اسلام کو دل نشیں، مدلل اور جا مع انداز میں پیش کرنے کا جو ملکہ اور خداداد صلاحیت سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کو حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ آپ کی تصانیف و تالیفات کی ایک ایک سطر جیسی یقین آفریں اور ایمان افزا ہے، اس کا ہر پڑھالکھا شخص معترف و مدّاح ہے ۔ کتنے ہی بگڑے ہوئے افراد، جوان، بچے، مرد وعورت ان تحریروں سے متاثر ہو کر اپنے سینوں کو نورِ ایمان سے منور کر چکے ہیں۔ ان کتابوں کی بدولت تشکیک کے مارے ہوئے لاتعداد اشخاص ایمان و یقین کی بدولت سے مالا مال ہوئے ہیں اور کتنے ہی دہریت و الحاد کے علم بردار اسلام کے نقیب بنے ہیں۔ یوں تو اس ذہنی اور عملی انقلاب لانے میں مولانا محترم کی جملہ تصانیف ہی کو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ان میں سر فہرست یہ کتاب خطبات ہے۔
یہ کتاب دراصل مولانا کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو آپ نے دیہات کے عام لوگوں کے سامنے جمعے کے اجتماعات میں دیے۔ ان خطبات میں آپ نے اسلام کے بنیادی ارکان کو دل میں اُتر جانے والے دلائل کے ساتھ آسان انداز میں پیش کیا ہے اور کمال یہ ہے کہ اس کتاب کو عام وخاص،کم علم واعلیٰ تعلیم یافتہ،ہر ایک یکساں ذوق وشوق سے پڑھتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی ارکان کو سمجھنے کے لیے ہماری زبان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی دوسری بلند پایہ زبانوں میں بھی اس کتاب کی نظیر نہیں ملتی۔ علم و حقانیت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو ان صفحات میں بند کردیا گیا ہے۔
عرضِ ناشر
اسلام کو دل نشیں، مدلل اور جامع انداز میں پیش کرنے کا جو ملکہ اور خداداد صلاحیت سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو حاصل ہے وہ محتاجِ بیان نہیں۔ آپ کی تصانیف وتالیفات کی ایک ایک سطر جیسی یقین آفریں اور ایمان افزا ہے، اس کا ہر پڑھا لکھا شخص معترف ومدّاح ہے۔ کتنے ہی بگڑے ہوئے افراد، بوڑھے، جوان، بچے، مرد وعورت، سب ہی ان تحریروں سے متاثر ہو کر اپنے سینوں کونورِ ایمان سے منور کر چکے ہیں۔ ان کتابوں کی بدولت تشکیک وریب کے مارے ہوئے لاتعداد اشخاص ایمان ویقین کی دولت سے مالا مال ہوئے ہیں، اور کتنے ہی دہریت والحاد کے علم بردار اسلام کے نقیب بنے ہیں۔ یوں تو اس ذہنی اور عملی انقلاب لانے میں مولانا محترم کی جملہ تصانیف ہی کو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ان میں سرفہرست یہ کتاب خطبات ہے۔
یہ کتاب دراصل مولانا کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو آپ نے دیہات کے سادہ، اَن پڑھ اور کم علم لوگوں کے سامنے جمعے کے اجتماعات میں دیے۔ ان خطبات میں آپ نے اسلام کے بنیادی ارکان کو دل میں اتر جانے والے دلائل کے ساتھ آسان انداز میں پیش کیا ہے اور کمال یہ ہے کہ اس کے باوجود معیاری زبان اور ادبیت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کو عام وخاص، کم علم واعلیٰ تعلیم یافتہ، ہر ایک یکساں ذوق وشوق سے پڑھتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی ارکان کو سمجھنے کے لیے ہماری زبان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی دوسری بلند پایہ زبانوں میں بھی اس کتاب کی نظیر نہیں ملتی۔ علم وحقانیت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو اِن صفحات میں بند کر دیا گیا ہے۔
قارئین کی سہولت کے لیے جہاں وضاحت یاالفاظ کے عام فہم معنی کی ضرورت محسوس کی گئی ہے وہاں حاشیہ دے دیا گیا ہے یاکھڑی بریکٹ میں الفاظ کے معنی دے دیے گئے ہیں۔
خطیب حضرات کی آسانی کے لیے کتاب کے آخر میں، خطبات جمعہ: خطبۂ اولیٰ وخطبۂ ثانیہ بزبان عربی دے کر ان کے اردو ترجمے کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے۔
منیجنگ ڈائریکٹر
اسلامک پبلی کیشنز(پرائیویٹ) لمیٹڈ، لاہور، پاکستان
دیباچہ طبع اوّل
۱۳۵۷ھ (۱۹۳۸ء) میں جب میں پہلی مرتبہ پنجاب آیا اوردارُ الاسلام (نزد پٹھان کوٹ، مشرقی پنجاب) میں قیام پذیر ہوا تو میں نے وہاں کی مسجد میں جمعہ کی نماز کا سلسلہ شروع کیا اور گرد ونواح کے دیہاتی مسلمانوں کو جمع کرکے انھیں دین اسلام سمجھانے کی کوشش کی۔ یہ مجموعہ انھی خطباتِ جمعہ پر مشتمل ہے جو میں نے اس زمانے میں تیار کیے تھے۔ ان خطبات میں میرے مخاطب گائوں کے لوگ تھے اور وہ بھی پنجاب کے، جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے، اس لیے مجھے زبان اور اندازِ بیان دونوں نہایت سہل اور عام فہم اختیار کرنے پڑے۔ اس طرح ایک ایسا مجموعہ تیار ہو گیا ہے جوعوام کو دین کی تعلیم دینے کے لیے ان شاء اللہ بہت مفید ثابت ہو گا۔
اس سے پہلے میں اپنے رسالۂ دینیات میں عقائد اسلام کی کافی تشریح کر چکا ہوں اور اسلام کے نظامِ شریعت کو بھی میں نے اختصار کے ساتھ وہاں بیان کر دیا ہے۔ اب اس مجموعے میں دو چیزیں اور ضروری شرح وبسط کے ساتھ آ گئی ہیں۔ ایک: رُوحِ دین، دوسرے: عبادت۔
مجھے امید ہے کہ جو لوگ رسالۂ دینیات کے ساتھ اِن خطبات کو ملا کر پڑھیں گے ان کے لیے دین کی راہ اچھی طرح روشن ہو جائے گی۔ وَبِاللّٰہِ التَّوُفِیْق۔
جو اصحاب اِن خطبات کو جمعہ میں سنانا چاہیں وہ ہر خطبے کی ابتدا میں خطبۂ مسنونہ پڑھیں۔ خطبۂ ثانیہ کے انتخاب میں وہ آزاد ہیں، مگر وہ لازماً عربی میں ہونا چاہیے۔
ابو الاعلیٰ
لاہور
۱۵؍ رمضان ۱۳۵۹ھ
مطابق اکتوبر ۱۹۴۰ء
دیباچہ طبع ہشتم
میرے خطباتِ جمعہ کا یہ مجموعہ سب سے پہلے نومبر۱۹۴۰ء میں شائع ہوا تھا۔ نومبر ۱۹۵۱ء تک گیارہ سال کی مدت میں اس کے سات اڈیشن تقریباً بیس ہزار کی تعداد میں شائع ہوئے، اور اس پوری مدت میں کسی کو اس کے اندر کوئی فتنہ نظر نہ آیا، مگر جب علمائے کرام کسی وجہ سے (جس کا علم یا اللہ کو ہے یا خود اُن کو) مجھ سے اور جماعت اسلامی سے ناراض ہو گئے تو میری دوسری کتابوں کی طرح اس کتاب میں سے بھی ان کی نگاہِ فتنہ جُو نے کچھ فتنے ڈھونڈ نکالے۔ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ مفتی صاحبان نے خود پوری کتاب پڑھ کر دیکھی تھی، یا کسی کو محض اس خدمت پر مامور فرما دیا تھا کہ اس کو پڑھ کر کچھ ایسے فقرے نکال دے جن پر فتویٰ جڑا جا سکے۔ بہرحال جو صورت بھی ہو، اُن کی نگاہ پوری کتاب میں سے صرف چند فقروں پر جا کر ٹھیری جو انیسویں اور پچیسویں خطبے میں اُن کو ملے۔
انیسویں خطبے کے یہ فقرے اُن کی توجہات کے ہدف بنے ہیں:
۱۔ اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کے بغیر نماز، روزہ اور ایمان کی شہادت، سب بے کار ہیں، کسی چیز کا بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ (ص ۱۶۶)
۲۔ ان دو ارکانِ اسلام (یعنی نماز وزکوٰۃ) سے جو لوگ رُوگردانی کریں ان کا دعوائے ایمان ہی جھوٹا ہے۔ (ص۱۷۰)
۳۔ قرآن کی رُو سے کلمۂ طیبہ کا اقرار ہی بے معنی ہے اگر آدمی اس کے ثبوت میں نماز اور زکوٰۃ کا پابند نہ ہو۔ (ص۱۷۳)
اور پچیسویں خطبے کے یہ فقرے انھوں نے فتویٰ لگانے کے لیے چھانٹے ہیں:
رہے وہ لوگ جن کوعمر بھر کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ حج بھی کوئی فرض ان کے ذمے ہے، دنیا بھر کے سفر کرتے پھرتے ہیں، کعبۂ یورپ کو آتے جاتے حجاز کے ساحل سے بھی گزر جاتے ہیں جہاں سے مکہ صرف چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے اور پھر بھی حج کا ارادہ تک اُن کے دل میں نہیں گزرتا، وہ قطعاً مسلمان نہیں ہیں۔ جھوٹ کہتے ہیں اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، اور قرآن سے جاہل ہے جو انھیں مسلمان سمجھتا ہے۔ (ص۲۳۴)
ان عبارات پر یہ فتویٰ لگایا گیا ہے کہ میں خارجی اور معتزلی ہوں، مسلک اہلِ سنت کے خلاف، اعمال کو جزوِ ایمان قرار دیتا ہوں، اور بے عمل مسلمانوں کی تکفیر کرتا ہوں۔
حیرت یہ ہے کہ ان فقروں سے متصل ہی دوسرے فقرے موجود تھے جن سے نہ صرف میرے اصل مدّعا کی توضیح ہوتی تھی، بلکہ اس الزام کا جواب بھی ان سے مل سکتا تھا، مگر مفتی صاحبان کی ان باتوں پر یا تو نگاہ نہ پڑی، یا مفیدِ مطلب نہ ہونے کی وجہ سے قصداً انھوں نے ان کو نظر انداز کر دیا۔ مثلاً پہلے فقرے کو اوپر کے فقرے سے ملا کر پڑھئیے تو پوری عبارت یوں بنے گی:
یہی وجہ ہے کہ سرکارِ رسالت مآب a کی وفات کے بعد جب عرب کے بعض قبیلوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو جناب صدیق اکبر نے ان سے اس طرح جنگ کی جیسے کافروں سے کی جاتی ہے۔ حالانکہ وہ لوگ نماز پڑھتے تھے اور خدا اور رسولؐ کا اقرار کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کے بغیر نماز، روزہ اور ایمان کی شہادت، سب بیکار ہیں۔کسی چیز کا بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ (ص ۱۶۶)
اسی طرح آخری فقرے سے پہلے میں نے قرآن مجید کی ایک آیت، نبی a کی دو حدیثیں اور حضرت عمرؓ کا ایک قول بھی نقل کیا تھا جو میرے بیان کی توثیق کر رہا تھا، مگر نگاہِ انتخاب اس پوری عبارت کو چھوڑ گئی۔ یہ کرتب ہیں اُن بزرگوں کے جو ہمارے ہاں علمِ دین کے معلم اور تزکیۂ نفس کے ماہر بنے ہوئے ہیں۔
پھر اسی کتاب میں میرا ایک پورا خطبہ اس موضوع پر موجود ہے کہ میں اس کتاب میں دراصل کس اسلام وایمان سے بحث کر رہا ہوں (ملاحظہ ہو: خطبہ نمبر ۹ )۔{ FR 1594 } اس میں، میں نے تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ ایک تو ہے وہ قانونی اسلام جس سے فقیہ اور متکلم بحث کرتے ہیں، جس کا حاصل صرف یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص اس کی آخری سرحد کو پار نہ کر جائے اس کو خارج از ملت ٹھیرا کر اُن تمدنی ومعاشرتی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا جو اسلام نے مسلمانوں کو دیے ہیں۔
دوسرا وہ حقیقی اسلام وایمان ہے جس پر آخرت میں آدمی کے ایمان یا نفاق یا کفر کا فیصلہ ہو گا۔ میں نے ان دونوں کا فرق واضح کرتے ہوئے اس خطبے میں یہ بتایا ہے کہ انبیا ؑ کی دعوت کا اصل مقصود صرف پہلی قسم کے مسلمان بنا بنا کر چھوڑ دینا نہ تھا، بلکہ ان کے اندر وہ حقیقی ایمان پیدا کرنا تھا جس میں اخلاص اور اطاعت اور فدائیت کی روح پائی جاتی ہو۔ اس کے بعد میں نے مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ تم صرف اس اسلام پر قانع نہ ہو جائو جس کی آخری سرحد پار کرنے سے پہلے کوئی مفتی تمھیں کافر نہ کہہ سکے، بلکہ اس اسلام وایمان کو اپنے اندر پیدا کرنے کی فکر کرو جس سے خدا کے ہاں تم واقعی ایک مخلص اور وفادار مومن قرار پا سکو۔
میری یہ ساری بحث اگر مفتی صاحبان پڑھ لیتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ یہ کتاب میں نے دراصل کس غرض کے لیے لکھی ہے اور پھر اس کتاب کا ایک ایک لفظ شہادت دیتا ہے کہ اوّل سے لے کر آخر تک اس کے سارے خطبوں میں یہی غرض میرے پیش نظر رہی ہے، مگر مفتیوں کو اس سے کیا بحث کہ کتاب اور اس کے مصنف کا مدعا کیا ہے۔ ان کو تو تلاش ایسے فقروں کی تھی جنھیں سیاق وسباق سے الگ کرکے ایک فتویٰ لگایا جا سکے۔ ان کے لیے فتویٰ ایک دینی حکم نہیں ہے جسے لگانے کے لیے تحقیق کی ضرورت ہو، بلکہ ایک لٹھ ہے جس کو لوگوں سے ذاتی رنجشوں کا بخار نکالنے کے لیے وہ جب ضرورت محسوس کرتے ہیں استعمال کر لیتے ہیں۔
جس شخص کو علم سے کچھ بھی مَس ہو اُسے کسی کتاب کی کسی عبارت کا مطلب مشخّص کرنے سے پہلے کتاب کے موضوع کو سمجھنا چاہیے۔ یہ کتاب فقہ یا علمِ کلام کے موضوع پر نہیں ہے۔ یہ فتوے کی زبان میں نہیں لکھی گئی ہے۔ اس میں مسئلہ زیر بحث یہ نہیں ہے کہ دائرۂ اسلام کی آخری سرحدیں کیا ہیں اور کن حالات میں ایک شخص مرتد یا خارج از ملت قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ تو نصیحت کی ایک کتاب ہے جس کا مقصود خدا کے بندوں کو فرماں برداری پر اکسانا، نافرمانی سے روکنا اور اخلاص فی الطاعۃ کی تلقین کرنا ہے۔ کیا مفتی صاحبان یہ چاہتے تھے کہ میں اس طرح کی ایک کتاب میں مسلمانوں کو یہ یقین دلاتا کہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، سب زوائد ہیں۔ تم ان سب کو چھوڑ کر بھی مسلمان رَہ سکتے ہو؟ رہا بجائے خود ایمان اور عمل کے باہمی تعلق اور تکفیرِ مسلمین کا مسئلہ تو اس باب میں اپنا مسلک میں اپنے مضامین میں پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر چکا ہوں جو خاص اسی موضوع پر میں نے لکھے ہیں۔ اس مسلک کو میری کتاب تفہیمات حصہ دوم سے معلوم کرنے کے بجائے خطبات کے ان منتشر فقروں سے مستنبط کرنا آخر کون سی دیانت تھی؟
ابو الاعلیٰ
ذوالحج ۱۳۷۱ھ
مطابق۱۶ ؍اگست ۱۹۵۲ئ
باب اوّل
ایمان
* مسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت
* مسلمان اور کافر کا اصلی فرق
* سوچنے کی باتیں
* کلمہ طیبہ کے معنی
* کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ
* کلمہ طیبہ پر ایمان لانے کا مقصد
مسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت
(1)اللہ کا سب سے بڑا احسان
برادرانِ اسلام! ہر مسلمان سچے دل سے یہ سمجھتا ہے کہ دنیا میں خدا کی سب سے بڑی نعمت اسلام ہے۔ ہر مسلمان اس بات پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس نے نبی کریمa کی امت میں اس کو شامل کیا اور اسلام کی نعمت اس کو عطا کی۔ خود اللہ تعالیٰ بھی اس کو اپنے بندوں پر اپنا سب سے بڑا انعام قرار دیتا ہے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا:
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۰ۭ
(المائدہ 5 :3)
آج میں نے تمھارا دین تمھارے لیے کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اس بات کو پسند کر لیا کہ تمھارا دین اسلام ہو۔
(2)احسان شناسی کا تقاضا
یہ احسان جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرمایا ہے اس کا حق ادا کرنا آپ پر فرض ہے، کیوںکہ جو شخص کسی کے احسان کا حق ادا نہیں کرتا وہ احسان فراموش ہوتا ہے، اور سب سے بدتر احسان فراموشی یہ ہے کہ انسان اپنے خدا کے احسان کا حق بھول جائے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ خدا کے احسان کا حق کس طرح ادا کیا جائے؟ میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ جب خدا نے آپ کو امتِ محمدیہؐ میں شامل کیا ہے تو اس کے اس احسان کا صحیح شکریہ ہے کہ آپ محمد a کے پورے پَیرو بنیں۔ جب خدا نے آپ کو مسلمانوں کی ملت میں شامل کیا ہے تو اس کی اس مہربانی کا حق آپ اسی طرح ادا کر سکتے ہیں کہ آپ پورے مسلمان بنیں۔ اس کے سواخدا کے اس احسانِ عظیم کا حق آپ اور کسی طرح ادا نہیں کر سکتے، اور یہ حق اگر آپ نے ادا نہ کیا تو جتنا بڑا خدا کا احسان ہے اتنا ہی بڑا اس کی احسان فراموشی کا وبال بھی ہو گا۔ خدا ہم سب کو اس وبال سے بچائے۔ آمین!
(3)مسلمان بننے کے لیے پہلا قدم
اس کے بعد آپ دوسرا سوال یہ کریں گے کہ آدمی پورا مسلمان کس طرح بن سکتا ہے؟
اس کا جواب بہت تفصیل چاہتا ہے اور آئندہ جمعہ کے خطبوں میں اسی کا ایک ایک جزو آپ کے سامنے پوری تشریح کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔ لیکن آج کے خطبے میں، مَیں آپ کے سامنے وہ چیز بیان کرتا ہوں جو مسلمان بننے کے لیے سب سے مقدّم ہے، جس کو اس راستے کا سب سے پہلا قدم سمجھنا چاہیے۔
کیا مسلمان نسل کا نام ہے؟
ذرا دماغ پر زور ڈال کر سوچیے کہ آپ مسلمان کا لفظ جو بولتے ہیں اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا انسان ماں کے پیٹ سے ’اسلام‘ ساتھ لے کر آتا ہے؟ کیا ایک شخص صرف اس بنا پر مسلمان ہوتا ہے کہ وہ مسلمان کا بیٹا اور مسلمان کا پوتا ہے؟ کیا مسلمان بھی اسی طرح مسلمان پیدا ہوتا ہے جس طرح ایک برہمن کا بچہ برہمن پیدا ہوتاہے، ایک راجپوت کا بیٹا راجپوت، اور ایک شودر کا لڑکا شودر؟ کیا مسلمان کسی نسل یا ذات برادری کا نام ہے کہ جس طرح ایک انگریز کسی انگریز کے گھر پیدا ہونے کی وجہ سے انگریز ہوتا ہے، اور ایک جاٹ، جاٹ قوم میں پیدا ہونے کی وجہ سے جاٹ ہوتا ہے؟ اسی طرح ایک مسلمان، صرف اس وجہ سے مسلمان ہو کہ وہ مسلمان نامی قوم میں پیدا ہوا ہے؟
یہ سوالات جو مَیں آپ سے پوچھ رہا ہوں اِن کا آپ کیا جواب دیں گے؟
آپ یہی کہیں گے نا کہ نہیں صاحب! مسلمان اس کو نہیں کہتے۔ مسلمان نسل کی وجہ سے مسلمان نہیں ہوتا، بلکہ اسلام لانے سے مسلمان بنتا ہے، اور اگر وہ اسلام کو چھوڑ دے تو مسلمان نہیں رہتا۔ ایک شخص خواہ برہمن ہو یا راجپوت، انگریز ہو یا جاٹ، پنجابی ہو یا حبشی، جب اس نے اسلام قبول کیا تو مسلمانوں میں شامل ہو جائے گا، اور ایک دوسرا شخص جو مسلمان کے گھر میں پیدا ہوا ہے، اگر وہ اسلام کی پَیروی چھوڑ دے تو وہ مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہو جائے گا، چاہے وہ سیّد کا بیٹا ہو یا پٹھان کا۔
کیوں حضرات آپ میرے سوالات کا یہی جواب دیں گے نا؟
اچھا تو اب خود آپ ہی کے جواب سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ خدا کی یہ سب سے بڑی نعمت، یعنی مسلمان ہونے کی نعمت جو آپ کو حاصل ہے، یہ کوئی نسلی چیز نہیں ہے کہ ماں باپ سے وراثت میں یہ خود بخود آپ کو حاصل ہو جائے اور خود بخود تمام عمر آپ کے ساتھ لگی رہے، خواہ آپ اس کی پروا کریں یا نہ کریں، بلکہ ایسی نعمت ہے کہ اس کے حاصل کرنے کے لیے خود آپ کی کوشش شرط ہے۔ اگر آپ کوشش کرکے اسے حاصل کریں تو آپ کو مل سکتی ہے اور اگر آپ اس کی پروا نہ کریں تو یہ آپ سے چھن بھی سکتی ہے، معاذ اللہ۔
(4)اسلام لانے کا مطلب
اب آگے بڑھیے۔ آپ کہتے ہیں کہ اسلام لانے سے آدمی مسلمان بنتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسلام لانے کا مطلب کیا ہے؟ کیا اسلام لانے کا یہ مطلب ہے کہ جو آدمی بس زبان سے کہہ دے کہ میں مسلمان ہوں یا مسلمان بن گیا ہوں، وہ مسلمان ہے؟ یا اسلام لانے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک برہمن پجاری بغیر سمجھے بوجھے سنسکرت کے چند منتر پڑھتا ہے، اسی طرح ایک شخص عربی کے چند فقرے بغیر سمجھے بوجھے زبان سے ادا کر دے اور بس وہ مسلمان ہو گیا؟ آپ خود بتائیے کہ اس سوال کا آپ کیا جواب دیں گے؟ آپ یہی کہیں گے نا کہ اسلام لانے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد a نے جو تعلیم دی ہے اس کو آدمی جان کر، سمجھ کر، دل سے قبول کرے، اور اس کے مطابق عمل کرے۔ جو ایسا کرے وہ مسلمان ہے اور جو ایسا نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہے۔
(5)پہلی ضرورت___ علم
یہ جواب جو آپ دیں گے، اس سے خود بخود یہ بات کھل گئی کہ اسلام پہلے علم کا نام ہے اور علم کے بعد عمل کا نام ہے۔ ایک شخص علم کے بغیر برہمن ہو سکتا ہے، کیوں کہ وہ برہمن پیدا ہوا ہے اور برہمن ہی رہے گا۔ ایک شخص علم کے بغیر جاٹ ہو سکتا ہے، کیوںکہ وہ جاٹ پیدا ہوا ہے اور جاٹ ہی رہے گا، مگر ایک شخص علم کے بغیر مسلمان نہیں ہوسکتا، کیوں کہ مسلمان پیدائش سے مسلمان نہیں ہوا کرتا، بلکہ علم سے ہوتا ہے۔ جب تک اس کو یہ علم نہ ہو کہ حضرت محمدa کی تعلیم کیا ہے؟ وہ اس پر ایمان کیسے لا سکتا ہے اور اس کے مطابق عمل کیسے کر سکتا ہے؟ اور جب وہ جان کر اور سمجھ کرایمان ہی نہ لایا تو مسلمان کیسے ہو سکتا ہے؟
پس معلوم ہوا کہ جہالت کے ساتھ مسلمان ہونا اور مسلمان رہنا غیر ممکن ہے۔ ہر شخص جو مسلمان کے گھر میں پیدا ہوا ہے، جس کا نام مسلمانوں کا سا ہے، جو مسلمانوں کے سے کپڑے پہنتا ہے اور جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، حقیقت میں وہ مسلمان نہیں ہے، بلکہ مسلمان درحقیقت صرف وہ شخص ہے جو اسلام کو جانتا ہو، اور پھر جان بوجھ کر اس کو مانتاہو۔ ایک کافرا ور ایک مسلمان میں اصلی فرق نام کا نہیں کہ وہ رام پرشاد ہے اور یہ عبداللہ ہے، اس لیے وہ کافر ہے اور یہ مسلمان۔ اسی طرح ایک کافر اورایک مسلمان میں اصلی فرق لباس کا بھی نہیں ہے کہ وہ دھوتی باندھتا ہے اور یہ پاجامہ پہنتا ہے، اس لیے وہ کافر ہے اور یہ مسلمان، بلکہ اصلی فرق ان دونوں کے درمیان علم کا ہے۔ وہ کافر اس لیے ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ خداوندِ عالم کا اس سے اور اس کا خداوندِ عالم سے کیا تعلق ہے، اور خالق کی مرضی کے مطابق دنیا میں زندگی بسر کرنے کا سیدھا راستہ کیا ہے؟ اگر یہی حال ایک مسلمان کے بچے کا بھی ہو تو بتائو کہ اس میں اور ایک کافر میں کس چیز کی بناپر فرق کرتے ہو، اورکیوں یہ کہتے ہو کہ وہ تو کافر ہے اور یہ مسلمان ہے۔
حضرات! یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں اس کو ذرا کان لگا کر سنیے اور ٹھنڈے دل سے اس پر غور کیجیے۔ آپ کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ خدا کی یہ سب سے بڑی نعمت جس پرآپ شکر اور احسان مندی کا اظہار کرتے ہیں، اس کا حاصل ہونا اور حاصل نہ ہونا، دونوں باتیں علم پر موقوف ہیں۔ اگر علم نہ ہو تو یہ نعمت آدمی کو حاصل ہی نہیں ہو سکتی، اور اگر تھوڑی بہت حاصل ہو بھی جائے تو جہالت کی بنا پر ہر وقت یہ خطرہ ہے کہ یہ عظیم الشان نعمت اس کے ہاتھ سے چلی جائے گی۔ محض نادانی کی بنا پر وہ اپنے نزدیک یہ سمجھتا رہے گا کہ میں ابھی تک مسلمان ہوں، حالانکہ درحقیقت وہ مسلمان نہ ہو گا۔ جو شخص یہ جانتا ہی نہ ہو کہ اسلام اور کفر میں کیا فرق ہے، اور اسلام اور شرک میں کیا امتیاز ہے؟ اس کی مثال تو بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص اندھیرے میں ایک پگڈنڈی پر چل رہا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ سیدھی لکیر پر چلتے چلتے خود اس کے قدم کسی دوسرے راستے کی طرف مڑجائیں اور اس کو خبر بھی نہ ہو کہ میں سیدھی راہ سے ہٹ گیا ہوں، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ راستے میں کوئی دجّال کھڑا ہوا مل جائے اور اس سے کہے کہ ارے میاں! تم اندھیرے میں راستہ بھول گئے، آئو میں تمھیں منزل تک پہنچا دوں۔ بیچارہ اندھیرے کا مسافر خود اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا کہ سیدھا راستہ کون سا ہے۔ اس لیے نادانی کے ساتھ اپنا ہاتھ اس دجال کے ہاتھ میں دے دے گا اور وہ اس کو بھٹکا کر کہیں سے کہیں لے جائے گا۔
یہ خطرات اس شخص کو اسی لیے تو پیش آتے ہیں کہ اس کے پاس خود کوئی روشنی نہیں ہے اور وہ خود اپنے راستے کے نشانات کو نہیں دیکھ سکتا۔ اگر اس کے پاس روشنی موجود ہو تو ظاہر ہے کہ نہ وہ راستہ بھولے گا اور نہ کوئی دوسرا اس کو بھٹکا سکے گا۔ بس اسی پر قیاس کر لیجیے کہ مسلمان کے لیے سب سے بڑا خطرہ اگر کوئی ہے تو یہی کہ وہ خود اسلام کی تعلیم سے ناواقف ہو۔ خود یہ نہ جانتا ہو کہ قرآن کیا سکھاتا ہے اور حضرت محمد a کیا ہدایت دے گئے ہیں؟ اس جہالت کی وجہ سے وہ خود بھی بھٹک سکتا ہے اور دوسرے دجال بھی اس کو بھٹکا سکتے ہیں، لیکن اگر اس کے پاس علم کی روشنی ہو تو وہ زندگی کے ہر قدم پر اسلام کے سیدھے راستے کو دیکھ سکے گا۔ ہر قدم پر کفر اور شرک اور گمراہی اورفسق وفجور کے جو ٹیڑھے راستے بیچ میں آئیں گے اُن کو پہچان کر اُن سے بچ سکے گا، اور جو کوئی راستے میں اس کو بہکانے والا ملے گا تو اس کی دو چار باتیں ہی سن کر وہ خود سمجھ جائے گا کہ یہ بہکانے والا آدمی ہے، اس کی پیروی نہ کرنی چاہیے۔
(6)علم کی اہمیت
بھائیو! یہ علم جس کی ضرورت مَیں آپ سے بیان کر رہا ہوں، اس پر تمھارے اور تمھاری اولاد کے مسلمان ہونے اور مسلمان رہنے کا انحصار ہے۔ یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے کہ اس سے بے پروائی کی جائے۔ تم اپنی کھیتی باڑی کے کام میں غفلت نہیں کرتے، اپنی زراعت کو پانی دینے اور اپنی فصلوں کی حفاظت کرنے میں غفلت نہیں کرتے، اپنے مویشیوں کو چارہ دینے میں غفلت نہیں کرتے، اپنے پیشے کے کاموں میں غفلت نہیں کرتے، محض اس لیے کہ اگر غفلت کرو گے تو بھوکے مر جائو گے اور جان جیسی عزیز چیز ضائع ہو جائے گی۔ پھر مجھے بتائو کہ اُس علم کے حاصل کرنے میں کیوں غفلت کرتے ہو جس پر تمھارے مسلمان بننے اور مسلمان رہنے کا دارومدار ہے؟ کیا اس میں یہ خطرہ نہیں کہ ایمان جیسی عزیز چیز ضائع ہو جائے گی؟ کیا ایمان، جان سے زیادہ عزیز چیز نہیں ہے؟ تم جان کی حفاظت کرنے والی چیزوں کے لیے جتنا وقت اور جتنی محنت صَرف کرتے ہو، کیا اس وقت اور محنت کا دسواں حصہ بھی ایمان کی حفاظت کرنے والی چیزوں کے لیے صَرف نہیں کر سکتے؟
میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ تم میں سے ہر شخص مولوی بنے، بڑی بڑی کتابیں پڑھے اور اپنی عمر کے دس بارہ سال پڑھنے میں صَرف کر دے۔ مسلمان بننے کے لیے اتنا پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم میں کا ہر شخص رات دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے صرف ایک گھنٹہ علمِ دین سیکھنے میں صَرف کرے۔ کم از کم اتنا علم ہر مسلمان بچے اور بوڑھے اور جوان کو حاصل ہونا چاہیے کہ قرآن جس مقصد کے لیے اور جو تعلیم لے کر آیا ہے اس کا لُبِّ لباب جان لے، نبی a جس چیز کو مٹانے کے لیے اور اس کی جگہ جو چیز قائم کرنے کے لیے تشریف لائے تھے اُس کو خوب پہچان لے، اور اس خاص طریقِ زندگی سے واقف ہو جائے جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے مقرر کیا ہے۔ اتنے علم کے لیے کچھ بہت زیادہ وقت کی ضرورت نہیں ہے، اور اگر ایمان عزیز ہو تو اس کے لیے ایک گھنٹہ روز نکالنا کچھ مشکل نہیں۔
٭…٭…٭
مسلم اورکافر کا اصلی فرق
-1مسلم اور کافر میں فرق کیوں؟
برادرانِ اسلام! ہر مسلمان اپنے نزدیک یہ سمجھتا ہے اور آپ بھی ضرور ایسا ہی سمجھتے ہوں گے کہ مسلمان کا درجہ کافر سے اونچا ہے۔ مسلمان کو خدا پسند کرتا ہے اورکافر کو ناپسند کرتا ہے۔ مسلمان خدا کے ہاں بخشا جائے گا اور کافر کی بخشش نہ ہو گی۔ مسلمان جنت میں جائے گا اور کافردوزخ میں جائے گا۔ آج میں چاہتا ہوں کہ آپ اس بات پر غور کریں کہ مسلمان اور کافرمیں اتنا بڑا فرق آخر کیوں ہوتا ہے؟ کافر بھی آدم کی اولاد ہے اور تم بھی۔ کافر بھی ایسا ہی انسان ہے جیسے تم ہو۔ وہ بھی تمھارے ہی جیسے ہاتھ، پائوں، آنکھ، کان رکھتا ہے۔ وہ بھی اسی ہوا میں سانس لیتا ہے۔ یہی پانی پیتا ہے۔ اسی زمین پر بستا ہے۔ یہی پیداوار کھاتا ہے۔ اسی طرح پیدا ہوتا ہے اور اسی طرح مرتا ہے۔ اسی خدا نے اس کو بھی پیدا کیا ہے جس نے تم کو پیدا کیا ہے۔ پھر آخر کیوں اس کا درجہ نیچا ہے اور تمھارا اونچا؟ تمھیں کیوں جنت ملے گی اور وہ کیوں دوزخ میں ڈالا جائے گا؟
2-کیا صرف نام کا فرق ہے؟
یہ بات ذرا سوچنے کی ہے۔ آدمی اور آدمی میں اتنا بڑا فرق صرف اتنی سی بات سے تو نہیں ہو سکتا کہ تم عبداللہ اور عبدالرحمٰن اور ایسے ہی دوسرے ناموں سے پکارے جاتے ہو،اور وہ دین دیال اورکرتار سنگھ اور رابرٹسن جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے، یا تم ختنہ کراتے ہو اور وہ نہیں کراتا، یا تم گوشت کھاتے ہو اور وہ نہیں کھاتا۔ اللہ تعالیٰ جس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے اور جو سب کا پروردگار ہے ایسا ظلم تو کبھی نہیں کر سکتا کہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنی مخلوقات میں فرق کرے اور ایک بندے کو جنت میں بھیجے اور دوسرے کودوزخ میں پہنچا دے۔
*اصلی فرق___ اسلام اور کفر
جب یہ بات نہیں ہے تو پھر غور کرو کہ دونوں میں اصلی فرق کیا ہے؟ اس کا جواب صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے کہ دونوں میں اصلی فرق اسلام اور کفر کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اسلام کے معنی خدا کی فرماں برداری کے ہیں، اور کفر کے معنی خدا کی نافرمانی کے۔ مسلمان اور کافر دونوں انسان ہیں، دونوں خدا کے بندے ہیں، مگر ایک انسان اس لیے افضل ہو جاتا ہے کہ یہ اپنے مالک کو پہچانتا ہے، اس کے حکم کی اطاعت کرتا ہے اور اس کی نافرمانی کے انجام سے ڈرتا ہے، اور دوسرا انسان اس لیے اونچے درجے سے گر جاتا ہے کہ وہ اپنے مالک کو نہیں پہچانتا اور اس کی فرماں برداری نہیں کرتا۔ اسی وجہ سے مسلمان سے خدا خوش ہوتا ہے اور کافر سے ناراض۔ مسلمان کو جنت دینے کا وعدہ کرتا ہے اور کافر کو کہتا ہے کہ دوزخ میں ڈالوں گا۔
*فرق کی وجہ___ علم اور عمل
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کو کافر سے جدا کرنے والی صرف دو چیزیں ہیں: ایک، علم اور دوسری عمل۔ یعنی پہلے تو اسے یہ جاننا چاہیے کہ اس کا مالک کون ہے؟ اس کے احکام کیا ہیں؟ اس کی مرضی پر چلنے کا طریقہ کیا ہے؟ کن کاموں سے وہ خوش ہوتا ہے اور کن کاموں سے ناراض ہوتا ہے؟ پھر جب یہ باتیں معلوم ہو جائیں تو دوسری بات یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو مالک کا غلام بنا دے۔ جو مالک کی مرضی ہو اس پر چلے اور جو اپنی مرضی ہو اس کو چھوڑ دے۔ اگر اس کا دل ایک کام کو چاہے اور مالک کا حکم اس کے خلاف ہو تو اپنے دل کی بات نہ مانے اور مالک کی بات مان لے۔ اگر ایک کام اس کو اچھا معلوم ہوتا ہے اور مالک کہے کہ وہ برا ہے، تو اسے برا ہی سمجھے، اور اگر دوسرا کام اسے برا معلوم ہوتا ہے مگر مالک کہے کہ وہ اچھا ہے تو اسے اچھا ہی سمجھے۔ اگر ایک کام میں اسے نقصان نظر آتا ہو اور مالک کا حکم ہو کہ اسے کیا جائے، تو چاہے اس میں جان اور مال کا کتنا ہی نقصان ہو، وہ اس کو ضرور کرکے ہی چھوڑے۔ اگر دوسرے کام میں اس کو فائدہ نظر آتا ہو اور مالک کا حکم ہو کہ اسے نہ کیا جائے، تو خواہ دنیا بھر کی دولت ہی اس کام میں کیوں نہ ملتی ہو، وہ اس کام کو ہرگز نہ کرے۔
یہ علم اور یہ عمل ہے جس کی وجہ سے مسلمان خدا کا پیارا بندہ ہوتا ہے اور اس پر خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے اور خدا اس کو عزت عطا کرتا ہے۔ کافر یہ علم نہیں رکھتا اور علم نہ ہونے کی وجہ سے اس کا عمل بھی یہ نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ خدا کا جاہل اور نافرمان بندہ ہوتا ہے اور خدا اس کو اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے۔
اب خود ہی انصاف سے کام لے کر سوچو کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو، مگر ویسا ہی جاہل ہو جیسا ایک کافر ہوتا ہے، اور ویسا ہی نافرمان ہو جیسا ایک کافر ہوتا ہے تو محض نام اور لباس اورکھانے پینے کے فرق کی وجہ سے وہ کافر کے مقابلے میں کس طرح افضل ہو سکتا ہے اور کس بنا پر دنیا اور آخرت میں خدا کی رحمت کا حق دار ہو سکتا ہے؟ اسلام کسی نسل یا خاندان یا برادری کا نام نہیں ہے کہ باپ سے بیٹے کو اور بیٹے سے پوتے کو آپ ہی آپ مل جائے۔ یہاں یہ بات نہیں ہے کہ برہمن کا لڑکا چاہے کیسا ہی جاہل ہو اور کیسے ہی برے کام کرے مگر وہ اونچا ہی ہو گا، کیوں کہ برہمن کے گھر پیدا ہوا ہے اور اونچی ذات کا ہے۔ اور چمار کا لڑکا چاہے علم اور عمل کے لحاظ سے ہر طرح اس سے بڑھ کر ہو، مگر وہ نیچا ہی رہے گا، کیوں کہ چمار کے گھر پیدا ہوا ہے اور کمین ہے۔ یہاں تو خدا نے اپنی کتاب میں صاف فرما دیا ہے کہ:
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات 49:13)
یعنی جو خدا کو زیادہ پہچانتا ہے اور اس کی زیادہ فرماں برداری کرتا ہے، وہی خدا کے نزدیک زیادہ عزت والا ہے۔
حضرت ابراہیم؈ ایک بت پرست کے گھر پیدا ہوئے، مگر انھوں نے خدا کو پہچانا اور اس کی فرماںبرداری کی، اس لیے خدا نے ان کو ساری دنیا کا امام بنا دیا۔ حضرت نوح؈ کا لڑکا ایک پیغمبر کے گھر پیدا ہوا، مگر اس نے خدا کو نہ پہچانا اور اس کی نافرمانی کی، اس لیے خدا نے اس کے خاندان کی کچھ پروا نہ کی اور اسے ایسا عذاب دیا جس پر دنیا عبرت کرتی ہے۔ پس خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ خدا کے نزدیک انسان اور انسان میں جو کچھ بھی فرق ہے وہ علم اور عمل کے لحاظ سے ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اس کی رحمت صرف انھی کے لیے ہے جو اس کو پہچانتے ہیں، اور اس کے بتائے ہوئے سیدھے راستے کو جانتے ہیں، اور اس کی فرماں برداری کرتے ہیں۔ جن لوگوں میں یہ صفت نہیں ہے ان کے نام خواہ عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہوں، یا دین دیال اور کرتار سنگھ، خدا کے نزدیک ان دونوںمیں کوئی فرق نہیں اور ان کو اس کی رحمت سے کوئی حق نہیں پہنچتا۔
3-آج مسلمان ذلیل کیوں؟
بھائیو! تم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہو، اور تمھارا ایمان ہے کہ مسلمان پر خدا کی رحمت ہوتی ہے، مگر ذرا آنکھیں کھول کر دیکھو، کیا خدا کی رحمت تم پر نازل ہو رہی ہے؟ آخرت میں جو کچھ ہو گا وہ تو تم بعد میں دیکھو گے، مگر اس دنیا میں تمھارا جو حال ہے اس پر نظر ڈالو۔ اس ہندستان{ FR 1595 } میں تم نو (۹)کروڑ ہو۔ تمھاری اتنی بڑی تعداد ہے کہ اگر ایک ایک شخص ایک ایک کنکری پھینکے تو پہاڑ بن جائے۔ لیکن جہاں اتنے مسلمان موجود ہیں وہاں کفار حکومت کر رہے ہیں۔ تمھاری گردنیں ان کی مٹھی میں ہیں کہ جدھر چاہیں تمھیں موڑ دیں۔ تمھاراسر، جو خدا کے سوا کسی کے آگے نہ جھکتا تھا، اب انسانوں کے آگے جھک رہا ہے۔ تمھاری عزت جس پر ہاتھ ڈالنے کی کوئی ہمت نہ کر سکتا تھا، آج وہ خاک میں مل رہی ہے۔ تمھارا ہاتھ، جو ہمیشہ اونچا ہی رہتا تھا، اب وہ نیچا ہوتا ہے اور کافر کے آگے پھیلتا ہے۔ جہالت اور افلاس اور قرض داری نے ہر جگہ تم کو ذلیل وخوار کر رکھا ہے۔ کیا یہ خدا کی رحمت ہے؟ اگر یہ رحمت نہیں ہے، بلکہ کھلا ہوا غضب ہے، تو کیسی عجیب بات ہے کہ مسلمان اور اس پر خدا کا غضب نازل ہو! مسلمان اور ذلیل ہو! مسلمان اور غلام ہو! یہ تو ایسی ناممکن بات ہے جیسے کوئی چیز سفید بھی ہو اور سیاہ بھی۔ جب مسلمان خدا کا محبوب ہوتا ہے تو خدا کا محبوب دنیا میں ذلیل وخوار کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا نعوذ باللہ تمھارا خدا ظالم ہے کہ تم تو اس کا حق پہچانو اور اس کی فرماں برداری کرو، اور وہ نافرمانوں کو تم پر حاکم بنا دے، اور تم کو فرماں برداری کے معاوضے میں سزا دے؟ اگر تمھاراایمان ہے کہ خدا ظالم نہیں ہے، اور اگر تم یقین رکھتے ہو کہ خدا کی فرماں برداری کا بدلہ ذلّت سے نہیں مل سکتا، تو پھر تمھیں ماننا پڑے گا کہ مسلمان ہونے کا دعویٰ جو تم کرتے ہو اسی میں کوئی غلطی ہے۔ تمھارا نام سرکاری کاغذات میں تو ضرور مسلمان لکھا جاتا ہے، مگر خدا کے ہاں انگریزی سرکار کے دفتر کی سند پر فیصلہ نہیں ہوتا۔ خدا اپنا دفتر الگ رکھتا ہے، وہاں تلاش کرو کہ تمھارا نام فرماں برداروں میں لکھا ہوا ہے یا نافرمانوں میں؟
خدا نے تمھارے پاس کتاب بھیجی، تاکہ تم اس کتاب کو پڑھ کر اپنے مالک کو پہچانو اور اس کی فرماں برداری کا طریقہ معلوم کرو۔ کیا تم نے کبھی یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اس کتاب میں کیا لکھا ہے؟ خدا نے اپنے نبیؐ کو تمھارے پاس بھیجا تاکہ وہ تمھیں مسلمان بننے کا طریقہ سکھائے۔ کیا تم نے کبھی یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اس کے نبی a نے کیا سکھایا ہے؟ خدا نے تم کو دنیااور آخرت میں عزت حاصل کرنے کا طریقہ بتایا۔ کیا تم اس طریقے پر چلتے ہو؟ خدا نے کھول کھول کر بتایا کہ کون سے کام ہیں جن سے انسان دنیا اور آخرت میں ذلیل ہوتا ہے۔ کیا تم ایسے کاموں سے بچتے ہو؟ بتائو تمھارے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ اگر تم مانتے ہو کہ نہ تو تم نے خدا کی کتاب اور اس کے نبیؐ کی زندگی سے علم حاصل کیا اور نہ اس کے بتائے ہوئے طریقے کی پیروی کی، تو تم مسلمان ہوئے کب کہ تمھیں اس کا اجر ملے؟ جیسے تم مسلمان ہو ویسا ہی اجر تمھیں مل رہا ہے اور ویسا ہی اجر آخرت میں بھی دیکھ لو گے۔
میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ مسلمان اور کافر میں علم اور عمل کے سوا کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر کسی شخص کا علم اور عمل ویسا ہی ہے جیسا کافر کا ہے، اور وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، تو بالکل جھوٹ کہتا ہے۔ کافر، قرآن کو نہیں پڑھتا اور نہیں جانتا کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ یہی حال اگر مسلمان کا بھی ہو تو وہ مسلمان کیوں کہلائے؟ کافر، نہیں جانتا کہ رسول اللہa کی کیا تعلیم ہے اور آپؐ نے خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ کیا بتایا ہے؟ اگر مسلمان بھی اسی کی طر ح ناواقف ہو تو وہ مسلمان کیسے ہوا؟ کافر،خدا کی مرضی پر چلنے کے بجائے اپنی مرضی پرچلتا ہے۔ مسلمان بھی اگراُسی کی طرح خودسر اور آزاد ہو، اسی کی طرح اپنے ذاتی خیالات اور اپنی رائے پر چلنے والا ہو، اسی کی طرح خدا سے بے پروا اور اپنی خواہش کا بندہ ہو تو اسے اپنے آپ کو ’’مسلمان‘‘ (خدا کا فرماں بردار) کہنے کا کیا حق ہے؟ کافر حلال اور حرام کی تمیز نہیں کرتا اور جس کام میں اپنے نزدیک فائدہ یا لذت دیکھتا ہے اس کو اختیار کر لیتا ہے، چاہے خداکے نزدیک وہ حلال ہو یا حرام۔ یہی رویہ اگر مسلمان کا ہو تو اس میں اور کافر میں کیا فرق ہوا؟ غرض یہ ہے کہ جب مسلمان بھی اسلام کے علم سے اتنا ہی کورا ہو جتنا کافر ہوتا ہے، اور جب مسلمان بھی وہ سب کچھ کرے جو کافر کرتا ہے تو اس کو کافر کے مقابلے میں کیوں فضیلت حاصل ہو، اور اس کا حشر بھی کافر جیسا کیوں نہ ہو؟ یہ ایسی بات ہے جس پر ہم سب کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔
*غور کا مقام
میرے عزیز بھائیو! کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ میں مسلمانوں کو کافر بنانے چلا ہوں۔ نہیں، میرا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے۔ میں خود بھی سوچتا ہوں، اور چاہتا ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص اپنی اپنی جگہ سوچے کہ ہم آخر خدا کی رحمت سے کیوں محروم ہو گئے ہیں؟ ہم پر ہر طرف سے کیوں مصیبتیں نازل ہو رہی ہیں؟ جن کو ہم کافر، یعنی خدا کے نافرمان بندے کہتے ہیں وہ ہم پرہر جگہ غالب کیوں ہیں؟ اور ہم جو فرماں بردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہر جگہ مغلوب کیوں ہو رہے ہیں؟
اس کی وجہ پر میں نے جتنا زیادہ غور کیا، اتنا ہی مجھے یقین ہوتا چلا گیا کہ ہم میں اور کفار میں بس نام کا فرق رہ گیا ہے، ورنہ ہم بھی خدا سے غفلت اور اس سے بے خوفی اور اس کی نافرمانی میں کچھ ان سے کم نہیں ہیں۔ تھوڑا سا فرق ہم میں اور ان میں ضرور ہے، مگر اس کی وجہ سے ہم کسی اجر کے مستحق نہیں ہیں، بلکہ سزا کے مستحق ہیں کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن خدا کی کتاب ہے اور پھر اس کے ساتھ وہ برتائو کرتے ہیں جو کافر کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ محمدa اللہ کے نبی ہیں، اور پھر ان کی پیروی سے اس طرح بھاگتے ہیں جیسے کافر بھاگتا ہے۔ ہم کو معلوم ہے کہ جھوٹے پر خدا نے لعنت کی ہے، رشوت کھانے اور کھلانے والے کو جہنم کا یقین دلایا ہے، سود کھانے اور کھلانے والے کو بدترین مجرم قراردیا ہے، غیبت کو اپنے بھائی کا گوشت کھانے کے برابر بتایا ہے، فحش اور بے حیائی اور بدکاری پر سخت عذاب کی دھمکی دی ہے، مگر یہ جاننے کے بعد بھی ہم کفار کی طرح یہ سب کام آزادی کے ساتھ کرتے ہیں، گویا ہمیں خدا کا کوئی خوف ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جو کفار کے مقابلے میں تھوڑے بہت مسلمان بنے ہوئے نظر آتے ہیں، اس پر ہمیں انعام نہیں ملتا بلکہ سزا دی جاتی ہے۔ کفار کا ہم پر حکمران ہونا، ہر جگہ ہمارا زِک اٹھانا اسی جرم کی سزا ہے کہ ہمیں اسلام کی نعمت دی گئی تھی اور پھر ہم نے اس کی قدر نہ کی۔
عزیزو! آج کے خطبے میں جو کچھ میں نے کہا ہے یہ اس لیے نہیں ہے کہ تم کو ملامت کروں۔ میں ملامت کرنے نہیں اٹھا ہوں۔ میرا مقصد یہ ہے کہ جو کچھ کھویا گیا ہے اس کو پھر سے حاصل کرنے کی کچھ فکر کی جائے۔ کھوئے ہوئے کو پانے کی فکراُسی وقت ہوتی ہے جب انسان کو معلوم ہو کہ اس کے پاس سے کیا چیز کھوئی گئی ہے اور وہ کیسی قیمتی چیز ہے۔ اسی لیے میں تم کو چونکانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر تم کو ہوش آ جائے اورتم سمجھ لو کہ حقیقت میں بہت قیمتی چیز تمھارے پاس تھی، تو تم پھر سے اس کے حاصل کرنے کی فکر کرو گے۔
*حصولِ علم کی فکر
میں نے پچھلے خطبے میں تم سے کہا تھا کہ مسلمان کو مسلمان ہونے کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ اسلام کا علم ہے۔ ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن کی تعلیم کیا ہے، رسولِ پاکؐ کا طریقہ کیا ہے، اسلام کس کو کہتے ہیں، اور کفر واسلام میں اصلی فرق کن باتوں کی وجہ سے ہے؟ اس علم کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا، مگر افسوس ہے کہ تم اسی علم کو حاصل کرنے کی فکر نہیں کرتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک تم کو احساس نہیں ہوا کہ تم کتنی بڑی نعمت سے محروم ہو۔
میرے بھائیو! ماں اپنے بچے کو دودھ بھی اُس وقت تک نہیں دیتی جب تک کہ وہ رو کرمانگتا نہیں۔ پیاسے کو جب پیاس لگتی ہے تو وہ خود پانی ڈھونڈتا ہے، اور خدا اس کے لیے پانی پیدا بھی کر دیتا ہے۔ جب تم کو خود ہی پیاس نہ ہو تو پانی سے بھرا ہوا کنواں بھی تمھارے پاس آ جائے تو بے کار ہے۔ پہلے تم کو خود سمجھنا چاہیے کہ دین سے ناواقف رہنے میں تمھارا کتنا بڑا نقصان ہے۔ خدا کی کتاب تمھارے پاس موجود ہے، مگر تم نہیں جانتے کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ اس سے زیادہ نقصان کی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ نماز تم پڑھتے ہو، مگر تمھیں نہیں معلوم کہ اس نماز میں تم اپنے خدا کے سامنے کیا عرض کرتے ہو؟ اس سے بڑھ کر اور کیا نقصان ہو سکتا ہے؟ کلمہ، جس کے ذریعے سے تم اسلام میں داخل ہوتے ہو، اس کے معنی تک تم کو معلوم نہیں اور تم نہیں جانتے کہ اس کلمے کو پڑھنے کے ساتھ ہی تم پر کیا ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں؟ ایک مسلمان کے لیے کیا اس سے بھی بڑھ کر کوئی نقصان ہو سکتا ہے؟ کھیتی کے جل جانے کا نقصان تم کو معلوم ہے، روزگار نہ ملنے کا نقصان تم کو معلوم ہے، اپنے مال کے ضائع ہو جانے کا نقصان تم کو معلوم ہے، مگر اسلام سے ناواقف ہونے کا نقصان تمھیں معلوم نہیں۔ جب تم کو اس نقصان کا احساس ہو گا تو تم خود آ کر کہو گے کہ ہمیں اس نقصان سے بچائو، اور جب تم خود کہو گے تو ان شاء اللہ تمھیں اس نقصان سے بچانے کا بھی انتظام ہو جائے گا۔
٭…٭…٭
سوچنے کی باتیں
*قرآن کے ساتھ ہمارا سلوک
برادرانِ اسلام! دنیا میں اس وقت مسلمان ہی وہ خوش قسمت لوگ ہیں جن کے پاس اللہ کا کلام بالکل محفوظ، تمام تحریفات سے پاک، ٹھیک ٹھیک انھی الفاظ میں موجود ہے جن الفاظ میں وہ اللہ کے رسولِ برحق پراترا تھا، اور دنیا میں اس وقت مسلمان ہی وہ بدقسمت لوگ ہیں جو اپنے پاس اللہ کا کلام رکھتے ہیں اور پھر بھی اس کی برکتوں اور بے حد وحساب نعمتوں سے محروم ہیں۔ قرآن ان کے پاس اس لیے بھیجا گیا تھا کہ اس کو پڑھیں، سمجھیں، اس کے مطابق عمل کریں، اور اس کو لے کر خدا کی زمین پر خدا کے قانون کی حکومت قائم کر دیں۔ وہ ان کو عزت اورطاقت بخشنے آیا تھا۔ وہ انھیں زمین پر خدا کا اصلی خلیفہ بنانے آیا تھا، اور تاریخ گواہ ہے کہ جب انھوں نے اس کی ہدایت کے مطابق عمل کیا تو اس نے ان کو دنیا کا امام اور پیشوا بنا کر بھی دکھا دیا، مگر اب ان کے ہاں اس کا مصرف اس کے سوا کچھ نہیں رہا کہ گھر میں اس کو رکھ کر جن بھوت بھگائیں، اس کی آیتوں کو لکھ کر گلے میں باندھیں اور گھول کر پئیں اور محض ثواب کے لیے بے سمجھے بوجھے پڑھ لیا کریں۔
اب یہ اس سے اپنی زندگی کے معاملات میں ہدایت نہیں مانگتے۔ اس سے نہیں پوچھتے کہ ہمارے عقائد کیا ہونے چاہییں؟ہمارے اعمال کیا ہونے چاہییں؟ ہمارے اخلاق کیسے ہونے چاہییں؟ہم لین دین کس طرح کریں؟ دوستی اور دشمنی میں کس قانون کی پابندی کریں؟ خدا کے بندوں کے اور خود اپنے نفس کے حقوق ہم پر کیا ہیں اور انھیں ہم کس طرح ادا کریں؟ ہمارے لیے حق کیا ہے اورباطل کیا؟ اطاعت ہمیں کس کی کرنی چاہیے اور نافرمانی کس کی؟ تعلق کس سے رکھنا چاہیے اور کس سے نہ رکھنا چاہیے؟ ہمارا دوست کون ہے اور دشمن کون؟ ہمارے لیے عزت اور فلاح اور نفع کس چیز میں ہے اور ذلت اور نامرادی اور نقصان کس چیز میں؟یہ ساری باتیں اب مسلمانوں نے قرآن سے پوچھنی چھوڑ دی ہیں۔ اب یہ کافروں اور مشرکوں سے، گمراہ اور خود غرض لوگوں سے، اور خود اپنے نفس کے شیطان سے ان باتوں کو پوچھتے ہیں اور انھی کے کہے پر چلتے ہیں۔ اس لیے خدا کو چھوڑ کر دوسروں کے حکم پر چلنے کا جو انجام ہونا چاہیے وہی ان کا ہوا اور اسی کو یہ آج ہندستان میں، چین اور جاوا میں، فلسطین اور شام میں، الجزائر اور مراکش میں، ہر جگہ بری طرح بھگت رہے ہیں۔ قرآن تو خیر کا سرچشمہ ہے۔ جتنی اور جیسی خیر تم اس سے مانگو گے یہ تمھیں دے گا۔ تم اس سے محض جن بھوت بھگانا اور کھانسی بخار کا علاج اور مقدمے کی کامیابی اور نوکری کا حصول اور ایسی ہی چھوٹی، ذلیل وبے حقیقت چیزیں مانگتے ہو تو یہی تمھیں ملیں گی۔ اگر دنیا کی بادشاہی اور رُوئے زمین کی حکومت مانگو گے تو وہ بھی ملے گی اور اگر عرشِ الٰہی کے قریب پہنچنا چاہو گے تو یہ تمھیں وہاں بھی پہنچا دے گا۔ یہ تمھارے اپنے ظرف کی بات ہے کہ سمندر سے پانی کی دو بوندیں مانگتے ہو، ورنہ سمندر تو دریا بخشنے کے لیے بھی تیار ہے۔
حضرات! جو ستم ظریفیاں ہمارے بھائی مسلمان اللہ کی اس کتابِ پاک کے ساتھ کرتے ہیں وہ اس قدرمضحکہ انگیز ہیں کہ اگر یہ خود کسی دوسرے معاملے میں کسی شخص کو ایسی حرکتیں کرتے دیکھیں تو اس کی ہنسی اڑائیں، بلکہ اس کو پاگل قرار دیں۔ بتائیے! اگر کوئی شخص حکیم سے نسخہ لکھوا کر لائے اور اسے کپڑے میں لپیٹ کر گلے میں باندھ لے، یا اسے پانی میں گھول کر پی جائے تو اسے آپ کیا کہیں گے؟ کیا آپ کو اس پر ہنسی نہ آئے گی؟ اور آپ اسے بے وقوف نہ سمجھیں گے؟ مگر سب سے بڑے حکیم نے آپ کے امراض کے لیے شفا اور رحمت کا جو بے نظیر نسخہ لکھ کر دیا ہے اس کے ساتھ آپ کی آنکھوں کے سامنے رات دن یہی سلوک ہو رہا ہے اور کسی کو اس پرہنسی نہیں آتی۔ کوئی نہیں سوچتا کہ نسخہ گلے میں لٹکانے اور گھول کر پینے کی چیز نہیں، بلکہ اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی ہدایت کے مطابق دوا استعمال کی جائے۔
* فہمِ قرآن اور عمل بالقرآن لازم ہے
بتائیے! اگر کوئی شخص بیمار ہو اور علمِ طب کی کوئی کتاب لے کرپڑھنے بیٹھ جائے اور یہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دور ہو جائے گی تو آپ اسے کیا کہیں گے؟
کیا آپ نہ کہیں گے کہ بھیجو اسے پاگل خانے میں، اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے؟ مگر شافیِ مطلق نے جو کتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کے لیے بھیجی ہے اس کے ساتھ آپ کا یہی برتائو ہے۔ آپ اس کو پڑھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ بس اس کے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دور ہو جائیں گے۔ اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں، نہ ان چیزوں سے پرہیز کی ضرورت ہے جن کو یہ مُضر بتا رہی ہے۔ پھر آپ خود اپنے اوپر بھی وہی حکم کیوں نہیں لگاتے جو اس شخص پر لگاتے ہیں جو بیماری دُور کرنے کے لیے صرف علمِ طب کی کتاب پڑھ لینے کو کافی سمجھتا ہے؟
آپ کے پاس اگر کوئی خط کسی ایسی زبان میں آتا ہے جسے آپ نہ جانتے ہوں تو آپ دوڑے ہوئے جاتے ہیں کہ اس زبان کے جاننے والے سے اس کا مطلب پوچھیں۔ جب تک آپ اس کا مطلب نہیں جان لیتے آپ کو چین نہیں آتا۔ یہ معمولی کاروبار کے خطوط کے ساتھ آپ کا برتائو ہے جن میں زیادہ سے زیادہ چار پیسوں کا فائدہ ہو جاتا ہے، مگر خداوندِ عالم کا جو خط آپ کے پاس آیا ہوا ہے اور جس میں آپ کے لیے دین ودنیا کے تمام فائدے ہیں، اسے آپ اپنے پاس یونہی رکھ چھوڑتے ہیں، اس کا مطلب سمجھنے کے لیے کوئی بے چینی آپ میں پیدا نہیں ہوتی۔ کیا یہ حیرت اور تعجب کا مقام نہیں؟
* اللہ کی کتاب پر ظلم کا نتیجہ
یہ باتیں میں ہنسی دل لگی کے لیے نہیں کر رہا ہوں۔ آپ ان باتوں پر غور کریں گے تو آپ کا دل گواہی دے گا کہ دنیا میں سب سے بڑھ کر ظلم اللہ کی اس کتابِ پاک کے ساتھ ہو رہا ہے، اور یہ ظلم کرنے والے وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور اس پر جان قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ بے شک وہ ایمان رکھتے ہیں اور اسے جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں، مگر افسوس یہ ہے کہ وہی اس پر سب سے زیادہ ظلم کرتے ہیں، اور اللہ کی کتاب پر ظلم کرنے کا جو انجام ہے وہ ظاہر ہے۔ خوب سمجھ لیجیے! اللہ کا کلام انسان کے پاس اس لیے نہیں آتا کہ وہ بدبختی اور نکبت{ FR 1589 } ومصیبت میں مبتلا ہو:
طٰہٰ o مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی o لا (طٰہٰ 20:1-2)
طٰہٰ۔ ہم نے یہ قرآن تم پر اس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑ جائو۔
یہ سعادت اور نیک بختی کا سرچشمہ ہے، شقاوت اور بدبختی کا ذریعہ نہیں ہے۔ یہ قطعی ناممکن ہے کہ کوئی قوم خدا کے کلام کی حامل ہو، اور پھر دنیا میں ذلیل وخوار ہو، دوسروں کی محکوم ہو، پائوں میں روندی اور جوتیوں سے ٹھکرائی جائے۔ اس کے گلے میں غلامی کا پھندا ہو، اور غیروں کے ہاتھ میں اس کی باگیں ہوں اور وہ اس کو اس طرح ہانکیں جیسے جانور ہانکے جاتے ہیں۔ یہ انجام اس کا صرف اسی وقت ہوتا ہے جب وہ اللہ کے کلام پر ظلم کرتی ہے۔ بنی اسرائیل کا انجام آپ کے سامنے ہے۔ ان کے پاس توراۃ اور انجیل بھیجی گئی تھیں اور کہا گیا تھا:
وَ لَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ ط (المائدہ 5:66)
اگر وہ توراۃ اور انجیل اور ان کتابوں کی پیروی پر قائم رہتے جو ان کے(رب کی طرف سے ان کے) پاس بھیجی گئی تھیں تو ان پر آسمان سے رزق برستا اور زمین سے رزق ابلتا۔
مگر انھوں نے اللہ کی ان کتابوں پر ظلم کیا اور اس کا نتیجہ یہ دیکھا کہ:
وَضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْكَنَۃُ۰ۤ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ۰ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ وَيَقْتُلُوْنَ النَّـبِيّٖنَ بِغَيْرِ الْحَقِّ۰ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَo
(البقرہ 2:61)
اُن پر ذلت اور محتاجی مسلط کر دی گئی اور وہ خدا کے غضب میں گھِر گئے۔ یہ اس لیے کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے تھے، اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے تھے اور اس لیے کہ وہ اللہ کے نافرمان ہو گئے تھے اور حد سے گزر گئے تھے۔
پس جو قوم خدا کی کتاب رکھتی ہو، اور پھر بھی ذلیل وخوار، اور محکوم ومغلوب ہو تو سمجھ لیجیے کہ وہ ضرور کتابِ الٰہی پر ظلم کر رہی ہے اور اس پر یہ سارا وبال اسی ظلم کا ہے۔ خدا کے اس غضب سے نجات پانے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ اس کی کتاب کے ساتھ ظلم کرنا چھوڑ دیا جائے، اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر آپ اس گناہِ عظیم سے باز نہ آئیں گے تو آپ کی حالت ہرگز نہ بدلے گی، خواہ آپ گائوں گائوں کالج کھول دیں اور آپ کا بچہ بچہ گریجوایٹ ہو جائے اور آپ یہودیوں کی طرح سود خواری کرکے کروڑ پتی ہی کیوں نہ بن جائیں۔
1-مسلمان کسے کہتے ہیں؟
حضرات! ہر مسلمان کو سب سے پہلے جو چیز جاننی چاہیے وہ یہ ہے کہ ’’مسلمان‘‘ کہتے کس کو ہیں اور ’’مسلم‘‘ کے معنی کیا ہیں؟ اگر انسان یہ نہ جانتا ہو کہ ’’انسانیت‘‘ کیا چیز ہے اور انسان وحیوان میں فرق کیا ہے تو وہ حیوانوں کی سی حرکات کرے گا اور اپنے آدمی ہونے کی قدر نہ کرسکے گا۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو یہ نہ معلوم ہو کہ مسلمان ہونے کے معنی کیا ہیں اور مسلم اور غیر مسلم میں امتیاز کس طرح ہوتا ہے تو وہ غیر مسلموں کی سی حرکات کرے گا اور اپنے مسلمان ہونے کی قدر نہ کر سکے گا۔ لہٰذا مسلمان کو اور مسلمان کے ہر بچے کو اس بات سے واقف ہونا چاہیے کہ وہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تو اس کے معنی کیا ہیں، مسلمان ہونے کے ساتھ ہی آدمی کی حیثیت میں کیا فرق واقع ہوجاتا ہے، اس پرکیا ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے، اور اسلام کے حدود کیا ہیں جن کے اندر رہنے سے آدمی مسلمان رہتا ہے اور جن کے باہر قدم رکھتے ہی وہ مسلمانیت سے خارج ہو جاتا ہے، چاہے وہ زبان سے اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتا جائے؟
* اسلام کے معنی
’’اسلام‘‘ کے معنی ہیں خدا کی اطاعت اور فرماں برداری کے۔ اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دینا ’’اسلام‘‘ ہے۔ خدا کے مقابلے میں اپنی آزادی وخودمختاری سے دست بردار ہو جانا ’’اسلام‘‘ ہے۔ خدا کی بادشاہی وفرماں روائی کے آگے سرتسلیم خم کر دینا ’’اسلام‘‘ ہے۔ جو شخص اپنے سارے معاملات کو خدا کے حوالے کر دے وہ مسلمان ہے، اور جو اپنے معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھے یا خدا کے سوا کسی اور کے سپرد کر دے وہ مسلمان نہیں ہے۔ خدا کے حوالے کرنے یا خدا کے سپرد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اپنی کتاب اور اپنے رسولa کے ذریعے سے جو ہدایت بھیجی ہے اس کو قبول کیا جائے، اس میں چون وچرا نہ کی جائے، اور زندگی میں جو معاملہ بھی پیش آئے اس میں صرف قرآن اور سنتِ رسول ؐکی پیروی کی جائے۔جو شخص اپنی عقل اور دنیا کے دستور اور خدا کے سوا ہر ایک کی بات کو پیچھے رکھتا ہے، اور ہر معاملے میں خدا کی کتاب اور اس کے رسول a سے پوچھتا ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اورکیا نہ کرنا چاہیے، اور جو ہدایت وہاں سے ملے اس کو بے چون وچرا مان لیتا ہے اور اس کے خلاف ہر چیز کو ردکر دیتا ہے، وہ اور صرف وہی ’’مسلمان‘‘ ہے۔ اس لیے کہ اس نے اپنے آپ کو بالکل خدا کے سپرد کر دیا، اور اپنے آپ کو خدا کے سپرد کرنا ہی ’’مسلمان‘‘ ہونا ہے۔
اس کے برخلاف جو شخص قرآن اور سنتِ رسولؐ پر انحصار نہیں کرتا، بلکہ اپنے دل کا کہا کرتا ہے، یا باپ دادا سے جو کچھ ہوتا چلا آتا ہو، اس کی پَیروی کرتا ہے، یا دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہو اس کے مطابق چلتا ہے، اور اپنے معاملات میں قرآن اور سنت سے یہ دریافت کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتا کہ اسے کیا کرنا چاہیے، یا اگر اسے معلوم ہوجائے کہ قرآن وسنت کی ہدایت یہ ہے اور پھر وہ اس کے جواب میں کہتا ہے کہ میری عقل اسے قبول نہیں کرتی اس لیے میں اس بات کو نہیں مانتا، یا باپ دادا سے تو اس کے خلاف عمل ہو رہا ہے، لہٰذا میں اس کی پَیروی نہ کروں گا، یا دنیا کا طریقہ اس کے خلاف ہے، لہٰذا میں اُسی پرچلوں گا، تو ایسا شخص ہرگز مسلمان نہیں ہے۔ وہ جھوٹ کہتا ہے اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔
* مسلمان کے فرائض
آپ جس وقت کلمہ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھتے ہیں اور مسلمان ہونے کا اقرار کرتے ہیں، اسی وقت گویا آپ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آپ کے لیے قانون صرف خدا کا قانون ہے، آپ کا حاکم صرف خدا ہے، آپ کو اطاعت صرف خدا کی کرنی ہے، اور آپ کے نزدیک حق صرف وہ ہے جو خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کے ذریعے سے معلوم ہو۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ مسلمان ہوتے ہی خدا کے حق میں اپنی آزادی سے دست بردار ہو گئے۔ اب آپ کو یہ کہنے کا حق ہی نہ رہا کہ میری رائے یہ ہے، یا دنیا کا دستور یہ ہے، یا خاندان کا رواج یہ ہے، یا فلاں حضرت یا فلاں بزرگ یہ فرماتے ہیں۔ خدا کے کلام اور اس کے رسول a کی سنت کے مقابلے میں اب ان میں سے کوئی چیز بھی آپ نہیں کر سکتے۔ اب آپ کا کام یہ ہے کہ ہر چیز کو قرآن اور سنت کے سامنے پیش کریں، جو کچھ اس کے مطابق ہو، قبول کریں، اور جو اس کے خلاف ہو اسے اٹھا کر پھینک دیں خواہ وہ کسی کی بات اور کسی کا طریقہ ہو۔ اپنے آپ کو مسلمان بھی کہنا اور پھر قرآن وسنت کے مقابلے میں اپنے خیال یا دنیا کے دستور یا کسی انسان کے قول یا عمل کو ترجیح دینا، یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جس طرح کوئی اندھا اپنے آپ کو آنکھوں والا نہیں کہہ سکتا، اور کوئی نکٹا اپنے آپ کو ناک والا نہیں کہہ سکتا۔ اسی طرح کوئی ایسا شخص اپنے آپ کو مسلمان بھی نہیں کہہ سکتا جو اپنی زندگی کے سارے معاملات کو قرآن اور سنت کا تابع بنانے سے انکار کرے، اور خدا اوررسولؐ کے مقابلے میں اپنی عقل یا دنیا کے دستور یا کسی انسان کے قول وعمل کو پیش کرے۔
جو شخص مسلمان نہ رہنا چاہتا ہو اُسے کوئی مسلمان رہنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ اسے اختیار ہے کہ جومذہب چاہے اختیار کرے اور اپنا جو نام چاہے رکھ لے، مگر جب وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تو اس کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ مسلمان اُسی وقت تک رہ سکتا ہے جب تک وہ اسلام کی سرحد میں رہے۔ خدا کے کلام اور اس کے رسول a کی سنت کو حق اور صداقت کا معیار تسلیم کرنا اور اس کے خلاف ہر چیز کو باطل سمجھنا اسلام کی سرحد ہے۔ اس سرحد میں جو شخص رہے وہی مسلمان ہے۔ اس سے باہر قدم رکھتے ہی آدمی اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، اور اس کے بعد وہ اگر اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے اور مسلمان کہتا ہے تو خود وہ اپنے نفس کو بھی دھوکا دیتا ہے اور دنیا کو بھی:
وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَ نْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَo (المائدہ 5:44)
اور جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی کافر ہیں۔
٭…٭…٭
کلمۂ طیبہ کے معنی
برادرانِ اسلام! آپ کو معلوم ہے کہ انسان دائرۂ اسلام میں ایک کلمہ پڑھ کر داخل ہوتا ہے اور وہ کلمہ بھی کچھ بہت زیادہ لمبا چوڑا نہیں ہے، صرف چند لفظ ہیں:
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔
اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں، محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔
ان الفاظ کو زبان سے ادا کرتے ہی آدمی کچھ سے کچھ ہوجاتا ہے۔ پہلے کافر تھا، اب مسلمان ہو گیا۔ پہلے ناپاک تھا، اب پاک ہو گیا۔ پہلے خدا کے غضب کا مستحق تھا، اب اس کا پیارا ہو گیا۔ پہلے دوزخ میں جانے والا تھا، اب جنت کا دروازہ اس کے لیے کھل گیا، اور بات صرف اتنے ہی پر نہیں رہتی۔ اسی کلمے کی وجہ سے آدمی اور آدمی میں بڑا فرق ہو جاتا ہے۔ جو اس کلمے کے پڑھنے والے ہیں وہ ایک امت ہوتے ہیں اور جو اس سے انکار کرتے ہیں وہ دوسری امت ہو جاتے ہیں۔ باپ اگر کلمہ پڑھنے والا ہے اور بیٹا اس سے انکار کرتا ہے توگویا باپ باپ نہ رہا اور بیٹا بیٹا نہ رہا۔ باپ کی جائداد سے اس بیٹے کو ورثہ نہ ملے گا۔ ماں اور بہنیں تک اس سے پردہ کرنے لگیںگی ۔{ FR 1597 } غیر شخص اگر کلمہ پڑھنے والا ہے اور اس گھر کی بیٹی بیاہتا ہے تو وہ اور اس کی اولاد تو اس گھرسے ورثہ پائے گی، مگر یہ اپنی صُلب کا بیٹا صرف اس وجہ سے کہ کلمہ کو نہیں مانتا، غیروں کا غیر بن جائے گا۔ گویا یہ کلمہ ایسی چیز ہے جو غیروں کو ایک دوسرے سے ملا دیتی ہے اور اپنوں کو ایک دوسرے سے کاٹ دیتی ہے۔ حتیٰ کہ اس کلمہ کا زور اتنا ہے کہ خون اور رحم کے رشتے بھی اس کے مقابلے میں کچھ نہیں۔
1-اتنا بڑا فرق کیوں؟
اب ذرا اس بات پر غور کرو کہ یہ اتنا بڑا فرق جو آدمی اور آدمی میں ہو جاتا ہے، یہ آخر کیوں ہوتا ہے؟ کلمہ میں ہے کیا؟ صرف چند حرف ہی توہیں_____ لام، الف، ہ، م، د، س_____ اور ایسے ہی دو چار حروف اور۔ ان حرفوں کو ملا کر اگر منہ سے نکا ل دیا توکیا کوئی جادو ہو جاتا ہے کہ آدمی کی کایا پلٹ جائے؟ آدمی اور آدمی میں کیا بس اتنی سی بات سے زمین وآسمان کا فرق ہو سکتا ہے؟
میرے بھائیو! تم ذرا سمجھ سے کام لو گے تو تمھاری عقل خود کہہ دے گی کہ فقط منہ کھولنے اور زبان ہلا کر چند حرف بول دینے کی اتنی بڑی تاثیر نہیں ہو سکتی۔ بت پرست مشرک تو ضرور سمجھتے ہیں کہ بس ایک منتر پڑھ دینے سے پہاڑ ہل جائے گا، زمین شق ہو جائے گی اور چشمے ابلنے لگیں گے، چاہے منتر کے معنی کی کسی کو خبر نہ ہو، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ساری تاثیر بس حرفوں میں ہے۔ وہ زبان سے نکلے اور طلسمات کے دروازے کھل گئے، مگر اسلام میں یہ بات نہیں ہے۔ یہاں اصل چیز معنی ہیں۔ الفاظ کی تاثیر معنوں سے ہے۔ معنی اگر نہ ہوں اوروہ دل میں نہ اتریں ، اور ان کے زور سے تمھارے خیالات، تمھارے اخلاق اورتمھارے اعمال نہ بدلیں، تو نرے الفاظ بول دینے سے کچھ بھی اثر نہ ہو گا۔
اس بات کو میں ایک موٹی سی مثال سے تمھیں سمجھائوں۔ فرض کرو تمھیں سردی لگتی ہے۔ اگر تم زبان سے روئی لحاف، روئی لحاف پکارنا شروع کر دو، تو سردی لگنی بند نہ ہو گی، چاہے تم رات بھر میں ایک لاکھ تسبیحیں روئی لحاف کی پڑھ ڈالو۔ ہاں، اگر لحاف میں روئی بھروا کر اوڑھ لو گے تو سردی لگنی بند ہو جائے گی۔ فرض کرو کہ تمھیں پیاس لگ رہی ہے۔ اگر تم صبح سے شام تک پانی پانی پکارتے رہو تو پیاس نہ بجھے گی۔ ہاں، پانی کا ایک گھونٹ لے کر پی لو گے تو کلیجے کی ساری آگ فوراً ٹھنڈی ہو جائے گی۔ فرض کرو کہ تم کو نزلہ بخار ہو جاتا ہے۔ اس حال میں اگر بنفشہ گائو زبان، بنفشہ گائو زبان کی تسبیحیں تم پڑھنی شروع کر دو گے تو نزلے بخار میں کچھ بھی کمی نہ ہو گی۔ ان دوائوں کا جوشاندہ بنا کر پی لو گے تو نزلہ بخار خود بھاگ جائے گا۔ بس یہی حال کلمۂ طیّبہ کا بھی ہے۔ فقط چھے سات لفظ بول دینے سے اتنا بڑا فرق نہیں ہوتا کہ آدمی کافر سے مسلمان ہو جائے، ناپاک سے پاک ہو جائے، مردود سے محبوب بن جائے، دوزخی سے جنتی بن جائے۔
یہ فرق صرف اس طرح ہو گا کہ پہلے ان الفاظ کا مطلب سمجھو اور وہ مطلب تمھارے دل میں اتر جائے۔ پھر مطلب کو جان بوجھ کر جب تم ان الفاظ کو زبان سے نکالو تو تمھیں اچھی طرح یہ احساس ہو کہ تم اپنے خدا کے سامنے اور ساری دنیا کے سامنے کتنی بڑی بات کا اقرار کر رہے ہو، اور اس اقرار سے تمھارے اوپر کتنی بڑی ذمہ داری آ گئی ہے۔ پھر یہ سمجھتے ہوئے جب تم نے اقرار کر لیا تو اس کے بعد تمھارے خیالات پر اور تمھاری ساری زندگی پر اس کلمہ کا قبضہ ہو جانا چاہیے۔ پھر تم کو اپنے دل ودماغ میں کسی ایسی بات کو جگہ نہ دینی چاہیے جو اس کلمہ کے خلاف ہو۔ پھر تم کو ہمیشہ کے لیے بالکل فیصلہ کر لینا چاہیے کہ جو بات اس کلمہ کے خلاف ہے وہ جھوٹی ہے اور یہ کلمہ سچا ہے۔ پھر زندگی کے سارے معاملات میں یہ کلمہ تمھارا حاکم ہونا چاہیے۔ اس کلمہ کا اقرار کرنے کے بعد تم کافروں کی طرح آزاد نہیں رہے کہ جو چاہو کرو، بلکہ اب تم اس کلمہ کے پابند ہو۔ جو وہ کہے اُس کو کرنا پڑے گا اورجس سے وہ منع کرے اس کو چھوڑنا پڑے گا۔ اس طرح کلمہ پڑھنے سے آدمی مسلمان ہوتا ہے، اوراس طرح کلمہ پڑھنے کی وجہ سے آدمی اورآدمی میں اتنا بڑا فرق ہوتا ہے جس کا ذکر میں نے ابھی تم سے کیا۔
* کلمہ کا مطلب
آئو! اب میں تمھیں بتائوں کہ کلمہ کا مطلب کیا ہے اور اس کو پڑھ کر آدمی کس چیز کا اقرار کرتا ہے اور اس کا اقرار کرتے ہی آدمی کس چیز کا پابند ہو جاتا ہے۔
کلمہ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے اور حضرت محمدa اللہ کے رسول ہیں۔ کلمہ میں اِلٰہ کا جو لفظ آیا ہے اس کے معنیٰ ’خدا‘ کے ہیں۔ خدا اس کو کہتے ہیں جو مالک ہو، حاکم ہو، خالق ہو، پالنے اور پوسنے والا ہو، دعائوں کا سننے اور قبول کرنے والا ہو،اور اس کا مستحق ہوکہ اس کی عبادت کی جائے۔ اب جو تم نے لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ کہا تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اوّل تو تم نے یہ اقرار کیا کہ یہ دنیا نہ تو بے خدا کے بنی ہے، اور نہ ایسا ہی ہے کہ اس کے بہت سے خدا ہوں، بلکہ دراصل اس کا خدا ہے، اور وہ خدا ایک ہی ہے، اور اس ایک ذات کے سوا خدائی کسی کی نہیں ہے۔
دوسری بات جس کا تم نے کلمہ پڑھتے ہی اقرار کیا وہ یہ ہے کہ وہی ایک خدا تمھارا اور سارے جہان کا مالک ہے۔ تم اور تمھاری ہر چیز اور دنیا کی ہر شے اس کی ہے۔ خالق وہ ہے، رازق وہ ہے، موت اور زندگی اس کی طرف سے ہے۔ مصیبت اور راحت بھی اسی کی طرف سے ہے۔ جو کچھ کسی کوملتا ہے اس کو دینے والا حقیقت میں وہی ہے۔جو کچھ کسی سے چھینا جاتا ہے اس کا چھیننے والا بھی حقیقت میں وہی ہے۔ڈرنا چاہیے تو اس سے۔ مانگنا چاہیے تو اس سے۔ سر جھکانا چاہیے تو اس کے سامنے۔ عبادت اور بندگی کی جائے تو اس کی۔ اس کے سوا ہم کسی کے بندے اور غلام نہیں اور اس کے سوا کوئی ہمارا آقا اور حاکم نہیں۔ ہمارا اصلی فرض یہ ہے کہ اسی کا حکم مانیں اور اسی کے قانون کی پیروی کریں۔
* اللہ سے عہد وپیمان
یہ عہد وپیمان ہے جو لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ پڑھتے ہی تم اپنے خدا سے کرتے ہو، اور ساری دنیا کو گواہ بنا کر کرتے ہو۔ اس کی خلاف ورزی کرو گے تو تمھاری زبان،تمھارے ہاتھ پائوں، تمھارا رونگٹا رونگٹا، اور زمین اور آسمان کا ایک ایک ذرّہ جس کے سامنے تم نے جھوٹا اقرار کیا، تمھارے خلاف خدا کی عدالت میں گواہی دے گا، اور تم ایسی بے بسی کے عالم میں وہاں کھڑے ہو گے کہ ایک بھی گواہ تم کو صفائی پیش کرنے کے لیے نہ ملے گا۔ کوئی وکیل یا بیرسٹر وہاں تمھاری طرف سے پیروی کرنے والا نہ ہو گا، بلکہ خود وکیل صاحب اور بیرسٹر صاحب، جو دنیا کی عدالتوں میں قانون کی الٹ پھیر کرتے پھرتے ہیں، یہ بھی وہاں تمھاری ہی طرح بے بسی کے عالم میں کھڑے ہوں گے۔ وہ عدالت ایسی نہیں ہے جہاں تم جھوٹی گواہیاں اور جعلی دستاویزیں پیش کرکے اور غلط پیروی کرکے بچ جائو گے۔ دنیا کی پولیس سے تم اپنا جرم چھپا سکتے ہو، خدا کی پولیس سے نہیںچھپا سکتے۔ دنیا کی پولیس رشوت کھا سکتی ہے، خدا کی پولیس رشوت کھانے والی نہیں۔ دنیا کے گواہ جھوٹ بول سکتے ہیں، خدا کے گواہ بالکل سچے ہیں۔ دنیا کے حاکم بے انصافی کر سکتے ہیں، خدا ایسا حاکم نہیں جو بے انصافی کرے۔ پھر خدا جس جیل میں ڈالے گا اس سے بچ کر بھاگنے کی بھی کوئی صورت نہیں ہے۔ خدا کے ساتھ جھوٹا اقرار نامہ کرنا بہت بڑی بیوقوفی، سب سے بڑی بیوقوفی ہے۔ جب اقرار کرتے ہو تو خوب سوچ سمجھ کر کرو اور اس کو پورا کرو، ورنہ تم پر کوئی زبردستی نہیں ہے کہ خواہ مخواہ زبانی ہی اقرار کر لو، کیونکہ خالی خولی زبانی اقرار محض بے کار ہے۔
* رسولؐ کی رہنمائی کا اقرار
لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللہُ کہنے کے بعد تم مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہتے ہو۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تم نے یہ تسلیم کر لیا کہ محمدa ہی وہ پیغمبر ہیں جن کے ذریعے سے خدا نے اپنا قانون تمھارے پاس بھیجا ہے۔ خدا کو اپنا آقا اور شہنشاہ مان لینے کے بعد یہ معلوم ہونا ضروری تھا کہ اس شہنشاہ کے احکام کیا ہیں؟ ہم کون سے کام کریں جن سے وہ خوش ہوتا ہے اور کون سے کام نہ کریں جن سے وہ ناراض ہوتا ہے؟ کس قانون پر چلنے سے وہ ہم کو بخشے گا اور اس کی خلاف ورزی کرنے پر وہ ہم کو سزا دے گا؟ یہ سب باتیں بتانے کے لیے خدا نے محمدa کو اپنا پیغامبر مقرر کیا۔ آپؐ کے ذریعے سے اپنی کتاب ہمارے پاس بھیجی، اور آپؐ نے خدا کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرکے ہم کو بتا دیا کہ مسلمانوں کو اس طرح زندگی بسر کرنی چاہیے۔
پس جب تم نے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہا تو گویا اقرار کر لیا کہ جو قانون اور جو طریقہ حضورؐ نے بتایا ہے تم اسی کی پیروی کرو گے، اور جو قانون اس کے خلاف ہے اس پر لعنت بھیجو گے۔ یہ اقرار کرنے کے بعد اگر تم نے حضورؐ کے لائے ہوئے قانون کو چھوڑ دیا اور دنیا کے قانون کو مانتے رہے تو تم سے بڑھ کر جھوٹا اور بے ایمان کوئی نہ ہو گا، کیوں کہ تم یہی اقرار کرکے تو اسلام میں داخل ہوئے تھے کہ محمد a ہی کا لایا ہوا قانون حق ہے اور اسی کی تم پیروی کرو گے۔ اسی اقرار کی بدولت تو تم مسلمانوں کے بھائی بنے، اسی کی بدولت تم نے باپ سے ورثہ پایا، اسی کی بدولت ایک مسلمان عورت سے تمھارا نکاح ہوا، اسی کی بدولت تمھاری اولاد تمھاری جائز اولاد بنی، اسی کی بدولت تمھیں یہ حق ملا کہ تمام مسلمان تمھارے مددگار بنیں، تمھیں زکوٰۃ دیں، تمھاری جان ومال اورعزت وآبرو کی حفاظت کا ذمہ لیں، اور ان سب کے باوجود تم نے اپنا اقرار توڑ دیا۔ اس سے بڑھ کر دنیا میں کون سی بے ایمانی ہو سکتی ہے؟
اگر تم لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے معنی جانتے ہو، اور جان بوجھ کر اس کا اقرار کرتے ہو تو تم کو ہر حال میں خدا کے قانون کی پیروی کرنی چاہیے، خواہ اس کی پیروی پر مجبور کرنے والی کوئی پولیس اور عدالت اس دنیا میں نظر نہ آتی ہو۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ خدا کی پولیس اور فوج اور عدالت اور جیل کہیں موجود نہیں ہے اس لیے اس کے قانون کو توڑنا آسان ہے، اور گورنمنٹ کی پولیس، فوج، عدالت اور جیل موجود ہے اس لیے اس کے قانون کو توڑنا مشکل ہے، ایسے شخص کے متعلق میں صاف کہتا ہوں کہ وہ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا جھوٹا اقرار کرتا ہے۔ اپنے خدا کو، ساری دنیا کو، تمام مسلمانوں کو اور خود اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے۔
* اقرارکی ذمہ داریاں
بھائیو اور دوستو! ابھی میں نے تمھارے سامنے کلمۂ طیبہ کے معنی بیان کیے ہیں۔ اب اسی سلسلے میں ایک اور پہلو کی طرف تم کو توجہ دلاتا ہوں۔
تم اقرار کرتے ہو کہ اللہ تمھارا اور ہر چیز کا مالک ہے۔ اس کے کیا معنی ہیں؟ اس کے معنی یہ ہیں کہ تمھاری جان تمھاری اپنی نہیں، خدا کی مِلک ہے۔ تمھارے ہاتھ اپنے نہیں۔ تمھاری آنکھیں اور تمھارے کان اور تمھارے جسم کا کوئی عضو تمھارا اپنا نہیں۔ یہ زمینیں جن کو تم جوتتے ہو، یہ جانور جن سے تم خدمت لیتے ہو، یہ مال اسباب جن سے تم فائدہ اٹھاتے ہو، ان میں سے بھی کوئی چیز تمھاری نہیں۔ ہر چیز خدا کی مِلک ہے اور خدا کی طرف سے عطیے کے طور پر تمھیں ملی ہے۔ اس بات کا اقرار کرنے کے بعد تمھیں یہ کہنے کا کیا حق ہے کہ جان میری ہے، جسم میرا ہے، مال میرا ہے، اور فلاں چیز میری ہے اور فلاں چیز میری ہے۔ دوسرے کو مالک کہنا اور پھر اس کی چیز کو اپنی قرار دینا، بالکل ایک لغو بات ہے۔ اگر درحقیقت یہ بات سچے دل سے مانتے ہو کہ ان سب چیزوں کا مالک خدا ہی ہے تو اس سے دو باتیں خود بخود تم پر لازم ہو جاتی ہیں:
۱۔مالک کی مرضی کے مطابق کام کرنا
ایک یہ کہ جب مالک خدا ہے اور اس نے اپنی ملکیت امانت کے طور پر تمھارے حوالے کی ہے تو جس طرح مالک کہتا ہے اُسی طرح تمھیں ان چیزوں سے کام لینا چاہیے۔ اس کی مرضی کے خلاف ان سے کام لیتے ہو تو دھوکا بازی کرتے ہو۔ تم اپنے ان ہاتھوں اور پائوں کو بھی اس کی پسند کے خلاف ہلانے کا حق نہیں رکھتے۔ تم ان آنکھوں سے بھی اس کی مرضی کے خلاف دیکھنے کا کام نہیں لے سکتے۔ تم کو اس پیٹ میں بھی کوئی ایسی چیز ڈالنے کا حق نہیں ہے جو اس کی مرضی کے خلاف ہو۔ تمھیں ان زمینوں اور ان جائدادوں پر بھی مالک کے منشا کے خلاف کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ تمھاری بیویاں جن کو تم اپنی کہتے ہو، اور تمھاری اولاد جن کو تم اپنی کہتے ہو، یہ بھی صرف اس لیے تمھاری ہیں کہ تمھارے مالک کی دی ہوئی ہیں، لہٰذا تم کو ان سے بھی اپنی خواہش کے مطابق نہیں، بلکہ مالک کے حکم کے مطابق ہی برتائو کرنا چاہیے۔ اگر اس کے خلاف کروگے تو تمھاری حیثیت غاصب کی ہو گی۔ جس طرح دوسرے کی زمین پر قبضہ کرنے والے کو تم کہتے ہو کہ وہ بے ایمان ہے، اسی طرح اگر خدا کی دی ہوئی چیزوں کو تم اپنا سمجھ کر اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرو گے، یا خدا کے سوا کسی اور کی مرضی کے مطابق ان سے کام لو گے تو وہی بے ایمانی کا الزام تم پر بھی آئے گا۔
اگر مالک کی مرضی کے مطابق کام کرنے میں کوئی نقصان ہوتا ہے تو ہوا کرے۔ جان جاتی ہے تو جائے۔ ہاتھ پائوں ٹوٹتے ہیں تو ٹوٹیں۔ اولاد کا نقصان ہوتا ہے تو ہو۔ مال وجائداد برباد ہو تو ہوا کرے، تمھیں کیوں غم ہو؟ جس کی چیز ہے وہی اگر نقصان پسند کرتا ہو تو اس کو حق ہے۔ ہاں، اگر مالک کی مرضی کے خلاف تم کام کرو اور اس میں کسی چیز کا نقصان ہو تو بلاشبہ تم مجرم ہو گے، کیوں کہ دوسرے کے مال کو تم نے خراب کیا۔ تم خود اپنی جان کے مختار نہیں ہو۔ مالک کی مرضی کے مطابق جان دو گے تو مالک کا حق ادا کر دو گے۔ اس کے خلاف کام کرنے میں جان دو گے تو یہ بے ایمانی ہو گی۔
۲۔ اسلام لانا خدا پر احسان نہیں
