مسئلہ جبرو قدر

ریڈ مودودی ؒ   کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

عرضِ ناشر

مسئلہ جبر و قدر کا فلاسفہ ، ہمیشہ سے محبوب و معرکہ آرا موضوع رہا ہےاور زمانۂ قدیم سے آج تک اس موضوع پر جتنی طبع آزمائی کی گئی ہے، شاید ہی کسی دوسرے موضوع پر کی گئی ہو، لیکن بہت کم ایسے لوگ ہیں جنھوں نے اس مسئلے کی حقیقت پالی ہو۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے قدیم و جدید فلاسفہ کا مکمل تجزیہ کر کے خالص اسلامی نقطۂ نظر پیش کیا ہے اور اپنے مخصوص عالمانہ انداز میں اس عقدہ کی گرہ کشائی کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس کا حق ادا کر دیا ہے۔ اس کے مطالعے سے جہاں ایک طرف مولانا موصوف کے تبحر علمی کا اندازہ ہو گا وہیں دوسری طرف اس کو ایک معیاری کتاب بھی پائیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ کتاب بہت سے الجھے ہوئے ذہنوں کو صاف کرنے میں نہایت مفید ثابت ہو گی۔
سابق ایڈیشنوں میں ناشرین کے سہو یا کسی اور سبب سے مولانا ممدوح کی نشری تقریر جو آل انڈیا ریڈیو سے ۱۹۴۲ء میں نشر ہوئی تھی، شامل ہونے سے رہ گئی تھی اب اس کتاب میں شامل کر لی گئی ہے۔ ہماری درخواست پر مولانا موصوف نے اس پر نظر ثانی بھی کر لی ہے۔ اب یہ کتاب ہر حیثیت سے مکمل ہو گئی ہے۔
سابقہ ایڈیشن کتابت شدہ تھے موجودہ ایڈیشن کمپیوٹرائزڈ اور نئے سائز میں قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ہمیں امید ہے کہ ہمارے قارئین ہماری اس پیش کش کو اس ہی گرمجوشی کے ساتھ قبول فرمائیں گے جو مولانا موصوف کی دوسری تالیفات کےلیے مخصوص رہی ہے۔
مینیجنگ ڈائریکٹر
اسلامک پبلی کیشنز

مقدمہ

اس مختصر رسالے کی تقریب یہ ہے کہ ۱۳۵۲ھ (۱۹۳۳ء) میںجب میں نے ترجمانُ القرآن نیا نیا جاری کیا تھا، ایک صاحب نے مجھے ایک طویل خط لکھا جس میں اس پیچیدگی کو حل کرنے کی درخواست کی گئی تھی، جو قرآن کا مطالعہ کرنے والے کو جبر و قدر کے مسئلے میں پیش آتی ہے،( تاریخی دلچسپی کی خاطر یہ بات ظاہر کرنے میں مضائضہ نہیں کہ یہ صاحب چودھری غلام احمد پرویز تھے۔
) کیونکہ بعض آیات اس کے سامنے ایسی آئی ہیں۔ جن سے جبریت کا مفہوم نکلتا ہے اور دوسری آیات صریح طور پر قدریت کی تائید کرتی ہیں اور بظاہر ان دونوں قسم کی آیتوں میں ایسا تناقض محسوس ہوتا ہے جسے آسانی کے ساتھ رفع نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے اس خط کو بجنسہٖ رسالے میں شائع کر دیا اور اس کے جواب میں ایک مفصل مضمون لکھا، یہی سوال اور اس کا جواب اس وقت کتابی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
وہ خط یہ تھا:
’’انسان کا مکلف بہ جزا و سزا ہونا ہی اس بات کا مقتضی ہے کہ اعمال وافعال اس کے ارادے و نیت کے تابع ہوں اور اس ارادے و نیت پر کسی اور طاقت کا تصرف نہ ہو۔ قرآنِ حکیم کی ساری تعلیم کا لب لباب یہی ہے کہ انسان کو اس کے اعمال کا ذمہ دار قرار دے کر باز پرس کا مستوجب ٹھہرایا جائے۔ ضلالت و ہدایت عذاب و ثواب، نکبت و ثروت، مصیبت و راحت، غرضیکہ دنیا و آخرت کی میزان کے دونوں پلڑے قدرتی نتائج ہوں، اس کے اپنے اعمال کے، اور یہ نتائج مرتب ہوں کسی خاص قاعدے کلیے کے ماتحت لیکن قرآنِ مجید کی بعض آیات سے ایسا بھی پایا جاتا ہے کہ انسانی ارادہ خود مشیت ایزدی کا تابع ہے۔
مثلاً ضلالت و ہدایت کے متعلق ایک طرف تو ایسی کھلی اور واضح آیات موجود ہیں جن سے نور و ظلمت، ایمان و کفر، ہدایت و ضلالت کی راہوں کا اختیار کرنا انسان کے اپنے ارادوں اور مساعی کے ماتحت قرار دیا گیا ہے۔
اِنَّا ہَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًاo الدھر76:3
ہم نے اس کو راستہ دکھا دیا ہے، چاہے تو شکرگزار رہے اور چاہے تو ناشکر گزار بن کر رہے۔
وَہَدَيْنٰہُ النَّجْدَيْنِo البلد90:10
ہم نے اس کو دونوں راستے دکھا دیے ہیں۔
وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا۝۰ۭ العنکبوت29:69
جو لوگ ہمارے معاملے میں جدوجہد اور کوشش سے کام لیتے ہیں۔ ہم ان کو اپنے راستے دکھاتے ہیں۔
فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۝۰ۙ الکہف18:29
جو کوئی چاہے ایمان لے آئے اور جو کوئی چاہے ایمان نہ لائے۔
دوسری طرف ایسی آیات بھی ہیں جن میں ان چیزوں کو مشیت ایزدی کے تابع بتایا گیا ہے مثلاً:
لَہُمْ۝۰ۭ فَيُضِلُّ اللہُ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ ابراہیم14:4
پس اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے۔
مَّا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ الانعام6:111
وہ ہرگز ایمان لانے والے نہ تھے اِلَّا یہ کہ اللہ چاہتا۔
سورۂ مدثر میں جہاں :
فَمَنْ شَاۗءَ ذَكَرَہٗo المدثر74:55
جو کوئی چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے۔
اور سورۂ تکویر میں :
اِنْ ہُوَاِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَo لِمَنْ شَاۗءَ مِنْكُمْ اَنْ يَّسْتَــقِيْمَo التکویر81:27-28
یہ ایک نصیحت ہے تمام دنیا والوں کے لیے تم میں سے ہر ایک شخص کے لیے جو سیدھا چلنا چاہے۔
کہہ کر قرآنِ کریم سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے انسانی ارادے کو اختیار دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی آیات
وَمَا یَذَکُرُوْنَ اِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ
نصیحت حاصل کر ہی نہیں سکتے اگر اللہ نہ چاہے۔
وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہ۔
تم کیا چاہتے ہو، اگر اللہ نہ چاہے۔
کہہ کر اس ارادے کو مشیت باری تعالیٰ کے ماتحت قرار دیا اور سلب کر دیا گیا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اکثر جگہ گمراہی کے لیے اصول قائم کر دیا گیا ہے کہ:
وَمَا يُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَo البقرہ2:26
وہ اس قرآن کے ذریعے سے صرف بدکاروں کو گمراہ کرتا ہے۔
وَيُضِلُّ اللہُ الظّٰلِــمِيْنَ ابراہیم14:27
اور اللہ حد سے گزرنے والوں کو گمراہ کر دیتا ہے۔
بَلْ طَبَعَ اللہُ عَلَيْہَا بِكُفْرِہِمْ النساء4:55
بلکہ اللہ نے ان پر ان کے انکار کی وجہ سے مہریں لگا دیں۔
صَرَفَ اللہُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَo التوبہ9:127
اللہ نے ان کے دلوں کو پلٹ دیا کیونکہ وہ ایسے لوگ تھے جو نہ سمجھتے تھے۔
وَمَا كَانَ اللہُ لِيُضِلَّ قَوْمًۢا بَعْدَ اِذْ ہَدٰىھُمْ حَتّٰي يُبَيِّنَ لَھُمْ مَّا يَتَّقُوْنَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌo التوبہ9:115
اور اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے لیے اسے گمراہ کرے، جب تک کہ اس کو یہ نہ بتا دے کہ انھیں کس بات سے بچنا چاہیے۔
اور ہدایت کے لیے بھی ایسی شرائط بیان فرما دی ہیں:
يَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ اَنَابَo الرعد13:27
جو کوئی اُس کی طرف رجوع کرتا ہے وہ اس کو اپنی طرف ہدایت دیتا ہے۔
وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا۝۰ۭ العنکبوت29:69
جو لوگ ہماری راہ میں جدوجہد اور کوشش سے کام لیتے ہیں، ہم ان کو اپنے راستے دکھاتے ہیں۔
وَالَّذِيْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًى محمد47:17
جو لوگ ہدایت قبول کرتے ہیں اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے۔
اور اسی قبیل سے اور متعدد آیاتِ قرآنی ہیں، لیکن ان کے ساتھ ہی ایسی آیات بھی ہیں جن میں کسی شرط اور قید کے ضلالت و گمراہی کو مشیت باری تعالیٰ یا فضل ایزدی کے تابع رکھا گیا ہے۔ مثلاً آیت محولہ صدر
فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ یَّشَآئُ وَ یَـھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ
جس کو اللہ چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے
اور
وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہ
تم کیا چاہتے ہو اگر اللہ نہ چاہے۔
اسی طرح عذاب و مغفرت کے بارے میں جہاں ایک طرف صاف و بیّن اصول مقرر فرمایا ہے کہ:
فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗo الزلزال99:7
جو کوئی ذرہ بھر نیکی کرے گا وہ اس کا نیک اجر دیکھ لے گا۔
لَہَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْہَا مَااكْتَسَبَتْ۝۰ۭ البقرہ2:286
جو کچھ نیکی اس نے کمائی اس کا فائدہ اس کے لیے ہے اور جو بدی اس نے سمیٹی اس کا وبال اس پر ہے۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ۝۰ۚ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَيْہَا۝۰ۡ الجاثیہ45:15
جو کوئی نیک عمل کرے گا اس کا وہی فائدہ اٹھائے گا اور جو کوئی برا کام کرے گا اس کی سزا وہی بھگتے گا۔
يَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ آل عمران3:129
جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے سزا دے۔
یعنی عذاب و مغفرب بھی مشیت ایزدی کے تابع ہیں۔ مغفرت میں تو خیر کہا جا سکتا ہے کہ وہ الرحم الرحمین، غافر الذنب اپنی شانِ کریمی سے گناہ گار کو بخش دے گا، لیکن یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ کی یہ تاویل مشکل ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ معنی لیے جا سکتے ہیں کہ گناہگاروں میں سے یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ لیکن پوری آیت کا قرینہ اس کی طرف قوی دلالت نہیں کرتا۔
نکبت و ثروت کے لیے بھی قرآنِ کریم میں اقوامِ گزشتہ کی تاریخی شہادتوں سے اصول کی تائید کی گئی ہے کہ جاہ و اقبال دراصل ایمان و تقویٰ، پاکباز زندگی، اعمال صالح اور قانونِ فطرت کی پابندی کے ساتھ لازم و ملزم ہے اور اس کے خلاف چلنے سے ذلت و مسکنت، غضب الٰہی کی شکل میں طاری ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ:
وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ۝۰ۭ المائدہ5:66
اور اگر وہ تورات اور انجیل پر اور ان تعلیمات پر قائم رہتے جو ان کی طرف ان کے رب کی جانب سے نازل کی گئی تھیں تو وہ اوپرسے اور اپنے پائوں کے نیچے سے کھانے کا سامان پاتے۔
یا اور متعدد آیات لیکن دوسری طرف یہ آیات بھی قرآنِ شریف میں ہیں۔
وَاللہُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍo البقرہ2:216
اللہ جس کسی کو چاہتا ہے بے حساب دے دیتا ہے۔
اَللہُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ الرعد13:26
اللہ جس کسی کے لیے چاہتا ہے روزی فراخ کر دیتا ہے اور جس کسی کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔
تُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ آل عمران3:26
جس کسی کو تو چاہتا ہے غالب کر دیتا ہے اور جس کسی کو چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے۔
مصیبت اور راحت کے باب میں بھی کھلا کھلا فیصلہ ہے کہ:
وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَۃٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ الشوریٰ42:30
تمھیں جو کچھ بھی مصیبت پہنچتی ہے اپنے ہی ہاتھ سے پہنچتی ہے۔
لیکن دوسری طرف یہ آیت بھی ہمارے سامنے ہے کہ:
اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَـيَّدَۃٍ۝۰ۭ وَاِنْ تُصِبْھُمْ حَسَـنَۃٌ يَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِ اللہِ۝۰ۚ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَيِّئَۃٌ يَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِكَ۝۰ۭ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللہِ۝۰ۭ النساء4:78
اور اگر ان کو کوئی فائدہ پہنچے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے اور اگر کوئی نقصان ہو جائے تو کہتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے۔ ان کو بتا دے کہ نفع و نقصان جو کچھ ہوتا ہے اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔
لیکن کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللہِ کے ساتھ ہی دوسری آیت میں ہے کہ:
مَآ اَصَابَكَ مِنْ حَسَـنَۃٍ فَمِنَ اللہِ۝۰ۡوَمَآ اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ۝۰ۭ النساء4:79
ہر بھلائی جو تمھیں حاصل ہوتی ہے اللہ کی جانب سے ہوتی ہے اور ہر برائی جو تمھیں پیش آتی ہے وہ تمھاری اپنی وجہ سے ہوتی ہے۔
قرآنِ کریم کے بعد اگر ہم احادیث کی طرف آئیں تو بہت سی احادیث انسان کے مجبور و مقہور ہونے پر دلالت کرتی ہیں: مثلاً
اِذَا سَمِعْتُمْ بِجَبَلٍ زَالَ عَنْ مَکَانِہٖ فَصَدِّقُوْا بِہٖ وَ اِذَا سَمِعْتُمْ بِرَجُلٍ تَغَیَّرَ عَنْ خُلُقِہٖ فَلا تُصَدِّقُوْا بِہٖ فَاِنَّہٗ یَصِیْرُ عَلٰی مَا جُبِلَ عَلَیْہِ
جب تم سنو کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل گیا تو اس کی تصدیق کر سکتے ہو، لیکن اگر سنو کہ ایک شخص اپنی طینت سے ہٹ گیا تو اس کی ہرگز تصدیق نہ کرنا، کیونکہ آدمی ایسا ہی ہو کر رہتا ہے جیسا اس کا خمیر ہے۔
اِنَّ الْقُلُوْبَ بَیْنَ اِصبَعَیْنِ مِنْ اَصَابِعِ اللہِ یُقَلِّبُھَا کَیْفَ یَشَآءُ۔
دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں جس طرح چاہتا ہے انھیں پھیر دیتا ہے۔
یا ایک حدیث شریف میں ہے کہ:
لوگ … میں پیدا کیے گئے ہیں ان میں سے بعض مسلمان پیدا کیے گئے ہیں۔…الخ
میں نے اعتراضات مختصراً لیکن من و عن پیش کر دیے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ تقدیر کا مسئلہ بھی اتنا ہی پرانا ہے جتنا دنیا میں مذہب کا وجود۔ اور ہے بھی کچھ لاینحل ساہی۔ ہر ایک مذہب نے اس کے متعلق کچھ نہ کچھ کہا ہے، لیکن افراط و تفریط کر کے، ہندوستان و یونان میں اگر تناسخ کے چکر اور جنم لیکھا سے انسال کو کلیتاً مجبور محض بنا دیا گیا ہے تو ایران کے آتش کدوں میں خدا کو بھی معطل محض بنا دیا گیا ہے۔ حکمائے فرنگ کے ایک فرقے نے اگر خدائے خالق کو ایک گھڑی ساز کی طرح سمجھا کہ جو ایک دفعہ گھڑی بنا دینے کے بعد اسے اصول اور قاعدے کے تحت چھوڑ کر خود عضو معطل ہو جاتا ہے تو ہمارے ہاں کے جبریہ و قدریہ کی بحثیں بھی کم متشدد نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ فطری لحاظ سے اس باب میں ایمان و عقل کے دونوں پلڑوں میں توازن مشکل ہو جاتا ہے لیکن اسے کَمَا ھُوَ چھوڑا بھی نہیں جا سکتا۔ ہر چند میرے نزدیک مسئلہ قضا و قدر جزوِ ایمان نہیں ہے اور اس کی حیثیت ایک مسئلے کی ہے، لیکن چونکہ قرآنی آیات میں بقول معترضین بظاہر تضاد نظر آتا ہے اس لیے اس مسئلے پر غور کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ ہر چند بہت پرانا ہے اور اس پر مخالف و موافق بہت کچھ لکھا ہوا ہمارے پاس موجود ہے لیکن چونکہ ع
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
اس لیے دورِ حاضر کے طرزِ استدلال و استنباط نتائج کے مطابق اس کے متعلق بھی گفتگو کی جانی ضروری ہے۔
اگرچہ یہ رسالہ ابتداً اسی خط کے جواب میں لکھا گیا تھا اور اس کے لکھنے کا اصل مقصد اس تعارض کو رفع کرنا تھا جو قرآنِ مجید کی بعض آیات کے درمیان بظاہر نظر آتا ہے، لیکن اس کے ضمن میں جو مسائل زیر بحث آ گئے ہیں وہ مسئلہ جبر و قدر کی اس گتھی کو سلجھانے میں ان تمام لوگوں کو مدد دے سکتے ہیں جو فلسفہ، اخلاقیات، عمرانیات اور دوسرے شعبہ ہائے علم میں اس گتھی سے دوچار ہوتے ہیں۔ اسی فائدے کو ملحوظ رکھ کر اس رسالے کو اب کتابی شکل میں شائع کیا جا رہا ہے۔ آخر میں اپنے ایک مضمون کو بھی میں نے اس کے ساتھ ضمیمہ کے طور پر لگا دیا ہے جس سے اسی مسئلے کی مزید توضیح ہوتی ہے۔

ابوالاعلیٰ
٭…٭…٭…٭…٭

مسئلہ جبر و قدر کی حقیقت

جہاں تک پیش کردہ سوال کا تعلق ہے اس کے جواب میں تو صرف اسی قدر کافی ہو سکتا ہے کہ قرآنِ مجید کی آیات میں وجہ تطبیق بیان کر کے اس تناقض کو رفع کر دیا جائے جو بظاہر ان میں نظر آتا ہے، لیکن اس وجہ تطبیق کے بیان میں بہت سے ایسے امور کی طرف اشارہ ناگزیر ہے جن کو ذرا تفصیل و تشریح کے ساتھ ذہن نشین کیے بغیر مدعا کو سمجھنا بہت مشکل ہو گا۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ مجید کے ارشادات پر بحث کرنے سے پہلے مسئلہ جبر و قدر کی اصلیت اور اس کے مالہ وما علیہ پر نظر ڈال لی جائے۔

اختیار و اضطرار کا ابتدائی اثر

ہر شخص بلا کسی غور و فکر کے محض وجدانی طور پر یہ تصور رکھنا ہے کہ انسان اپنی ارادی حرکات و سکنات میں آزاد ہے اور جو فعل وہ اپنے ارادہ و اختیار سے کرتا ہے اس کے لیے وہ ذمہ دار و جواب دہ ہے، اچھے افعال و کردار کے لیے مدح و تحسین اور جزا و انعام کا مستحق ہے اور برے افعال کے لیے ملامت اور سزا کا مستوجب۔ اس سادہ اور وجدانی تصور میں کہیں اس خیال کا شائبہ نہیں ہوتا کہ آدمی اپنے سوچے سمجھے افعال میں کسی خارجی یا باطنی قوت سے مجبور بھی ہوتا ہے جہاں فی الواقع مقہوری و مجبوری کے آثار نظر آتے ہیں وہاں ارادہ و اختیار کے بجائے اضطرار و بے اختیاری کا حکم لگایا جاتا ہے۔ انسان کی ذمہ داری و جوابدہی ختم ہو جاتی ہے، مدح و ذم اور سزا و جزا کا استحقاق باقی نہیں رہتا اور ایسے حالات کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا کہ ان پر انسان کے نیک یا بد اور اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ کیا جائے۔ اگر کوئی شخص کسی کو پتھر مارے یا گالی دے تو اس کے دل میں یہ خیال تک نہیں آتا کہ اس شخص نے یہ فعل کسی اور طاقت کے جبر سے کیا ہے اور اسی لیے وہ اس کو ذمہ دار قرار دے کر جواب میں گالی یا پتھر سے اس کی تواضع کرتا ہے لیکن اگر وہی شخص دیوانہ ہو تو اس کی گالی یا پتھر کو کوئی بھی قصد و اختیار پر محمول نہیں کرتا بلکہ اُسے مجبور و مضطر قرار دے کر تمام افعال کی ذمہ داری سے بری سمجھتا ہے۔
یہی اضطراری اختیاری و ارادی و تسخیری اعمال کا فرق، جس کا تصور پہلے سے ہمارے ذہن میں موجود ہے، اس معیار کی بنیاد ہے جو ہم نے انسان کے نیک اور بد ہونے اور اس کے قابل جزا یا مستوجب سزا ہونے کے لیے قائم کیا ہے۔ ہم ایک بچے یا ایک پاگل کو اس کے برہنہ پھرنے پر کبھی ملامت نہیں کرتے مگر ایک عاقل و بالغ آدمی بحالت عریانی باہر نکل آئے تو اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، کسی شخص کا منہ قدرتی طورپر خراب ہو تو کوئی اسے دیکھ کر برا نہیں مانتا، لیکن اچھے خاصے منہ والا ہمیں دیکھ کر منہ چڑائے تو ہمیں ناگوار معلوم ہوتا ہے۔ بخار کا مریض حالت بحران میں لایعنی باتیں بکتا ہے اور ہم اُسے کچھ الزام نہیں دیتے، مگر عالم ہوش میں کوئی شخص ایسی باتیں کرے تو اس پر ملامت کی بوچھاڑ ہونے لگتی ہے۔ اندھا آدمی اپنی چیز کے بجائے کسی دوسرے کی چیز اٹھا لے تو ہم اس پر چوری کا الزام نہیں لگاتے۔ مگر آنکھوں والا یہی حرکت کرے تو اسے فوراً پکڑ لیتے ہیں۔ کوئی شخص کسی دبائو کے تحت نیکی کرے تو اس کی تعریف نہیں کی جاتی مگر بغیر کسی دبائو کے نیک عمل کرنے والے کی سب تعریف کرتے ہیں۔ بچہ اگر گناہ نہیں کرتا تو اس کو نیک نہیں کہا جاتا، البتہ جوان آدمی کے عمل صالح پر نیکی کا حکم لگایا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ظاہر حالات کو دیکھتے ہوئے ہم پہلے سے یہ سمجھتے ہیں کہ انسان بعض افعال میں مختار ہے اور بعض میں مجبور اور پھر وجدانی طور پر ہم یہ رائے رکھتے ہیں کہ ذمہ داری و جواب دہی اور اس کی بنیاد پر مدح و ذم اور سزا و جزا کا استحقاق کلیتاً اختیاری افعال پر مترتب ہوتا ہے، نہ کہ اضطراری افعال پر۔

مسئلہ جبر و قدر کا نقطۂ آغاز

لیکن جب انسان غور و فکر کر کے ظواہر اشیا کی تہ میں پوشیدہ حقائق کا پتہ چلانے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر منکشف ہوتا ہے کہ ظاہر میں وہ اپنے آپ کو جتنا قادر و مختار سمجھتا ہے اتنا نہیں ہے اور سطحی نظر سے وہ اپنی مجبوری اور اپنے اضطرار کے لیے جو حدود مقرر کرتا ہے حقیقت میں وہ بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہیں۔ یہی نقطہ ہے جہاں سے مسئلہ جبر و قدر کا آغاز ہوتا ہے۔ اس مسئلے کی بنیاد جن سوالات پر ہے وہ یہ ہیں:
-1 کیا انسان اپنے اعمال میں بالکل مجبور ہے یا کسی حد تک اس کو آزادی بھی حاصل ہے۔
-2 انسان کو مجبور کرنے والی یا اس کی آزادی کو پابند کرنے والی طاقت کون سی ہے اور اس کے اثرات انسان کی زندگی میں کس حد تک ہیں؟
-3 اگر انسان پابند یا مجبور ہے تو اعمال کی ذمہ داری و جواب دہی اور ان پر مدح و ذم یا جزا و سزا کے استحقاق کا قاعدہ جس پر ہمارے اخلاقی تصورات مبنی ہیں اور جو ہمارے نظام اجتماعی کی صلاح و فلاح کا ضامن ہے، کس اساس پر قائم ہو گا؟
دنیا کے اربابِ فکر نے ان سوالات پر مختلف نقطہ ہائے نظر سے نگاہ ڈالی ہے۔ ان کے حل کے مختلف طریقے اختیار کیے ہیں اور مختلف دلائل و شواہد کی بنا پر مختلف نظریے قائم کر لیے ہیں۔ اس باب میں اہل علم و تحقیق کے مقالات اور ان کے اختلافات اتنے کثیر ہیں کہ ان سب کا احاطہ مشکل ہے لیکن اصولی حیثیت سے ہم ان سب کو چار قسموں پر تقسیم کرتے ہیں۔
(۱)وہ جنھوں نے مابعد الطبیعی نقطۂ نظر سے اس مسئلے پر بحث کی ہے۔
(۲)وہ جنھوں نے طبیعی نقطۂ نظر اختیار کیا ہے۔
(۳)وہ جنھوں نے اخلاقی نقطۂ نظر سے اس کو دیکھا ہے۔
(۴)وہ جنھوں نے دینی نقطۂ نظر سے اس پر نگاہ ڈالی ہے۔
آیئے اب ہم دیکھیں کہ ان مختلف پہلوئوں سے مختلف گروہوں نے کس طرح اس مسئلے پر غور کیا ہے، بحث و استدلال کی کون سی راہیں اختیار کی ہیں اور آخر میں کن نتائج پر پہنچے ہیں۔
٭…٭…٭…٭…٭

