ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔
اسلامی قانون
(یہ تقریر۶ جنوری ۱۹۴۸ء کو لا کالج لاہور میں کی گئی)
آج کل کسی ملک میں … غیر مسلموں کے نہیں مسلمانوں کے اپنے ملک میں … اگر اسلامی قانون کے جاری کرنے کا سوال اٹھایا جائے تو اعتراضات کی ایک بوچھاڑ ہوتی ہے جس سے آدمی کو سابقہ پیش آتا ہے۔ کیا صدیوں کا پرانا قانون جدید زمانے کی سوسائٹی اور اسٹیٹ کی ضرورت کے لیے کافی ہوسکتا ہے؟ کیا ایک خاص زمانے کے قانون کو ہمیشہ کے لیے قابل عمل سمجھنا حماقت نہیں ہے؟ کیا اس مہذب دَور میں ہاتھ کاٹنے اور کوڑے برسانے کی وحشینہ سزائیں دی جائیں گی؟ کیا ہماری منڈیوں میں اب پھر غلام بِکا کریں گے؟ اور آخر اس ملک میں مسلمانوں کے کس فرقہ کی فقہ جاری ہوگی؟ پھر جو غیر مسلم یہاں رہتے ہیں وہ کیسے راضی ہو جائیں گے کہ مسلمانوں کا مذہبی قانون ان پر مسلط کر دیا جائے؟ یہ اور ایسے ہی بہت سے سوالات ہیں جو تابڑ توڑ برسنے شروع ہوتے ہیں اور یہ بات غیر مسلموں کی زبان سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی زبان سے ہوتی ہے۔
اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان لوگوں کو اسلام سے کوئی دشمنی ہے۔ دراصل اس کی وجہ ناواقفیت ہے۔ آدمی کا خاصہ ہے کہ وہ جس چیز کو نہیں جانتا اس کا نام سُن کر طرح طرح کے وسوسے اس کے دل میں پیدا ہوتے ہیں اور دُور کی شناسائی اُنسیت کے بجائے اکثر وحشت ہی بڑھاتی ہے۔ ہماری بدقسمتی کی طویل داستان کا ایک نہایت افسوسناک باب یہ بھی ہے کہ آج محض اغیار ہی نہیں، ہماری اپنی ملت کے لوگ بھی اکثر اپنے دین سے اور اپنے اسلاف کے چھوڑے ہوئے عظیم الشان ترکہ سے نابلد اور متوحش ہیں۔ اس حال کو ہم اچانک نہیں پہنچ گئے ہیں بلکہ صدیوں کے مسلسل انحطاط نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے۔ پہلے مدت ہائے دراز تک ہمارے ہاں تہذیب و تمدن کا ارتقا اور علوم و فنون کا نشوونما معطل رہا۔ پھر جمود کے نتیجے میں ہم پر سیاسی زوال آیا اور دنیا کی مسلمان قومیں یا تو براہِ راست غیر مسلم حکومتوں کی غلام ہوگئیں یا ان میں سے بعض کو کچھ آزادی حاصل بھی رہی تو وہ غلامی سے کم نہ تھی، کیونکہ شکست خوردگی کا اثر ان کے قلب و روح کی گہرائیوں تک اُتر چکا تھا۔ آخر جب ہم نے اُٹھنا چاہا تو ہر جگہ کے مسلمانوں کو خواہ وہ غلام تھے یا آزاد، اُٹھنے کی ایک ہی صورت نظر آئی اور وہ یہ تھی کہ جدید تہذیب و تمدن اور جدید علوم کا سہارا لے کر اُٹھیں۔ ہمارے دینی علوم کے حامل جو طبقے تھے وہ خود اُسی انحطاط میں مبتلا تھے جس میں ساری اُمت مبتلا تھی۔ دینی بنیادوں پر کوئی زندگی بخش اور انقلاب انگیز حرکت برپا کرنا ان کے بس میں نہ تھا۔ ان کی رہنمائی سے مایوس ہو کر اُمت کے بے چین طبقے دنیا کے اس نظامِ زندگی کی طرف متوجہ ہوگئے جو صریحاً کامیاب نظر آرہا تھا۔ اسی سے انہوں نے اصول لیے، اسی کے علوم سیکھے، اسی کے تمدنی اداروں کا نقشہ حاصل کیا اور اسی کے نقشِ قدم پر چل پڑے۔ رفتہ رفتہ اہلِ دین کا گروہ بالکل گوشہ مخمول میں پھینک دیا گیا اور تمام مسلمان قوموں میں کار فرمائی کی باگیں اور کارکن طاقتیں انہی لوگوں کے ہاتھ میں آگئیں جو دین سے ناواقف اور تہذیب جدید کے فکری و عملی سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دو کو چھوڑ کر تمام آزاد مسلم ممالک کی حکومتیں مغرب کی بے دین ریاستوں (Secular States)کے نمونے پر بن گئیں جن میں کہیں تو پوری اسلامی شریعت منسوخ ہو چکی ہے اور کہیں غیر دینی حکومت حکومت کے نظام میں مسلمانوں کے لیے محض ان کا پرسنل لا اسلامی رہنے دیا گیا ہے، یعنی مسلمانوں کی اپنی حکومت میں ان کو صرف وہ مذہبی حقوق عطا ہوئے ہیں جو اسلامی حکومتوں میں کبھی ذمیوں کو دیے جاتے تھے۔{ اسلامی شریعت کی تنسیخ کا سلسلہ سب سے پہلے ہندوستان میں شروع ہوا۔ یہاں انگریزی تسلط کے بعد بھی ایک مدت تک شریع ہی کو قانون کی حیثیت حاصل تھی۔ چنانچہ ۱۷۹۱ئ تک اس ملک میں چور کا ہاتھ کاٹا جاتا رہا۔ مگر اس کے بعد انگریزی حکومت نے بتدریج اسلامی قوانین کو دوسرے قوانین سے بدلنا شروع کیا یہاں تک کہ انیسویں صدی کے وسط تک پہنچتے پہنچتے پوری شریعت منسوخ ہوگئی اور اس کا صرف وہ حصہ مسلمانوں کے پرسنل لا کی حیثیت سے باقی رہنے دیا گیا جو نکاح و طلاق وغیرہ مسائل سے متعلق تھا۔ پھر اسی نقش قدم پر خود وہ ممالک بھی چل پڑے جن میں مسلمانوں کی اپنی حکومتیں قائم تھیں۔ ہندوستان کی تمام مسلمان ریاستوں نے رفتہ رفتہ اپنے پبلک لا کو برطانوی ہند کے نمونے پر ڈھال لیا اور شریعت کو صرف پرسنل لا تک محدود کر دیا۔ مصری حکومت نے ۱۸۸۴ئ میں اپنے پورے قانونی نظام کو فرنچ کوڈ کے مطابق بدل لیا اور محض نکاح و طلاق اور وراثت وغیرہ کے مسائل قاضیوں کے دائرہ اختیار میں چھوڑ دیئے۔ اس کے بعد بیسویں صدی میں البانیا اور ٹرکی نے ایک قدم آگے بڑھایا۔ انہوں نے صاف صاف اعلان کیا کہ ان کی حکومتیں بے دین حکومتیں ہیں اور صرف اتنے ہی پر اکتفا نہ کیا کہ اپنے ملکی قوانین اٹلی، سوئٹزر لینڈ، فرانس اور جرمنی کے نمونوں پر ڈھال لیے، بلکہ مسلمانوں کے پرسنل لا میں وہ کھلی کھلی تحریفات کر ڈالیں جن کی جرأت کوئی غیر مسلم حکومت بھی نہ کرسکی تھی۔ چنانچہ البانیا میں تعدد ازدواج کو قانوناً ممنوع ٹھیرایا گیا اور ٹرکی میں نکاح، طلاق اور وراثت، کے متعلق قرآن کے صریح احکام تک تبدیل کر ڈالے گئے۔ اب صرف افغانستان اور سعودی عرب، دو ہی ملک دنیا میں ایسے رہ گئے ہیں جہاں شریعت کو ملکی قانون کی حیثیت حاصل ہے، اگرچہ شریعت کی رُوح وہاں سے بھی غائب ہے۔
} اسی طرح جو ممالک غلام تھے ان میں بھی تمام تہذیبی اداروں اور سیاسی تحریکوں کے کارفرما اسی قسم کے لوگ بنے اور آزادی کی طرف ان کا جو قدم بھی بڑھا اسی منزل کی طرف بڑھا جس پر دوسری آزاد قومیں پہنچی ہوئی تھیں۔ اب اگر ان لوگوں سے اسلامی قانون اور اسلامی دستور کے نفاذ کا مطالبہ کیا جائے تو وہ بیچارے مجبور ہیں کہ اسے ٹالیں یا دبائیں، کیونکہ وہ اس چیز کی ابجد تک سے ناواقف ہیں جس کے قیام و نفاذ کا ان سے مطالبہ کیا جاتا ہے۔ جو تعلیم اور ذہنی و عملی تربیت انہوں نے پائی ہے وہ انہیں اسلامی قانون کی روح و مزاج سے اتنی دُور سے جاچکی ہے کہ ااس کو سمجھنا ان کے لیے آسان نہیں رہا ہے۔ اور حاملانِ دین کی رہنمائی میں دینی تعلیم کا جو نظام چل رہا ہے وہ اس وقت تک بیسویں صدی کے لیے بارھویں صدی کے مردان کار تیار کرنے میں مشغول ہے۔ اس لیے کوئی ایسا گروہ بھی موجود نہیں ہے جو شاگردانِ مغرب کو ہٹا کر اسلامی آئین و قانون کے مطابق ایک جدید ریاست کا نظام بنا اور چلا سکے۔
یہ واقعی ایک سخت پیچیدگی ہے جس نے تمام مسلم ممالک میں اسلامی قانون دوستور کے نفاذ کو مشکل بنا رکھا ہے۔ مگر ہمارا معاملہ دوسرے مسلمان ملکوں سے بالکل مختلف ہے۔ ہم اس برعظیم ہند میں پچھلے دس سال سے اس بات پر لڑتے رہے ہیں کہ ہم اپنی مستقل تہذیب، الگ نظریۂ زندگی اور مخصوص آئین حیات رکھتے ہیں، ہمارے لیے مسلم وغیر مسلم کی ایک ایسی متحدہ قومیت ناقابل قبول ہے جس کا نظامِ زندگی لامحالہ ہمارے آئینِ حیات سے مختلف ہوگا، ہمیں ایک الگ خطۂ زمین درکار ہے جس میں ہم اپنے آئین پر زندگی کا نظام بنا اور چلا سکیں۔ ایک طویل اور اَن تھک کشمکش کے بعد بالآخر اب ہمیں وہ خطۂ زمین مل گیا ہے جس کا ہم مطالبہ کر رہے تھے۔ اور اس کی قیمت میں ہم کو لاکھوں مسلمانوں کی جان و مال اور آبرو دینی پڑی ہے۔ یہ سب کچھ ہو چکنے کے بعد اگر ہم نے یہاں اپنا وہ آئین حیات ہی نافذ نہ کیا جس کے لیے اتنے پاپڑ بیل کر اور اتنی بھاری قیمت ادا کرکے یہ خطہ زمین حاصل کیا گیا ہے تو ہم سے بڑھ کر زیاں کار کوئی نہ ہوگا۔ اسلامی دستور کے بجائے جمہوری لادینی دسوتر، اور اسلامی قانون کی جگہ تعزیرات ہند اور ضابطہ دیوانی ہی جاری کرنا تھا تو آخر ہندوستان کیا بُرا تھا کہ اتنے لڑائی جھگڑوں سے یہ پاکستان لیا جاتا اور اگر ہمارا مقصد اشتراکی پروگرام نافذ کرنا تھا تو ’’یہ کار خیر‘‘ بھی ہندوستان کی سوشلسٹ یا کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ مل کر انجام دیا جاسکتا تھا، اس کے لیے بھی کوئی ضرورت نہ تھی کہ خواہ مخواہ اتنی جانفشانی اور اتنی بڑی قیمت پر پاکستان حاصل کرنے کی حماقت کی جاتی۔ دراصل ہم ایک قوم کی حیثیت سے اپنے آپ کو خدا اور خلق اور تاریخ کے سامنے آئین اسلامی کے نفاذ کے لیے پابند کر چکے ہیں، ہمارےلیے اب اپنے قول سے پھرنا ممکن نہیں رہا۔ لہٰذا چاہے دوسری مسلمان قومیں کچھ کرتی رہیں، ہمیں بہرحال ان ساری پیچیدگیوں کو حل کرنا ہی پڑے گا جو اس کام کی راہ میں حائل ہیں۔
جہاں تک اسلامی قانون کے نفاذ کی عملی مشکلات کا تعلق ہے ان سب کو دُور کرنے کی تدبیریں کی جاسکتی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اصل مشکل نہیں ہے۔ اصلی مشکل صرف یہ ہے کہ وہ دماغ جن کی فکر و محنت، اس کام کے لیے درکار ہے، بجائے خود مطمئن نہیں ہیں اور ان کے عدم اطمینان کی وجہ ان کی عدم واقفیت ہے۔ اس لیے سب سے پہلے جو کام کرنے کا ہے وہ یہی ہے کہ انہیں واضح طریقہ پر یہ بتایا جائے کہ اسلامی قانون کس چیز کا نام ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے، اس کا مقصد، اس کے اصول، اس کی روح اور ان کا مزاج کیا ہے۔ اس میں کیا چیز قطعی اور مستقل ہے اور اس کے ایسا ہونے کا فائدہ کیا ہے اور اس میں کونسی چیز ابد تک ترقی پذیر ہے اور وہ کس طرح ہر دور میں ہماری بڑھتی ہوئی تمدنی ضرورتوں کو پورا کرسکتی ہے۔ اس کے احکام کن مصالح پر مبنی ہیں اور ان غلط فہمیوں کی کیا اصلیت ہے جو ان احکام کے متعلق ناواقف لوگوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر یہ تفہیم صحیح طریقہ پر ہو جائے تو ہمیں یقین ہے کہ ہمارے بہترین کار فرما اور کارکن دماغ مطمئن ہو جائیں گے اور ان کا اطمینان ان ساری تدبیروں کا دروازہ کھول دے گا جو اسلامی قانون کے نفاذ کو عملاً ممکن بنا سکتی ہیں۔ میری آج کی تقریر اسی تعارف کے لیے ہے۔
قانون اور نظامِ زندگی کا باہمی تعلق
قانون کے لفظ سے ہم جس چیز کو تعبیر کرتے ہیں وہ دراصل اس سوال کا جواب ہے کہ انسانی طرزِ عمل، انفرادی اور اجتماعی طور پر کیا ہونا چاہیے۔ اس سوال کا دائرہ اس دائرہ سے بہت زیادہ وسیع ہے جس میں قانون اس کا جواب دیتا ہے۔ ہم کو بہت وسیع پیمانے پر اس ’’ہونا چاہئے‘‘ کے سوال سے سابقہ پیش آتا ہے اور اس کے بے شمار جوابات ہیں جو مختلف عنوانات کے تحت مرتب ہوتے ہیں۔ ان کا ایک مجموعہ ہماری اخلاقی تعلیم و تربیت میں شامل ہوتا ہے اور اسی کے مطابق ہم اپنے افراد کی سیرت و کردار کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا ایک دوسرا مجموعہ ہمارے معاشرتی نظام میں داخل ہوتا ہے اور اسی کے لحاظ سے ہم اپنی معاشرت میں مختلف قسم کے انسانی تعلقات کو منضبط کرتے ہیں۔ ان کا ایک تیسرا مجموعہ ہمارے معاشی نظام میں جگہ پاتا ہے اور اسی کی روشنی میں ہم دولت اور اس کی پیدائش اور اس کی تقسیم اور اس کے تبادلہ اور اس پر لوگوں کے حقوق کا ضابطہ بناتے ہیں۔ غرض اسی طریقہ پر ان جوابات کے بہت سے مجموعے بن جاتے ہیں جو ہماری زندگی کے مختلف شعبوں کی شکل اور ان کے ضوابطِ عمل معین کرتے ہیں اور قانون ان بہت سے مجموعوں میں سے صرف ان جوابات پر مشتمل ہوتا ہے جن کو نافذ کرنے کے لیے سیاسی اقتدار استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی شخص کسی قانون کو سمجھنا چاہے تو یہ کافی نہیں ہے کہ وہ اپنی تحقیقات کو صرف اُسی دائرے تک محدود رکھے جس میں قانون نے اس ’’ہونا چاہیے‘‘ کے سوال کا جواب دیا ہے، بلکہ اسے سوسائٹی کی اس پوری اسکیم کو سمجھنے کی کوشش کرنی ہوگی جس میں زندگی کے ہر شعبے کے متعلق اس سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ قانون اسی اسکیم کا ایک جزو ہے اور اس جز کے مزاج کو سمجھنا، یا اس کے متعلق کوئی رائے قائم کرنا بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ کل کو سمجھا جائے۔
نظامِ زندگی کی فکری اور اخلاقی بنیادیں
پھر زندگی کے پورے دائرے میں ہمیں ’’کیا ہونا چاہیے‘‘ کے سوال کا جو جواب دیتے ہیں وہ دراصل ایک دوسرے سوال یعنی ’’کیوں ہونا چاہیے‘‘ کے جواب سے ماخوذ ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ ’’کیا ہونا چاہیے‘‘ کے متعلق ہمارے تمام جوابات دراصل ان نظریات پر مبنی ہوتے ہیں جو ہم نے انسانی زندگی اور اس کے خیر و شر اور اس کے حق و باطل اور صحیح غلط کے بارے میں قائم یا اختیار کیے ہیں اور ان نظریات کی نوعیت متعین کرنے میں اس ماخذ یا ان مآخذ کا بہت بڑا دخل، بلکہ اصلی فیصلہ کُن اثر ہوتا ہے جہاں سے ہم نے ان نظریات کو اخذ کیا ہے۔ دنیا میں مختلف انسانی گروہوں کے قوانین ا اختلاف اسی وجہ سے ہے کہ انسانی زندگی کے متعلق ان کے نظریات ایک ماخذ سے لیے ہوئے نہیں ہیں بلکہ ان کے مآخذ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس اختلاف کے باعث ان کے نظریے مختلف ہوئے، ان کے اختلاف نے زندگی کی اسکیمیں مختلف کر دیں اور پھر ان اسکیموں کے جو حصے قانون سے متعلق ہیں وہ بھی لازماً مختلف ہو کر رہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم زندگی کی کسی خاص اسکیم کے بنیادی نظریات اور ان کے مآخذ اور ان سے وجود میں آنے والے پورے نظامِ حیات کو سمجھے بغیر صرف اس کے قانونی حصہ کے متعلق کوئی رائے قائم کرسکیں اور وہ بھی اس قانونی حصہ کا تفصیلی مطالعہ کرکے نہیں بلکہ اس کے پہلوئوں کے بارے میں چند اُڑتی ہوئی خبریں سن کر!
