ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔
دیباچہ
موجودہ زمانے میں اسلام کے خلاف جو فتنے رونما ہوئے ہیں اُن میں سے ایک بڑا فتنہ وہ نئی نبوت ہے جس کا دعویٰ اس صدی کے آغاز میں کیا گیا تھا اور جس کی دعوت ۶۰سال سے اُمت میں گمراہی پھیلنے کا بہت بڑا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ دوسرے فتنوں کی طرح یہ فتنہ بھی دراصل صرف اس وجہ سے اٹھا اور پھیلا ہے کہ مسلمان عام طور پر اپنے دین سے جاہل ہیں۔ یہ جہالت اگر نہ ہوتی اور لوگ ختم نبوت کے مسئلے کو اچھی طرح سمجھے ہوئے ہوتے تو کسی طرح ممکن نہ تھا کہ محمدﷺ کے بعد کسی شخص کا دعوائے نبوت ایک مسلمان قوم کے اندر پھل پُھول سکتا۔
آج بھی اس فتنے کا قلع قمع کرنے کی صحیح اور مؤثر ترین تدبیر اگر کوئی ہوسکتی ہے تو وہ یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو عقیدۂ ختم نبوت کی حقیقت اور دین میں اس کی اہمیت خوب سمجھا دی جائے اور اس سلسلے میں جو شبہات دلوں میں ڈالے جاتے ہیں انہیں معقول دلائل کے ساتھ رد کر دیا جائے۔
اسی مقصد کو پیشِ نظر رکھ کر یہ مختصر رسالہ مرتب کیا گیا ہے۔ جو حضرات اسے مفید پائیں ان سے گزارش ہے کہ وہ اسے محض پڑھ کر نہ رہ جائیں بلکہ اس کے پھیلانے میں حتی الوسع پورا حصہ لیں۔ ضرورت ہے کہ یہ ہر پڑھے لکھے آدمی تک پہنچے، اور پڑھے لکھے لوگ اسے اَن پڑھ لوگوں کو پڑھ کر سنائیں۔ اُمید ہے کہ اس سے نہ صرف وہ لوگ محفوظ ہو جائیں گے جو ابھی اس گمراہی سے متاثر نہیں ہوئے ہیں، بلکہ جو متاثر ہوچکے ہیں ان میں سے بھی حق پسند لوگوں کے سامنے حق واضح ہو جائے گا۔ البتہ ان لوگوں کا کوئی علاج اللہ کے سوا کسی کے پاس بھی نہیں ہے جو ایک غلط بات کو مان لینے کے بعد اپنے دل کے دروازے بند کر چکے ہیں۔
لاہور
ختم ِ نبوت
آیت سورہ الاحزاب
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ۰ۭ وَكَانَ اللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًاo الاحزاب 40:33
(لوگو) محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔
یہ آیت سورۂ الاحزاب کے پانچویں رکوع میں نازل ہوئی ہے۔ اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اُن کفار و منافقین کے اعتراضات کا جواب دیا ہے جو حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے سیدنا محمدﷺ کے نکاح پر طعن و تشنیع اور بہتان و افترا کے طوفان اٹھا رہے تھے۔ ان لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ زینبؓ محمدﷺ کے منہ بولے بیٹے کی بیوی تھیں، اور اس بنا پر وہ حضورؐ کی بہو ہوتی تھیں۔ اب زیدؓ کے طلاق دینے کے بعد محمدﷺ نے اپنی بہو سے نکاح کرلیا ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آیت نمبر ۳۷ میں فرمایا کہ یہ نکاح ہمارے حکم سے ہوا ہے اور اس لیے ہوا ہے کہ مسلمانوں کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے، جب کہ وہ انہیں طلاق دے چکے ہوں، نکاح کرنے میں کوئی حرج نہ رہے۔ پھر آیت نمبر ۳۸و ۳۹ میں فرمایا کہ نبی پر جو کام اللہ فرض کر دے اس کے کرنے سے کوئی طاقت نبی کو باز نہیں رکھ سکتی۔ انبیائ کاکام لوگوں سےڈرنا نہیں بلکہ اللہ سے ڈرنا ہے اور ہمیشہ سے ان کے معاملہ میں اللہ کی سنت یہی رہی ہے کہ وہ کسی کی پرواہ کیے بغیر اللہ کے پیغام پہنچائیں اور بلا تردُّد اس کے احکام بجا لائیں۔ اس کے بعد یہ آیت ارشاد فرمائی جس میں مخالفین کے تمام اعتراضات کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی ہے۔
اُن کا اولین اعتراض یہ تھا کہ آپؐ نے اپنی بہو سے نکاح کیا ہے حالانکہ آپ کی اپنی شریعت میں بھی بیٹے کی منکوحہ باپ پر حرام ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ محمد ؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔ یعنی جس شخص کی مطلقہ سے نکاح کیا گیا ہے وہ بیٹا تھا کب کہ اس کی مطلقہ سے نکاح حرام ہوتا؟ تم لوگ تو خود جانتے ہو کہ محمدﷺ کا سرےسے کوئی بیٹا ہے ہی نہیں۔
ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اچھا، اگر منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہے تب بھی اس کی چھوڑی ہوئی عورت سے نکاح کرلینا زیادہ سے زیادہ بس جائز ہی ہوسکتا تھا، آخر اس کا کرنا کیا ضرور تھا۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہِ مگر وہ اللہ کے رسول ہیں۔ یعنی ان کے لیے یہ ضروری تھا کہ جس حلال چیز کو تمہاری رسموں نے خواہ مخواہ حرام کر رکھا ہے اس کےبارے میں تمام تعصبات کا خاتمہ کردیں اور اس کی حِلت کے معاملے کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں۔( منکرین ختم نبوت اس مقام پر یہ سوال کرتے ہیں کہ معترضین کا یہ اعتراض کس روایت میں وارد ہوا ہے؟ لیکن یہ سوال دراصل ان کی بے علمی کا نتیجہ ہے۔ قرآن مجید میں بیسیوں مقامات پر اللہ تعالیٰ نے مخالفین کے اعتراضات نقل کیے بغیر ان کے جوابات دیئے ہیں، اور جواب کی عبارت سے خود بخود یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اعتراض کیا تھا جس کا یہ جواب دیا جارہا ہے۔ یہاں بھی جواب خود اعتراض کا مضمون بیان کر رہا ہے۔ پہلے فقرے کے بعد ولٰکن (مگر)کے لفظ سے دوسرا فقرہ شروع کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پہلے فقرے میں مخاطب کی ایک بات کا جواب ہو جانے کے باوجود اس کا ایک سوال یا اعتراض باقی رہ گیا تھا جس کا جواب دوسرے فقرے میں دیا گیا ہے۔ پہلے فقرے میں ان کو اس اعتراض کا جواب مل چکا تھا کہ محمدﷺ نے اپنی بہو سے نکاح کیا ہے۔ اس کے بعد ان کا یہ اعتراض باقی تھا کہ آخر اس کام کو کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ اس پر فرمایا گیا ’’مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں‘‘ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ زید کھڑا نہیں ہوا مگر بکر کھڑا ہوا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ’’زید کھڑا نہیں ہوا‘‘ سے ایک بات کا جواب مل جانے کے بعد سائل کا یہ سوال باقی رہا جاتا تھا کہ پھر کون کھڑا ہوا ہے؟ اسی سوال کا جواب ’’مگر بکر کھڑا ہوا ہے‘‘ کا فقرہ دے رہا ہے۔)
پھر مزید تاکید کے لیے فرمایا: وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ اور خاتم النبیین ہیں۔ یعنی ان کے بعد کوئی رسول تو درکنار کوئی نبی تک آنے والا نہیں ہے کہ اگر قانون اور معاشرے کی کوئی اصلاح اُن کے زمانے میں نافذ ہونے سے رہ جائے تو بعد کا آنے والا نبی یہ کسر پوری کر دے، لہٰذا یہ اور بھی زیادہ ضروری ہوگیا تھا کہ اس رسمِ جاہلیت کا خاتمہ وہ خود ہی کرکے جائیں۔
اس کے بعد مزید زور دیتے ہوئے فرمایا گیا۔وَكَانَ اللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا۔ اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ یعنی اللہ کو معلوم ہے کہ اس وقت محمدﷺ کے ہاتھوں اس رسمِ جاہلیت کو ختم کرا دینا کیوں ضروری تھا اور ایسا نہ کرنے میں کیا قباحت تھی۔ وہ جانتا ہے کہ اب اس کی طرف سے کوئی نبی آنے والا نہیں ہے لہٰذا اگر اپنے آخری نبی کے ذریعہ سے اُس نے اس رسم کا خاتمہ اب نہ کرا دیا تو پھر کوئی دوسری ہستی دنیا میں ایسی نہ ہوگی جس کے توڑنے سے یہ تمام دُنیا کے مسلمانوں میں ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے۔ بعد کے مصلحین اگر اُسے توڑیں گے بھی تو ان میں سے کسی کا فعل بھی اپنے پیچھے ایسا دائمی اور عالمگیر اقتدار نہ رکھے گا کہ ہر مُلک اور ہر زمانے میں لوگ اس کا اتباع کرنے لگیں، اور ان میں سے کسی کی شخصیت بھی اپنے اندر اس تقدس کی حامل نہ ہوگی کہ کسی فعل کا محض اُس کی سنت ہونا ہی لوگوں کے دلوں سے کراہیت کے ہر تصور کا قلع قمع کر دے۔
قرآن کے سیاق و سباق کا فیصلہ
ایک گروہ جس نے اس دَور میں نئی نبوت کا فتنہ عظیم کھڑا کیا ہے، لفظ خاتم النبیین کے معنی ’’نبیوں کی مُہر‘‘ کرتا ہےاور اس کا مطلب یہ لیتا ہے کہ نبیﷺ کے بعد جو انبیائ بھی آئیں گے وہ آپ کی مہر لگنے سے نبی بنیں گے، یا بالفاظ دیگر جب تک کسی کی نبوت پر آپ کی مہر نہ لگے وہ وہ نبی نہ ہوسکے گا۔
لیکن جس سلسلۂ بیان میں یہ آیت وارد ہوئی ہے اس کے اندر رکھ کر اُسے دیکھا جائے تو اس لفظ کا یہ مفہوم لینے کی قطعاً کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ، بلکہ اگر یہی اس کے معنی ہوں تو یہاں یہ لفظ بے محل ہی نہیں، مقصود کلام کے بھی خلاف ہو جاتا ہے۔ آخر اس بات کا کیا تُک ہے کہ اُوپر سے تو نکاح زینب پر معترضین کے اعتراضات اور ان کے پیدا کیے ہوئے شکوک وشبہات کا جواب دیا جارہا ہو اور یکایک یہ بات کہہ ڈالی جائے کہ محمدؐ نبیوں کی مہر ہیں، آئندہ جو نبی بھی بنے گا، ان کی مُہر لگ کر بنے گا۔ اس سیاق و سباق میں یہ بات نہ صرف یہ کہ بالکل بے تکی ہے، بلکہ اس سے وہ استدلال الٹا کمزور ہو جاتا ہے جو اُوپر سے معترضین کے جواب میں چلا آرہا ہے۔ اس صورت میں تو معترضین کے لئے یہ کہنے کا اچھا موقع تھا کہ آپ یہ کام اس وقت نہ کرتے تو کوئی خطرہ نہ تھا اس رسم کو مٹانے کی ایسی ہی کچھ شدید ضرورت ہے تو آپ کے بعد آپ کی مہر لگ لگ کر جو انبیائ آتے رہیں گے اُن میں سے کوئی اسے مٹادے گا۔
ایک دوسری تاویل اس گروہ نے یہ بھی کی ہے کہ ’’خاتم النبیین‘‘ کے معنی افضل النبیین کے ہیں، یعنی نبوت کا دروازہ تو کھلا ہوا ہے، البتہ کمالات نبوت حضورؐ پر ختم ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ مفہوم لینے میں بھی وہی قباحت ہے جو اوپر ہم نے بیان کی ہے۔ سیاق و سباق سے یہ مفہوم بھی کوئی مناسبت نہیں رکھتا، بلکہ اُلٹا اس کے خلاف پڑتا ہے۔ کفار و منافقین کہہ سکتے تھے کہ حضرت کم تر درجے کے ہی سہی، بہرحال آپ کے بعد بھی نبی آتے رہیں گے۔ پھر کیا ضرور تھا کہ اس رسم کو بھی آپ ہی مٹا کر تشریف لے جاتے۔
لُغت کی رُو سے خاتم النبیین کے معنی
پس جہاں تک سیاق و سباق کا تعلق ہے وہ قطعی طور پر اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ یہاں خاتم النبیین کے معنی سلسلۂ نبوت کو ختم کر دینے والے ہی کے لئے جائیں اور یہ سمجھا جائے کہ حضورؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ لیکن یہ صرف سیاق ہی کا تقاضا نہیں ہے۔ لغت بھی اسی معنی کی مقتضی ہے۔ عربی لغت اور محاورے کی رُو سے ’’ختم‘‘ کے معنی مُہر لگانے، بند کرنے، آخر تک پہنچ جانے، اور کسی کام کو پورا کرکے فارغ ہو جانے کے ہیں۔
خَتَمَ الْعَمَلَ کے معنی ہیں فرغ من العمل کام سے فارغ ہوگیا۔
خَتَمَ اِلْانَائَ کے معنی ہیں ’’برتن کا منہ بند کر دیا اور اس پر مہر لگا دی تاکہ نہ کوئی چیز اس میں سے نکلے اور نہ کچھ اس کے اندر داخل ہو۔
خَتَمَ الْکِتَابَ کے معنی ہیں ’’خط بند کرکے اس پر مہر لگا دی تاکہ خط محفوظ ہو جائے۔‘‘
خَتَمَ عَلَی الْقَلْبِ دل پر مہر لگا دی کہ نہ کوئی بات اس کی سمجھ میں آئے نہ پہلے سے جمی ہوئی کوئی بات اس میں سے نکل سکے۔
خِتَامُ کّلِ مشروب وہ مزا جو کسی چیز کو پینے کے بعد آخر میں محسوس ہوتا ہے۔
خاتمۃ کل شی ئٍ، عاقبتہ و اٰخرتہ، ہر چیز کے خاتمہ سے مُراد ہے اس کی عاقبت اور آخرت۔
ختم الشئی، بلغ اٰخرہ۔ کسی چیز کو ختم کرنے کا مطلب ہے اس کے آخر تک پہنچ جانا۔ اسی معنی میں ختم قرآن بولتے ہیں اور اسی معنی میں سورتوں کی آخری آیات کو خواتیم کہا جاتا ہے۔
خاتم القوم، اٰخرھم، خاتم القوم سے مُراد ہے قبیلے کا آخری آدمی۔ (ملاحظہ ہو لسان العرب، قاموس اور اقرب الموارد)( یہاں ہم نے لغت کی صرف تین کتابوں کا حوالہ دیا ہے۔ لیکن بات انہی تین کتابوں پر منحصر نہیں ہے۔ عربی زبان کی کوئی معتبر لغت اٹھا کر دیکھ لی جائے، اس میں لفظ خاتم کی یہی تشریح ملے گی۔ لیکن منکرین ختم نبوت خدا کے دین میں نقب لگانے کے لیے لغت کو چھوڑ کر اس بات کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی شخص کو خاتم الشعرائ یا خاتم الفقہائ یا خاتم المفسرین کہنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جس شخص کو یہ لقب دیا گیا ہے اس کے بعد کوئی شاعر یا فقیہ یا مفسر پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس فن کے کمالات اس شخص پر ختم ہوگئے۔ حالانکہ مبالغے کے طور پر اس طرح کے القاب کا استعمال یہ معنی ہرگز نہیں رکھتا کہ لغت کے اعتبار سے خاتم کے اصل معنی ہی کامل یا افضل کے ہو جائیں اور آخری کے معنی میں یہ لفظ استعمال کرنا سرے سے غلط قرار پائے۔ یہ بات صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جو زبان کے قواعد سے ناواقف ہو۔ کسی زبان میں بھی یہ قاعدہ نہیں ہے کہ اگر کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنی کے بجائے کبھی کبھی مجازاً کسی دوسرے معنی میں بولا جاتا ہو تو وہی معنی اس کے اصل معنی بن جائیں اور لغت کی رُو سے جو اس کے حقیقی معنی ہیں اُن میں اس کا استعمال ممنوع ہو جائے۔ آپ کسی عرب کے سامنے جب کہیں گے کہ جَائَ خَاتَم القوم، تو وہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہ لے گا کہ قبیلے کا فاضل و کامل آدمی آگیا، بلکہ اس کا مطلب وہ یہی لے گا کہ پورا کا پورا قبیلہ آگیا ہے حتیٰ کہ آخری آدمی جو رہ گیا تھا وہ بھی آگیا۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ خاتم الشعرائ خاتم الفقہائ اور خاتم المحدثین وغیرہ القاب جو بعض لوگوں کو دئیے گئے ہیں، ان کے دینے والے انسان تھے اور انسان کبھی یہ نہیں جان سکتا کہ جس شخص کو وہ کسی صفت کے اعتبار سے خاتم کہہ رہا ہے اس کے بعد پھر کوئی اس صفت کا حامل پیدا نہیں ہوگا اس وجہ سے انسانی کلام میں ان القاب کی حیثیت مبالغے اور اعتراف کمال سے زیادہ کچھ ہو ہی نہیں سکتی۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کے متعلق یہ کہہ دے کہ فلاں صفت اُس پر ختم ہوگئی تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اُسے بھی انسانی کلام کی طرح مجازی کلام سمجھ لیں۔ اللہ نے اگر کسی کو خاتم الشعرائ کہہ دیا ہوتا تو یقیناً اس کے بعد کوئی شاعر نہیں ہوسکتا تھا۔ اور اس نے جسے خاتم النبیین کہہ دیا، غیر ممکن ہے کہ اس کے بعد کوئی نبی ہوسکے۔ اس لیے کہ اللہ عالم الغیب ہے اور انسان عالم الغیب نہیں ہیں۔ اللہ کا کسی کو خاتم النبیین کہنا اور انسانوں کا کسی کو خاتم الشعرائ اور خاتم الفقہائ وغیرہ کہہ دینا آخر ایک درجہ میں کیسے ہوسکتا ہے
