ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔
عرضِ ناشر
ایک عرصہ سے ایک ایسی کتاب کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی جس میں اِسلامی نظام کے جملہ پہلوئوں پر مختصر مگر جامع طور پر روشنی ڈالی گئی ہو اور جو ایک عام آدمی کو ذہنی اور فکری طور پر اِسلام پر مطمئن کر دے۔ چنانچہ اسی مقصد کے پیش نظر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے مشورہ سے یہ کتاب شائع کی گئی ہے۔ اس میں مولانا محترم کے اُن تمام مضامین اور تقاریر کو یک جا جمع کر دیا گیاہے جو ’’اِسلامی نظامِ زندگی‘‘ کی فکری بنیادوں سے بحث کرتے ہیں۔ یہ کتاب مندرجہ ذیل مباحث پر مشتمل ہے:
۱۔ توحید و رسالت اور زندگی بعد موت کا عقلی ثبوت
۲۔ سلامتی کا راستہ
۳۔ اِسلام اور جاہلیت
۴۔ دینِ حق
۵۔ اِسلام کا اخلاقی نقطہ نظر
۶۔ تحریکِ اِسلامی کی اخلاقی بنیادیں
۷۔ بنائو اور بگاڑ
۸۔ جہاد فی سبیل اللہ
۹۔ شہادتِ حق
۱۰۔ مسلمانوں کا ماضی، حال اور مستقبل
۱۱۔ اِسلام کا نظامِ حیات
اس مجموعے میں آپ کو ہستی ٔباری تعالیٰ، توحید، رسالت اور آخرت کے برحق ہونے پر ایسے دلائل ملیں گے جو جدید ذہن کو اپیل کریں اور دل میں اتر جائیں۔ نہایت مضبوط عقلی دلائل سے اِسلام کا ’’دینِ حق‘‘ ہونا ثابت کیا گیا ہے۔ اس میں اِسلام کا فلسفۂ اخلاق، فلسفۂ تاریخ اور نظریۂ جہاد بڑے دل نشیں انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ اِسلام کے نظامِ زندگی کا ایک جامع اورمختصر نقشہ بھی پیش کر دیا ہے تاکہ ایک نظر میں اُس نظام کا ایک جامع تصوّر سامنے آ جائے جو اِسلام برپا کرنا چاہتا ہے۔
یہ مضامین پہلے بھی پمفلٹوں کی شکل میں بڑی تعداد میں شائع ہو چکے ہیں اور اندرون و بیرونِ ملک میں قبول عام حاصل کر چکے ہیں۔ انھیں یک جا شائع کرنے سے ان کی افادیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس مجموعہ میں اِسلامی نظام زندگی کو روشناس کرانے اور اس کی طرف مائل کرنے کے لیے ایک بڑا سرمایہ علم وعمل ملے گا۔ مُفکّرِ اسلام مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا نام ہی اس بات کی کافی ضمانت ہے کہ یہ کتاب مستند اور محقق ہے۔ اس مجموعہ کی معنوی خوبیوں کے شایانِ شان ہم نے اسے آفسٹ کی حسین کتابت وطباعت کے ساتھ شائع کیا ہے تاکہ قلب ودماغ کے ساتھ نگاہ ونظر بھی پوری طرح مسرور و محظوظ ہو۔
ان مضامین کو علیحدہ علیحدہ پمفلٹوں کی شکل میں بھی شائع کیا گیا ہے تاکہ جو حضرات تبلیغی اغراض کے لیے انھیں بڑے پیمانے میں پھیلانا چاہیں، انھیں سہولت ہو۔
منیجنگ ڈائریکٹر
اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ لاہور
٭…٭…٭…٭…٭
توحید ورسالت اور زندگی بعد موت کا عقلی ثبوت
عقل کا فیصلہ
بڑے بڑے شہروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ سیکڑوں کارخانے بجلی کی قوت سے چل رہے ہیں۔ ریلیں اور ٹرام گاڑیاں رواں دواں ہیں، شام کے وقت دفعتاً ہزاروں قمقمے روشن ہو جاتے ہیں۔ گرمی کے زمانے میں گھر گھر پنکھے چلتے ہیں مگر ان واقعات سے نہ تو ہمارے اندر حیرت واستعجاب کی کوئی کیفیت پیداہوتی ہے اور نہ ان چیزوں کے روشن یا متحرک ہونے کی عِلّت میں کسی قسم کا اختلاف ہمارے درمیان واقع ہوتا ہے۔ یہ کیوں؟ اس لیے کہ ان قمقموں کا تعلق جس بجلی گھر سے ہے اس کا حال بھی ہم کو معلوم ہے۔ اس بجلی گھر میں جو لوگ کام کرتے ہیں ان کے وجود کا ہمیں علم ہے۔ ان کام کرنے والوں پر جو انجنیئرنگرانی کر رہا ہے، اس کو بھی ہم جانتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ انجنیئربجلی بنانے کے کام سے واقف ہے،اس کے پاس بہت سی کلیں ہیں اور ان کلوں کو حرکت دے کر وہ اس قوت کو پیدا کر رہا ہے جس کے جلوے ہمیں قمقموں کی روشنی، پنکھوں کی گردش، ریلوں اور ٹرام گاڑیوں کی سیر، چکیوں اور کارخانوں کی حرکت میں نظر آتے ہیں۔ پس بجلی کے آثار کو دیکھ کر اس کے اسباب کے متعلق ہمارے درمیان اختلاف رائے واقع نہ ہونے کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان اسباب کا پورا سلسلہ ہمارے محسوسات میں داخل ہے، اور ہم اس کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔
فرض کیجیے کہ یہی قمقمے روشن ہوتے، اسی طرح پنکھے گردش کرتے، یوں ہی ریلیں اور ٹرام گاڑیاں چلتیں، چکیاں اور مشینیں حرکت کرتیں، مگر وہ تارجن سے بجلی ان میں پہنچتی ہے ہماری نظروں سے پوشیدہ ہوتے، بجلی گھر بھی ہمارے محسوسات کے دائرے سے خارج ہوتا، بجلی گھر میں کام کرنے والوں کا بھی ہمیں کچھ علم نہ ہوتا اور یہ بھی معلوم نہ ہوتا کہ اس کارخانے کا کوئی انجنیئر ہے جو اپنے علم اور اپنی قدرت سے اسے چلا رہا ہے۔ کیا اس وقت بھی بجلی کے ان آثار کو دیکھ کر ہمارے دل ایسے ہی مطمئن ہوتے؟ کیا اس وقت بھی ہم اسی طرح ان مظاہر کی علّتوں میں اختلاف کرتے؟ ظاہر ہے کہ آپ اس کا جواب نفی میں دیں گے۔ کیوں؟ اس لیے کہ جب آثار کے اسباب پوشیدہ ہوں اور مظاہر کی علتیں غیر معلوم ہوں تو دلوں میں حیرت کے ساتھ بے اطمینانی کا پیدا ہونا، دماغوں کا اس رازِ سربستہ کی جستجو میں لگ جانا، اور اس راز کے متعلق قیاسات وآراکا مختلف ہونا ایک فطری بات ہے۔
اب اس مفروضے پر سلسلۂ کلام کو آگے بڑھائیے ۔ مان لیجیے کہ یہ جو کچھ فرض کیا گیا ہے درحقیقت عالمِ واقعہ میں موجود ہے۔ ہزاروں، لاکھوں قمقمے روشن ہیں، لاکھوں پنکھے چل رہے ہیں، گاڑیاں دوڑ رہی ہیں، کارخانے حرکت کر رہے ہیں اور ہمارے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان میں کون سی قوت کام کر رہی ہے اور وہ کہاں سے آتی ہے۔ لوگ ان مظاہرو آثار کو دیکھ کرحیران وششدر ہیں۔ ہر شخص ان کے اسباب کی جستجو میں عقل کے گھوڑے دوڑا رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ سب چیزیں آپ سے آپ روشن یا متحرک ہیں‘ ان کے اپنے وجود سے خارج کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو انھیں روشنی یا حرکت بخشنے والی ہو، کوئی کہتا ہے کہ یہ چیزیں جن مادوں سے بنی ہوئی ہیں‘ انھی کی ترکیب نے ان کے اندر روشنی اور حرکت کی کیفیتیں پیدا کر دی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اس عالم مادہ سے ماوراچند دیوتا ہیں جن میں سے کوئی قمقمے روشن کرتا ہے، کوئی ٹرام اور ریلیں چلاتا ہے ، کوئی پنکھوں کو گردش دیتا ہے اور کوئی کارخانوں اور چکیوں کا محرک ہے۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو سوچتے سوچتے تھک گئے ہیں اور آخر میں عاجز ہو کر کہنے لگے ہیں کہ ہماری عقل اس طلسم کی کُنہ تک نہیں پہنچ سکتی۔ ہم صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ ہماری سمجھ میں نہیں آتا اور جو کچھ ہماری سمجھ میں نہ آئے اس کی نہ ہم تصدیق کر سکتے ہیں نہ تکذیب۔
یہ سب گروہ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں مگر اپنے خیال کی تائید اور دوسرے خیالات کی تکذیب کے لیے ان میں سے کسی کے پاس بھی قیاس اور ظن وتخمین کے سوا کوئی ذریعۂ علم نہیں ہے۔
اس دوران میں کہ یہ اختلافات برپا ہیں‘ ایک شخص آتا ہے اورکہتا ہے کہ بھائیو! میرے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو تمھارے پاس نہیں ہے اس ذریعے سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان سب قمقموں، پنکھوں، گاڑیوں، کارخانوں اور چکیوں کا تعلق چند مخفی تاروں سے ہے جنھیں تم محسوس نہیں کرتے۔ ان تاروں میں ایک بہت بڑے بجلی گھر سے وہ قوت آتی ہے جس کا ظہور روشنی اور حرکت کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس بجلی گھر میں بڑی بڑی عظیم الشان کلیں ہیں جنھیں بے شمار اشخاص چلا رہے ہیں۔ یہ سب اشخاص ایک بڑے انجنیئر کے تابع ہیں، اور وہی انجنیئر ہے جس کے علم اور قدرت نے اس پورے نظام کو قائم کیا ہے۔ اسی کی ہدایت اور نگرانی میں یہ سب کام ہو رہے ہیں۔
یہ شخص پوری قوت سے اپنے اس دعوے کو پیش کرتا ہے۔ لوگ اسے جھٹلاتے ہیں، سب گروہ مل کر اس کی مخالفت کرتے ہیں، اسے دیوانہ قرار دیتے ہیں، اسے مارتے ہیں، تکلیفیں دیتے ہیں، گھر سے نکال دیتے ہیں مگر وہ ان سب روحانی اور جسمانی مصیبتوں کے باوجود اپنے دعوے پر قائم رہتا ہے۔ کسی خوف یا لالچ سے اپنے قول میں ذرہ برابر ترمیم نہیں کرتا۔ کسی مصیبت سے اس کے دعوے میں کم زوری نہیں آتی۔ اس کی ہر ہر بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے اپنے قول کی صداقت پر کامل یقین ہے۔
اس کے بعد ایک دُوسرا شخص آتا ہے اور وہ بھی بجنسہٖ یہی قول اسی دعوے کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ پھر تیسرا، پھر چوتھا، پانچوں آتا ہے اور وہی بات کہتا ہے جو اس کے پیش روئوں نے کہی تھی۔ اس کے بعد آنے والوں کا ایک تانتا بندھ جاتا ہے یہاں تک کہ ان کی تعداد سیکڑوں اور ہزاروں سے متجاوز ہو جاتی ہے، اور یہ سب اسی ایک قول کو اسی ایک دعوے کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ زمان ومکان اور حالات کے اختلافات کے باوجود ان کے قول میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ سب کہتے ہیں کہ ہمارے پاس علم کا ایسا ذریعہ ہے جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ سب کو دیوانہ قرار دیا جاتا ہے۔ ہر طرح کے ظلم وستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ ہر طریقے سے انھیں مجبور کیا جاتا ہے کہ اپنے قول سے باز آ جائیں مگر سب کے سب اپنی بات پر قائم رہتے ہیں اور دُنیا کی کوئی قوت انھیں اپنے مقام سے ایک انچ نہیں ہٹا سکتی۔ اس عزم واستقامت کے ساتھ ان لوگوں کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ ان میں سے کوئی جھوٹا، چور، خائن، بدکار، ظالم اور حرام خور نہیں ہے۔ ان کے دشمنوں اور مخالفوں کو بھی اس کا اعتراف ہے۔ ان سب کے اَخلاق پاکیزہ ہیں۔ سیرتیں انتہا درجے کی نیک ہیں اور حسنِ خلق میں یہ اپنے دوسرے ابنائے نوع سے ممتاز ہیں۔ پھر ان کے اندر جنون کا بھی کوئی اثر نہیں پایا جاتا بلکہ اس کے برعکس وہ تہذیبِ اَخلاق، تزکیۂ نفس اور دنیوی معاملات کی اصلاح کے لیے ایسی ایسی تعلیمات پیش کرتے اور ایسے ایسے قوانین بناتے ہیں جن کے مثل بنانا تو درکنار بڑے بڑے علما وعقلا کو ان کی باریکیاں سمجھنے میں پوری پوری عمریں صَرف کر دینا پڑتی ہیں۔
ایک طرف وہ مختلف الخیال مکذّبین ہیں اور دوسری طرف یہ متحد الخیال مدعی۔دونوں کا معاملہ عقلِ سلیم کی عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ جج کی حیثیت سے عقل کا فرض ہے کہ پہلے اپنی پوزیشن کو خوب سمجھ لے پھر فریقین کی پوزیشن کو سمجھے، اور دونوں کا موازنہ کرنے کے بعد فیصلہ کرے کہ کس کی بات قابلِ ترجیح ہے۔
جج کی اپنی پوزیشن یہ ہے کہ خود اس کے پاس امرِ واقعی کو معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ وہ خود حقیقت کا علم نہیں رکھتا۔ اس کے سامنے صرف فریقین کے بیانات، ان کے دلائل، اُن کے ذاتی حالات اور خارجی آثار وقرائن ہیں۔ انھی پر تحقیق کی نظر ڈال کر اُسے فیصلہ کرنا ہے کہ کس کا برحق ہونا اغلب ہے۔ مگر اغلبیّت سے بڑھ کر بھی وہ کوئی حکم نہیں لگا سکتا، کیوں کہ مِسل پر جو کچھ مواد ہے اس کی بِنا پر یہ کہنا اس کے لیے مشکل ہے کہ امرِ واقعی کیا ہے۔ وہ فریقین میں سے ایک کو ترجیح دے سکتا ہے لیکن قطعیّت اور یقین کے ساتھ کسی کی تصدیق یا تکذیب نہیں کر سکتا۔
مکذّبین کی پوزیشن یہ ہے:
۱۔ حقیقت کے متعلق ان کے نظریے مختلف ہیں اور کسی ایک نکتے میں بھی ان کے درمیان اتفاق نہیں ہے، حتّٰی کہ ایک ہی گروہ کے افراد میں بسا اوقات اختلاف پایا گیا ہے۔
۲۔ وہ خود اقرار کرتے ہیں کہ ان کے پاس علم کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو دوسروں کے پاس نہ ہو۔ ان میں سے کوئی گروہ اس سے زیادہ کسی چیز کا مدعی نہیں ہے کہ ہمارے قیاسات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ وزنی ہیں مگر اپنے قیاسات کا قیاسات ہونا سب کو تسلیم ہے۔
۳۔ اپنے قیاسات پر ان کا اعتقاد، ایمان ویقین اور غیر متزلزل وثوق کی حد تک نہیں پہنچا ہے۔ ان میں کا ایک شخص کل تک جس نظریے کو پورے زور کے ساتھ پیش کر رہا تھا، آج خود اسی نے اپنے پچھلے نظریے کی تردید کر دی اور ایک دوسرا نظریہ پیش کر دیا۔ عمر، عقل، علم اور تجربے کی ترقی کے ساتھ ساتھ اکثر ان کے نظریات بدلتے رہتے ہیں۔
۴۔ مدعیوں کی تکذیب کے لیے ان کے پاس بجز اس کے اور کوئی دلیل نہیں ہے کہ انھوں نے اپنی صداقت کا کوئی یقینی ثبوت نہیں پیش کیا۔ انھوں نے وہ مخفی تار ہمیں نہیں دکھائے جن کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ قمقموں اور پنکھوں وغیرہ کا تعلق انھی سے ہے، نہ انھوں نے بجلی کا وجود تجربے اور مشاہدے سے ثابت کیا، نہ بجلی گھر کی ہمیں سیر کرائی، نہ اس کی کلوں اور مشینوں کا معائنہ کرایا، نہ اس کے کارندوں میں سے کسی سے ہماری ملاقات کرائی، نہ کبھی انجنیئر سے ہمیں ملایا،پھر ہم یہ کیسے مان لیں کہ یہ سب کچھ حقائق ہیں؟
مدعیوں کی پوزیشن یہ ہے :
۱۔ وہ سب آپس میں متفق القول ہیں، دعوے کے جتنے بنیادی نکات ہیں ان سب میں ان کے درمیان کامل اتفاق ہے۔
۲۔ ان سب کا متفقہ دعویٰ یہ ہے کہ ہمارے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے جوعام لوگوں کے پاس نہیں ہے۔
۳۔ ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم اپنے قیاس یا گمان کی بنا پر ایسا کہتے ہیں بلکہ سب نے بالاتفاق کہا ہے کہ انجنیئر سے ہمارے خاص تعلقات ہیں۔ اس کے کارندے ہمارے پاس آتے ہیں، اس نے اپنے کارخانے کی سیر بھی ہمیں کرائی ہے، اور ہم جو کچھ کہتے ہیں علم ویقین کی بنا پر کہتے ہیں۔ ظن وتخمین کی بنا پر نہیں کہتے۔
۴۔ ان میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی نے اپنے بیان میں ذرّہ برابر بھی تغیرو تبدّل کیا ہو۔ ایک ہی بات ہے جو ان میں کا ہر شخص دعوے کے آغاز سے زندگی کے آخری سانس تک کہتا رہا ہے۔
۵۔ ان کی سیرتیں انتہا درجے کی پاکیزہ ہیں، جھوٹ، فریب، مکاری، دغا بازی کا کہیں شائبہ تک نہیں ہے اورکوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ جو لوگ زندگی کے تمام معاملات میں سچے اور کھرے ہیں، وہ خاص اسی معاملے میں بالاتفاق کیوں جھوٹ بولیں۔
۶۔ اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ دعوٰی پیش کرنے سے ان کے پیشِ نظر کوئی ذاتی فائدہ تھا۔ برعکس اس کے یہ ثابت ہے کہ ان میں سے اکثروبیش ترنے اس دعوے کی خاطر سخت مصائب برداشت کیے ہیں۔ جسمانی تکلیفیں سہیں، قید کیے گئے، مارے اور پیٹے گئے، جلا وطن کیے گئے، بعض قتل کر دیے گئے، حتیٰ کہ بعض کو آرے سے چیر ڈالا گیا، اور چند کے سوا کسی کو بھی خوش حالی اور فارغ البالی کی زندگی میسر نہ ہوئی، لہٰذا کسی ذاتی غرض کا الزام ان پرنہیں لگایا جا سکتا بلکہ ان کا ایسے حالات میں اپنے دعوے پر قائم رہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ انھیں اپنی صداقت پر انتہا درجے کا یقین تھا۔ ایسا یقین کہ اپنی جان بچانے کے لیے بھی ان میں سے کوئی اپنے دعوے سے باز نہ آیا۔
۷۔ ان کے متعلق مجنون یا فاتر العقل ہونے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ زندگی کے تمام معاملات میں وہ سب کے سب غایت درجے کے دانش مند اور سلیم العقل پائے گئے ہیں۔ ان کے مخالفین نے بھی اکثر ان کی دانش مندی کا لوہا مانا ہے۔ پھر یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ ان سب کو اسی خاص معاملے میں جنون لاحق ہو گیا ہو؟ اور وہ معاملہ بھی کیسا؟ جو اُن کے لیے زندگی اور موت کا سوال بن گیا ہو۔ جس کے لیے انھوں نے دُنیا بھر کا مقابلہ کیا ہو، جس کی خاطر وہ سال ہا سال دُنیا سے لڑتے رہے ہوں، جو اُن کی ساری عاقلانہ تعلیمات کا (جن کے عاقلانہ ہونے کا بہت سے مکذّبین کو بھی اعتراف ہے) اصل الاصول ہو۔
۸۔ انھوں نے خود بھی یہ نہیں کہا کہ ہم انجنیئر یا اس کے کارندوں سے تمھاری ملاقات کرا سکتے ہیں، یا اس کا مخفی کارخانہ تمھیں دکھا سکتے ہیں، یا تجربے اور مشاہدے سے اپنے دعوے کو ثابت کر سکتے ہیں۔ وہ خود ان تمام امور کو ’’غیب‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ہم پر اعتماد کرو اور جو کچھ ہم بتاتے ہیں اسے مان لو۔
فریقین کی پوزیشن اور ان کے بیانات پر غور کرنے کے بعد اب عقل کی عدالت اپنا فیصلہ کرتی ہے:
وہ کہتی ہے کہ چند مظاہر وآثار کو دیکھ کر ان کے باطنی اسباب وعلل کی جستجو دونوں فریقوں نے کی ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ بادی النظرمیں سب کے نظریات اس لحاظ سے یکساں ہیں کہ اوّلًا ان میں سے کسی میں استحالۂ عقلی نہیں ہے، یعنی قوانینِ عقلی کے لحاظ سے کسی نظریے کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا صحیح ہونا غیر ممکن ہے۔ ثانیاً ان میں سے کسی کی صحت، تجربے یا مشاہدے سے ثابت نہیں کی جا سکتی۔ نہ فریقِ اوّل میں سے کوئی گروہ اپنے نظریات کا ایسا سائنٹفک ثبوت دے سکتا ہے جو ہر شخص کو یقین کرنے پر مجبور کرے اور نہ فریقِ ثانی اس پر قادر یا اس کا مدعی ہے۔ لیکن مزید غور وتحقیق کے بعد چند امور ایسے نظر آتے ہیں جن کی بنا پر تمام نظریات میں سے فریقِ ِثانی کا نظریہ قابلِ ترجیح قرار پاتا ہے۔
اوّلاً، کسی دوسرے نظریے کی تائید اتنے کثیر التعداد عاقل، پاک سیرت، صادق القول آدمیوں نے متفق ہو کر اتنی قوت اور اتنے یقین وایمان کے ساتھ نہیں کی ہے۔
ثانیاً، ایسے پاکیزہ کریکٹر اور اتنے کثیر التعداد لوگوں کا مختلف زمانوں اور مختلف مقامات میں اس دعوے پر متفق ہو جانا کہ ان سب کے پاس ایک غیر معمولی ذریعۂ علم ہے، اور ان سب نے اس ذریعے سے خارجی مظاہر کے باطنی اسباب کو معلوم کیا ہے، ہمیں اس دعوے کی تصدیق پر مائل کر دیتا ہے۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ اپنی معلومات کے متعلق ان کے بیانات میں کوئی اختلاف نہیں ہے، جو معلومات انھوں نے بیان کی ہیں ان میں کوئی استحالۂ عقلی بھی نہیں ہے اور نہ یہ بات قوانینِ عقلی کی بنا پر محال قرار دی جا سکتی ہے کہ بعض انسانوں میں کچھ ایسی غیر معمولی قوتیں ہوں جو عام طور پر دوسرے انسانوں میں نہ پائی جاتی ہوں۔
ثالثاً، خارجی مظاہر کی حالت پر غور کرنے سے اغلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ فریق ِ ثانی کا نظریہ صحیح ہو۔ اس لیے کہ قمقمے، پنکھے، گاڑیاں، کارخانے وغیرہ نہ تو آپ سے آپ روشن اورمتحرک ہیں، کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو ان کا روشن اور متحرک ہونا ان کے اپنے اختیار میں ہوتا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ نہ اُن کی روشنی وحرکت ان کے مادّۂ جسمی کی ترکیب کا نتیجہ ہے۔ کیوں کہ جب وہ متحرک اور روشن نہیں ہوتے، اس وقت بھی یہی ترکیب جسمی موجود رہتی ہے۔ نہ ان کا الگ الگ قوتوں کے زیرِ اثر ہونا صحیح معلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ بسا اوقات جب قمقموں میں روشنی نہیں ہوتی تو پنکھے بھی بند ہوتے ہیں، ٹرام کاریں بھی موقوف ہو جاتی ہیں اور کارخانے بھی نہیں چلتے۔ لہٰذا خارجی مظاہر کی توجیہہ میں فریقِ اوّل کی طرف سے جتنے نظریات پیش کیے گئے ہیں وہ سب بعید از عقل وقیاس ہیں۔ زیادہ صحیح یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ ان تمام مظاہر میں کوئی ایک قوت کارفرما ہو اور اس کا سررشتہ کسی ایسے حکیم توانا کے ہاتھ میں ہو جو ایک مقررہ نظام کے تحت اس قوت کو مختلف مظاہر میں صرف کر رہا ہو۔
باقی رہا مشکّکین کا یہ قول کہ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی، اور جو بات ہماری سمجھ میں نہ آئے اس کی تصدیق یا تکذیب ہم نہیں کر سکتے، تو حاکمِ عقل اسے بھی درست نہیں سمجھتا کیوں کہ کسی بات کا واقعہ ہونا اس کا محتاج نہیں ہے کہ وہ سننے والوں کی سمجھ میں بھی آ جائے۔ اس کے وقوع کو تسلیم کرنے کے لیے معتبر اور متواتر شہادت کافی ہے۔ اگر ہم سے چند معتبر آدمی آ کر کہیں کہ ہم نے زمینِ مغرب میں آدمیوں کو لوہے کی گاڑیوں میں بیٹھ کر ہوا پر اڑتے دیکھا ہے، اور ہم اپنے کانوں سے لندن میں بیٹھ کر امریکہ کا گانا سن آئے ہیں، تو ہم صرف یہ دیکھیں گے کہ یہ لوگ جھوٹے اور مسخرے تو نہیں ہیں؟ ایسا بیان کرنے میں ان کی ذاتی غرض تو نہیں ہے؟ ان کے دماغ میں کوئی فتور تو نہیں ہے؟ اگر ثابت ہو گیا کہ وہ نہ جھوٹے ہیں، نہ مسخرے، نہ دیوانے، نہ ان کا کوئی مفاد اس روایت سے وابستہ ہے، اور اگر ہم نے دیکھا کہ اسے بلا اختلاف بہت سے سچے اور عقل مند لوگ پوری سنجیدگی کے ساتھ بیان کر رہے ہیں تو ہم یقینا اسے تسلیم کر لیں گے، خواہ لوہے کی گاڑیوں کا ہوا پر اڑنا اور کسی محسوس واسطے کے بغیر ایک جگہ کا گانا کئی ہزار میل کے فاصلے پر سنائی دینا کسی طرح ہماری سمجھ میں نہ آتا ہو۔
یہ اس معاملے میں عقل کا فیصلہ ہے مگر تصدیق ویقین کی کیفیت جس کا نام ’’ایمان‘‘ ہے، اس سے پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے لیے وجدان کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے دل کے ٹھک جانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ اندر سے ایک آواز آئے جو تکذیب، شک اور تذبذب کی تمام کیفیتوں کا خاتمہ کر دے اور صاف کہہ دے کہ لوگوں کی قیاس آرائیاں باطل ہیں، سچ وہی ہے جو سچے لوگوں نے قیاس سے نہیں بلکہ علم وبصیرت سے بیان کیا ہے۔
نبوتِ محمدیؐ کا عقلی ثبوت
تھوڑی دیر کے لیے جسمانی آنکھیں بند کرکے تصوّر کی آنکھیں کھول لیجیے اور ایک ہزار چار سو برس پیچھے پلٹ کر دُنیا کی حالت پر نظر ڈالیے۔ یہ کیسی دُنیا تھی؟ انسان اور انسان کے درمیان تبادلۂ خیالات کے وسائل کس قدر کم تھے۔ قوموں اور ملکوں کے درمیان تعلق کے ذرائع کتنے محدود تھے، انسان کی معلومات کس قدر کم تھیں، اس کے خیالات کس قدر تنگ تھے، اس پر وہم اور توحّش کا کس قدر غلبہ تھا۔ جہالت کے اندھیرے میں علم کی روشنی کتنی دھندلی تھی اور اس اندھیرے کو دھکیل دھکیل کر کتنی دقتوں کے ساتھ پھیل رہی تھی۔ دُنیا میں نہ تار تھا، نہ ٹیلیفون تھا، نہ ریڈیو تھا، نہ ریل اور ہوائی جہاز تھے، نہ مطابع اور اشاعت خانے تھے، نہ مدرسوں اور کالجوں کی کثرت تھی، نہ اخبارات اور رسالے شائع ہوتے تھے، نہ کتابیں کثرت سے لکھی جاتی تھیں، نہ کثرت سے ان کی اشاعت ہوتی تھی۔ اس زمانے کے ایک عالم کی معلومات بھی بعض حیثیات سے موجودہ زمانے کے ایک عامی کی بہ نسبت کم تھیں۔ اس زمانے کی اونچی سوسائٹی کا آدمی بھی موجودہ زمانے کے ایک مزدور کی بہ نسبت کم شائستہ تھا۔ اس زمانے کا ایک نہایت روشن خیال آدمی بھی آج کل کے تاریک خیال آدمی سے زیادہ تاریک خیال تھا۔ جو باتیں آج ہر کس وناکس کو معلوم ہیں وہ اس زمانے میں برسوں کی محنت اور تلاش وتحقیق کے بعد بھی بمشکل معلوم ہو سکتی تھیں۔ جو معلومات آج روشنی کی طرح فضا میں پھیلی ہوئی ہیں اور ہر بچے کو ہوش سنبھالتے ہی حاصل ہو جاتی ہیں ان کے لیے اس زمانے میں سیکڑوں میل کے سفر کیے جاتے تھے اور عمریں ان کی جستجو میں بیت جاتی تھیں۔ جن باتوں کو آج اوہام وخرافات سمجھا جاتا ہے وہ اس زمانے کے ’’حقائق‘‘ تھے۔ جن افعال کو آج ناشائستہ اور وحشیانہ کہا جاتا ہے وہ اس زمانے کے عام معمولات تھے جن طریقوں سے آج انسان کا ضمیر نفرت کرتا ہے وہ اس زمانے کے اَخلاقیات میں نہ صرف جائز تھے، بلکہ کوئی شخص یہ خیال بھی نہ کر سکتا تھا کہ ان کے خلاف بھی کوئی طریقہ ہو سکتا ہے۔ انسان کی عجائب پرستی اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ وہ کسی چیز میں اس وقت تک کوئی صداقت، کوئی بزرگی، کوئی پاکیزگی تسلیم ہی نہ کر سکتا تھا جب تک وہ فوق الفطرت نہ ہو، خلافِ عادت نہ ہو، غیر معمولی نہ ہو حتّٰی کہ انسان خود اپنے آپ کو اس قدر ذلیل سمجھتا تھا کہ کسی انسان کا خدا رسیدہ ہونا اور کسی خدا رسیدہ ہستی کا انسان ہونا اس کے تصوّر کی رسائی سے بہت دُور تھا۔
اس تاریک دَور میں زمین کا ایک گوشہ ایسا تھا جہاں تاریکی کا تسلُّط اور بھی زیادہ بڑھا ہوا تھا۔ جو ممالک اس زمانے کے معیارِ تمدُّن کے لحاظ سے متمدن تھے ان کے درمیان عرب کا ملک سب سے الگ تھلگ پڑا ہوا تھا۔ اس کے اردگرد ایران، رُوم اور مصر کے ملکوں میں علوم وفنون اور تہذیب وشائستگی کی کچھ روشنی پائی جاتی تھی مگر ریت کے بڑے بڑے سمندروں نے عرب کو ان سے جدا کر رکھا تھا۔ عرب سوداگر اونٹوں پر مہینوں کی راہ طے کرکے ان ملکوں میں تجارت کے لیے جاتے تھے اور صرف اَموال کا مبادلہ کرکے واپس آتے تھے۔ علم وتہذیب کی کوئی روشنی ان کے ساتھ نہ آتی تھی۔ ان کے ملک میں نہ کوئی مدرسّہ تھا، نہ کتب خانہ تھا، نہ لوگوں میں تعلیم کا چرچا تھا، نہ علوم وفنون سے کوئی دل چسپی تھی۔ تمام ملک میں گنتی کے چند آدمی تھے جنھیں کچھ لکھنا پڑھنا آتا تھا، مگر وہ بھی اتنا نہیں کہ اس زمانے کے علوم و فنون سے آشنا ہوتے۔ ان کے پاس ایک اعلیٰ درجے کی باقاعدہ زبان ضرور تھی جس میں بلند خیالات کو ادا کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔ ان میں بہترین ادبی مذاق بھی موجود تھا۔ مگر اُن کے لٹریچر کے جو کچھ باقیات ہم تک پہنچے ہیں ان کودیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی معلومات کس قدر محدود تھیں، تہذیب وتمدن میں ان کا درجہ کس قدر پست تھا، ان پر اوہام کا کس قدر غلبہ تھا، ان کے خیالات اور ان کی عادات میں کتنی جہالت اور وحشت تھی، ان کے اَخلاقی تصوّرات کتنے بھدّے تھے۔
وہاں کوئی باقاعدہ حُکُومت نہ تھی۔ کوئی ضابطہ اور قانون نہ تھا۔ ہر قبیلہ اپنی جگہ خود مختار تھا اور صرف ’’جنگل کے قانون‘‘ کی پیروی کی جاتی تھی۔ جس کا جس پر بس چلتا اسے مار ڈالتا اور اس کے مال پر قابض ہو جاتا، یہ بات ایک عرب بدوی کے فہم سے بالاتر تھی کہ جو شخص اس کے قبیلے کا نہیں ہے اُسے وہ کیوں نہ مار ڈالے اور اس کے مال پر کیوں نہ متصرف ہو جائے۔
اَخلاق اور تہذیب وشائستگی کے جو کچھ بھی تصوّرات ان لوگوں میں تھے وہ نہایت ادنیٰ اور سخت نا تراشیدہ تھے۔ پاک اور ناپاک، جائز اور ناجائز، شائستہ اور ناشائستہ کی تمیز سے وہ تقریباً ناآشنا تھے۔ ان کی زندگی نہایت گندی تھی۔ ان کے طریقے وحشیانہ تھے۔ زِنا، جُوّا، شراب، چوری، راہ زنی اور قتل وخوں ریزی ان کی زندگی کے معمولات تھے۔ وہ ایک دوسرے کے سامنے بے تکلف برہنہ ہوجاتے تھے۔ ان کی عورتیں تک ننگی ہو کر کعبہ کا طواف کرتی تھیں۔ وہ اپنی لڑکیوں کو اپنے ہاتھ سے زندہ دفن کر دیتے تھے، محض اس جاہلانہ خیال کی بنا پر کہ کوئی ان کا داماد بنے۔ وہ اپنے باپوں کے مرنے کے بعد اپنی سوتیلی مائوں سے نکاح کر لیتے تھے۔ انھیں کھانے اور لباس اور طہارت کے معمولی آداب تک معلوم نہ تھے۔
مذہب کے باب میں وہ ان تمام جہالتوں اور ضلالتوں کے حصے دار تھے جس میں اس زمانے کی دُنیا مبتلا تھی۔ بت پرستی، ارواح پرستی، کواکب پرستی، غرض ایک خدا کی پرستش کے سوا اس وقت دُنیا میں جتنی ’’پرستیاں‘‘ پائی جاتی تھی وہ سب ان میں رائج تھیں۔ انبیائے قدیم اور ان کی تعلیمات کے متعلق کوئی صحیح علم ان کے پاس نہ تھا۔ وہ اتنا ضرور جانتے تھے کہ ابراہیم ؑ اور اسمٰعیل ؑ ان کے باپ ہیں مگر یہ نہ جانتے تھے کہ ان دونوں باپ بیٹوں کا دین کیا تھا اور وہ کس کی عبادت کرتے تھے۔ عاد او ر ثمود کے قصے بھی ان میں مشہور تھے، مگر ان کی جو روایتیں عرب کے مؤرخین نے نقل کی ہیں، انھیں پڑھ جائیے، کہیں آپ کو صالح ؑ اور ہودؑ کی تعلیمات کا نشان نہ ملے گا۔ انھیں یہودیوں اور عیسائیوں کے واسطے سے انبیائے بنی اسرائیل کی کہانیاں بھی پہنچی تھیں‘ مگر وہ جیسی کچھ تھیں ان کااندازہ کرنے کے لیے صرف ایک نظراُن اسرائیلی روایات پر ڈال لینا کافی ہے جو مُفسرینِ اِسلام نے نقل کی ہیں۔ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اہلِ عرب اور خود بنی اسرائیل جن انبیا سے واقف تھے وہ کیسے انسان تھے اور نبوت کے متعلق ان لوگوں کا تصوّر کس قدر گھٹیا درجے کا تھا۔
ایسے زمانے میں، ایسے ملک میں، ایک شخص پیدا ہوتا ہے۔ بچپن ہی میں ماں باپ اور دادا کا سایہ اس کے سر سے اٹھ جاتا ہے، اس لیے اس گئی گزری حالت میں ایک عرب بچے کو جو تھوڑی بہت تربیت مل سکتی تھی وہ بھی اسے نہیں ملتی۔ ہوش سنبھالتا ہے تو بدوی لڑکوں کے ساتھ بکریاں چرانے لگتا ہے۔ جوان ہوتا ہے تو سوداگری میں لگ جاتا ہے، اٹھنا بیٹھنا، ملنا جلنا سب کچھ انھی عربوں کے ساتھ ہے جن کا حال اوپر آپ نے دیکھ لیا۔ تعلیم کا نام تک نہیں، حتّٰی کہ پڑھنا لکھنا تک نہیں آیا، کسی عالم کی صحبت میسر نہ ہوئی کہ ’’عالم‘‘ کا وجود اس وقت تمام عرب میں کہیں نہ تھا۔ چند مرتبہ اُسے عرب سے باہر قدم نکالنے کا اتفاق ضرور ہوا مگر یہ سفر صرف شام کے علاقے تک تھے اور ویسے ہی تجارتی سفر تھے جیسے اس زمانے میں عرب کے تجارتی قافلے کیا کرتے تھے۔ بالفرض اگر ان کے اسفار کے دوران میں اس نے کچھ آثار علم وتہذیب کا مشاہدہ کیا اور کچھ اہلِ علم سے ملاقات کا اتفاق بھی ہوا تو ظاہر ہے کہ ایسے منتشر مشاہدات اور ایسی ہنگامی ملاقاتوں سے کسی انسان کی سیرت نہیں بن جاتی، ان کااثر کسی شخص پر اتنا زبردست نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے ماحول سے بالکل آزاد، بالکل مختلف اور اتنا بلند ہو جائے کہ اس میں اور اس کے ماحول میں کچھ نسبت ہی نہ رہے۔ ان سے ایسا علم حاصل ہونا ممکن نہیں ہے جو ایک اَن پڑھ بدوی کو ایک ملک کا نہیں، تمام دُنیا کا، اور ایک زمانے کا نہیں، تمام زمانوں کا لیڈر بنا دے۔ اگر کسی درجے میں اس نے باہر کے لوگوں سے علمی استفادہ کیا بھی ہو تو جو معلومات اس وقت دُنیا میں کسی کو حاصل ہی نہ تھیں، مذہب، اَخلاق، تہذیب وتمدن کے جو تصوّرات اور اُصول اس وقت دُنیا میں کہیں موجود ہی نہ تھے، انسانی سیرت کے جو نمونے اس وقت کہیں پائے ہی نہیں جاتے تھے، ان کے حصول کا کوئی ذریعہ نہیں ہو سکتا تھا۔
صرف عرب ہی کا نہیں تمام دُنیا کا ماحول پیش نظررکھیے اور دیکھیے یہ شخص جو لوگوں میں پیدا ہوا، جن میں بچپن گزرا، جن کے ساتھ پل کر جوان ہوا، جن سے اس کا میل جول رہا، جن سے اس کے معاملات رہے، ابتدا ہی سے عادات میں، اَخلاق میں، وہ ان سب سے مختلف نظر آتا ہے۔ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اس کی صداقت پر اس کی ساری قوم گواہی دیتی ہے۔ اس کے کسی بدترین دشمن نے بھی کبھی اس پر الزام نہیں لگایا کہ وہ فلاں موقع پر جھوٹ بولا تھا۔ وہ کسی سے بدکلامی نہیں کرتا۔ کسی نے اس کی زبان سے کبھی گالی یا کوئی فحش بات نہیں سنی۔ وہ لوگوں سے ہر قسم کے معاملات کرتا ہے، مگر کبھی کسی سے تلخ کلامی اور تُوتُو مَیں مَیں کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اس کی زبان میں سختی کے بجائے شیرینی ہے اور وہ بھی ایسی کہ جو اُس سے ملتا ہے گرویدہ ہو جاتا ہے۔ وہ کسی سے بدمعاملگی نہیں کرتا۔ کسی کی حق تلفی نہیں کرتا۔ برسوں سوداگری کا پیشہ کرنے کے باوجود کسی کا ایک پیسا بھی ناجائز طریقہ سے نہیں لیتا۔ جن لوگوں سے اس کے معاملات پیش آتے ہیں وہ سب اس کی ایمان داری پر کامل بھروسا رکھتے ہیں۔ ساری قوم اس کو ’’امین‘‘ کہتی ہے۔ دُشمن تک اس کے پاس اپنے قیمتی مال رکھواتے ہیں اور وہ ان کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ بے حیا لوگوں کے درمیان وہ ایسا حیادار ہے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد کسی نے اسے برہنہ نہیں دیکھا۔ بداَخلاقوں کے درمیان وہ ایسا پاکیزہ اَخلاق ہے کہ کبھی کسی بدکاری میں مبتلا نہیں ہوتا، شراب اور جُوئے کو ہاتھ تک نہیں لگاتا۔ ناشائستہ لوگوں کے درمیان وہ ایسا شائستہ ہے کہ ہر بدتمیزی اور گندگی سے نفرت کرتا ہے اور اس کے ہر کام میں ستھرائی اور پاکیزگی پائی جاتی ہے۔ سنگ دلوں کے درمیان وہ ایسا نرم دل ہے کہ ہر ایک کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے، یتیموں اور بیوائوں کی مدد کرتا ہے، مسافروں کی میزبانی کرتا ہے، کسی کو اس سے دکھ نہیں پہنچتا اور وہ دوسروں کی خاطر دکھ اٹھاتا ہے۔ وحشیوں کے درمیان وہ ایسا صلح پسند ہے کہ اپنی قوم میں فساد اور خوں ریزی کی گرم بازاری دیکھ کر اسے اذیت ہوتی ہے، اپنے قبیلے کی لڑائیوں سے دامن بچاتا ہے اور مصالحت کی کوششوں میں پیش پیش رہتا ہے۔ بت پرستوں کے درمیان وہ ایسا سلیم الفطرت اور صحیح العقل ہے کہ زمین وآسمان میں کوئی چیز اسے پوجنے کے لائق نظر نہیں آتی، کسی مخلوق کے آگے اس کا سر نہیں جھکتا، بتوں کے چڑھاوے کا کھانا بھی وہ قبول نہیں کرتا، اس کا دل خود بخود شرک اور مخلوق پرستی سے نفرت کرتا ہے۔
اس ماحول میں یہ شخص ایسا ممتاز نظر آتا ہے جیسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک شمع روشن ہے، یا پتھروں کے ڈھیر میں ایک ہیرا چمک رہا ہے۔
تقریباً چالیس برس تک ایسی پاک، صاف، شریفانہ زندگی بسر کرنے کے بعد اس کی زندگی میں ایک انقلاب شروع ہوتا ہے۔ وہ اس تاریکی سے گھبرا اٹھتا ہے جو اسے ہر طرف سے محیط نظر آ رہی ہے۔ وہ جہالت، بداَخلاقی، بدکرداری، بدنظمی، شرک اور بت پر ستی کے اس ہولناک سمندر سے نکل جانا چاہتا ہے جو اسے گھیرے ہوئے تھا۔ اس ماحول میں کوئی چیز بھی اسے اپنی طبیعت کے مناسب نظر نہیں آتی، وہ سب سے الگ ہو کر آبادی سے دُور پہاڑوں کی صحبت میں جا جا کر بیٹھنے لگتا ہے۔ تنہائی اور سکون کے عالم میں کئی کئی دن گزارتا ہے۔ روزے رکھ رکھ کر اپنی رُوح اور اپنے دل ودماغ کو اور زیادہ پاک صاف کرتا ہے۔ سوچتا ہے، غور وفکر کرتا ہے، کوئی ایسی روشنی ڈھونڈتا ہے جس سے وہ اس چاروں طرف چھائی ہوئی تاریکی کو دُور کر دے۔ ایسی طاقت حاصل کرنا چاہتا ہے جس سے اس بگڑی ہوئی دُنیا کو توڑ پھوڑ کر پھر سے سنوار دے۔
یکایک اس کی حالت میں ایک عظیم الشان تغیر رُونما ہوتا ہے۔ ایک دم سے اس کے دل میں وہ روشنی آ جاتی ہے جو پہلے اس میں نہ تھی۔ اچانک اس کے اندر وہ طاقت بھر جاتی ہے جس سے وہ اس وقت تک خالی تھا۔ وہ غار کی تنہائی سے نکل آتا ہے۔ اپنی قوم کے پاس آتا ہے۔ اس سے کہتا ہے کہ یہ بت جن کے آگے تم جھکتے ہو، یہ سب بے حقیقت چیزیں ہیں، انھیں چھوڑ دو۔ کوئی انسان، کوئی درخت، کوئی پتھر، کوئی روح، کوئی سیارہ اس قابل نہیں کہ تم اس کے آگے سرجھکائو۔ اس کی بندگی وعبادت کرو اور اس کی فرمانبرداری واطاعت کرو۔ یہ زمین، یہ چاند، یہ سورج، یہ ستارے، یہ زمین اور آسمان کی ساری چیزیں ایک خدا کی مخلوق ہیں۔ وہی تمھارا اور ان سب کا پیدا کرنے والا ہے۔ اُسی کی بندگی کرو، اُسی کا حکم مانو اور اُسی کے آگے سرجھکائو۔ یہ چوری، یہ لوٹ مار، یہ قتل وغارت، یہ ظلم وستم، یہ بدکاریاں جو تم کرتے ہو، سب گناہ ہیں، انھیں چھوڑ دو۔ خدا انھیں پسند نہیں کرتا۔ سچ بولو، انصاف کرو، نہ کسی کی جان لو، نہ کسی کا مال چھینو، جو کچھ لو حق کے ساتھ لو، جو کچھ دو حق کے ساتھ دو۔ تم سب انسان ہو۔ انسان اور انسان سب برابر ہیں۔ نہ کوئی ذلت کا داغ لے کر پیدا ہوا اور نہ کوئی عزت کا تمغہ لے کر دُنیا میں آیا۔ بزرگی اور شرف نسل اور نسب میں نہیں، صرف خدا پرستی اور نیکی اور پاکیزگی میں ہے۔ جو خدا سے ڈرتا ہے اور نیک اور پاک ہے، وہی اعلیٰ درجے کا انسان ہے اور جو ایسا نہیں وہ کچھ نہیں۔ مرنے کے بعد تم سب کو اپنے خدا کے پاس حاضر ہونا ہے۔ تم میں سے ہر ہر شخص اپنے اعمال کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے، اس خدا کے سامنے جو سب کچھ دیکھتا ہے، جانتا ہے، تم کوئی چیز اس سے نہیں چھپا سکتے۔ تمھاری زندگی کا کارنامہ اس کے سامنے بے کم وکاست پیش ہو گا اوراِسی کارنامے کے لحاظ سے وہ تمھارے انجام کا فیصلہ کرے گا۔ اُس عادلِ حقیقی کے ہاں نہ کوئی سفارش کام آئے گی، نہ رشوت چلے گی، نہ کسی کا نسب پوچھا جائے گا۔ وہاں صرف ایمان اور نیک عمل کی پوچھ ہو گی۔ جس کے پاس یہ سامان ہو گا وہ جنت میں جائے گا اور جس کے پاس ان میں سے کچھ بھی نہ ہو گا وہ نامراد دوزخ میں ڈالا جائے گا۔
یہ تھا وہ پیغام جسے لے کر وہ غار سے نکلا۔
جاہل قوم اس کی دشمن ہو جاتی ہے۔ گالیاں دیتی ہے۔ پتھر مارتی ہے۔ ایک دن دو دن نہیں اکٹھے تیرہ برس تک اس پر سخت سے سخت ظلم توڑتی ہے۔ یہاں تک کہ اسے وطن سے نکال باہر کرتی ہے اور پھر نکالنے پر بھی دم نہیں لیتی، جہاں وہ جا کر پناہ لیتا ہے وہاں بھی اُسے ہر طرح ستاتی ہے۔ تمام عرب کو اس کے خلاف ابھار دیتی ہے اورکامل آٹھ برس اس کے خلاف برسرِ پیکار رہتی ہے۔ وہ ان سب تکلیفوں کو سہتا ہے مگر اپنی بات سے نہیں ٹلتا۔