میں یہاں تقابلی مطالعے (Comparative study) کا ارادہ نہیں رکھتا، اگرچہ بات پوری طرح تو اسی وقت سمجھ میں آسکتی ہے جب مغربی نظامِ زندگی کو جس کا قانون آپ پڑھتے اور اپنے ملک میں جاری کرتے ہیں، اسلامی نظامِ زندگی ے بالمقابل رکھ کر دیکھا جائے کہ ان کے درمیان یا اختلاف ہے اور اس اختلاف نے کیوں ان کے قوانین کو مختلف کر دیا ہے۔ لیکن اس بحث سے گفتگو بہت طویل ہو جائے گی، اس لیے میں صرف اسلامی نظامِ زندگی کی تشریح پر اکتفا کروں گا۔
اسلامی نظامِ زندگی کا ماخذ
اسلام جس نظامِ زندگی کا نام ہے اس کا ماخذ ایک کتاب ہے جس کے مختلف ایڈیشن قدیم ترین زمانے سے توراۃ، انجیل، زبور وغیرہ بہت سے ناموں کے ساتھ دنیا میں شائع ہوتے رہے اور آخری ایڈیشن قرآن کے نام سے انسانیت کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس کتاب کا اصل نام اسلام کی اصطلاح میں ’’الکتاب‘‘ Thek book ہے اور یہ دوسرے نام دراصل اس کے ایڈیشنوں کے نام ہیں۔ اس کا دوسرا ماخذ وہ لوگ ہیں جو مختلف زمانوں میں اس الکتاب کو لے کر آئے اور جنہوں نے اپنے قول اور عمل سے اس کے منشا کی ترجمانی کی۔ یہ لوگ اگرچہ الگ الگ اشخاص ہونے کی حیثیت سے نوحؑ، ابراہیمؑ، موسیٰ ؑ، عیسیٰ ؑ اور محمدa وغیرہ ناموں سے موسوم ہیں۔ لیکن اس بنا پر کہ یہ ایک گروہ کے اشخاص میں جو ایک ہی مشن لے کر اٹھے ان سب کو ایک جامع نام ’’الرسول‘‘ سے موسوم کرنا بالکل صحیح ہے۔
اسلام کا نظریۂ زندگی
اس الکتاب اور الرسول نے زندگی کا جو نظریہ پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ عظیم الشان کائنات جو تمہیں صریحاً ایک زبردست نظام میں جکڑی ہوئی اور ایک مقررہ قانون پر چلتی ہوئی نظر آرہی ہے اور اصل ایک خدا کی حکومت ہے۔ خدا ہی اس کا خالق ہے وہی اس کا مالک ہے، اور وہی اس کا فرمانروا ہے۔ یہ زمین جس پر تم رہتے ہو، اس کی بے پایاں سلطنت کے لاتعداد صوبوں میں سے ایک چھوٹا سا صوبہ ہے اور یہ صوبہ بھی مرکزی اقتدار کی اس گرفت میں پوری طرح جکڑا ہوا ہے جس میں اس جہان ہست و بود کا ہر حصہ جکڑا ہوا ہے۔ تم اس صوبے میں خدا کی پیدائشی رعیت Born subjectsہو۔ تم اپنے خالق آپ نہیں ہو بلکہ اس کی مخلوق ہو۔ اپنے پروردگار آپ نہیں ہو بلکہ اس کے پروردہ ہو۔ اپنے بل پر آپ نہیں جی رہے ہو بلکہ اس کے جلائے جی رہے ہو۔ اس لیے تمہارے ذہن میں اپنی خود مختاری کا اگر کوئی زعم ہے تو وہ ایک غلط فہمی اور نظر کے ایک دھوکے سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ اپنی زندگی کے ایک بہت بڑے حصے میں تو تم صریح طور پر رعیت ہو اور اپنی محکومی کو خود جانتے ہو۔ اپنی مائوں کے پیٹوں میں استقرار حمل سے لے کر اپنی موت کی آخری ساعت تک تم خدا کے قانون طبعی Law of Natureسے اس طرح بندھے ہوئے ہو کہ ایک سانس تک اس کے خلاف نہیں لے سکتے اور تمہارے اوپر فطرت کی قوتیں اور قوانین اس طرح حاوی ہیں کہ تم جو کچھ کرسکتے ہو ان کے تحت رہ کر ہی کرسکتے ہو، ایک لمحہ کے لیے بھی تمہارا ان سے آزاد ہو جانا ممکن نہیں ہے۔ اب رہ گیا تمہاری زندگی کا اختیاری حصہ جس میں تم اپنے اندر ارادے کی آزادی محسوس کرتے ہو اور اپنی پسند کے مطابق انفرادی و اجتماعی عمل کی راہیں انتخاب کرنے کی طاقت پاتے ہو، تو بلاشبہ تمہیں اس حد تک آزادی حاصل ہے، مگر یہ آزادی تمہیں فرمانروائے کائنات کی رعیت ہونے سے خارج نہیں کر دیتی بلکہ صرف یہ اختیار دیتی ہے کہ چاہو تو اطاعت کا رویہ اختیار کرو جو پیدائشی رعیت ہونے کی حیثیت سے تمہیں اختیار کرنا چاہیے اور چاہو تو خود مختاری و بغاوت کا رویہ اختیار کرو جو اپنی فطری حقیقت کے اعتبار سے تمہیں نہ اختیار کرنا چاہیے۔
حق کا بنیادی تصور
یہاں سے حق کا سوال پیدا ہوتا ہے اور یہ اوّلین بنیادی حق کا سوال ہے جو تمام چھوٹے سے چھوٹے جزوی معاملات تک حق اور باطل کے فیصلے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ زندگی کی حقیقت کا جو نظریہ الکتاب اور الرسول نے پیش کیا ہے اس کو بطور ایک امر واقعہ کے تسلیم کرلینے کے بعد یہ بات صریح طور پر حق قرار پا جاتی ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے (لفظ مٹا ہوا ہے) حصہ میں بھی اسی خدا کی حاکمیت Sovereigntyتسلیم کرے جو اس کی زندگی کے پورے خیر اختیاری حصہ کا اور اس تمام کائنات کا جس میں یہ زندگی بسر ہو رہی ہے، آپ سے آپ حاکم… ہے۔ یہ چیز کئی وجوہ سے حق ہے۔ یہ اس لیے بھی حق ہے کہ انسان جن قوتوں اور جن جسمانی آلات سے اپنے اختیارات کو استعمال کرتا ہے وہ خدا کا عطیہ ہیں۔ اس لیے بھی حق ہے کہ خود یہ اختیارات انسان کے اپنے حاصل کردہ نہیں ہیں بلکہ تفویض کردہ Delegatedہیں۔ اس لئے بھی حق ہے کہ جن چیزوں پر یہ اختیارات استعمال کیے جاتے ہیں وہ سب خدا کی ملک ہیں۔ اس لیے بھی حق ہے کہ جس ملک میں استعمال کیے جاتے ہیں وہ خدا کا ملک ہے۔ اور اس لیے بھی حق ہے کہ عالم کائنات اور حیات انسانی کی ہمواری Harmony کا تقاضا یہی ہے کہ ہماری زندگی کے اختیاری اور غیر اختیاری دونوں حصوں کا حاکم اور سرچشمہ احکام ایک ہی ہو۔ ان دو حصوں کے دو الگ اور ایک دوسرے سے مختلف قبلے بن جانے سے ایسا تقاضد پیدا ہو جاتا ہے جو موجب فساد ہو کر رہتا ہے۔ ایک شخص کی زندگی میں تو اس چیز کا فساد محدود پیمانے پر ہی ظاہر ہوتا ہے مگر بڑی بڑی قوموں کی زندگی میں اس کے بُرے نتائج اتنے بڑے پیمانے پر نکلتے ہیں کہ خشکی اور تر اور ہوا فساد سے بھر جاتی ہے۔
’’اسلام‘‘ اور ’’مسلم‘‘ کے معنی
الکتاب اور الرسول انسان کے سامنے اس حق کو پیش کرتے ہیں اور اس کی دعوت دیتے ہیں کہ کسی دبائو کے بغیر وہ اپنی خوشی سے اس کو قبول کرلے۔ چونکہ یہ انسانی زندگی کے اس حصے کا معاملہ ہے جس میں خدا نے انسان کو خود اختیار دیا ہے اس لیے یہ بات کہ انسان اس حصے میں خدا کو اپنا حاکم مانے، کسی دبائو سے نہیں منوائی جاتی بلکہ برضا و رغبت تسلیم کرائی جاتی ہے۔ جس کا اطمینان بھی اس بیان واقعہ Statment of actپر ہو جائے جو الکتاب اور الرسول نے کائنات کی حقیقت کے متعلق دیا ہے اور جس کیا ضمیر بھی اس امر کی گواہی دے کہ اس واقعی حقیقت کی موجودگی میں حق وہی ہے جو منطقی نتیجہ کے طور پر اس سے نکلتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے اپنی آزادی و خود مختاری خدا کی حاکمیت کے آگے تسلیم Surrenderکردے۔ اسی تسلیم کا نام اسلام ہے اور جو لوگ تسلیم کا یہ فعل کریں وہ ’’مسلم‘‘ کہلاتے ہیں، یعنی ایسے لوگ جنہوں نے خدا کی حاکمیت مان لی، اپنی خود مختاری سے اس کے حق میں دست بردار ہوگئے اور اس بات کو انہوں نے خود اپنے اُوپر لازم کرلیا کہ اپنی زندگی کا نظام خدا کے احکام کے مطابق چلائیں گے۔
مسلم سوسائٹی کی حقیقت
اب ایسے تمام لوگ جنہوں نے تسلیم کا یہ فعل کیا ہو ایک وحدت میں منسلک کیے جاتے ہیں اور ان کے اجتماع سے ’’مسلم‘‘ سوسائٹی کی تشکیل و تنظیم ہوتی ہے۔ یہ سوسائٹی ان سوسائٹیوں سے بالکل مختلف ہے جو اتفاقی حوادث کے نتیجہ میں بنتی ہیں، اس کی تشکیل ایک ارادی فعل سے ہوتی ہے اور اس کی تنظیم ایک ایسے معاہدے Contract کے ذریعہ سے عمل میں آتی ہے جو خدا اور بندوں کے درمیان شعوری طور پر واقع ہوتا ہے۔ اس معاہدے میں بندے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ خدا ان کا حاکم ہے، اسی کی ہدایت ان کے لیے دستور زندگی ہے، اسی کے احکام ان کے لیے قانون ہیں، وہ اسی کو خیر مانیں گے جسے خدا خیر بتائے گا اور اسی کو شر تسلیم کریں گے جسے خدا شر کہے گا۔ صحیح و غلط اور جائزو ناجائز کا معیار وہ خدا ہی سے لیں گے اور اپنی آزادی کو ان حدود کے اندر محدود رکھیں گے جو خدا ان کے لیے کھینچ دے گا۔ مختصر یہ کہ اس معاہدے کی بنیاد پر جو سوسائٹی بنتی ہے وہ واضح طور پر یہ اقرار کرتی ہے کہ وہ اپنے معاملات زندگی میں ’’کیا ہونا چاہیے‘‘ کا جواب خود بخود تجویز نہیں کرے گی بلکہ اس جواب کو قبول کرلے گی جو خدا کی طرف سے ملے گا۔
اس واضح اقرار کی بنیاد پر جب ایک سوسائٹی بن جاتی ہے۔ تو الکتاب اور الرسول اسے ایک ضابطۂ زندگی دیتے ہیں جو ’’شریعت‘‘ کہلاتا ہے اور سوسائٹی پر خود اپنے ہی اقرار کی وجہ سے یہ لازم ہو جاتا ہے کہ اپنے معاملاتِ زندگی کو اس اسکیم کے مطابق چلائے جو اس شریعت میں تجویز کی گئی ہے۔ تاوقتیکہ کسی شخص کی عقل بالکل ہی خبط نہ ہو گئی ہو، وہ کسی طرح اس بات کو ممکن فرض نہیں کرسکتا کہ کوئی مسلم سوسائٹی اپنے بنیادی معاہدے کو توڑے بغیر شریعت کے سوا کوئی دوسرا ضابطۂ زندگی اختیار کرسکتی ہے۔ دوسرا ضابطہ اختیار کرنے کے ساتھ ہی معاہدہ خود بخود ٹوٹ جاتا ہے اور اس کے ٹوٹتے ہی وہ سوسائٹی ’’مسلم‘‘ کے بجائے غیر مسلم بن جاتی ہے۔ اتفاقی طور پر کسی شخص کا اپنی زندگی کے کسی معاملہ میں شریعت کی خلاف ورزی کر بیٹھنا اور چیز ہے۔ اس سے معاہدہ ٹوٹتا نہیں ہے بلکہ صرف ایک جرم کا ارتکاب ہوتا ہے۔ لیکن اگرایک پوری سوسائٹی جان بوجھ کر یہ طے کرے کہ شریعت اب اس کا ضابطۂ حیات نہیں ہے اور یہ کہ اپنا ضابطہ اب وہ خود تجویز کرے گی، یا کسی دوسرے ماخذ سے لے گی، تو یقیناً یہ ایک نسخ معاہدہ کا فعل ہے اور قطعاً کوئی وجہ نہیں کہ ایسی سوسائٹی پر لفظ ’’مسلم‘‘ کا اطلاق درست ہو۔
شریعت کا مقصد اور اُس کے اُصول
ان بنیادی اُمور کی توضیح کے بعد اب ہمیں اس سکیم کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے جو انسانی زندگی کے لیے شریعت نے تجویز کی ہے۔ اس غرض کے لیے یہ مناسب ہوگا کہ ہم پہلے اس کے مقصد اور اس کے بڑے بڑے اصولوں کا جائزہ لے لیں۔
اس کا مقصد انسانی زندگی کے نظام کو معروفات پر قائم کرنا اور منکرات سے پاک کرنا ہے۔ معروفات سے مراد وہ نیکیاں، خوبیاں اور بھلاتیاں ہیں جن کو انسانی فطرت ہمیشہ سے بھلائی کی حیثیت سے جانتی ہے۔ اور منکرات سے مراد وہ برائیاں ہیں جن کو ہمیشہ سے انسانیت کا ضمیمہ بُرا جانتا آیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں معروف فطرت انسانی سے مناسبت رکھنے والی چیز ہے اور منکرا اس کے خلاف ہے۔
وہ ہمارے لیے انہی چیزوں کو بھلائی قرار دیتی ہے جو خدا کی بنائی ہوئی فطرت کے مطابق ہیں اور انہی چیزوں کو بُرا قرار دیتی ہے جو اس فطرت سے موافقت نہیں رکھتیں۔ وہ ان بھلائیوں کی محض ایک فہرست ہی بنا کر ہمارے حوالہ کر دینے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ زندگی کی پوری اسکیم ایسے نقشے پر بناتی ہے کہ اس کی بنیادیں معروف بھلائیوں پر قائم ہوں اور معروفات اس میں پروان چڑھ سکیں اور منکرات کو اس کی تعمیر میں شامل ہونے سے روکا جائے اور نظامِ زندگی میں اُن کے در آنے اور ان کا زہر پھیلنے کا موقع باقی نہ رہنے دیئے جائیں۔
اس غرض کے لیے وہ معروفات کے ساتھ ان اسباب اور ذرائع کو بھی اپنی اسکیم میں شامل کرتی ہے جن سے وہ قائم ہوسکتے اور پروان چڑھ سکتے ہیں اور ان موانع کو ہٹانے کا انتظام بھی تجویز کرتی ہے جو معروفات کے قیام اور نشوونما میں کسی طور پر سدراہ ہوسکتے ہیں۔ اس طرح اصل معروفات کے ساتھ ان کے وسائل قیام و ترقی بھی معروف شمار ہو جاتے ہیں اور ان کے موانع منکرات کی فہرست میں شامل کر دیے جاتے ہیں۔ یہی معاملہ منکرات کے ساتھ بھی ہے۔ اصل منکرات کے ساتھ وہ چیزیں بھی منکر قرار پاتی ہیں جو کسی منکر کے وقوع، یا ظہور، یا نشوونما کا ذریعہ نہیں۔ سوسائٹی کے پورے نظام کو شریعت اس طرز پر ڈھالتی ہے کہ ایک ایک معروف اپنی پوری صورت میں قائم ہو، زندگی کے تمام متعلق شعبوں میں اس کا ظہور ہو، ہر طرف سے اس کو قائم ہونے اور پروان چڑھنے میں مدد ملے اور ہر وہ رکاوٹ دُور کی جائے جو کسی طرح سے اس کی راہ میں حائل ہوسکتی ہو۔ اسی طرح ایک ایک منکر کو چُن چُن کر زندگی سے نکالا جائے، اس کی پیدائش اور نشوونما کے اسباب روکے جائیں، جدھر جدھر وہ زندگی میں گھس سکتا ہے اس کا راستہ بند کیا جائے اور اگر وہ سر اٹھا ہی لے تو پھر سختی کے ساتھ اُسے دیا جائے۔
معروفات کو شریعت تین قسموں پر تقسیم کرتی ہے۔ ایک واجب یا فرض۔ دوسرے مندوب یعنی مطلوب۔ تیسرے مباح یعنی جائزہ۔
(۱) فرض و واجب وہ معروفات ہیں جو مسلم سوسائٹی پر لاگو کیے گئے ہیں۔ ان کے متعلق شریعت صاف صاف اور قطعی احکام دیتی ہے۔
(۲) مطلوب وہ معروفات ہیں جن کو شریعت چاہتی ہے یا پسند کرتی ہے کہ وہ سوسائٹی میں قائم اور جاری ہوں۔ ان میں سے بعض کو صاف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اور بعض کا اشارہ شارع کے ارشادات سے نکلتا ہے۔ بعض کے قیام و نشوونما کا بندوبست کیا گیا ہے اور بعض کی صرف سفارش کی گئی ہے تاکہ سوسائٹی بحیثیت مجموعی یا اس کے صالح لوگ ان کی طرف خود توجہ کریں۔
(۳) رہے مباح معروفات، تو شریعت کی زبان میں ہر وہ چیز اور فعل مباح ہے جس کی ممانعت نہ کی گئی ہو۔ اس تعریف کی بنا پر مباحات صرف وہی نہیں ہیں جن کی اجازت کی تصریح ہو، یا جن کے معاملہ میں ہمیں صاف طور پر اختیار دیا گیا ہو، بلکہ ان کا دائرہ بہت وسیع ہو جاتا ہے، حتیٰ کہ چند بیان کردہ ممنوعات کو چھوڑ کر دنیا میں سب کچھ مباح ٹھیرتا ہے۔ یہی مباحات کا دائرہ وہ دائرہ ہے جس میں شریعت نے ہم کو آزادی عمل دی ہے اور اسی دائرہ میں ہم کو اپنی ضرورتوں کے مطابق قوانین و ضوابط اور طریق کار خود تجویز کرلینے کے اختیارات حاصل ہیں۔ منکرات کو شریعت میں دو قسموں پر تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حرام یعنی قطعی ممنوع۔ دوسرے مکروہ یعنی ناپسندیدہ۔ حرام وہ ہے جس سے باز رہنا اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کو اس سے پاک رکھنا مسلمانوں پر لازم کر دیا گیا ہے اور شریعت میں اس کے متعلق صاف صاف احکام دے دیے گئے ہیں۔ رہا مکروہ تو اس کے متعلق شارع کسی نہ کسی طور پر صراحتاً یا کنایتاً ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے جس سے بآسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کس درجہ میں ناپسندیدہ ہے۔ بعض مکروہات حرام کے قریب ہیں اور بعض مباح کی سرحد سے ملے ہوئے ہیں اور بہت سے ان کے درمیانی مراتب پر ہیں۔ بعض کو روکنے اور بند کرنے کا شریعت کے نظام میں بندوبست کیا گیا ہے اور بعض ناپسندیدہ بتا کر چھوڑ دیا گیا ہے تاکہ سوسائٹی خود یا اس کے صالح عناصر ان کا سدباب کریں۔
شریعت کی ہمہ گیری
