اور بگاڑنے کے پورے اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور وہ ان کے اَخلاق، اُن کی معاشرت، اور ان کی آیندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت پر ہرقسم کے اثرات ڈال سکتی ہے۔ ایسے دستور کے ساتھ جو آزادیٔ ملک حاصل ہوتی ہو اس کے پیچھے دوڑ سکتے ہیں، کیونکہ آپ کو صرف برطانوی اقتدار کا زوال مطلوب ہے، عام اس سے کہ وہ کسی صورت میں ہو۔ اسی لیے آپ ایسی انجمن کے معاملہ میں صرف علّت جواز ہی ڈھونڈتے ہیں اور علّت حُرمت جو سامنے منہ کھولے کھڑی ہے، آپ کو کسی طرح نظر نہیں آتی ۔ لیکن ہم مجبور ہیں کہ ان دونوں کے ساتھ ساتھ دیکھیں اور علّت حرمت کو دفع کیے بغیر علّت جواز کو قبول نہ کریں، اس لیے کہ ہم کو برطانوی اقتدار کا زوال اور اسلام کا بقاء دونوں ساتھ ساتھ مطلوب ہیں۔ اس کا نام اگر کوئی برطانیہ پرستی رکھتا ہے تو رکھے، ہمیں اس کے طعن کی ذرہ برابر پرواہ نہیں۔

افسوس ناک بے خبری

مولانا ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:
’’(متَّحدہ وطنی قومیت) کی مخالفت کا فتویٰ صرف اس بنا پر کہ وطنیت کا مفہوم مغرب کی اصطلاح میں آج ایسے اصولوں پر اطلاق کیا جاتا ہے جو کہ ہیئت اجتماعیہ انسانیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ یکسر مخالف مذہب ہیں، اسی مفہوم مصطلح سے مخصوص ہوگا۔ مگر یہ مفہوم نہ عام طور پر زندگی کے ذہن نشین ہے اور نہ اس کا کوئی مسلمان دیانت دار قائل ہوسکتا ہے اور نہ ایسے مفہوم کی اس وقت تحریک ہے۔ کانگریس اور اس کے کارکن اس کے محرک نہیں ہیں اور نہ اس کو ہم ملک کے سامنے پیش کر رہے ہیں‘‘۔ (صفحہ ۴۱)
اس دعوے کے ثبوت میں وہی پامال چیز پھر سامنے لائی گئی ہے جس کی حقیقت ایک سے زیادہ مرتبہ کھولی جاچکی ہے، یعنی ’’بنیادی حقوق کا اعلان‘‘ اور اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ:
’’خود کانگریس بھی متَّحدہ قومیت کو ہندوستان میں پیدا کرنا چاہتی ہے ۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں چاہتی جس سے اہلِ ہند کے مذاہب یا ان کے کلچر و تہذیب اور پرسنل لاء پر کسی قسم کا ضرر رساں اثر پڑے۔ وہ فقہ انھی امور کو درست کرنا اور سلجھانا چاہتی ہے جو کہ مشترکہ مفاد اور ضروریاتِ ملکیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کو پردیسی حکومت نے اپنے قبضہ میں لے کر عام باشندگانِ ہند کو فنا کے گھاٹ اُتار دیا ہے۔ عموماً یہ اُمور وہی ہیں جو کہ نوٹیفائڈ ایریا، میونسپل بورڈوں، ڈسٹرکٹ بورڈوں، کونسلوں، اسمبلیوں وغیرہ میں داخلی اور خارجی حیثیات سے طے کیے جاتے ہیں۔ ان میں کسی قوم یا مذہب میں جذب ہوجانا ملحوظ نظر نہیں ہے‘‘۔ (صفحہ ۵۷)
یہ تحریک ایک روشن نمونہ ہے اس امر کا کہ اس نازک وقت میں کیسی سطح بینی اور سہل انگاری کے ساتھ مسلمانوں کی پیشوائی کی جارہی ہے۔ جن مسائل پر آٹھ کروڑ مسلمانوں کے صلاح و فساد کا انحصار ہے، جن میں ایک ذرا سی چُوک بھی اُن کی آیندہ صورتِ اجتماعی و اَخلاقی کو بگاڑ کر کچھ سے کچھ کرسکتی ہے، اُن کے تصفیہ کو ایسا ہلکا اور آسان کام سمجھ لیا گیا ہے کہ اس کے لیے اتنے مطالعہ اور غوروخوض اور تدبر کی بھی ضرورت نہیں سمجھی جاتی جس کا اہتمام ایک فردِ واحد کو طلاق اور وراثت کا کوئی جزئی مسئلہ بتانے میں کیا جاتا ہے۔ عبارت کا ایک ایک لفظ شہادت دے رہا ہے کہ مولانا نہ تو قومیت کے اصطلاحی مفہوم کو جانتے ہیں، نہ کانگریس کے مقصد و مُدعا کو سمجھتے ہیں، نہ بنیادی حقوق کے معنی پر انھوں نے غور کیا ہے، نہ ان کو خبر ہے کہ جن اجتماعی مجلسوں کا وہ بار بار اس قدر سادگی کے ساتھ ذکر فرما رہے ہیں ان کے حدودِ اختیار وعمل موجودہ دستور کے تحت کن کن راہوں سے اُس دائرے میں نفوذ کرتے ہیں ، جس کوتہذیب و تمدن اور عقائد و اَخلاق کا دائرہ کہا جاتا ہے۔ حد یہ ہے… اور یہ بات مَیں خوب سوچ سمجھ کر کَہ رہا ہوں کہ مولانا بایں ہمہ علم و فضل کلچر، تہذیب، پرسنل لا، وغیرہ الفاظ بھی جس طرح استعمال کر رہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ وہ ان کے معنی و مفہوم سے ناآشنا ہیں۔ میری یہ صاف گوئی ان حضرات کو یقینًا بہت بُری معلوم ہوگی جو رجال کو حق سے پہچاننے کے بجائے حق کو رجال سے پہچاننے کے خُوگر ہیں، اور اس کے جواب میں چند اور گالیاں سننے کے لیے میں نے اپنے آپ کو پہلے ہی تیار کرلیا ہے۔ مگر میں جب دیکھتا ہوں کہ مذہبی پیشوائی کی مسند ِ مقدس سے مسلمانوں کی غلط رہنمائی کی جارہی ہے، ان کو حقائق کے بجائے اوہام کے پیچھے چلایا جارہا ہے ، اور خندقوں سے بھری ہوئی راہ کو شاہراہِ مستقیم بتاکر انھیں اس کی طرف دھکیلا جارہا ہے، تو میں کسی طرح اس پر صبر نہیں کرسکتا، کوشش بھی کروں تو میرے اندر اس پر صبر کی طاقت نہیں ہے، لہٰذا مجھے اس پر راضی ہوجانا چاہیے کہ جو کوئی میری صاف گوئی پر ناراض ہوتا ہو تو ہوجائے۔وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللہِ ۔

وطنی قومیّت کا حقیقی مُدعا

معنی قومیت کی تشریح کے لیے ان عبارات پر پھر ایک نظر ڈال لیجیے جو اسی مضمون میں لارڈ برائس کی کتاب ’’بین الاقوامی تعلقات‘‘ اور ’’اَخلاق و اَدیان کی دائرۃ المعارف‘‘ سے نقل کی گئی ہیں۔ اس معنی کے اعتبار سے افراد کو قوم بنانے والی چیز اصلاً اور ابتداء ً ایک ہی ہے اور وہ کوئی ایسا جاذبہ ہے جو ان سب میں روح بن کر پھیل جائے اور ان کو ایک دوسرے سے مربوط کردے۔ لیکن محض اس جاذبہ کا موجود ہونا قوم بنانے کے لیے کافی ہے بلکہ اس کو اتنا طاقت ور ہونا چاہیے کہ وہ تمام ان داعیات کو دبا دے جو افراد کو یا افراد کے چھوٹے چھوٹے مجموعوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے والے ہوں۔ اس لیے کہ علیحدہ کرنے والی چیز اگر جوڑنے والے جاذبے کی مزاحمت کرنے کے لیے کافی مضبوط ہو، تو وہ جوڑنے کے عمل میں کامیاب نہیں ہوسکتا، یا بالفاظِ دیگر ’’قوم‘‘ نہیں بنا سکتا۔ علاوہ بریں تشکیل قومیت کے لیے زبان، ادب، تاریخی روایات، رسوم و عادات، معاشرت اور طرزِ زندگی، افکار و تخیلات، معاشی مفاد اور مادی اَغراض کی مدد بھی درکار ہوتی ہے۔ یہ سب چیزیں ایسی ہونی چاہییں جو اس جوڑنے والے جذبے کی فطرت سے مناسبت رکھتی ہوں۔ یعنی ان کے اندر کوئی عنصر ایسا نہ ہو جو علیحدگی کے احساس کو زندہ رکھنے والا ہو۔ اس لیے کہ یہ سب کی سب ایسی طاقتیں ہیں جو افراد کو مجتمع کرنے میں اثر رکھتی ہیں اور یہ جوڑنے کے عمل میں اس کلمۂ جامعہ کی مددگار صرف اسی طرح ہوسکتی ہیں کہ ان سب کا میلان اسی مقصود کی طرف ہو جو اس کلمۂ جامعہ کا مقصود ہے، ورنہ بصورتِ دیگر یہ دوسرے ڈھنگ پر جماعت سازی کریں گی اور قوم بنانے کا عمل ناقص رہے گا۔
اب غور کیجیے کہ جس ملک میں اس معنی کے لحاظ سے مختلف قومیں رہتی ہوں ان کو متفق کرنے کی کیا صورتیں ممکن ہیں۔ آپ جتنا بھی غور کریں گے، آپ کو صرف دو ہی ممکن العمل صورتیں نظر آئیں گی۔ ایک یہ کہ ان قوموں کو ان کی قومیتوں کے ساتھ برقرار رکھ کر ان کے درمیان واضح اور متعین شرائط کے ساتھ ایک ایسا وفاقی معاہدہ ہوجائے جس کی رُو سے وہ صرف مشترک اَغراض و مقاصد کے لیے مل کر عمل کریں اور باقی اُمور میں بالفعل مختار ہوں۔ کیا کانگریس نے فی الواقع یہ طریقہ اختیار کیا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ان قوموں کو ’’ایک قوم‘‘ بنا دیا جائے۔ یہی دوسری صورت کانگریس چاہتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ قومیں ایک قوم کس طرح بن سکتی ہیں؟ لامحالہ ان کے لیے سب سے پہلے تو ایک مشترک جاذبہ، ایک کلمۂ جامعہ درکار ہے، اور وہ جاذبہ یا کلمہ صرف تین چیزوں ہی سے مرکب ہوسکتا ہے: (۱)وطن پرستی (۲) بیرونی دشمن سے نفرت (۳) معاشی مفاد سے دلچسپی۔
پھر جیساکہ میں اُوپر کَہ چکا ہوں، قوم بنانے کے لیے شرط لازم یہ ہے کہ یہ جاذبہ اتنا قوی ہو کہ دوسرے تمام جاذبے جنھوں نے ان قوموں کو الگ الگ اقوام بنا رکھا ہے اس کے سامنے دب جائیں، کیونکہ اگر مسلمان کو اسلام سے، ہندو کو ہندویت سے، سکھ کو سکھیت سے اتنی دلچسپی ہو کہ جب مذہب یا قومیت کا معاملہ سامنے آئے تو مسلمان، مسلمان کے ساتھ اور ہندو ہندو کے ساتھ اورسکھ سکھ کے ساتھ جڑ جائے اور اس قومی (یا وطن پرستوں کی زبان میں فرقہ وارانہ) معاملہ کی حمایت کے لیے ایک جماعت بن کر اُٹھ کھڑی ہو، تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جاذبۂ وطن نے ان کو ایک قوم نہیں بنایا۔ یہ امر دیگر ہے کہ مسلمان اسلام کا قائل رہے اور نماز بھی پڑھا لیا کرے، اور ہندو ہندویت کا معتقد رہے اور مندر بھی چلا جایا کرے۔ لیکن ایک قوم بنانے کے لیے شرطِ اوّل یہ ہے کہ اس کی نگاہ میں وطنیت کی کم از کم اتنی اہمیت ضرور ہو کہ اسلام کو اور ہندویت یا سکھیت کو وہ اس پر قربان کرسکتا ہو۔ اس کے بغیر ’’وطنی قومیت‘‘ قطعاً بے معنی ہے۔
یہ تو وطنی قومیت کا تخم ہے۔ مگر یہ تخم بارآور نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے لیے مناسب آب و ہوا، مناسب زمین اور مناسب موسم نہ ہو اور عرض کیا جاچکا ہے کہ جاذبۂ قومی کی مدد کے لیے ضروری ہے کہ زبان، ادب، تاریخی روایات، رسوم و عادات، معاشرت اور طرزِ زندگی، افکار اور تخیلات ،معاشی اَغراض اور مادی مفاد، غرض تمام وہ چیزیں جو انسانی جماعتوں کی تالیف و ترکیب میں فی الجملہ اثر رکھتی ہیں، اسی ایک جاذبۂ قومی کی فطرت میں ڈھلی ہوئی ہوں۔ اس لیے کہ افراد کو جوڑنے والی ان مختلف طاقتوں کا میلان اگر علیحدگی کی جانب ہو تو یہ جذب اور تالیف اور اجتماع کے عمل میں اس جاذبہ کی اُلٹی مزاحمت کریں گی اور متَّحدہ قوم نہ بننے دیں گی۔ لہٰذا ایک وطنی قوم بنانے کے لیے یہ بالکل ناگزیر ہے کہ ان سب چیزوں میں سے اُن عناصر کو نکالا جائے جو مختلف قوموں کے اندر جداگانہ قومیت کی روح پیدا کرتے اور زندہ رکھتے ہیں اور ان کے بجائے ایسے رنگ میں ان کو ڈھالا جائے کہ وہ آہستہ آہستہ تمام افراد اور طبقوں اور گروہوں کو ہم رنگ کردیں، ان کو ایک سوسائٹی بنا دیں، ان کے اندر ایک مشترک اجتماعی مزاج اور مشترک اَخلاقی روح پیدا کردیں، ان کے اندر ایک طرح کے جذبات و احساسات پھونک دیں، اور ان کو ایسا بنا دیں کہ ان کی معاشرت ایک ہو، طرزِ زندگی ایک ہو، ذہنیت اور اندازِ فکر ایک ہو، ایک ہی تاریخ کے سرچشمے سے وہ افتخار کے جذبات اور روح کو حرکت میں لانے والے محرکات حاصل کریں، اور ان کے درمیان ایک دوسرے کے لیے کسی چیز میں بھی کوئی نرالا پن باقی نہ رہے۔
اسی مقصد کے لیے وردھا اسکیم بنائی گئی ہے اور یہی مقصد و دیامندر اسکیم کا ہے، جیساکہ دونوں اسکیموں میں صاف صاف لکھ بھی دیا گیا ہے ۔ مگر مولانا نے ان اسکیموں اور ان کے نصاب کو نہیں دیکھا۔ اسی قومیت کا تصور برسوں سے پنڈت جواہر لال پھونک رہے ہیں مگر ان کی بھی کوئی تحریر و تقریر مولانا کی سماعت و بصارت تک پہنچنے کا موقع نہ پاسکی۔ یہی چیز کانگریس کا ایک ایک ذمہ دار آدمی کَہ رہا ہے، لکھ رہا ہے اور اس کے لیے ان حاکمانہ طاقتوں سے کام لے رہا ہے جو نئے دستور نے عطا کی ہیں، مگر نہ مولانا کے کان ان باتوں کو سنتے ہیں اور نہ اُن کی آنکھیں ان چیزوں کو دیکھتی ہیں۔ اسی چیز کے لیے ان تمام اجتماعی ہیئتوں اور مجلسوں سے کام لیا جارہا ہے جن کی فہرست مولانا بار بار گنایا کرتے ہیں، اور یہ مجالس محض اس وجہ سے اس کام میں ان کی مدد گار بن گئی ہیں کہ ان کا دائرۂ عمل ان تمام معاملات پر چھایا ہوا ہے جن کو آپ تہذیب، کلچر، پرسنل لا وغیرہ ناموں سے یاد فرماتے ہیں۔ مگر یہ عمل جو ہر آن ہندوستان کے ہرحصہ میں ہو رہا ہے، اس کی بھی کسی جنبش کو مولانا کے حواسِ خمسہ تک رسائی حاصل نہ ہوسکی۔ اس پورے مواد میں سے صرف ایک ہی دستاویز ان تک پہنچی ہے جس کا نام ’’بنیادی حقوق‘‘ {بنیادی حقوق پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو: ’’تحریک ِ آزادیٔ ہند اور مسلمان‘‘ حصہ اوّل، مطبوعہ اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور } ہے اور بس اسی کے اعتماد پر مولانا اس ’’متَّحدہ قومیت‘‘ کو رسولؐ اللہ کے اسوئہ حسنہ سے تشبیہ دینے کی جرأت فرما رہے ہیں، حالانکہ ان بنیادی حقوق کی حیثیت ملکۂ وکٹوریہ کے مشہور اعلان سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے اور مغربی ڈپلومیسی کی ایسی چالوں کا رشتہ رسولِ پاکؐ کے عمل سے جوڑنے کی جسارت ہم جیسے گناہ گاروں کے بس کی تو بات نہیں۔ ہاں جن کے پاس تقویٰ کا زادِ راہ اتنا زیادہ ہے کہ وہ ایسی جسارتیں کرنے پر بھی بخشے جانے کی اُمید رکھتے ہیں، انھیں اختیار ہے کہ جو چاہیں کہیں اور جو چاہیں لکھیں۔

اِشتِراکِ لفظی کا فتنہ

مولانا نے اپنے ذہن میں ’’متَّحدہ قومیت‘‘ کا ایک خاص مفہوم متعین کر رکھا ہے جس کے حدود انھوں نے تمام شرعی شرائط کو ملحوظ رکھ کر اور تمام امکانی اعتراضات سے پہلو بچا کر خود مقرر فرمائے ہیں، اور ان کو وہ ایسی پُراحتیاط مفتیانہ زبان میں بیان فرماتے ہیں کہ قواعد ِشرعیہ کے لحاظ سے کوئی اس پر حرف نہ لاسکے۔ لیکن اس میں خرابی بس اتنی ہی ہے کہ اپنے مفہومِ ذہنی کو مولانا کانگریس کا مفہوم و مدعا قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ کانگریس اس سے بمراحل دُور ہے۔ اگر مولانا صرف اتنا کہنے پر اکتفا کرتے کہ ’’متَّحدہ قومیت‘‘ سے میری مراد یہ ہے، تو ہمیں ان سے جھگڑا کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن وہ آگے قدم بڑھا کر فرماتے ہیں کہ نہیں، کانگریس کی مراد بھی یہی ہے اور کانگریس بالکل نبی اکرمﷺکے اسوئہ حسنہ پر چل رہی ہے، اور مسلمانوں کو مامون و مطمئن ہوکر اپنے آپ کو اس متَّحدہ قومیت کے حوالے کر دینا چاہیے جسے کانگریس بنانا چاہتی ہے۔ یہیں سے ہمارے اور ان کے درمیان نزاع کا آغاز ہوتا ہے۔
فرض کیجیے کہ ’’پانی ڈالنے‘‘سے آپ کا مفہوم ذہنی ’’پانی ڈالنا‘‘ ہی ہو، لیکن دوسرے نے ’’آگ لگانے‘‘ کا نام ’’پانی ڈالنا‘‘ رکھ چھوڑا ہو تو آپ کتنا ظلم کریں گے۔ اگر اختلاف معنی کو نظرانداز کرکے لوگوں کو مشورہ دینے لگیں کہ اپنا گھر اس شخص کے حوالے کردو جو ’’پانی ڈالنے‘‘ کے لیے کہتا ہے۔ ایسے ہی موقع کے لیے تو قرآنِ مجید میں ہدایت کی گئی تھی کہ جب ایک لفظ ایک صحیح معنی اور ایک غلط معنی میں مشترک ہوجائے اور تم دیکھو کہ اعداء دین اس اِشتِراکِ لفظی سے فائدہ اُٹھا کر فتنہ برپا کررہے ہیں تو ایسے لفظ ہی کو چھوڑ دو۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا۝۰ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِــيْمٌ۝۱۰۴ (البقرہ:۱۰۴)
لہٰذا مولانا کو اپنے مفہوم ذہنی کے لیے تحالُف یا وفاق یا اسی قسم کا کوئی مناسب لفظ استعمال کرنا چاہیے تھا، اور اس وفاق یا تحالف کو بھی اپنی تجویز کی حیثیت سے پیش کرنا چاہیےتھا، نہ اس حیثیت سے کہ یہ کانگریس کا عمل ہے۔ کم از کم اب وہ اُمت پر رحم فرما کر اپنی غلطی محسوس فرما لیں ورنہ اندیشہ ہے کہ ان کی تحریریں ایک فتنہ بن کر رہ جائیں گی اور اس پرانی سنت کا اعادہ کریں گی کہ ظالم امراء اور فاسق اہلِ سیاست نے جو کچھ کیا اس کو علماء کے ایک گروہ نے قرآن و حدیث سے درست ثابت کرکے ظلم و طغیان کے لیے مذہبی ڈھال فراہم کر دی۔رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۔
مولانا کے اس رسالہ کی اشاعت کے بعد یہ ضروری ہوگیا ہے کہ خالص علمی حیثیت سے ’’قومیت‘‘ کے مسئلہ کی تحقیق کی جائے اور اس باب میں اسلامی نظریات اور غیراسلامی یا جاہلی نظریات کے درمیان جو اصولی فرق ہے اسے پوری طرح نمایاں کر دیا جائے، تاکہ جو لوگ غلط فہمی کی بنا پردونوں کو خلط ملط کرتے ہیں ان کے ذہن کا الجھائو دُور ہو، اور وہ دونوں راستوں میں سے جس راستے کو بھی اختیار کریں علیٰ وجہ البصیرت کریں۔ اگرچہ یہ کام علمائے کرام کے کرنے کا تھا۔ مگر جب ان کے سرخیل تک ’’متَّحدہ قومیت اور اسلام‘‘ لکھنے میں مصروف ہوں اور ان میں سے کوئی بھی اپنے اصلی فرض کو انجام دینے کے لیے آگے نہ بڑھے، تو مجبوراً ہم جیسے عامیوں ہی کو یہ خدمت اپنے ذمہ لینی پڑے گی۔

(ترجمان القرآن، ذی الحجہ ۱۳۵۷ھ، فروری ۱۹۳۹ء)

