مَنْ ھُوَا الْمودُودیْ

آپ علامہ سید مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر! میں ان کے حالات ایک ایسے واقفِ حال کی طرح بیان کر رہا ہوں جس نے ان کے بارے میں پڑھا بھی ہے اور انھیں دیکھا بھی ہے۔ آپ ایسے انسان ہیں کہ ان جیسے میںنے بہت کم دیکھے ہیں، بلکہ اس زمانے میں ان کی جیسی منفرد خصوصیات کا حامل جن کی بنا پر وہ علمائے اسلام میں ممتاز ہیں بالکل نہیں دیکھا۔ حق پر ثابت قدمی، راہِ حق کے مصائب پر صبر اور حکامِ وقت کی خوشامد تو درکنار ان کے قریب پھٹکنے تک سے احتراز! اُن کی چند خصوصیات ہیں۔
پاکستان و ہندستان میں، میں نے جن لوگوں کو دیکھا یا جن کے متعلق سنا، اسلام کے تشریعی اور تاریخی حقائق کی سمجھ بوجھ آپ ان سے زیادہ رکھتے ہیں۔ آپ کا مطالعہ بڑا وسیع ہے۔ آپ دقیق فہم، اعلیٰ دماغ، روشن فکر اور عظیم عقل کے مالک ہیں۔آپ پر ظاہری سنجیدگی کے باوجود روح کی جھلک نمایاں ہے، اشیا کے باہمی مقابلے، موازنے اور استنباط میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ استدلال میںایک حد تک منفرد حیثیت کے حامل ہیں۔ شریعت کو عمومی مقاصد (General Objectives) پر منطبق کرتے وقت جزئیات کو صرف اس حد تک اہمیت دیتے ہیں۔ جس حد تک وہ اصول پر اثر انداز نہ ہوں۔ نکات کے استخراج میں ان کی فکر بہت گہری جاتی ہے۔ آپ پختہ عقائد کے مالک ہیں جس کا اثرآپ کے اعمال و مواقف میں قوت و ثبات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔جس طرح اچھی غذا کا اثر ان کے جسم پر چستی اور تروتازگی کی شکل میں نمایاں ہے، آپ ایک فلسفی ہیں، مگر آپ کا رجحان علمی ہے نہ کہ عقلی، حقائق و واقعات اور اعدادوشمار (Facts and Figures) سے گہرا شغف آپ کے عقلی فلسفی بننے میں مانع ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا، تو آپ ضرور عقلی فلسفی ہوتے۔ آپ نص اور حقیقتِ واقعہ کی ہیئت کو ملحوظ رکھتے ہیں اور اس میں غوروفکر اور استنباط کے بھی قائل ہیںاور اس میں وہ ایک حد تک اضافہ کرتے ہیں۔
آپ کا رہن سہن عام طرز کا ہے، لیکن قیادت بہرحال اپنا خاص مقام رکھتی ہے۔ آپ کی رائے میں قیادت… (نہ کہ قائد) کے کچھ حقوق ہیں۔ اور یہ نظم و ضبط کی نگرانی اور صلاحیتوں کے مطابق تقسیم کارکرتی ہے ۔ اور نااہلوں کو ان کی حد سے آگے نہیں بڑھنے دیتی۔ یہ سب کچھ میں نے ان کے مجموعی حالات اور ان کے بعض رفقا کے میل جول سے معلوم کیا ہے، چنانچہ اسی کے مطابق ان سطروں میں، میں نے ان کی تصویر کھینچی ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ قیادت اور قائد میں بہت نازک فرق ہے اور اس کی یہ نزاکت ہی قارئین کو خود فریبی میں مبتلا کرتی ہے اور ان کے متبعین کو ان کے معاملے میں فریب دیتی ہے۔
