ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔
وہابی اور وہابیت
سوال: فرقہ ٔوہابیہ کا بانی کون تھا؟اس کے مخصوص عقائد کیا تھے؟ہندستان میں اس کی تعلیمات کس طرح شائع ہوئیں؟کیا علماے اسلام نے اس کی تردید نہیں کی؟اگر کی ہے تو کس طریقے پر؟ آیا اس فرقے نے اشاعتِ اسلام میں حصہ لیا ہے یا مخالفتِ اسلام میں؟
جواب: وہابی دراصل کسی فرقے کا نام نہیں ہے۔محض طنز اور طعن کے طور پر ان لوگوں کے لیے ایک نام رکھ دیا گیا ہے، جو یا تو اہلِ حدیث ہیں یا محمد بن عبدالوہاب کے پیرو ہیں۔ اہلِ حدیث کا مسلک تو قدیم ہے۔ ائمۂ اربعہ کے زمانے سے چلا آتا ہے۔ اور یہ ان لوگوں کا گروہ ہے جو کسی امام کی تقلید اختیا رکرنے کے بجائے خود حدیث وقرآن سے احکام کی تحقیق کرتے ہیں۔رہے محمد بن عبدالوہاب کے پیرو،تو وہ دراصل حنبلی طریقے کے لوگ ہیں۔ان کی فقہ اور ان کے عقائد وہی ہیں جو امام احمد بن حنبلؒ کے تھے۔ہندستان میں یہ مؤخر الذکر گروہ غالباًکہیں موجود نہیں ہے۔جن لوگوں کو یہاں وہابی کہا جاتا ہے وہ دراصل پہلے گروہ کے لوگ ہیں۔ ان لوگوں نے اوّل اوّل نہایت اچھا کام کیا اور اب بھی ان میں اچھے افراد پائے جاتے ہیں۔مگر ان میں بہت سے جاہل اور جھگڑالو آدمی بھی شامل ہوگئے ہیں جو خواہ مخواہ چھوٹے چھوٹے معاملات پر بحث و مناظرے کا بازار گرم کرتے پھرتے ہیں۔ اور ایسے ہی جاہل خود حنفی کہلانے والے گروہ میں بھی بکثرت موجود ہیں۔یہ ساری مناظرہ ومباحثہ اور فرقہ بازی کی گرمیِ بازار انھی دونوں فریقوں کی برکت ہے۔
(ترجمان القرآن ، جولائی ،اکتوبر 1944ء)
وہابی اور نجد کا فرقہ
سوال: کیا کسی حدیث میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ نجد سے ایک فتنہ اُٹھے گا ؟کیا یہ حدیث مذکورہ بالا فرقے پر منطبق ہوتی ہے؟
جواب: نجد یا مشرق کی طرف سے ایک فتنہ اُٹھنے کی خبر تو حدیث میں دی گئی ہے (صحیح البخاری، کتاب الفتن، باب: قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الفتنۃ من قبل المشرق،حدیث 6563 ) مگر اس کو محمد بن عبدالوہاب پر چسپاں کرنا محض گروہ بندی کے اندھے جوش کا نتیجہ ہے ۔ایک فریق جب دوسرے فریق سے لڑنا چاہتا ہے تو ہر ہتھیار اس کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے، حتیٰ کہ خدا اور رسول کو بھی ایک فریق جنگ بنانے سے دریغ نہیں کرتا۔
(ترجمان القرآن ، جولائی ،اکتوبر 1944ء)
حضرت حوا کی پیدائش
سوال: حضرت حوا کی پیدائش کے متعلق تفہیم القرآن جلد1، صفحہ319 میں جناب نے تصریح کی ہے کہ آدم ؈ کی پسلی سے نہیں ہوئی۔ حدیث بخاری خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعِ آدَمَ کا کیا جواب ہوگا؟
جواب: قرآن مجید میں کسی جگہ بھی یہ تصریح نہیں ہے کہ حضرت حوا کو آدم ؑ کی پسلی سے پیدا کیا گیا تھا۔زیادہ سے زیادہ اس خیال کی تائید میں جو چیز پیش کی جاسکتی ہے،وہ قرآن کا یہ ارشاد ہے:
﴿خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا ﴾ (النسائ 4:1)
(جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا)
اور ﴿جَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا ﴾ (الزمر39:6) (جس نے اُس جان سے اس کا جوڑا بنایا)
لیکن ان دونوں آیتوں میں منھا کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ’’اسی نفس سے اس کا جوڑا بنایا‘‘ اور یہ بھی کہ ’’اِسی کی جنس سے اُس کا جوڑا بنایا‘‘۔ ان دونوں میں سے کسی معنی کو بھی ترجیح دینے کے لیے کوئی دلیل قرآن کی ان آیتوں میں نہیں ہے، بلکہ قرآن کی بعض دوسری آیتیں تو دوسرے معنی کی تائید کرتی ہیں۔مثلاً سورۂ روم میں فرمایا:
﴿وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا﴾ (الروم 30:21)
(اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری جنس سے بیویاں بنائیں)
اور سورۃالشوریٰ میں فرمایا:
﴿جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا﴾ (الشوریٰ 42:11 )
(جس نے تمھاری اپنی جنس سے تمھارے لیے جوڑے پیداکیے)
یہی مضمون سورۃ النحل آیت 72 میں بھی آیا ہے۔ظاہر ہے کہ ان تینوں آیتوں میں مِنْ اَنْفُسِكُم کے معنی مِنْ جِنْسِکُم ہی لیے جائیں گے، نہ یہ کہ تمام انسانوں کی بیویاں ان کی پسلیوں سے پیدا ہوئی ہیں۔اب اگر پہلے معنی کو ترجیح دینے کے لیے کوئی بنیاد مل سکتی ہے تو وہ حضرت ابو ہریرہؓ کی وہ روایات ہیں جو بخاری ومسلم نے نقل کی ہیں،مگر ان کے الفاظ میں اختلاف ہے۔ایک روایت میں وہ نبی کا ارشاد ان الفاظ میں نقل فرماتے ہیں کہ
اَلْمَرْأَةُ كَالضِّلَعِ، إِنْ أَقَمْتَهَا كَسَرْتَهَا، وَ إِنْ اسْتَمْتَعْتَ بِهَا اسْتَمْتَعْتَ بِهَا وَفِيهَا عِوَجٌ{صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب المداراۃ مع النساء ، حدیث 4786 }(عورت پسلی کے مانند ہے، اگر تو اسے سیدھا کرے گا تو توڑ دے گا اور اگر اس سے فائدہ اٹھائے گا تو اس کے اندر کجی باقی رہتے ہوئے ہی فائدہ اٹھاسکے گا)
اور دوسری روایت میں انھوں نے حضور a کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں:
اِسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا فَإِنَّهُنَّ خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعٍ وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلَاهُ فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا{صحیح البخاری باب الوصاۃ بالنساء ، حدیث 4787 }(عورتوں کے معاملے میں بھلائی کی نصیحت قبول کرو، کیوں کہ وہ پسلی سے پیدا ہوئی ہیں، اور پسلی کا سب سے ٹیڑھا حصہ اس کا بالائی حصہ ہوتا ہے۔اگر تو اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کو توڑ دے گا اور اگر چھوڑ دے گا تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ لہٰذا عورتوں کے معاملے میں بھلائی کی نصیحت قبو ل کرو)
ان دونوں حدیثوں میں سے پہلی حدیث تو عورت کو پسلی سے محض تشبیہ دے رہی ہے۔اس میں سرے سے یہ ذکر ہی نہیں ہے کہ وہ پسلی سے پیدا ہوئی ہے۔البتہ دوسری حدیث میںپسلی سے پیدائش کی تصریح ہے۔لیکن یہ امر قابل غور ہے کہ اس میں حضرت حوا یا پہلی عورت یا ایک عورت کی نہیں بلکہ تمام عورتوں کی پیدائش پسلی ہی سے بیان کی گئی ہے۔{یہ الفاظ بخاری،کتاب النکاح والی روایت کے ہیں۔ دوسری روایت جو امام بخاریؒ نے کتاب احادیث الانبیاء میں نقل کی ہے، اِس کے الفاظ ہیں: فَإنَّ الْمَرَٔأۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ (کیوں کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے)اِس صورت میں المرأۃ سے مراد ہر عورت،اور عورتوں کی پوری صنف ہوگی نہ کہ وہ ایک خاص عورت جو دنیا میں سب سے پہلے پیدا کی گئی۔ اِس سلسلے میں یہ بات حیرت انگیزہے کہ سائل نے بخاری کے حوالے سے خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعِ آدَمَ کے الفاظ نقل کیے ہیں، حالاں کہ بخاری میں کسی جگہ بھی یہ الفاظ نہیں آئے ہیں۔ } کیا فی الواقع دنیا کی تمام عورتیں پسلیوں ہی سے پیدا ہوا کرتی ہیں؟اگر یہ بات نہیں ہے، اور ظاہر ہے کہ نہیں ہے، تو ماننا پڑے گا کہ یہاں خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعٍ کے الفاظ اس معنی میں نہیں ہیں کہ وہ پسلی سے پیداکی گئی یا بنائی گئی ہیں، بلکہ اس معنی میں ہیں کہ ان کی ساخت میں پسلی کی سی کجی ہے۔ اس کی مثال قرآن مجید کی یہ ا ٓیت ہے کہ ﴿خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ﴾ (الانبیاء 37:21)
اس کے معنی بھی یہ نہیں ہیں کہ انسان جلد بازی سے پیدا کیا گیا ہے، بلکہ یہ ہیں کہ انسان کی سرشت میں جلد بازی ہے ۔
اس تشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پسلی سے حضرت حوا کی پیدائش کا خیال قرآن ہی میں نہیں، حدیث میں بھی کسی مضبوط دلیل پر مبنی نہیں ہے۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ بنی اسرائیل سے یہ روایت نقل ہوکر مسلمانوں میں شائع ہوئی اور بڑے بڑے لوگو ں نے اسے نہ صرف قبول کیا بلکہ اپنی کتابوں میں بھی ثبت کر دیا۔ مگر کیا یہ صحیح ہے کہ اﷲ اور رسول a کی سند کے بغیر محض بڑے لوگوں کے اقوال کی بِنا پر اسے ایک اسلامی عقیدہ ٹھیرا دیا جائے اور جو کوئی اس پر ایمان نہ لائے، اسے گمراہ قرار دیا جائے؟
( ترجمان القرآن، مئی 1956ء)
مالی عبادات اور بدنی عبادات کے ایصالِ ثواب کا معاملہ
سوال: رسائل ومسائل] سوال نمبر802 [ میں’’نذر ونیاز اور فاتحہ شرعی حیثیت‘‘ کے عنوان کے تحت جو جواب آپ نے رقم فرمایا ہے، اس سے یہ متبادر ہوتا ہے کہ آپ اس امر کے قائل ہیں کہ مالی عبادت سے ایصال ثواب ہوسکتاہے مگر بدنی عبادت سے نہیں، اور پھر آپ مالی انفاق کے بھی متوفی عزیز کے لیے نافع ہونے کو اﷲ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف قرا ردے رہے ہیں۔ کیا آپ کے استدلال کی وجہ یہ ہے کہ اس امر کی بابت کوئی صراحت قرآن وحدیث میں نہیں ہے کہ بدنی عبادت میں ایصال ثواب ممکن ہے؟ یا کوئی اور سبب ہے؟
جواب: دراصل تو قرآن وحدیث سے عام قاعدہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کا اپنا عمل ہی اس کے لیے مفید ہے،ایک شخص کا عمل دوسرے کے لیے آخرت میں مفید نہ ہوگا۔ لیکن بعض احادیث سے یہ استثنائی صورت بھی معلوم ہوتی ہے کہ ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے۔اس طرح کی جتنی احادیث بھی ہمیں ملی ہیں ،ان سب میں کسی خالص بدنی عبادت کا ذکر نہیں ہے بلکہ ایسی عبادت کا ذکر ہے جو یا تو صرف مالی عبادت ہے جیسے صدقہ،یا مالی وبدنی عبادت ملی جلی ہے،جیسے حج۔ اسی بِنا پر فقہا میں اختلاف ہوا ہے۔ ایک گروہ اسے مالی اور بدنی عبادات دونوں میں جار ی کرتا ہے اور دوسرا گروہ اس کو ان عبادات کے لیے مخصوص کرتا ہے جو یا تو خالص مالی عبادات ہیں یا جن میں بدنی عبادت،مالی عبادت کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔میرے نزدیک یہ دوسرا مسلک اس لیے مرجح ہے کہ قاعدۂ کلیہ میں اگر کوئی استثنا کسی حکم سے نکلتا ہو تو اس استثنا کو اسی حد تک محدود رکھنا چاہیے جس حد تک وہ حکم سے نکلتا ہے۔اسے عام کرنا میری راے میں درست نہیں ہے۔لیکن اگر کوئی شخص پہلے گروہ کے مسلک پر عمل کرتا ہے تو اسے ملامت نہیں کی جاسکتی۔کیوں کہ شریعت میں اس کی گنجائش بھی پائی جاتی ہے ۔زیادہ سے زیادہ اختلاف صرف ترجیح کا ہے۔
(ترجمان القرآن، فروری، 1961ء)
ایصالِ ثواب کا اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہونا
سوال: آپ خودایصال ثواب کرنے والے کے لیے تو انفاق کوبہرحال نافع قرار دے رہے ہیں مگر متوفیٰ عزیز کے لیے نافع ہونے کو اﷲ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف قرار دے رہے ہیں۔اس تفریق کی اصل وجہ کیا ہے؟
جواب : یہ بات کہ ایصال ثواب کا میت کے لیے نافع ہونا یا نہ ہونا اﷲ کی مرضی پر موقوف ہے،تو اس کا سبب دراصل یہ ہے کہ ایصال ثواب کی نوعیت محض ایک دعا کی ہے۔ یعنی ہم اﷲ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ یہ نیک عمل جو ہم نے تیری رضا کے لیے کیا ہے، اس کا ثواب فلاں مرحوم کو دیا جائے۔اس دعا کی حیثیت ہماری دوسری دعائوں سے مختلف نہیں ہے۔ اور ہماری سب دعائیں اﷲ کی مرضی پر موقوف ہیں۔وہ مختار ہے کہ جس دعا کو چاہے قبول فرمائے اور جسے چاہے قبول نہ فرمائے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم کسی ایسے شخص کے لیے ایصال ثواب کریں جو اﷲ کی نگاہ میں مومن ہی نہ ہو، یا سخت مجرم ہو اور اﷲ اسے کسی ثواب کا مستحق نہ سمجھے۔
ایصال ثواب کرنے والے نے اگرواقعی کوئی نیک عمل کیا ہوتواس کااجر بہرحال ضائع نہ ہوگا۔اﷲ تعالیٰ اگر متوفی کو ثواب نہ پہنچائے گا تو نیکی کرنے والے کے حساب میں اس کا اجر ضرور شامل کرے گا۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے آپ کسی شخص کے نام منی آرڈر بھیجیں۔اگر وہ منی آرڈر اس کو نہ دیا گیا ہو تو لازماًآپ کی رقم آپ کو واپس ملے گی۔ یا مثلاً آپ جیل میںکسی قیدی کو کھانا بھیجیں۔اگرحکومت یہ مناسب نہیں سمجھتی کہ ایک ظالم مجرم کو نفیس کھانے کھلائے جائیں تو وہ آپ کا بھیجا ہوا کھانا پھینک نہیں دے گی،بلکہ آپ کو واپس کردے گی۔
(ترجمان القرآن،فروری 1961ء)
دوسروں کے لیے ایصالِ ثواب
سوال: کیا ہر شخص ہر دوسرے متوفی شخص کوخواہ متوفی اس کا عزیز ہو یا نہ ہو،یا متوفی نے بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کی تربیت میں حصہ لیا ہو یا نہ ، مالی انفاق کا ثواب پہنچا سکتا ہے یا کہ اس کے لیے آپ کے نزدیک چند قیود وشرائط ہیں؟ ازراہ کرم اپنی راے تحریر فرما دیں۔
جواب: ایصال ثواب ہر ایک کے لیے کیا جاسکتا ہے،خواہ متوفی سے کوئی قرابت ہو یا نہ ہو اور خواہ متوفی کا کوئی حصہ آدمی کی تربیت میں ہو یا نہ ہو۔ جس طرح دعا ہرایک شخص کے لیے کی جاسکتی ہے، اسی طرح ایصال ثواب بھی ہر ایک کے لیے کیا جاسکتا ہے۔
(ترجمان القرآن،فروری 1961ء)
اصحاب ِقبور سے دُعا کی درخواست
سوال : کسی بزرگ کی قبر پر جاکر اس طرح کہنا کہ’’اے ولی اﷲ!آپ ہمارے لیے اﷲ سے دعا کریں‘‘کیا درست ہے؟
جواب: کسی بزرگ سے اپنے حق میں دُعاے خیر کی درخواست کرنا بجائے خود کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ہے۔آدمی خود بھی اﷲ سے دعا مانگ سکتا ہے،اور دوسروں سے بھی کہہ سکتا ہے کہ میرے لیے دعا کرو۔ لیکن وفات یافتہ بزرگوں کی قبروں پر جاکر یہ درخواست پیش کرنا معاملے کی نوعیت کو بالکل ہی بدل دیتا ہے۔قبر پر یہ بات کہنے کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ آپ اپنے دل میں،یا چپکے چپکے ایسا کہیں۔اس کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ ان بزرگوں کی سماعت کی شان وہی کچھ سمجھ رہے ہیں جو اﷲ کی ہے کہ:
﴿وَاَسِرُّوْا قَوْلَكُمْ اَوِ اجْہَرُوْا بِہٖ۰ۭ اِنَّہٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ﴾ (الملک67:13)
(تم اپنی بات آہستہ سے کہو یا زور سے،وہ تو دلوں کا حال بھی جانتا ہے)
دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ زور زور سے ان ولی اﷲ کو پکار کر یہ بات کہیں۔اس صورت میں اعتقاد کی خرابی تو لازم نہ آئے گی مگر یہ اندھیرے میں تیر چلا نا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ آپ پکار رہے ہوں اور وہ نہ سن رہے ہوں۔کیوں کہ سماع موتیٰ کا مسئلہ مختلف فیہ ہے۔یہ بھی ہوسکتاہے کہ ان کا سماع تو ممکن ہو، مگر ان کی روح اس وقت وہاں تشریف نہ رکھتی ہو،اور آپ خواہ مخواہ خالی مکان پر آوازیں دے رہے ہوں۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی روح تشریف فرما تو ہو مگر وہ اپنے ربّ کی طرف مشغول ہوں،اور آپ اپنی غرض کے لیے چیخ چیخ کر ان کو اُلٹی اذیت دیں۔دنیا میں کسی نیک آدمی سے دعا کرانے کے لیے آپ جاتے ہیں تو مہذب طریقے سے پہلے ملاقات ہوتی ہے پھر آپ عرض مدعا کرتے ہیں۔یہ تو نہیں کرتے کہ مکان کے باہر کھڑے ہوکر بس چیخنا شروع کردیا۔کچھ پتا نہیں کہ اندر ہیں یا نہیں ہیں۔ ہیں تو آرام میںہیں یا کسی کام میں مشغول ہیں،یا آپ کی بات سننے کے لیے خالی بیٹھے ہیں۔
اب غور کیجیے کہ وفات یافتہ بزرگو ں کے معاملے میںجب ہمارے لیے ان کے احوال معلوم کرنے اور ان سے بالمشافہ ملاقات کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے تو ان کے مکانوں پر جاکر اندھادھند چیخ پکار شروع کردینا آخر کس معقول آدمی کا کام ہوسکتا ہے۔دعا کروانے کا یہ طریقہ اگر قرآن وحدیث میںسکھایا گیا ہوتا،یا اس کا کوئی ثبوت موجود ہوتا کہ صحابہؓ کے عہد میں یہ رائج تھا، تب تو بات صاف تھی ۔بڑے اطمینان کے ساتھ یہ کام کیا جاسکتا تھا۔لیکن جب وہاں اس کا کوئی پتہ نشان نہیں ملتا تو آخر ایسا طریقہ کیوں اختیار کیا جائے جس کی ایک صورت توصریحاً صفات الٰہی کے تصور سے ٹکراتی ہے ،اور دوسری صورت علانیہ غیر معقول نظر آتی ہے۔
( ترجمان القرآن ، اکتوبر،نومبر 1957ء)
دُعا میں بزرگوں کی حرمت وجاہ سے توسل
سوال: یہ جو دُعائوں میں’’بجاہ فلاں ‘‘اور ’’بحرمت فلاں‘‘ کا اضافہ ملتا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ سنت رسولؐ کیا بتاتی ہے؟ صحابہؓ کا کیا معمول رہا ہے؟ اور اس طرح (بجاہ… بحرمت) دُعا مانگنے سے کوئی دینی قباحت تو لازم نہیں آتی؟
جواب: دُعا میں اﷲ تعالیٰ کو کسی جاہ وحرمت کا واسطہ دینا وہ طریقہ نہیں ہے جو اﷲ اور اس کے رسول پاکؐ نے ہم کو سکھایا ہے۔ قرآن تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اس تخیل سے بالکل خالی ہے۔ حدیث میں بھی اس کی کوئی بنیاد میرے علم میں نہیں ہے۔صحابہ کرامؓ میں سے بھی کسی کے متعلق میںنہیں جانتا کہ انھوں نے دعا میں یہ طریقہ خود اختیار کیا ہو یا دوسروں کو اس کی تعلیم دی ہو۔ معلوم نہیں کہ مسلمانوں میں یہ تخیل کہاں سے آگیا کہ ربّ العالمین کے حضور دُعا مانگتے وقت اسے کسی بندے کی جاہ وحرمت کا حوالہ دیں یا اس سے یہ عرض کریں کہ اپنے فلاں بندے کے طفیل میری حاجت پوری کردے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ایسا کرنا ممنوع ہے۔میں صرف دو باتیں کہتا ہوں:
ایک یہ کہ ایسا کرنا اس طریقے کے مطابق نہیں ہے جو ربّ العالمین نے خود ہمیں دعا مانگنے کے لیے سکھایا ہے۔ او ر اس طریق دُعا سے بھی مطابقت نہیں رکھتا جو نبی aنے اپنے براہِ راست شاگردوں کو بتایا تھا۔ اس لیے اس سے اجتناب ہی کرنا چاہیے۔ کیوں کہ حضور ؐ اور تمام انبیا ؊ آخر یہی بتانے کے لیے تو آئے تھے کہ خدا اور بندوں کے درمیان ربط وتعلق کی صحیح صورت کیا ہے، اور جب انھوں نے اس کی یہ صورت نہ خود اختیار کی، نہ کسی کو سکھائی، تو جو شخص بھی اسے اختیار کرے گا ،وہ معتبر چیز کو چھوڑ کر غیر معتبر چیز کو اختیار کرے گا۔
دوسری بات میں یہ کہتا ہوں کہ مجھے تو اس طریق دعا میں بڑی کراہیت محسوس ہوتی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ کوئی دوسرا شخص اس کے معنیٰ سے صرف نظر کرلے اور اس میں کراہیت کا وہ پہلو محسوس نہ کرے جو مجھے نظر آتا ہے۔میں جب اس طرزِ دُعا کے مضمرات پر غورکرتا ہوں تو میرے سامنے کچھ ایسی تصویر آتی ہے کہ جیسے ایک بہت بڑی سخی داتا ہستی ہے ،جس کے دروازے سے ہر کہ ومہ کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں،جس کا فیض عام ہے،جس کا دربار کھلا ہے،جس سے ہر مانگنے والا مانگ سکتا ہے،اور کسی پر اس کی عطا وبخشش بند نہیں ہے۔ ایسی ہستی کے حضور ایک شخص آتا ہے اور اس سے سیدھی طرح یہ نہیں کہتا کہ اے کریم ورحیم! میری مدد کر، بلکہ یہ کہتا ہے کہ اپنے فلاں دوست کی خاطر میری حاجت پوری کردے۔ مانگنے کے اس اندازمیںیہ بدگمانی پوشیدہ ہے کہ وہ اپنی صفت رحم وکرم کی وجہ سے کسی کی دست گیری کرنے والا نہیں ہے بلکہ اپنے دوستوں اور چہیتوں اور مقربوںکی خاطر احسان کردیا کرتا ہے۔ان کا واسطہ نہ دیا جائے تو گویا آپ اس کے ہاں سے کچھ پانے کی امید نہیں رکھتے۔ اور بجاہ فلان کہہ کر مانگنے میں تو معاملہ بدگمانی سے بھی آگے نکل جاتا ہے۔اس کے معنی تو یہ ہیں کہ گویا آپ اس پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ میں فلاں بڑے آدمی کا متوسل آیا ہوں، میری درخواست کو کسی بے وسیلہ آدمی کی سی درخواست سمجھ کر نہ ٹال دیجیے گا۔ اگر یہ اس طرز دعا کے مضمرات نہ ہوں تو مجھے سمجھا دیا جائے۔ بڑی خوشی ہوگی کہ میرے دل کی کھٹک اس معاملے میں نکل جائے گی۔ لیکن اگر اس کے واقعی مضمرات یہی ہوں تومیں نہیں سمجھتا کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ کی صفات کاملہ کا صحیح تصور رکھتا ہو،وہ ایسا طرز دعا اختیا ر کرنے کا خیال بھی کیسے کرسکتا ہے۔
اسی طرح کے مضمرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فقہا نے بھی اس طریق دُعا کو مکروہ قرار دیا ہے۔چنانچہ فقہ حنفی کی مشہورکتاب ہدایہ میں یہ قول موجود ہے:
وَیَکْرَہُ اَنْ یَقُوْلَ الرَّجُلُ فِی دُعَائِہِ بِحَقِ فُلَانٍ اَوْبِحَقَ أَنْبِیائِ کَ وَرُسُلِکَ لِاَنَّہُ لَاحَقَّ لِلْمَخْلُوْقِ عَلَی الْخَالِقِ{ لمرغینانی، علی بن ابی بکر،برھان الدین، الھدایۃ شرح بدایۃ المبتدی، بیروت، داراِحیاء التراث العربی، کتاب الکراھیۃ، فصل مسائل متفرقۃ، ج4، ص380 }
( اور یہ مکروہ ہے کہ آدمی اپنی دُعا میں بحق فلاں یا بحق انبیا و رسل کہے،کیوں کہ مخلوق کا خالق پر کوئی حق نہیں ہے)
(ترجمان القرآن ، اکتوبر،نومبر1957ء)
مسئلہ حیات النبیﷺ
سوال : آج کل دینی حلقوں کی فضا میں حیات النبی کا مسئلہ ہر وقت گونجتا رہتا ہے اور علماے کرام کے نزدیک موضوع سخن بنا ہوا ہے۔شروع میں تو فریقین اپنی اپنی تائید میں علمی دلائل دے رہے تھے مگر اب تکفیر بازی،طعن وتشنیع اور پگڑی اچھالنے تک نوبت پہنچ گئی ہے۔ الا ماشاء اﷲ۔
بعض مساجد میں بآواز بلند کہا جارہا ہے کہ انبیا اسی طرح زندہ ہیں جس طرح کہ دنیا میں زندہ تھے اور حیات النبی کا منکر کافر ہے۔ بعض دوسرے حضرات حیات جسمانی کے عقیدے کو مشرکانہ بلکہ منبع شرک قرار دے رہے ہیں۔ جہاں تک فضائل کا تعلق ہوتا ہے، وہاں ادنیٰ سے ادنیٰ بات جو قرآن کریم اور خبر متواتر کے خلاف نہ ہو،مانی جاسکتی ہے۔لیکن جب بات عقیدے کی حد تک پہنچ جائے تو وہاں قطعی الثبوت دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔آپ براہِ کرم میرے دل کی تسلی اورتشفی کے لیے مسئلہ حیات النبیﷺ پر روشنی ڈالیں۔
جواب: حیات النبیﷺ کے بارے میں آج کل جس طریق پر علماے کرام کے مابین بحث چل رہی ہے،اس کی نہ کوئی ضرورت ہے نہ اس کا کچھ حاصل ہی ہے۔ عقیدے کی حد تک ہمارا اس بات پر ایمان کافی ہے کہ آںحضور ﷺ اﷲ کے نبی ہیں اور آپﷺ کی ہدایت ابد تک کے لیے کامل ہدایت ہے۔ عمل کے لیے یہ بالکل کافی ہے کہ ہم آںحضورﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں، جسے معلوم کرنے کی خاطر قرآن اور سنت ہمارا مرجع ومنبع ہے۔ اب آخر اس بحث کی حاجت ہی کیا ہے کہ نبی کریمؐ اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد کس معنی میں زندہ ہیں۔ برزخی وروحانی حیات ہو یا جسمانی حیات،بہرحال اس امر واقعہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آںحضرت ﷺ کا 11 ہجری میں وصال ہوچکا ہے ،اُمت کی ہدایت کے لیے آپ بنفس نفیس ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں،اور آپؐ کا اتباع کرنے کے لیے ہمیں آپؐ کی ذات اقدس کی طرف رجوع کرنے کے بجائے قرآن اور حدیث ہی کی طر ف رجوع کرنا ہے۔ حیات برزخی یا حیات جسمانی کی بحث کا کوئی بھی فیصلہ ہو، اس سے اس امر واقعہ میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا۔
پھر یہ بحث اس لیے بھی غیر ضروری اور لاطائل ہے کہ ہم اس خاص معاملے میں کوئی متعین عقیدہ رکھنے کے لیے اﷲ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے مکلف ہی نہیںکیے گئے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان اس مسئلے سے بالکل خالی الذہن ہو یا اس میں راے قائم کیے بغیر مرجائے تو اس کے ایمان میں کوئی نقص واقع نہ ہوگا،نہ آخرت میں اس سے پوچھا جائے گا کہ تو نے حیات نبی کے برزخی وجسمانی ہونے کے بارے میں کیا عقیدہ رکھا تھا۔ قرآن وحدیث میں کوئی ایسی واضح اور قطعی ہدایت اس باب میں نہیں دی گئی جو ہمیں ایک خاص عقیدہ رکھنے کا پابند کرتی ہو،نہ یہ مسئلہ صحابہ کرامؓ کے درمیان زیر بحث تھا، نہ آںحضور ﷺ کے جانشینوں نے کسی کو اس معاملے میں کوئی خاص عقیدہ رکھنے کی کبھی تلقین کی۔
میں تو ایسا محسوس کرتا ہوں کہ حیات النبیؐ کے مسئلے میں حضرات علما وہی غلطی کررہے ہیں جو خلق قرآن کے مسئلے میں خلیفہ مامون نے کی تھی۔ یعنی جس چیز کو اﷲ اور اس کے رسولؐ نے اسلام کا ایک عقیدہ اور ایمانیات کا ایک رکن نہیں قرار دیا تھا اور نہ جسے ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کی نجات کا مدار رکھا تھا،اور نہ جس پر اعتقاد رکھنے کی خلق کو دعوت دی تھی،اسے خواہ مخوا ہ عقیدۂ اسلام اور رکن ایمان بنایا جارہا ہے،اس کے ماننے یا نہ ماننے کو مدار نجات قرار دیا جارہا ہے، اس پر اعتقاد رکھنے کی دعوت دی جارہی ہے، اور اعتقاد نہ رکھنے والوں کی تکفیر وتفسیق کی جارہی ہے۔دین میں جن چیزوں کی یہ حیثیت تھی ان کو صا ف صاف اور حتمی طور پر بیان کردینے میں اﷲ اور اس کے رسولؐ نے کوئی کوتاہی نہیں کی ہے اور علیٰ رؤوس الأشہاد ان کی طرف دعوت دی ہے۔یہ مسئلہ ہرگز ان مسائل میں سے نہیں ہے اور اسے زبردستی ان مسائل میں شامل کرنا یا ان کا سا درجہ دینا کلیتاً غلط کاروائی ہے۔اگر کوئی شخص اس مسئلے میں قطعاً خالی الذہن ہو یا اس کے بارے میں کوئی عقیدہ و راے نہ رکھتا ہو،اس سے قیامت میں کوئی باز پرس نہ ہوگی اور اس کے انجام اخروی پر اس عدم راے یا خلوئے ذہن کا کوئی اثر مترتب نہ ہوگا۔ البتہ خطرے میں وہ شخص ہے جو اس مسئلے میں ایک عقیدہ قائم کرتا اور اس کی تبلیغ کرتا ہے، کیوں کہ اس کے عقیدے میں صحت اور عدم صحت دونوں کا احتمال ہے۔
(ترجمان القرآن، دسمبر1959ء)
سجود لِغیر اﷲ
سوال : تفہیم القرآن زیر مطالعہ ہے۔شرک کے مسئلے پر ذہن اُلجھ گیا ہے۔ براہِ کرم راہ نمائی فرمائیں۔ تفہیم القرآن کے بغور مطالعہ سے یہ امر ذہن نشین ہوجاتا ہے کہ خداوندتعالیٰ کی مخصوص صفات میں عالم الغیب ہونا اور سمیع وبصیر ہونا(جس کے تحت ہمار ے مروّجہ الفاظ حاضر وناظر بھی آجاتے ہیں) بھی شامل ہیں۔ خدا کے سوا کسی کو بھی ان صفات سے متصف سمجھنا شرک ہے۔ اور حقوق میں سجدہ ورکوع وغیرہ بھی ذات باری سے مختص ہیں۔شرک کو خداوند تعالیٰ نے جرم عظیم اور ناقابلِ معافی گناہ قرار دیا ہے۔ظاہر ہے کہ ایسے جرم کا وہ خود کسی کو حکم نہیں دے سکتا۔ مگر فرشتوں کو آدمؑ کے لیے سجدہ کا حکم دیا۔اسی طرح کوئی نبی نہ تو شرک کرتا ہے اور نہ کرواتا ہے۔مگر حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے ان کے بھائیوں اور والدین نے سجدہ کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سجدہ غیر اﷲ کے لیے شرک ہے تو مندرجہ بالا واقعات کی کیا توجیہ ہوگی؟
جواب: آپ نے شرک کے مسئلے میں اپنی جو اُلجھنیں بیان فرمائی ہیں،وہ تفہیم القرآن کے مسلسل مطالعے سے بآسانی رفع ہوسکتی ہیں۔ میرے لیے ایک خط میں ان کو تفصیلاً رفع کرنا مشکل ہے۔تاہم چوں کہ’’شرک‘‘ کا معاملہ بڑا ہی نازک اور خطرناک ہے، اور میں نہیں چاہتا کہ آپ اس اُلجھن میں زیادہ دیر تک مبتلا رہیں،اس لیے اختصار کے ساتھ چند الفاظ میں آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کروں گا۔
سب سے پہلے آپ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ سجدہ بجائے خود شرک نہیں ہے بلکہ شرک کی علامت ہے۔اصل میں شرک تو اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک فی الذات یا فی الصفات یا فی الحقوق ٹھیرانا ہے۔سجدہ اگر اس طرح کے کسی عقیدے کے ساتھ ہو تو شرک ہے،ورنہ اس فعل سے چوں کہ مشرکین کے ساتھ عملاً مشابہت ہوتی ہے،اس لیے اسے بجائے خود شرک ہونے کی بِنا پر نہیں بلکہ اس مشابہت کی بِنا پر ممنوع ٹھیرایا گیا ہے۔ تخلیق آدمؑ کے وقت اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں کو خود حکم دیا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو۔اس لیے فرشتوں نے جو کچھ کیا،وہ اﷲ عزوجل کے حکم صریح کی تعمیل میں تھا۔ بطور خود وہ آدمؑ کو قابل پرستش یا قابل تعظیم سمجھ کر نہیں جھک گئے تھے۔ اس لیے ظاہر ہے کہ اس میں شرک کا کوئی شائبہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت یوسف ؈ کے سامنے والدین اور بھائیوں نے جو سجدہ کیا،وہ اس رؤیاے صادقہ کی بِنا پر تھا جو قرآن کی رو سے اﷲ تعالیٰ نے خود دکھایا تھا،جسے حضرت یعقوب ؈ نے الٰہی اشارہ قرار دیا تھا(سورۂ یوسف آیات 4 تا 6)، اور جس کو حضرت یوسف؈ نے بھی آخر کار اسی خواب کا مصداق ٹھیرایا(سورۂ یوسف آیت100) اس لیے یہاں بھی جو کچھ ہوا،اﷲ کے حکم سے ہوا۔اور ظاہر ہے کہ جو کام اﷲ کے حکم کی تعمیل میں کیا جائے، وہ شرک نہیں ہوسکتا۔
اب اس شخص کے معاملے کو لیجیے جو اﷲ تعالیٰ کے کسی فرمان کے بغیر کسی بندے کو معظم ومقدس سمجھ کر بطور خود اس کے آگے سجدہ بجالائے ۔ کیا کسی دلیل سے اس فعل کو بھی غیر مشرکانہ کہا جاسکتاہے؟کیا یہ استدلال صحیح ہوسکتا ہے کہ جب اﷲ نے پہلے دونوں معاملوں میں سجود لغیر اﷲ کو جائز رکھا ہے تو یہ فعل مطلقاً جائز ہے؟ یا یہ کہ ہم خدا کے حکم کے بغیر خود جسے چاہیں،تعظیماً سجدہ کرسکتے ہیں؟ سورۂ کہف میں اﷲ تعالیٰ اپنے ایک خاص بندے کے متعلق ہمیں بتاتا ہے کہ اس نے فلاں فلاں مصالح کی بِنا پر حکم خداوندی سے کچھ مساکین کی کشتی عیب دار کر دی، اور ایک لڑکے کو قتل کردیا۔کیا اس سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ ہم بھی مصلحت دیکھ کر جس کے مال کو چاہیںنقصان پہنچا دینے اور جسے چاہیں قتل کردینے کے مجاز ہیں؟جب اﷲ او راس کے رسولؐ نے نصوصِ شرعیہ کے ذریعے سے غیر اﷲ کے لیے سجدے کو حرام کردیا ہے،اور دوسروں کی جان ومال میں تصرف کے لیے حدود مقرر کردیے ہیں، تو کسی شخص کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے بعض خصوصی۱ فعال کو نظیر قرار دے کر اور ان پر قیاس کرکے ان ممنوعات کو اپنے لیے مباح کرلے۔
(ترجمان القرآن، مارچ 1962ء)
علمِ غیب
سوال : علم غیب اگر خداوند تعالیٰ کی مخصوص صفت ہے تو یہ کسی بھی مخلوق میں نہ ہونی چاہیے۔لیکن قرآن وحدیث اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ انبیا ورسل کو علم غیب ہوتا ہے۔ پھر کسی مخلوق میں یا کسی فرد میں اس صفت کو ہم تسلیم کریں تو مرتکب شرک کیوں ہوتے ہیں؟ اور اگر کوئی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ آںحضرت ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے قیامت تک کا علم دے رکھا تھا تو آخر اسے مشرک کیوں کہا جائے؟جن لوگوں کے خلاف اسی بِنا پر شرک کے ارتکاب کا فتویٰ لگایا جاتا ہے،وہ لوگ آںحضرت ﷺ کی صفت علم غیب کو ذاتی یا نفسی نہیں کہتے بلکہ خدا کی دین قرار دیتے ہیں۔ ان کا اور دوسرے علما کا اگر اختلاف ہے تو صرف کم یا زیادہ پر ہے۔جب مسئلہ کم وبیش کا ہی ہے تو پھر فتویٰ شرک کیوں؟
جواب: علم غیب کے مسئلے میں یہ بات سب مانتے ہیں کہ کلی وذاتی علم غیب اﷲ کے لیے مخصوص ہے، اور اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرتا کہ اپنے علم غیب کا جو حصہ اور جتنا حصہ اﷲ تعالیٰ جس کو چاہے،دے سکتا ہے۔یہ جزوی اور عطائی علم غیب اپنی نوعیت میں اس کلی وذاتی علم غیب سے مختلف چیز ہے جو اﷲ تعالیٰ کی مخصوص صفت ہے۔ اور کسی بندے کے حق میں اس دوسری نوعیت کے علم غیب کا عقیدہ رکھنا کسی کے نزدیک بھی شرک نہیں ہے۔ دراصل خرابی جس مقام سے شروع ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ لوگ عقیدت میں غلو کرکے دو ایسی باتیں ایجاد کرلیتے ہیں جو اصل اسلامی عقیدے سے متصادم ہوتی ہیں۔
اوّل یہ کہ وہ اس عطائی علم غیب کو جزوی نہیں بلکہ کلی بنادیتے ہیں اور کسی بندے کے حق میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کو اﷲ تعالیٰ نے اسی طرح جَمِیْعُ مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ { FR 6779 } کا عالم بنا دیا تھا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ خود ہے۔بظاہر یہاں جزوی وکلی کا فرق دور ہوجانے کے باوجود ذاتی اور عطائی کا فرق نظر آتا ہے جس کی بِنا پر یہ کہا جاسکتاہے کہ ایسا عقیدہ رکھنا شرک نہیں ہے۔لیکن تھوڑا سا بھی آپ غور کریں تو آپ کو محسوس ہوجائے گا کہ اس طرح کا عقیدہ رکھنے میںکتنا عظیم خطرہ مضمر ہے۔ بالفرض اگر یہ جائز ہو کہ اﷲ اپنی عطا سے کسی بندے کو اپنے ہی جیسا عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ بنادے، تو آخریہ کیوں نہ جائز ہو کہ وہ اسے اپنی ہی طرح قادر مطلق اور حی وقیوم اور خالق وربّ بھی بنادے؟ اس کے بعد خدا کی عطا سے کسی بندے کے خدا بن جانے میں آخر کیا رکاوٹ باقی رہ جاتی ہے؟ پھر کیا دو مساوی صفات واختیارات رکھنے والے خدائوں کے درمیان صرف ذاتی اور عطائی کا فرق شرک سے بچانے کے لیے کافی ہوگا؟
دوسری زیادتی غالی حضرات یہ کرتے ہیں کہ اﷲ کے عطیے کو خود بانٹنے کے مختار بن جاتے ہیں۔ یہ بتانا کہ عطا فرمانے والے نے کسی کو کیا عطا کیا ہے اور کیا نہیں کیا ہے،درحقیقت خود عطا فرمانے والے ہی کا کام ہے۔ دوسرے کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ مُعطی کے اپنے بیان کے بغیر وہ بطور خود یہ فیصلہ کردے کہ دینے والے نے کیا کچھ کسی کو عطا فرمایا ہے۔ اب اگر اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب پاک میں کہیں یہ فرمایا ہو کہ میں نے اپنے فلاں بندے کو جَمِیْعُ مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ کا عالم بنادیا ہے، یا اﷲ کے رسولؐ نے کسی صحیح حدیث میں اس کی صراحت کی ہو، تو اس کا حوالہ دے دیا جائے،ساری بحث ختم ہوجاتی ہے ۔لیکن اگر نہ کوئی آیت اس کی تصریح کرتی ہے نہ کوئی حدیث صحیح،تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اﷲ کے اس عطیے کی خبر لوگوں تک آخر کس ذریعے سے پہنچی ہے؟
اس مسئلے میں یہ بات خوب سمجھ لیجیے کہ عقیدے اور خصوصاً عقیدۂ توحیدکا معاملہ بڑا ہی نازک ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس پر کفر وایمان اور فلاح وخسران کا مدار ہے۔ اس معاملے میں یہ طرزِ عمل صحیح نہیں ہے کہ مختلف احتمالات رکھنے والی آیات اور احادیث میں سے ایک مطلب نچوڑ کر کوئی عقید ہ بنا لیا جائے اور اسے داخل ایمانیات کردیا جائے۔ عقیدہ تو صاف اور صریح محکمات سے اخذہونا چاہیے، جن میں اﷲ اور اس کے رسولؐ نے ایک بات ماننے کی دعوت دی ہو اور یہ ثابت ہو کہ نبیؐ اس کی تبلیغ فرماتے تھے، اور صحابہ کرامؓ وتابعین وتبع تابعین اور ائمۂ مجتہدین اس پر اعتقادرکھتے تھے۔ کیا کوئی شخص بتا سکتا ہے کہ نبیﷺ کے ﴿ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ ﴾ ہونے یا جَمِیْعُ مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ کے عالم ہونے کا عقیدہ یہ نوعیت رکھتا ہے؟اگر یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا تو آخر آپ اپنے آپ کو اس خطرے میں کیوں ڈالیں؟
(ترجمان القرآن، مارچ 1962ء)
حاضر وناظرہونے کا معاملہ
سوال: حاضر وناظر کی صفت بھی خدا وند تعالیٰ سے مختص قرار دی جاتی ہے۔لیکن اﷲ تعالیٰ نے ملک الموت کو یہ طاقت بخشی ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں انسانوں، حیوانوں، پرندوں ،چرندوں اور جنوں کی روحوں کو قبض کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ حاضر وناظر ہے، اور حاضر وناظر ہونا خدا کی مخصوص صفت ہے۔یہاں اگر یہ کہا جائے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک فرض کی انجام دہی کے لیے اپنی خاص صفت فرشتے میں ودیعت کررکھی ہے تو جو لوگ آںحضرتﷺ میں صفت حاضر وناظر کا ہونا اور خدا کی طرف سے عطا کیا جانا مانتے ہیں، آخر انھیں مشرک کیوں کہا جاتا ہے؟
