ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔
اسلامی ریاست میں ذمیّوں کے حقوق
اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے حقوق پر بحث کرنے سے پہلے یہ ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ اسلام کی حکومت دراصل ایک اصولی (Ideological) حکومت ہے اور اس کی نوعیت ایک قومی جمہوری (National Democratic) حکومت سے قطعاً مختلف ہے۔ دونوں قسم کی ریاستوں کے اس نوعی فرق کا مسئلہ زیرِ بحث پر کیا اثر پڑتا ہے، اس کو حسبِ ذیل نکات سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔
(۱) اسلامی حکومت اپنے حدود میں رہنے والے لوگوں کو اس لحاظ سے تقسیم کرتی ہے کہ کون اُن اصولوں کو مانتے ہیں جن پر اسلامی حکومت کی بِناء رکھی گئی ہے اور کون انہیں نہیں مانتے، یعنی مسلم اور غیر مسلم۔
(۱) قومی حکومت انہیں اس لحاظ سے تقسیم کرتی ہے کہ کون لوگ اُس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو دراصل ریاست کی بنانے اور چلانے والی ہے، اور کون لوگ اس سے تعلق نہیں رکھتے، آج کل کی اصطلاح میں اس کے لیے اکثریت اور اقلیّت کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں،
(۲) اسلامی حکومت کو چلانا دراصل ان لوگوں کا کام ہے جو اس کے اصولوں کو مانتے ہوں، وہ اپنے انتظام میں غیر مسلموں کی خدمات تو ضرور استعمال کر سکتی ہے، مگر رہنمائی و کار فرمائی کے مناصب انہیں نہیں دے سکتی۔
(۲) قومی حکومت اپنی رہنمائی و کارفرمائی کے لیے صرف اپنے افرادِ قوم ہی پر اعتماد کرتی ہے اور دوسری قلیل التعداد قومیں جو اس کے شہریوں میں شامل ہوں، اس اعتماد کی مستحق نہیںہوتیں، یہ بات چاہے صاف صاف کہی نہ جاتی ہو، مگر عملاً ہوتا اسی طرح ہے، اور اگر اقلیّت کے کسی فرد کو کبھی کوئی کلیدی منصب دیا بھی جاتا ہے تو یہ محض ایک نمائشی حرکت ہوتی ہے۔ پالیسیوں کی تشکیل میں فی الحقیقت اس کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔
(۳) اسلامی حکومت عین اپنی نوعیّت ہی کے لحاظ سے اس بات پر مجبور ہے کہ مسلموں اور غیر مسلموں کے درمیان واضح امتیاز قائم کرے اور صاف صاف بتا دے کہ وہ غیر مسلموں کو کیا حقوق دے سکتی ہے اور کیا نہیں دے سکتی۔
(۳) قومی حکومت کے لیے یہ منافقانہ چالبازی آسان ہے کہ وہ ملک کے تمام باشندوں کو نظریّے کے اعتبار سے ایک قوم قرار دے کر کاغذ پر سب کو مساوی حقوق دے دے‘ مگر عملاً اکثریّت اور اقلیّت کا پورا امتیازقائم رکھے اور زمین پر اقلیتوں کو کسی قسم کے حقوق نہ دے۔
(۴) اسلامی حکومت کو اپنے نظام میں غیر مسلم عناصر کی موجودگی سے جو پیچیدگی پیش آتی ہے اسے وہ اس طرح حل کرتی ہے کہ انہیں متعیّن حقوق کا ذمّہ Guarantee دے کر مطمئن کر دیتی ہے، اپنے اصولی نظام کے حل و عقد میں ان کی مداخلت روک دیتی ہے، اور ان کے لیے ہر وقت یہ دروازہ کھلا رکھتی ہے کہ اگر اسلام کے اصول انہیں پسند آ جائیں تو وہ انہیں قبول کرکے حکمراں جماعت میں شامل ہو جائیں۔
(۴) قومی حکومت کو اپنے نظام میں غیر قومی عناصر کی شمولیّت سے جو پیچیدگی پیش آتی ہے اسے حل کرنے کے لیے وہ تین مختلف تدبیریں اختیار کرتی ہے۔ ایک یہ کہ ان کی انفرادیّت کو بتدریج مٹا کر اپنے اندر جذب کرے، دوسرے یہ کہ ان کی ہستی کو محو کرنے کے لیے قتل و غارت اور اخراج کے ظالمانہ طریقے اختیار کرے۔ تیسرے یہ کہ انکو اپنے اندر اچھوت بنا کر رکھ دے۔ یہ تینوں تدبیریں دنیا کی قومی جمہوری ریاستوں میں بکثرت اختیار کی گئی ہیں‘ اب تک کی جا رہی ہیں، اور آج ہندوستان میں خود مسلمانوں کو ان کا تلخ تجربہ ہو رہا ہے۔
(۵) اسلامی حکومت ذمّی غیر مسلموں کو وہ تمام حقوق دینے پر مجبور ہے جو شریعت نے ان کے لیے مقرر کیے ہیں۔ ان حقوق کو سلب کرنے یا ان میں کمی کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔ البتہ مسلمانوں کو یہ اختیار ضرور حاصل ہے کہ وہ ان حقوق کے علاوہ کچھ مزید حقوق انہیں عطا کر دیں‘ بشرطیکہ یہ اضافہ اسلام کے اصولوں سے متصادم نہ ہوتا ہو۔
(۵) قومی جمہوری حکومت میں اقلیتوں کو جو حقوق بھی دیے جاتے ہیں وہ اکثریت کے عطا کردہ ہوتے ہیں، اور اکثریت جس طرح انہیں عطا کرنے کا حق رکھتی ہے اسی طرح وہ ان میں کمی بیشی کرنے اور بالکل سلب کر لینے کا بھی حق رکھتی ہے۔ پس درحقیقت اس نظام میں اقلیتیں سرا سر اکثریّت کے رحم پر جیتی ہیں اور ان کے لیے ابتدائی انسانی حقوق تک کی کوئی پائیدار ضمانت نہیں ہوتی۔
یہ بنیادی اختلافات ہیں جو ذمّیوں کے ساتھ اسلام کے سلوک اور اقلیتوں کے ساتھ قومی جمہوریتوں کے سلوک کو ایک دوسرے سے بالکل ممتاز کر دیتے ہیں۔ جب تک انہیں پیشِ نظر نہ رکھا جائے، انسان خلطِ مبحث سے نہیںبچ سکتا اور نہ اس غلط فہمی سے محفوظ رہ سکتا ہے کہ موجودہ زمانے کی قومی جمہوریتیں تو اپنے دستوروں میں اقلیتوں کو بالکل مساویانہ حقوق دیتی ہیں مگر اسلام اس معاملے میں تنگ نظری سے کام لیتا ہے۔
ان ضروری توضیحات کے بعد اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
غیر مسلم رعایا کی اقسام:
اسلامی قانون اپنی غیر مسلم رعایا کو تین اقسام پر تقسیم کرتا ہے۔
ایک وہ جو کسی صلح نامے کے ذریعے سے اسلامی حکومت کے تحت آئے ہوں۔
دوسرے وہ جو لڑنے کے بعد شکست کھا کر مغلوب ہوئے ہوں۔
تیسرے وہ جو جنگ اور صلح دونوں کے سوِا کسی اور صورت سے اسلامی ریاست میں شامل ہوئے ہوں۔
یہ تینوں اگرچہ ذمّیوں کے عام حقوق میں یکساں شریک ہیں‘ لیکن پہلے دونوں گروہوں کے احکام میں تھوڑا سا فرق بھی ہے۔ اس لیے اہل الذمہ کے عام حقوق کی تفصیلات بیان کرنے سے پہلے ہم ان مخصوص گروہوں کے جدا جدا احکام بیان کریں گے۔
معاہدین:
یہ لوگ جنگ کے بغیر یا دورانِ جنگ میں اطاعت قبول کرنے پر راضی ہو جائیں اور حکومت اسلامی سے مخصوص شرائط طے کر لیں، ان کے لیے اسلام کا قانون یہ ہے کہ ان کے ساتھ تمام معاملات ان شرائط ِ صلح کے تابع ہوں گے جو ان سے طے ہوئی ہوں۔ دشمن کو اطاعت پر آمادہ کرنے کے لیے چند فیاضانہ شرائط طے کر لینا اور پھر جب وہ پوری طرح قابو میں آ جائے تو اس کے ساتھ مختلف برتائو کرنا، آج کل کی مہذب قوموں کے سیاسی معمولات میں سے ہے۔ مگر اسلام اس کو ناجائز بلکہ حرام اور گناہِ عظیم قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ جب کسی قوم کے ساتھ کچھ شرائط طے ہو جائیں (خواہ وہ مرغوب ہوں یا نہ ہوں) تو اس کے بعد ان شرائط سے یک سرِ مو تجاوز بھی نہ کیا جائے، بلالحاظ اس کے کہ فریقین کی اعتباری حیثیت اور طاقت و قوت (Relative Position) میں کتنا ہی فرق آ جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
لعلکم تقاتلون قومأ فتظھرون علیھم فیتقونکم باموالھم دون انفسھم وابنائھم وفی روایۃ فیصا لحونکم علی صلحٍ، فلا تصیبوا منھم فوق ذالک فانہ لا یصلح لکم۔ (ابو دائود، کتاب الجہاد)
’’اگر تم کسی قوم سے لڑو اور اس پرغالب آ جائو اور وہ قوم اپنی اور اپنی اولاد کی جان بچانے کے لیے تم کوخراج دینا منظور کر لے(ایک دوسری حدیث میں ہے کہ تم سے صلح نامہ طے کر لے) تو پھر بعد میں اس مقررہ خراج سے ایک حبہ بھی زائد نہ لینا، کیونکہ وہ تمہارے لیے ناجائز ہو گا‘‘۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
الامن ظلم معاھدا او انتقصہ او کلَّفہٗ قوق طاقتہ او اخذ منہ شیئاً بغیر طیب نفس فانا حجیجہٗ یوم القیامۃ۔ (ابو دائود، کتاب الجہاد)
’’خبردار! جو شخص کسی معاہد پر ظلم کرے گا‘ اس کے حقوق میں کمی کرے گا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بار ڈالے گا، یا اس سے کوئی چیز اس کی مرضی کے خلاف وصول کرے گا، اس کے خلاف قیامت کے دن میں خود مستغیث بنوں گا‘‘۔