یہ قوم اس کی دشمن کیوں ہوئی؟ کیا زر اور زمین کا کوئی جھگڑا تھا؟ کیا خون کا کوئی دعوٰی تھا؟ کیا وہ ان سے دُنیا کی کوئی چیز مانگ رہا تھا؟ نہیں ساری دشمنی صرف اسی بات پر تھی کہ وہ ایک خدا کی بندگی اور پرہیز گاری اور نیکوکاری کی تعلیم کیوں دیتا ہے، بت پرستی اور شرک اور بدعملی کے خلاف تبلیغ کیوں کرتا ہے، پجاریوں اور پروہتوں کی پیشوائی پر کیوں ضرب لگاتا ہے، سرداروں کی سرداری کا طلسم کیوں توڑتا ہے، انسان اورانسان کے درمیان سے اونچ نیچ کا فرق کیوں مٹانا چاہتا ہے، قبائلی اور نسلی تعصبات کو جاہلیت کیوں قرار دیتا ہے، زمانۂ قدیم سے سوسائٹی کا جو نظام بندھا چلا آ رہا ہے اُسے کیوں توڑنا چاہتا ہے۔ قوم کہتی تھی کہ یہ باتیں جو تُو کہہ رہا ہے، یہ سب خاندانی روایات اور قومی طریقے کے خلاف ہیں۔ تو ان کو چھوڑ دے ورنہ ہم تیرا جینا مشکل کر دیں گے۔
اچھا تو اس شخص نے یہ تکلیفیں کیوں اُٹھائیں؟ قوم اُسے بادشاہی دینے پر آمادہ تھی، دولت کے ڈھیر اس کے قدموں میں ڈالنے کو تیار تھی بشرطیکہ وہ اپنی اس تعلیم سے باز آ جائے۔ مگر اس نے ان سب ٹھکرادیا اور اپنی تعلیم کی خاطر پتھر کھانا اور ظلم سہنا قبول کیا۔ یہ آخر کیوں ؟ کیا ان کے خدا پرست اور نیکو کار بن جانے میں اس کا کوئی ذاتی فائدہ تھا؟ کیا کوئی ایسا فائدہ تھا جس میں ریاست اور امارت اور دولت اور عیش کے سارے لالچ بھی ناقابلِ التفات تھے؟ کیا کوئی ایسا فائدہ تھا جس کی خاطر ایک شخص سخت سے سخت جسمانی اور روحانی اذیتوں میں مبتلا ہونا اور کامل ۲۱ سال مبتلا رہنا بھی گوارا کر سکتا ہو؟ غور کرو! کیا نیک نفسی، ایثار اور ہم دردیٔ بنی نوع کا اس سے بھی بلند تر کوئی مرتبہ تمھارے تصوّر میں آ سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی فائدے کی خاطر نہیں، دوسروں کے بھلے کی خاطر تکلیفیں اٹھائے؟ جن کی بھلائی اور بہتری کے لیے وہ کوشش کرتا ہے وہی اسے پتھر ماریں، گالیاں دیں ، گھر سے بے گھر کر دیں، غریب الوطنی میں بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑیں، اور ان سب باتوں پر بھی وہ ان کا بھلا چاہنے سے باز نہ آئے۔
پھر دیکھو! کیا کوئی جھوٹا شخص کسی بے اصل بات کے پیچھے ایسی مصیبتیں برداشت کر سکتا ہے؟ کیا کوئی تیر تُکّے لڑانے والا انسان محض گمان اور قیاس سے کوئی بات کہہ کر اس پر اتنا جم سکتا ہے کہ مصیبتوں کے پہاڑ اُس پر ٹوٹ جائیں، زمین اس پر تنگ کر دی جائے، تمام ملک اس کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو، بڑی بڑی فوجیں اُس پر اُمنڈ اُمنڈ کر آئیں، مگر وہ اپنی بات سے یک سرِ مُو ہٹنے پر آمادہ نہ ہو؟ یہ استقامت، یہ عزم، یہ ثبات، خود گواہی دے رہا ہے کہ اسے اپنی صداقت پر یقین اورکامل یقین تھا۔ اگر اس کے دل میں شک اور شبہ کا ادنیٰ شائبہ بھی ہوتا تو وہ مسلسل ۲۱ سال تک مصائب کے ان پے دَرپے طوفانوں کے مقابلہ میں کبھی نہ ٹھیر سکتا۔
یہ تو اس شخص کے انقلابِ حال کا ایک پہلو تھا، دوسرا پہلو اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے۔
چالیس برس کی عمر تک وہ ایک عرب تھا، عام عربوں کی طرح ۔ اس دوران میں کسی نے اس سوداگر کو ایک خطیب، ایک جادوبیان مقرر کی حیثیت سے نہ جانا۔ کسی نے اس کوحکمت اور دانائی کی باتیں کرتے نہ سنا، کسی نے اسے الہٰیات اور فلسفۂ اَخلاق اور قانون اور سیاسیات اور معاشیات اورعمرانیات کے مسائل پر بحث کرتے نہ دیکھا۔ کسی نے اس سے خدا اور ملائکہ اور آسمانی کتابوں اور پچھلے انبیا اور امم انبیا اور قیامت اورحیات بعد الموت اور دوزخ جنت کے متعلق ایک لفظ بھی نہ سنا۔ وہ پاکیزہ اَخلاق، شائستہ اطوار اور بہترین سیرت تو ضرور رکھتا تھا مگر چالیس برس کی عمر کو پہنچنے تک اس کی ذات میں کوئی بھی غیرمعمولی بات نہ پائی گئی، جس سے لوگ متوقع ہوتے کہ یہ شخص اب کچھ بننے والا ہے۔ اس وقت تک جاننے والے اسے محض ایک خاموش، امن پسند اور نہایت شریف انسان کی حیثیت سے جانتے تھے مگر چالیس برس کے بعد جب وہ اپنے غار سے ایک نیا پیغام لے کر نکلا تو یک لخت اس کی کایا ہی پلٹی ہوئی تھی۔
اب وہ ایک حیرت انگیز کلام سنا رہا تھا جس کو سن کر سارا عرب مبہُوت ہوگیا۔ اس کلام کی شدت تاثیر کا یہ حال تھا کہ اس کے کٹر دشمن بھی اسے سنتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں یہ دل میں اتر نہ جائے۔ اس کی فصاحت وبلاغت اور زورِ بیان کا یہ عالم تھا کہ تمام قومِ عرب کو جس میں بڑے بڑے شاعر، خطیب اور زبان آوری کے مدعی موجود تھے، اس نے چیلنج دیا اور بار بار چیلنج دیا کہ تم سب مل کر ایک ہی سورت اس کے مانند بنا لائو مگر کوئی اس کے مقابلے کی جرأت نہ کر سکا۔ ایسا بے مثل کلام کبھی عرب کے کانوں نے سنا ہی نہ تھا۔
اب یکایک وہ ایک بے مثل حکیم، ایک لاجواب مصلحِ اَخلاق وتمدّن، ایک حیرت انگیز ماہر سیاست، ایک زبردست مقنّن، ایک اعلیٰ درجے کا جج، ایک بے نظیر سپہ سالار بن کر ظاہر ہوا۔ اُس اَن پڑھ صحرا نشین نے حکمت اور دانائی کی وہ باتیں کہنا شروع کر دیں جو نہ اس سے پہلے کسی نے کہی تھیں، نہ اس کے بعد کوئی کہہ سکا۔ وہ اُمیِّ الہٰیات کے عظیم الشان مسائل پر فیصلہ کُن تقریریں کرنے لگا۔ تاریخِ اقوام سے عروج وزوال اُمم کے فلسفے پر لیکچر دینے لگا۔ پرانے مصلحین کے کارناموں پر تبصرے اور مذاہبِ عالم پر تنقید اور اختلافاتِ اقوام کے فیصلے کرنے لگا۔ اَخلاق اور تہذیب اور شائستگی کا درس دینے لگا۔
اس نے معاشرت اور معیشت اور اجتماعی معاملات میں بین الاقوامی تعلقات کے متعلق قوانین بنانے شروع کر دیے اور ایسے قوانین بنائے کہ بڑے بڑے علما اور عقلا غور وخوض اور عمر بھر کے تجربات کے بعد بمشکل ان کی حکمتوں کو سمجھ سکتے ہیں اور دُنیا کے تجربات جتنے بڑھتے جاتے ہیں، ان کی حکمتیں اور زیادہ کھلتی جاتی ہیں۔
وہ خاموش، پُر امن سوداگر، جس نے تمام عمر کبھی تلوار نہ چلائی تھی، کبھی کوئی فوجی تربیت نہ پائی تھی، حتّٰی کہ جو عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ ایک لڑائی میں محض ایک تماشائی کی حیثیت سے شریک ہوا تھا، دیکھتے دیکھتے وہ ایک ایسا بہادُر سپاہی بن گیا جس کا قدم سخت سے سخت معرکوں میں بھی اپنے مقام سے ایک اِنچ نہ ہٹا۔ ایسا زبردست جنرل بن گیا جس نے ۹ سال کے اندر تمام ملکِ عرب کو فتح کر لیا۔ ایسا حیرت انگیز ملٹری لیڈر بن گیا کہ اس کی پیدا کی ہوئی فوجی تنظیم اور جنگی رُوح کے اثر سے بے سروسامان عربوں نے چند سال میں دُنیا کی دو عظیم الشان فوجی طاقتوں کو الٹ کر رکھ دیا۔
وہ الگ تھلگ رہنے والا سکون پسند انسان، جس کے اندر کسی نے چالیس برس تک سیاسی دل چسپی کی بُو نہ پائی تھی، یکایک اتنا زبردست ریفارمر اورمدبّربن کر ظاہر ہوا کہ ۲۳ سال کے اندر اس نے ۱۲ لاکھ مربع میل میں پھیلے ہوئے ریگستان کے منتشر، جنگ جُو، جاہل، سرکش، غیر متمدن اور ہمیشہ آپس میں لڑنے والے قبائل کو، ریل اور تار اور ریڈیواور پریس کی مدد کے بغیر ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک قانون اور ایک نظامِ حُکُومت کا تابع بنا دیا۔ اس نے ان کے خیالات بدل دیے، ان کے خصائل بدل دیے، ان کے اَخلاق بدل دیے، ان کی ناشائستگی کو اعلیٰ درجے کی شائستگی میں، ان کی وحشت کو بہترین مدنیت میں، ان کی بدکرداری اور بداَخلاقی کو صلاح وتقوٰی اور مکارمِ اَخلاق میں، ان کی سرکشی اور انارکی کو انتہا درجے کی پابندیٔ قانون اور اطاعتِ اَمر میں تبدیل کر دیا۔ اس بانجھ قوم کو، جس کی گود میں صدیوں سے کوئی ایک بھی قابلِ ذکر انسان پیدا نہ ہوا تھا، اس نے ایسا مردم خیز بنایا کہ اس میں ہزار در ہزار اعاظمِ رجال اٹھ کھڑے ہوئے اور دُنیا کو دین،اَخلاق اور تہذیب کا درس دینے کے لیے چار دانگ عالم میں پھیل گئے۔
اور یہ کام اس نے ظلم اور جبر، دغا اور فریب سے انجام نہیں دیا بلکہ دل موہ لینے والے اَخلاق اور روحوں کو مسخر کر لینے والی شرافت اور دماغوں پر قبضہ کر لینے والی تعلیم سے انجام دیا۔ اس نے اپنے اَخلاق سے دشمنوں کو دوست بنایا۔ رحم اورشفقت سے دلوں کو موم کیا۔ عدل اور انصاف سے حُکُومت کی، حق اور صداقت سے کبھی یک سرِ مُو انحراف نہ کیا۔ جنگ میں بھی کسی سے بد عہدی اور دغا نہ کی۔ اپنے بدترین دُشمنوں پر بھی ظلم نہ کیا، جو اس کے خون کے پیاسے تھے، جنھوں نے اسے پتھر مارے تھے، اُسے وطن سے نکالا تھا، اس کے خلاف تمام عرب کو کھڑا کر دیا تھا، حتّٰی کہ جنھوں نے جوشِ عداوت میں اس کے چچا کا کلیجا تک نکال کر چبا ڈالا تھا، انھیں بھی اس نے فتح پا کر بخش دیا۔ اپنی ذات کے لیے کبھی اس نے کسی سے بدلہ نہ لیا۔
ان سب باتوں کے ساتھ اس کے ضبطِ نفس بلکہ بے نفسی کا یہ عالم تھا کہ جب وہ تمام ملک کا بادشاہ ہو گیا اس وقت بھی وہ جیسا فقیر پہلے تھا ویسا ہی فقیر رہا۔ پھونس کے چھپر میں رہتا تھا۔ بوریے پر سوتا تھا۔ موٹا جھوٹا پہنتا تھا۔ غریبوں کی سی غذا کھاتا تھا۔ فاقے تک کر گزرتا تھا۔ رات رات بھر اپنے خدا کی عبادت میں کھڑا رہتا تھا۔ غریبوں اور مصیبت زدوں کی خدمت کرتا تھا۔ ایک مزدور کی طرح کام کرنے میں بھی اسے تامل نہ تھا۔ آخر وقت تک اُس کے اندرشاہانہ تمکنت اور امیرانہ ترفُّع اور بڑے آدمیوں کے سے تکبر کی ذرا سی بُو بھی پیدا نہ ہوئی۔ وہ ایک عام آدمی کی طرح لوگوں سے ملتا تھا۔ ان کے دکھ درد میں شریک ہوتا تھا۔ عوام کے درمیان اس طرح بیٹھتا تھا کہ اجنبی آدمی کو یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا تھا کہ اس محفل میں قوم کا سردار اور ملک کا بادشاہ کون ہے۔ اتنا بڑا آدمی ہونے کے باوجود چھوٹے سے چھوٹے آدمی کے ساتھ بھی ایسا برتائو کرتا تھا کہ گویا وہ اسی جیسا ایک انسان ہے، تمام عمر کی جدوجہد میں اس نے اپنی ذات کے لیے کچھ بھی نہ چھوڑا۔ اپنا پورا ترکہ اپنی قوم پر وقف کر دیا۔ اپنے پیروئوں پر اُس نے اپنے یا اپنی اولاد کے کچھ بھی حقوق قائم نہ کیے۔ حتّٰی کہ اپنی اولاد کو زکوٰۃ لینے کے حق سے بھی محروم کر دیا محض اس خوف سے کہ کہیں آگے چل کر اس کے پیرو اس کی اولاد ہی کو ساری زکوٰۃ نہ دینے لگ جائیں۔
ابھی اس عظیم الشان آدمی کے کمالات کی فہرست ختم نہیں ہوئی۔ اس کے مرتبے کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے آپ کو تاریخِ عالَم میں بحیثیتِ مجموعی ایک نظر ڈالنی چاہیے۔ آپ دیکھیں گے کہ صحرائے عرب کا یہ اَن پڑھ بادیہ نشین، جو چودہ سو برس پہلے اس تاریک دَور میں پیدا ہوا تھا، دراصل دورِ جدید کا بانی اور تمام دُنیا کا لیڈر ہے، وہ نہ صرف ان کا لیڈر ہے جو اسے لیڈر مانتے ہیں، بلکہ ان کا بھی لیڈر ہے جو اسے نہیں مانتے۔ انھیں اس امر کا احساس تک نہیں کہ جس کے خلاف وہ زبان کھولتے ہیں اس کی راہ نمائی کس طرح ان کے خیالات میں، ان کے اصولِ حیات اور قوانین عمل میں، اور ان کے عصر جدید کی رُوح میں پیوست ہو گئی ہے۔
یہی شخص ہے جس نے دُنیا کے تصوّرات کا رُخ ،وَہمِیّت، عجائب پرستی اور رہبانیت کی طرف سے ہٹا کر عقلیت ، حقیقت پسندی اور متقیانہ دُنیاداری کی طرف پھیر دیا۔ اسی نے محسوس معجزے مانگنے والی دُنیا میں عقلی معجزوں کو سمجھنے اورانھی کو معیارِ صداقت ماننے کا مذاق پیدا کیا۔ اسی نے خرقِ عادات میں خدا کی خدائی کے آثار ڈھونڈنے والوں کی آنکھیں کھولیں اور انھیں آثارِ فطرت (natural phenomena) میں خدا کی نشانیاں دیکھنے کا خوگر بنایا۔ اسی نے خیالی گھوڑے دوڑانے والوں کو قیاس آرائی (speculation) سے ہٹا کر تعقل اور تفکّر اور مشاہدہ اورتحقیق کے راستے پر لگایا۔ اسی نے عقل اور حس اور وجدان کے امتیازی حدود انسان کو بتائے۔ مادیت اور روحانیت میں مناسبت پیدا کی، دین سے علم وعمل کا ربط قائم کیا، مذہب کی طاقت سے دُنیا میں سائنٹفک اسپرٹ سے صحیح مذہبیت پیدا کی۔ اسی نے شرک اورمخلوق پرستی کی بنیادوں کو اکھاڑا اور علم کی طاقت سے توحید کا اعتقاد ایسی مضبوطی کے ساتھ قائم کیا کہ مشرکوں اور بت پرستوں کے مذہب بھی وحدانیت کا رنگ اختیارکرنے پر مجبور ہو گئے، اسی نے اَخلاق اور روحانیت کے بنیادی تصوّرات کو بدلا۔ جو لوگ ترکِ دُنیا اور نفس کشی کو عین اَخلاق سمجھتے تھے، جن کے نزدیک نفس وجسم کے حقوق ادا کرنے اور دُنیوی زندگی کے معاملات میں حصہ لینے کے ساتھ روحانی ترقی اور نجات ممکن ہی نہ تھی، ان کو اسی نے تمدن اور سماج اور دنیوی عمل کے اندر فضیلتِ اَخلاق اور ارتقائے روحانی اور حصولِ نجات کا راستہ دکھایا۔ پھر وہی ہے جس نے انسان کو اس کی حقیقی قدر وقیمت سے آگاہ کیا۔ جو لوگ بھگوان اور اوتار اور ابنُ اللّٰہ کے سوا کسی کو ہادی وراہ نما تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے، انھیں اسی نے بتایا کہ انسان اور تمھارے ہی جیسا انسان آسمانی بادشاہت کا نمایندہ اور خداوندِ عالم کا خلیفہ ہو سکتا ہے۔ جو لوگ ہر طاقت وَر انسان کو اپنا خدا بناتے تھے انھیں اسی نے سمجھایا کہ انسان بجز انسان کے اور کچھ نہیں، نہ کوئی شخص تقدس اور حکم رانی اور آقائی کا پیدائشی حق لے کر آیا ہے اور نہ کسی پر ناپاکی اورمحکومیت اور غلامی کا پیدائشی داغ لگا ہوا ہے۔ اسی تعلیم نے دُنیا میں وحدتِ انسانی اور مساوات اور جمہوریت اور آزادی کے تخیلات پیدا کیے ہیں۔
تصوّرات سے آگے بڑھیے۔ آپ کو اُس اُمی کی لیڈر شپ کے عملی نتائج دُنیا کے قوانین اور طریقوں اور معاملات میں اس کثرت سے نظر آئیں گے کہ اِن کا شمار مشکل ہو جائے گا۔ اَخلاق اور تہذیب، شائستگی اور طہارت ونظافت کے کتنے ہی اصول ہیں جو اُس کی تعلیم سے نکل کر تمام دُنیا میں پھیل گئے ہیں۔ معاشرت کے جو قوانین اُس نے بنائے تھے دُنیا نے کس قدر ان کی خوشہ چینی کی اور اب تک کیے جا رہی ہے۔ معاشیات کے جو اصول اس نے سکھائے تھے ان سے دُنیا میں کتنی تحریکیں پیدا ہوئیں اور اب تک پیدا ہوئے جا رہی ہیں۔ حُکُومت کے جو طریقے اس نے اختیار کیے تھے ان سے دُنیا کے سیاسی نظریات میں کتنے انقلاب برپا ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ عدل اور قانون کے جو اصول اس نے وضع کیے تھے انھوں نے دُنیا کے عدالتی نظامات اور قانونی افکار کو کس قدر متاثر کیااور اب تک ان کی تاثیر خاموشی کے ساتھ جاری ہے۔ جنگ اور صلح اور بین الاقوامی تعلقات کی تہذیب جس شخص نے عملاً دُنیا میں قائم کی وہ دراصل یہی عرب کا اُمّی ہے ورنہ پہلے دُنیا اس سے ناواقف تھی کہ جنگ کی بھی کوئی تہذیب ہو سکتی ہے اور مختلف قوموں میں مشترک انسانیت کی بنیاد پر بھی معاملات ہونے ممکن ہیں۔
انسانی تاریخ کے منظر میں اس حیرت انگیز انسان کی بلند وبالا شخصیت اتنی ابھری ہوئی نظر آتی ہے کہ ابتدا سے لے کر اب تک کے بڑے سے بڑے تاریخی انسان جنھیں دُنیا اکابر (heroes) میں شمار کرتی ہے، جب اس کے مقابلے میں لائے جاتے ہیں تو اس کے آگے بَونے نظر آتے ہیں۔ دُنیا کے اکابر میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کے کمال کی چمک دمک انسانی زندگی کے ایک دو شعبوں سے آگے بڑھ سکی ہو۔ کوئی نظریات کا بادشاہ ہے مگر عملی قوت نہیں رکھتا۔ کوئی عمل کا پتلا ہے مگر فکر میں کم زور ہے۔ کسی کے کمالات سیاسی تدبیر تک محدود ہیں۔ کوئی محض فوجی ذہانت کا مظہر ہے۔ کسی کی نظر اجتماعی زندگی کے ایک پہلو پر اتنی زیادہ گہری ہے کہ دوسرے پہلو اوجھل ہو گئے ہیں۔ کسی نے اَخلاق اور روحانیت کو لیا تو معیشت وسیاست کو بھلا دیا۔ کسی نے معیشت وسیاست کو لیا تو اَخلاق وروحانیت کو نظر انداز کر دیا۔ غرض تاریخ میں ہر طرف یک رُخے ہیرو ہی نظر آتے ہیں مگر تنہا یہی ایک شخصیت ایسی ہے جس میں تمام کمالات جمع ہیں، وہ خود ہی فلسفی اور حکیم بھی ہے اور خود ہی اپنے فلسفہ کو عملی زندگی میں نافذ کرنے والا بھی۔ وہ سیاسی مدبّر بھی ہے، فوجی لیڈر بھی ہے، واضع قانون بھی ہے، معلم اَخلاق بھی ہے، مذہبی اور روحانی پیشوا بھی ہے۔ اس کی نظر انسان کی پوری زندگی پر پھیلتی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات تک جاتی ہے۔ کھانے اور پینے کے آداب اور جسم کی صفائی کے طریقوں سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک ایک ایک چیز کے متعلق وہ احکام اور ہدایات دیتا ہے، اپنے نظریات کے مطابق ایک مستقل تہذیب (civilisation) وُجود میں لا کر دکھا دیتا ہے، اور زندگی کے تمام مختلف پہلوئوں میں ایسا صحیح توازن(equilibrium) قائم کرتا ہے کہ افراط وتفریط کا کہیں نشان تک نظر نہیں آتا، کیا کوئی دوسرا شخص اس جامعیت کا تمھاری نظر میں ہے؟
دُنیا کی بڑی بڑی تاریخی شخصیتوں میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں جو کم وبیش اپنے ماحول کی پیدا کردہ نہ ہو، مگر اس شخص کی شان سب سے نرالی ہے۔ اس کے بنانے میں اس کے ماحول کا کوئی حصہ نظر نہیں آتا اور نہ کسی دلیل سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ عرب کا ماحول اُس وقت تاریخی طور پر ایسے ایک انسان کی پیدائش کا مقتضی تھا۔ بہت کھینچ تان کر تم جو کچھ کہہ سکتے ہو وہ اس سے زیادہ کچھ نہ ہو گا کہ تاریخی اسباب عرب میں ایک ایسے لیڈر کے ظہور کا تقاضا کرتے تھے جو قبائلی انتشار کو مٹا کر ایک قوم بناتا، اور ممالک کو فتح کرکے عربوں کی معاشی فلاح وبہبود کا سامان کرتا… یعنی ایک نیشنلسٹ لیڈر جو اس وقت کی تمام عربی خصوصیات کا حامل ہوتا۔ ظلم، بے رحمی، خون ریزی اور مکرودغا، غرض ہر ممکن تدبیر سے اپنی قوم کو خوش حال بناتا اور ایک سلطنت پیدا کرکے اپنے پس ماندوں کے لیے چھوڑ جاتا۔ اِس کے سوا اُس وقت کی عربی تاریخ کا کوئی تقاضا تم ثابت نہیں کر سکتے۔ ہیگل کے فلسفۂ تاریخ یا مارکس کی مادی تعبیر ِ تاریخ کے نقطۂ نظر سے تم حد سے حد یہی حکم لگا سکتے ہو کہ اُس وقت اُس ماحول میں ایک قوم اور ایک سلطنت بنانے والا ظاہر ہونا چاہیے تھا، یا ظاہر ہو سکتا تھا۔ مگر ہیگلی یا مارکسی فلسفہ اس واقعے کی توجیہہ کیوں کر کرے گا کہ اُس وقت اس ماحول میں ایسا شخص پیدا ہوا جو بہترین اَخلاق سکھانے والا، انسانیت کو سنوارنے اور نفوس کا تزکیہ کرنے والا، اور جاہلیت کے اوہام وتعصبات کو مٹانے والا تھا۔ جس کی نظر قوم اور نسل اور ملک کی حدیں توڑ کر پوری انسانیت پر پھیل گئی۔ جس نے اپنی قوم کے لیے نہیں بلکہ عالمِ انسانی کے لیے ایک اَخلاقی وروحانی اور تمدّنی وسیاسی نظام کی بنا ڈالی۔ جس نے معاشی معاملات اور سیاستِ مدن اور بین الاقوامی تعلقات کو عالمِ خیال میں نہیں بلکہ عالمِ واقعہ میں اَخلاقی بنیادوں پر قائم کرکے دکھایا اور روحانیت ومادیت کی ایسی معتدل اورمتوازن آمیزش کی جو آج بھی حکمت ودانائی کا ویسا ہی شاہ کار ہے جیسا اُس وقت تھا۔ کیا ایسے شخص کو تم عرب جاہلیت کے ماحول کی پیداوار کہہ سکتے ہو؟
یہی نہیں کہ وہ شخص اپنے ماحول کی پیداوار نظر نہیں آتا۔ بلکہ جب ہم اس کے کارنامے پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمان ومکان کی قیود سے آزاد ہے۔ اس کی نظر وقت اور حالات کی بندشوں کو توڑتی ہوئی صدیوں اور ہزاروں (millennium) کے پردوں کو چاک کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔ وہ انسان کو ہر زمانے اور ہر ماحول میں دیکھتا ہے اور اس کی زندگی کے لیے ایسی اَخلاقی اور عملی ہدایات دیتا ہے جو ہر حال میں یکساں مناسبت کے ساتھ ٹھیک بیٹھتی ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہے جن کو تاریخ نے پرانا کر دیا ہے، جن کی تعریف ہم صرف اس حیثیت سے کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے زمانے کے اچھے راہ نما تھے۔ سب سے الگ اور سب سے ممتاز وہ انسانیت کا ایسا راہ نما ہے جو تاریخ کے ساتھ حرکت (march) کرتا ہے اور ہر دور میں ویسا ہی جدید (modern) نظر آتا ہے جیسا اس سے پہلے دَور کے لیے تھا۔ تم جن لوگوں کو فیاضی کے ساتھ ’’تاریخ بنانے والے‘‘ (makers of history) کا لقب دیتے ہو وہ حقیقت میں تاریخ کے بنائے ہوئے (creatures of history) ہیں۔ دراصل تاریخ بنانے والا پوری انسانی تاریخ میں یہی ایک شخص ہے۔ دُنیا کے جتنے لیڈروں نے تاریخ میں انقلاب برپا کیے ہیں ان کے حالات پر تحقیقی نگاہ ڈالو۔ تم دیکھو گے کہ ہر ایسے موقع پر پہلے سے انقلاب کے اسباب پیدا ہو رہے تھے، اور وہ اسباب خود ہی اس انقلاب کا رُخ اور راستہ بھی معین کر رہے تھے جس کے برپا ہونے کے وہ مقتضی تھے۔ انقلابی لیڈر نے صرف اتنا کیا کہ حالات کے اقتضا کو قوت سے فعل میں لانے کے لیے اس ایکٹر کا پارٹ ادا کر دیا جس کے لیے اسٹیج اور کام دونوں پہلے سے معیّن ہوں۔ مگر تاریخ بنانے والوں یا انقلاب برپا کرنے والوں کی پوری جماعت میں یہ اکیلا شخص ہے کہ جہاں انقلاب کے اسباب موجود نہ تھے وہاں اس نے خود اسباب کو پیدا کیا، جہاں انقلاب کا مواد موجود نہ تھا وہاں اس نے خود مواد تیار کیا۔ جہاں اس انقلاب کی اسپرٹ اور عملی استعداد لوگوں میں نہ پائی جاتی تھی وہاں اس نے خود اپنے مطلب کے آدمی تیار کیے، اپنی زبردست شخصیت کو پگھلا کر ہزارہا انسانوں کے قالب میں اتار دیا اور ان کو ویسا بنایا جیسا وہ بنانا چاہتا تھا۔ اس کی طاقت اور قوتِ ارادی نے خود ہی انقلاب کاسامان کیا۔ خود ہی اس کی صورت اور نوعیت معیّن کی اور خود ہی اپنے ارادے کے زور سے حالات کی رفتار کو موڑ کر اس راستے پر چلایا جس پر وہ اسے چلانا چاہتا تھا۔ اس شان کا تاریخ ساز اور اس مرتبے کا انقلاب انگیز تمھیں اور کہاں نظر آتا ہے؟
آئیے اب اس سوال پر غور کیجیے کہ ۱۴ سو برس پہلے کی تاریک دُنیا میں، عرب جیسے تاریک تر ملک کے ایک گوشے میں، ایک گلہ بانی اور سوداگری کرنے والے اَن پڑھ بادیہ نشین کے اندر یکایک اتنا علم، اتنی روشنی، اتنی طاقت، اتنے کمالات، اتنی زبردست تربیت یافتہ قوتیں پیدا ہو جانے کا کون سا ذریعہ تھا؟ آپ کہتے ہیں کہ سب اس کے اپنے دل ودماغ کی پیداوار تھی۔ میں کہتا ہوں کہ اگر یہ اسی کے دل ودماغ کی پیداوار تھی تو اسے خدائی کا دعوٰی کرنا چاہیے تھا اور اگر وہ ایسا دعوٰی کرتا تو وہ دُنیا جس نے رام کو خدا بنا ڈالا، جس نے کرشن کو بھگوان قرار دینے میں تامل نہ کیا، جس نے بودھ کو خود بخود معبود بنا لیا، جس نے مسیح ؑ کو آپ اپنی مرضی سے ابنُ اللّٰہ مان لیا، جس نے آگ اور پانی اور ہوا تک کو پُوج ڈالا، وہ ایسے زبردست باکمال شخص کو خدا مان لینے سے کبھی انکار نہ کرتی۔ مگر دیکھو، وہ خود کیا کہہ رہا ہے۔ وہ اپنے کمالات میں سے ایک کا کریڈٹ بھی خود نہیں لیتا۔ کہتا ہے کہ میں ایک انسان ہوں، تمھیں جیسا انسان، میرے پاس کچھ بھی اپنا نہیں۔ سب کچھ خدا کا ہے اور خدا ہی کی طرف سے ہے۔ یہ کلام جس کی نظیر لانے سے تمام نوعِ انسانی عاجز ہے میرا کلام نہیں ہے۔ میرے دماغ کی قابلیت کا نتیجہ نہیں ہے، لفظ بلفظ خدا کی طرف سے میرے پاس آیا ہے اور اُس کی تعریف خدا ہی کے لیے ہے۔ یہ کارنامے جو مَیں نے دکھائے، یہ قوانین جو میں نے وضع کیے، یہ اصول جو میں نے تمھیں سکھائے، ان میں سے کوئی چیز بھی میں نے خود نہیں گھڑی ہے۔ میں کچھ بھی اپنی ذاتی قابلیت سے پیش کرنے پر قادر نہیں ہوں۔ ہر ہر چیز میں خدا کی راہ نمائی کا محتاج ہوں، اُدھر سے جو اشارہ ہوتا ہے، وہی کرتا ہوں اور وہی کہتا ہوں۔
دیکھو یہ کیسی حیرت انگیز صداقت ہے۔ کیسی امانت اور راست بازی ہے۔ جھوٹا انسان تو بڑا بننے کے لیے دوسروں کے ایسے کمالات کا کریڈٹ بھی لے لینے میں تامل نہیں کرتا جن کے اصل مآخذ کا پتا بآسانی چل جاتا ہے لیکن یہ شخص ان کمالات کو بھی اپنی طرف منسوب نہیں کرتا، جنھیں اگر وہ اپنے کمالات کہتا تو کوئی اسے جھٹلا نہ سکتا تھا، کیوں کہ کسی کے پاس ان کے اصلی مآخذ تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ ہی نہیں۔ سچائی کی اس سے زیادہ کھلی ہوئی دلیل اورکیا ہو سکتی ہے؟اس شخص سے زیادہ سچا اور کون ہو گا جسے ایک نہایت مخفی ذریعے سے ایسے بے نظیر کمالات حاصل ہوں، اور وہ بلا تکلّف اپنے اصلی ماخذ کاحوالہ دے دے؟ بتائو کیا وجہ ہے کہ ہم اس کی تصدیق نہ کریں؟
زندگی بعد مَوت
موت کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے یا نہیں؟ اور ہے تو کیسی ہے؟ یہ سوال حقیقت میں ہمارے علم کی رسائی سے دُور ہے۔ ہمارے پاس وہ آنکھیں نہیں جن سے ہم موت کی سرحد کے اس پار جھانک کر دیکھ سکیں کہ وہاں کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ ہمارے پاس وہ کان نہیں جن سے ہم اُدھر کی کوئی آواز سن سکیں۔ ہم کوئی ایسا آلہ بھی نہیں رکھتے جس کے ذریعے سے تحقیق کے ساتھ معلوم کیا جا سکے کہ ادھر کچھ ہے یا کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا جہاں تک سائنس کا تعلق ہے، یہ سوال اس کے دائرے سے قطعی خارج ہے۔ جو شخص سائنس کا نام لے کر کہتا ہے کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے وہ بالکل ایک غیر سائنٹیفک بات کہتا ہے۔ سائنس کی رُو سے نہ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی زندگی ہے اور نہ یہ کہ کوئی زندگی نہیں ہے۔ جب تک کہ ہم کوئی یقینی ذریعۂ علم نہیں پاتے کم از کم اس وقت تک تو صحیح سائنٹیفک رویّہ یہی ہو سکتا ہے کہ ہم زندگی بعد موت کا انکار کریں نہ اقرار۔
مگر کیا عملی زندگی میں ہم اس سائنٹیفک رویے کو نباہ سکتے ہیں؟ شاید نہیں، بلکہ یقینا نہیں۔ عقلی حیثیت سے تو یہ ممکن ہے کہ جب ایک چیز کو جاننے کے ذرائع ہمارے پاس نہ ہوں تو اس کے متعلق ہم نفی اوراثبات دونوں سے پرہیز کریں، لیکن جب اسی چیز کا تعلق ہماری عملی زندگی سے ہو تو ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ یا تو انکار پر اپنا طرزِ عمل قائم کریں یا اقرار پر۔ مثلاً ایک شخص ہے جس سے آپ واقف نہیں ہیں، اگر اس کے ساتھ آپ کا کوئی معاملہ درپیش نہ ہو تو آپ کے لیے یہ ممکن ہے کہ اس کے ایمان دار ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی حکم نہ لگائیں۔ لیکن جب آپ کو اس سے معاملہ کرنا ہو تو آپ مجبور ہیں کہ یا توا سے ایمان دار سمجھ کر معاملہ کریں یا بے ایمان سمجھ کر۔ اپنے ذہن میں آپ ضرور یہ خیال کر سکتے ہیں کہ جب تک اس کا ایمان دار ہونا یا نہ ہونا ثابت نہ ہو جائے، اس وقت تک ہم شک کے ساتھ معاملہ کریں گے۔ مگر اس کی ایمان داری کو مشکوک سمجھتے ہوئے جو معاملہ آپ کریں گے عملاً اس کی صورت وہی ہو گی جو اس کی ایمان داری کا انکار کرنے کی صورت میں ہو سکتی تھی۔ لہٰذا فی الواقع انکار اور اقرار کے درمیان شک کی حالت صرف ذہن ہی میں ہو سکتی ہے۔ عملی رویّہ کبھی شک پر قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے تو اقرار یا انکار بہرحال ناگزیر ہے۔
یہ بات تھوڑے ہی غور وفکر سے آپ کی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ زندگی بعد موت کا سوال محض ایک فلسفیانہ سوال نہیں ہے بلکہ ہماری عملی زندگی سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔ دراصل ہمارے اَخلاقی رویے کا سارا انحصار ہی اس سوال پر ہے۔ اگر میرا خیال یہ ہو کہ زندگی جو کچھ ہے بس یہی دُنیوی زندگی ہے، اور اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے، تو میرا اَخلاقی رویّہ ایک طرح کا ہو گا اور اگر میں یہ خیال رکھتا ہوں کہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی بھی ہے جس میں مجھے اپنی موجودہ زندگی کا حساب دینا ہو گا، اور وہاں میرا اچھا یا بُرا انجام میرے یہاں کے اعمال پر منحصر ہو گا، تو یقینا میرا اَخلاقی طرز عمل بالکل ایک دوسری ہی طرح کا ہو گا۔ اس کی مثال یوں سمجھیے جیسے ایک شخص یہ سمجھتے ہوئے سفر کر رہا ہے کہ اسے بس یہاں سے کراچی تک جانا ہے، اور کراچی پہنچ کر نہ صرف یہ کہ اس کا سفر ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا، بلکہ وہاں پولیس اور عدالت اور ہر اُس طاقت کی دسترس سے باہر ہو گا جو اس سے کسی قسم کی باز پرس کر سکتی ہو اور اس کے برعکس ایک دوسرا شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہاں سے کراچی تک تو اس کے سفر کی صرف ایک ہی منزل ہے۔ اس کے بعد اُسے سمندر پار ایک ایسے ملک میں جانا ہو گا جہاں کا فرماں روا وہی ہے جو پاکستان کا فرماں روا ہے اور اس کے دفتر میں میرے اس پورے کارنامے کا خفیہ ریکارڈ موجود ہے جو میںنے پاکستان کے اُس حصے میں انجام دیا ہے، اوروہاں میرے ریکارڈ کو جانچ کر فیصلہ کیا جائے گا کہ میں اپنے کام کے لحاظ سے کس درجے کا مستحق ہوں۔ آپ بآسانی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان دونوں شخصوں کا طرزِ عمل کس قدر ایک دوسرے سے مختلف ہو گا۔ پہلا شخص یہاں سے کراچی تک کے سفر کی تیاری کرے گا، اور دوسرے کی تیاری بعد کی طویل منزلوں کے لیے بھی ہو گی۔ پہلا شخص یہ سمجھے گا کہ نفع یا نقصان جوکچھ بھی ہے کراچی پہنچنے تک ہے، آگے کچھ نہیں اور دوسرا یہ خیال کرے گا کہ اصل نفع ونقصان سفر کے پہلے مرحلے میں نہیں ہے، بلکہ آخری مرحلے میں ہے۔ پہلا شخص اپنے افعال کے صرف انھی نتائج پرنظر رکھے گا جوکراچی تک کے سفر میں نکل سکتے ہیں لیکن دوسرے شخص کی نگاہ ان نتائج پر ہو گی جو سمندر پار دوسرے ملک میں پہنچ کر نکلیں گے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں شخصوں کے طرزِ عمل کا یہ فرق براہِ راست نتیجہ ہے ان کی اس رائے کا جووہ اپنے سفرکی نوعیت کے متعلق رکھتے ہیں ٹھیک اسی طرح ہماری اَخلاقی زندگی میں بھی وہ عقیدہ فیصلہ کن اثر رکھتا ہے جو ہم زندگی بعد موت کے بارے میں رکھتے ہیں۔ عمل کے میدان میں جو قدم بھی ہم اٹھائیں گے، اس کی سمت کا تعین اس بات پر منحصر ہو گا کہ آیا ہم اسی زندگی کو پہلی اور آخری زندگی سمجھ کر کام کر رہے ہیں، یا کسی بعد کی زندگی اور اس کے نتائج کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ پہلی صورت میں ہمارا قدم ایک سمت اٹھے گا اور دوسری صورت میں اس کی سمت بالکل مختلف ہو گی۔
اس سے معلوم ہوا کہ زندگی بعد موت کا سوال محض ایک عقلی اور فلسفیانہ سوال نہیں ہے، بلکہ عملی زندگی کا سوال ہے اور جب بات یہ ہے تو ہمارے لیے اس معاملے میں شک اور تردّد کے مقام پر ٹھیرنے کا موقع نہیں۔ شک کے ساتھ جو رویّہ ہم زندگی میں اختیار کریں گے وہ بھی لامحالہ انکار ہی کے رویے جیسا ہو گا۔ لہٰذا ہم بہرحال اس امر کا تعین کرنے پر مجبور ہیں کہ آیا موت کے بعد کوئی اور زندگی ہے یا نہیں۔ اگر سائنس اس کے تعین میں ہماری مدد نہیں کرتی تو ہمیں عقلی استدلال سے مدد لینی چاہیے۔
اچھا تو عقلی استدلال کے لیے ہمارے پاس کیا مواد ہے؟
ہمارے سامنے ایک تو خود انسان ہے اور دوسرے یہ نظامِ کائنات۔ ہم انسان کو اس نظامِ کائنات کے اندر رکھ کر دیکھیں گے کہ جو کچھ انسان میں ہے آیا اس کے سارے مقتضیات اس نظام میں پورے ہو جاتے ہیں، یا کوئی چیز بچی رہ جاتی ہے، جس کے لیے کسی دوسری نوعیت کے نظام کی ضرورت ہو۔
دیکھیے، انسان ایک تو جسم رکھتا ہے، جو بہت سے معدنیات، نمکیات، پانی اور گیسوں کا مجموعہ ہے۔ اس کے جواب میں کائنات کے اندر بھی مٹی، پتھر، دھاتیں، نمک، گیسیں، دریا اور اسی جنس کی دوسری چیزیں موجود ہیں۔ ان چیزوں کو کام کرنے کے لیے جتنے قوانین کی ضرورت ہے وہ سب کائنات کے اندر کار فرما ہیں اور جس طرح وہ باہر کی فضا میں پہاڑوں، دریائوں اور ہوائوں کو اپنے حصے کا کام پورا کرنے کا موقع دے رہے ہیں اسی طرح انسانی جسم کو بھی ان قوانین کے تحت کام کرنے کا موقع حاصل ہے۔
پھر انسان ایک ایسا وجود ہے جو گردوپیش کی چیزوں سے غذا لے کر بڑھتا اور نشوونما حاصل کرتا ہے۔ اسی جنس کے درخت، پودے اور گھاس پھونس کائنات میں بھی موجود ہیں، اور وہ قوانین بھی یہاں پائے جاتے ہیں جو نشوونما پانے والے اجسام کے لیے درکار ہیں۔
پھر انسان ایک زندہ وجود ہے جو اپنے ارادے سے حرکت کرتا ہے، اپنی غذا خود اپنی کوشش سے فراہم کرتا ہے، اپنے نفس کی آپ حفاظت کرتا ہے اور اپنی نوع کو باقی رکھنے کا انتظام کرتا ہے۔ کائنات میں اس جنس کی بھی دوسری بہت سی قسمیں موجود ہیں، خشکی، تری اور ہوا میں بے شمار حیوانات پائے جاتے ہیں اور وہ قوانین بھی تمام وکمال یہاں کارفرما ہیں جو ان زندہ ہستیوں کے پورے دائرۂ عمل پر حاوی ہونے کے لیے کافی ہیں۔
ان سب سے اُوپر انسان ایک اور نوعیت کا وُجود بھی رکھتا ہے جسے ہم اَخلاقی وُجود کہتے ہیں اس کے اندر نیکی اور بدی کرنے کا شعور ہے، نیک اور بد کی تمیز ہے، نیکی اور بدی کرنے کی قوت ہے اور اس کی فطرت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ نیکی کا اچھا اور بدی کا بُرا نتیجہ ظاہر ہو۔ وہ ظلم اور انصاف، سچائی اور جھوٹ، حق اور ناحق، رحم اور بے رحمی، احسان اور احسان فراموشی، فیاضی اور بخل، امانت اور خیانت اور ایسی ہی مختلف اَخلاقی صفات کے درمیان فرق کرتا ہے۔ یہ صفات عملاً اس کی زندگی میں پائی جاتی ہیں اور یہ محض خیالی چیزیں نہیں ہیں بلکہ بالفعل ان کے اثرات انسانی تمدن پر مرتّب ہوتے ہیں۔ لہٰذا انسان جس فطرت پر پیدا ہوا ہے اُس کا شدت کے ساتھ تقاضا یہ ہے کہ جس طرح اس کے افعال کے طبعی نتائج رونما ہوتے ہیں، اِسی طرح اَخلاقی نتائج بھی رونما ہوں۔
مگر نظامِ کائنات پر گہری نگاہ ڈال کر دیکھیے، کیا اس نظام میں انسانی افعال کے اَخلاقی نتائج پوری طرح رُونما ہو سکتے ہیں؟ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہاں اس کا امکان نہیں ہے، اس لیے کہ یہاں کم از کم ہمارے علم کی حد تک کوئی دُوسری ایسی مخلوق نہیں پائی جاتی جو اَخلاقی وجود رکھتی ہو۔ سارا نظامِ کائنات طبعی قوانین کے ماتحت چل رہا ہے۔ اَخلاقی قوانین اس میں کسی طرف کارفرما نظر نہیں آتے۔ یہاں روپے میں وزن اور قیمت ہے، مگر سچائی میں نہ وزن ہے نہ قیمت۔ یہاں آم کی گٹھلی سے ہمیشہ آم پیدا ہوتا ہے، مگر حق پرستی کا بیج بونے والے پر کبھی پھولوں کی بارش ہوتی ہے، اورکبھی بلکہ اکثر جوتیوں کی۔ یہاں مادی عناصر کے لیے مقرر قوانین ہیں جن کے مطابق ہمیشہ مقرر نتائج نکلتے ہیں مگر اَخلاقی عناصر کے لیے کوئی مقرر قانون نہیں ہے کہ ان کی فعلیت سے ہمیشہ مقرر نتیجہ نکل سکے۔ طبعی قوانین کی فرماں روائی کے سبب سے اَخلاقی نتائج کبھی تو نکل ہی نہیں سکتے، کبھی نکلتے ہیں تو صرف اس حد تک جس کی اجازت طبعی قوانین دے دیں، اور بارہا ایسا بھی ہوتا ہے کہ اَخلاق ایک فعل سے ایک نتیجہ نکلنے کا تقاضا کرتا ہے، مگر طبعی قوانین کی مداخلت سے نتیجہ بالکل برعکس نکل آتا ہے۔ انسان نے خود اپنے تمدنی وسیاسی نظام کے ذریعے سے تھوڑی سی کوشش اس امر کی کی ہے کہ انسانی اعمال کے اَخلاقی نتائج ایک مقرر ضابطے کے مطابق برآمد ہو سکیں، مگر یہ کوشش بہت محدود پیمانے پر ہے، اور بے حد ناقص ہے۔ ایک طرف طبعی قوانین اس کو محدود اور ناقص بناتے ہیں اور دوسری طرف انسان کی اپنی بہت سی کم زوریاں اس انتظام کے نقائص میں اور زیادہ اضافہ کر دیتی ہیں۔
مَیں اپنے مدعا کی توضیح چند مثالوں سے کروں گا۔ دیکھیے، ایک شخص اگر کسی دوسرے شخص کا دشمن ہواور اس کے گھر میں آگ لگا دے تو اس کا گھر جل جائے گا۔ یہ اس کے فعل کا طبعی نتیجہ ہے۔ اس کا اَخلاقی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ اس شخص کو اتنی ہی سزا ملے جتنا اُس نے ایک خاندن کو نقصان پہنچایا ہے مگر اس نتیجے کا ظاہر ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ آگ لگانے والے کا سراغ ملے، وہ پولیس کے ہاتھ آ سکے اس پر جرم ثابت ہو، عدالت پوری طرح اندازہ کر سکے کہ آگ لگنے سے اس خاندان کو اور اس کی آیندہ نسلوں کو ٹھیک ٹھیک کتنا نقصان پہنچا ہے اور پھر انصاف کے ساتھ اس مجرم کو اتنی ہی سزا دے۔ اگر ان شرطوں میں سے کوئی شرط بھی پوری نہ ہو تو اَخلاقی نتیجہ یا تو بالکل ہی ظاہر نہ ہو گا یا اس کا صرف ایک تھوڑا سا حصہ ظاہر ہوکر رہ جائے گا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے حریف کو برباد کرکے وہ شخص دُنیا میں مزے سے پھولتا پھلتا رہے۔