مابعد الطبیعی نقطۂ نظر

مابعد الطبیعات (Metaphysics) میں جبر و قدر کا مسئلہ دو پہلوئوں سے آتا ہے:
اوّل: قدرت سے مراد ہم یہ لیتے ہیں کہ فاعل ایک ایسی ہستی ہو جس سے فعل کا صدور اور عدم صدور دونوں صحیح ہوں یا بالفاظ دیگر وہ چاہے تو فعل کرے اور نہ چاہے تو نہ کرے۔ قدرت کی یہ تعریف مان لینے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ترکِ فعل پر فعل کی ترجیح یا اس قدرت کا قوت سے فعل میں آنا کسی سبب سے ہوتا ہے یا بلا سبب؟ اگر بلاسبب ہو تو ترجیح بلا مرجّح اور مسبب بلاسبب لازم آتا ہے جو خلافِ عقل ہے۔ اور اگر اس کے لیے کسی مرجح یا سبب کا ہونا ضروری ہو تو وہ کون ہے؟ جبر یہ کہتے ہیں کہ وہ مرجح ایسے اسباب وداعیات ہیں جن کا رشتہ انسان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ایک بالاتر قوت کے بس میں ہے جسے چاہو خدا کہہ لو، چاہو علت العلل و مسبب الاسباب یا قانون فطرت وغیرہ الفاظ سے تعبیر کرو، اور قدریہ کہتے ہیں کہ وہ انسان کا اپنا ارادہ ہے۔ جبریہ کے قول سے لازم آتا ہے کہ خیر و شر دونوں کا مرجع خدا کی ذات ہو، کائنات میں انسان کی حیثیت محض جمادات و نباتات کی سی ہو اور انسان کی ذمہ داری بالکل ساقط ہو جائے۔ قدریہ کے قول سے لازم آتا ہے کہ انسان کا ارادہ خدا کے دائرہ خلق و ابداع سے خارج ہو اور کائنات میں خدا کے سوا ایک اور چیز بھی ایسی ثابت ہو جو غیر مخلوق ہے۔ کیونکہ اگر انسان کے ارادے کا خالق خدا نہیں ہے تو خود انسان بھی اس کا خالق نہیں ہے، اس لیے کہ انسان خود مخلوقِ خدا ہے لہٰذا مخلوق کے ارادے کا غیر مخلوق ہونا لازم آتا ہے جو ایک نہایت ناقابلِ قبول بات ہے۔
دوم: دلائل عقلیہ سے ثابت ہو چکا ہے کہ صانع کائنات کا علیم اور مرید( ارادہ کرنے والا یا صاحب ارادہ۔
) ہونا ضروری ہے کیونکہ اگر صانع کو اس چیز کا علم نہ ہو جس کو وہ بنانے والا ہے اور وہ اس کے بنانے کا ارادہ نہ کرے تو وہ صانع ہی نہیں ہو سکتا۔ اس قاعدے کی بنا پر یہ ماننا ضروری ہے کہ کائنات میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس سب کا خدا کو پہلے سے علم تھا اور اس کے پیش آنے کا خدا نے ارادہ کیا تھا۔ اب اگر خدا کو یہ علم تھا کہ فلاں شخص فلاں وقت فلاں فعل کرے گا تو اس فعل کا اس وقت اس شخص سے واقع ہونا واجب ہے، کیونکہ اگر وہ واقع نہ ہو تو خدا کا علم جہل ہو گا، اور یہ محال ہے۔ اسی طرح اگر خدا نے یہ ارادہ کیا تھا کہ فلاں وقت فلاں شخص سے فلاں حرکت سرزد ہو تو اس کا ارادہ پورا ہونا واجب ہے۔ ورنہ ارادۂ الٰہی کا باطل ہونا لازم آتا ہے۔ اس استدلال سے جبریہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ فعل اختیاری بجز واجب الوجود کے کسی اور میں متحقق نہیں ہے، باقی جتنے مختار ہیں سب کے سب مضطر بصورتِ مختار ہیں۔ قدریہ کا اس پر بھی وہی اعتراض ہے کہ اس سے خدا کا فاعل خیر و شر ہونا لازم آتا ہے، انسان کی تمام برائیوں کی ذمہ داری خدا کی طرف راجع ہوتی ہے اور اس اعتبار سے انسان، حیوان، جمادات اور نباتات میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔
لیکن جتنا یہ اعتراض وزنی ہے، اتنا ہی بلکہ اس سے زیادہ وہ اشکال وزنی ہے جو جبریہ نے علم الٰہی اور ارادۂ الٰہی کے بارے میں پیش کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ انسان کے اختیار کو نباہنا اور اس وجوب ولزوم سے، جو خدا کے علیم و مرید ہونے کا منطقی نتیجہ ہے، انسان کی آزادی کو بچا لے جانا نہایت مشکل ہے۔ قدریہ نے اس اشکال سے بچنے کے لیے جو راہیں اختیار کی ہیں ان میں سے اکثر اس سے زیادہ شنیع الزامات کو مستلزم ہیں جو وہ جبریہ پر عائد کرتے ہیں۔ مثلاً ان میں سے بعض نے خدا کے علیم و مرید ہونے سے ہی انکار کر دیاہے۔ بعض نے علم و ارادۂ الٰہی کو تسلیم کر لیا ہے مگر وہ اس کو جزئیات و تفصیلات سے متعلق نہیں کرتے بلکہ اجمال پر محول کرتے ہیں۔ (یعنی کہتے ہیں کہ خدا کو جزئیات کا علم نہیں ہے بلکہ وہ صرف کلیات کو جانتا ہے۔
) بعض کہتے ہیں کہ خدا نے جو قوتیں انسان کو عطا کیں اُن سے وہ صرف خیر کا ارادہ رکھتا تھا اور اسے یہ علم نہ تھا کہ ان کا غلط استعمال کیا جائے گا، لیکن یہ ایسی ضعیف باتیں ہیں جن کے ابطال کے لیے کچھ زیادہ نظر و تامل کی ضرورت نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ قوی دلیل جو جبریہ کے جواب میں قدریہ کی طرف سے پیش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا کے علم سابق اور انسان کی آزادی میں بظاہر خواہ کتنی ہی منافات نظر آتی ہو، لیکن حقیقت میں مستقبل کے کسی واقعہ کے متعلق کسی کے علم کی صحت سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ علم ہی اُس واقعہ کی علّت ہو۔ اگر ہم موسم کے متعلق کوئی حکم لگائیں کہ فلاں وقت بارش ہو گی اور یہ حکم صحیح نکلے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بارش کے متعلق ہمارا علم ہی بارش کی علّت ہے۔ مگر یہ دلیل جتنی قوی نظر آتی ہے درحقیقت اتنی قوی نہیں ہے اس لیے کہ حقیقی علمِ سابق اور ظن و قیاس دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ظن و قیاس کی صحت کو مظنون کے وقوع میں بلاشبہ کوئی دخل نہیں ہے لیکن حقیقی علم سابق اور معلوم کے درمیان وجوب ولزوم کے تعلق کی نفی کرنا بہت مشکل ہے۔
اِن اصولی اشکالات کے علاوہ متعدد فروعی اشکالات اور بھی ہیں جو مابعد الطبیعات میں جبریت اور قدریت دونوں کو پیش آتے ہیں، لیکن دونوں کی مشکلات یکساں نہیں ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ جبریت نے انسان سے ارادے کی آزادی سلب کر کے اس شے کی نفی کی ہے جس کا ثبوت ہم اپنے نفس میں اوّلی اور وجدانی طور پر پاتے ہیں مگر قدریت نے جو مذہب اختیار کیا ہے وہ تو اُس سے بھی زیادہ برا ہے کیونکہ وہ یا تو خدا سے علم و ارادہ اور قدرت جیسی صفاتِ کمالیہ کو سلب کر کے انسان کو اس سے متصف کرتی ہے، یا سرے سے خدا یا علت العلل یا صانع کائنات کے وجود ہی کا انکار کر دیتی ہے اور ان دونوں صورتوں میں بہت سے وہ محالات لازم آتے ہیں جن کا ارتکاب فلسفہ و منطق کے قانون میں اولیات و وجدانیات کے انکار سے بہت زیادہ شنیع بلکہ اشنع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مابعد الطبیعات کے حدود میں قدریت کو قدم جمانے کے لیے کوئی مضبوط بنیاد نہیں مل سکی ہے اور دہریوں کی ایک قلیل جماعت کو چھوڑ کر فلاسفہ کی عظیم اکثریت نے جبر کا پہلو اختیار کیا ہے۔ قدماء میں انکسماندر (Aneximander) افلاطون اور اکثر رواقیہ (stoics) مذہب جبر کے حامی تھے۔ فلاسفۂ اسلام کی عظیم اکثریت نے بھی اس مذہب کی حمایت کی ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کا سب سے بڑا فلسفی ابن سینا تعلیقات شفا میں لکھتا ہے:
’’عرفِ عام میں مختار سے مراد بالقوت مختار ہے اور بالقوت مختار ہمیشہ ایک مرجّح کا محتار ہوتا ہے جو اس کے اختیارات کو قوت سے فعل میں لائے، عام اس سے کہ وہ مرجح خود اس کی اپنی ذات میں ہو یا اس سے خارج۔ اس بنا پر ہم میں جو مختار ہے وہ دراصل مضطر کے حکم میں ہے۔‘‘
یہی حال یورپین فلاسفہ کا بھی ہے۔ پومپونیزی (Pomponazze) صریح حکم لگاتا ہے کہ خدا فاعل خیر و شر ہے اور عقل کلیتاً جبر کا فیصلہ کرتی ہے۔ ہابز (Hobbes) کہتا ہے کہ انسان اپنی فطرت اور طبیعی داعیات کے ہاتھوں مجبور محض ہے۔ ڈیکارٹ (Descrate) جو نفس اور جسم یاروح و مادہ کی دوئی کا قائل ہے۔ مادی دنیا میں قانونِ جبر کے سوا کوئی قانون نہیں دیکھتا۔ اس کے نزدیک انسان سمیت تمام عالم ایک مشین کی طرح کام کر رہا ہے۔ اگرچہ اس کے ساتھ ہی وہ نفس میں کامل خود اختیاری کی قوت کا اثبات بھی کرتا ہے مگر اس کے مذہب کا منطقی نتیجہ جبر ہی ہے۔ چنانچہ مذہب کارٹیزی (Cartesian school) کے دوسرے ائمہ جن میں میلبرا(Malebranche) سب سے زیادہ نمایاں ہے، صاف کہتے ہیں کہ نفس کے ہر ارادے کے ساتھ خدا جسم میں حرکت پیدا کرتا ہے اور جسم کے ہر تہیج کے ساتھ نفس میں ادراک خلق کرتا ہے۔ مادہ و روح یا امتداد و فکر کے درمیان خدا کا توسط لازمی ہے کیونکہ ایک واسطے کے بغیر ان دونوں مستقل جوہروں میں تعامل متصور نہیں ہو سکتا، لہٰذا خدا ہی تمام ارادات و حرکات کا حقیقی فاعل ہے۔ اسپائنوزا (Spinoza) کے نزدیک انسان اپنے اندر خواہ کتنی ہی فعلیت محسوس کرتا ہو مگر دراصل وہ فاعل نہیں بلکہ منفعل ہے، اس لیے وہ بالکل بے قدرت ہے۔ اس کے خیال میں یہی جبریت ایک فلسفی کے لیے مسرت و اطمینانِ قلب کا سرچشمہ ہے۔ لائب نتزا (Leibnitz) کے آحاد یا فردات monads گرچہ بجائے خود آزاد ہیں۔ مگر ان میں توافق ازلی (pre-established harmony) خدا کا پیدا کیا ہوا ہے۔ اس لیے وہ بھی آخر کار جبر ہی کی طرف آ جاتا ہے۔ بلکہ اس جبریت کو جس کے آثار ڈیکارٹ کے فلسفے میں پائے جاتے ہیں، غلط قرار دیتا ہے۔ اگرچہ وہ صاف طور پر جبریت کا اقرار نہیں کرتا، مگر جب وہ کہتاہے کہ ہم ارادہ کرنے یا نہ کرنے کے لیے آزاد نہیں ہیں اور یہ کہ ارادہ نفس سے متعین ہوتا ہے اور نفس خواہشات مسرت سے، تو اس کے فلسفے کا رُخ قدریت سے جبریت کی طرف پھر جاتا ہے۔ ساپنہار (Schopenhaure) جس ارادے کو انسان سے لے کر جمادات تک سب چیزوں میں کار فرما دیکھتا ہے وہ ہرگز وہ ارادہ نہیں ہے جس کی آزادی پر قدریت کی بنیاد قائم ہے۔
اس میں شک نہیں کہ کانٹ ( Kuant فنشے Fischte) اور ہیگل (Hegel) جیسے اکابرِ فلسفہ نے قدریت کی طر ف میلان ظاہر کیا ہے، سقراط نے آزادی ارادہ کی حمایت کی ہے، افلاطون نے انسان کے لیے اختیار ثابت کیا ہے، ارسطو نے اختیاری اور اضطراری افعال کی تمیز کر کے انسان کو ایک حد تک آزاد اور ایک حد تک مجبور قرار دیا ہے۔ خریسی فوس رواتی (Chrysippus) نے جبریت اور اخلاقی ذمہ داری میں تو افق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور فلاسفۂ اسلام میں سے ایک گروہ نے لاجبر و لا تفویض ولکن امر بین الامرین کا مذہب اختیار کیا ہے مگر یہ سب کچھ حکمت نظری کی خاطر نہیں بلکہ حکمت عملی کی خاطر ہے۔ ورنہ جہاں تک خالص مابعد الطبیعی نقطۂ نظر کا تعلق ہے۔ اس کی رو سے جبریت کا پلڑا قدریت کی بہ نسبت بہت زیادہ جھکا ہوا ہے، اور فلاسفہ کا اختلاف زیادہ تر جبریت اور قدریت کے اختلاف کی طرف نہیں بلکہ جبریت خالصہ اور جبریت متوسط کے اختلاف کی طرف راجع ہوتا ہے۔

فلسفے کی ناکامی

لیکن اس بحث میں قدریت کی بہ نسبت جبریت کا پلڑا جھک جانے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ فلسفے نے اس گتھی کو سلجھا لیا اور مسئلہ جبر کے حق میں طے ہو گیا بلکہ اس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان جب زیادہ گہری نگاہ سے ملکوت ارض و سمٰوٰت کو دیکھتا ہے اور اس مطالعے کی مدد سے اس زبردست نظام کے چلانے والے کی صفات کا تصور کرتا ہے تو اکثر و بیشتر اس کے دل و دماغ پر ایسی دہشت طاری ہو جاتی ہے کہ اس کی نگاہ میں خود اپنی ہستی کی کوئی منزلت باقی نہیں رہتی، اور اس کی مدہوش عقل اس سے کہتی ہے کہ جس کی قدرت اس لامحدود کائنات کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے، جس کا ارادہ اتنی عظیم الشان سلطنت پر فرماں روائی کر رہا ہے، جس کا علم اس نظام وجود کے چھوٹے اور بڑے سب کل پرزوں اور ان کی حرکات و سکنات پر ازل سے لے کر ابد تک حاوی ہے، اس کے سامنے تو بالکل عاجز ہے، بے بس ہے، درماندہ ہے، تیری قدرت، تیرا علم، تیرا ارادہ کوئی چیز نہیں۔
اس سے بڑھ کر اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ فلسفے نے قضا و قدر کے مسئلے کو سمجھ لیا ہے تو وہ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ قضا و قدر کا سوال حقیقت میں یہ سوال ہے کہ خداوند عالم کی سلطنت کا دستورِ اساسی کیا ہے؟ خدا کے علم اور اس کی معلومات، خدا کی قدرت اور اس کے مقدورات، خدا کے ارادے اور اس کے مرادات کے درمیان کس قسم کا علاقہ ہے؟ خدا کا حکم کیا معنی رکھتا ہے؟ کس طرح وہ اس کی مخلوقات میں نافذ ہوتا ہے؟ مخلوقات کے مختلف مراتب میں اس کے احکام کی تنفیذ کن ضوابط کے تحت ہوتی ہے؟ اور موجودات عالم کی بے شمار انواع میں سے ہر نوع کس حیثیت سے اس کی تابع فرمان ہے؟ اب اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے ان سوالات کو حل کر لیا ہے تو دوسرے الفاظ میں اس کا دعویٰ یہ ہے کہ اس نے خدا اور اس کی پوری خدائی کو ناپ ڈالا ہے۔ یہ ان تمام باتوں سے زیادہ شنیع بات ہے جن کا الزام قدریہ اور جبریہ ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں اور اگر ان کا دعویٰ یہ نہیں ہے تو محض قیاس و استدلال کے بل بوتے پر وہ علم و یقین کے ایسے مرتبے تک کیوں کر پہنچ سکتے ہیں، جہاں قطعیت کے ساتھ جبر یا قدر کا حکم لگانا اُن کے لیے ممکن ہو؟

٭…٭…٭…٭…٭

طبیعی نقطۂ نظر

طبیعیات میں یہ مسئلہ اس پہلو سے آتا ہے کہ تمام کائنات کی طرح انسان کے افعال بھی سلسلۂ اسباب سے وابستہ ہیں اور اس سے جو کچھ بھی صادر ہوتا ہے کسی سبب یا متعدد اسباب کے اثر سے ہوتا ہے۔ ایک فعل کے وجود میں آنے کے لیے جن اسباب کی ضرورت ہے اگر وہ جمع نہ ہوں تو فعل کا وجود میں آنا متمنع ہے اور اگر جمع ہو جائیں تو اس کا وجود میں آنا واجب ہے۔ ان دونوں صورتوں میں انسان مجبور محض ہے۔ اس لحاظ سے طبیعات کا میلان ہمیشہ سے جبر ہی کی طرف رہا ہے۔ چنانچہ مادئیین کا ابوالآباء ڈمیقراطیس (Democritus) جسے قدمائے طبیعیین میں ایک ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ اب سے اڑھائی ہزار برس پہلے صاف کہہ چکا ہے کہ عالم کی تمام اشیا قانونِ فطرت میں جکڑی ہوئی ہیں۔
تاہم جب تک طبیعین نے نفس اور مادہ کے جوہری اختلافات سے انکار نہیں کیا تھا، اور جب تک وہ قوائے نفسیہ کو عالم مادے سے کسی نہ کسی حد تک ماوراء سمجھتے تھے، اس وقت تک قدریت کے لیے طبیعیات میں کچھ نہ کچھ گنجائش نکل سکتی تھی، لیکن جب اٹھارھویں صدی کے آغاز سے علوم طبیعیہ نے غیر معمولی ترقی کی اور سائنس کی دنیا میں تحقیق و اکتشاف کے نئے نئے دروازے کھلنے لگے تو نفس اور روح اپنی تمام قوتوں سمیت ترکیب مادی اور مادہ کے کیمیاوی امتزاجات کا نتیجہ قرار دے دیے گئے اور انسان ایک نفسیاتی و روحانی وجود کے بجائے محض ایک مشینی وجود رہ گیا۔ اس طرح طبیعیات کے حدود سے قدریت بیک بینی و دوگوش خارج کر دی گئی اور سائنس نے اپناپورا وزن جبر کے پلڑے میں رکھ لیا۔
علم الحیات (biology) اور علم وظائف الاعضاء (physiology) کی جدید تحقیقات، جن کی بدولت علم النفس اب قریب قریب انھی دونوں علوم کی شاخ بن گیا ہے، یہ حکم لگا رہی ہیں کہ دماغ کی شکل اور اس کی ساخت اور جِرمِ دماغی و نظام عصبی کی کیفیت ہی پر انسان کی فطرت اصلیہ کا مدار ہے۔ اُسی کی خرابی سے انسان کی فطرت خراب ہوتی ہے اور اس سے بُرے رجحانات اور بُرے اعمال کا ظہور ہوتا ہے اور اسی کی بہتری سے اس کی فطرت اچھی ہوتی ہے اور وہ اچھے میلانات اور نیک اعمال کا مظہر و مصدر بنتا ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جِرمِ دماغی اور نظامِ عصبی کی ساخت میں انسان کے آزاد ارادے کا کوئی دخل نہیں ہے اس لیے اس مادی نظریے کو تسلیم کر لینے کے بعد یہ ماننا لازم ہو جاتا ہے کہ انسان کے اندر سرے سے آزادی کا کوئی عنصر ہے ہی نہیں۔ جس طرح لوہے کی مشین ایک لگے بندھے اصول پر کام کرتی ہے۔ اُسی طرح انسان بھی طبیعیات کے ایک زبردست قانون کے تحت کام کر رہا ہے۔ اخلاق کی زبان میں جس چیز کو ہم نیکی اور حسنِ سیرت سے تعبیر کرتے ہیں، سائنس کی زبان میں وہ محض عناصر جسمانی کی ترکیب صحیح اور نظام عصبی کی درست حالت ہے۔ اخلاق جسے بدی اور بدچلنی سے تعبیر کرتا ہے، سائنس اس کو جِرمِ دماغی اور نظامِ عصبی کا سقم قرار دیتا ہے۔ اس لحاظ سے نیکی اور صحت، بدی اور بیماری میں کوئی فرق نہیں رہتا، جس طرح ایک شخص اپنی اچھی صحت کے لیے مدح اور بیماری کے لیے ذم کا مستحق نہیں ہے۔ اسی طرح اپنی بدچلنی یا نیک چلنی کے لیے بھی وہ مدح یا ذم کا مستحق نہ ہونا چاہیے۔
اس کے ساتھ ایک دوسرا زبردست قانون جو جبریت کی تائید کرتا ہے، قانونِ توریث (law of heredity) ہے جس کی بنیادوں کو ڈارون اور رسل ویلیس (Russel wallace) اور ان کے متبعین نے استوار کیا ہے۔ اس کی رو سے ہر شخص کی فطرت و سیرت اسی سانچے میں ڈھلتی ہے جو زمانہ ہائے ماسبق سے نسلاً بعد نسلٍ چلا آ رہا ہے اور یہ موروثی سانچہ جس شکل میں فطرت و سیرت کو ڈھالتا ہے اس کو بدل دینے پر کوئی شخص قادر نہیں ہے۔ اس لحاظ سے آج ایک شخص سے جو برائی ظاہر ہوتی ہے وہ گویا ایک پھل ہے اس برے بیج کا جواب سے سو برس پہلے اس کے پردادا نے بویا تھا، اور پردادا میں جو برائی تھی وہ بھی اس کو اپنی گزشتہ نسلوں سے ملی تھی۔ اس پھل کے ظہور و عدم میں اس شخص کے ارادہ و اختیار کو کچھ بھی دخل نہیں ہے، بلکہ وہ اسی طرح اس کے اظہار پر مجبور ہے جس طرح ایک آم کا درخت جو ایک کھٹے آم کی گٹھلی سے اُگا ہے، کھٹا آم پیدا کرنے پر مجبور ہے۔
تاریخ کا نظریہ بھی جبر ہی کا مؤید ہے۔ اس کی رُو سے اسبابِ خارجی کی تاثیرات مجموعی حیثیت سے اُس پوری انسانی جماعت کی فطرت و سیرت کو متاثر کرتی ہیں جو ان اسباب کے تحت رہتی ہو اور اسی بنا پر ایک مجموعۂ اسباب کے زیراثر رہنے والی قوم کے خصائص کسی دوسرے مجموعہ اسباب کے زیر اثر رہنے والی قوم کے خصائص سے مختلف ہوتے ہیں۔ اگر ہم عمیق نگاہ سے دیکھیں تو دو قوموں کے اختلاف مزاج اور اختلاف سیرت کا مرجع ان اسبابِ خارجی کے اختلاف کو قرار دے سکتے ہیں جن کے تحت ان دونوں نے نشوو نما پایا ہو۔ اسی طرح اگر ہم اسباب خارجی کی روشنی میں کسی قوم کے خصائص کو اچھی طرح سمجھ لیں تو پوری صحت کے ساتھ پیشگوئی کر سکتے ہیں کہ وہ کن حالات میں کیا روش اختیار کرے گی۔ فرد کے شخصی ارادہ و اختیار کے لیے اس ہمہ گیر قانون کی مقرر کی ہوئی راہ سے انحراف کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اگر افراد کی شخصی آزادی تسلیم کر لی جائے اس زبردست مشابہت کی کوئی توجیہہ نہیں یک جا سکتی جو تو صدیوں تک ایک قوم کے اعمال و افعال میں دیکھی جاتی ہے، کیونکہ یہ کسی طرح تصور نہیں کیا جا سکتا کہ قوم کے تمام ا فراد نے متفق ہو کر بلا ارادہ ایک جیسے اعمال کرتے رہنے کا فیصلہ کیا ہو۔
اعدادوشمار کے فن نے بھی تجربی بنیاد پر جبر کی حمایت کی ہے۔ بڑی بڑی آبادیوں کے متعلق مختلف حالات میں جو اعدادو شمار فراہم کیے گئے ہیں انھیں جب اُن خارجی اسباب کی روشنی میں دیکھا گیا جن کے تحت وہ حالات پیش آئے تھے تو معلوم ہوا کہ ہر جماعت میں مخصوص اسباب کے اثر سے مخصوص حالات پیش آتے ہیں، اور ان حالات میں کثیر افراد کے اعمال بالکل ایک دوسرے سے مشابہ ہوتے ہیں، اس قسم کے تجربات سے اب یہ علم اس حد تک ترقی کر چکا ہے کہ ایک ماہر فن ایک بڑی آبادی کے متعلق قریب قریب پوری صحت کے ساتھ یہ حکم لگا سکتا ہے کہ وہ فلاں قسم کے حالات میں فلاں عمل کرے گی۔ وہ کہہ سکتا ہے کہ ایک سال کے اندر شہر لندن میں کتنی خودکشیاں ہوں گی۔ وہ کہہ سکتاہے کہ ایک سال کے اندر شہر شکاگو میں کتنی چوریاں ہوں گی۔ اگر ایک ملک میں دوسرے ملک کی بہ نسبت قتل کے اعدادوشمار کا تناسب زیادہ ہو تو قریب قریب صحت کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ اس کے معاشی یا عمرانی یا طبیعی اسباب یہ ہیں۔ ایک ملک یا ایک بڑی آبادی میں جس طرح اموات، پیدائش، جرائم اور دوسرے واقعات کا اوسط سالہاسال تک یکسانی کے ساتھ چلتا رہتا ہے اور جس طرح اجتماعی حالات کے تغیر و تبدل سے ان اعدادوشمار میں اتار چڑھائو ہوا کرتا ہے۔ اس کی توجیہہ بجز اس کے اور کسی چیز سے نہیں کی جا سکتی کہ اسباب خارجی کی تاثیرات بڑی بڑی آبادیوں پر اس ہمہ گیری اور اس قوت کے ساتھ عمل کرتی ہیں کہ افراد کے شخصی ارادے ان کے خلاف چل نہیں سکتے۔