اسی بنا پر تمام اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالاتفاق خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین کے لیے ہیں۔ عربی لغت و محاورے کی رُو سے خاتم کے معنی ڈاک خانے کی مہرکے نہیں ہیں جسے لگا لگا کر خطوط جاری کیے جاتے ہیں، بلکہ اس سے مُراد وہ مہر ہے جو لفافے پر اس لیے لگائی جاتی ہے کہ نہ اس کے اندر سے کوئی چیز باہر نکلے نہ باہر کی کوئی چیز اندر جائے۔
ختم نبوت کے بارے میں نبیﷺ کے ارشادات
قرآن کے سیاق و سباق اورلغت کے لحاظ سے اس لفظ کا جو مفہوم ہے اس کی تائید نبیﷺ کی تشریحات کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر چند صحیح ترین احادیث ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔
(۱) قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کانت بنو اسرائیل تسوسہم الانبیائ کلما ھلک نبی خلفہ نبی، و انہ لانبی بعدی و سیکون خلفائ (بخاری، کتاب المناقب، باب ماذکر عن بنی اسرائیل )
نبیﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل کی قیادت انبیائ کیا کرتے تھے۔ جب کوئی نبی مر جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا بلکہ خلفا ہوں گے۔
(۲) قال نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان مثلی و مثل الانبیائ من قبلی کمثل رجل بنی بیتًا فاحسنہ واجملہ الاموضع لبنۃ من زوایۃٍ فجعل الناس یطوفون بہ و یعجبون لہ و یقولون ھلا وضعت ھٰدہ اللبنۃ، فانا اللبنۃ و انا خاتم النبیین۔ ( بخاری کتاب المناقب، باب خاتم النبیین)
نبیﷺ نے فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیائ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی تھی۔ لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اس کی خوبی پر اظہار حیرت کرتے تھے ، مگر کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں (یعنی میرے آنے پر نبوت کی عمارت مکمل ہو چکی ہے، اب کوئی جگہ باقی نہیں ہےجسے پُر کرنے کے لیے کوئی نبی آئے۔)
اسی مضمون کی چار حدیثیں مسلم، کتاب الفضائل، باب خاتم النبیین میں ہیں اور آخری حدیث میں یہ الفاظ زائد ہیں۔ فجئت فختمت الانبیائ ’’پس میں آیا اور میں نے انبیائ کا سلسلہ ختم کر دیا۔
یہی حدیث انہی الفاظ میں ترمذی، کتاب المناقب، باب فضل النبی، اورکتاب الآداب، باب الامثال میں ہے۔
مسند ابودائود طیالسی میں یہ حدیث جابر بن عبداللہ کی روایت کردہ احادیث کے سلسلہ میں آئی ہے اور اس کے آخری الفاظ یہ ہیں: ختم بی الانبیائ’’میرے ذریعے سے انبیائ کا سلسلہ ختم کیا گیا۔
مسند احمد میں تھوڑے تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ اس مضمون کی احادیث حضرت اُبی بن کعب، حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہؓ سے نقل کی گئی ہیں۔
(۳) ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فُضِّلْتُ علی الانبیائ بِسِتٍ، اعطیت جوامع الکلم، و نُصِرتُ بالرعب، واحلت لی الغنائم، وجُعلت لی الارض مسجدًا وطھوراً، وارسلت الیٰ الخلق کافۃً و خُتم بی النبیون۔
(مسلم، ترمذی، ابن ماجہ)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: مجھے چھ باتوں میں انبیائ پر فضیلت دی گئی ہے۔
(۱)مجھے جامع و مختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی۔
(۲)مجھے رُعب کے ذریعہ سے نصرت بخشی گئی۔
(۳)میرے لیے اموال غنیمت حلال کیے گئے۔
(۴)میرے لیے زمین کو مسجد بھی بنا دیا گیا اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی یعنی میری شریعت میں نماز صرف مخصوص عبادت گاہوں میں ہی نہیں بلکہ روئے زمین پر ہر جگہ پڑھی جاسکتی ہے اور پانی نہ ملے تو میری شریعت میں تیمّم کرکے وضو کی حاجت بھی پوری کی جاسکتی ہے۔ اور غسل کی حاجت بھی)
(۵)مجھے تمام دنیا کے لیے رسول بنایا گیا۔
(۶) اور میرے اوپر انبیائ کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔
(۴) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان الرسالۃ و النبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی۔(ترمذی، کتاب الرئویا، باب ذہاب النبوۃ۔ مسند احمد، مرویات انس بن مالک)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔
(۵) قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم انا محمد، و انا احمد، و انا الماحی الذی یمحیٰ بی الکفر و انا الحاشر الذی یحشر الناس علی عقبی و انا العاقب الذی لیس بعدہٗ نبی۔ (بخاری و مسلم، کتاب الفضائل، باب اسمائ النبی، ترمذی، کتاب الآداب، باب اسمائ النبی، موطا۔ کتاب اسما النبی المستدرک للحاکم، کتاب التاریخ، باب اسمائ النبی)
نبیﷺ نے فرمایا: میں محمدؐ ہوں۔ میں احمد ہوں۔ میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعہ سے کفر محو کیا جائے گا۔ میں حاشر ہوں کہ میرے بعد لوگ حشر میں جمع کیے جائیں گے (یعنی میرے بعد اب بس قیامت ہی آنی ہے) اور میں عاقب ہوں، اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔
(۶) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ لم یبعث نبیًا الاحذر امتہٗ الدجال و انا اٰخر الانبیائ و انتم اٰخرالام وھو خارج فیکم لا محالۃ (ابن ماجہ کتاب الفتن، باب الدجال)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا جس نےاپنی امت کو دجال کے خروج سے نہ ڈرایا ہو (مگر ان کے زمانے میں وہ نہ آیا)۔ اب میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ لامحالہ اب اس کو تمھارے اندر ہی نکلنا ہے۔
(۷) عن عبدالرحمان بن جبیر قال سمعت عبداللہ بن عمرو بن عاص یقول خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یومًا کالمودّع فقال انا محمد النبی الامی ثلاثًا ولا نبی بعدی۔ (مسند احمد، مرویات عبداللہ بن عمرو بن عاص)
عبدالرحمن بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص کو یہ کہتے سنا کہ ایک روز رسول اللہﷺ اپنے مکان سے نکل کر ہمارے درمیان تشریف لائے اس انداز سے کہ گویا آپؐ ہم سے رخصت ہو رہے ہیں۔ آپ نے تین مرتبہ فرمایا:’’میں محمدؐ اُمی ہوں‘‘ پھر فرمایا: میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
(۸) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا نبوۃ بعدی الا المبشرات۔ قیل وما المبشرات یارسول اللہ؟ قال الرؤیا الحسنۃ۔ اوقال الرؤیا الصالحۃ
(مسند احمد، مرویات ابوالطفیل۔ نسائی، ابودائود)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے، صرف بشارت دینے والی باتیں ہیں۔‘‘ عرض کیا گیا وہ بشارت دینے والی باتیں کیا ہیں یارسول اللہ؟ فرمایا اچھا خواب، یا فرمایا صالح خواب۔ (یعنی وحی کا اب کوئی امکان نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ اگر کسی کو اللہ کی طرف سے کوئی اشارہ ملے گا بھی تو بس اچھے خواب کے ذریعے سے مل جائے گا)۔
(۹) قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لوکان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب۔ (ترمذی، کتاب المناقب)
نبیﷺ نے فرمایا: میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔
(۱۰) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعلی انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ، الا انّہ لا نبی بعدی۔ ( بخاری و مسلم: کتاب فضائل الصحابہ)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہے جو موسیٰ کے ساتھ ہارون کی تھی، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
بخاری و مسلم نے یہ حدیث غزوۂ تبوک کے ذکر میں بھی نقل کی ہے۔ مسند احمد میں اس مضمون کی دو حدیثیں حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت کی گئی ہیں جن میں سے ایک کا آخری فقرہ یُوں ہے۔
الا انہ لا نبوۃ بعدی۔
مگر میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔
ابودائود طیالسی، امام احمد اور محمد بن اسحاق نے اس سلسلہ میں جو تفصیلی روایات نقل کی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوۂ تبوک کے لیے تشریف لے جاتے وقت نبیﷺ نے حضرت علیؓ کو مدینہ طیبہ کی حفاظت و نگرانی کے لیے اپنے پیچھے چھوڑنے کا فیصلہ فرمایا تھا۔ منافقین نے اس پر طرح طرح کی باتیں ان کے بارے میں کہنی شروع کر دیں۔انہوں نے جاکر حضورؐ سے عرض کیا ’’یارسول اللہ، کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جارہے ہیں؟ اس موقع پر حضورؐ نے ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: کہ تم میرے ساتھ وہی نسبت رکھتے ہو جو موسیٰ ؑ کے ساتھ ہارون رکھتے تھے۔‘‘ یعنی جس طرح حضرت موسیٰ نے کوہ طور پر جاتے ہوئے حضرت ہارونؑ کو بنی اسرائیل کی نگرانی کے لیے پیچھے چھوڑا تھا اسی طرح میں تم کو مدینے کی حفاظت کے لئے چھوڑے جارہا ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی حضورؐ کو اندیشہ ہوا کہ حضرت ہارونؑ کے ساتھ یہ تشبیہ کہیں بعد میں کسی فتنے کی موجب نہ بن جائے، اس لیے فوراً آپؐ نے یہ تصریح فرما دی کہ میرے بعد کوئی شخص نبی ہونے والا نہیں ہے۔
(۱۱) عن ثوبان قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی و اناخاتم النبیین لانبی بعدی۔
(ابودائود، کتاب الفتن)
ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اور یہ کہ میری اُمت میں تیس کذاب ہوں گے جن میں سے ہر ایک نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اسی مضمون کی ایک اور حدیث ابودائود نے کتاب الملاحم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کی ہے۔ ترمذی نے بھی حضرت ثوبان اور حضرت ابوہریرہؓ سے یہ دونوں روایتیں نقل کی ہیں اور دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:
حتی یبعث دجالون کذابون قریب من ثلاثین کلھم یزعم انہ رسول اللہ۔
یہاں تک کہ اٹھیں گے تیس کے قریب جھوٹے فریبی جن میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔
(۱۲) قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لقد کان فیمن کان قبلکم من بنی اسرائیل رجال یکلمون من غیران یکونوا انبیائ فان یکن من امتی احد فعمر۔ (بخاری، کتاب المناقب)
نبیﷺ نے فرمایا تم سے پہلے جو بنی اسرائیل گزرے ہیں ان میں ایسے لوگ ہوئے ہیں جن سے کلام کیا جاتا تھا۔ بغیر اس کے کہ وہ نبی ہوں۔ میری اُمت میں اگر کوئی ہوا تو وہ عمر ہوگا۔
مسلم میں اس مضمون کی جو حدیث ہے اس میں یکلّمون کے بجائے محدَّثون کا لفظ ہے۔لیکن مکلَّم اور محدَّث، دونوں کے معنی ایک ہی ہیں، یعنی ایسا شخص جو مکالمہ الٰہی سے سرفراز ہو، جس کے ساتھ پردۂ غیب سے بات کی جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبوت کے بغیر مخاطبۂ الٰہی سے سرفراز ہونے والے بھی اس اُمت میں اگر کوئی ہوتے تو وہ حضرت عمرؓ ہوتے۔
(۱۳) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لانبی بعدی ولاامۃ بعد امتی۔
(بیہقی، کتاب الرئویا۔ طبرانی)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری اُمت کے بعد کوئی امت (یعنی کسی نئے آنے والے نبی کی اُمت) نہیں۔