آپ عربی زبان بولنے میں ہچکچاتے ہیں، حالاںکہ قرآن، حدیث اور دینی لٹریچر میں ان کی بڑی گہری نظر ہے اور ان کو حالات و مسائل پر منطبق کرنے پر قدرتِ کاملہ رکھتے ہیں۔ عربی بولنے میں ان کی کمزوری کی وجہ دراصل یہ ہے کہ وہ اسے بول چال اور تحریر میں بہت کم استعمال کرتے ہیں۔ اس قدر کثیر تصنیفات کے باوصفِ جن کی تعداد چالیس، پچاس تک پہنچتی ہے۔ آپ نے عربی زبان میں ایک کتاب بھی نہیں لکھی۔ آپ کی تمام تصنیفات اُردو اور انگریزی میں ہیں اور تمام کی تمام ایسے اہم اسلامی موضوعات پر ہیں جن کا موجودہ بیداری اور ترقی اور نئی روشنی تقاضا کرتی ہے۔ جو اس عہد میں زیادہ موضوعِ بحث اور اہلِ مغرب کی تنقید و تحریف کا ہدف بنے رہتے ہیں۔
علومِ حاضرہ اور تہذیبِ جدید کے مطالعے میں مولانا مودودی کو خاصی دستگاہ حاصل ہے۔ آپ ان کو عدل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ نہ ان کا انکار کرتے ہیں اور نہ اس رَو میں بہ نکلتے ہیں، بلکہ ان چیزوں کے مقابلے میں احتیاط اور ہوشیاری سے کام لیتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے ایک رکن نے آپ کی چند کتابوں کا عربی میں ترجمہ کر کے ابنائے عرب کے لیے آپ کے افکار کے مطالعے کا سامان کر دیا ہے۔ یہ رکن ہمارے صدیقِ باوفا مسعود عالم صاحب ندوی۱؎ ہیں۔ کئی برس ہوئے انھوں نے یہ ترجمہ شدہ کتب مجھے الجزائر میں بطورِ ہدیہ بھی بھیجی تھیں۔ جن میں مجھے ایک نتھری ہوئی فکر، حکمت سے لبریز عقل اور گہری سوچ کے آثار دکھائی دیے اور الفاظ و معانی میں ایک اچھا تسلسل نظر آیا جو ان رسالوں کے ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہونے کی غمازی نہیں کرتے۔ اس ترجمے سے ایک بات واضح ہو گئی کہ موضوعات بھی اسلامی ہیں اور دونوں زبانیں بھی! اور مصنف و مترجم ایک تخیل کی پیداوار ہیں۔ روح کی یک رنگی نے اس ترجمے میں ایک عجیب اثر بھر دیا ہے۔ ہمارے دوست مسعود عالم، اللہ ان پر مہربان ہو… برصغیر ہند میں ’’ثانی اثنین‘‘ ہیں، جوایسی ہی عمدہ عربی تحریر لکھتے ہیں، جیسے عرب کے اہلِ زبان! دوسرے صاحب ابو الحسن علی ندویؔ ہیں۔
علامہ مودودی اخبار البصائر کے ذریعے جمعیت العلما الجزائریین سے گہرا ربط رکھتے ہیں۔ اس تحریک کے اصولوں اور اپنے اصولوں میں قرب و یگانگت کا انھیں قومی شعور ہے۔
وہ اپنے پہلو میںایک ایسا دل رکھتے ہیں جو مسلمانوں کے حالات میں گہری دلچسپی، ان کے حاضر سے ہمدردی و غم خواری اور ان کے ماضی پر اعجاب و پسندیدگی اور اسلام کے نظام کی مدح و منقبت سے معمور ہے۔ آپ کی رائے میں یہ نظام تمام نظامہائے انسانی سے زیادہ مبنی بر عدل ہے۔ بشری خواہشات و جذبات کے لیے محکم ترین ضابطہ ہے۔ اور یہ انسان کی باہم دگرمربوط مصلحتوں اور تقاضوں کا محفوظ ترین نظام ہے۔ اسی سے حکومتِ اسلامی کے بارے میں آپ کا تخیل پروان چڑھا ہے۔