معروف اور منکر کے متعلق یہ احکام ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مذہبی عبادات، شخصی کردار، اخلاق اور عادات، کھانا پینا، پہننا، اوڑھنا، نشست و برخاست، بات چیت، خاندانی زندگی، معاشرتی تعلقات، معاشی معاملات، ملکی انتظام، شہریت کے حقوق و واجبات، قیام عدل کا نظام، حکومت کے طریقے، صلح و جنگ اور دوسری قوموں کے ساتھ تعلقات، غرض زندگی کا کوئی شعبہ اور پہلو ایسا نہیں رہ گیا ہے جس کے متعلق شریعت نے ہم پر نیکی اور بدی کے طریقے، بھلائی اور بُرائی کے راستے اور پاک و ناپاک کے امتیازات واضح نہ کر دیے ہوں۔ وہ ہمیں ایک صالح نظام زندگی کا پورا نقشہ دیتی ہے جس میں صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ کیا بھلائیاں ہیں جنہیں ہم کو قائم کرنا، بڑھانا اور نشوونما دینا ہے، کیا برائیاں ہیں جن کو دبانا اور مٹانا ہے، کن حدود کے اندر ہماری آزادی عمل کو محدود رہنا چاہیے اور عملاً ہمیں کون سے طریقے اختیار کرنے چاہئیں جن سے ہماری زندگی میں مطلوبہ بھلائیاں پروان چڑھیں اور برائیوں کا استیصال ہو۔
نظامِ شریعت کا ناقابل تقسیم ہونا
یہ پورا نقشہ زندگی ایک ہی نقشہ زندگی ہے اور اس کا ایک مجموعی مزاج ہے جو تقسیم ہو کر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس کی وحدت کچھ اسی طرح کی ہے جیسی خود انسان کے وجود کی وحدت ہے۔ آپ جس چیز کو انسان کہتے ہیں وہ آدمی کا سالم وجود ہے نہ کہ انسانی جسم کے الگ الگ کئے ہوئے ٹکڑوں کا مجموعہ۔ ایک کٹی ہوئی ٹانگ کو آپ۸ / ۱ انسان یا ۶ / ۱ انسان نہیں کہہ سکتے۔ نہ یہ کٹی ہوئی ٹانگ ان خدمات میں سے کوئی خدمت انجام دے سکتی ہے جو زندہ اور سالم جسم کا ایک عضو ہونے کی صورت میں وہ انجام دیا کرتی ہے۔ نہ اس ٹانگ کو کسی اور جانور کے جسم میں لگا کر آپ یہ توقع کرسکتے ہیں کہ اس جانور میں ایک ٹانگ کے بقدر انسانیت پیدا ہو جائے گی۔ اسی طرح انسانی جسم کے ہاتھ، پائوں، آنکھ، ناک وغیرہ اعضا کو الگ الگ لے کر آپ ان کے حسن یا ان کے فائدے کے متعلق بھی کوئی رائے قائم نہیں کرسکتے جب تک کہ پورے زندہ جسم میں ان کے تناسب اور ان کے عمل کو نہ دیکھیں۔ ٹھیک ٹھیک یہی حال شریعت کے نقشۂ زندگی کا ہے۔ اسلام اس پورے نقشہ کا نام ہے نہ کہ اس کے جُدا جُدا ٹکڑوں کا۔ اس کے اجزا کو پارہ پارہ کرکے نہ تو ان کے بارے میں جداگانہ رائے زنی کرنا درست ہوسکتا ہے، نہ مجموعہ سے الگ ہو کر اس کا کوئی جزو وہ کام کرسکتا ہے جو وہ صرف اپنے مجموعہ ہی میں رہ کر کیا کرتا ہے، نہ اس کے بعض اجزا کو قائم کرکے آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے آدھا یا چوتھائی اسلام قائم کر دیا ہے اور نہ کسی دوسرے نظام زندگی میں اس ے کسی جز یا اجزا کو پیوست کرکے کوئی مفید نتیجہ ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ شارع نے یہ نقشہ اس لیے بنایا ہے کہ یہ پورے کا پورا ایک ساتھ قائم ہو، نہ اس لیے کہ آپ حسبِ منشا اس کے کسی جز کو جب چاہیں لے کر قائم کر دیں بغیر اس کے کہ دوسرے اجزا اس کے ساتھ ہوں۔ اس کا ہر جزو دوسرے اجزا کے ساتھ اس طرح جڑا ہوا ہے کہ ان کے ساتھ مل کر ہی کام کرسکتا ہے اور آپ اس کی خوبی کے متعلق صحیح رائے صرف اسی وقت قائم کرسکتے ہیں جب کہ پورے نظام اسلامی کے تناسب اور عمل میں اس کو کام کرتے ہوئے دیکھیں۔
آج شریعت کے بعض احکام کے متعلق جو غلط فہمیاں لوگوں میں پائی جاتی ہیں ان میں سے اکثر کی وجہ یہی ہے کہ پورے اسلام پر مجموعی نگاہ ڈالے بغیر اس کے کسی ایک جز کو نکال لیا جاتا ہے اور پھر یا تو اسے موجودہ غیر اسلامی نظام زندگی کے اندر رکھ کر رائے قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر بجائے خود اسی جز کو ایک مستقل چیز سمجھ کر اس کے حسن و قبح کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی قانون فوجداری کی بعض دفعات پر آج کے لوگ بہت ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ لیکن انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ جس نقشۂ زندگی میں یہ قانونی دفعات رکھی گئی ہیں اس کے اندر ان کے ساتھ ایک نظامِ معیشت، ایک نظامِ معاشرت، ایک نظامِ حکومت اور ایک نظامِ تعلیم و تربیت بھی ہے جو اگر ساتھ ساتھ پوری اجتماعی زندگی میں کام نہ کر رہا ہو تو نری ان دفعات کو قانون کی کتاب سے نکال کر عدالت کے کمرے میں جاری کر دینا خود اس نقشۂ زندگی کے بھی خلاف ہے۔
بلاشبہ اسلامی قانون چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا دیتا ہے۔ مگر یہ حکم ہر سوسائٹی میں جاری ہونے کے لیے نہیں دیا گیا ہے، بلکہ اسے اسلام ہی کی اس سوسائٹی میں جاری کرنا مقصود تھا جس کے مالداروں سے زکوٰۃ جاری ہو، جس کا بیت المال ہر حاجت مند کی امداد کے لیے کھلا ہو، جس کی ہر بستی پر مسافروں کی تین دن ضیافت لازم کی گئی ہو، جس کے نظامِ شریعت میں سب لوگوں کے لیے بالکل یکساں حوقق اور برابر کے مواقع ہوں، جس کے معاشی نظام میں طبقوں کی اجارہ داری کے لیے کوئی جگہ نہ ہو اور جائز کسب معاش کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوں، جس کے نظامِ تعلیم و تربیت نے ملک کے عام افراد میں خدا کا خوف اور اس کی رضا کا شوق پیدا کر دیا ہو، جس کے اخلاقی ماحول میں فیاضی، مصیبت زدوں کی دست گیری، حاجت مندوں کی اعانت اور گرتوں کو سہارا دینے کا عام چرچا ہو اور جس کے بچے بچے کو یہ سبق دیا گیا ہو کہ تو مومن نہیں ہے اگر تیرا ہمسایہ بھوکا ہو اور تو خود پیٹ بھر کر کھانا کھا بیٹھے۔ یہ حکم آپ کی موجودہ سوسائٹی کے لیے نہیں دیا گیا تھا جس میں کوئی شخص کسی کو قرض بھی سود کے بغیر نہیں دیتا۔ جس میں بیت المال کی جگہ بنک اور انشورنس کمپنی ہے، جس میں حاجت مند کے لیے مدد کو بڑھنے والے ہاتھ کی جگہ دھتکار اور پھٹکار ہے، جس کا اخلاقی نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایک شخص کی کمائی میں دوسروں کا کوئی حصہ نہیں بلکہ ہر شخص اپنی کفالت کا خود ذمہ دار ہے، جس کا معاشرتی نظام بعض خاص طبقوں کو مخصوص امتیازی حقوق دیتا ہے، جس کا معاشی نظام چند خوص نصیب اور چالاک لوگوں کو ہر طرف سے دولت سمیٹ لینے کا موقع دیتا ہے اور جس کا سیاسی نظام اپنے قوانین کے ذریعہ سے ان کے مفاد کی حفاظت کرتا ہے۔ ایسی سوسائٹی میں تو چور کا ہاتھ کاٹنا کیا معنی، شاید اکثر حالات میں تو اس کو سرے سے کوئی سزا دینا ہی درست نہیں ہے۔ کیونکہ اس قسم کی ایک سوسائٹی میں چوری کو جرم قرار دینا دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ خود غرض اور حرام خور لوگوں کے مال کی حفاظت پیش نظر ہے۔ برعکس اس کے اسلام وہ سوسائٹی پیدا کرتا ہے جس میں کسی شخص کے لیے چوری پر مجبور ہونے کا کوئی موقع نہ رہے، ہر ضرورت مند انسان کی جائز ضروریات پوری کرنے کے لیے لوگ خود ہی رضا کارانہ طور پر آمادہ ہوں اور حکومت کی طرف سے بھی اس کی دستگیری کا پورا انتظام ہو۔ پھر جو شخص اس کے باوجود چوری کرے اس کے لیے اسلامی قانون ہاتھ کاٹنے کی عبرتناک سزا تجویز کرتا ہے، کیونکہ ایسا شخص ایک شری، عادل اور فیاض سوسائٹی میں رہنے کے قابل نہیں ہے۔
اسی طرح اسلامی قانون تعزیرات زنا پر سو کوڑے مارتا ہے اور شادی شدہ زنا کار کو سنگسار کر دیتا ہے۔ مگر یہ کس سوسائٹی میں؟ اس میں جس کے پورے نظام تمدن کو شہوت انگیز اسباب سے خالی کیا گیا ہو، جس میں عورتوں اور مردوں کی مخلوط معاشرت نہ ہو، جس میں بنی سنوری عورتوں کا منظر عام پر آنا بند ہو، جس میں نکاح کو نہایت آسان کر دیا گیا ہو، جس میں نیکی اور تقویٰ اور پاکیزگیٔ اخلاق کا عام چرچا ہو اور جس کے ماحول میں خدا کی یاد ہر وقت تازہ ہوتی رہتی ہو۔ یہ حکم اس گندی سوسائٹی کے لیے نہیں ہے جس میں ہر طرف جنسی جذبات کو بھڑکانے کے اسباب پھیلے ہوئے ہیں، گلی گلی اور گھر گھر فحش گیت بج رہے ہیں، جگہ جگہ فلم اسٹاروں کی تصویریں لٹکی ہوئی ہیں، شہر شہر اور قصبے قصبے سنیما درسِ عشق دے رہے ہیں، نہایت گندہ لٹریچر آزادی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے، بنی سنوری خواتین کھلے بندوں پھر رہی ہیں، زندگی کے ہر شعبہ میں جنسی اختلاط کے مواقع بڑھ رہے ہیں اور نظامِ معاشرت نے اپنے بیہودہ رواجوں سے نکاح کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی سوسائٹی میں تو زنا کرنے والے کو سزا دینے کے بجائے زنا سے پرہیز کرنے والے کو انعام یا کم از کم خان بہادری کا خطاب ملنا چاہیے۔
شریعت کا قانونی حصہ
اس بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جدید اصطلاح کے مطابق شریعت کے جس حصے کو ہم قانون کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں وہ زندگی کی ایک مکمل اور جامع اسکیم کا جز ہے۔ یہ جز بجائے خود کوئی مستقل چیز نہیں ہے کہ کُل سے الگ کرکے اسے سمجھایا جاسکے یا جاری کیا جاسکے۔ اگر ایسا کیا بھی جائے تو یہ اسلامی قانون کا اجرا نہ ہوگا، نہ اس سے وہ نتائج حاصل ہوسکیں گے جو اسلام کے پیش نظر ہیں اور نہ یہ حرکت خود شارع کے منشا کے مطابق ہوگی۔ شارع کا اصل منشا اپنی پوری اسکیم کو اجتماع زندگی میں جاری کرنا ہے اور اس اسکیم کے مجموعی عمل درآمد ہی میں اسلامی قانون کا اجرا صحیح طور پر ہوسکتا ہے۔
شریعت کی یہ اسکیم عملی لحاظ سے کئی حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کے بعض حصے ایسے ہیں جن کو ناقد کرنا ہر مومن کا اپنا کام ہے۔ کوئی خارجی طاقت ان کو نافذ نہیں کرا سکتی۔ بعض اور حصے ایسے ہیں جنہیں اسلام اپنے تزکیۂ نفس اور تربیت اخلاق اور تعلیم و تدریس کے پروگرام سے نافذ کراتا ہے۔ بعض دوسرے حصوں کو جاری کرنے کے لیے وہ رائے عام کی طاقت استعمال کرتا ہے۔ بعض اور حصوںکو وہ مسلم سوسائٹی کے اصلاح یافتہ رواجوں کی شکل میں نافذ کرتا ہے اور ان سب کے ساتھ ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہے جسے نافذ کرنے کے لیے وہ تقاضا کرتا ہے کہ مسلم سوسائٹی اپنے اندر سایسی اقتدار پیدا کرے کیونکہ وہ اقتدار کے بغیر نافذ نہیں ہوسکتا۔ یہ سیاسی اقتدار اس غرض کے لیے درکار ہے کہ شریعت کے تجویز کردہ نظام زندگی کی حفاظت کرے، اس کو بگڑنے سے روکے، اس کے منشا کے مطابق بھلائیوں کے نشوونما اور برائیوں کے استیصال کا انتظام کرے اور اس کے ان احکام کو نافذ کرے جن کی تنقید کے لیے ایک نظام عدالت کا ہونا ضروری ہے۔
یہی آخری حصہ وہ چیز ے جسے ہم اسلامی قانون کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اگرچہ ایک لحاظ سے پوری شریعت ہی قانون ہے، کیونکہ وہ رعیت پر حاکم اعلیٰ کا مقرر کیا ہوا مجموعۂ احکام ہے۔ لیکن ونکہ اصطلاح میں ’’قانون‘ذ کا اطلاق ان احکام پر ہوتا ہے جو سیاسی اقتدار کے ذریعہ سے نافذ کیے جائیں، اس لیے ہم شریعت کے صرف اس حصے کو ’’قانونِ اسلام‘‘ قرار دیتے ہیں جسے نافذ کرنے کے لیے وہ خود اپنے اصول و مزاج کے مطابق ایک سیاسی اقتدار کی تشکیل چاہتی ہے۔
اسلامی قانون کے اہم شعبے
(۱) اس سیاسی اقتدار کی تشکیل کے لیے سب سے پہلے ایک دستوری قانون (Constitutive Law)کی ضرورت ہے اور شریعت نے اس کے تمام ضوری اصول مقرر کر دیے ہیں۔ ریاست کا اساسی نظریہ کیا ہے؟ اس کے قیام کا مقصد کیا ہے؟ کون لوگ اس کے شہری ہوسکتے ہیں؟ ان کے حقوق اور واجبات کیا ہیں؟ کس بنیاد پر کسی کو حقوقِ شہریت ملتے اور کس بنا پر وہ سلب ہوسکتے ہیں؟ اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں (ذمیوں) کے حقوق و واجبات کیا ہیں؟ ریاست کے قانون اور اختیارات کا ماخذ کیا ہے؟ حکومت کا انتظام کن اصولوں پر چلایا جائے گا؟ انتظامی اختیارات کس کے سپرد کیے جائیں گے؟ اس کا تقرر کون کرے گا؟ کس کے سامنے وہ جواب دہ ہوگا اور کن حدود کے اندر وہ کام کرے گا؟ قانون سازی کے اختیارات کس کو کس حد تک حاصل ہوں گے؟ عدالت کے حقوق و فرائض کیا ہوں گے؟ دستوری قانون کے ان تمام بنیادی مسائل کا واضح جواب شریعت نے ہم کو دے دیا ہے۔ پھر ان اصولوں کو صاف صاف متعین کرنے کے بعد وہ ہمیں آزاد چھوڑ دیتی ہے کہ دستور کی تفصیلی شکل وصورت ہم خود اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق بنالیں۔ ہم اس امر کے پابند تو ضرور کیے گئے ہیں کہ اپنی ریاست کے دستور میں شریعت کے مقرر کیے ہوئے ان اصولوں پر قائم رہیں، لیکن کوئی مفصل دستور ہر زمانے کے لیے ہم کو بنا کر نہیں دے دیا گیا ہے جس کے اندر فروعی رد و بدل بھی جائز نہ ہو۔
(۲) تشکیل کے بعد اسلامی ریاست کو اپنا نظام چلانے کے لیے ایک انتظامی قانون (Administrative Law)کی ضرورت ہے، سو اس کے بھی تمام بنیادی اصول شریعت نے واضح کر دیے ہیں اور مزید برآں اس معاملہ میں ہماری رہنمائی کے لیے نبی a اور خلفائے راشدین کی مثالی حکومت کےنظائر بھی موجود ہیں۔ ایک اسلامی ریاست اپنی آمدنی کے لیے کس قسم کے ذرائع اختیار کرسکتی ہے اور کس قسم کے ذرائع اختیار نہیں کرسکتی؟ حکومت کے مواصلات میں کس قسم کے تصرفات درست ہیں اور کس قسم کے نادرست؟ فوج، پولیس، عدالت اور نظم و نسق کے مختلف شعبوں میں حکومت کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ باشندوں کی اخلاقی اور مادی فلاح کے لیے حکومت پر کیا فرائض عائد ہوتے ہیں؟ کونسی بھلائیاں ہیں جنہیں قائم کرنے اور فروغ دینے کے لیے اسے کوشش کرنی چاہیے اور کونسی برائیاں ہیں، جنہیں روکنا اور دبانا اس کے فرائض میں سے ہے؟ باشندگان ملک کے معاملات زندگی میں حکومت کس حد تک دخل انداز ہونے کی مجاز ہے؟ ان ابمور میں شریعت ہم کو محض اصولی ہدایات ہی نہیں دیتی بلکہ خاص مسائل کے متعلق قطعی اور صریح احکام بھی دیتی ہے۔ لیکن پورے نظم و نسق کے متعلق اس نے کوئی تفصیلی ضابطہ بنا کر ہمیں نہیں دیا ہے جسے ایک ہی شکل و صورت پر ہمیشہ اور ہر زمانے میں قائم رکھنے پر ہم مامور ہوں اور جس میں کسی قسم کا تغیر و تبدل کرنے کی ہمیں اجازت نہ ہو۔ دستوری قانون کی طرح انتظامی قانون میں بھی تفصیلی ضوابط بنانے کی پوری آزادی حاصل ہے، البتہ اس آزادی کو ہم ان اصول اور حدود کے اندر ہی استعمال کرسکتے ہیں جو شریعت نے مقرر کر دیے ہیں۔
(۲) اس کے بعد ملکی قانون اور شخصی قانون کے وہ ابواب آتے ہیں جو معاشرے میں امن اور انصاف قائم کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ ان ابواب میں شریعت اتنے وسیع پیمانے پر ہمیں تفصیلی احکام اور اصولی ہدایات دیتی ہے کہ کسی دَور میں اور معاملات زندگی کے کسی گوشے میں بھی ہم کو اپنی قانونی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے شرعی حدود سےباہر جانے کی ضرورت پیش نہیں آسکتی۔ جو تفصیلی احکام اس نے دیے ہیں وہ اب تک ہر ملک اور ہر دَور کی سوسائٹی میں یکساں صحت کے ساتھ جاری ہوسکتے ہیں (بشرطیکہ زندگی کا وہ مجھموعی نظام بھی، جس میں آپ ان احکام کو جاری کریں، اسلام کی ہدایت پر چل رہا ہو اور جو اصولی ہدایات اس نے دی ہیں وہ اس قدر جامع ہیں کہ قریب قریب اکثر معاملات زندگی میں تمام ضروری قوانین ان کی روشنی میں بنائے جاسکتے ہیں۔ پھر جن معاملات میں شریعت کسی قسم کے احکام اور ہدایات نہیں دیتیخ ان میں خود شریعت ہی کی رُو سے اسلامی ریاست کے اہل الرائے اور اصحاب حل و عقد باہمی مشورے سے قوانین بنانے کے مجاز ہیں اور اس طرح جو قوانین بنائے جائیں گے وہ قانون اسلام ہی کا ایک جز شمار ہوں گے، کیونکہ وہ شریعت کی دی ہوئی اجازت ے تحت بنائے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ہمارے فقہا نے استحسان اور مصالح مرسلہ وغیرہ عنوانات کے تحت جو احکام مدون کیے تھے وہ قانونِ اسلام ہی کے اجزا سمجھے گئے۔