جواب : حاضر وناظر کے معاملے میں آپ نے ملک الموت کی جو مثال پیش کی ہے ،اس میںکئی غلطیاں ہیں۔ قرآن میں یہ کہیں نہیں کہا گیا ہے، اور نہ کسی حدیث صحیح میں یہ آیا ہے کہ ساری کائنات کا ملک الموت ایک ہی ہے۔یہ بات بھی قرآن سے نہیں معلوم ہوتی کہ صرف ایک فرشتہ قبض ارواح کا کام کرتا ہے۔بلکہ متعد دمقامات پر روح قبض کرنے والے فرشتوں کا ذکر بصیغۂ جمع ہے۔ مثلاً:
﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰىھُمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِيْمَ كُنْتُمْ﴾
( النسائ97:4)
(جن لوگوں کو ملائکہ نے اس حال میں وفات دی کہ وہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے تھے،ان سے ملائکہ نے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں تھے؟)
﴿ فَكَيْفَ اِذَا تَوَفَّتْہُمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ يَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْ ﴾ ( محمد47:27)
(پھر کیا بنے گی اس وقت جب ملائکہ ان کو وفات دیں گے ان کے چہروں اور پیٹھوں کو پیٹتے ہوئے)
﴿الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىہُمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ طَيِّبِيْنَ۰ۙ يَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَيْكُمُ ﴾ ( النحل16:32 )
(جن لوگوں کی روحیں ملائکہ اس حال میں قبض کریں گے کہ وہ پاکیزہ لوگ تھے ،ان سے وہ کہیں گے کہ سلامتی ہو تم پر)
﴿ حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَتْہُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَہُمْ۰ۙ قَالُوْٓا اَيْنَ مَا كُنْتُمْ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ﴾ۭ ( الاعراف7:37)
(یہاں تک کہ جب ہمارے فرشتے ان کے پاس روحیں قبض کرنے کے لیے آئیں گے تو ان سے پوچھیں گے کہ کہاں ہیں وہ جن کو تم ا ﷲ کو چھوڑ کر پکارتے تھے)
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک بڑے ملک الموت کے تحت بہت سے دوسرے مددگار فرشتے بھی ہیں جو روحیں قبض کرنے پر مامور ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح ابلیس ایک بڑا شیطان ہے اور اس کی ماتحتی میں بے شمار شیاطین ہیں جو دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ہر جگہ نہ ابلیس جاتا ہے نہ ملک الموت۔
پھر خود اس زمین کی مخلوقات کے بارے میں بھی کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ تمام خشکی وتری اور ہوا کے جانداروں کا ملک الموت وہی ایک ہے جو انسانوں کی جان لینے کے لیے مقرر ہے ۔قرآن میں تو صرف یہ فرمایا گیا ہے کہ﴿ ﴿يَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ ﴾ (السجدہ 11:32 ) (تمھاری روحیں ملک الموت قبض کرتا ہے) اس سے جو بات نکلتی ہے،وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ اس زمین پر انسانوں کی روحیں قبض کرنے پر ایک فرشتہ مامور ہے۔ اگر بالفرض یہی ایک فرشتہ روے زمین پر تمام مرنے والوں کی روحیں قبض کرتا ہے، تب بھی یہ بہت ہی محدود زمانے کی ایک طاقت ہے جو اﷲ نے اپنے اس فرشتے کو عطا فرمائی ہے۔اس کو آخر اﷲ تعالیٰ کی اس لامحدود صفت سے کیا نسبت ہے کہ وہ ساری کائنات میں حاضر وناظر ہے؟ پھر مزید سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اور آپ کیا اب قیاسات پر اپنے عقائد کی عمارت کھڑی کریں گے؟
ملک الموت کے متعلق تو اﷲ تعالیٰ نے خود بتایا ہے کہ ہم نے اسے انسانی روحیں قبض کرنے پر مامور کیا ہے۔ اس پر زیادہ سے زیادہ جو تصور قائم کیا جاسکتا ہے،وہ بس اسی قدر ہے کہ یہ فرشتہ بیک وقت روے زمین کے ہر حصے میں لاکھوں انسانوں کی روحیں قبض کرلیتا ہے۔مگر کیا اس پر یہ قیاس بھی کیا جاسکتا ہے کہ نبیؐ ہر جگہ موجود ہیں اور سب کچھ دیکھ رہے ہیں؟ ان دونوں باتوں میں آخر کیا مناسبت ہے کہ ایک کو دوسری پر قیاس کرلیا ؟اور پھر قیاس بھی ایسا کہ وہ عقیدہ قرار پائے اور ایمانیات میں داخل ہو اور لوگوں کو اس پر ایمان لانے کی دعوت دی جائے اور نہ ماننے والوں کے ایمان میں نقص ثابت کیا جانے لگے؟ یہ عقیدہ اگر واقعی اسلامی عقائد میں شامل ہوتا تو اﷲ تعالیٰ اپنی کتاب میں اس کی تصریح فرماتا کہ میرے رسول کو حاضر وناظر تسلیم کرو۔حضورﷺ خود یہ دعویٰ فرماتے اور اسے ماننے کی دعوت دیتے کہ میں ہر جگہ موجود ہوں اور قیامت تک حاضر وناظر رہوں گا۔ صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین میں یہ عقیدہ عام طور پر شائع وذائع ہوتا اور عقائد اسلام کی کتابوں میں اسے ثبت کیا جاتا۔
آپ نے بعض حضرات کو مشرک کہنے یا نہ کہنے کا جو ذکر فرمایا ہے ،اس کے بارے میں میری راے شاید آپ کو معلوم نہیں ہے۔میں ان مسائل میں ان کے خیالات کو تأویل کی غلطی سمجھتا ہوں،اور اسے غلط کہنے میں تأمل نہیں کرتا۔ مگر مجھے اس بات سے اتفاق نہیں ہے کہ انھیں مشرک کہا جائے اور مشرکین عرب سے تشبیہ دی جائے۔میں ان کے بارے میں یہ گمان نہیں رکھتا کہ وہ شر ک کو شرک جانتے ہوئے اس کے قائل ہوسکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ توحید ہی کو اصل دین مانتے ہیں اور اسی پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ اس لیے انھیں مشرک کہنا زیادتی ہے۔ البتہ انھوں نے بعض آیات اور احادیث کی تأویل کرنے میں سخت غلطی کی ہے اور میں یہی امید رکھتا ہوں کہ اگر ضد دلانے والی باتیں نہ کی جائیں بلکہ معقول طریقے سے دلیل کے ساتھ سمجھایا جائے تو وہ جان بوجھ کر کسی گمراہی پر اصرار نہ کریں گے۔
(ترجمان القرآن،مارچ1962ء)
خواب میں زیارتِ نبویؐ
سوال: براہِ کرم مندرجہ ذیل سوال کے بارے میں اپنی تحقیق تحریرفرما کر تشفی فرمائیں۔
حضور ﷺ کی حدیث ہے کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو درحقیقت اس نے مجھے ہی دیکھا۔کیوں کہ شیطان میری تمثال میںنہیں آسکتا،او کما قال۔
اس حدیث کی صحیح تشریح کیا ہے؟کیانبیﷺ کو جس شکل وشباہت میں بھی خواب میں دیکھا جائے تو یہ حضورؐ ہی کو خواب میں دیکھنا سمجھا جائے گا؟کیا حضورﷺ کو یورپین لباس میں دیکھنا بھی آپؐ کو ہی دیکھنا سمجھا جائے گا؟ اور کیا اس خواب کے زندگی پر کچھ اثرات بھی پڑتے ہیں؟
جواب: اس حدیث کی صحیح تشریح یہ ہے کہ جس نے نبیﷺ کو حضور کی اصلی شکل وصورت میں دیکھا،اس نے درحقیقت آپ ؐ ہی کو دیکھا۔ کیوں کہ شیطان کو یہ قدرت نہیں دی گئی ہے کہ وہ آپؐ کی صورت میں آکر کسی کو بہکا سکے۔ اس کی یہی تشریح محمد بن سیرینؒ نے کی ہے۔ امام بخاریؒ کتاب التعبیر میں ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ إذَا رَاٰہُ فیِ صُورتِہٖ{ صحیح البخاری، کتاب التعبیر، باب من رأی النبیﷺ فی المنام، حدیث 6478 } (جب کہ دیکھنے والے نے آپﷺ کو آپؐ ہی کی صورت میں دیکھا ہو) حافظ ابن حجرؒ صحیح سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص ابن سیرینؒ سے کہتا کہ میں نے خواب میں نبیؐ کو دیکھا ہے تو وہ اس سے پوچھتے تھے کہ تو نے کس شکل میں دیکھا۔ اگر وہ آپ کی کوئی ایسی شکل بیان کرتا جو آپ کے حلیے سے نہ ملتی تھی تو ابن سیرینؒ کہہ دیتے تھے کہ تو نے حضو رﷺ کو نہیں دیکھا ہے۔ یہی طرزِ عمل حضرت ابن عباسؓ کا بھی تھا، جیسا کہ حاکم نے بسند نقل کیا ہے۔{ فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب التعبیر، باب من رأی النبیﷺ فی المنام، ج21، ص384 } بلکہ سچ یہ ہے کہ خود حدیث کے الفاظ بھی اسی معنی کی توثیق کرتے ہیں۔ جن مختلف الفاظ میں یہ حدیث صحیح سندوں سے منقول ہوئی ہے ان سب کا مفہوم یہی ہے کہ ’’شیطان نبیؐ کی شکل میں نہیں آسکتا۔‘‘ نہ یہ کہ شیطان کسی شکل میں آکر آدمی کو یہ دھوکا نہیں دے سکتا کہ وہ آںحضور ﷺ کو دیکھ رہا ہے۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی جان لینی ضروری ہے کہ اگر کوئی شخص خواب میں نبیﷺ کو دیکھے اور آپ سے کوئی امر یا کوئی نہی کا حکم سنے، یا دین کے معاملے میں کسی قسم کا ایما آپ سے پائے، تو اس کے لیے اس خواب کی پیروی اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک وہ اس تعلیم یا ایما کے مطابق کتاب وسنت ہونے کا اطمینان نہ کر لے۔اﷲ اور اس کے رسولؐ نے ہمارے لیے دین کا معاملہ خوابوں اور کشفوں اور الہاموں پر نہیں چھوڑا ہے ۔حق اور باطل اور صحیح اور غلط کو ایک روشن کتاب اور ایک مستند سنت میںپیش کردیا گیا ہے جسے بے داری میں اور پورے شعور کی حالت میں دیکھ کر راہ راست معلوم کی جاسکتی ہے۔اگر کوئی خواب یا کشف یا الہام اس کتاب اور اس سنت کے مطابق ہے تو خدا کا شکر ادا کیجیے کہ اﷲ نے حضورؐ کی زیارت نصیب کی،یا کشف والہام کی نعمت سے نوازا۔ لیکن اگر وہ اس کے خلاف ہے تو اسے ردکر کیجیے اور اﷲ سے دُعا مانگیے کہ وہ ایسی آزمائشوں سے آپ کو اپنی پناہ میں رکھے۔
ان دو باتوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بکثرت لوگ گمراہ ہوئے ہیں اور ہوتے ہیں۔ متعدد آدمی میرے علم میں ایسے ہیں جو صرف اس بِنا پر ایک گمراہ مذہب کے پیرو ہوگئے کہ انھوں نے خواب میں نبیﷺ کو اس مذہب کے بانی کی توثیق کرتے یا اس کی طرف التفات فرماتے دیکھا تھا۔ وہ اس گمراہی میں نہ پڑتے اگر اس حقیقت سے واقف ہوتے کہ خواب میں کسی شکل کے انسان کو نبیؐ کے نام سے دیکھ لینا درحقیقت حضورﷺ کو دیکھنا نہیں ہے۔ اور یہ کہ خواب میں واقعی حضورؐ ہی کی زیارت نصیب ہو، تب بھی کوئی حکم شرعی اور امر دینی ایسے خواب سے اخذ نہیں کیا جاسکتا۔
بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر شیطان کے فریب سے تحفظ صرف اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ آدمی حضور ﷺ کو آپ کی اصلی شکل میں دیکھے تو اس کا فائدہ صرف انھی لوگوں کو حاصل ہوسکتا تھا جنھوںنے آپ کو بے داری میں دیکھا تھا۔ بعد کے لوگ آخر کیسے جان سکتے ہیں کہ جو شکل وہ خواب میں دیکھ رہے ہیں، وہ حضور ﷺ ہی کی ہے یا کسی اور کی؟ ان کو اس حدیث سے کیا تسلی ہوئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بعد کے لوگ اس بات کا اطمینان تو نہیں کرسکتے کہ انھوں نے جو شکل خواب میں دیکھی وہ حضور ﷺ ہی کی شکل تھی،مگر یہ تو معلوم کرسکتے ہیں کہ خواب کے معنی اور مضمون کی مطابقت قرآن و سنت کی تعلیم سے ہے یا نہیں۔ مطابقت پائی جاتی ہوتو پھر زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ انھوں نے خواب میں حضورﷺ ہی کی زیارت کی ہے،کیوں کہ شیطان کسی کو راہِ راست دکھانے کے لیے تو بہروپ نہیں بھرا کرتا۔{ صحیح البخاری، کتاب العلم، باب من کذب علی النبیﷺ ، حدیث 110 }
(ترجمان القرآن، جولائی 1956ء)
سحر کی حقیقت اور معوّذتین کی شان نزول
سوال : معوذتین کی شان نزول کے متعلق بعض مفسرین نے حضور ؈ پر یہودی لڑکیوں کے جادو کا اثر ہونا اور ان سورتوں کے پڑھنے سے اس کا زائل ہوجانا بحوالۂ احادیث تحریر فرمایا ہے۔یہ کہاں تک درست ہے؟نیز جادو کی حقیقت کیا ہے؟بعض اشخاص حضورعلیہ السلام پر جادو کے اثر کو منصب نبوت کے خلاف سمجھتے ہیں؟
جواب: شان نزول کے بارے میں یہ بات پہلے ہی سمجھ لینے کی ہے کہ مفسرین جب کسی واقعے کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ آیت اس واقعے کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جب واقعہ پیش آیااُسی وقت وہ آیت نازل ہوئی تھی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس واقعے سے اس آیت کا تعلق ہے۔
معوّذتین کے متعلق یہ بات ثابت ہے کہ وہ مکے میں نازل ہوئی ہیں اور احادیث میں جادو کا جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ مدینہ طیبہ کا ہے۔اس لیے یہ کہنا بداہتاً غلط ہے کہ جب جادو کا وہ واقعہ پیش آیا،اُس وقت یہ دونوں سورتیں نازل ہوئیں۔دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو حضور ﷺ کو ان سورتوں کے پڑھنے کی ہدایت فرمائی گئی۔{تفسیر القرآن الکریم ، تفسیر سورۃ العلق }
جادو کی حقیقت اگر آپ سمجھنا چاہیں تو قرآن مجید میں حضرت موسیٰ ؈ کا قصہ پڑھیں۔ جادوگروں نے لاٹھیوں اور رسیوں کے جو سانپ بنائے تھے،وہ حقیقت میں سانپ نہیں بن گئے تھے،مگر اس مجمع نے جو وہاں موجود تھا یہی محسوس کیا کہ یہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپوں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔حتیٰ کہ خود حضرت موسیٰ ؈ کی آنکھیں بھی پیغمبر ہونے کے باوجود اس قدر مسحور ہوگئیں کہ انھوں نے بھی انھیں سانپ ہی دیکھا۔قرآن مجید کا بیان ہے کہ:
﴿ فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوْہُمْ ﴾ (الاعراف7:116)
(جب جادوگروں نے اپنے انچھر پھینکے تو لوگوں کی آنکھوں کو مسحور کر دیا اور انھیں مرعوب کردیا)
﴿ قَالَ بَلْ اَلْقُوْا۰ۚ فَاِذَا حِبَالُہُمْ وَعِصِيُّہُمْ يُخَيَّلُ اِلَيْہِ مِنْ سِحْرِہِمْ اَنَّہَا تَسْعٰيo فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِہٖ خِيْفَۃً مُّوْسٰى﴾ ( طٰہٰ 66-67:20)
(پس یکایک ان کے جادو کی وجہ سے ان کی لاٹھیاں اور رسیاں موسیٰ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہوئیں اور موسیٰ اپنے دل میںڈر گیا)
اس سے معلوم ہوا کہ جادو قلبِ ماہیت نہیں کرتا بلکہ ایک خاص قسم کا نفسیاتی اثر ڈال کر آدمی کے حواس کو متاثر کردیتا ہے۔نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جادو کی یہ تاثیر عام انسانوں پر ہی نہیں،انبیا پر بھی ہوسکتی ہے۔اگرچہ اس ذریعے سے کوئی جادوگر کسی نبی کو شکست نہیں دے سکتا،نہ اُس کے مشن کو فیل کرسکتا ہے،نہ اُسے اِ س حد تک متاثر کرسکتا ہے کہ وہ جادو کے زیر اثر آکر منصب نبوت کے خلاف کوئی کام کر جائے، لیکن بجائے خود یہ بات کہ ایک نبی پرجادو کا اثر ہوسکتا ہے،خود قرآن مجید سے ثابت ہے۔
احادیث میںنبی ﷺ پر جادو کا اثر ہونے کی جو روایات آئی ہیں،ان میں کوئی چیز بھی عقل،تجربے اور مشاہدے کے خلا ف نہیں ہے،اور نہ قرآن کی بتائی ہوئی اس حقیقت کے خلاف ہے جس کی میں نے اوپر تشریح کی ہے۔نبی اگر زخمی یا شہید ہوسکتا ہے تو اس کا جادو سے متاثر ہو جانا کون سی تعجب کی بات ہے؟روایات سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے و ہ صرف یہ ہے کہ چند روز تک حضور ﷺ کو کچھ نسیان سا لاحق ہوگیا تھا اور وہ بھی تمام معاملات میں نہیں بلکہ بعض معالات میں جزوی طور پر۔
(ترجمان القرآن، مئی،جون 1952ء)
گھر،گھوڑے اور عورت میں نحوست
سوال : میں رہائش کے لیے ایک مکان خریدنا چاہتا ہوں۔ایک ایسا مکان فروخت ہورہاہے جس کا مالک بالکل لاوارث فوت ہوا ہے اور دُور کے رشتہ داروں کو وہ مکان میراث میں ملا ہے۔میںنے اس مکان کے خریدنے کا ارادہ کیا تو میرے گھر کے بعض افراد مزاحم ہوئے اور کہنے لگے کہ گھر منحوس ہے،اس میں رہنے والوں کی نسل نہیں بڑھتی حتیٰ کہ اصل مالک پر خاندان کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ گھر کے لوگوں نے ان احادیث کا بھی حوالہ دیا جن میں بعض گھروں،گھوڑوں اور عورتوں کے منحوس ہونے کا ذکر ہے۔ میں نے کتب احادیث میں اس سے متعلق روایتیں دیکھیںاور متعارف شروح وحواشی میں اس پر جو کچھ لکھا گیا ہے وہ بھی پڑھا، لیکن جزم ویقین کے ساتھ کوئی متعین توجیہ سمجھ میں نہ آسکی۔اس بارے میں آپ کی کیا راے ہے؟
جواب: جن روایات کا آپ ذکرکررہے ہیں، وہ کتب حدیث میں وارد تو ہوئی ہیںمگر حضرت عائشہؓ کی ایک روایت سے ان کی حقیقت کچھ اور معلوم ہوتی ہے۔امام احمدؒ نے اپنی مسند میں اس کو یوں نقل کیا ہے:
عَنْ أَبِي حَسَّانَ الْأَعْرَجِ أَنَّ رَجُلَيْنِ دَخَلَا عَلَى عَائِشَةَ فَقَالَا إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ إِنَّمَا الطِّيَرَةُ فِي الْمَرْأَةِ وَالدَّابَّةِ وَالدَّارِ قَالَ […] فَقَالَتْ وَالَّذِي أَنْزَلَ الْقُرْآنَ عَلَى أَبِي الْقَاسِمِ مَا هَكَذَا كَانَ يَقُولُ وَلَكِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُولُونَ الطِّيَرَةُ فِي الْمَرْأَةِ وَالدَّارِ وَالدَّابَّةِ ثُمَّ قَرَأَتْ عَائِشَةُ﴿ مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ﴾ إِلَى آخِرِ الْآيَةِ{ أحمد ، حدیث السیّدۃ عائشۃ، حدیث 23882 }
ابو حسان اعرج سے روایت ہے کہ دو آدمی حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیںکہ نبیﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ’’بدشگونی تو صرف عورت اور گھوڑے اور گھر میں ہے۔‘‘[…]اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا: قسم ہے اُس ذات کی جس نے قرآن ابو القاسم(یعنی آںحضرت ؐ)پر نازل کیا ہے،آپؐ یوں نہیں فرمایا کرتے تھے بلکہ آپؐ یہ کہا کرتے تھے کہ اہل جاہلیت عورت،گھوڑے اور گھر میں نحوست و بدشگونی کے قائل تھے۔پھر حضرت عائشہ نے یہ آیت پڑھی:کوئی مصیبت زمین میں اور تمھارے نفوس میں نہیں آتی مگر اُس کے رونما ہونے سے پہلے وہ ایک نوشتے میں لکھی ہوتی ہے۔
ام المؤمنینؓ کی اس تشریح سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ نے جو روایت بیان کی ہے وہ غالباًصحیح الفاظ میں نقل نہیں ہوئی ہے۔تاہم اگر اس کو درست مان بھی لیا جائے تو اِ س کی ایک معقول توجیہ بھی ہوسکتی ہے۔
نحوست کا ایک مفہوم تو وہم پرستانہ ہے جسے اسلام سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔ لیکن نحوست کا ایک دوسرا علمی مفہوم بھی ہے۔اس سے مراد کسی چیز کا ناموافق اور ناسازگار ہونا ہے۔یہ مفہوم معقول بھی ہے اور شریعت میں معتبر بھی۔چنانچہ حدیث میں مکان کے منحوس ہونے کا جہاں ذکر ہے وہاں مطلب یہ نہیں ہے کہ مکان میں کوئی ایسی وہمی چیز موجود ہے جو رہنے والوں کی قسمت بگاڑ دیتی ہے بلکہ اس کا مدعا یہ ہے کہ تجربے اور مشاہدے نے اس مکان کو سکونت کے لیے ناموافق ثابت کردیا ہے۔بسا اوقات کسی مرض کے متعد دمریض ایک مکان میں یکے بعد دیگرے رہتے چلے آتے ہیں یہاں تک کہ مرض کے زہریلے اثرات وہاں مستقل طور پر جاگزیں ہوجاتے ہیں۔ اب اگر تجربے سے معلوم ہوجائے کہ وہاں جو رہاوہ اس مرض خاص میں مبتلا ہوگیا، تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ مکان اب سکونت کے لیے ناموافق ہوگیا ہے۔خصوصیت کے ساتھ طاعون اور دق کے معاملے میں یہ بات بارہا تجربے سے ثابت ہوچکی ہے۔ احادیث میں بھی یہ حکم موجود ہے کہ جہاں طاعون پھیلا ہو،وہاں سے بھاگو بھی نہیں اور قصداًوہاں جائو بھی نہیں۔{ موطا ٔامام مالک، کتاب الجامع، باب ما جاء فی الطاعون، حدیث3330 } ایسا ہی معاملہ عورت اور گھوڑے کا بھی ہے۔ اگر متعدد آدمیوں کو ایک گھوڑے کی سواری ناموافق آئی ہو،یا متعدد آدمی ایک عورت سے یکے بعددیگرے نکاح کرکے خاص مرض کے شکار ہوئے ہوں تو یہی سمجھا جائے گا کہ اس عورت یا گھوڑے میں کوئی نامعلوم خرابی ہے۔
اب یہ دیکھنا آپ کا کام ہے کہ جس مکان کو آپ خریدنا چاہتے ہیں،اُس کی نحوست وہمی نوعیت کی ہے یا تجربی نوعیت کی۔
شفاعت کا انکار
سوال : کسی مولوی صاحب نے ایک اشتہار شائع کیا ہے جس میں آپ پر معتزلی اور خارجی ہونے کا فتویٰ لگایا ہے۔بِنائے فتویٰ یہ ہے کہ آپ نبی کریم ﷺ کی طرف سے قیامت کے روز اُمت کے بارے میں شفاعت کے منکر ہیں۔ اس کا حوالہ ترجمان القرآن، جنوری، فروری1945ء صفحہ30سے لیتے ہوئے آیت’’جنگ کرو اہل کتاب میں ان لوگوں کے خلاف جو اﷲ اور روز آخرت پر ایمان نہیں لاتے‘‘کے تشریحی نوٹ کا دیا ہے۔یہ نوٹ یوں ہے:’’وہاں کوئی سعی سفارش، کوئی فدیہ اورکسی بزرگ سے منتسب ہونا کام نہ آئے گا۔‘‘ اسی طرح تفہیمات سے بھی کوئی حوالہ اسی قسم کا اخذ کیاہے۔
جواب: خدا ان لوگوں کو نیک ہدایت دے جو دوسروں کی طرف غلط باتیں منسوب کرکے دنیا میں پھیلاتے ہیںاور ان کے اقوال کو ایسے معنی پہناتے ہیں جو قائل کے منشا کے خلاف ہوں۔ اگر الزام لگانے والے بزرگ کے دل میں خدا کا کچھ خوف ہوتا تو وہ اشتہار کی اشاعت سے پہلے مجھ سے لکھ کر پوچھ سکتے تھے کہ تیری ان عبارات کا منشا کیا ہے، اور شفاعت کے بارے میں تیرا عقیدہ کیا ہے۔میری جن عبارتوں کا انھوں نے حوالہ دیا ہے،ان میں سے ایک یہود ونصاریٰ کے غلط عقیدۂ شفاعت کی تردید میں ہے، اور اس کا اصل مقصد یہ بتانا ہے کہ اس غلط عقیدے کی وجہ سے کس طرح اہل کتاب کا ایمان بالیوم الآخر باطل ہوگیا ہے جس کی بنا پر قرآن میں ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ یوم آخر پر ایمان نہیں رکھتے۔ دوسری عبارت میں ان تعلیمات کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے جو نبیﷺ نے اپنی دعوت رسالت کے آغاز میں مشرکین مکہ کو خطاب کرکے ارشاد فرمائی تھیں۔دونوں میں سے کسی مقام پر بھی اسلام کے عقیدۂ شفاعت کو بیان کرنے کا موقع نہ تھا۔آخر کافروں اور مشرکوں کے سلسلے میں اس شفاعت کا ذکر کیوں کیا جاتا جس کے مستحق صرف اہل ایمان ہیں؟کافروں اور مشرکوں کے معاملے میں جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ وہی کچھ ہے جو قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ:
﴿ وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـيْــــًٔـا وَلَا يُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ﴾ (البقرہ 48:2) (اور ڈرو اس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا، نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول ہوگی،نہ کسی کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے گا، اور نہ مجرموں کو کہیں سے مدد مل سکے گی)
(ترجمان القرآن ، نومبر1950ء)
شفاعت کا صحیح تصور
سوال: براہِ کرم آپ بیان فرمائیں کہ اہل سنت کا عقیدہ شفاعت کے بارے میں کیا ہے؟ نبیﷺ اپنی اُمت کی شفاعت کس حیثیت سے کریں گے،نیز آیا وہ ساری اُمت کی طرف سے شفیع ہوں گے؟
جواب: اسلامی عقیدۂ شفاعت قرآن و حدیث کی رُو سے یہ ہے کہ قیامت کے روز اﷲ تعالیٰ کی عدالت میں شفاعت صرف وہ کرسکے گا جس کو اﷲ اجازت دے، اور صرف اسی شخص کے حق میں کرسکے گا جس کے لیے اﷲ اجازت دے۔ ملاحظہ ہو ﴿يَوْمَىِٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِيَ لَہٗ قَوْلًا ﴾ (طٰہٰ20:109) (اس روز (کسی کی) سفارش کچھ فائدہ نہ دے گی مگر اس شخص کی جسے خدا اجازت دے اور اس کی بات کو پسند فرمائے ) ﴿مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِـاِذْنِہٖ ﴾ۭ (البقرۃ:2:255 ) (کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کر سکے )اس قاعدے کے تحت نبی ﷺ آخرت میں یقینا شفاعت فرمائیں گے،مگر یہ شفاعت اﷲ کے اذن سے ہوگی اور ان اہل ایمان کے حق میں ہوگی جو اپنی حدوسع تک نیک عمل کرنے کی کوشش کے باوجود کچھ گناہوں میں آلودہ ہوگئے ہوں۔ جان بوجھ کر خیانتیں اور بدکاریاں کرنے والے،اور کبھی خدا سے نہ ڈرنے والے لوگ حضورﷺ کی شفاعت کے مستحق نہیں ہیں۔چنانچہ حدیث میں حضو رﷺ کا ایک طویل خطبہ مروی ہے جس میں آپ جرم خیانت کی شدت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز یہ خائن لوگ اس حالت میں آئیں گے کہ ان کی گردن پر ان کا خیانت سے حاصل کیا ہوا مال لدا ہوگا اور وہ مجھے پکاریں گے کہ ’’يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي( یا رسول اﷲ ؐ میری مدد فرمایئے)مگر میں جواب دوں گا کہ لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ{ صحیح البخاری، کتاب الجہاد و السیر، باب الغلول، حدیث3037}(میں تیرے لیے کچھ نہیں کرسکتا،میں نے تجھ تک خدا کا پیغام پہنچا دیا تھا)
(ترجمان القرآن ، نومبر1950ء)
اذان میں رسالت کی شہادت
سوال: ایک دن میں صبح کی اذان سن رہا تھا کہ ذہن میں عجیب وغریب سوالات اُبھرنے لگے اور شکوک وشبہات کا ایک طوفان دل میں برپا ہوگیا… اذان سے ذہن نماز کی طرف منتقل ہوا، اورجب سوچنا شروع کیا تو نماز کی عجیب صورت سامنے آئی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ نماز کس طرح پڑھوں اور کیا پڑھوں؟ایک مسلمان کو ماں کی گود ہی میں جو اوّلین درس ملتا ہے،وہ یہ ہے: ’’اﷲ ہی لائق عبادت ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں‘‘… پھراذان بلاوا ہے خالصتاً اﷲکی عبادت کے لیے جس میں اس کا کوئی شریک نہیں، تو أَشْھَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کے ساتھ ہی اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَسُوْلُ اللّٰہِ کے کیا معنی؟
جواب: آپ کے دل میں اگر وساوس پیدا ہوا کریں تو ان کی وجہ سے نماز ترک نہ کردیا کریں،بلکہ نماز پڑھتے رہیں اور اپنے وساوس کے متعلق کسی جاننے والے سے پوچھ کر اپنا اطمینان کرلیا کریں۔
… اذان میں محمدؐ کے رسو ل ہونے کی شہادت دی جاتی ہے نہ کہ خدا ہونے کی۔ پھر آپ کے دل میں یہ شبہہ کیوں پیدا ہوا کہ رسالت کی شہادت دینے سے عبادت میں شرک واقع ہوجائے گا؟رسالت کی شہادت تو اس لیے دی جاتی ہے کہ ہم خدا کی عبادت اس عقیدے اور طریقے کے مطابق کررہے ہیں جو رسول اﷲ ﷺ نے ہمیں سکھایا ہے۔ ہم نے خود اپنی فکر سے یہ طریقہ اور عقیدہ ایجاد نہیں کرلیا ہے۔
(ترجمان القرآن ،فروری 1961ء)
کیا نماز میں درود پڑھنا شرک ہے؟
سوال: نماز میں سورۃ الفاتحہ، الاخلا ص یا کوئی اور سورت جو ہم پڑھتے ہیں،ان میں صرف اﷲ ہی کی حمدو ثنااور عظمت وبزرگی کا بیان ہے۔ اسی طرح رکوع وسجود میں اسی کی تسبیح وتحلیل بیان ہوتی ہے۔ لیکن جیسے ہی ہم تشہد کے لیے بیٹھتے ہیں تو حضور سرورکائنات محمد مصطفی ﷺ کا ذکر شروع ہوجاتا ہے۔ جیسے کہ تشہد اور دونوں درود شریف وغیرہ۔ کیا اس طرح حضورﷺ اﷲ کی عبادت میں شریک نہیں ہو جاتے؟
جواب: تشہد کی پوری عبارت پرآپ غور کریں۔پہلے آپ اﷲ تعالیٰ کے حضور اپنا سلام پیش کرتے ہیں۔پھر رسول ؐ کے لیے رحمت وبرکت کی دُعا کرتے ہیں۔پھر اپنے حق میں اور تمام نیک بندوں کے حق میں سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔ پھر اﷲ کی وحدانیت اور محمدؐ کی رسالت کی شہادت دیتے ہیں۔ پھر رسول اﷲﷺ پر درود بھیجتے ہیں جو دراصل اﷲ ہی سے اس امر کی دعا ہے کہ وہ حضورﷺ پر اپنی نوازشات کی بارش فرمائے۔پھر اﷲ سے اپنے حق میں اور اپنے والدین کے حق میں بخشش کی دعا کرتے ہیں۔ ان سارے مضامین کو آپ خود دیکھیں۔ ان میں کیا چیز ہے جسے آپ شرک کہہ سکتے ہیں؟ یہ تو ساری دعائیں اﷲ تعالیٰ ہی سے ہیں۔ کیا اﷲ سے دعا کرنا شرک ہے؟ اور کیا اﷲ کے رسول کو رسول ماننا بھی شرک ہے؟
(ترجمان القرآن ،فروری1961ء)
رسول اللّٰہﷺ کا تشہد
سوال: دونوں درود شریف جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں،ظاہر ہے کہ حضور ﷺ اس طرح نہیں پڑھتے ہوں گے۔ کیوں کہ ہم توپڑھتے ہیں: اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی الِ مُحَمَّدٍ (اے اﷲ! رحمت فرما محمدؐ پر اور محمدؐ کی آل پر) یہ دونوں درود شریف درحقیقت دُعائیں ہیں اور اسی طرح تشہد اور دعا رَبِّ اجْعَلْنِیْ بھی۔عبادت نام دعائوں کا نہیں بلکہ اس خالق ارض وسماکی حمد وثنا بیان کرنے کا نام ہے، تو کیا یہ زیادہ مناسب نہیں کہ عبادت کے اختتام پر دعائیں مانگی جائیں، بہ نسبت اس کے کہ عین عبادت میں دعائیں مانگنی شروع کردی جائیں؟میرا خیال ہے کہ حضورﷺ خود تشہد اور درود شریف وغیر ہ نہیں پڑھتے ہوں گے، کیوں کہ آپ ؐ سے یہ بعید ہے کہ عین نماز میں آپؐ اپنے لیے دعا ئیں مانگنے لگتے۔پھر ذرا تشہد پر غور فرمایے۔ظاہر ہے کہ درود کی طرح اگر حضورﷺ تشہد بھی پڑھتے تھے تو وہ بھی الگ ہوگا۔ کیوں کہ ’’اے نبی! تم پر سلام اور خدا کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں‘‘ کی جگہ آپؐ پڑھتے ہوں گے: ’’مجھ پر سلام اور خداکی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں۔‘‘
جواب: یہ غلط فہمی آپ کو کہاں سے ہوگئی کہ عبادت صرف اﷲ کی حمد وثنا کرنے کا نام ہے اور اﷲ سے دُعا کرنا عبادت نہیں ہے۔دُعا تو رُوح عبادت ہے۔قرآن میں جگہ جگہ ان مشرکین کو جو غیر اﷲ سے دعائیں مانگتے ہیں،غیر اﷲ کی عبادت کرنے والا قرار دیا گیا ہے، حتیٰ کہ اکثر مقامات پر﴿ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ﴾کہنے کے بجائے ﴿یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہ﴾ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور حکم دیا گیا ہے کہ اﷲ ہی سے دعا مانگو۔
یہ تشہد جو ہم پڑھتے ہیں ،یہ حضورﷺ نے صحابہ کو سکھایا تھا اور انھیں ہدایت فرمائی تھی کہ تم یہ پڑھا کرو،اس لیے ہم کو نماز میں یہی پڑھنا چاہیے۔رہا حضور ﷺ کا اپنا تشہد، تو اس کے متعلق احادیث میں کوئی صراحت نہیں ہے کہ حضور ﷺ خود کیا پڑھتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ آپؐ کے تشہد میں الفاظ کچھ مختلف ہوتے ہوں، اور یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ حضورﷺ خود بھی یہی تشہد پڑھتے ہوں۔ اگر ہم نماز میں اپنے لیے دعا کرتے ہیں تو آخر آپ کو اس پر کیا اعتراض ہے کہ حضورﷺ بھی نماز میں اپنے لیے دعا فرماتے ہوں؟ اسی طرح اگر ہم حضورﷺ کے نبی ہونے کی شہادت نماز میں دیتے ہیں تو اس میں آخر کیا خرابی ہے کہ نبیؐ بھی اپنی نبوت کی شہادت دیتے ہوں؟
(ترجمان القرآن ،فروری 1961ء)
سنت نماز اور شرک
سوال: اﷲ کی جو عبادت ہم بجا لاتے ہیں،اس کا نام الصلاۃ یعنی نماز ہے۔پھر یہ فرض ،سنت، وتر،نفل کیا چیز ہیں اور یہ پڑھ کر ہم کس کی عبادت کرتے ہیں۔جاتے تو ہم ہیں اﷲ کی عبادت بجا لانے اور پڑھنے لگتے ہیں نماز سنت،جس کی نیت بھی یوں باندھتے ہیں: دو رکعت نماز سنت،سنت رسول اﷲﷺ کی، وغیرہ وغیرہ۔ کیا اس طرح بھی حضورﷺ کااﷲ کی عبادت میں شریک ہوجانا ثابت نہیں ہوتا؟
جواب: فرض نماز کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی وہ عبادت جو اس کے عائد کردہ فریضۂ صلاۃ کو ادا کرنے کے لیے کم سے کم لازم ہے۔جس کے بغیر حکم کی تعمیل سے ہم قاصر رہ جائیں گے۔ سنت کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی وہ عبادت جو فرض کے علاوہ نبیﷺ ہمیشہ ادا کیا کرتے تھے اور جس کی آپؐ نے ہمیں تاکید کی ہے۔ نفل سے مراد ہے خدا کی وہ عبادت جو ہم اپنی خوشی سے کرتے ہیں۔جسے ہم پر نہ لازم کیا گیا ہے اور نہ جس کی تاکید کی گئی ہے۔ اب فرمایے کہ اس میں شرک کہاں سے آگیا؟’’سنت رسول اللّٰہ کی ‘‘کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ رسول اﷲ ﷺ کی نماز پڑھی جارہی ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ نماز ہے جو رسول اﷲ ﷺ فرض سے زائد پڑھا کرتے تھے اور آپﷺ کے اتباع میں ہم بھی پڑھتے ہیں۔
(ترجمان القرآن،فروری 1961ء)
نماز کے آخر میں سلام کے مخاطب
سوال: نماز کے آخر میں جو سلام ہم پھیرتے ہیں،اس کامقصد اور مخاطب کون ہے؟
جواب: کسی عمل کو ختم کرنے کے لیے آخر اس کی کوئی صورت ہونی چاہیے۔نماز ختم کرنے کی صورت یہ ہے کہ آپ جو قبلہ رو بیٹھ کر عبادت کررہے تھے، اب دونوں طرف منہ پھیر کر اس عمل کو ختم کردیں۔اب منہ پھیرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ چپکے سے منہ پھیر دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ خدا سے تمام خلق کے لیے سلامتی کی دعا کرتے ہوئے منہ پھیریں۔آپ کو ان میں سے کون سی صورت پسند ہے؟
( ترجمان القرآن،فروری 1961ء)
رسول اللّٰہ ﷺ کی رکعاتِ نماز کی تعداد
سوال : کیا حضور ﷺ بھی روزانہ پانچ نمازیں بجا لاتے تھے ؟اور اتنی ہی رکعتیں پڑھتے تھے جتنی ہم پڑھتے ہیں؟
جواب: اس سوال کی قدرے میں نے تحقیق کی لیکن کوئی مستند حوالہ فی الحال ایسا نہیں ملا کہ اس سوال کا جواب ہوتا۔ بخلاف اس کے بخاری شریف میں یہ حدیث نظر آئی کہ نبیؐ نے ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں پڑھیں۔{ صحیح البخاری، کتاب الوضوئ، باب استعمال فضل وضوء الناس، حدیث 181 }اسی طرح مؤطا کتا ب الصلاۃ میں یہ لکھا دیکھا کہ رات دن کی نماز دو دو رکعت ہے۔{ مالک بن انس، الموطأ، بیروت، داراحیاء التراث العربی،1985م، کتاب النداء للصلاۃ، وحدثنی مالک أنہ بلغہ أن سعید بن المسیب }یہ دونوں حدیثیں دو دو رکعت نماز ثابت کرتی ہیں۔
ان خیالات وشکو ک نے ذہن کو پراگندہ کررکھا ہے اور اکثر مجھے یقین سا ہونے لگتا ہے کہ ہماری موجودہ نماز وہ نہیں جو آںحضرت ﷺ نے بتائی ہو گی۔ خدارا میری اُلجھن کو دور فرمایے اور مجھے گمراہ ہونے سے بچایے۔مجھے نما ز چھوٹ جانے کا خطرہ ہے۔
جواب: جن احادیث کا آپ نے حوالہ دیا ہے وہ ابتدائی دور کی ہیں۔ حضور ﷺ کا آخری عمل جب کہ نمازکے احکام بتدریج مکمل ہوچکے تھے، یہی تھا کہ آپؐ پانچوں وقت وہی رکعتیں پڑھتے تھے جو اب تمام مسلمانوں میں رائج ہیں۔ یہ چیز دوسری متعدد احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ حضرت عمرؓ کا جو قول آپ نے نقل کیا ہے وہ نوافل سے متعلق ہے۔
(ترجمان القرآن،فروری 1961ء)
اجنبی ماحول میں تبلیغِ اسلام
سوال : میں علی گڑھ یونی ورسٹی کا تعلیم یافتہ ہوں اور آج کل نائیجیریا میں بحیثیت سائنس ٹیچر کام کر رہا ہوں۔ جب میں ہندستان سے یہاں آرہا تھا ،اس وقت خیال تھا کہ میں ایک مسلم اکثریت کے علاقے میں جارہا ہوں،اس لیے شرعی احکام کی پابندی میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔ لیکن یہاں آکر دیکھا تو معاملہ کچھ اور ہی نکلا۔جس علاقے میں میرا قیام ہے، یہ غیر مسلم اکثریت کا علاقہ ہے۔ یہاں عیسائی مشنریز خوب کام کررہے ہیں۔بہت سے اسکول اور ہسپتال ان کے ذریعے سے چل رہے ہیں۔مسلمان یہاں پانچ فی صدی سے زیادہ نہیں ہیں اور وہ بھی تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔انگریزی نہیں بول سکتے حالاں کہ ہر ایک عیسائی تھوڑی بہت انگریزی بول سکتا ہے۔ پڑھے لکھے لوگوں کی بہت مانگ ہے۔یہاں پر بہت سے غیر ملکی ٹیچر اور سوداگر کام کررہے ہیں۔ان میں زیادہ تر عیسائی اور ہندو ہیں۔ میں اپنی طرز کا اکیلا ہوں۔ میرے شہر میں صرف تین بہت چھوٹی مسجدیں ہیں۔وہ بہت ہی شکستہ حالت میں ہیں۔ اس کے علاوہ دُور دُور کہیں اذان کی آوازبھی نہیں آتی۔یہ ملک اکتوبر میں آزاد ہونے والا ہے۔ مجموعی حیثیت سے پورے ملک میں مسلم اکثریت ہے ۔لیکن اس کے باوجود مسلم کلچر کے مقابلے میں مغربی اور عیسائی کلچر یہاں بہت نمایاں ہے۔ شراب کا استعمال شاید مغربی ممالک سے بھی زیادہ ہے۔لیکن ان سب کے باوجود دو باتیں یہا ں خاص طور پر دیکھنے میں آئیں۔ ایک انسانی رواداری۔اس معاملے میں یہ لوگ ہم سے بڑھے ہوئے ہیں۔غیر ملکی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔دوسری چیز یہ ہے کہ جو مسلمان یہاں ہیں،ان کے اوپر مغربی طرز فکر کا اتنا اثر نہیں ہوا جتنا کہ ہمارے ہاں ہے۔ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ لوگ اب تک مغربی تعلیم کا بائیکاٹ کرتے رہے ہیں۔
ان حالات میں آپ مشورہ دیجیے کہ کس طرح اسلام کی صحیح نمائندگی کی جائے اور یہاں کے لوگوں کو انگریزی میں کون سا لیکچر دیا جائے۔پڑھا لکھا طبقہ انگریزی لٹریچر سمجھ سکتا ہے۔’’پردہ‘‘ کی طرح اگر کوئی کتاب شراب نوشی پر اسلامی نقطۂ نگاہ سے لکھی گئی ہو تو اس سے بھی مطلع فرمایے!
