ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔
دیباچہ
اب سے پندرہ سولہ سال پہلے کی بات ہے کہ ایک مشہور مصنّف کے قلم سے قرآنِ مجید کی تعلیمات پر ایک کتاب شائع ہوئی تھی جس میں بہت سی مفید باتوں کے ساتھ کچھ باتیں میرے نزدیک حق کے خلاف بھی تھیں۔ اس پر مَیں نے ماہ نامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے صفحات میں ایک مفصل تنقید لکھی جو ۱۳۵۳ھ (۱۹۳۴ء) کے ابتدائی پرچوں میں شائع ہوئی۔ پھر وہ تنقید ایک مباحثہ کا موضوع بن گئی اور آگے چل کر ملک کے ایک دوسرے اہلِ قلم بھی مصنّف کے ساتھ اس بحث میں شریک ہوگئے۔ ایک سال تک یہ مباحثہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے صفحات پر جاری رہا جس میں بہت سے مسائل زیربحث آئے۔ من جملہ ان کے ایک یہ مسئلہ بھی تھا کہ زمین کے معاملہ میں اسلامی قانون کا منشا کیا ہے، آیا وہ اسے اجتماعی ملکیت بنا دینا چاہتا ہے یا افراد کی شخصی ملکیت ہی میں رہنے دیتا ہے؟ اور اگر شخصی ملکیت ہی میں رہنے دیتا ہے تو کیا اسے خود کاشتی کی حد تک محدود کردینا چاہتا ہے یا مزارعت کی اجازت بھی دیتا ہے؟
یہ مباحثہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کی فائلوں میں دفن ہوکر رہ گیا تھا۔ اب جو مجھے جیل کی مستقل فرصت نے پچھلے ناتمام کاموں کی تکمیل کا موقع دیا تو پرانے اَوراق میں یہ مباحثہ بھی سامنے آیا اور مَیں نے محسوس کیا کہ یہ ایک مفید بحث ہے جس کی ضرورت آج پہلے سے بھی زیادہ ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہوا کہ اب کی ضروریات کے لیے پہلے کی بحث بہت تشنہ ہے۔ اگر صرف اسی کو جوں کا توں شائع کیا جائے تو چنداں فائدہ مند نہ ہوگا۔ اس لیے مَیں نے اس پر نظرثانی کی ، جن جن گوشوں میں خلا محسوس ہوا اُنھیں بھرا اور اس پر بہت سے مزید مباحث کا اضافہ کیا جن کی آج کے لوگوں کو ضرورت ہے۔
اس اِصلاح و اضافہ کے بعد یہ مختصر رسالہ ناظرین کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کا صرف پہلا باب (ضروری اصلاحات کے ساتھ) اُس مباحثے پر مشتمل ہے جو ترجمان القرآن کے صفحات میں پہلے شائع ہوا تھا۔ باقی ابواب تازہ اضافہ ہیں اور ان کے مخاطب بھی آج ہی کے لوگ ہیں نہ کہ وہ بزرگ جن سے مباحثہ کا آغاز ہوا تھا۔
ابوالاعلیٰ
نیو سنٹرل جیل، ملتان
۹ ربیع الثانی ۱۳۶۹ھ (۲۹جنوری ۱۹۵۰ء)
زمین کی شخصی ملکیت ازرُوئے قرآن
جیساکہ دیباچہ میں بتایا جاچکا ہے یہ ایک مباحثہ ہے جس کا آغاز ایک کتاب پر تنقید سے شروع ہوا تھا۔ اس مباحثے میں حسب ِ ذیل اجزا شامل ہیں:
۱- ترجمان القرآن کی تنقید
۲- مصنّف کا جواب
۳- ترجمان القرآن کا جواب الجواب
۴- ایک دوسرے اہلِ قلم کی طرف سے مصنّف کی تائید
۵- ترجمان القرآن کا آخری جواب
چوں کہ اس بحث کو یہاں نقل کرنے سے مقصود کسی پرانی بحث کو تازہ کرنا نہیں ہے ، اس لیے نام حذف کر دیے گئے ہیں۔
(۱) ترجمان القرآن کی تنقید
مؤلّف نے سورئہ رحمٰن کی آیت: وَالْاَرْضَ وَضَعَھَا لِلْاَنَامِ سے یہ حکم نکالا ہے کہ زمین کی شخصیت ملکیت یعنی زمین داری ناجائز ہے۔ چنانچہ اپنے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
’’زمین کی وراثت کا جہاں جہاں قرآن میں ذکر ہے… اس کے معنی حکومت کے ہیں۔ شخصیت ملکیت یعنی زمین داری کے نہیں ہیں۔ قرآنِ مجید نے بجز حقِ انتفاع کے زمین پر حقِ ملکیت عطا نہیں کیا ہے‘‘۔
یہاں نکتہ آفرینی کی کوشش میں صاحب ِ موصوف صریحاً حق سے تجاوز کرگئے ہیں۔ انھیں غور فرمانا چاہیے تھا کہ زمین کی شخصی ملکیت کا دستور نزولِ قرآن کے وقت تمام دنیا میں رائج تھا، صدیوں سے رائج چلا آرہا تھا، اور تمدن کے اساسی دستوروں میں داخل تھا۔ اگر قرآن کا مقصود فی الحقیقت یہ ہوتا کہ زمین سے انتفاع کے اس پرانے دستور کو بالکل بدل ڈالا جائے اور شخصی ملکیت کی جگہ قومی ملکیت کا طریقہ رائج کیا جائے تو کیا ایسی انقلاب انگیز بنیادی تبدیلی کے لیے وہی زبان موزوں ہوسکتی تھی جو وَالْاَرْضَ وَضَعَھَا لِلْاَنَامِ میں استعمال کی گئی ہے؟ ہرشخص بادنیٰ تامل یہ سمجھ سکتا ہے کہ ایسی اہم اور اساسی اصلاحوں کے لیے محض سرسری اشارے کافی نہیں ہوتے بلکہ صریح احکام دینا ضروری ہوتے ہیں۔ پھر یہ بھی کافی نہیں ہوتا کہ محض سابق دستور کو مٹا دیا جائے، بلکہ اسے مٹانے کے ساتھ خود اپنی طرف سے ایک دوسرا دستور بھی پیش کرنا ہوتا ہے۔ اب کیا جنابِ مصنّف یہ بتا سکتے ہیں کہ قرآن نے شخصی ملکیت کا قاعدہ منسوخ کر کے کون سا دوسرا قاعدہ اس کی جگہ مقرر کیا؟ اور اگر قرآن کا منشا کوئی دوسرا قاعدہ مقرر کرنا ہی تھا تو رسول اللہa اور آپؐ کے خلفائے راشدینe نے شخصی ملکیت کے قدیم دستور کو کیوں باقی رکھا، اور خود لوگوں کو زمینیں کیوں عطا کیں؟
جس آیت سے جنابِ موصوف استدلال فرما رہے ہیں اس کے الفاظ اور سیاق و سباق پر نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مقصود کوئی قانون بنانا نہیں ہے، بلکہ خدا کی قدرتوں کا بیان ہے۔ ساری تقریر اس انداز پر ہے:
’’رحمٰن نے قرآن کا علم دیا،انسان کو پیدا کیا، اُسے بیان کی قوت دی، اُسی کے حکم سے چاند سورج گردش میں ہیں، درخت اور گل بوٹے سب اُسی کےآگے سربسجود ہیں، اس نے اُوپر آسمان کو چھا دیا، اور نیچے خلقت کے فائدے کے لیے زمین بچھا دی جس میں میوے اور کھجور کے درخت ہیں، اور طرح طرح کے اناج اور خوش بُودار پھول ہیں۔ اب تم اپنے پروردگار کی قدرت کے کن کن کرشموں کو جھٹلائوگے؟‘‘
اس تقریر میں تمدنی قانون بیان کرنے کا آخر کون سا موقع تھا؟ اور اس سلسلۂ بیان میں یہ فقرہ کہ ’’نیچے خلقت کے فائدہ کے لیے زمین بچھا دی‘‘ یہ معنی کہاں دیتا ہے کہ زمین پر شخصی ملکیت ناجائز ہے؟ قرآن سے احکام نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ آیت کے الفاظ اور اس کے موقع و محل اور سیاق و سباق کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ پھر اس امر کا بھی لحاظ کیا جائے کہ جو قانون ہم اس آیت سے اخذ کر رہے ہیں آیا اسے نبیa نے اپنی حیاتِ طیبہ میں عملاً جاری بھی فرمایا تھا یا نہیں؟ اگر معلوم ہو کہ آپ نے ایسا قانون جاری نہیں فرمایا، بلکہ آپ کا عمل اس کے خلاف رہا تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ بادی النظر میں قرآن کا جو مفہوم ہم سمجھ رہے ہیں وہ غلط ہے۔ کیوں کہ نبی aاسی لیے بھیجے گئے تھے کہ قرآن میں جو احکام دیے گئے ہیں ان پر عمل کر کے بتائیں اور زندگی کے معاملات میں انھیں جاری کردیں۔ اگر آپ احکامِ قرآنی کے مطابق زندگی کے قدیم طریقوں میں اصلاح نہ فرماتے اور الٰہی قوانین کو نافذ کرنے کے بجائے پرانے دستوروں کی پیروی کرتے تو نعوذباللہ آپؐ کی بعثت بالکل فضول ہوتی، بلکہ بعثت کا اصل منشا ہی فوت ہوجاتا۔ کم از کم اتنا تو ہرشخص تسلیم کرے گا کہ آں حضرتa کا کوئی عمل قرآن کے خلاف نہ تھا اور نہ ہوسکتا تھا۔
(۲) مصنّف کا جواب
قرآن سے زمین پر شخصی ملکیت کا حق ثابت نہیں۔ اس پر آپ کو اعتراض ہے تو کوئی آیت ثبوت میں نقل کرتے۔ کسی عہد کی تاریخ سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ کیوں کہ تاریخ ایک خاص ماحول رکھتی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ماحول اب نہ ہو۔ دراصل قرآنِ کریم کے متعلق ہمارے اور آپ کے زاویۂ نگاہ میں فرق ہے۔ ہم قرآن کو ایک مکمل کتاب سمجھتے ہیں جس میں انسان کے جملہ دینی اور دُنیاوی مسائل کا حل ہے۔ جس طرح یہ عالمِ فطرت انسانی معیشت کے لیے ہرطرح مکمل ہے۔ اسی طرح یہ کلامِ فطرت، یعنی قرآن بھی جملہ عقد ہائے معاشرت کو کھول سکتا ہے۔ آج انسانی قومیں انسانی معاشرت کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے بے قرار ہیں اور ان میں قبضۂ زمین کے مسئلہ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ کیوں کہ اس کی بدولت انسانی برادری میں نہایت غیرمساویانہ دولت کی تقسیم ہوئی ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں اس کا حل نہیں ہے ؟ آپ کا خیال ہے کہ قرآن نے وَالْاَرْضَ وَضَعَھَا لِلْاَنَامِ کہہ کر صرف قدرتِ الٰہی کا اظہار کیا ہے۔ مگر ہمارے نزدیک اس قدرتِ الٰہی کا شکر یہ ہے کہ ہم اس کے مطابق عمل کریں۔
اسی سورہ میں ہے: وَلَہُ الْجَوَارِ الْمُنْشَئٰتُ فِی الْبَحْرِ کَالْاَعْلَامِ (الرحمٰن ۵۵: ۲۴) یعنی اُسی کے ہیں جہاز اُونچے کھڑے ہوئے سمندر میں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انگریزی اور جاپانی جہازوں کو سمندر میں دیکھ کر آپ قدرتِ حق پر اس کی حمدوثنا کریں یا خود بڑے بڑے جنگی جہاز تعمیر کر کے سمندر میں ڈالیں؟ بہرصورت کلامِ الٰہی ایک فطری شے ہے جس کے منافع محدود اور متعین نہیں ہوتے۔ اس لیے کسی آیت کے متعلق آپ کا یہ کہنا کہ یہ صرف فلاں غرض کے لیے ہے صحیح نہیں ہوسکتا۔ اگر اس سے دوسرے فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں تو ضرور حاصل کیے جائیں گے۔ یہی حال فطری اشیا کا ہے۔ باوا آدم پانی کے متعلق یہ تو ضرور جانتے تھے کہ نہانے اور پینے کی چیز ہے۔ مگر فرزندانِ آدم ؑ نے اسی پانی سے بڑی بڑی مشیںیں، ریلیں اور جہاز چلانا شروع کیے۔ اور ابھی تک اس کا فائدہ محدود نہیں ہے۔ اسی سے ’’ماءِ ثقیل‘‘ نکالا جاچکا ہے جو دنیا کا سب سے قیمتی زہر ہے اور اسی سے پٹرولیم بنانے کا نسخہ بھی تیار ہوچکا ہے۔ بعینہٖ یہی حال آیاتِ قرآنی کا ہے کہ ان کی فہم کو کسی ایک عہد کے ساتھ مخصوص کر دینا روا نہیں ہے۔ وہ ہرعہد میں ایک نیا عالم پیدا کرسکتی ہیں۔
(۳) ’’ترجمان القرآن‘‘ کا جواب الجواب
آپ نے اس مسئلہ میں خلطِ مبحث کر دیا اور میرے اعتراض کا کوئی جواب نہ دیا۔ آپ نے وَالْاَرْضَ وَضَعَھَا لِلْاَنَامِ سے یہ مسئلہ نکالا تھا کہ اس آیت کی رُو سے زمین کی شخصی ملکیت جائز نہیں ہے۔ اس پر میرا اعتراض دو پہلوئوں سے تھا۔
ایک یہ کہ نظامِ تمدن میں ایسی انقلاب انگیز بنیادی تبدیلی کہ زمین کو اشخاص و افراد کی مِلک سے نکال کر اجتماعی ملک بنا دیا جائے۔ اگر فی الحقیقت قرآن کے پیش نظر ہوتی اور یہی اس کا منشا ہوتا تو وہ اسے محض اُس طرح کے اشاروں میں بیان نہ کرتا جن سے آپ یہ مضمون نکال رہے ہیں بلکہ وہ صاف صاف الفاظ میں پرانے دستور کو بند کرنے کا حکم دیتا اور آیندہ کے لیے واضح طور پر تھا تاکہ زمین سے انتفاع کی کیا صورت وہ رائج کرنا چاہتا ہے۔
دوسرے یہ کہ اگر قرآنِ مجید کا منشا یہی تھا تو آں حضرتa نے اس کے مطابق عمل کیوں نہیں کیا؟ آں حضرتa کی بعثت کا تو اصل مقصد ہی یہ تھا کہ عقائد، اَخلاق، معاشرت، تمدن ، معیشت، سیاست، غرض انسانی زندگی کے ہرشعبے کو قرآنی احکام کے مطابق ڈھال کر دنیا کو اسلامی نظام کا نمونہ عملاً دکھاد یں۔ ظاہر ہے کہ آں حضورaحالات کی بندگی کرنے کے لیے نہیں بھیجے گئے تھے بلکہ خدا کی بندگی کے لیے بھیجے گئے تھے۔ آپؐ کا کا دنیا کی روش پر چلنا نہ تھا، بلکہ دنیا کی روش کو بدل کر قرآن کی بتائی ہوئی روش پر چلانا تھا۔ اب اگر ایک طرف آپؐ کے قول کے مطابق یہ مان لیا جائے کہ قرآن کا مقصد زمین کی شخصی ملکیت کو مٹانا تھا ، اور دوسری طرف اس ناقابلِ انکار حقیقت کی طرف نظر کی جائے کہ رسول اللہa نے ملکیت ِ شخصی کے پُرانے نظام کو مٹایا نہیں بلکہ اسی کو برقرار رکھا، تو لامحالہ دو باتوں میں سے ایک بات ماننا پڑے گی۔ یا یہ کہ قرآن کے اس مقصد سے آں حضرتa خود بے خبر تھے ۔ یا یہ کہ حضوؐر کو اس کا علم تھا مگر آپؐ نے قرآنِ مجید کے اس حکم پر عمل نہ کیا اور قرآنِ مجید کے بتائے ہوئے دستور پر اس دستور کو ترجیح دی جورضائے الٰہی کے خلاف دنیا میں رائج چلا آرہا تھا۔ فرمایئے، ان دونوں پہلوئوں میں سے کون سا پہلو آپ اختیار کرتے ہیں؟
یہ تھے میرے اعتراضات، مگر آپ نے ان کی طرف سرے سے کوئی توجہ ہی نہ فرمائی اور قرآن کے متعلق اپنے زاویۂ نگاہ کی تشریح شروع کر دی۔ اس پر بھی صبر کیا جاسکتا تھا اگر آپ کی اس تشریح سے معاملہ کچھ سلجھ جاتا۔ لیکن افسوس ہے کہ اس نے معاملہ کو اور زیادہ اُلجھا دیا۔
آپ فرماتے ہیں کہ ’’ہم قرآن کو ایک مکمل کتاب سمجھتے ہیں‘‘۔ بڑی خوشی کی بات ہے مگر ایسی مکمل کتاب تصنیف کرنے کی یہ سزا تو اللہ تعالیٰ کو نہ دیجیے کہ اس کی آیتوں، اور آیتوں کے بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو ان کے سیاق و سباق سے الگ کر کے انھیں وہ معنی پہنانا شروع کردیں جو نہ صرف اُس سلسلۂ کلام سے، بلکہ پورے قرآن کی تعلیم ہی سے کوئی مناسبت نہ رکھتے ہوں۔ یہ طریقۂ تعبیروتاویل دنیا کی کسی تقریر و تحریر اور کسی عبارت کے معاملہ میں بھی صحیح نہیں ہے، کجا کہ خدا کی کتاب کو اس کا تختۂ مشق بنایا جائے۔ اگر میں آپ ہی کے مضمون میں سے کسی فقرے کو الگ نکال کر اس سے معنی نکالنے کا وہ طریقہ برتوں جو آپ نے قرآن سے معنی نکالنے کے لیے اختیار فرمایا ہے، تو آپ خود پکار اُٹھیں گے کہ یہ مجھ پر اور میری تحریر پر ظلم ہے۔ کلامِ الٰہی تو بے شک کلامِ فطرت ہے، مگر اس کی تفسیر کا جو طریقہ آپ نے اختیار فرمایا ہے وہ تو یقینا خلافِ فطرت ہے۔
آپ کہتے ہیں کہ انسانی معاشرت کے مسائل میں قبضۂ زمین کے مسئلے کو خاص اہمیت حاصل ہے، کیوں کہ اس کی بدولت انسانی برادری میں دولت کی تقسیم نہایت غیرمساویانہ طریقہ پر ہوئی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس کا حل قرآن نے کیا ہو۔ بالکل بجا ہے۔ واقعہ یہ مسئلہ زندگی کے مسائل میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ بڑی معقول بات ہے کہ اس کا حل معلوم کرنے کے لیے قرآن کی طرف رجوع کیا جائے۔ مگر اس کے لیے معقول طریق کار یہ ہے کہ آپ خود قرآن ہی سے پوچھیں کہ تقسیم دولت کے متعلق اس کا نظریہ کیا ہے۔ وہ مساویانہ تقسیم کرنا چاہتا ہے یا منصفانہ؟ وہ غیرمساویانہ تقسیم کو مٹانا چاہتا ہے یا غیرمنصفانہ تقسیم کو؟ پھر جو بھی اس کا نظریہ ہے اس کے لحاظ سے وہ زمین کے بارے میں شخصی ملکیت کے پرانے دستور کو بالکل بدل ڈالنا چاہتا ہے یا اسے برقراررکھ کر اس کے اندر کوئی اصلاح تجویز کرتا ہے؟ ان مسائل کا کوئی جواب اپنی طرف سے قرآن کے منہ میں ڈالنے کے بجائے آپ کو یہ تحقیق کرنا چاہیے کہ اس کا اپنا جواب کیا ہے۔ اس کے جواب پر آپ کا اطمینان ہو تو اسے قبول کیجیے۔ نہ اطمینان ہو تو اسے ردّ کر دیجیے جو دوسرا حل آپ کے نزدیک صحیح ہو اس کی تبلیغ کیجیے اور صاف صاف کہیے کہ قرآن کا حل میرے نزدیک غلط ہے اور اس کے مقابلہ میں یہ حل میرے نزدیک صحیح ہے۔ لیکن اس معقول طریقہ کی بجائے آپ دولت کی تقسیم کا نظریہ اور طریقہ تو لیتے ہیں مارکس اور لینن سے، اور پھر زبرستی اسے لاکر ڈالتے ہیں قرآن میں، اور اس طرح دُنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ اشتراکیت کا نظریہ نہیں بلکہ قرآن کا نظریہ ہے۔ اس صریح زیادتی پر کوئی آپ کو ٹوکتا ہے تو آپ اسے یہ لیکچر دیتے ہیں کہ باوا آدم کے زمانہ میں پانی کا استعمال کسی اور طرح ہوتا تھا اور اب کسی اور طرح ہوتا ہے؟ اس وجہ سے قرآن کا طریق استعمال بھی اب بدل کر کچھ سے کچھ ہوگیا ہے!