ان دونوں حدیثوں کے الفاظ عام ہیں اور ان سے یہ قاعدۂ کلیہ مستبظ ہوتا ہے کہ معاہد ذمّیوں کے ساتھ صلح نامہ میں جو شرائط طے ہو جائیں ان میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔ نہ ان پر خراج بڑھایا جا سکتا ہے، نہ ان کی زمینوں پر قبضہ کی جا سکتا ہے، نہ ان کی عمارتیں چھینی جا سکتی ہیں، نہ ان پر سخت فوجداری قوانین نافذ کیے جا سکتے ہیں، نہ ان کے مذہب میں دخل دیا جا سکتا ہے، نہ ان کی عزت و آبرو پر حملہ کیا جا سکتا ہے اور نہ کوئی ایسا فعل کیا جا سکتا ہے جو ظلم یا انتقاص، یا تکلیف مالا یُطاق، یا اخذ بغیر طیب نفس کی حدود میں آتا ہو، انہی احکام کی بِنا پر فقہائے اسلام نے صلحاً فتح ہونے والی قوموں کے متعلق کسی قسم کے قونین مدون نہیں کیے ہیں اور صرف یہ عام قاعدہ وضع کرکے چھوڑ دیا ہے کہ ان کے ساتھ ہمارا معاملہ بالکل شرائطِ صلح کے مطابق ہو گا۔ امام ابو یوسفؒ لکھتے ہیں:۔
یوخذ منھم ماصو لحوا علیہ ویوفی لھم ولا یزاد علیھم۔(کتاب الخراج صفحہ ۳۵)
’’ان سے وہی لیا جائے گا جس پر ان کے ساتھ صلح ہوئی ہے‘ ان کے حق میں صلح کی شرائط پوری کی جائیں گی‘ اور ان پر کچھ اضافہ نہ کیا جائے گا۔‘‘
مفتوحین:
دوسری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو آخر وقت تک مسلمانوں سے لڑتے رہے ہوں اور جنہوں نے اس وقت ہتھیار ڈالے ہوں جب اسلامی فوجیں ان کے استحکامات کو توڑ کر ان کی بستیوں میں فاتحانہ داخل ہو چکی ہوں۔ اس قسم کے مفتوحین کو جب ذمّی بنایا جاتا ہے تو ان کو چند حقوق دیے جاتے ہیں، جن کی تفصیلات فقہی کتابوں میں موجود ہیں۔ ذیل میں ان احکام کا خلاصہ دیا جاتا ہے جن سے ذمّیوں کی اس جماعت کی آئینی حیثیت واضح ہوتی ہے۔
(۱) جب امام اُن سے جزیہ قبول کر لے تو ہمیشہ کے لیے عقد ذمّہ قائم ہو جائے گا، اور ان کی جان و مال کی حفاظت کرنا مسلمانوں پر فرض ہو گا، کیونکہ قبولِ جزیہ کے ساتھ ہی عصمتِ نفس و مال ثابت ہو جاتی ہے۔ (بدائع الصنائع ج ۷ ص۱۱۱)
اس کے بعد امام کو یا مسلمانوں کو یہ حق باقی نہیں رہتا کہ ان کی املاک پر قبضہ کریں یا انہیں غلام بنا لیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ کو صاف لکھا تھا کہ:۔
فاذا اخزت منھم الجزیۃ فلا شیٔ لک علیھم ولا سبیل۔
(کتاب الخراج ص۸۲)
’’جب تم ان سے جزیہ قبول کر لو تو پھر تم کو ان پر دست درازی کا کوئی حق باقی نہیں رہتا۔‘‘
(۲) عقد ذمّہ قائم ہو جانے کے بعد اپنی زمینوں کے مالک وہی ہوں گے، ان کی ملکیّت ان کے ورثاء کو منتقل ہو گی، اور ان کو اپنے املاک میں بیع، ہبہ، رہن وغیرہ کے جملہ حقوق حاصل ہوں گے۔ اسلامی حکومت کو انہیں بے دخل کرنے کا حق نہ ہو گا۔ (فتح القدیر۴ص ۳۵۹)
(۳) جزیہ کی مقدار ان کی مالیّت کے لحاظ سے مقرر کی جائے گی۔ جو مالدار ہیں ان سے زیادہ، جو متوسط الحال ہیں ان سے کم، اور جو غریب ہیں اُن سے بہت کم لیا جائے گا۔ اور جو کوئی ذریعۂ آمدنی نہیں رکھتے‘ یا جن کی زندگی کا انحصار دوسروں کی بخشش پر ہے‘ ان کو جزیہ معاف کر دیا جائے گا۔ اگرچہ جزیہ کے لیے کوئی خاص رقم مقرر نہیں ہے‘ لیکن اس کی تعیین میں یہ امر مدِّنظر رکھنا ضروری ہے کہ ایسی رقم مقرر کی جائے جس کا ادا کرنا ان کے لیے آسان ہو۔ حضرت عمرؓ نے مالداروں پر ایک روپیہ ماہانہ، متوسط الحال لوگوں پر آٹھ آنہ مہینہ اور غریب محنت پیشہ لوگوں پر چار آنہ مہینہ جزیہ مقرر کیا تھا۔ (کتاب الخراج ص۳۶)
(۴) جزیہ صرف ان لوگوں پر لگایا جائے گا جو اہل قتال ہیں۔ غیر اہل قتال، مثلاً بچے، عورتیں، دیوانے، اندھے، اپاہج، عبادت گاہوں کے خادم، راہب، سنیاسی، ازکار رفتہ بوڑھے، ایسے بیمار جن کی بیماری سال کے ایک بڑے حصہ تک ممتد ہو جائے، اور لونڈی غلام وغیرہ جزیہ سے مستثنیٰ ہیں۔
(بدائع ج۷ ص۱۱۱۔ ۱۱۳،فتح القدیر ج۴ ص ۳۷۳، کتاب الخراج ص ۷۳)
(۵) بزور شمشیر فتح ہونے والے شہر کے معاہد پر مسلمانوں کو قبضہ کر لینے کا حق ہے۔ لیکن اس حق سے استفادہ نہ کرنا اور بطریقِ احسان اُن کو علیٰ حالہٖ قائم رہنے دینا اولیٰ اور افضل ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جتنے ممالک فتح ہوئے ان میں کوئی معبد نہ توڑا گیا اور نہ اس سے کسی قسم کا تعرض کیا گیا۔ امام ابو یوسفؒ لکھتے ہیں:۔
ترکت علیٰ حالھا ولم تھدم ولم یتعرض لھا۔ (کتاب الخراج۸۳)
اُن کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا، نہ مسمار کیا گیا اور نہ ان سے کسی قسم کا تعرض کیا گیا۔
قدیم معاہد کو مسمار کرنا بہرحال ناجائز ہے۔ (بدائع جلد ۷ص ۱۱۸)
ذمّیوں کے عام حقوق
اب ہم ذمّیوں کے وہ حقوق بیان کریں گے جن میں تینوں اقسام کے اہل الذّمہ شریک ہیں۔
حفاظت جان
ذمّی کے خون کی قیمت مسلمان کے خون کے برابر ہے۔ اگر کوئی مسلمان ذمّی کو قتل کرے گا تو اس کا قصاص اُسی طرح لیا جائے گا جس طرح مسلمان کو قتل کرنے کی صورت میں لیا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک مسلمان نے ایک ذمّی کو قتل کیا تو آپؐ نے اس کے قتل کا حکم دیا اور فرمایا کہ:۔
انا احق من وفٰی بذمتہ ’’اس کے ذمہ کو وفا کرنے کا سب سے زیادہ حقدار میں ہوں‘‘
(عنایہ شرح ہدایہ ج۸ ص ۲۵۶، دارقطنی نے یہی حدیث ابن عمرؓ کے حوالہ سے نقل کی ہے اور اس میں ’’انا اکرم من ونٰی بذمتہ‘‘ آیا ہے۔)
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں قبیلہ بکر بن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک ذمّی کو قتل کر دیا۔ اس پر آپؐ نے حکم دیا کہ قاتل کو مقتول کے حوالہ کیا جائے۔ چنانچہ وہ مقتول کے وارثوں کو دے دیا گیا اور انہوںنے اس کو قتل کر دیا۔ (برہان شرح مواہب الرحمن ج۳ ص ۲۸۷)
حضرت عثمان کے زمانہ میں خود عبیداللہ بن عمرؓ کے قتل کا فتویٰ دے دیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے ہرمزان اور ابو لولو کی بیٹی کو اس شبہ میں قتل کر دیا تھا کہ شاید وہ حضرت عمرؓ کے قتل کی سازش میں شریک تھے۔
حضرت علیؓ کے زمانہ میں ایک مسلمان ایک ذمّی کے قتل میں ماخوذ ہوا۔ ثبوت مکمل ہونے کے بعد آپؓ نے قصاص کا حکم دے دیا۔ مقتول کے بھائی نے آ کر عرض کیا میں نے خون معاف کیا، مگر آپ مطمئن نہ ہوئے اور فرمایا:۔
لعلھم فزعوک اوھدّ روک’’شاید ان لوگوں نے تجھے ڈرایا دھمکایا ہے۔‘‘
اس نے جواب دیا کہ ’’نہیں مجھے خون بہا مل چکا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اُس کے قتل سے میرا بھائی واپس نہیں آ جائے گا۔‘‘ تب آپ نے قاتل کو رہا کیا اور فرمایا کہ:۔
من کان لہٗ ذمتنا فدمہ کدمنا و دیتہ کدیتنا۔ (برہان جلد ۲ ص ۲۸۲)
’’جو کوئی ہمارا ذمّی ہو اس کا خون ہمارے خون کی طرح اور اس کی دیّت ہماری دیّت کی طرح ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت علیؓ نے فرمایا:۔
انما قبلم اعقد الذمۃ لتکون اموالھم کا موالنا ودماؤھم کد مائنا۔
’’انہوں نے عقد ذمہ قبول ہی اس لیے کیا ہے کہ ان کے مال ہمارے مال کی طرح اور اُن کے خون ہمارے خون کی طرح ہو جائیں۔‘‘
اِسی بِنا پر فقہاء نے یہ جزئیہ نکالا ہے کہ اگرمسلمان کسی ذمّی کو بلا ارادہ قتل کرے تو اس کی دیّت بھی وہی ہو گی جو مسلمان کو خطاء قتل کرنے سے لازم آتی ہے۔ (در مختار، ج ۳ ص ۲۰۳)
فوجداری قانون:
تعزیرات کا قانون ذمّی اور مسلمان کے لیے یکساں ہے اور اس میں دونوں کا درجہ مسای ہے۔ جرائم کی جو سزا مسلمانوں کو دی جائے گی وہی ذمّی کو بھی دی جائے گی۔ ذمّی کا مال مسلمان چرا لے یا مسلمان کا مال ذمّی چرائے، دونوں صورتوں میں سارق کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ ذمّی کسی مرد یا عورت پرزنا کی تہمت لگائے یا مسلمان ایسا کرے‘ دونوں صورتوں میں ایک ہی حد قذف جاری ہو گی۔ اسی طرح زنا کی سزا بھی ذمّی اور مسلمان کے لیے یکساں ہے۔ البتہ شراب کے معاملہ میں ذمّیوں کے لیے استثناء ہے۔ ۱؎