دوسری بات یہ ہے کہ مالک نے جو چیز تمھیں دی ہے اس کو اگر تم مالک ہی کے کام میں صَرف کرتے ہو تو کسی پر احسان نہیں کرتے۔ نہ مالک پر احسان ہے نہ کسی اور پر۔ تم نے اگر اس کی راہ میں کچھ دیا، یا کچھ خدمت کی، یا جان دے دی جو تمھارے نزدیک بہت بڑی چیز ہے، تب بھی کوئی احسان کسی پر نہیں کیا۔ زیادہ سے زیادہ جو کام تم نے کیا وہ بس اتنا ہی تو ہے کہ مالک کا حق جو تم پر تھا وہ تم نے ادا کر دیا۔ یہ کون سی ایسی بات ہے جس پر کوئی پھولے اور فخر کرے اور یہ چاہے کہ اس کی تعریفیں کی جائیں اور یہ سمجھے کہ اس نے کوئی بہت بڑا کام کیا ہے جس پر اس کی بڑائی تسلیم کی جائے؟ یاد رکھو کہ سچا مسلمان مالک کی راہ میں کچھ صَرف کرنے یا کچھ خدمت کرنے کے بعد پھولتا نہیں ہے، بلکہ خاکساری اختیار کرتا ہے۔ فخر کرنا کارِ خیر کو برباد کر دیتا ہے۔ تعریف کی خواہش جس نے کی اور اس کی خاطر کوئی کارِخیر کیا، وہ خدا کے ہاں کسی اجر کا مستحق نہ رہا، کیوں کہ اس نے تواپنے کام کا معاوضہ دنیا ہی میں مانگا اور یہیں اس کو مل بھی گیا۔
اللہ کا احسان اور ہمارا رویہ
بھائیو! اپنے مالک کا احسان دیکھو کہ اپنی چیز تم سے لیتا ہے، اورپھر کہتا ہے کہ یہ چیز میں نے تم سے خریدی ہے اور اس کا معاوضہ میں تمھیں دوں گا۔ اللہ اکبر! اس شانِ جُود وکرم کا بھی کوئی ٹھکانا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ط (التوبہ 9:111)
اللہ نے ایمان داروں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں اس معاوضے میں کہ ان کے لیے جنت ہے۔
یہ تو مالک کا برتائو تمھارے ساتھ ہے۔ اب ذرا اپنا برتائو بھی دیکھو۔ جو چیز مالک نے تم کو دی تھی اور جس کو مالک نے پھر تم سے معاوضہ دے کر خرید بھی لیا، اس کو غیروں کے ہاتھ بیچتے ہو۔ نہایت ذلیل معاوضے لے لے کر بیچتے ہو۔ وہ مالک کی مرضی کے خلاف تم سے کام لیتے ہیں اور تم یہ سمجھ کر ان کی خدمت کرتے ہو کہ گویا رازق وہ ہیں۔ تم اپنے دماغ بیچتے ہو، اپنے ہاتھ پائوں بیچتے ہو، اپنے جسم کی طاقتیں بیچتے ہو، اوروہ سب کچھ بیچتے ہو جس کو خدا کے باغی خریدنا چاہتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر بداخلاقی اور کیا ہو سکتی ہے؟ بیچی ہوئی چیز کو بیچنا قانونی اور اخلاقی جُرم ہے۔ دنیا میں اس پر دغابازی اور فریب دہی کا مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا کی عدالت میں اس پر مقدمہ نہیں چلایا جائے گا؟
٭…٭…٭
کلمۂ طیّبہ اور کلمۂ خبیثہ
برادرانِ اسلام! پچھلے خطبے میں کلمہ طیبہ کے متعلق میں نے آپ سے کچھ کہا تھا۔ آج پھر اسی کلمہ کی کچھ اور تشریح میں آپ کے سامنے بیان کروں گا۔ اس لیے کہ یہ کلمہ ہی اسلام کی بنیاد ہے، اسی کے ذریعے سے آدمی اسلام میں داخل ہوتا ہے، اور کوئی شخص حقیقت میں مسلمان بن نہیں سکتا جب تک کہ وہ اس کلمہ کو پوری طرح سمجھ نہ لے، اور اپنی زندگی کو اس کے مطابق نہ بنالے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ مجید میں اس کلمہ کی تعریف اس طرح فرمائی ہے:
اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا كَلِمَۃً طَيِّبَۃً كَشَجَرَۃٍ طَيِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِي السَّمَاۗءِo لاتُؤْتِيْٓ اُكُلَہَا كُلَّ حِيْنٍؚبِـاِذْنِ رَبِّہَا۰ۭ وَيَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَo وَمَثَلُ كَلِمَۃٍ خَبِيْثَۃٍ كَشَجَرَۃٍ خَبِيْثَۃِۨ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَہَا مِنْ قَرَارٍ o يُثَبِّتُ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۰ۚ وَيُضِلُّ اللہُ الظّٰلِــمِيْنَ۰ۣۙ وَيَفْعَلُ اللہُ مَا يَشَاۗءُ o (ابراہیم14:24-27)
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ ٔ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں، ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے۔ یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں۔ اورکلمۂ خبیثہ کی مثال ایک بد ذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے۔ ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قولِ ثابت کی بنیاد پر دنیا اورآخرت، دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے۔ اللہ کو اختیار ہے، جو چاہے کرے۔
یعنی کلمۂ طیبہ کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اچھی ذات کا درخت ہو جس کی جڑیں زمین میں خوب جمی ہوئی اور جس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہوئی ہوں او ر جو ہر وقت اپنے پروردگار کے حکم سے پھل پر پھل لائے چلا جاتا ہو_____ اس کے برعکس کلمۂ خبیثہ یعنی برا اعتقاد اور جھوٹا قول ایسا ہے جیسے ایک بد ذات خودرَو پودا کہ وہ بس زمین کے اوپر ہی اوپر ہوتا ہے، اور ایک اشارے میں جڑ چھوڑ دیتا ہے، کیوں کہ اس کی جڑ گہری جمی ہوئی نہیں ہوتی۔
یہ ایسی بے نظیر مثال ہے کہ اگر تم اس پر غور کرو تو تمھیں اس سے بڑا سبق ملے گا۔ دیکھو! تمھارے سامنے دونوں قسم کے درختوں کی مثالیں موجود ہیں۔ ایک تو یہ آم کا درخت ہے، کتنا گہرا جما ہوا ہے، کتنی بلندی تک اٹھا ہوا ہے، کتنی اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں، کتنے اچھے پھل اس میں لگتے ہیں، یہ بات اسے کیوں حاصل ہوئی؟ اس لیے کہ اس کی گٹھلی زوردار تھی، اس کو درخت بننے کا حق حاصل تھا، اور وہ حق اتنا سچا تھا کہ جب اس نے اپنے حق کا دعویٰ کیا تو زمین نے، پانی نے، ہوا نے، دن کی گرمی اور رات کی ٹھنڈک نے، غرض ہر چیز نے اس کے حق کو تسلیم کیا اور اس نے جس سے جو کچھ مانگا ہر ایک نے اس کو دیا۔ اس طرح وہ اپنے حق کے زور سے اتنا بڑا درخت بن گیا اور اپنے میٹھے پھل دے کر اس نے ثابت بھی کر دیا کہ حقیقت میں وہ اسی قابل تھا کہ ایسا درخت بنے اور زمین وآسمان کی ساری قوتوں نے مل کر اگر اس کا ساتھ دیا تو کچھ بے جا نہیں کیا، بلکہ ان کو ایسا کرنا ہی چاہیے تھا، اس لیے کہ درختوں کو غذا دینے اور بڑھانے اورپکانے کی جو طاقت زمین اور پانی اور ہوا اور دوسری چیزوں کے پاس ہے وہ اسی کام کے لیے تو ہے کہ اچھی ذات والے درختوں کے کام آئے۔
اس کے مقابلے میں یہ جھاڑ جھنکار اور خود رَو پودے ہیں۔ ان کی بساط ہی کیا ہے؟ ذرا سی جڑ، کہ ایک بچہ اکھاڑ لے۔ نرم اور بودے اتنے کہ ہوا کے ایک جھونکے سے مرجھا جائیں۔ ہاتھ لگائو توکانٹے سے تمھاری خبر لیں۔ چکھو تو منہ کا مزہ خراب کر دیں۔ روزخدا جانے کتنے پیدا ہوتے ہیں اور کتنے اکھاڑے جاتے ہیں۔ ان کا یہ حال کیوں ہے؟ اس لیے کہ ان کے پاس حق کا وہ زور نہیں جو آم کے پاس ہے۔ جب اعلیٰ ذات کے درخت نہیں ہوتے تو زمین بے کار پڑے پڑے اکتا جاتی ہے اور ان پودوں کواپنے اندر جگہ دے دیتی ہے۔ کچھ مدد پانی کر دیتا ہے۔ کچھ ہوا اپنے پاس سے سامان دے دیتی ہے، مگر زمین وآسمان کی کوئی چیز بھی ایسے پودوں کا حق ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ اس لیے نہ زمین اپنے اندر ان کی جڑیں پھیلنے دیتی ہے، نہ پانی ان کو دل کھول کر غذا دیتا ہے اور نہ ہوا کھلے دل سے ان کو پروان چڑھاتی ہے۔ پھر جب اتنی سی بساط پر یہ خبیث پودے بدمزہ، خاردار اور زہریلے بن کر اٹھتے ہیں تو واقع میں ثابت ہو جاتا ہے کہ زمین وآسمان کی طاقتیں ایسے پودے اگانے کے لیے نہیں تھیں۔ ان کو اتنی زندگی بھی ملی تو بہت ملی۔
ان دونوں مثالوں کو سامنے رکھو اور پھر کلمۂ طیّب اورکلمۂ خبیث کے فرق پر غور کرو۔
1-کلمۂ طیّب کیا ہے؟
کلمہ طیّب کیا ہے، ایک سچی بات ہے۔ ایسی سچی بات کہ دنیا میں اس سے زیادہ سچی بات کوئی ہو نہیں سکتی۔ سارے جہان کا خدا ایک اللہ ہے۔ اس چیز پرزمین اور آسمان کی ہر چیز گواہی دے رہی ہے۔ یہ انسان، یہ جانور، یہ درخت، یہ پتھر، یہ ریت کے ذرّے، یہ بہتی ہوئی نہر، یہ چمکتا ہوا سورج، یہ ساری چیزیں جو ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں، ان میں سے کون سی چیز ہے جس کو اللہ کے سوا کسی اور نے پیدا کیا ہو؟ جو اللہ کے سوا کسی اور کی مہربانی سے زندہ اور قائم رہ سکے؟ جس کو اللہ کے سوا کوئی اور فنا کر سکتا ہو؟ پس جب یہ سارا جہان اللہ کا پیدا کیا ہوا ہے اور اللہ ہی کی عنایت سے قائم ہے اور اللہ ہی اس کا مالک اور حاکم ہے، تو جس وقت تم کہو گے کہ:’’اس جہان میں اس ایک اللہ کے سوا کسی اور کی خدائی نہیں ہے‘‘ تو زمین وآسمان کی ایک ایک چیز پکارے گی کہ تو نے بالکل سچی بات کہی۔ ہم سب تیرے اس قول کی صداقت پر گواہ ہیں۔ جب تم اس کے آگے سر جھکائو گے تو کائنات کی ہر چیز تمھارے ساتھ جھک جائے گی، کیوں کہ یہ ساری چیزیں بھی اسی کی عبادت گزار ہیں۔ جب تم اس کے فرمان کی پیروی کرو گے تو زمین وآسمان کی ہر چیز تمھارا ساتھ دے گی، کیوں کہ یہ سب بھی تو اسی خدا کے فرماں بردار ہیں۔ جب تم اس کی راہ میں چلو گے تو تم اکیلے نہ ہو گے، بلکہ کائنات کا بے شمار لشکر تمھارے ساتھ چلے گا کیوں کہ آسمان کے سورج سے لے کرزمین کے ایک حقیر ذرّے تک ہر چیز ہرآن اسی کی راہ میں تو چل رہی ہے۔ جب تم اس پر بھروسا کرو گے توکسی چھوٹی طاقت پر بھروسا نہ کرو گے، بلکہ اس عظیم الشان طاقت پر بھروسا کرو گے جو زمین اور آسمان کے سارے خزانوں کی مالک ہے۔ غرض اس حقیقت پر جب تم نظر رکھو گے تو تم کو معلوم ہو گا کہ کلمہ طیبہ پر ایمان لا کر جو انسان اپنی زندگی کو اسی کے مطابق بنا لے گا، زمین اور آسمان کی ساری طاقتیں اس کا ساتھ دیں گی۔ دنیا سے لے کر آخرت تک وہ پھلتا اورپھولتا ہی چلا جائے گا، اور کبھی ایک لمحے کے لیے بھی ناکامی ونامرادی اس کے پاس نہ آئے گی۔ یہی چیز اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے کہ یہ کلمہ ایسا درخت ہے جس کی جڑیں زمین میں جمی ہوئی ہیں اور شاخیں آسمان پر پھیلی ہوئی ہیں، اور ہر وقت یہ خدا کے حکم سے پھل لاتا رہتا ہے۔
2-کلمۂ خبیث کیا ہے؟
اس کے مقابلے میں کلمۂ خبیث کو دیکھو۔ کلمۂ خبیث کیا چیز ہے؟ یہ کہ اس جہان کا کوئی خدا نہیں، یا یہ کہ ایک اللہ کے سوا کسی اور کی خدائی بھی ہے۔
غور کرو! اس سے بڑھ کر جھوٹی اور بے اصل بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ زمین اور آسمان کی کون سی چیز اس پر گواہی دیتی ہے؟ دہریہ کہتا ہے کہ خدا نہیں ہے۔ زمین اور آسمان کی ہر چیز کہتی ہے تو جھوٹا ہے۔ ہم کو اورتجھ کو خدا ہی نے پیدا کیا ہے اور اسی خدا نے تجھ کو وہ زبان دی ہے جس سے تو یہ جھوٹ بک رہا ہے۔ مشرک کہتا ہے کہ خدائی میں دوسرے بھی اللہ کے شریک ہیں۔ دوسرے بھی رازق ہیں۔ دوسرے بھی مالک ہیں۔ دوسرے بھی قسمتیں بناتے اور بگاڑتے ہیں۔ دوسرے بھی فائدہ اور نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ دوسرے بھی دعائیں سننے والے ہیں۔ دوسرے بھی مرادیں پوری کرنے والے ہیں۔ دوسرے بھی ڈرنے کے لائق ہیں۔ دوسرے بھی بھروسا کرنے کے قابل ہیں۔ اس خدائی میں دوسروں کا حکم بھی چلتا ہے، اور خدا کے سوا دوسروں کا فرمان اور قانون بھی پَیروی کے لائق ہے۔
اس کے جواب میں زمین وآسمان کی ہر چیز کہتی ہے کہ تو بالکل جھوٹا ہے۔ ہر ہر بات جو تو کہہ رہا ہے یہ حقیقت کے خلاف ہے۔ اب غور کرو کہ یہ کلمہ جو شخص اختیار کرے گا اور اس کے مطابق جو شخص زندگی بسر کرے گا، دنیا اور آخرت میں وہ کیوں کر پھل پھول سکتا ہے؟ اللہ نے اپنی مہربانی سے ایسے لوگوں کو مہلت دے رکھی ہے اور رزق کا وعدہ ان سے کیا ہے، اس لیے زمین اور آسمان کی طاقتیں کسی نہ کسی طرح اس کو بھی پرورش کریں گی جس طرح وہ جھاڑجھنکار اور خود رَو پودوں کو بھی آخر پرورش کرتی ہی ہیں۔ لیکن کائنات کی کوئی چیز بھی اس کا حق سمجھ کر اس کا ساتھ نہ دے گی اور نہ پوری طاقت کے ساتھ اس کی مدد ہی کر ے گی۔ وہ انھی خود رَو درختوں کی طرح ہو گا جن کی مثال ابھی آپ کے سامنے بیان ہوئی ہے۔
* نتائج کا فرق
یہی فرق دونوں کے پھلوں میں ہے۔ کلمۂ طیب جب کبھی پھلے گا اس سے میٹھے اور مفید پھل ہی پیدا ہوں گے۔ دنیا میں اس سے امن قائم ہو گا۔ نیکی اور سچائی اور انصاف کا بول بالا ہو گا اور خلقِ خدا اُس سے فائدہ ہی اٹھائے گی، مگر کلمۂ خبیث کی جتنی پرورش ہو گی اس سے خاردار شاخیں ہی نکلیں گی۔ اس میں کڑوے کسیلے ہی پھل آئیں گے۔ اس کی رگ رگ میں زہر ہی بھرا ہو گا۔ دنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لو، جہاں کفر اور شرک اور دہریّت کا زور ہے وہاں کیا ہو رہا ہے؟ آدمی کو آدمی پھاڑ کھانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ آبادیوں کی آبادیاں تباہ کرنے کے سامان ہو رہے ہیں۔ زہریلی گیسیں بن رہی ہیں۔ ایک قوم دوسری قوم کو برباد کر دینے پر تلی ہوئی ہے۔ جو طاقت ور ہے وہ کمزوروں کو غلام بناتا ہے، صرف اس لیے کہ اس کے حصے کی روٹی خود چھین کر کھا جائے، اور جو کمزور ہے وہ فوج اور پولیس اور جیل اور پھانسی کے زور سے دب کر رہنے اور طاقت ورکا ظلم سہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ پھر ان قوموں کی اندرونی حالت کیا ہے؟ اخلاق بد سے بدتر ہیں جن پر شیطان بھی شرمائے۔ انسان وہ کام کر رہا ہے جو جانور بھی نہیں کرتے۔ مائیں اپنے بچوں کو اپنے ہاتھ سے ہلاک کرتی ہیں کہ کہیں یہ بچے ان کے عیش میں خلل نہ ڈال دیں۔ شوہر اپنی بیویوں کو خود غیروں کی بغل میں دیتے ہیں، تاکہ ان کی بیویاں ان کی بغل میں آئیں۔ ننگوں کے کلب بنائے جاتے ہیں جن میں مرد اور عورت جانوروں کی طرح برہنہ ایک دوسرے کے سامنے پھرتے ہیں۔ امیر سود کے ذریعے سے غریبوں کا خون چُوسے لیتے ہیں، اور مال دار ناداروں سے اس طرح خدمت لیتے ہیں کہ گویا وہ ان کے غلام ہیں اور صرف ان کی خدمت ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ غرض اس کلمۂ خبیث سے جو پودا بھی جہاں پیدا ہوا ہے کانٹوں سے بھرا ہوا ہے اور جو پھل بھی اس میں لگتا ہے کڑوا اور زہریلا ہی ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ان دونوں مثالوں کو بیان فرمانے کے بعد آخر میں فرماتا ہے کہ:
يُثَبِّتُ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۰ۚ وَيُضِلُّ اللہُ الظّٰلِــمِيْنَ۰ۣۙ ( ابراھیم14:27)
یعنی کلمۂ طیب پرجو لوگ ایمان لائیں گے اللہ ان کو ایک مضبوط قول کے ساتھ دنیا اور آخرت دونوں میں ثبات اور جمائو بخشے گا۔ اور ان کے مقابلے میں وہ ظالم لوگ جو کلمۂ خبیث کو مانیں گے اللہ ان کی ساری کوششوں کو بھٹکا دے گا، وہ کبھی کوئی سیدھا کام نہ کریں گے جس سے دنیا یا آخرت میں کوئی اچھا پھل پیدا ہو۔
3-کلمہ گو خوار کیوں؟
بھائیو! کلمۂ طیّبہ اور کلمۂ خبیثہ کا فرق اور دونوں کے نتیجے تم نے سن لیے۔اب تم یہ سوال ضرور کرو گے کہ ہم تو کلمۂ طیّبہ کے ماننے والے ہیں، پھر کیا بات ہے کہ ہم نہ پھلتے ہیں نہ پھولتے ہیں، اورکفار جو کلمۂ خبیثہ کے ماننے والے ہیں یہ کیوں پھل پھول رہے ہیں؟
اس کا جواب میرے ذمے ہے اور میں جواب دوں گا بشرطیکہ آپ میں سے کوئی میرے جواب پر برا نہ مانے، بلکہ اپنے دل سے پوچھے کہ میرا جواب واقعی صحیح ہے یا نہیں۔
اوّل تو آپ کا یہی کہنا غلط ہے کہ آپ کلمۂ طیّبہ کومانتے ہیں اورپھر بھی نہ پھلتے ہیں نہ پھولتے ہیں۔ کلمۂ طیبہ کوماننے کے معنی زبان سے کلمہ پڑھنے کے نہیں ہیں۔ اس کے معنی دل سے ماننے کے ہیں اور اس طرح ماننے کے ہیں کہ اس کے خلاف کوئی عقیدہ آپ کے دل میں نہ رہے اور اس کے خلاف کوئی کام آپ سے ہو نہ سکے۔
میرے بھائیو! خدارا مجھے بتائو! کیا تمھارا حقیقت میں یہی حال ہے؟ کیا سیکڑوں ایسے مشرکانہ اور کافرانہ خیالات تم میں نہیں پھیلے ہوئے ہیں جو کلمہ طیبہ کے بالکل خلاف ہیں؟ کیا مسلمان کا سر خدا کے سوا دوسروں کے آگے نہیں جھک رہا ہے؟ کیا مسلمان دوسروں سے خوف نہیں کرتا؟ کیا وہ دوسروں کی مدد پر بھروسا نہیں کرتا؟ کیا وہ دوسروں کو رازق نہیں سمجھتا؟ کیا وہ خدا کے قانون کو چھوڑ کر دوسروں کے قانون کی خوشی خوشی پیَروی نہیں کرتا؟ کیا اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے عدالتوں میں جا کر یہ صاف نہیں کہتے کہ ہم شرع کو نہیں مانتے بلکہ رسم ورواج کو مانتے ہیں؟ کیا تم میں ایسے لوگ موجود نہیں ہیں جن کو دنیوی فائدوں کے لیے خدا کے قانون کی کسی دفعہ کو توڑنے میں ذرا تامّل نہیں ہوتا؟ کیا تم میں وہ لوگ موجود نہیں ہیں جن کو کفار کے غضب کا ڈر ہے، مگر خدا کے غضب کا ڈر نہیں؟ جو کفار کی نظر عنایت حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں مگر خدا کی نظر عنایت حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے؟ جو کفار کی حکومت کو حکومت سمجھتے ہیں اور خدا کی حکومت کے متعلق انھیں کبھی یاد بھی نہیں آتا کہ وہ بھی کہیں موجود ہے؟ خدارا سچ بتائو کیا یہ واقعہ نہیں ہے؟ اگر یہ واقعہ ہے تو پھر کس منہ سے تم کہتے ہو کہ ہم کلمہ طیّبہ کو ماننے والے ہیں اور اس کے باوجود ہم نہ پھولتے ہیں نہ پھلتے ہیں۔ پہلے سچے دل سے ایمان تو لائو اورکلمۂ طیّبہ کے مطابق زندگی اختیار تو کرو۔ پھراگر وہ درخت نہ پیدا ہو جو زمین میں گہری جڑوں کے ساتھ جمنے والا اور آسمان تک چھا جانے والا ہے تومعاذ اللہ، معاذ اللہ، اپنے خدا کو جھوٹا سمجھ لینا کہ اس نے تمھیں غلط بات کا اطمینان دلایا۔
4-کیا کلمۂ خبیث کو ماننے والے پھل پھول رہے ہیں؟
پھر آپ کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ جو کلمۂ خبیثہ کو مانتے ہیں وہ واقعی دنیا میں پھل پھول رہے ہیں۔ کلمۂ خبیثہ کو ماننے والے نہ کبھی پھولے پھلے ہیں نہ آج پھول پھل رہے ہیں۔ تم دولت کی کثرت، عیش وعشرت کے اسباب اور ظاہری شان وشوکت کو دیکھ کر سمجھتے ہو کہ وہ پھل پھول رہے ہیں، مگر ان کے دلوں سے پوچھو کہ کتنے ہیں جن کو اطمینانِ قلب میسر ہے؟ ان کے اوپر عیش کے سامان لدے ہوئے ہیں، مگر ان کے دلوں میں آگ کی بھٹیاں سلگ رہی ہیں جو ان کو کسی وقت چین نہیں لینے دیتیں۔ خدا کے قانون کی خلاف ورزی نے ان کے گھروں کو دوزخ بنا رکھا ہے۔ اخباروں میں دیکھو کہ یورپ اور امریکہ میں خود کشی کا کتنا زور ہے۔ طلاق کی کیسی کثرت ہے۔ نسلیں کس طرح گھٹ رہی ہیں اور گھٹائی جا رہی ہیں۔ امراضِ خبیثہ نے کس طرح لاکھوں انسانوں کی زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ مختلف طبقوں کے درمیان روٹی کے لیے کیسی سخت کش مکش برپا ہے۔ حسد اور بغض اور دشمنی نے کس طرح ایک ہی جنس کے آدمیوں کو آپس میں لڑا رکھا ہے۔ عیش پسندی نے لوگوں کے لیے زندگی کو کس قدر تلخ بنا دیا ہے، اور یہ بڑے بڑے عظیم الشان شہر جن کو دُور سے دیکھ کر آدمی رشکِ جنت سمجھتا ہے، ان کے اندر لاکھوں انسان کس مصیبت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا اسی کو پھلنا اورپھولنا کہتے ہیں؟ کیا یہی وہ جنت ہے جس پر تم رشک کی نگاہیں ڈالتے ہو؟
میرے بھائیو! یاد رکھو کہ خدا کا قول کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ حقیقت میں کلمۂ طیبہ کے سوا اور کوئی کلمہ نہیں جس کی پیروی کرکے انسان کو دنیا میں راحت اور آخرت میں سرخ رُوئی حاصل ہو سکے۔ تم جس طرف چاہو نظر دوڑا کر دیکھ لو، اس کے خلاف تم کو کہیں کوئی چیز نہ مل سکے گی۔
٭…٭…٭
کلمۂ طیبہ پر ایمان لانے کا مقصد
برادرانِ اسلام! اس سے پہلے دو خطبوں میں آپ کے سامنے کلمۂ طیبہ کا مطلب بیان کر چکا ہوں۔ آج میں اس سوال پر بحث کر نا چاہتا ہوں کہ اس کلمے پر ایمان لانے کا فائدہ اور اس کی ضرورت کیا ہے؟
* ہر کام کا ایک مقصد ہے
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ آدمی جو کام بھی کرتا ہے کسی نہ کسی غرض، کسی نہ کسی فائدے کے لیے کرتا ہے۔ بے غرض، بے مقصد، بے فائدہ کوئی کام نہیں کیا کرتا۔ آپ پانی کیوں پیتے ہیں؟ اس لیے کہ پیاس بجھے۔ اگر پانی پینے کے بعد بھی آپ کا وہی حال رہے جو پینے سے پہلے ہوتا ہے تو آپ ہرگز پانی نہ پئیں، کیوں کہ یہ ایک بے نتیجہ کام ہو گا۔ آپ کھانا کیوں کھاتے ہیں؟ اس لیے کہ بھوک رفع ہو، اور آپ میں زندہ رہنے کی طاقت پیدا ہو۔ اگر کھانا کھانے اور نہ کھانے کا نتیجہ ایک ہی ہو تو آپ یہی کہیں گے کہ یہ بالکل ایک فضول کام ہے۔ بیماری میں آپ دوا کیوں پیتے ہیں؟ اس لیے کہ بیماری دُور ہو جائے اور تندرستی حاصل ہو۔ اگر دوا پی کر بھی بیمار کا وہی حال ہو جو دوا پینے سے پہلے تھا، تو آپ یہی کہیں گے کہ ایسی دوا پینا بے کار ہے۔ آپ زراعت میں اتنی محنت کیوں کرتے ہیں؟ اس لیے کہ زمین سے غلہ اور پھل اور ترکاریاں پیدا ہوں۔ اگر بیج بونے پر بھی زمین سے کوئی چیز نہ اُگتی تو آپ ہل چلانے اور تخم ریزی کرنے اور پانی دینے میں اتنی محنت ہرگز نہ کرتے۔ غرض آپ دنیا میں جو کام بھی کرتے ہیں اس میں ضرور کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ اگر مقصد حاصل ہو تو آپ کہتے ہیں کہ کام ٹھیک ہوا۔ اگر مقصد حاصل نہ ہو تو آپ کہتے ہیں کہ کام ٹھیک نہیں ہوا۔
* کلمہ پڑھنے کا مقصد
اس بات کو ذہن میں رکھیے اور میرے ایک ایک سوال کا جواب دیتے جائیے۔ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کلمہ کیوں پڑھا جاتا ہے؟ اس کا جواب آپ اس کے سوا اور کچھ نہیں دے سکتے کہ کلمہ پڑھنے کا مقصد یہ ہے کہ کافراور مسلمان میں فرق ہو جائے۔ اب میں پوچھتا ہوں کہ فرق ہونے کا کیا مطلب ہے؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ کافر کی دو آنکھیں ہوتی ہیں تو مسلمان کی چار آنکھیں ہو جائیں؟ یا کافر کا ایک سر ہوتا ہے تو مسلمان کے دوسر ہو جائیں؟ آپ کہیں گے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے۔ فرق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کافر کے انجام اور مسلمان کے انجام میں فرق ہو۔ کافر کا انجام یہ ہے کہ آخرت میں وہ خدا کی رحمت سے محروم ہو جائے اور ناکام ونامراد رہے اور مسلمان کا انجام یہ ہے کہ خدا کی خوشنودی اُسے حاصل ہو، اور آخرت میں وہ کامیاب اور بامراد رہے۔
* آخرت کی ناکامی وکامیابی
میں کہتا ہوں کہ یہ جواب آپ نے بالکل ٹھیک دیا، مگر مجھے یہ بتائیے کہ آخرت کیا چیز ہے؟ آخرت کی ناکامی ونامرادی سے کیا مطلب ہے؟ اور وہاں کامیاب اور بامراد ہونے کا مطلب کیا ہے؟ جب تک میں اس بات کو نہ سمجھ لوں اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا۔
اس سوال کا جواب آپ کو دینے کی ضرورت نہیں۔ اس کا جواب پہلے ہی دیا جا چکا ہے کہ اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْاٰخِرَۃِ ۔{ FR 1599 } یعنی دنیا اور آخرت دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں، بلکہ ایک ہی سلسلہ ہے جس کی ابتدا دنیا ہے اور انتہا آخرت۔ ان دونوں میں وہی تعلق ہے جو کھیتی اور فصل میں ہوتا ہے۔ آپ زمین میں ہل جوتتے ہیں، پھر بیج بوتے ہیں، پھر پانی دیتے ہیں، پھر کھیتی کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ فصل تیار ہو جاتی ہے، اور اس کو کاٹ کر آپ سال بھر تک مزے سے کھاتے رہتے ہیں۔ آپ زمین میں جس چیز کی کاشت کریں گے اسی کی فصل تیار ہو گی۔ گیہوں بوئیں گے تو گیہوں پیدا ہو گا۔ کانٹے بوئیں گے تو کانٹے ہی پیدا ہوں گے۔ کچھ نہ بوئیں گے تو کچھ نہ پیدا ہو گا۔ ہل چلانے اوربیج بونے اور پانی دینے اور کھیتی کی رکھوالی کرنے میں جو جو غلطیاں اور کوتاہیاں آپ سے ہوں گی ان سب کا برا اثر آپ کو فصل کاٹنے کے موقع پر معلوم ہو گا، اور اگر آپ نے یہ سب کام اچھی طرح کیے ہیں تو ان کا فائدہ بھی آپ فصل ہی کاٹنے کے وقت دیکھیں گے۔ بالکل یہی حال دنیا اور آخرت کا ہے۔ دنیا ایک کھیتی ہے۔ اس کھیتی میں آدمی کو اس لیے بھیجا گیا ہے کہ اپنی محنت اور اپنی کوشش سے اپنے لیے فصل تیار کرے۔ پیدائش سے لے کر موت تک کے لیے آدمی کو اس کام کی مہلت دی گئی ہے۔ اس مہلت میں جیسی فصل آدمی نے تیار کی ہے، ویسی ہی فصل وہ موت کے بعد دوسری زندگی میں کاٹے گا، اور پھر جو فصل وہ کاٹے گا اسی پر آخرت کی زندگی میں اس کا گزر بسر ہو گا۔ اگر کسی نے عمر بھر دنیا کی کھیتی میں اچھے پھل بوئے ہیں اور ان کو خوب پانی دیا ہے اور ان کی خوب رکھوالی کی ہے تو آخرت کی زندگی میں جب وہ قدم رکھے گا تو اپنی محنت کی کمائی ایک سر سبزو شاداب باغ کی صورت میں تیار پائے گا اور اسے اپنی اس دوسری زندگی میں پھر کوئی محنت نہ کرنی پڑے گی، بلکہ دنیا میں عمر بھر محنت کرکے جو باغ اس نے لگایا تھا اسی باغ کے پھلوں پر آرام سے زندگی بسر کرے گا۔ اسی چیز کا نام جنت ہے اور آخرت میں بامراد ہونے کا یہی مطلب ہے۔
اس کے مقابلے میں جو شخص اپنی دنیا کی زندگی میں کانٹے اور کڑوے کسیلے زہریلے پھل بوتا رہا ہے، اس کو آخرت کی زندگی میں انھی پھلوں کی فصل تیار ملے گی۔ وہاں پھر اس کو دوبارہ اتنا موقع نہیں ملے گا کہ اپنی اس حماقت کی تلافی کر سکے اور اس خراب فصل کو جلا کر دوسری اچھی فصل تیار کر سکے۔ پھر تو اس کو آخرت کی ساری زندگی اسی فصل پر بسر کرنی ہو گی جسے وہ دنیا میں تیار کر چکا ہے۔ جو کانٹے اس نے بوئے تھے انھی کے بستر پر اسے لیٹنا ہو گا، اور جو کڑوے کسیلے زہریلے پھل اس نے لگائے تھے وہی اس کو کھانے پڑیں گے۔ یہی مطلب ہے آخرت میں ناکام ونامراد ہونے کا۔
آخرت کی یہ شرح جو میں نے بیان کی ہے، حدیث اور قرآن سے بھی یہی شرح ثابت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کی زندگی میں انسان کا نامراد یا بامراد ہونا اور اس کے انجام کا اچھا یا برا ہونا دراصل نتیجہ ہے دنیا کی زندگی میں اس کے علم اور عمل کے صحیح یا غلط ہونے کا۔
1-کافر اور مسلمان کے انجام میں فرق کیوں؟
یہ بات جب آپ نے سمجھ لی تو ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی خود بخود سمجھ میں آ جاتی ہے کہ مسلمان اور کافر کے انجام کا فرق یونہی بلا وجہ نہیں ہو جاتا۔ دراصل انجام کا فرق آغاز ہی کے فرق کا نتیجہ ہے۔ جب تک دنیا میں مسلمان اور کافر کے علم وعمل کے درمیان فرق نہ ہو گا، آخرت میں بھی ان دونوں کے انجام کے درمیان فرق نہیں ہو سکتا۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں ایک شخص کا علم اور عمل وہی ہو جو کافر کا علم اور عمل ہے، اور پھر آخرت میں وہ اس انجام سے بچ جائے جو کافر کا انجام ہوتا ہے۔
* کلمے کا مقصد ___ علم وعمل کی درُستی
اب پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کلمہ پڑھنے کا مقصد کیا ہے؟
پہلے آپ نے اس کا جواب یہ دیا تھا کہ کلمہ پڑھنے کا مقصد یہ ہے کہ کافر کے انجام اور مسلمان کے انجام میں فرق ہو۔ اب انجام اور آخرت کی جو تشریح آپ نے سنی ہے، اس کے بعد آپ کو اپنے جواب پر پھر غور کرنا ہو گا۔ اب آپ کو یہ کہنا پڑے گا کہ کلمہ پڑھنے کا مقصد دنیا میں انسان کے علم اور عمل کو درست کرنا ہے تاکہ آخرت میں اس کا انجام درست ہو۔ یہ کلمہ انسان کو دنیا میں وہ باغ لگانا سکھاتا ہے جس کے پھل آخرت میں اس کو توڑنے ہیں۔ اگر آدمی اس کلمے کو نہیں مانتا تو اس کو باغ لگانے کا طریقہ ہی معلوم نہیں ہو سکتا۔ پھر وہ باغ لگائے گا کس طرح اور آخرت میں پھل کس چیز کے توڑے گا؟ اور اگر آدمی اس کلمے کو زبان سے پڑھ لیتا ہے، مگر اس کا علم بھی وہی رہتا ہے جو نہ پڑھنے والے کا علم تھا، اور اس کا عمل بھی ویسا ہی رہتا ہے جیسا کافر کا عمل تھا، تو آپ کی عقل خود کہہ دے گی کہ ایسا کلمہ پڑھنے سے کچھ حاصل نہیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ ایسے شخص کا انجام کافر کے انجام سے مختلف ہو۔ زبان سے کلمہ پڑھ کر اس نے خدا پر کوئی احسان نہیں کیا ہے کہ باغ لگانے کا طریقہ بھی وہ نہ سیکھے، باغ لگائے بھی نہیں، ساری عمر کانٹے ہی بوتا رہے، اور پھر بھی آخرت میں اس کو پھلوں سے لدا ہوا لہلہاتا باغ مل جائے۔ جیسا کہ میں پہلے کئی مثالیں دے کر بیان کر چکا ہوں، جس کام کے کرنے اور نہ کرنے کا نتیجہ ایک ہو، وہ کام فضول اور بے معنی ہے۔ جس دوا کو پینے کے بعد بھی بیمار کا وہی حال رہے جو پینے سے پہلے تھا، وہ دوا حقیقت میں دوا ہی نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح اگر کلمہ پڑھنے والے آدمی کا علم اور عمل بھی وہی کا وہی رہے جو کلمہ نہ پڑھنے والے کا ہوتا ہے، توایسا کلمہ پڑھنا محض بے معنی ہے۔ جب دنیا میں کافر اور مسلم کی زندگی میں فرق نہ ہوا توآخرت میں ان کے انجام میں فرق کیسے ہو سکتا ہے؟
2-کلمۂ طیبہ کون سا علم سکھاتا ہے؟
اب یہ سوال سامنے آتا ہے کہ وہ کون سا علم ہے جو کلمۂ طیبہ انسان کو سکھاتا ہے؟ اور اس علم کو سیکھنے کے بعد مسلمان کے عمل اور کافر کے عمل میں کیا فرق ہو جاتا ہے؟
۱۔ اللہ کی بندگی
دیکھیے! پہلی بات جو اس کلمہ سے آپ کو معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ اللہ کے بندے ہیں اور کسی کے بندے نہیں ہیں۔ یہ بات جب آپ کو معلوم ہو گئی تو خود بخود آپ کو یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ آپ جس کے بندے ہیں، دنیا میں آپ کو اسی کی مرضی کے مطابق عمل کرنا چاہیے، کیونکہ اس کی مرضی کے خلاف اگر آپ چلیں گے تو یہ اپنے مالک سے بغاوت ہو گی۔
۲۔ محمدؐ کی پیروی
اس علم کے بعد دوسرا علم آپ کو کلمہ سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ حضرت محمد a اللہ کے رسول ہیں۔ یہ بات جب آپ کو معلوم ہو گئی، تو اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی آپ کو خود بخود معلوم ہو گئی کہ اللہ کے رسولؐ نے دنیا کی کھیتی میں کانٹوں اور زہریلے پھلوں کے بجائے پھولوں اور میٹھے پھلوں کا باغ لگانا جس طرح سکھایا ہے اسی طرح آپ کو باغ لگانا چاہیے۔ اگر آپ اس طریقے کی پیروی کریں گے تو آخرت میں آپ کو اچھی فصل ملے گی، اور اگر اس کے خلاف عمل کریں گے تودنیا میں کانٹے بوئیں گے اور آخرت میں کانٹے ہی پائیں گے۔
۳۔علم کے مطابق عمل بھی ہو
یہ علم حاصل ہونے کے بعد لازم ہے کہ آپ کا عمل بھی اس کے مطابق ہو۔ اگر آپ کو یقین ہے کہ ایک دن مرنا ہے، اور مرنے کے بعد پھر ایک دوسری زندگی ہے، اور اس زندگی میں آپ کو اسی فصل پر گزر کرنا ہو گا جسے آپ اس زندگی میں تیار کرکے جائیں گے، تو پھر یہ ناممکن ہے کہ آپ رسول اللہ a کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کر سکیں۔ دنیا میں آپ کھیتی باڑی کیوں کرتے ہیں؟ اسی لیے کہ آپ کو یقین ہے کہ اگر کھیتی باڑی نہ کی تو غلہ پیدا نہ ہو گا، اور غلہ نہ پیدا ہوا تو بھوکے مر جائیں گے۔ اگر آپ کو اس بات کا یقین نہ ہوتا اور آپ سمجھتے کہ کھیتی باڑی کے بغیر ہی غلہ پیدا ہو جائے گا، یا غلے کے بغیر بھی آپ بھوک سے بچ جائیں گے، تو ہرگز آپ کھیتی باڑی میں یہ محنت نہ کرتے۔
بس اسی پراپنے حال کو بھی قیاس کر لیجیے۔ جو شخص زبان سے یہ کہتا ہے کہ میں خدا کو اپنا مالک، اور رسولِ پاکؐ کو خدا کا رسول مانتا ہوں، اور آخرت کی زندگی کو بھی مانتا ہوں، مگر عمل اس کا قرآن کی تعلیم اور رسول اللہ a کی سنت کے خلاف ہے۔ اس کے متعلق یہ سمجھ لیجیے کہ درحقیقت اس کا ایمان کمزور ہے۔ اس کو جیسا یقین اپنی کھیتی میں کاشت نہ کرنے کے برے انجام کا ہے، اگر ویسا ہی یقین آخرت کی فصل تیار نہ کرنے کے برے انجام کا بھی ہو، تو وہ کبھی اس کام میں غفلت نہ کرے۔ کوئی شخص جان بوجھ کر اپنے حق میں کانٹے نہیں بوتا۔ کانٹے وہی بوتا ہے جسے یہ یقین نہیں ہوتا کہ جو چیز بو رہا ہے اس سے کانٹے پیدا ہوں گے اور وہ کانٹے اس کو تکلیف دیں گے۔ آپ جان بوجھ کر اپنے ہاتھ میں آگ کا انگارہ نہیں اٹھاتے، کیوں کہ آپ کو یقین ہے کہ یہ جلا دے گا، مگر ایک بچہ آگ میں ہاتھ ڈال دیتا ہے، کیونکہ اسے اچھی طرح معلوم نہیں ہے کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔
خ خ خ
باب دوم
اسلام
* مسلمان کسے کہتے ہیں؟
* ایمان کی کسوٹی
* اسلام کا اصلی معیار
* خدا کی اطاعت کس لیے؟
* دین اور شریعت
مسلمان کسے کہتے ہیں؟
برادرانِ اسلام! آج میں آپ کے سامنے مسلمان کی صفات بیان کروں گا۔ یعنی یہ بتائوں گا کہ مسلمان ہونے کے لیے کم سے کم شرطیں کیا ہیں؟ آدمی کو کم از کم کیا ہونا چاہیے کہ وہ مسلمان کہلائے جانے کے قابل ہو؟
کفر کیا ہے اور اسلام کیا؟
اس بات کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ کفر کیا ہے اور اسلام کیا ہے؟ کفر یہ ہے کہ آدمی خدا کی فرماں برداری سے انکار کر دے، اور اسلام یہ ہے کہ آدمی صرف خدا کا فرماں بردار ہو، اور ہر ایسے طریقے، یا قانون، یا حکم کو ماننے سے انکار کر دے جو خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کے خلاف ہو۔ اسلام اور کفر کا یہ فرق قرآن مجید میں صاف صاف بیان کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَo (المائدہ 5:44)
یعنی جو خدا کی اتاری ہوئی ہدایت کے مطابق فیصلہ نہ کریں، ایسے ہی لوگ دراصل کافر ہیں۔
فیصلہ کرنے سے یہ مراد نہیں ہے کہ عدالت میں جو مقدمہ جائے، بس اسی کا فیصلہ خدا کی کتاب کے مطابق ہو، بلکہ دراصل اس سے مراد وہ فیصلہ ہے جو ہر شخص اپنی زندگی میں ہر وقت کیا کرتا ہے۔ ہر موقع پر تمھارے سامنے یہ سوال آتا ہے کہ فلاں کام کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ فلاں بات اِس طرح کی جائے، یا اُس طرح کی جائے؟ فلاں معاملے میں یہ طریقہ اختیار کیا جائے، یا وہ طریقہ اختیار کیا جائے؟ تمام ایسے موقعوں پر ایک طریقہ خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت بتاتی ہے، اور دوسرا طریقہ انسان کے اپنے نفس کی خواہشات، یا باپ دادا کی رسمیں، یا انسانوں کے بنائے ہوئے قانون بتاتے ہیں۔ اب جو شخص خدا کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر کسی دوسرے طریقے کے مطابق کام کرنے کا فیصلہ کرتا ہے وہ دراصل کفر کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ اگر اس نے اپنی ساری زندگی ہی کے لیے یہی ڈھنگ اختیار کیا ہے تو وہ پورا کافر ہے اور اگر وہ بعض معاملات میں تو خدا کی ہدایت کو مانتا ہو، اور بعض میں اپنے نفس کی خواہشات کو، یا رسم ورواج کو، یا انسانوں کے قانون کو خدا کے قانون پر ترجیح دیتا ہو، تو جس قدر بھی وہ خدا کے قانون سے بغاوت کرتا ہے اسی قدر کفر میں مبتلا ہے۔ کوئی آدھا کافر ہے، کوئی چوتھائی کافر ہے، کسی میں دسواں حصہ کفر کا ہے اور کسی میں بیسواں حصہ۔ غرض جتنی خدا کے قانون سے بغاوت ہے اتنا ہی کفر بھی ہے۔
اسلام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ آدمی صرف خدا کا بندہ ہو۔ نفس کا بندہ نہ باپ دادا کا بندہ، نہ خاندان اور قبیلے کا بندہ، نہ مولوی صاحب اور پیر صاحب کا بندہ، نہ زمین دار صاحب اور تحصیل دار صاحب اور مجسٹریٹ صاحب کا بندہ، نہ خدا کے سوا کسی اور صاحب کا بندہ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍؚبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ۰ۭ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ o (آل عمران 3:64)
یعنی اے نبیؐ! اہلِ کتاب سے کہو کہ آئو ہم تم ایک ایسی بات پراتفاق کر لیں جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے (یعنی جو تمھارے نبی بھی بتا گئے ہیں، اور خدا کا نبی ہونے کی حیثیت سے میں بھی وہی بات کہتا ہوں)۔ وہ بات یہ ہے کہ ایک تو ہم اللہ کے سوا کسی کے بندے بن کر نہ رہیں، دوسرے یہ کہ خدائی میں کسی کو شریک نہ کریں، اور تیسری بات یہ ہے کہ ہم میں کوئی انسان کسی انسان کو اللہ کے بجائے اپنا مالک اور اپنا آقا نہ بنائے۔ یہ تین باتیں اگر وہ نہیں مانتے تو ان سے کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں۔ یعنی ہم ان تینوں باتوں کو مانتے ہیں۔
اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللہِ يَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا وَّاِلَيْہِ يُرْجَعُوْنَo (آل عمران 3:83)
اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دین اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کی تابع فرمان (مسلم) ہیں اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟
ان دونوں آیتوں میں ایک ہی بات بیان کی گئی ہے، یعنی یہ کہ اصلی دین خدا کی اطاعت اور فرماں برداری ہے۔ خدا کی عبادت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ بس پانچ وقت اس کے آگے سجدہ کر لو، بلکہ اس کی عبادت کے معنی یہ ہیں کہ رات دن میں ہر وقت اس کے احکام کی اطاعت کرو۔ جس چیز سے اس نے منع کیا ہے اس سے رُک جائو۔ جس چیز کا اس نے حکم دیا ہے اس پر عمل کرو۔ ہر معاملے میں یہ دیکھو کہ خدا کا حکم کیا ہے۔ یہ نہ دیکھو کہ تمھارا اپنا دل کیا کہتا ہے، تمھاری عقل کیا کہتی ہے، باپ دادا کیا کر گئے ہیں، خاندان اور برادری کی مرضی کیا ہے، جناب مولوی صاحب قبلہ اور جناب پیر صاحب قبلہ کیا فرماتے ہیں، اور فلاں صاحب کا کیا حکم ہے اور فلاں صاحب کی کیامرضی ہے۔ اگر تم نے خدا کے حکم کو چھوڑ کر کسی کی بات بھی مانی تو خدائی میں اس کو شریک کیا۔ اس کو وہ درجہ دیا جو صرف خدا کا درجہ ہے۔ حکم دینے والا تو صرف خدا ہے:
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ ط (الانعام 6:57)
فیصلے کا سارا اختیار اللہ کو ہے۔
بندگی کے لائق تو صرف وہ ہے جس نے تمھیں پیدا کیا اور جس کے بل بوتے پر تم زندہ ہو۔ زمین اور آسمان کی ہر چیز اُسی کی اطاعت کر رہی ہے۔ کوئی پتھر کسی پتھر کی اطاعت نہیں کرتا، کوئی درخت کسی درخت کی اطاعت نہیں کرتا، کوئی جانور کسی جانور کی اطاعت نہیں کرتا۔ پھر کیا تم جانوروں اور درختوں اور پتھروں سے بھی گئے گزرے ہو گئے کہ وہ تو صرف خدا کی اطاعت کریں، اور تم خدا کو چھوڑ کر انسانوں کی اطاعت کرو؟ یہ ہے وہ بات جو قرآن کی ان دونوں آیتوں میں بیان فرمائی گئی ہے۔
گمراہی کے تین راستے
اب میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ کفر اور گمراہی دراصل نکلتی کہاں سے ہے۔ قرآن مجید ہم کو بتاتا ہے کہ اس کم بخت بلا کے آنے کے تین راستے ہیں:
۱۔ نفس کی بندگی
پہلا راستہ انسان کے اپنے نفس کی خواہشات ہیں:
وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَيْرِ ہُدًى مِّنَ اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَo
(القصص 28:50)
یعنی اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا جس نے خدا کی ہدایات کے بجائے اپنے نفس کی خواہش کی پیروی کی۔ ایسے ظالم لوگوں کو خدا ہدایت نہیں دیتا۔
مطلب یہ ہے کہ سب سے بڑھ کر انسان کو گمراہ کرنے والی چیز انسان کے اپنے نفس کی خواہشات ہیں۔ جو شخص خواہشات کا بندہ بن گیا، اس کے لیے خدا کا بندہ بننا ممکن ہی نہیں۔ وہ تو ہر وقت یہ دیکھے گا کہ مجھے روپیہ کس کام میں ملتا ہے، میری عزت اور شہرت کس کام میں ہوتی ہے، مجھے لذت اور لطف کس کام میں حاصل ہوتا ہے، مجھے آرام اور آسائش کس کام میں ملتی ہے۔ بس یہ چیزیں جس کام میں ہوں گی اسی کو وہ اختیار کرے گا، چاہے خدا اس سے منع کرے، اور یہ چیزیں جس کام میں نہ ہوں اس کو وہ ہرگز نہ کرے گا، چاہے خدا اس کا حکم دے۔ تو ایسے شخص کا خدا، اللہ تبارک وتعالیٰ نہ ہوا، اس کا اپنا نفس ہی اس کا خدا ہو گیا۔ اس کو ہدایت کیسے مل سکتی ہے؟
اسی بات کو دوسری جگہ قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے:
اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ۰ۭ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَيْہِ وَكِيْلًاo لا اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَہُمْ يَسْمَعُوْنَ اَوْ يَعْقِلُوْنَ۰ۭ اِنْ ہُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِيْلًاo ع (الفرقان 25:43-44)
یعنی اے نبیؐ! تم نے اس شخص کے حال پر غور بھی کیا جس نے اپنے نفس کی خواہش کو اپنا خدا بنا لیا ہے؟ کیا تم ایسے شخص کی نگرانی کر سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے بہت سے لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ ہرگز نہیں، یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔
نفس کے بندے کا جانوروں سے بدتر ہونا ایسی بات ہے جس میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ کوئی جانور آپ کو ایسا نہ ملے گا جو خدا کی مقرر کی ہوئی حد سے آگے بڑھتا ہو۔ ہر جانور وہی چیز کھاتا ہے جو خدا نے اس کے لیے مقرر کی ہے۔ اسی قدر کھاتا ہے جس قدر اس کے لیے مقرر کی ہے، اور جتنے کام جس جانور کے لیے مقرر ہیں بس اتنے ہی کرتا ہے، مگر یہ انسان ایسا جانور ہے کہ جب یہ اپنی خواہش کا بندہ بنتا ہے تو وہ وہ حرکتیں کر گزرتا ہے جن سے شیطان بھی پناہ مانگے۔ یہ تو گمراہی کے آنے کا پہلا راستہ ہے۔
۲۔ باپ دادا کی اندھی پیروی
دوسرا راستہ یہ ہے کہ باپ دادا سے جو رسم ورواج، جو عقیدے اور خیالات، جو رنگ ڈھنگ چلے آ رہے ہوں، آدمی ان کا غلام بن جائے اور خدا کے حکم سے بڑھ کر ان کو سمجھے، اور اگر ان کے خلاف خدا کا حکم اس کے سامنے پیش کیا جائے تو کہے کہ میں تو وہی کروں گا جو میرے باپ دادا کرتے تھے اور جومیرے خاندان اور قبیلے کا رواج ہے۔ جو شخص اس مرض میں مبتلا ہے وہ خدا کا بندہ کب ہوا۔ اس کے خدا تو اس کے باپ دادا اور اس کے خاندان اور قبیلے کے لوگ ہیں۔ اس کو یہ جھوٹا دعویٰ کرنے کا کیا حق ہے کہ میں مسلمان ہوں؟ قرآنِ کریم میں اس پر بھی بڑی سختی کے ساتھ تنبیہ کی گئی ہے:
وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَ o (البقرہ 2:170)
اور جب کبھی ان سے کہا گیا کہ جو حکم خدا نے بھیجا ہے اس کی پیروی کرو، تو انھوں نے یہی کہا کہ ہم تو اُس بات کی پیروی کریں گے جو ہمیں باپ دادا سے ملی ہے۔ اگرا ن کے باپ دادا کسی بات کو نہ سمجھتے ہوں اور راہِ راست پر نہ ہوں تو کیا یہ پھر بھی انھی کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟
دوسری جگہ فرمایا:
وَاِذَا قِيْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَo يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ۰ۚ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَيْتُمْ۰ۭ اِلَى اللہِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ o (المائدہ 5:105-104)
اور جب ان سے کہا گیا کہ آئو اس فرمان کی طرف جو خدا نے بھیجا ہے اور آئو رسولؐ کے طریقے کی طرف، تو انھوں نے کہا کہ ہمارے لیے تو بس وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا یہ باپ دادا ہی کی پیروی کیے چلے جائیں گے چاہے ان کو کسی بات کا علم نہ ہو، اور وہ سیدھے راستے پر نہ ہوں؟ اے ایمان لانے والو! تم کو تو اپنی فکر ہونی چاہیے۔ اگر تم سیدھے راستے پر لگ جائو تو کسی دوسرے کی گمراہی سے تمھیں کوئی نقصان نہ ہو گا، پھر آخر کار سب کو خدا کی طرف واپس جانا ہے۔ اس وقت خدا تم کو تمھارے اعمال کا نیک وبد سب کچھ بتا دے گا۔
یہ ایسی گمراہی ہے جس میں تقریباً ہر زمانے کے جاہل لوگ مبتلا رہے ہیں، اور ہمیشہ خدا کے رسولوں کی ہدایت کو ماننے سے یہی چیز انسان کو روکتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب لوگوں کو خدا کی شریعت کی طرف بلایا تھا، اس وقت بھی لوگوں نے یہی کہا تھا:
اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا (یونس 10:78)
کیا تو ہمیں اس راستے سے ہٹانا چاہتا ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے؟
حضرت ابراہیم ؑ نے جب اپنے قبیلے والوں کو شرک سے روکا تو انھوں نے بھی یہی کہا تھا:
وَجَدْنَآ اٰبَآئَ نَا لَھَا عٰبِدِیْنَ o (الانبیائ 21:53)
ہم نے اپنے باپ دادا کو انھی خدائوں کی بندگی کرتے ہوئے پایا ہے۔
غرض اسی طرح ہر نبی کے مقابلے میں لوگوں نے یہی حجت پیش کی ہے کہ تم جو کہتے ہو یہ ہمارے باپ دادا کے طریقے کے خلاف ہے، اس لیے ہم اسے نہیں مانتے۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہے:
وَكَذٰ لِكَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِيْ قَرْيَۃٍ مِّنْ نَّذِيْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْہَآ۰ۙ اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓي اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلٰٓي اٰثٰرِہِمْ مُّقْتَدُوْنَo قٰلَ اَوَلَوْ جِئْتُكُمْ بِاَہْدٰى مِمَّا وَجَدْتُّمْ عَلَيْہِ اٰبَاۗءَكُمْ۰ۭ قَالُـوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہٖ كٰفِرُوْنَo فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَانْـظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُكَذِّبِيْنَ o (الزخرف 43:25-23)
یعنی ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ جب کبھی ہم نے کسی بستی میں کسی ڈرانے والے یعنی پیغمبر کو بھیجا تو اس بستی کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انھی کے قدم بقدم چل رہے ہیں۔ پیغمبر ؑنے ان سے کہا: اگر میں اس سے بہتر بات بتائوں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے تو کیا پھر بھی تم باپ دادا ہی کی پیروی کیے چلے جائو گے؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم اس بات کو نہیں مانتے جو تم لے کر آئے ہو۔ پس جب انھوں نے یہ جواب دیا تو ہم نے بھی ان کو خوب سزا دی، اور اب دیکھ لو کہ ہمارے احکام کو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے۔
یہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یا تو باپ دادا ہی کی پیروی کر لو، یا پھر ہمارے ہی حکم کی پیروی کرو۔ یہ دونوں باتیں ایک ساتھ نہیں ہو سکتیں۔ مسلمان ہونا چاہتے ہو تو سب کو چھوڑ کر صرف اس بات کو مانو جو ہم نے بتائی ہے:
وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطٰنُ يَدْعُوْہُمْ اِلٰى عَذَابِ السَّعِيْرِo وَمَنْ يُّسْلِمْ وَجْہَہٗٓ اِلَى اللہِ وَہُوَمُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۰ۭ وَاِلَى اللہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِo وَمَنْ كَفَرَ فَلَا يَحْزُنْكَ كُفْرُہٗ۰ۭ اِلَيْنَا مَرْجِعُہُمْ فَنُنَبِّئُہُمْ بِمَا عَمِلُوْا ۭ (لقمان 31:23-21)
یعنی جب ان سے کہا گیا کہ اس حکم کی پیروی کرو جو خدا نے بھیجا ہے تو انھوں نے کہا کہ نہیں ہم تو اس بات کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، چاہے شیطان ان کو عذاب جہنم ہی کی طرف کیوں نہ بلا رہا ہو۔ جو کوئی اپنے آپ کو بالکل خدا کے سپرد کر دے اور نیکوکار ہو اس نے تو مضبوط رسی تھام لی، اور آخر کار تمام معاملات خدا کے ہاتھ میں ہیں، اور جس نے اس سے انکار کیا تو اے نبیؐ! تم کو اس کے انکار سے رنجید ہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ سب ہماری طرف واپس آنے والے ہیں، پھر ہم انھیں ان کے اعمال کا نتیجہ دکھا دیں گے۔
یہ گمراہی کے آنے کادوسرا راستہ تھا۔
۳۔غیر اللہ کی اطاعت
تیسرا راستہ قرآن نے یہ بتایا ہے کہ انسان جب خدا کے حکم کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں کے حکم ماننے لگتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ فلاں شخص بڑا آدمی ہے، اس کی بات پکی ہو گی، یا فلاں شخص کے ہاتھ میں میری روٹی ہے اس لیے اس کی بات ماننی چاہیے، یا فلاں شخص بڑا صاحبِ اقتدار ہے اس لیے اس کی فرماں برداری کرنی چاہیے، یا فلاں صاحب اپنی بددعا سے مجھے تباہ کر دیں گے، یا اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں گے، اس لیے جو وہ کہیں وہی صحیح ہے، یا فلاں قوم بڑی ترقی کر رہی ہے، اس کے طریقے اختیار کرنے چاہییں، تو ایسے شخص پر خدا کی ہدایت کا راستہ بند ہو جاتا ہے:
وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۭ (الانعام 6:116)
اگر تو نے ان بہت سے لوگوں کی اطاعت کی جو زمین میں رہتے ہیں تو وہ تجھ کو خدا کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔
یعنی آدمی سیدھے راستے پر اس وقت ہو سکتا ہے جب اس کا ایک خدا ہو۔ سیکڑوں ہزاروں خدا جس نے بنا لیے ہوں اور جو کبھی اِس خدا کے کہے پر اور کبھی اُس خدا کے کہے پر چلتا ہو، وہ راستہ کہاں پا سکتا ہے۔
اب آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ گمراہی کے تین بڑے بڑے سبب ہیں:
ایک: نفس کی بندگی،
دوسرے: باپ دادا اور خاندان اور قبیلے کے رواجوں کی بندگی،
تیسرے: عام طور پر دنیا کے لوگوں کی بندگی، جس میں دولت مند لوگ، اور حکامِ وقت اور بناوٹی پیشوا، اور گمراہ قومیں سب ہی شامل ہیں۔
یہ تین بڑے بڑے بت ہیں جو خدائی کے دعوے دار بنے ہوئے ہیں۔ جو شخص مسلمان بننا چاہتا ہو اس کو سب سے پہلے ان تینوں بتوں کو توڑنا چاہیے۔ پھر وہ حقیقت میں مسلمان ہو جائے گا، ورنہ جس نے یہ تینوں بت اپنے دل میں بٹھا رکھے ہوں اس کا بندۂ خدا ہونا مشکل ہے۔ وہ دن میں پچاس وقت کی نمازیں پڑھ کر اور دکھاوے کے روزے رکھ کراور مسلمانوں کی سی شکل بنا کر انسانوں کو دھوکا دے سکتا ہے۔ خود اپنے نفس کو بھی دھوکا دے سکتا ہے کہ میں پکا مسلمان ہوں، مگر خدا کو دھوکا نہیں دے سکتا۔
پنجابی مسلمانوں کی حالت
بھائیو! آج میں نے آپ کے سامنے جن تین بتوں کا ذکر کیا ہے اُن کی بندگی اصلی شرک ہے۔ آپ نے پتھر کے بت توڑ دیے، اینٹ اور چونے سے بنے ہوئے بت خانے ڈھا دیے، مگر سینوں میں جو بت خانے بنے ہوئے ہیں ان کی طرف کم توجہ کی۔ سب سے زیادہ ضروری، بلکہ مسلمان ہونے کے لیے اوّلین شرط ان بتوں کو توڑنا ہے۔ اگرچہ میرا خطاب تمام مسلمانوں سے ہے، اور مجھے یقین ہے کہ ساری دنیا اور تمام ہندستان میں مسلمان جس قدر نقصان اٹھا رہے ہیں وہ انھی تین بتوں کی پوجا کا نتیجہ ہے، مگر چونکہ اس وقت میرے سامنے میرے پنجابی بھائی ہیں، اس لیے خاص طور پر ان سے کہتا ہوں کہ آپ کی تباہی اور آپ کی ذلت اور مصیبت کی جڑ یہ تین چیزیں ہیں جو آپ نے ابھی مجھ سے سنی ہیں۔ آپ اس پنجاب کی سرزمین میں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہیں۔ اس صوبے کی آبادی میں آدھے سے زیادہ آپ ہیں اورآدھے سے کم میں دوسری قومیں ہیں، مگر اتنی بڑی قوم ہونے کے باوجود یہاں آپ کا کوئی وزن نہیں۔{ FR 1600 } بعض نہایت قلیل التعداد قوموں کا وزن آپ سے بڑھ کر ہے۔ اس کی وجہ پر بھی آپ نے کبھی غور کیا؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ نفس کی بندگی، خاندانی رواجوں کی بندگی اور خدا کے سوا دوسرے انسانوں کی بندگی نے آپ کی طاقت کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔
ذات پات کا فرق
آپ میں راجپوت ہیں، گکھڑ ہیں، مغل ہیں، جاٹ ہیں اور بہت سی قومیں ہیں۔ اسلام نے ان سب قوموں کو ایک قوم، ایک دوسرے کا بھائی، ایک پختہ دیوار بننے کے لیے کہا تھا جس کی اینٹ سے اینٹ جڑی ہوئی ہو، مگر آپ اب بھی وہی پرانے ہندوانہ خیالات لیے ہوئے بیٹھے ہیں۔ جس طرح ہندوئوں میں الگ الگ گوتیں{ FR 1601 } ہیں، اسی طرح آپ میں بھی اب تک قبیلے قبیلے الگ ہیں۔ آپس میں مسلمانوں کی طرح شادی بیاہ نہیں۔ ایک دوسرے سے برادری اور بھائی چارہ نہیں۔ زبان سے آپ ایک دوسرے کو مسلمان بھائی کہتے ہیں مگر حقیقت میں آپ کے درمیان وہی سب امتیازات ہیں جو اسلام سے پہلے تھے۔ ان امتیازات نے آپ کو ایک مضبوط دیوار نہیں بننے دیا۔ آپ کی ایک ایک اینٹ الگ ہے۔ آپ نہ مل کر اٹھ سکتے ہیں اور نہ مل کر کسی مصیبت کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اگر اسلام کی تعلیمات کے مطابق آپ سے کہا جائے کہ توڑو ان امتیازات کو، اور آپس میں پھر ایک ہو جائو، تو آپ کیا کہیں گے؟ بس وہی ایک بات، یعنی ہمارے باپ دادا سے جو رواج چلے آ رہے ہیں ان کو ہم نہیں توڑ سکتے۔ اس کا جواب خدا کی طرف سے کیا ملتاہے؟ بس یہی کہ تم نہ توڑو ان رواجوں کو، نہ چھوڑو ہندوانہ رسموں کی تقلید کو، ہم بھی تم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے اور تمھاری کثرتِ تعداد کے باوجود تم کو ذلیل وخوار کرکے دکھائیں گے۔
وراثت میں حق تلفی
اللہ نے آپ کو حکم دیا تھا کہ تمھاری وراثت میں لڑکے اورلڑکیاں سب شریک ہیں۔ آپ اس کا جواب کیا دیتے ہیں؟ یہ کہ ہمارے باپ دادا کے قانون میں لڑکے اور لڑکیاں شریک نہیں ہیں، اور یہ کہ ہم خدا کے قانون کے بجائے باپ دادا کا قانون مانتے ہیں۔ خدارا مجھے بتائیے! کیا اسلام اسی کا نام ہے؟ آپ سے کہا جاتا ہے کہ اس خاندانی قانون کو توڑیے۔ آپ میں سے ہر شخص کہتا ہے کہ جب سب توڑیں گے تو میں بھی توڑ دوں گا، ورنہ اگر دوسروں نے لڑکی کو حصہ نہ دیا اور میں نے دے دیا تو میرے گھر کی دولت تو دوسروں کے پاس چلی جائے گی، مگر دوسرے کے گھر کی دولت میرے گھر میں نہ آئے گی۔ غور کیجیے کہ اس جواب کے کیا معنی ہیں؟ کیا خدا کے قانون کی اطاعت اسی شرط سے کی جائے گی کہ دوسرے اطاعت کریں تو آپ بھی کریں گے؟ کل آپ کہیں گے کہ دوسرے زنا کریں گے تو میں بھی کروںگا، دوسرے چوری کریں گے تو میں بھی کروں گا۔ غرض دوسرے جب تک سب گناہ نہ چھوڑیں گے، میں بھی اس وقت تک سب گناہ کرتا رہوں گا۔ بات یہ ہے کہ اس معاملے میں تینوں بتوں کی پرستش ہو رہی ہے۔ نفس کی بندگی بھی ہے، باپ دادا کی بندگی بھی، اور مشرک قوموں کی بندگی بھی، اور تینوں کے ساتھ اسلام کا دعویٰ بھی ہے۔
یہ صرف دو مثالیں ہیں، ورنہ آنکھیں کھول کر دیکھا جائے تو بے شمار اسی قسم کے امراض آپ کے اندر پھیلے ہوئے نظر آئیں گے، اور ان سب میں آپ یہی دیکھیں گے کہ کہیں ایک بت کی پرستش ہے اور کہیں دو بتوں کی اور کہیں تینوں بتوں کی۔ جب یہ بت پوجے جا رہے ہوں اور ان کے ساتھ اسلام کا دعویٰ بھی ہو، تو آپ کیسے امید کر سکتے ہیں کہ آپ پر اُن رحمتوں کی بارش ہو گی جن کا وعدہ سچے مسلمانوں سے کیا گیا ہے؟
٭…٭…٭
ایمان کی کسوٹی
برادرانِ اسلام! پچھلے جمعے کے خطبے میں، میں نے آپ کو بتایا تھا کہ قرآن کی رُو سے انسان کی گمراہی کے تین سبب ہیں:
o ایک یہ کہ وہ خدا کے قانون کو چھوڑ کر اپنے نفس کی خواہشات کا غلام بن جائے۔
o دوسرے یہ کہ خدائی قانون کے مقابلے میں اپنے خاندان کے رسم ورواج اور باپ دادا کے طریقے کو ترجیح دے۔
o تیسرے یہ کہ خدا اور اس کے رسول a نے جو طریقہ بتایا ہے اس کو بالائے طاق رکھ کر انسانوں کی پیروی کرنے لگے، چاہے وہ انسان خود اس کی اپنی قوم کے بڑے لوگ ہوں، یا غیر قوموں کے لوگ۔
مسلمان کی اصلی تعریف
مسلمان کی اصلی تعریف یہ ہے کہ وہ ان تینوں بیماریوں سے پاک ہو۔ مسلمان کہتے ہی اُس کو ہیں جو خدا کے سوا کسی کا بندہ اور رسول a کے سوا کسی کا پیرو نہ ہو۔ مسلمان وہ ہے جو سچے دل سے اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ خدا اور اس کے رسولؐ کی تعلیم سراسر حق ہے، اس کے خلاف جو کچھ ہے وہ باطل ہے اور انسان کے لیے دین ودنیا کی بھلائی جو کچھ بھی ہے صرف خدا اور اس کے رسولؐ کی تعلیم میں ہے۔ اس بات پرکامل یقین جس شخص کو ہو گا وہ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں صرف یہ دیکھے گا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا کیا حکم ہے، اور جب اسے حکم معلوم ہوجائے گا تو وہ سیدھی طرح سے اس کے آگے سر جھکا دے گا۔ پھر چاہے اس کا دل کتنا ہی تلملائے اور خاندان کے لوگ کتنی ہی باتیں بنائیں، اور دنیا والے کتنی ہی مخالفت کریں وہ ان میں سے کسی کی پروا نہ کرے گا، کیوں کہ ہر ایک کو اس کا صاف جواب یہی ہو گا کہ میں خدا کا بندہ ہوں، تمھارا بندہ نہیں ہوں، اور میں رسولؐ پر ایمان لایا ہوں تم پر ایمان نہیں لایا ہوں۔
نفاق کی علامتیں
۱۔ نفس کی بندگی
اس کے برخلاف اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ خدا اور رسول a کا ارشاد یہ ہے تو ہوا کرے، میرا دل تو اس کو نہیں مانتا، مجھے تو اس میں نقصان نظر آتا ہے، اس لیے میں خدا اور رسولؐ کی بات کو چھوڑ کر اپنی رائے پر چلوں گا، تو ایسے شخص کا دل ایمان سے خالی ہو گا۔ وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے کہ زبان سے تو کہتا ہے کہ میں خدا کا بندہ اور رسولؐ کا پیرو ہوں، مگر حقیقت میں اپنے نفس کا بندہ اور اپنی رائے کا پَیرو بنا ہوا ہے۔
۲۔ رسم و رواج کی پابندی
اسی طرح اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ خدا اوررسولؐ کا حکم کچھ بھی ہو، مگر فلاں بات تو باپ دادا سے ہوتی چلی آ رہی ہے، اس کو کیسے چھوڑا جا سکتا ہے، یا فلاں قاعدہ تو میرے خاندان یا برادری میں مقرر ہے، اسے کیوں کر توڑا جا سکتا ہے، تو ایسے شخص کا شمار بھی منافقوں میں ہو گا، خواہ نمازیں پڑھتے پڑھتے اس کی پیشانی پر کتنا ہی بڑا گٹا پڑ گیا ہو، اور ظاہر میں اس نے کتنی ہی متشرّع صورت بنا رکھی ہو۔ اس لیے کہ دین کی اصل حقیقت اس کے دل میں اتری ہی نہیں۔ دین رکوع اور سجدے اور روزے اور حج کا نام نہیں ہے، اور نہ دین انسان کی صورت اور اس کے لباس میں ہوتا ہے، بلکہ اصل میں دین نام ہے خدا اور رسولؐ کی اطاعت کا۔ جو شخص اپنے معاملات میں خدا اور رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرتا ہے، اس کا دل حقیقت میں دین سے خالی ہے۔ اس کی نماز اور اس کا روزہ اور اس کی متشرّع صورت ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔
۳۔ دوسری قوموں کی نقّالی
اسی طرح اگر کوئی شخص خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی ہدایت سے بے پروا ہو کر کہتا ہے کہ فلاں بات اس لیے اختیار کی جائے کہ وہ انگریزوں میں رائج ہے، اور فلاں بات اس لیے قبول کی جائے کہ فلاں قوم اس کی وجہ سے ترقی کر رہی ہے، اور فلاں بات اس لیے مانی جائے کہ فلاں بڑا آدمی ایسا کہتا ہے، تو ایسے شخص کو بھی اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔ یہ باتیں ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔ مسلمان ہو اور مسلمان رہنا چاہتے ہو تو ہر اس بات کو اٹھا کر دیوار پر دے مارو جو خدا اور رسولؐ کی بات کے خلاف ہو۔ اگر تم ایسا نہیں کر سکتے تو اسلام کا دعویٰ تمھیں زیب نہیں دیتا۔ زبان سے کہنا کہ ہم خدا اور رسولؐ کو مانتے ہیں، مگر اپنی زندگی کے معاملات میں ہر وقت دوسروں کی بات کے مقابلے میں خدا اور رسولؐ کی بات کو رَدّ کرتے رہنا نہ ایمان ہے نہ اسلام، بلکہ اس کا نام منافقت ہے۔ قرآن مجید کے اٹھارویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے صاف صاف الفاظ میں فرما دیا ہے:
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ۰ۭ وَاللہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍo وَيَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيْقٌ مِّنْہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ۰ۭ وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَo وَاِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَہُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْہُمْ مُّعْرِضُوْنَo وَاِنْ يَّكُنْ لَّہُمُ الْحَقُّ يَاْتُوْٓا اِلَيْہِ مُذْعِنِيْنَo اَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْٓا اَمْ يَخَافُوْنَ اَنْ يَّحِيْفَ اللہُ عَلَيْہِمْ وَرَسُوْلُہٗ۰ۭ بَلْ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَo ع اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَہُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَخْشَ اللہَ وَيَتَّقْہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ o
(النور24: 52-46)
یعنی ہم نے کھول کھول کر حق اور باطل کا فرق بتانے والی آیتیں اتار دی ہیں۔ اللہ جس کو چاہتا ہے ان آیتوں کے ذریعے سے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے اور ہم نے اطاعت قبول کی۔ پھر اس کے بعد ان میں سے بعض لوگ اطاعت سے منہ موڑ جاتے ہیں، ایسے لوگ ایمان دار نہیں ہیں۔ اور جب ان کو اللہ اور رسولؐ کی طرف بلایا جاتا ہے، تاکہ رسولؐ ان کے معاملات میں فیصلہ کرے، تو ان میں سے کچھ لوگ منہ موڑ جاتے ہیں، البتہ جب بات ان کے مطلب کی ہو تو اسے مان لیتے ہیں۔ کیا ان لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے؟ یا کیا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں؟ یا ان کو یہ ڈر ہے کہ اللہ اور اس کا رسولؐ ان کی حق تلفی کرے گا؟ بہرحال وجہ کچھ بھی ہو یہ لوگ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہیں۔ حقیقت میں جو ایمان دار ہیں ان کا طریقہ تو یہ ہے کہ جب انھیں اللہ اوراس کے رسولؐ کی طرف بلایا جائے،تاکہ رسولؐ ان کے معاملات کا فیصلہ کرے، تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا اور اللہ سے ڈرتا رہے گا اور اس کی نافرمانی سے پرہیز کرے گا، بس وہی کامیاب ہو گا۔
ان آیات میں ایمان کی جو تعریف بیان کی گئی ہے، اس پر غور کیجیے۔ اصلی ایمان یہ ہے کہ اپنے آپ کو خدا کی کتاب اوراس کے رسولؐ کی ہدایت کے سپرد کر دو۔ جو حکم وہاں سے ملے اس کے آگے سر جھکا دو، اور اس کے مقابلے میں کسی کی نہ سنو، نہ اپنے دل کی، نہ خاندان والوں کی اور نہ دنیا والوں کی۔ یہ کیفیت جس میں پیدا ہو جائے وہی مومن اور مسلم ہے، اور جو اس سے خالی ہو، اس کی حیثیت منافق سے زیادہ نہیں ہے۔
اللہ کی اطاعت کی چند مثالیں
O ترکِ شراب
آپ نے سنا ہو گا کہ عرب میں شراب خوری کا کتنا زور تھا۔ عورت اور مرد، جوان اور بوڑھے شراب کے متوالے تھے۔ ان کو دراصل اس چیز سے عشق تھا۔ اس کی تعریفوںکے گیت گاتے تھے اور اس پرجان دیتے تھے۔ یہ بھی آپ کو معلوم ہو گا کہ شراب کی لت لگ جانے کے بعد اس کا چھوٹنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ آدمی جان دینا قبول کر لیتا ہے مگر شراب چھوڑنا قبول نہیں کر سکتا۔ اگر شرابی کو شراب نہ ملے تو اس کی کیفیت بیمار سے بدتر ہو جاتی ہے۔ لیکن آپ نے کبھی سنا ہے کہ جب قرآن شریف میں اس کی حرمت کا حکم آیا تو کیا ہوا؟ وہی عرب جو شراب پر جان دیتے تھے، اس حکم کو سنتے ہی انھوں نے اپنے ہاتھ سے شراب کے مٹکے توڑ ڈالے۔ مدینہ کی گلیوں میں شراب اس طرح بہہ رہی تھی جیسے بارش کا پانی بہتا ہے۔ ایک مجلس میں کچھ لوگ بیٹھے شراب پی رہے تھے جس وقت انھوں نے رسول اللہa کے منادی کی آواز سنی کہ شراب حرام کر دی گئی تو جس شخص کا ہاتھ جہاں تھا، وہیں کا وہیں رہ گیا۔ جس کے منہ سے پیالہ لگا ہوا تھا، اس نے فوراً اس کو ہٹا لیا، اور پھرایک قطرہ حلق میں نہ جانے دیا ____ یہ ہے ایمان کی شان۔ اس کو کہتے ہیں خدا اور رسولؐ کی اطاعت۔
O اقرارِ جرم
آپ کو معلوم ہے کہ اسلام میں زنا کی سزا کتنی سخت رکھی گئی ہے؟ ننگی پیٹھ پر سو کوڑے، جن کا خیال کرنے سے آدمی کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں، اور اگر شادی شدہ آدمی ہو تو اس کے لیے سنگساری کی سزا ہے، یعنی اس کو پتھروں سے اتنا مارنا کہ وہ مر جائے۔ ایسی سخت سزا کا نام ہی سن کر آدمی کانپ اٹھتا ہے، مگر آپ نے یہ بھی سنا کہ جن کے دل میں ایمان تھا ان کی کیا کیفیت تھی؟ ایک شخص سے زنا کا فعل سرزد ہو گیا۔ کوئی گواہ نہ تھا۔ کوئی عدالت تک پکڑکر لے جانے والا نہ تھا۔ کوئی پولیس کو اطلاع دینے والا نہ تھا۔ صرف دل میں ایمان تھا جس نے اس شخص سے کہا کہ جب تو نے خدا کے قانون کے خلاف اپنے نفس کی خواہش پوری کی ہے تو اب جو سزا خدا نے اس کے لیے مقرر کی ہے اس کو بھگتنے کے لیے تیار ہو جا۔ چنانچہ وہ شخص خود رسول اللہ a کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ یارسولؐ اللہ! میں نے زنا کیا ہے، مجھے سزا دیجیے۔ آپؐ منہ پھیر لیتے ہیں تو پھر دوسری طرف آ کر یہی بات کہتا ہے۔ آپؐ پھر منہ پھیر لیتے ہیں تو وہ پھر سامنے آ کر سزا کی درخواست کرتا ہے کہ جو گناہ میں نے کیا ہے اس کی سزا مجھے دی جائے ____ یہ ہے ایمان ____ جس کے دل میں ایمان موجود ہے اس کے لیے ننگی پیٹھ پر سو کوڑے کھانا بلکہ سنگسار تک کر دیا جانا آسان ہے، مگر نافرمان بن کر خداکے سامنے حاضر ہونا مشکل۔
O قطعِ علائق
آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ انسان کے لیے دنیا میں اپنے رشتہ داروں سے بڑھ کر کوئی عزیز نہیں ہوتا۔ خصوصاً باپ، بھائی، بیٹے تو اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ ان پر سے سب کچھ قربان کر دینا آدمی گوارا کر لیتا ہے، مگر آپ ذرا بدر اور اُحد کی لڑائیوں پر غور کیجیے کہ ان میں کون کس کے خلاف لڑنے گیا تھا؟ باپ مسلمانوں کی فوج میں ہے تو بیٹا کافروںکی فوج میں، یا بیٹا اِس طرف ہے تو باپ اُس طرف۔ ایک بھائی اِدھر ہے تو دوسرا بھائی اُدھر۔ قریب سے قریب رشتہ دار ایک دوسرے کے مقابلے میں آئے ہیں اور اس طرح لڑے ہیں کہ گویا یہ ایک دوسرے کو پہچانتے ہی نہیں، اور یہ جوش ان میں کچھ روپے پیسے یا زمین کے لیے نہیں بھڑکا تھا، نہ کوئی ذاتی عداوت تھی، بلکہ صرف اس وجہ سے وہ اپنے خون اوراپنے گوشت پوست کے خلاف لڑ گئے کہ وہ خدا اور رسولؐ پر باپ اور بیٹے اوربھائی اور سارے خاندان کو قربان کر دینے کی طاقت رکھتے تھے۔
O پرانے رسم ورواج سے توبہ
آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ عرب میں جتنے پرانے رسم ورواج تھے، اسلام نے قریب قریب ان سب ہی کو توڑ ڈالا تھا۔ سب سے بڑی چیز تو بت پرستی تھی جس کا رواج سیکڑوں برس سے چلا آرہا تھا۔ اسلام نے کہا کہ ان بتوں کو چھوڑ دو۔ شراب، زنا، جوأ، چوری اور راہ زنی عرب میں عام طور پر رائج تھی۔ اسلام نے کہا کہ ان سب کو ترک کرو۔ عورتیں عرب میں کھلی پھرتی تھیں۔ اسلام نے حکم دیا کہ پردہ کرو۔ عورتوں کو وراثت میں کوئی حصہ نہ دیا جاتا تھا۔ اسلام نے کہا کہ ان کا بھی وراثت میں حصہ ہے۔ متبنّٰی{ FR 1602 } کو وہی حیثیت دی جاتی تھی جو صلبی اولاد کی ہوتی ہے۔ اسلام نے کہا کہ وہ صلبی اولاد کی طرح نہیں ہے بلکہ متبنّٰی اگر اپنی بیوی کو چھوڑ دے تو اس سے نکاح کیا جا سکتا ہے۔ غرض کون سی پرانی رسم ایسی تھی جس کو توڑنے کا حکم اسلام نے نہ دیا ہو، مگر آپ کو معلوم ہے کہ جو لوگ خدا اور رسولؐ پر ایمان لائے تھے ان کا کیا طرزِ عمل تھا؟
صدیوں سے جن بتوں کو وہ اور ان کے باپ دادا سجدہ کرتے اور نذریں چڑھایا کرتے تھے، ان کو ان ایمان داروں نے اپنے ہاتھ سے توڑا۔ سیکڑوں برس سے جو خاندانی رسمیں چلی آتی تھیں ان سب کو انھوں نے مٹا کررکھ دیا۔ جن چیزوں کو وہ مقدس سمجھتے تھے خدا کا حکم پا کر انھیں پائوں تلے روند ڈالا۔ جن چیزوں کو وہ مکروہ سمجھتے تھے خدا کا حکم آتے ہی ان کو جائز سمجھنے لگے۔ جو چیزیں صدیوں سے پاک سمجھی جاتی تھیں وہ ایک دم ناپاک ہو گئیں، اور جو صدیوں سے ناپاک خیال کی جاتی تھیں وہ یکایک پاک ہو گئیں۔ کفر کے جن طریقوں میں لذت اور فائدے کے سامان تھے، خدا کا حکم پاتے ہی ان کو چھوڑ دیا گیا، اور اسلام کے جن احکام کی پابندی انسان پر شاق گزرتی ہے ان سب کو خوشی خوشی قبول کر لیا گیا۔ اس کا نام ہے ایمان اور اس کو کہتے ہیں اسلام۔ اگر عرب کے لوگ اس وقت کہتے کہ فلاں بات کو ہم اس لیے نہیں مانتے کہ ہمارا اس میں نقصان ہے، اورفلاں بات کو ہم اس لیے نہیں چھوڑتے کہ اس میں ہمارا فائدہ ہے، اور فلاں کام کو ہم ضرور کریں گے کیونکہ باپ دادا سے یہی ہوتا چلا آیا ہے، اور فلاں باتیں رومیوں کی ہمیں پسند ہیں اور فلاں ایرانیوں کی ہم کو مرغوب ہیں، غرض اگر عرب کے لوگ اسی طرح اسلام کی ایک ایک بات کو رَدّ کر دیتے، تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آج دنیا میں کوئی مسلمان نہ ہوتا۔
خدا کی خوشنودی کا راستہ
بھائیو! قرآن میں ارشاد ہوا :
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۰ۥۭ (آل عمران 3:92)
یعنی نیکی کا مرتبہ تم کو نہیں مل سکتا جب تک کہ تم وہ سب چیزیں خدا کے لیے قربان نہ کر دو جو تم کو عزیز ہیں۔
بس یہی آیت اسلام اور ایمان کی جان ہے۔ اسلام کی اصل شان یہی ہے کہ جوچیزیں تم کو عزیز ہیں ان کو خدا کی خاطر قربان کر دو۔ زندگی کے سارے معاملات میں تم دیکھتے ہو کہ خدا کا حکم ایک طرف بلاتا ہے اور نفس کی خواہشات دوسری طرف بلاتی ہیں۔ خدا ایک کام کا حکم دیتا ہے، نفس کہتا ہے کہ اس میں تو تکلیف ہے یا نقصان۔ خدا ایک بات سے منع کرتا ہے، نفس کہتا ہے کہ یہ تو بڑی مزے دار چیز ہے یا بڑے فائدے کی چیز ہے۔ ایک طرف خدا کی خوشنودی ہوتی ہے اور دوسری طرف ایک دنیا کی دنیا کھڑی ہوتی ہے، غرض زندگی میں ہر ہر قدم پر انسان کو دو راستے ملتے ہیں۔ ایک راستہ اسلام کا ہے اور دوسرا کفر ونفاق کا۔ جس نے دنیا کی ہر چیز کو ٹھکرا کر خدا کے حکم کے آگے سر جھکا دیا، اس نے اسلام کا راستہ اختیار کیا، اور جس نے خدا کے حکم کو چھوڑ کر اپنے دل کی یا دنیا کی خوشی پوری کی اس نے کفر یا نفاق کا راستہ اختیار کیا۔
آج کا مسلمان
آج لوگوں کا حال یہ ہے کہ اسلام کی جو بات آسان ہے اُسے تو بڑی خوشی کے ساتھ قبول کرتے ہیں، مگر جہاں کفر اور اسلام کا اصلی مقابلہ ہوتا ہے وہیں سے رخ بدل دیتے ہیں۔ بڑے بڑے مُدعیِ اسلام لوگوں میں بھی یہ کمزوری موجود ہے۔ وہ اسلام اسلام بہت پکاریں گے، اس کی تعریف کرتے کرتے ان کی زبان خشک ہو جائے گی، اس کے لیے کچھ نمائشی کام بھی کر دیں گے، مگر ان سے کہیے کہ یہ اسلام جس کی آپ اس قدر تعریفیں فرما رہے ہیں، آئیے ذرا اس کے قانون کو ہم آپ خود اپنے اوپر جاری کریں تو وہ فوراً کہیں گے کہ اس میں فلاں مشکل ہے اور فلاں دقّت ہے، اور فی الحال تو اس کو بس رہنے ہی دیجیے۔ مطلب یہ ہے کہ اسلام ایک خوبصورت کھلونا ہے، اس کو بس طاق پر رکھیے اور دُور سے بیٹھ کر اس کی تعریفیں کیے جائیے،مگر اسے خود اپنی ذات پر اور اپنے گھر والوں اور عزیزوں پر اور اپنے کاروبار اور معاملات پر ایک قانون کی حیثیت سے جاری کرنے کا نام تک نہ لیجیے۔ یہ ہمارے آج کل کے دین داروں کا حال ہے۔ اب دنیا داروں کا تو ذکر ہی فضول ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ نہ اب نمازوں میں وہ اثر ہے جو کبھی تھا، نہ روزوں میں ہے، نہ قرآن خوانی میں اور نہ شریعت کی ظاہری پابندیوں میں۔ اس لیے کہ جب روح ہی موجود نہیں تو نرا بے جان جسم کیا کرامت دکھائے گا؟
٭…٭…٭
اسلام کا اصلی معیار
برادرانِ اسلام! اللہ تعالیٰ اپنی کتابِ پاک میں فرماتا ہے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۙ o لَا شَرِيْكَ لَہٗ۰ۚ وَ بِذٰ لِكَ اُمِرْتُ وَاَ نَا اَوَّلُ الْمُسْلِـمِيْنَo (الانعام 6:162-163)
یعنی (اے محمدؐ) کہو کہ میری نماز اور میرے تمام مراسمِ عبودیت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ کے لیے ہے جو ساری کائنات کا مالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے میں اس کی اطاعت میں سرِ تسلیم خم کرتا ہوں۔
اس آیت کی تشریح نبیa کے اس ارشاد سے ہوتی ہے:
مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ۔(بخاری)
جس نے کسی سے دوستی ومحبت کی تو خدا کے لیے، اور دشمنی کی تو خدا کے لیے، اور کسی کو دیا تو خدا کے لیے، اور کسی سے روکا تو خدا کے لیے، اس نے اپنے ایمان کو کامل کر لیا، یعنی وہ پورا مومن ہو گیا۔
پہلے جو آیت میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی بندگی کو اور اپنے جینے اور مرنے کو صرف اللہ کے لیے خالص کر لے اور اللہ کے سوا کسی کو اس میں شریک نہ کرے۔ یعنی نہ اس کی بندگی اللہ کے سوا کسی اور کے لیے ہو، اور نہ اس کا جینا اور مرنا۔
اس کی جو تشریح نبی a کی زبان سے میں نے آپ کو سنائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کی محبت اور دشمنی، اور اپنی دنیوی زندگی کے معاملات میں اس کا لین دین، خالصتاً خدا کے لیے ہونا عین تقاضائے ایمان ہے۔ اس کے بغیر ایمان ہی کی تکمیل نہیں ہوتی کجا کہ مراتبِ عالیہ کا دروازہ کھل سکے۔ جتنی کمی اس معاملے میں ہو گی اتنا ہی نقص آدمی کے ایمان میں ہو گا، اور جب اس حیثیت سے آدمی مکمل طور پر خدا کا ہو جائے تب کہیں اس کا ایمان مکمل ہوتا ہے۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی چیزیں صرف مراتبِ عالیہ کا دروازہ کھولتی ہیں، ورنہ ایمان واسلام کے لیے انسان کے اندر یہ کیفیت پیدا ہونا شرط نہیں ہے۔ یعنی بالفاظِ دیگر اس کیفیت کے بغیر بھی انسان مومن ومسلم ہو سکتا ہے، مگر یہ ایک غلط فہمی ہے اور اس غلط فہمی کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر لوگ فقہی اور قانونی اسلام اور اس حقیقی اسلام میں جو خدا کے ہاں معتبر ہے، فرق نہیں کرتے۔
قانونی اور حقیقی اسلام کا فرق
قانونی اسلام
فقہی اور قانونی اسلام میں آدمی کے قلب کا حال نہیں دیکھا جاتا اور نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ صرف اس کے اقرارِ زبانی کو اور اس امر کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے اندر ان لازمی علامات کو نمایاں کرتا ہے یا نہیں جو اقرارِ زبانی کی توثیق کے لیے ضروری ہیں۔ اگر کسی شخص نے زبان سے اللہ اور رسولؐ اور قرآن اور آخرت اور دوسرے ایمانیات کو ماننے کا اقرار کر لیا اور اس کے بعد وہ ضروری شرائط بھی پوری کر دیں جن سے اس کے ماننے کا ثبوت ملتا ہے تو وہ دائرۂ اسلام میں لے لیا جائے گا، اور سارے معاملات اس کے ساتھ مسلمان سمجھ کر کیے جائیں گے۔ لیکن یہ چیز صرف دنیا کے لیے ہے، اور دنیوی حیثیت سے وہ قانونی اور تمدنی بنیاد فراہم کرتی ہے جس پر مسلم سوسائٹی کی تعمیر کی گئی ہے۔ اس کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایسے اقرار کے ساتھ جتنے لوگ مسلم سوسائٹی میں داخل ہوں وہ سب مسلمان مانے جائیں، ان میں سے کسی کی تکفیر نہ کی جائے، ان کو ایک دوسرے پر شرعی اور قانونی اور اخلاقی اور معاشرتی حقوق حاصل ہوں، ان کے درمیان شادی بیاہ کے تعلقات قائم ہوں، میراث تقسیم ہو، اور دوسرے تمدنی روابط وجود میں آئیں۔