(۴) سب سے آخر میں قانون کا ایک شعبہ وہ بھی ہے جس کی ایک ریاست کو اپنے بین الاقوامی تعلقات کے لیے ضرورت پیش آتی ہے۔ اس باب میں شریعت نے جنگ اور صلح اور غیر جابنداری کی مختلف حالتوں کے متعلق اسلامی ریاست کا برتائو متعین کرنے کے لیے بہت تفصیلی ہدایات دی ہیں اور جہاں تفصیلات نہیں دیں وہاں ایسے اصول دے دیے ہیں جن کی روشنی میں تفصیلات مرتب کی جاسکتی ہیں۔
اسلامی قانون کا استقلال اور اس کی ترقی پذیری
اس مختصر تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ علمِ قانون کے جتنے شعبوں پر انسانی تصور آج تک پھیل سکا ہے، ان میں سے کوئی شعبہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں شریعت نے ہماری رہنمائی نہ کی ہو، یہ رہنمائی کس کس شکل میں کی گئی ہے، اس کا اگر تفصیلی جائزہ لے کر دیکھا جائے تو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ اسلامی قانون میں کیا چیز قطعی اور مستقل ہے اور اس کے ایسا ہونے کا فائدہ کیا ہے اور کونسی چیز ابد تک ترقی پذیر ہے اور وہ کس طریقہ سے ہر دَور میں ہماری بڑھتی ہوئی تمدنی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے۔
اس قانون میں جو چیز اٹل ہے وہ تین اجزا پر مشتمل ہے:
(۱) قطعی اور صریح احکام جو قرآن یا ثابت شدہ احادیث میں دیے گئے ہیں، مثلاً شراب اور سود اور قمار کی حرمت، چوری اور زنا اور قذف کی سزائیں اور میت کے ترکہ میں وارثوں کے حصے۔
(۲)اصولی احکام جو قرآن یا ثابت شدہ احادیث میں بیان ہوئے ہیں، مثلاً یہ کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے، یا یہ کہ لین دین کے جن طریقوں میں منافع کا تبادلہ آپس کی رضامندی سے نہ ہو وہ باطل ہیں، یا یہ کہ مرد عورتوں پر قوام ہیں۔
(۳) حدود جو قرآن و سنت میں اس غرض کے لیے مقرر کی گئی ہیں کہ ہم اپنی آزادی عمل کو ان کے اندر محدود رکھیں اور کسی حال میں ان سے تجاوز نہ کریں، مثلًا تعداد ازدواج کے لیے بیک وقت چار عورتوں کی حد، یا طلاق کے لیے تین کی حد، یا وصیت کے لیے ایک تہائی مال کی حد۔
اسلامی قانون کا یہ اٹل اور قطعی واجب الاطاعت حصہ ہی دراصل وہ چیز ہے جو اسلامی تہذیب و تمدن کے حدود اربعہ اور اس کی مخصوص امتیازی شکل و صورت کو معین کرتا ہے۔ آپ کسی ایسی تہذیب و تمدن کی نشاندہی نہیں کرسکتے جو اپنے اندر ایک ناقابل تغیر و تبدل عنصر رکھے بغیر اپنی ہستی اور اپنی انفرادیت کو برقرار رکھ سکے۔ اگر کسی تہذیب میں ایسا کوئی عنصر بھی نہ ہو اور سبھی کچھ قابل ترمیم و تنسیخ ہو تو فی الحقیقت وہ سرے سے کوئی مستقل تہذیب ہی نہیں ہے۔ وہ تو ایک پگھلا ہوا مادہ ہے جو ہر سانچے میں ڈھل سکتا ہے اور ہر وقت اپنی شکل بدل سکتا ہے۔
علاوہ بریں ان احکام اور اصول اور حدود کا تفصیلی مطالعہ کرنے سے ہر معقول آدمی اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ شریعت نے حکم جہاں بھی دیا ہے ایسے موقع پر دیا ہے جہاں انسانی قوتِ فیصلہ غلطی کرکے ’’معروف‘‘ سے ہٹ سکتی ہے۔ ایسے تمام مواقع پر شریعت صاف حکم دے کر، یا صریحاً منع کرکے یا اصول بتا کر، یا حد لگا کر گویا نشانات کھڑے کر دیتی ہے تاکہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ صحیح راستہ کس طرف ہے۔ یہ نشانات ہماری رفتار ترقی کو روکنے والے نہیں ہیں بلکہ ہمیں سیدھی راہ پر لگانے اور ہمارے سفرِ زندگی کو بے راہ روی سے بچانے کے لیے ہیں۔ ان مستقل قوانین کا ایک معتدبہ حصہ ایسا ہے جن پر کل تک دنیا اعتراض کر رہی تھی، مگر ہمارے دیکھتے دیکھتے تجربات اور تلخ تجربات نے کل کے معترضین کو آج معترف بنا دیا ہے اور انہی قوانین کی خوشہ چینی پر وہ مجبور ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر میں صرف اسلام کے قانون ازدواج اور قانون میراث کی طرف اشارہ کافی سمجھتا ہوں۔
اس قائدار اور اٹل عنصر کے ساتھ ایک دوسرا عنصر ایسا ہے جو اسلامی قانون میں بے اندازہ وسعت پیدا کرتا ہے اور اسے زمانہ کے تمام بدلتے ہوئے حالات میں ترقی پذیر بناتا ہے۔ یہ عنصر کئی اقسام پر مشتمل ہے۔
(۱) تعبیر یا تاویل احکام، یعنی کوئی حکم جن الفاظ میں دیا گیا ہو ان کا مفہوم سمجھنے اور ان کا منشا متعین کرنے کی کوشش کرنا۔ یہ فقہ اسلامی کا ایک بہت ہی وسیع بات ہے۔ قانونی دماغ اور نکتہ رس نگاہیں رکھنے والے لوگ جب کتاب و سنت میں غور و خوض کرتے ہیں تو وہ شریعت کے صریح احکام میں بھی مختلف تعبیرات کی گنجائش پاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے فہم و بصیرت کے مطابق کسی ایک تعبیر کو بدلائل دوسری تعبیروں پر ترجیح دیتا ہے۔ یہ اختلاف تعبیر پہلے بھی اُمت کے اہلِ علم میں رہا ہے، آج بھی ہو سکتا ہے اور آئندہ بھی یہ دروازہ کھلا رہے گا۔
(۲) قیاس، یعنی جس معاملہ میں کوئی صاف حکم نہ ملتا ہو اس پر کسی ایسے حکم کو جاری کرنا جو اس سے ملتے جلتے کسی معاملہ میں دیا گیا ہو۔
(۳) اجتہاد، یعنی شریعت کے اصولی احکام اور جامع ہدایات کو سمجھ کر ایسے معاملات پر ان کو منطبق کرنا جن میں نظائر بھی نہ ملتے ہوں۔
(۴) استحسان، یعنی مباحات کے غیر محدود دائرے میں حسب ضرورت ایسے قوانین اور ضوابط وضع کرنا جو اسلام کے مجموعی نظام کی روح سے زیادہ سے زیادہ مطابقت رکھتے ہوں۔
یہ چاروں چیزیں ایسی ہیں جن کے امکانات پر اگر کوئی شخص غور کرے تو وہ کبھی اس شبہ میں نہیں پڑ سکتا کہ اسلامی قانون کا دامن کسی وقت بھی انسانی تمدن کی روز افزوں ضروریات اور متغیر حالات کے لیے تنگ ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھیے کہ اجتہاد و استحسان ہو یا تعبیر و قیاس، بہرحال اس کا مجاز ہر کس و ناکس نہیں ہوسکتا۔ آپ ہر راہ رو کا یہ حق تسلیم نہیں کرسکتے کہ وہ موجودہ ملکی قانون کے کسی مسئلہ پر فیصلہ صادر کر دے۔ اس کے لیے قانونی تعلیم اور ذہنی تربیت کا ایک خاص معیار آپ کے نزدیک بھی ناگزیر ہے جس پر پورا اترے بغیر کوئی شخص ماہرانہ رائے زنی کا اہل نہیں مانا جاسکتا۔ اسی طرح اسلامی قانون کے مسائل پر بھی رائے زنی کا حق صرف ان ہی لوگوں کو دیا جاسکتا ہے جنہوں نے اس کی ضروری اہلیت بہم پہنچائی ہو۔ تعبیر احکام کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اس زبان کی نزاکتوں سے واقف ہو جس میں احکام دیے گئے ہیں، ان حالات سے واقف ہو جن میں ابتداً یہ احکام دیے گئے تھے، قرآن کے انداز بیان کو اچھی طرح سمجھتا ہو اور حدیث کے ذخیرہ پر وسیع نگاہ رکھتا ہو۔ قیاس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اتنی لطیف قانونی حِس رکھتا ہو کہ ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ پر قیاس کرتے ہوئے ان کی باہمی مماثلت کے پہلوئوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھ سکے، ورنہ ایک کا حکم دوسرے پر منطبق کرنے میں وہ غلطی سے نہیں بچ سکتا۔ اجتہاد کے لیے شریعت کے احکام میں گہری بصیرت اور معاملات زندگی کا عمدہ فہم … محض عام فہم ہی نہیں بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے فہم… درکار ہے۔ استحسان کے لیے بھی ناگزیر ہے کہ آدمی اسلام کے مزاج اور اس کے نظامِ زندگی کو اچھی طرح سمجھتا ہو تاکہ مباحات کے دائرے میں جو قوانین اور ضوابط وہ تجویز کرے وہ اس نظام زندگی کے مجموعہ میں صحیح طور پر جذب ہوسکیں۔ ان علمی اور ذہنی صلاحیتوں سے بڑھ کر ایک اور چیز بھی درکار ہے جس کے بغیر اسلامی قانون کا ارتقا کبھی صحیح خطوط پر نہیں ہوسکتا اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ اس کام کو انجام دیں ان کے اندر اسلام کی پیروی کا ارادہ اور خدا کے سامنے اپنی جواب دہی کا احساس موجود ہو۔ یقیناً یہ کام ان لوگوں کے کرنے کا نہیں ہے جو خدا اور آخرت سے بے پروا ہو کر محض دنیوی مصلحتوں پر نگاہ جما چکے ہوں اور اسلامی قدروں کو چھوڑ کر کسی دوسری تہذیب کی قدریں پسند کر چکے ہوں۔ ایسے لوگوں کے ہاتھوں اسلامی قانون کا ارتقا نہیں ہوسکتا، صرف اس میں تحریف ہی ہوسکتی ہے۔
اعتراضات اور جوابات
اب میں مختصر طور پر ان اعتراضات سے بحث کروں گا جو پاکستان میں اسلامی قانون کے اجرا کا مطالبہ سن کر بالعموم کیے جاتے ہیں۔ یہ اعتراضات بظاہر تو بہت سے ہیں، اس لیے ہ ان کے بیان کرنے میں الفاظ کی فضول خرچی ذرا دل کھول کر کی جاتی ہے۔ لیکن سب کا تجزیہ کرنے سے اصل اعتراض صرف چار نکلتے ہیں۔
(۱)تہمت بوسیدگی
پہلا اعتراض یہ ہے کہ صدیوں کا پرانا قانون جدید زمانے کی ایک سوسائٹی اور سٹیٹ کی ضروریات کے لیے کس طرح کافی ہوسکتا ہے؟
جن حضرات کی طرف سے یہ اعتراض پیش کیا جاتا ہے، مجھے شبہ ہے کہ وہ اسلامی قانون کے متعلق ابتدائی اور سرسری واقفیت بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ غالباً انہوں نے کہیں سے بس یہ اُڑتی اُڑتی خبر سن لی ہے کہ اس قانون کے بنیادی احکام اور اصول ساڑھے تیرہ سو برس پہلے بیان ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ بات انہوں نے بطور خود فرض کرلی کہ اس وقت سے یہ قانون جوں کا توں اسی حالت میں رکھا ہوا ہے۔ اس بنا پر انہیں یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ اگر آج ایک جدید ریاست اسے اپنا ملکی قانون بنالے تو وہ اس کی وسیع ضروریات کے لیے کیسے کافی ہوسکے گا۔ ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ جو بنیادی احکام و اصول ساڑھے تیرہ سو برس پہلے دیے گئے تھے ان پر اسی وقت ایک ریاست قائم ہوگئی تھی اور روز مرہ پیش آنے والے معاملات میں تعبیر و قیاس اور اجتہاد و استحسان کے ذریعہ سے اس قانون کا ارتقا اوّل روز ہی سے شروع ہوگیا تھا۔ پھر اسلامی اقتدار وسیع ہو کر بحرالکاہل سے بحر اوقیانوس تک آدمی سے زیادہ مہذب دنیا میں پھیل گیا اور جتنی ریاستیں بھی بعد کے بارہ سو سال میں مسلمانوں نے قائم کیں ان سب کا پورا نظم و نسق اسی قانون پر چلتا رہا۔ ہر دور اور ہر ملک کے حالات و ضروریات کے مطابق اس قانون میں مسلسل توسیع ہوتی رہی ہے۔ انیسویں صدی کی ابتدا تک اس ارتقا کا سلسلہ ایک دن کے لیے بھی نہیں رُکا ہے۔ خود آپ کے اس ملک میں بھی انیسویں صدی کے اوائل تک اسلام ہی کا دیوانی اور فوجداری قانون جاری رہا ہے۔ اب زیادہ سے زیادہ صرف سو سال کا وقفہ ایسا رہ جاتا ہے جس کے متعلق آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانہ میں اسلامی قانون پر عمل درآمد بند رہا اور اس کا ارتقا رُکا رہا۔ لیکن اوّل تو یہ وقفہ کچھ اتنا زیادہ بڑا نہیں ہے کہ ہم تھوڑی سی محنت و کاوش سے اس کے نقصان کی تلافی نہ کرسکیں۔ دوسرے ہمارے پاس ہر صدی کی فقہی ترقیات کا پورا ریکارڈ موجود ہے جسے دیکھ کر ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ ہمارے اسلاف پہلے کتنا کام کرچکے ہیں اور آگے ہمیں کیا کام کرنا ہے۔ پھر جن بنیادوں پر اسلامی قانون کا ارتقا ہوتا ہے انہیں دیکھتے ہوئے کوئی صاحب علم آدمی اس امر میں شک نہیں کرسکتا جس طرح پچھلی بارہ صدیوں میں یہ قانون ہر دَور اور ہر ملک کی ضروریات کے مطابق وسیع ہوتا رہا ہے اسی طرح موجودہ صدی میں بھی ہوسکتا ہے اور آئندہ صدیوں میں بھی ہوتا رہے گا۔ ناواقف لوگ اس کو جانے بغیر ہزار قسم کے وسوسوں میں پڑ سکتے ہیں۔ مگر جو لوگ اس کو جانتے ہیں، اس کے امکانات سے واقف ہیں اور اس کی تاریخ پر نظر رکھتے ہیں، انہیں ایک لمحہ کے لیے بھی اس پر تنگ دامنی کا شبہ نہیں ہوسکتا۔
(۲) الزامِ وحشت
دوسرا اعتراض، جو پبلک میں تو دبی زبان سے مگر نجی صحبتوں میں بڑی کافرانہ جسارتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے یہ ہے کہ اسلامی قانون میں بہت سی چیزیں قرونِ وسطیٰ کی تاریک خیالی کے باقیات میں سے ہیں جنہیں اس مہذب دور کے ترقی یافتہ اخلاقی تصورات کسی طرح برداشت نہیں کرسکتے۔ مثلاً ہاتھ کاٹنے اور دُرّے مارنے اور سنگسار کرنے کی وحشیانہ سزائیں۔
یہ اعتراض سن کر بے اختیار ان حضرات سے یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ ؎
اتنی نہ بڑھاپاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
جس دَور میں ایٹم بم استعمال کیا گیا ہے، اس کے اخلاقی تصورات کو ترقی یافتہ کہتے وقت آدمی کو کچھ تو شرم محسوس ہونی چاہیے۔ آج کا نام نہاد مہذب انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ جو سلوک کر رہا ہے اس کی مثال تو قدیم تاریخ کے کسی تاریک دَور میں بھی نہیں ملتی۔ وہ سنگسار نہیں بم بار کرتا ہے۔ محض ہاتھ ہی نہیں کاٹتا، جسم کے پرخچے اڑا دیتا ہے۔ دُرّے برسانے سے اس کا دل نہیں بھرتا، زندہ آگ میں جلاتا ہے اور مُردہ لاشوں کی چربی نکال کر ان کے صابن بناتا ہے۔ جنگ کے ہنگامۂ غیظ و غضب ہی میں نہیں، امن کے ٹھنڈے ماحول میں بھی جن کو وہ سیاسی مجرم یا قومی مفاد کا دشمن، یا معاشی اغراض کا حریف سمجھتا ہے ان کو درد ناک عذاب دینے میں وہ آخر کونسی کسر اٹھا رکھتا ہے۔ ثبوت جرم سے پہلے محض شبہ ہی شبہ میں تفتیش کے جو طریقے اور اقبال جرم کرانے کے جو ہتھکنڈے آج کی مہذب حکومتوں میں اختیار کیے جارہے ہیں وہ کس سے چھپے ہوئے ہیں۔ ان ساری باتوں کی موجودگی میں یہ دعویٰ تو کسی طرح صحبح نہیں ہے کہ آج کے نام نہاد ترقی یافتہ تصورات انسان کو انسان کے ہاتھوں عذاب پاتے ہوئے دیکھنا سرے سے گوارا ہی نہیں کرتے۔ گوارا تو وہ کر رہے ہیں اور پہلے سے زیادہ سخت عذابوں کو گوارا کر رہے ہیں۔ البتہ فرق جو کچھ واقع ہوا ہے وہ دراصل اخلاقی قدروں میں ہے۔ ان کے نزدیک جو جرائم واقعی سخت ہیں ان پر وہ خوب عذاب دیتے ہیں اور دل کھول کر دیتے ہیں، مثلاً ان کے سیاسی اقتدار کو چیلنج کرنا، یا ان کے معاشی مفاد میں مزاحم ہونا۔ لیکن جن افعال کو وہ سرے سے جرم ہی نہیں سمجھتے۔ مثلاً شراب سے ایک گو نہ بیخودی حاصل کرلینا، یا تفریحاً زنا کرلینا، ان پر عذاب تو درکنار، سرزنش اور ملامت بھی انہیں ناگوار ہوتی ہے اور جُرم نہ سمجھنے کی صورت میں لامحالہ وہ ناگوار خاطر ہونی چاہیے۔
اب میں ان معترضین سے پوچھتا ہوں کہ آپ کن اخلاقی قدروں کے قائل ہیں؟ اسلام کی اخلاقی قدریں؟ یا موجودہ تہذیب کی؟ اگر آپ کی قدریں بدل چکی ہیں، اگر حلال و حرام اور خطا و صواب اور نیکی و بدی کے وہ معیار آپ چھوڑ چکے ہیں جو اسلام نے مقرر کیے تھے اور دوسرے معیار آپ نے دل سے قبول کر لیے ہیں، تو پھر اسلام کے دائرے میں آپ کی جگہ ہے کہاں کہ آپ اس کے قوانین میں ترمیم کی گفتگو چھییں۔ آپ کا مقام اندر نہیں باہر ہے۔ اپنی ملت الگ بنائیے، کوئی اور نام اپنے لیے تجویز کیجیے اور صاف صاف کہیے کہ ہم اسلام کو بحیثیت دین کے رد کرتے ہیں۔ جس خدا کی مقرر کی ہوئی سزائوں کو آپ وحشیانہ سمجھتے ہیں اس پر ایمان لانے کا آخر کس احمق نے آپ کو مشورہ دیا ہے اور کون احمق یہ باور کرسکتا ہے کہ اس کی بات کو وحشیانہ کہنے کے بعد آپ اس پر ایمان رکھتے ہیں۔