(۱۴) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فانی آخر الانبیائ و ان مسجدی آخر المساجد (مسلم، کتاب الحج، باب فضل الصلوٰۃ بمسجد مکۃ و المدینۃ)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد (یعنی مسجد نبوی)ہے۔(منکرین ختم نبوت اس حدیث سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ جس طرح حضورؐ نے اپنی مسجد کو آخر المساجد فرمایا، حالانکہ وہ آخری مسجد نہیں ہے بلکہ اس کے بعد بھی بے شمار مسجدیں دنیا میں بنی ہیں، اسی طرح جب آپ نے فرمایا کہ میں آخر الانبیائ ہوں تو اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ آپ کے بعد نبی آتے رہیں گے، البتہ فضیلت کے اعتبار سے آپ آخری نبی ہیں اور آپ کی مسجد آخری مسجد ہے۔ لیکن درحقیقت اسی طرح کی تاویلیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ لوگ خدا اور رسول کے کلام کو سمجھنے کی اہلیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ صحیح مسلم کے جس مقام پر یہ حدیث وارد ہوئی ہے اس کے سلسلے کی تمام احادیث کو ایک نظر ہی آدمی دیکھ لے تو اُسے معلوم ہو جائے گا کہ حضورؐ نے اپنی مسجد کو آخری مسجد کس معنی میں فرمایا ہے۔ اس مقام پر حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور ام المومنین حضرت میمونہؓ کے حوالہ سےجو روایات امام مسلم نے نقل کی ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں صرف تین مساجد ایسی ہیں جن کو عام مساجد پر فضیلت حاصل ہے، جن میں نماز پڑھنا دوسری مساجد میں نماز پڑھنے سے ہزار گنا زیادہ ثواب رکھتا ہے، اور اسی بنا پر صرف انہی تین مسجدوں میں نماز پڑھنے کے لیے سفر کرکے جانا جائز ہے، باقی کسی مسجد کا یہ حق نہیں ہے کہ آدمی دوسری مسجدوں کو چھوڑ کر خاص طور پر ان میں نماز پڑھنے کے لیے سفر کرے۔ ان میں سے پہلی مسجد، مسجد الحرام ہے۔ جسے حضرت ابراہیمؑ نے بنایا تھا۔ دوسری مسجد، مسجد اقصیٰ ہے جسے حضرت سلیمان ؑ نے تعمیر کیا۔ اور تیسری مسجد، مدینہ طیبہ کی مسجد نبوی ہے جس کی بنا حضور نبی اکرمﷺ نے رکھی۔ حضورؐ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ اب چونکہ میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، اس لیے میری اس مسجد کے بعد دنیا میں کوئی چوتھی مسجد ایسی بننے والی نہیں ہے جس میں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مسجدوں سے زیادہ ہو اور جس کی طرف نماز کی غرض سے سفر کرکے جانا درست ہو۔
)
یہ احادیث بکثرت صحابہ نے نبیﷺ سے روایت کی ہیں۔ اور بکثرت محدثین نے ان کو بہت سی قوی سندوں سے نقل کیا ہے۔ ان کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ نے مختلف مواقع پر، مختلف طریقوں سے، مختلف الفاظ میں اس امر کی تصریح فرمائی ہے کہ آپ آخری نبی ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، نبوت کا سلسلہ آپ پر ختم ہو چکا ہے، اور آپ کے بعد جو لوگ بھی رسول یا نبی ہونے کا دعویٰ کریں وہ دجال و کذاب ہیں۔ قرآن کے الفاظ ’’خاتم النبیین‘‘ کی اس سے زیادہ مستند و معتبر اور قطعی الثبوت تشریح اور کیا ہوسکتی ہے۔ رسول پاک کا ارشاد تو بجائے خود سند و حجت ہے۔ مگر جب وہ قرآن کی ایک نص کی شرح کو رہا ہو تب تو وہ اور بھی زیادہ قوی حجت بن جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ محمد رسول اللہﷺ سے بڑھ کر قرآن کو سمجھنے والا اور اس کی تفسیر کا حق دار کون ہوسکتا ہے کہ وہ ختم نبوت کا کوئی دوسرا مفہوم بیان کرے اور ہم اسے قبول کرنا کیا معنی قابل اتفات بھی سمجھیں۔( منکرین ختم نبوت رسول اللہﷺ کے ان ارشادات کے مقابلہ میں اگر کوئی چیز پیش کرتے ہیں تو وہ یہ روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا قولوا انہ خاتم الانبیائ ولا تقولو الا نبی بعدہ۔ یہ تو کہو کہ حضورؐ خاتم الانبیائ ہیں مگر یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔لیکن اول تو حضورؐ کے صاف صاف ارشادات کے مقابلہ میں حضرت عائشہؓ کے کسی قول کو پیش کرنا ہی سخت گستاخی و بے ادبی ہے۔ اس پر مزید یہ کہ حضرت عائشہ کی طرف جس روایت میں یہ قول منسوب کیا گیا ہے وہ بجائے خود غیر مستند ہے۔ اسے حدیث کی کسی معتبر کتاب میں کسی قابل ذکر محدث نے نقل نہیں کیا ہے۔ تفسیر کی ایک کتاب درمنثور اور لغت حدیث کی ایک کتاب تکملہ مجمع البحار سے اس کو نقل کیا جاتا ہے مگر اس کی سند کا کچھ پتہ نہیں ملتا۔ ایسی ایک ضعیف ترین روایت اور وہ بھی ایک صحابیہ کے قول کو لاکر نبی اکرمﷺ کے ان ارشادات کے مقابلہ میں پیش کیا جاتا ہے جنہیں تمام اکابر محدثین نے صحیح سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے۔)
صحابہ کرامؓ کا اجماع
قرآن و سنت کے بعد تیسرے درجے میں اہم ترین حیثیت صحابہ کرام کے اجماع کی ہے۔ یہ بات تمام معتبر تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ نبیﷺ کی وفات کے فوراً بعد جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا، اور جن لوگوں نے ان کی نبوت تسلیم کی، ان سب کے خلاف صحابہ کرام نے بالاتفاق جنگ کی تھی۔
اس سلسلے میں خصوصیت کے ساتھ مسیلمہ کذاب کا معاملہ قابل ذکر ہے۔ یہ شخص نبیﷺ کی نبوت کا منکر نہ تھا بلکہ اس کا دعویٰ یہ تھا کہ اسے حضور کے ساتھ شریک نبوت بنایا گیا ہے۔ اس نے حضورؐ کی وفات سے پہلے جو عریضہ آپ کو لکھا تھا اس کے الفاظ یہ ہیں:
من مسیلمۃ رسول اللہ الٰی محمد رسول اللہ سلام علیک فانی اشرکت فی الامر معک۔ (طبری، جلد دوم، ص۳۹۹، طبع مصر)
مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کی طرف۔ آپ پر سلام ہو۔ آپ کو معلوم ہو کہ میں آپ کے ساتھ نبوت کے کام میں شریک کیا گیا ہوں۔
علاوہ بریں مورخ طبری نے یہ روایت بھی بیان کی ہے کہ مسیلمہ کے ہاں جو اذان دی جاتی تھی اس میں اشھد ان محمدًا رسول اللہ کے الفاظ بھی کہے جاتے تھے۔
اس صریح اقرار رسالت محمدی کے باوجود اُسے کافر اور خارج از ملت قرار دیا گیا اور اس سے جنگ کی گئی۔ تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ بنو حنیفہ نیک نیتی کے ساتھ (In good faith) اُس پر ایمان لائے تھے اور انہیں واقعی اس غلط فہمی میں ڈالا گیا تھا کہ محمد رسول اللہﷺ نے اس کو خود شریک رسالت کیا ہے۔ نیز قرآن کی آیات کو ان کے سامنے مسیلمہ پر نازل شدہ آیات کی حیثیت سے ایک ایسے شخص نے پیش کیا تھا جو مدینہ طیبہ سے قرآن کی تعلیم حاصل کرکے گیا تھا (البدایہ و النہایہ لابن کثیر، جلد۵، ص ۵۱)۔ مگر اس کے باوجود صحابہ کرام نے ان کو مسلمان تسلیم نہیں کیا اور ان پر فوج کشی کی۔ پھر یہ کہنے کی بھی گنجائش نہیں کہ صحابہ نے ان کے خلاف اِرتداد کی بنا پر نہیں بلکہ بغاوت کے جرم میں جنگ کی تھی۔ اسلامی قانون کی رُو سے باغی مسلمانوں کے خلاف اگر جنگ کی نوبت آئے تو ان کے اسیران جنگ غلام نہیں بنائےجاسکتے۔ بلکہ مسلمان تو درکنار، ذمی بھی اگر باغی ہوں تو گرفتار ہونے کے بعد ان کو غلام بنانا جائز نہیں ہے۔ لیکن مسیلمہ اور اس کے پیرووں پر جب چڑھائی کی گئی تو حضرت ابوبکرؓ نے اعلان فرمایا کہ اُن کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا جائے گا۔ اور جب وہ لوگ اسیر ہوئے تو فی الواقع ان کو غلام بنایا گیا، چنانچہ انہی میں سے ایک لونڈی حضرت علیؓ کے حصے میں آئی جس کے بطن سے تاریخ اسلام کی مشہور شخصیت محمد بن حنیفہ(حنفیہ سے مراد ہے قبیلہ بنو حنیفہ کی عورت۔) نے جنم لیا (البدایہ و النہایہ، جلد ۶، ص ۳۱۶و ۳۲۵)۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ صحابہ نے جس جرم کی بنا پر ان سے جنگ کی تھی وہ بغاوت کا جرم نہ تھا بلکہ یہ جرم تھا کہ ایک شخص نے محمدﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا اور دوسرے لوگ اس کی نبوت پر ایمان لائے۔ یہ کاروائی حضورؐ کی وفات کے فوراً بعد ہوئی ہے، ابوبکر صدیقؓ کی قیادت میں ہوئی ہے، اور صحابہ کی پوری جماعت کے اتفاق سے ہوئی ہے۔ اجماع صحابہ کی اس سے زیادہ صریح مثال شاید ہی کوئی اور ہو۔
تمام عُلمائے اُمّت کا اجماع
اجماع صحابہ کے بعد چوتھے نمبر پر مسائل دین میں جس چیز کو حجت کی حیثیت حاصل ہے وہ دورِ صحابہ کے بعد کے علمائے امت کا اجماع ہے۔ اس لحاظ سے جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پہلی صدی سے لیکر آج تک ہر زمانے کے، اور پوری دنیائے اسلام میں ہر ملک کے علمائ اس عقیدے پر متفق ہیں کہ محمدﷺ کے بعد کوئی شخص نبی نہیں ہوسکتا، اور یہ کہ جو بھی آپ کے بعد اس منصب کا دعویٰ کرے، یا اس کو مانے، وہ کافر خارج از ملت اسلام ہے۔ اس سلسلے کے بھی چند شواہد ملاحظہ ہوں:
(۱) امام ابوحنیفہؒ (۸۰ھ۔ ۱۵۰ھ) کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا ’’مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی علامات پیش کروں۔‘‘ اس پر امام اعظمؒ نے فرمایا کہ ’’جو شخص اس سے نبوت کی کوئی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہو جائے گا کیونکہ رسول اللہﷺ فرما چکے ہیں کہ:
لا نبی بعدی۔(مناقب الامام اعظم ابی حنیفہ۔ لابن احمد المکی۔ ج۱ص۱۶۱۔ مطبوعہ حیدر آباد ۱۳۲۱ھ)
(۲) علامہ ابن جریر طبری (۲۲۴ھ ۔ ۳۱۰ھ) اپنی مشہور تفسیر قرآن میں آیت ولٰکن رسول اللہ و خاتم النبیین کا مطلب بیان کرتے ہیں:
الذی ختم النبوۃ فطبع علیھا فلا تفتح لاحد بعدہ الٰی قیام الساعۃ۔
(تفسیر ابن جریر، جلد ۲۲، صفحہ۱۲)
جس نے نبوت کو ختم کر دیا اور اس پر مہر لگا دی، اب قیامت تک یہ دروازہ کسی کے لیے نہیں کھلے گا۔
(۳) امام طحاوی (۲۳۹ھ۔ ۳۲۱ھ) اپنی کتاب ’’عقیدۂ سلفیہ‘‘ میں سلف صالحین اور خصوصاً امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کے عقائد بیان کرتے ہوئے نبوت کے بارے میں یہ عقیدہ تحریر فرماتے ہیں۔ اور یہ کہ محمدﷺ کے برگزیدہ بندے، چیدہ نبی اور پسندیدہ رسول ہیں اور وہ خاتم الانبیائ امام الاتقیا، سید المرسلین اور حبیب رب العالمین ہیں، اور ان کے بعد نبوت کا ہر دعویٰ گمراہی اور خواہش نفس کی بندگی ہے۔
(شرح الطحاویہ فی العقیدۃ السلفیہ، دارالمعارف مصر، صفحات ۱۵،۸۷،۹۴،۹۷، ۱۰۰،۱۰۲)
(۴) علامہ ابن حزم اندلسی( ۳۸۴ھ۔ ۴۵۶ھ) لکھتے ہیں:یقیناً وحی کا سلسلہ نبیﷺ کی وفات کے بعد منقطع ہو چکا ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ وحی نہیں ہوتی مگر ایک نبی کی طرف، اور اللہ عزوجل فرما چکا ہے کہ محمدؐ نہیں ہیں تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ مگر وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں۔ (المحلی، ج۱، ص ۲۶)
(۵) امام غزالی (۴۵۰ھ۔ ۵۰۵ھ) فرماتے ہیں۔(امام غزالیؒ کی اس رائے کو ہم ان کی اصل عربی عبارت کے ساتھ اس لیے نقل کر رہے ہیں کہ منکرین ختم نبوت نے اس حوالے کی صحت کو بڑے زور شور سے چیلنج کیا ہے۔)
لو فتح ھذاالباب رای باب انکار کون الاجماع حجۃ انجوالی امور شنیعۃ وھوان قائلا لوقال یجوز ان یبعث رسول بعد نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم فیبعد التوقف فی تکفیرہ، و مستبد استحالۃ ذالک عند البحث تستمد من الاجماع لامحالۃ، فان العقل لایحیلہ، وما نقل فیہ من قولہ لا نبی بعدی، ومن قولہ تعالیٰ خاتم النبیین، فلا یعجز ھٰذا لقائل عن تاویلہٗ فیقول خاتم النبیین ارادبہٖ اولوالعزم من الرسل، فان قالو النبیین عام، فلا یبعد تخصیص العام، وقولہ لا نبی بعدی لم یردبہ الرسل و النبی و فرق بین النبی و الرسول و النبی اعلیٰ مرتبۃ من الرسل الیٰ غیر ذالک من انواع الھذیان، فھٰذا و امثالہ لا یمکن ان ندعی استحالۃ من حیث مجرد اللفظ، فانافی تاویل ظواھر التشبیہ قضینا باحتمالات ابعد من ھٰذہٖ، ولم یکن ذالک مبطلاً للنصوص، ولٰکن الرد علی ھٰذا القائل ان الامۃ فہمت بالاجماع من ھٰذا اللفظ و من قرائن احوالہ انہ افھم۔ عدم نبی بعدہ ابدًا و عدم رسول اللہ ابدا و اَنّہٗ لیس فیہ تاویل ولا تخصیص فمنکر ھٰذا لایکون الامنکر الاجماع۔ (الاقتصاد فی الاعتقاد۔ المطبعۃ الادبیہ، مصر ص ۴۱۱)
اگر یہ دروازہ (یعنی اجماع کو حجت ماننے سے انکار کا دروازہ) کھول دیا جائے تو بڑی قبیح باتوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے مثلاً اگر کہنے والا کہے کہ ہمارے نبیﷺ کے بعد کسی رسول کی بعثت ممکن ہے تو اس کی تکفیر میں تأمل نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن بحث کے موقع پر جو شخص اس کی تکفیر میں تامل کو ناجائز ثابت کرنا چاہتا ہے اُسے لامحالہ اجماع سے مدد لینی پڑے گی۔ کیونکہ عقل اس کے عدم جواز کا فیصلہ نہیں کرتی۔ اور جہاں تک نقل کا تعلق ہے اس عقیدے کا قائل لانبی بعدی اور خاتم النبیین کی تاویل کرنے سے عاجز نہ ہوگا۔ وہ کہے گا کہ خاتم النبیین سے مراد اولوالعزم رسولوں کا خاتم ہونا ہے۔ اور اگر کہا جائے کہ نبیین کا لفظ عام ہے تو عام کو خاص قرار دے دینا اس کے لیے کچھ مشکل نہ ہوگا۔ اور لانبی بعدی کے متعلق وہ کہہ دے گا کہ لارسول بعدی تو نہیں کہا گیا ہے، رسول اللہ نبی میں فرق ہے، اور نبی کا مرتبہ رسول سے بلند تر ہے۔ غرض اس طرح کی بکواس بہت کچھ کی جاسکتی ہے۔ اور محض لفظ کے اعتبار سے ایسی تاویلات کو ہم محال نہیں سمجھتے، بلکہ ظواہر تشبیہ کی تاویل میں ہم اس سے بھی زیادہ بعید احتمالات کی گنجائش مانتے ہیں۔ اور اس طرح کی تاویلیں کرنے والے کے متعلق ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ نصوص کا انکار کر رہا ہے۔ لیکن اس قول کے قائل کی تردید میں ہم یہ کہیں گے کہ اُمت نے بالاتفاق اس لفظ (یعنی لا نبی بعدی) سے اور نبیﷺ کے قرائن احوال سے یہ سمجھا ہے کہ حضور کا مطلب یہ تھا کہ آپ کے بعد کبھی نہ کوئی نبی آئے گا نہ رسول۔ نیز امت کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ اس میں کسی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔لہٰذا ایسے شخص کو منکر اجماع کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