حقیقی اسلام
لیکن آخرت میں انسان کی نجات اور اس کا مسلم ومومن قرار دیا جانا اور اللہ کے مقبول بندوں میں شمار ہونا اس قانونی اقرار پر مبنی نہیں ہے، بلکہ وہاں اصل چیز آدمی کا قلبی اقرار، اس کے دل کا جھکائوا ور اس کا برضا ورغبت اپنے آپ کو بالکلیہ خدا کے حوالے کر دینا ہے۔ دنیا میں جو زبانی اقرار کیا جاتا ہے وہ تو صرف قاضیِ شرع کے لیے اور عام انسانوں اور مسلمانوں کے لیے ہے، کیونکہ وہ صرف ظاہر ہی کو دیکھ سکتے ہیں، مگر اللہ آدمی کے دل کو اور اس کے باطن کو دیکھتا ہے اور اس کے ایمان کوناپتا ہے۔ اس کے ہاں آدمی کو جس حیثیت سے جانچا جائے گا وہ یہ ہے کہ آیا اس کا جینا اور مرنا اور اس کی وفاداریاں اور اس کی اطاعت وبندگی اور اس کا پورا کارنامۂ زندگی اللہ کے لیے تھا یا کسی اور کے لیے؟ اگر اللہ کے لیے تھا تو وہ مسلم اور مومن قرار پائے گا، اور اگر کسی اور کے لیے تھا تو نہ وہ مسلم ہو گا نہ مومن۔ اس حیثیت سے جو جتنا خام نکلے گا اتنا ہی اس کا ایمان اور اسلام خام ہو گا، خواہ دنیا میں اس کا شمار کیسے ہی بڑے مسلمانوں میں ہوتا رہا ہو، اور اس کو کتنے ہی بڑے مراتب دیے گئے ہوں۔ اللہ کے ہاں قدر صرف اس چیز کی ہے کہ جو کچھ اس نے آپ کو دیا ہے وہ سب کچھ آپ نے اس کی راہ میں لگا دیا یا نہیں۔ اگر آپ نے ایسا کر دیا تو آپ کو وہی حق دیا جائے گا جو وفاداروں کو اور حقِ بندگی ادا کرنے والوں کو دیا جاتا ہے، اور اگر آپ نے کسی چیز کو خدا کی بندگی سے مستثنیٰ کرکے رکھا تو آپ کا یہ اقرار کہ آپ مسلم ہوئے، یعنی یہ کہ آپ نے اپنے آپ کو بالکل خدا کے حوالے کر دیا، محض ایک جھوٹا اقرار ہو گا جس سے دنیا کے لوگ دھوکا کھا سکتے ہیں، جس سے فریب کھا کر مسلم سوسائٹی آپ کو اپنے اندر جگہ دے سکتی ہے، جس سے دنیا میں آپ کو مسلمانوں کے سے تمام حقوق مل سکتے ہیں، لیکن اس سے فریب کھا کر خدا پنے ہاں آپ کو وفاداروں میں جگہ نہیں دے سکتا۔
یہ قانونی اور حقیقی اسلام کا فرق جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیا ہے، اگر آپ اس پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کے نتائج صرف آخرت ہی میں مختلف نہیں ہوں گے، بلکہ دنیا میں بھی ایک بڑی حد تک مختلف ہیں۔ دنیا میں جو مسلمان پائے گئے ہیں، یا آج پائے جاتے ہیں ان سب کو دو قسموں پر منقسم کیا جا سکتا ہے: ۱۔جزوی مسلمان، ۲۔ پورے مسلمان
مسلمانوں کی دو قسمیں
جزوی مسلمان
ایک قسم کے مسلمان وہ ہیں جو خدا اور رسولؐ کا اقرار کرکے اسلام کو بحیثیت اپنے مذہب کے مان لیں، مگر اپنے اس مذہب کو اپنی کل زندگی کا محض ایک جز اور ایک شعبہ ہی بنا کر رکھیں۔ اس مخصوص جز اور شعبے میں تو اسلام کے ساتھ عقیدت ہو، عبادت گزاریاں ہوں، تسبیح ومصلیّٰ ہو، خدا کا ذکر ہو، کھانے پینے اور بعض معاشرتی معاملات میں پرہیز گاریاں ہوں اور وہ سب کچھ ہو جسے مذہبی طرز عمل کہا جاتا ہے، مگر اس شعبے کے سوا ان کی زندگی کے دوسرے تمام پہلو ان کے مسلم ہونے کی حیثیت سے مستثنیٰ ہوں۔ وہ محبت کریں تو اپنے نفس، یا اپنے مفاد، یا اپنے ملک وقوم، یا کسی اور کی خاطر کریں۔ وہ دشمنی کریں اور کسی سے جنگ کریں تو وہ بھی ایسے ہی کسی دنیوی یا نفسانی تعلق کی بنا پر کریں۔ ان کے کاروبار، ان کے لین دین، ان کے معاملات اور تعلقات، ان کا اپنے بال بچوں، اپنے خاندان، اپنی سوسائٹی اور اپنے اہل معاملہ کے ساتھ برتائو سب کا سب ایک بڑی حد تک دین سے آزاد اور دنیوی حیثیتوں پر مبنی ہو۔ ایک زمین دار کی حیثیت سے، ایک تاجر کی حیثیت سے، ایک حکمران کی حیثیت سے، ایک سپاہی کی حیثیت سے، ایک پیشہ ور کی حیثیت سے ان کی اپنی ایک مستقل حیثیت ہو جس کا ان کے مسلمان ہونے کی حیثیت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ پھر اس قسم کے لوگ مل کر اجتماعی طور پر جو تمدنی، تعلیمی اور سیاسی ادارے قائم کریں وہ بھی ان کے مسلمان ہونے کی حیثیت سے خواہ جزئی طور پر متاثر یا منسوب ہوں، لیکن فی الواقع ان کو اسلام سے کوئی علاقہ نہ ہو۔
پورے مسلمان
دوسری قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اپنی پوری شخصیت کو اور اپنے سارے وجود کو اسلام کے اندر پوری طرح دے دیں۔ ان کی ساری حیثیتیں ان کے مسلمان ہونے کی حیثیت میں گم ہو جائیں۔ وہ باپ ہوں تو مسلمان کی حیثیت سے، بیٹے ہوں تو مسلمان ہونے کی حیثیت سے، شوہر یا بیوی ہوں تو مسلمان کی حیثیت سے۔ تاجر، زمین دار، مزدور، ملازم یا پیشہ ور ہوں تو مسلمان کی حیثیت سے۔ اُن کے جذبات، اُن کی خواہشات، اُن کے نظریات، اُن کے خیالات اور اُن کی رائیں، اُن کی نفرت اور رغبت، اُن کی پسند اور ناپسند سب کچھ اسلام کے تابع ہو۔ اُن کے دل ودماغ پر، اُن کی آنکھوں اور کانوں پر، اُن کے پیٹ اور اُن کی شرم گاہوں پر اور اُن کے ہاتھ پائوں اور اُن کے جسم وجان پر اسلام کا مکمل قبضہ ہو۔ نہ اُن کی محبت اسلام سے آزاد ہو، نہ دشمنی۔ جس سے ملیں تواسلام کے لیے ملیں اور جس سے لڑیں تو اسلام کے لیے لڑیں۔ کسی کو دیں تو اس لیے دیں کہ اسلام کا تقاضا یہی ہے کہ اسے دیا جائے اور کسی سے روکیں تو اس لیے روکیں کہ اسلام یہی کہتا ہے کہ اس سے روکا جائے، اور ان کا یہ طرزِ عمل صرف انفرادی حد تک ہی نہ ہو، بلکہ ان کی اجتماعی زندگی بھی سراسر اسلام کی بنیاد ہی پر قائم ہو۔ بحیثیت ایک جماعت کے ان کی ہستی صرف اسلام کے لیے قائم ہو، اور ان کا سارا اجتماعی برتائو اسلام کے اصولوں ہی پر مبنی ہو۔
خدا کا مطلوب مسلمان
یہ دو قسم کے مسلمان حقیقت میں بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہیں، چاہے قانونی حیثیت سے دونوں ایک ہی امت میں شامل ہوں اور دونوں پر لفظ مسلمان کا اطلاق یکساں ہوتا ہو۔ پہلی قسم کے مسلمانوں کا کوئی کارنامہ تاریخِ اسلام میں قابلِ ذکر یا قابلِ فخر نہیں ہے۔ انھوں نے فی الحقیقت کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جس نے تاریخِ عالم پر کوئی اسلامی نقش چھوڑا ہو۔ زمین نے ایسے مسلمانوں کا بوجھ کبھی محسوس نہیں کیا ہے۔ اسلام کو اگر تنزّل نصیب ہوا ہے تو ایسے ہی لوگوں کی بدولت ہواہے۔ ایسے ہی مسلمانوں کی کثرت مسلم سوسائٹی میں ہو جانے کا نتیجہ اس شکل میں رونما ہوا کہ دنیا کے نظامِ زندگی کی باگیں کفر کے قبضے میں چلی گئیں اور مسلمان اس کے ماتحت رَہ کر صرف ایک محدود مذہبی زندگی کی آزادی پر قانع ہو گئے۔ خدا کو ایسے مسلمان ہرگز مطلوب نہ تھے۔ اس نے اپنے انبیا ؑ کو دنیا میں اس لیے نہیں بھیجا تھا، نہ اپنی کتابیں اس لیے نازل کی تھیں کہ صرف اس طرز کے مسلمان دنیا میں بنا ڈالے جائیں۔ دنیا میں ایسے مسلمانوں کے نہ ہونے سے کسی حقیقی قدر وقیمت رکھنے والی چیز کی کمی نہ تھی جسے پورا کرنے کے لیے سلسلۂ وحی ونبوت کو جاری کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ درحقیقت جو مسلمان خدا کو مطلوب ہیں جنھیں تیارکرنے کے لیے انبیا ؑ کی بعثت اور کتابوں کی تنزیل ہوئی ہے اور جنھوں نے اسلامی نقطۂ نظر سے کبھی کوئی قابلِ قدر کام کیا ہے یا آج کر سکتے ہیں، وہ صرف دوسری ہی قسم کے مسلمان ہیں۔
حقیقی پیروی غلبے کا سبب ہے
یہ چیز اسلام ہی کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ دنیا میں کسی مسلک کا جھنڈا بھی ایسے پیروئوں کے ہاتھوں کبھی بلند نہیں ہوا ہے جنھوں نے اپنے مسلک کے اقرار اور اس کے اصولوں کی پابندی کو اپنی کل زندگی کے ساتھ صرف ضمیمہ بنا کر رکھا ہو، اور جن کا جینا اور مرنا اپنے مسلک کے سوا کسی اور چیز کے لیے ہو۔ آج بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک مسلک کے حقیقی اور سچے پیروصرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو دل وجان سے اس کے وفادار ہیں، جنھوں نے اپنی پوری شخصیت کو اس میں گم کر دیا ہے اور جو اپنی کسی چیز کو حتیٰ کہ اپنی جان اور اپنی اولاد تک کو اس کے مقابلے میں عزیز تر نہیں رکھتے۔ دنیا کا ہر مسلک ایسے ہی پیرو مانگتا ہے، اور اگر کسی مسلک کودنیا میں غلبہ نصیب ہو سکتا ہے تو وہ صرف ایسے ہی پیروئوں کی بدولت ہو سکتا ہے۔
مسلمان خالص اللہ کا وفادار
البتہ اسلام میں اور دوسرے مسلکوں میں فرق یہ ہے کہ دوسرے مسلک اگر انسانوں سے اس طرز کی فنائیت اورفدائیت اور وفاداری مانگتے ہیں تو یہ فی الواقع انسان پر ان کا حق نہیں بلکہ یہ ان کا انسان سے ایک بے جا مطالبہ ہے۔ اس کے برعکس اسلام اگر انسان سے اس کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ اس کا عین حق ہے۔ وہ جن چیزوں کی خاطر انسان سے کہتے ہیں کہ تو اپنے آپ کو اور اپنی زندگی کو اور اپنی پوری شخصیت کو ان پر تج دے، ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں ہے جس کا فی الواقع انسان پر یہ حق ہو کہ اس کی خاطر انسان اپنی کسی شے کو قربان کرے۔ لیکن اسلام جس خدا کے لیے انسان سے یہ قربانی مانگتا ہے وہ حقیقت میں اس کا حق رکھتا ہے کہ اس پر سب کچھ قربان کر دیا جائے۔ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے۔ انسان خود اللہ کا ہے۔جو کچھ انسان کے پاس ہے اور جو کچھ انسان کے اندر ہے سب اللہ کا ہے، اور جن چیزوں سے انسان دنیا میں کام لیتا ہے وہ سب بھی اللہ کی ہیں۔ اس لیے عین تقاضائے عدل اورعین مقتضائے عقل ہے کہ جوکچھ اللہ کا ہے وہ اللہ ہی کے لیے ہو۔ دوسروں کے لیے یا خود اپنے مفاد اور اپنے نفس کے مرغوبات کے لیے انسان جو قربانی بھی کرتا ہے وہ دراصل ایک خیانت ہے، اِ لَّا یہ کہ وہ خدا کی اجازت سے ہو اور خدا کے لیے جو قربانی کرتا ہے فی الحقیقت وہ ادائے حق ہے۔
لیکن اس پہلو سے قطع نظر کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے ان لوگوں کے طرز عمل میں ایک بڑا سبق ہے جو اپنے باطل مسلکوں کی خاطر اور اپنے نفس کے جھوٹے معبودوں کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر رہے ہیں اور اس استقامت کا ثبوت دے رہے ہیں جس کی نظیر مشکل ہی سے تاریخِ انسانی میں ملتی ہے۔ کس قدر عجیب بات ہو گی اگر باطل کے لیے انسانوں سے ایسی کچھ فدائیت اور فنائیت ظہور میں آئے اور حق کے لیے اس کا ہزارواں حصہ بھی نہ ہو سکے۔
محاسبۂ نفس
ایمان واسلام کا یہ معیار جو اس آیت اور اس حدیث میں بیان ہوا ہے،{ FR 1604 } میں چاہتا ہوں کہ ہم سب اپنے آپ کو اس پر پرکھ کر دیکھیں اور اس کی روشنی میں اپنا محاسبہ کریں۔ اگرآپ کہتے ہیں کہ آپ نے اسلام قبول کیا اور ایمان لے آئے تو دیکھیے کہ آیا فی الواقع آپ کا جینا اور مرنا خدا کے لیے ہے؟ کیا آپ اسی لیے جی رہے ہیں اور آپ کے دل اور دماغ کی ساری قابلیتیں، آپ کے جسم اور جان کی ساری قوتیں، آپ کے اوقات اور آپ کی محنتیں کیا اسی کوشش میں صَرف ہو رہی ہیں کہ خدا کی مرضی آپ کے ہاتھوں پوری ہو، اور آپ کے ذریعے سے وہ کام انجام پائے جو خدا اپنی مسلم امت سے لینا چاہتا ہے؟ پھر کیا آپ نے اپنی اطاعت اور بندگی کو خدا ہی کے لیے مخصوص کر دیا ہے؟ کیا نفس کی بندگی، خاندان کی، برادری کی، دوستوں کی، سوسائٹی کی اور حکومت کی بندگی آپ کی زندگی سے بالکل خارج ہو چکی ہے؟ کیا آپ نے اپنی پسند اور ناپسند کو سراسر رضائے الٰہی کے تابع کر دیا ہے؟ پھر دیکھیے کہ واقعی آپ جس سے محبت کرتے ہیں خدا کے لیے کرتے ہیں؟ جس سے نفرت کرتے ہیں خدا کے لیے کرتے ہیں؟ اور اس نفرت اور محبت میں آپ کی نفسانیت کا کوئی حصہ شامل نہیں ہے؟ پھر کیا آپ کا دینا اور روکنا بھی خدا کی خاطر ہو چکا ہے؟ اپنے پیٹ اور اپنے نفس سمیت دنیا میں آپ جس کو جو کچھ دے رہے ہیں اسی لیے دے رہے ہیں کہ خدا نے اس کا حق مقرر کیا ہے اور اس کو دینے سے صرف خدا کی رضا آپ کو مطلوب ہے؟ اور اسی طرح جس سے آپ جو کچھ روک رہے ہیں وہ بھی اسی لیے روک رہے ہیں کہ خدا نے اسے روکنے کا حکم دیا ہے، اور اس کے روکنے میں آپ کو خدا کی خوشنودی حاصل ہونے کی تمنا ہے؟ اگر آپ یہ کیفیت اپنے اندر پاتے ہیں تو اللہ کا شکر کیجیے کہ اس نے آپ پر نعمتِ ایمان کا اِتمام کر دیا، اور اگر اس حیثیت سے آپ اپنے اندر کمی محسوس کرتے ہیں تو ساری فکریں چھوڑ کر بس اسی کمی کو پورا کرنے کی فکر کیجیے اور اپنی تمام کوششوں اور محنتوں کو اسی پرمرکوز کر دیجیے، کیوں کہ اسی کسر کے پورے ہونے پر دنیا میں آپ کی فلاح اور آخرت میں آپ کی نجات کا مدار ہے۔ آپ دنیا میں خواہ کچھ بھی حاصل کر لیں اس کے حصول سے اس نقصان کی تلافی نہیں ہو سکتی جو اس کسر کی بدولت آپ کو پہنچے گا۔ لیکن اگر یہ کسر آپ نے پوری کر لی تو خواہ آپ کو دنیا میں کچھ حاصل نہ ہو پھر بھی آپ خسارے میں نہ رہیں گے۔
یہ کسوٹی اس غرض کے لیے نہیں ہے کہ اس پر آپ دوسروں کو پَرکھیں اور ان کے مومن یا منافق اور مسلم یا کافر ہونے کا فیصلہ کریں، بلکہ یہ کسوٹی اس غرض کے لیے ہے کہ آپ اس پر خود اپنے آپ کو پرکھیں، اور آخرت کی عدالت میں جانے سے پہلے اپنا کھوٹ معلوم کرکے یہیں اسے دُور کرنے کی فکر فرمائیں۔ آپ کو فکر اس بات کی نہ ہونی چاہیے کہ دنیا میں مفتی اور قاضی آپ کو کیا قرار دیتے ہیں، بلکہ اس کی ہونی چاہیے کہ احکم الحاکمین اور عالم الغیب والشہادۃ آپ کو کیا قرار دے گا۔ آپ اس پر مطمئن نہ ہوں کہ یہاں آپ کا نام مسلمانوں کے رجسٹر میں لکھا ہے، فکر اس بات کی کیجیے کہ خدا کے دفتر میں آپ کیا لکھے جاتے ہیں۔ ساری دنیا بھی آپ کو سندِ اسلام وایمان دے دے تو کچھ حاصل نہیں۔ فیصلہ جس خدا کے ہاتھ میں ہے اس کے ہاں منافق کے بجائے مومن، نافرمان کے بجائے فرماںبردار اور بے وفا کی جگہ وفادار قرار پانا اصل کامیابی ہے۔
٭…٭…٭
خدا کی اطاعت کس لیے؟
برادرانِ اسلام! پچھلے کئی خطبوں سے میں آپ کے سامنے بار بار ایک یہی بات بیان کر رہا ہوں کہ ’اسلام‘ اللہ اور رسول a کی اطاعت کا نام ہے، اور آدمی ’مسلمان‘ بن ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ اپنی خواہشات کی، رسم ورواج کی، دنیا کے لوگوں کی، غرض ہر ایک کی اطاعت چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت نہ کرے۔
آج میں آپ کے سامنے یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ اوراس کے رسولؐ کی اطاعت پر اس قدر زور آخر کیوں دیا جاتا ہے؟ ایک شخص پوچھ سکتا ہے کہ کیا خدا ہماری اطاعت کا بھوکا ہے، نعوذباللہ، کہ وہ ہم سے اس طرح اپنی اور اپنے رسولؐ کی اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے؟
کیا نعوذ باللہ، خدا بھی دنیا کے حاکموں کی طرح اپنی حکومت چلانے کی ہوس رکھتا ہے کہ جیسے دنیا کے حاکم کہتے ہیں کہ ہماری اطاعت کرو اسی طرح خدا بھی کہتا ہے کہ میری اطاعت کرو؟ آج میں اسی کاجواب دینا چاہتا ہوں۔
اللہ کی اطاعت میں ہی انسان کی فلاح ہے
اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو انسان سے اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے وہ انسان ہی کی فلاح وبہتری کے لیے کرتا ہے۔ وہ دنیا کے حاکموں کی طرح نہیں ہے۔ دنیا کے حاکم اپنے فائدے کے لیے لوگوں کو اپنی مرضی کا غلام بنانا چاہتے ہیں، مگر اللہ تمام فائدوں سے بے نیاز ہے۔ اس کو آپ سے ٹیکس لینے کی حاجت نہیں ہے۔ اسے کوٹھیاں بنانے اور موٹریں خریدنے اور آپ کی کمائی سے اپنے عیش کے سامان جمع کرنے کی حاجت نہیں ہے۔ وہ پاک ہے۔ کسی کا محتاج نہیں۔ دنیا میں سب کچھ اسی کا ہے، اور سارے خزانوں کا وہی مالک ہے۔ وہ آپ سے صرف اس لیے اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے کہ اسے آپ ہی کی بھلائی منظور ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ جس مخلوق کو اس نے اشرف المخلوقات بنایا ہے وہ شیطان کی غلام بن کر رہے، یا کسی انسان کی غلام ہو، یاذلیل ہستیوں کے سامنے سر جھکائے۔ وہ نہیں چاہتا کہ جس مخلوق کو اس نے زمین پر اپنی خلافت دی ہے وہ جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکتی پھرے، اور جانوروں کی طرح اپنی خواہشات کی بندگی کرکے اسفل السافلین میں جا گرے۔ اس لیے وہ فرماتا ہے کہ تم ہماری اطاعت کرو، ہم نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے جو روشنی بھیجی ہے اس کو لے کر چلو، پھر تم کو سیدھا راستہ مل جائے گا اور تم اس راستے پر چل کر دنیا میں بھی عزت اور آخرت میں بھی عزت حاصل کر سکو گے:
لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۰ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا۰ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌo اَللہُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۰ۙ يُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ۥۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰۗــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ۰ۙ يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَo
(البقرہ 2:257-256)
یعنی دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ ہدایت کا سیدھا راستہ جہالت کے ٹیڑھے راستوں سے الگ کرکے صاف صاف دکھا دیا گیا ہے۔ اب تم میں سے جو کوئی جھوٹے خدائوں اور گمراہ کرنے والے آقائوں کو چھوڑ کر ایک اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایسی مضبوط رسّی تھامی جو ٹوٹنے والی نہیں ہے، اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ جو لوگ ایمان لائیں ان کا نگہبان اللہ ہے۔ وہ ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے، اور جو لوگ کفرکا طریقہ اختیار کریں ان کے نگہبان ان کے جھوٹے خدا اور گمراہ کرنے والے آقا ہیں۔ وہ ان کو روشنی سے نکال کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں۔ وہ دوزخ میں جانے والے ہیں جہاں ہمیشہ رہیں گے۔
غیر اللہ کی اطاعت ____ گُمراہی
اب دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی اطاعت سے آدمی اندھیرے میں کیوں چلا جاتا ہے، اور اس کی کیا وجہ ہے کہ روشنی صرف اللہ ہی کی اطاعت سے مل سکتی ہے؟
آپ دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں آپ کی زندگی بے شمار تعلقات سے جکڑی ہوئی ہے۔ سب سے پہلا تعلق تو آپ کا اپنے جسم کے ساتھ ہے۔ یہ ہاتھ، یہ پائوں، یہ آنکھیں، یہ کان، یہ زبان، یہ دل ودماغ، یہ پیٹ، سب آپ کی خدمت کے لیے اللہ نے آپ کو دیے ہیں۔ آپ کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ان سے کس طرح خدمت لیں؟ پیٹ کو کیا کھلائیں اور کیا نہ کھلائیں؟ ہاتھوں سے کیا کام لیں اور کیا نہ لیں؟ پائوں کو کس راستے پر چلائیں اور کس راستے پر نہ چلائیں؟ آنکھ اور کان سے کس قسم کے کام لیں اور کس قسم کے نہ لیں؟ زبان کو کن باتوں کے لیے استعمال کریں؟ دل میں کیسے خیالات رکھیں؟ دماغ سے کیسی باتیں سوچیں؟ ان سب خادموں سے آپ اچھے کام بھی لے سکتے ہیں اور برے بھی۔ یہ آپ کو بلند درجے کا انسان بھی بنا سکتے ہیں اور جانوروں سے بھی بدتر درجے میں پہنچا سکتے ہیں۔
پھر آپ کے تعلقات اپنے گھر کے لوگوں سے بھی ہیں۔ باپ،ماں، بہن، بھائی، بیوی، اولاد اور دوسرے رشتہ دار ہیں جن سے آپ کا رات دن کا تعلق ہے۔ یہاں آپ کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ان سے آپ کس طرح کا برتائو کریں؟ ان پر آپ کے کیا حق ہیں اور آپ پر اُن کے کیا حق ہیں؟ ان کے ساتھ ٹھیک ٹھیک برتائو کرنے ہی پردنیا اور آخرت میں آپ کی راحت، خوشی اور کامیابی کا انحصار ہے۔ اگرآپ غلط برتائو کریں گے تو دنیا کو اپنے لیے جہنم بنا لیں گے، اور دنیا ہی میں نہیں، بلکہ آخرت میں خدا کے سامنے بھی سخت جواب دہی آپ کو کرنی ہو گی۔
پھر آپ کے تعلقات دنیا کے بے شمار لوگوں سے ہیں۔ کچھ لوگ آپ کے ہمسائے ہیں۔ کچھ آپ کے دوست ہیں۔ کچھ آپ کے دشمن ہیں۔ بہت سے وہ لوگ بھی ہیں جو آپ کی خدمت کرتے ہیں اور بہت سے وہ لوگ بھی ہیں جن کی آپ خدمت کرتے ہیں۔کسی سے آپ کو کچھ لینا ہے اور کسی کو کچھ دینا۔ کوئی آپ پر بھروسا کرکے اپنے کام آپ کے سپرد کرتا ہے۔ کسی پرآپ خود بھروسا کرکے اپنے کام اُس کے سپرد کرتے ہیں۔ کوئی آپ کا حاکم ہے اور کسی کے آپ حاکم ہیں۔ غرض اتنے آدمیوں کے ساتھ آپ کو رات دن کسی نہ کسی قسم کا معاملہ پیش آتا ہے جن کا آپ شمار نہیں کر سکتے۔ دنیا میں آپ کی مسرت، آپ کی کامیابی، آپ کی عزت اور نیک نامی کا سارا انحصار اس پر ہے کہ یہ سارے تعلقات جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیے ہیں، صحیح اور درست ہوں۔ اسی طرح آخرت میں خدا کے ہاں بھی آپ صرف اسی وقت سرخ رُو ہو سکتے ہیں کہ جب اپنے مالک کے سامنے آپ حاضر ہوں تو اس حال میں نہ جائیں کہ کسی کا حق آپ نے مار رکھا ہو، کسی پر ظلم کیا ہو، کوئی آپ کے خلاف وہاں نا لش] فریاد[ کرے، کسی کی زندگی خراب کرنے کا وبال آپ کے سر پر ہو، کسی کی عزت یا جان یا مال کو آپ نے ناجائز طور پر نقصان پہنچایا ہو۔ لہٰذا آپ کو یہ فیصلہ کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ان بے شمار تعلقات کو درست کس طرح رکھا جائے، اور ان کو خراب کرنے والے طریقے کون سے ہیں جن سے پرہیز کیا جائے؟
اب آپ غور کیجیے کہ اپنے جسم سے، اپنے گھر والوں سے اور دوسرے تمام لوگوں سے صحیح تعلق رکھنے کے لیے آپ کو ہر ہرقدم پر علم کی روشنی درکار ہے۔ قدم قدم پرآپ کو یہ معلوم ہونے کی ضرورت ہے کہ صحیح کیا ہے اورغلط کیا؟ حق کیا ہے اور باطل کیا؟ انصاف کیا ہے اور ظلم کیا؟ کس کا حق آپ پر کتنا ہے اور کس پر آپ کا حق کتنا ہے؟کس چیز میں حقیقی فائدہ ہے اور کس چیز میں حقیقی نقصان ہے؟ یہ علم اگر آپ خود اپنے نفس کے پاس تلاش کریں گے تو وہاں یہ نہ ملے گا۔ اس لیے کہ نفس تو خود جاہل ہے۔ اس کے پاس خواہشات کے سوا کیا دھرا ہے؟ وہ تو کہے گا کہ شراب پیو، زنا کرو، حرام کھائو، کیوں کہ اس میں بڑا مزا ہے۔ وہ تو کہے گا کہ سب کا حق مار کھائو اور کسی کا حق ادا نہ کرو، کیوں کہ اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے، لے لیا سب کچھ اور دیا کچھ نہیں۔ وہ تو کہے گا کہ سب سے اپنا مطلب نکالو اور کسی کے کچھ کام نہ آئو، کیونکہ اس میں نفع بھی ہے اور آسائش بھی۔ ایسے جاہل کے ہاتھ میں جب آپ اپنے آپ کو دیں گے تو وہ آپ کو نیچے کی طرف لے جائے گا، یہاں تک کہ آپ انتہا درجے کے خود غرض، بدنفس اور بدکار ہو جائیں گے، اور آپ کی دنیا اور دین دونوں خراب ہوں گے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ آپ نفس کے بجائے اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں پر بھروسا کریں اور اپنی باگ اُن کے ہاتھ میں دے دیں کہ جدھر وہ چاہیں ادھر لے جائیں۔ اس صورت میں یہ خطرہ ہے کہ ایک خود غرض آدمی کہیں آپ کو خود اپنی خواہش کا غلام نہ بنا لے، یا ایک جاہل آدمی خود بھی گمراہ ہو، اور آپ کو بھی گمراہ کر دے، یا ایک ظالم آپ کو اپنا ہتھیار بنائے اور دوسروں پر ظلم کرنے کے لیے آپ سے کام لے۔ غرض یہاں بھی آپ کو علم کی وہ روشنی نہیں مل سکتی جو آپ کو صحیح اور غلط کی تمیز بتا سکتی ہو، اور دنیا کی اس زندگی میں ٹھیک ٹھیک راستے پر چلا سکے۔
حقیقی ہدایت____ صرف اللہ کی طرف سے
اس کے بعد صرف ایک خدائے پاک کی وہ ذات رہ جاتی ہے جہاں سے یہ روشنی آپ کو مل سکتی ہے۔ خدا علیم اور بصیر ہے۔ وہ ہر چیز کی حقیقت کو جانتا ہے۔ وہی ٹھیک ٹھیک بتا سکتا ہے کہ آپ کا حقیقی نفع کس چیز میں ہے اور حقیقی نقصان کس چیز میں۔ آ پ کے لیے کون سا کام حقیقت میں صحیح ہے اور کون سا غلط۔ پھر خداوند تعالیٰ بے نیاز بھی ہے۔ اس کی اپنی کوئی غرض ہے ہی نہیں۔ اسے اس کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ معاذ اللہ آپ کو دھوکا دے کر کچھ نفع حاصل کرے۔ اس لیے وہ پاک، بے نیاز مالک جو کچھ بھی ہدایت دے گا بے غرض دے گا اور صرف آپ کے فائدے کے لیے دے گا۔ پھر خداوند تعالیٰ عادل بھی ہے۔ ظلم کا اس کی ذاتِ پاک میں شائبہ بھی نہیں ہے۔ اس لیے وہ سراسر حق کی بنا پر حکم دے گا۔ اس کے حکم پرچلنے میں اس بات کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ آپ خود اپنے اوپر یا دوسرے لوگوں پر کسی قسم کا ظلم کر جائیں۔
الٰہی ہدایت سے استفادہ کیسے؟
یہ روشنی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے، اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے دو باتوں کی ضرورت ہے:
o ایک یہ کہ آپ اللہ پر، اور اس کے رسولؐ پر جس کے واسطے سے یہ روشنی آ رہی ہے، سچے دل سے ایمان لائیں۔ یعنی آپ کو پورا یقین ہو کہ خدا کی طرف سے اس کے رسولِ پاکؐ نے جو کچھ ہدایت دی ہے وہ بالکل برحق ہے، خواہ اس کی مصلحت آپ کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔
o دوسرے یہ کہ ایمان لانے کے بعد آپ اس کی اطاعت کریں، اس لیے کہ اطاعت کے بغیر کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ فرض کیجیے ایک شخص آپ سے کہتا ہے کہ فلاں چیز زہر ہے، مار ڈالنے والی چیز ہے، اُسے نہ کھائو۔ آپ کہتے ہیں کہ بے شک تم نے سچ کہا، یہ زہر ہی ہے، مار ڈالنے والی چیز ہے، مگر یہ جاننے اور ماننے کے باوجود آپ اس چیز کو کھا جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ وہی ہو گا جو نہ جانتے ہوئے کھانے کا ہوتا۔ ایسے جاننے اورماننے سے کیا حاصل؟ اصلی فائدہ تو اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب آپ ایمان لانے کے ساتھ اطاعت بھی کریں۔ جس بات کا حکم دیا گیا ہے اس پر فقط زبان ہی سے آمَنَّا وَصَدَّقْنَا { FR 1607 }نہ کہیں، بلکہ اس پر عمل بھی کریں، اور جس بات سے روکا گیا ہے، اس سے پرہیز کرنے کا زبانی اقرار ہی نہ کریں، بلکہ اپنے اعمال میں اس سے پرہیز بھی کریں۔
اسی لیے حق تعالیٰ بار بار فرماتا ہے :
اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (المائدہ 5:92)
میری اطاعت کرو، اورمیرے رسولؐ کی اطاعت کرو۔
وَاِنْ تُطِيْعُوْہُ تَہْتَدُوْا۰ۭ (النور 24:54)
اگر میرے رسولؐ کی اطاعت کرو گے تب ہی تم کو ہدایت ملے گی۔
فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ (النور 24:63)
وہ لوگ جو ہمارے رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ کہیں وہ کسی آفت میں نہ پڑ جائیں۔
اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کا مطلب
برادرانِ اسلام! یہ جو بار بار میں آپ سے کہتا ہوں کہ صرف اللہ اور اس کے رسول a کی اطاعت کرنی چاہیے اس کا مطلب آپ یہ نہ سمجھ لیں کہ آپ کو کسی آدمی کی بات ماننی ہی نہیں چاہیے۔ نہیں، دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ آنکھیں بند کرکے کسی کے پیچھے نہ چلیں، بلکہ ہمیشہ یہ دیکھتے رہیں کہ جو شخص آپ سے کسی کام کو کہتا ہے وہ خدا اور رسولؐ کے حکم کے مطابق کہتا ہے یا اس کے خلاف۔ اگر مطابق کہتا ہے تو اس کی بات ضرور ماننی چاہیے، کیوں کہ اس صورت میں آپ اس کی اطاعت کب کر رہے ہیں؟ یہ تو دراصل اللہ اور اس کے رسولؐ ہی کی اطاعت ہے۔ اور اگر وہ حکمِ خدا ا وررسولؐ کے خلاف کہتا ہے تو اس کی بات اس کے منہ پر دے ماریے، خواہ وہ کوئی ہو، کیوں کہ آپ کے لیے سوائے خدا اور رسولؐ کے کسی کے حکم کی اطاعت جائز نہیں ہے۔
یہ بات آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود تو آپ کے سامنے آ کر حکم دینے سے رہا۔ اس کو جو کچھ احکام دینے تھے وہ اس نے اپنے رسول a کے ذریعے سے بھیج دیے۔ اب رہے حضرت رسولِ کریم a، تو آپؐ بھی ساڑھے تیرہ سو برس پہلے وفات پا چکے ہیں۔{ FR 1608 } آپؐ کے ذریعے سے جو احکام خدا نے دیے تھے وہ قرآن اور حدیث میں ہیں۔ لیکن قرآن اور حدیث خود بھی چلنے پھرنے اور بولنے اور حکم دینے والی چیزیں نہیں ہیں کہ آپ کے سامنے آئیں اور آ کر کسی بات کا حکم دیں اور کسی بات سے روکیں۔ قرآن اور حدیث کے احکام کے مطابق آپ کو چلانے والے بہرحال انسان ہی ہوں گے۔ اس لیے انسانوں کی اطاعت کے بغیر توچارہ نہیں، البتہ ضرورت جس بات کی ہے وہ یہ ہے کہ آپ انسانوں کے پیچھے آنکھیں بند کرکے نہ چلیں، بلکہ جیسا کہ میں نے ابھی آپ سے کہا کہ یہ دیکھیے کہ وہ قرآن وحدیث کے مطابق چلا رہے ہیں یا نہیں۔ اگر قرآن وحدیث کے مطابق چلائیں تو ان کی اطاعت آپ پر فرض ہے، اور اگر اس کے خلاف چلائیں تو ان کی اطاعت حرام ہے۔
٭…٭…٭
دین اور شریعت
برادرانِ اسلام! مذہب کی باتوں میں آپ اکثر دو لفظ سنا کرتے ہیں اور بولتے بھی ہیں۔ ایک ’دین‘ دوسرے ’شریعت‘۔ لیکن آپ میں سے بہت کم آدمی ہیں جن کو یہ معلوم ہو گا کہ دین کے کیا معنی ہیں اور شریعت کا کیا مطلب ہے؟ بے پڑھے لکھے تو خیر مجبور ہیں، اچھے خاصے تعلیم یافتہ آدمی بلکہ بہت سے مولوی بھی یہ نہیں جانتے کہ ان دونوں لفظوں کا ٹھیک ٹھیک مطلب کیا ہے اور ان دونوں میں فرق کیا ہے؟ اس ناواقفیت کی وجہ سے اکثر دین کو شریعت سے اور شریعت کو دین سے گڈ مڈ کر دیا جاتا ہے اور اس سے بڑی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ آج میں بہت سادہ الفاظ میں آپ کو ان کا مطلب سمجھاتا ہوں۔
دین کے معانی
دین کے کئی معنی ہیں:
٭ ایک معنی: عزت، حکومت، سلطنت، بادشاہی اور فرماں روائی کے ہیں۔
٭ دوسرے معنی اس کے بالکل برعکس ہیں، یعنی: زیردستی، اطاعت، غلامی، تابع داری اور بندگی۔
٭ تیسرے معنی: حساب کرنے اور فیصلہ کرنے اور اعمال کی جزا وسزا کے ہیں۔
قرآن شریف میں لفظ دین انھی تین معنوں میں آیا ہے۔ فرمایا:
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (آل عمران 3:19)
یعنی خدا کے نزدیک دین وہی ہے جس میں انسان صرف اللہ کو عزت والا مانے، اور اس کے سوا کسی کے آگے اپنے آپ کو ذلیل نہ کرے، صرف اللہ کو آقا اور مالک اور سلطان سمجھے اور اس کے سوا کسی کا غلام، فرماں بردار اور تابع دار بن کر نہ رہے۔ صرف اللہ کو حساب کرنے اور جزا وسزا دینے والا سمجھے اور اس کے سوا کسی کے حساب سے نہ ڈرے، کسی کی جزا کا لالچ نہ کرے اور کسی کی سزا کا خوف نہ کھائے۔ اسی دین کا نام ’اسلام‘ ہے۔ اگر اس کو چھوڑ کرآدمی نے کسی اور کو اصلی عزت والا، اصلی حاکم، اصلی بادشاہ اور مالک، اصل جزا وسزا دینے والا سمجھا اور اس کے سامنے ذلت سے سرجھکایا، اس کی بندگی اور غلامی کی، اس کا حکم مانا اور اس کی جزاکا لالچ اورسزا کا خوف کھایا تو یہ جھوٹا دین ہو گا۔ اللہ ایسے دین کو ہرگز قبول نہیں کرتا، کیوں کہ یہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔ خدا کے سوا کوئی دوسری ہستی اس تمام کائنات میں اصلی عزت والی نہیں ہے، نہ کسی اور کی سلطنت اور پادشاہی ہے، نہ کسی اور کی غلامی اور بندگی کے لیے انسان پیدا کیا گیا ہے، نہ اس مالکِ حقیقی کے سوا کوئی اور جزا وسزا دینے والا ہے۔ یہی بات دوسری آیتوں میں اس طرح بیان فرمائی گئی:
وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ (آل عمران 3:85)
یعنی جو شخص خدا کی سلطانی اور بادشاہی کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا مالک اور حاکم مانے گا اور اس کی بندگی اور غلامی اختیار کرے گا، اور اس کو جزا وسزا دینے والا سمجھے گا، اس کے دین کو خدا ہرگز قبول کرنے والا نہیں ہے۔ اس لیے کہ:
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ (البیّنۃ 98:5)
انسانوں کو تو خدا نے اپنا بندہ بنایا ہے اور اپنے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کا انھیں حکم ہی نہیں دیا ہے۔ ان کا تو فرض یہ ہے کہ سب طرف سے منہ موڑ کر صرف اللہ کے لیے اپنے دین، یعنی اپنی اطاعت اور غلامی کو مخصوص کر دیں، اوریکسو ہو کر صرف اسی کی بندگی کریں اور صرف اسی کے حساب سے ڈریں۔
اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللہِ يَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا وَّاِلَيْہِ يُرْجَعُوْنَo (آل عمران 3:83)
کیا انسان خدا کے سوا کسی اور کی غلامی اور فرماں برداری کرناچاہتا ہے، حالانکہ زمین اور آسمان کی ساری چیزیں صرف خدا کی غلام اور فرماں بردار ہیں، اور ان ساری چیزوں کو اپنے حساب کتاب کے لیے خدا کے سوا کسی اور کی طرف نہیں جانا ہے۔ کیا انسان زمین اور آسمان کی ساری کائنات کے خلاف ایک نرالا راستہ اپنے لیے نکالنا چاہتا ہے؟
ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ o (التوبہ 9:33)
اللہ نے اپنے رسولؐ کو سچے دین کا علم دے کر اسی لیے بھیجا ہے کہ وہ سارے جھوٹے خدائوں کی خدائی ختم کر دے اور انسان کو ایسا آزاد کر دے کہ وہ خداوندِ عالم کے سوا کسی کا بندہ بن کر نہ رہے۔ چاہے کفار ومشرکین اس پراپنی جہالت سے کتنا ہی واویلا مچائیں اور کتنی ہی ناک بھوں چڑھائیں۔
وَ قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (الانفال 8:39)
اور تم جنگ کرو تاکہ دنیا سے غیر اللہ کی فرماں روائی کا فتنہ مٹ جائے، اور دنیا میں بس خدا ہی کا قانون چلے، خدا ہی کی بادشاہی تسلیم کی جائے اور انسان صرف خدا کی بندگی کرے۔
اس تشریح سے آپ کو معلوم ہو گیا کہ دین کے کیا معنی ہیں:
۱۔خدا کو آقا اور مالک اور حاکم ماننا،
۲۔خدا ہی کی غلامی، بندگی اور تابع داری کرنا،
۳۔ اور خدا کے حساب سے ڈرنا، اس کی سزا کا خوف کھانا، اور اسی کی جزا کا لالچ کرنا۔
پھر چونکہ خدا کا حکم انسانوں کو اس کی کتاب اور اس کے رسولؐ کے ذریعے ہی سے پہنچتا ہے، اس لیے رسولؐ کو خدا کا رسولؐ اور کتاب کو خدا کی کتاب ماننا اور اس کی اطاعت کرنا بھی دین ہی میں داخل ہے، جیسا کہ فرمایا:
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ۰ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ہُمْ يَحْزَنُوْنَ o (الاعراف 7:35)
اے بنی آدم! جب میرے رسول تمھارے پاس میرے احکام لے کر آئیں تو جو شخص تم میں سے ان احکام کو مان کر پرہیز گاری اختیار کرے گا اور ان کے مطابق اپنا عمل درست کر لے گا، اس کے لیے ڈر اور رنج کی کوئی بات نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ براہِ راست ہر انسان کے پاس اپنے احکام نہیں بھیجتا بلکہ اپنے رسولوں کے واسطے سے بھیجتا ہے۔ اس لیے جو شخص اللہ کو حاکم مانتا ہو، وہ اس کی فرماں برداری صرف اسی طرح کر سکتا ہے کہ اس کے رسولوں کی فرماں برداری کرے، اور رسول کے ذریعے سے جو احکام آئیں ان کی اطاعت کرے۔ اِسی کا نام دین ہے۔
شریعت کیا ہے؟
اب میں آپ کو بتائوں گا کہ شریعت کسے کہتے ہیں؟ شریعت کے معنی طریقے اور راستے کے ہیں۔ جب تم نے خدا کو حاکم مان لیا اور اس کی بندگی قبول کر لی اور یہ تسلیم کر لیا کہ رسولؐ اسی کی طرف سے حاکمِ مجاز ہے، اور کتاب اسی کی طرف سے ہے، تو تم دین میں داخل ہو گئے۔ اس کے بعد تم کو جس طریقے سے خدا کی بندگی کرنی ہے، اور اس کی فرماںبرداری میں جس راستے پرچلنا ہے اس کا نام شریعت ہے۔ یہ طریقہ اور راستہ بھی خدا اپنے رسول ہی کے ذریعے سے بتاتا ہے۔ وہی یہ سکھاتا ہے کہ اپنے مالک کی عبادت اس طرح کرو، طہارت اور پاکیزگی کایہ طریقہ ہے، نیکی اور تقویٰ کا یہ راستہ ہے، حقوق اس طرح ادا کرنے چاہییں، معاملات یوں انجام دینے چاہییں، اور زندگی اس طرح بسر کرنی چاہیے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ دین ہمیشہ سے ایک تھا، ایک ہی رہا اور اب بھی ایک ہی ہے، مگر شریعتیں بہت سی آئیں، بہت سی منسوخ ہوئیں، بہت سی بدلی گئیں، اور کبھی ان کے بدلنے سے دین نہیں بدلا۔
حضرت نوح ؑ کا دین بھی وہی تھا جو حضرت ابراہیم ؑ کا تھا، حضرت موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ کا تھا، حضرت شعیب ؑ اور حضرت صالح ؑ اور حضرت ہودؑ کا تھا اور حضرت محمد a کا ہے، مگر شریعتیں ان سب کی کچھ نہ کچھ مختلف رہی ہیں۔ نماز اورروزے کے طریقے کسی میں کچھ تھے اور کسی میں کچھ۔ حلال اور حرام کے احکام، طہارت کے قاعدے، نکاح اور طلاق اور وراثت کے قانون ہر شریعت میں دوسری شریعت سے کچھ نہ کچھ مختلف رہے ہیں۔ ان کے باوجود سب مسلمان تھے۔ حضرت نوح ؑ کے پیرو بھی، حضرت ابراہیمؑ کے پیرو بھی، حضرت موسیٰ ؑ کے پیرو بھی اور ہم بھی۔ اس لیے کہ دین سب کا ایک ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شریعت کے احکام میں فرق ہونے سے دین میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ دین ایک ہی رہتا ہے، چاہے اس پر عمل کرنے کے طریقے مختلف ہوں۔
شریعتوں کے فرق کی نوعیت
اس فرق کو یوں سمجھو کہ ایک آقا کے بہت سے نوکر ہیں۔ جو شخص اس کو آقا ہی نہیں مانتا اور اس کے حکم کو اپنے لیے واجب التعمیل ہی نہیں سمجھتا، وہ تو نافرمان ہے اور نوکری کے دائرے ہی سے خارج ہے۔ اور جو لوگ اس کو آقا تسلیم کرتے ہیں، اس کے حکم کو ماننا اپنا فرض جانتے ہیں اوراس کی نافرمانی سے ڈرتے ہیں، وہ سب نوکروں کے زُمرے میں داخل ہیں۔ نوکری بجا لانے اور خدمت کرنے کے طریقے مختلف ہوں تو اس سے ان کے نوکر ہونے میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اگر آقا نے کسی کو نوکری کا ایک طریقہ بتایا ہے اور دوسرے کو دوسرا طریقہ، تو ایک نوکر کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ میں نوکر ہوں اور وہ نوکر نہیں ہے۔ اسی طرح اگر آقا کا حکم سن کر ایک نوکر اس کا منشا کچھ سمجھتا ہے اور دوسرا کچھ اور، اور دونوں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں، تو نوکری میں دونوں برابر ہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک نے مطلب سمجھنے میں غلطی کی ہو، اور دوسرے نے صحیح مطلب سمجھا ہو۔ لیکن جب تک اطاعت سے کسی نے انکار نہ کیا ہو کسی کو کسی سے یہ کہنے کا حق نہیں کہ تو نافرمان ہے یا تجھے آقا کی نوکری سے خارج کر دیا گیا ہے۔
اس مثال سے آپ دین اور شریعت کے فرق کو بڑی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ نبی کریم a سے پہلے اللہ تعالیٰ مختلف رسولوں کے ذریعے سے مختلف شریعتیں بھیجتا رہا۔ کسی کو نوکری کا ایک طریقہ بتایا اور کسی کو دوسرا طریقہ۔ ان سب طریقوں کے مطابق جن جن لوگوں نے مالک کی اطاعت کی وہ سب مسلمان تھے، اگرچہ ان کی نوکری کے طریقے مختلف تھے۔ پھر جب نبی کریم a تشریف لائے تو آقا نے حکم دیا کہ اب پچھلے طریقوں کو ہم منسوخ کرتے ہیں۔ آئندہ سے جس کو ہماری نوکری کرنی ہو، وہ اس طریقے پر نوکری کرے جو اَب ہم اپنے آخری پیغمبر a کے ذریعے سے بتاتے ہیں۔ اس کے بعد کسی نوکر کو پچھلے طریقوں پر نوکری کرنے کا حق باقی نہیں رہا کیوں کہ اب اگر وہ نئے طریقے کو نہیں مانتا، اور پرانے طریقوں پر چل رہا ہے تو وہ دراصل آقا کا حکم نہیں مانتا بلکہ اپنے دل کا کہا مان رہا ہے۔ اس لیے وہ نوکری سے خارج ہے، یعنی مذہب کی زبان میں کافر ہو گیا ہے۔
فقہی مسلکوں کے فرق کی نوعیت
یہ تو پچھلے انبیا ؑ کے ماننے والوں کے لیے ہے۔ رہے نبی a کے پیرو، تو ان پر اس مثال کا دوسرا حصہ صادق آتا ہے۔ اللہ نے جو شریعت نبی a کے ذریعے سے ہم کو بھیجی ہے اس کو خدا کی شریعت ماننے والے، اور اسے واجب التعمیل سمجھنے والے، سب کے سب مسلمان ہیں۔ اب اگر اس شریعت کے احکام کو ایک شخص کسی طرح سمجھتا ہے اور دوسرا کسی اورطرح، اور دونوں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس پر عمل کرتے ہیں، توچاہے ان کے عمل میں کتنا ہی فرق ہو، ان میں سے کوئی بھی نوکری سے خارج نہ ہو گا۔ اس لیے کہ ان میں سے ہرایک جس طریقے پر چل رہا ہے یہی سمجھ کر تو چل رہا ہے کہ یہ آقا کا حکم ہے۔ پھر ایک نوکر کو یہ کہنے کا کیا حق ہے کہ میں تو نوکر ہوں اور فلاں شخص نوکر نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ بس وہ یہی کہہ سکتا ہے کہ میں نے آقا کے حکم کا صحیح مطلب سمجھا اور اس نے صحیح نہیں سمجھا، مگر وہ اس کو نوکری سے خارج کر دینے کا مجاز کیسے ہو گیا؟ جو شخص ایسی جرأت کرتا ہے وہ گویا خود آقا کا منصب اختیار کرتا ہے۔
وہ گویا یہ کہتا ہے کہ تو جس طرح آقا کے حکم کو ماننے پر مجبور ہے اسی طرح میری سمجھ کو بھی ماننے پر مجبور ہے۔ اگر تومیری سمجھ کو نہ مانے گا تو میں اپنے اختیار سے تجھ کو آقا کی نوکری سے خارج کر دوں گا۔ غور کرو یہ کتنی بڑی بات ہے۔ اسی لیے نبیؐ نے فرمایا ہے کہ ’’جو شخص کسی مسلمان کو ناحق کافر کہے گا اس کا قول خود اسی پر پلٹ جائے گا‘‘۔ کیوں کہ مسلمان کو تو خدا نے اپنے حکم کا غلام بنایا ہے، مگر یہ شخص کہتا ہے کہ نہیں، تم میری سمجھ اور میری رائے کی بھی غلامی کرو۔ یعنی صرف خدا ہی تمھارا خدا نہیں ہے بلکہ میں بھی چھوٹا خدا ہوں، اور میرا حکم نہ مانو گے تومیں اپنے اختیار سے تم کو خدا کی بندگی سے خارج کر دوں گا چاہے خدا خارج کرے یا نہ کرے۔ ایسی بڑی بات جوشخص کہتا ہے اس کے کہنے سے چاہے دوسرا مسلمان کافر ہو یا نہ ہو، مگر وہ خود تو اپنے آپ کو کفر کے خطرے میں ڈال ہی دیتا ہے۔
حاضرین! آپ نے دین اور شریعت کا فرق اچھی طرح سمجھ لیا ہو گا، اور یہ بھی آپ نے جان لیا ہو گا کہ بندگی کے طریقوں میں اختلاف ہو جانے سے دین میں اختلاف نہیں ہوتا، بشرطیکہ آدمی جس طریقے پر عمل کرے نیک نیتی کے ساتھ یہ سمجھ کر عمل کرے کہ خدا اور اس کے رسولؐ نے وہی طریقہ بتایا ہے جس پر وہ عامل ہے، اور اس کے پاس اپنے اس طرزِ عمل کے لیے خدا کی کتاب یا اس کے رسولؐ کی سنت سے کوئی سند موجود ہو۔
دین اور شریعت کا فرق نہ سمجھنے کی خرابیاں
اب میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ دین اور شریعت کے اس فرق کو نہ سمجھنے سے آپ کی جماعت میں کتنی خرابیاں واقع ہو رہی ہیں۔
مسلمانوں میں نماز پڑھنے کے مختلف طریقے ہیں۔ ایک شخص سینے پر ہاتھ باندھتا ہے، اور دوسرا ناف پر باندھتا ہے۔ ایک شخص امام کے پیچھے فاتحہ پڑھتا ہے، اور دوسرا نہیں پڑھتا۔ ایک شخص آمین زور سے کہتا ہے، دوسرا آہستہ کہتا ہے۔ ان میں سے ہر شخص جس طریقے پر چل رہا ہے، یہی سمجھ کر چل رہا ہے کہ یہ نبی a کا طریقہ ہے اور اس کے لیے وہ اپنی سند پیش کرتا ہے۔ اس لیے نماز کی صورتیں مختلف ہونے کے باوجود دونوں حضورؐ ہی کے پیرو ہیں، مگر جن ظالموں نے شریعت کے ان مسائل کو دین سمجھ رکھا ہے انھوں نے محض انھی طریقوں کے اختلاف کو دین کا اختلاف سمجھ لیا۔ اپنی جماعتیں الگ کر لیں، اپنی مسجدیں الگ کر لیں، ایک نے دوسرے کو گالیاں دیں، مسجدوں سے مار مار کرنکال دیا، مقدمے بازیاں کیں اور رسولؐ اللہ کی امت کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔
اس سے بھی لڑنے اور لڑانے والوں کے دل ٹھنڈے نہ ہوئے توچھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک نے دوسرے کو کافراور فاسق اور گمراہ کہنا شروع کردیا۔ ایک شخص قرآن سے یا حدیث سے ایک بات اپنی سمجھ کے مطابق نکالتا ہے تو وہ اس کو کافی نہیں سمجھتا کہ جو کچھ اس نے سمجھا ہے اس پر عمل کرے، بلکہ یہ بھی ضروری سمجھتا ہے کہ دوسروں سے بھی اپنی سمجھ زبردستی تسلیم کرائے، اور اگر وہ اسے تسلیم نہ کریں تو ان کو خدا کے دین سے خارج کر دے۔
آپ مسلمانوں میں حنفی، شافعی، اہل حدیث وغیرہ جو مختلف مذہب دیکھ رہے ہیں یہ سب قرآن وحدیث کو آخری سند مانتے ہیں اور اپنی اپنی سمجھ کے مطابق وہیں سے احکام نکالتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایک کی سمجھ صحیح ہو اور دوسرے کی غلط ہو۔ میں بھی ایک طریقے کا پَیرو ہوں اور اس کو صحیح سمجھتا ہوں، اور اس کے خلاف جو لوگ ہیں ان سے بحث بھی کرتا ہوں، تاکہ جو بات میرے نزدیک صحیح ہے وہ ان کو سمجھائوں اور جس بات کو میں غلط سمجھتا ہوں اسے غلط ثابت کروں۔ لیکن کسی شخص کی سمجھ کا غلط ہونا اور بات ہے اور اس کا دین سے خارج ہو جانا دوسری بات۔ اپنی اپنی سمجھ کے مطابق شریعت پر عمل کرنے کا ہر مسلمان کو حق ہے۔ اگر دس مسلمان دس مختلف طریقوں پر عمل کریں تو جب تک وہ شریعت کو مانتے ہیں، وہ سب مسلمان ہی ہیں۔ ایک ہی امت ہیں، ان کی جماعتیں الگ ہونے کی کوئی وجہ نہیں، مگر جو لوگ اس چیز کو نہیں سمجھتے وہ انھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر فرقے بناتے ہیں، ایک دوسرے سے کٹ جاتے ہیں، اپنی نمازیں اور مسجدیں الگ کر لیتے ہیں، ایک دوسرے سے شادی بیاہ، میل جول اور ربط وضبط بند کر دیتے ہیں اور اپنے اپنے ہم مذہبوں کے جتھے اس طرح بنا لیتے ہیں کہ گویا ہر جتھا ایک الگ امت ہے۔
فرقہ بندی کے نقصانات
آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اس فرقہ بندی سے مسلمانوں کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔ کہنے کو مسلمان ایک امت ہیں۔ ہندستان{ FR 1610 } میں ان کی آٹھ کروڑ کی تعداد ہے۔ اتنی بڑی جماعت اگر واقعی ایک ہو اور پورے اتفاق کے ساتھ خدا کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کام کرے تو دنیا میں کون اتنا دم رکھتا ہے جو اس کو نیچا دکھا سکے، مگر حقیقت میں اس فرقہ بندی کی بدولت اس امت کے سیکڑوں ٹکڑے ہو گئے ہیں۔ ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں۔ یہ سخت سے سخت مصیبت کے وقت میں بھی مل کر نہیں کھڑے ہو سکتے۔ ایک فرقے کا مسلمان دوسرے فرقے والوں سے اتنا ہی تعصب رکھتا ہے جتنا ایک یہودی ایک عیسائی سے رکھتا ہے، بلکہ اس سے بھی کچھ بڑھ کر۔ ایسے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں کہ ایک فرقے والے نے دوسرے فرقے والے کو نیچا دکھانے کے لیے کفار کا ساتھ دیا ہے۔ ایسی حالت میں اگر مسلمانوں کو آپ مغلوب دیکھ رہے ہیں تو تعجب نہ کیجیے۔ یہ ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ ان پر وہ عذاب نازل ہوا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب پاک میں اس طرح بیان کیا ہے کہ:
اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَّيُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ۰ۭ (الانعام 6:65)
یعنی اللہ کے عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ وہ تم کو مختلف فرقوں میں تقسیم کر دے اورتم آپس میں ہی کٹ مرو۔
بھائیو! یہ عذاب جس میں سارے ہندستان کے مسلمان مبتلا ہیں، اس کے آثار مجھے پنجاب میں سب سے زیادہ نظر آرہے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کے فرقوں کی لڑائیاں ہندستان کے ہر خطے سے زیادہ ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ پنجاب کی آبادی میں کثیر التعداد ہونے کے باوجود آپ کی قوت بے اثر ہے۔ اگر آپ اپنی خیر چاہتے ہیں تو ان جتھوں کو توڑئیے۔ ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہئیے، اورایک امت بن جائیے۔ خدا کی شریعت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بنا پر اہل حدیث، حنفی، دیوبندی، بریلوی، شیعہ، سنی وغیرہ الگ الگ امتیں بن سکیں۔ یہ امتیں جہالت کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ اللہ نے صرف ایک امت ’’امت مسلمہ‘‘ بنائی تھی۔
خ خ خ
باب سوم
نماز
*عبادت
* نماز
* نماز میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟
* نماز باجماعت
* نمازیں بے اثر کیوں ہوگئیں؟
عبادت
برادرانِ اسلام!پچھلے خطبے میں، میں نے آپ کو دین اور شریعت کا مطلب سمجھایا تھا۔ آج میں آپ کے سامنے ایک اور لفظ کی تشریح کروں گا جسے مسلمان عام طور پر بولتے ہیں، مگر بہت کم آدمی اس کا صحیح مطلب جانتے ہیں۔ یہ ’’عبادت‘‘ کا لفظ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب پاک میں بیان فرمایا ہے کہ:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ o (الذاریات 51:56)
یعنی میں نے جنّ اور انسان کو اس کے سوا اور کسی غرض کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ آپ کی پیدائش اور آپ کی زندگی کا مقصد اللہ کی عبادت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ عبادت کامطلب جاننا آپ کے لیے کس قدر ضروری ہے۔ اگر آپ اس کے صحیح معنی سے ناواقف ہوں گے، تو گویا اس مقصد ہی کو پورا نہ کر سکیں گے جس کے لیے آپ کو پیدا کیا گیا ہے، اور جو چیز اپنے مقصد کو پورا نہیں کرتی وہ ناکام ہوتی ہے۔ ڈاکٹر اگر مریض کواچھا نہ کر سکے تو کہتے ہیں کہ وہ علاج میں ناکام ہوا۔ کسان اگر فصل پیدا نہ کر سکے تو کہتے ہیں کہ وہ زراعت میں ناکام ہوا۔ اسی طرح اگر آپ اپنی زندگی کے اصل مقصد، یعنی ’’عبادت‘‘ کو پورا نہ کر سکے تو کہنا چاہیے کہ آپ کی ساری زندگی ہی ناکامیاب ہو گئی۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ پورے غور کے ساتھ عبادت کا مطلب سنیں اور سمجھیں اور اسے اپنے دل میں جگہ دیں، کیوں کہ اسی پر آپ کی زندگی کے کامیاب یا ناکام ہونے کا انحصار ہے۔
عبادت کا مطلب
عبادت کا لفظ’’ عبد‘‘ سے نکلا ہے۔ عبد کے معنی، بندے اور غلام کے ہیں۔ اس لیے عبادت کے معنی، بندگی اور غلامی کے ہوئے۔ جو شخص کسی کا بندہ ہو، اگر وہ اس کی خدمت میں بندہ بن کر رہے اور اس کے ساتھ اس طرح پیش آئے جس طرح آقا کے ساتھ پیش آنا چاہیے تو یہ بندگی اور عبادت ہے۔ اس کے برعکس جو شخص کسی کا بندہ ہو، اور آقا سے تنخواہ بھی پوری پوری وصول کرتا ہو، مگر آقا کے حضور میں بندوں کا سا کام نہ کرے تو اسے نافرمانی اور سرکشی کہا جاتا ہے، بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں اسے نمک حرامی کہتے ہیں۔
اب غور کیجیے کہ آقا کے مقابلے میں بندوں کا سا طریقہ اختیار کرنے کی صورت کیا ہے؟
٭ بندے کا پہلا کام یہ ہے کہ آقا ہی کو آقا سمجھے اور یہ خیال کرے کہ جو میرا مالک ہے، جو مجھے رزق دیتا ہے، جو میری حفاظت اور نگہبانی کرتا ہے، اسی کی وفاداری مجھ پر فرض ہے، اس کے سوا اور کوئی اس کا مستحق نہیں کہ میں اس کی وفاداری کروں۔
٭ بندے کا دوسرا کام یہ ہے کہ ہر وقت آقا کی اطاعت کرے، اس کے حکم کو بجا لائے، کبھی اُس کی خدمت سے منہ نہ موڑے، اور آقا کی مرضی کے خلاف نہ خود اپنے دل سے کوئی بات کرے، نہ کسی دوسرے شخص کی بات مانے۔ غلام ہر وقت ہر حال میں غلام ہے۔ اسے یہ کہنے کا حق ہی نہیں کہ آقا کی فلاں بات مانوں گا اور فلاں بات نہ مانوں گا، یا اتنی دیر کے لیے میں آقا کا غلام ہوں اور باقی وقت میں اس کی غلامی سے آزاد ہوں۔
٭ بندے کا تیسرا کام یہ ہے کہ آقا کا ادب اور اس کی تعظیم کرے۔ جو طریقہ ادب اور تعظیم کرنے کا آقا نے مقرر کیا ہو، اس کی پیروی کرے۔ جو وقت سلامی کے لیے حاضر ہونے کا آقا نے مقرر کیا ہو، اس وقت ضرور حاضر ہو، اور اس بات کا ثبوت دے کہ میں اس کی وفاداری اور اطاعت میں ثابت قدم ہوں۔
بس یہی تین چیزیں ہیں جن سے مل کر عبادت بنتی ہے:
٭ ایک آقا کی وفاداری،
٭ دوسرے آقا کی اطاعت،
٭ تیسرے اس کا ادب اور اس کی تعظیم۔
اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ o (الذاریات51:56) تو اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنّ اور انس کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف اللہ کے وفادار ہوں، اس کے خلاف کسی اور کے وفادار نہ ہوں۔ صرف اللہ کے احکام کی اطاعت کریں۔ اس کے خلاف کسی اور کا حکم نہ مانیں، اور صرف اس کے آگے ادب اور تعظیم سے سر جھکائیں، کسی دوسرے کے آگے سر نہ جھکائیں۔ انھی تین چیزوں کو اللہ نے عبادت کے جامع لفظ میں بیان کیا ہے۔ یہی مطلب ان تمام آیتوں کا ہے جن میں اللہ نے اپنی عبادت کا حکم دیا ہے۔ ہمارے نبی کریمؐ اور آپؐ سے پہلے جتنے نبی خدا کی طرف سے آئے ہیں ان سب کی تعلیم کا سارا لُبِّ لباب یہی ہے کہ :
اَ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۰ۭ (یوسف 12:40)
اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔
یعنی صرف ایک بادشاہ ہے جس کا تمھیں وفادار ہونا چاہیے، اور وہ بادشاہ اللہ ہے۔ صرف ایک قانون ہے جس کی تمھیں پیروی کرنی چاہیے، اور وہ قانون اللہ کا قانون ہے۔ اور صرف ایک ہی ہستی ایسی ہے جس کی تمھیں پوجا اور پرستش کرنی چاہیے، اور وہ ہستی اللہ کی ہے۔
عبادت کے غلط مفہوم کے نتائج
عبادت کا یہ مطلب اپنے ذہن میں رکھیے، اور پھر ذرا میرے سوالات کا جواب دیتے جائیے۔
o آپ اس نوکر کے متعلق کیا کہیں گے جو آقا کی مقرر کی ہوئی ڈیوٹی پر جانے کے بجائے ہر وقت بس اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہے اور لاکھوں مرتبہ اس کا نام جپتا چلا جائے؟ آقا اس سے کہتا ہے کہ جا کر فلاں فلاں آدمیوں کے حق ادا کر، مگر یہ جاتا نہیں بلکہ وہیں کھڑے کھڑے آقا کو جھک جھک کر دس سلام کرتا ہے اور پھر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ آقا اُسے حکم دیتا ہے کہ جا اور فلاں فلاں خرابیوں کو مٹا دے، مگر یہ ایک انچ وہاں سے نہیں ہٹتا اور سجدے پر سجدے کیے چلا جاتا ہے۔ آقا حکم دیتا ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دے۔ یہ حکم سن کر بس وہیں کھڑے کھڑے نہایت خوش الحانی کے ساتھ ’’چور کا ہاتھ کاٹ دے، چور کا ہاتھ کاٹ دے‘‘ بیسیوں مرتبہ پڑھتا رہتا ہے، مگر ایک دفعہ بھی اس نظامِ حکومت کے قیام کی کوشش نہیں کرتا جس میں چور کا ہاتھ کاٹا جا سکے۔ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ شخص حقیقت میں آقا کی بندگی کر رہا ہے؟ اگر آپ کا کوئی ملازم یہ رویہ اختیار کرے تو میں نہیں جانتا ہوں کہ آپ اسے کیا کہیں گے، مگر حیرت ہے آپ پر کہ خدا کا جو نوکر ایسا کرتا ہے آپ اسے بڑا عبادت گزار کہتے ہیں! یہ ظالم صبح سے شام تک خدا جانے کتنی مرتبہ قرآن شریف میں خدا کے احکام پڑھتا ہے، مگر ان احکام کو بجا لانے کے لیے اپنی جگہ سے جنبش تک نہیں کرتا، بلکہ نفل پر نفل پڑھے جاتا ہے، ہزار دانہ تسبیح پر خدا کا نام جپتا ہے اور خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتا رہتا ہے۔ آپ اس کی یہ حرکتیں دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیسا زاہد ، عابد بندہ ہے! یہ غلط فہمی صرف اس وجہ سے ہے کہ آپ عبادت کا صحیح مطلب نہیں جانتے۔
o ایک اورنوکر ہے جو رات دن ڈیوٹی تو غیروں کی انجام دیتا ہے، احکام غیروں کے سنتا اور مانتا ہے، قانون پر غیروں کے عمل کرتا ہے اور اپنے اصلی آقا کے فرمان کی ہر وقت خلاف ورزی کیا کرتا ہے، مگر سلامی کے وقت آقا کے سامنے حاضر ہو جاتا ہے اور زبان سے آقا ہی کا نام جپتا رہتا ہے۔ اگر آپ میں سے کسی شخص کا نوکر یہ طریقہ اختیار کرے تو آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ اس کی سلامی کو اس کے منہ پر نہ مار دیں گے؟ جب وہ زبان سے آپ کو آقا اور مالک کہے گا تو کیا آپ فوراً یہ جواب نہ دیں گے کہ تو پرلے درجے کا جھوٹا اور بے ایمان ہے، تنخواہ مجھ سے لیتا ہے اورنوکری دوسروں کی کرتا ہے، زبان سے مجھے آقا کہتا ہے اور حقیقت میں میرے سوا ہر ایک کی خدمت کرتا پھرتا ہے؟ یہ تو ایک معمولی عقل کی بات ہے کہ جسے آپ میں سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے، مگر کیسی حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ رات دن خدا کے قانون کو توڑتے ہیں، کفار ومشرکین کے احکام پر عمل کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے معاملات میں خدا کے احکام کی کوئی پروا نہیں کرتے، ان کی نماز اور روزے اور تسبیح اور تلاوتِ قرآن اور حج وزکوٰۃ کو آپ خدا کی عبادت سمجھتے ہیں۔ یہ غلط فہمی بھی اسی وجہ سے ہے کہ آپ عبادت کے اصل مطلب سے ناواقف ہیں۔
o ایک اور نوکر کی مثال لیجیے۔ آقا نے اپنے نوکروں کے لیے جو وردی مقرر کی ہے، یہ ٹھیک ناپ تول کے ساتھ اس وردی کو پہنتا ہے، بڑے ادب اور تعظیم کے ساتھ آقا کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے، ہر حکم کو سن کر اس طرح جھک کر ’’بسر وچشم‘‘ کہتا ہے کہ گویا اس سے بڑھ کر اطاعت گزار خادم کوئی نہیں۔ سلامی کے وقت سب سے آگے جا کر کھڑا ہوتا ہے اور آقا کا نام جپنے میں تمام نوکروں سے بازی لے جاتا ہے، مگر دوسری طرف یہی شخص آقا کے دشمنوں اور باغیوں کی خدمت بجا لاتا ہے، آقا کے خلاف ان کی سازشوں میں حصہ لیتا ہے اور آقا کے نام کو دنیا سے مٹانے میں جو کوشش بھی وہ کرتے ہیں اس میں یہ کم بخت ان کا ساتھ دیتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں تو آقا کے گھر میں نقب لگاتا ہے اور صبح بڑے وفادار ملازموں کی طرح ہاتھ باندھ کر آقا کی خدمت میں حاضر ہو جاتا ہے۔ ایسے نوکر کے متعلق آپ کیا کہیں گے؟ یہی نا کہ وہ منافق ہے، باغی ہے، نمک حرام ہے، مگر خدا کے جو نوکر ایسے ہیں ان کو آپ کیا کہا کرتے ہیں؟ کسی کو پیر صاحب اور کسی کو حضرت مولانا اور کسی کو دین دار، متقی اور عبادت گزار۔ یہ صرف اس لیے کہ آپ ان کے منہ پر پورے ناپ کی داڑھیاں دیکھ کر، ان کے ٹخنوں سے دو دو انچ اونچے پاجامے دیکھ کر، ان کی پیشانیوں پرنماز کے گٹّے دیکھ کر اور ان کی لمبی لمبی نمازیں اور موٹی موٹی تسبیحیں دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ بڑے دین دار اور عبادت گزار ہیں۔ یہ غلط فہمی بھی اسی وجہ سے ہے کہ آپ نے عبادت اور دین داری کا مطلب ہی غلط سمجھا ہے۔
آپ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ باندھ کر قبلہ رُو کھڑے ہونا، گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کرجھکنا، زمین پر ہاتھ ٹیک کر سجدہ کرنا اور چند مقررالفاظ زبان سے ادا کرنا، بس یہی چند افعال اور حرکات بجائے خود عبادت ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ رمضان کی پہلی تاریخ سے شوال کا چاند نکلنے تک روزانہ صبح سے شام تک بھوکے پیاسے رہنے کا نام عبادت ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ قرآن کے چند رکوع زبان سے پڑھ دینے کا نام عبادت ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ مکہ معظمہ جا کرکعبے کے گرد طواف کرنے کا نام عبادت ہے۔ غرض آپ نے چند افعال کی ظاہری شکلوں کا نام عبادت رکھ چھوڑا ہے، اور جب کوئی شخص ان شکلوں کے ساتھ ان افعال کو ادا کر دیتا ہے تو آپ خیال کرتے ہیں کہ اس نے خدا کی عبادت کر دی اور وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات51:56) کا مقصد پورا ہو گیا۔ اب وہ اپنی زندگی میں آزاد ہے کہ جو چاہے کرے۔
عبادت ___ پوری زندگی میں بندگی
لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جس عبادت کے لیے آپ کو پیدا کیا ہے اور جس کا آپ کو حکم دیا ہے وہ کچھ اور ہی چیز ہے۔ وہ عبادت یہ ہے کہ آپ اپنی زندگی میں ہر وقت ہر حال میں خدا کے قانون کی اطاعت کریں اور ہر اس قانون کی پابندی سے آزاد ہو جائیں جو قانونِ الٰہی کے خلاف ہو۔ آپ کی ہر جنبش اس حد کے اندر ہو جو خدا نے آپ کے لیے مقرر کی ہے۔ آپ کا ہر فعل اس طریقے کے مطابق ہو جو خدا نے بتا دیا ہے۔ اس طرز پر جو زندگی آپ بسر کریں گے وہ پوری کی پوری عبادت ہو گی۔ ایسی زندگی میں آپ کا سونا بھی عبادت ہے اورجاگنا بھی، کھانا بھی عبادت ہے اور پینا بھی، چلنا پھرنا بھی عبادت ہے اوربات کرنا بھی۔ حتی کہ اپنی بیوی کے پاس جانا اور اپنے بچے کو پیار کرنا بھی عبادت ہے۔ جن کاموں کو آپ بالکل دنیا داری کہتے ہیں، وہ سب دین داری اور عبادت ہیں۔ اگر آپ ان کو انجام دینے میں خدا کی مقرر کی ہوئی حدوں کا لحاظ کریں، اور زندگی میں ہر ہر قدم پر یہ دیکھ کر چلیں کہ خدا کے نزدیک جائز کیا ہے اور ناجائز کیا؟ حلال کیا ہے اور حرام کیا؟ فرض کیا چیز کی گئی ہے اور منع کس چیز سے کیا گیا ہے؟ کس چیز سے خدا خوش ہوتا ہے اور کس سے ناراض ہوتا ہے؟ مثلاً آپ روزی کمانے کے لیے نکلتے ہیں۔ اس کام میں بہت سے مواقع ایسے بھی آتے ہیں جن میں حرام کا مال کافی آسانی کے ساتھ آپ کو مل سکتا ہے۔ اگر آپ نے خدا سے ڈر کر وہ مال نہ لیا اور صرف حلال کی روٹی کما کر لائے تو یہ جتنا وقت آپ نے روٹی کمانے پر صَرف کیا یہ سب عبادت تھا، اور یہ روٹی گھر لا کر جو آپ نے خود کھائی اور اپنی بیوی بچوں اور خدا کے مقرر کیے ہوئے دوسرے حق داروں کو کھلائی، اس سب پر آپ اجر وثواب کے مستحق ہو گئے۔ آپ نے اگر راستہ چلنے میں کوئی پتھر یا کانٹا ہٹا دیا، اس خیال سے کہ خدا کے بندوں کو تکلیف نہ ہو، تو یہ بھی عبادت ہے۔ آپ نے اگر کسی بیمار کی خدمت کی، یا کسی اندھے کو راستہ چلایا، یا کسی مصیبت زدہ کی مدد کی، تو یہ بھی عبادت ہے۔ آپ نے اگر بات چیت کرنے میں جھوٹ سے، غیبت سے، بدگوئی اور دل آزاری سے پرہیز کیا، اور خدا سے ڈر کر صرف حق بات کی، تو جتنا وقت آپ نے بات چیت میں صَرف کیا وہ سب عبادت میں صَرف ہوا۔
پس خدا کی اصلی عبادت یہ ہے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد سے مرتے دم تک آپ خدا کے قانون پر چلیں اور اس کے احکام کے مطابق زندگی بسر کریں۔ اس عبادت کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے، یہ عبادت ہر وقت ہونی چاہیے۔ اس عبادت کی کوئی ایک شکل نہیں ہے، ہر کام اور ہر شکل میں اسی کی عبادت ہونی چاہیے۔ جب آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں فلاں وقت خدا کا بندہ ہوں اور فلاں وقت اس کا بندہ نہیں ہوں، تو آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ فلاں وقت خدا کی بندگی وعبادت کے لیے ہے اورفلاں وقت اس کی بندگی وعبادت کے لیے نہیں ہے۔
بھائیو! آپ کو عبادت کا مطلب معلوم ہو گیا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ زندگی میں ہر وقت ہر حال میں خدا کی بندگی واطاعت کرنے کا نام ہی عبادت ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ یہ نماز، روزہ اور حج وغیرہ کیا چیزیں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دراصل یہ عبادتیں جو اللہ نے آپ پر فرض کی ہیں، ان کا مقصد آپ کو اس بڑی عبادت کے لیے تیار کرنا ہے جو آپ کو زندگی میں ہر وقت ہر حال میں ادا کرنی چاہیے۔ نماز آپ کو دن میں پانچ وقت یاد دلاتی ہے کہ تم اللہ کے بندے ہو، اسی کی بندگی تمھیں کرنی چاہیے۔ روزہ سال میں ایک مرتبہ پورے ایک مہینے تک آپ کو اسی بندگی کے لیے تیار کرتا ہے۔ زکوٰۃ آپ کو بار بار توجہ دلاتی ہے کہ یہ مال جو تم نے کمایا ہے یہ خدا کا عطیہ ہے، اس کو صرف اپنے نفس کی خواہشات پر صَرف نہ کر دو، بلکہ اپنے مالک کا حق ادا کرو۔ حج دل پر خدا کی محبت اور بزرگی کا ایسا نقش بٹھاتا ہے کہ ایک مرتبہ اگر وہ بیٹھ جائے تو تمام عمر اس کا اثر دل سے دور نہیں ہو سکتا۔ ان سب عبادتوں کو ادا کرنے کے بعد اگر آپ اس قابل ہو گئے کہ آپ کی ساری زندگی خدا کی عبادت بن جائے تو بلاشبہ آپ کی نماز نماز ہے اور روزہ روزہ ہے، زکوٰۃ زکوٰۃ ہے اور حج حج ہے۔ لیکن اگر یہ مقصد پورا نہ ہوا تو محض رکوع اور سجدہ کرنے اور بھوک پیاس کے ساتھ دن گزارنے اور حج کی رسمیں ادا کر دینے اور زکوٰۃ کی رقم نکال دینے سے کچھ حاصل نہیں۔ ان ظاہری طریقوں کی مثال تو ایسی ہے جیسے ایک جسم، کہ اگر اس میں جان ہے اور وہ چلتا پھرتا اور کام کرتا ہے تو بلاشبہ ایک زندہ انسان ہے۔ لیکن اگر اس میں جان ہی نہیں تو وہ ایک مردہ لاش ہے۔ مردے کے ہاتھ پائوں، آنکھ ناک سب ہی کچھ ہوتے ہیں، مگر اس میں بس جان نہیں ہوتی، اس لیے تم اسے مٹی میں دبا دیتے ہو۔ اسی طرح اگر نمازکے ارکان پورے ادا ہوں، یا روزے کی شرطیں پوری ادا کر دی جائیں، مگر خدا کا خوف، اس کی محبت اور اس کی وفاداری واطاعت نہ ہو جس کے لیے نماز اور روزہ فرض کیا گیا ہے تو وہ بھی ایک بے جان چیز ہو گی۔
آئندہ خطبات میں مَیں آپ کو تفصیل کے ساتھ بتائوں گا کہ جو عبادتیں فرض کی گئی ہیں، ان میں سے ہر ایک کس طرح اس بڑی عبادت کے لیے انسان کو تیار کرتی ہے، اور اگر ان عبادتوں کو آپ سمجھ کر ادا کریں، اور ان کا اصل مقصد پورا کرنے کی کوشش کریں، تو اس سے آپ کی زندگی پرکیا اثر پڑ سکتا ہے۔
٭…٭…٭
نماز
برادران اسلام! پچھلے خطبے میں مَیں نے آپ کے سامنے عبادت کا اصل مطلب بیان کیا تھا اور یہ وعدہ کیا تھا کہ اسلام میں جو عبادتیں فرض کی گئی ہیں ان کے متعلق آپ کو بتائوں گا کہ یہ عبادتیں کس طرح آدمی کو اُس بڑی اور اصلی عبادت کے لیے تیار کرتی ہیں جس کے لیے اللہ نے جن وانس کو پیدا کیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی اور سب سے اہم چیز نماز ہے، اور آج کے خطبے میں صرف اسی کے متعلق میں آپ سے کچھ بیان کروں گا۔
عبادت کا وسیع مفہوم
یہ تو آپ کو معلوم ہوچکا ہے کہ عبادت دراصل بندگی کو کہتے ہیں، اور جب آپ خدا کے بندے ہی پیدا ہوئے ہیں تو آ پ کسی وقت، کسی حال میں بھی اس کی بندگی سے آزاد نہیں ہو سکتے۔ جس طرح آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں اتنے گھنٹے یا اتنے منٹوں کے لیے خدا کا بندہ ہوں اور باقی وقت میں اس کابندہ نہیں، اسی طرح آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ میں اتنا وقت خدا کی عبادت میں صَرف کروں گا اور باقی اوقات میں مجھے آزادی ہے کہ جو چاہوں کروں۔ آپ تو خدا کے پیدائشی غلام ہیں۔ اس نے آپ کو بندگی ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ لہٰذا آپ کی ساری زندگی اس کی عبادت میں صَرف ہونی چاہیے اور کبھی ایک لمحے کے لیے بھی آ پ کو اس کی عبادت سے غافل نہ ہونا چاہیے۔
یہ بھی میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ عبادت کے معنی دنیا کے کام کاج سے الگ ہو کر ایک کونے میں بیٹھ جانے اور اللہ اللہ کرنے کے نہیں ہیں، بلکہ دراصل عبادت کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں آپ جو کچھ بھی کریں خدا کے قانون کے مطابق کریں۔ آپ کا سونا اور جاگنا، آپ کا کھانا اور پینا، آپ کا چلنا اورپھرنا، غرض سب کچھ خدا کے قانون کی پابندی میں ہو۔ آپ جب اپنے گھر میں بیوی بچوں، بھائی بہنوں اور عزیز رشتہ داروں کے پاس ہوں تو ان کے ساتھ اس طرح پیش آئیں جس طرح خدا نے حکم دیا ہے۔ جب اپنے دوستوں میں ہنسیں اور بولیں، اس وقت بھی آپ کو خیال رہے کہ ہم خدا کی بندگی سے آزاد نہیں ہیں۔ جب آپ روزی کمانے کے لیے نکلیں اور لوگوں سے لین دین کریں، اس وقت بھی ایک ایک بات اور ایک ایک کام میں خدا کے احکام کاخیال رکھیں اور کبھی اس حد سے نہ بڑھیں جو خدا نے مقرر کر دی ہے۔
جب آپ رات کے اندھیرے میں ہوں اورکوئی گناہ اس طرح کر سکتے ہوں کہ دنیا میں کوئی آپ کو دیکھنے والا نہ ہو، اس وقت بھی آپ کو یاد رہے کہ خدا آپ کو دیکھ رہا ہے اور ڈرنے کے لائق وہ ہے نہ کہ دنیا کے لوگ۔جب آپ جنگل میں تنہا جا رہے ہوں اور وہاں کوئی جرم اس طرح کر سکتے ہوں کہ کسی پولیس مین اور کسی گواہ کا کھٹکا نہ ہو، اس وقت بھی آپ خدا کو یاد کرکے ڈر جائیں اور جرم سے باز رہیں۔ جب آپ جھوٹ اور بے ایمانی اور ظلم سے بہت سا فائدہ حاصل کر سکتے ہوں اور کوئی آپ کو روکنے والا نہ ہو، اس وقت بھی آپ خدا سے ڈریں اور اس فائدے کو اس لیے چھوڑ دیں کہ خدا اس سے ناراض ہو گا، اور جب سچائی اور ایمان داری میں سراسر آپ کو نقصان پہنچ رہا ہو، اس وقت بھی آپ نقصان اٹھانا قبول کر لیں، صرف اس لیے کہ خدا اس سے خوش ہو گا۔
پس دنیا کو چھوڑ کر کونوں اور گوشوں میں جا بیٹھنا اور تسبیح ہلانا عبادت نہیں ہے، بلکہ دنیا کے دھندوں میں پھنس کر خدا کے قانون کی پابندی کرنا عبادت ہے۔ ذکرِ الٰہی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زبان پر اللہ اللہ جاری ہو، بلکہ اصل ذکرِ الٰہی یہ ہے کہ دنیا کے جھگڑوں اور بکھیڑوں میں پھنس کر بھی تمھیں ہر وقت خدا یاد رہے۔ جو چیزیں خدا سے غافل کرنے والی ہیں ان میں مشغول ہو، اورپھر خدا سے غافل نہ ہو۔ دنیا کی زندگی میں جہاں خدائی قانون کو توڑنے کے بے شمار مواقع بڑے بڑے فائدوں کے لالچ اور نقصان کا خوف لیے ہوئے آتے ہیں وہاں خدا کو یاد کرو اور اس کے قانون کی پیروی پر قائم رہو۔ یہ ہے اصل یادِ خدا۔ اس کا نام ہے ذکرِ الٰہی۔ اسی ذکر کی طرف قرآن مجید میں اشارہ کیا گیا ہے کہ:
فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (الجمعہ 62:10)
یعنی جب نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جائو، خدا کے فضل، یعنی رزقِ حلال کی تلاش میں دوڑ دھوپ کرواور خدا کو کثرت سے یاد کرو، تاکہ تمھیں فلاح نصیب ہو۔
نماز کے فوائد
عبادت کایہ مطلب ذہن میں رکھیے اور غور کیجیے کہ اتنی بڑی عبادت انجام دینے کے لیے کن چیزوں کی ضرورت ہے، اور نماز کس طرح وہ سب چیزیں انسان میں پیدا کرتی ہے۔
احساسِ بندگی
سب سے پہلے تو اس بات کی ضرورت ہے کہ آپ کو بار بار یہ یاد دلایا جاتا رہے کہ آپ خدا کے بندے ہیں، اور اسی کی بندگی آپ کو ہر وقت ہر کام میں کرنی ہے۔ یہ یاد دلانے کی ضرورت اس لیے ہے کہ ایک شیطان آدمی کے نفس میں بیٹھا ہوا ہے جو ہر وقت کہتا رہتا ہے کہ تو میرا بندہ ہے، اور لاکھوں کروڑوں شیطان ہر طرف دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک یہی کہہ رہا ہے کہ تو میرا بندہ ہے۔ ان شیطانوں کا طلسم اس وقت تک ٹوٹ نہیں سکتا جب تک انسان کو دن میں کئی کئی بار یہ یاد نہ دلایا جائے کہ تو کسی کا بندہ نہیں، صرف خدا کا بندہ ہے۔یہی کام نماز کرتی ہے۔ صبح اٹھتے ہی سب کاموں سے پہلے وہ آپ کو یہی بات یاد دلاتی ہے۔ پھر جب آپ دن کو اپنے کام کاج میں مشغول ہوتے ہیں اُس وقت پھر تین مرتبہ اسی یاد کو تازہ کرتی ہے، اور جب آپ رات کو سونے کے لیے جاتے ہیں تو آخری بار پھر اسی کا اعادہ کرتی ہے۔ یہ نماز کا پہلا فائدہ ہے، اور قرآن میں اسی بنا پر نماز کو ذکر سے تعبیر کیا ہے، یعنی یہ خدا کی یاد ہے۔
فرض شناسی
پھر چونکہ آپ کو اس زندگی میں ہر ہر قدم پر خدا کے احکام بجا لانے ہیں، اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ میں اپنا فرض پہچاننے کی صفت پیدا ہو، اور اس کے ساتھ آپ کو اپنا فرض مستعدی سے انجام دینے کی عادت بھی ہو۔ جو شخص یہ جانتا ہی نہ ہو کہ فرض کے معنی کیا ہیں، وہ تو کبھی احکام کی اطاعت کر ہی نہیں سکتا۔ اور جو شخص فرض کے معنی تو جانتا ہو، مگر اس کی تربیت اتنی خراب ہو کہ فرض کو فرض جاننے کے باوجود اسے ادا کرنے کی پروا نہ کرے، اس سے کبھی یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ رات دن کے چوبیس گھنٹوں میں جو ہزاروں احکام اسے دیے جائیں گے ان کو مستعدی کے ساتھ انجام دے گا۔
مشقِ اطاعت
جن لوگوں کو فوج یا پولیس میں ملازمت کرنے کا اتفاق ہوا ہے وہ جانتے ہیں کہ ان دونوں ملازمتوں میں ڈیوٹی کو سمجھنے اور اسے ادا کرنے کی مشق کس طرح کرائی جاتی ہے۔ رات دن میں کئی کئی بار بِگل بجایا جاتا ہے۔ سپاہیوں کو ایک جگہ حاضر ہونے کا حکم دیا جاتا ہے اور ان سے قواعد{ FR 1612 } کرائی جاتی ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ ان کو حکم بجا لانے کی عادت ہو، اور ان میں سے جو لوگ ایسے سست اور نالائق ہوں کہ بِگل کی آواز سن کر بھی گھر بیٹھے رہیں یا قواعد میں حکم کے مطابق حرکت نہ کریں، انھیں پہلے ہی ناکارہ سمجھ کر ملازمت سے الگ کر دیا جائے۔ بس اسی طرح نماز بھی دن میں پانچ وقت بِگل بجاتی ہے، تاکہ اللہ کے سپاہی اس کو سن کر ہر طرف سے دوڑے چلے آئیں اور ثابت کریں کہ وہ اللہ کے احکام کو ماننے کے لیے مستعد ہیں۔ جو مسلمان اس بِگل کو سن کر بھی بیٹھا رہتا ہے اور اپنی جگہ سے نہیں ہلتا وہ دراصل یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ یا توفرض کو پہچانتا ہی نہیں، یا اگر پہچانتا ہے تو وہ اتنا نالائق اور ناکارہ ہے کہ خدا کی فوج میں رہنے کے قابل نہیں۔
اسی بنا پر نبیa نے فرمایا کہ جو لوگ اذان کی آواز سن کر اپنے گھروں سے نہیں نکلتے،میرا جی چاہتا ہے کہ جا کران کے گھروں میں آگ لگا دوں، اور یہی وجہ ہے کہ حدیث میں نماز کو کفر اور اسلام کے درمیان وجہِ تمیز قرار دیا گیا ہے۔ عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ میں کوئی ایسا شخص مسلمان ہی نہ سمجھا جاتا تھا جو نماز کے لیے جماعت میں حاضر نہ ہوتا ہو۔ حتیٰ کہ منافقین بھی جنھیں اس امر کی ضرورت ہوتی تھی کہ ان کو مسلمان سمجھا جائے، اس امر پر مجبور ہوتے تھے کہ نماز باجماعت میں شریک ہوں۔ چنانچہ قرآن میں جس چیز پر منافقین کو ملامت کی گئی ہے وہ یہ نہیں ہے کہ وہ نماز نہیں پڑھتے، بلکہ یہ ہے کہ بادلِ ناخواستہ نہایت بددلی کے ساتھ نماز کے لیے اٹھتے ہیں:
وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى۰ۙ (النسائ 4:142)
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں کسی ایسے شخص کے مسلمان سمجھے جانے کی گنجائش نہیں ہے جو نماز نہ پڑھتا ہو۔ اس لیے کہ اسلام محض ایک اعتقادی چیز نہیں ہے بلکہ عملی چیز ہے، اور عملی چیز بھی ایسی کہ زندگی میں ہر وقت، ہر لمحہ ایک مسلمان کو اسلام پر عمل کرنے اور کفر وفسق سے لڑنے کی ضرورت ہے۔ ایسی زبردست عملی زندگی کے لیے لازم ہے کہ مسلمان خدا کے احکام بجا لانے کے لیے ہر وقت مستعد ہو۔ جو شخص اس قسم کی مستعدی نہیں رکھتا، وہ اسلام کے لیے قطعاً ناکارہ ہے۔ اسی لیے دن میں پانچ وقت نماز فرض کی گئی تاکہ جو لوگ مسلمان ہونے کے مدعی ہیں ان کا بار بار امتحان لیا جاتا رہے کہ وہ فی الواقع مسلمان ہیں یا نہیں، اور فی الواقع اس عملی زندگی میں خدا کے احکام بجالانے کے لیے مستعد ہیں یا نہیں۔ اگر وہ خدائی پریڈ کا بِگل سن کر جبنش نہیں کرتے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اسلام کی عملی زندگی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس کے بعد ان کا خدا کو ماننا اور رسولؐ کو ماننا محض بے معنی ہے۔ اسی بنا پر قرآن میں ارشاد ہے کہ:
اِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ o (البقرہ 2:45)
