اسلامی تہذیب اور اس کے اُصول ومبادی

ریڈ مودودی ؒ   کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

عرضِ ناشر

جدید تعلیم یافتہ حضرات کی ایک بڑی تعداد اسلامی تہذیب کے بارے میں بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ کچھ اسے اسلامی ثقافت کے ہم معنی سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے مسلمانوں کی عادات و رسومات کا مجموعہ سمجھتے ہیں۔ بہت کم ایسے حضرات ہیں جو لفظ ’’تہذیب‘‘ کا صحیح مفہوم سمجھتے ہیں، اور اس سے بھی کم وہ حضرات ہیں جو ’’اسلامی تہذیب‘‘ کا صحیح مفہوم سمجھتے ہیں۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒنے اسی اُلجھے ہوئے جدید تعلیم یافتہ ذہن کو سامنے رکھ کر اپنے مخصوص علمی اور تحقیقی انداز میں اس موضوع پر قلم اُٹھایا ہے۔ آپ نے نہ صرف ان تمام غلط فہمیوں کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے جو ان ذہنوں میں موجود ہیں بلکہ ایجابی طور پر اسلامی تہذیب کو نہایت واضح اور منقح صورت میں پیش کیا ہے۔
اپنے بلند پایہ مضامین کی وجہ سے یہ کتاب ملک و بیرون ملک کے علمی حلقوں سے خراجِ تحسین حاصل کر چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف یونی ورسٹیوں کے طلبہ خصوصاً ایم۔اے اسلامیات و فلسفہ کے طلبہ اس سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔
اس کتاب کا پہلا ایڈیشن مولانا موصوف کے دُوسرے دورِاسیری (۱۹۵۵ء) میں نظر ثانی کے بغیر شائع کیا گیا تھا۔ آپ کی رہائی کے بعد ۱۹۶۰ء اور ۱۹۶۲ء میں دوسرا اور تیسرانظر ثانی شدہ ایڈیشن شائع کیا گیا۔ اب اس کتاب کا یہ ایڈیشن آفسٹ کی نفیس طباعت کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔
ہمیں اُمید ہے کہ بلند پایہ کتب کے شائقین اسے پسند فرمائیں گے۔
منیجنگ ڈائریکٹر
اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ، لاہور

مقدمہ

مغربی مصنّفین اور ان کے اثر سے مشرقی اہلِ علم کا بھی ایک بڑا گروہ یہ رائے رکھتا ہے کہ اسلام کی تہذیب اپنے ماقبل کی تہذیبوں اور خصوصاً یونانی و رُومی تہذیب سے ماخوذ ہے اور وہ ایک جداگانہ تہذیب صرف اس وجہ سے بن گئی ہے کہ عربی ذہنیت نے اس پرانے مواد کو ایک نئے اسلوب سے ترکیب دے کر اس کی ظاہری شکل و صورت بدل دی ہے۔ یہی نظریہ ہے جس کی بِنا پر یہ لوگ اسلامی تہذیب کے عناصرِ ترکیبی ایرانی، بابلی، سریانی، فینیقی، مصری، یونانی اور رومی تہذیبوں میں تلاش کرتے ہیں اور پھر عربی خصائص میں اس ذہنی عامل کا سراغ لگاتے ہیں جس نے ان تہذیبوں سے اپنے ڈھب کا مسالا لے کر اسے اپنے ڈھنگ پر ترتیب دیا۔
غلط فہمی
لیکن یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے۔ میں اس حقیقت سے انکار نہیں کرتا کہ ہر زمانے میں انسان کا حال اس کے ماضی سے متاثر ہوتا ہے اور ہر نئی تعمیر میں پچھلی تعمیروں کے مواد سے کام لیا جاتا ہے، مگر میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسلامی تہذیب اپنی ذات و جوہر میں خالص اسلامی ہے اور کسی غیر اسلامی مؤثر کے اثر کا اس میں ذرّہ برابر دخل نہیں ہے، البتہ عرضی امور میں عربی ذہنیت، عربی روایات اور ماقبل اور مابعد کی تہذیبوں کے اثرات ضرور داخل ہو گئے ہیں۔ عمارت میں ایک چیز تو اس کا نقشہ، اس کا مخصوص طرزِ تعمیر، اس کا مقصد اور اس مقصد کے لیے اس کا مناسب و مطابق ہونا ہے، اور یہی اصل و اساس ہے۔ دوسری چیز اس کا رنگ روغن، اس کے نقش و نگار، اس کی زینت و آرائش ہے، اور یہ ایک جزوی و فروعی چیز ہے۔ پس جہاں تک اصل و اساس کا تعلق ہے، اسلامی تہذیب کا قصر کلیتاً اسلام کی اپنی تعمیر کا نتیجہ ہے۔ اس کا نقشہ اپنا ہے، کسی دوسرے نقشے کی مدد اس میں نہیں لی گئی ہے۔ اس کا طرزِ تعمیر خود اسی کا ایجاد کردہ ہے، کسی دوسرے نمونے کی نقل اس میں نہیں کی گئی ہے۔ اس کا مقصدِ تعمیر نرالا ہے، کوئی دوسری عمارت اس مقصد کے لیے نہ اس سے پہلے تعمیر کی گئی اور نہ اس کے بعد۔ اسی طرح اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جس قسم کی تعمیر ہونی چاہیے تھی، اسلامی تہذیب ٹھیک ویسی ہی ہے۔ اس مقصد کے لیے جو کچھ اس نے تعمیر کر دیا اس میں کوئی بیرونی مہندس نہ ترمیم کی قدرت رکھتا ہے اور نہ اضافے کی۔ باقی رہے جزئیات و فروع، تو اسلام نے ان میں بھی دوسروں سے بہت کم استفادہ کیا ہے، حتیٰ کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بھی بیش تر اسلام کے اپنے ہیں۔ البتہ مسلمانوں نے دوسروں سے رنگ و روغن، نقش و نگار اور زینت و آرائش کے سامان لے کر اس میں اضافے کر دیے اور وہی دیکھنے والوں کو اتنے نمایاں نظر آئے کہ انھوں نے پوری عمارت پر نقل کا حکم لگا دیا۔
تہذیب کا مفہوم
اس بحث کا فیصلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے اس سوال کا تصفیہ ہونا ضروری ہے کہ تہذیب کس چیز کو کہتے ہیں؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی قوم کی تہذیب نام ہے اس کے علوم وآداب، فنونِ لطیفہ، صنائع و بدائع، اطوارِمعاشرت، اندازِ تمدن اور طرزِ سیاست کا۔مگر حقیقت میں یہ نفسِ تہذیب نہیںہیں بلکہ تہذیب کے نتائج و مظاہر ہیں۔تہذیب کی اصل نہیں ہیں، شجرِتہذیب کے برگ و بار ہیں۔ کسی تہذیب کی قدر و قیمت ان ظاہری صورتوں اور نمائشی ملبوسات کی بنیاد پر متعین نہیں کی جا سکتی۔ ان سب کو چھوڑ کر ہمیں اس کی روح تک پہنچنا چاہیے اور اس کے اساسِ اصول کا تجسس کرنا چاہیے۔

تہذیب کے عناصرِ ترکیبی
اس نقطۂ نظر سے سب سے پہلی چیز جس کا کسی تہذیب میں کھوج لگانا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ دنیوی زندگی کے متعلق اس کا تصور کیا ہے؟ وہ اس دنیا میں انسان کی کیا حیثیت قرار دیتی ہے؟ اس کی نگاہ میں دنیا کیا ہے؟ انسان کا اس دنیا سے کیا تعلق ہے؟ اور انسان اس دنیا کو برتے تو کیا سمجھ کر برتے؟ یہ تصورِ حیات کا سوال ایسا اہم سوال ہے کہ انسانی زندگی کے تمام اعمال پر اس کا نہایت گہرا اثر ہوتا ہے، اور اس تصور کے بدل جانے سے تہذیب کی نوعیت بنیادی طور پر بدل جاتی ہے۔
دوسرا سوال جو تصورحیات کے سوال سے گہرا تعلق رکھتا ہے، زندگی کے نصب العین کا سوال ہے۔ دنیا میں انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ یہ ساری دنیا آخر کس لیے ہے؟ وہ کیا چیز مطلوب ہے جس کی طرف آدمی کو دوڑنا چاہیے؟ وہ کون سا مطمحِ نظر ہے جس تک پہنچنے کے لیے ابنِ آدم کو کوشش کرنی چاہیے؟ وہ کون سا منتہا ہے جسے انسان کو اپنی ہر سعی اور اپنے ہر عمل میں پیشِ نظر رکھنا چاہیے؟ یہی مقصود ومطلوب کا سوال انسان کی عملی زندگی کا رخ اور اس کی رفتار متعین کرتا ہے اور اسی کے مطابق عمل کے طریقے اور کام یابی کے وسائل اختیار کیے جاتے ہیں۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ زیرِ بحث تہذیب میں انسانی سیرت کی تعمیر کن بنیادی عقائد و افکار پر کی گئی ہے؟ انسان کی ذہنیت کو وہ کس سانچے میں ڈھالتی ہے؟ انسان کے دل و دماغ میں کس قسم کے خیالات جاگزیں کرتی ہے؟ اور اس میں وہ کون سے محرکات ہیں جو اس کے نصب العین کے مطابق انسان کو اپنی مخصوص قسم کی عملی زندگی کے لیے ابھارتے ہیں؟ یہ بات کسی بحث کی محتاج نہیں ہے کہ انسان کے قوائے عمل اس کے قوائے فکر کے تابع ہیں۔ اس کے دست و پا کو جو روح حرکت دیتی ہے، وہ اس کے دل و دماغ سے آتی ہے۔ دل و دماغ پر جو عقیدہ، جو تخیل، جو مفکورہ پوری قوت کے ساتھ مسلّط ہو گا، عملی قوتیں اسی کے زیرِ اثر حرکت کریں گی۔ ذہن جس سانچے میں ڈھلا ہو گا، اسی کے مطابق جذبات، حسیات اور داعیات پیدا ہوں گے، اور انھی کے اتباع میں اعضاو جوارح کام کریں گے۔ پس دنیا کی کوئی تہذیب ایک اساسی عقیدہ اور ایک بنیادی متخیلہ کے بغیر قائم نہیں ہو سکتی، اور اس بِنا پر ہر تہذیب کو سمجھنے اور اس کی قدر و قیمت جانچنے کے لیے اس عقیدہ اور متخیلہ کو سمجھنا اور اس کے حسن و قبح کو جانچنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی عمارت کی مضبوطی و پائداری کا حال معلوم کرنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کی بنیادیں کتنی گہری اور کتنی مضبوط ہیں۔
چوتھاسوال یہ ہے کہ وہ تہذیب انسان کو بحیثیت ایک انسان کے کس طرح کا آدمی بناتی ہے؟ یعنی وہ کس قسم کی اخلاقی تربیت ہے جس سے وہ انسان کو اپنے نظریے کے مطابق کام یاب زندگی بسر کرنے کے لیے تیار کرتی ہے؟ وہ کون سے خصائل، اوصاف اور نفسی خصائص ہیں جنھیں وہ انسان میں پیدا کرنے اور نشوونما دینے کی کوشش کرتی ہے؟ اور اس کی مخصوص اخلاقی تربیت سے انسان کیسا انسان بنتا ہے؟ گو تہذیب کا اصل مقصد نظامِ اجتماعی کی تعمیر ہوا کرتا ہے، لیکن افراد ہی وہ مسالا ہوتے ہیں جن سے جماعت کا قصر بنتا ہے اور اس قصر کا استحکام اس پر منحصر ہوتا ہے کہ اس کا ہر پتھر اچھا ترشا ہوا ہو، ہر اینٹ خوب پکی ہوئی ہو، ہر شہتیر مضبوط و پائدار ہو، کوئی لکڑی گُھن کھائی ہوئی نہ ہو، اور کسی حصے میں ناکارہ، کچا اور بے جان مسالا استعمال نہ کیا جائے۔
پانچواں سوال یہ ہے کہ اس تہذیب میں انسان اور انسان کا تعلق اس کی مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے کس طرح قائم کیا گیا ہے؟ اس کے تعلقات اس کے خاندان سے، اس کے ہمسایوں سے، اس کے دوستوں سے، اس کے ساتھ رہنے اور بسنے والوں سے، اس کے ماتحتوں سے، اس کے بالادستوں سے، خود اس کی اپنی تہذیب کے پیرووں سے، اور اس کی تہذیب کی پیروی نہ کرنے والوں سے کس قسم کے رکھے گئے ہیں؟ اس کے حقوق دوسروں پر اور دوسروں کے حقوق اس پر کیا قرار دیے گئے ہیں؟ اسے کن حدود کا پابند کیا گیا ہے؟ اسے آزادی دی گئی ہے تو کس حد تک، اور مقید کیا گیا ہے تو کس حد تک؟ اس سوال کے ضمن میں اخلاق، معاشرت، قانون، سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے تمام مسائل آ جاتے ہیں، اور اسی سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ زیرِ بحث تہذیب خاندان، سوسائٹی اور حکومت کی تنظیم کس ڈھنگ پر کرتی ہے۔
اس بحث سے معلوم ہوا کہ تہذیب جس چیز کا نام ہے، اس کی تکوین پانچ عناصر سے ہوتی ہے:
۱۔ دنیوی زندگی کا تصور
۲۔ زندگی کا نصب العین
۳۔ اساسی عقائد و افکار
۴۔ تربیتِ افراد
۵۔ نظامِ اجتماعی
دنیا کی ہر تہذیب انھی پانچ عناصر سے بنی ہے، اور اسی طرح اسلامی تہذیب کی تکوین بھی انھی سے ہوئی ہے۔ اس کتاب میں مَیں نے اسلامی تہذیب کے پہلے تین عناصر کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ یہ تہذیب زندگی کے کس مخصوص تصور، کس خاص مقصدِ حیات اور کن اساسی عقائد و افکار پر قائم کی گئی ہے اور انھوں نے کس طرح اسے دنیا کی تمام تہذیبوں سے الگ ایک امتیازی شکل دے دی ہے۔ اس کے بعد آخری دو عناصر باقی رہ جاتے ہیں جن سے اس کتاب میں بحث نہیں کی گئی ہے۔ ان میں سے ’’تربیت افراد‘‘ کے موضوع پر تو میری کتاب ’’اسلامی عبادات پر ایک تحقیقی نظر‘‘ اور ’’خطبات‘‘ (خطبہ نمبر ۲۰ تا ۲۸) کا مطالعہ مفید ہو گا۔ رہا ’’نظامِ اجتماعی‘‘ کا عنوان، تو اس کا ایک اجمالی نقشہ میری ان تقریروں میں مل جائے گا جو ’’اسلام کا نظامِ حیات‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔

ابو الاعلیٰ

باب اوّل: دُنیوی زندگی کا اسلامی تصور

٭ انسان کی حقیقت
٭ کائنات میں انسان کا درجہ
٭ انسان نائبِ خدا ہے
٭ منصب نیابت کی تشریح
٭ زندگی کا اسلامی تصور
٭ انسان نائب ہے نہ کہ مالک
٭ دنیا میں کام یابی کی اوّلین شرط
٭ دنیا برتنے کے لیے ہے
٭ دنیوی زندگی کا مآل
٭ اعمال کی ذمے داری اور جواب دہی
٭ انفرادی ذمے داری
٭ زندگی کا فطری تصور
٭ مختلف مذاہب کے تصورات
٭ اسلامی تصور کی خصوصیت
٭…٭…٭…٭…٭

دُنیوی زندگی کا اِسلامی تصوّر

انسان کو ابتدا سے اپنے متعلق بڑی غلط فہمی رہی ہے اور اب تک اس کی یہ غلط فہمی باقی ہے کہ کبھی وہ افراط پر اترتا ہے تو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے زیادہ بلند ہستی سمجھ لیتا ہے۔ غرور و تکبر اور سرکشی کی ہوا اس کے دماغ میں بھر جاتی ہے۔ کسی طاقت کو اپنے سے بالاتر تو کیا معنی، اپنا مدمقابل بھی نہیں سمجھتا۔ مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً اور اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی کی صدا بلند کرتا ہے اور اپنے آپ کو غیر ذمے دار اور غیر جواب دہ سمجھ کر جبر و قہر کا دیوتا، ظلم و جور اور شر و فساد کا مجسمہ بن جاتا ہے۔ کبھی تفریط کی جانب مائل ہوتا ہے تو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے زیادہ ذلیل ہستی سمجھ لیتا ہے۔ درخت، پتھر، دریا، پہاڑ، جانور، ہوا، آگ، بادل، بجلی، چاند، سورج، تارے، غرض ہر اس چیز کے سامنے گردن جھکا دیتا ہے جس کے اندر کسی قسم کی طاقت یا مضرت یا منفعت نظر آتی ہے، اور خود اپنے جیسے آدمیوں میں بھی کوئی قوت دیکھتا ہے تو انھیں بھی دیوتا اورمعبود مان لینے میں تامل نہیں کرتا۔
انسان کی حقیقت
اسلام نے ان دونوں انتہائی تصورات کو باطل کرکے انسان کی اصلی حقیقت اس کے سامنے پیش کی ہے۔ وہ کہتا ہے:
فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَo خُلِقَ مِنْ مَّاۗءٍ دَافِقٍo يَّخْرُجُ مِنْۢ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاۗىِٕبِo الطارق 86:7-5
انسان اپنی حقیقت تو دیکھے کہ کس چیز سے پیدا ہوا ہے؟ ایک اچھلتے ہوئے پانی سے جو پُشت اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے کھنچ کر آتا ہے۔
اَوَلَمْ يَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ نُّطْفَۃٍ فَاِذَا ہُوَخَصِيْمٌ مُّبِيْنٌo وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِيَ خَلْقَہٗ۝۰ۭ یٰسٓ 77-78:36
کیا انسان یہ نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے ایک قطرۂ آب سے بنایا ہے، اور اب وہ کھلم کھلا حریف بنتا ہے اور ہمارے لیے مثالیں دیتا ہے اور اپنی اصل کو بھول گیا ہے۔
وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍo ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّہِيْنٍo ثُمَّ سَوّٰىہُ وَنَفَخَ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ السجدہ 7-9:32
انسان کی ابتدا مٹی سے کی، پھر مٹی کے نچوڑ سے جو ایک حقیر پانی ہے اس کی نسل چلائی، پھر اس کی بناوٹ درست کی اور اس میں اپنی روح پھونکی۔
فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّغَيْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ۝۰ۭ وَنُقِرُّ فِي الْاَرْحَامِ مَا نَشَاۗءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ۝۰ۚ وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَـيْــــًٔا۝۰ۭ الحج 5:22
ہم نے تمھیں مٹی سے، پھر قطرۂ آب سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر پوری اور ادھوری بنی ہوئی بوٹی سے پیدا کیا تاکہ تمھیں اپنی قدرت دکھائیں، اور ہم جس نطفے کو چاہتے ہیں ایک مدت مقررہ تک رحمِ مادر میں ٹھیرائے رکھتے ہیں، پھر تمھیں بچہ بنا کر نکالتے ہیں، پھر تمھیں بڑھا کر جوانی کو پہنچاتے ہیں۔ تم میں سے کوئی وفات پا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کو پہنچ جاتا ہے کہ سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے بعد پھر ناسمجھ ہو جائے۔
يٰٓاَ يُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَ بِّكَ الْكَرِيْمِo الَّذِيْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَo فِيْٓ اَيِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَاۗءَ رَكَّبَكَo الانفطار 6-8:82
اے انسان! کس چیز نے تجھے اپنے ربِ کریم سے مغرور کر دیا؟ اس رب سے جس نے تجھے پیدا کیا، تیرے اعضا درست کیے، تیرے قوٰی میں اعتدال پیدا کیا اور جس صورت میں چاہا تیرے عناصر کو ترکیب دی۔
وَاللہُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا۝۰ۙ وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَ بْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَۃَ۝۰ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَo النحل 78:16
اور اللّٰہ ہی نے تمھیں تمھاری مائوں کے پیٹوں سے نکالا۔ جب تم نکلے تو اس حال میں تھے کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے۔ اس نے تمھیں کان دیے، آنکھیں دیں، دل دیے۔ شاید کہ تم شکر کرو۔
اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تُمْـنُوْنَo ءَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَo نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِيْنَo عَلٰٓي اَنْ نُّبَدِّلَ اَمْثَالَكُمْ وَنُنْشِـىَٔـكُمْ فِيْ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَۃَ الْاُوْلٰى فَلَوْلَا تَذَكَّرُوْنَo اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَo ءَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَo لَوْ نَشَاۗءُ لَجَعَلْنٰہُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّہُوْنَo اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَo بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَo اَفَرَءَيْتُمُ الْمَاۗءَ الَّذِيْ تَشْرَبُوْنَo ءَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَo لَوْ نَشَاۗءُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَo اَفَرَءَيْتُمُ النَّارَ الَّتِيْ تُوْرُوْنَo ءَ اَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَہَآ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِــُٔوْنَo نَحْنُ جَعَلْنٰہَا تَذْكِرَۃً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِيْنَo فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِo الواقعہ 58-74:56
کیا تم نے اس نطفے پر غور کیا جسے تم عورتوں کے رحم میں ٹپکاتے ہو؟ اس سے (بچہ) تم پیدا کرتے ہو یا ہم اس کے پیدا کرنے والے ہیں؟ ہم نے ہی تمھارے درمیان موت کا اندازہ مقرر کیا ہے اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمھاری جسمانی شکلیں بدل دیں اور ایک اور صورت میں تمھیں بنا دیں جسے تم نہیں جانتے۔ اور تم اپنی پہلی پیدائش کو تو جانتے ہی ہو۔ پھر کیوں نہیں اس سے سبق حاصل کرتے؟ پھر کیا تم نے دیکھا کہ یہ کھیتی باڑی جو تم کرتے ہو، اسے تم اگاتے ہو یا اگانے والے ہم ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے بھُس بنا دیں اور تم باتیں بناتے رہ جائو کہ ہم نقصان میں رہے، بلکہ محروم رہ گئے۔ پھر کیا تم نے اس پانی کو دیکھا، جسے تم پیتے ہو؟ اسے تم نے بادلوں سے اتارا ہے یا اتارنے والے ہم ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے کھاری بنا دیں۔ پس تم کیوں نہیں شکر ادا کرتے؟ پھر کیا تم نے اس آگ کودیکھا جسے تم سلگاتے ہو؟ اس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے، یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟ ہم نے اسے ایک یاد دلانے والی چیز اور مسافروں کے لیے سامانِ زیست بنایا ہے۔ پس اے انسان اپنے خدائے بزرگ کی تسبیح کر۔
وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاہُ۝۰ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ۝۰ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًاo اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ وَكِيْلًاo اَمْ اَمِنْتُمْ اَنْ يُّعِيْدَكُمْ فِيْہِ تَارَۃً اُخْرٰى فَيُرْسِلَ عَلَيْكُمْ قَاصِفًا مِّنَ الرِّيْحِ فَيُغْرِقَكُمْ بِمَا كَفَرْتُمْ۝۰ۙ ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ عَلَيْنَا بِہٖ تَبِيْعًاo بنی اسرائیل67-69:17
جب کبھی سمندر میں تم پر طوفان کی مصیبت آئی تو تم اپنے سب معبودانِ باطل کو بھول گئے اور اس وقت خدا ہی یاد آیا۔ پھر جب اس نے تمھیں بچا کر خشکی پر پہنچا دیا تو تم پھر اعراض کی روش پر اتر آئے۔ انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے۔ کیا تم اس سے بے خوف ہو گئے کہ خدا تمھیں زمین میں دھنسا دے یا تم پر ہوا کا طوفان بھیج دے اور تم کوئی اپنا مددگار نہ پائو؟ کیا تم اس سے بے خوف ہو گئے کہ خدا تمھیں دوبارہ اس سمندر میں لے جائے اور تم پر ہوا کاایسا جھکڑ بھیج دے جو تمھیں تمھاری نافرمانی کے بدلے میں غرقاب کردے اور پھر تم ہمارا پیچھا کرنے والا کوئی حمایتی نہ پائو۔
ان آیات میں انسان کے غرور و تکبر کو توڑا گیا ہے۔ اسے اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ذرا اپنی حقیقت تو دیکھ۔ ایک نجس اور حقیر پانی کا قطرہ جو رحمِ مادر میں مختلف قسم کی نجاستوں سے پرورش پا کر گوشت کا ایک لوتھڑا بنتا ہے۔ خدا چاہے تو اس لوتھڑے میں جان ہی نہ ڈالے اور وہ یوں ہی غیر مکمل حالت میں خارج ہو جائے۔ خدا اپنی قدرت سے اس لوتھڑے میں جان ڈالتا ہے، اس میں حواس پیدا کرتا ہے اور ان آلات اور ان قوتوں سے اسے مسلح کرتا ہے جن کی انسان کو دنیوی زندگی میں ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح تو دنیا میں آتا ہے۔ مگر تیری ابتدائی حالت یہ ہوتی ہے کہ تو ایک بے بس بچہ ہوتا ہے، جس میں اپنی کوئی حاجت پوری کرنے کی قدرت نہیں ہوتی۔ خدا ہی نے اپنی قدرت سے ایسا سامان کیا ہے کہ تیری پرورش ہوتی ہے۔ تو بڑھتا ہے، جوان ہوتا ہے، طاقت ور اور قادر ہوتا ہے۔ پھر تیری قوتوں میں انحطاط شروع ہوتا ہے۔ تو جوانی سے بڑھاپے کی طرف جاتا ہے، یہاں تک کہ ایک وقت میں تجھ پر پھر وہی بے بسی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جو بچپن میں تھی۔ تیرے حواس جواب دے دیتے ہیں، تیری قوتیں ضعیف ہو جاتی ہیں، تیرا علم نسیاً منسیاً ہو جاتا ہے، اور آخر کار تیری شمعِ حیات بجھ جاتی ہے۔ مال، اولاد،عزیز، دوست اور اقارب سب کو چھوڑ کر قبر میں جا پہنچتا ہے۔ اس مختصر عرصۂ حیات میں تو ایک لمحے کے لیے بھی اپنے آپ کو زندہ رکھنے پر قادر نہیں ہے۔ تجھ سے بالاتر ایک قوت ہے جو تجھ کو زندہ رکھتی ہے اور جب چاہتی ہے تجھ کو دنیا چھوڑنے پرمجبور کر دیتی ہے۔ پھر جتنی مدت تو زندہ رہتا ہے، قوانینِ قدرت سے جکڑا رہتا ہے۔ یہ ہوا، یہ پانی، یہ روشنی، یہ حرارت، یہ زمین کی پیداوار، یہ قدرتی سازوسامان، جن پر تیری زندگی کا انحصار ہے، ان میں سے کوئی بھی تیرے بس میں نہیں۔ نہ تو انھیں پیدا کرتا ہے، نہ یہ تیرے احکام کے تابع ہیں۔ یہی چیزیں جب تیرے خلاف آمادۂ پیکار ہو جاتی ہیں تو تُو اپنے آپ کو ان کے مقابلے میں بے بس پاتا ہے۔ ایک ہوا کا جھکّڑ تیری بستیوں کو تہ و بالا کردیتا ہے۔ ایک پانی کا طوفان تجھے غرقاب کر دیتا ہے۔ ایک زلزلے کا جھٹکا تجھے پیوندِ خاک کر دیتا ہے۔ تو خواہ کتنے ہی آلات سے مسلح ہو، اپنے علم سے (جو خود بھی تیرا اپنا پیدا کیا ہوا نہیں ہے) کیسی ہی تدبیریں ایجاد کر لے، قدرت کی طاقتوں کے سامنے یہ سب چیزیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اس بَل بوتے پر اکڑتا ہے، پُھولا نہیں سماتا، کسی طاقت کو خاطر میں نہیں لاتا، فرعونیت اور نمرودیت کا دم بھرتا ہے، جبار و قہار بنتا ہے، ظالم و سرکش بنتا ہے، خدا کے مقابلے میں بغاوت کرتا ہے، خدا کے بندوں کا معبود بنتا ہے اور خدا کی زمین میں فساد پھیلاتا ہے۔
کائنات میں انسان کا درجہ
یہ تو تھی تکبر شکنی، دوسری طرف اسلام نوعِ بشر کو بتاتا ہے کہ وہ اتنا ذلیل بھی نہیں ہے جتنا اس نے اپنے آپ کو سمجھ لیا ہے۔ وہ کہتا ہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًاo بنی اسرائیل 70:17
اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور انھیں خشکی اور تری میں سواریاں دیں اور انھیں پاک چیزوں سے رزق عطا کیا اور بہت سی ان چیزوں پر جو ہم نے پیدا کی ہیں انھیں ایک طرح کی فضیلت عطا کی ہے۔
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ الحج 65:22
اے انسان! کیا تو نہیں دیکھتا کہ اللّٰہ نے ان سب چیزوں کو جو زمین میں ہیں، تمھارے لیے مطیع بنا دیا ہے۔
وَالْاَنْعَامَ خَلَقَہَا۝۰ۚ لَكُمْ فِيْہَا دِفْءٌ وَّمَنَافِعُ وَمِنْہَا تَاْكُلُوْنَo وَلَكُمْ فِيْہَا جَمَالٌ حِيْنَ تُرِيْحُوْنَ وَحِيْنَ تَسْرَحُوْنَo وَتَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِيْہِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِ۝۰ۭ اِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌo وَّالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْہَا وَزِيْنَۃً۝۰ۭ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo وَعَلَي اللہِ قَصْدُ السَّبِيْلِ وَمِنْہَا جَاۗىِٕرٌ۝۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ لَہَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَo ہُوَالَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لَّكُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَّمِنْہُ شَجَـرٌ فِيْہِ تُسِيْمُوْنَo يُنْۢبِتُ لَكُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُوْنَ وَالنَّخِيْلَ وَالْاَعْنَابَ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۝۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَo وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ۝۰ۙ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۭ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِہٖ۝۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَo وَمَا ذَرَاَ لَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُخْتَلِفًا اَلْوَانُہٗ۝۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لِّقَوْمٍ يَّذَّكَّرُوْنَo وَہُوَالَّذِيْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْہُ لَحْمًا طَرِيًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْہُ حِلْيَۃً تَلْبَسُوْنَہَا۝۰ۚ وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيْہِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَo وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ وَاَنْہٰرًا وَّسُـبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَo وَعَلٰمٰتٍ۝۰ۭ وَبِالنَّجْمِ ہُمْ يَہْتَدُوْنَo اَفَمَنْ يَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ۝۰ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَo وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo النحل 5-18:16
اور جانوروں کو پیدا کیا جن میں تمھارے لیے سردی سے حفاظت کا سامان ہے اور منفعتیں ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے ہو۔ ان میں تمھارے لیے ایک شانِ جمال ہے جب کہ تم صبح انھیں لے جاتے ہو اور شام واپس لاتے ہو۔ وہ تمھارے بوجھ ڈھو کر اس مقام تک لے جاتے ہیں جہاں تک تم بغیر جان کاہی کے نہیں پہنچ سکتے۔ تمھارا رب بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ گھوڑے اور خچر اور گدھے تمھاری سواری کے لیے ہیں اور سامانِ زیست ہیں۔ خدا اور بہت سی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمھیں علم بھی نہیں ہے… وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا، اس میں سے کچھ تمھارے پینے کے لیے ہے اور کچھ درختوں کی پرورش کے کام آتا ہے جن سے تم اپنے جانوروں کا چارا حاصل کرتے ہو۔ اس پانی سے خدا تمھارے لیے کھیتی اور انگور اور طرح طرح کے پھل اگاتا ہے، ان چیزوں میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔ اسی نے تمھارے لیے رات اور دن اور سورج اور چاند اور تارے مسخر کیے ہیں۔ یہ سب اسی خدا کے حکم سے مسخر ہیں۔ ان میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ اور بہت سی وہ مختلف الالوان چیزیں جو اس نے زمین میں تمھارے لیے پیدا کی ہیں، ان میں سبق حاصل کرنے والوں کے لیے بڑی نشانی ہے۔ اور وہ خدا ہی ہے جس نے سمندر کو مسخر کیا کہ اس سے تم تازہ گوشت (مچھلی) نکال کر کھائو، اور زینت کا سامان (موتی وغیرہ) نکالو جنھیں تم پہنتے ہو۔ اور تو دیکھتا ہے کہ کشتیاں پانی کو چیرتی ہوئی سمندر میں بہتی چلی جاتی ہیں۔ چنانچہ سمندر کو اس لیے بھی مسخر کیا ہے کہ تم لوگ اللّٰہ کا فضل تلاش کرو (یعنی تجارت کرو) شاید کہ تم شکر بجا لائو۔ اس نے زمین میں پہاڑ لگا دیے کہ زمین تمھیں لے کر جھک نہ جائے، اور دریا اور راستے بنا دیے کہ تم منزلِ مقصود کی راہ پائو، اور بہت سی علامات بنائیں، من جملہ ان کے تارے بھی ہیں جن سے لوگ راستہ معلوم کرتے ہیں۔ اور اگر تم خدا کی نعمتوں کا شمار کرو تو انھیں بے حساب پائو گے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔
ان آیات میں انسان کو یہ بتایا گیا ہے کہ زمین میں جتنی چیزیں ہیں وہ سب تیری خدمت اور فائدے کے لیے مسخر کی گئی ہیں اور آسمان کی بھی بہت سی چیزوں کا یہی حال ہے۔ یہ درخت، یہ دریا، یہ سمندر، یہ پہاڑ، یہ جانور، یہ رات اور دن، یہ تاریکی اور روشنی، یہ چاند، یہ تارے، غرض یہ سب چیزیں جنھیں تو دیکھ رہا ہے، تیری خادم ہیں، تیری منفعت کے لیے ہیں، اور تیرے لیے انھیں کار آمد بنایا گیا ہے۔ تو ان سب پر فضیلت رکھتا ہے، تجھے ان سب سے زیادہ عزت دی گئی ہے، تجھے ان کا مخدوم بنایا گیا ہے، پھر کیا تو اپنے ان خادموں کے سامنے سرجھکاتا ہے؟ انھیں اپنا حاجت روا سمجھتا ہے؟ ان کے آگے دستِ سوال دراز کرتا ہے؟ ان سے اپنی مدد کی التجائیں کرتا ہے؟ ان سے ڈرتا ہے اور خوف کھاتا ہے؟ ان کی عظمت وبزرگی کے گیت گاتا ہے؟ اس طرح تو اپنے آپ کو خود ذلیل کرتا ہے، اپنا مرتبہ آپ گراتا ہے، خادموں کا خادم، غلاموں کا غلام خود بنتا ہے۔
انسان نائب خدا ہے
اس سے معلوم ہوا کہ انسان نہ اتنا عالی مرتبہ ہے جتنا وہ بزعمِ خود اپنے آپ کو سمجھتا ہے اور نہ اتنا پست و ذلیل ہے جتنا اس نے خود اپنے آپ کو بنا لیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر اس دنیا میں انسان کا صحیح مرتبہ کیا ہے؟ اس کا جواب اسلام یہ دیتا ہے:
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً۝۰ۭ قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِيْہَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْہَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاۗءَ۝۰ۚ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ۝۰ۭ قَالَ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَي الْمَلٰۗىِٕكَۃِ۝۰ۙ فَقَالَ اَنْۢبِــُٔـوْنِىْ بِاَسْمَاۗءِ ھٰٓؤُلَاۗءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَo قَالُوْا سُبْحٰــنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُo قَالَ يٰٓاٰدَمُ اَنْۢبِئْـھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕہِمْ۝۰ۚ فَلَمَّآ اَنْۢبَاَھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕہِمْ۝۰ۙ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۙ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَo وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ۝۰ۭ اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ۝۰ۤۡوَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَo وَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّۃَ وَكُلَا مِنْہَا رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا۝۰۠ وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِــمِيْنَo فَاَزَلَّہُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْہَا فَاَخْرَجَہُمَا مِـمَّا كَانَا فِيْہِ۝۰۠
البقرہ 30-36:2
اور جب کہ تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں، تو انھوں نے عرض کیا کہ کیا تو زمین میں اسے نائب بناتا ہے جو وہاں فساد پھیلائے گا اور خوںریزیاں کرے گا؟ حالاں کہ ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح اور تیری تقدیس کرتے ہیں۔ اللّٰہ نے فرمایا: میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ اور اس نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھا دیے، پھر انھیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام مجھے بتائو۔ انھوں نے کہا پاک ذات ہے تیری، ہم اس کے سوا کچھ نہیں جانتے جو تو نے ہمیں سکھا دیا ہے، تو ہی علم رکھنے والا ہے اور تو ہی حکمت کا مالک ہے۔ خدا نے کہا اے آدم! ان فرشتوں کو ان چیزوں کے نام بتا۔ پس جب آدم نے انھیں اشیا کے نام بتائے تو خدا نے کہا، کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی سب مخفی باتیں جانتا ہوں اور جو کچھ تم ظاہر کرتے اور چھپاتے ہو اس سب کا علم رکھتا ہوں؟ اور جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا، بجز ابلیس کے کہ اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اورنافرمانوں میں سے ہو گیا۔ اور ہم نے آدم سے کہا کہ اے آدم! تو اور تیری بیوی دونوں جنت میں رہو اور اس میں جہاں سے چاہو بافراغت کھائو، مگر اس درخت کے پاس بھی نہ پھٹکو کہ تم ظالموں میں سے ہو جائو گے۔ مگر شیطان نے انھیں جنت سے اکھاڑ دیا اور وہ جس خوش حالی میں تھے اس سے انھیں نکلوا دیا۔
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍo فَاِذَا سَوَّيْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِيْنَo فَسَجَدَ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ كُلُّہُمْ اَجْمَعُوْنَo اِلَّآ اِبْلِيْسَ۝۰ۭ اَبٰٓى اَنْ يَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَo قَالَ يٰٓـاِبْلِيْسُ مَا لَكَ اَلَّا تَكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَo قَالَ لَمْ اَكُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍo قَالَ فَاخْرُجْ مِنْہَا فَاِنَّكَ رَجِيْمٌo وَاِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَۃَ اِلٰى يَوْمِ الدِّيْنِo الحجر28-35:15
اور جب کہ تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک کالے، سڑے ہوئے، سوکھے گارے سے ایک بشر بنانے والا ہوں، پھر جب میں اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں تو تم اس کے لیے سربہ سجود گر جانا۔ چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔ خدا نے کہا: ابلیس! تجھے کیا ہو گیا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہیں ہوتا؟ ابلیس نے کہا میں ایسا نہیں ہوں کہ اس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے کالے سڑے ہوئے سوکھے گارے سے بنایا ہے۔ خدا نے کہا تو جنت سے نکل جا کہ تو راندہ ٔدرگاہ ہے اور یوم الجزا تک تجھ پر پھٹکارہے۔
اس مضمون کو مختلف طریقوں سے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے، اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو خدا نے زمین میں اپنا نائب بنایا، اسے فرشتوں سے بڑھ کر علم دیا، اس کے علم کو فرشتوں کی تسبیح و تقدیس پر ترجیح دی، فرشتوں کو حکم دیا کہ میرے اس نائب کو سجدہ کرو، فرشتوں نے اسے سجدہ کر لیا، اور اس طرح ملکوتیت اس کے آگے جھک گئی، مگر ابلیس نے انکار کیا، اور اس طرح شیطانی قوتیں انسان کے آگے نہ جھکیں۔ حقیقت میں تو وہ مٹی کا ایک حقیر پتلا تھا مگر خدا نے اس میں جو روح پھونکی تھی اور اسے جو علم بخشا تھا، اس نے اسے نیابت ِ خداوندی کا اہل بنا دیا۔ فرشتوں نے اس کی اس فضیلت کو تسلیم کر لیا، اور اس کے آگے جھک گئے، لیکن شیطان نے اسے تسلیم نہ کیا۔ اس جُرم میں شیطان پر لعنت بھیجی گئی، مگر اس نے قیامت تک کے لیے مہلت مانگ لی کہ انسان کو بہکانے کی کوشش کرے۔ چنانچہ شیطان نے انسان کو بہکایا، جنت سے نکلوا دیا اور اس وقت سے انسان اور شیطان میں کش مکش برپا ہے۔ خدا نے انسان سے کہہ دیا کہ جو ہدایت میں تجھے بھیجوں اسے مانے گا تو جنت میں جائے گا، اور اپنے ازلی دشمن شیطان کا حکم مانے گا تو دوزخ تیرا ٹھکانا ہو گا۔
منصبِ نیابت کی تشریح
اس بیان سے چند امور معلوم ہوتے ہیں: انسان کی حیثیت اس دنیا میں خدا کے خلیفہ کی ہے۔ خلیفہ کہتے ہیں نائب کو۔ نائب کا کام یہ ہے کہ جس کا وہ نائب ہے اس کی اطاعت کرے۔ وہ نہ تو اس کے سوا کسی اور کی اطاعت کر سکتا ہے کہ ایسا کرے تو باغی سمجھا جائے گا، اور نہ وہ اس کا مجاز ہے کہ اپنے آقا کی رعیت اور اس کے نوکروں اور خادموں اور غلاموں کوخود اپنی رعیت، اپنا نوکر، اپنا خادم، اپنا غلام بنا لے کہ ایسا کرے گا تب بھی باغی قرار دیا جائے گا، اور دونوں حالتوں میں سزا کا مستحق ہو گا۔ اسے جس جگہ نائب بنایا گیا ہے وہاں وہ اپنے آقا کی املاک میں تصرف کر سکتا ہے، انھیں استعمال کر سکتا ہے، اس کی رعیت پر حکومت کر سکتا ہے، اس سے خدمت لے سکتا ہے، ان کی نگرانی کر سکتا ہے، مگر اس حیثیت سے نہیں کہ وہ خود آقا ہے، اور نہ اس حیثیت سے کہ اس آقا کے سوا کسی اور کا ماتحت ہے، بلکہ صرف اس حیثیت سے کہ وہ اپنے آقا کا نائب ہے اور جتنی چیزیں اس کے زیرِ حکم ہیں ان پر اپنے آقا کا امین ہے۔ اس بنا پر وہ سچا اور پسندیدہ اور مستحق انعام نائب اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ اپنے آقا کی امانت میں خیانت نہ کرے، اس کی ہدایت پر عمل کرے، اس کے احکام سے سرتابی نہ کرے، اس کی املاک، اس کی رعیت، اس کے نوکروں، اس کے خادموں اور اس کے غلاموں پر حکومت کرنے، ان سے خدمت لینے، ان میں تصرف کرنے اور ان کی نگرانی کرنے میں اس کے بنائے ہوئے قوانین پر کار بند ہو۔ اگر وہ ایسا نہ کرے گا تو نائب نہیں باغی ہو گا، پسندیدہ نہیں مردود ہو گا، مستحق انعام نہیں مستوجب سزا ہو گا۔
فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَo وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَo البقرہ38-39:2
توجس نے میری ہدایات کی پیروی کی، ایسے لوگوں کے لیے کسی سزا کا خوف اور کسی نامرادی کا رنج نہیں ہے، اور جنھوں نے نافرمانی کی اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
نائب اور امین خود مختار نہیں ہوتا کہ اپنی مرضی سے جو چاہے کرے، اپنے آقا کے مال اور اس کی رعیت میں جیسا چاہے تصرف کرے، اور اس سے کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ بلکہ وہ اپنے آقا کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے، اسے پائی پائی کا حساب دینا ہوتا ہے، اس کا آقا اس کی ہر حرکت کے متعلق سوال کر سکتا ہے، اور اس کی امانت، اس کے مال اور اس کی رعیت میں اس نے جس طرح تصرف کیا ہے اس کے لیے اسے ذمے دار قرار دے کر جزا اور سزا دے سکتا ہے۔
نائب کا اوّلین فرض یہ ہے کہ جس کا وہ نائب ہے اس کی فرماں روائی، اس کی حکومت اور اس کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کرے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے گا تو نہ اپنے نائب ہونے کی حیثیت کو سمجھ سکے گا، نہ اپنے امین ہونے کے منصب کا کوئی صحیح تصور اس کے ذہن میں پیدا ہو گا، نہ اپنے ذمے دار اور جواب دہ ہونے کا احساس کر سکے گا، اور نہ اس امانت میں جو اس کے سپرد کی گئی ہے اپنی ذمے داریاں اور اپنے فرائض صحیح طور پر ادا کرنے کے قابل ہو گا۔ اول تو یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی دوسرے تخیل کے تحت انسان وہ طرزِ عمل اختیار کر سکے جو نیابت و امانت کے تخیل کے تحت وہ اختیار کرے گا۔ اور اگر بفرضِ محال اس کا طرزِ عمل ویسا ہو بھی تو اس کی کوئی قیمت نہیں، کیوں کہ آقا کی فرماں روائی تسلیم کرنے سے انکار کرکے تو وہ پہلے ہی باغی ہو چکا ہے، اب اگر اس نے اپنے نفس یا کسی اور کے اتباع میں اچھے عمل کیے بھی تو اس کا اجر اس سے طلب کرے جس کا اس نے اتباع کیا ہے، اس کے آقا کے ہاں اس کے وہ اعمال بے کار ہیں۔
انسان اپنی اصل کے اعتبار سے ایک حقیر مخلوق ہے، مگر اسے جو عزت حاصل ہوئی ہے وہ اس روح کی بِنا پر ہے جو اس میں پھونکی گئی ہے اور اس نیابتِ الٰہی کی بِنا پر ہے جو اسے اس زمین میں عطا کی گئی ہے۔ اب اس عزت کی حفاظت منحصر ہے اس پر کہ وہ شیطان کی پیروی کرکے اپنی روح کو گندا نہ کر دے اور اپنے آپ کو نیابت کے درجے سے گرا کر بغاوت کے مرتبے میں نہ لے جائے، کیوں کہ اس حالت میں وہ پھر وہی حقیر ہستی رہ جائے گا۔
ملکوتی طاقتیں انسان کے نائب خدا ہونے کو تسلیم کر چکی ہیں اور وہ اس کے آگے بحیثیت نائبِ خدا ہونے کے جھکی ہوئی ہیں، مگر شیطانی طاقتیں اس کی نیابت کو تسلیم نہیں کرتیں اور وہ اسے اپنا تابع بنانا چاہتی ہیں۔ انسان اگر دنیا میں نیابت ِ الٰہی کا حق ادا کرے گا اور خدا کی ہدایت پر چلے گا تو ملکوتی طاقتیں اس کا ساتھ دیں گی، ملائکہ کی فوجیں اس کے لیے اتریں گی۔ وہ عالم ملکوت کو کبھی اپنے سے منحرف نہ پائے گا۔ ان طاقتوں کی مدد سے وہ شیطان اور اس کے لشکروں کو مغلوب کر لے گا۔ لیکن اگر وہ نیابت کا حق ادا کرنے میں کوتاہی کرے گا اور خدا کی ہدایت پر نہ چلے گا تو ملکوتی طاقتیں اس کا ساتھ چھوڑ دیں گی، کیوں کہ اس طرح وہ خود اپنے منصبِ نیابت سے دست بردار ہو چکا ہو گا۔ اور جب اس کا ساتھ دینے والی کوئی طاقت نہ رہے گی اور وہ محض مٹی کا ایک پُتلا رہ جائے گا تو شیطانی قوتیں اس پر غالب آ جائیں گی۔ پھر شیطان اور اس کے لشکر ہی اس کے حمایتی اور مددگار ہوں گے، انھی کے احکام کی وہ پیروی کرے گا اور انھی کا سا انجام اس کا بھی ہو گا۔
نائب خدا ہونے کی حیثیت سے انسان کا درجہ دنیا کی تمام چیزوں سے افضل اور اعلیٰ ہے۔ دنیا کی تمام چیزیں اس کے ماتحت ہیں اور اس لیے ہیں کہ وہ انھیں استعمال کرے اور اپنے آقا کے بتائے ہوئے طریقے پر ان سے خدمت لے۔ ان ماتحتوں کے آگے جھکنا اس کے لیے ذلت ہے۔ اگر وہ جھکے گا تو اپنے اوپر آپ ظلم کرے گا اور گویا نیابتِ الٰہی کے منصب سے خود دست بردار ہوجائے گا۔ لیکن ایک ہستی ایسی ہے جس کے سامنے جھکنا اور جس کی اطاعت کرنا اس کا فرض ہے، اور جسے سجدہ کرنے میں اس کے لیے عزت ہے۔ وہ ہستی کون ہے؟ خدا …اس کا آقا، وہ جس نے انسان کو اپنا نائب بنایا ہے۔
نوعِ انسانی کا کوئی مخصوص فرد یا مخصوص گروہ نائبِ خدا نہیں ہے، بلکہ پوری نوعِ انسانی نیابتِ الٰہی کے منصب پر سرفراز کی گئی ہے اور ہر انسان خلیفۂ خدا ہونے کی حیثیت سے دوسرے انسان کے برابر ہے۔ اس لیے نہ کسی انسان کو دوسرے انسان کے آگے جھکنا چاہیے اور نہ کسی کو یہ حق ہے کہ اپنے آگے جھکنے کا کسی دوسرے انسان سے مطالبہ کرے۔ ایک انسان دوسرے انسان سے صرف اس چیز کا مطالبہ کر سکتا ہے کہ وہ آقا کے حکم اور اس کی ہدایت کی پیروی کرے۔ اس معاملے میں پیروی کرنے والا آمر ہو گا اور پیروی نہ کرنے والا مامور، کیوں کہ جو نیابت کا حق ادا کرتا ہے وہ حقِ نیابت ادا نہ کرنے والے سے افضل ہے۔ مگر فضیلت کے معنی یہ نہیں کہ وہ خود اس کا آقا ہے۔
نیابت اور امانت کا منصب ہر انسان کو شخصا ً شخصا ً حاصل ہے۔ اس میں کوئی مشترک ذمے داری نہیں ہے۔ اس لیے ہر شخص اپنی اپنی جگہ اس منصب کی ذمے داریوں کے بارے میں جواب دہ ہے۔ نہ ایک پر دوسرے کے عمل کی جواب دہی عائد ہوتی ہے، نہ ایک کو دوسرے کے عمل کا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے، نہ کوئی کسی کو اس کی ذمے داریوں سے سبک دوش کر سکتا ہے، اور نہ کسی کی غلط روی کا وبال دوسرے پر پڑ سکتا ہے۔
انسان جب تک زمین میں ہے اور جب تک مٹی کے پُتلے (جسدِ انسانی) اور خدا کی پھونکی ہوئی روح میں تعلق باقی ہے، اس وقت تک وہ خدا کا نائب ہے۔ یہ تعلق منقطع ہوتے ہی وہ خلافتِ ارضی کے منصب سے الگ ہوجاتا ہے۔ اس کے زمانۂ نیابت کے افعال و اعمال کی جانچ پڑتال ہونی چاہیے ۔ اس کے سپرد جو امانت کی گئی تھی، اس کا حساب کتاب ہونا چاہیے۔ اس پر نائب ہونے کی حیثیت سے جو ذمے داریاں عائد کی گئی تھیں، ان کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ اس نے انھیں کس طرح انجام دیا۔ اگر اس نے غبن، خیانت، نافرمانی، بغاوت اور نافرض شناسی کی ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے، اور اگر ایمان داری، فرض شناسی، اطاعت کوشی سے کام کیا ہے تو اس کا انعام بھی ملنا ضروری ہے۔
زندگی کا اسلامی تصور
اس لفظ خلافت ونیابت سے ایک اور اہم نکتے کی طرف بھی اشارہ نکلتا ہے، نائب کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ اپنے آقا کی املاک میں اس کی جانشینی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے اور جہاں تک ممکن ہو ان میں اسی شان کا تصرف کرے جس شان کا تصرف خود حقیقی مالک کرتا ہے۔ بادشاہ اگر اپنی رعیت پر کسی شخص کو اپنا نائب بنائے تواس کے لیے اپنے منصبِ نیابت کے استعمال کا بہترین طریقہ یہ ہو گا کہ رعیت کی خبر گیری، شفقت، مہربانی، حفاظت، عدل اور حسب موقع سختی کرنے میں وہی سیرت اختیار کرے جو خود بادشاہ کی سیرت ہے، اور بادشاہ کی املاک اور اس کے اموال میں ویسی ہی حکمت، تدبر، دانائی اور احتیاط سے تصرف کرے جس سے خود بادشاہ ان میں تصرف کرتا ہے۔
پس جب انسان کو خدا کا خلیفہ اور نائب قرار دیا گیا تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ انسان خدا کی نیابت و خلافت کا پورا حق اس وقت ادا کر سکتا ہے، جب خدا کی مخلوق کے ساتھ برتائو کرنے میں اس کی روش بھی ویسی ہی ہو جیسی خود خدا کی روش ہے۔ یعنی جس شانِ ربوبیت کے ساتھ خدا اپنی مخلوق کی خبر گیری اور پرورش کرتا ہے ویسی ہی شان کے ساتھ انسان بھی اپنے محدود دائرۂ عمل میں ان چیزوں کی خبر گیری اور پرورش کرے جو اللّٰہ نے اس کے قبضۂ قدرت میں دی ہیں۔
اسی طرح جس شانِ رحمانی و رحیمی کے ساتھ خدا اپنی ملکیت میں تصرف کرتا ہے، جس شانِ عدل کے ساتھ خدا اپنی مخلوقات میں نظم قائم کرتا ہے، جس شانِ رحم و کرم کے ساتھ خدا اپنی صفتِ قہر و جبر کا اظہار کرتا ہے، چھوٹے پیمانے پر اسی شان کے ساتھ انسان بھی خدا کی اس مخلوق کے ساتھ معاملہ کرے جس پر اللّٰہ نے اسے حکومت بخشی ہے اور جسے اس کے لیے مسخر کیا ہے۔ یہی مفہوم ہے جو تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ کے حکیمانہ جملے میں ادا کیا گیا ہے۔ مگر یہ اعلیٰ اخلاقی مرتبہ صرف اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب انسان اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ وہ اس دنیا میں کوئی خود مختار فرماں روا نہیں ہے بلکہ اس کے حقیقی فرماں روا کا نائب ہے، اور یہی نیابت کا منصب ہے جو دنیا کی تمام اشیا حتیٰ کہ خود اپنے جسم… اور جسمانی و نفسانی قوتوں کے ساتھ اس کے تعلق کی حیثیت اور حدود متعین کرتا ہے۔
منصبِ نیابت کی تشریح میں یہ جتنے نکات بیان ہوئے ہیں ان سب کی تفصیل قرآن مجید میں موجود ہے، جس سے دنیا اور انسان کے باہمی تعلق کا ہر پہلو روشن اور واضح ہو جاتا ہے۔
انسان نائب ہے نہ کہ مالک
کہا گیا ہے:
وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ۝۰ۭ الانعام 165:6
وہ اللّٰہ ہی ہے جس نے تمھیں زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض سے اونچے درجے دیے، تاکہ جو کچھ اس نے تمھیں دیا ہے اس میں تمھاری آزمائش کرے۔
قَالَ عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّہْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَo الاعراف 129:7
موسیٰ نے بنی اسرائیل سے کہا قریب ہے کہ خدا تمھارے دشمن کو ہلاک کرے اور تمھیں زمین کی خلافت دے تاکہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟
يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَۃً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا نَسُوْا يَوْمَ الْحِسَابِo صٓ 26:38
اے دائود! ہم نے تجھے زمین میں اپنا نائب بنایا ہے پس تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور اپنی خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر کہ یہ تجھے اللّٰہ کے راستے سے بھٹکا دے گی۔ جو لوگ اللّٰہ کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لیے اس بِنا پر سخت عذاب ہے کہ وہ حساب کے دن کو بھول گئے۔
اَلَيْسَ اللہُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَo التین 8:95
کیا خدا تمام حاکموں کا حاکم نہیں ہے؟
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۝۰ۭ الانعام 57:6
حکومت اللّٰہ کے سوا کسی کی نہیں ہے۔
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۝۰ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ آل عمران 26:3
کہو کہ خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے، جسے چاہتا ہے معزز کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے۔
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۝۰ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَo الاعراف 3:7
جو کچھ تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے ہدایت بھیجی گئی ہے صرف اسی کی پیروی کرو اور اس کے سوا دوسرے کارسازوں کی پیروی نہ کرو۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo الانعام 162:6
کہو کہ میری نماز اورمیری عبادت اورمیری زندگی اور میری موت سب خدا کے لیے ہے جو رب العالمین ہے۔
یہ آیات بتاتی ہیں کہ دنیا میں جتنی چیزیں انسان کے زیرِ تصرف اور زیرِ حکم ہیں حتیٰ کہ خود اس کا نفس بھی اس کی مِلک نہیں ہے۔ اصلی مالک اورحاکم اور فرماں روا خدا ہے۔ انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ان چیزوں میں مالکانہ تصرّف کرے اور من مانے طریقوں سے ان کو استعمال کرے۔ اس کی حیثیت دنیا میں صرف نائب کی ہے اور اس کے اختیار کی حد بس اتنی ہے کہ خدا کی ہدایت پر چلے اور اس کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ان چیزوں میں تصرف کرے۔ اس حد سے تجاوز کرکے اپنے نفس کی پیروی کرنا یا فرماں روائے حقیقی کے سوا کسی اور فرماں روا کی پیروی کرنا بغاوت اور گم راہی ہے۔
دنیا میں کام یابی کی اوّلین شرط
کہا گیا کہ:
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوْا بِاللہِ۝۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَo العنکبوت52:29
اور جو لوگ باطل پر ایمان لائے اور اللّٰہ سے کفر کیا، وہی دراصل نقصان میں ہیں۔
وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِہٖ فَيَمُتْ وَھُوَكَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ البقرہ 217:2
تم میں سے جو کوئی اپنے دین یعنی خدا کی اطاعت سے پھر گیا اور اس حال میں مرا کہ وہ کافرتھا تو ایسے تمام لوگوں کے اعمال دنیا اورآخرت میں اکارت گئے۔
وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ۝۰ۡوَہُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَo المائدہ 5:5
اور جو کوئی ایمان لانے سے انکار کرے اس کا عمل ضائع ہو گیا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہے۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ نائبِ خدا ہونے کی حیثیت سے دنیوی زندگی میں انسان کی کام یابی کا انحصار اس پر ہے کہ جس کا وہ نائب ہے اس کی فرماں روائی تسلیم کرے، اور دنیا میں جو کچھ کرے یہ سمجھ کر کرے کہ میں خدا کا نائب اور اس کا امین ہوں۔ اس حیثیت کو تسلیم کیے بغیر خدا کی ملکیت میں وہ جس قدر تصرف کرے گا وہ محض باغیانہ تصرف ہو گا۔ اور یہ قاعدے کی بات ہے کہ باغی اگر کسی ملک پر متصرف ہو کر بہتر کار گزاری بھی دکھائے تب بھی ملک کی اصلی حکومت اس کے حُسنِ عمل کو تسلیم نہ کرے گی۔ بادشاہ کی نگاہ میں باغی بہر حال باغی ہو گا، خواہ اس کی ذاتی سیرت اچھی ہو یا بُری، خواہ بغاوت کرکے اس نے ملک میں اچھی طرح تصرف کیا ہو یا بری طرح۔
دنیا برتنے کے لیے ہے
کہا گیا کہ:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا۝۰ؗۖ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌo اِنَّمَا يَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْۗءِ وَالْفَحْشَاۗءِ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo البقرہ 168-169:2
اے لوگو! جو کچھ زمین میں حلال اور پاک ہے اس میں سے کھائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تو تمھیں بدی اور بے حیائی کا اور خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہنے کا حکم دیتا ہے جو تم نہیں جانتے۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللہُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَo وَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللہُ حَلٰلًا طَيِّبًا۝۰۠ وَّاتَّقُوا اللہَ الَّذِيْٓ اَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَo المائدہ 87-88:5
اے ایمان لانے والو! جو پاک چیزیں اللّٰہ نے تمھارے لیے حلال کی ہیں، انھیں اپنے اوپر حرام نہ کرو، اور حد سے بھی نہ گزرو کہ اللّٰہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور ان پاک اور حلال چیزوں میں سے کھائو جو اللّٰہ نے تمھیں عطا کی ہیں۔ اور اس خدا کے غضب سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَۃَ اللہِ الَّتِيْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّيِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ۝۰ۭ الاعراف 32:7
کہو کہ کس نے اللّٰہ کی اس زینت کو حرام کیا ہے جو اللّٰہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالی ہے اور کس نے پاک رزق کو حرام کر دیا ہے؟
يَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہٰىہُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَہُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْہِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ الاعراف 157:7
ہمارا پیغمبر انھیں نیکی کا حکم کرتا، اور بدی سے روکتا ہے، اور ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے اس بوجھ اور ان بندشوں کو دور کرتا ہے جو ان پر تھیں۔
لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۭ البقرہ 198:2
تمھارے لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ اپنے رب کا فضل (یعنی کاروبار کے ذریعے سے روزی) تلاش کرو۔
وَرَہْبَانِيَّۃَۨ ابْتَدَعُوْہَا مَا كَتَبْنٰہَا عَلَيْہِمْ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ رِضْوَانِ اللہِ الحدید 27:57
اور رہبانیت کا طریقہ جو مسیح کے پیرووں نے خود نکال لیا تھا، یہ انھوں نے محض خدا کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا، وہ ہم نے ان پر نہیں لکھا تھا۔
وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَــہَنَّمَ كَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۝۰ۡۖ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِہَا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَo الاعراف 179:7
ہم نے جہنم کے لیے بہتیرے جن اور انسان پیدا کیے ہیں۔ ان کے پاس دل ہیں مگر ان سے سوچتے سمجھتے نہیں، اور ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں، اور ان کے پاس کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہی لوگ غفلت میں ہیں۔
یہ آیات ظاہر کرتی ہیں کہ انسان کا کام دنیا کو چھوڑ دینا نہیں ہے، نہ دنیا کوئی ایسی چیز ہے کہ اس سے پرہیز اور حذر کیا جائے، اس سے دور بھاگا جائے، اس کے کاروبار، اس کے معاملات، اس کی نعمتوں اور اس کی لذتوں اور زینتوں کو اپنے اوپر حرام کر لیا جائے۔ یہ دنیا انسان ہی کے لیے بنائی گئی ہے اور اس کا کام یہ ہے کہ اسے برتے اور خوب برتے، مگر برے اور بھلے، پاک اورناپاک، مناسب اور نامناسب کے فرق کو ملحوظ رکھ کر برتے، خدا نے اسے آنکھیں دی ہیں اس لیے کہ وہ ان سے دیکھے۔ کان دیے ہیں کہ ان سے سنے۔ عقل دی ہے کہ اس سے کام لے۔ اگر وہ اپنے حواس، اپنے اعضا اور اپنے قوائے ذہنی کو استعمال نہ کرے، یا استعمال کرے مگر غلط طریقے سے تو اس میں اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔
دنیوی زندگی کا مآل
کہا گیا:
اِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا۝۰۪ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللہِ الْغَرُوْرُo
لقمان 33:31
آخرت کے متعلق اللّٰہ کا وعدہ یقینا ً سچا ہے۔ پس دنیا کی زندگی تمھیں دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ فریب کار (شیطان) تمھیں خدا سے بے فکر کرے۔
وَاتَّبَعَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مَآ اُتْرِفُوْا فِيْہِ وَكَانُوْا مُجْرِمِيْنَo ھود 116:11
جن لوگوں نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا وہ ان دنیوی لذتوں کے پیچھے پڑے رہے جو انھیں دی گئی تھیں اور وہ مجرم تھے۔
وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ہَشِيْمًا تَذْرُوْہُ الرِّيٰحُ۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًاo اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَۃُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۚ وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ اَمَلًاo الکہف 45-46:18
ان کے سامنے دنیوی زندگی کی مثال پیش کر، وہ ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کی بدولت زمین کے برگ و بار گھنے ہو گئے، پھر آخر کار یہ سب نباتات بھوسا ہو کر رہ گئے، جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیں۔ اللّٰہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ مال اور اولاد محض دنیوی زندگی کی زینت ہیں۔ مگر تیرے رب کے نزدیک ثواب اور آیندہ کی توقع کے اعتبار سے باقی رہنے والی نیکیاں ہی زیادہ بہتر ہیں۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ۝۰ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَo المنافقون63:9
اے ایمان لانے والو! تمھارے اموال اورتمھاری اولاد تمھیںخدا کی یاد سے غافل نہ کر دیں۔ جو لوگ ایسا کریں گے دراصل وہی ٹوٹے میں ہیں۔
وَمَآ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِيْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰٓي اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا۝۰ۡ سبا 37:34
تمھارے اموال اور تمھاری اولاد وہ چیزیں نہیں ہیں جو تمھیں ہم سے قریب کرنے والی ہوں۔ ہم سے قریب صرف وہ ہے جو ایمان لایا اور جس نے نیک عمل کیا۔
اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ وَّزِيْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ۝۰ۭ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ يَہِيْجُ فَتَرٰىہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا۝۰ۭ الحدید 20:57
جان رکھو کہ دنیا کی زندگی ایک کھیل، ایک تماشا، ایک ظاہری شان ہے، اور آپس میں تمھارا ایک دوسرے پر فخر کرنا، اور مال اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ بارش ہوئی، اس کی روئیدگی نے نافرمانوں کو خوش کر دیا۔ پھر وہ پک گئی اور تو نے دیکھا کہ وہ زرد پڑ گئی، پھر آخر کار وہ بھوسا ہو کر رہ گئی۔
اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْــعٍ اٰيَۃً تَعْبَثُوْنَo وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَo
الشعرائ 128:26
کیا تم ہر اونچی جگہ بے نتیجہ یادگاریں بناتے اور عمارتیں کھڑی کرتے ہو؟ شاید کہ تمھیں ہمیشہ یہاں رہنا چاہے۔
اَتُتْرَكُوْنَ فِيْ مَا ہٰہُنَآ اٰمِنِيْنَo فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍo وَّزُرُوْعٍ وَّنَخْلٍ طَلْعُہَا ہَضِيْمٌo وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِہِيْنَo الشعرائ 146-149:26
کیا تم ان چیزوں میں جو یہاں ہیں اطمینان سے چھوڑ دیے جائو گے؟ ان باغوں، ان چشموں، ان کھیتیوں، ان نخلستانوں میں جن کے خوشے ٹوٹے پڑتے ہیں؟ تم پہاڑ کاٹ کاٹ کر گھر بنا رہے ہو اور خوش ہو۔
اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَـيَّدَۃٍ۝۰ۭ النسائ 78:4
تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمھیں آئے گی، خواہ تم بڑے مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ ہو۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۝۰ۣ ثُمَّ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَo العنکبوت57:29
ہر ہستی کو موت آنی ہے۔ پھر تم سب ہماری طرف واپس لائے جائو گے۔
اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَo المومنون115:23
کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمھیں بے نتیجہ پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف واپس نہ لائے جائو گے؟
پہلے کہا گیا تھا کہ دنیا تمھارے لیے ہے، اور اسی لیے بنائی گئی ہے کہ تم اسے خوب اچھی طرح برتو۔ اب معاملے کا دوسرا رخ پیش کیا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ مگر تم دنیا کے لیے نہیں ہو، نہ اس لیے بنائے گئے ہو کہ یہ دنیا تمھیں برتے اور تم اسی میں اپنے آپ کو گم کر دو۔ دنیا کی زندگی سے دھوکا کھا کرکبھی یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ ہمیں دائماً یہیں رہنا ہے۔ خوب یاد رکھو کہ یہ مال، یہ دولت، یہ شان و شوکت کے سامان، سب ناپائدار ہیں۔ سب کچھ دیر کا بہلاوا ہیں۔ سب کا انجام موت ہے اور تمھاری طرح یہ سب خاک میں مل جانے والے ہیں۔ اس ناپائدار عالم میں سے اگر کوئی چیز باقی رہنے والی ہے تو وہ صرف نیکی ہے، دل اور روح کی نیکی، عمل اور فعل کی نیکی۔
اعمال کی ذمے داری اور جواب دہی
پھر کہا گیا:
اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِيَۃٌ اَكَادُ اُخْفِيْہَا لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍؚبِمَا تَسْعٰيo طٰہٰ 15:20
فیصلے کی گھڑی جسے ہم چھپانے کا ارادہ رکھتے ہیں آنے والی ہے تاکہ ہر نفس کو اس کی سعی کے مطابق بدلہ ملے۔
ہَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo النمل 90:27
کیا تمھیں تمھارے عملوں کے سوا کسی اور چیز کے لحاظ سے جزا دی جائے گی؟
وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىo وَاَنَّ سَعْيَہٗ سَوْفَ يُرٰىo ثُمَّ يُجْزٰىہُ الْجَزَاۗءَ الْاَوْفٰىo وَاَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَہٰىo النجم 39-42:53
اور یہ کہ انسان کو اتنا ہی ملے گا جتنی اس نے کوشش کی ہے اور اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی، پھر اسے پورا پورا بدلہ ملے گا، اور یہ کہ آخر کار سب کو تیرے پروردگار کے پاس پہنچنا ہے۔
وَمَنْ كَانَ فِيْ ہٰذِہٖٓ اَعْمٰى فَہُوَفِي الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰى وَاَضَلُّ سَبِيْلًاo بنی اسرائیل 72:17
جو اس دنیا میں اندھا تھا، وہ آخرت میں بھی اندھا ہو گا، اور وہ راہِ راست سے بہت ہٹا ہوا ہے۔
وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌo
البقرہ 110:2
تم اپنے لیے جو نیکیاں اس دنیا سے بھیجو گے انھیں اللّٰہ کے ہاں پائو گے۔ تم جو کچھ کرتے ہو اللّٰہ اسے دیکھتا ہے۔
وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْہِ اِلَى اللہِ۝۰ۣۤ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَo البقرہ 281:2
اس دن سے ڈرو جب تم اللّٰہ کے پاس واپس کیے جائو گے، پھر ہرنفس کو اس کے کیے کا بدلہ ملے گا اور ان پر ہرگز ظلم نہ کیا جائے گا۔
يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا۝۰ۚۖۛ وَّمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْۗءٍ۝۰ۚۛ
آل عمران 30:3
وہ دن جب کہ ہر نفس اپنی کی ہوئی نیکی اور اپنی کی ہوئی بدی کو حاضر پائے گا۔
وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۝۰ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَظْلِمُوْنَo
الاعراف 8-9:7
اس دن اعمال کا تولا جانا برحق ہے۔ جن کے اعمال کا پلڑا بھاری ہو گا، وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے، اور جن کے اعمال کا پلڑا ہلکا ہو گا، وہی لوگ اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والے ہوں گے، کیوں کہ وہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے تھے۔
فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗo وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا يَّرَہٗo
الزلزال99:8-7
پس جو شخص ذرّہ برابر نیک عمل کرے گا، اس کا نتیجہ دیکھ لے گا، اور جو ذرہ برابر برا عمل کرے گا، اس کا نتیجہ بھی دیکھ لے گا۔
فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى۝۰ۚ
آل عمران 195:3
اللّٰہ نے ان کی دعا قبول کی اور کہا کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہ کروں گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔
وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَآ اَخَّرْتَنِيْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ۝۰ۙ فَاَصَّدَّقَ وَاَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَo وَلَنْ يُّؤَخِّرَ اللہُ نَفْسًا اِذَا جَاۗءَ اَجَلُہَا۝۰ۭ المنافقون 10-11:63
ہم نے تمھیں جو کچھ بخشا ہے اس میں سے خرچ کر دو، قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آئے اور وہ کہے کہ میرے رب! کاش تو مجھے تھوڑی مہلت اور دیتا تو میں تیرے راستے میں خرچ کرتا اور نیکو کاروں میں سے ہوتا۔ مگر اللّٰہ کسی نفس کی مدتِ مقررہ آن پہنچنے کے بعد پھر اسے مہلت ہرگز نہیں دیتا۔
وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَo … … فَذُوْقُوْا بِمَا نَسِيْتُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا۝۰ۚ اِنَّا نَسِيْنٰكُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo السجدہ 12-14:32
کاش تم وہ وقت دیکھتے جب مجرم اپنے رب کے سامنے سرجھکائے کھڑے ہوں گے اور کہیں گے کہ پروردگار! ہم نے اب دیکھ لیا اور سن لیا، اب تو ہمیں واپس کر دے ہم اچھے عمل کریں گے۔ اب ہمیں ایقان حاصل ہو گیا ہے… مگر کہا جائے گا کہ اب اس کوتاہی کا مزا چکھو کہ تم نے اس دن ہمارے پاس حاضر ہونے کو بھلا دیا، اب ہم بھی تمھیں بھلا چکے ہیں۔ پس اب ہمیشگی کے عذاب کا مزا چکھو ان اعمال کے بدلے جو تم کرتے تھے۔
یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا دارُالعمل ہے، سعی اور کوشش کی جگہ ہے، اور آخرت کی زندگی دارُالجزا ہے، نیکی اور بدی کے پھل اور اعمال کے بدلے کا گھر ہے۔ انسان کو موت کی گھڑی تک دنیا میں عمل کرنے کی مہلت ملی ہوئی ہے۔ اس کے بعد اسے پھر عمل کی مہلت ہرگز نہ ملے گی۔ لہٰذا اس عرصۂ حیات میں اسے یہ سمجھ کر سعی کرنی چاہیے کہ میرا ہر کام، میری ہر حرکت، میری ہر برائی اور بھلائی اپنا ایک اثر رکھتی ہے، ایک وزن رکھتی ہے، اور اس اثر اور وزن کے مطابق مجھے بعد کی زندگی میں اچھا یا برا نتیجہ ملنے والا ہے۔ مجھے جو کچھ ملے گا وہ میری یہاں کی کوشش اور میرے یہاں کے عمل کا بدلہ ہو گا۔ نہ میری کوئی نیکی ضائع ہو گی اور نہ کوئی بدی سزا سے بچے گی۔
انفرادی ذمے داری
اس ذمے داری کے احساس کو مزید تقویت دینے کے لیے یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ ہر شخص خود اپنے فعل کا ذمے دار ہے۔ نہ کوئی دوسرا اس کی ذمے داری میں شریک ہے، اور نہ کوئی شخص کسی کو اس کے نتائجِ عمل سے بچا سکتا ہے۔
عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ۝۰ۚ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَيْتُمْ۝۰ۭ المائدہ 105:5
تم پر تمھارے اپنے نفس کی ذمے داری ہے۔ اگر تم ہدایت پائو تو دوسرا گم راہ ہونے والا تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَيْہَا۝۰ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰي۝۰ۚ الانعام 164:6
ہر نفس جو کچھ کماتا ہے اس کا بوجھ اسی پر ہے۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔
لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ۝۰ۚۛ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۚۛ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ۝۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌo الممتحنہ60:3
قیامت کے دن تمھارے رشتے اورتمھاری اولاد ہرگز کام نہ آئے گی۔ تمھارے درمیان اللّٰہ فیصلہ کرے گا، اور اس کی نظر تمھارے عملوں پر ہے۔
اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ۝۰ۣ وَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَہَا۝۰ۭ بنی اسرائیل 7:17
اگر تم نیک کام کرو گے تو اپنے نفس کے لیے کرو گے اور اگر برے کام کرو گے تو اسی کے لیے۔
وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۝۰ۭ وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ اِلٰى حِمْلِہَا لَا يُحْمَلْ مِنْہُ شَيْءٌ وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى۝۰ۭ فاطر 18:35
کوئی شخص کسی دوسرے کا بارِ گناہ اپنے سر نہ لے گا، اور اگر کسی پر گناہوں کا بڑا بار ہو اور وہ اپنا ہاتھ بٹانے کے لیے کسی کو بلائے تو وہ اس کے بوجھ کا کوئی حصہ اپنے اوپر نہ لے گا، خواہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہو۔
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِيْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِہٖ۝۰ۡوَلَا مَوْلُوْدٌ ہُوَجَازٍ عَنْ وَّالِدِہٖ شَـيْـــــًٔا۝۰ۭ لقمان 33:31
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جب کہ نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کے کام آئے گا اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آ سکے گا۔
مَنْ كَفَرَ فَعَلَيْہِ كُفْرُہٗ۝۰ۚ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنْفُسِہِمْ يَمْہَدُوْنَo الروم 44:30
جس نے کفر کیا اس کے کفر کا وبال اس کے سر ہے اور جس نے نیک عمل کیا تو ایسے لوگ خود اپنی بہتری کے لیے راستہ صاف کر رہے ہیں۔
یہاں ہر انسان پر فرداً فرداً اس کے تمام اچھے اور برے اعمال کی کامل ذمے داری کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ نہ یہ امید باقی رہنے دی گئی ہے کہ کوئی ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کا کفارہ ادا کرے گا، نہ اس توقع کے لیے کوئی گنجائش چھوڑی گئی ہے کہ کسی کے تعلق اور کسی کے واسطے سے ہم اپنے جرائم کی پاداش سے بچ جائیں گے، اورنہ اس خطرے کا کوئی موقع باقی رکھا گیا ہے کہ کسی کا جرم ہمارے حسنِ عمل پر اثر انداز ہو گا، یا خدا کے سوا کسی کی خوشی کو ہمارے اعمال کی مقبولیت و نامقبولیت میں کوئی دخل ہے۔ جس طرح آگ میں ہاتھ ڈالنے والے کو جلنے سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی، اور شہد کھانے والے کو شیرینی کے احساس سے کوئی شے نہیں روک سکتی، نہ جلنے کی مضرت میں کوئی دوسرا شخص اس کا شریک و سہیم ہو سکتا ہے اور نہ شیرینی کی لذت سے کوئی دوسرا اسے محروم کر سکتا ہے، اسی طرح بدکاری کے نتیجہ ٔ بد اور نیکوکاری کے انجامِ نیک میں بھی ہر شخص بجائے خود منفرد ہے۔ لہٰذا دنیا کو برتنے میں ہر شخص کو اپنی پوری ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے اور دنیا و مافیہا سے قطع نظر کرکے یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرنی چاہیے کہ اپنے ہر عمل کا ذمے دار میں خود ہوں، برائی کا وبال بھی تنہا میرے اوپر ہے، اور بھلائی کا فائدہ بھی اکیلا میں اٹھانے والا ہوں۔
اوپر اسلام کے تصورِ حیاتِ دنیا کی جو تحلیل کی گئی ہے اس سے وہ تمام اجزا آپ کے سامنے آگئے ہیں جن سے یہ تصور مرکب ہے۔ اب تحلیل و تجزیہ کے پہلو کو چھوڑ کر ترکیب و تالیف کے پہلو پر نظر ڈالیے اور یہ دیکھیے کہ ان متفرق اجزا کے ملنے سے جو کلی تصور حاصل ہوتا ہے، وہ کس حد تک فطرت اور واقعے کے مطابق ہے؟ اور دنیوی زندگی کے متعلق دوسری تہذیبوں کے تصورات کی نسبت سے اس کا کیا مرتبہ ہے؟ اور اس تصورِ حیات پر جس تہذیب کی بنیاد قائم ہے، وہ انسان کے فکر و عمل کو کس سانچے میں ڈھالتی ہے؟
زندگی کا فطری تصور
تھوڑی دیر کے لیے اپنے ذہن کو تمام ان تصورات سے، جو دنیا اور حیاتِ دنیا کے متعلق مذاہب نے پیش کیے ہیں، خالی کرکے ایک مبصر کی حیثیت سے اپنے گرد و پیش کی دنیا پر نگاہ ڈالیے اور غور کیجیے کہ اس پورے ماحول میں آپ کی حالت کیا ہے؟ اس مشاہدے میں آپ کو چند باتیں واضح طور پر نظر آئیں گی۔
آپ دیکھیں گے کہ جتنی قوتیں آپ کو حاصل ہیں ان کا دائرہ محدود ہے۔ آپ کے حواس جن پر آپ کے علم کا انحصار ہے، آپ کے قریبی ماحول کی حدود سے آگے نہیں بڑھتے۔ آپ کے جوارح جن پر آپ کے عمل کا انحصار ہے، بہت تھوڑی سی اشیا پر دست رس رکھتے ہیں۔ آپ کے گرد و پیش بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو آپ سے جسم اور طاقت میں بڑھی ہوئی ہیں اور ان کے مقابلے میں آپ کی ہستی نہایت حقیر اور کم زور نظر آتی ہے۔ دنیا کے اس بڑے کارخانے میں جو زبردست قوتیں کار فرما ہیں ان میں سے کوئی بھی آپ کے دستِ قدرت میں نہیں ہے اور آپ ان قوتوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیں۔ جسمانی حیثیت سے آپ ایک متوسط درجے کی ہستی رکھتے ہیں جو اپنے سے چھوٹی چیزوں پر غالب اوراپنے سے بڑی چیزوں سے مغلوب ہے۔
لیکن ایک اور قوت آپ کے اندر ایسی ہے جس نے آپ کو ان تمام چیزوں پر شرف عطا کر دیا ہے۔ اسی قوت کی بدولت آپ اپنی جنس کے تمام حیوانات پر قابو پا لیتے ہیں اور ان کی جسمانی طاقتوں کو جو آپ کی جسمانی طاقت سے بہت بڑھی ہوئی ہیں، مغلوب کر لیتے ہیں۔ اسی قوت کی بدولت آپ اپنے گرد و پیش کی چیزوں میں تصرف کرتے ہیں اور ان سے اپنی مرضی کے مطابق خدمت لیتے ہیں۔ اسی قوت کی بدولت آپ طاقت کے نئے نئے خزانوں کا پتا چلاتے ہیں اور انھیں نکال نکال کر نئے نئے طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔ اسی قوت کی بدولت آپ اپنے وسائلِ اکتسابِ علم کو وسعت دیتے ہیں اور ان چیزوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں جو آپ کے طبیعی قوٰی کی دست رس سے باہر ہیں۔ غرض ایک قوت ہے جس کی بدولت تمام دنیا کی چیزیں آپ کی خادم بن جاتی ہیں اور آپ ان کے مخدوم ہونے کی مزیت حاصل کر تے ہیں۔
پھر کارگاہِ ہستی کی وہ بالاتر قوتیں بھی جو آپ کے دستِ قدرت میں نہیں ہیں، اس ڈھنگ پر کام کر رہی ہیں کہ بالعموم وہ آپ کی دشمن و مخالف نہیں بلکہ آپ کی مددگار اور آپ کے مفاد و مصلحت کی تابع ہیں۔ ہوا، پانی، روشنی، حرارت اور ایسی ہی دوسری قوتیں جن پر آپ کی زندگی کا انحصار ہے، کسی ایسے نظام کے ماتحت عمل کر رہی ہیں جس کا مقصد آپ کی مساعدت کرنا ہے، اور اسی بِنا پر آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ سب آپ کے لیے مسخر ہیں۔
اپنے اس ماحول پر جب آپ ایک عمیق نگاہ ڈالتے ہیں توآپ کو ایک زبردست قانون کارفرما نظر آتا ہے جس کی گرفت میں حقیر ترین ہستیوں سے لے کر عظیم ترین ہستیوں تک یکساں جکڑی ہوئی ہیں اور جس کے ضبط و نظم پر تمام عالم کی بقا کا انحصار ہے۔ آپ خود بھی اس قانون کے تابع ہیں، مگر آپ میں اور دوسری اشیائے عالَم میں ایک بڑا فرق ہے۔ دوسری تمام چیزیں اس قانون کے خلاف حرکت کرنے پر ذرّہ برابر قدرت نہیں رکھتیں لیکن آپ کو اس کے خلاف چلنے کی قدرت حاصل ہے۔ یہی نہیں بلکہ جب آپ اس کے خلاف چلنا چاہتے ہیں تو وہ قانون اس خلاف ورزی میں بھی آپ کی مساعدت کرتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ہر ایسی خلاف ورزی اپنے ساتھ کچھ مضرتیں رکھتی ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ آپ اس کی مخالفت کرنے کے بعد اس کے بُرے اثرات سے بچ جائیں۔
اس عالم گیر اور اٹل قانون کے تحت دنیا میں کون و فساد کے مختلف مظاہر آپ کو نظر آتے ہیں۔ تمام عالم میں بننے اور بگڑنے کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ جس قانون کے تحت ایک چیز کو پیدا اور پرورش کیا جاتا ہے اسی قانون کے تحت اسے مٹایا اور ہلاک بھی کر دیا جاتا ہے، دنیا کی کوئی شے اس قانون کے نفاذ سے محفوظ نہیں ہے۔ بظاہر جو چیزیں اس سے محفوظ نظر آتی ہیں اور جن پر استمرار و دوام کا شبہ ہوتا ہے انھیں بھی جب آپ تعمق کی نظر سے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حرکت و تغیر کا عمل ان میں بھی جاری ہے اور کون و فساد کے چکر سے انھیں بھی نجات حاصل نہیں ہے۔ چوں کہ کائنات کی دوسری چیزیں شعور و ادراک نہیں رکھتیں یا کم از کم ہمیں اس کا علم نہیں ہے، اس لیے ہم ان کے اندر اس بننے اور بگڑنے سے کسی لذت اور الم کا اثر محسوس نہیں کرتے۔ اور اگر انواعِ حیوانی میں اس کا اثر محسوس ہوتا بھی ہے تو وہ بہت محدود ہوتا ہے۔ لیکن انسان جو ایک صاحبِ شعور وادراک ہستی ہے، اپنے گردو پیش ان تغیرات کو دیکھ کر لذت اور الم کے شدید اثرات محسوس کرتا ہے۔ کبھی مناسبِ طبع امور سے اس کی لذت اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ وہ اسے بھول جاتا ہے کہ اس دنیا میں فساد بھی ہے، اور کبھی مخالفِ طبع امور سے اس کا الم اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ اس دنیا میں اسے نرا فساد ہی فساد نظر آنے لگتا ہے اور وہ بھول جاتا ہے کہ یہاں کَون بھی ہے۔
مگر خواہ آپ کے اندر لذت اور الم کے کیسے ہی متضاد احساسات ہوں اور ان کے زیر اثر دنیوی زندگی کے متعلق آپ کا نظریہ کتنا ہی افراط یا تفریط کی طرف مائل ہو، بہرحال آپ اپنی جبلت سے مجبور ہیں کہ اس دنیا کو جیسی بھی ہے، عملاً برتیں، اور ان قوتوں سے جو آپ کے اندر موجود ہیں کام لیں۔ آپ کی جبلت میں زندہ رہنے کی خواہش موجود ہے، اور اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے آپ کے اندر بھوک کی ایک زبردست قوت رکھ دی گئی ہے، جو دائماً آپ کو عمل پر مجبور کرتی رہتی ہے۔ فطرت کا قانون آپ کی نوع کے استمرار کے لیے آپ سے خدمت لینا چاہتا ہے اور اس کے لیے اس نے شہوت کی ایک ناقابل دفع قوت آپ کے اندر رکھ دی ہے جو آپ سے اپنا مقصد پورا کرا کے ہی چھوڑتی ہے۔ اسی طرح آپ کی جبلت میں کچھ دوسرے مقاصد کے لیے کچھ اور قوتیں بھی رکھ دی گئی ہیں اور وہ سب آپ سے بزور اپنا کام لے لیتی ہیں۔ اب یہ آپ کی اپنی فراست و دانائی پر موقوف ہے کہ فطرت کے ان مقاصد کی خدمت اچھے طریقے سے انجام دیں یا بُرے طریقے سے، بطیبِ نفس انجام دیں یا بَہ جبر و اکراہ۔ یہی نہیں بلکہ خود فطرت ہی نے مخصوص طور پر آپ کو یہ قدرت بھی عطا کی ہے کہ ان مقاصد کی خدمت انجام دیں یا نہ دیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس فطرت کا قانون یہ بھی ہے کہ اس کی خدمت بجا لانا اور اچھے طریقے سے بطیبِ نفس بجا لانا آپ کے لیے مفید ہوتا ہے، اور اگر آپ اس سے رو گردانی کریں، یا اگر اس کی متابعت کریں بھی تو بُری طرح کریں، تو یہ خود آپ ہی کے لیے مضر ہوتا ہے۔
مختلف مذاہب کے تصورات
ایک صحیح الفطرت اور وسیع النظر آدمی جب دنیا پر نظر ڈالے گا اور اس دنیا کی نسبت سے اپنی حالت پر غور کرے گا، تو وہ تمام پہلو اس کی نگاہ کے سامنے آ جائیں گے جو اوپر بیان کیے گئے ہیں۔ لیکن نوعِ انسانی کے مختلف گروہوں نے اس مرقع کو مختلف گوشوں سے دیکھا ہے، اور اکثر ایسا ہوا ہے کہ جسے جو پہلو نمایاں نظر آیا اس نے حیاتِ دنیا کے متعلق اسی پہلو کے لحاظ سے ایک نظریہ قائم کر لیا اوردوسرے پہلوئوں پرنگاہ ڈالنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
مثال کے طور پر ایک گروہ نے انسان کی کم زوری اور بے بسی اور اس کے مقابلے میں فطرت کی بڑی بڑی طاقتوں کی شوکت و جبروت کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالا کہ دنیا میں وہ ایک نہایت ہی حقیر ہستی ہے، اور یہ نافع وضار قوتیں جو دنیا میں نظر آتی ہیں، کسی عالم گیر قانون کی تابع نہیں ہیں بلکہ خود مختار یا نیم خود مختار طاقتیں ہیں۔ یہ تخیل ان کے ذہن پر اتنا غالب ہوا کہ وہ پہلو جس سے تمام کائنات پر انسان کو شرف و مزیت حاصل ہے، ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ وہ اپنی ہستی کے روشن پہلو کو بھی بھول گئے اور اپنی عزت و بزرگی کے احساس کو انھوں نے اپنی کم زوری و ناتوانی کے مبالغہ آمیز اعتراف پر قربان کر دیا۔ بت پرستی، شجر پرستی، ستارہ پرستی اور دوسرے قوائے فطرت کی پرستش اسی نظریے کی پیداوار ہے۔
ایک دوسرے گروہ نے دنیا کو اس نظر سے دیکھا کہ اس میں بس فساد ہی فساد ہے۔ تمام کارخانۂ ہستی اس لیے چل رہا ہے کہ انسان کو تکلیف اور رنج و الم پہنچائے۔ دنیا کے جتنے تعلقات اور روابط ہیں، سب انسان کو پریشانیوں اور مصیبتوں میں پھانسنے والے پھندے ہیں۔ ایک انسان پر ہی کیا موقوف ہے، تمام کائنات افسردگی اور ہلاکت کے پنجے میں گرفتار ہے۔ یہاں جو کچھ بنتا ہے بگڑنے کے لیے بنتا ہے۔ بہار اس لیے آتی ہے کہ خزاں اس کا چمن لوٹ لے۔ زندگی کا شجر اس لیے برگ و بار لاتا ہے کہ موت کا عفریت اس سے لطف اندوز ہو۔ بقا کا جمال سنور سنور کر اس لیے آتا ہے کہ فنا کے دیوتا کو اس سے کھیلنے کا خوب موقع ملے۔ اس تخیل نے ان لوگوں کے لیے دنیا اور اس کی زندگی میں کوئی دل چسپی باقی نہ چھوڑی اور انھوں نے اپنے لیے نجات کی راہ بس اسی میں دیکھی کہ دنیا سے کنارہ کش ہو جائیں، نفس کشی اور ریاضت سے اپنے تمام احساسات کو باطل کر دیں، اور فطرت کے اس ظالم قانون کو توڑ ڈالیں جس نے محض اپنے کارخانے کو چلانے کے لیے انسان کو آلۂ کار بنایا ہے۔
ایک اور گروہ نے اس دنیا کو اس نظر سے دیکھا کہ اس میں انسان کے لیے لذت و عیش کے سامان فراہم ہیں اور اسے ایک تھوڑی سی مدت ان سے لطف اندوز ہونے کے لیے مل گئی ہے۔ تکلیف اور الم کا احساس ان لذتوں کو بدمزا کر دیتا ہے۔ اگر انسان اس احساس کو باطل کر دے، اور کسی چیز کو اپنے لیے موجبِ الم اور باعثِ تکلیف نہ رہنے دے، تو یہاں پھر لطف ہی لطف ہے۔ آدمی کے لیے جو کچھ بھی ہے یہی دنیا ہے اور اسے جو کچھ مزے اڑانے ہیں اسی دنیوی زندگی میں اڑانے ہیں۔ موت کے بعد نہ وہ ہوگا، نہ دنیا ہو گی،نہ اس کی لذتیں ہوں گی، سب کچھ نسیا ًمنسیا ًہو جائے گا۔
اس کے مقابلے میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو دنیا اور اس کی لذتوں اورمسرتوں بلکہ خود دنیوی زندگی ہی کو سراسر گناہ سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک انسانی روح کے لیے دنیا کی مادی آلائشیں ایک نجاست اور ایک ناپاکی کا حکم رکھتی ہیں۔ اس دنیا کو برتنے اور اس کے کاروبار میں حصہ لینے اور اس کی لذتوں اور مسرتوں سے لطف اندوز ہونے میں انسان کے لیے کوئی پاکیزگی اور کوئی صلاح اور خیر نہیں ہے۔ جو شخص انسانی بادشاہت سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہو اسے دنیا سے الگ تھلگ رہنا چاہیے، اور جو دنیا کی دولت و حکومت اور دنیوی زندگی کا لطف اٹھانا چاہتا ہو اسے یقین رکھنا چاہیے کہ آسمانی بادشاہت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے۔ پھر جب اس گروہ نے محسوس کیا کہ انسان اس دنیا کو برتنے اور اس کے دھندوں میں پھنسنے کے لیے اپنی جبلت سے مجبور ہے، اور آسمانی بادشاہت میں داخل ہونے کا خیال خواہ کتنا ہی دل فریب ہو، مگر وہ اتنا قوی نہیں ہو سکتا کہ انسان اس کے بل پر اپنی فطرت کے اقتضا کا مقابلہ کر سکے، تو انھوں نے آسمانی بادشاہت تک پہنچنے کے لیے ایک قریب کا راستہ نکال لیا، اور وہ یہ تھا کہ ایک ہستی کے کفارے نے ان سب لوگوں کو ان کے اعمال کی ذمے داریوں سے سبک دوش کر دیا ہے جو اس ہستی پر ایمان لے آئیں۔
ایک اور گروہ نے قانونِ فطرت کی ہمہ گیری کو دیکھ کر انسان کو ایک مجبورِ محض ہستی سمجھ لیا۔ اس نے دیکھا کہ نفسیات، عضویات، حیاتیات اور قانونِ توریث کی شہادتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان ہرگز کوئی مرید و مختار ہستی نہیں ہے۔ فطرت کے قانون نے اسے بالکل جکڑ رکھا ہے۔ وہ اس قانون کے خلاف نہ کچھ سوچ سکتا ہے، نہ کسی چیز کا ارادہ کر سکتا ہے، اور نہ کوئی حرکت کرنے پر قادر ہے۔ لہٰذا اس پر اپنے کسی فعل کی ذمے داری عائد نہیں ہوتی۔
اس کے بالکل برعکس ایک گروہ کی نگاہ میں انسان نہ صرف ایک صاحبِ ارادہ ہستی ہے، بلکہ وہ کسی بالاترارادے کا تابع اور کسی اعلیٰ طاقت کا مطیع و فرماں بردار نہیں ہے اور نہ اپنے اعمال و افعال میں خود اپنے ضمیر یا انسانی حکومت کے قانون کے سوا کسی کے آگے جواب دہ ہے۔ وہ اس دنیا کا مالک ہے۔ دنیا کی سب چیزیں اس کے لیے مسخر ہیں۔ اسے اختیار ہے کہ انھیں جس طرح چاہے برتے۔ اس نے اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور اپنے اعمال و افعال میں ایک ضبط و نظم پیدا کرنے کے لیے اپنی حیاتِ انفرادی پر خود ہی پابندیاں عائد کر لی ہیں، مگر اجتماعی حیثیت سے وہ بالکل مطلق العنان ہے اور کسی بالاتر ہستی کے آگے مسئول ہونے کا تخیل سراسر لغو ہے۔
یہ دنیوی زندگی کے متعلق مختلف مذاہبِ فکر و رائے کے مختلف تصورات ہیں اور ان میں سے اکثر ایسے ہیں جن پر مختلف تہذیبوں کی عمارتیں تعمیر ہوئی ہیں۔ ہر تہذیب کی عمارت میں جو مختلف طرز و انداز ہمیں نظر آ رہے ہیں، ان کے ایک مخصوص اور جداگانہ ہیئت اختیار کرنے کی اصل وجہ یہی ہے کہ ان کی بنیاد میں دنیوی زندگی کا ایک خاص تصور ہے جو اس مخصوص ہیئت کا مقتضی ہوا ہے۔ اگر ہم ان میں سے ہر ایک کی تفصیلات پر نظر ڈال کر یہ تحقیق کریں کہ اس نے کس طرح ایک خاص طرز و انداز کی تہذیب پیدا کی ہے تو یہ یقیناً ایک دل چسپ بحث ہو گی۔ لیکن یہ بحث ہمارے موضوع سے غیر متعلق ہے، کیوں کہ ہم صرف اسلامی تہذیب کی خصوصیات کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ زندگی کے یہ جتنے تصورات آپ کے سامنے بیان ہوئے ہیں، یہ سب دنیا کو ایک خاص گوشۂ نظر سے دیکھنے کا نتیجہ ہیں۔ ان میں سے کوئی تصور ایسا نہیں ہے جو مجموعی حیثیت سے تمام کائنات پر ایک کلی نگاہ ڈالنے اور موجوداتِ عالم میں انسان کی صحیح حیثیت متعین کرنے کے بعد قائم کیا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر تصور ہماری نظر میں باطل ہو جاتا ہے جب ہم اس کے زاویۂ نگاہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے زاویۂ نگاہ سے دنیا کو دیکھتے ہیں۔ اور پھر دنیا کے کلی ملاحظہ کے بعد تو ان تمام ہی تصورات کی غلطی ہم پر روشن ہو جاتی ہے۔
اسلامی تصور کی خصوصیت
اب یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے کہ زندگی کے تمام تصورات میں صرف اسلام ہی کا تصور ایک ایسا تصور ہے جو فطرت اور حقیقت کے مطابق ہے، اور جس میں دنیا اور انسان کے تعلق کو ٹھیک ٹھیک ملحوظ رکھا گیا ہے۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ نہ تو دنیا کوئی ترک اور نفرت کے قابل چیز ہے اور نہ ایسی چیز ہے کہ انسان اس کا فریفتہ ہواور اس کی لذتوں میں گم ہو جائے۔ نہ وہ سراسر کون ہے نہ سراسر فساد، نہ اس سے اجتناب درست ہے اور نہ اس میں کلی انہماک صحیح، نہ وہ بالکل نجاست و آلودگی ہے اور نہ تمام تر پاکیزگی و طہارت۔ پھر اس دنیا سے انسان کا تعلق نہ اس قسم کا ہے جیسا ایک بادشاہ کا اپنی مملکت سے ہوتا ہے اور نہ اس قسم کا جیسا ایک قیدی کا اپنے قید خانے سے ہوتا ہے۔ نہ انسان اتنا حقیر ہے کہ دنیا کی ہر قوت اس کی مسجود ہو اور نہ اتنا غالب وقاہر کہ وہ دنیا کی ہر شے کا مسجود بن جائے۔ نہ وہ اتنا بے بس ہے کہ اس کا ذاتی ارادہ کوئی چیز ہی نہ ہو اور نہ اتنا طاقت وَر ہے کہ بس اسی کا ارادہ سب کچھ ہو۔ نہ وہ عالمِ ہستی کا مطلق العنان فرماں روا ہے نہ کروڑوں آقائوں کا بے چارہ غلام۔ حقیقت جو کچھ ہے وہ ان مختلف اطراف و نہایات کے درمیان ایک متوسط حالت ہے۔
یہاں تک تو فطرت اور عقلِ سلیم ہماری راہ نُمائی کرتی ہے، لیکن اسلام اس سے آگے بڑھتا ہے اور اس امر کا ٹھیک ٹھیک تعین کرتا ہے کہ دنیا میں انسان کا حقیقی مرتبہ کیا ہے؟ انسان اور دنیا کے درمیان کس نوع کا تعلق ہے؟ اور انسان دنیا کو برتے تو کیا سمجھ کر برتے؟ وہ یہ کہہ کرانسان کی آنکھیں کھول دیتا ہے کہ تو عام مخلوقات کی طرح نہیں ہے بلکہ رُوئے زمین پر رب العالمین کا ذمے دار وائسرائے ہے۔ دنیا اور اس کی طاقتوں کو تیرے لیے مسخر کیا گیا ہے۔ تو سب کا حاکم اور ایک کا محکوم ہے۔ سب کا فرماں روا اور صرف ایک کا تابع فرمان ہے۔ تجھے تمام مخلوقات پر عزت و شرف حاصل ہے، مگر عزت کا استحقاق تجھے اس وقت حاصل ہو سکتا ہے جب تو اس کا مطیع اور فرماں بردار ہو اور اس کے احکام کا اتباع کرے جس نے تجھے نیابت کا منصب عطا کرکے دنیا پر شرف بخشا ہے۔ دنیا میں تو اس لیے بھیجا گیا ہے کہ اسے برتے اور اس میں تصرف کرے۔ پھر تو اس دنیا کی زندگی میں جس طرح صحیح یا غلط عمل کرے گا اس پر وہ اچھے یا برے نتائج مترتب ہوں گے جنھیں تو بعد کی زندگی میں دیکھے گا۔ لہٰذا دنیوی زندگی کی اس تھوڑی سی مدت میں تجھے اپنی شخصی ذمے داری اور مسئولیت کا ہر لمحے احساس رہنا چاہیے، اور کبھی اس سے غافل نہ ہونا چاہیے کہ جو چیزیں رب العالمین نے اپنے نائب کی حیثیت سے تیری امانت میں دی ہیں، ان سب کا تجھ سے پورا پورا حساب لیا جائے گا۔
اس میں شک نہیں کہ یہ تصور اپنے جزئیات کے ساتھ ہر مسلمان کے ذہن میں حاضر نہیں ہے اور نہ اہل ِ علم کے مخصوص گروہ کے سوا کوئی ان جزئیات کا واضح ادراک رکھتا ہے، لیکن چوں کہ یہ تصور اسلامی تہذیب کی بیخ و بنیادمیں متمکن ہے، اس لیے مسلمان کی سیرت اپنی اصلی شان اور اپنی حقیقی خصوصیات سے بہت کچھ عاری ہو جانے کے باوجود آج بھی اس کے اثرات سے خالی نہیں ہے۔ ایک مسلمان جس نے اسلامی تہذیب کے ماحول میں تربیت پائی ہو، اس کا عمل خواہ بیرونی اثرات سے کتنا ہی ناقص ہو گیا ہو، لیکن خود داری و عزتِ نفس کا احساس، خدا کے سوا کسی کے آگے نہ جھکنا، خدا کے سوا کسی سے نہ ڈرنا، خدا کے سوا کسی کو اپنا مالک اور آقا نہ سمجھنا، دنیا میں اپنے آپ کو شخصا ً مسئول سمجھنا، دنیا کو دارالعمل اور آخرت کو دارالجزا سمجھنا، صرف اپنے ذاتی اعمال کے حسن و قبح پر اپنی آخرت کی کام یابی و ناکامی کو منحصر سمجھنا، دنیا اور اس کی دولت و لذت کو ناپائدار اور صرف اپنے اعمال اور ان کے نتائج کو باقی و دائم خیال کرنا، یہ ایسے امور ہیں جو اس کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہوں گے اور ایک عمیق النظر مبصر اس کی باتوں اور اس کی حرکات و سکنات میں اس عقیدے کے اثرات (خواہ وہ کتنے ہی دھندلے کیوں نہ ہوں) صاف محسوس کر لے گا جو اس کی روح اور اس کے دل کی گہرائیوں میں اُترا ہوا ہے۔
پھر جو شخص تہذیب ِ اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کرے گا اُسے یہ بات نمایاں طور پر محسوس ہو گی کہ اس میں جب تک خالص اسلامیت رہی، اس وقت تک یہ ایک خالص عملی تہذیب تھی۔ اس کے پیروئوں کے نزدیک دنیا آخرت کی کھیتی تھی۔ وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہتے تھے کہ دنیا میں جتنی مدت وہ زندہ رہیں اس کا ہر لمحہ اس کھیتی کے بونے اور جوتنے میں صرف کر دیں اور زیادہ سے زیادہ تخم ریزی کریں، تاکہ بعد کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ فصل کاٹنے کا موقع ملے۔ انھوں نے رہبانیت اور لذتیت کے درمیان ایک ایسی معتدل اورمتوسط حالت میں دنیا کو برتا جس کا نام و نشان بھی ہمیں کسی دوسری تہذیب میں نظر نہیں آتا۔ خلافتِ الٰہی کا تصور انھیں دنیا میں پوری طرح منہمک ہونے اور اس کے معاملات کو انتہائی سرگرمی کے ساتھ انجام دینے پر ابھارتا تھا اور اس کے ساتھ مسئولیت اور ذمے داری کا خیال انھیں حد سے متجاوزبھی نہ ہونے دیتا تھا۔ وہ نائبِ خدا ہونے کی وجہ سے انتہا درجے کے خود دار تھے اور پھر یہی تصور اُن میں تکبر اور غرور کی پیدائش کو روکتا بھی تھا۔ وہ خلافت کے فرائض انجام دینے کے لیے ان تمام چیزوں کی طرف رغبت رکھتے تھے جو دنیا کا کام چلانے کے لیے ضروری ہیں، مگر اس کے ساتھ ہی ان چیزوں کی طرف انھیں کوئی رغبت نہ تھی جو دنیا کی لذتوں میں گم کرکے انسان کو اس کے فرائض سے غافل کر دینے والی ہیں۔ غرض وہ دنیا کے کام کو اس طرح چلاتے تھے کہ گویا انھیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے، اور پھر اس کی لذتوں میں منہمک ہونے سے اس طرح بچے رہتے تھے کہ گویا دنیا ان کے لیے ایک سرائے ہے جہاں محض عارضی طور پر وہ مقیم ہو گئے ہیں۔
بعد میں جب اسلامیت کا اثر کم ہو گیا اور دوسری تہذیبوں سے متاثر ہو کر مسلمانوں کی سیرت میں پوری اسلامی شان باقی نہیں رہی تو انھوں نے وہ سب کچھ کیا جو دنیوی زندگی کے اسلامی تصور کے خلاف تھا۔ عیش و عشرت میں منہمک ہوئے۔ عالی شان قصر تعمیر کیے۔ موسیقی، مصوری، سنگ تراشی اور دوسرے فنونِ لطیفہ میں دل چسپی لی۔ معاشرت اور طرزِ بودو ماند میں اس اسراف اور اس شان و شکوہ کو اختیار کیا جو اسلامی مذاق کے بالکل خلاف تھی۔ حکومت و سیاست اور دوسرے دنیوی معاملات میں وہ طریقے اختیار کر لیے جو بالکل غیر اسلامی تھے۔ مگر اس کے باوجود دنیوی زندگی کا اسلامی تصور جو ان کے دل میں اترا ہوا تھا، کہیں نہ کہیں اپنا اثر نمایاں کرکے رہتا تھا اور یہی اثر ان کے اندر دوسروں کے مقابلے میں ایک امتیازی شان پیدا کر دیتا تھا۔ ایک مسلمان بادشاہ جمنا کے کنارے ایک عالی شان قصر تعمیر کرتا ہے اور اس میں لطف و تفریح اور شان و شوکت کے وہ تمام سامان فراہم کرتا ہے جن کا انسان اس زمانے میں تصور کر سکتا تھا مگر اس قصر کی سب سے زیادہ پر لطف تفریح گاہ میں پشت کی جانب (یعنی قبلے کے رخ پر )یہ رباعی بھی کندہ کرتا ہے:
اے بند بپائے و قفل بر دِل ہشدار
وے دوختہ چشم و پائے در گل ہشدار
عزم سفرِ مغرب وَ رُو دَر مشرق
اے راہ روِ پشت بمنزل ہشدار
وہ قصر اپنی جگہ بے نظیر نہیں ہے، اس سے بہتر قصر دنیا کی دوسری قوموں میں مل سکتے ہیں، مگر اس تخیل کی مثال دنیا کی کسی قوم میں نہیں مل سکتی جو رُوئے زمین پر فردوس بنانے والے کو ’’اے راہ روِ پشت بمنزلِ ہشدار‘‘ کی تنبیہ کرتا ہے۔ ۱؎
اسلامی تاریخ میں اس قسم کی مثالیں بکثرت ملیں گی کہ قیصر و کسریٰ کے نمونوں پر بادشاہی کرنے والوں نے بھی جب کسی دشمن پر فتح پائی تو اپنی کبریائی کا اظہار کرنے کے بجائے خدائے واحد کے سامنے خاک پر سربہ سجود ہو گئے۔ بڑے بڑے جابر و گردن کش فرماں روائوں نے جب شریعت اسلامی کے خلاف عمل کرنا چاہا تو کسی بندۂ خدا نے انھیں برملا ٹوک دیا اور وہ خوفِ خدا سے کانپ اٹھے۔ انتہا درجے کے بدعمل اور سیہ کار لوگوں کو کسی ایک معمولی بات سے تنبیہ ہو گئی اور دفعتاً ان کی زندگی کا رنگ بدل گیا۔ دولتِ دنیا پر جان فدا کرنے والوں کے دل میں دنیا کی ناپائداری اور آخرت کے حساب کتاب کا خیال آیا اور انھوں نے خدا کے بندوں پر سب کچھ تقسیم کرکے ایک مقتصدانہ زندگی اختیار کر لی۔ غرض ان تمام غیر اسلامی اثرات کے باوجود، جو مسلمانوں کی زندگی میں پھیل گئے ہیں، آپ کو ہر قدم پر ان کی قومی سیرت میں اسلامی تصور کا جلوہ کسی نہ کسی شکل میں ضرور نظر آئے گا اور اسے دیکھ کر آپ ایسا محسوس کریں گے کہ گویا اندھیرے میں دفعتاً روشنی نمودار ہو گئی۔
٭…٭…٭…٭…٭