میرے عالمِ اسلام کے سفر میں جو مقاصد پنہاں تھے۔ ان پر آپ نے مسرت کا اظہار فرمایا کیوں کہ آپ کے خیال میں مسلمانوں کا تعارف کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب آنا اس بات کا پیش خیمہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے حالات کی اصلاح میں تعاون سے کام لیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ آپ نے مجھ میں ایک عیب کی نشان دہی کی، اور وہ یہ ہے کہ جس طرز پر انھوں نے مجھ سے گفتگو سنی اس طرز پر میں نے مسلمانوں کے حالات پر کتابیں لکھنے کا اہتمام نہیںکیا۔ میں نے انھیں اس کا جواب دیا، مگر وہ اس پر مطمئن نہ ہوئے۔ کیوںکہ ان کا خیال ہے کہ روزمرہ کی گفتگوئیں دراصل مکمل کتابچے ہیں۔ ان میں اگر کمی ہے، تو صرف تالیف کی۔ تصنیف کے بارے میں آپ کی رائے یہ ہے کہ کتابیں کم حجم کی ہوں تاکہ ان کا مطالعہ اور قیمت گراں بار نہ ہو۔ آپ تصنیفِ کتب کے اسی طریقے پر عمل پیرا ہیں۔ آپ کی اکثر تصانیف مستقل موضوعات پر کتابچوں کی صورت میں ہیں۔
جب میں پہلے پہل کراچی میں اُترا، تو آپ کے کچھ رفقا نے مجھ سے ملاقات کی۔ وہ مجھ سے اس طرح ملے جیسے بھائی بھائی سے اور ہم مشرب ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ الجزائر کی جمعیت علما سے اس حد تک واقف ہیں۔جس حد تک اخبار البصائر کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے۔ مودودی اس وقت اپنے مرکز صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں مقیم تھے۔ انھیں جب میری آمد کی خبر ملی، تو میری ملاقات کا انتظار کرنے لگے۔ جب میں نے اندرون ملک سفر کا ارادہ کیا، تو لاہور اترنے سے پیشتر ان سے شخصی تعارف حاصل کرنے کے شوق میں انھیں لکھا کہ آپ مجھ سے لاہور اسٹیشن پر ملیں، مگر بدقسمتی سے میرا خط وقت پر نہ پہنچا، کیوںکہ حکومت سے اختلاف کے سبب آپ کی تمام ڈاک سنسر کے لیے روک لی جاتی ہے۔ ہم اس اختلاف پر بعد میں کلام کریں گے۔ جب آپ کو میرا خط پہنچا، تو آپ کو بہت افسوس ہوا اور آپ نے میرے پیچھے راولپنڈی جہاں میرا ریل کاسفر ختم ہونا تھا، ایک قاصد بھیجا۔ لاہور اور راولپنڈی کے درمیان کئی سو میل کی مسافت ہے۔ قاصد مجھے وہاں آ ملا اور آپ کے سلام، افسوس اور انتظار کا پیغام دیا۔ جب میں کشمیر اور پشاور کی سیاحت سے واپس ہوا، تو میں نے نہ چاہا کہ آپ کو بے چین نہ کروں، اس لیے میں نے اپنی آمد کی خبر اس وقت دی جب میں لاہور کے ایک ہوٹل میں قیام پذیر ہو گیا۔ آپ فوراً مجھ سے ملنے آئے، پہلے ہماری روحیں متعارف تھیں اور اب جسم بھی متعارف ہو گئے۔
میں نے اپنے سامنے ایک گٹھے ہوئے جسم کا انسان دیکھا۔ پیشانی پر وقار، جسم زندگی اور توانائی سے بھرپور، گنجان اور بارعب داڑھی جس کی سیاہی پر سفیدی غالب، آپ نے ملاقات کے بعد مجھے اپنے مکان پر دعوت دی جو جماعت کا مرکز ہے۔ ہم جماعت کے کچھ ارکان کے ساتھ چائے پر اکٹھے ہوئے۔ چائے کا دور چل رہا تھا کہ انھوں نے مجھ سے تقریر کا مطالبہ کیا۔ میں نے تقریر شروع کی اور اسلامی موضوعات پر جو آج کل افکار کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں، جی بھر کے گفتگو کی اور مولانا مودودی… خدا آپ سے مشکلات دور فرمائے… جہاں کہیں میری زبان فہم سے بالا ہوتی اور اس میں اشارات و کنایات آ جاتے، مجھے رکنے کو کہتے تاکہ آپ کا ایک لائق، عربی داں شاگرد ترجمہ کر کے مطالب کی پیچیدگی کو دور کر دے۔ اور کہیں تقریر کا کوئی مطلب سمجھنے سے نہ رہ جائے۔