یعنی جو لوگ خدا کی اطاعت وبندگی کے لیے تیار نہیں ہیں صرف انھی پر نماز گراں گزرتی ہے، اور جس پر نماز گراں گزرے وہ خود اس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ وہ خدا کی بندگی واطاعت کے لیے تیار نہیں۔
خدا کا خوف پیدا کرنا
چوتھی چیز خدا کا خوف ہے جس کے ہر آن دل میں تازہ رہنے کی ضرورت ہے۔ مسلمان اسلام کے مطابق عمل کر ہی نہیں سکتا جب تک اُسے یہ یقین نہ ہو کہ خدا ہر وقت ہر جگہ اسے دیکھ رہا ہے، اس کی ہرحرکت کا خدا کو علم ہے۔ خدا اندھیرے میں بھی اس کو دیکھتا ہے، خدا تنہائی میں بھی اس کے ساتھ ہے، تمام دنیا سے چھپ جانا ممکن ہے، مگر خدا سے چھپنا ممکن نہیں۔ تمام دنیا کی سزائوں سے آدمی بچ سکتا ہے مگر خدا کی سزا سے بچنا غیر ممکن ہے۔ یہی یقین آدمی کو خدا کے احکام کی خلاف ورزی سے روکتا ہے۔ اسی یقین کے زور سے وہ حلال اور حرام کی اُن حدود کا لحاظ رکھنے پر مجبور ہوتا ہے جو اللہ نے زندگی کے معاملات میں قائم کی ہیں۔ اگر یہ یقین کمزور ہو جائے تو مسلمان صحیح معنوں میں مسلمان کی طرح زندگی بسر کر ہی نہیں سکتا۔ اسی لیے اللہ نے دن میں پانچ وقت نماز فرض کی ہے تاکہ وہ اس یقین کودل میں بار بار مضبوط کرتی رہے۔ چنانچہ قرآن میں خود اللہ ہی نے نماز کی اس مصلحت کو بیان کر دیا کہ:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ۰ۭ (العنکبوت 29:45)
یعنی نماز وہ چیز ہے جو انسان کو بدی اور بے حیائی سے روکتی ہے۔
اس کی وجہ آپ غور کرکے خود سمجھ سکتے ہیں۔ مثلاً آپ نماز کے لیے پاک ہو کر اور وضو کرکے آتے ہیں۔ اگر آپ ناپاک ہوں اور غسل کیے بغیر آ جائیں، یا آپ کے کپڑے ناپاک ہوں اور انھی کو پہنے ہوئے آجائیں، یا آپ کا وضو نہ ہو اور آپ یہ کہہ دیں کہ میں وضو کرکے آیا ہوں، تو دنیا میں کون آپ کو پکڑ سکتا ہے؟ لیکن آپ ایسا نہیں کرتے۔ کیوں؟ اس لیے کہ آپ کو یقین ہے کہ خدا سے یہ گناہ نہیں چھپ سکتا۔ اسی طرح نماز میں جو چیزیں آہستہ پڑھی جاتی ہیں اگر ان کو آپ نہ پڑھیں تو کسی کو خبر نہیں ہو سکتی، مگر آپ کبھی ایسا نہیں کرتے۔ یہ کس لیے؟ اسی لیے کہ آپ کو یقین ہے کہ خدا سب کچھ سن رہا ہے اور آپ کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اسی طرح آپ جنگل میں بھی نماز پڑھتے ہیں،رات کے اندھیرے میں بھی نماز پڑھتے ہیں، اپنے گھر میں جب تنہا ہوتے ہیں اس وقت بھی نماز پڑھتے ہیں، حالانکہ کوئی آپ کو دیکھنے والا نہیں ہوتا، اور کسی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ نے نماز نہیں پڑھی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ آپ چھپ کر بھی خدا کے حکم کی خلاف ورزی کرنے سے ڈرتے ہیں، اور آپ کو یقین ہے کہ خدا سے کسی جرم کو چھپاناممکن نہیں۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ نماز کس طرح خدا کا خوف اور اس کے حاضر وناظر اور علیم وخبیر ہونے کا یقین آدمی کے دل میں بٹھاتی اور تازہ کرتی رہتی ہے۔ رات دن کے چوبیس گھنٹوں میں آپ ہر وقت خدا کی عبادت اور بندگی کیسے کر سکتے ہیں جب تک کہ یہ خوف اور یقین آپ کے دل میں تازہ نہ ہوتا رہے۔ اگر اس چیز سے آپ کا دل خالی ہو تو کیوں کر ممکن ہے کہ رات دن جو ہزاروں معاملات آپ کو دنیا میں پیش آتے ہیں، ان میں آپ خدا سے ڈر کر نیکی پر قائم رہیں گے اور بدی سے بچیں گے۔
قانونِ الٰہی سے واقفیت
پانچویں چیز جو عبادت الٰہی کے لیے نہایت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ آپ خدا کے قانون سے واقف ہوں۔ اس لیے کہ اگر آپ کو قانون کا علم ہی نہ ہو توآپ اس کی پابندی کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ کام بھی نماز انجام دیتی ہے۔ نماز میں قرآن جو پڑھا جاتا ہے، یہ اسی لیے ہے کہ روزانہ آپ خدا کے احکام اوراس کے قانون سے واقف ہوتے رہیں۔ جمعہ کا خطبہ بھی اسی لیے ہے کہ آپ کو اسلام کی تعلیم سے واقفیت ہو۔ نماز باجماعت اور جمعہ سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ عالم اور عامی] عام آدمی[ بار بار ایک جگہ جمع ہوتے رہیں اور لوگوں کو ہمیشہ خدا کے احکام سے واقف ہونے کا موقع ملتا رہے۔ اب یہ آپ کی بدقسمتی ہے کہ آپ نمازمیں جو کچھ پڑھتے ہیں اس سے واقف ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔ آپ کو جمعہ کے خطبے بھی ایسے سنائے جاتے ہیں جن سے آپ کو اسلام کا کوئی علم حاصل نہیں ہوتا، اور نماز کی جماعتوں میں آ کر نہ آپ کے عالم اپنے جاہل بھائیوں کو کچھ سکھاتے ہیں اور نہ جاہل اپنے بھائیوں سے کچھ پوچھتے ہیں۔ نماز تو آپ کو ان سب فائدوں کا موقع دیتی ہے، آپ خود فائدہ نہ اٹھائیں تو نماز کا کیا قصور؟
اجتماعیت کی مشق
چھٹی چیزیہ ہے کہ ہر مسلمان زندگی کے اس ہنگامے میں اکیلا نہ ہو، بلکہ سب مسلمان مل کر ایک مضبوط جماعت بنیں اور خدا کی عبادت، یعنی اس کے احکام کی پابندی کرنے اور اس کے قانون پر عمل کرنے اور اس کے قانون کو دنیا میں جاری کرنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کریں۔ آپ جانتے ہیں کہ اس زندگی میں ایک طرف مسلمان، یعنی خدا کے فرماں بردار بندے ہیں اور دوسری طرف کفار، یعنی خدا کے باغی بندے۔ رات دن فرماںبرداری اور بغاوت کے درمیان کشمکش برپا ہے۔ باغی، خدا کے قانون کو توڑتے ہیں اور اس کے خلاف دنیا میں شیطانی قوانین کو جاری کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں اگر ایک ایک مسلمان تنہا ہو تو کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ضرورت اس کی ہے کہ خدا کے فرماںبردار بندے مل کر اجتماعی طاقت سے بغاوت کا مقابلہ کریں اور خدائی قانون کو نافذ کریں۔ یہ اجتماعی طاقت پیدا کرنے والی چیز تمام چیزوں سے بڑھ کر نماز ہے۔ پانچ وقت کی جماعت، پھر جمعہ کا بڑا اجتماع، پھر عیدین کے اجتماع، یہ سب مل کر مسلمانوں کو ایک مضبوط دیوار کی طرح بنا دیتے ہیں، اور ان میں وہ یک جہتی اور عملی اتحاد پیدا کر دیتے ہیں جو روز مرّہ کی عملی زندگی میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کا مددگار بنانے کے لیے ضروری ہے۔
٭…٭…٭
نماز میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟
برادرانِ اسلام! پچھلے خطبے میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ نماز کس طرح انسان کو اللہ کی عبادت، یعنی بندگی اور اطاعت کے لیے تیار کرتی ہے۔ اس سلسلے میں جو کچھ میں نے کہا تھا اس سے آپ نے اندازہ کر لیا ہو گا کہ جو شخص نماز کو محض فرض اور حکمِ الٰہی جان کر باقاعدگی کے ساتھ ادا کرتا رہے وہ اگر نماز کی دعائوں کا مطلب نہ سمجھتا ہو، تب بھی اس کے اندر خدا کا خوف اور اس کے حاضر وناظر ہونے کا یقین اور اس کی عدالت میں ایک روز حاضر ہونے کا اعتقاد ہر وقت تازہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کے دل میں یہ عقیدہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے کہ وہ خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں اور خدا ہی اس کا اصلی بادشاہ اورحاکم ہے۔ اس کے اندر فرض شناسی کی عادت اور خدا کے احکام بجا لانے کے لیے مستعدی پیدا ہوتی ہے۔ اس میں وہ صفات خود بخود پیدا ہونے لگتی ہیں جو انسان کی ساری زندگی کو خدا کی بندگی وعبادت بنا دینے کے لیے ضروری ہیں۔
اب میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر انسان اسی نماز کو سمجھ کر ادا کرے اور نماز پڑھتے وقت یہ بھی جانتا رہے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے تو اس کے خیالات اور اس کی عادات اور خصائل پر کتنازبردست اثر پڑے گا، اس کے ایمان کی قوت کس قدر بڑھتی چلی جائے گی، اور اس کی زندگی کا رنگ کیسا پلٹ جائے گا۔
اذان اور اس کے اثرات
سب سے پہلے اذان کو لیجیے۔ دن میں پانچ وقت آپ کو یہ کہہ کر پکارا جاتا ہے:
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔اَشْہَدُ اَنْ لَّآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ۔اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ ۔حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ ۔اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
خدا سب سے بڑا ہے، خدا سب سے بڑا ہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی بندگی کا حقدار نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ آئو نماز کے لیے۔ آئو اس کام کے لیے جس میں فلاح ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے۔اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
دیکھو! یہ کیسی زبردست پکار ہے۔ ہر روز پانچ مرتبہ یہ آواز کس طرح تمھیں یاد دلاتی ہے کہ ’’زمین میں جتنے بڑے خدائی کے دعوے دار نظر آتے ہیں سب جھوٹے ہیں۔ زمین وآسمان میں ایک ہی ہستی ہے جس کے لیے بڑائی ہے، اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ آئو! اس کی عبادت کرو۔ اسی کی عبادت میں تمھارے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے‘‘۔ کون ہے جو اس آواز کو سن کر ہل نہ جائے گا؟ کیوں کر ممکن ہے کہ جس کے دل میں ایمان ہو، وہ اتنی بڑی گواہی اور ایسی زبردست پکار سن کر اپنی جگہ بیٹھا رہے اور اپنے مالک کے آگے سر جھکانے کے لیے دوڑ نہ پڑے؟
وضو
اس آواز کو سن کر تم اٹھتے ہو، اور سب سے پہلے اپنا جائزہ لے کر دیکھتے ہو کہ میں پاک ہوں یا ناپاک؟ میرے کپڑے پاک ہیں یا نہیں؟ میرا وضو ہے یا نہیں؟ گویا تمھیں اس بات کا احساس ہے کہ پادشاہِ دو عالم کے دربار میں حاضری کا معاملہ دنیا کے دوسرے سب معاملات سے مختلف ہے۔ دوسرے کام تو ہرحال میں کیے جا سکتے ہیں، مگر یہاں جسم اور لباس کی پاکی اور اس پاکی پر مزید طہارت (یعنی وضو)کے بغیر حاضری دینا سخت بے ادبی ہے۔ اس احساس کے ساتھ تم پہلے اپنے پاک ہونے کا اطمینان کرتے ہو، اور پھر] بِسْمِ اللّٰہ پڑھ کر[ وضو شروع کر دیتے ہو۔ اس وضو کے دوران میں اگر تم اپنے اعضا دھونے کے ساتھ ساتھ اللہ کا ذکر کرتے رہو، اور فارغ ہو کر وہ دعا پڑھو جو رسول اللہ aنے سکھائی ہے، تو محض تمھارے اعضا ہی نہ دھلیں گے، بلکہ ساتھ ساتھ تمھارا دل بھی دھل جائے گا۔ اس دعا کے الفاظ یہ ہیں:
اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَ ہ، لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُھٗ وَرَسُوْلُہٗ، اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَ اجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ۔ (مشکوٰۃ)
میں شہادت دیتا ہوں کہ اکیلے ایک لاشریک خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ خدایا! مجھے توبہ کرنے والوں میں شامل کر اور مجھے پاکیزگی اختیار کرنے والا بنا۔
نیت
اس کے بعد تم نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہو۔ منہ قبلے کے سامنے ہے۔ پاک صاف ہو کر پادشاہِ عالم کے دربار میں حاضر ہو۔ سب سے پہلے تمھاری زبان سے یہ الفاظ نکلتے ہیں:
اَللّٰہُ اکْبَرُ۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔
اس زبردست حقیقت کااقرار کرتے ہوئے تم کانوں تک ہاتھ اٹھاتے ہو، گویا دنیا ومافیہا سے دست بردار ہو رہے ہو۔ پھرہاتھ باندھ لیتے ہو، گویا اب تم بالکل اپنے بادشاہ کے سامنے باادب دست بستہ کھڑے ہو۔ اس کے بعد تم کیا عرض معروض کرتے ہو۔
تسبیح
سُبْحَا نَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَباَرَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَآاِلٰہَ غَیْرُکَ۔
تیری پاکی بیان کرتا ہوں اے اللہ! اور وہ بھی تیری تعریف کے ساتھ۔ بڑی برکت والا ہے تیرا نام۔ سب سے بلند وبالا ہے تیری بزرگی اور کوئی معبود نہیں تیرے سوا۔
تَعَوُّذْ
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔
خدا کی پناہ مانگتا ہوں میں شیطان مردود کی دراندازی اور شرارت سے۔
بَسْمَلَہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔
شروع کرتا ہوں میں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔
حمد
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ۥۙ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَo اٰمِیْن۔
تعریف خدا کے لیے ہے جو سارے جہان والوں کا پروردگار ہے۔نہایت رحمت والا بڑا مہربان ہے۔روزِ آخرت کا مالک ہے(جس میں اعمال کا فیصلہ کیا جائے گا اور ہر ایک کو اس کے کیے کا پھل ملے گا)۔مالک! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ہم کو سیدھا راستہ دکھا۔ایسے لوگوں کا راستہ جن پرتو نے فضل کیا اورانعام فرمایا۔جن پر تیراغضب نازل نہیں ہوا، اور جو بھٹکے ہوئے لوگ نہیں ہیں۔(خدایا! ایسا ہی ہو، مالک ہماری اس دعا کو قبول فرما)
اس کے بعد تم قرآن کی چند آیتیں] یا کوئی چھوٹی سورت[ پڑھتے ہو، جن میں سے ہر ایک میں امرت بھرا ہوا ہے۔ نصیحت ہے، عبرت ہے، سبق ہے، اور اسی راہِ راست کی ہدایت ہے جس کے لیے سورۂ فاتحہ میں تم دعا کرچکے تھے۔مثلا:
قرآن مجید کی مختلف سورتیں
]نماز میں سورۃ الفاتحہ کے بعد، قرآن پاک کی کوئی ایک سورت پڑھی جاتی ہے۔ ہم یہاں تین سورتیں مع ترجمہ پیش کر رہے ہیں[
والعصر
وَالْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍo اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِo ( والعصر103: 3-1)
زمانہ کی قسم! انسان ٹوٹے میں ہے۔ مگر ٹوٹے سے بچے ہوئے صرف وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے۔ اور جنھوں نے ایک دوسرے کو حق پر چلنے کی ہدایت کی اور حق پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے رہے۔
اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ تباہی اور نامرادی سے انسان بس اسی طرح بچ سکتا ہے کہ ایمان لائے اور نیک عمل کرے، اور صرف اتنا ہی کافی نہیں، بلکہ ایمان داروں کی ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو دین پر قائم ہونے اور قائم رہنے میں ایک دوسرے کی مدد کرتی رہے۔
یا مثلاً:
الھُمَزَہ
وَيْلٌ لِّكُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۨ o الَّذِيْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗo يَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗٓ اَخْلَدَہٗo كَلَّا لَيُنْۢبَذَنَّ فِي الْحُطَمَۃِo وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْحُطَمَۃُo نَارُ اللہِ الْمُوْقَدَۃُo الَّتِيْ تَطَّلِعُ عَلَي الْاَفْــِٕدَۃِo اِنَّہَا عَلَيْہِمْ مُّؤْصَدَۃٌo فِيْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍo (الھمزہ 104:9-1)
افسوس ہے اس شخص کے حال پر جو لوگوں کی عیب چینی کرتا اور لوگوں پر آوازے کستا ہے۔ روپیہ جمع کرتا اور گِن گِن کر رکھتا ہے۔ اپنے دل میں سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ رہے گا۔ ہرگز نہیں، وہ ایک دن ضرور مرے گا اور حطمہ میں ڈالا جائے گا۔ اور تمھیں معلوم ہے کہ حُطَمَہ کیا چیز ہے؟ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ جس کی لپٹیں دلوں پر چھا جاتی ہیں۔ وہ اونچے اونچے ستون جیسے شعلوں کی صورت میں اُن کو گھیر لے گی۔
یا مثلاً:
الماعون
اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِo فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَo وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَo الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلاَ تِھِمْ سَاھُوْنَo الَّذِيْنَ ہُمْ يُرَاۗءُوْنَo وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَo (الماعون107: 3-1)
تو نے دیکھا کہ جو شخص روزِ جزا کو نہیں مانتا وہ کیسا آدمی ہوتا ہے؟ ایسا ہی آدمی یتیم کو دھتکارتا ہے۔ اور مسکین کو آپ کھانا کھلانا تو درکنار، دوسروں سے بھی یہ کہنا پسند نہیں کرتا کہ غریب کو کھانا کھلا دو۔ تباہی ہے ایسے نمازیوں کے لیے جو (روزِ آخرت پر یقین نہیں رکھتے، اس لیے) نماز سے غفلت کرتے ہیں اور پڑھتے بھی ہیں تو محض دکھاوے کے لیے اور اُن کے دل ایسے چھوٹے ہیں کہ ذرا ذرا سی چیزیں حاجت مندوںکو دیتے ہوئے بھی ان کا دل دُکھتا رہتا ہے۔
اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ آخرت کا یقین اسلام کی جان ہے۔ اس کے بغیر آدمی کبھی اس راستے پر چل ہی نہیں سکتا جو خدا کا سیدھا راستہ ہے۔غرض تم قرآن پاک کی جتنی سورتیں یا آیتیں نماز میں پڑھتے ہو وہ کوئی نہ کوئی اعلیٰ درجے کی نصیحت یا ہدایت تم کو دیتی ہیں، اور تمھیں بتاتی ہیں کہ خدا کے احکام کیا ہیں جن کے مطابق تمھیں دنیا میں عمل کرنا چاہیے۔
رکوع
ان ہدایتوں کو پڑھنے کے بعد تم اللہ اکبر کہتے ہوئے رکوع کرتے ہو۔ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے مالک کے آگے جھکتے ہو اور بار بار کہتے ہو:
سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْعَظِیْمُ۔ ’’پاک ہے میرا پروردگار جو بڑا بزرگ ہے۔‘‘
پھر سیدھے کھڑے ہو جاتے ہو، اور کہتے ہو:
سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ۔ ’’اللہ نے سن لی اس شخص کی بات جس نے اس کی تعریف بیان کی۔‘‘
]اور پھر کہتے ہو: رَبَّنَا وَ لَکَ الْحَمْدُ۔ اے ہمارے ربّ !سب تعریف تیرے لیے ہے۔[
سجدہ
پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدے میں گر جاتے ہو،ا ور بار بار کہتے ہو:
سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی۔ ’’پاک ہے میرا پروردگار جو سب سے بالاوبرتر ہے۔‘‘
التّحیات
پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے سر اٹھاتے ہو، اور نہایت ادب سے بیٹھ کر یہ پڑھتے ہو:
اَلتّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَ الصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ، اَلسَّلَامُ عَلَیْناَ وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِیْنَ ‘ اَشْھَدُ اَنْ لَّآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔
’’ہماری سلامیاں، ہماری نمازیں، اور ساری پاکیزہ باتیں اللہ کے لیے ہیں۔ سلام آپ پر اَے نبیؐ اور اللہ کی رحمت اور برکتیں۔ سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے سب نیک بندوں پر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘
یہ شہادت دیتے وقت تم شہادت کی انگلی اٹھاتے ہو، کیوں کہ یہ نماز میں تمھارے عقیدے کا اعلان ہے اور اس کو زبان سے ادا کرتے وقت خاص طور پر توجہ اور زور دینے کی ضرورت ہے۔
درُود
اس کے بعد تم درود پڑھتے ہو:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَاَ نَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰٓی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰٓی آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَا رِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰٓی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
خدایا! رحمت فرما ہمارے سردار اور مولیٰ محمدؐ اور ان کی آل پر جس طرح تو نے رحمت فرمائی ابراہیم ؑ اورآلِ ابراہیم ؑپر۔ یقیناً تو بہترین صفات والا اور بزرگ ہے۔ اور خدایا! برکت نازل فرما ہمارے سردار اورمولیٰ محمدؐ اور ان کی آل پر، جس طرح تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم ؑ اور آلِ ابراہیم ؑپر، یقیناً تو بہترین صفات والا اور بزرگ ہے۔
دُعا
یہ درُود پڑھنے کے بعد تم اللہ سے دعا کرتے ہو:
اَللّٰھُمَّ اِنّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَھَنَّمَ ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَا تِ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْمَاْثَمِ وَالْمَغْرَمِ۔
خدایا! میں تیری پناہ مانگتا ہوں جہنم کے عذاب سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں اس گمراہ کرنے والے دجّال کے فتنے سے جو زمین پر چھا جانے والا ہے اور تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنے سے۔ خدایا! مَیں تیری پناہ مانگتا ہوں برے اعمال کی ذمہ داری اور قرض داری سے۔
سلام
یہ دعا پڑھنے کے بعد تمھاری نماز پوری ہو گئی۔ اب تم مالک کے دربار سے واپس ہوتے ہو، اور واپس ہو کر پہلا کام کیا کرتے ہو؟ یہ کہ دائیں اور بائیں مڑ کر تمام حاضرین اور دنیا کی ہر چیز کے لیے سلامتی اور رحمت کی دعا کرتے ہو:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ۔
گویا یہ بشارت ہے جو خدا کے دربار سے پلٹتے ہوئے تم دنیا کے لیے لائے ہو۔
یہ ہے وہ نماز جو تم صبح اٹھ کر دنیا کے کام کاج شروع کرنے سے پہلے پڑھتے ہو۔ پھر چند گھنٹے کام کاج میں مشغول رہنے کے بعد دوپہر کو خدا کے دربار میں حاضر ہو کر دوبارہ یہی نماز ادا کرتے ہو۔ پھر چند گھنٹوں کے بعد تیسرے پہر کو یہی نماز پڑھتے ہو۔ پھر چند گھنٹے مشغول رہنے کے بعد شام کو اسی نماز کا اعادہ کرتے ہو۔ پھر دنیا کے کاموں سے فارغ ہو کر سونے سے پہلے آخری مرتبہ اپنے مالک کے سامنے جاتے ہو۔ اس آخری نماز کا خاتمہ وتر پر ہوتا ہے جس کی تیسری رکعت میں تم ایک عظیم الشان اقرار نامہ اپنے مالک کے سامنے پیش کرتے ہو۔ یہ دعائے قنوت ہے۔ قنوت کے معنی ہیں خدا کے آگے ذلت وانکساری، اطاعت اور بندگی کا اقرار۔ یہ اقرار تم کن الفاظ میں کرتے ہو، ذرا غور سے سنو:
دعائے قنوت
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَھْدِیَکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ الْخَیْرَ کُلَّہٗ۔ نَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ۔ اَللّٰھُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنَسْجُدُ وَاِلَیْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ۔ نَرْجُوْا رَحْمَتَکَ وَنَخْشٰی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقٌ۔
خدایا! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں۔ تجھ سے ہدایت طلب کرتے ہیں۔ تجھ سے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں۔ تجھ پر ایمان لاتے ہیں۔ تجھ ہی پر بھروسا رکھتے ہیں۔ اور ساری تعریف تیرے ہی لیے خاص کرتے ہیں۔ ہم تیرا شکرادا کرتے ہیں، ناشکری نہیں کرتے۔ ہم ہر اس شخص کو چھوڑ دیں گے اور اس سے تعلق کاٹ دیں گے جو تیرا نافرمان ہو۔ خدایا! ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تیرے ہی لیے نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے ہیں اورہماری ساری کوششیں اور ساری دوڑ دھوپ تیری ہی خوشنودی کے لیے ہے۔ ہم تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ یقیناً تیرا سخت عذاب ایسے لوگوں پر پڑے گا جو کافر ہیں۔
نماز اور تعمیر سیرت
برادرانِ اسلام! غور کرو، جو شخص دن میں پانچ مرتبہ اذان کی یہ آواز سنتا ہو، اور سمجھتا ہو کہ کیسی بڑی چیز کی شہادت دی جا رہی ہے اور کیسے زبردست بادشاہ کے حضور میں بلایا جا رہا ہے، اور جو شخص ہر مرتبہ اس پکار کو سن کر اپنے سارے کام کاج چھوڑ دے اور اس ذاتِ پاک کی طرف دوڑے جسے وہ اپنا اور تمام کائنات کا مالک جانتا ہے ، اور جو شخص ہر نماز سے پہلے اپنے جسم اور دل کو وضو سے پاک کرے، اور جو شخص کئی کئی بار نماز میں وہ ساری باتیں سمجھ بوجھ کر ادا کرے جو ابھی آپ کے سامنے میں نے بیان کی ہیں، کیوں کر ممکن ہے کہ اس کے دل میں خدا کا خوف پیدا نہ ہو؟ اس کو خدا کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شرم نہ آئے؟ اس کی روح گناہوں اور بدکاریوں کے سیاہ دھبے لے کر بار بار خدا کے سامنے ہوتے ہوئے لرز نہ اٹھے؟ کس طرح ممکن ہے کہ آدمی نماز میں خدا کی بندگی کا اقرار، اس کی اطاعت کا اقرار، اس کے مالکِ یوم الدین ہونے کا اقرار کرکے جب اپنے کام کاج کی طرف واپس آئے تو جھوٹ بولے؟ بے ایمانی کرے؟ لوگوں کے حق مارے؟ رشوت کھائے اور کھلائے؟ سود کھائے اور کھلائے، خدا کے بندوں کو آزار پہنچائے؟ فحش اور بے حیائی اور بدکاری کرے؟ اور پھر ان سب اعمال کا بوجھ لاد کر دوبارہ خدا کے سامنے حاضر ہونے اور انھی سب باتوں کا اقرار کرنے کی جرأت کر سکے؟ ہاں! یہ کیسے ممکن ہے کہ تم جان بوجھ کر خدا سے چھتیس{ FR 1616 }(۳۶) مرتبہ اقرار کرو کہ ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور پھر خدا کے سوا دوسروں کی بندگی کرو اور دوسروں کے آگے مدد کے لیے ہاتھ پھیلائو؟ ایک بار تم اقرار کرکے خلاف ورزی کرو گے تو دوسری مرتبہ خدا کے دربار میں جاتے ہوئے تمھارا ضمیر ملامت کرے گا اور شرمندگی پیدا ہو گی۔ دوسری بار خلاف ورزی کرو گے تو اور زیادہ شرم آئے گی، اور زیادہ دل اندر سے لعنت بھیجے گا۔ تمام عمر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ روزانہ پانچ پانچ مرتبہ نماز پڑھو اور پھر بھی تمھارے اعمال درست نہ ہوں؟ تمھارے اخلاق کی اصلاح نہ ہو؟ اور تمھاری زندگی کی کایا نہ پلٹے؟ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے نماز کی یہ خاصیت بیان فرمائی ہے کہ:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ۰ۭ (العنکبوت 29:45)
’’یقیناً نماز انسان کو بے حیائی اور بدکاری سے روکتی ہے۔‘‘
لیکن اگر کوئی ایسا ہے کہ اتنی زبردست اصلاح کرنے والی چیز سے بھی اس کی اصلاح نہیں ہوتی تو یہ اس کی طینت کی خرابی ہے، نماز کی خرابی نہیں۔ پانی اور صابن کا قصور نہیں، اس کی وجہ کوئلے کی اپنی سیاہی ہے۔
بھائیو! آپ کی نمازوں میں ایک بہت بڑی کمی ہے، اور وہ یہ ہے کہ آپ نماز میں جو کچھ پڑھتے ہیں اس کو سمجھتے نہیں۔ اگر آپ تھوڑا سا وقت صَرف کریں تو ان ساری دعائوں کا مطلب اردو میں، یا اپنی مادری زبان میں یاد کر سکتے ہیں۔ اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ جو کچھ آپ پڑھیں گے اسے سمجھتے بھی جائیں گے۔
٭…٭…٭
نماز باجماعت
برادرانِ اسلام! پچھلے خطبوں میں تو میں نے آپ کے سامنے صرف نماز کے فائدے بیان کیے تھے جن سے آپ نے اندازہ کیا ہو گا کہ یہ عبادت بجائے خود کیسی زبردست چیز ہے، کس طرح انسان میں بندگی کا کمال پیدا کرتی ہے اور کس طرح اس کو بندگی کا حق ادا کرنے کے قابل بناتی ہے۔ اب میں آپ کو نماز باجماعت کے فائدے بتانا چاہتا ہوں جنھیں سن کر آپ اندازہ کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل واحسان سے کس طرح ایک ہی چیز میں ہمارے لیے ساری نعمتیں جمع کردی ہیں۔ اوّل تو نماز خود ہی کیا کم تھی کہ اس کے ساتھ جماعت کا حکم دے کر اس کو دوآتشہ کردیا گیا، اوراس کے اندر وہ طاقت بھر دی گئی جو انسان کی کایا پلٹ دینے میں اپنا جواب نہیں رکھتی۔
نماز کِن صفات کو پیدا کرتی ہے؟
پہلے آپ سے یہ کہہ چکا ہوں کہ زندگی میں ہر وقت اپنے آپ کو خدا کا بندہ سمجھنا اور فرماںبردار غلام کی طرح مالک کی مرضی کا تابع بن کر رہنا، اور مالک کا حکم بجا لانے کے لیے ہر وقت تیار رہنا اصلی عبادت ہے، اور نماز اسی عبادت کے لیے انسان کو تیار کرتی ہے۔ یہ بھی آپ کو بتا چکا ہوں کہ اس عبادت کے لیے انسان میں جتنی صفات کی ضرورت ہے وہ سب نمازپیدا کرتی ہے۔ بندگی کا احساس، خدا اور اس کے رسولؐ اور اس کی کتاب پرایمان، آخرت کا یقین، خدا کا خوف، خدا کو عالم الغیب جاننا اور اس کو ہر وقت اپنے سے قریب سمجھنا، خدا کی فرماںبرداری کے لیے ہر حال میں مستعد رہنا، خدا کے احکام سے واقف ہونا، یہ اور ایسی تمام صفتیں نماز آدمی کے اندرپیدا کر دیتی ہے جو اس کو صحیح معنوں میں خدا کا بندہ بنانے کے لیے ضروری ہیں۔
مکمل بندگی تنہا ممکن نہیں
مگر آپ ذرا غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ انسان اپنی جگہ خواہ کتنا ہی کامل ہو، وہ خدا کی بندگی کا پورا حق ادا نہیں کرسکتا جب تک کہ دوسرے بندے بھی اس کے مددگار نہ ہوں۔ خدا کے تمام احکام بجا نہیں لا سکتا جب تک کہ وہ بہت سے لوگ جن کے ساتھ رات دن اس کا رہنا سہنا ہے، جن سے ہر وقت اس کو معاملہ پیش آتا ہے، اس فرماںبرداری میں اس کا ساتھ نہ دیں۔ آدمی دنیا میں اکیلا تو پیدا نہیں ہوا ہے، نہ اکیلا رہ کر کوئی کام کر سکتا ہے۔ اس کی ساری زندگی اپنے بھائی بندوں، دوستوں اور ہمسایوں، معاملہ داروں اور زندگی کے بے شمار ساتھیوں سے ہزاروں قسم کے تعلقات میں جکڑی ہوئی ہے۔ اللہ کے احکام بھی تنہا ایک آدمی کے لیے نہیں ہیں، بلکہ انھی تعلقات کو درست کرنے کے لیے ہیں۔ اب اگر یہ سب لوگ خدا کے احکام بجا لانے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں، تو سب فرماںبردار بندے بن سکتے ہیں، اور اگر سب نافرمانی پر تلے ہوئے ہوں، یا ان کے تعلقات اس قسم کے ہوں کہ خدا کے احکام بجالانے میں ایک دوسرے کی مدد نہ کریں، توایک اکیلے آدمی کے لیے ناممکن ہے کہ وہ اپنی زندگی میں خداکے قانون پر ٹھیک ٹھیک عمل کر سکے۔
تنہا، شیطان کا مقابلہ ممکن نہیں
اس کے ساتھ جب آپ قرآن کو غور سے پڑھیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ خدا کا حکم صرف یہی نہیں ہے کہ آپ خود اللہ کے مطیع وفرماںبردار بندے بنیں، بلکہ ساتھ ساتھ یہ حکم بھی ہے کہ دنیا کو خدا کا مطیع وفرماںبردار بنائیں۔ دنیا میں خدا کے قانون کو پھیلائیں اور جاری کریں۔ شیطان کا قانون جہاں جہاں چل رہا ہو اس کومٹا دیں اور اس کی جگہ اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ کے قانون کی حکومت قائم کریں۔ یہ زبردست خدمت جو اللہ نے آپ کے سپرد کی ہے، اس کو ایک اکیلا مسلمان انجام نہیں دے سکتا اور اگر کروڑوں مسلمان بھی ہوں، مگر الگ الگ رہ کر کوشش کریں تب بھی وہ شیطان کے بندوں کی منظم طاقت کو نیچا نہیں دکھا سکتے۔ اس کے لیے بھی ضرورت ہے کہ مسلمان ایک جتھا بنیں، ایک دوسرے کے مددگار ہوں، ایک دوسرے کی پشت پناہ بن جائیں، اور سب مل کر ایک ہی مقصد کے لیے جدوجہد کریں۔
حکم کی اطاعت مطلوب ہے
پھر زیادہ گہری نظر سے جب آپ دیکھیں گے تو یہ بات آپ پر کھلے گی کہ اتنے بڑے مقصد کے لیے فقط مسلمانوں کا مل جانا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس کی بھی ضرورت ہے کہ یہ مل جانا بالکل صحیح طریق پر ہو، یعنی مسلمانوں کی جماعت اس طرح بنے کہ ایک دوسرے کے ساتھ ان کے تعلقات ٹھیک ٹھیک جیسے ہونے چاہییں ویسے ہی ہوں۔ ان کے آپس کے تعلق میں کوئی خرابی نہ رہنے پائے۔ ان میں پوری یک جہتی ہو۔ وہ ایک سردار کی اطاعت کریں۔ اس کے حکم پر حرکت کرنے کی عادت ان میں پیدا ہو، اور وہ یہ بھی سمجھ لیں کہ اپنے سردار کی فرماں برداری انھیں کس طرح اور کہاں تک کرنی چاہیے او ر نافرمانی کے مواقع کون سے ہیں؟
نماز باجماعت کے فوائد
ان سب باتوں کو نظر میں رکھ کر دیکھیے کہ نماز باجماعت کس طرح یہ سارے کام کرتی ہے۔
ایک آواز پر اکٹھا ہونا
حکم ہے کہ اذان کی آوازسن کر اپنے کام چھوڑ دو اور مسجد کی طرف آ جائو۔ یہ طلبی کی پکار سن کر ہر طرف سے مسلمانوں کا اٹھنا اور ایک مرکز پر جمع ہو جانا ان کے اندر وہی کیفیت پیدا کرتا ہے جو فوج کی ہوتی ہے۔ فوجی سپاہی جہاں جہاں بھی ہوں، بگل کی آواز سنتے ہی سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارا کمانڈر بلا رہا ہے۔ اس طلبی پر سب کے دل میں ایک ہی کیفیت پیدا ہوتی ہے، یعنی کمانڈر کے حکم کی پیروی کا خیال۔ اور اس خیال کے مطابق سب ایک ہی کام کرتے ہیں، یعنی اپنی اپنی جگہ سے اس آواز پردوڑ پڑتے ہیں اور ہر طرف سے سمٹ کر ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں۔
فوج میں یہ طریقہ کس لیے اختیار کیا گیا ہے؟ اسی لیے کہ اوّل تو ہر ہر سپاہی میں الگ الگ حکم ماننے اور اس پر مستعدی کے ساتھ عمل کرنے کی خصلت اور عادت پیدا ہو، اور پھر ساتھ ہی ساتھ ایسے تمام فرماںبردار سپاہی مل کر ایک گروہ، ایک جتھا، ایک ٹیم بن جائیں، اور ان میں یہ عادت پیدا ہو جائے کہ کمانڈر کے حکم پر ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ سب جمع ہو جایا کریں، تاکہ جب کوئی مہم پیش آ جائے تو ساری فوج ایک آواز پر ایک مقصد کے لیے اکٹھی ہو کر کام کر سکے۔ ایسا نہ ہو کہ سارے سپاہی اپنی اپنی جگہ تو بڑے تیس مار خاں ہوں، مگر جب کام کے موقع پر ان کو پکارا جائے تو وہ جمع ہو کر نہ لڑ سکیں، بلکہ ہر ایک اپنی اپنی مرضی کے مطابق جدھر منہ اٹھے چلا جائے۔ ایسی حالت اگر کسی فوج کی ہو تو اس کے ہزار بہادر سپاہیوں کو غنیم{ FR 1618 } کے پچاس سپاہیوں کا ایک دستہ الگ الگ پکڑ کے ختم کر سکتا ہے۔ بس اسی اصول پر مسلمانوں کے لیے بھی یہ قاعدہ مقرر کیا گیا ہے کہ جو مسلمان جہاں اذان کی آواز سنے، سب کام چھوڑ کر اپنے قریب کی مسجد کا رُخ کرے، تاکہ سب مسلمان مل کر اللہ کی فوج بن جائیں۔ اس اجتماع کی مشق ان کو روزانہ پانچ وقت کرائی جاتی ہے، کیونکہ دنیا کی ساری فوجوں سے بڑھ کر سخت ڈیوٹی اس خدائی فوج کی ہے۔ دوسری فوجوں کے لیے تو مدتوں میں کبھی ایک مہم پیش آتی ہے اور اس کی خاطر ان کو یہ ساری فوجی مشقیں کرائی جاتی ہیں، مگر اس خدائی فوج کو ہر وقت شیطانی طاقتوں کے ساتھ لڑنا ہے اور ہر وقت اپنے کمانڈر کے احکام کی تعمیل کرنی ہے۔ اس لیے اس کے ساتھ یہ بھی بہت بڑی رعایت ہے کہ اسے روزانہ صرف پانچ مرتبہ خدائی بگل کی آواز پر دوڑنے اور خدائی چھائونی، یعنی مسجد میں جمع ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔
بامقصد اجتماع
یہ تو محض اذان کا فائدہ تھا۔ اب آپ مسجد میں جمع ہوتے ہیں اور صرف اس جمع ہونے میں بے شمار فائدے ہیں۔ یہاں جو آپ جمع ہوئے تو آپ نے ایک دوسرے کودیکھا، پہچانا، ایک دوسرے سے واقف ہوئے۔ یہ دیکھنا، پہچاننا، واقف ہونا، کس حیثیت سے ہے؟ اس حیثیت سے کہ آپ سب خدا کے بندے ہیں۔ ایک رسولؐ کے پیرو ہیں۔ ایک کتاب کے ماننے والے ہیں۔ ایک ہی مقصد آپ سب کی زندگی کا مقصد ہے۔ اسی ایک مقصد کو پورا کرنے کے لیے آپ یہاں جمع ہوئے ہیں، اور اسی مقصد کو یہاں سے واپس جا کر بھی آپ کو پورا کرنا ہے۔ اس قسم کی آشنائی، اس قسم کی واقفیت آپ میں خود بخود یہ خیال پیدا کر دیتی ہے کہ آپ سب ایک قوم ہیں، ایک ہی فوج کے سپاہی ہیں، ایک دوسرے کے بھائی ہیں، دنیا میں آپ کی اغراض، آپ کے مقاصد، آپ کے نقصانات اورآپ کے فوائد، سب مشترک ہیں، اور آپ کی زندگیاں ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں۔
باہمی ہمدردی
پھر آپ جو ایک دوسرے کو دیکھیں گے تو ظاہر ہے کہ آنکھیں کھول کر ہی دیکھیں گے، اور یہ دیکھنا بھی دشمن کا دشمن کو دیکھنا نہیں، بلکہ دوست کا دوست کو اوربھائی کا بھائی کو دیکھنا ہو گا۔ اس نظر سے جب آپ دیکھیں گے کہ میرا کوئی بھائی پھٹے پرانے کپڑوں میں ہے، کوئی پریشان صورت ہے، کوئی فاقہ زدہ چہرہ لیے ہوئے آیا ہے، کوئی معذور، لنگڑا، لولا یا اندھا ہے، تو خواہ مخواہ آپ کے دل میں ہمدردی پیدا ہو گی۔ آپ میں سے جو خوش حال ہیں وہ غریبوں اور بے کسوں پر رحم کھائیں گے۔ جو بد حال ہیں انھیں امیروں تک پہنچنے اور ان سے اپنا حال کہنے کی ہمت پیدا ہو گی۔ کسی کے متعلق معلوم ہو گا کہ بیمار ہے، یا کسی مصیبت میں پھنس گیا ہے، اس لیے مسجد میں نہیں آیا تو اس کی عیادت کو جانے کا خیال پیدا ہو گا۔کسی کے مرنے کی خبر ملی تو سب مل کر اس کے لیے نماز جنازہ پڑھیں گے اور غمزدہ عزیزوں کے غم میں شریک ہوں گے۔ یہ سب باتیں آپ کی باہمی محبت کو بڑھانے والی اور ایک دوسرے کی مدد گار بنانے والی ہیں۔
پاک مقصد کے لیے جمع ہونا
اس کے بعد اور ذرا غور کیجیے۔ یہاں جو آپ جمع ہوئے ہیں، تو ایک پاک جگہ پاک مقصد کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ یہ چوروں اور شرابیوں اور جوئے بازوں کا اجتماع نہیں ہے کہ سب کے دل میں ناپاک ارادے بھرے ہوئے ہوں۔ یہ تو اللہ کے بندوں کا اجتماع ہے، اللہ کی عبادت کے لیے، اللہ کے گھر میں۔ سب اپنے خدا کے سامنے بندگی کا اقرارکرنے حاضر ہوئے ہیں۔ ایسے موقع پر اوّل تو ایمان دار آدمی میں خود ہی اپنے گناہوں پر شرمندگی کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس نے کوئی گناہ اپنے دوسرے بھائی کے سامنے کیا تھا، اور وہ خود بھی یہاں مسجد میں موجود ہے، تومحض اس کی نگاہوں کا سامنا ہو جانا ہی اس کے لیے کافی ہے کہ گناہ گار اپنے دل میں کٹ کٹ جائے اور اگر کہیں مسلمانوں میں ایک دوسرے کو نصیحت کرنے کا جذبہ بھی موجود ہو،ا ور وہ جانتے ہوں کہ ہمدردی ومحبت کے ساتھ ایک دوسرے کی اصلاح کس طرح کرنی چاہیے، تو یقین جانیے کہ یہ اجتماع انتہائی رحمت وبرکت کا موجب ہو گا۔ اس طرح سب مسلمان مل کر ایک دوسرے کی خرابیوں کو دُور کریں گے، ایک دوسرے کی کمی پوری کریں گے، اور پوری جماعت نیکوں اور صالحوں کی جماعت بنتی چلی جائے گی۔
اخوت
یہ صرف مسجد میں جمع ہونے کی برکتیں ہیں۔ اس کے بعد یہ دیکھیے کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے میں کتنی برکات پوشیدہ ہیں۔ آپ سب ایک صف میں ایک دوسرے کے برابر کھڑے ہوتے ہیں۔ نہ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا۔ نہ کوئی اونچے درجے کا ہے نہ نیچے درجے کا۔ خدا کے دربار میں خدا کے سامنے سب ایک درجے میں ہیں۔ کسی کا ہاتھ لگنے اور کسی کے چھو جانے سے کوئی ناپاک نہیں ہوتا۔ سب پاک ہیں، اس لیے کہ سب انسان ہیں، ایک خدا کے بندے ہیں، اور ایک ہی دین کے ماننے والے ہیں۔ آپ میں خاندانوں اور قبیلوں اور ملکوں اور زبانوں کا بھی کوئی فرق نہیں۔ کوئی سید ہے، کوئی پٹھان ہے، کوئی راجپوت ہے، کوئی جاٹ ہے، کوئی کسی ملک کا رہنے والا ہے اور کوئی کسی ملک کا۔ کسی کی زبان کچھ ہے اور کسی کی کچھ، مگر سب ایک صف میں کھڑے خدا کی عبادت کر رہے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سب ایک قوم ہیں۔ یہ حسب نسب اور برادریوں اور قوموں کی تقسیم سب جھوٹی ہے۔ سب سے بڑا تعلق آپ کے درمیان خدا کی بندگی وعبادت کا تعلق ہے۔ اس میں جب آپ سب ایک ہیں، تو پھر کسی معاملے میں بھی کیوں الگ ہوں؟
حرکات میں یکسانیت
پھر جب آپ ایک صف میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک فوج اپنے بادشاہ کے سامنے خدمت کے لیے کھڑی ہے۔ صف باندھ کر کھڑے ہونے اور مل کر ایک ساتھ حرکت کرنے سے آپ کے دلوں میں یکجہتی پیدا ہوتی ہے۔ آپ کو یہ مشق کرائی جاتی ہے کہ خدا کی بندگی میں اس طرح ایک ہو جائو کہ سب کے ہاتھ ایک ساتھ اٹھیں اور سب کے پائوں ایک ساتھ چلیں۔ گویا آپ دس بیس یا سو یا ہزار آدمی نہیں ہیں، بلکہ مل کر ایک آدمی کی طرح بن گئے ہیں۔
دعائیں
اس جماعت اور اس صف بندی کے بعد آپ کرتے کیا ہیں؟ یک زبان ہو کر اپنے مالک سے عرض کرتے ہیں کہ:
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ o اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo
ہم سب تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہم کو سیدھے راستے پر چلا۔
رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ
ہمارے پروردگار! تیرے ہی لیے حمد ہے۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ
ہم سب پر سلامتی ہو اور اللہ کے نیک بندوں پر۔
پھر نماز ختم کرکے آپ ایک دوسرے کے لیے سلامتی اور رحمت کی دعا کرتے ہیں کہ:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ
اس کے معنی یہ ہوئے کہ آپ سب ایک دوسرے کے خیر خواہ ہیں۔ سب مل کر ایک ہی مالک سے سب کے لیے بھلائی کی دعا کرتے ہیں۔ آپ اکیلے اکیلے نہیں ہیں۔ آپ میں سے کوئی تنہا سب کچھ اپنے ہی لیے نہیں مانگتا۔ ہر ایک کی یہی دُعا ہے کہ سب پر خدا کا فضل ہو، سب کو ایک ہی سیدھے رستے پر چلنے کی توفیق بخشی جائے، اور سب خدا کی سلامتی میں شامل ہوں۔ اس طرح یہ نماز آپ کے دلوں کو جوڑتی ہے، آپ کے خیالات میں یکسانی پیدا کرتی ہے، اور آپ میں خیر خواہی کا تعلق پیدا کرتی ہے۔
امام کے بغیر جماعت نہیں
مگر دیکھ لیجیے کہ جماعت کی نماز آپ کبھی امام کے بغیر نہیں پڑھتے۔ دو آدمی بھی مل کر پڑھیں گے تو ایک امام ہو گا اور دوسرا مقتدی۔ جماعت کھڑی ہو جائے تو اس سے الگ ہو کر نماز پڑھنا سخت ممنوع ہے، بلکہ ایسی نماز ہوتی ہی نہیں۔ حکم ہے کہ جو آتا جائے اُسی امام کے پیچھے جماعت میں شریک ہوتا جائے۔ یہ سب چیزیں محض نماز ہی کے لیے نہیں ہیں، بلکہ ان میں دراصل آپ کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنی ہے، تو اس طرح جماعت بن کر رہو۔ تمھاری جماعت، جماعت ہی نہیں ہو سکتی جب تک کہ تمھارا کوئی امام نہ ہو، اور جماعت بن جائے تو اس سے الگ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ تمھاری زندگی مسلمان کی زندگی نہیں رہی۔
امامت کی نوعیت وحقیقت
صرف اسی پر بس نہیں کیا گیا، بلکہ جماعت میں امام اور مقتدیوں کا تعلق اس طور پر قائم کیا گیا جس سے آپ کو معلوم ہو جائے کہ اس چھوٹی مسجد کے باہر اس عظیم الشان مسجد میں جس کا نام ’’زمین‘‘ ہے آپ کے امام کی حیثیت کیا ہے۔ اس کے فرائض کیا ہیں، اس کے حقوق کیا ہیں، آپ کو کس طرح اس کی اطاعت کرنی چاہیے اور کن باتوں میں کرنی چاہیے، اگر وہ غلطی کرے تو آپ کیا کریں، کہاں تک آپ کو غلطی میں بھی اس کی پیروی کرنی چاہیے، کہاں آپ اس کو ٹوکنے کے مجاز ہیں، کہاں آپ اس سے مطالبہ کر سکتے ہیں کہ اپنی غلطی کی اصلاح کرے، اور کس موقع پر آپ اس کو امامت سے ہٹا سکتے ہیں؟ یہ سب گویا چھوٹے پیمانے پر ایک بڑی سلطنت کو چلانے کی مشق ہے جو ہر روز پانچ مرتبہ آپ سے ہر چھوٹی مسجد میں کرائی جاتی ہے۔
امامت کے شرائط وآداب
یہاں اتنا موقع نہیں ہے کہ میں ان ساری تفصیلات کو بیان کروں، مگر چند موٹی موٹی باتیں بیان کرتا ہوں:
۱۔ متقی اور پرہیز گار
حکم ہے کہ امام ایسے شخص کو بنایا جائے جو پرہیز گار ہو، علم میں زیادہ ہو، قرآن زیادہ جانتا ہو، اور سن رسیدہ بھی ہو۔ حدیث میں ترتیب بھی بتا دی گئی ہے کہ ان صفات میں کون سی صفت کس صفت پر مقدم ہے۔ یہیں سے یہ تعلیم بھی دے دی گئی کہ سردارِ قوم کے انتخاب میں کن باتوں کا لحاظ کرنا چاہیے۔
۲۔ اکثریت کا نمائندہ
حکم ہے کہ امام ایسا شخص نہ ہو جس سے جماعت کی اکثریت ناراض ہو۔ یوں تو تھوڑے بہت مخالف کس کے نہیں ہوتے۔ لیکن اگر جماعت میں زیادہ تر آدمی کسی شخص سے نفرت رکھتے ہوں، تو اسے امام نہ بنایا جائے۔ یہاں پھر سردارِ قوم کے انتخاب کا ایک قاعدہ بتا دیا گیا۔
۳۔ مقتدیوں کا ہمدرد
حکم ہے کہ جو شخص مقتدیوں کا امام بنایا جائے وہ نماز ایسی پڑھائے کہ جماعت کے ضعیف ترین آدمی کو بھی تکلیف نہ ہو۔ محض جوان، مضبوط، تندرست اور فرصت والے آدمیوں کو ہی پیش نظر رکھ کر لمبی لمبی قراء ت اور لمبے لمبے رکوع اور سجدے نہ کرنے لگے، بلکہ یہ بھی دیکھے کہ جماعت میں بوڑھے بھی ہیں، بیمار بھی ہیں، کمزور بھی ہیں اور ایسے مشغول بھی ہیں جو جلدی نماز پڑھ کر اپنے کام پر واپس جانا چاہتے ہیں۔ نبی a نے اس معاملے میں یہاں تک رحم اور شفقت کا نمونہ پیش فرمایا ہے کہ نماز پڑھاتے میں کسی بچے کے رونے کی آواز آ جاتی، تو نماز مختصر کر دیتے تھے تاکہ اگر بچے کی ماں جماعت میں شریک ہے تو اسے تکلیف نہ ہو۔ یہ گویا سردارِ قوم کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ جب سردار بنایا جائے تو قوم کے اندر اُس کا طرزِ عمل کیسا ہونا چاہیے۔
۴۔ معذوری میں جگہ خالی کر دے
حکم ہے کہ امام کو اگر نماز پڑھاتے میں کوئی حادثہ پیش آ جائے جس کی وجہ سے وہ نماز پڑھانے کے قابل نہ رہے، تو فوراً ہٹ جائے اور اپنی جگہ پیچھے کے آدمی کو کھڑا کر دے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سردارِ قوم کا بھی یہی فرض ہے جب وہ سرداری کے قابل اپنے آپ کو نہ پائے، تو اسے خود ہٹ جانا چاہیے اور دوسرے اہل آدمی کے لیے جگہ خالی کر دینی چاہیے۔ اس میں نہ شرم کا کچھ کام ہے اور نہ خود غرضی کا۔
۵۔ امام کی کامل اطاعت
حکم ہے کہ امام کے فعل کی سختی کے ساتھ پابندی کرو۔ اس کی حرکت سے پہلے حرکت کرنا سخت ممنوع ہے، یہاں تک کہ جو شخص امام سے پہلے رکوع یا سجدے میں جائے اس کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ وہ گدھے کی صورت میں اٹھایا جائے گا۔ یہاں گویا قوم کو سبق دیا گیا ہے کہ اسے اپنے سردار کی اطاعت کس طرح کرنی چاہیے۔
۶۔ غلطی پر تنبیہ
امام اگر نماز میں غلطی کرے، مثلاً جہاں اسے بیٹھنا چاہیے تھا وہاں کھڑا ہو جائے، یا جہاں کھڑا ہونا چاہیے تھا وہاں بیٹھ جائے، تو حکم ہے کہ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہہ کر اسے غلطی پر متنبہ کر دو۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ کے معنی یہ ہیں ’’اللہ پاک ہے۔‘‘ امام کی غلطی پر سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ غلطی سے تو صرف اللہ ہی پاک ہے۔ تم انسان ہو، تم سے بھول چوک ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ یہ طریقہ ہے امام کو ٹوکنے کا اور جب اس طرح اسے ٹوکا جائے تو اس کو لازم ہے کہ بلاکسی شرم ولحاظ کے اپنی غلطی کی اصلاح کرے، البتہ اگر ٹوکے جانے کے باوجود امام کو یقین ہو کہ اس نے صحیح فعل کیا ہے، تو وہ اپنے یقین کے مطابق عمل کر سکتا ہے اور اس صورت میں جماعت کا کام یہ ہے کہ اس عمل کو غلط جاننے کے باوجود اس کا ساتھ دے۔ نماز ختم ہونے کے بعد مقتدی حق رکھتے ہیں کہ امام پر اس کی غلطی ثابت کریں اور نماز دوبارہ پڑھانے کا اس سے مطالبہ کریں۔
۷۔ معصیت میں اطاعت نہیں
امام کے ساتھ جماعت کا یہ برتائو صرف اُن حالات کے لیے ہے، جب کہ غلطی چھوٹی چھوٹی باتوں میں ہو۔ لیکن اگر امام سنتِ نبویؐ کے خلاف نماز کی ترکیب بدل دے یا نماز میں قرآن کو جان بوجھ کر غلط پڑھے یا نماز پڑھاتے ہوئے کفر وشرک یا صریح گناہ کا ارتکاب کرے، تو جماعت کا فرض ہے کہ اسی وقت نماز توڑ کر اس امام سے الگ ہو جائے۔
یہ سب ہدایتیں ایسی ہیں جن میں پوری تعلیم دے دی گئی ہے کہ تم کو اپنی قومی زندگی میں اپنے سردار کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے۔
برادرانِ اسلام! یہ فوائد جو میں نے نماز باجماعت کے بیان کیے ہیں ان سے آپ نے اندازہ کیا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے اس ایک عبادت میں، جو دن بھر میں پانچ مرتبہ صرف چند منٹ کے لیے ادا کی جاتی ہے، کس طرح دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں آپ کے لیے جمع کر دی ہیں۔ کس طر ح یہی ایک چیز آپ کو تمام سعادتوں سے مالا مال کر دیتی ہے اور کس طرح یہ آپ کو اللہ کی غلامی اور دنیا کی حکمرانی کے لیے تیار کرتی ہے۔ اب آپ ضرور سوال کریں گے کہ جب نماز ایسی چیز ہے، تو جو فائدے تم اس کے بیان کرتے ہو یہ حاصل کیوں نہیں ہوتے؟ اس کا جواب ان شاء اللہ آئندہ خطبے میں دوں گا۔
٭…٭…٭
نمازیں بے اثر کیوں ہو گئیں؟
برادرانِ اسلام! آج کے خطبے میں مجھے آپ کو یہ بتانا ہے کہ جس نماز کے اس قدر فائدے میں نے کئی خطبوں میں مسلسل آپ کے سامنے بیان کیے ہیں وہ اب کیوں وہ فائدے نہیں دے رہی ہے؟کیا بات ہے کہ آپ نمازیں پڑھتے ہیں او ر پھر بھی آپ کی زندگی نہیں سدھرتی؟ پھر بھی آپ کے اخلاق پاکیزہ نہیں ہوتے؟ پھر بھی آپ ایک زبردست خدائی فوج نہیں بنتے؟ پھر بھی کفار آپ پر غالب ہیں؟ پھر بھی آپ دنیا میں تباہ حال اور نکبت زدہ ہیں؟
اس سوال کا مختصر جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ اوّل تو آپ نماز پڑھتے ہی نہیں اورپڑھتے بھی ہیں تو اس طریقے سے نہیں پڑھتے جو خدا اور رسولؐ نے بتایا ہے۔ اس لیے ان فائدوں کی توقع آپ نہیں کر سکتے جو مومن کو معراجِ کمال تک پہنچانے والی نماز سے پہنچنے چاہییں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ صرف اتنا سا جواب آپ کو مطمئن نہیں کر سکتا، اس لیے ذرا تفصیل کے ساتھ آپ کو یہ بات سمجھائوں گا۔
ایک مثال ___ گھڑی
یہ گھنٹہ{ FR 1619 } جو آپ کے سامنے لٹک رہا ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ اس میں بہت سے پُرزے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ جب اس کو کُوک{ FR 1620 } دی جاتی ہے تو سب پُرزے اپنا اپنا کام شروع کر دیتے ہیں اور ان کے حرکت کرنے کے ساتھ ہی باہر کے سفید تختے پر ان کی حرکت کا نتیجہ ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے، یعنی گھنٹے کی دونوں سوئیاں چل کر ایک ایک سیکنڈ اور ایک ایک منٹ بتانے لگتی ہیں۔ اب آپ ذرا غور کی نگاہ سے دیکھیے۔ گھنٹے کے بنانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ صحیح وقت بتائے۔ اسی مقصد کے لیے گھنٹے کی مشین میں وہ سب پرزے جمع کیے گئے جو صحیح وقت بتانے کے لیے ضروری تھے۔ پھر ان سب کواس طرح جوڑا گیاکہ سب مل کرباقاعدہ حرکت کریں اور ہر پُرزہ وہی کام اور اتنا ہی کام کرتا چلا جائے جتنا صحیح وقت بتانے کے لیے اس کو کرنا چاہیے۔ پھر کوک دینے کا قاعدہ مقرر کیا گیا تاکہ ان پُرزوں کو ٹھیرنے نہ دیا جائے اور تھوڑی تھوڑی مدت کے بعد ان کو حرکت دی جاتی رہے۔ اس طرح جب تمام پُرزوں کو ٹھیک ٹھیک جوڑا گیا اور ان کو کوک دی گئی تب کہیں یہ گھنٹہ اس قابل ہوا کہ وہ مقصد پورا کرے جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے۔ اگر آپ اسے کوک نہ دیں تو یہ وقت نہیں بتائے گا۔ اگر آپ کوک دیں، لیکن اس قاعدے کے مطابق نہ دیں جو کوک دینے کے لیے مقرر کیا گیا ہے، تو یہ بند ہو جائے گا، یا چلے گا بھی تو صحیح وقت نہ بتائے گا۔ اگر آپ اس کے بعض پُرزے نکال ڈالیں اور پھر کوک دیں تو اس کوک سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ اگر آپ اس کے بعض پُرزوں کو نکال کر اس کی جگہ سنگر مشین کے پُرزے لگا دیں اور پھر کوک دیں تو یہ نہ وقت بتائے گا اور نہ کپڑا ہی سیئے گا۔ اگر آپ اس کے سارے پُرزے اس کے اندر ہی رہنے دیں لیکن ان کو کھول کر ایک دوسرے سے الگ کر دیں تو کوک دینے سے کوئی پُرزہ بھی حرکت نہ کرے گا۔ کہنے کو سارے پُرزے اس کے اندر موجود ہوں گے، مگر محض پُرزوں کے موجود رہنے سے وہ مقصد حاصل نہ ہو گا جس کے لیے گھنٹہ بنایا گیا ہے، کیوں کہ ان کی ترتیب اور ان کا آپس کا تعلق آپ نے توڑ دیا ہے جس کی وجہ سے وہ مل کر حرکت نہیں کر سکتے۔ یہ سب صورتیں جو میں نے آپ سے بیان کی ہیں ان میں اگرچہ گھنٹے کی ہستی اور اس کو کوک دینے کا فعل دونوںبے کار ہو جاتے ہیں، لیکن دُور سے دیکھنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ گھنٹہ نہیں ہے، یا آپ کوک نہیں دے رہے ہیں۔ وہ تو یہی کہے گا کہ صورت بالکل گھنٹے جیسی ہے، اور یہی امید کرے گا کہ گھنٹے کا جو فائدہ ہے وہ اس سے حاصل ہونا چاہیے۔ اسی طرح دُور سے جب وہ آپ کو کوک دیتے ہوئے دیکھے گا تو یہی خیال کرے گا کہ آپ واقعی گھنٹے کو کوک دے رہے ہیں، اور یہی توقع کرے گا کہ گھنٹے کو کوک دینے کا جو نتیجہ ہے وہ ظاہر ہونا چاہیے۔ لیکن یہ توقع پوری کیسے ہو سکتی ہے، جب کہ یہ گھنٹہ بس دُور سے دیکھنے ہی کا گھنٹہ ہے اور حقیقت میں اس کے اندرگھنٹہ پن باقی نہیں رہا ہے۔
اُ مّتِ مسلمہ کا مقصد
یہ مثال جو میں نے آپ کے سامنے بیان کی ہے۔ اس سے آپ سارا معاملہ سمجھ سکتے ہیں۔ اسلام کو اسی گھنٹے پر قیاس کر لیجیے۔ جس طرح گھنٹے کا مقصد صحیح وقت بتانا ہے اِسی طرح اسلام کا مقصد یہ ہے کہ زمین میں آپ خدا کے خلیفہ، خلق پر خدا کے گواہ، اور دنیا میں دعوتِ حق کے علم بردار بن کر رہیں، خود خدا کے حکم پر چلیں، سب پر خدا کا حکم چلائیں، اور سب کو خدا کے قانون کا تابع بنا کر رکھیں۔ اس مقصد کو صاف طور پر قرآن میں بیان کر دیا گیا ہے کہ:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۰ۭ (آل عمران 3:110)
تم وہ بہترین امت ہو جسے نوعِ انسانی کے لیے نکالا گیا ہے۔ تمھارا کام یہ ہے کہ سب انسانوں کو نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور اللہ پر ایمان رکھو۔
وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ 2:143)
اور اس طرح ہم نے تم کو بہترین امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پرگواہ ہو۔
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ
(النور24: 55)
اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ضرور ان کو زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا۔
وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ۰ۚ (الانفال8:39)
اور لوگوں سے جنگ کرو یہاں تک کہ غیر اللہ کی بندگی کا فتنہ مٹ جائے اور اطاعت پوری کی پوری صرف اللہ کے لیے ہو۔
اسلامی احکام باہم مربوط ہیں جیسے گھڑی کے پُرزے
اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے گھنٹے کے پرزوں کی طرح اسلام میں بھی وہ تمام پرزے جمع کیے گئے ہیں جو اس غرض کے لیے ضروری اور مناسب تھے۔ دین کے عقاید واخلاق کے اصول، معاملات کے قاعدے، خدا کے حقوق، بندوں کے حقوق، خود اپنے نفس کے حقوق، دنیا کی ہر چیز کے حقوق جس سے آپ کو واسطہ پیش آتا ہے، کمانے کے قاعدے اور خرچ کرنے کے طریقے، جنگ کے قانون اور صلح کے قاعدے، حکومت کرنے کے قوانین اور حکومتِ اسلامی کی اطاعت کرنے کے ڈھنگ، یہ سب اسلام کے پرزے ہیں اور ان کو گھڑی کے پُرزوں کی طرح ایک ایسی ترتیب سے ایک دوسرے کے ساتھ کسا گیا ہے کہ جونہی اس میں کوک دی جائے، ہرپُرزہ دوسرے پُرزوں کے ساتھ مل کر حرکت کرنے لگے۔ اور ان سب کی حرکت سے اصل نتیجہ، یعنی اسلام کا غلبہ اور دنیا پرخدائی قانون کا تسلط اس طرح مسلسل ظاہر ہونا شروع ہو جائے جس طرح اس گھنٹے کو آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس کے پُرزوں کی حرکت کے ساتھ ہی باہر کے سفید تختے پر نتیجہ برابر ظاہر ہوتا چلا جاتا ہے۔ گھڑی میں پُرزوں کو ایک دوسروں کے ساتھ باندھے رکھنے کے لیے چند کیلیں اور چند پتریاں لگائی گئی ہیں۔ اسی طرح اسلام کے تمام پُرزوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جڑا رکھنے اور ان کی صحیح ترتیب قائم رکھنے کے لیے وہ چیز رکھی گئی ہے جس کو نظامِ جماعت کہا جاتا ہے، یعنی مسلمانوں کا ایک ایسا سردار جو دین کا صحیح علم اور تقویٰ کی صفت رکھتا ہو۔ جماعت کے دماغ مل کر اس کی مدد کریں، جماعت کے ہاتھ پائوں اس کی اطاعت کریں، ان سب کی طاقت سے وہ اسلام کے قوانین نافذ کرے اور لوگوں کو اُن قوانین کی خلاف ورزی سے روکے۔ اس طریقے سے جب سارے پُرزے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جائیں اور ان کی ترتیب ٹھیک ٹھیک قائم ہو جائے، تو ان کو حرکت دینے اور دیتے رہنے کے لیے کوک کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہی کوک یہ نماز ہے جو ہر روز پانچ وقت پڑھی جاتی ہے۔ پھر اس گھڑی کو صاف کرتے رہنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ صفائی یہ روزے ہیں جو سال بھر میں تیس دن رکھے جاتے ہیں، اور اس گھڑی کو تیل دیتے رہنے کی بھی ضرورت ہے، سو زکوٰۃ وہ تیل ہے جو سال بھر میں ایک مرتبہ اس کے پُرزوں کو دیا جاتا ہے۔ یہ تیل کہیں باہر سے نہیں آتا بلکہ اسی گھڑی کے بعض پُرزے تیل بناتے ہیں اور بعض سوکھے ہوئے پُرزوں کو روغن دار کرکے آسانی کے ساتھ چلنے کے قابل بنا دیتے ہیں۔ پھر اسے کبھی کبھی اوور ہال{ FR 1621 } کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے، سو وہ اوور ہالنگ حج ہے جو عمر میں ایک مرتبہ کرنا ضروری ہے، اور اس سے زیادہ جتنا کیا جا سکے اتنا ہی بہتر ہے۔
متفرق پُرزوں کا جوڑ کار آمد نہیں
اب آپ غور کیجیے کہ یہ کُوک دینا اور صفائی کرنا اور تیل دینا اور اوور ہال کرنا اسی وقت تو مفید ہو سکتا ہے جب اس فریم میں اسی گھڑی کے سارے پُرزے موجود ہوں، ایک دوسرے کے ساتھ اسی ترتیب سے جڑے ہوئے ہوں جس سے گھڑی ساز نے انھیں جوڑا تھا، اور ایسے تیار رہیں کہ کوک دیتے ہی اپنی مقررہ حرکت کرنے لگیں اور حرکت کرتے ہی نتیجہ دکھانے لگیں۔ لیکن یہاں معاملہ ہی کچھ دوسرا ہو گیا ہے۔ اوّل تو وہ نظامِ جماعت ہی باقی نہیں رہا جس سے اس گھڑی کے پرزوں کو باندھا گیا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سارے پیچ ڈھیلے ہو گئے اور پُرزہ پُرزہ الگ ہو کر بکھر گیا۔ اب جو جس کے جی میں آتا ہے کرتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں، ہر شخص مختار ہے۔ اس کا دل چاہے تو اسلام کے قانون کی پیروی کرے، اور نہ چاہے تو نہ کرے۔ اس پر بھی آپ لوگوں کا دل ٹھنڈا نہ ہوا تو آپ نے اس گھڑی کے بہت سے پُرزے نکال ڈالے اوران کی جگہ ہر شخص نے اپنی اپنی پسند کے مطابق جس دوسری مشین کا پرزہ چاہا لا کر اس میں فِٹ کر دیا۔ کوئی صاحب سنگر مشین کا پُرزہ پسند کرکے لے آئے، کسی صاحب کو آٹا پیسنے کی چکی کا کوئی پُرزہ پسند آ گیا تو وہ اسے اٹھا لائے، اور کسی صاحب نے موٹر لاری کی کوئی چیز پسند کی تو اسے لا کر اس گھڑی میں لگا دیا۔ اب آپ مسلمان بھی ہیں اور بینک سے سودی کاروبار بھی چل رہا ہے۔ انشورنس کمپنی میں بیمہ بھی کرا رکھا ہے۔ انگریزی عدالتوں میں جھوٹے مقدمے بھی کر رہے ہیں، کفر کی وفادارانہ خدمت بھی ہو رہی ہے، بیٹیوں اور بہنوں اور بیویوں کو میم صاحب بھی بنایا جا رہا ہے، بچوں کو مادّہ پرستانہ تعلیم بھی دی جا رہی ہے۔ گاندھی{ FR 1622 } صاحب کی پیروی بھی ہو رہی ہے اور لینن{ FR 1623 } صاحب کے راگ بھی گائے جا رہے ہیں۔ غرض کوئی غیر اسلامی چیز ایسی نہیں رہی جسے ہمارے بھائی مسلمانوں نے لا لا کر اسلام کی اس گھڑی کے فریم میں ٹھونس نہ دیا ہو۔
غیر متوقع نتائج کے مخاطب
یہ سب حرکتیں کرنے کے بعد اب آپ چاہتے ہیں کہ کوک دینے سے یہ گھڑی چلے اور وہی نتیجہ دکھائے جس کے لیے اس گھڑی کو بنایا گیا تھااور صفائی کرنے اور تیل دینے اور اوورہال کرنے سے وہی فائدے ہوں جو ان کاموں کے لیے مقرر ہیں، مگر ذرا عقل سے آپ کام لیں تو بآسانی آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جو حال آپ نے اس گھڑی کا کر دیا ہے اس میں تو عمربھر کوک دینے اور صفائی کرنے اورتیل دیتے رہنے سے بھی کچھ نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ جب تک آپ باہر سے آئے ہوئے تمام پرزوں کو نکال کر اس کے اصلی پرزے اس میں نہ رکھیں گے، اور پھر ان پُرزوں کو اسی ترتیب کے ساتھ جوڑ کر کس نہ دیں گے جس طرح ابتدا میں انھیں جوڑا اور کسا گیا تھا، آپ ہرگز ان نتائج کی توقع نہیں کر سکتے جو اس سے کبھی ظاہر ہوئے تھے۔
عبادات بے اثر ہونے کی اصل وجہ
خوب سمجھ لیجیے کہ یہ اصلی وجہ ہے آپ کی نمازوں اور روزوں اور زکوٰۃ اور حج کے بے نتیجہ ہو جانے کی۔ اوّل تو آپ میں سے نمازیں پڑھنے والے اور روزے رکھنے والے اور زکوٰۃ اور حج ادا کرنے والے ہیں ہی کتنے۔ نظامِ جماعت کے بکھر جانے سے ہر شخص مختارِ مطلق ہو گیا ہے۔چاہے ان فرائض کو ادا کرے، چاہے نہ کرے، کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ پھر جو لوگ انھیں ادا کرتے ہیں وہ بھی کس طرح کرتے ہیں؟ نماز میں جماعت کی پابندی نہیں، اور اگرجماعت کی پابندی ہے بھی تو مسجدوں کی امامت کے لیے ان لوگوں کو چنا جاتا ہے جو دنیا میں کسی اور کام کے قابل نہیں ہوتے۔ مسجد کی روٹیاں کھانے والے، جاہل، کم حوصلہ اور پست اخلاق لوگوں کو آپ نے اس نماز کا امام بنایا ہے جو آپ کو خدا کا خلیفہ اور دنیا میں خدائی فوج دار بنانے کے لیے مقرر کی گئی تھی۔ اسی طرح روزے اور زکوٰۃ اور حج کا جو حال ہے و ہ بھی ناقابل بیان ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود آپ کہہ سکتے ہیں کہ اب بھی بہت سے مسلمان اپنے فرائض ِ دینی بجا لانے والے ضرور ہیں، لیکن جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں، گھڑی کا پُرزہ پُرزہ الگ کرکے اور اس میں باہر کی بیسیوں چیزیں داخل کرکے آپ کا کوک دینا اور نہ دینا، صفائی کرنا اور نہ کرنا، تیل دینا اور نہ دینا، دونوں بے نتیجہ ہیں۔ آپ کی یہ گھڑی دُور سے گھڑی ہی نظر آتی ہے۔ دیکھنے والا یہی کہتا ہے کہ یہ اسلام ہے اور آپ مسلمان ہیں۔ آپ جب اس گھڑی کو کوک دیتے اور صفائی کرتے ہیں تو دُور سے دیکھنے والا یہی سمجھتا ہے کہ واقعی آپ کوک دے رہے اور صفائی کر رہے ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ نماز نماز نہیں ہے، یا یہ روزے روزے نہیں ہیں، مگر دیکھنے والوں کو کیا خبر کہ اس ظاہری فریم کے اندر کیا کچھ کارستانیاں کی گئی ہیں۔
ہماری افسوس ناک حالت
برادرانِ اسلام! میں نے آپ کو اصلی وجہ بتا دی ہے کہ آپ کے یہ مذہبی اعمال آج کیوں بے نتیجہ ہو رہے ہیں اور کیا وجہ ہے کہ نمازیں پڑھنے اور روزے رکھنے کے باوجود آپ خدائی فوج دار بننے کے بجائے کفار کے قیدی اور ہر ظالم کے تختۂ مشق بنے ہوئے ہیں۔ لیکن آپ اگر برا نہ مانیں تو میں آپ کو اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات بتائوں۔ آپ کو اپنی اس حالت کا رنج اور اپنی مصیبت کا احساس تو ضرور ہے، مگر آپ کے اندر ہزارمیں سے نو سو ننانوے بلکہ اس سے بھی زیادہ لوگ ایسے ہیں جو اس حالت کو بدلنے کی صحیح صورت کے لیے راضی نہیں ہیں۔ وہ اسلام کے اس گھنٹے کو جس کا پُرزہ پُرزہ اندر سے الگ کر دیا گیا ہے اور جس میں اپنی اپنی پسند کے مطابق ہر شخص نے کوئی نہ کوئی چیز ملا رکھی ہے، ازسرِ نو مرتب کرنا برداشت نہیں کر سکتے۔ کیونکہ جب اس میں سے بیرونی چیزیں نکالی جائیں گی تو لامحالہ ہر ایک کی پسند کی چیز نکالی جائے گی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ دوسروں کی پسند کی چیزیںتو نکال دی جائیں، مگر آپ نے خود باہر کا جو پُرزہ لگا رکھا ہو اسے رہنے دیا جائے۔ اسی طرح جب اسے کسا جائے گا تو سب ہی اس کے ساتھ کسے جائیں گے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ اور سب تو کَس دیے جائیں، مگر صرف ایک آپ ہی ایسے پُرزے ہوں جسے ڈھیلا چھوڑ دیا جائے۔ بس یہی وہ چیز ہے کہ جب اس کو کسا جائے گا تو وہ خود بھی اس کے ساتھ کسے جائیں گے، اور یہ ایسی مشقت ہے جسے برضا ورغبت گوارا کرنا لوگوں کے لیے مشکل ہے۔ اس لیے وہ بس یہ چاہتے ہیں کہ یہ گھنٹہ اسی حال میں دیوار کی زینت بنا رہے اور دُور سے لا لا کر لوگوں کو اس کی زیارت کرائی جائے، اور انھیں بتایا جائے کہ اس گھنٹے میں ایسی اور ایسی کرامات چھپی ہوئی ہیں۔ اس سے بڑھ کر جو لوگ کچھ زیادہ اس گھنٹے کے ہوا خواہ ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اسی حالت میں اس کو خوب دل لگا لگا کر کوک دی جائے اور نہایت تن دہی کے ساتھ اس کی صفائی کی جائے، مگر حاشا کہ اس کے پُرزوں کو مرتب کرنے اور کسنے اور بیرونی پُرزے نکال پھینکنے کا ارادہ نہ کیا جائے۔
کاش! میں آپ کی ہاں میں ہاں ملا سکتا، مگر میں کیا کروں کہ جو کچھ میں جانتا ہوں اس کے خلاف نہیں کہہ سکتا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جس حالت میں آپ اس وقت ہیں اس میں پانچ وقت کی نمازوں کے ساتھ تہجد اور اشراق اور چاشت بھی آپ پڑھنے لگیں، اورپانچ پانچ گھنٹے روزانہ قرآن بھی پڑھیں، اور رمضان شریف کے علاوہ گیارہ مہینوں میں ساڑھے پانچ مہینوں کے مزید روزے بھی رکھ لیا کریں تب بھی کچھ حاصل نہ ہو گا۔ گھڑی کے اندر اس کے اصلی پرزے رکھے ہوں اور انھیں کَس دیا جائے تب تو ذرا سی کوک بھی اس کو چلا دے گی، تھوڑا سا صاف کرنا اور ذرا سا تیل دینا بھی نتیجہ خیز ہو گا، ورنہ عمر بھر کوک دیتے رہیے، گھڑی نہ چلتی ہے نہ چلے گی۔ وَمَا عَلَیْنَا اِلاَّالْبَلَاغ۔
خ خ خ
باب چہارم
روزہ
* روزہ
* روزے کا اصل مقصد
ہر امت پر روزہ فرض کیا گیا
برادرانِ اسلام! دوسری عبادت جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرض کی ہے روزہ ہے۔ روزے سے مراد یہ ہے کہ صبح سے شام تک آدمی کھانے پینے اور مباشرت سے پرہیز کرے۔ نماز کی طرح یہ عبادت بھی ابتدا سے تمام پیغمبروں کی شریعت میں فرض رہی ہے۔ پچھلی جتنی امتیں گزری ہیں سب اسی طرح روزے رکھتی تھیں جس طرح امتِ محمدیؐ رکھتی ہے، البتہ روزے کے احکام اور روزوں کی تعداد اور روزے رکھنے کے زمانے میں شریعتوں کے درمیان فرق رہا ہے۔ آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر مذاہب میں روزہ کسی نہ کسی شکل میں ضرور موجود ہے، اگرچہ لوگوں نے اپنی طرف سے بہت سی باتیں ملا کر اس کی شکل بگاڑ دی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ
( البقرہ 2:183)
یعنی اے مسلمانو! تم پر روزہ اسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جتنی شریعتیں آئی ہیں وہ کبھی روزے کی عبادت سے خالی نہیں رہی ہیں۔
روزہ کیوں فرض کیا گیا؟
غور کیجیے کہ آخر روزے میں کیا بات ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس عبادت کو ہر زمانے میں فرض کیا ہے؟
مقصدِ زندگی___ بندگیٔ رب
اس سے پہلے کئی مرتبہ آپ سے بیان کر چکا ہوں کہ اسلام کا اصل مقصد انسان کی پوری زندگی کو اللہ تعالیٰ کی عبادت بنا دینا ہے۔ انسان عبد، یعنی بندہ پیدا ہوا ہے اور عبدیت، یعنی بندگی اس کی عین فطرت ہے۔ اس لیے عبادت، یعنی خیال وعمل میں اللہ کی بندگی کرنے سے کبھی ایک لمحے کے لیے بھی اس کو آزاد نہ ہونا چاہیے۔ اسے اپنی زندگی کے ہر معاملے میں ہمیشہ اور ہر وقت یہ دیکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کس چیز میں ہے اور اس کا غضب اور ناراضی کس چیز میں۔ پھر جس طرف اللہ کی رضا ہو اُدھر جانا چاہیے اور جس طرف اس کا غضب اور اس کی ناراضی ہو اس سے یوں بچنا چاہیے جیسے آگ کے انگارے سے کوئی بچتا ہے۔ جو طریقہ اللہ نے پسند کیا ہو اس پر چلنا چاہیے اور جس طریقے کو اس نے پسند نہ کیا ہو اس سے بھاگنا چاہیے۔ جب انسان کی ساری زندگی اس رنگ میں رنگ جائے تب سمجھو کہ اس نے اپنے مالک کی بندگی کا حق ادا کیا اور وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo { FR 1625 } کا منشا پورا ہو گیا۔
عبادات___ بندگی کی تربیت
یہ بات بھی اس سے پہلے میں بیان کر چکا ہوں کہ نماز، روزے، حج اور زکوٰۃ کے نام سے جو عبادتیں ہم پر فرض کی گئی ہیں ان کا اصل مقصد اسی بڑی عبادت کے لیے ہم کو تیار کرنا ہے۔ ان کو فرض کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر تم نے دن میں پانچ وقت رکوع اور سجدہ کر لیا، اور رمضان میں تیس دن تک صبح سے شام تک بھوک پیاس برداشت کر لی اور مال دار ہونے کی صورت میں سالانہ زکوٰۃ اور عمر میں ایک مرتبہ حج ادا کر دیا، تو اللہ کا جو کچھ حق تم پر تھا وہ ادا ہو گیا اور اس کے بعد تم اس کی بندگی سے آزاد ہو گئے کہ جوچاہو کرتے پھرو، بلکہ دراصل ان عبادتوں کو فرض کرنے کی غرض یہی ہے کہ ان کے ذریعے سے آدمی کی تربیت کی جائے اور اس کو اس قابل بنا دیا جائے کہ اس کی پوری زندگی اللہ کی عبادت بن جائے۔ آئیے اب اسی مقصد کو سامنے رکھ کر ہم دیکھیں کہ روزہ کس طرح آدمی کو اس بڑی عبادت کے لیے تیار کرتا ہے؟
روزہ مخفی عبادت ہے
روزے کے سوادوسری جتنی عبادتیں ہیں وہ کسی نہ کسی ظاہری حرکت سے ادا کی جاتی ہیں، مثلاً نماز میں آدمی اٹھتا اور بیٹھتا اور رکوع اور سجدہ کرتا ہے جس کو ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔ حج میں ایک لمبا سفرکرکے جاتا ہے اور پھر ہزاروں لاکھوں آدمیوں کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ زکوٰۃ بھی کم از کم ایک شخص دیتا ہے اور دوسرا شخص لیتا ہے۔ ان سب عبادتوں کا حال چھپ نہیں سکتا۔ اگر آپ ادا کرتے ہیں تب بھی دوسروں کو معلوم ہو جاتا ہے، اگر ادا نہیں کرتے تب بھی لوگوں کو خبرہو ہی جاتی ہے۔ اس کے برخلاف روزہ ایسی عبادت ہے جس کا حال خدا اور بندے کے سوا کسی دوسرے پر نہیں کھل سکتا۔ ایک شخص سب کے سامنے سحری کھائے اور افطار کے وقت تک ظاہر میں کچھ نہ کھائے پیے، مگر چھپ کر پانی پی جائے یا کچھ چوری چھپے کھا پی لے، تو خدا کے سوا کسی کو بھی اس کی خبر نہیں ہو سکتی۔ ساری دنیا یہی سمجھتی رہے گی کہ وہ روزے سے ہے اور وہ حقیقت میں روزے سے نہ ہو گا۔
روزہ ___ ایمان کی مضبوطی کی علامت
روزے کی اس حیثیت کو سامنے رکھو، پھر غور کرو کہ جو شخص حقیقت میں روزے رکھتا ہے اور اس میں چوری چھپے بھی کچھ نہیں کھاتا پیتا، سخت گرمی کی حالت میں بھی، جب کہ پیاس سے حلق چٹخا جاتا ہو، پانی کا ایک قطرہ حلق سے نیچے نہیں اتارتا۔ سخت بھوک کی حالت میں بھی، جب کہ آنکھوں میں دم آ رہا ہو کوئی چیز کھانے کا ارادہ تک نہیں کرتا، اسے اللہ تعالیٰ کے عالم الغیب ہونے پر کتنا ایمان ہے۔ کس قدر زبردست یقین کے ساتھ وہ جانتا ہے کہ اس کی کوئی حرکت چاہے ساری دنیا سے چھپ جائے مگر اللہ سے نہیں چھپ سکتی۔ کیسا خوفِ خدا اس کے دل میں ہے کہ بڑی سے بڑی تکلیف اٹھاتا ہے، مگر صرف اللہ کے خوف کی وجہ سے کوئی ایسا کام نہیں کرتا جو اس کے روزے کو توڑنے والا ہو۔ کس قدر مضبوط اعتقاد ہے اُس کو آخرت کی جزا وسزا پر کہ مہینے بھر میں وہ کم از کم تین سو ساٹھ گھنٹے کے روزے رکھتا ہے اور اس دوران میں کبھی ایک لمحے کے لیے بھی اس کے دل میں آخرت کے متعلق شک کا شائبہ تک نہیں آتا۔ اگر اُسے اس بات میں ذرا سا بھی شک ہوتا کہ آخرت ہو گی یا نہ ہو گی اور اس میں عذاب وثواب ہو گا یا نہ ہو گا تو وہ کبھی اپنا روزہ پورا نہیں کرسکتا۔ شک کی فطرت یہی ہے کہ وہ آدمی کے ارادے کو متزلزل کر دیتا ہے۔ لہٰذا شک آنے کے بعد یہ ممکن نہیں ہے کہ آدمی خدا کے حکم کی تعمیل میں کچھ نہ کھانے اور نہ پینے کے ارادے پر قائم رہ جائے۔
ایک ماہ کی مسلسل ٹریننگ
اس طرح اللہ تعالیٰ ہر سال کامل ایک مہینے تک مسلمان کے ایمان کو مسلسل آزمائش میں ڈالتا ہے، اور اس آزمائش میں جتناجتنا آدمی پورا اترتا جاتا ہے اتنا ہی اس کا ایمان مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ یہ گویا آزمائش کی آزمائش ہے اور ٹریننگ کی ٹریننگ۔ آپ جب کسی شخص کے پاس امانت رکھواتے ہیں تو گویا اس کی ایمان داری کی آزمائش کرتے ہیں۔ اگروہ اس آزمائش میں پورا اترے اور امانت میں خیانت نہ کرے تو اس کے اندر امانتوں کا بوجھ سنبھالنے کی اور زیادہ طاقت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ زیادہ امین بنتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی مسلسل ایک مہینے تک روزانہ بارہ بارہ چودہ چودہ گھنٹے تک آپ کے ایمان کو کڑی آزمائش میں ڈالتا ہے، اور جب اس آزمائش میں آپ پورے اترتے ہیں تو آپ کے اندر اس بات کی مزید قابلیت پیدا ہونے لگتی ہے کہ اللہ سے ڈر کر دوسرے گناہوں سے بھی پرہیز کریں، اللہ کو عالم الغیب جان کر چوری چھپے بھی اس کے قانون کو توڑنے سے بچیں اور ہر موقع پر قیامت کا وہ دن آپ کو یاد آ جایا کرے جب سب کچھ کھل جائے گا اور بغیر کسی رو رعایت کے بھلائی کا بھلا اور برائی کا برا بدلہ ملے گا۔ یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo (البقرہ 2:183)
اے اہل ایمان! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔ شاید کہ تم پرہیز گار بن جائو۔
اطاعت کی طویل مشق
روزے کی ایک دوسری خصوصیت بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ یہ ایک لمبی مدت تک شریعت کے احکام کی لگاتار اطاعت کراتا ہے۔ نماز کی مدت ایک وقت میں چند منٹ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ زکوٰۃ ادا کرنے کا وقت سال بھر میں صرف ایک مرتبہ آتا ہے۔ حج میں البتہ لمبی مدت صَرف ہوتی ہے، مگر اس کا موقع عمر بھر میں ایک دفعہ آتا ہے اور وہ بھی سب کے لیے نہیں۔ ان سب کے برخلاف روزہ ہر سال پورے ایک مہینے تک شب وروز شریعتِ محمدیؐ کے اتباع کی مشق کراتا ہے۔ صبح سحری کے لیے اٹھو، ٹھیک فلاں وقت پر کھاناپینا سب بند کر دو۔ دن بھر فلاں فلاں کام کر سکتے ہو اور فلاں فلاں کام نہیں کر سکتے۔ شام کو ٹھیک فلاں وقت پر افطار کرو، پھر کھانا کھا کرآرام کر لو، پھر تراویح کے لیے دوڑو۔ اس طرح ہر سال کامل مہینہ بھر صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک مسلمان کو مسلسل فوجی سپاہیوں کی طرح پورے قاعدے اور ضابطے میں باندھ کر رکھا جاتا ہے اور پھر گیارہ مہینے کے لیے اسے چھوڑ دیا جاتا ہے، تاکہ جو تربیت اس ایک مہینے میں اس نے حاصل کی ہے اس کے اثرات ظاہر ہوں، اور جو کمی پائی جائے وہ پھر دوسرے سال کی ٹریننگ میں پوری کی جائے۔
تربیت کے لیے سازگار اجتماعی ماحول
اس قسم کی تربیت کے لیے ایک ایک شخص کو الگ الگ لے کر تیارکرنا کسی طرح موزوں نہیں ہوتا۔ فوج میں بھی آپ دیکھتے ہیں کہ ایک ایک شخص کو الگ الگ قواعد نہیں کرائی جاتی بلکہ پوری فوج کی فوج ایک ساتھ قواعد کرتی ہے۔ سب کو ایک وقت پر بگل کی آواز پر اٹھنا اور بگل کی آواز پر کام کرنا ہوتا ہے، تاکہ ان میں جماعت بن کر متفقہ کام کرنے کی عادت ہو، اور اس کے ساتھ ہی وہ سب ایک دوسرے کی تربیت میں مددگار بھی ہوں، یعنی ایک شخص کی تربیت میں جو کچھ نقص رہ جائے اس کی کمی کو دوسرا اوردوسرے کی کمی کو تیسرا پورا کر دے۔ اسی طرح اسلام میں بھی رمضان کا مہینہ روزے کی عبادت کے لیے مخصوص کیا گیا اور تمام مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ایک وقت میں سب کے سب مل کر روزہ رکھیں۔ اس حکم نے انفرادی عبادت کو اجتماعی عبادت بنا دیا۔ جس طرح ایک کے عدد کو لاکھ سے ضرب دو تو لاکھ کا زبردست عدد بن جاتا ہے۔ اس طرح ایک ایک شخص کے روزہ رکھنے سے جو اخلاقی اور روحانی فائدے ہو سکتے ہیں، لاکھوں کروڑوں آدمیوں کے مل کر روزہ رکھنے سے وہ لاکھوں کروڑوں گُنے زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔
رمضان کا مہینہ پوری فضا کو نیکی اور پرہیزگاری کی رُوح سے بھر دیتا ہے۔ پوری قوم میں گویا تقویٰ کی کھیتی سر سبز ہو جاتی ہے۔ ہر شخص نہ صرف خود گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، بلکہ اگر اس میں کوئی کمزوری ہوتی ہے تو اس کے دوسرے بہت سے بھائی جو اسی کی طرح روزہ دار ہیں، اس کی پشت پناہ بن جاتے ہیں۔ ہر شخص کو روزہ رکھ کر گناہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے، اور ہر ایک کے دل میں خود بخود یہ خواہش ابھرتی ہے کہ کچھ بھلائی کے کام کرے، کسی غریب کو کھانا کھلائے، کسی ننگے کو کپڑا پہنائے، کسی مصیبت زدہ کی مدد کرے، کسی جگہ اگر کوئی نیک کام ہو رہا ہو تو اس میں حصہ لے اور اگر کہیں علانیہ بدی ہو رہی ہو تو اسے روکے۔ نیکی اور تقویٰ کا ایک عام ماحول پیدا ہو جاتا ہے اور بھلائیوں کے پھلنے پھولنے کا موسم آ جاتا ہے۔ جس طرح آپ دیکھتے ہیں کہ ہر غلہ اپنا موسم آنے پر خوب پھلتا پھولتا ہے اور ہر طرف کھیتوں پر چھایا ہوا نظر آتا ہے۔اسی بنا پر نبی a نے فرمایا:
کُلٌّ عَمَلِ ابْنِ اٰدَمَ یُضَاعَفُ الْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ اَمْثَالِھَا اِلٰی سَبْعِ مِائَۃِ ضِعْفٍ قَالَ اللّہُ تَعَالٰی اِلَّا الصَّوْمَ فَاِنَّہٗ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ۔ (مسلم)
آدمی کا ہر عمل خدا کے ہاں کچھ نہ کچھ بڑھتا ہے۔ایک نیکی دس گنی سے سات سو گنی تک پھلتی پھولتی ہے، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں اس کا جتنا چاہتا ہوں بدلہ دیتا ہوں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیکی کرنے والے کی نیت اور نیکی کے نتائج کے لحاظ سے تمام اعمال پھلتے پھولتے ہیں، اور ان کی ترقی کے لیے ایک حد ہے، مگر روزے کی ترقی کے لیے کوئی حد نہیں۔ رمضان چونکہ خیر اور صلاح کے پھلنے اور پھولنے کا موسم ہے، اور اس موسم میں ایک شخص نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں مسلمان مل کر اس نیکی کے باغ کو پانی دیتے ہیں۔ اس لیے یہ بے حد وحساب بڑھ سکتا ہے۔ جتنی زیادہ نیک نیتی کے ساتھ اس مہینے میں عمل کروگے، جس قدر زیادہ برکتوں سے خود فائدہ اٹھائو گے اور اپنے دوسرے بھائیوں کو فائدہ پہنچائو گے اور پھر جس قدر زیادہ اس مہینے کے اثرات بعد کے گیارہ مہینوں میں باقی رکھو گے، اتنا ہی یہ پھلے پھولے گا، اور اس کے پھلنے اور پھولنے کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ تم خود اپنے عمل سے اس کو محدود کر لو تو یہ تمھارا اپنا قصور ہے۔
عبادات کے نتائج اب کہاں ہیں؟
روزے کے یہ اثرات اور یہ نتائج سن کر آپ میں سے ہر شخص کے دل میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ یہ اثرات آج کہاں ہیں؟ ہم روزے بھی رکھتے ہیں اور نمازیں بھی پڑھتے ہیں، مگر یہ نتیجے جو تم بیان کرتے ہو ظاہر نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ تو میں آپ سے پہلے بیان کر چکا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اسلام کے اجزا کو الگ الگ کر دینے کے بعد، اور بہت سی نئی چیزیں اس میں ملا دینے کے بعد، آپ ان نتائج کی توقع نہیں کر سکتے جو پورے نظام کی بندھی ہوئی صورت ہی میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری وجہ یہ ہے کہ عبادات کے متعلق آپ کا نقطۂ نظر بدل گیا ہے۔ اب آپ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ محض صبح سے شام تک کچھ نہ کھانے اور نہ پینے کا نام عبادت ہے، اور جب یہ کام آپ نے کر لیا تو عبادت پوری ہو گئی۔ اسی طرح دوسری عبادتوں کی بھی محض ظاہری شکل کو آپ عبادت سمجھتے ہیں، اور عبادت کی اصلی روح جو آپ کے ہر عمل میں ہونی چاہیے اس سے عام طور پر آپ کے ۹۹ فی صد بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمی غافل ہیں۔ اسی وجہ سے یہ عبادات اپنے پورے فائدے نہیں دکھاتیں، کیوں کہ اسلام میں تو نیت اور فہم اور سمجھ بوجھ ہی پر سب کچھ منحصر ہے۔
ان شائ اللہ آئندہ خطبے میں اس مضمون کی پوری تشریح کروں گا۔
٭…٭…٭
روزے کا اصل مقصد
ہر کام کا ایک مقصد
برادرانِ اسلام! ہر کام جو انسان کرتا ہے، اس میں دو چیزیں لازمی طور پر ہوا کرتی ہیں۔ ایک چیز تو وہ مقصد ہے جس کے لیے کام کیا جاتا ہے، اور دوسری چیز اس کام کی وہ خاص شکل ہے جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اختیار کی جاتی ہے۔ مثلاً کھانا کھانے کے فعل کو لیجیے۔ کھانے سے آپ کا مقصد زندہ رہنا اور جسم کی طاقت کو بحال رکھنا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی صورت یہ ہے کہ آپ نوالے بناتے ہیں، منہ میں لے جاتے ہیں، دانتوں سے چباتے ہیں اور حلق کے نیچے اتارتے ہیں۔ چونکہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ کارگر اور سب سے زیادہ مناسب طریقہ یہی ہو سکتا تھا، اس لیے آپ نے اسی کو اختیار کیا۔ لیکن آپ میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ اصل چیز وہ مقصد ہے جس کے لیے کھانا کھایا جاتا ہے، نہ کہ کھانے کے فعل کی یہ صورت۔
اگر کوئی شخص لکڑی کا برادہ یا راکھ یا مٹی لے کر اس کے نوالے بنائے اور منہ میں لے جائے اور دانتوں سے چبا کر حلق سے نیچے اتار لے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ یہی نا کہ اس کا دماغ خراب ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ احمق کھانے کے اصل مقصد کو نہیں سمجھتا اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ بس فعلِ خوردن کے ان چاروں ارکان کو ادا کر دینے ہی کا نام کھانا کھانا ہے۔
اسی طرح آپ اس شخص کو بھی پاگل قرار دیں گے جو روٹی کھانے کے بعد فوراً ہی حلق میں انگلی ڈال کر قے کر دیتا ہو، اور پھر شکایت کرتا ہو کہ روٹی کھانے کے جو فائدے بیان کیے جاتے ہیں وہ مجھے حاصل ہی نہیں ہوتے، بلکہ میں تو الٹا روز بروز دبلا ہوتا جا رہا ہوں اور مر جانے کی نوبت آ گئی ہے۔ یہ احمق اپنی اس کمزوری کا الزام روٹی اور کھانے پر رکھتا ہے حالانکہ حماقت اس کی اپنی ہے۔ اس نے اپنی نادانی سے یہ سمجھ لیا کہ کھانے کا فعل جتنے ارکان سے مرکب ہے بس ان کو ادا کر دینے ہی سے زندگی کی طاقت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس لیے اس نے سوچا کہ اب روٹی کا بوجھ اپنے معدے میں کیوں رکھو؟ کیوں نہ اسے نکال پھینکا جائے تاکہ پیٹ ہلکا ہو جائے۔ کھانے کے ارکان تو میں ادا کر ہی چکا ہوں۔
یہ احمقانہ خیال جو اس نے قائم کیا اور پھر اس کی پیروی کی، اس کی سزا بھی تو آخر اسی کو بھگتنی چاہیے۔ اس کو جاننا چاہیے تھا کہ جب تک روٹی پیٹ میں جا کر ہضم نہ ہو، اور خون بن کر سارے جسم میں پھیل نہ جائے اس وقت تک زندگی کی طاقت حاصل نہیں ہو سکتی۔ کھانے کے ظاہری ارکان بھی اگرچہ ضروری ہیں، کیوں کہ ان کے بغیر روٹی معدے تک نہیں پہنچ سکتی، مگر محض ان ظاہری ارکان کے ادا کر دینے سے کام نہیں چل سکتا۔ ان ارکان میں کوئی جادو بھرا ہوا نہیں ہے کہ انھیں ادا کرنے سے بس طلسماتی طریقے پرآدمی کی رگوں میں خون دوڑنے لگتا ہو۔ خون پیدا کرنے کے لیے تو اللہ نے جو قانون بنایا ہے اسی کے مطابق وہ پیدا ہو گا۔ اس کو توڑو گے تو اپنے آپ کو خود ہلاک کرو گے۔
ظاہر کو حقیقت سمجھنے کے نتائج
یہ مثال جو اس تفصیل کے ساتھ میں نے آپ کے سامنے بیان کی ہے اس پر آپ غور کریں تو آپ کی سمجھ میں آ سکتا ہے کہ آج آپ کی عبادتیں کیوں بے اثر ہو گئی ہیں؟ جیسا کہ میں پہلے بھی آپ سے بارہا بیان کر چکا ہوں۔ سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ آپ نے نماز روزے کے ارکان اور ان کی ظاہری صورتوں ہی کو اصل عبادت سمجھ رکھا ہے اورآپ اس خیالِ خام میں مبتلاہو گئے ہیں کہ جس نے یہ ارکان پوری طرح ادا کر دیے اس نے بس اللہ کی عبادت کر دی۔
آپ کی مثال اُسی شخص کی سی ہے جو کھانے کے چاروں ارکان، یعنی نوالے بنانا، منہ میں رکھنا، چبانا، حلق سے نیچے اتار دینا، بس انھی چاروں کے مجموعے کو کھانا سمجھتا ہے، اور یہ خیال کرتا ہے کہ جس نے یہ چارارکان ادا کر دیے اس نےکھانا کھا لیا اور کھانے کے فائدے اس کو حاصل ہونے چاہییں، خواہ اس نے ان ارکان کے ساتھ مٹی اور پتھر اپنے پیٹ میں اتارے ہوں، یا روٹی کھا کر فوراً قے کر دی ہو۔
اگر حقیقت میں آپ لوگ اس حماقت میں مبتلا نہیں ہو گئے ہیں تو مجھے بتائیے یہ کیا ماجرا ہے کہ جو روزے دار صبح سے شام تک اللہ کی عبادت میں مشغول ہوتا ہے وہ عین اس عبادت کی حالت میں جھوٹ کیسے بولتا ہے؟ غیبت کس طرح کرتا ہے؟ بات بات پر لڑتا کیوں ہے؟ اس کی زبان سے گالیاں کیوں نکلتی ہیں؟ وہ لوگوں کا حق کیسے مار کھاتا ہے؟ حرام کھانے اور حرام کھلانے کے کام کس طرح کر لیتا ہے؟ اور پھر یہ سب کام کرکے بھی اپنے نزدیک یہ کیسے سمجھتا ہے کہ میں نے خدا کی عبادت کی ہے؟ کیا اس کی مثال اس شخص کی سی نہیں ہے جو راکھ اور مٹی کھاتا ہے اور محض کھانے کے چار ارکان ادا کر دینے کو سمجھتا ہے کہ کھانا اس کو کہتے ہیں؟
رمضان کے بعد پھر بے قیدی
پھر مجھے بتائیے یہ کیا ماجرا ہے کہ رمضان بھر میں تقریباً ۳۶۰ گھنٹے خدا کی عبادت کرنے کے بعد جب آپ فارغ ہوتے ہیں تو اس پوری عبادت کے تمام اثرات شوال کی پہلی تاریخ ہی کو کافور ہو جاتے ہیں؟ ہندو اپنے تہواروں میں جو کچھ کرتے ہیں وہی سب آپ عید کے زمانے میں کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ شہروں میں تو عید کے روز بدکاری اور شراب نوشی اور قمار بازی تک ہوتی ہے، اور بعض ظالم تو میں نے ایسے دیکھے ہیں جو رمضان کے زمانے میں دن کو روزہ رکھتے ہیں اوررات کو شراب پیتے اور زنا کرتے ہیں۔ عام مسلمان خدا کے فضل سے اس قدر بگڑے ہوئے تو نہیں ہیں، مگر رمضان ختم ہونے کے بعد آپ میں سے کتنے ایسے ہیں جن کے اندر عید کے دوسرے دن بھی تقویٰ او ر پرہیز گاری کا کوئی اثر باقی رہ جاتا ہو؟ خدا کے قوانین کی خلاف ورزی میں کون سی کسر اٹھا رکھی جاتی ہے؟ نیک کاموں میں کتنا حصہ لیا جاتا ہے؟ اور نفسانیت میں کیا کمی آ جاتی ہے؟
عبادت کے غلط تصور کا نتیجہ
سوچیے اور غور کیجیے کہ اس کی وجہ آخر کیا ہے؟ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں عبادت کا مفہوم اور مطلب ہی غلط ہو گیا ہے۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سحر سے لے کر مغرب تک کچھ نہ کھانے اور نہ پینے کا نام روزہ ہے اور بس یہی عبادت ہے۔ اس لیے روزے کی تو آپ پوری حفاظت کرتے ہیں۔ خدا کا خوف آپ کے دل میں اس قدر ہوتا ہے کہ جس چیز میں روزہ ٹوٹنے کا ذرا سا اندیشہ بھی ہو اس سے بھی آپ بچتے ہیں۔ اگر جان پربھی بن جائے تب بھی آپ کو روزہ توڑنے میں تاّمل ہوتا ہے۔ لیکن آپ یہ نہیں جانتے کہ یہ بھوکا پیاسا رہنا اصل عبادت نہیں بلکہ عبادت کی صورت ہے، اور یہ صورت مقرر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ آپ کے اندر خدا کا خوف اور خدا کی محبت پیدا ہو، اور آپ کے اندر اتنی طاقت پیدا ہو جائے کہ جس چیز میں دنیا بھر کے فائدے ہوں، مگر خداناراض ہوتا ہو اس سے اپنے نفس پر جبر کرکے بچ سکیں، اور جس چیز میں ہر طرح کے خطرات اور نقصانات ہوں، مگر خدا اس سے خوش ہوتا ہو، اس پر آپ اپنے نفس کو مجبور کرکے آمادہ کر سکیں۔
یہ طاقت اسی طرح پیدا ہو سکتی تھی کہ آپ روزے کے مقصد کو سمجھتے اور مہینہ بھر تک آپ نے خداکے خوف اور خدا کی محبت میں اپنے نفس کو خواہشات سے روکنے اور خدا کی رضا کے مطابق چلانے کی جو مشق کی ہے اس سے کام لیتے، مگر آپ تو رمضان کے بعد ہی اس مشق کو اور ان صفات کو جو اس مشق سے پیدا ہوتی ہیں اس طرح نکال پھینکتے ہیں جیسے کھانے کے بعد کوئی شخص حلق میں انگلی ڈال کر قے کر دے، بلکہ آپ میں سے بعض لوگ تو روزہ کھولنے کے بعد ہی دن بھرکی پرہیز گاری کواُ گل دیتے ہیں۔ پھر آپ ہی بتائیے کہ رمضان اور اس کے روزے کوئی طلسم تو نہیں ہیں کہ بس ان کی ظاہری شکل پوری کر دینے سے آپ کو وہ طاقت حاصل ہو جائے جو حقیقت میں روزے سے حاصل ہونی چاہیے۔ جس طرح روٹی سے جسمانی طاقت اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ معدے میں جا کر ہضم نہ ہو، اور خون بن کر جسم کی رگ رگ میں نہ پہنچ جائے، اسی طرح روزے سے بھی رُوحانی طاقت اُس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک کہ آدمی روزے کے مقصد کو پوری طرح سمجھے نہیں اور اپنے دل ودماغ کے اندر اس کو اترنے اور خیال، نیت، ارادے اور عمل سب پر چھا جانے کا موقع نہ دے۔
روزہ___ متقی بننے کا ذریعہ
یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزے کا حکم دینے کے بعد فرمایا: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ’’یعنی تم پر روزہ فرض کیا جاتا ہے، شاید کہ تم متقی وپرہیز گار بن جائو۔‘‘ یہ نہیں فرمایا کہ اس سے ضرور متقی و پرہیز گار بن جائو گے۔ اس لیے کہ روزے کا یہ نتیجہ تو آدمی کی سمجھ بوجھ اور اس کے ارادے پر موقوف ہے، جو اس کے مقصد کو سمجھے گا اور اس کے ذریعے سے اصل مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گا وہ تو تھوڑا یا بہت متقی بن جائے گا، مگر جو مقصد ہی کو نہ سمجھے گا اور اُسے حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کرے گا اُسے کوئی فائدہ حاصل ہونے کی امید نہیں۔
روزے کے مقاصد
۱۔ جھوٹ سے بچنا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریقوں سے روزے کے اصل مقصد کی طرف توجہ دلائی ہے اور یہ سمجھایا ہے کہ مقصد سے غافل ہو کر بھوکا پیاسا رہنا کچھ مفید نہیں۔ چنانچہ فرمایا:
مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِیْ اَنْ یَّدَعَ طَعَامَہٗ وَشَرَابَہٗ۔ (بخاری)
جس کسی نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا ہی نہ چھوڑا تو اس کا کھانا اور پانی چھڑا دینے کی اللہ کو کوئی حاجت نہیں۔
دوسری حدیث میں ہے کہ سرکار رسالت مآب a نے فرمایا:
کَمْ مِّنْ صَائِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ صِیَامِہٖ اِلَّا الظَّمَأُ وَکَمْ مِّنْ قَائِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ قِیَامِہٖ اِلَّا السَّھَرُ۔ (الدارمی)
بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا، اور بہت سے راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں کہ اس قیام سے رَت جگے کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔
ان دونوں حدیثوں کا مطلب بالکل صاف ہے۔ ان سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ محض بھوکا اور پیاسا رہنا عبادت نہیں ہے، بلکہ اصل عبادت کا ذریعہ ہے، اور اصل عبادت ہے ’’خوفِ خدا کی وجہ سے خدا کے قانون کی خلاف ورزی نہ کرنا، اور محبتِ الٰہی کی بنا پر ہر اس کام کے لیے شوق سے لپکنا جس میں محبوب کی خوشنودی ہو، اور نفسانیت سے بچنا، جہاں تک بھی ممکن ہو‘‘۔ اس عبادت سے جو شخص غافل رہا اُس نے خواہ مخواہ اپنے پیٹ کو بھوک پیاس کی تکلیف دی۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی حاجت کب تھی کہ بارہ چودہ گھنٹے کے لیے اس سے کھانا پینا چھڑا دیتا؟
۲۔ ایمان واحتساب
روزے کے اصل مقصد کی طرف سرکاررسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح توجہ دلاتے ہیں کہ:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاِحْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ۔ (بخاری‘ مسلم)
یعنی جس نے روزہ رکھا ایمان اور احتساب کے ساتھ، اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیے گئے۔
ایمان کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے متعلق ایک مسلمان کا جو عقیدہ ہونا چاہیے وہ عقیدہ ذہن میں پوری طرح تازہ رہے، اور احتساب کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ ہی کی رضا کا طالب ہو، اور ہر وقت اپنے خیالات اور اپنے اعمال پر نظر رکھے کہ کہیں وہ اللہ کی رضا کے خلاف تو نہیں چل رہا ہے۔ ان دونوں چیزوں کے ساتھ جو شخص رمضان کے پورے روزے رکھ لے گا وہ اپنے پچھلے گناہ بخشوا لے جائے گا، اس لیے کہ اگر وہ کبھی سرکش ونافرمان بندہ تھا بھی تو اب اس نے اپنے مالک کی طرف پوری طرح رجوع کر لیا، اور اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَاذَنْبَ لَہٗ ’’گناہ سے توبہ کرنے والاایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ تھا۔‘‘
۳۔گناہوں سے بچنے کی ڈھال
دوسری حدیث میں آیا ہے:
اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ وَاِذَا کَانَ یَوْمُ صَوْمِ اَحَدِکُمْ فَلاَیَرْفُثْ وَلَا یَصْخَبْ فَاِنْ سَابَّہٗ اَحَدٌ اَوْقَاتَلَہٗ فَلْیَقُلْ اِنِّی امْرُئٌ صَائِمٌ۔ (متفق علیہ)
روزے ڈھال کی طرح ہیں (کہ جس طرح ڈھال دشمن کے وار سے بچنے کے لیے ہے اسی طرح روزہ بھی شیطان کے وار سے بچنے کے لیے ہے)، لہٰذا جب کوئی شخص روزے سے ہو تو اسے چاہیے کہ (اس ڈھال کو استعمال کرے اور) دنگے فساد سے پرہیز کرے۔ اگر کوئی شخص اس کو گالی دے، یا اس سے لڑے تو اس کو کہہ دینا چاہیے کہ بھائی میں روزے سے ہوں (مجھ سے یہ توقع نہ رکھو کہ تمھارے اس مشغلے میں حصہ لوں گا)۔
۴۔نیکی کی حرص
دوسری احادیث میں حضور a نے بتایا ہے کہ روزے کی حالت میں آدمی کو زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنے چاہییں اور ہر بھلائی کا شوقین بن جانا چاہیے۔ خصوصاً اس حالت میں اس کے اندر اپنے دوسرے بھائیوں کی ہمدردی کا جذبہ تو پوری شدت کے ساتھ پیدا ہو جانا چاہیے، کیوں کہ وہ خود بھوک پیاس کی تکلیف میں مبتلا ہو کر زیادہ اچھی طرح محسوس کر سکتا ہے کہ دوسرے بندگانِ خدا پر غریبی اور مصیبت میں کیا گزرتی ہو گی۔ حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ خود سرکار رسالت مآب a رمضان میں عام دنوں سے زیادہ رحیم اور شفیق ہو جاتے تھے۔ کوئی سائل اس زمانے میں حضور a کے دروازے سے خالی نہ جاتا تھا، اور کوئی قیدی اس زمانے میں قید نہ رہتا تھا۔
۵۔ افطار کرانے کا ثواب
ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضور a نے فرمایا:
مَنْ فَطَّرَفِیْہِ صَائِمًا کَانَ لَہٗ مَغْفِرَۃٌ لِّذُنُوْبِہٖ وَعِتْقُ رَقَبَتِہٖ مِنَ النَّارِ وَکَانَ لَہٗ مِثْلُ اَجْرِہٖ مِنْ غَیْرِ اَنْ یُّنْتَقَصَ مِنْ اَجْرِہٖ شَیْیٌٔ۔ (البیھقی)
جس نے رمضان میں کسی روزے دار کو افطارکرایا تو یہ اس کے گناہوں کی بخشش کا اور اس کی گردن کو آگ سے چھڑانے کا ذریعہ ہو گا اور اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا اس روزے دار کو روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی ہو۔
خ خ خ
باب پنجم
زکوٰۃ
* زکوٰۃ
* زکوٰۃ کی حقیقت
* اجتماعی زندگی میں زکوٰۃ کا مقام
* انفاق فی سبیل اللہ کے احکام
* زکوٰۃ کے خاص احکام
زکوٰۃ
زکوٰۃ کی اہمیت
برادرانِ اسلام! نماز کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن زکوٰۃ ہے۔ عام طور پر چونکہ عبادات کے سلسلے میں نماز کے بعد روزے کا نام لیا جاتا ہے، اس لیے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ نماز کے بعد روزے کا نمبر ہے، مگر قرآن مجید سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں نماز کے بعد سب سے بڑھ کر زکوٰۃ کی اہمیت ہے۔ یہ دو بڑے ستون ہیں جن پراسلام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ ان کے ہٹنے کے بعد اسلام قائم نہیں رہ سکتا۔
زکوٰۃ کے معنی
زکوٰۃ کے معنی ہیں پاکی اور صفائی کے۔ اپنے مال میں سے ایک حصہ حاجت مندوں اور مسکینوں کے لیے نکالنے کو زکوٰۃ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس طرح آدمی کا مال، اور اس مال کے ساتھ خود آدمی کا نفس بھی پاک ہو جاتا ہے۔ جو شخص خدا کی بخشی ہوئی دولت میں سے خدا کے بندوں کا حق نہیں نکالتا اس کا مال ناپاک ہے، اور مال کے ساتھ اس کا نفس بھی ناپاک ہے، کیونکہ اُس کے نفس میں احسان فراموشی بھری ہوئی ہے۔ اس کا دل اتنا تنگ ہے، اتنا خود غرض ہے، اتنا زرپرست ہے کہ جس خدا نے اس کو حقیقی ضروریات سے زیادہ دولت دے کر اس پر احسان کیا، اس کے احسان کا حق ادا کرتے ہوئے بھی اُس کا دل دکھتا ہے۔ ایسے شخص سے کیا امید کی جا سکتی ہے کہ وہ دنیا میں کوئی نیکی بھی خدا کے واسطے کر سکے گا، کوئی قربانی بھی محض اپنے دین و ایمان کی خاطر برداشت کرے گا۔ لہٰذا ایسے شخص کا دل بھی ناپاک اور اس کا وہ مال بھی ناپاک جسے وہ اس طرح جمع کرے۔
زکوٰۃ___ ایک امتحان
اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا فرض عائد کرکے ہر شخص کو امتحان میں ڈالا ہے۔ جو شخص بخوشی اپنی ضرورت سے زیادہ مال میں سے خدا کا حق نکالتا ہے اور اس کے بندوں کی مدد کرتا ہے وہی اللہ کے کام کا آدمی ہے اور وہی اس لائق ہے کہ ایمان داروں کی جماعت میں اس کا شمار کیا جائے، اور جس کا دل اتنا تنگ ہے کہ وہ اتنی ذرا سی قربانی بھی خداوندِ عالم کے لیے برداشت نہیں کر سکتا، وہ اللہ کے کسی کام کا نہیں۔ وہ ہرگز اس لائق نہیں کہ اہلِ ایمان کی جماعت میں داخل کیا جائے۔ وہ توایک سڑا ہوا عضو ہے جسے جسم سے الگ ہی کر دینا بہتر ہے، ورنہ سارے جسم کو سڑا دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سرکارِ رسالت مآب a کی وفات کے بعد جب عرب کے بعض قبیلوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو جناب صدیق اکبرؓ نے اُن سے اس طرح جنگ کی جیسے کافروں سے کی جاتی ہے۔ حالانکہ وہ لوگ نماز پڑھتے تھے اور خدا اور رسولؐ کا اقرار کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کے بغیر نماز، روزہ اور ایمان کی شہادت سب بے کار ہیں، کسی چیز کا بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
تمام انبیا ؑ کی امتوں پر زکوٰۃ کی فرضیت
قرآن مجید اٹھا کر دیکھیے۔ آپ کو نظر آئے گا کہ قدیم زمانے سے تمام انبیا علیہم الصلوٰۃ و السلام کی امتوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم لازمی طور پر دیا گیا ہے، اور دین اسلام کبھی کسی نبی کے زمانے میں بھی ان دو چیزوں سے خالی نہیں رہا۔ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی نسل کے انبیا ؑکا ذکر فرمانے کے بعد ارشاد ہوتاہے:
وَجَعَلْنٰہُمْ اَىِٕمَّۃً يَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْہِمْ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَاِيْتَاۗءَ الزَّكٰوۃِ۰ۚ وَكَانُوْا لَنَا عٰبِدِيْنَo (الانبیائ 21:73)
ہم نے ان کو انسانوں کا پیشوا بنایا۔ وہ ہمارے حکم کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے۔ ہم نے وحی کے ذریعے سے ان کو نیک کام کرنے اور نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے کی تعلیم دی اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔
سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہے:
وَكَانَ يَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّ كٰوۃِ ۰۠ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِيًّا o (مریم 19:55)
وہ اپنے لوگوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اللہ کے نزدیک برگزیدہ تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے لیے دعا کی کہ خدایا! ہمیں اس دنیا کی بھلائی بھی عطا کر اور آخرت کی بھلائی بھی۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا؟ جواب میں ارشاد ہوا:
عَذَابِيْٓ اُصِيْبُ بِہٖ مَنْ اَشَاۗءُ۰ۚ وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ۰ۭ فَسَاَكْتُبُہَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَالَّذِيْنَ ہُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ o (اعراف 7:156)
میں اپنے عذاب میں جسے چاہوں گا گھیرلوں گا اگرچہ میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے، مگر اس رحمت کو میں انھی لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو مجھ سے ڈریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور ہماری آیات پر ایمان لائیں گے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم چونکہ چھوٹے دل کی تھی اور روپے پر جان دیتی تھی۔ جیسا کہ آج بھی یہودیوں کا حال آپ دیکھتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اتنے جلیل القدر پیغمبر کی دعا کے جواب میں صاف فرما دیا کہ تمھاری امت اگر زکوٰۃ کی پابندی کرے گی تب تو اس کے لیے میری رحمت کا وعدہ ہے، ورنہ ابھی سے صاف سن رکھو کہ وہ میری رحمت سے محروم ہو جائے گی اور میرا عذاب اسے گھیر لے گا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ ؑکے بعد بھی بار بار بنی اسرائیل کو اس بات پر تنبیہ کی جاتی رہی۔ بار بار ان سے عہد لیے گئے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نماز وزکوٰۃ کی پابندی کریں (سورۂ بقرہ، رکوع۱۰)۔ یہاں تک کہ آخر میں صاف نوٹس دے دیا گیا کہ:
وَقَالَ اللہُ اِنِّىْ مَعَكُمْ۰ۭ لَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَيْتُمُ الزَّكٰوۃَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِيْ وَعَزَّرْتُمُوْہُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَـيِّاٰتِكُمْ (المائدہ 5:12)
یعنی اللہ نے فرمایاکہ اے بنی اسرائیل! میں تمھارے ساتھ ہوں، اگر تم نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہو، اور میرے رسولوں پر ایمان لائو، اور جو رسول آئیں ان کی مدد کرو، اور اللہ کو قرضِ حسن دو تو میں تمھاری برائیاں تم سے دُور کر دوں گا۔
رسول اللہ a سے پہلے آخری نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے۔ سو اُن کو بھی اللہ تعالیٰ نے نماز اور زکوٰۃ کا ساتھ ساتھ حکم دیا، جیسا کہ سورۂ مریم میں ہے:
وَّجَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ۰۠ وَاَوْصٰىنِيْ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّكٰوۃِ مَا دُمْتُ حَيًّاo
(مریم 19:31)
اللہ تعالیٰ نے مجھے برکت دی جہاں بھی میں ہوں اور مجھے ہدایت فرمائی کہ نماز پڑھوں اور زکوٰۃ دیتا رہوں جب تک زندہ رہوں۔
اس سے معلوم ہو گیا کہ دینِ اسلام ابتدا سے ہر نبی کے زمانے میں نماز اور زکوٰۃ کے ان دو بڑے ستونوں پر قائم ہوا ہے، اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خدا پر ایمان رکھنے والی کسی امت کو بھی ان دو فرضوں سے معاف کیا گیا ہو۔
امتِ مسلمہ پر زکوٰۃ کی فرضیت
اب دیکھیے کہ حضرت رسولِ کریم a کی شریعت میں یہ دونوں فرض کس طرح ساتھ ساتھ لگے ہوئے ہیں؟ قرآن مجید کھولتے ہی سب سے پہلے جن آیات پر آپ کی نظر پڑتی ہے وہ کیا ہیں؟ یہ کہ:
ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج صلے فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ o لا الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلـٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ o لا (البقرہ 2:2۔3)
یہ قرآن اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ پرہیزگاروں کو دنیا میں زندگی کا سیدھا راستہ بتاتا ہے، اور پرہیزگار وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔
پھر فرمایا:
اُولٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّ بِّھِمْ ق وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (البقرہ 2:5)
ایسے ہی لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اور فلاح ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے۔
یعنی جن میں ایمان نہیں اور جو نماز اور زکوٰۃ کے پابند نہیں وہ نہ ہدایت پر ہیں اور نہ انھیں فلاح نصیب ہو سکتی ہے۔
اس کے بعد اسی سورۂ بقرہ کو پڑھتے جائیے۔ چند صفحوں کے بعد پھر حکم ہوتا ہے:
اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّ کٰوۃَ وَ ارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ o (البقرہ 2:43)
نماز کی پابندی کرو، زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو (یعنی جماعت کے ساتھ نماز پڑھو)۔
پھر تھوڑی دُور آگے چل کر اسی سورہ میں ارشاد ہوا:
لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ۰ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّہٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ۰ۙ وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ۰ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَى الزَّكٰوۃَ۰ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا۰ۚ وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo (البقرہ2: 177)
نیکی محض اس کا نام نہیں ہے کہ مشرق یامغرب کی طرف تم نے منہ کر لیا، بلکہ نیکی اُس شخص کی ہے جس نے اللہ اور آخرت اور ملائکہ اور کتابِ الٰہی اور پیغمبروں پرایمان رکھا اور اللہ کی محبت میں اپنے حاجت مند رشتہ داروں اور یتیموں اورمسکینوں اورمسافروں اور سائلوں پر اپنا مال خرچ کیا اور (قرض یااسیری) سے گردنیں چھڑانے میں مدد دی اور نماز کی پابندی کی اور زکوٰۃ ادا کی۔ اور نیک لوگ وہ ہیں جو عہد کرنے کے بعد اپنے عہد کو پورا کریں اور مصیبت اور نقصان اور جنگ کے موقع پر صبر کے ساتھ راہِ حق پر ڈٹ جائیں۔ ایسے ہی لوگ سچے مسلمان ہیں اورایسے ہی لوگ متقی وپرہیز گار ہیں۔
پھر آگے دیکھیے، سورۂ مائدہ میں کیا ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّ کٰوۃَ وَھُمْ رٰکِعُوْنَo وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغٰلِبُوْنَo
(المائدہ 5:56-55)
مسلمانو! تمھارے حقیقی دوست اور مددگار صرف اللہ اور رسولؐ اور ایمان دار لوگ ہیں، یعنی ایسے لوگ جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور خدا کے آگے جھکتے ہیں۔ پس جو شخص اللہ اور رسولؐ اور ایمان دار لوگوں کو دوست بنائے وہ اللہ کی پارٹی کا آدمی ہے اور اللہ کی پارٹی ہی غالب ہونے والی ہے۔
اہل ایمان کی نشانی___ نماز وزکوٰۃ
اس عظیم الشان آیت میں ایک بڑا قاعدہ بیان کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے تو اس آیت سے آپ کو معلوم ہو گیا کہ اہلِ ایمان صرف وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔ ان دو ارکانِ اسلام سے جو لوگ رُوگردانی کریں اُن کا دعوائے ایمان ہی جھوٹا ہے۔ پھر اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ اور رسولؐ اور اہلِ ایمان کی ایک پارٹی ہے اور ایمان دار آدمی کا کام یہ ہے کہ سب سے الگ ہو کر اسی پارٹی میں شامل ہو جائے۔ جو مسلمان اس پارٹی سے باہر رہنے والے کسی شخص کو خواہ وہ باپ ہو، بھائی ہو، بیٹا ہو، ہمسایہ یا ہم وطن ہو، یا کوئی بھی ہو، اگر وہ اس کو اپنا دوست بنائے گا اور اس سے محبت اور مددگاری کا تعلق رکھے گا تو اسے یہ امید نہ رکھنی چاہیے کہ اللہ اس سے مددگاری کا تعلق رکھنا پسند فرمائے گا۔ سب سے آخر میں اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہلِ ایمان کو غلبہ اُسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب وہ یکسو ہو کر اللہ اور رسولؐ اور صرف اہلِ ایمان ہی کو اپنا ولی، مددگار، دوست اور ساتھی بنائیں۔
اسلامی اخوت کی بنیادیں
اب آگے چلیے۔ سورۂ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار ومشرکین سے جنگ کا حکم دیا ہے اور مسلسل کئی رکوعوں تک جنگ ہی کے متعلق ہدایات دی ہیں۔ اس سلسلے میں ارشاد ہوتا ہے:
فَاِنْ تَا بُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ۰ۭ (التوبۃ 9:11)
پھر اگر وہ کفر وشرک سے توبہ کریں، ایمان لے آئیں اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں تو وہ تمھارے دینی بھائی ہیں۔
یعنی محض کفر وشرک سے توبہ کرنا اورایمان کا اقرار کر لینا کافی نہیں ہے۔ اس بات کا ثبوت کہ وہ واقعی کفر وشرک سے تائب ہو گئے ہیں اور حقیقت میں ایمان لائے ہیں، صرف اسی طرح مل سکتا ہے کہ وہ نماز کی پابندی کریں اور زکوٰۃ دیں۔ لہٰذا اگر وہ اپنے اس عمل سے اپنے ایمان کا ثبوت دے دیں تب تو تمھارے دینی بھائی ہیں، ورنہ ان کو بھائی نہ سمجھو اور ان سے جنگ بند نہ کرو۔
پھر آگے چل کر اسی سورہ میں فرمایا:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۰ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَيُطِيْعُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ سَيَرْحَمُہُمُ اللہُ۰ۭ (التوبہ 9:71)
مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی اور مددگار ہیں، اور ان مومن مردوں اور عورتوں کی صفات یہ ہیں کہ و ہ نیکی کا حکم دیتے ہیں، بدی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، اور خدا اور رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں پر اللہ رحمت کرے گا۔
سن لیا آپ نے! کوئی شخص مسلمانوں کا دینی بھائی بن ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ اقرارِ ایمان کرکے عملاً نماز اور زکوٰۃ کی پابندی نہ کرے۔ ایمان، نماز اور زکوٰۃ یہ تین چیزیں مل کر ایمان داروں کی جماعت بناتی ہیں۔ جو لوگ ان تینوں کے پابند ہیں وہ اس پاک جماعت کے اندر ہیں اورانھی کے درمیان دوستی، محبت، رفاقت اور مددگاری کا تعلق ہے ،اور جو اِن کے پابند نہیں، وہ اس جماعت کے باہر ہیں، خواہ وہ نام کے مسلمان ہی کیوں نہ ہوں۔ ان سے دوستی، محبت اور رفاقت کا تعلق رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ تم نے اللہ کے قانون کو توڑ دیا اور اللہ کی پارٹی کو منتشر کر دیا، پھر تم دنیا میں غالب ہو کر رہنے کی امید کیسے کر سکتے ہو؟
اللہ کی مدد کی شرائط
اور آگے چلیے۔ سورۂ حج میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
وَلَيَنْصُرَنَّ اللہُ مَنْ يَّنْصُرُہٗ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌo اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ o
(الحج 22:41-40)
اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے، اور اللہ زبردست قوت والا اور سب پر غالب ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اگر ہم زمین میں حکومت بخشیں تو یہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بدی سے روکیں گے اور سب چیزوں کا انجام خدا کے ہاتھ میں ہے۔
اس آیت میں مسلمانوں کو بھی وہی نوٹس دیا گیا ہے جو بنی اسرائیل کو دیا گیا تھا۔ ابھی آپ کو سنا چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو کیا نوٹس دیا تھا۔ ان سے صاف فرما دیا تھا کہ میں اسی وقت تک تمھارے ساتھ ہوں جب تک تم نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے اور میرے نبیوں کے مشن میں ان کا ساتھ دوگے۔ یعنی میرے قانون کو دنیا میں جاری کرنے کی کوشش کرتے رہو گے۔ جونہی تم نے اس کام کو چھوڑا، پھر میں اپنا ہاتھ تمھاری مدد سے کھینچ لوں گا۔ ٹھیک یہی بات اللہ نے مسلمانوں سے بھی فرمائی ہے۔ ان سے صاف کہہ دیا ہے کہ اگر زمین میں طاقت حاصل کرکے تم نماز قائم کرو گے اور زکوٰۃ دو گے اور نیکیاں پھیلائو گے اور بدیوں کو مٹائو گے، تب تومیں تمھارا مددگار ہوں، اور جس کا میں مددگار ہوں اسے کون دبا سکتا ہے۔ لیکن اگر تم نے زکوٰۃ سے منہ پھیرا، اور زمین میں حکومت حاصل کرکے نیکیوں کے بجائے بدیاں پھیلائیں اور بدیوں کے بجائے نیکیوں کو مٹانا شروع کیا اور میرا کلمہ بلند کرنے کے بجائے اپنا کلمہ بلند کرنے لگے، اور خراج وصول کرکے اپنے لیے زمین پر جنتیں بنانے ہی کو وراثتِ ارضی کا مقصود سمجھ لیا، تو سن رکھو کہ میری مدد تمھارے ساتھ نہ ہو گی۔ پھر شیطان ہی تمھارامددگار رہ جائے گا۔
مسلمانوں کو تنبیہ
اللہ اکبر! کتنا بڑا عبرت کا مقام ہے۔ جو دھمکی بنی اسرائیل کو دی گئی تھی، اس کو انھوں نے خالی خولی زبانی دھمکی سمجھا اور اس کے خلاف عمل کرکے اپنا انجام دیکھ لیا کہ آج روئے زمین پر مارے مارے پھر رہے ہیں، جگہ جگہ سے نکالے جا رہے ہیں اور کہیں ٹھکانا نہیں پاتے۔ کروڑہا کروڑ روپے کے کھتے] گودام[ ان کے پاس بھرے پڑے ہیں، دنیا کی سب سے زیادہ دولت مند قوم ہیں، مگر یہ روپیہ ان کے کسی کام نہیں آتا۔ نماز کے بجائے بدکاری اور زکوٰۃ کے بجائے سود خواری کا ملعون طریقہ اختیار کرکے انھوں نے خود بھی خدا کی لعنت اپنے اوپر مسلّط کرا لی اور اب اس لعنت کو لیے ہوئے طاعون کے چوہوں کی طرح دنیا بھر میں اسے پھیلاتے پھر رہے ہیں۔ پھر یہی دھمکی مسلمانوں کو دی گئی اور مسلمانوں نے اس کی کچھ پروا نہ کرکے نماز اور زکوٰۃ سے غفلت کی، اور خدا کی بخشی ہوئی طاقت کو نیکیاں پھیلانے اور بدیوں کو مٹانے میں استعمال کرنا چھوڑ دیا۔ اس کا نتیجہ دیکھ لو کہ حکومت کے تخت سے اتار کرپھینک دیے گئے، دنیا بھر میں ظالموں کا تختۂ مشق بن رہے ہیں اور روئے زمین میں ہر جگہ ضعیف اور مغلوب ہیں۔ نماز اور زکوٰۃ کو چھوڑنے کا انجامِ بد تو دیکھ چکے، اب ان میں ایک جماعت ایسی پیدا ہوئی ہے جو مسلمانوں کو بے حیائی، فحش اور بدکاری میں مبتلا کرنا چاہتی ہے، اور ان سے کہہ رہی ہے کہ تمھارے افلاس کا علاج یہ ہے کہ بینک اور انشورنس کمپنیاں قائم کرو، اور سود خواری شروع کر دو۔ خدا کی قسم، اگر انھوں نے یہ کیا تو وہی ذلت اور خواری ان پرمسلط ہو کر رہے گی جس میں یہودی مبتلا ہوئے ہیں اور یہ بھی خدا کی اُس لعنت میں گرفتار ہو جائیں گے جس نے بنی اسرائیل کو گھیر رکھا ہے۔
زکوٰۃ نہ دینے والوں کا انجام
برادرانِ اسلام! آئندہ خطبوں میں مَیں آپ کو بتائوں گا کہ زکوٰۃ کیا چیز ہے؟کتنی بڑی طاقت اللہ نے اس چیز میں بھر دی ہے، اور آج جس رحمت خداوندی کو مسلمان ایک معمولی چیز سمجھ رہے ہیں وہ حقیقت میں کتنی بڑی برکتیں رکھتی ہے؟ آج کے خطبے میں میرا مقصد آپ کو صرف یہ بتانا تھا کہ نماز اور زکوٰۃ کا اسلام میں کیا درجہ ہے۔ بہت سے مسلمان یہ سمجھتے ہیں اور ان کے مولوی ان کو رات دن یہ اطمینان دلاتے رہتے ہیں کہ نماز نہ پڑھ کر اور زکوٰۃ نہ دے کر بھی وہ مسلمان رہتے ہیں، مگر قرآن اس کی صاف الفاظ میں تردید کرتا ہے۔ قرآن کی رُو سے کلمہ طیبہ کا اقرار ہی بے معنی ہے اگر آدمی اس کے ثبوت میں نماز اور زکوٰۃ کا پابند نہ ہو۔ اسی بنا پر حضرت ابوبکرؓ نے زکوٰۃ سے انکار کرنے والوں کو کافر سمجھ کر ان کے خلاف تلوار اٹھائی تھی۔ جیسا کہ میں ابھی آپ سے بیان کر چکا ہوں۔ صحابۂ کرامؓ کو ابتدا میں شبہ تھا کہ آیا وہ مسلمان جو خدا اور رسولؐ کا اقرار کرتا ہے اور نماز بھی پڑھتا ہے، اُن لوگوں کے زُمرے میں شامل کیا جا سکتا ہے یا نہیں جن پر تلوار اٹھانے کا حکم ہے، مگر جب حضرت ابوبکرؓ، جن کو اللہ نے مقامِ نبوت کے قریب درجہ عطا فرمایا تھا، اپنی بات پر اڑ گئے اور انھوں نے اصرار کے ساتھ فرمایا کہ خدا کی قسم، اگر یہ لوگ اس زکوٰۃ میں سے جو رسول اللہa کے عہد میں دیا کرتے تھے، اونٹ باندھنے کی ایک رسی بھی روکیں گے تو میں ان پر تلوار اٹھائوں گا، تو بالآخر تمام صحابہؓ کے دلوں کو اللہ نے حق کے لیے کھول دیا اور سب نے یہ بات تسلیم کر لی کہ زکوٰۃ سے انکار کرنے والے پر جہاد کرنا چاہیے۔ قرآن مجید تو صاف کہتا ہے کہ زکوٰۃ نہ دینا ان مشرکین کا کام ہے جو آخرت کے منکر ہیں:
وَوَیْلٌ لِّلْمُشْرِکِیْنَ o لا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْتُوْنَ الزَّ کٰوۃَ وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ o
( حٰم سجدہ 41:7-6)
تباہی ہے اُن مشرکین کے لیے جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور آخرت کے منکر ہیں۔
٭…٭…٭
زکوٰۃ کی حقیقت
برادرانِ اسلام! پچھلے خطبے میں بیان کر چکا ہوں کہ نماز کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن زکوٰۃ ہے اور یہ اتنی بڑی چیز ہے کہ جس طرح نماز سے انکار کرنے والے کو کافر ٹھیرایا گیا ہے اسی طرح زکوٰۃ سے انکار کرنے والوں کو بھی نہ صرف کافر ٹھیرایا گیا بلکہ اُن پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بالاتفاق جہاد کیا۔
اب میں آج کے خطبے میں آپ کے سامنے زکوٰۃ کی حقیقت بیان کروں گا، تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ یہ زکوٰۃ دراصل ہے کیا چیز، اور اسلام میں اس کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی ہے؟
اللہ کا تقرب کیسے حاصل ہوتا ہے؟
عقل ودانش کا امتحان
آپ میں سے بعض لوگ توایسے سیدھے سادھے ہوتے ہیں جو ہر کس وناکس کو دوست بنا لیتے ہیں، اور کبھی دوست بناتے وقت آدمی کو پرکھتے نہیں کہ وہ واقع میں دوست بنانے کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ ایسے لوگ دوستی میں اکثر دھوکا کھا جاتے ہیں اور بعد میں ان کو بڑی مایوسیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ لیکن جو عقل مند لوگ ہیں وہ جن لوگوں سے ملتے ہیں ان کو خوب پرکھ کر ہر طریقے سے جانچ پڑتال کرکے دیکھتے ہیں، پھر جو کوئی ان میں سے سچا، مخلص، وفادار آدمی ملتا ہے صرف اسی کو دوست بناتے ہیں، اور بے کار آدمیوں کو چھوڑ دیا کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کر حکیم ودانا ہے۔ اس سے یہ امید کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ ہرکس وناکس کو اپنا دوست بنا لے گا، اپنی پارٹی میں شامل کر لے گا اور اپنے دربار میں عزت اور قربت کی جگہ دے گا۔ جب انسانوں کی دانائی وعقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بغیر جانچے اور پرکھے کسی کو دوست نہیں بناتے تو اللہ، جو ساری دانائیوں اور حکمتوں کا سرچشمہ ہے، ناممکن ہے کہ وہ جانچنے اور پرکھنے کے بغیر ہر ایک کو اپنی دوستی کا مرتبہ بخش دے۔ یہ کروڑوں انسان جو زمین پر پھیلے ہوئے ہیں، جن میں ہر قسم کے آدمی پائے جاتے ہیں، اچھے اور برے، سب کے سب اس قابل نہیں ہو سکتے کہ اللہ کی اس پارٹی میں، اس حزب اللہ میں شامل کر لیے جائیں جسے اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنی خلافت کا مرتبہ اور آخرت میں تقرب کا مقام عطا کرنا چاہتا ہے۔ اللہ نے کمال درجہ حکمت کے ساتھ چند امتحان، چند آزمائشیں، چند معیار جانچنے اور پرکھنے کے لیے مقرر کر دیے ہیں کہ انسانوں میں سے جو کوئی ان پر پورا اترے، وہ تو اللہ کی پارٹی میں آ جائے اور جو ان پر پورا نہ اترے وہ خود بخود اس پارٹی سے الگ ہو کر رہ جائے، اور وہ خود بھی جان لے کہ میں اس پارٹی میں شامل ہونے کے قابل نہیں ہوں۔
یہ معیار کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ چونکہ حکیم ودانا ہے اس لیے سب سے پہلا امتحان وہ آدمی کی حکمت ودانائی کا ہی لیتا ہے۔ یہ دیکھتا ہے کہ اس میں سمجھ بوجھ بھی ہے یا نہیں؟ نرا احمق تو نہیں ہے؟ اس لیے کہ جاہل اور بے وقوف کبھی دانا اور حکیم کا دوست نہیں بن سکتا۔ جو شخص اللہ کی نشانیوں کو دیکھ کر پہچان لے کہ وہی میرا مالک اور خالق ہے، اس کے سوا کوئی معبود، کوئی پروردگار، کوئی دعائیں سننے اور مددکرنے والا نہیں ہے، اور جو شخص اللہ کے کلام کو سن کر جان لے کہ یہ میرے مالک ہی کا کلام ہے کسی اور کا کلام نہیں ہو سکتا، اور جو شخص سچے نبی اور جھوٹے مدعیوں کی زندگی، ان کے اخلاق، ان کے معاملات، ان کی تعلیمات، ان کے کارناموں کے فرق کو ٹھیک ٹھیک سمجھے اور پہچان جائے کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والوں میں سے فلاں ذاتِ پاک تو حقیقت میں خدا کی طرف سے ہدایت بخشنے کے لیے آئی ہے، اور فلاں دجّال ہے، دھوکا دینے والا ہے۔ ایسا شخص دانائی کے امتحان میں پاس ہو جاتا ہے، اور اس کو انسانوں کی بھیڑ بھاڑ سے الگ کرکے اللہ تعالیٰ اپنے پارٹی کے منتخب امیدواروں میں شامل کر لیتا ہے، باقی لوگ جو پہلے ہی امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے کہ جدھر چاہیں بھٹکتے پھریں۔
اخلاقی قوت کی آزمائش
اس پہلے امتحان میں جو امیدوار کامیاب ہو جاتے ہیں، انھیں پھر دوسرے امتحان میں شریک ہونا پڑتا ہے۔ اس دوسرے امتحان میں آدمی کی عقل کے ساتھ اس کی اخلاقی طاقت کو بھی پرکھا جاتا ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس آدمی میں سچائی اور نیکی کو جان کر اسے قبول کر لینے اور اس پر عمل کرنے کی، اور جھوٹ اور بدی کو جان کر اسے چھوڑ دینے کی طاقت بھی ہے یا نہیں؟ یہ اپنے نفس کی خواہشات کا، باپ دادا کی تقلید کا، خاندانی رسموں کا، دنیا کے عام خیالات اور طور طریقوں کا غلام تو نہیں ہے؟ اس میں یہ کمزوری تو نہیں ہے کہ ایک چیز کو خدا کی ہدایت کے خلاف پاتا ہے اور جانتا ہے کہ وہ بری ہے، مگر پھر بھی اسی کے چکر میں پڑا رہتا ہے، اور دوسری چیز کو جانتا ہے کہ خدا کے نزدیک وہی حق اور پسندیدہ ہے، مگر اس پر بھی اسے قبول نہیں کرتا؟ اس امتحان میں جو لوگ فیل ہو جاتے ہیں، انھیں بھی اللہ تعالیٰ اپنی پارٹی میں لینے سے انکار کر دیتا ہے، اور صرف ان لوگوں کو چنتا ہے جن کی تعریف یہ ہے کہفَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا۰ۭ (البقرہ 2:256 ) جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔
یعنی خدا کی ہدایت کے خلاف جو راستہ اور جو طریقہ بھی ہو، اسے وہ جرأت کے ساتھ چھوڑ دیں، کسی چیز کی پروا نہ کریں، اور صرف اللہ کے بتائے ہوئے راستے پرچلنے کے لیے تیار ہو جائیں خواہ اس پرکوئی ناراض ہو یا خوش۔
اطاعت وفرماں برداری کی پرکھ
اس امتحان میں جو لوگ کامیاب نکلتے ہیں اُن کو پھر تیسرے مرتبے کا امتحان دینا پڑتا ہے۔ اس درجے میں اطاعت اور فرماںبرداری کا امتحان ہے۔ یہاں حکم دیا جاتا ہے کہ جب ہماری طرف سے ڈیوٹی کی پکار بلند ہو تو اپنی نیند قربان کرو اور حاضر ہو۔ اپنے کام کاج کا حرج کرو اور آئو۔ اپنی دلچسپیوں کو، اپنے فائدوں کو، اپنے لطف اور تفریح کو چھوڑو اور آ کر فرض بجا لائو۔ گرمی ہو، جاڑا ہو، کچھ ہو، بہرحال جب فرض کے لیے پکارا جائے تو ہر مشقت کو قبول کرو، اور دوڑتے ہوئے آئو۔ پھر جب ہم حکم دیں کہ صبح سے شام تک بھوکے پیاسے رہو، اور اپنے نفس کی خواہشات کو روکو، تو اس حکم کی پوری پوری تعمیل ہونی چاہیے خواہ بھوک پیاس کی کیسی ہی تکلیف ہو، اور چاہے لطیف کھانوں اور مزے دار شربتوں کے ڈھیر ہی سامنے کیوں نہ لگے ہوئے ہوں۔ جو لوگ اس امتحان میں کچے نکلتے ہیں ان سے بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ تم ہمارے کام کے نہیں ہو۔ انتخاب صرف ان لوگوں کا ہوتا ہے جو اس تیسرے امتحان میں پکے ثابت ہوتے ہیں، کیوں کہ صرف انھی سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ خدا کی طرف سے جو قوانین ان کے لیے بنائے جائیں گے اور جو ہدایات ان کو دی جائیں گی، وہ خفیہ اور علانیہ، فائدے اور نقصان، راحت اور تکلیف، ہر حال میں ان کی پابندی کر سکیں گے۔
مالی قربانی کی جانچ
اس کے بعد چوتھا امتحان مال کی قربانی کا لیا جاتا ہے۔ تیسرے امتحان کے کامیاب امیدوار ابھی اس قابل نہیں ہوئے کہ خدا کی ملازمت میں باقاعدہ لے لیے جائیں۔ ابھی یہ دیکھنا ہے کہ کہیں وہ چھوٹے دل کے پست ہمت، کم حوصلہ، تنگ ظرف تو نہیں ہیں؟ ان لوگوں میں سے تو نہیں ہیں جو محبت اور دوستی کے دعوے تو لمبے چوڑے کرتے ہیں، مگر اپنے محبوب اور دوست کی خاطر جب گرہ سے کچھ خرچ کرنے کا وقت آتا ہے تو کہتے ہیں کہ ’’گرزر طلبی سخن دریں ست؟{ FR 1626 } ‘‘ ان کا حال اس شخص کا سا تو نہیں ہے جو زبان سے تو ماتا جی، ماتا جی کہتا ہے، اور ماتا جی کی خاطر دنیا بھر سے جھگڑ بھی لیتا ہے، مگر جب وہی ماتا جی اس کے غلے کی ٹوکری، یا اس کی سبزی کے ڈھیر پر منہ مارتی ہیں تو لٹھ لے کران کے پیچھے دوڑتا ہے، اور مار مار کر ان کی کھال اڑا دیتا ہے؟ ایسے خود غرض، زر پرست، تنگ دل آدمی کو تو معمولی درجے کا عقل مند انسان بھی دوست نہیں بناتا اور ایک بڑے دل والا انسان اس قسم کے ذلیل آدمی کواپنے پاس جگہ دینا بھی پسند نہیں کرتا۔ پھر بھلا وہ بزرگ وبرتر خدا، جو اپنے خزانے ہر آن اپنی بے حد وحساب مخلوق پر بے حد وحساب طریقے سے لٹا رہا ہے، ایسے شخص کو اپنی دوستی کے قابل کب سمجھ سکتا ہے جو خدا کے دیے ہوئے مال کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے بھی جی چراتا ہو؟ اور وہ خدا، جس کی دانائی وحکمت سب سے بڑھ کر ہے، کس طرح اس انسان کو اپنی پارٹی میں شامل کر سکتا ہے جس کی دوستی ومحبت فقط زبانی جمع خرچ تک ہو، اور جس پر کبھی بھروسا نہ کیا جا سکتا ہو؟ پس جو لوگ اس چوتھے امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں ان کو بھی صاف جواب دے دیا جاتا ہے کہ جائو، تمھارے لیے اللہ کی پارٹی میں جگہ نہیں ہے، تم بھی ناکارہ ہو، اور تم اس عظیم الشان خدمت کا بار سنبھالنے کے قابل نہیں ہو جو خلیفۂ الٰہی کے سپرد کی جاتی ہے۔ اس پارٹی میں تو صرف وہ لوگ شامل کیے جا سکتے ہیں جو اللہ کی محبت پر جان، مال، اولاد، خاندان، وطن، ہر چیز کی محبت کو قربان کر دیں:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۰ۥۭ (آل عمران 3:92)
تم نیکی کے مقام کو نہیں پا سکتے جب تک کہ وہ چیزیں خدا کی راہ میں قربان نہ کرو جن سے تم کو محبت ہے۔
حِزبُ اللہ کے لیے مطلوبہ اوصاف
۱۔ تنگ دل نہ ہوں
اس پارٹی میں تنگ دلوں کے لیے جگہ نہیں ہے۔ اس میں تو صرف وہی لوگ داخل ہو سکتے ہیں جن کے دل بڑے ہیں:
وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo (الحشر 59:9)
جو لوگ دل کی تنگی سے بچ گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔
۲۔ فراخ حوصلہ ہوں
یہاں تو ایسے فراخ حوصلہ لوگوں کی ضرورت ہے کہ اگر کسی شخص نے ان کے ساتھ دشمنی بھی کی ہو، ان کو نقصان اور رنج بھی پہنچایا ہو، اُن کے دل کے ٹکڑے بھی اڑا دیے ہوں، تب بھی وہ خدا کی خاطر اس کے پیٹ کو روٹی اور اس کے تن کو کپڑا دینے سے انکار نہ کریں، اور اس کی مصیبت کے وقت میں اس کی مدد سے دریغ نہ کریں:
وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ يُّؤْتُوْٓا اُولِي الْقُرْبٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَالْمُہٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ۰۠ۖ وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا۰ۭ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللہُ لَكُمْ۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ o (النور 24:22)
تم میں سے جو خوش حال اور صاحبِ مقدرت لوگ ہیں، وہ اپنے عزیزوں اور مساکین اور خدا کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کی مدد سے ہاتھ نہ کھینچ لیں، بلکہ چاہیے کہ ان کو معاف کریں اور درگزر کریں، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمھیں بخشے؟ حالانکہ اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔{ FR 1627 }
۳۔ عالی ظرف ہوں
یہاں ان عالی ظرف لوگوں کی ضرورت ہے جو:
وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا o اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلاَ شُکُوْرًاo (الدھر 76:9-8)
محض خدا کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم صرف خدا کے لیے تمھیں کھلا رہے ہیں۔ تم سے کوئی بدلہ یا شکریہ نہیں چاہتے۔
۴۔ پاک دل ہوں
یہاں اُن پاک دل والوں کی ضرورت ہے جو خدا کی دی ہوئی دولت میں سے خدا کی راہ میں بہتر سے بہتر مال چھانٹ کر دیں:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۰۠ وَلَا تَـيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ ( البقرہ2:267)
اے ایمان والو! تم نے جو مال کمائے ہیں اور جو رزق تمھارے لیے ہم نے زمین سے نکالا ہے اس میں سے اچھا مال راہِ خدا میں صَرف کرو، بُرے سے برا چھانٹ کر نہ دو۔
۵۔ تنگ دستی اور غربت میں بھی خرچ کریں
یہاں ان بڑی ہمت والوں کی ضرورت ہے جو تنگ دستی اور غربت وافلاس کی حالت میں بھی اپنا پیٹ کاٹ کر خدا کے دین کی خدمت اور خدا کے بندوں کی مدد میں روپیہ صَرف کرنے سے دریغ نہیں کرتے:
وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ۰ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَo لا الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ ( آل عمران 3:133-134)
اپنے پروردگار کی مغفرت اور اس جنت کی طرف لپکو جس کی وسعت زمین وآسمان کے برابر ہے، اور جو تیار کرکے رکھی گئی ہے ان پرہیزگاروں کے لیے جو خوش حالی اور تنگ حالی، دونوں حالتوں میں خدا کے لیے خرچ کرتے ہیں۔
۶۔ سخاوت پیشہ ہوں
یہاں اُن ایمان داروں کی ضرورت ہے جو سچے دل سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جو کچھ خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے گا وہ ضائع نہ ہو گا، بلکہ خدا دنیا اور آخرت میں اس کا بہترین بدل عطا فرمائے گا، اس لیے وہ محض خدا کی خوشنودی کی خاطر خرچ کرتے ہیں۔ اس بات کی کوئی پروا نہیں کرتے کہ لوگوں کو ان کی فیاضی وسخاوت کا حال معلوم ہوا، یا نہیں اور کسی نے ان کی بخشش کا شکریہ ادا کیا یا نہیں:
وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ۰ۭ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ وَجْہِ اللہِ۰ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ يُّوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ o ( البقرہ 2: 272)
تم جو کچھ بھی راہِ حق میں خرچ کرو گے وہ تمھارے ہی لیے بھلائی ہے، جب کہ تم اپنے اس خرچ میں خدا کے سوا کسی اور کی خوشنودی نہیں چاہتے۔ اس طرح جو کچھ بھی تم کارِ خیر میں صَرف کرو گے اس کا پورا پورا فائدہ تم کو ملے گا اور تمھارے ساتھ ذرّہ برابر ظلم نہ ہو گا۔
۷۔ ہر حال میں خدا کو یاد رکھیں
یہاں اُن بہادروں کی ضرورت ہے جو دولت مندی اور خوش حالی میں بھی خدا کو نہیں بھولتے، جن کو محلوں میں بیٹھ کر اور ناز ونعمت میں رہ کر بھی خدا یاد رہتا ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ۰ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَo (المنافقون 63:9)
اے ایمان والو! تمھارے مال اور تمھاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں۔ جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔
یہ اللہ کی پارٹی میں شامل ہونے والوں کی لازمی صفات ہیں۔ ان کے بغیر کوئی شخص خدا کے دوستوں میں شامل نہیں ہو سکتا۔ دراصل یہ انسان کے اخلاق ہی کا نہیں بلکہ اس کے ایمان کا بھی بہت کڑا اور سخت امتحان ہے۔ جو شخص خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے جی چُراتا ہے، اس خرچ کو اپنے اوپر چٹی اور جرمانہ سمجھتا ہے۔ حیلوں اور بہانوں سے بچائو کی صورتیں نکالتا ہے، اور اگر خرچ کرتا ہے تو اپنی تکلیف کا بخار لوگوں پر احسان رکھ کر نکالنے کی کوشش کرتا ہے، یا یہ چاہتا ہے کہ اس کی سخاوت کا دنیا میں اشتہار دیا جائے، وہ دراصل خدا اور آخرت پر ایمان ہی نہیں رکھتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ خدا کی راہ میں جو کچھ گیا وہ ضائع ہو گیا۔ اس کو اپنا عیش، اپنا آرام، اپنی لذتیں، اپنے فائدے اور اپنی نام وری، خدا سے اور اس کی خوشنودی سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ ہے یہی دنیا کی زندگی ہے۔ اگر روپیہ صَرف کیا جائے تو اسی دنیا میں نام وری اور شہرت ہونی چاہیے تاکہ اس روپے کی قیمت یہیں وصول ہو جائے، ورنہ اگر روپیہ بھی گیا اور کسی کو یہ بھی معلوم نہ ہوا کہ فلاں صاحب نے فلاں کارِ خیر میں اتنا مال صَرف کیا ہے تو گویا سب مٹی میں مل گیا۔ قرآن مجید میں صاف فرما دیا گیا ہے کہ اس قسم کا آدمی خدا کے کام کا نہیں، وہ اگر ایمان کا دعویٰ کرتا ہے تو منافق ہے۔ چنانچہ آیاتِ ذیل ملاحظہ ہوں:
۸۔ احسان نہ جتلائیں
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى۰ۙ كَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَا لَہٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۭ (البقرہ 2:264)
اے ایمان لانے والو! اپنی خیرات کو احسان رکھ کر اور اذیت پہنچا کر ضائع نہ کر دو، اس شخص کی طرح جو محض لوگوں کو دکھانے اور نام چاہنے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔
۹۔ مال جمع نہ کریں
وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا يُنْفِقُوْنَہَا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۙ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍo (التوبۃ 9:34)
جو لوگ سونا اور چاندی جمع کر کرکے رکھتے ہیں اور اسے خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انھیں سخت سزا کی بشارت دے دو۔
۱۰۔ اللہ کی راہ میں رخصت طلب نہ کریں
لَا يَسْـتَاْذِنُكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ يُّجَاہِدُوْا بِاَمْوَالِـہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِالْمُتَّقِيْنَo اِنَّمَا يَسْـتَاْذِنُكَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُہُمْ فَہُمْ فِيْ رَيْبِہِمْ يَتَرَدَّدُوْنَ o (التوبہ 9: 45-44)
اے نبیؐ! جو لوگ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو کبھی نہ چاہیں گے کہ انھیں اپنی جان ومال کے ساتھ جہاد میں حصہ لینے سے معاف رکھا جائے۔ اللہ اپنے متقی بندوں کو خوب جانتا ہے۔ معذرت صرف وہ لوگ طلب کرتے ہیں جو اللہ اورآخرت پر ایمان نہیں رکھتے، جن کے دلوں میں شک ہے، اور وہ اپنے شک ہی میں متردّد ہو رہے ہیں۔
۱۱۔ راہِ خدا میں خوش دلی سے اطاعت کریں
وَمَا مَنَعَہُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْہُمْ نَفَقٰتُہُمْ اِلَّآ اَنَّہُمْ كَفَرُوْا بِاللہِ وَبِرَسُوْلِہٖ وَلَا يَاْتُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَہُمْ كُسَالٰى وَلَا يُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَہُمْ كٰرِہُوْنَo (التوبہ 9:54)
راہِ خدا میں ان کے خرچ کیے ہوئے مال صرف اس لیے قبول نہیں کیے جا سکتے کہ وہ دراصل اللہ اور رسولؐ پر ایمان نہیں رکھتے۔ نماز کو آتے ہیں تو دل برداشتہ ہو کر اور مال خرچ کرتے ہیں تو ناک بھوں چڑھا کر۔
اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُہُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ۰ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَيَقْبِضُوْنَ اَيْدِيَہُمْ۰ۭ نَسُوا اللہَ فَنَسِيَہُمْ۰ۭ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَo(التوبہ 9:67)
منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ وہ بدی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے منع کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے سے ہاتھ روکتے ہیں۔ وہ خدا کو بھول گئے اور خدا نے ان کو بھلا دیا، یقینا یہی منافقین فاسق ہیں۔
۱۲۔ اِنفاق فی سبیل اللہ کو چٹی نہ سمجھیں
وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَن یَّتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ مَغْرَمًا (التوبہ 9:98)
ان اعراب (یعنی منافقین) میں سے بعض وہ لوگ بھی ہیں جو راہِ خدا میں خرچ کرتے بھی ہیں تو زبردستی کی چٹی سمجھ کر۔
۱۳۔ بخیل نہ ہوں
ہٰٓاَنْتُمْ ہٰٓؤُلَاۗءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۚ فَمِنْكُمْ مَّنْ يَّبْخَلُ۰ۚ وَمَنْ يَّبْخَلْ فَاِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِہٖ۰ۭ وَاللہُ الْغَنِيُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ۰ۚ وَاِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ۰ۙ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْٓا اَمْثَالَكُمْo (محمد 47: 38)
سن رکھو! تم لوگ ایسے ہو کہ تم کو راہِ خدا میں خرچ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے توتم میں سے بہت لوگ بخل کرتے ہیں، اور جو کوئی اس کام میں بخل کرتا ہے وہ خود اپنے ہی لیے بخل کرتا ہے۔ اللہ تو غنی ہے، تم ہی اس کے محتاج ہو۔ اگر تم نے خدا کے کام میں خرچ کرنے سے منہ موڑا تو وہ تمھاری جگہ دوسری قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔
برادرانِ اسلام! یہ ہے اس زکوٰۃ کی حقیقت جو آپ کے دین کا ایک رکن ہے۔ اس کو دنیا کی حکومتوں کے ٹیکسوں کی طرح محض ایک ٹیکس نہ سمجھیے، بلکہ دراصل یہ اسلام کی روح اور اس کی جان ہے۔ یہ حقیقت میں ایمان کا امتحان ہے۔ جس طرح درجہ بدرجہ امتحانات دے کر آدمی ترقی کرتا ہے، یہاں تک کہ آخری امتحان دے کر گریجویٹ بنتا ہے، اسی طرح خدا کے ہاں بھی کئی امتحان ہیں، جن سے آدمی کو گزرنا پڑتا ہے، اور جب وہ چوتھا امتحان، یعنی مال کی قربانی کا امتحان کامیابی کے ساتھ دے دیتا ہے تب وہ پورا مسلمان بنتا ہے۔ اگرچہ یہ آخری امتحان نہیں ہے، اس کے بعد زیادہ سخت امتحان جان کی قربانی کا آتا ہے جسے میں آگے چل کر بیان کروں گا۔ لیکن اسلام کے دائرے میں یا بالفاظِ دیگر اللہ کی پارٹی میں آنے کے لیے داخلے کے جو امتحانات مقرر کیے گئے ہیں ان میں سے یہ آخری امتحان ہے۔ آج کل بعض لوگ کہتے ہیں کہ خرچ کرنے اور روپیہ بہانے کے وعظ تو مسلمانوں کو بہت سنائے جا چکے، اب اس غربت وافلاس کی حالت میں تو ان کو کمانے اور جمع کرنے کے وعظ سنانے چاہییں، مگر انھیں معلوم نہیں کہ یہ چیز جس پر وہ ناک بُھوں چڑھاتے ہیں دراصل یہی اسلام کی روح ہے اور مسلمانوں کو جس چیز نے پستی وذلت کے گڑھے میں گرایا ہے وہ دراصل اسی رُوح کی کمی ہے۔ مسلمان اس لیے نہیں گرے کہ اس رُوح نے ان کو گرا دیا، بلکہ اس لیے گرے ہیں کہ یہ روح ان سے نکل گئی ہے۔
آئندہ خطبات میں آپ کو بتائوں گا کہ زکوٰۃ اور صدقات حقیقت میں ہماری جماعتی زندگی کی جان ہیں، اور ان میں ہمارے لیے آخرت ہی کی نہیں بلکہ دنیا کی بھی ساری نعمتیں جمع کر دی گئی ہیں۔
٭…٭…٭
اجتماعی زندگی میں زکوٰۃ کا مقام
برادرانِ اسلام! اس سے پہلے دو خطبوں میں آپ کے سامنے زکوٰۃ کی حقیقت بیان کر چکا ہوں۔ اب میں آپ کے سامنے اس کے ایک دوسرے پہلو پر روشنی ڈالوں گا۔
اللہ کی شانِ کریمی
قرآن مجید میں زکوٰۃ اور صدقات کے لیے جگہ جگہ انفاق فی سبیل اللہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، یعنی:’’خدا کی راہ میں خرچ کرنا۔‘‘بعض بعض مقامات پر یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ جو کچھ تم راہِ خدا میں صَرف کرتے ہو یہ اللہ کے ذمے قرضۂ حسنہ ہے، گویا تم اللہ کو قرض دیتے ہو اور اللہ تعالیٰ تمھارا قرض دار ہو جاتا ہے۔ بکثرت مقامات پر یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم دو گے اس کا بدلہ اللہ کے ذمے ہے اور وہ صرف اتنا ہی تم کو واپس نہ کرے گا بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ دے گا۔ اس مضمون پر غور کیجیے۔ کیا زمین وآسمان کا مالک، نعوذ باللہ آپ کا محتاج ہے؟ کیا اس ذاتِ پاک کو آپ سے قرض لینے کی ضرورت ہے؟ کیا وہ پادشاہوں کا پادشاہ، وہ بے حد وحساب خزانوں کا مالک، اپنے لیے آپ سے کچھ مانگتا ہے؟ معاذ اللہ، معاذ اللہ۔ اُسی کی بخشش پر تو آپ پل رہے ہیں۔ اُسی کا دیا ہوا رزق تو آپ کھاتے ہیں۔ آپ میں سے ہر امیر اور غریب کے پاس جو کچھ ہے سب اُسی کا تو عطیہ ہے۔ آپ کے ایک فقیر سے لے کر ایک کروڑ پتی اور ارب پتی تک ہر شخص اس کے کرم کا محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اس کو کیا ضرورت کہ آپ سے قرض مانگے اور اپنی ذات کے لیے آپ کے آگے ہاتھ پھیلائے؟
دراصل یہ بھی اس کی شانِ کریمی ہے کہ وہ آپ سے خود آپ ہی کے فائدے کے لیے، آپ ہی کی بھلائی کے لیے، آپ ہی کے کام میں خرچ کرنے کو فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ خرچ میری راہ میں ہے، مجھ پر قرض ہے، میرے ذمے اس کا بدلہ ہے اور میں تمھارا احسان مانتا ہوں۔ تم اپنی قوم کے محتاجوں اور مسکینوں کو دو۔ اس کا بدلہ وہ غریب کہاں سے دیں گے، ان کی طرف سے میں دوں گا۔ تم اپنے غریب رشتہ داروں کی مدد کرو۔ اس کا احسان ان پر نہیں مجھ پر ہے، میں تمھارے اس احسان کو اتاروں گا۔ تم اپنے یتیموں، اپنی بیوائوں، اپنے معذوروں، اپنے مسافروں، اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کو جو کچھ دو اسے میرے حساب میں لکھ لو۔ تمھارا مطالبہ ان کے ذمے نہیں، میرے ذمے ہے اور میں اس کو ادا کر دوں گا۔ تم اپنے پریشان حال بھائیوں کو قرض دو، اوران سے سود نہ مانگو، ان کو تنگ نہ کرو، اگر وہ ادا کرنے کے قابل نہ ہوں تو ان کو سول جیل نہ بھجوائو، ان کے کپڑے اور گھر کے برتن فروخت نہ کرائو، ان کے بال بچوں کو گھر سے بے گھر نہ کر دو۔ تمھارا قرض ان کے ذمے نہیں، میرے ذمے ہے۔ اگر وہ اصل ادا کر دیں گے تو ان کی طرف سے سود مَیں ادا کروں گا، اور اگر وہ اصل بھی ادا نہ کر سکیں گے تومیں اصل اور سود دونوں تمھیں دوں گا۔ اسی طرح اپنی جماعتی فلاح کے کاموں میں، اپنے ابنائے نوع کی بھلائی اور بہتری کے لیے جو کچھ تم خرچ کرو گے، اس کا فائدہ اگرچہ تمھی کو ملے گا، مگر اس کا احسان مجھ پر ہو گا۔ میں اس کی پائی پائی منافع سمیت تمھیں واپس دوں گا۔
یہ ہے اس کریموں کے کریم، اس پادشاہوں کے پادشاہ کی شان۔ تمھارے پاس جو کچھ ہے اسی کا بخشا ہوا ہے۔ تم کہیں اور سے نہیں لاتے، اسی کے خزانوں سے لیتے ہو، اور پھر جو کچھ دیتے ہو، اس کو نہیںدیتے، اپنے ہی رشتہ داروں، اپنے ہی بھائی بندوں، اپنی ہی قوم کے لوگوں کو دیتے ہو، یا اپنی اجتماعی فلاح پر صَرف کرتے ہو جس کا فائدہ آخر کار تم ہی کو پہنچتا ہے، مگر اس فیاضِ حقیقی کو دیکھو کہ جو کچھ تم اس سے لے لے کر اپنوں کو دیتے ہو، اسے وہ فرماتا ہے کہ تم نے مجھے دیا۔ میری راہ میں دیا، مجھے قرض دیا، میں اس کا اجر تمھیں دوں گا۔ اللہ اکبر! خداوندِ عالم ہی کو یہ شانِ کریمی زیب دیتی ہے۔ اُسی بے نیاز بادشاہ کا یہ مقام ہے کہ فیاضی اور جود و کرم کے اس بلند ترین کمال کا اظہار کرے۔ کوئی انسان اس بلند خیالی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
اِنفاق کی تلقین کیوں؟
اچھا، اب اس بات پر غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نیکی اور فیاضی پر ابھارنے کا یہ طریقہ کیوں اختیار فرمایا؟ اس سوال پرجتنا زیادہ آپ غور کریں گے اسی قدر زیادہ آپ پر اسلامی تعلیمات کی پاکیزگی کا حال کھلے گا، اور آپ کا دل گواہی دیتا چلا جائے گا کہ ایسی بے نظیر تعلیم خدا کے سوا کسی اورکی طرف سے نہیں ہو سکتی۔
انسان خود غرض واقع ہوا ہے
آپ جانتے ہیں کہ انسان کچھ اپنی فطرت ہی کے لحاظ سے ظلوم وجہول واقع ہوا ہے۔ اس کی نظر تنگ ہے۔ یہ زیادہ دُورتک نہیں دیکھ سکتا۔ اس کا دل چھوٹا ہے۔ زیادہ بڑے اور اونچے خیالات اس میں کم ہی سما سکتے ہیں۔ یہ خود غرض واقع ہوا ہے، اور اپنی غرض کا بھی کوئی وسیع تصور اس کے دماغ میں پیدا نہیں ہوتا۔ یہ جلد باز بھی ہے:
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ ط (الانبیائ 21:37)
انسان جلد باز مخلوق ہے۔
یہ ہر چیز کا نتیجہ اور فائدہ جلدی دیکھنا چاہتا ہے اور اُسی نتیجے کو نتیجہ اور اُسی فائدے کو فائدہ سمجھتا ہے جو جلدی سے اس کے سامنے آ جائے اور اس کو محسوس ہو جائے۔ دُور رس نتائج تک اس کی نگاہ نہیں پہنچتی، اور بڑے پیمانے پر جو فائدے حاصل ہوتے ہیں، جن فائدوں کا سلسلہ بہت دُور تک چلتا ہے، ان کا ادراک تو اسے مشکل ہی سے ہوتا ہے، بلکہ بسا اوقات ہوتا ہی نہیں۔ یہ انسان کی فطری کمزوری ہے، اور اس کمزوری کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہر چیز میں یہ اپنے ذاتی فائدے کو دیکھتا ہے، اور فائدہ بھی وہ جو بہت چھوٹے پیمانے پر ہو، جلدی سے حاصل ہو جائے اور اس کو محسوس ہو جائے۔ یہ کہتا ہے کہ جو کچھ میں نے کمایا ہے، یا جو کچھ مجھے اپنے باپ دادا سے ملا ہے وہ میرا ہے، اس میں کسی کا حصہ نہیں۔ اس کو میری ضروریات پر، میری خواہشات پر، میری آسائش پر اور میری لذّتِ نفس ہی پر خرچ ہونا چاہیے، یا کسی ایسے کام میں خرچ ہونا چاہیے جس کا نفع جلدی سے محسوس صورت میں میرے پاس پلٹ آئے۔ میں روپیہ صرف کروں تو اس کے بدلے میں یا تو میرے پاس اس سے زیادہ روپیہ آنا چاہیے، یا میری آسایش میں مزید اضافہ ہونا چاہیے، یاکم از کم یہی ہو کہ میرا نام بڑھے، میری شہرت ہو، میری عزت بڑھے، مجھے کوئی خطاب ملے، اونچی کرسی ملے، لوگ میرے سامنے جھکیں، اور زبانوں پرمیرا چرچا ہو۔
اگر ان باتوں میں سے کچھ بھی مجھے حاصل نہیں ہوتا تو آخر مَیں کیوں اپنا مال اپنے ہاتھ سے دوں؟ قریب میں کوئی یتیم بھوکا مر رہا ہے، یا آوارہ پھر رہا ہے تو میں کیوں اس کی خبر گیری کروں؟ اس کا حق اس کے باپ پر تھا، اسے اپنی اولاد کے لیے کچھ چھوڑ کر جانا چاہیے تھا، یا انشورنس کرانا چاہیے تھا۔ کوئی بیوہ اگر میرے محلے میں مصیبت کے دن کاٹ رہی ہے تو مجھے کیا؟ اس کے شوہر کو اس کی فکر کرنی چاہیے تھی۔ کوئی مسافر اگر بھٹکتا پھر رہا ہے تو مجھ سے کیا تعلق؟ وہ بے وقوف اپنا انتظام کیے بغیر گھر سے کیوں نکل کھڑا ہوا؟ کوئی شخص اگر پریشان حال ہے تو ہوا کرے، اسے بھی اللہ نے میری ہی طرح ہاتھ پائوں دیے ہیں، اپنی ضرورتیں اسے خود پوری کرنی چاہییں، میں اس کی کیوں مدد کروں؟ میں اسے دوں گا تو قرض دوں گا اور اصل کے ساتھ سود بھی وصول کروں گا کیوںکہ میرا روپیہ کچھ بیکار تو ہے نہیں۔ میں اس سے مکان بنواتا، یا موٹر خریدتا، یا کسی نفع کے کام پر لگاتا۔ یہ بھی اس سے کچھ نہ کچھ فائدہ ہی اٹھائے گا۔ پھر کیوں نہ میں اس فائدے میں سے اپنا حصہ وصول کروں؟
خود غرضانہ ذہنیت کے نتائج
اس خود غرضانہ ذہنیت کے ساتھ اوّل تو روپے والا آدمی خزانے کا سانپ بن کر رہے گا، یا خرچ کرے گا تو اپنے ذاتی فائدے کے لیے کرے گا۔ جہاں اس کو اپنا فائدہ نظر نہ آئے گا وہاں ایک پیسہ بھی اس کی جیب سے نہ نکلے گا۔ اگر کسی غریب آدمی کی اس نے مدد کی بھی تو دراصل اس کی مدد نہ کرے گا، بلکہ اس کو لُوٹے گا، اور جو کچھ اسے دے گا اس سے زیادہ وصول کرلے گا۔ اگرکسی مسکین کو کچھ دے گا تو اس پر ہزاروں احسان رکھ کر اس کی آدھی جان نکال لے گا اور اس کی اتنی تذلیل وتحقیر کرے گا کہ اس میں کوئی خود داری باقی نہ رہ سکے گی۔ اگر کسی قومی کام میں حصہ لے گا تو سب سے پہلے یہ دیکھ لے گا کہ اس میں میرا ذاتی فائدہ کس قدر ہے۔ جن کاموں میں اس کی اپنی ذات کا کوئی فائدہ نہ ہو، وہ سب اُس کی مدد سے محروم رہ جائیں گے۔
اس ذہنیت کے نتائج کیاہیں؟ اس کے نتائج صرف اجتماعی زندگی ہی کے لیے مہلک نہیں ہیں، بلکہ آخر کار خود اس شخص کے لیے بھی نقصان دہ ہیں جو تنگ نظری اور جہالت کی وجہ سے اس کو اپنے لیے فائدہ مند سمجھتا ہے۔ جب لوگوں میں یہ ذہنیت کام کر رہی ہو تو تھوڑے اشخاص کے پاس دولت سمٹ سمٹ کر اکٹھی ہوتی چلی جاتی ہے اور بے شمار اشخاص بے وسیلہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دولت مند لوگ روپے کے زور سے روپیہ کھینچتے رہتے ہیں اور غریب لوگوں کی زندگی روز بروز تنگ ہوتی جاتی ہے۔ افلاس جس سوسائٹی میں عام ہو، وہ طرح طرح کی خرابیوں میں مبتلا ہوتی ہے۔ اس کی جسمانی صحت خراب ہوتی ہے۔ اس میں بیماریاں پھیلتی ہیں۔ اس میں کام کرنے اور دولت پیدا کرنے کی قوت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس میں جہالت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس کے اخلاق گرنے لگتے ہیں۔ وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے جرائم کا ارتکاب کرنے لگتی ہے اور آخر کار یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ وہ لوٹ مار پر اتر آتی ہے۔ عام بلوے ہوتے ہیں۔ دولت مند لوگ قتل کیے جاتے ہیں۔ ان کے گھر بار لوٹے اور جلائے جاتے ہیں، اور وہ اس طرح تباہ وبرباد ہوتے ہیں کہ ان کا نام ونشان تک دنیا میں باقی نہیں رہتا۔
اجتماع کی فلاح میں فرد کی فلاح ہے
اگر آپ غو رکریں تو آپ کو معلوم ہو سکتا ہے کہ درحقیقت ہر شخص کی بھلائی اس جماعت کی بھلائی کے ساتھ وابستہ ہے جس کے دائرے میں وہ رہتا ہے۔ آپ کے پاس جو دولت ہے اگر آپ اس میں سے اپنے دوسرے بھائیوں کی مدد کریں تو یہ دولت چکر لگاتی ہوئی بہت سے فائدوں کے ساتھ پھر آپ کے پاس پلٹ آئے گی، اور اگر آپ تنگ نظری کے ساتھ اس کو اپنے پاس جمع رکھیں گے، یا صرف اپنے ہی ذاتی فائدے پر خرچ کریں گے تو یہ بالآخر گھٹتی چلی جائے گی۔
مثال کے طور پر اگر آپ نے ایک یتیم بچے کی پرورش کی اور اسے تعلیم دے کر اس قابل بنا دیا کہ وہ آپ کی جماعت کا ایک کمانے والا فرد بن جائے تو گویا آپ نے جماعت کی دولت میں اضافہ کیا، اور ظاہر ہے کہ جب جماعت کی دولت بڑھے گی تو آپ، جو جماعت کے ایک فرد ہیں، آپ کو بھی اس دولت میں سے بہرحال حصہ ملے گا، خواہ آپ کو کسی حساب سے یہ معلوم نہ ہو سکے کہ یہ حصہ آپ کو اس خاص یتیم کی قابلیت سے پہنچا ہے جس کی آپ نے مدد کی تھی۔ لیکن اگر آپ نے خود غرضی اور تنگ نظری سے کام لے کر یہ کہا کہ میں اس کی مدد کیوں کروں، اس کے باپ کو اس کے لیے کچھ نہ کچھ چھوڑنا چاہیے تھا، تووہ آوارہ پھرے گا، ایک بے کار آدمی بن کر رہ جائے گا۔ اس میں یہ قابلیت ہی پیدا نہ ہو سکے گی کہ اپنی محنت سے جماعت کی دولت میں کوئی اضافہ کر سکے، بلکہ کچھ عجب نہیں کہ وہ جرائم پیشہ بن جائے اور ایک روز خود آپ کے گھر میں نقب لگائے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ آپ نے اپنی جماعت کے ایک شخص کو بیکاراور آوارہ اور جرائم پیشہ بنا کر اس کا ہی نہیں، خود اپنا بھی نقصان کیا۔