باب دوم: زندگی کا نصب العین

٭ صحیح اجتماعی نصب العین کے لازمی خصائص
٭ انسان کا فطری نصب العین
٭ دو مقبول اجتماعی نصب العین اوران پر تنقید
٭ اسلامی تہذیب کا نصب العین اور اس کی خصوصیات
۱۔ طبعی اور عقلی نصب العین کی ہم آہنگی
۲۔ نظامِ اسلامی کی قوتِ جاذبہ
۳۔ فکر و عمل کی یک سُوئی
۴۔ خالص بشری اجتماعیت کی شیرازہ بندی
۵۔ تمام انسانی مرادات کابالتبع حصول
۶۔ تقویٰ اور نیکو کاری کے لیے بہترین محرک
۷۔ طریقوں کے امتیاز میں مقصد کی تعیین کا اثر
۸۔ اسلامی تہذیب کی تشکیل میں اس کے نصب العین کا حصہ

زِندگی کا نصب العین

تصورِ حیات کے بعد دوسرا سوال جو ایک تہذیب کے حُسن و قبح کو جانچنے میں خاص اہمیت رکھتا ہے، یہ ہے کہ وہ انسان کے سامنے کون سا نصب العین پیش کرتی ہے؟ اس سوال کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ انسان کے ارادوں اور اس کی عملی کوششوں کا رخ فطری طور پر اسی منتہا اور اسی مقصود کی طرف پھرتا ہے جسے اس نے اپنا نصب العین اور مطمحِ نظر قرار دیا ہو۔ اس کے صحیح یا غلط ہونے پر ذہنیت کی اچھی یا بُری تشکیل اور زندگی بسر کرنے کے طریقوں کی درستی یا نادرستی کا انحصار ہے۔ اسی کے بلند یا پست ہونے پر افکار و تخیلات کی بلندی و پستی، اخلاق و ادب کی فضیلت و رذیلت، اور معیشت و معاشرت کی رفعت و دناء ت کا مدار ہے۔ اسی کے واضح اور متعین ہونے یا نہ ہونے پر انسان کے ارادوں اور خیالات کا مجتمع یا پراگندہ ہونا، اس کی زندگی کے معاملات کا ہموار یا ناہموار ہونا، اور اس کی قوتوں اور قابلیتوں کا ایک راہ میں صرف ہونا یا مختلف راہوں میں منتشر ہو جانا موقوف ہے۔بالجملہ نصب العین ہی وہ چیز ہے جس کی بدولت انسان فکر و عمل کی بہت سی راہوں میں سے کوئی راہ انتخاب کرتا اور اپنی ذہنی و جسمانی قوتوں اور اپنے مادّی و روحانی وسائل کو اسی راہ میں صرف کر دیتا ہے۔ لہٰذا جب ہم کسی تہذیب کو نقدِ صحیح کے معیار پر جانچنا چاہیں تو ہمارے لیے اس کے نصب العین کی جستجو ناگزیر ہے۔
صحیح اجتماعی نصب العین کے لازمی خصائص
لیکن بحث و تحقیق کی راہ میں قدم اٹھانے سے پہلے ہمیں یہ متعین کر لینا چاہیے کہ تہذیب کے نصب العین سے ہماری مراد کیا ہے؟ یہ ظاہر ہے کہ جب ہم ’’تہذیب‘‘ کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہماری مراد افراد کی شخصی تہذیب نہیں ہوتی بلکہ ان کی اجتماعی تہذیب مراد ہوتی ہے۔ اس لیے ہر فرد کا شخصی نصب العین، تہذیب کا نصب العین نہیں ہو سکتا، لیکن برعکس اس کے یہ لازم ہے کہ ایک تہذیب کا جو نصب العین ہو وہ اس تہذیب کے متبعین میں سے ہر ہر فرد کا نصب العین ہو، عام اس سے کہ ہر فرد کو اس کا شعور ہو یا نہ ہو۔ اس لحاظ سے تہذیب کا نصب العین وہ ہے جو شعوری یا غیر شعوری طور پر انسانوں کی ایک بڑی جماعت کا مشترک اجتماعی نصب العین بن گیا ہو، اور اس نے افراد کے شخصی نصب العین پر اتنا غلبہ پا لیا ہو کہ ہر فرد بجائے خود وہی نصب العین رکھتا ہو جو پوری جماعت کے پیش نظر ہے۔
اس قسم کے اجتماعی نصب العین کے لیے یہ ایک لازمی شرط ہے کہ وہ افراد کے شخصی نصب العین سے کامل موافقت و مناسبت رکھتا ہو اور اس میں یہ صلاحیت موجود ہو کہ معاً انفرادی اور اجتماعی نصب العین بن سکے۔ اس لیے کہ اگر اجتماعی نصب العین افراد کے شخصی نصب العینوں سے منافات کی نسبت رکھتا ہو تو اولاً اس کا اجتماعی نصب العین بننا ہی مشکل ہو گا، کیوں کہ جس خیال کو افراد فرداً فرداً قبول نہ کریں وہ اجتماعی خیال نہیں بن سکتا، اور اگر کسی زبردست اثر کے تحت و ہ اجتماعی نصب العین بن بھی گیا ہو تو فرد کے نصب العین اور جماعت کے نصب العین میں غیر محسوس طور پر ایک کش مکش برپا رہے گی، تاآں کہ اس غالب اثر کے کم زور ہوتے ہی افراد اپنے اپنے نصب العین کی طرف پھر جائیں گے۔ جماعت کا نصب العین باطل ہو جائے گا، ہیئت اجتماعی کی قوتِ جاذبہ و رابطہ فنا ہو جائے گی اور تہذیب کا نام و نشان تک باقی نہ رہے گا۔ اس لیے تہذیب کا صحیح نصب العین وہی ہو سکتا ہے جو حقیقتاً انسان کا فطری نصب العین ہو، اور ایک تہذیب کی اصلی خوبی یہی ہے کہ وہ ایسا اجتماعی نصب العین پیش کرے جوبعینہٖ انفرادی نصب العین بھی بن سکتا ہو۔
اس نقطۂ نظر سے ہمارے سامنے دو سوال آتے ہیں جنھیں حل کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے:
ایک یہ کہ فطرتاً انسان کا شخصی نصب العین کیا ہے؟
دوسرے یہ کہ دنیا کی دوسری تہذیبوں نے جو نصب العین پیش کیے ہیں وہ کس حد تک انسان کے اس فطری نصب العین سے مناسبت رکھتے ہیں؟
انسان کا فطری نصب العین
انسان کے فطری نصب العین کا سوال دراصل یہ سوال ہے کہ انسان فطری طور پر دنیا میں کس مقصد کے لیے جدوجہد کرتا ہے اور اس کی طبیعت کس چیز کی خواہش مند ہوتی ہے؟اس کی تحقیق کے لیے اگر آپ فرداً فرداً ہر شخص سے پوچھیں کہ وہ دنیا میں کیا چاہتا ہے تو آپ کو مختلف لوگوں سے مختلف جوابات ملیں گے، اور شاید کوئی دو آدمی بھی ایسے نہ ملیں جن کے مقاصد اور جن کی خواہشات بالکل یکساں ہوں۔ لیکن ان سب کا استقصا کیجیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ لوگوں نے جن چیزوں کو مقاصد قرار دیا ہے وہ دراصل فی نفسہٖ مقصود نہیں ہیں بلکہ ایک مقصود تک پہنچنے کے ذرائع ہیں، اور وہ واحد مقصود خوش حالی و اطمینانِ قلب ہے۔ ہر شخص خواہ وہ کسی مرتبۂ عقلی و ذہنی اور کسی طبقۂ عمرانی سے تعلق رکھتا ہو، اور خواہ وہ کسی شعبۂ حیات اور کسی میدانِ عمل میں جدوجہد کر رہا ہو، اپنی کوششوں کے لیے ایک ہی نصب العین رکھتا ہے، اوروہ یہ ہے کہ اسے امن ، سلامتی، خوشی اور جمعیت ِ خاطر نصیب ہو۔ لہٰذا اسے ہم فرد انسانی کا فطری نصب العین کہہ سکتے ہیں۔
دو مقبول اجتماعی نصب العین اور ان پر تنقید
دنیا کی مختلف تہذیبوں نے جو اجتماعی نصب العین پیش کیے ہیں انھیں بھی اگر جزئیات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ان میں بہت کچھ اختلافات پائے جائیں گے، جن کا حصر کرنا نہ یہاں مقصود ہے اور نہ ممکن، لیکن اصولی حیثیت سے ہم ان سب کو دو قسموں پر تقسیم کر سکتے ہیں:
۱۔ جن تہذیبوں کی بنیاد کسی مذہبی و روحانی تخیل پر نہیں ہے انھوں نے اپنے متبعین کے سامنے تفوق و برتری کا نصب العین پیش کیا ہے۔ یہ نصب العین متعدد اجزا سے مرکب ہے، جن میں سے خاص اور اہم اجزائے ترکیبی یہ ہیں:
٭ سیاسی غلبہ و استیلا کی طلب۔
٭ دولت و ثروت میں سب سے بڑھ جانے کی خواہش، قطع نظر اس سے کہ وہ فتح ممالک کے ذریعے سے ہو یا تجارت و صنعت پر حاوی ہو جانے کی بدولت۔
٭ عمرانی ترقی کے مظاہر میں سب پر سبقت لے جانے کی خواہش، خواہ وہ علوم و فنون کے اعتبار سے ہو، یا آثارِ مدنیت و تہذیب میں شان و شکوہ کے اعتبار سے۔
یہ اجتماعی نصب العین ظاہر نظر میں اس شخصی نصب العین کے منافی نہیں ہے جس کا اوپر ہم ذکر کر آئے ہیں۔ کیوں کہ ادنیٰ غور و تامل کے بغیر یہ حکم لگایا جا سکتا ہے کہ اگر جماعت کا یہ نصب العین متحقق ہو جائے تو فرد کا نصب العین مَعْ شَیْئٍ زائدٍ متحقق ہو جائے گا۔ اس نصب العین کی یہی ظاہر فریبی ہے جس کی بدولت ایک قوم کے لاکھوں کروڑوں افراد اپنے شخصی نصب العین کو اس میں گم کر دیتے ہیں۔ لیکن تعمقِ نظر اور پھر عملی تجربے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ درحقیقت یہ اجتماعی نصب العین فرد کے فطری نصب العین سے سخت منافات رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دنیا میں تفوق و برتری کا یہ نصب العین رکھنے والی صرف ایک ہی قوم نہیں ہوتی، بلکہ ایک زمانے میں متعدد قومیں اپنے سامنے یہی نصب العین رکھتی ہیں، اور وہ سب اس کے حصول کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں شدید سیاسی و معاشی اور تمدنی کش مکش برپا ہوتی ہے، مسابقت و مقابلہ اور مزاحمت کے زبردست ہنگامے رونما ہوتے ہیں، اور شورش و اضطراب کے عالم میں افراد کو امن و سکون اور خوش حالی و اطمینانِ قلب کا میسر آنا قریب قریب محال ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہی حالت ہماری آنکھوں کے سامنے مغربی ممالک میں درپیش ہے۔ تاہم اگر ایک زمانہ ایسا بھی فرض کر لیا جائے جس میں صرف ایک ہی قوم اس نصب العین کے لیے کوشش کرنے والی ہو، اور کوئی دوسری قوم اس نصب العین کی خاطر اس کی مزاحمت کرنے والی نہ ہو، تب بھی اس کی کام یابی میں افراد کے شخصی نصب العین کا تحقق ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ ایسے اجتماعی نصب العین کا یہ فطری خاصہ ہے کہ وہ بین الاقوامی مقابلہ ہی نہیں پیدا کرتا بلکہ خود ایک قوم کے اپنے افراد میں بھی باہم مسابقت کی ذہنیت پیدا کر دیتا ہے۔ اس کی بدولت قوم کے ہر فرد کا مقصدِ حیات یہ ہو جاتا ہے کہ وہ دوسرے ابنائے قوم پر غلبہ حاصل کرے، دولت، حکومت، طاقت، شان و شوکت اور اسبابِ عیش و نعمت میں سب سے بڑھ جائے، دوسروں کے رزق کی کنجیاں اس کے ہاتھ آ جائیں، جتنے وسائلِ ثروت ممکن ہوں ان کا اجارہ اس کی ذاتِ واحد کو حاصل ہو جائے، فوائد و منافع اس کا حصہ ہوں اور خسران و نامرادی دوسروں کا حصہ، صاحبِ امر وہ ہو اور دوسرے اس کے مطیع و دستِ نگر بن کر رہیں۔ اول تو اس قسم کے لوگوں کی حرص و طمع کسی مرتبے پر بھی پہنچ کر قانع نہیں ہوتی، اس لیے وہ ہمیشہ غیر مطمئن اور بے چین رہتے ہیں۔ دوسرے اس نوع کا مقابلہ جب ایک قوم کے خود اپنے افراد میں پیدا ہو جاتا ہے تو اس میں ہر گھر اور ہر بازار ایک میدانِ جنگ بن جاتا ہے اور امن و اطمینان، سکون و سلامتی اور مسرت و خوش حالی ناپید ہو جاتی ہے، خواہ دولت و حکومت اور اسبابِ نعمت کی کتنی ہی کثرت ہو۔
علاوہ بریں یہ ایک فطری بات ہے کہ خالص مادّی ترقی، جس میں روحانیت کا کوئی حصہ نہ ہو، انسان کو کبھی مطمئن نہیں کر سکتی۔ کیوں کہ محض حسی لذات کا حصول ایک خالص حیوانی نصب العین ہے، اور اگر یہ سچ ہے کہ انسان حیوانِ مطلق سے زائد کوئی چیز ہے، تو یقینا ً یہ بھی صحیح ہونا چاہیے کہ انسان کو محض ان چیزوں کا حصول مطمئن نہیں کر سکتا جن کی لذتیں صرف اس کی حیوانی خواہشات کی تسکین کے لیے کافی ہو سکتی ہیں۔
۲۔ جن تہذیبوں کی بنیاد مذہبی و روحانی تخیل پر رکھی گئی ہے، انھوں نے عموماً اپنا نصب العین نجات کو قرار دیا ہے۔ بلاشبہ اس نصب العین میں وہ روحانی عُنصر موجود ہے جو انسان کو سکون و اطمینانِ قلب بخشتا ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ نجات جس طرح ایک قوم کا نصب العین بن سکتی ہے اسی طرح فرداً فرداً ہر شخص کا نصب العین بھی بن سکتی ہے، لیکن زیادہ گہری تنقید سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل یہ نصب العین ایک صحیح نصب العین ہی نہیں بن سکتا۔ اس کے چند وجوہ ہیں:
اوّلاً: نجات کے نصب العین میں ایک طرح کی خود غرضی چھپی ہوئی ہے جس کا خاصہ یہ ہے کہ اجتماعیت کو کم زور کرکے انفرادیت کو قوت پہنچائے۔ کیونکہ جب ہر شخص بجائے خود چند خالص اعمال انجام دے کر نجات حاصل کر سکتا ہو تو اس نصب العین میں کوئی چیز ایسی نہیں رہتی جو اسے انفرادی کے بجائے اجتماعی حیثیت دینے والی اور اس کے تحقق کے لیے فرد کو جماعت کے ساتھ اشتراکِ عمل پر ابھارنے والی ہو۔ یہ انفرادیت کی روح اس مقصد کے بالکل خلاف ہے جو تہذیب کا مِن حیث التہذیب عین مقصد ہے۔
ثانیاً: نجات کا مسئلہ دراصل طریقۂ حصول نجات کے مسئلے سے گہرا تعلق رکھتا ہے، اور اس نصب العین کے صحیح یا غلط ہونے میں اس طریقے کے صحیح یا غلط ہونے کو بھی بہت کچھ دخل حاصل ہے جو اس تک پہنچنے کے لیے تجویز کیا گیا ہو۔ مثلاً جن مذاہب نے ترکِ دنیا اور رہبانیت کو ذریعۂ نجات قرار دیا ہے، ان میں نجات نہ انفرادی نصب العین بن سکتی ہے اور نہ اجتماعی۔ ایسے مذاہب کے متبعین آخر کار دین کو دنیا سے الگ کرنے اور دنیا داروں کی نجات کے لیے بیچ کے راستے (مثلاً دین داروں کی خدمت یا کفارہ وغیرہ) نکال لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اوّل تو یہ نصب العین یکسانی و یک جائی کے ساتھ فرد اور جماعت کا مشترک نصب العین نہیں رہا، دوسرے یہ کہ دین داروں کی ایک قلیل تعداد کے سوا باقی پوری جماعت کے لیے اس نصب العین میں وہ رفعت، و ہ اہمیت، وہ جاذبیت اور وہ دل چسپی باقی نہیں رہی جو اسے اپنا گرویدہ بنائے رکھتی۔ اس لیے تمام دنیا دار اسے چھوڑ کر اس مادّی نصب العین کے پیچھے پڑ گئے جس کا ذکر ہم اوپر کر آئے ہیں۔ دوسری طرف جن مذاہب نے نجات کو مختلف دیوتائوں اور معبودوں کی خوش نودی پر موقوف قرار دیا ہے ان میں نصب العین کا اشتراک برقرار نہیں رہتا، مختلف گروہ مختلف معبودوں کی طرف پھر جاتے ہیں اور نصب العین کی وہ حقیقی وحدت ہی باقی نہیں رہتی جسے قائم کرنا اور جس کے رشتے میں اپنے تمام متبعین کو مربوط کر دینا ایک تہذیب کا اصلی کام ہے۔ اس لیے ان مذہبوں کے پیرو بھی جب دنیوی ترقی کے راستے پر جانا اور اپنی جماعت کی شیرازہ بندی کرنا چاہتے ہیں تو انھیں کسی دوسرے نصب العین کی حاجت ہوتی ہے۔ ایک اور قسم مذاہب کی وہ ہے جس کی دعوت کا خطاب انسان بحیثیت انسان سے نہیں ہے، بلکہ کسی خاص نسل اور خاص جغرافیائی حدود میں رہنے والی قوم سے ہے، اور اس بِناپر اس کے نزدیک نجات بھی اس خاص نسل و قوم کے لیے مخصوص ہے۔ یہ نصب العین بلاشبہ تہذیب و تمدن کے ابتدائی مرحلے میں ایک کام یاب اجتماعی نصب العین بن سکتا ہے، مگر چوں کہ یہ عقلِ صحیح کے معیار پر پورا نہیں اترتا، اور نجات کا کسی مخصوص نسل کے لیے مختص ہونا ایسی بات ہے جسے ماننے سے ہر سلیم الفطرت انسان کی عقل انکار کرتی ہے، اس لیے ایسے مذاہب کے متبعین عقلی ترقی کی راہ میں چند ہی قدم آگے بڑھ کر اس نصب العین کے خلاف خود بغاوت کر دیتے ہیں اور اسے اپنے ذہن سے خارج کرکے کوئی دوسرا نصب العین اختیار کر لیتے ہیں۔
ثالثاً: نجات کا نصب العین دینی و روحانی نقطۂ نظر سے خواہ کتنا ہی پاکیزہ ہو، لیکن دنیوی نقطۂ نظر سے اپنے اندر کوئی چیز ایسی نہیں رکھتا جو ایک قوم کو من حیث القوم ابھارنے والی اور اس کے اندر وہ حرارت، وہ قوت اور وہ حرکت پیدا کرنے والی ہو جو قومی ترقی کے لیے لازم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی ترقی پسند قوم نے اسے اپنا اجتماعی نصب العین نہیں بنایا، اور ان قوموں میں بھی اس کی حیثیت ہمیشہ ایک انفرادی نصب العین ہی کی رہی ہے جن کے مذہب نے صرف یہی ایک نصب العین پیش کیا ہے۔
یہ وہ وجوہ ہیں جن کی بِنا پر مادّی اور روحانی دونوں نصب العین نقدِ صحیح کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ آیئے اب ہم دیکھیں کہ اسلامی تہذیب نے کس چیز کو اپنا نصب العین قرار دیا ہے اور اس میں کیا خصائص ہیں جو اسے ایک صحیح نصب العین بناتے ہیں:

اسلامی تہذیب کا نصب العین اور اس کی خصوصیات
اس بحث کے آغاز ہی میں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ نصب العین کا سوال درحقیقت تصورِ حیات کے سوال سے ایک گہرا تعلق رکھتا ہے۔ ہم دنیوی زندگی کے متعلق جو تصور رکھتے ہیں، اور دنیا میں اپنی حیثیت اور اپنے لیے دنیا کی حیثیت کا جو نظریہ ہمارے ذہن میں ہے، وہی فطری طور پر زندگی کا ایک نصب العین پیدا کر دیتا ہے، اور ہم اپنی تمام قوتیں اس نصب العین کے تحقق کی راہ میں صرف کرنے لگتے ہیں۔ اگر دنیا کو ہم اپنے لیے ایک چراگاہ تصور کرتے ہیں اور ہمارے ذہن میں زندگی عبارت ہے ایک مہلت سے جو ہمیں کھانے، پینے اور لذاتِ دنیا سے متمتع ہونے کے لیے ملی ہوئی ہے، تو بلاشبہ یہ حیوانی تصور ہمارے نفس میں زندگی کا ایک حیوانی نصب العین راسخ کر دے گا اور ہم تمام عمر اپنے لیے حسی لذتوں کے سامان فراہم کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ بخلاف اس کے اگر ہم نے اپنے آپ کو پیدائشی مجرم اور فطری گناہ گار سمجھا ہے اور دنیا کے متعلق ہمارا تصور یہ ہے کہ یہ کوئی عقوبت خانہ اور عذاب کا گھر ہے جہاں اپنے اس پیدائشی جرم کی سزا بھگتنے کے لیے ہم پھینک دیے گئے ہیں، تو قدرتی طور پر یہ تصور ہمارے نفس میں اس عذاب سے رہائی حاصل کرنے کی خواہش پیدا کرے گا، اور اس بنیاد پر ہم نجات کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دیں گے۔ لیکن اگر دنیا کے متعلق ہمارا تصور چراگاہ اور دارالعذاب دونوں سے برتر ہو، اور انسان ہونے کی حیثیت سے ہم اپنے آپ کو حیوان اورمجرم دونوں سے زیادہ ارفع و اعلیٰ سمجھتے ہوں، تو یقیناً ہمارے نفس کو مادی لذات کی طلب اور نجات کے حصول دونوں سے زیادہ بلند نصب العین کی تلاش ہو گی، اور کسی پست اور ادنیٰ مطمحِ نظر پر ہماری نگاہ نہ ٹھیرے گی۔
اس قاعدے کو پیشِ نظر رکھ کر جب آپ دیکھیں گے کہ اسلام نے انسان کو خلیفہ اور رُوئے زمین پر خدا کا نائب قرار دیا ہے، تو اس تصورِ حیات سے جو نصب العین فطری طور پر پیدا ہو سکتا ہے اور ہونا چاہیے، اس تک آپ کی عقل خود بخود پہنچ جائے گی۔ ایک نائب کا بحیثیت نائب ہونے کے اس کے سوا اور کیا نصب العین ہونا چاہیے کہ وہ جس کا نائب ہے اس کی رضا اور خوش نودی حاصل کرے اور اس کی نظر میں ایک اچھا، وفادار، متدیّن اور فرض شناس ملازم قرار پائے؟ اگر وہ کوئی سچا اور نیک نیت آدمی ہے تو کیا وہ اپنے آقا کی خدمت بجا لانے میں اس کی رضا جوئی کے سوا کسی اور چیز کو اپنا مقصود بنا سکتا ہے؟ کیا وہ اپنا فرض اس لیے بجا لائے گا کہ اس کے معاوضے میں اسے کسی نفع کی طمع اور کسی ترقی یا انعام یا اضافۂ مناصب یا جاہ و منزلت کی زیادتی کا لالچ ہے؟ یہ دوسری بات ہے کہ آقا اس سے خوش ہو کر اسے یہ سب کچھ عطا کر دے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آقا اسے حُسنِ خدمت کے صلے میں ان چیزوں کے بخش دینے کی اُمید دلائے، اور اس میں بھی مضایقہ نہیں کہ خود اسے یہ علم ہو کہ اگر میں نے ٹھیک طور پر فرائض انجام دے کر اپنے آقا کو خوش کر دیا تو وہ مجھے یہ انعام دے گا۔ لیکن اگر اس نے انعام کو اپنا مقصود بنا لیا، اور اپنے فرائض منفعت کی خاطر انجام دیے، تو کیا کوئی دانش مند ایسے ملازم کو ایک فرض شناس ملازم کہہ سکتا ہے؟ اسی مثال پرخدا اور اس کے نائب کے معاملے کو بھی قیاس کر لیجیے۔ اگر انسان رُوئے زمین پر خدا کا نائب ہے تو اس کی زندگی کا نصب العین خدا کی رضا جوئی اور اس کی خوش نودی کے حصول کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟
یہ وہ نصب العین ہے جو اس تصورِ حیات سے خود عقل اور فطرت پیدا کرتی ہے اور کسی ادنیٰ فرق کے بغیر ٹھیک یہی نصب العین ہے جو اسلام نے انسان کے سامنے پیش کیا ہے ۔ قرآن مجید کے ارشادات کا تتبع کرنے سے آپ کو معلوم ہو گا کہ طرح طرح سے اسی ایک نصب العین کوذہن نشین کرانے اور قلب و روح میں بٹھا دینے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے سوا ہر دوسرے مطمحِ نظر کا پورے زور کے ساتھ اِبطال کیا گیا ہے۔ فرمایا کہ:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo لَا شَرِيْكَ لَہٗ۝۰ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِـمِيْنَo الانعام 162-163:6
اے پیغمبرؐ! کہہ دیجیے کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللّٰہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے اس کے آگے سرجھکانے والا ہوں۔
اِنَّ اللہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ۝۰ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ۝۰ۣ ………فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِہٖ۝۰ۭ وَذٰلِكَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِيْمُo التوبہ 111:9
اللّٰہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں جن کے معاوضے میں ان کے لیے جنت ہے۔ وہ اللّٰہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں، مارتے ہیں اور مارے جاتے ہیں… پس اس سودے پر جو تم نے (اپنے خدا سے) کیا ہے خوشی منائو، حقیقت میں یہی بڑی کام یابی ہے۔
سورۃ بقرہ میں نافرمان اور فرماں بردار بندے کا فرق بتاتے ہوئے فرماں بردار بندے کی تعریف یہ کی ہے کہ:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَہُ ابْـتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللہِ۝۰ۭ وَاللہُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِo
البقرہ 207:2
اور لوگوں میں سے ایک وہ ہے جو اپنی جان کو اللّٰہ کی خوش نودی کی خاطر بیچ دیتا ہے، اور اللّٰہ اپنے بندوں پر شفقت کرنے والا ہے۔
سورہ فتح میں مسلمانوں کی تعریف ہی یہ کی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی دوستی اور دشمنی اور جن کا رکوع و سجود سب کچھ اللّٰہ کے لیے ہے:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ تَرٰىہُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا۝۰ۡ الفتح 29:48
محمدؐ اللّٰہ کے بھیجے ہوئے رسولؐ ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں۔ تم ہمیشہ انھیں رکوع و سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔ یہ لوگ اللّٰہ کے فضل اور اس کی خوش نودی کے طلب گار ہیں۔
سورۂ محمدؐ میں کافروں کے اعمال ضائع ہونے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ وہ خدا کے لیے کچھ نہیں کرتے بلکہ دوسری اغراض کے لیے عمل کرکے خدا کی ناخوشی مُول لیتے ہیں:
ذٰلِكَ بِاَنَّہُمُ اتَّبَعُوْا مَآ اَسْخَـــطَ اللہَ وَكَرِہُوْا رِضْوَانَہٗ فَاَحْبَــطَ اَعْمَالَہُمْo
محمد 28:48
ان پر مار اس لیے پڑے گی کہ انھوں نے اس چیز کی پیروی کی جس نے خدا کو ناخوش کر دیا اور انھوں نے خدا کی خوش نودی حاصل کرنے کو پسند نہ کیا۔ اس لیے اللّٰہ نے ان کے اعمال اکارت کر دیے۔
سورۂ حج میں خدا کی ایسی عبادت کو جو دنیوی فوائد کی خاطر ہو، قطعاً بے کار اور موجبِ نامرادی قرار دیا گیا ہے۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللہَ عَلٰي حَرْفٍ۝۰ۚ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَيْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِہٖ۝۰ۚ وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُۨ انْقَلَبَ عَلٰي وَجْہِہٖ۝۰ۣۚ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃَ۝۰ۭ ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُo الحج 11:22
اور لوگوں میں سے ایک وہ ہے جو اللّٰہ کی عبادت اکھڑے دل سے کرتا ہے۔ اگر اسے کوئی فائدہ پہنچ گیا تو اس سے مطمئن ہو گیا اور اگر کوئی آزمائش کا وقت آ گیا تو الٹا پھر گیا۔ ایسا شخص دنیا اور آخرت دونوں میں نامراد ہوا اور یہی صریح گھاٹا ہے۔
سورۂ بقرہ میں بتایا گیا ہے کہ جو خیرات لوگوں کو دکھانے کے لیے کی جائے اور جس مال کو دے کر آدمی احسان جتائے وہ باطل ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک چٹان پر تھوڑی سی مٹی پڑی تھی، تم نے اس میں بیج بویا، مگر پانی کا سیلاب آیا اور اسے بہا لے گیا۔ بخلاف اس کے جو خیرات ثباتِ نفس کے ساتھ خاص خدا کی خوش نودی کے لیے کی جائے، اس کی مثال ایسے باغ کی سی ہے جس پر اگر خوب بارش ہو تو دو چند پھل لائے، اور اگر زور کی بارش نہ ہو تب بھی ہلکی سی پھوہار ہی اس کے پھلنے پھولنے کے لیے کافی ہو جائے۔‘‘ (بقرہ: ۲۶۳۔۲۶۴)
اس بات کو مختلف مقامات پر مختلف پیرایوں میں سمجھایا گیا ہے کہ تم جو نیک عمل بھی کرو صرف خدا کی خوش نودی کے لیے کرو اور اس سے کوئی اور غرض نہ رکھو۔‘‘
وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ وَجْہِ اللہِ۝۰ۭ
البقرہ 272:2
تم جو کچھ بھی خیرات کی مد میں خرچ کرو گے، اس کا فائدہ تمھارے ہی لیے ہے، اور جو کچھ بھی تم خرچ کرتے ہوصرف خدا ہی کی رضا جوئی کے لیے کرتے ہو۔
وَالَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَاۗءَ وَجْہِ رَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَۃً وَّيَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَـنَۃِ السَّيِّئَۃَ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ عُقْبَى الدَّارِo الرعد 22:13
اور جن لوگوں نے اپنے رب کی رضا جوئی کے لیے صبر کیا اور نماز قائم کی اور جو کچھ ہم نے انھیں روزی عطا کی تھی، اس میں سے پوشیدہ یا ظاہر خرچ کیا، اور جو لوگ نیکی سے بدی کو دفع کرتے ہیں، آخرت کا گھر ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے۔
وَسَيُجَنَّبُہَا الْاَتْقَىo الَّذِيْ يُؤْتِيْ مَالَہٗ يَتَزَكّٰىo وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰٓىo اِلَّا ابْتِغَاۗءَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰىo وَلَسَوْفَ يَرْضٰىo اللیل 17-21:92
عذاب نار سے وہ بڑا پرہیز گار بچ جائے گا جو پاکیزگیِ نفس کے ساتھ اپنا مال دیتا ہے۔ اس پرکسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اسے دینا ہو بلکہ وہ صرف اپنے بالا و برتر پروردگار کی خوشنودی چاہتا ہے، اور ضرور وہ راضی ہو جائے گا۔
فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ۝۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ لِّــلَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ وَجْہَ اللہِ۝۰ۡوَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo الروم 38:30
پس تو اپنے رشتے دار کو اس کا حق دے اور مسکین اور مسافر کو (اس کا حق)، یہ بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو خوش نودیِ الٰہی چاہتے ہوں، اور حقیقت میں وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوۃٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْہَ اللہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَo الروم39:30
جو زکوٰۃ تم نے دی اور اس سے تم صرف اللّٰہ کی خوش نودی حاصل کرنا چاہتے ہو تو جو لوگ ایسا کر رہے ہیں وہی اپنے دیے کو دوگنا چوگنا کر رہے ہیں۔
وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًاo اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًاo اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِيْرًاo فَوَقٰىہُمُ اللہُ شَرَّ ذٰلِكَ الْيَوْمِ وَلَقّٰىہُمْ نَضْرَۃً وَّسُرُوْرًاo الدھر 8-11:76
اور اللّٰہ کی محبت کی خاطر مسکین اور یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تمھیں خدا کے لیے کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی جزا چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔ ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کا خوف لگا ہوا ہے جب لوگوں کے منہ بنے ہوئے ہوں گے اور ان کے چہروں پر شکنیں پڑ جائیں گی۔ پس اللّٰہ نے انھیں اس دن کے شر سے بچا لیا اور انھیں تازہ رُوئی اور خوش حالی سے ہم آغوش کردیا۔
لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُہٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا وَّيَنْصُرُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَo الحشر 8:59
(فے میں) ان غریب لوگوں کا حصہ بھی ہے جنھوں نے ہجرت کی ہے اورجو اپنے گھروں اور جائدادوں سے نکالے گئے ہیں(اورجنھوں نے یہ سب کچھ اس لیے قبول کیا ہے کہ) وہ اللّٰہ کا فضل اور اس کی خوش نودی چاہتے ہیں اور وہ اللّٰہ اور اس کے رسولؐ کے کام آتے ہیں، حقیقت میں یہی لوگ سچے ہیں۔
اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِہٖ صَفًّا كَاَنَّہُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌo
الصف 4: 61
اللّٰہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۚ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ الطَّاغُوْتِ النسائ 76:4
جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللّٰہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں، اور جو کافر ہیں وہ ظلم و سرکشی کی خاطر لڑتے ہیں۔
اس تمام تعلیم کو صاحب جوامع الکلم محمد مصطفیٰ ﷺ نے ایک جملے میں ادا فرمایا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ ایسا قاعدہ کلیہ بیان فرما دیا ہے جو تمام معاملات اور عبادات پر پوری طرح حاوی ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ اِلَّا مَاکَان لَہٗ خَالِصًا وَّابْتَغِیْ بِہٖ وَجْھُہٗ۔
اللّٰہ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالصا ً اس کے لیے کیا جائے اور جس سے محض اس کی رضا جوئی مقصود ہو۔
اس بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اسلام نے ہر قسم کی دنیوی اور اُخروی اغراض کو چھوڑ کر ایک چیز کو زندگی کا نصب العین، اور انسان کی تمام کوششوں کا مقصود، اور تمام ارادوں اور نیتوں کی غایت الغایات قرار دیا ہے، اور وہ چیز اللّٰہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوش نودی کا حصول ہے۔ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اس نصب العین میں وہ کون سی خصوصیات ہیں جو اسے ایک بہترین نصب العین بناتی ہیں۔