(۶) محی السنہ بغوی (متوفی ۵۱۰ھ)اپنی تفسیر معالم التنزیل میں لکھتے ہیں:اللہ نے آپؐ کے ذریعے سے نبوت کو ختم کیا، پس آپ انبیائ کے خاتم ہیں …… اور ابن عباس کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس (آیت میں) یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ نبیﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ (جلد۳،ص۱۵۸)
(۷) علامہ زمخشری (۴۶۷ھ۔۵۳۸ھ)تفسیر کشاف میں لکھتے ہیں: اگر تم کہو کہ نبیﷺ آخری نبی کیسے ہوئے جب کہ حضرت عیسیٰ آخر زمانے میں نازل ہوں گے؟ تو میں کہوں گا کہ آپ کا آخری نبی ہونا اس معنی میں ہے کہ آپ کے بعد کوئی شخص نبی نہ بنایا جائے گا، اور عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں میں سے ہیں جو آپ سے پہلے نبی بنائے جاچکے تھے، اور جب وہ نازل ہوں گے تو شریعت محمدیہ کے پیرو اور آپ کے قبلے کی طرف نماز پڑھنے والے کی حیثیت سے نازل ہوں گے، گویا کہ وہ آپ ہی کی اُمت کے ایک فرد ہیں۔(جلد۲۔ص۲۱۵)
(۸)قاضی عیاض (متوفی ۵۴۴ھ)لکھتے ہیں: جو شخص خود اپنے حق میں نبوت کا دعویٰ کرے، یا اس بات کو جائز رکھے کہ آدمی نبوت کا اکتساب کرسکتا ہے اور صفائی قلب کے ذریعہ سے مرتبہ نبوت کو پہنچ سکتا ہے، جیسا کہ بعض فلسفی اور غالی صوفی کہتے ہیں، اور اسی طرح جو شخص نبوت کا دعویٰ تو نہ کرے مگر یہ دعویٰ کرے کہ اس پر وحی آتی ہے، ایسے سب لوگ کافر اور نبیﷺ کے جھٹلانے والے ہیں، کیونکہ آپؐ نے خبر دی ہے کہ آپ خاتم النبیین ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر پہنچائی ہے کہ آپ نبوت کے ختم کرنے والے ہیں اور تمام انسانوں کی طرف آپ کو بھیجا گیا ہے اور تمام اُمت کا اس پر اجماع ہے کہ یہ کلام اپنے ظاہر مفہوم پر محمول ہے، اس کے معنی و مفہوم میں کسی تاویل و تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا ان تمام گروہوں کے کافر ہونے میں قطعاً کوئی شک نہیں، بربنائے اجماع بھی اور بربنائے نقل بھی۔ (شفائ جلد۲، ص ۲۷۰۔ ۲۷۱)
(۹) علامہ شہرستانی (متوفی ۵۴۸ھ) اپنی مشہور کتاب الملل و النحل میں لکھتے ہیں: اور اسی طرح جو کہے۔ کہ محمدﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا ہے (بجز عیسیٰ علیہ السلام کے، تو اس کے کافر ہونے میں دو آدمیوں کے درمیان بھی اختلاف نہیں ہے۔ (جلد۳،ص۲۴۹)
(۱۰) امام رازی (۵۴۳ھ۔ ۶۰۶ھ) اپنی تفسیر کبیر میں آیت خاتم النبیین کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس سلسلۂ بیان میں وخاتم النبیین اس لیے فرمایا کہ جس نبی کے بعد کوئی دوسرا نبی ہو وہ اگر نصیحت اور توضیح احکام میں کوئی کسر چھوڑ جائے تو اس کے بعد آنے والا نبی اُسے پورا کرسکتا ہے۔ مگر جس کے بعد کوئی آنے والا بنی نہ ہو وہ اپنی امت پر زیادہ شفیق ہوتا ہے اور اس کوزیادہ واضح رہنمائی دیتا ہے کیونکہ اس کی مثال اس باپ کی ہوتی ہے جو جانتا ہے کہ اس کے بیٹے کا کوئی ولی و سرپرست اس کے بعد نہیں ہے۔(جلد۶، ص ۵۸۱)
(۱۱) علامہ بیضاوی (متوفی ۶۸۵ھ)اپنی تفسیر انوار التنزیل میں لکھتے ہیں: یعنی آپ انبیائ میں سب سے آخری نبی ہیں جس نے ان کا سلسلہ ختم کر دیا، یا جس سے انبیائ کے سلسلہ پر مہر کر دی گئی۔ اور عیسیٰ علیہ السلام کا آپ کے بعد نازل ہونا اس ختم نبوت میں قادح نہیں ہے کیونکہ جب وہ نازل ہوں گے تو آپ ہی کے دین پر ہوں گے۔ (جلد۴۔ ص ۱۶۴)
(۱۲) علامہ حافظ الدین النسفی (متوفی ۷۱۰ھ) اپنی تفسیر ’’مدارک التنزیل‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ اور آپ خاتم النبیین ہیں۔ یعنی نبیوں میں سب سے آخری۔ آپؐ کے بعد کوئی شخص نبی نہیں بنایا جائے گا۔ رہے عیسیٰ ؑ تو وہ ان انبیائ میں سے ہیں جو آپ سے پہلے بنی بنائے جاچکے تھے۔ اور جب وہ نازل ہوں گے گویا کہ وہ آپ کی امت کے افراد میں سے ہیں۔ (ص ۴۷۱)
(۱۳) علامہ علائو الدین بغدادی (متوفی ۷۲۵ھ) اپنی تفسیر ’’خازن‘‘ میں لکھتے ہیں: وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْن، یعنی اللہ نے آپؐ پر نبوت ختم کر دی، اب نہ آپ کے بعد کوئی نبوت ہے نہ آپ کے ساتھ کوئی اس میں شریک ….. وَکَانَ اللّٰہُ بکُلِّ شی ئٍ عَلِیْمًا۔ یعنی یہ بات اللہ کے علم میں ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ (ص۴۷۱۔۴۷۲)
(۱۴) علامہ ابن کثیر (متوفی ۷۷۴ھ) اپنی مشہور و معروف تفسیر میں لکھتے ہیں: پس یہ آیت اس بات میں نص صریح ہے کہ نبیﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے، اور جب آپؐ کے بعد نبی کوئی نہیں تو رسول بدرجہ اولیٰ نہیں ہے، کیونکہ رسالت کا منصب خاص ہے اور نبوت کا منصب عام، ہر رسول نبی ہوتا ہے مگر ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ حضورؐ کے بعد جو شخص بھی اس مقام کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا، مفتری، دجال، گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے خواہ وہ کیسے ہی خرق عادت اور شعبدے اور جادو اور طلسم اور کرشمے بنا کر لے آئے….. یہی حیثیت ہر اُس شخص کی ہے جو قیامت تک اس منصب کا مدعی ہو۔ (جلد۳۔ ص ۴۹۳۔۴۹۴)
(۱۵) علامہ جلال الدین سیوطی (متوفی ۹۱۱ھ) تفسیر جلالین میں لکھتے ہیں: وَکَانَ اللّٰہُ بکُلِّ شی ئٍ عَلِیْمًا۔ یعنی اللہ اس بات کو جانتا ہے کہ آنحضرت کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور عیسیٰ ؑ جب نازل ہوں گے تو آپ کی شریعت ہی کے مطابق عمل کریں گے۔ (ص۷۶۸)
(۱۶) علامہ ابن نجیم (متوفی ۹۷۰ھ) اصول فقہ کی مشہور کتاب الاشباہ و النظائر، کتاب السیر، باب الردہ میں لکھتے ہیں: اگر آدمی یہ نہ سمجھے کہ محمدﷺ آخری نبی ہیں تو وہ مسلمان نہیں ہے، کیونکہ یہ ان باتوں میں سے ہے جن کا جاننا اور ماننا ضروریات دین میں سے ہے۔ (۱۷۹)
(۱۷) ملا علی قاری (متوفی ۱۰۱۶ھ) شرح فقہ اکبر میں لکھتے ہیں: ہمارے نبیﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا بالاجماع کفر ہے۔ (۲۰۲)
(۱۸) شیخ اسمٰعیل حقی (متوفی ۱۱۳۷ھ) تفسیر روح البیان میں اس آیت کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: عاصم نے لفظ خاتَم ت کے زبر کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی ہیں آلۂ ختم کے جس سے مہر کی جاتی ہے، جیسے طابع اس چیز کو کہتے ہیں جس سے ٹھپا لگایا جائے۔ مراد یہ ہے کہ نبیﷺ انبیائ میں سب سے آخر تھے جن کے ذریعہ سے نبیوں کے سلسلہ پر مہر لگا دی گئی۔ فارسی میں اُسے ’’مہر پیغمبراں‘‘ کہیں گے، یعنی آپ سے نبوت کا دروازہ سربمہر کر دیا گیا اور پیغمبروں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ باقی قاریوں نے اُسے ت کے زیر کے ساتھ خاتم پڑھا ہے، یعنی آپ مہر کرنے والے تھے۔ فارسی میں اس کو ’’مہر کنندۂ پیغمبراں‘‘ کہیں گے۔ اس طرح یہ لفظ بھی خاتم کا ہم معنی ہی ہے….. اب آپ کی اُمت کے علمائ آپ سے صرف ولایت ہی کی میراث پائیں گے، نبوت کی میراث آپ کی ختمیت کے باعث ختم ہوچکی ۔ اور عیسیٰ علیہ السلام کا آپؐ کے بعد نازل ہونا آپ کے خاتم النبیین ہونے میں قادح نہیں ہے کیونکہ خاتم النبیین ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہ بنایا جائے گا….. اور عیسیٰ ؑ آپؐ سے پہلے نبی بنائے جاچکے تھے۔ اور جب وہ نازل ہوں گے تو شریعتِ محمدیﷺ کے پیرو کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ آپؐ ہی کے قبلے کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھیں گے۔ آپؐ کی اُمت کے ایک فرد کی طرح ہوں گے۔ نہ ان کی طرف وحی آئے گی اور نہ وہ نئے احکام دیں گے بلکہ وہ رسول اللہﷺ کے خلیفہ ہوں گے….. اور اہل سنت و الجماعت اس بات کے قائل ہیں کہ ہمارے نبیﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ولٰکن رسول اللہ و خاتم النبیین۔ اور رسول اللہﷺ نے فرمایا لا نبی بعدی۔اب جو کوئی کہے کہ ہمارے نبیﷺ کے بعد کوئی نبی ہے تو اس کو کافر قرار دیا جائے گا، کیونکہ اس نے نص کا انکار کیا۔ اور اسی طرح اُس شخص کی بھی تکفیر کی جائے گی جو اس میں شک کرے کیونکہ حجت نے حق کو باطل سے ممیز کر دیا ہے۔ اور جو شخص محمدﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے اس کا دعویٰ باطل کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا۔ (جلد ۲۲، ص ۱۸۸)
(۱۸) فتاویٰ عالمگیری، جسے بارھویں صدی ہجری میں اورنگ زیب عالمگیر کے حکم سے ہندوستان کے بہت سے اکابر علمائ نے مرتب کیا تھا، اس میں لکھا ہے: اگر آدمی یہ نہ سمجھے کہ محمدﷺ آخری نبی ہیں تو وہ مسلم نہیں ہے۔ اور اگر وہ کہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں یا میں پیغمبر ہوں تو اس کی تکفیر کی جائے گی۔ (جلد۲، ص ۲۶۳)
(۱۹) علامہ شوکانی (متوفی ۱۲۵۵ھ) اپنی تفسیر فتح القدیر میں لکھتے ہیں: جمہور نے لفظ خاتم کوت کے زیر کے ساتھ پڑھا ہے اور عاصم نے زبر کے ساتھ۔ پہلی قرأت کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے انبیائ کو ختم کیا، یعنی سب کے آخر میں آئے۔ اور دوسری قرأت کے معنی یہ ہیں کہ آپ اُن کے لیے مہر کی طرح ہوگئے جس کے ذریعے سے ان کا سلسلہ سربمہر ہوگیا اور جس کے شمول سے ان کا گروہ مزین ہوا۔ (جلد۴۔ص۲۷۵)
(۲۰) علامہ آلوسی (متوفی ۱۲۷۰ھ) تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں: نبی کا لفظ رسول کی بہ نسبت عام ہے۔ لہٰذا رسول اللہ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے سے خود بخود لازم آتا ہے کہ آپ خاتم المرسلین بھی ہوں۔ اور آپؐ کے خاتم انبیائ و رُسل ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس دنیا میں وصف نبوت سے آپ کے متصف ہونے کے بعد اب جن و انس میں سے ہر ایک کے لیے نبوت کا وصف منقطع ہوگیا۔ (جلد ۲۲۔ ص ۳۲)۔ رسول اللہﷺ کے بعد جو شخص وحی نبوت کا مدعی ہو اُسے کافر قرار دیا جائے گا۔ اس امر میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (جلد ۲۲۔ ص ۳۸)
رسول اللہﷺ کا خاتم النبیین ہونا ایک ایسی بات ہے جسے کتاب اللہ نے صاف صاف بیان کیا، سنت نے واضح طور پر اس کی تصریح کی، اور اُمت نے اس پر اجماع کیا۔ لہٰذا جو اس کے خلاف کوئی دعویٰ کرے اُسے کافر قرار دیا جائے گا۔ (جلد۲۲۔ ص۳۹)
یہ ہندوستان سے لے کر مراکش اور اندلس تک، اور ٹر کی سے لے کریمن تک ہر مسلمان ملک کے اکابر علمائ و فقہائ اور محدثین و مفسرین کی تصریحات ہیں۔ ہم نے ان کے ناموں کے ساتھ ان کے سنین ولادت و وفات بھی دے دئیے ہیں جن سے ہر شخص بیک نظر معلوم کرسکتا ہے کہ پہلی صدی سے تیرھویں صدی تک تاریخ اسلام کی ہر صدی کے اکابر ان میں شامل ہیں۔ اگرچہ ہم چودھویں صدی کے علمائے اسلام کی تصریحات بھی نقل کرسکتے تھے، مگر ہم نے قصداً انہیں اس لیے چھوڑ دیا کہ ان کی تفسیر کے جواب میں ایک شخص یہ حیلہ کرسکتا ہے کہ ان لوگوں نے اس دَور کے مدعی نبوت کی ضد میں ختم نبوت کے یہ معنی بیان کیے ہیں۔ اس لیے ہم نے پہلے کے علمائ کی تحریریں نقل کی ہیں جو ظاہر ہے کہ آج کے کسی شخص سے کوئی ضد نہ رکھ سکتے تھے۔ ان تحریروں سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ پہلی صدی سے آج تک پوری دنیائے اسلام متفقہ طور پر ’’خاتم النبیین‘‘ کے معنی ’’آخری نبی‘‘ ہی سمجھتی رہی ہے، حضورؐ کے بعد نبوت کے دروازے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند تسلیم کرنا ہر زمانے میں تمام مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ رہا ہے، اور اس امر میں مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا کہ جو شخص محمد رسول اللہﷺ کے بعد رسول یا نبی ہونے کا دعویٰ کرے اور جو اُس دعوے کو مانے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔
اب یہ دیکھنا ہر صاحب عقل آدمی کا اپنا کام ہے کہ لفظ خاتم النبیین کا جو مفہوم لغت سے ثابت ہے، جو قرآن کی عبارت کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے، جس کی تصریح نبیﷺ نے خود فرما دی ہے، جس پر صحابہ کرامؓ کا اجماع ہے، اور جسے صحابہ کرامؓ کے زمانے سے لے کر آج تک تمام دنیا کے مسلمان بلا اختلاف مانتے رہے ہیں، اس کے خلاف کوئی دوسرا مفہوم لینے اور کسی نئے مدعی کے لیے نبوت کا دروازہ کھولنے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے، اور ایسے لوگوں کو کیسے مسلمان تسلیم کیا جاسکتا ہے جنہوں نے باب نبوت کے مفتوح ہونے کا محض خیال ہی ظاہر نہیں کیا ہے بلکہ اس دروازے سے ایک صاحب حریم نبوت میں داخل بھی ہوگئے ہیں اور یہ لوگ ان کی نبوت پر ایمان بھی لے آئے ہیں۔
اس سلسلے میں تین باتیں اور قابل غور ہیں۔
کیا اللہ کو ہمارے ایمان سے کوئی دشمنی ہے؟