اس ایک مثال پرقیاس کرکے آپ ذرا وسیع نظر سے دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ جو شخص بے غرضی کے ساتھ جماعت کی بھلائی کے لیے روپیہ صَرف کرتا ہے، اس کا روپیہ ظاہر میں تو اس کی جیب سے نکل جاتا ہے، مگر باہر وہ بڑھتا اور پھلتا پھولتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ آخر میں وہ بے شمار فائدوں کے ساتھ اسی کی جیب میں واپس آتا ہے جس سے وہ کبھی نکلا تھا۔ اور جو شخص خود غرضی اور تنگ نظری کے ساتھ روپے کو اپنے پاس روک رکھتا ہے اور جماعت کی بھلائی پر خرچ نہیں کرتا، وہ ظاہر میں تو اپنا روپیہ محفوظ رکھتا ہے، یا سود کھا کر اسے اور بڑھاتا ہے، مگر حقیقت میں اپنی حماقت سے اپنی دولت گھٹاتا ہے اور اپنے ہاتھوں اپنی بربادی کا سامان کرتا ہے۔ یہی راز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ:
یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ ط (البقرہ 2:276)
اللہ سود کا مَٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔
وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللہِ۰ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوۃٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْہَ اللہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَo (الروم 30:39)
تم جو سود دیتے ہو اِس غرض کے لیے کہ یہ لوگوں کی دولت بڑھائے، تو دراصل اللہ کے نزدیک اس سے دولت نہیں بڑھتی، البتہ جو زکوٰۃ تم محض خدا کی رضا جوئی کے لیے دو، وہ دوگنی چوگنی ہوتی چلی جاتی ہے۔
لیکن اس راز کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے میں انسان کی تنگ نظری اور اس کی جہالت مانع ہے۔ یہ محسوسات کا بندہ ہے۔ جو روپیہ اس کی جیب میں ہے اس کو تو یہ دیکھ سکتاہے کہ اس کی جیب میں ہے۔ جو روپیہ اس کے بہی کھاتے{ FR 1590 } کی رُو سے بڑھ رہا ہے، اس کو بھی یہ جانتا ہے کہ واقعی بڑھ رہا ہے، مگر جو روپیہ اس کے پاس سے چلا جاتا ہے اس کو یہ نہیں دیکھ سکتا کہ وہ کہاں بڑھ رہا ہے، کس طرح بڑھ رہا ہے، کتنا بڑھ رہا ہے، اور کب اس کے پاس فائدوں اور منافع کے ساتھ واپس آتا ہے؟ یہ تو بس یہی سمجھتا ہے کہ اس قدر روپیہ میرے پاس سے گیا اور ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔
اس جہالت کے بند کو آج تک انسان اپنی عقل یا اپنی کوشش سے نہیں کھول سکا۔ تمام دنیا میں یہی حال ہے۔ ایک طرف سرمایہ داروں کی دنیا ہے جہاں سارے کام سود خواری پر چل رہے ہیں اور دولت کی کثرت کے باوجود روز بروز مصیبتوں اور پریشانیوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ دوسری طرف ایک ایسا گروہ پیدا ہو چکا ہے اور بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کے دل میں حسد کی آگ جل رہی ہے اور جو سرمایہ داروں کے خزانوں پر ڈاکہ مارنے کے ساتھ انسانی تہذیب وتمدن کی ساری بساط بھی الٹ دینا چاہتا ہے۔
مشکلات کا حل
اس پیچیدگی کو اس حکیم ودانا ہستی نے حل کیا ہے جس کی کتابِ پاک کا نام قرآن ہے۔ اس قفل کی کنجی ایمان باللہ اور ایمان بالیوم الآخر ہے۔ اگر آدمی خدا پر ایمان لے آئے اور یہ جان لے کہ زمین وآسمان کے خزانوں کا اصل مالک خدا ہے، اور انسانی معاملات کا انتظام اصل میں خدا ہی کے ہاتھ میں ہے، اور خدا کے پاس ایک ایک ذرّے کا حساب ہے، اور انسان کی ساری بھلائیوں اور برائیوں کی آخری جزا وسزا ٹھیک ٹھیک حساب کے مطابق آخرت میں ملے گی، تو اس کے لیے یہ بالکل آسان ہو جائے گا کہ اپنی نظر پر بھروسا کرنے کے بجائے خدا پر بھروسا کرے اور اپنی دولت کو خدا کی ہدایت کے مطابق خرچ کرے، اور اس کے نفع ونقصان کو خدا پر چھوڑ دے۔ اس ایمان کے ساتھ وہ جو کچھ خرچ کرے گا وہ دراصل خدا کو دے گا۔ اس کا حساب کتاب بھی خدا کے بہی کھاتے میں لکھا جائے گا۔ خواہ دنیا میں کسی کو اس کے احسان کا علم ہو یا نہ ہو، مگر خدا کے علم میں وہ ضرور آئے گا، اور خواہ کوئی اس کا احسان مانے، یا نہ مانے خدا اس کے احسان کو ضرور مانے اور جانے گا۔ اور خدا کا جب یہ وعدہ ہو چکا ہے کہ وہ اس کا بدلہ دے گا تو یقین ہے کہ وہ اس کابدلہ ضرور دے گا، خواہ آخرت میں دے، یا دنیا اور آخرت دونوں میں دے۔
٭…٭…٭
انفاق فی سبیل اللہ کے احکام
احکام کی دو قسمیں___ عام اور خاص
برادرانِ اسلام! اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت کا یہ قاعدہ رکھا ہے کہ پہلے تو نیکی اور بھلائی کے کاموں کا ایک عام حکم دیا جاتا ہے، تاکہ لوگ اپنی زندگی میں عموماً بھلائی کا طریقہ اختیار کریں۔ پھر اسی بھلائی کی ایک خاص صورت بھی تجویز کر دی جاتی ہے تاکہ اس کی خاص طور پر پابندی کی جائے۔
اللہ کی یاد کا عام حکم
مثال کے طور پر دیکھیے، اللہ کی یاد ایک بھلائی ہے، سب سے بڑی بھلائی اور تمام بھلائیوں کا سرچشمہ۔ اس کے لیے عام حکم ہے کہ اللہ کو ہمیشہ ہر حال میں ہر وقت یاد رکھو اور کبھی اس سے غافل نہ ہو:
فَاذْكُرُوا اللہَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِكُمْ۰ۚ (النسائ 4:103)
کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے اللہ کی یاد میں لگے رہو۔
وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o ج (الانفال 8:45)
اور اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تم کو فلاح نصیب ہو۔
اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ۱۹۰ۚۙ الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللہَ قِٰیمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِھِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا۰ۚ (آل عمران 3:191-190)
بے شک آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں، جو خدا کوکھڑے اور بیٹھے اور لیٹے یاد کرتے رہتے ہیں اور جو آسمانوں اور زمین کی بناوٹ پر غور کرکے بے اختیار بول اٹھتے ہیں کہ پرورد گار! تو نے یہ کارخانہ بے کار نہیں بنایا۔
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَكَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا o ( الکہف 18:28)
اور اس شخص کی بات نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل پایا اور جو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑ گیا ہے اور جس کے سارے کام حد سے گزرے ہوئے ہیں۔
یہ اور بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں حکم دیا گیا ہے کہ ہمیشہ ہر حال میں خدا کی یاد جاری رکھو، کیونکہ خدا کی یاد ہی وہ چیز ہے جو آدمی کے معاملات کو درست رکھتی ہے اور اس کو سیدھے راستے پر قائم رکھتی ہے۔ جہاں آدمی اس کی یاد سے غافل ہوا، اور بس نفسانی خواہشوں اور شیطانی وسوسوں نے اس پر قابو پا لیا، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ راہِ راست سے بھٹک کر اپنی زندگی کے معاملات میں حد سے گزرنے لگے گا۔
اللہ کی یاد کا خاص حکم
دیکھیے، یہ تو تھا عام حکم۔ اب اسی یادِ الٰہی کی ایک خاص صورت تجویز کی گئی۔ نماز، اور نماز میں بھی پانچ وقت میں چند رکعتیں فرض کر دی گئیں جن میں بیک وقت پانچ دس منٹ سے زیادہ صَرف نہیں ہوتے۔ اس طرح چند منٹ اِس وقت اور چند منٹ اُس وقت یاد الٰہی کو فرض کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بس آپ اتنی ہی دیر کے لیے خدا کو یاد کریں اور باقی وقت اس کو بھول جائیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کم ازکم اتنی دیر کے لیے تو تم کو بالکل خدا کی یاد میں لگ جانا چاہیے۔ اس کے بعد اپنے کام بھی کرتے رہو، اور ان کو کرتے ہوئے خدا کو بھی یاد کرو۔
انفاق فی سبیل اللہ کا عام حکم
بس ایسا ہی معاملہ زکوٰۃ کا بھی ہے۔ یہاں بھی ایک حکم عام ہے اور ایک خاص۔ ایک طرف تو یہ ہے کہ بخل اور تنگ دلی سے بچو کہ یہ برائیوں کی جڑ اور بدیوں کی ماں ہے۔ اپنے اخلاق میں اللہ کا رنگ اختیار کرو جو ہر وقت بے حد وحساب مخلوق پر اپنے فیض کے دریا بہا رہا ہے، حالانکہ کسی کا اس پر کوئی حق اور دعویٰ نہیں ہے۔ راہِ خدا میں جو کچھ خرچ کر سکتے ہو کرو۔ اپنی ضرورتوں سے جتنا بچا سکتے ہو بچائو اور اس سے خدا کے دوسرے ضرورت مند بندوں کی ضرورتیں پوری کرو۔ دین کی خدمت میں اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے میں جان اور مال سے کبھی دریغ نہ کرو۔ اگر خدا سے محبت رکھتے ہو تومال کی محبت کو خدا کی محبت پر قربان کر دو۔ یہ تو ہے عام حکم۔
انفاق کا خاص حکم
اس کے ساتھ ہی خاص حکم یہ ہے کہ اس قدر مال اگر تمھارے پاس جمع ہو تو اس میں سے کم از کم اتنا خدا کی راہ میں ضرور صَرف کرو، اوراتنی پیداوار تمھاری زمین میں ہو تو اس میں سے کم از کم اتنا حصہ تو ضرور خدا کی نذر کر دو۔ پھر جس طرح چند رکعت نماز فرض کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بس یہ رکعتیں پڑھتے وقت ہی خدا کویاد کرو اور باقی سارے وقتوں میں اس کو بھول جائو، اسی طرح مال کی ایک چھوٹی سی مقدار راہِ خدا میں صَرف کرنا جو فرض کیا گیا ہے، اس کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ جن لوگوں کے پاس اتنا مال ہو بس انھی کو راہِ خدا میں صَرف کرنا چاہیے، اور جو اس سے کم مال رکھتے ہوں انھیں اپنی مٹھیاں بھینچ لینی چاہییں۔ اور اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ مال دار لوگوں پر جتنی زکوٰۃ فرض کی گئی ہے بس وہ اتنا ہی خدا کی راہ میں صَرف کریں، اور اس کے بعد کوئی ضرورت مند آئے تو اسے جھڑک دیں، یا دین کی خدمت کا کوئی موقع آئے تو کہہ دیں کہ ہم تو زکوٰۃ دے چکے۔ اب ہم سے ایک پائی کی بھی امید نہ رکھو۔ زکوٰۃ فرض کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ کم از کم اتنا مال تو ہر مال دار کو راہِ خدا میں دینا ہی پڑے گا، اور اس سے زیادہ جس شخص سے جو کچھ بن آئے وہ اس کو صَرف کرنا چاہیے۔
اِنفاق کے عام حکم کی مختصر تشریح
اب میں آپ کے سامنے پہلے عام حکم کی تھوڑی سی تشریح کروں گا، پھر دوسرے خطبے میں خاص حکم بیان کروں گا۔
قرآن مجید کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ جس چیز کا حکم دیتاہے اس کی حکمتیں اور مصلحتیں بھی خود ہی بتا دیتا ہے، تاکہ محکوم کو حکم کے ساتھ یہ بھی معلوم ہو جائے کہ یہ حکم کیوں دیا گیا ہے اور اس کا فائدہ کیا ہے؟ قرآن مجید کھولتے ہی سب سے پہلے جس آیت پر آپ کی نظر پڑتی ہے وہ یہ ہے:
سیدھے راستے پر چلنے کی تین شرطیں
ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ۰ۚۖۛ فِيْہِ۰ۚۛھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَoلا الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ oلا (البقرہ 3-2:2)
یہ قرآن اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ ان پرہیزگار لوگوں کو زندگی کا سیدھا راستہ بتاتا ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
اس آیت میں یہ اصل الاصول بیان کر دیا گیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں سیدھے راستے پر چلنے کے لیے تین چیزیں لازمی طور پر شرط ہیں:
٭ ایک ایمان بالغیب { FR 1628 }
٭ دوسرے نماز قائم کرنا
٭ تیسرے جو رزق بھی اللہ نے دیا ہو اس میں سے راہِ خدا میں خرچ کرنا
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۰ۥۭ (آل عمران 3:92)
تم نیکی کا مقام پا ہی نہیں سکتے جب تک کہ خدا کی راہ میں وہ چیزیں نہ خرچ کرو جن سے تم کو محبت ہے۔
پھر فرمایا:
اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاۗءِ۰ۚ (البقرہ 2:268)
شیطان تم کو ڈراتا ہے کہ خرچ کرو گے تو فقیر ہو جائو گے اور وہ تمھیں (شرمناک چیز یعنی) بخیلی کی تعلیم دیتا ہے۔
اس کے بعد ارشاد ہوا:
وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّہْلُكَۃِ۰ۚۖۛ (البقرہ 2:195)
اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھ سے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو (کہ راہِ خدا میں خرچ نہ کرنے کے معنی ہلاکت اور بربادی کے ہیں)۔
آخر میں فرمایا:
وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo ج ( الحشر 59:9)
اور جو تنگ دلی سے بچ گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔
زندگی بسر کرنے کے دو طریقے
ان سب آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں انسان کے لیے زندگی بسر کرنے کے دو راستے ہیں:
۱۔ ایک راستہ تو خدا کا ہے جس میں نیکی اور بھلائی اورفلاح اور کامیابی ہے، اور اس راستے کا قاعدہ یہ ہے کہ آدمی کا دل کھلا ہوا ہو، جو رزق بھی تھوڑا یا بہت اللہ نے دیا ہو اس سے خود اپنی ضرورتیں بھی پوری کرے، اپنے بھائیوں کی بھی مدد کرے، اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے بھی خرچ کرے۔
۲۔ دوسرا راستہ شیطان کا ہے، جس میں بظاہر تو آدمی کو فائدہ ہی فائدہ نظر آتا ہے، لیکن حقیقت میں ہلاکت اور بربادی کے سوا کچھ نہیں، اور اس راستے کا قاعدہ یہ ہے کہ آدمی دولت سمیٹنے کی کوشش کرے، پیسے پیسے پر جان دے اور اس کو دانتوں سے پکڑ پکڑ کر رکھے، تاکہ خرچ نہ ہونے پائے اورخرچ ہوبھی تو بس اپنے ذاتی فائدے اور اپنے نفس کی خواہشات ہی پر ہو۔
خدا کی راہ میں خرچ کے طریقے
اب دیکھیے کہ خدائی راستے پر چلنے والوں کے لیے راہِ خدا میں خرچ کرنے کے کیا طریقے بیان ہوئے ہیں ان سب کو نمبر وار بیان کرتا ہوں:
۱۔ صرف خد اکی خوشنودی کے لیے
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ خرچ کرنے میں صرف خدا کی رضا اور اس کی خوشنودی مطلوب ہو۔ کسی کو احسان مند بنانے یا دنیا میں نام پیدا کرنے کے لیے خرچ نہ کیا جائے:
وَ مَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآئَ وَجْہِ اللّٰہِ ط (البقرہ2 :272)
تم جو بھی خرچ کرتے ہو اُس سے اللہ کی رضا کے سوا تمھارا اور کوئی مقصود نہیں ہوتا۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى۰ۙ كَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَا لَہٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۭ فَمَثَلُہٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَكَہٗ صَلْدًا۰ۭ (البقرہ 2: 264)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور اذیت دے کر اس شخص کی طرح ضائع نہ کرو جو لوگوں کے دکھاوے کو خرچ کرتا ہے اور روزِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ اس کے خرچ کی مثال تو ایسی ہے جیسے ایک چٹان پر مٹی پڑی ہو، اور اس پر زور کا مینہ برسے تو ساری مٹی بہہ جائے اور بس صاف چٹان کی چٹان رہ جائے۔
۲۔ احسان نہ جتایا جائے
دوسری بات یہ ہے کہ کسی کو پیسہ دے کر یا روٹی کھلا کر یاکپڑا پہنا کر احسان نہ جتایا جائے اور ایسا برتائو نہ کیا جائے جس سے اس کے دل کو تکلیف ہو:
اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَآ اَذًى۰ۙ لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۰ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ o قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَۃٌ خَيْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ يَّتْبَعُہَآ اَذًى۰ۭ (البقرہ 2:263-262)
جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں اور پھر خرچ کرکے احسان نہیں جتاتے اور تکلیف نہیں پہنچاتے، ان کے لیے خدا کے ہاں اجر ہے اور انھیں کسی نقصان کا خوف یا رنج نہیں۔ ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو۔
۳۔ بہتر مال دیا جائے
تیسرا قاعدہ یہ ہے کہ خدا کی راہ میں اچھا مال دیا جائے، برا چھانٹ کر نہ دیا جائے۔ جو لوگ کسی غریب کو دینے کے لیے پھٹے پرانے کپڑے تلاش کرتے ہیں، یا کسی فقیر کو کھلانے کے لیے بدتر سے بدتر کھانا نکالتے ہیں، ان کو بس ایسے ہی اجر کی خدا سے بھی توقع رکھنی چاہیے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۰۠ وَلَا تَـيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ (البقرہ 2:267)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جو کچھ تم نے کمایا ہے اور جو کچھ ہم نے تمھارے لیے زمین سے نکالا ہے اس میں سے اچھا مال خدا کی راہ میں دو۔ یہ نہ کرو کہ خدا کی راہ میں دینے کے لیے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو۔
۴۔ حتی الامکان چھپا کر دیا جائے
چوتھا قاعدہ یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو چھپا کرخرچ کیا جائے تاکہ ریا اور نمود کی آمیزش نہ ہونے پائے۔ اگرچہ کھلے طریقے سے خرچ کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں، مگر ڈھانک چھپا کر دینا زیادہ بہتر ہے:
اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِىَ۰ۚ وَاِنْ تُخْفُوْھَا وَتُؤْتُوْھَا الْفُقَرَاۗءَ فَھُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۰ۭ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَيِّاٰتِكُمْ۰ۭ ( البقرہ 2:271)
اگر کھلے طریقے سے خیرات کرو تو یہ بھی اچھا ہے، لیکن اگر چھپا کر غریب لوگوں کو دو تو یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اور اس سے تمھارے گناہ دھلتے ہیں۔
۵۔ نادانوں کو ضرورت سے زیادہ نہ دیا جائے
پانچواں قاعدہ یہ ہے کہ کم عقل اور نادان لوگوں کو ان کی ضرورت سے زیادہ نہ دیا جائے کہ بگڑ جائیں اور بری عادتوں میں پڑ جائیں، بلکہ ان کو جو کچھ دیا جائے ان کی حیثیت کے مطابق دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ پیٹ کو روٹی اور پہننے کو کپڑا تو ہر برے سے برے اور بدکار سے بدکار کو بھی ملنا چاہیے، مگر شراب نوشی اور چانڈو اور گانجے{ FR 1629 } اور جوئے بازی کے لیے لفنگے آدمیوں کو پیسہ نہ دینا چاہیے:
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَاۗءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِىْ جَعَلَ اللہُ لَكُمْ قِيٰـمًا وَّارْزُقُوْھُمْ فِيْھَا وَاكْسُوْھُمْ
(النسائ 4:5)
اپنے اموال جن کو اللہ نے تمھارے لیے زندگی بسر کرنے کا ذریعہ بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو، البتہ ان اموال میں سے ان کو کھانے اور پہننے کے لیے دو۔
۶۔ مقروض کو پریشان نہ کیا جائے
چھٹا قاعدہ یہ بیان ہوا ہے کہ اگر کسی غریب آدمی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کو قرضِ حسن دیا جائے تو تقاضے کرکے اسے پریشان نہ کیا جائے، بلکہ اس کو اتنی مہلت دی جائے کہ وہ آسانی سے ادا کر سکے، اوراگر واقعی یہ معلوم ہو کہ وہ ادا کرنے کے قابل نہیں ہے اور تم اتنا مال رکھتے ہو کہ اس کو آسانی کے ساتھ معاف کر سکتے ہو تو بہتر یہ ہے کہ معاف کر دو:
وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰى مَيْسَرَۃٍ۰ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo
(البقرہ 2:280)
اور اگر قرض دار تنگ دست ہو تو اُسے خوشحال ہونے تک مہلت دو، اور صدقہ کر دینا تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم اس کا فائدہ جانو۔
۷۔ خیرات میں اعتدال
ساتواں قاعدہ یہ ارشاد ہوا ہے کہ آدمی کو خیرات کرنے میں بھی حد سے نہ گزرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ مقصد نہیں ہے کہ اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ کاٹ کر سب کچھ خیرات میں دے ڈالا جائے، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ سیدھے سادھے طریقے سے زندگی بسر کرنے کے لیے جتنی ضرورت انسان کو ہوتی ہے اتنا اپنی ذات پر اور اپنے بال بچوں پر صَرف کرے اور جو باقی بچے اسے خدا کی راہ میں دے:
o وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۰ۥۭ قُلِ الْعَفْوَ۰ۭ (البقرہ 2:219)
پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں؟ اے نبیؐ! کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔
o وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًاo
( الفرقان25:67)
اللہ کے نیک بندے جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔
o وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْہَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًاo (بنی اسرائیل 17: 29)
نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو‘ اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو۔
امداد کے مستحقین
آخر میں یہ بھی سن لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے مستحقین کی پوری فہرست بتا دی ہے جس کو دیکھ کر آپ کو معلوم ہو سکتا ہے کہ کون کون لوگ آپ کی مدد کے مستحق ہیں اور کن کا حق اللہ نے آپ کی کمائی میں رکھا ہے:
۱۔ وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَ الْمِسْکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ (بنی اسرائیل 17:26)
اپنے غریب رشتہ دار کو اس کا حق دے اورمسکین اور مسافرکو اس کا حق۔
۲۔ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّہٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ۰ۙ وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ۰ۚ (البقرہ 2:177)
اور نیک وہ ہے جو خدا کی محبت میں مال دے اپنے (غریب) رشتہ داروں کو اور یتیموں اور مسکینوں کو اور مسافر کو اورمدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں کو اور ایسے لوگوں کو جن کی گردنیں غلامی اور اسیری میں پھنسی ہوئی ہوں۔
۳۔ وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۙ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ۰ۭ (النسائ 4:36)
اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں سے اور یتیموں اور مسکینوں اور قرابت دار پڑوسیوں اور اجنبی پڑوسیوں اور پاس کے بیٹھنے والوں اور مسافروں اور اپنے لونڈی غلاموں سے نیک سلوک کیا جائے۔
۴۔ وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًاo اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلاَ شُکُوْرًا o اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا o
(الدھر 76:10-8)
اور نیک لوگ اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اورکہتے ہیں کہ) ہم تم کو محض خدا کے لیے کھلا رہے ہیں۔ تم سے کوئی بدلہ یا شکریہ نہیں چاہتے۔ ہم کو تو اپنے خدا سے اس دن (یعنی قیامت) کا ڈر لگا ہوا ہے جس کی شدت کی وجہ سے لوگوں کے منہ سکڑ جائیں گے اور تیوریاں چڑھ جائیں گی۔
۵۔ وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ o (الذاریات51:19)
اور ان کے مالوں میں حق ہے مدد مانگنے والوں کا اور اس شخص کا جو محروم ہو۔
۶۔ لِلْفُقَرَاۗءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِي الْاَرْضِ۰ۡيَحْسَبُھُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِيَاۗءَ مِنَ التَّعَفُّفِ۰ۚ تَعْرِفُھُمْ بِسِيْمٰھُمْ۰ۚ لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا۰ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌo (البقرہ 2:273)
خیرات اُن حاجت مندوں کے لیے ہے جو اپنا سارا وقت خدا کے کام میں دے کر ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی روٹی کمانے کے لیے دوڑ دھوپ نہیں کر سکتے۔ ان کی خودداری کو دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ وہ خوش حال ہیں، مگر ان کی صورت دیکھ کر تم پہچان سکتے ہو کہ ان پرکیا گزر رہی ہے۔ وہ ایسے نہیں ہیں کہ لوگوں سے لپٹ لپٹ کر مانگتے پھریں۔(ان کی مدد کے لیے) جو کچھ بھی تم خیرات دو گے اللہ کو اس کی خبر ہو گی، اور وہ اس کا بدلہ دے گا۔
٭…٭…٭
زکوٰۃ کے خاص احکام
برادرانِ اسلام! پچھلے خطبے میں آپ کے سامنے انفاق فی سبیل اللہ (یعنی راہِ خدا میں خرچ کرنے) کے عام احکام بیان کر چکا ہوں۔ اب میں اس حکم کے دوسرے حصے کی تفصیلات بیان کرتا ہوں جو زکوٰۃ سے متعلق ہے، یعنی جسے فرض کیا گیا ہے۔
زکوٰۃ کے متعلق تین احکام
زکوٰۃ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تین جگہ الگ الگ احکام بیان فرمائے ہیں:
۱۔ سورۂ بقرہ میں فرمایا:
اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۰۠ (البقرہ 2:267)
جو پاک مال تم نے کمائے ہیں اور جو پیداوار ہم نے تمھارے لیے زمین سے نکالی ہے اس میں سے راہِ خدا میں خرچ کرو۔
۲۔ سورۂ انعام میں فرمایا کہ ہم نے تمھارے لیے زمین سے باغ اگائے ہیں اور کھیتیاں پیدا کی ہیں، لہٰذا:
كُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّہٗ يَوْمَ حَصَادِہٖ۰ۡۖ (الانعام 6:141)
اس کی پیداوار جب نکلے تو اس میں سے کھائو اور فصل کٹنے کے دن اللہ کا حق نکال دو۔
یہ دونوں آیتیں زمین کی پیداوار کے متعلق ہیں، اور فقہائے حنفیہ فرماتے ہیں کہ خود رَو پیداوار مثلاً لکڑی اور گھانس اور بانس{ FR 1631 }کے سوا باقی جتنی چیزیں غلّہ، ترکاری، اورپھلوں کی قسم سے نکلیں ان سب میں سے اللہ کا حق نکالنا چاہیے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جو پیداوار آسمانی بارش سے ہو اس میں اللہ کا حق دسواں حصہ ہے اور جو پیداوار انسان کی اپنی کوشش یعنی آبپاشی سے ہو اس میں اللہ کا حق بیسواں حصہ ہے، اور یہ حصّہ پیداوار کٹنے کے ساتھ ہی واجب ہو جاتا ہے۔
۳۔ اس کے بعد سورۂ توبہ میں آتا ہے :
وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا يُنْفِقُوْنَہَا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۙ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍoلا يَّوْمَ يُحْمٰي عَلَيْہَا فِيْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُكْوٰي بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوْبُہُمْ وَظُہُوْرُہُمْ۰ۭ ہٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَo
(التوبہ 9:35-34)
جو لوگ سونے اور چاندی کو جمع کرکے رکھتے ہیں اور اس میں سے راہِ خدا میں خرچ نہیں کرتے ان کو دردناک عذاب کی خوش خبری دے دو۔ اس دن کے عذاب کی جب ان کے اس سونے اور چاندی کو آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کی پیشانیوں اور ان کے پہلوئوں اور پیٹھوں پر داغا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ مال جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا۔لو، اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔
زکوٰۃ کی فرضیت
ذیل کی آیات میں زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم بیان کیا گیا ہے:
۴۔ اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۭ فَرِيْضَۃً مِّنَ اللہِ۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ o (التوبہ 9:60)
یہ صدقات (یعنی زکوٰۃ) تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور اُن لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں اور اُن کے لیے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو۔ نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور راہِ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔
۵۔ خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا (التوبہ 9:103)
اے نبیؐ! تم ان کے اموال میں سے صدقہ (فرض زکوٰۃ) لے کر انھیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انھیں بڑھائو۔
ان پانچوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ جو مال جمع کیا جائے اور بڑھایا جائے، اور اس میں سے راہِ خدا میں صَرف نہ کیا جائے وہ ناپاک ہوتا ہے۔ اس کے پاک کرنے کی صورت صرف یہ ہے کہ اس میں سے خدا کا حق نکال کر اس کے بندوں کو دیا جائے۔
حدیث میں آتا ہے کہ جب سونا اور چاندی جمع کرنے والوں پر عذاب کی دھمکی آئی تو مسلمان سخت پریشان ہوئے، کیوں کہ اس کے معنی تو یہ ہوتے تھے کہ ایک درہم بھی اپنے پاس نہ رکھو، سب خرچ کر ڈالو۔ آخر کار حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضور نبی کریم a کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قوم کی پریشانی کا حال عرض کیا۔ آپؐ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو تم پر اسی لیے فرض کیا ہے کہ باقی اموال تمھارے لیے پاک ہو جائیں۔
ایسی ہی روایت حضرت ابوسعیدؓ خدری سے مروی ہے کہ حضورؐ نے فرمایا کہ جب تو نے اپنے مال میں سے زکوٰۃ نکال دی تو جو حق تجھ پر واجب تھا وہ ادا ہو گیا۔
آیات مذکورۂ بالا میں تو صرف زمین کی پیداوار اور سونے اور چاندی کی زکوٰۃ کا حکم ملتا ہے لیکن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تجارتی مال، اونٹ، گائے اور بکریوں میں بھی زکوٰۃ ہے۔
چند اشیا کا نصابِ زکوٰۃ
۱۔ چاندی کا نصاب: دو سو درہم یعنی ۲۔۱ ۵۲ ( ساڑھے باون)تولے کے قریب ہے۔
۲۔ سونے کا نصاب: ۲۔۱ ۷ (ساڑھے سات)تولے۔
۳۔ اونٹ کا نصاب: ۵ اُونٹ۔
۴۔ بکریوں کا نصاب: ۴۰ بکریاں۔
۵۔ گائے کا نصاب: ۳۰ گائیں۔
۶۔ اورتجارتی مال کا نصاب: ۲۔۱ ۵۲(ساڑھے باون) تولے چاندی کے بقدر مالیت۔
جس شخص کے پاس اتنا مال موجود ہو، اور اس پر سال گزرجائے تو اس میں سے چالیسواں حصہ زکوٰۃ کا نکالنا واجب ہے۔ چاندی اور سونے کے متعلق حنفیہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ دونوں الگ الگ بقدرِ نصاب نہ ہوں، لیکن دونوں مل کر کسی ایک کے نصاب کی حد تک ان کی قیمت پہنچ جائے تو ان میں سے بھی زکوٰۃ نکالنی واجب ہے۔
زیورات پر زکوٰۃ
سونا اور چاندی اگر زیور کی صورت میں ہوں تو حضرت عمرؓ اور حضرت ابن مسعودؓ کے نزدیک ان کی زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے اور امام ابو حنیفہؒ نے یہی قول لیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ:
۱۔ رسول اللہ a نے دو عورتوں کے ہاتھ میں سونے کے کنگن دیکھے اورپوچھا کہ کیا تم زکوٰۃ نکالتی ہو؟ ایک نے عرض کیا: نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تو پسند کرے گی کہ قیامت کے روز ان کے بدلے آگ کے کنگن تجھے پہنائے جائیں؟
۲۔ اسی طرح حضرت ام سلمہؓ سے مروی ہے کہ میرے پاس سونے کی پازیب تھی۔ میں نے حضورؐ سے پوچھا: کیا یہ کنز ہے؟ آپؐ نے فرمایا : اگر اس میں سونے کی مقدار نصابِ زکوٰۃ تک پہنچتی ہے اور اس میں سے زکوٰۃ نکال دی گئی ہے تو یہ کنز نہیں ہے۔
ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سونا چاندی اگر زیور کی شکل میں ہوں تب بھی اسی طرح زکوٰۃ فرض ہے جس طرح نقد کی صورت میں ہونے پر ہے، البتہ جواہر اور نگینوں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔
زکوٰۃ کے مستحقین
قرآن مجید میں زکوٰۃ کے آٹھ حق دار بیان کیے گئے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:
۱۔ فقرا
یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس کچھ نہ کچھ مال تو ہو، مگر ان کی ضرورت کے لیے کافی نہ ہو۔ تنگ دستی میں گزر بسر کرتے ہوں اور کسی سے مانگتے نہ ہوں۔ابن عباسؓ، امام زہریؒ، امام ابوحنیفہؒ، حسن بصریؒ، ابوالحسن کرخیؒ اور دوسرے بزرگوں نے فقیر کی یہی تعریف فرمائی ہے۔
۲۔ مساکین
یہ بہت ہی تباہ حال لوگ ہیں جن کے پاس اپنے تن کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی کچھ نہ ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسے لوگوں کو بھی مساکین میں شمار فرماتے ہیں جو کمانے کی طاقت رکھتے ہوں، مگر انھیں روز گار نہ ملتا ہو۔
۳۔ عاملین علیہا
ان سے مراد وہ لوگ ہیں جنھیں اسلامی حکومت زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے مقرر کرے۔ ان کو زکوٰۃ کی مد سے تنخواہ دی جائے گی۔
۴۔ مؤلفۃ القلوب
ان سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو اسلام کی حمایت کے لیے، یا اسلام کی مخالفت سے روکنے کے لیے روپیہ دینے کی ضرورت پیش آئے۔ نیز ان میں وہ نو مسلم بھی داخل ہیں جنھیں مطمئن کرنے کی ضرورت ہو۔ اگر کوئی شخص اپنی کافر قوم کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آ ملنے کی وجہ سے بے روزگار یا تباہ حال ہو گیا ہو، تب تو اس کی مدد کرنا مسلمانوں پر ویسے ہی فرض ہے، لیکن اگر وہ مال دار ہو، تب بھی اسے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے تاکہ اس کا دل اسلام پرجم جائے۔ جنگِ حنین کے موقع پر نبی a نے مالِ غنیمت میں سے نو مسلموں کو بہت مال دیا، حتیٰ کہ ایک ایک شخص کے حصے میں سو سو اونٹ آئے۔ انصار نے اس کی شکایت کی تو حضورؐ نے فرمایا کہ یہ لوگ ابھی ابھی کفر سے اسلام میں آئے ہیں، میں ان کے دل کو خوش کرنا چاہتا ہوں۔ اسی بنا پر امام زہریؒ نے مؤلفۃ القلوب کی تعریف یوں بیان کی ہے کہ جو عیسائی یا یہودی یا غیر مسلم اسلام میں داخل ہواہو، اگرچہ وہ مال دار ہی کیوں نہ ہو۔{ FR 1632 }
۵۔ فی الرّقاب
اس سے مطلب یہ ہے کہ جو شخص غلامی کے بند سے چھوٹنا چاہتا ہو اس کو زکوٰۃ دی جائے تاکہ وہ اپنے مالک کو روپیہ دے کر اپنی گردن غلامی سے چھڑا لے۔آج کل کے زمانے میں غلامی کا رواج نہیں ہے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ جو لوگ جرمانہ ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے قید بھگت رہے ہوں ان کو زکوٰۃ دے کر رہائی حاصل کرنے میں مدد دی جا سکتی ہے۔ یہ بھی فی الرقاب کی تعریف میں آ جاتا ہے۔
۶۔ الغارمین
ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرض دار ہوں۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی کے پاس ہزار روپیہ ہو اور وہ سو روپے کا قرض دار ہو تو اس کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس پر اتنا قرض ہو کہ اسے ادا کرنے کے بعد اس کے پاس مقدارِ نصاب سے کم مال بچتا ہو، اسے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔ فقہائے کرام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو شخص اپنی فضول خرچیوں اور بدکاریوں کی وجہ سے قرض دار ہوا ہو اُس کو زکوٰۃ دینا مکروہ ہے کیونکہ پھر وہ اس بھروسے پر اور زیادہ جرأت کے ساتھ بدکاریاں اور فضول خرچیاں کرے گا کہ زکوٰۃ لے کر قرض ادا کر دوں گا۔
۷۔ فی سبیل اللہ
یہ عام لفظ ہے جو تمام نیک کاموں پر استعمال ہوتا ہے، لیکن خاص طور پر اس سے مراد دین حق کا جھنڈا بلند کرنے کی جدوجہد میں مدد کرنا ہے۔ نبی a نے فرمایا کہ زکوٰۃ لینا کسی مال دار آدمی کے لیے جائز نہیں۔ لیکن اگر مال دار آدمی جہاد کے لیے مدد کا حاجت مند ہو تو اسے زکوٰۃ دینی چاہیے۔ اس لیے کہ ایک شخص اپنی جگہ مال دار سہی، لیکن جہاد کے لیے جو غیر معمولی مصارف ہوتے ہیں ان کو وہ محض اپنے مال سے کس طرح پورا کر سکتا ہے۔ اس کام میں زکوٰۃ سے اس کی مدد کرنی چاہیے۔
۸۔ ابنُ السّبیل (یعنی مسافر)
اگرچہ مسافر کے پاس اس کے وطن میں کتنا ہی مال ہو، لیکن حالتِ مسافرت میں اگر وہ محتاج ہے تو اُسے زکوٰۃ دینی چاہیے۔
زکوٰۃ کسے دی جائے اور کسے نہیں؟
اب یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ یہ آٹھ گروہ جو بیان ہوئے ہیں اِن میں سے کس شخص کو کس حال میں زکوٰۃ دینی چاہیے، اور کس حال میں نہ دینی چاہیے۔ اس کی بھی تھوڑی سی تفصیل بیان کر دیتا ہوں:
۱۔ کوئی شخص اپنے باپ یا اپنے بیٹے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔ شوہر اپنی بیوی کو اور بیوی اپنے شوہر کو بھی زکوٰۃ نہیں دے سکتی۔ اس میں فقہا کا اتفاق ہے۔ بعض فقہا یہ بھی فرماتے ہیں کہ ایسے قریبی عزیزوں کو زکوٰۃ نہیں دینی چاہیے جن کا نفقہ تم پر واجب ہو، یا جو تمھارے شرعی وارث ہوں، البتہ دور کے عزیز زکوٰۃ کے حق دار ہیں، بلکہ دوسروں سے زیادہ حق دار ہیں، مگر امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ نکال کر اپنے ہی عزیزوں کو نہ ڈھونڈتے پھرو۔
۲۔ زکوٰۃ صرف مسلمان کاحق ہے۔ غیر مسلم کا حق نہیں ہے۔ حدیث میں زکوٰۃ کی تعریف یہ آئی ہے کہ تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَآئِ کُمْ وَتُرَدُّ اِلٰی فُقَرَآئِ کُمْ (متفق علیہ) ’’یعنی وہ تمھارے مال داروں سے لی جائے گی اور تمھارے ہی فقیروں میں تقسیم کر دی جائے گی۔‘‘ البتہ غیر مسلم کو عام خیرات میں سے حصہ دیا جا سکتا ہے،بلکہ عام خیرات میں یہ تمیز کرنا اچھا نہیں ہے کہ مسلمان کو دی جائے اور کوئی غیر مسلم مدد کا محتاج ہو تواس سے ہاتھ روک لیا جائے۔
۳۔ امام ابو حنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ ہر بستی کی زکوٰۃ اسی بستی کے غریبوں میں صَرف ہونی چاہیے۔ ایک بستی سے دوسری بستی میں بھیجنا اچھا نہیں ہے۔ اِلاَّیہ کہ وہاں کوئی حق دار نہ ہو یا دوسری جگہ کوئی ایسی مصیبت آ گئی ہو کہ دورونزدیک کی بستیوں سے مدد پہنچنی ضروری ہو، جیسے سیلاب یا قحط وغیرہ۔ قریب قریب یہی رائے امام مالکؒ اور امام سفیان ثَوریؒ کی بھی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ زکوٰۃ بھیجنا ناجائز ہے۔
۴۔ بعض بزرگوں کا خیال ہے کہ جس شخص کے پاس دو وقت کے کھانے کا سامان ہو اسے زکوٰۃ نہ لینی چاہیے۔ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ جس کے پاس دس روپے اور بعض فرماتے ہیں کہ جس کے پاس ساڑھے بارہ روپے موجود ہوں اسے زکوٰۃ نہ لینی چاہیے، لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور تمام حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ جس کے پاس پچاس روپے سے کم ہوں وہ زکوٰۃ لے سکتا ہے۔ اس میں مکان اور گھر کا سامان اور گھوڑا اور خادم شامل نہیں ہیں۔ یعنی یہ سب سامان رکھتے ہوئے بھی جو شخص پچاس روپے سے کم مال رکھتا ہو وہ زکوٰۃ لینے کا حق دار ہے۔ اس معاملے میں ایک چیز تو ہے قانون اور دوسری چیز ہے درجۂ فضیلت۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ درجۂ فضیلت تو یہ ہے کہ حضور a نے فرمایا:
o جو شخص صبح و شام کی روٹی کا سامان رکھتا ہو، وہ اگر سوال کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اپنے حق میں آگ جمع کرتا ہے۔
o دوسری حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ میں اس کو پسند کرتا ہوں کہ ایک شخص لکڑیاں کاٹے اور اپنا پیٹ بھرے، بہ نسبت اس کے کہ سوال کے لیے ہاتھ پھیلاتا پھرے۔
o تیسری حدیث میں ہے کہ جس کے پاس کھانے کو ہو یا جو کمانے کی طاقت رکھتا ہو اس کا یہ کام نہیں ہے کہ زکوٰۃ لے، لیکن یہ اولواالعزمی کی تعلیم ہے۔
رہا قانون تو اس میں ایک آخری حد بتانی ضروری ہے کہ کہاں تک آدمی زکوٰۃ لینے کا حق دار ہو سکتا ہے۔ سو وہ دوسری حدیثوں میں ملتا ہے۔ مثلا: آپؐ نے فرمایا :
o لِلسَّآئِلَ حَقٌّ وَّاِنْ جَآئَ عَلَی الْفَرَسِ (ابودائود)
یعنی سائل کا حق ہے، اگرچہ وہ گھوڑے پر سوار آیا ہو۔
o ایک شخص نے حضور a سے عرض کیا کہ میرے پاس دس روپے ہیں کیا میں مسکین ہوں؟آپؐ نے فرمایا: ہاں۔
o ایک مرتبہ دو آدمیوں نے آ کر حضورؐ سے زکوٰۃ مانگی۔ آپؐ نے نظر اٹھا کرانھیں غور سے دیکھا، پھر فرمایا: اگر تم لینا چاہتے ہو تو میں دے دوں گا، لیکن اس مال میں غنی اور کمانے کے قابل ہٹّے کٹّے لوگوں کا حصہ نہیں ہے۔
ان سب احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص بقدرِ نصاب مال سے کم رکھتا ہو، وہ فقرا کے ذیل میں آجاتا ہے اور اسے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔یہ دوسری بات ہے کہ زکوٰۃ لینے کا حق دراصل اصلی حاجت مندوں ہی کو پہنچتا ہے۔
زکوٰۃ کے لیے اجتماعی نظام کی ضرورت
زکوٰۃ کے ضروری احکام میں نے بیان کر دیے ہیں، لیکن ان سب کے ساتھ ایک اہم اور ضروری چیز اور بھی ہے جس کی طرف میں خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں کیونکہ مسلمان آج کل اس کو بھول گئے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ اسلام میں تمام کام نظامِ جماعت کے ساتھ ہوتے ہیں۔ انفرادیت کو اسلام پسند نہیں کرتا۔ آپ مسجد سے دور ہوں اور الگ نماز پڑھ لیں تو ہو جائے گی، مگر شریعت تو یہی چاہتی ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں۔ اسی طرح نظامِ جماعت نہ ہوتو الگ الگ زکوٰۃ نکالنا اور خرچ کرنا بھی صحیح ہے، لیکن کوشش یہی ہونی چاہیے کہ زکوٰۃ کو ایک مرکز پر جمع کیا جائے تاکہ وہاں سے وہ ایک ضابطے کے ساتھ خرچ ہو۔ اسی چیز کی طرف قرآن مجید میں اشارہ فرمایا گیا ہے۔ مثلاً فرمایا :
خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا (التوبۃ 9:103)
اے نبیؐ! تم ان کے اموال میں سے صدقہ (یعنی فرض زکوٰۃ) لے کر انھیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انھیں بڑھائو۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ ان سے زکوٰۃ وصول کریں۔ مسلمانوں سے یہ نہیں فرمایا کہ تم زکوٰۃ نکال کر الگ الگ خرچ کر دو۔
اسی طرح عاملینِ زکوٰۃ کا حق مقرر کرنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا امام اس کو باقاعدہ وصول کرے اور باقاعدہ خرچ کرے۔ اسی طرح نبی a نے فرمایا:
اُمِرْتُ اَنْ اٰخُذَالصَّدَقَۃَ مِنْ اَغْنِیَآئ ِکُمْ وَاَرُدَّھَا فِیْ فُقَرَآئِ کُمْ۔ (بخاری، مسلم)
یعنی مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمھار ے مال داروںسے زکوٰۃ وصول کروں اور تمھارے فقرا میں تقسیم کردوں۔
اسی طریقے پرنبی a اور خلفائے راشدین کا عمل بھی تھا۔ تمام زکوٰۃ حکومتِ اسلامی کے کارکن جمع کرتے تھے اورمرکز کی طرف سے اس کو تقسیم کیا جاتا تھا۔ آج اگر اسلامی حکومت نہیں ہے اور زکوٰۃ جمع کرکے باضابطہ تقسیم کرنے کا انتظام بھی نہیں ہے تو آپ علیحدہ علیحدہ اپنی زکوٰۃ نکال کر شرعی مصارف میں خرچ کر سکتے ہیں، مگر تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ زکوٰۃ جمع کرنے اور تقسیم کرنے کے لیے ایک اجتماعی نظام بنانے کی فکر کریں، کیونکہ اس کے بغیر زکوٰۃ کی فرضیت کے فوائد ادھورے رہ جاتے ہیں۔
خ خ خ
باب ششم
حج
* حج
* حج کی تاریخ
* حج کے فائدے
* حج کا عالمگیر اجتماع
حج کا پس منظر
بردرانِ اسلام! پچھلے خطبات میں نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے متعلق آپ کو تفصیل کے ساتھ بتایا جا چکا ہے کہ یہ عبادتیں انسان کی زندگی کو کس طرح اسلام کے سانچے میں ڈھالتی اوراس کو اللہ کی بندگی کے لیے تیار کرتی ہیں۔ اب اسلام کی فرض عبادتوں میں سے صرف حج باقی ہے، جس کے فائدے مجھے آپ کے سامنے بیان کرنے ہیں۔
حج کے معنی
حج کے معنی عربی زبان میں زیارت کا قصد کرنے کے ہیں۔ حج میں چونکہ ہر طرف سے لوگ کعبے کی زیارت کا قصد کرتے ہیں، اس لیے اس کا نام حج رکھا گیا۔
حج کی ابتدا
سب سے پہلے اس کی ابتدا جس طرح ہوئی اس کا قصہ بڑا سبق آموز ہے۔ اس قصے کو غور سے سنیے، تاکہ حج کی حقیقت اچھی طرح آپ کے ذہن نشین ہو جائے۔ پھر اس کے فائدوں کا سمجھنا آپ کے لیے آسان ہو گا۔
حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں حالات
کون مسلمان، عیسائی یا یہودی ایسا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام سے واقف نہ ہو؟ دنیا کی دو تہائی سے زیادہ آبادی اُن کو پیشوا مانتی ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ، حضرت عیسیٰ ؑاور حضرت محمدa، تینوں انھی کی اولاد سے ہیں۔ انھی کی روشن کی ہوئی شمع سے دنیا بھر میں ہدایت کا نور پھیلا ہے۔ چار ہزار برس سے زیادہ مدت گزری جب وہ عراق کی سرزمین میں پیدا ہوئے تھے۔اُس وقت ساری دنیا خدا کو بھولی ہوئی تھی۔ روئے زمین پرکوئی ایسا انسان نہ تھا جو اپنے اصلی مالک کو پہچانتا ہو، اور صرف اُسی کے آگے اطاعت وبندگی میں سرجھکاتا ہو۔ جس قوم میں انھوں نے آنکھیں کھولی تھیں وہ اگرچہ اس زمانے میں دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم تھی، لیکن گمراہی میں بھی وہی سب سے آگے تھی۔ علوم وفنون اور صنعت وحرفت میں ترقی کر لینے کے باوجود ان لوگوں کو اتنی ذرا سی بات نہ سوجھتی تھی کہ مخلوق کبھی معبود ہونے کا اہل نہیں ہو سکتا۔ ان کے ہاں ستاروںاور بتوں کی پرستش ہوتی تھی۔ نجوم، فال گیری، غیب گوئی، جادو ٹونے اور تعویذ گنڈے کا خوب چرچا تھا۔ جیسے آج کل ہندوئوں میں پنڈت اور برہمن ہیں اسی طرح اس زمانے میں بھی پجاریوں کا ایک طبقہ تھا جو مندروں کی محافظت بھی کرتا، لوگوں کو پوجا بھی کراتا، شادی اور غمی وغیرہ کی رسمیں بھی ادا کرتا، اور غیب کی خبریں بھی لوگوں کو بتانے کا ڈھونگ رچاتا تھا۔
عام لوگ ان کے پھندے میں ایسے پھنسے ہوئے تھے کہ انھی کو اپنی اچھی اور بری قسمت کا مالک سمجھتے تھے۔ انھی کے اشاروں پر چلتے تھے اور بے چون وچرا ان کی خواہشات کی بندگی کرتے تھے کیوں کہ ان کا گمان تھا کہ دیوتائوں کے ہاں ان پجاریوں کی پہنچ ہے۔ یہ چاہیں تو ہم پر دیوتائوں کی عنایت ہو گی، ورنہ ہم تباہ ہو جائیں گے۔ پجاریوں کے اس گروہ کے ساتھ بادشاہوں کی ملی بھگت تھی۔ عام لوگوں کو اپنا بندہ بنا کر رکھنے میں بادشاہ پجاریوں کے مددگار تھے اور پجاری بادشاہوں کے۔ ایک طرف حکومت ان پجاریوں کی پشت پناہی کرتی تھی اور دوسری طرف یہ پجاری لوگوں کے عقیدے میں یہ بات بٹھاتے تھے کہ بادشاہِ وقت بھی خدائوں میں سے ایک خدا ہے، ملک اور رعیت کا مالک ہے، اس کی زبان قانون ہے اور اس کو رعایا کی جان ومال پر ہر قسم کے اختیارات حاصل ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بادشاہوں کے آگے پورے بندگی کے مراسم بجا لائے جاتے تھے، تاکہ رعایا کے دل ودماغ پر ان کی خدائی کا خیال مسلّط ہو جائے۔
حضرت ابراہیم ؑ کا گھرانا
ایسے زمانے اور ایسی قوم میں حضرت ابراہیم ؑ پیدا ہوئے اور لطف یہ ہے کہ جس گھرانے میں پیدا ہوئے وہ خود پجاریوں کا گھرانا تھا۔ ان کے باپ دادا اپنی قوم کے پنڈت اور برہمن تھے۔ اس گھر میں وہی تعلیم اور وہی تربیت ان کو مل سکتی تھی جو ایک پنڈت زادے کو ملا کرتی ہے۔ اسی قسم کی باتیں بچپن سے کانوں میں پڑتی تھیں۔ وہی پیروں اور پیرزادوں کے رنگ ڈھنگ اپنے بھائی بندوں اور برادری کے لوگوں میں دیکھتے تھے۔ وہی مندر کی گدی ان کے لیے تیار تھی جس پر بیٹھ کر وہ اپنی قوم کے پیشوا بن سکتے تھے۔ وہی نذر ونیاز اور چڑھاوے جن سے ان کا خاندان مالا مال ہو رہا تھا ان کے لیے بھی حاضر تھے۔ اُسی طرح لوگ ان کے سامنے بھی ہاتھ جوڑنے اور عقیدت سے سرجھکانے کے لیے موجود تھے۔ اسی طرح دیوتائوں سے رشتہ ملا کر اور غیب گوئی کا ڈھونگ رچا کر وہ ادنیٰ کسان سے لے کر بادشاہ تک ہر ایک کو اپنی پیری کے پھندے میں پھانس سکتے تھے۔ اس اندھیرے میں جہاں کوئی ایک آدمی بھی حق کو جاننے اور ماننے والا موجود نہ تھا، نہ تو ان کو حق کی روشنی ہی کہیں سے مل سکتی تھی اور نہ کسی معمولی انسان کے بس کا یہ کام تھا کہ اس قدر زبردست ذاتی اور خاندانی فائدوں کو لات مار کر محض سچائی کے پیچھے دنیا بھر کی مصیبتیں مول لینے پر آمادہ ہو جاتا۔
حضرت ابراہیم ؑ کا اعلانِ براء ت
مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کوئی معمولی آدمی نہ تھے۔ کسی اور ہی مٹی سے ان کا خمیر بنا تھا۔ ہوش سنبھالتے ہی انھوں نے سوچنا شروع کر دیا کہ یہ سورج، چاند اور ستارے جو خود غلاموں کی طرح گردش کر رہے ہیں، اور یہ پتھر کے بت جن کو آدمی خود اپنے ہاتھ سے بناتا ہے اور یہ بادشاہ جو ہم ہی جیسے انسان ہیں، آخر یہ خدا کیسے ہو سکتے ہیں؟ جو بچارے خود اپنے اختیار سے جنبش نہیں کر سکتے، جن میں آپ اپنی مدد کرنے کی قدرت نہیں، جو اپنی موت اور زیست کے بھی مختار نہیں، ان کے پاس کیا دھرا ہے کہ انسان ان کے آگے عبادت میں سر جھکائے، ان سے اپنی حاجتیں مانگے، ان کی طاقت سے خوف کھائے اور ان کی خدمت گاری وفرماںبرداری کرے۔ زمین اور آسمان کی جتنی چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں، یا جن سے کسی طور پر ہم واقف ہیں، ان میں سے تو کوئی بھی ایسی نہیں جو خود محتاج نہ ہو، جو خود کسی طاقت سے دبی ہوئی نہ ہو، اور جس پر کبھی نہ کبھی زوال نہ آتا ہو۔ پھر جب ان سب کا یہ حال ہے تو ان میں سے کوئی رب کیسے ہو سکتا ہے؟ جب ان میں سے کسی نے مجھ کو پیدا نہیں کیا، نہ کسی کے ہاتھ میں میری موت اور زیست کا اور نفع اور نقصان کا اختیار ہے، نہ کسی کے ہاتھ میں رزق اور حاجت روائی کی کنجیاں ہیں، تو میں ان کو رب کیوں مانوں اور کیوں ان کے آگے بندگی واطاعت میں سر جھکائوں؟ میرا رب تو وہی ہو سکتا ہے جس نے سب کو پیدا کیا، جس کے سب محتاج ہیں اور جس کے اختیار میں سب کی موت وزیست اور سب کا نفع ونقصان ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم ؑنے قطعی فیصلہ کر لیا کہ جن معبودوں کو میری قوم پوجتی ہے ان کو میں ہرگز نہ پوجوں گا اور اس فیصلے پر پہنچنے کے بعد انھوں نے علی الاعلان لوگوں سے کہہ دیا کہ:
اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَo ( الانعام 6:78)
جن کو تم خدائی میں شریک ٹھہراتے ہو، میں اُن سب سے بیزار ہوں۔
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo
(الانعام 6:79)
میں نے تو یکسو ہو کر اپنا رخ اُس ہستی کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
مصائب کے پہاڑ
اس اعلان کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ باپ نے کہا میں عاق کر دوں گا اور گھر سے نکال باہر کروں گا۔ قوم نے کہا ہم میں سے کوئی تمھیں پناہ نہ دے گا۔ حکومت بھی ان کے پیچھے پڑ گئی اور بادشاہ کے سامنے مقدّمہ پیش ہوا،مگر وہ یکہ وتنہا انسان سب کے مقابلے میں سچائی کی خاطر ڈٹ کر کھڑا ہو گیا۔ باپ کو ادب سے جواب دیا کہ جو علم میرے پاس ہے وہ تمھیں نہیں ملا، اس لیے بجائے اس کے کہ میں تمھاری پیروی کروں تمھیں میری پَیروی کرنی چاہیے۔ قوم کی دھمکیوں کے جواب میں اس کے بتوں کو اپنے ہاتھ سے توڑ کر ثابت کر دیا کہ جنھیں تم پوجتے ہو، وہ خود کس قدر بے بس ہیں۔ بادشاہ کے بھرے دربار میں جا کر صاف کہہ دیا کہ تو میرا رب نہیں ہے بلکہ وہ ہے جس کے ہاتھ میں میری اور تیری زندگی وموت ہے، اور جس کے قانون کی بندش میں سورج تک جکڑا ہوا ہے۔ آخر شاہی دربار میں فیصلہ ہوا کہ اس شخص کو زندہ جلا ڈالا جائے، مگر وہ پہاڑ سے زیادہ مضبوط دل رکھنے والا انسان، جوخدائے واحد پر ایمان لا چکا تھا، اس ہولناک سزا کو بھگتنے کے لیے بھی تیار ہوگیا۔ پھر جب اللہ نے اپنی قدرت سے اس کو آگ میں جلنے سے بچا لیا تو وہ اپنے گھر بار، عزیزواقارب، قوم اور وطن سب کو چھوڑ چھاڑ کر صرف اپنی بیوی اور ایک بھتیجے کو لے کر غریب الوطنی میں ملک ملک کی خاک چھاننے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ جس شخص کے لیے اپنے گھر میں مہنت کی گدّی موجود تھی، جو اس پر بیٹھ کر اپنی قوم کا پیر بن سکتا تھا۔ دولت وعزت دونوں جس کے قدم چومنے کے لیے تیار تھیں، اور جو اپنی اولاد کو بھی اس مہنتی کی گدّی پر مزے لوٹنے کے لیے چھوڑ سکتا تھا، اس نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے جلا وطنی اور بے سروسامانی کی زندگی پسند کی، کیوں کہ دنیا کے جھوٹے خدائوں کے جال میں پھانس کر خود مزے کرنا اُسے گوارا نہ تھا اور اس کے مقابلے میں یہ گوارا تھا کہ ایک سچے خدا کی بندگی کی طرف لوگوں کو بلائے اور اس جرم کی پاداش میں کہیں چَین سے نہ بیٹھ سکے۔
ہجرت
وطن سے نکل کر حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام شام، فلسطین، مصر اور عرب کے ملکوں میں پھرتے رہے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس مسافرت کی زندگی میں ان پر کیا گزری ہو گی۔ مال وزر کچھ ساتھ لے کر نہ نکلے تھے اور باہر نکل کر اپنی روٹی کمانے کی فکر میں نہیں پھر رہے تھے بلکہ رات دن فکر تھی تو یہ تھی کہ لوگوں کو ہر ایک کی بندگی سے نکال کر صرف ایک خدا کا بندہ بنائیں۔ اس خیال کے آدمی کو جب اس کے اپنے باپ نے اور اس کی اپنی قوم نے برداشت نہ کیا تو اور کون برداشت کر سکتا تھا؟ کہاںاس کی آئو بھگت ہو سکتی تھی؟ ہر جگہ وہی مندروں کے مہنت اور وہی خدائی کے مدّعی بادشاہ موجود تھے اور ہر جگہ وہی جاہل عوام بستے تھے جو ان جھوٹے خدائوں کے پھندے میں پھنسے ہوئے تھے۔ ان لوگوں کے درمیان وہ شخص کہاں چَین سے بیٹھ سکتا تھا جو نہ صرف خود ہی خدا کے سوا کسی کی خدائی ماننے کے لیے تیار نہ تھا، بلکہ دوسروں سے بھی علانیہ کہتا پھرتا تھا کہ ایک اللہ کے سوا تمھارا کوئی مالک اور آقا نہیں ہے۔ سب کی آقائی وخداوندی کا تختہ الٹ دو، اور صرف اس ایک کے بندے بن کر رہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کو کسی جگہ قرار نصیب نہ ہوا۔ سالہا سال بے خانماں پھرتے رہے، کبھی کنعان کی بستیوں میں ہیں تو کبھی مصر میں اور کبھی عرب کے ریگستان میں۔ اسی طرح ساری جوانی بیت گئی اور کالے بال سفید ہو گئے۔
اولاد اور اس کی تربیت
اخیر عمر میں جب ۹۰ برس پورے ہونے میں صرف چار سال باقی تھے اور اولاد سے مایوسی ہو چکی تھی، اللہ نے اولاد دی۔ لیکن اس اللہ کے بندے کواَب بھی یہ فکر نہ ہوئی کہ خود خانماں برباد ہوا ہوں تو کم از کم اپنے بچوں ہی کو دنیا کمانے کے قابل بنائوں اور انھیں کسی ایسے کام پر لگاجائوں کہ روٹی کا سہارا مل جائے۔ نہیں، اس بوڑھے مسلمان کو فکر تھی تو یہ تھی کہ جس مشن کو پھیلانے میں خود اس نے اپنی عمر کھپا دی تھی، کاش کوئی ایسا ہو جو اس کے مرنے کے بعد بھی اسی مشن کو پھیلاتا رہے۔ اسی غرض کے لیے وہ اللہ سے اولاد کا آرزو مند تھا، اور جب اللہ نے اولاد دی تو اس نے یہی چاہا کہ اپنے کام کو جاری رکھنے کے لیے انھیں تیار کرے۔ اس انسانِ کامل کی زندگی ایک سچے اور اصلی مسلمان کی زندگی تھی۔ ابتدائے جوانی میں ہوش سنبھالنے کے بعد ہی جب اس نے اپنے خدا کو پہچانا اور پا لیا تو خدا نے اس سے کہا تھا کہ اَسْلِمْ (اسلام لے آ، اپنے آپ کو میرے سپرد کر دے، میرا ہو کر رہ) اور اس نے جواب میں قول دے دیا تھا کہ: اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (البقرہ 2:131)
میں نے اسلام قبول کیا، میں رب العالمین کا ہو گیا، میں نے اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیا۔
اس قول وقرار کو اس سچے آدمی نے تمام عمر پوری پابندی کے ساتھ نباہ کر دکھا دیا۔ اس نے رب العالمین کی خاطر صدیوں کے آبائی مذہب اور اس کی رسموں اور عقیدوں کو چھوڑا، اور دنیا کے ان سارے فائدوں کو چھوڑا، اپنی جان کو آگ کے خطرے میں ڈالا، جلا وطنی کی مصیبتیں سہیں، ملک ملک کی خاک چھانی، اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ رب العالمین کی اطاعت اور اس کے دین کی تبلیغ میں صَرف کر دیا اور بڑھاپے میں جب اولاد نصیب ہوئی تو اس کے لیے بھی یہی دین اور یہی کام پسند کیا۔
سب سے بڑ ی آزمائش
مگر ان آزمائشوں کے بعد ایک اور آخری آزمائش باقی رہ گئی تھی جس کے بغیر یہ فیصلہ نہ ہو سکتا تھا کہ یہ شخص دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر رب العالمین سے محبت رکھتا ہے، اور وہ آزمائش یہ تھی کہ اس بڑھاپے میں، جب کہ پوری مایوسی کے بعد اسے اولاد نصیب ہوئی ہے، اپنے اکلوتے بیٹے کو رب العالمین کی خاطر قربان کر سکتا ہے یا نہیں؟ چنانچہ یہ آزمائش بھی کر ڈالی گئی، اور جب اشارہ پاتے ہی وہ اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے پر آمادہ ہو گیا، تب فیصلہ فرما دیا گیا کہ ہاں، اب تم نے اپنے مسلم ہونے کے دعوے کو بالکل سچا کر دکھایا۔ اب تم اس کے اہل ہو کہ تمھیں ساری دنیا کا امام بنایا جائے۔ اسی بات کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ:
وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّہُنَّ۰ۭ قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۰ۭ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِىْ۰ۭ قَالَ لَا يَنَالُ عَہْدِي الظّٰلِــمِيْنَ o (البقرہ 2:124)
اور جب ابراہیم ؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا تو فرمایا کہ میں تجھے انسانوں کا امام (پیشوا) بنانے والا ہوں۔اس نے عرض کیا اور میری اولاد کے متعلق کیا حکم ہے؟ جواب دیا: ان میں سے جو ظالم ہوں گے انھیں میرا عہد نہیں پہنچتا۔
امامت ِ عالم پر سرفرازی
اس طرح حضرت ابراہیم ؑ کو پیشوائی سونپی گئی اور وہ اسلام کی عالمگیر تحریک کے لیڈر بنائے گئے۔ اب ان کو اس تحریک کی اشاعت کے لیے ایسے آدمیوں کی ضرورت پیش آئی جو مختلف علاقوں کو سنبھال کر بیٹھ جائیں اور ان کے خلیفہ یا نائب کی حیثیت سے کام کریں۔ اس کام میں تین آدمی ان کے لیے قوتِ بازو ثابت ہوئے۔ ایک اُن کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام، دوسرے اُن کے بڑے صاحبزادے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام جنھوں نے یہ سن کر کہ رب العالمین ان کی جان کی قربانی چاہتا ہے، خود اپنی گردن خوشی خوشی چھری کے نیچے رکھ دی۔ تیسرے اُن کے چھوٹے صاحبزادے حضرت اسحق علیہ السلام۔
حضرت لوطؑ کو شرقِ اُردن بھیجنا
بھتیجے(حضرت لوط علیہ السلام) کو آپ نے سدوم کے علاقے میں بٹھایا، جس کو آج کل شرقِ اُردن (ٹرانس جورڈینیا) کہتے ہیں۔ یہاں اس وقت کی سب سے زیادہ پاجی ] بدمعاش و جرائم پیشہ[ قوم رہتی تھی، اس لیے اس کی اصلاح مد نظر تھی اور ساتھ ہی دُور دراز کے علاقوں پر بھی اثر ڈالنا مقصود تھا۔ کیوں کہ ایران، عراق اور مصر کے درمیان آنے جانے والے سب تجارتی قافلے اسی علاقے سے گزرتے تھے اور یہاں بیٹھ کر دونوں طرف تبلیغ کا سلسلہ جاری کیا جا سکتا تھا۔
حضرت اسحق ؑ کو فلسطین بھیجنا
چھوٹے صاحبزادے حضرت اسحق علیہ السلام کو کنعان کے علاقے میں آباد کیا جس کو آج کل فلسطین کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ شام اور مصر کے درمیان واقع ہے، اور سمندر کے کنارے ہونے کی وجہ سے دوسرے ملکوں پر بھی یہاں سے اثر ڈالا جا سکتا ہے۔ یہیں سے حضرت اسحق ؑکے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام(جن کا نام اسرائیل بھی تھا) اور پوتے حضرت یوسفؑ کی بدولت اسلام کی تحریک مصر تک پہنچی۔
حضرت اسمٰعیل ؑ کو حجاز میں رکھا
بڑے صاحبزادے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو حجاز میں مکے کے مقام پر رکھا اورایک مدت تک خود ان کے ساتھ رہ کر عرب کے تمام گوشوں میں اسلام کی تعلیم پھیلائی۔
تعمیر کعبہ
پھر یہیں دونوں باپ بیٹے نے اسلامی تحریک کا وہ مرکز تعمیر کیا جو کعبہ کے نام سے آج ساری دنیا میں مشہور ہے۔ اس مرکز کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا تھا اور خود ہی اس تعمیر کی جگہ تجویز کی تھی۔ یہ عمارت محض ایک عبادت گاہ ہی نہ تھی، جیسے مسجدیں ہوا کرتی ہیں، بلکہ اوّل روز ہی سے اس کو دینِ اسلام کی عالمگیر تحریک کا مرکزِ تبلیغ واشاعت قرار دیا گیا تھا، اور اس کی غرض یہ تھی کہ ایک خدا کو ماننے والے ہر جگہ سے کھنچ کھنچ کر یہاں جمع ہوا کریں۔ مل کر خدا کی عبادت کریں، اور اسلام کا پیغام لے کر پھر اپنے اپنے ملکوں کو واپس جائیں۔ یہی اجتماع تھا جس کا نام حج رکھا گیا۔ اس کی پوری تفصیل کہ یہ مرکز کس طرح تعمیر ہوا، کن جذبات اور کن دعائوں کے ساتھ دونوں باپ بیٹے نے اس عمارت کی دیواریں اٹھائیں اور کیسے حج کی ابتدا ہوئی؟ قرآن مجید میں یوں بیان کی گئی ہے:
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًاوَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَo فِيْہِ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰہِيْمَ ۥۚ وَمَنْ دَخَلَہٗ كَانَ اٰمِنًا۰ۭ (آل عمران 3:97-96)
یقیناً پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہی تھا جو مکہ میں تعمیر ہوا، برکت والا گھر، اور سارے جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت۔ اس میں اللہ کی کھلی ہوئی نشانیاں ہیں، مقام ابراہیم ؑہے اور جو اس میں داخل ہو جاتا ہے اس کو امن مل جاتا ہے۔
اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّ یُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِھِمْ ط (العنکبوت 29:67)
کیا لوگوں نے دیکھا نہیں کہ ہم نے کیسا پُرامن حرم بنا یا ہے، حالانکہ اس کے گرد وپیش لوگ اچک لیے جاتے ہیں۔
یعنی، جب کہ عرب میں ہر طرف لوٹ مار، قتل وغارت گری اور جنگ وجدل کا بازار گرم تھا اس حرم میں ہمیشہ امن ہی رہا۔ حتیٰ کہ وحشی بدّو تک اس کے حدود میں اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ پاتے تو اس پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ کرتے۔
حضرت ابراہیم ؑ کی دعائیں
وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا۰ۭ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّى۰ۭ وَعَہِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَہِّرَا بَيْـتِىَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِo وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَھْلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۭ …… وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ۰ۭ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُoرَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّكَ۰۠ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُo رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰـتِكَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُزَكِّيْہِمْ۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُo (البقرہ 2:129-125)
اور، جب کہ ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لیے مرکز ومرجع اور امن کی جگہ بنایا اور حکم دیا کہ ابراہیم ؑ کے مقامِ عبادت کو جائے نماز بنا لو، اور ابراہیم ؑ اور اسمٰعیل ؑ کو ہدایت کی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والے اورٹھیرنے والے اور رکوع وسجدہ کرنے والے لوگوں کے لیے پاک صاف رکھو، اور جب کہ ابراہیم ؑنے دُعا کی کہ پروردگار، اس شہر کو پُرامن شہر بنا دے اور یہاں کے باشندوں کو پھلوں کا رزق بہم پہنچا، جو ان میں سے اللہ اور یومِ آخر پر ایمان لانے والا ہو… اور جب ابراہیم ؑ اور اسمٰعیل ؑاس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے تو دعا کرتے جاتے تھے کہ پروردگار! ہماری اس کوشش کو قبول فرما، تو سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ پروردگار! اور تو ہم دونوں کو اپنا مسلم (اطاعت گزار) بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا جو تیری مسلم ہو، اور ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہم پر عنایت کی نظر رکھ کہ تو بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔ پروردگار! اور تو ان لوگوں میں انھی کی قوم سے ایک ایسا رسول بھیجیوجو انھیں تیری آیات سنائے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دے اور ان کے اخلاق درست کرے۔ یقیناً تو بڑی قوت والا ہے اور بڑا حکیم ہے۔
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَo ط رَبِّ اِنَّہُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ۰ۚ فَمَنْ تَبِعَنِيْ فَاِنَّہٗ مِنِّىْ۰ۚ وَمَنْ عَصَانِيْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ۰ۙ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِيْٓ اِلَيْہِمْ وَارْزُقْہُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمْ يَشْكُرُوْنَo (ابراھیم 14: 37-35)
اور، جب کہ ابراہیم ؑنے دعا کی کہ پروردگار! اس شہر کو پرامن شہر بنا اور مجھ کو اور میرے بچوں کو بت پرستی سے بچا۔ پروردگار! ان بتوں نے بہتیرے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ سوجو کوئی میرے طریقے کی پیروی کرے تو میرا ہے اور جو میرے طریقے سے پھر جائے تو یقینا تو غفور اور رحیم ہے۔ پروردگار! میں نے اپنی نسل کے ایک حصے کو تیرے اس عزت والے گھر کے پاس اس بے آب و گیاہ وادی میں لا بسایا ہے تاکہ یہ نماز کا نظام قائم کریں۔ پس اے رب! تو لوگوں کے دلوں میں ایسا شوق ڈال کہ وہ ان کی طرف کھنچ کر آئیں اور ان کو پھلوں سے رزق پہنچا۔ امید ہے کہ یہ تیرے شکر گزار بنیں گے۔
حج کا اعلانِ عام
وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰہِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِيْ شَيْـــــًٔا وَّطَہِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْقَاۗىِٕمِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِo وَاَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّعَلٰي كُلِّ ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍo لا لِّيَشْہَدُوْا مَنَافِعَ لَہُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ۰ۚ فَكُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْبَاۗىِٕسَ الْفَقِيْرَoز
( الحج 22:26-28)
یاد کرو وہ وقت، جب کہ ہم نے ابراہیم ؑ کے لیے اس گھر (خانہ کعبہ) کی جگہ تجویز کی تھی، (اس ہدایت کے ساتھ کہ) میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو، اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمھارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں، تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ان کے لیے رکھے گئے ہیں، اور چند مقرر دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انھیں بخشے ہیں۔ خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں۔
برادرانِ اسلام! یہ ہے اس حج کی ابتدا کا قصہ جسے اسلام کا پانچواں رکن قرار دیا گیا ہے۔ اس سے آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ دنیامیں سب سے پہلے جس نبی کو اسلام کی عالم گیر دعوت پھیلانے پر مامور کیا گیا تھا، مکہ اس کے مشن کا صدر مقام تھا۔ کعبہ وہ مرکز تھا جہاں سے یہ تبلیغ دنیا کے مختلف گوشوں میں پہنچائی جاتی تھی، اور حج کا طریقہ اس لیے مقرر کیا گیا تھا کہ جو لوگ خدائے واحد کی بندگی کا اقرار کریں اور اس کی اطاعت میں داخل ہوں، خواہ وہ کسی قوم اور کسی ملک سے تعلق رکھتے ہوں، سب کے سب اس ایک مرکز سے وابستہ ہو جائیں اور ہر سال یہاں جمع ہو کر اس مرکز کے گرد طواف کریں۔ گویا ظاہر میں اپنی اس باطنی کیفیت کا نقشہ جما لیں کہ ان کی زندگی اس پہیے کی طرح ہے جو ہمیشہ اپنے دُھرے{ FR 1633 } کے گرد ہی گھومتا ہے۔
٭…٭…٭
حج کی تاریخ
برادرانِ اسلام! پچھلے خطبے میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ حج کی ابتدا کس طرح اور کس غرض کے لیے ہوئی تھی۔ یہ بھی آپ کو بتا چکا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکے کو اس اسلامی تحریک کا مرکز بنایا تھا اور یہاں اپنے سب سے بڑے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو بٹھایا تھا تاکہ آپ کے بعد وہ اس تحریک کو جاری رکھیں۔
اولادِ ابراہیم ؑمیں بت پرستی کا رواج
خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ حضرت اسمٰعیل ؑکے بعد اُن کی اولاد کب تک اس دین پر قائم رہی جس پر ان کے باپ ان کو چھوڑ گئے تھے۔ بہرحال چند صدیوں میں یہ لوگ اپنے بزرگوں کی تعلیم اور ان کے طریقے سب بھول بھال گئے اور رفتہ رفتہ ان میں وہ سب گمراہیاں پیدا ہو گئیں جو دوسری جاہل قوموں میں پھیلی ہوئی تھیں۔ اسی کعبے میں جسے ایک خدا کی پرستش کے لیے دعوت وتبلیغ کا مرکز بنایا گیا تھاسیکڑوں بت رکھ دیے گئے تھے اور غضب یہ ہے کہ خود حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسمٰعیل ؑکا بھی بت بنا ڈالا گیا جن کی ساری زندگی بتوں ہی کی پرستش کو مٹانے میں صَرف ہوئی تھی۔ ابراہیم ؑحنیف کی اولاد نے لات، منات، ہبل، نسر، یغوث، عزیٰ، اساف، نائلہ اور خدا جانے کس کس نام کے بت بنائے اور ان کو پوجا۔ چاند، عطارد، زہرہ، زحل، اور معلوم نہیں کس کس ستارے کو پوجا۔ جن، بھوت، پریت، فرشتوں اور اپنے مردہ بزرگوں کی روحوں کو پوجا۔ جہالت کا زور یہاں تک بڑھا کہ جب گھر سے نکلتے اور اپنا خاندانی بت انھیں پوجنے کو نہ ملتا تو راستہ چلتے میں جو اچھا سا چکنا پتھر مل جاتا اسی کو پوج ڈالتے، اور پتھر بھی نہ ملتا تو مٹی کو پانی سے گوندھ کر ایک پنڈا{ FR 1591 } سا بنا لیتے اور بکری کا دودھ چھڑکتے ہی وہ بے جان پنڈا اُن کا خدا بن جاتا۔ جس مہنت گری اور پنڈتائی کے خلاف ان کے باپ ابراہیم علیہ السلام نے عراق میں لڑائی کی تھی وہ خود انھی کے گھر میں گھس آئی۔ کعبے کو انھوں نے ہر دواریا بنارس بنا لیا، خود وہاں کے مہنت بن کر بیٹھ گئے۔ حج کو تیرتھ جاترا بنا کر اس گھر سے جو توحید کی تبلیغ کے لیے بنا تھا بت پرستی کی تبلیغ کرنے لگے، اور پجاریوں کے سارے ہتھکنڈے اختیار کرکے انھوں نے عرب کے دورونزدیک سے آنے والے جاتریوں سے نذر چڑھاوے وصول کرنے شروع کر دیے۔ اس طرح وہ سارا کام برباد ہو گیا جو ابراہیم واسمٰعیل علیہما السلام کر گئے تھے، اور جس مقصد کے لیے انھوں نے حج کا طریقہ جاری کیا تھا۔ اس کی جگہ کچھ اور ہی کام ہونے لگے۔
حج میں بگاڑ کی شکلیں
شعرا کے مقابلے
اس جاہلیت کے زمانے میں حج کی جوگت بنی اس کا اندازہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ یہ ایک میلہ تھا جو سال کے سال لگتا تھا۔ بڑے بڑے قبیلے اپنے اپنے جتھوں کے ساتھ یہاں آتے اور اپنے اپنے پڑائو الگ ڈالتے۔ ہر قبیلے کا شاعر یا بھاٹ اپنی اور اپنے قبیلے والوں کی بہادری، نام وَری، عزت، طاقت اور سخاوت کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتا اور ہر ایک ڈینگیں مارنے میں دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرتا۔ یہاں تک کہ دوسرے کی ہجو تک نوبت پہنچ جاتی۔
جھوٹی سخاوت کے مظاہرے
پھر فیاضی کا مقابلہ ہوتا۔ ہر قبیلے کے سردار اپنی بڑائی جتانے کے لیے دیگیں چڑھاتے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اونٹ پر اونٹ کاٹتے چلے جاتے۔ اس فضول خرچی سے ان لوگوں کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اس میلے کے موقع پر ان کا نام سارے عرب میں اونچا ہو جائے اور یہ چرچے ہو ں کہ فلاں صاحب نے اتنے اونٹ ذبح کیے اور فلاں صاحب نے اتنوں کو کھانا کھلایا۔ ان مجلسوں میں راگ رنگ، شراب خوری، زنا اور ہر قسم کی فحش کاری خوب دھڑلے سے ہوتی تھی اور خدا کا خیال مشکل ہی سے کسی کو آتا تھا۔
برہنہ طواف
کعبے کے گرد طواف ہوتا تھا، مگر کس طرح؟ عورت مرد سب ننگے ہو کر گھومتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اس حالت میں خدا کے سامنے جائیں گے جس میں ہماری مائوں نے ہمیں جنا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی مسجد میں عبادت ہوتی تھی، مگر کیسی؟ تالیاں پیٹی جاتیں، سیٹیاں بجائی جاتیں اور نرسنگھے پھونکے جاتے۔ خدا کا نام پکارا جاتا، مگر کس شان سے؟ کہتے تھے:
لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ اِلَّا شَرِیْکًا ھُوَ لَکَ تَمْلِکُہٗ وَمَا مَلَکَ۔
یعنی میں حاضر ہوں میرے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، مگر وہ جو تیرا ہونے کی وجہ سے تیرا شریک ہے۔ تُو اس کا بھی مالک ہے اور اس کی ملکیت کا بھی مالک ہے۔
قربانی کا تصور
خدا کے نام پر قربانیاں کرتے تھے، مگر کس بدتمیزی کے ساتھ؟ قربانی کا خون کعبے کی دیواروں سے لتھیڑا جاتا اور گوشت دروازے پر ڈالا جاتا، اس خیال سے کہ نعوذ باللہ یہ خون اور گوشت خدا کو مطلوب ہے۔
حرام مہینوں کی بے حرمتی
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حج کے چار مہینوں کو حرام ٹھیرایا تھا اور ہدایت کی تھی کہ ان مہینوں میں کسی قسم کی جنگ وجدل نہ ہو۔ یہ لوگ اس حرمت کا کسی حد تک خیال رکھتے تھے، مگر جب لڑنے کو جی چاہتا توڈھٹائی کے ساتھ ایک سال حرام مہینے کو حلال کر لیتے اور دوسرے سال اس کا بدلہ کردیتے تھے۔
چند خود ساختہ پابندیاں
پھر جو لوگ اپنے مذہب میں نیک نیت تھے، انھوں نے بھی جہالت کی وجہ سے عجیب عجیب طریقے ایجاد کر لیے تھے۔ کچھ لوگ بغیر زادِ راہ لیے حج کو نکل کھڑے ہوتے اورمانگتے کھاتے چلے جاتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ نیکی کا کام تھا۔ کہتے تھے:
ہم متوکل ہیں، خدا کے گھر کی طرف جا رہے ہیں، پھر دنیا کا سامان کیوں لیں؟
عموماً حج کے سفر میں تجارت کرنے یا کمائی کے لیے محنت مشقت کرنے کو ناجائز سمجھا جاتا تھا۔ بہت سے لوگ حج میں کھانا پینا چھوڑ دیتے تھے اور اسے بھی داخلِ عبادت سمجھتے تھے۔ بعض لوگ حج کو نکلتے تو بات چیت کرنا ترک کر دیتے۔ اس کا نام ’’حج مُصمِت ‘‘، یعنی ’’گونگا حج‘‘ تھا۔ اسی قسم کی اور غلط رسمیں بے شمار تھیں جن کا حال بیان کرکے میں آپ کا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا۔
دعائے خلیل ؑکی قبولیت
یہ حالت کم وبیش دو ہزار برس تک رہی۔ اس طویل مدت میں کوئی نبی عرب میں پیدا نہیں ہوا، نہ کسی نبی کی خالص تعلیم عرب کے لوگوں تک پہنچی۔ آخر کار حضرت ابراہیم ؑ کی اس دعا کے پورا ہونے کا وقت آیا جو انھوں نے کعبے کی دیواریں اٹھاتے وقت اللہ سے مانگی تھی:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰـتِكَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُزَكِّيْہِمْ۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُo (البقرہ 2:129)
یعنی :پروردگار! ان کے درمیان ایک پیغمبر خود انھی کی قوم میں سے بھیجیو، جو انھیں تیری آیات سنائے اور کتاب اور دانائی کی تعلیم دے اور ان کے اخلاق درست کرے۔
چنانچہ حضرت ابراہیم ؑکی اولاد سے پھر ایک انسانِ کامل اٹھا جس کا نامِ پاک محمد بن عبداللہ تھا۔ صلی اللہ علیہ وسلم !