کیا ہندوستان کی نجات نیشنلزم میں ہے؟

جناب مولانا عبیداللہ سندھی ایک طویل مدت کی جلاوطنی کے بعد جب ہندوستان واپس تشریف لائے تو جمعیت علمائے بنگال نے ان کو اپنے کلکتہ کے اجلاس میں خطبۂ صدارت ارشاد فرمانے کی دعوت دی، اور اس خطبہ کے ذریعے سے ہندوستان میں پہلی مرتبہ لوگ ان کے مخصوص نظریات سے روشناس ہوئے۔ خصوصیت کے ساتھ ان کے جن فقروں پر مسلمانوں میں عموماً ناراضی پھیلی وہ حسب ذیل ہیں:
۱- ’’اگر میرا وطن اس انقلاب کے نقصان سے بچنا چاہتا ہے جو اس وقت دنیا پر چھاگیا ہے اور روز بروز چھاتا جارہا ہے تو اسے یورپین اصولوں پر نیشنلزم کو ترقی دینا چاہیے۔ پچھلے زمانہ میں ہمارا ملک جس قدر ناموررہا ہے اسے دنیا جانتی ہے مگر اس سے ہم کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے جب تک ہم آج کی قوموں میں اپنا وقار ثابت کرسکیں‘‘۔
۲- میں سفارش کرتا ہوں کہ ہمارے اکابر مذہب و برٹش گورنمنٹ کے دوصدسالہ عہد سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کی کوشش کریں۔ جس طرح ہم نے یورپ سے تنفر برت کراپنی ترقی کو محدود کرلیا ہے اسے اب خیرباد کہیں۔ اس معاملہ میں میں نے ترکی قوم کے اس انقلاب کا پوری طرح مطالعہ کیا ہے جو سلطان محمود سے شروع ہوکر مصطفیٰ کمال کی جمہوریت پر ختم ہوتا ہے… میں چاہتا ہوں کہ یورپ کے انٹرنیشنل اجتماعات میں ہمارا وطن ایک معزز ممبر مانا جائے۔ اس کے لیے ہمیں اپنی معاشرت میں انقلاب کی ضرورت محسوس ہوگی‘‘۔
اس معاشرتی انقلاب کی تشریح آگے چل کر مولانا نے اپنے اُس انقلابی پروگرام میں کی ہے جو انھوں نے صوبۂ سندھ کے لیے تجویز کیا ہے۔ چنانچہ اس میں فرماتے ہیں:
’’سندھی اپنے وطن کا بنا ہوا کپڑا پہنے گا مگر وہ کوٹ پتلون کی شکل میں ہوگا یا کالر دار قمیص اور نکر کی صورت میں۔ مسلمان اپنا نکر گھٹنے سے نیچے تک استعمال کرسکتے ہیں۔ ہیٹ دونوں صورتوں میں بے تکلف استعمال کیا جائے گا۔ جب مسلمان مسجد میں آئے گا ہیٹ اُتار کر ننگے سر نماز پڑھ لے گا‘‘۔
مولانا سندھی ایک تجربہ کار اور جہاں دیدہ عالمِ دین ہیں۔ انھوں نے جو قربانیاں اپنے اصول اور اپنے مشن کی خاطر سالہا سال تک کی ہیں وہ ان کے خلوص کو ہرقسم کے شک و شبہ سے بالاتر ثابت کرتی ہیں۔ لہٰذا اگر ان جیسا ایک مخلص اور جہاں دیدہ عالم ہمارے سامنے بعض اجتماعی مسائل پر اپنے کچھ نظریات … جو ظاہر ہے کہ اس کے طویل تجربات اور برسوں کے غوروفکر پر مبنی ہیں… پیش کرتا ہے، تو ہمارے لیے مناسب تر بات یہ ہے کہ اپنے ذہن کو شکوہ و شکایت یا شبہات میں اُلجھانے کے بجائے اس کے نظریات کو علمی حیثیت سے جانچ کر دیکھیں، اور سنجیدگی کے ساتھ ان پر تنقید کریں۔ ایک ذی علم اور فہیم آدمی جو نیک نیت بھی ہو، اُس سے ہم بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ جب اس کی غلطی اس پر واضح ہوجائے گی تو وہ اس سے رجوع کرلے گا اور بالفرض اگر وہ اپنی غلطی کا معترف نہ بھی ہو، تب بھی اس کے غلط نظریے کو زمین میں جڑ پکڑنے سے صرف سنجیدہ علمی تنقید ہی روک سکتی ہے۔ شکوہ و شکایت اور طنزوتعریض سے اس کا سدِباب نہیں کیا جاسکتا۔

نیشنلزم بربنائے مصلحت

۱- ’’اگر میرا وطن اس انقلاب کے نقصان سے بچنا چاہتا ہے جو اس وقت دنیا پر چھا گیا ہے اور چھاتا چلا جارہا ہے تو…‘‘ اسے ایسا کرنا چاہیے‘‘۔
۲- ’’پچھلے زمانہ میں ہمارا ملک جس قدر نامور رہا ہے اسے دُنیا جانتی ہے، مگر اس سے ہم کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے جب تک ہم آج کی قوموں میں اپنا وقار ثابت نہ کرسکیں‘‘۔
اور وقار اُسی طرح قائم ہوسکتا ہے جس طرح آج کل کی مغربی اقوام نے کیا ہے:
۳- ’’ہماری ہندوستانی تہذیب کا عہد قدیم جو ہندو تہذیب کہلاتا ہے اور عہد جدید جسے اسلامی تہذیب سمجھا جاتا ہے، دونوں مذہبی اسکول ہیں۔ لیکن آج کل کا یورپین اسکول مذہب سے قطعی نابلند ہے۔ اس کا مدار صرف سائنس اور فلسفہ پر ہے۔ اس لیے ہمارے وطن میں اگر اس انقلاب کو سمجھنے (؟) کی استعداد پیدا نہ ہوئی تو سربسر نقصان ہی نقصان ہمارا حصہ میں آئے گا‘‘۔
سمجھنے سے مراد غالباً صرف سمجھنا نہیں بلکہ سمجھ کر اختیار کرلینا بھی ہے۔ کیونکہ مولانا کے سابق مقدمات اسی نتیجہ کی طرف لے جاتے ہیں۔
ان تینوں وجوہ پر غور کیجیے۔ ایک چیز کو اختیار کرنے کا مشورہ اس بنا پر نہیں دیا جارہا ہے کہ وہ حق اور صداقت ہے یا اَخلاقاً بجا اور درست ہے، بلکہ محض مصلحت اور ضرورت (Expediency) کی بنا پر دیا جارہا ہے۔ اس کے بعد ایک مسلمان کی نگاہ میں بلکہ کسی بااصول شخص کی نگاہ میں بھی مولانا کے مشورے کی کیا قدروقیمت ہوسکتی ہے؟ کسی مشکل یا کسی اصول کو اس دلیل سے قبول کرنا کہ فلاں نقصان سے بچنا ہے ، اور فلاں فائدہ حاصل کرنا ہے، اور فلاں چیز اب دُنیا میں نہیں چل رہی ہے بلکہ اس کی جگہ یہ چیز چل پڑی ہے، کسی ایسے شخص کا کام نہیں ہوسکتا جو خود اپنا کوئی اَخلاقی اور عقلی نظریہ رکھتا ہو اور اپنے ضمیر کے تقاضے سے اپنے آپ کو اس کے پھیلانے اور قائم کرنے پر مامور سمجھتا ہو۔ یہ تو نری مصلحت پرستی اور ابن الوقتی (Opportunism) ہے۔ اس کو عقلیت اور اَخلاقیت سے کیا واسطہ؟ عقلیت اور اَخلاقیات کا تقاضا تو یہ ہے کہ تحقیق سے جس اصول کو ہم نے حق پایا ہے اور اَخلاقاً جس کے برحق ہونے کا ہم یقین رکھتے ہیں اس پر سختی کے ساتھ قائم رہیں۔ اگر دنیا میں اس کے خلاف کوئی غلط اصول چل پڑا ہے تو ہمارا کام دنیا کے پیچھے دوڑنا نہیں ہے بلکہ دنیا کو کھینچ کر اپنے اصول کی طرف لانا ہے۔ اپنے اعتقاد میں ہماری راستی کا امتحان اسی میں ہے کہ دُنیا کے پیچھے نہ چلنے سے جو نقصان ہمیں پہنچتا ہو اسے صبروثبات کے ساتھ برداشت کریں۔ اگر دُنیا ہماری وقعت اس لیے نہیں کرتی کہ ہم اس کے پیچھے نہیں چلتے تو ایسی دانائی کو ہمیں ٹھوکر مارنی چاہیے۔ وقار ہمارا معبود نہیں ہے کہ اس کی خوشامد کرتے ہوئے ہم ہر اس راستے پر دوڑتے پھریں جس پر اس کی جھلک نظر آئے۔ اگر اس چیز کا زمانہ گزر گیا ہے جو ہمارے اعتقاد میں حق ہے تو ہم میں اتنا بل بوتا ہونا چاہیے کہ زمانے کا کان پکڑ کر اسے پھر سے حق کی طرف کھینچ لائیں۔ یہ سوچنا پست ہمت شکست خوردہ لوگوں کا کام ہے کہ اب زمانہ میں فلاں چیز کا چلن ہے تو چلو، اس کو سمجھیں اور سمجھتے سمجھتے حلق سے نیچے بھی اُتار لیں۔
اس باب میں مسلمان کو اتنی استقامت تو دکھانی چاہیے جتنی مارکس کے پیروئوں نے جنگ ِ عظیم کے موقع پر دکھائی تھی۔ ۱۹۱۴ء میں جب جنگ چھڑی تھی تو سیکنڈ انٹرنیشنل کے ارکان میں اسی نیشنلزم کے سوال پر زبردست اختلاف برپا ہوا تھا۔ بہت سے وہ سوشلسٹ جو اِشتِراکیوں کے بین الاقوامی محاذ پر مجتمع تھے، اپنی اپنی قوموں کو میدانِ جنگ میں کودتے دیکھ کر قوم پرستی کے جذبہ سے مغلوب ہوگئے اور انھوں نے جنگ میں اپنی قوم کا ساتھ دینا چاہا مگر مارکس کے پیروئوں نے کہا کہ ہم ایک ایسے اصول کے لیے جنگ کرنے اُٹھے ہیں جس کے لحاظ سے تمام قوموں کے سرمایہ دار ہمارے دشمن، اور تمام قوموں کے مزدور ہمارے دوست ہیں۔ پھر ہم کس طرح اس نیشنلزم کو قبول کرسکتے ہیں جو مزدوروں کو تقسیم کرتاہے اور انھیں سرمایہ دار کے ساتھ ملا کر ایک دوسرے کے مقابلہ میں لڑاتا ہے۔ اس بنا پر مارکسیوں نے اپنے سالہا سال کے پرانے رفیقوں سے تعلقات منقطع کرلیے۔ انھوں نے سیکنڈ انٹرنیشنل کا ٹوٹ جانا گوارا کرلیا مگر اپنے اصول سے دستبردار ہونا گوارا نہ کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ جو سچے کمیونسٹ تھے انھوں نے عملاً خود اپنے ہاتھوں سے قوم پرستی کے بت کو توڑا۔ جرمن کمیونسٹ نے اپنے اصول کی خاطر جرمنی کے خلاف، اور روسی کمیونسٹ نے اپنے اعتقاد کی خاطر روس کے خلاف، اور اسی طرح ہرملک کے کمیونسٹ نے اپنے مسلک کی خاطر اپنے ملک کی حکومت کے خلاف کام کیا۔
جس طرح کمیونسٹ اپنا ایک نظریہ رکھتا ہے ، اسی طرح مسلمان بھی اپنا ایک نظریہ رکھتا ہے۔ پھر وہ کیوں اتنا ادنیٰ اور پست ہوجائے کہ کسی نقصان سے بچنے یا کسی کی نگاہ میں وقار قائم کرنے کے لیے اپنے مقام سے ہٹ جائے؟ اور اگر وہ اپنے مقام سے ہٹتا ہے تو اس میں کم از کم اس بات کا شعور تو ہونا چاہیے کہ وہ کس چیز سے ہٹ رہا ہے اور کس چیز کی طرف جارہا ہے کیونکہ اپنی جگہ چھوڑنا محض کمزوری ہے، مگر ایک جگہ سے ہٹ جانے کے باوجود اپنے آپ کو اسی جگہ سمجھنا کمزوری کے ساتھ بے شعوری بھی ہے۔ میں ’’مسلمان‘‘ صرف اس وقت تک ہوں جب تک میں زندگی کے ہرمعاملہ میں اسلامی نظریہ رکھتا ہوں۔ جب میں اس نظریہ سے ہٹ گیا اور کسی دوسرے نظریہ کی طرف چلا گیا تو میری جانب سے یہ سراسر بے شعوری ہوگی۔ اگر میں یہی سمجھتا رہوں کہ اس نئے مقام پر بھی مسلمان ہونے کی حیثیت میرے ساتھ لگی چلی آئی ہے۔ مسلمان ہوتے ہوئے غیراسلامی نظریہ اختیار کرنا صریح بے معنی بات ہے۔ ’’مسلمان نیشنلسٹ‘‘ اور ’’مسلمان کمیونسٹ‘‘ ایسی ہی متناقض اصطلاحیں ہیں جیسے ’’کمیونسٹ فاشسٹ‘‘ یا ’’جینی قصائی‘‘ یا ’’اِشتِراکی مہاجن‘‘ یا ’’موحدبت پرست‘‘۔

نیشنلزم اور اسلام

سرسری نظر میں جو شخص نیشنلزم کے معنی اور اس کی حقیقت پر غور کرے گا اس سے یہ بات چھپی نہیں رہ سکتی کہ اسلام اور نیشنلزم، دونوں اسپرٹ اور اپنے مقصد کے لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اسلام کا خطاب انسان من حیث الانسان سے ہے۔ وہ سارے انسانوں کے لیے ایک اعتقادی و اَخلاقی بنیاد پر عدل اور تقویٰ کا ایک اجتماعی نظام پیش کرتا ہے اور سب کو اس کی طرف بلاتا ہے۔ پھر جواس نظام کو قبول کرلےاسے مساویانہ حقوق کے ساتھ اپنے دائرے میں لے لیتا ہے۔ اس کی عبادات میں، اس کی معیشت میں، اس کی سیاست میں، اس کی معاشرت میں، اس کے قانونی حقوق اور فرائض میں غرض اس کی کسی چیز میں بھی ان لوگوں کے درمیان کسی قسم کی قومی یا نسلی یا جغرافی یا طبقاتی تفریقات کی گنجائش نہیں جو اسلام کے مسلک کی پیروی اختیار کرلیں۔ اس کا منتہائے نظر ایک ایسی جہانی ریاست (world state) ہے جس میں نسلی اور قومی تعصبات کی زنجیریں توڑ کر تمام انسانوں کو مساوی حقوق اور مساوی مواقع، ترقی کے ساتھ ایک تمدنی و سیاسی نظام میں حصہ دار بنایا جائے اور مخالفانہ مقابلہ کی جگہ دوستانہ تعاون پیدا کیا جائے تاکہ لوگ ایک دوسرے کی مادی خوش حالی اور روحانی ترقی میں مددگار ہوں۔ اسلام انسانی فلاح کے لیے جو اصول اور جو نظامِ حیات پیش کرتا ہے وہ عام انسانوں کو اپیل ہی اس وقت کرے گا جب کہ ان کے اندر جاہلیت کے تعصبات نہ ہوں، اور وہ اپنی قومی روایات کی وابستگی سے، نسلی تفاخر کے جذبات سے، خونی اور خاکی رشتوں کی محبت سے پاک ہوکر محض انسان ہونے کی حیثیت سے یہ جانچنے کے لیے تیار ہوں کہ حق کیا ہے، عدل و انصاف اور راستی کس چیز میں ہے، ایک طبقہ یا ایک قوم یا ایک ملک کی نہیں بلکہ مجموعی حیثیت سے انسان کی فلاح کا راستہ کون سا ہے؟
برعکس اس کے نیشنلزم انسان اور انسان کے درمیان اس کی قومیت کے لحاظ سے تمیز کرتا ہے۔ نیشنلزم کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہرقوم کا نیشنلسٹ اپنی قومیت کو دوسری تمام قومیتوں پر ترجیح دے۔ اگر وہ جفاکار قوم پرست (Aggressiven Nationalist) نہ ہو تب بھی قوم پرستی کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ وہ تمدنی، معاشی، سیاسی اور قانونی حیثیت سے ’’قو می‘‘ اور ’’غیرقومی‘‘ میں فرق کرے۔ قومی مفاد کے لیے معاشی امتیازات کی دیواریں کھڑی کرے۔ جن تاریخی روایات اور روایتی تعصبات پر اس کی قومیت قائم ہے ان کی سختی کے ساتھ حفاظت کرے اور اپنے اندر قومی تفاخر کے جذبات پرورش کرے۔ وہ دوسری قومیت کے لوگوں کو مساوات کے اصول پر زندگی کے کسی شعبہ میں بھی اپنے ساتھ شریک نہ کرے گا جہاں اس کی قوم دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ فوائد و منافع سے متمتع ہو رہی ہو، یا ہوسکتی ہو، وہاں عدل و انصاف کے لیے اس کا دل اندھا ہوجائے گا۔ اس کا منتہائے نظر جہانی ریاست کے بجائے قومی ریاست (National State) ہوگا، اور اگر وہ کوئی جہانی نظریہ اختیار کرے گا بھی تو اس کی صورت لازماً امپریلزم یا قیصریت کی صورت ہوگی، کیوں کہ اس کے اسٹیٹ میں دوسری قومیتوں کے لوگ کسی طرح برابر کے حصہ دار کی حیثیت سے داخل نہیں ہوسکتے، بلکہ صرف غلام کی حیثیت ہی سے داخل ہوسکتے ہیں۔
ان دونوں مسلکوں کے اصول، مقاصد اور روح کا یہ محض ایک سرسری سا خاکہ ہے جس کو دیکھ کر بآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں مسلک ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جہاں نیشنلزم ہے وہاں اسلام کبھی پھل پھول نہیں سکتا، اور جہاں اسلام ہے وہاں نیشنلزم کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ نیشنلزم کی ترقی کے معنی یہ ہیں کہ نیشنلزم جڑ بنیاد سے اُکھاڑ دیا جائے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ ایک شخص ایک وقت میں ان دونوں میں سے کسی ایک ہی کی ترقی کا حامی ہوسکتا ہے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ بیک وقت دونوں کشتیوں پر سوار رہ سکے۔ ایک مسلک کی پیروی کا دعویٰ کرنا اور پھر ساتھ ہی اس کے بالکل مخالف مسلک کی حمایت و وکالت کرنا صاف طور پر نظر کے الجھائو اور ذہن کی پراگندگی کا پتہ دیتا ہے، اور جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں ان کے متعلق مجبوراً ہمیں یہ رائے قائم کرنی پڑتی ہے کہ وہ یا تو اسلام کو نہیں سمجھتے، یا نیشنلزم کو، یا دونوں سے ناواقف ہیں۔