اس سے بڑے پیمانے پر ایک اور مثال لیجیے۔ چند اشخاص اپنی قوم میں اثر پیدا کر لیتے ہیں اور ساری قوم ان کے کہے پر چلنے لگتی ہے۔ اس پوزیشن سے فائدہ اُٹھا کر وہ لوگوں میں قوم پرستی کا اشتعال اور ملک گیری کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ گرد وپیش کی قوموں سے جنگ چھیڑ دیتے ہیں لکھوکھا آدمیوں کو ہلاک کرتے ہیں، ملک کے ملک تباہ کر ڈالتے ہیں اور کروڑوں انسانوں کو ذلیل اور پست زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ انسانی تاریخ پر ان کی ان کارروائیوں کا ایسا زبردست اثر پڑتا ہے جس کا سلسلہ آیندہ سیکڑوں برس تک پشت درپشت اور نسل در نسل پھیلتا جائے گا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ چند اشخاص جس جرمِ عظیم کے مرتکب ہوئے ہیں اس کی مناسب اور منصفانہ سزا انھیں کبھی اس دُنیوی زندگی میں مل سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر ان کی بوٹیاں بھی نوچ لی جائیں، اگر انھیں زندہ جلا ڈالا جائے یا کوئی اور ایسی سزا دی جائے جو انسان کے بس میں ہے۔ تب بھی کسی طرح وہ اس نقصان کے برابر سزا نہیں پا سکتے جو انھوں نے کروڑہا انسانوں کو اور ان کی آیندہ بے شمار نسلوں کو پہنچایا ہے۔ موجودہ نظامِ کائنات جن طبعی قوانین پر چل رہا ہے، اُن کے تحت کسی طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے جرم کے برابر سزا پا سکیں۔
اسی طرح ان نیک انسانوں کو لیجیے جنھوں نے نوعِ انسانی کو حق اور راستی کی تعلیم دی اور ہدایت کی روشنی دکھائی، جن کے فیض سے بے شمار انسانی نسلیں صدیوں سے فائدہ اُٹھا رہی ہیں اور نہ معلوم آیندہ کتنی صدیوں تک اٹھاتی چلی جائیں گی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کی خدمات کا پورا صلہ انھیں اس دُنیا میں مل سکے؟ کیا آپ تصوّر کر سکتے ہیں کہ موجودہ طبعی قوانین کی حدود کے اندر ایک شخص اپنے اس عمل کا پورا صلہ حاصل کر سکتا ہے جس کا ردّ عمل اس کے مرنے کے بعد ہزاروں برس تک اور بے شمار انسانوں تک پھیل گیا ہو؟
جیسا کہ مَیں ابھی بیان کر چکا ہوں، اوّل تو موجودہ نظامِ کائنات جن قوانین پر چل رہا ہے اُن کے اندر اتنی گنجائش ہی نہیں ہے کہ انسانی افعال کے اَخلاقی نتائج پوری طرح مرتّب ہو سکیں۔ دوسرے یہاں چند سال کی زندگی میں انسان جو عمل بھی کرتا ہے اس کے ردّ عمل کا سلسلہ اتنا وسیع ہوتا ہے اور اتنی مدت تک جاری رہتا ہے کہ صرف اِسی کے پورے نتائج وصول کرنے کے لیے ہزاروں بلکہ لاکھوں برس کی زندگی درکار ہے اور موجودہ قوانینِ قدرت کے ماتحت انسان کو اتنی زندگی ملنی ناممکن ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسانی ہستی کے خاکی، عضوی اور حیوانی عناصر کے لیے تو موجودہ طبعی دُنیا (physical world) اور اس کے قوانین ہیں، مگر اس کے اَخلاقی عنصر کے لیے یہ دُنیا بالکل ناکافی ہے۔ اس کے لیے ایک دُوسرا نظامِ عالم درکار ہے۔ جس میں حکم راں قانون (governing law)اَخلاق کا قانون ہو اور طبعی قوانین اس کے ماتحت محض مددگار کی حیثیت سے کام کریں۔ جس میں زندگی محدود نہ ہو، بلکہ غیر محدود ہو۔ جس میں وہ تمام اَخلاقی نتائج جو یہاں مرتب ہونے سے رہ گئے ہیں یا اُلٹے مرتب ہوئے ہیں، اپنی صحیح صورت میں پوری طرح مرتب ہو سکیں۔ جہاں سونے اور چاندی کے بجائے نیکی اور صداقت میں وزن اور قیمت ہو، جہاں آگ صرف اس چیز کو جلائے جو اَخلاقاً جلنے کی مستحق ہو۔ جہاں عیش اسے ملے جو نیک ہو اور مصیبت صرف اس کے حصے میں آئے جو بد ہو۔ عقل چاہتی ہے، فطرت مطالبہ کرتی ہے کہ ایک ایسا نظام عالم ضرور ہونا چاہیے۔
جہاں تک عقلی استدلال کا تعلق ہے وہ ہم کو صرف ’’ہونا چاہیے‘‘ کی حد تک لے جا کر چھوڑ دیتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ آیا واقعی کوئی ایسا عالَم ہے بھی تو ہماری عقل اور ہمارا علم، دونوں اس کا حکم لگانے سے عاجز ہیں۔ یہاں قرآن ہماری مدد کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تمھاری عقل اور تمھاری فطرت جس چیز کا مطالبہ کرتی ہے فی الحقیقت وہ ہونے والی ہے۔ موجودہ نظامِ عالم جو طبعی قوانین پر بنا ہےایک وقت میں توڑ ڈالا جائے گا۔ اس کے بعد ایک دوسرا نظام بنے گا۔ جس میں زمین وآسمان اور ساری چیزیں ایک دوسرے ڈھنگ پر ہوں گی۔ پھر اللّٰہ تعالیٰ تمام انسانوں کو جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے تھے دوبارہ پیدا کر دے گا اور بیک وقت ان سب کو اپنے سامنے جمع کر دے گا۔ وہاں ایک ایک شخص کا، ایک ایک قوم کا اور پوری انسانیت کا ریکارڈ ہر غلطی اور ہر فروگزاشت کے بغیر محفوظ ہو گا۔ ہر شخص کے ایک ایک عمل کا جتنا ردّ عمل دُنیا میں ہوا ہے اُس کی پوری روداد موجود ہو گی۔ وہ تمام نسلیں گواہوں کے کٹہرے میں حاضر ہوں گی جو اس رد عمل سے متاثر ہوئیں۔ ایک ایک ذرّہ جس پر انسان کے اقوال اور افعال کے نقوش ثبت ہوئے تھے اپنی داستان سنائے گا۔ خود انسان کے ہاتھ اور پائوں اور آنکھ اور زبان اور تمام اعضا شہادت دیں گے کہ ان سے اس نے کس طرح کام لیا۔ پھر اس رُوداد پر وہ سب سے بڑا حاکم پورے انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا کہ کون کتنے انعام کا مستحق ہے اور کون کتنی سزا کا؟ یہ انعام اور یہ سزا دونوں چیزیں اتنے بڑے پیمانے پر ہوں گی جس کا کوئی اندازہ موجودہ نظامِ عالم کی محدود مقداروں کے لحاظ سے نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں وقت اور جگہ کے معیار کچھ اور ہوں گے۔ وہاں کی مقداریںکچھ اورہوں گی۔ وہاں کے قوانین ِ قدرت کسی اور قسم کے ہوں گے۔ انسان کی جن نیکیوں کے اثرات دُنیا میں ہزاروں برس چلتے رہے ہیں، وہاں وہ اُن کا بھرپور صلہ وصول کر سکے گا، بغیر اس کے کہ موت اور بیماری اور بڑھاپا اس کے عیش کا سلسلہ توڑ سکیں اور اِسی طرح انسان کی جن برائیوں کے اثرات دُنیا میں ہزارہا برس تک اور بے شمار انسانوں تک پھیلتے رہے ہیں وہ اُن کی پوری سزا بھگتے گا، بغیر اس کے کہ موت اور بے ہوشی آ کر اسے تکلیف سے بچا سکے۔
ایسی ایک زندگی اور ایسے ایک عالَم کو جو لوگ ناممکن سمجھتے ہیں، مجھے ان کے ذہن کی تنگی پر ترس آتا ہے۔ اگر ہمارے موجودہ نظامِ عالَم کا موجودہ قوانینِ قدرت کے ساتھ موجود ہونا ممکن ہے تو آخر ایک دُوسرے نظامِ عالَم کا دُوسرے قوانین کے ساتھ وجود میں آنا کیوں ناممکن ہو؟ البتہ یہ بات کہ واقع میں ایسا ضرور ہو گا، توا س کا یقین نہ دلیل سے ہو سکتا ہے اور علمی ثبوت سے، اس کے لیے ایمان بالغیب کی ضرورت ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭
سلامتی کا راستہ
ہستیٔ باری تعالیٰ
صاحبو! اگر کوئی شخص آپ سے کہے کہ بازار میں ایک دُکان ایسی ہے جس کا کوئی دُکان دار نہیں ہے، نہ کوئی اُس میں مال لانے والا ہے، نہ بیچنے والا اور نہ کوئی اس کی رکھوالی کرتا ہے، دُکان خود بخود چل رہی ہے، خود بخود اس میں مال آ جاتا ہے اور خود بخود خریداروں کے ہاتھوں فروخت ہو جاتا ہے تو کیا آپ اس شخص کی بات مان لیں گے؟ کیا آپ تسلیم کر لیں گے کہ کسی دکان میں مال لانے والے کے بغیر خودبخود بھی مال آ سکتا ہے؟ مال بیچنے والے کے بغیر خودبخود فروخت بھی ہو سکتا ہے؟ حفاظت کرنے والے کے بغیر خودبخود چوری اور لوٹ سے محفوظ بھی رہ سکتا ہے؟ اپنے دل سے پوچھیے ایسی بات آپ کبھی مان سکتے ہیں؟ جس کے ہوش وحواس ٹھکانے ہوں کیا اس کی عقل میں یہ بات آ سکتی ہے کہ کوئی دکان دُنیا میں ایسی بھی ہو گی؟
فرض کیجیے ایک شخص آپ سے کہتا ہے کہ اس شہر میں ایک کارخانہ ہے جس کا نہ کوئی مالک ہے، نہ انجنیئر، نہ مستری، سارا کارخانہ خود بخود قائم ہو گیا ہے۔ ساری مشینیں خود بخود بن گئی ہیں، خود ہی سارے پرزے اپنی اپنی جگہ لگ گئے ہیں، خود ہی سب مشینیں چل رہی ہیں، اور خود ہی ان میں سے عجیب عجیب چیزیں بن بن کر نکلتی رہتی ہیں۔ سچ بتایے جو شخص آپ سے یہ بات کہے گا آپ حیرت سے اس کا منہ تکنے لگیں گے! آپ کو یہ شُبہ نہ ہو گا کہ اس کا دماغ تو کہیں خراب نہیں ہو گیا ہے؟ کیا ایک پاگل کے سوا ایسی بے ہودہ بات کوئی کہہ سکتا ہے؟
دُور کی مثال کو چھوڑئیے، یہ بجلی کا بلب جو آپ کے سامنے جل رہا ہے کیا کسی کے کہنے سے آپ یہ مان سکتے ہیں کہ روشنی اس بلب میں آپ سے آپ پیدا ہو جاتی ہے؟ یہ کرسی جو آپ کے سامنے رکھی ہے، کیا کسی بڑے سے بڑے فاضل فلسفی کے کہنے سے بھی آپ یہ باور کر سکتے ہیں کہ یہ خود بخود بن گئی ہے؟ یہ کپڑے جو آپ پہنے ہوئے ہیں، کیا کسی علامۂ دہر کے کہنے سے بھی آپ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں کہ انھیں کسی نے بُنا نہیں ہے، یہ خود بُن گئے ہیں؟ یہ گھر جو آپ کے سامنے کھڑے ہیں اگر تمام دُنیا کی یونی ورسٹیوں کے پروفیسر مل کر بھی آپ کو یقین دلائیں کہ ان گھروں کو کسی نے نہیں بنایا ہے بلکہ یہ خود بن گئے ہیں، تو کیا ان کے یقین دلانے سے آپ کو ایسی لغو بات پر یقین آ جائے گا؟
یہ چند مثالیں آپ کے سامنے کی ہیں۔ رات دن جن چیزوں کو آپ دیکھتے ہیں انھی میں سے چند ایک مَیں نے بیان کی ہیں۔ اب غور کیجیے، ایک معمولی دُکان کے متعلق جب آپ کی عقل یہ نہیں مان سکتی کہ وہ کسی قائم کرنے والے کے بغیر چل رہی ہے، جب ایک ذرا سے کارخانے کے متعلق آپ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے کہ وہ کسی بنانے والے کے بغیر بن جائے گا اور کسی چلانے والے کے بغیر چلتا رہے گا تو یہ زمین وآسمان کا زبردست کارخانہ جو آپ کے سامنے چل رہا ہے، جس میں چاند اور سورج اور بڑے بڑے ستارے گھڑی کے پرزوں کی طرح حرکت کر رہے ہیں، جس میں سمندروں سے بھاپیں اٹھتی ہیں، بھاپوں سے بادل بنتے ہیں، بادلوں کو ہوائیں اڑا کر زمین کے کونے کونے میں پھیلاتی ہیں، پھر انھیں مناسب وقت پرٹھنڈک پہنچا کر دوبارہ بھاپ سے پانی بنایا جاتا ہے، پھر وہ پانی بارش کے قطروں کی صورت میں گرایا جاتا ہے، پھر اس بارش کی بدولت مردہ زمین کے پیٹ سے طرح طرح کے لہلہاتے ہوئے درخت نکالے جاتے ہیں۔ قسم قسم کے غلّے، رنگ برنگ کے پھل اور وضع وضع کے پھول پیدا کیے جاتے ہیں، اس کارخانے کے متعلق آپ یہ کیسے مان سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ کسی بنانے والے کے بغیر خود بن گیا اور کسی چلانے والے کے بغیر خود چل رہا ہے؟ ایک ذرا سی کرسی، ایک گز بھر کپڑے، ایک چھوٹی سی دیوار کے متعلق کوئی کہہ دے کہ یہ چیزیں خود بنی ہیں تو آپ فورًا فیصلہ کر دیں گے کہ اس کا دماغ چل گیا ہے۔ پھر بھلا اس شخص کے دماغ کی خرابی میں کیا شک ہو سکتا ہے جو کہتا ہے کہ زمین خود بن گئی، جانور خود پیدا ہو گئے، انسان جیسی حیرت انگیز چیز آپ سے آپ بن کر کھڑی ہو گئی۔
آدمی کا جسم جن اجزا سے مل کر بنا ہے ان سب کو سائنس دانوں نے الگ الگ کرکے دیکھا تو معلوم ہوا کہ کچھ لوہا ہے، کچھ کوئلہ ،کچھ گندھک، کچھ فاسفورس، کچھ کیلسیم، کچھ نمک، چند گیسیں اور بس ایسی ہی چند اور چیزیں جن کی مجموعی قیمت چند روپوں سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ چیزیں جتنے جتنے وزن کے ساتھ آدمی کے جسم میں شامل ہیں، اتنے ہی وزن کے ساتھ انھیں لے لیجیے اور جس طرح جی چاہے ملا کر دیکھ لیجیے۔ آدمی کسی ترکیب سے نہ بن سکے گا۔ پھر کس طرح آپ کی عقل مان سکتی ہے کہ ان چند بے جان چیزوں سے دیکھتا، سنتا، بولتا، چلتا، پھرتا انسان، جو ہوائی جہازاور ریڈیو بناتا ہے، کسی کاری گر کی حکمت کے بغیر خود بخود بن جاتا ہے؟
کبھی آپ نے غور کیا کہ ماں کے پیٹ کی چھوٹی سی فیکٹری میں کس طرح آدمی تیار ہوتا ہے؟ باپ کی کارستانی کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ ماں کی حکمت کا اس میں کوئی کام نہیں۔ ایک ذرا سی تھیلی میں دو کیڑے جو خُردبین کے بغیر دیکھے تک نہیں جا سکتے، نہ معلوم کب آپس میں مل جاتے ہیں۔ ماں کے خون ہی سے انھیں غذا پہنچنی شروع ہو جاتی ہے۔ وہیں سے لوہا، گندھک، فاسفورس وغیرہ تمام چیزیں جن کا میں نے اُوپر ذکر کیا ہے، ایک خاص وزن اور خاص نسبت کے ساتھ وہاں جمع ہو کر لوتھڑا بنتی ہیں۔ پھراس لوتھڑے میں جہاں آنکھیں بننی چاہییں وہاں آنکھیں بنتی ہیں، جہاں کان بننے چاہییں وہاں کان بنتے ہیں۔ جہاں دماغ بننا چاہیے وہاں دماغ بنتا ہے، جہاں دل بننا چاہیے، وہاں دل بنتا ہے… ہڈی اپنی جگہ پر، گوشت اپنی جگہ پر، غرض ایک ایک پرزہ اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک بیٹھتا ہے۔ پھر اس میں جان پڑ جاتی ہے۔ دیکھنے کی طاقت، سننے کی طاقت، چکھنے اور سونگھنے کی طاقت، بولنے کی طاقت، سوچنے اور سمجھنے کی طاقت اور نہ جانے کتنی بے حد وحساب طاقتیں اس میں بھر جاتی ہیں۔ اس طرح جب انسان مکمل ہو جاتا ہے تو پیٹ کی وہی چھوٹی سی فیکٹری جہاں نو مہینے تک وہ بن رہا تھا، خودزور کرکے اسے باہر دھکیل دیتی ہے۔ اس فیکٹری سے ایک ہی طریقے پر لاکھوں انسان روز بن کر نکل رہے ہیں۔ مگر ہر ایک کا نمونہ جدا ہے۔ شکل جدا، رنگ جدا، آواز جدا، قوتیں اور قابلیتیں جدا، طبیعتیں اور خیالات جدا، اَخلاق اور صفات جدا۔ ایک ہی ماں کے پیٹ سے نکلے ہوئے دو سگے بھائی تک ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ یہ ایک ایسا کرشمہ ہے جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے، اس کرشمے کو دیکھ کر بھی جو شخص یہ کہتا ہے کہ یہ کام کسی زبردست حکمت والے، زبردست قدرت والے، زبردست علم اور بے نظیر کمالات والے خدا کے بغیر ہو رہا ہے یا ہو سکتا ہے، یقینا اس کا دماغ درست نہیں ہے، اسے عقل مند سمجھنا عقل کی توہین کرنا ہے۔ کم از کم میں تو ایسے شخص کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ کسی معقول مسئلے پر اس سے گفتگو کروں۔
توحید
اچھا اب ذرا اور آگے چلیے۔ آپ میں سے ہر شخص کی عقل اس بات کی گواہی دے گی کہ دُنیا میں کوئی کام بھی خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، کبھی باضابطگی، باقاعدگی سے نہیں چل سکتا جب تک کہ کوئی ایک شخص اس کا ذمہ دار نہ ہو۔ ایک مدرسہ کے دو ہیڈ ماسٹر، ایک محکمے کے دو ڈائریکٹر، ایک فوج کے دو سپہ سالار، ایک سلطنت کے دو رئیس یا بادشاہ کبھی آپ نے سنے ہیں؟ اور کہیں ایساہو تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک دن کے لیے بھی انتظام ٹھیک ہو سکتا ہے؟ آپ اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں اس کا تجربہ کرتے ہیں کہ جہاں کوئی کام ایک سے زیادہ آدمیوں کی ذمے داری پر چھوڑا جاتا ہے وہاں سخت بدانتظامی ہوتی ہے، لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، اور آخر ساجھے کی ہنڈیا چوراہے میں پھوٹ کر رہتی ہے۔ انتظام، باقاعدگی، ہمواری اور خوش اسلوبی دُنیا میں جہاں کہیں بھی آپ دیکھتے ہیں وہاں لازمی طور پر ایک طاقت کارفرما ہوتی ہے، کوئی ایک ہی وجود بااختیار واقتدار ہوتا ہے، اورکسی ایک کے ہاتھ میں سررشتۂ کار ہوتا ہے۔ اس کے بغیر انتظام کا آپ تصوّر نہیں کر سکتے۔
یہ ایسی سیدھی بات ہے کہ کوئی شخص جو تھوڑی سی عقل بھی رکھتا ہو اُسے ماننے میں تامل نہ کرے گا۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر ذرا اپنے گرد وپیش کی دُنیا پر نظر ڈالیے۔ یہ زبردست کائنات جو آپ کے سامنے پھیلی ہوئی ہے، یہ کروڑوں سیارے جو آپ کو گردش کرتے نظر آتے ہیں، یہ زمین جس پرآپ رہتے ہیں، یہ چاند جو راتوں کو نکلتا ہے، یہ سورج جو صبح کو طلوع ہوتا ہے، یہ زہرہ، یہ مریخ، یہ عطارد، یہ مشتری اور یہ دوسرے بے شمار تارے جو گیندوں کی طرح گھوم رہے ہیں، دیکھیے! ان سب کے گھومنے میں کیسی سخت باقاعدگی ہے۔ کبھی رات اپنے وقت سے پہلے آتی ہوئی آپ نے دیکھی؟ کبھی دن وقت سے پہلے نکلتے دیکھا؟ کبھی چاند زمین سے ٹکرایا؟ کبھی سورج اپنا راستہ چھوڑ کرہٹا؟ کبھی کسی اور ستارے کو آپ نے ایک بال برابر بھی اپنی گردش کی راہ سے ہٹتے ہوئے دیکھا یا سنا؟ یہ کروڑہا سیارے جن میں سے بعض ہماری زمین سے لاکھوں گنا بڑے ہیں اور بعض سورج سے بھی ہزاروں گنا بڑے، یہ سب گھڑی کے پرزوں کی طرح ایک زبردست ضابطے میں کَسے ہوئے اور ایک بندھے ہوئے حساب کے مطابق اپنی اپنی مقررہ رفتار کے ساتھ اپنے اپنے مقررہ راستے پر چل رہے ہیں۔ نہ کسی کی رفتار میں ذرّہ برابر فرق آتا ہے، نہ کوئی اپنے راستے سے بال برابر ٹل سکتا ہے۔ ان کے درمیان جونسبتیں قائم کر دی گئی ہیں، اگر ان میں ایک پل کے لیے بھی ذرا سا فرق آ جائے تو سارا نظامِ عالم درہم برہم ہو جائے۔ جس طرح ریلیں ٹکراتی ہیں اِسی طرح سیارے ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں۔
یہ تو آسمان کی باتیں ہیں۔ ذرا اپنی زمین اور اپنی ذات پر نظر ڈال کر دیکھیے، اس مٹی کی گیند پر یہ سارا زندگی کا کھیل جو آپ دیکھ رہے ہیں،یہ سب چند بندھے ہوئے ضابطوں کی بدولت قائم ہے۔ زمین کی کشش نے ساری چیزوں کو اپنے حلقے میں باندھ رکھاہے۔ ایک سیکنڈ کے لیے بھی اگر وہ اپنی گرفت چھوڑ دے تو سارا کارخانہ بکھر جائے۔ اس کارخانے میں جتنے کل پرزے کام کر رہے ہیں، سب کے سب ایک قاعدے کے پابند ہیں اور اس قاعدے میں کبھی فرق نہیں آتا۔ ہَوا اپنے قاعدے کی پابندی کر رہی ہے، پانی اپنے قاعدے میں بندھا ہوا ہے۔ روشنی کے لیے جو قاعدہ ہے اس کی وہ مطیع ہے۔ گرمی اور سردی کے لیے جو ضابطہ ہے اس کی وہ غلام ہے۔ مٹی، پتھر، دھاتیں، بجلی، اسٹیم، درخت، جانور کسی میں یہ مجال نہیں کہ اپنی حد سے بڑھ جائے یا اپنی خاصیتوں کو بدل دے، یا اس کام کو چھوڑ دے جو اس کے سپرد کیا گیا ہے۔ پھراپنی حد کے اندر، اپنے ضابطے کی پابندی کے ساتھ، اس کارخانے کے سارے پُرزے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، اور دُنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، سب اسی وجہ سے ہو رہا ہے کہ یہ ساری چیزیں اور ساری قوتیں مل کر کام کر رہی ہیں۔
ایک ذرا سے بیج ہی کی مثال لے لیجیے جسے آپ زمین میں بوتے ہیں۔ وہ کبھی پرورش پا کر درخت بن ہی نہیں سکتا جب تک زمین وآسمان کی ساری قوتیں مل کر اس کی پرورش میں حصہ نہ لیں۔ زمین اپنے خزانوں سے اسے غذا دیتی ہے۔ سورج اُس کی ضرورت کے مطابق اسے گرمی پہنچاتا ہے۔ پانی سے جو کچھ وہ مانگتا ہے وہ پانی دیتا ہے۔ ہوا سے جو کچھ وہ طلب کرتا ہے، وہ ہوا دیتی ہے۔ راتیں اُسے ٹھنڈک اور اَوس بہم پہنچاتی ہیں۔ دن اُسے گرمی پہنچا کر پختگی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس طر ح مہینوں اور برسوں تک مسلسل ایک باقاعدگی کے ساتھ یہ سب مل جل کر اسے پالتے پوستے ہیں، تب جا کر کہیں درخت بنتا ہے اور اس میں پھل آتے ہیں۔ آپ کی یہ ساریں فصلیں جن کے بل بوتے پر آپ جی رہے ہیں، انھی بے شمار مختلف قوتوں کے بالا تفاق کام کرنے ہی کی وجہ سے تیار ہوتی ہیں۔ بلکہ آپ خود زندہ اسی وجہ سے ہیں کہ زمین اور آسمان کی تمام طاقتیں متفقہ طور پر آپ کی پرورش میں لگی ہوئی ہیں۔ اگر تنہا ایک ہوا ہی اس متفقہ کاروبار سے الگ ہو جائے تو آپ ختم ہو جائیں۔ اگر پانی، ہوا اور گرمی کے ساتھ موافقت کرنے سے انکار کر دے تو آپ پر بارش کا ایک قطرہ نہ برس سکے۔ اگر مٹی پانی کے ساتھ اتفاق کرنا چھوڑ دے تو آپ کے باغ سوکھ جائیں، آپ کی کھیتیاں کبھی نہ پکیں اور آپ کے مکان کبھی نہ بن سکیں۔ اگر دیا سلائی کی رگڑ سے آگ پیدا ہونے پر راضی نہ ہو تو آپ کے چولھے ٹھنڈے ہو جائیں اور آپ کے سارے کارخانے یک لخت بیٹھ جائیں۔ اگر لوہا آگ کے ساتھ تعلق رکھنے سے انکار کر دے تو آپ ریلیں اور موٹریں تو درکنار ایک سُوئی اور چُھری تک نہ بنا سکیں۔ غرض یہ ساری دُنیا جس میں آپ جی رہے ہیں، یہ صرف اسی وجہ سے قائم ہے کہ اس عظیم الشان سلطنت کے سارے محکمے پوری پابندی کے ساتھ ایک دوسرے سے مل کر کام کر رہے ہیں اور کسی محکمے کے کسی اہلِ کار کی یہ مجال نہیں ہے کہ اپنی ڈیوٹی سے ہٹ جائے یا ضابطے کے مطابق دُوسرے محکموں کے اہل کاروں سے اشتراکِ عمل نہ کرے۔
جو کچھ مَیں نے آپ سے بیان کیا ہے کیا اس میں کوئی بات جھوٹ یا خلاف واقعہ ہے؟ شاید آپ میں سے کوئی بھی اسے جھوٹ نہ کہے گا۔ اچھا اگر یہ سچ ہے تو مجھے بتایے کہ یہ زبردست انتظام، یہ حیرت انگیز باقاعدگی، یہ کمال درجے کی ہمواری، یہ زمین وآسمان کی بے حد وحساب چیزوں، اور طاقتوں میں کامل موافقت آخر کس وجہ سے ہے؟ کروڑوں برس سے یہ کائنات یوں ہی قائم چلی آ رہی ہے۔ لکھوکھا سال سے اس زمین پر یہ درخت اُگ رہے ہیں، جانور پیدا ہو رہے ہیں، اور نہ معلوم کب سے انسان اس زمین پر جی رہا ہے۔ کبھی ایسا نہ ہوا کہ چاند زمین پر گر جاتا یا زمین سورج سے ٹکرا جاتی۔ کبھی رات اور دن کے حساب میں فرق نہ آیا۔ کبھی ہوا کے محکمے کی پانی کے محکمے سے لڑائی نہ ہوئی۔ کبھی پانی مٹی سے نہ روٹھا۔ کبھی گرمی نے آگ سے رشتہ نہ توڑا۔ آخر اس سلطنت کے تمام صوبے، تمام محکمے، تمام ہر کارے اورکارندے کیوں اس طرح قانون اور ضابطے کی پابندی کیے چلے جا رہے ہیں؟ کیوں ان میں لڑائی نہیں ہوتی؟ کیوں فساد برپا نہیں ہوتا؟ کس چیز کی وجہ سے یہ سب ایک انتظام میں بندھے ہوئے ہیں؟ اس کا جواب اپنے دل سے پوچھیے۔ کیا وہ یہ گواہی نہیں دیتا کہ ایک ہی خدا اس ساری کائنات کا بادشاہ ہے، ایک ہی ہے جس کی زبردست طاقت نے سب کو اپنے ضابطے میں باندھ رکھا ہے؟ اگر دس بیس نہیں دو خدا بھی اس کائنات کے مالک ہوتے تو یہ انتظام اس باقاعدگی کے ساتھ کبھی نہ چل سکتا۔ ایک ذرا سے مدرسے کا انتظام تو دو ہیڈ ماسٹروں کی ہیڈماسٹری برداشت نہیں کر سکتا پھر بھلا اتنی بڑی زمین وآسمان کی سلطنت دو خدائوں کی خدائی میں کیسے چل سکتی تھی؟
پس واقعہ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ دُنیا کسی بنانے والے کے بغیر نہیں بنی ہے بلکہ یہ بھی واقعہ ہے کہ اسے ایک ہی نے بنایا ہے۔ حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ اس دُنیا کا انتظام کسی حاکم کے بغیر نہیں چل رہا ہے، بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ حاکم ایک ہی ہے۔ انتظام کی باقاعدگی صاف کہہ رہی ہے کہ یہاں ایک کے سوا کسی کے ہاتھ میں حُکُومت کے اختیار ات نہیں ہیں۔ ضابطے کی پابندی منہ سے بول رہی ہے کہ اس سلطنت میں ایک حاکم کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا۔ قانون کی سخت گیری شہادت دے رہی ہے کہ ایک ہی بادشاہ کی حُکُومت زمین سے آسمان تک قائم ہے۔ چاند، سورج اور سیارے اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ زمین اپنی تمام چیزوں کے ساتھ اُسی کے تابع فرمان ہے۔ ہَوا اُسی کی غلام ہے۔ پانی اُسی کا بندہ ہے۔دریا اور پہاڑ اُسی کے محکوم ہیں۔ درخت اور جانور اُسی کے مطیع ہیں۔ انسان کا جینا اور مرنا اُسی کے اختیار میں ہے۔ اس کی مضبوط گرفت نے سب کو پوری قوت کے ساتھ جکڑ رکھا ہے۔ کوئی اتنا زور نہیں رکھتا کہ اس کی حُکُومت میں اپنا حکم چلا سکے۔
دَرحقیقت اس مکمل تنظیم میں ایک سے زیادہ حاکموں کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ تنظیم کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ حکم میں ایک شمّہ برابر بھی کوئی دوسرا حصے دار نہ ہو۔ تنہا ایک ہی حاکم ہو اور اس کے سوا سب محکوم ہوں۔ کیوں کہ کسی دوسرے کے ہاتھ میں فرماں روائی کے ادنیٰ سے اختیارات ہونے کے معنی بھی بدنظمی اور فساد کے ہیں، حکم چلانے کے لیے صرف طاقت ہی درکار نہیں ہے، علم بھی درکار ہے۔ اتنی وسیع نظر درکار ہے کہ تمام کائنات کو بیک وقت دیکھ سکے اور اس کی مصلحتوں کو سمجھ کر احکام جاری کر سکے۔ اگر خداوند عالم کے سوا کچھ چھوٹے چھوٹے خدا ایسے ہوتے جو نگاہِ جہاں بیں تو نہ رکھتے، لیکن انھیں دُنیا کے کسی حصے یا کسی معاملے میں اپنا حکم چلانے کا اختیار حاصل ہوتا تو یہ زمین وآسمان کا سارا کارخانہ درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔ ایک معمولی مشین کے متعلق بھی آپ جانتے ہیں کہ اگر کسی ایسے شخص کو اس میں دخل اندازی کا اختیار دے دیا جائے جو اس سے پوری طرح واقف نہ ہو تو وہ اسے بگاڑ کر رکھ دے گا۔ لہٰذا عقل یہ فیصلہ کرتی ہے، اور زمین وآسمان کے نظامِ سلطنت کا انتہائی باقاعدگی کے ساتھ چلنا اس کی گواہی دیتا ہے کہ اس سلطنت کے اختیاراتِ شاہی میں ایک خدا کے سوا کسی کا ذرّہ برابر حصہ نہیں ہے۔
یہ صرف ایک واقعہ ہی نہیں ہے، حق یہ ہے کہ خدا کی خدائی میں خود خدا کے سوا کسی کا حکم چلنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔ جنھیں اس نے اپنے دستِ قدرت سے بنایا ہے، جو اس سے بے نیاز ہو کر خود اپنے بل بوتے پر ایک لمحے کے لیے بھی موجود نہیں رہ سکتے، ان میں سے کسی کی یہ حیثیت کب ہو سکتی ہے کہ خدا ئی میں اس کا حصے دار بن جائے؟ کیا کسی نوکر کو آپ نے ملکیت میں آقا کا شریک ہوتے دیکھا ہے؟ کیا آپ کی عقل میں یہ بات آتی ہے کہ کوئی مالک اپنے غلام کو اپنا ساجھی بنا لے؟ کیا خود آپ سے کوئی شخص اپنے ملازموں میں سے کسی کو اپنی جائداد میں یا اپنے اختیارات میں حصے دار بناتا ہے؟ اس بات پر جب آپ غور کریں گے تو آپ کا دل گواہی دے گا کہ خدا کی اس سلطنت میں کسی بندے کو خود مختارانہ فرماں روائی کا کوئی حق حاصل ہی نہیں ہے، ایسا ہونا نہ صرف واقعہ کے خلاف ہے، بلکہ عقل اور فطرت کے خلاف بھی ہے بلکہ حق کے خلاف بھی ہے۔
اِنسان کی تباہی کا اصلی سبب
صاحبو! یہ بنیادی حقیقتیں ہیں جن پر اس دُنیا کا پُورا نظام چل رہا ہے۔ آپ اس دُنیا سے الگ نہیں ہیں، بلکہ اس کے اندر اس کے ایک جز کی حیثیت سے رہتے ہیں۔ لہٰذا آپ کی زندگی کے لیے بھی یہ حقیقتیں اسی طرح بنیادی ہیں جس طرح کل جہان کے لیے ہیں۔
آج یہ سوال آپ میں سے ہر شخص کے لیے اور دُنیا کے تمام انسانوں کے لیے ایک پریشان کُن گتھی بنا ہوا ہے کہ آخر ہم انسانوں کی زندگی سے امن چین کیوں رخصت ہو گیا؟ کیوں آئے دن مصیبتیں ہم پر نازل ہو رہی ہیں؟ کیوں ہماری زندگی کی کل بگڑ گئی ہے؟ قومیں قوموں سے ٹکرا رہی ہیں۔ ملک ملک میں کھینچا تانی ہو رہی ہے۔ آدمی، آدمی کے لیے بھیڑیا بن گیا ہے۔ لاکھوں انسان لڑائیوں میں برباد ہو رہے ہیں۔ کروڑوں اور اَربوں کے کاروبار غارت ہو رہے ہیں۔ بستیوں کی بستیاں اجڑ رہی ہیں۔ طاقت ور کم زوروں کو کھائے جاتے ہیں۔ مال دار غریبوں کو لوٹے لیتے ہیں۔ حُکُومت میں ظلم ہے۔ عدالت میں بے انصافی ہے۔ دولت میں بدمستی ہے۔ اقتدار میں غرور ہے، دوستی میں بے وفائی ہے۔ امانت میں خیانت ہے۔ اَخلاق میں راستی نہیں رہی۔ انسان پر سے انسان کااعتماد اٹھ گیا ہے۔ مذہب کے جامے میں لامذہبی ہو رہی ہے۔ آدم کے بچے لاتعداد گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ہر گروہ دوسرے گروہ کو دغا، ظلم، بے ایمانی ہر ممکن طریقے سے نقصان پہنچانا کارِثواب سمجھ رہا ہے۔ یہ ساری خرابیاں آخر کس وجہ سے ہیں؟ خدا کی خدائی میں اور جس طرف بھی ہم دیکھتے ہیں امن ہی امن نظر آتا ہے۔ پانی میں امن ہے، درختوں اور جانوروں میں امن ہے، تمام مخلوقات کا انتظام پورے امن کے ساتھ چل رہا ہے، کہیں فساد یا بدنظمی کا نشان نہیں پایا جاتا۔ مگر ایک انسان ہی کی زندگی کیوں اس نعمت سے محروم ہو گئی؟
یہ ایک بڑا سوال ہے جسے حل کرنے میں لوگوں کوسخت پریشانی پیش آ رہی ہے۔ مگر میں پورے اطمینان سے اس کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ میرے پاس اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ:
آدمی نے اپنی زندگی کو حقیقت اور واقعہ کے خلاف بنا رکھا ہے، اس لیے وہ تکلیف اٹھا رہا ہے۔ اور جب تک وہ پھر اسے حقیقت کے مطابق نہ بنائے گا کبھی چین نہ پا سکے گا۔
آپ چلتی ہوئی ریل کے دروازے کو اپنے گھر کا دروازہ سمجھ بیٹھیں، اور اسے کھول کربے تکلف اس طرح باہر نکل آئیں جیسے اپنے مکان کے صحن میں قدم رکھ رہے ہیں تو آپ کی اس غلَط فہمی سے نہ ریل کا دروازہ گھر کا دروازہ بن جائے گا اور نہ وہ میدان جہاں آپ گریں گے گھر کا صحن ثابت ہو گا۔ آپ کے اپنی جگہ کچھ سمجھ بیٹھنے سے حقیقت ذرا بھی نہ بدلے گی۔ تیز دوڑتی ہوئی ریل کے دروازے سے جب آپ باہر تشریف لائیں گے تو اس کا جو نتیجہ ظاہر ہونا ہے، وہ ظاہر ہو کر ہی رہے گا۔ خواہ ٹانگ اور سر پھٹنے کے بعد بھی آپ یہ تسلیم نہ کریں کہ آپ نے جو کچھ سمجھا تھا غلَط سمجھا تھا۔
بالکل اسی طرح اگر آپ یہ سمجھ بیٹھیں کہ اس دُنیا کا کوئی خدا نہیں ہے، یا آپ خود اپنے خدا بن بیٹھیں، یا خدا کے سوا کسی اور کی خدائی مان لیں، تو آپ کے ایسا سمجھنے یا مان لینے سے حقیقت ہرگز نہ بدلے گی۔ خدا خدا ہی رہے گا۔ اس کی زبردست سلطنت جس میں آپ محض رعیت کی حیثیت سے رہتے ہیں، پورے اختیارات کے ساتھ اُسی کے قبضے میں رہے گی۔ البتہ آپ اپنی غلَط فہمی کی وجہ سے جو طرزِ زندگی اختیار کریں گے اس کا نہایت بُرا خمیازہ آپ کو بھگتنا پڑے گا۔ خواہ آپ تکلیفیں اٹھانے کے بعد بھی اپنی اس غلَط زندگی کو بجائے خود صحیح ہی سمجھتے رہیں۔
پہلے مَیں جو کچھ بیان کر چکا ہوں اسے ذرا اپنی یاد میں پھر تازہ کر لیجیے۔خداوندِ عالم کسی کے بنائے سے خداوند عالم نہیں بنا ہے۔ وہ اس کا محتاج نہیں ہے کہ آپ اس کی خدائی مانیں تو وہ خدا ہو۔ آپ خواہ مانیں یا نہ مانیں وہ تو خود خدا ہے۔ اس کی خدائی خود اپنے زور پر قائم ہے، اس نے آپ کو اور اس دُنیا کو خود بنایا ہے۔ یہ زمین، یہ چاند اور سورج اور یہ ساری کائنات اُسی کے حکم کی تابع ہے، اس کائنات میں جتنی قوتیں کام کر رہیں ہیں سب اُسی کے زیر حکم ہیں۔ وہ ساری چیزیں جن کے بل پر آپ زندہ ہیں، اسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ خود آپ کا اپنا وُجود اس کے اختیار میں ہے۔ اس واقعے کو آپ کسی طرح بدل نہیں سکتے۔ آپ اسے نہ مانیں تب بھی یہ واقعہ ہے۔ آپ اس سے آنکھیں بند کر لیں تب بھی یہ واقعہ ہے، آپ اس کے سوا کچھ اور سمجھ بیٹھیں تب بھی یہ واقعہ ہے۔ ان سب صورتوں میں واقعے کا تو کچھ بھی نہیں بگڑتا۔ البتہ فرق یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ اس واقعے کو تسلیم کرکے اپنی وہی حیثیت قبول کر لیں جو اس واقعے کے اندر دراصل آپ کی ہے تو آپ کی زندگی درست ہو گی۔ آپ کو چین ملے گا۔ اطمینان نصیب ہو گا، اور آپ کی زندگی کی ساری کل ٹھیک چلے گی اور اگر آپ نے واقعے کے خلاف کوئی اور حیثیت اختیار کی تو انجام وہی ہو گا جو چلتی ہوئی ریل کے دروازے کو اپنے گھر کا دروازہ سمجھ کر باہر نکلنے کا ہوتا ہے۔ چوٹ آپ خود کھائیں گے، ٹانگ آپ کی ٹوٹے گی، سَر آپ کا پھٹے گا، تکلیف آپ کو پہنچے گی، واقعہ جیسا تھا ویسا ہی رہے گا۔
آپ سوال کریں گے کہ اس واقعے کے مطابق ہماری صحیح حیثیت کیا ہے۔ مَیں چند لفظوں میں اس کی تشریح کیے دیتا ہوں۔ اگر کسی نوکر کو آپ کو تنخواہ دے کر پال رہے ہوں تو بتایے اس نوکر کی اصلی حیثیت کیا ہے؟ یہی ناکہ آپ کی نوکری بجالائے۔ آپ کے حکم کی اطاعت کرے۔ آپ کی مرضی کے مطابق کام کرے اور نوکری کی حد سے نہ بڑھے۔ نوکر کا کام آخر نوکری کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ آپ اگر افسر ہوں اور کوئی آپ کا ماتحت ہو تو ماتحت کا کام کیا ہے؟ یہی نا کہ وہ ماتحتی کرے، افسری کی ہَوا میں نہ رہے۔ اگر آپ کسی جائداد کے مالک ہیں تو اس جائداد میں آپ کی خواہش کیا ہو گی؟ یہی نا کہ اس میں آپ کی مرضی چلے۔ جو کچھ آپ چاہیں وہی ہو اور آپ کی مرضی کے خلاف پتّا نہ ہل سکے۔ آپ پر اگر کوئی بادشاہی مسلط ہو اور تمام قوتیں اُس کے ہاتھ میں ہوں تو ایسی بادشاہی کی موجودگی میں آپ کی حیثیت کیا ہو سکتی ہے؟ یہی نا کہ آپ سیدھی طرح رعیت بن کر رہنا قبول کریں اور شاہی قانون کی فرماں برداری سے قدم باہر نہ نکالیں۔ بادشاہ کی سلطنت کے اندر رہتے ہوئے اگر آپ خود اپنی بادشاہی کا دعوٰی کریں گے یا کسی دوسرے کی بادشاہی کا دعوٰی کریں گے یا کسی دوسرے کی بادشاہی مان کر اس کے حکم پر چلیں گے تو آپ باغی ہوں گے اور باغی کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ آپ کو معلوم ہی ہے۔
ان مثالوں سے آپ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ خدا کی اس سلطنت میں آپ کی اصلی حیثیت کیا ہے؟
آپ کو اس نے بنایاہے قدرتی طور پر آپ کا کوئی کام اس کے سوا نہیں ہے کہ اپنے بنانے والے کی مرضی پر چلیں۔
آپ کو وہ پال رہا ہے، اوراسی کے خزانے سے آپ تنخواہ لے رہے ہیں،آپ کی کوئی حیثیت اس کے سوا نہیں ہے کہ آپ اس کے نوکر ہیں۔
آپ کا اور ساری دُنیا کا افسر وہ ہے۔ اس کی افسری میں آپ کی حیثیت ماتحتی کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔
یہ زمین اور آسمان سب اس کی جائداد ہیں۔ اس جائداد میں اسی کی مرضی چلے گی اور چلنی چاہیے۔ آ پ کو یہاں اپنی مرضی چلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اپنی مرضی آپ چلانے کی کوشش کریں گے تو منہ کی کھائیں گے۔
اس سلطنت میں اس کی بادشاہی اس کے اپنے زور پر قائم ہے۔ زمین اور آسمان کے سارے محکمے اس کے قبضے میں ہیں۔ آپ خود چاہے راضی ہوں یا ناراض، بہرحال اس کی رعیت ہیں۔ آپ کی اور کسی انسان کی بھی، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، کوئی دوسری حیثیت رعیت ہونے کے سوا نہیں ہے۔ اسی کا قانون اس سلطنت میں قانون ہے، اور اسی کا حکم حکم ہے۔ رعیت میں سے کسی کو یہ دعوٰی کرنے کا حق نہیں ہے کہ میں ہزمیجسٹی ہوں، یا ہزہائی نس ہوں، یا ڈکٹیٹر اور خود مختار ہوں۔ نہ کسی شخص یا پارلیمنٹ یا اسمبلی یا کونسل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اس سلطنت میں خدا کے بجائے خود اپنا قانون بنائے اور خدا کی رعیت سے کہے کہ ہمارے اس قانون کی پیروی کرو۔ نہ کسی انسانی حُکُومت کو یہ حق پہنچتا ہے کہ خدا کے حکم سے بے نیاز ہو کر خود حکم چلائے اور خدا کے بندوں سے کہے کہ ہمارے اس حکم کی اطاعت کرو۔ نہ کسی انسان یا انسانوں کے کسی گروہ کے لیے یہ جائز ہے کہ اصلی بادشاہ کی رعیت بننے کے بجائے بادشاہی کے جھوٹے مدعیوں میں سے کسی کی رعیت بننا قبول کرے، اصلی بادشاہ کے قانون کو چھوڑ کر جھوٹے قانون سازوں کا قانون تسلیم کرے، اور اصلی حکم ران سے منہ موڑ کر جھوٹ موٹ کی ان حکومتوں کا حکم ماننے لگے۔ یہ تمام صورتیں بغاوت کی ہیں۔ خود بادشاہی کے اختیارات کا دعوٰی کرنا، یا ایسے کسی مدعی کے دعوے کو قبول کرنا، دونوں حرکتیں رعیت کے لیے بغاوت کا حکم رکھتی ہیں، اور اس کی سزا ان دونوں کو ملنی یقینی ہے، خواہ جلدی ملے یا دیر میں۔
آپ کی اور ایک ایک انسان کی پیشانی کے بال خدا کی مُٹھی میں ہیں۔ جب چاہے پکڑ کر گھسیٹ لے۔ زمین اور آسمان کی اس سلطنت میں بھاگ جانے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۔ آپ اس سے بھاگ کر کہیں پناہ نہیں لے سکتے۔ مٹی میں مل کر آپ کا ایک ایک ذرّہ بھی اگر منتشر ہو جائے، آگ میں جل کر خواہ آپ کی راکھ ہَوا میں پھیل جائے، پانی میں بَہ کر خواہ آپ مچھلیوں کی خوراک بنیں یا سمندر کے پانی میں گُھل جائیں، ہر جگہ سے خدا آپ کو پکڑ لے گا۔ ہَوا اُس کی غلام ہے، زمین اس کی بندی ہے، پانی اور اس کی مچھلیاں سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ ایک اشارے پر ہر طرف سے آپ پکڑے ہوئے آ جائیں گے اور پھر وہ آپ میں سے ایک ایک کو بلا کر پوچھے گا کہ میری رعیت ہو کر بادشاہی (sovereignty) کا دعوٰی کرنے کا حق تمھیں کہاں سے پہنچ گیا تھا؟ میرے ملک میں اپنا حکم چلانے کے اختیارات تم کہاں سے لائے تھے؟ میری سلطنت میں اپنا قانون جاری کرنے والے تم کون تھے؟ میرے بندے ہو کر دوسروں کی بندگی کرنے پر تم کیسے راضی ہو گئے؟ میرے نوکر ہو کر تم نے دوسروں کا حکم مانا۔ مجھ سے تنخواہ لے کر دوسروں کو اَن داتا اور رازق سمجھا۔ میرے غلام ہو کر دوسروں کی غلامی کی۔ میری بادشاہی میں رہتے ہوئے دوسروں کے قانون کو قانون سمجھا اور دوسرے کے فرامین کی اطاعت کی۔ یہ بغاوت کس طرح تمھارے لیے جائز ہو گئی تھی؟ فرمائیے آپ میں سے کسی کے پاس اس الزام کا جواب ہے؟ کون سے وکیل صاحب وہاں اپنے قانونی دائو پیچ سے بچائو کی صورت نکال سکیں گے؟ اور کون سی سفارش پر آپ بھروسا رکھتے ہیں کہ وہ آپ کو اس بغاوت کے جرم کی سزا بھگتنے سے بچا لے گی؟
ظلم کی وجہ