دوسرے یہ بھی آپ سے مشورہ چاہتا ہوں کہ ایسے حالات میں کس طرح انسان صحیح راہ پر قائم رہے جب کہ ماحول اور سوسائٹی دوسرے رنگ میں رنگے ہوں۔
جواب: خوشی ہوئی کہ آپ کو ملک سے باہر ایک ایسی جگہ کام کرنے کا موقع ملا ہے جہاں آپ اسلام کی بہت کچھ خدمت کرسکتے ہیں۔آپ کواپنی جگہ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آپ پس ماندہ مسلمانوں اور غیر مسلموں، سب کے سامنے حقیقی اسلام کی نمائندگی کے لیے مامور ہیں، اور اپنے قول یا عمل سے اگر آپ نے ذرا بھی غلط نمائندگی کی تو بہت سے بندگان خدا کی گمراہی کا وبال آپ کے اوپر ہوگا۔ اس احساس کے ساتھ اگر آپ وہاں رہیں گے اور اپنی حد استطاعت تک اسلام کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر ایک مسلمان کی زندگی کا نمونہ بننے کی کوشش کرتے رہیں گے تو امید ہے کہ یہ آپ کی اپنی ترقی کے لیے بھی مفید ہوگا اور کیا عجب کہ یہی چیز آپ کے ہاتھوں بہت سے لوگوں کی ہدایت کا سبب بھی بن جائے، جس کا اجر آپ کو خدا کے ہاں نصیب ہو۔
وہاں کے جو حالات مجھے آپ کے خط سے معلوم ہوئے ہیں،ان پر غور کرنے کے بعد میرے نزدیک کام کی جو صورتیں مناسب ہیں ،میں عرض کیے دیتا ہوں۔
مقامی زبان سیکھنے اور بولنے کی مشق کریں اور صرف انگریزی پر اکتفا نہ کریں۔غیر ممالک میں جب باہر کا کوئی شخص مقامی لوگوں سے ان کی اپنی زبان میں بات کرتا ہے تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں اور اس کی بات بڑی دل چسپی سے سنتے ہیں۔
مقامی مسلمانوں کے ساتھ ربط ضبط بڑھایے۔ ان کو صحیح دین سمجھانے اور اسلامی طور طریقے سکھانے کی کوشش کیجیے۔ان میں سے جن کے بچے آپ کے مدرسے میں پڑھتے ہوں،ان پر خاص توجہ کیجیے تاکہ وہ آپ کو اپنا ہم درد سمجھیں۔دوسرے مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں کو بھی اگر آپ ان کی تعلیم میں کچھ مدد دے سکتے ہوں تو ضرور دیجیے۔ جو لوگ آپ سے انگریزی پڑھنا چاہتے ہیں،انھیں پڑھایے۔ اس طرح ان کے دلوں میں اپنے لیے جگہ پیدا کیجیے اور پھر ان کے اندر دین کا صحیح علم وعمل پھیلانے اور ان کے حالات درست کرنے کی سبیل نکالیے۔ان میں اگر کچھ بااثر آدمیوں سے تعلقات ہوجائیں تو انھیں مسلمانوں کے حالات کی اصلاح کے طریقے بتایے اور اخلاص وحکمت کے ساتھ کام کرنے پر اُبھاریے۔بے غرضی، محبت، تواضع اور حقیقی خیر خواہی کے ساتھ جب آپ ان کی بھلائی کے لیے کوشاں ہوں گے تو دیر یا سویر، ان شاء اﷲ ایک دن آپ ان کے دل اپنی مٹھی میں لے لیں گے اور وہ آپ کے کہے پر چلنے لگیں گے۔
جس مدرسے میں آپ کام کرتے ہیں،وہاں اپنے طرزِ عمل سے اپنی اہلیت، فرض شناسی اور بلند اخلاقی کا سکہ بٹھانے کی کوشش کیجیے، یہاں تک کہ طلبہ اور اساتذہ اور منتظمین سب پر آپ کا اخلاقی اثر قائم ہو جائے۔ پھر وہ راستے تلاش کیجیے جن سے آپ غیر مسلم طلبہ اور اساتذہ میں اپنے خیالات پھیلا سکیں۔اس معاملے میں غایت درجے تدبر ودانائی کی ضرورت ہے۔ جو موقع بھی اسلام کی نمائندگی کا ملے اسے ہاتھ سے نہ جانے دیجیے۔ لیکن ایک قدم بھی غلط نہ اٹھائیے، ورنہ نتائج الٹے برآمد ہوں گے۔ طبیب کی دانائی اسی میں ہے کہ وہ مریض کو ٹھیک دوا کی خوراک بر وقت دے، نہ کم خوراک دے اور نہ زیادہ دے بیٹھے۔
عام لوگ جن سے آپ کا میل جول ہو، ان سے اپنی گفتگوئوں میںمناسب طریقے پر اسلام کا تعارف کرایے۔ مغربی تہذیب کی کمزوریاں ان پر واضح کیجیے۔ عیسائیت کی ناکامی اس حد تک انھیں سمجھایے جس کے سننے کا ان میں تحمل ہو۔پھر جن لوگوں میں اسلامی لٹریچر دیکھنے کی خواہش آپ پائیں، ان کو موزوں لٹریچر پڑھنے کے لیے دیجیے۔ مانگ پیدا کیے بغیر ہر ایک کو لٹریچر دینا شروع نہ کردیجیے۔انگریزی لٹریچر کی ایک فہرست آ پ کو یہاں سے بھجوا دی جائے گی ،اسے منگوا کر اپنے پاس رکھ لیں۔
غیر مسلموں میں سے جن کے اندر آپ خاص صلاحیت ،سلامت طبع اور حق پسندی محسوس کریں ،ان سے ذاتی تعلقات بھی بڑھایے اور ان پر خصوصیت کے ساتھ کام بھی کیجیے تاکہ اﷲ تعالیٰ انھیں ہدایت نصیب کرے۔لیکن اپنے ہاتھ پر کسی کو مشرف با سلام کرنے سے پرہیز کیجیے۔ جو شخص بھی مسلمان ہونا چاہے،اسے مقامی مسلمانوں کے پاس بھیجیے۔
شراب نوشی کے خلاف انگریزی میں بہت سا لٹریچر موجود ہے۔آپ (Church of England Temperance Society) سے لندن کے پتے پر اور (Anti Saloon League of America) سے واشنگٹن کے پتے پر مراسلت کرکے اس موضوع کے متعلق لٹریچر کی فہرستیں منگوا لیں اور مناسب کتابوں کا انتخاب کر کے حاصل کر لیں۔
(ترجمان القرآن، اپریل 1960ء)
غیر مسلموں کے برتنوں میں کھانا
سوال: غیر مسلموں کے برتنوں میں کھانا اور پینا درست ہے یا نہیں؟
جواب: ان کے صاف دھلے ہوئے برتنوںمیں آپ کھانا کھا سکتے ہیں اگر آپ کو اطمینان ہو کہ وہ کسی حرام چیز سے ملوث نہیں ہیں۔ اطمینان نہ ہونے کی صورت میں بہتر یہ ہے کہ آپ دعوت وصول ہوتے ہی اپنی اوّلین فرصت میں داعی کو اپنے اصول اور مسلک سے آگاہ فرما ئیں اور ان کو لکھ بھیجیں کہ آپ کے ساتھ دعوت میں ان اصولوں کو ملحوظ رکھا جائے۔
(ترجمان القرآن، اپریل1960ء)
سوال : بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن میں الکوہل کی تھوڑی بہت آمیزش ہوتی ہے یا ہوسکتی ہے۔ان کا استعمال جائز ہوسکتا ہے یا نہیں؟
جواب: جن چیزوں میں الکوہل کی آمیزش ہو،ان کا استعمال اس وقت تک نہ کرنا چاہیے جب تک کوئی طبیب آپ کی جان بچانے کے لیے یا آپ کی صحت کو غیر معمولی نقصان سے بچانے کے لیے اس کا استعمال ناگزیر نہ بتائے۔
(ترجمان القرآن، اپریل 1960ء)
دعوت میں شراب پیش کرنا
سوال: یہاں نائیجیریا میں اگر کچھ لوگوں کو دعوت دی جائے تو اس میں شراب دی جاسکتی ہے یا نہیں،کیونکہ یہاں کے لوگ بغیر شراب کے دعوت ہی نہیں سمجھتے اور اگر اس کا استعمال نہ کیا جائے تو اس کا کیا بدل دیا جائے؟
جواب: آپ خود جن لوگوں کو مدعو کریں،ان کو ہرگز شراب نہ پلائیں۔دعوت دینے سے پہلے آپ کو انھیں آگاہ کردینا چاہیے کہ آپ دعوت میں اپنے اصول کے خلاف کسی کو شراب نہیں پیش کرسکتے۔اس شرط پر جو لوگ آپ کی دعوت قبو ل کریں،صرف انھی کو مدعو کیجیے۔شراب کا بدل پیش کرنا ہو تو پاکستان یا ہندستان سے شربت روح افزا یا ایسا ہی کوئی اور خوش رنگ ومعطر مشروب منگوا لیجیے۔اُمید ہے کہ وہ ان لوگوں کو بہت پسند آئےگا۔
( ترجمان القرآن، اپریل 1960ء)
روزے رکھنے کی طاقت کے باوجود فدیہ دینا
سوال: یہاں کیمبل پور (موجودہ ضلع اٹک) میں ایک صاحب علم نے پچھلے ماہ رمضان میں ایک فتنہ کھڑا کیا تھا کہ رمضان کے بارے میں سورۃ البقرہ کی آیات بیک وقت نازل ہوئی تھیں اس لیے اﷲ نے شروع میں جو رعایت دی ہے کہ’’جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں،اور پھر نہ رکھیں، تو وہ فدیہ ادا کریں‘‘،یہ ایک اٹل رعایت ہے اور اب بھی اس سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔اس کی حمایت میں ایک آیت183 کے آخری حصے کو پیش کیا گیا کہ اگر روزہ رکھو تو بہتر ہے اور نہ رکھو تو فدیہ ادا کردو۔ان کا کہنا تھاکہ آیت 184پہلی آیات کے ساتھ ہی نازل ہوئی تھی،وہ پہلی آیات کی رعایت کو کیسے چھین سکتی ہے۔
آپ کی تفسیر کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ آیات82اور183 تو جنگ بدر سے پہلے 2 ہجری میں نازل ہوئیں اور آیت184 ایک سال بعد نازل ہوئی۔اگریہ بات پایہِ ثبوت کو پہنچ جائے تو پھر ان کے اس خیال کی تردید ہوسکتی ہے کہ آج بھی ایک تندرست ہٹا کٹا انسان فدیہ دے کر روزے کی فرضیت سے بچ سکتا ہے۔
مذکورہ بالا صاحب اپنے آ پ کو علم حدیث کے استاد اور قرآن کے مفسر سمجھتے ہیں اور ہر دو کے متعلق اپنے افکار وخیالات دنیا کے سامنے پیش کرچکے ہیں۔آپ براہ مہربانی کچھ تکلیف گوارا کرکے ان کتب کا حوالہ دے دیں جن سے آپ کو ثبوت ملا ہو کہ آیات 182اور183 تو 2ہجری میں جنگ بدر سے پہلے نازل ہوئیں اور آیت184 ایک سال بعد نازل ہوئی۔اس طرح ہمارے پاس ایک سند ہوجائے گی اورہم انھیں اپنے فاسد خیالات کی نشرو اشاعت سے باز رکھنے کی کوشش کریں گے۔یہ اسلام کی ہی خدمت ہے۔اُمید ہے کہ آپ ضرور ہمیں اپنے افکارِ عالیہ سے مستفید فرمائیں گے۔
جواب: اس سوال میں جس فتنے کا ذکر کیا گیا ہے،اُس کا منشا تو خود اُس کے موضوع و مضمون ہی سے ظاہر ہے۔اس کے مصنف کا صاف مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ رمضان میں روزے رکھنے کی ’’مصیبت‘‘ سے خود بھی بچیں اور اپنے ہم مشرب ’’صاحب لوگوں‘‘کو بھی بچائیں۔عام فساق غنیمت ہیں کہ کھلی کھلی نافرمانی کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور جو نافرمانی کرنا چاہتے ہیں،اُسے بے محابا کر گزرتے ہیں۔ان میں کم ازکم یہ مکاری موجود نہیں ہے کہ خدا کی نافرمانی کرنے کے لیے خود خدا ہی کی کتاب کو حجت بنائیں۔ لیکن یہ نرالی قسم کے فساق وہ ہیں کہ اپنے فسق وفجور کے لیے قرآن کو آڑ بناتے ہیں، اور قرآن سے یہ خدمت لینے ہی کے لیے انھوں نے اس کا رشتہ حدیث سے توڑا ہے، تاکہ اس کی آیات کو جیسے چاہیں معنی پہنائیں۔ان لوگوں کو آج کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے،جس جس طرح چاہتے ہیں،خلق خدا کو خدا کی کتاب کا نام لے لے کرخدا کے دین سے پھیرتے ہیں۔ پہلے انھوں نے ’’دو قرآن‘‘ تصنیف کیے تھے،پھر’’ دو اسلام‘‘وضع کیے۔ آگے چل کر یہ ’’دو خدا‘‘ بھی بناڈالیں تو کون ان کا ہاتھ پکڑ سکتا ہے۔
روزوں کے بارے میں قرآن سے جو غلط استدلال انھوں نے کیا ہے،اُس کی غلطی واضح کرنے کے لیے سب سے پہلے ہم خود قرآن کی شہادت پیش کرتے ہیں۔ زیر بحث آیات کالفظی ترجمہ یہ ہے:
’’اے لوگو!جوایمان لائے ہو،لکھ دیے گئے تم پر روزے جس طرح لکھے گئے تھے تم سے پہلے کے لوگوں پر،تاکہ تم پرہیز گاری کرو۔ روزہ رکھنا چند گنے چنے دنوں کا، پھرجو کوئی تم میں سے مریض ہو،یا سفرپر ہو،تو پورا ہونا چاہیے شمار دوسرے دنوں سے۔ اور جو لوگ اس کی(یعنی روزے کی) طاقت رکھتے ہوں،ان پر فدیہ ہے ایک مسکین کا کھانا۔پھرجو کوئی رضاکارانہ بجا لائے نیکی تو وہ بہتر ہے اسی کے لیے۔ اور یہ کہ تم روزہ رکھو، یہ بہتر ہے تمھارے لیے اگر علم رکھتے ہو۔ ماہِ رمضان وہ ہے جس میں نازل کیا گیاقر آن، راہ نمابنا کر انسانوں کے لیے، اور روشن آیات لیے ہوئے ہدایت اور تفریق حق وباطل کی۔ پس جو پائے تم میں سے اس مہینے کو، تو چاہیے کہ اس کے روزے رکھے۔اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو،تو پورا ہونا چاہیے شمار دوسرے دنوں سے۔‘‘{ [ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَo اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ۰ۭ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ۰ۭ وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَہٗ فِدْيَۃٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ۰ۭ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَہُوَخَيْرٌ لَّہٗ۰ۭ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۰ۚ فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۰ۭ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ۰ۭ ] (البقرہ 2:185-183 ) }
(ملاحظہ فرمایے سورۃ البقرہ،رکوع 23، اوراصل سے مقابلہ کرکے خوب اطمینان کرلیجیے کہ اصل اور ترجمے میں معنی کے لحاظ سے کوئی فرق تو نہیں ہے)۔
اس عبارت کو جو شخص خالی الذہن ہوکر پڑھے گا،اُس کے دل میں لازماًپہلا سوال یہ پیدا ہوگا کہ اگر یہ پوری عبارت ایک ہی سلسلۂ تقریر کی ہے جو بیک وقت ارشاد ہوئی تھی، تو اس میں پہلے ہی یہ کیوں نہ کہہ دیا گیا کہ ماہ رمضان میں تم کو یہ نعمت دی گئی تھی اس لیے تم میں سے جو اس کو پائے،اُسے چاہیے کہ اس مہینے کے روزے رکھے؟آخر یہ کیا اندازِ بیان ہے کہ پہلے کہا’’روزہ رکھنا چند گنے چنے دنوں کا‘‘پھر تین چار فقروں میں روزوں کے متعلق بعض احکام بیان کیے،پھر بتایا گیا کہ وہ گنے چنے دن رمضان کے ہیںاور رمضان کو اس کام کے لیے اس وجہ سے منتخب کیا گیا ہے اور اس پورے مہینے کے روزے رکھنے چاہییں۔ ایک مربوط سلسلہ تقریر میں شاید ایک اناڑی بھی اپنی بات یوں ادا نہ کرتا، بلکہ یوں کہتا کہ اگلی قوموں کی طرح تم پر بھی روزے فرض کیے گئے ہیں اور رمضان کے مہینے میں تم کو قرآن کی نعمت دی گئی ہے اس لیے یہ فرض روزے تم اس مہینے میں رکھو۔ اس کے بعد اس کو جو کچھ احکام بیان کرنے ہوتے وہ بیان کردیتا۔
دوسرا سوال ایک خالی الذہن ناظر کے دل میں یہ پیدا ہوگا کہ اس سلسلہ عبارت میں جب پہلے یہ فقرہ آچکا تھا کہ ’’جو کوئی تم میں سے مریض ہو،یا سفرپر ہو، تو پورا ہونا چاہیے شمار دوسرے دنوں سے‘‘ تو اسی فقرے کو بعد میں پھر دہرانے کی کیا حاجت تھی؟اور اگر فی الواقع اس کا دہرانا ضروری تھا تو پھر یہ فقرہ بھی کیوں نہ دہرایا گیا کہ’’جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں،ان پر فدیہ ہے ایک مسکین کا کھانا‘‘۔ حقیقت میں ضرورت تو دونوں میں سے ایک کو بھی دہرانے کی نہ تھی۔لیکن ایک کو دہرانا اور دوسرے کو نہ دہرانا تو ایک معما سا محسوس ہوتا ہے۔
تیسرا سوال جو اُس کے دل میں کھٹکے گا وہ یہ ہے کہ’’ماہ رمضان وہ ہے‘‘ سے پہلے کی عبارت اور اس کے بعد کی عبارت کا مضمون ایک دوسرے سے صریحاً متنا قض نظر آتا ہے۔پہلا مضمون صاف طور پر یہ کہہ رہا ہے کہ جو شخص طاقت رکھنے کے باوجود روزہ نہ رکھے،وہ فدیہ دے دے،لیکن اگر وہ روزہ ہی رکھے تویہ اُسی کے حق میں اچھا ہے۔اس کے بالکل برعکس دوسرا مضمون یہ ظاہر کررہا ہے کہ جو شخص ماہ رمضان کو پائے وہ اس میں ضرور روزے رکھے اور اس لازمی حکم کو یہ بات مزید تقویت پہنچا رہی ہے کہ اس حکم کے بعد اس رعایت کا تو اعادہ کردیا گیا ہے جو پہلے مضمون میں مریض اور مسافر کو دی گئی تھی،مگر اس رعایت کو ساقط کردیا گیا جو اوپر روزے کی طاقت رکھنے والے کو دی گئی تھی۔ایک معمولی عقل وخرد رکھنے والے قانون ساز سے بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ ایک ہی معاملے میں وہ بیک وقت دومختلف احکام دے تو پھر بھلا یہ فعل اﷲ تعالیٰ کے شایان شان کیسے ہوسکتا ہے؟
پہلے دو سوالات صرف سوالات ہی ہیں۔ لیکن یہ آخری سوال تو ایک سخت اعتراض ہے جو اس عبارت پر وارد ہوتا ہے، اورمیں نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص حدیث سے مدد لیے بغیر اسے کیسے رفع کرسکتاہے۔جو لوگ حدیث کی مدد کے بغیر قرآن کو سمجھنے کے مدعی ہیں،اور حدیث کو احکام دین کا ماخذ اور قرآن کی مستند شرح ماننے سے انکار کرتے ہیں،ان سے پوچھیے کہ ان کے پاس ان سوالات اور اس اعتراض کا کیا جواب ہے؟
اب دیکھیے کہ حدیث کس طرح ہمیں قرآن مجید کے اس مقام کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ جن لوگوں کے سامنے قرآن کے یہ احکام نازل ہوئے تھے،ان کا بیان یہ ہے کہ اس عبارت کا ایک حصہ جو’’اے لوگو‘‘ سے شروع ہوکر’’اگر تم علم رکھتے ہو‘‘ پر ختم ہوتا ہے،ابتداء ً نازل ہوا تھا، اور دوسرا حصہ اس کے ایک سال بعد نازل ہوا۔ پہلے سال روزے فرض کرتے وقت یہ رعایت رکھی گئی تھی کہ آدمی روزے کی طاقت رکھنے کے باوجود اگر روزہ نہ رکھے تو فدیہ دے دے۔ مگر دوسرے سال اس رعایت کو منسوخ کردیا گیا۔البتہ مسافر اور مریض کے لیے سابق رعایت بحال رکھی گئی۔
اس بیان میں نہ صرف یہ کہ سارے اشکالات رفع ہوگئے،بلکہ یہ بات بھی سمجھ میں آگئی کہ دوسرے سال آخری اور قطعی حکم دیتے ہوئے یہ تمہید کیوں اُٹھائی گئی کہ یہ رمضان کامہینہ وہ ہے جس میں تمھیں قرآن جیسی نعمت دی گئی ہے۔اب بات سمجھ میں آگئی کہ پہلے اﷲ کی اس نعمت کا احساس دلایا گیا، پھر حکم دیا گیا کہ اس نعمت کے شکریے میں تم کو اس مہینے کے روزے ضرور رکھنے چاہییں۔
محدثین ومفسرین نے یہ تشریح متعدد صحابہ اور تابعین سے نقل کی ہے۔ مثلاً امام احمدؒ بن حنبل،حضرت معاذ ؓ بن جبل سے ایک طویل تشریحی بیان نقل کرتے ہیں جس میں وہ فرماتے ہیں کہ نماز اور روزہ، دونوں کی موجودہ صورت بتدریج قائم کی گئی ہے۔نماز میں پہلے بیت المقدس کی طرف رُ خ کیا جاتا تھا۔پھر مکے کی طرف رُخ پھیرا گیا۔پہلے لوگ ایک دوسرے کو نماز کے وقت اطلاع دیتے تھے۔پھر اذان کا طریقہ مقرر کیا گیا۔پہلے طریقہ یہ تھا کہ اگر ایک شخص بیچ کے کسی مرحلے پر آکر جماعت میں شریک ہوتا تھا تو اپنی نماز کا چھوٹا ہوا حصہ ادا کرنے کے بعد امام کی پیروی شروع کرتا تھا۔پھر یہ طریقہ مقرر کیا گیا کہ جماعت میںجس مرحلے پر بھی آکر شریک ہو،امام کی پیروی میں نماز پڑھنی شروع کردو۔پھر امام کے سلام پھیر دینے کے بعد اُٹھ کر اپنی نماز پوری کرو۔ اسی طرح روزے کے احکام بھی بتدریج آئے ہیں۔ جب نبی ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپؐہر مہینے تین دن کے روزے رکھتے تھے اور ایک روزہ محرم کی دسویں کو رکھا کرتے تھے۔ پھر اﷲ نے رمضان کے روزے فرض کیے،مگر یہ رعایت رکھی کہ جو روزہ نہ رکھے،وہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔اس کے بعد حکم آیا کہ رمضان کے روزے ضرور رکھے جائیں، اور تندرست مقیم آدمی کے لیے فدیے کی رعایت منسوخ کردی۔ پہلے لوگ افطار کے بعد اُس وقت تک کھانا پینا،مباشرت کرنا جائزسمجھتے تھے جب تک سو نہ جائیں۔سونے کے بعد وہ سمجھتے تھے کہ دوسرے دن کا روز ہ شروع ہوگیا۔ اگرچہ اس باب میں کوئی صریح حکم نہ تھامگر لوگ ایسا ہی سمجھے ہوئے تھے۔بعد میں حکم آیا کہ ﴿ اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ۔۔۔ اِلٰی قَوْلِہٖ ۔۔۔ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ﴾ {مسند أحمد، مسند معاذ بن جبل، حدیث22124؛اسماعیل ا بن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، دارطیبۃ ،1999م، تفسیر سورۃ البقرہ، آیت 187 }
اس مضمون کی تائید میں بخاری، مسلم، ابو دائود اور دوسرے محدثین نے متعدد روایات نقل کی ہیں جو حضرت عائشہ، حضرت عبداﷲ بن عمر، حضرت عبداﷲ بن مسعود اور حضرت سلمہ بن اکوع؇ سے مروی ہیں۔{صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب قول اللہ جل ذکرہ احل لکم لیلۃ الصیام الرفث إلی… ؛سنن ابی داود، کتاب الصوم، باب مبدائ فرض الصیام } مشہور مفسر ابن جریر طبریؒ (متوفی310ھ) نے پوری سند کے ساتھ جن صحابہؓ اور تابعینؒ سے اس کی تائید میں روایات نقل کی ہیں،ان کے نام یہ ہیں:معاذؓ بن جبل، ابن عمرؓ، ابن عباسؓ، سلمہؓ بن اکوع، علقمہؒ، حسن بصریؒ،شعبیؒ، عطاؒء، زُہریؒ۔ ان میں سے ایک روایت میں وہ حضرت معاذ بن جبلؒ کی یہ تصریح نقل کرتے ہیں کہ پہلے چوں کہ اہل عرب روزوں کے عادی نہ تھے اور روزہ ان پر سخت گراں گزرتا تھا، اس لیے ان کو یہ رعایت دی گئی تھی کہ رمضان میں جس دن روزہ نہ رکھیں، اُس دن کسی مسکین کو کھانا کھلادیں۔ بعد میں تاکیدی حکم آگیا کہ پورے مہینے کے روزے رکھو، اِلاّ یہ کہ تم مریض ہو یا سفرپر ہو۔{ جامع البیان عن تاویل القرآن ، تفسیر سورۃ البقرہ، آیت 184 ، حدیث 2733۔2734
} ایک اور روایت میں وہ ابن عباسؓ کی یہ تصریح نقل کرتے ہیں کہ پہلے سال کے روزوں میں اﷲ تعالیٰ نے فدیے کی رخصت رکھی تھی،مگر دوسرے سال جو حکم آیااُس میں مریض ومسافر کی رعایت تو بحال تھی لیکن مقیم کے لیے فدیے کی رعایت کا ذکر نہ تھا، اس لیے یہ رعایت منسوخ ہوگئی۔{جامع البیان عن تاویل القرآن ، تفسیر سورۃ البقرہ، آیت 184 ، حدیث 2738 }
اس تشریح سے ہر شخص خود اندازہ کرسکتا ہے کہ جو لوگ حدیث سے بے نیاز ہوکر،بلکہ احادیث کو حقارت اور تضحیک کے ساتھ پھینک کر قرآن سے من مانے احکام نکال رہے ہیں،وہ کس طرح خود گمراہ ہورہے ہیں اور عام مسلمانوں کو گمراہ کررہے ہیں۔
(ترجمان القرآن ، اپریل مئی 1953ء)
کُتوں کے منہ لگے ہوئے کپڑوں کو دھونا
سوال: یہاں مغربی معاشرے میں لوگ عام طور پر کُتّے پالتے ہیں۔ملاقات کے وقت پہلے کتے ہی استقبال کرتے ہیں اور کپڑوں کو منہ لگاتے ہیں۔ انتہائی کوشش کے باوجود اس مصیبت سے بچنامحال ہے۔ کیا ایسی صورت میں جرابوں اور کپڑوں کو بار بار دھلوایا جائے؟
جواب: کتوں سے اُس ملک میں بچنا سخت مشکل ہے۔ آپ اگر کوشش کے باوجود نہ بچ سکیں تو جس جگہ ان کا منہ لگ گیا ہو،وہاں وضو کرتے وقت رفع وسواس کے لیے بس پانی کے چھینٹے دے لیا کیجیے۔
(ترجمان ا لقرآن،جون،جولائی1952ء)
جرابوں پر مسح
سوال: موزوں اور جرابوں پر مسح کے بار ے میں علما میں اختلاف پایا جاتا ہے۔میں آج کل تعلیم کے سلسلے میں سکاٹ لینڈ کے شمالی حصے میں مقیم ہوں۔یہاں جاڑے کے موسم میں سخت سردی پڑتی ہے اور اونی جراب کا ہر وقت پہننا ناگزیر ہے۔کیا ایسی جراب پر بھی مسح کیا جاسکتا ہے؟براہِ نوازش اپنی تحقیق احکام شریعت کی روشنی میں تحریر فرمائیں۔
جواب: جہاں تک چمڑے کے موزوں پر مسح کرنے کا تعلق ہے،اس کے جواز پر قریب قریب تمام اہل سنت کا اتفاق ہے۔ مگر سوتی اور اونی جرابوں کے معاملے میں عموماً ہمارے فقہا نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ موٹی ہوں اور شفاف نہ ہوں کہ ان کے نیچے سے پائوں کی جلد نظر آئے،اور وہ کسی قسم کی بندش کے بغیر خود قائم رہ سکیں۔
میںنے اپنی امکانی حد تک یہ تلاش کرنے کی کوشش کی کہ ان شرائط کا ماخذ کیا ہے، مگر سنت میں ایسی کوئی چیز نہ مل سکی۔سنت سے جو کچھ ثابت ہے،وہ یہ ہے کہ نبی ﷺ نے جرابوں اور جوتو ں پر مسح فرمایا ہے۔ نسائی کے سوا کتب سنن میں اور مسند احمد میں مغیرہ ؓبن شعبہ کی روایت موجود ہے کہ نبیﷺ نے وضو کیا اور مَسَحَ عَلَی الْجَوْرَبَیْنِ وَالنَّعْلَیْنِ{ سنن ابی داود، کتاب الطھارۃ، باب المسح علی الجوربین، حدیث 159 } (اپنی جرابوں اور جوتوں پر مسح فرمایا)۔ ابو دائود کا بیان ہے کہ حضرت علی ؓ،عبداﷲؓ بن سعود، براءؓ بن عازب، انسؓ بن مالک، ابواُمامہؓ، سہلؓ بن سعد اور عمروؓبن حریث نے جرابوں پر مسح کیا ہے۔ نیزحضرت عمر اور ابن عباس ؇ سے بھی یہ فعل مروی ہے۔{ سنن ا داود، کتاب الطھارۃ، باب المسح علی الجوربین، حدیث 159، حدیث 137 } بلکہ بیہقی نے ابن عباسؓ اور انسؓ بن مالک سے اور طحاوی نے اوس بن ابی اوس سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ حضورﷺ نے صرف جوتوں پر مسح فرمایا ہے۔{ البیھقی، احمد بن الحسین، السنن الکبریٰ، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 2003م، جماع ابواب المسح علی الخفین، باب ماورد فی المسح علی النعلین، حدیث 1359-1365 }اس میں جرابوں کا ذکر نہیں ہے۔ اور یہی عمل حضرت علی ؓسے بھی منقول ہے۔{البیھقی، احمد بن الحسین، السنن الکبریٰ، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 2003م، جماع ابواب المسح علی الخفین، باب ماورد فی المسح علی النعلین، حدیث 1364،1365 }ان مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف جراب اور صرف جوتے اور جرابیں پہنے ہوئے جوتے پر مسح کرنا بھی اسی طر ح جائز ہے جس طرح چمڑے کے موزوں پر مسح کرنا۔ ان روایات میں کہیں یہ نہیں ملتا کہ نبی ﷺ نے فقہا کی تجویز کردہ شرائط میں سے کوئی شرط بیان فرمائی ہو، اور نہ یہی ذکر کسی جگہ ملتا ہے کہ جن جرابوں پر حضورﷺ نے اور مذکورہ بالا صحابہ نے مسح فرمایا،کس قسم کی تھیں۔اس لیے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ فقہا کی عائد کردہ ان شرائط کا کوئی ما ٔخذ نہیں ہے۔ اور فقہا چوں کہ شارع نہیں ہیں،اس لیے ان کی شرطوں پر اگر کوئی عمل نہ کرے تو وہ گناہ گار نہیں ہوسکتا۔
امام شافعی ؒ اور امام احمدؒ کی راے یہ ہے کہ جرابوں پر اس صورت میں آدمی مسح کرسکتا ہے جب کہ آدمی جوتے اوپر سے پہنے رہے۔{ المزنی، اسماعیل بن یحییٰ، المختصر ، بیروت، دارالمعرفۃ،1990م، کتاب الطھارۃ، باب المسح علی الخفین، ج 8، ص102}لیکن اوپر جن صحابہ کے آثار نقل کیے گئے ہیں،ان میں سے کسی نے بھی اس شرط کی پابندی نہیں کی ہے۔
مسح علی الْخفین پر غور کرکے میں نے جو کچھ سمجھا ہے،وہ یہ ہے کہ دراصل یہ تیمم کی طرح ایک سہولت ہے جو اہل ایمان کو ایسی حالتوں کے لیے دی گئی ہے جب کہ وہ کسی صورت سے پائوں ڈھانکے رکھنے پر مجبور ہوں اور بار بار پائوں دھونا ان کے لیے موجب نقصان یا وجہ مشقت ہو۔اس رعایت کی بنا اس مفروضے پر نہیں ہے کہ طہارت کے بعد موزے پہن لینے سے پائوں نجاست سے محفوظ رہیں گے،اس لیے ان کو دھونے کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ بلکہ اس کی بنا اﷲ کی رحمت ہے جو بندوں کو سہولت عطا کرنے کی مقتضی ہوئی۔لہٰذا ہر وہ چیز جو سردی سے یا راستے کے گرد وغبار سے بچنے کے لیے یا پائوں کے کسی زخم کی حفاظت کے لیے آدمی پہنے اور جس کے بار بار اُتارنے اور پھر پہننے میں آدمی کو زحمت ہو،اس پر مسح کیا جاسکتا ہے،خواہ وہ اونی جراب ہویا سوتی،چمڑے کا جوتا ہو یا کرمچ کا،یا کوئی کپڑا ہی ہو جو پائوں پر لپیٹ کر باندھ لیا گیا ہو۔
میں جب کبھی کسی کو وضو کے بعد مسح کے لیے پائوں کی طرف ہاتھ بڑھاتے دیکھتا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ بندہ اپنے خدا سے کہہ رہا ہے کہ’’حکم ہو تو ابھی یہ موزے کھینچ لوں اور پائوں دھو ڈالوں، مگر چوں کہ سرکار ہی نے رخصت عطا فرما دی ہے،اس لیے مسح پر اکتفا کرتا ہوں۔‘‘ میرے نزدیک دراصل یہی معنی مسح علی الخفین وغیرہ کی حقیقی روح ہیں اور اس روح کے اعتبار سے وہ تمام چیزیں یکساں ہیں جنھیں ان ضروریات کے لیے آدمی پہنے جن کی رعایت ملحوظ رکھ کر مسح کی اجازت دی گئی ہے۔
(ترجمان القرآن، جون،جولائی1952ء)
مہر معجل کا حکم
سوال: اگر بوقت نکاح زرِمہر کی صرف تعداد مقرر کردی گئی ہو اور اس امر کی تصریح نہ کی گئی ہو کہ یہ مہر معجل ہے یا مؤجل، تو آیا اس کو معجل قرار دیا جائے گا یا مؤجل؟اس مسئلے میں علما سے استفتا کیا گیا مگر جواب مختلف آئے۔ مثلاً چندجوابات یہ ہیں:
مولانا محمد کفایت اﷲصاحب ودیگرعلما ے دہلی:
’’اگرمہر میں مؤجل کی تصریح بھی ہو مگر اجل مجہول بجہالت فاحشہ ہو تو مہر معجل ہوجاتا ہے اورجب کہ معجل یا مؤجل کا لفظ استعمال نہ کیا جائے بلکہ واجب الادا کا لفظ لکھ دیا جائے تو یہ بھی معجل ہوگا، کیوںکہ بغیر ذکرِ اجل کے مؤجل نہیں ہوسکتا۔
إلَّا إذَا جُهِلَ الْأَجَلُ جَهَالَةً فَاحِشَةً فَيَجِبُ حَالًّا … وَإِنْ كَانَتْ مُتَفَاحِشَةً كَإِلَى الْمَيْسَرَةِ أَوْ إلَى هُبُوبِ الرِّيحِ، أَوْ إلَى أَنْ تُمْطِرَ السَّمَاءُ فَالْأَجَلُ لَا يَثْبُتُ وَيَجِبُ الْمَهْرُ حَالًّا، وَكَذَا فِي غَايَةِ الْبَيَانِ { رد المحتار علی الدرالمختار، کتاب النکاح، باب المھر، ج3، ص144 }
مولانا سعید احمد صاحب مدرس مدرستہ الاصلاح سراے میر،ضلع اعظم گڑھ:
مہر مؤجل اس وقت ہوگا جب بوقت عقد نکاح اداے مہر کے لیے وقت اور تاریخ کی تعیین ہو ورنہ معجل۔ یہی حال تمام معاملات کا ہے۔اگر کسی نے ایک دکان سے کوئی چیز خریدی اور بات چیت میںنقد یا تاخیر تعیین وقت کا ذکر نہیں آیا تو یہ معاملہ بھی معجل کے حکم میں ہوگا،خریدار خواہ فوراًقیمت دے دے یا بعد میں دینے کا وعدہ کرے۔بہرصورت معجل میں یہ ضروری نہیں ہے کہ عوض فوراًادا کیا جائے بلکہ صاحب حق کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ فوراًیا جب چاہے اپنے حق کا مطالبہ کرے۔ اور معاملۂ مؤجلہ میں اجل اور تاریخ سے پہلے مطالبے اور تقاضے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔اس تفصیل کی رُو سے معاملۂ مسئولہ میں زرِمہر معجل ہے‘ اس لیے عورت جب چاہے،اس کا مطالبہ اور دعویٰ کرسکتی ہے۔
مولانا سیّد سلیمان ندوی:
زرِ مہر میں اگر معجل یا مؤجل کی کوئی تفصیل نہیں ہے تو عرف کا اعتبار کیا جائے گا۔وقایہ میں ہے: وَالْمُعَجَّلُ وَالْمُؤَجَّلُ اِنْ بَیَّنَّا فَذَلِکَ وَاِلَّا فَالْمُتَعَارَفُ (اگر معجل اور مؤجل دونوں بیان کردیے گئے ہیں تو جیسا بیان کیا گیا ہے ویسا ہوگا ورنہ عرف کا اعتبار ہوگا)
مولانا عبدالرحمن صاحب نائب مفتی ریاست پیٹالہ ودیگر علما:
اس صورت میں عرف کا اعتبار کیا جائے گا(حوالہ وہی مختصر وقایہ کا ہے)اگر عرف یہ ہے کہ ایک عورت ایسے غیر مبیّن مہر کو صرف شوہر کی وفات یا طلاق ہی کے بعد حاصل کرسکتی ہے تو وہ شوہر کی وفات یا طلاق سے پہلے اسے وصول کرنے کاحق نہیں رکھتی۔
اس اختلاف کا حل کیا ہے؟ براہِ کرم آپ اس پر تفصیل سے روشنی ڈالیں۔
جواب: قرآن وحدیث کی رُو سے مہر دراصل اس حقِ زوجیت کا معاوضہ ہے جو ایک مرد کو اپنی بیوی پر حاصل ہوتا ہے۔قرآن میں فرمایا گیا ہے:
﴿ وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاۗءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ﴾ (النسائ 4:24)
(ان کے ماسوا جو تمھاری عورتیں ہیں،تمھارے لیے حلال کیا گیا کہ اپنے مالوں کے عوض ان کوحاصل کرو)
﴿فَـمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِ يْضَۃً﴾ۭ (النسائ 4:24)
(پس جو لطف تم نے ان سے اُٹھایاہے اس کے بدلے ان کے مہر بطور ایک فرض کے ادا کرو)
﴿وَكَيْفَ تَاْخُذُوْنَہٗ وَقَدْ اَفْضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ ﴾ (النسائ 4:21)
(اور تم وہ مال کیسے لے سکتے ہو جب کہ تم میں سے ایک دوسرے سے اختلاط کرچکا ہے)
ان آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مہر ہی وہ چیز ہے جس کے عوض مردکو عورت پر شوہرانہ حقوق حاصل ہوتے ہیں۔پھر اس کی مزید تصریح وہ احادیث کرتی ہیں جو اس معنی میں نبی ﷺ سے مروی ہیں۔صحاح ستہ اور دارمی اور مسند احمد میں حضورﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے:
اَحَقُّ الشُّرُوطِ أَن تُوْفُوا بِہٖ مَااسْتَحْلَلْتُمْ بِہِ الْفُرُوْجَ { صحیح البخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی المھر عند عقدۃ النکاح، حدیث 2721 }
(تمام شرطوں سے بڑھ کر جو شرط اس کی مستحق ہے کہ تم اسے پوراکرو، وہ شرط وہ ہے جس پر تم عورتوں کی شرم گاہوں کو حلال کرتے ہو)
لِعان کا وہ مشہور مقدمہ، جس میں نبی ﷺ نے زوجین کے درمیان تفریق کرائی تھی، اس کا ذکر کرتے ہوئے عبداﷲ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ جب تفریق ہوچکی تو شوہر نے عرض کیا: یارسول اﷲﷺ ! میرا مال مجھے واپس دلوایا جائے۔آپﷺ نے جواب میں فرمایا:
لَا مَالَ لَکَ اِنْ کُنْتَ صَدَقْتَ عَلَیْھَا فَھُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِھَا، وَاِنْ کُنْتَ کَذَبْتَ عَلَیْھَا فَذٰلِکَ اَبْعَدُ لَکَ مِنْھَا {صحیح مسلم، کتاب الطلاق، باب انقضاء عدۃ المتوفی، حدیث 3821 }
(مال لینے کا تجھے کوئی حق نہیں ہے۔اگر تو نے اس پر سچا الزام لگایا ہے تو اس کی شرم گاہ جو تو نے اپنے لیے حلال کی تھی،اس کے معاوضے میں وہ مال ادا ہوچکا،اور اگر تو نے اس پر جھوٹا الزام لگایا ہے تو مال لینے کا حق تجھ سے اور بھی زیادہ دُور ہوگیا)
اِ س سے بھی زیادہ تصریح ایک اور حدیث میں ہے جو امام احمدؒ اپنی مسند میں لائے ہیں کہ:
مَنْ تَزَوَّجَ إمْرَأَۃً عَلَی صَدَاقٍ، وَھُوَ یَنْوِی أَ لَّایُؤَدِیْہِ إلَیْھَا فَھُوَ زَانٍ{البزار،ابوبکر احمد بن عمر،مسند البزار، المدینۃ المنورۃ، مکتبۃ العلوم و الحکم، 2009م، مسند أبی حمزۃ، حدیث8721؛ مسند أحمد، أول مسند الکوفیین، حدیث صھیب بن سنان، حدیث 18932 }
( جس نے کسی عورت سے [مہر کے عوض[ نکاح کیا اور نیت یہ رکھی کہ یہ مہر دینا نہیں ہے وہ زانی ہے)
ان تمام نصوص سے مہر کی یہ حیثیت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ یہ کوئی رسمی ونمائشی چیز نہیں ہے بلکہ وہ چیز ہے جس کے معاوضے میں ایک عورت ایک مرد کے لیے حلال ہوتی ہے۔ اور ان نصوص کا اقتضا یہ ہے کہ استحلال فرج کے ساتھ ہی پورا مہر فوراًواجب الادا ہوجائے۔ الّایہ کہ زوجین کے درمیان اس کو مؤخر کردینے کے لیے کوئی قرار داد ہوچکی ہو۔
پس زرِ مہر کی ادائگی کے معاملے میں اصل تعجیل ہے نہ کہ تاجیل۔مہرکا حق یہ ہے کہ وہ استحلال فرج کے ساتھ بروقت ادا ہو،اور یہ محض ایک رعایت ہے کہ اس کو ادا کرنے میں مہلت دی جائے۔ اگر مہلت کے بارے میں زوجین کے درمیان کوئی قرار داد نہ ہوئی ہو تو اعتبار اصل(تعجیل) کا کیا جائے گا نہ کہ رعایت (یعنی تاجیل اور مہلت) کا۔ یہ بات شارع کے منشا کے بالکل خلاف معلوم ہوتی ہے کہ تاجیل کو اصل قرار دیا جائے اور تاجیل وتعجیل کے غیر مصرّح ہونے کی صورت میں زرِ مہر کو آپ سے آپ موّجل ٹھیرایا جائے۔