سائنس کی ناکامی

اس مختصر بیان سے واضح ہو گیا کہ وہی سائنس جس پر انسان نے اپنے تفوق اور اپنے افتخار کی بنیاد رکھی ہے، کس طرح اس کی تمام فکری بلند پروازیوں اور تحقیق و اکتشاف کی عقدہ کشائیوں کا سرمایہ فخر و ناز اس سے چھین لیتا ہے۔ اور کس طرح انسان خود اپنے علم اور اپنی تحقیق کی بنا پر اپنے آپ کو نباتات و جمادات اور بے جان مشینوں کی طرح ایک مضطر و بے اختیار ہستی تسلیم کر لیتا ہے۔ مگر اس تسلیم و اعتراف کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ سائنس نے قضا و قدر کے مسئلے کو واقعی حل کر لیا ہے۔ برعکس اس کے اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ سائنس اُس اختیار قدرت اور آزادیٔ ارادہ کی کوئی توجیہہ نہیں کر سکا، جس کو وجدانی طور پر ہم اپنے اندر محسوس کرتے ہیں، جس کے آثار شب و روز ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں اور جس کی بنا پر ہم ارادی و اضطراری اعمال میں ہمیشہ فرق کیا کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ خود نفس جس کے وجود پر انسان کا مختار اور صاحب ارادہ ہونا موقوف ہے، سائنس کی تحقیقات سے بالاتر ثابت ہوا ہے اور کوئی سائنٹیفک طریق تفتیش ابھی تک اس شے کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکا ہے جو انسان کے مادی وجود میں ایسے آثار و افعال اور اوصاف و خواص کا مبداء بنتی ہے جن کو کسی مادی ترکیب اور کسی کیمیاوی امتزاج کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔
بہرحال اگر طبیعت کا عالم یہ کہے کہ انسان کی سیرت میں اس کے نظامِ عصبی اور جِرمِ دماغی کی ساخت کو بہت کچھ دخل حاصل ہے تو اس کو تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا یہ دعویٰ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ جسمانی خصائص، نفسانی خصائص کی واحد علت ہیں۔ اسی طرح اگر نظریۂ ارتقا کا پیرو یہ کہے کہ انسان اپنی بہت سی خصوصیات وراثتاً حاصل کرتا ہے تو اس کو تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن اگر وہ یہ کہے کہ انسان میں سب کچھ موروثی ہی ہے اور اس کے پاس اپنا کچھ بھی نہیں تو دوسرے حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم اس دعویٰ کو کسی طرح قبول نہیں کر سکتے۔ اسی طرح تاریخ اور اعدادوشمار کی بنا پر جو نظریہ قائم کیا گیا ہے اس کی صحت بھی بس اسی حد تک ہے کہ شخص انسانی کو ایک بڑی حد تک اُن خارجی تاثیرات نے مجبور کر رکھا ہے جو وسیع پیمانے پر قوموں اور جماعتوں کو متاثر کرتی ہیں، لیکن اس سے یہ ثابت کرنا ممکن نہیں ہے کہ اجتماعی احوال کی گردش میں افراد کے شخصی ارادوں کو کسی قسم کی آزادی حاصل ہی نہیں ہے اور اجتماعی زندگی کی مشین میں اشخاص محض بے جان کل پرزوں کی طرح حرکت کر رہے ہیں۔
پس علومِ طبیعی اور ان کے توابع درحقیقت مسئلہ جبر و قدر کا تصفیہ نہیں کرتے بلکہ ہم کو مشاہدات و تجربات کی بنا پر صرف یہ بتاتے ہیں کہ ہماری زندگی میں جبر کے حدود کہاں تک وسیع ہیں۔

٭…٭…٭…٭…٭

اخلاقی نقطۂ نظر

خالص اخلاقیات کے دائرے میں انسان کے مجبور یا مختار ہونے کا سوال اس حیثیت سے نہیں آتا کہ ظاہری حالات کی تہ میں باطنی حقیقت کیا ہے، بلکہ یہاں اس پر اس نقطہ نظر سے بحث کی جاتی ہے کہ انسان کی سیرت اور اس کے کردار پر حسن و قبح کا حکم اور اس کے اچھے اور برے رویے پر مدح و ذم کا استحقاق اور اس کے نیک و بد اعمال پر جزا و سزا کا فیصلہ، کس بنیاد پر ہے۔ اول نظر میں معلوم ہوتا ہے کہ یہاں قدریہ کا پلہ بھاری ہے اور جبریت کی شکست یقینی، کیونکہ اگر انسان کو مجبور محض تسلیم کر لیا جائے اور یہ مان لیا جائے کہ جو کچھ وہ کرتا ہے اپنے ارادے و اختیار سے نہیں کرتا تو سرے سے اس کی ذمہ داری کا تصور ہی باطل ہو جاتا ہے۔ نیکی اور بدی بے معنی ہو جاتی ہے۔ اچھے اور برے کا کوئی مفہوم نہیں رہتا۔ نہ کوئی بڑے سے بڑا نیکوکار تعریف کا مستحق رہتا ہے اور نہ کوئی بدتر سے بدتر گناہ گار مذمت کا۔ نہ کوئی اچھے سے اچھا خادمِ خلق انعام کا مستوجب رہتا ہے اور نہ سخت سے سخت مجرم سزا کا۔ ہماری عدالتیں، ہمارے قوانین ، ہماری پولیس، ہمارے جیل خانے، ہمارے مدرسے، ہماری اخلاقی تربیت گاہیں، ہمارے وعظ، ہماری تقریریں، ہماری تحریریں، غرض وہ تمام چیزیں جو انسان کو صاحب ارادہ اور صاحب اختیار فرض کر کے اصلاح، تعزیر، عبرت اور موعظت کے لیے قائم کی گئی ہیں، قطعاً بیکار اور لاحاصل قرار پاتی ہیں۔
لیکن بحث و تحقیق کے میدان میں دوچار قدم آگے بڑھتے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں جبریت اور قدریت کے اختلاف کا فیصلہ صرف اتنی سی بات پر نہیں ہو جاتا۔ اخلاقیات میں عمل کی قدر و قیمت، سیرت اور محرکاتِ عمل کی بنیاد پر جانچی جاتی ہے اور سیرت و محرکات کا سوال آتے ہی یہ ناگزیر ہو جاتا ہے کہ ان عناصر کی تحقیق کی جائے جن سے انسان کی سیرت بنتی ہے اور ان اندرونی عوامل کا پتہ چلایا جائے جو کردار اور عمل کی صورت میں ظہور کرتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر بحث کا رُخ پھر طبیعیات، نفسیات اور مابعد طبیعیات کے مسائل کی طرف پھر جاتا ہے۔
قائلین جبر کہتے ہیں کہ انسان کی سیرت دو زبردست عنصروں سے بنی ہے۔ ایک فطرت اصلیہ جس کو لے کر وہ پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے خارجی تاثیرات جن سے وہ ہر لحظہ متاثر ہوتا ہے اور جن کے سانچے میں وہ ہر آن ڈھلتا رہتاہے۔ پہلی چیز تو قطعاً وہبی ہے جس میں انسان کے اختیار کو دخل نہیں ہے۔ ایک شخص ماں کے پیٹ سے جو فطرت لے کر پیدا ہوتا ہے۔ وہی اس کی سیرت کا مایۂ خمیر ہوتی ہے۔ بری فطرت سے اچھے اعمال کا ظہور ممکن نہیں ہے اور اچھی فطرت سے برے اعمال کا ظہور بھی غیر ممکن ہے۔ رہیں خارجی تاثیرات جن میں طبیعی اور اجتماعی دونوں قسم کی تاثیریں شامل ہیں تو وہ فطرت کے اس اصلی مادے کو پرورش کرتی ہیں اور اس کی قابلیت و استعداد کے مطابق اس کو ایک خاص شکل میں متشکل کر دیتی ہیں۔ ایک اچھی فطرت کا انسان اچھے ماحول میں ولی بن جاتا ہے اور بری فطرت کا انسان برے ماحول میں شیطان۔ اسی طرح برا ماحول اچھی فطرت کی خوبیوں کو کم کر دیتا ہے اور اچھا ماحول بری فطرت کی برائی کو گھٹا دیتا ہے۔ فطرت اور ماحول کا تعلق بالکل ایسا ہی ہے جیسے بیج کا تعلق زمین، پانی، آب و ہوا اور طریق باغبانی سے ہے۔ درخت کا اصل مادہ بیج ہے اور ان خارجی اشیا پر اس کے اچھی طرح یا بری طرح بار آور ہونے کا انحصار ہے۔ یہی حال انسان کا بھی ہے۔ وہ ان دونوں قوتوں کے ہاتھوں مجبور ہے۔ نہ وہ اپنی فطرت بدل سکتا ہے، نہ اپنے انتخاب سے ایک خارجی ماحول کو اختیار کرتا ہے اور نہ ماحول کی تاثیرات سے متاثر ہونا یا نہ ہونا اس کے اختیار میں ہے۔
قدریہ میں سے انتہا پسند گروہ تو اس کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔ اس کے نزدیک فطرتِ اصلیہ اور ماحول کی تاثیرات کو اگر انسان کے کردار میں کوئی دخل ہے تو وہ صرف اضطراری اعمال کی حد تک ہے۔ رہے وہ اعمال جن کو انسان سوچ سمجھ کر، اپنی قوتِ تمیز اور قوتِ فیصلہ سے کام لے کر بالارادہ کرتا ہے تو ان میں دونوں کو کسی قسم کا دخل حاصل نہیں ہے، بلکہ وہ قطعاً اس کے اپنے اختیار کا نتیجہ ہیں۔ یہ خالص قدریت ہے جس کو بعض لوگوں نے پیش کیا ہے۔ مگر اس نظریے کو قبول کرنا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ شعور، عقل و فہم، قوتِ تمیز اور قوتِ فیصلہ، جو آدمی کے اختیاری افعال کی بنیاد ہیں۔ خود ہی وہبی ہیں۔ نہ انسان نے اپنے کسب سے ان کو حاصل کیا ہے اور نہ وہ ان میں بال برابر کمی و بیشی کرنے پر قادر ہے۔ پھر ان قوتوں کے اثر سے وہ اپنے عمل کی جو راہ بھی اختیار کرے اس کے متعلق کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس کے آزادانہ اختیار کا نتیجہ ہے۔
متوسطین قدریہ کا مذہب اس معاملے میں یہ ہے کہ بلاشبہ انسان کی سیرت میں فطرتِ اصلیہ اور خارجی تاثیرات کو بہت کچھ دخل حاصل ہے۔ انسان اچھے اور برے میلانات اور نیکی و بدی کی استعدادات لے کر پیدا ہوتا ہے اور طبیعی اور اجتماعی ماحول کے سانچے میں ڈھل کر اس کی سیرت ایک خاص شکل اختیار کر لیتی ہے، لیکن ان دونوں کے علاوہ ایک تیسری چیز بھی ہے جو اس کے کردار میں دخل رکھتی ہے اور وہ ہے انسان کا غیر مقدر اختیار۔ ہم انسان کی نیکی اور بدی کے متعلق جو احکام لگاتے ہیں وہ اس کی پیدائشی فطرت یا اس کے طبیعی و اجتماعی ماحول کی بنا پر نہیں ہوتے، بلکہ اسی غیر مقدر اختیار کی بنا پر ہوتے ہیں۔ جہاں تک پہلی دونوں چیزوں کا تعلق ہے، ان کے لحاظ سے انسان مجبور ہے اور اس کے کردار کا جو حصہ اُن کے زیر اثر ہے وہ اخلاقی نقطۂ نظر سے بالکل بے قیمت ہے۔ دراصل اخلاقی قدر و قیمت اور نیک و بد کے احکام جس چیز پر مترتب ہوتے ہیں وہ صرف تیسری چیز ہے، یعنی انسان کا غیر مقدر اختیار۔
نظریے کی حد تک یہ بات بہت معقول ہے، لیکن اصلی مشکل یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے جس سے ہم انسان کے کردار میں فطرت اصلیہ، خارجی ماحول اور غیر مقدر اختیار کے حصے الگ الگ متعین کر سکیں اور اپنے اخلاقی احکام کو صرف تیسرے حصے کی حد تک محدود رکھیں۔ اگر اخلاقی قدروقیمت کا انحصار صرف اسی عنصر کی مقدار پر ہو تو ہمارے لیے کسی شخص کے متعلق نیک یا بد ہونے کا حکم لگانا قطعاً ناممکن ہے۔ کسی آلے سے ناپ کر، کسی ترازو سے تول کر، کسی طریق تحلیل سے تجزیہ کر کے ہم یہ معلوم نہیں کر سکتے کہ ایک نیک آدمی کس حد تک اپنے غیر مقدر اختیار کی بنیاد پر نیک ہے اور اسی طرح ہم یہ بھی نہیں جان سکتے کہ ایک برا آدمی کہاں تک مجبوراً برا ہے اور کہاں تک بالارادہ و بالاختیار برا۔ پس قدریت کے اس نظری۔ کو تسلیم کرنے سے ہمارے تمام اخلاقی احکام معطل ہو جاتے ہیں اور محض معطل ہی نہیں ہوتے بلکہ اس کے بعد تو ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے تمام تعزیری قوانین منسوخ کر دیں، اپنی عدالتوں کو برخاست کر دیں اور جیل خانوں کو توڑ ڈالیں کیونکہ جن مجرموں کو ہم پکڑتے ہیں اور جن پر ہمارے جج سزا کے فیصلے صادر کرتے ہیں اور جن کو ہم جیل خانوں میں ٹھونس دیتے ہیں ان کے متعلق ہمارے بڑے سے بڑے فاضل جج کو بھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اُن کے جرم میں اُن کے اپنے غیر مقدّر اختیار کا کس حد تک دخل ہوتا ہے اور جب یہ بنیادی چیز ہی غیر معلوم ہے تو کسی طرح ممکن نہیں کہ سزا کی مقدار مجرم کے اختیار کی مقدار کے مطابق ہو۔
اس مرحلے پر قدریت ایک ایسی سرزمین میں پہنچ جاتی ہے۔ جہاں اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ وہ راستہ ٹٹول ٹٹول کر چلنے کی خواہ کتنی ہی کوشش کرے مگر چند قدم بھی ٹھوکروں اور لغزشوں سے بچ کر نہیں چل سکتی۔ آخر وہ پلٹ کر جبریت سے کہتی ہے کہ اگر میرے نظریے سے اخلاقی احکام معطل ہو جاتے ہیں اور عدالت کا نظام نہیں چل سکتا تو یہی بلکہ اس سے بھی زیادہ برا نتیجہ تیرے نظریے سے بھی حاصل ہوتا ہے۔ تیرے نظریے کی رُو سے تو انسان اپنے کسی فعل کا ذمہ دار ہی نہیںہے پھر حسن وقبح کے احکام کس بنا پر؟ مدح یا ذم کس چیز کی؟ سزا و تعزیر کے فیصلے کس وجہ سے؟ایک غیر ذمہ دار آدمی کانیک و بد ہونا تو ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کا مریض یا تندرست ہونا۔ پھر جب ایک شخص کو اس بنا پر سزا نہیں دی جاتی کہ اسے بخار کیوں ہے، تو ایک دوسرے شخص کو اس بنا پر کیوں سزا دی جائے کہ اس نے چوری کیوں کی؟
اس سوال کا جبریت کے پاس بھی کوئی معقول جواب نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ جو بات وہ کہہ سکتی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں ہر عمل اپنے کچھ قدرتی نتائج رکھتا ہے۔ جس طرح بیماری کا طبیعی نتیجہ تکلیف ہے اور تندرستی کا طبیعی نتیجہ لذت و راحت، جس طرح نیک چلنی کا طبیعی نتیجہ مدح اور انعام ہے اور بدچلنی کا طبیعی نتیجہ ذم اور سزا۔ آگ میں ہاتھ ڈالنے سے جس طرح ہاتھ کا جل جانا ضروری ہے۔ اسی طرح جرم سے کسی نہ کسی قسم کی سزا پانا بھی ضروری ہے خواہ آدمی پر اس فعل کی کچھ ذمہ داری نہ ہو لیکن یہ جواب صرف اس صورت میں صحیح ہو سکتا ہے کہ ہم انسان کو ایک عقلی و نفسی وجود کے بجائے محض ایک مادی وجود تسلیم کر لیں اور یہ مان لیں کہ انسان میں عقل، نفس، رُوح کوئی چیز نہیں ہے، صرف طبیعت ہے جو ایک لگے بندھے قانون کے مطابق کام کیے جا رہی ہے اور انسان اسی طرح اس کے زیر اثر ہے جس طرح درخت، دریا، پہاڑ اور دوسری موجودات۔ مگر انسانی زندگی کے مظاہر کی یہ مشینی تعلیل کسی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ اس کے دلائل جن پربحث کرنے کا یہ موقع نہیں ہے، نہایت کمزور ہیں اور اس کے تسلیم کر لینے کاپہلا نتیجہ یہ ہے کہ قانون، اخلاق، مذہب سب بے قدر و قیمت ہوجائیں اور خود انسان بحیثیت انسان ہونے کے دوسری موجودات کے مقابل۔ میں کسی شرفِ عقلی و نفسی کا حامل نہ رہے۔

اخلاقیات کی ناکامی

اس تمام بحث کا ماحصل یہ ہے کہ علم الاخلاق جبریت و قدریت کے درمیان فیصلہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ خالص اخلاقی دلائل و شواہد سے ہم کو قطعی طور پر یہ نہیں معلوم ہوتا کہ انسانی سیرت و کردار کے متعلق جبری نظریہ درست ہے یا قدری نظریہ۔ جتنے قوی دلائل انسان کو ذمہ دار فاعل مختار قرار دینے کے حق میں ہیں، قریب قریب اتنے ہی زبردست دلائل اس کو غیر ذمہ دار اور قطعاً بے اختیار قرار دینے کے حق میں بھی ہیں۔
٭…٭…٭…٭…٭

دینیاتی نقطۂ نظر

اب اس مسئلہ کا آخری پہلو باقی رہ گیا ہے اور وہ دینیاتی پہلو ہے۔ دینیات میں یہ مسئلہ قریب قریب اسی حیثیت سے آتا ہے جس حیثیت سے فلسفے میں اس پر بحث کی گئی ہے مگر یہاں مشکلات اس سے بہت زیادہ ہیں۔ فلسفے کی نظر تو صرف امور ماورائے طبیعت پر ہے اور انسان کی عملی زندگی سے اس کو وہ تعلق نہیں جو حکمت عملی یا اخلاقیات کو ہے، مگر دینیات نے کسی نہ کسی طورسے حکمت عملی اور امور ماورائے طبیعت دونوں پر نظر کی ہے۔ اور اپنی تعلیمات میں دونوں کو جمع کیا ہے۔ دین ایک طرف تو انسان کو اوامرو نواہی کا مخاطب ٹھہراتا ہے اور اطاعت پر جزا اور عصیان پر سزا کے مترتب ہونے کا قانون پیش کرتا ہے۔ جس کے لیے انسان کا اپنے اعمال میں ذمہ دار اور کسی نہ کسی حد تک مختار ہونا ضروری ہے اور دوسری طرف وہ ایک ایسی بالاتر ہستی یا ایک ایسے بالاتر قانون کا تصور بھی پیش کرتا ہے جو انسان سمیت تمام کائنات کو محیط ہے اور جس کی گرفت میں سارا عالم کون و فساد جکڑا ہوا ہے۔ اس وجہ سے دینیات میں یہ مسئلہ فلسفے، طبیعیات اور اخلاقیات تینوں سے زیادہ مشکل ہے۔ کیونکہ یہ تینوں تو معاملہ کے محض کسی ایک پہلو کا اثبات کرنے اور دوسرے پہلو کو اس کے موافق کرنے کی خاطر توڑنے مروڑنے کے لیے آزاد ہیں، لیکن دین بیک وقت دونوں کا اثبات کرتا ہے اور وہ اپنے اس طریقے کو عقل کے مطابق ثابت کرنے کے لیے مجبور ہے کہ ان دونوں متعارض باتوں میں موافقت کی کوئی متوسط صورت نکالے۔
یہاں اس بحث کا موقع نہیں ہے کہ دنیا کے دوسرے مذاہب نے اس مشکل کو حل کرنے کی کیاصورت اختیار کی ہے، کیونکہ مجھ سے سوال صرف اسلام کے متعلق کیا گیا ہے اور اختصار کی خاطر بھی یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ میں اپنی بحث کو صرف اسی حد تک محدود رکھوں۔

صحیح اسلامی مسلک

جن مسائل کا تعلق امور ماورائے طبیعت سے ہے ان کے بارے میں اسلام کی صحیح تعلیم یہ ہے کہ جس چیز کا جاننا اور جس حد تک جاننا ضروری تھا۔ وہ اللہ اور اس کے رسول نے بتا دی ہے، اس سے زیادہ کا کھوج لگانا اور ایسی باتوں میں خوض کرنا، جن کے متعلق یقینی معلومات حاصل کرنے یا جن کی کنہ کو پہنچنے کے ذرائع ہمارے پاس نہیں ہیں اور جن کے نہ جاننے سے ہم کو کسی قسم کا نقصان بھی نہیں ہے، لاحاصل بھی ہے اور خطرناک بھی۔ اسی لیے قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے:
لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْـيَاۗءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ۝۰ۚ المائدہ5:101
ایسی باتوں کے متعلق سوال نہ کرو جن کو اگر تم پر ظاہر کیا جائے تو تم کو برا معلوم ہو۔
اور اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ:
مَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ۝۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۝۰ۚ الحشر59:7
جو کچھ رسول نے تم کو دے دیا ہے وہ لے لو اور جس سے منع کیا ہے اس سے باز آئو۔
اور اسی لیے حدیث نبویؐ میں کثرتِ سوال اور فضول باتوں میں تکلف کرنے کو ناپسند قرار دیا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اِنَّ مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْئِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ ( یہ حدیث امام زہری نے امام زین العابدین کے واسطے سے روایت کی ہے۔(ترمذی) ’’آدمی کے اسلام کی بہتری اس میں ہے کہ وہ بے فائدہ باتوں کو چھوڑ دے۔‘‘
یہ تقدیر کا مسئلہ بھی من جملہ انھی مسائل کے ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار تاکید فرمائی ہے کہ اس مسئلے پر بحث کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ ایک مرتبہ صحابہؓ آپس میں اس مسئلے میں بحث کر رہے تھے، اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور یہ باتیں سن کر آپؐ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کیا انھی باتوں کا تم کو حکم دیا گیا ہے؟ کیا اسی لیے میں تم میں بھیجا گیا ہوں؟ ایسی ہی باتوں سے پچھلی قومیں ہلاک ہوئی ہیں۔ میرا فیصلہ یہ ہے کہ تم اس معاملے میں جھگڑا نہ کرو۔‘‘(یہ حدیث مختلف طریقوں سے حضرت عمر، حضرت عائشہ، حضرت انس، حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مروی ہے۔ (دیکھو ترمذی، ابن ماجہ)
) ایک دوسرے موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص تقدیر کے بارے میں گفتگو کرے گا۔ اس سے تو قیامت کے دن سوال کیا جائے گا۔ مگر جو خاموش رہے گا اس سے سوال نہ ہو گا۔‘‘ ( یہ حدیث حضرت عائشہ سے مروی ہے۔
) مطلب یہ کہ یہ مسئلہ ان معاملات میں سے نہیں ہے جن کے بارے میں کوئی نہ کوئی رائے قائم کرنا شرعاً تمھارے لیے ضروری ہو لہٰذا اگر تم اس معاملے پر کوئی گفتگو نہ کرو تو قیامت میں تم سے کوئی سوال نہ ہو گا، لیکن اگر تم نے کلام کیا تو لامحالہ یا وہ غلط ہو گا یا صحیح اور غلط ہونے کی صورت میں تم ایک ایسی بات میں پکڑے جائو گے جس سے بحث کرنے کی تم کو کوئی ضرورت نہ تھی۔ پس بولنے میں نقصان کا احتمال ہے اور نہ بولنے میں کوئی نقصان نہیں۔ ایک اور موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیہما السلام کے مکان پر تشریف لے گئے اور پوچھا تم لوگ نماز تہجد کیوں نہیں پڑھتے؟ حضرت علی نے جواب دیا ’’یا رسول اللہؐ! ہمارے نفس اللہ کے ہاتھ میں ہیں، وہ چاہے گا کہ ہم اٹھیں تو اٹھ جائیں گے۔‘‘ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم فوراً واپس ہو گئے اور اپنی ران پر ہاتھ مار کر فرمایا:
وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شیءٍ جَدَلًا۔ ( اس حدیث کو زہری نے امام زین العابدین سے اور انھوں نے حسین ابن علی رضی اللہ عنہما سے روایت کیاہے (بخاری و نسائی) محدثین نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے واپس پلٹ جانے اور آیت پڑھنے کی مختلف توجیہیں کی ہیں مگر میں اس کے صاف معنی یہ سمجھتاہوں کہ عملی زندگی کے مسائل میں تقدیر کے مسئلے سے استدلال کرنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا۔
)
انسان سب سے زیادہ جھگڑالو واقع ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ محدثین اور فقہا کے گروہ نے صرف وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَ شَرِّہٖ مِنَ اللّٰہِ ’’تقدیر اچھی اور بری اللہ کی طرف سے ہے‘‘ کے مجمل اعتقاد پر اکتفا کیا ہے اور اس باب میں زیادہ کھوج لگانے اور جبر یا قدر کا قطعی حکم لگانے والوں کی سخت مذمت کرتے رہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بزرگانِ سلف کی ممانعت کے باوجود دوسری قوموں کے مسائل فلسفہ و طبیعیات کا مطالعہ کرنے کی وجہ سے یہ مسئلہ مسلمانوں میں بھی پیدا ہوا اور اس کثرت سے اس پر بحث کی گئی کہ آخر کار یہ اسلامی علم کلام کے مہمات مسائل میں داخل ہو گیا۔