آپ کا ارشاد ہے کہ بے شک سورئہ رحمٰن میں تو وَالْاَرْضَ وَضَعَھَا لِلْاَنَامِ کا فقرہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے اظہار ہی کے لیے فرمایاہے، مگرہمارے نزدیک اس قدرتِ الٰہی کا شکریہ یہ ہے کہ ہم اس کے مطابق عمل کریں، ’’یعنی ساری زمین کو سب ’انام‘ (مخلوقات) کی مشترک ملکیت بنا دیں‘‘۔{ FR 5519 } بڑے ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ اگر آیاتِ قرآنی میں تصرف کا یہ تکلف دولت کی غیرمساویانہ تقسیم ہی کو مٹانے کے لیے فرمایا گیا ہے تو اس مقصد کے لیے سورئہ رحمٰن کی اس آیت کے بجائے سورئہ بقرہ کی وہ آیت اچھی تختہ مشق ثابت ہوسکتی تھی جس میں اللہ تعالیٰ یہ کہہ گزرے ہیں کہ:
خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا
’’پیدا کیا تمھارے لیے وہ سب کچھ جو زمین میں ہے‘‘۔
اس آیت پر اگر آپ اپنا طریقِ تفسیر استعمال فرماتے تو اس سے یہ حکم نکل سکتا تھا کہ نہ صرف زمین بلکہ روپیہ، پیسہ (جس میں آپ نے بھولے سے قانونِ میراث کے اجرا کو تسلیم کرلیا ہے)، روٹی، کپڑا، برتن، جانور (جن پر شخصی ملکیت کا حق تسلیم کرنے کی غلطی بھی آپ سے سرزد ہوگئی ہے) مکان، سواری، غرض سب ہی کچھ شخصی ملکیت سے نکال کر اجتماعی ملکیت بنا دیا جائے۔ اس تدبیر سے ایک ہی دَہلا میں دولت کی غیرمساوی تقسیم کا قصہ بھی پاک ہوجاتا اور اللہ تعالیٰ کا شکریہ بھی اَدھورا نہ رہ جاتا۔
آپ کا یہ نظریہ بھی بڑا ہی عجیب و غریب ہے کہ قرآن کا منشا متعین کرنے کے لیے نبیa کے عمل کو فیصلہ کُن نہ مانا جائے۔ مَیں نے جو عرض کیا تھا کہ ہمیں کسی آیت سے کوئی قانون اخذ کرتے ہوئےیہ بھی دیکھنا چاہیے کہ نبیa کے زمانہ میںاس پر عمل درآمد ہوا ہے یا نہیں، اس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں کہ ’’کسی عہد کی تاریخ سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا‘‘۔ یہ جواب ارشاد فرماتے وقت شاید آپ نے غور نہیں کیا کہ اس کے منطقی نتائج کیا ہیں۔ اگر ہم ایک طرف یہ بات مان لیں کہ قرآن کا اصل منشا زمین کو شخصی ملکیتوں سے نکال کر اجتماعی ملکیت بنادینا تھا، اور دوسری طرف اس امرِواقعہ کو دیکھیں کہ یہ کام نہ رسول اللہa نے اپنے زمانۂ حکومت میں کیا، نہ خلفائے راشدینؓ نے اپنے دور میں کیا، نہ صحابہؓ، تابعینؒ، اَئمہ مجتہدین اور پچھلے تیرہ سو برس کے فقہائے اُمت میں سے کسی نے اس کا خیال تک ظاہر کیا، تو لامحالہ پھر ہمیں دو باتوں میں سے ایک بات ماننا پڑے گی۔ یا تو یہ کہ قرآن کو اس کے لانے والے پیغمبرؐ سے لے کر پوری اُمت مسلمہ کے علما و فقہا اور اَئمہ تک کسی نے نہ سمجھا، اور اس کے فہم کی سعادت نصیب ہوئی تو مارکس، اینجلز، لینن اور اسٹالین کو ہوئی۔ یا پھر قرآنِ مجید کے منشا کو سمجھ تو گئے رسولؐ اور صحابہؓ بھی، مگر عمل کی توفیق ان کی بجائے روس کے اشتراکی کامریڈوں کو نصیب ہوئی۔ قرآن کے منشا کا مسئلہ عہدرسالتؐ کی تاریخ سے حل نہ ہوگا تو پھر وہ یوں حل ہوگا۔ کیا واقعی آپ اس پر راضی ہیں؟
(۴) ایک دوسرے اہلِ قلم کی طرف سے مصنّف کے نظریہ کی تائید
اس میں تو شک نہیں کہ صاحب ِ تعلیمات نے جس آیت سے یہ مسئلہ استنباط کیا ہے وہ اساسی قانون کی بظاہر حامل نظر نہیں آتی لیکن اس کے خلاف ملکیت ِ زمین کی تائید میں بھی تو کوئی آیت آپ نے نقل نہیں فرمائی۔ اب اس بارے میں رسول اللہa کا اُسوئہ حسنہ ہی قولِ فصیل ہوگا۔ میری محدود نظر نے جہاں تک کام کیا ہے، میں تو دیکھتا ہوں کہ احادیث ِ مقدسہ سے بھی صاحب ِ تعلیمات کی اس تاویل کی تائید ہورہی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف میں یہ روایات ہیں۔ (کتاب المزارعہ، باکراء الارض)
(۱) عن رافع بن خدیج ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھٰی عن کراء الارض
’’حضرت رافع بن خدیج سے مروی ہے کہ نبی کریم a نے زمین کا لگان لینے سے منع فرمایا‘‘۔
(۲) عن جابرٍ قال کانوا یزرعونھا بالثلث والربع والنصف فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم من کانت لہ ارض فلیزرعھا او لیمنحھا
’’حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ ہم زمین کو تہائی، چوتھائی اور نصف کی بٹائی پر دے دیا کرتے تھے۔ سو نبی اکرمa نے فرمایا کہ جس کے پاس زمین ہو وہ یا تو خود جوتے یا دوسرے کو دے دے‘‘۔
(۳) عن ابی ھریرۃ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم من کانت لہ ارض فلیزرعھا او یمنحھا اَخاہٗ
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آں حضرتa نے فرمایا کہ جس کے پاس کوئی زمین ہو وہ خود اسے جوتے یا اسے اپنے بھائی کو دے دے‘‘۔
اس کے علاوہ رافعؓبن خدیج ہی سے ایک اور روایت ہے جس میں انھوں نے بیان کیا ہے کہ ان کے چچازمین کو پیداوار کی چوتھائی اور چند وسق کھجور، اور جَو کے عوض دے دیا کرتے تھے، سو نبی اکرمa نے انھیں اس سے منع فرمایا اور فرمایا:’’خود کاشت کرو یا دوسرے کو کاشت کے لیے دے دو یا روکے رکھو‘‘۔
اس کے ساتھ ہی حضرت ابن عمرؓ کا یہ واقعہ بھی بخاری میں درج ہے کہ وہ نبی اکرمa کے زمانہ سے لے کر حضرت معاویہؓ کے ابتدائی زمانے تک زمین کو کرایہ پر دیا کرتے تھے۔ اس وقت انھیں رافعؓ خدیج کی وایت کردہ حدیث پہنچی۔ انھوں نے رافعؓ بن خدیج سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ واقعی نبی اکرمa نے زمین کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا ہے؟ چنانچہ انھوں نے اس کے بعد اپنی زمینیں کرایہ پر دینا موقوف کر دیں۔
ممکن ہے مَیں ان احادیث ِ مقدسہ کا صحیح مفہوم نہ سمجھ سکا ہوں اس لیے اس کے متعلق بھی وضاحت فرما دیجیے لیکن اگر ان کا یہی مفہوم ہے جو بظاہر معلوم ہوتا ہے توان تصریحات کی روشنی میں صاحب ِ تعلیمات عدمِ ملکیت ِ اراضی کے نتیجہ پر پہنچ جائیں تو میرا خیال ہے کہ انھیں محض اشتراکیت کے خیال سے مرعوب تصور کرلینا درست نہ ہوگا۔ اشتراکیت کے ثبوت میں تو بخاری شریف کی اس حدیث کو اور بھی قوی دلیل سے پیش کرسکتے ہیں جس میں حضورa نے فرمایا:
نحن لا نورث ما ترکنا صدقۃٌ
’’ہم (انبیاءؑ) سے وراثت نہیں ملتی ہے۔ ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں صدقہ ہے‘‘۔
اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ تمام حضرات انبیائے کرام ؑ اس حد تک فطرتاً کمیونسٹ تھے۔{ FR 5520 }
(۵) ترجمان القرآن کا آخری جواب{ FR 5521 }
آپ تسلیم کرتے ہیں کہ مصنف نے جس آیت سے ملکیت ِ زمین کا عدم جواز ثابت کرنا چاہا ہے، وہ کوئی قانون بنانے والی آیت نہیں ہے، لیکن اس کے بعد آپ مجھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تم ملکیت ِ زمین کے جواز ہی میں کوئی آیت پیش کرو۔ قبل اس کے کہ مَیں آپ کے اس مطالبہ کو پورا کروں، مَیں یہ قاعدۂ کلیہ آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جب کسی رواجِ عام کے متعلق سکوت اختیار کیا جائے تو اُسے ہمیشہ رضا اور جواز ہی پر محمول کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر کسی جگہ لوگوں نے کسی زمین کو گزرگاہ بنا رکھا ہو، اور وہاں کوئی نوٹس اس فعل کی ممانعت کے لیے نہ لگایا گیا ہو تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہاں راستہ چلنا جائز ہے۔ اس جواز کے لیے کسی اثباتی اجازت کا ہونا ضروری نہیں ہے، اس لیے کہ وہاں ممانعت کا نہ ہونا خود ہی اجازت کا مفہوم پیدا کر رہا ہے۔ اسی طرح زمین کی ملکیت کا مسئلہ بھی ہے۔
اسلام سے پہلے ہزاروں سال سے دنیا میں یہ دستور جاری تھا۔ قرآن نے اس کی ممانعت نہ کی۔ کوئی صریح حکم اس کے موقوف کرنے کے لیے نہ دیا۔ کوئی دوسرا قانون اس کی جگہ لینے کے لیے نہ بنایا۔ کہیں اشارۃً اس رواج کی مذمت تک نہ کی۔ اس کے معنی یہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پرانے دستور کو جائز رکھا اور یہی معنی لے کر مسلمان نزولِ قرآن کے بعد سے اب تک زمین کو اُسی طرح شخصی ملکیت بناتے رہے جس طرح اس سے پہلے وہ شخصی ملکیت بنائی جاتی رہی تھی۔ اب اگر کوئی اس کے عدم جواز کا قائل ہے تو اسے عدم جواز کا ثبوت دینا چاہیے، نہ یہ کہ وہ ہم سے جواز کا ثبوت مانگے۔
لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ قرآن نے پرانے دستور کو موقوف نہیں کیا بلکہ اگر آپ قرآن کا غائر مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس نے ایجاباً اسے جائز تسلیم کیا ہے اور اُسی کی بنیاد پر معیشت اور معاشرت کے متعلق احکام دیے ہیں۔
دیکھیے، زمین سے انسان کی دو ہی اغراض وابستہ ہیں، یا زراعت، یا سکونت، قرآن ان دونوں اغراض کے لیے زمین کی شخصی ملکیت کو تسلیم کرتا ہے۔ سورئہ انعام میں ہے:
کُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖ اِذَا اَثْمَرَ وَاٰتُوا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ (الانعام ۶:۱۴۱)
’’اس کے پھلوں میں سے کھائو جب کہ وہ پھل لائے اور اس کی فصل کٹنے کے دن اس کا (یعنی خدا کا) حق ادا کرو‘‘۔
یہاں خدا کا حق ادا کرنے سے مراد زکوٰۃ و صدقہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر زمین اجتماعی ملکیت ہو تو نہ زکوٰۃ دینے کا سوال پیدا ہوتا ہے نہ لینے کا۔ یہ حکم صرف اسی بنیاد پر دیا جاسکتا تھا جب کہ کچھ لوگ زمین کے مالک ہوں اور وہ اس کی پیداوار میں سے خدا کا حق نکالیں ، اور کچھ دوسرے لوگ زمین کے مالک نہ ہوں، اور انھیں پیداوار کا وہ حصہ دیا جائے جو خدا کے لیے نکالا گیا ہو۔ فرمایئے، یہ حکم دے کر قرآن نے ملکیت زمین کے پرانے نظام کی توثیق کی یا نہیں؟ اسی کی تائید ایک دوسری آیت سے ہوتی ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَ مِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ (البقرہ۲:۲۶۷)
’’اے ایمان لانے والو! خرچ کرو اپنی پاک کمائیوں میں سے اور ان چیزوں میں سے جو ہم نے تمھارے لیے زمین سے نکالی ہیں‘‘۔
یہاں زمین کی پیداوار میں سے خرچ کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ اس سے مراد زکوٰۃو خیرات ہے۔ اس حکم کی بجاآوری وہی شخص کرے گا جو پیداوار کا مالک ہوگا، اور انھی لوگوں پر یہ انفاق کیا جائے گا جو صاحب ِ مال و جائداد نہیں ہیں۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ خیرات کے مستحق کون ہیں؟
لِلْفُقَرَآئِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ (البقرہ۲:۲۷۳) اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَ الْمَسٰکِیْنِ (التوبہ ۹:۶۰)
رہی دوسری غرض تو اس کے متعلق سورئہ نُور میں ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَدْخُلُوْا بُیُوتًا غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَھْلِھَا ……فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْھَآ اَحَدًا فَلاَ تَدْخُلُوْھَا حَتّٰی یُؤْذَنَ لَکُمْ (النور۲۴:۲۷-۲۸)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک کہ پوچھ نہ لو اور جب داخل ہو تو اس گھر والوں کو سلام کرو… اور اگر وہاں کسی کو نہ پائو تو اندر نہ جائو تاوقتیکہ تمھیں ایسا کرنے کی اجازت نہ دی گئی ہو‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن سکونت کے لیے بھی زمین کے شخصی قبضہ و ملکیت کی توثیق کرتا ہے اور ایک مالک کے اس حق کا استقرار کرتا ہے کہ کوئی دوسرا شخص اس کی اجازت کے بغیر اس کے حدود میں قدم نہ رکھے۔
اب حدیث کی طرف آیئے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ آپ نے قرآن کے منشا کی تعیین میں رسول اللہV کے اسوئہ حسنہ کو قولِ فیصل تسلیم کیا ہے۔ اگر اس بات پر تعجب بھی ہوا کہ جو حدیثیں آپ نے نقل فرمائی ہیں انھیں آپ حضرت مصنف کی تاویل کا مؤیّد قرار دے رہے ہیں، حالانکہ وہ سب زمین کی شخصی ملکیت کو ثابت کرر ہی ہیں اور ان میں سے کسی ایک کا منشا بھی یہ نہیں ہے کہ زمین کو افراد کے قبضے سے نکال کر اجتماعی ملکیت بنا دیا جائے، البتہ ان احادیث کی بناپر یہ غلط فہمی ضرور پیدا ہوتی ہے کہ نبیa نے کرایۂ زمین (یعنی لگان) اور مزارعت (یعنی بٹائی) سے منع فرمایا ہے، اور یہ کہ حضوؐر کا منشا یہ تھا کہ ہرشخص کے پاس بس اتنی ہی زمین رہے جسے وہ خود کاشت کرسکتا ہو، لیکن جیسا کہ مَیں عن قریب بتائوں گا، یہ غلط فہمی بھی صرف اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ آدمی کسی جگہ سے چند حدیثیں نکال کر اُن سے ایک معنی اخذ کربیٹھتا ہے۔ ورنہ اگر بحیثیت ِمجموعی اس مسئلہ میں نبیa کے تمام ارشادات ، اور آپ کے عہد کے عمل ، اور زمانۂ خلفائے راشدینؓ کے عمل کو دیکھا جائے، اور یہ دیکھا جائے کہ عہد ِ نبوت سے قریب زمانہ کے اَئمہ نے قرآن، حدیث اور آثارِ صحابہؓ پر جامع نگاہ ڈال کر زمین کے بارے میں اسلام کا قانون کیا سمجھتا تھا، تو اس امر میں قطعاً کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ اسلام صرف یہی نہیں کہ زمین کی شخصی ملکیت کو جائز رکھتا ہے ، بلکہ وہ اس ملکیت پر کوئی حد بھی نہیں لگاتا، اور مالک زمین کو یہ حق دیتا ہے کہ جس زمین کو وہ خود کاشت نہ کرتا ہو، اسے وہ دوسرے کو مزارعت یا کرایہ پر دے دے۔
آیئے اب ذرا ہم اس مسئلے میں اسلامی قانون کے اصل مآخذ کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیں۔
٭٭٭
زمین کی شخصی ملکیت ازرُوئے حدیث
نبی اکرمa اور خلفائے راشدینؓ کے عہد میں زمین کا انتظام کس طریقے پر کیا گیا تھا، اسے سمجھنے کے لیے پہلے یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ شریعت کی رُو سے اسلامی حکومت کے زیرحکم آنے والی اراضی چار بڑی اَقسام پر منقسم ہوتی ہیں:
اراضی کی چارقسمیں
۱- وہ جن کے مالک اسلام قبول کرلیں۔
۲- وہ جن کے مالک اپنے دین ہی پر رہیں مگر ایک معاہدے کے ذریعہ سے اپنے آپ کو اسلامی حکومت کی تابعیت میں دیں۔
۳- وہ جن کے مالک بزورِ شمشیر مغلوب ہوں۔
۴- وہ جو کسی کی ملک میں نہ ہوں۔
اِن میں سے ہر ایک کے متعلق آں حضرتa اور آپؐ کے خلفاءؓ نے کیا طرزِعمل اختیار کیا تھا، اسے ہم الگ الگ بیان کریں گے۔
قسمِ اوّل کا حکم
پہلی قسم کی املاک کے معاملہ میں نبی اکرمa نے جس اصول پر عمل فرمایا وہ یہ تھا:
اِنَّ القوم اذا اسلموا احرزوا دماءھم واموالھم
(ابوداؤد، کتاب الخراج، باب فی اقطاع الارضین)
’’جب لوگ اسلام قبول کرلیں تو وہ اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ کرلیتے ہیں‘‘۔
انہ من اسلم علٰی شی ءٍ فَھُو لَہٗ (کتاب الاموال، لابی عبید)
’’آدمی اسلام قبول کرتے وقت جن املاک کا مالک تھا وہ اُسی کی مِلک رہیں گی‘‘۔
یہ اُصول جس طرح املاکِ منقولہ پر چسپاں ہوتا تھا اسی طرح غیرمنقولہ پر بھی چسپاں ہوتا تھا، اور اس معاملہ میں جو برتائو غیرزرعی جائدادوں کے ساتھ تھا وہی زرعی جائدادوں کے ساتھ بھی تھا۔ حدیث اور آثار کا پورا ذخیرہ اس پر شاہد ہے کہ آں حضرتa نے عرب میں کسی جگہ بھی اسلام قبول کرنے والوں کی املاک سے ذرّہ برابر کوئی تعرض نہیں فرمایا۔ جو جس چیز کا مالک تھا اسی کا مالک رہنے دیا گیا۔ اس باب میں اسلامی قانون کی تشریح امام ابویوسفl ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’جو لوگ اسلام قبول کرلیں اُن کا خون حرام ہے۔ قبولِ اسلام کے وقت جن اموال کے وہ مالک ہوں وہ انھی کی مِلک رہیں گے۔ اسی طرح ان کی زمینیں بھی اُنھی کی مِلک رہیں گی اور وہ زمینیں عشری قرار دی جائیں گی۔ اس کی نظیر مدینہ ہے جس کے باشندوں نے رسول اللہa کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور وہ اپنی زمین کے مالک رہے اور اُن پر عُشر لگا دیا گیا۔ ایسا ہی معاملہ طائف اور بحرین کے لوگوں سے بھی کیا گیا۔ اسی طرح بدویوں میں سے بھی جن جن لوگوں نے اسلام قبول کیا وہ اپنے اپنے چشموں اور اپنے اپنے علاقوں کے مالک تسلیم کیے گئے… اُن کی زمین عشری زمین ہے۔ وہ اس سے بے دخل نہیں کیے جاسکتے، اور انھیں اس پر بیع اور وراثت کے جملہ حقوق حاصل ہیں۔ بالکل اسی طرح جن علاقوں کے باشندے اسلام قبول کرلیں وہ اپنی املاک کے مالک رہیں گے‘‘۔ (کتاب الخراج، ص ۳۵)
اسلامی قانونِ معیشت کے دوسرے جلیل القدر محقق امام ابوعبید القاسم بن سلام لکھتے ہیں:
’’رسول اللہ a اور آپؐ کے خلفا سے جو آثار ہم تک پہنچے ہیں وہ اراضی کے بارے میں تین قسم کے احکام لائے ہیں۔ ایک قسم ان اراضی کی جن کے مالک اسلام قبول کرلیں۔ تو قبولِ اسلام کے وقت وہ جن اراضی کے مالک ہوں وہ اُنھی کی مِلک رہیں گی اور وہ عشری زمینیں قرار پائیں گی۔ عشر کے سوا ان پر اور کچھ نہ لگے گا…‘‘ (کتاب الاموال، ص ۵۵)
آگے چل کر پھر لکھتے ہیں:
’’جس علاقے کے باشندے اسلام لے آئے وہ اپنی زمینوں کے مالک رہے، جیسے مدینہ، طائف، یمن اور بحرین۔ اسی طرح مکّہ اگرچہ بزورِ شمشیر فتح ہوا، لیکن رسول اللہa نے اس کے باشندوں پر احسان کیا اور ان کی جانوں سے تعرض نہ کیا اور ان کے اَموال کو غنیمت نہ ٹھہرایا… پس جب ان کے اموال ان کی مِلک میں چھوڑ دیئے گئے اور اس کے بعد وہ مسلمان ہوگئے تو ان کی املاک کا حکم بھی وہی ہوگیا جو دوسرے مسلمان ہونے والے لوگوں کی املاک کا تھا، اور ان کی زمینیں بھی عشری قرار دی گئیں۔ (ص۵۱۲)
علامہ ابنُ القیمl ’’زاد المعاد‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’نبی کریمa کا طریقہ یہ تھاکہ جو شخص اسلام لانے کے وقت جس چیز پر قابض تھا وہ اسی کے قبضہ میں رہنے دی گئی۔ یہ نہیں دیکھا گیا کہ اسلام لانے سے پہلے وہ چیز کس ذریعہ سے اس کے قبضہ میں آئی تھی۔ بلکہ وہ اس کے ہاتھ میں اسی طرح رہنے دی گئی جس طرح وہ پہلے سے چلی آرہی تھیں‘‘۔ (جلد۲،ص ۹۶)
یہ ایک ایسا قاعدۂ کلیہ ہے جس میں استثناء کی کوئی ایک مثال بھی عہد ِ نبوت اور عہد ِ خلافت راشدہؓ کے نظائر میں نہیں ملتی۔ اسلام نے اپنے پیروئوں کی معاشی زندگی میں جو اصلاحیں بھی جاری کیں آیندہ کے لیے کیں، مگر جو ملکیتیں پہلے سے لوگوں کے قبضے میں چلی آرہی تھیں ان سے کوئی تعرض نہ کیا۔
قسمِ دُوُم کا حکم
دوسری قسم ان لوگوں کی تھی جنھوں نے اسلام تو قبول نہ کیا مگر مصالحانہ طریقہ سے اسلامی حکومت کے تابع بن کر رہنا قبول کرلیا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں جو اصول نبی اکرمa نے مقررفرمایا وہ یہ تھا کہ جن شرائط پر بھی ان سے مصالحت ہوئی ہو انھیں بے کم و کاست پورا کیا جائے۔ چنانچہ حدیث میں آپ کا ارشاد ہے:
لعلکم تقاتلون قومًا فیظھرون علیکم فیتقون باموالھم دُون انفسھم وابناء ھم فتصالحونھم علٰی صلح فلا تصیبوا منھم فوق ذٰلک فانہ لا یصلح (ابوداؤود، ابن ماجہ)
’’اگر کبھی ایسا ہو کہ کسی قوم سے تمھاری جنگ ہو، پھر وہ تمھارے سامنے آکر اپنی اور اپنے بال بچوں کی جانیں بچانے کے لیے اپنے مال دینے پر تیار ہوجائیں، اور تم ان سے صلح کرلو، تو ایسی صورت میں جس چیز پر ان سے تمھاری صلح ہو اس سے زائد کچھ نہ لینا کیوں کہ وہ تمھارے لیے جائز نہیں ہے‘‘۔
الا من ظلم معاھدا او انتقصہ او کلفہ فوق طاقتہٖ او اخذ منہ شیئًا بغیر طیب نفس فان حجیجہ یوم القیٰمۃ (ابوداؤد)
’’خبردار رہو، جو شخص کسی معاہد ذمی پر ظلم کرے گا، یا ازرُوئے معاہدہ اس کے جو حقوق ہوں ان کے اندر کوئی کمی کرے گا، یا اس پر اس کی برداشت سے زیادہ بار ڈالے گا، یا اس سے اس کی رضامندی کے بغیر کوئی چیز لے گا، اس کے خلاف مَیں خود قیامت کے روز مدعی بنوں گا‘‘۔