پہلی بات یہ ہے کہ نبوت کا معاملہ ایک بڑا ہی نازک معاملہ ہے۔ قرآن مجید کی رُو سے یہ اسلام کے اُن بنیادی عقائد میں سے ہے جن کے ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کے کفر و ایمان کا انحصار ہے۔ ایک شخص نبی ہو اور آدمی اس کو نہ مانے تو کافر، اور وہ نبی نہ ہو اور آدمی اس کو مان لے تو کافر۔ ایسے ایک نازک معاملے میں تو اللہ تعالیٰ سے کسی بے احتیاطی کی بدرجۂ اولیٰ توقع نہیں کی جاسکتی اگر محمدﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا ہوتا تو اللہ تعالیٰ خود قرآن میں اس کی صاف صاف تصریح فرماتا، رسول اللہﷺ کے ذریعے سے اس کا کھلا کھلا اعلان کراتا اور حضورؐ دنیا سے کبھی تشریف نہ لے جاتے جب تک اپنی اُمت کو اچھی طرح خبردار نہ کر دیتے کہ میرے بعد بھی انبیائؑ آئیں گے اور تمہیں ان کو مانا ہوگا۔ آخر اللہ اور اس کے رسول کو ہمارے دین و ایمان سے کیا دشمنی تھی کہ حضورؐ کے بعد نبوت کا دروازہ تو کھلا ہوتا اور کوئی نبی آنے والا بھی ہوتا جس پر ایمان لائے بغیر ہم مسلمان نہ ہوسکتے، مگر ہم کو نہ صرف یہ کہ اس سے بے خبر رکھا جاتا، بلکہ اس کے برعکس اللہ اور اس کا رسول، دونوں ایسی باتیں فرما دیتے جن سے تیرہ سو برس تک ساری اُمت یہی سمجھتی رہی اور آج بھی سمجھ رہی ہے کہ حضورؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔
اب اگر بفرض محال نبوت کا دروازہ واقعی کھلا بھی ہو اور کوئی نبی آبھی جائے تو ہم بے خوف و خطر اس کا انکار کر دیں گے۔ خطرہ ہوسکتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی باز پرس ہی کا تو ہوسکتا ہے۔ وہ قیامت کے روز ہم سے پوچھے گا تو ہم یہ سارا ریکارڈ برسر عدالت لاکر رکھ دیں گے جس سے ثابت ہو جائے گا کہ معاذ اللہ اس کفر کے خطرے میں تو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہی نے ہمیں ڈالا تھا۔ ہمیں قطعاً کوئی اندیشہ نہیں ہے کہ اس ریکارڈ کو دیکھ کر بھی اللہ تعالیٰ ہمیں کسی نئے نبی پر ایمان لانے کی سزا دے ڈالے گا۔ لیکن اگر نبوت کا دروازہ فی الواقع بند ہے اور کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اور اس کے باوجود کوئی شخص کسی مدعی کی نبوت پر ایمان لاتا ہے تو اسے سوچ لینا چاہئے کہ اس کفر کی پاداش سے بچنے کے لیے وہ کونسا ریکارڈ خدا کی عدالت میں پیش کرسکتا ہے جس سے وہ رہائی کی توقع رکھتا ہو۔ عدالت میں پیشی ہونے سے پہلے اسے اپنی صفائی کے مواد کا یہیں جائزہ لے لینا چاہئے، اور ہمارے پیش کردہ مواد سے مقابلہ کرکے خودہی دیکھ لینا چاہئے کہ جس صفائی کے بھروسے پر وہ یہ کام کررہا ہے کیا ایک عقلمند آدمی اس پر اعتماد کرکے کفر کی سزا کا خطرہ مول لے سکتا ہے؟
اب نبی کی آخر ضرورت کیا ہے؟
دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ نبوت کوئی ایسی صفت نہیں ہے جو ہر اس شخص میں پیدا ہو جایا کرے جس نے عبادت اور عمل صالح میں ترقی کرکے اپنے آپ کو اس کا اہل بنا لیا ہو۔ نہ یہ کوئی ایسا انعام ہے جو کچھ خدمات کے صلے میں عطا کیا جاتا ہو۔ بلکہ یہ ایک منصب ہے جس پر ایک خاص ضرورت کی خاطر اللہ تعالیٰ کسی شخص کو مقرر کرتا ہے۔ وہ ضرورت نہیں ہوتی یا باقی نہیں رہتی تو خواہ مخواہ انبیائ پر انبیائ نہیں بھیجے جاتے۔
قرآن مجید سے جب ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی کے تقرر کی ضرورت کن کن حالات میں پیش آتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ صرف چار حالتیں ایسی ہیں جن میں انبیائ مبعوث ہوئے ہیں۔
اوّل یہ کہ کسی خاص قوم میں نبی بھیجنے کی ضرورت اس لیے ہو کہ اس میں پہلے کبھی کوئی نبی نہ آیا تھا اور کسی دوسری قوم میں آئے ہوئے نبی کا پیغام بھی اُس تک نہ پہنچ سکتا تھا۔
دوم یہ کہ نبی بھیجنے کی ضرورت اس وجہ سے ہو کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کی تعلیم بھلا دی گئی ہو، یا اس میں تحریف ہوگئی ہو، اور اس کے نقش قدم کی پیروی کرنا ممکن نہ رہا ہو۔
سوم یہ کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کے ذریعہ سے مکمل تعلیم و ہدایت لوگوں کو نہ ملی ہو اور تکمیل دین کے لیے مزید انبیائ کی ضرورت ہو۔
چہارم یہ کہ ایک نبی کے ساتھ اس کی مدد کے لیے ایک اور نبی کی حاجت ہو۔
اب یہ ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی ضرورت بھی نبیﷺ کے بعد باقی نہیں رہی ہے۔
قرآن خود کہہ رہا ہے کہ حضورؐ کو تمام دنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا گیا ہے، اور دنیا کی تمدنی تاریخ بتا رہی ہے کہ آپ کی بعثت کے وقت سے مسلسل ایسے حالات موجود رہے ہیں کہ آپ کی دعوت سب قوموں کو پہنچ سکتی تھی اور ہر وقت پہنچ سکتی ہے۔ اس کے بعد الگ الگ قوموں میں انبیائ آنے کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی۔
قرآن اس پر بھی گواہ ہے اور اس کے ساتھ حدیث و سیرت کا پورا ذخیرہ اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ حضورؐ کی لائی ہوئی تعلیم بالکل اپنی صحیح صورت میں محفوظ ہے۔ اس میں مسخ و تحریف کا کوئی عمل نہیں ہوا ہے۔ جو کتاب آپ لائے تھے اس میں ایک لفظ کی بھی کمی و بیشی آج تک نہیں ہوئی نہ قیامت تک ہوسکتی ہے۔ جو ہدایت آپ نے اپنے قول و عمل سے دی اس کے تمام آثار آج بھی اس طرح ہمیں مل جاتے ہیں گویا ہم آپ کے زمانے میں موجود ہیں۔ اس لیے دوسری ضرورت بھی ختم ہوگئی۔
پھر قرآن مجید یہ بات بھی صاف صاف کہتا ہے کہ حضورؐ کے ذریعہ سے دین کی تکمیل کر دی گئی۔ لہٰذا تکمیل دین کے لیے بھی اب کوئی نبی درکار نہیں رہا۔
اب رہ جاتی ہے چوتھی ضرورت تو اگر اس کے لیے کوئی نبی درکار ہوتا تو وہ حضورؐ کے زمانے میں آپ کے ساتھ مقرر کیا جاتا۔ ظاہر ہے کہ جب وہ مقرر نہیں کیا گیا تو یہ وجہ بھی ساقط ہوگئی۔
اب ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ پانچویں وجہ کونسی ہے جس کے لیے آپ کے بعد ایک نبی کی ضرورت ہو؟ اگر کوئی کہے کہ قوم بگڑ گئی ہے اس لئے اصلاح کی خاطر ایک نبی کی ضرورت ہے، تو ہم اس سے پوچھیں گے کہ محض اصلاح کے لیے نبی دنیا میں کب آیا ہے کہ آج صرف اس کام کے لیے وہ آئے؟ نبی تو اس لیے مقرر ہوتا ہے کہ اس پروحی کی جائے، اور وحی کی ضرورت یا تو تو کوئی نیا پیغام دینے کے لیے ہوتی ہے، یا پچھلے پیغام کی تکمیل کرنے کے لئے، یا اس کو تحریفات سے پاک کرنے کے لیے۔ قرآن اور سنت محمدﷺ کے محفوظ ہو جانے اور دین کے مکمل ہو جانے کے بعد جب وحی کی سب ممکن ضرورتیں ختم ہو چکی ہیں، تو اب اصلاح کے لیے صرف مصلحین کی حاجت باقی ہے نہ کہ انبیائ کی۔
نئی نبوت اب امت کے لیے رحمت نہیں بلکہ لعنت ہے
تیسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ نبی جب بھی کسی قوم میں آئے گا فوراً اس میں کفر و ایمان کا سوال اٹھ کھڑا ہوگا۔ جو اس کو مانیں گے وہ ایک اُمت قرار پائیں گے اور جو اس کو نہ مانیں گے وہ لامحالہ دوسری امت ہوں گے۔ ان دونوں امتوں کا اختلاف محض فروعی اختلاف نہ ہوگا بلکہ ایک نبی پر ایمان لانے اور نہ لانے کا ایسا بنیادی اختلاف ہوگا جو انہیں اس وقت تک جمع نہ ہونے دے گا جب تک ان میں سے کوئی ایک اپنا عقیدہ نہ چھوڑ دے۔ پھر ان کے لیے عملاً بھی ہدایت اور قانون کے ماخذ الگ الگ ہوں گے، کیونکہ ایک گروہ اپنے تسلیم کردہ نبی کی پیش کی ہوئی وحی اور اس کی سنت سے قانون لے گا اور دوسرا گروہ اس کے ماخذ قانون ہونے کا سرے سے منکر ہوگا۔ اس بنا پر ان کا ایک مشترک معاشرہ بن جانا کسی طرح بھی ممکن نہ ہوگا۔
ان حقائق کو اگر کوئی شخص نگاہ میں رکھے تو اُس پر یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ ختم نبوت امت مسلمہ کے لیے اللہ کی ایک بہت بڑی رحمت ہے جس کی بدولت ہی اس امت کا ایک دائمی اور عالمگیر برادری بننا ممکن ہوا ہے۔ اس چیز نے مسلمانوں کو ایسے ہر بنیادی اختلاف سے محفوظ کر دیا ہے جو ان کے اندر مستقل تفریق کا موجب ہوسکتا ہو۔ اب جو شخص بھی محمد ﷺ کو اپنا ہادی و رہبر مانے اور ان کی دی ہوئی تعلیم کے سوا کسی اور ماخذ ہدایت کی طرف رجوع کرنے کا قائل نہ ہو وہ اس برادری کا فرد ہے اور ہر وقت ہوسکتا ہے۔ یہ وحدت اس امت کوکبھی نصیب نہ ہوسکتی تھی اگر نبوت کا دروازہ بند نہ ہو جاتا۔ کیونکہ ہر نبی کے آنے پر یہ پارہ پارہ ہوتی رہتی۔
آدمی سوچے تو اس کی عقل خود یہ کہہ دے گی کہ جب تمام دنیا کےلیے ایک نبی بھیج دیا جائے، اورجب اس نبی کے ذریعے سے دین کی تکمیل بھی کر دی جائے، اور جب اس نبی کی تعلیم کو پوری طرح محفوظ بھی کردیا جائے، تو نبوت کا دروازہ بند ہو جانا چاہئے تاکہ اس آخری نبی کی پیروی پر جمع ہو کر تمام دنیا میں ہمیشہ کے لیے اہل ایمان کی ایک ہی اُمت بن سکے اور بلا ضرورت نئے نئے نبیوں کی آمد سے اُس اُمت میں بار بار تفرقہ نہ برپا ہوتا رہے۔ نبی خواہ ’’ظلی‘‘ ہو یا ’’بروزی‘‘ اُمتی ہو یا صاحب شریعت اور صاحب کتاب، بہرحال جو شخص نبی ہوگا اور خدا کی طرف سے بھیجا ہوا ہوگا، اس کے آنے کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ اس کے ماننے والے ایک امت بنیں اور نہ ماننے والے کافر قرار پائیں۔ یہ تفریق اس حالت میں تو ناگزیر ہے جب کہ نبی کے بھیجے جانے کی فی الواقع ضرورت ہو۔ مگر جب اس کے آنے کی کوئی ضرورت باقی نہ رہے تو خدا کی حکمت اور اس کی رحمت سے یہ بات قطعی بعید ہے کہ وہ خواہ مخواہ اپنے بندوں کو کفر و ایمان کی کشمکش میں مبتلا کرے اور انہیں کبھی ایک امت نہ بننے دے۔ لہٰذا جو کچھ قرآن سے ثابت ہے اور جو کچھ سنت اور اجماع سے ثابت ہے، عقل بھی اس کو صحیح تسلیم کرتی ہے اور اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اب نبوت کا دروازہ بند ہی رہنا چاہئے۔
’’مسیح موعُود‘‘ کی حقیقت
نئی نبوت کی طرف بلانے والے حضرات عام طور پر ناواقف مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ احادیث میں ’’مسیح موعود‘‘ کے آنے کی خبر دی گئی ہے اور مسیح نبی تھے، اس لئے ان کے آنے سے ختم نبوت میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی بلکہ ختم نبوت بھی برحق اور اس کے باوجود مسیح موعود کا آنا بھی برحق۔
اس سلسلے میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’مسیح موعود‘‘ سے مراد حضرت عیسیٰ ؑابن مریم نہیں ہیں۔ ان کا تو انتقال ہوچکا۔ اب جس کے آنے کی خبر احادیث میں دی گئی ہے وہ مثیل مسیح، یعنی حضرت عیسیٰ کے مانند ایک مسیح ہے، اور وہ فلاں شخص ہے جو آچکا ہے۔ اس کا ماننا عقیدہ ختم نبوت کے خلاف نہیں ہے۔
اس فریب کا پردہ چاک کرنے کے لیے ہم یہاں پورے حوالوں کے ساتھ وہ مستند روایات نقل کیے دیتے ہیں جو اس مسئلہ کے متعلق حدیث کی معتبر ترین کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ ان احادیث کو دیکھ کر ہر شخص خود معلوم کرسکتا ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے کیا فرمایا تھا اور آج اس کو کیا بنایا جارہا ہے۔
احادیث درباب نزول عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام
(۱) عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والذی نفسی بیدہ لَیُوشِکَنَّ ان ینزلَ فیکم ابنُ مریم حَکما عدلا فیکسر الصلیب و یقتل الخنزیرَ وَیَضَعَ الحربَ و یَفیضَ المالَ حتی لایقبلَہ احدٌ حتٰی تکون السجدۃ الواحدۃ خیراً من الدنیا و مافیھا۔
(بخاری کتاب احادیث الانبیائ، باب نزول عیسیٰ ابن مریم۔ مسلم، باب بیان نزول عیسیٰ۔ ترمذی ابواب الفتن، باب فی نزول عیسیٰ۔ مسند احمد، مرویات ابی ہریرہؓ)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ضرور اتریں گے تمہارے درمیان ابن مریم حاکم عادل بن کر، پھر وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، اور خنزیر کو ہلاک کر دیں گے( کو توڑ ڈالنے اور خنزیر کو ہلاک کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ عیسائیت ایک الگ دین کی حیثیت سے ختم ہو جائے گی۔ دین عیسویں کی پوری عمارت اس عقیدے پر قائم ہے کہ خدا نے اپنےاکلوتے بیٹے (یعنی حضرت عیسیٰ) کو صلیب پر ’’لعنت‘‘ کی موت دی جس سے وہ انسان کے گناہ کا کفارہ بن گیا۔ اور انبیائ کی امتوں کے درمیان عیسائیوں کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے صرف عقیدے کو لیکر خدا کی پوری شریعت رد کر دی حتیٰ کہ خنزیر تک کو حلال کر لیا جو تمام انبیائ کی شریعتوں میں حرام رہا ہے پس جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آکر خود اعلان کر دیں گے کہ نہ میں خدا کا بیٹا ہوں، نہ میں نے صلیب پر جان دی، نہ میں کسی کے گناہ کا کفارہ بنا تو عیسائی عقیدے کے لیے سرے سے کوئی بنیاد ہی باقی نہ رہے گی۔ اسی طرح جب وہ بتائیں گے کہ میں نے تو نہ اپنے پیرووں کے لیے سور حلال کیا تھا اور نہ ان کو شریعت کی پابندی سے آزاد ٹھیرایا تھا، تو عیسائیت کی دوسری امتیازی خصوصیت کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔
اور جنگ کا خاتمہ کر دیں گے (دوسری روایت میں حرب کے بجائے جزیہ کا لفظ ہے، یعنی جزیہ ختم کر دیں گے)( دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اُس وقت ملتوں کے اختلافات ختم ہو کر سب لوگ ایک ہی ملت اسلام میں شامل ہو جائیں گے اور اس طرح نہ جنگ ہوگی اور نہ کسی پر جزیہ عائد کیا جائے گا۔ اسی بات پر آگے احادیث نمبر ۵ و ۱۵ دلالت کر رہی ہیں۔) اور مال کی وہ کثرت ہوگی کہ اس کا قبول کرنے والا کوئی نہ رہے اور (حالت یہ ہو جائے گی کہ لوگوں کے نزدیک خدا کے حضور) ایک سجدہ کرلینا دنیا و مافیہا سے زیادہ بہتر ہوگا۔
(۲) ایک اور روایت حضرت ابوہریرہؓ سے ان الفاظ میں ہے کہ لاتقوم الساعۃ حتی ینزل عیسی ابن مریم…… قیامت قائم نہ ہوگی جب تک نازل نہ ہولیں عیسیٰ ابن مریمؑ…. اور اس کے بعد وہی مضمون ہے جو اوپر کی حدیث میں بیان ہوا ہے۔
(بخاری، کتاب المظالم، باب کسر الصلیب۔ ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب فتنہ الدجال)
(۳) عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال کیف انتم اذانزل ابن مریم فیکم و امامکم منکم۔
(بخاری، کتاب احادیث الانبیائ، باب نزول عیسیٰؑ، بیان نزول عیسیٰ ؑ۔ مسند احمد، مرویات ابی ہریرۃؓ)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کیسے ہوگے تم جب کہ تمہارے درمیان ابن مریمؑ اتریں گے اور تمہارا امام اس وقت خود تم میں سے ہوگا۔(یعنی نماز میں حضرت عیسیٰ ؑ امامت نہیں کرائیں گے بلکہ مسلمانوں کا جو امام پہلے سے ہوگا اسی کے پیچھے وہ نماز پڑھیں گے۔)
(۴) عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ینزل عیسیٰ ابن مریم فیقتل الخنزیر و یمحواالصلیب و تجمع لہ الصلوٰۃ و یعطی المال حتی لا یقبل و یضع الخراج و ینزل الروحائ فیحج منھا، اویعتمر، اویجمعھمٰا۔
(مسند احمد، بسلسلہ مرویات ابی ہریرۃؓ۔ مسلم، کتاب الحج۔ باب جواز التمتع فی الحج و القران)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا عیسیٰ ابن مریمؑ نازل ہوں گے پھر وہ خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو مٹا دیں گے اور ان کے لیے نماز جمع کی جائے گی اور وہ اتنا مال تقسیم کریں گے کہ اُسے قبول کرنے والا کوئی نہ ہوگا اور وہ خراج ساقط کردیں گے اور روحائ (مدینہ سے ۳۵ میل کے فاصلے پر ایک مقام۔)کے مقام پر منزل کرکے وہاں سے حج یا عمرہ کریں گے یا دونوں کو جمع کریں گے، (راوی کو شک ہے کہ حضورؐ نے ان میں سے کونسی بات فرمائی تھی۔
(۵) عن ابی ھریرۃ (بعد ذکر خروج الدجال)فبینما ھم یعدون للقتال یسوون الصفوف اذا اقیمت الصلوۃ فینزل عیسیٰ ابن مریم فامّھم فاذارأہُ عدو اللہ یذوب کما یذوب الملح فی المائ فلوترکہ لانذاب حتی یھلک و لٰکن یقتلہٗ اللہ بیدہ فیریھم دمہ فی حربۃ۔
(مشکوٰۃ، کتاب الفتن، باب الملاحم، بحوالہ مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے (دجال کے خروج کا ذکر کرنے کے بعد حضورؐ نے فرمایا، اس اثنائ میں کہ مسلمان اس سے لڑنے کی تیاری کررہے ہوں گے، صفیں باندھ رہے ہوں گے اور نماز کے لیے تکبیر اقامت کہی جاچکی ہوگی کہ عیسیٰ ابن مریمؑ نازل ہو جائیں گے اور نماز میں مسلمانوں کی امامت کریں گے۔ اور اللہ کا دشمن (یعنی دجال) ان کو دیکھتے ہی اس طرح گھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام اس کو اُس کے حال ہی پر چھوڑ دیں تو وہ آپ ہی گُھل کر مر جائے۔ مگر اللہ اس کو ان کے ہاتھ سے قتل کرائے گا اور وہ اپنے نیزے میں اس کا خون مسلمانوں کو دکھائیں گے۔
(۶) عن ابی ھریرۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لیس بینی و بینہٗ نبی (یعنی عیسیٰ) و انہ نازل فاذارأیتموہ فاعرفوہ رجل مربوع الی الحمرۃ والبیاض بین ممصر تین کان رأسہ یقطروان لم یصبہ بلل فیقاتل الناس علی الاسلام فیدق الصلیب و یقتل الخنزیر و یضع الجزیۃ و یھلک اللہ فی زمانہ الملل کلھا الاالاسلام و یھلک المسیح الدجال فیمکث فی الارض اربعین سنۃ ثم یتوفی فیصلی علیہ المسلمون۔
(ابودائود، کتاب الملاحم، باب خروج الدجال۔ مسند احمد، مرویات ابوہریرہؓ)
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا میرے اور ان کے (یعنی عیسیٰ علیہ السلام) کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔ اور یہ کہ وہ اترنے والے ہیں، پس جب تم ان کو دیکھو تو پہچان لینا، وہ ایک میانہ قد آدمی ہیں، رنگ مائل بسرخی و سپیدی ہے، دو زرد رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے۔ان کے سر کے بال ایسے ہوں گے گویا اب ان سے پانی ٹپکنے والا ہے حالانکہ وہ بھیگے ہوئے نہ ہوں گے۔ وہ اسلام پر لوگوں سے جنگ کریں گے، صلیب کو پاش پاش کر دیں گے، خنزیر کو قتل کر دیں گے، جزیہ ختم کر دیں گے، اور اللہ ان کے زمانے میں اسلام کے سوا تمام ملتوں کو مٹا دے گا، اور وہ مسیح دجال کو ہلاک کر دیں گے، اور زمین میں وہ چالیس سال ٹھہریں گے پھر ان کا انتقال ہو جائے گا اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔
(۷) عن جابر بن عبداللہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فینزل عیسیٰ ابن مریم صلی اللہ علیہ وسلم فیقول امیرھم تعالیٰ فصل فیقول لا اِن بعضکم علی بعض امرائ تکرمۃ اللہ ھذہ الامۃ۔
(مسلم، بیان نزول عیسیٰ ابن مریم۔ مسند احمد بسلسلہ مرویات جابر بن عبداللہ)
حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ ….. پھرعیسیٰ ابن مریمؑ نازل ہوں گے۔ مسلمانوں کا امیر اُن سے کہے گا کہ آئیے، آپ نماز پڑھائیے، مگر وہ کہیں گے کہ نہیں، تم لوگ خود ہی ایک دوسرے کے امیر ہو(یعنی تمہارا امیر خود تمہی میں سے ہونا چاہیے۔) یہ وہ اس عزت کالحاظ کرتے ہوئے کہیں گے جو اللہ نے اُس اُمت کو دی ہے۔(واضح رہے کہ اس زمانے میں جن صاحب کو مثیل مسیح قرار دیا گیا ہے انہوں نے اپنی زندگی میں نہ حج کیا نہ عمرہ۔)
(۸) عن جابر بن عبداللہ (فی قصۃ ابن صیاد) فقال عمر بن الخطاب ائذن لی فاقتلہٗ یارسول اللہ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یکن ھوفلست صاحبہ، انما صاحبہ عیسیٰ ابن مریم علیہ الصلوۃ و السلام، و ان لا یکن فلیس لک ان تقتل رجلا من اھل العہد۔
(مشکوٰۃ، کتاب الفتن، باب قصہ ابن صیاد، بحوالہ شرح السنہ بغوی)
جابر بن عبداللہ(قصہ ابن صیاد کے سلسلہ میں) روایت کرتے ہیں کہ پھر عمر بن خطاب نے عرض کیا، یارسول اللہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اسے قتل کر دوں۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ وہی شخص (یعنی دجال) ہے تو اس کے قتل کرنےوالے تم نہیں ہو بلکہ اسے تو عیسیٰ ابن مریمؑ ہی قتل کریں گے۔ اور اگر یہ وہ شخص نہیں ہے تو تمہیں اہل عہد (یعنی ذمیوں) میں سے ایک آدمی کو قتل کر دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔
(۸) عن جابر بن عبداللہ (فی قصۃ الدجال) فاذاھم بعیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فتقام الصلوۃ فیقال لہ تَقَدَّمْ یا روح اللہ فیقول لیتقدم امامکم فلیصل بکم فاذاصلی صلوٰۃ الصبح خرجوا الیہ۔ قال فحین یری الکذاب ینماث کماینماث الملح فی المائ فیمشی الیہ فیقتلہٗ ان الشجرو الحجر ینادی یا روح اللہ ھٰذا الیھودی، فلایترک ممن کان یتبعہ احد الاقتلہ۔ (مسند احمد،بسلسلۂ روایات جابر بن عبداللہ)
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ (دجال کا قصہ بیان کرتے ہوئے نبیﷺ نے فرمایا: اس وقت یکایک عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام مسلمانوں کے درمیان آئیں گے۔ پھر نماز کھڑی ہوگی اور ان سے کہا جائے گا اے روح اللہ آگے بڑھیے، مگر وہ کہیں گے کہ نہیں، تمہارے امام ہی کو آگے بڑھنا چاہئے، وہی نماز پڑھائے۔ پھر صبح کی نماز سے فارغ ہو کر مسلمان دجال کے مقابلے پر نکلیں گے۔ فرمایا، جب وہ کذاب حضرت عیسیٰ ؑ کو دیکھے گا تو گھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔ پھر وہ اس کی طرف بڑھیں گے اور اسے قتل کر دیں گے اور حالت یہ ہوگی کہ درخت اور پتھر پکار اٹھیں گے کہ اے روح اللہ یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ دجال کے پیرووں میں سے کوئی نہ بچے گا جو قتل نہ کر دیا جائے۔
(۱۰) عن النواس بن سمعان (فی قصۃ الدجال فبینما ھوکذالک اذ بعث اللہ المسیح ابن مریم فینزل عند المنارۃ البیضائ شرقی دمشق بین مھروذتین واضعًا کفیہ علی اجنحۃ ملکین اذا طأطأرأسہ قطر و اذارفعہ تحدر منہ جمان کا للوئ لوئ فلایحل لکا فریجدریح نفسہ الامات و نفسہ ینتھی الی حیث ینتھی طرفہ فیطلبہ حتی یدرکہٗ بباب لد فیقتلہ۔
(مسلم، ذکر الدجال۔ ابودائود، کتاب الملاحم، باب خروج الدجال۔ ترمذی، ابواب الفتن، باب فی فتنۃ الدجال۔ ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب فتنۃ الدجال)
حضرت نواس بن سمعان کلابی (قصہ دجال بیان کرتے ہوئے) روایت کرتے ہیں۔ اس اثنا میں کہ دجال یہ کچھ کر رہا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریمؑ کو بھیج دے گا اور وہ دمشق کے مشرقی حصے، میں سفید مینار کے پاس زرد رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے، دو فرشتوں کے بازوئوں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے۔ جب وہ سر جھکائیں گے تو ایسا محسوس ہوگا کہ قطرے ٹپک رہے ہیں، اور جب سر اٹھائیں گے تو موتی کی طرح قطرے ڈھلکتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ان کے سانس کی ہوا جس کافر تک پہنچے گی۔ اور وہ ان کی حد نظر تک جائے گی۔ وہ زندہ نہ بچے گا۔ پھر ابن مریمؑ دجال کا پیچھا کریں گے اور لُد( واضح رہے کہ لُدّ (Lydda) فلسطین میں ریاست اسرائیل کے دارالسلطنت تل ابیب سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے اور یہودیوں نے وہاں بہت بڑا ہوائی اڈا بنا رکھا ہے۔)کے دروازے پر اسے جا پکڑیں گے اور قتل کر دیں گے۔
(۱۱) عن عبداللہ بن عمرو۔ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یخرج الدجال فی امتی فیمکث اربعین (لاادری اربعین یومًا اواربعین شھراً اواربعین عامًا) فیبعث اللہ عیسیٰ ابن مریم کانہٗ عروۃ ابن مسعود فیطلبلہ فیھلکہ ثم یمکث الناس سبع سنین لیس بین اثنین عداوۃ۔
(مسلم، ذکر الدجال)
عبداللہ بن عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دجال میری اُمت میں نکلے گا اور چالیس (میں نہیں جانتا چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال )(یہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کا اپنا قول ہے۔
) رہے گا۔پھر اللہ عیسیٰ ابن مریمؑ کو بھیجے گا۔ ان کا حلیہ عروہ بن مسعود (ایک صحابی) سے مشابہ ہوگا۔ وہ اس کا پیچھا کریں گے اور اُسے ہلاک کر دیں گے، پھر سات سال تک لوگ اُس حال میں رہیں گے کہ دو آدمیوں کے درمیان بھی عداوت نہ ہوگی۔
(۱۲) عن حذیفۃ بن اسید الغفاری قال اطلع النبی صلی اللہ علیہ وسلم علینا و نحن نتذاکر فقال ماتذکرون قالوا نذکر الساعۃ قال انھالن تقوم حتی ترون قبلہا عشراٰیات فذکر الدخان و الدجال و الدابہ و طلوع الشمس من مغربھا و نزول عیسیٰ ابن مریم و یاجوج و ما جوج و ثلثۃ خسوف، خسف بالمشرق، و خسف بالمغرب، وخسف بجزیرۃ العرب و اٰخرذالک نارتخرج من الیمن تطرد الناس الیٰ محشرھم۔
(مسلم: کتاب الفتن و اشراط الساعہ۔ ابودائود، کتاب الملاحم، باب امارات الساعہ)
حذیفہ بن اسید الغفاری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبیﷺ ہماری مجلس میں تشریف لائے اور ہم آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ آپؐ نے پوچھا کیا بات ہو رہی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا ہم قیامت کا ذکر کر رہے تھے۔ فرمایا وہ ہرگز قائم نہ ہوگی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں ظاہر نہ ہو جائیں۔ پھر آپؐ نے وہ دس نشانیاں یہ بتائیں (۱) دھواں،(۲) دجال، (۳)دابۃ الارض (۴) سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، (۵) عیسیٰ ابن مریمؑ کا نزول، (۶) یاجوج و ماجوج، (۷)تین بڑے خسف،(زمین دَھس جانا۔ (Landslide) ایک مشرق میں (۸) دوسرا مغرب میں (۹) تیسرا جزیرۃ العرب میں (۱۰) سب سے آخر میں ایک زبردست آگ جو یمن سے اٹھے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی۔
(۱۳) عن ثوبان مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من النبی صلی اللہ علیہ وسلم عصابتان من امتی احرزھما اللہ تعالیٰ من النار۔ عصابۃ تغزوا الھند، و عصابۃ تکون مع عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام
(نسائی، کتاب الجہاد۔ مسند احمد، بسلسلہ روایات ثوبان)
نبیﷺ کے آزاد کردہ غلام ثوبان روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا میری امت کے دو لشکر ایسے ہیں جن کو اللہ نے دوزخ کی آگ سے بچا لیا۔ ایک وہ لشکر جو ہندوستان پر حملہ کرے گا۔ دوسرا وہ جو عیسیٰ ابن مریمؑ کے ساتھ ہوگا۔
(۴۱) عن مجمع بن جاریہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقتل ابن مریم الدجال بباب لُدّ۔ (مسند احمد۔ ترمذی، ابواب الفتن)