یورپین نیشنلزم کی حقیقت

یہ تو وہ بات تھی جو نیشنلزم کے بالکل ابتدائی مفہوم پر غور کرنے سے نکلتی ہے۔ اب ہمیں ذرا آگے بڑھ کر یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ ’’یورپین نیشنلزم‘‘ کیا چیز ہے جس کے اصول پر مولانا سندھی ہندوستان میں نیشنلزم کی ترقی چاہتے ہیں۔
قدیم جاہلیت میں قومیت کا تصور اچھی طرح پختگی کو نہیں پہنچا تھا۔ قوم کی جگہ انسان کے جذبات زیادہ تر نسل یا قبیلہ کے ساتھ وابستہ ہوتے تھے۔ اس لیے اس زمانہ میں قوم پرستی کے بجائے نسل پرستی کا زور تھا، اور اس نسلی عصبیت میں بڑے بڑے عالی دماغ فلسفی اور حکیم تک اندھے ہوجاتے تھے۔ ارسطو جیسا بلندپایہ مفکر اپنی کتاب ’’السیاست‘‘ میں یہ خیال ظاہر کرتا ہے کہ ’’فطرت نے وحشی قوموں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ غلام بن کر رہیں‘‘۔{ کتاب اوّل}
اس کے نزدیک دولت حاصل کرنے کے فطری اور جائز ذرائع میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ’’نوعِ انسانی کے ایسے طبقات کو غلام بنانے کے لیے جنگ کی جائے جنھیں فطرت نے اسی غرض کے لیے پیدا کیا ہے‘‘۔{ باب دوم و ششم
} یہ نظریہ اور زیادہ بھیانک ہوجاتا ہے جب ہم اس کے ساتھ اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں کہ یونانیوں کے نزدیک وحشی (Barbarians) کے معنی محض ’’غیریونانی‘‘ کے تھے اور ان کا بنیادی تصور یہ تھا کہ یونانی لوگوں کے اَخلاق اور انسانی حقوق دوسرے انسانوں سے بالکل مختلف ہیں۔
یہ اس نیشنلزم کا ابتدائی جرثومہ تھا جس نے بعد کو یورپ میں ترقی کی۔ اس جرثومہ کے نشوونما کو جو طاقت ایک مدت تک روکتی رہی وہ مسیحیت کی طاقت تھی۔ ایک نبی ؑکی تعلیم، اگرچہ وہ کیسی ہی بگڑی ہوئی صورت میں ہو، بہرحال نسل پرستی اور قوم پرستی کی جگہ ایک وسیع انسانی نقطۂ نظر ہی لیے ہوئے ہوسکتی تھی۔ اس کے ساتھ رومن ایمپائر کے عالم گیر نظام نے بھی کم از کم اتنا کام کیا کہ بہت سی چھوٹی قوموں کو ایک مشترک اقتدار کا مطیع و فرماں بردار بنا کر قومی اور نسلی تعصبات کی شدت کو کم کر دیا۔ اس طرح صدیوں تک پوپ کا رُوحانی اور شہنشاہ کا سیاسی اقتدار، دونوں مل جل کر عالم مسیحی کو ایک رشتے میں باندھے رہے۔ مگر یہ دونوں طاقتیں ظلم و ستم میں اور علمی و عقلی ترقی کی مخالفت میں ایک دوسرے کی مددگار تھیں، اور دُنیوی اقتدار اور مادی فوائد کی تقسیم میں باہم حریف و معاند تھیں۔ ایک طرف ان کی آپس کی کش مکش نے ، دوسری طرف ان کی بداعمالیوں اور ظلم و ستم نے اور تیسری طرف جدید علمی بیداری نے سولہویں صدی میں وہ سیاسی اور مذہبی تحریک پیدا کی جسے تحریک ِ اصلاح (ریفارمیشن) کہتے ہیں۔
اس تحریک کا یہ فائدہ تو ضرور ہوا کہ پوپ اور شہنشاہ کے اس اقتدار کا خاتمہ ہوگیا جو ترقی اور اصلاح کا دشمن تھا۔ لیکن اس سے یہ نقصان بھی ہوا کہ جو قومیں ایک رشتہ میں بندھی ہوئی تھیں وہ بکھر گئیں۔ریفارمیشن اس روحانی رابطہ کا بدل فراہم نہ کرسکا جو مختلف مسیحی اقوام کے درمیان قائم تھا۔ مذہبی اور سیاسی وحدت کا تعلق ٹوٹنے کے بعد جب قومیں ایک دوسرے سے الگ ہوئیں تو ان کی جدا جدا خودمختار قومی ریاستیں وجود میں آنے لگیں۔ ہرقوم کی زبان اور لٹریچر نے الگ الگ ترقی کرنی شروع کی اور ہرقوم کے معاشی مفاد دوسری ہمسایہ قوموں سے مختلف ہوتے گئے۔ اس طرح نسلی، سیاسی، معاشی اور تہذیبی بنیادوں پر قومیت کا ایک نیا تصور پیدا ہوا جس نے نسلی عصبیت کےقدیم جاہلی تصور کی جگہ لے لی۔ پھر مختلف قوموں میں نزاع، چشمک اور مسابقت (competition) کا سلسلہ شروع ہوا۔ لڑائیاں ہوئیں، ایک قوم نے دوسری قوموں کے حقوق پر ڈاکے ڈالے۔ ظلم اور شقاوت کے بدترین مظاہرے کیے گئے جن کی وجہ سے قومیت کے جذبات میں روز بروز تلخی پیدا ہوتی چلی گئی، یہاں تک کہ قومیت کا احساس رفتہ رفتہ ترقی کر کے قوم پرستی (نیشنلزم) میں تبدیل ہوگیا۔
یہ قوم پرستی جس کا نشوونما اس طور پر یورپ میں ہوا ہے، چوں کہ ہمسایہ قوموں کے ساتھ مسابقت اور تصادم سے پیدا ہوئی ہے اس لیے اس میں لازماً چار عناصر پائے جاتے ہیں:
۱- قومی افتخار کا جذبہ جو اپنی قومی روایات اور خصوصیات کی محبت کو پرستش کی حد تک بڑھا لے جاتا ہے، اور دوسری قوموں کے مقابلہ میں اپنی قوم کو ہرلحاظ سے بالاو برتر قرار دیتا ہے۔
۲- قومی حمیت کا جذبہ جو حق اور انصاف کے سوال کو نظرانداز کرکے آدمی کو ہرحال میں اپنی قوم کا ساتھ دینے پر آمادہ کرتا ہے خواہ وہ حق پر ہو یا ناحق پر۔
۳- قومی تحفظ کا جذبہ جو قوم کے واقعی اور خیالی مفادات کی حفاظت کے لیے ہرقوم کو ایسی تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ کرتا ہے جو مدافعت سے شروع ہوکر حملہ پر ختم ہوتی ہیں، مثلاً معاشی مفاد کی حفاظت کے لیے محصولات درآمد و برآمد کو گھٹانا بڑھانا، غیرقوموں کی مہاجرت پر پابندیاں عائد کرنا، اپنے حدود میں دوسروں کے لیے کسب ِ معاش اور شہری حقوق کے دروازے بند کرنا، دفاعِ ملکی کے لیے دوسروں سے بڑھ چڑھ کر فوجی طاقت فراہم کرنا، دفاعِ ملکی کے لیے دوسروں سے بڑھ چڑھ کر فوجی طاقت فراہم کرنا، اور دوسروں کے ملک میں اپنی قوم والوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے دوڑ جانا۔
۴- قومی استعلاء و استکبار (National Aggrandisement) کا جذبہ جو ہر ترقی یافتہ اور طاقت ور قوم کے اندر یہ داعیہ پیدا کرتا ہے کہ وہ دُنیا کی دوسری قوموں پر غالب اور برتر ہو، دوسروں کے خرچ پر اپنی خوش حالی بڑھائے، اپنے آپ کو پس ماندہ قوموں میں تہذیب پھیلانے کی خدمت پر خود بخود مامور سمجھے اور دوسرے ممالک کی قدرتی دولت سے استفادہ کرنے کو اپنا پیدائشی حق قرار دے۔
یہی ہے وہ یورپ کا نیشنلزم جس کے نشہ میں سرشار ہوکر کوئی پکارتا ہے: ’’جرمنی سب سے اُوپر‘‘، کوئی نعرہ بلند کرتا ہے ’’امریکا خدا کا اپنا ملک ہے‘‘۔ ’’کوئی اعلان کرتا ہے ’’اٹلی ہی مذہب ہے‘‘۔ کسی کی زبان سے دُنیا کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ’’حکومت کرنا برطانیہ کا حق ہے‘‘۔ اور ہر قوم پرست اس مذہبی عقیدے پر ایمان لاتا ہے کہ ’’میرا ملک! خواہ حق پر ہو یا ناحق پر‘‘۔ یہ قوم پرستی کا جنون آج دُنیا میں انسانیت کے لیے سب سے بڑی لعنت ہے۔ انسانی تہذیب کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ یہ انسان کو اپنی قوم کے سوا ہر دوسری قوم کے لیے درماندہ بنا دیتا ہے۔
اس نیشنلزم کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آدمی اپنی قوم سے محبت رکھتا ہے اور اس کو آزاد، خوش حال اور برسرِ ترقی دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ ایک شریف جذبہ ہوتا۔ لیکن درحقیقت محبت سے زیادہ عداوت، نفرت اور انتقام کے جذبات اس کو جنم دیتے اور پرورش کرتے ہیں۔ اس کا مادۂ حیات دراصل وہ آگ ہے جو قومیت کے مجروح جذبات اور کچلے ہوئے قومی حوصلوں سے دل میں بھڑک اُٹھتی ہے ، اور یہ آگ، یہ حمیت جاہلیہ قومی محبت کے شریفانہ جذبہ کو بھی حد سے بڑھ کر ایک ناپاک چیز بنا دیتی ہے۔ بظاہر اس کا آغاز ان بے انصافیوں کی تلافی کرنے کی غرض سے ہوتا ہے جو کسی قوم کے ساتھ کسی دوسری قوم یا قوموں نے، واقعی یا خیالی طور پر کی ہوں لیکن چونکہ کوئی اَخلاقی ہدایت، کوئی روحانی تعلیم، کوئی الٰہی شریعت اس کی رہنمائی کرنے والی اور اس کو ضابطہ میں رکھنے والی نہیں ہوتی اس لیے یہ اپنی حد سے گزر کر قیصریت (Imperialism) معاشی قوم پرستی (Economic Nationalism)، نسلی منافرت، جنگ اور بین بدامنی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ زمانہ حال کا ایک مصنف فرانس کوکر (Francis W. Cocker) لکھتا ہے:
’’بعض قوم پرست اہلِ قلم دعویٰ کرتے ہیں کہ آزادانہ زندگی بسر کرنے کا حق دُنیا کی صرف ترقی یافتہ قوموں کو ہے۔ ان قوموں کو جو ایسا اعلیٰ درجہ کا تہذیبی اور روحانی سرمایہ رکھتی ہیں جو اس کا مستحق ہے کہ دُنیا میں باقی رکھا جائے اور پھیلایا جائے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ایک اعلیٰ درجہ کی مہذب قوم کا حق اور فریضہ صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اپنی آزادی کی حفاظت کرے اور اپنے اندرونی معاملات کو دوسروں کی مداخلت کے بغیر سرانجام دے بلکہ اس کا حق اور فرض یہ بھی ہے کہ اپنے دائرۂ اثر کو ان قوموں پر پھیلائے جو نسبتاً پسماندہ ہیں، خواہ اس کے لیے قوت ہی کیوں نہ استعمال کرنی پڑے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک اُونچے درجے کی قوم اپنا ایک عالم گیر منصب رکھتی ہے، اسے اپنی قابلیتوں کو صرف اپنی ہی سرزمین میں مدفون کردینے یا خود غرضی کے ساتھ صرف اپنی ہی ترقی کے لیے استعمال کرنے کا حق نہیں… یہی نظریہ اور یہی استدلال تھا جسے عموماً انیسویں صدی کے آخری دور میں ملک گیر کی تائید کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اسی محبت کو پیش کرکے افریقہ اور بحرالکاہل کی ’’نیم مہذب‘‘ قوموں کو یورپ اور امریکا کی سلطنتوں کا تابع فرمان بنایا گیا تھا‘‘۔
آگے چل کر وہ لکھتا ہے:
’’یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک بڑی قوم صرف یہی حق نہیں رکھتی کہ براہِ راست جو حملہ اس پر کیا جائے اس کی مدافعت کرے، بلکہ یہ بھی اس کا حق ہے کہ ہراس چیز کی مزاحمت کرے جس سے اس کے ایسے مفاد پر زد پڑتی ہو جو اس کی خودمختارانہ زندگی اور خوشحالی کے لیے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کی زندگی کے لیے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ بس اپنی سرحدوں کی حفاظت کرلے، اور اپنے مادی وسائل پر خودقابو یافتہ رہے، اور اپنی عزت کو پامال نہ ہونے دے۔ نہیں، اسے اگر زندہ رہنا ہے تو اس سے زیادہ بھی کچھ کرنا پڑے گا۔ اس کو بڑھنا چاہیے، پھیلنا چاہیے، اپنی فوجی طاقت بڑھانی چاہیے،اپنا قومی دبدبہ قائم کرنا چاہیے، ورنہ وہ رفتہ رفتہ گرتی چلی جائے گی اور بالآخر قوموں کی مسابقت میں اس کا وجود محو ہوکر رہ جائے گا۔ جو قومیں اپنے مفاد کی حفاظت کرنے اور اپنے سیاسی و معاشی نفوذ و اثر کا دائرہ بڑھانے میں زیادہ کامیاب ہوتی ہیں وہی زندہ رہنے کی زیادہ حق دار ہیں۔ جنگ قومی توسیع کا فطری ذریعہ ہے ، اور جنگ میں فتح یات ہونا قوم کے اصلح (Fittest) ہونے کی دلیل ہے۔ ڈاکٹر بیج ہاٹ کے بقول وہ جنگ ہی ہے جو قوموں کو بناتی ہے‘‘۔
اس کے بعد وہ لکھتا ہے:
’’(ڈارون کے نظریۂ ارتقاء کو بھی ان خیالات کی تائید میں غلط طور پر استعمال کیا گیا ہے)۔ ارنسٹ ہیکل (Ernist Hackel) جو جرمنی میں ڈاروینیٹ کا پہلا اور سب سے زیادہ بااثر پیغمبر گزرا ہے اور جس نے اپنے علم الحیات کے (Biological) نظریات کو نہایت ہوشیاری کے ساتھ فلسفہ اور اجتماعیات (Sociology) میں استعمال کیا ہے، خودغرضی و خود پرستی کو عالم گیر قانونِ حیات قرار دیتاہے اور کہتا ہے کہ یہ قانون انسانی سوسائٹی کے اندر ایک طرح کی نسلی مردم خوری کی صورت میں جاری ہوتا ہے۔ اس کی رائے میں زمین ان تمام نسلی گروہوں کے لیے کافی سامانِ زندگی نہیں رکھتی جو اس کی آغوش میں جنم لیتے ہیں ، لہٰذا کمزور گروہ فنا ہوجاتے ہیں، نہ صرف اس وجہ سے کہ زمین کے محدود وسائل زندگی سے فائدہ اُٹھانے کے لیے جو عام تنازع برپا ہوتا ہے اس میں وہ دوسرے گروہوں کا کامیاب مقابلہ نہیں کرسکتے، بلکہ اس وجہ سے بھی کہ زیادہ طاقت ور گروہوں کے فاتحانہ اقدامات کی مدافعت کا کس بل ان میں نہیں ہوتا۔ اسی طرح کارل پیرسن (Karl Pearson) بین الاقوامی کش مکش کو ’’نوعِ انسانی کی فطری تاریخ‘‘ کا ایک شعبہ قرار دیتا ہے۔ اس کا دعویٰ یہ ہے کہ زندگی کے علمی تصور (Scientific view of life )کی رُو سے انسانی تہذیب و تمدن کا ارتقا دراصل اس نزاع و جدال کی وجہ سے ہوتا ہے جو صرف افراد ہی کے درمیان نہیں بلکہ قوموں کے درمیان بھی دائماً برپا رہتی ہے۔ جب ایک اعلیٰ درجہ کی قوم اپنی کمزور نسلوں کو مٹانے اور صرف طاقت ور نسلیں پیدا کرنے کا انتظام کرکے اندرونی حیثیت سے اپنی صلاحیت بڑھا لیتی ہے، تب وہ دوسری قوموں سے مقابلہ کرکے بیرونی حیثیت سے اپنی صلاحیت (Fitness) کو ترقی دینا شروع کرتی ہے۔ اس نزاع میں کمزور (غیرصالح) قومیں کچلی جاتی ہیں۔ طاقت ور (صالح) قومیں باقی رہتی ہیں اور اس طرح مجموعی حیثیت سے پوری نوعِ انسانی کا قدم ترقی کی طرف بڑھتا ہے۔ ایک قوم دوسری عالی مقام قوموں کے ساتھ اپنی برابری کا ثبوت اسی طرح دے سکتی ہے کہ وہ ان سے تجارتی راستوں اور خادم پیداوار کے وسائل اور سامانِ غذا کے ذخائر کے لیے پیہم مجاہدہ کرتی رہے۔ فروتر درجہ کی قوموں (کمزور قوموں) سے واسطہ پڑنے کی صورت میں اگر وہ ان کے ساتھ مساوات کا برتائو کرتی اور ان سے گھلتی ملتی ہے تو گویا خود ہی اپنے دعویٰ بالاتری سے دستبردار ہوجاتی ہے اور اگر وہ انھیں زمین سے نکال کر خود قبضہ کرلیتی ہے، یا انھیں زمین میں باقی رکھ کر اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے تو اپنی بالاتری ثابت و قائم کردیتی ہے‘‘۔{ Recent Political Thought. New York, 1934. pp 443-48}
ایک دوسرا مصنف جوزف لیٹن (Joseph lighten) لکھتا ہے:
’’پندرھویں صدی سے دُنیا کی تاریخ زیادہ تر قومی ریاستوں کے درمیان معاشی رقابتوں کی داستان ہے۔ معاشی قوم پرستی روز بروز قوموں کے درمیان تصادم کا سبب بنتی چلی گئی ہے۔ پہلے تجارت کے میدان میں مزاحمت کا سلسلہ چلتا ہے، پھر جنگ ہوتی ہے۔ امریکا ، افریقہ، سات سمندروں کے جزائر اور ایشیا کے ایک بڑے حصے پر تسلط، نوآبادیوں کا قیام اور ان ممالک کے معاشی وسائل سے انتفاع (Exploitation) یہ سب کچھ اسی داستانِ قزاقی کے مختلف ابواب ہیں۔ اگرچہ یہی سب ذرا چھو ٹے پیمانہ پر اس وقت بھی ہوا تھاجب زوال روما کے بعد وحشی قومیں تاخت و تاراج کرتی ہوئی پھیل گئی تھیں۔ مگر فرق یہ ہے کہ رومن ایمپائر کے باقیات سے تو مذہبی ، اَخلاقی اور تہذیبی بنیادوں پر ایک بین الاقوامی نظام تعمیر ہوگیا تھا۔ لیکن دُنیائے جدید میں یہ نہ ہوسکا‘‘۔{ } Social phiosophies in Conflict New York, 1937. pp439}
دوسری جگہ یہی مصنف لکھتا ہے:
’’جب ایک ایسی قوم جو تہذیبی وحدت رکھتی ہو، سیاسی حیثیت سے خودمختار، اور معاشی حیثیت سے متَّحد الاَغراض ہوتی ہے، اور اس تہذیبی و سیاسی و معاشی قومیت میں اپنی عظمت اور برتری کے احساسات اُبھر آتے ہیں تب معاشی قوم پرستی اپنی شدید تر صورت میں رُونما ہوئے بغیر نہیں رہتی کیونکہ دُنیا کی مختلف قوموں کے درمیان مسابقت و مزاحمت کا جو سسٹم اس وقت قائم ہے اس کا لازمی نتیجہ یہی قوم پرستی ہے اور یہ قوم پرستی بہت جلدی معاشی امپیریلزم میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ قومیں تجارتی فوائد کے لیے ایک دوسرے کے خلاف جدوجہد کرتی ہیں اور بیرونی ممالک میں منڈیوں اور پس ماندہ ممالک کی معاشی دولت پر قبضہ کرنے کے لیے ان کے درمیان کش مکش ہوتی ہے۔
’’سیاسی اور معاشی نیشنلزم کی گتھی (جس کو سلجھانے کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوئی) یہ ہے کہ ایک طرف قومی ریاست کا وجود ایک قوم کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے ، اور اس کی محض معاشی خوش حالی ہی نہیں بلکہ اس کی تہذیبی ترقی، اس کی تعلیم، اس کے سائنس، اس کے فنون ، غرض اس کی ہر چیز کے نشوونما کا انحصار قومی ریاست کے پھلنے پھولنے ہی پر ہے۔ لیکن دوسری طرف موجودہ مسابقت کے ماحول میں خودبخود معاشی نیشنلزم پیدا ہوجاتا ہے۔ ہرقوم دوسری قوموں کے نقصان پر پھلنے پھولنے کی کوشش کرتی ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوموں کے درمیان رقابت ، شبہات، خوف اور نفرت کے جذبات پرورش پاتے ہیں۔ معیشت کے میدان میں بین الاقوامی مسابقت سے لے کر کھلے میدان میں فوجی تصادم تک سیدھا راستہ جاتا ہے اور یہ بہت قریب کا راستہ ہے‘‘۔{ حوالۂ مذکور، ص ۴-۵ }