دیوانی قانون:
دیوانی قانون بھی ذمّی اور مسلمان کے لیے یکساں ہے اور دونوں کے درمیان کامل مساوات ہے۔ حضرت علیؓ کے ارشاد اموالھم کا موالنا کے معنی ہی یہی ہیں کہ ان کے مال کی ویسی ہی حفاظت کی جائے جیسی مسلمان کے مال کی ہوتی ہے اور دیوانی حقوق ہمارے اور ان کے برابر ہوں گے۔ اس مساوات کا طبعی لازمہ یہ ہے کہ دیوانی قانون کی رُو سے جتنی پابندیاں مسلمان پر عائد ہوتی ہیں وہی سب ذمّی پر بھی عائد ہوں۔
تجارت کے جو طریقے ہمارے لیے ممنوع ہیں وہی ان کے لیے بھی ہیں۔ سود جس طرح ہمارے لیے حرام ہے اسی طرح ان کے لیے بھی ہے۔ البتہ ذمّیوں کے لیے صرف شراب اور سُور کا استثناء ہے۔ وہ شراب بنانے، پینے اور بیچنے کا حق رکھتے ہیں، اور انہیں سُور پالنے، کھانے اور فروخت کرنے کے بھی حقوق حاصل ہیں۔ (المبسوط ج۱۳ ص۳۷۔ ۳۸)
اگر کوئی مسلمان کسی ذمّی کی شراب یا اس کے سُور کو تلف کر دے، تو اس پر تاوان لازم آئے گا۔ درالمختار میں ہے:۔
ویضمن المسلم قیمۃ خمرہ وخنزیرہ اذا اتلفہٗ (درالمختار ج۳ ص۲۷۳)
’’مسلمان اس کی شراب اور اس کے سُور کی قیمت ادا کرے گا اگر وہ اسے تلف کر دے‘‘
تحفظ عزت:
ذمّی کو زبان یا ہاتھ پائوں سے تکلیف پہنچانا‘ اس کو گالی دینا‘ مارنا پیٹنا‘ یا اس کی غیبت کرنا اسی طرح ناجائز ہے جس طرح مسلمان کے حق میں یہ افعال ناجائز ہیں۔ درالمختار میں ہے:۔
ویحب کف الاذیٰ عنہ وتحرم غیبتہٗ کالمسلم (درالمختار جلد ۳ ص ۲۷۴۔۲۷۳)
’’اس کو تکلیف دینے سے باز رہنا واجب ہے اور اس کی غیبت اسی طرح حرام ہے جیس مسلم کی غیبت حرام ہے۔‘‘
ذمّہ کی پائیداری:
عقد ذمّہ مسلمانوں کی جانب ابدی لزوم رکھتا ہے، یعنی وہ اسے باندھنے کے بعد پھر اسے توڑ دینے کے مختار نہیں ہیں، لیکن دوسری جانب ذمّیوں کو اختیار ہے کہ جب تک چاہیں اس پر قائم رہیں اور جب چاہیں توڑ دیں۔ بدائع میں ہے:۔
واما صفۃ العقد فھو لازم فی حقنالایملک المسلمون نقضہ بحال من الاحوال واما فی حقھم فغیر لازم۔ (درالمختار جلد۳ ص۲۷۴۔۲۷۳)
’’عقد ذمہ ہمارے حق میں تو لازم ہے، یعنی ایک مرتبہ ذمّی بنا لینے کے بعد ہم اس ذمّہ کو کسی حال میں توڑ نہیں سکتے۔ لیکن ان کے لیے یہ لازم نہیں ہے (یعنی اگر وہ ہمارے ذمّہ سے خارج ہونا چاہیں تو ہو سکتے ہیں)۔‘‘
ذمّی خواہ کیسے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے، اس کا ذمّہ نہیں ٹوٹتا۔ حتیٰ کہ جزیہ بند کر دینا، مسلمانوں کو قتل کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا یا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا بھی اس کے حق میں ناقصِ ذمّہ نہیں ہے۔ ان افعال پر اسے مجرم کی حیثیت سے سزا دی جائے گی، لیکن باغی قرار دے کر ذمّہ سے خارج نہیں کر دیا جائے گا۔ البتہ صرف دو صورتیں ایسی ہیں جن میں ایک ذمّی خارج از ذمّہ ہو جاتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ دارالاسلام کو چھوڑ کر دشمنوں سے جا ملے۔ دوسرے یہ کہ حکومتِ اسلامی کے خلاف صریح بغاوت کرکے فتنہ و فساد برپا کرے۔
(بدائع ج۷ ص۱۱۳۔ فتح القدیر ج۴ ص۸۲۔۳۸۱)
شخصی معاملات:
ذمّیوں کے شخصی معاملات ان کی اپنی ملّتِ کے قانون (Personal Law) کے مطابق طے کیے جائیں گے۔ اسلامی قانون ان پر نافذ نہیں کیا جائے گا۔ ہمارے لیے شخصی معاملات جو کچھ ناجائز ہے‘ وہ اگر اُن کے مذہی و قومی قانون میں جائز ہو تو اسلامی عدالت اُن کے قانون ہی کے مطابق فیصلہ کرے گی۔ مثلاً بغیر گواہوں کے نکاح یا زمانۂ عدّت کے اندر نکاح ثانی‘ یا محرمات کے ساتھ نکاح اگر وہ جائز رکھتے ہوں تو ان کے لیے یہ سب افعال جائز رکھے جائیں گے۔ خلفاء راشدین اور ان کے بعد کے تمام اَدوار میں اسلامی حکومتوں کا اسی پر عمل رہا ہے۔ حضرت عمر ابن عبدالعزیز نے اس معاملہ میں حضرت حسنؒ بصری سے فتویٰ طلب کیا تھا کہ:۔
ما بال الخلفاء الراشدین ترکوا اھل الذمۃ وما ھم علیہ من نکاح المحارم واقتناء الخمور والخنازیر؟
’’کیا بات ہے کہ خلفاء راشدین نے ذمّیوں کو محرمات کے ساتھ نکاح اور شراب اور سُور کے معاملہ میں آزاد چھوڑ دیا ہے ؟‘‘
جواب میں حضرت حسنؒ نے لکھا:۔
انما بذلوا الجزیۃ لیترکو او مایعتقدون وانما انت متبع ولا مبتدع والسلام۔
’’انہوں نے جزیہ دینا اسی لیے تو قبول کیا ہے کہ انہیں ان کے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی دی جائے۔ آپ کا کام پچھلے طریقہ کی پیروی کرنا ہے نہ کہ کوئی نیا طریقہ ایجاد کرنا ہے۔‘‘
البتہ اگر کسی مقدمہ میں فریقین خود اسلامی عدالت سے درخواست کریں کہ شریعتِ اسلام کے مطابق ان کا فیصلہ کیا جائے، تو عدالت ان پر شریعت نافذ کرے گی۔ نیز اگر شخصی قانون سے تعلق رکھنے والے کسی معاملہ میں ایک فریق مسلمان ہو تو پھر فیصلہ اسلامی شریعت کے مطابق ہو گا۔ مثلاً کوئی عیسائی عورت کسی مسلمان کے نکاح میں تھی اور اس کا شوہر مر گیا، تو اس عورت کو شریعت کے مطابق پوری عدتِ وفات گزارنی ہو گی۔ عدت کے اندر وہ نکاح کرے گی تو ایسا نکاح باطل ہو گا۔
(المبسوط ج۵ ص۲۸۔ ۴۱)
مذہبی مراسم:
مذہبی مراسم اور قومی شعائر کو پبلک میں اعلان و اظہار کے ساتھ ادا کرنے کے متعلق اسلامی قانون یہ ہے کہ اہل الذمّہ خود اپنی بستیوں میں تو ان کو پوری آزادی کے ساتھ کر سکیں گے البتہ خالص اسلامی آبادیوں میں حکومتِ اسلامی کو اختیار ہو گا کہ ان میں آزادی دے یا ان پر کسی قسم کی پابندیاں عائد کر دے ۱؎ ۔ بدائع میں ہے:۔
لا یمنعون من اظہار شییٔ مما ذکرنا من بیع الخمر والخنزیر والصلیب وضرب الناقوس فی قریۃ او موضع لیس من امصار المسلمین ولو کان فیہ عدد کثیر من اھل الاسلام وانما یکرہ ذالک فی امصار المسلمین وھی الّتی یقام فیھا الجمع والا عیاد والحدود۔
واما اظھار فسق یعتقدون حرمتہ کالزناوسائر الفواحش اللّٰتی حرام فی دینھم فانھم یمنعون من ذالک سواء کانوا فی امصار المسلمین او فی امصارھم۔ (بدائع ج ۷ ص۱۱۳)
’’جو بستیاں امصار مسلمین میں سے نہیں ہیں ان میں ذمّیوں کو شراب و خنزیر بیچنے اور صلیب نکالنے اور ناقوس بجانے سے نہیں روکا جائے گا خواہ وہاں مسلمانوں کی کتنی ہی کثیر تعداد آباد ہو۔ البتہ یہ افعال امصار مسلمین میں ناپسندیدہ ہیں، یعنی ان شہروں میں جنہیں جمعہ و عیدین اور اقامتِ حدود کے لیے مخصوص کیا گیا ہو۔
رہا وہ فسق جس کی حرکت کے خود وہ بھی قائل ہیں مثلاً زنا اور دوسرے تمام فواحش جو ان کے دین میں بھی حرام ہیں، تو اس کے علانیہ ارتکاب سے ان کو ہر حال میں روکا جائے گا، خواہ وہ امصارِ مسلمین میں ہوں یا خود اپنے امصار میں۔‘‘
لیکن امصار مسلمین میں بھی ان کو صرف صلیبوں اور مورتیوں کے جلوس نکالنے اور علانیہ ناقوس بجاتے ہوئے بازاروں میں نکلنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ ورنہ اپنے قدیم معاہد کے اندر رہ کر وہ تمام شعائر کا اظہار کر سکتے ہیں۔ حکومت اسلامیہ اس میں دخل نہ دے گی۔
(شرح ایسرالکبیر ج۳ ص۲۵۱)
عبادت گاہیں:
امصارِ مسلمین میں ذمّیوں کے جو قدیم معاہد ہوں ان سے تعرض نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ ٹوٹ جائیں تو انہیں اسی جگہ دوبارہ بنا لینے کا حق ہے۔ لیکن نئے معاہد بنانے کا حق نہیں ہے۔
(بدائع جلد۷ ص ۱۱۴۔ شرح ایسرالکبیر ج۳ ص۲۵۱)