جس طرح حضرت ابراہیم ؑنے پنڈتوں اور مہنتوں کے خاندان میں آنکھ کھولی تھی، اسی طرح حضرت محمد a نے بھی اُس خاندان میں آنکھ کھولی جو صدیوں سے کعبہ کے تیرتھ کا مہنت بنا ہوا تھا۔ جس طرح حضرت ابراہیم ؑنے اپنے ہاتھ سے خود اپنے خاندان کی مہنتی پر ضرب لگائی، اسی طرح آنحضرتؐ نے بھی اس پر ضرب لگائی اور محض ضرب ہی نہیں لگائی بلکہ ہمیشہ کے لیے اس کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ پھر جس طرح حضرت ابراہیم ؑنے تمام باطل عقیدوں اور جھوٹے خدائوں کی خدائی مٹانے کے لیے جدوجہد کی تھی اور ایک خدا کی بندگی پھیلانے کی کوشش کی تھی، بالکل وہی کام آنحضرتؐ نے بھی کیا اور پھر اُسی اصلی اور بے لوث دین کو تازہ کر دیاجسے حضرت ابراہیم ؑلے کر آئے تھے۔ ۲۱ سال کی مدت میں جب یہ سارا کام آپؐ مکمل کر چکے تو اللہ کے حکم سے آپؐ نے پھر اُسی طرح کعبے کو تمام دنیا کے خداپرستوں کا مرکز بنانے کا اعلان کیا اور پھر وہی منادی کی کہ سب طرف سے حج کے لیے اس مرکز کی طرف آئو:
وَلِلہِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْہِ سَبِيْلًا۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَo (آل عمران 3: 97)
اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو کوئی اس گھر تک آنے کی قدرت رکھتا ہو، وہ حج کے لیے آئے، پھر جو کوئی کفر کرے (یعنی قدرت کے باوجود نہ آئے) تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔
سُنّتِ ابراہیمی ؑ کا احیا
اس طرح حج کا ازسرِ نو آغاز کرنے کے ساتھ ہی جاہلیت کی وہ ساری رسمیں بھی یک قلم مٹا دی گئیں جو پچھلے دو ہزار برس میں رواج پا گئی تھیں:
بت پرستی کا خاتمہ
کعبے کے سارے بت توڑے گئے، خدا کے سوا دوسروں کی جو پرستش وہاں ہو رہی تھی وہ قطعاً روک دی گئی، سب رسمیں مٹا دی گئیں، میلے ٹھیلے اور تماشے بند کر دیے گئے اور حکم دیا گیا کہ اب جو طریقہ عبادت کا بتایا جا رہا ہے اسی طریقے سے یہاں اللہ کی عبادت کرو:
وَاذْكُرُوْہُ كَـمَا ھَدٰىكُمْ۰ۚ وَاِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّاۗلِّيْنَo (البقرہ 2:198)
اللہ کو یاد کرو اس طرح جیسی تمھیں اللہ نے ہدایت کی ہے ورنہ اس سے پہلے تو تم گمراہ لوگ تھے۔
بے ہودہ افعال کی ممانعت
تمام بے ہودہ افعال کی سخت ممانعت کر دی گئی:
فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ۰ۙ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ۰ۭ ( البقرہ 2:197)
حج میں نہ شہوانی افعال کیے جائیں، نہ فسق وفجور ہو، نہ لڑائی جھگڑے ہوں۔
شاعری کے دنگل بند
شاعری کے دنگل، باپ دادا کے کارناموں پر فخر، بھٹئی{ FR 1592 } اور ہجو گوئی کے مقابلے سب بند کر دیے گئے:
فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللہَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَاۗءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا۰ۭ
(البقرہ2:200)
پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو، تو جس طرح پہلے اپنے آبا و اجدادکا ذکر کرتے تھے، اس طرح اب اللہ کا ذکر کرو، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔
نمائشی فیاضی کا خاتمہ
فیاضی کے مقابلے، جو محض دکھاوے اور نام وَری کے لیے ہوتے تھے ان سب کا خاتمہ کر دیا گیا اور اس کی جگہ وہی حضرت ابراہیم ؑ کے زمانے کا طریقہ پھرزندہ کیا گیا کہ محض اللہ کے نام پر جانور ذبح کیے جائیں تاکہ خوش حال لوگوں کی قربانی سے غریب حاجیوں کو بھی کھانے کا موقع مل جائے:
وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا۰ۚ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ o (الاعراف 31:7)
اور کھائو پیو مگر اسراف نہ کرو کہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
فَاذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَيْہَا صَوَاۗفَّ۰ۚ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُہَا فَكُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ۰ۭ (الحج 22:36)
ان جانوروں کو خالص اللہ کے لیے اسی کے نام پر قربان کرو، پھر جب ان کی پیٹھیں زمین پر ٹھہر جائیں (یعنی جب جان پوری طرح نکل چکے اور حرکت باقی نہ رہے) تو خود بھی ان میں سے کھائو اوران کو بھی کھلائو جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور ان کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں۔
قربانی کا خون اور گوشت لتھیڑنا موقوف
قربانی کا خون کعبہ کی دیواروں سے لتھیڑنا اور گوشت لا کر ڈالنا موقوف کیا گیا اور ارشاد ہوا:
لَنْ يَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاۗؤُہَا وَلٰكِنْ يَّنَالُہُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ۰ۭ (الحج 22:37)
اللہ کو ان جانوروں کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے بلکہ تمھاری پرہیز گاری وخدا ترسی پہنچتی ہے۔
برہنہ طواف کی ممانعت
برہنہ ہو کر طواف کرنے کی قطعی ممانعت کر دی گئی اور فرمایا گیا:
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ (الاعراف 7:32)
اے نبی! ان سے کہو کہ کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کیا جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی تھی (یعنی لباس)۔
قُلْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ (الاعراف 7:28)
اے نبیؐ! کہو کہ اللہ تو ہرگز بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔
یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف 7:31)
اے آدم زادو! ہر عبادت کے وقت اپنی زینت (یعنی لباس) پہنے رہا کرو۔
حج کے مہینوں میں الٹ پھیر کی ممانعت
حج کے مہینوں کا الٹ پھیر کرنے اور حرام مہینوں کو لڑائی کے لیے حلال کر لینے سے سختی کے ساتھ روک دیا گیا:
اِنَّمَا النَّسِیْٓئُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُحِلُّوْنَہٗ عَامًا وَّیُحَرِّمُوْنَہٗ عَامًا لِّیُوَاطِئُوْا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ فَیُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللّٰہُ ط (التوبہ 9:37)
نسی تو کفر میں اور زیادتی ہے (یعنی کفر کے ساتھ ڈھٹائی کا اضافہ ہے)۔ کافر لوگ اس طریقے سے اور زیادہ گمراہی میں پڑتے ہیں۔ کسی ایک سال ایک مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور دوسرے سال اس کے بدلے میں کوئی دوسرا مہینہ حرام کر دیتے ہیں تاکہ جتنے مہینے اللہ نے حرام ٹھیرائے ہیں ان کی تعداد پوری کر دیں، مگر اس بہانے سے دراصل اس چیز کو حلال کر لیا جائے جسے اللہ نے حرام کیا تھا۔
زادِ راہ لینے کا حکم
زادِ راہ لیے بغیر حج کے لیے نکلنے کو ممنوع ٹھیرایا گیا اور ارشاد ہوا:
وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى۰ۡ (البقرہ 2:197)
زادِ راہ ضرور لے لو، (دنیا میں زادِ راہ نہ لینا زادِ آخرت نہیں ہے)بہترین زادِ راہ تو تقویٰ ہے۔
حج میں روزی کمانے کی اجازت
سفر حج میں کمائی نہ کرنے کو جو نیکی کا کام سمجھا جاتا تھا، اور روزی کمانے کو ناجائز خیال کیا جاتا تھا، اس کی تردید کی گئی:
لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ ط (البقرہ 2:198)
کوئی مضائقہ نہیں اگر تم کاروبار کے ذریعے سے اپنے رب کا فضل تلاش کرتے جائو۔
جاہلی رسموں کا خاتمہ
’گونگے حج‘ اور بھوکے پیاسے حج سے بھی روکا گیا، اور اس طرح جاہلیت کی دوسری تمام رسموں کو مٹا کر حج کو تقویٰ، خدا ترسی، پاکیزگی اور سادگی ودرویشی کا مکمل نمونہ بنا دیا گیا۔حاجیوں کو حکم دیا گیا کہ جب اپنے گھروں سے چلو تو اپنے آپ کو تمام دنیوی آلائشوں سے پاک کر لو، شہوات کو چھوڑ دو، بیویوں کے ساتھ بھی اس زمانے میں تعلق زن وشو نہ رکھو۔ گالی گلوچ اور تمام بیہودہ اعمال سے پرہیز کرو۔
میقات کا تعیّن
کعبہ کی طرف آنے والے جتنے راستے ہیں، ان سب پر بیسیوں میل دور سے ایک ایک حد مقرر کر دی گئی کہ اس حد سے آگے بڑھنے سے پہلے سب لوگ اپنے اپنے لباس بدل کر احرام کا فقیرانہ لباس پہن لیں، تاکہ سب امیر وغریب یکساں ہوجائیں، الگ الگ قوموں کے امتیازات مٹ جائیں، اور سب کے سب اللہ کے دربار میں ایک ہو کر، فقیر بن کر عاجزانہ شان کے ساتھ حاضر ہوں۔
پُر امن ماحول کی ہدایت
احرام باندھنے کے بعد انسان کا خون بہانا تو درکنار، جانور تک کا شکار کرنا حرام کر دیا گیا، تاکہ امن پسندی پیدا ہو، بہیمیت دور ہو جائے اور طبیعتوں پرروحانیت کا غلبہ ہو۔ حج کے چار مہینے اس لیے حرام کیے گئے کہ اس مدت میں کوئی لڑائی نہ ہو، کعبہ کو جانے والے تمام راستوں میں امن رہے اور زائرینِ حرم کو کوئی نہ چھیڑے۔ اس شان کے ساتھ جب حاجی حرم میں پہنچیں تو ان کے لیے کوئی میلہ ٹھیلہ، کھیل تماشا، ناچ رنگ وغیرہ نہیں ہے۔ قدم قدم پر خدا کا ذکر ہے، نمازیں ہیں، عبادتیں ہیں، قربانیاں ہیں، کعبہ کا طواف ہے، اور کوئی پکار ہے تو بس یہ ہے کہ:
ایک ہی نعرہ ___ تلبیہ
لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لَاشَرِیْکَ لَکَ۔
حاضر ہوں، میرے اللہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیر ا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، یقیناً تعریف سب تیرے ہی لیے ہے، نعمت سب تیری ہے۔ ساری بادشاہی تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔
ایسے ہی پاک صاف، بے لوث اور مخلصانہ حج کے متعلق نبی a نے فرمایا:
مَنْ حَجَّ لِلّٰہِ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمٍ وَّلَدَتْہُ اُمُّہٗ (متفق علیہ)
جس نے اللہ کے لیے حج کیا اور اس میں شہوات اور فسق وفجور سے پرہیز کیا وہ اس طرح پلٹا جیسے آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔
فریضہ ٔ حج کی اہمیت
اب قبل اس کے کہ آپ کے سامنے حج کے فائدے بیان کیے جائیں، یہ بھی بتا دینا ضروری ہے کہ یہ فرض کیسا ہے؟ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلِلہِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْہِ سَبِيْلًا۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَo (آل عمران3:97)
اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہو، وہ اس کا حج کرے اور جس نے کفر کیا تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔
اس آیت میں قدرت رکھنے کے باوجود قصدًاحج نہ کرنے کو ’’کفر‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے،اور اس کی شرح نبی a کی ان دو حدیثوں سے ہوتی ہے:
مَنْ مَّلَکَ زَادًا وَّرَاحِلَۃً تُبَلِّغُہٗ اِلٰی بَیْتِ اللّٰہِ وَلَمْ یَحُجَّ فَلاَ عَلَیْہِ اَنْ یَّمُوْتَ یَھُوْدِیًّا اَوْنَصْرَانِیًّا۔ (مشکوٰۃ حدیث نمبر ۲۴۰۷)
جو شخص زادِ راہ اور سواری رکھتا ہو جس سے بیت اللہ تک پہنچ سکتا ہو، اور پھر حج نہ کرے تو اس کا اس حالت پر مرنا اور یہودی یا نصرانی ہو کر مرنا یکساں ہے۔
مَنْ لَّمْ یَمْنَعْہُ مِنَ الْحَجِّ حَاجَۃٌ ظَاھِرَۃٌ اَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ اَوْمَرَضٌ حَابِسٌ فَمَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ فَلْیَمُتْ اِنْ شَآئَ یَھُوْدِیًّا وَّاِنْ شَآئَ نَصْرَانِیًّا۔ (دارمی)
جس کو نہ کسی صریح حاجت نے حج سے روکا ہو، نہ کسی ظالم سلطان نے، نہ کسی روکنے والے مرض نے، اور پھر اس نے حج نہ کیا ہو، اور اسی حالت میں اسے موت آ جائے تو اسے اختیار ہے خواہ یہودی بن کر مرے یا نصرانی بن کر۔
اسی کی تفسیر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کی جب کہا:
جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتے، میرا جی چاہتا ہے کہ ان پر جزیہ لگا دوں۔ وہ مسلمان نہیں ہیں، وہ مسلمان نہیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان اور رسولa وخلیفۂ رسولؐ کی اس تشریح سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ یہ فرض ایسا فرض نہیں ہے کہ جی چاہے تو ادا کیجیے اور نہ چاہے تو ٹال دیجیے، بلکہ یہ ایسا فرض ہے کہ ہر اس مسلمان کو جو کعبے تک جانے آنے کا خرچ رکھتا ہو، اور ہاتھ پائوں سے معذور نہ ہو، عمر میں ایک مرتبہ اسے لازماً ادا کرنا چاہیے۔ خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں ہو، اور خواہ اس کے اوپر بال بچوں کی اور اپنے کاروبار یا ملازمت وغیرہ کی کیسی ہی ذمہ داریاں ہوں۔ جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج کو ٹالتے رہتے ہیں اور ہزاروں مصروفیتوں کے بہانے کرکرکے سال پر سال یونہی گزارتے چلے جاتے ہیں ان کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔ رہے وہ لوگ جن کو عمر بھر کبھی یہ خیال ہی نہیں آتا کہ حج بھی کوئی فرض ان کے ذمے ہے۔ دنیا بھر کے سفر کرتے پھرتے ہیں، کعبۂ یورپ کو آتے جاتے حجاز کے ساحل سے بھی گزر جاتے ہیں جہاں سے مکہ صرف چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے، اور پھر بھی حج کا ارادہ تک ان کے دلوں میں نہیں گزرتا، وہ قطعاً مسلمان نہیں ہیں۔ جھوٹ کہتے ہیں اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، اور قرآن سے جاہل ہے جو انھیں مسلمان سمجھتا ہے۔ ان کے دل میں اگر مسلمانوں کا درد اٹھتا ہے تو اٹھا کرے۔ اللہ کی اطاعت اور اس کے حکم پر ایمان کا جذبہ تو بہرحال ان کے دل میں نہیں ہے۔
٭…٭…٭
حج کے فائدے
برادرانِ اسلام! قرآن مجید میں جہاں یہ ذکر آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حج کی عام منادی کرنے کا حکم دیا تھا، وہاں اس حکم کی پہلی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ:
لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ (الحج 22:28)
تاکہ لوگ یہاں آ کر دیکھیں کہ اس حج میں ان کے لیے کیسے کیسے فائدے ہیں۔
یعنی یہ سفرکرکے اور اس جگہ جمع ہو کر وہ خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیں کہ یہ انھی کے نفع کے لیے ہے اور اس میں جو فائدے پوشیدہ ہیں ان کا اندازہ کچھ اسی وقت ہو سکتا ہے، جب کہ آدمی یہ کام کرکے خود دیکھ لے۔
حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق روایت ہے کہ جب تک انھوں نے حج نہ کیا تھا، انھیں اس معاملے میں تردد تھا کہ اسلامی عبادات میں سب سے افضل کون سی عبادت ہے، مگر جب انھوں نے خود حج کرکے ان بے حد وحساب فائدوں کو دیکھا جو اس عبادت میں پوشیدہ ہیں، تو بے تامل پکار اٹھے کہ یقیناً حج سب سے افضل ہے۔
آئیے! اب میں آپ کو مختصر الفاظ میں اس کے فائدے بتائوں:
سفر حج کی نوعیت
دنیا کے لوگ عموماً دو ہی قسم کے سفروں سے واقف ہیں:
٭ ایک سفر وہ جو روٹی کمانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
٭ دوسرا وہ جو سیر وتفریح کے لیے کیا جاتا ہے۔
ان دونوں قسم کے سفروں میں اپنی غرض اور اپنی خواہش آدمی کو باہر نکلنے پر آمادہ کرتی ہے۔ گھر چھوڑتا ہے تو اپنی غرض کے لیے، بال بچوں اور عزیزوں سے جدا ہوتا ہے تو اپنی خاطر۔ مال خرچ کرتا ہے یا وقت صَرف کرتا ہے تو اپنے مطلب کے لیے۔ لہٰذا اس میں قربانی کا کوئی سوال نہیں ہے، مگر یہ سفر جس کا نام حج ہے، اس کا معاملہ اور سب سفروں سے بالکل مختلف ہے۔ یہ سفر اپنی کسی غرض کے لیے یا اپنے نفس کی خواہش کے لیے نہیں ہے، بلکہ صرف اللہ کے لیے ہے اور اس فرض کو ادا کرنے کے لیے ہے جو اللہ نے مقرر کیا ہے۔ اس سفر پر کوئی شخص اس وقت تک آمادہ ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ اس کے دل میں اللہ کی محبت نہ ہو، اس کا خوف نہ ہو، اور اس کے فرض کو فرض سمجھنے کا خیال نہ ہو۔ پس جو شخص اپنے گھر بار سے ایک لمبی مدت کے لیے علیحدگی، اپنے عزیزوں سے جدائی، اپنے کاروبارکا نقصان، اپنے مال کا خرچ، اور سفر کی تکلیفیں گوارا کرکے حج کو نکلتا ہے، اس کا نکلنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے اندر خوفِ خدا اور محبتِ خدا بھی ہے اور فرض کا احساس بھی، اور اس میں یہ طاقت بھی موجود ہے کہ اگر کسی وقت خدا کی راہ میں نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ نکل سکتا ہے، تکلیفیں اٹھا سکتا ہے، اپنے مال اور اپنی راحت کو خدا کی خوشنودی پر قربان کر سکتا ہے۔
نیکی اور تقویٰ کی رغبت
پھر جب وہ ایسے پاک ارادے سے سفرکے لیے تیار ہوتا ہے تو اس کی طبیعت کا حال کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ جس دل میں خدا کی محبت کا شوق بھڑک اٹھا ہو، اور جس کو ادھر کی لو لگ گئی ہو اُس میں پھر نیک ہی نیک خیال آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ گناہوں سے توبہ کرتا ہے اور لوگوں سے اپنا کہا سنا بخشواتا ہے۔ کسی کا حق اس پر آتا ہو تو اسے ادا کرنے کی فکر کرتا ہے تاکہ خدا کے دربار میں بندوں کے حقوق کا بوجھ لادے ہوئے نہ جائے۔ برائی سے اس کے دل کو نفرت ہونے لگتی ہے اور قدرتی طور پر بھلائی کی طرف رغبت بڑھ جاتی ہے۔ پھر سفر کے لیے نکلنے کے ساتھ ہی جتنا جتنا وہ خدا کے گھر کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے اتنا ہی اس کے اندر نیکی کا جذبہ بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی کو اس سے اذیت نہ پہنچے اور جس کی جتنی خدمت یا مدد ہو سکے کرے۔ بدکلامی وبے ہودگی، بے حیائی، بددیانتی اور جھگڑا فساد کرنے سے خود اس کی اپنی طبیعت اندر سے رکتی ہے کیونکہ وہ خدا کے راستے میں جا رہا ہے۔ حرمِ الٰہی کا مسافر ہو، اور پھر برے کام کرتا ہوا جائے، ایسی شرم کی بات کسی سے کیسے ہو؟ اس کا تو یہ سفر پورا کا پورا عبادت ہے۔ اس عبادت کی حالت میں ظلم اور فسق کا کیا کام؟ پس دوسرے تمام سفروں کے برعکس یہ ایسا سفر ہے جو ہر دم آدمی کے نفس کو پاک کرتا رہتا ہے، اوریوں سمجھو کہ یہ ایک بہت بڑا اصلاحی کورس ہے جس سے لازمًا ہر اُس مسلمان کو گزرنا ہوتا ہے جو حج کے لیے جائے۔
احرام اور اس کے شرائط
سفر کا ایک حصہ ختم کر چکنے کے بعد ایک خاص حد ایسی آتی ہے جس سے کوئی مسلمان جو مکہ جانا چاہتا ہو، احرام باندھے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یہ احرام کیا ہے؟ ایک فقیرانہ لباس، جس میں ایک تہہ بند، ایک چادر اور جوتی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب تک جو کچھ تم تھے سو تھے، مگر اب جو تمھیں خدا کے دربار میں جانا ہے تو فقیر بن کر چلو۔ ظاہر میں بھی فقیر بنو، اور دل کے فقیر بھی بننے کی کوشش کرو۔ رنگین کپڑے اور آرائش کے لباس اتارو۔ سادہ اور درویشانہ طرز کا لباس پہن لو۔ موزے نہ پہنو۔ سر کھلا رکھو، خوشبو نہ لگائو، بال نہ بنائو۔ ہر قسم کی زینت سے پرہیز کرو۔ عورت اور مرد کا تعلق بند کر دو، بلکہ ایسی حرکات وسکنات اور ایسی باتوں سے بھی پرہیز کرو جو اس تعلق کا شوق، یا اس کی یاد دلانے والی ہوں۔ شکار نہ کرو، بلکہ شکاری کو شکار کا نشان دینے، یا اس کا پتہ بتانے سے بھی اجتناب کرو۔ ظاہر میں جب یہ رنگ اختیار کرو گے تو باطن پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔ اندر سے تمھارا دل بھی فقیر بنے گا، کبر وغرور نکلے گا، مسکینی اور امن پسندی پیدا ہو گی، دنیا اور اس کی لذتوں میں پھنسنے سے جو کچھ آلائشیں تمھاری روح کو لگ گئی تھیں وہ صاف ہوں گی اور خدا پرستی کی کیفیت تمھارے اوپر بھی طاری ہو گی اور اندر بھی۔
تلبیہ
احرام باندھنے کے ساتھ جو کلمات حاجی کی زبان سے نکلتے ہیں، جن کو وہ ہر نماز کے بعد، اور ہر بلندی پر چڑھتے وقت، اور ہر پستی کی طرف اترتے وقت، اور ہر قافلے سے ملتے وقت اور ہر روز صبح نیند سے بیدار ہو کر بلند آواز سے پکارتا ہے، وہ یہ ہیں:
لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ۔
حاضر ہوں، میرے اللہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، یقیناً تعریف سب تیرے ہی لیے ہے۔ نعمت سب تیری ہے اور ساری بادشاہی تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔
یہ دراصل حج کی اس ندائے عام کا جواب ہے جو ساڑھے چار ہزار برس پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے کی تھی۔ پینتالیس صدیاں گزر چکی ہیں جب پہلے پہل اللہ کے اس منادی نے پکارا تھا کہ ’’اللہ کے بندو! اللہ کے گھر کی طرف آئو، زمین کے ہر گوشے سے آئو، خواہ پیدل آئو، خواہ سواریوں پر آئو۔‘‘ جواب میں آج تک حرمِ پاک کا ہر مسافر بلند آواز سے کہہ رہا ہے:
میں حاضر ہوں، میرے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں صرف تیری طلبی پرحاضر ہوں، تعریف تیرے لیے ہے، نعمت تیری ہے، ملک تیرا ہے، کسی چیز میں تیرا کوئی شریک نہیں۔
اس طرح لبیک کی ہر صدا کے ساتھ حاجی کا تعلق سچی اور خالص خدا پرستی کی اس تحریک سے جڑ جاتا ہے جو حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑکے وقت سے چلی آ رہی ہے۔ ساڑھے چار ہزار برس کا فاصلہ بیچ میں سے ہٹ جاتا ہے۔{ FR 1636 } یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ گویا اُدھر اللہ کی طرف سے حضرت ابراہیم ؑپکار رہے ہیں اور ادھر سے یہ جواب دے رہا ہے۔ جواب دیتا جاتا ہے اور بڑھتا جاتا ہے۔ جوں جوں آگے بڑھتا ہے شوق کی کیفیت اور زیادہ تیز ہوتی جاتی ہے۔ ہر چڑھائو اور اتار پر اس کے کانوں میں اللہ کے منادی کی آواز گونجتی ہے اور یہ اس پر لبیک کہتا ہوا آگے چلتا ہے۔ ہر قافلہ اسے وہیں کا پیامی معلوم ہوتا ہے اور ایک عاشق کی طرح یہ اس کا پیام سن کر پکارتا ہے :
میں حاضر، میں حاضر۔
ہر نئی صبح اس کے لیے گویا پیغامِ دوست لاتی ہے اور نور کے تڑکے میں آنکھ کھولتے ہی یہ لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کی صدا لگانے لگتا ہے۔ غرض یہ بار بار کی صدا احرام کے اس فقیرانہ لباس، سفرکی اس حالت، اور منزل بہ منزل کعبہ کے قریب تر ہوتے جانے کی اس کیفیت کے ساتھ مل کر کچھ ایسا سماں باندھ دیتی ہے کہ حاجی عشقِ الٰہی میں از خود رفتہ ہو جاتا ہے اور اس کے دل کی یہ حالت ہوتی ہے کہ بس ایک یادِ دوست کے سوا، ع آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا۔
طوافِ زیارت
اس شان سے حاجی مکہ پہنچتا ہے اور جاتے ہی سیدھا اس آستانے کا رخ کرتا ہے جس کی طرف بلایا گیا تھا۔ آستانِ دوست کو چومتا ہے، پھر اپنے عقیدے، اپنے ایمان، اپنے دین ومذہب کے اس مرکز کے گرد چکر لگاتا ہے اور ہر چکر آستانہ بوسی سے شروع اور آستانہ بوسی ہی پرختم کرتا جاتا ہے۔{ FR 1638 } اس کے بعد مقامِ ابراہیم ؑ پر دو رکعتیں سلامی کی پڑھتا ہے، پھر وہاں سے نکل کر کوہ صفا پر چڑھتا ہے اور وہاں سے جب کعبہ پرنظر پڑتی ہے تو پکار اٹھتا ہے:
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَلَا نَعْبُدُ اِلَّا اِیَّاہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْکَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ۔
کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا، کسی دوسرے کی ہم بندگی نہیں کرتے، ہماری اطاعت صرف اللہ کے لیے خاص ہے خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔
سعی صفا ومروہ
پھر وہ صفا اور مروہ کے درمیان دوڑتا ہے، گویا اپنی حالت سے اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ یونہی اپنے مالک کی خدمت میں اور یونہی اس کی خوشنودی کی طلب میں ہمیشہ سعی کرتا رہے گا۔ اس سعی کے دوران میں کبھی اس کی زبان سے نکلتا ہے:
اَللّٰھُمَّ اسْتَعْمِلْنِیْ بِسُنَّۃِ نَبِیِّکَ وَتَوَفَّنِیْ عَلٰی مِلَّتِہٖ وَاَعِذْنِیْ مِنْ مُضِلَّاتِ الْفِتَنِ۔
خدایا! مجھ سے کام لے اُسی طریقے پرجو تیرے نبی کا طریقہ ہے، اور مجھے موت دے اسی راستے پر جو تیرے نبیؐ کا راستہ ہے، اور زندگی میں مجھے بچا ان فتنوں سے جوراہِ راست سے بھٹکانے والے ہیں۔
اور کبھی کہتا ہے:
رَبِّ اغْفِرْوَارْحَمْ وَتَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ، اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَ کْرَمُ۔
پروردگار! معاف کرا ور رحم کر، میرے جن قصوروں کو تو جانتا ہے ان سے درگزر کر، تیری طاقت سب سے بڑھ کر ہے اور تیرا کرم بھی سب سے بڑھ کر۔
وقوفِ منیٰ، عرفات اور مُزدلفہ
اس کے بعد وہ گویا اللہ کا سپاہی بن جاتا ہے اور اب پانچ چھ روز اس کو کیمپ کی سی زندگی بسر کرنی ہوتی ہے۔ ایک دن منیٰ میں پڑائو ہے، دوسرے دن عرفات میں کیمپ ہے اور خطبے میں کمانڈر کی ہدایات سنی جا رہی ہیں، رات مُزدلفہ میں جا کر چھائونی ڈالی جاتی ہے۔
رَمی جمار
دن نکلتا ہے تو منیٰ کی طر ف کوچ ہوتا ہے اور وہاں اس ستون پر کنکریوں سے چاند ماری{ FR 1640 } کی جاتی ہے جہاں تک اصحابِ فیل کی فوجیں کعبہ کو ڈھانے کے لیے پہنچ گئی تھیں۔ ہر کنکری مارنے کے ساتھ اللہ کا سپاہی کہتا جاتا ہے:
اَللّٰہُ اکْبَرُ رَغْمًا لِلشَّیْطٰنِ وَحِزْبِہٖ
کبریائی صرف اللہ کے لیے ہے اور شکست و ذلت شیطان اور اُس کے گماشتوں کامقدر ہے۔
اَللّٰھُمَّ تَصْدِیْقًا بِکِتَابِکَ وَاِتِّبَاعًا لِسُنَّۃِ نَبِیِّکَ۔
پروردگار! ہم تیری کتاب کی تصدیق اور تیرے نبی (a) کی سنت کی پیروی میں یہاں حاضر ہوئے ہیں۔
کنکریو ں کی اس چاندی ماری کا مطلب یہ ہے کہ خدایا! جو تیرے دین کو مٹانے اور تیرا بول (کلمہ) نیچا کرنے اٹھے گا، میں اس کے مقابلے میں تیرا بول بالا کرنے کے لیے یوں لڑوں گا۔ پھر اسی جگہ قربانی کی جاتی ہے تاکہ راہِ خدا میں خون بہانے کی نیت اور عزم کا اظہار عمل سے ہو جائے۔ پھر وہاں سے کعبہ کا رخ کیا جاتا ہے، جیسے سپاہی اپنی ڈیوٹی ادا کرکے ہیڈ کوارٹر کی طرف سرخ رُو واپس آ رہا ہے۔ طواف اور دو رکعتوں سے فارغ ہو کر احرام کھل جاتا ہے۔ جو کچھ حرام کیا گیا تھا وہ اب پھر حلال ہو جاتا ہے اوراب حاجی کی زندگی پھر معمولی طور پر شروع ہو جاتی ہے۔ اس معمولی زندگی کی طرف پلٹنے کے بعد حاجی منیٰ میں جا کرپھر کیمپ کرتا ہے اور دوسرے دن پتھر کے ان تین ستونوں پر باری باری کنکریوں سے پھر چاند ماری کرتا ہے جن کو جَمرات کہتے ہیں اور جو دراصل اُس ہاتھی والی فوج کی پسپائی اور تباہی کی یادگار ہیں جو رسول اللہ a کی پیدائش کے سال عین حج کے موقع پراللہ کے گھر کو ڈھانے آئی تھی اور جسے اللہ کے حکم سے آسمانی چڑیوں نے کنکریاں مارمار کر تباہ کر دیا تھا۔{ FR 1642 } تیسرے دن پھر ان ستونوں پر سنگ باری کرنے کے بعد حاجی مکہ پلٹتا ہے اورسات دفعہ اپنے دین کے مرکز کا طواف کرتا ہے۔ یہ طوافِ وداع ہے اور اس سے فارغ ہونے کے معنی حج سے فارغ ہوجانے کے ہیں۔
حج کی برکات واثرات
یہ ساری تفصیل جو آپ نے سنی اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ حج کے ارادے اور اس کی تیاری سے لے کر اپنے گھر واپس آنے تک، دو تین مہینے کی مدت میں کتنے زبردست اثرات آدمی کے دل اور دماغ پر پڑتے ہیں۔ اس میں وقت کی قربانی ہے، مال کی قربانی ہے، آرام وآسائش کی قربانی ہے، بہت سے دنیوی تعلقات کی قربانی ہے، بہت سی نفسانی خواہشوں اور لذتوں کی قربانی ہے، اور یہ سب کچھ اللہ کی خاطر ہے۔ کوئی ذاتی غرض اس میں شامل نہیں۔ پھر اس سفر میں پرہیز گاری وتقویٰ کے ساتھ مسلسل خدا کی یاد اور خدا کی طرف شوق وعشق کی جو کیفیت آدمی پر گزرتی ہے وہ اپنا ایک مستقل نقش دل پر چھوڑ جاتی ہے جس کا اثر برسوں قائم رہتا ہے۔ پھر حرم کی سرزمین میں پہنچ کر قدم قدم پر انسان ان لوگوں کے آثار دیکھتا ہے جنھوں نے اللہ کی بندگی واطاعت میں اپنا سب کچھ قربان کیا۔ دنیا بھر سے لڑے، مصیبتیں اٹھائیں، جلا وطن ہوئے، ظلم پر ظلم سہے، مگر بالآخر اللہ کا کلمہ بلند کرکے چھوڑا، اور ہر اس باطل قوت کا سرنیچا کرکے ہی دم لیا جو انسان سے اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کرانا چاہتی تھی۔ ان آیاتِ بینات اور ان آثارِ متبرکہ کو دیکھ کر ایک خدا پرست آدمی عزم وہمت اور جہاد فی سبیل اللہ کا جو سبق لے سکتا ہے، شاید کسی دوسری چیز سے نہیں لے سکتا۔ پھر طوافِ کعبہ سے اس مرکزِ دین کے ساتھ جو وابستگی ہوتی ہے اور مناسکِ حج میں دوڑ دھوپ، کوچ اور قیام سے مجاہدانہ زندگی کی جو مشق کرائی جاتی ہے اسے اگر آپ نماز اور روزے اور زکوٰۃ کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو کہ یہ ساری چیزیں کسی بہت بڑے کام کی ٹریننگ ہیں جو اسلام مسلمانوں سے لینا چاہتا ہے۔ اسی لیے ہر اُس مسلمان پر جو کعبہ تک جانے آنے کی قدرت رکھتا ہو، حج لازم کر دیا گیا ہے تاکہ جہاں تک ممکن ہو ہر زمانے میں زیادہ سے زیادہ مسلمان ایسے موجود رہیں جو اس پوری ٹریننگ سے گزر چکے ہوں۔
حج ایک اجتماعی عبادت
لیکن حج کے فائدوں کا پورا اندازہ کرنے سے آپ قاصر رہیں گے جب تک یہ بات آپ کے پیش نظر نہ ہو کہ ایک ایک مسلمان اکیلا اکیلا حج نہیں کرتا ہے بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے حج کا ایک ہی زمانہ رکھا گیا ہے اور ہزاروں لاکھوں مسلمان مل کر ایک وقت میں حج ادا کرتے ہیں۔ پہلے جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اس سے تو آپ کے سامنے صرف اتنی بات آئی ہے کہ فرداً فرداً ایک ایک حاجی پر اس عبادت کا کیا اثر ہوتا ہے۔ اب میں آئندہ خطبے میں آپ کو یہ بتائوں گا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے حج کا ایک ہی وقت مقرر کرکے ان فائدوں کو کس طرح لاکھوں درجے بڑھا دیا گیا ہے۔
اسلام کا کمال یہی ہے کہ بیک کرشمہ دوکار نہیں بلکہ ہزار کار نکال لے جاتا ہے۔ نماز علیحدہ پڑھنے ہی میں کچھ کم فائدے نہ تھے، مگر اس کے ساتھ جماعت کی شرط لگا کر، اور امامت کا قاعدہ مقرر کرکے، اور جمعہ وعیدین کی بڑی جماعتیں بنا کر اس کے فائدوں کو بے حد وحساب بڑھا دیا گیا۔ روزہ فرداًفرداًرکھنا بھی اصلاح اور تربیت کا بہت بڑا ذریعہ تھا، مگر سب مسلمانوں کے لیے رمضان کا ایک ہی مہینہ مقرر کرکے اس کے فائدے اتنے بڑھا دیے گئے کہ شمار میں نہیں آسکتے۔ زکوٰۃ الگ الگ دینے میں بھی بہت خوبیاں تھیں، مگر اس کے لیے بیت المال کا نظام مقرر کرکے اس کی منفعت اتنی زیادہ کردی گئی کہ آپ اس کا اندازہ اس وقت تک کر ہی نہیں سکتے جب تک اسلامی حکومت قائم نہ ہو، اور آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیں کہ تمام مسلمانوں کی زکوٰۃ ایک جگہ جمع کرکے ایک انتظام کے ساتھ مستحقین میں تقسیم کرنے سے کتنی خیروبرکت ہوتی ہے۔ یہی معاملہ حج کا بھی ہے۔ اکیلا اکیلا آدمی حج کرے، تب بھی اس کی زندگی میں بہت بڑا انقلاب ہو سکتا ہے، مگر تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک ہی وقت میں مل کر حج کرنے کا قاعدہ مقرر کرکے تو اس کے فائدوں کی کوئی حد باقی ہی نہیں رکھی گئی۔
یہ مضمون ذرا تفصیل چاہتا ہے اس لیے ان شائ اللہ آئندہ خطبے میں اس کو مفصل بیان کروں گا۔
٭…٭…٭
حج کا عالمگیر اجتماع
حج کے ثمرات
عالم اسلام میں حرکت
برادرانِ اسلام! آپ جانتے ہیں کہ ایسے مسلمان جن پر حج فرض ہے، یعنی جو کعبہ تک آنے جانے کی قدرت رکھتے ہیں، ایک دو تو ہوتے نہیں ہیں۔ ہر بستی میں ان کی اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے۔ ہر شہر میں ہزاروں اور ہر ملک میں لاکھوں ہی ہوتے ہیں، اور ہر سال ان میں سے بہت لوگ حج کا ارادہ کرکے نکلتے ہیں۔ اب ذرا تصور کیجیے کہ دنیا کے کونے کونے میں جہاں جہاں بھی مسلمان بستے ہیں، حج کا موسم آنے کے ساتھ ہی کس طرح اسلام کی زندگی جاگ اٹھتی ہے، کیسی کچھ حرکت پیدا ہوتی ہے اور کتنی دیر تک رہتی ہے۔ تقریباً رمضان کے مہینے سے لے کر ذی القعدہ تک دنیا کے مختلف حصوں سے مختلف لوگ حج کی تیاریاں کرکے نکلتے ہیں اور اُدھر ذی الحج کے آخر سے صفر، ربیع الاوّل بلکہ ربیع الثانی تک واپسیوں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اس چھ سات مہینے کی مدت تک گویا مسلسل تمام رُوئے زمین کی مسلمان آبادیوں میں ایک طرح کی دینی حرکت جاری رہتی ہے۔ جو لوگ حج کو جاتے اور حج سے واپس آتے ہیں، وہ تو دینی کیفیت میں سرشار ہوتے ہی ہیں، مگر جو نہیں جاتے اُن کو بھی حاجیوں کے رخصت کرنے اور ایک ایک بستی سے اُن کے گزرنے اور پھر واپسی پر اُن کا استقبال کرنے اور ان سے حج کے حالات سننے کی وجہ سے تھوڑا یا بہت اس کیفیت کا کچھ نہ کچھ حصہ مل ہی جاتا ہے۔
پرہیز گاری اور تقویٰ کی افزائش
جب ایک ایک حاجی حج کی نیت کرتا ہے اور اس نیت کے ساتھ ہی اس پر خوفِ خدا اور پرہیز گاری اور توبہ واستغفار اور نیک اخلاقی کے اثرات چھانے شروع ہوتے ہیں، اور وہ اپنے عزیزوں، دوستوں، معاملہ داروں اور ہر قسم کے متعلقین سے اس طرح رخصت ہوتا اور اپنے معاملات صاف کرنا شروع کرتا ہے کہ گویا اب یہ وہ پہلا سا شخص نہیں ہے، بلکہ خدا کی طرف لَو لگ جانے کی وجہ سے اس کا دل پاک صاف ہو رہا ہے، تو اندازہ کیجیے کہ ایک حاجی کی اس حالت کا کتنے کتنے لوگوں پر اثر پڑتا ہو گا، اور اگرہر سال دنیا کے مختلف حصوں میں ایک لاکھ آدمی بھی اوسطاً اس طرح حج کے لیے تیار ہوتے ہوں تو ان کی تاثیر کتنے لاکھ آدمیوں کے اخلاق تک پہنچتی ہو گی۔ پھر حاجیوں کے قافلے جہاں جہاں سے گزرتے ہوں گے، وہاں ان کو دیکھ کر، ان سے مل کر، ان کی لَبَّیْکَ لبَّیْکَ کی آوازیں سن کر کتنوں کے دل گرما جاتے ہوں گے، کتنوں کی توجہ اللہ کی طرف اور اللہ کے گھر کی طرف پھر جاتی ہو گی، اور کتنوں کی سوئی ہوئی روح میں حج کے شوق سے حرکت پیدا ہو جاتی ہو گی۔ پھر جب یہ لوگ اپنے مرکز سے پھر کر اپنی اپنی بستیوں کی طرف دنیا کے مختلف حصوں میں حج کی کیفیتوں کا خمار لیے ہوئے پلٹتے ہوں گے اور لوگ ان سے ملاقات کرتے ہوں گے تو ان کی زبانِ حال اور زبانِ قال سے اللہ کے گھر کا ذکر سن کر کتنے بے شمار حلقوں میں دینی جذبات تازہ ہو جاتے ہوں گے۔
عالم اسلامی کی بیداری کا موسم
پس اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہو گا کہ جس طرح رمضان کا مہینہ تمام اسلامی دنیا میں تقویٰ کا موسم ہے، اسی طرح حج کا زمانہ تمام روئے زمین میں اسلام کی زندگی اور بیداری کا زمانہ ہے۔ اس طریقے سے شریعت بنانے والے حکیم ودانا نے ایسا بے نظیر انتظام کر دیا ہے کہ ان شاء اللہ قیامت تک اسلام کی عالم گیر تحریک مٹ نہیں سکتی۔ دنیا کے حالات خواہ کتنے ہی بگڑ جائیں اور زمانہ کتنا ہی خراب ہوجائے، مگر یہ کعبے کا مرکز اسلامی دنیا کے جسم میں کچھ اس طرح رکھ دیا گیا ہے جیسے آدمی کے جسم میں دل ہوتا ہے۔ جب تک دل حرکت کرتا رہے، آدمی مر نہیں سکتا، چاہے بیماریوں کی وجہ سے وہ ہلنے تک کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ بالکل اسی طرح دنیا کا یہ دل بھی ہر سال اس کی دور دراز رگوں تک سے خون کھینچتا رہتا ہے اور پھر اس کو رگ رگ تک پھیلا دیتا ہے۔ جب تک اس دل کی یہ حرکت جاری ہے اور جب تک خون کے کھینچنے اور پھیلنے کا یہ سلسلہ چل رہا ہے، اس وقت تک یہ بالکل محال ہے کہ اس جسم کی زندگی ختم ہو جائے، خواہ بیماریوں سے یہ کتنا ہی زار ونزار ہو۔
وحدتِ ملت کا پُرکیف نظارہ
ذرا آنکھیں بند کرکے اپنے دل میں اس نقشے کا تصور تو کیجیے کہ ادھر مشر ق سے، ادھر جنوب سے، ادھر مغرب سے، ادھر شمال سے اَن گنت قوموں اور بے شمار ملکوں کے لوگ ہزاروں راستوں سے ایک ہی مرکز کی طرف چلے آ رہے ہیں۔ شکلیں اور صورتیں مختلف ہیں، رنگ مختلف ہیں، زبانیں مختلف ہیں، مگر مرکز کے قریب ایک خاص حد پر پہنچتے ہی سب اپنے اپنے قومی لباس اتار دیتے ہیں، اور سارے کے سارے ایک ہی طرز کا سادہ یونیفارم پہن لیتے ہیں۔ احرام کا یہ یونیفارم پہننے کے بعد علانیہ یہ معلوم ہونے لگتا ہے کہ سلطانِ عالم اور بادشاہِ زمین وآسمان کی یہ فوج، جو دنیا کی ہزاروں قوموں سے بھرتی ہو کر آ رہی ہے، ایک ہی بادشاہ کی فوج ہے، ایک ہی اطاعت وبندگی کا نشان ان سب پر لگا ہوا ہے، ایک ہی وفاداری کے رشتے میں یہ سب بندھے ہوئے ہیں، اور ایک ہی دارالسلطنت کی طرف اپنے بادشاہ کے ملاحظے میں پیش ہونے کے لیے جا رہے ہیں۔ یہ یونیفارم پہنے ہوئے سپاہی جب میقات سے آگے چلتے ہیں تو ان سب کی زبانوں سے وہی ایک نعرہ بلند ہوتا ہے:
لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ
حاضر ہیں، پروردگار! ہم حاضر ہیں۔ تیرا کوئی شریک نہیں، ہم حاضر ہیں۔
بولنے کی زبانیں سب کی مختلف ہیں، مگر نعرہ سب کا ایک ہی ہے۔ پھر جوں جوں مرکز قریب آتا جاتا ہے، دائرہ سمٹ کر چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔ مختلف ملکوں کے قافلے ملتے چلے جاتے ہیں، اور سب کے سب مل کر نمازیں ایک ہی طرز پر پڑھتے ہیں۔ سب کا ایک یونیفارم، سب کا ایک امام، سب کی ایک ہی حرکت، سب کی ایک ہی زبان، سب ایک اللہ اکبر کے ہی اشارے پر اٹھتے اور بیٹھتے اور رکوع اور سجدہ کرتے ہیں، اور سب اسی ایک قرآنِ عربی کو پڑھتے اور سنتے ہیں۔ یوں زبانوں اور قومیتوں اور وطنوں اور نسلوں کا اختلاف ٹوٹتا ہے اور یوں خدا پرستوں کی ایک عالمگیر جماعت بنتی ہے۔ پھر جب یہ قافلے یک زبان ہو کر لَبَّبْک لَبَّیْک کے نعرے بلند کرتے ہوئے چلتے ہیں، جب ہر بلندی اور ہر پستی پر یہی نعرے لگتے ہیں، جب قافلوں کے ایک دوسرے سے ملنے کے وقت دونوں طرف سے یہی صدائیں اٹھتی ہیں، جب نمازوں کے وقت اور صبح کے تڑکے میں یہی آوازیں گونجتی ہیں تو ایک عجیب فضا پیدا ہو جاتی ہے جس کے نشے میں آدمی سرشار ہو کر اپنی خودی کو بھول جاتا ہے اور اس لبیک کی کیفیت میں جذب ہو کر رَہ جاتا ہے۔ پھر کعبے پہنچ کر تمام دنیا سے آئے ہوئے آدمیوں کا ایک لباس میں ایک مرکز کے گرد گھومنا، پھر سب کا ایک ساتھ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا، پھر سب کا منیٰ میں کیمپ لگانا، پھر سب کا عرفات کی طرف کوچ کرنا اور وہاں ایک امام سے خطبہ سننا، پھر سب کا مزدلفہ میں رات کو چھائونی ڈالنا، پھر سب کا ایک ساتھ منیٰ کی طرف پلٹنا، پھر سب کا متفق ہو کر جمرۂ عقبہ پر کنکریوں کی چاند ماری کرنا، پھر سب کا قربانیاں کرنا، پھر سب کا ایک ساتھ کعبے کی طرف پلٹ کر طواف کرنا، پھر سب کا ایک ہی مرکز کے گردا گرد نماز پڑھنا، یہ اپنے اندر وہ کیفیت رکھتا ہے جس کی نظیر دنیا میں ناپید ہے۔
ایک مقصد، ایک مرکز پر اجتماع
دنیا بھر کی قوموں سے نکلے ہوئے لوگوں کا ایک مرکز پر اجتماع، اور وہ بھی ایسی یک دلی ویک جہتی کے ساتھ، ایسی ہم خیالی وہم آہنگی کے ساتھ، ایسے پاک جذبات، پاک مقاصد اور پاک اعمال کے ساتھ، حقیقت میں اتنی بڑی نعمت ہے جو آدمؑ کی اولاد کو اسلام کے سوا کسی نے نہیں دی۔ دنیا کی قومیں ہمیشہ ایک دوسرے سے ملتی رہی ہیں، مگر کس طرح؟ میدانِ جنگ میں گلے کاٹنے کے لیے، یا صلح کانفرنسوں میں، ملکوں کی تقسیم اور قوموں کے بٹوارے کے لیے، یا مجلسِ اقوام متحدہ میں، تاکہ ہر قوم دوسری قوم کے خلاف دھوکے، فریب، سازش اور بے ایمانیوں کے جال پھیلائے اور دوسرے کے نقصان سے اپنا فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ تمام قوموں کے عام لوگوں کا صاف دلی کے ساتھ ملنا، نیک اخلاق اور پاک خیالات کے ساتھ ملنا، محبت اور خلوص کے ساتھ ملنا، قلبی وروحانی اتحاد کے ساتھ ملنا، خیالات، اعمال، اورمقاصد کی یک جہتی کے ساتھ ملنا، اور صرف ایک ہی دفعہ مل کر نہ رہ جانا، بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہر سال ایک مرکز پر اسی طرح اکٹھے ہوتے رہنا، کیا یہ نعمت اسلام کے سوا بنی نوع انسان کو اور بھی کہیں ملتی ہے؟ دنیا میں امن قائم کرنے، قوموں کی دشمنیوں کو مٹانے اور لڑائی جھگڑوں کے بجائے محبت، دوستی اور برادری کی فضا پیدا کرنے کے لیے اس سے بہتر نسخہ کس نے تجویز کیا ہے؟
قیامِ ا من کی سب سے بڑی تحریک
اسلام صرف اتنا ہی نہیں کرتا۔اس سے بڑھ کر یہاں اوربہت کچھ ہے۔اس نے لازم کیا ہے کہ سال کے چار مہینے جو حج اور عمرے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں،ان میںکوشش کی جائے کہ کعبے کی طرف آنے والے تمام راستوں میں امن قائم رہے۔یہ دنیا میں امن قائم رکھنے کی سب سے بڑی دوامی تحریک ہے اور اگر دنیا کی سیاست کی باگیں، اسلام کے ہاتھ میں ہوں تو مسلمانوں کی پوری کوشش یہ ہو گی کہ دنیا میں ایسی بد امنی برپا نہ ہونے پائے جس سے حج اور عمرے کا نظام معطّل ہو جائے۔
دنیا میں واحد مرکزِ امن
اس نے دنیا کو ایک ایسا حرم دیا ہے جو قیامت تک کے لیے امن کا شہر ہے۔جس میں آدمی تو کیا جانور تک کا شکار نہیں کیا جا سکتا،جس میں گھاس تک کاٹنے کی اجازت نہیں،جس کی زمین کا کانٹا تک نہیں توڑا جا سکتا، جس میں حکم ہے کہ کسی کی کوئی چیزگری پڑی ہو تو اسے ہاتھ تک نہ لگائو۔ اس نے دنیا کو ایک ایسا شہر دیا ہے جس میں ہتھیار لانے کی ممانعت ہے،جس میں غلّے کو اور دوسری عام ضرورت کی چیزوں کو روک کر مہنگا کرناالحاد کی حد تک پہنچ جاتا ہے،جس میں ظلم کرنے والے کو اللہ نے دھمکی دی ہے :
نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ o (الحج 22:25 )
ہم اسے درد ناک سزا دیں گے۔
حقیقی مساوات کا مرکز
اُس نے دنیا کو ایک ایسا مرکز دیا ہے جس کی تعریف یہ ہے کہ: سَوَاۗءَۨ الْعَاكِفُ فِيْہِ وَالْبَادِ۰ۭ (الحج22:25 ) یعنی وہاں اُن تمام انسانوں کے حقوق بالکل برابر ہیں جو خدا کی بادشاہت اور محمد a کی رہنمائی تسلیم کر کے اسلام کی برادری میں داخل ہو جائیں، خواہ کوئی شخص امریکہ کا رہنے والا ہو یا افریقہ کا،چین کا ہو یا ہندستان کا،اگر وہ مسلمان ہو جائے تو مکّہ کی زمین پر اُس کے وہی حقوق ہیں جو خود مکّہ والوں کے ہیں۔پورے حرم کے علاقے کی حیثیت گویا مسجد کی سی حیثیت ہے کہ جو شخص مسجد میں جا کر کسی جگہ اپنا ڈیرہ جمادے وہ جگہ اسی کی ہے،کوئی اس کو وہاں سے اُٹھا نہیں سکتا،نہ اس سے کرایہ مانگ سکتا ہے،مگر وہ اس جگہ خواہ تمام عمر بیٹھا رہا ہو اسے یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ یہ جگہ میری مِلک ہے،نہ وہ اس کو بیچ سکتا ہے،نہ اس کا کرایہ وصول کر سکتا ہے، حتیٰ کہ جب وہ شخص اُس جگہ سے اُٹھ جائے تو دوسرے کو بھی وہاں ڈیرہ جمانے کا ویسا ہی حق ہے جیسا اُس کو تھا۔بالکل یہی حال پورے مکّہ کے حرم کا ہے۔ نبی a کا ارشاد ہے:
مَکَّۃُ مُنَاخٌ لِمَنْ سَبَقَ ۔ (ابودائود)
جو شخص اس شہر میں کسی جگہ آکر پہلے اُتر جائے، وہ جگہ اُسی کی ہے۔
وہاں کے مکانوں کاکرایہ لینا جائز نہیں ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں کے لوگوں کو حکم دے دیا تھا کہ اپنے مکانات کے گرد صحنوں پر دروازے نہ لگائو،تاکہ جو چاہے تمھارے صحن میں آکر ٹھیر سکے۔بعض فقہا نے تو یہاں تک کہا ہے کہ شہر مکّہ کے مکانات پر نہ کسی کی ملکیّت ہے اور نہ وہ وراثت میں منتقل ہو سکتے ہیں۔
کیا اسلام کے سوا یہ نعمتیں انسان کو کہیں اور بھی مل سکتی ہیں؟
بھائیو!یہ ہے وہ حج جس کے متعلق فرمایا گیا تھا کہ اسے کر کے دیکھو،اس میں تمھارے لیے کتنے منافع ہیں۔میری زبان میں اتنی قدرت نہیں کہ اس کے سارے منافع گِناسکوں،تاہم اس کے فائدوں کا یہ ذرا سا خاکہ جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے اسی سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے۔
ہماری قدرناشناسی
یہ سب کچھ سننے کے بعد ذرا میرے جلے دل کی کچھ باتیں بھی سُن لو!تم نسلی مسلمانوں کا حال اُس بچے کا سا ہے جو ہیرے کی کان میں پیدا ہوا ہے۔ایسا بچہ جب ہر طرف ہیرے ہی ہیرے دیکھتا ہے اور پتھروں کی طرح ہیروں سے کھیلتا ہے تو ہیرے اس کی نگاہ میں ایسے ہی بے قدر ہوجاتے ہیں جیسے پتھر۔یہی حالت تمھاری بھی ہے کہ دنیا جن نعمتوں سے محروم ہے،جن سے محروم ہو کر سخت مصیبتیں اور تکلیفیں اٹھا رہی ہے اور جن کی تلاش میں حیران و سرگردان ہے،وہ نعمتیں تم کو مفت میں بغیر کسی تلاش و جستجو کے صرف اس وجہ سے مل گئیں کہ خوش قسمتی سے تم مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے ہو۔وہ کلمۂ توحید جو انسان کی زندگی کے تمام پیچیدہ مسئلوں کو سلجھا کر ایک صاف سیدھا راستہ بتا دیتا ہے، بچپن سے تمھارے کانوں میں پڑا۔نماز اور روزے کے وہ کیمیا سے زیادہ قیمتی نسخے جو آدمی کو جانور سے انسان بناتے ہیں،اور انسانوں کو خدا ترس اور ایک دوسرے کا بھائی، ہمدرد اور دوست بنانے کے لیے جن سے بہتر نسخے آج تک دریافت نہیں ہو سکے ہیں،تم کو آنکھ کھولتے ہی خودبخود باپ دادا کی میراث میں مل گئے۔زکوٰۃ کی وہ بے نظیر ترکیب جس سے محض دلوں ہی کی ناپاکی دُور نہیں ہوتی،بلکہ دنیا کے مالیات کا نظام بھی درست ہو جاتا ہے،جس سے محروم ہو کر تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ دنیا کے لوگ ایک دوسرے کا منہ نوچنے لگے ہیں،تمھیں وہ اس طرح مل گئی ہے جیسے کسی حکیم حاذق کے بچے کو بغیر محنت کے وہ نسخے مل جاتے ہیںجنھیں دوسرے لوگ ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔اسی طرح حج کا وہ عظیم الشان طریقہ بھی جس کا آج دنیا بھر میں کہیں جواب نہیں ہے،جس سے زیادہ طاقت ور ذریعہ کسی تحریک کو چاردانگِ عالم میں پھیلانے اور ابدالآباد تک زندہ رکھنے کے لیے آج تک دریافت نہیں ہو سکا ہے،جس کے سوا آج دنیا میں کوئی عالم گیر طاقت ایسی موجود نہیں ہے کہ آدم کی ساری اولاد کو زمین کے گوشے گوشے سے کھینچ کر خدائے واحد کے نام پر ایک مرکز پر جمع کر دے،اور بے شمار نسلوں اور قوموں کو ایک خدا پرست،نیک نیّت،خیرخواہ برادری میں پیوست کر کے رکھ دے۔
ہاں، ایسا بے نظیر طریقہ بھی تمھیں بغیر کسی جستجو کے بنابنایا اور صدہابرس سے چلتا ہوا مل گیا،مگر تم نے اِن نعمتوں کی کوئی قدر نہ کی،کیونکہ آنکھ کھولتے ہی یہ تم کو اپنے گھر میں ہاتھ آگئیں۔اب تم اُن سے بالکل اسی طرح کھیل رہے ہو جس طرح ہیرے کی کان میں پیدا ہونے والا نادان بچہ ہیروں سے کھیلتا ہے اور انھیں کنکر پتھر سمجھنے لگتا ہے ۔اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے جس بُری طرح تم اس زبردست دولت اور طاقت کو ضائع کر رہے ہو، اس کا نظارہ دیکھ کر دل جل اُٹھتا ہے۔کوئی کہاں سے اتنی قوتِ برداشت لائے کہ پتھر پھوڑوں کے ہاتھوں جواہرات کو برباد ہوتے دیکھ کر ضبط کر سکے؟
میرے عزیزو! تم نے شاعر کا یہ شعر تو سنا ہی ہوگا کہ :
خرِ عیسٰی اگر بمکّہ رَود چوں بیاید ہنوز خر باشد
یعنی گدھا خواہ عیسٰی علیہ السّلام جیسے پیغمبر ہی کا کیوں نہ ہو مکّہ کی زیارت سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔اگر وہ وہاں ہو آئے تب بھی جیسا گدھا تھا ویسا ہی رہے گا۔
نماز روزہ ہو یا حج، یہ سب چیزیں سمجھ بوجھ رکھنے والے انسانوں کی تربیت کے لیے ہیں،جانوروں کو سدھانے کے لیے نہیں ہیں۔جو لوگ نہ ان کے معنی و مطلب کو سمجھیں،نہ ان کے مدّعا سے کچھ غرض رکھیں،نہ اُس فائدے کو حاصل کرنے کا ارادہ ہی کریں جو اِن عبادتوں میں بھرا ہوا ہے، بلکہ جن کے دماغ میں اِن عبادتوں کے مقصد و مطلب کا سرے سے کوئی تصور ہی نہ ہو، وہ اگر ان افعال کی نقل اس طرح اتار دیا کریں کہ جیسا اگلوں کو کرتے دیکھا ویسا ہی خود بھی کر دیا،تو اس سے آخر کس نتیجے کی توقع کی جا سکتی ہے۔بدقسمتی سے عموماً آج کل کے مسلمان اسی طریقے سے ان افعال کو ادا کر رہے ہیں۔ ہرعبادت کی ظاہری شکل جیسی مقرر کر دی گئی ہے ویسی ہی بنا کر رکھ دیتے ہیں، مگر وہ شکل رُوح سے بالکل خالی ہوتی ہے۔تم دیکھتے ہوکہ ہر سال ہزارہا زائرین مرکزِ اسلام کی طرف جاتے ہیں اور حج سے مشرّف ہو کر پلٹتے ہیں،مگر نہ جاتے وقت ہی ان پر وہ اصلی کیفیت طاری ہوتی ہے جو ایک مسافرِ حرم میں ہونی چاہیے،نہ وہاں سے واپس آکر ہی اُن میں کوئی اثر حج کا پایا جاتا ہے، اور نہ اس سفر کے دوران میں وہ ان آبادیوں کے مسلمانوں اور غیر مسلموں پر اپنے اخلاق کا کوئی اچھا نقش بٹھاتے ہیں جن پر سے اُن کا گزر ہوتا ہے،بلکہ اس کے برعکس اُن میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو اپنی گندگی،بے تمیزی اور اخلاقی پستی کی نمائش کر کے اسلام کی عزّت کو بٹہ لگاتے ہیں۔ ان کی زندگی کو دیکھ کر بجائے اِس کے کہ دین کی بزرگی کا سکہ غیروں پر جمے، خوداپنوں کی نگاہوں میں بھی وہ بے وقعت ہو جاتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ آج خود ہماری اپنی قوم کے بہت سے نوجوان ہم سے پوچھتے ہیں کہ ذرا اس حج کا فائدہ تو ہمیں سمجھائو؟حالانکہ یہ حج وہ چیز تھی کہ اگر اسے اس کی اصلی شان کے ساتھ ادا کیا جاتا تو کافر تک اس کے فائدوں کو علانیہ دیکھ کر ایمان لے آتے۔
کسی تحریک کے ہزاروں لاکھوں ممبر ہر سال دنیا کے ہر حصّے سے کھنچ کر ایک جگہ جمع ہوں اور پھراپنے اپنے ملکوں کو واپس جائیں۔ ملک ملک اور شہر شہر سے گزرتے ہوئے اپنی پاکیزہ زندگی،پاکیزہ خیالات اور پاکیزہ اخلاق کا اظہار کرتے جائیں،جہاں جہاں ٹھیریں اور جہاں سے گزریں وہاں اپنی تحریک کے اُصولوں کا نہ صرف زبان سے پرچار کریں، بلکہ اپنی عملی زندگی سے ان کا پورا پورا مظاہرہ بھی کر دیں،اور یہ سلسلہ دس بیس برس نہیں، بلکہ صدیوں تک سال بہ سال چلتا رہے۔بھلا غور تو کیجیے کہ یہ بھی کوئی ایسی چیز تھی کہ اس کے فائدے پوچھنے کی کسی کو ضرورت پیش آتی؟ خدا کی قسم، اگر یہ کام صحیح طریقے پر ہوتا تو اندھے اس کے فائدے دیکھتے اور بہرے اس کے فائدے سُن لیتے۔ہر سال کا حج کروڑوں مسلمانوں کو نیک بناتا۔ہزاروں غیر مسلموں کو اسلام کے دائرے میں کھینچ لاتا، اور لاکھوں غیر مسلموں کے دلوں پر اسلام کی بزرگی کا سکّہ بٹھا دیتا،مگر بُرا ہو جہالت کا،جاہلوں کے ہاتھ پڑ کر کتنی بیش قیمت چیز کس بُری طرح ضائع ہو رہی ہے۔
حج سے پُورے فائدے حاصل کرنے کا طریقہ
حج کے پورے فائدے حاصل ہونے کے لیے ضروری تھا کہ مرکزِ اسلام میں کوئی ایسا ہاتھ ہوتا جو اس عالم گیر طاقت سے کام لیتا،کوئی ایسا دل ہوتا جو ہر سال تمام دنیا کے جسم میں خونِ صالح دوڑاتا رہتا، کوئی ایسا دماغ ہوتا جو ان ہزاروں لاکھوں خداداد قاصدوں کے واسطے سے دنیا بھرمیں اسلام کے پیغام کو پھیلانے کی کوشش کرتا،اور کچھ نہیں تو کم از کم اتنا ہی ہوتا کہ وہاں کچھ خالص اسلامی زندگی کا ایک مکمل نمونہ موجود ہوتا اور ہر سال دنیا کے مسلمان وہاں سے صحیح دین داری کا تازہ سبق لے لے کر پلٹتے،مگر وائے افسوس کہ وہاں کچھ بھی نہیں۔مدتہائے دراز سے عرب میں جہالت پرورش پا رہی ہے۔عباسیوں کے دور سے لے کر عثمانیوں کے دور تک ہر زمانے کے بادشاہ اپنی سیاسی اغراض کی خاطر عرب کو ترقی دینے کے بجائے، صدیوں سے پیہم گرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔انھوں نے اہلِ عرب کو علم،اخلاق،تمدّن،ہر چیز کے اعتبار سے پستی کی انتہا تک پہنچا کر چھوڑا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ وہ سرزمین جہاں سے کبھی اسلام کا نور تمام عالم میں پھیلا تھا، آج اسی جاہلیت کے قریب پہنچ گئی ہے جس میں وہ اسلام سے پہلے مبتلا تھی۔اب نہ وہاں اسلام کا علم ہے،نہ اسلامی اخلاق ہیں،نہ اسلامی زندگی ہے۔
لوگ دُور دُورسے بڑی گہری عقیدتیں لیے ہوئے حرم پاک کا سفر کرتے ہیں،مگر اس علاقے میں پہنچ کر جب ہر طرف ان کو جہالت، گندگی،طمع،بے حیائی،دنیا پرستی، بداخلاقی، بدانتظامی اور عام باشندوں کی ہر طرح گری ہوئی حالت نظر آتی ہے، توان کی توقعات کا سارا طلسم پاش پاش ہو کر رہ جاتا ہے۔حتّٰی کہ بہت سے لوگ حج کر کے اپنا ایمان بڑھانے کے بجائے اور اُلٹا کچھ کھوآتے ہیں۔ وہی پرانی مہنت گری جو حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السّلام کے بعد جاہلیّت کے زمانے میں کعبہ پر مسلّط ہو گئی تھی اور جسے رسول اللہ a نے آکر ختم کیا تھا،اب پھر تازہ ہو گئی ہے۔حرم کعبہ کے منتظم پھر اسی طرح مہنت بن کر بیٹھ گئے ہیں۔خدا کا گھر ان کے لیے جائداداور حج ان کے لیے تجارت بن گیا ہے۔حج کرنے والوں کو وہ اپنا اسامی{ FR 1644 } سمجھتے ہیں۔ مختلف ملکوں میں بڑی بڑی تنخواہیں پانے والے ایجنٹ مقرر ہیں، تاکہ اسامیوں کو گھیر گھیر کر بھیجیں۔ ہر سال اجمیر کے خادموں کی طرح ایک لشکر کا لشکر دلالوں اور سفری ایجنٹوں کا مکہ سے نکلتا ہے، تاکہ دنیا بھر کے ملکوں سے اسامیوں کو گھیر لائے۔ قرآن کی آیتیں اور حدیث کے احکام لوگوں کو سناسنا کر حج پر آمادہ کیا جاتا ہے،نہ اس لیے کہ انھیں خدا کا عائد کیا ہوا فرض یاد دلایا جائے،بلکہ صرف اس لیے کہ ان احکام کو سن کر یہ لوگ حج کو نکلیں تو آمدنی کا دروازہ کھلے۔گویا اللہ اوراس کے رسولؐ نے یہ سارا کاروبارانھی مہنتوں اور ان کے دلالوں کی پرورش کے لیے پھیلایا تھا۔پھر جب اس فرض کو ادا کرنے کے لیے آدمی گھر سے نکلتاہے تو سفر شروع کرنے سے لے کر واپسی تک ہر جگہ، اس کو مذہبی مزدوروں اور دینی تاجروں سے سابقہ پیش آتا ہے۔معلّم،مطوّف،وکیلِ مطوّف،کلید بردارِ کعبہ اور خود حکومتِ حجاز،سب اس تجارت میں حصّہ دار ہیں۔حج کے سارے مناسک معاوضہ لے کر ادا کرائے جاتے ہیں۔ایک مسلمان کے لیے خانہ کعبہ کا دروازہ تک فیس کے بغیر نہیں کھل سکتا۔نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ۔
یہ بنارس اورہردوار کے پنڈتوں کی سی حالت اُس دین کے نام نہاد خدمت گزاروں اور مرکزی عبادت گاہ کے مجاوروں نے اختیار کر رکھی ہے جس نے مہنت گری کے کاروبار کی جڑ کاٹ دی تھی۔بھلا، جہاں عبادت کرانے کا کام مزدوری اور تجارت بن گیا ہو،جہاں عبادت گاہوں کو ذریعۂ آمدنی بنا لیا گیا ہو،جہاں احکامِ اِلٰہی کو اس غرض کے لیے استعمال کیا جاتا ہو کہ خدا کا حکم سن کر لوگ فرض بجا لانے کے لیے مجبور ہوں اور اس طاقت کے بل پر اُن کی جیبوں سے روپیہ گھسیٹا جائے،جہاں آدمی کو عبادت کا ہر رُکن ادا کرنے کے لیے معاوضہ دینا پڑتا ہو، اور دینی سعادت ایک طرح سے خرید و فروخت کی جنس بن گئی ہو،ایسی جگہ عبادت کی رُوح باقی کہاں رہ سکتی ہے؟کس طرح آپ امید کر سکتے ہیں کہ حج کرنے والوں اور حج کرانے والوں کواس عبادت کے حقیقی و رُوحانی فائدے حاصل ہوں گے، جب کہ یہ سارا کام سوداگری اور دوسری طرف خریداری کی ذہنیت سے ہو رہا ہو۔{ FR 1648 }
اس ذکر سے میر ا مقصد کسی کو الزا م دینا نہیں ہے،بلکہ صرف آپ لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ حج جیسی عظیم الشان طاقت کو آج کن چیزوں نے قریب قریب بالکل بے اثر بنا کر رکھ دیا ہے۔یہ غلط فہمی کسی کے دل میں نہ رہنی چاہیے کہ اسلام میں اوراس کے جاری کیے ہوئے طریقوں میں کوئی کوتاہی ہے۔نہیں! کوتاہی دراصل اُن لوگوں میں ہے جو اسلام کی صحیح پَیروی نہیں کرتے۔یہ تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے کہ جو طریقے تم کوانسانیت کا مکمل نمونہ بنانے والے تھے اورجن پر ٹھیک ٹھیک عمل کر کے تم تمام دنیا کے مُصلح اورامام بن سکتے تھے،ان سے آج کوئی اچھا پھل ظاہرنہیں ہو رہا ہے،اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ لوگوں کو خود ان طریقوں کے مفید ہونے میں شک ہونے لگا ہے۔اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک طبیب حاذق چند بہترین تیر بہ ہدف نسخے مرتب کر کے چھوڑ گیا ہو، اور بعد میں اس کے وہ نسخے اناڑی اور جاہل جانشینوں کے ہاتھ پڑ کر بے کار بھی ہو رہے ہوں اور بدنام بھی۔نسخہ بجائے خود چاہے کتنا ہی صحیح ہو، مگر بہرحال اس سے کام لینے کے لیے فن کی واقفیت اور سمجھ بوجھ ضروری ہے۔اناڑی اس سے کام لیں گے تو عجب نہیں کہ وہ غیر مفید ہی نہیں، بلکہ مضر ہو جائے اور جاہل لوگ جو خود نسخے کو جانچنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں، اس غلط فہمی میں پڑ جائیں کہ نسخہ خود ہی غلط ہے۔
خ خ خ
باب ہفتم
جہاد
* جہاد
* جہاد کی اہمیت
جہاد
برادرانِ اسلام!پچھلے خطبوں میں بار بار میں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ نماز،روزہ اور یہ حج اور زکوٰۃ جنھیںاللہ تعالیٰ نے آپ پر فرض کیا ہے،اور اسلام کا رُکن قرار دیا ہے، یہ ساری چیزیں دوسرے مذہبوں کی عبادات کی طرح پوجا پاٹ اور نذر و نیاز اور جاترا کی رسمیں نہیں ہیں کہ بس آپ ان کو ادا کر دیں اور اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہو جائے،بلکہ دراصل یہ ایک بڑے مقصد کے لیے آپ کو تیار کرنے اور ایک بڑے کام کے لیے آپ کی تربیت کرنے کی خاطر فرض کی گئی ہیں۔اب چونکہ میں اس تربیت اور اس تیاری کے ڈھنگ کو کافی تفصیل کے ساتھ بیان کر چکا ہوں،اس لیے وقت آگیا ہے کہ آپ کو یہ بتایا جائے کہ وہ مقصد کیا ہے جس کے لیے یہ ساری تیاری ہے۔
اسلام کا مقصودِحقیقی
مختصر الفاظ میں تو صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ وہ مقصد انسان پر سے انسان کی حکومت مٹا کر خدائے واحد کی حکومت قائم کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دینے اور جان توڑ کوشش کرنے کا نام جہاد ہے،اور نماز،روزہ،حج،زکوٰۃ سب کے سب اسی کام کی تیاری کے لیے ہیں۔لیکن چونکہ آپ لوگ مدّتہائے دراز سے اس مقصد کو اور اس کام کو بھول چکے ہیں اور ساری عبادتیں آپ کے لیے محض تصوّف بن کر رہ گئی ہیں،اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس ذرا سے فقرے میں جو مطلب میں نے ادا کیا ہے اسے آپ ایک معمے سے زیادہ کچھ نہ سمجھے ہوں گے۔اچھا تو آئیے!اب میں آپ کے سامنے اس مقصد کی تشریح کروں۔
خرابیوں کی اصل جڑ ___ حکومت کی خرابی
دنیا میں آپ جتنی خرابیاں دیکھتے ہیں اُن سب کی جڑ دراصل حکومت کی خرابی ہے۔طاقت اور دولت حکومت کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔قانون حکومت بناتی ہے۔انتظام کے سارے اختیارات حکومت کے قبضے میں ہوتے ہیں۔پولیس اورفوج کا زور حکومت کے پاس ہوتا ہے۔لہٰذاجو خرابی بھی لوگوں کی زندگی میں پھیلتی ہے وہ یا تو خود حکومت کی پھیلائی ہوئی ہوتی ہے، یا اس کی مدد سے پھیلتی ہے،کیونکہ کسی چیز کو پھیلنے کے لیے جس طاقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ حکومت ہی کے پاس ہے۔
مثال کے طور پر آپ دیکھتے ہیں کہ زنا دھڑلے سے ہو رہا ہے اور علانیہ کوٹھوں پر یہ کاروبار جاری ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ حکومت کے اختیارات جن لوگوں کے ہاتھ میں ہیں، ان کی نگاہ میں زنا کوئی جرم نہیں ہے۔وہ خود اس کام کو کرتے ہیں اوردوسروں کو کرنے دیتے ہیں،ورنہ وہ اسے بند کرنا چاہیں تو یہ کام اس دھڑلّے سے نہیں چل سکتا۔آپ دیکھتے ہیں کہ سود خواری کا بازار خوب گرم ہو رہا ہے اور مال دار لوگ غریبوں کا خون چوسے چلے جا تے ہیں۔یہ کیوں؟ صرف اس لیے کہ حکومت خود سود کھاتی ہے اور کھانے والوںکو مدد دیتی ہے۔اس کی عدالتیں سود خواروں کو ڈگریاں دیتی ہیں اور اس کی حمایت ہی کے بل پر یہ بڑے بڑے ساہوکارے اور بینک چل رہے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ لوگوں میں بے حیائی اور بداخلاقی روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔یہ کس لیے؟ محض اس لیے کہ حکومت نے لوگوں کی تعلیم و تربیت کا ایسا ہی انتظام کیا ہے اور اس کو اخلاق اور انسانیت کے وہی نمونے پسند ہیں جو آپ کو نظر آرہے ہیں۔کسی دوسرے طرز کی تعلیم و تربیت سے آپ کسی اور نمونے کے انسان تیار کرنا چاہیں تو ذرائع کہاں سے لائیں گے؟ اور تھوڑے بہت تیار کر بھی دیں تو وہ کھپیں گے کہاں؟رزق کے دروازے اور کھپت کے میدان تو سارے کے سارے بگڑی ہوئی حکومت کے قبضے میں ہیں۔آپ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بے حد و حساب خون ریزی ہورہی ہے۔انسان کا علم اس کی تباہی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔انسان کی محنت کے پھل آگ کی نذرکیے جارہے ہیں اور بیش قیمت جانیں مٹی کے ٹھیکروں سے بھی زیادہ بے دردی کے ساتھ ضائع کی جارہی ہیں۔یہ کس وجہ سے؟