رہا آپ کے اور حکومت کے مابین اختلاف کا مسئلہ، تو اس کا سب سے بڑا اور واضح سبب یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا مقصد پاکستان میں صحیح اور مکمل معنوں میں اسلامی حکومت کا قیام ہے جس میں نہ نرمی کی گنجایش ہے نہ تساہل کی اور جس کا دستور ان تمام احکام پر مشتمل ہو جو اللہ تعالیٰ نے معاملات، حدوداور قصاص کے بارے میں نازل کیے ہیں۔ اس سلسلے میں مودودی صاحب کے خیالات دور رس اور پروگرام، منصوبے اور طریقِ کار آزمودہ اور جانے بوجھے ہیں جن میں ردوقدح کی گنجایش نہیں، بلکہ آپ نے ایک مکمل دستوری خاکہ بھی مرتب کیا ہے۔ جس کے چند حصے مصر کے مؤقر مجلہ المسلمون نے ترجمہ کیے ہیں اور جو مذکورہ بالا امور اور علامہ مودودی کے بارے میں اس امر کی دلالت کرتے کہ انھیں اسلامی نظام کے فہم میں کس درجہ دسترس حاصل ہے! اس ضمن میں جماعت اسلامی کی حجت یہ ہے کہ مسلمان تقسیمِ ہند پر صرف اس لیے رضا مند ہوئے تھے۔ اور انھوںنے جان و مال ایسی عظیم الشان قربانیاں جو آج تک کسی قوم نے نہیں دی ہیں، صرف اس بنا پر خوشی خوشی برداشت کرلی تھیں کہ وہ اپنے دین کو اس کی اصلی حیثیت میں قائم کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اگر اب بھی صورت حال وہی رہی جو تقسیم ملک سے قبل قائم تھی، تو یہ نہ ان قربانیوںکا صلہ ہو سکتا ہے، نہ ان کے کسی ادنیٰ حصے کا بدل!
حکومت پاکستان جو اگرچہ بظاہر اسلامی حقیقت کے اعتبار سے جمہوری طرز کی حکومت ہے، اب تک اسی نظام پر چل رہی ہے جو انگریز نے ہندستان کے لیے وضع کیا تھا۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کا دستور اسلامی ہو اس لیے کہ عوام یہی چاہتے ہیں یا اس لیے کہ عوام کی اکثریت یہی چاہتی ہے، لیکن حکومت اسے تدریج، نرم روی، سہولت کے ساتھ اور حالات کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر لانا چاہتی ہے، پھر پاکستان میں ایک مغرب زدہ طبقہ بھی ہے جو اسلامی دستور نہیں چاہتا، لیکن وہ عوام کے مقابلے میں قلیل ہونے کی وجہ سے دَرپردہ سرگرمِ عمل ہے۔ صاحبِ بصیرت لوگوں کا خیال ہے کہ اس طبقے کو بیرون ملک سے کافی تائید حاصل ہے۔ اس مضمون میں اتنی گنجایش نہیں کہ ان دو افکار میں سے کسی ایک کو قابل ترجیح قرار دیا جا سکے۔ اگرچہ اس بارے میں ہماری بھی ایک رائے ہے جس کا اظہار ہم نے بعض ذمہ دار اشخاص سے اس وقت کر دیا تھا۔