مغربی نیشنلزم اور خدائی تعلیم کا بنیادی اختلاف

میں نے مغربی نیشنلزم اور اس کے اندازِ فکر اور طریق کار کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کے بجائے خود اہلِ مغرب کے الفاظ میں نقل کرنا زیادہ پسند کیا ہے تاکہ اس کی پوری تصویر خود گھروالوں کے موقلم سے کھنچی ہوئی آپ کے سامنے آجائے۔ اُوپر کے اقتباسات اس امرکی بین شہادت پیش کرتے ہیں کہ یورپ میں جن تخیلات اور جن اصولوں پر نیشنلزم کا نشوونما ہوا ہے وہ انسانیت کی عین ضد ہیں۔ انھوں نے انسان کو حیوانیت بلکہ درندگی کے مقام تک گرا دیا ہے۔ وہ خدا کی زمین کو فساد، ظلم اور خون ریزی سے بھرنے والے اور انسانی تہذیب کے پُرامن نشووارتقاء کو روکنے والے اصول ہیں۔ ابتدا سے خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر دنیا میں جن پاک مقاصد کے لیے سعی کرتے رہے ہیں، یہ اصول ان سب پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ الٰہی شریعتیں جن اَغراض کے لیے دُنیا میں آئی ہیں، اور آسمانی کتابیں جن اَخلاقی و روحانی تعلیمات کو لے کر نازل ہوئی ہیں، یہ شیطانی اصول ان کے مدمقابل، ان کے مزاحم اور معاند واقع ہوئے ہیں۔یہ انسان کو تنگ دل، تنگ نظر{ قوم پرستانہ تنگ نظری کی انتہا یہ ہے کہ جاپان میں ہندوستان کے آم کا داخلہ بند ہے۔ گویا ایک نعمت، جو اللہ نے زمین پر پیدا کی ہے ، ایک قوم کے لوگ اپنے اُوپر اس کو صرف اس لیے حرام کر لیتے ہیں کہ وہ دوسری قوم کے ملک میں کیوں پیدا ہوئی؟ } اور متعصب بناتے ہیں۔ یہ قوموں اور نسلوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا کر حق اور انصاف اور انسانیت کی طرف سے اندھا کردیتے ہیں۔ یہ مادی طاقت اور حیوانی زور کو اَخلاقی حق کا قائم مقام قرار دے کر شرائعِ الٰہیہ کی عین بنیاد پر ضرب لگاتے ہیں۔
الٰہی شریعتوں کا مقصد ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ انسانوں کے درمیان اَخلاقی و روحانی رشتے قائم کرکے انھیں وسیع پیمانے پر ایک دوسرے کا معاون بنایا جائے، مگر نیشنلزم نسلی اور وطنی امتیاز کی قینچی لے کر ان رشتوں کو کاٹ دیتا ہے اور قومی منافرت پیدا کرکے انسانوں کو ایک دوسرے کا معاون بنانے کے بجائے مزاحم اور دشمن بنا دیتا ہے۔{ ابھی پچھلے ہی سال نیشنلزم کا یہ کرشمہ ساری دُنیا نے دیکھا کہ برما کے ہولناک فسادات میں (جن کا محرک برمی نیشنلزم کا جذبہ تھا)۔ برمی بودھوں نے عام ہندوستانیوں کی طرح ہندوستانی بودھوں کو بھی نہایت بے دردی کے ساتھ قتل و غارت کیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ نیشنلزم کی مقراض نے اس روحانی و اخلاقی رشتہ کو قطع کر کے رکھ دیا جسے بدھ مت نے ایک ہندوستانی اور ایک برمی کے درمیان قائم کیا تھا۔ یہ نیشنلزم کا فطری خاصہ ہے۔ اس نے مسیحی اقوام کے درمیان بھی رشتۂ اخوت کو اسی طرح کاٹا تھا، اور اب مسلمان قوموں کے درمیان بھی کاٹ رہا ہے۔ چنانچہ شام کی سرحد پر ترکوں اور عربوں کے درمیان جو صورتِ حال اس وقت رُونما ہے وہ اسی نیشنلزم کا نتیجہ ہے۔ }
الٰہی شریعتیں چاہتی ہیں کہ انسان اور انسان کے درمیان آزادانہ ربط کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کیے جائیں کیونکہ انھی پر انسانی تہذیب و تمدن کی ترقی کا انحصار ہے، مگر نیشنلزم ان روابط کی راہ میں ہرقسم کی رکاوٹیں پیدا کرتا ہے حتیٰ کہ ایک قوم کے حلقۂ اثر میں دوسری قوم والوں کے لیے سانس لینا تک مشکل کردیتا ہے۔{History of National Socialism Konard Heldern. }
الٰہی شریعتوں کا منشا ء یہ ہے کہ ہرفرد، ہرقوم اور ہرنسل کو اپنی طبعی خصوصیات اور پیدائشی قابلیتوں کے نشوونما کا پورا موقع ملے تاکہ وہ مجموعی حیثیت سے انسانیت کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کرسکے۔ مگر نیشنلزم ہرقوم اور ہرنسل میں یہ داعیہ پیدا کرتا ہے کہ وہ طاقت حاصل کرکے دوسری قوموں اور نسلوں کو ادنیٰ اور ذلیل اوربے قدر و قیمت قرار دے اور انھیں غلام بناکر ان کی پیدائشی قابلیتوں کو بڑھنے اور کام کرنے کا موقع ہی نہ دے، بلکہ ان سے زندگی کا حق ہی سلب کرکے چھوڑے۔
الٰہی شریعتوں کا اساسی اصول یہ ہے کہ طاقت کے بجائے اَخلاق پر انسانی حقوق کی بنیاد قائم ہو، حتیٰ کہ ایک طاقت ور شخص یا گروہ کمزور شخص یا گروہ کے حق کو بھی ادا کرے جب کہ قانونِ اَخلاق اس کی تائید میں ہو۔ لیکن نیشنلزم اس کے مقابلہ میں یہ اصول قائم کرتا ہے کہ طاقت ہی حق ہے اور کمزور کا کوئی حق نہیں۔ اس لیے کہ وہ اسے حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
شرائع الٰہیہ جس طرح اَخلاقی حدود کے اندر نفس پروری کی مخالف نہیں ہیں، اسی طرح وہ قوم پروری کی بھی مخالف نہیں ہیں۔ درحقیقت وہ اس کی تائید کرتی ہیں، کیونکہ ایک ایک قوم کے اپنی اپنی جگہ ترقی کرنے ہی پر مجموعی حیثیت سے انسانیت کی ترقی کا مدار ہے۔ لیکن آسمانی شریعتیں ایسی قوم پروری چاہتی ہیں جو انسانیت عامہ (Humanity at Large) کی طرف ہمدردی، معاونت اور خیرخواہی لیے ہوئے بڑھے اوروہ خدمت انجام دے جو سمندر کے لیے زمین کے دریا انجام دیتے ہیں۔ برعکس اس کے نیشنلزم انسان کے اندر یہ ذہنیت پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنی تمام قوتیں اور قابلیتیں صرف اپنی قوم کی بڑائی کے لیے مخصوص کرے اور انسانیت عامہ کا نہ صرف یہ کہ مددگار نہ ہو بلکہ اپنی قوم کے مفاد پر انسانیت کے عمومی مفاد کی قربانی چڑھا دے۔ انفرادی زندگی میں جو حیثیت ’’خودغرضی‘‘ کی ہے، اجتماعی زندگی میں وہی حیثیت ’’قوم پرستی‘‘ کی ہے۔ ایک قوم پرست فطرتاً تنگ دل ہوتا ہے۔ وہ دُنیا کی ساری خوبیاں صرف اپنی قوم یا اپنی نسل ہی میں دیکھتا ہے۔ دوسری قوموں یا نسلوں میں اسے کوئی چیز ایسی قابلِ قدر نظر نہیں آتی جو زندگی اور بقاء کی مستحق ہو۔ اس ذہنیت کا مکمل نمونہ ہم کو جرمنی کے نیشنل سوشلزم میں نظر آتا ہے۔ ہٹلر کی زبان میں نیشنل سوشلسٹ کی تعریف یہ ہے کہ:
’’ہر وہ شخص جو قومی نصب العین کو اس حد تک اپنانے کے لیے تیار ہو کہ اس کے نزدیک اپنی قوم کی فلاح سے بالاتر کوئی نصب العین نہ ہو، اور جس نے ہمارے قومی ترانے ’’جرمنی سب سے اُوپر‘‘ کے معنی و مقصود کو اچھی طرح سمجھ لیا ہو، یعنی اس وسیع دنیا میں جرمن قوم اور جرمنی سے بڑھ کر کوئی چیز اس کی نگاہ میں عزیز اور محترم نہ ہو، ایسا شخص نیشنل سوشلسٹ ہے‘‘۔{My Struggle, London, pp 120-121. }
اپنی کتاب ’’میری جدوجہد‘‘ میں ہٹلر لکھتا ہے:
’’اس زمین میں جو کچھ قابلِ قدر ہے … سائنس، آرٹ، فنی کمالات اور ایجادات… وہ سب کا سب چند گنی چنی قوموں کی تخلیقی قابلیتوں کا نتیجہ ہے اور یہ قومیں اصل میں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتی ہیں… اگر ہم نوعِ انسانی کو تین قسموں میں تقسیم کریں… کلچر بنانے والے، اس کی حفاظت کرنے والے، اس کو غارت کرنے والے… تو صرف آریہ نسل ہی کا شمار پہلی قسم میں کیا جاسکے گا‘‘۔{ ٹھیک یہی ذہنیت عرب کے ان یہودیوں کی تھی جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانے سے صرف اس لیے انکار کر دیا تھا کہ آپؐ بنی اسرائیل میں سے نہیں۔}
اسی نسلی تفاخر کی بنیاد پر جرمنی میں غیرآریہ لوگوں کے لیے عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہے اور اسی بنیاد پر جرمنی کی جہانگیری کا نظریہ قائم ہے۔ ایک نیشنل سوشلسٹ کے نزدیک دُنیا میں جرمن قوم کا مشن یہ ہے کہ وہ ’’ادنیٰ درجہ‘‘ کی قوموں کو غلام بنا کر ’’تہذیب‘‘ پھیلانے میں آلہ کے طور پر استعمال کرے اور یہ محض جرمنی ہی کی خصوصیت نہیں ہے۔ جمہوریت پسند امریکا میں بھی رنگ کا امتیازاسی بنیاد پر ہے… سفید فام امریکن سیاہ فام حبشی کو انسان سمجھنے کے لیے کسی طرح تیار نہیں… اور یہی مسلک یورپ کی ہرقوم کا ہے، خواہ وہ برطانیہ ہو یا فرانس یا اٹلی یا ہالینڈ۔
پھر اس قوم پرستی کی ایک لازمی خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسان کو مطلب پرست بناتی ہے۔ شرائع الٰہیہ تو دنیا میں اس لیے آئی ہیں کہ آدمی کو اصول پرست بنائیں اور اس کے طرزِعمل کو ایسے مستقل اصولوں کا پابند بنا دیں جو اَغراض اور خواہشات کے ساتھ بدلنے والے نہ ہوں۔ لیکن قوم پرستی اس کے برعکس آدمی کو بے اصولا بنادیتی ہے۔ قوم پرست کے لیے دُنیا میں کوئی اصول اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ اپنی قوم کا فائدہ چاہتا ہے۔ اگر اَخلاق کے اصول اس کے سوا نہیں ہیں کہ وہ اپنی قوم کا فائدہ چاہتا ہے۔ اگر اَخلاق کےاصول ، مذہب کے احکام اور تہذیب کے نظریات اس مقصد میں اس کے مددگار ہوں تو وہ ان پر ایمان لانے کا خوشی سے دعویٰ کرتا رہے گا اور اگر وہ اس کے راستے میں حائل ہوں تو ان سب کو بالائے طاق رکھ کر کچھ دوسرے اصول و نظریات اختیار کرلے گا۔ مسولینی کی سیرت میں ہم کو ایک قوم پرست کے کیرکٹر کا پورا نمونہ ملتا ہے۔ جنگ ِ عظیم سے پہلے وہ اِشتِراکی تھا۔ جنگ ِ عظیم میں محض اس لیے اِشتِراکیوں سے الگ ہوگیا کہ اٹلی کے شریکِ جنگ ہونے میں اس کو قومی فائدہ نظر آتا تھا۔ پھر جب غنائم جنگ میں اٹلی کو مطلوبہ فوائد حاصل نہ ہوئے تو اس نے جدید فاشستی تحریک کا علَم بلند کیا۔ اس نئی تحریک میں بھی وہ برابر اپنے اصول بدلتا چلا گیا۔ ۱۹۱۹ء میں وہ لبرل سوشلسٹ تھا۔ ۱۹۲۰ء میں انارکسٹ بنا، ۱۹۲۱ء میں چند مہینے تک سوشلسٹ اور جمہوری طبقوں کا مخالف رہا۔ چند مہینے ان کے ساتھ اتحاد کی کوشش کرتا رہا اور بالآخر ان سے کٹ کر اس نے ایک نئی پالیسی وضع کرلی۔ یہ تلون، یہ بے اصولی اور یہ ابن الوقتی مسولینی کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ یہ نیشنلزم کی فطرت کا طبعی خاصہ ہے۔ انفرادی زندگی میں جو کچھ ایک خود غرض آدمی کرتا ہے وہی قومی زندگی میں قوم پرست کرتاہے۔ کسی اصول اور نظریہ پر مستقل ایمان رکھنا اس کے لیے ناممکن ہے۔
مگر نیشنلزم اور الٰہی شریعتوں میں سب سے کھلا ہوا تصادم ایک اور صورت سے ہوتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ خدا کی طرف سے جو نبی ؑ بھی آئے گا وہ بہرحال کسی الگ قوم اور کسی ایک سرزمین ہی میں پیدا ہوگا۔ اسی طرح جو کتاب اس نبی ؑ کو دی جائے گی وہ بھی لامحالہ اسی ملک کی زبان میں ہوگی جس میں وہ مبعوث ہوا ہے۔ پھر اس نبوت کے مشن سے تعلق رکھنے والے جن مقامات کو عزت و احترام اور تقدیس کی حیثیت حاصل ہوگی وہ بھی زیادہ تر اسی ملک میں واقع ہوں گے مگر ان سب محدودیتوں کے باوجود وہ صداقت اور تعلیم ہدایت جو ایک نبی ؑخدا کی طرف سے لے کر آتا ہے کسی قوم اور ملک کے لیے محدود نہیں ہوتی بلکہ تمام انسانوں کے لیے عام ہوتی ہے۔ پوری نوعِ انسانی کو اس نبی ؑ پر اور اس کی لائی ہوئی صداقت پر ایمان لانے کا حکم دیا جاتا ہے، خواہ کسی نبی ؑ کا مشن محدود ہو جیساکہ ہود اور صالح علیہما السلام اور بہت سے پیغمبروں ؑ کا تھا یا اس کا مشن عام ہو، جیساکہ حضرت ابراہیم ؑ اور سیّدنا محمدؐ کا تھا، بہرصورت ہر نبی ؑ پر ایمان لانے اور اس کا احترام کرنے کے لیے تمام انسان مامور ہیں اور جب کہ کسی نبی ؑ کا مشن عالم گیر ہو تو یہ قدرتی بات ہے کہ اس کی لائی ہوئی کتاب کو بین الاقوامی حیثیت حاصل ہوگی۔ اس کی زبان کا تہذیبی اثر بین الاقوامی ہوگا۔ اس کے مقدس مقامات ایک ملک میں واقع ہونے کے باوجود بین الاقوامی مرکزیت حاصل کریں گے اور نہ صرف وہ نبی بلکہ اس کے حواری اور اس کے مشن کی اشاعت میں نمایاں حصہ لینے والے ابتدائی لوگ بھی ایک قوم سے تعلق رکھنے کے باوجود تمام قوموں کے ہیرو قرار پائیں گے… یہ سب کچھ ایک نیشنلست کے مذاق، اس کی افتادِ طبع ، اس کے جذبات اور اس کے نظریات کے خلاف ہے۔ نیشنلسٹ کی غیرت قومی اس کو کسی طرح گوارا نہیں کرسکتی کہ وہ ایسے لوگوں کو ہیرو بنائے جو اس کی اپنی قوم کے نہیں ہیں، ایسے مقام کی مرکزیت اور تقدیس و احترام قبول کرے جو اس کے اپنے وطن کے نہیں ہیں، ایسی زبان کا تہذیبی اثر قبول کرے جو اس کی اپنی زبان نہیں ہے، ان روایات سے روحانی تحریک (Inspiration) حاصل کرے جو باہر سے آئی ہوں۔ وہ ان سب چیزوں کو نہ صرف اجنبی (Foreign) قرار دے گا بلکہ انھیں اس نفرت اور ناگواری کی نگاہ سے دیکھے گا جس سے بیرونی حملہ آوروں کی ہر چیز دیکھی جاتی ہے اور ان تمام خارجی اثرات کو اپنی قوم کی زندگی سے نکال دینے کی کوشش کرے گا۔ اس کے جذبۂ قومیت کا فطری اقتضاء یہ ہے کہ اپنے ہی وطن کے دریائوں اور پہاڑوں کی حمد میں گیت گائے، اپنی ہی قوم کی پرانی تاریخی روایات کو (انھی روایات کو جنھیں یہ باہر سے آنے والا مذہب ’عہد ِ جاہلیت‘ سے تعبیر کرتا ہے) زندہ کرے اور ان پر فخر کرے، اپنے حال کا رشتہ اپنے ہی ماضی سے جوڑے اور اپنی ثقافت کا تسلسل اپنے اسلاف ہی کی ثقافت کے ساتھ قائم کرے، اپنی ہی قوم کے تاریخی یا افسانوی بزرگوں کو اپنا ہیرو بنائے اور انھی کے خیالی یا واقعی کارناموں سے روحانی تحریک حاصل کرے۔ غرض یہ بات نیشنلزم کی عین طبیعت میں شامل ہے کہ وہ ہر اس چیز سے جو باہر کی ہو، منہ موڑ کر ان چیزوں کی طرف رُخ کرے جو اس کے اپنے گھر کی ہوں۔ یہ راستہ جس آخری منزل پر پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ باہر سے آئے ہوئے مذہب کو بھی کُلی طور پر چھوڑ دیا جائے اور ان مذہبی روایات کو زندہ کیا جائے جو خود اپنی قوم کے عہد ِ جاہلیت سے کسی نیشنلسٹ کو پہنچی ہوں۔ ممکن ہے کہ بہت سے نیشنلسٹ اس آخری منزل تک نہ پہنچے ہوں، اور ابھی بیچ ہی کسی منزل میں ہوں، مگر جس راستے پر وہ گامزن ہیں، وہ جاتا اسی طرف ہے۔
آج جرمنی میں جو کچھ ہو رہاہے وہ نیشنلزم کے اسی فطری خاصہ کی مکمل توضیح و تبیین ہے۔ نازیوں میں سے ایک گروہ تو علانیہ حضرت عیسیٰ ؑسے بیزاری کا اظہار کر رہا ہے اس لیے کہ وہ یہودی النسل تھے اور کسی شخص کا یہودی ہونا اس بات کے لیے کافی ہے کہ ایک آریہ نسل پرست اس کی تمام تہذیبی، اَخلاقی اور روحانی قدروقیمت سے انکار کردے۔
چنانچہ اس گروہ کے لوگ بلاتکلف کہتے ہیں کہ ’’مسیح ایک پرولتاری یہودی تھا، مارکس کا پیش رو، اسی لیے تو اس نے کہا کہ جو مسکین ہیں وہی زمین کے وارث ہوں گے‘‘۔ اس کے برعکس جن نازیوں کے دل میں ابھی تک مسیح کے لیے جگہ باقی ہے وہ ان کو نارڈک نسل کا ثابت کرتے ہیں۔ گویا ایک جرمن قوم پرست یا تو مسیح کو مانے گا نہیںکیونکہ وہ یہودی تھے۔ یا اگر مانے گا تو اسرائیلی مسیح کو نہیں بلکہ نارڈک نسل کے مسیح کو مانے گا۔ بہرصورت اس کا مذہب اس کی نسل پرستی کے تابع ہے۔ کسی غیرآریہ کو روحانی و اَخلاقی تہذیب کا پیشوا ماننے کے لیے کوئی جرمن قوم پرست تیار نہیں۔{ٹھیک یہی ذہنیت عرب کے ان یہودیوں کی تھی جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانے سے صرف اس لیے انکار کر دیا تھا کہ آپؐ بنی اسرائیل میں سے نہیں۔
} حد یہ ہے کہ جرمن قوم پرستوں کے لیے وہ خدا بھی قابلِ قبول نہیں جس کا تصور باہر سے درآمد ہوا ہے۔ بعض نازی حلقوں میں کوشش ہورہی ہے کہ ان دیوتائوں کو پھر زندہ کیا جائے جنھیں پرانے ٹیوٹن قبائل پوجا کرتے تھے۔ چنانچہ تاریخ قدیم کی چھان بین کرکے پوری دیومالا تیار کرلی گئی ہے اور ووٹان (Wotan) نامی دیوتا کو، جسے عہد ِ جاہلیت کے ٹیوٹن لوگ ’’طوفان کا خدا‘‘ کہتے تھے مہادیو قرار دیا گیا ہے۔ یہ مذہبی تحریک تو ابھی نئی نئی شروع ہوئی ہے لیکن سرکاری طور پر نازی نوجوان کو آج کل جس عقیدہ کی تعلیم دی جارہی ہے اس میں بھی خدا کو رب العالمین کی حیثیت سے نہیں بلکہ محض رب الالمانین کی حیثیت سے خدا تسلیم کیا گیا ہے۔ اس عقیدے کے الفاظ یہ ہیں:
’’ہم خدا پر اس حیثیت سے ایمان رکھتے ہیں کہ وہ قوت و حیات کا ازلی مظہر ہے زمین میں اور کائنات میں… خدا کا خیال جرمن انسان کے لیے فطری ہے ۔ خدا اور ازلیت کے متعلق ہمارا تصور کسی دوسرے مذہب یا عقیدے کے تصورات سے کسی قسم کی مماثلت نہیں رکھتا۔ ہم جرمن قوم اور جرمنی کی ازلیت پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہم اپنے قومی مقاصد کی حقانیت پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہم اپنے قائد اڈولف پر ایمان رکھتے ہیں‘‘۔
یعنی خدا اس قوت و حیات کا نام ہے جو جرمن قوم میں حلول کرگئی ہے۔ جرمن قوم اس خدا کا ارضی ظہور ہے، ہٹلر اس کا رسول ہے اور ’’قومی مقاصد‘‘ اس رسول کا لایا ہوا مذہب ہے… ایک قوم پرست کی ذہنیت سے اگر کوئی مذہبی تصور مناسبت رکھتا ہے تو وہ بس یہی ہے۔

مغربی نیشنلزم کا انجام

یورپین اصول پر جب نیشنلزم کو ترقی دی جائے گی تو وہ بالآخر اسی مقام پر پہنچ کر دم لے گی جو لوگ ابھی بیچ کی منزلوں میں ہیں اور اس حد تک نہیں پہنچے ہیں۔ ان کے نہ پہنچنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ ابھی تک ان کے جذبات قومیت کو ویسی سخت ٹھیس نہیں لگی ہے جیسی جرمنی کو گذشتہ جنگ ِ عظیم میں لگی تھی لیکن یقین رکھیے کہ جب وہ نیشنلزم کے راستے پر گامزن ہوئے ہیں تو ان کی آخری منزلِ مقصود بہرحال کمال درجہ کی جاہلی عصبیت ہے جو خدا اور مذہب تک کو قومی بنائے بغیر مطمئن نہیں ہوتی۔ یہ نیشنلزم کی فطرت کا تقاضا ہے۔ نیشنلزم اختیار کرکے اس کے فطری تقاضے سے کون بچ سکتا ہے؟ غور کیجیے آخر وہ کیا چیز ہے جو قوم پرستانہ طرزِ فکر اختیار کرتے ہی ایک مصری نیشنلسٹ کا رُخ خود بخود عہد فراعنہ کی طرف پھیر دیتی ہے؟ جو ایرانی کو شاہنامے کی افسانوی شخصیتوں کا گرویدہ بنا دیتی ہے؟ جو ہندوستانی کو ’’پراچین سمے‘‘ کی طرف کھینچ لے جاتی ہے اور گنگ و جمن کی تقدیس کے ترانے اس کی زبان پر لاتی ہے؟ جو ترک کو مجبور کرتی ہے کہ اپنی زبان، اپنے ادب اور اپنی زندگی کے ایک ایک شعبے سے عربی اثرات کو خارج کرے اور ہرمعاملہ میں عہد جاہلیت کی ترکی روایات کی طرف رجوع کرے؟ اس کی نفسانی توجیہ بجز اس کے آپ اور کیا کرسکتے ہیں کہ نیشنلزم جس دل و دماغ میں پیدا ہوتا ہے اس کی تمام دلچسپیاں قومیت کے دائرے میں محدود ہوجاتی ہیں اور اس دائرے سے باہر کی ہرچیز سے اس کا رُخ پھر جاتا ہے۔
میرے سامنے اس وقت انقرہ کے ڈائرکٹر جنرل آف پریس کا ایک مضمون رکھا ہے جس کا عنوان ہے: ’’ترکی عورت تاریخ میں‘‘۔ اس کے ابتدائی فقرے حسب ذیل ہیں:
’’قبل اس کے کہ ہم اس بلند اور معزز رُتبے سے بحث کریں جو ہماری نوخیز جمہوریت نے ترکی عورتوں کو دینا پسند کیا ہے، ہمیں ایک نظر یہ دیکھ لینا چاہیے کہ تاریخ کے مسلسل اَدوار میں ترکی عورت کی زندگی کیسی رہی ہے۔ اس مختصر تبصرے سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ آج ترکی مردوں اور عورتوں میں جو مساوات پائی جاتی ہے وہ ہماری قومی تاریخ میں نئی چیز نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ سب ترکی خاندان اور ترکی نظامِ تمدن بیرونی اثرات سے آزاد تھا۔ ترکی عورت ہمیشہ ہرتمدنی تحریک میں حصہ لیتی تھی۔ ہمارے مشہور ماہر اجتماعیات ضیاء گوک الپ نے اس مضمون کی خوب تحقیق کی ہے اور اس کی تحقیقات سے ان بہت سے حقوق کا پتہ چلا ہے جو ترکی عورت کو پرانی ترکی تہذیب میں حاصل تھے۔ ان شہادتوں سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ قدیم ترکی عورت اور آج کی ترکی عورت کے درمیان تمدنی اور سیاسی اُٹھان (Emancipation) کے اعتبار سے گہری مماثلت پائی جاتی ہے‘‘۔
ان فقروں کو دیکھیے قوم پرست ترک کس طرح اپنی تاریخ کے اس دور سے منہ موڑتا ہے جس میں اس کی قوم اس ’’بیرونی اثر‘‘ میں آگئی تھی اور کس طرح اپنے حال کے لیے اپنے اس ماضی کو ’’اسوئہ حسنہ‘‘ بناتا ہے جب کہ اس کی قوم اس بیرونی اثر سے آزاد تھی۔ یوں یہ نیشنلزم آدمی کے دماغ کو اسلام سے جاہلیت کی طرف پھیر دیتا ہے۔ گوک الپ ضیاء جو دراصل تمدنی اور تہذیبی اعتبار سے ترکی جدید کا بانی ہے اور جس کے بنائے ہوئے راستے پر آج ترکی قوم چل رہی ہے وہ خالدہ ادیب خانم کے الفاظ میں:
’’ایک نئی ترکی بنانا چاہتا تھا جو عثمانی ترکوں اور ان کے تورانی اَسلاف کے درمیان کی خلیج کو پُر کرسکے۔ وہ اس مواد کی بنا پر تمدُّنی اصلاح کرنا چاہتا تھا جو اس نے ترکوں کے زمانہ قبل اسلام کی سیاسی و تمدُّنی تنظیمات کے متعلق فراہم کیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ عربوں کا قائم کیا ہوا اسلام ہمارے مناسب حال نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم اپنے ’’عہد ِ جاہلیت‘‘ کی طرف رجعت نہ کریں تو پھر ہمیں ایک مذہبی اصلاح (Reformation) کی ضرورت ہے جو ہماری طبائع سے مناسبت رکھتی ہو‘‘۔
یہ الفاظ کسی مغربی پروپیگنڈسٹ کے نہیں ہیں جو ترکوں کو بدنام کرنا چاہتا ہو، بلکہ خود ایک قوم پرست ترکن کے ہیں۔ ان میں آپ صاف طور پر یہ منظر دیکھ سکتے ہیں کہ مسلمان کے دل و دماغ میں جب ایک راستہ سے قوم پرستی گھسنی شروع ہوتی ہے تو کس طرح دوسرے راستے سے اسلام نکلنے لگتا ہے اور یہ چیز کچھ بیچارے ترکوں ہی کے ساتھ مخصوص نہیں۔ جس مسلمان نے بھی نیشنلزم کے شیطان سے بیعت کی ہے اسلام کے فرشتوں سے اس کا رخصتی مصافحہ ہوگیا ہے۔ ابھی حال میں ہندوستان کے ایک ’’مسلمان ‘‘ شاعر نے ترانہ وطن کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے جس میں وہ اپنی بھارت ماتا کو خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے:
جس کا پانی ہے اَمرت وہ مخزن ہے تو
جس کے دانے ہیں بجلی وہ خرمن ہے تو
جس کے کنکر ہیں ہیرے وہ معدن ہے تو
جس سے جنّت ہے دنیا میں وہ گلشن ہے تو
دیویوں دیوتائوں کا مسکن ہے تو
تجھ کو سجدوں سے کعبہ بنا دیں گے ہم
آخری بیت کو پڑھ کر اس امر میں کیا شبہ باقی رہ جاتا ہے کہ نیشنلزم اور اسلام دو بالکل الگ اور قطعی متضاد ذہنیتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان دونوں کا ایک جگہ جمع ہونا محالات سے ہے۔ درحقیقت نیشنلزم خود ایک مذہب ہے جو شرائع الٰہیہ کا مخالف ہے، بلکہ عملی حیثیت سے بھی انسان کی زندگی کے ان تمام پہلوئوں پر ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے جنھیں شرائع الٰہیہ اپنی گرفت میں لینا چاہتی ہیں۔{ پروفیسر لینن کہتا ہے: ’’نیشنلزم نے مذہب اور عقل و ضمیر دونوں کی جگہ چھین لی ہے۔ وہ انسان کی زندگی کے تمام شعبوں پر اسی طرح حاوی ہونا چاہتا ہے جس طرح کہ مذہب۔ آج جو شخص اس خدا کے سامنے جس کا نام قومی اسٹیٹ ہے جھکنے اور اپنے ضمیر کو قربان کر کے اس کی عبادت بجا لانے سے انکار کرتا ہے وہ شخصی آزادی اور حقوقِ شہریت سے محروم کر دیا جاتا ہے‘‘۔ (ملاحظہ ہو: Social Philosophies in consliet, p45) } اب ایک مردِ عاقل کے لیے صرف یہی ایک صورت باقی ہے کہ دل و دماغ اور جسم و جان کا مطالبہ کرنے والے ان دونوں مدعیوں میں سے کسی ایک کو پسند کرکے اپنے آپ کو اس کے حوالے کردے اور جب ایک کی آغوش میں چلا جائے تو دوسرے کا نام تک نہ لے۔

دنیا نیشنلزم کی لعنت میں کیوں مبتلا ہے؟

اس میں شک نہیں کہ موجودہ زمانہ میں آزادی اور ترقی اور وقار و شرف حاصل کرنے کا ایک ہی مجرب نسخہ دنیا کی قوموں کو معلوم ہے اور وہ یہی نیشنلزم کا نسخہ ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہروہ قوم جو اُبھرنا چاہتی ہے اسی نسخہ کی طرف دوڑنے لگتی ہے، مگر قبل اس کے کہ دوسروں کو اس کی طرف دوڑتے دیکھ کر ہم بھی اسی کی طرف دوڑ جائیں، ہمیں سوچنا چاہیے کہ دنیا کی یہ حالت کیوں ہے… دنیا اس حالت میں صرف اس لیے مبتلا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی خواہشات کو ضابطہ میں لانے والی، حوصلوں اور تمنائوں کو جائز حدود میں رکھنے والی سعی و عمل کی قوتوں کو سیدھا راستہ دکھانے والی اور آزادی، ترقی اور عزت و وقار کے حصول کا صحیح طریقہ بتانے والی کوئی تعلیم حکمت و اَخلاق دُنیا کے پاس نہیں ہے۔ اسی چیز نے قوموں کو بھٹکا دیا ہے ۔ یہی محرومی اور یہی فقدان ہے جس نے قوموں کو جاہلیت اور ظلم و عدوان کی طرف دھکیل دیا ہے۔ خود ہمارے اپنے ملک کے ہندو اور سکھ اور پارسی وغیرہ بھی جس وجہ سے مغرب کے قوم پرستانہ خیالات قبول کررہے ہیں وہ یہی ہے کہ یہ بیچارے اس ہدایت و رہنمائی سے محروم ہیں۔ اس مصیبت کا علاج اور اس گمراہی کی اصلاح اگر کہیں ہے تو وہ شرائع الٰہیہ میں ہے اور دنیا میں صرف مسلمان ہی وہ جماعت ہے جو شرائع الٰہیہ کی نمایندگی کرتی ہے، لہٰذا یہ مسلمان کا کام تھا کہ وہ آگے بڑھ کر اس عصبیت جاہلیہ کی جڑیں کاٹتا جو اکاس بیل کی طرح دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور دنیا کی ہرقوم کو بتاتا کہ تمھارے لیے نہ صرف آزادی، ترقی اور وقار و شرف کا بلکہ اس کے ساتھ سلامتی، امن اور حقیقی خوش حالی کا راستہ بھی وہی ہے جو خدا کی طرف سے اس کے رسول لائے ہیں نہ کہ وہ جو شیطان کی طرف سے فتنہ و شر کے امام تمھیں دکھا رہے ہیں لیکن یہ دورِحاضر کی سب سے زیادہ دردناک ٹریجڈی ہے کہ دنیا کو تباہی اور گمراہی سے بچانے والی وہ ایک ہی جماعت مسلمان جس کو اللہ نے زمین پر انبیاء علیہم السلام کا مشن قائم کرنے اور پھیلانے پر مامور کیا تھا، اپنے فرائضِ منصبی کو فراموش کربیٹھی ہے اور اب بجائے اس کے کہ وہ ہدایت کی شمع لے کر تاریکیوں میں بھٹکنے والی دنیا کو روشنی دکھائے وہ خود ان بھٹکنے والوں ہی کے پیچھے چلنے پر آمادہ ہورہی ہے۔ افسوس اس بیمارستان میں ایک ہی ڈاکٹر تھا اور وہ بھی بیماروں میں شامل ہوا جاتا ہے۔
مژدہ باد اے مگر! عیسیٰ آپ ہی بیمار ہے