صاحبو! یہاں صرف حق ہی کا سوال نہیں ہے۔ یہ سوال بھی ہے کہ خدا کی اس خدائی میں کیا انسان بادشاہی یا قانون سازی یا حکم رانی کا اہل ہو سکتا ہے؟ جیسا کہ ابھی عرض کر چکا ہوں، ایک معمولی مشین کے متعلق بھی آپ یہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی اناڑی شخص جو اس مشینری سے واقف نہ ہو، اسے چلائے گا تو بگاڑ دے گا۔ ذرا کسی ناواقف آدمی سے ایک موٹر ہی چلوا کر دیکھ لیجیے۔ ابھی آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اس حماقت کا کیا انجام ہوتا ہے۔ اب ذرا خود سوچیے کہ لوہے کی ایک مشین کا حال جب یہ ہے کہ صحیح علم کے بغیر اس کو استعمال نہیں کیا جا سکتا تو انسان جس کے نفسیات انتہا درجہ کے پیچیدہ ہیں، جس کی زندگی کے معاملات بے شمار پہلو رکھتے ہیں اور ہر پہلو میں لاکھوں گتھیاں ہیں، اس کی پیچ در پیچ مشینری کو وہ لوگ چلا سکتے ہیں جو دوسروں کو جاننا اور سمجھنا تو درکنار خود اپنے آپ کو بھی اچھی طرح نہیں جانتے اور نہیں سمجھتے؟ ایسے اناڑی جب قانون ساز بن بیٹھیں گے اور ایسے نادان جب انسان زندگی کی ڈرائیوری پرآمادہ ہوں گے تو کیا اس کا انجام کسی اناڑی شخص کے موٹر چلانے کے انجام سے کچھ بھی مختلف ہو سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ جہاں خدا کے بجائے انسانوں کا بنایا ہوا قانون مانا جا رہا ہے اور جہاں خدا کی اطاعت سے بے نیاز ہو کر انسان حکم چلا رہے اور انسان ان کا حکم مان رہے ہیں، کسی جگہ بھی امن نہیں ہے۔ کسی جگہ بھی آدمی کو چین نصیب نہیں۔ کسی جگہ بھی انسانی زندگی کی کل سیدھی نہیں چلتی۔ کشت وخون ہو رہے ہیں۔ ظلم اور بے انصافی ہو رہی ہے۔ لوٹ کھسوٹ برپا ہے۔ آدمی کا خون آدمی چوس رہا ہے۔ اَخلاق تباہ ہو رہے ہیں۔ صحتیں برباد ہو رہی ہیں۔ تمام طاقتیں جو خدا نے انسان کو دی تھیں، انسان کے فائدے کے بجائے اس کی تباہی اور بربادی میں صرف ہو رہی ہیں۔ یہ مستقل دوزخ جو اسی دُنیا میں انسان نے اپنے لیے آپ اپنے ہاتھوں بنا لی ہے، اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اس نے بچوں کی طرح شوق میں آ کر اس مشین کو چلانے کی کوشش کی جس کے کل پُرزوں سے وہ واقف ہی نہیں۔ اس مشین کو جس نے بنایا ہے وہی اس کے رازوں کو جانتا ہے۔ وہی اس کی فطرت سے واقفیت رکھتا ہے۔ اُسی کو ٹھیک ٹھیک معلوم ہے کہ یہ کس طرح صحیح چل سکتی ہے۔ اگر آدمی اپنی حماقت سے باز آ جائے اور اپنی جہالت تسلیم کرکے اس قانون کی پابندی کرنے لگے جو خود اس مشین کے بنانے والے نے مقرر کیا ہے، تب تو جو کچھ بگڑا ہے وہ پھر بن سکتا ہے، ورنہ ان مصیبتوں کا کوئی حل ممکن نہیں۔
بے انصافی کیوں ہے؟
آپ ذرا اور گہری نظر سے دیکھیں تو آپ کو جہالت کے سوااپنی زندگی کے بگاڑ کی ایک اور وجہ بھی نظر آئے گی۔
ذرا سی عقل یہ بات سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ انسان کسی ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک قوم کا نام نہیں ہے۔ تمام دُنیا کے انسان بہرحال انسان ہیں۔ تمام انسانوں کو جینے کا حق ہے۔ سب اس کے حق دار ہیں کہ ان کی ضرورتیں پوری ہوں۔ سب امن کے، انصاف کے، عزت اور شرافت کے مستحق ہیں۔ انسانی خوش حالی اگر کسی چیز کا نام ہے تو وہ کسی ایک شخص یا خاندان یا قوم کی خوش حالی نہیں بلکہ تمام انسانوں کی خوش حالی ہے۔ ورنہ ایک خوش حال ہو اور دس بدحال ہوں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان خوش حال ہے۔ فلاح اگر کسی چیز کو کہتے ہیں تووہ تمام انسانوں کی فلاح ہے نہ کہ کسی ایک طبقے کی یا ایک قوم کی۔ ایک کی فلاح اور دس کی بربادی کو آپ انسانی فلاح نہیں کہہ سکتے۔
اس بات کو اگر آپ صحیح سمجھتے ہیں تو غور کیجیے کہ انسانی فلاح اور خوش حالی کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ انسانی زندگی کے لیے قانون وہ بنائے جس کی نظر میں تمام انسان یکساں ہوں۔ سب کے حقوق انصاف کے ساتھ وہ مقرر کرے جو نہ تو خود اپنی کوئی ذاتی غرض رکھتا ہو اور نہ کسی خاندان یا طبقے کی یا کسی ملک یا قوم کی اغراض سے اسے خاص دل چسپی ہو۔ سب کے سب اس کا حکم مانیں، جو حکم دینے میں نہ اپنی جہالت کی وجہ سے غلطی کرے، نہ اپنی خواہش کی بِنا پر حکم رانی کے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھائے اور نہ ایک دشمن اوردوسرے کا دوست، ایک کا طرف دار اور دوسرے کا مخالف، ایک کی طرف مائل اور دوسرے سے منحرف ہو۔ صرف اسی صورت میں عدل قائم ہو سکتا ہے۔ اسی طرح تمام انسانوں، تمام قوموں، تمام طبقوں اور تمام گروہوں کو اُن کے جائز حقوق پہنچ سکتے ہیں۔ یہی ایک صورت ہے جس سے ظلم مٹ سکتا ہے۔
اگر یہ بات بھی دُرُست ہے تو پھر مَیں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا دُنیا میں کوئی انسان بھی ایسا بے لاگ، ایسا غیر جانب دار، ایسا بے غرض، اور اس قدر انسانی کم زوریوں سے بالاتر ہو سکتا ہے؟ شاید آپ میں سے کوئی شخص میرے اس سوال کا جواب اثبات میں دینے کی جرأت نہ کرے گا۔ یہ شان صرف خدا ہی کی ہے۔ کوئی دوسرا اس شان کا نہیں ہے۔ انسان خواہ کتنے ہی بڑے دل گردے کا ہو، بہرحال وہ اپنی کچھ ذاتی اغراض رکھتا ہے۔ کچھ دل چسپیاں رکھتا ہے۔کسی سے اس کا تعلق زیادہ ہے اور کسی سے کم، کسی سے اسے مَحبّت ہے اور کسی سے نہیں ہے۔ ان کم زوریوں سے کوئی انسان پاک نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں خدا کے بجائے انسانوں کے حکم کی اطاعت کی جاتی ہے وہاں کسی نہ کسی صورت میں ظلم اور بے انصافی ضرور موجود ہے۔
اُن شاہی خاندانوں کو دیکھیے جو زبردستی اپنی طاقت کے بل بوتے پر امتیازی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے لیے وہ عزت، وہ ٹھاٹھ، وہ آمدنی، وہ حقوق اور وہ اختیارات مخصوص کر رکھے ہیں جو دوسروں کے لیے نہیں ہیں۔ یہ قانون سے بالاتر ہیں۔ ان کے خلاف کوئی دعوٰی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ چاہے کچھ کریں ان کے مقابلہ میں کوئی چارہ جوئی نہیں کی جا سکتی۔ کوئی عدالت ان کے نام سمن نہیں بھیج سکتی۔ دُنیا دیکھتی ہے کہ یہ غلطیاں کرتے ہیں، مگر کہا جاتا ہے اورماننے والے مان بھی لیتے ہیں کہ ’’بادشاہ غلطی سے پاک ہے‘‘۔ دُنیا دیکھتی ہے کہ یہ معمولی انسان ہیں، جیسے اور سب انسان ہوتے ہیں۔ مگر یہ خدا بن کر سب سے اونچے بیٹھتے ہیں اور لوگ ان کے سامنے یوں ہاتھ باندھے،سَر جھکائے، ڈرے، سہمے کھڑے ہوتے ہیں گویا ان کا رزق، ان کی زندگی، ان کی موت، سب ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ رعایا کا پیسہ اچھے اور بُرے ہر طریقے سے گھسیٹتے ہیں اور اسے اپنے محلوں پر، اپنی سواریوں پر،اپنے عیش وآرام اور اپنی تفریحوں پر بے دریغ لٹاتے ہیں۔ ان کے کتوں کو وہ روٹی ملتی ہے جو کما کر دینے والی رعایا کو نصیب نہیں ہوتی۔ کیا یہ انصاف ہے؟کیا یہ طریقہ کسی ایسے عادل کا مقرر کیا ہوا ہو سکتا ہے جس کی نگاہ میں سب انسانوں کے حقوق اور مفاد یکساں ہوں؟ کیا یہ لوگ انسانوں کے لیے کوئی منصفانہ قانون بنا سکتے ہیں؟
ان برہمنوں اور پیروں کو دیکھیے۔ ان نوابوں اور رئیسوں کو دیکھیے۔ ا ن جاگیر داروں اور زمین داروں کو دیکھیے۔ ان ساہوکاروں اور مہاجنوں کو دیکھیے۔ یہ سب طبقے اپنے آپ کو عام انسانوں سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان کے زور واثر سے جتنے قوانین دُنیا میں بنے ہیں وہ انھیں ایسے حقوق دیتے ہیں جو عام انسانوں کو نہیں دیے گئے۔ یہ پاک ہیں اور دوسرے ناپاک۔ یہ شریف ہیں اور دوسرے کمین۔ یہ اونچے ہیں اور دوسرے نیچے۔ یہ لوٹنے کے لیے ہیں اور دوسرے لٹنے کے لیے۔ ان کے نفس کی خواہشوں پر لوگوں کی جان، مال، عزت، آبرو ہر ایک چیز قربان کر دی جاتی ہے۔ کیا یہ ضابطے کسی مُنصف کے بنائے ہوئے ہو سکتے ہیں؟ کیا ان میں صریح طور پر خود غرضی اور جانب داری نظر نہیں آتی؟ کیا اس سوسائٹی میں منصفانہ قوانین بن سکتے ہیں جس پر یہ لوگ چھائے ہوئے ہوں؟
ان حاکم قوموں کو دیکھیے جو اپنی طاقت کے بل پر دوسری قوموں کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا کون سا قانون اورکون سا ضابطہ ایسا ہے جس میں خود غرضی شامل نہیں ہے؟ یہ اپنے آپ کو انسانِ اعلیٰ کہتے ہیں بلکہ درحقیقت صرف اپنے ہی کو انسان سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک کم زور قوموں کے لوگ یا تو انسان ہی نہیں ہیں یا اگر ہیں تو ادنیٰ درجے کے ہیں۔ یہ ہر حیثیت سے اپنے آپ کو دوسروں سے اونچا ہی رکھتے ہیں اور اپنی اغراض پر دُوسروں کے مَفاد کو قربان کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کے زور واثر سے جتنے قوانین اور ضوابط دُنیامیں بنے ہیں ان سب میں یہ رنگ موجود ہے۔
یہ چند مثالیں میں نے محض اشارے کے طور پر دی ہیں، تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ میں صرف یہ بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ دُنیا میں جہاں بھی انسان نے قانون بنایا ہے، وہاں بے انصافی ضرور ہوئی ہے۔ کچھ انسانوں کو ان کے جائز حقوق سے بہت زیادہ دیا گیا ہے اور کچھ انسانوں کے حقوق نہ صرف پامال کیے گئے ہیں بلکہ انھیں انسانیت کے درجے سے گرا دینے میں بھی تامل نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ انسان کی یہ کم زوری ہے کہ وہ جب کسی معاملے کا فیصلہ کرنے بیٹھتا ہے تو اس کے دل ودماغ پر اپنی ذات، یا اپنے خاندان، یا اپنی نسل، یا اپنے طبقے یا اپنی قوم ہی کے مفاد کا خیال مسلط رہتا ہے۔ دوسروںکے حقوق اورمفاد کے لیے اس کے پاس وہ ہم دَردی کی نظر نہیں ہوتی جو اپنوں کے لیے ہوتی ہے۔
مجھے بتائیے، کیا اب بے انصافی کا کوئی علاج اس کے سوا ممکن ہے کہ تمام انسانی قوانین کو دریا بُرد کر دیا جائے، اور اُس خدا کے قانون کو ہم سب تسلیم کر لیں جس کی نگاہ میں ایک انسان اوردوسرے انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ فرق اگر ہے تو صرف اس کے اَخلاق، اس کے اعمال، اور اس کے اوصاف کے لحاظ سے ہے، نہ کہ نسل یا طبقے یا قومیت یا رنگ کے لحاظ سے۔
امن کس طرح قائم ہو سکتا ہے؟
صاحبو! اس معاملے میں ایک اور پہلو بھی ہے جسے میں نظرانداز نہیں کر سکتا۔ آپ جانتے ہیں کہ آدمی کو قابو میں رکھنے والی چیز صرف ذمہ داری کا احساس ہی ہے۔ اگر کسی شخص کو یقین ہو جائے کہ وہ جو چاہے کرے، کوئی اس سے جواب طلب کرنے والا نہیں ہے، اور نہ اس کے اُوپر ایسی کوئی طاقت ہے جو اُسے سزا دے سکے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ شُترِ بے مہار بن جائے گا۔ یہ بات جس طرح ایک شخص کے معاملے میں صحیح ہے اُسی طرح ایک خاندان، ایک قوم اور تمام دُنیا کے انسانوں کے معاملے میں بھی صحیح ہے۔ ایک خاندان جب یہ محسوس کرتا ہے کہ اس سے کوئی جواب طلب نہیں کر سکتا تو وہ قابو سے باہر ہوجاتا ہے۔ ایک طبقہ بھی جب ذمے داری اور جواب دہی سے بے خوف ہوجاتا ہے تو دوسروں پر ظلم ڈھانے میں اسے کوئی تامل نہیں ہوتا۔ ایک قوم یا ایک سلطنت بھی جب اپنے آپ کو اتنا طاقت وَر پاتی ہے کہ اپنی زیادتی کے کسی بُرے نتیجہ کا خوف اسے نہیں ہوتا تو وہ جنگل کے بھیڑیے کی طرح کم زور بکریوں کو پھاڑنا شروع کر دیتی ہے۔ دُنیا میں جتنی بدامنی پائی جاتی ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔ جب تک انسان اپنے سے بالاتر کسی اقتدار کو تسلیم نہ کرے اور جب تک اسے یقین نہ ہو کہ مجھ سے اوپرکوئی ایسا ہے جس کو مجھے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اور جس کے ہاتھ میں اتنی طاقت ہے کہ مجھے سزا دے سکتا ہے، اس وقت یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ ظلم کا دروازہ بند ہو اور صحیح امن قائم ہوسکے۔
اب مجھے بتائیے کہ ایسی طاقت سوائے خداوند عالم کے اور کون سی ہو سکتی ہے؟ خود انسانوں میں سے کوئی ایسا نہیں ہو سکتا کیوں کہ جس انسان، یا جس انسانی گروہ کو بھی آپ یہ حیثیت دیں گے، اس کے شُترِ بے مہار ہو جانے کا امکان ہے۔ خود اس سے یہ اندیشہ ہے کہ تمام فرعونوں کا ایک فرعون وہ ہو جائے گااور خود اس سے یہ خطرہ ہے کہ خود غرضی اور جانب داری سے کام لے کروہ بعض انسانوں کو گرائے گا اور بعض کو اٹھائے گا۔ یورپ نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مجلسِ اقوام بنائی تھی مگر بہت جلدی وہ سفید رنگ والی قوموں کی مجلس بن کر رہ گئی اور اس نے چند طاقت ور سلطنتوں کے ہاتھ میں کھلونا بن کر کم زور قوموں کے ساتھ بے انصافی شروع کر دی۔({ FR 1266 }) اس تجربے کے بعد اس امر میں کوئی شک باقی نہیں رہ سکتا کہ خود انسانوں کے اندر سے کوئی ایسی طاقت برآمد ہونا ناممکن ہے جس کی بازپرس کا خوف فردًا فردًا ایک شخص سے لے کر دُنیا کی قوموں اور سلطنتوں تک کو قابومیں رکھ سکتا ہو۔ ایسی طاقت لامحالہ انسانی دائرے سے باہر اور اس سے اُوپر ہی ہونی چاہیے اور وہ صرف خداوند عالم ہی کی طاقت ہو سکتی ہے۔ ہم اگر اپنی بھلائی چاہتے ہیں تو ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں کہ خدا پر ایمان لائیں، اس کی حُکُومت کے آگے اپنے آپ کو فرماں بردار اور رعیت کی طرح سپرد کر دیں، اور اس یقین کے ساتھ دُنیا میں زندگی بسر کریں کہ وہ ہمارے چھپے اور کھلے سب کاموں کو جانتا ہے اور ایک دن ہمیں اس کی عدالت میں اپنی پوری زندگی کے کارنامے کا حساب دینا ہے۔ ہمارے شریف اور پُرامن انسان بننے کی بس یہی ایک صورت ہے۔
ایک شُبہ
اب مَیں اپنی تقریر کو ختم کرنے سے پہلے ایک شُبہ کو صاف کر دینا ضروری سمجھتا ہوں جوغالباً آپ میں سے ہر ایک کے دل میں پیدا ہو رہا ہو گا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جب خدا کی حُکُومت اتنی زبردست ہے کہ خاک کے ایک ذرّے سے لے کر چاند اور سُورج تک ہر چیز اس کے قابو میں ہے اور جب انسان اس کی حُکُومت میں محض ایک رعیت کی حیثیت رکھتا ہے تو آخر یہ ممکن کس طرح ہوا کہ انسان اس کی حُکُومت کے خلاف بغاوت کرے اور خود اپنی بادشاہی کا اعلان کرکے اس کی رعیت پر اپنا قانون چلائے؟ کیوں نہیں خدا اس کا ہاتھ پکڑ لیتا اورکیوں اسے سزا نہیں دیتا۔
اس سوال کا جواب میں آپ کو ایک سیدھی سی مثال سے دوں گا۔
فرض کیجیے کہ ایک بادشاہ کسی شخص کو اپنے ملک کے کسی ضلع کا افسر بنا کر بھیجتا ہے۔ ملک بادشاہ ہی کا ہے۔ رعیت بھی اُسی کی ہے۔ ریل، ٹیلیفون، تار، فوج اور دوسری تمام طاقتیں بھی بادشاکے ہاتھ میں ہیں۔ بادشاہ کی سلطنت اس ضلع پر چاروں طرف سے اس طرح چھائی ہوئی ہے کہ اس چھوٹے سے ضلع کا افسر اس کے مقابلے میں بالکل عاجز ہے۔ اگر بادشاہ چاہے تو اسے پوری طرح مجبور کر سکتا ہے کہ اس کے حکم سے بال برابر منہ نہ موڑ سکے لیکن بادشاہ اس افسر کی عقل کا، اس کے ظرف کا اور اس کی لیاقت کا امتحان لینا چاہتا ہے، اس لیے وہ اس پر سے اپنی گرفت اتنی ڈھیلی کردیتا ہے کہ اسے اپنے اوپر کوئی بالاتر اقتدار محسوس نہیں ہوتا۔
اب اگر وہ افسرعقل مند، نمک حلال، فرض شناس اور وفادار ہے تو اس ڈھیلی گرفت کے باوجود اپنے آپ کو رعیت اور ملازم ہی سمجھتا رہے گا۔ بادشاہ کے ملک میں اسی کے قانون کے مطابق حُکُومت کرے گا اور جو اختیارات بادشاہ نے اسے دیے ہیں انھیں بادشاہ کی مرضی کے مطابق استعمال کرتا رہے گا۔ اس وفادارانہ طرزِ عمل میں سے اس کی اہلیت ثابت ہو گی اور بادشاہ اسے زیادہ بلند مرتبوں کے قابل پا کر ترقیوں پر ترقیاں دیتا چلا جائے گا۔
لیکن فرض کیجیے کہ ایک افسر بے وقوف، نمک حرام، کم ظرف اور شریر ہے اور رعیت کے وہ لوگ جو اس ضلع میں رہتے ہیں، جاہل، بزدل اور نادان ہیں۔ اپنے اوپر سلطنت کی گرفت ڈھیلی پا کر وہ بغاوت پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اس کے دماغ میں خود مختاری کی ہوا بھر جاتی ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو ضلع کا مالک سمجھ کر خودسرانہ حُکُومت کرنے لگتا ہے اور جاہل رعیت کے لوگ محض یہ دیکھ کر اس کی خودمختارانہ حُکُومت تسلیم کر لیتے ہیں کہ تنخواہ یہ دیتا ہے، پولیس اس کے پاس ہے، عدالتیں اس کے ہاتھ میں ہیں، جیل کی ہتھ کڑیاں اور پھانسی کے تختے اس کے قبضے میں ہیں، اور ہماری قسمت کو بنانے، یا بگاڑنے کے اختیارات یہ رکھتا ہے۔
بادشاہ اس اندھی رعیت اور اس باغی افسر دونوں کے طرز عمل کو دیکھتا ہے۔ چاہے تو فورًا پکڑ لے اور ایسی سزا دے کہ ہوش ٹھکانے نہ رہیں۔ مگر وہ اس حاکمِ ضلع اور اس کی رعیت دونوں کی پوری آزمائش کرنا چاہتا ہے، اس لیے وہ نہایت تحمل اور بردباری کے ساتھ انھیں ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے تاکہ جتنی نالائقیاں ان کے اندر بھری ہوئی ہیں، پوری طرح ظاہر ہو جائیں۔ اس کی طاقت اتنی زبردست ہے کہ اسے اس بات کا خوف ہی نہیں ہے کہ یہ افسر کبھی زور پکڑ کر اس کا تخت چھین لے گا۔ اسے اس بات کا بھی کوئی اندیشہ نہیں کہ یہ باغی اور نمک حرام لوگ اس کی گرفت سے نکل کر کہیں بھاگ جائیں گے۔ اس لیے اسے جلد بازی کے ساتھ فیصلہ کر دینے کی کوئی ضرورت نہیں، وہ سال ہا سال تک ڈھیل دیتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب یہ لوگ اپنی پوری خباثت کا اظہار کر چکتے ہیں اور کوئی کسر اس کے اظہار میں باقی نہیں رہتی، تب وہ ایک روز اپنا عذاب اُن پر بھیجتا ہے، اور وہ ایسا وقت ہوتا ہے کہ کوئی تدبیر اس وقت انھیں اس کے عذاب سے نہیں بچا سکتی۔
صاحبو! میں اور آپ اور خدا کے بنائے یہ افسر سب کے سب اسی آزمائش میں مبتلا ہیں۔ ہماری عقل کا، ہمارے ظرف کا، ہماری فرض شناسی کا، ہماری وفاداری کا سخت امتحان ہو رہا ہے۔ اب ہم میں سے ہر شخص کو خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے اصلی بادشاہ کا نمک حلال افسر یا رعیت بننا پسند کرتا ہے یا نمک حرام؟ میں نے اپنی جگہ نمک حلالی کا فیصلہ کیا ہے اور میں ہر اس شخص سے باغی ہوں جو خدا سے باغی ہے۔ آپ اپنے فیصلے میں مختارہیں۔ چاہیں یہ راستہ اختیار کریں یا وہ۔ ایک طرف وہ نقصانات اور وہ فائدے ہیں جو خدا کے یہ باغی ملازم پہنچا سکتے ہیں۔ دوسری طرف وہ نقصانات اور وہ فائدے ہیں جو خود خدا پہنچا سکتا ہے۔ دونوں میں سے آپ جس کا انتخاب کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔
٭…٭…٭…٭…٭
اِسلام اور جاہلیت
(یہ مقالہ ۲۳؍ فروری ۱۹۴۱ء کو مجلسِ اِسلامیات اِسلامیہ کالج پشاور کی دعوت پر پڑھا گیا تھا)
انسان کو دُنیا میں جتنی چیزوں سے سابقہ پیش آتا ہے ان میں کسی کے ساتھ بھی وہ کوئی معاملہ اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اس چیز کی ماہیت وکیفیت اوراپنے اوراس کے باہمی تعلق کے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کر لے۔ اس سے بحث نہیں کہ وہ رائے بجائے خود صحیح ہو یا غلط، مگر بہرحال اسے ان امور کے متعلق کوئی نہ کوئی رائے قائم ضرور کرنا پڑتی ہے اور جب تک وہ کوئی رائے قائم نہیں کر لیتا یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ میں اس کے ساتھ کیا طرزِ عمل اور کیا رویّہ اختیار کروں۔ یہ آپ کا شب وروز کا تجربہ ہے، آپ جب کسی شخص سے ملتے ہیں تو آپ کو یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ شخص کون ہے، کس حیثیت، کس مرتبے، کن صفات کا آدمی ہے، اور مجھ سے اس کا تعلق کس نوعیت کا ہے۔ اس کے بغیر آپ یہ طے کر ہی نہیں سکتے کہ آپ کو اس کے ساتھ کیا برتائو کرنا ہے۔ اگر علم نہیں ہوتا تو بہرحال آپ کو قرائن کی بنا پر ایک قیاسی رائے ہی ان امور کے متعلق قائم کرنا پڑتی ہے، اورجو رویّہ بھی آپ اس کے ساتھ اختیار کرتے ہیں اسی رائے کی بنا پر کرتے ہیں۔ جو چیزیں آپ کھاتے ہیں ان کے ساتھ آپ کا یہ معاملہ اسی وجہ سے ہے کہ آپ کے علم یا آپ کے قیاس میں وہ چیزیں غذائی ضرورت پوری کرتی ہیں۔ جن چیزوں کو آپ پھینک دیتے ہیں، جنھیں آپ استعمال کرتے ہیں، جن کی آپ حفاظت کرتے ہیں، جن کی آپ تعظیم یا تحقیر کرتے ہیں، جن سے آپ ڈرتے یا مَحبّت کرتے ہیں، ان سب کے متعلق آپ کے یہ مختلف طرزِ عمل بھی اُس رائے پر مبنی ہوتے ہیں جو آپ نے ان چیزوں کی ذات وصفات اور اپنے ساتھ اُن کے تعلق کے بارے میں قائم کی ہے۔
پھر جو رائے آپ اشیا کے متعلق قائم کیا کرتے ہیں اُس کے صحیح ہونے پر آپ کے رویّے کا صحیح ہونا اور غلَط ہونے پر آپ کے رویّے کا غلَط ہونا منحصر ہوتا ہے اور خود اُس رائے کی غلطی وصحت کا مدار اس چیز پر ہوتا ہے کہ آیا آپ نے وہ رائے علم کی بنا پر قائم کی ہے، یا قیاس پر، یا وہم پر، یا محض مشاہدۂ حسّی پر۔ مثلاً ایک بچہ آگ کو دیکھتا ہے اور مجرّدمشاہدۂ حسی کی بِنا پر یہ رائے قائم کرتا ہے کہ یہ بڑا خوب صورت چمک دار کھلونا ہے۔ چنانچہ اس رائے کے نتیجے میں اس سے یہ طرز عمل ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اُسے اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھا دیتا ہے۔ ایک دُوسرا شخص اُسی آگ کو دیکھ کر وہم سے یا قیاس سے یہ رائے قائم کرتا ہے کہ اس کے اندر الُوہیّت ہے، یا یہ الوہیّت کا مظہر ہے۔چنانچہ اس رائے کی بنا پر وہ فیصلہ کرتا ہے کہ اُس کے ساتھ میرا رویّہ یہ ہونا چاہیے کہ میں اس کے آگے سر نیاز جھکا دوں۔ ایک تیسرا شخص اسی آگ کو دیکھ کر اس کی ماہیت اور اس کی صفات کی تحقیق کرتا ہے اور علم وتحقیق کی بنا پر یہ رائے قائم کرتا ہے کہ یہ پکانے اور جلانے اور تپانے والی ایک چیز ہے، اور میرے ساتھ اس کا تعلق وہ ہے جو ایک مخدوم کے ساتھ خادم کا تعلق ہوتا ہے۔ چنانچہ اس رائے کی بِنا پر وہ آگ کو نہ کھلونا بناتا ہے نہ معبود بلکہ اس سے حسبِ موقع پکانے اور جلانے اور تپانے کی خدمت لیتا ہے۔ ان مختلف رویوں میں سے بچے اور آتش پرست کے رویے جاہلیت کے رویے ہیں، کیوں کہ بچے کی یہ رائے کہ آگ محض کھلونا ہے تجربے سے غلَط ثابت ہو جاتی ہے ،اور آتش پرست کی یہ رائے کہ آگ خود اِلٰہ ہے یا مظہرِ الوہیّت ہے کسی ثبوتِ علمی پر مبنی نہیں بلکہ محض قیاس ووہم پرمبنی ہے، بخلاف اس کے آگ سے خدمت لینے والے کا رویّہ علمی رویّہ ہے۔ کیوں کہ آگ کے متعلق اس کی رائے علم پر مبنی ہے۔
زندگی کے بنیادی مسائل
اس مقدمے کو ذہن نشین کرنے کے بعد اب ذرا اپنی نظر کو جزئیات سے کلّیات پر پھیلائیے۔ انسان اس دُنیا میں اپنے آپ کو موجود پاتا ہے۔ اس کے پاس ایک جسم ہے جس میں بہت سی قوتیں بھری ہوئی ہیں۔ اس کے سامنے زمین وآسمان کی ایک عظیم الشان بساط پھیلی ہوئی ہے جس میں بے حد وحساب اشیا ہیں اور وہ ان اشیا سے کام لینے کی قدرت اپنے اندر پاتا ہے۔ اس کے گرد وپیش بہت سے انسان، جانور، نباتات، جمادات وغیرہ ہیں، اور ان سب سے اس کی زندگی وابستہ ہے۔ اب کیا آپ کے نزدیک یہ بات قابل تصوّر ہے کہ وہ ان چیزوں کے ساتھ کوئی رویّہ اختیار کر سکتا ہے جب تک کہ پہلے خود اپنے بارے میں، ان تمام موجودات کے بارے میں، اور ان کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کر لے؟ کیا وہ اپنی زندگی کے لیے کوئی راستہ اختیار کر سکتا ہے جب تک یہ طے نہ کر لے کہ میں کون ہوں؟ کیا ہوں؟ ذمہ دار ہوں یا غیر ذمہ دار؟ خود مختار ہوں یا ماتحت؟ ماتحت ہوں تو کس کا، اور جواب دہ ہوں تو کس کے سامنے؟ میری اس دنیوی زندگی کا کوئی مآل ہے یا نہیں اور ہے تو کیا ہے؟ اسی طرح کیا وہ اپنی قوتوں کے لیے کوئی مصرف تجویز کر سکتا ہے جب تک اس سوال کا فیصلہ نہ کر لے کہ یہ جسم اور جسمانی قوتیں اس کی اپنی مِلک ہیںیا کسی کا عطیہ ہیں؟ ان کا حساب کوئی لینے والا ہے یا نہیں؟ اور ان کے استعمال کا ضابطہ اسے خود متعین کرنا ہے یا کسی اور کو؟ اسی طرح کیا وہ اپنے گرد وپیش کی اشیا کے متعلق کوئی طرزِ عمل اختیار کر سکتا ہے جب تک اس امرکا تعین نہ کرلے کہ ان اشیا کا مالک وہ خود ہے یا کوئی اور؟ ان پر اس کے اختیارات محدود ہیں یا غیر محدود؟ اور محدود ہیں تو حدود مقرر کرنے والا کون ہے؟ اسی طرح کیا وہ آپس میں اپنے ابنائے نوع کے برتائو کی کوئی شکل متعین کر سکتا ہے جب تک اس معاملے میں کوئی رائے قائم نہ کر لے کہ انسانیت کس چیز سے عبارت ہے؟ انسان اور انسان کے درمیان فرق وامتیاز کی بنیاد کیا ہے؟ اور دوستی ودشمنی، اتفاق واختلاف ، تعاون اور عدمِ تعاون کی اساس کن امور پر ہے؟ اس طرح کیا وہ بحیثیت مجموعی اس دُنیا کے ساتھ کوئی رویّہ اختیار کر سکتا ہے جب تک اس معاملے میں کسی نتیجے پر نہ پہنچے کہ یہ نظامِ کائنات کس قسم کا ہے اور اس میں میری حیثیت کیا ہے؟
جومقدمہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، اس کی بنا پر بلا تامل یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان تمام امور کے متعلق ایک نہ ایک رائے قائم کیے بغیر کوئی رویّہ اختیار کرنا غیر ممکن ہے۔ فی الحقیقت ہر انسان جو دُنیا میں زندگی بسر کر رہا ہے ان سوالات کے متعلق شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر کوئی نہ کوئی رائے ضرور رکھتا ہے اور رکھنے پر مجبور ہے کیوں کہ وہ اس رائے کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص نے ان سوالات پر فلسفیانہ غور وفکر کیا ہو اور واضح طور پر تنقیحات قائم کرکے ایک ایک سوال کا فیصلہ کیا ہو، نہیں، بہت سے آدمیوں کے ذہن میں ان سوالات کی سرے سے کوئی متعین صورت ہوتی ہی نہیں، نہ وہ کبھی ان پر بالارادہ سوچتے ہیں۔ مگر باوجود اس کے ہر آدمی اجمالی طور پر ان سوالات کے متعلق منفی یا مثبت پہلو میں ایک رائے پر لازماً پہنچ جاتا ہے، اور زندگی میں اس کا رویّہ جو بھی ہوتا ہے لازمی طور پر اُس رائے کے مطابق ہوتا ہے۔
یہ بات جس طرح اشخاص کے معاملے میں صحیح ہے اسی طرح جماعتوں کے معاملے میں بھی صحیح ہے۔ چوں کہ یہ سوالات انسانی زندگی کے بنیادی سوالات ہیں اس لیے کسی نظامِ تمدن وتہذیب اورکسی ہیئتِ اجتماعی کے لیے کوئی لائحہ عمل بن ہی نہیں سکتا جب تک کہ ان سوالات کا کوئی جواب متعین نہ کر لیا جائے۔ اور ان کا جواب جو بھی متعین کیا جائے گا اس کے لحاظ سے اَخلاق کا ایک نظریہ قائم ہوگا، اسی کی نوعیت کے مطابق زندگی کے مختلف شعبوں کی تشکیل ہو گی اور فی الجملہ پورا تمدن ویساہی رنگ اختیار کرے گا جیسا اس جواب کا مقتضا ہو گا۔ درحقیقت اس معاملے میں کوئی تخالف ممکن ہی نہیں ہے۔ خواہ ایک شخص کا رویّہ ہو یا ایک سوسائٹی کا، بہرحال وہ ٹھیک وہی نوعیت اختیار کرے گا جو ان سوالات کے جوابات کی نوعیت ہو گی۔ حتّٰی کہ اگر آپ چاہیں تو ایک شخص یا ایک جماعت کے رویّے کا تجزیہ کرکے بآسانی یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ اس رویّے کی تہہ میں زندگی کے ان بنیادی سوالات کا کون سا جواب کام کر رہا ہے۔ کیوں کہ یہ بات قطعی محال ہے کہ کسی شخصی یا اجتماعی رویّے کی نوعیت کچھ ہو اور ان سوالات کے جواب کی نوعیت کچھ اور ہو۔ اختلاف، زبانی دعوے اور واقعی رویےّ کے درمیان تو ضرور ہو سکتا ہے، لیکن ان سوالات کا جو جواب درحقیقت نفس کے اندر متمکن ہے اس کی نوعیت اور عملی رویّے کی نوعیت میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا۔
اچھا اب ہمیں ایک قدم اور آگے بڑھانا چاہیے۔ زندگی کے یہ بنیادی مسائل جن کے متعلق ابھی آپ نے سنا کہ ان کا کوئی حل اپنے ذہن میں متعین کیے بغیر آدمی دُنیا میں ایک قدم نہیں چل سکتا، اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ سب امورِ غیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کوئی جواب اُفق پر لکھا ہوا نہیں ہے کہ ہر انسان دُنیا میں آتے ہی اسے پڑھ لے۔ اور ان کا کوئی جواب ایسا بد یہی نہیں ہے کہ ہر انسان کو خود بخود معلوم ہو جائے۔ اسی وجہ سے ان کا کوئی ایک حل نہیں ہے جس پر سارے انسان متفق ہوں۔ بلکہ ان کے بارے میں ہمیشہ انسانوں کے درمیان اختلاف رہا ہے اور ہمیشہ مختلف انسان مختلف طریقوں سے انھیں حل کرتے رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ انھیں حل کرنے کی کیا صورتیں ممکن ہیں، کیا کیا صورتیں دُنیا میں اختیار کی گئی ہیں اور ان مختلف صورتوں سے جو حل نکلتے ہیں وہ کس قسم کے ہیں۔
ان کے حل کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے حواس پر اعتماد کرے اور حواس سے جیسا کچھ محسوس ہوتا ہے اُسی کی بنا پر ان امور کے متعلق ایک رائے قائم کر لے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ مشاہدۂ حِسیّ کے ساتھ وہم وقیاس کو ملا کر ایک نتیجہ اخذ کیا جائے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ پیغمبروں نے حقیقت کا براہِ راست علم رکھنے کا دعوٰی کرتے ہوئے ان مسائل کا جو حل بیان کیا ہے اسے قبول کر لیا جائے۔
دُنیا میں اب تک ان مسائل کے حل کی یہی تین صورتیں اختیار کی گئی ہیں، اور غالباً یہی تین صورتیں ممکن بھی ہیں۔ ان میں سے ہر صورت ایک جداگانہ طریقے سے ان مسائل کو حل کرتی ہے، ہر ایک حل سے ایک خاص قسم کا رویّہ وجود میں آتا ہے اور ایک خاص نظامِ اَخلاق اور نظامِ تمدن بنتا ہے جو اپنی بنیادی خصوصیات میں دوسرے تمام حلوں کے پیدا کردہ رویوں سے مختلف ہوتا ہے۔ اب میں دکھانا چاہتا ہوں کہ ان مختلف طریقوں سے ان مسائل کے کیا حل نکلتے ہیں، اور ہر ایک حل کس قسم کا رویّہ پیدا کرتا ہے۔
خالص جاہلیت
حواس پر اعتماد کرکے جب انسان ان مسائل کے متعلق کوئی رائے قائم کرتا ہے تو اس طرزِ فکر کی عین فطرت کے تقاضے سے وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ کائنات کا یہ سارا نظام ایک اتفاقی ہنگامۂ وُجود وظہور ہے جس کے پیچھے کوئی مصلحت اور مقصد نہیں۔ یوں ہی بن گیا ہے، یوں ہی چل رہا ہے، یونہی بے نتیجہ ختم ہوجائے گا۔ اس کا کوئی مالک نظر نہیں آتا، لہٰذا وہ یا تو ہے ہی نہیں یا اگر ہے تو انسان کی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ انسان ایک قسم کا جانور ہے جو شاید اتفاقاً پیدا ہو گیا ہے۔ کچھ خبر نہیں کہ اسے کسی نے پیدا کیا یا یہ خود پیدا ہو گیا۔ بہرحال یہ سوال خارج از بحث ہے۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ اس زمین پر پایا جاتا ہے، کچھ خواہشیں رکھتا ہے جنھیں پورا کرنے کے لیے اس کی طبیعت اندر سے زور کرتی ہے، کچھ قوٰی اور کچھ آلات رکھتا ہے جو ان خواہشوں کی تکمیل کا ذریعہ بن سکتے ہیں، اور اس کے گرد وپیش زمین کے دامن پر بے حد وحساب سامان پھیلا ہوا ہے جس پر یہ اپنے قوٰی اور آلات کو استعمال کرکے اپنی خواہشات کی تکمیل کر سکتا ہے اور اس کی قوتوں کا کوئی مصرف اس کے سوا نہیں ہے کہ یہ ایک خوانِ یغما ہے جو اس لیے پھیلا ہوا ہے کہ انسان اس پرہاتھ مارے۔اوپر کوئی صاحبِ امر نہیں جس کے سامنے انسان جواب دہ ہو اور نہ کوئی علم کا منبع اور ہدایت کا سرچشمہ موجود ہے جہاں سے انسان کو اپنی زندگی کا قانون مل سکتا ہو۔ لہٰذا انسان ایک خود مختار اور غیر ذمہ دار ہستی ہے۔ اپنے لیے ضابطہ وقانون بنانا اور اپنی قوتوں کا مصرف تجویز کرنا اور موجودات کے ساتھ اپنے طرز عمل کا تعین کرنا اس کا اپنا کام ہے۔ اس کے لیے اگر کوئی ہدایت ہے تو جانوروں کی زندگی میں، پتھروں کی سرگزشت میں، یا خود اپنی تاریخ کے تجربات میں ہے اور یہ اگر کسی کے سامنے جواب دہ ہے تو آپ اپنے سامنے یا اُس اقتدار کے سامنے ہے جو خود انسانوں ہی میں سے پیدا ہو کر افراد پرمستولی ہو جائے۔ زندگی جو کچھ ہے یہی دنیوی زندگی ہے اور اعمال کے سارے نتائج اسی زندگی کی حد تک ہیں۔ لہٰذاصحیح اور غلَط، مفید اور مضر، قابلِ اخذ اور قابل ترک ہونے کا فیصلہ صرف انھی نتائج کے لحاظ سے کیا جائے گا جو اس دُنیا میں ظاہر ہوتے ہیں۔
یہ ایک پورا نظریۂ حیات ہے جس میں انسانی زندگی کے تمام بنیادی مسائل کا جواب حسی مشاہدے پر دیا گیا ہے۔ اور اس جواب کا ہر جزو دوسرے جز کے ساتھ کم از کم ایک منطقی ربط، ایک مزاجی موافقت ضرور رکھتا ہے جس کی وجہ سے انسان دُنیا میں ایک ہموار ویکساں رویّہ اختیار کر سکتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ یہ جواب اور اس سے پیدا ہونے والا رویّہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط۔ اب اُس رویّے پر ایک نگاہ ڈالیے جو اس جواب کی بنا پر آدمی دُنیا میں اختیار کرتا ہے۔
انفرادی زندگی میں اس نقطۂ نگاہ کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اوّل سے لے کر آخر تک خود مختارانہ اور غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کر لے۔ وہ اپنے آپ کو اپنے جسم اور اپنی جسمانی قوتوں کا مالک سمجھے گا، اس لیے اپنے حسبِ منشا جس طرح چاہے گا انھیں استعمال کرے گا۔ دُنیا کی جو چیزیں اس کے قبضۂ قدرت میں آئیں گی اور جن انسانوں پراسے اقتدار حاصل ہو گا ان سب کے ساتھ وہ اس طرح برتائو کرے گا جیسے کہ وہ ان کا مالک ہے۔ اس کے اختیارات کو محدود کرنے والی چیز صرف قوانینِ قدرت کی حدیں اور اجتماعی زندگی کی ناگزیر بندشیں ہوں گی۔ خود اس کے اپنے نفس میں کوئی ایسا اَخلاقی احساس ذمہ داری کا احساس اور کسی باز پُرس کا خوف نہ ہو گا جو اسے شُترِ بے مہار ہونے سے روکتا ہو۔ جہاں خارجی رکاوٹیں نہ ہوں، یا جہاں وہ ان رکاوٹوں کے علی الرغم کام کرنے پر قادر ہو، وہاں تو اس کے عقیدے کا فطری اقتضا یہی ہے کہ وہ ظالم، بددیانت، شریر اورمفسد ہو۔ وہ فطرتاً خود غرض، مادہ پرست اور ابن الوقت ہو گا۔ اُس کی زندگی کا کوئی مقصد اپنی نفسانی خواہشات اور حیوانی ضروریات کی خدمت کے سوا نہ ہو گا اور ا س کی نگاہ میں قدروقیمت صرف ان چیزوں کی ہو گی جو اُس کے اس مقصدِ زندگی کے لیے کوئی قیمت رکھتی ہوں۔ افراد میں یہ سیرت وکردار پیدا ہونا اس عقیدے کا فطری اور منطقی نتیجہ ہے۔ بے شک یہ ممکن ہے کہ مصلحت اور دُور اندیشی کی بنا پرایسا شخص ہم درد ہو، ایثار پیشہ ہو، اپنی قوم کی فلاح وترقی کے لیے جان توڑ کوشش کرتا ہو، اور فی الجملہ اپنی زندگی میں ایک طرح کے ذمہ دارانہ اَخلاق کا اظہار کرے لیکن جب آپ اس کے اس رویّہ کا تجزیہ کریں گے تو معلوم ہو گا کہ دراصل یہ اس کی خود غرضی ونفسانیت ہی کی توسیع ہے۔ وہ اپنے ملک یا اپنی قوم کی بھلائی میں اپنی بھلائی دیکھتا ہے، اس لیے اس کی بھلائی چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا شخص زیادہ سے زیادہ بس ایک نیشنلسٹ ہی ہو سکتا ہے۔
پھر جو سوسائٹی اس ذہنیت کے افراد سے بنے گی اُس کی امتیازی خصوصیات یہ ہوں گی:
سیاست کی بنیاد انسانی حاکمیت پر قائم ہو گی، خواہ وہ ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک طبقے کی حاکمیت ہو، یا جمہور کی حاکمیت۔ زیادہ سے زیادہ بلند اجتماعی تصوّر جو قائم کیا جا سکے وہ بس دولتِ مشترکہ (common wealth) کا تصوّر ہو گا۔ اس مملکت میں قانون ساز انسان ہوں گے، تمام قوانین خواہش اور تجربی مصلحت کی بنا پر بنائے اور بدلے جائیں گے، اور منفعت پرستی ومصلحت پرستی ہی کے لحاظ سے پالیسیاں بھی بنائی اور بدلی جائیں گی۔ مملکت کے حدود میں وہ لوگ زور کرکے ابھر آئیں گے جو سب سے زیادہ طاقت ور اور سب سے زیادہ چالاک، مکار، جھوٹے، دغا باز، سنگ دل اور خبیث النفس ہوں گے۔ سوسائٹی کی راہ نمائی اور مملکت کی زمامِ کارانھی کے ہاتھ میں ہو گی اور ان کی کتابِ آئین میں زور کا نام حق اور بے زوری کا نام باطل ہو گا۔
تمدن ومعاشرت کا سارا نظام نفس پرستی پر قائم ہو گا۔ لذّاتِ نفس کی طلب ہر اَخلاقی قید سے آزاد ہوتی چلی جائے گی اور تمام اَخلاقی معیار اس طرح قائم کیے جائیں گے کہ ان کی وجہ سے لذتوں کے حصوں میں کم سے کم رکاوٹ ہو۔
اسی ذہنیت سے آرٹ اور لٹریچر متاثر ہوں گے اور ان کے اندر عریانی وشہوانیت کے عناصر بڑھتے چلے جائیں گے۔
معاشی زِندگی میں کبھی جاگیرداری سسٹم بر سر عروج آئے گا، کبھی سرمایہ داری نظام اس کی جگہ لے گا، اورکبھی مزدور شورش کرکے اپنی ڈکٹیٹر شپ قائم کر لیں گے۔ عدل سے بہرحال معیشت کا رشتہ کبھی قائم نہ ہو سکے گا۔ کیوں کہ دُنیا اور اس کی دولت کے بارے میں اس سوسائٹی کے ہر فرد کا بنیادی رویّہ اس تصوّر پر مبنی ہو گا کہ یہ ایک خوانِ یغما ہے جس پر حسبِ موقع ہاتھ مارنے کے لیے وہ آزاد ہے۔
پھر اس سوسائٹی میں افراد کو تیار کرنے کے لیے تعلیم وتربیت کا جو نظام ہو گا اس کا مزاج بھی اِسی تصوّرِ حیات اور اسی رویّے کے مناسب حال ہو گا، اس میں ہر نئی آنے والی نسل کو دُنیا اور انسان اور دُنیا میں انسان کی حیثیت کے متعلق وہی تصوّر دیاجائے گا جس کی تشریح مَیں نے اوپر کی ہے۔ تمام معلومات خواہ وہ کسی شعبۂ علم سے متعلق ہوں، اُن کوایسی ہی ترتیب کے ساتھ دی جائیں گی کہ آپ سے آپ اُن کے ذہن میں زندگی کا یہ تصوّر پیدا ہو جائے اور پھر ساری تربیت اس ڈھنگ کی ہو گی کہ وہ زندگی میں یہی رویّہ اختیارکرنے اور اسی طرز کی سوسائٹی میں کھپ جانے کے لیے تیار ہوں۔ اس تعلیم وتربیت کی خصوصیات کے متعلق مجھے آپ سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ آپ لوگوں کو اس کا ذاتی تجربہ ہے۔ جن درس گاہوں میں آپ تعلیم پا رہے ہیں وہ سب اسی نظریے پر قائم ہوئی ہیں، اگرچہ ان کے نام’’ اِسلامیہ کالج‘‘ اور ’’مسلم یونیورسٹی‘‘ وغیرہ ہیں۔