مفصّلہ بالاوجوہ کی بنا پر حکومت مولانا مودودی، ان کے سخت اور بے لوچ مسلک، کھری کھری باتوں اور بزعم خود ان کی عجلت کی تاب نہ لا سکی۔ اس لیے جب بھی خاص موقع پر انھوں نے پرزور خیالات کا اظہار کیا اور فتوے صادر کیے، تو حکومت نے انھیں قید و بند میں ڈال دیا اور ہمیشہ انھیں خوف و ہراس کی نظر سے دیکھتی رہی۔ جن دنوں کشمیر کا قضیہ اپنی شدت پر تھا اور وہاں مسلح جھڑپیں ہو رہی تھیں، آپ کی طرف ایک فتویٰ منسوب کر دیا گیا اور کہا گیا کہ اس فتوے سے دشمن کو ایک حربہ ہاتھ آ گیا ہے اور ہندوئوں کے پروپیگنڈے کو اس سے مدد ملی ہے۔ یہ فتویٰ مجھے بہت کھلتا رہا اور اس کی حقیقت سے آگاہ ہونے کی مجھے بڑی تمنا رہی۔ کیوںکہ یہ فتویٰ مجھ سے اس طور پر بیان کیا گیا تھا کہ یہ درست ہوتا، تو میں سب سے پہلا شخص ہوتا جو اس کی مخالفت کرتا۔ مولانا کی قیام گاہ پر ان کی صحبت میں، میں نے یہ سوال کیا، لیکن میرا سوال ان دیگر مسائل کے غُل غپاڑے میں گم ہو گیا جن پر باتوں میں باتیں نکل رہی تھیں۔ پھر اس صحبت میں جو باتیں ہوئیں ان میں گم ہو کر میں اس سوال کا اعادہ کرنا ہی بھول گیا۔ اس فرصت کو ہاتھ سے دے کر میرے دل میں ایک خلش سی رہی۔ خدا معلوم یہ فرصت دوبارہ مل سکے گی، یا نہیں۔ میرا شوقِ سوال اس لیے ہے کہ میں حقیقت کا سراغ اس کے اصل ماخذ سے لگائوںاور مولانا سے ان کے خلاف کہی ہوئی باتوں پر تبادلۂ خیالات کروں۔
باوجودیکہ ہم نے اسلامی دستور کی بنیاد پر حکومت قائم کرنے کے بارے میں حکومت اور مولانا مودودی کے اختلاف پر اپنی رائے محفوظ رکھی ہے۔ ہم حق کی خاطر ایک بات صاف صاف کہہ دینا چاہتے ہیں اور وہ یہ کہ مولانا مودودی ہی وہ آدمی ہیں جو دولتِ پاکستان کے لیے مطلوبہ اسلامی دستور وضع کرنے پر سب سے زیادہ قدرت رکھتے ہیں۔ اور علما میں سب سے قابل آدمی ہیں جو بڑی عمدگی و مہارت سے قرآن و حدیث، اسلامی قانون کے مقاصدِ عامہ اور امتِ مسلمہ کے متفق علیہ اصولوں سے دستور کو اخذ کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی میں اس بات کا بھی یقین رکھتا ہوں کہ مودودی صاحب اور ان کے مرتب کردہ دستور کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ صرف حکومت ہی نہیں، بلکہ فقہائے مذاہب کا جمود ہے جو ہمتوں کو پست کر دیتا ہے اور پاکستان میں فقہی مسالک کی کثرت کا کیا کہنا!
گذشتہ ماہ پاکستان میں سخت ہیجان برپا ہوا اور خون خرابہ بھی ہوا جس کی وضاحت کرنے سے پیش تر عربی اخبارات نے احتراز کیا، اس لیے ہم اس ہیجان کے اسباب و وجوہ اور اغراض و مقاصد سمجھنے سے قاصر رہے۔ غالب گمان یہ ہے کہ اس کا محور حکومتِ اسلامی کا مطالبہ ہے اور شاید حکومت نے ملک میں مودودی صاحب اور ان کے رفقا کے اثر ونفوذ کو بہت بڑھتے دیکھ کر انھیں اور ان کے پیشتر رفقا کو پکڑ کر قید میں ڈال دیا پھر اس معاملے کو فوجی حکومت کے سپرد کر دیا جو لاہور میں قائم کی گئی اور جس نے ان کو سزائے موت کا حکم سنایا (سزائے موت کا حکم قادیانی فرقے کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے تحریک کے سلسلے میں ہوا تھا)۔ بعد کی خبروں سے معلوم ہوا کہ سزائے موت کو چودہ سال قید بامشقت میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کے مسلمان اس ظالمانہ فیصلے اور اس کی شدید و تخفیف شدہ ہر دو صورتوں پر بہت برا فروختہ ہوئے اور حکومت پر غیظ و غضب سے لبریز احتجاجوں اور مظاہروں کا ایک طوفان امڈ پڑا۔ ہمیں اس میں ذرا شک نہیں کہ تخفیف ِ سزا اسی غیظ و غضب کے اظہار کا نتیجہ ہے۔