فقہائے حنفیہ کے درمیان اس مسئلے میں دو گروہ پائے جاتے ہیں۔ایک گروہ کی راے وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی۔ ’’غایۃ البیان‘‘ میں ہے:
فإِنْ کَانَ یَعْنِی الْمَھْرَ بِشَرْطِ التَّعْجِیْلِ أَوْمَسْکُوتًا عَنْہُ یَجِبُ حَالاّ وَلَھَا أَنْ تَمْنَعَ نَفْسَھَا حَتّٰی یُعْطِیَھَا الْمَھْرَ { بحوالہ: ابن نجیم المصری ، زین الدین بن ابراھیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، بیروت، دارالکتاب الاسلامی (بدون تاریخ) کتاب النکاح، باب المھر،ج3، ص191 }
(اگر مہر بشرط تعجیل ہو یا اس کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہو( کہ معجل ہے یا مؤجّل) تو وہ فوراً واجب ہوگا اور عورت کو حق ہوگا کہ اپنے آپ کو شوہر سے روک لے جب تک وہ مہر ادا نہ کرے)
اور شرح العنایۃ علی الھدایۃ میں ہے:
فإِنْ سَمَّوا الْمَھْرَ سَاکِتِیْنَ عَنِ التَّعْجِیْلِ وَالتَّاجِیْلِ مَاذَا یَکُوْنُ حُکْمْہُ؟ قُلْتُ یَجِبُ حَالاَّ ] … [ فَیَکُوْنُ حُکْمُہُ حُکْمَ مَاشُرِطَ تَعْجِیْلُہُ۔{ العنایۃ شرح الھدایۃ، کتاب النکاح، باب المھر، ج3، ص372}
(پھر اگر مہر مقرر کردیا گیا اور معجل یا مؤجل کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا تو اس کا کیا حکم ہے؟ میں کہتا ہوں کہ وہ فوراً واجب ہوگا،اس کا حکم اس مہر کا سا حکم ہے جس کے لیے تعجیل کی شرط کی گئی ہو)
اور ] مجمع الأنھر[میں ہے:
اِنَّ الْمَھْرَ مُعَجَّلاً أَوْمَسْکُوتاً عَنْہُ فإِنَّہُ یَجِبُ حَالاًّ لِأَنَّ النِّکَاحَ عَقْدُ مُعَاوَضَۃٍ وَقَدْ تَعَیَّنَ حَقُّہُ فِی الزَّوجَۃِ فَوَجَبَ أَنْ یَتَعَیَّنَ حَقُّھَا وَذَلِکَ بِالتَّسْلِیْمِ { بحوالہ: شیخی زادہ، عبدالرحمن بن محمد، مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر، بیروت، داراحیاء التراث العربی، (بدون تاریخ) کتاب النکاح، باب ھل یجب المھر فی عقد فاسد، ج1، ص359
} (اگر مہر معجل ہو یا اس کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہو تو وہ فوراً واجب ہوگا کیوں کہ نکاح ایک عقد بامعاوضہ ہے،جب زوجہ میں شوہر کا حق متعین ہوگیا تو واجب آیا کہ عورت کا حق بھی متعین ہوجائے اور وہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ مہر ادا کردیا جائے)
رہا دوسرا گروہ،تو وہ کہتا ہے کہ اس معاملے میں عرف کا اعتبار کیا جائے گا۔ فتاویٰ قاضی خاں میں ہے:
فإِنْ لَمْ یُبَیِّنُوا قَدْرَ الْمُعَجَّلِ یُنْظَرُ إلَی الْمَرْأَۃِ وَإلیَ الْمَھْرِ أَنَّہُ کَمْ یَکُونُ الْمُعَجَّلُ لِمِثْلِ ھٰذِہِ الْمَرْأَۃِ مِنْ مِثْلِ ھٰذَا الْمَھْرِ فَیَعَجَّلُ ذَالِکَ وَلَا یَتَقَدَّرُ بِالرُّبْعِ وَالْخُمْسِ بَلْ یُعْتَبَرُ الْمُتَعَارَفُ {بحوالہ: الزیلعی، فخر الدین، عثمان بن علی، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، القاھرۃ، المطبعۃ الکبریٰ الأمیریۃ، 1313ھ، کتاب النکاح، باب المھر، ج2، ص156 }(اگر معجل کی مقدار واضح نہ کی گئی ہو تو دیکھا جائے گا کہ عورت کس طبقے کی ہے اور مہر کتنا ہے اور یہ کہ ایسی عورت کے لیے ایسے مہر میں سے کس قدر معجل قرار دیا جاتا ہے۔بس اتنی ہی مقدار معجل قرار دی جائے،ایک چوتھائی یا پانچویں حصے کی تعیین نہ کردینی چاہیے، جو رواج ہو اس کا اعتبار کرنا چاہیے)
اسی راے کی تائید علامہ ابن ہمامؒ نے ’’فتح القدیر‘‘ میں کی ہے۔وہ لکھتے ہیں:
وَإنْ لَمْ یَشْتَرِطْ تَعْجِیْلَ شَیْ ئٍ بَلْ سَکَتُوا عَنْ تَعْجِیْلِہِ وتَاجِیْلِہِ فإِنْ کَانَ عُرْفٌ فِی تَعْجِیْلِ بَعْضِہٖ وَتَأْخِیْرِ بَاقِیْہِ إلَی المَوْتِ أوْالْمَیْسَرَۃِ أَوْالطَّلاَقِ فَلَیْسَ لَھَا أَنْ تَحْتَبِسَ إلاَّ إلٰی تَسْلِیْمِ ذَالِکَ الْقَدْرِ{ شرح فتح القدیر، کتاب النکاح، باب المھر، ج3، ص370 } (اور اگر کسی حصۂ مہر کی تعجیل کی شرط نہ کی گئی ہو بلکہ تعجیل اور تاجیل کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہو تو رواج کو دیکھا جائے گا۔ اگر رواج یہ ہے کہ ایک حصہ معجل قرار دیا جاتا ہے اور باقی حصہ موت تک یا خوش حالی یا طلاق تک مؤخر رکھا جاتا ہے، تو عورت صرف اتنی ہی مقدار وصول ہونے تک اپنے آپ کو شوہر سے روکنے کاحق رکھتی ہے)
اصولی حیثیت سے دیکھا جائے تو پہلے گروہ کی راے قرآن وحدیث کی منشا سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔ لیکن دوسرے گروہ کی راے بھی بے وزن نہیں ہے۔ان کے قول کا مدعا یہ نہیں ہے کہ مہر کے باب میں تاجیل اصل ہے اور جب تاجیل وتعجیل کی صراحت نہ ہو تو معاملہ اصل یعنی تاجیل کی طرف راجع ہونا چاہیے۔بلکہ وہ اپنے فتوے میں ایک اور قاعدے کا لحاظ کرتے ہیں جسے شریعت میں تسلیم کیا گیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ کسی سوسائٹی میں معاملات کے متعلق جوطریقہ عام طور پر مروّج ہو،اس کی حیثیت افراد کے درمیان ایک بے لکھے معاہدے کی سی ہوتی ہے۔اگر اس سوسائٹی کے دو فریق باہم کوئی معاملہ طے کریں اور کسی خاص پہلو کے بارے میں بصراحت کوئی قراردادنہ کریں تو یہ سمجھا جائے گا کہ اِ س پہلو میں وہ مروّجہ طریقے پر راضی ہیں۔
بلاشبہہ یہ قاعدہ شریعت میں مسلّم ہے، اور اس لحاظ سے فقہا کے دوسرے گروہ کی راے بھی غلط نہیں ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم کسی خاص سوسائٹی میں اس قاعدے کو جاری کریں،ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ شریعت نے رواج کوبطور ایک ما ٔ خذِ قانون (source of law) کے تسلیم نہیں کیا ہے کہ جو کچھ رواج ہو وہی شریعت کے نزدیک حق ہو۔ بلکہ اس کے برعکس وہ غیر متقی سوسائٹی اور اس کے غیر منصفانہ رواجوں کو قبول کرنے کے بجائے ان کو بدلنا چاہتی ہے اور صرف ان رواجوں کو تسلیم کرتی ہے جو ایک اصلاح شدہ سوسائٹی میں شریعت کی رُوح اور اس کے اصولوں کے تحت پیدا ہوئے ہوں۔لہٰذا رواج کو بے لکھا معاہدہ مان کر مثل ِ قانون نافذ کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جس سوسائٹی کے رواج کو ہم یہ حیثیت دے رہے ہیں کیا وہ ایک متقی سوسائٹی ہے؟ اور کیا اس کے رواج شریعت کی روح اور اس کے اصولوں کی پیروی میں پیدا ہوئے ہیں؟اگر تحقیق سے اس کا جواب نفی میں ملے تو اس قاعدے کومثلِ قانون جاری کرنا عدل نہیں بلکہ قطعاً ایک ظلم ہوگا۔
اس نقطۂ نظر سے جب ہم اپنے ملک کی موجودہ مسلم سوسائٹی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ تعلقاتِ زن وشوہر کے معاملے میں اس نے خواہشاتِ نفس کی پیروی اختیار کرکے اس توازن کو بہت کچھ بگاڑ دیا ہے جو شریعت نے قائم کیا تھا، اور بالعموم اس کا میلان ایسے طریقوں کی طرف ہے جو شریعت کی روح اوراس کے احکام سے صریحاً منحرف ہیں۔اسی مہر کے معاملے کو لے لیجیے جس پر ہم یہاں گفتگو کررہے ہیں۔اِ س ملک کے مسلمان بالعموم مہر کو محض ایک رسمی چیز سمجھتے ہیں۔ان کی نگاہ میں اس کی وہ اہمیت قطعاً نہیں ہے جو قرآن وحدیث میں اس کو دی گئی ہے۔ نکاح کے وقت بالکل ایک نمائشی طور پر مہر کی قرار داد ہوجاتی ہے مگر اس امر کا کوئی تصور ذہنوں میں نہیں ہوتا کہ اس قرار داد کو پورا بھی کرنا ہے۔بارہا ہم نے مہرکی بات چیت میں اپنے کانوں سے یہ الفاظ سنے ہیں کہ’’میاں کون لیتا ہے کون دیتا ہے‘‘، گویا یہ فعل محض ضابطے کی خانہ پُری کے لیے کیا جارہا ہے۔ہمارے علم میں80فی صدی نکاح ایسے ہوتے ہیں جن میں مہر سرے سے کبھی ادا ہی نہیں کیا جاتا۔ زرِ مہر کی مقدار مقرر کرنے میں اکثر جو چیزلوگوں کے پیش نظر ہوتی ہے، وہ صرف یہ ہے کہ اسے طلاق کی روک تھام کا ذریعہ بنایا جائے۔اس طرح عملاً عورتو ں کے ایک شرعی حق کو کالعدم کردیا گیا ہے اور اس بات کی کوئی پروا نہیں کی گئی کہ جس شریعت کی رُو سے یہ لوگ عورتوں کو مردوں پر حلال کرتے ہیں وہ مہرکو استحلالِ فروج کا معاوضہ قرار دیتی ہے، اور اگر معاوضہ ادا کرنے کی نیت نہ ہو تو خدا کے نزدیک عورت مرد پرحلال ہی نہیں ہوتی۔
ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ جس سوسائٹی کا عرف اتنا بگڑ چکا ہو اور جس کے رواج نے شریعت کے احکام اور اس کی رُوح کے بالکل خلاف صورتیں اختیار کرلی ہوں،اس کے عرف و رواج کو ازرُوئے شریعت جائز قرار دینا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے۔ جن فقہا کی عبارتیںاعتبار عرف کی تائید میں نقل کی جاتی ہیں،ان کے پیش نظر نہ یہ بگڑی ہوئی سوسائٹی تھی اور نہ اس کے خلافِ شریعت رواج۔ انھوں نے جو کچھ لکھا تھا،وہ ایک اصلاح شدہ سوسائٹی اور اس کے عرف کو پیش نظر رکھ کر لکھا تھا۔کوئی مفتی مجرد ان کی عبارتوں کو نقل کرکے اپنی ذمہ داری سے سبک دوش نہیں ہوسکتا۔اس کا فرض ہے کہ فتویٰ دینے سے پہلے اصولِ شریعت کی روشنی میںان کی عبارتوں کو اچھی طرح سمجھ لے اور یہ تحقیق کرلے کہ جن حالات میں انھوں نے وہ عبارتیں لکھی تھیں،ان سے وہ حالات مختلف تو نہیں ہیں جن پر آج انھیں چسپاں کیا جارہا ہے۔
(ترجمان القرآن، جولائی،اگست1943ء)
غیر محرم قریبی اعزّہ سے پردے کی صورت
سوال: کیا شوہر بیوی کو کسی ایسے رشتہ دار یا عزیز کے سامنے بے پردہ آنے کے لیے مجبور کرسکتا ہے جو شرعاًبیو ی کے لیے غیر محرم ہو؟نیز یہ کہ سسرال اور میکے کے ایسے غیر محرم قریبی رشتہ دار جن سے ہمارے آج کل کے نظامِ معاشرت میں بالعموم عورتیں پردہ نہیں کرتیں،ان سے پردہ کرنا چاہیے یانہیں؟اور اگر کرنا چاہیے تو کن حدود کے ساتھ؟
جواب: شوہر کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خدا اور رسولﷺ کے احکام کی خلاف ورزی کا بیوی کو حکم دے۔اور اگر وہ ایسا حکم دے تو ایک مسلمان عورت کافرض ہے کہ اس کی اطاعت سے انکار کردے۔سورۃ النور کے رکوع4 میں اﷲ تعالیٰ نے ان رشتہ داروں کی فہرست دے دی ہے جن کے سامنے ایک مسلمان عورت اپنی زینت کے ساتھ آسکتی ہے۔ ان کے سوا کسی کے سامنے اظہارِ زینت کا حکم دیناکسی مسلمان کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے۔
سسرال اور میکے میں عورتوں کا عموماً جن غیر محرم قریبی رشتہ داروں کے ساتھ رہن سہن ہوتا ہے،ان سے پردے کی نوعیت وہ نہیں ہے جو بالکل غیر مردوں سے پردے کی نوعیت ہے۔ عورتیں اپنے غیر محرم رشتہ داروں کے سامنے بغیر زینت کے سادہ لباس میں،پورے ستر کے ساتھ آسکتی ہیں۔ مگر صرف اس حد تک ان کے سامنے رہنا چاہیے جس حد تک معاشرتی ضروریات کے لحاظ سے ناگزیر ہو۔ یہ خلاملا اور بے تکلفی اور ایک مجلس میں بیٹھ کر ہنسی مذاق کرنا اور تنہائی میں بیٹھنا، جس کا رواج ہماری سوسائٹی میں بڑی کثرت کے ساتھ پایا جاتا ہے،شرعی احکام کے قطعی خلاف ہے، اور بعض رشتے داروں، مثلاًدیوروں کے ساتھ ایسے تعلقات کی تو حدیث میں صریح ممانعت موجود ہے۔{ ]اَلْحَمْوُ المَوْتُ ۔دیور تو موت ہے[ صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب: لایخلون رجل بامرأۃ، حدیث5232 }
اس معاملے میں فی الواقع ہماری معاشرت میں بڑی پیچیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ شریعت کا جو حکم ہے وہ میں نے بتادیا ہے۔ مگر مسلمانوں میں رواج سے جو غیر شرعی حالات پیدا ہوگئے ہیں،ان کو دُور کرنے کے لیے بڑی جرأت اور عزم کی ضرورت ہے۔ایک طرف بکثرت مسلمان غیروں سے اتنے پردے کا اہتمام کرتے ہیں جو شریعت کے مطالبات سے بڑھ جاتا ہے۔دوسری طرف یہی لوگ رشتہ داروں کے معاملے میں تمام حدود شرعیہ کو توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔اس معاملے میں اگر کوئی شخص احکامِ شریعت پر ٹھیک ٹھیک عمل درآمد کرنا چاہے تو شاید بہت سے خاندانی تعلقات کو توڑے بغیر ایسا نہیں کرسکتا۔
(ترجمان القرآن ، جولائی اگست 1945ء)
غیر محرم رشتہ دار اور غیر محرم اجانب سے پردہ
سوال: آپ کی کتاب’’پردہ‘‘ کے مطالعے کے بعد میں نے اور میری اہلیہ نے چند ہفتوں سے عائلی زندگی کو قوانین الٰہیہ کے مطابق بنانے کی سعی شروع کررکھی ہے۔ مگر ہمارے اس جدید رویے کی وجہ سے پورا خاندان بالخصوص ہمارے والدین سخت برہم ہیں اور پردے کو شرعی حدود وضوابط کے ساتھ اختیار کرنے پر برافروختہ ہیں۔خیال ہوتا ہے کہ کہیں ہم ہی بعض مسائل میں غلطی پر نہ ہوں۔ پس تسلی کے لیے حسب ذیل اُمور کی وضاحت چاہتے ہیں:
1۔ سورۃ الاحزاب کی یہ آیت کہ’’ عورتوں پر کچھ گناہ نہیں کہ وہ اپنے باپوں کے سامنے پردہ نہ کریں اور نہ اپنے بیٹوں کے سامنے … الخ‘‘ اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوگئی کہ آیت میں جن اعزہ کا ذکر ہے،ان کے سوا عورتوں کا کسی دوسرے کے سامنے کسی بھی شکل اور حالت میں آنا (اِلاّبہ اشد مجبوری) صریحاً گناہ ہے۔ اس معاملے میں غیر محرم رشتہ دار اور غیر محرم اجانب بالکل برابر ہیں۔کیا میرا یہ خیال صحیح ہے ؟
جواب: آپ نے قرآن مجید کے اصل الفاظ پر غور نہیں کیا۔وہ آیت جس کا حوالہ آپ دے رہے ہیں،سورۃ الاحزاب میں نہیں ہے بلکہ سورہ النور میں ہے اور اس میں الفاظ یہ ہیں کہ ﴿وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَہُنَّ اِلَّا…﴾ ( النور 24:31 ( یعنی بجز ان لوگوں کے اور کسی کے سامنے اپنی زینت کا اظہار نہ کریں۔ دوسرے لفظوں میں بنائو سنگھار اور آرائش کے ساتھ غیر محرم لوگوں کے سامنے نہ آئیں۔ دوسری طرف گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ
﴿يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ ﴾ ( الاحزاب 33:(59
(یعنی اپنی چادروں کو اپنے اوپر گھونگٹ کے طور پر لٹکا لیا کریں)
ان دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کی تین قسمیں ہیں اور ہر قسم کے الگ احکام ہیں۔ ایک وہ محرم رشتے دار وغیرہ جن کا ذکر سورۃ النور والی آیت میں آیا ہے۔ دوسرے بالکل اجنبی لوگ جن کا حکم سورۃ الاحزا ب والی آیت میں بیان ہوا ہے۔ تیسرے ان دونو ں کے درمیان ایسے لوگ جو محرم بھی نہیں ہیں اور اجنبی بھی نہیں۔ پہلی قسم کے مردوں کے سامنے عورت اپنے بنائو سنگھار کے ساتھ آسکتی ہے۔ دوسری قسم کے مردوں کو چہرہ تک نہیں دکھا سکتی۔ رہے تیسری قسم کے لوگ، تو ان سے پردے کی نوعیت مذکورہ بالا دونوں حدوں کے درمیان رہے گی۔یعنی نہ تو ان سے بالکل اجنبیوں کا سا پردہ ہوگا اور نہ ان کے سامنے زینت کا اظہار ہی کیا جائے گا۔
(ترجمان القرآن، اگست 1946ء)
غیر مَحرم اَعِزّہ کے سامنےآمنے کا مطلب
سوال : کیا غیر محرم اعزہ(مثلاً چچا زاد بھائی یا خالو جب خالہ زندہ ہوں) کے سامنے ہونا جائز ہے؟ اگر جائزہے تو کن مواقع کے لیے اور کن طریقوں کے ساتھ جائزہے؟
جواب: سامنے ہونے کے دو مطلب ہیں۔ایک مطلب تو یہ ہے کہ اس طرح کی آزادی اور بنائو سنگھار کے ساتھ سامنے ہونا، جیسے باپ بھائی وغیرہ کے سامنے ہوا جاتا ہے، اور بے تکلف بیٹھ کر بات چیت کرنا، ہنسنا بولنا،حتیٰ کہ تنہائی تک میں ساتھ رہنا۔یہ چیز کسی قسم کے غیر محرم مردوں کے ساتھ بھی جائز نہیں ہے،خواہ وہ اجنبی ہوں یا رشتہ دار۔ دوسر امطلب اس کا یہ ہے کہ عورت اپنی زینت کو چادرو غیرہ سے چھپا کر، نیز سر کو ڈھانک کر صرف چہر ہ اور ہاتھ کھولے ہوئے کسی کے سامنے آئے، اور وہ بھی اپنے آپ کو دکھانے کی غرض سے نہیں بلکہ ان ناگزیر ضرورتوں کو پورا کرنے کی غرض سے جو مشترک خاندانی معاشرت میں پیش آتی ہیں۔ مگر آزادی کے ساتھ بیٹھ کر خلاملانہ کرے۔ خلوت میں بھی اس کے ساتھ نہ رہے، اور صرف اس طرح سامنے ہو کہ مثلاًاس کے سامنے سے گزر جائے یا کوئی ضروری بات ہو تو پوچھ لے یا بتادے۔اس حد تک غیر محرم اعزہ کے سامنے ہونے کی شرعاًاجازت ہے یا کم ازکم ممانعت نہیں ہے۔بہرحال چچا زاد بھائیوں اور خالہ زاد بھائیوں کے ساتھ جوہنسی مذاق اور انتہائی بے تکلفی آج مسلمانوں کے گھروں میں رائج ہے اور جس طرح مسلمان لڑکیاں اس قسم کے عزیزوں کے سامنے بنی ٹھنی رہتی ہیں، شریعتِ اسلامیہ میں ان بے اعتدالیوں کے لیے کوئی وجہ جواز نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن ، اگست 1946ء)
سوال: اگر کسی غیر محرم رشتہ دار کے ساتھ ایک ہی مکان میں مجبوراًرہنا ہو یا کوئی غیر محرم عزیز بطور مہمان آرہے ہوں تو ایسی حالت میں پردہ کس طرح کیا جاسکے گا؟اسی طرح کسی قریبی عزیز کے ہاں جانے پر اگر زنانے سے بلاوا آئے تو کیا صورت اختیارکی جائے؟
جواب: ایسے حالات میں اگر شریعت کی پابندی کا ارادہ دونوں طرف موجود ہو تو صحیح راہ عمل یہ ہے کہ جب کوئی غیر محرم عزیز گھر میں آئے تو شرعی قاعدے کے مطابق استیذان(طلب اجازت) کرے۔{ افسوس ہے کہ قرآن وسنت کے حکمِ استیذان کو آج مسلمانوں نے اپنی معاشرت سے بالکل ہی خارج کردیا ہے اور اجازت مانگے بغیر گھر میں گھس آنے کو بے تکلفی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔حالاں کہ شرعاً خود گھر کے مردوں حتیٰ کہ باپوں، بیٹوں اور بھائیوں کو بھی لازم ہے کہ جب وہ گھر میں داخل ہونے لگیں تو کم ازکم کھنکھار دیں یا کوئی ایسی آواز کردیں جس سے گھر کی عورتوں کو معلوم ہوجائے کہ کوئی مرد آرہا ہے۔
} پھر جب ایسی آواز آئے تو عورت کو چاہیے کہ کوئی چیز اوڑھ کر اپنی زینت کو چھپا لے اور ذرا اپنا رخ بدل لے یا پیٹھ موڑ لے۔ اگر بالکل ناگزیر ہو تو چہرہ اور ہاتھ غیر محرم عزیز کے سامنے ظاہر ہونے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اسی طرح بضرورت سادگی کے ساتھ بات کرلینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔البتہ خلا ملا اور بے تکلفی اور ہنسی مذاق بالکل ناجائز ہے۔ (ترجمان القرآن ، اگست1946ء)
اللّٰہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کے مقابلے میں ماں کی اطاعت
سوال: اگر خدا ورسولﷺ کے احکام کے تحت پردہ اختیار کرنے میں کسی کی والدہ حائل ہو تو اس کے حکم کو ردّ کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟،جب کہ آپ کے پائوں کے نیچے جنت ہے۔
جواب : ماں کے پائوں کے نیچے جنت بے شک ہے،لیکن حکم صرف اسی ماں کا مانا جاسکتا ہے جو جنتیوں کے سے کام کرے، یعنی خدا و رسولﷺ کے احکام کے آگے جھکنے والی ہو اور اپنے نفس یا خاندانی رواجوں پر شریعت کو قربان کردینے والی نہ ہو۔رہی وہ ماں جواس کے برعکس صفات رکھتی ہو، تو اس کی خدمت تو کی جاتی رہے گی، مگر غیر شرعی اُمو رمیں اس کی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔ شریعت کی پابندی سے آزادہوکر اور اپنے نفس یا برادری کی شریعت کو خدا کی شریعت پر ترجیح دے کر تو اس نے اپنا قدم خود جہنم کی طرف ڈال دیا۔پھر آخر اس کے پائوں کے نیچے جنت کیسے ہوسکتی ہے۔
(ترجمان القرآن ، جنوری 1956ء)
عورت کا مردوں کو خطاب
سوال: کیا عورتوں کو مردوں اور عورتوں کے مشترکہ جلسوں میں نقاب اوڑھ کر تقریر کرنی جائز ہے؟حدیث کی رُو سے تو عورتوں کی آواز کا غیر محرم مردوں تک پہنچنا پسندیدہ نہیں معلوم ہوتا۔
جواب: بعض حالات میں یہ چیز جائز ہے کہ عورت پردے کی پوری پابندی کے ساتھ مردوں کو خطاب کرے،لیکن بالعموم جائز نہیں ہے۔ اس امر کا فیصلہ کرنا کہ کن حالات میں یہ چیز جائز ہے اور کن میں جائز نہیں،صرف ایسے شخص یا اشخاص کا کام ہے جو مواقع اور حالات کو شرعی نقطۂ نظرسے سمجھنے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں اور شریعت کے منشا کے مطابق زندگی بسر کرنے کی نیت بھی ان میں پائی جاتی ہو۔
(ترجمان القرآن ، اگست 1946ء)
خواتین کی تعلیم اور ملازمت
سوال: کیا عورتیں لیڈی ڈاکٹر یا نرس یا معلمہ بن سکتی ہیں؟جیسا کہ ہماری قوم کے بڑے بڑے لیڈروں نے قوم کو اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری عورتیں ان کاموں میں حصہ لے کر گزشتہ نقصانات اورپس ماندگی کی تلافی کریں۔اسلامی نقطۂ نظر سے عورتیں کیا ان مشاغل کو اختیار کرسکتی ہیں؟ اور آیا انھیں پردے میں رہ کر ہی انجام دینا ہوگا یا ضرورتاً پردے سے باہر بھی آسکتی ہیں؟
جواب : لیڈر صاحبان کا حوالہ دے کر آپ نے جو سوال کیا ہے،اس کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ اگر اسلامی تہذیب اسی چیز کا نام ہے جس کی پیروی یہ حضرات خود اور ان کے اتباع میں مسلمان آج کل کر رہے ہیں، تو پھر اسلا می تہذیب اور یورپین تہذیب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پھر تو مسلمانوں کو وہ سب کچھ کرنا چاہیے جو آج کل یورپ میں ہورہا ہے۔ لیکن اگر اسلامی تہذیب اس تہذیب کا نام ہے جو محمد ﷺ نے سکھائی تھی، تو آج کل کے میڈیکل کالجوں اور نرسنگ کی تربیت گاہوں اور ہسپتالوں میں مسلمان لڑکیوں کو بھیجنے سے لاکھ درجے بہتریہ ہے کہ ان کو قبروں میں دفن کردیا جائے۔رائج الوقت گرلز کالجوں میں جاکر تعلیم حاصل کرنے اور پھر معلّمات بننے کا معاملہ بھی اس سے کچھ بہت مختلف نہیں ہے۔البتہ اگر نظامِ تعلیم وتربیت ہمارے اپنے ہاتھ میں ہو اور ہم اپنے طریقے پر لڑکیوں کو تیار کرکے ان سے تمدن کے ضروری کاموں کی خدمت لینے پر قادر ہوں تو یقینا ہم اس کا انتظام کریں گے کہ اسلامی حدود کی پابندی کرتے ہوئے لڑکیوں کو فنِ طب، سرجری،قابلہ گری، نرسنگ اور تربیتِ اطفال کی تعلیم دیں اور ان کو دوسرے علوم وفنون کی اعلیٰ تعلیم وتربیت دے کر معلّمات بھی بنائیں اور ان سے تمدن کی دوسری مختلف ضروری خدمات بھی ایسے طریقوں پر لیں جو اسلامی تہذیب کے مطابق ہوں۔اس سلسلے میں یہ بات بھی ضمناً لائق تصریح ہے کہ ہم مسلمان اس مغربی نظریے کے قائل نہیں ہیں کہ تیمارداری(نرسنگ) کا پیشہ عورت کے لیے مخصوص ہے اور یہ کہ زنانہ ومردانہ سب قسم کے ہسپتالوں میں نرس عورت ہی ہونی چاہیے۔ ہمارے نزدیک اس خیال کے لیے کوئی علمی اور عقلی بنیاد نہیں ہے،اور اخلاقی حیثیت سے یہ نہایت شرم ناک ہے کہ نرس خواتین سے مرد بیماروں کی تیمار داری کے وہ کام لیے جائیں جنھیں مرد تیمار دار بھی انجام دیتے ہوئے حجاب محسوس کریں۔ اس بِنا پر ہم مسلمان لوگ اگر عورتوں کو طبی خدمات کے لیے تیار کریں گے تو عورتوں کے علاج اور تیمارداری کے لیے کریں گے نہ کہ عام طبی خدمات کے لیے۔ ہمارے نزدیک مردانہ ہسپتالوں کے لیے مرد ہی نرس ہونے چاہییں۔
(ترجمان القرآن ، اگست 1946ء)
جہاد کے موقع پر خواتین کی خدمات
سوال: کیا عورتیں چہر ہ کھول کر یا نقاب کے ساتھ جہاد میں شرکت کرسکتی ہیں؟
جواب: جنگ کے موقع پر تیما رداری،مرہم پٹی، مجاہدوں کا کھانا پکانا،اسلحہ اور رسد رسانی، پیغام رسانی وغیرہ کی خدمات انجام دینا عورتوں کے لیے جائزہے۔ پردے کے احکام سے قبل بھی یہ خدمات عورتیں انجام دیتی تھیں اور ان احکام کے آنے کے بعد بھی دیتی رہیں اور آج بھی دے سکتی ہیں۔لیکن یہ جواز اس شرط کے ساتھ ہے کہ فوج اسلامی ہو، حدود اﷲ کی پابند ہو اور ان بدمعاشیوں سے پاک ہو جن میں آج کل کی فوجوں نے نام وری حاصل کررکھی ہے۔ (Women’s Army Corps)جیسے معصوم ناموں سے عورتوں کو بھرتی کرنا اور پھر بدمعاش سپاہیوں اور افسروں کے لیے ان سے قحبہ گری کی خدمت لینا وہ شیطانی کام ہے جس کے لیے کوئی گنجائش برائے نام بھی اسلامی تہذیب میں نہیں نکل سکتی۔{ آج کل کی فوجوں کی اخلاقی حالت کا اندازہ اِس سے کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ جنگ عظیم کے سلسلے میں امریکی فوج نے جاپان میں ایک لاکھ، انگلستان میں70ہزار اور جرمنی میں50ہزار حرامی بچے چھوڑے ہیں اور روسی فوج نے صرف مشرقی برلن میں 29ہزار حرامی اولاد پیدا کی ہے۔یہ صرف اُن بچوں کی تعداد ہے جو1952ء کے آخر تک شمار میں آگئے ہیں۔ اِس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اِس برتھ کنٹرول کے دور میں کتنے بڑے پیمانے پر بدکاری کی گئی ہوگی تب جاکر یہ نتائجِ بد ظہور میں آئے۔ }
(ترجمان القرآن ، اگست 1946ء)
شادی پر استطاعت سے بڑھ کر خرچ کرنا
سوال: ایک مفلس مسلمان اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کرنا چاہتا ہے۔افلاس کے باوجود دنیا والوں کا ساتھ دینے کا بھی خواہش مند ہے،یعنی شادی ذرا تزک واحتشام سے کرکے وقتی سی مسرت حاصل کرنا چاہتا ہے۔اس کی راہ نمائی کیسے کی جائے؟
جواب: ایسا شخص جو خود جانتا ہے کہ وہ اتنا خرچ کرنے کے قابل نہیں ہے، اور پھر محض دنیا کے دکھاوے اور اپنی غلط خواہشات کی تسکین کی خاطر اپنی چادر سے زیادہ پائوں پھیلانا چاہتا ہے وہ تو جان بوجھ کر اپنے آپ کو معصیت کے گڑھے میں پھینک رہا ہے۔ اپنی غلط خواہش کی وجہ سے یا تو وہ سودی قرض لے گا یا کسی ہم درد کی جیب پر ڈاکا ڈالے گا، اور اگر اسے قرضِ حسن مل گیا، جس کی امید نہیں ہے، تو اسے مار کھائے گا۔ اور اس سلسلے میں خدا جانے کتنے جھوٹ اور کتنی بے ایمانیاں اس سے سرزد ہوں گی۔ آخر ایسے شخص کو کیا سمجھایا جا سکتا ہے جو محض اپنے نفس کی ایک غلط خواہش کی خاطر اتنے بڑے بڑے گناہ جانتے بوجھتے اپنے سر لینے پر آمادہ ہے۔
(ترجمان القرآن ، جولائی،اگست 1943ء)
ہم پلا لوگوں میں شادی کرنا
سوال: ایک مقروض مسلمان جو تمام اثاثہ بیچ کر بھی قرض ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، بیٹے بیٹیوں کی شاد ی کرنا چاہے تو فریق ثانی کی طرف سے ایسی شرائط سامنے آتی ہیں جو بہرحال صرفِ کثیر چاہتی ہیں، تو اس کے لیے کیا راہ عمل ہے؟
جواب: ایسے شخص کو اپنے لڑکے لڑکیوں کی شادیاں ان لوگوں میں کرنی چاہییں جو مالی حیثیت سے اسی جیسے ہوں اور جو اس کے لیے تیار ہوں کہ اپنی چادر سے نہ وہ خود زیادہ پائوں پھیلائیں اور نہ دوسرے کو زیادہ پائوں پھیلانے پر مجبور کریں۔ اپنے سے بہتر مالی حالات رکھنے والوں میں شادی بیاہ کرنے کی کوشش کرنا اپنے آپ کو خواہ مخواہ مشکلات میں مبتلا کرنا ہے۔
(ترجمان القرآن ، جولائی،اگست 1943ء)
لڑکی والوں کی طرف سے رشتہ میں پہل کرنا
سوال: عموماً لڑکیوں کی شادی کے معاملے میں اس کا انتظار کیا جاتا ہے کہ دوسری طرف سے نسبت کے پیغام میں پہل ہو، چنانچہ اسی انتظار میں بعض اوقات لڑکیاں جوانی کو طے کرکے بڑھاپے کی سرحد میں جا داخل ہوتی ہیں اور کنواری رہ جاتی ہیں۔ اس معاملے میں اسلام کیا کہتا ہے؟
جواب: یہ صورت تو کچھ فطری سی ہے،لیکن اس کو حد سے زیادہ بڑھانا مناسب نہیں ہے۔اگرکسی شخص کی لڑکی جوان اور شادی کے قابل ہوچکی ہو اور اسے کوئی مناسب لڑکا نظر آئے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ خود اپنی طرف سے پیغام دینے میں ابتدا کرے۔ اس کی مثالیں خود صحابہ کرامؓ میں ملتی ہیں۔ اگر یہ بات حقیقت میں کوئی ذِلت کی بات ہوتی تو نبیﷺ اس کو منع فرما دیتے۔
(ترجمان القرآن، جولائی،اگست 1943ء)
شادی بیاہ ،پیدائش اور موت کی تقریبات
سوال : موجودہ مسلمان شادی بیاہ، پیدائش اور موت کی تقریبات پر چھٹی، چلّہ، باجا، منگنی، جہیز اور اسی طرح چالیسواں، قُل وغیرہ کی جو رسوم انجام دیتے ہیں ان کی حیثیت شریعت میں کیا ہے؟
جواب: یہ سب چیزیں وہ پھندے ہیں جو لوگوں نے اپنے گلے میں خود ڈال لیے ہیں،ان میں پھنس کر ان کی زندگی اب تنگ ہوئی جارہی ہے، لیکن لوگ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے ان کو کسی طرح چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ براہِ راست ان رسموں کے خلاف کچھ کہاجائے،بلکہ صرف یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن اورسنت کی طرف دعوت دی جائے۔ خدا اور رسولﷺ کے طریقے پر لوگ آجائیں تو بڑی خرابیاںبھی دور ہوں گی اور یہ چھوٹی چھوٹی خرابیاں بھی نہ رہیں گی۔
(ترجمان القرآن، جولائی،اگست 1943ء)
رسُومات کی اصلاح میں ترجیحات
سوال: میں عرصے سے تجرد کی زندگی گزار رہا ہوں اور اس سبب کی ذمہ داری میرے ’’اجتہاد‘‘ کے سر ہے۔ ہمارے اطراف میں کچھ اس قسم کے اصول ومراسم شائع ہیں جن کے بارے میں اگر فقہی موشگافیوں سے کام لینا شروع کردیا جائے تو ان کو ’’ناجائز‘‘اور’’غیر شرعی رسم‘‘کہنا مشکل ہوگا۔مثلاً یہ کہ منسوبہ یا منکوحہ کے لیے زیور وپارچہ جات کا مطالبہ، کچھ آپس کے لین دین، ایک دوسرے کے کمیوں اور خدمت گاروں کو بطور عطیہ وانعام کچھ دینا دلانا، برادری اور اہل قرابت کو بلانا اور ان کی ضیافت کرنا وغیرہ۔ یہ بہت سی چیزیں بظاہر اگر علیحدہ علیحدہ کرکے دیکھی جائیں تو ان میں سے غالباً کسی ایک کو بھی ناجائز نہ کہا جاسکے گا۔لیکن اگر ان مراسم کے اس پہلو پر نظر ڈالی جائے کہ ان کی پابندی اور التزام اس حد تک ہے کہ ان کے بغیر کامیابی ہی نہیں ہوتی اور کوئی کسی درجے کا آدمی کیوں نہ ہو،ان کی پابندی قبول کیے بغیر ازدواجی زندگی کا آغاز کرہی نہیں سکتا، تو بالکل صفائی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ چیزیں اب صرف ’’مباح‘‘ کے درجے پر باقی نہیں رہی ہیں، بلکہ یہ سب برادری کا ایک قانون بن گئی ہیں اور ایسا قانون کہ ان کی خلاف ورزی کرنے والا گویامجرم متصور ہوتا ہے۔پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر باطل قانون کو توڑ دیا جائے،چاہے وہ کہیں ہو،تو سوال یہ ہے کہ آیا مذکورہ بالا چیزیں اس شکست وریخت کی مستحق ہیں یا نہیں؟ اگر یہ حملے کی مستحق ہیں جیسا کہ میری راے ہے، تو کیا یہ حقیقت آپ سے مخفی ہے کہ ہندستان کاکوئی گوشہ بھی ایسا نہیں ہے جہاں اس قسم کی ’’شریعتِ رسوم‘‘ نافذ العمل نہ ہو،خواہ اس کی تفصیلی اشکال کچھ ہی ہوں۔
جن تقریبات کو آج کل ’’شرعی تقریبات‘‘کہا جاتا ہے وہ بھی بس صرف اس حد تک شرعی ہوتی ہیں کہ ان میں ناچ، باجا گاجا اور ایسی ہی دوسری خرافات ومزخرفات نہیں ہوتیں،لیکن مذکورہ بالا رسوم کا جہاں تک تعلق ہے،وہ ان میں بھی بدرجۂ اتم موجود رہتی ہیں اور انھیں’’اباحت‘‘ کی چادر میں چھپا لیا جاتا ہے۔پس کیا جماعتِ اسلامی کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ اپنے اراکین کو ’’غیر شرعی رسوم‘‘ کی وضاحت اس طرح کرکے بتلائے کہ یہ ’’اباحت‘‘ کی قبا چاک ہوجائے اور وہ اپنی تقریبات کو بالکل مسنون طریقے پرمنائیں؟
اگر ان رسوم کے خلاف میرااحساس صحیح نہ ہو تو پھر کچھ وضاحت سے ’’شریعتِ رسوم‘‘ کے واجبات کو قابلِ بغاوت قوانین باطل سے مستثنیٰ قرار دینے کی وجوہ تحریر فرمائیں۔اس سے اگر میرا اطمینان ہوگیا تو تجرد کی مصیبت سے نجات حاصل ہوسکے گی۔ اور اگر آپ نے میری راے کی تصدیق کی تو پھر میرے لیے بظاہر کامیابی کا کہیں موقع نہیں ہے۔مگر مجھے اس سے بڑی مسرت ہوگی،کیوں کہ پھر تکلیف صحیح معنوں میں اﷲ کی راہ میں ہوگی۔﴿ لَعَلَّ اللہَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا﴾{ FR 6815 } ( الطلاق 65:1)
جواب: ہم اَلْاَ قْدَمُ فَالْاَ قْدَمُ کے اصول پر کام کررہے ہیں۔پہلے دین کی جڑوں کو دلوں میں جمانا ضروری ہے، اس کے بعد تفصیلات کو ایک ترتیب وتدریج کے ساتھ زندگی کے مختلف گوشوں اور کونوں میں درست کرنے کا موقع آئے گا۔اگر ہم شادی بیاہ،لین دین اور دوسرے معاملات کی تفصیلات وجزئیات بیان کرنے پر اُتر آئیں تو ہماری اصولی دعوت کا کام منتشر ہوجائے گا۔اس لیے جہاں تک دین کے بنیادی اُمور کا تعلق ہے، ہم ان کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں، اور جہاں تک جزئیات کا تعلق ہے،ان کے متعلق ہم سرِدست اِجمال سے کام لے رہے ہیں۔
شادی بیاہ وغیرہ تقریبات کی رسوم کی پوری پوری اصلاح اس وقت تک ہو ہی نہیں سکتی جب تک کہ دینی زندگی اپنی صحیح بنیادوں پر تعمیر ہوتی ہوئی اس مرحلے پر نہ پہنچ جائے جہاں ان چیزوں کی اصلاح ممکن ہو۔ اس وقت تک ہمارے ارکان کو زیادہ تر صرف ان چیزوں سے اجتناب پر اصرار کرنا چاہیے جن کو صریحاً خلافِ شریعت کہا جاسکتا ہو۔ رہیں وہ چیزیں جو معاشرتِ اسلامی کی روح کے تو خلاف ہیں مگر مسلمانوں کی موجودہ معاشرت میں قانون وشریعت بنی ہوئی ہیں، تو وہ ہمارے ذوقِ اسلامی پرخواہ کتنی ہی گراں ہوں،لیکن سرِدست ہمیں ان کو اس امید پر گوارا کر لینا چاہیے کہ بتدریج ان کی اصلاح ہوسکے گی۔مگر یہ گوارا کرنا رضامندی کے ساتھ نہ ہو،بلکہ احتجاج اور فہمائش کے ساتھ ہو۔یعنی ہر ایسے موقع پر واضح کردیا جائے کہ شریعت تو اس طرح کے نکاح چاہتی ہے جیسے ازواج مطہراتؓ اور دوسرے صحابہ کرامؓ کے ہوئے تھے،لیکن اگر تم لوگ یہ تکلّفات کیے بغیر نہیں مانتے تو مجبوراً ہم اس کو گوارا کرتے ہیں اورخدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ وقت آئے کہ جب تم نبیﷺ اور اصحابِ نبیؐ کی طرح کے سادہ نکاح کرنے کو اپنی شان سے فروتر نہ سمجھو!
