خطبات یورپ

ریڈ مودودی ؒ   کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF میں ملاحظہ کیجیے۔

 

مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ نابغہ روزگار ہستی ہیں۔ ان کی زندگی کا مشن دعوت اسلامی اور اس کی توضیح و تشریح و توسیع ہے۔ وہ جہاں بھی ہوں ان کا اوڑھنا بچھوڑنا اسلامی دعوت کا فروغ ہے۔
خطبات یو رپ مولانا مودودی کی وہ تقاریر ہیں جو اُنھوں نے برطانیہ اور امریکا کے سفروں میں مختلف دینی اجتماعات میں کہیں۔ ان میں مجالس سوالات وجوابات کی رودادیں بھی شامل ہیں جومغرب میں اسلام کے بارے میں اُلجھنوں کی عقدہ کشائی کرتی ہیں۔
بعض تقاریر مولانا محترم نے برطانیہ میں اسلام کو در پیش مزاحمتوں اور مسلمانوں کو درپیش مشکلات کے مسائل پر بحث کی اور ان کا حل پیش کیا ہے حقیقت یہ ہے کہ اسلام کو اپنی دعوت و توسیع کے لیے جو مسائل درپیش ہیں ان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی تعلیمات کچھ اور ہیں اور اسے ماننے والوں کا عمل اس سے بالکل مختلف ہے اس سے اسلام کو سمجھنے میں رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ اس کی تعلیمات کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں اور غیرمسلموں کو اسے قبول کرنے میں شرح صدر حاصل نہیں ہوا پھر جو اسلام کی معاشرتی تعلیمات ہیں ان میں سے بیشترکو اپنی مغربی تہذیب سے مختلف پاکر مغرب کے باسندوں کے ذہن میں شبہات سے زیادہ سوالات پیدا ہوتے ہیں لیکن ان سوالات کے تشفی بخش جواب دینے والا اور ہر قسم کی ذہنی مرعو بیت سے بالاتر ذہن رکھتے ہوئے اسلام کی صحیح صحیح ترجمانی کرنے والا شخص اُنھیں کہیں نہیں ملتے۔ اس لیے کہ جن کے سامنے وہ اپنے سوالات و اعتراضات رکھتے ہیں وہ خود ان کی مغربی تہذیب سے اب مرعوب اِنھیں کے رنگ میں رنگے ہوئے ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں قول وفعل کے تضاد کے سبب دعوت غیرموثر ہو جاتی ہے۔ ان تقاریر کے ذریعے مولانا مودودی نے پہلی بار آزاد۔ غیرمرعوب اورپر اعتماد ذہن و ضمیرکے ساتھ مغرب کے اسلام کے خلاف اعتراضات و سوالات کا جواب دیا ہے۔ مولانامودودی کا لہجہ جہاں حد درجہ شریفانہ پر اعتماد اور مقبول ہے وہاں جدید ذہن کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے بہت سائنٹفک بھی ہے۔ اُنھوں نے اسلام اور اس کی تعلیمات کو اپنے معمول کے مطابق دو اور دو چار کی طرح کھول کر بیان کر دیا ہے۔ اس بیان میں کوئی اُلجھن نہیں ہے نہ کوئی نفسیاتی رکاوٹ ہے۔ کوی معذرت خواہی اور داد خواہی نہیں ہے۔ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور یہ اپنے پیروﺅں کو زندگی کے ہرمعاملے میں ہدایات دیتا ہے۔ وہ ہدایات جو انسان کی فطرت اور ضمیرکے مطابق ہیں اور جن پر عمل پیرا ہو کر انسان جدید و قدیم جاہلیتوں کے بیچ درپیج اُلجھاو سے بچ سکتا ہے۔
مولانا محترم نے یورپ میں مسلمانوں کی مشکلات کے بارے میں بھی اِنھیں مفیدمشورے دیے ہیں۔ ان کی مشکلات کا حل پیش کیا ہے اورانہیں فی الجملہ اسلام کے صحیح نمائندے اور اپنے مسلمان معاشروں کے حقیقی سفیر بن کر رہنے کی تلقین کی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے کلیسا یورپ کے پیغام کا بھی بڑا خوبصورت جواب دیا ہے اور دنیائے عیسائیت کو صدیوں کے بعد کھل کر بتایا ہے کہ مسلمانو ں کوان سے کیا شکایات ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم تمھارے بزرگوں کی تعظیم کرتے ہیں اور تم ہمارے بزرگوں کی اہانت کرتے ہو، یہ انصاف تو نہیں ہے۔ یہ ا یک ایسی دل لگتی بات ہے جس کا کوئی جواب یورپ کے پاس نہیں ہے۔
دور حاضر نے اپنی جدید کاوشوں اور سائنسی انکشافات سے جو چیلنج اسلام کے سامنے رکھ دیا ہے، مولانا محترم نے اس کا بھی تشفی بخش جواب دیا ہے اور دور حاضر کی نظریاتی کمزوریوں کا پول کھول کر رکھ دیا ہے اور بتایا ہے کہ جدید دور کے سارے مسائل کا حل صرف اسلامی نظام حیات میں پوشید ہے۔ اُنھوں نے مغرب کو اسلام کی دعوت قبول کرنے کی دعوت دی ہے۔ غرض مولانا مودودیؒ نے اپنے ان خطبات کے ذریعے یورپ کے تعلیم یافتہ اور ذہین طبقے پر اسلام کی طرف سے اتمام حجت قائم کرنے کی کوشش کی ہے اور لندن کی اسلامی کانفرنس میں ان کا مقام تو شاہکار ہے جس کے ذریعے اُنھوں نے مغربی قاری کے ذہن کے مطابق مثبت طور پر اسلام کو پیش کیا ہے۔ مولانا مودودی افہام وتفہیم کے بادشاہ ہیں۔ اپنی بات خوبصورتی سے کہنے کے فن کو خوب جانتے ہیں۔ ان کی کتاب انسان کے ذہن کی تمام اُلجھنوں کو مات دے دیتی ہے۔