اسی اصول کے مطابق نبی اکرمa نے نجران، اَیلہ، اَذرُعات، ہجر اور دوسرے جن جن علاقوں اور قبیلوں کے ساتھ صلح کی ان سب کو اُن کی زمینوں، جایدادوں اور صنعتوں اور تجارتوں پر بدستور بحال رہنے دیا اور صرف وہ جزیہ و خراج ان سے وصول کرنے پر اکتفا فرمایا جس پر ان سے معاہدہ ہوا تھا۔ پھر اسی پر خلفائے راشدینؓ نے بھی عمل کیا۔ عراق، شام، الجزیرہ، مصر، آرمینیہ، غرض جہاں جہاں بھی کسی شہر اور کسی بستی کے لوگوں نے صلح کے طریقے پر اپنے آپ کو اسلامی حکومت کے حوالہ کیا ان کی املاک بدستور ان کے قبضے میں رہنے دی گئیں اور ان سے مالِ صلح کے سوا کوئی چیز کبھی وصول نہ کی گئی۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بعض اہم مصلحتوں کی بنا پر نجران کے باشندوں کو اندرونِ عرب سے شام و عراق کی طرف منتقل کیا بھی گیا تو ان میں سے جس جس کے پاس نجران میں جتنی زرعی اور سکنی جایداد تھی اس کے بدلے میں نہ صرف اُتنی ہی جایداد اسے دوسری جگہ دی گئی بلکہ حضرت عمرؓ نے اپنے شام و عراق کے گورنروں کے نام فرمانِ عام لکھا کہ جس کے علاقے میں بھی وہ جاکر آباد ہوں وہ فلیوسّعھم من خریب الارض ’’وہ فراغ دلی کے ساتھ افتادہ زمینوں میں سے انھیں دے‘‘۔(کتاب الاموال لابی عبید،ص ۱۸۹)
اس قاعدئہ کلیہ میں بھی کسی استثنا کی مثال عہد ِ نبوت اور عہد ِ خلافت ِ راشدہؓ کے نظائر سے پیش نہیں کی جاسکتی۔ چنانچہ یہ بھی فقہائے اسلام کا متفق علیہ قانون ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں۔ امام ابویوسف l اسے اپنی کتاب الخراج میں ایک قانونی دفعہ کے طور پر اس طرح ثبت فرماتے ہیں:
’’غیر مسلموں میں سے جس قوم کے ساتھ اس بات پر امام کی صلح ہوجائے کہ وہ مطیعِ حکم ہوجائیں اور خراج ادا کریں تو وہ اہلِ ذمہ ہیں، ان کی اراضی اراضیٔ خراج ہیں، ان سے بس وہی کچھ لیا جائے گا جس پر ان سے صلح ہوئی ہو، ان کے ساتھ عہد پورا کیا جائے اور ان پر کسی چیز کا اضافہ نہ کیا جائے گا‘‘۔ (ص ۳۵)
قسم سِوُم کے احکام
رہے وہ لوگ جو آخر وقت تک مقابلہ کریں اور بزورِ شمشیر مغلوب ہوں، تو ان کے بارے میں تین مختلف طرزِعمل ہمیں عہد نبوتؐ و خلافت ِ راشدہؓ میں ملتے ہیں:
ایک وہ طرزِعمل جو نبی اکرمa نے مکہ میں اختیار فرمایا، یعنی فتح کے بعد لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کا اعلانِ عام اور مفتوحین کو جان و مال کی پوری معافی۔اس صورت میں، جیساکہ اُوپر بیان ہوچکا ہے، اہلِ مکہ اپنی زمینوں اور جایدادوں کے بدستور مالک رہے اور اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی زمینیں عشری زمینیں قرار دے دی گئی۔
دوسرا وہ طرزِعمل جو آپؐ نے خیبر میں اختیار فرمایا، یعنی مفتوح علاقے کو مالِ غنیمت قرار دینا۔ اس صورت میں سابق مالکوں کی ملکیت ساقط کردی گئی، ایک حصہ خدا اور رسولؐ کے حق میں لے لیا گیا، اور باقی زمین کو ان لوگوں پر تقسیم کردیا گیا جو فتح خیبر کے موقع پر لشکرِ اسلام میں شامل تھے۔ یہ تقسیم شدہ زمینیں جن جن لوگوں کے حصے میں آئیں وہ ان کے مالک قرار پائے اور ان پر عشر لگا دیا گیا۔ (کتاب الاموال، لابی عبید،ص ۵۱۳)
تیسرا وہ طرزِعمل جو حضرت عمرؓ نے ابتداء ً شام اور عراق میں اختیار فرمایا اور بعد میں تمام مفتوح ممالک کا بندوبست اسی کے مطابق ہوا، وہ یہ تھا کہ آپ نے مفتوح علاقے کو فاتح فوج میں تقسیم کرنے کے بجائے اسے تمام مسلمانوں کی اجتماعی ملکیت قرار دیا، اس کا انتظام مسلمانوں کی طرف سے نیابتاً اپنے ہاتھ میں لے لیا، اصل باشندوں کو حسب ِ سابق ان کی زمینوں پر بحال رہنے دیا، ان کو ذمّی قرار دے کر ان پر جزیہ و خراج عائد کر دیا، اور اس جزیہ و خراج کا مصرف یہ قرار دیا کہ وہ عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر صَرف ہو، کیوں کہ بنیادی نظریہ کے اعتبار سے وہی ان مفتوح علاقوں کے اصل مالک تھے۔
اس آخری صورت میں بظاہر ’’اجتماعی ملکیت‘‘ کے تصور کا ایک دھندلا سا شائبہ پایا جاتا ہے، مگر جس طرح یہ پورا معاملہ طے ہوا تھا اس کی تفصیلات پر نظر ڈالنے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس اجتماعی ملکیت کو اشتراکیت کے تصور سے دُور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ جب مصروشام اور عراق کے وسیع علاقے فتح ہوئے تو حضرت زبیرؓ، حضرت بلالؓ اور ان کے ہم خیال لوگوں نے حضرت عمرؓ سے مطالبہ کیا کہ ان علاقوں کی تمام زمینیں اور جایدادیں خیبر کی طرح فاتح فوج میں تقسیم کردی جائیں، لیکن حضرت عمرؓ نے اس سے انکار کیا اور حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت معاذؓ بن جبل جیسے اکابر صحابہؓ نے اس معاملہ میں اُن کی تائید کی۔ اس انکار کے وجوہ کیا تھے؟ اس پر وہ تقریریں روشنی ڈالتی ہیں جو اس موقع پر ہوئیں۔ حضرت معاذ ؓ نے کہا:
’’اگر آپ اسے تقسیم کریں گے تو خدا کی قسم اس کا نتیجہ وہ ہوگا جو آپ ہرگز پسند نہ کریں گے۔ بڑی بڑی زرخیز زمینوں کے ٹکڑے فوج میں تقسیم ہوجائیں گے۔ پھر یہ لوگ مرکھپ جائیں گے اور کسی کی وارث کوئی عورت ہوگی اور کسی کا ورث کوئی بچہ ہوگا، پھر جو دوسرے لوگ اسلام کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اُٹھیں گے انھیں دینے کے لیے حکومت کے پاس کچھ نہ ہوگا۔ لہٰذا آپ وہ کام کیجیے جس میں آج کے لوگوں کے لیے بھی گنجائش ہو اور بعد والوں کے لیے بھی‘‘۔
حضرت علیb نے فرمایا:
’’ملک کی کاشت کار آبادی کو اس کے حال پر رہنے دیجیے تاکہ وہ سب مسلمانوں کے لیے معاشی قوت کا ذریعہ ہوں‘‘۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا:
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مَیں زمین کو تم لوگوں پر تقسیم کردوں اور بعد کے آنے والوں کو اس حال میں چھوڑ دوں کہ ان کا اس میں کچھ حصہ نہ ہو… آخر بعد کی نسلوں کے لیے کیا رہے گا؟… کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ آیندہ آنے والوں کے لیے کچھ نہ رہے؟… اور مجھے یہ بھی اندیشہ ہے کہ اگر مَیں اسے تمھارے درمیان تقسیم کر دوں تو تم پانی پر آپس میں فساد کرنے لگو گے‘‘۔
اس بنیاد پر جو فیصلہ کیا گیا وہ یہ تھا کہ زمین اس کے سابق باشندوں ہی کے پاس رہنے دی جائے، اور انھیں ذمی بنا کر ان پر جزیہ و خراج لگا دیا جائے اور یہ خراج مسلمانوں کی عام فلاح پر صرف ہو۔ اس فیصلہ کی اطلاع حضرت عمرؓ نے اپنے عراق کے گورنر، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو جن الفاظ میں دی تھی وہ یہ ہیں:
فانظر ما اجلبوا بہٖ عَلیک فی العسکر من کراع او مال فاقسمہ بین من حضر من المسلمین واترک الارضین لعمالھا لیکون ذٰلک فی اعطیات المسلمین ، فانّـا لو قسمنا ھابین من حضر لم یکن لمن بعدھم شی ءٌ{ FR 5567 }
’’جو کچھ اموال منقولہ سپاہیوں نے دورانِ جنگ میں بطورِ غنیمت حاصل کیے ہیں اور لشکر میں جمع کرا دیے ہیں انھیں تو انھی لوگوں میں تقسیم کردو جو جنگ میں شریک ہوئے تھے، مگر نہروں اور زمینوں کو انھی لوگوں کے ہاتھوں میں رہنے دو جو ان پر کام کرتے تھے تاکہ وہ مسلمانوں کی تنخواہوں کے لیے محفوظ رہیں، ورنہ اگر ہم انھیں بھی موجودہ لوگوں میں تقسیم کردیں تو پھر بعد والوں کے لیے کچھ نہ رہے گا‘‘۔
اس نئے بندوبست کا اساسی نظریہ تو یہی تھا کہ اب ان مفتوحہ اراضی کے مالک مسلمان ہیں، اور سابق مالکوں کی اصل حیثیت صرف کاشت کارانہ ہے، اور حکومت مسلمانوں کے ایجنٹ کی حیثیت سے ان کے ساتھ معاملہ کر رہی ہے،{ FR 5568 } لیکن عملاً ذمّی بنالینے کے بعد انھیں جو حقوق دیے گئے وہ مالکانہ حقوق سے کچھ بھی مختلف نہ تھے۔ وہ انھی رقبوں پر قابض رہے جن پر پہلے قابض تھے۔ ان پر خراج کے سوا کوئی دوسری چیز حکومت یا مسلمانوں کی طرف سے عائد نہ کی گئی اور ان کو اپنی زمینوں پر بیع اور رہن اور وراثت کے وہ تمام حقوق بدستورحاصل رہے جو پہلے حاصل تھے۔ اس معاملہ کو امام ابویوسفؒ ایک قانونی ضابطہ کی شکل میں یوں بیان فرماتے ہیں:
’’جس سرزمین کو امام بزورِ شمشیر فتح کرے اس کے معاملہ میں وہ اختیار رکھتا ہے کہ اگر چاہے تو فاتح فوج میں اسے تقسیم کردے۔ اس صورت میں وہ عشری زمین ہوجائے گی، لیکن اگر وہ تقسیم کرنا مناسب نہ سمجھے، اور بہتر یہی خیال کرے کہ اسے اس کے پُرانے باشندوں کے ہاتھوں میں رہنے دے، جیساکہ حضرت عمرؓ نے عراق میں کیا، تو وہ ایسا کرنے کا اختیار بھی رکھتا ہے۔ اس صورت میں وہ زمین خراجی ہوگی اور خراج لگ جانے کے بعد پھر امام کو یہ حق باقی نہ رہے گا کہ اس کے باشندوں سے اسے چھین لے۔ وہ ان کی مِلک ہوگی، وہ اسےوراثت میں ایک دوسرے کی طرف منتقل کریں گے، اس کی خریدوفروخت کرسکیںگے ، ان پر خراج لگا دیا جائے گا ، اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالا جائے گا‘‘۔ (کتاب الخراج، ص ۳۵-۳۶)
قسم چہارُم کے اَحکام
مذکورہ بالا تین قسمیں تو اُن اراضی کی تھیں جو پہلے سے مختلف قسم کے لوگوں کی ملکیت میں تھیں اور اسلامی نظام قائم ہونے کے بعد یا تو ان کی پچھلی ملکیتوں ہی کی توثیق کر دی گئی، یا بعض حالات میں اگر ردّ و بدل کیا بھی گیا تو صرف ہاتھوں میں کیا گیا نہ کہ بجائے خود نظامِ ملکیت میں۔ اس کے بعد ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جن زمینوں کا کوئی مالک نہ تھا، یا نہ رہا تھا، ان کے بارے میں نبی اکرمa اور آپؐ کے خلفا نے کیا طرزِعمل اختیار فرمایا:
اس نوعیت کی اراضی دو بڑی اصناف پر مشتمل تھیں:
ایک ’’مَوَات‘‘یعنی اُفتادہ زمینیں، خواہ وہ عادیُّ الارض ہوں (جن کے مالک مرکھپ گئے ہوں) یا جن کا کبھی کوئی مالک رہا ہی نہ ہو، یا جو جھاڑیوں، دلدلوں اور سیلابوں کے نیچے آگئی ہوں۔
دوسری ’’خالصہ‘‘ زمینیں، یعنی جن کو سرکاری املاک قرار دیا گیا تھا۔ ان میں کئی طرح کی اراضی شامل تھیں۔ ایک وہ جنھیں مالکوں نے خود ان سے دست بردار ہوکر حکومت کو اختیار دے دیا تھا کہ انھیں جس طرح چاہے استعمال کرے۔{ FR 5574 } دوسری وہ جن کے مالکوں کو اسلامی حکومت نے بے دخل کرکے خالصہ کرلیا تھا۔ مثلاً مضافاتِ مدینہ میں بنی نضیر کی زمینیں۔ تیسری وہ جو مفتوحہ علاقوں میں خالصہ قرار دی گئی تھیں۔ مثلاً وہ اراضی جو عراق میں کسریٰ اور اس کے اہلِ خاندان کے قبضہ میں تھیں، یا جن کے مالک جنگ میں مارے گئے یا بھاگ گئے تھے ، اور حضرت عمرؓ نے انھیں خالصہ قرار دے دیا تھا۔{ FR 5580 }
ان دونوں اقسام کا حکم ہم الگ الگ بیان کریں گے۔
حقوقِ ملکیت بربنائے آبادکاری
’’مَوَات‘‘ کے بارے میں نبی اکرمa نے اس قدیم ترین اُصول کی تجدید فرمائی جس سے دُنیا میں ملکیت زمین کا آغاز ہوا ہے۔ جب انسان نے اس کرئہ خاکی کو آباد کرنا شروع کیا تو اُصول یہی تھا کہ جو جہاں رہ پڑا ہے وہ جگہ اسی کی ہے، اور جس جگہ کو کسی نے کسی طور پر کارآمد بنالیا ہے اُس کے استعمال کا وہی زیادہ حق دار ہے۔ یہی قاعدہ تمام عطیاتِ فطرت پر انسان کے مالکانہ حقوق کی بنیاد ہے، اور اسی کی توثیق نبی اکرمaنے مختلف مواقع پر اپنے ارشادات میں فرمائی ہے۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے:
عن عائشۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من عمر ارضًا لیست لاحدٍ فَھُو احق بھا ، قال عروۃ قضٰی بہٖ عمر فی خلافتہٖ (بخاری، احمد، نسائی)
’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرمa نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی ایسی زمین کو آباد کیا جو کسی دوسرے کی ملک نہ ہو وہی اس کا زیادہ حق دار ہے۔ عروہ بن زبیر کہتے ہیںکہ اسی پر حضرت عمرؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں عمل درآمد کیا‘‘۔
عن جابرٍ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من احیٰی ارضًا میتۃ فھی لَہٗ (احمد، ترمذی، نسائی، ابن حبان)
’’جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ جس کسی نے مُردہ زمین کو زندہ کیا (یعنی بے کار پڑی ہوئی زمین کو کارآمد بنا لیا) وہ زمین اسی کی ہے‘‘۔
عن سمرہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من احاط حائطًا علٰی ارض فھی لَہٗ (ابوداؤد)
’’سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ نبی اکرمa نے فرمایا: جس نے کسی اُفتادہ زمین پر احاطہ کھینچ لیا وہ اُسی کی ہے‘‘۔
عن اسمر بن مضرس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من سبق الٰی ماء لم یسبقہ اِلیہ مسلم فَھُو لَہٗ (ابوداؤد)
’’اسمر بن مضرس سے روایت ہے کہ نبی اکرمa نے فرمایا: جو شخص کسی ایسے کنوئیں کو پائے جس پر پہلے کوئی مسلمان قابض نہ ہو وہ کنواں اسی کا ہے‘‘۔
عن عروۃ قال اشھد انَّ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضٰی ان الارض ارض اللہ والعباد عباد اللہ ، ومن احیٰی مواتًا فَھُو احق بھا ، جاءنا بھٰذا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم الذین جاؤا بالصلوات عنہ (ابوداؤد)
’’عروہ بن زبیر (تابعی) کہتے ہیں کہ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہaنے یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ زمین خدا کی ہے اور بندے بھی خدا کے ہیں، جو شخص کسی مُردہ زمین کو زندہ کرے، وہی زمین کا زیادہ حق دار ہے۔ یہ قانون ہم تک نبیaسے انھی بزرگوں کے ذریعہ پہنچا ہے جن کے ذریعہ سے پنج وقتہ نماز پہنچی ہے (یعنی صحابہ کرامؓ)‘‘۔
اس فطری اصول کی تجدید و توثیق کرنے کے ساتھ آں حضرتa نے اس کے لیے دو ضابطے مقرر فرما دیے۔ ایک یہ کہ جو شخص دوسرے کی مملوکہ زمین کو آباد کرے وہ اس فعل آبادکاری کی بنا پر ملکیت کا حق دار نہ ہوجائے گا۔ دوسرے یہ کہ جو شخص خواہ مخواہ احاطہ کھینچ کر یا نشان لگاکر کسی زمین کو روک رکھے اور اس پر کوئی کام نہ کرے اس کا حق تین سال کے بعد ساقط ہوجائے گا۔ پہلے ضابطہ کو آپ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
عن سعید بن زید قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من احییٰ ارضًا میتۃً فھی لَہٗ ولیس لِعِرُقٍ ظَالمٍ حقٌ (احمد، ابوداؤد، ترمذی)
’’سعید بن زید کہتے ہیں کہ رسول اللہa نے فرمایا: جس کسی نے کسی مُردہ زمین کو زندہ کر لیا وہ اسی کی ہے، اور دوسرے کی زمین میں ناروا طور پر آبادکاری کرنے والے کے لیے کوئی حق نہیں ہے‘‘۔
دوسرے ضابطہ کا مآخذ یہ روایات ہیں:
عن طاؤس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عادیّ الارض لِلّٰہِ وللرسول ثم لکم من بعد فمن احیٰی ارضًا میتۃً فھی لَہٗ ولیس لمحتجر حق بعد ثلٰث سنین (ابویوسف، کتاب الخراج)
’’طاؤس (تابعی) کہتے ہیں کہ رسول اللہa نے فرمایا: غیرمملوکہ زمین جس کا کوئی ولی و وارث نہ ہو، خدا اور رسولؐ کی ہے، پھر اس کے بعد وہ تمھارے لیے ہے۔ پس جو کوئی کسی مُردہ زمین کو زندہ کرلے وہ اسی کی ہے اور بے کار روک کر رکھنے والے کے لیے تین سال کے بعد کوئی حق نہیں ہے‘‘۔
عن سالم بن عبداللہ ان عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ قال علی المنبر من احیٰی ارضًا میتۃً فھی لَہٗ وَلیس لمحتجر حق بعد ثلٰث سنین وذٰلک ان رجالًا کَانُوا یحتجرون من الارض ما لا یعملون (ابوسف، کتاب الخراج)
’’سالم بن عبداللہ (حضرت عمرؓ کے پوتے) روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرb نے برسرِ منبر فرمایا کہ جس نے کسی مُردہ زمین کو زندہ کیا وہ اسی کی ہے مگر خواہ مخواہ روک رکھنے والے کے لیے تین سال کے بعد کوئی حق نہیں ہے۔ یہ اعلان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ بعض لوگ زمینوں کو یوں ہی روک رکھتے تھے اور ان پر کوئی کام نہ کرتے تھے‘‘۔
یہ مسئلہ فقہائے اسلام کے درمیان متفق علیہ ہے۔ اگر کوئی اختلاف ہے تو صرف اس امر میں کہ آیا محض آبادکاری کا فعل کرلینے ہی سے کوئی شخص ارضِ مَوات کا مالک ہوجاتا ہے یا ثبوت ملکیت کے لیے حکومت کی منظوری و اجازت ضروری ہے۔ امام ابوحنیفہؒ اس کے لیے حکومت کی منظور کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن امام ابویوسفؒ، امام محمدؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ بن حنبل کی رائے یہ ہے کہ اس معاملہ میں احادیث بالکل صاف ہیں، لہٰذا آبادکار کا حق ملکیت ِ حکومت کی اجازت اور منظوری پر موقوف نہیں ہے، وہ خدا اور رسولؐ کے دیے ہوئے حق کی بنا پر مالک ہوجائے گا، اس کے بعد حکومت کا کام یہ ہے کہ جب معاملہ اس کے سامنے آئے تووہ اس حق کو تسلیم کرے اور نزاع کی صورت میں اس کا استقرار کرائے۔ امام مالکؒ بستی سے قریب کی زمینوں اور دُور دراز کی افتادہ اراضی میں فرق کرتے ہیں۔ پہلی قسم کی زمینیں ان کے نزدیک اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ رہیں دوسری قسم کی زمینیں تو ان کے لیے امام کے عطیہ کی شرط نہیں۔ وہ محض احیا سے آدمی کی مِلک ہوجاتی ہیں۔
اس معاملہ میں حضرت عمرؓ اور حضرت عمرؓ بن عبدالعزیز ، دونوں کا طرزِعمل یہ تھا کہ اگر کوئی شخص کسی زمین کو اُفتادہ سمجھ کر آباد کرلیتا، اور بعد میں کوئی دوسرا شخص آکر ثابت کرتا کہ زمین اس کی تھی، تو اسے اختیار دیا جاتا تھا کہ یا تو آبادکار کے عمل کا معاوضہ ادا کر کے اپنی زمین لے لے، یا زمین کی قیمت لے کر حقِ ملکیت اس کی طرف منتقل کردے۔{ FR 5596 }
عطیۂ زمین من جانب ِ سرکار
پھر ’’مَوات‘‘ اور ’’خالصہ‘‘ دونوں طرح کی زمینوں میں سے بکثرت قطعات نبی اکرمa نے خود بھی لوگوں کو عطا فرمائے، اور آپؐ کے بعد خلفائے راشدینؓ بھی برابر اس طرح کے عطیے دیتے رہے۔ اس کی بہت سی نظیریں حدیث و آثار کے ذخیرے میں موجود ہیں جن میں سے چند یہاں نقل کی جاتی ہیں:
۱- عروہ بن زبیرؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے بیان کیا کہ رسول اللہa نے انھیں اور حضرت عمرؓ بن خطاب کو چند زمینیں عطا کی تھیں۔ پھر حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں حضرت زبیرؓ نے خاندانِ عمرؓ کے لوگوں سے ان کےحصے کی زمین خرید لی اور اس خریداری کی توثیق کے لیے حضرت عثمانؓ کے پاس حاضر ہوئے اور ان سے کہا کہ عبدالرحمٰنؓ بن عوف کی شہادت یہ ہے کہ نبی اکرمa نے یہ زمینیں انھیں اور عمرؓ بن خطاب کو عطا کی تھیں۔ سو مَیں نے خاندانِ عمرؓ سے ان کا حصہ خرید لیا ہے۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے کہا کہ عبدالرحمٰن سچی شہادت دینے والے آدمی ہیں خواہ وہ ان کے حق میں پڑتی ہو یا ان کے خلاف۔ (مسندامام احمد)
۲- علقمہ بن وائل اپنے والد (وائلؓ بن حُجر) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمa نے انھیں حضرموت میں ایک زمین عطا کی تھی۔ (ابوداؤد، ترمذی)
۳- حضرت ابوبکرؓ کی صاحب زادی حضرت اسما بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرمaنے ان کے شوہر حضرت زبیرؓ کو خیبر میں ایک زمین عطا فرمائی تھی جس میں کھجور کے درخت بھی تھے اور دوسرے درخت بھی۔ اس کے علاوہ عروہ بن زبیر کا بیان ہے کہ آپؐ نے انھیں ایک نخلستان بنی نضیر کی زمینوں میں سے بھی دیا تھا، نیز عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک اور وسیع خطۂ زمین بھی آپؐ نے حضرت زبیرؓ کو دیا تھا اور اس کی صورت یہ تھی کہ آپؐ نے ان سے فرمایا: ’’گھوڑا دوڑائو، جہاں جاکر تمھارا گھوڑا ٹھہرجائے گا وہاں تک کی زمین تمھیں دی جائے گی۔ چنانچہ انھوں نے گھوڑا دوڑایا اور جب ایک جگہ جاکر گھوڑا ٹھہر گیا تو وہاں سے اُنھوں نے اپنا کوڑا آگے پھینک دیا۔ اس پر حضوؐر نے فرمایا: اچھا، جہاں ان کا کوڑا گرا ہے وہاں تک کی زمین انھیں دے دی جائے۔ (بخاری، احمد، ابوداؤد، کتاب الخراج لابی یوسف، کتاب الاموال لابی عبید)
۴- عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ نبی اکرمa جب مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ دونوں کو زمینیں عطا فرمائیں۔ (کتاب الخراج لابی یوسف)