ہمارا یہ رویہ تو عام لوگوں کے لیے ہے جن سے ہم مختلف قسم کے روابط پیدا کرنے اور جن کے ساتھ کئی طرح کے دنیوی اُمور میں معاملہ کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن خود ارکان جماعت کے درمیان ایسے جتنے روابط اور معاملات بھی ہوں،انھیں رسوم کی آلودگیوں سے پاک کرکے سادگی کی اس سطح پر لے آنا چاہیے جس تک نبی ﷺ اور آپؓ کے صحابہ نے انھیں پہنچایا تھا۔ ہمارے معاملات میں مباحات کو مباحات ہی کی حد تک رہنا چاہیے اور ان میں سے کسی چیز کو قانون اور شریعت کے درجے تک نہیں پہنچنا چاہیے۔ رواج کی رَو میں بہنے والے بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو بغاوت کرنا بھی چاہتے ہیں مگر پہل کی جسارت نہیں کرسکتے۔ رسموں کی بیڑیوں سے نجات حاصل تو کرنا چاہتے ہیں مگر دوسروں سے پہلے انھیں کاٹنے کی جرأت نہیں رکھتے۔اپنی پیٹھوں پر لدے ہوئے رواجوں کے بوجھوں سے ان کی کمریں ٹوٹ رہی ہوتی ہیں مگر ان کو پٹخ دینے میں پیش قدمی نہیںکرسکتے۔ یہ پہل اور پیش قدمی اب ہم لوگوں کو کرنی ہے۔ہمارے ہر ساتھی کا یہ فرض ہے کہ زندگی کے روز مرہ کے معاملات اور تقریبات کو گوناگوں پابندیوں سے آزاد کرنے میں پوری بے باکی سے پہل کرے اور لوگوں کی ’’ناک‘‘بچانے کے لیے خود نکّو بن کر معاشرتی زندگی میں انقلاب برپا کرے۔ خالص اسلامی انداز میں تقریبات اور معاملات کو سرانجام دینے کی مثالیں اگر جگہ جگہ ایک دفعہ قائم کر دی جائیں گی تو سوسائٹی کا کچھ نہ کچھ عُنصر ان کی پیروی کرنے کے لیے آمادہ ہوجائے گا اور اس طرح رفتہ رفتہ احوال بدل سکیں گے۔
(ترجمان القرآن ، جولائی،اگست1943ء)
مہر کے تقرر میں حیلے نکالنا
سوال : ہمارے علاقے میں عام طور پر نکاح کا مہر نو صد روپے معین ہوتا ہے۔اس سے تین سو روپے کی ادائگی ہوجاتی ہے اور چھ سو روپے کی رقم وصول طلب رہتی ہے۔لیکن بالعموم مرد کی طرف سے اس چھ سو کی ادائگی کی نوبت کبھی نہیں آتی۔
ہمارے ایک رشتے دار کی لڑکی کا نکاح آج سے قریباً 5سال قبل ہوا تھا اور اس کا مہر دس ہزار روپے قرار پایا تھا۔ لڑکے کی طرف سے اوّل اوّل اتنے بڑے مہر کو تسلیم کرنے میں پس وپیش ہوتا رہا مگر آخر کار محض اس وجہ سے یہ ہٹ چھوڑ دی گئی کہ یہ سب کچھ ایک نمائشی رسم کے سوا کچھ نہیں۔
اب اسی رشتے دارکی دوسری لڑکی کی نسبت میرے چھوٹے بھائی کے ساتھ طے پائی ہے اور اب جلد ہی اس کا نکاح ہونے والا ہے۔ لڑکی کے اولیا کی طرف سے قبل از وقت یہ اطلاع پہنچا دی گئی ہے کہ مہر وہی نو دس ہزار روپے ہو گا۔ اگر اس رقم میں اب کوئی کمی کی جائے تو ان کا پہلا داماد بگڑ جائے گا کہ جب اس کے لیے دس ہزار روپے رکھا گیا تھا تو اب دوسرے داماد سے کوئی امتیازی رویہ کیوں اختیار کیا جائے؟
اس اُلجھن کو طرفین نے حل کرنے کی صورت یہ سوچی ہے کہ مجلس نکاح میں جب کہ ہمارے عزیز کا پہلا داماد موجود ہو گا،مہر وہی نو دس ہزار روپے تحریر کیا جائے گا، مگر بعد میں خفیہ طور پر اس تحریر کو بدل کر نو ہزار سے نو سو کردیا جائے گا۔ اس طرح نہ پہلا داماد ناراض ہوگا نہ ہمارے چھوٹے بھائی پر بار رہے گا۔
مجھے اس مجوزہ صورتِ معاملہ میں کھٹک سی ہورہی ہے اور میں نے اس کا اظہار اپنے والد محترم کے سامنے بھی کردیا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ علمائے شریعت سے استصواب کرلیں۔ اس پر انھو ں نے فرمایا کہ ایک مقامی مفتی صاحب سے استفتا کیا جاچکا ہے اور ان کی راے میں ایک معاملے میں طرفین جب راضی ہیں تو شریعت معترض نہیں ہوسکتی۔اس پر میں نے والد صاحب پرا پنا عدم اطمینان ظاہر کیاہے۔
یہی معاملہ جماعتِ اسلامی کے ایک رکن کے سامنے رکھا تو انھوںنے فرمایا کہ مجوزہ صورتِ معاملہ میں ایک تو پہلے داماد کو فریب دیا جائے گا اور دوسرے دس ہزار مہر کی بہرحال ایک اور مثال عوام کے سامنے قائم کی جائے گی اور رسم ورواج کی بیڑیوں میں گویا ایک اور کڑی کااضافہ کیا جائے گا۔اس وجہ سے میں اسے صحیح نہیں سمجھتا۔
اب مشکل یہ ہے کہ نکاح کی مجلس میں لڑکے کا بھائی ہونے کی وجہ سے مجھے شریک بھی ہونا ہے اور شاید وکیل یا گواہ بھی بننا پڑے،اور صورت ایسی ہے کہ میر اضمیر اس کے جائزہونے کی شہادت نہیں دیتا۔اگر میںبحیثیت وکیل یا شاہد مجلس میں شریک ہوتا ہوں تو از خود اس غلطی میں حصے دار ہوں جس کو سوچ سمجھ کرمیرے اعزہ کرنے لگے ہیں۔اگر شرکت سے باز رہوں تو یہ سمجھا جائے گا کہ میں بھائی کی شادی پر خوش نہیں ہوں۔نیز اگر عدمِ شرکت کی وجہ مجھ سے پوچھی جائے تو میں خاموش رہنے پرمجبور ہوں، کیوں کہ اگر حقیقت بیان کردوں تو سارا معاملہ درہم برہم ہوکے رہے گا۔
اب براہِ کرم آپ میرے لیے صحیح اسلامی رویہ تجویز فرما دیں، ان شاء اﷲ میں دنیوی تعلقات اور مفاد کو تعمیل میں حائل نہ ہونے دوں گا۔میں صرف شریعت کا حکم معلوم کرنا چاہتا ہوں اور اس کے اتباع پر تیار ہوں، فرار کے لیے کوئی تأویل مجھے مطلوب نہیں ہے۔
جواب: جو معاملہ آپ نے لکھا ہے وہ ایک نمونہ ہے ان غلط کاریوں کا جن میں مسلمان شریعت واخلاق سے دُور ہوکر مبتلا ہوگئے ہیں۔شریعت نے مہر کو عورت کا ایک حق مقرر کیا تھا اور اس کے لیے یہ طریقہ طے کیا تھا کہ عورت اور مرد کے درمیان جتنی رقم طے ہو،اس کا ادا کرنا مرد پر واجب ہے۔ لیکن مسلمانوں نے شریعت کے اس طریقے کو بدل کر مہرکو ایک رسمی اور دکھاوے کی چیز بنا لیا، اور بڑے بڑے مہر دکھاوے کے لیے باندھنے شروع کیے، جن کے ا دا کرنے کی ابتدا ہی سے نیت نہیں ہوتی اور جو خاندانی نزاع کی صورت میں عورت اور مرد دونوں کے لیے بلائے جان بن جاتے ہیں۔اب ان غلطیوں سے بچنے کی سیدھی اور صاف صورت یہ ہے کہ مہر اتنے ہی باندھے جائیں جن کے ادا کرنے کی نیت ہو،جن کے ادا کرنے پر شوہر قادر ہو۔ پورا مہر بر وقت ادا کردیاجائے تو بہتر ہے، ور نہ اس کے لیے ایک مدت کی قرار داد ہونی چاہیے اور آسان قسطوں میں اس کو ادا کردینا چاہیے۔ اس راستی کے طریقے کو چھوڑ کر اگر کسی قسم کے حیلے نکالے جائیں گے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ ایک غلطی سے بچنے کے لیے دس قسم کی اور غلطیاں کی جائیں گی جو شرع کی نگاہ میں بہت بری اور اخلاق کے اعتبار سے نہایت بدنما ہیں۔ آپ ایسے نکاح میں وکیل یا گواہ کی حیثیت قبول نہ کریں، بلکہ فریقین کو سمجھانے کی کوشش کریں اور اگرنہ مانیں تو ان کوان کے حال پر چھوڑ دیں۔نکاح میں شریک ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن جھوٹ اور فریب کا گواہ بننا مسلمانوں کے لیے جائز نہیں۔
(ترجمان القرآن ، اکتوبر 1946ئ)
آلات کے ذریعے سے توالد وتناسل
سوال: کیمیاوی آلات کے ذریعے سے اگر مرد کا نطفہ کسی عورت کے رحم میں پہنچا دیا جائے اور اس سے اولاد پیدا ہو، تو یہ عمل مضرت سے خالی ہونے کی وجہ سے مباح ہے یا نہیں؟ اور اس عمل کی معمولہ زانیہ شمار کی جائے گی اور اس پر حد جاری ہوگی یا نہیں؟ اس امر کا خیال رکھیے کہ آج کل کی فیشن دار عورت مرد سے بے نیاز ہونا چاہتی ہے۔وہ اگر سائنٹی فِک طریقوں سے اپنے حصے کی نسل بڑھانے کا فریضہ ادا کردے تو پھر اس کے خلاف کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔امریکا میں اس طرح پیدا ہونے والی اولاد کو ازرُوئے قانون جائز اولاد تسلیم کیا گیاہے۔
جواب: آلات کے ذریعے سے استقرار حمل کا جواز تو دور رہا،میرے لیے اس عمل کا تصور ہی ناقابلِ برداشت ہے کہ عورت گھوڑی کے مرتبے تک گرا دی جائے۔آخر انسان کی صنف اناث اور حیوانات کی مادہ میں کچھ تو فرق رہنے دیجیے۔حیوانات میں بھی اﷲ تعالیٰ نے توالد وتناسل کا جو طریقہ مقرر کیا ہے وہ نر اور مادہ کے اجتماع کا طریقہ ہی ہے۔ یہ انسان کی خود غرضی ہے کہ وہ گھوڑیوں کو اپنے نروں سے ملنے کالطف حاصل نہیں کرنے دیتااور ان سے صرف نسل کشی کا کام لیتا ہے۔ اب اگر انسان کی اپنی’’مادہ‘‘ کے ساتھ بھی یہی برتائو شروع ہوجائے تواس کے معنی انسانیت کی انتہائی تذلیل کے ہیں۔
آج کی ’’فیشن دار‘‘ عورت جو مرد سے بے نیاز ہونا چاہتی ہے ،دراصل اس کی فطرت کو مصنوعی فکری وصنفی ماحول نے مسخ کردیا ہے۔ ورنہ اگر وہ صحیح انسانی فطرت پر ہوتی تو اس قسم کی گری ہوئی خواہش کو دل میں جگہ دینا تو درکنار،ایسی تجویز سننابھی گوارا نہ کرتی۔ عورت محض نسل کشی کے لیے نہیں ہے بلکہ عورت اورمرد کا تعلق انسانی تمدن کی قدرتی بنیاد ہے۔ فطرتِ الٰہی نے عورت اور مرد کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ ان میں مودّت اوررحمت ہو،حسنِ معاشرت ہو،مل کر گھر بنائیں،گھر سے خاندان اور خاندان سے سوسائٹی نشو ونما حاصل کرے۔ اس مقصود کو ضائع کرکے عورت کو محض نسل کشی کا آلہ بنادینا ﴿فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ﴾ۭ ( النساء 4:119 ) (اﷲ کی بنائی ہوئی فطرت کو بدل دینے) کا مصداق ہے جسے قرآن ایک شیطانی فعل قرار دیتا ہے۔
خداوندتعالیٰ نے عورت اور مرد کے درمیان نکاح کا طریقہ مقرر فرمایا ہے، لہٰذا وہی اولاد جائز اولاد ہے جو قید نکاح میں پیدا ہو۔اسی سے وراثت او رنسب کی تحقیق ہوتی ہے۔اگر آلے کے ذریعے سے بچہ پیداکیا جائے تو اسے حلالی نہیںکہا جاسکتا۔شرعی نقطۂ نظر سے وہ حرامی ہی کہا جائے گا۔نیز اس کا سلسلۂ آبائی منقطع ہوگا اور وہ باپ کے ورثے سے محروم رہے گا جو قطعی طور پر اس کی حق تلفی ہے۔
پھر غور تو کیجیے کہ جس بچے کا کوئی باپ نہ ہو اس کی تربیت کا ذمہ دار کون ہوگا؟صرف ماں؟ کیا یہ ظلم نہیں کہ خدا نے انسان کے بچے کے لیے ماں اور باپ، چچا اور ماموں، داد ااور نانا وغیرہ لوگوں کی صورت میںجو مربی پیدا کیے ہیں،ان میں سے آدھے ساقط کردیے جائیں اور وہ صرف سلسلۂ مادری پر منحصر رہ جائے؟ کیا دنیا سے پدری محبت، پدرانہ ذمہ داریوں اور پدرانہ اخلاق کو فنا کردینا انسانیت کی کوئی خدمت ہے؟کیا یہ انصاف ہے کہ عور ت پر ماں ہونے کی ذمہ داری قائم رہے مگر مرد ہمیشہ کے لیے باپ ہونے کی ذمہ داری سے سبک دوش ہوجائے؟
پھر اگر یہی سلسلہ چل پڑا تو ایک روز عورت مطالبہ کرے گی کہ کوئی ترکیب ایسی ہونی چاہیے کہ انسان کا بچہ میرے رحم میں پرورش پانے کے بجائے’’امتحانی نلیوں‘‘ میں پالا جائے۔ یعنی انسان کیمیاوی معمل میں پیدا ہونے لگے۔ اور جب تک یہ حالت پیدا نہیں ہوتی،عورت چاہے گی کہ اسے صرف بچہ جننے کی تکلیف دی جائے،اس کے بعد ماں کے فرائض انجام دینے کے لیے وہ تیار نہ ہوگی۔
یہ صورت جب رونما ہوگی تو انسانی بچے اسی طرح ’’کثیر پیدا آوری‘‘(mass production) کے اصول پر فیکٹریوں میں ڈھل ڈھل کر نکلیں گے جس طرح اب جوتے اور موزے نکلتے ہیں۔ یہ انسانیت کے تنزل کا آخری مقام، اس کا اسفل السافلین ہوگا۔ ان ’’کارخانہ ہاے نسل کشی‘‘ سے انسان نہیں بلکہ دو ٹنگے جانور پیدا ہوں گے جن میں انسانی شرف اور پاکیزہ انسانی جذبات واحساسات کی خوبو براے نام بھی نہ ہوگی اورسیرت کا وہ تنوع ناپید ہوگا جو تمدن کی رنگا رنگ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ ان کارخانوں سے کسی ارسطو اور ابن سینا، کسی غزالی اور رازی، کسی ہیگل اور کانٹ کے پیدا ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ میرے خیال میں تو وہ مادّہ پرستانہ تہذیب لعنت بھیجنے کے قابل ہے جس کے زیر سایہ ایسی تجویزیں انسان کے دماغ میں آتی ہیں۔اس قسم کی تجویزوں کا انسانی دماغوں میں آنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس تہذیب نے انسان کے ذہن میں خود انسانیت کے تصور کو نہایت پست اور ذلیل کردیا ہے۔
(ترجمان القرآن ، جنوری،فروری 1944ء)
آلاتِ موسیقی اور ان کی تجارت
سوال : کیا آلاتِ موسیقی بنانا اور ان کی تجارت کرنا جائز ہے؟
جواب: حدیث میں آتا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میں آلات موسیقی کو توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔‘‘{ مسند أحمد، تتمّۃ مسند الأنصار، حدیث أبی أمامۃ الباھلی، حدیث 22218 } اب یہ کس طرح صحیح سکتا ہے کہ جو نبیؐ اس کام کے لیے بھیجا گیا ہو، اس کے پیرو انھی آلات کو بنانے اور بیچنے اور بجانے کے لیے اپنی قوتیں استعمال کریں۔
(ترجمان القرآن ، جنوری،فروری 1944ء)
شادی بیاہ کے موقع پر باجے وغیرہ بجانا
سوال : کیا شادی بیاہ کے موقع پر باجے وغیرہ بجانا ناجائز ہیں؟نیز تفریحاًان کا استعمال کیسا ہے؟
جواب: شادی بیاہ ہو یا کچھ اور، باجے بجانا کسی حال میں درست نہیں۔ حدیث میں جس حد تک اجازت پائی جاتی ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ شادی اور عید کے موقع پر دف کے ساتھ کچھ گا بجا لیا جائے۔
(ترجمان القرآن ، جنوری،فروری 1944ء)
موسیقی استعمال کرنے والوں کے ساتھ تعلق داری
سوال : ایسے لوگو ں کے لیے کیا حکم ہے جو خود آلات موسیقی کا استعمال نہیں کرتے لیکن ایسے تعلق داروں کے ہاں بخوف کشیدگی چلے جاتے ہیں جوان کااستعمال کرتے ہیں؟
جواب: یہ محض ایمان کی کمزوری ہے کہ آدمی اپنے دوستوں اور عزیزوں کی ناراضی سے ڈرکرایک ناجائز کام میں حصہ لے۔رسول ﷺ اور اصحابِ رسولﷺ کے ساتھ جو لوگ اپنا حشر چاہتے ہوں،اُن کے لیے تویہی مناسب ہے کہ ایسے لوگوں سے ربط ضبط نہ رکھیں جنھیں احکامِ شریعت کی پروا نہیں۔ ورنہ جن کو ان لوگوں کے تعلقات زیادہ عزیز ہیں،انھیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ فاجرین اورصالحین کے ساتھ بیک وقت تعلق نہیں رکھا جاسکتا۔ جب تمھاری دنیا فاجروں کے ساتھ ہے تو آخرت میں بھی انھی کا ساتھ نصیب ہوگا۔
(ترجمان القرآن، جنوری،فروری 1944ء)
موسیقی والی شادی میں شرکت
سوال : کیا ہمارے لیے ایسے نکاح میں شامل ہونے کی اجازت ہے جہاں آلاتِ موسیقی کا استعمال ہورہا ہو؟
جواب: یہ خیال رہے کہ مجلس نکاح میں جب کہ ایجاب و قبول ہورہا ہو اور منکرات وفواحش کی نمائش نہ ہورہی ہو،شرکت کرنے میں مضائقہ نہیں، بلکہ اَولیٰ یہ ہے کہ شرکت کی جائے اورجب موسیقی شروع ہوتو نہایت نرمی وشرافت کے ساتھ یہ کہہ کر دوستوں اور عزیزوں سے رخصت چاہی جائے کہ جہاں تک تمھارے جائزکاموں کا تعلق ہے ہم تمھاری مسرت میں دل سے شریک ہیں، اور جہاں تک ناجائز کاموں کا تعلق ہے ہم ان میں نہ خود شریک ہونا پسند کرتے ہیں نہ یہ گوارا کرتے ہیں کہ تم ان خرابیوں میں مبتلا ہو۔
(ترجمان القرآن ، جنوری،فروری 1944ء)
دُف کی ترقی یافتہ شکلوں کا حکم
سوال: آلاتِ لہو کے حامیوںکا خیال ہے کہ چوں کہ آںحضور ﷺ کے زمانے میں دف ہی ایک موسیقی کا آلہ عرب میں رائج تھا اور آپ نے اس کے استعمال کی اجازت دی ہے، لہٰذا ہمارے زمانے میں دف کی اگر متعدد ترقی یافتہ شکلیں مستعمل ہوگئی ہیں تو ان کا استعمال کیوں نہ رواہو؟
جواب: یہ محض غلط ہے کہ دف کے سوااس زمانے میں اور کوئی دوسرا آلۂ موسیقی نہ تھا۔ایران اور روم اور مصر کی تمدنی تاریخ اور خود عرب جاہلیت کی تمدنی تاریخ سے جو شخص جاہلِ محض ہو، وہی یہ بات کہہ سکتا ہے۔متعدد باجوں کے نام تو خود اشعارِ جاہلیت میں ملتے ہیں۔
(ترجمان القرآن ، جنوری،فروری 1944ء)
دُف کے استعمال کا مفہوم
سوال : کیا دف آلاتِ لہو میں شامل ہے؟
جواب: دف کا نام اگر آلات موسیقی میں شامل ہوبھی تو اس سے کیا ہوتا ہے۔ شادی بیاہ اور عید کے موقع پر نبیﷺ نے اس کی اجازت دی ہے۔{ صحیح البخاری، أبواب العیدین إذا فاتہ الحیدیصلّی، حدیث987 } اور یہ زیادہ سے زیادہ حد ہے جہاں تک آدمی جاسکتا ہے۔ اس آخری حد کو جو شخص نقطۂ آغاز بنانا چاہتا ہو، اس کو آخر کس نے مجبور کیا ہے کہ خواہ مخواہ اس نبیؐ کے پیرووں میں اپنا نام لکھوائے جو آلاتِ موسیقی توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہے؟
(ترجمان القرآن، جنوری،فروری 1944ء)
گڑیوں(کھلونوں) کاحکم
سوال : کیا بچوں کے کھیل کا سامان، مثلاً چینی کی گولیاں،تاش،ربڑ کی چڑیاں اور لڑکیوں کے لیے گڑیاں وغیرہ فروخت کرنا جائز ہے،نیز ہندوئوں کی ضرورت کی گڑیاں بھی کیا بیچی جاسکتی ہیں؟
جواب: بچوں کے کھلونے بیچنا بجائے خود ناجائز نہیں ہے اِلّایہ کہ کسی خاص کھلونے یا کھیل کے سامان میں کوئی شرعی قباحت ہو۔رہے جانوروں اور آدمیوں کے مجسّمے، توان کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ پوری باریکی سے تمام خدوخال کے ساتھ انھیں بنایا گیا ہو۔دوسرے یہ کہ محض ایک سرسری سا ڈھانچا کسی جان دار کا ہو، جیسے لکڑی کے گھوڑے اور کپڑے کی گڑیاں۔ پہلی قسم کے مجسّموں کی فروخت جائز نہیں ہے۔البتہ دوسری قسم کے کھلونے آپ بیچ سکتے ہیں۔ رہیں ہندوئوں کی ضرورت کی گڑیاں، تو اگر وہ مشرکانہ تخیلات کی نمائندہ ہوں،مثلاًکشن جی کی مورتی یا رام چندر جی کا مجسمہ وغیرہ،تو ان کی فروخت حرام ہے۔
(ترجمان القرآن، اگست 1946ء)
اشتہاری تصویریں
سوال: اشتہار کے لیے کیلنڈر وغیرہ پر آ ج کل عورتوں کی تصاویر بنانے کا بہت رواج ہے،نیز مشہور شخصیتوں اور قومی رہبروں کی تصاویر بھی استعمال کی جاتی ہیں، اس کے علاوہ تجارتی اشیا کے ڈبوں اور بوتلوں اور لفافوں پر چھاپی جاتی ہیں۔ ان مختلف صورتوں سے ایک مسلمان تاجر اپنا دامن کیسے بچا سکتا ہے؟
جواب: اگر کوئی اشتہار یا کیلنڈر خودآپ چھپوائیں تو اسے تصویر سے پاک رکھیں۔ اور ضرورتاً اگر آپ کو اپنی ذات کے لیے کیلنڈروںوغیرہ کا استعمال کرنا پڑے تو اوّل تو بے تصویر لیجیے، ورنہ تصاویر کو چھپا دیجیے یامسخ کردیجیے۔لیکن ڈبوں اور بوتلوں اور لفافوں پر آپ کہاں تک تصاویر کومٹا سکتے ہیں۔ موجودہ تصویر پرست دنیا نے قسم کھالی ہے کہ کسی چیز کو تصویر سے خالی نہ چھوڑے گی۔ڈاک کے ٹکٹوں اور سکّوں تک پر تصاویر موجود ہیں۔یہ ہمہ گیر نظامِ طاغوت اپنی ناپاکیوں اور غلاظتوں کو جڑ سے لے کر شاخوں اور پتوں تک پھیلاتا چلا جارہا ہے۔بس اپنی حدِ امکان تک اپنا دامن بچائیے اور اس حد سے آگے جو کچھ ہے،اس سے اپنے آپ کو اور دنیا کو بچانے کے لیے یہ سعی کیجیے کہ نظامِ باطل کا تسلط ختم ہو اور نظامِ حق کا اقتدار جمے۔ اس کی جڑ کٹے گی تو شاخیں آپ ہی جھڑ جائیں گی۔
(ترجمان القرآن ، اگست 1946ء)
کنیز کی تعریف اور شرعی حیثیت
سوال: قرآن مجید نے کنیز کی کیا تعریف بیان کی ہے؟اور کنیز کے بلا نکاح حلال ہونے کی دلیل کیا ہے؟
جواب: قرآن میں کنیز کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ ’’وہ عورت جو زورِ بازو سے حاصل ہو‘‘ اور چوں کہ قرآن زور بازو کے استعمال کو صرف قتال فی سبیل اﷲ تک محدود رکھتا ہے اس لیے قرآن کی تعریف کی رو سے کنیز صرف وہ عورت ہے جو راہ خدا کی جنگ میں گرفتار ہوکر مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔
یہ تعریف اور ایسی عورت کے حلال ہونے کی دلیل ان آیات میں ہم کو ملتی ہے:
﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ اُمَّھٰتُكُمْ… وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ﴾ ( النساء4: 24-23)
(حرام کی گئیں تمھارے لیے تمھاری مائیں… اور وہ عورتیں جو شادی شدہ ہوں ماسوا ان عورتوں کے جن کے مالک ہوئے تمھارے سیدھے ہاتھ)
سیدھا ہاتھ عربی میں قدرت،غلبہ وقہر اور زور بازو کے مفہوم میں بولا جاتا ہے۔یہ بجائے خود کنیز کی مذکورہ بالا تعریف کے حق میںکافی دلیل ہے۔اس پر مزید دلیل یہ ہے کہ وہ شادی شدہ عورت جس کو اس آیت میں حرمت کے حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے،بہرحال وہ عورت تو نہیں ہوسکتی جس کا نکاح دارالاسلام میں ہوا ہو، کیوں کہ آیت کا سیاق خود بتا رہا ہے کہ وہ ان محصنات میں شامل ہے جو ﴿حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ﴾ کے تحت آتی ہیں۔ اس لیے لامحالہ﴿ اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ﴾ سے مراد وہی شادی شدہ عورتیں ہوں گی جن کے نکاح دارالحرب میں ہوئے ہوں اور پھر وہ جنگ میں گرفتار ہوکر آئی ہوں۔
رہی ان کے بلانکاح حلال ہونے کی دلیل، تو وہ یہ ہے کہ اوّل تو مذکورہ بالا آیت میں جن شادی شدہ عورتوں کو حرام کیا گیا ہے،ان سے وہ عورتیں مستثنیٰ کردی گئی ہیں جو جنگ میں گرفتار ہوکر آئی ہوں۔ پھر اس کے بعد فرمایا:
﴿ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاۗءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ۰ۭ﴾
(النساء4:24 )
(اور حلا ل کیا گیا تمھارے لیے ان کے سوا دوسری عورتوں کو اس طور پر کہ تم ان کو اپنے اموال کے بدلے حاصل کرو قید نکاح میں لانے والے بن کر، نہ کہ آزاد شہوت رانی کرتے ہوئے)
اس سے صاف معلوم ہوا کہ ملک یمین میں آئی ہوئی عورتوں کو مہر دے کر نکاح میں لانے کی ضرورت نہیں ہے،وہ اس کے بغیر ہی حلال ہیں۔
اس معنی پر یہ آیات بھی دلالت کرتی ہیں:
﴿ قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَo الَّذِيْنَ ہُمْ فِيْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَo…وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَo اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ ﴾ (المؤمنون23:6-1)
(فلاح پائی ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع برتتے ہیں… اور جو اپنی شرم گاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں ،سوائے اپنی بیویوں یا اپنی لونڈیوں کے،کیوں کہ بیویوں اور لونڈیوں سے محفوظ نہ رکھنے پر وہ قابل ملامت نہیں ہیں)
اس آیت میں اہل ایمان کے لیے دو قسم کی عورتوں سے تعلق شہوانی کو جائز ٹھیرایا گیا ہے۔ ایک ان کی ازواج۔ دوسرے ﴿مَا مَلَکَتْ اَ یْمَانُھُم﴾ ازواج سے مراد تو ظاہر ہے کہ منکوحہ بیویاں ہیں۔ اب اگر ﴿ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ﴾ بھی منکوحہ بیویاں ہی ہوں تو ان کا ازواج سے الگ ذکر سراسر فضول ٹھیرتا ہے۔ لامحالہ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ان سے محض ملک یمین کی بِنا پر تمتع جائز ہے۔
(ترجمان القرآن ، جون 1956ء)
تعددِ ازواج اور لونڈیاں
سوال: حسب ذیل آیت کی تفہیم کے لیے آپ کو تکلیف دے رہا ہوں:
﴿ وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ۰ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ﴾ [اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کرسکو گے تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دودو، تین تین، اور چارچار سے نکاح کرلو، لیکن اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا ان عورتوں کو زوجیت میں لائو جو تمھارے قبضے میں آئی ہیں]
(النساء4:3)
دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس آیت میں چار بیویاں کرنے کی اجازت صرف اس شخص کو ہے جو یتیم لڑکیوں کا ولی ہو اور اس کو اس امر کا اندیشہ ہو کہ وہ ان لڑکیوں کے متعلق انصاف نہ کر سکے گا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ بیویوں کے متعلق تو تعداد کی قید ہے کہ زیادہ سے زیادہ چار بیویاں کی جاسکتی ہیں، لیکن لونڈیوں کے ساتھ تعلقات زن وشوئی قائم کرنے کے بارے میں ان کی تعداد کے متعلق کوئی تعین نہیں کیا گیا ہے۔اس کی کیا وجہ ہے؟ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ جنگ کے زمانے میں جو عورتیں پکڑی ہوئی آئیں گی، ان کی تعداد کا تعین نہیں کیا جاسکتا،اس لیے لونڈیوں سے تمتع حاصل کرنے کے متعلق بھی تعداد کا تعین نہیں کیا گیا،تو میں یہ عرض کروں گا کہ بے شک یہ صحیح ہے اور اس لحاظ سے یہ تعین بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ایک مسلمان کے حصے میں کتنی لونڈیاں آئیں گی۔ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کے حصے میں دس آئیں اور دوسرے کے حصے میں بیس۔ لیکن جہاں تک ان لونڈیوں سے تمتع کا تعلق ہے،اس کا تعین تو بہرحال ہوسکتا تھا کہ ایک شخص کے پاس لونڈیاں چاہے کتنی ہی ہوں ،وہ ان میں سے صرف ایک یا دو سے تمتع کرسکتاہے،جیسا کہ بیویوں کی صورت میں تحدید ہے۔
اس آزادی کے ہوتے ہوئے ایک شخص نہ صرف یہ کہ مال غنیمت میں حصے کے طور پر بہت سی لونڈیاں حاصل کرسکتا ہے، بلکہ وہ ان کی جتنی تعداد چاہے خرید بھی سکتا ہے۔ایسی صورت میں ایک نفس پرست سرمایہ دار کے لیے کھلا ہوا موقع ہے کہ وہ جتنی لونڈیاں چاہے خریدے اور ہوس رانی کرتا رہے۔ لونڈیوں سے بلا تعین تعداد تمتع کرنے کی کھلی ہوئی اور عام اجازت دینے کی وجہ سے معاشرے کے اندر وہی خرابی داخل ہوجاتی ہے جس کو اسلام نے زنا کہہ کر سخت سزا کا مستوجب قرار دیا ہے۔ میرے خیال میں یہی سبب تھا کہ جوں جوں مسلمانوں کی سلطنتیں وسیع ہوئیں اور ان کی دولت میں اضافہ ہوا،مسلم سوسائٹی میں رجم کی سزا کے جاری ہونے کے باوجود ہوس رانی بڑھتی گئی۔ کوئی قانون ایسا نہ تھا جو اس خرابی کاانسداد کرتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم خلفاے بنو اُمیہ اور بنوعباسیہ کے حرم میں لونڈیوں کے غول کے غول پھرتے دیکھتے ہیں اور پھر تاریخوں میں ان ذلیل سازشوں کا حال پڑھتے ہیں جو لونڈی غلاموں کے ذریعے پروان چڑھتی تھیں۔پس میری راے یہ ہے کہ اگر لونڈیوں سے تمتع کرنے کی اجازت بھی بہ تعین تعداد ہوتی تو مسلم معاشرے میں وہ مفاسد اور نفس پرستیاں نہ پیدا ہوتیں جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ بہرحال ارشاد فرمایا جائے کہ شارع نے کن وجوہ ومصالح کی بِنا پر لونڈیوں سے تمتع کی اجازت دیتے ہوئے تعداد کا تعین نہیں کیا؟
اسی ضمن میں ایک تیسرا سوال یہ بھی ہے کہ اگر لونڈی مشرکہ ہو تو کیا اس کے ساتھ تمتع جائز ہے؟
جواب : {اس طرح کے سوالات اور ان کے جوابات سے لوگ بسا اوقات یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید یہ مسائل حال یا مستقبل کے لیے زیر بحث آرہے ہیں۔ حالاں کہ دراصل ان سوالات کا تعلق اُس دور کے حالات سے ہے جب کہ دنیا میں اسیران جنگ کے تبادلے کا طریقہ رائج نہ ہوا تھا اور فدیے پر سمجھوتا کرنا بھی دشمن سلطنتوں کے لیے مشکل ہوتا تھا۔آج اِن مسائل پر بحث کرنے کی غرض یہ نہیں ہے کہ ہم اب لونڈیوں کی تجارت کا بازار کھولنا چاہتے ہیں بلکہ اِس کی غرض یہ بتانا ہے کہ جس دور میں اسیران جنگ کا تبادلہ اور فدیے کا معاملہ طے نہ ہوسکتا تھا،اس زمانے میں اسلام نے اِس پیچیدہ مسئلے کو کس طرح حل کیا تھا۔نیز اِس کی غرض اِن اعتراضات کو رفع کرنا ہے جو ناواقف لوگوں کی طرف سے اسلام کے اِس حل پر کیے جاتے ہیں۔ ہم نے جب کبھی اِس مسئلے سے بحث کی ہے،اِسی غرض کے لیے ہے۔ مگر افسوس ہے کہ فتنہ پرداز لوگ جان بوجھ کر اِسے یہ معنی پہناتے ہیں کہ ہم آج اِس زمانے میں بھی غلامی ہی کے طریقے کو جاری رکھنا چاہتے ہیں،خواہ اسیران جنگ کاتبادلہ اور فدیہ ممکن ہو یا نہ ہو۔ ہمیں معلوم ہے کہ وہ اِس قسم کی باتیں کسی غلط فہمی کی بِنا پر نہیں کہتے ہیں، اور ہم ان سے اتنی حیا داری کی توقع بھی نہیں رکھتے کہ وہ ہماری اِس تصریح کے بعد اپنی الزام تراشیوں سے بازآجائیں گے۔ تاہم یہ تصریح صرف اس لیے کی جارہی ہے کہ جو لوگ ان کی باتوں سے کسی غلط فہمی میں پڑ گئے ہیں،ان کی غلط فہمی دور ہوسکے۔
} آیت﴿ وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى ﴾ (النسائ 4:3 ) پر تفصیل کے ساتھ تفہیم القرآن میں نوٹ لکھ چکا ہوں۔اس کے اعادے کی حاجت نہیں۔ آپ اسے ملاحظہ فرمالیں۔جہاں تک خود اس آیت کی تفسیر کا تعلق ہے،اس کے کئی معنی ہوسکتے ہیں اور صحابہ وتابعین سے منقول ہیں۔ مثلاً ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ یوں انصاف نہیں کرسکتے تو ایسی عورتوں سے نکاح کرلو جن کے شوہر مرچکے ہیں اور چھوٹے چھوٹے یتیم بچے چھوڑ کر گئے ہیں۔یہ معنی اس لحاظ سے زیادہ دل کو لگتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ یہ سورت جنگ اُحد کے بعد نازل ہوئی تھی،اور اس جنگ میں بہت سے مسلمان شہید ہوگئے تھے ۔لیکن یہ بات کہ اسلا م میں چار بیویوں سے نکاح کرنے کی اجازت ہے،اور یہ کہ بیک وقت چار سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے،اور یہ کہ اس فرمان کا کوئی تعلق یتامیٰ کے معاملے سے نہیں ہے، محض اس آیت سے نہیں نکلتی بلکہ نبیﷺ کی اس قولی وعملی تشریح سے معلوم ہوتی ہے جو آپﷺ نے ان لوگوں کو جن کے نکاح میںچار سے زیادہ عورتیں تھیں،حکم دے دیا کہ وہ صرف چار رکھ لیں اور اس سے زائد جس قدر بھی ہوں، انھیں چھوڑ دیں{ موطا ٔامام مالک، کتاب الطلاق، باب جامع الطلاق، حدیث 2179
}۔ حالاں کہ ان کے ہاں یتامٰی کا کوئی معاملہ درپیش نہ تھا۔ نیز آپﷺ کے عہد میں بکثرت صحابہ نے چار کی حد کے اندر متعدد نکاح کیے اور آپﷺ نے کسی سے یہ نہ فرمایا کہ تمھارے لیے یتیم بچوں کی پرورش کا کوئی سوال نہیں ہے،اس لیے تم اس اجازت سے فائدہ اٹھا نے کا حق نہیں رکھتے۔ اسی بِنا پر صحابہؓ سے لے کر بعد کے ادوار تک اُمت کے تمام فقہا نے یہ سمجھا کہ یہ آیت نکاح کے لیے بیک وقت چار کی حد مقرر کرتی ہے جس سے تجاوز جائز نہیں کیا جا سکتا، اور یہ کہ چار کی اجازت عام ہے، اس کے ساتھ کوئی قید نہیں کہ یتامٰی کا کوئی معاملہ بھی درمیان میں ہو۔ خود حضور ﷺ نے متعدد نکاح کیے اور کسی میں یتیموں کے مسئلے کا دخل نہ تھا۔
لونڈیوں کے بارے میں آپ یہ جو تجویز پیش کرتے ہیں کہ ایک شخص کو لونڈیاں تو بلاقید تعداد رکھنے کی اجازت ہوتی مگر تمتع کے لیے ایک یا دو کی حد مقرر کردی جاتی، اس میں آپ نے صرف ایک ہی پہلو پر نگاہ رکھی ہے، دوسرے پہلوئوں پر غور نہیں فرمایا۔ تمتع کے لیے جو حد بھی مقرر کی جاتی، اس سے زائد بچی ہوئی عورتوں کے مسئلے کا کیا حل تھا؟کیا یہ کہ وہ مرد کی صحبت سے مستقل طور پر محروم کردی جاتیں؟یا یہ کہ انھیں گھر کے اندر اور اس کے باہر اپنی خواہشات نفس کی تسکین کے لیے ناجائز وسائل تلاش کرنے کی آزادی دے دی جاتی؟ یا یہ کہ ان کے نکاح لازماً دوسرے لوگوں سے کرنے پر مالکوں کو ازروے قانون مجبور کیا جاتا اور قیدی عورتوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری ڈالنے کے علاوہ ایک اور ذمہ داری ان پر یہ بھی ڈال دی جاتی کہ وہ ان کے لیے ایسے شوہر تلاش کرتے پھریں جو لونڈیوں کو نکاح میں لینے پر راضی ہوں؟
آپ کے تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ لونڈی سے تمتع کے لیے شریعت میں یہ قید نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب میں سے ہو۔ اور یہ قید عقل کی رو سے بھی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ مصلحتیں آدھی سے زیادہ فوت ہوجاتیں جن کی بِنا پر اسیران جنگ کو (تبادلہ نہ ہوسکنے کی صورت میں) افراد کی ملکیت میں دینے کا طریقہ پسند کیا گیا تھا اور قیدی عورتوں سے ان کے مالکوں کو تمتع کی اجازت دی گئی تھی۔کیوں کہ اس صورت میں صرف وہ عورتیں مسلم سوسائٹی کے اندر جذب کی جاسکتی تھیں جو کسی اہل کتاب قوم میں سے گرفتار ہوکر آئی ہوں۔ غیر اہل کتاب سے جنگ پیش آنے کی صورت میں مسلمانوں کے لیے پھر یہ مسئلہ حل طلب رہ جاتا کہ ان میں سے جو عورتیں قید ہوں، ان کو دارالاسلام کے لیے فتنہ بننے سے کیسے بچایا جائے؟
(ترجمان القرآن ، جون 1956ء)
تعدّدِ ازواج پرپابندی
سوال: میں آپ سے ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں،وہ یہ کہ اگر اسلامی ریاست میں عورتوں کی تعداد مردوں سے کم ہو تو کیا حکومت اس بِنا پر تعدد ازواج پر پابندی عائد کرسکتی ہے؟
اس سوال کی ضرورت میں نے اس لیے محسوس کی ہے کہ میرا اندازہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے جہاں تعدد ازواج کی اجازت دی ہے وہاں ہنگامی صورت حال پیش نظر تھی۔اس زمانے میں سال ہا سال کے مسلسل جہاد کے بعد بہت سی عورتیں بیوہ ہوگئی تھیں اور بچے بے آسرا اور یتیم رہ گئے تھے۔اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے یہ اجازت دی گئی تھی، تاکہ بیوائوں اور یتیم بچوں کو سوسائٹی میں جذب کیا جاسکے اور ان کی کفالت کی شائستہ صورت پیدا ہوسکے۔
جواب: آپ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ کسی سوسائٹی میں عورتوں کی تعداد کا مردوں سے اتنا کم ہونا کہ اس سے ایک معاشرتی مسئلہ پیدا ہوجائے،ایک شاذ ونادر واقعہ ہے۔ عموماً تعداد مردوں ہی کی کم ہوتی رہتی ہے۔ عورتوں کی تعداد کم ہونے کے وجوہ وہ نہیں ہیں جو مردوں کی تعداد کم ہونے کے ہیں۔ عورتیں اگر کم ہوں گی تو اس وجہ سے کہ صنف اناث کی پیدائش ہی صنف ذکور سے کم ہو۔ اور ایسا ہونا اوّل تو شاذ ونادر ہے۔ اور اگر ہو بھی تو عورتوں کی اتنی کم پیدائش نہیں ہوتی کہ اس کی وجہ سے ایک معاشرتی مسئلہ پیدا ہو اور اسے حل کرنے کے لیے قوانین کی ضرورت پیش آئے۔ بیوہ اور مطلقہ عورتوںکی شادی کے رواج سے یہ مسئلہ خود ہی حل ہوجاتا ہے۔
دوسری بات جو آپ نے لکھی ہے ،وہ قرآن کے صحیح مطالعے پر مبنی نہیں ہے۔اسلام کے کسی دور میں بھی تعدد ازواج ممنوع نہ تھا اور کوئی خاص وقت ایسا نہیں آیا کہ اس ممانعت کو کسی مصلحت کی بِنا پر رفع کرکے یہ فعل جائز کیا گیا ہو۔دراصل تعدد ازواج ہر زمانے میں تمام انبیا کی شریعتوں میں جائز رہا ہے اور عرب جاہلیت کی سوسائٹی میں بھی یہ جائز اور رائج تھا۔نبیﷺ کی بعثت کے بعد صحابہ کرامؓ بھی اور خود نبیﷺ بھی اس پر عامل تھے۔ قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیںہے جس سے یہ شبہہ کیا جاسکتا ہو کہ اس آیت کے نزول سے پہلے تعدد ازواج ناجائز تھا اور اس آیت نے آکر اسے جائز کیا۔ آپ کے علم میں ایسی کوئی آیت ہو تو اس کا حوالہ دیں۔