یہ رویّہ جس کی تشریح میں نے ابھی آپ کے سامنے کی ہے خالص جاہلیت کا رویّہ ہے۔ اس کی نوعیت وہی ہے جو اس بچے کے رویے کی نوعیت ہے جو محض حسی مشاہدے پر اعتماد کرکے آگ کو ایک خوب صورت کھلونا سمجھتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں اس مشاہدے کی غلطی فورًا تجربہ سے ظاہر ہو جاتی ہے کیوں کہ جس آگ کو کھلونا سمجھ کر وہ دست اندازی کا رویّہ اختیار کرتا ہے وہ گرم آگ ہوتی ہے، ہاتھ لگاتے ہی فورًا بتا دیتی ہے کہ میں کھلونا نہیں ہوں۔ بخلاف اس کے یہاں مشاہدے کی غلطی بڑی دیرمیں کھلتی ہے، بلکہ بہتوں پر کھلتی ہی نہیں کیوں کہ جس آگ پر یہ ہاتھ ڈالتے ہیں اس کی آنچ دھیمی ہے، فورًا چرکا نہیں دیتی بلکہ صدیوں تک تپاتی رہتی ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص تجربات سے سبق لینے کے لیے تیار ہو تو شب وروز کی زندگی میں اس نظریے کی بدولت افراد کی بے ایمانیوں، حکام کے مظالم، منصفوں کی بے انصافیوں، مال داروں کی خود غرضیوں، اور عام لوگوں کی بد اَخلاقیوں کا جو تلخ تجربہ اس کوہوتا ہے، اور بڑے پیمانے پر اسی نظریے سے قوم پرستی، امپیریلزم، جنگ وفساد، ملک گیری اور اقوام کشی کے جو شرارے نکلتے ہیں، ان کے چرکوں سے وہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ یہ رویّہ جاہلیت کا رویّہ ہے، علمی رویّہ نہیں ہے۔ کیوں کہ انسان نے اپنے متعلق اور نظام کائنات کے متعلق جو رائے قائمِ کرکے یہ رویّہ اختیار کیا ہے وہ امرِ واقعہ کے مطابق نہیں ہے ورنہ اس سے یہ بُرے نتائج ظاہر نہ ہوتے۔
اب ہمیں دوسرے طریقے کا جائزہ لینا چاہیے۔ زندگی کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مشاہدے کے ساتھ قیاس ووہم سے کام لے کر ان مسائل کے متعلق کوئی رائے قائم کی جائے۔ اس طریقے سے تین مختلف رائیں قائم کی گئی ہیں اور ہرایک رائے سے ایک خاص قسم کا رویّہ پیدا ہوا ہے۔
۱۔ شرک
ایک رائے یہ ہے کہ کائنات کا یہ نظام بے خداوند تو نہیں ہے مگر اس کا ایک خداوند (الٰہ یا ربّ) نہیں ہے بلکہ بہت سے خداوند (آلِھَۃ)اورارباب ہیں۔ کائنات کی مختلف قوتوں کا سررشتہ مختلف خدائوں کے ہاتھ میں ہے اور انسان کی سعادت وشقاوت، کام یابی وناکامی، نفع ونقصان بہت سی ہستیوں کی مہربانی پرمنحصر ہے۔ یہ رائے جن لوگوں نے اختیار کی ہے انھوں نے پھر اپنے وہم وقیاس سے کام لے کر یہ تعین کرنے کی کوشش کی ہے کہ خدائی کی طاقتیں کہاں کہاں اور کس کس کے ہاتھ میں ہیں، اور جن جن چیزوں پر بھی ان کی نگاہ جا ٹھیری ہے انھی کو خدا مان لیا ہے۔
اس رائے کی بنا پر جو طرزِ عمل انسان اختیار کرتا ہے اس کی امتیازی خصوصیات یہ ہیں:
اوّلاً:اس سے آدمی کی پوری زندگی اوہام کی آماج گاہ بن جاتی ہے۔ وہ کسی علمی ثبوت کے بغیر مجرد اپنے وہم وخیال سے بہت سی چیزوں کے متعلق یہ رائے قائم کرتا ہے کہ وہ فوق الفطری طریقوں سے اس کی قسمت پر اچھا یا بُرا اثر ڈالتی ہیں۔ اس لیے وہ اچھے اثرات کی موہوم امید اور بُرے اثرات کے موہوم خوف میں مبتلا ہو کر اپنی بہت سی قوتیں لاحاصل طریقے سے ضائع کر دیتا ہے۔ کہیں کسی قبر سے امید لگاتا ہے کہ یہ میرا کام کر دے گی۔ کہیں کسی بُت پر بھروسا کرتا ہے کہ وہ میری قسمت بنا دے گا۔ کہیں کسی اور خیالی اور کارساز کو خوش کرنے کے لیے دوڑتا پھرتا ہے۔ کہیں کسی بُرے شگون سے دل شکستہ ہو جاتا ہے اور کہیں کسی اچھے شگون سے توقعات کے خالی قلعے بنا لیتا ہے۔ یہ ساری چیزیں اس کے خیالات اور اس کی کوششوں کو فطری تدابیر سے ہٹا کر ایک بالکل غیر فطری راستے پر ڈال دیتی ہیں۔
ثانیاً: اس رائے کی وجہ سے پوجا پاٹ، نذرونیاز، اور دوسری رسموں کاایک لمبا چوڑا دستورُ العمل بنتا ہے جس میں اُلجھ کر آدمی کی سعی وعمل کا ایک بڑا حصہ بے نتیجہ مشغولیتوں میں صرف ہو جاتا ہے۔
ثالثاً: جو لوگ اس مشرکانہ وہم پرستی میں مبتلا ہوتے ہیں انھیں بے وقوف بنا کر اپنے جال میں پھانس لینے کا چالاک آدمیوں کو خوب موقع مل جاتا ہے۔ کوئی بادشاہ بن بیٹھتا ہے اور سورج، چاند اور دوسرے دیوتائوں سے اپنا نسب ملا کر لوگوں کو یقین دلاتا ہے کہ ہم بھی خدائوں میں سے ہیں اور تم ہمارے بندے ہو۔ کوئی پروہت یا مجاور بن بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ تمھارا نفع ونقصان جن سے وابستہ ہے ان سے ہمارا تعلق ہے اور تم ہمارے ہی واسطے اُن تک پہنچ سکتے ہو۔ کوئی پنڈت اور پیربن جاتا ہے اور تعویذ گنڈوں اور منتروں اور عملیات کا ڈھونگ رچا کر لوگوں کو یقین دلاتا ہے کہ ہماری یہ چیزیں فوق الفطری طریقے سے تمھاری حاجتیں پوری کریں گی۔ پھر ان سب چالاک لوگوں کی نسلیں مستقل خاندانوں اور طبقوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں جن کے حقوق، امتیازات اور اثرات امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ بڑھتے اور گہری بنیادوں پر جمتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح اس عقیدے کی بدولت عام انسانوں کی گردنوں پر شاہی خاندانوں، مذہبی عہدے داروں اور روحانی پیشوائوں کی خدائی کا جُوا مسلّط ہوتا ہے اور یہ بناوٹی خدا اُنھیں اس طرح اپنا خادم بناتے ہیں کہ گویا وہ اُن کے لیے دودھ دینے اور سواری اور باربرداری کی خدمت انجام دینے والے جانور ہیں۔
رابعاً: یہ نظریہ نہ تو علوم وفنون، فلسفہ وادب، اورتمدّن وسیاست کے لیے کوئی مستقل بنیاد فراہم کرتا ہے اور نہ ان خیالی خدائوں سے انسانوں کو کسی قسم کی ہدایت ہی ملتی ہے کہ وہ اس کی پابندی کریں۔ ان خدائوں سے تو انسان کا تعلق صرف اس حد تک محدود رہتا ہے کہ یہ اُن کی مہربانی واعانت حاصل کرنے کے لیے بس عبودیت کے چند مراسم ادا کر دے۔ باقی رہے زندگی کے معاملات تو ان کے متعلق قوانین اور ضوابط بنانا اور عمل کے طریقے معین کرنا انسان کا اپنا کام ہوتا ہے۔ اس طرح مشرک سوسائٹی عملاً انھی سب راہوں پر چلتی ہے جن کا ذکر خالص جاہلیت کے سلسلے میں ابھی میں آپ سے کر چکا ہوں۔ وہی اَخلاق، وہی اعمال، وہی طرز تمدن، وہی سیاست، وہی نظامِ معیشت، اور وہی علم وادب۔ ان تمام حیثیتوں سے شرک کے رویّے اور خالص جاہلیت کے رویّے میں کوئی اصولی فرق نہیں ہوتا۔
۲۔ رَہبانیت
دُوسری رائے جو مشاہدے کے ساتھ قیاس ووہم کو ملا کر قائم کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ دُنیا اور یہ جسمانی وُجود انسان کے لیے ایک دارالعذاب ہے۔ انسان کی روح ایک سزا یافتہ قیدی کی حیثیت سے اس قفس میں بند کی گئی ہے۔ لذّات وخواہشات اور تمام وہ ضروریات جو اس تعلق کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوتی ہیں اصل میں یہ اس قید خانے کے طوق وسلاسل ہیں۔ انسان جتنا اس دُنیا اور اس کی چیزوں سے تعلق رکھے گا اتنا ہی ان زنجیروں میں پھنستا چلا جائے گا اور مزید عذاب کا مستحق ہو گا۔ نجات کی صورت اس کے سوا کوئی نہیں کہ زندگی کے سارے بکھیڑوں سے قطع تعلق کیا جائے، خواہشات کو مٹایا جائے۔ لذّات سے کنارہ کشی کی جائے، جسمانی ضروریات اور نفس کے مطالبوں کو پورا کرنے سے انکار کیا جائے، ان تمام مَحبتوں کو دل سے نکال دیا جائے جو گوشت وخون کے تعلق سے پیدا ہوتی ہیں، اور اپنے اس دشمن (یعنی نفس وجسم) کو مجاہدوں اور ریاضتوں سے اتنی تکلیفیں دی جائیں کہ رُوح پر اس کا تسلّط قائم نہ رہ سکے۔ اس طرح روح ہلکی اور پاک صاف ہوجائے گی اور نجات کے بلند مقام پر اُڑنے کی طاقت حاصل کر لے گی۔
اس رائے سے جو رویّہ پیدا ہوتا ہے اس کی خصوصیات یہ ہیں:
اوّلاً، اس سے انسان کے تمام رجحانات، اجتماعیت سے انفرادیت کی طرف اور تمدن سے وحشت کی طرف پھر جاتے ہیں۔ وہ دُنیا اور اس کی زندگی سے منہ موڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے، ذمہ داریوں سے بھاگتا ہے، اس کی ساری زندگی عدمِ تعاون اور ترکِ موالات کی زندگی بن جاتی ہے اور اس کے اَخلاق زیادہ تر سلبی (negative) نوعیت کے ہو جاتے ہیں۔
ثانیاً، اس رائے کی بدولت نیک لوگ دُنیا کے کاروبار سے ہٹ کر اپنی نجات کی فکر میں گوشہ ہائے عزلت کی طرف چلے جاتے ہیں اور دُنیا کے سارے معاملات شریر لوگوں کے ہاتھوں میں آ جاتے ہیں۔
ثالثاً: تمدن میں اس رائے کااثر جس حد تک پہنچتا ہے اس سے لوگوں کے اندر سلبی اَخلاقیات، غیر تمدّنی (un-social) اور انفرادیت پسندانہ (individualistic) رجحانات اور مایوسانہ خیالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان کی عملی قوتیں سرد ہو جاتی ہیں۔ وہ ظالموں کے لیے نرم نوالہ بن جاتے ہیں۔ اور ہرجابر حُکُومت انھیں آسانی سے قابو میں لا سکتی ہے۔ درحقیقت یہ نظریہ عوام کو ظالموں کے لیے ذلول (tame) بنانے میں جادو کی تاثیر رکھتا ہے۔
رابعاً: انسانی فطرت سے اس راہبانہ نظریے کی مستقل جنگ رہتی ہے اور اکثر یہ اس سے شکست کھا جاتا ہے۔ پھر جب یہ شکست کھاتا ہے تو اپنی کم زوری کو چھپانے کے لیے اسے حیلوں کے دامن میں پناہ لینا پڑتی ہے۔ اسی وجہ سے کہیں کفارہ کا عقیدہ ایجاد ہوتا ہے، کہیں عشقِ مجازی کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے اور کہیں ترک دُنیا کے پردے میں وہ دُنیا پرستی کی جاتی ہے جس کے آگے دُنیا پرست بھی شرما جائیں۔
۳۔ ہمہ اُوست
تیسری رائے جو مشاہدے اور قیاس کی آمیزش سے پیدا ہوتی ہے یہ ہے کہ انسان اورکائنات کی تمام چیزیں بجائے خود غیر حقیقی ہیں۔ ان کا کوئی مستقل وجود نہیں ہے۔ دراصل ایک وجود نے ان ساری چیزوں کو خود اپنے ظہور کا واسطہ بنایا ہے اور وہی ان سب کے اندر کام کر رہا ہے۔ تفصیلات میں اس نظریے کی بے شمار صورتیں ہیں، مگر ان ساری تفصیلات کے اندر قدر مشترک یہی ایک خیال ہے کہ تمام موجودات ایک ہی وجود کا ظہور خارجی ہیں اور دراصل موجود وہی ہے باقی کچھ نہیں۔
اس نظریے کی بِنا پر انسان جو رویّہ اختیار کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اسے خود اپنے ہونے ہی میں شک ہو جاتا ہے کجا کہ وہ کوئی کام کرے۔ وہ اپنے آپ کو ایک کٹھ پتلی سمجھتا ہے جسے کوئی اور نچا رہا ہے یا جس کے اندر کوئی اور ناچ رہا ہے۔ وہ اپنے تخیلات کے نشے میں گم ہو جاتا ہے۔ اُس کے لیے نہ کوئی مقصدِ زندگی ہوتا ہے اور نہ کوئی راہِ عمل۔ وہ خیال کرتا ہے کہ میں خود تو کچھ ہوں ہی نہیں، نہ میرے کرنے کا کوئی کام ہے، نہ میرے کیے سے کچھ ہو سکتا ہے۔ اصل میں تو وہ وجودِ کلی جو مجھ میں اور تمام کائنات میں سرایت کیے ہوئے ہے اور جو ازل سے ابد تک چلا جا رہا ہے، سارے کام اُسی کے ہیں اور وہی سب کچھ کرتا ہے۔ وہ اگر مکمل ہے تو مَیں بھی مکمل ہوں، پھر کوشش کس چیزکے لیے؟ اور وہ اگر اپنی تکمیل کے لیے کوشاں ہے تو جس عالم گیر حرکت کے ساتھ وہ کمال کی طرف جا رہا ہے اسی کی لپیٹ میں ایک جز کی حیثیت سے میں بھی آپ سے آپ چلا جائوں گا۔ میں ایک جز ہوں، مجھے کیا خبر کہ کل کدھر جا رہا ہے اور کدھر جانا چاہتا ہے۔ اس طرزِ خیال کے عملی نتائج قریب قریب وہی ہیں جو ابھی مَیں نے راہبانہ نظریّے کے سلسلے میں بیان کیے ہیں۔ بلکہ بعض حالات میں اس رائے کو اختیار کرنے والے کا طرزِ عمل ان لوگوں کے رویے سے ملتا جلتا ہے جو خالص جاہلیت کا نظریہ اختیار کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہ اپنی خواہشات کے ہاتھ میں اپنی باگیں دے دیتا ہے اور پھر جدھر خواہشات لے جاتی ہیں اس طرف یہ سمجھتے ہوئے بے تکلف چلا جاتا ہے کہ جانے والا وجود کلی ہے نہ کہ مَیں۔
پہلے نظریے کی طرح یہ تینوں نظریے بھی جاہلیت کے نظریے ہیں اور اس بنا پر جو رویّے ان سے پیدا ہوتے ہیں وہ بھی جاہلیت ہی کے رویّے ہیں۔ اس لیے کہ اوّل تو ان میں سے کوئی نظریّہ بھی کسی علمی ثبوت پر مبنی نہیں ہے بلکہ محض خیالی اور قیاسی بنیادوں پر مختلف رائیں قائم کر لی گئی ہیں۔ دوسرے ان کا واقعہ کے خلاف ہونا تجربے سے ثابت ہوتا ہے۔ اگر ان میں کوئی رائے بھی امر واقعی کے مطابق ہوتی تو اس کے مطابق عمل کرنے سے بُرے نتائج تجربے میں نہ آتے۔ جب آپ دیکھتے ہیں کہ ایک چیز کو جہاں کہیں انسان نے کھایا اس کے پیٹ میں درد ضرور ہوا تو اس تجربے سے آپ یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ فی الحقیقت معدے کی ساخت اور اس کی طبیعت سے یہ چیز مطابقت نہیں رکھتی۔ بالکل اسی طرح جب یہ حقیقت ہے کہ شرک، رہبانیت، اور وجودیت کے نظریے اختیار کرنے سے انسان کو بحیثیت مجموعی نقصان ہی پہنچا تو یہ بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ ان میں سے کوئی نظریہ بھی واقعہ اور حقیقت کے مطابق نہیں ہے۔
(ب) اِسلام
اب ہمیں تیسری صورت کو لینا چاہیے جو زندگی کے ان بنیادی مسائل کے متعلق رائے قائم کرنے کی آخری صورت ہے، اور وہ یہ ہے کہ پیغمبروں نے ان مسائل کا جو حل پیش کیا ہے اُسے قبول کیا جائے۔
اس طریقے کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی اجنبی مقام پر آپ ہوں اور آپ کو خود اس مقام کے متعلق کوئی واقفیت نہ ہو تو آپ کسی دوسرے شخص سے دریافت کریں اور اس کی راہ نمائی میں وہاں کی سیر کریں۔ ایسی صورتِ حال جب پیش آتی ہے تو آپ پہلے اس شخص کو تلاش کرتے ہیں جو خود واقف کار ہونے کا دعوٰی کرے۔ پھر آپ قرائن سے اس امر کا اطمینان کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ شخص قابلِ اعتماد ہے یا نہیں۔ پھر آپ اس کی راہ نمائی میں چل کر دیکھتے ہیں اور جب تجربے سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اس کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق جو عمل آپ نے کیا اس سے کوئی بُرا نتیجہ نہیں نکلا تو آپ کو پوری طرح اطمینان ہو جاتا ہے کہ واقعی وہ شخص واقف کار تھا اور اس جگہ کے متعلق جو معلوما ت اس نے دی تھیں وہ صحیح تھیں۔ یہ ایک علمی طریقہ ہے، اور اگر کوئی دوسرا طریقِ علمی ممکن نہ ہو تو پھر رائے قائم کرنے کے لیے یہی ایک صحیح طریقہ ہو سکتا ہے۔
اب دیکھیے، دُنیا آپ کے لیے ایک اجنبی جگہ ہے۔ آپ کو نہیں معلوم کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس کا انتظام کس قسم کا ہے۔ کس آئین پر یہ کارخانہ چل رہا ہے۔ اس کے اندر آپ کی کیا حیثیت ہے، اور یہاں آپ کے لیے کیا رویّہ مناسب ہے۔ آپ نے پہلے یہ رائے قائم کی کہ جیسا بظاہر نظر آتا ہے اصل حقیقت بھی وہی ہے۔ آپ نے اس رائے پر عمل کیا مگر نتیجہ غلَط نکلا۔ پھر آپ نے قیاس اور گمان کی بنا پر مختلف رائیں قائم کیں اور ہر ایک پر عمل کرکے دیکھا، مگر ہر صورت میں نتیجہ غلَط ہی رہا۔ اس کے بعد آخری صورت یہی ہے کہ آپ پیغمبروں کی طرف رجوع کریں۔ یہ لوگ واقف کار ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں۔ ان کے حالات کی جتنی چھان بین کی جاتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہایت سچے، نہایت امین، نہایت نیک، نہایت بے غرض، اور نہایت صحیح الدماغ لوگ ہیں۔ لہٰذا بادی النظر میں ان پراعتماد کرنے کے لیے کافی وجہ موجود ہے۔ اب صرف یہ دیکھنا باقی رہ جاتا ہے کہ دُنیا کے متعلق اوردُنیا میں آپ کی حیثیت کے متعلق جومعلومات وہ دیتے ہیں وہ کہاں تک لگتی ہوئی ہیں، اُن کے خلاف کوئی عملی ثبوت نہیں ہے، اور اُن کے مطابق جو رویّہ دُنیا میں اختیار کیا گیا وہ تجربے سے کیسا ثابت ہوا۔ اگر تحقیق سے ان تینوں باتوں کا جواب بھی اطمینان بخش نکلے تو ان کی راہ نمائی پر ایمان لے آنا چاہیے اور زندگی میں وہی رویّہ اختیار کرنا چاہیے جو اس نظریے کے مطابق ہو۔
جیسا کہ میں نے اُوپر عرض کیا پچھلے جاہلیت کے طریقوں کے مقابلے میں یہ طریقہ علمی طریقہ ہے اور اگر اس علم کے آگے آدمی سرِ تسلیم خم کر دے، اگر خود سری اور خودرائی کو چھوڑ کر اس علم کا اتباع کرے، اور اپنے رویّے کو انھی حدود کا پابند کر دے جو اس علم نے قائم کی ہیں، تو اسی طریقے کا نام ’’اِسلامی طریقہ‘‘ ہے۔
انبیا ؑ کا نظریّۂ کائنات وانسان
پیغمبر کہتے ہیں:
یہ سارا عالم ہست وبود جوانسان کے گرد وپیش پھیلا ہوا ہے اور جس کا ایک جز انسان بھی ہے کوئی اتفاقی ہنگامہ نہیں ہے بلکہ ایک منظم، باضابطہ سلطنت ہے۔ اللّٰہ نے اسے بنایا ہے، وہی اس کا مالک ہے اور وہی اس کا اکیلا حاکم ہے۔ یہ ایک کلّی نظام (totalitarian system) ہے جس میں تمام اختیارات مرکزی اقتدار کے ہاتھ میں ہیں۔ اُس مقتدر اعلیٰ کے سوا یہاں کسی کا حکم نہیں چلتا۔ تمام قوتیں جو نظامِ عالم میں کام کر رہی ہیں، اسی کے زیرِ حکم ہیں اور کسی کی مجال نہیں ہے کہ اس کے حکم سے سرتابی کر سکے، یا اس کے اِذن کے بغیر اپنے اختیار سے کوئی حرکت کرے۔ اس ہمہ گیر سسٹم کے اندر کسی کی خودمختاری (independence) اور غیر ذمہ داری (irresponsibility) کے لیے کوئی جگہ نہیں، نہ فطرتاً ہو سکتی ہے۔
انسان یہاں پیدائشی رعیت (born subject) ہے۔ رعیت ہونا اس کی مرضی پر موقوف نہیں ہے بلکہ یہ رعیت ہی پیدا ہوا ہے، اور رعیت کے سوا کچھ اور ہونا اس کے امکان میں نہیں ہے۔ لہٰذایہ خود اپنے لیے طریق زندگی وضع کرنے اور اپنی ڈیوٹی آپ تجویز کر لینے کا حق نہیں رکھتا۔
یہ کسی چیز کا مالک نہیں ہے کہ اپنی مِلک میں تصرّف کرنے کا ضابطہ خود بنائے۔ اس کا جسم اور اس کی ساری قوتیں اللہ کی مِلک اور اس کا عطیہ ہیں، لہٰذا یہ انھیں خود اپنے منشا کے مطابق استعمال کرنے کا حق دار نہیں ہے بلکہ جس نے یہ چیزیں اسے عطا کی ہیں اُسی کی مرضی کے مطابق اسے انھیں استعمال کرنا چاہیے۔
اسی طرح جو اشیا اس کے گرد وپیش دُنیا میں پائی جاتی ہیں; زمین، جانور، پانی، نباتات، معدنیات وغیرہ… یہ سب اللّٰہ کی مِلک ہیں۔ انسان ان کا مالک نہیں ہے، لہٰذا انسان کو ان پر بھی اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنے کا کوئی حق نہیں بلکہ اسے ان کے ساتھ اس قانون کے مطابق برتائو کرنا چاہیے جو اصل مالک نے مقرر کیا ہے۔
اسی طرح وہ تمام انسان بھی جو زمین پر بستے ہیں اور جن کی زندگی ایک دوسرے سے وابستہ ہے، اللّٰہ کی رعیت ہیں۔ لہٰذا اِن کو اپنے باہمی تعلقات کے بارے میں خود اُصول اور ضابطے مقرر کر لینے کا حق نہیں ہے۔ ان کے جملہ تعلقات خدا کے بنائے ہوئے قانون پر مبنی ہونے چاہئیں۔
رہی یہ بات کہ وہ خدا کا قانون کیا ہے؟ تو پیغمبر کہتے ہیں کہ جس ذریعۂ علم کی بِنا پر ہم تمھیں دُنیا کی اور خود تمھاری یہ حقیقت بتا رہے ہیں، اسی ذریعۂ علم سے ہمیں خدا کا قانون بھی معلوم ہوا ہے۔ خدا نے خود ہمیں اس بات پر مامور کیا ہے کہ یہ علم تم تک پہنچا دیں۔ لہٰذا تم ہم پر اعتماد کرو۔ ہمیں اپنے بادشاہ کا نمایندہ تسلیم کرو اور ہم سے اس کا مستند قانون لو۔
پھر پیغمبر ہم سے کہتے ہیں کہ یہ جو تم بظاہر دیکھتے ہو کہ سلطنت عالم کا سارا کاروبار ایک نظم کے ساتھ چل رہا ہے مگر نہ خود سلطان نظر آتا ہے نہ اس کے کارپرداز کام کرتے دکھائی دیتے ہیں، اور یہ جو تم ایک طرح کی خود مختاری اپنے اندر محسوس کرتے ہو کہ جس طرح چاہو، کام کرو، مالکانہ رَوِش بھی اختیار کر سکتے ہو اور اصل مالک کے سوا دوسروں کے سامنے بھی اطاعت وبندگی میں سر جھکا سکتے ہو، ہر صورت میں تمھیں رزق ملتا ہے۔ وسائل کار بہم پہنچتے ہیں اور بغاوت کی سزا فورًا نہیں دی جاتی، یہ سب دراصل تمھاری آزمائش کے لیے ہے۔ چوں کہ تمھیں عقل، قوتِ استنباط اور قوتِ انتخاب دی گئی ہے، اس لیے مالک نے اپنے آپ کو اور اپنے نظامِ سلطنت کو تمھاری نظروں سے اوجھل کر دیا ہے۔ وہ تمھیں آزمانا چاہتا ہے کہ تم اپنی قوتوں سے کس طرح کام لیتے ہو۔ اس نے تم کوسمجھ بوجھ، انتخاب کی آزادی (freedom of choice) اور ایک طرح کی خودمختاری (autonomy)عطا کرکے چھوڑا ہے۔ اب اگر تم اپنی رعیت ہونے کی حیثیت کو سمجھو اور برضا ورغبت اس حیثیت کو اختیار کرلو، بغیر اس کے کہ تم پر اس حیثیت میں رہنے کے لیے کوئی جبر ہو، تو اپنے مالک کی آزمائش میں کام یاب ہو گے۔ اور اگر رعیت ہونے کی حیثیت کو نہ سمجھو، یا سمجھنے کے باوجود باغیانہ روش اختیار کرو تو امتحان میں ناکام ہو جائو گے۔ اسی امتحان کی غرض سے تمھیں دُنیا میں کچھ اختیارات دیے گئے ہیں، دُنیا کی بہت سی چیزیں تمھارے قبضۂ قدرت میں دی گئی ہیں، اور تم کو عمر بھر کی مہلت دی گئی ہے۔
اس کے بعد پیغمبر ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ دنیوی زندگی چوں کہ امتحان کی مہلت ہے۔ لہٰذا یہاں نہ حساب نہ جزا سزا۔({ FR 1267 }) یہاں جو کچھ دیا جاتا ہے لازم نہیں کہ وہ کسی عملِ نیک کا انعام ہی ہو۔ وہ اس بات کی علامت نہیں ہے کہ اللّٰہ تم سے خوش ہے یا جو کچھ تم کر رہے ہو وہ درست ہے۔ بلکہ دراصل وہ محض امتحان کا سامان ہے، مال، دولت، اولاد، خدامِ حکومت، اسبابِ زندگی، یہ سب وہ چیزیں ہیں جو تمھیں امتحان کی غرض سے دی جاتی ہیں تاکہ تم ان پر کام کرکے دکھائو اور اپنی اچھی یا بُرا قابلیتوں کا اظہار کرو۔ اسی طرح جو تکلیفیں، نقصانات، مصائب وغیرہ آتے ہیں۔ وہ بھی لازماً کسی عملِ بد کی سزا نہیں ہیں بلکہ ان میں سے بعض قانونِ فطرت کے تحت آپ سے آپ ظاہر ہونے والے نتائج ہیں۔({ FR 1268 }) بعض آزمائش کے ذیل میں آتے ہیں ({ FR 1269 }) اور بعض اس وجہ سے پیش آتے ہیں کہ حقیقت کے خلاف رائے قائم کرکے جب تم ایک رویّہ اختیار کرتے ہو تو لامحالہ تمھیں چوٹ لگتی ہے۔({ FR 1270 })بہرحال یہ دُنیا دارالجزا نہیں ہے بلکہ دارالامتحان ہے۔ یہاں جو کچھ نتائج ظاہر ہوتے ہیں وہ کسی طریقے یا کسی عمل کے صحیح یا غلط، نیک یا بد، قابلِ ترک یا قابلِ اخذ ہونے کا معیار نہیں بن سکتے۔ اصلی معیار آخرت کے نتائج ہیں۔ مہلت کی زندگی ختم ہونے کے بعد ایک دوسری زندگی ہے جس میں تمھارے پورے کارنامے کو جانچ کر فیصلہ کیا جائے گا، کہ تم امتحان میں کام یاب ہوئے یا ناکام۔ اور وہاں جس چیز پر کامیابی وناکامی کا انحصار ہے وہ یہ ہے کہ اوّلًا تم نے اپنی قوتِ نظر واستدلال کے صحیح استعمال سے اللہ تعالیٰ کے حاکم حقیقی ہونے اور اس کی طرف سے آئی ہوئی تعلیم وہدایت کے من جانب اللہ ہونے کو پہچانا یا نہیں اور ثانیاً، اس حقیقت سے واقف ہونے کے بعد آزادیٔ انتخاب رکھنے کے باوجود، تم نے اپنی رضاورغبت سے اللہ کی حاکمیت اور اس کے حکمِ شرعی کے سامنے سرتسلیم خم کیا یا نہیں۔
نظریّۂ اِسلامی کی تنقید
دُنیا اور انسان کے متعلق یہ نظریہ جو پیغمبروں نے پیش کیا ہے، ایک مکمل نظریہ ہے۔ اس کے تمام اجزا میں ایک منطقی ربط ہے، کوئی جز دوسرے جز سے متناقض نہیں ہے۔ اس سے تمام واقعاتِ عالم کی پوری توجیہہ اور آثار کائنات کی پوری تعبیر ملتی ہے۔ کوئی ایک چیز بھی مشاہدے یا تجربے میں ایسی نہیں آتی جس کی توجیہہ اس نظریے سے نہ کی جا سکتی ہو۔ لہٰذا یہ ایک علمی نظریہ (scientific theory) ہے۔ ’’علمی نظریے‘‘ کی جو تعریف بھی کی جائے وہ اس پر صادق آتی ہے۔
پھر کوئی مشاہدہ یا تجربہ آج تک ایسا نہیں ہوا جس سے یہ نظریہ ٹوٹ جاتا ہو۔ لہٰذا یہ اپنی جگہ پر قائم ہے۔ ٹوٹے ہوئے نظریات میں اسے شمار نہیں کیا جا سکتا۔ ({ FR 1272 })
پھر نظامِ عالم کا جو مشاہدہ ہم کرتے ہیں اس سے یہ نظریہ نہایت اَغلب (most probable) نظر آتا ہے۔ کائنات میں جو زبردست تنظیم پائی جاتی ہے اسے دیکھ کر یہ کہنا زیادہ قرینِ دانش ہے کہ اس کا کوئی ناظم ہے، بہ نسبت اس کے کہ کوئی ناظم نہیں ہے۔ اسی طرح اس تنظیم کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالنا زیادہ معقول ہے کہ یہ مرکزی نظام ہے اور ایک ہی مختار کل اس کا ناظم ہے، بہ نسبت اس کے کہ یہ لامرکزی نظام ہے اور بہت سے ناظموں کے ماتحت چل رہا ہے۔ اسی طرح جو حکمت کی شان اس کائنات کے نظام میں علانیہ محسوس ہوتی ہے اُسے دیکھ کر یہ رائے قائم کرنا زیادہ قریب از عقل ہے کہ یہ حکیمانہ اور بامقصد نظام ہے، بہ نسبت اس کے کہ بے مقصد ہے اور محض بچے کا کھیل ہے۔
پھر جب ہم اس حیثیت سے غور کرتے ہیں کہ اگر واقعی یہ نظامِ کائنات ایک سلطنت ہے اور انسان اس نظام کا ایک جز ہے تو یہ بات ہمیں سراسر معقول معلوم ہوتی ہے کہ اس نظام میں انسان کی خود مختاری وغیر ذمہ داری کے لیے کوئی جگہ نہ ہونی چاہیے۔ اس لحاظ سے یہ ہمیں نہایت معقول (most reasonable) نظریہ معلوم ہوتا ہے۔
پھر جب عملی نقطۂ نظر سے ہم دیکھتے ہیں تو یہ بالکل ایک قابلِ عمل نظریہ ہے۔ زندگی کی ایک پور ی اسکیم اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ اس نظریے پر بنتی ہے۔ فلسفہ اور اَخلاق کے لیے، علوم وفنون کے لیے، صلح وجنگ اور بین الاقوامی تعلقات کے لیے، غرض زندگی کے ہر پہلو اور ہر ضرورت کے لیے یہ ایک مستقل بنیاد فراہم کرتا ہے اور کسی شعبۂ زندگی میں بھی انسان کو اپنا رویّہ متعین کرنے کے لیے اس نظریے سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
اب ہمیں صرف یہ دیکھنا باقی رہ گیا ہے کہ اس نظریے سے دُنیا کی زندگی میں کس قسم کا رویّہ بنتا ہے اور اس کے نتائج کیا ہیں؟
انفرادی زندگی میں یہ نظریہ دوسرے جاہلی نظریات کے برعکس ایک نہایت ذمہ دارانہ اور نہایت منضبط رویّہ (discipline) پیدا کرتا ہے۔ اس نظریے پر ایمان لانے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی اپنے جسم اور اس کی طاقتوں اور دُنیا اور اس کی کسی چیز کو بھی اپنی ملک سمجھ کر خودمختارانہ استعمال نہ کرے بلکہ خدا کی ملک سمجھ کر صرف اس کے قانون کی پابندی میں استعمال کرے۔ ہر چیز کو جو اُسے حاصل ہے خدا کی امانت سمجھے اور یہ سمجھتے ہوئے اس میں تصرّف کرے کہ مجھے اس امانت کا پورا حساب دینا ہے، اور حساب بھی اسے دینا ہے جس کی نظر سے میرا کوئی فعل بلکہ کوئی دل میں چھپا ہوا ارادہ تک پوشیدہ نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا شخص ہر حال میں ایک ضابطے کا پابند ہو گا۔ وہ خواہشات کی بندگی میں کبھی شتر بے مہار نہیں بن سکتا۔ وہ ظالم اور خائن نہیں ہو سکتا۔ اس کی سیرت پر کامل اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ وہ ضابطے کی پابندی کے لیے کسی خارجی دبائو کا محتاج نہیں ہوتا۔ اس کے اپنے نفس میں ایک زبردست اَخلاقی انضباط پیدا ہو جاتا ہے جو اسے ان مواقع پر بھی راستی اور حق پر قائم رکھتا ہے جہاں اسے کسی دنیوی طاقت کی باز پُرس کا خطرہ نہیں ہوتا۔ یہ خدا کا خوف اور امانت کا احساس وہ چیز ہے جس سے بڑھ کر سوسائٹی کو قابلِ اعتماد افراد فراہم کرنے کا کوئی دوسرا ذریعہ تصوّر میں نہیں آ سکتا۔
مزید برآں یہ نظریّہ آدمی کو نہ صرف سعی وجہد کا آدمی بناتا ہے، بلکہ اس کی سعی وجہد کوخود غرضی، نفس پرستی، یا قوم پرستی کے بجائے حق پرستی اور بلند تر اَخلاقی مقاصد کی راہ پر لگا دیتا ہے۔ جو شخص اپنے متعلق یہ رائے رکھتا ہو کہ میں دُنیا میں بے کار نہیں آیا ہوں بلکہ خدا نے مجھے کام کرنے کے لیے یہاں بھیجا ہے، اور میری زندگی اپنے لیے یا اپنے دوسرے متعلقین کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کام کے لیے ہے جس میں خدا کی رضا ہو، اور مَیں یوں ہی چھوڑا نہ جائوں گا، بلکہ مجھ سے پورا حساب لیا جائے گا کہ مَیں نے اپنے وقت کا اور اپنی قوتوں کا کتنا اورکس طرح استعمال کیا، ایسے شخص سے زیادہ کوشش کرنے والا اور نتیجہ خیز اور صحیح کوشش کرنے والا آدمی اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا یہ نظریہ ایسے بہتر افراد پیدا کرتا ہے کہ ان سے بہتر انفرادی رویّے کا تصوّر کرنا مشکل ہے۔
اب اجتماعی پہلو میں دیکھیے:
سب سے پہلے تو یہ نظریہ انسانی اجتماع کی بنیاد بدل دیتا ہے۔ اس نظریے کی رُو سے تمام انسان خدا کی رعیّت ہیں۔ رعیّت ہونے کی حیثیت سے سب کے حقوق یکساں، سب کی حیثیت یکساں اور سب کے لیے مواقع یکساں، کسی شخص، کسی خاندان، کسی طبقے، کسی قوم، کسی نسل کے لیے دوسرے انسانوں پر نہ کسی قسم کی برتری وفوقیت ہے، نہ امتیازی حقوق، اس طرح انسان پر انسان کی حاکمیت اور فضیلت کی جڑ کٹ جاتی ہے اور وہ تمام خرابیا ںیک لخت دور ہو جاتی ہیں جو بادشاہی، جاگیرداری، نوابی (aristocracy) برہمنیت وپاپائیت اور آمریت سے پیدا ہوتی ہیں۔
پھر یہ چیز قبیلے، قوم، نسل، وطن اور رنگ کے تعصبات کا بھی خاتمہ کر دیتی ہے جن کی بدولت دُنیا میں سب سے زیادہ خون ریزی ہوئی ہے۔ اس نظریے کی رُو سے تمام رُوئے زمین خدا کا مُلک ہے۔ تمام انسان آدم کی اولاد اور خدا کے بندے ہیں، اور فضیلت کی بنیاد نسل ونسب، مال ودولت، یا رنگ کی سپیدی وسرخی پر نہیں بلکہ اَخلاق کی پاکیزگی اور خدا کے خوف پر ہے۔ جو سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا اور اصلاح وتقوٰی پر عمل کرنے والا ہے وہی سب سے افضل ہے۔
اسی طرح انسان اور انسان کے درمیان اجتماعی ربط وتعلق یا فرق وامتیاز کی بنا پر بھی اس نظریے میں کلیتاً تبدیلی کر دی گئی ہے۔ انسان نے اپنی ایجاد سے جن چیزوں کو اجتماع وافتراق کی بنا ٹھیرایا ہے، وہ انسانیت کو بے شمار حصوں میں تقسیم کرتی ہیں اور ان حصوں کے درمیان ناقابلِ عبور دیواریں کھڑی کر دیتی ہیں۔ کیوں کہ نسل، یا وطن، یا قومیت یا رنگ وہ چیزیں نہیں ہیں جن کوآدمی تبدیل کر سکتا ہوا ور ایک گروہ میں سے دوسرے گروہ میں جا سکتا ہو۔ برعکس اس کے یہ نظریہ انسان اور انسان کے درمیان اجتماع وافتراق کی بنا خدا کی بندگی اور اس کے قانون کی پیروی پر رکھتا ہے۔ جو لوگ مخلوقات کی بندگی چھوڑ کر خدا کی بندگی اختیار کر لیں اور خدا کے قانون کو اپنی زندگی کا واحد قانون تسلیم کر لیں وہ سب ایک جماعت ہیں، اور جو ایسا نہ کریں وہ دوسری جماعت۔ اس طرح تمام اختلافات مٹ کر صرف ایک اختلاف باقی رہ جاتا ہے اور وہ اختلاف بھی قابل عبور ہے۔ کیوں کہ ہر وقت ایک شخص کے لیے ممکن ہے کہ اپنا عقیدہ اور طرز زندگی بدل دے اور ایک جماعت سے دوسری جماعت میں چلا جائے۔ اس طرح ایک دُنیا میں کوئی عالم گیر بین الاقوامی برادری بننا ممکن ہے تو وہ اسی نظریے پر بن سکتی ہے۔ دوسرے تمام نظریات انسانیت کو پھاڑنے والے ہیں، جمع کرنے والے نہیں۔
ان تمام اصلاحات کے بعد جو سوسائٹی اس نظریے پر بنتی ہے اس کی ذہنیت، اسپرٹ، اور اجتماعی تعمیر (social structure) بالکل بدلی ہوئی ہوتی ہے۔ اس میں اسٹیٹ انسان کی حاکمیت پر نہیں بلکہ خدا کی حاکمیت پر بنتا ہے۔({ FR 1274 }) حُکُومت خدا کی ہوتی ہے۔ قانون خدا کا ہوتا ہے۔ انسان صرف خدا کے ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ یہ چیز اوّل تو اُن ساری خرابیوں کو دُور کر دیتی ہے جو انسان پر انسان کی حُکُومت اور انسان کی قانون سازی سے پیدا ہوتی ہے۔ پھر ایک عظیم الشان فرق جو اس نظریے پر اسٹیٹ بننے سے واقع ہو جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اسٹیٹ کے پورے نظام میں عبادت اور تقوٰی کی اسپرٹ پھیل جاتی ہے۔ راعی اور رعیت دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم خدا کی حُکُومت میں ہیں اور ہمارا معاملہ براہِ راست اُس خدا سے ہے جو عالم الغیب والشہادہ ہے۔ ٹیکس دینے والا یہ سمجھ کر ٹیکس دیتا ہے کہ وہ خدا کو ٹیکس دے رہا ہے، اور ٹیکس لینے والے اور اس ٹیکس کو خرچ کرنے والے یہ سمجھتے ہوئے کام کرتے ہیں کہ یہ مال خدا کا مال ہے اور ہم امین کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ایک سپاہی سے لے کر ایک جج اور گورنر تک ہر کارندۂ حُکُومت اپنی ڈیوٹی اُسی ذہنیت کے ساتھ انجام دیتا ہے جس ذہنیت کے ساتھ وہ نماز پڑھتا ہے۔ دونوں کام اس کے لیے یکساں عبادت ہیں اور دونوں میں وہی ایک تقوٰی اور خشیت کی رُوح درکار ہے۔ باشندے اپنے اندر سے جن لوگوں کو خدا کی نیابت کا کام انجام دینے کے لیے چنتے ہیں ان میں سب سے پہلے جو صفت تلاش کی جاتی ہے وہ خوفِ خدا اور امانت وصداقت کی صفت ہے۔ اس طرح سطح پر وہ لوگ ابھر کر آتے ہیں اور اختیارات اُن کے ہاتھوں میں دیے جاتے ہیں جو سوسائٹی میں سب سے بہتر اَخلاق کے حامل ہوتے ہیں۔
تمدن ومعاشرت میں بھی یہ نظریہ تقوٰی اور طہارتِ اَخلاق کی یہی اسپرٹ پھیلا دیتا ہے۔ اس میں نفس پرستی کے بجائے خدا پرستی ہوتی ہے، ہر ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان خدا کا واسطہ حائل ہوتا ہے، اور خدا کا قانون دونو ں کے تعلقات کو منضبط کرتا ہے۔ یہ قانون چوں کہ اُس نے بنایا ہے جو تمام نفسانی خواہشات اورذاتی اغراض سے پاک ہے، اور علیم وحکیم بھی ہے اس لیے اس میں فتنے کا ہر دروازہ اور ظلم کا ہر راستہ بند کیا گیا ہے اور انسانی فطرت کے ہرپہلو اور اس کی ہر ضرورت کی رعایت کی گئی ہے۔
یہاں اتنا موقع نہیں کہ میں اُس پوری اجتماعی عمارت کا نقشہ پیش کروں جو اُس نظریے پر بنتی ہے مگر جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پیغمبروں نے جو نظریۂ کائنات وانسان پیش کیا ہے وہ کس قسم کا رویّہ پیدا کرتا ہے اور اس کے نتائج کیا ہیں اور کیا ہو سکتے ہیں۔ پھر یہ بات بھی نہیں کہ یہ محض کاغذ پر ایک خیالی نقشہ ہو بلکہ تاریخ میں اس نظریے پر ایک اجتماعی نظام اور ایک اسٹیٹ بنا کر دکھایا جا چکا ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ جیسے افراد اس نظریے پر تیار کیے گئے تھے نہ اس سے بہتر افراد کبھی رُوئے زمین پر پائے گئے اور نہ اس اسٹیٹ سے بڑھ کر کوئی اسٹیٹ انسان کے لیے رحمت ثابت ہوا۔ اس کے افراد میں اپنی اَخلاقی ذمہ داری کا احساس اتنا بڑھ گیا تھا کہ ایک صحرائی عورت کو زنا سے حمل ہو جاتا ہے، وہ جانتی ہے کہ میرے لیے اس جرم کی سزا سنگ ساری جیسی ہولناک سزا ہے، مگر وہ خود چل کر آتی ہے اور درخواست کرتی ہے کہ اس پر سزا نافذ کی جائے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ وضع حمل کے بعد آئیو، اور بغیر کسی مچلکہ وضمانت کے اُسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ وضع حمل کے بعد وہ پھر صحرا سے آتی ہے اور سزا دیے جانے کی درخواست کرتی ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ بچے کو دودھ پلا اور جب دُودھ پلانے کی مدت ختم ہو جائے تب آئیو۔ پھر وہ صحرا کی طرف واپس چلی جاتی ہے اور کوئی پولیس کی نگرانی اس پر نہیں ہوتی۔ رضاعت کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ پھر آ کر التجا کرتی ہے کہ اب اسے سزا دے کر اُس گناہ سے پاک کر دیا جائے جو اس سے سرزد ہو چکا ہے۔ چنانچہ اسے سنگسار کیا جاتا ہے اور جب وہ مر جاتی ہے تو اُس کے لیے دعائے رحمت کی جاتی ہے۔ اور جب ایک شخص کی زبان سے اس کے حق میں اتفاقاً یہ کلمہ نکل جاتا ہے کہ کیسی بے حیا عورت تھی تو جواب میں فرمایا جاتا ہے کہ ’’خدا کی قسم! اس نے ایسی توبہ کی تھی کہ اگر ناجائز محصول لینے والا بھی ایسی توبہ کرتا تو بخش دیا جاتا۔‘‘ یہ تواس سوسائٹی کے افراد کا حال تھا اور اس اسٹیٹ کا حال یہ تھا کہ جس حُکُومت کی آمدنی کروڑوں روپے تک پہنچی ہوئی تھی اور جس کے خزانے ایران وشام ومصر کی دولت سے معمور ہو رہے تھے، اس کا صدر صرف ڈیڑھ سو روپیہ مہینہ تنخواہ لیتا تھا، اور اس کے شہریوں میں ڈھونڈے سے بھی بمشکل کوئی ایسا شخص ملتا تھا جوخیرات لینے کا مستحق ہو۔
اس تجربے کے بعد بھی اگر کسی شخص کو یہ اطمینان حاصل نہ ہو کہ انبیا نے نظامِ کائنات کی حقیقت اور اس میں انسان کی حیثیت کے متعلق جو نظریہ پیش کیا ہے وہ حق ہے تو ایسے شخص کے اطمینان کے لیے کوئی دوسری صورت ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ خدا اور فرشتوں اورآخرت کی زندگی کا براہِ راست عینی مشاہدہ تو اُسے بہرحال حاصل نہیں ہو سکتا۔ جہاں مشاہدہ ممکن نہ ہو وہاں تجربے سے بڑھ کر صحت کا کوئی دوسرا معیار نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک طبیب بیمار کے اندرمشاہدہ کرکے یہ نہیں دیکھ سکتا کہ فی الواقع سسٹم میں کیا خرابی پیدا ہو گئی ہے تو مختلف دوائیں دے کر دیکھتا ہے، اور جو دوا اس اندھیری کوٹھڑی میں ٹھیک نشانے پر جا کر بیٹھتی ہے اس کا مرض کو دور کر دینا ہی اس بات پر قطعی دلیل ہوتا ہے کہ سسٹم میں فی الواقع جو خرابی تھی یہ دوا اس کے عین مطابق تھی۔ اسی طرح جب انسانی زندگی کی کل کسی دوسرے نظریے سے درست نہیں ہوتی اور صرف انبیا کے نظریے ہی سے درست ہوتی ہے تو یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ نظریہ حقیقت کے مطابق ہے۔ فی الواقع یہ کائنات اللہ کی سلطنت ہے اور واقعی اس زندگی کے بعد ایک زندگی ہے جس میں انسان کو اپنے کارنامۂ حیاتِ دنیوی کا حساب دینا ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭
دینِ حق
(یہ خطبہ ۲۱؍ مارچ ۱۹۴۳ء کو جامعہ ملّیّہ ، دہلی میں دیا گیا تھا)
قرآن جس دعوے کے ساتھ نوعِ انسانی کو اپنے پیش کردہ مسلک کی طرف دعوت دیتا ہے وہ خود اس کے اپنے الفاظ میں یہ ہے:
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ آل عمران 19:3