رہے وہ مقامات جو امصار مسلمین نہیں ہیں تو ان میں ذمّیوں کو نئے معاہد بنانے کی بھی عام اجازت ہے۔ اسی طرح جو مقامات اب ’’مصر‘‘ نہ رہے ہوں، یعنی امام نے ان کو ترک کرکے وہاں کی تعمیر اور اپنے شعائر کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ (بدائع جلد۷۔ص۱۱۴۔شرح ایسر الکبیر ج۳ ص ۲۵۷)
ابن عباس کا فتویٰ ہے :۔
اما مصر مصرتہ العرب فلیس لھم ان یحدثوا فیہ بناء بیعۃ ولا کنیسۃ ولا یضربوا فیہ بناقوس ولا یظھروا فیہ خمرًا ولا یتخذوا فیہ خنزیراً وکل مصرکانت العجم مصرتہ قفتحہ اللّٰہ علی العرب فنزلوا علیٰ حکمھم فللعجم ما فی اھدھم وعلی العرب ان یوفوا لھم بذالک۔ (کتاب الخراج ص۸۸)
’’جن شہروں کو مسلمانوں نے آباد کیا ہے ان میں ذمّیوں کو یہ حق نہیں ہے کہ نئے معاہد اور کنائس تعمیر کریں یا ناقوس بجائیں یا علانیہ شراب اور سُور کا گوشت بیچیں۔ باقی رہے وہ شہر جو عجمیوں کے آباد کیے ہوئے ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ہاتھ پر فتح کیا اور انہوں نے مسلمانوں کے حکم کی اطاعت قبول کر لی تو عجم کے لیے وہ حقوق ہیں جو ان کے معاہدہ میں طے ہو جائیں اور مسلمانوں پر ان کا ادا کرنا لازم ہے۔‘‘
جزیہ و خراج کی تحصیل میں رعایات:
جزیہ و خراج کے معاملہ میں ذمّیوں پر تشدد کرنا ممنوع ہے۔ ان کے ساتھ نرمی اور رفق کی تاکید کی گئی ہے اور ان پر ایسا باڑ ڈالنے سے منع کیا گیا ہے جسے اٹھانے کی ان میں قدرت نہ ہو۔ حضرت عمرؓ نے حکم دیا تھا کہ لایکلفوا فوق طاقتھم جتنا مال دنیا ان کی طاقت سے باہر ہو اس کے ادا کرنے کی انہیں تکلیف نہ دی جائے۔ (کتاب الخراج ص۸ ، ۸۲)
جزیہ کے عوض ان کی املاک کا نیلام نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہٗ نے اپنے ایک عامل کو فرمان بھیجا تھا کہ لاتبیعن لھم فی خراجھم حمارًا ولا بقرہ ولا کسوۃ شیئاً ولا حنفاً خراج میں ان کا گدھا، ان کی گائے، ان کے کپڑے نہ بیچنا۔ (فتح البیان ج۴ ص ۹۳)
ایک اور موقع پر اپنے عامل کو بھیجتے وقت حضرت علیؓ نے فرمایا:۔
’’ان کے جاڑے گرمی کے کپڑے اور ان کے کھانے کا سامان اور ان کے جانور جن سے وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں، خراج وصول کرنے کی خاطر ہرگزنہ بیچنا، نہ کسی کو درہم وصول کرنے کے لیے کوڑے مارنا، نہ کسی کو کھڑا رکھنے کی سزا دینا، نہ خراج کے عوض کسی چیز کا نیلام کرنا۔ کیونکہ ہم جو ان کے حاکم بنائے گئے ہیں۔ تو ہمارا کام نرمی سے وصول کرنا ہے۔ اگر تم نے میرے حکم کے خلاف کیا تو اللہ میرے بجائے تم کو پکڑے گا اور اگر مجھے تمہاری خلاف ورزی کی خبر پہنچی تو میں تمہیں معزول کر دوں گا‘‘۔ (کتاب الخراج ص۹)
جزیہ کی تحصیل میں ان پر ہر قسم کی سختی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے شام کے گورنر حضرت ابو عبیدہؓ کو جو فرمان لکھا تھا اس میں منجملہ اور احکام کے ایک یہ بھی تھا کہ:۔
وامنع المسلمین من ظلمھم والاضراربھم واکل اموالھم الا بحلھا (کتاب الخراج ص۸۲)
’’مسلمانوں کو ان پر ظلم کرنے‘ اور انہیں ستانے اور ناجائز طریقہ سے ان کے مال کھانے سے منع کرو‘‘۔
شام کے سفر میں حضرت عمر ث نے دیکھا کہ ان کے عامل جزیہ وصول کرنے کے لیے ذمّیوں کو سزا دے رہے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ ان کو تکلیف نہ دو، اگر تم انہیں عذاب دو گے۔ تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب دے گا۔ لا تعذب الناس فان الذین یعذبون الناس فی الدنیا یعذبھم اللّٰہ یوم القیامہ۔ (کتاب الخراج۷۱)
ہشام بن حکم نے ایک سرکاری افسر کو دیکھا کہ وہ ایک قبطی کو جزیہ وصول کرنے کے لیے دھوپ میں کھڑا کر رہا ہے۔ اس پر انہوں نے ملامت کی اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہا کو یہ فرماتے سنا ہے کہ:۔
ان اللّٰہ عزوجل یعذب الذین یعذبون الناس فی الدنیا (ابودائود کتاب الخراج بابا الفئی والا مارہ)
’’اللہ عزوجل ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں۔‘‘
فقہاء اسلام نے نادہندوں کے حق میں صرف اتنی اجازت دی ہے کہ انہیں تادیباً قید بے مشقت کی سزا دی جا سکتی ہے۔ امام ابو یوسفؒ لکھتے ہیں کہ ولکن یرفق بھم ویحبسون حتی یورواماعلیھم۔ (کتاب الخراج ص ۷۰)
جو ذمّی محتاج اور فقیر ہو جائیں انہیں صرف جزیہ سے معاف ہی نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے لیے اسلامی خزانے سے وظائف بھی مقرر کیے جائیں گے۔ حضرت خالدؓ نے اہل حیرہ کو جو امان نامہ لکھ کر دیا تھا اس میں وہ لکھتے ہیں:۔
وجعلت لھم ایّما شیخ ضعف عن العمل او اصابتۃ اٰفۃ من الاٰفات اوکان غنیا فاقتضر وصار اھل دینہ یتصدقون علیہ طرحت جزیتہ وعیل من بیت مال المسلمین ھو وعیالہٗ (کتاب الخراج ص ۸۵)
’’میں نے ان کے لیے یہ حق بھی رکھا ہے کہ جو کوئی شخص بڑھاپے کے سبب ازکار رفتہ ہو جائے یا اس پر کوئی آفت نازل ہو جائے، یا وہ پہلے مالدار تھا پھر فقیر ہو گیا یہاں تک کہ اس کے ہم مذہب لوگ اس کو صدقہ خیرات دینے لگے، تو اس کا جزیہ معاف کر دیا جائے اور اسے اور اس کے بال بچوں کو مسلمانوں کے بیت المال سے مدد دی جائے گی۔‘‘
ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے ایک ضعیف العمر آدمی کو بھیک مانگتے دیکھا اور اس سے اس ذلیل حرکتوں کا سبب دریافت کیا۔ اس نے کہا کہ جزیہ ادا کرنے کے لیے بھیک مانگتا ہوں اس پر آپ نے اس کا جزیہ معاف کر دیا اور اس کے لیے وظیفہ مقرر کیا اور اپنے افسر خزانہ کو لکھا:۔
’’خدا کی قسم یہ ہرگز انصاف نہیں ہے کہ ہم اس کی جوانی میں اس سے فائدہ اٹھائیں اور بڑھاپے میں اس کو رسوا کریں۔‘‘ (کتاب الخراج ص ۷۲۔ فتح القدیر ج۴ ص ۳۷۳)
دمشق کے سفر میں بھی حضرت عمرث نے معذور ذمّیوں کے لیے امدادی وظائف مقرر کرنے کے احکام جاری کیے تھے۔ (فتوح البلدان للبلاذری طبع یورپ ص ۱۲۹)
اگر کوئی ذمّی مر جائے اور اس کے حساب میں جزیہ کا بقایا واجب الادا ہو تو وہ اس کے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے وارثوں پر اس کا بار ڈالا جائے گا۔ امام ابو یوسفؒ لکھتے ہیں:۔
ان وجت علیہ الجزیۃ فمات قبل ان توخذ منہ اواخذ بعضھا وبقی البعض لم یوخذ بذالک ورثتہ ولم توخذ من ترکتہ
(کتاب الخراج ص۷۰۔ المبسوط ج ۱۰ ص ۸۱)
’’اگر کسی ذمّی پر جزیہ واجب ہو اور وہ اس کو ادا کرنے سے پہلے مر گیا تو اس کے ورثاء سے وہ وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے ترکہ سے لیا جائے گا۔‘‘
تجارتی ٹیکس
مسلمان تاجروں کی طرح ذمّی تاجروں کے اموالِ تجارت پر بھی ٹیکس لیا جائے گا جبکہ ان کا راس المال ۲۰۰ درہم تک پہنچ جائے یا وہ ۲۰ مثقال سونے کے مالک ہو جائیں ۔ ۱؎ اس میں شک نہیں ہے کہ فقہاء نے ذمّی تاجر پر تجارتی محصول ۵ فیصدی لگایا تھا اور مسلمان تاجر پر اڑھائی فیصدی‘ لیکن یہ فعل کسی نص پر مبنی نہ تھا بلکہ اجتہاد پر مبنی تھا اور دراصل وقتی مصالح اس کے مقتضی تھے۔ اس زمانہ میں مسلمان زیادہ تر ملک کی حفاظت میں مشغول تھے اورتمام تجارت ذمّیوں کے ہاتھ میں آ گئی تھی۔ اسی لیے مسلمان تاجروں کی ہمت افزائی اور ان کی تجارت کے تحفظ کے لیے ان پر ٹیکس کم کر دیا گیا۔
فوجی خدمت سے استثناء:
ذمّی فوجی خدمت سے مستثنیٰ ہیں اور دشمن سے ملک کی حفاظت کرنا تنہا مسلمانوں کے فرائض میں داخل کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک اصول پر جو ریاست قائم ہو اس کی حفاظت کے لیے وہی لوگ لڑ سکتے ہیں اور انہی کو اس کے لیے لڑنا چاہیے جو اس اصول کو حق مانتے ہیں۔ پھر لڑائی میں اپنے اصول اور حدود کی پابندی بھی وہی کر سکتے ہیں دوسرے لوگ اگر اس ریاست کی حفاظت کے لیے لڑیں گے تو محض کرایہ کے سپاہیوں (Mercenaries) کی حیثیت سے لڑیں گے اور اسلام کے مقرر کیے ہوئے اخلاقی حدود کی پابندی نہ کر سکیں گے۔ اسی لیے اسلام نے ذمّیوں کو فوجی خدمت سے مستثنیٰ کر کے ان پر صرف یہ فرض عائد کیا ہے کہ وہ ملکی حفاظت کے مصارف میں اپنا حصہ ادا کر دیں۔ جزیہ کی اصل حیثیت یہی ہے۔ وہ نہ صرف اطاعت کا نشان ہے، بلکہ فوجی خدمت سے استثناء کا بدل اور ملکی حفاظت کا معاوضہ بھی ہے۔ چنانچہ جزیہ صرف قابلِ جنگ مردوں ہی پر لگایا جاتا ہے۔ اور اگر مسلمان کسی وقت ذمّیوں کی حفاظت سے قاصر ہوں تو جزیہ واپس کر دیا جاتا ہے۔ ۱ ؎ جنگ یرموک کے موقع پر جب رومیوں نے مسلمانوں کے مقابلہ میں ایک زبردست فوج جمع کی اور مسلمانوں کو شام کے تمام مفتوحہ علاقوں کو چھوڑ کر ایک مرکز پر اپنی طاقت سمیٹنی پڑی تو حضرت ابو عبیدہ ث نے اپنے امراء کو لکھا کہ جو کچھ جزیہ و خراج تم نے ذمّیوں سے وصول کیا ہے انہیں واپس کر دو اور ان سے کہو کہ ’’اب ہم تمہاری حفاظت سے قاصر ہیں‘ اس لیے ہم نے جو مال تمہاری حفاظت کے معاوضہ میں وصول کیا تھا اسے واپس کرتے ہیں۔‘‘ (کتاب الخراج صفحہ ۱۱۱)
اس حکم کے مطابق تمام امراء فوج نے جمع شدہ رقوم واپس کر دیں۔ بلا ذری اس موقع پر غیر مسلم رعایا کے جذبات کا حال لکھتا ہے کہ جب مسلمانوں نے حمص میں جزیہ کی رقم واپس کی تو وہاں کے باشندوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ ’’تمہاری حکومت اور انصاف پسندی ہم کو اُس ظلم و ستم سے زیادہ محبوب ہے جس میں ہم مبتلا تھے۔ اب ہم ہرقل کے عامل کو اپنے شہر میں ہرگز نہ گھسنے دیں گے۔ تاوقتیکہ لڑ کر مغلوب نہ ہوجائیں۔ (فتوح البلدان طبع یورپ ص ۱۳۷)
فقہائِ اسلام کی حمایت
یہ ہیں اس قانون کی تفصیلات جو صدرِ اوّل میں غیر مسلم رعایا کے حقوق وفرائض سے متعلق بنایا گیا تھا۔ اب آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ خلفاء راشدین کے بعد بادشاہی دَور میں جب کبھی ذمّیوں کے ساتھ بے انصافی کی گئی تو وہ فقہائِ اسلام ہی کا گروہ تھا جو آگے بڑھ کر ان کی حمایت کے لیے کھڑا ہو گیا اور متفق ہو کر ان کا پشت پناہ بنا۔ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ولید بن عبدالملک اُمَوِی نے دمشق کے کینسۂ یوحّنا کو زبردستی عیسائیوں سے چھین کر کر مسجد میں شامل کر لیا تھا۔ جب حضرت عمربن عبدالعزیز تختِ خلافت پر متمکن ہوئے اور عیسائیوں نے ان سے اس ظلم کی شکایت کی تو انہوں نے اپنے عامل کو لکھا کہ مسجد کا جتنا حصہ گرجا کی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے اسے منہدم کرکے عیسائیوں کے حوالہ کر دو۔‘‘ (فتوح البلدان مطبوعہ یورپ ص ۱۳۲)
ولید بن یزید نے رومی حملہ کے خوف سے قبرص کے ذمّی باشندوں کو جلا وطن کرکے شام آباد کیا۔ فقہائے اسلام اور عام مسلمان اس پر سخت ناراض ہوئے اور انہوں نے اس کو گناہِ عظیم سمجھا۔ پھر جب یزید بن ولید نے انہیں دوبارہ قبرص میں لے جا کر آباد کر دیا تو اس کو عام طور پر تحسین کی گئی اور کہا گیا کہ یہی انصاف کا تقاضہ ہے۔ اسماعیل بن عیاش کا بیان ہے کہ:۔
فاستفظع ذالک المسلمون واستعظمہ الفقہاء فلما ولی یزید بن ولید بن عبدالملک ردھم الی قبرص ناستحسن المسلمون ذالک من فعلہ وراؤہ عدلاً (فتوح البلدان ص ۱۵۶)
’’مسلمانوں نے اس کی اس حرکت سے بیزاری ظاہر کی اور فقہاء نے اس کو گناہ سمجھا۔ پھر جب یزید بن ولید خلیفہ ہوا اور اس نے ان کو قبرص کی طرف پھر لوٹا دیا تو مسلمانوں نے اس کو پسند کیا اور اسے عدل وانصاف سمجھا۔‘‘
بَلاذُری کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ جبل لُبنٰان کے باشندوں میں سے ایک گروہ نے بغاوت کر دی۔ اس پر صالح بن علی بن عبداللہ نے ان کی سرکوبی کے لیے ایک فوج بھیجی اور اس نے ان کے ہتھیار اٹھانے والے مردوں کو قتل کر دیا اور باقی لوگوں میں سے ایک جماعت کو جلا وطن کر دیا اور ایک جماعت کو وہیں آباد رہنے دیا۔ امام اوزاعیؒ اس زمانے میں زندہ تھے۔ انہوں نے صالح کو اس ظلم پر سخت تنبیہہ کی اور ایک طویل خط لکھا جس کے چند فقرے یہ ہیں:۔
’’جبل لبنان کے اہل ذمّہ کی جلا وطنی کا حال تم کو معلوم ہے۔ ان میں بعض ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے بغاوت کرنے والوں کے ساتھ کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔ مگر باوجود اس کے تم نے کچھ کو قتل کیا اور کچھ لوگوں کو ان کی بستیوں کی طرف واپس بھیج دیا۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ عام لوگوں کو بعض خاص لوگوں کے جرم کی سزا کیونکر دی جا سکتی ہے اور کس بِنا پر ان کے گھروں اوران کی جائیدادوں سے انہیں بے دخل کیا جا سکتا ہے‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے لا تزرو ازرۃ وزراخریٰ۔ اور یہ ایک واجب التعمیل حکم ہے۔ تمہارے لیے بہترین نصیحت یہ ہے کہ تم رسول اللہ کے اس ارشاد کو یاد رکھو کہ ’’جو کوئی کسی معاہد پر ظلم کرے گا اور اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بار ڈالے گا اس کے خلاف میں خود مدعی بنوں گا۔‘‘ (فتوح البلدان ص ۱۶۹)
یہ اور ایسی ہی بے شمار مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ علماء اسلام نے ہمیشہ اہل ذمّہ کے حقوق کی حمایت کی ہے اور اگر کبھی کسی امیر یا بادشاہ نے ان پر جبر و ظلم کیا بھی ہے تو جو لوگ اس عہد میں اسلامی قانون کے پاسبان رہے ہیں وہ کبھی اس پر ملامت کرنے سے باز نہیں رہے۔
زائد حقوق جو غیر مسلموں کو دیے جا سکتے ہیں
یہاں تک ہم نے اہل الذمّہ کے ان حقوق کا ذکر کیا ہے جو شریعت میں ان کے لیے مقرر ہیں اور جنہیں لازماً ہر اسلام دستور میں شامل ہونا چاہیے۔ اب ہم مختصر طور پر یہ بتائیں گے کہ موجودہ زمانے میں ایک اسلامی ریاست اپنے غیر مسلم شہریوں کو اصولِ اسلام کے مطابق مزید کیا حقوق دے سکتی ہے۔
نمائندگی اور رائے دہی:
سب سے پہلے انتخابات کے سوال کو لیجئے۔ اسلامی حکومت چونکہ ایک اصولی حکومت ہے اس لیے وہ غیر مسلموں کے حق میں رائے دہی کے معاملہ میں اُن فریب کاریوں سے کام نہیں لے سکتی جو بے دین قومی جمہوریتیں اقلیتوں کی رائے دہی کے معاملہ میں برتتی ہیں۔ اسلام میں رئیسِ حکومت کا منصب یہ ہے کہ و ہ اصولِ اسلام کے مطابق ریاست کا نظام چلائے‘ اور مجلسِ شوریٰ کا کوئی کام اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ اس اصولی نظام کو چلانے میں رئیسِ حکومت کا ہاتھ بٹائے۔ لہٰذا جو لوگ سرے سے اصولِ اسلام کومانتے ہی نہ ہوں وہ خود رئیسِ حکومت یا رکنِ شوریٰ بن سکتے ہیں اور نہ ان مناصب کے انتخابات میں رائے دہندہ کی حیثیت سے ان کا حصہ لینا کسی طرح معقول ہو سکتا ہے، البتہ انہیں رائے دہی اور رکنیت، دونوں چیزوں کے حقوق، بلدیات اور مقامی مجالس میں دیے جا سکتے ہیں، کیونکہ ان مجالس میں نظامِ زندگی زیرِ بحث نہیں ہوتا بلکہ صرف مقامی ضروریات کا انتظام ملحوظِ خاطر ہوتا ہے۔
تہذیبی خود اختیاری:
اس کے ساتھ یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ غیر مسلم گروہوں کے لیے ایک الگ نمائندہ مجلس یا اسمبلی بنا دی جائے تاکہ وہ اپنی اجتماعی ضروریات بھی اس کے ذریعہ سے پوری کریں، اور ملکی انتظام کے معاملہ میں بھی اپنا نقطۂ نظر پیش کر سکیں۔اس مجلس کی رکنیت اور رائے دہی غیر مسلموں کے لیے مخصوص ہو گی، اور اس میں ان کو پوری آزادی دی جائے گی۔ اس مجلس کے ذریعہ سے:۔
۱۔ وہ اپنے شخصی معاملات کی حد تک قوانین تجویز کرنے اور سابق قوانین میں اصلاح و ترمیم کرنے کے مجاذ ہونگے، اور اس طرح کی تمام تجاویز رئیس حکومت کی منظوری سے قانون بن سکیںگی۔