(۳) فقہی اختلافات کا بہانہ
تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اسلام میں بہت سے فرقے ہیں اور ہر فرقے کی فقہ جدا ہے اب اگر یہاں اسلامی قانون جاری کرنے کا فیصلہ کیا جائے تو آخر وہ کس فرقے کی فقہ کے مطابق ہوگا؟
یہ وہ اعتراض ہے جس پر اسلامی قانون کے مخالفین بڑی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ توقع رکھتے ہیں کہ آخر کار اسی سوال پر مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر وہ اسلام کے ’’خطرے‘‘ کو ٹال سکیں گے۔ خود مسلمانوں میں وہ لوگ جو حقیقت سے پوری طرح واقف نہیں اس سوال پر اکثر پریشان ہو جاتے ہیں ہ اس پیچیدگی کو آخر کیسے حل کیا جائے گا۔ حالانکہ درحقیقت یہ سرے سے کوئی پیچیدگی ہے ہی نہیں اور پچھلی بارہ صدیوں میں اس مسئلے نے کبھی اور کہیں اسلامی قانون کے نافذ کو نہیں روکا ہے۔
سب سے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ اسلامی قانون کا بنیادی ڈھانچہ جو خدا اور رسول کے مقرر کیے ہوئے قطعی احکام اور اصول اور حدود پر مشتمل ہے، مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں ابتدا سے آج تک یکساں مسلم رہا ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہ پہلے تھا، نہ اب پایا جاتا ہے۔ فقہی اختلافات جتنے بھی ہوئے ہیں۔ تعبیرات میں، قیاسی و اجتہادی مسائل میں اور دائرہ اباحت کے قوانین و ضوابط میں ہوئے ہیں۔
پھر ان اختلافات کی حقیقت بھی یہ ہے کہ کسی حکم کی کوئی تعبیر جو کسی عالم نے کی ہو، یا کوئی مسئلہ جو قیاس و اجتہاد سے کسی امام نے نکالا ہو، یا کوئی فتویٰ جو استحسان کی بنا پر کسی مجتہد نے دیا ہو، بجائے خود قانون نہیں بن جاتا۔ دراصل اس کی حیثیت محض ایک تجویز کی ہوتی ہے۔ قانون وہ صرف اسی وقت بنتا ہے جبکہ اس پر اجماع (اتفاق رائے) ہو جائے یا جمہور (اکثریت) اس کو تسلیم کرلیں اور فتویٰ اسی پر جاری ہو جائے۔ ہمارے فقہا جب اپنی کتابوں میں کسی مسئلے کو بیان کرنے کے بعد لکھا کرتے ہیں کہ علیہ الاجماع یا علیہ الجمہور اور علیہ الفتویٰ تو اس سے ان کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس مسئلے کے متعلق یہ رائے اب محض رائے یا تجویز نہیں رہی ہے بلکہ اتفاق رائے یا جمہوری فیصلے کی بنا پر اب قانون بن چکی ہے۔
یہ اجماعی اور جمہوری فیصلے بھی دو قسم کے ہیں، ایک وہ جن پر تمام امت کا ہمیشہ اجماع رہا ہے یا دنیائے اسلام کی اکثریت نے جن کو قبول کرلیا ہے۔ دوسرے وہ جن پر کسی وقت کسی ملک کے مسلمانوں کا اجماع ہو جائے یا ان کی اکثریت انہیں قبول کرلے۔
پہلی قسم کے فیصلے اگر اجماعی ہوں تو وہ نظرثانی کے قابل نہیں ہیں۔ انہیں تمام مسلمانوں کی بحیثیت ایک قانون کے قبول کرنا ہوگا۔ اور اگر وہ جمہوری فیصلے ہوں تو ان کے متعلق یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم جس ملک میں اسلامی قانون جاری کر رہے ہیں، اس کی اکثریت بھی انہیں تسلیم کرتی ہے یا نہیں؟ اگر اکثریت انہیں تسلیم کرتی ہو تو وہ ملک کا قانون قرار پائیں گے۔
یہ حیثیت تو پچھلے فقہی احکام کی ہے۔ رہا آئندہ کا معاملہ، تو آگے آنے والے معاملات میں حکم خدا اور رسول کی جس تعبیر، یا جس قیاس و اجتہاد اور جس استحسان پر ہمارے ملک کے اصحابِ حل و عقد کا اجماع ہو جائے گا یا ان کی اکثریت اس کو اختیار کرے گی وہ ہمارے ملک کے لیے قانون ہوگا پہلے بھی ہر مسلمان ملک کا قانون ایسے ہی فتاویٰ پر مشتمل ہوتا تھا جو ملک کی تمام یا اکثر آبادی کے نزدیک مسلم ہوتے تھے اور آج بھی صرف یہی ایک صورت قابل عمل ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ جمہوریت کے اصول پر اس کے سوا اور کونسی صورت تجویز کی جاسکتی ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ مسلمانوں کے جو گروہ اکثریت کے ساتھ متفق نہ ہوں گے ان کی پوزیشن کیا ہوگی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے قلیل التعداد گروہ پرسنل لا کی حد تک اپنی فقہ کو اپنے معاملات میں جاری کرنے کا مطالبہ کرسکتے ہیں اور یہ حق ان کو ضرور ملنا چاہیے، لیکن قانونِ ملکی Law of the Landبہرحال وہی ہوگا اور وہی ہوسکتا ہے جو اکثریت کے مسلک پر مبنی ہو، میں یقین رکھتا ہوں کہ آج مسلمانوں کا کوئی فرقہ بھی یہ غیر معقول بات کہنے کے لیے تیار نہ ہوگا کہ چونکہ اسلامی قانون میں ہم متفق نہیں ہیں؟ اس لیے یہاں کفر کا قانون جاری ہونا چاہیے۔ اسلام میں اختلاف کرکے سب مسلمانوں کا کفر پر متفق ہو جانا ایک ایسی بیہودہ بات ہے جو چند کفر پسند افراد کو چاہیے کتنی ہی پسند ہو، بہرحال کسی فرقے کا مسلمان بھی اسے اپنے دل میں جگہ دینے کے لیے آمادہ نہیں ہوسکتا۔
(۴) غیر مسلم اقلیتوں کا مسئلہ
آخری اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس ملک میں صرف مسلمان ہی نہیں رہتے غیر مسلم بھی آباد ہیں، وہ کس طرح یہ گوارا کرلیں گے کہ مسلمانوں کا مذہبی قانون اُن پر مسلط ہو جائے؟
یہ اعتراض جو لوگ پیش کرتے ہیں وہ دراصل اس مسئلہ پر ایک سطحی نگاہ ڈالتے ہیں۔ انہوں نے پوری طرح سے اس کا تجزیہ نہیں کیا ہے۔ اسی لیے ان کو اس میں بڑی پیچیدگی نظر آتی ہے۔ حالانکہ تھوڑی سی تحلیل کرنے کے بعد اس کی ساری الجھنیں خود ہی سلجھتی چلی جاتی ہیں۔
ظاہر بات ہے کہ ہم جس قانون پر بحث کر رہے ہیں وہ قانون ملکی ہے نہ کہ قانونِ شخصی۔ جہاں تک شخصی معاملات کا تعلق ہے، ان کے بارے میں تو یہ مسلم ہے کہ ہر گروہ پر اس کا اپنا قانون ہی جاری ہوگا۔ یہ حق دنیا میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ فیاضی کے ساتھ اسلام نے اہل الذمہ کو دیا تھا، بلکہ درحقیقت وہ اسلام ہی ہے جس سے موجودہ دَور کے اہل قانون نے ملکی قانون اور شخصی قانون کا فرق سیکھا ہے اور یہ اصول معلوم کیا ہے کہ جس ریاست کی آبادی مختلف المذہب لوگوں پر مشتمل ہو اس میں سب گروہوں کے شخصی معاملات ان کے شخصی قوانین ہی کے تحت ہونے چاہئیں۔ لہٰذا کسی غیر مسلم اقلیت کو ہم سے یہ اندیشہ تو ہونا ہی نہ چاہیے کہ ہم ان کے شخصی معاملات پر اپنے مذہبی قوانین کو مسلط کرکے اس قاعدے کی خلاف ورزی کریں گے جو دراصل ہمارا اپنا ہی قائم کیا ہوا قاعدہ ہے اور جس کے متعلق اسلام نے ہم کو قطعی واضح احکام دے رکھے ہیں۔
اب سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ اس ملک میں قانونِ ملکی کونسا ہو؟ انصاف کی رُو سے اس سوال کا جواب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ قانون ملکی وہی ہونا چاہیے جو اکثریت کے نزدیک صحیح ہو۔ اقلیت ہم سے اپنا جائز حق ضرور مانگ سکتی ہے اور وہ ہم اس کے مانگنے سے پہلے ہی تسلیم کر رہے ہیں۔ لیکن وہ ہم سے یہ مطالبہ کس طرح کرسکتی ہے کہ اس کو راضی کرنے کے لیے ہم خود اپنے عقیدے کی نفی کریں اور کسی ایسے قانون کو اپنے ہاتھوں جاری کرنے لگیں جس کو ہم حق نہیں سمجھتے۔ جب تک ہم اپنے ملک میں خود مختار نہ تھے ہمیں مجبوراً ایک باطل قانون کو گوارا کرنا پڑا۔ اس کی ذمہ داری سے ہم بری ہوسکتے ہیں۔ لیکن اب جب کہ اختیارات ہمارے اپنے ہاتھ میں ہیں، اگر ہم جان بوجھ کر اسلامی قانون کی جگہ کوئی دوسرا قانون جاری کریں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم قومی حیثیت سے بالارادہ مرتد ہو رہے ہیں۔ کیا فی الواقع کسی اقلیت کا ہم پر یہ حق ہے کہ اس کی خاطر ہم اپنا دین بدلنا گوارا کرلیں؟ کیا کوئی اقلیت کسی بااختیار کثریت سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ اپنی رائے میں جس چیز کو صحیح سمجھتی ہو اسے چھوڑ دے اور وہ چیز اختیار کرے جسے اقلیت صحیح سمجھتی ہو؟ یا پھر کیا یہ کوئی معقول اصول ہے کہ جس ملک میں مختلف المذہب لوگ آباد ہوں اس میں سب کو لامذہب ہی ہو کر رہنا چاہیے؟ اگر ان سوالات کا جواب اثبات میں نہیں ہے، تو میں نہیں سمجھتا کہ آخر ایک مسلمان اکثریت کے ملک میں اسلامی قانون کیوں ملکی قانون قرار نہ پائے۔
پاکستان میں اسلامی قانون کا نفاذ کس طرح ہوسکتا ہے؟
(یہ تقریر ۱۹ فروری ۴۸ئ کو لا کالج لاہور میں کی گئی تھی)
اس سے پہلے میں آپ کے سامنے ایک تقریر اس موضوع پر کرچکا ہوں کہ اسلامی قانون کی حقیقت کیا ہے، اس کی روح اور اس کا مقصد کیا ہے، اس کے بنیادی اصول کیا ہیں، مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا اس کے ساتھ تعلق کیا ہے اور ہم کیوں اپنے ملک میں اسے نافذ کرنے کے پابند ہیں اور وہ شبہات کیا وزن رکھتے ہیں جو اس کے بارے میں عام طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ میری وہ تقریر محض ایک تعارفی تقریر تھی۔ اب میں ذرا تفصیل کے ساتھ اس مسئلے پر بحث کرنا چاہتا ہوں کہ اگر اب ہم اس ملک میں اسلامی قانون کو ازسرِ نو جاری کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے لیے کیا تدبیریں کرنی ہوں گی۔
فوری انقلاب نہ ممکن ہے نہ مطلوب
اس سلسلہ میں سب سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس غلط فہمی کو دُور کروں جو اسلامی قانون کے اجرا کے متعلق کثرت سے لوگوں کے ذہن میں پائی جاتی ہے۔ لوگ جب سنتے ہیں کہ ہم یہاں اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس حکومت میں ملک کا قانون اسلامی قانون ہوگا تو انہیں یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید نظامِ حکومت کے تغیر کا اعلان ہوتے ہی تمام پچھلے قوانین یک لخت منسوخ ہو جائیں گے اور اسلامی قانون بیک وقت نافذ کردیا جائے گا۔ یہ غلط فہمی صرف عام لوگوں ہی میں نہیں پائی جاتی بلکہ اچھے خاصے مذہبی طبقے بھی اس میں مبتلا ہیں۔ ان کے نزدیک ایسا ہونا چاہیے کہ اِدھر اسلامی حکومت قائم ہو اور اُدھر فوراً ہی غیر اسلامی قوانین کا نفاذ بند اور اسلامی قانون کا نفاذ شروع ہو جائے۔ درحقیقت یہ لوگ اس بات کو بالکل نہیں سمجھتے کہ ایک ملک کا قانون اس کے اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے۔ انہیں معلوم نہیں ہے کہ جب تک کسی ملک کا نظامِ زندگی اپنے سارے شعبوں کے ساتھ نہ بدلے اس کے قانونی نظام کا بدل جانا ممکن نہیں ہے۔انہیں اس کا بھی اندازہ نہیں ہے کہ پچھلے سو ڈیڑھ سو برس سے ہم پر جو انگریزی اقتدار مسلط رہا ہے اس نے کس طرح ہماری زندگی کے پورے نظام کو اسلامی اصولوں سے ہٹا کر غیر اسلامی اصولوں پر چلا دیا ہے اور اب اسے پھر بدل کر دوسری بنیادوں پر قائم کرنا کتنی محنت، کتنی کوشش اور کتنا وقت چاہتا ہے۔ یہ لوگ عملی مسائل میں بصیرت نہیں رکھتے، اس لیے اجتماعی نظام کی تبدیلی کو ایک کھیل سمجھتے ہیں اور ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ پھر ان کی یہی باتیں ان لوگوں کو جو اسلامی نظام سے فرار کی راہیں ڈھونڈ رہے ہیں، یہ موقع دے دیتی ہیں کہ وہ اس تخیل کا مذاق اڑائیں اور اس کے حامیوں کا استخفاف کریں۔
تدریج کا اصول
اگر ہم فی الواقع اپنے اس تخیل کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں فطرت کے اس اٹل قاعدے سے غافل نہ ہونا چاہیے کہ اجتماعی زندگی میں جتنے تغیرات بھی ہوتے ہیں بتدریج ہی ہوا کرتے ہیں۔ انقلاب جتنا اچانک اور جس قدر یک رُخا ہوگا اتنا ہی وہ ناپائدار ہوگا۔ ایک مستحکم اور پائندہ انقلاب کے لیے یہ بالکل ضروری ہے کہ وہ زندگی کی ہر جہت اور ہر پہلو میں پورے توازن کے ساتھ کار فرما ہوتاکہ اس کا ہر گوشہ دوسرے گوشہ کو سہارا دے سکے۔
عہدِ نبوی کی مثال
اس کی بہترین مثال خود وہ انقلاب ہے جو نبی a نے عرب میں برپا کیا تھا۔ جو شخص حضورؐ کے کارنامے سے تھوڑی سی واقفیت بھی رکھتا ہے وہ بھی جانتا ہے کہ آپؐ نے پورا اسلامی قانون اس کے سارے شعبوں کے ساتھ بیک وقت نافذ نہیں کر دیا تھا بلکہ معاشرے کو بتدریج اس کے لیے تیار کیا تھا اور اس تیاری کے ساتھ آہستہ آہستہ سابق جاہلیت کے طریقوں اور قاعدوں کو بدل کر نئے اسلامی طریقے اور قاعدے جاری کئے تھے۔ آپؐ نے سب سےپ ہلے اسلام کے بنیادی تصورات اور اخلاقی اصول لوگوں کے سامنے پیش کیے۔ پھر جو لوگ اس دعوت کو قبول کرتے گئے۔ انہیں آپؐ تربیت دے کر ایک ایسا مصلح گروہ تیار کرتے چلے گئے جس کا ذہن اور زاویۂ نظر اور طرزِ عمل خالص اسلامی تھا۔ جب یہ کام ایک خاص حد تک پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تو آپ نے دوسرا قدم اٹھایا اور وہ یہ تھا کہ مدینے میں ایک ایسی حکومت قائم کر دی جو خالص اسلامی نظریہ پر مبنی تھی اور جس کا مقصد ہی یہ تھا کہ ملک کی زندگی کو اسلام کے نقشے پر ڈھال دے۔ اس طرح سیاسی طاقت اور ملکی ذرائع کو ہاتھ میں لے کر نبیa نے وسیع پیمانے پر اصلاح و تعمیر کا وہ کام شروع کیا جس کے لیے آپؐ پہلے صرف دعوت و تبلیغ کے ذریعہ سے کوشش فرما رہے تھے۔ آپؐ نے ایک مرتب اور منظم طریقے سے لوگوں کے اخلاق، معاشرت، تمدن اور معیشت کے بدلنے کی جدوجہد کی، تعلیم کا ایک نیا نظام قائم کیا، جو اس زمانے کے حالات کے لحاظ سے زیادہ تر زبانی تلقین کے طریقے پر تھا۔ جاہلیت کے خیالات کی جگہ اسلامی طرزِ فکر کی اشاعت کی پرانی رسموں اور طور طریقوں کی جگہ نئے اصلاح یافتہ رواج اور آداب و اطوار جاری کیے اور اس ہمہ گیر اصلاح کے ذریعہ سے جوں جوں زندگی کے مختلف گوشوں میں انقلاب رونما ہوتا گیا، آپ اسی کے مطابق پورے توازن اور تناسب کے ساتھ اسلامی قانون کے احکام جاری کرتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ ۹ سال کے اندر ایک طرف اسلامی زندگی کی تعمیر مکمل ہوئی اور دوسری طرف پورا اسلامی قانون ملک میں نافذ ہوگیا۔
قرآن اور حدیث کے غائر مطالعے سے ہمیں واضح طور پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آپؐ نے یہ کام کس ترتیب و تدریج کے ساتھ کیا تھا۔ وراثت کا قانون ۳ ھ ہجری میں جاری کیا گیا۔ نکاح و طلاق کے قوانین رفتہ رفتہ ۷ ھ ہجری میں جاکر مکمل ہوئے۔ فوجداری قوانین کئی سال تک ایک ایک دفعہ کرکے نافذ کیے جاتے رہے یہاں تک کہ ۸ ھ میں ان کی تکمیل ہوئی۔ شراب کی بندش کے لیے بتدریج فضا تیار کی گئی اور ۵ ھ ہجری میں اس کا قطعی انسداد کر دیا گیا۔ سُود کی برائی اگرچہ مکہ ہی میں صاف صاف بیان کی جاچکی تھی، مگر اسلامی حکومت قائم ہوتے ہی اسے یک لخت بند نہیں کر دیا گیا۔ بلکہ ملک کے پورے معاشی نظام کو بدل کر جب نئے سانچوں میں ڈھال لیا گیا تب کہیں ۹ ہجری میں سود کی قطعی حرمت کا قانون جاری کیا گیا۔ یہ کام بالکل ایک معمار کا سا کام تھا جس نے اپنے پیش نظر نقشے کی عمارت بنانے کے لیے کاریگر اور مزدور جمع کیے، ذرائع و وسائل مہیا کیے، زمین ہموار کی، بنیادیں کھودیں، پھر ایک ایک اینٹ رکھ کر ہر جہت سے عمارت کو اٹھاتا ہوا اُوپر تک لے گیا اور چند سال کی مسلسل محنت کے بعد آخر کار وہ عمارت مکمل کر دی جس کا خاکہ اس کے ذہن میں تھا۔