یہی ذرا سا فقرہ میری اس تقریر کا موضوع ہے۔ زیادہ تفصیل کا موقع نہیں۔ بہت اختصار کے ساتھ میں پہلے اس کے معنی کی تشریح کروں گا جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ اس فقرے میں دراصل کس چیز کا دعوٰی کیا گیا ہے، پھر اس سوال پر بحث کروں گا کہ یہ دعوٰی تسلیم کیا جانا چاہیے یا نہیں، اور آخر میں بیان کروں گا کہ اگر اسے تسلیم کر لیا جائے تو پھر اسے تسلیم کر لینے کے مقتضیات کیا ہیں۔
عموماً اس فقرے کا جو سیدھا سادہ مفہوم بیان کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ’’سچا مذہب تو اللہ کے نزدیک بس اِسلام ہی ہے۔‘‘ اور ’’اِسلام‘‘ کا جو تصوّر عام طور پر لوگوں کے ذہن میں ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ ایک مذہب کا نام ہے جو اَب سے چودہ سو برس پہلے عرب میں پیدا ہوا تھا اور جس کی بنا حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ڈالی تھی… ’’بِنا ڈالی تھی‘‘ کا لفظ مَیں قصدًا اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ صرف غیر مسلم ہی نہیں بلکہ بکثرت مسلمان اور اچھے خاصے ذی علم مسلمان بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’بانیٔ اِسلام‘‘ کہتے اور لکھتے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک اِسلام کی ابتدا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ہوئی اور آپ ہی اس کے بانی (founder) ہیں۔ لہٰذا جب ایک غیر مسلم قرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے اس فقرے پر پہنچتا ہے تو وہ یہ گمان کرکے سرسری طور پر اس سے گزر جاتا ہے کہ جس طرح ہر مذہب صرف اپنے ہی برحق ہونے اور دوسرے مذہبوں کے باطل ہونے کی مُدعی ہے اسی طرح قرآن نے بھی اپنے پیش کردہ مذہب کے برحق ہونے کا دعوٰی کر دیا ہے۔ اور جب ایک مسلمان اسے پڑھتا ہے تو وہ اس وجہ سے اس پر غور کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں سمجھتا کہ جس مذہب کو اس فقرے میں برحق کہا گیا ہے اسے وہ خود بھی برحق مانتا ہے۔ یا اگر غور وفکر کے لیے اس کے ذہن میں کوئی تحریک پیدا ہوتی ہے تو وہ بالعموم یہ رُخ اختیار کر لیتی ہے کہ عیسائیت، ہندومت، بودھ مت اور ایسے ہی دوسرے مذاہب سے اِسلام کا مقابلہ کرکے اس کی حقانیت ثابت کی جائے۔ لیکن درحقیقت قرآن میں یہ مقام ایسا ہے جس پر ایک سنجیدہ طالب علم کو ٹھیر کر بہت غور کرنا چاہیے، اُس سے زیادہ غور کرنا چاہیے جتنا اب تک اس پر کیا گیا ہے۔
قرآن کے اس دعوے کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں ’’اَلدِّیْن‘‘اور ’’اَلْاِسْلَامُ‘‘کا مفہوم متعین کر لینا چاہیے۔
اَلِّدیْن َکا مفہوم
عربی زبان میں لفظ ’’دین‘‘ کئی معنوں میں آتا ہے۔ اس کے ایک معنی غلبہ اور استیلا کے ہیں۔ دوسرے معنی اطاعت اور غلامی کے۔ تیسرے معنی جزا اور بدلے کے۔ چوتھے معنی طریقے اور مسلک کے۔ یہاں یہ لفظ اسی چوتھے معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی دین سے مراد طریقِ زندگی یا طرزِ فکر وعمل ہے جس کی پیروی کی جائے لیکن یہ خیال رہے کہ قرآن محض دین نہیں کہہ رہا ہے بلکہ الدین کہہ رہا ہے۔ اس سے معنی میں وہی فرق واضح ہو جاتا ہے جو انگریزی زبان میں (this is a way of life) کہنے کے بجائے (this is the way of life) کہنے سے واقع ہوتا ہے یعنی قرآن کا دعوٰی یہ نہیں ہے کہ اللہ کے نزدیک اِسلام ایک طریق زندگی ہے بلکہ اس کا دعوٰی یہ ہے کہ اِسلام ہی ایک حقیقی اور صحیح طریقِ زندگی یا طرز فکر وعمل ہے۔
پھر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ قرآن اس لفظ کو کسی محدود معنی میں استعمال نہیں کرتا بلکہ وسیع ترین معنی میں استعمال کرتا ہے۔ طریقِ زندگی سے اس کی مراد زندگی کے کسی خاص پہلو یا کسی خاص شعبے کا طریق نہیں بلکہ پوری زندگی کا طریق ہے، الگ الگ ایک ایک شخص کی انفرادی زندگی ہی کا طریق نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی سوسائٹی کا طریق بھی ہے۔ ایک خاص ملک یا ایک خاص قوم یا ایک خاص زمانے کی زندگی کا طریق نہیں بلکہ تمام زمانوں میں انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا طریق ہے۔ لہٰذا قرآن کے دعوے کا مفہوم یہ نہیں کہ اللّٰہ کے نزدیک پوجا پاٹ اور عالمِ بالا کے اعتقاد اور حیات بعد الممات کے تصوّر کا ایک ہی صحیح مجموعہ ہے جس کا نام اِسلام ہے۔ نہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ افراد ِانسانی کے مذہبی طرز خیال وعمل (جیسا کہ لفظ ’’مذہبی‘‘ کا مفہوم آج کل کی مغربی اصطلاح میں لیا جاتا ہے) کی ایک صحیح صورت وہی ہے جسے اِسلام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ عرب کے لوگوں، یا فلاں صدی تک کے انسانوں، یا فلاں دور کے مثلاً صنعتی انقلاب سے پہلے تک کے آدمیوں کے لیے ایک صحیح نظامِ زندگی وہی ہے جسے اِسلام سے موسوم کیا گیا ہے۔ بلکہ صریح طور پر اس کا دعوٰی یہ ہے کہ ہر زمانے اور ہر دَور میں پوری نوعِ انسانی کے لیے زمین پر زندگی بسر کرنے کا ایک ہی ڈھنگ اللہ کے نزدیک صحیح ہے، اور وہ ڈھنگ وہی ہے جس کا نام ’’ا لاسلام‘‘ ہے۔
مجھے یہ سن کر بڑا تعجب ہوا کہ ایشیا اور یورپ کے درمیان کسی مقام پر قرآن کی کوئی نئی تفسیر کی گئی ہے جس کی رُو سے’’دین‘‘ کا مفہوم صرف بندے اور خدا کے انفرادی تعلق تک محدود ہے اور تمدن وریاست کے نظام سے اس کا کوئی علاقہ نہیں ہے۔({ FR 1275 })یہ تفسیر اگر خود قرآن سے اخذ کی گئی ہے تو یقینا بڑی دل چسپ چیز ہو گی لیکن میں نے اٹھارہ سال تک قرآن کا جو تحقیقی مطالعہ کیا ہے اس کی بِنا پر مَیں بلا خوف تردیدکہتا ہوں کہ قرآن اپنے تمام جدید مفسرین کی خواہشات کے علی الرغم‘ الدین کے لفظ کو محدود معنی میں استعمال نہیں کرتا بلکہ اس سے تمام زمانوں کے تمام انسانوں کے لیے ان کی پوری زندگی کا نظام فکر وعمل مراد لیتا ہے۔
الاِسلام کا مفہوم
اب لفظ ’’اِسلام‘‘ کو لیجیے۔ عربی زبان میں اس کے معنی ہیں سپر ڈال دینا، جھک جانا، اطاعت قبول کر لینا، اپنے آپ کو سپرد کر دینا مگر قرآن محض اِسلام نہیں بولتا بلکہ اَلْاِسْلَاَمْ بولتا ہے جو اس کی خاص اصطلاح ہے۔ اس مخصوص اصطلاحی لفظ سے اس کی مراد خدا کے آگے جھک جانا، اس کی اطاعت قبول کر لینا، اس کے مقابلے میں اپنی آزادی سے دست بردار ہو جانا، اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دینا ہے۔ اس کی تسلیم واطاعت اور سپردگی وحوالگی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ قانونِ طبیعت (law of nature)کے آگے سپر ڈال دے، جیسا کہ بعض لوگوں نے اس کا مفہوم قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ نہ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے تخیل یا اپنے مشاہدات وتجربات سے خدا کی مرضی اور اس کے منشا کا جو تصوّر بطورِ خود اخذ کر لے اسی کی اطاعت کرنے لگے، جیسا کہ کچھ اور لوگوں نے غلطی سے سمجھ لیا ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا نے خود اپنے رسولوں کے ذریعے سے انسان کے لیے جس طریقِ فکر وعمل کی طرف راہ نمائی کی ہے اسے وہ قبول کر لے اور اپنی آزادیٔ فکر وعمل… یا بالفاظِ صحیح تر، آوارگیٔ فکر وعمل… چھوڑ کر اس کی پیروی واطاعت اختیار کر لے۔ اسی چیز کو قرآن ’’الاِسلام‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ درحقیقت کوئی جدید العہد مذہب نہیں ہے جس کی بِنا اب سے ۱۳۶۳ برس پہلے عرب میں محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ڈالی ہو بلکہ جس روز پہلی مرتبہ اس کرۂ زمین پر انسان کا ظہور ہوا اسی روز خدا نے انسان کو بتا دیا تھا کہ تیرے لیے صرف یہ ’’الاِسلام‘‘ ہی ایک صحیح طرز عمل ہے۔ اس کے بعد دُنیا کے مختلف گوشوں میں وقتاً فوقتاً جو پیغمبر بھی خدا کی طرف سے انسانوں کی راہ نمائی کے لیے مامور ہوئے ہیں اُن سب کی دعوت بھی بلا استثنا اِسی ’’الاِسلام‘‘ کی طرف رہی ہے جس کی طرف بالآخر محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دُنیا کو دعوت دی۔ یہ اور بات ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے پیروئوں نے بعد میں بہت سی مختلف چیزوں کی آمیزش کرکے ایک نظام ’’یہودیت‘‘ کے نام سے اور مسیح علیہ السلام کے پیروئوں نے ایک دوسرا نظام’’ مسیحیت‘‘ کے نام سے، اور اسی طرح ہندوستان، ایران، چین اور دوسرے ممالک کے پیغمبروں کی امتوں نے مختلف مخلوط ومرکب نظامات دوسرے ناموں سے بنا لیے ہوں۔ لیکن موسیٰؑ اور مسیحؑ اور دوسرے تمام معروف وغیر معروف انبیا علیہم السلام جس دین کی دعوت دینے آئے تھے وہ خالص اِسلام تھا نہ کہ کچھ اور۔
قرآن کا دعوٰی کیا ہے؟
اس تشریح کے بعد قرآن کا دعوٰی بالکل صاف اور واضح صورت میں ہمارے سامنے آ جاتا ہے اور وہ یہ ہے:
’’نوعِ انسان کے لیے خدا کے نزدیک صرف یہی ایک صحیح طریق زندگی ہے کہ وہ خدا کے آگے سرِتسلیم خم کر دے اور فکر وعمل کی اس راہ پر چلے جس کی طرف خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے راہ نمائی کی ہے۔‘‘
یہ ہے قرآن کا دعویٰ۔ اب ہمیں تحقیق کرنا ہے کہ آیا یہ دعوٰی قبول کیا جانا چاہیے؟ خود قرآن نے اپنے اس دعوے کی تائید میں جو دلائل قائم کیے ہیں، ان پر تو ہم غور کریں گے ہی، مگر کیوں نہ اس سے پہلے خود اپنی جگہ تلاش وتجسس کرکے یہ دریافت کر لیں کہ آیا ہمارے لیے اس دعوے کو قبول کرنے کے سوا کوئی اور چارۂ کار بھی ہے؟
طریقِ زندگی کی ضرورت
یہ ظاہر ہے کہ دُنیا میں انسان کو زندگی بسر کرنے کے لیے بہرحال ایک طریقِ زندگی درکار ہے جسے وہ اختیار کرے۔ انسان دریانہیں ہے جس کا راستہ زمین کے نشیب وفراز سے خود معیّن ہو جاتا ہے۔ انسان درخت نہیں ہے جس کے لیے قوانینِ فطرت ایک راہ طے کر دیتے ہیں۔ انسان نِرا جانور نہیں ہے جس کی راہ نمائی کے لیے تنہا جبلّت ہی کافی ہو جاتی ہے۔ اپنی زندگی کے ایک بڑے حصے میں قوانینِ طبیعت کا محکوم ہونے کے باوجود انسان زندگی کے بہت سے ایسے پہلو رکھتا ہے جن میں اسے کوئی لگا بندھا راستہ نہیں ملتا کہ حیوانات کی طرح بے اختیار اس پر چلتا رہے، بلکہ اسے اپنے انتخاب سے خود ایک راہ اختیار کرنی پڑتی ہے۔ اسے فکر کی ایک راہ چاہیے جس پر وہ اپنے اور کائنات کے اُن بہت سے مسائل کو حل کرے جنھیں فطرت اس کے سوچنے والے دماغ کے سامنے پیش تو کرتی ہے مگر اُن کا کوئی حل غیر مشتبہ زبان میں نہیں بتاتی۔ اسے علم کی ایک راہ چاہیے جس پر وہ اُن معلومات کو منظم کرے جنھیں فطرت اس کے حواس کے ذریعے سے اس کے ذہن تک پہنچاتی تو ہے مگر انھیں بطور خود منظم کرکے اس کے حوالے نہیں کر دیتی۔ اسے شخصی برتائو کے لیے ایک راہ چاہیے جس پر وہ اپنی ذات کے بہت سے ان مطالبات کو پورا کرے جن کے لیے فطرت تقاضا تو کرتی ہے مگر انھیں پورا کرنے کا کوئی مہذب طریقہ معین کرکے نہیں دیتی۔ اسے گھریلو زندگی کے لیے، خاندانی تعلقات کے لیے، معاشی معاملات کے لیے، ملکی انتظام کے لیے، بین الاقوامی ربط وتعلق کے لیے اور زندگی کے بہت سے دوسرے پہلوئوں کے لیے بھی ایک راہ درکار ہے جس پر وہ محض ایک شخص ہی سے نہیں بلکہ ایک جماعت، ایک قوم، ایک نوع کی حیثیت سے بھی چلے اور ان مقاصد تک پہنچ سکے جو اگرچہ فطرتاً اس کے مقصود ومطلوب ہیں مگر فطرت نے نہ تو ان مقاصد کو صریح طور پر اس کے سامنے نمایاں کیا ہے اور نہ ان تک پہنچنے کا ایک راستہ معین کر دیا ہے۔
زندگی کا انقسام پذیر نہ ہونا
زندگی کے یہ مختلف پہلو جن میں کوئی ایک طریق اختیار کرنا انسان کے لیے ناگزیر ہے، بجائے خود مستقل شعبے اور ایک دوسرے سے بے نیاز محکمے نہیں ہیں، اس بنا پر یہ ممکن نہیں ہے کہ ان مختلف شعبوں کے لیے انسان ایسی مختلف راہیں اختیار کر سکتا ہو جن کی سمتیں الگ ہوں، جن کے زادراہ الگ ہوں، جن پر چلنے کے ڈھنگ اور انداز الگ ہوں، جن کی راہ نوردی کے مقتضیات الگ ہوں، اور جن کی منازلِ مقصود الگ ہوں۔ انسان اور اس کی زندگی کے مسائل کو سمجھنے کی ایک ذرا سی دانش مندانہ کوشش ہی آدمی کو اس پر مطمئن کرنے کے لیے کافی ہے کہ زندگی بحیثیتِ مجموعی ایک کُل ہے جس کا ہر جز دوسرے جز سے اور ہر پہلو دوسرے پہلو سے گہرا ربط رکھتا ہے، ایسا ربط جو توڑا نہیں جا سکتا۔ اس کا ہر جز دوسرے جز پر اثر ڈالتا ہے اور اس سے اثر قبول کرتا ہے۔ ایک ہی روح تمام اجزا میں سرایت کیے ہوتی ہے اور وہ سب مل کر وہ چیز بناتے ہیں جسے انسانی زندگی کہا جاتا ہے۔ لہٰذا فی الواقع جو چیز انسان کو درکار ہے وہ زندگی کے مقاصد نہیں بلکہ مقصد ہے جس کے ضمن میں سارے چھوٹے بڑے مقاصد پوری موافقت کے ساتھ اپنی اپنی جگہ لے سکیں اور جس کے حصول کی کوشش میں وہ سب حاصل ہو جائیں۔ اسے راستے نہیں بلکہ راستہ درکار ہے جس پر وہ اپنی پوری زندگی کو اس کے تمام پہلوئوں سمیت کامل ہم آہنگی کے ساتھ اپنے مقصودِ حیات کی طرف لے چلے۔ اسے فکر، علم، ادب، آرٹ، تعلیم، مذہب، اَخلاق، معاشرت، معیشت، سیاست، قانون وغیرہ کے لیے الگ الگ نظامات نہیں بلکہ ایک جامع نظام درکار ہے جس میں یہ سب ہمواری کے ساتھ سموئے جا سکیں، جس میں ان سب کے لیے ایک مزاج اور ایک ہی طبیعت رکھنے والے مناسب اصول موجود ہوں، اور جس کی پیروی کرکے آدمی اور آدمیوں کا مجموعہ اور من حیث الکل پوری آدمیت اپنے بلند ترین مقصود تک پہنچ سکے۔ وہ جاہلیت کا تاریک دَور تھا جب زندگی کو مستقل جداگانہ شعبوں میں تقسیم کرنا ممکن خیال کیا جاتا تھا۔ اب اگر کچھ لوگ اس طرز خیال کی مہمل گفتگو کرنے والے موجود ہیں تو وہ بے چارے یا تو اخلاص کے ساتھ پرانے خیالات کی فضا میں اب تک سانس لے رہے ہیں اس لیے قابلِ رحم ہیں، یا پھر وہ ظالم حقیقت کو خوب جانتے ہیں مگر جان بوجھ کر یہ یہ گفتگو صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ جس ’’دین‘‘ کو وہ کسی انسانی آبادی میں رائج کرنا چاہتے ہیں({ FR 1276 }) اس کے اصولوں سے اختلاف رکھنے والوں کو انھیں یہ اطمینان دلانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے اس دین کے تحت تمھیں زندگی کے فلاں فلاں شعبوں میں، جو بدقسمتی سے تمھیں عزیز تر ہیں، پورا تحفظ حاصل رہے گا۔ حالانکہ یہ تحفظ عقلاً محال، فطرتاً ممتنع، عملاً ناممکن ہے اور اس طرح کی گفتگو کرنے والے غالباً خود بھی جانتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے۔({ FR 1277 }) ہر دینِ غالب زندگی کے تمام شعبوں کو اپنی روح اور اپنے مزاج کے مطابق ڈھال کر رہتا ہے۔ جس طرح ہر کان نمک ان تمام چیزوں کو مبدّل بہ نمک کرکے ہی رہتی ہے جو اس کے حدود میں داخل ہو جائیں۔
زندگی کی جغرافی ونسلی تقسیم
پھر جس طرح یہ بات مہمل ہے کہ انسانی زندگی کو جدا گانہ شعبوں میں تقسیم کر دیا جائے، اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ مہمل بات یہ ہے کہ اسے جغرافی حلقوں یا نسلی دائروں میں تقسیم کیا جائے۔ انسان بلاشبہ زمین کے بہت سے حصوں میں پایا جاتا ہے جنھیں دریائوں نے، پہاڑوں نے، جنگلوں اور سمندروں نے یا مصنوعی سرحدوں نے تقسیم کر رکھا ہے۔ اور انسان کی بہت سی مختلف نسلیں اور قومیں بھی ضرور پائی جاتی ہیں جن کے درمیان تاریخی، نفسیاتی اور دوسرے اسباب سے انسانیت کے نشووارتقا نے مختلف صورتیں اختیار کی ہیں۔ لیکن اس اختلاف کو حجت قرار دے کر جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہر نسل، ہر قوم، اور ہر جغرافی آبادی کے لیے ’’دین‘‘ یعنی نظامِ زندگی الگ ہونا چاہیے وہ سراسر ایک مہمل بات کہتا ہے۔ اُس کی محدود نگاہ مظاہر اور عوارض کے اختلافات میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ اس ظاہری کثرت کے اندر جو ہر انسانیت کی وحدت کو وہ نہیں پا سکا۔ اگر فی الواقع یہ اختلافات اتنی اہمیت رکھتے ہیں کہ ان کی بِنا پر دین الگ الگ ہونے چاہییں تو مَیں کہوں گا کہ زیادہ سے زیادہ جو اختلافات ایک ملک اور دوسرے ملک، ایک نسل اور دوسری نسل کے درمیان آپ پاتے ہیں، اُن سب کو جس قدر مبالغے کے ساتھ چاہیں قلم بند کریں، اور پھر اُن اختلافات کا خالص علمی جائزہ لیں جو عورت اور مرد میں پائے جاتے ہیں، جوہر انسان اور دوسرے انسان میں پائے جاتے ہیں، جو ایک ماں اور باپ کے دو بچوں میں پائے جاتے ہیں۔ شاید میں مبالغہ نہ کروں گا اگر یہ دعوٰی کروں کہ علمی تحلیل وتجزیہ میں پہلی قسم کے اختلافات سے یہ دوسری قسم کے اختلافات بہرحال شدید تر ہی نکلیں گے۔ پھر کیوں نہ کہہ دیجیے کہ ہر فرد کا نظامِ زندگی الگ ہونا چاہیے؟ مگر جب آپ انفرادی، جنسی، خاندانی کثرتوں کے اندر وحدت کا ایک عنصر اور پائیدار عنصر ایسا پاتے ہیں جس کی بنیاد پر قوم، وطن یا نسل کا تصوّر قائم ہو سکتا ہے اور اس تصوّر کی بنا پر ایک قوم یا ایک ملک کی کثیر آبادی کے لیے ایک نظامِ زندگی ہونا ممکن خیال کیا جاتا ہے، تو آخر کس چیز نے آپ کو روک دیا ہے کہ قومی، نسلی، وطنی کثرتوں کے درمیان ایک بڑی اور بنیادی وحدت کا عنصر آپ نہیں پا سکتے جس پر انسانیت کا تصوّر قائم ہو، اور جس کی بنا پر تمام عالمِ انسانی کا ایک دین یا نظامِ زندگی ہونا ممکن خیال کیا جائے؟ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ تمام جغرافی، نسلی اور قومی اختلافات کے باوجود اصل بنیادی امور میں سب انسان بالکل یکساں ہیں؟کیا وہ قوانینِ طبعی یکساں نہیں ہیں جن کے تحت انسان دُنیا میں زندگی بسر کر رہا ہے؟ کیا وہ نظامِ جسمانی یکساں نہیں ہے جس پر انسان کی تخلیق ہوئی ہے؟ کیا وہ خصوصیات یکساں نہیں ہیں جن کی بنا پر انسان دوسری موجودات سے الگ ایک مستقل نوع قرار پاتا ہے؟ کیا وہ فطری داعیات اور مطالبات یکساں نہیں ہیں جو ان کے اندر ودیعت کیے گئے ہیں؟ کیا وہ قوتیں یکساں نہیں ہیں جن کے مجموعے کو ہم نفسِ انسانی کہتے ہیں؟ اور کیا بنیادی طور پر وہ تمام طبعی، نفسیاتی، تاریخی، تمدنی اور معاشی عوامل بھی یکساں نہیں ہیں جو انسانی زندگی میں کارفرما ہیں؟ اگر یہ واقعہ ہے کہ ان تمام امور میں سب انسانوں کے درمیان یکسانی پائی جاتی ہے تو پھر یقینا ان اصولوں کو بھی، جو انسان بحیثیت انسان کی فلاح کے لیے صحیح ہوں، عالم گیر ہونا چاہیے۔ اُن کے قومی یا نسلی یا وطنی ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ قومیں اور نسلیں ان اصولوں کے تحت اپنی خصوصیات کا اظہار اور جزوی طور پر اپنے معاملاتِ زندگی کا بندوبست مختلف طریقوں سے کر سکتی ہیں۔ اور انھیں ایسا کرنا چاہیے۔ مگر انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے جس صحیح دین یا نظامِ زندگی کی ضرورت ہے وہ بہرحال ایک ہی ہونا چاہیے۔ عقل یہ باور کرنے سے انکار کرتی ہے کہ جو چیز ایک قوم کے لیے حق ہو وہ دوسری قوم کے لیے باطل ہوجائے اور جوایک قوم کے لیے باطل ہو وہ دوسری قوم کے لیے حق ہو جائے۔
زندگی کی زمانی تقسیم
ان مہملات اور جدید زمانے کے عالمانہ مہملات میں سے ایک اور بات، جو حقیقت کے اعتبار سے مہمل ترین ہے مگر حیرت ہے کہ یقینیت کے پورے وثوق کے ساتھ پیش کی جاتی ہے انسانی زندگی کی زمانی تقسیم ہے۔ یعنی کہا جاتا ہے، کہ جو نظامِ زندگی ایک دور میں حق ہوتا ہے وہ دوسرے دور میں باطل ہو جاتا ہے کیوں کہ زندگی کے مسائل ومعاملات ہر دَور میں بدل جاتے ہیں، اور نظامِ زندگی کا حق یا باطل ہونا سراسر ان مسائل ومعاملات ہی کی نوعیت پر منحصر ہے۔ یہ بات اسی انسانی زندگی کے متعلق کہی جاتی ہے جس کے متعلق ساتھ ارتقا کی گفتگو بھی کی جاتی ہے، جس کی تاریخ میں کارفرما قوانین بھی تلاش کیے جاتے ہیں، جس کے گزشتہ تجربات سے حال کے لیے سبق اور مستقبل کے لیے احکام بھی مستنبط کیے جاتے ہیں، اور جس کے لیے ’’انسانی فطرت‘‘ نامی ایک چیز بھی ثابت کی جاتی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کیا آپ کے پاس کوئی ایسا آلۂ پیمائش ہے جس سے آپ نوعِ انسانی کی اس مسلسل تاریخی حرکت کے درمیان دَور یا زمانے یا عہد کی واقعی حد بندیاں کر سکتے ہوں؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ ان حد بندیوں میں سے کسی ایک خط پر انگلی رکھ کر آپ کہہ سکتے ہوں کہ اس خط کے اس پار جو مسائل زندگی تھے وہ اس پار آ کر تبدیل ہو گئے، اور جو حالات اس پار تھے وہ اس پار باقی نہیں رہے؟ اگر فی الواقع انسانی سرگزشت ایسے ہی الگ الگ زمانی ٹکڑوں میں منقسم ہے تب تو یوں سمجھنا چاہیے کہ ایک ٹکڑا جو گزر چکا ہے وہ بعد والے ٹکڑے کے لیے محض ایک فضول ولا یعنی چیز ہو گیا۔ اس کے گزرتے ہی وہ سب کچھ ضائع ہو گیا جو انسان نے اس حصۂ دہر میں کیا تھا۔ اس زمانے میں جو تجربات انسان کو ہوئے وہ بعد والے زمانے کے لیے کوئی سبق اپنے اندر نہیں رکھتے۔ کیوں کہ وہ حالات ومسائل ہی فنا ہو گئے جن میں انسان نے بعض طریقوں کا، بعض اصولوں کا، بعض قدروں کے لیے سعی وجہد کا تجربہ کیا تھا۔ پھر یہ ارتقا کی گفتگو کیوں؟ یہ قوانینِ حیات کی تلاش کس لیے؟ یہ تاریخی استنباط کس بنا پر؟ جب آپ ارتقا کا نام لیتے ہیں تو لامحالہ یہ اس بات کو متضمن ہے کہ وہاں کوئی چیز ضرور ہے جو تمام تغیرات کا موضوع بنتی ہے اور ان تغیرات کے اندر اپنے آپ کو باقی رکھتے ہوئے پیہم حرکت کرتی ہے۔ جب آپ قوانینِ حیات پر بحث کرتے ہیں تو یہ اس بات کو مستلزم ہے کہ ان ناپائدار حالات میں، ان رواں دواں مظاہر میں، ان بننے اور بگڑنے والی صورتوں میں کوئی پائدار اور زندہ حقیقت بھی ہے جو اپنی ایک ذاتی فطرت اور اپنے کچھ مستقل قوانین بھی رکھتی ہے۔ جب آپ تاریخی استنباط کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تاریخ کے اس طول طویل رستے پر جو مسافر مختلف مرحلوں سے گزرتا ہوا آ رہا ہے اور منزلوں پر منزلیں طے کرتا چلا آ رہا ہے، وہ خود اپنی کوئی شخصیت اور اپنا کوئی مستقل مزاج رکھتا ہے جس کے متعلق یہ حکم لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مخصوص حالات میں مخصوص طور پر کام کرتا ہے، ایک وقت میں بعض چیزوں کو قبول کرتا ہے اور دوسرے وقت میں انھیں رد کر دیتا ہے اور بعض دوسری چیزوں کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ زندہ حقیقت، یہ پائدار موضوعِ تغیرات، یہ شاہراہِ تاریخ کا مستقل مسافر وہی تو ہے جسے آپ غالباً ’’انسانیت‘‘ کہتے ہیں مگر کیا بات ہے کہ جب آپ راستے کی منزلوں اور ان میں پیش آنے والے حالات اور اُن سے پیدا ہونے والے مسائل پر گفتگو شروع کرتے ہیں تو اس گفتگو میں ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ خود مسافر آپ کو یاد نہیں رہتا؟ کیا یہ سچ ہے کہ منزلیں اور اُن کے حالات اور اُن کے مسائل بدل جانے سے مسافر اور اس کی حقیقت بھی بدل جاتی ہے؟ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ ابتدائے آفرینش سے آج تک اس کی ساخت بالکل نہیں بدلی۔ اس کے عناصر ترکیبی وہی ہیں، اس کی فطرت کے تقاضے وہی ہیں، اس کی صفات وخصوصیات وہی ہیں، اس کے رجحانات ومیلانات وہی ہیں، اس کی قوتیں اور صلاحیتیں وہی ہیں، اس کی کم زوریاں اور قابلیتیں وہی ہیں، اس پر کار فرمائی کرنے والی قوتیں وہی ہیں، اور اس کا کائناتی ماحول بھی وہی ہے۔ ان میں سے کسی چیز میں بھی ابتدائے آفرینش سے آج تک ذرّہ برابر فرق نہیں آیا ہے۔ کوئی شخص یہ دعوٰی کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ تاریخ کے دوران میں حالات اور اُن سے پیدا ہونے والے مسائلِ زندگی کے تغیر سے خود انسانیت بھی بدلتی چلی آئی ہے یا وہ بنیادیں بھی متغیر ہوتی رہی ہیں جو انسانیت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پھر جب حقیقت یہ ہے تو اس دعوے میں کیا وزن ہو سکتا ہے کہ انسان کے لیے جو چیز کل تریاق تھی وہ آج زہر ہے، جو چیز کل حق تھی وہ آج باطل ہے، جو چیز کل قدر رکھتی تھی وہ آج بے قدر ہے۔
انسان کیسے طریقِ زندگی کا حاجت مند ہے
اصل یہ ہے کہ انسانی افراد اور جماعتوں نے تاریخ کے دوران میں نفس ِ انسانیت کو اور اس سے تعلق رکھنے والی بنیادی چیزوں کو سمجھنے میں دھوکا کھا کر اور بعض حقیقتوں کے اعتراف میں مبالغہ اور بعض کے ادراک میں قصور کرکے جو غلَط نظامِ زندگی وقتاً فوقتاً اختیار کیے، اور جنھیں انسانیت کُبرٰی (humanity at large) نے تجربے کے بعد غلَط پا کر دوسرے ایسے ہی نظامات کے لیے جگہ خالی کرنے پر مجبور کر دیا، ان کی سرگزشت کے مشاہدے سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا گیا ہے کہ انسانیت کے لیے لازماً ہر دَور میں ایک الگ نظامِ زندگی درکار ہے جو صرف اُسی دَور کے حالات ومسائل سے پیدا ہواور انھی کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ حالانکہ زیادہ صحت کے ساتھ اس سرگزشت سے اگر کوئی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ اس قسم کے زمانی اور دوری نظاماتِ زندگی، یا بالفاظِ دیگر موسمی حشرات الارض کو بار بارآزمانے اور ہرایک کی ناکامی کے بعد اس کے دوسرے جانشین کا تجربہ کرنے میں انسانیت کُبریٰ کا وقت ضائع ہوتا ہے، اس کی راہ ماری جاتی ہے، اس کے نشووارتقا اور اپنے کمالِ مطلوب کی طرف اس کے سفر میں سخت رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ وہ دَرحقیقت محتاج اور سخت محتاج ہے ایسے نظام زندگی کی جو خود اسے اور اس سے تعلق رکھنے والی تمام حقیقتوں کو جان کر عالم گیر، دائمی اور پائدار اصولوں پر قائم کرسکے۔ جسے لے کر وہ حال ومستقبل کے تمام متغیر حالات سے بخیریت گزر سکے، ان سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کر سکے اور زندگی کے راستے پر اُفتاںوخیزاں نہیں بلکہ رواں اور دواں اپنی منزلِ مقصود کی طرف بڑھ سکے۔
کیا انسان ایسا نظام خود بنا سکتا ہے؟
یہ ہے اس ’’دین‘‘ یا طریقِ زندگی یا نظامِ زندگی کی نوعیت جس کا انسان حاجت مند ہے۔ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اگرانسان خدا کی مدد سے بے نیاز ہوکر خود اپنے لیے اس نوعیت کا ایک دین بنانا چاہے تو کیا وہ اس کوشش میں کام یاب ہو سکتا ہے؟ میں آپ کے سامنے یہ سوال پیش نہ کروں گا کہ آیا انسان اب تک ایسا دین خود بنانے میں کام یاب ہوا ہے؟ کیوں کہ اس کا جواب تو قطعاً نفی میں ہے۔ خود وہ لوگ بھی جو آج بڑے بڑے بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ اپنے اپنے دین پیش کر رہے ہیں اور اُن کے لیے ایک دوسرے سے لڑ مر رہے ہیں، یہ دعوٰی نہیں کر سکتے کہ ان میں سے کسی کا پیش کردہ دین ان ضرورتوں کو پورا کرتا ہے جن کے لیے انسان من حیث الانسان ایک ’’الدّین‘‘ کا محتاج ہے۔ کسی کا دین نسلی وقومی ہے، کسی کا جغرافی، کسی کا طبقاتی اورکسی کا دین پیدا ہی اس دَور کے تقاضوں سے ہوا ہے جو ابھی کل ہی گزر چکا ہے، رہا وہ دَور جوکل آنے والا ہے اس کے حالات ومسائل کے متعلق کچھ پیشگی نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں بھی وہ کام دے سکے گا یا نہیں، کیوں کہ جو دَور اب گزر رہا ہے ابھی تو اسی کے تاریخی تقاضوں کا جائزہ لینا باقی ہے۔ اس لیے مَیں سوال یہ نہیں کر رہا ہوں کہ انسان ایسا دین بنانے میں کام یاب ہوا ہے یا نہیں، بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ کام یاب ہو بھی سکتا ہے یا نہیں؟
یہ ایک نہایت اہم سوال ہے جس سے سرسری طور پر بحث کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہ انسانی زندگی کے فیصلہ کن سوالات میں سے ایک ہے۔ اس لیے پہلے اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ وہ چیز کیا ہے جسے وضع کرنے کا سوال درپیش ہے، اور اس شخص کی قابلیتیں کیا ہیں جس کے متعلق پوچھا جا رہا ہے کہ وہ اسے وضع کر سکتا ہے یا نہیں؟
الدین کی نوعیت
انسان کے لیے جس ’’الدین‘‘ کی ضرورت میں نے ابھی ثابت کی ہے اس سے مراد کوئی ایسا تفصیلی ضابطہ نہیں ہے جس میں ہر زمانے اور ہر قسم کے حالات کے لیے تمام چھوٹے بڑے جزئیات تک مرتب ہوں اور جس کی موجودگی میں انسان کا کام صرف اس کے مطابق عمل کرنا ہو بلکہ دراصل اس سے مراد ایسے ہمہ گیر ازلی وابدی اصول ہیں جو تمام حالات میں انسان کی راہ نمائی کر سکیں۔ اس کی فکر ونظر، سعی وجہد اور پیش قدمی کے لیے صحیح رُخ متعین کر سکیں، اور اسے غلَط تجربات میں وقت اور محنت اور قوت ضائع کرنے سے بچا سکیں۔
اس غرض کے لیے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ انسان کو اس بات کا علم… قیاس وگمان نہیں بلکہ ’’علم‘‘… ہو کہ اس کی اور کائنات کی حقیقت کیا ہے اور کائنات میں اس کی حیثیت کیا ہے۔
پھر وہ اس بات کے جاننے کا… سمجھ بیٹھنے کا نہیں بلکہ جاننے کا… حاجت مند ہے کہ آیا زندگی بس یہی دُنیا کی زندگی ہے یا یہ پوری زندگی کا ایک ابتدائی حصہ ہے۔ آیا سفر بس پیدائش سے لے کر موت تک کی مسافت کا ہے یا یہ پورے سفر میں سے محض ایک مرحلہ ہے۔
پھر اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ایک ایسا مقصدِ زندگی اس کے لیے متعین ہو جو حقیقت کے اعتبار سے… نہ کہ محض خواہش کی بنا پر… واقعی حیاتِ انسانی کا مقصود ہو جس کے لیے دراصل انسان پیدا کیا گیا ہو، اور جس کے ساتھ ہر فرد، ہر مجموعۂ افراد، اور بحیثیتِ کلی تمام انسانیت کے مقاصد تمام زمانوں میں بلا کسی تصادم ومزاحمت کے ہم آہنگ ہو سکیں۔
پھر اسے اَخلاق کے ایسے پختہ اور ہمہ گیر اُصولوں کی ضرورت ہے جو اس کی فطرت کی تمام خصوصیات کے ساتھ مناسبت بھی رکھتے ہوں اور تمام ممکن حالات پر نظری وعملی حیثیت سے منطبق بھی ہو سکتے ہوں، تاکہ وہ انھی اصولوں کی بنیاد پر اپنی سیرت کی تعمیر کر سکے، انھی کی راہ نمائی میں سفر زندگی کی ہر منزل پر پیش آنے والے مسائل کو حل کر سکے اور کبھی اس خطرے میں مبتلا نہ ہو کہ تغیر پذیر حالات ومسائل کے ساتھ اس کے اَخلاقی اصول ٹوٹتے اور بنتے چلے جائیں اور وہ محض ایک بے اصولا، نِرااِبنُ الوقت بن کر رہ جائے۔
پھر اس کو تمدن کے ایسے جامع اور وسیع اصولوں کی ضرورت ہے جو انسانی اجتماع کی حقیقت وغایت اور اس کے فطری تقاضوں کو سمجھ کر بنائے جائیں۔ جن میں افراط وتفریط اور بے اعتدالی نہ ہو۔ جن میں تمام انسانوں کی مجموعی مصلحت ملحوظ رکھی گئی ہو۔ جن کی پیروی کرکے ہر زمانے میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کی تشکیل، تعمیر اور ترقی کے لیے سعی کی جا سکے۔
پھر اسے شخصی کردار اور اجتماعی رویّے اور انفرادی واجتماعی سعی وعمل کو صحیح سمتِ سفر کا پابند اور بے راہ روی سے محفوظ رکھنے کے لیے ایسے جامع حدود کی ضرورت ہے جو شاہ راہِ زندگی پر نشاناتِ راہ کا کام دیں اور ہر موڑ، ہر دوراہے، ہر خطرناک مرحلے پر اسے آگاہ کر دیں کہ تیرا راستہ اِدھر نہیں ہے بلکہ اُدھر ہے۔
پھر اس کو چند ایسے عملی ضابطوں کی ضرورت ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے دائمی اور عالم گیر پیروی کے قابل ہوں اور انسانی زندگی کو اُس حقیقتِ نفس الامری، اُس مآلِ زندگی، اُس مقصدِ حیات، اُن اصولِ اَخلاق، اُن اصولِ تّمدن اور اُن حدودِ عمل سے ہمیشہ وابستہ رکھیں جن کی تعیین اُس الدّین میں کی گئی ہو۔
یہ ہے وہ چیز جسے وضع کرنے کا سوال درپیش ہے۔ اب غور کیجیے کیا انسان ایسے ذرائع رکھتا ہے جن سے وہ خود اپنے لیے ایک ایسا الدین وضع کر سکے؟
انسانی ذرائع کا جائزہ
انسان کے پاس اپنا ’’دین‘‘ یا طریقِ زندگی اخذ کرنے کے ذرائع چار سے زیادہ نہیں ہیں۔ پہلا ذریعہ خواہش ہے دوسرا ذریعہ عقل ہے، تیسرا ذریعہ مشاہدہ وتجربہ ہے۔ چوتھا ذریعہ پچھلے تجربات کا تاریخی ریکارڈ ہے۔ غالباً ان کے سوا کسی پانچویں ذریعے کی نشان دہی نہیں کی جا سکتی۔ ان چاروں ذرائع کا جتنا مکمل جائزہ لے کر آپ دیکھ سکتے ہوں، دیکھیے۔ کیا یہ ’’الدین‘‘ کے ایجاد کرنے میں انسان کی مدد کر سکتے ہیں؟ میں نے اپنی عمر کا متعدبہ حصّہ اس کی تحقیق میں صَرف کیا ہے اور بالآخر اس نتیجے پر میں پہنچا ہوں کہ یہ ذرائع الدین کی ایجاد میں تو مدد نہیں دے سکتے البتہ اگر کوئی غیر انسانی راہ نما ’’الدّین‘‘ کو پیش کر دے تو اسے سمجھنے، پرکھنے، پہچاننے اور اس کے مطابق زندگی کے تفصیلی نظام کو وقتاً فوقتاً مرتب کرتے رہنے میں ضرور مددگار بن سکتے ہیں۔
۱۔ خواہش
پہلے خواہش کو لیجیے۔ کیا یہ انسان کی راہ نما بن سکتی ہے؟ اگرچہ یہ انسان کے اندر اصلی محرکِ عمل ہے، مگر اس کی عین فطرت میں جو کم زوریاں موجود ہیں ان کی بنا پر یہ راہ نمائی کے قابل ہرگز نہیں ہو سکتی۔ تنہا راہ نمائی کرنا تو درکنار، عقل اور علم کو بھی اکثر اس نے گمراہ کیا ہے۔ اس کو تربیت سے خواہ کتنا ہی روشن خیال بنا دیا جائے، فیصلہ جب کبھی اس پر چھوڑا جائے گا یہ بلامبالغہ ۹۹ فی صدی حالات میں غیر مستقیم فیصلہ کرے گی۔ کیوں کہ اس کے اندر جو تقاضے پائے جاتے ہیں وہ اسے صحیح فیصلہ کرنے کے بجائے ایسا فیصلہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں جس سے مطلوب کسی نہ کسی طرح جلد اور بآسانی حاصل ہو جائے۔ یہ بجائے خود ’’خواہش نفسانی‘‘ کی طبعی کم زوری ہے، لہٰذا ایک فرد کی خواہش ہو یا ایک طبقے کی، یا وہ خواہشِ عام (general will) جس کا رو سونے ذکر کیاہے، بہرحال کسی قسم کی انسانی خواہش میں بھی فطرتاً یہ صلاحیت نہیں ہے کہ ایک الدّین کے وضع کرنے میں مددگار بن سکے بلکہ جہاں تک مسائل عالیہ (ultimate problems) مثلاً حیاتِ انسانی کی حقیقت، اس کے مآل اور اس کی غایت کا تعلق ہے، ان کو حل کرنے میں تو وہ کسی طرح مددگار بن ہی نہیں سکتی۔
۲۔ عقل
پھر عقل کو لیجیے، اس کی تمام بہترین صلاحیتیں مسلّم، انسانی زندگی میں اس کی اہمیت بھی ناقابلِ انکار اور یہ بھی تسلیم کہ انسان کے اندر یہ بہت بڑی راہ نما طاقت ہے لیکن قطع نظر اس سوال کے کہ انسان کے لیے ’’الدین‘‘ کس کی عقل وضع کرے گی، زید کی؟ بکر کی؟ تمام انسانوں کی؟ یا انسانوں کے کسی خاص گروہ کی؟ اس زمانے کے لوگوں کی؟ یا کسی پچھلے زمانے والوں کی؟ یا آیندہ آنے والوں کی؟ سوال صرف یہ ہے کہ بجائے خود عقلِ انسانی کے حدود کا جائزہ لینے کے بعد کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ’’الدین‘‘ کے وضع کرنے میں اُس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ اس کے تمام فیصلے منحصر ہیں اُس مواد پر جو حواس اُس کو فراہم کرکے دیں۔ وہ غلَط مواد فراہم کرکے دیں گے تو یہ غلَط فیصلہ کر دے گی، وہ ناقص مواد فراہم کرکے دیں گے تو یہ ناقص فیصلہ کر دے گی اور جن امور میں وہ کوئی مواد فراہم کرکے نہ دیں گے ان میں اگر یہ خود شناس ہے تو کوئی فیصلہ نہ کرے گی اور اگر برخود غلَط ہے تو اندھیرے میں چوبائی تیر چلاتی رہے گی۔ یہ محدود یتیں جس بے چاری عقل کے ساتھ لگی ہوئی ہیں وہ آخر کس طرح اس کی اہل ہو سکتی ہے کہ نوعِ انسانی کے لیے ’الدین‘ بنانے کی تکلیف اسے دی جائے۔ ’’الدین‘‘ بنانے کا انحصار جن مسائلِ عالیہ کے حل پر ہے اُن میں حواس سرے سے کوئی مواد فراہم ہی نہیں کرتے ہیں۔ پھر کیا عقل سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ناقص مواد پر صحیح وکامل قدریں متعین کرے گی۔ اسی طرح ’’الدین‘‘ کے جو دوسرے اجزائے ترکیبی میں نے بیان کیے ہیں ان میں سے کسی ایک جز کے لیے بھی حواس سے بالکل صحیح اورمکمل مواد حاصل نہیں ہو سکتا جس کی بنا پر عقل ایک جامع اور مکمل نظام بنا سکے۔ اور اس پر مزید یہ ہے کہ عقل کے ساتھ خواہش کا عنصر مستقل طور پر لگا ہوا ہے جو اسے ٹھیٹھ عقلی فیصلے دینے سے روکتا ہے اور اس کی راست روی کو کچھ ٹیڑھ کی طرف مائل کرکے ہی چھوڑتا ہے۔ لہٰذا اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ عقلِ انسانی حواس کے فراہم کردہ مواد کی ترتیب اور اس سے استدلال کرنے میں کوئی غلطی نہ کرے گی، تب بھی اپنی کم زوریوں کی بنا پر وہ اتنا بل بوتا نہیں رکھتی کہ اتنے بڑے کام کا بوجھ اس پر ڈالا جا سکے۔ یہ بوجھ اس پر ڈالنا اس پر بھی ظلم کرنا ہے اور خود اپنے اوپر بھی۔
۳۔ سائنس