۲۔ وہ حکومت کے نظم و نسق اور مجلسِ شوریٰ کے فیصلوں کے متعلق اپنی شکایات‘ اعتراضات‘ مشورے اور تجاویز پوری آزادی کے ساتھ پیش کر سکیں گے اور حکومت انصاف کے ساتھ ان پر غور کرے گی۔
۳۔ وہ اپنے گروہ کے معاملات اورعام ملکی معاملات کے متعلق سوالات بھی کر سکیں گے‘ اور حکومت کا ایک نمائندہ ان کے جوابات دینے کے لیے موجود رہے گا۔
آزادیٔ تحریر و تقریر وغیرہ
غیر مسلموں کو اس ریاست میں تحریر و تقریر اور رائے و ضمیر اور اجتماع کی وہی آزادی حاصل ہو گی جو خود مسلمانوں کو حاصل ہو گی‘ اور اس معاملہ میں جو قانونی پابندیاں مسلمانوں کے لیے ہونگی وہی ان کے لیے بھی ہوں گی۔
قانون کی حدود میں رہتے ہوئے وہ حکومت پر‘ اس کے حکام پر اور خود رئیس حکومت پر آزادانہ تنقید کر سکیں گے۔
انہیں اسلام پر بھی تنقید کا اتنا ہی حق حاصل ہو گا جتنا مسلمانوں کو ان کے مذہب پر تنقید کا اس تنقید میں مسلمانوں کو بھی اُسی طرح قانون کا پابند رہنا ہو گا اور اگر ایک غیر اسلامی مذہب کا پیروکسی دوسرے غیر اسلامی مذہب کو قبول کر لے تو حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ البتہ کوئی مسلمان اسلامی ریاست کے حدود میں رہتے ہوئے اپنا دین بدلنے کا مجاز نہ ہو گا۔ لیکن ارتداد کی صورت میں مواخدہ جو کچھ بھی ہو گا، خود مرتد سے ہو گا، نہ کہ اس غیر مسلم سے جس کا اثر قبول کر کے وہ مرتد ہوا ہے۔
انہیں اپنے ضمیر کے خلاف کوئی عقیدہ یا عمل اختیار کرنے پر مجبور نہ کیا جائے گا، اور اپنے ضمیر کے مطابق وہ ایسے سب کام کرنے کے مجاز ہوں گے جو قانونِ ملکی سے متصادم نہ ہوتے ہوں۔
تعلیم:
انہیں نظامِ تعلیم تو وہی قبول کرنا ہو گا جو ریاست پورے ملک کے لیے بنائے گی‘ لیکن جہاں تک اسلام کی مذہبی تعلیم کا تعلق ہے‘ اس کے پڑھنے پر وہ مجبور نہ کیے جائیں۔ انہیں پورا حق ہو گا کہ ملکی درسگاہوں میں‘ یا خود اپنی مخصوص درسگاہوں میں‘ اپنے مذہب کی تعلیم کا مستقل انتظام کریں۔
ملازمتیں
چند محفوظ مناصب کے سِوا وہ تمام ملازمتوں میں داخل ہونے کے حقدار ہوں گے اور اس معاملہ میں ان کے ساتھ کوئی تعصب نہ برتا جائے گا۔ مسلمان اور غیر مسلم‘ دونوں کے لیے اہلیت کا ایک ہی معیار ہو گا اور اہل آدمیوں کو بلا امتیاز انتخاب کیا جائے گا۔
محفوظ مناصب سے مراد ایسے مناصب ہیں جو اسلام کے اصولی نظام میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان مناصب کی فہرست کافی غور و غوض کے بعد ماہرین کی ایک جماعت بنا سکتی ہے۔ ہم ایک قاعدہ کلیّہ کے طور پر صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ جن خدمات کا تعلق پالیسیوں کی تشکیل اور محکموں کی رہنمائی سے ہے وہ سب کلیدی اہمیت رکھنے والی خدمات ہیں‘ اور ایک اصولی نظام میں ایسی خدمات صرف انہی لوگوں کو دی جا سکتی ہیں جو اس کے اصولوں پر اعتقاد رکھتے ہوں۔ ان خدمات کو مستثنیٰ کرنے کے بعد باقی تمام نظم و نسق میں بڑے سے بڑے عہدوں پر بھی اہل الذمّہ اپنی اہلیّت کے لحاظ سے مقرر کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً کوئی چیز ان میں سے کسی شخص کے اکائوٹنٹ جنرل، چیف انجینئر یا پوسٹ ماسٹر جنرل بنائے جانے میں مانع نہیں ہے۔
اسی طرح فوج میں بھی صرف جنگی خدمات محفوظ ملازمتوں میں شمار ہوں گی۔ باقی دوسرے فوجی شعبے جن کا تعلق براہِ راست حرب و ضرب سے نہیں ہے، ذمّیوں کے لیے کھلے ہوں گے۔
معاشی کاروبار اور پیشے:
صنعت وحرفت، تجارت، زراعت اور دوسرے تمام پیشوں کے دروازے غیر مسلموں کے لیے بالکل کھلے رہیں گے۔ ان میں مسلمانوں کو ایسی کوئی رعایت حاصل نہ ہو گی جو غیر مسلموں کو نہ حاصل ہو‘ اور غیر مسلموں پر کوئی ایسی پابندی عائد نہ کی جا سکے گی جو مسلمانوں کے لیے نہ ہو۔ ہر شہری کو خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، معاشی میدان میں جدوجہد کا مساویانہ حق ہو گا۔
غیر مسلموں کے لیے تحفظ کی واحد صورت:
آخر میں اس امر کی توضیح بھی ضروری ہے کہ ایک اسلامی حکومت اپنے غیر مسلم شہریوں کو جو حقوق بھی دے گی بلا اس لحاظ کے دے گی کہ کوئی ہمسایہ غیر مسلم حکومت اپنی مسلمان رعایا کو کیا حقوق دیتی ہے، بلکہ کچھ دیتی بھی ہے یا نہیں۔ ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ مسلمان کافروں کو دیکھ دیکھ کراپنا لائحہ عمل بنائے، وہ انصاف کریں تو یہ بھی کرے، اوروہ ظلم کرنے لگیں تو یہ بھی ظلم پر اتر آئے، ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک قطعی اور واضح اصول کے پیرو ہیں اور ہمیں بہرحال اپنے حدودِ اختیار میں اپنے اصولوں پر ہی عمل کرنا ہے، جو ہم دیں گے نیک نیتی کے ساتھ دیں گے، صرف کاغذ ہی پر نہیں بلکہ زمین پر بھی دیں گے، اور اپنی لی ہوئی ذمّہ داریوں کو انصاف اور سچائی کے ساتھ ادا کریں گے۔
اس کے بعد یہ بیان کرنے کی حاجت نہیں رہتی کہ پاکستان میں غیر مسلموں کے لیے تحفظ، امن اور خوشحالی کی اس سے بڑھ کر، بلکہ درحقیقت اس کے سوا کوئی قابلِ اعتماد ضمانت نہیں ہو سکتی کہ یہاں ایک خالص اسلامی حکومت قائم ہو جائے۔ صرف اسی صورت میں ظلم اور جوابی ظلم کا وہ شیطانی چکر ٹوٹ سکتا ہے جو بدقسمتی سے بر عظیم ہند میں چل رہا ہے۔ صرف اسی صورت میںپاکستان بھی انصاف کا گھر بن سکتا ہے اور انڈین یونین کو بھی انصاف کا راستہ نظر آ سکتا ہے۔ افسوس ہے کہ غیر مسلم ایک مدّت سے اسلام کی غلط تعبیریں سنتے اور دیکھتے چلے آ رہے ہیں، اس لیے وہ اسلامی حکومت کا نام سن کر گھبراتے ہیں، اور ان میں سے بعض لوگ یہ شور مچانے لگتے ہیں کہ یہاں بھی انڈین یونین کی طرح بے دین جمہوریت قائم ہونی چاہئے۔ مگر ہم کو تعجب ہے کہ وہ خود ہی اصرار کرکے یہاں اس چیز کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں جس کا مزہ آج انڈین یونین کے مسلمان چکھ رہے ہیں، کیا واقعی وہ کوئی خوشگوار حالت ہے جس کی تمنا کی جا سکتی ہو؟ کیا اس کے بجائے ایک ایسے نظام کا تجربہ کرنا زیادہ بہتر نہ ہو گا جس کی بنیاد خدا ترسی اور دیانت اور مستقل اصولوں کی پیروی پر ہو؟
(ترجمان القرآن۔ اگست ۱۹۴۸ء شوال ۱۳۶۷ھ)
ضمیمۂ اوّل
حقوق ذمّہ
(مولانا مودودیؒ کی تصانیف سے جناب نعیم صدیقی صاحب نے اپنے کتابچے ’’دو دستوری خاکے‘‘۱؎ میں دفعہ وار مرتب کیے ہیں)
دفعہ(۱۵) جو شخص اس ریاست کے اصولِ حاکمیت وخلافت اور اس کے قاصد سے کلّی اتفاق نہ رکھتا ہو، وہ ریاست کے حدود میں ذمّی کی حیثیت سے رہ سکے گا جب کہ وہ اس ریاست کی وفاداری اور اس کے قانونِ ملکی کی اطاعت کا اقرار کرے۔
دفعہ(۱۶) ریاست ذمّیوں کی بنیادی انسانی حقوق اور حقوقِ عامہ کے علاوہ وہ تمام حقوق دے گی، جو شریعت نے اُن کے لیے مقرر کیے ہیں، ان حقوق کو سلب کرنے یا ان میں کمی کرنے کا اختیار کسی کو نہ ہو گا۔ البتہ ریاست کو اختیار ہو گا کہ اگر وہ مناسب سمجھے تو ان حقوق کے علاوہ کچھ مزید حقوق بھی انہیں دے۔ بشرطیکہ یہ اضافہ اسلامی اصولوں سے متصادم نہ ہو۔
دفعہ(۱۷) جب کسی ذمّی کو ازروئے دستور حقوقِ ذمّہ حاصل ہو چکے ہوں یا دئیے جا چکے ہوں تو اُسے ذمّہ سے خارج نہ کیا جا سکے گا۔ اِلّا یہ کہ یا تو وہ خود ہی اپنے خروج کا اعلان کرے یا عملاً کسی صریح غداری کا ارتکاب کرکے اپنے اقرارِ وفاداری کی نفی کر دے۔
دفعہ(۱۸) بنیادی انسانی حقوق اور حقوقِ عامّہ میں ذمّیوں اور مسلمانوں کے درمیان مساوات ملحوظ رکھی جائے گی۔
(ب) فوجداری اور دیوانی قوانین میں بھی مسلم اور ذمّی کے درمیان کامل مساوات ہو گی۔
(ج) ذمّیوں کے امصار ۲؎ مسلمین کے سوا ہر جگہ اپنی مذہبی عمارات تعمیر کرنے اور اپنے مذہبی مراسم اظہار و اعلان کے ساتھ ادا کرنے کے حقوق حاصل رہیں گے۔