متکلمین اسلام کے مذاہب

متکلمین اسلام کے اس بارے میں دو مشہور مذہب ہیں جو قدریہ اور جبریہ کہلاتے ہیں۔ یہاں اُن کی تمام بحثوں کو نقل کرنا بہت مشکل ہے اس کے لیے ایک مستقل کتاب کی وسعت درکار ہے تاہم میں ان کے مقالات کا ایک واضح خلاصہ یہاں پیش کروں گا۔

مذہب قدر

معتزلہ اور بعض دوسرے فرقوں کا اعتقاد یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا، اس کو افعال پر قدرت بخشی اور نیکی و بدی کا اختیار اسی کو تفویض کر دیا۔ اب وہ خود اپنی قدرت کے مطابق اور اپنی مشیت کے موافق استقلال کے ساتھ اچھے اور برے افعال کرتا ہے اور اپنے اسی اختیار کی بنا پر دنیا میں مدح و ذم اور آخرت میں ثواب و عذاب کا مستحق ہوتا ہے۔ اللہ کی طرف سے نہ اس کو کفر و معصیت پر مجبور کیا گیا ہے اور نہ ایمان و اطاعت پر، بلکہ وہ اپنے رسولوں کو بھیجتا ہے، کتابیں نازل کرتا ہے، نیکی کا حکم دیتا ہے اور بدی سے منع کرتا ہے، صحیح اور غلط، حق اور باطل کو واضح طور پر ممیز کرتا ہے اور ان کو خبردار کر دیتا ہے کہ اگر سیدھا راستہ اختیار کرو گے تو نجات پائو گے اور غلط راستہ پر چلو گے تو اس کا برا نتیجہ دیکھو گے۔
اس مذہب کے قواعد سب سے پہلے واصل بن عطا الغزال نے مقرر کیے تھے جس کا قول تھا کہ باری تعالیٰ حکیم عادل ہے۔ اس کی طرف شر اور ظلم کی اضافت جائز نہیں ہے۔ نہ یہ جائز ہے کہ اللہ نے خود ہی اپنے بندوں کو جن اوامر و نواہی سے مکلف کیا ہے۔ ان کے خلاف اعمال کے صدور کا وہ خود ارادہ کرے اور نہ یہ جائز ہے کہ وہ بندوں کو کسی ایسے فعل پر سزا دے جس کا ارتکاب انھوں نے اس کے حکم ہی سے کیاہو۔ لہٰذا بندہ ہی فاعل خیر و شر ہے۔ وہی ایمان و کفر اور اطاعت معصیت اختیار کرتا ہے اور اللہ نے ان سب کاموں کی قدرت اس کو عطا کر دی ہے۔ ابراہیم بن سیار النظام نے اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ خدا صرف خیر پر قدرت رکھتا ہے۔ شر، درد، معاصی اس کی قدرت سے خارج ہیں۔ معمر بن عباد السلمی اور ہشام بن عمرو القوطی نے اس میں اور زیادہ شدت اختیار کی اور وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَ شَرِّہٖ مِنَ اللہِ کا اعتقاد رکھنے والے کو کافر اور گمراہ ٹھہرایا، کیونکہ یہ اعتقاد ان کے نزدیک باری تعالیٰ کی تنزیہ کے خلاف ہے اور اس کی رُو سے حق تعالیٰ ظالم ٹھہرتا ہے۔ ان کے بعد جاحظ، خیاط، کعبی، جیائی، قاضی، عبدالجبار وغیرہ جتنے بڑے بڑے معتزلہ گزرے ہیں سب نے پورے زور کے ساتھ یہ حکم لگایا ہے کہ بندوں کے افعال کا خالق خدا نہیں ہے بلکہ بندے خود ان کے خالق ہیں اور یہ کہ خدا کے لیے تکلیف مالایطاق جائز نہیں ہے۔

قرآن مجید سے قدریہ کا استدلال

اس مذہب کی تائید میں معتزلہ نے قرآنِ مجید کی بہت سی آیات سے استدلال کیا ہے، مثلاً:
۱) وہ آیات جن میں بندوں کے افعال خود بندوں ہی کی طرف منسوب کیے گئے ہیں جیسے:
كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللہِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ۝۰ۚ البقرہ2:28
تم کیسے خدا کے ساتھ کفر کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے خدا نے تم کو زندہ کیا۔
فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ يَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَيْدِيْہِمْ۝۰ۤ ثُمَّ يَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللہِ البقرہ2:79
پس تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے۔
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰي قَوْمٍ حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۝۰ۙ
الانفال8: 53
یہ اسی وجہ سے ہے کہ خدا کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو دی ہو، بدلتا نہیں ہے جب تک کہ خود اپنی حالت کو نہیں بدل دیتی۔
مَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا يُّجْزَ بِہٖ۝۰ۙ النساء4:123
جو برا عمل کرے گا اسی کے مطابق بدلہ پائے گا۔
كُلُّ امْرِءٍ ؚ بِمَا كَسَبَ رَہِيْنٌo الطور52:21
ہر شخص اپنی کمائی کے بدلے رہن ہے۔
۲) وہ آیات جن میں کہا گیا ہے کہ انسان کے اپنے اعمال پر جزا اور سزا مترتب ہو گی جیسے:
اَلْيَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍؚبِمَا كَسَبَتْ۝۰ۭ المؤمن40:17
آج ہر متنفس کو اس کی کمائی کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔
اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo الجاثیہ45:28
آج تم کو ان اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے تھے۔
ہَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo النمل27:90
کیا تمھیں اس کے سوا کوئی اور بدلہ دیا جائے گا جو تم عمل کرتے رہے ہو؟
۳) وہ آیات جن میں شر اور ظلم اور مذمومات سے باری تعالیٰ کے فعل کو منزہ قرار دیا گیا ہے جیسے:
الَّذِيْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَہٗ السجدہ32:7
جس نے ہر چیز جو پیدا کی خوب ہی پیدا کی۔
اور ظاہر ہے کہ کفر اچھی چیز نہیں ہے:
وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ۝۰ۭ الحجر15:85
اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان دونوں کے درمیان جو کچھ ہے اس کو پیدا نہیں کیا مگر حق کے ساتھ۔
۴) اور مسلم ہے کہ کفر حق نہیں ہے!
وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِيْدِo حٰم السجدہ41:46
اور تیرا رب بندوں کے لیے ہرگز ظالم نہیں ہے۔
وَمَا اللہُ يُرِيْدُ ظُلْمًا لِّلْعٰلَمِيْنَo اٰلِ عمران3:108
اور اللہ جہان والوں کے لیے ہرگز ظلم کا ارادہ نہیں رکھتا۔
۵) وہ آیات جن میں کافروں اور گناہ گاروں کو اُن کے برے افعال پر ملامت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کو ایمان و طاعت سے روکنے والی کوئی چیز خدا کی طرف سے نہیں ہے۔
وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَہُمُ الْہُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللہُ بَشَرًا رَّسُوْلًاo
بنی اسرائیل17: 94
لوگوں کے پاس جب ہدایت آئی تو انھیں ایمان لانے سے روکنے والی کوئی چیز اس کے سوا نہ تھی کہ انھوں نے کہا کیا اللہ نے بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟
مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ ص38:75
تجھے کس چیز نے اس سے روکا کہ تو سجدہ کرے؟
فَمَا لَہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَo انشقاق84:20
انھیں کیا ہو گیا ہے کہ ایمان نہیں لاتے۔
لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ اٰل عمران3:10
تم کیوں خدا کی راہ سے روکتے ہو۔
اگر فی الواقع خدا نے ہی لوگوں کو ایمان لانے سے روکا ہوتا اور انھیں کفر و معصیت پر مجبور کیا ہوتا تو ان سے اس قسم کے سوالات کرنے جائز نہ ہوتے اگر کوئی شخص کسی کو حجرے میں بند کر دے اور کہے کہ تو کیوں نہیں نکلتا تو یہ ایک غیر معقول سوال ہو گا۔ پھر خدا کی طرف یہ بات کیسے منسوب کی جا سکتی ہے کہ ایک طرف تو ان کو حق سے پھیر دے اور پھر کہے کہ تم کہاں پھرے چلے جا رہے ہو۔ (اِنّٰی یُؤْفَکُوْن) ان میں کفر خلق کرے اور پھر پوچھے کہ تم کیوں کفر کرتے ہو؟ (لِمَ تَکْفُرُوْنَ) انھیں حق پر باطل کے پردے ڈالنے پر مجبور کرے اور پھر کہے کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ (لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ)
۶) وہ آیات جن میں ایمان اور کفر کو بندوں کی مشیت سے متعلق کہا گیا ہے جیسے:
فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۝۰ۙ الکہف18:29
پس جس کا جی چاہے ایمان لائے اور جس کا جی چاہے انکار کرے۔
فَمَنْ شَاۗءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّہٖ سَبِيْلًا۝۱۹ۧ المزمل73:19
پس جس کا چاہے اپنے رب کا راستہ اختیار کرے۔
یہی نہیں بلکہ ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو اپنے کفر و معصیت کو مشیت الٰہی سے منسوب کرتے ہیں، جیسے:
سَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللہُ مَآ اَشْرَكْنَا الانعام6:148
مشرکین ضرور کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم ہرگز شرک نہ کرتے۔
وَقَالَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللہُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَيْءٍ النحل16:35
اور مشرکین نے کہا کہ اگر اللہ چاہتا تو اس کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کرتے۔
۷) وہ آیات جن میں بندوں کو حسن عمل کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ مثلاً:
وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ اٰلِ عمران3:133
اور دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف۔
اَجِيْبُوْا دَاعِيَ اللہِ الاحقاف46:31
اللہ کے منادی کی پکار پر لبیک کہو۔
وَاَنِيْبُوْٓا اِلٰى رَبِّكُمْ الزمر39:54
اپنے رب کی طرف رجوع کرو۔
ظاہر ہے کہ طاعت کا حکم دینا اور اس طرف دوڑنے اور لپکنے کی تاکید کرنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے، جب تک کہ مامور میں اس کی قدرت نہ ہو۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کسی اپاہج سے کہا جائے کہ اُٹھ اور دوڑ۔
۸) وہ آیات جن میں بیان کیا گیا ہے کہ بندے ایسے افعال کرتے ہیں جن کا خدا نے ان کو حکم نہیں دیا جیسے:
يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ النساء4:60
وہ ارادہ رکھتے ہیں کہ اپنامقدمہ طاغوت کے پاس لے جائیں حالانکہ انھیں حکم دیا گیا تھا کہ اس کا انکار کریں۔
اِنَّ اللہَ لَا يَاْمُرُ بِالْفَحْشَاۗءِ۝۰ۭ الاعراف7:28
اور اللہ بے شرمی کے کاموں کا ہرگز حکم نہیں دیتا۔
وَلَا يَرْضٰى لِعِبَادِہِ الْكُفْرَ۝۰ۚ الزمر39:7
اور وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا۔
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ البینہ98:5
اور انھیں حکم نہیں دیا گیا تھا مگر یہ کہ اللہ کی عبادت کریں۔
۹) وہ آیات جن میں کہا گیا ہے کہ لوگ اپنے کیے کی سزا بھگتتے ہیں، جیسے:
ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ الروم30:41
خشکی اور تری میں فساد پھوٹ پڑا لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے۔
وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَۃٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ الشوریٰ42:30
تم پر جو مصیبت آئی ہے تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔
اِنَّ اللہَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْـــًٔـا وَّلٰكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَo یونس10:44
یقیناً اللہ لوگوں پر کوئی ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔
وَمَا كُنَّا مُہْلِــكِي الْقُرٰٓى اِلَّا وَاَہْلُہَا ظٰلِمُوْنَo القصص28:59
اور ہم ہرگز بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں ہیں اِلَّا یہ کہ ان کے باشندے ظالم ہوں۔
۱۰) وہ آیات جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا ہدایت اور گمراہی پر مجبور نہیں کرتا بلکہ انسان خود اپنے اختیار سے کوئی ایک راستہ منتخب کرتا ہے، مثلاً:
وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَيْنٰہُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَي الْہُدٰى حٰم السجدہ41:30
رہے ثمود تو ان کو ہم نے راستہ دکھایا، مگر انھوں نے اندھے بن کر چلنے کو راستہ دیکھ کر چلنے پر ترجیح دی۔
رَّبِّكُمْ۝۰ۚ فَمَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا يَہْتَدِيْ لِنَفْسِہٖ۝۰ۚ یونس10:108
جو ہدایت قبول کرتا ہے اس کا ہدایت قبول کرنا اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے۔
لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۝۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۝۰ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝۰ۤ البقرہ2:256
دین میں کوئی زبردستی نہیں، راست روی، کج روی سے ممیز کر کے پیش کر دی گئی ہے اب جو طاغوت سے کفر کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا۔
۱۱) وہ آیات جن میں انبیاء oنے اپنے قصوروں کا اعتراف کیا ہے اور ان کو خود اپنی طرف منسوب کیا ہے، مثلاً:
رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا الاعراف7:23
اے ہمارے رب ہم نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا۔
حضرت یونس علیہ السلام کہتے ہیں:
سُبْحٰــنَكَ۝۰ۤۖ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِــمِيْنَo الانبیاء21:87
پاک ہے تیری ذات، قصوروار تو میں خود ہی تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں:
رَبِّ اِنِّىْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ القصص28:16
پروردگار! میں نے اپنے اوپر ظلم کیا۔
حضرت نوح علیہ السلام کہتے ہیں:
رَبِّ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بِكَ اَنْ اَسْـــَٔـلَكَ مَا لَيْسَ لِيْ بِہٖ عِلْمٌ۝۰ۭ ہود11:47
پروردگار! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میں تجھ سے ایسی درخواست کروں جس کے نامناسب ہونے کا مجھے علم نہ ہو۔

مذہب جبر

دوسری طرف جبریہ ہیں جو کہتے ہیں کہ کوئی چیز اللہ کے ارادے کے بغیر وجود میں نہیں آتی۔ عام اس سے کہ وہ اشیا کی ذوات ہوں یا ان کی صفات۔ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ کائنات میں ہر ہر ذرّے کی حرکت قضا و قدر کے تحت واقع ہوتی ہے، وجود اور ایجادمیں اللہ کے سوا کوئی چیز تاثیر نہیں رکھتی۔ خلق اور ابداع میں اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے جو کچھ اللہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو اللہ نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔ کوئی شے اس کے حکم اور اس کی قضا کے خلاف بال برابر حرکت نہیں کر سکتی۔ اس کے افعال پر حسن یا قبح کا حکم لگانا عقل کے امکان میں نہیں ہے۔ اس سے جو کچھ صادر ہوتا ہے بہتر ہی ہوتا ہے، دنیا میں ہم جن حوادث کو اسباب کے تحت صادر ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، وہ محض ظاہر کے لحاظ سے تحت اسباب ہیں ورنہ حقیقتاً سب کا صدور اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے اور تمام اراضی و سماوی حوادث کا فاعل حقیقی وہی ہے۔
اس بنیادی عقیدے سے متعدد فرعی اعتقادات نکلے ہیں جبہم بن صفوان اور شیبان بن مسلمہ خارجی کا مذہب ہے کہ انسان اپنے افعال میں مجبور محض ہے، نہ وہ ارادہ رکھتا ہے اور نہ اختیار، اللہ تعالیٰ جس طرح جمادات، نباتات اور دوسری چیزوں میں افعال پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح انسان میں بھی پیدا کرتا ہے۔ انسان کی طرف افعال کی نسبت محض مجازی ہے، رہا ثواب و عتاب تو جس طرح افعال جبری ہیں اسی طرح جزا و سزا بھی جبری ہے، یعنی جس طرح جبر کی بنا پر انسان اچھے اور برے افعال کرتا ہے اسی طرح جبر ہی کی بنا پر اسے جزا اور سزا بھی دے دی جاتی ہے۔ یہ خالص جبریت ہے جو معتزلہ کی خالص قدرت کے مقابلے میں ہے۔
ایک دوسری جماعت جس میں حسین النجار، بشر بن غیاث المریسی، ضرار بن عمرو، حفص الفرد اور ابوعبداللہ محمد بن کرّام، شعیب بن محمد الخارجی اور عبداللہ بن اباض بانی فرقہ اباضیہ وغیرہ شامل ہیں، خدا کو انسان کے اچھے اور برے اعمال کا خالق تو قرار دیتی ہے مگر اس کی رائے میں بندوں کو ایک طرح کی قدرت و ارادۂ حادثہ بھی حاصل ہے جس کا کچھ نہ کچھ حصہ ان افعال کے صدور میں ضرور ہے۔ اس کا نام انھوں نے ’’کسب‘‘ رکھا ہے۔ اسی کسب کی وجہ سے انسان کو امرو نہی کے احکام دیے گئے ہیں اور اسی کے لحاظ سے آدمی عذاب و ثواب کا مستحق ہو گا۔
امام ابو الحسن اشعری نے ’’کسب‘‘ کو تو تسلیم کیا اور انسان کے لیے قدرت حادثہ بھی ثابت کی مگر اس قدرت کی تاثیر سے انکار کردیا۔ یعنی ان کے نزدیک اللہ اپنے بندے سے جس فعل کے صدور کا ارادہ کرتا ہے وہ بندے کی قدرت حادثہ کے تحت صادر ہو جاتا ہے، لیکن یہ قدرت محض ایک آلہ ہے ارادۂ الٰہی کے فعل میں آنے کا، ورنہ حقیقتاً خود اس قدرت میں کوئی تاثیر نہیں جو فعل کے وجود میں آنے کی علّت ہو۔
قاضی ابوبکر باقلانی نے اس سے تھوڑا سا، اختلاف کیا ہے۔ ان کی رائے میں انسان کے ہر فعل کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو اس کے نفس فعل ہونے کا ہے بلااعتبار حسن و قبح و خیر و شر اور دوسرا پہلو اس کے اطاعت اور معصیت ہونے کا ہے۔ مثلاً نماز اور روزہ کہ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ وہ عبادت اور طاعت ہے۔ ان میں پہلا ر ُخ باری تعالیٰ کی طرف منسوب ہو گا کیونکہ وہ اسی کی قدرت سے ظہور میں آتا ہے اور دوسرا رُخ بندے کی طرف کیونکہ اسی پہلو سے ایک فعل بندے کی قدرت حادثہ کے تحت رونما ہوتا ہے اور اسی پر جزا و سزا مترتب ہوتی ہے۔
استاذ ابو اسحق اِسفرائینی نے اس مسلک سے بھی اختلاف کیا ہے۔ ان کے نزدیک فعل بجائے خود اور فعل کی صفات (یعنی اس کا حسن و قبح) دونوں معاً بندے اور خدا دونوں کی قدرت کے تحت ظہور میں آتے ہیں۔
امام الحرمین نے ان دونوں کے مذہب کو رَد کر دیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے بندے میں قدرت اور ارادہ پیدا کیا ہے۔ پھر اسی قدرت اور ارادے سے بندے کے مقدورات اور مرادات حاصل ہوتے ہیں۔
آخر میں امام رازی آتے ہیں جو مذہب جبر کے پُرزور وکیل ہیں۔ وہ بندے کی قدرت کے لیے کسی قسم کی تاثیر تسلیم نہیں کرتے۔ ’’کسب‘‘ کو ایک اسم بامسمٰی سمجھتے ہیں، خدا کو بندوں کے تمام اعمال کا خالق قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کفر اور ایمان، طاعت اور معصیت ، ہدایت اور ضلالت، سب کچھ خدا ہی اپنے بندوں میں پیدا کرتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ ممکن نہیںہے کہ خدا کسی سے کفر کے صدور کا ارادہ کرے اور وہ مؤمن ہو جائے، خدا کے علم میں کوئی شخص مؤمن ہو اور وہ کافر ہو جائے، خدا نے کسی میں طاعت پیدا کی ہو اور وہ اس کے خلاف عاصی ہو جائے۔ رہا یہ سوال کہ جب ان چیزوں کا فیصلہ پہلے سے ہو چکا ہے،اور بندوں میں اس کے خلاف چلنے کی طاقت نہیں ہے تو پھر اوامرو نواہی کی تکلیف کیونکر جائز اور معقول ہو سکتی ہے تو اس کا جواب امام صاحب یہ دیتے ہیں کہ خدا کے لیے تکلیف مالا یطاق جائز ہے اور اس کے کاموں میں کیوں اور کس لیے کا سوال نہیں ہوسکتا۔
بہرحال اشاعرہ اور ان کے ہم خیال حضرات خواہ کسب کے قائل ہوں یا نہ ہوں اور قدرت حادثہ کے لیے کسی قسم کی تاثیر مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں۔ ان کے استدلال کا منطقی نتیجہ خالص جبر ہی ہے، کیونکہ جب خدا اپنے بندوں کا خالق ہے اور اسی نے ان سے اچھے اور برے اعمال کے صدور کا ارادہ کیا ہے تو دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہو گی یا تو بندے میں قضائے الٰہی کے خلاف عمل کرنے کی قدرت ہو گی یا نہ ہو گی، صورت اوّل میں بندے کی قدرت اور اس کے ارادے کا خدا کی قدرت اور اس کے ارادے پر غالب آ جانا لازم آتا ہے جو بالاتفاق باطل ہے بصورتِ دوم خدا کی قدرت کے آگے بندے کی قدرت کا بے اثر اور خدا کے ارادے کے سامنے بندے کے ارادے کا بے چارہ ہونا لازم آتا ہے جس کے بعد کسب اور قدرت حادثہ کا عدم اور وجود برابر ہے۔ یہی خالص جبریت ہے اور یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ جبریت کے مقدمات کو تسلیم کر لینے کے بعد کوئی شخص عقیدۂ جبر کی انتہا کو پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بیج میں کسی مقام پر ٹھہر جانا اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ( بالکل یہی حال مسیحی متکلمین کا بھی ہے۔ ان کے ایک بڑے گروہ کے مقاصد اس باب میں وہی ہیں جو اشاعرہ کے ہیں۔ سینٹ اگسٹائن (St. Augustine)نے جبریت خالصہ سے بچنے کی بہت کوشش کی ہے۔ مگر خدا کو فاعل حقیقی اور انسان کو محض ایک منفعل ہستی مان لینے کے بعد وہ اپنے مذہب کو خالص جبریت سے نہیں بچا سکا۔ اسکواٹس ایرجینا (Scotus Erigena) مدرسیت مسیحی علم کلام (soholasticism) کا بانی اوّل ہے۔ خدا کے فاعل افعال عباد ہونے میں انتہا درجے کا غلو کرتا ہے۔ اس کے نزدیک خدا تمام کائنات کی روح ہے اور وہ خدا ہی ہے جو زندگی، قوت، نور، عقل بن کر موجودات عالم میں اپنے کرشمے دکھا رہا ہے۔ سینٹ آنسلم (St. Anselm) عام مسیحی اعتقاد کے مطابق انسان کے پیدائشی گناہ اور پھر خدا کے مسیح کی شکل میں نزول کرنے، اور انسان کے گناہ کا کفارہ بننے کا قائل ہے اور ظاہر ہے کہ اس اعتقاد میں جبریت کے سوا کسی اور چیز کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ ابیلارڈ (Abelard) اور سینٹ ٹامس اکوم (St. Thomas of Aquin) دونوں ارادۂ الٰہی کو وجوبی و جبری قرار دیتے ہیں اور ان کے نزدیک خدا ہی بندوں کے تمام اعمال کا خالق ہے بلکہ مؤخر الذکر نے تو اشاعرہ سے تکلیف مالایطان کے جواز کا عقیدہ بھی اخذ کر لیا ہے۔ ممتاز مدرسین میں صرف ایک ڈنس اسکوٹس (Duns Scotus) ایک ایسا شخص ہے جسے معتزلہ کی طرح قدریت کا مذہب اختیار کیا ہے۔اس کے نزدیک انسان کو ارادہ کرنے یا نہ کرنے اور اپنے ارادے کو فعل میں لانے یا نہ لانے کا پورا اختیار حاصل ہے اور خدا کی قدرت انسان کی آزادی اختیار میں مانع نہیں ہے۔