انگریزی دَور کی مثال
قریب کے زمانہ میں خود ہمارے ملک پر جب انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی تھی تو کیا انہوں نے یک لخت یہاں کا سارا نظام بدل ڈالا تھا؟ نہیں۔ ان کی حکومت سے پہلے چھ سات سو سال سے یہاں کا پورا نظام زندگی اسلامی فقہ پر چل رہا تھا۔ اس صدیوں کی جمی ہوئی عمارت کو ڈھا دینا اور مغربی اصول و نظریات کے مطابق ایک دوسرے نظام کی عمارت کھڑی کر دینا ایک دن کاکام نہ تھا۔ تاریخ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انگریزی اقتدار قائم ہونے کے بعد بھی ایک مدت تک ہندوستان میں اسلامی فقہ ہی رائج رہی۔ عدالتوں میں قاضی ہی انصاف کے لیے بیٹھتے تھے اور اسلام کا قانون صرف پرسنل لا کی حد تک محدود نہ تھا بلکہ وہی ملکی قانون Law of the Land بھی تھا۔ انگریزوں کو یہاں کا قانونی نظام بدلتے بدلتے ایک صدی لگ گئی۔ انہوں نے بتدریج یہاں کا نظام بدل کر اپنے مطلب کے آدمی ڈھالے، اپنے خیالات کی اشاعت سے ذہنیتیں بدلیں، اپنے اقتدار کے اثر سے لوگوں کے اخلاق بدلے، اپنی بالادستی کے زور سے معاشی نظام بدلا اور پھر جیسے جیسے یہ مختلف قسم کے ہمہ گیر اثرات یہاں کی اجتماعی زندگی کو بدلتے گئے اسی کے مطابق پرانے قوانین منسوخ اور نئے قوانین جاری ہوتے چلے گئے۔
تدریج ناگزیر ہے
اب اگر ہم یہاں پھر اسلامی قانون جاری کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے بھی انگریزی حکومت کے صدسالہ نقوش کو کھرچ دینا اور نئے نقوش ثبت کر دینا محض ایک جنبش قلم سے ممکن نہیں ہے۔ ہمارا پرانا نظام تعلیم زندگی اور اس کے عملی مسائل سے ایک مدت دراز تک بے تعلق رہنے کے باعث اس قدر جان ہو چکا ہے کہ اس کے فارغ التحصیل لوگوں میں ایک فی ہزار کے اوسط سے بھی ایسے آدمی نہیں نکل سکتے جو ایک جدید ترقی یافتہ ریاست کے جج اور مجسٹریٹ بنائے جاسکیں۔ دوسری طرف موجودہ نظامِ تعلیم نے جو آدمی تیار کیے ہیں وہ اسلام اور اس کے قوانین سے بالکل بے بہرہ ہیں اور ان میں ایسے افراد بھی خال خال ہی پائے جاتے ہیں جن کی ذہنیت ہی کم از کم اس تعلیم کے زہریلے اثرات سے محفوظ رہ گئی ہو۔ پھر سو ڈیڑھ سو برس تک معطل رہنے کی وجہ سے ہمارا قانونی ذخیرہ بھی زمانے کی رفتار سے اچھا خاصا پیچھے رہ گیا ہے اور اسے موجودہ دَور کی عدالتی ضروریات کے لیے کار آمد بنانا کافی محنت چاہتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک طویل مدت تک اسلامی اثر سے آزاد اور انگریزی حکومت کے تابع رہتے رہتے ہمارے اخلاق، تمدن، معاشرت، معیشت اور سیاست کا نقشہ اصل اسلامی نقشے سے بہت مختلف ہو چکا ہے۔ اس حالت میں ملک کے قانونی نظام یک لخت بدل دینا … اگر ایسا کرنا ممکن بھی ہو… نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس صورت میں زندگی کا نظام اور قانونی تغیر کا وہی حشر ہوگا جو ایک پودے کو ایسی آب و ہوا اور ایسی زمین میں لگا دینے سے ہوا کرتا ہے جو اس کے مزاج سے کوئی مناسبت نہ رکھتی ہو۔ لہٰذا یہ بالکل ناگزیر ہے کہ جس اصلاح و تغیر کے ہم طالب ہیں وہ تدریج کے ساتھ ہو اور قانونی تبدیلیاں اخلاق، تعلیم، معاشرت، تمدن، معیشت اور سیاست کی تبدیلیوں کے ساتھ متوازن طریقہ سے کی جائیں۔
ایک غلط بہانہ
لیکن تدریج کے اس معقول اور بجائے خود بالکل صحیح اصول کو بہانہ بنا کر جو لوگ اس بات کے حق میں استدلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سردست تو یہاں ایک غیر دینی … بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں ایک بے دین… ریاست ہی قائم ہونی چاہیے، پھر جب اسلامی ماحول تیار ہو جائے تو وہ اسلامی ریاست بھی قائم ہو جائے گی جو اسلامی قانون جاری کرسکے، وہ سراسر ایک نامعقول بات کہتے ہیں۔ مَیں ان سے پوچھتا ہوں کہ یہ ماحول تیار کون کرے گا؟ کیا ایک بے دین ریاست، جس کی باگیں فرنگیت زدہ حکام اور لیڈروں کے ہاتھ میں ہوں؟ کیا وہ معمار جو صرف میخانہ و جم خانہ ہی کی تعمیر جانتے اور اسی سے دلچسپی بھی رکھتے ہیں ایک مسجد تعمیر کرنے کا سامان کریں گے؟ اگر ان لوگوں کا یہی مطلب ہے تو انسانی تاریخ میں یہ پہلا اور بالکل نرالا تجربہ ہوگا کہ بے دینی خود دین کو پروان چڑھا کر اپنی جگہ لینے کے لیے تیار کرے گی اور اگر ان کا مطلب کچھ اور ہے تو وہ ذرا اس کی صاف صاف توضیح فرمائیں کہ اسلامی ماحول کی تیاری کاکام کون، کس طاقت اور کن ذرائع سے کرے گا اور اس دوران میں بے دین ریاست اپنے ذرائع اور اقتدار کو کس چیز کی تعمیر و ترقی میں صرف کرتی رہے گی؟
ابھی ابھی تدریج کا اصول ثابت کرنے کے لیے جو مثالیں میںنے پیش کی ہیں انہیں اگر آپ ایک مرتبہ پھر اپنے ذہن میں تازہ کرلیں تو آپ یہ بات اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اسلامی نظامِ زندگی کی تعمیر ہو یا غیر اسلامی نظام زندگی کی، اگرچہ وہ ہوتی تو بتدریج ہی ہے لیکن تدریجاً اس کی تعمیر صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب کہ ایک معمار طاقت، اپنے سامنے ایک مقصد اور ایک نقشہ رکھ کر مسلسل اس کے لیے کام کرے۔ صدرِ اوّل میں جو اسلامی انقلاب ہوا تھا اسی طرح ہوا تھا کہ نبیa نے برسوں اس کے لیے موزوں آدمی تیار کیے، تعلیم و تبلیغ کے ذریعہ سے لوگوں کے خیالات بدلے، حکومت کے پورے نظم و نسق کو معاشرے کی اصلاح اور ایک نئے تمدن کی تخلیق کے لیے استعمال کیا، اور اس طرح وہ ماحول بنا جس میں اسلامی قانون جاری ہوسکا۔ ماضی قریب میں انگریزوں نے ہندوستان کے نظام زندگی میں جو تغیرات کیے وہ بھی تو اسی طرح ہوئے کہ زمام کار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں تھی جو اس تغیر کے خواہشمند تھے اور اس کے لیے کام کرنا جانتے تھے۔ انہوں نے ایک مقصد اور ایک نقشے کو نگاہ میں رکھ کر پیہم اس تغیر کے لیے کوشش کی اور آخر کار یہاں کے پورے نظام زندگی کو اس سانچے میں ڈھال کر ہی چھوڑا جو ان کے اصول و قوانین سے مناسبت رکھتا تھا۔ پھر کیا اب ہماری پیش نظر تعمیر اس معمار طاقت کے بغیر ہو جائے گی، یا ایسے معماروں کے ہاتھوں ہوسکے گی جو اس نقشے پر تعمیر کاکام نہ جانتے ہوں اور نہ چاہتے ہوں۔
صحیح ترتیب کار
میں سمجھتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ ہر معقول آدمی اس معاملہ میں مجھ سے اتفاق کرے گا کہ جب پاکستان اسلام کے نام سے اور اسلام کے لیے مانگا گیا ہے اور اسی بنا پر ہماری یہ مستقل ریاست قائم ہوئی ہے تو ہماری اس ریاست ہی کو وہ معمار طاقت بننا چاہیے جو اسلامی زندگی کی تعمیر کرے اور جب کہ یہ ریاست ہماری اپنی ریاست ہے اور ہم اپنے تمام قومی ذرائع و وسائل اس کے سپرد کر رہے ہیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس تعمیر کے لیے کہیں اور سے معمار فراہم کریں۔
یہ بات اگر صحیح ہے تو پھر اس تعمیر کی راہ میں پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنی اس ریاست کو، جو ابھی تک انگریز کی چھوڑی ہوئی کافرانہ بنیادوں پر قائم ہے، مسلمان بنائیں۔ اور اسے مسلمان بنانے کی آئینی صورت یہ ہے کہ ہماری دستور ساز اسمبلی باقاعدہ اس امر کا اعلان کرے کہ:
۱۔ پاکستان میں حاکمیت خدا کی ہے اور ریاست اس کے نائب کی حیثیت سے ملک کا انتظام کرے گی۔
۲۔ ریاست کا اساسی قانون شریعت خداوندی ہے جو محمدؐ کے ذریعہ سے ہمیں پہنچی ہے۔
۳۔ تمام پچھلے قوانین جو شریعت سے متصادم ہوتے ہیں بتدریج بدل دیے جائیں گے اور آئندہ کوئی ایسا قانون نہ بنایا جاسکے گا جو شریعت سے متصادم ہوتا ہو۔
۴۔ ریاست اپنے اختیارات کے استعمال میں اسلامی حدود سے تجاوز کرنے کی مجاز نہ ہوگی۔
یہ وہ کلمۂ شہادت ہے جسے اپنی آئینی زبان … یعنی دستور ساز اسمبلی… کے ذریعہ سے ادا کرکے ہماری ریاست ’’مسلمان‘‘ ہو جائے گی۔
اس اعلان کے بعد ہی صحیح طور پر ہمارے رائے دہندوں کو یہ معلوم ہوگا کہ اب انہیں کس مقصد اور کس کام کے لیے اپنے نمائندے منتخب کرنے ہیں۔ عوام میں علم و دانش کی لاکھ کمی سہی، مگر وہ اتنی سمجھ بوجھ ضرور رکھتے ہیں کہ انہیں کس کام کے لیے کس طرف رجوع کرنا چاہیے اور ان کے درمیان کون لوگ کس مطلب کے لیے موزوں ہیں۔ آخر وہ اتنے نادان تو نہیں ہیں کہ علاج کے لیے وکیل اور مقدمہ لڑنے کے لیے ڈاکٹر کو تلاش کریں۔ وہ اس کو بھی کسی نہ کسی حد تک جانتے ہی ہیں کہ ان بستیوں میں ایمان دار اور خدا ترس کون ہیں، چالاک اور دنیا پرست کون اور شریر و مفسد کون۔ جیسا مقصد ان کے سامنے ہوتا ہے ویسے ہی آدمی وہ ان کے لیے اپنے اندر سے ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ اب تک ان کے سامنے یہ مقصد آیا ہی نہ تھا کہ انہیں ایک دینی نظام چلانے کے لیے آدمی درکار ہیں۔ پھر وہ اس کے چلانے والے آخر تلاش کرتے کیوں؟ جیسا بے دین اور غیر اخلاقی نظام ملک میں قائم تھا اور اس کا مزاج جس قسم کے آدمی چاہتا تھا، اس کے لیے ویسے ہی آدمیوں پر لوگوں کی نگاہِ انتخاب پڑی اور انہی کو رائے دہندوں نے چن کر بھیج دیا۔ اب اگر ہم ایک اسلامی ریاست کا دستور بنائیں اور لوگوں کے سامنے سوال یہ آجائے کہ اس نظام کو چلانے کے لیے انہیں موزوں آدمی منتخب کرنے ہیں، تو چاہے ان کا انتخاب کمال درجہ کا معیاری نہ ہو، مگر بہرحال اس کام کے لیے ان کی نگاہیں فساق و فجار اور دین مغربی کے مومنین پر نہیں پڑی گی۔ وہ اس کے لیے انہی لوگوں کو تلاش کریں گے جو اخلاقی، ذہنی اور علمی حیثیت سے اس کے اہل ہوں گے۔
پس ریاست کو مسلمان بنانے کے بعد تعمیر حیات اسلامی کی راہ میں دوسرا قدم یہ ہے کہ جمہوری انتخاب کے ذریعہ سے اس ریاست کی زمام کار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں منتقل ہو جو اسلام کو جانتے ہوں اور اس کے مطابق ملک کے نظام زندگی کو ڈھالنا چاہتے بھی ہوں۔
اس کے بعد تیسرا قدم یہ ہے کہ اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی ہمہ گیر اصلاح کا ایک منصوبہ Planبنایا جائے اور اسے عمل میں لانے کے لیے ریاست کے تمام ذرائع و وسائل استعمال کیے جائیں۔ تعلیم کا نظام بدلا جائے۔ ریڈیو، پریس، سنیما اور خطابت کی ساری طاقتیں لوگوں کے خیالات کی اصلاح اور ایک نئی اسلامی ذہنیت کی تخلیق میں صرف کی جائیں۔ معاشرت اور تمدن کو نئے سانچوں میں ڈھالنے کے لیے پیہم اور باقاعدہ کوشش کی جائے۔ سول سروس، پولیس، جیل، عدالت اور فوج سے بتدریج ان لوگوں کو خارج کیا جائے جو پرانے فاسقانہ و کافرانہ نظام کی عادات و خصائل میں ڈھل کر سوکھ چکے ہیںاور ان نئے عناصر کو کام کرنے کا موقع دیا جائے جو اس اصلاح کے کام میں مددگار بن سکتے ہیں۔ معاشی نظام میں بنیادی تبدیلیاں کی جائیں اور اس کا پورا ڈھانچہ جو پرانی ہندوانہ اور جدید فرنگیانہ بنیادوں پر چل رہا ہے، ادھیڑ ڈالا جائے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ایک صالح اور مدبر گروہ اقتدار کے منصب پر فائز ہو اور ملک کے سارے وسائل اور حکومت کے پورے نظم و نسق کی طاقت سے کام لے کر باقاعدگی کے ساتھ اصلاح کے ایک سوچے سمجھے منصوبے پر عمل شروع کر دے تو دس سال کے اندر اس ملک کی اجتماعی زندگی کا نقشہ بالکل بدلا جا سکتا ہے اور جیسے جیسے یہ تبدیلی واقع ہوتی جائے ایک صحیح توازن کے ساتھ سابق قوانین کی ترمیم و تنسیخ اور اسلامی قوانین کے نفاذ کا سلسلہ جاری ہوسکتا ہے، یہاں تک کہ بالآخر جاہلیت کا کوئی قانون ہمارے ملک میں باقی نہ رہے اور اسلام کا کوئی حکم نافذ ہونے سے نہ رہ جائے۔
۱۔ اجرا قانون اسلامی کے لیے تعمیری کام
اب میں خاص طور پر اس تعمیری کام کی کچھ تفصیل آپ سے بیان کروں گا جو ملک کے قانونی نظام کو بدلنے اور اسلام کے قوانین کو جاری کرنے کے لیے ہمیں کرنا ہوگا۔ جس اصلاحی پروگرام کی طرف ابھی میں اشارہ کر چکا ہوں اس کے سلسلے میں ہم کو قریب قریب ہر شعبۂ زندگی میں بہت سے تعمیری کام کرنے پڑیں گے، کیونکہ مدت ہائے دراز کے تعطل، انحطاط اور غلامی نے ہمارے تمدن کی عمارت کے ہر گوشے کو خراب کرکے چھوڑا ہے۔ لیکن اس وقت میری تقریر ایک خاص موضوع سے تعلق رکھتی ہے اس لیے دوسرے گوشوں کے تعمیری کام سے قطع نظر کرکے یہاں میں صرف اس کام کے متعلق کچھ عرض کروں گا جو ہمیں قانون اور نظم عدالت کے سلسلہ میں کرنا ہے۔
۲۔ ایک قانونی اکیڈیمی کا قیام
اس پہلو میں اوّلین کام جو ہمیں کرنا چاہیے، یہ ہے کہ ایک قانونی اکیڈیمی قائم کی جائے جو اس پورے کام کا جائزہ لے جو علم قانون میں ہمارے اسلاف اس سے پہلے کر چکے ہیں اور ان ضروری کتابوں کو جو فقہ اسلامی کی واقفیت کے لیے ناگزیر ہیں، اُردو زبان میں صرف منتقل ہی نہ کرے بلکہ ان کے مواد کو زمانۂ حال کے طرز ترتیب کے مطابق مرتب بھی کر دے تاکہ ان سے پورا فائدہ اٹھایا جاسکے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، ہماری فقہ کا اصل ذخیرہ عربی زبان میں ہے اور ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ بالعموم اس زبان سے ناواقف ہے۔ اس ناواقفیت کی وجہ سے اور کچھ سنی سنئای باتوں کی بنا پر ہمارے پڑھے لکھے لوگ عموماً اس فقہی ذخیرے کے متعلق طرح طرح کی بدگمانیاں رکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان میں سے بہت سے لوگ تو یہاں تک کہہ بیٹھتے ہیں کہ دوراز کار، لاطائل اختلافی بحثوں کے اس دفتر بے معنی کو دریا بُرد کر دیا جائے اور نئے سرے سے اجتہاد کرکے کام چلایا جائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اس قسم کے مہمل خیالات ظاہر کرتے ہیں وہ محض اپنے لم ہی کی کمی کا نہیں، فکر و تدبر کے فقدان کا بھی راز فاش کرتے ہیں۔ اگر وہ اپنے بزرگوں کے فقہی کارناموں کا واقعی مطالعہ کریں تو مجھے یقین ہے کہ انہیں اپنی ان باتوں پر خود ہی شرم آنے لگے گی۔ انہیں معلوم ہوگا کہ پچھلی بارہ تیرہ صدیوںمیں ہمارے اسلاف محض فضول بحثوں میں وقت ضائع نہیں کرتے رہے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے بعد آنے والی نسلوں کے لیے بڑی قیمتی میراث چھوڑی ہے۔ وہ بہت سی ابتدائی منزلیں ہمارے لیے تعمیر کر گئے ہیں اور ہم سے بڑھ کر زیاں کار کوئی نہ ہوگا اگر محض جہالت کی بنا پر بنی ہوئی عمارت کو خواہ مخواہ ڈھاکہ نئے سرے سے ہی میر کی ابتدا کرنے پر اصرار کریں۔ ہمارے لیے عقلمندی یہی ہے کہ جو اگلے بنا گئے ہیں اسے اپنی آج کی ضرورتوں کے لیے کار آمد بنائیں اور آگے جن چیزوں کی ضرورت پیش آئے اس کے لیے مزید تعمیر کرتے رہیں۔ ورنہ ہر نسل اگر یونہی اپنے سے پہلی نسلوں کے کام پر پانی پھیرتی رہے اور نئے سرے سے سب کچھ بنانے کی کوشش کرے تو یقینا ترقی کی طرف قدم آگے بڑھ ہی نہیں سکتا۔