(د) مذبیوں کو حق ہو گا کہ اپنے ہم مذہبوں کو اپنے بچوں کو اپنے اپنے مذہب کی تعلیم دیں‘ وہ غیر مسلم آبادی میں اپنے مذہب کی تبلیغ بھی کر سکیں گے اور انہیں یہ حق بھی ہو گا کہ قانون کے حدود میں اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں یا اسلام پر تنقید کریں۔
(ہ) ذمّیوں کے تمام شخصی اور نجی معاملات ان کے پرسنل لاء کے تحت تصفیہ پذیر ہونگے۔ اسلامی قانون اُن پر نافذ نہیں کیا جائے گا اِلّا یہ کہ وہ خود اس کا مطالبہ کریں۔ البتہ جہاں مسلم و ذمّی کے درمیان تنازع ہو گا وہاں فیصلہ ملکی قانون کے تحت ہو گا۔
(و) ذمّیوں پراصولاً دفاعِ ملک کی ذمّہ داری نہ ہو گی، اِلّا یہ کہ ان میں سے کوئی بطورِ خود فوجی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کرے۔ اس ذمّہ داری کے عوض ان سے مصارفِ دفاع کے لیے حسبِ حیثیت ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ مگر یہ ٹیکس صرف قابلِ جنگ مردوں ہی پر لگایا جائے گا۔ عورتیں، بچے، بوڑھے، اپاہج اور تارک الدنیا وغیرہ اس سے مستثنیٰ ہوں گے اور وہ لوگ بھی مستثنیٰ ہوں گے جو قومی خدمت انجام دیں۔
(۸) ذمّیوں کی تہذیبی خود اختیاری
(نوٹ) یہ حق اگرچہ ان حقوق میں سے نہیں ہے، جو شریعت کی رُو سے ہر اسلامی دستور میں شامل ہونے چاہئیں۔ مگر اصول اسلام کے مطابق یہ حق ذمّیوں کودیا جا سکتا ہے۔
دفعہ(۱۹) ذمّیوں کو دستور کی حدود کے اندر تہذیبی خود اختیاری (Cultural Autonomy) حاصل ہو گی۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنے منتخب نمائندوں کی ایک ایسی اسمبلی مرتب کر سکیں گے جس کے فرائض حسبِ ذیل ہوں۔
(ا) ذمّیوں کے تہذیبی اور مذہبی ادارات کی نگرانی۔
(ب) ذمّیوں کے مطالبات اور شکایات کو حکومت کے سامنے پیش کرنا۔
(ج) حکومت کے نظم و نسق پر تنقید اور عام ملکی مسائل کے بارے میں اپنے خیالات اور تجاویز کا اظہار۔
(د) ذمّیوں کے مجلسی و تہذیبی مسائل اورپرسنل لا کے بارے میں قوانین کے لیے سفارشات مرتب کرنا جو مجلسِ شوریٰ کے غور اور منظوری کے بعد قانون کی شکل اختیار کر سکیں گی۔
ضمیمۂ دوم
شہریّت اور اس کی بنیادیں
(’’اسلامی دستور کی تدوین ۱؎‘‘ کے موضوع پر مولانا مودودیؒ نے بار ایسوسی ایشن کراچی۔ میں ۲۴ نومبر ۵۲ء کو ایک تقریر فرمائی تھی جس میں ’’شہریت اور اس کی بنیادیں‘‘ اور ’’حقوقِ شہریت‘‘ کے ضمن میں ان حقوق کو بیان فرمایا تھا جو اسلام نے ذمّیوں کو عطا کیے ہیں۔ یہاں موضوع کی مناسب کے لحاظ سے تقریر مذکور کا مندرجہ ذیل حصہ نقل کیا جاتا ہے)
اس شہریت کے مسئلے کو لیجئے۔ اسلام چونکہ ایک نظام فکر و عمل ہے اور اسی نظام کی بنیاد پر وہ ایک ریاست قائم کرتا ہے، اس لیے وہ اپنی ریاست میں شہریت کی دو قسمیں قرار دیتا ہے۔ پھر چونکہ راستبازی و حق گوئی اسلام کی اصل روح ہے‘ اس لیے وہ بغیر کسی مکر و فریب کے صاف صاف شہریت کی اس تقسیم کو بیان بھی کر دیتا ہے، دنیا کو دھوکہ دینے کے لیے یہ طریقہ اختیار نہیں کرتا کہ زبان سے اپنے سب شہریوں کو یکساں قرار دے اور عمل میں ان کے درمیان نہ صرف تمیز کرے بلکہ ان کے ایک عنصر کو انسانی حقوق تک دینے میں بے انصافی سے کام لے، جیسا کہ امریکہ میں حبشیوں کا اور روس میں غیر اشتراکیوں کا اور تمام دنیاکی لادینی جمہوریتوں میں قومی اقلیتوں کا حال ہے۔
شہریت کی دو قسمیں جو اسلام نے کی ہیں، یہ ہیں:
ایک مسلم۔ دوسرے ذمّی۔
(۱) مسلم شہریوں کے باب میں قرآن کہتا ہے کہ:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھَاجَرُوْا وَجَاھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یُھَاجِرُوْا مَالَکُمْ مِنْ وَّلَاَتِیْھِمْ مِنْ شَیْیٍٔ حَتّٰی یُھَاجِرُوْا ۔
(الانفال۔۱۰)
’’جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اوراپنی جان و مال سے راہِ خدا میں جہاد کیا، اور جن لوگوں نے ان کو جگہ دی اور انکی مدد کی، وہ ایک دوسرے کے ولی ہیں‘ اور جو لوگ ایمان لائے مگر ہجرت کرکے (دارالاسلام میں ) نہ آئے‘ تمہارے لیے ان کی ولایت میں سے کچھ نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں۔ ‘‘
اس آیت میں شہریت کی دو بنیادیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک، ایمان۔ دوسرے دارالاسلام کی رعایا ہونا یا بن جانا۔ اگر کوئی شخص ایمان رکھتا ہو، مگر دارالکفر کی تابعیت ترک کرکے (جسے لفظ ہجرت سے تعبیر کیاگیا ہے) دارالاسلام میں نہ آ بسے، تو وہ دارالاسلام کا شہری نہیں ہے۔ اس کے برعکس تمام ایسے اہل ایمان جو دارالاسلام کے باشندے ہوں، قطع نظر اس سے کہ وہ دارالاسلام ہی میں پیدا ہوئے ہوں یا کسی دارالکفر سے ہجرت کرکے آئے ہوں ۱؎ دارالاسلام کے یکساں شہری اور ایک دوسرے کے ولی (حامی ومددگار) ہیں۔
ان مسلم شہریوں پر اسلام نے اپنے پورے نظام کواٹھانے کی ذمہ داری ڈالی ہے، کیونکہ وہی اصولاً اس نظام کو حق مانتے ہیں، اُن پر وہ اپنا پورا قانون نافذ کرتا ہے۔ ان کو اپنے تمام مذہبی‘ اخلاقی، تمدنی اور سیاسی احکام کا پابند کرتا ہے۔ ان کے ذمّے اپنے سارے واجبات و فرائض عائد کرتا ہے۔ ان سے اپنی ریاست کے اولی الامر کا انتخاب کریں، اس کو چلانے والی پارلیمنٹ (مجلس شوریٰ) میں شریک ہوں، اور اُس کے کلیدی مناصب پر مقرر کیے جائیں تاکہ اس اصولی ریاست کی پالیسی ٹھیک اس کے بنیادی اصولوں کے مطابق چل سکے۔ اس قاعدے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ عہد نبوی اور عہدِ خلافتِ راشدہ میں ایک مثال بھی اس امر کی نہیں مل سکتی کہ کسی ذمّی کو مجلسِ شوریٰ کا رکن، یا کسی علاقے کا گورنر، یا کہیں کا قاضی، یا کسی شعبۂ حکومت کا وزیر یا ناظم، یا فوج کا کمانڈر بنایا گیا ہو، یا خلیفہ کے انتخاب میں حصہ لینے کا موقع دیا گیا ہو۔ حالانکہ ذمّی خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں موجود تھے اور خلافت راشدہ کے دور میں تو ان کی آبادی کروڑوں تک پہنچی ہوئی تھی۔ اگر فی الواقع ان امور میں حصہ لینا ان کا حق ہوتا تو ہم نہیں سمجھ سکتے کہ اللہ کا نبی ان کی حق تلفی کیسے کر سکتا تھا وہ نبی کے براہ راست تربیت یافتہ لوگ مسلسل ۳۰ برس اس حق کو ادا کرنے سے کس طرح باز رہ سکتے تھے۔
(۲) ذمّی شہریوں سے مراد وہ تمام غیر مسلم ہیں جو اسلامی ریاست کے حدود میںرہ کر اس کی اطاعت ووفاداری کا اقرار کریں، قطع نظر اس سے کہ وہ دارالاسلام میں پیدا ہوئے ہوں یا باہر سے آ کر ذمّی بننے کی درخواست کریں، اس طرح کے شہریوں کو اسلام اُن کے مذہب اور کلچر کے تحفظ اور جان ومال و آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، ان پر صرف اپنے ملکی قوانین، نافذ کرتا ہے، ان کو ملکی قوانین میں مسلمانوں کے برابر کے حقوق دیتا ہے، ان کے لیے کلیدی مناصب کے سوا ہر قسم کی ملازمتوں کے دروازے کھلے رکھتا ہے، ان کو شہری آزادیوں میں مسلمانوں کے ساتھ برابرکا شریک کرتا ہے، ان کے ساتھ معاشی معاملات میں مسلمانوں سے الگ کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھتا، اور مملکت کے دفاع کی ذمّہ داری سے انہیں مستثنیٰ کرکے اس کا پورا بار صرف مسلمانوں پر ڈالتا ہے۔