سوال: آپ مجھے معاف فرمائیں اگر میں یہ عرض کروں کہ آپ کے جواب سے تشفی نہیں ہوئی۔ میری گزارش صرف اتنی تھی کہ اگر کسی معاشرے میں عورتوں کی تعداد مردوں سے کم ہوجائے تو کیا اس صورت میں حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایک سے زیادہ شادیوں پر پابندی عائد کرسکے؟ آپ نے فرمایا کہ ایسا شاذ ونادر ہی ہوسکتا ہے۔لیکن میرا سوال بھی اسی شاذ صورت حال سے تعلق رکھتا ہے۔آپ کو معلوم ہوگا کہ اس وقت پاکستان میں(مردم شماری کی رو سے) عورتیں مردوں کے مقابلے میں کم ہیں۔اب کیا حکومت کوئی ایسا قانون بنا سکتی ہے کہ جب تک یہ صورت حال قائم رہے،ایک سے زیادہ شادیوں کی ممانعت ہوجائے؟
میں نے عرض یہ کیا تھا کہ تعدد ازواج کی اجازت کا مطلب غالباً یہ ہے کہ اس زمانے میں جب آںحضرت ﷺ دعوت حق میں مصروف تھے تو سال ہا سال کے جہاد کی وجہ سے بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کا مسئلہ حل کرنا پڑا، اور اس کی صورت یہ تجویز کی گئی کہ ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دے دی جائے ۔ جس مقام پر یہ اجازت دی گئی ہے ،اس سے قبل جہاد وقتال ہی کا ذکر آیا ہے۔ اس طرح میں نے (غلط یا صحیح) یہ استنباط کیا ہے کہ یہ اجازت مخصوص حالات کے لیے ہی ہوسکتی ہے۔ اگر یہ استنباط غلط بھی ہے اورجیسا کہ آپ نے فرمایا ہے کہ یہ قرآن کے صحیح مطالعے پر مبنی نہیں تو اس سے ہٹ کر بھی یہی کچھ سوچا جاسکتا ہے کہ دو دو ،تین تین،اور چار چار نکاح اسی صورت میں کیے جاسکتے ہیں جب کہ معاشرے میں عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہو۔ اگر ان کی تعداد مقابلتاً زیادہ نہ ہو یا مردوں کے مساوی ہو تو اس جواز سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے؟
جواب: پاکستان کی مردم شماری میں عورتوں کی تعدادکا مردوں سے کم پایا جانا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ فی الواقع ہمارے ہاں عورتوں کی تعداد مردو ںسے کم ہے۔ بلکہ اس میں ہمارے ہاں کے رسم ورواج کا بڑ ادخل ہے جس کی بِنا پر لوگ اپنے گھر کی عورتوں کا اندراج کرانے سے پرہیز کرتے ہیں۔تاہم اگر کروڑوں کی آبادی میں چند لاکھ کا فرق ہو بھی تو اس سے کوئی ایسا معاشرتی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا جس کے لیے تعدد ازواج پر پابندی عائد کرنے کی ضرورت پیش آئے۔یہ مسئلہ بیوہ اور مطلقہ عورتوں کے نکاح ثانی سے حل ہوجاتا ہے اور بالفرض اگر کوئی بہت ہی غیر معمولی کمی واقع ہوجائے تو عارضی طور پر کچھ مدت کے لیے پابندی عائد کرنا بھی جائز ہوسکتا ہے بشرطیکہ اس پابندی کا اصل محرک یہی مسئلہ ہو۔ لیکن اس بات کو چھپانے کی آخر کیا ضرورت ہے کہ ہمارے ہاں تعدد ازواج پر پابندی عائد کرنے کی ضرورت دراصل اس بِنا پر محسوس نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کا اصل محرک یہ مغربی تخیل ہے کہ تعدد ازواج بجائے خود ایک بُرائی ہے اور ازروے قانون یک زوجی ہی کو رواج دینا مطلوب ہے۔ یہ محرک ہمارے نزدیک سخت قابل اعتراض ہے اور اس کی جڑ کاٹنا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا اور اب پھر اس کا اعادہ کرتا ہوں کہ قرآن میں کوئی آیت تعدد ازواج کی اجازت دینے کے لیے نہیں آئی ہے۔تعدد ازواج پہلے سے جائز چلا آرہا تھا اور سورۃالنساء کی آیت نمبر 3کے نزول سے پہلے خود نبیﷺ کے گھر میں تین ازواج مطہرات موجود تھیں۔ نیز صحابہ کرامؓ میں بھی بہت سے اصحاب تھے جن کے ہاں ایک سے زیادہ بیویاں تھیں۔ سورۃ النساء کی مذکورہ آیت اس جائز فعل کی اجازت دینے کے لیے نہیں آئی تھی بلکہ اس غرض کے لیے آئی تھی کہ جنگ اُحد میں بہت سے صحابہ کے شہید ہوجانے اور بہت سے بچوں کے یتیم ہوجانے سے فوری طور پر جو معاشرتی مسئلہ پیدا ہوا تھا،اسے حل کرنے کی صورت مسلمانوں کو یہ بتائی گئی کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ ویسے انصاف نہیں کرسکتے تو دو دو،تین تین، چار چار عورتوں سے نکاح کرکے ان یتیموں کو اپنی سرپرستی میں لے لو۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تعدد ازواج صرف ایسے ہی مسائل پیش آنے کی صورت میں جائز ہے۔آخر تیرہ چودہ سو برس سے ہمارے معاشرے میں یہ طریقہ رائج ہے۔اس سے پہلے کب یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ تعدد ازواج کی اجازت مخصوص حالات کے ساتھ مشروط ہے؟یہ طرزِ فکر ہمارے ہاں مغرب کے غلبے سے پیدا ہوا ہے۔
(ترجمان القرآن، مئی 1963ء)
توأم متحد الجسم لڑکیوں کا نکاح
(ذیل میں جس سوال کا جواب درج کیا جارہا ہے ،اس کی بنیاد پر کئی سال سے ایک گروہ مصنف کے خلاف یہ پروپیگنڈا کررہا ہے کہ اس نے جمع بین الاختین کو حلال کردیا ہے۔ اب ہر شخص اسے خود پڑھ کر راے قائم کرسکتا ہے کہ اس افترا کی حقیقت کیا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ دو بھائیوں یا دو بہنوں کا متحد الجسم ہونا کوئی ناممکن واقعہ نہیں ہے۔ دسمبر 1952ء کے ریڈرز ڈائجسٹ میں سیام [تھائی لینڈ کا پرانا نام] کے متحد الجسم بھائیوں کا قصہ ملاحظہ فرمالیا جائے)۔
سوال: مندرجہ ذیل سطور بغرض جواب ارسال ہیں۔ کسی ملاقاتی کے ذریعے بھیج کر ممنون فرمائیں۔
بہاول پور میں دو توأم لڑکیاں متحد الجسم ہیں۔ یعنی جس وقت وہ پیدا ہوئیںتو ان کے کندھے، پہلو، کولھے کی ہڈی تک آپس میں جڑے ہوئے تھے اور کسی طرح سے ان کو جدا نہیں کیا جاسکتا تھا۔اپنی پیدائش سے اب جوان ہونے تک وہ ایک ساتھ چلتی پھرتی ہیں۔ان کو بھوک ایک ہی وقت لگتی ہے۔پیشاب پاخانہ کی حاجت ایک ہی وقت ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو کوئی عارضہ لاحق ہو تو دوسری بھی اسی مرض میں مبتلا ہوجاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان کا نکاح ایک مرد سے ہوسکتاہے یا نہیں۔ نیز اگر دونوں بیک وقت ایک مرد کے نکاح میں آسکتی ہیں تو اس کے لیے شرعی دلیل کیا ہے؟
مقامی علما نہ ایک مرد سے نکاح کی اجازت دیتے ہیں اور نہ دو سے۔ایک مرد سے ان دونوں کا نکاح قرآن کی اس آیت کی رو سے درست نہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ دو حقیقی بہنیں بیک وقت ایک مرد کے نکاح میں نہیں آسکتیں۔ ﴿وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ﴾ [اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو، مگر جو پہلے ہوگیا سو ہوگیا] (النساء4:23 ) اس حکم کو بنیاد بنا کر اگر دو مردوں کے نکاح میں ان دومتحد الجسم عورتوں کو دے دیا گیا تو مندرجہ ذیل دشواریاں ایسی ہیں جن کو دیکھ کر علما نے سکوت اختیا ر کرلیا ہے۔ مثلاً:
(1) اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ایک مرد اپنی منکوحہ نامزد بیو ی تک ہی اپنے صنفی تعلقات کو محدود کرسکے گا اور دوسری متحد الجسم عورت سے جو اس کے نکاح میں نہیں ہے،تعرض نہ کرے گا۔
(2)یہ دوسری عورت جو اپنی بہن سے متحد الجسم ہونے کے ساتھ متحد المزاج بھی ہے زوجی تعلق کے وقت متاثر نہ ہو گی۔
(3)دومردوں سے ایسا نکاح جس میں دونوں عورتیں (صنفی تعلقات کے وقت) متاثر ہوتی ہوں، ان کی حیا مجروح ہوتی ہو، ان میں رقیبانہ جذبات پیدا ہوتے ہوں، کیا نکاح کی اس روح کے منافی نہیں جس میں بتایا گیا ہے ﴿وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّۃً﴾ [اور تمھارے درمیان محبت پیدا کر دی] (الروم30:21 ) ﴿وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِيَسْكُنَ اِلَيْہَا ﴾ [اور اسی کے جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے] (الاعراف7:189)
(4) نکاح کا ایک بڑا مقصد افزائش نسل ہے اور والدین اور مولود میں شفقت بھی ہے۔دو مردوں کا یہ نکاح اس تعلق پر کلہاڑ ا چلاتا ہے۔ اور بھی مفاسد ہیں جن کے بیان کو یہاں نظر انداز کیا جاتا ہے۔
براہِ کرم شریعت کی روشنی میں اس سوال کو حل کیجیے تاکہ یہ تذبذب دور ہو،ان عورتوں کے والدین ان کا نکاح کرسکیں، اور اس فتنے کا سد باب ہو جو جوان ہونے کی وجہ سے ان کو لاحق ہے۔
جواب: ان دونوں لڑکیوں کے معاملے میں چار صورتیں ممکن ہیں:
(1)ایک یہ کہ دونوں کا نکاح دو الگ شخصوں سے ہو۔
(2)دوسری یہ کہ ان میں سے کسی ایک کا نکاح ایک شخص سے کیا جائے اور دوسری محروم رکھی جائے۔
(3) تیسری یہ کہ دونوں کا نکاح ایک ہی شخص سے کر دیا جائے۔
(4) چوتھی یہ کہ دونوں ہمیشہ نکاح سے محروم رہیں۔
ان میں سے پہلی دو صورتیں تو ایسی صریح ناجائز، غیر معقول اور ناقابل عمل ہیں کہ ان کے خلاف کسی استدلا ل کی حاجت نہیں ۔اب رہ جاتی ہیں آخری دو صورتیں۔یہ دونوں قابل عمل ہیں۔ مگر ایک صورت کے متعلق مقامی علما کہتے ہیں کہ یہ چوں کہ جمع بین الاختین کی صورت ہے جسے قرآن میں حرام قرار دیا گیا ہے،اس لیے لامحالہ آخری صورت پر ہی عمل کرنا ہوگا۔ بظاہر علما کی یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ دونوں لڑکیاں توأم بہنیں ہیں اور قرآن کا یہ حکم صاف اور صریح ہے کہ دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔لیکن اس پر دو سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے کہ ان لڑکیوں کو دائمی تجرد پر مجبور کیا جائے اور یہ ہمیشہ کے لیے نکاح سے محروم رہیں؟اور کیا قرآن کا یہ حکم واقعی اس مخصوص اور نادر صورت حال کے لیے ہے جس میں یہ دونوں لڑکیاں پیدایشی طور پر مبتلا ہیں؟
میرا خیال یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان اس مخصوص حالت کے لیے نہیں ہے بلکہ اس عام حالت کے لیے ہے جس میں دو بہنوں کے الگ الگ مستقل وجود جمع ہوتے ہیں، اور وہ ایک شخص کے جمع کرنے سے ہی بیک وقت ایک نکاح میں جمع ہوسکتی ہیں ورنہ نہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ عام حالات کے لیے حکم بیان کرتا ہے،اور مخصوص، شاذ اور نادر الوقوع یاعسیر الوقوع حالات کو چھوڑ دیتا ہے۔ اس طرح کے حالات سے اگر سابقہ پیش آجائے تو تفقہ کا تقاضا یہ ہے کہ عام حکم کو ان پر جوں کا توں چسپاں کرنے کے بجائے صورت حکم کو چھوڑ کر مقصد حکم کومناسب طریقے سے پورا کیا جائے۔
اس کی نظیر یہ ہے کہ شارع نے روزے کے لیے بہ الفاظ صریح یہ حکم دیا ہے کہ طلوع فجر کے ساتھ اس کو شروع کیا جائے اور رات کا آغاز ہوتے ہی افطار کرلیا جائے۔ ﴿وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ۰۠ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ ﴾ [(راتوں کو) کھائو پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آجائے۔ تب (یہ سب کام چھوڑ کر) رات تک اپنا روزہ پورا کرلو] ( البقرہ2:187 ) یہ حکم زمین کے ان علاقوں کے لیے ہے جن میں رات دن کا اُلٹ پھیر چوبیس گھنٹے کے اندر پورا ہوجاتاہے، اورحکم کو اس شکل میں بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ زمین کی آبادی کا بیش تر حصہ انھی علاقوں میں ر ہتا ہے۔ اب ایک شخص سخت غلطی کرے گااگر اس حکم کو ان مخصوص حالات پر جوںکا توں چسپاں کردے گا جو قطب شمالی کے قریب علاقوں میںپائے جاتے ہیں،جہاں رات اور دن کا طول کئی کئی مہینوں تک ممتد ہوجاتا ہے۔ ایسے علاقوں کے لیے یہ کہنا کہ وہاں بھی طلوع فجر کے ساتھ روزہ شروع کیاجائے اور رات آنے پر کھولا جائے،یا یہ کہ وہاں سرے سے روزہ رکھا ہی نہ جائے، کسی طرح صحیح نہ ہو گا۔ تفقہ کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے مقامات پر صورت حکم کو چھوڑکر کسی دوسری مناسب صورت سے حکم کا منشا پور اکیا جائے۔ مثلاً یہ کہ روزوں کے لیے ایسے اوقات مقرر کر لیے جائیں جو زمین کی بیش تر آبادی کے اوقات صوم سے ملتے جلتے ہوں۔
یہی صورت میرے نزدیک ان دو لڑکیوں کے معاملے میں بھی اختیار کرنی چاہیے جن کے جسم آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے نکاح دو الگ شخصوں سے کرنے یا سرے سے نکاح ہی نہ کرنے کی تجویزیں غلط ہیں۔ ان کے بجائے یہ ہونا چاہیے کہ أَنْ تَجْمَعُوا بَیْنَ الأُخْتَیْنِ کے ظاہر کو چھوڑ کر صرف اس کے منشا کو پورا کیا جائے۔ حکم کا منشا یہ ہے کہ دو بہنوں کو سوکناپے کی رقابت میں مبتلا کرنے سے پرہیز کیا جائے۔یہاں چوں کہ ایسی صورت حال درپیش ہے کہ دونوں کا نکاح یا تو ایک ہی شخص سے ہوسکتا ہے یا پھر کسی سے نہیں ہوسکتا،اس لیے یہ فیصلہ انھی دونوں بہنوں پر چھوڑ دیا جائے کہ آیا وہ بیک وقت ایک شخص کے نکاح میں جانے پر راضی ہیں یا دائمی تجرد کو ترجیح دیتی ہیں۔اگر وہ پہلی صورت کو خود قبو ل کرلیں تو ان کا نکاح کسی ایسے شخص سے کردیا جائے جو انھیں پسند کرے۔ اور اگر وہ دوسری صورت ہی کو ترجیح دیں توپھر اس ظلم کی ذمہ داری سے ہم بھی بری ہیں اور خداکا قانون بھی۔
اعتراض کیا جاسکتاہے کہ بالفرض یہ دونوں ایک شخص کے نکاح میں دے دی جائیں، اور بعد میں وہ ان میں سے کسی ایک کو طلاق دے دے تو کیا ہوگا۔ میں کہتا ہوں کہ اس صورت میں دونوں اس سے جدا ہوجائیں گی۔ ایک اس لیے کہ اسے طلاق دی گئی، اور دوسری اس لیے کہ وہ اس سے کوئی تمتع نہیں کرسکتا جب تک کہ خلوتِ اجنبیہ کے جرم کا ارتکاب نہ کرے۔ یہی نہیں بلکہ وہ اسے اپنے گھر پر بھی نہیں رکھ سکتا، کیوں کہ مطلقہ لڑکی کو اپنے گھر رہنے پر مجبو رکرنے کا اسے حق نہیں ہے اور غیر مطلقہ لڑکی اس کے گھر اس وقت تک نہیں رہ سکتی جب تک کہ مطلقہ لڑکی بھی اس کے ساتھ نہ ہو۔ لہٰذ ا جب وہ ان میں سے ایک کو طلاق دے گا تو دوسری کو خلع کے مطالبے کاجائز حق حاصل ہوجائے گا۔ اگر وہ خلع نہ دے تو عدالت کا فرض ہے کہ اسے خلع پر مجبور کرے۔یہ لڑکیاں اپنی پیدائش ہی کی وجہ سے ایسی ہیں کہ کوئی شخص نہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ نکاح کرسکتا ہے اور نہ کسی ایک کو طلاق دے سکتا ہے۔ان کا نکاح بھی ایک ساتھ ہوگا اورطلاق بھی۔ ھذا ما عندی واﷲ اعلم بالصواب۔
(ترجمان القرآن ، جنوری1954ء)
طلاق قبل از نکاح
سوال: میرے ایک غیر شادی شدہ دوست نے کسی وقتی جذبے کے تحت ایک مرتبہ یہ کہہ دیا تھا کہ ’’اگر میں کسی عورت سے بھی شادی کروں تو اس پر تین طلاق ہے۔‘‘اب وہ اپنے اس قول پر سخت نادم ہے اور چاہتا ہے کہ شادی کرے۔علما یہ کہتے ہیں کہ جوں ہی وہ شادی کرے گا،عورت پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس لیے عمر بھر اب شادی کی کوشش کرنا اس کے لیے ایک بے کار اور عبث فعل ہے۔ براہِ کرم بتائیں کہ اس مصیبت خیز اُلجھن سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے یا نہیں؟
جواب: بلاشبہہ فقہائے حنفیہ کی راے یہی ہے کہ ایسی صورت میں جس عورت سے بھی اس کا نکاح ہو گا، اس پر طلاق وارد ہوجائے گی۔ لیکن تما م ائمہ وفقہا کا اس بارے میں اتفاق نہیں ہے۔ امام شافعی ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒکی راے یہ ہے کہ طلاق کا حق نکاح کے بعد پیدا ہوتا ہے نہ کہ نکاح سے پہلے۔اگرکسی شخص نے یہ کہا ہو کہ وہ آئندہ جس عورت سے بھی نکاح کرے،اس کو طلاق ہے تو یہ ایک لغواور غیر مؤثر بات ہے۔اس سے کوئی قانونی حکم ثابت نہیں ہوتا۔یہی راے حضرت علیؓ، حضرت معاذؓ بن جبل، حضرت جابرؓ بن عبداﷲ، حضرت ابن عباسؓ، اور حضرت عائشہؓ سے بھی منقول ہے۔ بدایۃ المجتھد و نھایۃ المقتصد، کتاب الطلاق، الباب الاول فی احکام الرجعۃ فی الطلاق الرجعی، ج3،ص104 اور اس راے کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ لَا طَلَاقَ اِلَّا مِنْ بَعْدِ نِکَاحٍ [نبیﷺ نے خلع کو ایک طلاق قرار دیاالسنن الکبری، کتاب الخلع و الطلاق، باب الطلاق قبل النکاح، حدیث 14885](طلاق نہیں ہے مگر نکاح کے بعد)۔ امام مالکؒ کی راے یہ ہے کہ اگر کسی خاص عورت یا خاص قبیلے یا خاص خاندان کی عورتوں کے بارے میں کوئی شخص ایسی بات کہے تب تو طلاق لازم آجائے گی، لیکن مطلقاً تمام عورتوں کے بارے میں یہ بات کہی جائے تو طلاق واقع نہ ہو گی۔{[ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ خلع یافتہ عورت کی عدت طلاق یافتہ عورت کی طرح ہے[ الفقۃ الاسلامی و أدلتہ، القسم السادس، الباب الاول الزواج و آثارہ، الفصل الاول الطلاق، ج9، ص6895] کیوں کہ پہلی صورت میں تو یہ امکان باقی رہتا ہے کہ مرد اس عورت یا اس قبیلے کی عورت کے سوا دوسری عورتوں سے نکاح کر سکے۔ لیکن دوسری صورت میں ترک سنت کی قباحت لازم آتی ہے، اوریہ ایک حلال چیز کو اپنے اوپرمطلقاً حرام کرلینے کا ہم معنی ہے۔ اس مسئلے پرمزید تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سورۃ الاحزاب صفحہ 73۔
( ترجمان القرآن، جنوری 1956ء)
عدت خلع
سوال: آپ کی تصنیف’’تفہیم القرآن‘‘ جلدا وّل، سورۃ بقرہ ،صفحہ176 میں لکھا ہوا ہے کہ ’’خلع کی صورت میں عدت صرف ایک حیض ہے۔دراصل یہ عدت ہے ہی نہیں بلکہ یہ حکم محض استبرائے رحم کے لیے دیا گیا ہے۔‘‘
اب قابل دریافت امر یہ ہے کہ آپ نے اس مسئلے کی سند وغیرہ نہیں لکھی۔ حالاں کہ یہ قول مفہوم الآیہ اور اقوا لِ محققین اور قول النبیؐ کے بھی خلاف ہے۔
1۔ رَوٰی عبدُالرَّزاقِ مَرْ فُوْعًا: اَلْخُلْعُ تَطْلِیْقَۃٌ { [خلع ایک طلاق ہے] اَلْمُصَنَّفْ،کتاب الخلع و الطلاق، باب الخلع طلاق بائن، حدیث 2640 }
2۔ وروی الدارقطنی أَنَّ النبیﷺ جَعَلَ الْخُلْعَ تَطْلِیْقَۃٌ { [نبیﷺ نے خلع کو ایک طلاق قرار دیا] سنن الدارقطنی، کتاب الطلاق و الخلع و الایلاء وغیرہ، حدیث 4025 }
3۔ وروی مالک عن ابن عمرؓ عِدَّۃُ الْمُخْتَلِعَۃِ مِثْلُ عِدَّۃُ الْمُطَلَّقَۃِ {[ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ خلع یافتہ عورت کی عدت طلاق یافتہ عورت کی طرح ہے] موطأ مالک، کتاب الطلاق، باب طلاق المختلعۃ، حدیث 2088 }
ایک ابودائود کی روایت ہے کہ عِدَّتُھَا حَیْضَۃٌ ،{ [اس کی عدت ایک حیض ہے] سنن أبی داود، کتاب الطلاق، باب طلاق المختلعۃ، حدیث 2229} لیکن یہ قول تصرف من الرواۃ پرمحمول کیا گیا ہے اور نص کے بھی خلاف ہے کہ نص میں ہے: ﴿وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْٓئٍ ﴾{[جن عورتوں کوطلاق دی گئی ہو، وہ تین مرتبہ ایام ماہ واری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں] } (البقرہ 228:2)
مہربانی فرما کر احادیث نبویہ میں تطبیق دیتے ہوئے، نص کو اپنے اطلاق پر رکھتے ہوئے اور محدثین کے اقوال کو دیکھتے ہوئے مسئلے کی پوری تحقیق مدلل بحوالۂ کتب معتبرہ تحریر فرمائیں تاکہ باعث اطمینان ہوسکے۔
جواب: مختلعہ کی عدت کے مسئلے میں اختلاف ہے۔ فقہا کی ایک کثیر جماعت اسے مطلقہ کی عدت کے مانند قرار دیتی ہے، اور ایک معتدبہ جماعت اسے ایک حیض تک محدود رکھتی ہے۔ اس دوسرے مسلک کی تائید میں متعدد احادیث ہیں۔ نسائی اور طبرانی نے رُبیع بنت معوذ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ثابتؓ بن قیس کی بیوی کے مقدمۂ خلع میں حضور ﷺ نے حکم دیا کہ:
اَنْ تَتَرَبَّصَ حَیْضَۃً واحِدَۃً وَتَلْحَقَ بِاَھْلِھَا { ]یہ کہ وہ ایک حیض تک انتظار کرے اور پھر اپنے اہل کے پاس جائے[ سنن النسائی، کتاب الطلاق، باب عدۃ المختلعۃ، حدیث 3497 }
ابودائود اور ترمذی نے ابن عباسؓ کی روایت نقل کی ہے کہ انھی زوجۂ ثابت بن قیس کو حضورﷺ نے حکم دیاکہ
أَنْ تَعْتَدَّ بِحَیْضَۃٍ { [وہ ایک حیض تک عدت گزارے] سنن الترمذی، أبواب الطلاق و اللعان، باب ما جاءَ فی الخلع، حدیث 1185 }
نیز ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے رُبیع بنت معوذ کی ایک اور روایت بھی اسی مضمون کی نقل کی ہے۔ابن ابی شیبہ نے ابن عمرؓ کے حوالے سے حضرت عثمانؓ کا بھی ایک فیصلہ اسی مضمون پر مشتمل نقل کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ پہلے ابن عمر ؓ مختلعہ کی عدت کے معاملے میں تین حیض کے قائل تھے، حضرت عثمانؓ کے اس فیصلے کے بعد انھوں نے اپنی راے بدل دی اور ایک حیض کا فتویٰ دینے لگے۔{ مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الطلاق، باب من قال عدتھا حیضۃ، حدیث 18462} اسی طرح ابن ابی شیبہ نے ابن عباسؓ کا یہ فتویٰ نقل کیا ہے کہ عِدَّتَھا حَیْضَۃٌ { [اس کی عدت ایک حیض ہے] ایضاً، حدیث 18464 } ابن ماجہ نے رُبیع بنت معوّذ بن عفراء کے حوالے سے حضرت عثمانؓ کے مذکورہ بالا فیصلے کی جو روایت نقل کی ہے، اس میں حضرت ] ربیعؓ[ کا یہ قول بھی موجود ہے کہ
اِنَّمَا تَبِعَ فِیْ ذٰ لِکَ قَضَاءَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ {]یہ فیصلہ رسول اللہﷺ کے فیصلے کی متابعت میں ہے[ سنن ابن ماجہ، کتاب الطلاق، باب عدۃ المختلعۃ، حدیث 2058 }
اُمید ہے کہ ان حوالوں سے آپ کا اطمینان ہوجائے گا۔
(ترجمان القرآن، اکتوبر1956ء)
ضبطِ ولادت کے جدید طریقوں کا حکم
سوال 497: آج کل ضبط ولادت کو خاندانی منصوبہ بندی کے عنوان جدید کے تحت مقبول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے حق میں معاشی دلائل کے علاوہ بعض لوگوں کی طرف سے مذہبی دلائل بھی فراہم کیے جارہے ہیں ۔ مثلاً یہ کہا جارہا ہے کہ حدیث میں عزل{ [جنسی عمل کے دوران مرد کا انزال کے وقت آلہ مخصوصہ باہر نکالنا]صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب العزل، حدیث5208؛ صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب حکم العزل، حدیث 1440} کی اجازت ہے اور برتھ کنٹرول کو اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔علاوہ ازیں اب حکومت کی طرف سے مردوں کو بانجھ بنانے کی سہولتیں بھی بہم پہنچائی جارہی ہیں۔چنانچہ بعض ایسے ٹیکے ایجاد ہورہے ہیں جن سے مرد کا جوہر حیات اس قابل نہیں رہتا کہ وہ افزائش نسل کا ذریعہ بن سکے لیکن جنسی لذت برقرار رہتی ہے۔بعض لوگوں کے نزدیک یہ طریقہ بھی شرعاً قابل اعتراض نہیں ،اور نہ یہ قتل اولاد یا اسقاط حمل ہی کے ضمن میں آسکتا ہے۔
براہِ کرام اس بارے میں بتائیں کہ آپ کے نزدیک اسلام اس طرز عمل کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟
جواب: ضبط ولادت کے موضوع پر میں اب سے کئی سال پہلے ایک کتاب ’’اسلام اور ضبط ولادت‘‘ لکھ چکا ہوں جس میں دینی،معاشی اور معاشرتی نقطۂ نظر سے اس مسئلے کے سارے پہلوئوں پر بحث موجود ہے ۔اب اس کا جدید اڈیشن بھی شائع ہوچکا ہے۔
آپ کے سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ عزل کے متعلق جو کچھ آںحضور ﷺ سے پوچھا گیا اور اس کے جواب میں جوکچھ حضورﷺ نے بیان فرمایا اس کا تعلق صرف انفرادی ضروریات اور استثنائی حالات سے تھا۔ ضبط ولادت کی کوئی عام دعوت و تحریک ہرگز پیش نظر نہ تھی۔ نہ ایسی کسی تحریک کا مخصوص فلسفہ تھا جو عوام میں پھیلا یا جارہا ہو،نہ ایسی تدابیر وسیع پیمانے پر ہر مرد وعورت کو بتائی جارہی تھیں کہ وہ باہم مباشرت کرنے کے باوجود استقرار حمل کو روک سکیں، اور نہ حمل کو روکنے والی دوائیں اور آلات ہر کس وناکس کی دست رس تک پہنچائے جارہے تھے۔ عزل کی اجازت میں جو چند روایات مروی ہیں ان کی حقیقت بس یہ ہے کہ کسی اﷲ کے بندے نے اپنے ذاتی حالات یا مجبوریاں بیان کیں اور آںحضور ﷺ نے انھیں سامنے رکھ کر کوئی مناسب جواب دے دیا۔اس طرح کے جو جوابات نبیﷺ سے حدیث میںمنقول ہیں ،ان سے اگر عزل کا جواز نکلتا بھی ہے تو وہ ہرگز ضبط ولادت کی اس عام تحریک کے حق میں استعمال نہیں کیا جاسکتا جس کی پشت پر ایک باقاعدہ خالص مادّہ پرستانہ اور اباحیت پسندانہ فلسفہ کارفرما ہے۔ ایسی کوئی تحریک اگر آںحضور ﷺ کے سامنے اٹھتی تو مجھے یقین ہے کہ آپ اس پر لعنت بھیجتے اور اس کے خلاف ویسا ہی جہاد کرتے جیسا شرک وبت پرستی کے خلاف آپ نے کیا۔ میں ہر اس شخص کو جو عزل کے متعلق آںحضور ﷺ کے ارشادات کا غلط استعمال کرکے انھیں موجودہ تحریک کے حق میں دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے، خدا سے ڈراتا ہوں اور مشورہ دیتا ہوں کہ وہ رسول خداﷺ کے مقابلے میں اس جسارت سے باز رہے۔ مغرب کی بے خدا تہذیب وفکر کی پیروی اگر کسی کو کرنی ہو تو سیدھی طرح اسے دین مغرب سمجھ کر ہی اختیار کرے۔ آخر وہ اسے عین خدا و رسول کی تعلیم قرار دے کر خدا کا مزید غضب مول لینے کی کوشش کیوں کرتا ہے۔
اسلام جس طرح ضبط ولادت کی عمومی تحریک کو روا نہیں رکھتا، اسی طرح وہ قصداًبانجھ بننے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ یہ کہنا کہ جان بوجھ کر اپنے آپ کو بانجھ کرلینا کوئی ناجائز کام نہیںہے،اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ کہنا غلط ہے کہ آدمی کا خودکشی کرلینا جائز ہے۔ دراصل اس قسم کی باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جن کے نزدیک آدمی اپنے جسم اور اس کی قوتوں کا خود مالک ہے اور اپنے جسم اور اس کی قوتوں کے ساتھ جو کچھ بھی کرنا چاہے،کرلینے کا حق رکھتا ہے۔ اسی غلط خیال کی وجہ سے جاپانی خودکشی کو جائز سمجھتے ہیں۔اسی غلط خیال کی وجہ سے بعض جوگی اپنے ہاتھ یا پائوں یا زبان بے کار کرلیتے ہیں۔ لیکن جو شخص اپنے آپ کو خدا کا مملوک سمجھتا ہواور یہ سمجھتا ہو کہ یہ جسم اور اس کی قوتیں خدا کا عطیہ اور اس کی امانت ہیں،اس کے نزدیک اپنے آپ کو بانجھ کرلینا ویسا ہی گناہ ہے جیسا کسی دوسرے انسان کو زبردستی بانجھ کردینایاکسی کی بینائی ضائع کردینا گناہ ہے۔
(ترجمان القرآن،اپریل1960ء)
ضبطِ ولادت اور بڑھتی ہوئی آبادی
سوال: دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے آج اسلام کیا حل پیش کرتا ہے؟برتھ کنٹرول(پیدائش روکنے ) کے لیے دوائوںکا استعمال،فیملی پلاننگ وغیرہ کو کیا آج بھی غیر شرعی قرار دے کر ممنوع قرار دیا جائے گا؟
جواب: دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے اسلام صرف ایک ہی حل پیش کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا نے اپنے رزق کے جو ذرائع پیدا کیے ہیں،ان کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے اور استعمال کرنے کی کوشش کی جائے، اور جو ذرائع اب تک مخفی ہیں،ان کو دریافت کرنے کی پیہم سعی کی جاتی رہے۔ آبادی روکنے کی ہر کوشش خواہ وہ قتل اولاد ہو یا اسقاط حمل،غلط اور بے حد تباہ کن ہے۔ضبط ولادت کی تحریک کے چار نتائج ایسے ہیں جن کو رونما ہونے سے کسی طرح نہیںروکا جاسکتا:
(1)زنا کی کثرت۔
(2) انسان کے اندر خود غرضی اور اپنا معیار زندگی بڑھانے کی خواہش کا اس حد تک ترقی کرجانا کہ اسے اپنے بوڑھے ماں باپ اور اپنے یتیم بھائیوں اور اپنے دوسرے محتاجِ امداد رشتہ داروں کا وجود بھی ناگوار گزرنے لگے۔ کیوں کہ جو آدمی اپنی روٹی میں خود اپنی اولاد کو شریک کرنے کے لیے تیارنہ ہو ،وہ دوسروں کوبھلا کیسے شریک کرسکے گا؟
(3)آبادی کے اضافے کا کم سے کم مطلوب معیار بھی جو ایک قوم کو زندہ رکھنے کے لیے ناگزیر ہے، برقرار نہ رہنا۔ اس لیے کہ جب یہ فیصلہ کرنے والے افراد ہوں گے کہ وہ کتنے بچے پیدا کریں اور کتنے نہ کریں،اور اس فیصلے کا مدار اس بات پر ہوگا کہ وہ اپنے معیار زندگی کو نئے بچوں کی آمد کی وجہ سے گرنے نہ دیں، تو بالا ٓخر وہ اتنے بچے بھی پیدا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں گے جتنے ایک قوم کو اپنی قومی آبادی برقرار رکھنے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔اس طرح کے حالات میں کبھی کبھی نوبت یہ بھی آجاتی ہے کہ شرح پیدائش شرح اموات سے کم تر ہوجاتی ہے۔چنانچہ یہ نتیجہ فرانس دیکھ چکا ہے ،حتیٰ کہ اس کو’’بچے زیادہ پیدا کرو‘‘ کی تحریک چلانی پڑی اور انعامات کے ذریعے سے اس کی ہمت افزائی کرنے کی ضرورت پیش آگئی۔
(4)قومی دفاع کا کمزور ہوجانا۔ یہ نتیجہ خصوصی طورپر ایک ایسی قوم کے لیے بے حد خطرناک ہے جو اپنے سے کئی گنا زیادہ دشمن آبادی میں گھری ہوئی ہے،پاکستان کے تعلقات ہندستان اور افغانستان کے ساتھ جیسے کچھ ہیں،سب کومعلوم ہے، اور امریکا کی دوستی نے کمیونسٹ ممالک سے بھی اس کے تعلقات خراب کردیے ہیں۔بحیثیت مجموعی ہندستان، چین،روس اور افغانستان کی آبادی ہم سے تیرہ گنا ہے۔ ان حالات میں لڑنے کے قابل افرادکی تعداد گھٹانا جیسی کچھ عقل مندی ہے ،اسے ایک صاحب عقل آدمی خود سوچ سکتا ہے۔
(ترجمان القرآن، جنوری 1962ء)
جرم کی دنیوی سزا ملنے کی صورت میں آخرت کی سزا کا معاملہ
سوال: کیا اگر کسی گناہ(مثلاً زنا) کی شرعی سزا ایک شخص کو اسلامی حکومت کی جانب سے مل جائے تو وہ آخرت میں اس گناہ کی سزا سے بری ہوجائے گا یا نہیں؟
جواب: شرعی سزا جاری ہونے کے بعد آخرت میں آدمی کی معافی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب کہ آدمی نے اس کے ساتھ خدا سے توبہ بھی کی ہو اور اپنے نفس کی اصلاح کرلی ہو۔لیکن اگر بالفرض ایک شخص نے چوری کی اور اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا گیا،مگر اس نے اپنے گناہ پر اپنے خدا کے سامنے کوئی اعتراف ندامت نہ کیا، کوئی توبہ نہ کی،چوری چھوڑ دینے کا کوئی فیصلہ نہ کیا،بلکہ اُلٹا اپنے دل میں اس شریعت ہی کو کوستا رہا جس نے اس کا ہاتھ کٹوایاہے،تو خدا کے ہاں اس کے معاف کردیے جانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
(ترجمان القرآن ،فروری 1961ء)
اپنی قوم میں شادی
سوال: کیا حدیث یا قرآن میں کوئی اصولی ہدایت اس امر کی موجود ہے کہ ہر شخص اپنی قوم(ذات) میں ہی شادی کرے۔واضح رہے کہ میں کفاء ت کا اس معنی میں تو قائل ہوں کہ فریقین میں مناسبت ہونی چاہیے،غیر ضروری معیار کا فرق نہیں ہونا چاہیے۔
جواب: قرآن یا حدیث میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے کہ ہرشخص اپنی قوم میں ہی شادی کرے۔ بلکہ نبیﷺ اور صحابہ کرام ؓ کا عمل اس کے خلاف پایا جاتا ہے۔
(ترجمان القرآن،فروری 1961ء)
نکاح و طلاق کےملکی قوانین اور شریعت
سوال: کیا عائلی قوانین کے نفاذ کے بعد کوئی شخص اگر شریعت کے مطابق کسی قسم کی طلاق دے تو وہ واقع ہوجائے گی؟ مذکورہ قوانین کی روسے تو طلاق کے نافذ ہونے کے لیے کچھ خاص شرائط عائد کردی گئی ہیں؟
جواب: کسی حکومت کے قوانین سے نہ تو شریعت میں کوئی ترمیم ہوسکتی ہے اور نہ وہ شریعت کے قائم مقام بن سکتے ہیں۔اس لیے جو طلاق شرعی قواعد کی رو سے دے دی گئی ہو وہ عند اﷲ اور عند المسلمین نافذ ہوجائے گی خواہ ان قوانین کی رو سے وہ نافذ نہ ہو۔ او رجو طلاق شرعاً قابل نفاذ نہیں ہے وہ ہرگز نافذ نہ ہو گی،خواہ یہ قوانین اس کو نافذ قرار دیں۔اب مسلمانو ں کو خود سوچ لینا چاہیے کہ وہ اپنے نکاح وطلاق کے معاملات خدا اور رسول ﷺ کی شریعت کے مطابق طے کرنا چاہتے ہیں یا ان عائلی قوانین کے مطابق۔
(ترجمان القرآن،مئی 1962ء)
منکوحہ کتابیہ کے لیے آزادیِ عمل کے حدود
سوال : یہاں لندن میں ایک مسلمان طالب علم ایک جرمن لڑکی سے شادی کرنا چاہتے تھے۔وہ مسلمان بننے پر آمادہ نہ ہوئی۔ لہٰذا میں نے شادی رکوانے کی کوشش کی۔صاحب زادے کو سمجھایا کہ وہ کیوں کر برداشت کرے گا کہ اس کے گھر میں سور کا گوشت کھایا جائے اور شراب پی جائے۔ لڑکی غیر مسلم ہوئی تو ہمارے محرمات کا خیال نہیں کرے گی اور گھر بربادہوجائے گا۔لڑکے کی سمجھ میں بات آگئی اور وہ کچھ متذبذب ہو گیا۔ انھی دنوں اسلامک سنٹر کے مصری ڈائرکٹر سے ملاقات ہوئی۔ ان صاحب نے ڈاکٹر آ ر بری کے ساتھ مل کر ایک کتاب شائع کرائی ہے اور اب جامعۂ ازہر کے کلیہ ٔشریعہ کے صدر ہوکرواپس مصر گئے ہیں۔ انھوں نے اس لڑکے سے کہاکہ اگر اس کی بیوی عیسائی رہتی ہے تو اسے کوئی حق نہیں کہ لڑکی کو شراب،سور وغیرہ سے روکے۔جو چیز اس کے مذہب میں جائز ہے،اسے کرنے کی اسلام نے اسے آزادی دی ہے۔مسلمان شوہر مداخلت کرکے گناہ گار ہوگا۔ کیا یہ راے درست ہے؟ کیا حضورﷺ کے معاہدۂ نجران سے یہ استنباط نہیں کیا جاسکتا کہ کسی مسلمان کی اہل کتاب بیو ی کو اسلام کے متعین کردہ کبائر کی اجازت نہیں؟
جواب: اہل کتاب کی جن عورتوں سے مسلمانوں کونکاح کی اجازت دی گئی ہے،ان کے بارے میں قرآن مجید دو شرطیں لگاتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ محصنات(پاک دامن) ہوں، دوسرے یہ کہ ان سے نکاح کرکے ایک مسلمان خود اپنے ایمان کو خطرے میں نہ ڈال بیٹھے(ملاحظہ ہو سورۃ المائدہ،آیت نمبر5)۔ ان شرائط کی رو سے فاسق وفاجر کتابیات کے ساتھ شادی جائز نہیں ہے، اور یہ دیکھنا ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جس عورت سے وہ شادی کررہا ہے،وہ اس کے گھر میں، اس کے خاندان میں،اور اس کے بچوں میں ایسے افعال رائج کرنے کی موجب نہ بنے جو اسلام میں حرام ہیں۔بلاشبہہ وہ اسے مذہب ترک کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔اس کو چرچ جانے سے نہیں روک سکتا۔مگر اسے شادی سے پہلے ہی یہ شرط طے کرلینی چاہیے کہ وہ اس کی زوجیت میں آنے کے بعد شراب، سور کے گوشت اور دوسری حرام چیزوں سے اجتناب کرے گی۔ ایسی شرط پہلے ہی طے کرلینے کا اسے حق بھی ہے اور ایسا کرنا اس کا فرض بھی ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ دین کے معاملے میں سخت تساہل کرنے والا آدمی ہے۔اس کے بعد اگر اس کی اپنی اولاد ان حرام افعال میں مبتلا ہو(اور ظاہر ہے کہ اولاد کا ماں سے متاثر نہ ہونا متوقع نہیں ہو سکتا) تو اس کی ذمہ داری میں وہ بھی شریک ہو گا۔