۵- ابورافع بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمa نے ان کے خاندان والوں کو ایک زمین عطا کی تھی، مگر وہ اسے آباد نہ کرسکے اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں انھوں نے اسے آٹھ ہزار دینار میں فروخت کر دیا۔ (کتاب الخراج)
۶- ابنِ سیرین کی روایت ہے کہ آں حضرتa نے انصار میں سے ایک صاحب سلیط کو ایک زمین عطا فرمائی۔ وہ اس کے انتظام کے لیے اکثر باہر جاتے رہتے اور بعد میں آکر انھیں معلوم ہوتا کہ ان کے پیچھے اتنا اتنا قرآن نازل ہوا اور رسول اللہa نے یہ یہ احکام دیے۔ اس سے ان کی بڑی دل شکنی ہوتی۔آخرکار انھوں نے ایک روز آں حضرتa کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ یہ زمین میرے اور آپ کے درمیان حائل ہوگئی ہے۔ آپ اسے مجھ سے واپس لے لیں، چنانچہ وہ واپس لے لی گئی۔ بعد میں حضرت زبیرؓ نے اس کے لیے درخواست کی اور آپ نے وہ زمین انھیں دے دی۔(کتاب الاموال)
۷- بلالؓ بن حارث مزنی کی روایت ہے کہ نبی اکرمa نے اُن کو عقیق کی پوری زمین عطا فرمائی تھی۔ (کتاب الاموال)
۸- عدیؓ بن حاتم کی روایت ہے کہ نبی اکرمa نے فرات بن حیان عجلی کو یمامہ میں ایک زمین عطا کی تھی۔ (کتاب الاموال)
۹- عرب کے مشہور طبیب حارث بن کلدہ کے بیٹے نافع نے حضرت عمرؓ سے درخواست کی کہ بصرہ کے علاقے میں ایک زمین ہے جو نہ تو اراضی ٔ خراج میں شامل ہے اور نہ مسلمانوں میں سے کسی کا مفاد اس سے وابستہ ہے۔ آپ وہ مجھے عطا کردیں، میں اپنے گھوڑوں کے لیے اس میں چارا کی کاشت کروں گا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے گورنر ابوموسیٰ اشعری کو فرمان لکھا کہ اگر اس زمین کی کیفیت وہی ہے جو نافع نے مجھ سے بیان کی ہے تو وہ انھیں دے دی جائے۔ (کتاب الاموال)
۱۰- موسیٰ بن طلحہؓ کی روایت ہے کہ حضرت عثمانؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں زبیرؓ بن عوام، سعدؓ بن ابی وقاص، عبداللہ بن مسعودؓ، اُسامہ بن زید، خبابؓ بن اَرت ، عمارؓ بن یاسر، اور سعدؓ بن مالک کو زمینیں عطا کی تھیں۔ (کتاب الخراج، کتاب الاموال)
۱۱- عبداللہ بن حسنؓ کی روایت ہے کہ حضرت علیؓ کی درخواست پر حضرت عمرؓ نے انھیں ینُبع کا علاقہ عطا کیا تھا۔ (کنزالعمال)
۱۲- امام ابویوسف معتبر حوالوں سے روایت کرتے ہیںکہ حضرت عمرؓ نے ان سب زمینوں کو خالصہ قرار دیا تھا، جو کسریٰ اور آلِ کسریٰ نے چھوڑی تھیں، یا جن کے مالک بھاگ گئے تھے، یا جنگ میں مارے گئے تھے، یا جو دلدل، سیلاب اور جھاڑیوں کے نیچے آگئی تھیں۔ پھر جن لوگوں کو بھی آپ زمینیں عطا کرتے تھے انھی اراضی میں سے کرتے تھے۔ (کتاب الخراج)
عطیۂ زمین کے بارے میں شرعی ضابطہ
یہ عطائے زمین کا طریقہ محض شاہانہ بخشش و اَنعام کی نوعیت نہ رکھتا تھا بلکہ اس کے چند قواعد تھے جو ہمیں احادیث و آثار میں ملتے ہیں:
۱- پہلا قاعدہ یہ تھا کہ جو شخص زمین لے کر اس پر کچھ کام نہ کرے اس کا عطیہ منسوخ سمجھا جائے گا۔ اس کی نظیر میں امام ابویوسف یہ روایت لاتے ہیں کہ نبی اکرمa نے قبیلۂ مُزینہ اور جُہینہ کے لوگوں کو کچھ زمین دی تھی ۔ مگر انھوں نے وہ بے کار چھوڑ دی۔ پھر اور لوگ آئے اور انھوں نے اسے آباد کرلیا۔ اس پر مزینہ اور جُہینہ کے لوگ حضرت عمرؓ کے زمانۂ خلافت میں دعویٰ لے کر آئے۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا: اگر یہ میرا یا ابوبکرؓ کا عطیہ ہوتا تو مَیں اسے منسوخ کردیتا، لیکن یہ عطیہ تو نبی اکرمa کا ہے، اس لیے مَیں مجبور ہوں۔ البتہ قانون یہی ہے کہ:
من کانت لہ ارض ثم ترکھا ثلث سنین فلم یعمرھا نعمرھا قومٌ اٰخرون فھم احق بھا
’’جس کے پاس ایک زمین ہو اور وہ اسے تین برس تک بے کار ڈال رکھے اور آباد نہ کرے، پھر کچھ دوسرےلوگ آکر اسے آباد کرلیں تو وہی اس زمین کے زیادہ حق دار ہیں‘‘۔
۲- دوسرا قاعدہ یہ تھا کہ جو عطیہ صحیح طور پر استعمال میں نہ آرہا ہو اس پر نظرثانی کی جاسکتی ہے۔ اس کی نظیر میں ابوعبید نے کتاب الاموال میں اور یحییٰ بن آدم نے الخراج میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ نبی اکرمa نے بلال بن حارثؓ مُزنی کو پوری وادیٔ عقیق دے دی تھی۔ مگر وہ اس کے بڑے حصے کو آباد نہ کرسکے۔ یہ دیکھ کر حضرت عمرؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں ان سے کہا کہ رسول اللہa نے یہ زمین تمھیں اس لیے نہیں دی تھی کہ تم نہ خود اسے استعمال کرو اور نہ دوسروں کو استعمال کرنے دو۔اب تم اس میں سے بس اتنی رکھ لو جسے استعمال کرسکو۔ باقی ہمیں واپس کرو تاکہ ہم اس کو مسلمانوں میں تقسیم کردیں۔ بلال بن حارثؓ نے اس سے انکار کیا، حضرت عمرؓ نے پھر اصرار کیا۔ آخرکار جتنا رقبہ ان کے زیراستعمال تھا اسے چھوڑ کر باقی پوری زمین آپ نے ان سے واپس لے لی اور دوسرے مسلمانوں میں اس کے قطعات بانٹ دیے۔
۳- تیسرا قاعدہ یہ تھا کہ حکومت صرف اراضی مَوات اور اراضی خالصہ ہی میں سے زمینیں عطا کرنے کی مجاز ہے۔ یہ حق اسے نہیں ہے کہ ایک شخص کی زمین چھین کر دوسرے کو دے دے۔ یا اصل مالکان اراضی کے سر پر خواہ مخواہ ایک شخص کو جاگیردار یا زمین دار بناکر مسلط کردے اور اسے مالکانہ حقوق عطا کر کے اصل مالکوں کی حیثیت اس کے ماتحت کاشتکاروں کی سی بنا دے۔
۴- چوتھا قاعدہ یہ تھا کہ حکومت زمینیں انھی لوگوں کو دے گی جنھوں نے فی الحقیقت اجتماعی مفاد کے لیے کوئی قابلِ قدر خدمت انجام دی ہو، یا جن سے اب اس نوعیت کی کوئی خدمت متعلق ہو، یا جنھیں عطیہ دینا کسی نہ کسی طور پر اجتماعی مفاد کے لیے مناسب ہو۔ رہیں شاہانہ غلط بخشیاں جن سے ڈوم ڈھاڑیوں اور خوشامدی لوگوں کو نوازا گیا ہو، یا وہ عطیے جو ظالموں اور جباروں نے اجتماعی مفاد کے برعکس خدمات انجام دینے والوں کو دیے ہوں، تو وہ کسی طرح جائز عطایا کی تعریف میں نہیں آتے۔
جاگیروں کے معاملہ میں صحیح شرعی رویہ
مؤخر الذکر دونوںاصولوں کی بنیاد اس پورے طرزِعمل پر قائم ہے جو نبی اکرمa اور آپؐ کے خلفا نے برتا تھا۔ اس کی تشریح امام ابویوسفl اپنی کتاب الخراج میں اس طرح فرماتے ہیں:
’’امامِ عادل کو حق ہے کہ جو مال کسی کی مِلک نہ ہو اور جس کا کوئی وارث بھی نہ ہو اس میں سے ان لوگوں کو عطیے اور انعام دیے جن کی اسلام میں خدمات ہوں… جس شخص کو وُلاۃِ مہدیین (راہِ راست پر چلنے والے فرماں روائوں) نے کوئی زمین عطا کی ہو اسے واپس لینے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ لیکن جو زمین کسی حاکم نے ایک سے چھینی اور دوسرے کو بخشی تو اس کی حیثیت اس مال کی سی ہے جو ایک سے غصب کیا گیا اور دوسرے کو عطا کر دیا گیا‘‘۔
کچھ دُور آگے چل کر پھر لکھتے ہیں:
’’پس جن جن اقسام کی زمینوں کا ہم نے ذکر کیا ہے کہ امام انھیں عطا کرسکتا ہے ان میں سے جو زمین بھی عراق، عرب، الجبال اور دوسرے علاقوں میں ’’وُلاۃِ مہدیین‘‘ نے کسی کو دی ہے، بعد کے خلفا کے لیے حلال نہیں ہے کہ اسے واپس لیں یا ان لوگوں کے قبضے سے نکالیں جن کے پاس ایسی زمینیں اس وقت موجود ہیں، خواہ وہ اُنھوں نے وراثت میں پائی ہوں یا وارثوں سے خریدی ہوں‘‘۔
آخر میں اس بحث کو ختم کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’پس یہ نظیریں ثابت کرتی ہیں کہ نبی a نے خود بھی زمینیں عطا کی ہیں اور آپؐ کے بعد خلفا بھی دیتے رہے ہیں۔ آں حضرتa نے جسے بھی زمین دی یہ دیکھ کر دی کہ ایسا کرنے میں صلاح اور بہتری ہے، مثلاً کسی نومسلم کی تالیف ِ قلب یا زمین کی آبادی۔ اسی طرح خلفائے راشدینؓ نے بھی جسے زمین دی یہ دیکھ کر دی کہ اس نے اسلام میں کوئی عمدہ خدمت انجام دی ہے یا وہ اعدائے اسلام کے مقابلہ میں کارآمد ہوسکتا ہے ، یا یہ کہ ایسا کرنے میں بہترین ہے‘‘۔ (کتاب الخراج، ص ۳۲-۳۵)
یہ تصریحات امام ابویوسفؒ نے دراصل عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے اس سوال کے جواب میں فرمائی ہیں کہ جاگیروں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور ایک فرماں روا کہاں تک جاگیریں عطا اور ضبط کرنے کا مجاز ہے؟ اس کا جو کچھ جواب امام صاحب نے دیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے عطائے زمین بجائے خود تو ایک جائز فعل ہے، مگر نہ سب زمین دینے والے یکساں ہیں اور نہ سب لینے والے۔ ایک عطیہ وہ ہے جو عادل، متدین، راست رو ور خدا ترس حکمرانوں نے دیا ہو۔ اعتدا ل کے ساتھ دیا ہو۔ دین اور ملّت کے سچّے خادموں کو، یا کم از کم مفید اور کارآمد لوگوں کو دیا ہو۔ کسی ایسی غرض کے لیے دیا ہو جس کا فائدہ بحیثیت ِ مجموعی ملک اور ملّت ہی کی طرف پلٹتا ہو اور ایسے مال میں سے دیا ہو جس کے دینے کے وہ مجاز تھے۔ دوسرا عطیہ وہ ہے جو ظالموں، جباروں اور نفس پرستوں نے دیا ہو۔ بُرے لوگوں کو دیا ہو، بُری اغراض کے لیے دیا ہو۔ بے تحاشا دیا ہو اور ایسے مال میں سے دیا ہو جس کے دینے کا اُنھیں حق نہ تھا۔ یہ دو مختلف طرح کے عطیے ہیں اور دونوں کا حکم یکساں نہیں ہے۔ پہلا عطیہ جائز ہے اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اسے برقرار رکھا جائے۔ دوسرا عطیہ ناجائز ہے اور انصاف چاہتا ہے کہ اسے منسوخ کیا جائے۔ بڑا ظالم ہے وہ جو دونوں طرح کے عطیوں کو ایک ہی لکڑی سے ہانک دے۔
حقوقِ ملکیت کا احترام
یہ شواہد و نظائر اُس پورے دور کے عمل درآمد کا نقشہ پیش کرتے ہیں جس میں قرآن کے منشا کی تفسیر خودقرآن لانے والے نے اور اس کے براہِ راست شاگردوں نے اپنے اقوال اور اعمال میں کی تھی۔ اس نقشے کو دیکھنے کے بعد کسی شخص کے لیے اس طرح کا کوئی شبہ تک کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ زمین کے معاملہ میں اسلام کے پیش نظر یہ اُصول تھا کہ اسے شخصی ملیکتوں سے نکال کر اجتماعی ملکیت بنا دیا جائے۔اس کے بالکل برعکس اس نقشے سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ اسلام کی نگاہ میں زمین سے انتفاع کی فطری اور صحیح صورت صرف یہی ہے کہ وہ افراد کی ملکیت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمa نے محض اتنا ہی نہیں کیا کہ اکثروبیش تر حالات میں سابق ملکیتوں ہی کو برقرار رکھا، بلکہ جن صورتوں میں آپ نے پچھلی ملکیتیں منسوخ کیں اُن میں بھی نئی انفرادی ملکیتیں پیدا کردیں، اور آیندہ کے لیے غیرمملوکہ اراضی پر نئی ملکیتوں کے قیام کا دروازہ کھول دیا، اور خود سرکاری املاک کو بھی افراد میں تقسیم کر کے انھیں حقوقِ ملکیت عطا فرمائے۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ سابق نظامِ ملکیت کو محض ایک ناگزیر بُرائی کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا بلکہ ایک اصولِ برحق کی حیثیت سے اسے باقی رکھا گیا اور آیندہ کے لیے اسی کو جاری کیا گیا۔
اس کا مزید ثبوت وہ احکام ہیں جو نبی اکرمa نے حقوقِ ملکیت کے احترام کے متعلق دیے ہیں۔ مسلم نے متعدد حوالوں سے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمرؓ کے بہنوئی سعید بن زیدؓ پر ایک عورت نے مروان بن حکم کے زمانہ میں دعویٰ دائر کیا کہ انھوں نے میری زمین کا ایک حصہ ہضم کرلیا ہے۔ اس کے جواب میں حضرت سعیدؓ نے مروان کی عدالت میں جو بیان دیا وہ یہ تھا کہ مَیں اس کی زمین کیسے چھین سکتا تھا جب کہ مَیں نے رسول اللہa کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ سنے ہیں کہ:
مَن اخذ شبرًا من الارض ظلمًا طُوِّقہ الٰی سبع ارضین
’’جس شخص نے بالشت بھر زمین بھی ازراہِ ظلم لی اس کی گردن میں سات تہوں تک اُسی زمین کو طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا‘‘۔
اسی مضمون کی احادیث مسلم نے حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت عائشہؓ سے بھی نقل کی ہیں۔(مسلم، کتاب المساقات والمزارعہ، باب تحریم الظلم وغصب الارض)
ابوداؤد، نسائی اور ترمذی نے متعدد حوالوں سے یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی a نے فرمایا:
لیس لعِرقٍ ظَالمٍ حَقٌّ
’’دوسرے کی زمین میں بلااستحقاق آبادکاری کرنے والے کے لیے کوئی حق نہیں ہے‘‘۔
رافعؓ بن خدیج کی روایت ہے کہ حضورa نے فرمایا:
من زرع فی ارض قوم بغیر اذنھم فلیس لہٗ من الزرع شی ءٌ وَلَہٗ نفقتہٗ
’’جس نے دوسرے لوگوں کی زمین میں ان کی اجازت کے بغیر کاشت کی وہ اس کھیتی پر تو کوئی حق نہیں رکھتا، البتہ اس کا خرچ اسے دلو ا دیا جائے گا‘‘۔(ابوداؤد، ابن ماجہ، ترمذی)
عروہ بن زبیرؓ کی روایت ہے کہ نبیa کے پاس ایک مقدمہ آیا جس میں ایک شخص نے ایک انصاری کی زمین میں کھجور کے درخت لگا دیے تھے۔ اس پر آں حضرتؐ نے فیصلہ دیا کہ وہ درخت اُکھاڑ کر پھینک دیے جائیں اور زمین اصل مالک کے حوالہ کی جائے۔ (ابوداؤد)
یہ احکام کس چیز کی شہادت دیتے ہیں؟ کیا اس بات کی کہ زمین کی شخصی ملکیت کوئی بُرائی تھی جسے مٹانا مطلوب تھا مگر ناگزیر سمجھ کر مجبوراً برداشت کیا گیا؟ یا اس بات کی کہ یہ سراسر ایک جائز و معقول حق تھا جس کا احترام افراد اور حکومت دونوں پر فرض کر دیا گیا؟
مزارعت کا مسئلہ
اب ہمیں اُن احادیث کی تحقیق کرنی چاہیے جن سے یہ گمان ہوتا ہے کہ شریعت زمین کی شخصی ملکیت کو صرف خود کاشتی کی حد تک محدود کر دینا چاہتی ہے اور اسی غرض کے لیے اس نے بٹائی اور نقد لگان کی ممانعت ہے۔ اس مسئلے کی پوری تحقیق کے لیے پہلے ہم ان احادیث کو بہ تمام و کمال نقل کریں گے جن پر اس گمان کی بِنا قائم ہے ، پھر ان پر تنقید کر کے یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ اس معاملہ میں اصل احکامِ شریعت کیا ہیں۔
احادیث کا تتبع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن روایات میں مزارعت یا کرایہ زمین کی ممانعت وارد ہوئی ہے، یا جن میں یہ حکم آیا ہے کہ آدمی کے پاس خود کاشت سے زائد جتنی زمین ہو اسے دوسروں کو مفت دے دے یا روک رکھے، وہ چھے صحابیوں سے مروی ہیں:
رافعؓ بن خدیج، جابرؓ بن عبداللہ، ابوہریرہؓ، ابوسعیدخدریؓ، زیدؓ بن ثابت اور ثابتؓ بن ضحاک۔ سہولت ِ بیان کی خاطر ہم ان میں سے ہر ایک کی روایات کو الگ الگ نقل کرتے ہیں۔
رافعؓ بن خدیج کی روایات
اس مسئلے نے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ جس صحابی کے ذریعے سے شہرت پائی ہے وہ حضرت رافعؓ بن خدیج ہی ہیں، اس لیے پہلے انھی کی روایات کو لیجیے۔
۱- رافعؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہV کے زمانہ میں زراعت کے لیے زمینیں لیتے تھے اور تہائی، چوتھائی اور ایک خاص مقدار غلّہ کرایہ کے طور پر مقرر کرتے تھے۔ ایک دن میرے چچائوں میں سے ایک آئے اور انھوں نے کہا کہ رسول اللہV نے ہمیں ایک ایسے کام سے روک دیا ہے جوہمارے لیے نافع تھا، مگر ہمارے لیے اللہ اور رسولؐ کی فرماں برداری زیادہ نافع ہے۔
نھانا ان نحاقل بالارض فتکریھا علی الثلث والربع والطعام المسمّٰی وامر رب الارض ان یزرعھا او یُزرعھا وکرہ کرائھا وما سویٰ ذٰلک
’’آپؐ نے ہمیں اس بات سے منع کر دیا کہ ہم زمینوں میں مزارعت کا معاملہ کریں اور تہائی اور چوتھائی اور مقرر مقدر غلّہ کے عوض انھیں کرایہ پر دیں اور آپ نے یہ حکم دیا ہے کہ مالک زمین یا تو خود کاشت کرے یا دوسرے کو کاشت کرنے کے لیے دے دے اور آپ نے زمین کے کرایہ کو اور اس کے سوا دوسری صورتوں کو ناپسند فرمایا ہے‘‘۔(مسلم)
۲- ایک اور روایت میں حضرت رافعؓ اپنے چچا کا نام ظہیر بن رافع بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان سے نبی اکرمa نے پوچھا: تم لوگ اپنی کھیتی باڑی کا معاملہ کس طرح کرتے ہو؟ انھوں نے مزارعت کی تفصیل بتائی۔ اس پر آپ نے فرمایا:
فلا تفعلوا ، از رعوھا او ازرعوھا او امسکوھا
’’ایسا نہ کیا کرو، یا خود زراعت کرو، یا دوسروں کو زراعت کے لیے دے دو، یا اپنی زمینوں کو روک رکھو‘‘۔ (مسلم، بخاری، ابن ماجہ)
۳- ایک اور روایت میں حضرت رافعؓ خود اپنا قصہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنی کھیتی کو پانی دے رہے تھے۔ وہاں سے رسول اللہA کا گزر ہوا۔ آپؐ نے پوچھا: یہ کس کی کھیتی ہے اور کس کی زمین ہے؟ انھوں نے عرض کیا:
زرعی ببذری وعملی، لی الشطر ولبنی فلان الشطر
’’میری کھیتی ہے اس میں تخم اور عمل میرا ہے۔ آدھی پیداوار میری ہوگی اور آدھی بنی فلاں کی‘‘۔
اس پر نبی اکرمa نے فرمایا:
اربیتما ، فرد الارض علٰی اھلھا وخذ نفقتک (ابوداؤد)
’’تم نے سودی معاملہ کیا، زمین اس کے مالکوں کو واپس کردو اور اپنا خرچ ان سے وصول کرلو‘‘۔{ FR 5637 }
۴- مجاہد کی روایت ہے کہ رافع بن خدیج نے کہا:
نھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن امرٍ کان لنا نافعًا اذا کانت لاحدنا ارض ان یعطیھا ببعض خراجھا وبدراھم وقال اذا کانت لاحدکم ارض فلیمنحھا اَخاہ او لیزرعھا ،
’’رسول اللہ a نے ہمیں ایک ایسے کام سے روک دیا جو ہمارے لیے نافع تھا، یعنی اس بات سے کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس کوئی زمین ہو تو وہ اسے اس کی پیداوار اور نقدی عوض زراعت کے لیے کسی دوسرے شخص کو دے، اور آپؐ نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کے پاس کوئی زمین ہو تو یا وہ اپنے کسی بھائی کو یوں ہی دے دے یا خود کاشت کرے‘‘۔(ترمذی)
۵- سعید بن مسیّب نے رافعؓ بن خدیج سے یہ روایت نقل کی ہے:
نھٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن المحاقلۃ والمزابنۃ وقال انما یزرع ثلٰثۃ ، رجل لَہٗ ارض فیزرعھا ، ورجل منح ارضا فَھُو یزرع ما منح، ورجل استکریٰ ارضًا بذھب او فضۃ
’’رسول اللہ a نے محاقلہ (بٹائی پر کاشت کرانے) اور مزابنہ (درختوں پر کھجور کی بیع) سے منع فرمایا اور فرمایا کہ زراعت تین ہی آدمی کرسکتے ہیں۔ ایک وہ جس کی اپنی زمین ہو اور وہ اس میں خود کاشت کرے۔ دوسرا وہ جسے کوئی زمین یوں ہی دے دی جائے اور وہ اس میں کھیتی باڑی کرے۔ تیسرا وہ جو سونے اور چاندی کے عوض زمین کرائے پر لے‘‘۔ (ابودائود، ابن ماجہ، نسائی)
مگر نسائی نے ایک دوسری روایت کے ذریعہ سے یہ بتایا ہے کہ دراصل اس حدیث کا صرف پہلا ٹکڑا، یعنی نھٰی عن المحاقلۃ والمزابنہ ہی نبیa کا فرمایا ہوا ہے۔ باقی کلام سعید بن مسیّب کا اپنا تشریحی کلام ہے جو بعد میں اصل حدیث کے ساتھ خلط ملط ہوگیا۔
۶- سلیمان بن یسار نے رافع بن خدیج سے جو روایت نقل کی ہے اس میں وہ اپنے کسی چچا کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے آکر کہا کہ رسول اللہa نے فرمایا ہے:
من کانت لہ ارض فلا یکریھا بطعام مسمّٰی
’’جس کے پاس کوئی زمین ہو وہ غلّے کی ایک مقدار ٹھہرا کر اسے کرائے پر نہ دے‘‘۔
اور دوسری روایت کی رُو سے اُن کے چچا نے بیان کیا کہ رسول اللہ a نے فرمایا ہے:
من کانت لَہٗ ارض فلیزرعھا اورلیزرعھا اخاہ ولا یکاریھا بثُلث ولا بربع ولا بطعام مسمّٰی (ابن ماجہ، ابوداؤد، نسائی)
’’جس کے پاس کوئی زمین ہو اسے چاہیے کہ یا خود زراعت کرے یا اپنے کسی بھائی کو زراعت کے لیے دے دے ، مگر کرائے پہ نہ دے، نہ تہائی پیداوار پر، نہ چوتھائی پر، اور نہ ایک مقرر مقدار غلّہ پر‘‘۔
۷- رافعؓ بن خدیج کے صاحب زادے اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ابورافع نے رسول اللہa کے پاس سے آکرہم لوگوں کو بتایا کہ:
نھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن امر کان یرفق بنا ، وطاعۃ اللہ وطاعۃ رسولہٖ ارفق ، نھانا ان یزرع احدنا الا ارضًا یملک رقبتھا او منیحۃ یمنحھا رجل