۱۔ طبیعی اور عقلی نصب العین کی ہم آہنگی
کائنات کے متعلق اسلام کا نظریہ، جو نظریے کی حد سے گزر کر ایمان اور یقین کی آخری حد تک پہنچ گیا ہے، یہ ہے کہ وجود کی اس غیر محدود سلطنت کا فرماں روا ایک خدا ہے، اور تمام موجوداتِ عالم اسی کے مطیع، اسی کے تابع فرمان اور اسی کے آگے سربہ سجود ہیں۔
وَلَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ كُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَo الروم 26:30
کارگاہِ ہستی کی تمام حرکات و سکنات اسی کے حکم اور اسی کی مرضی کے ماتحت ہیں۔
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۝۰ۭ الانعام 57:6
جتنی چیزیں اس عالم اور دوسرے تمام عالموں میں ہیں، ان سب کا مرجع اسی کی ذات ہے۔
وَاِلَى اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُo البقرہ 210:2
آخر کار سارے معاملات پیش تو اللہ ہی کے حضور ہونے والے ہیں۔
اسی چیز کا نام اسلام ہے۔ جس کے معنی ہیں گردن جھکا دینے اور تابع فرمان ہو جانے کے۔ تمام کائنات اور اس کا ہر ذرہ اپنی فطرت کے لحاظ سے اسی دینِ اسلام کا پیرو ہے، خواہ بطوع و رغبت، خواہ بہ قہر و جبر۔
وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا آل عمران 83:3
حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کی تابع فرمان (مسلم) ہیں اور اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟
اس عالم گیر، ناقابل تغیر اور ناآشنائے استثنا قانون میں تمام کائنات کی طرح خود انسان بھی جکڑا ہوا ہے اور اس کی طبیعت و فطرت بھی اسی خدا کی مطیع و فرماں بردار اور اسی کے دین کی پیرو ہے۔
فَاَقِـمْ وَجْہَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا۝۰ۭ فِطْرَتَ اللہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا۝۰ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللہِ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ۝۰ۤۙ الروم 30:30
پس (اے نبیؐ، اور نبیؐ کے پیروئو) یک سُو ہو کر اپنا رُخ اس دین کی سمت میں جما دو، قائم ہو جائو اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے۔
اس نظریے کے مطابق تمام موجوداتِ عالم کا، جن میں انسان بھی شامل ہے، فطری نصب العین اور مقصود و مطلوب اور غایت الغایات حضرت حق جل ثناؤہٗ کی ذات ہے اور سب کی طبیعت کا رخ اسی مرکز و مرجع کی طرف پھرا ہوا ہے۔ اب انسان کے لیے بحیثیت ایک عقلی وجود کے صرف اتنی کسر رہ جاتی ہے کہ وہ اپنے اس طبیعی نصب العین کا شعور بھی حاصل کر لے اور عقل و فکر کے ساتھ اسے سمجھ کر اپنے ارادوں اورپنی نیتوں اور اپنی سعی و عمل کا رخ بھی اسی کی طرف پھیر دے۔ اس صورت میں اس کا عقلی نصب العین اس کے اور تمام موجودات کے طبیعی نصب العین کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے گا۔ جہانِ ہستی کے سارے لشکر اور نظامِ وجود کے سب کَل پُرزے اسی مقصود تک پہنچنے میں ان کا ساتھ دیں گے اور وہ اپنے عقلی مرتبے کے لحاظ سے اس عظیم الشان قافلے کا سالار اور امام ہو گا۔ برعکس اس کے اگر اس نصب العین کو چھوڑ کر اس نے کسی اور چیز کو اپنا عقلی نصب العین بنایا تو اس کی مثال ایسی ہو گی جیسے کوئی شخص ایک قافلے کے ساتھ ہے، قافلہ مغرب کی جانب سفر کر رہا ہے، وہ شخص خود جس گھوڑے پر سوار ہے، وہ بھی مغرب کی جانب دوڑ رہا ہے، لیکن اس بے ہوش مسافر کو خبر نہیں کہ قافلے کا رخ اور اس کی اپنی سواری کا رُخ کدھر ہے۔ اس کا دل مشرق میں اٹکا ہوا ہے۔ اس نے اپنے گھوڑے کی دم کی طرف اپنا منہ کر رکھا ہے۔ لگام کھینچ کھینچ کر اور ایڑی لگا لگا کر کوشش کر رہا ہے کہ گھوڑا اُلٹے پائوں چلے۔ چند قدم وہ گھوڑے کو پیچھے کی طرف کھینچ بھی لاتا ہے، مگر پھر قافلے کی رَوِش اور خود اپنی طبیعی رَوِش سے مجبور ہو کر گھوڑا اسی مغربی سمت میں دوڑنے لگتا ہے۔ غرض اس طرح یہ مسافر کشاں کشاں اپنی نیت اور اپنے ارادے کے خلاف اس منزل کی طرف جانے پر مجبور ہو جاتا ہے، مگر ایک کام یاب اور بامراد مسافر کی طرح نہیں بلکہ ایک ناکام و نامراد مسافر کی طرح۔ کیوں کہ اس نے جس چیز کو اپنی منزل مقصود قرار دیا ہے اس تک پہنچنا اسے نصیب نہیں ہوتا اور جہاں فی الواقع وہ پہنچ جاتا ہے وہ جگہ نہ اس کی منزل مقصود ہوتی ہے اور نہ اس جگہ رہنے کے لیے اس نے کوئی تیاری ہی کی ہوتی ہے۔
۲۔ نظامِ اسلامی کی قوتِ جاذبہ
جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے، دین اسلام کے پورے نظام کا مرکز اورمدار خدا کی ذات ہے، یہ پورا نظام اسی مرکز کے گرد گردش کر رہا ہے، اس نظام میں جو کچھ بھی ہے، خواہ وہ نیت و اعتقاد کے قبیل سے ہو یا پرستش و عبادت کے قبیل سے یا دنیوی زندگی کے معاملات میں سے، بہرنوع اور بہرکیف اس کا رخ اسی مرکزی ہستی کی جانب پھرا ہوا ہے اور ہر چیز اس کی قوتِ جاذبہ کے زبردست تاروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ خود لفظ دین (طاعت) اور لفظ اسلام (گردن نہادن) جن سے اسی مذہبی نظام کو موسوم کیا گیا ہے، اپنے مسمّیٰ کی فطرت و حقیقت پر بہترین دلالت کرتے ہیں۔ دین اور اسلام کے معنی ہی یہ ہیں کہ بندہ اپنے خدا کی رضا کے آگے سر جھکا دے اور اسی کی مرضی کا تابع ہو جائے۔
وَمَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلہِ وَھُوَمُحْسِنٌ النسائ 125:4
اس سے بہتر دین اور کس کا ہو گا جس نے اللّٰہ کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا اور جو نیکو کار ہے؟
وَمَنْ يُّسْلِمْ وَجْہَہٗٓ اِلَى اللہِ وَہُوَمُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝۰ۭ
لقمان 22:31
جو کوئی اپنا رخ خدا کی طرف پھیر دے اوراس کے ساتھ وہ نیکو کار بھی ہو تو اس نے بڑی مضبوط رسی تھام لی۔
اس سے بڑھ کر فطرتِ اسلام کا اندازہ اس چیز سے ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صاحب زادے خدا کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیتے ہیں، بیٹا {یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ} کہہ کر اپنے آپ کو چھری کے حوالے کر دیتا ہے، اور باپ اپنے لختِ جگر کو محض خدا کی خوش نودی کے لیے ذبح کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے، تو ان دونوں کے اس فعل کو ’’اسلام‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے:
فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِيْنِo الصٰفٰت 103:37
آخر کو جب ان دونوں نے سرتسلیم خم کر دیا۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام میں جو کچھ بھی ہے خدا کے لیے ہے۔ نماز اگر خدا کے لیے نہ ہو تو وہ ایک بے معنی اٹھک بیٹھک ہے۔ روزہ اگر خدا کے لیے نہ ہو تو وہ محض ایک فاقہ ہے۔ زکوٰۃ و خیرات اگر خدا کے لیے ہو تو خیرات اور انفاق فی سبیل اللّٰہ ہے، ورنہ محض اسراف و تبذیر۔ جنگ اور جہاد اگر خالصتاً لِلّٰہ اور فی سبیل اللّٰہ ہو تو بہترین عبادت ہے، ورنہ محض ایک فساد اور ناحق کی خوںریزی۔ اسی طرح دوسرے تمام افعال جن کا حکم اسلام میں دیا گیا ہے اگر خدا کے لیے کیے جائیں تو وہ نیک اور قابلِ اجر ہیں، ورنہ بے فائدہ اور بے نتیجہ۔ اور جن سے اسلام نے منع کیا ہے اگر ان سے اجتناب خدا کی خوش نودی کی خاطر کیا جائے تو مفید ہے ورنہ قطعاً لاحاصل۔
یہ زبردست مرکزیت اور یک سُوئی جو اسلام کے نظام میں نظر آتی ہے، اسی نصب العین کی پیدا کردہ ہے۔ یہی قوتِ جاذبہ ہے جس نے نظامِ اسلامی کے تمام اجزا میں ایک طاقت اور مائل المرکز میلان پیدا کر دیا ہے، جس کی بدولت یہ نظام ویسا ہی ایک مکمل اور مضبوط نظام بن گیا ہے جیسا موجودہ زمانے کے علم ہیئت کی رُو سے ہمارا نظامِ شمسی مکمل اور مضبوط ہے۔ اگر یہ نصب العین نہ ہوتا تو دینِ اسلام میں یہ نظم بھی نہ ہوتا۔
۳۔ فکر و عمل کی یک سُوئی
جس طرح اس نصب العین نے اسلام کے نظام دینی میں مرکزیت، یک سُوئی اور ضبط و نظم کی قوت پیدا کی ہے، اسی طرح یہ انسان کے افکار و خیالات، ارادات و نیّات اور عقائد و اعمال میں بھی کامل یک سُوئی پیدا کردیتا ہے، اور یک سُوئی کے ساتھ یہ اسے ایک ایسے بلند مطمحِ نظر اور ایک ایسے اعلیٰ و ارفع مقصد کی طرف ہمہ تن متوجہ کردیتا ہے جس سے زیادہ بلند اور عالی شان اور رفیع المنزلت کوئی مقصد اور مطمحِ نظر نہیں ہو سکتا۔ جس شخص کے پیشِ نظر محض اپنی طبیعی خواہشات کی تسکین، یا نفسانی اغراض کی تحصیل یا روحانی مقاصد کی تکمیل ہو، اُسے کبھی فکر و عمل کی یک سُوئی میسر نہیں آ سکتی، کیوں کہ عقلی و ذہنی ارتقا اور نظری و عملی اکتشاف کے ہر مرحلے میں اس کے اندر نئی خواہشیں اور نئی رغبتیں پیدا ہوں گی اور وہ نئی نئی چیزوں کو اپنی غایت اور اپنا مقصد قرار دیتا چلا جائے گا۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ علم اور عقل کے کسی اونچے مرحلے پر پہنچ کر انسان انھی طبیعی رغبتوں اور نفسانی و روحانی مطالبوں پر جما رہے جو اس سے پہلے کے پست تر مرحلے میں اس کے لیے جاذبِ نظر اور محرکِ عمل تھے۔ اس طرح انسان کی تمام زندگی ایک مقصد سے دوسرے مقصد کی طرف انتقال میں بسر ہو جائے گی اور کبھی کوئی ایسا مرکزی تخیل اس کے ذہن میں جاگزیں نہ ہو سکے گا جو اس کے افکار میں کامل یک سُوئی پیدا کر دینے والا ہو اور جس کی راہ میں وہ اپنی تمام فکری اور عملی قوتیں صرف کر سکتا ہو۔ یہ خوبی صرف اسلامی نصب العین ہی میں ہے کہ وہ ہر مرتبۂ علمی وعقلی میں انسان کا واحد نصب العین بن سکتا ہے اور کسی اعلیٰ سے اعلیٰ مرتبے پر پہنچ کر اسے بدلنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ کیوں کہ ہم جتنے عقلی اور عملی مراتب کا تصور کر سکتے ہیں، خدا کی ذات ان سب سے اعلیٰ و ارفع ہے، اور اس کے باوجود ادنیٰ سے ادنیٰ مرتبے سے لے کر بلند سے بلند مرتبے تک ہر ایک کے ساتھ اس کا تعلق یکساں ہے ۔اگر فرق ہے تو وہ محض ہمارے تعقل و شعور کے مراتب کے لحاظ سے ہے۔
۴۔ خالص بشری اجتماعیت کی شیرازہ بندی
پھر جس طرح یہ نصب العین ایک فرد کا نصب العین بن سکتا ہے، اسی طرح ایک جماعت، ایک قوم، بلکہ تمام نوعِ بشری کا نصب العین بھی بن سکتا ہے۔ اس میں سرے سے نفسانیت اور انفرادی یا اجتماعی خود غرضی کا وہ عنصر ہی موجود نہیں ہے جس کی طبیعی خاصیت یہ ہے کہ انسانیت کو نسلوں اور قوموں میں اور پھر افراد و اشخاص میں تقسیم کر دے، اور ان کے اندر ایک دوسرے کے خلاف مقابلہ و مزاحمت اور بُغض و حسد کے جذبات ابھارتا ہے۔ برعکس اس کے یہ نصب العین انسان کو اسی ہستی کی طرف متوجہ کر دیتا ہے جس کے ساتھ تمام نوعِ بشری، بلکہ تمام کائنات کا تعلق یکساں ہے اورجس کی طرف متوجہ ہو جانے کے بعد ہر جہت اور ہر حیثیت سے انسانی مقاصد میں ایسا اشتراک و اتحاد پیدا ہو جاتا ہے کہ لوگوں میں مقابلہ و مزاحمت تو درکنار، تعاون اور موالات، اخوت اور بھائی چارے کی روح پیدا ہو جاتی ہے۔ دنیا کے جتنے مادی مقاصد ہیں، ان کی راہ میں دو آدمی بھی ایک دوسرے کے سچے مددگار نہیں ہو سکتے۔ بھائی اور بھائی، باپ اور بیٹے، ماں اور بیٹی کے لیے بھی ایک مادی مقصد میں مشترک ہو کر تزاحُم اور کش مکش، حتیٰ کہ عداوت اور دشمنی تک سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم نے خود رحم اور خون کے تعلقات منقطع ہوتے دیکھے ہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے بھائیوں نے بھائیوں کے گلے کاٹ دیے ہیں۔ ہماری نگاہوں سے ایسے بے شمار مناظر گزرے ہیں اور گزرتے رہتے ہیں کہ قریب سے قریب عزیزوں نے دنیوی مقاصد کی خاطر ایک دوسرے کی جان، مال، عزت اور آبرو کو تباہ و برباد کر دیا۔ یہ سب اس نفسانیت اور خود غرضی کی تاثیرات ہیں جو دنیوی اغراض و مقاصد کے عناصرِ ترکیبی میں سب سے اہم عنصر ہے۔ لیکن ذاتِ حق وہ غایت الغایات ہے جس کی جانب لاکھوں، کروڑوں انسان بیک وقت دوڑ سکتے ہیں، بغیر اس کے کہ ان میں کوئی کش مکش، مقابلہ اور مزاحمت ہو، اور کسی ایک شخص کو بھی دوسرے شخص کی ٹھوکر لگے۔ بلکہ یہ سفر تو ایسا سفر ہے جس کا ہر مسافر دوسرے مسافر کی مخلصانہ مدد کرتا ہے، اپنے آرام پر دوسرے کے آرام کو ترجیح دیتا ہے، اپنی مشقت کو دوسرے کی مشقت کے مقابلے میں گوارا کر لیتا ہے، عیش و آرام کے ساتھ جانے سے بدرجہ ہابہتر اسے سمجھتا ہے کہ اپنے دوسرے ساتھیوں کا بوجھ ڈھو کر، دوسروں کی خدمت کرکے، ہانپتا، کانپتا، تھکا ماندہ، عرق عرق، منزلِ مقصود پر پہنچے اور اپنے مالک کی زیادہ سے زیادہ خوش نودی حاصل کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ نسل، رنگ، زبان اور جغرافی حدود کے امتیازات کو مٹا کر ایک عالم گیر قومیت کی تعمیر، اور ایک بین الاقوامی انسانی جمعیت کی شیرازہ بندی کے لیے جس مرکزی تخیل کی ضرورت ہے، وہ اس نصب العین میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔ اس قسم کی جہاں گیر تہذیب کے لیے اس سے بہتر نصب العین اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ وہ ایک طرف فرد کی انفرادیت کو بالکل فنا بھی نہیں کرتا، اور دوسری طرف انفرادیت کے تمام دافع المرکز میلانات کو مٹا کر اسے ایک خالص بشری اجتماعیت میں پوری طرح ضم بھی کر دیتا ہے۔
۵۔ تمام انسانی مرادات کا بالتبع حصول
اس نصب العین کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ دنیا میں انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے انسان کے جتنے مقاصد ہو سکتے ہیں وہ سب اس کے تحقُّق کے ساتھ بالتبع حاصل ہو جاتے ہیں، بغیر اس کے کہ انسان انھیں بالذات مقصود بنائے۔ قرآن مجید نے ایک ایک کر کے ان سب چیزوں کو گنایا ہے جو رضائے الٰہی کے حصول کے ساتھ لازماً حاصل ہوتی ہیں۔
دنیوی زندگی میں انسان سب سے زیادہ جس چیز کا خواہش مند ہوتا ہے وہ امن و سکون، راحت اور اطمینانِ قلب ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ خدا کی طرف رجوع کرو اور اس کی خوش نودی کے طالب ہو جائو، یہ چیز تمھیں آپ سے آپ مل جائے گی۔
بَلٰي۝۰ۤ مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلہِ وَھُوَمُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ۝۰۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَo البقرہ 122:2
ہاں جس کسی نے اللّٰہ کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا اور وہ نیکو کار ہوا، تو اس کا اجر اس کے پروردگار کے پاس ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے کوئی خوف نہیں ہے اور نہ وہ رنجیدہ ہوتے ہیں۔
اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُo الرعد 28:13
آگاہ ہو جائو کہ اللّٰہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
دوسری چیز جو انسان دنیا میں حاصل کرنا چاہتا ہے، خوش حالی ہے۔ یعنی ایسی زندگی جو پریشانی اور پراگندہ خاطری سے خالی ہو۔ قرآن کہتا ہے کہ خدا پرایمان لانے اور اس کے غضب سے بچنے اور اس کی خاطر پرہیز گاری و نیکوکاری اختیار کرنے سے یہ چیز بھی باحسن وجوہ حاصل ہو جاتی ہے۔
وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْہِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ
الاعراف 96:7
اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور پرہیز گاری اختیار کرتے تو ہم ان پرآسمان و زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَہُوَمُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہٗ حَيٰوۃً طَيِّبَۃً۝۰ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَo النحل 97:16
جس کسی نے نیک عمل کیا، اس حال میں کہ وہ مومن ہو، تو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ،ہم اسے ضرور خوش حالی کی زندگی بسرکرائیں گے اور یقیناً ایسے لوگوں کو ہم ان کے عمل سے بہت زیادہ اچھا بدلہ دیں گے۔
تیسری چیز حکومت و فرماں روائی اور غلبہ و سربلندی ہے جو انسان کی بڑی مطلوب و مرغوب چیز ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ تم خدا کے ہو جائو، یہ متاع خود تمھارے قدموں میں آ رہے گی۔
وَمَنْ يَّتَوَلَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَo المائدہ 56:5
جو کوئی اللّٰہ اور اس کے رسولؐ اورایمان لانے والوں کا دوست ہو گیا (وہ اللّٰہ کی پارٹی میں شامل ہو گیا) اور اللّٰہ کی پارٹی ہی غالب ہونے والی ہے۔
وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُہَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَo
الانبیائ 105:21
اور ہم زبور میں پند و نصیحت کے بعد یہ بات لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے صالح بندے ہوں گے۔
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۝۰ۭ النور 55:24
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے، ان سے اللّٰہ کا وعدہ ہے کہ وہ ضرور انھیں زمین میں خلافت عطا کرے گا، جس طرح اس نے ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا، اور وہ ضرور ان کے اس دین کو استحکام بخشے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے، ان کی حالتِ خوف کے بعد انھیں امن عطا کرے گا۔
اسی طرح اخروی زندگی میں نجات انسان کی مطلوب ہے اوراس کے متعلق بھی قرآن کہتا ہے کہ وہ صرف خدا کی رضا اور اس کی خوش نودی کے حاصل ہونے کا نتیجہ ہے:
يٰٓاَيَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّۃُo ارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَۃً مَّرْضِيَّۃًo فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْo وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْo الفجر 27-30:89
اے نفسِ مطمئن! اپنے پروردگار کی طرف واپس ہو، اس حال میں کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی۔ پھر (خدا کہے گا کہ) تو میرے بندوں میں شامل اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
اس سے معلوم ہوا کہ دوسروں نے جتنی چیزوں کو مقصود اور غایت قرار دیا ہے، اسلام نے ان کی طرف توجہ بھی نہیں کی، بلکہ اس چیز کو اپنا مطمحِ نظر بنایا ہے جس کے حصول سے یہ سب چیزیں خود بخود حاصل ہو جاتی ہیں۔ دوسرے جن چیزوں کو اپنا نصب العین قرار دیتے ہیں، مسلمان کی نگاہ میں وہ اس قابل ہی نہیں ہیں کہ وہ ان کی طلب میں اپنے قلب کو ایک لمحے کے لیے بھی الجھنے دے۔ اس کے پیشِ نظر تو ایک ایسا نصب العین ہے جو ان سب سے اور جہانِ ہستی کی ہر چیز سے اعلیٰ و ارفع ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جب اس بلند ترین مقصود کو وہ پہنچ جائے گا تو اس کے تحت جتنی چیزیں ہیں وہ اسے آپ سے آپ حاصل ہو جائیں گی۔ بالکل اسی طرح جس طرح عمارت کی سب سے اونچی منزل پر پہنچ جانے والا بیچ کی تمام منازل کو اپنے قدموں کے نیچے پاتا ہے۔
۶۔ تقویٰ اور نیکوکاری کے لیے بہترین محرک
ایک اور خصوصیت اس نصب العین کی یہ ہے کہ اسلام نے پرہیز گاری اور نیکوکاری کا جو اعلیٰ معیار قائم کیا ہے، اور اس کے لیے اوامر و نواہی کا جو ضابطہ پیش کیا ہے، اس کے اتباع پر انسان کو آمادہ کرنے کے لیے صرف یہی نصب العین ایک شریف اور پاکیزہ نصب العین ہو سکتا ہے۔
دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ نیکی اس لیے ہونی چاہیے کہ وہ نیکی ہے اور بدی سے اس لیے اجتناب ہونا چاہیے کہ وہ بدی ہے۔ لیکن جو لوگ ایسا کہتے ہیں انھیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ان کے اس قول کا مفہوم کیا ہے۔ نیکی محض نیکی کی خاطر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہر قسم کے فوائد ومنافع سے قطع نظر کرکے نیکی بجائے خود نیکی ہے اور وہ انسان کی مقصود بن سکتی ہے۔ اور اسی طرح بدی سے محض اس کے بدی ہونے کی بنا پر اجتناب کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ تمام مضرتوں اور نقصانات سے مجرّد کرکے بدی اپنی ذات میں بدی ہے، گویا اس کی ذات ہی کوئی ایسی چیز ہے جو انسان کے لیے قابلِ اجتناب بن سکتی ہے۔ مگر حقیقتاً دنیا میں انسان کے لیے کسی ایسی خالص نیکی کا وجود ہی نہیں ہے جو ذاتِ فاعل کی طرف عائد ہونے والے تمام فوائد و منافع سے مجرّد ہو، اور نہ کسی ایسی خالص بدی کا وجود ہے جو فاعل کی ذات کو پہنچنے والی جملہ مضرتوں سے خالی ہو۔ بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ انسان کے ذہن میں نیکی اور بدی کا تخیل ہی فائدے اور نقصان، منفعت اورمضرت کے تجربات سے پیدا ہوا ہے۔ انسان ہر اس فعل کو بد کہتا ہے جس سے خود اس کی ذات کو کوئی حقیقی مضرت پہنچتی ہو، خواہ وہ ظاہر نظر میں اپنے اندر کچھ منفعتیں بھی رکھتا ہو۔ اگر کسی فعل کو فائدے اور نقصان کے جملہ پہلوئوں سے مجرّد کر لیا جائے اور وہ فعل محض ایک حرکت رہ جائے تو ہم اس پر نیک یا بد ہونے کا کوئی حکم نہیں لگا سکتے۔ اس میں شک نہیں کہ نیکی کا ملکہ راسخ ہو جانے اور بلند عقلی مراتب پر پہنچ جانے کے بعد یہ ممکن ہے کہ انسان فائدے اور نقصان کے تصور سے خالی الذہن ہو کر نیکی محض نیکی کی خاطر کرنے لگے اور بدی سے محض اس کے بدی ہونے کی بِنا پر مجتنب رہے، لیکن اوّل تو یہ فقط مبدئِ خیر و شر کی طرف سے ذہول ہے نہ کہ اس کی مبدائیت کا سبب، دوسرے یہ محض فلسفیوں کے تخیل کی معراج ہے جس تک پہنچنا بڑے بڑے حکما کو بھی نصیب نہیں ہوا ہے، پھر بھلا عام انسان مجرّد نیکی کے اختیار اور مجرّد بدی سے اجتناب کو اپنا نصب العین کیوں کر بنا سکتے ہیں؟
اس سے یہ بات ظاہر ہو گئی کہ نیکی اور بدی کے تصور کوفائدے اور نقصان کے تصور سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ نیکی فی نفسہٖ انسان کی مراد نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کی تہ میں کوئی فائدہ مضمر نہ ہو، اور بدی بذاتِ خود قابلِ احتراز قرار نہیں پا سکتی تا وقتیکہ اس کے باطن میں کوئی نقصان پوشیدہ نہ ہو۔ اب اگر ہم تقوٰی اور نیکو کاری کو خود غرضی کے ادنیٰ مرتبے سے اٹھا کر بے نفسی اور خلوص کے اعلیٰ مرتبے تک پہنچانا اور اسے ایک ایسے ضابطۂ اخلاق کی بنیاد قرار دینا چاہیں جو عوام و خواص سب کے لیے ہو، تو اس کی بہترین صورت یہی ہے کہ فائدے اور نقصان کا ایک ایسا معیار قائم کیا جائے جو مادیّت اور نفسانیت سے بالاتر ہو، جس کی بنیاد پر تمام مادی اور نفسانی نقصانات سے لبریز ہونے کے باوجود ایک نیک عمل انسان کی نگاہ میں سراسر فائدوں سے مملو نظر آئے، اور ہر قسم کی منفعتوں سے پُر ہونے کے باوجو دایک بُرا عمل اسے سرتا پا نقصان محسوس ہو۔ یہی طریقہ اسلام نے اختیار کیا ہے، اس نے رضائے الٰہی کے حصول و عدمِ حصول کو فائدے اور نقصان کا معیار قرار دیا ہے جو مادی اور نفسانی آلائشوں سے بالکل پاک ہے۔ اس معیار کے مطابق ایک نیکو کار انسان اللّٰہ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے اپنی جان، مال ، اولاد، نیک نامی، شہرت ہر چیز کو قربان کرکے بھی یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ فائدے میں ہے، اور ایک بدکار انسان خدا کا غضب مُول لینے کے بعد دنیا کے تمام مادی اور نفسانی فوائد حاصل کرکے بھی یہ خوف رکھتا ہے کہ وہ نقصان میں ہے۔ یہی چیز ہے جو انسان کو تمام دنیوی فائدوں اور نقصانوں سے بے نیاز کرکے خلوصِ نیت کے ساتھ تقوٰی اور نیکوکاری اختیار کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔
یہاں تک دو امور کی تشریح کی جا چکی ہے۔ ایک یہ کہ اسلام نے کس چیز کو زندگی کا نصب العین قرار دیا ہے، دوسرے یہ کہ وہ کن وجوہ سے ایک بہترین نصب العین ہے۔ اب ہمیں اس مسئلے کے تیسرے پہلو کی طرف نظر کرنی چاہیے، اور وہ یہ ہے کہ اسلامی تہذیب کو ایک مخصوص تہذیب بنانے میں اس نصب العین کا کیا حصہ ہے اور اس نے اس تہذیب کو کون سی خصوصی شان بخشی ہے؟
طریقوں کے امتیاز میں مقصد کی تعیین کا اثر
پہلے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں جس طرح مقصد کی تعیین ضروری ہے، اسی طرح طریق حصولِ مقصد کی تعیین بھی ضروری ہے، اور طریقے کی تعیین، مقصد کی مناسبت کے سوا کسی اور بنیاد پر نہیں ہو سکتی۔ اگر کسی شخص کے پیشِ نظر نفسِ سلوک و سیر کے سوا کوئی متعین شے مقصود نہ ہو اور وہ محض راستوں اور گلیوں کی خاک چھانتا پھرے تو ہم اسے مجنون یا آوارہ گرد کہتے ہیں۔ اور اگر وہ مقصد تو رکھتا ہو، لیکن اس کی تحصیل کے مختلف طریقوں میں سے کسی خاص طریقۂ کار کا پابند نہ ہو، بلکہ ہر اس طریقے پر چلنے کے لیے تیار ہو جائے جس پر اسے موصل الی المقصود ہونے کا گمان ہو، تو اسے بھی ہم احمق قرار دیتے ہیں۔ کیوں کہ ازرُوئے عقل ایسا شخص کبھی منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتا جو ایک مقام کی طرف جانے کے لیے دس مختلف راستوں پر چلنے کی کوشش کرتا ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنا مقصود تو کسی چیز کو قرار دے اور راستہ ایسا اختیار کرے جو اس کے مخالف سمت میں جانے والا ہو، تو اسے بھی ہم صاحبِ عقل نہیں سمجھتے۔ کیوں کہ وہ اس اعرابی کے مانند ہے جو کعبے کی طرف جانے کے لیے ترکستان کی راہ پر چل رہا ہو۔ پس انسان کی عملی کام یابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ سلوک کے لیے پہلے ایک مقصد متعین کرے، پھر اپنی نیتوں اور کوششوں کا رخ اسی مقصد کی طرف پھیر دے، اور اگر اس مقصد تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہوں تو ان میں سے ایک راستہ اختیار کر لے جو اس کے نزدیک بہترین ہو، اور اس کے سوا دوسرے تمام راستوں کو چھوڑ دے۔
یہ ترک و اختیار عین مقتضائے عقل ہے۔ مقصد کی تعیین کا عقلی نتیجہ یہی ہے کہ جو طریقہ اس مقصد سے خاص طور پرمناسبت رکھتا ہو اُسے اختیار کیا جائے اوردوسرے تمام طریقوں کو ترک کر دیا جائے۔ ایک صاحبِ عقل آدمی جب سفرکرتا ہے تو اسی ایک راستے پر چلتا ہے جو منزلِ مقصود تک پہنچانے والے راستوں میں سب سے بہتر ہو۔ اس کے سوا اور بیسیوں راستے جو اسے دورانِ سفرمیں ملتے ہیں ان کی طرف وہ التفات بھی نہیں کرتا۔ ایک عقل مند طالب علم اپنے لیے علم کا وہی شعبہ اختیار کرتا ہے جو اس کے نصب العین کی تحصیل میں سب سے زیادہ مددگار ہوتا ہے۔ دوسرے جتنے شعبے اس سے غیر متعلق ہوتے ہیں ان میں اپنا وقت اور اپنا دماغ کھپانا پسند نہیں کرتا۔ ایک زیرک و دانا سوداگر اپنے لیے کاروبار کا وہی طریقہ اختیار کرتا ہے جو اس کے نزدیک حصولِ مراد کا بہترین وسیلہ ہو سکتاہو۔ ہر کام میں اپنا سرمایہ لگانا اور ہر پیشے میں اپنی محنت صرف کرنا حماقت سمجھتا ہے۔ اس ترک و اختیار کے فعل پرایک نقاد اگر بحث کر سکتا ہے تو صرف اس حیثیت سے کہ جو راستہ اختیار کیا گیا ہے وہ مقصود تک پہنچانے کے لیے بہترین ہے یا نہیں۔ لیکن نفسِ ترک و اختیار پر کوئی اعتراض ممکن نہیں ہے۔
یہ اصل جس طرح زندگی کے جزوی معاملات پرمنطبق ہوتی ہے، اسی طرح من حیث المجموع پوری زندگی پر بھی منطبق ہوتی ہے۔ اگر انسان اپنی زندگی کا کوئی مقصد نہ رکھتا ہو، یا بالفاظ دیگر جینے سے اس کا مقصود محض جینا ہو، تو وہ آزاد ہے کہ زندگی بسر کرنے کا جو طریقہ چاہے اختیار کرے۔ اس کے لیے طریقوں کے درمیان اچھے اور برے، صحیح اور غلط، اعلیٰ اور اسفل کا امتیاز محض بے معنی ہے۔ وہ اپنی خواہشات اور حاجات کو جس طرح چاہے پورا کر سکتا ہے۔ بیرونی اسباب کسی حد تک اسے ایک خاص طریقے کی پابندی پر مجبور بھی کریں تو یہ اس کی زندگی کو کسی نظم اور ضابطے کے تحت لانے میں کارگر نہیں ہو سکتے، کیوں کہ انضباط کا کوئی مبدئِ محرک خود اس کے اپنے نفس میں موجود نہ ہو گا۔ بخلاف اس کے اگر وہ اپنے پیشِ نظر زندگی کا کوئی مقصد رکھتا ہو، یا زیادہ صحیح الفاظ میں زندگی کے حیوانی طبیعی مقصد سے بالاتر کوئی عقلی انسانی مقصد اس کے ذہن میں جاگزیں ہو، تو لازماً وہ طریقوں کے درمیان امتیاز کرے گا اور اگر حقیقت میں وہ ایک صاحبِ عقل انسان ہے تو اس کے لیے ضروری ہو گا کہ زندگی بسر کرنے کے مختلف طریقوں میں سے کسی ایک طریقے کو جو اس کے مقصد کے لیے زیادہ مناسب ہو اختیار کرے گا۔ ایک مقصد متعین کر لینے کے بعد طریقوں میں وہی آزادی برتنا جو صرف ایک بے مقصد انسان کا حق ہے، اس کے لیے کسی طرح جائز نہ ہو گا۔
اب اس قاعدے کو ذرا وسیع کیجیے۔ فرد کی جگہ جماعت کو لے کر دیکھیے۔ یہی قاعدہ بالکل اسی طرح مجموعۂ افراد پربھی جاری ہوتا ہے۔ جب تک کوئی جماعت مدنیت کے ابتدائی مدارج میں ہوتی ہے، اور زندگی کے حیوانی طبیعی مقاصد سے اعلیٰ و ارفع کوئی مقصد اس کے پیشِ نظر نہیں ہوتا، وہ اپنے طور طریقوں میں اسی طرح آزاد رہتی ہے جس طرح ایک بے مقصد انسان ہوا کرتا ہے۔ مگر جب ایک ارتقائے عقلی اور نہضتِ مدنی کے زیادہ اونچے مدارج پر پہنچ کر اس میں ایک تہذیب پیدا ہو جاتی ہے، اور وہ تہذیب اس کے لیے اجتماعی زندگی کا کوئی عقلی مقصد متعین کر دیتی ہے، تو یہ ناگزیر ہو جاتا ہے کہ اس مقصد کی مناسبت سے عقائد، تصورات، معاملات، اخلاق، معاشرت، معیشت وغیرہ کے لیے ایک خاص نظام وضع کیا جائے، تہذیب کے متبعین کو اس نظام کا پابند بنایا جائے اور ان کے لیے اس امر کی آزادی باقی نہ رہنے دی جائے کہ وہ اس کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی ایسے عقیدہ یا طرزِ عمل کو اختیار کر لیں جو اس نظام سے خارج ہو۔
اپنے اس ضابطے کی حفاظت میں سختی کرنا تہذیب کی فطرت کا عین مقتضا ہے۔ اس باب میں جس تہذیب کی گرفت ڈھیلی ہو گی، اور جس کی قوتِ ضابطہ میں ضُعف اور سستی پائی جائے گی، وہ کبھی زندہ ہی نہیں رہ سکتی، کیوں کہ تہذیب کا وجود منحصر ہے اس پر کہ عقیدہ اور عمل کا جو نظام اس نے وضع کیا ہے اس کے متبعین اس کی پابندی کریں۔ جب متبعین میں اس کی پابندی ہی نہ ہو گی اور اس نظام سے باہر کے تصورات اور طور طریقے ان کے ذہن اور ان کی عملی زندگی پرقابض ہو جائیں گے تو تہذیب کا کوئی واقعی وجود باقی نہ رہے گا۔ لہٰذا ایک تہذیب اپنے متبعین سے اپنے وضع کردہ نظام کی پابندی کا مطالبہ کرنے اور دوسرے خارجی نظامات سے علیحدگی پر اصرار کرنے میں بالکل حق بجانب ہے۔ نقاد اگر کچھ کلام کر سکتا ہے تو اس کے مقصد کے صحیح یا غلط ہونے پر کر سکتا ہے، یا اس پر کر سکتا ہے کہ اس مقصد کے لیے یہ خاص طریقہ مناسب ہے یا نہیں، یا اس پر کر سکتا ہے کہ اس نظام کی پابندی تمام حالات میں ممکن ہے یا نہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس تہذیب کو اپنے متبعین سے اپنے وضع کردہ نظام کی پابندی کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
پھر جب یہ قاعدہ مسلّم ہو چکا ہے کہ ذہنی اور عملی زندگی کے لیے جو خاص طریقے اور مناہج متعین کیے جاتے ہیں ان کی تعیین دراصل مقصد کی نوعیت پر مبنی ہوتی ہے، اور مقصد کے اختلاف سے طریقوں اور منہجوں کا مختلف ہونا ضروری ہے، تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جو تہذیبیں اپنے مقاصد میں مختلف ہوں، ان کے اعتقادات اور عملی نظامات لازمی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہونے چاہییں۔ یہ ممکن ہے کہ وہ نظام اپنے بعض اجزا میں باہم متشابہ ہوں،اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک نظام میں بعض جزئیات دوسرے نظام سے آ گئی ہوں، لیکن نہ تو جزوی تشابہات سے کلی موافقت کا حکم نکالا جا سکتا ہے اور نہ جزئیات کے مستعار لینے سے کل کا مستعار ہونا لازم آتا ہے۔
اسی اصل سے دو قاعدے اورنکلتے ہیں:
ایک یہ کہ ایک خاص مقصد رکھنے والی تہذیب کے نظام کو جانچنے کے لیے دوسری جداگانہ مقصد رکھنے والی تہذیب کے نظام کو معیار نہیں بنایا جا سکتا۔ یعنی تنقید کا یہ طریقہ درست نہیں ہے کہ یہ نظام اگر اس نظام سے مطابقت رکھتا ہے تو صحیح ہے ورنہ غلط۔
دوسرے یہ کہ ایک تہذیب کو بجائے خود باقی رکھتے ہوئے اس کے اعتقادی اور عملی نظام کودوسرے نظام سے نہیں بدلا جا سکتا اور نہ ایک نظام کے اساسی اجزا دوسرے نظام میں داخل کیے جا سکتے ہیں۔ جو شخص اس قسم کے خلط ملط کو ممکن یا درست سمجھتا ہے، وہ تہذیب کے اصول سے ناواقف ہے اور اس کے مزاج کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
اسلامی تہذیب کی تشکیل میں اس کے نصب العین کا حصہ
ان مقدمات کو ذہن نشین کرنے کے بعد آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی تہذیب کو ایک بالکل جداگانہ اور مخصوص تہذیب بنانے میں اس کے نصب العین کا کیا حصہ ہے؟ پچھلے مباحث میں یہ بات پوری تفصیل کے ساتھ بیان کی جا چکی ہے کہ اسلام نے زندگی کا جو نصب العین مقرر کیا ہے وہ دوسرے ادیان اور دوسری تہذیبوں کے نصب العین سے اصلاً مختلف ہے۔ اور یہ بھی ثابت کیا جا چکا ہے کہ مقصد کے اختلاف سے اعتقاد و عمل کے نظام میں بنیادی اختلاف واقع ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کے نصب العین نے اسے ایک ایسی مخصوص تہذیب بنا دیا ہے جو بنیادی طور پر دوسری تہذیبوں سے مختلف ہے اور جس کا اعتقادی و عملی نظام دوسرے نظامات سے اساسی اختلاف رکھتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس نظام کے بعض اجزا دوسرے نظامات میں بھی پائے جاتے ہوں، لیکن یہاں وہ اجزا بعینہٖ اس حیثیت سے مندرج نہیں ہیں جس حیثیت سے وہ دوسرے نظامات میں مندرج ہیں۔ کسی نظام میں مندرج ہونے کے بعد جز اپنی شخصی طبیعت کو گم کرکے کل کی طبیعت اختیار کر لیتا ہے، اور جب ایک کل کی طبیعت دوسرے کل سے مختلف ہو تو لازماً اس کے ہر جُز کی طبیعت بھی دوسرے کے ہر جز کی طبیعت سے مختلف ہو گی، خواہ اس کے بعض اجزا اپنی ظاہری شکل میں دوسرے کے بعض اجزا سے کتنی ہی مشابہت رکھتے ہوں۔
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے، اسلام نے انسان کو دنیا میں خدا کا نائب قرار دیا ہے اور اس کی زندگی کا مقصد یہ متعین کیا ہے کہ جس آقا کا وہ نائب ہے اس کی خوش نودی حاصل کرے۔ یہ مقصد چوں کہ عین اس کی زندگی کا مقصد ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس کی زندگی کے تمام اعمال کا رخ اسی مقصد کی طرف پھر جائے۔ اس کے نفس اور اس کے جسم کی تمام قوتیں اسی مقصد کی راہ میں صرف ہوں۔ اس کے خیالات و تصورات اور حرکات و سکنات پر اسی مقصد کی حکومت ہو۔ اس کا جینا اورمرنا، اس کا سونا اورجاگنا، اس کا کھانا اور پینا، اس کے معاملات اور تعلقات، اس کی دوستی اوردشمنی، اس کی معیشت اور معاشرت، غرض اس کی ہر چیز اسی ایک مقصد کے لیے ہو، اور یہ مقصد اس کے اندر اس طرح ساری و جاری ہو جائے کہ گویا وہی اس کی وہ روح ہے جس کی بدولت وہ زندہ اور متحرک ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص اپنی زندگی کا یہ مقصد رکھتا ہو، اور اسی مقصد کے لیے زندہ ہو، وہ اس شخص کی طرح زندگی بسر نہیں کر سکتا جس کے پیشِ نظر کوئی مقصد نہ ہو، یا اگر ہو بھی تو اس مقصد سے مختلف ہو۔ یہ مقصد تو اپنی عین فطرت کے اعتبار سے انسان کو ایک عامل اورکارکن ہستی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ ایسا عامل اور کارکن جو زندہ ہے صرف اس لیے کہ اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرے۔
پس یہ مقصد متعین کرنے کے بعد اسلام زندگی بسر کرنے کے مختلف طریقوں میں سے ایک خاص طریقے کو انتخاب کرتا ہے اور انسان کو مجبور کرتا ہے کہ اس طریقے کے سوا کسی اور طریقے پر چل کر اپنے عزیز وقت اور اپنی قیمتی طاقتوں کو ضائع نہ کرے۔ وہ اس مقصدکی طبیعت و فطرت کے مطابق عقائد اور اعمال کا ایک جداگانہ نظام وضع کرتا ہے اور انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس خاص نظام سے کسی حال میں باہر نہ جائے۔ وہ اس نظام کو سراسر اطاعت اور عین انقیاد قرار دیتا ہے، اس لیے اس کا نام ہی ’’دین‘‘ رکھ دیتا ہے، جس کے معنی اطاعت اور انقیاد کے ہیں۔ وہ کہتا ہے:
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۝۰ۣ آل عمران 19:3
دین اللّٰہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔
اسی دین کی بنیاد پر وہ اپنے متبعین اور غیر متبعین کے درمیان خطِ امتیاز کھینچتا ہے۔ جو لوگ اس خاص مقصد کے تحت اس نظام دینی کا اتباع کرتے ہیں انھیں وہ ’’مسلم‘‘ (اطاعت کرنے والے) اور ’’مومن‘‘ (ماننے والے) کہتا ہے، اور جو اس مقصد سے متفق نہیں ہیں اور اس نظامِ دین کا اتباع نہیں کرتے انھیں ’’کافر‘‘ ۱؎ (انکار کرنے والا) قرار دیتا ہے۔ وہ نسل، قوم، زبان، وطن اور ایسے ہی دوسرے تمام امتیازات کو مٹا کر اولادِ آدم میں صرف اسی ایک کفر و ایمان کے امتیاز کو قائم کرتا ہے۔ جو کوئی اس کے نظام کا اتباع کرے وہ اس کا اپنا ہے، خواہ وہ مشرق میں ہو یا مغرب میں، اور جو اس کے نظام کا اتباع نہ کرے وہ غیر ہے، خواہ وہ عین کعبہ کی دیوارہی کے نیچے کیوں نہ رہتا ہو، اور اس کی ہڈی بوٹی مکے کی کھجوروں اور زم زم کے پانی ہی سے کیوں نہ بنی ہو۔
جس طرح اس نے عقائد اور اعمال کی بنا پر انسانوں کے درمیان ’’کفر‘‘ اور ’’ایمان‘‘ کا امتیاز قائم کیا ہے اسی طرح زندگی بسر کرنے کے طریقوں اور دنیا کی تمام چیزوں کے درمیان بھی اس نے حرام اور حلال، جائز اور ناجائز، مکروہ اور مستحب کا امتیاز قائم کیا ہے۔ جو اعمال اور طور طریقے اس مقصد کی تحصیل اور فرائضِ خلافت کی بجا آوری میں مددگار ہیں وہ اپنے مرتبے کے لحاظ سے مستحب ہیں یا حلال ہیں یا جائز۔ اور جو اس میں مزاحم اور مانع ہیں وہ اپنے مرتبے کے لحاظ سے مکروہ ہیں یا ناجائز یا حرام۔ جو مومن اس خطِ امتیاز کا احترام کرے وہ ’’متقی‘‘ (پرہیز گار) ہے اور جو اس کا احترام نہ کرے وہ ’’فاسق‘‘ (حدود سے نکل جانے والا) ہے۔ اللّٰہ کی پارٹی کے لوگوں میں ادنیٰ اور اعلیٰ کا امتیاز مال و دولت، یا حسب و نسب، یا مراتبِ معاشرت، یا رنگ کی سیاہی و سپیدی پر مبنی نہیں ہے، بلکہ صرف ’’تقوٰی‘‘ کی بِنا پر ہے:
اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۝۰ۭ الحجرات13:49
بے شک اللّٰہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔
اس طرح تصورات و افکار، اخلاق و خصائل، معیشت و معاشرت، تمدن و عمران، سیاست و حکومت، غرض انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی تہذیب کا راستہ دوسری تہذیبوں کے راستے سے الگ ہو جاتا ہے۔ زندگی کے متعلق اسلام کا نظریہ دوسری تہذیبوں کے نظریے سے الگ ہے۔ زندگی کا مقصد اسلام کے نزدیک اس مقصد سے مختلف ہے جو دوسری تہذیبوں نے متعین کیا ہے۔ لہٰذا اسلام اپنے نظریے کے مطابق دنیا اور مافیہا سے جو معاملہ برتتا ہے، اور اپنے مقصد کی تحصیل کے لیے دنیوی زندگی میں جو طریقہ اختیارکرتا ہے، وہ بھی بنیادی طور پر اس معاملے اور اس طریقے سے مختلف ہے جو دوسری تہذیبوں نے اختیار کیا ہے۔ ذہن کے بہت سے افکار و تصورات، نفس کے بہت سے میلانات و رجحانات، اور زندگی بسر کرنے کے بہت سے طریقے ایسے ہیں جن کا اتباع دوسری تہذیبوں کے نزدیک نہ صرف جائز بلکہ بسا اوقات لازمۂ تہذیب ہے، مگر اسلام انھیں ناجائز، مکروہ اور بعض حالات میں حرام قرار دینے پر مجبور ہے۔ اس لیے کہ وہ ان تہذیبوں کے تصور حیات سے عین مطابقت رکھتے ہیں اور ان کے مقصدِ زندگی کی تحصیل میں مددگار ہوتے ہیں، مگر اسلام کے تصور حیات سے انھیں کوئی لگائو نہیں ہے یا اس کے مقصدِ زندگی کی تحصیل میں مانع ہیں۔ مثال کے طور پر فنونِ لطیفہ دنیا کی بہت سی تہذیبوں میں جانِ تہذیب ہیں اور ان فنون میں اعلیٰ مہارت رکھنے والوں کو قومی ہیرو کا مرتبہ حاصل ہو جاتا ہے، مگر اسلام ان میں سے بعض کو حرام، بعض کو مکروہ، اور بعض کو ایک حد تک جائز قرار دیتا ہے۔ اس کے قانون میں ذوقِ لطیف کی پرورش اور جمالِ مصنوعی سے لطف اندوزی کی اجازت صرف اس حد تک ہے جہاں انسان اس کے ساتھ ساتھ خدا کو یاد رکھ سکے، اس کی رضا جوئی کے لیے عمل کر سکے، اپنے منصبِ خلافت کے فرائض بجا لا سکے۔ مگر جس مقام پر یہ ذوقِ لطیف احساسِ فرض پر غالب آ جاتا ہو، جہاں لطف اندوزی کا انہماک انسان کو خدا پرست کے بجائے حسن پرست بنا دیتا ہو، جہاں فنونِ لطیفہ کی چاشنی سے انسان کو عیش پسندی کا چسکا لگ جاتا ہو، جہاں ان فنون کے اثر سے جذبات وداعیاتِ نفس اس قدر قوت و شدت حاصل کر لیتے ہوں کہ عقل کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے اور ضمیر کی آواز کے لیے دل کے کان بہرے ہو جائیں اور فرض کی پکار کے لیے سمع و طاعت باقی نہ رہے، ٹھیک اسی سرحد پر اسلام عدم جواز، کراہت اور حرمت کے موانع قائم کر دیتا ہے۔ اس لیے کہ اس کا مقصد تان سین اور بند اوین، مانی اور بہزاد، چارلی چپلن اور میری پکفورڈ پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ وہ ابوبکر صدیق ؓ اور عمر فاروقؓ، علیؓ ابن ابی طالب اور حسین ابن علیؓ، ابو ذر غفاریؓ اور رابعہ بصریہؒ پیدا کرنا چاہتا ہے۔
یہی حال معاشرت اور تمدن کے اور بہت سے معاملات میں بھی ہے جن کی تفصیلات کو اوپر کی مثال پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ مردوں اور عورتوں کے تعلقات، مال دار اور مفلس کے معاملات، راعی اور رعیت کے روابط، اور انسانی طبقات کے باہمی برتائو کے متعلق اسلام کا طریقہ تمام قدیم اور جدید تہذیبوں کے طریقے سے اصولی طور پر مختلف ہے۔ اس بات میں دوسری تہذیبوں کے نظام کومعیار قرار دینا اور اسلام کے نظام کو اس پر جانچنے کی کوشش کرنا اصلاً غلط ہے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ سطح بین اور حقیقت ناآشنا ہیں۔
٭…٭…٭…٭…٭

حصہ سوم: ۱۔ ایمان کی حقیقت و اہمیت

نظریۂ حیات اور مقصدِ حیات سے گزر کر اب ہمارے سامنے تیسرا سوال آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام نے انسانی سیرت کی تعمیر کس بنیاد پر کی ہے؟
سیرت اور اس کی ذہنی بنیاد
انسان کے جملہ اعمال و افعال کا سرچشمہ اس کا ذہن ہے۔ مبدأ افعال ہونے کی حیثیت سے ذہن کی دو حالتیں ہیں: ایک حالت یہ ہے کہ اس میں کسی خاص قسم کے خیالات راسخ نہ ہوں۔ مختلف، پراگندہ اورمنتشر خیالات آتے رہیں اور ان میں سے جو خیال بھی قوی ہو، وہی عمل کے لیے متحرک بن جائے۔ دوسری حالت یہ ہے کہ وہ پراگندہ خیالی کی آماج گاہ نہ رہے بلکہ چند مخصوص خیالات اس میں اس طرح راسخ ہو جائیں کہ اس کی عملی زندگی مستقل طور پر انھی کے زیر اثر ہو، اور اس سے منتشر اعمال سرزد ہونے کے بجائے مرتب اورمنضبط اعمال صادر ہوا کریں۔ پہلی حالت کو ہم ایک سڑک سے تشبیہ دیتے ہیں جو ہر آیند و روند کے لیے کھلی ہوئی ہے، کسی وارد و صادر کی اس میں تخصیص نہیں۔ دوسری حالت ایک ایسے سانچے کی سی ہے جس میں سے ہمیشہ ایک متعین شکل و ہیئت کے پُرزے ڈھل کر نکلتے ہیں۔ جب انسان کا ذہن پہلی حالت میں ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اس کی کوئی سیرت نہیں ہے۔ وہ شیطان بھی ہو سکتا ہے اور فرشتہ بھی۔ اس کی طبیعت میں تَلَوُّن ہے۔ یقین نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے کب کس قسم کے افعال کاصدور ہو۔ بخلاف اس کے جب وہ دوسری حالت میں آ جاتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ وہ اپنی ایک سیرت رکھتا ہے۔ اس کی عملی زندگی میں ایک نظم ہے۔ ایک ترتیب ہے۔ اعتماد کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کن حالات میں کیا فعل کرے گا۔
تنظیمِ عمل کی پہلی شرط
پس معلوم ہوا کہ انسان کی عملی زندگی کا ایک قابلِ اعتماد نظم و ترتیب اختیار کرنا منحصر ہے اس پر کہ اس کی ایک مستقل سیرت بن جائے، اور سیرت کے بننے کا انحصار اس پر ہے کہ اس کا ذہن پراگندہ خیالی کی حالت سے نکل جائے، چند مخصوص خیالات اس کے اندر متمکن ہو جائیں، اور ان خیالات میں اتنا رسوخ، اتنا جمائو، اتنی مضبوطی ہو کہ کسی دوسری طرح کے خیالات کو آنے اور ذہن کی دنیا میں برہمی پیدا کرنے کا موقع نہ دیں۔ یہ خیالات جتنے زیادہ گہرے جمے ہوئے ہوں گے، سیرت اتنی ہی زیادہ مضبوط ہو گی، اور انسان کی عملی زندگی اتنی ہی زیادہ مرتب، منظم اور قابلِ اعتماد ہو گی۔ برعکس اس کے ان میں جتنی کم زوری ہو گی، مخالف خیالات کو راہ دینے کی جتنی زیادہ صلاحیت ہو گی، اتنی ہی سیرت بھی کم زور ہو گی اور عملی زندگی بھی اسی قدر بے نظم اور ناقابل وثوق ہو جائے گی۔
ایمان کے معنی
قرآن کی اصطلاح میں انسانی سیرت کی اسی ذہنی بنیاد کا نام ’’ایمان‘‘ ہے۔ ایمان کا لفظ مادۂ ’’امن‘‘ سے نکلا ہے۔ امن کے اصلی معنی نفس کے مطمئن اور بے خوف ہو جانے کے ہیں۔ اسی سے امانت ہے، جو ضد ہے خیانت کی۔ یعنی امانت وہ ہے جس میں خیانت کا خوف نہ ہو۔ امین کو امین اسی لیے کہتے ہیں کہ اس کی نیک معاملگی پر دل ٹھک جاتا ہے، وثوق ہوتا ہے کہ وہ بدمعاملگی نہ کرے گا۔ جو اونٹنی غریب اور مطیع ہوتی ہے اسے اَمُوْن کہتے ہیں۔ کیوں کہ اس سے سرکشی اور شرارت کا خوف نہیں ہوتا۔ اسی مادے کا باب افعال ’’ایمان‘‘ ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ نفس میں کوئی بات بربنائے تصدیق و یقین اس طرح جما لی جائے کہ اب اس کے خلاف کسی بات کے راہ پانے اور داخل ہو جانے کا خوف ہی باقی نہ رہے۔ ایمان کا کم زور ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ نفس اس بات پر پوری طرح مطمئن نہیں ہوا، قلب کو پوری طرح سکون نہیں ہوا، اس کے خلاف باتوں کو بھی ذہن میں داخل ہو جانے کا موقع مل گیا۔ اسی سے سیرت کم زور ہوئی اور اس نے عملی زندگی میں بے نظمی پیدا کر دی۔ ایمان کا قوی اور مضبوط ہونا اس کا عکس ہے۔ مضبوط ایمان کے معنی یہ ہیں کہ سیرت بالکل ٹھوس اور یقینی بنیادوں پر قائم ہو گئی، اب اعتماد کیا جا سکتا ہے کہ اعمال ٹھیک ٹھیک اس تخیل اور اس مفکورہ کے مطابق و مناسب صادر ہوں گے جو دل میں جم گیا ہے اور جس سے سیرت کا سانچا تیار ہوا ہے۔
تہذیب کی تاسیس میں ایمان کا مرتبہ
اگر مختلف افراد مختلف قسم کے عقائد و افکار پر ایمان رکھتے ہوں اور ان کی سیرتیں مختلف و متضاد بنیادوں پر قائم ہو جائیں تو کوئی اجتماعی ہیئت نہیں بن سکتی۔ ان کی مثال ایسی ہو گی جیسے ایک میدان میں بہت سے پتھر بکھرے پڑے ہوں۔ ہر پتھر بلاشبہ اپنی جگہ مضبوط ہے، مگر ان کے درمیان کوئی ربط نہیں ہے۔ بخلاف اس کے اگر ایک ہی مشترک تخیل بہت سے افراد کے دلوں میں ایمان بن کر جم جائے تو اشتراکِ ایمانی کا رابطہ انھیں ایک قوم بنا دے گا۔ گویا وہی پتھر جو بکھرے پڑے تھے، چونے سے جوڑ دیے گئے اور ایک مضبوط دیوار قائم ہو گئی۔ اب ان کے درمیان تعامل و تعاون شروع ہو جائے گا جس سے ترقی کی رفتار تیز اور تیز تر ہوتی چلی جائے گی۔ ایک قسم کا ایمان ان کی سیرتوں میں ہم آہنگی اور ان کے اعمال میں یک رنگی پیدا کر دے گا۔ اس سے ایک خاص تمدن پیدا ہوگا۔ ایک خاص شان کی تہذیب ظاہر ہو گی۔ ایک نئی قوم، نئی سیرت، نئی ذہنیت، نئے خیالات، نئے طریقِ عمل کے ساتھ اٹھے گی اور اپنی تہذیب کا قصر ایک نئے انداز پر تعمیر کرے گی۔
اس تقریر سے آپ نے سمجھ لیا کہ ایک تہذیب میں اس اساسی تخیل کا کیا مرتبہ ہے جو اجتماعی طور پر اس تہذیب کے متبعین میں ایمان بن کر راسخ ہو جائے۔

ایمان کی دو قسمیں
اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ایمان کے اعتبار سے دنیا کی مختلف تہذیبوں کا کیا حال ہے۔ ایمان کا لفظ اصل میں تو ایک مذہبی اصطلاح ہے، مگر چوں کہ یہاں ہم اسے اساسی تخیل کے معنی میں بول رہے ہیں، اس لیے اس معنی میں ایمان کی دو قسمیں قرار دی جا سکتی ہیں۔ ایک وہ ایمان جو مذہبی نوعیت رکھتا ہو۔ مذہبی نوعیت کا ایمان صرف اس تہذیب کی اساس بن سکتا ہے جس کی بنیاد مذہب پر ہو، کیوں کہ اس صورت میں ایک ہی ایمان دین اور دنیا دونوں پر حکمران ہوتا ہے۔ مگر جس تہذیب کی بنیاد مذہب پر نہ ہو اس میں دنیوی ایمان مذہبی ایمان سے الگ ہوجاتا ہے اور مذہبی ایمان کا شخصی و قومی زندگی پر کوئی اثر نہیں رہتا۔
۱۔ مذہبی ایمان
مذہبی ایمان عموماً ایسے امور پر ہوتا ہے جو انسانی سیرت کو رُوحانی اور اَخلاقی بنیادوں پر تعمیر کرتے ہیں۔ مثلاً ایک یا متعدد معبود جنھیں مخصوص صفات سے متصف کیا گیا ہو، کتابیں جن کا الہامی ہونا تسلیم کر لیا گیا ہو، اور پیشوا جن کی تعلیم اور سنت پر اعتقاد و عمل کی بنیاد رکھی گئی ہو، دینی نقطۂ نظر کو چھوڑ کر خالص دنیوی نقطۂ نظر سے اس قسم کے ایمان کی کام یابی دو چیزوں پر منحصر ہے۔ ایک یہ کہ مذہب نے جن امور کی تصدیق کرنے اور جن پر یقین کرنے کا مطالبہ کیا ہے، وہ عقلی اعتبار سے قابلِ تصدیق ہوں۔ دوسرے یہ کہ وہ ایسے امور ہوں جن کی بنیاد پر انسانی سیرت کی تعمیر صحیح طور سے ہو سکتی ہو۔ یعنی وہ سیرت کو اس طرح سے بنائیں کہ اس کی روحانیت ایک اعلیٰ درجے کے نظامِ اخلاق کی تاسیس کرنے والی ہو، اور اس کا اخلاق اپنی پاکیزگی و طہارت کے ساتھ ساتھ دنیوی زندگی میں بھی انسان کو کام یابی حاصل کرنے کے لیے مستعد کرنے والا ہو۔
پہلی شرط اس لیے ضروری ہے کہ اگر ایمانیات محض اوہام کا مجموعہ ہوں، یا ان میں اوہام زیادہ اور معقولات کم ہوں، تو انسان کے ذہن پر ان کا استیلا کلیتاً جہالت و نادانی کا زیربارِ منت رہے گا۔ جوں ہی کہ ارتقائے عقلی کے بلند مدارج کی طرف انسان نے قدم اٹھایا، اوہامِ باطلہ کا طلسم ٹوٹنا شروع ہو جائے گا، ایمان کی بنیادیں متزلزل ہونے لگیں گی اور اس کے ساتھ ہی روحانیت اور اخلاق کا وہ سارا نظام بھی درہم برہم ہوتا چلا جائے گا جس پر شخصی اور قومی سیرت کی بنیادیں اٹھائی گئی تھیں۔ اس کی مثال میں ہم ان اعتقادات کو پیش کر سکتے ہیں جو مختلف مشرکانہ مذاہب نے دیوتائوں، معبودوں، خدائوں اور پیشوائوں کے متعلق پیش کیے ہیں۔ انھیں جن صفات سے متصف کیا گیا ہے، جو افعال ان کی طرف منسوب کیے گئے ہیں، جو افسانے ان کے متعلق گھڑے گئے ہیں، وہ ایسے ہیں کہ عقلِ سلیم ان کی تصدیق کرنے اور ان پر ایمان لانے سے انکار کرتی ہے۔ اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ ان پراعتقاد رکھنے والی قوم دنیا میں ترقی اور غلبہ حاصل کرنے کے قابل ہی نہیں ہوتی۔ باطل اوہام اس کے ذہن پر ایسا برا اثر ڈالتے ہیں کہ عمل کی بہترین قوتیں ٹھٹھر کر رہ جاتی ہیں۔ نہ حوصلوں میں بلندی پیدا ہوتی ہے، نہ عزائم میں شدت، نہ نگاہ میں وسعت، نہ دماغ میں روشنی، نہ دل میں جرأت۔ آخر کار یہی چیز اس قوم کے لیے دائمی نکبت، ذلت، مقہوری اور غلامی کا سبب بن جاتی ہے۔ برعکس اس کے جن قوموں پر کچھ دوسرے اسباب سے ترقی کی راہیں کھل جاتی ہیں وہ عقل و علم کے اعتبار سے جتنی ترقی کرتی جاتی ہیں، اپنے خدائوں، معبودوں اور پیشوائوں پر سے ان کا اعتقاد اٹھتا جاتا ہے۔ اوّل اوّل محض نظامِ اجتماعی کے تحفظ کی خاطر ان غلط ایمانیات کو مصلحتاً برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر رفتہ رفتہ ان کے خلاف دل اور دماغ کی بغاوت اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ آخر کار قوم کے ذہن پر اُن کے لیے کوئی گرفت باقی نہیں رہتی۔ صرف ایک مختصر سا روحانی گروہ ان پر حقیقی یا پیشہ وارانہ یقین رکھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے اور باقی ساری قوم کے نفس و رُوح پرایک دوسرے ایمان کا تسلط ہو جاتا ہے جسے ہم نے دنیوی ایمان سے تعبیر کیا ہے۔
دوسری شرط کا ضروری ہونا بالکل ظاہر ہے۔ جو ایمانیات انسان کو دنیوی زندگی میں کام یابی حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں کر سکتے، ان کا اثر محض روحانی اور اخلاقی زندگی تک محدود رہتا ہے، مادی زندگی تک نہیں پہنچنے پاتا۔ نتائج کے اعتبار سے یہ بھی دو حال سے خالی نہیں ہے۔ یا تو ان کی بدولت وہ قوم ترقی ہی نہ کرے گی جو ان کی معتقد ہو گی، یا ترقی کرے گی تو بہت جلد ان کی گرفت سے نکل جائے گی، مذہب کا ایمان تہذیب کے ایمان کے لیے جگہ خالی کر دے گا، اور جب مادی زندگی کی سعی و عمل میں قوم کا انہماک بڑھے گا تو اخلاق و روحانیت بھی مذہبی ایمانیات کے اثر سے آزاد ہو جائیں گے۔
مَیں عمداً کسی مذہب کی تنقیص نہیں کرنا چاہتا، اس لیے تفصیل کے ساتھ مختلف مذاہب کے ایمانیات پر کوئی کلام نہ کروں گا۔ آپ مذاہب کا غور سے مطالعہ کریں گے تو آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ کس طرح بعض مذاہب کے ایمانیات نے ان کے معتقدین کو دنیوی زندگی میں ترقی کرنے سے روکا ہے اورکس طرح مذاہب کے ایمانیات علم و عقل کی ترقی کا ساتھ نہیں دے سکتے ہیں۔ پھر یہ بھی آپ دیکھیں گے کہ دوسری قوموں نے تنزل کی حالت میں اپنے مذہبی معتقدات پر ایمان رکھا اور ترقی کی حالت میں انھیں چھوڑ دیا۔ اس کے برعکس مسلمان اپنے ایمان میں سب سے زیادہ مضبوط اس وقت تھے جب وہ دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ تھے، اور ان کے ایمان میں کم زوری آئی تو اس وقت جب کہ وہ عقل میں، علم میں، دنیوی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے اور دوسری قومیں ان پر غالب آ گئیں۔ آج مسلمان انتہائی تنزل کی حالت میں ہیں، اور اس کے ساتھ ضُعفِ ایمانی کے مرض میں بھی شدّت کے ساتھ مبتلا ہیں۔ اب سے ہزار بارہ سو برس پہلے وہ انتہائی ترقی کی حالت میں تھے، اور اس کے ساتھ اپنے مذہبی ایمان میں انتہا درجے کے مضبوط بھی تھے۔ بخلاف اس کے یورپ کے مسیحی اور جاپان کے بودھی جب پکے مسیحی اور بودھی تھے تو حد درجہ تنزل کی حالت میں تھے، اورجب انھوں نے ترقی کی تو مسیحیت اور بودھیت پران کا ایمان نہ رہا۔ یہ اسلام کے ایمانیات اوردوسرے مذاہب کے ایمانیات کا ایسا نمایاں فرق ہے جسے بادنیٰ تامّل ہر صاحبِ عقل و بصیرت انسان محسوس کر سکتا ہے۔
۲۔ دُنیوی ایمان
اب دوسری طرف ان ایمانیات پر نظر ڈالیے جنھیں ہم دنیوی ایمانیات سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ان میں کوئی مذہبی عنصر شامل نہیں ہے۔ نہ یہاں کوئی خدا ہے، نہ کوئی مذہبی پیشوا، نہ کوئی الہامی کتاب، نہ کوئی ایسی تعلیم جو انسانی سیرت کو روحانی اور اخلاقی بنیادوں پر تعمیر کرنے والی ہو۔ یہ خالص دُنیوی امور ہیں۔
ان میں سب سے بڑی چیز ’’قوم‘‘ ہے جسے ایک خاص رقبے کے رہنے والے لوگ معبود بنا کر پورے خلوص و انہماک کے ساتھ پوجتے ہیں۔ تمام ’’قوم پرست‘‘ اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ قوم ان کی جان و مال کی مالک ہے، اس کی خدمت و حفاظت فرض ہے، اس کی خدمت میں جان دینا اور اس پر تن من دھن نثارکر دینا عین سعادت ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ انھی کی قوم برحق ہے، وہی زمین کی وارث اور مستحق ہے، دنیا کی تمام زمینیں اور دنیا کی ساری قومیں اس کے لیے غنائم اور سبایا کی حیثیت رکھتی ہیں، ہر شخص کا فرض ہے کہ سارے جہان میں اپنی قوم کا علم بلند کرے۔
دوسرا معبود ملک کا ’’قانون‘‘ ہے جسے وہ خود بناتے ہیں اور پھر خود ہی اس کی عبادت کرتے ہیں۔ یہی عبادت ان کے اجتماعی ضبط و نظم کی ضامن ہے۔
تیسرا معبود ان کا اپنا ’’نفس‘‘ ہے جس کی پرورش، جس کی حاجات و ضروریات کی تکمیل، اور جس کے داعیات و خواہشات کی تحصیل ہر وقت ان کے پیشِ نظر رہتی ہے۔
چوتھا معبود ’’علم و حکمت‘‘ ہے جس پر وہ ایمان لاتے ہیں، جس کی روشنی میں چلتے ہیں، اور جس کی راہ نُمائی میں ترقی کی راہ پر گام زن ہوتے ہیں۔
یہ ایمانیات یقینا ً دنیوی زندگی کے لیے ایک حد تک مفید ہیں۔ مگر قطع نظر اس سے کہ حق اور صداقت کے اعتبار سے ان کا کیا مرتبہ ہے، خالص دنیوی نقطۂ نظر سے بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کا فائدہ نہ حقیقی ہے نہ پائدار۔ ان کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ ان میں کوئی روحانی و اخلاقی عنصر شامل نہیں ہوتا۔ اس لیے مذہب کا دامن ہاتھ سے چھوٹتے ہی اخلاقی مفاسد کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ قانون کا یہ منصب نہیں ہے کہ لوگوں کے دلوں میں حاسۂ اخلاق پیدا کرے اور صحیح معنوں میں اخلاق کا کوئی معیار قائم کر دے۔ نہ اس میں اتنی قوت ہے کہ شخصی و اجتماعی زندگی میں اخلاق کی حفاظت کر سکے۔ اس کا اثر اور دائرۂ عمل محدود ہے اور خصوصیت کے ساتھ وہ قانون جسے لوگ خود بناتے ہیں اس معاملے میں اور بھی زیادہ بے بس واقع ہوا ہے، اس لیے کہ ایسے قانون کی گرفت کو تنگ اور ڈھیلا کرنا تو لوگوں کے اپنے اختیار میں ہے۔ جتنی جتنی آزادیِ عمل کی خواہش لوگوں میں بڑھتی جاتی ہے، پرانی اخلاقی بندشیں تنگ اور ناقابلِ برداشت محسوس ہونے لگتی ہیں، اور جب کسی اخلاقی بندش کے متعلق یہ احساس عام ہوجاتا ہے تو رائے عام کا دبائو قانون کو اپنے بند ڈھیلے کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس طرح رفتہ رفتہ اخلاق کے سارے بند کھل جاتے ہیں۔ ایک عام اخلاقی انحطاط شروع ہو جاتا ہے۔ اور اخلاقی انحطاط وہ چیز ہے جس کے مہلک اثرات کو نہ دولت کی فراوانی روک سکتی ہے، نہ حکومت کا زور، نہ مادی وسائل کی قوت، نہ علم و حکمت کی تدابیر۔ یہ ایک گھن ہے جو اندر سے لگنا شروع ہوتا ہے اور مضبوط سے مضبوط عمارت کو اس کے ساز و سامان سمیت لے بیٹھتا ہے۔
اس کے علاوہ قوم پرستی اور نفس پرستی کے جو دوسرے مفاسد ہیں، وہ اتنے نمایاں ہیں کہ انھیں سمجھنے کے لیے کسی بحث و نظر کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ وہ نظریات سے گزر کر محسوسات و مشاہدات کے درجے میں آ گئے ہیں۔ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ آج انھی کی بدولت ایک بہت بڑی تہذیب ہلاکت و بربادی کے سرے پر پہنچ گئی ہے اور انھی کے نتائج ہیں جن کے یقینی ظہور کا اندیشہ آج تمام دنیا کو لرزہ براندام کیے ہوئے ہے۔
چند اصولِ کلیہ
اس تمام بحث سے چند اصولِ کلیہ مستنبط ہوتے ہیں جنھیں آئندہ مباحث کی طرف تجاوز کرنے سے پہلے ایک ترتیبِ صحیح کے ساتھ ذہن نشین کر لینا چاہیے:
۱۔ انسانی عمل کا منضبط اور منظم ہونا منحصر ہے اس پر کہ اس کی ایک مستقل اور متعین سیرت بن جائے۔ کسی مستقل سیرت کے بغیر انسان کی عملی زندگی پراگندہ، متلون اور ناقابلِ وثوق رہتی ہے۔
۲۔ سیرت کی بنیاداُن تصورات پر قائم ہوتی ہے، جو ذہن میں پوری قوت کے ساتھ راسخ ہو جائیں، اور اتنا غلبہ حاصل کر لیں کہ انسان کی ساری عملی قوتیں انھی کے زیر اثر رہ کر کام کرنے لگیں۔ اس رسوخ کا اصطلاحی نام ’’ایمان‘‘ ہے اور اس طرح راسخ ہو جانے والے تصورات کو ہم ’’ایمانیات‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔
۳۔ سیرت کی اچھی اور بُری، صحیح اور غلط، مضبوط اور کم زور تشکیل کلیتاً انھی ’’ایمانیات‘‘ کی صحت اور ان کے رسوخ پر منحصر ہے۔ ایمانیات صحیح ہوں تو سیرت بھی صحیح ہو گی، ایمان مضبوط ہو تو سیرت بھی مضبوط ہو گی، ورنہ معاملہ اس کے برعکس ہو گا۔ لہٰذا انسان کی زندگی کو ایک صحیح اور اعلیٰ درجے کے نظم میں لانے کے لیے ناگزیر ہے کہ اس کی سیرت کو ایک صحیح اور مضبوط ایمان پر قائم کیا جائے۔
۴۔ جس طرح شخصِ واحد کے اعمالِ حیات کو پراگندگی سے نکال کر ضبط اور نظم کے تحت لانے کے لیے ایمان کی ضرورت ہے، اسی طرح بہت سے اشخاص کو انتشار اور تفرقے کی حالت سے نکال کر ایک منظم اور متحد جمعیت بنا دینے کے لیے ضروری ہے کہ ان سب کے دلوں میں ایک ہی مشترک ایمان بٹھا دیا جائے۔ پس تمدن کا مفاد اس کا مقتضی ہے کہ ایمان کا معاملہ محض شخصی نہ رہے بلکہ قومیت کا رشتۂ اتحاد بن جائے۔
۵۔ جب ایک مشترک ایمان کے زیر اثر بہت سے افراد میں ایک مشترک قومی سیرت بن جاتی ہے اور اس سیرت کے اثر سے ان کی زندگی کے اعمال میں ایک طرح کی یک رنگی پیدا ہوتی ہے تو ایک خاص طرز وانداز کی تہذیب وجود میں آتی ہے۔ اس لحاظ سے ہر تہذیب کی تاسیس اور تشکیل میں ان ایمانیات کا بڑا دخل ہے، جو قومی سیرت کو بناتے اور پختہ کرتے ہیں۔
۶۔ جس قوم کے ایمانیات روحانی امور پرمشتمل ہوتے ہیں، اس کا مذہب اور اس کی تہذیب دونوں ایک ہوتے ہیں، اور جس کے ایمانیات دنیوی امور پرمشتمل ہوتے ہیں، اس کی تہذیب اس کے مذہب سے جدا ہو جاتی ہے۔ اس دوسری صورت میں شخصی اور قومی زندگی پر مذہب کا کوئی خاص اثر باقی نہیں رہتا۔
۷۔ تہذیب کا مذہب سے آزاد ہو جانا آخر کار اخلاقی انحطاط اور تباہی کا موجب ہوتا ہے۔
۸۔ تہذیب کا مذہب کے زیر اثر رہنا منحصر ہے اس پر کہ مذہب کے ایمانیات ایسے روحانی امور پر مشتمل ہوں جو ادنیٰ مدارج سے لے کر بلند ترین مدارج تک انسان کے ارتقائے عقلی کا ساتھ دے سکیں، اور جس سے انسانی سیرت کی تشکیل اس طرح پر ہو کہ وہ بیک وقت اعلیٰ درجے کا دین دار بھی ہو اور دنیا دار بھی، بلکہ اس کی دنیا داری عین دین داری ہو اور دین داری عین دنیاداری۔
۹۔ جس قوم کا مذہب و تہذیب دونوں ایک ہوں، اس کا ایمان نرا مذہبی ایمان ہی نہیں ہوتا بلکہ بعینہٖ دنیوی ایمان بھی ہوتا ہے۔ اس کے ایمان کا متزلزل ہونا اس کے مذہب اور اس کی تہذیب دونوں کے لیے غارت گر ہے، اس کی دنیا اور اس کے دین دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔
یہی وہ اصولِ کلیہ ہیں جن کے لحاظ سے ہمیں ایمان کے متعلق اسلام کے مؤقف پر تنقیدی نگاہ ڈالنی ہے۔
ایمان کی حقیقت، شخصی کردار میں اس کی بنیادی اہمیت، اور اجتماعی تہذیب میں اس کی اساسی حیثیت کے بعد آپ دیکھیے کہ اسلام نے کن چیزوں پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے؟ اس کے ایمانیات عقلی تنقید کے معیار پر کس حد تک پورے اترتے ہیں؟ اس کے نظام میں ایمان کی حیثیت کیا ہے؟ اور انسان کے شخصی کردار اور اجتماعی سیرت پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے؟