پھرمصر، شام، عراق اور کویت سے تمام منظم اسلامی اداروں اور انجمنوں نے بھی صدائے احتجاج بلند کی اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ مجھے ان خبروں کی تصدیق اسی وقت ہو گئی تھی جب کہ میں کویت میں تھا۔میرے ان کے ساتھ تعلقات اور جمعیت العلما اور ان کے درمیان ایک دوسرے کی قدرومنزلت کی بنا پر مجھے غم اور افسوس ہوا۔ کیوںکہ مودودی کسی ایک محدود علاقے کی شخصیت نہیں، بلکہ تمام مسلمانانِ عالم کی متاع ہیں۔ ان کے ہم پر جو حقوق ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب کہ حکومت نے ان کی سزائے موت بدل دی ہے ہم ان کی رہائی کے لیے کوشش کریں۔
بنابریں میں جمعیت علما مسلمانانِ الجزائر کی طرف سے جن کی نمایندگی میں اور اس کے قابل فخر فرزند فضیل ور تلانی کرتے ہیں۔ اور تمام عربِ مغربی کی طرف سے گورنر جنرل اور وزیراعظم پاکستان کو الگ الگ برقیہ ارسال کیا ہے، جن کی نقل اس مضمون سے پہلے شائع کی گئی ہے۔ کیوںکہ اسلام کی خدمت اور اس کے حامیوں کی نصرت و تائید میں موصوف نے کچھ کم حصہ نہیں لیا اور توقع ہے کہ پاکستان کی مسلمان حکومت اس اسلامی شعور کو ملحوظ رکھے گی۔ جو کل اس کے وجود میں آنے کی خوشی میں موجزن تھا اور آج اس اندیشے کی بنا پر مضطرب ہے کہ کہیں اس کی نیک نامی کو اس بنا پر بٹہ نہ لگ جائے کہ وہ اظہارِ رائے، بلکہ دینی آزادی کے خلاف بھی نبردآزما ہے اور اسے اس بات کا احساس ہو کہ مودودی صاحب نے جو صدا بلند کی ہے وہ اسے ایسا بڑا جرم سمجھتی ہے کہ اس پر انھیں موت یا عمر قید کی سزا دی جانی چاہیے۔ دراصل یہ حکومت کے بارے میں تمام مسلمانوں کی رائے ہے۔ ان سب کی یہ خواہش ہے، اور وہ سب اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہونی چاہیے تاکہ وہ مسلمانوں کے لیے وجہِ افتخار، مرکزِ پناہ اور اسلام کے لیے باعثِ عزت اور ملجا و ماویٰ ثابت ہو۔
اپنے دوست کے حق میں حمایت و نصرانیت کی اس ناچیز سی کوشش کے بعد میرا انتہائی فرض تھا کہ میں انھیں اپنے ابنائے وطن اور قارئین البصائر سے متعارف کرائوں، تاکہ وہ بخوبی جان لیں کہ یہ قہروغضب کس شخص پر توڑا گیا ہے۔ امید ہے کہ عنقریب اس کی رہائی اور خلاصی کی خوشخبری ہمیں پہنچے گی اور اس طرح غم و غصہ مسرت و رضا مندی میں تبدیل ہوجائے گا۔
مولانا مودودی صاحب نے اسلام کی راہ میں جس جہاد کا بیڑا اٹھایا ہے اس دنیا میں اس پر اتنا اجر بھی کافی ہے کہ مسلمان ان کی حمایت و نصرت پر اس کثرت سے مجتمع ہو گئے ہیں اور انھیں جو اجر اللہ کے ہاں ملے گا وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر و پایدار ہے۔
مودودی صاحب کو آزادی اور قید ہر دو حالتوں میں ہمارا سلام پہنچے۔ (ماہنامہ فاران کراچی)

علامہ محمد البشیر الابراہیمی
(سابق صدر جمعیۃ العلماء المسلمین الجزائر)