نیشنلزم ہندوستان میں

پچھلے صفحات میں یہ بات اصولی حیثیت سے ہم ثابت کرچکے ہیں کہ اجتماعیات میں نیشنلزم کا نقطۂ نظر اسلام کے نقطۂ نظر سے کُلی طور پر متناقض ہے ، لہٰذا مسلمان اگر اس شخص کا نام ہے جو زندگی کے ہرمعاملہ میں اسلامی نقطۂ نظر رکھتا ہو اور اگر اس کے سوا لفظ مسلمان کا کوئی دوسرا مفہوم نہیں ہے تو یہ بات آپ سے آپ لازم ہوجاتی ہے کہ مسلمان جہاں اور جس حال میں بھی ہو اسے نیشنلزم کی مخالفت کرنی چاہیے۔ یہ اصول طے ہوجانے کے بعد درحقیقت اس سوال میں کوئی خاص اہمیت باقی نہیں رہتی کہ کسی خاص ملک کی تحریک قوم پرستی میں مسلمان کا رویہ کیا ہو، لیکن جب ہم سے یہ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ دیکھیں کہ یہاں نیشنلزم کے فروغ پانے کا نتیجہ کیا ہے یا کیا ہوسکتا ہے اور یہ کہ آیا فی الواقع ہندوستان کی نجات اسی طریقہ میں ہے؟

نیشنلزم کے لوازم

کسی ملک میں نیشنلزم پیدا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں پہلے سے ایک قومیت موجود ہو یا اگر وہ پہلے سے موجود نہیں ہے تو اب وجود میں آئے کیونکہ جہاں قومیت ہی سرے سے موجود نہ ہو وہاں قوم پرستی کسی طرح پیدا نہیں ہوسکتی۔ قوم پرستی تو قومیت کے استعمال ہی کا دوسرا نام ہے۔ جب شعلہ ہی موجود نہ ہوگا تو اشتعال کیسے ہوگا؟
اب دیکھنا چاہیے کہ قوم پرستی کا شعلہ بھڑکنے کے لیے کس قسم کی قومیت درکار ہے۔
قومیت کی ایک قسم وہ ہے جسے سیاسی قومیت (Political Nationality) کہتے ہیں، یعنی جو لوگ ایک سیاسی نظام سے وابستہ ہوں وہ محض اس وحدت سیاسی کے لحاظ سے ایک قوم سمجھے جاتے ہیں۔ اس نوع کی قومیت کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ جو لوگ اس میں شریک ہوں ان کے جذبات و حسیات ان کے خیالات و نظریات ان کے اَخلاقی خصائص ان کی روایات ان کی زبان اور لٹریچر اور ان کے طرزِ زندگی میں کسی قسم کی یکسانی پائی جائے۔ ان تمام حیثیات سے بالکل مختلف ہونے کے باوجود ان کی ایک سیاسی قومیت ہوتی ہے اور اس وقت تک رہتی ہے جب تک کہ وہ ایک سیاسی نظام سے وابستہ رہیں۔ اگر ان کے مختلف گروہ آپس میں باہم متضاد ہوں اور وہ ایک دوسرے کے خلاف عملاً جدوجہد کر رہے ہوں تب بھی ان کی سیاسی قومیت ایک ہی رہتی ہے… قومیت کا لفظ ایسی وحدت کے لیے بولا ضرور جاتا ہے مگر ظاہر ہے کہ یہ وہ قومیت نہیں ہے جس کی بنیاد پر کہیں قوم پرستی پیدا ہوسکتی ہو۔
دوسری قسم کی قومیت وہ ہے جسے تہذیبی قومیت (Cultural Nationality) کہا جاتا ہے۔ یہ قومیت صرف ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جن کا مذہب ایک ہو، جن کے خیالات و نظریات اور جذبات و حسیات یکساں ہوں جن میں ایک ہی طرح کے اَخلاقی اوصاف پائے جاتے ہوں، جو زندگی کے تمام اہم معاملات میں ایک مشترک زاویۂ نگاہ رکھتے ہوں اور اسی زاویۂ نگاہ کے اثر سے ان کی زندگی کے تہذیبی و تمدُّنی مظاہر میں بھی یک رنگی پیدا ہوگئی ہو، جو پسندیدگی اور حُرمت و حلت اور تقدیس و استکراہ کے مشترک معیار رکھتے ہوں جو ایک دوسرے کے احساسات کو سمجھتے ہوں جن میں آپس کی شادی بیاہ اور مشترک معاشرت کی وجہ سے خونی اور قلبی رشتے پیدا ہوگئے ہوں جنھیں ایک قسم کی تاریخی روایات حرکت میں لاسکتی ہوں، مختصر یہ کہ جو ذہنی، روحانی، اَخلاقی اور تمدُّنی و معاشرتی حیثیت سے ایک گروہ، ایک جماعت، ایک وحدت بن گئے ہوں… قوم پرستی اگر پیدا ہوسکتی ہے تو صرف اسی قومیت کی بنیاد پر ہوسکتی ہے جن لوگوں میں یہ قومیت پائی جاتی ہے۔ صرف انھی کے درمیان ایک مشترک نیشنل ٹائپ اور ایک مشترک نیشنل آئیڈیا کا نشوونما ہوتا ہے۔ اسی نیشنل ٹائپ کے عشق اور نیشنل آئیڈیا کے استحکام سے نیشنلزم کا آغاز ہوتا ہے۔ یہی چیز آگے بڑھ کر وہ قومی خودی (Nationalself) پیدا کردیتی ہے جس میں فرد اپنی انفرادی خودی کو جذب کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ پھر جب قومی خودی کے ارتقاء میں کوئی واقعی یا خیالی چیز مانع ہوتی ہے تو اس کو دفع کرنے کے لیے وہ جذبہ مشتعل ہوتا ہے جس کا نام نیشنلزم ہے۔

کیا ہندوستان کی نجات نیشنلزم میں ہے؟

اس تجزیہ کو سامنے رکھ کر ہندوستان کے حالات پر نظر ڈالیے۔کیا فی الواقع یہاں نیشنلزم کی بنیاد موجود ہے؟ بلاشبہ سیاسی قومیت یہاں ضرور پائی جاتی ہے کیوں کہ یہاں کے باشندے ایک سیاسی نظام کے تابع ہیں۔ ایک قسم کے قوانین ان کی تمدُّنی و معاشی زندگی پر حکمران ہیں اور ایک فولادی ڈھانچہ ان سب کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے مگر جیساکہ ہم اُوپر بیان کرچکے ہیں محض سیاسی قومیت قوم پرستی پیدا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ یہ قومیت آسٹریا، ہنگری، برطانیہ و آئرلینڈ، سلطنت روس، سلطنت عثمانیہ، چیکوسلواکیہ، یوگوسلاویہ اور بہت سی دوسری سلطنتوں میں بھی پائی جاتی تھی اور اب بھی بکثرت ملکوں میں پائی جاتی ہے مگر کہیں بھی اس نے نیشنلزم پیدا نہیں کیا۔ آزادی کے جذبہ میں مشترک ہونا یا مصائب و خطرات میں مشترک ہونا بھی نیشنلزم کی پیدائش کے لیے کافی ہے۔ نیشنلزم اگر پیدا ہوسکتا ہے تو صرف تہذیبی قومیت ہی سے پیدا ہوسکتا ہے اور وہ شخص جو آنکھیں رکھتا ہو اس حقیقت کو دیکھ سکتا ہے کہ ہندوستان کے باشندوں میں تہذیبی قومیت موجود نہیں ہے۔
پھر جب امرِواقعی یہ ہے تو یہاں نیشنلزم کا ذکر کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ جہاں سرے سے ماں ہی نہیں ہے وہاں بچے کا ذکر کرنا ظاہر ہے کہ نادانی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے ۔ جو لوگ اس ملک میں نیشنلزم کو فروغ دینے کا خیال ظاہر کرتے ہیں انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ بچہ تہذیبی قومیت ہی کے بطن سے پیدا ہوسکتا ہے اور اس کے پیدا ہونے سے پہلے اس کی ماں کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ اس حقیقت کو جب وہ اچھی طرح جان لیں گے تو انھیں اپنے دعوے میں ترمیم کرنی پڑے گی۔ قبل اس کے کہ ہندوستان میں نیشنلزم کو فروغ دینے کا نام لیں انھیں یہ کہنا پڑے گا کہ یہاں ہم ایک تہذیبی قومیت پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہندوستانی نیشنلزم فروغ پاسکے۔

ہندوستانی نیشنلزم کس طرح پیدا ہوسکتا ہے؟

اچھا اب اس سوال پر غور کیجیے کہ یہاں ایک تہذیبی قومیت کس طرح پیدا ہوسکتی ہے اور اس کے اِمکانی نتائج کیا ہوں گے؟
جس ملک میں مختلف تہذیبی قومیتیں پائی جاتی ہوں، وہاں ایک قومیت کی پیدائش دو ہی صورتوں سے ممکن ہے:
۱- ایک قوم کی تہذیب باقی سب قوموں کو فتح کرلے، یا
۲- سب کے اختلاط اور امتزاج سے ایک مشترک تہذیب پیدا ہوجائے۔
پہلی صورت یہاں خارج از بحث ہے کیونکہ ہندوستانی نیشنلزم کے حامی اس کو اپنا نصب العین نہیں بنا سکتے۔ یہ چیز اگر نصب العین بن سکتی ہے تو ’’ہندو نیشنلزم‘‘ یا ’’مسلم نیشنلزم‘‘{ بظاہر یہ لفظ ’’مسلم‘‘ اور ’’نیشنلزم‘‘کا اجتماع نہایت عجیب معلوم ہوتا ہے لیکن اس عجائب کی دُنیا میں ایسی عجیب چیزیں بھی پیدا ہو ہی جاتی ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں میں اس وقت دو قسم کے نیشنلسٹ پائے جاتے ہیں: ایک ’’نیشنلسٹ مسلم‘‘ یعنی وہ لوگ جو مسلمان ہونے کے باوجود ہندوستان کی مشترک قومیت کے قائل اور اس کے پرستار ہیں۔ دوسرے ’’مسلم نیشنلسٹ‘‘ یعنی وہ لوگ جنھیں اسلام کے اصول و مقاصدسے تو کوئی دلچسپی نہیں مگر ’’مسلمان‘‘ کے نام سے جو ایک قوم بن گئی ہے اس کے سیاسی و معاشی مفاد اور اس کی انفرادیت (Individuality) سے محض اس بنا پر دلچسپی ہے کہ وہ اس قوم میں پیدا ہوتے ہیں۔ اسلام کے نقطۂ نظر سے یہ دونوں قوم پرست یکساں گمراہ ہیں کیونکہ اسلام صرف حق پرستی کا قائل ہے اور کسی قسم کی قوم پرستی کو جائز نہیں رکھتا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ دونوں قوم پرست اپنی اس غیراسلامی حیثیت کے شعور سے محروم ہیں۔ خصوصاً دوسری قسم کے لوگ تو اپنے آپ کو اس وقت ہندستان میں اسلام کا علَم بردار سمجھ رہے ہیں حالانکہ ان کی پوزیشن ہندو نیشنلسٹ کی پوزیشن سے کچھ بھی مختلف نہیں۔ ہندو نیشنلسٹ چونکہ ہندو قوم میں پیدا ہوا ہے اس لیے وہ ان لوگوں کا بول بالا کرنا چاہتا ہے جو ہندو ہوں اور یہ مسلم نیشنلسٹ چونکہ مسلمان نامی قوم میں پیدا ہو ئے ہیں، اس لیے یہ ان لوگوں کا بول بالا کرنا چاہتے ہیں جو اس قوم سے تعلق رکھتے ہوں۔ کسی اخلاقی مقصد اور کسی اصولی مسلک کو نہ وہ لے کر اُٹھتا ہے نہ یہ اس کی طرح ان کو بھی یہ بات مطمئن کردے گی کہ اقتدار کی مسند پر ’’مسلمان‘‘ متمکن ہوں خواہ ان کی حکومت سراسر غیراسلامی اصولوں پر ہی کیوں نہ قائم ہو اور ان کا طرزِعمل غیرمسلموں کے طرزِعمل سے کچھ بھی مختلف نہ ہو۔ } کے حامیوں کی بن سکتی ہے۔ رہے ہندوستانی نیشنلسٹ تو ان کے درمیان اتفاق صرف دوسری صورت پر ہی ہوسکتا ہے۔
چنانچہ ان کے حلقوں میں اکثر اس مسئلہ پر بحث بھی ہوتی ہے کہ اس ملک کی مختلف قوموں کے امتزاج سے کسی طرح ایک قومیت پیدا کی جائے لیکن اس سلسلہ میں وہ ایسی طفلانہ باتیں کرتے ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو وہ تہذیبی قومیت کے حقیقی مفہوم کو سمجھتے ہیں نہ انھیں یہ خبر ہے کہ اس قسم کی قومیتوں کا امتزاج کس طرح کن قوانین کے تحت ہوتا ہے، اور نہ انھوں نے کبھی اس پہلو پر غور کیا ہے کہ ایسے امتزاج سے کس شان کی قومیت بنتی ہے۔ وہ اسے بچوں کا کھیل سمجھتے ہیں اور بچوں ہی کی طرح اس کھیل کو کھیلنا چاہتے ہیں۔{ FR 6429 }
تہذیبی قومیت دراصل نام ہے ایک قوم کے مزاجِ عقلی اور نظامِ اَخلاقی کا اور یہ چیز مصنوعی طور پر ایک دو دن میں نہیں بن جاتی بلکہ صدیوں میں اس کا نشوونما فطری تدریج کے ساتھ ہوتا ہے۔ صدہا برس تک جب کچھ لوگ نسلاً بعد نسل ایک قسم کے عقائد اور رسوم و عادات کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں تب کہیں جاکر ان میں ایک مشترک روح پیدا ہوتی ہے۔ مشترک اَخلاقی اوصاف مستحکم ہوتے ہیں، ایک مخصوص مزاجِ عقلی بنتا ہے۔ وہ روایات جڑ پکڑتی ہیں جن سے ان کے جذبات و حسیات (Sentiments) وابستہ ہوتے ہیں۔ وہ لٹریچر پیدا ہوتا ہے جو ان کے دل و دماغ کا ترجمان ہوتا ہے اور وہ ذہنی، روحانی، یک رنگی رُونما ہوتی ہے جس سے ان میں باہمی انس اور تفاہم (Mutual Intelligibility) پیدا ہوتا ہے۔ پھر جب ان گہرے اور مضبوط اثرات کے تحت کسی گروہ کی مستقل قومیت بن جاتی ہے یا دوسرے الفاظ میں جب اس کا اَخلاقی اور عقلی مزاج مستحکم ہوجاتا ہے تو اس کے لیے کسی دوسری قومیت میں تبدیل ہو جانا تقریباً محال ہوتا ہے۔ بسااوقات ایسے گروہ سینکڑوں برس تک ایک ہی آب و ہوا اور ایک ہی سرزمین میں پہلو بہ پہلو رہتے ہیں مگر کسی قسم کا امتزاج واقع نہیں ہوتا۔ یورپ میں جرمن مگیارپول چیک یہودی سلافی اور ایسی دوسری قومیں مدتوں سے ایک جگہ زندگی بسر کر رہی ہیں مگر آج تک ان کے درمیان امتزاج پیدا نہیں ہوا، انگریز اور آئرش صدیوں ایک ساتھ رہے مگر کسی طرح مل کر ایک نہ ہوسکے۔ کہیں کہیں ایسے گروہوں کی زبانیں بھی مشترک ہوتی ہیں مگر زبان کے اِشتِراک سے دل و دماغ کا اِشتِراک رُونما نہیں ہوتا۔ الفاظ مشترک ہوتے ہیں مگر وہ ہرقوم کے دل میں جو جذبات و خیالات پیدا کرتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔
یک جا بود و باش اور طویل مدت تک باہمی اختلاط سے مختلف تہذیبی گروہوں کا مل کر ایک صحیح قسم کی مکمل اور متَّحدہ قومیت پیدا کرنا اس صورت میں ممکن ہے اور صرف اسی صورت میں وہ اعلیٰ درجہ کے تمدُّنی نتائج پیدا کرسکتا ہے جب کہ ایسے گروہوں کے نظامِ اَخلاقی اور مزاجِ عقلی میں کوئی بڑا اور اہم تفاوُت نہ ہو بلکہ وہ بڑی حد تک متشابہ ا لاَخلاق ہوں۔ اس صورت میں ان کی الگ الگ خصوصیات اور ان کے جداگانہ قومی تشخصات مٹ جاتے ہیں اور ایک متَّحد نظامِ اَخلاق بن جاتا ہے مگر یہ عمل بھی اس طرح نہیں ہوتا جیسے ہتھیلی پر سرسوں جمائی جائے بلکہ مدت ہائے دراز تک کسروانکسار ہوتا رہتا ہے تب کہیں مختلف اجزاء میں گھل مل کر ایک مزاج پیدا ہوتا ہے۔
انگلستان میں برائٹن، ہیکسن اور نارمنڈی قوموں نے ایک قوم بنتے بنتے سینکڑوں برس لیے ہیں۔ فرانس میں دس صدیوں سے یہ عمل جاری ہے اور اب تک قومیت کا خمیر پوری طرح تیار نہیں ہوسکا ہے۔ اٹلی میں اس وقت تک کوئی قومی روح پیدا نہیں ہوسکی ہے حالانکہ وہ مختلف عناصر جن سے اطالوی قومیت کی ترکیب ہوئی ہے اَخلاقی حیثیت سے باہم کوئی بین تفاوت نہیں رکھتے۔ ممالک متَّحدہ امریکا میں ایک قومیت صرف ان عناصر کے امتزاج سے بن سکی ہے جو بہت کچھ متشابہ الاَخلاق تھے اور جن کو اَغراض نے مجبور کر دیا تھا کہ اپنے خفیف سے اختلاف و تفاوت کو جلدی سے دفن کر کے یک جان ہوجائیں تاہم اس عمل نے بھی پایۂ تکمیل کو پہنچتے پہنچتے ڈھائی تین سو برس لیے ہیں۔
متشابہ الاَخلاق قوموں کے امتزاج سے ایک صحیح اور عمدہ قسم کی قومیت بننا صرف اس لیے ممکن ہوتا ہے کہ انھیں اس عمل امتزاج کے دوران میں اپنے عقائد و نظریات اور اپنے اَخلاقی معیاروں کو طلاق دینے اور اپنے اعلیٰ درجہ کے اَخلاقی اوصاف کو جڑ سے اُکھاڑنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ یہ چیزیں ان کے درمیان پہلے ہی سے مشترک ہوتی ہیں صرف روایات کے رد و بدل اور جذبات و حسیات اور مقاصد و اَغراض کی جدید تنصیب (Readjustment)ہی سے ان کی نئی قومیت بن جاتی ہے ،بخلاف اس کے جہاں مختلف الاَخلاق قوموں میں کسی مصنوعی دبائو، کسی جعلی کوشش اور بعض ادنیٰ درجہ کے محرکات سے امتزاج واقع ہوتا ہے وہاں ایک نہایت ذلیل قسم کی قومیت پیدا ہوتی ہے کیونکہ اس صورت میں ان کے عقائد کی جڑیں ہل جاتی ہیں۔ ان کے اعلیٰ درجہ کے اَخلاقی خصائص (جو ان کے امتیازی اوصاف تھے اور جن کی موجودگی میں امتزاج ممکن نہ تھا) مٹ جاتے ہیں ان کے حسیات ملّی جن پر ان کی قومیت کی اساس قائم تھی فنا ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے ہرقوم کو اپنے اپنے معیارات فضل و شرف بدلنے پڑتے ہیں اور ان کی نئی قومیت ان میں سے ہر ایک کے رذائل اَخلاق کا مجموعہ بن کر رہ جاتی ہے۔ اس نوعیت کا امتزاج قوموں کے نظامِ اَخلاق کا مجموعہ بن کر رہ جاتی ہے۔ اس نوعیت کا امتزاج قوموں کے نظامِ اَخلاق کو درہم برہم کردیتا ہے اور نیا نظام اَخلاق بننے کے لیے ایک طویل مدت درکار ہوتی ہے۔ اپنی اپنی سابق روایات سے ان کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے اور نئی روایات بننے میں بہت دیر لگتی ہے۔ اپنے اپنے نیشنل ٹائپ کو وہ خود مسمار کردیتے ہیں اور نیا ٹائپ ڈھلنے کے لیے بڑا وقت لیتا ہے ۔ اس خطرناک حالت میں جو لوگ مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان کی سیرت میں کوئی مضبوطی نہیں ہوتی۔ وہ دنئیُ الاَخلاق کم ظرف، تنگ حوصلہ ،چھچھورے ،متلوَّن اور بے اصول ہوتے ہیں۔ ان کی حالت اس پتے کی سی ہوتی ہے جو درخت سے ٹوٹ کر میدان میں جاپڑا ہو اور ہوا کے ہرجھونکے کے ساتھ ساتھ اُڑتا پھرتا ہو، کہیں اس کو قرار نہ ہو۔
برازیل (جنوبی امریکا) میں مختلف الاَخلاق قوموں کے اختلاط و امتزاج کا حال جن لوگوں نے دیکھا ہے وہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ بلاتمام اُن قوموں کے محاسن کو یکساں طور پر برباد کررہی ہے جو اس کے زیراثر آگئی ہیں اور اس کی بدولت وہاں عقلی، اَخلاقی اور جسمانی حیثیت سے نہایت گھٹیا درجہ کی نسل پیدا ہورہی ہے۔
ہندوستان میں جو تہذیبی قومیتیں پائی جاتی ہیں انھیں کوئی ایسا شخص متشابہ الاَخلاق نہیں کَہ سکتا جو اجتماعیات میں کچھ بھی بصیرت رکھتا ہو اور جو سیاسی خواہشات سے قطع نظر کرکے محض حقائق نفس الامری کی بنا پر رائے قائم کرتا ہو۔ ان قوموں کے درمیان اس سے زیادہ گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں جتنے یورپ کی مختلف تہذیبی قومیتوں کے درمیان موجود ہیں۔ یہاں عقائد میں بعدالمشرقین ہے۔ اصولِ تہذیب ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔نظامِ اَخلاق میں بین تفاوت ہے۔ روایات کے سرچشمے قطعی طور پر الگ الگ ہیں، جذبات و حسیات باہم متناقض ہیں اور ایک کا نیشنل ٹائپ اپنے خط و خال میں دوسرے کے نیشنل ٹائپ سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا۔ یہاں محض سیاسی و معاشی اَغراض کی خاطر ان مختلف قومیتوں کو مٹاکر ایک ممزوج و مخلوط قومیت پیدا کرنے کی کوشش لامحالہ وہی نتیجہ پیدا کرے گی جس کی طرف ہم نے پہلے اشارہ کیا ہے۔ بدقسمتی سے ڈیڑھ سو سال کے انگریزی اقتدار نے ان قوموں کو پہلے ہی اَخلاقی انحطاط میں مبتلا کردیا ہے۔ غلامی کا گھن ان کے جوہرِشرافت کو پہلے ہی کھاچکا ہے۔ ان کی سیرتیں کمزور ہوچکی ہیں۔ ان کے عقائد جڑوں سے ہل چکے ہیں، ان کا تعلق اپنی روایات سے بہت کچھ ٹوٹ گیا ہے۔ ان کے نیشنل ٹائپ مضمحل ہوگئے ہیں۔ ان کا معیار اَخلاق پست ہوگیا ہے۔ ان کے اَخلاقی خصائص میں استحکام باقی نہیں رہا ہے اور نئی نسلوں میں اس تنزُّل و انحطاط کے نہایت مکروہ نتائج دیکھے جارہے ہیں۔ اس حالت میں قوم سازی کا عمل جاری کرنے کے لیے جب ان کی رہی سہی تہذیبی بنیادوں پر ضرب لگائی جائے گی تو یقین رکھیے کہ پورے ملک کا نظامِ اَخلاق درہم برہم ہوجائے گا اور اس کے نتائج نہایت ہولناک ہوں گے۔