۲۔اسلام کے ایمانیات

قرآن مجید میں اسلام کے ایمانیات اتنی تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں کہ ان میں کسی اختلاف کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے، مگر جن لوگوں نے قرآن کے اسلوبِ بیان کو نہیں سمجھا ہے، یا اس کے مضامین کا تتبع نہیں کیا ہے، انھیں چند در چند غلط فہمیاں ہو گئی ہیں۔ قرآن کا اسلوب یہ ہے کہ کہیں وہ تمام ایمانیات کو یک جا بیان کرتا ہے، اورکہیں موقع و محل کے لحاظ سے بعض اجزا یا صرف ایک جز بیان کرکے اسی پر زور دیتا ہے۔ اس سے بعض لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ اسلام کے ایمانیات کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ یعنی ان میں سے کسی ایک یا بعض پر ایمان لانا کافی ہے، اور بعض کے انکار کرنے کے باوجود انسان فلاح پا سکتا ہے۔ حالاں کہ قرآن کا ناطق فیصلہ یہ ہے کہ جتنے امور اس نے ایمانیات کے طور پر پیش کیے ہیں ان سب کو ماننا ضروری ہے۔ انھیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ سب مل کر ایک ناقابلِ تجزیہ کل بناتے ہیں جسے ’’مِنْ حَیْثُ الْمَجْمُوْع‘‘ تسلیم کرنا چاہیے۔ اگر ان میں سے ایک کا بھی انکار کیا گیا تو وہ باقی سب کے اقرار کو باطل کر دے گا۔ قرآن میں ایک جگہ کہا گیا ہے کہ:
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ حٰمٓ سجدہ30:41
جن لوگوں نے کہا کہ اللّٰہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا ًان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں۔
اس آیت میں صرف خدا پر ایمان لانے کا ذکر ہے اور اسی پر دنیا و آخرت کی کام یابی کا مُژدہ سنایا گیا ہے۔ دوسری جگہ خدا کے ساتھ یوم آخر کا بھی ذکر ہے:
مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ البقرہ 62:2
یہی مضمون آل عمران (ع۱۲) ، مائدہ (ع۱۰) اور رعد (ع۳) میں بھی ہے۔ تیسری جگہ خدا اور رسولوں پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے:
فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ۝۰ۚ وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِيْمٌo آل عمران 179:3
یہی مضمون حدید (ع۴) میں بھی ہے۔
ایک اور جگہ ایمان دار اس شخص کو کہا گیا ہے جو خدا اور محمدؐ پر ایمان لائے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ النور 62:24
محمد(۴۷:۲،۳)، جن(۷۲:۲۲) اور الفتح (۴۸:۲۵) میں اسی مضمون کا اعادہ ہے۔ ایک جگہ خدا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن تین چیزوں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے:
فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالنُّوْرِ الَّذِيْٓ اَنْزَلْنَا۝۰ۭ التغابن 8:64
ایک جگہ کتب الٰہی، قرآن اور یومِ آخر، چار چیزوں کا ذکر ہے:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ…… وَالْمُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭo النسائ 162:4
ایک اور جگہ خدا، ملائکہ، انبیا اور قرآن کے انکار کو کفر و فسق قرار دیا گیا ہے:
مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَرُسُلِہٖ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللہَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَo وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ اٰيٰتٍؚبَيِّنٰتٍ۝۰ۚ وَمَا يَكْفُرُ بِہَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَo
البقرہ 98-99:2
ایک جگہ اللہ، ملائکہ، کتب ِ الٰہی، انبیا اور قرآن پر ایمان لانے والوں کو مومن کہا گیا ہے:
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ۝۰ۭ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَكُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ۝۰ۣ البقرہ 285:2
دوسری جگہ ایمان کے پانچ اجزا بیان کیے گئے ہیں۔ ایمان باللّٰہ و یوم آخر و ملائکہ و کتب الٰہی و انبیا:
وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ۝۰ۚ……… اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo البقرہ 177:2
سورۃ النساء میں مذکورہ بالا پانچ اجزا کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر بھی ایمان لانے کی تاکید کی گئی ہے اور ان کا انکار کرنے والوں کو کافر اور گم راہ قرار دیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۃ النساء۴:۱۳۶)
ایک جگہ یومِ آخر کے اقرار پر زور دیا گیا ہے اوراس کے انکار کو نامرادی کا سبب بتلایا گیا ہے:
قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ اللہِ۝۰ۭ الانعام 31:6
اسی مضمون کا اعادہ سورہ اعراف(ع۱۷) یونس(ع۱) ،فرقان(ع۲)،نمل(ع۱)، صافات (ع۱) میں ہے۔
دوسری جگہ یوم آخر کے ساتھ کتب ِ الٰہی کے انکار کو بھی عذابِ الیم کا موجب قرار دیا گیا ہے:
اِنَّہُمْ كَانُوْا لَا يَرْجُوْنَ حِسَابًاo وَّكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا كِذَّابًاo النبائ 27-28:78
تیسری جگہ یومِ آخر اورکتب ِ الٰہی کے ساتھ قرآن کو بھی ایمانیات میں شامل کیا گیا ہے:
وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَo اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۤوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo البقرہ 4-5:2
چوتھے مقام پر کہا گیا ہے کہ یوم آخر، کتب ِ الٰہی اور انبیا کے انکار سے تمام اعمال پر پانی پھر جاتا ہے۔ ایسا شخص دوزخی ہے اور اس کے عمل کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ (۱۸:۱۰۰۔۱۰۶)
کتب الٰہی پر ایمان لانے کا اوپر بار بار ذکر آیا ہے اور ان میں تورات، انجیل، زبور اور صحفِ ابراہیم ؑکے نام تصریح کے ساتھ لیے گئے ہیں۔ مگر قرآن میں بیسیوں مقامات پر یہ بھی صاف کہہ دیا گیا ہے کہ ان کتابوں کا ماننا ہرگز کافی نہیں ہے بلکہ ان کے ساتھ قرآن کا ماننا بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص تمام کتابوں کو مانتا ہو اور قرآن کو نہ مانتا ہو، تو وہ اسی طرح کافر ہے جس طرح تمام کتابوں کا انکار کرنے والا۔ ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ: (۲:۹۹۔۱۰۱) ، نساء(۴:۴۷)،مائدہ(۴۵:۶۸،۸۱)،رعد(ع۳)،عنکبوت(۲۹:۴۷)،زُمُر (۳۹:۵۵۔۶۰) یہی نہیں بلکہ خدا کی بھیجی ہوئی ہر کتاب کو پورا پورا ماننا لازم ہے۔ اگر کوئی شخص اس کی بعض باتوں کو مانے اور بعض کو نہ مانے تو وہ بھی کافر ہے۔ (۲:۸۵)
اسی طرح انبیا کے متعلق تصریح ہے کہ ان سب پر ایمان لانا ضروری ہے۔ جن کے نام لیے گئے ہیں ان پر تفصیلاً اور جن کے نام نہیں ہیں ان پر اجمالاً۔ لیکن اگر کوئی شخص تمام انبیا پرایمان رکھتا ہو اور صرف محمدؐ کی نبوت کا انکار کر دے تو وہ یقینا ً کافر ہے۔ قرآن میں ایک جگہ نہیں بیسیوں مقامات پر اس کی تصریح کی گئی ہے اور تمام انبیا کے ساتھ محمدؐ کی رسالت کے اقرار کو ایمان کی لازمی شرط قرار دیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ (۲:۸۹)، نساء (۴:۷۵)، مائدہ (۵:۱۵،۱۶)، انعام (ع۱۹)، اعراف (۷:۱۵۷)، الانفال (۸:۱،۲۷)، مومنون (۲۳:۶۹)، شوریٰ (۴۲:۱۳)، محمدؐ (۴۷:۲،۳)، طلاق (۶۵:۱)۔ ان میں سے اکثر آیات ایسی ہیں جن میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی امتوں کو نبی اکرمؐ پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جب تک تم قرآن اور محمدؐ پر ایمان نہ لائو، تمھیں ہدایت نہیں مل سکتی۔
ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ اسلام کے ایمانیات پانچ ہیں:
۱۔ خدا۔
۲۔ ملائکہ۔
۳۔ کتب ِ الٰہی، جن میں قرآن بھی شامل ہے۔
۴۔ انبیا علیہم السلام، جن میں رسولِ عربی محمدؐ بھی شامل ہیں۔
۵۔ یومِ آخر یعنی قیامت۔ ۱؎
یہ اجمال ہے۔ آگے چل کر بتایا جائے گا کہ ان میں سے ہر ایک کے متعلق تفصیلی عقیدہ کیا ہے؟ ان میں باہم کیا تعلق ہے جس کی وجہ سے انھیں الگ نہیں کیا جا سکتا اور ایک کے انکار سے سب کا انکار لازم آتا ہے؟ اور ان میں سے ہر ایک کو ایمانیات میں داخل کرنے کا فائدہ کیا ہے؟
عقلی تنقید
یہ پانچوں ایمانیات امورِ غیب کے قبیل سے ہیں اور عالمِ آب و گل سے ماورا، اس لیے ہماری تقسیم کے مطابق یہ مذہبی و روحانی ایمانیات ہیں۔ لیکن ان کی خصوصیت یہ ہے کہ اسلام نے ان پر اپنے رُوحانی نظام ہی کی نہیں بلکہ اَخلاقی و سیاسی اور تمدنی نظام کی بھی بنیاد رکھی ہے۔ اس نے دین اور دنیا دونوں کو باہم ملاکر ایک ایسا نظام وضع کیا ہے جس کے تحت انسانی زندگی کے تمام شعبے حرکت کرتے ہیں۔ اس نظام کو اپنے قیام و بقا اور اپنے تصرفات کے لیے جتنی طاقت کی ضرورت ہے وہ سب انھی پانچوں ایمانیات سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ اس کے لیے قوت کا ایک لامتناہی سرچشمہ ہیں جس کی رسد کبھی بند نہیں ہوتی۔ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ جن ایمانیات سے اتنا بڑا کام لیا گیا ہے، وہ عقلی حیثیت سے کیا پایہ رکھتے ہیں؟ اور ان میں ایک ایسے ہمہ گیر اور ترقی پذیر نظام کے لیے اساس اور منبعِ قوت بننے کی کہاں تک صلاحیت موجود ہے؟
اس سوال کی تحقیق میں قدم آگے بڑھانے سے پہلے ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اسلام ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے جو صحیح معنوں میںانسانی تہذیب ہو۔ یعنی اس کا تعلق کسی خاص ملک یا نسل کے لوگوں سے نہ ہو، نہ کوئی مخصوص رنگ رکھنے والی یا مخصوص زبان بولنے والی قوم اس کے ساتھ اختصاص رکھتی ہو، بلکہ تمام نوعِ انسانی کی فلاح اس کی مقصود ہو، اور اس کے زیر اثر ایک ایسا نظامِ اجتماعی قائم ہو سکے جس میں ہر اس چیز کو پرورش کیا جائے جو انسان کے لیے بحیثیت انسان ہونے کے خیر و صلاح ہے، اور ہر اس چیز کو مٹایا جائے جو اس کے لیے شر اور فساد ہے۔ ایسی ایک خالص انسانی تہذیب کی بنیاد ان ایمانیات پر نہیں رکھی جا سکتی جو عالمِ آب و گل سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس لیے کہ مادیات اور محسوسات دو حال سے خالی نہیں ہیں: یا تو وہ ایسے ہیں جن کے ساتھ تمام انسانوں کا تعلق یکساں ہے، مثلاً سورج، چاند، زمین، ہوا، روشنی وغیرہ، یا ایسے ہیں جن کے ساتھ تمام انسانوں کا تعلق یکساں نہیں ہے، مثلاً وطن، نسل، رنگ، زبان وغیرہ۔ پہلی قسم کی چیزوں میں تو ایمانیات بننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، کیونکہ ان کے نفسِ وجود پرایمان لانا تو محض بے معنی ہے، اور ان پر اس حیثیت سے ایمان لانا کہ وہ انسان کی اصلاح میں کوئی اختیاری تاثیر رکھتے ہیں، ازرُوئے علم و عقل غلط ہے۔ علاوہ بریں ان پر کسی حیثیت سے بھی ایمان لانے کا کوئی نفع انسان کی روحانی، اخلاقی اور عملی زندگی میں مترتب نہیں ہوتا۔ رہیں دوسری قسم کی چیزیں، تو ظاہر ہے کہ وہ ایک مشترک انسانی تہذیب کے لیے اساس نہیں بن سکتیں، کیونکہ وہ بنائے تفریق و تقسیم ہیں نہ کہ بنائے جمع و تالیف۔ لہٰذا یہ قطعاً ناگزیر ہے کہ اس قسم کی تہذیب کی بنیاد ایسے ایمانیات پر رکھی جائے جو مادیات و محسوسات سے ماورا ہوں۔
لیکن ان کا محض مادیات و محسوسات سے ماورا ہونا ہی کافی نہیں ہے، اس کے ساتھ ضرورت ہے کہ ان میں چند اور خصوصیات بھی پائی جائیں:
۱۔ وہ خرافات اور اوہام نہ ہوں بلکہ ایسے امور ہوں جن کی تصدیق پر عقلِ سلیم مائل ہو سکتی ہو۔
۲۔ وہ دُو راَز کار باتیں نہ ہوں بلکہ ہماری زندگی سے ان کا گہرا تعلق ہو۔
۳۔ ان میں ایسی معنوی قوت ہو جس سے تہذیب کا نظام انسان کے قوائے فکر و عمل پر تسلّط کرنے میں پوری طرح مدد حاصل کر سکے۔
اس لحاظ سے جب ہم اسلام کے ایمانیات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان تینوں آزمائشوں میں پورے اترتے ہیں۔
اولاً اسلام نے خدا، ملائکہ، وحی، رسالت اور یومِ آخر کا جو تصور پیش کیا ہے اس میں کوئی استحالۂ عقلی نہیں ہے۔ اس کے اندر کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا صحیح ہونا غیر ممکن ہو، نہ کوئی ایسی بات ہے جسے ماننے سے عقلِ سلیم انکار کرتی ہو۔ اس میں شک نہیں کہ عقل ان کا احاطہ نہیں کر سکتی، اس کی کُنہٗ تک نہیں پہنچ سکتی، ان کی حقیقتوں کو کماحقہٗ نہیں سمجھ سکتی، لیکن ہمارے اہلِ حکمت نے اب تک جتنے مجردات و مفارِقات کی تصدیق کی ہے ان سب کا یہی حال ہے۔ توانائی (انرجی)، حیات، جذب و کشش، نشووارتقا اور ایسے ہی دوسرے امور کی تصدیق ہم نے اس بِنا پر نہیں کی ہے کہ ہم ان کی حقیقتوں کو پوری طرح سمجھ چکے ہیں، بلکہ اس بِنا پر کی ہے کہ ہم نے جن مختلف قسم کے مخصوص آثار کا مشاہدہ کیا ہے، ان کی توجیہہ و تعلیل کے لیے ہمارے نزدیک ان امور کا موجود ہونا ضروری ہے، اور ظواہر اشیا کے باطنی نظام کے متعلق جو نظریات ہم نے قائم کیے ہیں وہ ان امور کے موجود ہونے کا اقتضا کرتے ہیں۔ پس اسلام جن مجردات پر ایمان لانے کا مطالبہ کرتا ہے ان کی تصدیق کے لیے بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ ہماری عقل ان کی حقیقتوں کو پوری طرح سمجھ لے اور ان کا احاطہ کر لے، بلکہ اس کے لیے عقلی طور پر صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ کائنات اور انسان کے متعلق جو نظریہ اسلام نے پیش کیا ہے وہ خلافِ عقل نہیں ہے، اس کا صحیح ہونا اغلب ہے اور وہ ان پانچوں امور کے وجود کا مقتضی ہے جو اسلام نے ایمانیات کے طور پر پیش کیے ہیں۔
اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ:
۱۔ کائنات کا نظم ایک قادر مطلق ہستی کا قائم کیا ہوا ہے اور وہی اسے چلا رہی ہے۔
۲۔ اس قادرِ مطلق ہستی کے ماتحت بے شمار دوسری ہستیاں ہیں جو اس کے احکام کے مطابق اس وسیع کائنات کی تدبیر کر رہی ہیں۔
۳۔ انسان کے وجود میں اس کے خالق نے خیر اور شر دونوں کے میلانات رکھے ہیں۔ دانائی اور نادانی، علم اور جہل دونوں کا اس کے اندر اجتماع ہے۔ غلط اور صحیح دونوں طرح کے راستوں پر وہ چل سکتا ہے۔ ان متضاد قوتوں اور متخالف میلانات میں سے جس کا غلبہ ہوتا ہے، اس کی پیروی انسان کرنے لگتا ہے۔
۴۔ اس تنازعِ خیر و شر میں خیر کی قوتوں کو مدد پہنچانے اور انسان کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے اس کا خالق خود بنی نوع انسان ہی میں سے ایک بہتر آدمی کو انتخاب کرتا ہے اور اسے علم صحیح عطا کرکے لوگوں کی ہدایت پر مامور کر دیتا ہے۔
۵۔ انسان کوئی غیر ذمے دار اور غیر مسئول ہستی نہیں ہے۔ وہ اپنے تمام اختیاری اعمال کے لیے اپنے خالق کے سامنے جواب دہ ہے۔ ایک دن اسے ذرّے ذرّے کا حساب دینا ہو گا اور اپنے اعمال کے اچھے یا برے نتائج دیکھنے ہوں گے۔
یہ نظریہ خدا، ملائکہ، وحی، رسالت اور یومِ آخر پانچوں اُمور کے وجود کا مقتضی ہے۔ اس میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو عقلاً محال ہو۔ نہ اس کی کسی چیز کو وہمیات وخرافات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ برعکس اس کے ہم اس پر جس قدر زیادہ غور کرتے ہیں، اسی قدر اس کی تصدیق کی جانب ہمارا میلان بڑھتا جاتا ہے۔
خدا کی حقیقت خواہ ہماری سمجھ میں نہ آئے، مگر اس کا وجود تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔ یہ ایک ایسی ضرورت ہے جس کے بغیر کائنات کا معما کسی طرح حل نہیں ہوتا۔
ملائکہ کے وجود کی کیفیت ہم متعین نہیں کر سکتے، مگر ان کے نفسِ وجود میں شک کی گنجائش نہیں ہے۔ تمام اہلِ علم و حکمت نے ان کی ہستی کو کسی نہ کسی طور پر تسلیم کیا ہے۔ اگرچہ وہ انھیں اس نام سے یاد نہیں کرتے جس سے قرآن انھیں موسوم کرتا ہے۔
قیامت کا آنا اور ایک نہ ایک دن دنیا کے نظام کا درہم برہم ہو جانا عقلی قیاسات کی رُو سے اغلب بلکہ قریب بہ یقین ہے۔
انسان کا اپنے خدا کے آگے جواب دہ ہونا اور اپنے اعمال کے لیے مستوجب ِ جزا و سزا ہونا کسی قطعی دلیل سے ثابت نہیں کیا جا سکتا، مگر عقلِ سلیم اس حد تک تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ انسان کی موت اور موت کے بعد کی حالت کے متعلق جتنے نظریے قائم کیے گئے ہیں، ان میں سب سے زیادہ بہتر، نتیجہ خیز اور اقرب اِلی القیاس نظریہ وہی ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے۔
رہا وحی اور رسالت کا مسئلہ، تو یہ ظاہر ہے کہ اس کا کوئی سائنٹیفک ثبوت نہیں پیش کیا جا سکتا۔ مگر جن کتابوں کو وحی الٰہی کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے، ان کے معانی اور جن لوگوں کو خدا کا رسول کہا گیا ہے ان کی سیرتوں پر غور کرنے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ نوعِ انسانی کے افکار واعمال پر ان کے برابر گہرے، وسیع، پائدار اور مفید اثرات کسی راہ نُما نے نہیں ڈالے۔ یہ بات اس امر کا یقین کرنے کے لیے کافی ہے کہ ان میں کوئی غیر معمولی بات ضرور تھی جو نہ انسانی تصنیفات کو نصیب ہے اور نہ معمولی انسانی لیڈروں کو۔
اس بیان سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کے ایمانیات عقل کے خلاف نہیں ہیں۔ عقل کے پاس ان کی تکذیب کے لیے کسی قسم کا مواد نہیں ہے۔ ان میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ علمی اور عقلی ارتقا کے کسی مرتبے پر پہنچ کر انسان انھیں رد کر دینے پر مجبور ہوجائے۔ بلکہ اس کے برعکس عقل ان کی اغلبیت کا حکم لگاتی ہے۔ رہا ایمان اور تصدیق کا معاملہ، تو اس کا تعلق عقل سے نہیں ہے، وجدان اور ضمیر سے ہے۔ ہم جتنے مجردات اور غیبیات کو مانتے ہیں، ان سب کی تصدیق دراصل ہمارے وجدان پر مبنی ہوتی ہے۔ اگر کسی امر غیب کو ہم نہ ماننا چاہیں، ہمارا دل اس پر نہ ٹھکتا ہو، تو کسی عقلی دلیل سے ہمیں اس کی تصدیق پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر ایتھر کے وجود پرجتنے دلائل قائم کیے گئے ہیں، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو یقینی طور پر اسے ثابت کر دیتا ہو اور اس کی صحت میں شک کی گنجائش نہ چھوڑتا ہو۔ انھی دلائل کو دیکھ کر بعض اہلِ حکمت اس پر ایمان لے آتے ہیں، اور انھی کو بعض دوسرے حکما ناکافی سمجھ کر ایمان لانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ پس تصدیق و ایمان کا انحصار دراصل ضمیر کے اطمینان اور وجدان کی گواہی پر ہے۔ البتہ عقل کا اس میں اتنا دخل ضرور ہے کہ جن کی تصدیق عقل کے خلاف ہوتی ہے ان کے بارے میں وجدان اور عقل کے درمیان کش مکش برپا ہوتی ہے اور ایمان ضعیف ہو جاتا ہے، اور جن کی تصدیق قیاسِ عقلی کے خلاف نہیں ہوتی، یا جن کی تصدیق میں عقل بھی ایک حد تک مددگار ہوتی ہے، ان کے بارے میں ضمیر کا اطمینان زیادہ بڑھ جاتا ہے اور اس سے ایمان کو قوت حاصل ہوتی ہے۔
ثانیاً غیبیات میں سے بیش تر ایسے امور ہیں جن کی حیثیت محض علمی ہے، یعنی ان سے ہماری عملی زندگی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مثلاً ایتھر (ether)، ہیولیٰ، صورتِ مطلقہ، مادّہ، فطرت و قانونِ فطرت، قانونِ علت و معلول، اور ایسے ہی بیسیوں علمی مسلمات یا مفروضات کہ ان کے ماننے یا نہ ماننے کا ہماری زندگی کے معاملات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن اسلام نے جن امورِ غیب پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے وہ ایسے نہیں ہیں۔ ان کی حیثیت محض علمی ہی نہیں ہے بلکہ ہماری اخلاقی اور عملی زندگی سے ان کا گہرا تعلق ہے۔ ان کی تصدیق کو اصل الاصول قرار دینے کی وجہ یہی ہے کہ وہ محض علمی صداقتیں نہیں ہیں بلکہ ان کا صحیح علم اور ان پر کامل ایمان ہمارے نفسانی اوصاف و خصائص پر، ہمارے شخصی اعمال پر، اور ہمارے اجتماعی معاملات پر شدت کے ساتھ اثر انداز ہوتا ہے، اس کا تفصیلی بیان آگے آئے گا۔
ثالثاً اسلام کے نظامِ تہذیب کو مختلف عقلی اور علمی مراتب رکھنے والی وسیع انسانی آبادیوں پر ان کی زندگی کے مخفی اور جزوی سے جزوی شعبوں تک میں اپنی حکومت قائم کرنے اور اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے جس قوت کی ضرورت ہے، وہ صرف انھی ایمانیات سے حاصل ہو سکتی ہے جن کی تصدیق کا اسلام نے مطالبہ کیا ہے۔ یہ یقین کہ ایک سمیع و بصیر، قاہر و غالب، اور رؤف و رحیم خدا ہمارے اوپر حکمران ہے، اس کے بے شمار لشکر ہر جگہ ہر آن موجود ہیں، پیغمبر اسی کا بھیجا ہوا ہے، جو احکام اس (پیغمبر) نے ہمیں دیے ہیں وہ اس نے خود نہیں گھڑے ہیں بلکہ سب کے سب خدا کی طرف سے ہیں، اور اپنی اطاعت یا سرکشی کا اچھا یا برا نتیجہ ہمیں ضرور دیکھنا پڑے گا، اپنے اندروہ زبردست اور ہمہ گیر طاقت رکھتا ہے جو اس کے سوا کسی اور ذریعے سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ مادی طاقتیں صرف جسم کو جکڑ سکتی ہیں، تربیت اور تعلیم کے اخلاقی اثرات انسانی سوسائٹی کے اعلیٰ طبقوں تک پہنچ سکتے ہیں، قانون صرف وہاں کام کر سکتا ہے جہاں اس کے کارندوں کی پہنچ ہو۔ مگر یہ وہ قوت ہے جو دل اور روح پر قبضہ کرتی ہے، عوام اور خواص، جاہل اور عالم، دانش مند اور بے دانش، سبھی کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، جنگل کی تنہائیوں اور رات کی تاریکیوں تک میں اپنا کام کرتی ہے۔ جہاں گناہ سے روکنے والا، حتیٰ کہ اسے دیکھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا، وہاں خدا کے حاضر و ناظر ہونے کا یقین، پیغمبر کی دی ہوئی تعلیم کے برحق ہونے کا یقین، قیامت کی باز پرس کا یقین، وہ کام کرتا ہے جو نہ کوئی پولیس کا سپاہی کر سکتا ہے، نہ عدالت کا حاکم، نہ پروفیسر کی تعلیم۔ پھر جس طرح اس یقین نے معمورۂ ارضی پر پھیلے ہوئے بے شمار مختلف و متضاد انسانی عناصر کو جمع کیا، انھیں ملا کر ایک قوم بنایا، ان کے تخیلات، اعمال اور اطوار میں غایت درجے کی یک جہتی پیدا کی، ان کے اندر اختلافِ ظروف و احوال کے باوجود ایک تہذیب پھیلائی اور ان میں ایک اعلیٰ مقصد کے لیے فداکاری کی والہانہ روح پھونکی، اس کی مثال کہیں ڈھونڈے نہیں مل سکتی۔
یہاں تک جو کچھ ثابت کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کی اصطلاح میں ایمان سے مراد اللّٰہ ، ملائکہ، رُسُل اور یومِ آخر پر ایمان لانا ہے، اور یہ پانچوں ایمانیات مل کر ایک ناقابلِ تجزیہ کُل بناتے ہیں۔ یعنی ان کے درمیان ایسا ربط ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک جز کا بھی انکار کیا جائے تو اس سے کل کا انکار لازم آتا ہے۔ پھر عقلی تنقید کرکے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام جس قسم کی تہذیب قائم کرنا چاہتا ہے اس کے لیے صرف یہی امور ایمانیات بن سکتے ہیں اور انھی ایمانیات کی اسے ضرورت ہے۔ نیز یہ کہ ان میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو عقلی و علمی ترقی کا ساتھ نہ دے سکتی ہو۔
اب ہمیں تیسرے سوال کی طرف توجہ کرنی چاہیے، اور وہ یہ ہے کہ اسلام میں ایمان کی کیا حیثیت ہے؟ اور یہ حیثیت کیوں ہے؟ اس مسئلے کو سمجھنے میں لوگوں نے بکثرت غلطیاں کی ہیں، اور بعض مشہور اہلِ علم و فضل اصحاب بھی اس میں ٹھوکر کھا گئے ہیں۔ اس لیے اسے ذرا بسط کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے۔
اسلام میں ایمان کی اہمیت
اگر سوال کیا جائے کہ قرآن مجید کی دعوت کا اصل الاصول کیا ہے، تو اس کا جواب صرف ایک لفظ میں دیا جا سکتا ہے، اور وہ ’’ایمان‘‘ ہے۔ قرآن کے نزول اور نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ہی ایمان کی طرف دعوت دینا ہے۔
قرآن اپنے لانے والے کے متعلق صاف کہتا ہے کہ وہ ایمان کا منادی ہے:
رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِيْ لِلْاِيْمَانِ آل عمران 193:3
مالک، ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اپنے رب کو مانو۔
اور خود اپنے متعلق اعلان کرتا ہے کہ:
ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَo يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ البقرہ 2-3:2
وہ صرف ان لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھائے گا جو غیب کی باتوں (یعنی انھی ایمانیات) پر یقین لانے کے لیے تیار ہوں۔
وہ وعظ سے، تلقین سے، وعدہ و وعید سے، بحث و استدلال سے، قصص و حکایات سے اسی کی طرف دعوت دیتا ہے۔ انسان سے اس کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ وہ ایمان لائے۔ اس کے بعد وہ تزکیۂ نفس، اصلاحِ اخلاق اور وضعِ قوانینِ مدنی کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔ اس کے نزدیک ایمان ہی حق، صدق، علم، ہدیٰ اور نور ہے، اور عدمِ ایمان یعنی کفر کو وہ جہل، ظلم، باطل، کذب، ظلمت اور ضلالت قرار دیتا ہے۔
قرآن حکیم نے ایک واضح خطِ فاصل کھینچ کر تمام دنیا کے انسانوں کو دو گروہوں پر تقسیم کردیا ہے۔ ایک گروہ ایمان لانے والوں کا، دوسرا گروہ انکار کرنے والوں کا۔ پہلا گروہ اس کے نزدیک حق پر ہے، علم اور نور سے بہرہ ور ہے، اس کے لیے ہدایت کا راستہ اور تقوٰی و پرہیزگاری کا دروازہ کھل گیا ہے، اور وہی فلاح پانے والا ہے۔ دوسرا گروہ اس کے نزدیک کافر ہے، ظالم ہے، جاہل ہے، تاریکی میں پھنسا ہوا ہے، ہدایت کی راہیں اس کے لیے بند ہیں، تقوٰی اور پرہیز گاری میں اس کا کوئی حصہ نہیں، اور اس پر خسران و نامرادی کا فیصلہ ہو چکا ہے۔
وہ ان دونوں طبقوں کی مثال اس طرح دیتا ہے کہ ان میں سے ایک اندھا اور بہرا ہے اور دوسرا دیکھنے اور سننے والا:
مَثَلُ الْفَرِيْقَيْنِ كَالْاَعْمٰى وَالْاَصَمِّ وَالْبَصِيْرِ وَالسَّمِيْعِ۝۰ۭ ھود 24:11
ان دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی تو ہو اندھا بہرا اور دوسرا ہو دیکھنے اور سننے والا۔
وہ کہتا ہے کہ ایمان کا راستہ ہی صراط مستقیم ہے:
وَاِنَّكَ لَـــتَہْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍo الشورٰی 52:42
یقیناً تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو۔
اور اس کے سوا جتنے راستے ہیں سب کا چھوڑ دینا ضروری ہے:
وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْہُ۝۰ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّـبُلَ الانعام 153:6
نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو۔
اس نے بلا کسی لاگ لپیٹ کے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ جو اللّٰہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی کتاب کو مانتا ہے اس کے پاس ایک روشن چراغ ہے، جس کی مدد سے وہ سیدھے رستے پر چل سکتا ہے۔ اس چراغ کی موجودگی میں اس کے لیے بھٹک جانے کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔ وہ راہِ راست کو ٹیڑھے راستوں سے ممتاز کرکے دیکھ لے گا، اور بخیر و عافیت فلاح کی منزل مقصود تک پہنچ جائے گا۔ اور جو ایمان کی شمع نہیں رکھتا اس کے پاس کوئی روشنی نہیں ہے۔ اس کے لیے سیدھے اور ٹیڑھے راستوں کا فرق معلوم کرنا مشکل ہے۔ وہ اندھوں کی طرح اندھیرے میں اٹکل سے ٹٹول ٹٹول کر چلے گا۔ ممکن ہے کہ اتفاقاً اس کا کوئی قدم سیدھے راستے پر بھی پڑ جائے، مگر یہ راہِ راست پر چلنے کا کوئی یقینی ذریعہ نہیں ہے۔ غالب امکان اسی کا ہے کہ راہِ راست سے ہٹ جائے گا، کہیں خندق میں گرے گا اور کہیں کانٹوں میں جا پھنسے گا۔ پہلے گروہ کے متعلق اس کا قول ہے کہ:
فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ۝۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo الاعراف 157:7
پس جو لوگ رسولؐ پر ایمان لائے اورجنھوں نے اس کی مدد و حمایت کی اور اس نور کا اتباع کیا جو اس کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی دراصل فلاح پانے والے ہیں۔
اور
اِتَّقُوا اللہَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَّحْمَتِہٖ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِہٖ وَيَغْفِرْ لَكُمْ۝۰ۭ الحدید 28:57
لوگو! اللّٰہ سے ڈرو اوراس کے رسول پر ایمان لائو، اللّٰہ تمھیں اپنی رحمت سے دہرا حصہ دے گا اور تمھارے لیے ایسی روشنی کر دے گاجس میں تم چلو گے، اور تمھیں بخش دے گا۔
اور دوسرے گروہ کے متعلق کہتا ہے:
وَمَا يَتَّبِـــعُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ شُرَكَاۗءَ۝۰ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَo یونس 66:10
جو لوگ خدا کے سوا دوسرے شرکا کو پکارتے ہیں، جانتے ہو وہ کس کی پیروی کرتے ہیں؟ وہ صرف گمان کی پیروی کرتے اور محض اٹکل پر چلتے ہیں۔
اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ۝۰ۚ وَاِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَـيْــــًٔاo النجم 28:53
وہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں، اور گمان کا حال یہ ہے کہ وہ حق کی ضرورت سے کچھ بھی بے نیاز نہیں کرتا۔
وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَيْرِ ہُدًى مِّنَ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَo القصص50:28
اور اس شخص سے زیادہ گم راہ کون ہو گا جس نے اللّٰہ کی ہدایت کے بغیر اپنے نفس کی خواہش کی پیروی کی؟ اللّٰہ ایسے ظالموں کو کبھی سیدھا راستہ نہیں دکھاتا۔
وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَا لَہٗ مِنْ نُّوْرٍo النور 40:24
اور جسے اللّٰہ نے روشنی نہ دی ہو اس کے لیے پھر کوئی روشنی نہیں۔
اس پورے مضمون کی تصریح سورۂ بقرہ میں ملتی ہے، جس سے یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ایمان اور کفر کے فرق سے نوعِ بشری کے ان دونوں گروہوں میں کتنا عظیم فرق ہو جاتا ہے۔
لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۝۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۝۰ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا۝۰ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌo اَللہُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۙ يُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۝۰ۥۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰۗــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ۝۰ۙ يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَo البقرہ 256-257:2
دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ ہدایت کا راستہ گم راہی سے الگ کرکے دکھا دیا گیا ہے۔ اب جو طاغوت کو چھوڑ کر اللّٰہ پر ایمان لے آیا اس نے ایک مضبوط رسی تھام لی جو ٹوٹنے والی نہیں ہے۔ اور اللّٰہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اللّٰہ ان لوگوں کا مددگار ہے جو ایمان لائے۔ وہ انھیں تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے۔ اور جو کافر ہیں ان کے مدد گار شیطان ہیں۔ وہ ان کونور سے تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہ دوزخی ہیں اور دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔
علم پر ایمان کا تقدم
پھر اسی ایمان اور کفر کے بنیادی فرق نے انسانی اعمال کے درمیان بھی فرق کر دیا ہے۔ قرآن کے نزدیک نیکو کار اور پرہیز گار وہی شخص ہو سکتا ہے جو ایمان لائے۔ ایمان کے بغیر کسی عمل پر بھی تقوٰی اور صلاح کا اطلاق نہیں ہوتا، خواہ اہلِ دنیا کی نگاہ میں وہ عمل کتنا ہی نیک ہو۔ وہ کہتا ہے:
وَالَّذِيْ جَاۗءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖٓ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُتَّـقُوْنَo الزمر 33:39
اور جو شخص سچی بات لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی، بس وہی لوگ متقی ہیں۔
ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَo الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَo وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَo البقرہ 2-4:2
قرآن ہدایت دیتا ہے متقین کے لیے جو غیب کی باتوں پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے اور ہمارے بخشے ہوئے مال کو خرچ کرتے ہیں، اور جو اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو تیرے اوپر اتاری گئی ہے اور ان کتابوں پر بھی جو تجھ سے پہلے نازل کی جا چکی ہیں، اور جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
پس قرآن کی نگاہ میں ایمان ہی تقوٰی کی جڑ اور پرہیز گاری کی اصل ہے۔ جو شخص ایمان لاتا ہے اس کے نیک اعمال اس طرح پھلتے اورپُھولتے ہیں جس طرح اچھی آب و ہوا میں باغبان کے لگائے ہوئے درخت سرسبز ہوتے اورپھل پُھول لاتے ہیں۔ بخلاف اس کے جو شخص ایمان کے بغیر عمل کرتا ہے وہ گویا ایک بنجر، پتھریلی زمین اور خراب آب و ہوا میں باغ لگاتا ہے ۱؎۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں ہر جگہ ایمان کو عمل ِ صالح پر مقدم رکھا گیا ہے، اور کہیں بھی نرے حسنِ عمل کو، ایمان کے بغیر، نجات اورفلاح کا ذریعہ قرار نہیں دیا گیا ہے۔۲؎ بلکہ اگر آپ قرآن کا غور سے مطالعہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ قرآن مجید نے جس قدر اخلاقی ہدایات اور قانونی احکام دیے ہیں ان سب کے مخاطب صرف وہ لوگ ہیں جو ایمان لا چکے ہیں۔ اس قسم کی تمام آیات یا تو ’’یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘سے شروع ہوتی ہیں، یا اثنائے بیان میں کسی نہ کسی طرح سے تصریح کر دی گئی ہے کہ خطاب صرف مومنین سے ہے۔ باقی رہے کفار، تو ان کوحُسنِ عمل کی نہیں، صرف ایمان کی دعوت دی گئی ہے اور صاف کہہ دیا گیا ہے کہ جو لوگ مومن نہیں، ان کے اعمال کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے، وہ بے وزن ہیں، بے حقیقت ہیں اور قطعاً ضائع ہو جانے والے ہیں۔
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَعْمَالُہُمْ كَسَرَابٍؚ بِقِيْعَۃٍ يَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً۝۰ۭ حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَہٗ لَمْ يَجِدْہُ شَـيْــــًٔـا النور 39:24
اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے چٹیل میدان میں سراب، پیاسا دور سے دیکھ کرسمجھتا ہے کہ پانی ہے مگر جب وہاں پہنچتا ہے تو کچھ نہیں پاتا۔
قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًاo اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُہُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَہُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًاo اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّہِمْ وَلِقَاۗىِٕہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَہُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَزْنًاo ذٰلِكَ جَزَاۗؤُہُمْ جَہَنَّمُ بِمَا كَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْٓا اٰيٰتِيْ وَرُسُلِيْ ہُزُوًاo الکہف 103-106:18
ان سے کہو، کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے لحاظ سے کون لوگ سب سے زیادہ نامراد ہیں؟ وہ جن کی کوششیں دنیوی زندگی میں بے کار صرف ہو گئیں اور وہ سمجھتے رہے کہ ہم بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے پروردگار کی آیات کا انکار کیا اور یہ تسلیم نہ کیا کہ انھیں اس کے پاس حاضر ہونا ہے۔ اس وجہ سے ان کے اعمال اکارت گئے۔ قیامت کے دن ہم ان کے اعمال کو کوئی وزن نہ دیں گے اور وہ دوزخ میں جائیں گے۔ یہ بدلہ ہے اس کا کہ انھوں نے کفر کیا اور میری آیات اور میرے رسولوں کو مضحکہ بنا لیا۔
یہی مضمون سورۂ مائدہ (رکوع۱)، انعام (ع۱۰)، اعراف (ع۱۷)، توبہ(ع۳)، ہود(ع۲)، احزاب (ع۲)، زُمر(ع۷)، محمدؐ(ع۱) میں بیان ہوا ہے، اور سورۂ توبہ میں صاف تصریح کی گئی ہے کہ جو کافر بظاہر نیک عمل کرتا ہے وہ مومن کے برابر کبھی نہیں ہو سکتا:
اَجَعَلْتُمْ سِقَايَۃَ الْحَاۗجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰہَدَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ لَا يَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَo اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ۝۰ۙ اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَo التوبہ 19-20:9
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے والے اور مسجد حرام کو آباد رکھنے والے کا مرتبہ اس شخص کے برابر سمجھ لیا ہے جو اللّٰہ اور یومِ آخر پر ایمان لایا اور جس نے اللّٰہ کی راہ میں جہاد کیا؟ یہ دونوں اللّٰہ کے نزدیک ہرگز برابر نہیں، اور اللّٰہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور اللّٰہ کی راہ میں جان اور مال سے جہاد کیا، وہ اللّٰہ کے نزدیک بڑے درجے والے ہیں اور وہی کام یاب ہیں۔
خلاصہ
اس بیان سے اور قرآنِ مجید کی ان آیات سے جو اس کی تائید میں پیش کی گئی ہیں، چند امور غیر مشتبہ طور پر ثابت ہوتے ہیں:
۱۔ ایمان، نظامِ اسلامی کا سنگِ بنیاد ہے، اسی پر اس نظام کی عمارت قائم کی گئی ہے، اور کفر و اسلام کا امتیاز صرف ایمان و عدمِ ایمان کے بنیادی فرق پر مبنی ہے۔
۲۔ انسان سے اسلام کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ وہ ایمان لائے۔ اس مطالبے کو قبول کرنے والا دائرۂ اسلام میں داخل ہے، اور تمام اخلاقی احکام اور مدنی قوانین اسی کے لیے ہیں۔ اور جو اس مطالبے کو رد کر دے، وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے، اس سے نہ کوئی اخلاقی حکم متعلق ہوتا ہے اور نہ کوئی مدنی قانون۔
۳۔ اسلام کے نزدیک ایمان ہی عمل کی جڑ ہے۔ صرف وہی عمل اس کی نگاہ میں قدر و قیمت اور وزن رکھتا ہے جو ایمان کی بنیاد پر ہو۔ اور جہاں سرے سے یہ بنیاد ہی موجود نہ ہو، وہاں تمام اعمال بے اصل اور بے وزن ہیں۔
ایک اعتراض
ایمان کی یہ اہمیت بعض لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ کہتے ہیں کہ چند عقلی نظریات کا ماننا کوئی ایسی جوہریت نہیں رکھتا کہ اس کی بنیاد پر نوعِ انسانی کو دو گروہوں پر تقسیم کیا جا سکے۔ ہمارے نزدیک اصل چیز اخلاق، سیرت اورکردار ہے۔ اسی پر اچھے اور برے، صحیح اور غلط کا امتیاز قائم ہے۔ جو شخص عمدہ اخلاق، پاک سیرت اور نیک کردار رکھتا ہو، وہ خواہ ان نظریات کو جنھیں اسلام نے ایمانیات قرار دیا ہے تسلیم کرتا ہو یا نہ کرتا ہو، بہرحال ہم اسے نیک کہیں گے اور متقین کے گروہ میں شمار کریں گے۔ اور جس میں یہ صفات نہیں ہیں اس کے لیے ایمان اور کفر کا اعتقادی فرق بالکل بے اصل ہے۔ وہ خواہ کسی عقیدے کا قائل ہو، ہم اسے بُرا ہی کہیں گے۔ رہی یہ بات کہ اعمال کے وزن اور ان کی قدر و قیمت کا انحصار ایمان پر ہے، اور یہ کہ ایمان کے بغیر کوئی عمل صالح نہیں ہوسکتا، تو یہ محّلِ نظر ہے۔ کسی دلیلِ عقلی کے بغیر یہ بات تسلیم نہیں کی جا سکتی کہ محض خدا، یارسول، یا کتاب، یا قیامت کے متعلق اسلام سے مختلف عقیدہ رکھنے والے کے فضائلِ اخلاق اور اعمالِ حسنہ ضائع ہو جاتے ہیں۔ اگر اسلام کسی عقیدے کو صحیح سمجھتا ہے تو وہ بلاشبہ اس کی تبلیغ کا حق رکھتا ہے، لوگوں کو اس کی طرف بلا سکتا ہے، اس پر ایمان لانے کی دعوت دے سکتا ہے۔ مگر اعتقاد کے سوال کو اخلاق اور اعمال کے حدود پر وسیع کرنا اور اخلاق کی فضیلت، سیرت کی پاکیزگی، اعمال کی بہتری کو ایمان پر منحصر کر دینا کہاں تک درست ہے؟
بظاہر یہ اعتراض اتنا وزنی ہے کہ بعض مسلمان بھی اس سے متاثر ہو کر اسلام کے اصول میں ترمیم کرنے پرآمادہ ہو گئے ہیں۔ مگر ایمان کی حقیقت اور سیرت و کردار سے اس کے تعلق کو سمجھ لینے کے بعد یہ اعتراض خود بخود رفع ہو جاتا ہے۔
اعتراض کی تحقیق
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ افرادِ نوعِ بشری کے درمیان خوب و زشت کا امتیاز دراصل دو جداگانہ بنیادوں پر قائم ہے۔ ایک پیدائشی سرشت، جس کا حسن و قبح انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہے۔ دوسرے اکتساب، جس کا نیک یا بد ہونا عقل و فکر اور اختیار و ارادہ کے صحیح یا غلط استعمال پرمنحصر ہوتا ہے۔ یہ دونوں اُمور انسانی زندگی میں اپنی تاثیرات کے لحاظ سے باہم اس قدر خلط ملط ہیں کہ ہم انھیں اور ان کی تاثیرات کے حدود کو ایک دوسرے سے ممتاز نہیں کر سکتے۔ مگر نظری حیثیت سے اتنا ضرور جانتے ہیں کہ انسان کی حیاتِ فکر و عمل میں حُسن و قبح کی یہ دونوں بنیادیں الگ الگ موجود ہیں۔ جو حسن و قبح سرشت کی بنیاد پر ہے وہ اپنی اصل کے لحاظ سے میزانِ عدل میں کسی وزن کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ وزن صرف اس حسن و قبح کو حاصل ہونا چاہیے جو اکتساب کی بنیاد پر ہو۱؎ ۔ تعلیم، تلقین، تہذیب کے لیے جتنی کوششیں کی جاتی ہیں ان سب کا تعلق پہلی بنیاد (یعنی پیدائشی سرشت) سے نہیں ہے، کیوں کہ اس کے حسن کو قبح سے یا قبح کو حسن سے بدلنا غیر ممکن ہے، بلکہ ان کا تعلق دوسری بنیاد (اکتساب) سے ہے، جس کی راہ نُمائی صحیح تعلیم اور صحیح تربیت کے ذریعے سے حسن کی جانب اور غلط تعلیم اور غلط تربیت کے ذریعے سے قبح کی جانب کی جا سکتی ہے۔
اس اصل کے لحاظ سے جو شخص انسان کی اکتسابی قوتوں کو حُسن کی طرف پھیرتا اور اسی راہ میں ترقی دینا چاہتا ہو اس کے لیے صحیح طریق کار کیا ہو سکتا ہے؟ یہی کہ انسان کو علمِ صحیح بخشے، اور اسی علم کی روشنی میں اس کے لیے ایک ایسا نظامِ تربیت وضع کرے جو اس کے اخلاق، سیرت اور کردار کو، جہاں تک اس کا تعلق اکتساب سے ہے نہ کہ سرشت سے، ایک بہتر سانچے میں ڈھال سکتا ہو۔ اس باب میں علم کا تربیت پر مقدم ہونا لازمی ہے، اور کوئی صاحبِ عقل و دانش اس تقدم سے انکار نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ علم ہی عمل کی بنیاد ہے، علمِ صحیح کے بغیر کسی عمل کا صحیح ہونا ممکن نہیں ہے۔
اب علم کو لیجیے۔ علم کی ایک قسم تو وہ ہے جس کا تعلق ہماری زندگی کے جزئیات سے ہے، جسے ہم مدرسوں میں پڑھتے پڑھاتے ہیں، اور جو بے شمار علوم و فنون پر مشتمل ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جو علم کلی، اور قرآن کی اصطلاح میں’’العلم‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ جس کا تعلق ہمارے معاملات سے نہیں بلکہ ’’ہم‘‘ سے ہے۔ جو اس سے بحث کرتا ہے کہ ہم کیا ہیں؟ یہ دنیا جس میں ہم رہتے سہتے ہیں اس میں ہماری حیثیت کیا ہے؟ ہمیں اور اس دنیا کو کس نے بنایا ہے؟ اس بنانے والے سے ہمارا کیا تعلق ہے؟ ہمارے لیے زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ (ہدیٰ اور صراطِ مستقیم) کیا ہے اور وہ ہمیں کیوں کر معلوم ہو؟ ہمارے سفرِ حیات کی منزلِ مقصود کون سی ہے؟ علم کی ان دونوں قسموں میں سے یہی دوسری قسم اصل اور بنیاد کا حکم رکھتی ہے۔ ہمارے تمام جزوی علوم اس کی فرع ہیں اور اسی علم کے صحیح یا غلط ہونے پر ہمارے تمام تخیلات اور معاملات کی صحت یا غلطی کا دارومدار ہے۔ پس انسان کی تربیت و تہذیب کے لیے جو نظام بھی وضع کیا جائے گا اس کی بنیاد اسی علم کلی پر قائم ہو گی۔ اگر علم کلی صحیح ہو گا تو تہذیب و تربیت کا نظام بھی صحیح ہو گا، اور اگر اس علم میں کوئی خرابی ہو گی تو لازماً اس خرابی سے تہذیب وتربیت کا نظام بھی خراب ہو جائے گا۔
قرآن مجید میں خدا، ملائکہ، کتب، رُسُل اور یومِ آخر کے متعلق جو معتقدات پیش کیے گئے ہیں وہ اسی علم کلی سے متعلق ہیں، اور ان پر ایمان لانے کا مطالبہ اس قدر شدت سے اسی لیے کیا گیا ہے کہ اسلام کا نظامِ تہذیب و تربیت اسی علم پر مبنی ہے۔ اسلام کے نزدیک انسان کی اکتسابی قوتوں کی تربیت اور تہذیب کا وہی نظام صحیح ہے جو صحیح علم کلی پر قائم ہو۔ کسی علم کلی کے بغیر جو نظام قائم کیے گئے ہیں، یا جن کی بنیادیں صحیح علم پر نہیں رکھی گئی ہیں، وہ اصلاً غلط ہیں۔ ان کے تحت انسان کی اکتسابی قوتیں غلط راستوں پر ڈال دی گئی ہیں۔ ان راستوں میں انسان کی جو مساعی صرف ہوتی ہیں، وہ بظاہر کتنی ہی صحیح معلوم ہوتی ہوں، مگر حقیقت کے اعتبار سے ان کا مصرف غلط ہے۔ ان کا رخ صحیح منزل مقصود کی جانب نہیں ہے۔ وہ کام یابی کے مقام تک نہیں پہنچ سکتیں۔ اس لیے وہ ضائع ہو جانے والی ہیں اور ان کا کوئی فائدہ انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام صرف اپنے راستے کو ’’صراطِ مستقیم‘‘ کہتا ہے اور باقی تمام راستوں کو جو بلا علم یا غلط علم کی بِنا پر اختیار کیے گئے ہیں، چھوڑ دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔
وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْہُ۝۰ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّـبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِہٖ۝۰ۭ الانعام 153:6
نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کر دیں گے۔
اور اسی لیے اسلام کہتا ہے کہ جس کا ایمان صحیح نہیں ہے، اس کے تمام اعمال بے نتیجہ ہیں اور وہ آخر کار نامراد رہنے والا ہے۔
وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ۝۰ۡوَہُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَo المائدہ 5:5
اور جس کسی نے ایمان کی رَوش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامۂ زندگی ضائع ہو جائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا۔
اسلام نے جو ایمانیات پیش کیے ہیں وہی اس کے نزدیک عین علم، عین حق، عین صدق، عین ہدایت اور عین نُور ہیں۔ اور جب وہ ایسے ہیں تو لازماً ان کے خلاف جتنے معتقدات ہیں، وہ عین جہل، عین باطل، عین کذب، عین ضلالت، اور عین ظلم ہونے چاہییں۔ اگر اسلام انھیں چھوڑ دینے کا مطالبہ اس قدر شدت کے ساتھ نہ کرتا، اور اگر وہ ان غلط معتقدات کے قائلین کو صحیح ایمان رکھنے والوں کے برابر درجہ دیتا، تو گویا وہ اس امر کا اقرار کرتا کہ اس کے ایمانیات عین حق نہیں ہیں، اور اسے ان کے صدق اور ہدایت اور نور ہونے کا خود ہی پورا یقین نہیں ہے۔ اس صورت میں اس کا ان ایمانیات کو پیش کرنا، اور ان کی بِنا پر تربیت و تہذیب کا ایک نظام وضع کرنا، اور اس نظام میں شامل ہونے کے لیے لوگوں کو دعوت دینا، سب بے معنی ہوتا۔ اس لیے کہ اگر وہ یہ تسلیم کر لیتا کہ اس علمِ کُلی کے خلاف دوسرے علوم بھی اسی کی طرح صحیح ہیں، یا سرے سے کسی علمِ کُلی کے مفقود ہونے میں بھی کوئی مضایقہ نہیں ہے، تو اس علمِ کُلی کو پیش کرنے اور اس پر ایمان لانے کی دعوت دینے میں کوئی معنویت باقی نہ رہتی۔ اسی طرح اگر وہ یہ مان لیتا کہ اس علم کے خلاف دوسرے علوم کی بِنا پر، یا کسی علمِ کُلی کے بغیر، تہذیب و تربیت کے جونظام وضع کیے گئے ہیں ان کے ذریعے سے بھی انسان فلاح پا سکتا ہے، تو پھر نظامِ اسلامی کے اتباع کی طرف دعوت دینے میں کوئی وزن نہ رہتا۔
علاوہ بریں اگر وہ بحث آپ کے ذہن میں تازہ ہے جو پچھلے صفحات میں ایمان کی حقیقت پر کی گئی ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام نے ایمان پر اس قدر زور کیوں دیا ہے؟ تخیل کی دنیا میں رہنے والے ریت پر، پانی پر، بلکہ ہوا پر بھی قصر تعمیر کر سکتے ہیں، مگر اسلام ایک حکیمانہ مذہب ہے، وہ تہذیب و تربیت کی عمارت بودی بنیادوں پر تعمیر نہیں کر سکتا۔ وہ سب سے پہلے انسان کی رو ح اور اس کے قوائے فکری کی گہرائیوں میں مضبوط بنیادیں قائم کرتا ہے، پھر ان پر ایک ایسی عمارت بناتا ہے جو کسی کے ہلائے نہیں ہل سکتی۔ وہ سب سے پہلے انسان کے ذہن نشین کرتا ہے کہ تیرے اوپر ایک خدا ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں تیرا حاکم ہے۔ جس کی حکومت سے تو کسی طرح نہیں نکل سکتا۔ جس کے علم سے تیری کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اس نے تیری ہدایت کے لیے رسول بھیجا ہے، اور رسول کے ذریعے سے تجھ کو وہ کتاب اور وہ شریعت بھیجی ہے جس کے اتباع سے تو اس حاکم حقیقی کی رضا حاصل کر سکتا ہے۔ اگر تو اس کے خلاف عمل کرے گا تو خواہ تیری خلاف ورزی کیسی ہی ڈھکی چھپی ہو، وہ حاکم ضرور تیری گرفت کرے گا اور تجھے سزا دیے بغیر نہ رہے گا۔ یہ نقش انسان کے دل پر گہرا بٹھا دینے کے بعد وہ اخلاقِ حسنہ کی تعلیم دیتا ہے،امر و نہی کے احکام دیتا ہے، اور اسی نقشِ ایمانی کی قوت سے اپنی تعلیم کا اتباع اور اپنے احکام کی اطاعت کراتا ہے۔ یہ نقش جتنا گہرا ہو گا، اتباع اتنا ہی کامل ہو گا، اطاعت اتنی ہی مضبوط ہو گی، نظامِ تہذیب و تربیت اتنا ہی طاقت ور ہو گا۔ اور اگر یہ نقش کم زور ہو، یا سرے سے موجود ہی نہ ہو، یا اس کے بجائے کچھ دوسرے نقوش دل پرجمے ہوئے ہوں، تو تعلیمِ اخلاق محض نقش بر آب ہو گی، امر و نہی کے احکام بالکل بے زور اور بودے ہوں گے، تہذیب و تربیت کا سارا نظام بچوں کا ایک گھروندا ہو گا، جس کے قیام و دوام کا کچھ اعتبار نہیں۔ ممکن ہے کہ وہ خوش نما ہو، وسیع ہو، بلند ہو، مگر اس میںاستحکام کہاں؟ اس بات کو قرآنِ حکیم میں ایک مثال کے ذریعے سے واضح کیا گیا ہے:
اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا كَلِمَۃً طَيِّبَۃً كَشَجَرَۃٍ طَيِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِي السَّمَاۗءِo تُؤْتِيْٓ اُكُلَہَا كُلَّ حِيْنٍؚبِـاِذْنِ رَ بِّہَا۝۰ۭ وَيَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَo وَمَثَلُ كَلِمَۃٍ خَبِيْثَۃٍ كَشَجَرَۃٍ خَبِيْثَۃِۨ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَہَا مِنْ قَرَارٍo يُثَبِّتُ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ وَيُضِلُّ اللہُ الظّٰلِــمِيْنَ۝۰ۣۙ وَيَفْعَلُ اللہُ مَا يَشَاۗءُo
ابراہیم 24-27:14
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللّٰہ نے کلمہ طیبہ (اعتقاد صحیح) کی کیسی مثال دی ہے؟ وہ گویا ایک اچھا درخت ہے جس کی جڑ خوب جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک بلند ہیں۔ وہ اپنے پروردگار کے اذن سے ہمہ وقت پھل لاتا رہتا ہے۔ اللّٰہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ سبق حاصل کریں۔ اور کلمۂ خبیثہ (اعتقاد باطل) کی مثال ایک خراب درخت کی سی ہے جو زمین کے اوپر سے اُکھیڑ دیا جاتا ہے، کوئی جمائو اورمضبوطی ہی نہیں رکھتا۔ اللّٰہ ایمان لانے والوں کو ایک قولِ ثابت (پکے اعتقاد) کے ساتھ دنیا و آخرت دونوں زندگیوں میں استحکام بخشتا ہے اور ظالموں کو یوں ہی بھٹکتا چھوڑ دیتا ہے۔ اور اللّٰہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
اب تک ایمانیاتِ خمسہ پر بحیثیت مجموعی نظر کی گئی ہے۔ اب تفصیل کے ساتھ دیکھنا چاہیے کہ ان پانچوں امور میں سے ہر ایک کے متعلق اسلام نے کیا عقائد پیش کیے ہیں؟ ہر عقیدے کی ضرورت و مصلحت کیا ہے؟ انسان کی قوتِ فکری پر اس کا کیا اثر مرتب ہوتا ہے؟ اور ذہن میں اس کے جم جانے سے کس طرح ایک صالح اور نہایت مستحکم سیرت کی تشکیل و تعمیر ہوتی ہے۔

۳۔ ایمان باللّٰہ

ایمان باللّٰہ کی اہمیت
اسلام کے پورے اعتقادی اور عملی نظام میں پہلی اور بنیادی چیز ایمان باللّٰہ ہے۔ باقی جتنے اعتقادات و ایمانیات ہیں سب اسی ایک اصل کی فرع ہیں، اور جتنے اخلاقی احکام اور تمدنی قوانین ہیں سب اسی مرکز سے قوت حاصل کرتے ہیں۔ یہاں جو کچھ بھی ہے اس کا مصدر اور مرجع خدا کی ذات ہے۔ ملائکہ پر اس لیے ایمان ہے کہ وہ خدا کے ملائکہ ہیں۔ کتابوں پر اس لیے ایمان ہے کہ وہ خدا کی نازل کی ہوئی ہیں۔ رسولوں پر ایمان اس لیے ہے کہ وہ خدا کے بھیجے ہوئے ہیں۔ یومِ آخر پر اس لیے ایمان ہے کہ وہ خدا کے انصاف کا دن ہے۔ فرائض اس لیے فرائض ہیں کہ خدا نے انھیں مقرر کیا ہے۔ حقوق اس لیے حقوق ہیں کہ وہ خدا کے حکم پر مبنی ہیں۔ اوامر کا امتثال اور نواہی سے اجتناب اس لیے ضروری ہے کہ وہ خدا کی جانب سے ہیں۔ غرض ہر چیز جو اسلام میں ہے، خواہ وہ عقیدہ ہو یا عمل، اس کی بِنا صرف ایمان باللّٰہ پر قائم ہے۔ اس ایک چیز کو الگ کر دیجیے، پھرنہ ملائکہ کوئی چیز ہیں نہ یومِ آخر، نہ رسول اتباع کے مستحق ٹھیرتے ہیں نہ ان کی لائی ہوئی کتابیں، نہ فرائض و طاعات میں کوئی معنویت باقی رہ جاتی ہے نہ حقوق و واجبات میں، نہ اوامر و نواہی کسی قوتِ نفاذ کے حامل رہتے ہیں اور نہ ضوابط و قوانین۔ اس ایک مرکز کے ہٹتے ہی یہ سارا کا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، بلکہ سرے سے اسلام ہی کسی چیز کا نام نہیں رہتا۔
ایمان باللّٰہ کا تفصیلی عقیدہ
یہ عقیدہ جو اس عظیم الشان فکری و عملی نظام میں مرکز اور منبعِ قوت کا کام دے رہا ہے، محض اسی قدر نہیں ہے کہ ’’اللّٰہ تعالیٰ موجود ہے‘‘ بلکہ وہ اپنے اندر اللّٰہ تعالیٰ کی صفات کا ایک مکمل اور صحیح تصور (جس حد تک انسان کے لیے ان کا تصور ممکن ہے) رکھتا ہے، اور اسی تصورِ صفات سے وہ قوت حاصل ہوتی ہے جو انسان کی تمام فکری اور عملی قوتوں پر محیط اور حکمران ہو جاتی ہے۔ محض ہستیِ باری کا اثبات وہ چیز نہیں ہے جسے اسلام کی امتیازی خصوصیت کہا جا سکتا ہو۔ دوسری ملتوں نے بھی کسی نہ کسی طور سے باری تعالیٰ کے وجود کا اثبات کیا ہے۔ البتہ جس چیز نے اسلام کو تمام مذاہب و ادیان سے ممتاز کر دیا ہے، وہ یہی ہے کہ اس نے صفات باری کا صحیح، مکمل اور مفصل علم بخشا ہے، اور پھر اسی علم کو ایمان بلکہ اصلِ ایمان بنا کر اس سے تزکیۂ نفس، اصلاحِ اخلاق، تنظیمِ اعمال، نشرِ خیر و منعِ شر، اور بِنائے تمدن کا اتنا بڑا کام لیا ہے جو دنیا کے کسی مذہب و ملت نے نہیں کیا۔
ایمان باللّٰہ کی مجمل صورت جس کے اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب کو دخولِ اسلام کی پہلی اور لازمی شرط قرار دیا گیا ہے، کلمہ لَآاِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ ہے۔ یعنی دل سے اس امر کی تصدیق اور زبان سے اس امر کا اعتراف کہ ’’الٰہ‘‘ بجز اس ایک ہستی کے اور کوئی نہیں ہے جس کا نام اللّٰہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’الوہیت‘‘ کو کائنات کی جملہ اشیا سے سلب کرکے صرف ایک ذات کے لیے ثابت کیا جائے، اوران تمام جذبات، تخیلات، اعتقادات اور عبادات و طاعات کو جو ’’الوہیت‘‘ کے لیے مخصوص ہیں، اسی ایک ذات سے متعلق کردیا جائے۔ اس مجمل کلمہ کے اجزائے ترکیبی تین ہیں:
ایک، الوہیت کا تصور۔
دوسرے، تمام اشیا سے اس کی نفی۔
تیسرے، صرف اللّٰہ کے لیے اس کا اثبات۔
قرآن مجید میں خدا کی ذات و صفات کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے وہ سب انھی تینوں امور کی تفصیل ہے۔
اوّلاً اس نے ’’الوہیت‘‘ کا ایک ایسا مکمل اور صحیح تصور پیش کیا ہے جو دنیا کی کسی کتاب اورکسی مذہب میں ہمیں نہیں ملتا۔ اس میں شک نہیں کہ تمام قوموں اور ملتوں میں یہ تصور کسی نہ کسی طور پر موجود ہے، لیکن ہر جگہ غلط یا نامکمل ہے۔ کہیں ’’الوہیت‘‘ نام ہے محض اولیت اور واجبیت کا، کہیں اس سے محض مبدائیت مراد لی گئی ہے، کہیں اسے قوت اور طاقت کا ہم معنی سمجھا گیا ہے، کہیں وہ محض خوف اور ہیبت کی چیز ہے، کہیں وہ صرف محبت کا مرجع ہے، کہیں اس کا مفہوم محض رفعِ حاجات اور اجابتِ دعوات ہے، پھر کہیں وہ قابلِ تجزیہ و تقسیم ہے، کہیں اسے تجسیم اور تشبیہ اور تناسل سے آلودہ کیا گیا ہے، کہیں وہ آسمانوں پر متمکن ہے اور کہیں وہ انسانی بھیس بدل کر زمین پر اتر آیا ہے۔ ان تمام غلط یا ناقص تصورات کی تصحیح اور تکمیل جس کتاب نے کی ہے وہ صرف قرآن ہے۔ اسی کتاب نے الوہیت کی تقدیس و تمجید کی ہے۔ اسی نے بتایا ہے کہ الٰہ صرف وہی ہو سکتا ہے جو بے نیاز، صمد اور قیوم ہو۔ جو ہمیشہ سے ہو اور ہمیشہ رہے۔ جو قادر مطلق اور حاکم علی الاطلاق ہو۔ جس کا علم سب پر محیط، جس کی رحمت سب پر وسیع، جس کی طاقت سب پرغالب ہو۔ جس کی حکمت میں کوئی نقص نہ ہو۔ جس کے عدل میں ظلم کا شائبہ تک نہ ہو۔ جو زندگی بخشنے اور وسائلِ حیات مہیا کرنے والا ہو۔ جو نفع و ضرر کی ساری قوتوں کا مالک ہو۔ اس کی بخشش اور نگہبانی کے سب محتاج ہوں۔ اسی کی طرف تمام مخلوقات کی بازگشت ہو۔ وہی سب کا حساب لینے والا ہو اور اسی کو جزا و سزا کا اختیار ہو۔ پھر یہ الوہیت کی صفات نہ تجزیہ و تقسیم کے قابل ہیں کہ ایک وقت میں بہت سے ’’آلہہ‘‘ ہوں اوروہ ان صفات یا ان کے ایک ایک حصے سے متصف ہوں۔ نہ یہ وقتی اور زمانی ہیں کہ ایک ’’الٰہ‘‘ کبھی تو ان سے متصف ہو اور کبھی نہ ہو۔ نہ یہ قابل انتقال ہیں کہ آج ایک ’’الٰہ‘‘ میں پائی جائیں اور کل دوسرے میں۔
الوہیت کا یہ کامل اور صحیح تصور پیش کرنے کے بعد قرآن اپنے انتہائی زورِ بیان کے ساتھ ثابت کرتا ہے کہ کائنات کی جتنی اشیا اور جتنی قوتیں ہیں، ان میں سے کسی پربھی یہ مفہوم راست نہیں آتا۔ تمام موجوداتِ عالم محتاج ہیں، مسخر ہیں، کائن و فاسد ہیں۔ نافع و ضار ہونا تو درکنار، خود اپنی ذات سے ضرر کو دفع کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ ان کے افعال اور ان کی تاثیرات کا سرچشمہ ان کی اپنی ذات میں نہیں ہے، بلکہ وہ سب کی سب کہیں اور سے قوتِ وجود، قوتِ فعل اور قوتِ تاثیر حاصل کرتی ہیں۔ لہٰذا کائنات کی کوئی شے ایسی نہیں جو ’’الوہیت‘‘ کا شائبہ بھی اپنے اندر رکھتی ہو اور جسے ہماری نیاز مندیوں میں سے کسی ایک حصے کا بھی حق پہنچتا ہو۔
اس نفی کے بعد وہ ایک ذات کے لیے ’’الوہیت‘‘ ثابت کرتا ہے جس کا نام ’’اللہ‘‘ ہے، اور انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ سب کو چھوڑ کر اسی پر ایمان لائو، اسی کے آگے جھکو، اسی کی تعظیم کرو، اسی سے محبت کرو، اسی سے خوف کرو، اسی سے امید رکھو، جو کچھ مانگو اسی سے مانگو، ہر حال میں تو کّل اسی پر کرو، اور ہمیشہ یاد رکھو کہ ایک دن اس کے پاس واپس جانا ہے، اسے حساب دینا ہے، اور تمھارا اچھا یا برا انجام اسی کے فیصلے پر منحصر ہے۔
ایمان باللّٰہ کے اخلاقی فوائد
صفاتِ الٰہی کے اس تفصیلی تصور کے ساتھ جو ایمان باللّٰہ انسان کے دل میں راسخ ہو جائے وہ اپنے اندر ایسے غیر معمولی فوائد رکھتا ہے جو کسی دوسرے اعتقاد سے حاصل نہیں ہو سکتے۔
وسعتِ نظر
ایمان باللّٰہ کا پہلا خاصہ یہ ہے کہ وہ انسان کے زاویۂ نظر کو اتنا وسیع کر دیتا ہے جتنی خدا کی غیر محدود سلطنت وسیع ہے۔ انسان جب تک دنیا کو اپنے نفس کے تعلق کا اعتبار کرتے ہوئے دیکھتا ہے، اس کی نگاہ اسی تنگ دائرے میں محدود رہتی ہے جس کے اندر اس کی اپنی قدرت، اس کا اپنا علم، اور اس کے اپنے مطلوبات محدود ہیں۔ اسی دائرے میں وہ اپنے لیے حاجت روا تلاش کرتا ہے۔ اسی دائرے میں جو قوت والے ہیں ان سے ڈرتا اور دبتا ہے اور جو کم زور ہیں ان پر فوقیت جتاتا ہے۔ اسی دائرے میں اس کی دوستی و دشمنی، محبت اور نفرت، تعظیم اور تحقیر محدود رہتی ہے، جس کے لیے بغیر اس کے اپنے نفس کے اور کوئی معیارنہیں ہوتا۔ لیکن خدا پر ایمان لانے کے بعد اس کی نظر اپنے ماحول سے نکل کر تمام کائنات پر پھیل جاتی ہے۔ اب وہ کائنات پر اپنے نفس کے تعلق سے نہیں بلکہ خدا کے تعلق سے نگاہ ڈالتا ہے۔ اب اس وسیع جہان کی ہر چیز سے اس کا ایک اور ہی رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ اب اسے ان میں کوئی حاجت روا، کوئی قوت والا، کوئی ضار یا کوئی نافع نظر نہیں آتا۔ اب وہ کسی کو تعظیم یا تحقیر، خوف یا امید کے قابل نہیں پاتا۔ اب اس کی دوستی یا دشمنی، محبت یا نفرت اپنے نفس کے لیے نہیں بلکہ خدا کے لیے ہوتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ میں جس خدا کو مانتا ہوں وہ صرف میرا یا میرے خاندان یا میری قوم ہی کا خالق اور پروردگار نہیں ہے بلکہ خالق السماوات والارض اور رب العالمین ہے۔ اس کی حکومت صرف میرے ملک تک محدود نہیں بلکہ وہ مالک ارض و سما اور رب المشرق والمغرب ہے۔ یعنی کہ اس کی عبادت صرف میں ہی نہیں کر رہا ہوں بلکہ زمین و آسمان کی ساری چیزیں اس کے آگے جھکی ہوئی ہیں:
وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا آل عمران 83:3
حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کی تابعِ فرمان (مسلم) ہیں۔
اور ہر چیز اس کی تسبیح و تقدیس میں مشغول ہے:
تُـسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْہِنَّ۝۰ۭ بنی اسرائیل 44:17
اُس کی پاکی توساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں۔
اس لحاظ سے جب وہ کائنات کو دیکھتا ہے تو کوئی اسے غیر نظر نہیں آتا، سب اپنے ہی اپنے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی ہم دردی، اس کی محبت، اس کی خدمت کسی ایسے دائرے کی پابند نہیں رہتی جس کی حد بندی اس کے اپنے نفس کے تعلقات کے لحاظ سے کی گئی ہو۔
پس جو اللّٰہ پرایمان رکھتا ہے وہ کبھی تنگ نظر نہیں ہو سکتا۔ اس کی وسیع المشربی کے لیے ’’بین الاقوامیت‘‘ کی اصطلاح بھی تنگ ہے۔ اسے تو حقیقت میں ’’آفاقی‘‘ اور ’’کائناتی‘‘ کہنا چاہیے۔
عزتِ نفس
پھر یہی ایمان باللّٰہ انسان کو پستی و ذلت سے اٹھا کر خود داری و عزتِ نفس کے بلند ترین مدارج پر پہنچا دیتا ہے۔ جب تک اس نے خدا کو نہ پہچانا تھا، دنیا کی ہر طاقت ور چیز، ہر نفع یا ضرر پہنچانے والی چیز، ہر شان دار اور بزرگ چیز کے سامنے جھکتا تھا، اس سے خوف کھاتا تھا، اس کے آگے ہاتھ پھیلاتا تھا، اس سے امیدیں وابستہ کرتا تھا۔ مگر جب اس نے خدا کو پہچانا تو معلوم ہوا کہ جن کے آگے وہ ہاتھ پھیلا رہا تھا وہ خود محتاج ہیں۔
يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّہِمُ الْوَسِـيْلَۃَ بنی اسرائیل 57:17
وہ تو خود اپنے رب کے حضور رسائی حاصل کرنے کا وسیلہ تلاش کر رہے ہیں۔
اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ الاعراف 194:7
تم لوگ خدا کو چھوڑ کر جنھیں پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں جیسے تم بندے ہو۔
لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَآ اَنْفُسَہُمْ يَنْصُرُوْنَo الاعراف 197:7
جن سے وہ مدد کی امیدیں رکھتا تھا، وہ اس کی مدد تو درکنار، آپ اپنی ہی مدد نہیں کر سکتے۔
اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلہِ جَمِيْعًا۝۰ۙ البقرہ 165:2
حقیقی طاقت کا مالک تو خدا ہے۔
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۝۰ۭ الانعام 57:6
وہی حکمران اور صاحبِ امر ہے۔
وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍo البقرہ 107:2
اور اس کے سوا کوئی تمہاری خبر گیری کرنے اور تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے؟
وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللہِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِo آل عمران 126:3
فتح و نصرت جو کچھ بھی ہے اللہ کی طرف سے ہے، جو بڑی قوت والا اور دانا و بینا ہے۔
اِنَّ اللہَ ہُوَالرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِيْنُo الذٰریٰت 58:51
اللّٰہ تو خود ہی رزاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست۔
لَہٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ الشوریٰ 12:42
زمین و آسمان کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔
مارنے اور جلانے والا وہی ہے۔ یعنی کہ اس کے اذن کے بغیر نہ کوئی کسی کو مار سکتا ہے نہ بچا سکتا ہے۔
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُـوْتَ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ آل عمران 145:3
اور زندہ کرنے اور مارنے والا اللّٰہ تعالیٰ ہے۔
وَاللہُ يُحْيٖ وَيُمِيْتُ۝۰ۭ آل عمران 156;3
ورنہ دراصل مارنے اور جِلانے والا تو اللہ ہی ہے۔
نفع و ضرر پہنچانے کی اصلی طاقت اسی کے ہاتھ میں ہے۔
وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ھُوَ۝۰ۚ وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَاۗدَّ لِفَضْلِہٖ۝۰ۭ
یونس 107:10
اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا کوئی نہیں ہے۔
یہ علم حاصل ہونے کے بعد وہ تمام دنیا کی قوتوں سے بے نیاز اور بے خوف ہو جاتا ہے۔ خدا کے سوا اس کی گردن کسی کے آگے نہیں جھکتی۔ خدا کے سوا اس کا ہاتھ کسی کے آگے نہیں پھیلتا۔ خدا کے سوا کسی کی عظمت اس کے دل میں نہیں رہتی۔ خدا کو چھوڑ کر وہ کسی دوسرے سے امیدیں وابستہ نہیں کرتا۔
انکسار و تخشع
لیکن یہ خود داری وہ جھوٹی خود داری نہیں ہے جو اپنی قوت، دولت یا قابلیت کے گھمنڈ کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ عزتِ نفس وہ عزتِ نفس نہیں ہے جو ایک برخود غلط انسان میں نخوت و غرور اور تکبر کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ بلکہ یہ نتیجہ ہے خدا کے ساتھ اپنے اور تمام موجوداتِ عالم کے تعلق کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینے کا۔ اس لیے خدا پر ایمان رکھنے والے میں خود داری انکسار کے ساتھ، اور عزتِ نفس خشوع و خضوع کے ساتھ ہم رشتہ ہوتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ خدا کی طاقت کے سامنے میں بالکل بے بس ہوں۔ ارشاد ہے:
وَہُوَالْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ۝۰ۭ الانعام 18:6
وہ اپنے بندوں پر کامل اختیارات رکھتا ہے۔
خدا کی فرماں روائی سے نکلنا میرے اور کسی ہستی کے بس میں نہیں ہے۔ چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:
يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا۝۰ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍo الرحمن 33:55
اے گروۂ جن و اِنس اگر تم زمین اور آسمان کی سرحدوں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ دیکھو۔ نہیں بھاگ سکتے۔ اس کے لیے بڑا زور چاہیے۔
میں کیا، تمام عالم خدا کا محتاج ہے اوروہ بے نیاز ہے۔
وَاللہُ الْغَنِيُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ۝۰ۚ محمد38:47
اللہ تو غنی ہے، تم ہی اس کے محتاج ہو۔
لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ البقرہ 284:2
زمین و آسمان میں جو کچھ ہے خدا کا ہے۔
اور مجھے بھی جو نعمت ملی ہے خدا سے ملی ہے۔
وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللہِ النحل 53:16
تم کو جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ ہی کی طرف سے ہے۔
اس عقیدے کے بعد غرورو تکبر کہاں رہ سکتا ہے۔ ایمان باللّٰہ کا تو خاصہ لازم یہ ہے کہ وہ انسان کو سراپا انکسار بنادیتا ہے۔
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًاo الفرقان 63:25
خدائے رحمان کے خاص بندے تو وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جہلا ان سے جہالت کی باتیں کرتے ہیں تو وہ سلام کرکے الگ ہو جاتے ہیں۔
غلط توقعات کا ابطال
خالق اور مخلوق کے تعلق کی صحیح معرفت کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے ان تمام غلط توقعات اور جھوٹے بھروسوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے جو عدمِ معرفت کا نتیجہ ہیں، اورانسان خوب سمجھ لیتا ہے کہ اس کے لیے اعتقادِ صحیح اور عملِ صالح کے سوا فلاح و نجات کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ جو لوگ اس معرفت سے محروم ہیں، ان میں سے کوئی سمجھتا ہے کہ خدا کے کاموں میں بہت سے اور چھوٹے چھوٹے خدا بھی شریک ہیں۔
ہم ان کی خوشامد کرکے سفارش کرا لیں گے۔
وَيَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ یونس 18:10
اور کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔
کوئی سمجھتا ہے کہ خدا بیٹا رکھتا ہے اور اس بیٹے نے ہمارے لیے کفارہ بن کر نجات کا حق محفوظ کر دیا ہے۔ کوئی سمجھتا ہے کہ:
ہم خود اللّٰہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔
وَقَالَتِ الْيَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللہِ وَاَحِبَّاۗؤُہٗ۝۰ۭ المائدہ 18:5
یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔
ہم خواہ کچھ کریں، ہمیں سزا نہیں مل سکتی۔ ایسی ہی اور بہت سی غلط توقعات ہیں جو لوگوں کو ہمیشہ گناہ کے چکر میں پھنسائے رکھتی ہیں، کیوں کہ وہ ان کے بھروسے پر اپنے نفس کی پاکیزگی اور عمل کی اصلاح سے غافل ہو جاتے ہیں۔ لیکن قرآن جس ایمان باللّٰہ کی تعلیم دیتا ہے، اس میں غلط توقعات کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کوئی قوم خدا کے ساتھ اختصاص نہیں رکھتی۔
سب اس کے مخلوق ہیں اور وہ سب کا خالق۔
بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ۝۰ۭ المائدہ 18:5
درحقیقت تم بھی ویسے ہی انسان ہو جیسے اور انسان خدا نے پیدا کیے ہیں۔
بزرگی اور اختصاص جو کچھ ہے تقوٰی کی بِنا پر ہے۔
اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۝۰ۭ الحجرات 13:49
درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔
خدا نہ اولاد رکھتا ہے نہ کوئی اس کا شریک و مددگار ہے۔
لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّہٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَّہٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ
بنی اسرائیل 111:17
جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا، نہ کوئی بادشاہی میں اس کا شریک ہے، اور نہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا پشتیبان ہو۔
جنھیں تم اس کی اولاد یا اس کا شریک سمجھتے ہو وہ سب اس کے بندے اور غلام ہیں۔
بَلْ لَّہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ كُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَo البقرہ 116:2
اصل حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کی تمام موجودات اس کی ملک ہیں، سب کے سب اس کے مطیعِ فرمان ہیں۔
کسی میں جرأت نہیں کہ اس کے اذن کے بغیر سفارش کر سکے۔
مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِـاِذْنِہٖ۝۰ۭ البقرہ 255:2
کون ہے جو اُس کی جناب میں اس کی اجاز کے بغیر شفارش کرسکے؟
اگر تم نافرمانی کرو گے تو کوئی سفارشی اورمددگار تمھیں اس کی پاداش سے بچا نہ سکے گا۔
وَاِذَآ اَرَادَ اللہُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ۝۰ۚ وَمَا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍo الرعد 11:13
اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرلے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہوسکتا ہے۔
رجائیت اور اطمینانِ قلب
اسی کے ساتھ ایمان باللّٰہ انسان میں ایک ایسی رجائی کیفیت پیدا کر دیتا ہے جو کسی حال میں مایوسی اور شکستہ دلی سے مغلوب نہیں ہوتی۔ مومن کے لیے ایمان امیدوں کا ایک لازوال خزانہ ہے جس سے قوتِ قلب و تسکینِ رُوح کی دائمی اور غیر منقطع رسد اُسے پہنچتی رہتی ہے۔ چاہے وہ دنیا کے تمام دروازوں سے ٹھکرایا جائے، سارے اسباب کا رشتہ ٹوٹ جائے، وسائل و ذرائع ایک ایک کرکے اس کا ساتھ چھوڑ دیں، مگر ایک خدا کا سہارا اس کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا اور اس کے بل پر وہ ہمیشہ امیدوں سے لبریز رہتا ہے، اس لیے کہ جس خدا پر وہ ایمان لایا ہے، وہ کہتا ہے کہ:
وَاِذَا سَاَ لَكَ عِبَادِيْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۝۰ۭ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۝۰ۙ
البقرہ 186:2
اور اے نبی، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو انھیں بتا دو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔
مجھ سے ظلم کا خوف نہ کرو کہ میں ظالم نہیں ہوں۔
وَاَنَّ اللہَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِo آل عمران 182:3
اللہ اپنے بندوں کے لیے ظالم نہیں ہے۔
وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ۝۰ۭ الاعراف 156:7
میری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے۔
میری رحمت سے مایوس تو وہ ہوتے ہیں جو مجھ پر ایمان نہیں رکھتے۔
وَلَا تَايْــــَٔــسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللہِ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَo
یوسف 87:12
اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔
رہا مومن، تو اس کے لیے مایوسی کا کوئی مقام نہیں۔ اگر اس نے کوئی قصور کیا ہو تو مجھ سے معافی مانگے، میں اسے معاف کر دوں گا۔
وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللہَ يَجِدِ اللہَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًاo
النسائ 110:4
اگر کوئی شخص بُرا فعل کر گزرے یا اپنے نفس پر ظلم کر جائے اور اس کے بعد اللہ سے درگزر کی درخواست کرے تو اللہ کو درگزر کرنے والا اور رحیم پائے گا۔
اور
قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا۝۰ۭ الزمر 53:39
(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔
اگر دنیا کے اسباب اس کا ساتھ نہیں دیتے تو وہ ان پر بھروسا چھوڑ کر میرا دامن تھام لے۔ پھر خوف و حزن اس کے پاس بھی نہ پھٹکے گا۔
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا۔ حمٓ السجدہ 30:41
جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو نہ غم کرو۔
میری یاد وہ چیز ہے جس سے دلوں کو سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُo الرعد 28:13
خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔
صبر و توکل
پھر یہی رجائیت ترقی کرکے صبر و استقامت اور توکل علی اللّٰہ کے اعلیٰ مدارج پر پہنچ جاتی ہے۔ جہاں مومن کا دل ایک سنگین چٹان کی طرح مضبوط ومستحکم ہوجاتا ہے، اور ساری دنیا کی مشکلیں، دشمنیاں، تکلیفیں، مضرتیں اور مخالف طاقتیں مل کر بھی اسے اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکتیں۔ یہ قوت انسان کو بجز ایمان باللّٰہ کے اور کسی ذریعے سے حاصل نہیں ہوتی۔ کیوں کہ جو خدا پر ایمان نہیں رکھتا، اس کا بھروسا ان مادی یا وہمی اسباب و وسائل پر ہوتا ہے جو خود کسی طاقت کے مالک نہیں ہیں۔ ان کے بل پر جینے والا گویا تارِ عنکبوت کا سہارا لیتا ہے۔
چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:
مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْلِيَاۗءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ۝۰ۖۚ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا۝۰ۭ وَاِنَّ اَوْہَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ۝۰ۘ العنکبوت 41:29
جن لوگوں نے اللّٰہ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرست بنا لیے ہیں ان کی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی ہے، اور سب گھروں سے زیادہ کم زور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے۔
ایسے کم زور سہاروں پر جس کی زندگی کا مدار ہو اس کا کم زور ہو جانا تو یقینی ہے:
ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُo الحج 73:22
مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور۔
مگر جس کا بھروسا خدا پر ہے، جس نے خدا کا دامن تھام لیا ہے، اس کا سہارا ایسا مضبوط ہے کہ وہ کبھی ٹوٹ ہی نہیں سکتا:
فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا۝۰ۭ البقرہ 256:2
اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔
اس کے ساتھ تو رب السماوات والارض کی طاقت ہے، اس پر کون سی طاقت غالب آسکتی ہے۔
اِنْ يَّنْصُرْكُمُ اللہُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ۝۰ۚ آل عمران 160:3
اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں۔
اسے تو تمام جہان کی مصیبتیں مل کر بھی صبر و ثبات اور پامردی و استقامت کے مقام سے نہیں ہٹا سکتیں، کیوں کہ
قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللہِ۝۰ۭ النسائ 78:4
کہو، سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔
اس کے نزدیک سب بُرا اور بھلا اللّٰہ کی طرف سے ہے۔جو مصیبت بھی آتی ہے تقدیرِ الٰہی کے تحت آتی ہے اور اس کا ٹالنے والا بھی بجز اللّٰہ کے کوئی نہیں ہے۔
قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَآ اِلَّا مَا كَتَبَ اللہُ لَنَا۝۰ۚ ہُوَمَوْلٰىنَا۝۰ۚ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَo التوبہ51:9
ان سے کہو ’’ہمیں ہرگز کوئی (برائی یا بھلائی) نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے۔ اللہ ہی ہمارا مولیٰ ہے، اور اہل ایمان کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔‘‘
انبیا علیہم السلام نے جس فوق البشری قوت سے دنیا کی ہول ناک مصیبتوں کا مقابلہ کیا، تن تنہا بڑی بڑی سلطنتوں اور طاقت ور قوموں سے نبرد آزما ہوئے، اسبابِ دنیوی کے بغیر دنیا کو مسخر کرنے کا عزم لے کر اٹھے، اور مشکلات کے طوفانوں میں بھی اپنے مشن سے نہ ہٹے، وہ یہی صبر و توکل کی قوت تھی۔ حضرت ابراہیم ؑکو دیکھیے، اپنے ملک کے جبار فرماں روا سے مناظرہ کرتے ہیں، بے خوف آگ میں کُود پڑتے ہیں اور آخر اِنِّىْ ذَاہِبٌ اِلٰى رَبِّيْ سَيَہْدِيْنِo الصافات 99:37 کہہ کر کسی سروسامان کے بغیر وطن سے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ حضرت ہودؑ کو دیکھیے کس طرح عاد کی زبردست قوت کو چیلنج دیتے ہیں:
فَكِيْدُوْنِيْ جَمِيْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِo اِنِّىْ تَوَكَّلْتُ عَلَي اللہِ رَبِّيْ وَرَبِّكُمْ۝۰ۭ مَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ اِلَّا ہُوَاٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِہَا۝۰ۭ ھود 55:11
تم سب مل کر اپنی چالیں چل دیکھو اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو۔ میں تو اس خدا پر بھروسا کر چکا ہوں جو میرا اور تمھارا رب ہے۔ کوئی جان دار ایسا نہیں ہے جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھیے، خدا کے بھروسے پر فرعون کی زبردست طاقت سے مقابلہ کرتے ہیں۔ وہ قتل کی دھمکی دیتا ہے تو جواب دیتے ہیں کہ میں ہر متکبر کے مقابلے میں اس کی پناہ لے چکا ہوں جو میرا اور تم سب کا رب ہے،اِنِّىْ عُذْتُ بِرَبِّيْ وَرَبِّكُمْ مِّنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ غافر27:40 مصر سے نکلتے وقت فرعون اپنی پوری طاقت کے ساتھ ان کا پیچھا کرتا ہے، ان کی بزدل قوم گھبرا کر کہتی ہے کہ دشمنوں نے ہمیں آ لیا: ’’اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ‘‘ مگر وہ انتہائی سکونِ قلب کے ساتھ کہتے ہیں: ہرگز نہیں، اللّٰہ میرے ساتھ ہے، وہی مجھے سلامتی کی راہ پر لگا دے گا، كَلَّا۝۰ۚ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَہْدِيْنِo الشعرائ 62:26 سب سے آخر میں نبی عربی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھیے۔ ہجرت کے موقع پر ایک غار میں تشریف رکھتے ہیں۔ صرف ایک رفیق ساتھی ہے۔ خون کے پیاسے کفار سر پر پہنچتے ہیں۔ مگر آپؐ اس وقت بھی مضطرب نہیں ہوتے۔ اپنے ساتھی سے فرماتے ہیں:لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا۝۰ۚ التوبہ 40:9 ہرگز نہ گھبرائو، اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ یہ ناقابلِ تسخیر قوت، یہ آہنی عزم، یہ پہاڑ کی سی استقامت، بجز ایمان باللّٰہ کے اور کس چیز سے حاصل ہو سکتی ہے؟
شجاعت
اسی سے ملتی جلتی ایک اور صفت بھی ہے جو ایمان باللّٰہ سے غیر معمولی طور پر پیدا ہوتی ہے، یعنی جرأت وبسالت اور شجاعت و شہامت۔ انسان کو دو چیزیں بزدل بناتی ہیں: ایک محبت، جو وہ اپنی جان، اپنے اہل و عیال اور اپنے مال سے رکھتا ہے۔ دوسرے خوف، جو نتیجہ ہے اس غلط اعتقاد کا کہ نقصان پہنچانے اور ہلاک کر دینے کی قوت دراصل ان اشیا میں ہے جو محض آلے کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ ایمان باللّٰہ ان دونوں چیزوں کو دل سے نکال دیتا ہے۔ مومن کے رگ و پے میں یہ اعتقاد سرایت کر جاتا ہے کہ خدا سب سے زیادہ محبت کا حق رکھتا ہے :
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۝۰ۭ البقرہ 165:2
ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔
اس کے دل میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ مال اور اولاد سب دنیا کی زینتیں ہیں، جن کا کبھی نہ کبھی ضائع ہونا یقینی ہے۔ کبھی نہ ضائع ہونے والی چیز وہ ہے جو خدا کے ہاں ملے گی۔
اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَۃُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۚ وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ اَمَلًاo الکہف 46:18
یہ مال اور یہ اولاد محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرائش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور انھی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔
دُنیا کی زندگی محض چند روزہ ہے، اسے ہم بچانے کی لاکھ کوشش کریں، موت بہرحال ایک دن آ کر رہے گی:
قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِيْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِنَّہٗ مُلٰقِيْكُمْ الجمعہ 8:62
ان سے کہو ’’جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تو تمھیں آکر رہے گی۔
اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَـيَّدَۃٍ۝۰ۭ النسائ 78:4
رہی موت، تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمھیں آکر رہے گی، خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو۔
پھر کیوں نہ اس جان کو دائمی مسرت کی زندگی کے لیے قربان کردیں جو اللّٰہ کے ہاں ملے گی:
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَمْوَاتًا۝۰ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَo فَرِحِيْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ۝۰ۙ آل عمران 169-170:3
جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں اُنہیں مُردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں۔ جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے اُنھیں دیا ہے اُس پر خوش و خرم ہیں اور مطمئن ہیں۔
کیوں نہ دنیا کے چند روزہ لطف اور عارضی فائدوں کو اس خدا کی خوشی پر فدا کر دیں جو دراصل ہماری جان اور مال کا مالک ہے، اور جو ان کے بدلے میں اس سے بہتر زندگی اور ان سے زیادہ حقیقی فائدے بخشنے والا ہے؟
اِنَّ اللہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ۝۰ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ التوبہ 111:9
حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے اِن کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔
رہا خوف، تو مومن کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ نقصان پہنچانے اور ہلاک کرنے کی حقیقی قوت انسان یا حیوان، توپ یا تلوار، لکڑی یا پتھر میں نہیں ہے، بلکہ خدا کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ تمام دنیا کی قوتیں مل کر بھی اگر کسی کو نقصان پہنچانا چاہیں اور خدا کا اذن نہ ہو تو اس کا بال تک بیکا نہیں ہو سکتا:
وَمَا ھُمْ بِضَاۗرِّيْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ البقرہ 102:2
ظاہر تھا کہ اذنِ الٰہی کے بغیر وہ اس ذریعے سے کسی کو بھی ضرر نہ پہنچا سکتے تھے،
موت کا جو وقت خدا نے لکھ دیا ہے اس سے پہلے کسی کے لائے موت نہیں آ سکتی۔
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُـوْتَ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ كِتٰبًا مُّؤَجَّلًا۝۰ۭ آل عمران 145:3
کوئی ذی رُوح اللہ کے اِذن کے بغیر نہیں مر سکتا۔ موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے۔
اور اگر موت کا لکھا ہوا وقت آن پہنچے تو پھر وہ کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتی:
قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِيْ بُيُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِيْنَ كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِھِمْ۝۰ۚ
آل عمران 154:3
ان سے کہہ دو کہ: ’’اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن لوگوں کی موت لکھی ہوئی تھی وہ خود اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے‘‘
پس جب معاملہ یہ ہے تو لوگوں سے ڈرنے کے بجائے خدا سے ڈرنا چاہیے:
فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَo آل عمران 175:3
لہٰذا آئندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحب ایمان ہو۔
وہی حقیقت میں ایسی ہستی ہے جس سے ڈرا جائے:
وَاللہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰـىہُ۝۰ۭ الاحزاب 37:33
حالانکہ اللہ اس کا حق دار ہے کہ تم اُس سے ڈرو۔
راہِ خدا میں لڑنے سے جی چرانا تو ان کا کام ہے جن کے دل میں ایمان نہیں، اس لیے کہ وہ خدا سے زیادہ بندوں سے ڈرتے ہیں:
يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْـيَۃِ اللہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَۃً۝۰ۚ النسائ 77:4
لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں۔ جیسا خدا سے ڈرنا چاہیے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر۔
ورنہ جو سچے مومن ہیں وہ تو دشمنوں کے دل بادل دیکھ کر بجائے ڈرنے کے اور زیادہ شیر ہو جاتے ہیں، کیوں کہ ان کا بھروسا دنیوی طاقت پر نہیں، خدا پر ہے:
اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا۝۰ۤۖ وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُo آل عمران 173:3
جن سے لوگوں نے کہا کہ: ’’تمھارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، اُن سے ڈرو‘‘ تو یہ سن کر اُن کا ایمان بڑھ گیا اور انھوں نے جواب دیا کہ: ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔‘‘
قناعت و استغنا
پھر یہی ایمان باللّٰہ انسان کے دل سے حرص و ہوس اور رشک و حسد کے وہ رکیک جذبات بھی دور کر دیتا ہے جو اسے جلبِ منفعت کے لیے ذلیل و ناجائز ذرائع اختیار کرنے پر ابھارتے اور بنی نوعِ انسان کے درمیان فساد برپا کراتے ہیں۔ ایمان کے ساتھ انسان میں قناعت اور استغنا پیدا ہوتا ہے۔ وہ دوسروں سے مقابلہ یا منافست نہیں کرتا۔ ظلم و عدوان کی وادیوں میں دوڑ دھوپ نہیں کرتا۔ ہمیشہ باعزت طریقے سے اپنے رب کا فضل تلاش کرتا ہے اور جو تھوڑا بہت مل جاتا ہے اسے خدا کی دین سمجھ کر قناعت کر لیتا ہے۔ مومن کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ فضیلت اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے، جسے چاہتا ہے بخشتا ہے:
قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللہِ۝۰ۚ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌo يَّخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ آل عمران 73-74:3
اے نبیؐ، ان سے کہو: فضل و شرف اللہ کے اختیار میں ہے، جسے چاہے عطا فرمائے۔ وہ وسیع النظر ہے۔ اور سب کچھ جانتا ہے، اپنی رحمت کے لیے جس کو چاہتا ہے مخصوص کرلیتا ہے۔
رزق اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے، جسے جتنا چاہتا ہے عطا کرتا ہے:
اَللہُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَــقْدِرُ۝۰ۭ الرعد 26:13
اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہے۔
بے شک زمین اللّٰہ کی ہے ، جسے چاہے حکمران بنا دے:
اِنَّ الْاَرْضَ لِلہِ۝۰ۣۙ يُوْرِثُہَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ۝۰ۭ الاعراف 128:7
زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔
عزت و دولت اس کے ہاتھ میں ہے، جسے چاہے عزیز بنا دے اور جسے چاہے ذلیل کر دے:
وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ۝۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo
آل عمران 26:3
جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
پھر دنیا کا یہ نظام کہ عزت ودولت، قوت، حسن، ناموری اور دوسرے مواہب کے اعتبار سے کوئی گھٹا ہوا ہے اور کوئی بڑھا ہوا، دراصل خدا ہی کا قائم کردہ ہے، خدا اپنی مصلحتوں کو خود بہتر جانتا ہے۔ اس کے بنائے ہوئے نظام کو بدلنے کی کوشش کرنا نہ تو انسان کے لیے مناسب ہے اور نہ اس میں کام یابی ممکن ہے:
وَاللہُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ۝۰ۚ النحل 71:16
اور دیکھو، اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت عطا کی ہے۔
وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللہُ بِہٖ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ۝۰ۭ النسائ 32:4
اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو۔
اصلاحِ اخلاق و تنظیمِ اعمال
ان سب سے زیادہ اہم فائدہ وہ ہے جو ایمان باللّٰہ سے تمدن کو پہنچتا ہے۔ اس سے انسانی جماعت کے افراد میں ذمے داری کا احساس پیدا ہوتا ہے، نفوس میں پاکیزگی اور اعمال میں پرہیز گاری پیدا ہوتی ہے، لوگوں کے باہمی معاملات درست ہوتے ہیں، پابندیِ قانون کی حس پیدا ہوتی ہے، اطاعتِ اَمر اور ضبط و نظم کا مادہ پیدا ہوتا ہے، اور افراد ایک زبردست باطنی قوت سے اندر ہی اندر سُدھر کر ایک صالح اور منظم سوسائٹی بنانے کے لیے مستعد ہو جاتے ہیں۔ یہ دراصل ایمان باللّٰہ کا معجزہ ہے اور اسی کے لیے مخصوص ہے۔ دنیا کی کسی حاکمانہ قوت، یا تعلیم و تربیت، یا وعظ و تلقین سے اصلاحِ اخلاق اور تنظیمِ اعمال کا کام اتنے وسیع پیمانے اور اتنی گہری بنیادوں پر انجام نہیں پا سکتا۔ دنیوی قوتوں کی رسائی روح تک نہیں صرف جسم تک ہے، اور جسم پر بھی ان کی گرفت ہر جگہ اور ہر وقت نہیں ہے۔ تعلیم و تربیت اور وعظ و تلقین کا اثر بھی صرف عقل و فکر تک محدود رہتا ہے، اور وہ بھی ایک حد تک۔ رہا نفسِ امارہ، تو وہ نہ صرف خود اس سے غیر متاثر رہتا ہے بلکہ عقل کو بھی مغلوب کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا۔ لیکن ایمان وہ شے ہے جواپنی اصلاح اور تنظیمی قوتوں کو لیے ہوئے انسان کے قلب و روح کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے اور وہاں ایک ایسے طاقت ور اور بیدار ضمیر کو نشوو نما دیتا ہے جو ہر وقت ہر جگہ انسان کو تقوٰی اور طاعت کی سیدھی راہ دکھاتا رہتا ہے اور شریر سے شریر نفوس میں بھی اپنی ملامتوں اور سرزنشوں کا کچھ نہ کچھ اثر پہنچائے بغیر نہیں رہتا۔
یہ عظیم الشان فائدہ علمِ الٰہی اور قدرتِ خداوندی کے اس اعتقاد سے حاصل ہوتا ہے جو ایمان کا ایک ضروری جز ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ انسان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ خدا کا علم ہر چیز پر حاوی ہے اور کوئی بات اس سے چُھپ نہیں سکتی۔
وَلِلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ۝۰ۤ فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ وَاسِعٌ عَلِيْمٌo
البقرہ 115:2
مشرق اور مغرب سب اللّٰہ ہی کا ہے، تم جدھر رُخ کرو گے ادھر اللّٰہ موجود ہے، یقینا اللّٰہ بڑی وسعت والا اور جاننے والا ہے۔
اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يَاْتِ بِكُمُ اللہُ جَمِيْعًا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo البقرہ 148:2
تم جہاں کہیں بھی ہو اللّٰہ تم سب کو پکڑ بلائے گا، یقیناً اللّٰہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اِنَّ اللہَ لَا يَخْفٰى عَلَيْہِ شَيْءٌ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِo آل عمران 5:3
یقیناً اللّٰہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے، نہ زمین میں اور نہ آسمان میں۔
وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۝۰ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا يَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّۃٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍo الانعام 59:6
اور اس کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کا علم اس کے سوا کسی کو نہیں۔ برّ و بحر میں جو کچھ ہے سب کو وہ جانتا ہے۔ ایک پَتّا بھی اگر زمین پر گرتا ہے تو اللّٰہ کو اس کا علم ہو جاتا ہے۔ اور زمین کی تاریک تہوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں اور کوئی خشک و تر چیز ایسی نہیں جو ایک کتاب مبین میں لکھی ہوئی موجود نہ ہو۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ۝۰ۚۖ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِo قٓ 16:50
ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے، اور ہم وہ باتیں تک جانتے ہیں جن کا وسوسہ اس کے نفس میں آتا ہے۔ ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔
مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ہُوَرَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَۃٍ اِلَّا ہُوَسَادِسُہُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا ہُوَمَعَہُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا۝۰ۚ المجادلہ 7:58
کوئی سرگوشی تین آدمیوں میں ایسی نہیں ہوتی جس میں چوتھا خدا نہ ہو، اور کوئی سرگوشی پانچ آدمیوں میں ایسی نہیں ہوتی جس میں چھٹا خدا نہ ہو، اور نہ اس سے کم یا زیادہ آدمیوں کا کوئی اجتماع ایسا ہے جس میں وہ ان کے ساتھ نہ ہو، خواہ وہ کہیں ہو۔
يَسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللہِ وَھُوَمَعَھُمْ اِذْ يُبَيِّتُوْنَ مَا لَا يَرْضٰى مِنَ الْقَوْلِ۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطًاo النسائ 108:4
وہ لوگوں سے چھپ سکتے ہیں، مگر خدا سے نہیں چھپ سکتے۔ خدا اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے جب و ہ اس کی رضا کے خلاف راتوں کو چھپ کر باتیں کرتے ہیں، اور وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اس پر خدا محیط ہے۔
اَوَلَا يَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَo البقرہ 77:2
کیا وہ نہیں جانتے کہ وہ خفیہ اور علانیہ جو کچھ بھی کرتے ہیں خدا کو اس کا علم ہے۔
اِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيٰنِ عَنِ الْيَمِيْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيْدٌo مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَيْہِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌo قٓ 17-18:50
دو ضبط کرنے والے فرشتے ہر شخص کے دائیں اور بائیں بیٹھے ضبط کر رہے ہیں، کوئی بات زبان سے ایسی نہیں نکلتی کہ کوئی نگرانی کرنے والا اس کو لکھنے کے لیے تیار نہ ہو۔
سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَہَرَ بِہٖ وَمَنْ ہُوَمُسْتَخْفٍؚ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّہَارِo لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ يَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللہِ۝۰ۭ
الرعد 10-11:13
خواہ تم میں سے کوئی چھپا کر بات کرے یا ببانگِ دُہل، اور خواہ کوئی رات کی تاریکیوں میں پوشیدہ ہو یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو، بہرحال اس کے آگے اور پیچھے خدا کے جاسوس لگے ہوئے ہیں جو خدا کے حکم سے اس کی نگہبانی کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی خوب اچھی طرح انسان کے ذہن نشین کر دی گئی ہے کہ ایک دن ضرور خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے:
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْہُ۝۰ۭ البقرہ 223:2
اور خوب جان لو کہ تمھیں ایک دن اس سے ملنا ہے۔
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ اِلَيْہِ تُحْشَرُوْنَo البقرہ 203:2
اور خوب جان رکھو کہ ایک روز اس کے حضور تمھاری پیشی ہونے والی ہے۔
اور اسے ہر چیز کا حساب دینا ہے:
اِنَّ اللہَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًاo النسائ 86:4
یا کم از کم اُسی طرح، اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔
اور اللّٰہ کی پکڑ بڑی سخت ہے:
اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيْدٌo البروج 12:85
درحقیقت تمھارے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔
یہ عقیدہ جس کو طرح طرح سے دل میں بٹھانے کی کوشش کی گئی ہے، دراصل اسلام کے پورے قانون کی قوتِ نافذہ ہے۔ اسلام نے حرام و حلال کے جو حدود بھی مقررکیے ہیں، اخلاق، معاشرت اور معاملات کے متعلق جو احکام بھی دیے ہیں، ان کے نفاذ کا اصلی انحصار نہ فوج اور پولیس پر ہے، اور نہ تعلیم و تلقین پر۔ بلکہ وہ نفاذ کی قوت اس عقیدے سے حاصل کرتے ہیں کہ ان کا مقرر کرنے والا وہ زبردست فرماں روا ہے جس کی قدرت اور جس کا علم ہر شے پر حاوی ہے۔ اس کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والا نہ اپنے جرم کوچھپانے کی قدرت رکھتا ہے اور نہ اس کے محاسبے سے کسی طرح بچ سکتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید میں جگہ جگہ احکام دینے کے بعد یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ یہ اللّٰہ کے مقرر کیے ہوئے حدود ہیں، خبردار ان سے تجاوز نہ کرنا:
تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا۝۰ۚ البقرہ 229:2
یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو۔
یاد رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اُسے خدا دیکھ رہا ہے:
وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌo البقرہ 233:2
اللہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ جوکچھ تم کرتے ہو، سب اللہ کی نظر میں ہے۔