(ترجمان القرآن ،جولائی 1962ء)
نکاح بلا مہر
سوال: کیا بغیر مہر کے نکاح جائزہے؟
جواب: نکاح بلا مہر ہوسکتا ہے، لیکن اسلامی فقہ کی رو سے اس طرح کے نکاح میں مہر مثل آپ سے آپ لازم آجاتا ہے۔ (ترجمان القرآن ،جولائی 1962ء )
اﷲ تعالیٰ کے حقوق ا ور والدین کے حقوق
سوال: میں ایک سخت کش مکش میں مبتلا ہوں اور آپ کی راہ نمائی کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔ میںجماعت کا ہمہ وقتی کارکن ہوں اور اس وجہ سے گھر سے دُور رہنے پر مجبور ہوں۔ والدین کا شدید اصرار ہے کہ میںان کے پاس رہ کر کاروبار شروع کروں۔ وہ مجھے بار بار خطوط لکھتے رہتے ہیں کہ تم والدین کے حقوق کو نظر انداز کررہے ہو۔میں اس بارے میں ہمیشہ مشوش رہتا ہوں۔ ایک طرف مجھے والدین کے حقوق کا بہت احساس ہے،دوسری طرف میں محسوس کرتا ہوں کہ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے میرا جماعت کا کارکن بن کر رہنا ضروری ہے۔ آپ اس معاملے میں مجھے صحیح مشورہ دیں تاکہ میں افراط وتفریط سے بچ سکوں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ خیالات کے اختلاف کی وجہ سے گھر میں میری زندگی سخت تکلیف کی ہوگی۔لیکن شرعاً اگر ان کا مطالبہ واجب التعمیل ہے تو پھر بہتر ہے کہ میں اس تکلیف کو خوشی سے برداشت کروں۔ میرے والد صاحب میری ہر بات کو مورد اعتراض بنالیتے ہیں اور میر ی طرف سے اگر بہت ہی نرمی کے ساتھ جواب عرض کیا جائے تو اسے بھی سننا گوارا نہیں فرماتے۔
جواب: والدین کی اطاعت اور دین کی خدمت کے درمیان توازن کا مسئلہ بالعموم ان سب نوجوانوں کے لیے وجہ پریشانی بنا رہتا ہے جن کے والدین جماعت اسلامی اور اس کے مقصد سے ہم دردی نہیں رکھتے۔میں نے عموماً یہ دیکھا ہے کہ ایک بیٹا اگر سرکاری ملازمت میں ہو یا کسی اچھے کاروبار میں لگا ہوا ہو تو والدین اس کے ہزاروں میل دور رہنے کو بھی برداشت کرلیتے ہیں اور اس سے کبھی نہیںکہتے کہ تو ملازمت یا روزگار چھوڑ دے اور آکر ہماری خدمت کر۔ بیٹے کے اطوار اگر فاسقانہ بھی ہوں تو اعتراض کی زبان کھولنے کی ضرورت انھیں بالعموم محسوس نہیں ہوتی۔لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اپنے سارے حقوق انھیں صرف اسی وقت یاد آجاتے ہیں جب کوئی بیٹا اپنے آپ کو خدمت دین کے لیے وقف کردیتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر جماعت اسے معقول معاوضہ دے تب بھی وہ یہی ضد کرتے ہیں کہ بیٹا گھر میں بیٹھ کر ان کے’’حقوق‘‘ ادا کرے۔بلکہ حقوق ادا کرنے پر بھی ان کا دل ٹھنڈا نہیں ہوتا،اس کی ہر بات انھیں کھٹکتی ہے اور اس کی کسی خدمت سے بھی وہ خوش نہیں ہوتے۔یہ صورت حال میں ایک مدت سے دیکھ رہا ہوں اور جماعت کے بکثرت نوجوانوں کو اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے اور کرنا پڑ رہا ہے۔
میں نہیں کہہ سکتا کہ آپ کے ہاں فی الواقع کیا صورت حال ہے۔اگر وہی کچھ ہے جو آپ کے بیان سے سمجھ میں آرہی ہے تو یہ آپ کے والدین کی زیادتی ہے۔آپ جہاں کام کررہے ہیں، وہیں کرتے رہیں۔جو کچھ مالی خدمت آپ کے بس میں ہو،وہ بھی کرتے رہیں، بلکہ اپنے اوپر تکلیف اٹھا کر اپنی مقدرت سے کچھ زیادہ ہی بھیجتے رہیں، اور حسب ضرورت وقتاً فوقتاً ان کے پاس ہو آیا کریں۔ لیکن اگر صورت حال اس سے مختلف ہو اور فی الواقع آپ کے والدین اس بات کے محتاج ہوں کہ آپ کے لیے ان کے پاس رہ کر ہی خدمت کرنا ضروری ہو تو پھر مناسب یہی ہے کہ آپ ان کی بات مان لیں۔
(ترجمان القرآن۔ جنوری 1956ء)
پردہ اور اپنی پسند کی شادی
سوال: اسلامی پردے کی رو سے جہاں ہمیں بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں،وہاں دو ایسے نقصانات ہیں جن کا کوئی حل نظر نہیں آتا بجز اس کے کہ صبر وشکر کرکے بیٹھ جائیں۔
اوّل یہ کہ ایک تعلیم یافتہ آدمی جس کاایک خاص ذوق ہے اور جو اپنے دوست منتخب کرنے میں ان سے ایک خاص اخلاق اور ذوق کی توقع رکھتا ہے،فطرتاً اس کا خواہش مند ہوتا ہے کہ شادی کے لیے ساتھی بھی اپنی مرضی سے منتخب کرے۔لیکن اسلامی پردے کے ہوتے ہوئے کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی کے لیے اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا ساتھی چنے، بلکہ اس کے لیے وہ قطعاً دوسروں یعنی ماں یا خالہ وغیرہ کے دست نگر ہوتے ہیں۔ہماری قوم کی تعلیمی حالت ایسی ہے کہ والدین عموماً ان پڑھ اور اولاد تعلیم یافتہ ہوتی ہے، اس لیے والدین سے یہ توقع رکھنا کہ موزوں رشتہ ڈھونڈ لیں گے، ایک عبث توقع ہے۔ اس صورتِ حال سے ایک ایسا شخص جو اپنے مسائل خود حل کرنے اور خود سوچنے کی صلاحیت رکھتاہو، سخت مشکل میں پڑجاتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایک لڑکی جو گھر سے باہر نہ نکلنے کی پابند ہو،وہ کیوں کر ایسی وسعت نظر، فراست اور عقل عام کی مالک ہوسکتی ہے کہ بچوں کی بہترین تربیت کرسکے اور ان کی ذہنی صلاحیتوں کو پوری طرح سے بےدار کردے، اس کو تو دنیا کے معاملات کا صحیح علم ہی نہیں ہوسکتا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اتنی ہی تعلیم بھی حاصل کرلے جتنی ایک بے پردہ لڑکی نے حاصل کی ہوتی ہے تو بھی اس کی ذہنی سطح کم ہوگی، کیوں کہ اسے اپنے علم کو عملی طور پر پرکھنے کا کوئی موقع ہی حاصل نہیں۔ امید ہے کہ آپ اس مسئلے پر روشنی ڈال کر ممنون فرمائیں گے۔
جواب: آپ نے اسلامی پردے کی جن خرابیوں کا ذکر کیا ہے،اوّلاً تو وہ ایسی خرابیاں نہیں ہیں کہ اس کی بِنا پر آدمی لاینحل مشکلات میں مبتلا ہوجائے، اور ثانیاً حیات دنیوی میں آخر کون سی ایسی چیز ہے جس میں کوئی نہ کوئی خامی یا کمی نہ پائی جاتی ہو۔لیکن کسی چیز کے مفید یا مضر ہونے کا فیصلہ اس کے صرف ایک یا دو پہلوئوں کو سامنے رکھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر اس میں مصالح کو غلبہ حاصل ہے یا مفاسد کو۔ یہی اصول پردے کے بارے میں اختیار کیا جائے گا۔ اسلامی پردہ آپ کی راے میں بھی بے شمار فوائد کا حامل ہے۔ لیکن فقط یہ مشکل کہ اس کی پابندی سے آدمی کو شادی کے لیے اپنی مرضی کے مطابق لڑکی منتخب کرنے کی آزادی نہیں مل سکتی، پردے کی افادیت کو کم یا اس کی پابندی کو ترک کرنے کے لیے وجہ جواز نہیں بن سکتی۔ بلکہ اگر ہر لڑکے کو لڑکی کے انتخاب اور ہرلڑکی کو لڑکے کے انتخاب کی کھلی چھٹی دے دی جائے تو اس سے اس قدر قبیح نتائج برآمد ہوں گے کہ ان کا تصور بھی نہیںکیا جاسکتا اور پھر خاندانی نظام جو معاشرے کی مضبوطی اور پاکیزگی کا ضامن ہوتا ہے،درہم برہم ہوکر رہ جائے گا، اور ایک موہومہ مشکل کو حل کرتے کرتے بے شمار حقیقی مشکلات کے دروازے کھل جائیں گے۔
آپ کا یہ خیال کہ باپردہ لڑکی وسعت نظر اور فراست سے بے بہرہ ہوتی ہے ،درست نہیں ہے۔ اور اگر اسے بالفرض درست بھی تسلیم کرلیا جائے تو اس میں پردے کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ایک لڑکی باپردہ رہ کر بھی علم وفن میں کمال پیدا کرسکتی ہے اور اس کے مقابلے میں پردے سے باہر ہوکر بھی ایک لڑکی علم وعقل اور فراست وبصیرت سے کوری رہ سکتی ہے۔البتہ بے پردہ لڑکی کو یہ فوقیت ضرور ہوگی کہ وہ معلومات کے لحاظ سے چاہے وسیع النظر نہ ہو لیکن تعلقات کے لحاظ سے اس کی نگاہیں ضرور پھیل جائیں گی۔ایسی حالت میں اگر موزوں ترین رفیق حیات کی تلاش میں کامیابی ہو بھی جائے،تب بھی جو نگاہیں وسعت کی عادی ہوچکی ہوں ،انھیں سمیٹ کر ایک مرکز تک محدود رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔
(ترجمان القرآن،جنوری 1961ء)
سوال: آپ کا جواب ملا۔مگر مجھے اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ آپ نے اسے بالکل معمولی مسئلہ قرار دیا۔ کام یاب شادی کی تمنا تو ایک جائز خواہش ہے اور ایسے حالات پیدا کرنا ،جن کی وجہ سے ایک شخص کے لیے اپنی پسند کی لڑکی چننے کا راستہ بندہوجائے،میں انسانی مسرت اور شخصیت کے ارتقا کے لیے مضر سمجھتا ہوں اور دین فطرت کے منافی۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، ہمار ے مروّجہ طریقے کے مطابق عورت زیادہ سے زیادہ گھر کی منتظم ہوتی ہے اور خاوند کی اور اپنی جنسی تسکین کا ایک ذریعہ، لیکن دو افراد کے اپنے آپ کو پوری طرح ایک دوسرے کے حوالے کرنے اور زندگی کے فرائض ایک بار کے بجائے خوشی خوشی پورا کرنے کے لیے جو امکانات اپنی پسند اور ذوق کی شادی کرلینے میں ہوتے ہیں،وہ اس صورت میں قطعاً ممکن نہیں کہ اپنی پسند اور بصیرت استعمال کیے بغیر کسی دوسرے کے انتخاب پر شادی کرلی جائے۔
میرا خیال ہے کہ ایک نوجوان محض جنسی تسکین کا خواہش مند نہیں ہوتا،وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ کسی کے لیے کچھ قربانی کرے،کسی سے محبت کرے،کسی کی خوشی کا خیال رکھے اور کوئی اس کی خوشی پر خوش ہو۔ اس جذبے کے فطری نکاس کا راستہ تو یہ ہے کہ وہ کسی ایسی لڑکی سے شادی کرے جسے اس نے تعلیم، اطوار،کردار اور دوسری خوبیوں کی بِنا پر اپنی طبیعت کے مطابق حاصل کیا ہے (حقیقی محبت کسی کی باطنی خوبیوں کے دیکھنے سے ہی پیدا ہوتی ہے نہ کہ شکل دیکھ لینے سے)۔ اور یہ بات ناممکنات میں ہے کہ پہلے تو کسی کی شادی کراد ی جائے اورپھر اس سے مطالبہ کیا جائے کہ اب اسے ہی چاہو اور یوں جیسے تم نے اس کو خود پسند کیا ہے۔ اس فطری محبت کا راستہ بند کرلینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ جذبہ اپنے لیے دوسرے راستے نکال لیتا ہے۔
پردے کی وجہ سے جو حالات پیدا ہیں،ان میں حقیقتاً کردار دیکھ کر منگیترتلاش کرنا ممکن نہیں۔ لڑکے کے با پ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ لڑکی کا پتا چلا سکے،لڑکی کی والدہ کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ لڑکے کے متعلق براہِ راست کچھ اندازہ لگا سکے۔کیوں کہ پردے کی وجہ سے ان افراد میں بھی تعلق اور آزادانہ گفتگو ناممکن ہے۔(خود لڑکے اور لڑکی کا ملنا تو ایک طرف رہا)، بڑی سے بڑی آزادی جو اسلام نے دی ہے وہ یہ ہے کہ لڑکا لڑکی کی شکل دیکھ لے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی کی شکل چند سکینڈ دیکھ لینے سے کیا ہوجاتا ہے۔
اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے،اب تو تمام علما نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ موجودہ تمدنی ضروریات پوری کرنے کے لیے علم کا حاصل کرنا عورتوں کے لیے ضروری ہے۔لیکن مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی کام کرسکتی ہیں۔ یا تو اسلامی احکام کی پابند ی کریں یا علم حاصل کریں۔ پردے کی پابند ہوتے ہوئے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ طبقات الارض، آثار قدیمہ، انجینیرنگ اور تمام ایسے علوم جن میں سروے اور دور دراز سفر کی ضرورت ہوتی ہے،ان علوم کے لیے خواتین کس طرح کام کرسکتی ہیں جب کہ محرم کے بغیر عورت کا تین دن سے زائد کی مسافت پر نکلنا بھی منع ہے۔اب کیا ہر جگہ وہ اپنے ساتھ محرم کو لیے پھرے گی؟
یہ علوم تو ایک طرف رہے،میں تو ڈاکٹری اور پردے کو بھی ایک دوسرے کی ضد سمجھتا ہوں۔ اوّل تو ڈاکٹری کی تعلیم ہی جو جسمانیات کی نگاہیں پھیلا دینے والی معلومات سے پر ہوتی ہے،حیا کے اس احساس کو ختم کردینے کے لیے کافی ہے جس کی مشرقی عورتوں سے توقع کی جاتی ہے، خواہ وہ ڈاکٹری پردے ہی میں سیکھی جائے اور پڑھانے والی تمام خواتین ہی کیوں نہ ہوں۔ دوم ڈاکٹر بننے پر ایک خاتون کو مریضوں کے لواحقین سے روابط کی اس قدر ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے لیے غیر مردوں سے بات چیت پر قدغن لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب اس کے پیش نظر اگر ہم خواتین کو ڈاکٹر بننے سے روکتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے گھروں کی مریض خواتین کے ہر مرض کے علاج کے لیے مرد ڈاکٹروں کی خدمات کی ضرورت پڑے گی اور رائج الوقت نظریۂ حیات کے مطابق یہ تو اس سے بھی زیادہ معیوب سمجھا جائے گا۔
جناب عالی آپ مجھے یہ بتائیں کہ ان معاشرتی اور تمدنی اُلجھنوں کا اسلامی احکامات کی پابندی کرتے ہوئے کیا حل ہے؟
جواب: آپ کا دوسرا خط ملا۔ شادی کے معاملے میں آپ نے جو اُلجھن بیان کی ہے ،وہ اپنی جگہ درست ہی سہی،اس کا حل کورٹ شپ کے سوا اور کیا ہے؟ظاہر ہے کہ جس تفصیل کے ساتھ رفیق زندگی بنانے سے پہلے لڑکی اورلڑکے کو ایک دوسرے کے اوصاف،مزاج، عادات،خصائل اور ذوق وذہن سے واقف ہونے کی ضرورت آپ محسوس کرتے ہیں، ایسی تفصیلی واقفیت دو چار ملاقاتوں میں،اور وہ بھی رشتہ داروں کی موجودگی میں حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے مہینوں ایک دوسرے کے ساتھ ملنا، تنہائی میں بات چیت کرنا، سیر تفریح، سفر میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا اور بے تکلف دوستی کی حد تک تعلقات پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ کیا واقعی آپ یہی چاہتے ہیں کہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان اس اختلاط کے مواقع بہم پہنچنے چاہییں۔ آپ کے خیال میں ان جوان لڑکوں اور لڑکیوں کے اندر ان معصوم فلسفیوں کا فی صدی تنا سب کیا ہوگا جو بڑی سنجیدگی کے ساتھ صرف رفیق زندگی کی تلاش میں مخلصانہ تحقیقاتی روابط قائم کریں گے اور اس دوران میں شادی ہونے تک اس طبعی جذب وانجذاب کو قابو میں رکھیں گے جو خصوصیت کے ساتھ نوجوانی کی حالت میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے لیے اپنے اندر رکھتے ہیں؟بحث برائے بحث اگر آپ نہ کرنا چاہتے ہوں تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ شاید دو تین فی صدی سے زیادہ ایسے لوگوں کا اوسط ہماری آبادی میں نہ نکلے گا۔ باقی اس امتحانی دور ہی میں فطرت کے تقاضے پورے کرچکے ہوں گے، اور وہ دو تین فی صدی جو اس سے بچ نکلیں گے،وہ بھی اس شبہہ سے نہ بچ سکیں گے کہ شاید وہ باہم ملوث ہو چکے ہوں۔
پھر کیا یہ ضروری ہے کہ ہر لڑکا اور لڑکی جو اس تلاش وتحقیق کے لیے باہم خلا ملا کریں گے ،وہ لازماًایک دوسرے کو رفاقت کے لیے منتخب ہی کرلیں گے؟ ہوسکتا ہے کہ 20 فی صدی دوستیوں کانتیجہ نکاح کی صورت میں برآمد ہو۔80 فی صدی یا کم ازکم 50 فی صدی کو دوسرے یا تیسرے تجربے کی ضرورت لاحق ہوگی۔ اس صورت میں ان ’’تعلقات‘‘ کی کیا پوزیشن ہوگی جو دوران تجربہ میں آئندہ نکاح کی اُمید پرپیدا ہوگئے تھے اوران شبہات کے کیا اثرات ہوں گے جو تعلقات نہ ہونے کے باوجود ان کے متعلق معاشرے میں پیدا ہوجائیں گے۔
پھر آپ یہ بھی مانیں گے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے ان مواقع کے دروازے کھولنے کے بعد انتخاب کا میدان لامحالہ بہت وسیع ہوجائے گا ۔ایک ایک لڑکے کے لیے صرف ایک ہی لڑکی مطمح نظر نہ ہوگی جس پر وہ اپنی نگاہ انتخاب مرکوز کرکے تحقیق وامتحان کے مراحل طے کرے گا، اورعلیٰ ہذا القیاس لڑکیوں میں سے بھی ہر ایک کے لیے ایک ہی ایک لڑکا امکانی شوہرکی حیثیت سے زیر امتحان نہ ہو گا۔ بلکہ شادی کی منڈی میں ہر طرف ایک سے ایک جاذب نظر مال موجود ہوگا جو امتحانی مراحل سے گزرتے ہوئے ہر لڑکے اور لڑکی کے سامنے بہتر انتخاب کے امکانات پیش کرتا رہے گا۔ اس وجہ سے اس امر کے امکانات روز بروز کم ہوتے جائیں گے کہ ابتداء ً جو دو فرد ایک دوسرے سے آزمائشی ملاقاتیں شروع کریں، وہ آخر وقت تک اپنی اس آزمائش کو نباہیں اور بالآخر ان کی آزمائش شادی پر منتج ہو۔
اس کے علاوہ یہ ایک فطری امر ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ جو رومانی طرز کا کورٹ شپ کرتے ہیں، ان میں دونوں ایک دوسرے کو اپنی زندگی کے روشن پہلو ہی دکھاتے ہیں۔ مہینوں کی ملاقاتوں اور گہری دوستی کے باوجود ان کے کمزور پہلو ایک دوسرے کے سامنے پوری طرح نہیں آتے۔اس دوران میں شہوانی کشش اتنی بڑھ چکی ہوتی ہے کہ وہ جلدی سے شادی کرلینا چاہتے ہیں،اور اس غرض کے لیے دونوں ایک دوسرے سے ایسے ایسے پیمانِ وفا باندھتے ہیں،اتنی محبت اور گرویدگی کا اظہار کرتے ہیں کہ شادی کے بعد معاملات کی زندگی میں وہ عاشق ومعشوق کے اس پارٹ کو زیادہ دیر تک کسی طرح نہیں نباہ سکتے،یہاں تک کہ جلدی ہی ایک دوسرے سے مایوس ہوکر طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔کیوں کہ دونوں اِ ن توقعات کو پورا نہیں کرسکتے جو عشق و محبت کے دور میں انھوں نے باہم قائم کی تھیں اور دونوں کے سامنے ایک دوسرے کے وہ کمزور پہلو آجاتے ہیں جو معاملات کی زندگی ہی میں ظاہر ہوا کرتے ہیں۔عشق ومحبت کے دور میں کبھی نہیں کھلتے۔
اب آپ ان پہلوئوں پر بھی غور کرکے دیکھ لیں۔پھر آپ مسلمانوں کے موجودہ طریقے کی مزعومہ قباحتوں اور اس کورٹ شپ کے طریقے کی قباحتوں کے درمیان موازنہ کرکے خود فیصلہ کریں کہ آپ کو ان دونوں میں سے کون سی قباحتیں زیادہ قابل قبول نظر آتی ہیں۔اگر اس کے بعد بھی آپ کورٹ شپ ہی کو زیادہ قابل قبول سمجھتے ہیں تو مجھ سے بحث کی ضرورت نہیں ہے۔آپ کو خود یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس اسلام کے ساتھ آپ اپنا تعلق رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں جو اس راستے پر جانے کی اجازت دینے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہے۔یہ کام آپ کو کرنا ہو تو کوئی دوسرا معاشرہ تلاش کریں۔ اسلام سے سرسر ی واقفیت بھی آپ کو یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس دین کی حدود میں’’کامیاب شادی‘‘ کا وہ نسخہ استعمال کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے جسے آپ مباح کرنا چاہتے ہیں۔
عورتوں کی تعلیم کے متعلق آپ نے جن مشکلات کا ذکر کیا ہے ،ان کے بارے میں بھی کوئی راے قائم کر نے سے پہلے آپ اس بات کو سمجھ لیں کہ فطرت نے عورت اور مرد کے دائرۂ کار الگ رکھے ہیں۔اپنے دائرۂ کار کے فرائض انجام دینے کے لیے عورت کو جس بہتر سے بہتر تعلیم کی ضرورت ہے،وہ اسے ضرور ملنی چاہیے اور اسلامی حدود میں وہ پوری طرح دی جاسکتی ہے۔اسی طرح عورت کے لیے ایسی علمی وذہنی ترقی بھی ان حدود کے اندر رہتے ہوئے ممکن ہے جو عورت کو اپنے دائرۂ کار کے فرائض انجام دیتے ہوئے حاصل ہوسکتی ہے۔اس معاملے میں کوئی انتظامات نہ کرنا مسلمانوں کی کوتاہی ہے نہ کہ اسلام کی۔لیکن وہ تعلیم جو مرد کے دائرۂ کار کے لیے عورت کو تیار کرے،عورت ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے تباہ کن ہے اور اس کی کوئی گنجائش اسلام میں نہیں ہے۔ اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے آپ میری کتاب’’ پردہ ‘‘ کو بغور ملاحظہ فرمائیں۔
(ترجمان القرآن،جنوری 1961ء)
لفظ نکاح کا اصل مفہوم
سوال: ترجمان القرآن مارچ1962ء میں تفہیم القرآن کے تحت آپ نے جو احکام مستنبط فرمائے ہیں،ان میں سے پہلے ہی مسئلے میں آپ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ’’ قرآن نکاح کا لفظ بول کر صرف عقد مراد لیتا ہے‘‘یا قرآن اسے اصطلاحاً صرف ’’عقد کے لیے استعمال کرتا ہے۔‘‘ یہ قاعدۂ کلیہ نہ صرف یہ کہ ہمارے ہاں کے غالب فقہی مسلک یعنی حنفیہ کے نزدیک ناقابل تسلیم ہے بلکہ جمہور اہل تفسیر کی تصریحات کے بھی منافی ہے۔تعجب ہے کہ ایک ایسی بات جس کے حق میں شاید ہی کسی نے راے دی ہو،آپ نے قاعدۂ کلیہ کے طور پر بیان فرما دی ہے۔
جواب: یہ ایک لمبی بحث ہے کہ لغت کے اعتبار سے نکاح کے معنی کیا ہیں۔علمائے لغت میں اس امر پر بہت کچھ اختلاف ہوا ہے کہ عربی زبان میں نکاح کے اصل معنی کیا ہیں۔ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ لفظ وطیٔ اور عقد کے درمیان لفظاً مشترک ہے۔دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ ان دونوں میں معنیً مشترک ہے۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ اس کے اصل معنی عقد تزویج کے ہیں اور وطیٔ کے لیے اس کو مجازاً استعمال کیا جاتا ہے۔ چوتھا گروہ کہتا ہے کہ اس کے اصل معنی وطیٔ کے ہیں اور عقد کے لیے مجازاً استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن راغب اصفہانی نے پورے زور کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’لفظ نکاح کے اصل معنی عقد ہی کے ہیں۔ پھر یہ لفظ استعارتاً جماع کے لیے استعمال کیا گیا ہے، اور یہ بات محال ہے کہ اس کے اصل معنی جماع کے ہوں اور استعارے کے طور پر اسے عقد کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔‘‘ اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ جتنے الفاظ بھی جماع کے لیے عربی زبان میں،یا دنیا کی کسی دوسری زبان میں حقیقتاً وضع کیے گئے ہیں وہ سب فحش ہیں۔ کوئی شریف آدمی کسی مہذب مجلس میں ان کو زبان پر لانا بھی پسند نہیں کرتا۔ اب آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ جو لفظ حقیقتاً اس فعل کے لیے وضع کیا گیا ہو،اسے کوئی معاشرہ شادی بیاہ کے لیے مجاز واستعارہ کے طور پر استعمال کرے۔ اس معنی کو ادا کرنے کے لیے تو دنیا کی ہر زبان میں مہذب الفاظ ہی استعمال کیے گئے ہیں نہ کہ فحش الفاظ۔
علمائے احناف بالعموم یہ راے ظاہر کرتے ہیں کہ یہ لفظ حقیقتاً وطیٔ کے لیے اور مجازاًعقد کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔لیکن یہ احناف کی متفق علیہ راے نہیں ہے۔بعض مشائخ حنفیہ اس لفظ کو وطیٔ اور عقد کے درمیان مشترک معنوی بھی قرار دیتے ہیں۔ پھر نکاح کی شرعی تعریف تو ان کے ہاں یہی ہے کہ عَقْدٌ يُفِيدُ مِلْكَ الْمُتْعَةِ{ [ایسا عقد جو جنسی تعلق کے لیے مفید ہو] الحصکفی، محمد بن علی، الدر المختار شرح تنویر الابصار، بیروت، دارالفکر، کتاب النکاح، ج3،ص3
} یا عَقْدٌ وُضِعَ لِتَمْلِيكِ مَنَافِعِ الْبُضْعِ{ [ایساعقد جو جنسی منافع کی تملیک کے لیے کیا گیا ہو] بابرتی، العنایۃ شرح الھدایۃ، کتاب النکاح، ج3، ص187 }
میرے نزدیک قرآن وسنت میں نکاح ایک اصطلاحی لفظ ہے جس سے مراد لازماً عقد تزویج ہی ہے، اور جب یہ لفظ مطلقاً استعمال ہوگا تو اس سے مراد عقد ہی لیا جائے گا، اِلاّ یہ کہ کوئی قرینہ اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ یہاں مراد محض وطیٔ یا عقد مع الوطیٔ ہے۔ رہی وطیٔ بلا عقد، تو اس کے لیے لفظ نکاح کے استعمال کا جواز لغت میں تو ہوسکتا ہے لیکن قرآن وسنت میں اس کی کوئی مثال میرے علم میں نہیں ہے۔ آ پ کے علم میں ہو تو پیش فرمائیں۔
(اس کے جواب میں سائل نے فقہ کی بعض کتابوں سے مفصل عبارتیں نقل کر کے بھیجیں۔ اس پر ان کو حسب ذیل جواب دیا گیا)۔(م)
افسوس ہے کہ کسی مسئلے پر زیادہ طویل بحث کی فرصت مجھے میسر نہیں، تاہم میں اجمالاً ایک بار پھر اپنے ’’مدعاً‘‘ کی وضاحت کیے دیتا ہوں۔اس کے بعد بھی اطمینان نہ ہو تو مضائقہ نہیں۔ آپ اپنی راے پر قائم رہ سکتے ہیں اور میں اپنی راے پر۔
نکاح سے مراد عقد اور وطیٔ بعد عقد لینے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے،اختلاف صرف اس امر میں ہے کہ آیا اس سے مراد وطیٔ بغیر عقد بھی لی جاسکتی ہے؟اس چیز کے ماننے میں مجھے تأمل ہے،کیوں کہ شرعاً اس کے لیے زنا اور سفاح وغیرہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور اس قبیح فعل پر لفظ نکاح کا اطلاق جائز تسلیم کرنے کے لیے ان دلائل سے زیادہ قوی دلائل کی ضرورت ہے جو آپ نے نقل فرمائے ہیں۔
یہ بات بھی قابل تسلیم نہیں ہے کہ نکاح کا لفظ اصلاً فعل مباشرت کے لیے وضع ہوا تھا اور پھر مجازاً عقد کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ فعل مباشرت کے لیے دنیا کی جس زبان میں بھی کوئی لفظ وضع ہوا ہے(یعنی جو استعارہ وکنایہ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ صراحتًا اسی فعل کے لیے موضوع ہے) وہ قبیح وشنیع ہے اور کسی زبان میں بھی اس کو عقد کے لیے مجازاً استعمال نہیں کیا گیا ہے۔اُردو زبان میں اس فعل کے لیے جو لفظ مستعمل ہے،اسے آخر کون شخص بیاہ کے لیے استعمال کرتا ہے۔
خود آپ کے پیش کردہ حوالوں سے بھی یہ ثابت ہے کہ لفظ نکاح کے اصل معنی ضم کے ہیں۔ اب کیا یہ بات ماننے کے لائق ہے کہ یہ لفظ اصلاً مجرد فعل مباشرت کے لیے( بلالحاظ اس کے کہ عقد ہو یا نہ ہو) وضع ہوا تھا؟
بلاشبہہ ایسی مثالیں لغت میں ملتی ہیں جن میں یہ لفظ محض مباشرت کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس لفظ کا اصل مفہوم مباشرت ہے اور عقد کے لیے یہ مجازاً استعمال کیا گیا ہے۔
قرآن اور حدیث سے جو مثالیں آپ نے دی ہیں، ان پر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں سے ایک بھی ایسی نہیں ہے جس کی دوسری تأویل ممکن نہ ہو۔ مثلاً میں زنا سے حرمت مصاہرت کا قائل ہوں۔ مگر میرے نزدیک قرآن کی آیت ﴿وَلَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَاۗؤُكُمْ﴾ {[اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمھارے باپ نکاح کر چکے ہوں] } (النسائ 4:22 )کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ’’جن عورتوں سے تمھارا باپ زنا کرچکا ہو، ان سے تم نہ زنا کرو اور نہ عقد۔‘‘ بلکہ میں اس کا مطلب یہی لیتا ہوں کہ جن عورتوں سے باپ کا نکاح ہوچکا ہو،ان سے اولاد کا نکاح نہیں ہوسکتا۔البتہ اس سے بالتبع یہ حکم بھی نکلتا ہے کہ باپ سے جس عورت کا بھی شہوانی تعلق کسی طرح ہوگیا ہے،وہ بیٹے پر حرام ہے اور بیٹے کا تعلق جس عورت سے ہوگیا ہے، وہ باپ پر حرام ہے۔ نَا كِحُ اليَدِ مَلْعُونٌ{[ضعیف] البانی، محمد ناصر الدین، سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ و أثرھا السیئی فی الأمۃ، الریاض، دارالمعارف، 1992م، حدیث4851 } میں بھی] بفرضِ تسلیم[ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حضورﷺ نے استعارے کی زبان میں اِسْتِمْنَائ بِالْیَدِ کرنے والے کو ایسے شخص سے تشبیہ دی ہے جو اپنے ہی ہاتھ سے بیاہ کررہا ہے۔ایسی ہی تأویل دوسرے نظائر کی بھی کی جاسکتی ہے۔
(ترجمان القرآن، ستمبر 1962ء)
عورت کی عصمت وعفت کا مستقبل
سوال: مارننگ نیوز] کراچی[ کی ایک کٹنگ ارسال خدمت ہے۔اس میں انگلستان کی عدالت طلاق کے ایک سابق جج سر ہربرٹ ولنگٹن نے ایک مکمل بیوی کی خصوصیات بیان کی ہیں۔اس کٹنگ کا ترجمہ یہ ہے:
’’رومن کیتھولک عدالت طلاق کے سابق جج سرہربرٹ ولنگٹن نے اپنے ایک فیصلے میں ایک مکمل بیوی کی چودہ خصوصیات گنائی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: صوری کشش،عقل مندی، محبت، نرم خوئی، شفقت، خوش اطواری، جذبۂ تعاون، صبر وتحمل، غور وفکر، بے غرضی، خندہ روئی، ایثار، کام کی لگن اور وفا داری۔
سرہربرٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ تمام خصوصیات ان کی دوسری بیوی میں موجود تھیں جس سے انھوں نے اگست 1945ء میں اپنی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد شادی کی تھی۔سرہربرٹ جنھوں نے اپنی عدالت میں سیکڑوں ناکام شادیوں کو فسخ کیا ہے،86برس کی عمر پاکر جنوری1962ء میں وفات پا گئے ہیں۔‘‘
اس کٹنگ سے واضح ہوتا ہے کہ سرہربرٹ نے عفت یا پاک دامنی جیسی خوبی کو اِ ن چودہ نکاتی فہرست میں برائے نام بھی داخل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔گویا اب پاک دامنی کا شمار عورت کی خوبیوں میں نہیں کیا جاتا۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک عورت پاک دامنی کے بغیر کس طرح خاوند کی وفا دار رہ سکتی ہے؟
جواب: آپ کا عنایت نامہ ملا جس کے ساتھ آپ نے انگلستان کی ایک عدالت طلاق کے جج کی وصیت ارسال کی ہے اور مجھے اس پر اظہار خیال کی دعوت دی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اہل مغرب کے ہاں سے یہ تخیل اب قریب قریب ختم ہی ہوچکا ہے کہ پاک دامنی بھی عورت کی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے۔ اختلاط مرد وزن کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ ان کے ہاں بدکاری بڑھتی چلی گئی، یہاں تک کہ معاشرے کو اب اس کے رواج عام سے اپنے آپ کو مانوس کرنا پڑا۔اب وہاں کوئی شخص بھی یہ توقع نہیں رکھتا کہ شادی کے روز اسے بیوی کنواری ملے گی اور شادی کے بعد بھی وہ باعفت اور وفا شعار رہے گی۔وہاں مرد بالعموم کورٹ شپ کے دوران میں خود اپنی ہونے والی بیوی سے زنا کرچکا ہوتا ہے اور اکثر شادی ہی اس وقت ہوتی ہے جب لڑکی حاملہ ہوجاتی ہے۔ اس حالت میں آخر آپ یہ توقع ہی کیسے کرسکتے ہیں کہ ان کے ہاں اب تک پاک دامنی عورت کی ایک محمود صفت اور بیو ی کی ایک لازمی خوبی سمجھی جاتی رہے۔
میں کہتا ہوں کہ ان کا کیا ذکر ہے ،ہمارے حکمران طبقوں اور اونچی سوسائٹی کے لوگوں کی بدولت اب جس رفتار سے ہمارے ہاں اختلا ط مرد وزن بڑھ رہا ہے اور خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے ضبط ولادت کے طریقوں کو جس طرح عام کیا جارہا ہے ،اس کو دیکھتے ہوئے خود ہمارے ہاں یہی حالات پیدا ہوتے نظر آتے ہیں۔ خدا ان لوگوں کو یا تو ہدایت دے یا پھر ہماری قوم کو ان سے نجات دے جو خود بگڑے ہیں اور ساری قوم کو بگاڑ دینے پر تلے ہوئے ہیں۔
(ترجمان القرآن، ستمبر1962ء)
بیوی اور والدین کے حقوق
سوال: میں نے آپ کی کتابیں پڑھی ہیں،جن سے ذہن کی بہت سی گرہیں کھل گئی ہیں۔ لیکن ایک چیز جو پہلے بھی دل میں کھٹکتی تھی اور اب بھی کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے جہاں عورتوں کا درجہ کافی بلند کیا ہے،وہاں بحیثیت بیو ی کے بعض اُمور میں اس کو حقیر بھی کردیا ہے۔ مثلاًاس پر تین تین سوکنوں کا جلاپا جائز کردیا ہے، حالاں کہ قدرت نے عورت کی فطرت میں حسد بھی رکھا ہے۔ اسی طرح جہاں بیوی کو شوہر کے قبضہ واختیار میں رکھا گیا ہے،وہاں شوہر کو اپنے والدین کے قبضہ واختیار میں کردیا ہے۔ اس طرح شوہر والدین کے کہنے پر بیوی کی ایک جائز خواہش کو بھی پامال کرسکتا ہے۔ان اُمور میں بظاہر بیوی کی حیثیت چار پیسے کی گڑیا سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ میں ایک عورت ہوں اور قدرتی طور پر عورت کے جذبات کی ترجمانی کررہی ہوں۔ آپ براہِ کرم اس بارے میں میری تشفی فرمائیں؟
جواب: آپ نے دو وجوہ کی بِنا پر یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ عورت کی پوزیشن خانگی زندگی میں فروتر رکھی گئی ہے۔ایک یہ کہ مرد کو چار چارشادیاں کرنے کی اجازت ہے ،دوسرے یہ کہ شوہر کو والدین کا تابع رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات وہ اپنی بیوی کے جذبات اور اس کی خواہشات کو والدین کی رضا پر قربان کردیتا ہے۔ان وجوہ میں سے پہلی وجہ پر اگر آپ غور کریں تو یہ بات بہت آسانی کے ساتھ آپ کی سمجھ میں آسکتی ہے کہ عورت کے لیے تین سوکنوں کا برداشت کرنا جتنا تکلیف دہ ہے، اس سے بدرجہ ہا زیادہ تکلیف دہ چیز اس کے لیے یہ ہوسکتی ہے کہ اس کے شوہر کی کئی کئی محبوبائیں اور داشتائیں ہوں۔اسلام نے اسی کو روکنے کے لیے مرد کو ایک سے زائد نکاح کرنے کی اجازت دی ہے۔ایک مرد ناجائز تعلقات میں جتنا بے باک ہوسکتاہے،شادیاں رچانے میں اتنانہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ شادی کی صورت میں مرد کی ذمہ داریوں میںاضافہ ہوتا ہے اور طرح طرح کی پیچیدگیوں سے اسے سابقہ پیش آتا ہے۔یہ دراصل عورتوں ہی کے فائدے کے لیے ایک روک تھام ہے نہ کہ مردوں کے لیے بے جا رعایت۔ دوسرے طریقے کا تجربہ آج کل مغرب کی سوسائٹی کررہی ہے ۔وہاں ایک طرف تو جائز سوکنوں کا سد باب کردیا گیا ہے لیکن دوسری طرف ناجائز سوکنوں سے عورت کو بچانے کا کوئی انتظام اس کے سوا نہیں کیا گیا کہ وہ انھیں برداشت نہ کرسکے تو شوہر سے طلاق حاصل کرنے کے لیے عدالت میں نالش کردے۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اس سے عورت کی مصیبت کچھ کم ہوگئی ہے؟ چھڑی چھٹانک عورت تو شاید سوکن سے بچنے کے لیے طلاق کو آسان سمجھ لے مگر کیا بچوں والی عورت کے لیے بھی یہ نسخہ آسان ہے؟
دوسری جس شکایت کا اظہار آپ نے کیا ہے،اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ غالباً آپ ابھی تک صاحب اولاد نہیں ہیں،یا اگر ہیں تو آپ کے کسی لڑکے کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے۔آپ اس خاص معاملے کو ابھی تک صرف بہو کے نقطۂ نظر سے دیکھ رہی ہیں۔ جب آپ اپنے گھر میں خود بہو لے آئیں گی اوراس معاملے پر ماں کی حیثیت سے غو رکریں گی تو یہ مسئلہ اچھی طرح آپ کی سمجھ میں آجائے گا کہ بیوی کے حقوق کتنے ہونے چاہییں اور ماں باپ کے کتنے، بلکہ اس وقت شاید آپ خود انھی حقوق کی طالب ہوں گی جن پر آج آپ کو اعتراض ہے۔
(ترجمان القرآن ، نومبر 1956ء)
قرآن میں زنا کی سزا
سوال : آ پ نے میرے مضمون’’قرآن میں چور کی سزا‘‘ پر جو اظہارخیال فرمایا ہے،اُس کے لیے شکریہ۔اب اسی قسم کا ایک اور مضمون’’ قرآن میں زنا کی سزا‘‘ کے عنوان سے بھیج رہا ہوں۔میری استدعا ہے کہ آپ اِ س پر بھی اظہار خیال فرمائیں۔ اگر خدا کو منظور ہوا تو جناب کی دونوں تنقیدوں کا یک جا جواب دوں گا۔