کیا ہندوستان کا کوئی بہی خواہ یہاں نیشنلزم کا خواہش مند ہوسکتا ہے؟

وہ محض طفلانہ خام خیالی ہے جس کی بنا پر اس ملک کے سیاسی لیڈر بغیر سوچے سمجھے رائے قائم کرلیتے ہیں کہ اجنبی طاقت کے تسلُّط سے نجات حاصل کرنے کے لیے یہاں نیشنلزم پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور نیشنلزم پیدا کرنے کے لیے ایک قومیت بنانے کی حاجت ہے۔ لہٰذا تمام موجودہ قومیتوں کو مٹا دو اور سب کی ایک قومیت بنا ڈالو۔حالانکہ اگر ان لوگوں میں صحیح بصیرت موجود ہو اور یہ مغرب کی ذہنی غلامی سے آزاد ہوکر خود سوچنے سمجھنے کی کوشش کریں تو انھیں معلوم ہوجائے کہ یہ راستہ ہندوستان کی نجات کا نہیں اس کی تباہی کا ہے۔
اوّلاً اس راستے سے آزادی حاصل کرنا درحقیقت نہایت دیرطلب کام ہے۔ سینکڑوں ہزاروں برس کی روایات پر جو تہذیبی قومیتیں قائم ہیں ان کا مٹنا، ان کی جگہ ایک نئی قومیت کا وجود میں آنا اور پھر اس قومیت کا مستحکم اور مشتعل ہوکر نیشنلزم کی حد تک پہنچنا کھیل نہیں ہے۔ اس کے لیے بہرحال ایک طویل مدت درکار ہے اور اگر آزادی کا حصول اسی پر موقوف ہے تو ہندوستان کو کم از کم ابھی دو تین نسلوں تک اس کا انتظار کرنا پڑے گا۔
ثانیاً اگر اس راستے سے آزادی حاصل ہوبھی جائے تو جیساکہ ہم اُوپر دیکھ چکے ہیں اس میں خطرہ یہ ہے کہ آخرکار تمام ملک اَخلاقی انحطاط کے ہاویہ میں گرجائے گا۔
ثالثاً یہ ایک یقینی امر ہے کہ جن قوموں کو اپنی انفرادیت سے کچھ بھی لگائو باقی ہے وہ اس نوعیت کی قوم سازی کے خلاف پوری جدوجہد کریں گی اور اس کش مکش میں آزادیٔ وطن کے لیے کوئی متَّحدہ کوشش نہ کی جاسکے گی۔لہٰذا اجنبی تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے شاید یہ دُور کا راستہ بھی نہیں ہے کجا کہ قریب کا راستہ ہو۔ اگر اس راستہ کو اختیار کرنے پر یوں ہی اصرار کیا جاتا رہا تو کچھ بعید نہیں کہ سیاسی آزادی کا خواب کبھی شرمندئہ تعبیر ہو ہی نہ سکے۔
ان وجوہ سے میرے نزدیک وہ لوگ سخت نادان ہیں جو محض مغربی قوموں کی تقلید میں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ملکی آزادی کے لیے بس نیشنلزم ہی ایک کارگر آلہ ہے۔ میں پہلے بھی بارہا کَہ چکا ہوں اور اب پھر کہتا ہوں کہ ہندوستان کی آزادی اور سیاسی و معاشرتی ترقی کے لیے سرے سے قومی وحدت اور نیشنلزم کی حاجت ہی نہیں ہے جہاں مختلف تہذیبی قومیتیں موجود ہوں وہاں قومی وحدت قائم کرنے کی کوشش کرنا نہ صرف یہ کہ غیرضروری ہے نہ صرف یہ کہ اصولاً غلط ہے بلکہ نتائج کے اعتبار سے بھی مفید ہونے کے بجائے اُلٹا نقصان دہ ہے۔ اس جگہ وحدت نہیں بلکہ وفاق کے اصول (Federal Principles) ہی چل سکتے ہیں۔ ہرقوم کی مستقل حیثیت تسلیم کی جائے۔ ہر ایک کو اپنے قومی معاملات میں آزاد خودمختار قرار دیا جائے اور صرف مشترک وطنی اَغراض کی حد تک تمام قوموں کے درمیان اتفاقِ عمل (Joint action) کا معاہدہ ہوجائے بس یہی ایک صورت ہے جس سے ملک کی تمام جماعتوں میں اپنی انفرادیت کی بقاو تحفظ کا اطمینان پیدا ہوسکتا ہے اور یہی چیز ملک کی تمام قوتوں کو سیاسی ترقی کی جدوجہد میں ایک محاذ جنگ پر مجتمع کرسکتی ہے۔

فرنگی لباس

اب مجھے چند الفاظ مولانا سندھی کے اس آخری فقرے کے متعلق بھی عرض کرنے ہیں جس میں انھوں نے نکر اور پتلون اور ہیٹ کے استعمال کا مشورہ دیا ہے۔
یہ مشرقی قوم پرست بھی کچھ عجیب قسم کی مخلوق ہیں۔ ایک طرف یہ بڑے زور شور کے ساتھ قوم پرستی کا پرچار کرتے ہیں دوسری طرف انھیں غیرقوم اور غیرملک کا لباس و تمدُّن اختیار کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا اور اس پر بھی بس نہیں۔ یہ اس اجنبی لباس و تمدُّن کو اپنی قوم میں رواج دینے کی اس طرح کوشش کرتے ہیں کہ گویا یہ بھی قوم پرستی کے پروگرام کا کوئی حصہ ہے حتیٰ کہ جہاں ان کا بس چلتا ہے وہاں یہ زبردستی اس کو لوگوں کے سرمنڈھنے میں بھی دریغ نہیں کرتے۔ ہندوستان، ایران، مصر، ترکی ہر جگہ ان حضرات کی یہی روش ہے حالانکہ قوم پرستی… اگر اس لفظ کے مفہوم میں قومی غیرت کا کچھ بھی حصہ ہو… اس بات کی فطری طور پر متقاضی ہے کہ آدمی خود اپنی قوم کے لباس اور طرزِ تمدُّن پر قائم رہے، اسی میں عزت اور شرف محسوس کرے اور اسی پر فخر کرنا سیکھے جہاں سرے سے یہ چیز بالکل ہی مفقود ہے وہاں قوم پرستی خدا جانے کہاں سے آجاتی ہے۔ غیرتِ قومی کا فقدان اور قوم پرستی دونوں صریح طور پر ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ خیالات اور اعمال میں تناقض سے محفوظ رہنے کے لیے ذہنِ سلیم اور نظرِ سدید درکار ہے اور یہ چیز اگر حاصل ہو تو آدمی فطرت کی سیدھی صاف راہ چھوڑ کر قوم پرستی ہی کیوں اختیار کرے۔
اسلام اس معاملہ میں بھی ان حضرات کا ساتھ دینے سے انکار کرتا ہے۔ زندگی کے ہرمعاملہ میں سیدھا ، صاف، معقول اور فطری راستہ جو ہوسکتا ہے اسی کا نام اسلام ہے اور وہ جس طرح قومیت کے مبالغے اور اس کی افراط یعنی قوم پرستی کا ساتھ نہیں دیتا۔ اسی طرح کسی ایسی چیز کا بھی ساتھ نہیں دیتا جو قومیت کی جائز فطری حدبندیوں کو توڑنے والی اور قوموں کی انفرادیت (Individuality) یا ان کے امتیازی خصائص کو مٹانے والی، اور ان کے اندر رذائل اَخلاق پیدا کرنے والی ہو۔
قرآنِ مجید ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انسان اگرچہ سب ایک ہی اصل سے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان دو قسم کے امتیاز رکھے ہیں: ایک عورت اور مرد کا امتیاز، دوسرا نسب اور قبیلہ اور قومیت کا امتیاز۔
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا (الحجرات:۱۳)
’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور تمھیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو‘‘۔
وَاَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰى۝۴۵ۙ (النجم:۴۵)
’’اوراللہ نے مرد اور عورت دو صنفیں پیدا کیں‘‘۔
یہ دونوں قسم کے امتیازات انسانی تمدُّن اور اجتماعی زندگی کی بنیاد ہیں اور فطرتِ الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ ان کو صحیح حدود کے ساتھ باقی رکھا جائے۔ عورت اور مرد کا امتیاز اس لیے ہے کہ ان کے درمیان نفسیاتی کشش ہو، لہٰذا ضروری ہوا کہ تمدُّن و معاشرت میں دونوں کے اوصافِ امتیازی پوری طرح محفوظ رکھے جائیں اور قوموں کا امتیاز اس لیے ہے کہ تمدُّنی اَغراض کے لیے انسانوں کے ایسے اجتماعی دائرے اور حلقے بن سکیں جن کے درمیان آسانی کے ساتھ باہمی تعاون ہوسکے، لہٰذا ضروری ہوا کہ ہر گروہ یا ہر تمدُّنی و اجتماعی حلقے کے کچھ امتیازی اوصاف ہوں جن کے ذریعہ سے ایک حلقہ کے آدمی ایک دوسرے کو پہچان سکیں، باہم مانوس ہوں، ایک دوسرے کو سمجھ سکیںاور دوسرے حلقوں کے آدمیوں میں فرق کرسکیں۔ اس قسم کے امتیازی اوصاف ظاہر ہے کہ زبان، لباس، طرزِ زندگی اور شانِ تمدُّن ہی ہوسکتے ہیں۔ پس یہ عین فطرت کا تقاضا ہے کہ ان کی حفاظت کی جائے۔
اسی بنا پر اسلام میں تشبُّہ کی ممانعت کی گئی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبیﷺ نے لعنت فرمائی ہے اس عورت پر جو مرد کا سا لباس پہنے اور اس مرد پرجو عورت کا سا لباس پہنے۔{ المستدرک، جلد۴،ص ۱۹۴ } دوسری حدیث میں ہے کہ آپؐ نے ملعون قرار دیا ان مردوں کو جو عورتوں کے مشابہ بنیں اور ان عورتوں کو جو مردوں کے مشابہ بنیں۔{ بخاری، کتاب اللباس } یہ اس لیے کہ عورت اور مرد کے درمیان جو نفسیاتی کشش اللہ نے رکھی ہے یہ تشبہ اس کو دباتا اور گھٹاتا ہے اور اسلام اس کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اسی طرح قوموں کے لباس و تمدُّن اور شعائر کو بھی مٹانا اور انھیں خلط ملط کرنا اجتماعی مفاد و مصالح کے خلاف ہے۔ لہٰذا اسلام اس کی بھی مخالفت کرتا ہے۔ قومی امتیاز کو جب فطری حدود سے بڑھا کر قوم پرستی بنایا جائے گا تو اسلام اس کے خلاف جہاد کرے گا کیونکہ اس مادے سے جاہلانہ حمیت، ظالمانہ تعصب اور قیصریت کی تخلیق ہوتی ہے لیکن اسلام کی دشمنی قوم پرستی سے ہے نہ کہ قومیت سے۔ قوم پرستی کے برعکس قومیت کو وہ برقرار رکھنا چاہتا ہے اور اسے مٹانے کا بھی وہ ویسا ہی مخالف ہے جیساکہ اس کو حد سے بڑھانے کا مخالف ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں جو متوسط اور متوازن رویہ اسلام نے اختیار کیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل آثار بغور ملاحظہ فرمایئے:
۱- ایک صحابی نے پوچھا کہ عصبیت کیا چیز ہے؟ کیا آدمی کا اپنی قوم سے محبت کرنا عصبیت ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہیں، عصبیت یہ ہے کہ آدمی ظلم میں اپنی قوم کا ساتھ دے۔(ابن ماجہ)
۲- ’’فرمایا جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ اسی قوم میں شمار ہوگا‘‘۔ (ابودائود)
۳- حضرت عمرؓ نے آذر بائیجان کے گورنر عتبہ بن فرقد کو لکھا کہ ’’خبردار! اہلِ شرک یعنی باشندگانِ آذربائیجان کے لباس اختیار نہ کرنا‘‘۔(کتاب اللباس والزینۃ)
۴- حضرت عمرؓ نے اپنے تمام گورنروں کو عام احکام دیے تھے کہ غیرمسلم باشندوں کو اہلِ عرب کے لباس اور وضع و ہیئت اختیار کرنے سے روکیں حتیٰ کہ بعض علاقوں کے باشندوں سے صلح کرتے وقت باقاعدہ معاہدہ میں ایک مستقل دفعہ اس مضمون کی داخل کر دی گئی تھی کہ تم ہمارے جیسے لباس نہ پہننا۔ (کتاب الخراج، امام ابویوسف)
۵- جو اہلِ عرب فوجی یا ملکی خدمات کے سلسلہ میں عراق و ایران وغیرہ ممالک میں مامور تھے ان کو حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ باربار یہ تاکید کرتے تھے کہ اپنی زبان اور لہجہ کی حفاظت کریں اور عجمی بولیاں نہ بولنے لگیں۔ (بیہقی)
ان روایات سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ اسلام جس بین الاقوامیت کا علَم بردار ہے اس کا منشاء یہ ہرگز نہیں ہے کہ قوموں کی امتیازی خصوصیات کو مٹاکر انھیں خلط ملط کردیا جائے بلکہ وہ قوموں کو ان کی قومیت اور خصوصیات کے ساتھ برقرار رکھ کر ان کے درمیان تہذیب و اَخلاق اور عقائد و افکار کا ایک ایسا رشتہ پیدا کرنا چاہتا ہے جس سے بین الاقوامی کشیدگیاں، رکاوٹیں ، ظلم اور تعصبات دُور ہوجائیں اور ان کے درمیان تعاون و برادری کے تعلقات قائم ہوں۔
تشبہ کا ایک اور پہلو بھی ہے جس کی بنا پر اسلام اس کا سخت مخالف ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک قوم کے لوگ اپنی قومی خصوصیات کو صرف اسی وقت چھوڑتے ہیں جب ان کے اندر کوئی نفسی کمزوری اور اَخلاقی ڈھیل پیدا ہوجاتی ہے۔ جو شخص دوسروں کا اثر قبول کرکے اپنا رنگ چھوڑ دے اور ان کے رنگ میں رنگ جائے لامحالہ اس کے اندر تلون چھچورپن، سُرعت انفعال اور حفیف الحرکتی کا مرض ضرور ہوگا، اگر اس کی روک تھام نہ کی جائے گی تو یہ مرض ترقی کرے گا۔ اکثر لوگوں میں یہ پھیل گیا تو ساری قوم نفسیاتی ضعف میں مبتلا ہوجائے گی۔ اس کے اَخلاق اور خصائص کی مستحکم بنیادیں قائم ہی نہ ہوسکیں گی، لہٰذا اسلام کسی قوم کو بھی یہ اجازت دینے کے لیے تیار نہیں کہ وہ اپنے اندر اس نفسی بیماری کو پرورش کرے۔ مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ جہاں اس کا بس چلتا ہے وہ غیرمسلموں کو بھی اس سے بچانے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ وہ کسی انسان میں بھی اَخلاقی کمزوری دیکھنا نہیں چاہتا۔
خصوصیت کے ساتھ مفتوح و مغلوب لوگوں میں یہ مرض زیادہ پھیلتا ہے۔ ان کے اندر محض اَخلاقی ضعف ہی نہیں ہوتا بلکہ درحقیقت وہ اپنی نگاہوں میں آپ ذلیل ہوجاتے ہیں۔ اپنے آپ کو خود حقیر سمجھتے ہیں اور اپنے حکمرانوں کی نقل اُتار کر عزت اور فخر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ عزت، شرافت، بزرگی، تہذیب ، شائستگی ، غرض جس چیز کا بھی وہ تصور کرتے ہیں اس کا مثالی نمونہ انھیں اپنے آقائوں کی صورت ہی میں نظر آتا ہے۔ غلامی ان کے جوہر آدمیت کو اس طرح کھاجاتی ہے کہ وہ علانیہ اپنی ذلت اور پستی کا مجسم اشتہار بننے پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور اس میں شرم محسوس کرنے کے بجائے فخر محسوس کرتے ہیں۔{ہمارے اس بیان کی صداقت میں اگر کسی صاحب کو شک ہو تو وہ ہندوستان ہی میں انگریزوں اور ہندوستانیوں کے فرق کو دیکھ لیں۔ مٹھی بھر انگریز متفرق و پراگندہ ڈھائی سو برس سے کروڑوں ہندوستانیوں کے درمیان رہتے ہیں مگر ایک انگریز بھی آپ کو ایسا نہیں ملے گا جس نے ہندوستانی لباس اختیار کرلیا ہو، بخلاف اس کے ان ہندوستانیوں کا شمار کرنا بھی اب مشکل ہے جو سر سے پائوں تک انگریزنما بنے پھرتے ہیں اور لباس ہی میں نہیں بلکہ اپنی بول چال، انداز و اطوار ، حرکات و سکنات ہرچیز میں انگریز کا پورا چربہ اُتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آخر اس کی کیا توجیہ کی جائے گی؟}
اسلام جو انسان کو پستیوں سے اُٹھا کر بلندی کی طرف لے جانے آیا ہے ایک لمحہ کے لیے بھی اس کو جائز نہیں رکھتا کہ کوئی انسانی گروہ ذلت نفس کے اس اسفل السافلین میں گرجائے جس سے نیچے پستی کا کوئی اور درجہ ہے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں عجمی قومیں اسلامی حکومت کے زیرنگیں آئیں تو آپؓ نے ان کو سختی کے ساتھ اہلِ عرب کی نقالی سے روکا۔ اسلامی جہاد کا مقصد ہی باطل ہوجاتا اگر ان قوموں میں غلامانہ خصائل پیدا ہونے دیے جاتے۔ رسول اللّٰہﷺنے عربوں کو اسلام کا پرچم اس لیے نہیں دیا تھا کہ وہ قوموں کے آقا بنیں اور قومیں ان کے ماتحت غلامی کی مشق بہم پہنچائیں۔
ان وجوہ سے اسلام اس بات کا مخالف ہے کہ کوئی قوم دوسری قوم کا ہوبہو چربہ بننے کی کوشش کرے اور اس کے لباس و طرزِ معاشرت کی نقالی کرنے لگے۔رہا تہذیب و تمدُّن کا وہ لین دین جو ایک دوسرے سے میل جول رکھنے والی قوموں میںفطری طور پر واقع ہوتا ہے تو اسلام اس کو نہ صرف جائز رکھتا ہے بلکہ فروغ دینا چاہتا ہے۔ وہ قوموں کے درمیان تعصبات کی ایسی دیواریں کھڑی کرنا نہیں چاہتا کہ اپنے تمدُّن میں ایک دوسرے کی کوئی چیز سرے سے لیں ہی نہیں۔ رسول اللہ ﷺنے شامی جُبہ پہنا ہے جو یہودیوں کے لباس کا جز تھا۔ چنانچہ حدیث میں ہے: فَتَوَضَّأَ وَعَلَیْہِ جُبَّۃٌ شَامِیَۃٌ۔ آپؐ نے تنگ آستینوں والا رومی جبہ پہنا تھا جسے رومن کیتھولک عیسائی پہنتے تھے۔ نوشیروانی قبا بھی آپؐ کے استعمال میں رہی ہے جسے حدیث میں جبۃ طیالسۃ کسروانیۃ کے الفاظ سے ٍتعبیر کیا گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے برنس پہنی ہے جو ایک قسم کی اُونچی ٹوپی ہوتی تھی اور عیسائی درویشوں کے لباس کا جز تھی۔ اس قسم کی متفرق چیزوں کا استعمال تشبہ سے بالکل مختلف چیز ہے۔ تشبہ یہ ہے کہ آدمی کی پوری وضع قطع کسی دوسری قوم کے مانند ہو اور اس کو دیکھ کر یہ تمیز کرنا مشکل ہوجائے کہ وہ کس قوم سے تعلق رکھتا ہے بخلاف اس کے جسے ہم ’’لین دین‘‘ کے لفظ سے تعبیر کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کی کوئی اچھی یا مناسب حال چیز لے کر اسے اپنی وضع قطع کا جز بنا لے، اور اس جز کے شامل ہونے پر بھی اس کی قومی وضع بحیثیت مجموعی قائم رہے۔(ترجمان القرآن، ۱۳۵۸ھ){ اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو میرا مضمون ’’لباس کا مسئلہ اجتماعی و شرعی نقطۂ نظر سے‘‘