۴۔ ایمان بالملائکہ

ایمان بالملائکہ کا مقصد
فرشتوں پر ایمان دراصل ایمان باللّٰہ کا تتمہ اور اس کا ضمیمۂ لازمہ ہے۔ اس کا مقصد محض یہی نہیں ہے کہ ملائکہ کے وجود کا اثبات و اقرار کیا جائے، بلکہ مقصد اصلی یہ ہے کہ نظامِ وجود میں ان کی صحیح حیثیت کو سمجھ لیا جائے، تاکہ ایمان باللّٰہ خالص تو حید پر قائم ہو، اور شرک و عبادت ماسویٰ اللّٰہ کے تمام شائبوں سے پاک ہو جائے۔
جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے، ملائکہ کا ایک اجمالی تصور تمام ملتوں اور مذہبوں میں کسی نہ کسی طرح موجود رہا ہے۔ اسی تصور پر مختلف مذاہب نے مختلف اعتقادات کی عمارتیں قائم کر لی ہیں۔ کسی کے نزدیک وہ نوامیسِ فطرت اور قدرت کی وہ طاقتیں ہیں جو نظامِ کائنات کے مختلف شعبوں کو چلا رہی ہیں۔ کسی کے خیال میں وہ دیوتا ہیں جن میں سے ہر ایک کار گاہِ عالم کے ایک ایک محکمے کا صدر ہے، مثلاً کوئی ہوا کا مالک، کوئی بارش کا، کوئی روشنی کا اور کوئی حرارت یا آگ کا۔ کسی کے اعتقاد میں وہ خدا کے نائب اور مددگار ہیں۔ کسی کے نزدیک وہ اربابُ الانواع ہیں۔ کسی کے خیال میں وہ عقول ہیں۔ کسی کی رائے میں وہ خدا کے تصورات ہیں۔ اور کوئی انھیں خدا کی اولاد سمجھتا ہے۔ پھر کسی نے ان کا مادی، جسمانی وجود مانا ہے۔ کسی نے انھیں مجردات و مفارقات میں سے شمار کیا ہے۔ کسی نے انھیں سیارات و نیرات کے ساتھ متحد الوجود کر دیا ہے۔ اور کسی نے ان کے متعلق دوسرے عجیب و غریب تصورات قائم کیے ہیں۔ فی الجملہ اربابِ مذاہب میں فرشتوں کے متعلق یہ اعتقاد عام رہا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طور پر خدا کی خدائی میں شریک ہیں اور اس لیے ان کے ہیکل یا بت بنا کر، یا ان کی تصویریں نقش کرکے ان کی عبادت کی گئی ہے، ان سے دعائیں مانگی گئی ہیں، انھیں حاجت روا، فریاد رس اور شفیع قرار دیا گیا ہے، اور اسی کی بدولت دنیا میں شرک کا ہنگامہ گرم رہا ہے۔
نظامِ وجود میں فرشتوں کی حیثیت
قرآن مجید نے ایک طرف خدا کے وجود، صفات اور افعال میں خالص اور کامل توحید قائم کی، اور دوسری طرف ملائکہ کا ایک صحیح تصور پیش کیا، تاکہ وہ دروازہ ہی بند ہو جائے جس سے شرک داخل ہوتا ہے۔ اس نے فرشتوں کی حقیقت سے کوئی بحث نہ کی کہ یہ بحث دُور اَزکار ہے، اپنے اندر کوئی جوہریت نہیں رکھتی۔ انسان کے لیے نہ اس میں کوئی فائدہ ہے اور نہ اسے انسان سمجھ سکتا ہے۔ اصل مسئلہ جو تصفیہ طلب تھا، وہ صرف یہ تھا کہ نظامِ وجود میں فرشتوں کی حیثیت کیا ہے، اور اسے قرآن مجید نے خوب واضح کر دیا۔ اس نے بتایا کہ فرشتے خدا کی اولاد نہیں، نہ اس کے شریک کار ہیں، بلکہ محض اس کے بندے اور غلام ہیں:
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَہٗ۝۰ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَo لَا يَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِاَمْرِہٖ يَعْمَلُوْنَo يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا يَشْفَعُوْنَ۝۰ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَہُمْ مِّنْ خَشْيَتِہٖ مُشْفِقُوْنَo الانبیائ 26-28
کافروں نے کہا کہ رحمان نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ پاک ہے اس کی ذات۔ وہ (فرشتے) تو اس کے معزز بندے ہیں، اس کے آگے بڑھ کر بات تک نہیں کر سکتے، اور بس وہی کرتے ہیں جس کا وہ حکم دیتا ہے۔ جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے، سب کو خدا جانتا ہے۔ وہ کسی کی سفارش نہیں کر سکتے سوائے اس کے جسے خدا پسند فرماتا ہو، اور وہ جلالِ خداوندی سے ڈرتے رہتے ہیں۔
ان کی حیثیت مدبّراتِ امر کی ہے (النازعات۷۹:۵)۔ یعنی وہ صرف ان امور کی تدبیر کرتے ہیں جو اللّٰہ نے ان کے سپرد کر دیے ہیں۔ خدائی میں شریک ہونا تو درکنار، ان میں اتنی مجال بھی نہیں کہ اس کے حکم سے یَک سَرِ مُو تجاوز کر سکیں۔ ان کا کام تو محض اطاعت اور عبادت ہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی وہ اپنے وظیفے سے غافل نہیں ہوتے اور ہر دم اپنے رب کی تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں۔
وَيُسَبِّــحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہٖ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ مِنْ خِيْفَتِہٖ۝۰ۚ الرعد 13:13
بجلی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی پاکیزگی بیان کرتی ہے اور فرشتے خوف کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں۔
وَلِلہِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ مِنْ دَاۗبَّـۃٍ وَّالْمَلٰۗىِٕكَۃُ وَہُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَo يَخَافُوْنَ رَبَّہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَo النحل:16 49-50
اللّٰہ کے آگے سربہ سجود ہیں وہ جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں چلتے پھرتے ہیں، اور ملائکہ، وہ سرتابی نہیں کرتے اپنے رب سے جو ان سے بالاتر ہے، ڈرتے ہیں، اور وہی کرتے ہیں جس کا حکم دیا جاتا ہے۔
وَلَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَمَنْ عِنْدَہٗ لَا يَسْـتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَلَا يَسْتَحْسِرُوْنَo يُسَبِّحُوْنَ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ لَا يَفْتُرُوْنَo الانبیاء 19-20:21
اسی کے مملوک ہیں جو آسمانوں میں ہیں اورجو زمین میں ہیں اورجو اس کے پاس (مقرب) ہیں۔ وہ اس کی بندگی سے سرتابی نہیں کرتے، تھکتے نہیں، شب و روز اس کی تسبیح میں لگے رہتے ہیں اور سستی نہیں کرتے۔
لَّا يَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَo التحریم 6:66
وہ کبھی اس حکم کی خلاف ورزی نہیں کرتے جو خدا نے انھیں دیا ہے، اور وہی کرتے ہیں جس کا انھیں حکم دیا جاتا ہے۔
اس تصور نے شرک کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ رکھی، کیوں کہ جن پر خدائی کا گمان کیا جا سکتا تھا وہ سب ہماری طرح عاجز و درماندہ بندے ثابت ہو گئے۔ اس کے بعد ہماری عبادتوں، ہماری نیاز مندیوں، ہماری استعانتوں اور ہمارے اعتماد و توکل کا مرجع بجز خدا کی ذات کے اور کون ہو سکتا ہے؟
انسان اور فرشتوں کی اضافی حیثیت
پھر یہی نہیں، اس سے آگے بڑھ کر قرآنِ مجید نے انسان اور ملائکہ کی اضافی حیثیت بھی بتا دی ہے، تاکہ انسان ان کے مقابلے میں اپنے مرتبے کو اچھی طرح سمجھ لے۔ کلامِ الٰہی میں جہاں تخلیق ِ آدم کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں اس امر کی تصریح کی گئی ہے کہ جب اللّٰہ تعالیٰ نے ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی خلافت سے سرفراز فرمایا تو ملائکہ کو ان کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا اور بجز ابلیس کے اور سب نے انھیں سجدہ کیا(بقرہ۲:۳۴)، اعراف(۱۱)، بنی اسرائیل(۶۱)، کہف(۵۰)، طٰہٰ(۱۱۶)، صٓ(۷۵)۔ ملائکہ نے اپنی تسبیح و تقدیس کی بِنا پر آدم علیہ السلام کے مقابلے میں اپنی فضیلت کا دعویٰ کیا تو حق تعالیٰ نے ان کے اس دعوے کو رد فرما دیا اور امتحان لے کر ثابت کر دیا کہ ہم نے آدمؑ کو تم سے زیادہ علم بخشا ہے۔ ابلیس نے اپنے مادۂ تخلیق کو بنائے فضیلت قرار دے کر آدمؑ کی بزرگی تسلیم کرنے اور ان کے آگے سربہ سجود ہونے سے انکار کیا تو اسے ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ کر دیا گیا۔ یہ چیز ایک طرف انسان میں عزتِ نفس کا احساس پیدا کرتی ہے، اوردوسری طرف اس کے تمام جذباتِ عبودیت کو خدا پرستی کے مرکز پر سمیٹ لاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نظامِ وجود میں کوئی شے بجز حق تعالیٰ کے انسان سے افضل نہیں ہے۔ ملائکہ اگرچہ ’’عبادٌ مُّکْرَمُوْنَ‘‘ ہیں اورتمام دوسری اشیا پر فضیلت رکھتے ہیں، مگر انسان کے آگے وہ بھی سربہ سجود ہو چکے ہیں۔ پھر انسان کا مسجود، اس کا معبود، اس کا مستعان و مجیب الدعوات، حضرت حق کے سوا اور کون ہو سکتا ہے۔
اس طرح ایمان بالملائکہ کے صحیح علم و معرفت پر قائم ہو جانے سے ایمان باللّٰہ بالکل خالص اور منزّہ ہو جاتا ہے۔
ایمان بالملائکہ کا دوسرا مقصد
ملائکہ کی دوسری حیثیت جو قرآنِ مجید میں بتائی گئی ہے، یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ انھی کے ذریعے سے اپنے پیغمبروں کے پاس اپنا کلام اور اپنے احکام بھیجتا ہے، اور انھی کے ذریعے سے اس امر کا اہتمام فرماتا ہے کہ انبیا علیہم السلام کو یہ پیغام ہر آمیزش، ہر التباس، ہر اشتباہ اور ہر خارجی دخل اندازی سے پاک رہ کر پہنچ جائے۔ یہ فرشتے اول تو بجائے خود فرماں بردار اور نیک فطرت ہیں۔ ہر قسم کے بُرے رجحانات اور نفسانی اغراض سے منزہ ہیں۔ اللّٰہ سے ڈرنے والے اور اس کے حکم کی بے چون و چرا اطاعت کرنے والے ہیں۔ اسی لیے جو پیغام ان کے ذریعے سے بھیجا جاتا ہے اس میں کسی قسم کی کمی و بیشی وہ اپنی طرف سے نہیں کرتے اور نہیں کر سکتے۔ دوسرے، وہ اس قدر طاقت ور ہیں کہ ان کی پیغام رسانی اور نگرانی میں کوئی شیطانی قوت ذرہ برابر بھی خلل نہیں ڈال سکتی۔ یہ مضمون قرآن مجید میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے:
فِيْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَۃٍo مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍؚo بِاَيْدِيْ سَفَرَۃٍo كِرَامٍؚبَرَرَۃٍo
عبس 13-16:80
وہ ایسے معزز اور بلند پایہ اور پاک صحیفوں میں مندرج ہے جو بڑے ذی عزت اور نیک کاتبوں کے ہاتھوں لکھے گئے ہیں۔
اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍo ذِيْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِيْنٍo مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍo التکویر 19-21:81
بے شک وہ ایک بزرگ فرشتے کا بیان ہے جو بڑی قوت والا ہے، صاحبِ عرش کے ہاں بڑی منزلت رکھتا ہے، مطاع ہے اور وہاں کا معتبر ہے۔
عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْہِرُ عَلٰي غَيْبِہٖٓ اَحَدًاo اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًاo لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْہِمْ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًاo الجن 26-28:72
وہ (اللہ) غیب کا جاننے والا ہے اور وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا بجز اس رسول کے جسے اس نے پسند کیا ہو، پھر وہ اس کے گرد و پیش نگران فرشتے لگا دیتا ہے، تاکہ وہ اطمینان کرے کہ پیغام پہنچانے والوں نے اپنے رب کے پیغامات ٹھیک ٹھیک پہنچا دیے، اور اللّٰہ تعالیٰ ان کے اوپر محیط ہے اور ہر چیز کا شمار کرتا ہے۔
نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ النحل 102:16
اسے روح القدس (پاکیزگی کی روح) نے تیرے رب کی طرف سے ٹھیک ٹھیک نازل کیا ہے۔
وَاِنَّہٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُo الشعرائ 193:26
بے شک یہ رب العالمین کی نازل کردہ کتاب ہے جسے لے کر روح الامین(امانت دار روح) اترا ہے۔
اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌo فِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍo لَّا يَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَo تَنْزِيْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَo الواقعہ 77-80:56
بالیقین یہ معزز قرآن ہے، ایک پوشیدہ نوشتے میں لکھا ہوا، اسے پاک (فرشتوں) کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا، نازل کیا ہوا رب العالمین کی طرف سے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ایمان بالملائکہ صرف ایمان باللّٰہ ہی کے لیے نہیں بلکہ ایمان بالکتب اور ایمان بالرسل کے لیے بھی ضروری ہے۔ ملائکہ پر ایمان لانے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس ذریعے کو قابلِ اعتماد تسلیم کریں جس سے خدا کا پیغام اس کے رسولوں تک پہنچا ہے۔ اس پیغام پر اور اس کے پیش کرنے والے رسولوں پر ہمارا اعتماد مکمل نہیں ہو سکتا جب تک اس درمیانی واسطے پر بھی ہم پوری طرح اعتماد نہ کریں جو خدا اور اس کے رسولوں کے مابین کام کرتا ہے۔
تیسرا مقصد
اس کے علاوہ ملائکہ کی ایک اور حیثیت بھی قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے، اور وہ یہ ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی سلطنت کے کارندے ہیں۔ ساری کائنات کا انتظام اپنے جن ملازموں سے اللّٰہ تعالیٰ کرا رہا ہے وہ ملائکہ ہی ہیں۔ اللّٰہ کی سلطنت میں ان کا مقام گویا وہی ہے جو دنیا کی حکومتوں میں ان کی ملازمتوں (services) کا ہوتا ہے۔ انھی کے ذریعے سے وہ کسی پر عذاب نازل کرتا ہے اور کسی پر رحمت۔ کسی کی روح قبض کرتا ہے اور کسی کو زندگی بخشتا ہے۔ کسی جگہ بارش برسواتا ہے اور کہیں قحط ڈلوا دیتا ہے۔ وہ ہر انسان کے اعمال، اقوال اور خیالات تک کا پورا ریکارڈ رکھ رہے ہیں اور ایک ایک جنبش کی نگرانی کر رہے ہیں۔ آدمی جب تک خدا کی دی ہوئی مہلت کے اندر کام کر رہا ہے، یہ تمام کارکن اس کی ساری بُری بھلی باتوں سے واقف ہونے کے باوجود، امرِ الٰہی کے تحت اس کے ساتھ تعاون کرتے رہتے ہیں اور اس کے سارے کام بنائے چلے جاتے ہیں۔ مگر جوں ہی کہ اس کی مہلتِ عمل ختم ہوتی ہے، پھر وہی خادم اسے گرفتار کر لیتے ہیں جو ایک لمحہ پہلے تک اس کی خلافت کا کارخانہ چلا رہے تھے۔ وہی ہوا جس کے بل پر آدمی جی رہا تھا، یکایک اس کی بستیوں کو الٹ دیتی ہے۔ وہی پانی جس کا سینہ آدمی چیرتا پھر رہا تھا، اچانک اسے غرق کر دیتا ہے۔ وہی زمین جس پر آدمی ماں کی گود جیسے اطمینان کے ساتھ بس رہا تھا، یک لخت ایک جھٹکے میں اسے پیوندِ خاک کر دیتی ہے۔ ایک حکم کی دیر ہے، اور اس کے آتے ہی خلیفہ صاحب کا قریب ترین اردلی ان کے ہاتھ میں ہتھکڑی ڈال دیتا ہے۔ یہ نقشہ قرآن مجید میں جگہ جگہ بڑی تفصیل کے ساتھ کھینچا گیا ہے۔
اس لحاظ سے ایمان بالملائکہ، ایمان باللّٰہ کا ایک لازمی جز ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی سلطانِ کائنات کے ساتھ ساتھ اس کی ملازمتوں کو بھی تسلیم کرے۔ اس کے بغیر اس سلطنت میں آدمی نہ اپنی پوزیشن صحیح طور پر سمجھ سکتا ہے اور نہ اس پوزیشن کا پور اشعور رکھتے ہوئے کام کر سکتا ہے۔

۵۔ ایمان بالرُّسُل

حقیقتِ رسالت
توحید کے بعد اسلام کا دوسرا بنیادی عقیدہ ’’رسالت‘‘ ہے۔ جس طرح اعتقاد کی جہت میں توحید اصل دین ہے، اسی طرح اتباع کی جہت میں رسالت اصل دین ہے۔ رسالت کے لغوی معنی پیامبری کے ہیں۔ جو شخص کسی کا پیغام کسی دوسرے شخص کے پاس لے جائے وہ ’’رسول‘‘ ہے۔ مگر اسلام کی اصطلاح میں رسول اسے کہتے ہیں جو خدا کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچائے، اور خدا کے حکم سے راہِ راست کی طرف ان کی راہ نُمائی کرے۔ اسی لیے قرآن میں رسول کے لیے ’’ہادی‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے، یعنی وہ جو سیدھا راستہ دکھائے۔
خدا نے ایک رہبر تو انسان کے اپنے نفس میں مقرر کر رکھا ہے، جو الہام الٰہی کی بنا پر اچھے اور برے خیالات، غلط اور صحیح اعمال کے درمیان تمیز کرکے انسان کو فکر و عمل کا سیدھا راستہ دکھاتا ہے، جیسا کہ فرمایا:
وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىہَاo فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَاo قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىہَاo وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰـىہَاo الشمس 7-10:91
اور نفسِ انسانی اور اُس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا پھر اس کی بدی اور اُس کی پرہیزگاری اُس پر الہام کر دی، یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔
لیکن چوں کہ اس راہ نُما کی ہدایت واضح نہیں ہے، اور اس کے ساتھ بہت سی ذہنی اور خارجی قوتیں ایسی بھی لگی ہوئی ہیں جو انسان کو برے اعمال کی طرف کھینچتی رہتی ہیں، اور ان وجوہ سے تنہا اس جبلی راہ نُما کی ہدایت بے شمار ٹیڑھے راستوں میں سے حق کی سیدھی راہ نکال لینے اور اس پر بے خطر چلنے میں انسان کے لیے کافی نہیں ہوسکتی، اس لیے اللّٰہ تعالیٰ نے خارج سے اس کمی کو پورا کیا اور انسان کی طرف اپنے پیغمبر بھیجے، تاکہ وہ علم و معرفت کی روشنی سے اس باطنی راہ نُما کی امداد کریں، اور اس مبہم فطری الہام کو آیات بینات کے ذریعے سے واضح کر دیں جس کی روشنی جہالتوں اور گمراہ کن قوتوں کے ہجوم میں مدھم پڑ جاتی ہے۔
یہی منصبِ رسالت کی اصل ہے۔ جو لوگ اس منصب پر سرفراز کیے گئے ہیں، انھیں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ایک غیر معمولی علم اور نورِ بصیرت عطا کیا گیا ہے، جس سے وہ ظن و تخمین کی بِنا پر نہیں بلکہ علمِ یقین کی بِنا پر ان امور کی حقیقت جان گئے ہیں جن میں عامۃ الناس اختلاف کرتے ہیں، اور اس نورِ بصیرت سے انھوں نے ٹیڑھے راستوں میں سے حق کا سیدھا اور صاف راستہ دیکھ لیا ہے۔
رسول اورعام راہ نُمائوں کا فرق
خارجی راہ نُما کی ضرورت ہر زمانے میں انسان نے تسلیم کی ہے، کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا گیا کہ انسان کے لیے محض اس کے اپنے باطنی راہ نُما کی ہدایت کافی ہے۔ آبائواجداد، خاندان اور قبیلے اور قوم کے بزرگ، اساتذہ، اہلِ علم، مذہبی پیشوا، سیاسی لیڈر، اجتماعی مصلحین اور اسی قسم کے دوسرے لوگوں کو جن کی دانش مندی پر بھروسا کیا جا سکتا تھا، ہمیشہ راہ نُمائی کا منصب دیا گیا ہے اور ان کی تقلید کی گئی ہے۔ لیکن جو چیز ایک رسول کو ان دوسری قسم کے راہ نُمائوں سے ممتاز کرتی ہے، وہ ’’علم‘‘ ہے۔ دوسرے راہ نُمائوں کے پاس علم نہیں ہے۔ وہ محض ظن و تخمین کی بنیاد پر رائے قائم کرتے ہیں اور اس رائے میں ہوائے نفس کے عناصر بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے جو عقائد و قوانین وہ وضع کرتے ہیں، ان کے اندر حق اور باطل دونوں کی آمیزش ہوتی ہے۔ پورا پورا حق ان کے قائم کیے ہوئے طریقوں میں نہیں ہوتا۔ اسی حقیقت پر قرآن مجید بار بار متنبہ کرتا ہے:
اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَى الْاَنْفُسُ۝۰ۚ النجم 23:53
وہ جس چیز کی پیروی کرتے ہیں، وہ بجز گمان اور خواہشاتِ نفس کے اور کچھ نہیں ہے۔
وَمَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ۝۰ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ۝۰ۚ وَاِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَـيْــــًٔاo النجم 28:53
اور ان کے پاس حقیقت کا کوئی علم نہیں ہے۔ وہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں، اور گمان کا حال یہ ہے کہ وہ حق کی ضرورت کو کچھ بھی پورا نہیں کرتا۔
بَلِ اتَّبَعَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَہْوَاۗءَہُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ۝۰ۚ الروم 29:30
مگر ظالموں نے اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کی، بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی علم ہو۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًى وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍo ثَانِيَ عِطْفِہٖ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ الحج 8-9:22
اور لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو تکبر کے ساتھ منہ موڑے ہوئے اللّٰہ کے بارے میں بغیر کسی علم و ہدایت اور کتاب منیر کے جھگڑتا ہے، تاکہ اللّٰہ کے راستے سے بھٹکا دے۔
وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَيْرِ ہُدًى مِّنَ اللہِ۝۰ۭ القصص 50:28
اور اس سے بڑھ کر گم راہ کون ہو گا جس نے اللّٰہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کے بجائے اپنی خواہش کا اتباع کیا۔
بخلاف اس کے رسول کو اللّٰہ کی طرف سے ’’علم‘‘ عطا کیا جاتا ہے۔ اس کی راہ نُمائی گمان اور ہوائے نفس کی بِنا پر نہیں ہوتی، بلکہ وہ خدا کے بخشے ہوئے نورِ علم سے جس سیدھے رستے کو صاف اور واضح دیکھتا ہے اسی کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں جہاں کہیں انبیاؑ کو ’’رسالت‘‘ کے منصب پر سرفراز کرنے کا ذکر آتا ہے، وہاں یہی کہا جاتا ہے کہ انھیں ’’علم‘‘ بخشا گیا۔ مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نبوت کا اعلان اس طرح کرایا جاتا ہے:
يٰٓاَبَتِ اِنِّىْ قَدْ جَاۗءَنِيْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَاْتِكَ فَاتَّبِعْنِيْٓ اَہْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّاo
مریم 43:19
اے پدرِ عزیز! یقین جان کہ میرے پاس وہ علم آیا ہے جو تیرے پاس نہیں آتا، لہٰذا تو میری پیروی کر، میں تجھے سیدھے راستے پرچلائوں گا۔
لوط ؑ کو نبوت بخشنے کا ذکر اس طرح کیا جاتا:
وَلُوْطًا اٰتَيْنٰہُ حُكْمًا وَّعِلْمًا الانبیائ 74:21
اور لوط کو ہم نے قوتِ فیصلہ اور علم بخشا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:
وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَاسْتَوٰٓى اٰتَيْنٰہُ حُكْمًا وَّعِلْمًا۝۰ۭ القصص 14:28
اور جب وہ اپنی پوری جوانی کو پہنچا اور پورا آدمی بن گیا تو ہم نے اسے قوتِ فیصلہ اور علم عطا کیا۔
دائود و سلیمان علیہما السلام کے نبوت پر سرفراز ہونے کا ذکر بھی اسی طرح کیا جاتا ہے:
وَكُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا۝۰ۡ الانبیائ 79:21
ان میں سے ہر ایک کو ہم نے حکم اور علم عطا کیا۔
نبی عربی محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے فرمایا جاتا ہے:
وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ۝۰ۙ مَا لَكَ مِنَ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍo البقرہ 120:2
اور اگر تم نے اس علم کے بعد، جو تمھارے پاس آیا ہے، ان کی خواہشات کی پیروی کی تو اللّٰہ سے تم کوبچانے والا کوئی حامی و مددگار نہ ہو گا۔
منصبِ رسالت، اور عام راہ نُمائوں کے مقابلے میں رسول کے امتیازی مقام کی توضیح کے بعد اب ہمیں ان اصولی امور کی طرف توجہ کرنی چاہیے، جو رسالت کے بارے میں قرآن مجید نے پیش کیے ہیں۔
ایمان باللّٰہ اور ایمان بالرسل کا تعلق
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جب رسول کے پاس علم کا ایسا ذریعہ ہے جو دیگر لوگوں کو حاصل نہیں ہے، اور خدا کی طرف سے اسے بصیرت کا وہ نور عطا کیا گیا ہے جس سے عام انسان محروم ہیں، تو خدا کے بارے میں صرف وہی اعتقاد صحیح ہو سکتا ہے جو رسول نے پیش کیا ہے۔ اگر کوئی شخص خود اپنے غور و فکر یا دوسرے عقلا و حکما کی تعلیمات پر کوئی اعتقاد قائم کرے تو نہ صرف خدا کے بارے میں اس کا عقیدہ درست نہیں ہو سکتا بلکہ وہ ان دوسرے امور ماورائے طبیعت کے بارے میں بھی کوئی سچی واقفیت بہم نہیں پہنچا سکتا جو دین کے بنیادی مسائل سے تعلق رکھتے ہیں اور عام انسانی عقل کی دست رس سے باہر ہیں۔ پس جملہ ایمانیات اور معتقدات کی صحت کا کلی انحصار ایمان بالرسل پر ہے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ہم اس واسطے سے قطع تعلق کرکے علم صحیح سے دامنِ فکر کو وابستہ کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جگہ جگہ ایمان بالرسل پر زور دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَۃٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّہَا وَرُسُلِہٖ فَحَاسَبْنٰہَا حِسَابًا شَدِيْدًا۝۰ۙ وَّعَذَّبْنٰہَا عَذَابًا نُّكْرًاo فَذَاقَتْ وَبَالَ اَمْرِہَا وَكَانَ عَاقِبَۃُ اَمْرِہَا خُسْرًاo
الطلاق65:9- 8
اور کتنی ہی بستیاں ہیں جنھوں نے اپنے رب اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کی تو ہم نے ان سے سخت حساب لیا اور انھیں بڑی بُری سزا دی، جس سے انھوں نے اپنے کیے کا مزا چکھ لیا، اور آخر کار اُن کا انجام نامرادی رہا۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاللہِ وَرُسُلِہٖ وَيُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللہِ وَرُسُلِہٖ وَيَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍ۝۰ۙ وَّيُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًاo اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا۝۰ۚ وَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا مُّہِيْنًاo وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ وَلَمْ يُفَرِّقُوْا بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ اُولٰۗىِٕكَ سَوْفَ يُؤْتِيْہِمْ اُجُوْرَہُمْ۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًاo النسائ 150-152:4
جو لوگ اللّٰہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں، اور اللّٰہ اور اس کے رسولوں میں تفریق کرنا چاہتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانیں گے اور بعض سے انکار کریں گے، اور چاہتے ہیں کہ اس کے درمیان کی کوئی راہ نکال لیں، وہ یقیناً کافر ہیں۔ اور کافروں کے لیے ہم نے ایک رُسوا کُن عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ اور جو لوگ ایمان لائے اللّٰہ پر اور اس کے رسولوں پراور ان میں سے کسی کے درمیان انھوں نے تفریق نہ کی، انھیں عن قریب اللّٰہ تعالیٰ ان کے اجر عطا فرمائے گا، اور اللّٰہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْہُدٰى وَيَتَّبِـعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ۝۰ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًاo النسائ115:4
اور جو شخص ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول سے جھگڑا کرے اور ایمان لانے والوں کے راستے کو چھوڑ کر کسی اور راستے پرچلے، اسے ہم اسی راستے پر پھیر دیں گے جس پر وہ خود پھر گیا ہے، اور آخر کار اسے جہنم میں جھونک دیں گے، اور یہ بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے۔
یہ اور ایسی ہی سیکڑوں آیات ہیں جن میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ ایمان باللّٰہ اور ایمان بالرُسُل کا تعلق ناقابلِ انقطاع ہے۔ جو شخص خدا کے رسولوں کا انکار کرتا ہے اور ان کی تعلیم کو قبول نہیں کرتا، وہ چاہے خدا کو مانے یا نہ مانے، دونوں حالتوں میں اس کی گم راہی یکساں ہے، کیوں کہ خدا کے بارے میں جو اعتقاد علم کے بغیر قائم کیا جائے گا، وہ ہرگز صحیح نہ ہو گا، خواہ وہ عقیدۂ توحید ہی کیوں نہ ہو۔
وحدتِ کلمہ
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ صرف ایمان بالرُسُل ہی وہ چیز ہے جو بنی نوعِ انسان کو ایک عقیدے پر جمع کر سکتی ہے۔ اختلاف کی بِنا دراصل جہالت ہے۔ لوگ جس چیز کی حقیقت سے واقف نہ ہوں گے، اس کے متعلق گمان کی بنا پر قیاس آرائیاں کریں گے اور لامحالہ ان کے درمیان اختلاف رائے ہو گا، کیوں کہ گمان اور قیاس کی مدد سے رائے قائم کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے اندھیرے میں ٹٹولنا۔
جہاں روشنی نہ ہو گی، وہاں پچاس آدمی ایک چیز کو ٹٹول کر پچاس مختلف رائیں ظاہر کریں گے۔ مگر روشنی آنے کے بعد کوئی اختلاف باقی نہ رہے گا اور سب آنکھوں والے ایک ہی نتیجے پر متفق ہو جائیں گے۔ پس جب انبیا علیہم السلام کو ’’علم‘‘ کی نعمت اور بصیرت کے نور سے بہرہ ور کیا گیا ہے تو ممکن نہیں ہے کہ ان کی آرا میں اختلاف ہو، ان کی تعلیمات میں اختلاف ہو، یا ان کے طریقوں میں اختلاف ہو۔ اس لیے قرآن مجید کہتا ہے کہ تمام انبیا ایک ہی گروہ ہیں، سب کی تعلیم ایک ہے، سب کا دین ایک ہے، سب ایک ہی صراطِ مستقیم کی طرف بلانے والے ہیں اور مومن کے لیے سب پر ایمان لانا ضروری ہے۔ جو شخص انبیا میں سے کسی ایک نبی ؑ کی تکذیب کرے گا وہ گویا تمام انبیا کی تکذیب کا مجرم ہو گا اور اس کے دل میں ایمان باقی نہ رہے گا۔ کیوں کہ جس تعلیم کو وہ جھٹلا رہا ہے، وہ محض اس ایک نبی کی تعلیم نہیں ہے بلکہ بجنسہٖ وہی تعلیم تمام انبیا کی ہے۔
يٰٓاَيُّہَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا۝۰ۭ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌo وَاِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّــقُوْنِo فَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَيْنَہُمْ زُبُرًا۝۰ۭ كُلُّ حِزْبٍؚبِمَا لَدَيْہِمْ فَرِحُوْنَo المومنون 51-53:23
(خدا نے پیغمبروں سے فرمایا کہ) اے پیغمبرو! پاک چیزوں میں سے کھائو اور نیک عمل کرو، تم جو کچھ کرتے ہو اسے میں جانتا ہوں، اور یقیناً تمھارا گروہ دراصل ایک ہی گروہ ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس تم مجھ سے ڈرتے رہو۔ مگر بعد میں لوگوں نے آپس میں اختلاف کرکے اپنے مذہب الگ الگ بنا لیے، اور اب حال یہ ہے کہ جس گروہ کے پاس جو چیز ہے اسی پر وہ خوش ہے۔
اِنَّآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَـمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِہٖ۝۰ۚ وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓي اِبْرٰہِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْـبَاطِ وَعِيْسٰى وَاَيُّوْبَ وَيُوْنُسَ وَہٰرُوْنَ وَسُلَيْمٰنَ۝۰ۚ وَاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًاo وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰہُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَيْكَ۝۰ۭ وَكَلَّمَ اللہُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًاo النسائ 163-164:4
اے محمدؐ! ہم نے اسی طرح تمھاری طرف وحی بھیجی ہے جس طرح ہم نوحؑ اور اس کے بعد کے نبیوں کی طرف بھیج چکے ہیں، اور اسی طرح ہم نے ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ اور آلِ یعقوبؑ اور عیسیٰ ؑاور ایوبؑ اور یونس ؑ اورہارونؑ اور سلیمانؑ کی طرف وحی بھیجی اوردائود کو زبور عطا کی، اور ہم ہی نے وہ رسول بھی بھیجے جن کا حال ہم اس سے پہلے تمھیں بتا چکے ہیں اور وہ رسول بھی جن کا حال تم سے بیان نہیں کیا، اور تم سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ موسٰیسے بھی کلام کر چکا ہے۔
یہ اور ایسی ہی بہت سی آیات ظاہر کرتی ہیں کہ تمام انبیا ایک ہی دینِ حق کی طرف بلاتے آئے ہیں اور وہ ہر قوم کی طرف بھیجے جا چکے ہیں: وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلٌ۝۰ۚ یونس 47:10، وَّلِكُلِّ قَوْمٍ ہَادٍٍo الرعد13:7 ان میں سے جن نبیوں کا ذکر قرآن مجید میں تصریح کے ساتھ کیا گیا ہے ان پر تو تصریح کے ساتھ ایمان لانا ضروری ہے۔ رہے وہ انبیا و ہادیانِ امم جن کے نام ہمیں نہیں بتائے گئے ہیں، تو ان کے متعلق صحیح اعتقاد یہ ہے کہ وہ سب اسلام ہی کے داعی تھے مگر قوموں نے ان کی تعلیمات کو بدل دیا اور آپس میں اختلاف کرکے اپنے الگ الگ مذہب بنا لیے۔ ہم بدھ اور کرشن اور زردشت اور کنفیوشس وغیرہم کو نبی اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ ان کے متعلق قرآن میں تصریح نہیں ہے، لیکن ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ اللّٰہ کے رسول ہندوستان، چین، جاپان، ایران، افریقہ، یورپ اور تمام ممالک میں آئے ہیں، اور سب نے اسی اسلام کی طرف دعوت دی ہے جس کی طرف محمدؐ بلاتے ہیں۔ پس ہم کسی قوم کے پیشوایانِ مذہب کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ ان غلط طریقوں کی تکذیب کرتے ہیں جو اب اسلام کی صراطِ مستقیم سے ہٹے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ انبیا کے متعلق قرآن کی یہ تعلیم بے نظیر ہے، کسی مذہب میں ایسی تعلیم موجود نہیں ہے، یہ صداقت قرآنی کی روشن دلیل ہے اور بنی نوعِ انسان کے لیے اس میں عالم گیر اتفاق اور وحدتِ کلمہ کا ایک سکون بخش پیغام مضمر ہے۔
اتباع و اطاعتِ رسولؐ
رسالت کے اعتقاد کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف عقائد اور عبادات میں بلکہ زندگی کے تمام عملی مسائل میں بھی اس طریقے کی پیروی کی جائے جس پر خدا کے رسولؐ چلے ہیں۔ کیوں کہ خدا نے جس ’’علم‘‘ اور نورِ بصیرت سے انھیں بہرہ ور فرمایا تھا، اس سے غلط اور صحیح طریقوں کا فرق یقینی طور پر انھیں معلوم ہو جاتا تھا، اس لیے وہ جو کچھ ترک یا اختیار کرتے تھے اور جو کچھ حکم دیتے تھے وہ سب خدا کی طرف سے تھا۔ عام انسان سال ہا سال بلکہ قرن ہا قرن کے تجربات کے بعد بھی غلط اور صحیح کے امتیاز میں پوری طرح کام یاب نہیں ہوتے، اور جو تھوڑی بہت کام یابی نصیب ہو بھی جاتی ہے تو وہ یقینِ کامل کی ٹھوس بنیادوں پر قائم نہیں ہوتی، بلکہ اس کی بنا محض قیاس و استقرا پر ہوتی ہے جس میں بہرحال غلطی کا اندیشہ باقی رہتا ہے۔ بخلاف اس کے انبیا علیہم السلام نے زندگی کے معاملات میں جو طریقے اختیار کیے اور جن پر چلنے کی تعلیم دی، وہ ’’علم‘‘ کی بِنا پر اختیار کیے گئے تھے، اس لیے ان میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید بار بار انبیا کی اطاعت اور ان کے اتباع کا حکم دیتا ہے، ان کے قائم کیے ہوئے طریقے کو شریعت اور منہاج اور صراطِ مستقیم کہتا ہے اور تاکید کرتا ہے کہ تمام دوسرے لوگوں کا اتباع ترک کرکے صرف انبیا کا اتباع کرو اور انھی کے طریقے پر چلو، کیوں کہ ان کی اطاعت عین خدا کی اطاعت ہے، اور ان کا اتباع عین مرضاتِ الٰہی کا اتباع۔
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ النسائ 64:4
اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ بحکم خدا اس کی اطاعت کی جائے۔
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۝۰ۚ النسائ 80:4
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی۔
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo قُلْ اَطِيْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ۝۰ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَo آل عمران 31-32:3
اے محمدؐ! کہہ دو کہ اگر تم اللّٰہ سے محبت رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو، اللّٰہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ بخش دے گا، اللّٰہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ کہو کہ اللّٰہ اور رسول کی اطاعت کرو۔ پھر اگر وہ روگردانی کریں تو یقین رکھو کہ اللّٰہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْہُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَo وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَہُمْ لَا يَسْمَعُوْنَo اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللہِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِيْنَ لَا يَعْقِلُوْنَo الانفال 20-22:8
اے ایمان لانے والو! اللّٰہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور اس سے ہرگز روگردانی نہ کرو جب کہ تم اس کا حکم سن چکے ہو، اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جنھوں نے کہا کہ ہم نے سن لیا حالاں کہ وہ کچھ نہیں سنتے۔ اللّٰہ کے نزدیک بدترین جانور وہ بہرے گونگے ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے۔
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۝۰ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًاo الاحزاب 36:33
کسی مومن مرد اور مومن عورت کے لیے درست نہیں ہے کہ جب کسی معاملے کا فیصلہ اللّٰہ اور اس کا رسولؐ کر دے تو ان کے لیے اپنے معاملے میں خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہے، اور جس نے اللّٰہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کی وہ صریح گم راہی میں پڑگیا۔
فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا يَتَّبِعُوْنَ اَہْوَاۗءَہُمْ۝۰ۭ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَيْرِ ہُدًى مِّنَ اللہِ۝۰ۭ القصص 50:28
پھر اگر وہ تیری بات نہ مانیں تو جان لے کہ وہ محض اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کرتے ہیں، اور اس شخص سے زیادہ گم راہ کون ہو گا جس نے خدا کی ہدایت کوچھوڑ کر اپنی خواہش کی پیروی کی۔
ایسی اور بیسیوں آیات ہیں جن میں اتباع و اطاعتِ رسولؐ پر زور دیا گیا ہے۔ پھر سورۂ احزاب میں اس امر کی تصریح کر دی گئی ہے کہ رسولؐ اللّٰہ کی زندگی ان لوگوں کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ ہے جو اللّٰہ سے بخشش کی اور یومِ آخر میں کام یابی کی امید رکھتے ہیں۔
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللہَ كَثِيْرًاo الاحزاب 21:33
درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔
عقیدہ ٔرسالت کی اہمیت
اطاعت واتباع کے ان احکام کے ساتھ رسالت کا عقیدہ درحقیقت اس تہذیب کی جان، اس کی روحِ حیات اور قوتِ بقا، اور اس کے امتیازی خصائص کی بِنائے اصلی ہے جسے اسلام نے قائم کیا ہے۔
ہر تہذیب اور نظامِ تمدن میں تین چیزیں اساس کا حکم رکھتی ہیں: ایک طریق ِ فکر، دوسرے اصولِ اخلاق اور تیسرے قوانینِ مدنی۔ دنیا کی تمام تہذیبوں میں یہ تینوں چیزیں تین مختلف ذرائع سے آتی ہیں۔ طریقِ فکر ان مفکرین اور اہلِ حکمت کی تعلیمات سے ماخوذ ہوتا ہے جنھوں نے کسی نہ کسی وجہ سے بڑے بڑے انسانی گروہوں کی ذہنیت پر قابو پا لیا ہے۔ اصولِ اخلاق ان راہ نُمائوں، مصلحوں اور پیشوائوں سے لیے جاتے ہیں جنھیں مختلف زمانوں میں خاص خاص قوموں پر اقتدار حاصل ہوا ہے۔ اور قوانین ِ مدنی کے وضع کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی مہارت پر زندگی کے مختلف شعبوں میں اعتماد کیا جاتا ہے۔ اس طرح سے جو نظامِ تمدن قائم ہوتا ہے، اس میں لازمی طور پر تین بنیادی خامیاں پائی جاتی ہیں:
۱۔ ان تین مختلف ذرائع سے جو عناصر فراہم ہوتے ہیں ان سے ایک ایسی معجونِ مرکب تیار ہوتی ہے جس کا مزاج کہیں صدیوں میں جا کر قائم ہوتا ہے، اور پھر بہت سی بے ربطیاں، بے اعتدالیاں اور نامناسبتیں باقی رہ جاتی ہیں۔ مفکرین اور اہلِ حکمت بہت سے ہیں۔ سب کے طریقِ فکر جدا جدا اور ایک دوسرے سے اصلاً مختلف ہیں۔ عموماً وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کوکبھی انسانی زندگی کے عملی مسائل سے کسی قسم کا مَس نہیں رہا ہے، بلکہ ان میں سے اکثر اپنی مردم بیزاری کے لیے مشہور رہے ہیں۔ اس ماخذ سے اہلِ دنیا اپنا طریق فکر حاصل کرتے ہیں۔ دوسرا عنصر جس گروہ سے لیا جاتا ہے اس میں بھی انفرادی تخیلات و افکار اور ذہنیتوں کے اعتبار سے کافی اختلاف پایا جاتا ہے اور اگر اس گروہ میں کوئی شے مشترک ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اس کے تمام افراد تخیل کی دنیا میں رہنے والے اور پُر جوش جذباتی لوگ ہوتے ہیں جو ٹھوس عملی مسائل سے بہت ہی کم تعلق رکھتے ہیں۔ رہا تیسرا عنصر تو اس کے مآخذ بھی باہم مختلف ہیں اور ان میں یہ چیز مشترک ہے کہ جذبات لطیف کی ان کے اندر بہت کمی ہے، ضرورت سے زیادہ عملیت نے انھیں قسی القلب اور خشک بنا دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے متضاد عناصر میں صحیح اور معتدل امتزاج قائم ہونا بہت مشکل ہے اور ان کا تضاد اپنا رنگ نمایاں کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
۲۔ ان ذرائع سے جو عناصرِ ثلاثہ حاصل ہوتے ہیں، ان میں نہ طولِ حیات کی قوت ہوتی ہے، نہ توسُع کی استعداد۔ مختلف قوموں پر مختلف مفکروں، راہ نُمائوں اور مقننّوں کے اثرات پڑتے ہیں، اور ان کی وجہ سے ان کے طریق ہائے فکر، اصولِ اخلاق اور قوانینِ مدنی میں اصولی اختلافات واقع ہو جاتے ہیں۔ پھرایک قوم پر بھی تمام زمانوں میں انھی مخصوص مفکروں، راہ نُمائوں اور مقننوں کا اثر قائم نہیں رہتا جنھوں نے ابتدا میں اس پر اثر ڈالا تھا، بلکہ اختلافِ زمانہ کے ساتھ یہ مؤثر اور ان کے اثرات بدلتے رہتے ہیں۔ اس طرح تہذیبیں ایک طرف تو قومی بن جاتی ہیں، اوران کے اختلاف سے قومیّتوں کا وہ اختلاف برانگیختہ ہوتا ہے جو دراصل خرمنِ اَمن کو پھونک دینے والی بجلی کا ہیولیٰ ہے۔ دوسری طرف ہر قوم میں بھی بجائے خود تہذیب و تمدن کا نظام دائماً ایک سیمابی کیفیت میں رہتا ہے اوراس میں ایک خطِ مستقیم پر نشوونما ہونے کے بجائے ہمیشہ اساسی تغیرات واقع ہوتے رہتے ہیں، جن کا میلان کبھی ارتقا کی جانب ہوتا ہے اور کبھی انقلاب کی جانب۔
۳۔ عناصرِ ثلاثہ کے ان مبادی میں سے کسی میں بھی تقدس کا شائبہ نہیں ہوتا۔ قوم اپنے مفکرین سے جو طریقِ فکر، راہ نُمائوں سے جو اصولِ اخلاق اور واضعینِ قانون سے جو قوانینِ مدنی لیتی ہے وہ سب انسانی اجتہاد کا نتیجہ ہوتے ہیں، اور ان کے نتیجہ ٔ اجتہادِ انسانی ہونے کا خود ان کے متبعین کو بھی احساس رہتا ہے۔ اس کا لازمی اثر یہ ہے کہ اتباع کبھی کامل نہیں ہوتا۔ متبعین اپنے انتہائی اتباع کی حالت میں بھی ایمانی کیفیت سے متفق نہیں ہونے پاتے۔ وہ خود یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی تہذیب کے عناصرِ اصلیہ میں غلطی کا امکان اور اصلاح کی ضرورت ہے۔ پھر تجربات بھی رفتہ رفتہ ان کی غلطیاں ثابت کرتے رہتے ہیں، جن سے شک اور تذبذب کی حالت رونما ہو جاتی ہے۔ اس طرح کبھی کسی طریقِ فکر یا اصولِ قانون کو قوم پر اپنی پوری گرفت قائم کرنے اور نظامِ تمدن کومستحکم کردینے کا موقع نہیں ملتا۔
ایمان بالرسول کی بنیاد پر جو تہذیب قائم ہوتی ہے، وہ ان تینوں خرابیوں سے پاک ہوا کرتی ہے۔
اوّلاً ،اس میں تہذیب کے تینوں عنصر ایک ہی مبتدا سے آتے ہیں۔ ایک ہی شخص طریقِ فکر بھی مقرر کرتا ہے، اصولِ اخلاق بھی متعین کرتاہے اور قوانینِ مدنی کے اصول بھی وضع کرتا ہے۔ وہ بیک وقت دنیائے فکر، عالمِ اخلاق اور جہانِ عمل تینوں کا صدر انجمن ہوتا ہے۔ تینوں کے مسائل پر اس کی نظر یکساں رہتی ہے۔ اس میں تفکر، جذباتِ لطیف اورحکمتِ عملی تینوں کی ایک معتدل آمیزش ہوتی ہے، اور ان تینوں عنصروں میں سے ہر ایک کی مناسب مقدار لے کر وہ تہذیب کے مرکب میں اس طرح شامل کر دیتا ہے کہ کسی جز میں کمی بیشی نہیں ہوتی، اجزا میں کوئی باہم بے ربطی اور نامناسبت نہیں پائی جاتی، اور مرکب کا مزاج غایت درجہ معتدل ہوتا ہے۔ یہ امر درحقیقت انسان کی استطاعت سے بالاتر ہے۔ فاطر کائنات کی ہدایت کے بغیر اس کا انجام پانا کسی طرح ممکن نہیں۔
ثانیاً ،اس میں کوئی عنصر قومی یا زمانی نہیں ہوتا۔ خدا کا رسولؐ جو طریقِ فکر، جو اصولِ اخلاق اور اصولِ قانون مقرر کرتا ہے، وہ قومی رجحانات یا زمانی خصوصیات پر نہیں بلکہ صداقت اور حق پر مبنی ہوتے ہیں، اور حق و صداقت وہ شے ہے جو مشرق اور مغرب، سیاہ اور سپید، سامی اور آرین، قدیم اور جدید کے جملہ قیود سے بالاتر ہے۔ جوچیز سچی اور برحق ہے، وہ دنیا کے ہر گوشے، دنیا کی ہر قوم اور وقت و زمانہ کی ہر گردش میں یکساں سچی اور برحق ہے۔ آفتاب جاپان میں بھی آفتاب ہے اور جبل الطارق میں بھی۔ ہزار برس پہلے بھی آفتاب تھا اور ہزار برس بعد بھی آفتاب ہی رہے گا۔ پس اگر کوئی تہذیب عالم گیر، بشری اور دائمی تہذیب بن سکتی ہے تو وہ رسولِ خدا کی قائم کی ہوئی تہذیب ہی ہے، اور اسی میں یہ قابلیت موجود ہے کہ اپنے اصول و اساس کو بدلے بغیر ہر ملک، ہر قوم اور ہر زمانے کے مناسب ِ حال ہو سکتی ہے۔
ثالثاً، یہ تہذیب پوری تقدس کی شان لیے ہوئے ہے۔ اس کا متبع یہ اعتقاد بلکہ ایمان رکھتا ہے کہ جس نے اس تہذیب کو قائم کیا ہے، وہ خدا کا رسولؐ ہے۔ اس کے پاس خدا کا بخشا ہوا علم ہے، اس کے علم میں شک کا شائبہ تک نہیں {لَا رَیْبَ فِیْہِ}،اس کی باتوں میں نہ ظن و تخمین کو دخل ہے اور نہ ہوائے نفس کو، وہ جو کچھ پیش کرتا ہے خدا کی طرف سے پیش کرتا ہے، اس کے بھٹک جانے اور غلط راستوں پر چل نکلنے کا کوئی امکان نہیں ہے:
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰىo وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰىo اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰىo عَلَّمَہٗ شَدِيْدُ الْقُوٰىo النجم 2-5:53
وہ اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بولتا۔ یہ تو ایک وَحی ہے جو اُس پر نازل کی جاتی ہے۔ اُسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے۔
یہ یقین و ایمان جب متبع رسول کے رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے تو وہ پورے اطمینانِ قلب کے ساتھ رسول کا اتباع کرتا ہے۔ اس کے دل میں کوئی شک اور تذبذب نہیں ہوتا۔ اس کے دل میں یہ اندیشہ کبھی خلجان پیدا نہیں کرتا کہ شاید یہ طریقہ صحیح نہ ہو، کوئی اور راستہ برحق یا کم از کم اس سے زیادہ بہتر ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسی تہذیب غایت درجے پائدار ہو گی۔ اس کا اتباع نہایت مضبوط ہوگا۔ اس میں دنیوی تہذیبوں سے زیادہ ڈسپلن پایا جائے گا۔ اس کے طریقِ فکر، اصولِ اخلاق اور قوانینِ مدنی میں زیادہ استحکام ہو گا۔
انبیا علیہم السلام اسی تہذیب کے معمار تھے۔ صدیوں تک وہ دنیا کے ہر خطے میں اس کے لیے زمین تیار کرتے رہے، اور جب زمین پوری طرح تیار ہو گئی تو محمد عربی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آکر اس کی عمارت مکمل کردی۔
رسالت محمدؐی کے امتیازی خصائص
یہاں تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ رسالت کے عام احکام سے متعلق تھا، مگر ان کے علاوہ چند امور ایسے بھی ہیں جو خاص طور پر رسالت محمدؐی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ بلاشبہ نفسِ منصبِ رسالت کے لحاظ سے حضرت محمدؐ اور دوسرے انبیا میں کوئی فرق نہیں ہے، اور قرآنِ مجید کا صریح فیصلہ ہے کہ رسولوں کے درمیان کسی قسم کی تفریق جائز نہیں۔
لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ۝۰ۣ البقرہ 285:2
ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے۔
پس جہاں تک اصول کا تعلق ہے، تمام انبیا اس میں مشترک ہیں کہ سب کے سب اللّٰہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں، سب کو ’’حکم‘‘ اور ’’علم‘‘ عطا کیا گیا ہے، سب ایک ہی صراطِ مستقیم کی طرف بلانے والے ہیں، سب بنی نوعِ انسان کے ہادی و راہ نُما ہیں، سب کی اطاعت فرض اور سب کی سیرت بنی آدم کے لیے نمونۂ تقلید ہے۔ لیکن عملاً اللّٰہ تعالیٰ نے چند امور میں نبی عربی محمدﷺ کو دوسرے انبیا کے مقابلے میں ایک خاص امتیاز عطا فرمایا ہے، اور یہ امتیاز محض سطحی نہیں ہے کہ اسے ملحوظ رکھنے یا نہ رکھنے کا کوئی اثر نہ ہو، بلکہ درحقیقت اسلام کے نظام دینی میں اسے ایک اساسی حیثیت حاصل ہے، اور عملاً اسلام کے تمام معتقدات اور قوانین کی بنیاد رسالتِ محمدیؐ کی اسی امتیازی حیثیت پر قائم ہے۔ اس لیے رسالت کے متعلق کسی کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اس مخصوص امتیازی حیثیت کو ملحوظ رکھ کر محمدؐ پر ایمان نہ لائے۔
پچھلی نبوتوں اوررسالتِ محمدؐی کا فرق
اس مضمون کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے چند امور ذہن نشین کر لینے ضروری ہیں:
۱۔ اشاراتِ قرآنی، روایاتِ ماثورہ، اور قیاسِ عقلی، تینوں سے یہی مستنبط ہوتا ہے کہ انبیا علیہم السلام کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہونی چاہیے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ:
وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِيْہَا نَذِيْرٌo فاطر 24:35
کوئی امت ایسی نہیں ہوئی ہے جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ گزرا ہو۔
اور یہ ظاہر ہے کہ نوعِ بشری کی اتنی امتیں دنیا میں گزر چکی ہیں کہ تاریخ کا علم ان کا احاطہ نہ کر سکا ہے اور نہ کر سکتا ہے۔ لہٰذا ہر امت کے لیے ایک رسولؐ بھی آیا ہو تو رسولوں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہونی چاہیے۔ اسی کی تائید بعض احادیث بھی کرتی ہیں، جن میں انبیا کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تک بتائی گئی ہے۔ لیکن اس جمِ غفیر میں سے قرآن مجید میں جن انبیا کے نام بتائے گئے ہیں، ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ ان کے ساتھ اگر ہم ان پیشوایانِ اقوام کو بھی شامل کر لیں، جن کی نبوت کے متعلق کوئی اشارہ قرآن میں نہیں ہے، تب بھی یہ تعداد دہائیوں سے متجاوز نہیں ہوتی۔ اس طرح بے شمار انبیا کا نام و نشان تک مٹ جانا، اور ان کی تعلیمات کے آثار کا محو ہو جانا، اس امر کا ثبوت ہے کہ ان کی بعثت خاص زمانوں اور خاص خاص قوموں کے لیے ہوئی تھی، اور ان کے پاس کوئی ایسی شے نہ تھی جو ثبات اور دوام بخشنے اور عالم گیر وُسعت عطا کرنے کے قابل ہوتی۔
۲۔ پھر جن انبیا اور پیشوایانِ اقوام کے نام ہمیں معلوم بھی ہیں ان کے حالات اور تعلیمات پر افسانوں اور تحریفات کے اتنے پردے پڑے ہوئے ہیں کہ ان کے متعلق ہمارے علم کو ہمارے جہل سے کوئی نسبت نہیں۔ ان کے جس قدر آثار اس وقت دنیا میں موجود ہیں، انھیں ظنی اعتقاد سے قطع نظر کرکے خالص تاریخی نقد کے معیار پر جانچیے تو آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان میں کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہو۔ ہم ان کا صحیح زمانہ تک متعین نہیں کر سکتے۔ ہم ان کے صحیح ناموں تک سے ناواقف ہیں۔ ہم قطعی طور سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ فی الواقع دنیا میں موجود بھی تھے یا نہیں۔ بودھ، زردشت، اور مسیح جیسی مشہور ہستیوں کے متعلق بھی مؤرخین نے شک کیا ہے کہ آیا وہ تاریخی ہستیاں ہیں یا محض تخیلی۔ پھر ان کی سیرتوں کے متعلق جو کچھ معلومات ہمارے پاس ہیں، اتنی مجمل اور مبہم ہیں کہ زندگی کے کسی شعبے میں بھی انھیں نمونۂ تقلید نہیں بنایا جا سکتا۔ اور یہی حال ان کی تعلیمات کا ہے۔ جو کتابیں یا جو تعلیمات ان کی طرف منسوب ہیں ان میں سے کسی کی سند ان تک نہیں پہنچتی، اور نہایت قوی شہادتیں اندرونی اور بیرونی، دونوں قسم کی ایسی موجود ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ان میں بکثرت تحریفات ہوئی ہیں۔ یہ امور اس امر کا یقین کرنے کے لیے کافی ہیں کہ محمدؐ سے پہلے جتنے انبیا اور پیشوا گزرے ہیں ان کی رسالت اور پیشوائی ختم ہو چکی ہے۔
۳۔ قریب قریب تمام انبیا اور پیشوائوں کے متعلق یہ بات ثابت ہے کہ ان کی تعلیم ان مخصوص اقوام کے لیے تھی جن میں وہ آئے تھے۔ بعض نے خود اس کی تصریح کی، اور بعض کے متعلق واقعات نے اسے ثابت کر دیا۔ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت موسیٰ ؑ، کنفیوشس، زردشت، اور کرشن کی تعلیم کبھی ان کی قوم کے باہر نہیں گئی۔ یہی حال سامی اور آرین اقوام کے دوسرے رسولوں اور پیشوائوں کا ہے۔ البتہ بودھ اور مسیح کی تعلیم کو ان کے پیرووں نے دوسری اقوام تک پہنچایا، مگر خود انھوں نے کبھی نہ اس کی کوشش کی، اور نہ یہ کہا کہ ان کا پیغام تمام عالم کے لیے ہے۔ بلکہ مسیح علیہ السلام سے تو خود انجیل میں یہ قول منقول ہے کہ وہ صرف بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے آئے تھے۔
۴۔ تمام انبیا اور پیشوایانِ امم میں تنہا محمدؐ ہیں جن کی سیرت اور تعلیم کے متعلق ہمارے پاس اس قدر صحیح، مستند اور یقینی معلومات موجود ہیں کہ ان کی صحت میں شک کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ بلاخوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی کسی تاریخی شخصیت کے متعلق آج معلومات کا اتنا صحیح اور قابلِ اعتماد ذخیرہ موجود نہیں ہے، حتیٰ کہ اگر کوئی مشکّک اس کی صحت میں شک کرے تو اسے تمام دنیا کا تاریخی ذخیرہ نذرِ آتش کرنا پڑے گا، کیوں کہ اتنے مستند ذخیرے کی صحت میں شک کرنے کے بعد تو یہ ماننا لازم آتا ہے کہ تاریخ کا پورا علم جھوٹ کا ایک انبار اور اس کے ایک لفظ پر بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
۵۔ اسی طرح تمام انبیا اور پیشوائوں میں صرف محمدؐ ہیں جن کی سیرت اور زندگی کے حالات پوری تفصیل کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہیں۔ نہ صرف پیشوایانِ امم بلکہ دنیا کی تمام تاریخی شخصیتوں میں محمدؐ کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں ہے جس کی سیرت اتنی جزوی تفصیلات کے ساتھ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہو۔ آنحضرت ﷺ کے عہد اور ہمارے موجودہ عہد میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ صرف اتنا ہے کہ اس زمانے میں آنحضرت ﷺ اپنی حیاتِ جسمانی کے ساتھ موجود تھے، اور اب نہیں ہیں۔ لیکن اگر زندگی کے ساتھ جسمانی زندگی کی قید نہ لگائی جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ آج بھی زندہ ہیں، اور جب تک دنیا میں آپؐ کی سیرت موجود رہے گی اس وقت تک آپؐ زندہ رہیں گے۔ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں دنیا آج بھی آنحضرت ﷺ کی زندگی کو اتنے ہی قریب سے دیکھ سکتی ہے جتنے قریب سے آپؐ کے عہد کے لوگ دیکھ سکتے تھے۔ پس یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ انبیا اور پیشوایانِ ادیان میں سے اگر کسی کا صحیح اور مکمل طور پر اتباع کیا جا سکتا ہے تو وہ صرف محمدؐ ہیں۔
۶۔ یہی حال آنحضرت ﷺ کی تعلیم کا ہے۔ جیسا کہ اوپر کہا جا چکا ہے انبیا اور پیشوائوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کی لائی ہوئی کتاب اور جس کی پیش کی ہوئی تعلیم آج اپنی صحیح شکل میں موجود ہو، اور قابلِ یقین و اعتماد طریقے سے اپنے لانے والے اور پیش کرنے والے کی طرف منسوب کی جا سکتی ہو۔ یہ شرف تنہا محمدؐ کو حاصل ہے کہ آپؐ کی لائی ہوئی کتاب، قرآن، بعینہٖ انھی الفاظ کے ساتھ موجود ہے جن الفاظ میںآنحضرتؐ نے اسے پیش کیا تھا۔ اور قرآن کے علاوہ جو ہدایات آپؐ نے زبانِ وحی ترجمان سے دی تھیں وہ بھی قریب قریب اپنی صحیح صورت میں آج تک محفوظ ہیں اور ان شاء اللّٰہ محفوظ رہیں گی۔ پس رسولوں اور پیشوائوں میں سے اگر کسی کی تعلیم کا اتباع یقینی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے تو وہ صرف محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہیں۔
۷۔پچھلے زمانے کے انبیا اور پیشوائوں کی تعلیم اور سیرت کے متعلق جو ذخیرہ اس وقت دنیا میں موجود ہے، اس سب پر نظر ڈالی جائے۔ اس میں حق اور صداقت، خیر اور صلاح، حسنِ اخلاق اور حسنِ معاملات کے جتنے پاکیزہ نمونے آپ کو ملیں گے، وہ سب کے سب آپ محمدؐ کی تعلیم اور آپؐ کی سیرت میں پا سکتے ہیں۔ اسی طرح آپؐ کے بعد نوعِ بشری کے جتنے راہ نُما پیدا ہوئے ہیں ان کی تعلیم اور سیرت میں بھی آپ کو ایسی کوئی چیز نہ ملے گی جو حق اور صدق، نیکی اور بہتری ہو اور محمدؐ کی تعلیم اور سیرت میں موجود نہ ہو۔ پھر آنحضرت ﷺ کی تعلیم اور سیرت میں آپ کو علمِ حق، عملِ صالح اور اصولِ خیر کا ایک وافر ذخیرہ ایسا بھی ملے گا جو دنیا کے کسی اگلے اور پچھلے پیشوا کی تعلیم اور سیرت میں نہیں پایا جاتا۔ان سب پر مزید یہ کہ علمِ الٰہی اور اخلاق و معاملات دنیوی کے متعلق کوئی ایسی صحیح بات انسان سوچ نہیں سکتا جو اسلام سے باہر ہو۔ پس یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعلیم اور سیرت تمام خیرات کی جامع ہے۔ حق جو کچھ تھا وہ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ظاہر کر دیا۔ صراطِ مستقیم جس چیز کا نام تھا وہ آپؐ نے روشن کرکے دکھا دی۔ جملہ انفرادی اور اجتماعی حیثیات سے انسان کے اخلاق اور معاملات کو دُرُست رکھنے اور دنیا میں صحیح طور پر زندگی بسر کرنے کے لیے جتنے اصولِ حقہ ہو سکتے تھے وہ سب آپؐ نے واضح طور پر پیش کر دیے۔ اب ان پر کسی اضافے کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔
۸۔ انبیا اور پیشوایانِ ادیان کے پورے گروہ میں تنہا محمدؐ ہیں جنھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی دعوت تمام نوعِ انسانی کے لیے ہے، اور عملاً بھی یہی ہوا کہ آپؐ نے اپنی زندگی میں شاہانِ اقوام کو دعوت نامے بھیجے اورآپؐ کی دعوت رُوئے زمین کے ہر گوشے اور بنی آدم کی ہر قوم میں پہنچی۔ یہ خصوصیت آنحضرت ﷺ کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ بعض نے تو نہ عالم گیری کا دعویٰ کیا اور نہ انھیں عالم گیری نصیب ہوئی۔ اور بعض کے مذاہب کو عالم گیری تو نصیب ہوئی، مگر خود انھوں نے نہ اس کا کبھی دعویٰ کیا نہ اس کی کوشش کی۔ آنحضرت ﷺ کے سوا ایسا اورکوئی نہیں ہے جس نے عالم گیری کا دعویٰ بھی کیا ہو، اس کے لیے کوشش بھی کی ہو، اور جسے بالفعل عالم گیری نصیب بھی ہوئی ہو۔
۹۔ دنیا میں انبیا ؑ کی آمد کے تین ہی سبب ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ کسی قوم کی ہدایت کے لیے پہلے کوئی نبی نہ آیا ہو اور لِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ کی بِنا پر اس کے لیے ایک نبی یا ایک سے زیادہ انبیا کی ضرورت ہو۔ دوسرے یہ کہ پہلے کوئی نبی آیاتھا، مگر اس کی رسالت کے آثار محو ہو گئے، اس کی تعلیم اور اس کی لائی ہوئی کتاب میں تحریف ہو گئی، اس کی سیرت کے نشانات اس طرح مٹ گئے کہ لوگوں کے لیے اس کی پیروی کرنا اور اس کے اسوۂ حسنہ کی تقلید کرنا ممکن نہ رہا۔ تیسرے یہ کہ پہلے نبی یا انبیا کی تعلیم اور ہدایت مکمل نہ ہو اور اس میں مزید اضافے کی ضرورت ہو۔ ان تین اسباب کے سوا انبیا کی بعثت کا کوئی چوتھا سبب نہ ہے اور نہ عقلاً ہو سکتا ہے۱؎۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی قوم کے لیے نبی آ چکا ہو، اس کی تعلیم اور اس کی سیرت اپنی صحیح شکل میں محفوظ ہو،اس میں کسی اضافے کی ضرورت بھی نہ ہو، اور پھر اس کے بعد کوئی دوسرا نبی بھیج دیا جائے۔ نبوت کا منصب محض ایک فضیلت نہیں ہے کہ وہ کسی حسن عمل کے صلے میں بطور انعام دیا جاتا ہو، بلکہ وہ ایک خاص خدمت ہے جس پر ایک مخصوص کام کے لیے بضرورت کسی کو مامور کیا جاتا ہے۔ علاوہ بریں یہ منصب اتنا چھوٹا اور ادنیٰ درجے کا بھی نہیں ہے کہ کسی گزرے ہوئے نبی کی تعلیم کی طرف محض توجہ دلانے کے لیے اسے قائم کیا جائے۔ اس کام کے لیے علمائے حق اور مجددین کی جماعت بالکل کافی ہے۔ بس عقل قطعیت کے ساتھ یہ حکم لگاتی ہے کہ جب تک مندرجہ بالا اسبابِ ثلاثہ میں سے کوئی سبب داعی نہ ہو، کوئی نبی نہیں آ سکتا، اور ہمارے پچھلے بیان سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ رسالت محمدیؐ کے ساتھ یہ تینوں دواعی مرتفع ہو چکے ہیں۔ آپؐ کی دعوت تمام نوعِ بشری کے لیے ہے، لہٰذا اب جدا جدا قوموں کے لیے نبی آنے کی ضرورت نہیں۔ آپؐ کی لائی ہوئی کتاب اور آپؐ کے جملہ آثارِ رسالت اپنی صحیح شکل میں محفوظ ہیں، لہٰذا کسی نئی کتاب یا نئی ہدایت کے آنے کی بھی ضرورت نہیں۔ آپؐ کی تعلیم اور ہدایت مکمل اور جامع ہے، نہ علمِ حق میں سے کوئی چیز پوشیدہ رہ گئی ہے اور نہ عمل ِ صالح کے لیے ہدایت اور نمونۂ تقلید پیش کرنے میں کوئی کسر باقی ہے، لہٰذا اس پر کسی اضافہ کرنے والے کی بھی ضرورت نہیں۔ جب یہ تینوں دواعی موجود نہیں ہیں، اور بعثت انبیا کے دواعی انھی تین میں منحصر ہیں، تو لامحالہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ رسالتِ محمدیؐ کے بعد نبوت کا دروازہ قطعاً بند ہو چکا ہے۔ اگر اب یہ دروازہ کھلا رہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ خدا فعلِ عبث بھی کرتا ہے، حالاں کہ خدا اس سے پاک اور منزہ ہے کہ اس سے کوئی بے کار فعل صادر ہو۱؎۔
رسالتِ محمدیؐ کی یہی وہ امتیازی حیثیات ہیں جنھیں قرآنِ مجید نے پوری تفصیل و توضیح کے ساتھ پیش کیا ہے۔
دعوتِ عام
قرآن کہتا ہے کہ:
قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَيُـحْيٖ وَيُمِيْتُ۝۰۠ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَكَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَo الاعراف 158:7
اے محمدؐ! کہو کہ لوگو! میں تم سب کی طرف اس خدا کا بھیجا ہوا پیغام بر ہوں جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو زندہ کرنے اور مارنے والا ہے۔ پس ایمان لائو اللّٰہ پر اور اس کے اَن پڑھ رسول و نبی پر جو اللّٰہ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے، اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم سیدھا راستہ پائو۔
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَo
سبا 28:347
اور اے محمدؐ! ہم نے تمھیں تمام ہی انسانوں کے لیے خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، مگر اکثر لوگ اس سے ناواقف ہیں۔
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَاٰمِنُوْا خَيْرًا لَّكُمْ۝۰ۭ وَاِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ النسائ 170:4
اے لوگو! تمھارے رب کی طرف سے یہ رسول تمھارے پاس حق کے ساتھ آیا ہے، پس ایمان لائو، یہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ اور اگر کفر کرتے ہو تو خوب جان لو کہ اللّٰہ ہی آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِيْنَo الانبیائ 107:21
اے محمدؐ! ہم نے تمھیں تمام اہل عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِہٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨاo الفرقان 1:25
پاک ہے وہ جس نے حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب اپنے بندے پر اتاری، تاکہ تمام اہلِ عالم کے لیے متنبہ کرنے والا بنے۔
اس سے چند امور مستنبط ہوتے ہیں:
ایک یہ کہ محمدؐ کی دعوت کسی زمانے یا کسی قوم یا ملک کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ آپؐ ہمیشہ کے لیے تمام نوعِ بشری کے ہادی و راہ نُما ہیں۔
دوسرے یہ کہ تمام نوعِ انسانی آپؐ پر ایمان لانے اور آپؐ کا اتباع کرنے کے لیے مکلف ہے۔
تیسرے یہ کہ آپؐ پرایمان لائے بغیر اور آپؐ کا اتباع کیے بغیر ہدایت نصیب نہیں ہو سکتی۔
یہ تینوں امور ایمانیات میں داخل ہیں، کیوں کہ اسلام جس عالم گیر بشری تہذیب کا نام ہے اس کی عالم گیری اور آفاقیت اسی اعتقاد پر مبنی ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ نبی اکرمؐ کے دین سے باہر بھی ہدایت میسر آ سکتی ہے تو دعوتِ اسلام سے اس کی عمومیت سلب ہو جاتی ہے اور اسلام کی عالم گیری ختم۔
تکمیلِ دین
رسالتِ محمدی کا دوسرا امتیاز جو قرآنِ مجید نے پیش کیا ہے، یہ ہے:
ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝۰ۙ التوبہ 33:9
وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کر دے۔
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۝۰ۭ المائدہ 3:5
آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہدایت جس چیز کا نام ہے، اور دینِ حق کا اطلاق جس چیز پر ہوتا ہے، وہ بتمام و کمال رسول عربیؐ کے ذریعے سے بھیج دی گئی ہے۔ الدین (یعنی جنس دین) پر آپؐ کی رسالت کلیتاً حاوی ہو چکی ہے، آپؐ کے ذریعے سے دین کو مکمل کر دیا گیا ہے، اور ہدایت کی وہ نعمت جو پہلے انبیا کے توسط سے تھوڑی تھوڑی کرکے عطا کی جا رہی تھی، اب اتمام کو پہنچا دی گئی ہے۔ اس کے بعد ہدایت، اور دین، اور علم حق میں سے کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہی ہے جسے ظاہر کرنے کے لیے کسی اور نبی یا رسول کے آنے کی حاجت ہو۔ ان واضح الفاظ کے ساتھ جس تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمت کا اعلان کیا گیا ہے، اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ پچھلی نبوتوں کے ساتھ اطاعت اور اتباع کا تعلق منقطع ہو اور آیندہ کے لیے نبوت کا دروازہ بند ہو جائے۔ یہ دونوں اُمور یعنی نسخِ ادیانِ سابقہ اور ختمِ نبوت، رسالتِ محمدیؐ کے امتیازی خصائص ہیں اور قرآن مجید میں ان دونوں کو صاف طور پر پیش کر دیا گیا ہے۔
نسخِ ادیانِ سابقہ
نسخِ ادیانِ سابقہ سے مراد یہ ہے کہ پچھلے انبیا نے جو کچھ پیش کیا تھا وہ اب منسوخ ہو گیا۔ ان کی نبوت و صداقت پر اجمالی اعتقاد رکھنا تو ضروری ہے کیوں کہ وہ سب اسلام ہی کے داعی تھے، اور ان کی تصدیق دراصل اسلام ہی کی تصدیق ہے، لیکن عملاً اطاعت اور اتباع کا تعلق اب ان سے منقطع ہو کر صرف محمدؐ کی تعلیم اور اسوۂ حسنہ کے ساتھ وابستہ ہو گیا ہے۔ اس لیے کہ اوّل تو اصولاً کامل کے بعد ناقص کی ضرورت نہیں رہی، دوسرے انبیائے سابقین کی تعلیم اور سیرت کے آثار تحریف و نسیان کی نذر ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے عملاً ان کا صحیح اتباع ممکن نہیں رہا۔ اسی بِنا پر قرآنِ مجید میں جہاں کہیں رسول کی اطاعت اور اتباع کا حکم دیا گیا، ’’الرّسول‘‘یا ’’النّبی‘‘کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے خاص محمدؐ کی ذات مراد ہے مثلاً :
وَاَطِيْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَo آل عمران 132:3
اور اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرو، توقع ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔
اور
اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ النسائ 59:4
اطاعت کرو رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں۔
اور
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۝۰ۚ النساء80:4
جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی۔
پھر یہی وجہ ہے کہ ان قوموں کو بھی محمدؐ پر ایمان لانے اور آپؐ کا اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو انبیائے سابقین میں سے کسی کو ماننے والی ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُـبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۝۰ۥۭ قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌo يَّہْدِيْ بِہِ اللہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُـبُلَ السَّلٰمِ وَيُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِـاِذْنِہٖ وَيَہْدِيْہِمْ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍo المائدہ 15-16:5
اے اہلِ کتاب! تمھارے پاس ہمارا رسولؐ آ گیا ہے، جو تم سے بہت سی ایسی باتیں بیان کرے گا جنھیں تم کتاب میں سے چھپاتے تھے، نیز وہ بہت سی باتوں سے معاف بھی کر دے گا۔ تمھارے پاس اللّٰہ کی طرف سے روشنی اور کھول کر بیان کرنے والی کتاب آ گئی ہے، جس کے ذریعے سے اللّٰہ ان لوگوں کو جو اس کی خوش نودی کا اتباع کریں گے، سلامتی کے راستوں کی طرف ہدایت بخشے گا اور انھیں تاریکیوں سے روشنی میں نکال لائے گا اور سیدھے راستے کی طرف ان کی راہ نُمائی کرے گا۔
اور
اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَہٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِي التَّوْرٰىۃِ وَالْاِنْجِيْلِ۝۰ۡيَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہٰىہُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَہُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْہِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ۝۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَيُـحْيٖ وَيُمِيْتُ۝۰۠ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَكَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَo
الاعراف 157-158:7
اہلِ کتاب میں سے ایمان دار وہ ہیں جو اس اَن پڑھ رسول نبیؐ کا اتباع کرتے ہیں جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتا ہے، ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے، اور ان پر سے اس بوجھ اور ان بندشوں کو اتار دیتا ہے جو ان پر مسلط تھیں۔ پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اس کی حمایت اور امداد کی، اور اس نور کا اتباع کیا جو اس کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں، اے محمدؐ کہہ دیجیے کہ لوگو! میں تم سب کی طرف اس خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو زندہ کرنے اور مارنے والا ہے۔ پس ایمان لائو اللّٰہ اور اس کے اَن پڑھ رسول و نبیؐ پر جو اللّٰہ اور اس کے کلمات پر ایمان لایا ہے اور اس کی پیروی کرو، تاکہ تم سیدھا راستہ پائو۔
ان آیاتِ بینات میں نسخ ِادیانِ سابقہ کی تصریح بھی ہے، اس کے معنی بھی بتا دیے گئے ہیں، اس کی وجہ بھی ظاہر کر دی گئی ہے، اس کے منطقی نتائج سے بھی آگاہ کر دیا گیا ہے، یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اب ہدایت اور فلاح کا دامن نبی ِامیؐ ہی کے اتباع سے وابستہ ہے، اور یہ بھی سمجھا دیا گیا ہے کہ نبی ِ امیؐ کا دین دراصل اسی دین کی اصلاح اور تکمیل ہے جو تورات اور انجیل کے ماننے والوں اور دُنیا کی دوسری قوموں کے پاس بھیجا گیا تھا۔
ختمِ نبوت
اسی طرح تکمیل ِ دین کے دوسرے نتیجے، یعنی ختم نبوت کو بھی قرآنِ مجید میں بالفاظِ صریح بیان کر دیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ:
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًاo الاحزاب 40:33
محمدؐ تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللّٰہ کے رسول اور خاتم النّبیین ہیں، اور اللّٰہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔
نبوت کے سدِّباب کا یہ اتنا واضح اور کھلا ہوا اعلان ہے کہ اگر کسی کے دل میں زیغ اور کجی نہ ہو تو اس اعلان کے بعد، وہ اسلام میں نبوت کے فتح باب کی گنجائش کسی طرح نہیں نکال سکتا۔ خاتم کو خواہ بَہ تائے مفتوح پڑھیے یا بہَ تائے مکسور، دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک ہی ہے، اور وہ یہ ہے کہ نبوت کا دروازہ اس خدا کے علم میں ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے جس کے علم کے خلاف کوئی امر واقع نہیں ہو سکتا۔
عقیدۂ رسالتِ محمدیؐ کے لازمی اجزا
تکمیلِ دین، نسخِ ادیانِ سابقہ اور ختم نبوت، یہ تینوں عقیدے دراصل اسلام کے ایمانیات میں داخل، اور عقیدۂ رسالتِ محمدیؐ کے لازمی اجزا ہیں۔ اسلام کی دعوتِ اسلام اس بنیاد پر قائم ہے کہ نوعِ انسانی کے لیے دعوتِ محمدؐی کی صورت میں ایک ایسا مکمل مذہب پیش کر دیا گیا ہے جس میں پچھلی تمام دعوتوں کی کمی پوری کر دی گئی ہے، اور آیندہ کے لیے کوئی کمی ایسی نہیں چھوڑی گئی جسے پورا کرنے کی کبھی ضرورت پیش آئے۔ اس مکمل دین نے ہمیشہ کے لیے اسلام اور کفر، حق اور باطل کے درمیان ایسا متعین اور مستقل امتیاز قائم کر دیا ہے کہ اب قیامت تک اس میں کسی قسم کا گھٹائو اور بڑھائو نہیں ہو گا۔ جو کچھ اسلام اور حق ہے، اسے محمدؐ نے پیش کر دیا۔ اب اس جنس کی کوئی مزید چیز آنے والی نہیں ہے کہ آیندہ کسی زمانے میں انسان کا مسلم اور حق پرست ہونا اس نئی چیز کو تسلیم کرنے پر موقوف ہو۔ اور جس چیز کو محمدؐ نے کفر اور باطل قرار دے دیا ہے، وہ ہمیشہ کے لیے کفر اور باطل ہے، اس میں سے کوئی چیز نہ اب حق اور اسلام ہو سکتی ہے اور نہ اس کے سوا کسی دوسری چیز پر کفر اور اسلام کی نئی تفریق قائم ہو سکتی ہے۔ یہی ٹھوس اور غیر تغیر پذیر بنیاد ہے جس پر عالم گیر اور دائمی ملت و تہذیب اسلامی کی عمارت تعمیر کی گئی ہے، اور اس بنیاد پر اس کی تعمیر اسی لیے کی گئی ہے کہ تمام دنیا کے انسان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک ہی ملت، ایک ہی دین اور ایک ہی تہذیب کے اتباع پر متفق ہو سکیں۔ ایسی ملت جس کے کامل اور مستقل ہونے کا انھیں پورا یقین ہو، ایسا دین جو حق اور ہدایت پر پوری طرح حاوی ہو، حتیٰ کہ اس جنس کی کسی شے کے اس سے باہر رہ جانے کا اندیشہ نہ رہے۔ ایسی تہذیب جس کی عمارت میں کفر اور اسلام کی کسی نئی تفریق سے رخنہ پڑ جانے کا خطرہ نہ ہو۔ اسی اعتماد پر اسلام کی دعوتِ عام مبنی ہے، اور اسی پر اسلام کے دوام و استحکام کا انحصار ہے۔ جو شخص کہتا ہے کہ اسلام آ جانے کے بعد بھی اَدیانِ سابقہ کا اتباع درست ہے، وہ دراصل اسلام سے دعوتِ عام کا حق چھینتا ہے، کیوں کہ جب اسلام کے سوا دوسرے طریقوں سے بھی ہدایت ممکن ہو تو تمام اقوام و ملل کو اسلام کی طرف دعوت دینا ایک فضول حرکت ہو گی۔ اور جو شخص کہتا ہے کہ محمدؐ کی تعلیمات میں ہر زمانے کی ضروریات اور حالات کے لحاظ سے حذف و ترمیم اور اصلاح و اضافہ ہو سکتا ہے، وہ دراصل اسلام سے دوام کا حق سلب کرتا ہے، کیوں کہ جو دین ناقص ہو اور حذف و اضافے کا محتاج ہو، وہ اگر ہمیشہ کے لیے ذریعۂ ہدایت ہونے کا دعویٰ کرے تو اس کا دعویٰ جھوٹا ہو گا۔ پھر جو شخص کہتا ہے کہ اسلام میں محمدؐ کے بعد بھی انبیا کے آنے کی گنجائش ہے، وہ درحقیقت اسلام کے استحکام پر ضرب لگاتا ہے۔ نبوت کا دروازہ کھلا رہنے کے معنی یہ ہیں کہ اسلام کی جمعیت ہمیشہ پراگندگی اور تفریق کے خطرے میں مبتلا رہے۔ ہرنئے نبی کے آنے پر کفر اور اسلام کی ایک نئی تفریق ہو، اورہر ایسے موقع پر بہت سے وہ لوگ اسلام سے خارج ہوتے چلے جائیں جو خدا پر، محمدؐ پر اور قرآن پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ پس اسلام میں نبوت کا فتحِ باب درحقیقت فتنے کا فتحِ باب ہے۔ اسلام کی بیخ کنی کے جتنے اسباب ممکن ہیں، ان میں سے سب سے زیادہ مہلک اور خطرناک سبب یہ ہے کہ کوئی شخص اسلام میں نبوت کا دعویٰ کرے۔ امت ِ مسلمہ کا نظامِ جمعیت اسی بنیاد پر تو قائم کیا گیا تھا کہ جو لوگ محمدؐ اور قرآن پر ایمان لائیں وہ سب مسلم اور مومن ہیں، ایک ملت ہیں، ایک قوم ہیں، آپس میں بھائی بھائی ہیں، رنج و راحت میں ایک دوسرے کے شریک ہیں۔ اب اگر کوئی شخص آئے اور کہے کہ محمدؐ اور قرآن پر ایمان لانا کافی نہیں ہے، اس کے ساتھ مجھ پر بھی ایمان لانا ضروری ہے اور جو مجھ پر ایمان نہ لائے وہ کافر ہے اگرچہ وہ محمدؐ اورقرآن پر ایمان رکھتا ہو، پھر اسی بِنا پر وہ مسلمانوں میں کفر اور اسلام کی تفریق کرے اور قوم اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے جسے محمدؐ نے ایک قوم بنایا تھا، ان لوگوں کے درمیان برادری کے رشتے کو کاٹ کر جنھیں قرآن نے اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ الحجرات 10:49 کہہ کر بھائی بھائی بنایا تھا، ان کی نمازیں الگ کر دے، ان کے درمیان مناکحت کے تعلقات توڑ دے، حتیٰ کہ ان میں عیادت اور تعزیت اور شرکتِ جنازات کا تعلق بھی باقی نہ رکھے، تو اس سے بڑھ کر اِسلام، اِسلامی قومیت، اسلامی تہذیب، اور اِسلام کے نظامِ جماعت کا دشمن اور کون ہو سکتا ہے؟
اس بحث سے سمجھ میں آ سکتا ہے کہ رسالتِ محمدیؐ کے ساتھ تکمیلِ دین، نسخِ ادیانِ سابقہ اور ختم ِ نبوت کا اعتقاد کس قدر اہمیت رکھتا ہے، اور اسلام کے بقا و استحکام اور اس کے شیوعِ عام کے لیے اس کا داخلِ ایمان ہونا کیوں ضروری ہے۔