میں اس سلسلہ کی پہلی تقریر میں عرض کر چکا ہوں کہ پچھلی صدیوں میں دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر مسلمانوں کی جس قدر سلطنتیں قائم ہوئی تھیں ان سب کا قانون فقہ اسلامی ہی تھی۔ اس زمانے میں مسلمان نری گھاس نہیں کھودتے تھے بلکہ ایک اعلیٰ درجہ کا تمدن ان کے اندر موجود تھا۔ ان کے وسیع تمدن کی ساری ہی ضروریات پر ان کے فقہا نے اسلامی قوانین کو منطبق کیا تھا۔ یہی فقہا ان حکومتوں کے جج، مجسٹریٹ اور چیف جسٹس ہوتے تھے اور ان کے فیصلوں سے نظار کا ایک وسیع ذخیرہ فراہم ہوگیا تھا۔ انہوں نے قریب قریب ہر شعبہ قانون سے بحث کی ہے۔ محض دیوانی و فوجداری قوانین ہی نہیں، ڈدستوری اور بین الاقوامی قوانین کے متعلق بھی ان کے قلم سے ایسی ایسی لطیف بحثیں نکلی ہیں کہ ان کا مطالعہ کرکے ایک قانون داں آدمی ان کی ژرف نگاہی کی داددیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ضرورت ہے کہ ہم اہل علم کے ایک گروہ کو ان بزرگوں کے چھوڑے ہوئے ذخیرہ کا جائزہ لینے پر مامور کریں اور وہ موجودہ زمانے کی قانونی کتابوں کے طرز پر اس تمام کار آمد مواد کو مرتب کر ڈالے جو اس ذخیرے (لفٹ مٹا ہوا ہے) سکتا ہو۔
خصوصیت کے ساتھ چند کتابیں تو ایسی ہیں جن کو اردو زبان میں منتقل کر لینا نہایت ضروری ہے۔
۱۔ احکام القرآن پر تین کتابیں، حصاص، ابن العربی اور قرطبی۔
ان کتابوں کا مطالعہ ہمارے قانونی طلبا کو قرآن مجید سے احکام مستنبط کرنے کی بہترین تربیت دے گا۔ ان میں قرآن کی تمام احکامی آیات کی تفسیر کی گئی ہے، احادیث اور آثار صحابہ ہیں ان کی جو تشریح ملتی ہے اسے نقل کیا گیا ہے اور مختلف آئمہ مجتہدین نے ان سے جو احکام نکالے ہیں انہیں ا ن کے دلائل سمیت مفصل بیان کر دیا گیا ہے۔
۲۔دوسرا قیمتی ذخیرہ کتب حدیث کی شرحوں کا ہے جن میں احکام کے علاوہ نظائر اور تشریحی بیان کا بھی بہترین مواد ملتا ہے۔ ان میں خاص طور پر یہ کتابیں اُردو میں منتقل ہونی چاہئیں۔
بخاری پر فتح الباری اور عینی
مسلم پر نووی اور مولانا شبیر احمد صاحبؒ عثمانی کی فتح اللہم۔
ابودائود پر عون المعبود اور بذل المجہود
موطا پر شاہ ولی اللہ صاحب کی مسوی اور مصفّٰی اور موجودہ دور کے
ایک ہندوستانی عالم کی اَوَجَزُ المسالک
منتقی الاخبار پر شوکانی کی نیل الاوطار
مشکوٰۃ پر مولانا محمد ادریس کانھلوی کی التعلیق الصبیح۔
علم الاثار میں امام طحاوی کی شرح معانی الآثار
۳۔ اس کے بعد ہمیں فقہ کی ان بڑی بڑی کتابوں کو لینا چاہیے جو اس علم میں امہات کتب کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان میں خصوصیت کے ساتھ یہ کتابیں منتقل ہونی چاہئیں۔
فقہ حنفی پر امام سرخسی کی البسوط اور شرح السیر الکبیر۔کاسانی کی بدائع
الصنائع۔ ابن ہمام کی فتح القدیر۔ مع ہدایہ اور فتاویٰ عالمگیری
فقہ شافعی پر کتاب الاُم۔ شرح المہذب اور مغنی المحتاج المدونہ
فقہ مالکی پر المدونہ اور کوئی اہم کتاب جس کا اہل علم انتخاب کریں
فقہ حنبلی پر ابن قدامہ کی المغنی
فقہ ظاہری پر ابن حزم کی المحلی
مذاہب اربعہ پر ابن رشد کی ہدایۃ المجتہد۔ اور علما مصر کی مرتب کردہ الفقہ فی
المذہب الاربعہ۔ نیز ابن القیم کی زاد المعاد میں سے وہ حصے
جو قانونی مسائل سے متعلق ہیں۔
مخصوص مسائل پر امام ابو یوسف کی کتاب الخراج یحییٰ بن آدم کی الخراج۔ ابو
عبید القاسم کی کتاب الاموال۔ ہلال بن یحییٰ کی احکام الوقف۔ ومیاطی کی احکام المواریث
۴۔ پھر ہمیں اصول قانون اور حکمتِ تشریع کی بھی چند اہم کتابوں کو ابردو کا جامہ پہنا لینا چاہیے تاکہ ان کی مدد سے ہمارے اہلِ قانون میں اسلامی فقہ کا صحیح فہم اور اس کی روح سے گہری واقفیت پیدا ہو۔ میرے خیال میں اس موضوع پر یہ کتابیں قابل انتخاب ہیں۔
ابنِ حزم کی اصول الاحکام۔ علامہ آمدی کی الاحکام لاصولِ الاحکام۔ خضری کی اصول الفقہ، شاطبی کی الموافقات۔ ابن القیم کی اعلام الموقعین اور شاہ ولی اللہ صاحب کی حجۃ اللہ البالغہ
ان کتابوں کے متعلق ہمیں صرف اتنا ہی نہیں کرنا ہے کہ محض ان کے ترجمے اُردو زبان میں کر ڈالے جائیں، بلکہ ان کے مضامین کو موجودہ زمانہ کی قانونی کتابوں کے طرز پر از سرِ نو مرتب بھی کرنا ہوگا، نئے عنوانات قائم کرنے ہوں گے، منتشر مسائل کو ایک ایک عنوان کے تحت جمع کرنا ہوگا، فہرستیں بنانی پڑیں گی اور انڈکس تیار کرنے ہوں گے۔ اس محنت کے بغیر یہ کتابیں آجکل کی ضروریات کے لیے پوری طرح کار آمد نہ ہوسکیں گی۔ قدیم زمانے کا طریق تدوین کچھ اور تھا اور اس زمانے میں قانونی مسائل کے لیے اتنے مختلف عنوانات بھی پیدا نہیں ہوئے تھے جتنے آج پیدا ہوگئے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ لوگ دستوری قانون اور بین الاقوامی قانون کے لیے کوئی الگ نام نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کے مسائل کو وہ نکاح، خراج، جہاد اور میراث کے ابواب میں بیان کرتے تھے۔ فوجداری قانون ان کے ہاں کوئی الگ عنوان نہ تھا، بلکہ اس کے مسائل حدود، جنایات اور دیات کے مختلف عنوانوں میں تقسیم کر دیے جاتے تھے۔ دیوانی قانون کو بھی انہوں نے الگ مرتب نہیں کیا تھا بلکہ ایک ہی مجموعۂ قوانین میں بہت سے عنوانات کے تحت اس کو جمع کر دیا تھا۔ مالیات اور معاشیات وغیرہ نام ان کے ہاں نہ تھے۔ اس سلسلہ کے مسائل کو وہ کتاب البیوع، کتاب الصرف، کتاب المضاربہ اور کتاب المزارعہ وغیرہ عنوانات کے تحت بیان کرتے تھے۔ اسی طرح قانون شہادت، ضابطہ دیوانی ضابطہ فوجداری اور ضابطہ عدالت وغیرہ جدید اصطلاحیں ان کے ہاں نہیں بنی تھیں۔ ان قوانین کے مسائل ان کی کتابوں میں آداب القاضی، کتاب الدعویٰ کتاب الاکراہ، کتاب الشہادت اور کتاب الاقرار وغیرہ عنوانات کے تحت ملتے ہیں۔ اب اگر یہ کتابیں جُوں کی تُوں اُردو میں منتقل کرلی جائیں تو ان سے کماحقہ، فائدہ اٹھانا مشکل ہے۔ ضرورت ہے کہ کچھ قانونی نظر رکھنے والے اہل علم ان پر کام کریں اور ان کی ترتیب بدل کر ان کے مواد کو جدید طرز پر مرتب کر ڈالیں اور بالفرض اگر یہ بہت زیادہ محنت طلب کام نظر آئے تو کم از کم اتنا تو ضرور ہی ہونا چاہیے کہ ان کی فہرستیں پوری باریک بینی کے ساتھ بنائی جائیں اور مختلف قسم کے انڈکس بنا دیے جائیں جن کے ذریعہ سے ان میں مسائل کا تلاش کرنا آسان ہو جائے۔
۳۔ تدوین احکام
اس سلسلہ کادوسرا اہم کام یہ ہے کہ ذمہ دار علما اور ماہرین قانون کی ایک ایسی مجلس مقرر کی جائے جو اسلام کے قانونی احکام کو جدید دَور کی کتب قانون کے طرز پر دفعہ وار مدون Codifyکرے۔
میں اپنی پہلی تقریر میں وضاحت کے ساتھ یہ بات آپ سے عرض کر چکا ہوں کہ اسلامی نقطۂ نظر سے قانون کا اطلاق ہر اس قول پر نہیں ہوتا جو کسی فقیہ یا امام مجتہد کی زبان سے نکلا ہو یا کسی فقہی کتاب میں لکھا ہوا ہو۔ قانون صرف چار چیزوں کا نام ہے۔
۱۔ کوئی حکم جو قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دیا ہو۔
۲۔ کسی قرآنی حکم کی تشریح و تفصیل، یا کوئی مستقل حکم جو نبی a سے ثابت ہو۔
۳۔ کوئی استنباط، قیاس، اجتہاد یا استحسان جس پر اُمت کا اجماع ہو، یا جمہور علما کا ایسا فتوےٰ ہو جسے ہمارے ملک کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت تسلیم کرتی رہی ہے۔
۴۔ اسی قبیل کا کوئی ایسا امرجس پر ہمارے ملک کے اہل حل و عقد کا اب اجماع یا جمہوری فیصلہ ہو جائے۔
میری تجویز یہ ہے کہ پہلی تین قسموں کے احکام کو ماہرین کی ایک جماعت ایک مجلہ احکام Code کی شکل میں مرتب کر دے۔ پھر جو جو قوانین آئندہ اجماعی یا جمہوری فیصلوں سے بنتے جائیں ان کا اضافہ ہماری کتاب آئین میں کیا جاتا رہے۔ اگر اس قسم کا ایک مجلہ احکام بن جائے تو اصل قانون کی کتاب وہ ہوگی، اور باقی تمام فقہی کتابیں اس کے لیے شرح Commenty کا کام دیں گی۔ نیز اس طرح عدالتوں میں قانون اسلامی کی تنفیذ اور لا کالجوں میں اس قانون کی تعلیم بھی آسان ہو جائے گی۔
۴۔ قانونی تعلیم کی اصلاح
چوتھا ضروری کام یہ ہے کہ ہم اپنے ہاں قانون کی تعلیم کا سابق طریقہ بدل دیں اور اپنے لاکالجوں کے نصاب اور طریق تربیت میں ایسی اصلاحات کریں جن سے طلبہ اسلامی قانون کی تنفیذ کے لیے علمی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے تیار ہوسکیں۔
اس وقت تک جو تعلیم ہماری قانونی درسگاہوں میں دی جارہی ہے وہ ہمارے نقطہ نظر سے بالکل ناکارہ ہے۔ اس سے فارغ ہو کر نکلنے والے طالب علم صرف یہی نہیں کہ اسلامی قانون کے علم سے بے بہرہ ہوتے ہیں بلکہ ان کی ذہنیت بھی غیر اسامی افکار کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے اور ان کے اندر اخلاقی صفات بھی ویسی ہی پیدا ہو جاتی ہیں جو مغربی قوانین کے اجرا کے لیے موزوں ترین ، مگر قانون اسلامی نافذ کرنے کے لیے قطعاً غیر موزوں ہیں۔ اس صورتِ حال کو جب تک ہم بدل نہ دیں گے اور ان درسگاہوں میں اپنے معیار کے فقیہ پیدا کرنے کا انتظام نہ کریں گے، ہمارے ہاں وہ آدمی فراہم ہی نہ ہوسکیں گے جو ہماری عدالتوں میں قاضی اورمفتی کے فرائض انجام دینے کے لائق ہوں۔
اس مقصد کے لیے جو تجاویز میرے ذہن میں ہیں وہ میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ دوسرے اہل علم بھی ان پر غور کریں اور ان میں اصلاح و اضافہ فرمائیں تاکہ ایک اچھی قابل عمل اسکیم بن سکے۔
۱۔ سب سے مقدم اصلاح یہ ہونی چاہیے کہ آئندہ سے لا کالجوں میں داخلہ کے لیے عربی زبان کی واقفیت… اتنی واقفیت جو قرآن، حدیث اور فقہ کا مطالعہ کرنے کے لیے کافی ہو… لازم قرار دی جائے۔ اگرچہ ہم اسلامی قانون کی پوری تعلیم اُردو میں دینا چاہتے ہیں اور اس فن کی تمام ضروری کتابوں کو بھی ابردو میں منتقل کرلینا چاہتے ہیں، لیکن اس کے باوجود عربی زبان کے علم کی ضرورت پھر بھی باقی رہے گی۔ اس لیے کہ اسلامی فقہ میں بصیرت بہرحال اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتی جب تک آدمی اس زبان سے واقف نہ ہو جس میں قرآن نازل ہوا ہے اور جس میں رسول اللہ a نے کلام فرمایا ہے۔ بتداً ہمیں لا کالجوں کے لیے عربی دان امیدوار فراہم کرنے میں دشواری ضرور پیش آئے گی۔ ممکن ہے اس غرض کے لیے ہم کو چند سال تک ہر لا کالج میں ایک مستقل کلاس اس عربی تعلیم کے لیے کھولنی پڑیے اور شاید تعلیم قانون کی مدت میں ایک سال کا اضافہ بھی کر دینا پڑے۔ لیکن آگے چل کر جب ہمارے پورے نظام تعلیم میں عربی بطور ایک لازمی زبان کے شامل ہو جائے گی تو لا کالج میں داخلہ کے لیے جو گریجویٹ بھی آئیں گے وہ پہلے ہی عربی زبان سے بخوبی واقف ہوں گے۔
۲۔ عربی زبان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ قانون کی تعلیم شروع کرنے سے پہلے طلبہ کو قرآن اور حدیث کے براہِ راست مطالعہ سے دین کا مزاج اور اس کا پورانظام اچھی طرح سمجھا دیا جائے۔ ہماری عربی درس گاہوں میں بھی ایک مدت وراز سے یہ غلط طریقہ چلا آرہا ہے کہ تعلیم کی ابتدا فقہ سے کی جاتی ہے، پھر ہر مذہب و اسکول کے لوگ اپنے مخصوص فقہی نقطہ نظر سے حدیث پڑھاتے ہیں اور قرآن کی صرف ایک یا دو بڑی سورتیں محض تبرکاً داخل درس کر دی جاتی ہیں بلکہ ان میں بھی کلام الٰہی کی ادبی خوبیوں کے سوا کسی اور چیز کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہجو فضلا ان درسگاہوں سے نکلتے ہیں وہ قانون کے جزئیات و فروع سے تو خوب واقف ہوتے ہیں مگر جس دین کو قائم کرنے کے لیے یہ قانون بنایا گیا ہے اس کے مجموعی نظام، اس کے مقاصد اس کے مزاج اور اس کی روح سے بڑی حد تک نابلند رہتے ہیں۔ ان کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ دین سے شریعت کا اور شریعت سے فقہی مذاہب کا تعلق کیا ہے۔ وہ قانونی جزئیات اور اپنے مذاہب خاص کے فروعی مسائل ہی کو اصل دین سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اسی چیز نے ہمارے ہاں فرقہ بندی کے جھگڑے اور تعصبات پیدا کیے ہیں۔ اسی چیز کا نتیجہ یہ ہے کہ مسائل زندگی پر فقہی احکام کا انطباق کرنے میں بار بار شریعت کے اہم ترین مقاصد تک نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اب اس غلطی کی اصلاح ہو اور کسی طالب علم کو اس وقت تک قانون نہ پڑھایا جائے جب تک وہ پہلے قرآن اور پھر حدیث سے دین کو اچھی طرح نہ سمجھ لے۔
اس معاملہ میں بھی ہمیں ابتداً چند سال تک کچھ مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا کیونکہ قرآن و حدیث سے واقف ریجویٹ نہ مل سکیں گے اور اس کے لیے شاید ہمیں لا کالجوں ہی میں اس تعلیم کا بھی انتظام کرنا پڑے گا۔ لیکن آگے چل کر جب ہماری عام تعلیمی اصلاحات بار آور ہو جائیں گی تو آسانی کے ساتھ یہ ضابطہ بنایا جاسکے گا کہ لا کالجوں میں صرف وہی طلا داخلہ لے سکتے ہیں جو تفسیر اور حدیث کو مخصوص مضامین کی حیثیت سے لے کر بی اے کر چکے ہوں، ورنہ دوسرے مضامین کے طلبہ کو ایک سال زائد ان مضامین پر صرف کرنا ہوگا۔
۳۔ تعیم قانون کے نصاب میں تین مضامین ضرور شامل ہونے چاہئیں۔ ایک جدید زمانے کے اصولِ قانون Jurisprudence کے ساتھ ساتھ اصولِ فقہ کا مطالعہ۔ دوسرے اسلامی فقہ کی تاریخ کامطالعہ۔ تیسرے فقہ کے تمام بڑے بڑے مذاہب و اسکولوں کا غیر متعصبانہ مطالعہ۔ ان تینوں چیزوں کے بغیر طلبا میں نہ تو فقہ کا پورا فہم پیدا ہوسکتا ہے نہ ان کے اندر وہ اجتہادی صلاحیتیں اُبھر سکتی ہیں جو اعلیٰ درجہ کے قاضی اور مفتی بننے کے لیے ناگزیر ہیں اور نہ ان کے اندر سے ایسے ماہرین نکل سکتے ہیں جو ہماری ترقی پذیر ریاست کی روز افزوں ضروریات کے لیے تعبیر و قیاس اور اجتہاد و استحسان کے صحیح طریقے استعمال کرکے قوانین بنا سکیں۔ اپنے قانون کے اصولوں کو پوری طرح سمجھے بغیر آخر وہ روز نت نئے پیش آنے والے مسائل پر ان کا انطباق کیسے کرسکیں گے۔ اپنی فقہ کی تاریخ کو جانے بغیر انہیں کیونکہ معلوم ہوگا کہ اسلامی قانون کا ارتقا کس طریقہ پر ہوا ہے اور آئندہ کس طریقہ پر ہوسکتا ہے۔ فقہا اسلام کے جمع کیے ہوئے پورے ذخیرے پر وسیع نظر رکھے بغیر وہ کیونکر اس قابل ہوسکیں گے کہ جب کسی مسئلے میں ایک فقہی مذہب سے رہنمائی نہ ملتی ہو تو نیا جتہاد کرنے سے پہلے دوسرے مذاہب فقہ سے استفادہ کرلیں۔ انہی وجوہ سے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ہماری تعلیم قانون کے نصاب میں یہ تینوں مضامین داخل ہوں۔