(ترجمان، جنوری ۴۰ء) و تفہیمات، حصہ دوم }

اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم

زمانہ حال میں مسلمانوں کی جماعت کے لیے لفظ ’’قوم‘‘ کا استعمال کثرت کے ساتھ کیا گیا ہے اور عموماً یہی اصطلاح ہماری اجتماعی حیثیت کو ظاہر کرنے کے لیے رائج ہوچکی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے اور بعض حلقوں کی طرف سےاس کا ناجائز فائدہ اُٹھانے کی بھی کوشش کی گئی ہے کہ قرآن اور حدیث میں مسلمانوں کے لیے لفظ ’’قوم‘‘ (یا نیشن کے معنی میں کسی دوسرے لفظ کو) اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ میں مختصر طور پر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان الفاظ میں اصلی قباحت کیا ہے جس کی وجہ سے اسلام میں ان سے پرہیز کیا گیا اور وہ دوسرے الفاظ کون سے ہیں جن کو قرآن و حدیث میں استعمال کیا گیا ہے ۔ یہ محض ایک علمی بحث نہیں ہے، بلکہ اس سے ہمارے ان بہت سے تصورات کی غلطی واضح ہوجاتی ہے جن کی بدولت زندگی میں ہمارا رویہ بنیادی طور پر غلط ہوکر رہ گیا ہے۔
لفظ ’’قوم‘‘ اور اس کا ہم معنی انگریزی لفظ (Nation) یہ دونوں دراصل جاہلیت کی اصطلاحیں ہیں۔ اہلِ جاہلیت نے ’’قومیت‘‘ (Nationality) کو کبھی خالص تہذیبی بنیاد (Cultural basis) پر قائم نہیں کیا، نہ قدیم جاہلیت کے دور میں اورنہ جدید جاہلیت کے دور میں ان کے دل و دماغ کے ریشوں میں نسلی اور روایتی علائق کی محبت کچھ اس طرح پلا دی گئی ہے کہ وہ نسلی روابط اور تاریخی روایات کی وابستگی سے قومیت کے تصور کو کبھی پاک نہ کرسکے۔ جس طرح قدیم عرب میںقوم کا لفظ عموماً ایک نسل یا ایک قبیلہ کے لوگوں پر بولا جاتا تھا۔ اسی طرح آج بھی لفظ ’نیشن‘ کے مفہوم میں مشترک جنسیت (Common Deseent) کا تصور لازمی طور پر شامل ہے اور یہ چیز چونکہ بنیادی طور پر اسلامی تصورِ اجتماع کے خلاف ہے۔ اس وجہ سے قرآن میں لفظ قوم اور اس کے ہم معنی دوسرے عربی الفاظ مثلاً شعب وغیرہ کو مسلمانوں کی جماعت کے لیے اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ ایسی اصطلاح اس جماعت کے لیے کیونکر استعمال کی جاسکتی تھی جس کے اجتماع کی اساس میں خون اور خاک اور رنگ اور اس نوع کی دوسری چیزوں کا قطعًاکوئی دخل نہ تھا جس کی تالیف و ترکیب محض اصول اور مسلک کی بنیاد پر کی گئی تھی اور جس کا آغاز ہی ہجرت اور قطع نسب اور ترک علائق مادی سے ہوا تھا۔
قرآن نے جو لفظ مسلمانوں کی جماعت کے لیے استعمال کیا ہے وہ ’’حزب‘‘ ہے جس کے معنی پارٹی کے ہیں۔ قومیں نسل و نسب کی بنیاد پر اُٹھتی ہیں اور پارٹیاں اصول و مسلک کی بنیاد پر اس لحاظ سے مسلمان حقیقت میں قوم نہیں بلکہ ایک پارٹی ہیں کیونکہ ان کو تمام دُنیا سے الگ اور ایک دوسرے سے وابستہ صرف اس بنا پر کیا گیا ہے کہ یہ ایک اصول اور مسلک کے معتقد اور پیرو ہیں اور جن سے ان کا اصول و مسلک میں اِشتِراک نہیں وہ خواہ ان سے قریب ترین مادی رشتے ہی کیوں نہ ہوں، ان کے ساتھ ان کا کوئی میل نہیں ہے۔ قرآن روئے زمین کی اس پوری آبادی میں صرف دو ہی پارٹیاں دیکھتا ہے: ایک اللہ کی پارٹی حزب اللہ، دوسرے شیطان کی پارٹی حزب الشیطان۔ شیطان کی پارٹی میں خواہ باہم اصول و مسلک کے اعتبار سے کتنے ہی اختلاف ہوں۔ قرآن ان سب کو ایک سمجھتا ہے کیونکہ ان کا طریق فکر اور طریق عمل بہرحال اسلام نہیں ہے اور جزئی اختلاف کے باوجود بہرحال وہ سب شیطان کے اتباع پر متفق ہیں۔ قرآن کہتا ہے:
اِسْتَحْوَذَ عَلَيْہِمُ الشَّيْطٰنُ فَاَنْسٰـىہُمْ ذِكْرَ اللہِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ الشَّيْطٰنِ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝۱۹ (المجادلہ:۱۹)
’’شیطان ان پر غالب آگیا اور اس نے خدا سے انھیں غافل کر دیا ۔وہ شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں۔ اور جان رکھو کہ شیطان کی پارٹی آخرکار نا مراد ہی رہنے والی ہے‘‘۔
برعکس اس کے اللہ کی پارٹی والے خواہ نسل اور وطن اور زبان اور تاریخی روایات کے اعتبار سے باہم کتنے ہی مختلف ہوں، بلکہ چاہے ان کے آبائواجداد میں باہم خونیں عداوتیں ہی کیوں نہ رہ چکی ہوں ،جب وہ خدا کے بتائے ہوئے طریقِ فکر اور مسلک ِحیات میں متفق ہوگئے تو گویا الٰہی رشتے حبل اللہ سے باہم جڑ گئے اور اس نئی پارٹی میں داخل ہوتے ہی ان کے تمام تعلقات حزب الشیطان والوں سے کٹ گئے۔
پارٹی کا یہ اختلاف باپ اور بیٹے تک کا تعلق توڑ دیتا ہے، حتیٰ کہ بیٹا باپ کی وراثت تک نہیں پاسکتا۔ حدیث کے الفاظ ہیں: لَا یَتَوَارَثُ اَھْلُ مِلَّتَیْنِ۔ دو مختلف ملتوں کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوسکتےہیں۔
پارٹی کا یہ اختلاف بیوی کو شوہر سے جدا کر دیتا ہے، حتیٰ کہ اختلاف رُونما ہوتے ہی دونوں پر ایک دوسرے کی مواصلت حرام ہوجاتی ہے۔ محض اس لیے کہ دونوں کی زندگی کے راستے جدا ہوچکے۔ قرآن میں ہے:
لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ يَحِلُّوْنَ لَہُنَّ (الممتحنہ:۱۰)
’’نہ وہ اِن کے لیے حلال نہ یہ اُن کے لیے حلال‘‘۔
پارٹی کا یہ اختلاف ایک برادری، ایک خاندان کے آدمیوں میں پورا معاشرتی مقاطعہ کرا دیتا ہے، حتیٰ کہ حزب اللہ والے کے لیے خود اپنی نسلی برادری کے ان لوگوں میں شادی بیاہ کرنا حرام ہوجاتا ہے جو حزب الشیطان سے تعلق رکھتے ہوں۔
قرآن کہتا ہے: ’’مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں۔ مومن لونڈی مشرک بیگم سے بہتر ہے، خواہ وہ تمھیں کتنی ہی پسند ہو اور اپنی عورتوں کے نکاح بھی مشرک مردوں سے نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں۔ مومن غلام مشرک آزاد شخص سے بہتر ہے چاہے وہ تمھیں کتنا ہی پسند ہو‘‘۔
پارٹی کا یہ اختلاف نسلی و وطنی قومیت کا تعلق صرف کاٹ ہی نہیں دیتا بلکہ دونوں میں ایک مستقل نزاع قائم کردیتا ہے، جو دائماً قائم رہتی ہے تاوقتیکہ وہ اللہ کی پارٹی کے اصول تسلیم نہ کرلیں۔ قرآن کہتا ہے:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ فِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗ۝۰ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰہِيْمَ لِاَبِيْہِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ (الممتحنہ:۴)
’’تمھارے لیے بہترین نمونہ ابراہیم ؑ اور اس کے ساتھیوں میں ہے۔ ان لوگوں نے اپنی نسلی قوم والوں سے صاف کَہ دیا تھا کہ ہمارا تم سے اور تمھارے ان معبودوں سے جن کی تم خدا کو چھوڑ کر بندگی کرتے ہو کوئی واسطہ نہیں۔ ہم تم سے بے تعلق ہوچکے اور ہمارے تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت پڑ گئی تاوقتیکہ تم خدائے واحد پر ایمان نہ لائو مگر تمھارے لیے ابراہیم کے اس قول میں نمونہ نہیں ہے کہ اس نے اپنے کافر باپ سے کہا کہ میں تیرے لیے بخشش کی دُعا کروں گا۔
وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِيْمَ لِاَبِيْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاہُ۝۰ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ (التوبہ:۱۱۴)
’’ابراہیم ؑ کا اپنے باپ کے لیے بخشش کی دُعا کرنا محض اس وعدے کی بنا پر تھا جو وہ اس سے کرچکا تھا مگر جب اس پر کھل گیا کہ اس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اس سے دستبردار ہوگیا‘‘۔
پارٹی کا یہ اختلاف ایک خاندان والوں اور قریب ترین رشتہ داروں کے درمیان بھی محبت کا تعلق حرام کردیتا ہے حتیٰ کہ اگر باپ اور بھائی اور بیٹے بھی حزب الشطیان میں شامل ہوں تو حزب اللہ والا اپنی پارٹی سے غداری کرے گا۔ اگر ان سے محبت رکھے۔ قرآن میں ارشاد ہے:
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِيْرَتَہُمْ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِہِمُ الْاِيْمَانَ وَاَيَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ۝۰ۭ وَيُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝۰ۭ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللہِ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۲۲ۧ (المجادلہ: ۲۲)
’’تم ایسا ہرگز نہ پائو گے کہ کوئی جماعت اللہ اور یومِ آخر پر ایمان بھی رکھتی ہو اور پھر اللہ اور رسولؐ کے دشمنوں سے دوستی بھی رکھے خواہ وہ ان کے باپ ،بیٹے، بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں… یہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں اور جان رکھو کہ آخرکار اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔
دوسرا لفظ جو پارٹی ہی کے معنی میں قرآن نے مسلمانوں کے لیے استعمال کیا ہے وہ لفظ ’’اُمت‘‘ ہے۔ حدیث میں بھی یہ لفظ کثرت سے مستعمل ہوا ہے۔ اُمت اس جماعت کو کہتے ہیں جس کو کسی امرجامع نے مجتمع کیا ہو۔ جن افراد کے درمیان کوئی اصل مشترک ہو ان کو اسی اصل کے لحاظ سے ’’اُمت‘‘ کہا جاتا ہے، مثلاً ایک زمانے کے لوگ بھی ’’اُمت‘‘ کہے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو جس اصل مشترک کی بنا پر اُمت کہا گیا ہے وہ نسل یا وطن یا معاشی اَغراض نہیں ہیں بلکہ وہ ان کی زندگی کا مشن اور ان کی پارٹی کا اصول اور مسلک ہے۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ (آل عمران:۱۱۰)
’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے نوعِ انسانی کے لیے نکالا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا (البقرہ:۱۴۳)
’’اور اس طرح ہم نے تم کو ایک بیچ کی اُمت بنایا ہے تاکہ تم نوعِ انسانی پر نگران ہو اور رسولؐ تم پر نگران ہو‘‘۔
ان آیات پر غور کیجیے: ’’بیچ کی اُمت‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ’’مسلمان‘‘ ایک بین الاقوامی جماعت (International Party) کا نام ہے۔ دُنیا کی ساری قوموں میں سے ان اشخاص کو چھانٹ کر نکالا گیا ہے جو ایک خاص اصول کو ماننے ، ایک خاص پروگرام کو عمل میں لانے اور ایک خاص مشن کو انجام دینے کے لیے تیار ہوں۔ یہ لوگ چونکہ ہرقوم میں سے نکلے ہیں اور ایک پارٹی بن جانے کے بعد کسی قوم سے ان کا تعلق نہیں رہا ہے، اس لیے یہ بیچ کی اُمت ہیں۔ لیکن ہرہرقوم سے تعلق توڑنے کے بعد سب قوموں سے ان کا ایک دوسرا تعلق قائم کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ دنیا میں خدائی فوج دار کے فرائض انجام دیں۔ ’’تم نوعِ انسانی پر نگراں ہو‘‘ کے الفاظ بتارہے ہیں کہ مسلمان خدا کی طرف سے دُنیا میں فوج دار مقرر کیا گیا ہے۔ ’’اور نوعِ انسانی کے لیے نکالا گیا ہے‘‘ کا فقرہ صاف کَہ رہا ہے کہ مسلمان کا مشن ایک عالم گیر مشن ہے۔ اس مشن کا خاصہ یہ ہے کہ ’’حزب اللہ ‘‘ کے لیڈر سیّدنا محمدؐ کو فکر و عمل کا جو ضابطہ خدا نے دیا تھا اس کو تمام ذہنی، اَخلاقی اور مادی طاقتوں سے کام لے کر دنیا میں نافذ کیا جائے اور اس کے مقابلہ میں ہر دوسرے طریقہ کو مغلوب کر دیا جائے۔ یہ ہے وہ چیز جس کی بنیاد پر مسلمان ایک اُمت بنائے گئے ہیں۔
تیسرا اصطلاحی لفظ جو مسلمانوں کی اجتماعی حیثیت ظاہر کرنے کے لیے نبیﷺ نے بکثرت استعمال کیا ہے۔ وہ لفظ ’’جماعت‘‘ ہے اور یہ لفظ بھی ’’حزب‘‘ کی طرح بالکل پارٹی کا ہم معنی ہے۔ عَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ اور یَدُ اللہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ اور ایسی ہی بکثرت احادیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ نےﷺ لفظ ’’قوم‘‘ یا ’’شعب‘‘ یا اس کے ہم معنی دوسرے الفاظ استعمال کرنے سے قصداً احتراز فرمایا کہ ’’ہمیشہ قوم کے ساتھ رہو‘‘ یا ’’قوم پر خدا کا ہاتھ ہے‘‘ بلکہ ایسے تمام مواقع پر آپؐ جماعت ہی کا لفظ استعمال فرماتے تھے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے اور یہی ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں کے اجتماع کی نوعیت ظاہر کرنے کے لیے ’’قوم‘‘ کے بجائے جماعت، حزب اور پارٹی کے الفاظ ہی زیادہ مناسب ہیں۔ قوم کا لفظ جن معنوں میں عموماً مستعمل ہوتا ہے، ان کے لحاظ سے ایک شخص خواہ وہ کسی مسلک اور کسی اصول کا پیرو ہو ایک قوم میں شامل رہ سکتا ہے جب کہ وہ اس قوم میں پیدا ہوا ہو اور اپنے نام، طرزِ زندگی اور معاشرتی تعلقات کے اعتبار سے اس قوم کے ساتھ منسلک ہو لیکن پارٹی، جماعت اور حزب کے الفاظ جن معنوں میں مستعمل ہوتے ہیں ان کے لحاظ سے اصول اور مسلک ہی پر پارٹی میں شامل ہونے یا اس سے خارج ہونے کا مدار ہوتا ہے۔ آپ ایک پارٹی کے اصول و مسلک سے ہٹ جانے کے بعد ہرگز اس میں شامل نہیں رہ سکتے، نہ اس کا نام استعمال کرسکتے ہیں، نہ اس کے نمایندے بن سکتے ہیں، نہ اس کے مفاد کے محافظ بن کر نمودار ہوسکتے ہیں اور نہ پارٹی والوں سے آپ کا کسی طور پر تعاون ہوسکتا ہے۔ اگر آپ یہ کہیں کہ میں پارٹی کے اصول و مسلک سے تو متفق نہیں ہوں۔ لیکن میرے والدین اس پارٹی کے ممبر رہ چکے ہیں اور میرا نام اس کے ممبروں سے ملتا جلتا ہے۔ اس لیے مجھ کو بھی ممبروں کے سے حقوق ملنے چاہییں۔ تو آپ کا یہ استدلال اتنا مضحکہ انگیز ہوگا کہ شاید سننے والوں کو آپ کی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگے گا لیکن پارٹی کے تصور کو قوم کے تصور سے بدل ڈالیے، اس کے بعد یہ سب حرکات کرنے کی گنجائش نکل آتی ہے۔
اسلام نے اپنی بین الاقوامی پارٹی کے ارکان میں یک جہتی اور ان کی معاشرتی زندگی میں یکسانی پیدا کرنے کے لیے اور ان کو ایک سوسائٹی بنادینے کے لیے حکم دیا تھا کہ آپس ہی میں بیاہ شادی کرو۔ اس کے ساتھ ہی ان کی اولاد کے لیے تعلیم و تربیت کا ایسا انتظام تجویز کیا گیا تھا کہ وہ خود بخود پارٹی کے اصول و مسلک کے پیرو بن کر اُٹھیں اور تبلیغ کے ساتھ ساتھ افزائش نسل سے بھی پارٹی کی قوت بڑھتی رہے۔ یہیں سے اس پارٹی کے قوم بننے کی ابتدا ہوتی ہے۔ بعد میں مشترک معاشرت، نسلی تعلقات اور تاریخی روایات نے اس قومیت کو زیادہ مستحکم کر دیا۔
اس حد تک جو کچھ ہوا، درست ہوا، لیکن رفتہ رفتہ مسلمان اس حقیقت کو بھولتے چلے گئے کہ وہ دراصل ایک پارٹی ہیں اور پارٹی ہونے کی حیثیت ہی پر ان کی قومیت کی اساس رکھی گئی ہے، یہ بھلاوا بڑھتے بڑھتے اب یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ پارٹی کا تصور قومیت کے تصور میں بالکل ہی گم ہوگیا۔ مسلمان اب صرف ایک قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ اسی طرح کی قوم جیسی کہ جرمن ایک قوم ہے یا جاپانی ایک قوم ہے یا انگریز ایک قوم ہے۔ وہ بھول گئے ہیں کہ اصل چیز وہ اصول اور مسلک ہے جس پر اسلام نے ان کو ایک اُمت بنایا تھا۔ وہ مشن ہے جس کو پورا کرنے کے لیے اس نے اپنے پیروئوں کو ایک پارٹی کی صورت میں منظم کیا تھا۔ اس حقیقت کو فراموش کرکے انھوں نے غیرمسلم قوموں سے ’’قومیت‘‘ کا جاہلی تصور لے لیا ہے۔ یہ ایسی بنیادی غلطی ہے اور اس کے قبیح اثرات اتنے پھیل گئے ہیں کہ احیائے اسلام کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھ سکتا۔ جب تک کہ اس غلطی کو دُور نہ کر دیا جائے۔
ایک پارٹی کے ارکان میں باہمی محبت ، رفاقت اور معاونت جو کچھ بھی ہوتی ہے شخصی یا خاندانی حیثیت سے نہیں ہوتی بلکہ صرف اس بنا پر ہوتی ہے کہ وہ سب ایک اصول کے معتقد اور ایک مسلک کے پیرو ہوتے ہیں۔ پارٹی کا ایک رکن اگر جماعتی اصول اور مسلک سے ہٹ کر کوئی کام کرے تو صرف یہی نہیں کہ اس کی مدد کرنا پارٹی والوں کا فرض نہیں ہوتا بلکہ اس کے برعکس پارٹی والوں کا فرض یہ ہوتا ہے کہ اس کو ایسے غدارانہ اور باغیانہ طرزِ عمل سے روکیں، نہ مانے تو اس کے خلاف جماعتی ضوابط کے تحت سخت کارروائی کریں، پھر بھی نہ مانے تو جماعت سے نکال باہر کریں۔ ایسی مثالیں بھی دُنیا میں ناپید نہیں ہیں کہ جوشخص پارٹی کے مسلک سے شدید انحراف کرتا ہے اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔{ اسلام میں قتل مرتد کی یہی بنا ہے۔ روسی اشتراکی بھی اشتراکیت سے مرتد ہونے کی یہی سزا دیتے ہیں۔
} لیکن ذرا مسلمانوں کا حال دیکھیے کہ اپنے آپ کو پارٹی کے بجائے قوم سمجھنے کی وجہ سے کیسی شدید غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔ ان میں سے جب کوئی شخص اپنے فائدے کے لیے غیر اسلامی اصولوں پر کوئی کام کرتا ہے تو دوسرے مسلمانوں سے توقع رکھتا ہے کہ اس کی مدد کریں گے۔ اگر مدد نہیں کی جاتی تو شکایت کرتا ہے کہ دیکھو مسلمان مسلمان کے کام نہیں آتے۔ سفارش کرنے والے ان کی سفارش ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ایک مسلمان بھائی کا بھلا ہوتا ہے ، اس کی مدد کرو، مدد کرنے والے بھی اگر اس کی مدد کرتے ہیں تو اپنے اس فعل کو اسلامی ہمدردی سے موسوم کرتے ہیں۔ اس سارے معاملہ میں ہر ایک کی زبان پر اسلامی ہمدردی، اسلامی برادری، اسلام کے رشتہ دین کا نام بار بار آتا ہے۔ حالانکہ درحقیقت اسلام کے خلاف عمل کرنے میں خود اسلام ہی کا حوالہ دینا اور اس کے نام سے ہمدردی چاہنا یا ہمدردی کرنا صریح لغو بات ہے، جس اسلام کا یہ لوگ نام لیتے ہیں اگر حقیقت میں وہ ان کے اندر زندہ ہو تو جونہی ان کے علم میں یہ بات آئے کہ اسلامی جماعت کا کوئی شخص کوئی کام اسلامی نظریہ کے خلاف کر رہا ہے، یہ اس کی مخالفت پر کمربستہ ہوجائیں اور اس سے توبہ کراکے چھوڑ یں۔ کسی کا مدد چاہنا تو درکنار ایک زندہ اسلامی سوسائٹی میں تو کوئی شخص اصولِ اسلام کی خلا ف ورزی کا نام تک نہیں لے سکتا۔ لیکن آپ کی اس سوسائٹی میں رات دن یہی معاملہ ہو رہا ہے اور اس کی وجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ آپ کے اندر جاہلی قومیت آگئی ہے جس چیز کو آپ اسلامی اخوت کَہ رہے ہیں یہ دراصل جاہلی قومیت کا رشتہ ہے جو آپ نے غیرمسلموں سے لے لیا ہے۔
اسی جاہلیت کا ایک کرشمہ یہ ہے کہ آپ کے اندر ’’قومی مفاد‘‘ کا ایک عجیب تصور پیدا ہوگیا ہے اور آپ کو اس بے تکلف ’’اسلامی مفاد‘‘ بھی کَہ دیا کرتے ہیں۔ یہ نام نہاد اسلامی مفاد یا قومی مفاد کیا چیز ہے؟یہ کہ جو لوگ ’’مسلمان‘‘کہلاتے ہیں ۔ ان کا بھلا ہو ان کے پاس دولت آئے، ان کی عزت بڑھے، ان کو اقتدار نصیب ہو اور کسی نہ کسی طرح ان کی دُنیا بن جائے بلااس لحاظ کے کہ یہ سب حاصل ہوں یا خلاف ورزی کرتے ہوئے پیدائشی مسلمان یا خاندانی مسلمان کو آپ ’’مسلمان‘‘کہتے ہیں۔ چاہے اس کے خیالات اور اس کے طرزِعمل میں اسلام کی صفت کہیں ڈھونڈے نہ ملتی ہو۔ گویا آپ کے نزدیک مسلمان روح کا نہیں بلکہ جسم کا نام ہے اور صفت ِ اسلام سے قطع نظر کرکے بھی ایک شخص کو مسلمان کہا جاسکتا ہے۔ اس غلط تصور کے ساتھ جن جسموں کا اسمِ ذات آپ نے مسلمان رکھ چھوڑا ہے۔ ان کی حکومت کو آپ اسلامی حکومت، ان کی ترقی کو آپ اسلامی ترقی ، ان کے فائدے کو آپ اسلامی مفاد قرار دیتے ہیں، خواہ یہ حکومت اور یہ ترقی اور یہ مفاد سراسر اصولِ اسلام کے منافی ہی کیوں نہ ہو۔ جس طرح جرمنیت کسی اصول کا نام نہیں محض ایک قومیت کا نام ہے ، اور جس طرح ایک جرمن قوم پرست صرف جرمنوں کی سربلندی چاہتا ہے، خواہ کسی طریقے سے ہو، اسی طرح آپ نے بھی ’’مسلمانیت‘‘ کو محض ایک قومیت بنا لیا ہے اور آپ کے مسلمان قوم پرست محض اپنی قوم کی سربلندی چاہتے ہیں، خواہ یہ سربلندی اصولاً اور عملاً اسلام کے بالکل برعکس طریقوں کی پیروی کا نتیجہ ہو۔ کیا یہ جاہلیت نہیں ہے؟ کیا درحقیقت آپ اس بات کو بھول نہیں گئے ہیں کہ مسلمان صرف اس بین الاقوامی پارٹی کا نام تھا جو دنیا میں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ایک خاص نظریہ اور ایک عملی پروگرام لے کر اُٹھی تھی؟ اس نظریہ اور پروگرام کو الگ کرنے کے بعد محض اپنی شخصی یا اجتماعی حیثیت سے جو لوگ کسی دوسرے نظریہ اور پروگرام پر کام کرتے ہیں ان کے ان کاموں کو آپ ’’اسلامی‘‘ کیسے کَہ سکتے ہیں؟ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ جو شخص سرمایہ داری کے اصول پر کام کرتا ہو اسے اِشتِراکی کے نام سے یاد کیا جائے؟ کیا سرمایہ دارانہ حکومت کو کبھی آپ اِشتِراکی ادارہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں؟ اگر کوئی شخص اس طرح اصطلاحوں کو بے جا استعمال کرے تو آپ شاید اسے جاہل اور بیو قوف کہنے میں ذرا تامل نہیں کریں گے مگر یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام اور مسلمان کی اصطلاح کو بالکل بے جا استعمال کیا جارہا ہے اور اس میں کسی کو جاہلیت کی بُو تک محسوس نہیں ہوتی۔
مسلمان کا لفظ خود ظاہر کر رہا ہے کہ یہ ’’اسمِ ذات‘‘ نہیں بلکہ ’’اسمِ صفت‘‘ ہی ہوسکتا ہے اور ’’پیرو ِاسلام‘‘ کے سوا اس کا کوئی دوسرا مفہوم سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہ انسان کی اس خاص ذہنی، اَخلاقی اور عملی صفت کو ظاہر کرتا ہے جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔ لہٰذا آپ اس لفظ کو شخص مسلمان کے لیے اس طرح استعمال نہیں کرسکتے جس طرح آپ ہندو یا جاپانی یا چینی کے الفاظ شخصِ ہندو یا شخصِ جاپانی یا شخصِ چینی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مسلمانوں کا سا نام رکھنے والا جوں ہی اصولِ اسلام سے ہٹا اس سے مسلمان ہونے کی حیثیت خود بخود سلب ہوجاتی ہے۔ اب وہ جو کچھ کرتا ہے اپنی شخصی حیثیت میں کرتا ہے۔ اسلام کا نام استعمال کرنے کا اسے کوئی حق نہیں ہے۔ اسی طرح مسلمان کا مفاد، مسلمان کی ترقی،مسلمان کی حکومت و ریاست، مسلمان کی تنظیم اور ایسے ہی دوسرے الفاظ آپ صرف ان مواقع پر بول سکتے ہیں جب کہ یہ چیزیں اسلامی نظریہ اور اصول کے مطابق ہوں اور اس مشن کو پورا کرنے سے متعلق ہوں جو اسلام لے کر آیا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہو تو ان میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی لفظ ِمسلمان کا استعمال درست نہیں۔ آپ ان کو جس دوسرے نام سے چاہیں موسوم کریں۔ بہرحال مسلمان کے نام سے موسوم نہیں کرسکتے کیونکہ صفت اسلام سے قطع نظر کرکے مسلمان سرے سے کوئی شے ہی نہیں ہے۔ آپ کبھی اس بات کا تصور نہیں کرسکتے کہ اِشتِراکیت سے قطع نظر کرکے کسی شخص یا قوم کا نام اِشتِراکی ہے اور اس معنی میں کسی مفاد کو اِشتِراکی مفاد یا کسی حکومت یا کسی تنظیم کو اِشتِراکیوں کی حکومت یا تنظیم یا کسی ترقی کو اِشتِراکیوں کی ترقی کہا جاسکتا ہے۔ پھر آخر مسلمان کے معاملہ میں آپ نے یہ کیوں سمجھ رکھا ہےکہ اسلام سے قطع نظر کرکے مسلمان کسی شخص یا قوم کا ذاتی نام ہے اور اس کی ہرچیزکو اسلامی کَہ دیا جاسکتا ہے۔
اس غلط فہمی نے بنیادی طور پر اپنی تہذیب،ا پنے تمدُّن اور اپنی تاریخ کے متعلق آپ کے رویہ کو غلط کر دیا ہے جو بادشاہتیں اور حکومتیں غیراسلامی اصولوں پر قائم تھیں۔ آپ ان کو ’’اسلامی حکومتیں‘‘ کہتے ہیں۔ محض اس لیے کہ ان کے تخت نشین مسلمان تھے۔ جو تمدُّن، قرطبہ و بغداد اور دہلی و قاہرہ کے عیش پرست درباروں میں پرورش پایا تھا، آپ اسے ’’اسلامی تمدُّن‘‘ کہتے ہیں حالانکہ اسلام سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ آپ سے جب اسلامی تہذیب کے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو آپ جھٹ سے آگرے کے تاج محل کی طرف اشارہ کردیتے ہیں ۔ گویا یہ ہے اس تہذیب کا سب سے زیادہ نمایاں نمونہ حالانکہ اسلامی تہذیب سرے سے یہ ہے ہی نہیں کہ ایک میت کو سپردِ خاک کرنے کے لیے ایکڑوں زمین مستقل طور پر گھیر لی جائے اور اس پر لاکھوں روپے کی عمارت تیار کی جائے۔ آپ جب اسلامی تاریخ کے مفاخر بیان کرتے ہیں حالانکہ حقیقی اسلامی تاریخ کے نقطۂ نظر سے ان کارناموں کا بڑا حصہ آبِ زر سے نہیں بلکہ سیاہ روشنائی سے جرائم کی فہرست میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ آپ نے مسلمان بادشاہوں کی تاریخ کا نام ’’اسلامی تاریخ‘‘ رکھ چھوڑا ہےبلکہ آپ اسے ’’تاریخِ اسلام‘‘ بھی کَہ دیتے ہیں۔ گویا ان بادشاہوں کا نام اسلام ہے۔ آپ بجائے اس کے کہ اسلام کے مشن اور اس کے اصول و نظریات کو سامنے رکھ کر اپنی گذشتہ تاریخ کا احتساب کریں اور پورے انصاف کے ساتھ اسلامی حرکات کو غیراسلامی حرکات سے ممتاز کرکے دیکھیں اور دکھائیں۔ اسلامی تاریخ کی خدمت آپ اس کو سمجھتے ہیں کہ مسلمان حکمرانوں کی حمایت و مدافعت کریں۔ آپ کے زاویۂ نظر میں یہ کجی صرف اس لیے پیدا ہوئی کہ آپ مسلمان کی ہرچیز کو اسلامی سمجھتے ہیں اور آپ کا گمان یہ ہے کہ جو شخص مسلمان کہلاتا ہے وہ اگر غیرمسلمانہ طریق پر بھی کام کرے تو اس کے کام کو مسلمان کا کام کہا جاسکتا ہے۔
یہی ٹیڑھا زاویۂ نظر آپ نے اپنی ملّی سیاست میں بھی اختیار کررکھا ہے۔ اسلام کے اصول و نظریات اور اس کے مشن سے قطع نظر کرکے آپ ایک قوم کو مسلم قوم کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اس قوم کی طرف سے یا اس کے نام سے یا اس کے لیے ہرشخص اور ہر گروہ من مانی کارروائیاں کرسکتا ہے۔ آپ کے نزدیک ہروہ شخص مسلمانوں کا نمایندہ بلکہ ان کا لیڈر بھی بن سکتا ہے جو مسلمانوں کی قوم سے تعلق رکھتا ہو، خواہ اس غریب کو اسلام کے متعلق کچھ بھی معلوم نہ ہو۔ آپ ہراس پارٹی کے ساتھ لگے چلنے کو تیار ہوجاتے ہیں جس کی پیروی میں آپ کو کسی نوعیت کا فائدہ نظر آئے خواہ اس کا مشن اسلام کے مشن سے کتنا ہی مختلف ہو۔ آپ خوش ہوجاتے ہیں جب مسلمانوں کی چار روٹیاں ملنے کا کوئی انتظام ہوجائے، خواہ اسلام کی نگاہ میں وہ حرام کی روٹیاں ہی کیوں نہ ہوں۔ آپ پھولے نہیں سماتے جب کسی جگہ مسلمان آپ کو اقتدار کی کرسی پر بیٹھا نظر آتا ہے، خواہ وہ اس اقتدار کو بالکل اسی طرح غیراسلامی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہو جس طرح ایک غیرمسلم کرسکتا ہے۔ آپ اکثر ان چیزوں کا نام اسلامی مفاد رکھتے ہیں جو حقیقتاً غیراسلامی ہیں۔ ان اداروں کی حمایت و حفاظت پر اپنا زور صرف کرتے ہیں جو اصولِ اسلام کے بالکل خلاف قائم ہوئے ہیں اور ان مقاصد کے پیچھے اپنا رویہ اور اپنی قومی طاقت ضائع کرتے ہیں جو ہرگز اسلامی نہیں ہیں۔ یہ سب نتائج اسی ایک بنیادی غلطی کے ہیں کہ آپ نے اپنے آپ کو محض ایک قوم سمجھ لیا ہے اور اس حقیقت کو آپ بھول گئے ہیں کہ دراصل آپ ایک بین الاقوامی پارٹی ہیں جس کا کوئی مفاد اپنی پارٹی کے اصولوں کو دنیا میں حکمران بنانے کے سوا نہیں ہے۔ جب تک آپ اپنے اندر قوم کے بجائے پارٹی کا تصور پیدا نہ کریں اور اس کو ایک زندہ تصور نہ بنائیں گے، زندگی کے کسی معاملہ میں بھی آپ کا رویہ درست نہ ہوگا۔(ترجمان القرآن، ۵۸ھ/ اپریل ۳۹ء)