۶۔ ایمان بالکتب

اسلام کی اصطلاح میں ’’کتاب‘‘ سے مراد وہ کتاب ہے جو بندوں کی راہ نمائی کے لیے اللّٰہ کی طرف سے رسول پرنازل کی جاتی ہے۔ اس مفہوم کے لحاظ سے کتاب گویا اسی پیغام کا سرکاری بیان یا اسلامی اصطلاح کے مطابق ’’الٰہی کلام‘‘ ہے جسے لوگوں تک پہنچانے، اور جس کی توضیح و تشریح کرنے، اور جس کو عمل کا جامہ پہنانے کے لیے پیغمبر دنیا میں بھیجا جاتا ہے۔ یہاں اس بحث کا موقع نہیں کہ ’’کتاب‘‘ کس معنی میں اللّٰہ کا کلام ہے، اور اس کے کلام اللّٰہ ہونے کی کیفیت کیا ہے؟ یہ خالص الٰہیات کی بحث ہے جس کا اس مضمون سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمیں اس پر صرف اس پہلو سے نظر ڈالنی ہے کہ تہذیبِ اسلامی کی تاسیس میں ایمان بالکتب کا کیا حصہ ہے؟ اور اس کے لیے صرف اتنا جان لینا کافی ہے کہ پیغمبرؐ کے ذریعے سے جو تعلیم بندوں کو دینی مقصود ہے، اس کے اصول اور امہات مسائل خدا کی طرف سے پیغمبر کے دل پر القا ہوتے ہیں، اس کے الفاظ اور معانی دونوں میں پیغمبر کی اپنی عقل و فکر، اس کے ارادے، اور اس کی خواہش کا ذرّہ برابر دخل نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ لفظاً اورمعناًخدا کا کلام ہوتا ہے نہ کہ پیغمبر کی تصنیف۔ پیغمبر اس کلام کو ایک امانت دار قاصد کی حیثیت سے خدا کے بندوں تک پہنچا دیتا ہے، پھر خدا کی عطا کی ہوئی بصیرت سے اس کے معانی اور مطالب کی تشریح کرتا ہے، اور انھی الٰہی اصولوں پر اخلاق و معاشرت اور تہذیب وتمدن کا نظام قائم کرتا ہے۔ اپنی تعلیم و تلقین اور اپنی پاکیزہ سیرت سے لوگوں کے خیالات و رجحانات اورافکار میں ایک انقلاب برپا کرتا ہے۔ تقویٰ وطہارت اور پاکیزگیِ نفس اور حُسنِ عمل کی رُوح ان میں پھونکتا ہے۔ اپنی تربیت اور عملی راہ نمائی سے ان کو اس طور پر منظم کرتا ہے کہ ان سے ایک نئی سوسائٹی نئی ذہنیت، نئے افکار و خیالات، نئے آداب واطوار، اور نئے آئین و قوانین کے ساتھ وجود میں آ جاتی ہے۔ پھر وہ ان میں اللّٰہ کی کتاب اور اس کے ساتھ اپنی تعلیم اور اپنی پاکیزہ سیرت کے آثار چھوڑ جاتا ہے، جو ہمیشہ اس جماعت اور اس کے بعد آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ ہدایت کا کام دیتے ہیں۔
رسالت اور کتاب کا تعلق
’’رسالت‘‘ اور ’’کتاب‘‘ دونوں اسی ایک خدا کی طرف سے ہیں۔ دونوں ایک امرِ ربانی کے اجزا اور ایک ہی مقصد اور ایک ہی دعوت کی تکمیل کے ذریعے ہیں۔ وہی اللّٰہ کا علم اور اس کی حکمت رسول کے سینے میں بھی ہے اور کتاب کے اوراق میں بھی۔ جس تعلیم کا لفظی بیان ’’کتاب‘‘ ہے، اسی کا عملی نمونہ رسولؐ کی زندگی ہے۔
انسان کی فطرت کچھ اس طور پر واقع ہوئی ہے کہ وہ مجرد کتابی تعلیم سے کوئی غیر معمولی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اس کو علم کے ساتھ ایک انسانی معلّم اورراہ نما کی بھی حاجت ہوتی ہے جو اپنی تعلیم سے اس علم کو دلوں میں بٹھا دے اور اس کا مجسمہ بن کر اپنے عمل سے لوگوں میں وہ روح پھونک دے جو اس تعلیم کا حقیقی منشا ہے۔ آپ کو پوری انسانی تاریخ میں ایک مثال بھی ایسی نہ مل سکے گی کہ تنہا کسی کتاب نے انسانی معلم کی ہدایت اور تعلیم کے بغیر کسی قوم کی ذہنیت اور زندگی میں انقلاب پیدا کیا ہو۔ جن راہ نمائوں نے قوموں کے افکار و اعمال میں زبردست انقلاب پیدا کیے ہیں، اگر وہ خود اپنی تعلیم کے مکمل عملی نمونے بن کر نہ پیدا ہوتے، اور صرف ان کی تعلیمات اور ان کے اصول کسی کتاب کی شکل میں شائع ہو جاتے، تو انسانی فطرت کا کوئی رازدان یہ دعویٰ کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ محض اس کتاب سے وہی انقلابات رونما ہوتے جو ان راہ نمائوں کی عملی تعلیم سے ہوئے۔
دوسری طرف یہ بھی انسانی فطرت ہے کہ وہ انسانی راہ نما کے ساتھ اس کی تعلیم کا ایک مستند اور معتبر بیان بھی چاہتی ہے، خواہ وہ کاغذ پر لکھا ہوا ہو، یا سینوں میں محفوظ ہو۔ راہ نما جن اصولوں پر جماعت کے افکار و اعمال اور اخلاق و تمدن کی بِنا رکھتا ہے، وہ اگر اپنی اصلی شکل میں محفوظ نہ رہیں تو رفتہ رفتہ اس کی تعلیم کا نقش دھندلا ہوتا جاتا ہے اور اس نقش کے مٹنے کے ساتھ انفرادی سیرت اوراجتماعی نظم و آئین کی بنیادیں بھی کم زور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ آخرمیں اس جماعت کے پاس صرف افسانے رہ جاتے ہیں جن میں ایک طاقت وَر نظامِ تمدن کو سنبھالنے کی قوت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جن راہ نمائوں کی تعلیم محفوظ نہیں رہی، ان کے متبعین گمراہی میں پڑ گئے، ان کی بنائی ہوئی امت ہر قسم کے اعتقادی، فکری، عملی، اخلاقی اور تمدنی مفاسد میں مبتلا ہو گئی،اور کوئی چیز اُن کے پیچھے باقی نہیں رہی جس سے وہ صحیح اور اصلی اصول اخذ کیے جا سکیں جن پر ابتدائً اس امت کی شیرازہ بندی کی گئی تھی۔
فاطرِ کائنات اپنی مخلوق کی اس فطرت سے واقف تھا، اس لیے اس نے جب نوعِ بشری کی ہدایت کا ذمہ لیا تو اس کے لیے رسالت اور تنزیل دونوں کا سلسلہ ساتھ ساتھ جاری کیا۔ ایک طرف بہترین سیرت رکھنے والے انسانوں کو راہ نمائی کے منصب پر مقرر کیا اور دوسری طرف اپنا کلام بھی نازل کیا، تاکہ یہ دونوں چیزیں انسانی فطرت کے ان دونوں مطالبوں کو پورا کر دیں۔ اگر راہ نما کتاب کے بغیر آتے، یا کتابیں راہ نمائوں کے بغیر آتیں تو حکمت کا مقصود پورا نہ ہو سکتا۔
چراغ اور راہ نُما کی قرآنی مثال
رسالت اور کتاب کے اس تعلق کو قرآن مجید ایک تمثیلی پیرایے میں بیان کرتا ہے۔ اس نے جگہ جگہ رسول کو راہ نما اور بدرقے سے تشبیہ دی ہے جس کا کام گم راہوں کو سیدھا رستہ بتانا ہے، مثلاً:
وَجَعَلْنٰہُمْ اَىِٕمَّۃً يَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا الانبیائ 73:21
اور ہم نے اُن کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے۔
وَّلِكُلِّ قَوْمٍ ہَادٍo الرعد 7:13
اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے۔
فَاتَّبِعْنِيْٓ اَہْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّاo مریم 43:19
آپ میرے پیچھے چلیں، میں آپ کو سیدھا راستہ بتائوں گا۔
وَاَہْدِيَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰىo نازعات 19:79
اور میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو (اس کا) خوب تیرے اندر پیدا ہو؟
دوسری طرف وہ کتاب کو ’’نور‘‘ اور ’’ضیاء‘‘ اور ’’برہان‘‘ اور ’’فرقان‘‘ اور ’’منیر‘‘ اور ’’مبین‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کرتا ہے، مثلاً:
وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ۝۰ۙ الاعراف 157:7
اور اُسی روشنی کی پیروی اختیار کریں، جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے۔
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى وَہٰرُوْنَ الْـفُرْقَانَ وَضِيَاۗءً الانبیائ 48:21
پہلے ہم موسیٰ ؑ اور ہارونؑ کو فرقان اور روشنی اور (ذکر) عطا کر چکے ہیں۔
قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌo المائدہ 15:5
تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایسی حق نما کتاب۔
قَدْ جَاۗءَكُمْ بُرْہَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ النسائ 174:4
تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس دلیل روشن آگئی ہے۔
یہ تشبیہات محض شاعری نہیں ہیں بلکہ ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ان سے یہ بتانا مقصود ہے کہ معمولی انسان کو فطری عقل اور اکتسابی علم سے اتنی روشنی اور راہ نمائی حاصل نہیں ہوتی جس سے وہ حق کی سیدھی راہ پر چل سکے۔ اس اجنبی اور اندھیری منزل میں اسے ایک ایسے غیر معمولی راہ نما کی ضرورت ہے جو اس منزل کی رسم و راہ سے واقف ہو، اور ساتھ ہی اس کے ہاتھ میں ایک چراغ بھی ہو، تاکہ وہ اسے لیے ہوئے قدم قدم پر بتاتا چلے کہ یہاں گڑھا ہے، یہاں قدم پھسلتا ہے، یہاں کانٹے اور جھاڑیاں ہیں، یہاں سے دوسرے ٹیڑھے اور غلط راستے نکلتے ہیں، اور اس کے پیچھے چلنے والا انسان خود بھی اس چراغ کی روشنی میں راہ کے نشانات کو دیکھ کر، سیدھی راہ کی علامات کو پہچان کر، ٹیڑھے راستوں کے موڑوں اور نکڑوں سے واقف ہو کر، علیٰ وجہ البصیرت اس کا اقتدا کرے۔ رات کے اندھیرے میں راہ نما اور چراغ کے درمیان جو تعلق ہوتا ہے، وہی تعلق رسول اور کتاب میں بھی ہے۔ اگر ہم راہ نما کے ہاتھ سے چراغ چھین لیں اور خود اس کو لے کر چلنے لگیں تو راستے میں ہم کو بہت سے ایسے تراہے چوراہے اور متشابہ راستے ملیں گے جہاں ہمیں یا تو حیران و پریشان ہو کرٹھیر جانا ہو گا، یا ہم اس چراغ کی روشنی میں کسی غلط راستے پر چلنے لگیں گے، کیوں کہ محض چراغ کا وجود انسان کو راہ نما سے بے نیاز نہیں کرتا۔ اسی طرح اگر راہ نما کے ہاتھ میں چراغ نہ ہو تو ہم محض اندھے مقلد کی طرح اس کا دامن پکڑتے ہوئے چلیں گے اور روشنی کے بغیر ہم میں خود اتنی بصیرت پیدا نہ ہو گی کہ سیدھے راستے کو ٹیڑھے راستوں سے ممتاز کرکے دیکھ سکیں اور سیدھی راہ کے ان نازک مقامات کو بھی پہچان لیں جہاں انسان ٹھوکر کھاتا ہے یا اس کا قدم پھسل جاتا ہے۔ پس جس طرح ہم کو رات کی تاریکیوں میں اجنبی راہوں پر چلنے کے لیے ایک ایسے بدرقے کی ضرورت ہوتی ہے جو اس منزل کی رسم و راہ سے خوب واقف ہو، اور ایک مشعل کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس کی روشنی میں ہم اس راستے کو خوب پہچان سکیں، ان دونوں میں سے کسی ایک سے بھی ہم بے نیاز نہیں ہو سکتے، اسی طرح حقیقت کی اجنبی منزل میں، جہاں ہماری عقل کی روشنی تنہا کام نہیں دیتی، ہم کو رسول اورکتاب دونوں کی یکساں ضرورت ہوتی ہے، ان میں سے کسی کے اتباع کو چھوڑ کر ہم سیدھی راہ نہیں پا سکتے۔
رسول وہ ماہر بدرقہ ہے جوخدا کی دی ہوئی بصیرت سے ہدایت کی صراطِ مستقیم کوجانتا ہے اور اس منزل کی رسم و راہ سے ایسا واقف ہوتا ہے جیسا کسی راہ پر سیکڑوں مرتبہ چلا ہوا بدرقہ اس کے ہرہر قدم کی تفصیلی کیفیات سے واقف ہوا کرتا ہے۔ اس بصیرت کا نام ’’حکم‘‘ اور ’’علم‘‘ اور ’’شرحِ صدر‘‘اور ’’تعلیم الٰہی‘‘ و ’’ہدایتِ ربانی‘‘ ہے، جسے خصوصیت کے ساتھ انبیاؑ کو عطا کیے جانے کا ذکر بار بار قرآن میں آیا ہے، مثلاً
اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَo الم نشرح 1:94
(اے نبیؐ) کیا ہم نے تمھارا سینہ تمھارے لیے کھول نہیں دیا؟
وَاَنْزَلَ اللہُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ۝۰ۭ النسائ 113:4
اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تم کو وہ کچھ بتایا ہے جو تمھیں معلوم نہ تھا، اور اس کا فضل تم پر بہت ہے۔
وَكُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا الانبیائ 79:21
حالانکہ حکم اور علم ہم نے دونوں ہی کو عطا کیا تھا۔
اتَّبِعُوْا مَنْ لَّا يَسْـَٔــلُكُمْ اَجْرًا وَّہُمْ مُّہْتَدُوْنَo یٰس 21:36
پیروی کرو اُن لوگوں کی جو تم سے کوئی اجر نہیں چاہتے اور ٹھیک راستے پر ہیں۔
اور کتاب وہ روشن چراغ ہے جس کی مدد سے رسول اپنے پیرووں کو نہ صرف سیدھی راہ چلاتا ہے، بلکہ انھیں اسی نورِ علم اور روشنی فکر اور عرفانِ حق سے بہرہ مند کر دیتا ہے جو ایک بالاتر درجے میں اللّٰہ کی طرف سے خود اس کو عطا ہوا ہے، اور اپنی تعلیم و تربیت سے انھیں اس قابل بنا دیتا ہے کہ اگر وہ اس کے نقشِ قدم پر چلیں اور اس چراغ کو ہاتھ میں رکھیں تو نہ صرف خود ہدایت پائیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی راہ نما اور امام بن جائیں۔
كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ۝۰ ابراہیم 1:14
یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے تیری طرف اتارا تاکہ تو لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لائے۔
وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ يَتَفَكَّرُوْنَo
النحل 44:16
اور ہم نے تجھ پر ذکر (قرآن) اتارا تاکہ تو لوگوں کے لیے اس ہدایت کو واضح کر دے جو ان کی طرف اتاری گئی ہے، شاید کہ وہ غور و فکر کریں۔
پھر ایک بلیغ انداز میں قرآن نے یہ بھی بتا دیا کہ مادی اور جسمانی عالم میں چراغ اور راہ نما کے درمیان جو مغائرت ہے، وہ عالمِ حقیقت میں رسول اور کتاب کے درمیان نہیں ہے، بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک اتحادی رشتہ ہے۔ چنانچہ بعض جگہ جس چیز سے کتاب کوتشبیہ دی گئی ہے اسی چیز سے کسی دوسری جگہ رسول کو بھی تشبیہ دی گئی ہے، اور اسی طرح اس کے برعکس۔
يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًاo وَّدَاعِيًا اِلَى اللہِ بِـاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًاo الاحزاب 45-46:33
اے نبیؐ، ہم نے تمھیں بھیجا ہے گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر، اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر۔
میں رسول کو چراغ روشن کہا گیا ہے، اورآیۂ:
اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ يَہْدِيْ لِلَّتِيْ ھِيَ اَقْوَمُ بنی اسرائیل 9:17
حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔
میں کتاب کو راہ نما کہا گیا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ کتاب اور رسول کا تعلق حقیقتاً ناقابلِ انقطاع ہے۔ انسان کو ہدایت کے لیے دونوں کی یکساں ضرورت ہے۔ انسان جس فکری و عملی نظام اور جس تہذیب و تمدن کو قائم کرنا چاہتا ہے، اس کے قیام و استحکام، اور اس کے دائماً اپنی صحیح شکل میں رہنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ہمیشہ رسالت اورکتاب دونوں کے ساتھ اس کا تعلق برقرار رہے۔ اسی شدید ضرورت کی بِنا پررسالت اور کتاب دونوں کو الگ الگ مستقل اجزائے ایمان قرار دیا گیا اور ہر ایک پر ایمان لانے کی بار بار تاکید کی گئی۔ اگر تاکید مقصود نہ ہوتی تو ایسا کرنے کی ضرورت نہ تھی، کیوں کہ رسول کی تصدیق اس کی لائی ہوئی کتاب کی تصدیق کو متضمن ہے، اور کتاب کی تصدیق اس کے لانے والے کی تصدیق کو۔
تمام کتب ِ آسمانی پر ایمان
جہاں تک ایمان کا تعلق ہے، اسلام ان تمام کتابوں کو ماننے کا حکم دیتا ہے جو خدا کی طرف سے اس کے رسولوں پر نازل کی گئی ہیں۔ مسلمان ہونے کے لیے جس طرح تمام رسولوں اور نبیوں پر ایمان لانا ضروری ہے، اسی طرح تمام کتابوں پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ چنانچہ قرآن میں باربار کہا گیا ہے:
وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ البقرہ 4:2
اور پرہیز گار وہ ہیں جو ایمان لاتے ہیں اس کتاب پر جو تیری طرف اتاری گئی ہے اوران کتابوں پر جو تجھ سے پہلے اتاری گئی تھیں۔
كُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَكُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ۝۰ۣ البقرہ 285:2
رسولؐ اور سب مومن ایمان لائے اللّٰہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر۔
نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ آل عمران 3:3
اللّٰہ نے تجھ پر حق کے ساتھ کتاب اتاری جو تصدیق کرتی ہے ان تمام کتابوں کی جو اس سے پہلے آ چکی ہیں۔
قُلْ اٰمَنَّا بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ عَلٰٓى اِبْرٰہِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْـبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَالنَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ۝۰۠ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ۝۰ۡوَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَo آل عمران 84:3
کہہ دے کہ ہم ایمان لائے اللّٰہ پر اور اس کتاب پرجو ہم پر اتاری گئی ہے، اور ان کتابوں پر جو ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ اوراولادِ یعقوبؑ پراتاری گئی تھیں، اور جو موسیٰ ؑاور عیسیٰؑ اور دوسرے نبیوں کو ان کے پروردگار کی طرف سے دی گئی تھیں۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کرتے اور ہم اس کے تابعِ فرمان ہیں۔
اَلَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِالْكِتٰبِ وَبِمَآ اَرْسَلْنَا بِہٖ رُسُلَنَا۝۰ۣۛ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَo اِذِ الْاَغْلٰلُ فِيْٓ اَعْنَاقِہِمْ وَالسَّلٰسِلُ۝۰ۭ يُسْحَبُوْنَo فِي الْحَمِيْمِ ۥۙ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُوْنَo
المومن 70-72:40
جن لوگوں نے اس کتاب اور ان کتابوں کو جھٹلایا جن کے ساتھ ہم نے اپنے رسولوں کو بھیجا تھا، ان کو عن قریب اس کا انجام معلوم ہو جائے گا۔ جب طوق و سلاسل ان کی گردنوں میں پڑے ہوں گے اور وہ کھولتے ہوئے پانی میں گھسیٹے جائیں گے، پھر آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۝۰ۚ الحدید 25:57
بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو کھلی نشانیوں کے ساتھ بھیجا تھا اور ان کے ساتھ کتاب اتاری تھی، اور ترازو تاکہ لوگ حق پر قائم ہوں۔
اس اجمالی بیان کے ساتھ بعض کتابوں کے نام لے کر بھی ان پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے اور ان کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، مثلاً توریت کو ہدایت، نور، فرقان، ضیاء، امام اور رحمت کہا گیا ہے (القصص:۸۶)، الانبیاء(۴۸)، احقاف (۱۲)۔ اور انجیل کو بھی ہدایت، نور اور موعظت کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے (المائدہ:۴۶)۔ پس یہ بات اسلام کے اصولوں میں سے ہے کہ جن کتابوں کا ذکر تصریح کے ساتھ قرآن میں کیا گیا ہے، ان پر صراحتاً ،اور جن کا ذکر نہیں کیا گیا ہے ان پر اجمالاً ایمان لایا جائے۔ اسلامی اعتقاد کے مطابق دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں اللّٰہ کے رسول اس کی طرف سے کتابیں لے کر نہ آئے ہوں، اورجتنی کتابیں دنیا کے مختلف خطوں اور مختلف قوموں میں آئیں، وہ سب ایک ہی سرچشمے کی نہریں، ایک ہی آفتاب کی شعاعیں تھیں۔ سب اسی حق اور صداقت اور ہدایت اور نور کے ساتھ آئی تھیں جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔ اس لیے جو ’’مسلم‘‘ ہے وہ ان سب پر ایمان لاتا ہے، اورجو ان میں سے کسی ایک کی تکذیب کرتا ہے وہ سب کی تکذیب اور درحقیقت اصل سرچشمے کی تکذیب کا مجرم ہے۔
صرف قرآن کا اتباع
لیکن ایمان کے بعد جہاں سے بالفعل اتباع کی سرحد شروع ہوتی ہے، وہاں دوسری کتابوں سے تعلق منقطع کرکے صرف قرآن کے ساتھ تعلق رکھنا ضروری ہے۔ اس کے متعدد وجوہ ہیں:
اوّلاً، کتب آسمانی میں بہت سی کتابیں تو اب معدوم ہیں، اور جو پائی جاتی ہیں ان میں قرآن کے سوا کوئی کتاب اپنے اصل الفاظ اور معانی میں محفوظ نہیں ہے۔ کلامِ الٰہی کے ساتھ کلامِ انسانی لفظاً اور معناً دونوں طرح شریک ہو گیا ہے۔ ہدایت کے ساتھ گم راہی، جو خواہشاتِ نفسانی کے اتباع کا لازمی نتیجہ ہے، ان کتابوں میں مل جل گئی ہے۔ اب یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ ان میں حق کس قدر ہے اور باطل کس قدر۔ یہی حال ان کتابوں کا بھی ہے جن پر مختلف ملتیں اپنے دین کا مدار رکھتی ہیں، اور جن کے آسمانی ہونے کا شبہ کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے بعض تو ایسی ہیں جن میں منزل من اللہ ہونے کا تخیل ہی سرے سے موجود نہیں ہے۔ بعض کے متعلق یہ تک پتا نہیں چلتا کہ اگر وہ خدا کی طرف سے آئی تھیں تو کن نبیوں کے پاس آئیں اور کس زمانے میں آئیں۔ بعض کی زبانیں ایسی مردہ ہو چکی ہیں کہ آج ان کے صحیح معانی متعین کرنا مشکل ہے۔ بعض میں انسانی خواہشات اور غلط تخیلات و اوہام کی صریح آمیزش معلوم ہوتی ہے۔ بعض میں شرک، غیر اللّٰہ کی پرستش اور ایسے ہی دوسرے غلط عقائد اور اعمال کی صریح تعلیم موجود ہے جو کسی طرح حق نہیں ہو سکتی۔ ایسی کتابیں جن کا یہ حال ہو، انسان کو صحیح علم اور صحیح روشنی نہیں دے سکتیں۔ انسان ان کا اتباع کرکے گم راہی سے محفوظ نہیں ہو سکتا۔
ثانیاً، قرآن کے سوا جتنی کتابیں اس وقت موجود ہیں، عام اس سے کہ آسمانی ہوں یا ان کے متعلق آسمانی ہونے کا شبہ کیا جا سکتا ہو، ان کی تعلیمات اور ان کے احکام میں یا تو محدود نسلی قومیت کا اثر نمایاں ہے، یا مخصوص زمانی حالات کا اقتضا غالب۔ وہ ہر زمانے میں تمام نوعِ بشری کے لیے ہدایت و راہ نمائی کا نہ کبھی ذریعہ بنی ہیں اور نہ بن سکتی ہیں۔
ثالثاً، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کتابوں میں سے ہر ایک میں ایسی تعلیمات موجود ہیں جو حق اور صدق ہیں، اوران میں انسان کے اخلاق اور معاملات کی اصلاح کے لیے بعض اچھے اصول اور قوانین بھی موجود ہیں، لیکن ان میں کوئی ایک کتاب بھی ایسی نہیں ہے جو تمام خیرات کی جامع ہو، جس میں پورا حق ظاہر کر دیا گیا ہو، جو تنہا انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں اس کی صحیح راہ نمائی کر سکتی ہو۔
قرآن مجید ان تینوں خامیوں سے پاک ہے:
۱۔ وہ انھی الفاظ میں محفوظ ہے جن میں رسولؐ اللہ نے اسے پیش کیا تھا۔ اوّل روز سے سیکڑوں، ہزاروں، لاکھوں آدمیوں نے ہر زمانے میں اس کو لفظ بلفظ یاد کیا ہے، لاکھوں کروڑوں آدمیوں نے روزانہ اس کی تلاوت کی ہے، ہمیشہ اس کے نسخے ضبط کتابت میں لائے جاتے رہے ہیں، اور کبھی اس کی عبارت میں ذرّہ برابر اختلاف نہیں پایا گیا ہے۔ لہٰذا اس امر میں کسی شک و شبہ کی گنجایش نہیں ہے کہ جو قرآن نبی عربی ﷺکی زبان سے سنا گیا تھا وہی آج دنیا میں موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔ اس میں کبھی ایک لفظ کا تغیر و تبدل نہ ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔
۲۔ وہ عربی زبان میں اترا ہے جو ایک زندہ زبان ہے۔ اس کے بولنے والے اور سمجھنے والے آج کروڑوں انسان موجود ہیں، اور آج تک اس زبان کا فصیح اور معیاری لٹریچر وہی ہے جو نزولِ قرآن کے وقت تھا۔ اس کے معانی اور مطالب معلوم کرنے میں انسان کے لیے وہ دقتیں نہیں ہیں جو مردہ زبانوں کی کتابوں کے سمجھنے میں پیش آتی ہیں۔
۳۔ وہ سراسر حق، اوراز اوّل تا آخر الٰہی تعلیمات سے لبریز ہے۔ اس میں کہیں انسانی جذبات، نفسانی خواہشات، قومی یا طائفی خود غرضیوں، اور جاہلانہ گمراہیوں کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ اس کے اندر کلامِ الٰہی کے ساتھ انسانی کلام کی ذرّہ برابر آمیزش نہیں ہو سکی ہے۔
۴۔ اس میں تمام نوعِ بشری کو خطاب کیا گیا ہے اورایسے عقائد، اصولِ اخلاق اور قوانینِ عمل پیش کیے گئے ہیں جو کسی ملک و قوم اور کسی خاص زمانے کے لیے مخصوص نہیں ہیں۔ اس کی ہر تعلیم عالم گیر بھی ہے اور جاودانی بھی۔
۵۔ اس کے اندر ان تمام حقائق و معارف اور خیرات و صالحات کو جمع کر دیا گیا ہے جو اس سے پہلے آسمانی کتابوں میں بیان کیے گئے تھے۔ کسی مذہب کی کتاب سے ایسی کوئی بات نکال کر نہیں بتائی جا سکتی جو حق اور نیکی ہو اور قرآن اس کے ذکر سے خالی ہو۔ ایسی جامع کتاب کی موجودگی میں انسان آپ سے آپ دوسری تمام کتابوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔
۶۔ وہ آسمانی ہدایات اور الٰہی تعلیمات کا جدید ترین مجموعہ (Latest Edition) ہے۔ بعض ہدایات، جو پچھلی کتابوں میں مخصوص حالات کے تحت دی گئی تھیں، وہ اس میں سے نکال دی گئیں، اور بہت سی نئی تعلیمات جو پچھلی کتابوں میں نہ تھیں، اس میں اضافہ کر دی گئیں۔ لہٰذا جو شخص آبأو اجداد کا نہیں بلکہ فی الواقع خدائی ہدایت کا پیرو ہے، اس کے لیے لازم ہے کہ اسی آخری اور جدید ایڈیشن کا اتباع کرے نہ کہ پرانے ایڈیشنوں کا۔
یہی وجوہ ہیں جن کی بِنا پر اسلام نے تمام کتابوں سے اتباع کا تعلق منقطع کرکے صرف قرآن پاک کو متبوع قرار دیا ہے اور تمام دنیا کو دعوتِ دی ہے کہ وہ اسی کتاب کو اپنا دستور العمل بنائے۔
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰىكَ اللہُ۝۰ۭ النسائ 105:4
ہم نے تیری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ اتاری ہے تاکہ تو لوگوں کے درمیان اس علمِ حق کے ساتھ فیصلہ کرے جو خدا نے تجھے دیا ہے۔
فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ۝۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo الاعراف 157:7
پس جو لوگ اس نبی پرایمان لائے اور جنھوں نے اس کی مدد اور حمایت کی اور اس نور کا اتباع کیا جو اس کے ساتھ اترا ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔
اور یہی وجہ ہے کہ ان قوموں کو بھی قرآن پاک پر ایمان لانے اور اس کا اتباع کرنے کی دعوت دی گئی ہے جن کے پاس پہلے سے کوئی آسمانی کتاب موجود ہے۔ چنانچہ بار بار قرآن میں حکم دیا جاتا ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ النسائ 47:4
اے وہ لوگو جنھیں کتاب دی گئی ہے، ایمان لائو اس کتاب (قرآن) پر جسے ہم نے اتارا ہے اورجو ان کتابوں کی تصدیق کرتی ہے جو تمھارے پاس ہیں۔
يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُـبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۝۰ۥۭ قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌo يَّہْدِيْ بِہِ اللہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُـبُلَ السَّلٰمِ وَيُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِـاِذْنِہٖ وَيَہْدِيْہِمْ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍo المائدہ 15-16:5
اے کتاب والو! تمھارے پاس ہمارا رسول آ گیا ہے جو تمھارے لیے ان بہت سی چیزوں کو ظاہر کرتا ہے جنھیں تم کتاب میں سے چھپاتے تھے، اور بہت سی چیزوں سے معاف بھی کر دیتا ہے۔ تمھارے پاس اللّٰہ کی طرف سے روشنی اور کھول کر بیان کرنے والی کتاب آ گئی ہے جس کے ذریعے سے اللّٰہ ان لوگوں کو سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت بخشتا ہے جو اس کی خوش نودی کا اتباع کرتے ہیں، اور وہ اپنے اذن سے ان کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکال لاتا ہے اور سیدھے راستے کی طرف ان کی راہ نمائی کرتا ہے۔
وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ اٰيٰتٍؚبَيِّنٰتٍ۝۰ۚ وَمَا يَكْفُرُ بِہَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَo البقرہ 99:2
اور ہم نے تیری طرف واضح اور کھلی ہوئی آیتیں اتار دی ہیں، اور ان کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جو فاسق ہیں۔
قرآن کے متعلق تفصیلی عقیدہ
جو کتاب انسان کے لیے فکر و اعتقاد کی صحیح راہ نما قرار دی گئی ہو، اور جسے عملی زندگی کے لیے واجب الاتباع قانون مقرر کیا گیا ہو، اس کی پیروی اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتی جب تک کہ انسان اس کے صحیح اور برحق ہونے اور غلطیوں سے محفوظ ہونے کا پورا پورا یقین نہ رکھتا ہو۔ کیوں کہ اگر اس کی صحت کے متعلق کسی قسم کے شک نے راہ پالی تو اس پر سے اطمینان اٹھ جائے گا اور پھر جمعیت ِ خاطر کے ساتھ اس کی پیروی نہ کی جا سکے گی۔ اس ضرورت کی بِنا پر ایمان بالقرآن کے لازمی اجزا حسب ذیل ہیں جنھیں قرآن مجید میں بیان کر دیا گیا ہے:
۱۔ قرآن جس زبان میں اترا تھا اسی عبارت میں محفوظ ہے، کسی قسم کی کمی بیشی اس میں نہیں ہوئی۔ اس پر حسب ذیل آیات دلالت کرتی ہیں:
اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗo فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗo ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَہٗo
القیامہ 17-19:75
اسے جمع کرنا اور پڑھا دینا ہمارے ذمے ہے۔ پس جب ہم اسے پڑھیں، تو تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔ پھر اس کے معانی کو سمجھا دینا بھی ہمارا کام ہے۔
سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓىo اِلَّا مَا شَاۗءَ اللہُ۝۰ۭ الاعلیٰ 6-7:87
ہم تمھیں ایسا پڑھائیں گے کہ تم بھولنے نہ پائو گے، بجز اس کے جسے خدا بھلانا چاہے۔
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَo الحجر 9:15
اس ذکر (قرآن) کو ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
وَاتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ۝۰ۭۚ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِہٖ الکہف 27:18
تیری طرف تیرے رب کی کتاب سے جو کچھ وحی کیا گیا ہے اس کی تلاوت کر، اس کے کلمات کو کوئی بدلنے والا نہیں ہے۔
۲۔ قرآن کی تنزیل میں کسی شیطانی قوت کا ذرّہ برابر دخل نہیں ہے:
وَمَا تَنَزَّلَتْ بِہِ الشَّيٰطِيْنُo وَمَا يَنْۢبَغِيْ لَہُمْ وَمَا يَسْتَطِيْعُوْنَo اِنَّہُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَo الشعرائ 210-212:26
اسے لے کر شیطان نہیں اترے ہیں، نہ یہ کام ان کے کرنے کا ہے، نہ وہ اسے کر سکتے ہیں، بلکہ وہ تو وحی کے سننے سے بھی دور رکھے گئے ہیں۔
۳۔ قرآن میں خود نبیؐ کی خواہش کا بھی کوئی دخل نہیں:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰىo اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰىo النجم 3-4:53
وہ اپنے دل کی خواہش سے نہیں بول رہا ہے، بلکہ یہ جو کچھ ہے وحی ہے جو اس پر اتاری جاتی ہے۔
۴۔ قرآن میں باطل کو ہرگز کوئی راہ نہیں ملی:
وَاِنَّہٗ لَكِتٰبٌ عَزِيْزٌo لَّا يَاْتِيْہِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ۝۰ۭ تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍo حمٰ سجدہ 41-42:41
یقیناً یہ ایک محفوظ و مضبوط کتاب ہے، باطل نہ اس کے آگے سے آ سکتا ہے نہ پیچھے سے۔ یہ ایک حکیم اور سزاوارِ حمد ہستی کی اتاری ہوئی ہے۔
۵۔ قرآن سراسر حق ہے، گمان اور اندازے کی بِنا پر نہیں بلکہ علم کی بِنا پر اتارا گیا ہے، اس میں کجی اور ٹیڑھ نہیں ہے، ٹھیک ٹھیک سیدھی راہ دکھاتا ہے:
وَيَرَى الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ہُوَالْحَقَّ۝۰ۙ وَيَہْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِo سبا 6:34
اور جو لوگ علم رکھتے ہیں وہ اس کتاب کو، جو تیری طرف تیرے رب کے پاس سے اتاری گئی ہے، سمجھتے ہیں کہ یہ حق ہے اور خدائے عزیز و حمید کی طرف ہدایت کرتی ہے۔
وَلَقَدْ جِئْنٰہُمْ بِكِتٰبٍ فَصَّلْنٰہُ عَلٰي عِلْمٍ ہُدًى وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَo
الاعراف 52:7
اور ہم ان کے پاس ایک ایسی کتاب لے آئے ہیں جسے ہم نے علم کی بِناپر مومنوں کے لیے مفصل ہدایت اور رحمت بنایا ہے۔
قُلْ اَنْزَلَہُ الَّذِيْ يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ الفرقان 6:25
اے محمدؐ! کہہ دو کہ یہ کتاب اس نے اتاری ہے جو آسمانوں اور زمین کے سب راز جانتا ہے۔
ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ۝۰ۚۖۛ فِيْہِ البقرہ 2:2
یہی ایک کتاب ہے جس میں کوئی بات شک کی بِنا پرنہیں کہی گئی ہے۔
وَلَمْ يَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًاo قَيِّـمًا الکہف 1-2:18
اور خدا نے اس میں کوئی کجی نہیں رکھی۔ وہ بالکل سیدھا ہے۔
اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ يَہْدِيْ لِلَّتِيْ ھِيَ اَقْوَمُ بنی اسرائیل 9:17
اور بے شک یہ قرآن وہی راستہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھا ہے۔
۶۔ قرآن کے احکام اور اس کی تعلیمات میں رد و بدل کا حق کسی کو، حتیٰ کہ پیغمبر کو بھی نہیں ہے:
قُلْ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَاۗيِ نَفْسِيْ۝۰ۚ اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ۝۰ۚ اِنِّىْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍo یونس 15:10
اے محمدؐ! کہہ دو کہ میں اس کتاب کو اپنی طرف سے بدلنے کا حق نہیں رکھتا۔ میں تو صرف اسی وحی کا اتباع کرتا ہوں جو میری طرف اتاری جاتی ہے۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔
۷۔ جو چیز قرآن کے خلاف ہے وہ ہرگز قابلِ اتباع نہیں ہے:
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۝۰ۭ الاعراف 3:7
جو کچھ تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے اتارا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اسے چھوڑ کر دوسرے کار سازوں کی پیروی نہ کرو۔
یہ قرآن مجید کے متعلق اسلام کا تفصیلی عقیدہ ہے اور اس کے ہر جز پر اعتقاد رکھنا لازم ہے۔ جس کے عقیدے میں کسی جز کی بھی کمی ہو گی وہ قرآن کا صحیح اور کامل اتباع نہ کر سکے گا اور اس راہِ راست سے ہٹ جائے گا جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔
جامعۂ اسلامی کا سنگِ بنیاد
ایک کتاب اورایک رسول پر ایمان، اسی کا اتباع، اسی کے بنائے ہوئے سانچے میں ذہنیتوں کا ڈھل جانا، اسی ایک منبع سے تمام اعتقادات و عبادات اور اخلاق و معاملات اور جملہ مدنی قوانین کا ماخوذ ہونا، اور اسی ایمان و اطاعت اور اتباع کے رشتے میں تمام پیروانِ اسلام کا منسلک ہونا، اسلام کو ایک مستقل تہذیب اور مسلمانوں کو ہر قسم کے نسلی و لسانی اور لونی و جغرافی اختلاف کے باوجود ایک قوم بناتا ہے۔ علم و عقل، تحقیق و اجتہاد، نقطۂ نظر اور رجحانِ طبع کے فطری اختلاف سے یہ ممکن ہے کہ آیاتِ قرآنی اور سنتِ نبویؐ سے مسائل کے استنباط میں اور ان کے مفہوم و مقصود کے سمجھنے میں اختلاف واقع ہو جائے۔ لیکن ایسا اختلاف محض جزوی اور فروعی اختلاف ہے، اور یہ ان مختلف فقہی اورکلامی مذاہب کو الگ الگ دین، اور ان کے ماننے والوں کو جدا جدا قومیں نہیں بناتا۔ اصل چیز جس پر ملت اسلام کی بِنا قائم ہے، محمدؐ کو بحیثیت ِ رسولؐ خدا ہونے کے واحد مقتدا، اور قرآن کو بحیثیت کتابِ الٰہی ہونے کے واحد کتابِ آئین تسلیم کرنا اور اسی سرچشمے کو جملہ عقائد اور قوانین کا ماخذ قرار دینا ہے۔ اس اصل میں جو لوگ متفق ہیں وہ سب ایک قوم ہیں، خواہ ان کے درمیان فرعی امور میں کتنا ہی اختلاف ہو۔ اور اس اصل سے جو لوگ اختلاف رکھتے ہیں وہ سب اسلام کی نظر میں ایک دوسری قوم ہیں، خواہ وہ خود آپس میں کتنی ہی مختلف قومیّتوں میں بٹے ہوئے ہوں۔
قرآن دراصل ان تمام امور کا جامع ہے جن پر اسلام کی بِنا قائم ہے۔ جو قرآن پر ایمان لایا، وہ گویا خدا اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یومِ آخر پر بھی ایمان لے آیا۔ کیوں کہ یہ تمام ایمانیات اپنی تفصیلات کے ساتھ قرآن میں موجود ہیں اور ایمان بالقرآن کے راست اور درست ہو جانے کا یقینی ثمرہ یہی ہے کہ انسان کو پورا ایمان حاصل ہو جائے۔ اسی طرح قرآن میں شریعت اسلام کے تمام اصول اور اساسی قوانین بھی مندرج ہیں جن کو صاحبِ شریعت علیہ السلام نے اپنے قول اور اپنے عمل سے واضح اور مشرّح کر دیا ہے۔ لہٰذا جو شخص صحیح ایمان کے ساتھ قرآن اور سنت ِ رسول کو اپنی زندگی کے تمام معاملات میں واجب الاتباع قانون قرار دیتا ہے، وہ یقیناً اعتقاد اور عمل کے لحاظ سے مسلمان ہے۔ اسی ایمان اور اتباع کے مجموعے کا نام اسلام ہے۔ جہاں یہ دونوں چیزیں موجود ہوں گی وہاں اسلام بھی ہو گا اور جہاں یہ نہ ہوں گی وہاں اسلام بھی نہ ہو گا۔