ان دو قسم کی شہریتوں پر اور ان کی الگ الگ حیثیتوں پر اگر کسی کواعتراض ہو تو وہ پہلے اُس سلوک پر ایک نگاہ ڈال لے جو دنیا کی دوسری اصولی ریاستیں اپنے اصول کے نہ ماننے والوں سے‘ اور قومی ریاستیں اپنے حدود میں رہنے والی قومی اقلیتوں سے کر رہی ہیں۔ درحقیقت یہ بات پورے چیلنج کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ایک ریاست کے اندر اُس کی بنیادوں سے مختلف بنیادِ وجود رکھنے والوں کی موجودگی جو پیچیدگی پیدا کرتی ہے اس کو اسلام سے زیادہ انصاف، رواداری اور فیاضی کے ساتھ کسی دوسرے نظام نے حل نہیں کیا ہے۔ دوسروں نے اس پیچیدگی کو زیادہ تو دو ہی طریقوں سے حل کیا ہے۔ یا تو انہیں مٹا دینے کی کوشش کی ہے یا شودر بنا کر رکھا ہے۔ اسلام اس کے بجائے یہ طریقہ اختیار کرتا ہے کہ انصاف کے ساتھ اپنے اصول کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے درمیان ایک حد قائم کر دیتا ہے۔ جو ماننے والے ہیں ان کو پوری طرح اپنے اصولوں کا پابند کرتا ہے اور ان اصولوں کے مطابق ریاست کا نظام چلانے کی ذمہ داری ان پر ڈال دیتا ہے۔ اور جو ان اصولوں کو قبول نہیں کرتے ان کو صرف اُسی حد تک پابند کرتا ہے۔ جو ملک کے نظم کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے اور انہیں ریاست کا نظام چلانے کی ذمہ داری سے سبکدوش کرنے کے بعد ان کے تمام تمدنی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔
حقوق شہریت
اس کے بعد مجھے یہ بتانا ہے کہ اسلام میں شہریوں کے بنیادی حقوق (Fundamental Rights) کیا قرار دیے گئے ہیں۔
شہریوں کا اولین حق اسلام میں یہ ہے کہ ان کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت کی جائے اورجائز قانونی وجوہ کے سِوا اورکسی وجہ سے ان پر ہاتھ نہ ڈالا جائے۔ اس چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت احادیث میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے اپنا وہ مشہور خطبہ دیا تھا جس میں اسلامی نظامِ زندگی کے قواعد بیان فرمائے تھے۔ اُس میں آپؐ نے فرمایا:
ان دماء کم واموالکم واعراضکم حرام کحرمۃ یومکم ھٰذا
’’تمہاری جانیں اور تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں ویسی ہی حرمت رکھتی ہیں جیسی حج کے اس دن کی حرمت ہے۔‘‘
اس حرمت میں استثناء صرف ایک ہے اور اُسے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم ایک اور حدیث میں اِلّا بحق الاسلام کے الفاظ سے ادا فرماتے ہیں‘ یعنی اسلام کے قانون کی رُو سے اگر کسی شخص پر جان یا مال یا آبرو کا کوئی حق واجب ہوتا ہو تو وہ اس سے قانون کے مقرر کردہ طریقے کے مطابق وصول کیا جائے گا۔
دوسرا اہم حق شخصی آزادی کی حفاظت ہے۔ اسلام میں کسی شخص کی آزادی معروف قانونی طریقے پر اُس کا جُرم ثابت کیے بغیر اور اُسے صفائی کا موقع دیے بغیر سلب نہیں کی جا سکتی۔ ابودائود میں یہ روایت بیان کی گئی ہے کہ مدینے میں کچھ لوگ شبہ کی بنا پر گرفتار کیے گئے تھے۔ ایک صحابی نے عین خطبہ کے دوران میں اُٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میرے ہمسایوں کو کس قصور میں پکڑا گیا ہے؟ نبی ا نے دو مرتبہ اُن کے اس سوال کو سُن کر سکوت فرمایا کہ کوتوال شہر اگر گرفتاری کے لیے کوئی معقول وجوہ رکھتا ہے تو اٹھ کر بیان کرے۔ لیکن جب تیسری مرتبہ اُن صحابیؓ نے اپنے سوال کا اعادہ کیا اورکوتوال نے کوئی وجہ بیان نہ کی تو آپؐ نے حکم صادر فرمایا کہ خَلُّوا لہٗ جیرانہ ٗ (اس کے ہمسایوں کو رہا کر دو)یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب تک کسی شخص پر ایک متعین الزام لگا کر اُس کو ثابت نہ کر دیا جائے اسے قید نہیں کیا جا سکتا۔ امام خطّابی اپنی معالم السنن میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اسلام میں حبس دو ہی قسم کا ہے۔ ایک حبسِ عقوبت، یعنی یہ کہ عدالت سے سزا پا کر کوئی شخص قید کیا جائے، دوسرے حبسِ استظہار، یعنی ملزم کو بغرضِ تفتیش روک رکھنا۔اس کے سوا حبس کی کوئی صورت اسلام میں نہیں ہے۔ (معالم السُنن، کتاب القضاء)
یہی بات امام ابو یوسف نے بھی اپنی کتاب الخراج میں لکھی ہے کہ ’’کسی شخص کومحض تہمت کی بِنا پر قید نہیں کیا جا سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو مجرّد الزام پر قید نہیں کر دیا کرتے تھے۔ ضروری ہے کہ مدعی اورمدعا علیہ عدالت میں حاضر ہوں۔ مدعی اپنا ثبوت پیش کرے اور اگر وہ اپنا الزام ثابت نہ کرسکے تو مدعا علیہ کو چھوڑ دیا جائے۔ (کتاب الخراج ص۱۰۷)
حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے بھی ایک مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ الفاظ ارشاد فرمائے تھے کہ
لَا یُوْسَر رَجَلٌ فِی الْاِسلَامِ بِغَیرِ عَدْل ۔ (مؤطا باب شرط الشاہد)
تیسرا اہم حق رائے اور مسلک کی آزادی کا ہے۔ اس باب میں اسلامی قانون کی سب سے بہتر وضاحت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کی ہے۔ ان کے زمانے میں خوارج کاگروہ پیدا ہوا تھا جو آج کل کے انارکسٹ اور نہلسٹ (Nihillist) گروہوں سے ملتا جلتا تھا۔ حضرت علیؓ کے زمانے میں وہ علانیہ اسٹیٹ کے وجود کی نفی کرتے تھے اور بزورِ شمشیر اس کو مٹانے پر تلے ہوئے تھے۔ حضرت علیؓ نے ان کو پیغام بھیجا:۔
کونوا حیث شئتم وبیننا وبینکم ان لاتسفکوا دما ولا تقطعوا سبیلا ولا تظلموا احدًا۔ (نیل الاوطار جلد ۷ص۱۳۹)
’’تم جہاں چاہو رہو اور ہمارے اور تمہارے درمیان شرط یہ ہے کہ تم خونریزی اور رہزنی نہ اختیار کرو اور ظلم سے باز رہو۔‘‘
ایک دوسرے موقع پر حضرت علیؓ نے ان کو پیغام دیا کہ:۔
لَا نبْدء یقتالٍ مالم تحدثوا فساداً ۔ (نیل الاوطار جلد ۷۔ ص ۱۳۳)
’’جب تک تم فساد نہ کرو گے ہم تمہارے خلاف لڑائی کی ابتداء نہیں کریں گے۔‘‘
اس سے صاف ظاہر ہے کہ کوئی گروہ خیالات جو چاہے رکھے اور پُرامن طریقے سے جس طرح چاہے اپنے خیالات کا اظہار کرے، اسلامی مملکت اس کو نہ روکے گی۔ البتہ اگر وہ اپنے خیالات زبردستی (By Violent Means.) مسلّط کرنے اور نظامِ ملکی کو درہم برہم کرنے کی کوشش کرے تواس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
ایک اور حق جس پر اسلام میں بہت زوردیا گیا ہے یہ ہے کہ اسٹیٹ اپنے حدود میں کسی شہری کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہنے دے۔ اسی غرض کے لیے اسلام میں زکوٰۃ فرض کی گئی ہے جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:۔
توخذ من اغنیاء ھم فترد علٰی فقراء ھم۔ (بخاری و مسلم)
’’ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے محتاجوں میں تقسیم کر دی جائے گی۔‘‘
پھر ایک حدیث میں حضورؐ یہ اصول بیان فرماتے ہیں:۔
السلطان ولّی من لا ولّی لَہٗ۔
’’حکومت ہر اس شخص کی ولی (دست گیر و مددگار) جس کا کوئی ولی نہ ہو۔‘‘
من ترک کلًّا فالینا۔ (بخاری و مسلم)
’’جس مرنے والے نے ذمہ داریوں کا کوئی بار (مثلاً قرض یا بے سہارا کنبہ) چھوڑا ہو وہ ہمارے ذمے ہے۔‘‘
اس معاملے میں اسلام نے ذمّی شہریوں اور مسلم شہریوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ وہ مسلمان کی طرح ذمّی کو بھی اس امر کی ضمانت دیتا ہے کہ اسٹیٹ اس کوبھوکا، ننگا اور بے ٹھکانا نہ رہنے دے گا۔ حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ ایک ذمّی کو بھیک مانگتے دیکھا تو آپؓ نے فوراً اس کا جزیہ معاف کرکے اس کا وظیفہ مقرر کیا اور اپنے افسر خزانہ کو لکھا۔
واللہ ما انصفناہ ان اکلنا شبیبتہ ثم نخذ لہ عند الھرم۔
’’خدا کی قسم ہم نے اس سے انصاف نہ کیا مگر جوانی میں اس سے فائدہ اٹھایا اور بڑھاپے میں اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دیا۔‘‘
حضرت خالدؓ نے حیرہ کے غیر مسلموں کو جو وثیقہ لکھ کر دیا تھا اُس میں یہ صراحت تھی کہ جو شخص بوڑھا ہو جائے گا یا جوکسی آفت کا آشکار ہو یا جو مفلس ہو جائے گا، اس سے جزیہ وصول کرنے کے بجائے مسلمانوں کے بیت المال سے اس کی اور اُس کے کنبے کی کفالت کی جائے گی۔
(کتاب الخراج۔ص۸۵)
زبان: اُردو
صفحات: 36
اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، منصورہ ملتان روڈ، لاہور۔