استدراک

اس مضمون کی اشاعت کے بعد متعدد اصحاب نے اس شبہ کا اظہار کیا کہ اسلامی جماعت کو قوم کے بجائے پارٹی کہنے سے اس امر کی گنجائش نکلتی ہے کہ وہ کسی وطنی قومیت کی جزء بن کر رہے جس طرح ایک قوم میں مختلف سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں اور اپنا الگ مسلک رکھنے کے باوجود سب کی سب اس بڑے مجموعہ میں شامل ہیں تو وہ بھی اپنے وطن کی قوم کا ایک جز بن کر رہ سکتے ہیں۔
چونکہ جماعت یا پارٹی کے لفظ کو عام طور پر لوگ سیاسی یا پولیٹیکل پارٹی کے معنی میں لیتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ غلط فہمی پیدا ہوئی جس کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے لیکن یہ اس لفظ کا اصلی مفہوم نہیں ہے۔ بلکہ ایک خاص معنی میں بکثرت استعمال ہونے سے پیدا ہوگیا ہے۔ اصلی مفہوم اس لفظ کا یہ ہے کہ جو لوگ ایک مخصوص عقیدے ، نظریے، مسلک اور مقصد پر مجتمع ہوں وہ ایک جماعت ہیں۔ اس معنی میں قرآن نے حزب اور اُمت کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور اسی معنی میں جماعت کا لفظ احادیث اور آثار میں مستعمل ہوا ہے اور یہی مفہوم پارٹی کا بھی ہے۔
اب ایک جماعت تو وہ ہوتی ہے جس کے پیش نظر ایک قوم یا ملک کے مخصوص حالات کے لحاظ سے سیاسی تدبیر کا ایک خاص نظریہ اور پروگرام ہوتا ہے۔ اس قسم کی جماعت محض ایک سیاسی جماعت ہوتی ہے اس لیے وہ اس قوم کا جز بن کر کام کرسکتی ہے اور کرتی ہے جس میں وہ پیدا ہو۔
دوسری جماعت وہ ہوتی ہے جو ایک کُلی نظریہ اور جہانی تصور(World Idea) لے کر اُٹھتی ہے جس کے سامنے تمام نوعِ انسانی کے لیے (بلامحافظ قوم و وطن) ایک عالم گیر مسلک ہوتا ہے جو پوری زندگی کی تشکیل و تعمیر ایک نئے ڈھنگ پر کرنا چاہتی ہے جس کا نظریہ و مسلک، عقائد و افکار اور اصولِ اَخلاق سے لے کر انفرادی برتائو اور اجتماعی نظام کی تفصیلات تک ہرچیز کو اپنے سانچے میں ڈھالنا چاہتا ہے جو ایک مستقل تہذیب اور ایک مخصوص تمدُّن (Civilisation) کو وجود میں لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ جماعت بھی اگرچہ حقیقت میں ایک جماعت ہی ہوتی ہے لیکن یہ اس قسم کی جماعت نہیں ہوتی جو کسی قوم کا جذبہ بن کر کام کرسکتی ہو، یہ محدود قومیتوں سے بالاتر ہوتی ہے۔ اس کا تو مشن ہی یہ ہوتا ہے کہ ان نسلی و روایتی تعصبات کو توڑ دے جن پر دُنیا میں مختلف قومیتیں بنتی ہیں۔ پھر یہ خود اپنے آپ کو کس طرح ان قومیتوں کے ساتھ وابستہ کرسکتی ہے؟ یہ نسلی و تاریخی قومیتوں کے بجائے ایک عقلی قومیت (Rational Nationality) بناتی ہے۔ جامد قوتوں کی ایک جگہ ایک نامی قومیت (Extanding Nationality) بناتی ہے ۔ یہ خود ایک ایسی قومیت بنتی ہے جو عقلی و تہذیبی وحدت کی بنیاد پر روئے زمین کی پوری آبادی کو اپنے دائرے میں لینے کے لیے تیار ہوتی ہے لیکن ایک قومیت بننے کے باوجود حقیقت میں یہ ایک جماعت ہی رہتی ہے کیوں کہ اس میں شامل ہونے کا مدار پیدائش پر نہیں ہوتا بلکہ اس نظریہ و مسلک کی پیروی پر ہوتا ہے جس کی بنیاد پر یہ جماعت بنی ہے۔
مسلمان دراصل اسی دوسری قسم کی جماعت کا نام ہے۔ یہ اس قسم کی پارٹی نہیں ہے جیسی پارٹیاں ایک قوم میں بنا کر کرتی ہیں۔ بلکہ یہ اس قسم کی پارٹی ہے جو ایک مستقل نظامِ تہذیب و تمدُّن (Civilisation) بنانے کے لیے اُٹھتی ہے اور چھوٹی چھوٹی قومیتوں کی تنگ سرحدوں کو توڑ کر عقلی بنیادوں پر ایک بڑی جہانی قومیت (World Nationality) بنانا چاہتی ہے۔ اس کو قوم کہنا اس لحاظ سے یقینًا درست ہوگا کہ یہ اپنے آپ کو دنیا کی نسلی یا تاریخی قومیتوں میں سے کسی قومیت کے ساتھ بھی باعتبار جذبات وابستہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی بلکہ اپنے نظریۂ حیات اور فلسفۂ اجتماعی (Social Philosophy) کے مطابق خود اپنی تہذیب و مدنیت کی عمارت الگ بناتی ہے لیکن اس معنی کے لحاظ سے قوم ہونے کے باوجود یہ حقیقت میں جماعت ہی رہتی ہے کیونکہ محض اتفاقی پیدائش (Mere accident of birth) کسی شخص کو اس قوم کا ممبر نہیں بناسکتی جب تک کہ وہ اس کے مقصد کا معتقد اور پیرو نہ ہو اور اسی طرح کسی دوسری قوم میں پیدا ہونا اس کے لیے اس امر میں مانع بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنی قوم سے نکل کر اس قوم میں داخل ہوجائے جب کہ وہ اس کے مسلک پر ایمان لانے کے لیے تیار ہو۔ پس جو کچھ میں نے کہا ہے اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ مسلم قوم کی قومیت اس کے ایک جماعت یا پارٹی ہونے ہی کی بنا پر قائم ہے۔ جماعتی حیثیت جڑ کا حکم رکھتی ہے اور قومی حیثیت اس کی فرع ہے۔ اگر جماعتی حیثیت کو اس سے الگ کردیا جائے اور یہ مجرد ایک قوم بن کر رہ جائے تو یہ اس کا تنزل (Degeneration) ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسانی اجتماعات کی تاریخ میں اسلامی جماعت کی حیثیت بالکل نرالی اور انوکھی واقع ہوئی ہے۔ اسلام سے پہلے بدھ مت اور مسیحیت نے قومیتوں کے حدود کو توڑ کر تمام عالمِ انسانی کو خطاب کیا اور ایک نظریہ و مسلک کی بنیاد پر عالم گیر برادری بنانے کی کوشش کی۔ مگر ان دونوں مسلکوں کے پاس چند اَخلاقی اصولوں کے سوا کوئی ایسا اجتماعی فلسفہ نہ تھا جس کی بنیاد پر یہ تہذیب و تمدُّن کا کوئی کُلی نظام بناسکتے۔ اس لیے یہ دونوں مسلک کوئی عالم گیر قومیت نہ بناسکے بلکہ ایک طرح کی برادری (Brotherhood) بنا کر رہ گئے۔ اسلام کے بعد مغرب کی سائنٹفک تہذیب اُٹھی جس نے اپنے خطاب کو بین الاقوامی بنانا چاہا، مگر اوّل پیدائش سے اس پر نیشنلزم کا بھوت سوار ہوگیا، لہٰذا یہ بھی عالم گیر قومیت بنانے میں ناکام ہوئی۔ اب مارکسی اِشتِراکیت آگے بڑھی ہے اور قومیتوں کی حدود کو توڑ کر جہانی تصور کی بنیاد پر ایک ایسی تہذیب وجود میں لانا چاہتی ہے جو عالم گیر ہو۔لیکن چونکہ ابھی تک وہ نئی تہذیب پوری طرح وجود میں نہیں آئی ہے جو اس کے پیش نظر ہے، اس لیے ابھی تک مارکسیت بھی ایک عالم گیر قومیت میں تبدیل نہیں ہوسکی ہے۔{ بلکہ اب خود مارکسیت کے اندر بھی نیشنلزم کے جراثیم پہنچ گئے ہیں۔ اسٹالین اور اس کے طرزِ عمل میں روسی قوم پرستی کا جذبہ روز بروزنمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ روسی اشتراکیت کے لٹریچر میں ، حتیٰ کہ ۳۶ء کے جدید دستورِ حکومت میں بھی جگہ جگہ ’’فادرلینڈ‘‘ (وطن آبائی) کا ذکر ملتا ہے۔ مگر اسلام کو دیکھیے: یہ ہرجگہ ’’دارالاسلام‘‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے نہ کہ فادر یا مادرلینڈ کا۔
} اس وقت تک میدان میں تنہا اسلام ہی ایک ایسا نظریہ و مسلک ہے جو نسلی اور تاریخی قومیتوں کو توڑ کر تہذیبی بنیادوں پر ایک عالم گیر قومیت بناتا ہے۔ لہٰذا جو لوگ اسلام کی اسپرٹ سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں ان کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ایک ہی اجتماعی ہیئت کس طرح بیک وقت قوم بھی اور پارٹی بھی ہوسکتی ہے۔ وہ دُنیا کی جتنی قوموں کو جانتے ہیں ، اُن میں سے کوئی بھی ایسی نہیں ہے جس کے ارکان پیدا نہ ہوتے ہوں بلکہ بنتے ہوں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ جو شخص اٹالین پیدا ہوا ہے وہ اٹالین قومیت کا رکن ہے اور جو اٹالین پیدا نہیں ہوا وہ کسی طرح اٹالین نہیں بن سکتا۔ ایسی کسی قومیت سے وہ واقف نہیں ہیں جس کے اندر آدمی اعتقاد اور مسلک کی بنا پرداخل ہوتا ہو، اور اعتقاد و مسلک کے بدل جانے پر اس سے خارج ہوجاتا ہو۔ ان کے نزدیک یہ صفت ایک قوم کی نہیں بلکہ ایک پارٹی کی ہوسکتی ہے۔ مگر جب وہ دیکھتے ہیں کہ یہ نرالی پارٹی اپنی الگ تہذیب بناتی ہے، اپنی مستقل قومیت کا اِدّعا کرتی ہے اور کسی جگہ بھی مقامی قومیت کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرنے پر راضی نہیں ہوتی تو ان کے لیے یہ معاملہ ایک چیستان بن کر رہ جاتا ہے۔
یہی نافہمی غیرمسلموں کی طرح مسلمانوں کو بھی پیش آرہی ہے۔ مدتوں سے غیراسلامی تعلیم و تربیت پاتے رہے اور غیراسلامی ماحول میں زندگی گزارنے کی وجہ سے ان کے اندر ’’تاریخی قومیت‘‘ کا جاہلی تصور پیدا ہوگیاہے۔ یہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ ہماری اصلی حیثیت ایک ایسی جماعت کی تھی جو دنیا میں ایک عالم گیر انقلاب برپا کرنے کے لیے وجود میں آئی تھی، جس کی زندگی کا مقصد اپنے نظریہ کو دُنیا میں پھیلانا تھا، جس کا کام دُنیا کے غلط اجتماعی نظامات کو توڑ پھوڑ کر اپنے فلسفہ اجتماعی کی بنیاد پر ایک اجتماعی نظام مرتب کرنا تھا۔ یہ سب کچھ بھول بھال کر انھوں نے اپنے آپ کو بس اسی قسم کی ایک قوم سمجھ لیا ہے، جیسی اور بہت سی قومیں موجود ہیں۔ اب ان کی مجلسوں اور انجمنوں میں، ان کی کانفرنسوں اور جمعیتوں میں، ان کے اخباروں اور رسالوں میں، کہیں بھی ان کی اجتماعی زندگی کے اس مشن کا ذکر نہیں آتا جس کے لیے ان کو دُنیابھر کی قوموں میں سے نکال کر ایک اُمت بنایا گیا تھا۔ اس مشن کے بجائے اب جو چیز ان کی تمام توجہات کا مرکز بنی ہوئی ہے، وہ ’’مسلمانوں کا مفاد‘‘ ہے۔ مسلمانوں سے مراد وہ سب لوگ ہیں جو مسلمان ماں باپ کی نسل سے پیدا ہوئے ہوں، اور مفاد سے مراد ان نسلی مسلمانوں کا مادی و سیاسی مفاد ہے یا بدرجۂ آخر اس کلچر کا تحفظ ہے جو ان کو آبائی ورثہ میں ملی ہے… اس مفاد کی حفاظت اور ترقی کے لیے جو تدبیر بھی کارگر ہو اس کی طرف یہ دوڑ جاتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح مسولینی ہراس طریقہ کو اختیار کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے جو اطالویوں کے مفاد کے لیے مناسب ہو۔ کسی اصول اور نظریہ کا نہ وہ پابند ہے نہ یہ۔ وہ کہتا ہے کہ کچھ اطالویوں کے لیے مفید ہو، وہ حق ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ’’مسلمانوں‘‘ کے لیے مفید ہو وہ حق ہے۔ یہی چیز ہے جس کو میں مسلمانوں کا تنزل کہتا ہوں، اور اسی تنزل کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے مجھے یہ یاد دلانے کی ضرورت پیش آئی ہے کہ تم نسلی اور تاریخی قوموں کی طرح ایک قوم نہیں ہو بلکہ حقیقت میں ایک جماعت ہو، اور تمھاری نجات صرف اسی چیز میں ہے کہ اپنے اندر جماعتی احساس (Party Sence) پیدا کرو۔
اس جماعتی احساس کے فقدان یا خود فراموشی کے بُرے نتائج اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا شمار کرنا مشکل ہے۔ یہ اسی بے حسی و خودفراموشی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان ہر رَہ روکےپیچھے چلنے اور ہرنظریے اور مسلک کی پیروی کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہےخواہ وہ اسلام کے نظریے اور اس کے مقصد اور اس کے اصولوں سے کتنا ہی ہٹا ہوا ہو وہ نیشنلسٹ بھی بنتا ہے ، کمیونسٹ بھی بن جاتا ہے۔ فاشسٹی اصول تسلیم کرنے میں بھی اسے کوئی تامل نہیں ہوتا۔ مغرب کے مختلف اجتماعی فلسفوں اور مابعد الطبیعی افکار اور علمی نظریات میں سے قریب قریب ہر ایک کے پیرو آپ کو مسلمانوں میں مل جائیں گے۔ دنیا کی کوئی سیاسی اجتماعی یا تمدُّنی تحریک ایسی نہیں جس کے ساتھ کچھ نہ کچھ مسلمان شریک نہ ہوں اور لطف یہ ہے کہ یہ سب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، سمجھتے ہیں اور سمجھے جاتے ہیں۔ ان مختلف راہوں پر بھٹکنے اور دوڑنے والوں میں سے کسی ایک کو بھی یہ یاد نہیں آتا کہ مسلمان کوئی پیدائشی لقب نہیں ہے بلکہ اسلام کی راہ پر چلنے والے کا اسم صفت ہے جو شخص اسلام کی راہ سے ہٹ کر کسی دوسری راہ پر چلے۔ اس کو مسلمان کہنا اس لفظ کا بالکل غلط استعمال ہے۔ مسلم نیشنلسٹ اور مسلم کمیونسٹ اور اسی قسم کی دوسری اصطلاحیں بالکل اسی طرح کی متناقض اصطلاحیں ہیں جس طرح ’کمیونسٹ مہاجن‘ اور ’بدھسٹ قصائی‘‘ کی اصطلاحیں متناقض ہیں۔
(ترجمان القرآن، ربیع الثانی ۵۸ھ، جون ۱۹۳۹ء)