’’رسول اللہa نے ہمیں ایک ایسے کام سے روک دیا ہے جو ہمارے لیے فائدہ مند تھا، مگر اللہ کی اطاعت اور اس کے رسولؐ کی اطاعت ہمارے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔ آپ نے ہمیں اس بات سے منع فرما دیا کہ کوئی شخص کسی زمین میں زراعت کرے، الا یہ کہ یا تو وہ خود اس زمین کا مالک ہو، یا کوئی دوسرا شخص اسے بلامعاوضہ زراعت کے لیے دے دے‘‘۔ (ابوداؤد)
۸- ابن عمرؓ کی روایت ہے کہ ہم اپنی زمین کرائے پر دیا کرتے تھے، پھر جب ہم نے رافعؓ بن خدیج کی حدیث سنی تو یہ کام چھوڑ دیا۔ دوسری روایت میں ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ ہم مخابرہ (یعنی بٹائی پر کاشت کا معاملہ) کرتے تھے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ پھر رافع نے دعویٰ کیا کہ اللہ کے نبیؐ نے اس سے منع کیا تھا۔ لہٰذا ان کے قول کی وجہ سے ہم نے اسے چھوڑ دیا۔ (مسلم، ابودائود، ابن ماجہ)
جابر بن عبداللہ کی روایات
رافعؓ بن خدیج کے بعد اس مضمون کے احکام کا دوسر ا بڑا ماخذ جابرؓ بن عبداللہ کی روایات ہیں۔ ان میں حسب ذیل احادیث وارد ہوئی ہیں:
۱- نھٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن کراء الارض
’’رسول اللہa نے زمین کے کرائے سے منع فرما دیا‘‘۔ (مسلم)
۲- نھٰی عن المخابرۃ
’’آں حضرتؐ نے مخابرہ (بٹائی پر کاشت کرانے) سے منع فرما دیا‘‘۔ (مسلم)
۳- نھٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان توخذ الارض اجرًا وحطًا
’’رسول اللہ a نے اس بات سے منع فرمایا کہ زمین اُجرت پر یا پیداوار کے حصے پر کاشت کے لیے لی جائے‘‘۔ (مسلم)
۴- من کانت لہ ارض فلیزرعھا فان لم یزرعھا فلیزرعھا اخاہ
’’جس کے پاس کوئی زمین ہو اُسے چاہیے کہ خود کاشت کرے، اور اگر خود نہ کرتا ہو تو اپنے کسی بھائی کو کاشت کے لیے دے دے‘‘۔
یہ حدیث مختلف روایتوں میں مختلف الفاظ کے ساتھ آئی ہے، ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
من کانت لَہٗ فضل ارض لیزرعھا او لیمنحھا اخاہ فان ابٰی فلیمسک ارضہٗ
’’جس کے پاس فاضل زمین ہو اسے چاہیے کہ یا خود کاشت کرے یا اپنے کسی بھائی کو دے دے، لیکن اگر وہ نہ دینا چاہے تو پھر اپنی زمین کو روک رکھے‘‘۔
دوسری روایت میں ہے:
فلیھبھا او لیعرھا
’’اسے چاہیے کہ ہبہ کردے یا عاریتاً دے دے‘‘۔
ایک اور روایت میں ہے:
ولا یواجرھا ایاہ
’’اسے اُجرت پر نہ دے‘‘۔
ایک اور روایت میں ہے:
ولا یکریھا
’’اسے کرایہ پر نہ دے‘‘۔ (مسلم، بخاری، ابن ماجہ)
۵- نھٰی عن بیع ارض البیضاء سنتین او ثلاثًا
’’آں حضرت a نے خالی زمین کو دو تین سال کے لیے بیچنے سے منع فرمایا‘‘۔
دوسری روایت میں ہے:
عن بیع السنین
’’چند سال کے لیے بیع کرنے سے‘‘۔
ایک اور روایت میں ہے:
عن بیع ثمر سنین
’’چند سال کے ثمرہ کی بیع سے‘‘۔ (مسلم)
۶- سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ینھٰی عن المزابنۃ والحقول
’’جابرؓ نے رسول اللہa کو مزابنہ اور حقوں سے منع کرتے ہوئے سنا‘‘۔
پھر حضرت جابرؓ نے خود ہی ’’مزابنہ‘‘ کی تشریح یہ کہ اس سے مراد ’’کھجوروں کے بدلے ثمرہ بیچنا ہے‘‘۔ اور ’’حقول‘‘ کی تشریح میں کہا کہ اس سے مراد ’’زمین کو کرایہ پر دینا ہے‘‘۔ (مسلم)
۷- سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول من لم یذر المخابرۃ فلیؤذن بحرب من اللہ ورسولہٖ
’’میں نے رسول اللہa کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص مخابرہ نہ چھوڑے اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے‘‘۔ (ابودائود)
مزید تائیدی روایات
باقی چار صحابیوں کی روایات جو مذکورہ بالا احادیث کی مزید تصدیق و تائید کرتی ہیں، حسب ذیل ہیں:
حضرت ابوہریرہؓ سے:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من کانت لَہٗ ارض فلیزرعھا او لیمنحھا اخاہ فان ابٰی فلیمسک ارضہ (بخاری، مسلم، ابن ماجہ)
’’رسول اللہa نے فرمایا: جس کے پاس زمین ہو وہ یا تو خود کاشت کرے، یا اپنے بھائی کو بلامعاوضہ دے دے، لیکن اگر وہ نہ دینا چاہے تو اپنی زمین کو روک رکھے‘‘۔
نھٰی عن المحاقلۃ والمزابنۃ (مسلم، ترمذی)
’’آں حضرتa نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا‘‘۔
حضرت ابوسعیدؓ خدری سے:
نھٰی عن المزابنۃ والمحاقلۃ ، والمزابنۃ اشتراء الثمر فی روس النخل والمحاقلۃ کراء الارض (مسلم، ابن ماجہ)
’’حضورa نے مزابنہ اور محاقلہ سے منع فرمایا۔ مزابنہ سے مراد درختوں پر کھجور کے ثمرہ کی خریداری ہے اور محاقلہ سے مراد زمین کا کرایہ ہے‘‘۔
ثابتؓ بن ضحاک سے:
نھٰی عن المزارعۃ (مسلم)
’’حضورa نے مزارعت سے منع فرما دیا‘‘۔
زیدؓ بن ثابت سے:
نھٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن المخابرۃ ، قلت وما المخابرۃ؟ قال ان تاخذ الارض بنصف او ثلث او ربع (ابوداؤد)
’’رسول اللہ a نے مخابرہ سے منع فرمایا۔ ثابت بن حجاج نے حضرت زیدؓ بن ثابت سے پوچھا کہ مخابرہ کے کیا معنی ہیں؟ حضرت زیدؓ نے جواب دیا: اس کا مطلب یہ ہے کہ تم آدھی یا تہائی یا چوتھائی پیداوار کے عوض زمین لو‘‘۔
تنقید بلحاظ نقل روایت
اُوپر ہم نے وہ تمام روایات لفظ بہ لفظ نقل کردی ہیں جن پر اس مسئلے کا مدار ہے کہ اسلام میں بٹائی اور نقد لگان کی ممانعت کی گئی ہے اور خود کاشت کرنے یا مفت زمین عطا کردینے کا حکم دیا گیا ہے۔ غالباً اس سلسلہ کی کوئی قابلِ ذکر اور لائقِ اعتنا ء روایت ہم سے چھوٹ نہیں گئی ہے۔ آیئے اب ہم ذرا ان پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ آیا فی الحقیقت اس معاملہ میں اسلام کا مسلک وہی ہے جو ان کثیر التعداد روایات سے ظاہر ہوتا ہے؟
ہرشخص جانتا ہے کہ رسول اللہ a محض ایک مفتی اور معلّم ہی نہ تھے بلکہ ملک کے حاکم بھی تھے اور عملاً پورا نظم و نسق آپ کے ہاتھ میں تھا۔
ہرشخص یہ بھی جانتا ہے کہ زمین کا معاملہ دوچار یا پانچ دس افراد کی نجی اور شخصی زندگی کا کوئی اِتفاقی و ہنگامی معاملہ نہیں ہے کہ اس کا حکم بس چند آدمیوں کے کان میں چپکے سے کہہ دیا جاتا۔ یہ تو ایک پوری سلطنت کے نظم و نسق سے تعلق رکھنے والی چیز ہے جس سے لاکھوں آدمیوں کی معیشت مستقل طور پر متاثر ہوتی ہے۔ لہٰذا اس معاملہ میں جو پالیسی بھی آں حضرتa نے اختیار کی تھی وہ آپؐ کے زمانہ میں اور آپؐ کے خلفا کے زمانے میں ایک نہایت مشہور و معروف بات ہونی چاہیے تھی۔
پھر کوئی ایسا شخص جو نبی اکرمa کی سیرت و شخصیت اور آپ کے خلفائے راشدینؓ کی زندگی اور آپؐ کے صحابہ کرام کے حالات سے کچھ بھی واقفیت رکھتا ہو یہ گمان بھی نہیں کرسکتا کہ نبیa معاذاللہ ان لوگوں میں سے تھے جو زبان سے ایک چیز کو غلط کہیں اور اسے رائج رہنے دیں اور زبان سے ایک دوسرے طریقہ کو برحق کہیں اور عملاً اسے جاری نہ کریں۔ یا یہ کہ حضور ایک طریقہ کو روکنا اور دوسرے طریقے کو رائج کرنا چاہتے ہوں اور صحابہ کرامؓ مان کر نہ دیں۔ یا یہ کہ خلفائے راشدینؓ کو یہ معلوم ہوچکا ہو کہ حضورa کسی رواج کا انسداد کر کے ایک دوسرا اصلاحی طریقہ جاری کرنا چاہتے تھے اور پھر وہ اپنے تمام زمانۂ خلافت میں آپ کے منشا کو عملی جامہ پہنانے سے باز رہ جائیں۔
یہ تین حقیقتیں ایسی ظاہرو باہر ہیں جن سے کسی صاحب ِ عقل و فکر اور صاحب ِ علم و نظر آدمی کے لیے مجالِ انکار نہیں ہے۔ اب اگر آپ یہ سنیں کہ نبی a کے زمانے سے لے کر حضرت امیرمعاویہؓ کی خلافت کے وسط تک، یعنی تقریباً ۵۰سال تک مذکورہ بالا پانچ چھے اصحاب کے سوا کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ آں حضرتa نے بٹائی اور لگان پر زمین کاشت کے لیے دینے کو منع فرمایا ہے، اور یہ کہ نبیa خود اور تمام اکابر صحابہؓ اور آپؐ سے قریب ترین تعلق رکھنے والے تمام بڑے بڑے گھرانے بٹائی پر زمینیں دیتے رہے، اور یہ کہ خلافت ِ راشدہ کے پورے عہد میں یہی طریقہ رائج رہا، تو کیا آپ حیرت سے ہک دَک نہ رہ جائیں گے؟ حقیقت میں یہ ہے نہایت حیرت نگیز بات، مگر واقعہ یہی ہے۔ ہم ان روایات کو یہاں نمبروار نقل کرتے ہیں جن سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔
۱- نافعؓ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنی زمینیں رسول اللہa کے زمانہ میں اور آپؐ کے بعد حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں برابر کرائے پر دیتے رہے۔ امیرمعاویہؓ کی خلافت کا آخری زمانہ آیا (یعنی تقریباً ۵۰ھ یا اس کے بعد کا زمانہ) تو انھیں یہ خبر پہنچی کہ رافعؓ بن خدیج نبی اکرمa سے اس فعل کی ممانعت کا حکم روایت کرتے ہیں۔ یہ سن کر وہ رافعؓ بن خدیج سے ملنے گئے اور مَیں اُن کے ساتھ تھا۔ انھوںنے رافع سے پوچھا کہ یہ کیا روایت ہے؟ جو تم بیان کرتے ہو۔ رافعؓ نے کہا کہ رسول اللہa زمینوں کے کرائے سے منع فرماتے تھے۔ اس پر ابن عمرؓ نے زمینیں کرائے پر دینا بند کردیں ، اور جب کبھی ان سے اس کے متعلق پوچھا تو وہ جواب دیتے کہ رافع بن خدیجؓ کا دعویٰ ہے کہ رسول اللہa نے اس سے منع فرما دیا تھا۔
اسی سے ملتی جلتی روایت خود حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے صاحب زادے حضرت سالمؓ روایت کرتے ہیں۔ ان کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عبداللہؓ کے سوال پر حضرت رافعؓ نے انھیں جواب دیا کہ مَیں نے اپنے دو چچائوں کو، جو بدری صحابی تھے ، گھر والوں سے یہ کہتے سنا تھا کہ رسول اللہa نے زمین کے کرائے سے منع کیا ہے۔ اس پر حضرت عبداللہ نے فرمایا:
لقد کنت اعلم فی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان الارض تکریٰ
’’مجھے معلوم ہے کہ رسول اللہ کے زمانے میں زمینیں کرائے پر دی جاتی تھیں‘‘۔
مگر حضرت عبداللہؓ نے اس ڈر سے کہ شاید رسول اللہa نے اس سے منع کیا ہو اور مجھے نہ معلوم ہواہو، اپنی زمینیں کرائے پر دینا بند کر دیں‘‘۔ (بخاری، مسلم ، ابوداؤد، ابن ماجہ)
دیکھیے عبداللہ بن عمرؓ وہ شخص ہیں جن کی حقیقی بہن رسول اللہ a کے نکاح میں تھیں۔ جن کے والد، حضرت عمرؓ، نبی اکرمؐ اور حضرت ابوبکرؓ کے معتمد ترین وزیر رہے اور پھر خود دس سال تک اسلامی حکومت کے خلیفہ رہے۔ کیا یہ ممکن تھا کہ اُنھیں پورے زمانۂ نبوت اور پورے زمانۂ خلافت ِ راشدہ میں یہ خبر نہ ہوتی کہ زمینوں کے بارے میں اسلام کا قانون کیا ہے؟ اور کیا یہ ممکن تھا کہ حضرت عمرؓ کی زندگی میں ان کا اپنا بیٹا خود ان کی طرف سے اُن کے گھر کی زمین داری کا انتظام ایسے طریقے پر کرتا رہتا جو اسلامی قانون میں ممنوع تھا؟{ FR 5673 }
۲- ابن عمرؓ ہی کی روایت ہے، اور عبداللہ بن عباسؓ اور انسؓ بن مالک کی روایات اس کی تصدیق کرتی ہیں کہ نبی اکرمa نے خیبر پر حملہ کیا۔ اس کا کچھ حصہ صلحا ً فتح ہوا اور کچھ بزورِ شمشیر مغلوب ہوا ۔ آںحضرتؐ نے آدھے علاقے کو حکومت کی ضروریات کے لیے مخصوص فرما دیا اور آدھے علاقے کو اٹھارہ سو حصوں میں تقسیم کر کے ان پندرہ سو مجاہدین پر بانٹ دیا جو غزوئہ خیبر میں شریک تھے۔ (یعنی بارہ سو پیادوں کا اکہرا حصہ اور تین سو سواروں کا دوہرا حصہ) پھر آپؐ نے ارادہ فرمایا کہ یہودی باشندوں کو علاقہ مفتوحہ سے نکال دیں مگر یہودیوں نے آکر عرض کیا کہ آپ ہمیں یہاں رہنے دیں، ہم آپ کی طرف سے یہاں کاشت کریں گے،آدھی پیداوار آپ لے لیجیے گا اور آدھی ہم لے لیں گے۔{ FR 5679 } آں حضرتؐ نے یہ دیکھ کر کہ آپ کے پاس کام کرنے والے آدمیوں کی کمی ہے، ان کی بات مان لی اور ان سے فرمایا کہ ہم جب تک چاہیں گے تمھیں رکھیں گے اور جب چاہیں گے تمھیں یہاں سے نکال دیں گے۔ چنانچہ ان شرائط پر آپ نے ان سے معاملہ طے کرلیا۔ وہ کاشت کاروں کی حیثیت سے خیبر میں کام کرتے تھے۔ آدھی زمین کی مالک حکومت تھی اور بقیہ نصف کے مالک وہ پندرہ سو حصہ دار تھے جن پر اٹھارہ سو قطعات تقسیم کیے گئے تھے۔ بٹائی کے معاہدے کی رُو سے جو نصف پیداوار وہاں سے آتی تھی اسے حکومت اور حصہ داروں کے درمیان تقسیم کردیا جاتا تھا۔ نبی اکرمa کا اپنا حصہ بھی عام حصہ داروں کے ساتھ تھا۔ چنانچہ آپ میں سے ہرسال ایک خاص مقدار میں غلہ اور کھجوریں اپنی اَزواجِ مطہراتؓ کو برابر برابر دیا کرتے تھے۔ یہ بندوبست حضوؐر کے آخر حیات تک جاری رہا۔ اسی پر حضرت ابوبکرؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں عمل کیا۔ اسی پر حضرت عمرؓ اپنے ابتدائی زمانہ میں کاربند رہے۔ پھر جب یہودیوں نے خیبر میں پیہم شرارتیں کیں اور حضرت عمرؓ کی رائے یہ ہوئی کہ معاہدے کے مطابق ان کو وہاں سے نکال دیا جائے تو آپ نے اعلان کیا کہ خیبر میں جس جس کا حصہ ہے وہ جاکر اپنی اپنی زمین سنبھال لے۔ اَزواجِ مطہراتؓ کے سامنے حضرت عمرؓ نے یہ تجویز پیش کی کہ آپ میں سے جو جو پسند کریں وہ اتنی زمین لے لیں جس کی پیداوار اسی قدر ہو جس قدر غلّہ اور ثمرہ آپ کو نبیa کے زمانے سے ملتا آرہا ہے، اور جو چاہیں اپنے حصہ کی زمین حکومت کے انتظام میں رہنے دیں اور اتنا ہی غلہ اور ثمرہ حکومت سے لیتی رہیں۔ اس تجویز کے مطابق بعض اَزواجِ مطہراتؓ نے غلّہ اور ثمرہ پسند کیا۔ اور حضرت عائشہ اور حضرت حفصہd نے زمین لے لی۔{ FR 5685 } اس کے بعد حضرت عمرؓ نے یہودیوں کو خیبر سے منتقل کر کے تیما اور اریجا میں بسا دیا۔ (بخاری، مسلم، احمد، ترمذی، ابودائود، نسائی، ابن ماجہ)
یہ عہد ِ نبوت و خلافت کے مشہور ترین واقعات میں سے ہے اور اس کی صحت میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں صریح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ نبی a نے خود بٹائی پر زمین کاشت کے لیے دی ہے، اپنی طرف سے بھی، حکومت کی طرف سے بھی، اور ان پندرہ سو افراد کی طرف سے بھی جن کا حصہ خیبر میں تھا۔ اس طریقہ پر آپ اپنے آخری لمحۂ حیات تک عامل رہے، اور آپ کے بعد شیخین کا عمل بھی اسی پر رہا۔ کیا اس کے بعد بھی کسی کو یہ گمان ہوسکتا ہے کہ اسلامی قانون میں بٹائی پر زمین کاشت کے لیے دینا ممنوع تھا؟
اس کے جواب میں جو لوگ کہتے ہیں کہ خیبر کا معاملہ بٹائی کا نہیں بلکہ خراج کا معاملہ تھا، ان کی بات صحیح نہیں ہے۔ خیبر کی آدھی زمین جو حکومت کی مِلک قرار دی گئی تھی اُس کی بٹائی تو بے شک خراج تھی لیکن جو بقیہ نصف اراضی مجاہدین کے درمیان تقسیم کردی گئی تھی ان کی بٹائی کو ’’خراج‘‘ کا نام کیسے دیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’’خیبر کے یہودی باقاعدہ ذمی رعایا نہ تھے، کیوں کہ ان پر جزیہ نہیں لگایا گیا تھا، اس لیے مسلمان مجاز تھے کہ ان سے جو چاہتے لیتے‘‘، اُن کی بات بھی صحیح نہیں ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ قرآنِ مجید میں جزیہ کے احکام غزوئہ خیبر کے وقت نازل ہی نہ ہوئے تھے۔ پھر بھلا احکامِ جزیہ کی غیرموجودگی میں جزیہ نہ عائد کیے جانے پر کسی قانونی استدلال کی بِنا کیسے رکھی جاسکتی ہے؟ اہلِ خیبر کا ذمّی ہونا تو اس سے ظاہر ہے کہ اسلامی حکومت نے انھیں ایک باضابطہ قرارداد کے مطابق اپنے ملک میں آباد رہنے دیا، ان پر خراج عائد کیا اور ان پر دیوانی و فوج داری قوانین اسی طرح نافذ کیے جس طرح وہ مسلمان رعایا پر نافذ کیے جا رہے تھے۔
ابوداؤد کی روایت ہے کہ جب خیبر کی قرارداد ہوچکی اور مسلمان یہودیوں کی بستیوں میں چلنے پھرنے لگے تو بعض مسلمان یہودیوں پر کچھ دست درازی کربیٹھے۔ اس کی شکایت یہودیوں نے نبیa سے کی۔ اس پر آپؐ نے ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا:
’’اللہ نے تمھارے لیے یہ حلال نہیں کیا ہے کہ اہلِ کتاب کے گھروں میں بلااجازت گھسو اور ان کے بال بچوں کو مارو پیٹو اور ان کے پھل کھا جائو، حالاں کہ جو کچھ ان پر واجب تھا وہ انھوں نے تمھیں ادا کردیا ہے‘‘۔
کیا یہ اہلِ خیبر کے ذمّی ہونے کی کھلی دلیل نہیں ہے؟ اسلامی قانونِ فوجداری میں قسامت کے قاعدہ کا تو ماخذ ہی وہ واقعہ ہے جو خیبر میں ایک مسلمان کے خفیہ قتل کا پیش آیا تھا۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہودیوں کو قانون کی نگاہ میں مسلمانوں کے برابر حیثیت حاصل تھی۔ اگر کہا جائے کہ جب یہ بات تھی تو آیت ِ جزیہ کے نزول کے بعد ان پر جزیہ کیوں لگایا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ نزولِ آیت سے پہلے ایک معاہدہ طے ہوچکا تھا ان پر ایک نئی شرط کا اضافہ کر دینا کیوں کر جائز ہوسکتا تھا۔ اگر کہا جائے کہ جب وہ ذمّی تھے تو پھر انھیں خیبر سے نکالا کیوں گیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا اخراج اس قرارداد کے مطابق تھا جو انھیں ذمّی بناتے وقت ان سے طے ہوچکی تھی۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عمرؓ نے انھیںمنتقل کیا اور دوسرے حصے (یعنی تیما اور اَریجا) میں لے جا کر بسا دیا۔{ FR 5696 }
پھر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ معاملہ مزارعت کا نہیں تھا کیوں کہ اس میں مدت کا تعین نہ ہوا تھا، ان کی بات بھی صحیح نہیں ہے۔ نبی اکرمa نے جو معاملہ ان سے طے کیا تھا اس میں من جملہ شرائط کے ایک شرط یہ بھی تھی کہ:
نقرکم بھا علٰی ذٰلک ما شئنا
’’ہم اس قرارداد پر جب تک چاہیںگے تمھیں یہاں رکھیں گے‘‘۔
اس میں مدت کا تعیین بلحاظِ وقت نہیں بلکہ بلحاظِ مشیت ِ مالک کیا گیا تھا اور یہ ان مخصوص حالات کی وجہ سے تھا جن میں اُس وقت یہودیوں سے معاملہ طے ہوا تھا۔ اتنی سی بات کی وجہ سے یہ فیصلہ کر دینا درست نہیں ہے کہ خیبر کا معاملہ سرے سے مزارعت کا معاملہ نظر آتا ہے۔{ FR 5697 }
۳- حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے (اور خیال رہے کہ یہ حضرت ابوہریرہؓ وہی ہیں جن سے اُوپر بٹائی اور لگان کی ممانعت اور خود کاشت کرنے یا مفت زمین دینے کی ہدایت نقل کی جاچکی ہے) کہ جب نبیa مدینہ تشریف لائے تو انصار نے آکر عرض کیا:
اقسم بیننا وبین اخواننا النخل
’’آپ ہمارے نخلستانوں کو ہمارے درمیان اور ہمارے مہاجر بھائیوں کے درمیان بانٹ دیں‘‘۔
مگر آں حضرتa نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر انصار نے مہاجرین سے کہا:
تکفرنا العمل ونشرککم فی الثمرۃ
’’آپ لوگ ہماری طرف سے ان نخلستانوں میں کام کریں اور ہم آپ کو ثمرہ میں شریک کریں گے‘‘۔
اس پر مہاجرین نے کہا:
سمعنا واطعنا
’’یہ بات بخوشی منظور ہے‘‘۔ (بخاری)
۴- قیس بن مسلم حضرت ابوجعفر (یعنی امام محمد باقرb) سے روایت کرتے ہیں کہ مدینے میں مہاجرین کا کوئی گھرانا ایسا نہ تھا جو تہائی یا چوتھائی حصہ پیداوار کے عوض کاشت نہ کرتا ہو۔ امام بکاری اس روایت کو نقل کرنے کے بعد پھر اس کی تائید میں مزید نظائر پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بٹائی پر معاملہ حضرت علیؓ نے کیا ہے، سعد بن مالک اور عبداللہ بن مسعودؓ نے کیا ہے، عمر بن عبدالعزیز اور قاسم اور عروہ نے کیا ہے،{ FR 5753 } آلِ ابوبکرؓ، آلِ علیؓ ، آلِ عمرؓ{ FR 5754 }، سب بٹائی پر کاشت کراتے رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ لوگوں سے اس طرح معاملہ کیا کرتے تھے کہ اگر ’’عمرؓ اپنے پاس سے بیج دے گا تو آدھی پیداوار لے گا اور اگر کاشت کار اپنا بیج لائیں تو ان کا حصہ اتنا ہوگا‘‘۔{ FR 5755 } (بخاری، باب المزارعۃ بالشطر ونحوہ)
۵- حضرت ابوجعفرؓ (امام محمدباقرb) کی ایک اور روایت ہے جس میں وہ تصریح کرتے ہیں کہ:
کان ابوبکر یعطی الارض علی الشطر(طحاوی)
’’حضرت ابوبکرؓ اپنی زمین نصف نصف کی بٹائی پر زراعت کے لیے دیتے تھے‘‘۔
۶- ابن ابی شیبہ نے حضرت علیؓ کا قول نقل کیا ہے کہ:
لاباس بالمزارعۃ بالنصف (کنزالعمال)
’’نصف نصف کی بٹائی پر زمین کاشت کے لیے دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے‘‘۔