۷۔ ایمان بالیوم الآخر

یوم آخر سے مراد موت کے بعد کی زندگی ہے۔ اس لیے اس کو حیاتِ آخرت اور دار ِآخرت بھی کہا گیا ہے۔ قرآن مجید کا شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جو اس دوسری زندگی کے ذکر سے خالی ہو۔ طرح طرح سے اس کو ذہن نشین کرایا گیا ہے، اس کی صداقت پر دلائل قائم کیے گئے ہیں، اس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، اس کی اہمیت جتائی گئی ہے، اس پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے، اور صاف صاف کہا گیا ہے کہ جو شخص اُخروی زندگی پر ایمان نہیں لاتا اس کے اعمال غارت ہو جاتے ہیں:
وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَلِقَاۗءِ الْاٰخِرَۃِ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ۝۰ۭ الاعراف 147:7
ہماری نشانیوں کو جس کسی نے جھٹلایا اور آخرت کی پیشی کا انکار کیا اُس کے سارے اعمال ضائع ہوگئے۔
اور
قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ اللہِ۝۰ۭ الانعام 31:6
نقصان میں پڑ گئے وہ لوگ جنھوں نے اللہ سے اپنی ملاقات کی اطلاع کو جھوٹ قرار دیا۔
حیات اُخروی کا اعتقاد جس کو اس شد و مد کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، بعض ایسے سوالات کا جواب ہے جو فطری طور پرانسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔
چند فطری سوالات
انسان خوشی سے زیادہ غم، اورراحت سے زیادہ تکلیف و مصیبت کو محسوس کرتا ہے، اور یہ کچھ فطری بات ہے کہ جو چیز انسان کے حسیات کو جتنی زیادہ ٹھیس لگاتی ہے وہ اتنی ہی زیادہ اس کی قوتِ فکر کو حرکت میں لاتی ہے۔ جب کوئی چیز ہم کو حاصل ہوتی ہے تو اس کی خوشی میں ہم یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ یہ کہاں سے آئی؟ کیوں کر آئی اور کب تک رہے گی؟ لیکن جب کوئی شے ہم سے کھوئی جاتی ہے تو اس کا صدمہ ہمارے تو سنِ فکر کو ایک تازیانہ لگا دیتا ہے اور ہم سوچنے لگتے ہیں کہ یہ کیسے کھوئی گئی؟ کہاں گئی؟ اب کہاں ہو گی؟ اور کیا یہ ہمیں کبھی پھر حاصل ہو گی یا نہیں؟ یہی وجہ ہے کہ زندگی اور اس کے آغاز کا سوال ہمارے لیے اتنی زیادہ اہمیت نہیں رکھتا جتنی اہمیت موت اور اس کے انجام کے سوال کو حاصل ہے۔ اگرچہ دنیا کی اس تماشا گاہ اور اس میں خود اپنے وجود کو دیکھ کر ہمارے دل میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ کیسا ہنگامہ ہے؟ کیسے شروع ہو گیا؟ کس نے برپا کر دیا؟ لیکن یہ سب فرصت کی باتیں ہیں اور گہری فکر رکھنے والے خواص کو چھوڑ کر عام انسان ان سوالات میں کم الجھتے ہیں۔ بخلاف اس کے موت اور اس کی تلخیوں سے ہر شخص کو دو چار ہونا پڑتا ہے، ہر شخص کی زندگی میں بہت سے مواقع ایسے آتے ہیں جب وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے عزیزوں، دوستوں اور پیاروں کو مرتے دیکھتا ہے۔ بے کس اور کم زوربھی مرتے ہیں، طاقت اور ہیبت والے بھی مرتے ہیں، حسرت ناک موتیں بھی واقع ہوتی ہیں، عبرت ناک موتیں بھی پیش آتی ہیں، اور آخر میں ہرشخص کو خود اسی راہ پر اپنے گزرنے کا یقین ہوتا ہے جس پر سب گزرے ہیں۔ ان مناظر کو دیکھ کر شاید ہی کوئی انسان دنیا میں ایسا ہو جس کے دل میں موت کے سوال نے ایک الجھن نہ پیدا کی ہو، اور جس نے اس امر پر غور نہ کیا ہو کہ یہ موت کیا ہے؟ انسان اس دروازے سے گزر کر آخر کہاں چلا جاتا ہے؟ اور اس دروازے کے پیچھے کیا ہے؟ بلکہ کچھ ہے بھی یا نہیں؟
یہ تو ایک عام سوال ہے جس پر عوام اور خواص سب نے غور کیا ہے۔ ایک معمولی کسان سے لے کر ایک بڑے فلسفی اور حکیم تک سب ہی اس میں الجھے ہیں۔ لیکن اسی ضمن میں بعض اور سوالات بھی ہیں جو قریب قریب ہر صاحبِ فکر آدمی کے دل میں کھٹکتے ہیں، اور زندگی کے بہت سے تلخ واقعات اس کھٹک کو اور زیادہ بڑھا دیتے ہیں۔ یہ چند برس کی زندگی جو ہم میں سے ہر شخص کو اس دنیا میں ملتی ہے، ہر لمحہ اور ہر آن کسی نہ کسی کام، کسی نہ کسی سعی، اور کسی نہ کسی حرکت میں بسر ہوتی ہے۔ جس کو ہم سکون سمجھتے ہیں وہ بھی ایک حرکت ہے۔ جس کو ہم بے کاری خیال کرتے ہیں وہ بھی ایک کام ہے۔ ان میں سے ہر فعل کا رد فعل، ہر حرکت کی بازگشت، ہر کوشش کا ثمرہ اور ہر سعی کا انجام ضرور ہونا چاہیے۔ نیکی کا پھل نیک اور بدی کا پھل برا ملنا لازم ہے۔ اچھی کوشش کا اچھا نتیجہ اور بری کوشش کا برا نتیجہ ظاہر ہونا ضروری ہے۔ مگر کیا ہماری تمام کوششوں کے نتائج، تمام مساعی کے ثمرات، تمام افعال کے جواب، ہماری اس زندگی میں ہمیں مل جاتے ہیں؟ ایک بدکار نے تمام عمر شرارتوں میں گزار دی۔ بعض شرارتوں کا پھل بلاشبہ اسے دنیا میں مل گیا۔ کسی شرارت نے اسے بیماری میں مبتلا کر دیا۔ کسی شرارت نے اس کو تکلیفوں اور مصیبتوں اور پریشانیوں میں پھنسا دیا۔ مگر بہت سی شرارتیں ایسی بھی تو رہ گئیں جن کا پورا پورا بدلہ اس کو دنیا میں نہ ملا۔ بہت ساری شرارتیں ایسی ڈھکی چھپی رہیں کہ ان کی وجہ سے اس کی بدنامی اور رسوائی تک نہ ہوئی، اور اگر بالفرض بدنامی ہوئی بھی تو جس غریب پر اس نے ظلم کیا تھا اس کے نقصان کی کون سی تلافی ہوئی؟ پھر کیا اس شریر کے یہ ظلم، اور مظلوموں کے صبر، سب کے سب بے نتیجہ ہی رہیں گے؟ کیا ان کا کوئی انجام کبھی ظاہر ہی نہ ہو گا؟ یہی حال نیکیوں کا بھی ہے۔ بہت سے نیک انسان عمر بھر نیکی کرتے رہے اور ان کا پورا پورا ثمرہ انھیں دنیا میں نہ ملا۔ بعض نیکیوں پران کی الٹی بدنامی اور رسوائی ہوئی۔ بعض نیکیوں پر وہ ستائے گئے۔ بعض نیکیوں پر انھیں سزائیں ملیں۔ بعض نیکیوں کا حال کبھی دنیا پر کھلا ہی نہیں۔ پھر کیا ان غریبوں کی سب نیکیاں اکارت گئیں؟ کیا اتنی سخت محنتوں اور کوششوں کا صرف اتنا ہی ثمرہ کافی ہے کہ انھیں ضمیر کا اطمینان نصیب ہو گیا؟
یہ سوال تو صرف اشخاص اور افراد سے تعلق رکھتا ہے، لیکن اس کے بعد ایک اور سوال انواع اور اجناس اور عناصر اور اس تمام عالم کے انجام سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی مرتے ہیں اور ان کی جگہ دوسرے پیدا ہو جاتے ہیں۔ درخت اور جانور سب فنا ہوتے ہیں اور ان کی جگہ دوسرے درخت اور جانور وجود میں آ جاتے ہیں۔ مگر کیامرنے اور جینے کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا؟ کیا یہ کہیں پہنچ کر ختم نہ ہو گا؟ یہ ہوا، یہ پانی، یہ زمین، یہ روشنی، یہ حرارت، اور یہ قدرتی طاقتیں جن کے ساتھ یہ کارخانۂ عالم ایک خاص ڈھنگ پرچل رہا ہے، کیا یہ سب لازوال ہیں؟ کیا ان کے لیے کوئی عمر مقرر نہیں ہے؟ کیا ان کے نظم اور ان کی ترتیب میں کبھی کوئی تغیر واقع نہ ہو گا؟
اسلام نے ان تمام سوالات کو حل کیا ہے، اور حیاتِ اُخروی کا اعتقاد دراصل انھی سوالات کا جواب ہے۔ لیکن اس حل اور اس کی صداقت اور اس کے اخلاقی و تمدنی نتائج پر بحث کرنے سے پہلے دیکھنا چاہیے کہ خود انسان نے ان سوالات کو حل کرنے کی جو کوششیں کی ہیں وہ کس حد تک کام یاب ہیں۔
حیاتِ اُخروی کا انکار
ایک جماعت کہتی ہے کہ زندگی جو کچھ بھی ہے یہی دنیا کی زندگی ہے، اور موت کے معنی بالکل فنا اور معدوم ہو جانے کے ہیں، جس کے بعد حیات، شعور، پھل، احساس اور نتائج کچھ بھی نہیں:
اِنَّ ہٰٓؤُلَاۗءِ لَيَقُوْلُوْنَo اِنْ ہِىَ اِلَّا مَوْتَـتُنَا الْاُوْلٰى وَمَا نَحْنُ بِمُنْشَرِيْنَo
الدخان 34-35:44
یہ لوگ کہتے ہیں،’’ہماری پہلی موت کے سوا اور کچھ نہیں، اُس کے بعد ہم دوبارہ اُٹھائے جانے والے نہیں ہیں۔‘‘
وَقَالُوْا مَا ہِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَنَحْيَا وَمَا يُہْلِكُنَآ اِلَّا الدَّہْرُ الجاثیہ 24:45
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش آیام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو۔‘‘
بخلاف اس کے یہ کارخانۂ عالم جس طرح چل رہا ہے یوں ہی چلتا رہے گا، اس نظام میں ایسی پائداری ہے کہ یہ کبھی درہم برہم ہونے والا نہیں ہے۔
جو لوگ ایسا کہتے ہیں وہ اس بِنا پر نہیں کہتے کہ ان کو کسی ذریعۂ علم سے بتحقیق ایسا معلوم ہو گیا ہے کہ فی الواقع موت کے بعد کچھ نہیں ہے، اور فی الواقع یہ کارخانۂ عالم لازوال ہے، بلکہ دراصل انھوں نے محض اپنے حواس پر اعتماد کیا ہے، اور یہ رائے اس لیے قائم کی ہے کہ موت کے بعد کی کوئی کیفیت انھیں محسوس نہیں ہوئی، اور نظامِ عالم کی برہمی کے کوئی آثار انھوں نے نہیں دیکھے۔ مگر کیا ہمارا کسی شے کو محسوس نہ کرنا اس کے انکار کے لیے کافی دلیل ہے؟ کیا ہمارا احساس ہی دراصل اشیا کا وجود اور ہمارا عدم احساس ہی اشیا کا عدم ہے؟ اگر ایسا ہے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ جو چیز جس وقت میرے احساس میں آتی ہے وہ دراصل اسی وقت وجود میں آتی ہے اورجب وہ میرے حواس سے غائب ہو جاتی ہے تو دراصل فنا ہو جاتی ہے۔ میں نے جس دریا کو بہتے دیکھا تھا وہ اسی وقت پیدا ہوا جب میں نے اسے بہتے دیکھا، اور جب وہ میری نظروں سے اوجھل ہو گیا تو معدوم ہو گیا۔ کیا کوئی صاحب عقل میرے اس قول کو صحیح مان لے گا؟ اگر نہیں تو کوئی صاحب عقل اس قول کو کیسے صحیح مان سکتا ہے کہ موت کے بعد کی کیفیت چوں کہ ہمارے مشاہدے اور تجربے میں نہیں آئی اس لیے موت کے بعد سرے سے کوئی کیفیت ہی نہیں ہے۔
پھر جس طرح موت اور فنا کے متعلق محض حواس پر بھروسا کرکے حکم لگانا غلط ہے اسی طرح زندگی اور بقا کے متعلق بھی جو احکام محض حواس کے بل پر لگائے جاتے ہیں ان کا کچھ اعتبار نہیں۔ اگر کارخانۂ عالم کے دائمی اور لازوال ہونے کا حکم محض اس بنا پر لگانا درست ہے کہ ہم نے اس کو درہم برہم ہوتے نہیں دیکھا تو میں بھی ایک مضبوط عمارت کو دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ یہ ہمیشہ ہمیشہ قائم رہے گی، کیوں کہ میں نے نہ اسے گرتے دیکھا ہے اور نہ اس میں کوئی بوسیدگی مجھے نظر آتی ہے جو اس کے کبھی آئندہ گرنے کی پیش گوئی کرتی ہو۔ کیا میرا یہ استدلال اربابِ عقل کی بارگاہ میں مقبول ہو گا؟
اخلاق پر انکارِ آخرت کا اثر
فلاسفہ اور حکما اب قریب قریب اس خیال پرمتفق ہو چکے ہیں کہ ایک نہ ایک دن نظامِ عالم ضرور درہم برہم ہو گا۔ عالم کی ازلیت اور ابدیت کے قدیم فلسفیانہ نظریے کو دہرانے والا شاید اہلِ علم کی جماعت میں کوئی بھی نہیں ہے۔ تاہم ابھی تک موت کو فنائے محض کہنے والے بہت سے باقی ہیں، اور ان کے اس قول کی بِنا وہی غیر معقول بات ہے جو ابھی اوپر بیان ہوئی۔ لیکن اس کی غیر معقولیت سے قطع نظر،یہ ایک حقیقت ہے کہ اس قول سے انسان کو کبھی تسلی حاصل نہیں ہو سکتی، اور بہت سے وہ سوالات جو زندگی کے معاملات کو دیکھ کر دل میں پیدا ہوتے ہیں اس قول میں تشنۂ جواب ہی رہ جاتے ہیں۔ علاوہ بریں اگر انسان کے اخلاق اور اس کی سیرت کی تعمیر اس اعتقاد پر قائم ہو تو یقیناً وہ دو حال سے خالی نہ ہو گی۔ حالات ناموافق ہوں تو اس عقیدے سے ایک شدید قسم کی مایوسی اور پست ہمتی انسان پر طاری ہو گی، کیوں کہ جب وہ اپنی نیکوکاری کا کوئی نتیجہ دنیا میں ظاہر ہوتے نہ دیکھے گا تو اس کی قوتِ عمل سرد پڑ جائے گی۔ جب وہ اپنی مظلومی کی داد رسی کا کوئی ذریعہ دنیا میں نہ پائے گا تو اس کا دل ٹوٹ جائے گا۔ اور جب وہ شریروں، بدکاروں اور ظالموں کو دنیا میں پھلتے پھولتے دیکھے گا تو خیال کرے گا کہ عالمِ ہستی میں شر ہی کا بول بالا ہے اور خیر صرف نیچا ہی دیکھنے کے لیے ہے۔ بخلاف اس کے اگر حالات موافق ہوں تو اس اعتقاد کے اثر سے انسان ایک نفس پرست حیوان بن جائے گا۔ وہ خیال کرے گا کہ جودن عیش اور لطف میں بسر ہو جائیں بس وہی غنیمت ہیں۔ اگر دنیا کی کسی لذت اور کسی لطف سے محروم رہ گئے تو پھرکوئی زندگی نہیں جس میں اس کی کسر پوری ہو۔ وہ ظلم و ستم کرے گا، لوگوں کے حقوق غصب کرے گا، اپنے فائدے اوراپنے نفس کی خواہشات کے لیے کوئی بدتر سے بدتر فعل کرنے میں بھی اس کو باک نہ ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ نیکی اور شرافت جو ایسے شخص کے تصور میں آ سکتی ہے وہ بس وہی ہے جس کے اظہار سے نیک نامی، شہرت، عزت، یا اور کسی قسم کے دنیوی فائدے حاصل ہو سکیں۔ اسی طرح وہ صرف ایسے ہی جرائم کو جرائم اور ایسے ہی گناہوں کو گناہ سمجھے گا جن کا نتیجہ کسی دنیوی سزا یا جسمانی عقوبت یا مادی نقصان کی شکل میں ظاہر ہونے کا اندیشہ ہو۔ رہیں وہ نیکیاں جن کا کوئی نفع اس دنیا میں ظاہر ہونے والا نہ ہو، تو وہ اس کے نزدیک حماقت سے کم نہ ہوں گی اور وہ برائیاں جن کا کوئی نقصان اس دنیا میں عائد ہونے والا نہ ہو، وہ اس کے نزدیک عین صواب ہوں گی۔
اگر کہیں پوری سوسائٹی کا نظامِ اخلاق اسی اعتقاد اور اسی ذہنیت پرقائم ہو تو سرے سے اس کے اخلاقی تصورات ہی بدل جائیں گے۔ اس کا پورا نظامِ اخلاق خود غرضی اورنفسانیت کی بنیاد پر تعمیر ہو گا۔ نیکی محض دنیوی فائدے کی ہم معنی ہو گی اور بدی محض دنیوی نقصان کی مترادف ہو کر رہ جائے گی۔ جھوٹ اگر دنیا میں نقصان کا موجب ہو تو گناہ ہو گا، اور فائدہ کا ذریعہ ہو تو عین صواب بن جائے گا۔ صداقت اگر دنیا میں جلبِ منفعت کا ذریعہ ہو تو نیکی ہو گی، ورنہ بصورتِ نقصان اس سے بڑھ کر کوئی بدی نہ ہو گی۔ زنا لذت اور عیش کے لیے مستحسن ہو گی، اور اس میں برائی کا پہلو اگر کبھی پیدا ہو گا بھی تو صرف اس وقت جب کہ وہ صحت کے لیے موجب ِ نقصان ہو۔ غرض جہاں اس دنیوی زندگی سے آگے کسی اچھے یا بُرے نتیجے کے مترتب ہونے کا خوف یا امید نہ ہو، وہاں انسان افعال کے صرف انھی نتائج پر نظر رکھے گا جو اس دنیا میں ظاہر ہونے والے ہیں، اور اس سے اعمال کی اخلاقی قدروں میں ایسا تغیر واقع ہو جائے گا جو ہرگز کسی مہذب انسانی سوسائٹی کے لیے سازگار نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ ایسے اخلاقی معیاروں کے ساتھ کوئی انسانی گروہ جانوروں سے بھی زیادہ بدتر درجے تک گرے بغیر نہیں رہ سکتا۔
آپ کہیں گے کہ سزا اور جزا کے لیے دنیا میں صرف مادّی وجسمانی نقصانات اور فوائد ہی نہیں بلکہ خود انسان کے اندر بھی ایک قوت موجود ہے جس کا نام ’’ضمیر‘‘ ہے۔ اس کی ملامتیں اور اس کی بے اطمینانی اس دنیا میں بدی کے لیے کافی سزا ہیں اور اس کا اطمینان انسان کے لیے نیکی کا کافی معاوضہ ہے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ اوّل تو بہت سے گناہ ایسے ہیں جن کے مادی فوائد انسان کو ضمیر کی سرزنش برداشت کرنے کے لیے آمادہ کر دیتے ہیں، اور بہت سی نیکیوں کے لیے انسان کو اتنی قربانی کرنی پڑتی ہے کہ محض ضمیر کا اطمینان ان کا پورا معاوضہ نہیں ہو سکتا۔ دوسرے اگر آپ ضمیر کی حقیقت پر غور کریں گے تو معلوم ہو گا کہ اس کا کام اخلاقی تصورات پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ جو اخلاقی تصورات ایک خاص قسم کی تعلیم و تربیت سے انسان کے ذہن میں راسخ ہو جاتے ہیں انھی کی تائید ان کا ضمیر کرنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہندو کا ضمیر جن باتوں پر سرزنش کرتا ہے، ایک مسلمان کا ضمیر ان پر سرزنش نہیں کرتا۔ پس اگر کسی سوسائٹی کے اخلاقی تصورات بدل جائیں اور خیر و شر کے معیار متغیر ہو جائیں تو ان کے ساتھ ساتھ ضمیر کا رُخ بھی پھر جائے گا،وہ نہ ان افعال پرسرزنش کرے گا جنھیں اب اس سوسائٹی نے گناہ سمجھنا چھوڑ دیا ہے، اور نہ ان افعال میں اطمینان محسوس کرے گا جنھیں اب یہ سوسائٹی نیکی ہی نہیں سمجھتی۔
نظریۂ تناسخ:
دوسری جماعت وہ ہے جس نے تناسخ کا نظریہ پیش کیا ہے۔ اس نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ موت کے معنی فنائے محض کے نہیں ہیں بلکہ محض تبدیلِ جسم کے ہیں۔ روح اس جسم سے مفارقت کرنے کے بعد کوئی دوسرا جسم اختیار کر لیتی ہے، اور وہ دوسرا جسم، یا زیادہ صحیح الفاظ میں دوسرا قالب اس قابلیت کی مناسبت سے ہوتا ہے جو انسان نے اپنی پہلی زندگی میں اپنے اعمال اور اپنے رجحانات سے بہم پہنچائی ہے۔ اگر اس کے اعمال برے رہے ہیں اور ان کے اثر سے اس کے نفس میں بری قابلیتیں پیدا ہو گئی ہیں تو اس کی روح ادنیٰ درجے کے حیوانی یا نباتی طبقات میں چلی جائے گی، اور اگر اچھے اعمال سے اچھی قابلیتیں اس نے بہم پہنچائی ہیں تو روح اعلیٰ طبقوں کی طرف ترقی کرے گی۔ غرض اس نظریے کی رُو سے جزا اور سزا جو کچھ بھی ہے، اس دنیا اور انھی اجسام کے عالم میں ہے۔ ارواح بار بار اسی دنیا میں قالب بدل بدل کر آتی ہیں، تاکہ اپنے پچھلے اعمال کے نتائج بھگتیں۔
یہ نظریہ ایک زمانے میں بہت مقبول رہا ہے۔ یونان میں مسیح ؑسے کئی صدی قبل فیثا غورث اور اَنْبِذُقُلَس وغیرہ اس کے قائل تھے۔ روم میں بھی مسیحیت سے پہلے اس کا چرچا تھا۔ مصر کی قدیم تاریخ میں بھی اس کے کچھ آثار پائے جاتے ہیں۔ یہودیوں میں بھی بیرونی اثرات سے تناسخ کا یہ عقیدہ داخل ہو گیا تھا۔ لیکن اب یہ اعتقاد یا تو ہندی الاصل مذاہب (برہمنیت، بودھ مت، جین مت وغیرہ) میں پایا جاتا ہے، یا پھر مغربی افریقہ، جنوبی افریقہ، مڈغا سکر، وسطی آسٹریلیا، انڈونیشیا، اوشیانیا و جنوبی امریکا وغیرہ کی وحشی یا نیم وحشی قوموں میں۔ باقی تمام مہذب قومیں اس کو ردّ کر چکی ہیں، کیوں کہ انسان نے اب تک علم و عقل کی ترقی سے دنیا اور اس کی زندگی کے متعلق جس قدر واقفیت بہم پہنچائی ہے، وہ ان تمام نظریات کی تردید کرتی ہے جن پر نظریۂ تناسخ کی بِنا قائم ہے۔ خود ہندی الاصل مذاہب میں بھی جب ہم اس نظریے کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قدیم ویدک ہندوستان میں یہ تخیل سرے سے موجود ہی نہ تھا۔ اس زمانے کے آریوں کا عقیدہ یہ تھا کہ مرنے کے بعد انسان کو ایک دوسری زندگی ملتی ہے جو نیکو کاروں کے لیے سراسر راحت اور بدکاروں کے لیے سراسر مصیبت ہے۔ اس کے بعد دفعتاً اس نظریے میں تغیر واقع ہوتا ہے، اور دوسرے دور کے ہندوستانی لٹریچر میں ہمیں وہ کتابیں ملتی ہیں جن میں تناسخ کا نظریہ ایک فلسفیانہ اعتقاد کی شکل میں پایا جاتا ہے۔ اس تغیر کا سبب ابھی تک متحقق نہیں ہو سکا ہے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ تخیل آریوں میں دراوڑ قوموں سے آیا ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ یہ خود آریوں کے ادنیٰ طبقوں میں موجود تھا، اور انھی سے بعد کے برہمن فلسفیوں نے اسے لے کر تخیلات اور قیاسات کی ایک پوری عمارت اس پر قائم کر دی۔ اسی طرح بودھ مذہب بھی ابتداء ً تناسخ کی اس مفصل اسکیم سے خالی تھا جو بعد کے بودھی لٹریچر میں پائی جاتی ہے۔ جہاں تک قدیم لٹریچر سے پتا چلتا ہے، ابتدا میں بودھ دھرم کا نظریہ یہ تھا کہ وجود ایک دریا ہے جو مسلسل تغیر اور انقلاب کی شان سے بہتا چلا جا رہا ہے۔ اسی تخیل نے آگے چل کر یہ صورت اختیار کی کہ تمام عالم کی ایک ہی روح اور تمام عالم میں ایک ہی وجود ہے جو صورتوں پرصورتیں اور قالبوں پر قالب بدلتا جا رہا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ابتدا میں وحی و الہام کے سرچشمے سے ہندی قوموں کو جو علم حاصل ہوا تھا اسے انھوں نے بدل کر ایک ایسا فلسفیانہ مذہب ایجاد کر لیا جو محض ان کی اپنی اپج کا نتیجہ تھا۔
عقلی تنقید
یہاں تناسخ کے مسئلے پر کسی مفصل بحث کی گنجائش نہیں ہے، مگر اس کی غلطی واضح کرنے کے لیے اتنا اشارہ کر دینا ضروری ہے کہ عقیدۂ تناسخ کی بنیاد ایسے نظریات پر ہے جو صریح عقل کے خلاف ہیں، اوران تمام علوم کے منافی ہیں جو اب تک انسان کو دنیا اور اس کی زندگی پر غور و خوض کرنے سے حاصل ہوئے ہیں۔ اہلِ تناسخ کا خیال ہے کہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا نتیجہ اسی دنیا میں اس طرح ملتا ہے کہ وہ اپنے اچھے اعمال کی بدولت زندگی کے اعلیٰ طبقات کی طرف صعود کر جاتا ہے اور برے اعمال کی بدولت ادنیٰ طبقات کی طرف اتر جاتا ہے۔ مثلاً اگر انسان نے اس زندگی میں برے عمل کیے تو وہ حیوانی اور نباتی طبقات کی طرف نزول کرے گا، اور اگر حیوان نے اپنی زندگی میں اچھے عمل کیے تو وہ انسانی طبقات کی طرف صعود کرے گا۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ حیوانی اور نباتی زندگی نتیجہ ہے انسانی زندگی کے برے اعمال کا، اور انسانی زندگی نتیجہ ہے نباتی اور حیوانی زندگی کے اچھے اعمال گا۔ بالفاظ دیگر اس وقت جو انسان ہیں وہ اس لیے انسان ہیں کہ پہلے انھوں نے نباتی اور حیوانی زندگی میںاچھے اعمال کیے تھے، اور اس وقت جو نباتات اور حیوانات ہیں وہ اس لیے ایسے ہیں کہ انھوں نے انسانی زندگی میں برے اعمال کیے تھے۔ اس نظریے کو ماننے کے لیے چند اورباتوں کا ماننا بھی ضروری ہے اور وہ سب علم و عقل کے خلاف ہیں ، مثلاً:
۱۔ تناسخ کا یہ چکر ایسا ہے جس کا کوئی آغاز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انسان ہونے کے لیے لازم ہے کہ اس سے پہلے نبات اور حیوان ہو، اور نبات اور حیوان ہونے کے لیے لازم ہے کہ ان سے پہلے انسان ہو۔ یہ کھلا ہوا تضاد ہے جسے عقل محال قرار دیتی ہے۔
۲۔ اگر تناسخ کا چکر ازلی اور ابدی ہے توماننا پڑے گا کہ نہ صرف وہ ارواح جو بار بار قالب بدلتی ہیں، بلکہ وہ مادے بھی جوان ارواح کو قالب مہیا کرتے ہیں، ازلی اور ابدی ہوں، اور یہ زمین اور یہ نظامِ شمسی اور یہ قوتیں جو اس نظام میں کام کر رہی ہیں، یہ سب بھی ازلی اور ابدی ہوں۔ لیکن عقل کا دعویٰ ہے اور علمی تحقیقات اس پر شہادت دیتی ہیں کہ ہمارا نظامِ شمسی نہ ازلی ہے اور نہ ابدی۔
۳۔ ماننا پڑے گا کہ نباتات اور حیوانات اور نوع بشری کی جتنی امتیازی خصوصیات ہیں وہ سب دراصل ان کے اجسام کے خاصے ہیں نہ کہ نفوس کے۔ اس لیے کہ جو نفس انسان کے قالب میں عقل و فکر کی قوتیں رکھتا تھا وہ حیوان کے قالب میں پہنچ کر لایعقل ہو گیا، اور نباتی قالب میں پہنچ کر اس غریب سے حرکتِ ارادی کی قوت بھی سلب ہو گئی۔
۴۔ نیک اور بد کا اطلاق دراصل ان اعمال پر ہوتا ہے جو سوچ سمجھ کر بالارادہ کیے جائیں۔ اس لحاظ سے انسان کے اعمال تو نیک اور بد ہو سکتے ہیں اور ان پر جزا و سزا مترتب ہو سکتی ہے، لیکن نباتات اور حیوانات کے اعمال پر نہ تو نیکی اور بدی کا اطلاق جائز ہے اور نہ ان پر جزا و سزا مترتب ہونے کی کوئی معقول وجہ ہے۔ ایسا حکم لگانے کے لیے یہ ماننا ضروری ہو گا کہ نباتات اور حیوانات میں بھی سوچ سمجھ کر بالارادہ فعل کرنے کی قوت ہے۔
۵۔ اگر بعد کی زندگی ہمارے موجودہ جنم کے کرموں کا پھل ہے تو ظاہر ہے کہ برے کرموں کا پھل برا ہی ہونا چاہیے اور جب دوسرے جنم میں وہ برا پھل ہم کو ملا تو یہ کیوں کر ممکن ہے کہ اس برے پھل سے نیک اعمال صادر ہوں؟ لامحالہ اس سے برے ہی اعمال صادر ہوں گے، اور پھر ان کا پھل تیسرے جنم میں اور بھی زیادہ برا ہو گا۔ اس طرح بدکار انسان کی رُوح تناسخ کے چکر میں نیچے سے نیچے طبقوں کی طرف ہی گرتی چلی جائے گی۔ اس کے پھر ابھر کر آنے کی کبھی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہوئے کہ انسان سے حیوان تو بن سکتا ہے مگر حیوان سے انسان بننا غیر ممکن ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ اس وقت انسان ہیں وہ کس حسن عمل کے نتیجے میں انسان ہوئے اور کہاں سے آئے۱؎ ؟
تمدن پر عقیدۂ تناسخ کا اثر
ان کے علاوہ اور بہت سے وجوہ ہیں جن کی بِنا پر عقل سلیم تناسخ کے اعتقاد کو قبول نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ انسان عقل اور علم میں جتنی جتنی ترقی کرتا گیا، تناسخ کا اعتقاد باطل ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ اب وہ زیادہ تر ان قوموں میں باقی رہ گیا ہے جو عقلی اور علمی ترقی میں بہت پس ماندہ ہیں۔اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تناسخ کا اعتقاد ہمتوں کو پست کرنے والا اور ترقی کی روح کو مردہ کرنے والا اعتقاد ہے۔ اسی اعتقاد سے ’’اہنسا‘‘ کا عقیدہ نکلا ہے جو انسان کی شخصی اور قومی زندگی کے لیے حد درجے مہلک ہے۔ جو قوم اس عقیدے کی قائل ہو اس کی جنگی اسپرٹ فنا ہو جاتی ہے، اس کی جسمانی قوتیں مضمحل ہو جاتی ہیں،وہ قوائے جسمانی کو نشو ونما دینے والی بہترین غذائوں سے محروم ہو جاتی ہے، اس کے افراد نہ صرف جسمانی اعتبار سے کم زور بلکہ دماغی قوتوں کے لحاظ سے بھی ضعیف ہوتے ہیں۔ اس دوسرے ضعف کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قوم مغلوب و محکوم ہو کر رہتی ہے، اور آخر کار یا تو صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہے یا دوسری طاقت ور قوموں میں جذب ہو جاتی ہے۔
عقیدۂ تناسخ کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ وہ تمدن و تہذیب کا دشمن ہے اور انسان کو رہبانیت اور ترکِ دنیا کی طرف لے جاتا ہے۔ اہلِ تناسخ کا اعتقاد ہے کہ روح کو جو چیز گناہوں سے آلودہ کرتی ہے وہ خواہش ہے۔ اسی کی بدولت روح کو بار بارجسمانی قالبوں میں آ کر اپنے اعمال کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ اگر انسان خواہشات کو پامال کردے اور اپنے آپ کو دنیا اور اس کے دھندوں میں نہ پھنسائے تو اس کی روح کو آواگون کے چکر سے نجات مل سکتی ہے، اور نجات کی بس یہی ایک صورت ہے کیوں کہ دنیوی زندگی کے معاملات میں پھنسنے کے بعد انسان کا خواہشات اور ان کے مقتضیات سے بچ جانا محال ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ جو لوگ نجات کے طالب ہوں وہ سنیاسی بن کر جنگلوں اور پہاڑوں میں جا بیٹھیں، اور جو ایسا نہ کریں وہ نجات سے مایوس ہو کر جانوروں اور درختوں کے طبقات میں جانے کے لیے مستعد ہو جائیں۔ کیا یہ تخیل تمدن و تہذیب کی ترقی میں کسی طرح مددگار ہو سکتا ہے؟ اور کیا کوئی قوم یہ اعتقاد رکھ کر دنیا میں ترقی کر سکتی ہے؟
اس میں شک نہیں کہ بعض حیثیات سے تناسخ کا اعتقاد کم از کم اس سے بہتر ہے کہ موت کو فنائے محض اور عدمِ مطلق سمجھا جائے۔ کیوں کہ انسان میں بقائے دوام کی جو ایک فطری خواہش ہے وہ تناسخ میں ایک حد تک تسکین پا سکتی ہے، اور اس کے ساتھ اس عقیدے میں جزا و سزا اور اعمال کے اچھے اور بُرے انجام کا جو تخیل موجود ہے، اس کی بِنا پر یہ ایک اچھے اور مضبوط اخلاقی قانون کے لیے پُشت پناہ بھی بن سکتا ہے۔ لیکن اوّل تو یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے جس کی طرف ہم بار بار اشارہ کر چکے ہیں کہ جو عقیدہ عقل اور علم کے خلاف اور تمدن و تہذیب کی ترقی میں مانع و مزاحم ہو، اس کی گرفت انسان کے دل ودماغ پر کبھی ایسی مضبوط نہیں ہو سکتی کہ وہ علمی و عقلی ارتقا کے ہر مرتبے اور ترقی ِ تہذیب و تمدن کے ہر مرحلے میں یکساں قوت کے ساتھ قائم رہ سکے۔ اور جب اس کی گرفت قائم ہی نہیں رہ سکتی تو اس عقیدے کا محض کتابوں میں ایک فلسفیانہ نظریے کی حیثیت سے موجود رہنا نظامِ اخلاق کے بقا و استحکام کے لیے کچھ بھی نافع نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ وہ تو اس صورت میں نافع ہو گا جب کہ وہ کتابوں کے بجائے دلوں میں متمکن ہو اور لوگ پوری طرح اس پر اعتقاد رکھتے ہوں۔ دوسرے، یہ عقیدہ اپنے آخری نتیجے کے اعتبار سے اپنی اخلاقی قیمت بھی کھو دیتا ہے، کیوں کہ جب کسی شخص کو یہ یقین ہو کہ تناسخ کا چکر بالکل ایک مشین کی طرح چل رہا ہے، اور اس میں ہر فعل کا جو نتیجہ مقرر ہے وہ ظاہر ہو کر رہے گا، اور کسی توبہ و استغفار یا کفارے سے اس فعل کی تاثیر اور اس کے نتیجے کونہیں بدلا جا سکتا، تو ایک دفعہ گناہ کرنے کے بعد ایسا شخص ہمیشہ کے لیے گناہ کے پھیر میں آ جائے گا، اور سمجھ لے گا کہ جب مجھے جانور یا درخت بننا ہی ہے تو کیوں نہ میں اس انسانی جُون کی تمام لذتوں سے دل بھر کر فائدہ اٹھا لوں۔
حیاتِ اُخروی کا عقیدہ
دنیا اور انسان کے انجام پر دو مذہبوں کی رائیں آپ سن چکے ہیں اور یہ بھی آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ وہ دونوں مذہب نہ عقلاً صحیح ہیں، نہ ان فطری سوالات کا پورا پورا اور دل کو مطمئن کرنے والا جواب دیتے ہیں جو دنیا میں زوال و فنا کے آثار کودیکھ کر ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، اور نہ ان میں یہ صلاحیت ہی ہے کہ ایک صحیح اور مضبوط اور اخلاقی نظام کے لیے پشت پناہ بن سکیں۔ اب تیسرے مذہب کا بیان سنیے۔ وہ کہتا ہے:
۱۔ جس طرح دنیا کی ہر چیز فردا ًفرداً اپنی ایک عمر رکھتی ہے، جس کے ختم ہو جانے کے بعد اس میں فساد رونما ہوجاتا ہے، اسی طرح اس پورے نظامِ عالم کی بھی ایک عمر ہے جس کے تمام ہونے پر یہ سارا کارخانہ درہم برہم ہو جائے گا، اور کوئی دوسرا نظام اس کی جگہ لے گا جس کے قوانینِ طبیعی اس نظام کے قوانینِ طبیعی سے مختلف ہوں گے۔
۲۔ اس نظام کے درہم برہم ہونے پر اللّٰہ تعالیٰ عدالت قائم فرمائے گا جس میں ہر چیز کا حساب لیا جائے گا۔ انسان کو اس روز پھر ایک نئی جسمانی زندگی ملے گی۔ وہ اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو گا۔ اس کے تمام اعمال، جو اس نے اپنی پہلی زندگی میں انجام دیے تھے، ٹھیک ٹھیک جانچے اور تولے جائیں گے۔ حق اور انصاف کے ساتھ اس کے مقدمے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اچھے اعمال کی اچھی جزا ملے گی اور بُرے اعمال کی بُری سزا دی جائے گی۔
۳۔ انسان کی دنیوی زندگی دراصل اس کی اُخروی زندگی کا مقدمہ ہے۔ یہ زندگی عارضی ہے اور وہ پائدار۔ یہ ناقص ہے اور وہ کامل۔ تمام اعمال کے پورے پور ے نتائج اس عارضی زندگی میں مترتب نہیں ہوتے۔ ہر بیج جو یہاں بویا جاتا ہے اپنے فطری ثمرات کے ساتھ اس ناقص زندگی میں بار آور نہیں ہو سکتا۔ اس نقص کی تکمیل اس دوسری زندگی میں ہو گی، اور جو کچھ یہاں بے نتیجہ اور بے ثمر رہ گیا ہے وہ اپنے حقیقی نتائج اور ثمرات کے ساتھ وہاں ظاہر ہو گا۔ لہٰذا انسان کو اپنے اعمال و افعال کے محض ان ناتمام اور بسا اوقات دھوکا دینے والے نتائج ہی پر نظر نہ رکھنی چاہیے جو اس دنیوی زندگی میں مترتب ہوتے ہیں، اور نتائج کے اس مکمل سلسلے کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے افعال کی قدریں متعین کرنی چاہییں۔
یہ وہ مذہب ہے جسے انبیا علیہم السلام نے پیش کیا ہے اور قرآن مجید اسی مذہب کا پُر زور وکیل ہے۔ مگر قبل اس کے کہ ہم اس مذہب کے اخلاقی نتائج اور تہذیب اسلامی میں اس کے رتبے اور اہمیت پر کلام کریں، ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اس مذہب کے دلائل کیاہیں؟ اور عقل کہاں تک اس کو قبول کرتی ہے؟
عقلی تحقیق کا صحیح طریقہ
یہ سوال کہ موت کے بعد کوئی زندگی ہے یا نہیں، ان امور سے تعلق رکھتا ہے جو ہمارے حواس اور حسی تجربہ کے حدود سے باہر ہیں۔ ہم جو کچھ محسوس کرتے ہیں وہ صرف اس قدر ہے کہ ایک شخص جو چند لمحے قبل تک سانس لیتا اور اپنے ارادے سے حرکت کرتا تھا وہ اب زندگی کے تمام آثار سے محروم ہو گیا اور اس کے جسم سے کوئی ایسی شے غائب ہو گئی جس نے اس جامد، غیر نامی، غیر متحرک مادے کو نمو اور حرکت کی قوت مہیا کر رکھی تھی۔ اب رہا یہ سوال کہ وہ شے کہاں چلی گئی؟ جسم سے الگ ہو کر بھی موجود ہے یا معدوم ہو گئی؟ اور پھر کبھی اس جسم یا ایسے ہی کسی اور جسم سے اس کا تعلق دوبارہ قائم ہو گا یا نہیں؟ تو جہاں تک ہمارے حواس اور تجربی علم کا تعلق ہے، ہم اس سوال کا نفیاً یا اثباتاًکوئی جواب نہیں دے سکتے۔ کیوں کہ اس چیز کو فی نفسہٖ نہ ہم نے پہلے کبھی محسوس کیا تھا اور نہ اب محسوس کرتے ہیں۔ اس بنا پر یہ بات پہلے ہی سمجھ لینی چاہیے کہ اس سوال کا سائنس، یعنی حکمت عملی یا تجربی علم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سائنس دان اگر اس پر اثباتاً کوئی حکم نہیں لگا سکتا تو نفیاً بھی کوئی حکم لگانے کا حق نہیں رکھتا۔ وہ صرف یہ کہہ سکتا ہے کہ ’’میں کچھ نہیں جانتا کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے۔‘‘ لیکن اگر وہ خالص لاادریت٭ کے مقام سے ہٹ کر یہ کہے کہ ’’چوں کہ میں نہیں جانتا کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے اس لیے میں جانتا ہوں کہ مرنے کے بعد کچھ بھی نہیں ہوتا‘‘ تو یقیناً معقولیت کی حدود سے تجاوز کر جائے گا۔
حواس کے بعد ہمارے پاس علم کا دوسرا ذریعہ ’’تفکر‘‘ ہے۔ انسان ہمیشہ اپنے آپ کو محسوسات کے دائرے میںمقید رکھنے سے انکار کرتا رہا ہے، اور اس کی بشری فطرت کا مقتضا یہی ہے کہ وہ غور و فکر کی قوتوں سے کام لے کر ان پوشیدہ حقیقتوں کو معلوم کرے جو محسوسات سے ماورا ہیں۔ اسی فکری جستجو کا نام ’’تفکر‘‘ ہے اور اس کے دو طریقے ہیں:
ایک یہ کہ تم دنیا اور خود اپنے نفس کے آثار و شواہد سے آنکھیں بند کرکے، یا ایک بڑی حد تک بے پروا ہو کر، خالص عقلی مقدمات سے نتائج اخذ کرنا شروع کرو، اور آخر تک عقل کے گھوڑے دوڑاتے چلے جائو۔ یہ خالص قیاسی فلسفے کا میدان ہے، اور تمام گمراہیوں کی جُولان گاہ ہے۔ یہ اندھیری منزل ہے۔ یہیں سے وہ فلسفیانہ مذاہب نکلے ہیں جن میں الجھ کر انسان تخیل کی وادیوں میں بھٹکتا چلا جاتا ہے۔ یہیں سے خدا اور ملائکہ اور نظامِ عالم اور حیاتِ بعد الموت کے متعلق وہ مختلف اور متضاد عقیدے نکلے ہیں جو محض اندھیرے میں ٹٹولنے اور وہم و گمان اور خرص و تخمین پر چلنے کا نتیجہ ہیں۔
دوسرا طریقۂ فکر یہ ہے کہ تم آنکھیں کھول کر کائنات میں اور خود اپنے نفس میں ان آثار کا مشاہدہ کرو جو منزلِ حقیقت کے مشعل بردار ہیں، اور ان چراغوں کو لے کر عقلِ سلیم و فکر صحیح کی مدد سے ان حقیقتوں تک پہنچو جو ان آثار کی تہ میں چھپی ہوئی ہیں۔ اس دوسرے طریقے میں سائنس اور فلسفہ دونوں مل کر چلتے ہیں۔ اگرچہ حقیقت تک پہنچنے کا یقینی ذریعہ یہ بھی نہیں ہے، لیکن آسمانی ہدایت سے قطع نظر کرکے انسان کے پاس حقیقت رَسی کا واحد ذریعہ یہی ہے، اور اس ذریعے سے حقیقت تک یا اس کے قریب تک پہنچ جانا ممکن ہے، بشرطیکہ انسان کی قوتِ مشاہدہ تیز ہو، اس کی ادراکی قوتیں لطیف اور نازک ہوں، اور اس میں غور و فکر کی کافی صلاحیت موجود ہو۔ حکمت ِ نظری میں انسان کی ترقی کا مدار اسی مشاہدے اور تفکر کی آمیزش پر ہے۔ آج جن نظریات پر حکمت کی بنیاد قائم ہے اور جن اصولوں پر ایمان لائے بغیر سائنس کا کوئی طالب علم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا،ان میں سے کوئی بھی محض تجربے اور مشاہدے پر مبنی نہیں ہے۔ ہر نظریے اور ہراصول کی بنیاد اس قیاس عقلی پر قائم ہے جس کے لیے مشاہدات و تجربات کو موادِ قیاس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ قانونِ فطرت، قانونِ جذب و کشش، سلسلۂ علت و معلول، نظریۂ اضافیت، قانونِ نشو وارتقا، قانونِ انتخابِ طبیعی اور ایسے ہی دوسرے اصول و قوانین جن پر بڑے بڑے اہلِ حکمت ایمان لائے ہیں، سب کے سب آثار و مظاہر کے مشاہدات پر غور و فکر اور عقلی قیاس آرائی کے استعمال کا نتیجہ ہیں۔ ورنہ آج تک کسی نے بھی ان قوانین اور ان اصول کا حِسّی مشاہدہ نہیں کیا ہے۔
پھر جو نتائج ایک حکیم اپنے مشاہدے اور قیاس سے مستنبط کرتا ہے ان پر اسے اتنا ہی یقین ہوتا ہے جتنا کسی عامی کو کسی شے کے حسی مشاہدے سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر اس کے باوجود کوئی بڑے سے بڑا حکیم بھی کسی منکر کو ان نتائج کے مان لینے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ جب تک کوئی شخص آثار و مظاہر کا اس خاص نظر سے مشاہدہ نہ کرے جس سے حکیم نے مشاہدہ کیا ہے، اور اسی غور و فکر سے کام نہ لے جس سے حکیم نے کام لیا ہے، وہ ان نتائج پر کسی طرح نہیں پہنچ سکتا۔ ایک عامی کے لیے میدانِ حکمت میں قدم رکھنے اور ترقی کرنے کی بس یہی صورت ممکن ہے کہ وہ جس حکیم کی دانائی و بصیرت پر اعتماد رکھتا ہو اس کے اخذ کردہ نتائج پر ایمان بالغیب لے آئے، بغیر اس کے کہ وہ خود اپنے مشاہدے اور اپنے غور و فکر سے ان نتائج تک پہنچا ہو۔
یہ مقدمہ ذہن نشین کر لیجیے، کیونکہ امور ماورائے طبیعت کے باب میں قرآن مجید کے بیان اور استدلال کو سمجھنے کے لیے اس مقدمے کو سمجھ لینا ضروری ہے۔ بہت سی غلط فہمیاں اسی کے نہ سمجھنے سے پیدا ہوتی ہیں۔
اب ہم کو حیاتِ اُخروی کے متعلق قرآن مجید کے بیان کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
حیاتِ اُخروی پر منکرین کا اعتراض
حیاتِ اُخروی کا اعتقادجب قرآن مجید نے پیش کیا تو اس کے خلاف اس وقت کے منکرین نے جو اعتراض کیا تھا وہ وہی تھا جو آج کے منکرین کرتے ہیں۔ اور درحقیقت اس پر یہی ایک اعتراض ممکن بھی ہے۔ یعنی یہ کہ مرنے کے بعد پھر زندہ ہونا ایک بعید از عقل و قیاس بات ہے، ہم کس طرح مان لیں کہ جو مردے زمین میں گل سڑ گئے، جن کے جسم خاک میں مل گئے، جن کے اجزائے جسم ہوا، زمین اور پانی میں منتشر ہو گئے انھیں پھر زندگی میسر ہو گی؟
وَقَالُوْٓا ءَ اِذَا ضَلَلْنَا فِي الْاَرْضِ ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ السجدہ 10:32
اور انھوں نے کہا کہ جب ہم زمین میں گم ہو جائیں گے تو کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا ہوںگے؟
وَقَالُوْٓا ءَ اِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِيْدًاo بنی اسرائیل 49:17
اور انھوں نے کہا کہ جب گل سڑ کر ہماری صرف ہڈیاں رہ جائیں گی اور ہم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہم از سر نو پیدا کرکے اٹھائے جائیں گے؟
ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا۝۰ۚ ذٰلِكَ رَجْعٌۢ بَعِيْدٌo قٓ 3:50
کیا جب ہم مرکر مٹی بن جائیں گے تو پھر جی اٹھیں گے؟ یہ واپسی تو بعید از قیاس و عقل ہے۔
مَنْ يُّـحْيِ الْعِظَامَ وَہِىَ رَمِيْمٌo یٰس 78:36
کون ہے جو ہڈیوں کو زندہ کرے گا جب کہ وہ بوسیدہ ہو چکی ہوں؟
قرآنِ مجید کا طرِز استدلال
اس شبہے کے مقابلے میں قرآن مجید نے جو طرزِ استدلال اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے وہ قدرتِ الٰہی کے آثار کا مشاہدہ کرنے اور ان پر غور کرنے کی طرف دعوت دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے:
سَنُرِيْہِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۝۰ۭ
حٰمٓ سجدہ 53:41
ہم انھیں آفاق میں اور خود ان کے اپنے نفوس میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے تاکہ ان پر واضح ہوجائے کہ یہی حق ہے۔
اَوَلَمْ يَنْظُرُوْا فِيْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الاعراف 185:7
کیا وہ آسمانوں اور زمین کے انتظام پرغور نہیں کرتے؟
وَكَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَۃٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ يَمُرُّوْنَ عَلَيْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُوْنَo
یوسف 105:12
آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے وہ اس طرح گزر جاتے ہیں کہ ان پر غور ہی نہیں کرتے۔
یہ اشارہ ہے اس طرف کہ تمھیں اتنی قوت تو نہیں دی گئی ہے کہ جو چیز تمھارے حواس سے پوشیدہ ہے اسے تم برأی العین مشاہدہ کر سکو، یا کسی تجربے سے اس کی حقیقت معلوم کر سکو۔ البتہ اگر تم آنکھیں کھول کر ان آثار کو دیکھو جو شب و روز تمھارے سامنے پیش ہو رہے ہیں، اور زمین و آسمان کے انتظام کامشاہدہ کرو، اور خود اپنے نفس کی پیدائش پر غور کرو، اور ان سب محسوسات و مشاہدات پر غور و فکر کرکے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرو، تو تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ جو کچھ کہا گیا ہے وہ درست ہے۔
حیاتِ اُخروی کا امکان
پھر وہ انھی آثار و مظاہر میں سے ان چیزوں کو پیش کرتا ہے جو سب سے زیادہ بدیہی ہیں، اور ان سے یہ استدلال کرتا ہے کہ جس بات کو تم بعید اَز عقل و قیاس سمجھ رہے ہو، وہ چاہے تمھاری عقل و قیاس سے دور ہو، مگر حقیقت میں ناممکن نہیں ہے۔
اَللہُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۭ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَo الرعد 2:13
وہ اللّٰہ ہی تو ہے جس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر بلند کر رکھا ہے جو تمھیں نظر آ سکیں۔ پھر وہ عرش پر جلوہ فرما ہوا، اور اس نے سورج اور چاند کو اپنا تابع فرمان کیا۔ ان میں سے ہر ایک مدت مقررہ تک کے لیے حرکت کر رہا ہے۔ وہی تمام عالم کا انتظام کرتا ہے اور وہ نشانیاں کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے رب کی ملاقات پر یقین لائو۔
ءَ اَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ۝۰ۭ بَنٰىہَاo النازعات 27:79
کیا تمھارا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا آسمان کا؟ خدا نے تو (ایسی بڑی چیز) کو بنایا ہے۔
یہ اجرامِ سماوی کے آثار سے استشہاد ہے کہ جس خدا نے اتنا بڑا نظامِ کائنات پیدا کیا ہے، جس نے بڑے بڑے سیاروں کو اپنے قانون کی بندشوں میں جکڑ رکھا ہے، جس کی قدرت ان عظیم اَجرام کو اس انتظام کے ساتھ حرکت دے رہی ہے کہ کوئی جرم اپنے مدار سے بال برابر تجاوز نہیں کر سکتا، نہ اپنے مقررہ اوقات سے پل بھر کے لیے ہٹ سکتا ہے، اور جس طاقت نے کائنات کے طبقوں کو ایسے غیر مرئی اور غیر محسوس سہاروں پر قائم کیا ہے جن کے ادراک سے تم عاجز ہو، اس خدا کے متعلق یہ گمان کرنا کہ وہ تم جیسی حقیر مخلوق کو ایک دفعہ ہلاک کرکے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے، کیسی بڑی خام خیالی ہے:
اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللہَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ۔
بنی اسرائیل 99:17
کیا وہ نہیں دیکھتے کہ جس خدانے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے وہ ان جیسوں کو بھی پیدا کرنے پر قادر ہے۔
آسمان کے بعد وہ ہمارے قریب ترین ماحول، یعنی زمین کے آثار کی طرف ہمیں متوجہ کرتا ہے:
سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ بَدَاَ الْخَــلْقَ ثُمَّ اللہُ يُنْشِئُ النَّشْاَۃَ الْاٰخِرَۃَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo العنکبوت20:29
زمین کی سیر کرو اور دیکھو کہ اللّٰہ نے کس طرح آفرینش کی ابتدا کی ہے اور پھر وہی اللّٰہ چیزوں کو دوبارہ زندگی بخشتا ہے۔ یقیناً اللّٰہ ہر چیز پر قادر ہے۔
وَاٰيَۃٌ لَّہُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَۃُ۝۰ۚۖ اَحْيَيْنٰہَا وَاَخْرَجْنَا مِنْہَا حَبًّا فَمِنْہُ يَاْكُلُوْنَo
یٰس 33:36
اور ان کے لیے ایک نشانی تو مردہ زمین ہی ہے جس کو ہم نے زندگی بخشی اور اس سے غلہ نکالا جسے یہ لوگ کھاتے ہیں۔
فَانْظُرْ اِلٰٓى اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللہِ كَيْفَ يُـحْىِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ لَمُحْيِ الْمَوْتٰى۝۰ۚ وَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo الروم 50:30
پھر اللّٰہ کی رحمت کے آثار دیکھ کہ کس طرح زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زندگی بخشتا ہے۔ یقیناً وہ ضرور مُردوں کو بھی زندگی عطا کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَۃً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْہَا الْمَاۗءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِيْٓ اَحْيَاہَا لَمُحْىِ الْمَوْتٰى۝۰ۭ اِنَّہٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo حٰمٓ سجدہ 39:41
اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تو زمین کو دیکھتا ہے کہ سُونی پڑی ہے۔ پھر جہاں ہم نے پانی برسایا اور وہ بھیگ اٹھی اور لہلہانے لگی، تو جس نے اسے زندہ کیا وہی مردوں کو بھی زندہ کرنے والا ہے۔ یقیناً وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
وَاللہُ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ الرِّيٰحَ فَتُـثِيْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰہُ اِلٰى بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَحْيَيْنَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ النُّشُوْرُo فاطر 9:35
اور وہ اللّٰہ ہی ہے جو ہوائوں کو چلاتا ہے، پھر وہ بادلوں کو ابھارتی ہیں، پھر ہم ان بادلوں کو ایسی بستی کی طرف ہانکتے ہیں جو بے آب و گیاہ پڑی ہے، پھر اس مردہ پڑی ہوئی زمین کو بارش کے ذریعے سے زندہ کر دیتے ہیں۔ بس ایسا ہی جی اٹھنا قیامت میں بھی ہو گا۔
اس کے بعد وہ کہتا ہے کہ ہر طرف سے آنکھیں بند کرکے ذرا خود اپنے نفس پر تو غور کرو کہ خود تمھارے اندر ہی خدا کے احیائے موتیٰ پر قادر ہونے کا ثبوت موجود ہے:
ہَلْ اَتٰى عَلَي الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ يَكُنْ شَـيْــــًٔا مَّذْكُوْرًاo الدھر 1:76
بلاشبہ انسان پر زمانے کا ایک ایسا وقت گزرا ہے جب کہ وہ کوئی قابل ذکر شے نہ تھا۔
كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ۝۰ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَo
البقرہ 28:2
تم مردہ تھے تو خدا نے تمھیں زندہ کیا، پھر وہ تمھیں مردہ کر دے گا، پھر زندہ کرے گا، پھر تم اس کی طرف لوٹائے جائو گے۔
اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ الحج 5:22
اگر تمھیں مرنے کے بعد جی اٹھنے میں شک ہے تو تمھیں معلوم ہو کہ ہم نے مٹی جیسی بے جان شے سے تمھیں پیدا کیا ہے۔
قَالَ مَنْ يُّـحْيِ الْعِظَامَ وَہِىَ رَمِيْمٌo قُلْ يُحْيِيْہَا الَّذِيْٓ اَنْشَاَہَآ اَوَّلَ مَرَّۃٍ۝۰ۭ
یٰس 78-79:36
اس نے کہا کہ کون ہڈیوں کو زندہ کرے گا جب کہ وہ بوسیدہ ہو جائیں گی؟ کہہ دے کہ ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے انھیں پہلی بار زندگی بخشی تھی۔
قُلْ كُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْ حَدِيْدًاo اَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِيْ صُدُوْرِكُمْ۝۰ۚ فَسَيَقُوْلُوْنَ مَنْ يُّعِيْدُنَا۝۰ۭ قُلِ الَّذِيْ فَطَرَكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ۝۰ۚ بنی اسرائیل 50-51:17
ان سے کہو کہ تم پتھر بن جائو یا لوہا یا کوئی اور ایسی چیز جس کا زندہ ہونا تمھارے نزدیک بہت ہی بعید از عقل ہو، پھروہ پوچھیں کہ کون ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا؟ تو کہو کہ وہی جس نے پہلی بار تمھیں پیدا کیا تھا۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـۃٍ مِّنْ طِيْنٍo ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍo ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا۝۰ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ۝۰ۭ فَتَبٰرَكَ اللہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَo ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتُوْنَo ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَo المومنون 12-16:23
ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا، پھر ہم نے ہی اس ست کو نطفہ بنا کرایک حفاظت کی جگہ میں رکھا، پھر نطفے کو لوتھڑا بنایا، پھر لوتھڑے کو مضغۂ گوشت کی صورت دی، پھر مضغہ کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوںپر گوشت چڑھایا، پھر اس کو ایک دوسری ہی چیز بنا کھڑا کیا۔ پس بڑی برکت والا ہے اللّٰہ جو بہترین خالق ہے، پھر اس کے بعد تم ضرور مرنے والے ہو، پھر یقیناً تم قیامت کے روز اٹھائے جائو گے۔
اَلَمْ يَكُ نُطْفَۃً مِّنْ مَّنِيٍّ يُّمْـنٰىo ثُمَّ كَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوّٰىo فَجَــعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰىo اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰىo
القیامہ 37-40:75
کیا انسان منی کا محض ایک قطرہ نہ تھا جو رحمِ مادر میں ٹپکایا گیا تھا؟ پھر وہ ایک لوتھڑا بنا، پھر خدا نے اسے انسانی شکل دی اور اس کی ساخت کو استوار کیا، پھر اس کی دو صنفیں کر دیں اور مرد و عورت کے جوڑے بنائے۔ کیا وہی خدا اس پر قادر نہیں کہ مُردوں کو زندہ کرے۔
یہ صاف اور واضح اور ہمارے مشاہدہ و احساس سے قریب تر شواہد پیش کرنے کے بعد قرآن مجید ایک ایسی کھلی ہوئی دلیل پیش کرتا ہے جو بالکل عقلِ عام (common sense) سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اشیا کو عدم سے وجود میں لانا زیادہ مشکل ہے بہ نسبت اس کے کہ انھیں منتشر اور پراگندہ ہوجانے کے بعد دوبارہ پہلی صورت پر پیدا کیا جائے۔ پس جو طاقت اس دشوارتر کام کو انجام دینے سے عاجز نہ ہوئی، وہ آسان تر کام کو انجام دینے سے کیوں کر عاجز ہو سکتی ہے؟ اگر ایک شخص موٹر ایجاد کرنے پر قادر ہے اور اس کو بنا چکا ہے تو کیا یہ بات عقل میں آ سکتی ہے کہ وہ موٹر کے پرزوں کو الگ الگ کرنے کے بعد دوبارہ انھیں جوڑ دینے پر قادر نہیں ہے؟ اسی مثال پر قیاس کر لو کہ صانع عالم جو تمھیں عدم سے وجود میں لایا ہے، تمھیں مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنے سے ہرگز عاجز نہیں ہو سکتا:
اَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللہُ الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرٌo
العنکبوت 19:29
کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللّٰہ کس طرح آفرینش کی ابتدا کرتا ہے؟ پھر اسی طرح وہ اس کا اعادہ بھی کرے گا اور یہ بات اللّٰہ تعالیٰ کے لیے یقیناً زیادہ آسان ہے۔
وَہُوَالَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ وَہُوَاَہْوَنُ عَلَيْہِ۝۰ۭ الروم 27:30
اور وہی تو ہے جو آفرینش کی ابتدا کرتا ہے پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اعادہ اس کے لیے سہل تر ہے۔
اَفَعَيِيْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ۝۰ۭ بَلْ ہُمْ فِيْ لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِيْدٍo قٓ 15:50
کیا ہم پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے عاجز رہے تھے؟ (نہیں، ان کو پہلی آفرینش سے انکار نہیں ہے) مگر ان کو ایک نئی آفرینش میں شک ہے۔
اب صرف یہ شبہ باقی رہ جاتا ہے کہ جن مُردوں کے اجزائے جسم فنا ہو گئے ان کو پھر کیوں کر پہلا جسم عطا کیا جا سکتا ہے؟ کوئی پانی میں ڈوب کر مرا اور اس کی بوٹی بوٹی مچھلیوں اور آبی جانوروں کی غذا بن گئی۔ کوئی جل کرمرا یا مر کر جلا دیا گیا اور اس کا سارا جسم راکھ اور دھویں میں منتقل ہو گیا۔ کوئی زمین میں دفن ہوا اور خاک میں رَل مل گیا۔اب کیوں کر ممکن ہے کہ اس کا پہلا جسم عُود کرے اور اس میں وہی پہلی روح پھونکی جائے؟ اس شبہے کو لوگوں نے یہ کہہ کر رفع کرنے کی کوشش کی ہے کہ روح کو جسمانی زندگی عطا کرنے کے لیے لازم نہیں ہے کہ وہی پہلا جسم اس کو واپس دیا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ روح وہی ہو اور اس کو پہلے جسم کے مشابہ کوئی دوسرا جسم عطا کردیا جائے۔ لیکن قرآن کہتا ہے کہ خدا وہی جسم عطا کرنے پر قادر ہے۔ پہلے جسم کے اجزا معدوم نہیں ہوئے ہیں۔ منتشر حالت میں اس کا ہر ہر جز کہیں نہ کہیں موجود ہے، خواہ ہوا میں ہو، خواہ پانی میں ہو، خواہ مٹی میں ہو، خواہ نباتات یا حیوانات کے اجسام میں ہو، خواہ معدنیات کے اجرام میں ہو۔ خدا کا علم اتنا حاوی ہے کہ وہ ہر ہر جز کے مقام کو جانتا ہے اور اس کی قدرت اتنی کامل ہے کہ وہ ان منتشر اجزا کو پھر جمع کرکے پہلی صورت پر بنا سکتا ہے۔
قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْہُمْ۝۰ۚ وَعِنْدَنَا كِتٰبٌ حَفِيْظٌo قٓ 4:50
ہم کو معلوم ہے کہ زمین ان میں سے کیا چیز گھٹاتی ہے اور ہمارے پاس ایسی کتاب ہے جس میں ہر چیز کا ریکارڈ محفوظ ہے۔
وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۝۰ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا يَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّۃٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍo الانعام 59:6
اور اس کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کا علم اس کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ جو کچھ خشکی اور تری میں ہے اس کو سب معلوم ہے۔ ایک پتا بھی اگر جھڑتا ہے تووہ اس کو جانتا ہے۔ زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں ہے، اور کوئی خشک و تر چیز ایسی نہیں ہے جو واضح کرکے دکھا دینے والی ایک کتاب میں موجود نہ ہو۔
یہ جو کچھ بیان ہوا ہے اس کا مقصد اس استبعاد٭ کو دور کرنا ہے جس کی بِنا پر لوگ حیاتِ اُخروی سے انکار کرتے ہیں۔ انکار کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ منکرین کو کسی تجربہ یا مشاہدہ یا علمِ یقین کے کسی اور ذریعے سے قطعاً و ایجاباً یہ معلوم ہو گیا ہے کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔ بلکہ انکار صرف اس بِنا پر ہے کہ مرنے کے بعد پھر جی اٹھنا ان کی عقل میں نہیں سماتا۔ انھوں نے اس نظارے کو کبھی نہیں دیکھا۔ ان کو تو یہ دیکھنے کی عادت رہی ہے کہ جو مرا سو پھر نہ پلٹا۔ لہٰذا جب یہ کہا جاتا ہے کہ جو مر چکے ہیں وہ پھر پلٹیں گے تو اس خلافِ عادت بات کو وہ محال، غیر ممکن اور بعید از عقل و قیاس سمجھتے ہیں۔ لیکن غور و فکر کی راہ میں ایک قدم آگے بڑھیے۔ یہ سارا استبعاد دور ہو جاتا ہے اور جو بات پہلے ناممکن نظر آتی تھی وہ عین ممکن نظر آنے لگتی ہے۔ جن باتوں کو آپ ممکن بلکہ واقعی سمجھتے ہیں ان کے متعلق آپ کا ایسا سمجھنا محض اس وجہ سے ہے کہ آپ کو ان کے وقوع کا مشاہدہ کرنے کی عادت رہی ہے۔ ایک بیج کا زمین میں جا کر پھوٹنا اور ایک تناور درخت کی شکل میں نمودار ہو جانا، ایک قطرے کا رحم میں پہنچنا اور وہاں سے ایک انسان کی شکل میں برآمد ہونا، دو ہوائوں کے مجموعے سے پانی بننا اور اس کا ایک ترتیب کے ساتھ بار بار پانی سے بھاپ اور بھاپ سے پانی بنتے رہنا، عالم کی اس وسیع فضا میں کروڑہا کروڑ سیاروں کا گیندوں کی طرح دوڑنا اور کسی مادی رشتے کے بغیر ایک کا دوسرے کے ساتھ ایسا مربوط ہونا کہ ان کی حرکات اور گردشوں کے نظم میں ذرّہ برابر فرق نہ آئے، یہ سب باتیں دیکھنے کے آپ خُوگر ہیں، اس لیے ان کو معمولی سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر یہی چیزیں آپ کے سامنے پیش نہ ہوتیں اور اس کے بجائے کسی اور نظام سے آپ مانوس ہوتے تو انھی سب باتوں کو آپ انتہا سے زیادہ بعید از عقل وقیاس سمجھتے اور شدت کے ساتھ ان کے امکان سے انکار کرتے۔ فرض کیجیے کہ کرۂ مریخ میں درخت نہ اُگتے ہوں اور وہاں کے لوگوں سے بیان کیا جائے کہ ایک ماشہ بھرکا بیج زمین میں دفن ہو کر درخت بنتا ہے، اور اپنے ابتدائی جرم سے کئی ہزار بلکہ کئی لاکھ گنا بڑا ہو جاتا ہے، اورپھر اس میں سے ویسے ہی ہزاروں بیج پیدا ہوتے ہیں، تو یہ بات مریخ والوں کی نگاہوں میں اتنی ہی حیرت انگیز ہو گی جتنی آپ کے نزدیک مرنے کے بعد پھر جی اٹھنے کی داستان حیرت انگیز ہے۔ وہ بھی اسی طرح کہیں گے کہ یہ تو ناممکن ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ عدمِ امکان کا فتویٰ علم کی بِنا پر نہیں جہل کی بِنا پر ہو گا۔ عقل کی رسائی کا نتیجہ نہیں نارسائی کا نتیجہ ہو گا۔ بس ایسا ہی حال آپ کے استبعاد کا ہے۔ اگر آپ اپنے استعجاب یا استبعاد کی حقیقت کو سمجھ لیں تو آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ کسی چیز کا آپ کی عقل و قیاس سے دُور ہونا درحقیقت اس چیز کے غیر ممکن یا محال ہونے کے لیے کوئی دلیل ہی نہیں ہے۔ جو چیزیں آج خود انسان ایجاد کر رہا ہے وہ آج سے سو برس پہلے خود انسان کے نزدیک بعید از عقل و قیاس تھیں۔ مگر واقعات سے ثابت ہو گیا کہ ناممکن نہیں ہیں۔ پھر جب انسان کی عقل اور اس سے بعید یا قریب ہونے کی حقیقت یہ ہو تو کسی چیز کو محض اس بِنا پر ناممکن نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس محدود عقل میں نہیں سماتی۔
کسی مخفی اور ماورائے حواس چیز کو ثابت کرنے کے لیے پہلا قدم یہی ہے کہ اس کا امکان ثابت کیا جائے۔ چنانچہ قرآن مجید نے اپنے استدلال سے حیاتِ اُخروی کے استبعاد کو دور کرکے اس کو ممکن ثابت کر دیا۔ اب دوسرا قدم یہ ہے کہ اس کی ضرورت ثابت کی جائے تاکہ عقل یہ تسلیم کر لے کہ ایسی ایک چیز ضرور ہونی چاہیے اور اس کے عدم سے اس کا وجود اَولیٰ ہے۔
نظامِ عالم ایک حکیمانہ نظام ہے
حیاتِ اُخروی کی ضرورت کا اثبات دراصل اس سوال کے تصفیے پر موقوف ہے کہ آیا یہ کائنات کسی حکیم کا فعل ہے یا بلا کسی حکمت کے آپ سے آپ بن گئی ہے؟
زمانۂ حال کا سائنس زدہ انسان کہتا ہے کہ اس نظام کو کسی صانع حکیم نے نہیں بنایا۔ یہ آپ سے آپ بن گیا ہے اور خود بخود حرکت کرنے والی مشین کی طرح اپنے تمام اجزا سمیت (جن میں انسان بھی شامل ہے) چل رہا ہے۔ مادہ (matter) اور توانائی (energy) کا باہمی تعامل جس روز ختم ہو جائے گا اسی روز یہ نظام بھی درہم برہم ہوجائے گا۔ ظاہر ہے کہ ایک ایسا نظام، جس کو ایک اندھی طبیعت (nature) بِلا کسی علم، عقل، شعور، ارادہ اور حکمت کے چلا رہی ہے، اس میں کسی مقصدیت اور حکمت کی تلاش بالکل لاحاصل ہے۔ اسی وجہ سے مادہ پرست سائنس نے آثارِ کائنات کی مقصدی تعلیل (teledogical causation) کو اپنے حدود سے نہ صرف خارج کر دیا ہے، بلکہ اس طریقِ فکر کو سرے سے لغو و بے معنی قرار دیا ہے، اور قطعیت کے ساتھ دعوٰی کیا ہے کہ اس کائنات اور اس کی کسی شے اور کسی فعل میں کوئی مقصد نہیں پایا جاتا۔ آنکھیں دیکھنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ دیکھنا نتیجہ ہے مادہ کی اس خاص تنظیم کا جو آنکھوں میں پائی جاتی ہے۔ دماغ اس لیے نہیں ہے کہ سوچنے اور فکر و شعور کا محل بنے، بلکہ خیالات دماغ کے مادے سے اسی طرح نکلتے ہیں جس طرح جگر سے صفرا نکلتا ہے۔ یہ محض غلط فہمی ہے کہ اشیا کے طبیعی افعال کو ان کا مقصد قرار دیا جاتا ہے اوران کے وجود میں کسی حکمت اور کسی عقل کی جستجو کی جاتی ہے۔
اس نظریے کو اگر تسلیم کر لیا جائے تو حیاتِ دنیوی کے بعد کسی حیاتِ اُخروی کی ضرورت تسلیم کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں رہتی۔ کیوں کہ جس کائنات کا نظام ایک اندھی بے عقل و شعور طبیعت کے ہاتھوں کسی مقصد و غایت کے بغیر چل رہا ہے، اس کی حیثیت ایک کھلونے سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ وہ اور اس کی ہر شے عبث ہے، عبث بنی ہے اور عبث ہی تمام ہو کر فنا ہو جائے گی۔ یہ مستبعد ہے کہ ایسی اندھی طبیعت عدل کی صفت سے متصف ہو اور اس سے کسی حساب کتاب اور انصاف کی امید کی جائے۔ تاہم اگر بالفرض وہ عدل سے متصف ہو بھی، تو جب کہ انسان اس کے ہاتھ میں ایک بے بس کھلونے کی طرح کھیل رہا ہے اور اپنے اختیار سے کچھ کرنا تو درکنار، سرے سے کوئی اختیار اور کوئی ارادہ رکھتا ہی نہیں، اس پر اپنے کسی اچھے یا بُرے فعل کی اسی طرح کوئی ذمے داری نہیں ہونی چاہیے جس طرح ایک موٹر پر اپنی راست روی یا کج روی کی کوئی ذمے داری نہیں ہے۔ اورذمے داری کا سوال اٹھ جانے کے بعد دنیا ہی میں عدل وانصاف اور جزا و سزا کا سوال منقطع ہو جاتا ہے، کجا کہ اس کی خاطر ایک دوسری زندگی کی ضرورت تسلیم کی جائے۔ لیکن یہ نظریہ سراسر خلافِ عقل ہے، اور کوئی عقلی دلیل یا علمی شہادت ایسی نہیں پیش کی گئی جس سے اس کی صداقت ثابت اور مبرہن ہو جائے۔ اس کی تائید میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کا لبِ لباب بس اتنا ہے کہ ہم کو کائنات کا کوئی پیدا کرنے والا اور کوئی چلانے والا نظر نہیں آتا، نہ اس کی پیدائش کا کوئی مقصد ہماری سمجھ میں آتا ہے۔ ہم اس کو کسی بنانے والے کے بغیر چلتا ہوا دیکھتے ہیں اور اس کے چلنے کا مقصد معلوم کرنا نہ ہمارے لیے ممکن ہے، نہ ہم کو اس کے معلوم کرنے کی ضرورت۔ لیکن کسی شے کی علتِ فاعلی اور علتِ غائی نہ معلوم ہونا اس کی دلیل نہیں ہے کہ اس کی کوئی علتِ غائی اور علتِ فاعلی ہے ہی نہیں۔ فرض کرو کہ ایک بچہ کسی مطبع کی مشین کو چلتے ہوئے دیکھتا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ مشین کس غرض سے چلائی گئی ہے۔ اس بِنا پر وہ خیال کرتا ہے کہ یہ محض ایک کھلونا ہے جو بلا کسی مقصد و غایت کے چل رہا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ جس طرح اس مشین سے آواز پیدا ہوتی ہے، پُرزے حرکت کرتے ہیں، زمین لرزتی ہے، اسی طرح کاغذ بھی چھپ چھپ کر نکلتے ہیں۔ اس بِنا پر وہ حکم لگاتا ہے کہ جس طرح وہ افعال اس مشین کے چلنے کے نتائج ہیں، اسی طرح کاغذوں کا چھپ چھپ کر نکلنا بھی اس کی حرکت کا ایک طبیعی نتیجہ ہے۔ اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ یہ تمام افعال جو اس سے صادر ہو رہے ہیں، ان میں سے صرف ایک فعل، یعنی کاغذوں کا چھپ کر نکلنا، اس پوری مشین کے بنائے جانے کا مقصد ہے، اور باقی تمام افعال مشین کی حرکت کے طبیعی نتائج ہیں۔ اس کی طفلانہ نظر مشاہدے کی اتنی قوت نہیں رکھتی کہ اس مشین کے پرزوں میں ترتیب، تناسب اور نظم کو محسوس کر سکے، اور یہ سمجھ سکے کہ اس کا ہر پُرزہ جس صورت پر بنایا گیا ہے، اور جس مقام پر لگایا گیا ہے، وہی صورت اور وہی مقام اس کے لیے موزوں ہے اور مشین میں اپنے حصے کا کام انجام دینے کے لیے وہ پرزہ اسی صورت کا اور اسی مقام پر ہونا چاہیے۔ اس بِنا پر وہ کُند ذِہن بچہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ مشین یوں ہی لوہے کے ٹکڑوں کے باہم مل جانے سے آپ ہی آپ بن گئی ہے۔ اس کی عقلی قوتیں اتنی ترقی یافتہ نہیں ہیں کہ وہ مشین کے افعال اور اس کی ترتیب کو دیکھ کر قیاس کر سکے کہ اس کا بنانے والا ضرور کوئی حکیم شخص ہونا چاہیے، جس نے ایسے اچھے اندازے، اور ایسے عمدہ نقشے پر ایسی مشین بنائی ہے جس کا کوئی پرزہ بے کار، غیر موزوں، غیر منضبط اور بے ضرورت نہیں ہے، اور یہ کہ ایسی حکمت و دانائی کے ساتھ جو چیز پیش کی گئی ہے وہ ہرگز بے مقصد، بے مصلحت، اور عبث نہیں ہو سکتی۔ اب اگر پریس مشین کے اس ناقص مشاہدے اور اس پر اپنے ناقص غور و فکر سے وہ نادان بچہ یہ نظریہ قائم کرتا ہے کہ مشین کی کوئی علتِ فاعلی اورعلتِ غائی نہیں ہے، نہ کوئی حکمت اس کے بنانے میں صرف ہوئی ہے، اور نہ کوئی حکیمانہ مقصد اس کی صنعت میں پیشِ نظر ہے، تو کیا کوئی عاقل و بالغ آدمی یہ تسلیم کر لے گا کہ بچے نے اس مشین کی حقیقت کے متعلق ایک صحیح نظریہ قائم کیا ہے؟
اگر یہ بات ایک پریس مشین کے معاملے میں درست نہیں ہے تو اُس نظامِ کائنات کے معاملے میں کیوں کر درست ہو سکتی ہے جس کا ایک ایک ذرہ اپنے صانع کے علم، ارادے، حکمت اور بصیرت پر شہادت دے رہا ہے۔ ناقص العقل اور کوتاہ بیں بچہ جو چاہے کہے، مگر کوئی صاحبِ عقل آدمی تو، جس نے آنکھیں کھول کر اس کائنات کے آثار کا مشاہدہ کیا ہے، ایک لمحے کے لیے بھی یہ شک نہیں کر سکتا کہ ایسا محکم، استوار، مرتب اور متناسب نظام، جس میں کوئی شے بے کار اور عبث نہیں ہے، جس میں کوئی شے ضرورت سے کم یا زیادہ نہیں ہے، جس کا ہر جز اپنے مقام اور اپنی ضرورت کے لحاظ سے ٹھیک ٹھیک موزوں ہے، اور جس کے ضابطے میں کہیں کوئی فتور نظر نہیں آتا، کسی حکمت، کسی علم، کسی ارادے کے بغیر بن اور چل سکتا ہے۔
حکیمانہ نظام بے مقصد اور مہمل نہیں ہو سکتا
قرآن مجید نے حیاتِ اُخروی کی ضرورت پر جو دلائل قائم کیے ہیں وہ سب اسی بنیادی نظریے پر مبنی ہیں کہ اس کائنات کا بنانے والا ایک حکیم ہے، جس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہے، اور جس کی طرف کوئی ایسی بات منسوب نہیں کی جا سکتی جو خلافِ حکمت ہو۔ اس بنیاد کو استوار کرنے کے بعد قرآن مجید کہتا ہے کہ:
اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَo فَتَعٰلَى اللہُ الْمَلِكُ الْحَقُّ۝۰ۚ المومنون 115-116:23
کیا تم نے یہ گمان کیا ہے کہ ہم نے تم کو عبث پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف واپس نہ لائے جائو گے؟ بادشاہ برحق خدا اس سے بالاتر ہے (کہ اس سے کوئی فعلِ عبث صادر ہو)۔
اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًىo القیامہ 36:75
کیا انسان یہ سمجھے بیٹھا ہے کہ وہ یوں ہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟
وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَا لٰعِبِيْنَo مَا خَلَقْنٰہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَo اِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيْقَاتُہُمْ اَجْمَعِيْنَo
الدخان 38-40:44
ہم نے آسمان اور زمین کو اوران چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا ہے۔ ہم نے تو ان کو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کیا ہے، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔ یقیناً ان سب کے لیے فیصلے کے دن تک وقت مقرر ہے۔
وَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ۝۰ۣ مَا خَلَقَ اللہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاۗئِ رَبِّہِمْ لَكٰفِرُوْنَo الروم 8:30
کیا انھوں نے خود اپنے دلوں میں غور نہیں کیا کہ اللّٰہ نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو جو پیدا کیا ہے، تو حکمت کے مطابق کیا ہے اور ان کے لیے ایک وقت مقرر ہے؟ مگر بہت سے آدمی ہیں جو اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔
ان آیات میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر زمین و آسمان کا یہ سارا کارخانہ صرف اس لیے ہے کہ ایک مدت تک چلتا رہے، پھر کسی حاصل اور نتیجے کے بغیر معدوم ہو جائے، تو یہ ایک لغو اور عبث فعل ہو گا، ایک کھیل ہو گا۔ ایسا فعل ہرگز کسی حکیم کا فعل نہیں ہو سکتا۔ اگر تم مانتے ہو کہ یہ کارخانہ خدا نے بنایا ہے اور خدا تمھارے نزدیک حکیم ہے، تو تم کو عقل سے کام لے کر یہ سمجھنا چاہیے کہ موجودات میں سے کوئی شے بے مقصد وجود میں آنے والی اور بے حاصل و بے نتیجہ معدوم ہو جانے والی نہیں ہے۔ خصوصاً انسان جو کائناتِ ارضی کا گلِ سرسبد ہے، جس کی ذی شعور ہستی اس کائناتِ ارضی کے تدریجی ارتقا اور اس کی تمام حرکات و تحولات کا ماحصل ہے، جس کو اتنی حکمت کے ساتھ عقل و فکر اور بینش و دانش اور اختیار و ارادہ سے آراستہ کیا گیا ہے، اس کی تخلیق کا مقصد اتنا مہمل نہیں ہو سکتا کہ وہ چند برس اس دنیا میں ایک مشین کی طرح بسر کرے، پھر مر کر معدوم ہو جائے۔
اقتضائے حکمت کے مطابق نظامِ عالم کا کیا انجام ہونا چاہیے
جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ یہ کائنات عبث اور کھیل نہیں ہے، اور نہ اس کی کوئی شے بے نتیجہ و بے حاصل ہے، تودوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدم مطلق کے سوا اس کارخانے کا اور کون سا انجام ایسا ہے جو اقتضائے حکمت کے عین مطابق ہو؟ اس سوال کا تفصیلی جواب قرآن مجید کی آیات میں موجود ہے، اور وہ ایسا جواب ہے جس کو سننے کے بعد عقلِ سلیم بالکل مطمئن ہوجاتی ہے۔ مگر اس جواب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے چند امور ذہن نشین کر لیے جائیں:
۱۔ عالمِ وجود کے تمام آثار اس امر کی شہادت دے رہے ہیں کہ اس نظام کے جتنے تغیرات و تحولات ہیں، ان سب کا رخ ارتقا کی جانب ہے۔ اس کی ساری گردشوں کا مقصود یہ ہے کہ یہ نقص کو کمال کی طرف لے جائیں، اور اشیا کی ناقص صورتوں کو مٹا کر انھیں کامل اور کامل سے کامل تر صورتیں بخشیں۔
۲۔ اس قانونِ ارتقا کا عمل چوں کہ تغیر کی روش پر ہوتا ہے، اس لیے ہر کون کے لیے ایک فساد ضروری ہے۔ ایک صورت کا وجود میں آنا اس کا مقتضی ہے کہ پہلی صورت فاسد ہو جائے، اور ناقص صورت کا زائل ہونا کامل تر کے وجود میں آنے کا دیباچہ ہوا کرتا ہے۔ یہ تغیرات و استحالات اگرچہ ہر آن ہوتے رہتے ہیں، لیکن بہت سے خفی تغیرات کے بعد ایک جلی اور نمایاں تغیر واقع ہوا کرتا ہے جس میں ایک جلی اور نمایاں فساد پیش آتا ہے۔ یہ دوسری قسم کا فساد ہے جس کو ہم عرف عام میں موت یا زوال سے تعبیر کرتے ہیں، اور ایک صورت کے وجود میں آنے سے لے کر اس کی موت یا اس کے قطعی فساد تک ایک وقفہ ہوتا ہے جس کو ہم اپنی زبان میں عمر کہتے ہیں۔
۳۔ ہر صورت اپنے لیے ایک خاص محل چاہتی ہے جو اس کے مناسب ِ حال ہوا کرتا ہے۔ کوئی صورت کسی ایسے محل میں نہیں رہ سکتی جو اس کے لیے مناسب ِحال نہ ہو۔ مثلاً صورت نباتی کے لیے حیوانی جسم غیرمناسب ہے، اور صورتِ انسانی اسی جسم اور اسی مخصوص طور کے نظام جسمانی کی طالب ہے جو انسان کے لیے بنایا گیا ہے۔ پس اگر کسی شے کو ایک ترقی یافتہ صورت دینی ہو تو لازم ہے کہ فرو تر درجے کی صورت کے لیے جو محل بنایا گیا تھا اس کو توڑ دیا جائے، اور نئی صورت کے لیے اس کے مناسب حال محل تیار کیا جائے۔
۴۔ اجزائے عالم کے حق میں قانونِ ارتقا کی ہمہ گیری کو جس شخص نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے، اس کے نزدیک یہ بات ہرگز مستبعد نہیں ہے کہ یہی قانون اس پورے نظامِ عالم پر بھی حاوی ہو۔ اس وقت جو نظامِ عالم ہم دیکھ رہے ہیں، اس کے متعلق ہم نہیں کہہ سکتے کہ جب سے خلق و ابداع کا سلسلہ شروع ہوا ہے، اس سے پہلے نہ معلوم کتنے اور نظامات گزر چکے ہوں گے، جن میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی عمر پوری کرکے دوسرے ترقی یافتہ نظام کے لیے جگہ خالی کردی، اورارتقا کے تدریجی مراتب سے گزر کر سلسلۂ وجود ہمارے اس نظام تک پہنچا۔ اسی طرح یہ نظام بھی کوئی آخری نظام نہیں ہے، یہ بھی جب اپنے امکانی کمالات کو پہنچ جائے گا، اور کمال کے بالاتر درجے کو قبول کرنے کی استعداد اس میں باقی نہ رہے گی، تو اس کو توڑ دیا جائے گا اور اس کے بجائے کوئی دوسرا نظام قائم کیا جائے گا جس کے قوانین کچھ اور ہوں گے، اورجس میں وجود کے کامل تر مراتب قبول کرنے کی صلاحیت ہوگی۔
۵۔ عالم کے موجودہ نظام پر غور کرنے سے ہم کو بیّن طور پر یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ یہ ایک ناقص نظام ہے اور مزید تکمیل کا محتاج ہے۔ اس نظام میں اشیا کی حقیقتیں مادی آلائشوں سے اس درجہ آلودہ ہیں کہ حقیقتوں نے اوہام کا اور ان کے مادی لباسوں نے حقیقتوں کامرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ جوچیز جتنی زیادہ لطیف اور مادی آلائشوں سے مجرّد ہے وہ اس نظامِ عالم میں اتنی ہی زیادہ مخفی و مستور، اور عقل و شعورکی دست رس سے دُور ہے۔ یہاں ٹھوس مادی جسم وزن رکھتا ہے اور لطیف و بسیط حقائق کا کوئی وزن نہیں ہے۔ یہاں لکڑی اور پتھر ناپے اور تولے جا سکتے ہیں، مگر عقل و فکر، خیال ورائے، نیت وارادہ، جذبات و وجدانات کو ناپنے اور تولنے کے لیے اس عالم کے قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں غلہ تولا جا سکتا ہے، مگر محبت اور نفرت کو تولنے والا کوئی ترازو نہیں ہے۔ یہاں کپڑا ناپا جا سکتا ہے، مگر بغض و حسد کو ناپنے کے لیے کوئی پیمانہ موجود نہیں۔ یہاں روپے پیسے کی قدریں متعین کی جا سکتی ہیں، مگر اس جذبے کی قدر و قیمت متعین کرنا ممکن نہیں ہے جو سخاوت یا بخل کے لیے محرک ہوتا ہے۔ یہ اس عالم کے نظام کا نقص ہے۔ عقل چاہتی ہے کہ اس سے زیادہ ترقی یافتہ کوئی اور نظام ہو جس میں حقیقتیں مادی لباسوں کی محتاج نہ رہیں اور بے نقاب جلوہ گر ہو سکیں۔ جس میں لطافتیں کثافتوں پر غالب آ جائیں اور جو کچھ اب مستور و مخفی ہے وہ نمایاں اور جلی ہوجائے۔ اسی طرح یہ بھی اس عالم کا نقص ہے کہ یہاں مادی قوانین کا غلبہ ہے جس کی وجہ سے افعال کے صرف وہی نتائج مترتب ہوتے ہیں جو مادی قوانین کے مقتضیات سے مطابقت رکھتے ہوں، اور ایسے نتائج مترتب نہیں ہونے پاتے جو مقتضیاتِ عقل و حکمت کے مطابق ہوں۔ یہاں آگ لگائو تو ہر آتش پذیر شے جل جائے گی، پانی ڈالو تو نمی کو قبول کرنے والی ہر شے بھیگ جائے گی، مگر نیکی کرو تو اس کا پھل نیکی کی صورت میں ظاہر نہ ہو گا جو اس کا حقیقی عقلی نتیجہ ہے، بلکہ اس صورت میں ظاہر ہو گا جو مادی قوانین کے تحت ظاہر ہو سکتا ہے، خواہ وہ نیکی کے بالکل برعکس بدی ہی کی صورت کیوں نہ ہو۔ اس نقص کودیکھ کر عقل تقاضا کرتی ہے کہ اس نظام کے بعد کوئی اور ترقی یافتہ نظام ایسا قائم ہو جس میں مادی قوانین کے بجائے عقلی قوانین جاری ہوں، اور افعال کے وہ حقیقی نتائج ظاہر ہوں جو اس نظام میں مادی قوانین کے غالب ہونے کی وجہ سے ظاہر نہیں ہو سکتے۔
نظامِ عالم کا خاتمہ
ان مقدمات کو سمجھ لینے کے بعد اب دیکھیے کہ قرآنِ حکیم نے قیامت اور نشا ٔۃِ آخرت کا جو نقشہ کھینچا ہے اس میں آپ کے سوال کا کیا جواب ملتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ:
مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَـقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ الاحقاف46:3
ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان جو چیزیں ہیں ان سب کو مقتضائے حکمت کے مطابق اور ایک مدت مقررہ تک کے لیے پیدا کیا ہے۔
وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۭ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ الرعد 2:13
اس نے چاند سورج کو اپنے قانون کا پابند کر دیا۔ یہ سب ایک مدت مقررہ تک کے لیے چل رہے ہیں۔
اِذَا السَّمَاۗءُ انْفَطَرَتْo وَاِذَا الْكَوَاكِبُ انْـتَثَرَتْo وَاِذَا الْبِحَارُ فُجِّـــرَتْo وَاِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْo الانفطار82:4-1
جب آسمان پھٹ جائے گا اور کواکب منتشر ہو جائیں گے اور سمندر پھوٹ نکلیں گے اور قبریں اکھاڑ دی جائیں گی۔
اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْo وَاِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْo وَاِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْo
التکویر 1-3:81
اور جب آفتاب کو لپیٹ دیا جائے گا اور تارے درہم برہم ہو جائیں گے اور پہاڑ چلائے جائیں گے۔
فَاِذَا النُّجُوْمُ طُمِسَتْo وَاِذَا السَّمَاۗءُ فُرِجَتْo وَاِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْo
المرسلٰت77:10- 8
پھر جب تارے ماند پڑ جائیں گے اور جب آسمان شق کر دیا جائے گا اور جب پہاڑ اڑائے جائیں گے۔
فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُo وَخَسَفَ الْقَمَرُo وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُo القیامہ 7-9:75
جب آنکھیں پتھرا جائیں گی اور چاند گہنا جائے گا اور چاند سورج ملا دیے جائیں گے۔
وَّحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّۃً وَّاحِدَۃًo الحاقہ 14:69
زمین اور پہاڑوں کو اٹھا کر ٹکرا دیا جائے گا اور ایک ہی ٹکر میں وہ پاش پاش ہو جائیں گے۔
يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِo
ابراہیم 48:14
جس روز زمین بدل کر دوسری طرح کی زمین کر دی جائے گی اور اسی طرح آسمان بھی، اور سب کے سب خدائے واحد قہار کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے۔
یہ سب اشارات ہیں اس طرف کہ اس نظامِ عالم کی ایک خاص عمر مقرر ہے۔ یہ کوئی دائمی نظام نہیں ہے۔ جب اس کی عمر پوری ہو جائے گی تو یہ نظام درہم برہم کر دیا جائے گا۔ سورج، زمین، چاند اور دوسرے سیارے جو اس نظام کے ارکان ہیں، اور جن کی گردشوں سے اس نظام کا قیام ہے، منتشر ہو جائیں گے، ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے اور یہ عارضی عمارت توڑ ڈالی جائے گی۔ مگر اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ عالمِ وجود کا خاتمہ ہو جائے گا، خلق و ابداع کا سلسلہ بند کر دیا جائے گا، بلکہ اس کا مدّعا یہ ہے کہ وجود کا یہ خاص طور جو اس نظام میں نظر آ رہا ہے، بدل ڈالا جائے گا، اور عالم وجود کے لیے ایک دوسرانظام قائم کیا جائے گا جس کی طرف يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ ابراہیم 48:14 میں اشارہ کیا گیا ہے۔
حیاتِ اُخروی کا نظام کیا ہو گا؟
وہ نظام کیسا ہو گا؟ اس کی جو کیفیت قرآن میں بیان کی گئی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ موجودہ نظام ہی کے نقص کی تکمیل ہے، اسی نظام کی ارتقائی صورت ہے، اور ویسی ہی ہے جیسی عقل چاہتی ہے کہ ہو۔اس نظام میں وزن اور پیمایش اور حساب سب کچھ ہو گا، مگر مادی چیزوں کے لیے نہیں بلکہ لطیف، بسیط اور مجرد حقیقتوں کے لیے۔ وہاں خیر اور شر، ایمان اور کفر، اخلاق اور ملکات کا وزن ہو گا۔ نیتوں اور ارادوں کی پیمایش ہو گی۔ دلوں کے اعمال ناپے اور تولے جائیں گے۔ وہاں اس روٹی کے وزن اور اس پیسے کے عدد کا حساب نہ ہو گا جو آپ نے کسی غریب کو دیا ہے، بلکہ اس نیت کا حساب ہو گا جو اس بخشش کے لیے محرک ہوئی ہے، اس لیے کہ وہاں کا قانون مادی نہیں، عقلی ہو گا۔
اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْہُ مَسْــــُٔــوْلًاo بنی اسرائیل 36:17
آنکھ اور کان اور دل سب کی پوچھ گچھ ہو گی۔
وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا۝۰ۭ وَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَابِہَا۝۰ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِيْنَo الانبیائ 47:21
اور قیامت کے روز ہم ٹھیک وزن کرنے والے ترازو رکھ دیں گے، پھر کسی نفس پر کچھ ظلم نہ ہو گا اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہو گا تو ہم اس کو لے آئیں گے، اور ہم حساب کرنے کے لیے کافی ہیں۔
وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۝۰ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَظْلِمُوْنَo
الاعراف 8-9:7
اس روز اعمال کا تولا جانا برحق ہے۔ پھر جس کے اعمال کا وزن بھاری ہو گا وہی فلاح پانے والا ہو گا، اور جس کے اعمال کا وزن ہلکا ہو گاوہ، وہ لوگ ہوں گے جنھوں نے اپنے آپ کو خود نقصان میں ڈالا۔
يَوْمَىِٕذٍ يَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا۝۰ۥۙ لِّيُرَوْا اَعْمَالَہُمْo فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗo وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا يَّرَہٗo الزلزال 6-8:99
اس روز لوگ جدا جدا نکلیں گے تاکہ ان کے اعمال انھیں دکھائے جائیں۔ پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھے گااور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی وہ اس کو دیکھے گا۔
اس دوسرے نظام میں وہ سب چیزیں نمایاں ہو جائیں گی جو اس مادی نظام میں مادی قوانین کی بندشوں کے سبب سے چھپی ہوئی ہیں۔ وہاں مخفی اور مستور حقیقتیں بے نقاب سامنے آ جائیں گی اور ہر چیز کی اصلی اور حقیقی حیثیت کھل جائے گی۔
لَقَدْ كُنْتَ فِيْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاۗءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيْدٌo
قٓ 22:50
انسان سے کہا جائے گا کہ تو اس چیز سے غفلت میں تھا، اب ہم نے تیری آنکھوں پر سے پردہ اٹھا دیا اور اب تیری نگاہ بہت تیز ہے۔
يَوْمَىِٕذٍ تُعْرَضُوْنَ لَا تَخْفٰى مِنْكُمْ خَافِيَۃٌo الحاقہ 18:69
اس روز تم پیش کیے جائو گے۔ تمھارا کوئی راز مخفی نہ رہے گا۔
وہاں افعال کے وہ حقیقی نتائج مترتب ہوں گے جو عقل و حکمت اور عدل و انصاف کے مطابق ہیں۔ موجودہ نظام کے مادی قوانین اور مادی اسباب و وسائل، جن کے اثر سے افعال کے حقیقی اور عقلی نتائج مترتب نہیں ہو سکتے، وہاں نافذ نہیں ہوں گے، اس لیے وہ تمام چیزیں جو یہاں عدل و انصاف میں مانع ہوتی ہیں، اور صحیح نتائج مترتب نہیں ہونے دیتیں، وہاں بالکل بے اثر ہو جائیں گی۔ مثال کے طور پر یہاں دولت، مادی وسائل کی کثرت، دوستوں اور حامیوں کی طاقت، سعی، سفارش، خاندانی اثرات، خود اپنی چالاکی و ہوشیاری اور ایسی ہی دوسری چیزیں انسان کو اس کے بہت سے افعال کے نتائج سے بچا لیتی ہیں۔ مگر وہاں ان اسباب کی تاثیریں باطل ہو جائیں گی اور ہر فعل کا وہی نتیجہ برآمد ہو گا جو عدل اور حق کی بِنا پر برآمد ہونا چاہیے۔
ہُنَالِكَ تَبْلُوْا كُلُّ نَفْسٍ مَّآ اَسْلَفَتْ یونس 30:10
وہاں ہرنفس اپنے ان اعمال کو خود جانچ لے گا جو وہ پہلے کر چکا ہے۔
وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَo آل عمران 25:3
ہر نفس کو جیسا اس نے کیا ہے اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا اور ان پر ظلم نہ ہو گا۔
يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا۝۰ۚۖۛ وَّمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْۗءٍ۝۰ۚۛ
آل عمران 30:3
وہ دن جب کہ ہر نفس ہر اس نیکی کو جو اس نے کی ہے اور ہر اس برائی کو جو وہ کر چکا ہے حاضر پائے گا۔
وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـيْــــًٔـا وَلَا يُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَo البقرہ 48:2
ڈرو اس دن سے جب کہ ایک نفس دوسرے نفس کے کچھ کام نہ آئے گا، اور نہ اس کے حق میں کوئی سفارش قبول کی جائے گی، اور نہ اس سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا، اور نہ ان کی کوئی مدد کی جاسکے گی۔
فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَہُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَo فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ المومنون 101-103:23
پھر جب صور پھونک دیا گیا تو اس روز ان میں کوئی نسبی تعلق باقی نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔ جن کے اعمال کا پلہ بھاری ہو گا، وہی لوگ فلاح پائیں گے اور جن کے اعمال ہلکے ہوں گے وہ وہی لوگ ہوں گے جنھوں نے خود اپنے آپ کو نقصان میں ڈالا۔
يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَo اِلَّا مَنْ اَتَى اللہَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍo الشعرائ 88-89
اس دن جب کہ نہ مال کچھ نفع دے گا اور نہ اولاد، نجات صرف اس کی ہو گی جو خدا کے پاس قلبِ سلیم کے ساتھ حاضر ہو گا۔
وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَـمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّتَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَاۗءَ ظُہُوْرِكُمْ۝۰ۚ وَمَا نَرٰي مَعَكُمْ شُفَعَاۗءَكُمُ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّہُمْ فِيْكُمْ شُرَكٰۗؤُا۝۰ۭ لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَo الانعام 94:6
تم ہمارے پاس اکیلے آئے ہو جیسا ہم نے تم کو پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا۔ ہم نے تم کو جو کچھ ساز و سامان دیا تھا اس سب کو تم پیچھے چھوڑ آئے ہو اور اب ہم تمھارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھتے جن کو تم اپنی پرورش اور رزق بخشی میں خدا کا شریک سمجھتے تھے۔ تمھارے درمیان سب رابطے ٹوٹ چکے ہیں اور باطل ہو چکے ہیں۔
لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ۝۰ۚۛ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۚۛ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ۝۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌo الممتحنہ60:3
قیامت کے دن تمھاری رشتے داریاں اور تمھاری اولاد تمھارے لیے کچھ بھی نافع نہ ہو گی۔ اللّٰہ تمھارے درمیان فیصلہ کرے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کو وہ دیکھتا ہے۔
يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْہِo وَاُمِّہٖ وَاَبِيْہِo وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِيْہِo لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ يَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ يُّغْنِيْہِo عبس 34-37:80
وہ دن جب کہ آدمی اپنے بھائی اور ماں باپ اور بیوی اور بچوں سے بھاگے گا، اس روز ہر شخص اپنے اپنے حال میں مبتلا ہو گا۔
موجودہ نظام میں یہ نقص ہے کہ یہاں قدرت کے انعامات کی تقسیم انسان کے عمل اور اس کی خوبی پر منحصر نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایسے اسباب پر مبنی ہے جن میں ذاتی اعمال اور نفسی صلاحیتیں محض ایک سبب کی حیثیت رکھتی ہیں اور دوسرے قوی تر اسباب ان کی تاثیر کو ضعیف بلکہ بسا اوقات بالکل زائل کر دیتے ہیں۔ اس وجہ سے انعامات کی تقسیم میں استحقاقِ ذاتی کو دخل نہیں ہوتا، یا ہوتا بھی ہے تو بہت کم۔ یہاں ایک شخص تمام عمر ظلم اور فسق کرنے کے باوجود خوش حالی اور دنیوی برکات سے متمتع ہو سکتا ہے، اور ایک شخص زندگی بھر ایمان داری اور پرہیز گاری کے ساتھ بسر کرنے کے باوجود خستہ حال اور دنیوی مصائب سے پراگندہ حال رہ سکتا ہے۔ یہ نقص تکمیل کا محتاج ہے اور حکمت کا مقتضا یہ ہے کہ موجودہ نظام ترقی کرکے ایک ایسے نظام میں تبدیل ہو جائے جس میں عدل کے ساتھ جزا و سزا کی تقسیم ہو اور ہر شخص کو وہی ملے جس کا وہ اپنے ذاتی حُسن و قبح کی بِنا پر مستحق ہو۔ قرآن کہتا ہے کہ دارِ آخرت کا نظام ایسا ہی ہو گا:
اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ۝۰ۡاَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِo ص 28:38
کیا ہم ایمان لانے والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انھی جیسا بنا دیں گے جو زمین میں فسادکرتے ہیں؟ کیا ہم متقیوں اور فاجروں کو یکساں کر دیں گے؟
اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝۰ۙ سَوَاۗءً مَّحْيَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ۝۰ۭ سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَo الجاثیہ 21:45
کیا بدکاریاں کرنے والے یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کو ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے برابر کر دیں گے اور ان کی زندگی و موت یکساں ہو گی؟ یہ کیسی بری بات ہے جس کا وہ حکم لگاتے ہیں۔
وَلِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا۝۰ۭ الانعام 132:6
ہر ایک کے لیے ویسے ہی درجات ہوں گے جیسے انھوں نے عمل کیے۔
وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِيْنَo وَبُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ لِلْغٰوِيْنَo الشعرائ 90-91:26
جنت پرہیز گاروں کے قریب لائی جائے گی اور دوزخ گمراہوں کے سامنے کر دی جائے گی۔
یہ ہے اس دوسرے جہان کا نقشہ جس کو اس جہان کے بعد محمدؐ کا مذہب اور تمام انبیا علیہم السلام کا مذہب تجویز کرتا ہے۔ جو لوگ اس جہان اور اس کے سارے کارخانے کو ایک کھیل، ایک گھروندا، ایک بے مقصد و بے حاصل ہنگامہ، اور ایک ایسا مہمل گورکھ دھندا سمجھتے ہیں جو اہمال سے شروع ہو اور اہمال ہی میں ختم ہو جائے گا، ان کو تو اس تجویز اور اس کے دلائل و شواہد میں کوئی بات ماننے کے قابل نظر نہ آئے گی، مگر جو شخص نظامِ عالم کو خدا کا آفریدہ سمجھتا ہے اور خدا کو حکیم مانتا ہے، وہ ان دلائل پر غور کرنے کے بعد یقیناً یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گا کہ موجودہ نظامِ عالم کے بعد اس طور اور اس کیفیت کے ایک نظام کا ہونا ضروری ہے، اور جب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی ممکن ہے، تو اس ممکن کی ضرورت کا ثابت ہو جانا اس بات پر ایمان لانے کے لیے بالکل کافی ہے کہ خدائے حکیم و دانا اس ممکن ضروری الوجود کو ضرور وجود بخشے گا۔
اس بحث سے واضح ہو گیا کہ اسلام نے جس حیاتِ اُخروی پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا ہے وہ بعید از عقل نہیں ہے، جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے، بلکہ عین مقتضائے عقل و حکمت ہے، اور علم و عقل کی کسی ترقی سے اس ایمان میں رخنہ نہیں پڑ سکتا، بشرطیکہ وہ ترقی حقیقی ہو نہ کہ سطحی اور نمایشی۱؎۔
اعتقادِ یومِ آخر کی ضرورت
اب تک جو کچھ کہا گیا ہے اس سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ اس دنیوی زندگی کے بعد ایک اُخروی زندگی کا وجود میں آنا ممکن اور اغلب اور اقتضائے حکمت کے مطابق ہے، اور عقل (بشرطیکہ صحیح و سلیم ہو) اور علم (بشرطیکہ حقیقی ہو) ہم کو اُخروی زندگی کے اس تصور پر جو قرآن نے پیش کیا ہے، ایمان لانے سے روکتے نہیں بلکہ اس پر آمادہ کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اُخروی زندگی کے اس تصور پر ایمان لانے کی ضرورت کیا ہے؟ اس کو ایمانیات میں کیوں داخل کیا گیا ہے؟ اس پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے کہ مسلمان ہونے کے لیے اس کو ماننا لازم ہو اور کوئی شخص اس کو تسلیم کیے بغیر مسلمان نہ ہو سکتا ہو؟ اس کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی ہے کہ اس کا انکار کرنے کے بعد خدا اور رسولؐ اور کتاب پر ایمان لانا بھی نافع نہ ہو، حتیٰ کہ زندگی بھر کے نیک اعمال بھی غارت ہو جائیں؟ ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ اُخروی زندگی کانظریہ بھی ویسا ہی ایک مابعد الطبیعی نظریہ ہے جیسے ما بعد الطبیعیات کے دوسرے نظریات ہیں۔ ہم نے مانا کہ یہ نظریہ دلیل و حجت سے خوب مستحکم کر دیا گیا ہے، اور اس کو تسلیم کرنے کے لیے کافی وجوہ موجود ہیں، لیکن ما بعد الطبیعیات کے کسی مسئلے کا دلیل سے ثابت ہو جانا یہ معنی تو نہیں رکھتا کہ اس پر ایمان لانا ضروری ہو جائے اور اسی پر کفر و اسلام کا مدار ٹھیرے۔حیاتِ اُخروی کی طرح مابعد الطبیعیات کے اور بھی بہت سے نظریات ایسے ہیں جن کی تائید میں قوی دلائل موجود ہیں۔ پھر ان سب کو بھی اسی طرح داخلِ ایمان کیوں نہ کر لیا گیا؟
اگر حیاتِ اُخروی کے اعتقاد کی حیثیت محض ایک ما بعد الطبیعی مسئلے کی ہوتی تو یہ اعتراض یقیناً قوی ہوتا۔ اس صورت میں اس مسئلے کو ایمانیات میں داخل کرنے کی کوئی معقول وجہ نہ تھی، کیوں کہ کسی خالص ما بعد الطبیعی مسئلے کا اس حیثیت سے کہ وہ ما بعد الطبیعی مسئلہ ہے، ہماری عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر ہم اس سے خالی الذہن ہوں یا اس کو ماننے سے انکار بھی کر دیں تو ہمارے اخلاق اور اعمال پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن حیاتِ اُخروی کے مسئلے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض ایک فلسفیانہ مسئلہ ہی نہیں ہے، بلکہ انسان کی اخلاقی اور عملی زندگی سے اس کا ایک گہرا تعلق ہے۔ اس کو ماننے سے دنیوی زندگی اور اس کے معاملات کے متعلق انسان کا نقطۂ نظر بنیادی طور پر بدل جاتا ہے۔ اس اعتقاد کو تسلیم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے آپ کو ایک ذمے دار اور جواب دہ ہستی سمجھے اور اپنی زندگی کے تمام معاملات یہ سمجھتے ہوئے انجام دے کہ وہ اپنی ہر حرکت اور ہر فعل کے لیے ذمے دار ہے۔ آیندہ زندگی میں اس کو اپنے تمام اعمال کی جواب دہی کرنی ہے اور مستقبل کی سعادت و شقاوت اس کے حال کی نیکی اور بدی پر منحصر ہے۔ بخلاف اس کے اس اعتقاد کو تسلیم نہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے آپ کو غیر ذمے دار اور غیر مسئول ہستی سمجھے اور اپنی دنیوی زندگی کا سارا پروگرام اس خیال کے تحت مرتب کرے کہ وہ اس زندگی کے اعمال کے لیے کسی دوسری زندگی میں جواب دہ نہیں ہے اور آیندہ کوئی اچھا یا برا نتیجہ اس زندگی کے اعمال و افعال پر مترتب ہونے والا نہیں ہے۔ اس عقیدے سے خالی الذہن ہونے یا اس کو نہ ماننے کا لازمی اثر یہ ہو گا کہ انسان کی نظر اپنے اعمال کے صرف ان نتائج پر ہو گی جو اس دنیوی زندگی میں مترتب ہوتے ہیں اور انھی نتائج کے لحاظ سے وہ رائے قائم کرے گا کہ کون سا فعل اس کے لیے مفید ہے اور کون سا مضر۔ وہ زہر کھانے اور آگ میں ہاتھ ڈالنے سے ضرور احتراز کرے گا، کیوں کہ اس کو معلوم ہے کہ وہ ان دونوں حرکتوں کے برے نتائج اپنی اسی زندگی میں بھگت لے گا۔ لیکن ظلم، بے انصافی، جھوٹ ، غیبت، خیانت، زنا اور ایسے ہی دوسرے افعال کے پورے نتائج چوں کہ اسی دنیوی زندگی میں ظاہر نہیں ہوتے، اس لیے وہ ان سے صرف اسی حد تک اجتناب کرے گا جس حد تک ان کا کوئی برا نتیجہ اس زندگی میں مترتب ہونے کا اندیشہ ہو۔ اور جہاں کوئی بُرا نتیجہ مترتب ہوتا نظر نہ آئے یا برعکس اس کے ان سے کوئی فائدہ حاصل ہونے کی امید ہو، تو وہ ان افعال کے ارتکاب میں کوئی تامل نہ کرے گا۔ غرض کہ اس تصور کے ماتحت اس کی نگاہ میں کسی اخلاقی فعل کی کوئی متعین اخلاقی قدر نہ ہو گی، بلکہ ہر ایسے فعل کی اچھائی اور برائی اس نتیجے کی اچھائی اور برائی پر منحصر ہو گی جو اس پر اس دنیا میں مترتب ہوتا ہو۔ بخلاف اس کے جو شخص یومِ آخر کا معتقد ہو گا اس کی نظر اپنے اخلاقی افعال کے صرف انھی نتائج پر نہ ہو گی جو اس زندگی میں مترتب ہوتے ہیں، بلکہ وہ ان آخری نتائج پرنگاہ رکھے گا جو اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی میں ظاہر ہونے والے ہیں، اور ان نتائج کے لحاظ سے ہر فعل کے مفید یا مضر ہونے کا فیصلہ کرے گا۔ اس کو جس طرح زہر کے مہلک اور آگ کے موذی ہونے کا یقین ہو گا اسی طرح خیانت اور جھوٹ کے مہلک اور مُوذی ہونے کا بھی یقین ہو گا۔ وہ جس طرح روٹی اور پانی کو مفید سمجھے گا اسی طرح عدل و امانت اور عفت کو بھی مفید سمجھے گا۔ وہ اپنے ہر فعل کے ایک متعین اور یقینی نتیجے کا قائل ہو گا، خواہ وہ نتیجہ اس زندگی میں قطعاً ظاہر نہ ہو بلکہ برعکس صورت میں ظاہر ہو۔ اس کے پاس اخلاقی اعمال کی متعین اخلاقی قدریں ہوں گی اور ان قدروں میں دنیوی فوائد یا مضرتوں سے کوئی تغیر واقع نہ ہو گا۔ اس کے نظامِ اخلاق میں صداقت، انصاف اور وفائے عہد بہرحال صواب اور حَسن ہی ہوں گے، خواہ اس دنیا میں ان سے سراسر نقصان ہی نقصان ہو اور قطعاً کوئی فائدہ نہ ہو۔ اور جھوٹ، ظلم اور بد عہدی بہرحال گناہ اور بدی ہی ہوں گے، خواہ ان سے دنیا میں سراسر فائدہ ہی فائدہ ہو اور ذرّہ برابر کوئی نقصان نہ ہو۔
پس حیاتِ اُخروی کے اعتقاد سے خالی الذہن ہونے یا اس کا انکار کر دینے کے معنی اسی قدر نہیں ہیں کہ انسان ایک ما بعد الطبیعی نظریے سے خالی الذہن رہا یا اس نے اس نظریے کو ماننے سے انکار کر دیا، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی ذمے دارانہ اور مسئولانہ حیثیت سے غافل ہو گیا، اپنے آپ کو مطلق العنان اور جواب دہی سے بری الذمہ سمجھ بیٹھا، دنیا اور اس کی ظاہری زندگی اور اس کے غیر مکمل بلکہ بسا اوقات دھوکا دینے والے نتائج سے مطمئن ہو گیا، اور اس نے آخری منافع اور آخری نقصانات سے غافل ہو کر محض ابتدائی اورعارضی اور ناقابلِ اعتبار منفعتوں اور مضرتوں کا اعتبار کر لیا اور انھی کے لحاظ سے اپنے افعال کی ایسی اخلاقی قدریں متعین کیں جو بدلنے والی اور دھوکا دینے والی ہیں۔ وہ ایک صحیح اور پائدار اخلاقی ضابطے سے محروم ہو گیا جو صرف ذمے داری کے احساس اور آخری نتائج کے ملاحظے اور متعین اخلاقی قدروں کے اعتبار ہی سے منضبط ہو سکتا ہے، اور اس طرح اس نے اپنی پوری زندگی دنیا کے ناقص سطحی مظاہر سے دھوکا کھا کر ایک ایسے ناپائدار اور غلط اخلاقی ضابطے کے تحت بسر کی جس میں حقیقی مضرت منفعت بن گئی اور حقیقی منفعت مضرت قرار پائی، حقیقی حسن قبح بن گیا اور حقیقی قبح حسن قرار پایا، حقیقی گناہ صواب بن گیا اور حقیقی صواب گناہ قرار پایا۔
یومِ آخر پر ایمان نہ لانے کے یہی نتائج ہیں جن کو قرآن مجید میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس باب میں آیاتِ قرآنی کا تتبع کیجیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ تمام خرابیاں ایک ایک کرکے گنائی گئی ہیں جو یومِ آخر کو نہ ماننے سے انسان کے اخلاق اور اعمال میں پیدا ہو جاتی ہیں۔
۱۔ انسان اپنے آپ کو مہمل، مطلق العنان، غیر ذمے دار سمجھتا ہے، اپنی زندگی کو بحیثیت مجموعی بے نتیجہ خیال کرتا ہے، اور یہ سمجھ کر کام کرتا ہے کہ کوئی اس کے کام کا نگران اور اس سے حساب لینے والا نہیں ہیں:
اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَo المومنون 115:23
کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تم کو عبث پیدا کیا ہے اور تم ہمارے پاس واپس نہ لائے جائو گے؟
اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًىo القیامہ 36:75
کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ یوں ہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟
اَيَحْسَبُ اَنْ لَّنْ يَّقْدِرَ عَلَيْہِ اَحَدٌo يَقُوْلُ اَہْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًاo اَيَحْسَبُ اَنْ لَّمْ يَرَہٗٓ اَحَدٌo البلد 5-7:90
کیاانسان یہ گمان کرتا ہے کہ اس پرکسی کا بس نہ چلے گا؟ وہ کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال اڑا دیا۔ کیا وہ سمجھتا ہے کہ کسی نے اس کو نہیں دیکھا؟
۲۔ ایسے آدمی کی نظر دنیا کے صرف ظاہری پہلو پر ہوتی ہے، ابتدائی اور سطحی نتائج کو وہ آخری اور حقیقی نتائج سمجھتا ہے اور ان سے دھوکا کھا کر غلط رائے قائم کرتا ہے۔
يَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًا مِّنَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۚۖ وَہُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ہُمْ غٰفِلُوْنَo الروم 7:30
وہ دنیوی زندگی کے صرف ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت سے تو وہ غافل ہی رہے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا وَرَضُوْا بِالْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَاطْمَاَنُّوْا بِہَا یونس 7:10
جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور حیات دنیا سے راضی اور مطمئن ہو گئے ہیں۔
كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَo وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَo القیامہ 20-21:75
ہرگز نہیں، تم تو فوری حاصل ہونے والے نتائج کو پسند کرتے ہو اور آخرت کے نتائج کو چھوڑ دیتے ہو۔
بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَاo وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰىo الاعلیٰ 16-17:87
تم حیاتِ دنیا کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر ہے اور زیادہ پائدار ہے۔
وَّغَرَّتْہُمُ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا۝۰ۚ الاعراف 51:7
ان کو حیات دنیا نے دھوکے میں ڈال دیا ہے۔
۳۔اس ظاہر بینی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کی نگاہ میں اشیا کی اخلاقی قدروں کا معیار بالکل الٹا ہوجاتا ہے۔ جو چیزیں حقیقت میں اپنے آخری نتائج کے لحاظ سے مضر ہوتی ہیں ان کو وہ فوری فوائد پر نظر رکھنے کی وجہ سے مفید سمجھتا ہے، اور جو اعمال آخری نتائج کے لحاظ سے غلط ہیں ان کو وہ ابتدائی نتائج کا لحاظ کرکے خیر و صلاح سمجھنے لگتا ہے۔ اس وجہ سے اس کی دنیوی کوششیں صحیح راہوں سے بھٹک جاتی ہیں اور آخر کار ضائع ہو جاتی ہیں۔
قَالَ الَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا يٰلَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ قَارُوْنُ۝۰ۙ اِنَّہٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍo وَقَالَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللہِ خَيْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا۝۰ۚ القصص79-80:28
جو لوگ دنیوی زندگی ہی کے فائدوں کو چاہتے تھے انھوں نے کہا کہ کاش ہم کو بھی وہی ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے، وہ بڑا ہی خوش نصیب ہے۔ اور جن لوگوں کو علم دیا گیا تھا انھوں نے کہا کہ تم پر افسوس! اللّٰہ کا ثواب اس شخص کے لیے بہت اچھا ہے جو ایمان لایا اور جس نے نیک اعمال کیے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ زَيَّنَّا لَہُمْ اَعْمَالَہُمْ فَہُمْ يَعْمَہُوْنَo النمل 4:27
جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے لیے ہم ان کے کرتوتوں کو خوش نما بنا دیتے ہیں اور وہ بھٹکتے پھرتے ہیں۔
اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّہُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَo نُسَارِعُ لَہُمْ فِي الْخَــيْرٰتِ۝۰ۭ بَلْ لَّا يَشْعُرُوْنَo المومنون 55-56:23
کیا یہ لوگ اس غلط فہمی میں پڑے ہوئے ہیں کہ ہم جو ان کو مال اور اولاد سے مدد دیے جا رہے ہیں تو گویا ان کے لیے بھلائیوں میں سرگرم ہیں؟ مگر یہ لوگ حقیقت کو نہیں سمجھتے۔
ہَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًاo اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُہُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَہُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًاo اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّہِمْ وَلِقَاۗىِٕہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ الکہف 103-105:18
کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ ٹوٹے میں کون لوگ ہیں؟ وہ جن کی کوششیں حیاتِ دنیا میں بھٹک گئیں مگر وہ سمجھتے رہے کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی نشانیوں اور اس کی ملاقات کا انکارکیا، اس لیے ان کے اعمال ضائع ہو گئے۔
۴۔ ایسا شخص کبھی دینِ حق کو قبول نہیں کر سکتا۔ جب کبھی اس کے سامنے مکارمِ اخلاق اور اعمالِ صالح اور راست روی کے طریقے پیش کیے جائیں گے، وہ ان کو ردّ کر دے گا، اور جب ان کے خلاف عقائد اور اعمال پیش کیے جائیں گے تو وہ انھیں اختیار کر لے گا۔ کیوں کہ دین کے جتنے طریقے ہیں، وہ دنیوی زندگی کے بہت سے فوائد ومنافع اور بہت سی لذتوں کی قربانیاں چاہتے ہیں، اور ان کا اصل الاصول یہ ہے کہ آخرت کے بہتر اور پائندہ تر فوائد کے لیے دنیا کے عارضی فوائد کو قربان کر دے۔ مگر منکرِ آخرت اسی دنیا کے فوائد کو فوائد سمجھتا ہے، اس لیے وہ نہ ایسی کسی قربانی کے لیے تیار ہو سکتا ہے، اور نہ دین داری کے ان طریقوں کو اختیار کر سکتا ہے جو ان قربانیوں کے طالب ہیں۔ لہٰذا انکارِ آخرت اور دینِ حق کی پیروی دونوں ایک دوسرے کے نقیض ہیں۔ جو منکرِ آخرت ہو گا وہ کبھی دین حق کا پیرو نہیں ہو سکتا۔
سَاَصْرِفُ عَنْ اٰيٰــتِيَ الَّذِيْنَ يَتَكَبَّرُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ۝۰ۭ وَاِنْ يَّرَوْا كُلَّ اٰيَۃٍ لَّا يُؤْمِنُوْا بِہَا۝۰ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوْہُ سَبِيْلًا۝۰ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوْہُ سَبِيْلًا۝۰ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْہَا غٰفِلِيْنَo وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَلِقَاۗءِ الْاٰخِرَۃِ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ۝۰ۭ ہَلْ يُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَo الاعراف 146-147:7
میں اپنی نشانیوں سے ان لوگوں کو پھیر دوں گا جو زمین میں حق کے بغیر تکبرکرتے ہیں۔ وہ خواہ کوئی آیت دیکھ لیں، اس پر ایمان نہ لائیں گے، اور اگر راہِ راست کو دیکھیں گے تو اسے اختیار نہ کریں گے، اور اگر غلط راستے کو دیکھیں گے تو اس پر چل پڑیں گے۔ یہ اس لیے کہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان سے غافل رہے۔ اور جو لوگ ہماری نشانیوں اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلائیں گے ان کے اعمال اکارت ہوجائیں گے۔ کیا ان کو ویسا ہی بدلہ نہ ملے گا جیسے انھوں نے عمل کیے ہیں؟
۵۔ انکارِ آخرت سے انسان کی پوری اخلاقی اور عملی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ وہ متکبر اور سرکش ہو جاتا ہے۔
فَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ قُلُوْبُہُمْ مُّنْكِرَۃٌ وَّہُمْ مُّسْـتَكْبِرُوْنَo النحل 22:16
جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل حق بات سے انکار کرنے لگتے ہیں اور وہ متکبر ہوجاتے ہیں۔
وَاسْـتَكْبَرَ ہُوَ وَجُنُوْدُہٗ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ اِلَيْنَا لَا يُرْجَعُوْنَo
القصص 39:28
فرعون اور اس کے لشکروں نے زمین میں بغیر کسی حق کے تکبر کیا اور سمجھنے لگے کہ وہ ہمارے پاس واپس نہ لائے جائیں گے۔
اس کے معاملات بگڑ جاتے ہیں
وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَo الَّذِيْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَي النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَo وَاِذَا كَالُوْہُمْ اَوْ وَّزَنُوْہُمْ يُخْسِرُوْنَo اَلَا يَظُنُّ اُولٰۗىِٕكَ اَنَّہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَo لِيَوْمٍ عَظِيْمٍo
المطففین83:5- 1
تباہی ہے ان بد معاملہ لوگوں کے لیے جو دوسروں سے لیتے ہیں تو پورا پورا ناپ تول کر لیتے ہیں اور جب دوسروں کو ناپ تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔ کیا وہ نہیں سمجھتے کہ وہ ایک بڑے دن اٹھائے جانے والے ہیں؟
وہ سنگ دل، تنگ نظر، ریا کار، خود غرض اور عبادتِ الٰہی سے رُوگرداں ہو جاتا ہے:
اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِo فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَo وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِo فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَo الَّذِيْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَo الَّذِيْنَ ہُمْ يُرَاۗءُوْنَo وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَo الماعون107:7-1
کیا تو نے دیکھا کہ اس شخص کو جو روزِ جزا کی تکذیب کرتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کودھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر نہیں ابھارتا۔ پھر افسوس ہے ان نمازیوں پر جو اپنی نمازوں سے غفلت کرتے ہیں۔ جو عمل نیک کرتے بھی ہیں تو دکھانے کے لیے، اور چھوٹی چھوٹی عام ضرورت کی چیزیں بھی لوگوں کو دینے میں دریغ کرتے ہیں۔
مختصر یہ کہ حق سے تجاوز کرنا اور گناہوں میں مبتلا ہو جانا انکارِ آخرت کا لازمی نتیجہ ہے۔
وَمَا يُكَذِّبُ بِہٖٓ اِلَّا كُلُّ مُعْتَدٍ اَثِيْمٍo المطففین 12:83
یوم الجزا کی تکذیب نہیں کرتا مگر ہر وہ شخص جو حق سے تجاوز کر گیا اور گناہوں میں پھنس گیا۔
یوم آخر کے اعتقاد سے خالی الذہن یا منکر ہونے کے یہ ایسے نتائج ہیں جن سے کوئی صاحبِ عقل انکار نہیں کر سکتا۔ خصوصاً جب کہ ہم اپنی آنکھوں سے اس تمدن کے ثمرات بھی دیکھ چکے ہیں جو ظاہر حیاتِ دنیا پر فریفتہ ہو کر زندگی کے محض دنیوی اور مادی مطمحِ نظر پر قائم ہوا ہے، اور حیاتِ اُخروی کے عقیدے سے یکسر خالی ہے، ہمارے لیے اس حقیقت سے انکار کرنے کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہی کہ انکارِ آخرت کے ساتھ خدا پرستی، دین داری اور مکارمِ اخلاق کا قیام بالکل ناممکن ہے۔
اب دیکھیے کہ اسلام جب انھی چیزوں کو قائم کرنا چاہتا ہے، جب وہ انسان کو اخلاقِ فاضلہ اور اعمالِ صالحہ کی طرف دعوت دیتا ہے جن کے لیے دنیا کی بہت سی مادی لذتوں اور منفعتوں کی قربانی ضروری ہے، جب وہ انسان کوعبادتِ الٰہی اور تزکیۂ نفس کی تلقین کرتا ہے جس کا کوئی فائدہ اس دنیا میں مترتب ہوتا نظر نہیں آتا بلکہ اس کے برعکس بہت سی تکلیفوں اور مشقتوں میں انسان کے نفس اور جسم کو مبتلا ہونا پڑتا ہے، جب وہ زندگی کے تمام معاملات اور دنیا کے اسباب و وسائل سے متمتع ہونے میں حرام و حلال اور خبیث و طیب کا امتیاز قائم کرتا ہے، جب وہ بالاتر روحانی مقاصد کے لیے انسان سے شخصی اغراض اور شخصی محبتوں اور رغبتوں اور بسا اوقات جان ومال تک کو قربان کر دینے کا مطالبہ کرتا ہے، اور جب وہ انسان کی زندگی کو ایک ایسے اخلاقی ضابطے کے تحت منضبط کرنا چاہتا ہے جس میں دنیوی فائدے اور نقصان سے قطع نظر کرکے ہر شے کی ایک خاص اخلاقی قدرمتعین کر دی گئی ہے، تو کیا وہ ایسے دین اور ایسی شریعت کو قائم کرنے میں عقیدۂ حیاتِ اُخروی کے بغیر کام یاب ہو سکتا تھا؟ کیا یہ ممکن تھا کہ انسان اس عقیدے سے خالی الذہن یا منکر ہوتے ہوئے ایسی تعلیم کو قبول کر لیتا؟ اگر جواب نفی میں ہے، اور یقیناً نفی میں ہے، تو ماننا پڑے گا کہ اس قسم کے نظامِ دینی اور ضابطۂ اخلاق کو قائم کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ سب سے پہلے انسان کے دل میں حیاتِ اُخروی کے عقیدے کو راسخ کر دیا جائے۔ بس یہی وجہ ہے جس کی بِنا پراسلام نے اس عقیدے کو ایمانیات میں داخل کیا ہے اور اس پر اتنا زور دیا ہے کہ ایمان باللّٰہ کے بعد اور کسی چیز پر اتنا زور نہیں دیا۔
آیئے اب ہم دیکھیں کہ اسلام نے اس عقیدے کو کس شکل میں پیش کیا ہے اور اس سے انسان کے اخلاق و اعمال پر کیا اثرات مترتب ہوتے ہیں۔
دنیا پر آخرت کو ترجیح
سب سے پہلی چیز جس کو قرآن مجید نے انسان کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا انسان کے لیے ایک عارضی جائے قیام ہے۔ اس کے لیے صرف یہی ایک زندگی نہیں ہے بلکہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی اس سے بہتر اور پائندہ تر بھی ہے، جس کے فوائد یہاں کے فائدوں سے زیادہ فراواں اور جس کے نقصانات یہاں کے نقصانات سے زیادہ سخت ہیں۔ جو شخص اس دنیا کے مظاہر سے دھوکا کھا کر اسی کی لذتوں اور منفعتوں کے پیچھے پڑا رہتا ہے، اور ان کو حاصل کرنے کے لیے ایسی کوششیں کرتا ہے جن کی بدولت اس دوسری زندگی کی لذتیں اور منفعتیں اسے حاصل نہیں ہو سکتیں، وہ بہت برا سودا کرتا ہے اور حقیقت میں اس کی یہ تجارت سراسر نقصان کی تجارت ہے۔ اسی طرح جو شخص اس دنیا کے نقصان ہی کو نقصان سمجھتا ہے اور اس سے بچنے کے لیے ایسی سعی کرتا ہے جس سے وہ اپنے آپ کو اس دوسری زندگی کے نقصان کا مستحق بنا لیتا ہے، وہ بہت بڑی حماقت کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کا یہ فعل کسی طرح مقتضائے دانش مندی نہیں ہے۔ اس مضمون کو قرآن مجید میں اس کثرت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ تمام آیات کا استقصا یہاں ممکن نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آیات ذیل ملاحظہ ہوں:
وَمَا ہٰذِہِ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌ۝۰ۭ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ۝۰ۘ
العنکبوت 64:29
یہ دنیا کچھ نہیں ہے مگر لہو و لعب، اور اصلی زندگی کا گھر آخرت ہی ہے۔
قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ۝۰ۚ وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى النسائ 77:4
کہو اے محمدؐ! کہ متاعِ دنیا تھوڑی سی ہے، اور آخرت اس کے لیے بہتر ہے جو پرہیز گاری کے ساتھ زندگی بسر کرے۔
اَرَضِيْتُمْ بِالْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِيْلٌo التوبہ 38:9
کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگی سے راضی ہو گئے؟ دنیا کی زندگی کے سامان تو آخرت کے مقابلے میں بہت ہی تھوڑے ہیں۔
بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَاo وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰىo الاعلیٰ 16-17:87
تم حیاتِ دنیا کو ترجیح دیتے ہو حالاں کہ آخرت زیادہ بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۝۰ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ۝۰ۭ وَمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِo
آل عمران 185:3
ہر شخص کو موت کا مزا چکھنا ہے اور تم کو اپنی اس زندگی کے پورے پورے بدلے قیامت کے دن ملنے والے ہیں۔ پس اس روز جو شخص آگ کے عذاب سے بچ گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہی اصل میں کام یاب ہوا۔ رہی اس دنیا کی زندگی، تو یہ محض دھوکے کا سامان ہے۔
وَاتَّبَعَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مَآ اُتْرِفُوْا فِيْہِ وَكَانُوْا مُجْرِمِيْنَo ھود 116:11
جن لوگوں نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا ہے، وہ انھی لذتوں کے پیچھے پڑے رہے جو ان کو دی گئی تھیں اور وہ مجرم ہوئے۔
قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِيْنَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَاَہْلِيْہِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ اَلَا ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُo الزمر 15:39
اے محمدؐ! کہہ دو کہ سخت نقصان میں وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو اور اپنے بال بچوں کو قیامت کے دن نقصان میں ڈالا۔ یہی اصلی اور کھلا ہوا ٹوٹا ہے۔
فَاَمَّا مَنْ طَغٰىo وَاٰثَرَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَاo فَاِنَّ الْجَــحِيْمَ ھِيَ الْمَاْوٰىo وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَى النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰىo فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِيَ الْمَاْوٰىo
النازعات 37-41:79
پھر جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تو جہنم اس کا ٹھکانا ہے۔ اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کو خواہشات سے روکا، تو جنت اس کا ٹھکانا ہے۔
اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ وَّزِيْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ۝۰ۭ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ يَہِيْجُ فَتَرٰىہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا۝۰ۭ وَفِي الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِيْدٌ۝۰ۙ وَّمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانٌ۝۰ۭ وَمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِo الحدید 20:57
جان لو کہ حیاتِ دنیا تو اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اس میں کھیل اورکود اور زینت اور آپس کا تفاخر اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانا ہے۔ اس کی مثال بارش کی سی ہے کہ اس سے کھیتی لہلہاتی ہے اور کسان اس کو دیکھ کر خوشیاں مناتے ہیں۔ پھر وہ پک کر خشک ہو جاتی ہے اور تو دیکھتا ہے کہ وہ زرد پڑ گئی اور آخر کار روند ڈالی گئی۔ اس کے بعد آخرت کی زندگی ہے جس میں کسی کے لیے سخت عذاب ہے اور کسی کے لیے اللّٰہ کی طرف سے مغفرت اور خوش نودی۔ پس دنیا کی زندگی محض ایک دھوکے کا سامان ہے۔
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ۝۰ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۚ وَاللہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِo قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْ۝۰ۭ لِلَّذِيْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اللہِ۝۰ۭ آل عمران 14-15:3
لوگوں کے لیے عورتوں اور بچوں اور سونے چاندی کے ڈھیروں اور نشان لگے ہوئے گھوڑوں اور جانوروں اور کھیتوں کی محبت خوش نما بنا دی گئی ہے۔ یہ دنیوی زندگی کی متاع ہے مگر اللّٰہ کے پاس اس سے اچھا ٹھکانا ہے۔ کہو اے محمدؐ! کیا میں تمھیں اس سے بہتر متاع کی خبر دوں؟ جن لوگوں نے پرہیز گاری اختیار کی، ان کے لیے ان کے پروردگار کے پاس جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کو پاکیزہ ازواج ملیں گی اور وہ اللّٰہ کی خوش نودی سے سرفراز ہوں گے۔
دنیا پر آخرت کی ترجیح اور آخرت کی دائمی کام یابی کے لیے دنیا کے عارضی منافع کو قربان کرنے، اور آخرت کی ابدی نامرادی سے بچنے کے لیے دنیا کے چند روزہ نقصانات کو برداشت کرنے کی یہ تعلیم نہایت پُرزور اور مؤثر انداز سے اسلام میں دی گئی ہے، اور اس کا منشا یہ ہے کہ جو شخص قرآن اور محمدؐ پر ایمان لایا ہے وہ کسی زور اور زبردستی سے نہیں بلکہ اپنی دلی رغبت سے ہر وہ کام کرے جس کو کتاب اور رسولؐ نے آخرت کی کام یابی کا ذریعہ بتایا ہے، اور ہر اس چیز سے اجتناب کرے جس کو ان دونوں نے آخرت کے نقصانات کا سبب قرار دیا ہے، خواہ دنیا میں وہ اس کے لیے کتنا ہی مفید یا مُضِر ہو۔
نامۂ اعمال اور عدالت
دوسری بات جس کو قرآن مجید نے انسان کے دل میں بٹھانے کی کوشش کی ہے، یہ ہے کہ انسان اپنی دُنیوی زندگی میں جو کچھ کرتا ہے، خواہ کتنا ہی چھپا کر کرے، اس کا ٹھیک ٹھیک ریکارڈ محفوظ رہتا ہے، قیامت کے روز یہی ریکارڈ خدا کی عدالت میں پیش ہو گا۔ ہر ہر ذرّہ جس کو انسان کے افعال سے کسی نوع کا تعلق رہا ہے، اس کے ان افعال پر گواہی دے گا، حتیٰ کہ خود اس کے اپنے اعضا بھی اس کے خلاف گواہوں کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ پھر اس کے نامۂ اعمال کا نہایت صحیح وزن کیا جائے گا۔ میزانِ عدل کے ایک پلڑے میں اس کے نیک اعمال ہوں گے اوردوسرے میں بُرے اعمال۔ اگر نیکی کا پلڑا جھک گیا تو آخرت کی کام یابیاں اس کا خیر مقدم کریں گی اورجنت اس کے لیے جائے قیام ہو گی، اور بدی کا پلڑا بھاری رہا تو خسرانِ مُبین اس کا نتیجہ ہو گا اور وہ بدترین مقام اس کے لیے تجویز کیا جائے گا جس کا نام دوزخ ہے۔ اس عدالت میں ہر شخص تنہا اپنے نامۂ اعمال کے ساتھ حاضر ہو گا اور دُنیوی اسباب میں سے کوئی چیز اس کے کام نہ آئے گی۔ نہ نسبی اعزاز، نہ سعی و سفارش، نہ مال و دولت، اورنہ قوت و طاقت۔
اس مضمون کو بھی بڑی تفصیل کے ساتھ اور بڑے موثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ نمونے کے طور پر چند آیات یہاں پیش کی جاتی ہیں:
سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَہَرَ بِہٖ وَمَنْ ہُوَمُسْتَخْفٍؚبِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّہَارِo لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ يَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللہِ۝۰ۭ
الرعد 10-11:13
تم میں سے جو شخص چھپا کر بات کرتا ہے اور جو زور سے بولتا ہے اور جو شخص رات کی تاریکی میں چھپا ہوا ہے اور جو دن کی روشنی میں چل رہا ہے، دونوں یکساں ہیں۔ بہرحال ہر ایک کے آگے اورپیچھے نگرانی کرنے والے لگے ہوئے ہیں اور وہ خدا کے حکم سے اس کی ہر بات ثبت کر رہے ہیں۔
وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا فِيْہِ وَيَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَۃً وَّلَا كَبِيْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰىہَا۝۰ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۝۰ۭ الکہف 49:18
نامۂ اعمال پیش ہو گا تو اس میں جو کچھ لکھا ہو گا، تم دیکھو گے کہ مجرم اس سے ڈریں گے اور کہیں گے کہ ہائے افسوس! اس کتاب کا کیا حال ہے کہ کوئی چھوٹی یا بڑی بات نہیں چھوڑتی، سب اس میں موجود ہے۔ جو کچھ انھوں نے عمل کیے تھے ان سب کو وہ حاضر پائیں گے۔
يَّوْمَ تَشْہَدُ عَلَيْہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ وَاَيْدِيْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَo
النور 24:24
وہ دن جب کہ ان پر خود ان کی زبانیں اور ان کے اپنے ہاتھ پائوں ان اعمال کی گواہی دیں گے جوانھوں نے کیے تھے۔
حَتّٰٓي اِذَا مَا جَاۗءُوْہَا شَہِدَ عَلَيْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاَبْصَارُہُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَo وَقَالُوْا لِجُلُوْدِہِمْ لِمَ شَہِدْتُّمْ عَلَيْنَا۝۰ۭ قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللہُ الَّذِيْٓ اَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ ………وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْہَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللہَ لَا يَعْلَمُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَo
حٰمٓ سجدہ 20-22:41
یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو ان پر ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان اعمال کی گواہی دیں گی جو وہ کرتے تھے۔ وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی؟ وہ جواب دیں گی کہ ہم کو اس خدا نے گویائی بخشی ہے جس نے ہر شے کو گویا کر دیا ہے… تم چھپا کر کام کرتے تھے اور نہ جانتے تھے کہ تمھارے اعمال پر خود تمھارے کان اور آنکھیں اور کھالیں گواہی دیں گی۔ بلکہ تم سمجھتے تھے کہ تمھارے بہت سے اعمال سے اللّٰہ بھی ناواقف ہے۔
وَشَہِدُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ اَنَّہُمْ كَانُوْا كٰفِرِيْنَo الانعام 130:6
وہ خود اپنے خلاف شہادت دیںگے کہ وہ ناشکر گزار بندے تھے۔
اس نامۂ اعمال اور ان شاہدوں کے ساتھ انسان خدا کی عدالت میں پیش ہو گا۔ پھر اس پیشی کی کیا کیفیت ہو گی؟ وہ اکیلا بے یار و مددگار کھڑا ہو گا۔
وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَـمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّتَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَاۗءَ ظُہُوْرِكُمْ۝۰ۚ الانعام 94:6
اب تم ہمارے پاس ویسے ہی یکہ و تنہا آئے ہو جیسا ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔ تم ان سب چیزوں کو چھوڑ آئے ہوجو ہم نے تم کو دی تھیں۔
وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰۗىِٕرَہٗ فِيْ عُنُقِہٖ۝۰ۭ وَنُخْرِجُ لَہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ كِتٰبًا يَّلْقٰىہُ مَنْشُوْرًاo اِقْرَاْ كِتٰبَكَ۝۰ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًاo
بنی اسرائیل 13-14:17
ہر شخص کی برائی اور بھلائی کا نوشتہ ہم نے اس کے گلے میں لٹکا رکھا ہے اور ہم اس کے لیے قیامت کے روز ایک کتاب نکالیں گے جس کو وہ اپنے سامنے کھلا ہوا پائے گا۔ اس سے کہا جائے گا کہ اپنا نامۂ اعمال پڑھ، آج خود تو ہی اپنا حساب کرنے کے لیے کافی ہے۔
لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ۝۰ۚۛ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۚۛ الممتحنہ60:3
قیامت کے روز نہ تمھارے نسبی رشتے کسی کام آئیں گے اور نہ اولاد۔
سفارش سے کام نہ چلے گا:
مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ حَمِيْمٍ وَّلَا شَفِيْعٍ يُّطَاعُo المومن 18:40
ظالموں کے لیے نہ کوئی دوست ہو گا نہ کسی سفارشی کی بات مانی جائے گی۔
رشوت نہ چلے گی:
يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَo الشعرائ 88:26
وہ دن جب کہ نہ مال کام آئے گا اور نہ اولاد۔
اعمال تولے جائیں گے اور ذرّے ذرّے کا حساب ہوگا:
وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا۝۰ۭ وَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَابِہَا۝۰ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِيْنَo الانبیائ 47:21
ہم قیامت کے روز ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے۔ کسی پر ذرّہ برابر ظلم نہ ہو گا۔ اور اگر ایک رائی کے دانہ بھر بھی عمل ہو گا تو ہم اس کو لے آئیں گے، اور ہم حساب کرنے کے لیے کافی ہیں۔
جزا اور سزا جو کچھ بھی ہو گی عمل کے مطابق ہو گی:
اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo الجاثیہ 28:45
ہر ایک کے لیے ویسے ہی درجے ہوں گے جیسے انھوں نے عمل کیے۔
وَلِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا۝۰ۭ الانعام 132:6
آج تم کو ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسے تم عمل کرتے تھے۔
یہ وہ پولیس اور عدالت ہے جس کا خوف انسان کے نفس میں بٹھا دیا گیا ہے۔ یہ دنیا کی پولیس نہیں ہے، جس کی نگاہ سے انسان بچ سکتا ہے، نہ یہ دنیا کی عدالت ہے، جس کی گرفت سے انسان شہادتوں کے فراہم نہ ہونے یا جھوٹی شہادتیں فراہم ہوجانے یا ناجائز اثرات پڑ جانے کی بدولت رہائی پا سکتا ہے، بلکہ یہ ایسی پولیس ہے جو ہر حال میں اس کی نگرانی کر رہی ہے، اور یہ ایسی عدالت ہے جس کے گواہوں کی نظر سے وہ کسی طرح بچ ہی نہیں سکتا، جس کے پاس اس کے ہر خیال اور ہر عمل کی روداد موجود ہے، اور جس کے فیصلے اتنے منصفانہ ہیں کہ کوئی گناہ سزا سے اور کوئی صواب جزا سے چھوٹ ہی نہیں سکتا۔
اعتقادِ یومِ آخر کا فائدہ
اس طرح اسلام نے یوم آخر کے عقیدے کو اپنے ضابطۂ اخلاقی اورنظامِ شرعی کے لیے ایک زبردست پُشت پناہ بنا دیا ہے، جس میں ایک طرف خیر وصلاح پر عمل کرنے اور شر و فساد سے بچنے کے لیے عقلی ترغیب بھی موجود ہے، اور دوسری طرف نیکی پر یقینی جزا اور بدی پر یقینی سزا کا خوف بھی۔ اس کا ضابطہ اور نظام اپنے بقا و استحکام کے لیے مادی طاقت اور حاکمانہ اقتدار کا محتاج نہیں ہے، بلکہ وہ ایمان بالیوم الآخر کے ذریعے سے انسان کے نفس میں ایک ایسے طاقت ور ضمیر کی تشکیل کرتا ہے جو کسی بیرونی لالچ اور خوف کے بغیر انسان کو آپ سے آپ ان نیکیوں کی طرف راغب کرتا ہے جن کو اسلام نے آخری نتائج کے اعتبار سے نیکی قرار دیا ہے، اور ان گناہوں سے بچنے کی تاکید کرتا ہے جن کو اس نے آخری نتائج کا لحاظ کرتے ہوئے گناہ ٹھیرایا ہے۔
قرآن مجید میں آپ دیکھیں گے کہ جگہ جگہ اس عقیدے کو مکارمِ اخلاق کی تعلیم کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ تقویٰ اور پرہیز گاری کا حکم دیا جاتا ہے تو ساتھ ہی ارشاد ہوتا ہے کہ:
وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْہُ۝۰ۭ البقرہ 223:2
اللّٰہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ تم کو اس کے پاس حاضر ہونا ہے۔
راہِ خدا میں سرفروشی کے لیے ابھارا جاتا ہے تو ساتھ یہ بھی یقین دلایا جاتا ہے کہ اگر تم مارے جائو گے تو درحقیقت مر نہ جائو گے بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائو گے۔ چنانچہ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے:
وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ۝۰ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَo
البقرہ 154:2
اور نہ کہو ان لوگوں کو مُردے جو اللّٰہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور لیکن تم نہیں سمجھتے۔
مصائب پر صبر کی تلقین کی جاتی ہے تو ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ صابرین کے لیے خدا کی طرف سے عنایت اور رحمت ہے۔ اس حقیقت کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے:
اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ۝۰ۣ البقرہ 157:2
وہ لوگ اوپر ان کے درود ہیں پروردگار کی طرف سے اور رحمت۔
بے خوفی اور بہادری کا جذبہ اس طرح پیدا کیا جاتا ہے:
قَالَ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللہِ۝۰ۙ كَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِيْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً كَثِيْرَۃًۢ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ البقرہ 249:2
جو لوگ سمجھتے تھے کہ انھیں اللّٰہ کے پاس حاضر ہونا ہے انھوں نے کہا کہ اللّٰہ کے حکم سے چھوٹی جماعت بڑی جماعت پر غالب آ جاتی ہے۔
سخت سے سخت مشکلات کے مقابلے میں ڈٹ جانے کی قوت یہ کہہ کر پیدا کی جاتی ہے کہ:
نَارُ جَہَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا۝۰ۭ التوبہ 81:9
جہنم کی آگ دنیا کی گرمیوں سے زیادہ سخت ہے۔
نیک کاموں میں مال خرچ کرنے کے لیے یہ کہہ کر ابھارا جاتا ہے کہ
وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ يُّوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَo البقرہ 272:2
جو کچھ خیرات تم کرو گے اس کا پورا اجر تم کو ملے گا اور تمھارے ساتھ ظلم نہ ہو گا۔
بخل سے روکنے کے لیے فرمایا جاتا ہے کہ:
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَخَيْرًا لَّھُمْ۝۰ۭ بَلْ ھُوَشَرٌّ لَّھُمْ۝۰ۭ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ آل عمران 180:3
جن لوگوں کو اللّٰہ نے اپنے فضل سے مال دار کیا ہے اور پھر وہ اس میں بخل کرتے ہیں، وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے اچھا ہے، بلکہ درحقیقت یہ ان کے حق میں برا ہے۔ جس مال میں وہ بخل کرتے ہیں، وہی قیامت کے روز ان کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا۔
سود خواری کے فائدوں سے دست بردار ہونے کے لیے یہ کہہ کر آمادہ کیا جاتا ہے کہ
وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْہِ اِلَى اللہِ۝۰ۣۤ البقرہ 281:2
اس دن سے ڈرو جس میں تم اللّٰہ کے پاس لوٹائے جائو گے۔
متاعِ دنیا سے بے نیازی اور بدکاروں کی خوش حالی پر رشک نہ کرنے کی تعلیم اس طرح دی جاتی ہے کہ:
لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِي الْبِلَادِo مَتَاعٌ قَلِيْلٌ۝۰ۣ ثُمَّ مَاْوٰىھُمْ جَہَنَّمُ۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمِھَادُo لٰكِنِ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا رَبَّھُمْ لَھُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا نُزُلًا مِّنْ عِنْدِ اللہِ۝۰ۭ وَمَا عِنْدَ اللہِ خَيْرٌ لِّلْاَبْرَارِo
آل عمران 196-198:3
اے نبیؐ! دنیا کے ملکوں میں خدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمھیں کسی دھوکے میں نہ ڈال دے۔ یہ محض چند روزہ زندگی کا لطف ہے، پھر سب جہنم میں جائیں گے جو بدترین جائے قرار ہے۔ برعکس اس کے جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں، ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللّٰہ کی طرف سے یہ سامانِ ضیافت ہے ان کے لیے، اور جو کچھ اللّٰہ کے پاس ہے نیک لوگوں کے لیے وہی سب سے بہتر ہے۔