قرآنِ مجید سے جبریہ کا استدلال

لطف یہ ہے کہ جبریہ بھی اپنے مذہب کے حق میں قرآنِ مجید ہی سے ثبوت پیش کرتے ہیں اور ایک دو نہیں سینکڑوں آیتیں ایسی پیش کر دیتے ہیں جو قدریت کی مخالف اورجبریت کی زبردست مؤید ہیں مثلاً:
(1) وہ آیات جن سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام قوت کا مالک خدا ہے جو ہر چیز پر قادر ہے اور ہر چیز کا خالق ہے۔ دنیا میں اس کے اذن کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا:
اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلہِ جَمِيْعًا۝۰ۙ البقرہ2:165
یہ کہ قوت ساری کی ساری اللہ ہی کی ہے۔
وَمَا ھُمْ بِضَاۗرِّيْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ البقرہ2:102
اور وہ اپنے اس جادو کے ذریعے سے کسی کو ضرر نہیں پہنچا سکتے تھے مگر اللہ کے اذن سے۔
اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۝۰ۭ الاعراف7:54
خبردار! خلق بھی اسی کا ہے اور امر بھی اسی کا۔
قُلِ اللہُ خَالِـقُ كُلِّ شَيْءٍ وَّہُوَالْوَاحِدُ الْقَہَّارُo الرعد13:16
کہو، اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ایک ہے اور سب پر غالب ہے۔
وَاللہُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ۝۹۶ الصّٰفّٰت37:96
حالانکہ اللہ نے تمھیں بھی پیدا کیا اور ان چیزوں کو بھی جنھیں تم بناتے ہو۔
(2) وہ آیات جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر واقعہ کے متعلق خدا کا فیصلہ پہلے ہی سے لکھا جا چکا ہے اور دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اسی فیصلے کے مطابق ہوتا ہے۔
وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْـثٰى وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِہٖ۝۰ۭ وَمَا يُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّلَا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِہٖٓ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ۝۰ۭ فاطر35:11
نہیں حاملہ ہوتی کوئی مادہ اور نہیں وضع حمل کرتی مگر وہ اس کے علم میں ہوتی ہے اور نہیں دراز ہوتی کسی دراز والے کی عمر، نہ کسی کی عمر میں کوئی کمی ہوتی ہے مگر یہ سب کچھ ایک نوشتہ میں لکھا ہے۔
وَقَضَيْنَآ اِلٰى بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ فِي الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْاَرْضِ مَرَّتَيْنِ بنی اسرائیل17:4
اور ہم نے بنی اسرائیل کو بتا دیا تھا کتاب میں کہ تم ضرور دو مرتبہ زمین میں فساد کرو گے۔
وَمَآ اَصَابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ فَبِـاِذْنِ اللہِ اٰل عمران3:166
اور جو مصیبت تم پر دونوں گروہوں کی مڈبھیڑ کے روز آئی اور وہ اللہ کے اذن سے تھی۔
مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَۃٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا۝۰ۭ
الحدید57: 22
کوئی مصیبت زمین میں یا تمھارے اپنے نفوس میں نہیں پہنچتی مگر یہ کہ وہ ایک نوشتے میں لکھی ہوئی ہوتی ہے قبل اس کے کہ ہم اسے ظہور میں لائیں۔
(3) وہ آیات جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر دی ہے۔ رزق، عزت و دولت ، راحت و مصیبت، موت و حیات سب اسی تقدیر کے مطابق ہیں۔ اُس میں کمی بیشی ممکن نہیں ہے۔
اِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍ۝۴۹ القمر54:49
ہم نے ہر چیز جو پیدا کی ہے اسے ایک اندازے پر رکھا ہے۔
لَہٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَقْدِرُ۝۰ۭ الشوریٰ42:12
آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں جس کے لیے چاہتا ہے۔ رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے نپا تلا کر دیتا ہے۔
وَلٰكِنْ يُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاۗءُ۝۰ۭ الشوریٰ42:27
مگر وہ نازل کرتا ہے ایک اندازے پر جو وہ چاہتا ہے۔
وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَيِّئَۃٌ يَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِكَ۝۰ۭ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللہِ ۝۰ۭ النساء4:78
اگر انھیں کوئی بھلائی نصیب ہوتی ہے تو کہتے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں یہ تمھاری بدولت ہے۔ کہو، سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔
وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ۝۰ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُہُمْ لَا يَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَo
الاعراف7: 34
ہر قوم کے لیے ایک مدت ہے پھر جب ان کی مدت آن پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔
(4) وہ آیات جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بندے کی مشیت خدا کی مشیت کے تابع ہے، بندے کو کچھ اختیار نہیں، سب کچھ خدا کے اختیار میں ہے۔ انسان اپنی تدبیر سے خدا کے فیصلوں کو بدلنے کی قوت نہیں رکھتا:
وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ۝۰ۭ الدھر76:30
اور تم کیا چاہتے ہو اِلَّا یہ کہ اللہ چاہے۔
لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اٰلِ عمران3:128
تیرے ہاتھ میں کچھ اختیار نہیں ہے۔
وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا۝۲۳ۙ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ۝۰ۡ کہف18:23
اور کبھی کسی چیز کے متعلق یوں نہ کہو کہ میں کل ایسا کر کے رہوں گا (تمھاری یہ بات پوری نہیں ہو سکتی) اِلَّا یہ کہ اللہ چاہے۔
قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّہٗ لِلہِ۝۰ۭ اٰل عمران3:154
کہو اختیار بالکل اللہ کا ہے۔
قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِيْ بُيُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِيْنَ كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِھِمْ۝۰ۚ
اٰل عمران3: 154
کہو، اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن کے نصیب میں قتل لکھ دیا گیا تھا وہ اپنے مقتل کی طرف خود نکل آتے۔
وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo وَہُوَالْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ۝۰ الانعام6:17-18
اور اگر اللہ تجھے کسی تکلیف میں مبتلا کرے تو اُسے ہٹانے والا کوئی نہیں اس کے سوا، اور اگر وہ تیرے لیے کچھ بہتری کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے اور وہ اپنے بندوں پر پورا غلبہ رکھتا ہے۔
فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِيْلًا۝۰ۥۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَحْوِيْلًاo فاطر35:43
پس تم خدا کے ضابطے میں کوئی تبدیلی نہ پائو گے اور نہ کوئی ایسی طاقت پائو گے جو اللہ کے ضابطے کو پھیر دے۔
(5) وہ آیات جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہدایت اور ضلالت کا رشتہ خدا کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے۔
يُضِلُّ بِہٖ كَثِيْرًا۝۰ۙ وَّيَہْدِىْ بِہٖ كَثِيْرًا۝۰ۭ البقرہ2:26
اللہ اس کے ذریعے سے گمراہ کر دیتا ہے بہتوں کو اور ہدایت دیتا ہے بہتوں کو۔
مَنْ يَّشَاِ اللہُ يُضْلِلْہُ۝۰ۭ وَمَنْ يَّشَاْ يَجْعَلْہُ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍo الانعام6:39
اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر لگا دیتا ہے۔
فَمَنْ يُّرِدِ اللہُ اَنْ يَّہْدِيَہٗ يَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ۝۰ۚ الانعام6:125
پس اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔
اَتُرِيْدُوْنَ اَنْ تَہْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللہُ۝۰ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ سَبِيْلًاo النساء4:88
کیا تم چاہتے ہو کہ ہدایت بخشو اس شخص کو جسے اللہ نے گمراہ کیا ہو حالانکہ جسے اللہ نے گمراہ کیا ہو اس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں پا سکتے۔
فَاحْذَرُوْا۝۰ۭ وَمَنْ يُّرِدِ اللہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَہٗ مِنَ اللہِ شَـيْـــــًٔـا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَمْ يُرِدِ اللہُ اَنْ يُّطَہِّرَ قُلُوْبَہُمْ۝۰ۭ المائدہ5:41
جسے اللہ فتنے میں ڈالنا چاہتا ہے اسے تم اللہ سے نہیں بچا سکتے۔ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ ہی نے پاک کرنا نہ چاہا۔
وَلَوْاَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃَ وَكَلَّمَہُمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَيْہِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ الانعام6:111
اگر ہم ان کی طرف ملائکہ کو بھی نازل کر دیتے اور مردے ان سے باتیں کرتے اور ہر چیز کو ہم اُن کے آگے رُو دَر رُو جمع کر دیتے تب بھی وہ ایمان لانے والے نہ تھے اِلَّا یہ کہ اللہ ہی چاہے۔
(6) وہ آیات جن میں کہا گیا ہے کہ خدا کی مشیت ہی یہ نہ تھی کہ سب لوگ ایمان لے آئیں اور اختلاف نہ کریں ورنہ خدا چاہتا تو سب ایمان لے آتے اور دین کے معاملے میں کوئی جھگڑا باقی نہ رہتا۔
وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ مَا اقْتَتَلُوْا۝۰ۣ وَلٰكِنَّ اللہَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُo البقرہ2:253
اگر اللہ چاہتا تو وہ نہ لڑتے مگر اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا۝۰ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَo وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تُؤْمِنَ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ یونس10:99-100
اگر تیرا رب چاہتا تو سب لوگ ایمان لے آتے جو زمین میں ہیں پھر کیا تُو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ ایمان لے آئیں؟ حالانکہ کوئی متنفس مؤمن نہیں ہو سکتا اللہ کے اذن کے بغیر۔
اس ضمن میں وہ آیات بھی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ بہت سے لوگ دوزخ ہی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں مثلاً:
وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَــہَنَّمَ كَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۝۰ۡۖ الاعراف7:179
ہم نے بہت سے جنوں اور انسانوں کو جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔
(7) وہ آیات جن میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے کافروں اور منافقوں کو ایمان اور حسن عمل سے روک دیا ہے اور ایسے لوگ راہِ راست پر آ ہی نہیں سکتے مگر اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ وہ اوامر و نواہی کے لیے مکلف قرار دیے گئے ہیں اور سرتابی و سرکشی کے عوض ان کو عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَوَاۗءٌ عَلَيْہِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَo خَتَمَ اللہُ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰي سَمْعِہِمْ۝۰ۭ وَعَلٰٓي اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ۝۰ۡوَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌo
البقرہ2: 6-7
حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان کے لیے یکساں ہے خواہ تم انھیں ڈرائو یا نہ ڈرائو وہ بہرحال ایمان نہ لائیں گے۔ اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر کر دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ان کے لیے بڑی سزا ہے۔
فِىْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ۝۰ۙ فَزَادَھُمُ اللہُ مَرَضًا۝۰ۚ البقرہ2:10
ان کے دلوں میں بیماری ہے پس اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا۔
وَجَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِہِمْ اَكِنَّۃً اَنْ يَّفْقَہُوْہُ وَفِيْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا۝۰ۭ الانعام6:25
اور ہم نے ان کے دلوں پر غلاف چڑھا دیے ہیں (جو انھیں روکتے ہیں اس سے کہ) وہ اسے سمجھیں اور ان کے کانوں میں مَیں نے گرانی پیدا کر دی ہے۔
وَّلٰكِنْ كَرِہَ اللہُ انْۢبِعَاثَہُمْ فَثَبَّطَہُمْ التوبہ9:46
مگر اللہ نے اُن کے اٹھنے کو پسند نہ کیا اس لیے اس نے انھیں سست کر دیا ہے۔
وَنَطْبَعُ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لَا يَسْمَعُوْنَo الاعراف7:100
اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں پھر وہ نہیں سنتے۔
(8) وہ آیات جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کو جن برے اعمال کی وجہ سے دنیا اور آخرت میں مبتلائے عذاب کیا جاتا ہے وہ خدا ہی کے حکم و ارادے کے تحت ان سے سرزد ہوتے ہیں۔
وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّہْلِكَ قَرْيَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْہَا فَفَسَقُوْا فِيْہَا بنی اسرائیل17:16
اور جب ہم ارادہ کرتے ہیں کہ بستی کو ہلاک کریں تو بستی کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں پھر وہ اس بستی میں فسق کرنے لگتے ہیں۔
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِيْ كُلِّ قَرْيَۃٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِيْہَا لِيَمْكُرُوْا فِيْہَا۝۰ۭ الانعام6:123
اور ہم نے اسی طرح ہر بستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو لگا رکھا ہے کہ وہ اس میں چالبازیاں کریں۔
زَيَّنَّا لَہُمْ اَعْمَالَہُمْ فَہُمْ يَعْمَہُوْنَo النمل27:4
ہم نے ان کے اعمال کو ان کے لیے خوشنما بنا دیا ہے پس وہ بھٹکتے پھر رہے ہیں۔
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ الکہف18:28
اور ایسے شخص کی بات نہ مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی کی۔
(9) وہ آیات جن میں بتایا گیا ہے کہ خدا ہی نے ان شیاطین اور ا ئمہ شر کو انسان پر مسلط کیا ہے جو اس کو بہکاتے ہیں۔
اَلَمْ تَرَ اَنَّآ اَرْسَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ تَـــؤُزُّہُمْ اَزًّاo مریم19:83
دیکھتے نہیں ہو کہ ہم نے شیاطین کو ان کافروں کی طرف چھوڑ دیا ہے اور وہ انھیں خوب بھڑکا رہے ہیں۔
وَجَعَلْنٰہُمْ اَىِٕمَّۃً يَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ۝۰ۚ القصص28:41
اور ہم نے ان کو پیشوا بنایا ہے جو آگ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔
وَقَيَّضْنَا لَہُمْ قُرَنَاۗءَ فَزَيَّنُوْا لَہُمْ مَّا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ حٰم السجدہ41:25
اور ہم نے ان کے لیے مقرر کر دیے ہیں ایسے ساتھی جو ان کے سامنے اور ان کے پیچھے کی چیزوں کو ان کے لیے خوشنما بناتے ہیں۔

متکلمین کی ناکامی

متکلمین اسلام کے ان دونوں گروہوں کی تقریریں دیکھنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ مسئلہ ’’جبروقدر‘‘ کو حل کرنے میں دونوں کو ناکامی ہوئی ہے مگر اس ناکامی کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انھوں نے قرآن سے ہدایت حاصل کرنی چاہی تھی اور قرآن نے اُن کی ہدایت نہیں کی، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے قرآن سے استفتا کرنے کے بجائے فلسفیانہ طریق پر فکر کی اور دو مقابل پہلوئوں میں سے ایک پہلو اختیار کر لیا۔ پھر اپنے اعتقاد کی تائید میں دلائل ڈھونڈنے کے لیے قرآنِ مجید پر نگاہ ڈالی، جو بات اپنے موافق مطلب نظر آئیں ان کو تاویل کے خراد پر چڑھا دیا۔ دونوں فریقوں کی جانب سے جو آیات پیش کی گئی ہیں ان کو آپ نے اوپر دیکھ لیا۔ بعض آیات صریح قدر کا حکم لگاتی ہیں جن سے جبر کا پہلو نکالنا ممکن نہیں ہے مگر جبریہ پھر بھی ان کی تاویل کرتے ہیں اور ایسے معنی پہناتے ہیں جن کو عقل سلیم کسی طرح قبول نہیں کرتی۔ یہی حال قدریہ کا ہے۔ وہ جبر کا صریح حکم لگانے والی آیات کو قدر کے مطلب پر ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں ان کو یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ آیت کے الفاظ کیا کہہ رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر گروہ کی بحثوں سے صرف وہی شخص مطمئن ہو سکتا ہے جو پہلے سے اپنا عقیدہ قائم کر چکا ہو اور قرآنِ مجید سے صرف اس کی تائید چاہتا ہو۔ رہا وہ شخص جس نے خود پہلے سے کوئی رائے قائم نہ کی ہو اور جس کی خواہش یہ ہو کہ قرآنِ حکیم کے مطالعے سے کسی نتیجے تک پہنچے تو وہ جبریہ اور قدریہ کی بحثوں کو پڑھ کر ہرگز مطمئن نہیں ہو سکتا بلکہ کچھ عجب نہیں کہ وہ خود قرآنِ مجید ہی کی طرف سے بدعقیدہ ہو جائے۔ اس لیے جس طرح دونوں فریقوں نے آیاتِ قرآنی کو لے کر ایک دوسرے سے ٹکرایا ہے اور ان سے دو بالکل متضاد عقیدوں پر استدلال کیا ہے اس کو دیکھ کر ایک ناواقف آدمی اس بدگمانی سے محفوظ نہیں رہ سکتا کہ خود قرآنِ مجید ہی کے بیانات میں معاذ اللہ تناقض و تعارض ہے۔

٭…٭…٭…٭…٭

تحقیق مسئلہ

پچھلے صفحات میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اب تک انسان نے اس مسئلے کو سمجھنے کی جتنی کوششیں کی ہیں وہ سب ناکام ہوئی ہیں۔ ان تمام ناکامیوں کی وجہ صرف ایک ہے۔ یعنی ان ذرائع کا فقدان جس سے انسان اس وسیع کائنات کے نظامِ حکومت اور اس عظیم الشان سلطنت الٰہی کے دستور اساسی کو معلوم کر سکے۔ ہمارے سامنے ایک زبردست کارخانہ چل رہا ہے۔ ہم خود اس کارخانے کے کل پرزوں میں سے ایک حقیر پرزہ ہیں اور اس کے دوسرے پرزوں کے ساتھ ہم بھی حرکت کر رہے ہیں۔ بس اتنا ہی ہم کو معلوم ہے۔ رہیں وہ قوتیں جو اس کارخانے کو چلا رہی ہیں، اور وہ قوتیں جن کے ماتحت اس کے کام چل رہے ہیں تو ان تک رسائی حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے نہ ہمارے حواس وہاں تک پہنچ سکتے ہیں، اور نہ ہماری عقل اس کے اسرار کو پا سکتی ہے۔ احساس و ادراک سے ماورا حقیقتوں کو چھوڑیے ہم نے تو ابھی تک کائنات کے ان مظاہر کا بھی پوری طرح احاطہ نہیں کیا ہے جو سرحدِ ادراک و حساس سے خارج نہیں ہیں۔ جو کچھ اپنے حواس سے محسوس کر سکے ہیں اور جو کچھ قیاس و استقراء کے ذریعے سے کسی حد تک ہمارے علم میں آ سکا ہے وہ مظاہر کائنات کے لامتناہی سمندر میں ایک قطرے سے زیادہ نہیں ہے۔ گویا ہمارے علم اور وسائل علم کو ہمارے جہل اور اسباب جہل کے ساتھ وہی نسبت ہے جو متناہی کو لامتناہی کے ساتھ ہے۔ ایسی حالت میں یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم اس کارخانے کے باطنی نظام اور اس میں اپنی صحیح پوزیشن کو سمجھ سکیں، ہمارا خود اپنے ذرائع علم سے اس کو سمجھنا تو درکنار اگر خدا تعالیٰ کی جانب سے ہمارے سامنے اس کو بیان کیا بھی جاتا تب بھی ہم اپنی محدود عقل سے اس کے معانی کو نہ سمجھ سکتے۔
اب ہمیں اصل سوال کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ سوال یہ تھا کہ قرآن میں مسئلہ جبر و قدر کی طرف جو اشارات کیے گئے ہیں ان میں بظاہر تناقض نظر آتا ہے۔ کہیں بندے کو خود اپنے افعال کا فاعل قرار دیا گیا ہے اور اسی پر نیک و بد کی تمیز قائم کر کے جزا و سزا کی وعدہ وعید کی گئی ہے۔ کہیں بندے سے قدرتِ فعل کو سلب کر کے تمام افعال کی نسبت خدا کی طرف کر دی گئی ہے۔ کہیں ایک ہی فعل خدا اور بندے کی طرف منسوب کیا گیا ہے، کہیں بندے کو ہدایت قبول کرنے اور ضلالت سے نکلنے کی دعوت اس طرح دی گئی ہے کہ گویا اس میں ترک و اختیار کی طاقت ہے۔ کہیں کہا گیا ہے کہ ہدایت و ضلالت خدا کی طرف سے ہے، خدا ہی گمراہ کرتا ہے اور خدا ہی سیدھے راستے پر ڈالتا ہے۔ کہیں بندے کے لیے مشیت ثابت کی گئی ہے اور کہیں کہہ دیا گیا ہے کہ بندے کی مشیت خدا کی ہے۔ کہیں شرور و معاصی کو بندے کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہیں ان کا باعث شیطان کو قرار دیا گیا ہے اور کہیں خدا کے اذن بغیر کوئی کچھ نہیں کر سکتا اور کہیں نافرمان انسانوں کو الزام دیا گیا ہے کہ انھیں خدا نے جو کچھ حکم دیا تھا انہوں نے اس کے خلاف کیا۔ اگر یہ باتیں باہم متناقض ہیں جیسا کہ بظاہر نظر آتا ہے، تو ایسی کتاب کو ہم کتابِ الٰہی کیسے کہہ سکتے ہیں جس میں اتنی متناقض باتیں ہوں؟ اور اگر ان میں تناقض تسلیم نہیں کیا جاتا تو بتایا جائے کہ ان کے درمیان توفیق و تطبیق کی کیا سبیل ہے؟

امور ماورائے طبیعت کے بیان سے قرآن کا اصل مقصد

اس سوال پر غور کرنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ قرآنِ کریم میں نہ صرف مسئلہ جبر و قدر، بلکہ جملہ امور ماورائے طبیعت کی طرف جو اشارات کیے گئے ہیں ان کا اصل مقصد ان امور کی حقیقت بتانا اور اسرارِ الٰہی پر سے پردہ اٹھانا نہیں ہے۔ اس لیے کہ اول توبسیط حقیقتیں جو اس وسیع کائنات کے ورق ورق پر لکھی ہوئی ہیں اپنی تفصیلات کے ساتھ نہ وہ کسی کتاب میں سما سکتی ہیں، جسے انسان پڑھ سکتا ہو اور نہ کوئی انسانی بولی ان کے بیان کی متحمل ہو سکتی ہے۔ ان کے لیے ازلی و ابدی زندگی درکار ہے، ان کے لیے لامتناہی دفتر چاہییں، ان کو پڑھنے کے لیے ازلی و ابدی زندگی درکار ہے، ان کو بیان کرنے کے لیے غیر ملفوظ عقلی کلام اور ان کو سننے کے لیے بے آواز عقلی سماع کی حاجت ہے۔
قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًاo کہف18:109
اے پیغمبر ان سے کہو اگر سمندر میرے پروردگار کے کلمات کو لکھنے کے لیے روشنائی بن جاتا تو وہ ان کے ختم ہونے سے پہلے ہی خرچ ہو جاتا خواہ ہم ایک اور سمندر اس کی مدد کے لیے لے آتے۔
دوسرے اگر ان کو بیان کیا بھی جاتا، تو جیسا کہ اوپر کہا جا چکا ہے، انسان اپنے ان محدود قوائے ذہنی سے جو اسے عطا کیے گئے ہیں، ان کو سمجھ نہ سکتا۔ انسان کی عقل کا حال یہ ہے کہ اگر ارسطو اور فیثا غورث کے زمانے میں کوئی شخص بیسویں صدی عیسوی کے ٹیلی فون، سینما، ریڈیو اور ہوائی جہاز کی تفصیلات بیان کرتا تو سب سے پہلے وہی لوگ اس پر جنون کا حکم لگاتے ہیں جو آج تک سر آمد عقلا سمجھے جاتے ہیں اور اگر آج بیسویں صدی میں ان چیزوں کی کوئی تشریح کی جائے جو اب سے ہزار برس بعد دنیا میں ظاہر ہونے والی ہیں تو ہمارے بڑے سے بڑے فلسفی اور حکیم بھی اس کو نہ سمجھ سکیں گے۔ یہ ان چیزوں کا حال ہے جن کو جاننے اور سمجھنے کی استعداد انسان میں بالقوت موجود ہے اور فرق صرف قوت و فعل کا ہے۔ مگر جن امور کو جاننے اور سمجھنے کی استعداد ہی سرے سے اس میں نہیں ہے، جو اس کے تصور میں کسی طرح سما ہی نہیں سکتے، ان کو بیان کرنے سے آخر کیا فائدہ مترتب ہو سکتا تھا؟ اسی لیے قرآن کہتا ہے کہ:
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ۝۰ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ۝۰ۚ وَسِعَ كُرْسِـيُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۝۰ۚ البقرہ2:255
جو کچھ لوگوں کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے سب کچھ وہ جانتا ہے مگر لوگ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ بجز ان باتوں کے جن کا علم وہ خود ان کو بخشنا چاہے۔ اس کا اقتدار آسمانوں اور زمین سب پر چھایا ہوا ہے۔
پس اس قسم کے امور کی طرف قرآنِ کریم میں جو اشارات کیے گئے ہیں وہ رازِ حقیقت بتانے کے لیے نہیں بلکہ ان مقاصد کو مدد پہنچانے کے لیے جن کا تعلق انسان کے اخلاقی اور عملی مفاد سے ہے، اگرچہ بعض مقامات پر ان کے ذریعے سے حقیقت شناس نظر اور اعلیٰ روحانی بصیرت رکھنے والوں کو اسرارِ الٰہی کا بھی کچھ تھوڑا سا علم بخش دیا جاتا ہے اور کہیں بیان کا سیاق اور موقع و محل کا اقتضا ایسے اشارات کی طرف بھی داعی ہو گیا ہے۔ جن کو غور و تامل اور فکر صحیح سے ہم تھوڑا بہت سمجھ سکتے ہیں۔