۷- طاؤس کی روایت ہے کہ حضرت معاذ بن جبلؓ اپنی زمین نبیa کے زمانے میں اور آپ کے بعد حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں تہائی اور چوتھائی پیداوار کی بٹائی پر زراعت کے لیے دیتے رہے (ابن ماجہ)۔ اس حدیث میں غلطی صرف اتنی ہے کہ طائوس نے حضرت عثمانؓ کے عہد کا بھی ذکر کر دیا ہے، حالانکہ حضرت معاذؓ کا انتقال حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہوچکا تھا ۔ لیکن محض اس غلطی کی بناپر طائوس جیسے شخص کی پوری روایت کو غلط نہیں کہا جاسکتا۔{ FR 5756 } خصوصاً جب کہ اس روایت کی سند میں سب ثقہ لوگ ہیں۔ اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ حضرت معاذؓ بن جبل وہ شخص ہیں جن کو رسول اللہ a نے یمن کا قاضی اور عامل زکوٰۃ مقرر فرمایا تھا، جن کے متعلق حضورa کا ارشاد تھا کہ:
اعلمھم بالحلال والحرام
’’وہ صحابہ میں سب سے زیادہ حلال و حرام کی واقفیت رکھتے ہیں‘‘۔
اور جنھیں حضرت عمرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ کے بعد پورے شام کا فوجی گورنر مقرر کیا تھا۔ کیا یہ ممکن تھا کہ ایسے شخص کو یہ بھی معلوم نہ ہو تاکہ زمین کے بارے میں اسلام کا قانون کیا ہے؟
۸- موسیٰ بن طلحہؓ کی روایت ہے کہ حضرت عثمانؓ نے عبداللہ بن مسعودؓ، عمارؓ بن یاسر، خبابؓ بن اَرتّ اور سعدؓ بن مالک کو زمینیں عطا کی تھیں۔ ان میں سے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور سعدؓ بن مالک اپنی زمینیں تہائی اورچوتھائی پیداوار کی بٹائی پر کاشت کے لیے دیتے تھے۔ (کتاب الخراج لابی یوسف)
ان شواہد و نظائر سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ مزارعت کا طریقہ عہد نبوت و خلافت ِ راشدہ میں بالعموم رائج تھا۔ خود نبی اکرمa اور خلفائے راشدین اور صحابہؓ کے تمام زراعت پیشہ گھرانے اس پر عامل تھے، اور رافعؓ بن خدیج وغیرہ حضرات کی روایات پھیلنے تک پورے ۵۰سال کے دوران میں کسی کو یہ بات سرے سے معلوم ہی نہ تھی کہ اس معاملہ میں کسی قسم کے امتناعی احکام موجود ہیں۔
تنقید بلحاظِ عقل و درایت
اب ذرا اس معاملہ کو ایک دوسرے رُخ سے بھی دیکھیے۔ اسلام کے احکام ایک دوسرے کی ضد اور ایک دوسرے سے متناقض و متصادم نہیں ہیں۔ اس کی ہدایت اور اس کے قوانین میں سے ہر ایک چیز اس کے مجموعی نظام میں اس طرح ٹھیک بیٹھتی ہے کہ دوسرے تمام احکام و قوانین کے ساتھ اس کا جوڑ مل جاتا ہے۔ یہ وہ خوبی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس دین کے من جانب اللہ ہونے کا ایک نمایاں ثبوت قرار دیا ہے۔ لیکن اگر ہم یہ مان لیں کہ شریعت میں مزارعت ناجائز ہے اور یہ کہ شارع زمین کی ملکیت کو خود کاشتی تک محدود کرنا چاہتا ہے، اور یہ کہ شارع آدمی کو اس بات پرمجبور کرتا ہے کہ خودکاشتی کی حد سے زائد جتنی زمین اس کے پاس موجود ہو اسے یا تو دوسروں کو مفت دے دے یا بے کار ڈال رکھے، تو ذرا سا غور کرنے پر ہمیں علانیہ یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ احکام اسلام کے دوسرے اصول اور قوانین سے مناسبت نہیں رکھتے اور انھیں اسلامی نظام میں ٹھیک بٹھانے کے لیے دُور دُور تک اس نظام کی بہت سی چیزوں میں ترمیم ناگزیر ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر تناقض کی چند نہایت صریح صورتیں ملاحظہ ہوں:
۱- اسلامی نظام میں مملکت کے حقوق صرف ہٹے کٹے مردوں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ عورتوں، بچوں، بیماروں اور بوڑھوں کو بھی یہ حقوق پہنچتے ہیں۔ اگر مزارعت ممنوع ہو تو ان سب کے لیے زرعی ملکیت بالکل بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔
۲- اسلامی قانونِ وراثت کی رُو سے جس طرح ایک آدمی کی میراث اس کے مرنے پر بہت سے آدمیوں کے درمیان بٹ جاتی ہے، اسی طرح بسااوقات بہت سے مرنے والوں کی میراث ایک آدمی کے پاس جمع بھی ہوسکتی ہے۔ اب یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اسلام کا قانونِ وراثت تو بیسیوں اور سیکڑوں ایکڑ تک زمین ایک شخص کے پاس سمیٹ لائے، مگر اس کا قانونِ زراعت اس کے لیے ایک محدود رقبے کے سواباقی تمام ملکیت سے انتفاع کو حرام قرار دے۔
۳- اسلامی قانونِ بیع و شرا نے کسی نوعیت کی جائز اشیا کے معاملہ میں بھی انسان پر یہ پابندی عائد نہیں کی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایک مخصوص حد تک ہی انھیں خرید سکتا ہو اور اس حد سے زیادہ سے زیادہ کی خریداری کا مجاز نہ ہو۔ خریدو فروخت کا یہ غیرمحدود حق جس طرح تمام جائز چیزوں کے معاملہ میں آدمی کو حاصل ہے۔ اسی طرح زمین کے معاملہ میں بھی حاصل ہے لیکن یہ بات پھر نہایت عجیب معلوم ہوتی ہے کہ دیوانی قانون کی رُو سے تو ایک شخص جتنی چاہے زمین خرید سکے، مگر قانونِ زراعت کی رُو سے وہ ایک حد خاص سے زائد ملکیت کا نفع اُٹھانے کا حق دار نہ ہو۔
۴- اسلام نے کسی نوع کی ملکیت پر بھی مقدار اور کمیت کے لحاظ سے کوئی حد نہیں لگائی ہے۔ جائز ذرائع سے جائز چیزوں کی ملکیت، جب کہ اس سے تعلق رکھنے والے شرعی حقوق و واجبات ادا کیے جاتے رہیں، بلاحد و نہایت رکھی جاسکتی ہے۔ روپیہ پیسہ، جانور، استعمالی اشیا ، مکانات، سواری، غرض کسی چیز کے معاملہ میں بھی قانوناً ملکیت کی مقدارپر کوئی حد نہیں ہے۔ پھر آخر تنہا زرعی جائداد میں وہ کون سی خصوصیت ہے جس کی بنا پر صرف اس ایک معاملہ میں شریعت کا میلان یہ ہو کہ آدمی کے حقوقِ ملکیت کو مقدار کے لحاظ سے محدود کردیا جائے، یا انتفاع کے مواقع سلب کر کے ایک حد ِ خاص سے زائد ملکیت کو آدمی کے لیے عملاً بے کار کر دیا جائے۔{ FR 5757 }
۵- اسلام نے احسان اور فیاضی کی تعلیم تو زندگی کے ہرمعاملہ میں دی ہے، لیکن واجبی حقوق وصول کرلینے کے بعد پھر کسی معاملہ میں بھی ہم اس کا یہ طریقہ نہیں دیکھتے کہ وہ فیاضی کو آدمی پر فرض قرار دیتا ہو۔ مثلاً جو شخص زکوٰۃ ادا کرچکا ہے، اسلام اسے یہ ترغیب تو ضرور دیتا ہے کہ وہ اپنا ضرورت سے زائد روپیہ حاجت مند لوگوں کو بخش دے، مگر وہ اس بخشش و سخاوت کو فرض نہیں کرتا اور نہ یہ کہتا ہے کہ حاجت مند کو قرض کی شکل میں روپیہ دینا، یا مضاربت کے اُصول پر روپیہ دے کر اس کے کاروبار میں شریک ہو جانا حرام ہے، بلکہ مدد صرف عطا اور بخشش ہی کی شکل میں ہونی چاہیے۔ اسی طرح مثلاً جس شخص کے پاس ضرورت سے زائد مکانات ہوں، یا ایک بڑا مکان اس کی ذاتی ضرورت سے زیادہ کی گنجائش رکھتا ہو، اسلام بہت پسند کرتا ہے کہ آدمی اپنے ایسے مکانات اور گنجائشوں سے ان لوگوں کو فائدہ اُٹھانے کا مفت موقع دے دے جو گھر نہ رکھتے ہوں۔ لیکن اس نے یہ نہیں کہ یہ موقع لازماً مفت ہی دیا جانا چاہیے، کرایہ پر مکان دینا حرام ہے۔ ایسا ہی معاملہ ضرورت سے زائد کپڑوں، برتنوں اور سواریوں وغیرہ کا بھی ہے کہ ان میں سے ہرایک کو فیاضانہ طریقہ سے مفت دے دینا پسند تو ضرور کیا گیا ہے مگر فرض نہیں کیا گیا اور فروخت کرنے یا کرایہ پر دینے کو حرام نہیں ٹھہرایا گیا۔ اب آخر زرعی زمین میں وہ کیا خصوصیت ہے جس کی بنا پر صرف اسی کے معاملہ میں اسلام اپنے اس عام اصول کو بدل دے اور آدمی سے اس کی پیداوار پر زکوٰۃ وصول کرلینے کے بعد اسے اس بات پر بھی مجبور کرے کہ وہ اپنی ضرورت سے زائد زمین لازماً دوسروں کو مفت دے دے اور شرکت یا مضاربت کے اصول پر ان سے معاملہ ہرگز نہ کرے۔
۶- اسلامی قانون نے تجارت، صنعت اور معاشی کاروبار کے تمام شعبوں میں آدمی کو اس بات کی کھلی اجازت دی ہے کہ وہ نفع و نقصان کی شرکت کے اصول پر دوسروں کے ساتھ معاملہ کرلے۔ ایک شخص دوسرے کو اپنا روپیہ دے سکتا ہے اور طے کرسکتا ہے تو اس سے کاروبار کر، نفع ہو تو اس میں آدھے یا چوتھائی کا مَیں حق دار ہوں۔ ایک شخص دوسرے کو اپنا سرمایہ کسی عمارت کی شکل میں، کسی مشین یا انجن کی شکل میں ، کسی موٹریا کشتی یا جہاز کی شکل میں بھی دے سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ تو اس پر کام کر، جو نفع اپنا سرمایہ زمین کی شکل میں دوسرے کو دے کر یہ نہ کہہ سکے کہ تو اس میں کاشت کر، پیداوار میں تہائی یا چوتھائی یا نصف کا مَیں شریک ہوں؟
یہ چند نمایاں ترین مثالیں ہیں جن پر نگاہ ڈال کر آدمی بیک نظر دیکھ سکتا ہے کہ یہ مزارعت کی حُرمت اور یہ خود کاشتی کی قید، اور یہ ملکیت ِ زمین کے لیے رقبے کی حدبندی اسلام کے مجموعی نظام میں کسی طرح ٹھیک نہیں بیٹھتی۔ اسے کھپانا ہو تو دوسرے بہت سے اصول و قوانین کو بدلنا پڑے گا۔ دوسرے اصول و قوانین اپنی جگہ رہیں تو یہ ہرقدم پر ان سے متصادم ہوتی رہے گی۔
امتناعی احکام کا اصل مفہوم
پھر کیا نقل اور عقل کے ان دلائل کی بنا پر یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ وہ تمام احادیث غلط ہیں جو اس کثرت سے ثقہ راویوں نے اتنے صحابیوں سے روایت کی ہیں؟ نہیں ، اصل بات یہ نہیں ہے کہ یہ روایتیں جھوٹی یا ضعیف ہیں۔ اصل حقیقت صرف یہ ہے کہ ان میں ادھوری بات بیان ہوئی ہے جس کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ خود رافعؓ بن خدیج اور جابرؓ بن عبداللہ وغیرہ حضرات کی دوسری روایتیں جب ہمارے سامنے آتی ہیں، اور بعض دوسرے جلیل القدر صحابہؓ کی توضیحات کو جب ہم دیکھتے ہیں تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ دراصل نبی اکرمa نے فرمایا: کچھ اور تھا اور وہ روایات میں بیان کسی اور طرح ہوگیا۔
رافعؓ بن خدیج کی توضیحات
جیساکہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں، امیرمعاویہؓ کے ابتدائی دورِ حکومت تک تمام بلادِ اسلامیہ میں بالعموم سب ہی بٹائی اور لگان کا معاملہ کرتے تھے اور کسی کو یہ گمان تک نہ تھا کہ اس میں کسی قسم کی شرعی قباحت ہے۔ اس لیے جب ۵۰ھ کے لگ بھگ زمانہ میں یکایک یہ خبر مشہور ہوئی کہ بعض صحابی اس چیز کی ممانعت کا حکم نبیa سے روایت کرتے ہیں تو ہر طرف ایک کھلبلی سی مچ گئی اور لوگ مجبور ہوئے کہ صحابہ کرامؓ کے پاس جاکر تحقیق کریں کہ نبی a نے فی الحقیقت کیا حکم دیا ہے، کن حالات میں دیا ہے، اور کس چیز کے متعلق دیا ہے؟ اس سلسلہ میں خود ان صحابیوں سے بھی پوچھ گچھ کی گئی جن سے مزارعت اور کرایۂ زمین کی ممانعت کے اَحکام مروی ہوئے تھے، اور دوسرے صحابہؓ سے بھی پوچھا گیا۔ اس طرح جو بات کھلی وہ ہم ذیل میں خود انھی بزرگوں کی زبان سے نقل کرتے ہیں۔
حنظلہ بن قیس کہتے ہیں: میں نے رافع بن خدیجؓ سے پوچھا: سونے اور چاندی کی شکل میں زمین کا کرایہ طے کرنا کیسا ہے؟ انھوں نے کہا: کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کے بعد انھوں نے مزید تشریح کے طور پر فرمایا:
انما کان الناس یواجرون علٰی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علٰی الماذیانات واقبال الجد اوّل واشیاء من الزرع فیھلک ھٰذا ویسلَم ھٰذا ویسلم ھٰذا ویھلک ھٰذا ، فلم یکن للناس کراء الا ھٰذا فلذٰلک زجر عنہٗ واما شی ء معلوم مضمون فلا باس بہٖ (مسلم، ابوداؤود، نسائی)
’’اصل بات یہ ہے کہ رسول اللہa کے زمانے میں لوگ اپنی زمینیں اُجرت پر دیتے ہوئے یہ طے کیا کرتے تھے کہ پانی کی نالیوں کے سرے پر اور ان کے کناروں پر اور کھیت کے بعض مخصوص حصوں میں جو پیداوار ہوگی وہ مالک زمین لے گا۔ اب کبھی ایسا ہوتا کہ ایک جگہ کی کھیتی برباد ہوتی اور دوسری جگہ کی بچ جاتی اور کبھی اس جگہ کی بچ جاتی اور اس جگہ کی برباد ہوجاتی۔ اس زمانہ میں زمینیں کرائے پر دینے کا کوئی دوسرا دستور اس کے سوا نہ تھا۔ اسے نبیa نے سختی کے ساتھ منع فرمایا۔ رہا ایک واضح اور متعین حصہ، تو اس پر معاملہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
حنظلہ بن قیس کی دوسری روایت میں رافع بن خدیجؓ کے الفاظ یہ ہیں:
کنا نکری الارض بالناحیۃ منھا مسمّی لسیّد الارض قال فمھما یصاب ذٰلک وتسلم الارض ومھما یصاب الارض ویسلم ذٰلک ، فنھینا، واما الذہب والورق فلم یکن یومئذٍ (بخاری)
’’ہم لوگ زمینیں اس طرح کرایہ پر دیتے تھے کہ مالک زمین کھیت کے ایک خاص حصہ کی پیداوار کو اپنے لیے مخصوص کرلیتا تھا۔ اب کبھی ایسا ہوتا کہ اسی حصہ پر آفت آجاتی اور باقی زمین بچ جاتی اور کبھی ایسا ہوتا کہ وہی حصہ بچ جاتا اور ساری زمین پر آفت آجاتی۔ اسی لیے ہمیں ایسا معاملہ کرنے سے روک دیا گیا۔ رہا سونا چاندی تو اس پر معاملہ کرنے کا اس زمانہ میں دستور ہی نہ تھا‘‘۔
حنظلہ بن قیس کی تیسری روایت میں یہ ذکر ہے کہ حضرت رافعؓ نے فرمایا:
حدثنی عمای انھم کانوا یکرون الارض علی عھد النبی صلی اللہ علیہ وسلم بما ینبت علٰی الاربعاء او شیء یستثنیہ صاحب الارض فنھی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن ذٰلک ، فقلت لرافع فکیف ھی بالدینار والدرھم فقال رافع لیس بھا باس بالدینار والدرھم (بخاری، احمد، نسائی)
’’میرے دو چچائوں نے مجھ سے بیان کیا کہ نبی a کے زمانہ میں لوگ اپنی زمینوں کو اس پیداوار کے عوض کرایہ پر دیتے تھے جو پانی کی نالیوں پر پیدا ہو یا زمین کے کسی ایسے حصے میں پیدا ہو جسے مالک زمین مستثنیٰ کرلیتا تھا۔ اس طریقے کو نبیa نے منع فرما دیا۔ اس پر میں نے رافع سے پوچھا کہ دینار اور درہم کے عوض معاملہ کرنا کیسا ہے؟ رافعؓ نے کہا: اس میں کوئی مضائقہ نہیں‘‘۔
حضرت رافعؓ کی ایک اور روایت جو حنظلہ الزرقی کے واسطہ سے آئی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:
کنا اکثر الانصار حقلًا ، کنا نکری الارض علٰی ان لنا ھٰذہٖ ولھم ھٰذہٖ فربما اخرجت ھذہ ولم تخرج ھٰذہٖ فنھانا عن ذٰلک واما الورق فلم ینھنا(مسلم، ابن ماجہ، بخاری){ FR 5758 }
’’ہم لوگ انصار میں سب سے زیادہ کھیتی باڑی کرنے والے تھے۔ ہم زمین اس طرح کرایہ پر دیا کرتے تھے کہ کھیت کے اس حصہ کی پیداوار ہماری اور اس حصے کی پیداوار تمھاری۔اب کبھی ایسا ہوتا کہ ایک حصے میں فصل ہوتی اور دوسرے میں نہ ہوتی۔ اس وجہ سے نبیa نے ہمیں یہ معاملہ کرنے سے منع فرما دیا۔ رہا چاندی کے عوض معاملہ کرنا تو اس سے آپؐ نے منع نہیں فرمایا۔
خود رافع بن خدیجؓ کے چچازاد بھائی اُسید بن ظہیر روایت کرتے ہیں:
کان احدنا اذا استغنٰی عن ارضہ او افتقر الیھا اعطاھا بالثلث والربع والنصف واشترط ثلٰث جد اول والقصارۃ وما یسقی الربیع وکان العیش اذ ذاک شدیدًا وکان یعمل فیھا بالحدید وبماشاء اللہ ویصیب منھا منفعۃ فاتانا رافع بن خدیج فقال ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نھاکم عن امر کان لکم نافعًا وطاعۃ اللہ وطاعۃ رسولہ انفع لکم ان رسول اللہ ینھاکم عن الحقل ویقول من استغنٰی عن ارضہ فلیمنحھا اخاہ او لیدع (ابوداؤد، احمد، نسائی، ابن ماجہ)
’’ہم میں سے کوئی شخص جب اپنی زمین سے بے نیاز ہوتا، یا اسے کرائے پر دینے کا حاجت مند ہوتا تو اسے تہائی یا چوتھائی یا نصف پیداوار کی بٹائی پر دوسرے کو دے دیتا تھا اور ساتھ ہی شرط کرلیتا تھا کہ تین نالیاں اور گانٹھیں (یا گھنڈیاں){ FR 5759 } اور بڑی نالی کے کنارے کی پیداوار اس کی ہے۔ اس زمانہ میں زندگی بڑی سخت تھی۔ آدمی دن بھر ہل چلاتا یا دوسرا کام کرتا تب تھوڑا سا فائدہ حاصل کرتا تھا۔ ایک دن رافع بن خدیجؓ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ رسول اللہa نے تم کو ایسے کام سے روک دیا ہے جو تمھارے لیے نافع تھا۔ مگر اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت تمھارے لیے زیادہ نافع ہے۔ رسول اللہ a تمھیں زمینیں کرایہ پر دینے سے منع فرماتے ہیں اور آپؐ کا ارشاد ہے کہ جو اپنی زمین سے مستغنی ہو وہ یا تو اپنے بھائی کو مفت دے دے یا یوں ہی رہنےدے‘‘۔{ FR 5760 }
جابرؓ بن عبداللہ کی توضیح
رافع بن خدیجؓ کی طرح حضرت جابرؓ بن عبداللہ سے بھی جب معاملہ کی تفصیلات دریافت کی گئیں تو اصل معاملہ جس سے نبیa نے منع فرمایا تھا، یہ کھلا:
کنا نخابر علٰی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فنصیب من القُصریٰ ومن کذا ومن کذا، فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم من کان لَہٗ ارض فلیزرعھا او لیحرثھا اخاہ والا فلیدَعھا (احمد، مسلم)
’’ہم لوگ رسول اللہa کے زمانہ میں بٹائی پر زمینیں کاشت کے لیے دیتے تھے اور کچھ گانٹھوں (یا گھنڈیوں) میں سے اور کچھ اس چیز مین سے اور کچھ اس چیز میں سے بھی وصول کرتے تھے۔ اس پر نبیa نے فرمایا کہ جس کے پاس زمین ہو اسے چاہیے کہ یا خود کاشت کرے یا اپنے کسی بھائی کو کاشت کرا دے ورنہ اپنی زمین پڑی رہنے دے‘‘۔
زیدؓ بن ثابت کی توضیح
حضرت زیدؓ بن ثابت سے جب عروہ بن زبیر نے معاملہ کی تحقیق کی توانھوں نے فرمایا:
یغفر اللہ لرافع بن خدیج انا واللہ اعلم بالحدیث منہ ، انما اتٰی رجلان النبی صلی اللہ علیہ وسلم وقد اقتتلا ، فقال ان کان ھٰذا شانکم فلا تکر والمزارع، فسمع رافع بن خدیج قولہ فلا تکر والمزارع (ابودائود، ابن ماجہ)
’’خدا معاف کرے رافع بن خدیجؓ کو، مَیں اس بات کو ان سے زیادہ جانتا ہوں اصل بات یہ تھی کہ دو آدمی نبیa کے پاس حاضر ہوئے جن کے درمیان سخت جھگڑا ہوا تھا۔ اس پر حضوؐر نے فرمایا: اگر تم لوگوں کا یہ حال ہے تواپنی زمینیں کرایہ پر نہ دیا کرو۔ رافعؓ نے حضوؐر کی بس اتنی بات سن لی کہ ’’اپنی زمینیں کرایہ پر نہ دیا کرو‘‘۔
سعدؓ بن ابی وقاص کی توضیحات
حضرت سعدؓ نے اس معاملہ کی جو حقیقت بیان کی وہ یہ ہے:
ان اصحٰب المزارع فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کانوا یکرون مزارعھم بما یکون علی السواقی وما سعد بالماء مما حول النبت فجاؤا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاختصموا فی بعض ذٰلک فنھا ھم ان یکروا بذٰلک وقال اکروا بالذھب والفضۃ (احمد ، نسائی)
’’نبیa کے زمانہ میں مالکانِ زمین کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنی زمینیں اس شرط پر زراعت کے لیے دیتے تھے کہ نالیوں کے دونوں جانب کی پیداوار، اور کھیتی کے اس حصہ کی پیداوار جس پر پانی خود پہنچ جائے، مالک زمین کی ہوگی۔ اس پر لوگوں کے جھگڑے ہوئے اور ان کے مقدمات رسول اللہ a کے پاس آئے۔ تب آپؐ نے ایسی شرطوں پر زمینیں دینے سے منع فرما دیا اور فرمایا کہ سونے اور چاندی کی شکل میں کرایہ طے کرو‘‘۔
دوسری روایت میں وہ فرماتے ہیں:
کنا نکری الارض بما علٰی السواقی من الزرع وما سعد بالماءِ منھا فنھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن ذٰلک وامرنا ان کریھا بذھب او فضۃ
’’ہم لوگ زمینیں اس شرط پر زراعت کے لیے دیتے تھے کہ کھیتی کا جو حصہ نالیوں کے کناروں پر ہے اور جس پر پانی خود پہنچ جائے اس کی پیداوار مالک کی ہے۔ پھر رسول اللہa نے ایسا معاملہ کرنے سے ہمیں روک دیا اور حکم دیا کہ سونے اور چاندی کی شکل میں کرایہ طے کریں‘‘۔(ابودائود)
ابن عباسؓ کی توضیحات
تابعین میں جو فقہا سب سے زیادہ مشہور ہیں ان میں سے ایک حضرت طائوس ہیں۔ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباسb سے جومعلومات حاصل کی ہیں وہ اس مسئلے پر سے باقی ماندہ پردے بھی اُٹھا دیتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ:
لما سمع اکثر الناس فی کراء الارض قال سبحان اللہ ، انما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الا منحھا احدکم اخاہ (ای قالہ تحریضًا للناس علی الاحسان ) ولم ینہ عن کرائھا (ابن ماجہ)
’’ابن عباس نے جب کرایۂ زمین کے بارے میں سنا کہ لوگوں میں بہت چہ میگوئیاں ہورہی ہیں تو انھوں نے کہا: سبحان اللہ، رسول اللہa نے تو صرف یہ فرمایا تھا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی زمین اپنے بھائی کو مفت کیوں نہیں دے دیتا (یعنی آپ لوگوں کو احسان کی ترغیب دینا چاہتے تھے) آپ نے کرایہ پر دینے سے منع نہیں فرمایا تھا‘‘۔