۴۔ تعلیم کی اس اصلاح کے ساتھ ہمیں اپنے لا کالجوں میں طلبہ کی اخلاقی تربیت کا بھی خاص انتظام کرنا ہوگا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے لا کالج چالاک وکیل، نفس پرست مجسٹریٹ اور بدکردار جج تایر کرنے کی فیکٹری نہیں ہے بلکہ اس کاکام تو ایسے قاضی اور مفتی پیدا کرنا ہے جو اپنی قوم میں اپنی سیرت و کردار کے لحاظ سے بلند ترین لوگ ہوں، جن کی راست بازی اور عدل و انصاف پر کامل اعتماد کیا جاسکے، جن کی اخلاقی ساکھ ہر شبہ سے بالاتر ہو۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سب سے بڑھ کر خدا ترسی، پرہیزگاری اور احساس ذمہ داری کا دور دورہ ہونا چاہیے۔ یہاں سے نکلنے والے طلبہ کو اس سند کے لیے تیار ہونا ہے جس پر کبھی قاضی شریح، امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل اور قاضی ابو یوسف جیسے لوگ بیٹھ چکے ہیں۔ یہاں ایسے مضبوط کیریکٹر کے آدمی تیار ہونے چاہئیں جو کسی مسئلہ شرعی میں فتویٰ دیتے وقت یا کسی معاملہ کا فیصلہ کرتے وقت خدا کے سوا کسی کی طرف نظر نہ رکھیں۔ کوئی لالچ، کوئی خوف، کوئی ذاتی دلچسپی، کوئی محبت اور کوئی نفرت ان کو اس بات سے نہ ہٹا سکے جسے وہ اپنے علم اور اپنے ضمیر کے لحاظ سے حق اور انصاف کی بات سمجھتے ہوں۔
۵۔ عدالتی نظام کی اصلاح
اسلامی قانون کے اجرا کی خاطر زمین ہموار کرنے کے لیے ہمیں اپنے عدالتی نظام میں بھی بہت کچھ تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ اس سلسلہ کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات کو چھوڑ کر میں دو چیزوں کا خاص طور پر ذکر کروں گا جو اسلامی نقطۂ نظر سے بہت اہمیت رکھتی ہیں۔
۶۔پیشۂ وکالت کا انسداد
اولین اصلاح طلب معاملہ پیشہ وکالت کا ہے جو موجودہ عدالتی نظام کی بدترین خرابیوں میں سے ایک بلکہ شاید سب سے بدتر چیز ہے۔ اخلاقی اعتبار سے اس کے جواز میں ایک حرف نہیں کہا جاسکتا۔ عملی حیثیت سے عدالتی کام کی کوئی حقیقی ضرورت ایسی نہیں ہے جو اس کے بجائے کسی دوسرے مناسب طریقہ سے پوری نہ کی جاسکتی ہو۔ اور اسلام کے مزاج سے یہ پیشہ قانون بازی اس قدر بُعد رکھتا ہے کہ جب تک یہ پیشہ جاری ہے ہماری عدالتوں میں اسلامی قانون اپنی صحیح اسپرٹ کے ساتھ جاری ہی نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اگر کہیں خدائی قانون کے ساتھ یہاں وہ بازی گری کی گئی جو انسانی قانون کے ساتھ روز کی جارہی ہے تو عجب نہیں کہ ہم انصاف کے ساتھ ایمان بھی کھو بیٹھیں۔ لہٰذا یہ نہایت ضروری ہے کہ اس پیشہ کو بتدریج ختم کر دیا جائے۔
نظری حیثیت سے وکیل کاکام یہ ہے کہ وہ عدالت کو قانون سمجھنے اور مقدمہ زیر سماعت کے حالات پر اسے منطبق کرنے میں مدد دے۔ اصولاً یہ ضرورت اپنی جگہ مسلم ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ایک مقدمہ میں دو ماہرین قانون کی رائیں مختلف ہوسکتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ایک کی رائے میں ایک فریق کا مقدمہ مضبوط ہو تو دوسرے کی رائے میں دوسرے فریق کا اور عدالت کے لیے صحیح نتیجہ پر پہنچنے میں دونوں طرف کے دلائل سے مطلع ہونا یقینا مفید ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کی جو صورت طریقہ وکالت کی شکل میں اختیار کی گئی ہے، کیا فی الواقع اس سے یہ دونوں فائدے حاصل ہوتے ہیں؟ ایک وکیل اپنی قانونی مہارت کو لے کر بازار میں بیٹھ جاتا ہے اور تیار رہتا ہے کہ جس مقدمہ کا جو فریق بھی اس کے دماغ کا کرایہ ادا کرنے کے لیے تیار ہو اس کے حق میں وہ قانونی نکات سوچنا شروع کر دے۔ اس کو اس سے کوئی بحث نہیں ہوتی کہ میرا موکل حق پر ہے یا باطل پر، مجرم ہے یا بے گناہ، اپنا حق لینا چاہتا ہے یا دوسرے کا حق مار کھانا چاہتا ہے۔ اس کو اس سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ قانون کا منشا درحقیقت کیا ہے اور اس کی رو سے اس کے موکل کا مقدمہ صحیح ہے یا غلط۔ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ اس شخص نے مجھے فیس دی ہے اور میرا کام اس کی حمایت کرنا ہے۔ اس لیے وہ مقدمہ کو چھیل بنا کر قانون کے مطابق ڈھالتا ہے، کمزور پہلوئوں کو چھپاتا ہے، موافق پہلوئوں کو ابھارتا ہے، روداد مقدمہ اور شہادتوں میں سے چُن چُن کر صرف وہ چیزیں نکالتا ہے جو اس کے موکل کی تائید میں ہوں، گواہوں کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ مقدمہ کے صحیح واقعات… اگر وہ اس کے موکل کے خلاف پڑتے ہوں… روشنی میں نہ آسکیں یا کم از کم مشتبہ ہو جائیں، اور قانون کی صرف مفید مطلب تعبیریں پیش کرکے اور ان کے حق میں دلائل دے کر جج کو گمراہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کے قلم سے وہ فیصلہ نکلے جو اس کے موکل کے موافق ہو نہ کہ وہ جو تقاضائے انصاف ہو۔ اب خواہ کوئی حقیقی مجرم چھوٹ جائے یا کوئی واقعی بے گناہ پھنس جائے، کوئی حقدار بے حق ہو جائے یا غیر مستحق دوسرے کا حق مار کھائے، وکیل اس کی کچھ پروا نہیں کرتا۔ وہ حق کی حمایت کرنے اور انصاف کرانے کے لیے وکالت خانے میں نہیں بیٹھتا۔ اس کا مقصد ہوتا ہے روپیہ۔ جو اسے روپیہ دے وہی حق پر ہے خواہ وہ مقدمہ کا ایک فریق ہو یا دوسرا فریق… میں پوچھتا ہوں، کیا کسی اصول اخلاق کے لحاظ سے یہ پیشہ ورانہ قانون بازی جائز ٹھیرائی جاسکتی ہے؟ کیا کوئی صاحب ضمیر، خدا ترس اور ایمان دار آدمی محض فیس کی خاطر اتنی بڑی ذمہ داری اپنے سر لے سکتا ہے کہ مظلوم کو داد سے محروم کرانے اور ظالم کا ظلم برقرار رکھنے کی کوشش کرے؟ اور کیا فی الواقع ایسے ماہرین قانون کا مشورہ ججوں کو انصاف کے کام میں کچھ بھی مدد دے سکتا ہے جو علانیہ اس مقصد کے لیے فیس لیے بیٹھے ہوں کہ قانون کی تعبیر لازماً اپنے موکل ہی کے حق میں کریں گے؟ کیا کسی قانون مسئلہ میں ایک مقدمہ کے دو مخالف وکیلوں کا اختلاف رائے حقیقی ایماندارانہ اخلاف رائے ہوتا ہے، درآنحالیکہ یہی دونوں وکیل اتنے ہی زور کے ساتھ بالکل برعکس رائیں پیش کرتے اگر دونوں کے موکل بدلے ہوئے ہوتے؟
حقیقت یہ ہے کہ اس پیشۂ وکالت نے صرف ہمارے نظام عدل و انصاف کو سخت نقصان ہی نہیں پہنچایا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں کیا ہے کہ ہماری سوسائٹی میں قانون کی پیروی کے بجائے اس کی خلاف ورزی کو وسعت و طاقت بخشی ہو، بلکہ اس کا نقصان ہماری پوری اجتماعی زندگی میں پھیل گیا ہے اور ہماری سیاست بھی اسی کی وجہ سے گندی ہو کر رہ گئی ہے۔ زبان اور ضمیر کا تعلق منقطع کرنے کی مشق آپ کے کالجوں کی مجالس مباحثہ سے شروع ہوتی ہے۔ یہاں ایک بولنے والے کی اصل خوبی یہی سمجھی جاتی ہے کہ وہ مسئلہ زیر بحث کے دونوں پہلوئوں کی حمایت میں یکساں زور کے ساتھ بول سکے اور جس جانب سے بھی کھڑا ہو جائے دلائل کے انبار لگا دے خواہ اس کی ذاتی رائے اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ابتدائی مشق پیشہ وکالت میں داخل ہو کر خوب منجھتی اور پختہ ہوتی ہے۔ پھر جب ایک وکیل سالہا سال تک دل کے خلاف دماغ لڑانے اور ضمیر کے خلاف زبان چلانے میں ماہر کا مل ہوچکتا ہے، تب وہ اپنی اسی سیرت کو لیے ہوتے ہماری قومی زندگی Public Life میں داخل ہوتا ہے اور اپنے اس اخلاقی زہر کو ہمارے علمی، تمدنی اور سیاسی اداروں میں ہر طرف پھیلا دیتا ہے۔
اسلام اس پیشہ کو کسی طرح برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کے نظام میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہ اس کے مزاج اور اس کی روح اور اس کی روایات کے بالکل خلاف ہے۔ پچھلی دس بارہ صدیوں میں آدھی سے زیادہ دنیا پر مسلمانوں نے حکومت کی ہے اور کہیں اس کے نظامِ عدالت میں اس قانونی پیشے کا نشان ہمیں نہیں ملتا۔ اس کے بجائے ہماری ہاں مفتی کا منصب تھا اور اب ہمیں اسی کو تازہ کرنا چاہیے۔ قدم زمانے میں مفتی زیادہ تر اپنی روزی کسی آزاد کاروبار سے کماتے تھے اور لوگوں کو فتویٰ بلا معاوضہ دیا کرتے تھے۔ آج کی بڑھی ہوئی ضروریات کے مطابق ایک کافی تعداد میں ماہرین قانون… جن میں مخصوص شعبہائے قانون کے اختصاصی ماہرین بھی شامل ہوں… سرکاری طور پر مقرر کر دیے جائیں اور ان کو پبلک کے خزانے سے معقول تنخواہیں دی جائیں۔ اس کے پاس فریقین کا جانا اور ان کی کچھ ’’خدمت‘‘ کرنا قانوناً ممنوع ہو اور اسی طرح حکومت کو بھی ان کی رائے پر اثر ڈالنے کا کوئی حق نہ ہو جس طرح حاکمانِ عدالت پر دبائو ڈالنے کا اسے حق نہیں ہے۔ عدالتیں خود حسب موقع ان ماہرین کے پاس مقدمات کی رُوداد بھیجا کریں اور ان سے رائے لے لیں۔ اگر ان کے درمیان اختلاف رائے ہو تو وہ عدالت میں آکر اپنے استدلال پیش کری۔ مقدمہ کے واقعات کی تحقیق کے لیے عدالت خود بھی گواہوں پر جرح کرے اور مفتیوں کو بھی موقع دیا جائے کہ وہ گواہوں سے تمام ایسے حالات معلوم کریں جن کا مقدمہ پر اثر پڑتا ہو۔ اس طرح عدالتوں کو قانون سمجھنے اور مقدمات پر اس کو منطبق کرنے میں حقیقی مدد ملے گی، مفتیوں کا سچا اختلاف رائے بہت سے قانونی مسائل کو صاف کرے گا، عدالتوں کا بہت سا وقت، جو بنے ہوئے مقدمات اور مصنوعی شہادتوں کی وجہ سے اب ضائع ہوا کرتا ہے، بچ جائے گا اور مقدمہ بازی، جس کی ساری گرم بازاری اس قانونی پیشے ہی کی بدولت ہے، ہمارے معاشرے سے رخصت ہو جائے گی۔
رہا یہ سوال کہ اگر مقدمات کو ضابطہ کے مطابق تیار کرکے عدالتوں کے سامنے پیش کرنے والے صاحبِ فن لوگ موجود نہ ہوں تو اہل مقدمات کو بڑی پریشانیاں لاحق ہوں گی اور وہ طرح طرح کے بے ضابطہ طریقوں سے اپنے معاملات پیش کرکرکے عدالتوں کو بھی پریشان کریں گے تو اس کا حل یہ ہے کہ ہم اس کے لیے مختاری کے اس پرانے طریقہ کو زندہ کریں جو ہماری عدالتوں میں پہلے رائج تھا۔ ہمارے لا کالجوں کے ساتھ ایسی ضمنی کلاسیں بھی ہونی چاہییں جن میں متوسط درجہ کے تعلیم یافتہ لوگوں کو صرف قانون ضابطہ Procedural Law پڑھایا جائے اور عملاً عدالتی طریق کار سے واقف کرا دیا جائے۔ ان لوگوں کاکام محض یہ ہونا چاہیے کہ ایک مقدمہ کو ضابطہ کی صورت دے کر عدالت کے سامنے پیش کرنے کے قابل بنا دیں اور مختلف مراحل پر اہل مقدمات کو عدالتی طریق کار بتاتے رہیں۔ یہ لوگ اگر فیس لے کر پریکٹس کریں تو اس سے وہ خرابیاں رونما نہیں ہوسکتیں جو پیشہ وکالت سے رونما ہوتی ہیں۔
۷۔ کورٹ فیس کا انسداد
ملک کے نظام عدل و انصاف کو اسلامی معیار پر لانے کے لیے ایک اور ضروری اصلاح یہ ہے کہ ہم اپنے ہاں سے کورٹ فیس بالکل اڑا دیں۔ یہ ایک ایسی گھنائونی بدعت ہے جس سے ہم مسلمان مغربی تسلط سے پہلے کبھی آشنا نہیں ہوئے تھے۔ اسلامی مذاق پر یہ تصور ہی سخت گراں ہے کہ عدالت داد رسی کی خدمت انجام دینے کے بجائے انصاف کی دکان بن کر رہے جہاں سے کوئی شخص پیسہ دیے بغیر جنس عدل حاصل نہ کرسکتا ہو اور جہاں بے زر انسان کے لیے یہی مقدر ہو کہ ظلم سہے اور داد نہ پائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ انگریزی دَور کے اتھ اس کی یہ یادگار بھی رخصت ہو اور ہماری عدالتیں پھر سے اس اسلامی معیار پر قائم ہو جائیں جس کی رُو سے انصاف رسانی ایک تجارتی کاروبار نہیں بلکہ ایک عادت اور ایک خدمت بے مزد ہے۔
آپ سوال کرسکتے ہیں کہ اگر کورٹ فیس اڑا دی جائے تو آخر عدالتی نظام کے مصارف کہاں سے پورے ہوں گے؟ میں اس کے جواب میں دو باتیں عرض کروں گا۔
ایک یہ کہ اسلامی نظام میں اتنے لمبے چوڑے عدالتی عملے کی ضرورت باقی نہ رہے گی جسے موجودہ حالات نے ناگزیر بنا رکھا ہے۔ پیشہ وکالت کا انسداد مقدمہ بازی کو بہت کم کر دے گا اور مقدمات کا دوران بھی آ جکل کی بہ نسبت بہت گھٹ جائے گا۔ پھر خلاق، معاشرت اور معیشت کی اصلاح بھی مقدمہ بازی کو گھٹانے میں بہت کچھ مدد گار ہوگی۔ پولیس اور جیل کے کارکنوں کی تربیت اورطریق کار کی اصلاح سے بھی جرائم کی تعداد میں بہت کمی واقع ہو جائے گی۔{ غالباً یہاں یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک مرتبہ کوفہ کے چیف جج حضرت سلیمان بن ربیعہ باہلی اپنی عدالت میں مسلسل چالیس دن ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹے رہے، صرف اس لیے کہ ان کے پاس سرے سے کوئی مقدمہ آیا ہی نہیں (الاستیعاب جلد ۲ص۵۸)
اس سے بھی زیادہ عجیب واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانۂ خلافت میں جب کہ حضرت عمرؓ مدینہ کے قاضی تھے، پورا ایک سال ایسا گزر گیا کہ ایک مقدمہ بھی ان کے سامنے فیصہل کے لیے پیش نہ ہوا۔ (الصدیق ابوبکر، تالیف محمد حسین ہیکل پاشا ص۲۱۰)
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر صحیح طورپر اسلام کی اصلاح اسکیم کو معاشرے میں جاری کیا جائے تو مقدمہ بازی کس قدر کم ہو جاتی ہے۔} اس طرح ہمیں اپنے نظامِ عدالت کے لیے اتنے ججوں اور مجسریٹوں اور دفتری کارکنوں کی حاجت نہ رہے گی جتنے اب درکار ہوتے ہیں اور اسی نسبت سے عدالتوں کے دوسرے مصارف بھی کم ہو جائیں گے۔ علاوہ بریں اسلامی نظام میں تنخواہوں کا معیار بھی وہ نہ ہوگا جو اَب ہے۔
دوسرے یہ کہ ان تخفیفات کے بعد عدالتی نظام کے مصارف کا جو ہلکا بوجھ ہمارے خزانے پر باقی رہ جائے گا اس کو ہم ہر داد خواہ پر ڈالنے کے بجائے ان لوگوں پر ڈالیں گے جو عدالتوں سے بیجا استفادہ کی کوشش کریں، یا جن کی عدالتوں کی خدمات سے غیر معمولی فائدہ پہنچتا ہو۔ مثلاً جھوٹے مقدمات دائر کرنے والوں، جھوٹی شہادتیں دینے والوں اور عدالت کے سمنوں کی تعمیل سے گریز کرنے والوں پر جرمانے کیے جائیں۔ مجرموں پر جو جرمانے کیے جاتے ہیں وہ بھی اسی مد میں شمار ہوں۔ اور ایک خاص مالیت سے زیادہ کی ڈگری جن لوگوں کوملے ان پر ایک خاص شرح سے ٹیکس لگا دیا جائے۔ اس قسم کی تدابیر کے باوجود اگر محکمہ انصاف کے بجٹ میں کوئی خسارہ ہے تو اسے خزانہ عامرہ سے پورا کیا جانا چاہیے، کیونکہ خلق کے درمیان انصاف کرنا ایک نظامِ حکومت کے بنیادی فرائض میں سے ہے۔
خاتمۂ کلام
یہ چند تجاویز ہیں جو میرے نزدیک اس ملک میں اسلامی قانون کے اجرا و نفاذ کو ممکن بنانے کے لیے روبعمل آنی چاہئیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اہل علم اصحاب اور وہ لوگ جو عدالت و قانون کے معاملات کا عملی تجربہ رکھتے ہیں، ان پر غور فرمائیں اور انہیں مکمل کرنے کی کوشش کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری ان گزارشات سے وہ حضرات بھی ایک حد تک مطمئن ہوگئے ہوں گے جو اسلامی قانون کے نفاذ کو اب ممکن ہی نہیں سمجھتے۔ انہیں معلوم ہوگیا ہوگا کہ یہ کام کس طرح ہوسکتا ہے اور اس کی عملی تدابیر کیا ہیں۔ لیکن جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں، دنیا میں کسی چیز کی تعمیر بھی بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ اس کو جاننے والے اور اس کی خواہش اور ارادہ رکھنے والے معمار موجود ہوں اور اس کی تعمیر کے لیے ضروری وسائل و ذرائع ان کے ہاتھ میں ہوں۔ یہ دونوں چیزیں جہاں بہم پہنچ جائیں وہاں سب کچھ بن سکتا ہے۔ خواہ مسجد ہو یا شوالہ۔
زبان: اُردو
صفحات: 58
اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، منصورہ ملتان روڈ، لاہور۔