مسئلہ قضا و قدر کے بیان کا منشا

اس سے یہ بات معلوم ہو گئی ہے کہ قضا و قدر کے مسئلے پر جو اشارات کلام اللہ میں آئے ہیں ان کا اصل مقصد یہ ہے ہی نہیں کہ ہم سے وہ چیز بیان کی جائے جس کے سمجھنے کی قابلیت و استعداد ہم میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اصل میں جو کچھ مقصود ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ انسان میں قناعت، یک سوئی، توکل علی اللہ، صبر و استقامت اور دنیوی طاقتوں سے بے خوفی پیدا کی جائے اور اس میں ایسی اخلاقی قوت بھر دی جائے جس کی موجودگی میں مایوسی، پریشانی، خوف، حسد، رشک اور لالچ اس کے پاس پھٹکنے نہ پائیں، اور وہ اس قوت کے ذریعے سے حق و صداقت اور نیکی کے طریق پر قائم رہے، اس کی طرف دوسروں کو دعوت دے، اس کی خاطر سخت سے سخت مشکلات کا مقابلہ کرے، اس کی راہ میں جتنی آزمائشیں پیش آئیں ان میں ثابت قدم رہے، نہ خدا کے سوا کسی سے مضرت پہنچنے کا اندیشہ کرے اور نہ کسی سے ذرّہ برابر فائد۔ کی امید رکھے، نہ بے سروسامانی میں ہمت ہارے، نہ سروسامان پر بے جا اعتماد کرے، نہ زندگی کی ناکامیوں پر شکستہ خاطر ہو اور نہ کامیابیوں سے مخمور ہو کر سرکشی پر اتر آئے۔ مثال کے طور پر آیاتِ ذیل ملاحظہ ہوں، جن سے اصل مقصود پر روشنی پڑتی ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَہُمْ كَحُبِّ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۝۰ۭ وَلَوْ يَرَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ۝۰ۙ اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلہِ جَمِيْعًا۝۰ۙ البقرہ2:165
لوگوں میں سے بعض ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر بناتے ہیں اور ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی خدا سے ہونی چاہیے حالانکہ جو لوگ ایمان لانے والے ہیں۔ وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت رکھتے ہیں۔ کاش ظالموں کو وہ بات سوجھ جاتی جسے یہ عذاب سامنے دیکھ کر محسوس کریں گے کہ تمام قوت کا مالک صرف اللہ ہے۔
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللہِ۝۰ۚ وَاللہُ ہُوَالْغَنِيُّ الْحَمِيْدُo فاطر35:15
لوگو! تم سب اللہ کے محتاج ہو اور دراصل بے نیاز اور ستودہ صفات تو اللہ ہی ہے۔
وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْہِ تَبْتِيْلًاo رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَفَاتَّخِذْہُ وَكِيْلًاo المزمل73:9-8
اپنے پروردگار کا نام لے اور سب سے ٹوٹ کر اسی کا ہو جا۔ وہ مشرق اور مغرب سب کا مالک و مربی ہے، اس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پس تُو اسی کو اپنا کارساز بنا لے۔
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍo البقرہ2:107
کیا تُو نہیں جانتا کہ آسمانوں اور زمین کی حکومت کا مالک خدا ہی ہے اور اس کے سوا تم لوگوں کا کوئی حامی و مددگار نہیں ہے۔
اِنْ يَّنْصُرْكُمُ اللہُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ۝۰ۚ وَاِنْ يَّخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِيْ يَنْصُرُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِہٖ۝۰ۭ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَo اٰلِ عمران3:160
اگر اللہ تمھاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمھاری مدد کر سکتا ہو؟ جو ایمان لانے والے ہیں ان کو تو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۝۰ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ۝۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo اٰلِ عمران3:26
کہو کہ خدایا، ملک کے مالک! تُو جس کو چاہتا ہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھینتا ہے، جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے۔ بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے تُو یقیناً ہر چیز پر قادر ہے۔
قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللہِ۝۰ۚ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌo يَّخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ اٰلِ عمران3:74-73
کہو کہ فضیلت اللہ کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور وہ بہت کشادہ دست و صاحب علم ہے، اپنی رحمت کے لیے جس کو چاہے مخصوص کرے۔
لَہٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَقْدِرُ۝۰ۭ اِنَّہٗ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌo الشوریٰ42:12
آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں، جسے چاہتا ہے کشادگی کے ساتھ رزق عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ایک اندازے سے نپا تلا دیتا ہے۔ وہ ہر چیز کے حال سے خوب واقف ہے۔
وَاللہُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ۝۰ۚ النحل16:71
اور اللہ ہی ہے جس نے تم کو رزق میں ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے۔
وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ھُوَ۝۰ۚ وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَاۗدَّ لِفَضْلِہٖ۝۰ۭ يُصِيْبُ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ۝۰ۭ وَھُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُo یونس10:107
اگر اللہ تجھ کو نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اس نقصان کو دور کرنے والا نہیں، اور اگر وہ تجھے فائدہ پہنچائے تو کوئی اس کے فضل کو پھیر دینے والا نہیں، اپنے بندوں میں سے وہ جس کو چاہتا ہے فائدہ پہنچاتا ہے وہی بخشنے والا مہربان ہے۔
وَمَا ھُمْ بِضَاۗرِّيْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ البقرہ2:102
وہ اپنے جادو سے کسی کو خدا کے اذن کے بغیر نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَآ اِلَّا مَا كَتَبَ اللہُ لَنَا۝۰ۚ ہُوَمَوْلٰىنَا۝۰ۚ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَo
التوبہ9: 51
کہو کہ ہم پر ہرگز کوئی مصیبت نہیں آ سکتی بجز اس کے جو اللہ نے ہمارے نصیب میں لکھ دی ہے۔ وہی ہمارا مولیٰ ہے اور ایمان والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُـوْتَ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ كِتٰبًا مُّؤَجَّلًا۝۰ۭ اٰلِ عمران3:145
کوئی شخص اللہ کے اذن کے بغیر نہیں مر سکتا۔ موت کا وقت مقرر ہے اور پہلے سے لکھا ہوا ہے۔
يَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا ھٰہُنَا۝۰ۭ قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِيْ بُيُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِيْنَ كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِھِمْ۝۰ۚ اٰل عمران3:154
وہ کہتے ہیں کہ اگر تدبیر میں ہمارا بھی دخل ہوتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے ان سے کہو اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے تب بھی جن لوگوں کے نصیب میں مارا جانا لکھ دیا گیا تھا وہ خود اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے۔
پس تقدیر پر عقیدہ رکھنے کی جو تعلیم قرآن میں دی گئی ہے اس کا اصل مقصود یہ ہے کہ انسان دنیا کی کسی طاقت کو نفع و نقصان کا مالک نہ سمجھے بلکہ صرف خدا ہی کو فاعل و مؤثر اور نافع و ضار سمجھے اور اپنے سب معاملات میں اسی پر بھروسہ کرے، مخلوقات کے سامنے ذلت نہ اختیار کرے اور اگر راحت میسر ہو تو اس پر پھولے نہیں، غرور و نخوت کو اپنے نفس میں جگہ نہ دے اور خدا کی زمین پر سرکشی و تکبر نہ اختیار کرے۔ یہی بات ہے جو سورہ حدید (رکوع 3) میں بیان کی گئی ہے:
مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَۃٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرٌo لِّكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰي مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰىكُمْ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُـــوْرِۨo الحدید57:22-23
جو مصیبت بھی زمین میں آتی ہے، یا خود تم پر نازل ہوتی ہے وہ پیش آنے سے پہلے ہی ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے اور یہ اللہ کے لیے سہل سی بات ہے۔ تم کو بات اس لیے بتائی گئی کہ جو کچھ نقصان تم کو پہنچے اس پر شکستہ نہ ہو اور جو کچھ خدا تم کو عطا کرے اس پر اترا نہ جائو۔ اللہ کسی اکڑنے والے خود پسند کو دوست نہیں رکھتا۔

عقیدۂ تقدیر کا فائدہ عملی زندگی میں!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی زندگی کے تمام معاملات میں یہی روح پھونکنے کی کوشش فرمایا کرتے تھے کیونکہ اس سے اخلاق پر خاص اثر پڑتا ہے۔ اگر لوگوں کے دلوں میں یہ چیز بیٹھ جائے تو بڑے بڑے تمدنی و سیاسی مسائل آپ سے آپ حل ہو جاتے ہیں، بلکہ پیدا ہی نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر دو حدیثیں ملاحظہ ہوں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَا یَحِلُّ لِأمْرَاۃٍ تَسْأَلَ طَلَاقُ اُخْتِھَا لِتَسْتَضْرِغُ صَحْفَتَھَا فَاِنَّمَا لَھَا مَا قُدِّرَلَھَا۔ (بخاری کتاب النکاح باب الشروط التی لاتحل فی النکاح۔ اِسی کے قریب قریب بیہقی اور ابو نعیم اصبہانی نے دوسرے طریقوں سے نقل کیا ہے۔ علامہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں کہ اہل علم کے نزدیک یہ حدیث ان تمام احادیث میں سب سے بہتر ہے جو تقدیر کے مسئلے میں منقول ہیں۔ اس کا منشا یہ ہے کہ اگر شوہر عورت کی بات مان بھی لے اور اس بیوی کو طلاق بھی دے دے جس کے متعلق وہ عورت یہ گمان کرتی ہے کہ وہ اس کے رزق میں شریک ہو جائے گی تب بھی اس تدبیر سے اُس کو کچھ حاصل نہ ہو گا۔ اس کو صرف اتنا ہی حصہ ملے گا جتنا خدا نے اس کے لیے لکھ دیا ہے۔ خواہ شوہر اس کی شرط قبول کرے یا نہ کرے۔)
کسی عورت کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی دوسری بہن (یعنی سوکن) کو طلاق دینے کا مطالبہ اس خیال سے کرے کہ اس کے تمتعات اور حظوظ میں کوئی دوسرا شریک نہ رہے اور رزق کا پیالا تنہا اس کے لیے خالی ہو جائے۔ اس لیے کہ بہرصورت اس کو وہی ملے گا جو اس کے لیے مقدر کر دیا گیا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک غزوے میں بہت سی لونڈیاں ہمارے ہاتھ آئیں اور ہم نے ان سے تمتع کیا، مگر اس خیال سے کہ اولاد نہ ہو۔ عزل(العزل النزع بعد ایلاج لینزل خارج الفرج
) کرنے لگے۔ پھر ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا: آپ ؐ نے سنتے ہی فرمایا:
اَوَ اِنَّکُمْ لَتَفْعَلُوْنَ؟ بخاری کتاب النکاح باب العزل
کیا واقعی تم ایسا کرتے ہو؟
یہی سوال آپؐ نے تین مرتبہ دہرایا، پھر فرمایا:
ما منْ نسمۃ کائنۃ الی یوم القیمۃ الّا ھی کائنۃ
قیامت کے دن تک جو بچے پیدا ہونے ہیں وہ تو ہو کر ہی رہیں گے۔
ان دونوں حدیثوں میں جن اصولوں کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے اگر ان کو وسعت کے ساتھ ہم اپنی زندگی کے معاملات میں استعمال کریں تو وہ معاشی کشمکش اور مزاحمت جس نے دنیا سے سکون و اطمینان چھین لیا ہے کس قدر جلد ختم ہو جائے نہ کوئی کسی کو اپنے رزق کا چھیننے والا سمجھے اور نہ اپنے رزق کی حفاظت کے لیے کسی کی مزاحمت کرے، نہ سرمایہ دار اور مزدور کا سوال پیدا ہو اور نہ کسان اور زمیندار کا، نہ کروگر اور بیسل زہاروف پیدا ہوں نہ لینن اور اسٹالن، نہ معاشی اور تمدنی مشکلات کو حل کرنے کے لیے اسقاط حمل اور منع حمل کی طرف رجوع کیا جائے اور نہ اللہ کے انتظام میں اصلاح کی کوشش کی جائے۔
یہ اور ایسے ہی بے شمار اخلاقی اور عملی فوائد ہیں جو قضا و قدر کی اسلامی تعلیم سے حاصل ہوتے ہیں اور انھی فوائد کا حصول اصلی مقصود بھی تھا۔ مگر ہماری بدقسمتی کہ ہم نے اس کے عملی اور اخلاقی پہلو کو نظر انداز کر کے اپنی ساری توجہات فلسفیانہ پہلو کی طرف پھیر دیں اور اپنے مذاقِ طبیعت کے مطابق کلام اللہ اور کلامِ رسولؐ سے ان مسائل فلسفہ کو حل کرنے لگے جو کلام الناس سے ہم نے اخذ کیے تھے حالانکہ نہ قرآنِ مجید ہم کو مابعد الطبیعیات کی تعلیم دینے کے لیے اتارا گیا تھا، نہ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ آپ فلسفے کے پروفیسر کا کام سرانجام دیں اور نہ خدا اور رسول نے کبھی اس کو پسند کیا کہ ہم اپنی زندگی کے عملی معاملات کو چھوڑ کر ان مابعد الطبیعی مسائل میںالجھ جائیں جن سے دین و دنیا کا کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔

تناقض کی تحقیق

یہ مقدمہ ذہن نشین کر لینے کے بعد اب اس سوال کی طرف آیئے کہ قرآنِ مجید خاص تقدیر کے مسئلے پر بحث کیے بغیر جو مختلف اشارات ضمناً دوسرے مباحث کے سلسلے میں اس کی جانب کرتا ہے آیا ان میں حقیقتاً کوئی تناقض ہے بھی یا نہیں؟
اگر کسی شے کو مختلف علتوں کی جانب منسوب کیا جائے تو اس پر تناقض کا حکم صرف اس صورت میں لگایا جا سکتا ہے جب کہ اس کی صرف ایک ہی علّت ہو، لیکن اس کی متعدد علتیںہوں تو ایسی صورت میں اس کو کبھی ایک علت کی جانب اور کبھی دوسری علت کی جانب نسبت دینے میں کوئی تناقض نہ ہو گا۔ مثلاً اگر ہم کبھی یہ کہیں کہ کاغذ کو پانی نے ترکیا اور کبھی یہ کہ اسے آگ نے ترکیا اور کبھی یہ کہ اسے مٹی نے ترکیا تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ تم نے متناقص باتیں کہی ہیں کیونکہ کاغذ کی تری ایک ہی علت کی طرف منسوب ہو سکتی ہے لیکن اگر ہم کبھی یہ کہیں کہ ملک کو بادشاہ نے فتح کیا اور کبھی یہ کہ ملک کو سپہ سالار نے فتح کیا، اور کبھی یہ کہ اسے فوج نے فتح کیا اور کبھی یہ کہ اسے سلطنت نے فتح کیا اور کبھی اس فتح کو فرداً فرداً فوج کے ہر سپاہی کی طرف منسوب کریں، تو ان مختلف اقوال پر تناقض کا حکم نہیں لگایا جا سکتا اس لیے کہ فتح کا یہ واقعہ مجموعی طور پر اُن سب کی طرف بھی منسوب ہو سکتا ہے اور ایک ایک وجہ سے ان علتوں میں سے ہر علت کی طرف بھی۔
پھر اگر شے میں متعدد علتوں کی تاثیرات اس طرح غلط ملط ہوں کہ مخاطب کی عقل کسی طور سے اس کے اندر ہر علت کی تاثیر کو جدا جدا کر کے ہر ایک کا حصہ الگ الگ متعین نہ کر سکتی ہو، اور نہ ایسے کسی تجزیہ و تحلیل اور اس طرح کے کسی حساب کو سمجھ سکتی ہو، تو اس صورت میں متکلم کے لیے صحیح انداز بیان یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اجمال کے طور پر اس کو ایک ایک علت کی طرف منسوب کرے اور مخاطب اگر کسی غلط فہمی کی بنا پر اس شے کو صرف ایک ہی علت کی جانب نسبت دے رہا ہو تو اس کی تردید کر دے۔ مثال کے طور پر اسی فتح کے واقعہ کو لیجیے۔ اس میں بادشاہ، سپہ سالار، فوج، سلطنت اور فرداً فرداً ہر سپاہی کی قوتیں شریک ہیں، مگر وہ اس طرح باہم ملی جلی ہیں کہ ہم کسی تجزیہ و تحلیل اور کسی حساب سے یہ معلوم نہیں کر سکتے کہ اس واقعہ کے اندر ہر ایک کا حصہ کس قدر ہے۔ اس لیے زیادہ صحیح یہ ہو گا کہ اس واقعہ کو ان میں سے ہر ایک کی طرف برسبیل اجمال نسبت دی جائے اور اگر کوئی شخص ان میں سے محض کسی ایک کی طرف اس کو حصر و تعیین کے طور پر منسوب کر رہا ہو تو کہہ دیا جائے کہ اس کا قول غلط ہے۔
یہی حال انسان کے افعال کا ہے۔ ہر فعل جو انسان سے سرزد ہوتا ہے اس میں متعدد اسباب شامل ہوتے ہیں اور اس کے ظہور و صدور میں ہر سب کا کچھ نہ کچھ حصہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر میں اس وقت کچھ لکھ رہا ہوں۔ میرے اس فعل کتابت کا تجزیہ کیجیے تو اس میں اسباب کا ایک پورا سلسلہ آپ کو نظر آئے گا۔ مثلاً لکھنے کے لیے میرا اختیار و ارادہ میرے اندر جو بے شمار ذہنی اور جسمانی قوتیں موجود ہیں ان سب کا اس ارادے کے تحت کام کرنا اور خارجی قوتوں کا جو بے حد و حساب ہیں اور جن سے بہت سی قوتیں میرے علم میں بھی نہیں ہیں۔ میری مساعدت کرنا۔
پھر ان اسباب کی الگ الگ تحلیل کیجیے۔ یہ بے شمار خارجی قوتیں جو اس وقت اس فعل میں میری مساعدت کر رہی ہیں ان میں سے کسی کو بھی نہ میں نے بنایا ہے، نہ فراہم کیا ہے، نہ میں ان پر اتنی قدرت رکھتا ہوں کہ انھیں اپنی مساعدت پر مجبور کر سکوں، وہ خدا ہی ہے جس نے ان کو اس طور پر بنایا اور اس طرح فراہم کر دیا ہے کہ جب میں لکھنے کا ارادہ کرتا ہوں تو یہ ساری قوتیں میری مساعدت کرنے لگتی ہیں اور اگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ میری مساعدت نہ کریں تو میں لکھ نہیں سکتا۔
اسی طرح جب میں خود اپنے اوپر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ میرا موجود اور زندہ ہونا، میرا حسن تقویم پر ہونا، میرے جسم کے ان اعضا کا جو کتابت کے فعل میں حصہ لیتے ہیں صحیح و سلامت ہونا، میرے اندر اُن طبیعی قوتوں کا موجود ہونا جن سے میں اس فعل میں کام کر لیتا ہوں اور میرے دماغ میں حافظہ، تفکر علم اور دوسری بہت سی چیزوںکا پایا جانا، ان میں سے کوئی شے بھی نہ میری کاری گری کا نتیجہ ہے، نہ میرے اختیار میں ہے ان سب کو بھی اسی خدا نے اس طور پر بنایا ہے کہ جب میں لکھنے کا ارادہ کرتاہوں تو یہ سب چیزیں میرا ساتھ دیتی ہیں اور اگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی شے میرا ساتھ نہ دے تو میں کتابت میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
رہا میرا اختیار و ارادہ تو اس کی حقیقت بھی میں نہیں جانتا۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ پہلے کچھ خارجی اسباب اور کچھ باطنی اسباب سے میرے اندر لکھنے کی خواہش پیداہوتی ہے۔ پھر میں غور کرتا ہوں کہ لکھوں یا نہ لکھوں۔ پھر دونوں پہلوئوں کے درمیان موازنہ کرنے کے بعد میں لکھنے کے پہلو کو اختیار کرتا ہوں اور جب میرا میلان فعل کی جانب قوی ہوتا ہے تو میں فعل کا ارادہ کر کے اپنے اعضا کو اس کے لیے حرکت دیتا ہوں۔ اس خواہش سے لے کر اقدامِ فعل تک جتنی چیزیں ہیں ان میں سے کسی چیز کا بھی میں خالق نہیں ہوں، بلکہ مجھے اب تک یہ بھی پوری طرح معلوم نہیں ہو سکا کہ خواہش اور اقدام فعل کے درمیان کتنی باطنی قوتیں کام کرتی ہیں اور اس کام میں ان کا کتنا حصہ ہے۔ مگر یہ بات وجدانی طور پر اپنے اندر پاتا ہوں کہ خواہش اور اقدام فعل کے درمیان کوئی مقام ایسا ضرور ہے جہاں میں فعل اور ترک فعل میں سے کسی ایک چیز کو آزادانہ اختیار کرتا ہوں اور جب میں آزادی کے ساتھ کسی ایک پہلو کو اختیار کر لیتا ہوں تو مجھے یہ قدرت اپنے اندر محسوس ہوتی ہے کہ جس پہلو کو میں نے اختیار کیا ہے اس کے لحاظ سے اپنے وسائل داخلی اور اسباب خارجی کو استعمال کروں۔ میں اپنے اس اختیار اور آزادیِ ارادہ کو کسی دلیل سے ثابت نہیں کر سکتا۔ مگر کوئی دلیل میرے اور کسی انسان کے ذہن میں اس وجدانی احساس کو دور نہیں کر سکتی حتیٰ کہ جو شخص انتہا درجے کا جبریہ ہے اس کا وجدان بھی اس احساس سے خالی نہیں ہے، خواہ وہ اپنے فلسفیانہ مسلک کی خاطر کتنی ہی شدت کے ساتھ اس کا انکار کرتا ہو۔
اس تقریر سے معلوم ہوا کہ فعل کتابت کے صدور میں جتنے اسباب و علل کام کرتے ہیں ان کو تین جدا جدا سلسلوں پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
-1 وہ خارجی اور داخلی اسباب جن کا فراہم ہونا کتابت کا ارادہ کرنے سے پہلے ضروری ہے۔
-2میرا کتابت کو اختیار کر کے اس کا ارادہ کرنا۔
-3وہ خارجی اور داخلی اسباب جن کی مساعدت کے بغیر لکھنے کے فعل کا صادر ہونا ممکن نہیں ہے۔
ان تینوں سلسلوں میں سے پہلے اور تیسرے سلسلے میں جتنے اسباب ہیں ان کے متعلق تو اوپر کہا جا چکا ہے کہ ان کو خدا نے فراہم کیا اور سازگار بنایا ہے اور ان میں سے کسی پر بھی میری حکومت نہیں ہے۔ اس لیے ان کے اعتبار سے میرا فعل کتابت خدا ہی کی طرف منسوب ہو گا جس کی ’’توفیق‘‘ اس کام میں میرے شامل حال ہوئی ہے۔ رہی بیچ کی کڑی تو وہ ایک لحاظ سے میری طرف منسوب ہو گی کیونکہ وہاں میں نے ایک طرح کا آزادانہ اختیار و ارادہ استعمال کیا ہے اور ایک پہلو سے وہ خدا کی طرف منسوب ہو گی جس نے اپنی مقرر کردہ حدود کے اندر مجھ میں یہ قوت پیدا کی کہ ارادہ کروں اور آزادی کے ساتھ اپنا اختیار استعمال کروں۔
یہ تو تھا مجردفعل کا حال جو اپنی حقیقت میں بجز ایک حرکت کے اور کچھ نہیںہے، لیکن انسانی افعال بعض اضافی اور اعتباری حیثیتوں سے اپنے اندر دو پہلو رکھتے ہیں۔ ایک خیر کا پہلو اور دوسرا شر کا پہلو۔ مجرد فعل پر نہ خیر کا حکم لگایا جا سکتا ہے اور نہ شر کا۔ البتہ انسان کی نیت اس کو شر بھی بنا سکتی ہے اور خیر بھی (اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ)مثال کے طور پر میں راستے میں ایک اشرفی پڑی ہوئی دیکھتا ہوں ور اسے اٹھا لیتا ہوں۔ میرا اس کو اٹھا لینا محض ایک حرکت ہے، جو نیک و بد دونوں حیثیتوں سے خالی ہے، لیکن اگر اس اٹھا لینے کے فعل میں میری نیت یہ ہے کہ میں دوسرے کے مال سے بلا کسی حق کے خود فائدہ اٹھائوں تو یہ شر ہے اوراگر میری نیت یہ ہے کہ اس کے مالک کو تلاش کر کے اسے واپس دے دوں تو یہ خیر ہے۔ صورت اوّل میں میری نیت کے ساتھ ایک اور قوت کی تحریک بھی شامل ہو گی جس کو شیطان کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور میرا یہ فعل تین علتوں کی طرف منسوب ہو گا۔ ایک خدا، دوسرا شیطان، تیسرا خود میں۔ صورت دوم میں اس فعل کی نسبت دو علتوں کی جانب ہو گی۔ ایک خدا دوسرا میں۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہم ہر انسانی فعل کو دو یا تین علتوں کی طرف منسوب کر سکتے ہیں مگر یہ کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آ سکتا کہ فعل میں ان علتوں کی تاثیر کس کس مقدار میں ہے۔ خصوصاً یہ حساب اس حیثیت سے اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے کہ ان تاثیرات کا تناسب تمام انسانوں کے افعال میں یکساں نہیں ہے بلکہ ہر انسان کے فعل میں جداگانہ ہے، اس لیے کہ ہر انسان کے اندر اس کے آزادانہ اختیار اور اس کی مجبوریوں کی مقداریں مختلف ہوتی ہیں۔ کوئی مبداء فیاض سے زیادہ زبردست قوت تمیز، زیادہ صحیح قوتِ فیصلہ، ملکوتیت کی جانب زیادہ قوی میلان اور شیطانی وساوس کا مقابلہ کرنے کی زیادہ طاقت لے کر آیا ہے اور کوئی کم اور اسی کمی و زیادتی پر جس کا تناسب ہر شخص کے اندر مختلف ہے افعال میں انسان کی شخصی ذمہ داری کے کم یا زیادہ ہونے کا انحصار ہے۔ ایسی حالت میں یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے کہ افعال میں انسان، خدا اور شیطان کی تاثیرات کا کوئی ایسا تناسب بتایا جا سکے جو عمومیت کے ساتھ تمام انسانی افعال میں پایا جاتا ہو۔
پس جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے، انسانی افعال کو ان کی علتوں کی طرف نسبت دینے کی صحیح صورت بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ اجمالی طور پر ان کو یا تو بیک وقت تمام علتوں کی طرف منسوب کیا جائے یا کبھی ایک علت کی جانب اور کبھی دوسری کی جانب اور اگر کوئی شخص غلط فہمی سے ان کو صرف ایک علت کی طرف نسبت دے کر دوسری علتوں کی نفی کرتا ہو تو اس کی تردید کر دی جائے۔
ٹھیک یہی طریقہ ہے جو قرآنِ مجید میں اختیار کیا گیا ہے۔ اگر آپ ان اشارات کا تتبع کریں جو قرآنِ مجید میں مسئلہ جبر و قدر کی طرف کیے گئے ہیں تو کو حسب ذیل عنوانات کے تحت مرتب کر سکتے ہیں۔