مجمع بن جاریہ انصاری کہتے ہیں، میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ ابن مریمؑ دجال کو لُدّ کے دروازے پر قتل کریں گے۔
(۱۵) عن ابی امامۃ الباھلی (فی حدیث طویل فی ذکر الدجال) فبینما امامھم قد تقدم یصلی بھم الصبح اذنزل علیہم عیسیٰ ابن مریم فرجع ذالک الامام ینکص یمشی قھقریٰ لیقدم عیسیٰ فیضع عیسیٰ یدہٗ بین کتفیہ ثم یقول لہ تقدم فصل فانھالک اقیمت فیصلی بھم امامہم فاذاانصرف قال عیسیٰ علیہ السلام افتحواالباب فیفتح ورائ ہٗ الدجال و معہ سبعون الف یہودی کلّھم ذوسیف محلی و سباج فاذانظرالیہ الدجال ذاب کما یذوب الملح فی المائ و ینطلق ھارباً و یقول عیسیٰ ان لی فیک ضربۃ لن تسبقنی بھا فیدرکہ عندباب اللُّدِ الشرقی فیھزم اللہ الیھود….. وتملأالارض من المسلم کما یملأ الانائ من المائ و تکون الکلمۃ واحدۃ فلایعبد الا اللہ تعالیٰ۔ ( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب فتنہ الدجال)
ابو اُمامہ باہلی (ایک طویل حدیث میں دجال کا ذکرکرتے ہوئے) روایت کرتے ہیں کہ عین اس وقت جب مسلمانوں کا امام صبح کی نماز پڑھانے کے لئے آگے بڑھ چکا ہوگا عیسیٰ ابن مریمؑ ان پر اتریں گے۔ امام پیچھے پلٹے گا تاکہ عیسیٰ ؑ آگے بڑھیں، مگر عیسیٰ ؑ اس کے شانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہیں گے کہ نہیں تم ہی نماز پڑھائو کیونکہ یہ تمہارے لیے ہی کھڑی ہوئی ہے چنانچہ وہی نماز پڑھائے گا۔ سلام پھیرنے کے بعد عیسیٰ علیہ السلام کہیں گے کہ دروازہ کھولو، چنانچہ وہ کھولا جائے گا۔ باہر دجال۷۰ ہزار مسلح یہودیوں کے ساتھ موجود ہوگا۔ جونہی کہ عیسیٰ علیہ السلام پر اس کی نظر پڑے گی وہ اس طرح گھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے اور وہ بھاگ نکلے گا۔ عیسیٰ ؑ کہیں گے میرے پاس تیرے لیے ایک ایسی ضرب ہے جس سے تو بچ کر نہ جاسکے گا۔ پھر وہ اسے لُدّ کے مشرقی دروازے پر جالیں گے اور اللہ یہودیوں کو ہرا دے گا….. اور زمین مسلمانوں سے اس طرح بھر جائے گی جیسے برتن پانی سے بھر جائے۔ سب دنیا کا کلمہ ایک ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ ہوگی۔
(۱۶) عن عثمان بن ابی العاص قال سمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول….. وینزل عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام عندصلوٰۃ الفجر فیقول لہ امیرھم یاروح اللہ تقدم، صَلِّ، فیقول ھذالامۃ الامرائ بعضھم علیٰ بعض فیقدم امیرھم فیصلی فاذا قضیٰ صلوٰتہ اخذ عیسیٰ حربتہ فیذھب نحوالدجال فاذایراہ الدجال ذاب کما یذوب الرصاص فیضع حربتہٗ بین شندوبتہ فیقتلہٗ و ینھزم اصحابہ لیس یومئذ شئی یواری منھم احدًا حتی ان الشجرۃ لتقول یامومن ھٰذا کافر و یقول الحجر یا مومن ھٰذا کافر۔
(مسند احمد۔ طبرانی۔ حاکم)
عثمان بن ابی العاص کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے…. اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فجر کی نماز کے وقت اُتر آئیں گے۔ مسلمانوں کا امیر اُن سے کہے گا کہ اے روح اللہ آپ نماز پڑھائیے۔ وہ جواب دیں گے کہ اس اُمت کے لوگ خود ہی ایک دوسرے پر امیر ہیں۔ تب مسلمانوں کا امیر آگے بڑھ کر نماز پڑھائے گا۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر عیسیٰ ؑ اپنا حربہ لے کر دجال کی طرف چلیں گے۔ وہ جب ان کو دیکھے گا تو اس طرح پگھلے گا جیسے سیسہ پگھلتا ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام اپنے حربے سے اس کو ہلاک کر دیں گے اور اس کے ساتھی شکست کھا کر بھاگیں گے مگر کہیں انہیں چھپنے کو جگہ نہ ملے گی، حتیٰ کہ درخت پکاریں گے کہ اے مومن یہ کافر یہاں موجود ہے۔ اور پتھر پکاریں گے کہ اے مومن یہ کافر یہاں موجود ہے۔
(۱۷) عن سمرۃ بن جندب عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم (فی حدیث طویل) فیصبح فیہم عیسیٰ ابن مریم فیھزمہ اللہ و جنودہ حتی ان اجذم الحائط واصل الشجر لینادی یامومن ھٰذا کافر یستتربی فتعال اقتلہ۔ (مسند احمد۔ حاکم)
سمرہ بن جندب (ایک طویل حدیث میں) نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ پھر صبح کے وقت مسلمانوں کے درمیان عیسیٰ ابن مریمؑ آجائیں گے اور اللہ دجال اور اس کے لشکروں کو شکست دے گا یہاں تک کہ دیواریں اور درختوں کی جڑیں پکار اٹھیں گی کہ اے مومن یہ کافر میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، آ اور اسے قتل کر۔
(۱۸) عن عمران بن حصین ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لاتزال طائفۃ من امتی علی الحق ظاھرین علی من ناوأھم حتی یاتی امر اللہ تبارک و تعالیٰ و ینزل عیسیٰ بن مریم علیہ السلام (مسند احمد)
عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری اُمت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو حق پر قائم اور مخالفین پر بھاری ہوگا یہاں تک کہ اللہ تبارکو تعالیٰ کا فیصلہ آجائے گا اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نازل ہوجائیں۔
(۱۹) عن عائشہ (فی قصۃ الدجال) فینزل عیسیٰ علیہ السلام فیقتلہٗ ثم یمکث عیسیٰ علیہ الاسلام فی الارض اربعین سنۃ اماما عادلاً و حکما مقسطا۔ (مسند احمد)
حضرت عائشہؓ (دَجال کے قصے میں روایت کرتی ہیں: پھر عیسیٰ علیہ السلام اُتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ اس کے بعد عیسیٰ علیہ السلام چالیس سال تک زمین میں ایک امام عادل اور حاکم منصف کی حیثیت سے رہیں گے۔
(۲۰) عن سفینۃ مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (فی قصۃ الدجال) فینزل عیسیٰ علیہ السلام فیقتلہ اللہ تعالیٰ عند عقبۃ افیق۔ (مسند احمد)
رسول اللہﷺ کے آزاد کردہ غلام سفینہ (دجال کے قصے میں) روایت کرتے ہیں: پھر عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے اور اللہ تعالیٰ دجال کو افیق کی گھاٹی(افیق، جسے آج کل فِیق کہتے ہیں، شام اور اسرائیل کی سرحد پر موجودہ ریاست شام کا آخری شہر ہے۔ اس کے آگے مغرب کی جانب چند میل کے فاصلہ پر طبریہ نامی جھیل ہے جس میں سے دریائے اُردن نکلتا ہے، اور اس کے جنوب مغرب کی طرف پہاڑوں کے درمیان ایک نشیبی راستہ ہے جو تقریباً ڈیڑھ دو ہزار فیٹ تک گہرائی میں اُتر کر اس مقام پر پہنچتا ہے جہاں سے دریائے اُروُن طبریہ میں سے نکلتا ہے۔ اسی پہاڑی راستے کو عقبہ افیق (افیق کی گھاٹی) کہتے ہیں۔
) کے قریب ہلاک کردے گا۔
(۲۱) عن حذیفۃ (فی ذکر الدجال) فلما قاموایصلون نزل عیسیٰ بن مریم امامھم فصلی بھم فلما انصرف قال ھٰکذا فرجوا بینی و بین عدو اللہ…. و یسلط اللہ علیھم المسلمین فیقتلو نھم حتی ان الشجر و الحجر لینادی یا عبداللہ یا عبدالرحمن یا مسلم ھٰذا لیھودی اقتلہ فیفینھم اللہ تعالیٰ و یظھر المسلمون فیکسرون الصلیب و یقتلون الخنزیر و یضعون الجزیۃ۔
(مستدرک حاکم۔ مسلم میں بھی یہ روایت اختصار کے ساتھ آئی ہے۔ اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری جلد ۶ص۴۵۰ میں اسے صحیح قرار دیا ہے)
حضرت حذیفہ بن یمان (دجال کا ذکر کرتے ہوئے) بیان کرتے ہیں: پھر جب مسلمان نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوں گے تو ان کی آنکھوں کے سامنے عیسیٰ ابن مریمؑ اتر آئیں گے اور وہ مسلمانوں کو نماز پڑھائیں گے پھر سلام پھیرنے کے بعد لوگوں سے کہیں گے کہ میرے اور اس دشمن خدا کے درمیان سے ہٹ جائو….. اور اللہ دجال کے ساتھیوں پر مسلمانوں کو مسلط کردے گا اور مسلمان انہیں خوب ماریں گے یہاں تک کہ درخت اور پتھر پکاراٹھیں گے کہ اے عبداللہ، اے عبدالرحمان، اے مسلمان، یہ رہا ایک یہودی، مار اسے۔ اس طرح اللہ ان کو فنا کر دے گا اور مسلمان غالب ہوں گے اور صلیب توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کردیں گے اور جزیہ ساقط کر دیں گے۔
یہ جملہ ۲۱ روایات میں جو ۱۴ صحابیوں سے صحیح سندوں کے ساتھ حدیث کی معتبر ترین کتابوں میں وارد ہوئی ہیں۔ اگرچہ ان کے علاوہ دوسری بہت سی احادیث میں بھی یہ ذکر آیا ہے، لیکن طول کلام سے بچنے کے لیے ہم نے ان سب کو نقل نہیں کیا ہے بلکہ صرف وہ روایتیں لے لی ہیں جو سند کے لحاظ سے قوی تر ہیں۔
ان احادیث سے کیا ثابت ہوتا ہے؟
جو شخص بھی ان احادیث کو پڑھے گا وہ خود دیکھ لے گا کہ ان میں کسی ’’مسیح موعود‘‘ یا مثیل مسیح‘‘ یا ’’بروزِ مسیح‘‘ کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ نہ ان میں اس اَمر کی کوئی گنجائش ہے کہ کوئی شخص اس زمانے میں کسی ماں کے پیٹ اور کسی باپ کے نطفے سے پیدا ہو کر یہ دعویٰ کردے کہ میں ہی وہ مسیح ہوں۔ جس کے آنے کی سیدنا محمدﷺ نے پیشن گوئی فرمائی تھی۔ یہ تمام حدیثیں صاف اور صریح الفاظ میں ان عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے کی خبر دے رہی ہیں جو اب سے دو ہزار سال پہلے باپ کے بغیر حضرت مریمؑ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ اس مقام پر یہ بحث چھیڑنا بالکل لاحاصل ہے ہے کہ وہ وفات پاچکے ہیں یا زندہ ہیں موجود ہیں۔ بالفرض وہ وفات ہی پا چکے ہوں تو اللہ انہیں زندہ کرکے اٹھا لانے پر قادر ہے۔(جو لوگ اس بات کا انکار کرتے ہیں انہیں سورۂ بقرہ کی آیت ۲۵۹ ملاحظہ فرما لینی چاہئے جس میں اللہ تعالیٰ صاف الفاظ میں فرماتا ہے کہ اس نے اپنے ایک بندے کو ۱۰۰ برس تک مردہ رکھا اور پھر زندہ کر دیا فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِاَئۃَ عَامٍ ثُمَّ بعثہٗ) وگرنہ یہ بات اللہ کی قدرت سے ہرگز بعید نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی بندے کو اپنی کائنات میں کہیں ہزار ہا سال تک زندہ رکھے اور جب چاہے دنیا میں واپس لے آئے۔ بہرحال اگر کوئی شخص حدیث کو مانتا ہو تو اسے یہ ماننا پڑے گا کہ آنے والے وہی عیسیٰ ابن مریمؑ ہوں گے۔ اور اگر کوئی شخص حدیث کو نہ مانتا ہو تو وہ سرے سے کسی آنے والے کا قائل ہی نہیں ہوسکتا، کیونکہ آنے والے کی آمد کا عقیدہ احادیث کے سوا کسی اور چیز پر مبنی نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک عجیب مذاق ہے کہ آنے والے کی آمد کا عقیدہ تو لے لیا جائے۔ احادیث سے اور پھر انہی احادیث کی اس تصریح کو نظر انداز کردیا جائے کہ وہ آنے والے عیسیٰ ابن مریمؑ ہوں گے نہ کہ کوئی مثیل مسیح۔
دوسری بات جو اتنی ہی وضاحت کے ساتھ ان احادیث سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا یہ دوبارہ نزول نبی مقرر ہو کر آنے والے شخص کی حیثیت سے نہیں ہوگا۔ نہ ان پر وحی نازل ہوگی، نہ وہ خدا کی طرف سے کوئی نیا پیغام یا نئے احکام لائیں گے، نہ وہ شریعت محمدی میں کوئی اضافہ یا کوئی کمی کریں گے، نہ ان کو تجدید دین کے لیے دنیا میں لایا جائے گا، نہ وہ آکر لوگوں کو اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دیں گے، اور نہ وہ اپنے ماننے والوں کی ایک الگ اُمت بنائیں گے۔(علمائ اسلام نے اس مسئلے کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ علامہ تفتازانی (۷۲۲۔ ۷۹۲) شرح عقائد نسفی میں لکھتے ہیں:
ثبت انہ اٰخر الانبیائ….. فان قیل قدروی فی الحدیث نزول عیسیٰ علیہ السلام بعدہ قلنا نعم لٰکنہ یتابع محمداً علیہ السلام لان شریعتہٗ قد نسخت فلا یکون الیہ وحی ولا نصب احکام بل یکون خلیفۃ رسول اللہ علیہ السلام۔ (طبع مصر، ص۱۳۵)
یہ ثابت ہے کہ محمدﷺ آخری نبی ہیں….. اگر کہا جائے کہ آپ کے بعد عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا ذکر احادیث میں آیا ہے، تو ہم کہیں گے کہ ہاں، آیا ہے، مگر وہ محمدﷺ کے تابع ہوں گے، کیونکہ ان کی شریعت تو منسوخ ہوچکی ہے اس لیے نہ ان کی طرف وحی ہوگی اور نہ وہ احکام مقرر کریں گے، بلکہ وہ رسول اللہﷺ کے نائب کی حیثیت سے کام کریں گے۔
اور یہی بات علامہ آلوسی تفسیر روح المعانی میں کہتے ہیں:
ثم انہ علیہ السلام حین ینزل باق علیہ نبوتہ السابقۃ لم یعزل عنہا بحال لٰکنہ لا یتعبد بھا انسخھافی حقہ و حق غیرہ و تکلیفہ باحکام ھٰذہ الشریعۃ اصلاً و فرعًا فلا یکون الیہ علیہ السلام وحی ولا نصب احکام بل یکون خلیفۃ الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و حاکما من حکام ملتہ بین امتہٖ۔ (جلد ۲۲۔ص۳۲)
پھر، عیسیٰ علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو وہ اپنی سابق نبوت پر باقی ہوں گے، بہرحال اس سے معزول تو نہ ہو جائیں گے، مگر وہ اپنی پچھلی شریعت کے پیرونہ ہوں گے کیوں کہ وہ ان کے اور دوسرے سب لوگوں کے حق میں منسوخ ہو چکی ہے، اور اب وہ اصول و فروغ میں اس شریعت کی پیروی پر مکلف ہوں گے، لہٰذا ان پر نہ اب وحی آئے گی اور نہ انہیں احکام مقرر کرنے کا اختیار ہوگا، بلکہ وہ رسول اللہﷺ کے نائب اور آپ کی امت میں ملت محمدیہ کے حاکموں میں سے ایک حاکم کی حیثیت سے کام کریں گے۔
امام رازی اس بات کو اور زیادہ وضاحت کے ساتھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