یہاں سرسری طور پر اس قدر گزارش کرنا ضروری ہے کہ آپ نے میری اس تشریح کے بارے میں نکتہ چینی نہیں فرمائی کہ قرآن نے جو سزا بیان کی ہے،وہ زیادہ سے زیادہ سزا ہے،اور کم سے کم سزا جج کی قوت تمیزی پر منحصر ہے۔ اور نہ اس بارے میں کچھ فرمایا کہ دنیا میں کسی جرم کی سزامجرم کو آخرت کی سزا سے محفوظ رکھتی ہے۔
نوٹ: مستفسر کے محولہ بالا مضمون کے چند ضروری اقتباسات درج ذیل ہیں، تاکہ ان کی روشنی میں جواب کو دیکھا جاسکے۔
’’ہم اپنے سابقہ مضمون (قرآن میں چور کی سزا) میں بتلاچکے ہیںکہ سارقہ سے مراد سرقہ کے تمام مددگار لوگ ہیں،خواہ وہ مؤنث ہوں یا مذکر، اور خود عورت اگر چور ہے تو وہ لفظ سارق میں بھی داخل ہے اور سارقہ بھی ہے۔یہاں بھی(آیت اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ میں) وہی کیفیت ہے۔زانیہ میں فعل زنا کے تمام مددگار لوگ شامل ہیں،خواہ وہ دلال ہوں،دلالہ ہوں یا پیغام رساں ہوں،یا زانیوں کے لیے آسانیاں فراہم کرنے والے،یا زنا کے مفعول ہوں،وغیرہ وغیرہ…‘‘
’’چور کی سزا کو بیان کرتے ہوئے’’سارقہ‘‘ کو سارق کے بعد لایا گیا تھا،آخر کوئی وجہ ہونی چاہیے کہ یہاں زانیہ کو زانی سے پہلے لایا گیا۔ہمیں جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ چوری کے جرم میں بڑا مجرم چور ہوتا ہے اور اُس کے مددگار بعد میں،مگر زنا کی صورت میں زنا کے مددگار(یعنی زانیہ) زانی سے مقدم ہیں،کیوں کہ ان کی امداد اور رضا مندی کے بغیر فعل زنا واقع ہی نہیں ہوسکتا،اس واسطے اسے پہلے لایا گیا۔‘‘
’’قرآن نے زنا کی دو سزائیں بیان کی ہیں،ایک یہ کہ زانیوں کو100کوڑے مارے جائیں اور دوسری یہ کہ ان کا مقاطعہ(بروے آیت﴿ اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَۃً﴾ (النور24:3) کردیا جائے۔ یعنی ان کو مومنین کی جماعت سے علیحدہ کرکے یہ اجازت نہ دی جائے کہ وہ توبہ کیے بغیر مومنین کے اندر نکاح کریں‘‘… ’’قرآن میں دیگر احکام کی رو سے مومن کا مشرکہ کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور یہاں اس کے خلاف ہے۔سو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں مشرک اور مشرکہ اپنے لغوی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں، یعنی مشرکہ وہ عورت ہے جو اپنے خاوند کے ساتھ کسی دوسرے کو حظ اُٹھانے میں شریک کرے، اور مشرک وہ مرد ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر عورت کوحظ حاصل کرنے میں شریک کرے۔‘‘
’’پس زانیہ اور مشرکہ کے معنی میں فرق ہے۔مشرکہ شوہر دار زانیہ ہے اور زانیہ وہ مرد یا عورت ہے جو فعل زنا میں کسی دوسرے کی مدد کرے۔اپنے آپ کو مفعول بنانے سے یا کسی دوسری طرح۔اسی طرح زانی اور مشرک میں فرق ہے۔زانی عام ہے،خواہ اس کی بیوی ہو یا نہ ہو۔اور مشرک وہ زانی ہے جس کی بیوی ہو‘‘…’’ جو عالم صاحبان ہمارے اس قول کو نہیں مانتے وہ زانی کے لیے صرف ایک ہی سزا تجویز کریں گے،یعنی سو(100) کوڑے۔ دوسری سزا مقاطعہ ان کے ہاں کوئی سزا نہ ہوگی‘‘… ظاہر ہے کہ یہ سو کوڑے انتہائی سزا ہے۔ہم نے اپنے مضمون (قرآن میں چور کی سزا) کے اندر لکھا تھا کہ چور کی سزا ہاتھ کاٹنا انتہائی سزا ہے،کم سے کم سزا جج کی قوت تمیزی پر منحصر ہے‘‘
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اسلام کی تعزیرات کی کتاب یعنی قرآن مجید اس قاعدے کے خلاف سب مجرموں کے لیے ایک ہی سزا تجویز کرے اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکے،حالاں کہ ہر ایک مجرم کے حالات مختلف ہوتے ہیں جن پر جرم کی شدت اور خفت کا دارومدار ہوتا ہے‘‘…’’یہی وجہ ہے کہ خلفائے اربعہ اور خود رسول اکرم ﷺ نے زنا کی انتہائی حالتوں میں 100کوڑوں کی سزا کو ناکافی خیال کرکے مجرمین کو رجم کی سزا دی،یعنی فتواے موت صادر کیا۔‘‘
’’ہمارے زمانے میں رجم جائز ہے یا نہ؟ کم ازکم اتنا تو معلوم ہے کہ قرآن میں رجم کا کوئی ذکر نہیں۔اور جب حالت یہ ہے تو اُسے کیوں ایک منسوخ التلاوۃ اور قائم الحکم آیت کی بنا پر زیر بحث لایا جائے‘‘… البتہ عقل اس امر سے بغاوت کرتی ہے کہ بیٹی یا بھتیجی کے ساتھ زنا کرنے والے کو زندہ رہنے دیا جائے۔اس لیے اگر بعض مخصو ص حالتوں میں زانی کے خلاف موت کا فتویٰ صادر کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ مگر وہ صرف فتواے موت ہو،فتواے رجم نہ ہو، کیوں کہ رجم آج کل کے تمدن کے خلاف ہے اور کوئی انسانی طبیعت رجم کو گوارا نہیں کرسکتی‘‘…’’ اس بات کو نظر انداز نہ کرنا چاہیے کہ زنا اور چوری کے جرموں کی سزا میں ایک بنیادی فرق ہے۔وہ یہ ہے کہ چور کو توبہ کرنے کا موقع سزا سے قبل دیا گیا ہے اور زانی کو سزا کے بعد دیا۔(آیت ﴿ اِلَّا الَّذِیْنَ تَاُبْوا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ…﴾ الخ) یہاں ذلک کا اشارہ سزا کی طرف ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ زانی کسی صورت میں حد سے بری نہیں ہوسکتا مگر چو رتوبہ کرکے حد سے بری ہوسکتا ہے،بشرطیکہ قاضی قبول کرلے۔‘‘
جواب: عنایت نامہ مع مضمون’’قرآن میں زنا کی سزا‘‘ پہنچا۔ آپ کے پہلے مضمون اور اس دوسرے مضمون کو بغور پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں، (اور میرے اس اظہار خیال پر آپ برا نہ مانیں) کہ آپ آیات قرآن کی تأویل وتفسیر اور احکام شرعیہ کی تشریح میں وہ احتیاط ملحوظ نہیں رکھتے جو ایک خدا ترس آدمی کو ملحوظ رکھنی چاہیے۔اگر آپ میری نصیحت مانیں تو میں دو باتیں بطور اُصول کے آپ کو بتا دوں۔ایک یہ کہ آپ بطور خود اپنے نظریات قائم کرکے قرآن و سنت سے ان کے حق میں دلائل ڈھونڈنے کا طریقہ چھوڑ دیں اور اس کے بجائے قرآن و سنت سے جو تعلیم ملے اس کے مطابق نظریات قائم کیا کریں۔ دوسرے یہ کہ قرآن وسنت سے کسی مسئلے کا استنباط کرتے وقت سلف کے مجتہدین ومفسرین ومحدثین کی تشریحات کو سرے سے نظر انداز نہ کردیا کریں۔ آپ کو اختیار ہے کہ ان میں سے ایک کی راے کو چھوڑ کر دوسرے کی راے قبول کرلیں، لیکن ان میں سے کسی ایک کا آپ کے ساتھ رہنا اس سے بہتر ہے کہ آپ ان سب سے الگ اپنا مستقل مذہب بنائیں۔ تفرد صرف اس صورت میں جائز ہوسکتا ہے جب کہ آپ قرآن وسنت کے گہرے مطالعے سے اعلیٰ درجے کی محققانہ بصیرت بہم پہنچا چکے ہوں( جس کی علامات آپ کی تحریروں میں مجھے نظر نہیں آتیں)، اور جس مسئلے میں بھی آپ اپنی متفرد راے ظاہر کریں،اس میں آپ کے دلائل نہایت مضبوط ہوں۔ان دو باتوں کو اگر آپ ملحوظ خاطر رکھیں گے تو مجھے امید ہے کہ اس طرح کی غلطیوں سے محفوظ رہیں گے جو میں نے آپ کے مضامین میں پائی ہیں۔
میرے لیے آپ کے مضامین پر مفصل تنقید کرنا تو مشکل ہے،البتہ جو نمایاں غلطیاں میں بیک نظر دیکھ سکا ہوں،انھیں بیان کیے دیتا ہوں:
(1)آپ کا یہ قول ایک حد تک صحیح ہے کہ قرآن میں چوری اور زنا کی جو سزا بیان کی گئی ہے،وہ انتہائی سزا ہے،کم سے کم سزا جج کے اختیار تمیزی پر موقوف ہے۔لیکن اس سے بڑی غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے۔اس کے ساتھ اس بات کی تصریح بھی ضروری ہے کہ جب زنا کے لیے وہ شہادت بہم پہنچ جائے جو شرعاًضروری ہے،اور جب شرعی قواعد کے مطابق چوری کا جرم ثابت ہوجائے تو پھر چوری اور زنا کی وہی حد جاری کرنی پڑے گی جو قرآن میں مقرر کردی گئی ہے۔اس صورت میں حد سے کم سزا دینے کا جج کو اختیار نہیں۔البتہ کم تر درجے کی چوریاں کمتر درجے کی سزائوں کے قابل ہوں گی،اور ثبوت زنا کے بغیر اگر کمتر درجے کے فواحش شہادت یا قرائن سے ثابت ہوں گے تو ان پر کم تر درجے کی سزائیں دی جاسکیں گی۔
(2)آپ نے اپنے اس مضمون میں بھی اپنی سابق غلطی کا اعادہ کیا ہے کہ الزانیۃ کے معنی’’فعل زنا کے مدد گار لوگ‘‘بیان کیے ہیں، اور اس سے مراد’’دلال،دلالہ،پیغام رساں اور زانی وزانیہ کے لیے آسانیاں بہم پہنچانے والے‘‘ لیے ہیں۔ قرآن صریح طور پر اس معنی سے ابا کرتا ہے۔جس آیت میں زانی وزانیہ کی سزا بیان کی گئی ہے،اُس میں الزانی سے پہلے الزانیۃ کا ذکر ہے اور پھر دونوں کے لیے ایک ہی سزا بیان کی گئی ہے کہ ﴿ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ﴾ ( النور 24:2 ) (دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو)لیکن آپ نے اس پر بھی اپنی راے کو قرآن کے مطابق بدلنے کے بجائے قرآن کے حکم کو اپنی راے کے مطابق بدلنے کی کوشش فرمائی۔ یہ بڑی بے جا جسارت ہے جس سے پرہیز واجب تھا۔
(3) مشرک اور مشرکہ کے جو معنی آپ نے بیان کیے ہیں(یعنی مشرکہ وہ عورت ہے جو اپنے خاوند کے ساتھ دوسرے کو حظ اُٹھانے میں شریک کرے اور مشرک وہ مرد ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر عورت کو حظ حاصل کرنے میں شریک کرے) یہ بالکل ہی ایک آزادانہ معنی آفرینی ہے جس کے لیے نہ لغت میں کوئی بنیاد پائی جاتی ہے،نہ اصطلاح میں،اور نہ کوئی قرینہ ہی ایسا موجود ہے جس کی بنا پر ایسے دوراز قیاس وگمان معنی لیے جاسکیں۔آیت﴿اَلزَّانِیْ لَایَنْکِحُ اِلاَّ زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃً…﴾ میں لَایَنْکِحُ سے مراد لَایَلِیْقُ بِہِ أَنْ یَنْکِحَ ہے۔یعنی زانی ایک ایسا بدکار ہے کہ وہ کسی عفیفہ مومنہ سے نکاح کرنے کے لائق نہیں ہے،اس کے لیے اگر موزوں ہوسکتی ہے تو ایک بدکار یا مشرکہ عورت ہی ہوسکتی ہے،اور زانیہ ایک ایسی فاسقہ وفاجرہ ہے کہ وہ کسی باعصمت مومن کے لیے موزوں نہیں ہے،وہ اگر نکاح کے لائق ہے تو ایک بدکار یا مشرک مرد کے لیے ہوسکتی ہے۔اس سے مقصود فعل زنا کی قباحت و شناعت واضح کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ صالح اہل ایمان کو معروف بالزنا مردوں اور عورتوں سے مناکحت کے تعلقات نہ قائم کرنے چاہییں۔
(4) یہ ایک عجیب بات میں نے دیکھی کہ آپ خود تسلیم فرما رہے ہیں کہ خلفائے اربعہ اور رسول اﷲ ﷺ نے زنا کی انتہائی حالتوںمیں(زانی محصن کی آپ تصریح نہیں کرتے)مجرمین کو رجم کی سزا دی ہے،مگر پھر بھی آپ یہ کہنے میں تأمل نہیں کرتے کہ ’’رجم آج کل کے تمدن کے خلاف ہے اور کوئی انسانی طبیعت رجم کو گوارا نہیں کرسکتی۔‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے ان الفاظ پر آپ خود اگر کبھی غورکریں گے تو آپ کو ندامت محسوس ہوگی۔کیا کوئی انسانی طبیعت رسول اﷲ ﷺ سے بھی زیادہ پاکیزہ اور رحیم وشفیق ہوسکتی ہے؟اور کیا ہم مسلمانوں کے لیے آج کل کا تمدن(ایٹم بم والا تمدن !)کوئی معیارِ حق ہے؟
یہ چند معروضات میں صرف اس لیے پیش کررہا ہوں کہ آپ نے خود مجھ کو اپنے مضامین پر تنقید کی دعوت دی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آپ جب اتنا بڑا دل رکھتے ہیں کہ تنقید کی خود دعوت دیتے ہیں تو آپ ضرور میری ان باتوں کو ٹھنڈے دل سے پڑھیں گے اور اگر حق معلوم ہوں گی تو قبول کریں گے۔
(ترجمان القرآن، جنوری،فروری 1951ء)
بالغ عورت کا اختیار ِنکاح
سوال: علمائے احناف اور علمائے اہل حدیث کے درمیان نکاح بالغہ بلا ولی کے مسئلے میں عام طور پر اختلاف پایا جاتا ہے۔احناف اس کے قائل ہیں کہ بالغہ عورت اپنا نکاح اولیا کے اذن کے بغیر یا ان کی خواہش کے علی الرغم جہاں چاہے کرسکتی ہے اور اس نکاح پر اولیا کو اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔اس کے برعکس اہل حدیث حضرات ایسے نکاح کو باطل اور کالعدم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نکاح بلاولی کی صورت میں بلاتأمل دوسرا نکاح کیا جاسکتا ہے۔فریقین کے دلائل، جہاں تک میرے سامنے ہیں، مختصراً پیش کرتا ہوں اور استدعا کرتا ہوں کہ آپ اس بارے میں اپنی تحقیق واضح فرمائیں۔
جواب: اس سوال کے ساتھ سائل نے پوری تفصیل کے ساتھ فریقین کے دلائل جمع کردیے ہیں، لہٰذا پہلے ہم ان دلائل کو یہاں نقل کردیتے ہیں:
(1) حنفیہ کا استدلال حسب ذیل آیات اور احادیث سے ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّعَشْرًا۰ۚ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا فَعَلْنَ فِيْٓ اَنْفُسِہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۰ۭ﴾ ( البقرہ 2:(234
(تم میں سے جو لوگ مرجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن روکے رکھیں،پھر جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو جو کچھ وہ اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے کریں،اُس کی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں)
﴿فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَہٗ۰ۭ﴾ )البقرہ 2:(230
(پھر اگر (تیسری بار شوہر نے بیوی کو) طلاق دے دی،تو وہ عورت اُس کے لیے حلال نہ ہوگی،الا یہ کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے)
﴿……فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۰ۭ﴾
(البقرہ 2:232)
(…پھر تم ان عورتوں کو اس سے مت روکو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرلیں جب کہ وہ بھلے طریقے سے باہم رضا مند ہوجائیں)
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْفَضْلِ، سَمِعَ نَافِعَ بْنَ جُبَيْرٍ، يُخْبِرُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الثَّيِّبُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ تُسْتَأْمَرُ، وَإِذْنُهَا سُكُوتُهَا…{ صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب استیذان الثیب فی النکاح بالنطق و البکر، حدیث 2546 } ( نافع ابن جبیر نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ شوہر دیدہ عورت اپنے ولی سے زیادہ خود اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کی حق دار ہے،اور کنواری کا مشورہ لیا جانا چاہیے اور اس کی اجازت اُس کی خاموشی ہے، اور ایک روایت میں ہے کہ بیوہ عورت اپنے ولی سے زیادہ اپنے نکاح کے معاملے میں حق دار ہے)
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: جَاءَتْ امْرَأَةٌ إلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إنَّ أَبِي أَنْكَحَنِي رَجُلًا، وَأَنَا كَارِهَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِيهَا: “لَا نِكَاحَ لَك، اِذْهَبِي، فَانْكِحِي مَنْ شِئْتِ { الزیلعی، جمال الدین، ابو محمد، عبداللہ بن یوسف، نصب الرایۃ لأحادیث الھدایۃ، بیروت، مؤسسۃ الریان، 1997م، کتاب النکاح، باب فی الأولیائ و الأکفائ، ج3، ص182 }(ابی سلمہ ابن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میرے باپ نے میرا نکاح ایک مرد سے کردیا ہے اور میں اُسے ناپسند کرتی ہوں۔آپ نے باپ سے فرمایا کہ نکاح کا اختیار تمھیں نہیں ہے، اور لڑکی سے فرمایا کہ جائو جس سے تمھارا جی چاہے نکاح کرلو)
رُوِيَ مِنْ طَرِيقِ مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا زَوَّجَتْ حَفْصَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مِنْ الْمُنْذِرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ غَائِبٌ بِالشَّامِ، فَلَمَّا قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ: وَمِثْلِي يُفْتَاتُ عَلَيْهِ؟! فَكَلَّمَتْ عَائِشَةُ الْمُنْذِرَ بْنَ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: إنَّ ذَلِكَ بِيَدِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: مَا كُنْت لِأَرُدَّ أَمْرًا قَضَيْتِه، فَاسْتَقَرَّتْ حَفْصَةُ عِنْدَ الْمُنْذِرِ، وَلَمْ يَكُنْ ذَلِكَ طَلَاقً{الزیلعی، جمال الدین، ابو محمد، عبداللہ بن یوسف، نصب الرایۃ لأحادیث الھدایۃ، بیروت، مؤسسۃ الریان، 1997م، کتاب النکاح، باب فی الأولیائ و الأکفائ، ج3، ص182 }
( مالک نے عبدالرحمن سے،انھوں نے اپنے باپ سے، اور انھوں نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے حفصہ بنت عبدالرحمن کا منذر ابن زبیر سے نکاح کردیا۔اُس وقت عبدالرحمن شام میں تھے۔جب وہ واپس آئے تو کہنے لگے کہ کیا میری راے کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟تب حضرت عائشہؓ نے منذر ابن زبیر سے بات کی۔انھوں نے کہا کہ فیصلہ عبدالرحمن کے ہاتھ میں ہے۔اس پر عبدالرحمن نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ جس معاملے کو آپ نے طے کردیا ہے،میں اُس کی تردید نہیں کرنا چاہتا۔چنانچہ حفصہ منذر کے پاس ہی رہیں اور یہ طلاق نہ تھی)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:’’ لَيْسَ لِلْوَلِيِّ مَعَ الثَّيِّبِ أَمْرٌ‘‘{سنن ابی داود، کتاب النکاح، باب فی الثیب، حدیث 2100}
ابو دائود اور نسائی نے (ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: شوہر دیدہ عورت پر ولی کو کچھ اختیار حاصل نہیں ہے)
عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: جَاءَتْ فَتَاةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي زَوَّجَنِي ابْنَ أَخِيهِ لِيَرْفَعَ مِنْ خَسِيسَتِهِ ، قَالَ: فَجَعَلَ الْأَمْرَ إِلَيْهَا. فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَجَزْتُ مَا صَنَعَ أَبِي، وَلَكِنْ أَرَدْتُ أَنْ تَعْلَمَ النِّسَاءُ أَنْ لَيْسَ إِلَى الْآ بَاءِ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ { سنن الدارقطنی، کتاب النکاح، حدیث 35552،صحیح، البانی، مشکاۃ المصابیح، حدیث 3131 }نسائی اور احمد نے (حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ ایک لڑکی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی: اے اﷲ کے رسول!میرے باپ نے اپنے بھتیجے کے ساتھ میرا بیاہ صرف اس لیے کردیا ہے کہ میرے ذریعے سے اُسے ذلت سے نکالے۔آپؐ نے نکاح (کی تنسیخ و استقرار) کا حق لڑکی کو دے دیا۔لڑکی نے کہا:میرے والد نے جو کچھ کیا ہے،میں اُسے جائز قرار دیتی ہوں،میری خواہش صرف یہ تھی کہ عورتیں جان لیں کہ باپوں کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے)
(۲) اہل حدیث حضرات اپنی تائید میں مندرجہ ذیل احادیث پیش کرتے ہیں:
عَنِ عَائِشَۃَ رَضِی اللّٰہ عَنْہَا اَخَبَرَتْہُ اَنَّ النَّبیَّ صلّیِ اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّم قال: ’’اَیَّما اِمْرأۃٍ نَکَحَتِ بِغَیْرِ إِذْنِ وَلِیّہِاَ فَنِکَاحُھَا باَطِلٌ… فَاِنِ اشْتَجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِّیٌ مَنْ لاَ وَلیَّ لَھَا‘‘{ مسند أحمد، مسند الصدیقۃ عائشۃ بنت الصدیق،حدیث 25326
}(حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو عورت بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے،اُس کا نکاح باطل ہے…پس اگر جھگڑا ہو تو جس عورت کا ولی نہ ہو تو سلطان اُس کا ولی ہے)
عن ابی موسیٰ اَنَّ النَبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نِکاَحَ إِلَّا بِوَلِیِّ { ایضاً، مسند الکوفیین، حدیث ابی موسیٰ الأشعری، حدیث 19746 }
( ابو موسیٰ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:ولی کے بغیر کوئی نکاح جائز نہیں ہے)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا { السنن الکبریٰ، باب لا نکاح الابولی، حدیث 13632 } (حضرت ابو ہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ ایک عورت دوسری عورت کی(ولی بن کر) نکاح نہ کرے،اور نہ کوئی عورت خود اپنا نکاح کرے)
قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَيُّمَا امْرَأَةٍ لَمْ يُنْكِحْهَا الْوَلِيُّ، أَوِ الْوُلَاةُ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ { ایضاً، حدیث 13637
}
(حضرت عمرؓ نے فرمایا: جس عورت کا نکاح ولی یا حکام نہ کریں،اُس کا نکاح باطل ہے)
عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ قَالَ: جَمَعْتُ الطَّرِيقَ رَكْبًا، فَجَعَلَتِ امْرَأَةٌ ثَيِّبٌ أَمْرَهَا بِيَدِ رَجُلٍ غَيْرِ وَلِيٍّ فَأَنْكَحَهَا، فَبَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَجَلَدَ النَّاكِحَ وَالْمُنْكِحَ، وَرَدَّ نِكَاحَهَا{ السنن الکبریٰ، باب لا نکاح الابولی، . حدیث 13639،ضعیف، البانی، ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار اسبیل، المکت الاسلامی، بیروت، حدیث1842
}(عکرمہ ابن خالد سے روایت ہے کہ ایک شوہر دید ہ عورت نے اپنا معاملہ ایک ایسے شخص کے سپرد کردیا جو اُس کا ولی نہ تھا، اور اُس شخص نے عورت کا نکا ح کردیا۔ حضرت عمرؓ کو ِ اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے نکاح کرنے اور کرانے والوں کو کوڑوں کی سزا دی اور نکاح منسوخ کردیا)
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذَنْ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، لَا نِكَاحَ إِلَّا بِإِذْنِ وَلِيٍّ { ایضاً، حدیث 13641 }
(حضرت علیؓ نے فرمایا: جس عورت نے بھی اپنے ولی کے اذن کے بغیر نکاح کیا،اُس کا نکاح باطل ہے۔بلا اجازت ولی کوئی نکاح نہیں)
عَنِ الشَّعْبِيِّ، أَنَّ عُمَرَ، وَعَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا وَشُرَيْحًا، وَمَسْرُوقًا رَحِمَهُمَا اللهُ، قَالُوا: ” لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ {ایضاً، حدیث 13642 }
(اما م شعبی سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ،حضرت عمرؓ، شریح اور مسروق نے فرمایا کہ ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہے)
ان دلائل پر ایک نگاہ ڈالنے سے ہی یہ محسوس ہوجاتا ہے کہ دونوں طرف کافی وزن ہے اور یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ فریقین میں سے کسی کا مسلک بالکل غلط ہے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شارع نے فی الواقع دو متضاد حکم دیے ہیں؟ یا ایک حکم دوسرے حکم کو منسوخ کرتاہے؟ یا دونوں حکموں کو ملا کر شارع کا منشا ٹھیک طور پر متحقق ہوسکتا ہے؟پہلی شق تو صریحاًباطل ہے، کیوںکہ شریعت کا پورا نظام شارع کی حکمت کاملہ پر دلالت کررہا ہے اور حکیم سے متضاد احکام کا صدور ممکن نہیں ہے۔دوسری شق بھی باطل ہے، کیوں کہ نسخ کا کوئی ثبوت یا قرینہ موجود نہیں ہے۔اب صرف تیسری ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور ہمیں اسی کی تحقیق کرنی چاہیے۔ میں دونوں طرف کے دلائل جمع کرکے شارع کا جو منشا سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے:
1۔ نکاح کے معاملے میں اصل فریقین مرد اور عورت ہیں نہ کہ مرد اور اولیاے عورت۔ اسی بِنا پر ایجاب وقبول ناکح اور منکوحہ کے درمیان ہوتا ہے۔
2۔ بالغہ عورت(باکرہ ہو یا ثیبہ) کا نکاح اُس کی رضا مندی کے بغیر یا اُس کی مرضی کے خلاف منعقد نہیں ہوسکتا،خواہ وہ نکاح کرنے والا باپ ہی کیوں نہ ہو۔ جس نکاح میں عورت کی طرف سے رضا نہ ہو،اس میں سرے سے ایجاب ہی موجود نہیں ہوتا کہ ایسا نکاح منعقد ہوسکے۔
3۔ مگر شارع اس کو بھی جائز نہیں رکھتا کہ عورتیں اپنے نکاح کے معاملے میں بالکل ہی خود مختار ہوجائیں اور جس قسم کے مرد کو چاہیں،اپنے اولیا کی مرضی کے خلاف اپنے خاندان میں داماد کی حیثیت سے گھسا لائیں۔ اس لیے جہاں تک عورت کا تعلق ہے،شارع نے اس کے نکاح کے لیے اُس کی اپنی مرضی کے ساتھ اُس کے ولی کی مرضی کو بھی ضروری قرار دیا ہے۔نہ عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر جہاں چاہے اپنا نکاح خود کرلے،اور نہ ولی کے لیے جائز ہے کہ عورت کی اجازت کے بغیر اُس کا نکاح جہاں چاہے کردے۔
4۔ اگر کوئی ولی کسی عورت کا نکاح بطور خود کردے تو وہ عورت کی مرضی پر معلق ہوگا، وہ منظور کرے تو نکاح قائم رہے گا،نامنظور کرے تو معاملہ عدالت میں جانا چاہیے۔ عدالت تحقیق کرے گی کہ یہ نکاح عورت کو منظور ہے یا نہیں۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ عورت کو نکاح نامنظور ہے تو عدالت اُسے باطل قرار دے گی۔
5۔ اگر کوئی عورت اپنے ولی کے بغیر اپنا نکاح خود کرلے تو اُس کا نکاح ولی کی اجازت پر معلق ہوگا۔ولی منظور کرلے تو نکاح برقرار رہے گا،نا منظور کرے تو یہ معاملہ بھی عدالت میں جانا چاہیے۔عدالت تحقیق کرے گی کہ ولی کے اعتراض و انکار کی بنیاد کیا ہے۔اگر وہ فی الواقع معقول وجوہ کی بِنا پر اُس مرد کے ساتھ اپنے گھر کی لڑکی کا جوڑ پسند نہیں کرتا تو یہ نکاح فسخ کیا جائے گا، اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اس عورت کا نکاح کرنے میں اُس کا ولی دانستہ تساہل کرتا رہا، یا کسی ناجائز غرض سے اس کو ٹالتا رہا اور عورت نے تنگ آکر اپنا نکاح خود کرلیا، تو پھر ایسے ولی کو سئی الاختیار ٹھیرا دیا جائے گااور نکاح کو عدالت کی طرف سے سند جواز دے دی جائے گی۔ ھذا ما عندی واللّٰہ اعلم بالصواب۔
(ترجمان القرآن، ستمبر1952ء)
شادی بیاہ میں کفاء ت کا لحاظ
سوال: ترجمان القرآن ستمبر 1951ء میں آپ نے مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی کے جواب میں ایک جگہ ایسے تسامح سے کام لیا ہے جو ناقابل برداشت ہے۔مولانا موصوف نے آپ سے دریافت کیا تھا کہ’’ کیا ایک سیّد ہندستان میں رہنے کی وجہ سے سیّد نہ رہے گا بلکہ جلاہا بن جائے گا؟‘‘میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ آپ نے بھی جواب میں دبی زبان سے اس غیر اسلامی امتیاز کو یہ کہہ کر تسلیم کرلیا کہ’’دارالکفر کے ایک سیّد صاحب، دارالاسلام کی ایک سیّدانی کے باعتبار نسب کفو ہی سہی۔‘‘آپ کے الفاظ مبہم ہیں۔کیا آپ بھی مسئلۂ کفو کو اسلام میں جائزسمجھتے ہیں؟اگر جواب اثبات میں ہے تو آپ قرآن وحدیث سے استشہاد پیش فرما کر میرا اطمینان فرمائیں۔سمجھ میں نہیں آیا کہ دنیا کے کام کاج اور پیشوں کو انسانیت کی اونچ نیچ میں کیوں دخل ہو؟بنی نوع انسان سب آدم ؈ کی اولاد ہیں۔کیا حضرت دائود؈ نے اگر لوہے کا کام کیا ہے تو وہ لوہار ٹھیریں گے؟
جواب: آپ نے کفاء ت کے مسئلے پر جو اعتراض کیا ہے،اُس سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔طرزِ تعبیر میں اختلاف ہوسکتا ہے،لیکن نفس مسئلۂ کفاء ت تو عقل اور نقل دونوں سے ہے۔تفصیلات سے قطع نظر، بجائے خود نکاح میں اس کے معتبر ہونے پر ائمۂ اربعہ کا اتفاق ہے۔
اس مسئلے کا ماخذ متعدداحادیث ہیں۔ مثلاً:
لَا تُنْكِحُوا النِّسَاءَ إِلَّا الْأَكْفَاءَ { سنن الدارقطنی، کتاب النکاح، باب المھر، حدیث 3601؛ السنن الکبری، کتاب النکاح، باب اعتبار الکفاء ۃ، حدیث 14063
}
(عورتوںکی شادیاں نہ کرو مگر ان لوگوں کے ساتھ جو کفو ہوں)
يَا عَلِيُّ، ثَلَاثٌ لَا تُؤَخِّرْهَا: الصَّلَاةُ إِذَا أَتَتْ، وَالْجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ، وَالْأَيِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَهَا كُفُؤًا { سنن الترمذی، کتاب ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فِی الوقت الاول من الفضل، حدیث 171
}
(اے علیؓ! تین کام ہیں جن کو ٹالنا نہ چاہیے:ایک نماز، جب کہ اس کا وقت آجائے۔ دوسرے، جنازہ، جب کہ تیار ہوجائے۔ تیسرے، بن بیاہی عورت کا نکاح، جب کہ اس کے لیے کفو مل جائے)
تَخَيَّرُوا لِنُطَفِكُمْ، وَأَنْكِحُوا الْأَكْفَاءَ{ کتاب النکاح، باب الاکفاء، حدیث 10324}
(اپنی نسل پیدا کرنے کے لیے اچھی عورتیں تلاش کرو،اور اپنی عورتوں کے نکاح ایسے لوگوں سے کرو جو ان کے کفو ہوں)
یہ حدیث حضرت عائشہ، انس، عمر بن الخطاب ؇ سے متعدد طریقوں سے مروی ہے۔
امام محمدؒ نے ’’کتاب الآثار‘‘میں حضرت عمرؓکا یہ قول بھی نقل کیا ہے:
لَأَمْنَعَنَّ فُرُوجَ ذَوَاتِ الْأَحْسَابِ إِلَّا مِنَ الْأَكْفَاءِ{ سنن ابن ماجہ،کتاب النکاح، باب الاکفاء، حدیث 1968}
(میں شریف گھرانوں کی عورتوں کے نکاح کفو کے سوا کہیں اور نہ کرنے دوں گا)
یہ تو ہے اس مسئلے کی نقلی دلیل۔ رہی عقلی دلیل، تو عقل کا صریح تقاضا یہ ہے کہ کسی لڑکی کو کسی شخص کے نکاح میں دیتے وقت یہ دیکھا جائے کہ وہ شخص اُس کے جوڑ کا ہے یا نہیں۔اگر جوڑ کا نہ ہو تو یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ ان دونوں کا نباہ ہوسکے گا۔ نکاح سے مقصود تو عقلاً بھی اور نقلاً بھی یہی ہے کہ زوجین کے درمیان مودّت ورحمت ہو اور وہ ایک دوسرے کے پاس سکون حاصل کرسکیں۔ آپ خود سوچ لیں کہ بے جوڑنکاحوں سے اس مقصود کے حاصل ہونے کی کہاں تک توقع کی جاسکتی ہے؟اور کون سا معقول انسان ایسا ہے جو اپنے لڑکے یا لڑکی کا بیاہ کرنے میں جوڑ کا لحاظ نہ کرتا ہو۔ کیا آپ اسلامی مساوات کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ ہر مرد کا ہر عورت سے اور ہر عورت کا ہر مرد سے صرف اس بِنا پر نکاح کردیا جائے کہ دونوں مسلمان ہیں،بلا اس لحاظ کے کہ ان میں کوئی مناسبت پائی جاتی ہے یا نہیں؟
فقہا نے اِ س جوڑ کا مفہوم مشخص کرنے کی کوشش کی ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے طریقے پر یہ بتایا ہے کہ لڑکی اور لڑکے کے درمیان کن کن اُمور میں مماثلت ہونی چاہیے۔ ہم ان تفصیلات میں بعض فقہا سے اختلاف اور بعض سے اتفاق کرسکتے ہیں۔ مگر فی الجملہ عقل عام یہ تقاضا کرتی ہے کہ زندگی بھر کی شرکت ورفاقت کے لیے جن دو ہستیوں کا ایک دوسرے سے جوڑ ملایا جائے،ان کے درمیان اخلاق، دین،خاندان،معاشرتی طور طریق، معاشرتی عزت وحیثیت، مالی حالات، ساری ہی چیزوں کی مماثلت دیکھی جانی چاہیے۔ ان اُمور میں اگر پوری یکسانی نہ ہو تو کم ازکم اتنا تفاوت بھی نہ ہو کہ زوجین اس کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور رفاقت نہ کرسکیں۔یہ انسانی معاشرت کا ایک عملی مسئلہ ہے جس میں حکمت عملی کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔آدم کی ساری اولاد کے یکساں ہونے کا نظریہ آپ یہاں چلانا چاہیں گے تو لاکھوں گھر برباد کردیں گے۔ہاں اگر آپ یہ کہیں کہ محض نسل ونسب کی بِنا پر ذات پات اور اُونچ نیچ کا تصور ایک جاہلی تصور ہے، تو اس بات میں یقینا میں آپ سے اتفاق کروں گا۔ جن لوگوں نے کفاء ت کے فقہی مسئلے کو مسخ کرکے ہندوئوں کی طرح کچھ اونچی اور کچھ نیچی ذاتیں قرار دے رکھی ہیں،ان پر مجھے بھی ویسا ہی اعتراض ہے جیسا آپ کو ہے۔
( ترجمان القرآن، ستمبر1952ء)
نکاحِ شِغار
سوال: مسلمانوں میں عموماً رواج ہوگیا ہے کہ دو شخص باہم لڑکوں لڑکیوں کی شادی ادل بدل کے اُصول پر کرتے ہیں۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کئی اشخاص مل کر اس طرح کا ادل بدل کرتے ہیں۔مثلاًزید بکرکے لڑکے کے ساتھ،بکر عمر کے لڑکے کے ساتھ، اور عمر زید کے لڑکے کے ساتھ اپنی لڑکیوں کا نکاح کردیتے ہیں۔ان صورتوں میں عموماًمہر کی ایک ہی مقدار ہوتی ہے۔بعض علمائے دین اس طریقے کو شغار کہتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ شِغار کو نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے{ [أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ نَھَی عَنْ الشِغَارِ والشِغَارُ أنْ یُزَوِّجَ الرَّجُلُ ابْنَتَہُ عَلَی أَنْ یُزَوِّجَہُ ابْنَتَہُ وَلَیَس بَینَھُمَا صَداقٌ]صحیح مسلم ، کتاب النکاح، باب تحریم نکاح الشغار و بطلانہ، حدیث 2537
} بلکہ حرام قرار دیا ہے۔
بحالات موجودہ ایک غریب آدمی یہ طریقہ اختیار کرنے پر مجبور بھی ہوتا ہے،کیوں کہ جس آسانی سے دوسرے لوگ اُس کی لڑکی کو قبول کرنے پر تیار ہوتے ہیں، اس آسانی سے اُس کے لڑکے کو رشتہ دینے پر تیار نہیں ہوتے۔براہِ کرم اس مسئلے کی حقیقت واضح فرما ویں۔
جواب: عام طور پر ادلے بدلے کے نکاح کا جو طریقہ ہمارے ملک میں رائج ہے، وہ دراصل اُسی شِغار کی تعریف میں آتا ہے جس سے نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے۔شِغار کی تین صورتیں ہیں اور وہ سب ناجائز ہیں:
ایک یہ کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو اِ س شرط پر اپنی لڑکی دے کہ وہ اس کو بدلے میں اپنی لڑکی دے گا اور ان میں سے ہر ایک لڑکی دوسری لڑکی کا مہر قرارپائے۔
دوسرے یہ کہ شرط تو وہی ادلے بدلے کی ہو مگر دونوں کے برابر برابر مہر (مثلاً50،50ہزار روپیا)مقرر کیے جائیں اور محض فرضی طور پر فریقین میں ان مساوی رقموں کا تبادلہ کرلیا جائے۔ دونوں لڑکیوں کو عملاً ایک پیسا بھی نہ ملے۔
تیسرے یہ کہ ادلے بدلے کا معاملہ فریقین میںصرف زبانی طورپر ہی طے نہ ہو بلکہ ایک لڑکی کے نکاح میں دوسری لڑکی کا نکاح شرط کے طور پر شامل ہو۔
ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی اختیار کی جائے گی،شریعت کے خلاف ہوگی۔ پہلی صورت کے ناجائزہونے پر تو تمام فقہا کا اتفاق ہے۔البتہ باقی دو صورتوں کے معاملے میں اختلاف واقع ہوا ہے۔لیکن مجھے دلائل شرعیہ کی بِنا پر یہ اطمینان حاصل ہے کہ یہ تینوں صورتیں شِغارِ ممنوع کی تعریف میں آتی ہیں اور تینوں صورتوں میں اس معاشرتی فساد کے اسباب یکساں طور پر موجود ہیں جن کی وجہ سے شغار کو منع کیا گیا ہے۔
(ترجمان القرآن ، اپریل،مئی1952ء)
زبان: اُردو
صفحات: 84
اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، منصورہ ملتان روڈ، لاہور۔