۸۔ اسلامی تہذیب میں ایمان کی اہمیت

ایمانیات پر مجموعی نظر
ایمان کے پانچوں شعبوں پر تفصیل کے ساتھ کلام کیا جا چکا ہے، ان میں سے ہر ایک کے متعلق اسلام کا تفصیلی عقیدہ، نقدِ صحیح کے لحاظ سے اس کا عقلی مرتبہ، انسانی سیرت پر اس کے اثرات، اور تہذیب کی تاسیس و تشکیل میں اس کا حصہ آپ معلوم کر چکے ہیں۔ اب ایک مرتبہ مجموعی حیثیت سے ان سب پر نظر ڈال کر دیکھنا چاہیے کہ یہ ایمانیات مل جل کر کس قسم کی تہذیب پیدا کرتے ہیں۔
اس مضمون کے ابتدائی ابواب میں بیان کیا جا چکا ہے کہ اسلامی تہذیب کا سنگِ بنیاد حیاتِ دنیا کا یہ تصور ہے کہ انسان کی حیثیت اس کرۂ خاکی میں عام موجودات کی سی نہیں ہے، بلکہ وہ خداوندِ عالم کی طرف سے یہاں خلیفہ بنا کر اتارا گیا ہے۔ اس تصور سے بطور ایک عقلی نتیجے کے انسان کی زندگی کا یہ نصب العین قرار پایا کہ وہ اپنے خالق اور اپنے آقا کی خوش نودی حاصل کرے، اور اس نصب العین کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہو گیا کہ:
اوّلاً، وہ خدا کی صحیح معرفت حاصل کرے۔
ثانیاً، وہ صرف خدا کو آمر اور ناہی، حاکم اور مطاع سمجھے اور اپنے اختیار کو احکامِ خداوندی کے تابع کر دے۔
ثالثاً، وہ ان طریقوں کو معلوم کرے جن سے خدا کی خوش نودی حاصل ہو سکتی ہے، اور جب وہ طریقے معلوم ہو جائیں تو انھی کے مطابق زندگی بسر کرے۔
رابعاً، وہ خدا کی خوش نودی کے ثمرات اور اس کی ناخوشی کے نتائج سے واقف ہو، تاکہ حیاتِ دنیا کے مکمل نتائج سے دھوکا نہ کھائے۔
وہ پانچ عقیدے جن کی تفصیل آپ کو اوپر معلوم ہو چکی ہے، اسی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔
خدا کی ذات و صفات کے متعلق جو کچھ قرآن میں بیان کیا گیا ہے وہ سب اس لیے ہے کہ انسان کو اس ہستی کی صحیح معرفت حاصل ہو جس کی طرف سے وہ خلیفہ بنا کر زمین پر بھیجا گیا ہے اور جس کی خوش نودی حاصل کرنا اس کی زندگی کا نصب العین ہے۔ ملائکہ کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے وہ اس لیے ہے کہ انسان، کائنات کی کارکن طاقتوں میں سے کسی کو کار فرما نہ سمجھ بیٹھے، اور کارفرمائی میں خدا کے سوا کسی کو شریک نہ قرار دے۔ اس علم صحیح کے بعد خدا پر ایمان لانے کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح تمام کائنات پر، اور خود انسان کی زندگی کے غیر اختیاری شعبے پر خدا کی حکومت ہے، اسی طرح انسان اپنی زندگی کے اختیاری شعبے میں بھی خدا کی حکومت تسلیم کرے۔ ہر معاملے میں خدا کو واضعِ قانون اور اپنے آپ کو صرف متبعِ قانون سمجھے، اور اپنے اختیارات کو ان حدود کے اندر محدود کر دے جو خدا نے مقرر کیے ہیں۔ یہی ایمان اپنے اندر وہ قوت رکھتا ہے جو انسان کو خدا کی فرماں روائی کے آگے بطوع و رغبت سرِ تسلیم خم کر دینے کے لیے آمادہ کرتی ہے۔ اس سے مردِ مومن کے اندر ایک خاص نوعیت کا ضمیر پیدا ہوتا ہے اور ایک خاص قسم کی سیرت بنتی ہے جو قانون اور حدود کا مجبوراً نہیں بلکہ رضا کارانہ اتباع کرنے کے لیے ضروری ہے۔
رسالت اور کتاب کا عقیدہ تیسری ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ انھی دونوں کے ذریعے سے انسان کو ان قوانین اور ان طریقوں کا تفصیلی علم ہوتا ہے جن کو خدا نے انسان کے لیے مقرر کیا ہے۔ اور ان حدود کی شناخت میسر ہوتی ہے جن سے خدا نے انسان کے اختیارات کو محدود فرمایا ہے۔ رسولؐ کی تعلیم کو خدا کی تعلیم، اور اس کی پیش کی ہوئی کتاب کو خدا کی کتاب سمجھنا ہی ایمان بالرسالت اور ایمان بالکتاب ہے، اور اس ایمان ہی سے انسان میں یہ قابلیت پیدا ہوتی ہے کہ یقین و اذعان کے ساتھ ان قوانین اور طریقوں اور حدود کی پابندی کرے جو خدا نے اپنے رسولؐ اور اپنی کتاب کے واسطے سے اس کو بتائے ہیں۔
آخری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے معاد کا علم ہے۔ اس سے انسان کی نظر اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ وہ ظاہرِ حیاتِ دنیا کے پیچھے ایک دوسرے عالم کو دیکھنے لگتا ہے اوراسے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا کی خوش حالی و بدحالی، اور منفعت و مضرت، خدا کی خوش نودی و ناخوشی کا معیار نہیں ہے، اور خدا کی جانب سے اعمال کی جزا و سزا اسی دنیا میں ختم نہیں ہو جاتی، بلکہ آخری فیصلہ ایک دوسرے عالم میں ہونے والا ہے۔ وہی فیصلہ معتبر ہے اور اس فیصلے میں کام یابی کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ اس دنیا میں خدا کے قانون کی صحیح پیروی اور اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کی پوری پابندی کی جائے۔ اسی عقیدے پر جزم و یقین کا نام ایمان بالیوم الآخر ہے اور ایمان باللّٰہ کے بعد یہی دوسری زبردست قوت ہے جو انسان کو قوانین اسلامی کے اتباع پر ابھارتی ہے۔ تہذیب اسلامی کے لیے انسان کو ذہنی اعتبار سے مستعد کرنے میں اس اعتقاد کا بڑا حصہ ہے۔
اس بیان سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ اساسی اعتقادات انھی خطوط پر تہذیب کی تاسیس و تشکیل کرتے ہیں جو حیاتِ دنیا کے اس مخصوص تصوّر اور خاص نصب العین نے کھینچ دیے تھے۔ ایسی تہذیب کے لیے عقلاً جس اساسی عقیدے کی ضرورت ہے وہ انھی پانچ امور پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ ان کے سوا کسی دوسرے اعتقاد میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ اس مخصوص طرز کی تہذیب کے لیے اساس بن سکے۔ کوئی دوسرا عقیدہ اس خاص تصورِ حیات اور نصب العین کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا۔
تہذیبِ اسلامی کا خاکہ
ایمانیات کی جو تفصیلات اوپر بیان ہوئی ہیں ان پر نظر ڈالنے سے اس تہذیب کا پورا خاکہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے جس کی تاسیس ان کے ذریعے سے کی گئی ہے۔ اس خاکے کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں:
۱۔ اس تہذیب کا نظام ایک سلطنت کا سا نظام ہے۔ اس میں خدا کی حیثیت عام مذہبی تصور کے لحاظ سے محض ایک ’’معبود‘‘ کی سی نہیں ہے، بلکہ دنیوی تصور کے لحاظ سے وہی حاکم مطلق بھی ہے۔ وہ دراصل اس سلطنت کا شہنشاہ ہے، رسولؐ اس کا نمایندہ ہے، قرآن اس کی کتاب آئین ہے، اور ہر وہ شخص جو اس کی شہنشاہی کو تسلیم کرکے اس کے نمایندے کی اطاعت اور اس کی کتاب آئین کا اتباع کرنا قبول کرے، اس سلطنت کی رعیت ہے۔ مسلمان ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس شہنشاہ نے اپنے نمایندے اور اپنی کتابِ آئین کے ذریعے سے جو قوانین مقرر کر دیے ہیں ان کو بے چون و چرا تسلیم کیا جائے، خواہ ان کی علّت و مصلحت سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ جو شخص خدا کا یہ اختیارِ مطلق اور اس کے قانون کا شخصی و اجتماعی آرا سے بالاتر ہونا تسلیم نہیں کرتا، اور اس کے فرمان کو ماننے یا نہ ماننے کا حق اپنے لیے محفوظ رکھتا ہے، اس کے لیے اس سلطنت میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔
۲۔ چوں کہ اس تہذیب کا اصل مقصد انسان کو آخری کام یابی (یعنی آخرت کے فیصلے میں خداوندِ عالم کی خوش نودی سے سرفراز ہونے) کے لیے تیار کرنا ہے، اور اس کام یابی کا حصول اس کے نزدیک موجودہ زندگی میں انسان کے صحیح عمل پر موقوف ہے، اور یہ جاننا کہ آخری نتیجے کے اعتبار سے کون سا عمل مفید ہے اور کون سا مُضِر، انسان کے بس کا کام نہیں ہے، بلکہ وہی خدا اس کو بہتر جانتا ہے جو آخرت میں فیصلہ کرنے والا ہے، اس لیے یہ تہذیب انسان سے مطالبہ کرتی ہے کہ اپنی زندگی کے تمام معاملات میں خدا کے بتائے ہوئے طریقوں کی پیروی کرے اور اپنی آزادیِ عمل کو شریعتِ الٰہی کی قیود سے مقید کر دے۔ اس طرح یہ تہذیب دین اور دنیا دونوں کی جامع ہے۔ اس کو عام محدود معنوں میں ’’مذہب‘‘ کے لفظ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک ایسا وسیع نظام ہے جو انسان کے افکار و خیالات، اس کے شخصی کردار و اخلاق، اس کے انفرادی عمل، اس کے خانگی معاملات، اس کی معاشرت، اس کے تمدن، اس کی سیاست، سب پر حاوی ہے، اور ان تمام معاملات میں جو طریقے اور قوانین خدا نے مقرر کیے ہیں ان کے مجموعے ہی کا نام ’’دین اسلام‘‘ یا ’’تہذیبِ اسلامی‘‘ ہے۔
۳۔ یہ تہذیب کوئی قومی یا ملکی یا نسلی تہذیب نہیں ہے، بلکہ صحیح معنوں میں انسانی تہذیب ہے۔ یہ انسان کو بحیثیت انسان کے خطاب کرتی ہے، اور ہر اس شخص کو اپنے دائرے میں لے لیتی ہے جو توحید، رسالت، کتاب، اور یوم آخر پر ایمان لائے۔ اس طرح اس تہذیب نے ایک ایسی قومیت بنائی ہے جس میں بلا امتیاز رنگ و نسل و زبان ہر انسان داخل ہو سکتا ہے، جس کے اندر تمام رُوئے زمین پر پھیل جانے کی استعداد موجودہے، اور جو تمام بنی آدم کو ایک نظمِ ملت میں پیوستہ کر دینے اور ان سب کو ایک تہذیب کا متبع بنا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن یہ عالم گیر انسانی برادری قائم کرنے سے اس کا اصل مقصد اپنے متبعین کی مردم شماری بڑھانا نہیں ہے، بلکہ تمام انسانوں کو اس علم صحیح اور عملِ صحیح کے فیض میں شریک کرنا ہے جو ان سب کے خدا نے ان سب کی بھلائی کے لیے عطا فرمایا ہے۔ اس لیے وہ اس برادری میں شامل ہونے کے لیے ایمان کی قید لگا کر صرف ان لوگوں کو چن لینا چاہتی ہے جو خدا کی حکومتِ مطلقہ کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے لیے آمادہ ہوں، اور ان حدود اور قوانین کی پابندی قبول کریں جو خدا نے اپنے رسولؐ اور اپنی کتاب کے ذریعے سے مقررکیے ہیں۔ کیوں کہ صرف ایسے ہی لوگ (خواہ وہ کتنے ہی کم ہوں) اس تہذیب کے نظام میں کھپ سکتے ہیں، اور انھی سے ایک صحیح اور مضبوط نظام قائم ہو سکتا ہے۔ منکرین یا منافقین یا ضعیف الایمان لوگوں کا گھس آنا اس نظام کے لیے سبب ِ قوت نہیں بلکہ موجب ِ ضعف ہے۔
۴۔ ہمہ گیری اور آفاقیت کے ساتھ اس تہذیب کی نمایاں خصوصیت اس کا زبردست ڈسپلن اور اس کی طاقت وَر گرفت ہے، جس سے وہ اپنے متبعین کو شخصی و اجتماعی حیثیت سے اپنے آئین کا پابند بناتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ قوانین بنانے اورحدود مقرر کرنے سے پہلے قوانین کا اتباع اور حدود کی پابندی کرانے کا بندوبست کرتی ہے۔ حکم دینے سے پہلے وہ اس کا انتظام کرتی ہے کہ اس کا حکم نافذ ہو۔ سب سے پہلے وہ انسان سے خدا کی فرماں روائی تسلیم کراتی ہے۔ پھر اس کو یقین دلاتی ہے کہ رسولؐ اور کتاب کے ذریعے سے جو احکام دیے گئے ہیں، وہ خدا کے احکام ہیں، اور ان کی اطاعت عین خدا کی اطاعت ہے۔ پھر وہ اس کے نفس میں ایک ایسی پولیس مقرر کر دیتی ہے جو ہر وقت اور ہر حال میں اس کو احکام کی اطاعت پر ابھارتی ہے، خلاف ورزی پر سرزنش کرتی ہے، اور عذابِ یومِ عظیم کا خوف دلاتی رہتی ہے۔ اس طرح جب وہ اس قوتِ نافذہ کو ہر شخص کے نفس و ضمیر میں متمکن کرکے اپنے پیروئوں میں یہ صلاحیت پیدا کر دیتی ہے کہ وہ خود اپنی دلی رغبت سے قوانین کے اتباع اور حدود کی پابندی اور اخلاقِ حسنہ سے متخلق ہونے کے لیے آمادہ ہوں، تب وہ ان کے سامنے اپنے قوانین پیش کرتی ہے، ان کو احکام دیتی ہے، ان کے لیے حدود مقرر کرتی ہے، ان کے لیے زندگی بسر کرنے کے طریقے وضع کرتی ہے، اور اپنے مصالح کے لیے ان سے سخت سے سخت قربانیوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ ایسا طریقہ ہے جس سے زیادہ حکیمانہ طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس طریقے سے اسلامی تہذیب کو جو زبردست نفوذ واثر حاصل ہوا ہے وہ کسی دوسری تہذیب کو نصیب نہیں ہوا۔
۵۔ دُنیوی نقطۂ نظر سے یہ تہذیب ایک صحیح اجتماعی نظام قائم کرنا اور ایک صالح اور پاکیزہ سوسائٹی وجود میں لانا چاہتی ہے، مگر ایسی سوسائٹی کا وجود میں آنا ممکن نہیں ہے جب تک کہ اس کے افراد اخلاقِ فاضلہ و صفاتِ حسنہ سے متصف نہ ہوں۔ اس غرض کے لیے ضروری ہے کہ افراد کے نفوس کا تزکیہ کیا جائے تاکہ وہ ردّی اور منتشر افکار کی آماج گاہ نہ رہیں۔ صحیح اور پاکیزہ ذہنیت ان کے اندر راسخ کی جائے تاکہ ان میں ایک ایسی مضبوط سیرت پیدا ہو سکے جس سے اعمالِ صالحہ کا صدور بالطبع ہونے لگے۔ اسلام نے اپنی تہذیب میں اس قاعدے کی پوری پوری رعایت ملحوظ رکھی ہے۔ افراد کی تربیت کے لیے وہ سب سے پہلے ان میں ایمان کو راسخ کرتا ہے جو ایک اعلیٰ درجے کی مضبوط سیرت پیدا کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ یہی ایمان ہے جس کے ذریعے سے وہ افراد میں صداقت، امانت، نیک نفسی، احتساب، حق پسندی، ضبطِ نفس، تنظیم، فیاضی، وسعتِ نظر، خود داری، انکسار و فروتنی، فراخ حوصلگی، بلند ہمتی، ایثار و قربانی، فرض شناسی، صبر واستقامت، شجاعت و بسالت، قناعت و استغنا، اطاعتِ امر اور اتباعِ قانون کے عمدہ اوصاف پیدا کرتا ہے اوران کو اس قابل بناتا ہے کہ ان کے اجتماع سے ایک بہترین سوسائٹی وجود میں آئے۔
۶۔ اس تہذیب کے ایمانیات میں ایک طرف وہ تمام قوتیں موجود ہیں جو انسان کے اندر اخلاقِ حسنہ و ملکاتِ فاضلہ پیدا کرنے والی اور ان کی پرورش اور حفاظت کرنے والی ہیں۔ دوسری طرف انھی ایمانیات میں یہ قوت بھی ہے کہ وہ انسان کو دنیوی ترقی کے لیے ابھارتے ہیں اور اس کو اس قابل بناتے ہیں کہ دنیا کے اسباب و وسائل کو بہترین طریقے پر برتے اور ان تمام قوتوں کو اعتدال کے ساتھ استعمال کرے جو خدا نے اسے عطا کی ہیں۔ پھر یہی ایمانیات اس میں وہ تمام عمدہ اوصاف بھی پیدا کرتے ہیں جو دنیا میں حقیقی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ ان میں انسان کی عملی قوتوں کو منظم کرنے اور تنظیم کے ساتھ حرکت دینے کی زبردست طاقت موجود ہے، اور اس کے ساتھ ان میں یہ طاقت بھی ہے کہ اس حرکت کو حد سے تجاوز نہ کرنے دیں، اور ان راستوں سے منحرف نہ ہونے دیں جن سے ہٹ جانا تباہی کا موجب ہوتا ہے۔ اس طرح یہ ایمانیات اپنے اندر وہ تمام خوبیاں مع شیئٍ زائد ٍ رکھتے ہیں جو دوسرے مذہبی اور دنیوی ایمانیات میں جدا جدا پائی جاتی ہیں، اور ان تمام خرابیوں سے پاک ہیں جو مختلف مذہبی اور دنیوی ایمانیات میں موجود ہیں۔
تہذیب اسلامی میں ایمان کی اہمیت
یہ اس تہذیب کا ایک مجمل خاکہ ہے جس کو اسلام نے قائم کیا ہے۔ اگر ہم تمثیل کے پیرایے میں اس کو ایک عمارت فرض کر لیں، تو یہ ایک ایسی عمارت ہے جس کو مستحکم کرنے کے لیے نہایت گہری نیو کھودی گئی، پھر چھانٹ چھانٹ کر پختہ اینٹیں مہیا کی گئیں اور ان کو بہترین چونے سے پیوستہ کردیا گیا، پھر عمارت اس شان کے ساتھ بنائی کہ بلندی میں آسمان تک اٹھتی چلی جائے اور وسعت میں آفاق پر پھیلتی جائے، مگر اس وسعت و رفعت کے باوجود اس کے ارکان میں ذرا تزلزل واقع نہ ہو اور اس کی دیواریں اور اس کے ستون چٹان کی سی مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں۔ اس عمارت کے دروازے اورروشن دان اس طرز پر بنائے گئے ہیں کہ باہر کی روشنی اور صاف ہوا کو بخوبی داخل ہونے دیتے ہیں، مگر گرد و غبار اور خس و خاشاک اور باد و باراں کو داخل ہونے سے روک دیتے ہیں۔ یہ تمام خوبیاں جو اس عمارت میں پیدا ہوئی ہیں ایک ہی چیز کی بدولت ہیں، اور وہ ایمان ہے۔ وہی اس کی بنیادیں استوار کرتا ہے۔ وہی ردّی اور ناکارہ مواد کو چھانٹ کر عمدہ مواد اخذ کرتا ہے۔ وہی موادِ خام کو پکا کر پختہ اینٹیں تیارکرتا ہے۔ وہی ان اینٹوں کو پیوستہ کرکے ایک بنیانِ مرصوص بناتا ہے۔ اسی پرعمارت کی وسعت و رفعت اور استحکام کا انحصار ہے۔ وہی اس کو پھیلاتا بھی ہے، بلند بھی کرتا ہے، مضبوط بھی کرتا ہے، بیرونی مفسدات سے اس کی حفاظت بھی کرتا ہے اورپاکیزہ چیزوں کو اس میں داخل ہونے کا موقع بھی دیتا ہے۔ پس ایمان اس عمارت کی جان ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو اس کا قائم رہنا کیسا، وجود میں آنا ہی محال ہے۔ اور اگر یہ ضعیف ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ عمارت کی بنیادیں کم زور، اس کی اینٹیں بودی، اس کا چونا خراب، اس کے ارکان متزلزل ہیں، اس کے اجزا میں پیوستگی نہیں، اس میں پھیلنے اور بلند ہونے کی صلاحیت نہیں، اس میں بیرونی مفسدات کو روکنے اور اپنی پاکیزگی و نظافت کو محفوظ رکھنے کی قوت نہیں۔
غرض ایمان کا عدم اسلام کا عدم ہے، ایمان کا ضُعف اس کا ضُعف ہے، اورایمان کی قوت اس کی قوت ۔ پھر چوں کہ اسلام محض ایک مذہب ہی نہیں بلکہ اخلاق، تہذیب، معاشرت، تمدن، سیاست سب کچھ ہے، اس لیے ایمان کی حیثیت اس نظام میں صرف مذہبی عقیدے ہی کی نہیں ہے، بلکہ اسی پر افراد کے اخلاق اور ان کی سیرت کا بھی انحصار ہے۔ وہی ان کے معاملات کی درستی کا بھی ذمے دار ہے۔ وہی ان کو جوڑ کر ایک قوم بھی بناتا ہے۔ وہی ان کی قومیت اور ان کی تہذیب کی محافظت بھی کرتا ہے۔ وہی ان کے تمدن، ان کی معاشرت اور ان کی سیاست کا مایۂ خمیر بھی ہے۔ اس کے بغیر اسلام نہ صرف ایک مذہب کی حیثیت سے قائم نہیں ہو سکتا بلکہ بحیثیت تہذیب و تمدن اور نظامِ سیاسی کے بھی قائم نہیں ہوسکتا۔ ایمان ضعیف ہو تو یہ محض مذہبی عقیدے کا ضُعف نہیں ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کے اخلاق خراب ہو جائیں، ان کی سیرتیں کم زور ہو جائیں، ان کے معاملات بگڑ جائیں، ان کی معاشرت اوران کے تمدن کا نظام درہم برہم ہو جائے، ان کے درمیان قومیت کا رشتہ ٹوٹ جائے، اور وہ ایک آزاد اور باعزت اور طاقت وَر قوم کی حیثیت سے زندہ نہ رہ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ایمان ہی پر اسلام و کفر کا مدار رکھا گیا ہے اور وہی نظامِ اسلامی میں داخل ہونے کی شرط اوّلین ہے۔ سب سے پہلے انسان کے سامنے ایمان ہی پیش کیا جاتا ہے۔ اگر اس نے ایمان کو قبول کر لیا تو امتِ مسلمہ میں داخل ہو گیا، مسلمانوں میں معاشرت، تمدن، سیاست، سب میں برابر کا شریک ہو گیا، اور تمام احکام، حدود اور قوانین اس سے متعلق ہوگئے۔ لیکن اگر اس نے ایمان کو قبول نہیں کیا تو وہ دائرۂ اسلامی میں کسی حیثیت سے داخل نہیں ہو سکتا، اسلام کا کوئی حکم اور کوئی قانون اس پر نافذ نہ ہو گا، اور مسلمانوں کی جماعت میں وہ کسی طرح شریک نہ ہو سکے گا، کیوں کہ اس نظام میں اس کی کھپت قطعاً محال ہے اور اس کے قوانین و حدود کی پابندی وہ کر ہی نہیں سکتا۔
نفاق کا خطرہ
جو لوگ دعوتِ ایمان کو علانیہ رد کر دیں ان کا معاملہ تو صاف ہے۔ ان کے اور مسلمانوں کے درمیان کفر و ایمان کی سرحد اتنی واضح اور نمایاں ہے کہ وہ دائرۂ اسلامی میں داخل ہو کر کوئی خلل برپا نہیں کر سکتے۔ مگر وہ لوگ جو مومن نہیں ہیں اور ایمان کا اظہار کرکے مسلمانوں کی جماعت میں گُھس جاتے ہیں، اور وہ جن کے دلوں میں شک کی بیماری ہے، اور وہ جو ضعیف الایمان ہیں، ان کا وجود نظامِ اسلامی کے لیے نہایت خطر ناک ہے۔ کیونکہ وہ اسلام کے دائرے میں تو داخل ہو جاتے ہیں، مگر اسلامی اخلاق اور اسلامی سیرت اختیار نہیں کرتے، اسلامی قوانین کا اتباع اور حدودِ الٰہی کی پابندی نہیں کرتے، اپنے خراب اخلاق و اعمال سے مسلمانوں کے تمدن و تہذیب کو خراب کر دیتے ہیں، اپنے دلوں کے کھوٹ سے مسلمانوں کی قومیت اور سیاسی حُرمت کی جڑیں کھوکھلی کر دیتے ہیں، اور ہر اس فتنے کے اٹھانے اور بھڑکانے میں حصہ لیتے ہیں جو اسلام کے خلاف اندر یا باہر سے برپا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو منافق کہا گیا ہے، اور وہ تمام خطرات ایک ایک کرکے بیان کیے گئے ہیں جو اسلامی جماعت میں ان کے داخل ہو جانے سے پیدا ہوتے ہیں۔
ان کی صفت یہ ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں مگر حقیقت میں مومن نہیں ہوتے:
مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَo البقرہ 8:2
جو کہتے ہیں کہ ہم اللّٰہ اور یوم آخر پر ایمان لائے، حالاں کہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا۝۰ۚۖ وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِہِمْ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ۝۰ۙ البقرہ 14:2
جب وہ ایمان لانے والوں سے ملے تو کہا کہ ہم ایمان لے آئے، اور جب اپنے شیاطین کے پاس گئے تو بولے کہ ہم تو تمھارے ساتھ ہیں۔
وہ آیاتِ الٰہی کا مذاق اڑاتے اور ان میں شکوک کا اظہار کرتے ہیں:
اِذَا سَمِعْتُمْ اٰيٰتِ اللہِ يُكْفَرُ بِھَا وَيُسْتَہْزَاُ بِھَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ النسائ 140:4
جب تم سنو کہ اللّٰہ کی آیات کا انکار کیا جاتا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو۔
وہ مذہبی فرائض سے جی چراتے ہیں، اور اگر ادا کرتے بھی ہیں تو مجبوراً محض مسلمانوں کو دکھانے کے لیے، ورنہ حقیقتاً ان کے دل احکام الٰہی کی اطاعت سے منحرف ہوتے ہیں:
وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى۝۰ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِيْلًا o مُّذَبْذَبِيْنَ بَيْنَ ذٰلِكَ۝۰ۤۖ لَآ اِلٰى ہٰٓؤُلَاۗءِ وَلَآ اِلٰى ہٰٓؤُلَاۗءِ۝۰ۭ النسائ 142-143:4
اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو بادل نخواستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ محض لوگوں کو دکھاتے ہیں۔ خدا کو یاد نہیں کرتے، اور اگر کرتے بھی ہیں تو کم۔ وہ بیچ میں مذبذب ہیں، نہ پُورے اِدھر ہیں نہ پُورے اُدھر۔
وَلَا يَاْتُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَہُمْ كُسَالٰى وَلَا يُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَہُمْ كٰرِہُوْنَo التوبہ 54:9
وہ نماز کے لیے نہیں آتے مگر بادلِ نخواستہ اور راہِ خدا میں خرچ نہیں کرتے مگر کراہت کے ساتھ۔
وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ يَّتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ مَغْرَمًا التوبہ98:9
اور بدوئوں میں سے بعض ایسے ہیں جو کچھ راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں اس کو زبردستی کا جرمانہ سمجھتے ہیں۔
وہ اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اسلامی قوانین کا اتباع نہیں کرتے بلکہ اپنے معاملات میں کفار کے قوانین کی پیروی کرتے ہیں:
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ۝۰ۭ النسائ60:4
کیا تو نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے اس کتاب پر جو تیرے اوپر اتاری گئی ہے اور ان پر جو تجھ سے پہلے اتاری گئی تھیں، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات شیطانی حاکم کے پاس لے جائیں، حالاں کہ ان کو حکم دیا چکا ہے کہ اس کا حکم نہ مانیں۔
ان کے اعمال خود خراب ہوتے ہیں اور وہ مسلمانوں کے عقائد اور اعمال بھی خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
يَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَيَقْبِضُوْنَ اَيْدِيَہُمْ۝۰ۭ نَسُوا اللہَ فَنَسِيَہُمْ۝۰ۭ التوبہ 67:9
وہ برائی کا حکم دیتے اور بھلائی سے روکتے ہیں اوراپنے ہاتھ نیک کاموں سے کھینچے رہتے ہیں۔ وہ خدا کو بھول گئے اس لیے خدا نے بھی ان کو بھلا دیا۔
وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَـمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَاۗءً النسائ89:4
وہ چاہتے ہیں کہ کاش تم بھی کفر کرو جیسا انھوں نے کفر کیا، تاکہ تم اور وہ برابر ہو جائیں۔
وہ مسلمانوں کے ساتھ اسی وقت تک ہیں جب تک ان کا فائدہ ہے۔ جہاں فائدہ کم ہوا اور انھوں نے قوم کا ساتھ چھوڑا:
وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ۝۰ۚ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا وَاِنْ لَّمْ يُعْطَوْا مِنْہَآ اِذَا ہُمْ يَسْخَطُوْنَo التوبہ 58:9
ان میں سے بعض صدقات کی تقسیم میں تجھ پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ اگر ان کو صدقات میں سے دیا گیا تو خوش ہو گئے اور نہ دیا گیا تو بگڑ گئے۔
جب اسلام اور مسلمانوں پرمصیبت کا وقت آتا ہے تو وہ جنگ سے انکار کر دیتے ہیں، کیوں کہ حقیقت میں نہ تو ان کو اسلام سے محبت ہوتی ہے کہ اس کے لیے کوئی قربانی کریں، نہ وہ اس قربانی پر کسی اجر کے قائل ہوتے ہیں، نہ ان کو اسلام کی حقانیت کا یقین ہوتا ہے کہ اس کی تائید میں جانیں لڑانے پر آمادہ ہوں۔ وہ طرح طرح سے اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اگر جنگ میںشریک بھی ہوتے ہیں تو بادلِ نخواستہ، بلکہ ان کی شرکت مسلمانوں کے لیے قوت کے بجائے ضُعف کا سبب بن جاتی ہے۔ ان کی اس کیفیت کو سورہ آل عمران (رکوع۱۲۔۱۷)، سورۂ نساء (رکوع ۱۰۔۱۱۔۱۲۔۲۰)، سورۂ توبہ (رکوع۷۔۱۱۔۱۲)، اور سورۂ احزاب (رکوع:۲) میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
ان کی سب سے زیادہ خطرناک صفت یہ ہے کہ جب مسلمانوں پر مصیبت آتی ہے تو کفار سے مل جاتے ہیں، ان کو خبریں پہنچاتے ہیں، ان سے ہمدردی کرتے ہیں، مسلمانوں کی مصیبت پر خوش ہوتے ہیں، اپنی قوم سے غدّاری کرکے کفار سے اعزاز و مناصب حاصل کرتے ہیں، ہر فتنہ جو اسلام کے خلاف اٹھتا ہے، اس میں سب سے آگے بڑھ کر حصہ لیتے ہیں، اور مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ ڈالنے کے لیے سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ ان صفات کو بھی آلِ عمران، نساء، توبہ، احزاب، اور منافقون میں مفصلاً بیان کیا گیا ہے۔
اس سے اچھی طرح اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نظامِ اسلامی کے قیام و بقا و استحکام کے لیے صحیح اور خالص ایمان ناگزیر ہے۔ ایمان کی کم زوری اس نظام کو جڑ سے لے کر آخری شاخ تک کھوکھلا کر دیتی ہے اور اس کے خطرناک اثرات سے اخلاق، معاشرت، تمدن، تہذیب، سیاست کوئی چیز نہیں بچ سکتی۔
٭…٭…٭…٭…٭

ضمیمہ: زندگی بعد موت

موت کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے یا نہیں؟ اور ہے تو کیسی ہے؟ یہ سوال حقیقت میں ہمارے علم کی رسائی سے دُور ہے کہ ہمارے پاس وہ آنکھیں نہیں جن سے ہم موت کی سرحد کے اس پار جھانک کر دیکھ سکیں کہ وہاں کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ ہمارے پاس وہ کان نہیں، جن سے ہم اُدھر کی کوئی آواز سن سکیں۔ ہم کوئی ایسا آلہ بھی نہیں رکھتے جس کے ذریعے سے تحقیق کے ساتھ معلوم کیا جا سکے کہ ادھر کچھ ہے یا کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا جہاں تک سائنس کا تعلق ہے، یہ سوال اس کے دائرے سے قطعی خارج ہے۔ جو شخص سائنس کا نام لے کر کہتا ہے کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے وہ بالکل ایک غیر سائنٹفک بات کہتا ہے۔ سائنس کی رُو سے نہ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی زندگی ہے اورنہ یہ کہ کوئی زندگی نہیں ہے۔ جب تک ہم کوئی یقینی ذریعۂ علم نہیں پاتے، کم از کم اس وقت تک تو صحیح سائنٹیفک رویہ یہی ہو سکتا ہے کہ ہم موت کے بعد زندگی کا نہ انکار کریں نہ اقرار۔
مگر کیا عملی زندگی میں ہم اس سائنٹیفک رویے کو نباہ سکتے ہیں؟ شاید نہیں، بلکہ یقیناً نہیں۔ عقلی حیثیت سے تو یہ ممکن ہے کہ جب ایک چیز کو جاننے کے ذرائع ہمارے پاس نہ ہوں، تو اس کے متعلق ہم نفی اور اثبات دونوں سے پرہیز کریں، لیکن جب اسی چیز کا تعلق ہماری عملی زندگی سے ہو، تو ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ یا تو انکار پر اپنا طرزِ عمل قائم کریں، یا اقرار پر۔ مثلاً ایک شخص سے جس سے آپ واقف نہیں ہیں، اگر اس کے ساتھ آپ کا کوئی معاملہ درپیش نہ ہو، تو آپ کے لیے یہ ممکن ہے کہ اس کے ایمان دار ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی حکم نہ لگائیں، لیکن جب آپ کو اس سے معاملہ کرنا ہو، تو آپ مجبور ہیں کہ یا تو اسے ایمان دار سمجھ کر معاملہ کریں، یا بے ایمان سمجھ کر۔ اپنے ذہن میں آپ ضرور یہ خیال کر سکتے ہیں کہ جب تک اس کا ایمان دار ہونا یا نہ ہونا ثابت نہ ہو جائے، اس وقت تک ہم شک کے ساتھ معاملہ کریں گے، مگر اس کی ایمان داری کو مشکوک سمجھتے ہوئے، جو معاملہ آپ کریں گے، عملاً اس کی صورت وہی تو ہو گی جو اس کی ایمان داری کا انکار کرنے کی صورت میں ہو سکتی تھی۔ لہٰذا فی الواقع انکار اوراقرار کے درمیان شک کی حالت صرف ذہن ہی میں ہو سکتی ہے۔ عملی رویہ کبھی شک پر قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے تو اقرار یا انکار بہرحال ناگزیر ہے۔
یہ بات تھوڑے ہی غور و فکر سے آپ کی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ زندگی بعد موت کا سوال محض ایک فلسفیانہ سوال نہیں ہے، بلکہ ہماری عملی زندگی سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔ دراصل ہمارے اخلاقی رویے کا سارا انحصار ہی اس سوال پر ہے۔ اگر میرا یہ خیال ہو کہ زندگی جو کچھ ہے بس یہی دُنیوی زندگی ہے، اور اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے، تو میرا اخلاقی رویہ ایک طرح کا ہو گا۔ اگر میں یہ خیال رکھتا ہوں کہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی بھی ہے، جس میں مجھے اپنی موجودہ زندگی کا حساب دینا ہو گا، اور وہاں میرا اچھا یا برا انجام میرے یہاں کے اعمال پر منحصر ہو گا، تو یقیناً میرا اخلاقی طرز عمل بالکل ایک دوسری ہی طرح کا ہو گا۔ اس کی مثال یوں سمجھیے جیسے ایک شخص یہ سمجھتے ہوئے سفر کر رہا ہے کہ اسے بس یہاں سے کراچی تک جانا ہے، اور کراچی پہنچ کر نہ صرف یہ کہ اس کا سفر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا، بلکہ وہ وہاں پولیس اورعدالت اور ہر اس طاقت کی دست رس سے باہر ہو گا، جو اس سے کسی قسم کی باز پرس کرسکتی ہو۔ برعکس اس کے ایک دوسرا شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہاں سے کراچی تک تو اس کے سفرکی صرف ایک ہی منزل ہے۔ اس کے بعد اسے سمندر پار ایک ایسے ملک میں جانا ہو گا، جہاں کا بادشاہ وہی ہے جو پاکستان کا بادشاہ ہے، اور اس بادشاہ کے دفتر میں میرے اس پورے کارنامے کا خفیہ ریکارڈ موجود ہے جو میں نے پاکستان میں انجام دیا ہے، اور وہاں میرے ریکارڈ کو جانچ کر فیصلہ کیا جائے گا کہ میں اپنے کام کے لحاظ سے کس درجے کا مستحق ہوں۔ آپ بہ آسانی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان دونوں شخصوں کا طرز عمل کس قدر ایک دوسرے سے مختلف ہو گا۔ پہلا شخص یہاں سے کراچی تک کے سفر کی تیاری کرے گا، اور دوسرے کی تیاری بعد کی طویل منزلوں کے لیے بھی ہو گی۔ پہلا شخص یہ سمجھے گا کہ نفع یا نقصان جو کچھ بھی ہے کراچی پہنچنے تک ہے، آگے کچھ نہیں، اور دوسرا یہ خیال کرے گا کہ اصل نفع و نقصان سفر کے پہلے مرحلے میں نہیں ہے، بلکہ آخری مرحلے میں ہے۔ پہلا شخص اپنے افعال کے صرف انھی نتائج پر نظر رکھے گا جو کراچی تک کے سفر میں نکل سکتے ہیں، لیکن دوسرے شخص کی نگاہ اُن نتائج پر ہو گی جو سمندر پار دوسرے ملک میں پہنچ کر نکلیں گے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں شخصوں کے طرزِ عمل کا یہ فرق براہِ راست نتیجہ ہے ان کی اس رائے کا جو وہ اپنے سفر کی نوعیت کے متعلق رکھتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ہماری اخلاقی زندگی میں بھی وہ عقیدہ فیصلہ کُن اثر رکھتا ہے جو ہم زندگی بعد موت کے بارے میں رکھتے ہیں۔ عمل کے میدان میں جو قدم بھی ہم اٹھائیں گے، اس کی سمت کا تعین اس بات پر منحصر ہو گا کہ آیا ہم اسی زندگی کو پہلی اور آخری زندگی سمجھ کر کام کر رہے ہیں، یا کسی بعد کی زندگی اور اس کے نتائج کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ پہلی صورت میں ہمارا قدم ایک سمت اٹھے گا اور دوسری صورت میں اس کی سمت بالکل مختلف ہو گی۔
اس سے معلوم ہوا کہ زندگی بعد موت کا سوال محض ایک عقلی اورفلسفیانہ سوال نہیں ہے، بلکہ عملی زندگی کا سوال ہے، اور جب بات یہ ہے تو ہمارے لیے اس معاملے میں شک اور تردّد کے مقام پر ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں۔ شک کے ساتھ جو رویہ ہم زندگی میں اختیار کریں گے، وہ بھی لامحالہ انکار ہی کے رویے جیسا ہو گا۔ لہٰذا بہرحال ہم اس امر کا تعین کرنے پر مجبورہیں کہ آیا موت کے بعد کوئی اور زندگی ہے یا نہیں۔ اگر سائنس ان کے تعین میں ہماری مدد نہیں کرتی، تو ہمیں عقلی استدلال سے مدد لینی چاہیے۔
اچھا تو عقلی استدلال کے لیے ہمارے پاس کیا مواد ہے؟
ہمارے سامنے ایک تو خود انسان ہے، اور دوسرے یہ نظام کائنات۔ ہم انسان کو اس نظام کائنات کے اندر رکھ کر دیکھیں گے کہ جو کچھ انسان میں ہے، آیا اس کے سارے مقتضیات اس نظام میں پورے ہو جاتے ہیں، یا کوئی چیز بچی رہ جاتی ہے، جس کے لیے کسی دوسری نوعیت کے نظام کی ضرورت ہو۔
دیکھیے! انسان ایک تو جسم رکھتا ہے، جو بہت سے معدنیات، نمکیات، پانی اور گیسوں کا مجموعہ ہے۔ اس کے جواب میں کائنات کے اندر بھی مٹی، پتھر، دھاتیں، نمک، گیسیں، دریا اور اسی جنس کی دوسری چیزیں موجود ہیں۔ ان چیزوں کو کام کرنے کے لیے قوانین کی ضرورت ہے، وہ سب کائنات کے اندر کار فرما ہیں، اور جس طرح وہ باہر کی فضا میں پہاڑوں، دریائوں اور ہوائوں کو اپنے حصے کا کام پورا کرنے کا موقع دے رہے ہیں، اسی طرح انسانی جسم کو بھی ان قوانین کے تحت کام کرنے کا موقع حاصل ہے۔
پھر انسان ایک ایسا وجود ہے، جو گرد و پیش کی چیزوں سے غذا لے کر بڑھتا اور نشوونما حاصل کرتا ہے۔ اسی جنس کے درخت، پودے، اور گھاس پھونس کائنات میں بھی موجود ہیں، اور وہ قوانین بھی یہاں پائے جاتے ہیں جو نشوونما پانے والے اجسام کے لیے درکار ہیں۔
پھر انسان ایک زندہ وجود ہے، جو اپنے ارادے سے حرکت کرتا ہے، اپنی غذا خود اپنی کوشش سے فراہم کرتا ہے، اور نفس کی آپ حفاظت کرتا ہے، اور اپنی نوع کو باقی رکھنے کا انتظام کرتا ہے۔ کائنات میں اس جنس کی بھی دوسری بہت سی قسمیں موجود ہیں۔ خشکی، تری اور ہوا میں بے شمار حیوانات پائے جاتے ہیں، اور وہ قوانین بھی تمام و کمال یہاں کارفرما ہیں جو اِن زندہ ہستیوں کے پورے دائرۂ عمل پر حاوی ہونے کے لیے کافی ہیں۔
ان سب سے اوپر انسان ایک اور نوعیت کا وجود بھی رکھتا ہے، جس کو ہم اخلاقی وجود کہتے ہیں۔ اس کے اندر نیکی اور بدی کرنے کا شعور ہے، نیک اور بد کی تمیز ہے، نیکی اور بدی کرنے کی قوت ہے، اور اس کی فطرت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ نیکی کا اچھا اور بدی کا برا نتیجہ ظاہر ہو، اور وہ ظلم اور انصاف، سچائی اور جھوٹ، حق اور ناحق، رحم اور بے رحمی، احسان اور احسان فراموشی، فیاضی اور بخل، امانت اور خیانت اور ایسی ہی مختلف اخلاقی صفات کے درمیان فرق کرتا ہے۔ یہ صفات عملاً اس کی زندگی میں پائی جاتی ہیں، اور یہ محض خیالی چیزیں نہیں ہیں، بلکہ بالفعل ان کے اثرات انسانی تمدن پر مرتب ہوتے ہیں۔ لہٰذا انسان جس فطرت پر پیدا ہوا ہے، اس کا شدت کے ساتھ یہ تقاضا ہے کہ جس طرح اس کے افعال کے طبیعی نتائج رونما ہوتے ہیں، اسی طرح اخلاقی نتائج بھی رونما ہوں۔
مگر نظامِ کائنات پر گہری نگاہ ڈال کر دیکھیے، کیا اس نظام میں انسانی افعال کے اخلاقی نتائج پوری طرح رونما ہو سکتے ہیں؟ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہاں اس کا امکان نہیں ہے، اس لیے کہ یہاں کم از کم ہمارے علم کی حد تک کوئی دوسری ایسی مخلوق نہیں پائی جاتی جو اخلاقی وجود رکھتی ہو۔ سارا نظام کائنات طبیعی قوانین کے ماتحت چل رہا ہے۔ اخلاقی قوانین کسی طرف کار فرما نظر نہیں آتے۔ یہاں روپے میں وزن اور قیمت ہے، مگر سچائی میں نہ وزن ہے نہ قیمت۔ یہاں آم کی گٹھلی سے ہمیشہ آم پیدا ہوتا ہے، مگر حق پرستی کا بیج بونے والے پر کبھی پھولوں کی بارش ہوتی ہے، اور کبھی بلکہ اکثر جوتیوں کی۔ یہاں مادی عناصر کے لیے مقرر قوانین ہیں جن کے مطابق ہمیشہ مقررہ نتائج نکلتے ہیں، مگر اخلاقی عناصر کے لیے کوئی مقرر قانون نہیں ہے کہ ان کی فعلیت سے ہمیشہ مقررہ نتیجہ نکل سکے۔ طبیعی قوانین کی فرماں روائی کے سبب سے اخلاقی نتائج کبھی تو نکل ہی نہیں سکتے، کبھی نکلتے ہیں تو صرف اس حد تک جس کی اجازت طبیعی قوانین دے دیں، اور بارہا ایسا بھی ہوتا ہے کہ اخلاق ایک فعل سے ایک خاص نتیجہ نکلنے کا تقاضا کرتا ہے، مگر طبیعی قوانین کی مداخلت سے نتیجہ بالکل برعکس نکل آتا ہے۔ انسان نے خود اپنے تمدنی وسیاسی نظام کے ذریعے سے تھوڑی سی کوشش اس امر کی کی ہے کہ انسانی اعمال کے اخلاقی نتائج ایک مقرر ضابطے کے مطابق برآمد ہو سکیں، مگر یہ کوشش بہت ہی محدود پیمانے پر ہے، اور بے حد ناقص ہے۔ ایک طرف طبیعی قوانین اس کو محدود اور ناقص بناتے ہیں، اور دوسری طرف انسان کی اپنی بہت سی کم زوریاں اس انتظام کے نقائص میں اور زیادہ اضافہ کرتی ہیں۔
میں اپنے مدعا کی توضیح چند مثالوں سے کروں گا۔ دیکھیے، ایک شخص اگر کسی دوسرے شخص کا دشمن ہو، اور اس کے گھر میں آگ لگا دے تو اس کا گھر جل جائے گا۔ یہ اس کے افعال کا طبیعی نتیجہ ہے۔ اس کا اخلاقی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ اس شخص کو اتنی ہی سزا ملے جتنا اس نے ایک خاندان کو نقصان پہنچایا ہے، مگر اس نتیجے کا ظاہر ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ آگ لگانے والے کا سراغ ملے، وہ پولیس کے ہاتھ آ سکے، اس پر جرم ثابت ہو، عدالت پوری طرح اندازہ کر سکے کہ آگ لگنے سے اس خاندان کو اور اس کی آئندہ نسلوں کو ٹھیک ٹھیک کتنا نقصان پہنچا ہے، اور پھر انصاف کے ساتھ اس مجرم کو اتنی ہی سزا دے۔ اگر ان شرطوں میں سے کوئی شرط بھی پوری نہ ہو، تو اخلاقی نتیجہ یا تو بالکل ہی ظاہر نہ ہو گا یا اس کا صرف ایک تھوڑا سا حصہ ظاہر ہو کر رہ جائے گا، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے حریف کو برباد کرکے وہ شخص دنیا میں مزے سے پُھولتا پَھلتا رہے۔
اس سے بڑے پیمانے پرایک اور مثال لیجیے۔ چند اشخاص اپنی قوم میں اثر پیدا کر لیتے ہیں، اور ساری قوم ان کے کہے پر چلنے لگتی ہے۔ اس پوزیشن سے فائدہ اٹھا کر وہ لوگوں میں قوم پرستی کا اشتعال اورملک گیری کا جذبہ پیدا کرتے ہیں، گرد و پیش کی قوموں سے جنگ چھیڑ دیتے ہیں، لاکھوں آدمیوں کو ہلاک کرتے ہیں، ملک کے ملک تباہ کر ڈالتے ہیں، کروڑوں انسانوں کو ذلیل اور پست زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتے ہیں، اور انسانی تاریخ پر ان کی کارروائیوں کا ایسا زبردست اثر پڑتا ہے جس کا سلسلہ آئندہ سیکڑوں برس تک پشت در پشت اور نسل در نسل پھیلتا جائے گا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ چند اشخاص، جس جرمِ عظیم کے مرتکب ہوئے ہیں، اس کی مناسب اور منصفانہ سزا ان کو کبھی اس دنیوی زندگی میں مل سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر ان کی بوٹیاں بھی نوچ ڈالی جائیں، اگر ان کو زندہ جلا ڈالا جائے یا کوئی اور ایسی سزا دی جائے جو انسان کے بس میں ہے، تب بھی کسی طرح وہ اس نقصان کے برابر سزا نہیں پا سکتے جو انھوں نے کروڑہا انسانوں کو اور ان کی آیندہ بے شمار نسلوں کو پہنچایا ہے۔ موجودہ نظامِ کائنات جن طبیعی قوانین پر چل رہا ہے، ان کے تحت کسی طرح یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے جرم کے برابر سزا پا سکیں۔
اسی طرح ان نیک انسانوں کو لیجیے جنھوں نے نوعِ انسانی کو حق اور راستی کی تعلیم دی اور ہدایت کی روشنی دکھائی، جن کے فیض سے بے شمار انسانی نسلیں صدیوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں، اور نہ معلوم آیندہ کتنی صدیوں تک اٹھاتی چلی جائیں گی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کی خدمت کا پورا صلہ ان کو اس دنیا میں مل سکے؟ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ موجودہ طبیعی قوانین کی حدود کے اندرایک شخص اپنے اس عمل کا پورا صلہ حاصل کر سکتا ہے جس کا ردِّ عمل اس کے مرنے کے بعد ہزاروں برس تک اور بے شمار انسانوں تک پھیل گیا ہو؟
جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں، اوّل تو موجودہ نظامِ کائنات جن قوانین پر چل رہا ہے ان کے اندر اتنی گنجایش ہی نہیں ہے کہ انسانی افعال کے اخلاقی نتائج پوری طرح مرتب ہو سکیں، دوسرے یہاں چند سال کی زندگی میں انسان جو عمل کرتا ہے، اس کے ردِّ عمل کا سلسلہ اتنا وسیع ہوتا ہے، اور اتنی مدت تک جاری رہتا ہے کہ صرف اسی کے پورے نتائج وصول کرنے کے لیے ہزاروں بلکہ لاکھوں برس کی زندگی درکار ہے، اورموجودہ قوانین قدرت کے ماتحت انسان کو اتنی زندگی ملنی ناممکن ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسانی ہستی کے خاکی، عضوی اور حیوانی عناصر کے لیے تو موجودہ طبیعی دنیا (physical world) اور اس کے طبیعی قوانین کافی ہیں، مگر اس کے اخلاقی عنصر کے لیے یہ دنیا بالکل ناکافی ہے۔ اس کے لیے ایک دوسرا نظامِ عالم درکار ہے جس میں حکمران قانون (governing law) اخلاق کا قانون ہو، اور طبیعی قوانین اس کے ماتحت محض مددگار کی حیثیت سے کام کریں، جس میں زندگی محدود نہ ہو، بلکہ غیر محدود ہو، جس میں وہ تمام اخلاقی نتائج جو یہاں مرتب ہونے سے رہ گئے ہیں، یا الٹے مرتب ہوئے ہیں، اپنی صحیح صورت میں پوری طرح مرتب ہو سکیں، جہاں سونے اورچاندی کے بجائے نیکی اور صداقت میں وزن اور قیمت ہو، جہاں آگ صرف اس چیز کو جلائے جو اخلاقاً جلنے کی مستحق ہو، جہاں عیش اس کو ملے جو نیک ہو، اور مصیبت اس کے حصے میں آئے جو بد ہو۔ عقل چاہتی ہے، فطرت مطالبہ کرتی ہے کہ ایسا نظامِ عالم ضرور ہونا چاہیے۔
جہاں تک عقلی استدلال کا تعلق ہے وہ ہم کو صرف ’’ہونا چاہیے‘‘ کی حد تک لے جا کر چھوڑ دیتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ آیا واقعی کوئی ایسا عالم ہے بھی، تو ہماری عقل اور ہمارا علم، دونوں اس کا حکم لگانے سے عاجز ہیں۔ یہاں قرآن ہماری مدد کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تمھاری عقل اور تمھاری فطرت جس چیز کا مطالبہ کرتی ہے فی الواقع وہ ہونے والی ہے، موجودہ نظام عالم جو طبیعی قوانین پر بنا ہے، ایک وقت میں توڑ ڈالا جائے گا، اس کے بعد ایک دوسرا نظام بنے گا، جس میں زمین و آسمان اور ساری چیزیں ایک دوسرے ڈھنگ پر ہوں گی، پھر اللّٰہ تعالیٰ انسانوں کو جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے تھے، دوبارہ پیدا کر دے گا، اور بیک وقت ان سب کو اپنے سامنے جمع کر دے گا، وہاں ایک ایک شخص کا، ایک ایک قوم کا اور پوری انسانیت کا ریکارڈ، ہرغلطی اور ہر فروگذاشت کے بغیر محفوظ ہو گا۔ ہر شخص کے ایک ایک علم کا جتنا رد عمل دنیا میں ہوا ہے، اس کی پوری روداد موجود ہو گی۔ وہ تمام نسلیں گواہوں کے کٹہرے میں حاضر ہوں گی جو اس ردّ عمل سے متاثر ہوئیں۔ ایک ایک ذرّہ جس پر انسان کے اقوال و افعال کے نقوش ثبت ہوئے اپنی داستان سنائے گا۔ خود انسان کے ہاتھ اور پائوں اور آنکھ اور زبان اور تمام اعضا شہادت دیں گے کہ ان سے اس نے کس طرح کام لیا۔ پھر اس روداد پر وہ سب سے بڑا حاکم پورے انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا کہ کون کتنے انعام کا مستحق ہے اورکون کتنی سزا کا۔ یہ انعام اور یہ سزا دونوں چیزیں اتنے بڑے پیمانے پر ہوں گی جس کا کوئی اندازہ موجودہ نظامِ عالم کی محدود مقداروں کے لحاظ سے نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں کے قوانینِ قدرت کسی اور قسم کے ہوں گے۔ انسان کی جن نیکیوں کے اثرات دنیا میں ہزاروں برس چلتے رہے ہیں، وہاں وہ ان کا بھرپور صلہ وصول کر سکے گا،بغیر اس کے کہ موت اور بیماری اوربڑھاپا اس کے عیش کا سلسلہ توڑ سکیں۔ اوراسی انسان کی جن برائیوں کے اثرات دنیا میں ہزارہا برس تک اور بے شمار انسانوں تک پھیلتے رہے ہیں،وہ ان کی پوری سزا بھگتے گا، بغیر اس کے کہ موت اور بے ہوشی آ کر اسے تکلیف سے بچا سکے۔
ایسی ایک زندگی اور ایسے ایک عالم کو جو لوگ ناممکن سمجھتے ہیں مجھے ان کے ذہن کی تنگی پر ترس آتا ہے۔ اگر ہمارے موجودہ نظامِ عالم کا موجودہ قوانین قدرت کے ساتھ موجود ہوناممکن ہے، تو آخر ایک دوسرے نظامِ عالم کا دوسرے قوانین کے ساتھ وجود میں آنا کیوں ناممکن ہو؟ البتہ یہ بات کہ واقع میں ایسا ضرور ہو گا تو اس کا تعین نہ دلیل سے ہو سکتا ہے اورنہ علمی ثبوت سے، اس کے لیے ایمان بالغیب کی ضرورت ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