دوسری مفصل روایت میں یہ ہے کہ طائوس اپنی زمینیں بٹائی پر دیا کرتے تھے۔ اس پر مجاہد نے ان سے کہا کہ چلو رافعؓ بن خدیج کے بیٹے کے پاس چلیں، وہ اپنے والد سے ایک حدیث روایت کرتے ہیں مگر طائوس نے انھیں ڈانٹ دیا اور کہا: خدا کی قسم! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ رسول اللہa نے اس کام سے منع فرمایا ہے تو میں اسے ہرگز نہ کرتا۔ لیکن جو شخص رافعؓ بن خدیج سے زیادہ علم رکھتا ہے، یعنی ابن عباسؓ ، اس نے مجھ سے کہا کہ:
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لان یمنح الرجل اخاہ ارضہ خیر لہ من ان یاخذ علیھا خرجا معلومًا
’’رسول اللہ a نے دراصل یہ فرمایا تھا کہ کوئی شخص اپنے بھائی کو یوں ہی زمین دے دے تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ اس پر ایک مقرر لگان لے‘‘۔
دوسری روایت میں ابن عباسؓ کے الفاظ یہ ہیں:
ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم ینہ عنھا ، انما قال یمنح احدکم اخاہ خیر لَہٗ من ان یاخذ علیھا خرجا معلومًا
’’نبی a نے اس سے منع نہیں فرمایا تھا۔ آپ نے تو صرف یہ فرمایا تھا کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو یوں ہی زمین دے دے تو یہ اس کے حق میں زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ اس پر ایک مقرر لگان وصول کرے‘‘۔
ایک اور روایت میں ابن عباسؓ کے یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں:
لم یحرم المزارعۃ ولکن امر ان یرفق بعضھم ببعض
’’حضورa نے مزارعت کو حرام نہیں کر دیا تھا بلکہ آپؐ نے یہ ہدایت فرمائی تھی کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رفاقت کا برتائو کریں‘‘۔ (بخاری، مسلم، ابودائود، ترمذی)
تحقیق مسئلہ
ان تمام شہادتوں اور عقلی و نقلی دلائل پر ایک جامع نگاہ ڈالنے سے مسئلے کی جو حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے وہ یہ ہے:
۱- اسلام اس تخیل سے قطعی ناآشنا ہے کہ زرعی جایداد کی ملکیت دوسری اقسام کی اِملاک اور جایدادوں سے کوئی الگ نوعیت رکھتی ہے جس کی بنا پر اُن سب کے برعکس اس کی جائز ملکیت کے لیے رقبے کے لحاظ سے کوئی حد مقرر کر دی جائے، یا یہ فیصلہ کردیا جائے کہ ہرشخص اور خاندان کے قبضے میں صرف اُتنی ہی زمین رہنی چاہیے جس میں وہ خود کاشت کرسکے، یا خود کاشتی سے زائد ملکیت کا حق دینے کے بعد دوسری ایسی پابندیاں لگا دی جائیں جن کی وجہ سے یہ حق بے معنی ہوکر رہ جائے۔ ایسی حدبندیوں کے لیے فی الحقیقت کتاب وسنت میں کوئی اصل موجود نہیں ہے۔
۲- جو شخص خود کاشت نہ کرے، یا نہ کرسکتا ہو، یا خود کاشتی کی حد سے زائد زمین رکھتا ہو، اس کو شریعت نے یہ حق دیا ہے کہ اپنی زمین دوسرے لوگوں کو زراعت کے لیے دے اور پیداوار میں تہائی یا چوتھائی یا نصف، جس پر بھی فریقین میں معاہدہ ہو، اپنا حصہ مقرر کرلے۔ جس طرح تجارت، صنعت اور دوسرے کاروباری معاملات میں مضاربت جائز ہے، بالکل اسی طرح زراعت میں مزارعت بھی جائز ہے۔
۳- لیکن مضاربت کی طرح مزارعت بھی صرف اپنی سادہ صورت ہی میں جائز ہے، یعنی یہ کہ مالک زمین اور کاشت کار کے درمیان حصے کا تعین سیدھے سیدھے طریقہ سے اس طرح ہو کہ زمین میں جتنی پیداوار بھی ہوگی وہ اس تناسب سے فریقین میں تقسیم ہوجائے گی۔ اس کے ساتھ ایسی کوئی شرط لگانا جس سے ایک فریق کا حصہ متعین اور دوسرے کا حصہ مشتبہ ہو، یا جس میں کسی ایک کا یا دونوں کا حصہ محض بخت و اتفاق پر منحصر ہوجائے، پورے معاملہ کو ناجائز کردیتا ہے، کیوں کہ اس طرح کی شرطیں مزارعت میں سودخواری اور قماربازی کی خصوصیات پیدا کردیتی ہیں۔
۴- رہا نقد لگان، تو اگر وہ کرایۂ زمین کی نوعیت رکھتا ہو تو جائز ہے، لیکن اگر پیداوار کا تخمینہ کرکے مالک زمین اُس میں اپنا حصہ پیشگی ایک مخصوص رقم کی شکل میں وصول یا متعین کرلے تو اصولاً اس میں اور سودخواری میں کوئی فرق نہیں۔ کرایہ میں لحاظ صرف اس امر کا ہونا چاہیے کہ مالک اپنی چیز کو کرایہ دار کے لیے مہیا کرنے اور مہیا رکھنے کا، اور اس نقصان کا جو کرایہ دارکے استعمال سے اس کی چیز کو پہنچتا ہے، معاوضہ طلب کرے۔ وہ چیز خواہ مکان ہو،یا فرنیچر یا سواری یا زمین، بہرحال اس پہلو سے اس کا معاوضہ یقیناً لیا جاسکتا ہے، اور زیادہ نقصان دہ یا کم نقصان دہ استعمال کے لحاظ سے اس معاوضہ میں کمی و بیشی ہوسکتی ہے لیکن اگر چیز کا مالک معاوضہ کا تعین اس لحاظ سے کرے کہ کرایہ دار میری چیز کو جس معاشی کاروبار میں استعمال کر رہا ہے اس میں اندازاً اُسے اتنا نفع ہوگا ، لہٰذا اس میں سے مجھے اتنا معاوضہ لازماً ملنا چاہیے، تو یہ پورا معاوضہ قطعی سود ہوجائے گا۔ خواہ وہ اس طریقے پر مکان کے معاملہ میں طے کیا جائے، یا سواری کے معاملہ میں، یا زمین کے معاملہ میں۔ کرایہ دار کے منافع میں حصہ لینے کی نیت جو شخص رکھتا ہو، اسے سیدھی طرح مضاربت کرنی چاہیے۔ اگر وہ تجارت و صنعت کے نفع میں شریک ہونا چاہتا ہے، یا مزارعت کرنی چاہیے، اگر وہ زراعت کے نفع میں حصہ بٹانا چاہتا ہے ، لیکن ایک فریق کا حصہ ایک مخصوص رقم کی شکل میں معین ہو اور دوسرے کا حصہ مشتبہ اور بخت و اتفاق پر منحصر رہے، یہ نہ تجارت صنعت میں جائز ہے اور نہ زراعت میں۔
فقہا کے مذاہب
آخر میں ایک نظریہ بھی دیکھ لیجیے کہ اس مسئلے میں فقہائے اسلام کے مختلف مذاہب کا فتویٰ کیا ہے۔ علامہ شوکانی اپنی کتاب نیل الاوطار میں لکھتے ہیں:
’’حازمی کہتا ہے کہ حضرت علیؓ بن ابی طالب، عبداللہ بن مسعودؓ، عمارؓ بن یاسر، سعیدؓ بن مسیّب، محمدؓ بن سیرین، عمرؓ بن عبدالعزیز، ابن ابی لیلیٰ، ابن شہاب زُہری اور حنفیہ میں سے قاضی ابویوسف اور محمد بن حسن کہتے ہیںکہ کھیت کی پیداوار اور باغ کے ثمرے، دونوں کی بٹائی پر مالکِ زمین اور کاشت کار کے درمیان اور مالکِ باغ اور باغبان کے درمیان معاملہ ہوسکتا ہے۔{ FR 5776 } یہ دونوں معاملے ایک ساتھ بھی ہوسکتے ہیں جس طرح خیبر میں کیے گئے تھے کہ ایک ہی گروہ سے باغوں کی رکھوالی اور زمینوں کی کاشت کا معاملہ یک جا طے ہوا تھا ، اور الگ الگ بھی ہوسکتے ہیں۔ جن احادیث میں مزارعت کی نہی وارد ہوئی ہے ان کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ وہ دراصل تنزیہ پر مبنی ہیں، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان سے مراد وہ صورت ہے جب کہ مالک زمین نے زمین کے کسی خاص حصے کی پیداوار اپنے لیے مخصوص کی ہو۔
اور طائوس اور ایک قلیل گروہ کہتا ہے، زمین کا کرایہ مطلقاًناجائز ہے، خواہ وہ زمین کی پیداوار کے ایک حصے کی شکل میں ہو، یا سونے اور چاندی کی شکل میں، یا کسی اور صورت میں۔{ FR 5778 } اسی رائے کی طرف ابن حزم گئے ہیں اور انھوں نے بڑے زور سے اس کی تائید کی ہے اور اپنی حجت میں ان احادیث سے استدلال کیا ہے جو اس کی مطلقاً ممانعت کرتی ہیں۔{ FR 5777 }
اور شافعیؒ اور ابوحنیفہؒ اور عترت (یعنی فقہائے امامیہ) اور بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ زمین کا کرایہ ان تمام شکلوں میں طے کرنا جائز ہے جو اشیا کی خریدوفروخت کے لیے قیمت کا کام دے سکتی ہیں، خواہ وہ سونا ہو، چاندی ہو، استعمال کا سامان ہو، یا غلّہ ہو۔ لیکن یہ کرایہ خود اس زمین کی پیداوار کے ایک حصہ کی صورت میں طے نہیں کیا جاسکتا تھا جو کرایہ پر دی جارہی ہو۔
ابن المنذِر کہتا ہے کہ سونے اور چاندی کی شکل میں زمین کا کرایہ طے کرنے کے جواز پر تو تمام صحابہ متفق ہیں اور ابن بطّال کہتا ہے کہ تمام فقہا امصار بھی اس کے جواز پر متفق ہیں لیکن پیداوار کی بٹائی کے ناجائز ہونے پر مذکورہ بالا اصحاب اُن احادیث سے استدلال کرتے ہیں جو اس کی ممانعت میں وارد ہوئی ہیں اور خیبر کے معاملہ کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ خیبر تو بزورِ شمشیر فتح ہوا تھا اور اس کے باشندے آں حضرتa کے غلام ہوچکے تھے، اس لیے اس کی پیداوار میں سے جو کچھ بھی آپ نے لیا وہ بھی آپ ہی کا تھا اور جو کچھ چھوڑ دیا وہ بھی آپ ہی کا تھا۔
حازمی کہتا ہے کہ یہ مذہب عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس اور رافع بن خدیج اور اسید بن حضیر اور ابوہریرہؓ اور نافعؓ سے مروی ہے{ FR 5829 } اور اسی کی طرف مالکؒ اور شافعیؒ اور کوفیوں میں سے ابوحنیفہؒ گئے ہیں۔
امام مالکؒ کا مذہب یہ ہے کہ غلے اور ثمرے کے سوا ہر دوسری صورت میں زمین کا کرایہ طے کرنا جائز ہے۔ غلے اور ثمرے کی شکل میں کرایہ لینے سے وہ اس لیے منع کرتے ہیں کہ یہ معاملہ غلے سے غلے کی بیع نہ بن جائے اور ان کے نزدیک ممانعت کے احکام کا اصل منشا یہی ہے۔ فتح الباری کے مصنّف نے ان کا مذہب اسی طرح نقل کیا ہے مگر ابن المنذِر کہتا ہے کہ امام مالک کے قول کا مطلب یہ لینا چاہیے کہ اگر کرایہ اس غلے میں سے طے ہو جو کرایہ پر دی جانے والی زمین سے پیدا ہوگا، تو یہ ناجائز ہے۔ رہی یہ صورت کہ کرایہ پر لینے والا شخص ایک مقرر مقدار غلہ ادا کرنے کا ذمہ لے یا موجودہ غلہ میں سے ادا کردے تو اس کے جواز میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔
امام احمدؒ بن حنبل کہتے ہیں کہ خود زمین ہی کی پیداوار میں سے ایک حصہ کرائے کے طور پر مقرر کرنا جائز ہے ، بشرطیکہ تخم مالکِ زمین کا ہو۔ امام احمدؒ کا یہ مذہب حازمی نے نقل کیا ہے‘‘۔(نیل الاوطار، جلد۵، ص ۲۳۲)
حال میں الفقہ علٰی المذاہب الاربعہ کے نام سے ایک نفیس کتاب مصر سے شائع ہوئی ہے جس میں اسلامی فقہ کے چاروں مذاہب کے احکام نہایت عمدہ ترتیب اور تفصیل کے ساتھ ان کی اصل کتابوں سے لے کر درج کیے گئے ہیں۔ اس کی تیسری جلد کے آغاز میں مزارعت کے مسئلے پر مفصل بحث کی گئی ہے۔ ذیل میں ہم اس کا ایک ضروری خلاصہ درج کرتے ہیں تاکہ ہر شخص خود دیکھ لے کہ اس مسئلے میں فقہائے اسلام کے مختلف مذاہب کا فتویٰ کیا ہے۔
مذہب ِ حنفی کی تفصیل
’’مزارعت‘‘ (یعنی بٹائی) دراصل مالک زمین اور عامل (کاشت کار) کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہے جس کی رُو سے یا تو عامل زمین کو اُجرت پر لیتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ اس کی زمین میں کاشت کرے گا اور پیداوار کا ایک حصہ مالک زمین کو اُجرت میں دے گا، یا مالکِ زمین عامل کی خدمات اُجرت پر لیتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ اس کی زمین میں کام کرے گا اور پیداوار کا ایک حصہ اپنے کام کی اُجرت میں پائے گا۔ اس نوعیت کا معاملہ حنفیہ میں مختلف فیہ ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کہتے ہیں کہ یہ ناجائز ہے۔ امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے ۔ اور مذہب ِ حنفی میں فتویٰ انھی دونوں بزرگوں کے قول پر ہے نہ کہ امام ابوحنیفہؒ کے قول پر، لیکن خود امام ابوحنیفہؒ بھی مزارعت کو مطلقاً ناجائز نہیں فرماتے، بلکہ اُن کے نزدیک اگر مالک زمین صرف زمین ہی دے کر الگ نہ ہوجائے بلکہ تخم اور ہل بیل وغیرہ میں بھی عامل کے ساتھ شریک ہو تو اس صورت میں پیداوار کی بٹائی پر معاملہ کرنا جائز ہے۔
امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک (جس پر مذہب ِ حنفی میں فتویٰ ہے) مزارعت کی جائز صورتیں یہ ہیں:
۱- یہ کہ زمین ایک کی ہو اور تخم، آلاتِ زراعت اور عمل دوسرے کا ہو اور فریقین میں یہ قرارداد ہوجائے کہ زمین کا مالک پیداوار کا اتنا حصہ (مثلاً آدھا، تہائی یا چوتھائی) لے گا۔
۲- یہ کہ زمین اور تخم اور آلاتِ زراعت سب کچھ مالک کا ہو اور صرف عمل دوسرے شخص کا ہو اور پھر یہ طے ہوجائے کہ عامل کو پیداوار میں سے اتنا حصہ ملے گا۔
۳- یہ کہ زمین اور تخم مالک دے اور آلاتِ زراعت اور عمل دوسرے کا ہو اور پھر بٹائی میں دونوں کے حصے کا تناسب طے ہوجائے۔
۴- یہ کہ زمین بھی دونوں کی ہو، تخم بھی دونوں لائیں، آلات اور عمل میں بھی دونوں شریک ہوں اور پھر آپس میں حصے مقرر کرلیں۔
اور اس معاملہ کی ناجائز صورتیں یہ ہیں:
۱- یہ کہ زمین دونوں فریقوں کی ہو، اور ایک فریق زمین کے ساتھ صرف بیج دے اور دوسرا فریق زمین کے ساتھ صرف ہل بیل دے (بعض علما نے اس صورت کے جواز کا فتویٰ دیا ہے، اگر کسی علاقے میں اس طریقے کا رواج عام ہو)۔
۲- یہ کہ ایک کی زمین ہو، دوسرے کا تخم ہو، تیسرے کے ہل بیل ہوں اور چوتھے کا عمل ہو۔ یا ہل بیل اور عمل تیسرے کا ہو۔
۳- یہ کہ تخم اور ہل بیل ایک کا ہو اور عمل اور زمین دوسرے کی ہو۔
۴- یہ کہ زمین ایک کی ہو، اور تخم میں دونوں شریک ہوں، اور عمل کے بارے میں یہ شرط ہو کہ وہ مالکِ زمین کے سوا کوئی اور کرے گا۔
۵- یہ کہ کسی ایک فریق کا حصہ مقدار کی شکل میں (مثلاً۵۰ من یا ۱۰۰ من) معین کیا جائے، یا وہ بٹائی کے حصے کے علاوہ ایک خاص مقدارِ غلہ زائد لے، یا اس زمین کی پیداوار کے علاوہ کوئی اور جنس باہر سے فراہم کر کے دینے کی ذمہ داری کسی فریق پر ڈالی جائے۔
مذہب ِ حنبلی
حنابلہ کا مذہب اس معاملہ میں تقریباً وہی ہے جو امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ وہ اس بات کو ضروری قرار دیتے ہیں کہ تخم مالکِ زمین مہیا کرے۔
لیکن معلوم ایسا ہوتا ہے کہ بعد میں مذہب ِ حنبلی کے علما نے اس شرط میں کچھ ترمیم کردی۔ چنانچہ آگے چل کر جہاں الفقہ علی المذاہب الاربعۃ کا مصنّف مذہب ِ حنبلی کے تفصیلی احکام بیان کرتا ہے، وہاں وہ کہتا ہے:
’’صحیح یہ ہے کہ تخم کا مالک زمین کی طرف سے ہونا شرط نہیں ہے۔ دراصل شرط یہ ہے کہ فریقین میں سے ہر ایک کچھ رأس المال دے۔ پس یہ صورت بھی صحیح ہے کہ ایک شخص صرف زمین دے اور دوسرا شخص تخم اور آلاتِ زراعت کے ساتھ شریک ہو اور یہ بھی درست ہے کہ تخم یا ہل بیل یا دونوں مالکِ زمین کے ذمہ ہوں اور دوسرے کے ذمہ عمل اور تخم یا عمل اور ہل بیل ہوں‘‘۔ (ص ۲۱)
مذہب ِ مالکی
مالکیہ کے نزدیک مزارعت کی یہ صورت جائز نہیں ہے کہ ایک شخص زمین دے اور دوسرا تخم اور عمل اور آلات کے ساتھ شریک ہو اور پیداوار کو دونوں فریق کسی طے شدہ تناسب کے مطابق آپس میں بانٹ لیں۔ اس کی بجائے مزارعت کی جو شکل وہ تجویز کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ زمین، عمل اور آلاتِ زراعت میں سے ہر ایک کی ایک قیمت روپے یا اموالِ تجارت (باستثناء غلہ) کے حساب سے مشخص کی جائے، مثلاً یہ کہ زمین کو اتنی مدت تک استعمال کرنے کی قیمت پچاس روپے یا اتنے گز کپڑا ہے اور اس مدت کے دوران میں جو زراعت کا عمل اس پر کیا جائے گا اس کی قیمت اتنے روپے یا اتنا کپڑا ہے اور اس مدت میں آلاتِ زراعت جن سے کام لیا جائے گا ان کے استعمال کی قیمت اس قدر ہے۔ پھر جو فریق ان میں سے جس جس چیز کے ساتھ شریک ہوگا اس کے متعلق یہ قرار دیا جائے گا کہ وہ گویا اتنے سرمایہ کے ساتھ اس مشترک کاروبار میں حصہ دار بن رہا ہے۔ مگر تخم لازماً دونوں فریق برابر برابر لائیں گے اور جو کچھ منافع اس مشترک کاروبار سے حاصل ہوگا وہ اس سرمایہ کی نسبت سے فریقین کے درمیان تقسیم ہوجائے گا ، جس کے ساتھ وہ شریک ہوئے ہوں۔
مذہب ِ شافعی
شافعیہ کے نزدیک بٹائی کی تمام صورتیں ناجائز ہیں خواہ بیج اور زمین مالک دے یا بیج اور عمل کاشت کار کا ہو۔ ان کا خیال یہ ہے کہ زمین کی اُجرت خود اسی زمین کی پیداوار میں سے مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں کاشت کار یہ جانے بغیر عمل کرتا ہے کہ اس کے حصے میں کتنا غلہ آئے گا، اس لیے یہ دھوکے کا سودا ہے۔ اس کے بجائے صحیح صورت یہ ہے کہ یا تو مالکِ زمین کاشت کار کی خدمات ایک مقرر اُجرت پر حاصل کرے اور کھیتی مالک کی ہو، یا پھر کاشت کار ایک مقرر اُجرت پر مالک سے زمین لے لے اور کھیتی کاشت کار کی ہو۔ یہ صاف صاف معاملہ کرنے کے بجائے ایسا معاملہ کیوں کیا جائے جس میں فریقین کو کچھ معلوم نہ ہو کہ ان کے حصے میں کتنا کچھ غلہ آئے گا؟ شافعیہ کا کہنا یہ ہے کہ احادیث میں مخابرۃ اور مزارعت کی جو ممانعت وارد ہوئی ہے اس کا مطلب یہ ہے۔
لیکن شافعیہ کے نزدیک یہ جائز ہے کہ ایک شخص اپنا باغ دوسرے کو رکھوالی کے لیے دے اور اس کے عمل کی اُجرت مقرر کرنے کے بجائے ثمرے میں سے اس کا حصہ طے کرے۔ نیز ان کے نزدیک یہ بھی جائز ہے کہ اگر باغ میں کچھ زمین زراعت کے لیے فارغ ہو تو اسی باغبان کو اس میں زراعت کی بھی اجازت دے دی جائے اور باغ کا مالک اس کی پیداوار میں سے اپنا حصہ بٹائی کے طریقہ پر طے کرے۔ البتہ شرط یہ ہے کہ یہ مزارعت بجائے خود ایک مستقل معاملہ کے طور پر نہ ہو بلکہ اسی باغبانی کے معاملہ میں شامل اور اس کی تابع ہو، اور اسی شخص کے ساتھ طے ہو جس سے باغبانی کا معاملہ کیا گیا ہے۔
ان تفصیلات پر نگاہ ڈالنے سے یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ فرقۂ ظاہریہ کی ایک ذرا سی جماعت کو چھوڑ کر پوری اُمت کے ماہرین قانون میں سے کسی کا بھی یہ مسلک نہیں ہے کہ زرعی جایداد کی ملکیت کو صرف خود کاشتی کی حد تک محدود ہونا چاہیے، یا یہ کہ خود کاشتی کی حد سے زائد جتنی زمین آدمی کے پاس ہو اسے مفت دینے یا ڈال رکھنے کے سوا کوئی تیسری صورت اس کے استعمال کی شریعت میں نہیں ہے۔ زائد زمین کی کاشت دوسروں سے کرانے کی کیا صورت جائز ہے اور کیا ناجائز، اس میں تو ضرور مختلف مذاہب کے درمیان اختلاف ہے، مگر فقہ کے ہرمذہب میں کوئی نہ کوئی صورت ایسی ضرور جائز ہے جس سے ایک آدمی اپنی زمین کی کاشت دوسرے سے کرا سکتا ہے۔
٭٭٭
اِصلاح کے حدود اور طریقے
کوئی شک نہیں کہ زمین کا موجودہ بندوبست نہایت ناقص اور غیرمنصفانہ ہے۔ بلاشبہ زمین داری اور جاگیرداری اس قدر خرابیوں سے لبریز ہوچکی ہے کہ ہماری پوری معیشت اور معاشرت اس کے زہرسے متاثر ہورہی ہے۔ اصلاح کی ضرورت یقینا ہے اور بجائے خود اس معاملہ میں ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس بگاڑ کو دُور ہونا چاہیے لیکن جو لوگ اصلاح کا نام لیتے ہیں انھیں باہر کے بگاڑ کی فکر کرنے سے پہلے اپنے اندر کے بگاڑ کی فکر کرنی چاہیے، کیوں کہ ایک ناصاف اور اُلجھے ہوئے ذہن کو لے کر اگر وہ باہر کے بگاڑ کی فکر کرنے سے پہلے اپنے اندر کے بگاڑ کی فکر کرنی چاہیے، کیوں کہ ایک ناصاف اور اُلجھے ہوئے ذہن کو لے کر اگر وہ باہر اصلاح کی قینچی چلانا شروع کریںگے تو پچھلی خرابیوں کو دُور کرنے کے بجائے نئی خرابیوں کا ایک اور گورکھ دھندا پیدا کردیں گے۔
سب سے پہلے تو انھیں یہ طے کرنا چاہیے کہ ان کا کوئی دین ہے یا نہیں، اور ہے تو وہ اسلام ہے یا کچھ اور؟ اگر ان کا کوئی دین نہ ہو، یا ہو مگر وہ اسلام کے سوا کچھ اور ہو، تو انھیں پورا حق ہے کہ اصلاح کے لیے اپنا کوئی طبع زاد نظریہ پیش کریں، یا کہیں اور سے کوئی نظریہ اخذ کریں اور اسے رائج کرنے کی کوشش شروع کر دیں۔ مگر یہ سب کچھ بہرحال انھیں اپنے ہی نام سے کرنا چاہیے، یا اپنے اس پیشوا کے نام سے جس کی وہ پیروی کر رہے ہوں۔
یہ حق انھیں کسی طرح بھی نہیں پہنچتا کہ اپنی من گھڑت یا دوسروں کی ایجاد کردہ تجویزوں کو زبردستی کھینچ تان کر اسلام کے سر منڈھیں اور اس کے نام سے مسلمانوں کو دھوکا دینے کی کوشش کریں۔ اور اگر وہ اپنا کوئی دین رکھتے ہوں اور وہ اسلام ہی ہو ، لیکن وہ عملاً اس کی پیروی نہ کرنا چاہتے ہوں، تب بھی انھیں معصیت کا اختیار تو ضرور حاصل ہے، مگر کم از کم معقولیت کے حدود میں تو اس کی گنجائش نہیں کہ اسلام سے ہٹ کر اور اسے نظرانداز کر کے جو تجویزیں وہ خود گھڑیں یا کہیں اور سے لائیں انھیں خواہ مخواہ عین اسلام قرار دیں۔