انتہائ الانبیائ الی مبعث محمد صلی اللہ علیہ وسلم فعند مبعثہٖ انتہت تلک المدۃ فلایبعد ان یصیر (ای عیسیٰ ابن مریم) بعد نزولہ تبعًا لمحمد۔ (تفسیر کبیر۔ ج۳۔ص۳۴۳)
انبیائ کا دور محمدﷺ کی بعثت تک تھا۔ جب آپ مبعوث ہوگئے تو انبیائ کی آمد کا زمانہ ختم ہوگیا۔ اب یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ نازل ہونے کے بعد محمدﷺ کے تابع ہوں گے۔)وہ صرف ایک کار خاص کے لیے بھیجے جائیں گے، اور وہ یہ ہوگا کہ دجال کے فتنے کا استیصال کر دیں۔ اس غرض کے لیے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ایسے طریقے سے نازل ہوں گے کہ جن مسلمانوں کے
نقشہ نمبر۱
درمیان ان کانزول ہوگا انہیں اس امر میں کوئی شک نہ رہے گا کہ یہ عیسیٰ ابن مریمؑ ہی ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئیوں کے مطابق ٹھیک وقت پر تشریف لائے ہیں۔ وہ آکر مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہو جائیں گے، جو بھی مسلمانوں کا امام اس وقت ہوگا اُسی کے پیچھے نماز پڑھیں گے، اور جو بھی اس وقت مسلمانوں کا امیر ہوگا اُسی کو آگے رکھیں گے، تاکہ اس شبہ کی کوئی ادنیٰ سی گنجائش بھی نہ رہے کہ وہ اپنی سابق پیغمبرانہ حیثیت کی طرح اب پھر پیغمبری کے فرائض انجام دینے کے لیے واپس آئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی جماعت میں اگر خدا کا پیغمبر موجود ہو تو نہ اس کا کوئی امام({ FR 6547 }) دوسرا شخص ہوسکتا ہے اور نہ امیر۔ پس جب وہ مسلمانوں کی جماعت میں آکر محض ایک فرد کی حیثیت سے شامل ہوں گے تو یہ گویا خود بخود اس امر کا اعلان ہوگا کہ وہ پیغمبر کی حیثیت سے تشریف نہیں لائے ہیں، اور اس بنا پر ان کی آمد سے مہر نبوت کے ٹوٹنے کا قطعاً کوئی سوال پیدا نہ ہوگا۔
پیمانہ بحساب میل
ان کا آنا بلاتشبیہ اسی نوعیت کا ہوگا جیسے ایک صدر ریاست کے دَور میں کوئی سابق صدر آئے اور وقت کے صدر کی ماتحتی میں مملکت کی کوئی خدمت انجام دے۔ ایک معمولی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ کہ ایک صدر کے دور میں کسی سابق صدر کے محض آجانے سے آئین نہیں ٹوٹتا البتہ دو صورتوں میں آئین کی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔ ایک یہ کہ سابق صدر اگر پھر سے فرائض صدارت سنبھالنے کی کوشش کرے۔ دوسرے یہ کہ کوئی شخص اس کی سابق صدارت کا بھی انکار کر دے، کیونکہ یہ اُن تمام کاموں کے جواز کو چیلنج کرنے کا ہم معنی ہوگا جو اس کے دَور صدارت میں انجام پائے تھے۔ ان دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت بھی نہ ہو تو بجائے خود سابق صدر کی آمد آئینی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتی۔ یہی معاملہ حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا بھی ہے کہ ان کے محض آجانے سے ختم نبوت نہیں ٹوٹتی۔ البتہ اگر وہ آکر پھر نبوت کا منصب سنبھال لیں اور فرائض نبوت انجام دینے شروع کردیں، یا کوئی شخص ان کی سابق نبوت کا بھی انکار کر دے تو اس سے اللہ تعالیٰ کے آئین نبوت کی خلاف ورزی لازم آئے گی۔ احادیث نے پوری وضاحت کے ساتھ ان دونوں صورتوں کا سدباب کر دیا ہے۔ ایک طرف وہ تصریح کرتی ہیں کہ محمدﷺ کے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔ اور دوسری طرف وہ خبر دیتی ہیں کہ عیسیٰ ابن مریمؑ دوبارہ نازل ہوں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ ان کی یہ آمد ثانی منصب نبوت کے فرائض انجام دینے کے لیے نہ ہوگی۔
اسی طرح ان کی آمد سے مسلمانوں کے اندر کفر و ایمان کا بھی کوئی نیا سوال پیدا نہ ہوگا۔ ان کی سابقہ نبوت پر تو آج بھی اگر کوئی ایمان نہ لائے تو کافر ہو جائے۔ محمدﷺ خود ان کی اُس نبوت پر ایمان رکھتے تھے اور آپ کی ساری امت ابتدا سے ان کی مومن ہے۔ یہی حیثیت اس وقت بھی ہوگی۔ مسلمان کسی تازہ نبوت پر ایمان نہ لائیں گے بلکہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی سابقہ نبوت ہی پر ایمان رکھیں گے جس طرح آج رکھتے ہیں۔ یہ چیز نہ آج ختم نبوت کے خلاف ہے نہ اس وقت ہوگی۔
آخری بات جو ان احادیث سے اور بکثرت دوسری احادیث سے بھی معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دجال، جس کے فتنہ عظیم کا استیصال کرنے کے لیے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو بھیجا جائے گا،یہودیوں میں سے ہوگا اور اپنے آپ کو ’’مسیح‘‘ کی حیثیت سے پیش کرے گا۔ اس معاملہ کی حقیقت کوئی شخص نہیں سمجھ سکتا جب تک وہ یہودیوں کی تاریخ اور ان کے مذہبی تصورات سے واقف نہ ہو۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد جب بنی اسرائیل پے درپے تنزل کی حالت میں مبتلا ہوتے چلے گئے، یہاں تک کہ آخر کار بابل اور اسیریا کی سلطنتوں نے ان کوغلام بنا کر زمین میں تتر بتر کر دیا تو انبیائے بنی اسرائیل نے ان کو خوشخبری دینی شروع کی کہ خدا کی طرف سے ایک ’’مسیح‘‘ آنے والا ہے جو ان کو اس ذلت سے نجال دلائے گا۔ ان پیشن گوئیوں کی بنائ پر یہودی ایک ایسے مسیح کی آمد کے متوقع تھے جو بادشاہ ہو۔ لڑ کر ملک فتح کرے، بنی اسرائیل کو ملک ملک سے لاکر فلسطین میں جمع کر دے، اور ان کی ایک زبردست سلطنت قائم کردے۔ لیکن ان کی ان توقعات کے خلاف جب حضرت عیسیٰ ابن مریم ؑ خدا کی طرف سے مسیح ہو کر آئے اور کوئی لشکر ساتھ نہ لائے تو یہودیوں نے ان کی مسیحیت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں ہلا کرنے کے درپے ہوگئے۔ اس وقت سے آج تک دنیا بھر کے یہودی اس مسیح موعود (Promised Messiah) کے منتظر ہیں جس کے آنے کی خوشخبریاں ان کو دی گئی تھیں۔ ان کا لٹریچر اس آنے والے دَور کے سہانے خوابوں سے بھرا پڑا ہے۔ تلمود اور ربیوں کے ادبیات میں اس کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے اس کی خیالی لذت کے سہارے صدیوں سے یہودی جی رہے ہیں اور یہ امید لیے بیٹھے ہیں کہ یہ مسیح موعود ایک زبردست جنگی و سیاسی لیڈر ہوگا جو دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا علاقہ (جسے یہودی اپنی میراث کا ملک سمجھتے ہیں) انہیں واپس دلائے گا۔ اور دنیا کے گوشے گوشے سے یہودیوں کو لاکر اس ملک میں پھر سے جمع کر دے گا۔
اب اگر کوئی شخص مشرق وسطیٰ کے حالات پر ایک نگاہ ڈالے اور نبیﷺ کی پیشین گوئیوں کے پس منظر میں ان کو دیکھے تو وہ فوراً یہ محسوس کرے گا کہ اُس دجال اکبر کے ظہور کے لیے اسٹیج بالکل تیار ہو چکا ہے جو حضورؐ کی دی ہوئی خبروں کے مطابق یہودیوں کا ’’مسیح موعود‘‘ بن کر اٹھے گا۔ فلسطین کے بڑے حصے سے مسلمان بے دخل کیے جاچکے ہیں اور وہاں اسرائیل کے نام سے ایک یہودی ریاست قائم کر دی گئی ہے۔ اس ریاست میں دنیا بھر کے یہودی کھچ کھچ کرچلے آرہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے اس کو ایک زبردست جنگی طاقت بنا دیا ہے۔ یہودی سرمایے کی بے پایاں امداد سے یہودی سائنس داں اور ماہرین فنون اس کو روز افزوں ترقی دیتے چلے جارہے ہیں۔ اور اس کی یہ طاقت گرد و پیش کی مسلمان قوموں کے لیے ایک خطرہ عظیم بن گئی ہے۔ اس ریاست کے لیڈروں نے اپنی اس تمنا کو کچھ چھپا کر نہیں رکھا ہے کہ وہ اپنی ’’میراث کا ملک‘‘ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مستقبل کی یہودی سلطنت کا جو نقشہ وہ ایک مدت سے کھلم کھلا شائع کر رہے ہیں اسے اگلے صفحے پر ملاحظہ فرمائیے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پورا شام پورا لبنان، پورا اُردن اور تقریباً سارا عراق لینے کے علاوہ ٹرکی سے اسکندرون، مصر سے سینا اور ڈیلٹا کا علاقہ اور سعودی عرب سے بالائی حجاز و نجد کا علاقہ لینا چاہتے ہیں جس میں مدینہ منورہ بھی شامل ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ کسی عالمگیر جنگ کی ہڑبونگ سے فائدہ اٹھا کر وہ ان علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے اور ٹھیک اس موقع پر وہ دجال اکبر ان کا مسیح موعود بن کر اٹھے گا جس کے ظہور کی خبر دینے ہی پر نبیﷺ نے اکتفا نہیں فرمایا ہے بلکہ یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس زمانے میں مسلمانوں پر مصائب کے ایسے پہاڑ ٹوٹیں گے کہ ایک دن ایک سال کے برابر محسوس ہوگا۔ اسی بنا پر آپ فتنہ مسیح دجال سے خود بھی خدا کی پناہ مانگتے تھے اور اپنی امت کو بھی پناہ مانگنے کی تلقین فرماتے تھے۔
اس مسیح دجال کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کسی مثیل مسیح کو نہیں بلکہ اُس اصلی مسیح کو نازل فرمائے گا جسے دو ہزار برس پہلے یہودیوں نے ماننے سے انکار کر دیا تھا اور جسے وہ اپنی دانست میں صلیب پر چڑھا کر ٹھکانے لگا چکے تھے۔ اس حقیقی مسیح کے نزول کی جگہ ہندوستان یا افریقہ یا امریکہ میں نہیں بلکہ دمشق میں ہوگی کیونکہ یہی مقام اس وقت عین محاذ جنگ پر ہوگا۔ براہ کرم صفحہ ۶۸ پر نقشہ ملاحظہ فرمائیے اس میں آپ دیکھیں گے کہ اسرائیل کی سرحد سے دمشق بمشکل ۵۰،۶۰ میل کے فاصلے پر ہے۔ پہلے جو احادیث ہم نقل کر آئے ہیں ان کا مضمون اگر آپ کو یاد ہے تو آپ کو یہ سمجھنے میں کوئی زحمت نہ ہوگی کہ مسیح دجال ۷۰ ہزار یہودیوں کا لشکر لے کر شام میں گھسے گا اور دمشق میں جا پہنچے گا۔ ٹھیک اس نازک موقعہ پر دمشق کے مشرقی حصے میں ایک سفید مینار کے قریب حضرت عیسیٰ ابن مریمؑ صبح دم نازل ہوں گے۔ اور نماز فجر کے بعد مسلمانوں کو اس کے مقابلے پر لے کر نکلیں گے۔ ان کے حملے سے دجال پسپا ہو کر اَفیق کی گھاٹی سے (ملاحظہ ہو حدیث نمبر ۲۱) اسرائیل کی طرف پلٹے گا اور وہ اس کا تعاقب کریں گے۔ آخر کار لُد کے ہوائی اڈے پر پہنچ کر وہ ان کے ہاتھ سے مارا جائے گا (حدیث نمبر ۱۰۔ ۱۴۔۱۵) اس کے بعد یہودی چن چن کر قتل کیے جائیں گے اورملت یہود کا خاتمہ ہو جائے گا (حدیث نمبر ۹۔۱۵۔۲۱) عیسائیت بھی حضرت عیسیٰ کی طرف سے اظہار حقیقت ہو جانے کے بعد ختم ہو جائے گی (حدیث نمبر ۱۔۲۔۴۔۶) اور تمام ملتیں ایک ہی ملت مسلمہ میں ضم ہو جائیں گی۔ ( حدیث نمبر ۶۔۱۵)
یہ ہے وہ حقیقت جو کسی اشتباہ کے بغیر احادیث میں صاف نظر آتی ہے۔ اس کے بعد اس امر میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے کہ ’’مسیح موعود‘‘ کے نام سے جو کاروبار ہمارے ملک میں پھیلایا گیا ہے وہ ایک جعل سازی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔
اس جعل سازی کا سب سے زیادہ مضحکہ انگیز پہلو یہ ہے کہ جو صاحب اپنے آپ کو ان پیشین گوئیوں کا مصداق قرار دیتے ہیں انہوں نے خود عیسیٰ ابن مریم بننے کے لیے یہ دلچسپ تاویل فرمائی ہے۔
اس نے (یعنی اللہ تعالیٰ نے) براہین احمدی کے تیسرے حصے میں میرا نام مریم رکھا۔ پھر جیسا کہ براہین احمدیہ سے ظاہر ہے، دو برس تک صفت مریمیت میں میں نے پرورش پائی….. پھر….. مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارے کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا، اور آخر کئی مہینے کے بعد، جو دس مہینے سے زیادہ نہیں، بذریعہ اُس الہام کے جو سب سے آخر براہین احمدیہ کے حصہ چہارم میں درج ہے، مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا۔ پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔
(کشتی نوح ص ۸۷۔۸۸۔۸۹)
یعنی پہلے مریم بنے، پھر خود ہی حاملہ ہوئے، پھر اپنے پیٹ سے آپ عیسیٰ ابن مریمؑ بن کر تولد ہوگئے۔ اس کے بعد یہ مشکل پیش آئی کہ عیسیٰ ابن مریم کا نزول تو احادیث کی رُو سے دمشق میں ہونا تھا جو کئی ہزار برس سے شام کا ایک مشہور و معروف مقام ہے اور آج بھی دنیا کے نقشے پر اسی نام سے موجود ہے۔ یہ مشکل ایک دوسری پر لطف تاویل سے یوں رفع کی گئی۔
واضح ہو کہ دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر منجانب اللہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس جگہ ایسے قصبے کا نام دمشق رکھا گیا ہے جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی الطبع اور یزید پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں۔ یہ قصبہ قادیان بہ وجہ اس کے کہ اکثر یزیدی الطبع لوگ اس میں سکونت رکھتے ہیں دمشق سے ایک مشابہت اور مناسبت رکھتا ہے۔ (حاشیہ ازالہ اوہام ص ۶۳ تا ۷۳)
پھر ایک اور الجھن یہ باقی رہ گئی کہ احادیث کی رو سے ابن مریم کو ایک سفید منارہ کے پاس اترنا تھا۔ چنانچہ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ مسیح صاحب نے آکر اپنا منارہ خود بنوا لیا۔ اب اسے کون دیکھتا ہے کہ احادیث کی رو سے منارہ وہاں ابن مریم کے نزول سے پہلے موجود ہونا چاہئے تھا، اور یہاں وہ مسیح موعود کی تشریف آوری کے بعد تعمیر کیا گیا۔
ان تاویلات کو جو شخص بھی کھلی آنکھوں سے دیکھے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ جھوٹے بہروپ (false impersonation)کا صریح ارتکاب ہے جو علی الاعلان کیا گیا ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭
زبان: اُردو
صفحات: 52
اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، منصورہ ملتان روڈ، لاہور۔