اب تیسرے ذریعے کو لیجیے، یعنی وہ علم جو مشاہدات وتجربات سے حاصل ہوتا ہے۔ میں اس علم کی قدر وقیمت کا اعتراف کرنے میں کسی طالب علم سے پیچھے نہیں ہوں اور نہ ذرّہ برابر اس کی تحقیر کرنا پسند کرتا ہوں لیکن اس کی محدودیتوں کو نظر انداز کرکے اسے وہ وسعت دینا جو فی الواقع اسے حاصل نہیں ہے، میرے نزدیک بے علمی ہے۔ ’’علم انسانی‘‘ کی حقیقت پر جس شخص کی بھی نظر ہو گی وہ اس بات کو ماننے سے انکار نہ کرے گا کہ جہاں تک مسائلِ عالیہ کا تعلق ہے، ان کی کنہ تک اس کی رسائی محال ہے کیوں کہ انسان کو وہ ذرائع حاصل ہی نہیں ہیں جن سے وہ اس تک پہنچ سکے۔ نہ وہ اس کا براہِ راست مشاہدہ کر سکتا ہے اور نہ مشاہدہ وتجربہ کے تحت آنے والی اشیا سے استدلال کرکے اس کے متعلق ایسی رائے قائم کر سکتا ہے جس پر ’’علم‘‘ کا اطلاق ہو سکتا ہو۔ لہٰذا ’’الدین‘‘ وضع کرنے کے لیے جن مسائل کا حل معلوم کرنا سب سے پہلی ناگزیر ضرورت ہے وہ تو علم کی دست رس سے باہر ہی ہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ اَخلاقی قدریں، تمدّن کے اصول، اور بے راہ روی سے بچانے والے حدود معین کرنے کا کام آیا علم کے حوالے کیا جا سکتا ہے یا نہیں، تو اس بحث سے قطع نظر کرتے ہوئے کہ یہ کام کس شخص یا گروہ یا کس زمانے کا علم انجام دے گا، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ علمی طور پر یہ کام انجام دینے کے لیے ناگزیر شرائط کیا ہیں۔ اس کے لیے اوّلین شرط یہ ہے کہ اُن تمام قوانینِ فطرت کا علم ہو جن کے تحت انسان اس دُنیا میں جی رہا ہے۔ اس کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ خود انسان کی اپنی زندگی سے جو علوم تعلق رکھتے ہیں وہ مکمل ہوں۔ اس کے لیے تیسری شرط یہ ہے کہ ان دونوں قسم کے علوم یعنی کائناتی اور انسانیاتی علوم کی معلومات یک جا ہوں اور کوئی ذہنِ کامل انھیں صحیح ترتیب دے کر، اُن سے صحیح استدلال کرکے، انسان کے لیے اَخلاقی قدروں کا، تمدّن کے اصولوں کا اور بے راہ روی سے بچانے والی حدوں کا تعین کرے۔ یہ شرائط نہ اس وقت تک پوری ہوئی ہیں، نہ امید کی جا سکتی ہے کہ پانچ ہزار برس بعد پوری ہو جائیں گی۔ ممکن ہے کہ انسانیت کی وفات سے ایک دن پہلے یہ پوری ہو جائیں، مگر اس وقت اس کا فائدہ ہی کیا ہو گا۔
۴۔ تاریخ
آخر میں اُس ذریعۂ علم کو لیجیے جسے ہم پچھلے انسانی تجربات کا تاریخی ریکارڈ یا انسانیت کا نامۂ اعمال کہتے ہیں۔ اس کی اہمیت اور اس کے فائدوں سے مجھے انکار نہیں ہے۔ مگر میں کہتا ہوں، اور غور کریں گے تو آپ بھی مان لیں گے کہ ’’الدین‘‘ وضع کرنے کا عظیم الشان کام انجام دینے کے لیے یہ بھی ناکافی ہے۔ میں یہ سوال نہیں کرتا کہ یہ ریکارڈ ماضی سے حال کے لوگوں تک صحت اور جامعیت کے ساتھ پہنچا بھی ہے یا نہیں؟ میں یہ بھی نہیں پوچھتا کہ اس ریکارڈ کی مدد سے ’’الدین‘‘ وضع کرنے کے لیے انسانیت کا نمایندہ کس ذہن کو بنایا جائے گا؟ ہیکل کے ذہن کو؟ مارکس کے ذہن کو؟ ارنسٹ ہیکل کے ذہن کو؟ یا کسی اور ذہن کو؟ میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ماضی، حال، یا مستقبل میں کس تاریخ تک کا ریکارڈ ایک ’’الدین‘‘ وضع کرنے کے لیے کافی مواد فراہم کر سکے گا؟ اُس تاریخ کے بعد پیدا ہونے والے خوش قسمت ہیں۔ باقی رہے اس سے پہلے گزر جانے والے تو ان کا بس اللہ ہی حافظ ہے۔
مایوس کُن نتیجہ
یہ مختصر اشارات جو میں نے کیے ہیں، مجھے توقع ہے کہ میں نے ان میں کوئی علمی یا استدلالی غلطی نہیں کی ہے۔ اور اگر انسان کے ذرائع کا جائزہ جو میں نے لیا ہے، صحیح ہے تو پھر ہمیں کوئی چیز اس یقین تک پہنچنے سے باز نہیں رکھ سکتی کہ انسان اپنے لیے کوئی کچا پکا، غلَط سلط، وقتی اور مقامی ’’دین‘‘ تو وضع کر سکتا ہے، لیکن وہ چاہے کہ ’’الدین‘‘ وضع کر لے، تو یہ قطعی محال ہے۔ پہلے بھی محال تھا۔ آج بھی محال ہے، اور آیندہ کے لیے بھی اس کے امکان سے پوری مایوسی ہے۔
اب اگر کوئی خدا راہ نمائی کے لیے موجود نہیں ہے جیسا کہ منکرینِ خدا کا خیال ہے تو انسان کے لیے مناسب یہ ہے کہ خود کشی کر لے۔ جس مسافر کے لیے نہ کوئی راہ نما موجود ہو اور نہ جس کے اپنے پاس راستہ معلوم کرنے کے ذرائع موجود ہوں، اس کے لیے یا س اور کامل یاس کے سوا کچھ مقدر نہیں۔ اس کا کوئی ہم درد اس کے سوا اُسے اور کیا مشورہ دے سکتا ہے کہ سرِراہ ایک پتھر سے اپنی مشکل آسان کر لے۔ اوراگر خدا ہے لیکن راہ نمائی کرنے والا خدا نہیں ہے، جیسا کہ بعض فلسفیانہ اور سائنٹیفک طرز کے مثبتینِ خدا کا گمان ہے تو یہ اور بھی افسوس ناک صورت حال ہے۔ جس خدا نے موجوداتِ عالم کے بقا ونشوونما کے لیے ہر اس چیز کی فراہمی کا انتظام کیا ہے جس کی ضرورت کا تصوّر کیا جا سکتا ہو، لیکن ایک نہیں کیا تو صرف انسان کی اُس سب سے بڑی ضرورت کا انتظام جس کے بغیر پوری نوع کی زندگی غلَط ہوئی جاتی ہے، اس کی بنائی ہوئی دُنیا میں رہنا ایک مصیبت ہے، ایسی سخت مصیبت جس سے بڑھ کر کسی دوسری مصیبت کا تصوّر ممکن نہیں۔ آپ غریبوں اور مفلسوں، بیماروں اور زخمیوں، مظلوموں اور دکھی جنتائوں کی مصیبت پر کیا روتے ہیں، رویے اس پوری نوع کی مصیبت پر جو اس بیچارگی کے عالم میں چھوڑ دی گئی ہے کہ بار بار غلَط تجربہ کرکے ناکام ہوتی ہے، ٹھوکریں کھا کر گرتی ہے اور پھر اٹھ کر چلتی ہے تاکہ پھر ٹھوکر کھائے، ہر ٹھوکر پر ملک کے ملک اور قومیں کی قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ اُس غریب کو اپنے مقصدِ زندگی تک کی خبر نہیں ہے، کچھ نہیں جانتی کہ کاہے کے لیے سعی وعمل کرے اور کس ڈھنگ پر کرے۔ یہ سب کچھ وہ خدا دیکھ رہا ہے جو اسے زمین پر وجود میں لایا ہے، مگر وہ بس پید ا کرنے سے مطلب رکھتا ہے، راہ نمائی کی پروا نہیں کرتا۔
اُمِّید کی ایک ہی کرن
اس تصویر کے بالکل برعکس قرآن ہمارے سامنے صورتِ حال کا ایک دوسرا نقشہ پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خدا محض پیدا ہی کر دینے والا نہیں ہے بلکہ راہ نمائی کرنے والا بھی ہے۔ اس نے موجوداتِ عالم میں سے ہر چیز کو وہ ہدایت بخشی ہے جو اس کی فطرت کے لحاظ سے اس کے لیے ضروری ہے: الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰىo طٰہٰ 50:20 اگر اس کا ثبوت چاہو تو جس چیونٹی، جس مکھی، جس مکڑی کو چاہو پکڑ کر دیکھ لو۔ جو خدا ان مخلوقات کی راہ نمائی کر رہا ہے وہی خدا انسان کی بھی راہ نمائی کرنے والا ہے۔ لہٰذا انسان کے لیے صحیح طریقِ کار یہ ہے کہ خود سَری چھوڑ کر اُس کے آگے سرِ تسلیم خم کر دے اور جس جامع اورمکمل نظامِ زندگی یا ’’الدّین‘‘ کی ہدایت اس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بھیجی ہے، اس کی پیروی اختیار کر لے۔
دیکھیے! ایک طرف تو وہ نتیجہ ہے جو انسان کی قوتوں اور اس کے ذرائع کا بے لاگ جائزہ لینے سے ہم کو حاصل ہوتا ہے، اور دوسری طرف قرآن کا یہ دعوٰی ہے۔ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ یا تو اس دعوے کو قبول کریں، یا پھر اپنے آپ کو مایوسی اور اُس مایوسی کے حوالے کر دیں جس کے اندھیرے میں کہیں برائے نام بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ دراصل صورتِ حال یہ ہے ہی نہیں کہ ’’الدین‘‘ حاصل ہونے کے دو وسیلے موجود ہوں، اور سوال یہ ہو کہ ہم ان میں سے کس وسیلے سے مدد لیں۔ اصلی صورتِ حال یہ ہے کہ ’’الدین‘‘ جس وسیلے سے ہمیں مل سکتا ہے وہ صرف ایک ہے اور انتخاب کا سوال صرف اس امر میں ہے کہ آیا ہم اس تنہا وسیلے سے مدد لیں یا اس کی دست گیری کا فائدہ اٹھانے کے بجائے تاریکی میں بھٹکتے پھرنے کو ترجیح دیں۔
قرآن کے دلائل
یہاں تک جو استدلال میں نے کیا ہے وہ تو ہمیں محض اس حد تک پہنچاتا ہے کہ ہماری فلاح کے لیے قرآن کے اس دعوے کو قبول کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ یعنی بالفاظ دیگر’’کافرنتوانی شُد، ناچار مسلمان شو‘‘ لیکن قرآن اپنے دعوے کی تائید میں جو دلائل پیش کرتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ اعلیٰ واشرف ہیں، کیوں کہ وہ ہمیں بادلِ نخواستہ مسلمان ہونے کے بجائے برضا ورغبت مسلمان ہونے پر آمادہ کرتے ہیں۔ اس کی بہت سی دلیلوں میں سے چار سب سے زیادہ پُرزور ہیں اور انھی کو اُس نے بار بار بَہ تکرار پیش کیا ہے۔
(۱) انسان کے لیے اِسلام ہی ایک صحیح طریقِ زندگی ہے اس لیے کہ یہی حقیقت نفس الامری کے مطابق ہے اور اس کے سوا ہر دوسرا رویّہ خلافِ حقیقت ہے:
اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللہِ يَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا وَّاِلَيْہِ يُرْجَعُوْنَo آل عمران 83:3
’’کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں۔ حالانکہ وہ سب چیزیں جو آسمانوںمیں ہیں اور جو زمین میں ہیں چار وناچار اسی کے آگے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں اور اُسی کی طرف انھیں پلٹ کر جانا ہے۔‘‘
(۲) انسان کے لیے یہی ایک صحیح طریقِ زندگی ہے، کیوں کہ یہی حق ہے اور ازروئے انصاف اس کے سوا کوئی دوسرا رویّہ صحیح نہیں ہو سکتا۔
اِنَّ رَبَّكُمُ اللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِـتَّۃِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ۰ۣ يُغْشِي الَّيْلَ النَّہَارَ يَطْلُبُہٗ حَثِيْثًا۰ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍؚبِاَمْرِہٖ۰ۭ اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۰ۭ تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَo الاعراف 54:7
’’حقیقت میں تمھارا رب (مالک وفرماں روا) تو اللّٰہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں ( یا دَوروں) میں پیدا کیا۔ پھر اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ گر ہوا، جو دن کو رات کا لباس اڑھاتا ہے اور پھر رات کے تعاقب میں دن تیزی کے ساتھ دوڑاتا ہے۔ سورج اور چاند تارے سب کے سب جس کے تابع فرمان ہیں۔ سنو! خلق بھی اُسی کی ہے اور امر بھی اُسی کا۔ بڑا برکت والا ہے وہ کائنات کا ربّ۔‘‘
(۳) انسان کے لیے یہی رویّہ صحیح ہے، کیوں کہ تمام حقیقتوں کا صحیح علم صرف خدا ہی کو ہے اور بے خطا ہدایت وہی کر سکتا ہے۔
اِنَّ اللہَ لَا يَخْفٰى عَلَيْہِ شَيْءٌ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِo آل عمران 5:3
’’درحقیقت اللّٰہ سے نہ زمین کی کوئی چیز چھپی ہوئی ہے اور نہ آسمان کی‘‘۔
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ۰ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ۰ۚ البقرہ 255:2
’’جو کچھ لوگوں کے سامنے ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے، اور لوگ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر حاوی نہیں ہو سکتے، بجز ان چیزوں کے جن کا علم وہ خود اُنھیں دینا چاہے۔‘‘
قُلْ اِنَّ ہُدَى اللہِ ہُوَالْہُدٰي۰ۭ الانعام 71:6
’’اے پیغمبر کہہ دو کہ اصلی ہدایت صرف خدا ہی کی ہدایت ہے۔‘‘
(۴) انسان کے لیے یہی ایک راہِ راست ہے، کیوں کہ اُس کے بغیر عدل ممکن نہیں۔ اس کے سوا جس راہ پر بھی انسان چلے گا وہ بالآخر ظلم ہی کی طرف جائے گی۔
وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ۰ۭ الطلاق 1:65
’’جو اللہ کی مقرر کردہ حدوںسے تجاوز کرے اس نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا۔‘‘
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَo المائدہ 45:5
’’جو اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی ظالم ہیں۔‘‘
یہ دلائل ہیں جن کی بِنا پر معقول انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اللہ کے آگے سرِتسلیم خم کر دے اور ہدایت کے لیے اُسی کی طرف رجوع کرے۔
خدائی ہدایت کے پرکھنے کا معیار
اب آگے بڑھنے سے پہلے مَیں ایک سوال کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں جو لازماً اس مرحلے پر پہنچ کر ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے اور اپنی تحقیق کے دَوران میں خود میرے دل میں بھی پیدا ہو چکا ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ہر اس شخص کی بات مان لیں جو ایک دین ہمارے سامنے اس دعوے کے ساتھ پیش کر دے کہ یہ خدا کی طرف سے ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو آخر ہمارے پاس وہ کیا معیار ہے جس سے ہم انسانی ساخت کے دین اور خدائی ہدایت کے دین میں فرق کر سکیں۔ اس کا جواب اگرچہ بڑی مفصل تحقیقی بحث چاہتا ہے، مگر میں یہاں مختصر اشاروں میں وہ چار بڑے معیار بیان کروں گا جو انسانی فکر اور خدائی فکر کو ممیز کرتے ہیں۔
انسانی فکر کی پہلی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں علم کی غلطی، اور محدودیت کا اثر لازماً پایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس خدائی فکر میں غیر محدود علم اور صحیح علم کی شان بالکل نمایاں ہوتی ہے۔ جو چیز خدا کی طرف سے ہو گی اس میں آپ ایسی کوئی چیز نہیں پا سکتے جو کبھی کسی زمانے میں کسی ثابت شدہ علمی حقیقت کے خلاف ہو، یا جس کے متعلق یہ ثابت کیا جا سکے کہ اس کے مصنف کی نظر سے حقیقت کا فلاں پہلو اوجھل رہ گیا۔ مگر اس معیارِ تحقیق کو استعمال کرتے ہوئے یہ بات نہ بھول جائیے کہ علم، اور علمی قیاس، اور نظریۂ علمی میں بڑا فرق ہے۔ ایک وقت میں جو علمی قیاسات اور علمی نظریات دماغوں پر چھائے ہوئے ہوتے ہیں، اکثر غلطی سے ان کو ’’علم‘‘ سمجھ لیاجاتا ہے۔ حالانکہ ان کے غلَط ہونے کا بھی اتنا ہی امکان ہوتا ہے جتنا ان کے صحیح ہونے کا۔ تاریخ علم میں ایسے بہت کم قیاسات ونظریات کی نشان دہی کی جا سکتی ہے جو بالآخر ’’علم‘‘ ثابت ہوئے ہیں۔
انسانی فکر کی دوسری بڑی کم زوری نقطۂ نظر کی تنگی ہے۔ اس کے برخلاف خدائی فکر میں وسیع ترین نقطۂ نظر پایا جاتا ہے۔ جب آپ خدائی فکر سے نکلی ہوئی کسی چیز کودیکھیں گے تو آپ کو ایسا محسوس ہو گا جیسے اس کا مصنف ازل سے ابد تک دیکھ رہا ہے، پوری کائنات کو دیکھ رہا ہے، تمام حقیقتوں کو بیک نگاہ دیکھ رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں بڑے سے بڑے فلسفی اور مفکّر کی فکر بھی ایک بچے کی فکر محسوس ہو گی۔
انسانی فکر کا تیسرا اہم خاصہ یہ ہے کہ اس میں حکمت ودانش، جذبات وخواہشات کے ساتھ کہیں نہ کہیں ساز باز اور مصلحت کرتی نظر آ ہی جاتی ہے۔ بخلاف اس کے خدائی فکر میں بے لاگ حکمت اور خالص دانش مندی کی شان اتنی نمایاں ہوتی ہے کہ اس کے احکام میں کہیں آپ جذباتی جھکائو کی نشان دہی نہیں کر سکتے۔ انسانی فکر کی ایک اور کم زوری یہ ہے کہ جو نظامِ زندگی وہ خود تصنیف کرے گا اس میں جانب داری، انسان اور انسان کے درمیان غیر عقلی امتیاز اور غیر عقلی بنیادوں ہی پر ترجیحِ بعض علیٰ بعض کا عنصر لازماً پایا جائے گا کیوں کہ ہر انسان کی کچھ ذاتی دل چسپیاں ہوتی ہیں، جو بعض انسانوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں اور بعض کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتیں۔ بخلاف اس کے خدائی فکر سے نکلا ہوا نظامِ زندگی ایسے ہی عنصر سے بالکل پاک ہو گا۔
اس معیار پر آپ ہر اُس نظام کو جانچ کر دیکھیے جو اپنے آپ کو خدا کی طرف سے ’’الدین‘‘ کہتا ہو۔ اگر وہ انسانی فکر کی ان تمام خصوصیات سے خالی ہو اور پھر جامعیت اور ہمہ گیری کی وہ شان بھی رکھتا ہو جو اس سے پہلے مَیں نے ’’اَلدّین‘‘کی ضرورت ثابت کرتے ہوئے بیان کی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ اس پر ایمان لانے میں تامل کریں۔
ایمان کے تقاضے
اب مجھے اپنے خطبے کے بنیادی سوالات میں سے آخری سوال پر کچھ گفتگو کرنی ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی جب قرآن کے اس دعوے کوتسلیم کر لے اور اُس ’’الدین‘‘پر ایمان لے آئے جس کے من جانب اللّٰہ ہونے کا اطمینان اُسے حاصل ہو گیا ہو، تو اس تسلیم کرنے اور ایمان لانے کے مقتضیات کیا ہیں۔
مَیں ابتدا میں عرض کر چکا ہوں کہ اِسلام کے معنی جھک جانے، سپر ڈال دینے، اپنے آپ کو سپرد کر دینے کے ہیں۔ اس جھکائو، سپردگی اور سپر اندازی کے ساتھ خودرائی، خود مختاری اور فکر وعمل کی آزادی ہرگز نہیں نبھ سکتی۔ جس دین پر بھی آپ ایمان لائیں آپ کو اپنی پوری شخصیت اس کے حوالے کر دینا ہو گی۔ اپنی کسی چیز کو بھی آپ اس کی پیروی سے مستثنیٰ نہیں کر سکتے۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ آپ کے دل اور دماغ کا دین ہو، آپ کی آنکھ اور کان کا دین ہو، آپ کے ہاتھ اور پائوں کا دین ہو، آپ کے پیٹ اور دھڑ کا دین ہو، آپ کے قلم اور زبان کا دین ہو، آپ کے اوقات اور آپ کی محنتوں کا دین ہو، آپ کی سعی اور عمل کا دین ہو، آپ کی مَحبّت اور نفرت کا دین ہو، آپ کی دوستی اور دشمنی کا دین ہو، غرض آپ کی شخصیت کا کوئی جُز اور کوئی پہلو بھی اس دین سے خارج نہ ہو۔ اپنی کسی چیز کوجتنا اور جس حیثیت سے بھی آپ اس دین کے احاطے سے باہر اور اس کی پیروی سے مستثنیٰ رکھیں گے، سمجھ لیجیے کہ اسی قدر آپ کے دعوائے ایمان میں جھوٹ شامل ہے اور ہر راستی پسند انسان کا فرض ہے کہ اپنی زندگی کو جھوٹ سے پاک رکھنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرے۔
پھر یہ بھی مَیں ابتدا میں عرض کر چکا ہوں کہ انسانی زندگی ایک کُل ہے جسے الگ الگ شعبوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا انسان کی پوری زندگی کا ایک ہی دین ہونا چاہیے۔ دو دو اور تین تین دینوں کی بیک وقت پیروی بجز اس کے کچھ نہیں کہ ایمان کے ڈانواں ڈول اور عقلی فیصلے کے مضطرب ہونے کا ثبوت ہے۔ جب فی الواقع کسی دین کے ’’الدین‘‘ہونے کا اطمینان آپ حاصل کر لیں اور اس پر ایمان لے آئیں تو لازماً اسے آپ کی زندگی کے تمام شعبوں کا دین ہونا چاہیے۔ اگر وہ شخصی حیثیت سے آپ کا دین ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہی آپ کے گھر کا دین بھی نہ ہو اور وہی آپ کی تربیتِ اولاد کا، آپ کی تعلیم اور آپ کے مدرسے کا، آپ کے کاروبار اور کسب معاش کا، آپ کی مجلسی زندگی اور قومی طرزِ عمل کا، آپ کے تمدّن اور سیاست کا اور آپ کے ادب اور آرٹ کا دین بھی نہ ہو۔ جس طرح یہ بات محال ہے کہ ایک ایک موتی اپنی جگہ تو موتی ہو مگر جب تسبیح کے رشتے میں بہت سے موتی منظم ہوں تو سب مل کر دانۂ نَخُوْد بن جائیں، اسی طرح یہ بات بھی میرے دماغ کو اپیل نہیں کرتی کہ انفرادی حیثیت سے تو ہم ایک دین کے پیرو ہوں، مگر جب اپنی زندگی کو منظم کریں تو اس منظم زندگی کا کوئی پہلو اس دین کی پیروی سے مستثنیٰ رہ جائے۔
ان سب سے بڑھ کر ایمان کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ جس دین کے ’’الدین‘‘ہونے پر آپ ایمان لائیں اس کی برکتوں سے اپنے ابنائے نوع کو بہرہ مند کرنے کی کوشش کریں اور آپ کی تمام سعی وجہد کا مرکز ومحور یہ ہو کہ یہی ’’الدین‘‘تمام دُنیا کا دین ہو جائے۔ جس طرح حق کی فطرت یہ ہے کہ وہ غالب ہو کر رہنا چاہتا ہے اسی طرح حق پرستی کی بھی یہ عین فطرت ہے کہ وہ حق کو جان لینے کے بعد اسے غالب کرنے کی سعی کیے بغیر چین نہیں لے سکتی۔ جو شخص دیکھ رہا ہو کہ باطل ہر طرف زمین اور اس کے باشندوں پر چھایا ہوا ہے اور پھر یہ منظر اس کے اندر کوئی بے کلی، کوئی چبھن، کوئی تڑپ پیدا نہیں کرتا، اس کے دل میں اگر حق پرستی ہے بھی تو سوئی ہوئی ہے۔ اسے فکر کرنی چاہیے کہ نیند کا سکوت کہیں موت کے سکوت میں تبدیل نہ ہو جائے۔
٭…٭…٭…٭…٭
اِسلام کا اَخلاقی نقطۂ نظر
(یہ مقالہ ۲۶؍ فروری ۱۹۴۴ء کو اِسلامیہ کالج پشاور میں پڑھا گیا)
معمولی حالات میں، جب کہ زندگی کا دریا سکون کے ساتھ بہہ رہا ہو‘ انسان ایک طرح کا اطمینان محسوس کرتا ہے کیوں کہ اوپر کی صاف شفاف سطح ایک پردہ بن جاتی ہے جس کے نیچے تہہ میں بیٹھی ہوئی گندگیاں اور غلاظتیں چھپی رہتی ہیں اور پردے کی اوپری صفائی آدمی کو اس تجسس کرنے کی ضرورت کم ہی محسوس ہونے دیتی ہے کہ تہہ میں کیا کچھ چھپا ہوا ہے اور کیوں چھپا ہوا ہے، لیکن جب اس دریا میں طوفان برپا ہوتا ہے اور نیچے کی چھپی ہوئی ساری گندگیاں اور غلاظتیں ابھر کر برسرِ عام سطحِ دریا پر بہنے لگتی ہیں‘ اس وقت اندھوں کے سوا ہر وہ شخص جس کے دیدوں میں کچھ بھی بینائی کا نور باقی ہو، ہر اشتباہ کے بغیر صاف صاف دیکھ لیتا ہے کہ زندگی کا دریا کیا کچھ اپنے اندر لیے ہوئے چل رہا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب عام انسانوں میں اس ضرورت کا احساس پیدا ہو سکتا ہے کہ اس منبع کا سراغ لگائیں جہاں سے دریائے زندگی میں یہ گندگیاں آ رہی ہیں، اور اس تدبیر کی جستجو کریں جس سے اس دریا کو پاک کیا اور رکھا جا سکے۔ فی الواقع اگر ایسے وقت میں بھی لوگوں کے اندر اس ضرورت کا احساس بیدار نہ ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ نوعِ انسانی اپنی غفلت کے نشے میں مدہوش ہو کر سُود وزیاں سے بالکل ہی بے خبر ہو چکی ہے۔
موجودہ قوموں کی اَخلاقی حالت
یہ زمانہ جس سے ہم آج کل گزر رہے ہیں انھی غیر معمولی حالات کا زمانہ ہے۔ زندگی کا دریا اس وقت اپنی طغیانی پر ہے۔ ملک ملک اور قوم قوم کے درمیان سخت کش مکش برپا ہے اور یہ کش مکش اتنی گہرائی تک اتری ہوئی ہے کہ بڑے بڑے مجموعوں سے گزر کر فرد فرد تک کو نزاع کے میدان میں کھینچ لائی ہے۔ اس طرح عالمِ انسانی کے بیش تر حصّے نے اپنے وہ تمام اَخلاقی اوصاف اُگل کر منظر عام پر رکھ دیے ہیں، جنھیں وہ مدتوں سے اندر ہی اندر پرورش کر رہا تھا۔ اب ہم ان گندگیوں کو علانیہ سطحِ زندگی پر دیکھ رہے ہیں جنھیں تلاش کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تعمق کی ضرورت تھی۔ اب صرف ایک مادر زاد اندھا ہی اس غلَط فہمی میں مبتلا رہ سکتا ہے کہ ’’بیمار کا حال اچھا ہے۔‘‘ اور صرف وہی لوگ بیماری کی تشخیص اور علاج کی فکر سے غافل رہ سکتے ہیں جو حیوانات کی طرح اَخلاقی حس سے بالکل خالی ہیں یا جن کے اَخلاقی احساسات پر فالج گِر گیا ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ پوری پوری قومیں بہت بڑے پیمانے پر اُن بدترین اَخلاقی صفات کا مظاہرہ کر رہی ہیں جنھیں ہمیشہ سے انسانیّت کے ضمیر نے انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ بے انصافی، بے رحمی، ظلم وستم، جھوٹ، دغا، فریب، مکر، بدعہدی، خیانت، بے شرمی، نفس پرستی، استحصال بالجبر اور ایسے ہی دوسرے جرائم محض انفرادی جرائم نہیں رہے ہیں بلکہ قومی اَخلاق کی حیثیت سے ظاہر ہو رہے ہیں۔ دُنیا کی بڑی بڑی قومیں اجتماعی حیثیت سے وہ سب کچھ کر رہی ہیں جس کا ارتکاب کرنے والے افراد ابھی تک ان کے ہاں جیلوں میں ٹھونسے جاتے ہیں۔ ہر قوم نے چھانٹ چھانٹ کر اپنے بڑے سے بڑے مجرموں کو اپنا لیڈر اور سربراہِ کار بنایا ہے اور ان کی قیادت میں بدمعاشی کی کوئی مکروہ سے مکروہ قسم ایسی نہیں رہ گئی جس کا وہ کھلم کھلا، نہایت بے حیائی کے ساتھ وسیع پیمانے پر ارتکاب نہ کر رہی ہوں۔ ہر قوم دوسری قوم کے خلاف جھوٹ تصنیف کر کرکے علانیہ نشر کر رہی ہے اورریڈیو کے ذریعے سے ان جھوٹوں نے فضائے اثیر تک کو گندہ کر دیا ہے۔ پورے پورے ملکوں اور براعظموں کی آبادیاں لٹیروں اورڈاکوئوں میں تبدیل ہو گئی ہیں اور ہر ڈاکو عین اس وقت جبکہ وہ خود ڈاکہ مار رہا ہوتا ہے، نہایت بے شرمی کے ساتھ اپنے مخالف ڈاکو ان ساری گناہ گاریوں کا شکوہ کرتا ہے جن سے داغ دار ہونے میں اس کا اپنا دامن بھی اپنے حریف سے کچھ کم سیاہ نہیں ہوتا۔ انصاف کے معنی ان ظالموں کے نزدیک صرف اپنی قوم کے ساتھ انصاف کے رہ گئے ہیں۔ حق جو کچھ ہے ان کے لیے ہے۔ دوسروں کے حقوق پر دست درازی ان کے اَخلاقی قانون میں جائز بلکہ کارِ ثواب ہے۔ قریب قریب تمام قوموں کا حال یہ ہو چکا ہے کہ ان کے ہاں لینے کے پیمانے اور ہیں اور دینے کے اور۔ جتنے معیار وہ اپنے مفاد کے لیے قائم کرتی ہیں، دوسروں کا مفاد سامنے آتے ہی وہ سب معیار بدل جاتے ہیں، اور جن معیاروں کا وہ دوسروں سے مطالبہ کرتی ہیں ان کی پابندی خود کرنا حرام سمجھتی ہیں۔ بد عہدی کا مرض اس حد کو پہنچ چکا ہے کہ اب ایک قوم کو دوسری قوم پر کوئی اعتماد باقی نہیں رہا۔ بڑی بڑی قوموں کے نمایندے نہایت مہذّب صورتیں لیے ہوئے جن بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کر رہے ہوتے ہیں، اس وقت ان کے دلوں میں یہ خبیث نیت چھپی ہوئی ہوتی ہے کہ پہلا موقع ملتے ہی اس مقدس بکرے کو قومی مفاد کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھائیں گے اور جب ایک قوم کا صدر یا وزیر اعظم اس قربانی کے لیے چُھری تیز کرتا ہے تو پوری قوم میں سے ایک آواز بھی اس بد اَخلاقی کے خلاف نہیں اٹھتی، بلکہ ملک کی پوری آبادی اس جرم میں شریک ہو جاتی ہے۔ مکاری کا حال یہ ہے کہ بڑے بڑے پاکیزہ، اَخلاقی اصولوں کی گفتگو کی جاتی ہے، صرف اس لیے کہ دُنیا کو بے وقوف بنا کر اپنے مفاد کی خدمت اس سے لی جائے اور سادہ لوح انسانوں کو یقین دلایا جائے کہ تم سے جان ومال کی قربانی کا مطالبہ جو ہم کر رہے ہیں، یہ کچھ اپنے لیے نہیں ہے بلکہ ہم بے غرض، نیکوں کے نیک لوگ یہ ساری تکلیفیں محض انسانیّت کی بھلائی کے لیے برداشت کر رہے ہیں۔ سنگ دِلی وبے رحمی اس مرتبۂ کمال تک پہنچی ہے کہ ایک ملک جب دوسرے ملک پر حملہ آور ہوتا ہے تو اس کی آبادی کو روندنے اور کچلنے میں محض اسٹیم رولر کی سی بے حسی ہی اس سے ظاہر نہیں ہوتی بلکہ وہ نہایت مزے لے لے کر دُنیا کواپنے ان کارناموں کی اطلاع دیتا ہے، گویا اسے معلوم ہے کہ اب دُنیا انسانوں سے نہیں بلکہ صرف بھیڑیوں سے آباد ہے۔ خود غرضانہ شقاوت اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کو اپنے مفاد کے لیے مسخر کرنے کے بعد صرف یہی نہیں کہ بے دردی کے ساتھ اسے لوٹتی کھسوٹتی ہے بلکہ نہایت منظم طریقے سے پیہم کوشش کرتی رہتی ہے کہ انسانیت کے تمام شریفانہ خصائل سے اس کو خالی کر دے اوروہ تمام کمینہ اوصاف اس کے اندر پرورش کرے جنھیں وہ خود نہایت گھنائونا سمجھتی ہے۔
یہ چند نمایاں ترین اَخلاقی خرابیاں میں نے محض نمونے کے طور پر بیان کی ہیں ورنہ تفصیل کے ساتھ اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ پوری انسانیت کا جسم اَخلاقی حیثیت سے سڑ گیا ہے۔ پہلے قحبہ خانے اور قمار بازی کے اڈے اَخلاقی پستی کے سب سے بڑے پھوڑے سمجھے جاتے تھے لیکن اب تو ہم جدھر دیکھتے ہیں انسانی تمدن پورا کا پورا ہی ایک پھوڑا نظر آتا ہے۔ قوموں کی پارلیمینٹیں اور اسمبلیاں، حکومتوں کے سیکرٹریٹ اور وزارت خانے ، عدالتوں کے ایوان اور وکالت خانے، پریس اور نشرگاہیں، یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے، بینک اور صنعتی وتجارتی کاروبار کے مجامع، سب کے سب پھوڑے ہی پھوڑے ہیں جو کسی تیز نشتر کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ علم جو انسانیت کا عزیز ترین جوہر ہے، آج اس کا ہر شعبہ انسانیت کی تباہی کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ طاقت اور زندگی کے تمام وسائل جو قدرت نے انسان کے لیے مہیا کیے تھے، فساد اور خرابی کے کاموں میں ضائع کیے جا رہے ہیں اور وہ صفات بھی، جو انسان کی بہترین اَخلاقی صفات سمجھی جاتی تھیں، مثلاً شجاعت، ایثار، قربانی، فیاضی، صبر، تحمّل، اولواالعزمی، بلند حوصلگی وغیرہ، آج انھیں بھی چند بڑی اور بنیادی بداَخلاقیوں کا خادم بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔
ظاہر ہے کہ اجتماعی خرابیاں اس وقت ابھر کر نمایاں ہوتی ہیں جب انفرادی خرابیاں پایۂ تکمیل کو پہنچ چکی ہوتی ہیں۔ آپ اس بات کا تصوّر نہیں کر سکتے کہ کسی سوسائٹی کے بیش تر افراد نیک کردار ہوں اور وہ سوسائٹی بحیثیت مجموعی بدکرداری کا مظاہرہ کرے۔ یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے کہ نیک کردار لوگ اپنی قیادت اور نمایندگی اور سربراہ کاری بدکردار لوگوں کے ہاتھ میں دے دیں اور اس بات پر راضی ہو جائیں کہ ان کے قومی اور ملکی اور بین الاقوامی معاملات کو غیر اَخلاقی اصولوں پر چلایا جائے۔ اس لیے جب وسیع پیمانے پر دُنیا کی قومیں ان گھنائونے اور رذیل اَخلاقی اوصاف کا اظہاراپنے اجتماعی اداروں کے ذریعے سے کر رہی ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آج نوعِ انسانی اپنی تمام علمی وتمدنی ترقیوں کے باوجود ایک شدید اَخلاقی تنزل میں مبتلا ہے اور اس کے بیش تر افراد اس وبا سے متاثر ہو چکے ہیں۔ یہ حالت اگر یونہی ترقی کرتی رہی تو وہ وقت دُور نہیں جب انسانیت کسی بہت بڑی تباہی سے دوچار ہو گی اورایک طویل عہدِ ظلمت اس پر چھا جائے گا۔
اب اگر ہم آنکھیں بند کرکے تباہی کے گڑھے کی طرف سرپٹ جانا نہیں چاہتے تو ہمیں کھوج لگانا چاہیے کہ اس خرابی کا سرچشمہ کہاں ہے جہاں سے یہ طوفان کی طرح امڈی چلی آ رہی ہے۔ چوں کہ یہ اَخلاقی خرابی ہے لہٰذا لامحالہ ہمیں اس کا سراغ ان اَخلاقی تصوّرات ہی میں ملے گا جو اس وقت دُنیا میں پائے جاتے ہیں۔
موجودہ اَخلاقی تصوّرات
دُنیا کے اَخلاقی تصوّرات کیا ہیں؟ اس سوال کی جب ہم تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اصولاً یہ تمام تصوّرات دو بڑی قسموں پر منقسم ہیں:
ایک قسم کے تصوّرات وہ جو خدا اور حیات بعد موت کے عقیدے پر مبنی ہیں۔
دوسری قسم کے تصوّرات وہ جو ان عقیدوں سے الگ ہٹ کر کسی دوسری بنیاد پر قائم ہوئے ہیں۔
آئیے اب ہم ان دونوں قسم کے تصوّرات کا جائزہ لے کردیکھیں کہ دُنیا میں اس وقت یہ کس صورت میں پائے جاتے ہیں اور ان کے نتائج کیا ہیں۔
خدا اور حیات بعد موت کے عقیدے پر جتنے اَخلاقی تصوّرات قائم ہوتے ہیں‘ ان کی صورت کا تمام تر انحصار اس عقیدے کی نوعیّت پر ہوتا ہے جو خدا اور حیات بعد موت کے متعلق لوگوں میں پایاجاتا ہو۔ لہٰذا ہمیں دیکھنا چاہیے کہ دُنیا اس وقت خدا کو کس شکل میں مان رہی ہے اور دوسری زندگی کے متعلق اس کے عام تخیلات کیا ہیں۔
خدا کو ماننے والے بیش تر انسان اس وقت شرک میں مبتلا ہیں۔ انھوں نے اپنے زعم میں خدائی کے اکثر اختیارات، جن کا تعلق ان کی اپنی زندگی سے ہے، دوسری ہستیوں پر تقسیم کر دیے ہیں اور ان ہستیوں کا خیالی نقشہ اپنی خواہشات کے مطابق ایسا بنا لیا ہے کہ وہ اپنے ان خدا یا نہ اختیارات کو ٹھیک اُسی طرح استعمال کرتی ہیں جس طرح یہ چاہتے ہیں کہ وہ استعمال کریں۔ یہ گناہ کرتے ہیں، وہ بخشوا لیتی ہیں، یہ فرائض سے غافل اور حقوق سے بے پروا ہو کر بے مہار جانور کی طرح حرام وحلال کی تمیز کے بغیر دُنیا کی کھیتی کو چرتے پھرتے ہیں اور وہ کچھ نذر ونیاز کے عوض ان کی نجات کی ضمانت لے لیتی ہیں۔ یہ چوری بھی کرنے جاتے ہیں تو ان کی عنایت سے تھانہ دار سوتارہ جاتا ہے۔ ان کے اور ان کے درمیان یہ سودا طے ہو گیا ہے کہ یہ ان کی طرف سے عقیدہ اچھا رکھیں اور نذر پیش کرتے رہیں، اور اس کے جواب میں وہ ان کے سب کام، جو کچھ بھی یہ کرنا چاہیں ، بناتی رہیں گی اور مرنے کے بعد جب خدا انھیں پکڑنا چاہے گا تو وہ بیچ میں حائل ہو کر کہہ دیں گی کہ یہ ہمارے دامن کے سایہ میں ہیں، ان سے کچھ نہ کہا جائے۔ بلکہ بعض جگہ تو اس پکڑ دھکڑ کی نوبت ہی نہ آئے گی، کیوں کہ ان کے گناہوں کا کفارہ پہلے ہی کوئی ادا کر چکا ہے۔ ان مشرکانہ عقاید نے زندگی بعد موت کے عقیدے کو بھی بے معنی کر دیا ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ساری اَخلاقی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہیں جو مذہب نے تعمیر کی تھیں۔ مذہبی اَخلاقیات کتابوں میں لکھے ہوئے موجود ہیں، اور زبانوں پر ان کا ذکر بھی احترام کے ساتھ آتا ہے، مگر عملاً ان کی پابندی سے بچنے کے لیے شرک نے فرار کی بے شمار راہیں فراہم کر دی ہیں اور کچھ اس شان سے فراہم کی ہیں کہ جس راہ سے بھی یہ چاہیں بھاگیں بہرحال انھیں اطمینان ہے کہ آخر کار پہنچیں گے نجات ہی کی منزل پر۔
شرک سے قطع نظر کرکے جہاں خداپرستی اور عقیدۂ آخرت کچھ بہتر صورت میں موجود ہے، وہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کے مطالبات سکڑ کر انسانی زندگی کے ایک بہت چھوٹے سے دائرے میں محدود ہو گئے ہیں۔ چند اعمال، چند رسوم، اور چند پابندیاں ہیں جن کا محدود انفرادی ومعاشرتی زندگی میں خدا ان سے مطالبہ کرتا ہے اور انھی کے معاوضے میں اس نے ایک بہت بڑی جنت ان کے لیے مہیا کر رکھی ہے۔ اگر یہ ان مطالبوں کو پورا کر دیں تو پھر کوئی چیز خدا کی طرف سے ان کے کرنے کی نہیں رہ جاتی۔ اس کے بعد یہ آزاد ہیں کہ اپنی زندگی کے معاملات جس طرح چاہیں چلائیں۔ اور اگر ان خدائی مطالبوں میں بھی کوتاہی رہ جائے تو اس کی رحمت اور نکتہ نوازی پر بھروسا ہے کہ وہ گناہوں کے پشتار ے ان سے جنت کے دروازے پر رکھوا لے گا اور اندر جانے کے لیے اعزازی ٹکٹ عنایت فرما دے گا۔ اس تنگ مذہبی تصوّر نے اوّل تو زندگی کے معاملات پر مذہبی اَخلاقیات کے انطباق کو بہت محدود کر دیا ہے، جس کی وجہ سے زندگی کے تمام بڑے بڑے شعبے ہر اس اَخلاقی راہ نمائی اور بندش سے آزاد ہو گئے ہیں جو مذہب سے حاصل ہو سکتی تھی، دوسرے اس تنگ دائرے میں بھی اَخلاق کی گرفت سے بچ نکلنے کے لیے ایک راستہ یہاں کھلا ہوا ہے جس سے فائدہ اٹھانے میں کم ہی لوگ سستی دکھاتے ہیں۔
ان سب سے بہتر حالت جن میں مذہبی طبقوں کی ہے، جو شرک سے بھی پاک ہیں، سچائی کے ساتھ خدا کو بھی مانتے ہیں، اور آخرت کے متعلق بھی کسی جھوٹے بھروسے پر تکیہ نہیں کر بیٹھے ہیں، ان کے اندر اَخلاق کی پاکیزگی تو بے شک پائی جاتی ہے، اور بہترین سیرت وکردار کے لوگ ان میں مل جاتے ہیں، لیکن انھیں بالعموم مذہب وروحانیت کے محدود تصوّر نے خراب کر رکھا ہے۔ وہ دُنیا اور اس کے مسائلِ زندگی سے بڑی حد تک بے تعلق ہو کر یا تو چند مخصوص کاموں کو جنھیں مذہبی کام سمجھا جاتا ہے، لے بیٹھتے ہیں، یا اپنے نفس کو مانجھ مانجھ کر صاف کرتے ہیں تاکہ وہ اس دُنیا ہی میں عالمِ غیب کی آوازیں سننے اور حسنِ مطلق کی پرچھائیاں دیکھنے کے قابل ہو جائیں۔ ان کے نزدیک نجات کا راستہ دنیوی زندگی کے کنارے کنارے بچ کر نکل جاتا ہے اور خدا کے قرب سے سرفراز ہونے کی سبیل بس یہ ہے کہ ایک طرف مذہب کے دیے ہوئے نقشے پر اپنی زندگی کے ظاہری پہلوئوں کو ڈھال لیا جائے، دوسری طرف نفس کی صفائی کے چند طریقوں سے کام لے کر اسے مجلّٰی ومصفّا کر لیا جائے، اور پھر ایک محدود دائرے کے اندر کچھ مذہبی وروحانی مشاغل میں مصروف رہ کر زندگی کے دن پورے کر دیے جائیں۔ گویا ان کے خدا کو چند خوش وضع شیشے کے برتن، چند مقطَّع لائوڈ سپیکر، چند عمدہ گراموفون، چند لطیف ریڈیو سیٹ، چند خوشنما فوٹو کے کیمرے درکار تھے اور اسی غرض کے لیے اس نے زمین میں اتنا کچھ سامان دے کر انسانوں کو بھیجا تاکہ یہاں سے اپنے آپ کو ان چیزوں میں تبدیل کرکے پھر اس کے پاس واپس پہنچ جائیں۔ مذہب وروحانیت کے اس غلَط تصوّرکا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ جو نفوس بلند تر اور پاکیزہ تر اَخلاقی صلاحیتوں کے حامل تھے انھیں یہ زندگی کے میدان سے ہٹا کر گوشوں میں لے گیا اور گھٹیا درجے کے اوصاف رکھنے والوں کے لیے بغیر مزاحمت کے خود بخود میدان خالی ہو گیا۔
دُنیا کی پُوری مذہبی صورت حال کا یہ لُبِّ لباب ہے اور اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ خدا پرستی سے جو اَخلاقی طاقت انسان کو ملنی ممکن تھی، بیش تر انسان تو اسے سرے سے حاصل ہی نہیں کر رہے ہیں، اور ایک بہت قلیل تعداد اسے حاصل کر رہی ہے لیکن انسانیت کی راہ نمائی و سربراہ کاری سے وہ خود دست بردار ہو گئی ہے۔ اس لیے اس کا حال اس بٹیری کا سا ہے جس میں بجلی بھری جائے اور وہ یونہی رکھے رکھے اپنی عمر پوری کر دے۔
انسانی تمدن کی گاڑی بالفعل جو لوگ اس وقت چلا رہے ہیں ان کے اَخلاقیات خدا اور آخرت کے اساسی تخیل سے خالی ہیں اور دانستہ خالی کیے گئے ہیں۔ نیز اَخلاق میں خدا کی راہ نمائی قبول کرنے سے انھوں نے قطعی انکار کر دیا ہے۔ اگرچہ ان میں کثیر التعداد لوگ کسی نہ کسی مذہب کے قائل ہیں، مگر ان کے نزدیک مذہب ہر انسان کا محض ایک شخصی وانفرادی معاملہ ہے جسے اپنی ذات تک آدمی کو محدود رکھنا چاہیے۔ اجتماعی زندگی اور اس کے معاملات سے مذہب کو کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔ پھر اس کی کیا ضرورت کہ وہ ان معاملات کو چلانے کے لیے کسی فوق الفطری ہدایت کی طرف رجوع کریں۔ گزشتہ صدی کے اواخر میں جس اَخلاقی تحریک کی ابتدا امریکہ سے ہوئی تھی اور جو بڑھتے بڑھتے انگلستان اور دوسرے ممالک میں پھیل گئی، اس کا بنیادی مسلک ’’امریکی انجمنِ اَخلاق‘‘ (american-ethical union) کے مقاصد کی فہرست میں بایں الفاظ واضح کیا گیا تھا:
’’انسانی زندگی کے تمام تعلقات میں، خواہ وہ شخصی ہوں‘ اجتماعی ہوں، قومی ہوں یا بین الاقوامی، اَخلاق کی انتہائی اہمیت پر زور دینا بغیر اس کے کہ مذہبی معتقدات یا مابعد الطبیعی تخیلات کا اس میں کوئی دخل ہو‘‘۔