(1) تمام امور کی نسبت خدا کی طرف:
وَاِنْ تُصِبْھُمْ حَسَـنَۃٌ يَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِ اللہِ۝۰ۚ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَيِّئَۃٌ يَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِكَ۝۰ۭ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللہِ۝۰ۭ فَمَالِ ہٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَہُوْنَ حَدِيْثًاo
النساء4: 78
اگر انھیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے۔ کہو سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔ پھر ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات نہیں سمجھتے۔
وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo الانعام6:17
اور اگر اللہ تجھے کوئی نقصان پہنچائے تو اسے دور کرنے والا اس کے سوا کوئی نہیں اور اگر تجھے نفع پہنچائے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
فَيُضِلُّ اللہُ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُo ابراہیم14:4
پس اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ سب پر غالب اور دانا ہے۔
وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْـثٰى وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِہٖ۝۰ۭ وَمَا يُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّلَا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِہٖٓ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ۝۰ۭ فاطر35:11
نہیں حاملہ ہوتی کوئی مادہ اور نہ بچہ جنتی ہے مگر وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے اور نہیں دراز ہوتی کسی کی عمر اور نہ کم ہوتی ہے مگر وہ ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔
لَہٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَقْدِرُ۝۰ۭ اِنَّہٗ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌo الشوریٰ42:12
آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اس کے قبضے میں ہیں، جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے نپا تلا کر دیتا ہے اور وہ ہر چیز سے واقف ہے۔
وَلَوْ بَسَطَ اللہُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہٖ لَبَغَوْا فِي الْاَرْضِ وَلٰكِنْ يُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاۗءُ۝۰ۭ اِنَّہٗ بِعِبَادِہٖ خَبِيْرٌۢ بَصِيْرٌo الشوریٰ42:27
اگر اللہ اپنے بندوں کے لیے رزق کشادہ کر دیتا وہ زمین میں سرکش ہو جاتے مگر وہ ایک اندازے سے نازل کرتا ہے۔جو وہ چاہتا ہے وہ اپنے بندوں کے حال سے واقف ہے اور سب کچھ دیکھتا ہے۔
(2) فعل کی نسبت بندے کی طرف:
اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰىo وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىo النجم53:38-39
یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دو سرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر جس کی وہ سعی کرے۔
لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۝۰ۭ لَہَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْہَا مَااكْتَسَبَتْ۝۰ۭ البقرہ2:286
اللہ کسی نفس کو مکلف نہیں کرتا مگر اس کی قدرت کے لحاظ سے جو کچھ اس نے کمایا اس کا فائدہ اسی کے لیے ہے اور جو گناہ اس نے سمیٹا اس کا وبال بھی اسی پر ہے۔
اِنَّ ہٰذِہٖ تَذْكِرَۃٌ۝۰ۚ فَمَنْ شَاۗءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّہٖ سَبِيْلًاo المزمل73:19
یہ تو ایک یاددہانی ہے، پھر جس کا جی چاہے اپنے رب کا راستہ لے لے۔
(3) فعل خیر کی نسبت بندے کی طرف:
وَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَيُوَفِّيْہِمْ اُجُوْرَھُمْ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِـمِيْنَo
اٰلِ عمران3: 57
رہے وہ لوگ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں تو اللہ ان کے پورے اجر انھیں دے گا اور وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔
اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَيْبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ۝۰ۭ وَمَنْ تَزَكّٰى فَاِنَّمَا يَتَزَكّٰى لِنَفْسِہٖ۝۰ۭ وَاِلَى اللہِ الْمَصِيْرُo فاطر35:102
تم بہرحال انھی لوگوں کو متنبہ کر سکتے ہو جو اپنے خدا سے بے دیکھے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔ جو شخص پاکیزگی اختیار کرتا ہے اپنے ہی لیے کرتا ہے اور سب کو خدا کی طرف پلٹنا ہے۔
وَالَّذِيْ جَاۗءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖٓ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُتَّـقُوْنَo الزمر39:33
اور جو شخص سچائی لایااور جس نے سچائی کو مانا ایسے ہی لوگ پرہیزگار ہیں۔
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَـقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ہُمْ يَحْزَنُوْنَo
احقاف46: 13
جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے، ایسے لوگوں کے لیے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں۔
(4) فعل شر کی نسبت خدا کی طرف:
اَتُرِيْدُوْنَ اَنْ تَہْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللہُ۝۰ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ سَبِيْلًاo النساء4:88
کیا تم چاہتے ہو کہ جسے اللہ نے گمراہ کر دیا ہے اسے تم راستہ دکھائو حالانکہ جسے اللہ نے گمراہ کر دیا، اس کے لیے تم ہرگز راستہ نہیں پا سکتے۔
وَمَنْ يُّرِدِ اللہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَہٗ مِنَ اللہِ شَـيْـــــًٔـا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَمْ يُرِدِ اللہُ اَنْ يُّطَہِّرَ قُلُوْبَہُمْ۝۰ۭ المائدہ5:41
جسے اللہ نے فتنے میں ڈالنے کا ارادہ کر لیا ہو اُسے تم اللہ سے کچھ بھی نہیں بچا سکتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ ہی نے پاک کرنا نہ چاہا۔
وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّہٗ يَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَيِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاۗءِ۝۰ۭ كَذٰلِكَ يَجْعَلُ اللہُ الرِّجْسَ عَلَي الَّذِيْنَ لَايُؤْمِنُوْنَo الانعام6:125
اور جسے اللہ گمراہ کرنے کا ارادہ کر لے اس کے سینے کو ایسا تنگ کرتا ہے گویا وہ آسمان میں چڑھا جا رہا ہے۔ اس طرح اللہ ناپاکی کو ان لوگوں پر ڈالتا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔
وَّجَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِہِمْ اَكِنَّۃً اَنْ يَّفْقَہُوْہُ وَفِيْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا۝۰ۭ وَاِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْاٰنِ وَحْدَہٗ وَلَّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِہِمْ نُفُوْرًاo بنی اسرائیل17:46
اور ہم نے اُن کے دلوں پر غلاف چڑھا دیے ہیں جن کی وجہ سے وہ اس کلام کو نہیں سمجھتے اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کر دی ہے اور اُن کا حال یہ ہے کہ جب تم قرآن میں اکیلے اللہ کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت سے منہ پھیر لیتے ہیں۔
(5) فعل شر کی نسبت شیطان کی طرف:
اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاۗءِ۝۰ۚ البقرہ2:268
شیطان تمھیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور تم کو شرمناک افعال کا حکم دیتا ہے۔
وَزَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِيْلِ فَہُمْ لَا يَہْتَدُوْنَo النمل27:24
اور شیطان نے ان کے برے اعمال کو ان کے لیے خوشنما بنا دیا، اور راہِ راست سے روک دیا۔ اس وجہ سے وہ راستہ نہیں پاتے۔
(6) فعل شر کی نسبت بندوں کی طرف:
وَمَآ اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ۝۰ۭ النساء4:79
اور ہر برائی جو تمھیں پیش آتی ہے وہ تمھاری اپنی وجہ سے ہوتی ہے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَوَاۗءٌ عَلَيْہِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَo البقرہ2:6
حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا ہے اب ان کے لیے یکساں ہے خواہ تم انھیں ڈرائو یا نہ ڈرائو وہ ماننے والے نہیں۔
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ o البقرہ2:39
اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری نشانیوں کو جھٹلایا وہ اہل دوزخ ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَيْنٰہُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَي الْہُدٰى فَاَخَذَتْہُمْ صٰعِقَۃُ الْعَذَابِ الْہُوْنِ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَo حٰم السجدہ41:17
رہے ثمود تو ہم نے انھیں راستہ دکھایا مگر انھوں نے اندھے بن کر چلنے کو سیدھی راہ اختیار کرنے پر ترجیح دی۔ پس ایک زبردست کڑکے نے انھیں آ لیا جس میں ذلت کی سزا تھی اور یہ ان کی بری کمائی کا نتیجہ تھا۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ۝۰ۭ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo التحریم66:7
اے وہ لوگو! جنھوں نے کفر کیا تھا! آج معذرت نہ پیش کرو تم کو وہی بدلہ تو دیا جائے گا جیسے تم عمل کرتے تھے۔
كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْيَتِيْمَo وَلَا تَحٰۗضُّوْنَ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِo وَتَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ اَكْلًا لَّمًّاoۙ وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّاo الفجر89:17 تا20
ہرگز نہیں! تم یتیم کو عزت نہیں دیتے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں ابھارتے اور مردوں کی میراث حق ناحق کھاتے ہو اور مال کی محبت میں سخت حریص ہو۔
وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا يَّرَہٗo الزلزال99:8
اور جس نے ذرّہ برابر برائی کی وہ اسے دیکھ لے گا۔
(7) خیر کی ابتدا انسان کی جانب سے اور تکمیل خدا کی جانب سے:
قُلْ اِنَّ اللہَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ اَنَابَo الرعد13:27
کہو اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور اپنی طرف آنے کا راستہ بتاتا ہے صرف اس شخص کو جو اس کی طرف رجوع کرے۔
(8) شر کی ابتدا انسان کی جانب سے اور تکمیل خدا کی جانب سے:
وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْہُدٰى وَيَتَّبِـعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰى النساء4:115
اور جو کوئی ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور اہل ایمان کی راہ کے بجائے دوسری راہ چلے تو اسے ہم اسی راستے پر موڑ دیتے ہیں جس پر وہ خود مڑ گیا۔
(9) پھر جہاں انسان نے اپنے گناہ کی ذمہ داری خدا پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جانا چاہا وہاں اس کی تردید کر دی گئی:
وَقَالُوْا لَوْ شَاۗءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰہُمْ۝۰ۭ مَا لَہُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ۝۰ۤ اِنْ ہُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَo
الزخرف43: 20
اور انھوں نے کہا کہ اگر رحمن چاہتا تو ہم ان فرشتوں کی پرستش نہ کرتے، لیکن ان کو اس معاملے (مشیت الٰہی) کا کوئی علم نہیں ہے وہ محض اٹکل سے یہ باتیں کہتے ہیں۔
وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَيْہَآ اٰبَاۗءَنَا وَاللہُ اَمَرَنَا بِہَا۝۰ۭ قُلْ اِنَّ اللہَ لَا يَاْمُرُ بِالْفَحْشَاۗءِ۝۰ۭ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo الاعراف7:28
اور جب کبھی انھوں نے کوئی فحش کام کیا تو کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا ہے اور اللہ نے ہم کو اس کا حکم دیا ہے۔ اے پیغمبر! ان سے کہہ دو کہ اللہ بری باتوں کا حکم نہیں دیتا کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہو جن کا تم کو علم نہیں ہے۔
(10) اور جہاں انسان نے اپنی ہی تدبیر کو سب کچھ سمجھا اور تقدیر الٰہی کا انکار کیا وہاں اس کی بھی تردید کر دی گئی:
يَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا ھٰہُنَا۝۰ۭ قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِيْ بُيُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِيْنَ كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِھِمْ۝۰ۚ اٰلِ عمران3:154
وہ کہتے ہیں اگر معاملات کے طے کرنے میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہوتا تو ہمارے آدمی وہاں (میدانِ جنگ میں) نہ مارے جاتے۔ اے پیغمبر ان سے کہو کہ اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن کے لیے مارا جانا لکھ دیا گیا تھا وہ اپنے مرنے کی جگہ پر خود جا پہنچتے۔
٭…٭…٭…٭…٭

حقیقت کی پردہ کشائی

پچھلی بحث سے یہ بات تو صاف ہو گئی کہ قرآنِ مجید میں مسئلہ جبر و قدر کے متعلق جو اشارات مختلف مواقع پر کیے گئے ہیں ان میں درحقیقت کوئی تناقض و تعارض نہیں ہے، لیکن ایک سوال پھر بھی باقی رہ گیا اور وہ یہ ہے کہ مخلوقاتِ عالم میں انسان کی وہ کون سی امتیازی حیثیت ہے جس کے لحاظ سے ایک طرف تو وہ تمام موجودات کی طرح خدا کا محکوم ہے، قوانین خداوندی میں جکڑا ہوا ہے، مجبور ہے اور دوسری طرف اپنے افعال میں خود مختار بھی ہے، اپنے اعمال کا ذمہ دار بھی ہے، اپنی حرکات و سکنات کے لیے جواب دہ بھی ہے اور جزا و سزا کا مستحق بھی ہے؟ نیز جب انسان کا حال یہ ہے اور اس کی زندگی میں جبر و اختیار اس طرح ملے جلے ہیں، تو عدل کیوں کر ممکن ہے؟ اس لیے کہ صحیح انصاف کے ساتھ جزا و سزا کا فیصلہ کرنا بغیر اس تحقیق کے ممکن نہیں ہے کہ انسان کے افعال کی ذمہ داری خود اس پر کس حد تک ہے اور ذمہ داری کی تشخیص بغیر یہ معلوم کیے نہیں ہو سکتی کہ اس کے افعال میں اس کے آزادانہ اختیار کا کتنا حصہ ہے۔ اس مسئلے کی تحقیق کے لیے جب ہم قرآنِ مجید پر نظر ڈالتے ہیں تو اس سے ہم کو ایک ایسا تشفی بخش جواب ملتا ہے جو دنیا کی کسی دوسری کتاب اور دنیا کے کسی انسانی علم و فن سے نہیں ملتا۔

مخلوقات میں انسان کی امتیازی حیثیت

قرآن ہمیں خبر دیتا ہے کہ انسان کی پیدائش سے پہلے دنیا میں مخلوقات کی جتنی انواع موجود تھیں وہ سب اپنی فطرت کے لحاظ سے اطاعت کیش واقع ہوئی تھیں۔( اس کلیے سے صرف جن مستثنیٰ ہیں جِنّ کا مسئلہ یہاں زیربحث نہیں ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ جِنّوں کی زندگی میں بھی جبر و اختیار کی آمیزش ہے اور ان کے اعمال کا ایک حصہ ایسا ہے جن میں وہ مختار اور جواب دہ ہیں، لیکن بہرحال وہ ان خصوصیات کے حامل نہیں ہیں جن کی بنا پر انسان کو زمین کی خلافت دی گئی ہے۔
) اختیار اور ارادے کی قوت سرے سے ان کودی ہی نہیں گئی تھی۔ ان کا کام صرف یہ تھا کہ جس کے سپرد جو خدمت کر دی گئی اس کو وہ ایک قانون اور ایک نظام کے مطابق ذرّہ برابر سرکشی کیے بغیر بجا لاتا رہے۔ ان میں سب سے افضل مخلوق فرشتے تھے جن کے متعلق حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَّا يَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَo التحریم66:6
جو کچھ اللہ ان کوحکم دیتا ہے اس کی وہ نافرمانی نہیں کرتے ہیں اور جو ان کو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔
اسی طرح اجرامِ فلکی کی عظیم الشان ہستیاں تھیں، جن کا حال یہ تھا:
وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّہَا۝۰ۭ ذٰلِكَ تَــقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِــيْمِ۝۳۸ۭ وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِيْمِo لَا الشَّمْسُ يَنْۢبَغِيْ لَہَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّہَارِ۝۰ۭ وَكُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَo یٰسین36:38-40
سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جا رہا ہے یہ ایک زبردست صاحب علم کا ٹھہرایا ہوا اندازہ ہے اور چاند کی منزلیں ہم نے مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ وہ اپنی پہلی کجی کی طرف پلٹ آتا ہے، نہ سورج کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے نہ رات کی یہ مجال ہے کہ دن سے پہلے آ جائے۔ سب ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔
یہی حال آسمان و زمین کی دوسری مخلوقات کا تھا:
كُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَo الروم30:26
سب اس کے تابع فرمان ہیں۔
لَا يَسْـتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَلَا يَسْتَحْسِرُوْنَo يُسَبِّحُوْنَ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ لَا يَفْتُرُوْنَo
الانبیاء20: 19-20
اپنے رب کی بندگی سے نہ سرکشی کرتے ہیں، نہ تھکتے ہیں، شب و روز چاکری میں دوڑ رہے ہیں، ذرا دم نہیں لیتے۔
پھر اللہ نے چاہا کہ اپنی بنائی ہوئی مخلوقات میں سے کسی کو اپنی وہ امانت سپرد کر دے جو اس وقت تک کسی کو نہ دی گئی تھی۔ چنانچہ اس نے وہ امانت آسمان اور زمین کی مخلوقات میں سے ایک ایک کے سامنے پیش کی اور ہر ایک نے زبانِ حال سے اپنی ناقابلیت اور اپنے عدم تحمل کا اقرار کیا۔ آخر کار اللہ نے اپنی تخلیق کا جدید ترین ایڈیشن نکالا جس کا نام انسان ہے اور اس نے بڑھ کر وہ بارِ امانت اٹھا لیا جس کے اٹھانے کی صلاحیت اور ہمت کسی مخلوق میں نہ تھی۔
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًاo الاحزاب33:72
ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے آگے پیش کیا مگر انھوں نے اسے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔ یقیناً وہ اپنے اوپر ظلم کرنے والا اور نادان ہے (کہ اتنا بڑا بار امانت اٹھا کر اس کی ذمہ داری محسوس نہیں کرتا۔)
یہ امانت کیا تھی؟ اللہ تعالیٰ کی صفات علم، قدرت، اختیار، ارادہ اور فرماں روائی کا پرتو جو اس وقت تک کسی مخلوق پر نہ ڈالا گیا تھا، جس کے قبول کرنے کی صلاحیت نہ فرشتوں میں تھی نہ اجرام فلکی[میں]، نہ پہاڑوں میں، نہ دنیا کی کسی مخلوق میں۔ وہ صرف انسان تھا جو اپنی فطرت کے لحاظ سے اس پرتو کا متحمل ہو سکتا تھا۔ اس لیے اس نے یہ بارِ امانت اٹھا لیا اور اسی لیے وہ اللہ کی خلافت و نیابت کے منصب پر سرفراز ہوا۔
اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً۝۰ۭ البقرہ2:130
اس بارِ امانت کے حامل اس خلیفۃ اللہ فی الارض کی امتیازی خصوصیت جس کی بنا پر یہ دوسری تمام مخلوقات سے ممتاز ہو گیا ہے، یہ ہے کہ وہ طبعاً اطاعت کیش نہیں بنایا گیا ہے۔ ( یہ بات متعدد آیاتِ قرآنی سے ثابت ہوتی ہیں مثلاً وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا۝۰ۭ(یونس10:99)، لَوْشَآئَ اللّٰہُ مَآ اَشْرَکُوْا (الانعام6:107) وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا خود یہ نہیں چاہتا تھا کہ انسان کو زبردستی شرک سے روکے اور ایمان پر مجبور کرے۔
) اس کو عام مخلوقات کی طرح نظام کلی کے تحت قوانین و حدودِ الٰہی کا پابند بنانے کے ساتھ ایک ایسی قوت بھی عطا کی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ بخلاف دوسری مخلوقات کے ایک خاص دائرے میں مجبورانہ اطاعت سے آزاد ہے اور اتنا اختیار رکھتا ہے کہ چاہے اطاعت کرے اور چاہے سرکشی و نافرمانی کرنے لگے۔ یہ ایسا فرق ہے جو کلامِ الٰہی میں تدبر کرنے والے کو صاف نظر آتا ہے۔ قرآنِ مجید میں آپ کو انسان کے سوا کسی اور ایسی مخلوق کا نشان نہ ملے گا جس کی طرف اطاعت اور عصیاں، فرمانبرداری اور نافرمانی، حدود اللہ کی پابندی، اور ان حدود سے تجاوز، دونوں کی نسبت دی گئی ہو اور جس کی اطاعت پرجزا اور عصیان پر سزا کے مرتکب ہونے کا ذکر کیا گیا ہو، وہ انسان ہی ہے جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ:
وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَo البقرہ2:22
جو لوگ اللہ کے حدود سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں۔
وَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّہِمْ الاعراف7:77
انھوں نے اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی۔
يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ۝۰ۭ النساء4:60
چاہتے ہیں کہ طاغوت کے پاس اپنا مقدمہ لے جائیں حالانکہ انھیں حکم دیا گیا تھا کہ اس سے کفر کریں۔
وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ يَظْلِمُوْنَo الاعراف7:160
انھوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔
وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ يُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا۝۰ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُo وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ يُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا۝۰۠
النساء4:13، 14
اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کے حدود سے تجاوز کرے گا اسے اللہ دوزخ میں داخل کرے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔
یہ اور ایسی ہی بے شمار آیات ظاہر کرتی ہیں کہ انسان میں بخلاف دوسری تمام مخلوقات کے ایک ایسی قوت موجود ہے جس سے وہ اطاعت اور سرکشی دونوں پر قدرت رکھتا ہے اور اسی قوت کے صحیح یا غلط استعمال سے فلاح یا خسران ثواب یا عتاب انعام یا غضب کا مستحق ہوتا ہے۔

ہدایت و ضلالت

قرآن اس مسئلے کو اور زیادہ کھول کر بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خدا نے انسان کی فطرت میں بھلے اور برے دونوں کی تمیز و دیعت فرما دی ہے۔
فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَاo الشمس91:8
اس کو فجور اور تقویٰ دونوں کا الہامی علم دیا۔
اس کو نیکی اور بدی دونوں کے راستے بتا دیے۔
وَہَدَيْنٰہُ النَّجْدَيْنِo البلد90:10
ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دیے۔
پھر اس کو اختیار دے دیا کہ جس راہ کو چاہے اختیار کرے۔
فَمَنْ شَاۗءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّہٖ سَبِيْلًاo الدہر76:29
جو چاہے اپنے رب کا راستہ اختیار کرے۔
فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۝۰ۙ کہف18:29
جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔
ایک طرف اس کو بہکانے کے لیے اس کا ازلی دشمن شیطان موجود ہے جو بدی کی راہ کو مزین کر کے اسے دکھاتا اور اس کی طرف رغبت دلاتا ہے۔
قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ لَاُزَيِّنَنَّ لَہُمْ فِي الْاَرْضِ وَلَاُغْوِيَنَّہُمْ اَجْمَعِيْنَo الحجر15:39
ابلیس نے کہا، اے رب تُو نے جو مجھے گمراہ کیا تو اب میں بھی ان کے لیے زمین میں خوشنمائیاں دکھائوں گا اور سب کو بہکائوں گا۔
اور دوسری طرف اللہ کی جانب سے رسول بھیجے جاتے ہیں، کتابیں نازل کی جاتی ہیں تاکہ انسان کو نیکی کا سیدھا راستہ بدی کی راہ سے ممتاز کر کے دکھائیں۔
جَاۗءَتْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَيِّنٰتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْكِتٰبِ الْمُنِيْرِo فاطر35:25
ان کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں اور صحیفے اور روشنی دکھانے والی کتاب لائے۔
اس طرح انسان کے اندر اوراس کے گرد و پیش مختلف قوتیں ہیں جن میں سے کوئی اس کو بدی کی طرف کھینچنے والی ہے اور کوئی نیکی کی طرف۔ ان قوتوں کے درمیان موازنہ کرنے کے لیے اس کو سمجھ بوجھ دی گئی ہے۔ اپنی راہ آپ دیکھنے کے لیے آنکھیں دی گئی ہیں اور اتنی قدرت دی گئی ہے کہ وہ جس راہ کو پسند کرے اس پر چل سکے۔ اگر وہ بدی کی راہ کو اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کی تمام طبیعی قوتوں اور ان خارجی اسباب کو جو اس کے نصیب میں لکھ دیے گئے ہیں ان کا تابع فرمان بنا دیتا ہے اور یہ راہ اس کے لیے آسان کر دی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر وہ نیکی کا راستہ اختیار کرتا ہے تو وہ راہ بھی اس کے لیے آسان کر دی جاتی ہے۔
فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَاتَّقٰىo وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰىo فَسَنُيَسِّرُہٗ لِلْيُسْرٰىoۭ وَاَمَّا مَنْۢ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰىo وَكَذَّبَ بِالْحُسْنٰىo فَسَنُيَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰىoۭ الیل92:10-5
پس جس نے راہِ خدا میں مال دیا اور خدا سے ڈرتے ہوئے کام کیا اور نیکی کی تصدیق کی اس کے لیے ہم سہل راستہ میسر کر دیں گے اور جس نے بخل کیا اور استغنا برتا اور نیکی کو جھٹلایا اس کے لیے ہم تنگی کی راہ میسر کر دیں گے۔
جو شخص گمراہی اختیار کرتا ہے اس کے ضمیر میں ایک الٰہی قوت پھر بھی موجود رہتی ہے جو اس کو راہِ راست کی طرف دعوت دیتی رہتی ہے مگر جب وہ اپنی کج روی پر اصرار کرتا ہے تو یہ قوت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے اور ضلالت کی بیماری بڑھتی جاتی ہے۔
فِىْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ۝۰ۙ فَزَادَھُمُ اللہُ مَرَضًا۝۰ۚ البقرہ2:10
ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے پھر اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا۔
یہاں تک کہ ایک وقت آتا ہے جب اس قوت کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا اور اس کے دل، آنکھوں اور کانوں پر ایسی مہر لگ جاتی ہے کہ وہ حق بات کو سمجھ نہیں سکتا، حق کی روشنی کا ادراک نہیں کر سکتا، حق کی آواز سن نہیں سکتا اور ہدایت کے تمام راستے اس کے لیے بند ہو جاتے ہیں۔
خَتَمَ اللہُ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰي سَمْعِہِمْ۝۰ۭ وَعَلٰٓي اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ۝۰ۡ البقرہ2:7
اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پرمہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔
مگر اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ انسان کا اختیار اور اس کی آزادی غیر محدود ہے اور اس کو کلیتاً وہ اختیارات تفویض کر دیے گئے ہیں جو قدریہ نے فرض کر لیے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ انسان کو جو کچھ اختیار دیا گیا ہے وہ یقیناً ان قوانین کے ماتحت ہے جو اللہ نے تدبیر کلی اور تدابیر جزئیہ کے لیے مقرر کر رکھے ہیں اور جن کے تحت یہ سارا کارخانۂ قدرت چل رہا ہے۔ کائنات کے نظام میں انسان کی قدرت اور اس کی روحانی، نفسانی اور جسمانی قوتوں کے لیے جو حدیں اللہ نے قائم کر دی ہیں ان میں سے وہ ایک بال برابر بھی تجاوز کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ پس یہ حقیقت اپنی جگہ پر قائم ہے کہ
اِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍo القمر54:49
ہم نے جو چیز بھی پیدا کی ہے ایک اندازے پر پیدا کی ہے۔
اِنَّ اللہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ۝۰ۭ قَدْ جَعَلَ اللہُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًاo الطلاق65:3
اللہ اپنے کام کو پورا کر کے رہتا ہے اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ ٹھہرا دیا ہے۔
وَہُوَالْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ۝۰ۭ الانعام6:18
اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے

عدل اور جزا و سزا

یہیں سے یہ نکتہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ حقیقی عدل کرنے والا بجز خدا کے اور کوئی نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ وہ حدود جن کے دائرے میں انسان کو اختیار حاصل ہے۔ خدا کی ہی قائم کی ہوئی ہیں اور خدا ہی اس حقیقت کا جاننے والا ہے کہ انسان کے اعمال میں اس کے اپنے اختیار کا حصہ کتنا ہے۔ اس نے جن حدود سے انسان کے اختیار کو محدود کیا ہے۔ ان کی بھی دو قسمیں ہیں: ایک قسم کے حدود وہ ہیں جو تمام نوعِ بشری کے لیے من حیث المجموع قائم کیے گئے ہیں اور دوسری قسم کے حدود وہ ہیں جو ہر شخص کے لیے فرداً فرداً مختلف طور پر مقرر ہیں۔ پہلی قسم کے حدود نوعی حیثیت سے تمام اولاد آدم کے اختیار کو محدود کر دیتے ہیں اور دوسری قسم کے حدود ہر شخص کے حالات کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ اس لیے ان کے اعتبار سے ہر شخص کی زندگی میں اس کے اختیار اور اس کی مجبوری کی مقداریں جدا جدا ہیں۔ اپنے اعمال کے لیے انسان کا ذمہ دار ہونا اور اس کی ذمہ داری کے لحاظ سے جزا و سزا کا مترتب ہونا اسی مقدار پر موقوف ہے جس کو ہر شخص نے اپنے افعال میں استعمال کیا ہے، اور یہ وہ چیز ہے جس کو تولنا، جانچنا اور ایسا ٹھیک ٹھیک حساب لگانا کہ ایک ذرّہ بھر بھی کمی بیشی نہ ہو۔ دنیا کے کسی حج اور کسی مجسٹریٹ کے بس کا کام نہیں ہے۔ یہ محاسبہ و موازنہ صرف فاطر السمٰوٰت والارض ہی کر سکتا ہے اور وہی قیامت کے دن اپنی عدالت کا اجلاس کرے گا۔ یہی بات ہے جس کی طرف کلام اللہ میں جگہ جگہ اشارہ کیا گیا ہے:
وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۝۰ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَظْلِمُوْنَo الاعراف7:8-9
اس روز وزن بالکل ٹھیک ٹھیک ہو گا، جن کے اعمال خیر کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی وہ لوگ ہوں گے جنھوں نے ہماری آیات کے ساتھ ظلم کر کے اپنے آپ کو خود نقصان پہنچایا ہے۔
اِنَّ اِلَيْنَآ اِيَابَہُمْo ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَہُمْo غاشیہ88:25-26
ان کو ہماری ہی طرف آنا ہے اور ان کا حساب ہمارے ہی ذمے ہے۔
فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗoۭ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا يَّرَہٗo زلزال99:7-8
جو ذرّہ برابر نیک عمل کرے گا وہ اس کا نتیجہ دیکھ لے گا اور جو ذرّہ برابر برا عمل کرے گا وہ اس کا نتیجہ دیکھ لے گا۔
قرآنِ مجید میں مسئلہ جبر و قدر پر بس اسی حد تک روشنی پڑتی ہے اور اس سے وہ گتھیاں سلجھ جاتی ہیں کو علوم طبیعیہ اور علم الاخلاق کے مباحث میں بیان کی گئی ہیں۔ رہے وہ مابعد الطبیعی مسائل جن میں فلاسفہ اور متکلمین الجھے ہوئے ہیں یعنی یہ کہ اللہ کے علم اور اس کی معلومات، اس کی قدرت اور اس کے مقدورات، اس کے ارادے اور اس کے مرادات میں کس نوع کا تعلق ہے اور اس کے علم سابق، ارادۂ ازلی اور قوت مطلقہ کے ہوتے ہوئے انسان کس طرح بااختیار اور اپنے ارادے میں آزاد ہو سکتا ہے، تو ان مسائل سے قرآن نے کوئی بحث نہیں کی، اس لیے کہ انسان ان کو سمجھ نہیں سکتا۔

٭…٭…٭…٭…٭

جبرو قدر

[ایک تقریر جو 23 اکتوبر 1942ء کو نشر گاہِ لاہور سے نشر کی گئی](باجازت آل انڈیا ریڈیو)

کیا ہماری تقدیر پہلے سے مقرر ہے؟ کیا ہماری کامیابی اور ناکامی، ہمارا گرنا اور ابھرنا، ہمارا بگڑنا اور سدھرنا، ہماری راحت اور تکلیف اور وہ سب کچھ جو ہمارے ساتھ اس دنیا میں پیش آتا ہے کسی اور طاقت یا طاقتوں کے فیصلے کا نتیجہ ہے جس کے متعین کرنے میں ہمارا کوئی حصہ نہیں؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا ہم بالکل مجبور ہیں؟ کیا ہم اس دنیا میں محض کٹھ پتلیوں کی طرح ہیں جنھیں کوئی اور نچا رہا ہے؟ کیا ہم کسی بنی بنائی سکیم کو عمل میں لانے کے لیے بس ایک آلے کے طور پر استعمال کیے جا رہے ہیں گویا کہ ہم دنیا کے اسٹیج پر ان ایکٹروں کی طرح ہیں جن میں سے ہر ایک کا کام پہلے سے کسی نے مقرر کر دیا ہو؟
یہ سوالات ہمیشہ ہر اس شخص کے دل میں کھٹکتے رہے ہیں جس نے کبھی دنیا اور انسان کے متعلق کچھ غور کیا ہے۔ فلسفی، سائنس دان، مؤرخ، مقنن، سماج اور اخلاق اور مذہب کے مسائل سے بحث کرنے والے اور عام لوگ سبھی کو اس گتھی سے اپنا دماغ لڑانا پڑا ہے، کیونکہ ہر ایک کی گاڑی یہاں آ کر اٹک جاتی ہے اور آگے نہیں چلتی جب تک کہ اس کا کوئی نہ کوئی قابل اطمینان حل نہ مل جائے۔ چاہے وہ بجائے خود صحیح حل ہو یا غلط۔
محض ایک سادہ سی ’’ہاں‘‘ یا ’’نہیں‘‘ میں آپ ان سوالات کا جواب دینا چاہیں تو دے لیجیے، ممکن ہے کہ اس جواب سے آپ کا دل مطمئن ہو جائے، مگر خواہ آپ ’’ہاں‘‘ کہیں یا ’’نہیں‘‘ دونوں صورتوں میں بے شمار دوسرے سوالات پیدا ہو جاتے ہیں جن کا جواب دینا آپ کے ہاں اور نہیں دونوں کے بس کا کام نہیں ہے۔
آپ ’’ہاں‘‘ کہتے ہیں تو پھر ساتھ ہی آپ کو یہ بھی مان لینا چاہیے کہ پتھر، لوہے، درخت، جانور اور انسان میں کوئی حقیقی فرق نہیں ہے۔ سب کی طرح انسان بھی وہی کچھ کر رہا ہے جو اس کے لیے مقرر کر دیا ہے۔ اختیار نہ اُن کو حاصل ہے نہ اس کو۔ شہد کی مکھی کا چھتّہ بنانا اور انسان کا ریلوے لائن بنانا دونوں میں چاہے درجے کا فرق ہو مگر نوعیت کا کوئی فرق نہیں، کیونکہ اس سے چھتّہ اور ریلوے لائن کوئی اور ہی بنوا رہا ہے۔ ایجاد کے شرف سے دونوں محروم ہیں۔ اس کے بعد آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ دنیا کی دوسری چیزوں کی طرح انسان بھی اپنے افعال کا ذمہ دار نہیں ہے۔ ایک آدمی کا نیک کام کرنا اور ایک موٹر کا درست چلنا، دونوں یکساں ہیں۔ کسی آدمی کا جرم یا شرارت کرنا اور کسی سینے والی مشین کا خراب بخیہ کرنا دونوں کی ایک حیثیت ہے اور جب معاملہ یہ ہے تو جس طرح آپ ’’نیک موٹر‘‘ ، ’’شریر مشین‘‘، ’’ایماندار انجن‘‘، ’’بدمعاش چرخہ‘‘ نہیں بولتے اسی طرح آپ کو آدمی کے لیے بھی نیک اور بد، شریر اور شریف، ایماندار اور بے ایمان اور اسی قسم کے دوسرے الفاظ نہیں بولنے چاہییں۔ یا اگر آپ بولتے ہی ہیں (کیونکہ جو کچھ آپ سے بلوایا جا رہا ہے وہ بولنے پر آپ مجبور ہیں) تو کم از کم اتنا تو سمجھ ہی لینا چاہیے کہ یہ الفاظ ہیں بے معنی۔
پھر بات اسی پر ختم نہیں ہوتی۔ یہ ہمارا مذہب اور اخلاق، یہ ہمارا قانون اور عدالتوں کا نظام، یہ ہماری پولیس اور جیل اور تفتیش جرائم کے محکمے، یہ ہمارے مدرسے اور تربیت گاہیں اور اصلاحی ادارے سب بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ کام یہ سب ہوتے رہی گے، بنداِن میں سے کوئی بھی نہیں ہو گا کیونکہ آپ کے نظریے کے مطابق ان سب ایکٹروں کو دنیا کے سٹیج پر اپنا اپنا مقررہ پارٹ ادا کرنا ہی ہے، مگر ظاہر ہے کہ جب مسجدوں کے نمازی اور مندروں کے پجاری، عدالتوں کے جج اور چوری اور ڈکیتی کے مجرم سب کے سب محض ایکٹر بن کر رہ جائیں اور عبادت گاہوں سے لے کر جوئے خانوں اور قید خانوں تک سب کے سب ایک بڑے ناٹک کے مختلف منظر قرار پائیں تو اس کے معنی یہی ہیں کہ انسان کی پوری مذہبی اور اخلاقی زندگی محض ایک کھیل اور تماشا ہے۔ وہ شخص جو رات کی تنہائی میں خلوص سے پوجا اور عبادت کر رہا ہے اور وہ جو کسی کے گھر میں نقب لگا رہا ہے۔ دونوں اس تماشے میں بس وہ پارٹ ادا کر رہے ہیں جو ان کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ ان کے درمیان کوئی فرق اس کے سوا نہیں کہ ڈائریکٹر نے ایک کو عابد و زاہد کا پارٹ دیا ہے اور دوسرے کو چور کا۔ ہماری عدالت میں جج صاحب خواہ کتنی ہی سنجیدگی کے ساتھ مقدمے کی سماعت فرما رہے ہوں اور اپنی دانست میں مقدمے کو سمجھ کر انصاف کرنے کی کیسی ہی کوشش کر رہے ہوں، مگر آپ کے اس نظریے کی رُو سے وہ اور مستغیث اور ملزم سب نرے ایکٹر اور بچارے اس دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں کہ کر رہے ہیں ڈرامہ اور سمجھ رہے ہیں کہ عدالت کے کمرے میں واقعی عدالت ہو رہی ہے۔ یہ انجام ہے اس ’ہاں‘ کا جوآپ نے سرسری طور پر میرے ابتدائی سوالات کے جوابات میں کر دی تھی۔
اچھا تو کیا پھر آپ ان سوالات کا جواب ’نہیں‘ کی صورت میں دیں گے؟ مگر مشکل یہ ہے کہ اس صورت میں بھی معاملہ ایک ’’نہیں‘‘ پر ختم نہ ہو جائے گا بلکہ اس کے ساتھ آپ کو بہت سی صریح حقیقتوں کا انکار کرنا ہو گا۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ انسان کی تقدیر پہلے سے مقرر نہیں ہے اور یہ کہ اس کی تقدیر کسی بیرونی قوت کے فیصلے سے نہیں بنتی تو غالباً آپ کے اس انکار کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ آدمی اپنی تقدیر آپ مقرر کرتا ہے یعنی اس کی تقدیر اس کے اپنے ارادے اور کوشش کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس پر پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کے اس بیان میں لفظ ’’انسان‘‘ سے کیا مراد ہے؟ فرداً فرداً ایک آدمی؟ یا انسانوں کاایک بڑا گروہ جسے سماج یا سوسائٹی یا قوم کہا جاتا ہے؟ یا پوری نوعِ انسانی؟ اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی اپنی تقدیر آپ بناتا ہے تو ذرا اِن چیزوں پر ایک نگاہ ڈال لیجیے جن سے تقدیر بنتی ہے پھر فرمایئے کہ آدمی ان میں سے کس کس پر قابو رکھتا ہے۔ تقدیر بنانے کا پہلا سامان آدمی کے اعضا اور اس کی ذہنی اور جسمانی قوتیں اور اس کے اخلاقی اوصاف ہیں۔ جن کی درستی اور خرابی، توازن اور عدمِ توازن، کمی اور بیشی کا فیصلہ کُن اثر اس کی تقدیر پر پڑتا ہے مگر یہ ساری چیزیں ہر انسان ماں کے پیٹ سے لے کر آتا ہے اور آج تک کوئی ایک آدمی ایسا پیدا نہیں ہوا ہے جو خود اپنی تجویز اور اپنے انتخاب کے مطابق اپنے آپ کو بنا کر لایا ہو۔ پھر آدمی کی تقدیر کے بننے اور بگڑنے میں ان بہت سے اثرات کا دخل ہوتا ہے جو ہر انسان کو وراثت میں اپنے آباء و اجداد سے ملتے ہیں پھر جس خاندان، جس سوسائٹی،، جس طبقے، جس قوم اور جس ملک میں وہ پیدا ہوتا ہے، اس کی ذہنی، اخلاقی، تمدنی، معاشی اور سیاسی حالت کے بے شمار اثرات دنیا میں قدم رکھتے ہی اس پر چھا جاتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں آدمی کی تقدیر بنانے میں حصہ لیتی ہیں مگر کیا کوئی ایسا شخص ہے جس نے اپنی پسند اور اپنے انتخاب سے اس نسل اور اس ماحول کا تعین کیا ہے جس میں اُسے پیدا ہونا ہے اور خود یہ فیصلہ کیا ہو کہ وہ ان میں سے کس کس کے کیا اثرات قبول کرے؟ اسی طرح آدمی کی تقدیر پر دنیا کے بہت سے واقعات اور اتفاقات کے بھی اچھے اور برے اثرات پڑتے ہیں۔ زلزلے، سیلاب، قحط، موسم، بیماریاں، لڑائیاں، معاشی اتار چڑھائو اور اتفاقی حادثے اکثر انسان کی پوری زندگی کا رُخ بدل دیتے ہیں اور اس کے ان سارے نقشوں کو درہم برہم کر ڈالتے ہیں جو اس نے بڑے سوچ بچار اور بڑی کوششوں سے اپنی راحت اور اپنی کامیابی کے لیے بنائے ہوتے ہیں اور اس کے برعکس بار ہا یہی اتفاقات اچانک ایک انسان کو ایسی کامیابیوں تک پہنچا دیتے ہیں جن کے حصول میں فی الواقع اس کی اپنی کوشش کا بہت کم دخل ہوتا ہے۔ یہ ایسی نمایاں حقیقتیں ہیں جن سے انکار کرنے کے لیے ہٹ دھرمی کی ضرورت ہے۔ آخر یہ کیسے مان لیا جائے کہ آدمی اپنی تقدیر آپ بناتا ہے؟
اب اگر آپ اپنے دعوے میں ترمیم کر کے یہ کہتے ہیں کہ افراد نہیں بلکہ قومیں اپنی تقدیر بناتی ہیں تو یہ بھی ماننے کے قابل بات نہیں۔ ہر قوم کی تقدیر جن اسباب سے بنتی ہے ان میں نسلی خصوصیات، تاریخی اثرات، جغرافیائی حالات، قدرتی مسائل اور بین الاقوامی صورتِ حال کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے اور یہ بات دنیا کی کسی قوم کے بس میں نہیں ہے کہ وہ اِن اسباب کی گرفت سے آزاد ہو کر اپنی تقدیر جیسی چاہے خود بنا لے۔ پھر وہ قانونِ قدرت جس کے تحت زمین و آسمان کا انتظام ہو رہا ہے اور جس میں دخل دینا تو دَرکنار اسے پوری طرح جان لینا بھی کسی قوم کے بس کا کام نہیں ہے، اس طرح قوموں کی تقدیر پر اثر ڈالتا ہے کہ اس کو روکنے یا اس سے بچنے کی طاقت کسی قوم کو حاصل نہیں۔ یہ قانون پس پردہ اپنا کام کرتا رہتا ہے اور کبھی اچانک اور کبھی بتدریج اس کے عمل سے ایسے نتائج رونما ہوتے ہیں جو ابھرتی ہوئی قوموں کو گراتے اور گرتی ہوئی قوموں کو ابھار دیتے ہیں۔ خیر یہ تو وہ اسباب ہیں جو صریح طور پر انسانی دانست سے باہر ہیں مگر جو اسباب بظاہر انسان کی دسترس میں ہیں۔ ان کا تفصیلی جائزہ بھی کچھ امید افزا نہیں ہے۔ ایک قوم کی تقدیر بننے کا بہت کچھ انحصار اس پر ہے کہ اسے مناسب رہنمائی (لیڈر شپ) میسر آئے اور اس کے افراد کی ایک اچھی خاصی تعداد میں وہ صفات اور وہ خصوصیات موجود ہوں جو اس رہنمائی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہیں مگر تاریخ سے ہم کو ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی اور نہ اپنے زمانے کے مشاہدات میں ہم ایسی کوئی نظیر پاتے ہیں کہ کسی قوم نے ان دونوں چیزوں کے حاصل کرنے میں آزادی کے ساتھ خود اپنے ارادے اور انتخاب سے کام لیا ہو۔ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ جب ایک قوم کے ابھرنے کا وقت آتا ہے تو اس کو اچھی رہنمائی بھی میسر آتی ہے اور اس میں وہ خصوصیات بھی پیدا ہو جاتی ہیں جو اس رہنمائی کی کامیابی کے لیے مطلوب ہیں اور وہی قوم جب گرنے لگتی ہے تو رہنمائی اور پیروی دونوں کی قابلیتیں اس سے اس طرح رخصت ہو جاتی ہیں کہ اس کا کوئی دردمند بہی خواہ انھیں واپس نہیں لا سکتا۔ ہمیں کچھ خبر نہیں کہ وہ کون سا قانون ہے جس کے تحت تاریخ اقوام کے یہ نشیب و فراز واقع ہوئے ہیں۔
پھر کیا قوموں کو چھوڑ کر آپ پوری نوع انسانی کے متعلق یہ حکم لگائیں گے کہ وہ اپنی تقدیر آپ بناتی ہے؟ مگر یہ کہنا اور زیادہ مشکل ہے۔ نسلوں اور قوموں میں بٹی ہوئی، ملکوں میں پھیلی ہوئی، بے شمار مختلف تمدنوں اور تہذیبوں میں رنگی ہوئی اور لاتعداد زبانیں بولنے والی نوع کے متعلق اگر کوئی شخص یہ فرض کرتا ہے کہ اس کا ایک مجموعی ارادہ ہے جس کے مطابق وہ سوچ سمجھ کر اپنی تقدیر متعین کرتی ہے تو حقیقت میں وہ ایک بڑی عجیب بات کرتا ہے۔ کیا واقعی اس نوع نے اپنی رفتار ترقی کے لیے یہ ٹائم ٹیبل خود تجویز کیا تھا کہ فلاں دور تک یہ پتھر کے اوزاروں سے کام لے گی پھر لوہے اور آگ کو استعمال کرنا شروع کر دے گی فلاں عہد تک انسانی اور حیوانی طاقت سے کام کرتی رہے گی۔ پھر مشین کی طاقت استعمال کرنے لگے گی؟ فلاں صدی تک کمپاس کے بغیر کشتیاں چلائے گی پھر اپنی سمت سفر متعین کرنے میں کمپاس سے کام لے گی؟ پھر کیا وہ نوعِ انسانی ہی ہے جس نے افریقہ، امریکہ، یورپ، ایشیا اور آسٹریلیا کی مختلف قوموں یعنی خود اپنے مختلف حصوں کے لیے مختلف تقدیریں متعین کی ہیں ظاہر ہے کہ ایسے عجیب و غریب دعوے کرنے کا خیال بھی کوئی ہوشمند آدمی نہیں کر سکتا۔
اس کے بعد آپ کے لیے اپنی اس رائے پر قائم رہنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ انسان اپنی تقدیر آپ بناتا ہے کیونکہ جب نہ ہر ہر فرد اپنی تقدیر کا مالک ہے نہ افراد کا کوئی مجموعہ، نہ پوری نوع، تو یہ تقدیر کی ملکیت آخر کس ’’انسان‘‘ کے حصے میں آئے گی؟
آپ نے دیکھا، وہ سوالات جو میں نے ابتدا میں آپ کے سامنے پیش کیے تھے ان کا جواب نہ محض ’’ہاں‘‘ کی صورت میں دیا جا سکتا ہے اور نہ محض ’’نہیں‘‘ کی صورت میں۔ حقیقت ان دونوں کے درمیان ہے جو زبردست ارادہ کائنات کے اس نظام کو چلا رہا ہے۔ اس سے آزاد ہو کر کوئی چیز دنیا میں کام نہیں کر سکتی بلکہ کام کرنا تو کیا جی بھی نہیں سکتی۔ ایک ہمہ گیر سکیم ہے جو پوری قوت کے ساتھ زمین و آسمان میں چل رہی ہے کسی میں اتنا بل بوتا نہیں ہے کہ اس سکیم کے خلاف چل سکے یا اس کو بدل سکے یا اس پر کوئی اثر ڈال سکے۔ ہمارے جتنے علوم، جتنے تجربات، جتنے مشاہدات ہیں، سب کے سب اس امر کی شہادت دے رہے ہیں کہ کائنات کی اس سلطنت میں کسی کی خود مختاری کے لیے قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آسمان کے بڑے بڑے کروّں کو جس نظام کی بندش اپنے مقرر کردہ راستے سے بال برابر جنبش نہیں کرنے دیتی، زمین کو جس طاقت نے ایک ضابطے کے مطابق گردش کرنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ ہوا اور پانی اور روشنی اور گرمی و سردی پر جس حکومت کا مکمل اقتدار ہے انسان کی پیدائش سے پہلے جس قوت نے وہ اسباب فراہم کیے ہیں جن سے اس زمین پر انسان کا موجود ہونا ممکن ہو اور جس قوت کے اختیارات کا یہ حال ہے کہ اسبابِ زندگی کے توازن میں تھوڑا سا ردّ و بدل بھی کر دے تو ہماری نوع آن کی آن میں فنا کے گھاٹ اتر سکتی ہے۔ اس کے ماتحت رہتے ہوئے انسان کے لیے ایسی آزادی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ یہ اپنی تقدیر جیسی چاہے خود بنا لے۔ مگر یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ وہ طاقت جو ہمیں اس دنیا میں لائی ہے، جس نے ہم کو علم، غور و فکر، ارادے اور فیصلے کی قوتیں دی ہیں، جس نے ہم میں یہ احساس پیدا کیا ہے کہ ہم کچھ اختیار رکھتے ہیں، جس نے ہم میں یہ صلاحیت پیدا کی ہے کہ ہم نیک و بد میں امتیاز کرتے ہیں۔ اخلاقی اور غیر اخلاقی افعال میں فرق کرتے ہیں اور دنیا کے معاملات میں ایک طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں اور دوسراطرزِ عمل ترک کرتے ہیں، اس نے یہ سب کچھ ہمارے ساتھ محض مذاق کے طور پر کیا ہے۔ ہمیں اس کائنات کی تدبیر و انتظام میں انتہا درجے کی سنجیدگی نظر آتی ہے۔ مذاق اور کھیل اور تمسخر کہیں نظر نہیں آتا۔ لہٰذا حقیقت وہی ہے جو وجدانی طور پر ہم میں سے ہر شخص محسوس کرتا ہے۔ یعنی فی الواقع ہم کو یہاں ایک محدود پیمانے پر کچھ اختیارات دیے گئے ہیں اور ان اختیارات کے استعمال میں ہم مناسب حد تک آزاد بھی رکھے گئے ہیں۔ یہ آزادی حاصل کی ہوئی نہیں ہے بلکہ دی ہوئی ہے۔ اس کی مقدار کتنی ہے، اس کے حدود کیا ہیں اور اس کی نوعیت کیا ہے۔ اس کا تعین مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ مگر اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ یہ آزادی ہے ضرور۔ کائنات کی عالمگیر سکیم میں ہمارے لیے یہی جگہ تجویز کی گئی ہے کہ ہم ایک محدود پیمانے پر آزادانہ کام کرنے والے ایکٹر کا پارٹ ادا کریں۔ ہمارے لیے یہاں اتنی ہی آزادی ہے جتنی آزادی کی اس سکیم میں گنجائش ہے اور ہم اخلاقی حیثیت سے درحقیقت اسی قدر ذمہ دار ہیں جس قدر ہم کو آزادی بخشی گئی ہے یہ دونوں امور کہ ہم کس قدر آزاد ہیں اور ہم پر اپنے افعال کی ذمہ داری کتنی ہے۔ ہمارے دائرۂ علم سے باہر ہیں ان کو وہی طاقت جان سکتی ہے جس نے اپنی سکیم میں ہمارے لیے یہ مقام تجویز کیا ہے۔
یہ نظریہ ہے جو اس مسئلے میں مذہب نے اختیار کیا ہے۔ مذہب ایک طرف قادرِ مطلق خدا پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ہم اور ہمارے گردوپیش کی ساری دنیا خدا کی محکوم ہے اور اس کا اقتدار سب پرچھایا ہوا ہے۔ دوسری طرف وہ ہم کو اخلاق کے تصورات دیتا ہے،نیکی اور بدی میں فرق کرتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہم ایک راستہ اختیار کریں گے تو ہمیں نجات حاصل ہو گی اور دوسرے راستے پر چلتے رہیں گے تو ہم کو سزا دی جائے گی۔ یہ بات صرف اسی صورت میں معقول ہو سکتی ہے کہ ہم واقعی اپنے اختیار سے اپنی زندگی کا راستہ منتخب کرنے میں آزاد ہوں۔
٭…٭…٭…٭…٭