پھر اگر وہ یہی طے کریں کہ فی الحقیقت ان کا ایک دین ہے اور وہ اسلام ہی ہے اور انھیں اس کی پیروی بھی کرنی ہے تو اسلام کے نام پر کوئی اصلاح شروع کرنے سے پہلے انھیں چند ابتدائی باتیں ضرور جان لینی چاہییں۔ انھیں جاننا چاہیے کہ اسلام نے محض عدل و انصاف کے الفاظ ہی ہمیں نہیں دیے ہیں بلکہ ان کے مفہومات، تصورات اور عملی نقشے بھی ساتھ کے ساتھ دے دیے ہیں، لہٰذا اگر ہم اسلامی انصاف قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف انصاف کا لفظ ہی اسلام کی لغت سے نہ لینا ہوگا بلکہ اس کا تصور اور اس کا عملی نقشہ بھی اسلام ہی کے قانون سے لینا پڑے گا۔ ان کو یہ بھی جانناچاہیے کہ اسلام کوئی بازیچۂ اطفال نہیں ہے کہ جن لوگوں نے اس کے نظام، اُصول اور قوانین کو سمجھنے میں اپنی عمر کا کوئی ذرا سا حصہ بھی صرف نہ کیا ہو وہ اِدھر اُدھر سے چند آیات اور چند احادیث جمع کر کے چند گھنٹوں کے اندر بڑے بڑے دینی مسائل کے مجتہدانہ فیصلے کرڈالیں اور اُلٹا ان لوگوں کو احمق بنانے کی کوشش کریں جنھوں نے اپنی عمریں اس دین کے نظام اور احکام کو سمجھنے میں کھپا دی ہیں۔ یا چند نواب زادے اور چند وکیل اور بیرسٹر صاحبان بیٹھ کر سراسر دنیوی اغراض اور مصلحتوں کی بنیاد پر ایک اصلاحی اسکیم تصنیف کریں اور پھر اسلام کے نام سے اس کو محض پیش کر دینے ہی پر اکتفا نہ کریں بلکہ دھڑلے کے ساتھ یہ بھی فرما دیں کہ جو مولوی اور مُلّا اس کے مطابق فتویٰ دے بس وہی دین کو جانتا ہے۔ یہ محض جہالت ہی نہیں، جہل مرکب ہے۔ اس طرح کے مصلحین کو جاننا چاہیے کہ یہ رویہ کسی معقول آدمی کو زیب نہیں دیتا۔ انھیں جاننا چاہیے کہ اسلام ایک باقاعدہ نظام ہے جو اپنا ایک مستقل فلسفۂ زندگی، اپنے جامع اور ہمہ گیر اصول اور اپنے مخصوص ضوابط اور قوانین رکھتا ہے اور کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کا علم حاصل کیے بغیر جو کچھ چاہے اپنے دل سے گھڑ کر یا دوسری جگہ سے لاکر اس کے نظام میں کھپا دے، یا ایک سرسری سی واقفیت کے بل بوتے پر مجتہد مطلق بن بیٹھے اور اپنے ذہن کی خام پیداوار کو قطعی اور حتمی فیصلوں کی صورت میں برآمد کرنا شروع کردے۔ اُنھیں جاننا چاہیے کہ موجودہ خرابیوں کی اصلاح اور ایک نئے صالح نظام کی تاسیس اگر ہم خود اپنی صواب دید سے کریں تو اسے اسلام کی طرف سے منسوب کرنا غلط ہے، اور اگریہ کام ہمیں اسلام کے طریقے پر کرنا ہو تو لامحالہ ہم ہی کو اصلاح و تاسیس اُن حدود کے اندر کرنا ہوگی جو اسلام نے مقرر کی ہیں اور اُن اصولوں کے مطابق کرنا ہوگی، جو اس نے ہمیں دیے ہیں۔
ان پہلوئوں سے اگر لوگ اپنے ذہن کو صاف کرلیں اور ہرشخص اور گروہ اپنے حدودِ کار کو پہچان کر اپنی کارفرمائی اور کارگزاری کو اپنی اہلیت کی حد تک محدود رکھے تو بہت سی وہ اُلجھنیں دُور ہوجائیں جن کی وجہ سے کام بننے کی بجائے اُلٹا بگڑ رہا ہے۔
اِصلاح کے حدودِ اربعہ
اس کے بعد جو لوگ فی الحقیقت اسلامی اصلاح چاہتے ہیں اور من مانی کارروائیاں نہیں کرنا چاہتے ان کی سہولت کے لیے ہم ان صفحات میں اختصار کے ساتھ یہ واضح کریں گے کہ اسلامی قانون نے وہ کون سے حدود کھینچ رکھے ہیں جن کے اندر ہماری اصلاحی تدبیروں کو محدود رہنا چاہیے، اُن حدود کے اندر کیا کچھ کرنے کی گنجائش ہے اور کیا کچھ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
۱- قومی ملکیت کی نفی
سب سے پہلی چیز جو تمام اصلاح طلب عناصر کو صاف صاف سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ ذرائع پیداوار کو قومی ملکیت بنانے کا تخیل بنیادی طور پر اسلام کے نقطۂ نظر کی ضد ہے۔ لہٰذا اگر ہمیں اسلامی اصول پر زمین کے بندوبست کی اصلاح کرنی ہو تو ایسی تمام تجویزوں کو پہلے ہی قدم پر لپیٹ کر رکھ دینا چاہیے جن کی بنیاد میں قومی ملکیت کا نظریہ اصول یا نصب العین کی حیثیت سے موجود ہو۔ بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ اسلام زبردستی مالکانِ زمین کی ملکیتیں چھین لینے کی اجازت نہیں دیتا اور بات صرف اتنی بھی نہیں ہے کہ وہ ایسے قوانین بنانے کی اجازت نہیں دیتا جن کے ذریعہ سے کسی شخص یا گروہ کو اپنی ملکیت حکومت کے ہاتھ بیچنے پر مجبور کیا جاسکے، بلکہ درحقیقت اسلامی نظریۂ تمدن و اجتماع سرے سے اس تخیل ہی کا مخالف ہے کہ زمین اور دوسرے ذرائع پیداوار حکومت کی ملکیت ہوں اور پوری سوسائٹی اس مختصر سے حکمران گروہ کی غلام بن کر رہ جائے جو اِن ذرائع پر متصرف ہو۔ جن ہاتھوں میں فوج، پولیس، عدالت اور قانون سازی کی طاقتیں ہیں اُنھی ہاتھوں میں اگر سوداگری، کارخانہ داری اور زمین داری بھی سمٹ کر جمع ہوجائے تو اس سے ایک ایسا نظامِ زندگی پیدا ہوتا ہے جس سے بڑھ کر انسانیت کُش نظام آج تک شیطان ایجاد نہیں کرسکتا ہے اس لیے یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ اگر غاصبانہ طریقوں سے زمینوں پر قبضہ نہ کیا جائے بلکہ پورے پورے معاوضے دے کر حکومت تمام زمینوں کو ان کے مالکوں سے برضاو رغبت خرید لے تو اسلامی نقطۂ نظر سے اس میں کوئی قباحت نہیں، جزئیاتِ شرع کے لحاظ سے چاہے اس میں قباحت نہ ہو، مگر کلیاتِ شرع کے لحاظ سے یہ تخیل ہی غلط ہے کہ عدلِ اجتماعی کی خاطر زمین اور دوسرے ذرائع پیداوار کو انفرادی ملکیتوں سے نکال کر قومی ملکیت بنا دیا جائے۔ یہ انصاف کا اشتراکی تصور ہے نہ کہ اسلامی تصور۔ اور اس تصور کی بنیاد پر ایک اشتراکی معاشرہ پیدا ہوتا ہے نہ کہ اسلامی معاشرہ۔ اسلامی معاشرہ کے لیے تو یہ نہایت ضروری ہے کہ اس کے اگر سب نہیں تو اکثر افراد اپنی معیشت میں آزاد ہوں اور اس غرض کے لیے ناگزیر ہے کہ ذرائع پیداوار افراد ہی کے ہاتھوں میں رہیں۔
۲- تقسیم دولت میں مساوات کی نفی
دوسری چیز جو ہمارے اصلاح طلب حضرات کے ذہن نشین ہونی چاہیے یہ ہے کہ اسلام دولت کی مساویانہ تقسیم کا قائل نہیں ہے بلکہ منصفانہ تقسیم کا قائل ہے اور اس منصفانہ تقسیم کے لیے بھی وہ انصاف کا اپنا ہی ایک مخصوص تصور رکھتا ہے۔ جہاں تک مساویانہ تقسیم کا تعلق ہے وہ محض ایک خیالی جنّت ہے جس کا متحقق ہونا نظامِ فطرت میں کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ فطرت کے قوانین ہی کچھ اس طرح کے ہیں کہ اگر کسی وقت مصنوعی طور پر دولت کو سب انسانوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کر بھی دیا جائے تو اُسی آن سے یہ مساوات عدمِ مساوات میں تبدیل ہونا شروع ہوجائے گی یہاں تک کہ تھوڑی مدت گزرنے کے بعد اس مصنوعی مساوات کا کہیںنام و نشان تک باقی نہ رہے گا۔یہی وجہ ہے کہ جو لوگ مساویانہ تقسیم کا نام لے کر اُٹھے تھے انھیں بھی آخرکار اس خیال سے باز آجانا پڑا۔ اسلام اس طرح کی خام خیالیوں سے بہت بالا و برتر ہے۔ وہ تقسیم دولت میں مساوات کی بجائے انصاف قائم کرنا چاہتا ہے اور اس انصاف کی ایک واضح اور مکمل صورت اس نے اپنے قوانین میں، اپنی اَخلاقی ہدایات میں، اور اپنے معاشرے کی تشکیل میں قائم کر دی ہے۔ لہٰذا اگر ہم اسلامی طرز پر اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے ہی قدم پر ایسی تمام تجویزوں کو رد کردینا چاہیے جن کا مقصود کسی قسم کی مصنوعی مساوات کا قیام ہو، اس کی بجائے ہماری اصلاحی تدبیروں کے لیے صحیح سمت یہ ہے کہ ہم انصاف کے اسلامی نقشے کو سمجھیں اور اپنے نظامِ معیشت و معاشرت میں اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں۔
۳- جائز حقوقِ ملکیت کی حُرمت
تیسرا اہم نکتہ جس سے ہمارے اصلاح طلب بھائیوں کو غافل نہ رہنا چاہیے یہ ہے کہ اسلام کمیونزم کی طرح کا کوئی بگ ٹٹ بے لگام فلسفۂ زندگی نہیں ہے کہ چند آدمی بیٹھ کر اپنی جگہ اجتماعی فلاح و بہبود کا ایک خاص نظریہ قائم کریں اور پر اندھا دُھند طریقے سے ہر طرح کی جائز و ناجائز تدبیروں سے زبردستی اسے دوسروں پر مسلط کرنا شروع کر دیں۔ وہ نہ کسی طبقے کے اغراض و مفاد کا وکیل ہے نہ کسی دوسرے طبقے کے غصے اور جھنجھلاہٹ کا ترجمان۔ اس کی بنیاد خدا ترسی، عدل اور حق شناسی پر قائم ہے اور انھی بنیادوں پر وہ انسانی زندگی کا نظام اُستوار کرنا چاہتا ہے۔ اس کے نظام میں اس طرح کی باتوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ آپ اصلاح کے نام سے جس کے حقوق پر چاہیں دست درازی کربیٹھیں، جس سے جو کچھ چاہیں چھین لیں اور جسے جو کچھ چاہیں دلوا دیں۔ ایک غیرذمہ دار آدمی جو کسی خدا کا قائل نہ ہو اور جسے کسی کو حساب نہ دینا ہو، بے تکلف یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ہم تمام زمین داریوں اور جاگیرداریوں کو مٹا دیںگے اور یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ہم ان سب کو جوں کا توں قائم رکھیں گے۔ لیکن ایک مسلمان جو خدا ترسی کے کھونٹے سے بندھا ہوا ہے اور حدوداللہ کا پابند ہے ، ان میں سے کوئی بات بھی نہیں کہہ سکتا۔ اسے تو یہ دیکھنا پڑے گا کہ خدا کی شریعت کی رُو سے کون جائز طور پر کسی چیز کا مالک ہے اور کس کی ملکیت جائز نہیں ہے۔ کون خدا اور رسول کے دیے ہوئے حقوق سے صحیح طور پر متمتع ہورہا ہے اور کون اپنے جائز حقوق کی حد سے تجاوز کرگیا ہے۔ پھر جائز و ناجائز کی پوری تمیز ملحوظ رکھتے ہوئے وہ تمام جائز شرعی ملکیتوں کو قائم رکھے گا اور صرف ان ملکیتوں کو ختم کرے گا جو ناجائز نوعیت کی ہیں۔
۴- من مانی قیود کا عدمِ جواز
آخری چیز جو مسلمان مصلحین کی نگاہ میں رہنی ضروری ہے یہ ہے کہ اسلام کے حدود میں رہتے ہوئے ہم کسی نوع کی جائز ملکیتوں پر اصولاً نہ تو تعداد یا مقدار کے لحاظ سے کوئی پابندی عائد کرسکتے ہیں اور نہ ایسی من مانی قیود لگا سکتے ہیں جو شریعت کے دیے ہوئے جائز حقوق کو عملاً سلب کرلینے والی ہوں۔ اسلام جس چیز کا آدمی کو پابند کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے پاس جو کچھ مال آئے جائز راستے سے آئے، جائز طریقے پر استعمال ہو، جائز راستوں میں جائے اور خدا اور بندوں کے جو حقوق اس پر عائد کیے گئے ہیں وہ اس میں سے ادا کردیے جائیں۔ اس کے بعد جس طرح وہ ہم سے یہ نہیں کہتا کہ تم زیادہ سے زیادہ اتنا روپیہ، اتنے مکان، اتنا تجارتی کاروبار، اتنا صنعتی کاروبار، اتنے مویشی، اتنی موٹریں، اتنی کشتیاں اور اتنی فلاں چیز اور اتنی فلاں چیز رکھ سکتے ہو، اسی طرح وہ ہم سے یہ بھی نہیں کہتا کہ تم زیادہ سے زیادہ اتنے ایکڑ زمین کے مالک ہوسکتے ہو۔ پھر جس طرح وہ ہم سے یہ نہیں کہتا کہ تم زیادہ سے زیادہ اتنے ایکڑ زمین کے مالک ہوسکتے ہو۔ پھر جس طرح وہ ہم سے یہ نہیں کہتا کہ تم صرف اُسی تجارت یا صنعت یا دوسرے کاروبار کے مالک ہوسکتے ہو جسے تم براہِ راست خود کرو، اور جس طرح اس نے دنیا کے کسی دورے معاملہ میں ہم پر یہ قید نہیں لگائی ہے کہ تم کسی ایسے کام پر حقوقِ ملکیت نہیں رکھ سکتے جسے تم اُجرت پر یا شرکت کے طریقے پر دوسروں کے ذریعے سے کر رہے ہو۔ اسی طرح وہ یہ بھی نہیں کہتا کہ زمین کا مالک بس وہی ہوسکتا ہے جو اس میں خود کاشت کرے اور یہ کہ اُجرت یا شرکت پر کاشت کرانے والوں کو سرے سے زمین پر حقوقِ ملکیت حاصل ہی نہیں ہیں۔ اس قسم کی قانون سازیاں خودمختار لوگ تو کرسکتے ہیں، مگر جو خدا اور رسولؐ کے مطیع فرمان ہیں وہ ایسی باتیں سوچ بھی نہیں سکتے۔ زیادہ سے زیادہ اگر کسی خاص ضرورت کی بنا پر کچھ کیا جاسکتا ہے تو وہ ایک عارضی پابندی ہے جسے ہم آگے بیان کر رہے ہیں، مگر وہ اسلامی قانون میں کسی مستقل اُصولی ترمیم کا موجب نہیں ہوسکتی۔
تدابیر اِصلاح
یہ ہیں وہ سرحدیں جنھیں پار کرنے کے ہم مجاز نہیں ہیں۔ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اُصولِ اسلام کے مطابق ہم کس قسم کی اصلاحی تدابیر اختیار کرسکتے ہیں جن سے زمین کے انتظام کی موجودہ خرابیاں دُور ہوں اور وہ انصاف قائم ہوسکے جو اسلامی معیار کے لحاظ سے مطلوب ہے۔
۱- زمین داری و جاگیرداری کا معاملہ
ہمارے ملک میں یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کہ بعض جگہ بہت بڑے بڑے رقبے جو ہزاروں سے گزر کر لاکھوں ایکڑ تک بھی وسیع ہیں، کچھ خاندانوں کے پاس جاگیر یا زمین داری کے طور پر مدتوں سے چلے آرہے ہیں۔ اُن میں سے بعض وہ ہیں جو انگریزی حکومت نے ملک پر قابض ہونے کے بعد غداریوں کے صلے میں اصل حق داروں سے چھین کر دیے تھے۔ بعض انگریزی دَور سے بھی پہلے مختلف زمانوں میں جا و بے جا طریقوں سے موجودہ مالکوں کے اسلاف کو عطا کیے گئے تھے۔ بعض جزوی یا کُلی طور پر خریدے بھی گئے تھے اور بعض ایسے بھی تھے کہ سردارانِ قبائل نے گذشتہ صدیوں میں کسی وقت ان پر قبضہ کرلیا تھا۔ ان سب کے متعلق آج یہ تحقیق کرنا سخت مشکل ہے کہ کس کی ملکیت کس طرح شروع ہوئی، اور آیا وہ شرعاً جائز نوعیت کی تھی یا ناجائز نوعیت کی، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اتنے بڑے بڑے رقبوں کی ملکیت سے، جن سب کا جائز ہونا بھی متحقق نہیں ہے، ہمارے نظامِ معیشت میں سخت ناہمواری پیدا ہوگئی ہے۔ اس حالت میں شرعاً یہ درست ہوگا کہ ایک عارضی تدبیر کے طور پر ملکیت کی ایک حد مقرر کر دی جائے، اور اس حد سے زائد جو رقبے لوگوں کے پاس ہوں انھیں ایک منصفانہ شرح سے خرید کر آگے غیرمالک کاشت کاروں کے ہاتھ منصفانہ شرح پر فروخت کر دیا جائے۔ لیکن یہ حدبندی نہ تو دائمی ہوسکتی ہے کیوں کہ اسے شریعت کے بہت سے قواعد کو بدلے بغیر مستقل بنانا ممکن نہیں ہے، اور نہ اسے دائمی قانون بنادینے کی کوئی ضرورت ہے ، کیوں کہ آیندہ کے لیے اگر اسلام ملک کا قانون ہو اور اس کے مطابق عمل درآمد ہونے لگے تو سرے سے وہ خرابیاں ہی پیدا نہیں ہوسکتیں جن کے لیے ایسی حدبندی کی کوئی ضرورت ہو۔
۲- قانونی زراعت پیشگی کا خاتمہ
ثانیاً ایسے تمام قوانین کا خاتمہ ہونا چاہیے جن کی بدولت قانونی طور پر ایک مستقل ’’زراعت پیشہ طبقہ‘‘ پیدا کردیا گیا ہے،دیہاتی معاشرت میں معاشی اور معاشرتی حیثیت سے اس کے امتیازی حقوق قائم کر دیے گئے ہیں، اور ’’غیر زراعت پیشہ‘‘ طبقوں کے لیے زراعت پیشگی کے دائرے میں قدم رکھنا حرام کر دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ غیراسلامی ہے، غیرمعقول ہے، اور اُن بے شمار بے انصافیوں کا سرچشمہ ہے، جو ’’نظامِ جاگیرداری‘‘ کی خصوصیات میں شمار ہوتی ہیں۔ زرعی جایدادوں کی خریدوفروخت پر سے تمام پابندیاں اُٹھ جانی چاہییں۔ دوسری سب املاک کی طرح، اور خود شہری زمینوں کی طرح دیہاتی زمینیں بھی کھلے بندوں قابلِ بیع و شرا ہونی چاہییں۔ شُفعہ کے قوانین نے جو قطعی غیر اسلامی اور انتہادرجہ غیرمعقول اور سخت مخرب اَخلاق صورت اختیار کرلی ہے اسے منسوخ ہونا چاہیے۔ زراعت کا پیشہ تمام دوسرے پیشوں کی طرح ہر بندئہ خدا کے لیے کھلا رہنا چاہیے۔ اور گائوں کی زندگی میں زمین دار کو ازروئے قانون ایسی کوئی حیثیت حاصل نہ ہونی چاہیے جس کی بدولت دوسرے سب اس کی رعیت اور اس کے دبیل بن کر رہنے پر مجبور ہوں۔
۳-زرعی قوانین کی تدوین جدید
ثالثاً ایک ایسا زرعی قانون بننا چاہیے جس کے ذریعہ سے مالکانِ زمین اور غیرمالک کاشت کاروں کے باہمی تعلق کو صحیح اور منصفانہ بنیادوں پر قائم کیا جائے۔ مزارعت (بٹائی) ہو تو اسے بالکل سیدھی سادی شرکت کے اصول پر قائم ہونا چاہیے اور ازرُوئے قانون یہ طے ہوجانا چاہیے کہ مزارعت کی کن کن صورتوں میں مالک اور مزارع کے درمیان زیادہ سے زیادہ اور کم از کم کس کس نسبت سے حصہ تقسیم ہوسکتا ہے۔ نقد کرایہ ہو یا مزدوری پر کاشت کرائی جائے تو اس میں بھی مالک اور مستاجر کے درمیان، اور مالک اور مزدور کے درمیان حقوق و فرائض کا تعین ہو جانا چاہیے۔{ FR 5845 } یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ مالکانِ زمین کاشت کاروں سے اپنے حصے یا لگان کے علاوہ کوئی مال یا غلّہ یا خدمات لینے کے مجاز نہ ہوں گے۔ ناجائز طور پر اس طرح کی خدمات یا اشیا یا زبردستی کے جمائے ہوئے رسمی حقوق وصول کرنے کو جرم قابلِ دست اندازی پولیس ہونا چاہیے۔ بے دخلی اور فسخِ معاملہ کے متعلق بھی قواعد مقرر ہونے چاہییں کہ وہ کن کن صورتوں میں ہوسکتی ہیں اور کن کن صورتوں میں نہیں ہوسکتیں۔ نیز زمین کو بے کار ڈال رکھنے پر بھی شریعت کے احکام اور اسپرٹ کے مطابق پابندیاں عائد ہونی چاہییں۔ جیساکہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں، جہاں تک مَوات اور حکومت کی عطا کردہ زمینوں کا تعلق ہے، ان کے بارے میں تو خود احکامِ شریعت ہی میں یہ تصریح ہے کہ تین سال سے زیادہ مدت تک اگر آدمی انھیں بے کار ڈال رکھے تو اس کے حقوق سوخت ہوجاتے ہیں۔ رہیں زرخرید زمینیں تو انھیں اُفتادہ چھوڑ دینے سے اگرچہ ملکیت ساقط نہیں ہوسکتی، لیکن اس پر ایسا کوئی تعزیری محصول ضرور لگایا جاسکتا ہے جس سے مالکانِ زمین کا یہ میلان کم ہوسکے کہ وہ کاشت کاروں سے من مانی شرطیں تسلیم کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر کاشت کار نہیں مانتے تو اپنی زمین کو بے کار رکھ چھوڑنا زیادہ پسند کرتے ہیں بہ نسبت اس کے کہ کسی بندئہ خدا کو اس پر کام کرنے کا موقع دیں۔
۴- شرعی طریقے پر تقسیمِ میراث
رابعاً شریعت کے قانونِ میراث کو زرعی جایدادوں کے معاملے میں پوری قوت کے ساتھ نافذ کرنے کی کوشش کی جائے۔ موجودہ نسل ہی میں جو لوگ شرعاً حق دار ہیں اگر ان کے اندر میراث کی تقسیم کو لازم کر دیا جائے تو بہت سی وہ بڑی بڑی جایدادیں جو پرانے جاہلی رواج کی وجہ سے یک جا سمٹی ہوئی ہیں، مستحقین میں بٹ جائیں گی اور دولت کے پھیلائو کا سلسلہ چل پڑے گا۔ اس صورت میں جو اندیشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ زمین اتنے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں منقسم ہوجائے گی جو معاشی حیثیت سے قابلِ عمل نہ رہیں گے۔ یہ درحقیقت صحیح نہیں ہے ۔ آپ زمین کی خریدوفروخت سے بے جا رکاوٹیں ہٹا دیجیے۔ مزارعت کے لیے عمدہ اور واضح طریقے مقرر کر دیے اور ’’مشترک کاشت‘‘ (کوآپریٹو فارمنگ) کے طریقوں کو رواج دیجیے۔ اس کے بعد چاہے قانونِ میراث کی بدولت، زمین تقسیم در تقسیم ہوکر ایک ایک گز کے ٹکڑوں ہی میں کیوں نہ بٹ جائے ایسی صورتِ حال کبھی پیدا نہ ہونے پائے گی جس میں یہ حصے ناقابلِ عمل ہوکر رہ جائیں۔ جن لوگوں کے پاس اس طرح کے چھوٹے ٹکڑے رہ جائیںگے وہ بآسانی اپنا حصہ بیچ سکیںگے، یا دوسروں کے حصے خرید سکیں گے، یا مناسب شرائط پر کاشت کے لیے دے سکیں گے، یا مشترک کاشت میں شریک ہوجائیں گے۔
۵- عشر کی تحصیل و تقسیم کا نظم
خامساً ، شریعت کے احکام کے مطابق اس امر کا انتظام ہونا چاہیے کہ زرعی پیداوار کا عشر اور زمین داروں کے مواشی کی زکوٰۃ باقاعدہ وصول ہو اور اسے شرعی مصارف میں صرف کیا جائے۔ اس کے مفصل احکام ان شاء اللہ ہم اپنے رسالہ زکوٰۃ میں عن قریب بیان کریں گے ۔ یہاں صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ اسلامی معیار کے مطابق انصاف قائم کرنے، اور قوم کے مختلف طبقات میں عداوت و نزاع کی بجائے اُلفت و موافقت پیدا کرنے کے لیے یہ ایک ضروری تدبیر ہے جس کے فوائد کسی دوسری تدبیر سے حاصل نہیں کیا جاسکتے۔
یہ ہے وہ اصل رُخ جس کی طرف ہماری اصلاحی کوششوں کو مڑنا چاہیے۔ میں نے اس جگہ تمام ممکن تدابیر کا استقصا نہیں کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ صاحب ِ علم اور تجربہ کار اصحاب اس پر مزید تجویزوں کا اضافہ کریں۔ میرا مدعا یہاں صرف یہ دکھانا تھا کہ اصلاحِ احوال کی مساعی کا صحیح رُخ وہ نہیں ہے جس کی طرف قلم اور قدم چل پڑے ہیں، بلکہ یہ ہے جس کی طرف اسلام ہماری راہ نمائی کرتا ہے۔
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِی اِلَّا بِاللّٰہِ ط
٭٭٭
زبان: اُردو
صفحات: 328
اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، منصورہ ملتان روڈ، لاہور۔