صرف اس وجہ سے کہ آدم کی اولاد میں جو لوگ سب سے زیادہ شریر اور بدنفس تھے وہ دنیا کی قوموں کے رہنما اور اقتدار کی باگوں کے مالک ہیں۔قوت اُن کے ہاتھ میں ہے،اس لیے وہ دنیا کو جدھر چلا رہے ہیں اُسی طرف دنیا چل رہی ہے۔ علم، دولت، محنت، جان، ہر چیزکا جو مَصرف انھوں نے تجویز کیا ہے اسی میں ہر چیز صَرف ہو رہی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ہر طرف ظلم ہو رہا ہے،کمزور کے لیے کہیں انصاف نہیں،غریب کی زندگی دشوار ہے ، عدالتیںبنئے کی دوکان بنی ہوئی ہیں جہاں سے صرف روپے کے عوض ہی انصاف خریدا جاسکتا ہے۔ لوگوں سے بے حساب ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں اور افسروں کی شاہانہ تنخواہوں پر،بڑی بڑی عمارتوں پر،لڑائی کے گولہ بارود پر اور ایسی ہی دوسری فضول خرچیوں پر اڑا دیے جاتے ہیں۔ساہوکار،زمین دار،راجہ اور رئیس، خطاب یافتہ اور خطاب کے امیدوار عمائدین،گدی نشین پیر اور مہنت،سینما کمپنیوں کے مالک،شراب کے تاجر،فحش کتابیں اور رسالے شائع کرنے والے،جوئے کا کاروبار چلانے والے اور ایسے ہی بہت سے لوگ خلقِ خدا کی جان، مال، عزّت، اخلاق،ہر چیز کو تباہ کر رہے ہیں اور کوئی اُن کو روکنے والا نہیں۔یہ سب کیوں ہورہا ہے؟صرف اس لیے کہ حکومت کی کل بگڑی ہوئی ہے۔طاقت جن ہاتھوں میں ہے،وہ خراب ہیں۔وہ خود بھی ظلم کرتے ہیں اور ظالموں کا ساتھ بھی دیتے ہیں،اور جو ظلم بھی ہوتا ہے اس وجہ سے ہوتاہے کہ وہ اس کے ہونے کے خواہش مند یا کم از کم روا دار ہیں۔
ان مثالوں سے یہ بات آپ کی سمجھ میں آگئی ہو گی کہ حکومت کی خرابی تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔لوگوں کے خیالات کا گمراہ ہونا،اخلاق کا بگڑنا،انسانی قوتوں اور قابلیتوں کا غلط راستوں میں صَرف ہونا،کاروبار اور معاملات کی غلط صورتوں اور زندگی کے بُرے طور طریق کا رواج پانا، ظلم و ستم اور بدافعالیوں کا پھیلنا اور خلقِ خدا کا تباہ ہونا،یہ سب کچھ نتیجہ ہے اس ایک بات کا کہ اختیارات اور اقتدار کی کنجیاں غلط ہاتھوں میں ہیں۔ظاہر ہے کہ جب طاقت بگڑے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں ہوگی اور جب خلقِ خدا کا رزق انھی کے تصرّف میں ہو گا تو وہ نہ صرف خود بگاڑکو پھیلائیں گے، بلکہ بگاڑ کی ہر صورت اُن کی مدد اور حمایت سے پھیلے گی اور جب تک اختیارات اُن کے قبضے میں رہیں گے،کسی چیز کی اصلاح نہ ہوسکے گی۔
اصلاح کے لیے پہلا قدم ___ اصلاحِ حکومت
یہ بات جب آپ کے ذہن نشین ہو گئی تو یہ سمجھنا آپ کے لیے آسان ہے کہ خلقِ خدا کی اصلاح کرنے اور لوگوں کو تباہی کے راستوں سے بچا کر فلاح اور سعادت کے راستے پر لانے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ حکومت کے بگاڑ کو درُست کیا جائے۔معمولی عقل کاآدمی بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ جہاں لوگوں کو زنا کی آزادی حاصل ہو،وہاں زنا کے خلاف خواہ کتنا ہی وعظ کیا جائے زنا کا بند ہونا محال ہے،لیکن اگرحکومت کے اختیارات پر قبضہ کر کے زبردستی زنا کو بند کر دیا جائے تو لوگ خود بخود حرام کے راستے کو چھوڑ کر حلال کا راستہ اختیار کر لیں گے۔شراب،جوا،سُود،رشوت،فحش تماشے،بے حیائی کے لباس، بداخلاق بنانے والی تعلیم، اور ایسی ہی دوسری چیزیں اگرآپ وعظوں سے دور کرنا چاہیں تو کامیابی ناممکن ہے،البتہ حکومت کے زور سے یہ سب بلائیں دُور کی جا سکتی ہیں۔جو لوگ خلقِ خدا کو لُوٹتے اور اخلاق کو تباہ کرتے ہیں اُن کو آپ محض پندو نصیحت سے چاہیں کہ اپنے فائدوں سے ہاتھ دھولیں تویہ کسی طرح ممکن نہیں۔ہاں، اقتدار ہاتھ میں لے کر آپ بزوراُن کی شرارتوں کا خاتمہ کر دیں تو ان ساری خرابیوں کا انسداد ہو سکتا ہے۔
اگر آپ چاہیں کہ بندگانِ خدا کی محنت،دولت،ذہانت و قابلیّت غلط راستوں میں ضائع ہونے سے بچے اور صحیح راستوں میں صَرف ہو، اگر آپ چاہیں کہ ظلم مٹے اور انصاف ہو،اگر آپ چاہیں کہ زمین میں فساد نہ ہو ،انسان انسان کا خون نہ چوسے نہ بہائے،دبے اور گرے ہوئے انسان اٹھائے جائیں اور تمام انسانوں کو یکساں عزّت،امن،خوش حالی اور ترقی کے مواقع حاصل ہوں،تو محض تبلیغ و تلقین کے زورسے یہ کام نہیں ہو سکتا،البتہ حکومت کا زور آپ کے پاس ہو تو یہ سب کچھ ہونا ممکن ہے۔پس یہ بالکل ایک کھلی ہوئی بات ہے جس کو سمجھنے کے لیے کچھ بہت زیادہ غور و فکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں کہ اصلاحِ خلق کی کوئی اسکیم بھی حکومت کے اختیارات پر قبضہ کیے بغیر نہیں چل سکتی۔جو کوئی حقیقت میں خدا کی زمین سے فتنہ و فساد کو مٹانا چاہتا ہو، اور واقعی یہ چاہتا ہو کہ خلقِ خدا کی اصلاح ہو تو اس کے لیے محض واعظ اور ناصح بن کر کام کرنا فضول ہے۔اسے اٹھنا چاہیے اور غلط اُصول کی حکومت کا خاتمہ کرکے، غلط کار لوگوں کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر صحیح اصول اور صحیح طریقے کی حکومت قائم کرنی چاہیے۔
حکومت کی خرابی کی بنیاد___ انسان پر انسان کی حکمرانی
یہ نکتہ سمجھ لینے کے بعد ایک قدم اور آگے بڑھیے۔آپ کو یہ تو معلوم ہو گیا کہ بندگانِ خداکی زندگی میں جو خرابیاں پھیلتی ہیں اُن کی جڑ حکومت کی خرابی ہے،اوراصلاح کے لیے ضروری ہے کہ اس جڑ کی اصلاح کی جائے، مگر اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود حکومت کی خرابی کا بنیادی سبب کیا ہے؟ اس خرابی کی جڑ کہاں ہے؟ اور اس میں کون سی بنیادی اصلاح کی جائے کہ وہ برائیاں پیدا نہ ہوں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ خرابی کی جڑ دراصل انسان پر انسان کی حکومت ہے اور اصلاح کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ انسان پر خدا کی حکومت ہو۔اتنے بڑے سوال کا اتنا مختصر سا جواب سُن کر آپ تعجب نہ کریں،اس سوال کی تحقیق میں جتنا کھوج آپ لگائیں گے، یہی جواب آپ کو ملے گا۔
ذرا غور تو کیجیے،یہ زمین جس پر آپ رہتے ہیں، یہ خدا کی بنائی ہوئی ہے یا کسی اور کی؟یہ انسان جو زمین پر بستے ہیں، ان کو خدا نے پیدا کیا ہے یا کسی اور نے؟یہ بے شمار اسبابِ زندگی جن کے بل پر سب انسان جی رہے ہیں، انھیں خدا نے مہیّا کیا ہے یا کسی اور نے؟
اگر ان سب سوالات کا جواب یہی ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں کہ زمین اور انسان اور یہ تمام سامان خدا ہی کے پیدا کیے ہوئے ہیں،تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ ملک خدا کا ہے،دولت خدا کی ہے اور رعیّت بھی خداکی ہے۔پھر جب معاملہ یہ ہے تو آخر کوئی اس کا حق دار کیسے ہوگیا کہ خدا کی رعیت پر خدا کے ملک میں اپنا حکم چلائے؟آخر یہ کس طرح صحیح ہوسکتا ہے کہ خدا کی رعیت پر خدا کے سوا کسی دوسرے کا قانون یا خود رعیّت کا اپنا بنایا ہوا قانون جاری ہو؟ ملک کسی کا ہو اور حکم دوسرے کا چلے۔ملکیّت کسی کی ہو، اور مالک کوئی دوسرا بن جائے،رعیّت کسی کی ہو،اور اس پر فرماں روائی دوسرا کرے۔یہ بات آپ کی عقل کیسے قبول کر سکتی ہے؟ایسا ہونا تو صریح حق کے خلاف ہے،اور چونکہ یہ حق کے خلاف ہے اس لیے جہاں کہیں اورجب کبھی ایسا ہوتا ہے نتیجہ بُرا ہی نکلتاہے۔جن انسانوں کے ہاتھ میں قانون بنانے اور حکم چلانے کے اختیارات آتے ہیں وہ کچھ تو اپنی جہالت کی وجہ سے مجبوراً غلطیاں کرتے ہیں،اورکچھ اپنی نفسانی خواہشات کی وجہ سے قصداًظلم اور بے انصافی کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں۔کیونکہ اوّل تو ان کے پاس اتنا علم نہیں ہوتا کہ انسانی معاملات کو چلانے کے لیے صحیح قاعدے اور قانون بنا سکیں، اور پھر اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ خدا کے خوف اور خدا کے سامنے جواب دہی سے غافل ہو کر لامحالہ وہ شتر بے مہار بن جاتے ہیں۔ذرا سی عقل اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ جو انسان خدا سے بے خوف ہو،جسے یہ فکر ہو ہی نہیں کہ کسی کو حساب دینا ہے،جو اپنی جگہ یہ سمجھ رہا ہو کہ اوپر کوئی نہیں جو مجھ سے پوچھ گچھ کرنے والا ہو،وہ طاقت اور اختیارات پا کر شتر بے مہار نہ بنے گا تو اور کیا بنے گا؟
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسے شخص کے ہاتھ میں جب لوگوں کے رزق کی کنجیاں ہوں،جب لوگوں کی جانیں اور ان کے مال اس کی مٹھی میں ہوں،جب ہزاروں لاکھوں سراس کے حکم کے آگے جھک رہے ہوں،تو کیا وہ راستی اور انصاف پر قائم رہ جائے گا؟کیا آپ توقع کرتے ہیں کہ وہ خزانوں کا امین ثابت ہو گا؟ کیا آپ امید رکھتے ہیں کہ وہ حق مارنے،حرام کھانے اور بندگانِ خدا کو اپنی خواہشات کا غلام بنانے سے باز رہے گا؟ کیا آپ کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ ایسا شخص خود بھی سیدھے راستے پر چلے اور دوسروں کو بھی سیدھا چلائے؟ہرگز نہیں،ہرگز ہرگز نہیں، ایسا ہونا عقل کے خلاف ہے۔ہزارہا برس کا تجربہ اس کے خلاف شہادت دیتا ہے۔آج اپنی آنکھوں سے آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ جو لوگ خدا سے بے خوف اور آخرت کی جواب دہی سے غافل ہیں وہ اختیارات پا کر کس قدر ظالم،خائن اور بدراہ ہوجاتے ہیں۔
اصلاح کی بنیاد___انسان پر خداکی حکومت ہو
لہٰذا حکومت کی بنیاد میں جس اصلاح کی ضرورت ہے،وہ یہ ہے کہ انسان پر انسان کی حکومت نہ ہو، بلکہ خدا کی حکومت ہو۔اس حکومت کو چلانے والے خود مالک الملک نہ بنیں، بلکہ خدا کو بادشاہ تسلیم کر کے اس کے نائب اور امین کی حیثیت سے کام کریں، اور یہ سمجھتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیں کہ آخر کار اس امانت کا حساب اس بادشاہ کو دینا ہے جو کھلے اور چھپے کا جاننے والا ہے۔قانون اس خدا کی ہدایت پر مبنی ہو جو تمام حقیقتوں کا علم رکھتا ہے اور دانائی کا سرچشمہ ہے۔اس قانون کو بدلنے، یا اس میں ترمیم و تنسیخ کرنے کے اختیارات کسی کو نہ ہوں،تاکہ وہ انسانوں کی جہالت یا خود غرضی اور ناروا خواہشات کے دخل پا جانے سے بگڑ نہ جائے۔
یہی وہ بنیادی اصلاح ہے جس کو اسلام جاری کرنا چاہتا ہے۔جو لوگ خدا کو اپنا بادشاہ (محض خیالی نہیں، بلکہ واقعی بادشاہ)تسلیم کرلیں اوراس قانون پر جو خدانے اپنے نبیa کے ذریعے سے بھیجا ہے،ایمان لے آئیں،اُن سے اسلام یہ مطالبہ کرتاہے کہ وہ اپنے بادشاہ کے ملک میں اُس کا قانون جاری کرنے کے لیے اٹھیں۔ اس کی رعیّت میں سے جو لوگ باغی ہو گئے ہیں اور خود مالک الملک بن بیٹھے ہیں، ان کا زور توڑ دیں اور اللہ کی رعیت کو دوسروں کی رعیت بننے سے بچائیں۔ اسلام کی نگاہ میں یہ بات ہرگز کافی نہیں ہے کہ تم نے خدا کو خدا اوراس کے قانون کو قانونِ برحق مان لیا۔نہیں! اس کو ماننے کے ساتھ ہی آپ سے آپ یہ فرض تم پر عائد ہو جاتا ہے کہ جہاں بھی تم ہو،جس سر زمین میںبھی تمھاری سکونت ہو، وہاں خلقِ خدا کی اصلاح کے لیے اٹھو،حکومت کے غلط اصول کو صحیح اصول سے بدلنے کی کوشش کرو،نا خدا ترس اور شتربے مہار قسم کے لوگوں سے قانون سازی اور فرماں روائی کا اقتدار چھین لو،اور بندگانِ خدا کی رہنمائی و سربراہ کاری اپنے ہاتھ میں لے کر خدا کے قانون کے مطابق،آخرت کی ذمہ داری و جواب دہی کا اور خدا کے عالم الغیب ہونے کا یقین رکھتے ہوئے،حکومت کے معاملات انجام دو۔اسی کوشش اوراسی جدوجہد کا نام ’’جہاد‘‘ ہے۔
حکومت ایک کٹھن راستہ
لیکن حکومت اور فرماں روائی جیسی بدبلا ہے ہر شخص اس کو جانتا ہے ۔اس کے حاصل ہونے کا خیال آتے ہی انسان کے اندر لالچ کے طوفان اٹھنے لگتے ہیں۔خواہشاتِ نفسانی یہ چاہتی ہیں کہ زمین کے خزانے اور خلقِ خدا کی گردنیں اپنے ہاتھ میں آئیں تو دل کھول کر خدائی کی جائے۔حکومت کے اختیارات پر قبضہ کر لینا اتنا مشکل نہیں جتنا ان اختیارات کے ہاتھ آجانے کے بعد خدا بننے سے بچنا اور بندۂ خدا بن کر کام کرنا مشکل ہے۔پھر بھلا فائدہ ہی کیا ہوا اگر فرعون کو ہٹا کر تم خود فرعون بن گئے؟لہٰذا اس شدید آزمائش کے کام کی طرف بلانے سے پہلے اسلام تم کو اس کے لیے تیار کرنا ضروری سمجھتا ہے۔تم کو حکومت کا دعویٰ لے کر اُٹھنے اور دنیا سے لڑنے کا حق اُس وقت تک ہرگز نہیں پہنچتا جب تک تمھارے دل سے خود غرضی اور نفسانیت نہ نکل جائے۔جب تک تم میں اتنی پاک نفسی پیدا نہ ہو جائے کہ تمھاری لڑائی اپنی ذاتی یا قومی اغراض کے لیے نہ ہو بلکہ صرف اللہ کی رضا اور خلق اللہ کی اصلاح کے لیے ہو،اور جب تک تم میں یہ صلاحیت مستحکم نہ ہو جائے کہ حکومت پا کر تم اپنی خواہشات کی پَیروی نہ کرو، بلکہ خدا کے قانون کی پَیروی پر ثابت قدم رہ سکو۔محض یہ بات کہ تم کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے ہو،تمھیں اس کا مستحق نہیں بنا دیتی کہ اسلام تمھیں خلقِ خدا پر ٹوٹ پڑنے کا حکم دے دے،اور پھر تم خدا اور رسولؐ کا نام لے لے کر وہی سب حرکتیں کرنے لگو جو خدا کے باغی اور ظالم لوگ کرتے ہیں۔قبل اس کے کہ اتنی بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے تم کو حکم دیا جائے، اسلام یہ ضروری سمجھتا ہے کہ تم میں وہ طاقت پیدا کی جائے جس سے تم اس بوجھ کو سہار سکو۔
عبادات___ایک تربیتی کورس ہیں
یہ نماز اورروزہ اور یہ زکوٰۃ اور حج دراصل اسی تیاری اور تربیت کے لیے ہیں جس طر ح تمام دنیا کی سلطنتیں اپنی فوج،پولیس اور سول سروس کے لیے آدمیوں کو پہلے خاص قسم کی ٹریننگ دیتی ہیں پھر اُن سے کام لیتی ہیں،اُسی طرح اللہ کا دین (اسلام)بھی ان تمام آدمیوں کو،جو اس کی ملازمت میں بھرتی ہوں،پہلے خاص طریقے سے تربیت دیتا ہے،پھر اُن سے جہاد اورحکومت ِ اِلٰہی کی خدمت لینا چاہتاہے۔فرق یہ ہے کہ دنیا کی سلطنتوں کو اپنے آدمیوں سے جوکام لینا ہوتا ہے اُس میں اخلاق اور نیک نفسی اور خدا ترسی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ،اس لیے وہ انھیں صرف کاردَاں بنانے کی کوشش کرتی ہیں،خواہ وہ کیسے ہی زانی،شرابی،بے ایمان اور بدنفس ہوں۔مگر دینِ اِلٰہی کو جو کام اپنے آدمیوں سے لینا ہے وہ چونکہ سارے کا سارا ہے ہی اخلاقی کام،اس لیے وہ انھیں کاردَاں بنانے سے زیادہ اہم اس بات کو سمجھتا ہے کہ انھیں خدا ترس اور نیک نفس بنائے۔
وہ ان میں اتنی طاقت پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جب وہ زمین میں خدا کی خلافت قائم کرنے کا دعویٰ لے کر اٹھیں تو اپنے دعوے کو سچا کر کے دکھا سکیں۔وہ لڑیں تو اس لیے نہ لڑیں کہ انھیں خود اپنے واسطے مال و دولت اور زمین درکار ہے،بلکہ ان کے عمل سے ثابت ہو جائے کہ ان کی لڑائی خالص خدا کی رضا کے لیے اور اس کے بندوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہے۔وہ فتح پائیں تو متکبرو سرکش نہ ہوں، بلکہ ان کے سرخدا کے آگے جُھکے ہوئے رہیں۔وہ حاکم بنیں تو لوگوں کو اپنا غلام نہ بنائیں بلکہ خود بھی خدا کے غلام بن کر رہیں اور دوسروں کو بھی خدا کے سوا کسی کا غلام نہ رہنے دیں۔وہ زمین کے خزانوں پر قابض ہوں تو اپنی، یا اپنے خاندان والوں، یا اپنی قوم کے لوگوں کی جیبیں نہ بھرنے لگیں،بلکہ خدا کے رزق کو اس کے بندوں پر انصاف کے ساتھ تقسیم کریں اور ایک سچّے امانت دار کی طرح یہ سمجھتے ہوئے کام کریں کہ کوئی آنکھ ہمیں ہر حال میں دیکھ رہی ہے اور اوپر کوئی ہے جسے ہم کو ایک ایک پائی کا حساب دینا ہے۔اس تربیت کے لیے ان عبادتوں کے سوا اور کوئی دوسرا طریقہ ممکن ہی نہیں ہے ،اور جب اسلام اس طرح اپنے آدمیوں کو تیار کر لیتاہے، تب وہ ان سے کہتاہے کہ ہاں،اب تم روئے زمین پر خدا کے سب سے زیادہ صالح بندے ہو،لہٰذا آگے بڑھو،لڑ کر خدا کے باغیوں کو حکومت سے بے دخل کر دو، اور خلافت کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لو:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۰ۭ (آل عمران 3:110)
دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔تم نیکی کا حکم دیتے ہو،بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
خدا شناس حکومت کی برکات
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں فوج،پولیس،عدالت،جیل،تحصیل داری،ٹیکس کلکٹری اور تمام دوسرے سرکاری کام ایسے اہل کاروں اور عہدے داروں کے ہاتھ میں ہوں جو سب کے سب خدا سے ڈرنے والے اور آخرت کی جواب دہی کا خیال رکھنے والے ہوں، اور جہاں حکومت کے سارے قاعدے اور سارے ضابطے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر قائم ہوں،جس میں بے انصافی اور نادانی کا کوئی امکان ہی نہیں ہے،اور جہاں بدی و بدکاری کی ہر صورت کا بروقت تدارک کر دیا جائے اور نیکی و نیکوکاری کی ہر بات کو حکومت اپنے رویے اوراپنی طاقت سے پروان چڑھانے کے لیے مستعدرہے،ایسی جگہ خلقِ خدا کی بہتری کا کیا حال ہوگا۔
پھر آپ ذرا غور کریں تو یہ بات بھی آسانی کے ساتھ آپ کی سمجھ میں آجائے گی کہ ایسی حکومت جب کچھ مدّت تک کام کر کے لوگوں کی بگڑی ہوئی عادتوں کو درست کر دے گی،جب وہ حرام خوری، ظلم، بدکاری، بے حیائی اور بداخلاقی کے سارے رستے بند کر دے گی،جب وہ غلط قسم کی تعلیم و تربیت کا انسداد کر کے صحیح تعلیم و تربیت سے لوگوںکے خیالات ٹھیک کر دے گی،اور جب اس کے ماتحت عدل و انصاف،امن و امان اور نیک اطواری و خوش اخلاقی کی پاک صاف فضا میں لوگوں کو زندگی بسر کرنے کا موقع ملے گا،تو وہ آنکھیں جو بدکار اور ناخدا ترس لوگوں کی سرداری میں مدّت ہائے درازتک رہنے کی وجہ سے اندھی ہو گئی تھیں،رفتہ رفتہ خود ہی حق کو دیکھنے اورپہچاننے کے قابل ہو جائیں گی۔وہ دل جن پر صدیوں تک بداخلاقیوں کے درمیان گھرے رہنے کی وجہ سے زنگ کی تہیں چڑھ گئی تھیں،آہستہ آہستہ خود ہی آئینے کی طرح صاف ہوتے چلے جائیں گے اوران میں سچائی کا عکس قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی۔
اس وقت لوگوںکے لیے اس سیدھی سی بات کا سمجھنا اور مان لینا کچھ بھی مشکل نہ رہے گا کہ حقیقت میں اللہ ہی اُن کا خدا ہے اور اس کے سوا کوئی اس کا مستحق نہیں کہ وہ اس کی بندگی کریں اور یہ کہ واقعی وہ پیغمبر سچے تھے جن کے ذریعے سے ایسے صحیح قوانین ہم کو ملے۔آج جس بات کو لوگوں کے دماغوں میں اُتارنا سخت مشکل نظر آتا ہے،اس وقت وہ بات خود دماغوں میں اُترنے لگے گی۔آج تقریروں اور کتابو ں کے ذریعے سے جس بات کو نہیں سمجھایا جا سکتا اُس وقت وہ ایسی آسانی سے سمجھ میں آئے گی کہ گویا اس میں کوئی پیچیدگی تھی ہی نہیں۔جو لوگ اپنی آنکھوں سے اس فرق کو دیکھ لیں گے کہ انسان کے خود گھڑے ہوئے طریقوں پر دنیا کا کاروبار چلتا ہے تو کیا حال ہوتا ہے، اور خدا کے بتائے ہوئے طریقوں پر اسی دنیا کے کام چلائے جاتے ہیں تب کیا کیفیت ہوتی ہے۔اُن کے لیے خدا کی توحید اور اس کے پیغمبر کی صداقت پر ایمان لانا آسان اور ایمان نہ لانا مشکل ہو جائے گا، بالکل اُسی طرح جیسے پھول اور کانٹوں کا فرق محسوس کر لینے کے بعد پھول کا انتخاب کرنا آسان اور کانٹوں کا چننا مشکل ہو جاتا ہے۔اُس وقت اسلام کی سچائی سے انکار کرنے اور کفر و شرک پر اڑے رہنے کے لیے بہت ہی زیادہ ہٹ دھرمی کی ضرورت ہو گی اور مشکل سے ہزار میں دس پانچ ہی آدمی ایسے نکلیں گے،جن میں زیادہ ہٹ دھرمی موجود ہو۔
بھائیو!اب مجھے امید ہے کہ تم نے اچھی طرح سمجھ لیا ہو گا کہ یہ نماز اور روزہ اور یہ حج اور زکوٰۃ کس غرض کے لیے ہیں۔تم اب تک یہ سمجھے رہے ہو، اور مدّتوں سے تم کواس غلط فہمی میں مبتلا رکھا گیا ہے کہ یہ عبادتیں محض پوجا پاٹ قسم کی چیزیں ہیں۔ تمھیں یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ یہ ایک بڑی خدمت کی تیاری کے لیے ہیں۔اسی وجہ سے تم بغیر کسی مقصدکے ان رسموں کو ادا کرتے رہے اوراس کام کے لیے کبھی تیار ہونے کا خیال تک تمھارے دلوں میں نہ آیا جس کے لیے دراصل انھیں مقرر کیا گیا تھا،مگر اب میں تمھیں بتاتا ہوں کہ جس دل میں جہاد کی نیت نہ ہو، اورجس کے پیشِ نظر جہاد کا مقصد نہ ہو، اس کی ساری عبادتیں بے معنی ہیں۔اِن بے معنی عبادت گزاریوں سے اگر تم گمان رکھتے ہو کہ خدا کا تقرب نصیب ہوتا ہے تو خدا کے ہاں جا کر تم خود دیکھ لو گے کہ انھوں نے تم کو اس سے کتنا قریب کیا!
٭…٭…٭
جہاد کی اہمیت
برادرانِ اسلام!اس سے پہلے ایک مرتبہ مَیں آپ کو دین اور شریعت اور عبادت کے معنی بتا چکا ہوں۔اب ذرا پھر اس مضمون کو اپنے دماغ میں تازہ کر لیجیے کہ:
۱۔ دین کے معنی اطاعت کے ہیں۔
۲۔ شریعت قانون کو کہتے ہیں۔
۳۔ عبادت سے مراد بندگی ہے۔
دین کے معنی
جب آپ کسی کی اطاعت میں داخل ہوئے اور اس کو اپنا حاکم تسلیم کر لیا تو گویا آپ نے اس کا دین قبول کیا۔پھر جب وہ آپ کا حاکم ہوا، اور آپ اس کی رعایا بن گئے تو اس کے احکام اوراس کے مقرر کیے ہوئے ضابطے آپ کے لیے قانون یا شریعت ہوں گے اور جب آپ اس کی اطاعت کرتے ہوئے اس کی شریعت کے مطابق زندگی بسر کریں گے،جو کچھ وہ طلب کرے گا حاضر کر دیں گے،جس بات کا وہ حکم دے گا اسے بجا لائیں گے،جن کاموں سے منع کرے گااُن سے رُک جائیں گے،جن حدود کے اندر رہ کر کام کرنا وہ آپ کے لیے جائز ٹھیرائے گا، انھی حدود کے اندر آپ رہیں گے،اوراپنے آپس کے تعلقات و معاملات اور مقدموں اور قضیوںمیں اُسی کی ہدایات پر چلیں گے اوراسی کے فیصلے پر سر جھکائیں گے تو آپ کے اس رویے کا نام بندگی یا عبادت ہوگا۔
اس تشریح سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ دین دراصل حکومت کا نام ہے ۔شریعت اس حکومت کا قانون ہے، اور عبادت اس کے قانون اور ضابطے کی پابندی ہے۔آپ جس کسی کو حاکم مان کر اس کی محکومی قبول کرتے ہیں،دراصل آپ اُس کے دین میں داخل ہوتے ہیں۔اگر آپ کا وہ حاکم اللہ ہے تو آپ دینُ اللّٰہ میں داخل ہوئے۔اگر وہ کوئی بادشاہ ہے تو آپ دینِ بادشاہ میں داخل ہوئے۔ اگر وہ کوئی خاص قوم ہے تو آپ اسی قوم کے دین میں داخل ہوئے، اور اگر وہ خود آپ کی اپنی قوم یا آپ کے وطن کے جمہور ہیں تو آپ دینِ جمہور میں داخل ہوئے۔غرض جس کی اطاعت کا قلادہ آپ کی گردن میں ہے فی الواقع اسی کے دین میں آپ ہیں،اور جس کے قانون پر آپ عمل کر رہے ہیں دراصل اُسی کی عبادت کر رہے ہیں۔
انسان کے دو دین نہیں ہو سکتے
یہ بات جب آپ نے سمجھ لی تو بغیر کسی دقت کے یہ سیدھی سی بات بھی آپ سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کے دودین کسی طرح نہیں ہوسکتے،کیونکہ مختلف حکمرانوں میں سے بہرحال ایک ہی کی اطاعت آپ کر سکتے ہیں۔مختلف قانونوں میں سے بہرحال ایک ہی قانون آپ کی زندگی کا ضابطہ بن سکتاہے،اورمختلف معبودوں میں سے ایک ہی کی عبادت کرنا آپ کے لیے ممکن ہے ۔آپ کہیں گےکہ ایک صورت یہ بھی تو ہو سکتی ہے کہ عقیدے میں ہم ایک کو حاکم مانیں اور واقع میں اطاعت دوسرے کی کریں،پوجا اور پرستش ایک کے آگے کریں اور بندگی دوسرے کی بجالائیں،اپنے دل میں عقیدہ ایک قانون پر رکھیں اور واقع میں ہماری زندگی کے سارے معاملات دوسرے قانون کے مطابق چلتے رہیں۔
مَیں اس کے جواب میں عرض کروں گا، بیشک یہ ہو تو سکتا ہے،اور سکتا کیا معنی ہو ہی رہا ہے ،مگر یہ ہے شرک،اور یہ شرک سر سے پائوں تک جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔حقیقت میں تو آپ اسی کے دین پر ہیں جس کی اطاعت واقعی آپ کر رہے ہیں۔ پھر یہ جھوٹ نہیں تو کیا ہے کہ جس کی اطاعت آپ نہیں کر رہے ہیں اُس کو اپنا حاکم اور اس کے دین کو اپنا دین کہیں؟ اور اگرزبان سے آپ کہتے بھی ہیں یا دل میں ایسا سمجھتے بھی ہیں تو اس کا فائدہ اوراثر کیا ہے ؟آپ کا یہ کہنا کہ ہم اس کی شریعت پر ایمان لاتے ہیں، بالکل ہی بے معنی ہے، جب کہ آپ کی زندگی کے معاملات اس کی شریعت کے دائرے سے نکل گئے ہوں اور کسی دوسری شریعت پر چل رہے ہوں۔آپ کا یہ کہنا کہ ہم فلاں کو معبود مانتے ہیں اورآپ کا اپنے ان سروں کو جو گردنوں پر رکھے ہوئے ہیں،سجدے میں اس کے آگے زمین پر ٹیک دینا،بالکل ایک مصنوعی فعل بن کر رہ جاتا ہے، جب کہ آپ واقع میں بندگی دوسرے کی کر رہے ہوں۔
حقیقت میں آپ کا معبود تو وہ ہے اورآپ دراصل عبادت اُسی کی کر رہے ہیںجس کے حکم کی آپ تعمیل کرتے ہیں، جس کے منع کرنے سے آپ رکتے ہیں، جس کی قائم کی ہوئی حدود کے اندر رہ کر آپ کام کرتے ہیں،جس کے مقرر کیے ہوئے طریقوں پر آپ چلتے ہیں،جس کے ضابطے کے مطابق آپ دوسروں کامال لیتے اوراپنا مال دوسروں کو دیتے ہیں،جس کے فیصلوں کی طرف آپ اپنے معاملات میں رجوع کرتے ہیں،جس کی شریعت پر آپ کے باہمی تعلّقات کی تنظیم اورآپ کے درمیان حقوق کی تقسیم ہوتی ہے،اور جس کی طلبی پر آپ اپنے دل و ماغ اور ہاتھ پائوں کی ساری قوتیں،اور اپنے کمائے ہوئے مال اور آخر کار اپنی جانیں تک پیش کر دیتے ہیں۔پس اگر آپ کا عقیدہ کچھ ہو، اور واقعہ اس کے خلاف ہو،تو اصل چیز واقعہ ہی ہوگا۔عقیدے کے لیے اس صورت میں سرے سے کوئی جگہ نہ ہو گی،نہ ایسے عقیدے کا کوئی وزن ہی ہوگا۔اگر واقع میں آپ دینِ بادشاہ پر ہوں تو اس میں دینُ اللہ کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی اوراگر واقع میں آپ دینِ جمہور پر ہوں یا دینِ انگریز، یا دینِ جرمن، یا دینِ ملک و وطن پر ہوںتواس میں بھی دینُ اللّٰہ کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی اور اگر فی الواقع آپ دینُ اللّٰہ پر ہوں تو اسی طرح اس میں بھی کسی اور دوسرے دین کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔بہرحال یہ خوب سمجھ لیجیے کہ شرک جہاں بھی ہوگا جھوٹ ہی ہوگا۔
ہر دین اقتدار چاہتا ہے
یہ نکتہ بھی جب آپ کے ذہن نشین ہو گیا تو بغیر کسی لمبی چوڑی بحث کے آپ کا دماغ خود اس نتیجے پر پہنچ سکتاہے کہ دین خواہ کوئی سا بھی ہو،لامحالہ اپنی حکومت چاہتا ہے۔دین جمہوری ہو یا دینِ بادشاہی،دینِ اشتراکی ہو یا دینِ الٰہی،یا کوئی اور دین،بہرحال ہر دین کو اپنے قیام کے لیے خود اپنی حکومت کی ضرورت ہوتی ہے ۔حکومت کے بغیر دین بالکل ایسا ہے جیسے ایک عمارت کا نقشہ آپ کے دماغ میں ہو، مگر عمارت زمین پر موجود نہ ہو۔ ایسے دماغی نقشے کے ہونے کا فائدہ ہی کیا ہے، جب کہ آپ رہیں گے اس عمارت میں جو فی الواقع موجود ہو گی۔ اُسی کے دروازے میں آپ داخل ہوں گے اور اسی کے دروازے سے نکلیں گے۔اُسی کی چھت اور اسی کی دیواروں کا سایہ آپ پر ہوگا۔اُسی کے نقشے پر آپ کو اپنی سکونت کا سارا انتظام کرنا ہوگا۔پھر بھلا ایک نقشے کی عمارت میں رہتے ہوئے آپ کا کسی دوسرے طرز، یا دوسرے نقشے کی عمارت اپنے ذہن میں رکھنا ،یا اس کا محض معتقد ہو جانا آخر معنی ہی کیا رکھتاہے ؟وہ خیالی عمارت تو محض آپ کے ذہن میں ہوگی، مگر آپ خود اُس واقعی عمارت کے اندر ہوں گے جو زمین پر بنی ہوئی ہے۔عمارت کا لفظ دماغ والی عمارت کے لیے تو کوئی بولتا نہیں ہے،نہ ایسی عمارت میں کوئی رہ سکتاہے۔عمارت تو کہتے ہی اس کو ہیں اور آدمی رہ اسی عمارت میں سکتا ہے جس کی بنیادیں زمین میں ہوں او ر جس کی چھت اور دیواریں زمین پر قائم ہوں۔
بالکل اسی مثال کے مطابق کسی دین کے حق ہونے کا محض اعتقاد کوئی معنی نہیں رکھتا،اورایسا اعتقاد لاحاصل ہے، جب کہ لوگ عملاً ایک دوسرے دین میں زندگی بسر کر رہے ہوں۔جس طرح خیالی نقشے کا نام عمارت نہیں ہے، اسی طرح خیالی دین کا نام بھی دین نہیں ہے اور خیالی عمارت کی طرح کوئی شخص خیالی دین میں بھی نہیں رہ سکتا۔دین وہی ہے جس کا اقتدار زمین پر قائم ہو،جس کا قانون چلے،جس کے ضابطے پر زندگی کے معاملات کا انتظام ہو۔لہٰذا ہر دین عین اپنی فطرت ہی کے لحاظ سے اپنی حکومت کا تقاضا کرتا ہے ،اور دین ہوتا ہی اسی لیے ہے کہ جس اقتدار کووہ تسلیم کرانا چاہتا ہے اسی کی عبادت اور بندگی ہو، اور اسی کی شریعت نافذ ہو۔
چند مثالیں
مثال کے طور پر دیکھیے:
دینِ جمہوری
دین ِ جمہوری کا کیا مفہوم ہے؟یہی ناکہ ایک ملک کے عام لوگ خود اپنے اقتدار کے مالک ہوں، ان پر خود انھی کی بنائی ہوئی شریعت چلے اور ملک کے سب باشندے اپنے جمہوری اقتدار کی اطاعت وبندگی کریں۔بتائیے یہ دین کیوں کر قائم ہو سکتا ہے جب تک کہ ملک کا قبضہ واقعی جمہوری اقتدار کو حاصل نہ ہو جائے اور جمہوری شریعت نافذ نہ ہونے لگے؟ اگر جمہور کے بجائے کسی غیر قوم کا، یا کسی بادشاہ کا اقتدار ملک میں قائم ہو، اور اسی کی شریعت چلے تو دینِ جمہوری کہاں رہا؟کوئی شخص دینِ جمہوری پر اعتقاد رکھتا ہو تو رکھا کرے،جب تک بادشاہ کا یا غیر قوم کا دین قائم ہے،دینِ جمہوری کی پیروی تو وہ نہیں کرسکتا۔
دینِ ملوکیّت
دینِ پادشاہی کو لیجیے۔یہ دین جس بادشاہ کو بھی حاکم اعلیٰ قرار دیتا ہے اسی لیے تو قرار دیتا ہے کہ اطاعت اُس کی ہو، اور شریعت اُس کی نافذ ہو۔اگر یہی بات نہ ہوئی تو بادشاہ کو بادشاہ ماننے اور اُسے حاکم ِ اعلیٰ تسلیم کرنے کے معنی ہی کیا ہوئے؟دینِ جمہور چل پڑا ہو، یا کسی دوسری قوم کی حکومت قائم ہو گئی ہو تو دین ِ بادشاہی رہا کب کہ کوئی اس کی پیروی کر سکے۔
دینِ فرنگ
دُور نہ جائیے، اسی دین انگریز کو دیکھ لیجیے جو اس وقت ہندستان کا دین ہے۔{ FR 1646 } یہ دین اسی وجہ سے تو چل رہا ہے کہ تعزیراتِ ہند اور ضابطۂ دیوانی انگریزی طاقت سے نافذ ہے۔آپ کی زندگی کے سارے کاروبار انگریز کے مقرر کردہ طریقے پر اور اس کی لگائی ہوئی حدبندیوں کے اندر انجام پاتے ہیں،اور آپ سب اسی کے حکم کے آگے سرِ اطاعت جھکا رہے ہیں۔جب تک یہ دین اس قوت کے ساتھ قائم ہے،آپ خواہ کسی دین کے معتقد ہوں،بہرحال اُس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔لیکن اگر تعزیراتِ ہند اور ضابطۂ دیوانی چلنابند ہو جائے اور انگریز کے حکم کی اطاعت و بندگی نہ ہو تو بتائیے کہ دینِ انگریز کا کیا مفہوم باقی رہ جاتا ہے؟
دینِ اسلام
ایسا ہی معاملہ دینِ اسلام کا بھی ہے۔اس دین کی بنا یہ ہے کہ زمین کا مالک اور انسانوں کا بادشاہ صرف اللہ تعالیٰ ہے،لہٰذا اسی کی اطاعت اور بندگی ہونی چاہیے اور اسی کی شریعت پر انسانی زندگی کے سارے معاملات چلنے چاہییں۔یہ اللہ کے اقتدارِاعلیٰ کا اصول جواسلام پیش کرتا ہے یہ بھی اس غرض کے لیے ہے،اوراس کے سوا کوئی دوسری غرض اس کی نہیں ہے کہ زمین میں صرف اللہ کا حکم چلے،عدالت میں فیصلہ اسی کی شریعت پر ہو،پولیس اسی کے احکام جاری کرے، لین دین اسی کے ضابطے کی پیروی میں ہو،ٹیکس اسی کی مرضی کے مطابق لگائے جائیں اور انھی مصارف میں صَرف ہوں جو اس نے مقرر کیے ہیں،سول سروس اور فوج اسی کے زیرِ حکم ہو،لوگوں کی قوتیں اور قابلیتیں،محنتیں اور کوششیں اسی کی راہ میں ہوں،تقویٰ اور خوف اسی سے کیا جائے،رعیّت اسی کی مطیع ہو،اور فی الجملہ انسان اُس کے سوا کسی کے بندے بن کر نہ رہیں۔ظاہر بات ہے کہ یہ غرض پوری نہیں ہو سکتی جب تک کہ خالص الٰہی حکومت نہ ہو۔کسی دوسرے دین کے ساتھ یہ دین شرکت کہاں قبول کرسکتا ہے؟ اور کون سا دین ہے جو دوسرے دین کی شرکت قبول کرتا ہو؟ ہر دین کی طرح یہ دین بھی یہی کہتا ہے کہ اقتدار خالصًا و مخلصًا میرا ہونا چاہیے، اور ہر دوسرا دین میرے مقابلے میں مغلوب ہو نا چاہیے،ورنہ میری پیروی نہیں ہوسکتی۔ میں ہوں گا تو دین جمہوری نہ ہوگا،دینِ پادشاہی نہ ہوگا،دینِ اشتراکی نہ ہوگا،کوئی بھی دوسرا دین نہ ہوگا،اور اگر کوئی دوسرا دین ہو گا تو میں نہ ہوں گا، اور اس صورت میں محض مجھے حق مان لینے کا کوئی نتیجہ نہیں۔یہی بات ہے جس کو قرآن بار بار دُہراتا ہے، مثلاً:
۱۔ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ ۰ۥ ۙ حُنَفَاۗءَ (البیّنۃ 98:5)
لوگوں کواس کے سوا کسی بات کا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ سب طرف سے منہ موڑ کر اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اُسی کی عبادت کریں۔
۲۔ ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ o (التوبہ 9 :33)
وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت او ر دینِ حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کر دے، خواہ شرک کرنے والوں کو ایسا کرنا کتنا ہی ناگوار ہو۔
۳۔ وَ قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ج (الانفال 8:39)
اوراُن سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارے کا سارا اللہ کے لیے ہو جائے۔
۴۔ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط (یوسف 12:40)
حکم اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔اس کا فرمان ہے کہ خود اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔
۵۔ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا o
(الکہف 18:110)
تو جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اُسے چاہیے کہ عمل صالح کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی اور کو شریک نہ کرے۔
۶۔ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْابِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ ط (النسائ 4:60)
تُو نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس ہدایت پر جو تیری طرف اور تجھ سے پہلے کے نبیوں کی طرف اتاری گئی تھی، مگر چاہتے یہ ہیں کہ فیصلے کے لیے اپنے مقدمات طاغوت کے پاس لے جائیں،حالانکہ انھیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
۷۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط (النسائ 4:64)
ہم نے جو رسو ل بھی بھیجا ہے اسی لیے تو بھیجا ہے کہ اللہ کے اذن کے مطابق اس کی اطاعت کی جائے۔
اوپر مَیں عبادت اور دین اورشریعت کی جو تشریح کر چکاہوں، اس کے بعد آپ کو یہ سمجھنے میں کوئی دقت نہ ہوگی کہ ان آیات میں قرآن کیا کہہ رہا ہے۔
اسلام میں جہاد کی اہمیت
اب یہ بات بالکل صاف ہو گئی کہ اسلام میں جہاد کی اس قدر اہمیت کیوں ہے۔دوسرے تمام دینوں کی طرح دینُ اللہ بھی محض اس بات پر مطمئن نہیں ہوسکتا کہ آپ بس اس کے حق ہونے کو مان لیںاور اپنے اس اعتقاد کی علامت کے طور پر محض رسمی پوجا پاٹ کر لیا کریں۔کسی دوسرے دین کے ماتحت رہ کر آپ اس دین کی پیروی کر ہی نہیں سکتے۔کسی دوسرے دین کی شرکت میں بھی اس کی پیروی ناممکن ہے۔لہٰذا اگر آپ واقعی اس دین کو حق سمجھتے ہیں تو آپ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس دین کو زمین میں قائم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں اوریا تو اسے قائم کرکے چھوڑیں، یا اسی کوشش میں جان دے دیں۔
یہی کسوٹی ہے جس پر آپ کے ایمان و اعتقاد کی صداقت پرکھی جا سکتی ہے۔آپ کا اعتقاد سچاہو گا تو آپ کو کسی دوسرے دین کے اندر رہتے ہوئے آرام کی نیند تک نہ آسکے گی،کجا کہ آپ اس کی خدمت کریں اوراس خدمت کی روٹی مزے سے کھائیں اور آرام سے پائوں پھیلا کر سوئیں۔ اس دین کو حق مانتے ہوئے تو جو لمحہ بھی آپ پر کسی دوسرے دین کی ماتحتی میں گزرے گا اس طرح گزرے گا کہ بستر آپ کے لیے کانٹوں کا بستر ہوگا، کھانازہر اور حنظل کا کھانا ہو گا اوردین حق کو قائم کرنے کی کوشش کیے بغیر آپ کو کسی کل چین نہ آسکے گا،لیکن اگر آپ کو دین اللہ کے سوا کسی دوسرے دین کے اندر رہنے میں چین آتا ہو، اور آپ اس حالت پر راضی ہوں تو آپ مومن ہی نہیں ہیں،خواہ آپ کتنی ہی دل لگا لگا کر نمازیں پڑھیں،کتنے ہی لمبے لمبے مراقبے کریں،کتنی ہی قرآن و حدیث کی شرح فرمائیں،اورکتنا ہی اسلام کا فلسفہ بگھاریں۔یہ تو ان لوگوں کا معاملہ ہے جو دوسرے دین پر راضی ہوں۔رہے وہ منافقین جو دوسرے دین کی وفادارانہ خدمت کرتے ہوں، یا کسی اور دین (مثلاً دینِ جمہور)کو لانے کے لیے جہاد کرتے ہوں تو ان کے متعلق میں کیا کہوں؟موت کچھ دور نہیں ہے،وہ وقت جب آئے گا تو جو کچھ کمائی انھوںنے دنیا کی زندگی میں کی ہے خدا خود ہی ان کے سامنے رکھ دے گا۔یہ لوگ اگر اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں تو سخت حماقت میں مبتلا ہیں۔ عقل ہوتی تو ان کی سمجھ میں خود آجاتا کہ ایک دین کو برحق بھی ماننا اور پھر اس کے خلاف کسی دوسرے دین کے قیام پر راضی ہونا،یا اس کے قیام میں حصّہ لینا، یا اس کو قائم کرنے کی کوشش کرنا،بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔آگ اور پانی جمع ہوسکتے ہیں،مگر ایمان باللہ کے ساتھ یہ عمل قطعاً جمع نہیں ہوسکتا۔
قرآن اس سلسلے میں جو کچھ کہتا ہے وہ سب کا سب تو اس خطبے میں کہاں نقل کیا جاسکتا ہے، مگر صرف چند آیتیں آپ کو سناتا ہوں:
۱۔ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِ بِیْنَo
(العنکبوت 29:3-2)
کیا لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ وہ محض یہ کہہ کر کہ ’’ہم ایمان لائے ‘‘چھوڑ دیے جائیں گے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟حالانکہ ان سے پہلے جس نے بھی ایمان کا دعویٰ کیا ہے اس کو ہم نے آزمایا ہے ،پس ضرور ہے کہ اللہ دیکھے کہ ایمان کے دعوے میں سچّے کون ہیں اور جھوٹے کون۔
۲۔ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ فَاِذَآ اُوْذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰہِ ط وَلَئِنْ جَآئَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّکَ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمْ ط اَوَ لَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ o وَ لَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ o
(العنکبوت 29:11-10)
اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ ’’ہم ایمان لائے اللہ پر‘‘،مگر جب اللہ کے رستے میں وہ ستایا گیا تو انسانوں کی سزا سے ایسا ڈرا جیسے اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے،حالانکہ اگر تیرے رب کی طرف سے فتح آ جائے تو وہی آکر کہے گا کہ ہم تو تمھارے ہی ساتھی تھے۔کیا اللہ جانتا نہیں ہے جو کچھ لوگوں کے دلوں میں ہے؟مگر وہ ضرور دیکھ کر رہے گا کہ مومن کون ہے اور منافق کون۔
۳۔ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ ط
( آل عمران 3:179)
اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف ہے کہ مومنوں کو اسی طرح رہنے دے جس طرح وہ اب ہیں (کہ سچے اور جھوٹے مدعیانِ ایمان خلط ملط ہیں)۔وہ باز نہ رہے گاجب تک خبیث اور طیّب کو چھانٹ کر الگ الگ نہ کر دے۔
۴۔ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلَا رَسُوْلِہٖ وَ لَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَ لِیْجَۃً ط (التوبہ 9:16)
کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تم یونہی چھوڑ دیے جائو گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ نہیں دیکھا کہ تم میں سے کون ہیں جنھوں نے جہاد کیا اور کون ہیں جنھوں نے اللہ اور رسولؐ اور مومنوں کوچھوڑ کر دوسروں سے اندرونی تعلق رکھا۔
۵۔ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللہُ عَلَيْہِمْ۰ۭ مَا ہُمْ مِّنْكُمْ وَلَا مِنْہُمْ۰ۙ ……… اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ الشَّيْطٰنِ۰ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ الشَّيْطٰنِ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَo اِنَّ الَّذِيْنَ يُحَاۗدُّوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اُولٰۗىِٕكَ فِي الْاَذَلِّيْنَ o كَتَبَ اللہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ۰ۭ اِنَّ اللہَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ o (المجادلہ 58:14 … 21-19)
تُو نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو ساتھ دیتے ہیں اس گروہ کا جس سے اللہ ناراض ہے؟ یہ لوگ نہ تمھارے ہی ہیں نہ انھی کے ہیں………. یہ تو شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں اور خبردار رہو کہ شیطان کی پارٹی والے ہی نامراد رہنے والے ہیں۔ یقیناً جو لوگ اللہ اور رسول کا مقابلہ کرتے ہیں(یعنی دین حق کے قیام کے خلاف کام کرتے ہیں)وہ شکست کھانے والوں میں ہوں گے۔اللہ کا فیصلہ ہے کہ میں اورمیرے رسول غالب ہوکررہیں گے،یقیناً اللہ طاقت ور اور زبردست ہے۔
مومن صادق کی پہچان ___جہاد
ان آیات سے یہ بات صاف معلوم ہوگئی کہ جب اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین زمین میں قائم ہو، اور کوئی مسلمان اپنے آپ کو اس حالت میں مبتلا پائے تو اس کے مومن صادق ہونے کی پہچان یہ ہے کہ وہ اس دینِ باطل کو مٹا کر اس کی جگہ دینِ حق قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے یا نہیں۔اگر کرتا ہے اور کوشش میں اپنا پورا زور صَرف کردیتا ہے ،اپنی جان لڑا دیتا ہے اور ہر طرح کے نقصانات انگیز کیے جاتا ہے تو وہ سچا مومن ہے، خواہ اس کی یہ کوششیں کامیاب ہوں یا ناکام۔لیکن اگر وہ دینِ باطل کے غلبے پر راضی ہے، یااس کو غالب رکھنے میں خود حصّہ لے رہا ہے تو وہ اپنے ایمان کے دعوے میں جھوٹا ہے۔
تبدیلی بغیر کش مکش کے ممکن نہیں
پھر ان آیات میں قرآن مجید نے ان لوگوں کو بھی جواب دے دیا ہے جو دینِ حق کو قائم کرنے کی مشکلات عذر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ظاہر ہے کہ دینِ حق کو جب کبھی قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی،کوئی نہ کوئی دینِ باطل قوت اور زور کے ساتھ قائم شدہ تو پہلے سے موجود ہوگاہی۔طاقت بھی اس کے پاس ہوگی ،رزق کے خزانے بھی اسی کے قبضے میں ہوں گے اور زندگی کے سارے میدان پر وہی مسلّط ہوگا۔ایسے ایک قائم شدہ دین کی جگہ کسی دوسرے دین کو قائم کرنے کا معاملہ بہرحال پھولوں کی سیج تو نہیں ہو سکتا۔آرا م اورسہولت کے ساتھ ،میٹھے میٹھے قدم چل کر یہ کام نہ کبھی ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔آپ چاہیں کہ جو کچھ فائدے دینِ باطل کے ماتحت زندگی بسر کرتے ہوئے حاصل ہوتے ہیں، یہ بھی ہاتھ سے نہ جائیں اور دین حق بھی قائم ہو جائے، تو یہ قطعاً محال ہے۔
یہ کام تو جب بھی ہو گا اسی طرح ہو گا کہ آپ ان تمام حقوق کو، ان تمام فائدوں کو اور ان تمام آسائشوں کو لات مارنے کے لیے تیار ہو جائیں جو دینِ باطل کے ماتحت آپ کو حاصل ہوں، اور جو نقصان بھی اس مجاہدے میں پہنچ سکتا ہے اس کو ہمت کے ساتھ انگیز کریں۔جن لوگوں میں یہ کھکھیڑ{ FR 1647 }اٹھانے کی ہمت ہو ،جہاد فی سبیل اللہ انھی کا کام ہے اور ایسے لوگ ہمیشہ کم ہی ہوا کرتے ہیں۔رہے وہ لوگ جو دینِ حق کی پیروی کرنا تو چاہتے ہیں، مگر آرام کے ساتھ،تو ان کے لیے بڑھ بڑھ کر بولنا مناسب نہیں۔ان کا کام تو یہی ہے کہ آرام سے بیٹھے اپنے نفس کی خدمت کرتے رہیں اور جب خدا کی راہ میں مصیبتیںاٹھانے والے آخر کار اپنی قربانیوں سے دینِ حق کو قائم کر دیں تو وہ آکر کہیں: اِنَّا کُنَّا مَعَکُمْ، یعنی ہم تو تمھاری ہی جماعت کے آدمی ہیں،لائو اب ہمارا حصّہ دو۔
ضمیمہ ۱ ۱۔اَلْخُطْبَۃُ الْاُوْلٰی
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہٗ وَنُؤْمِنُ بِہٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ ط وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا وَمَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلَامُضِلَّ لَہٗ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلَا ھَادِیَ لَہ‘ط وَنَشْھَدُ اَنْ لَّآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَنَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ اَرْسَلَہٗ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا م بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَۃِ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ رَشَدَ وَاھْتَدٰی وَمَنْ یَّعْصِھِمَا فَاِنَّہٗ قَدْغَوًی وَاِنَّہٗ لَا یَضُرُّ اِلَّا نَفْسَہٗ وَلَنْ یَّضُرُّاللّٰہَ شَیْئًاط اِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ وَخَیْرَ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وَاِنَّ خَیْرَ الْاُمُوْرِ عَوَازِمُھَا وَشَرَّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا۔ کُلُّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَّکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَّکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِیْ النَّارِ۔
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمْ۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی فِیْ کِتَابِہِ الْمَجِیْدِ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُواالْبَیْعَ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِیْ الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْلَھْوَانِ انْفَضُّوْآ اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا قُلْ مَاعِنْدَاللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ ط وَاللّٰہُ خَیْرُالرّٰزِقِیْنَo صَدَقَ اللّٰہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ وَنَفَعَنِیْ وَاِیَّاکُمْ بِاٰیٰتِہٖ وَالذِّکْرِ الْحَکِیْمِo اِنَّہٗ تَعَالٰی جَوَّادٌ کَرِیْمٌ مَلِکٌم بَرٌّ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌo
۔پہلا خطبہ: (ترجمہ)
تعریف اللہ ہی کے لیے ہے۔ ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں، اور (اس کے لیے) اُس سے مدد طلب کرتے ہیں اور (اس سلسلے میں ہم سے جو کوتاہی ہو جائے اُس پر) اس سے بخشش طلب کرتے ہیں۔ ہم اسی پر ایمان رکھتے ہیں اور اسی پر بھروسا کرتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے نفسوں کی شرارتوں اور بُرے اعمال کی شامت سے پناہ مانگتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے دیں اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ہے اور جسے وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔
ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے اور یہ بھی گواہی دیتے ہیں کہ حضرت محمدa اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو قیامت کے بالکل قریب حق کے ساتھ بھیجا تاکہ (اطاعت گزاروں کو) خوش خبری دیں اور (برے لوگوں کو عذاب سے) ڈرائیں۔ جو شخص اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرے گا وہ بالیقین ہدایت پا گیا اور جس نے اللہ اوررسولؐ کی نافرمانی کی وہ راہِ ہدایت سے بھٹک گیا۔ وہ اپنے ہی نقصان کا سودا کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کا کچھ بھی نقصان نہیں کر رہا۔
بے شک سب سے اچھی بات اللہ کا کلام ہے اور سب سے اچھا راستہ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے اور برے اعمال نئے نئے فتنے ہیں، ہر فتنہ بدعت اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
امابعد! میں اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات کے وسیلے سے شیطان ملعون کے شر سے پناہ مانگتا ہوں اور اللہ ہی کے نام سے شروع کرتا ہوں جو رحمٰن بھی ہے اور رحیم بھی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے : اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، جب جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔ پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو شاید کہ تمھیں فلاح نصیب ہو جائے، اور جب انھوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمھیں کھڑا چھوڑ دیا۔ ان سے کہو جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
اللہ بلند و عظیم نے سچ فرمایا۔ وہ مجھے اور آپ کو اپنی آیات اور حکمت پر مبنی ذکر سے نفع عطا فرمائے۔ بے شک وہ بالادست، سخی اور عزت والا ہے، بادشاہ ہے، احسان کرنے والا ہے۔ شفقت فرمانے والا، رحم کرنے والا ہے۔
۲۔اَلْخُطْبَۃُ الثَّانِیَۃُ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْاَمِیْنِ۔ اَمَّا بَعْدُ فَیَامَعْشَرَ الْمُسْلِمِیْنَ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِo بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی فِیْ کِتَابِہِ الْکَرِیْمِ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاo اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍم بِعَدَدِ مَنْ صَلّٰی وَصَامَ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلٰنَا مُحَمَّدٍم بِعَدَدِ مَنْ قَعَدَ وَقَامَ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی جَمِیْعِ الْاَنْبِیَآئِ وَالْمُرْسَلِیْنَo وَعَلٰی سَآئِرِ الصَّحَا بَۃِ وَالتَّابِعِیْنَo وَعَلٰی عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَo اَللّٰھُمَّ اَیِّدِ الْاِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ انْصُرْمَنْ نَصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاجْعَلْنَا مِنْھُمْ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا تَجْعَلْنَا مِنْھُمْ ط اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہٗ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَا بَہٗ ج اَللّٰھُمَّ ثَبِّتْنَا عَلَی الْاِسْلَامِ۔ اَللّٰھُمَّ نَوِّرْقُلُوْبَنَا بِنُوْرِ الْاِیْمَانِ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ اَلْاَحْیَآئِ مِنْھُمْ وَالْاَمْوَاتِ۔ عِبَادَ اللّٰہِ رَحِمَکُمُ اللّٰہُ۔ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالمُنْکَرِ وَالْبَغْیْ ج یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَo اُذْکُرُوا اللّٰہَ یَذْکُرْکُمْ وَادْعُوْہٗ یَسْتَجِبْ لَکُمْ وَلَذِکْرُ اللّٰہِ تَعَالٰی اَعْلٰی وَاَوْلٰی وَاَعَزُّ وَاَجَلُّ وَاَکْبَرُ۔
دوسرا خطبہ: (ترجمہ)
تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو کائنات کا رب ہے۔ رسولِ امین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام ہو۔
امابعد! اے اہل اسلام! میں اللہ تعالیٰ سے شیطان ملعون کے شر سے پناہ مانگتا ہوں اور اللہ کے ہی بابرکت نام سے شروع کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ:
بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبیؐ پر درود اور سلام بھیجتے ہیں۔ اے اہل ایمان تم بھی اُن پر درود اور سلام بھیجو۔
اے اللہ! ہمارے راہبر اور سردارحضرت محمدؐ پر اتنی تعداد میں درود و سلام بھیجیو، جتنی تعداد نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے والوں کی ہے۔ اے اللہ! حضرت محمدa پر تمام بیٹھنے اور کھڑے ہونے والے لوگوں کی تعداد کے برابر درود و سلام بھیجیو ۔اے اللہ! تمام انبیاء اور رسولوں پر درود بھیجیو۔
تمام صحابہ، تابعین اور اپنے نیک بندوں پر بھی۔
اے اللہ اسلام اور مسلمانوں کی مدد فرما۔ اے اللہ! اس شخص کی مدد فرما جس نے دینِ محمدa کی مدد کی اور ہمیں بھی انھی لوگوں میں شامل کر دیجیے۔ اور( اے اللہ!) اس شخص کو ذلیل و رسوا کر دیجیے جس نے دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسوا کرنے کی کوشش کی اور ہمیں ایسے لوگوں سے بچانا۔
اے اللہ! ہمیں حق کو حق کر دکھادے، اس کی پیروی کی توفیق بھی دے۔ اور ہمیں باطل کو بھی باطل ہی دکھا اور اس سے ہمیںبچائے رکھنا۔
اے اللہ! ہمیں اسلام پر ثابت قدمی عطا فرما۔ ہمارے دلوں کو ایمان کے نُور سے روشن کر دے۔ پروردگار! تمام مومن مردوں اور عورتوں خواہ زندہ ہوں خواہ مردہ سب کو بخش دے۔
اے اللہ کے بندو! اللہ تم پر بھی رحم فرمائے۔ (یاد رکھو کہ!) اللہ تعالیٰ نے عدل و احسان اوررشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے، برائی اور بے حیائی اور نافرمانی سے منع فرمایا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرلو۔ اللہ کو یاد کرو، وہ تمھیں یاد کرے گا، اسی سے حاجتیں مانگو، وہ تمھاری حاجتیں پوری کرے گا۔
اوراللہ کا ذکر بلند ہے، اعلیٰ ہے، افضل ہے اور اللہ کی ذات عزت والی، شان والی اور کبریائی والی ہے۔
ضمیمہ ۲ (بسلسلہ حاشیہ صفحہ نمبر ۲۰۷)
تالیف قلب کے معنی ہیں: دل موہنا۔ اس حکم سے مقصود یہ ہے کہ جولوگ اسلام کی مخالفت میں سرگرم ہوں اور مال دے کر ان کے جوشِ عداوت کو ٹھنڈا کیا جاسکتا ہو، یا جو لوگ کفّار کے کیمپ میں ایسے ہوں کہ اگر مال سے انھیں توڑا جائے تو ٹوٹ کر مسلمانوں کے مددگار بن سکتے ہوں، یا جو لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہوں اور ان کی سابقہ عداوت یا ان کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے اندیشہ ہو کہ اگر مال سے اُن کی استمالت] دلجوئی[ نہ کی گئی تو پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے۔ ایسے لوگوں کو مستقل وظائف یا وقتی عطیے دے کر اسلام کا حامی و مددگار، یا مطیع و فرماں بردار، یا کم از کم بے ضرر دشمن بنا لیا جائے۔ اس مد پر غنائم اور دوسرے ذرائع آمدنی سے بھی مال خرچ کیا جاسکتا ہے، اور اگر ضرورت ہو تو زکوٰۃ کی مد سے بھی۔ اور ایسے لوگوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ فقیر و مسکین یا مسافر ہوں، تب ہی ان کی مدد زکوٰۃ سے کی جاسکتی ہے، بلکہ وہ مال دار اور رئیس ہونے پر بھی زکوٰۃ دیے جانے کے مستحق ہیں۔
یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ نبی a کے زمانے میں بہت سے لوگوں کو تالیفِ قلب کے لیے وظیفے اور عطیے دیے جاتے تھے، لیکن اس امر میں اختلاف ہوگیا ہے کہ آیا آپؐ کے بعد بھی یہ مد باقی رہی یا نہیں۔ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے اصحاب کی رائے یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے سے یہ مد ساقط ہوگئی ہے اور اب مؤلفۃ القلوب کو کچھ دینا جائز نہیں ہے۔ امام شافعی ؒ کی رائے یہ ہے کہ فاسق مسلمانوں کو تالیفِ قلب کے لیے زکوٰۃ کی مد سے دیا جاسکتا ہے مگر کفارکو نہیں۔ اور بعض دوسرے فقہا کے نزدیک مؤلفۃ القلوب کا حصہ اب بھی باقی ہے، اگر اس کی ضرورت ہو۔
حنفیہ کا استدلال اس واقعے سے ہے کہ نبی a کی رحلت کے بعد عُیَیْنَہ بن حِصْن اور اَقرَع بن حابِس حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے اور انھوںنے ایک زمین آپؓ سے طلب کی۔ آپؓ نے ان کو عطیے کا فرمان لکھ دیا۔ انھوں نے چاہا کہ مزید پختگی کے لیے دوسرے اعیانِ صحابہ بھی اس فرمان پر گواہیاں ثبت کر دیں۔ چنانچہ گواہیاں بھی ہوگئیں، مگر جب یہ لوگ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پاس گواہی لینے گئے تو انھوں نے فرمان کو پڑھ کر اُسے اُن کی آنکھوں کے سامنے چاک کر دیا اور ان سے کہا کہ بے شک نبی aتم لوگوں کی تالیف ِ قلب کے لیے تمھیں دیا کرتے تھے، مگر وہ اسلام کی کمزوری کا زمانہ تھا۔ اب اللہ نے اسلام کو تم جیسے لوگوں سے بے نیاز کر دیا ہے۔ اس پر وہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس شکایت لے کر آئے اور آپ کو طعنہ بھی دیا کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمرؓ؟ لیکن نہ تو حضرت ابوبکرؓ ہی نے اس پر کوئی نوٹس لیا اور نہ دوسرے صحابہ میں سے ہی کسی نے حضرت عمرؓ کی اس رائے سے اختلاف کیا۔ اس سے حنفیہ یہ دلیل لاتے ہیں کہ جب مسلمان کثیر التعداد ہوگئے اور ان کو یہ طاقت حاصل ہوگئی کہ اپنے بل بوتے پر کھڑے ہوسکیں تو وہ سبب باقی نہیں رہا جس کی وجہ سے ابتداء ً مؤلفۃ القلوب کا حصہ رکھا گیا تھا۔ اس لیے بہ اجماعِ صحابہ یہ حصہ ہمیشہ کے لیے ساقط ہوگیا۔
امام شافعی ؒ کا استدلال یہ ہے کہ تالیفِ قلب کے لیے کفار کو مال زکوٰۃ دینا نبیa کے فعل سے ثابت نہیں ہے۔ جتنے واقعات حدیث میں ہم کو ملتے ہیں ان سب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ نے کفار کو تالیفِ قلب کے لیے جو کچھ دیا وہ مال غنیمت سے دیا نہ کہ مالِ زکوٰۃ سے۔
ہمارے نزدیک حق یہ ہے کہ مؤلفۃ القلوب کا حصہ قیامت تک کے لیے ساقط ہو جانے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلاشبہ حضرت عمرؓ نے جو کچھ کہا وہ بالکل صحیح تھا۔ اگر اسلامی حکومت تالیف قلب کے لیے مال صَرف کرنے کی ضرورت نہ سمجھتی ہو تو کسی نے اس پر فرض نہیں کیا ہے کہ ضرور ہی اس مد میں کچھ نہ کچھ صَرف کرے۔ لیکن اگر کسی وقت اس کی ضرورت محسوس ہو، تو اللہ نے اس کے لیے جو گنجائش رکھی ہے اسے باقی رہنا چاہیے۔ حضرت عمرؓ اور صحابہ کرامؓ کا اجماع جس امر پر ہوا تھا وہ صرف یہ تھا کہ ان کے زمانے میں جو حالات تھے ان میں تالیفِ قلب کے لیے کسی کو کچھ دینے کی وہ حضرات ضرورت محسوس نہ کرتے تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ صحابہؓ کے اجماع نے اس مد کو قیامت تک کے لیے ساقط کر دیا جو قرآن میں بعض اہم مصالحِ دینی کے لیے رکھی گئی تھی۔
رہی امام شافعی ؒ کی رائے تو وہ اس حد تک تو صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جب حکومت کے پاس دوسری مدّات آمدنی سے کافی مال موجود ہو تو اسے تالیفِ قلب کی مد پر زکوٰۃ کا مال صَرف نہ کرنا چاہیے۔ لیکن جب زکوٰۃ کے مال سے اس کام میں مدد لینے کی ضرورت پیش آجائے تو پھر یہ تفریق کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ فاسقوں پر اسے صَرف کیا جائے اور کافروں پر نہ کیا جائے۔ اس لیے کہ قرآن میں مؤلفۃ القلوب کا جو حصہ رکھا گیا ہے وہ ان کے دعوائے ایمان کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ اس بنا پر ہے کہ اسلام کو اپنے مصالح کے لیے ان کی تالیفِ قلب مطلوب ہے اور وہ اس قسم کے لوگ ہیں کہ ان کی تالیف قلب صرف مال ہی کے ذریعے سے ہوسکتی ہے۔ یہ حاجت اور یہ صفت جہاں بھی متحقق ہو وہاں امامِ مسلمین بشرطِ ضرورت زکوٰۃ کا مال صَرف کرنے کا اَزرُوئے قرآن مجاز ہے۔ نبیa نے اگر اس مد سے کفار کو کچھ نہیں دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپؐ کے پاس دوسری مدات کا مال موجود تھا، ورنہ اگر آپؐ کے نزدیک کفار پر اس مد کا مال صَرف کرنا جائز نہ ہوتا تو آپؐ اس کی تشریح فرماتے۔
(تفہیم القرآن، جلددوم محاشیہ نمبر ۶۴، ص ۲۰۶۔ ۲۰۷ )
***
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَo (الحجرات 15:49)
حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔
زبان: اُردو
صفحات: 288
اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، منصورہ ملتان روڈ، لاہور۔