اس تحریک کے زیر اثر انگلستان میں ’’اتحاد انجمن ہائے اَخلاق‘‘ (union of ethical societies)قائم ہوئی جو بعد کو ’’اَخلاقی اتحاد‘‘(ethical union) کے نام سے منظم کی گئی۔ اس کا اساسی مقصد یہ بیان کیا گیا تھا:
’’انسانی رفاقت اور خدمت کے ایک ایسے طریقے کی تلقین کرنا جو اس اصول پر مبنی ہو کہ مذہب کا سب سے بڑا مقصد بھلائی کی مَحبّت ہے اور یہ کہ اَخلاقی تصوّرات اور اَخلاقی زندگی کے لیے دُنیا کی حقیقت اور زندگی بعد موت کے متعلق کسی عقیدے کی حاجت نہیں ہے، اور یہ کہ خالص انسانی اور فطری ذرائع سے انسانوں کو اپنے تمام تعلقات زندگی میں حق سے مَحبّت کرنے‘ حق جاننے اور حق پر عمل کرنے کے لیے تیار کیا جائے۔‘‘
ان الفاظ میں درحقیقت اس پورے طبقے کی نمایندگی کی گئی ہے جو اس وقت دُنیا کے افکار، تہذیب، تمدن ، اور معاملات کی راہ نمائی کر رہا ہے۔ آج دُنیا کے کاروبار کو عملاً جو لوگ چلا رہے ہیں ان سب کے ذہن پر وہی تخیل چھایا ہوا ہے جو اوپر کے چند فقروں میں بیان کیا گیا ہے‘ سب ہی نے بالفعل اپنے اَخلاقیات کو خدا اور آخرت کے عقیدے اور مذہب کی اَخلاقی راہ نمائی سے آزاد کر لیا ہے۔ وہ اگر خدا کو مانتے بھی ہیں تو صرف اس کے ہونے کو مانتے ہیں۔ اپنی زندگی کے اصول اور ضابطے اس سے نہیں لیتے۔
غیر مذہبی اور غیر اَخلاقی فلسفوں کا جائزہ
اب ہمیں ان غیر مذہبی اَخلاقی فلسفوں کا جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ ان کی کیا کیفیت ہے:
(۱) فلسفۂ اَخلاق کا پہلا بنیادی سوال یہ ہے کہ وہ اصلی اور انتہائی بھلائی کیا ہے جس کو پہنچنا انسانی سعی وعمل کا مقصود ہونا چاہیے اور جس کے معیار پر انسان کے طرزِ عمل کو پرکھ کر فیصلہ کیا جائے کہ وہ اچھا ہے یا برا‘ صحیح ہے یا غلط؟
اس سوال کا کوئی ایک جواب انسان نہیں پا سکا۔ اس کے بہت سے جوابات ہیں۔ ایک گروہ کے نزدیک وہ بھلائی خوشی ہے۔ دوسرے کے نزدیک کمال ہے۔ تیسرے کے نزدیک فرض برائے فرض ہے۔
پھر خوشی کے متعلق مختلف سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیسی خوشی؟ آیا وہ جو جسمانی ونفسانی خواہشات کے پورا ہونے سے حاصل ہوتی ہے؟ یا وہ جو ذہنی ترقی کے مدارج پر چڑھنے سے حاصل ہوتی ہے؟ یا وہ جو اپنی شخصیت کو آرٹ یا روحانیت کے نقطۂ نظر سے آراستہ کر لینے سے حاصل ہوتی ہے؟ نیز یہ کہ کس کی خوشی؟ آیا ہر شخص کی اپنی خوشی؟ یا اس جماعت کی خوشی جس سے انسان وابستہ ہے؟ یا تمام انسانوں کی خوشی؟ یا فی الجملہ دوسروں کی خوشی؟
اسی طرح کمال کو مقصود قرار دینے والوں کے لیے بھی بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کمال کا تصوّر اور اس کا معیار کیا ہے؟ اور کمال کس کا مقصود ہے؟ فرد کا؟ جماعت کا؟ یا انسانیت کا؟
اسی طرح جو لوگ فرض برائے فرض کے قائل ہیں اور ایک غیر مشروط واجب الاطاعت قانون(catgorical imperative) کی بے چون وچرا اطاعت ہی کو آخری وانتہائی بھلائی قرار دیتے ہیں‘ ان کے لیے بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ قانون فی الواقع ہے کیا؟ کس نے اسے بنایا؟ اور کس کا قانون ہونے کی وجہ سے وہ واجب الاطاعت ہے۔
ان تمام سوالات کے جوابات مختلف گروہوں کے نزدیک مختلف ہیں۔ محض فلسفے کی کتابوں ہی میں مختلف نہیں ہیں بلکہ عملاً بھی مختلف ہیں۔ یہ ساری انسانوں کی بھیڑ جو آپ کے سامنے تمدنِ انسانی کی گاڑی کو چلا رہی ہے، جس میں سلطنتوں کو چلانے والے وزیر، فوجوں کو لڑانے والے جنرل، انسانوں کے درمیان فیصلہ کرنے والے جج، انسانی معاملات کے قانون بنانے والے شارعین (legislators)انسانوں کو تیار کرنے والے معلّم، انسان کے معاشی ذرائع کو کنٹرول کرنے والے کاروباری لوگ، اور تمدن کے کارخانے میں کام کرنے والے مختلف مدارج کے کارکن، سب ہی شامل ہیں۔ ان کے پاس بھلائی کا کوئی ایک معیار نہیں ہے‘ بلکہ ہر ایک شخص اور ہر ایک گروہ اپنا الگ معیار رکھتا ہے اور ایک تمدنی نظام میں کام کرتے ہوئے بھی ہر ایک کا رخ ایک الگ مقصود کی طرف پھرا ہوا ہے۔ کسی کے نزدیک اپنی خوشی منتہا ہے اور خوشی سے اس کی مراد نفسانی وجسمانی خواہشات کی تکمیل ہے۔ کوئی اپنی خوشی کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور اس کے ذہن میں خوشی سے کچھ اور مراد ہے۔ اس ذاتی خوشی کے حصول اور عدمِ حصول ہی کے لحاظ سے وہ فیصلہ کر رہا ہے کہ اجتماعی زندگی میں اس کے لیے کون سا طرزِ عمل نیک ہے یا بد۔ مگر اس کی ظاہری شریفانہ صورت سے ہم اس غلَط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ انسانی سوسائٹی کے لیے وہ ایک موزوں وزیر، یا جج، یا معلّم یا کسی دوسری حیثیت سے تمدن کی مشین کا ایک اچھا پُرزہ ہے۔ اسی طرح کوئی خوشی سے مراد انسانوں کے اس مخصوص مجموعے کی خوشی وخوشحالی سمجھتا ہے جس کے ساتھ اس کی دل چسپیاں وابستہ ہیں اور یہی اس کے نزدیک وہ خیر برتر ہے جس کے حصول کی سعی کرنا اس کے نزدیک نیکی ہے۔ یہ نقطۂ نظر اسے اپنے طبقے یا برادری یا قوم کے سوا ہر ایک کے لیے سانپ اور بچّھو بنا دیتا ہے لیکن ہم اس کی ظاہری مہذب صورت کی وجہ سے اسے ایک شریف انسان فرض کر لیتے ہیں۔ اور وہ امانتیں اس کے حوالے کر دیتے ہیں جن میں اس کے اپنے طبقے یا برادری یا قوم کے سوا دوسروں کا حصہ بھی ہوتا ہے۔ ایسی ہی مختلف اقسام کی شخصیتیں کمال کو خیرِ اعلیٰ ماننے والوں اور فرض برائے فرض کے قائلین میں بھی پائی جاتی ہیں، جن میں سے اکثر کے نظریات اپنے عملی نتائج کے اعتبار سے انسانی تہذیب وتمدن کے لیے زہر کا حکم رکھتے ہیں، مگر وہ تریاق کا لیبل لگائے ہوئے ہماری اجتماعی زندگی میں جذب ہوئے چلے جا رہے ہیں۔
(۲) اب آگے چلئے۔ فلسفۂ اَخلاق کے بنیادی سوالات میں سے دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس خیر وشر کے جاننے کا ذریعہ کیا ہے؟ کس مآخذ کی طرف ہم یہ معلوم کرنے کے لیے رجوع کریں کہ اچھا کیا ہے اور بُرا کیا، صحیح کیا ہے اور غلَط کیا؟
اس سوال کا بھی کوئی ایک جواب انسان کو نہیں ملا۔ اس کے بھی بہت سے جوابات ہیں۔ کسی کے نزدیک وہ ذریعہ اور ماخذ انسانیت کا تجربہ ہے، کسی کے نزدیک قوانینِ حیات اور حالاتِ وجود کا علم ہے، کسی کے نزدیک وجدان ہے، کسی کے نزدیک عقل ہے۔ یہاں پہنچ کر وہ بدنظمی اپنی انتہا کوپہنچ جاتی ہے جس کا آپ نے پہلے سوال کے معاملے میں مشاہدہ کیا۔ ان چیزوں کو مآخذ قرار دینے کے بعد اَخلاق کے لیے مستقل اصول ہی یہ قرارپا جاتا ہے کہ اس کا کوئی متعیّن معیار نہ ہو، بلکہ وہ ایک سیال مادّے کی طرح بہتا اور مختلف صورتوں اورپیمانوں میں ڈھلتا چلا جائے۔
انسانیّت کے تجربے سے صحیح علم حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ اس کے متعلق مکمل اور مفصّل معلومات یک جا جمع ہوں اور کوئی ہمہ بیں اور کامل متوازن ذہن ان سے نتائج اخذ کرے۔ لیکن یہ دونوں چیزیں حاصل نہیں ہیں۔ اوّل تو انسانیت کا تجربہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے بلکہ جاری ہے۔ پھر اب تک کا جو تجربہ ہے اس کے بھی مختلف اجزا مختلف لوگوں کے سامنے ہیں اور وہ مختلف طور پراپنی ذہنیت کے مطابق ان سے نتائج نکال رہے ہیں۔ تو کیا ان ناقص معلومات سے مختلف نامکمل ذہن اپنے رجحانات کے مطابق جو نتائج بھی اخذ کر لیں وہ سب صحیح ہو سکتے ہیں؟ اگر نہیں، تو کیسے سخت بیمار ہیں وہ ذہن جو اپنے خیروشر وکو جاننے کے لیے اس ذریعۂ علم کو کافی سمجھتے ہیں۔
یہی معاملہ قوانینِ حیات اور حالاتِ وجود کا ہے۔ یا تو آپ اَخلاقی بھلائی اور برائی کو جاننے کے لیے اس وقت کا انتظار کریں جب اِن قوانینِ اور حالات کا علم قابلِ اطمینان حد تک آپ کی گرفت میں آ جائے یا نہیں تو ناکافی معلومات کو نا کافی جانتے ہوئے انھی کی بنیادپر مختلف ذہنیت اور مختلف مراتبِ علمی کے لوگ مختلف طور پر فیصلے کرتے رہیں کہ ان کے لیے خیر کیا ہے اور شر کیا؟ اور علم کی ہر نئی قسط حاصل ہونے کے بعد ان فیصلوں کو بدلتے بھی رہیں۔ حتّٰی کہ آج کا خیر کل شر ہو جائے اور آ ج کا شر کل خیر قرار پائے۔
عقل اور وجدان کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ بلاشبہ خیر وشر کو جاننے کی کچھ استعداد عقل کو بھی حاصل ہے اور اس عقل سے ہر انسان نے کچھ نہ کچھ حصہ پایا، اور خیر وشر کا کچھ علم وجدانی بھی ہے جس کا الہام ہر انسان کے ضمیر پر فطرتاً ہوتا ہے۔ لیکن اس علم کے لیے ان میں سے کوئی بھی کافی بالذّات نہیں کہ اسی کو آخری اور واحد ذریعۂ علم کی حیثیت سے لے لیا جائے۔ عقل یا وجدان، جس کو بھی آپ کافی بالذّات سمجھیں گے، بہرحال ایک ایسے ذریعۂ علم پر آپ اعتماد کریں گے جو نہ صرف یہ کہ اپنی فطرت میں ناقص ومحدود ہے، بلکہ وہ مختلف، مختلف طبقوں، مختلف حالات اور مختلف زمانوں میں پہنچ کر بالکل مختلف چیزوں پر خیر یا شر ہونے کا حکم لگاتا ہے۔
یہ ساری بدنظمی جس کا میں نے ابھی آپ سے ذکر کیا ہے، محض علمی مقالات اور فلسفیانہ بحثوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ فی الواقع دُنیا کے تمدن وتہذیب میں عملاً اس کا عکس پوری طرح نمایاں ہو رہا ہے۔ آپ کے تمدن میں جو لوگ کام کر رہے ہیں، خواہ وہ کار فرمائی کے مقام پر ہوں، یا کارکنی کے مقام پر یا کارفرمائوں اور کارکنوں کے بنانے میں لگے ہوئے ہوں، یہ سب خیر وشر اور صحیح وغلَط جاننے کے لیے اپنے اپنے طور پر انھی مختلف مآخذوں کی طرف رجوع کر رہے ہیں‘ اور ہر شخص اور ہر گروہ کا خیر وشر دوسرے کے خیر وشر سے الگ ہے‘ حتّٰی کہ ایک کا خیر دوسرے کا انتہائی شر ہے‘ ایک کا شر دوسرے کا انتہائی خیر۔ اس بدنظمی نے اَخلاق کے لیے کوئی پائیدار بنیاد باقی ہی نہیں رہنے دی ہے۔جن چیزوں کو دُنیا میں ہمیشہ سے جرم اور گناہ سمجھا جاتا رہا ہے آج کسی نہ کسی گروہ کی نگاہ میں وہ عین خیر ہیں یا مطلقاً خیر نہیں تو اضافی خیر بن گئی ہیں۔ اسی طرح جن بھلائیوں کو ہمیشہ سے انسان خوبی سمجھتا رہا ہے ان میں سے اکثر آج حماقت اور مضحکہ قرار پا چکی ہیں اور مختلف گروہ انھیں شرم کے ساتھ نہیں بلکہ فخر کے ساتھ علانیہ پامال کر رہے ہیں۔ پہلے جھوٹا جھوٹ بولتا تھا مگر معیارِ اَخلاق سچائی ہی کو مانتا تھا، لیکن آج کے فلسفوں نے جھوٹ کو خیر بنا دیا ہے اور جھوٹ بولنے کا ایک مستقل فن مدوّن کیا جا رہا ہے، اور بڑے پیمانے پر قومیں اور سلطنتیں جھوٹ پھیلا رہی ہیں۔ یہی حال ہر بداَخلاقی کا ہے کہ پہلے بداَخلاقیاں، بد اَخلاقیاں ہی تھیں مگر آج نئے فلسفوں کے طفیل وہ سب مطلق یا اضافی خیر میں تبدیل کر دی گئی ہیں۔
(۳) فلسفۂ اَخلاق کے بنیادی سوالات میں سے تیسرا سوال یہ ہے کہ قانونِ اَخلاق کے پیچھے وہ قوت کون سی ہے جس کے زور سے یہ قانون نافذ ہو؟اس کے جواب میں مسّرت اور کمال کے پرستار کہتے ہیں کہ خوشی یا کمال کی طرف لے جانے والی بھلائیاں اپنی پیروی کرانے کی طاقت آپ ہی اپنے اندر رکھتی ہیں اور رنج یا پستی کی طرف لے جانے والی برائیاں آپ اپنے ہی زور پر اپنے سے اجتناب کرا لیتی ہیں۔ اس کے سوا قانونِ اَخلاق کے لیے کسی خارجی اقتدار کی ضرورت ہی نہیں۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ قانونِ فرض انسان کے ارادۂ معقول کا اپنے اوپر آپ عائد کیا ہوا قانون ہے، اس کے لیے کسی بیرونی زور کی حاجت نہیں۔ تیسرا گروہ سیاسی اقتدار کو قانونِ اَخلاق کی اصل قوتِ نافذہ سمجھتا ہے اور اس ملک کی رو سے اسٹیٹ کی طرف وہ تمام اختیارات منتقل ہو جاتے ہیں جو پہلے خدا کے لیے تھے، یعنی باشندوں کے حق میں یہ فیصلہ کرنا کہ انھیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہ کرنا چاہیے۔ چوتھے گروہ نے یہ مرتبہ اسٹیٹ کے بجائے سوسائٹی کو دیا ہے۔ یہ سب جوابات فساد کی بے شمار صورتیں دُنیا میں عملاً پیدا کر چکے ہیں اوراب تک کر رہے ہیں۔ پہلے دونوں جوابوں نے انفرادی خود سری و بے راہ روی یہاں تک بڑھا دی کہ اجتماعی زندگی کا شیرازہ درہم برہم ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ پھر اس کا رَدّعمل ان فلسفوں کی صورت میں رونما ہوا جنھوں نے یا تو اسٹیٹ کو خدا بنا کر افراد کو بالکل اس کا بندہ بنا ڈالا، یا پھر افراد کی روٹی کے ساتھ ان کے خیر وشر کی باگیں بھی معاشرے کے ہاتھوں میں دے دیں، حالانکہ سبّوح وقدوس نہ اسٹیٹ ہے نہ معاشرہ۔
(۴) یہی معاملہ اس سوال کے جواب میں پیش آتا ہے کہ وہ کون سا محرک ہے جو انسان کو اپنے طبعی رجحانات کے علی الرغم اَخلاقی احکام کی پابندی پر آمادہ کرے؟ کسی کے نزدیک بس خوشی کا طمع اور رنج وتکلیف کا خوف اس کے لیے کافی محرک ہے۔ کوئی محض کمال کی خواہش اور نقص سے بچنے کی تمنا کو اس کے لیے کافی سمجھتا ہے۔ کوئی اس کے لیے محض آدمی کے اپنے جذبۂ احترامِ قانون پر اعتماد کرتا ہے۔ کوئی اسٹیٹ کے اجر کی امید اور اس کے غضب کے خوف کو اہمیت دیتا ہے اور کوئی معاشرے کے اجر اور اس کے غضب کو طمع وخوف کے لیے استعمال کرنے پر زیادہ زور دیتا ہے۔ ان میں سے ہر جواب نے عملاً ہمارے اَخلاقی نظامات میں سے کسی نہ کسی کے اندر تقدم کا مقام حاصل کیا ہے، اور تھوڑا سا تجسس کرنے پر یہ حقیقت بآسانی کھل سکتی ہے کہ یہ سب محرکات بداَخلاقی کے لیے بھی اتنے ہی اچھے محرک بن سکتے ہیں جتنے خوش اَخلاقی کے لیے بلکہ ان میں بداَخلاقی کے لیے محرک بننے کی قوت بہت زیادہ ہے، اور بہرحال کسی اعلیٰ درجہ کی اَخلاقیت کے لیے تو یہ تمام محرکات قطعاً ناکافی ہیں۔
یہ بہت مختصر جائزہ جو میں نے دُنیا کی موجودہ اَخلاقی حالت کا لیا ہے اس سے بیک نظر یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ دُنیا میں اس وقت ایک ہمہ گیر اَخلاقی انتشار پایا جاتا ہے۔ خدا سے بے نیاز ہو کر انسان کوئی ایسی بنیاد نہیں پا سکا جس پر وہ قابلِ اطمینان طریقے سے اپنے اَخلاق کی تعمیر کرتا۔ اَخلاق کے سارے بنیادی سوالات اس کے لیے حقیقتاً لاجواب ہو کر رہ گئے۔ نہ وہ اس خیر برتر کا کہیں سراغ لگا سکا جو اس کی کوششوں کا منتہا بننے کے قابل ہوتی اور جس کے لحاظ سے اعمال کے نیک یا بد اور صحیح یا غلَط ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا، نہ اسے وہ مآخذ کہیں ہاتھ لگا جس سے وہ صحیح طور پر معلوم کر سکتا کہ خیر کیا ہے اور شر کیا؟ نہ اسے وہ اقتدار فراہم کرنے میں کامیابی ہوئی جس کے حکم کی بِنا پر اَخلاق کے کسی بلند جامع اور عالم گیر ضابطے کی قوتِ نفاذ حاصل ہوتی اور نہ اسے کوئی ایسا محرک مل سکا جو انسانوں میں راستی پر عمل کرنے اور ناراستی سے پرہیز کرنے کے لیے حقیقی آمادگی پیدا کرنے کے قابل ہو۔ خدا سے بغاوت کرکے انسان نے خودسری کے ساتھ ان سوالات کو حل کرنا چاہا اور اپنے نزدیک حل کیا بھی، مگر یہ اسی حل کے پیداکردہ نتائج ہیں جو آج ہمیں اَخلاقی تنزل کے ایک خوفناک طوفان کی شکل میں اٹھتے اور پوری انسانی تہذیب کو تباہی کی دھمکیاں دیتے نظر آ رہے ہیں۔
کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم اس بنیاد کو تلاش کریں جس پر انسانی اَخلاق کی صحیح تعمیر ہو سکے؟ فی الواقع یہ تلاش وجستجو محض ایک علمی بحث نہیں ہے بلکہ ہماری زندگی کی ایک عملی ضرورت ہے اور وقت کی نزاکت نے اسے اہم ترین ضرورت بنا دیا ہے۔ اسی لحاظ سے میں اپنی تلاش کے نتائج پیش کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ جو لوگ اس ضرورت کو محسوس کر رہے ہیں، وہ نہ صرف میرے ان نتائج پر ٹھنڈے دل سے غور کریں بلکہ خود بھی سوچیں کہ اَخلاقِ انسانی کے لیے آخر کون سی بنیاد صحیح ہو سکتی ہے۔
انسانی اَخلاق کی صحیح بنیادیں
میں اپنی تلاش وتحقیق سے جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ اَخلاق کے لیے صرف ایک ہی بنیاد صحیح ہے اور وہ اِسلام فراہم کرتا ہے۔ یہاں فلسفۂ اَخلاق کے تمام بنیادی سوالات کا جواب ہمیں ملتا ہے اور ایسا جواب ملتا ہے جس کے اندر وہ کم زوریاں موجود نہیں ہیں جو فلسفیانہ جوابات میں پائی جاتی ہیں۔ یہاں مذہبی اَخلاقیات کی ان کم زوریوں میں سے بھی کوئی کم زوری موجود نہیں ہے جن کی وجہ سے وہ نہ کسی مستحکم سیرت کی تعمیر کر سکتے ہیں اور نہ انسان کو تمدن کی وسیع ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل بناتے ہیں۔ یہاں ایک ایسی ہمہ گیر اَخلاقی راہ نمائی ملتی ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی کے انتہائی ممکن درجات تک ہمیں لے جا سکتی ہے۔ یہاں وہ اَخلاقی اصول ہمیں ملتے ہیں جن پر ایک صالح ترین نظامِ تمدن قائم ہو سکتا ہے اور اگر ان اصولوں پر انفرادی واجتماعی کردار کی بنا رکھی جائے تو انسانی زندگی اس فساد سے محفوظ رہ سکتی ہے جس سے وہ اس وقت دوچار ہے۔
اس نتیجے پر میں کن دلائل سے پہنچا ہوں؟ اس کی مختصر تشریح میں آپ کے سامنے بیان کروں گا:
فلسفہ جس مقام سے اپنی اَخلاقی بحث شروع کرتا ہے درحقیقت وہ اَخلاق کے مسئلے کا سِرا نہیں ہے بلکہ بیچ کے چند نقطے ہیں جنھیں سرے کو چھوڑ کر اس نے نقطۂ آغاز بنا لیا ہے اور یہی اس کی پہلی غلطی ہے۔ یہ سوال کہ انسان کے لیے کردار کی صحت وغلطی کا معیار کیا ہے اوروہ کون سی بھلائی ہے جس کو پہنچنے کی سعی انسان کے لیے مقصود بالذات ہونی چاہیے‘ دراصل یہ بعد کا سوال ہے۔ اس سے پہلے جو سوال حل ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ اس دُنیا میں انسان کی حیثیت کیا ہے؟ یہ سوال اس لیے تمام سوالات پر مقدم ہے کہ حیثیت کے تعین کے بغیر اَخلاق کا سوال محض بے معنی ہی نہیں ہو جاتا بلکہ اس میں بیش تر امکان اسی امر کا ہوتا ہے کہ اس طرح جواَخلاقیات متعین کیے جائیں گے وہ بنیادی طور پر غلَط ہوں گے۔ مثلاً کسی جائداد کے متعلق آپ کہ یہ طے کرنا ہے کہ اس میں کس طرح مجھے کام کرنا چاہیے اور کس قسم کے تصرّفات میرے لیے حق ہیں اور کس قسم کے تصرّفات باطل۔ کیا آپ اس سوال کو صحیح طور پر حل کر سکتے ہیں تاوقتیکہ پہلے اس بات کا تعین نہ کر لیں کہ اس جائداد میں آپ کی حیثیّت کیا ہے اور اس سے آپ کے تعلق کی نوعیّت کیا ہے؟ اگر یہ جائداد کسی دوسرے کی ملکیّت ہے اور آپ اس میں امین کی حیثیت رکھتے ہیں تو آپ کے لیے اس میں اَخلاقی طرزِعمل کی نوعیّت کچھ اور ہو گی اوراگر آپ خود اس کے مالک ہیں اور اس پر آپ کے مالکانہ اختیارات غیر محدود ہیں تو آپ کے اَخلاقی طرزِ عمل کی نوعیت بالکل دوسری ہو جائے گی۔ اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ حیثیت کا سوال اَخلاقی طرز عمل کی نوعیت کے معاملہ میں فیصلہ کن ہے‘ بلکہ درحقیقت اسی پر اس امر کے فیصلہ کا بھی انحصار ہے کہ اس جائداد میں آپ کے لیے صحیح طرزِ عمل متعین کرنے کا حق دار کون ہے؟ آپ خود یا وہ جس کے آپ امین ہیں؟
اِسلام سب سے پہلے اسی سوال کی طرف توجہ کرتا ہے اور ہمیں بالکل واضح طور پر ہر شائبہ اشتباہ کے بغیر یہ بتاتا ہے کہ اس دُنیا میں انسان کی حیثیت خدا کے بندے اور نائب کی ہے۔ یہاں انسان کو جتنی چیزوں سے سابقہ پیش آتا ہے‘ وہ سب خدا کی مِلک ہیں حتّٰی کہ انسان کا اپنا جسم اور وہ تمام قوتیں بھی جو اس جسم میں بھری ہوئی ہیں، انسان کی اپنی مِلک نہیں ہیں بلکہ خدا کی مِلک ہیں۔خدا نے ان تمام چیزوں پر تصرّف کرنے کے اختیارات دے کر یہاں اپنے نائب کی حیثیت سے مامور کیا ہے، اور اس ماموریّت میں اس کا امتحان ہے۔ امتحان کا آخری نتیجہ اس دُنیا میں نہیں نکلے گا بلکہ جب افراد کا، قوموں کا، اور پوری نوعِ انسانی کا کام ختم ہو چکے گا اور انسانوں کی مساعی کے اثرات ونتائج پایۂ تکمیل کو پہنچ جائیں گے، تب خدا بیک وقت ان سب کا حساب لے گا اور اس امر کا فیصلہ کرے گا کہ کس نے اس کی بندگی اور نیابت کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کیا ہے اور کِس نے نہیں کیا۔ یہ امتحان کسی ایک امر میں نہیں بلکہ تمام امور میں ہے۔ کسی ایک شعبۂ زندگی میں نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی پوری زندگی میں ہے۔ نفس وجسم کی جتنی قوتیں انسان کو دی گئی ہیں سب کا امتحان ہے اورخارج میں جن جن چیزوں پر جس جس طرح کے اختیارات اسے عطا کیے گئے ہیں، ان سب میں بھی امتحان ہے کہ وہ کس طرح ان پر اپنا اختیار استعمال کرتا ہے۔
حیثیت کے اس تعین کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ دُنیا میں اپنے لیے اَخلاقی طرزِ عمل کے تعین کا حق ہی سرے سے انسان کو حاصل نہیں رہتا بلکہ اس کا فیصلہ کرنا خدا کا حق ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد فلسفۂ اَخلاق کے وہ تمام سوالات جنھیں فلسفیوں نے چھیڑا ہے، نہ صرف یہ کہ حل ہوجاتے ہیں بلکہ اس امر کی بھی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ ایک ایک سوال کے چھتیس چھتیس جوابات ہوں، اور ایک ایک جواب پر انسانوں کا ایک ایک گروہ اَخلاق کے ایک جداگانہ رخ پر چل پڑے، اور ایک ہی تمدنی واجتماعی زندگی میں رہتے ہوئے یہ مختلف سمتوں پر چلنے والے لوگ اپنی بے راہ رویوں سے بدنظمی، انتشار اور فساد برپا کریں۔ اگر انسان کی اس حیثیت کو تسلیم کر لیا جائے جو اِسلام نے قرار دی ہے تو یہ بات خود متعین ہو جاتی ہے کہ خدا کے امتحان میں کام یاب ہونا اور اس کی رضا کو پہنچنا ہی وہ بلند ترین بھلائی ہے جو مقصود بالذّات ہونی چاہیے‘ اور کسی طرزِ عمل کے صحیح یا غلَط ہونے کا مدار اسی امر پر ہے کہ وہ اس بھلائی کے حصول میں کہاں تک مددگار یا مانع ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی یہیں سے متعین ہو جاتی ہے کہ انسان کے لیے نیک اور بد‘ صحیح اور غلَط کے علم کا اصل مآحذ خدا کی ہدایت ہے اور اس کے سوا دوسرے ذرائعِ علم اس اصل مآخذ کے مددگار تو بن سکتے ہیں مگر خود اصل مآخذ نہیں بن سکتے۔ نیز یہ امر بھی طے ہو جاتا ہے کہ قانونِ اَخلاق کے واجب الاطاعت ہونے کی اصل بنیاد صرف یہ ہے کہ وہ خدا کا ٹھیرایا ہواقانون ہے اور یہ بات بھی صاف ہو جاتی ہے کہ اچھے اَخلاق کی پابندی اور بُرے اَخلاق سے اجتناب کے لیے اصل محرّک خدا کی مَحبّت ، اس کی رضا کی طلب اور اس کی ناراضی کا خوف ہونا چاہیے۔
پھر نہ صرف یہ کہ اس فلسفۂ اَخلاق کے سارے اصولی سوالات حل ہو جاتے ہیں بلکہ درحقیقت اس بنیاد پر جو اَخلاقی سسٹم بنتا ہے، اس کے اندر نہایت متوازن اور متناسب طریقے سے وہ تمام اَخلاقی سسٹم اپنی اپنی موزوں جگہ پا لیتے ہیں جو فلسفۂ اَخلاق کے مفکرین نے تجویز کیے ہیں۔ فلسفیانہ اَخلاقی نظاموں کی اصل قباحت یہ نہیں ہے کہ ان میں حقیقت وصداقت کا کوئی جز بھی نہیں ہے بلکہ ان کی اصل قباحت یہ ہے کہ انھوں نے صداقت کے ایک جز کو لے کر پوری صداقت بنا لیا ہے، اس لیے جز کے کل بننے میں جس قدر زائد کی ضرورت پڑتی ہے اس کی تکمیل کے لیے لامحالہ انھیں باطل کے بہت سے اجزا لینے پڑتے ہیں۔ اِسلام اس کے برعکس پوری صداقت پیش کرتا ہے اور اس کل صداقت میں وہ تمام جزئی صداقتیں جذب ہو جاتی ہیں جو لوگوں کے پاس الگ الگ تھیں اور ناقص تھیں۔
یہاں خوشی کا بھی ایک مقام ہے، مگر اس سے مراد وہ خوشی وخوشحالی ہے جو خدا کے قانون کی پیروی سے اور اس کے نتیجے میں حاصل ہو۔ اور یہ خوشی وخوش حالی جسمانی ومادّی بھی ہے، ذہنی ونفسی بھی، آرٹسٹک اور روحانی بھی۔ نیز یہ خوشی وخوش حالی فرد کی بھی ہے، جماعت کی بھی اور تمام انسانیّت کی بھی۔ ان مختلف خوشیوں میں تصادم نہیں بلکہ توافق ہے۔
یہاں کمال کا بھی ایک مقام ہے، مگر وہ کمال جو خدا کے امتحان میں سو فیصدی نمبر پانے کا مستحق ہو۔ اور یہ فرد کا، جماعت کا، قوم کا، پوری انسانیت کا، غرض سب ہی کا کمال ہے۔ صحیح اَخلاقی طرزِ عمل وہ ہے جس سے ہر فرد نہ صرف خود کمال کی طرف ترقی کرے بلکہ دوسروں کی تکمیل میں بھی مددگار ہو اور کوئی کسی کی تکمیل میں مزاحم نہ ہو۔
یہاں کانٹ کے ’’قطعی واجب الاطاعت‘‘ (catagorical imperative)کو پوری عزت کی جگہ مل جاتی ہے، اور اس جہاز کو وہ لنگر بھی مل جاتا ہے جس کے بغیر یہ فلسفے کے دریا میں ڈگمگا رہا تھا۔ جس قطعی واجب الاطاعت قانون کا ذکر کانٹ نے کیا ہے اور جس کی وہ خود کوئی توضیح نہ کر سکا، دراصل وہ خدا کا قانون ہے۔ خدا ہی کی طرف سے اس کی صورت معین کی گئی ہے، خدا ہی کا قانون ہونے کی وجہ سے وہ واجب الاطاعت ہے، اور اسی کی بے چون وچرا اطاعت کا نام نیکی ہے۔
اسی طرح یہاں اَخلاقی خیر وشر کے علم کا جو مآخذ ہمیں بتایا گیا ہے وہ ان دوسرے ذرائعِ علم کی نفی نہیں کرتا جن کی طرف فلاسفہ رجوع کرتے ہیں بلکہ ان سب کو ایک سِسٹم کا جُز بنا لیتا ہے۔ البتہ وہ نفی جس چیز کی کرتا ہے‘ وہ صرف یہ بات ہے کہ انہیں، یا ان میں سے کسی ایک کو اصلی اور آخری ذریعۂ علم کی حیثیت سے لے لیا جائے۔ خدا کی ہدایت کے ذریعے سے خیر وشر کا جو علم ہمیں بخشا گیا ہے وہ اصل علم ہے۔ رہا تجربی علم، قوانینِ حیات اور حالاتِ وجود سے استنباط کیا ہوا علم، عقلی علم، اور وجدانی علم، تو یہ سب اس اصلی علم کے شواہد ہیں۔ جن چیزوں کو خدا کی ہدایت خیر کہتی ہے، انسانیت کا تجربہ ان کے خیر ہونے پر شہادت دیتا ہے۔، قوانینِ حیات اس کی تصدیق کرتے ہیں، عقل اور وجدان دونوں اس پر گواہ ہیں لیکن معیارِ صداقت خدائی ہدایت ہی ہے نہ کہ یہ ذرائع علم۔ انسانیت کے تاریخی تجربات سے، یا قوانین ِ حیات سے اگر کوئی ایسا استنباط کیا جائے یا عقل اور وجدان سے کوئی ایسی رائے قائم کی جائے جو خدا کی ہدایت کے خلاف ہو تو اصل اعتبار خدا کی ہدایت کا کیا جائے گا، نہ کہ اُس استنباط یا اُس رائے کا۔ ہمارے پاس علم کا ایک مستند معیار ہونے کا فائدہ ہی یہ ہے کہ ہمارے علوم میں ڈسپلن پیدا ہو اور ہم اُس انار کی اور بد نظمی سے بچ جائیں جو کسی معیار کے نہ ہونے اور اعجابُ کل ذی رایٍ برأیہٖ سے پیدا ہوتی ہے۔
اسی طرح یہاں قانونِ اَخلاق کی پشتیبان قوّت (sanction) اور محرکات کا مسئلہ بھی اس طور پر حل ہوتا ہے کہ اس سے ان دوسری چیزوں کی نفی نہیں ہوتی جو فلسفیوں نے تجویز کی ہیں، بلکہ صرف ان کی تصحیح ہو جاتی ہے، اور جن غلَط حدود پر وہ پھیلا دی گئی ہیں یا خود پھیل جاتی ہیں‘ وہاں سے ان کو ہٹا کر ایک جامع سسٹم میں ٹھیک مقام پر رکھ دیا جاتا ہے۔ خدا کا قانون، اس لیے کہ وہ خدا کا قانون ہے، اپنے قیام کی طاقت آپ اپنے اندر رکھتا ہے، اور یہ طاقت اُس مومن کے نفس میں بھی موجود ہے جو خدا کی رضا چاہنے میں خوشی محسوس کرتا ہے اور خود اس کمال کا طالب ہے جو خدا کی طرف بڑھنے سے حاصل ہو‘ نیز یہ طاقت مومنین کی سوسائٹی اور اُس صالح ریاست میں بھی موجود ہے جو خدا کے قانون پر مبنی ہو، قانون کی پابندی پر مومن کو آمادہ کرنے والی چیز اُس کی خالص فرض شناسی بھی ہے، اُس کا حق کو حق جانتے ہوئے اسے پسند کرنا اور باطل کو باطل سمجھتے ہوئے اس سے نفرت کرنا بھی ہے، اور وہ طمع اور خوف بھی ہے جو وہ اپنے خدا سے رکھتا ہے۔
اِسلامی تصوّرِ اَخلاق کا انسانی زندگی پر اثر
دیکھیے، اس طرح اِسلام اُس پوری فکری اور عملی انار کی کو ختم کر دیتا ہے جو انسان کو بے خدا فرض کرکے اس کے لیے ایک نظامِ اَخلاق تجویز کرنے کی کوششوں سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے بعد آگے چلیے۔ اِسلام خدا کا جو تصوّر پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا ہی انسان کا اور ساری کائنات کا واحد مالک، خالق، معبود اور حاکم ہے۔ اس خدائی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ اس کے ہاں بجز دعائے خیر کے کسی ایسی سفارش کی گنجائش بھی نہیں جو زور سے منوائی جاتی ہو اور ردّ نہ کی جا سکتی ہو۔ اس کے ہاں ہر شخص کی کامیابی وناکامی کا مدار اس کے اپنے طرز عمل پر ہے۔ نہ کوئی کسی کا کفارہ بن سکتا ہے، نہ کسی کے عمل کی ذمہ داری دوسرے پر ڈالی جاتی ہے، اور نہ کسی کے عمل کا صلہ دوسرے کو ملتا ہے۔ اس کے ہاں جانبداری نہیں کہ ایک شخص یا خاندان یا قوم یا نسل سے اسے دوسرے کی بہ نسبت زیادہ دل چسپی ہو۔ سب انسان اس کی نگاہ میں یکساں ہیں، سب کے لیے ایک ہی قانونِ اَخلاق ہے اور فضیلت جو کچھ بھی ہے اَخلاقی فضیلت کے اعتبار سے ہے۔ وہ خود رحیم ہے اور رحم کو پسند کرتا ہے۔ وہ خود فیاض ہے اور فیاضی کو پسند کرتا ہے۔ وہ خود غفور ہے اور درگزر کو پسند کرتا ہے۔ وہ خود عادل ہے اور عدل کو پسند کرتا ہے۔ وہ خود ظلم سے، تنگ نظری وتنگ دلی سے، بے رحمی و سنگ دلی سے، تعصب اور نفسانی جانبداری سے پاک ہے، اس لیے انھی کو پسند کرتا ہے جو ان صفات سے مُتّصِف ہوں۔ پھر کبریائی تنہا اسی کا حق ہے‘ اس لیے تکبر اُسے ناپسند ہے، خدائی صرف اسی کے لیے ہے اور دوسرے سب اس کے بندے ہیں‘ اس لیے ایک بندے پر‘ دوسرے کی خداوندی اسے پسند نہیں۔ مالک وہ اکیلا ہے اور دوسروں کے پاس جو کچھ ہے امانت کی حیثیت سے ہے، اس لیے کسی بندے کی خود مختاری اور کسی کا کسی کے لیے قانون بنانا اور کسی کا کسی کے لیے بذاتِ خود واجب الاطاعت ہونا یہ سب فی الحقیقت غلَط ہے۔ سب کا مطاع وہی ایک ہے اور سب کے لیے خیر اِسی میں ہے کہ اس کی بے چون وچرا اطاعت کریں۔ پھر وہ محسن ہے اور شکر، احسان مندی اور مَحبّت کا مستحق ہے۔ وہ منعم ہے اور اس کا حق دار ہے کہ اس کی نعمتوں میں اسی کے منشا کے مطابق تصرّف کیا جائے۔ وہ منصف ہے اور لازم ہے کہ انسان اس کے انصاف میں سزا پانے کا خوف اور جزا پانے کی طمع رکھے۔ وہ علیم و خبیر ہے اور دلوں کی چھپی ہوئی نیتوں سے بھی واقف ہے، اس لیے ظاہری حُسنِ اَخلاق سے اسے دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ وہ محیط ہے اس لیے کوئی یہ امید بھی نہیں کر سکتا کہ جرم کرکے اس کی پکڑ سے بچ نکلے گا۔
خدا کے اس تصوّر پر غور کیجیے۔ اس سے بالکل ایک فطری نتیجے کے طور پر انسان کے لیے ایک مکمل اَخلاقی زندگی کا نقشہ وجود میں آتا ہے اور وہ نقشہ ان تمام کم زوریوں سے خالی ہے جو مشرکانہ مذاہب کے اَخلاقیات اور دہریانہ مسلکوں کے اَخلاقیات میں پائے جاتے ہیں۔ یہاں نہ تو اَخلاقی ذمّہ داریوں سے بچ نکلنے کے دروازے کہیں موجود ہیں، نہ ان ظالمانہ فلسفوں کے لیے کوئی جگہ ہے جن کی بنا پر انسان اپنی دل چسپیوں کے لحاظ سے عالمِ انسانیت کو تقسیم کرکے ایک حصے کے لیے مجسم فرشتہ اوردوسرے حصے کے لیے مجسم شیطان بن جاتا ہے۔ نہ دہریانہ اَخلاقیات کی وہ بنیادی کم زوریاں اس میں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے اَخلاق میں کوئی استحکام پیدا نہیں ہو سکتا۔ ان سلبی خوبیوں کے ساتھ اس نقشے میں یہ ایجابی خوبی موجود ہے کہ یہ اَخلاقی فضیلت کا ایک بلند ترین اور وسیع ترین منتہا پیش کرتا ہے جس کی وسعت اور بلندی کی کوئی حد نہیں، اور اس منتہا کی طرف بڑھنے کے لیے ایسے محرکات فراہم کرتا ہے جو پاکیزہ ترین ہیں۔
پھر یہ تصوّر کہ امتحان کسی ایک چیز میں نہیں بلکہ ان تمام چیزوں میں ہے جو خدا نے انسان کو دی ہیں، کسی ایک حیثیت میں نہیں بلکہ ان تمام حیثیتوں میں ہے جو انسانوں کو یہاں حاصل ہیں، اور کسی ایک شعبۂ حیات میں نہیں بلکہ پوری زندگی میں ہے، یہ اَخلاق کے دائرے کو اتنا ہی پھیلا دیتا ہے جتنا امتحان کا دائرہ پھیلا ہوا ہے۔ انسان کی عقل، اس کے ذرائع علم، اس کی ذہنی وفکری قوتیں، اس کے حواس، اس کے جذبات، اس کی خواہشات، اس کی جسمانی طاقتیں، سب کی سب امتحان میں شریک ہیں، یعنی امتحان آدمی کی پوری شخصیت کا ہے۔ پھر خارج کی دُنیا میں جن جن اشیا سے آدمی کو سابقہ پیش آتا ہے، جن اشیا پر وہ تصرّف کرتا ہے، جن انسانوں سے مختلف طور پر اسے واسطہ پڑتا ہے، ان سب کے ساتھ اس کے برتائو میں امتحان ہے۔ اور سب سے بڑھ کر اس امر میں امتحان ہے کہ انسان یہ سب کچھ خدا کی خداوندی اور اپنی عبدیّت ونیا بت کے احساس کے ساتھ کر رہا ہے یا آزادی وخود مختاری کی ہوا میں مبتلا ہو کر؟ یا خدا کے سوا دوسروں کا بندہ بن کر؟ اس وسیع ترین تصوّرِ اَخلاق میں وہ تنگی نہیں ہے جو مذہب کے محدود تصوّر سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ آدمی کو زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھاتا ہے‘ ہر میدان کی اَخلاقی ذمّہ داریاں اسے بتاتا ہے، اور وہ اَخلاقی اصول اسے دیتا ہے جن کی پیروی کرنے سے وہ خدا کے اس امتحان میں کام یاب ہو سکے جو ایک ایک میدانِ زندگی سے متعلق ہے۔
پھر یہ تصوّر کہ امتحان کا اصلی اور آخری فیصلہ اس زندگی میں نہیں بلکہ دوسری زندگی میں ہو گا اور حقیقی کامیابی وناکامی وہ ہے جو وہاں ہو نہ کہ یہاں، یہ دُنیا کی زندگی اور اس کے معاملات پر انسان کی نظر کو بنیادی طور پر بدل دیتا ہے۔ اس تصوّر کی وجہ سے وہ نتائج جو اس دُنیا میں نکلتے ہیں ہمارے لیے حُسن وقبح، صحت اور غلطی، حق اور باطل، اور کامیابی وناکامی کے قطعی، اصلی اور آخری معیار نہیں رہتے۔ اس لیے قانونِ اَخلاق کی پیروی کرنے یا نہ کرنے کا انحصار بھی ان نتائج پر نہیں ہو سکتا۔ جو شخص اس تصوّر کو قبول کر لے گا وہ قانونِ اَخلاق کی پیروی پر بہرحال ثابت قدم رہے گا خواہ اس دُنیا میں اس کا نتیجہ بظاہر اچھا ہو یا بُرا، کامیابی کی صورت میں نکلتانظر آئے یا ناکامی کی صورت میں۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کی نگاہ میں دنیوی نتائج بالکل ہی ناقابل لحاظ ہوں گے۔ بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ وہ اصلی اور آخری لحاظ ان کا نہیں بلکہ آخرت کے پائیدار نتائج کا کرے گا اور اپنے لیے صحیح صرف اس طرزِ عمل کو سمجھے گا جو اِن نتائج پر نگاہ رکھتے ہوئے اختیار کیا جائے۔ وہ کسی چیز کو چھوڑنے اور کسی کو اختیار کرنے کا فیصلہ اس بنیاد پر نہیں کرے گا کہ زندگی کے اس ابتدائی مرحلے میں وہ لذّت اور خوشی اور نفع کی موجب ہے یا نہیں۔ بلکہ اس بنیاد پر کرے گا کہ زندگی کے آخری مرحلے میں اپنے قطعی وحتمی نتائج کے اعتبار سے وہ کیسی ہے۔ اس طرح اس کا نظامِ اَخلاق ترقی پذیر تو ضرور رہے گا مگر اس کے اصولِ اَخلاق تغیر پذیر نہ ہوں گے‘ اور نہ اس کی سیرت ہی تلوّن پذیر ہو گی۔یعنی تمدن وتہذیب کے نشوونما کے ساتھ ساتھ اس کے اَخلاقی تصوّرات میں وسعت تو یقینا ہو گی‘ مگر یہ ممکن نہ ہو گا کہ واقعات کی ہر کروٹ اور حالات کی ہرگردش کے ساتھ اَخلاق کے اصول بھی بدلتے چلے جائیں اور آدمی ایک اَخلاقی گرگٹ بن کر رہ جائے کہ اس کے اَخلاقی رویّے میں سرے سے کوئی پائیدار ی ہی نہ ہو۔
پس اَخلاق کے نقطۂ نظر سے آخرت کا یہ اِسلامی تصوّر دو اہم فائدے عطا کرتا ہے جو کسی دوسرے ذریعے سے حاصل نہیں ہو سکتے۔ ایک یہ کہ اس سے اصولِ اَخلاق کو غایت درجہ کا استحکام نصیب ہوتا ہے جس میں تَزلزُل کا کوئی خطرہ نہیں۔ دوسرے یہ کہ اس سے انسان کی اَخلاقی سیرت کو وہ استقامت میسّر آتی ہے جس میں (بشرطِ ایمان) انحراف کا کوئی اندیشہ نہیں۔ دُنیا میں سچائی کے دس مختلف نتیجے نکل سکتے ہیں اور ان نتائج پر نگاہ رکھنے والا ایک ابن الوقت انسان مواقع اور امکانات کے لحاظ سے دس مختلف طرزِ عمل اختیار کر سکتا ہے۔ لیکن آخرت میں سچائی کا نتیجہ لازماً ایک ہی ہے اور اس پر نظر رکھنے والا ایک مومن انسان دنیوی فائدے اور نقصان کا لحاظ کیے بغیر لازماً ایک ہی طرز عمل اختیار کرے گا۔ دنیوی نتائج کا اعتبار کیجیے تو خیر وشر کسی متعین چیز کا نام نہیں رہتا بلکہ ایک ہی چیز اپنے مختلف نتیجوں کے لحاظ سے کبھی خیر اور کبھی شر بنتی رہتی ہے اور اس کے اتباع میں دُنیا پرست آدمی کا کردار بھی اپنی پوزیشن تبدیل کرتا رہتا ہے۔ لیکن آخرت کے نتائج پر نظر رکھیے تو خیر اور شر دونوں قطعی طور پر متعین ہو جاتے ہیں اور مومن بالآخرۃ آدمی کے لیے یہ ناممکن ہو جاتا ہے کہ کبھی خیر کو بدانجام یا شر کو نیک انجام سمجھ کر اپنے کردار کو بدل دے۔
پھر یہ تصوّر کہ انسان اس دُنیا میں خدا کا خلیفہ ہے اور تصرّف کے جو اختیارات یہاں اسے حاصل ہیں وہ سب دراصل نائبِ خدا ہونے کی حیثیت سے ہیں، انسانی زندگی کے لیے راستے اور مقصد دونوں کا تعیّن کردیتا ہے۔ اس تصوّر سے لازم آتا ہے کہ انسان کے لیے خود مختاری اور بندگیِ غیر اور خداوندانہ بڑائی کے تمام رویّے غلَط ہوں اور صرف یہی ایک رویّہ صحیح ہو کہ اپنے تمام تصرفات میں وہ خدا کی مرضی کا تابع اور اس کے نازل کردہ اَخلاقی قانون کا پابند بن کر رہے۔ نیز اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ انسان ایک طرف تو اپنے اَخلاقی رویّے میں ہر ایسے طرزِ عمل سے بشدت اجتناب کرے جس میں خود مختاری وبغاوت کا، یا خدا کے سوا کسی اور کی بندگی کا، یا خداوندانہ کبریائی کا ذرّہ برابر شائبہ پایا جاتا ہو، کیوں کہ یہ تینوں چیزیں اس کی نائبانہ حیثیت کے منافی ہیں‘ مگر دوسری طرف خدا کی املاک میں اس کا تصرّف، اور خدا کی پیدا کردہ قوتوں میں اس کا برتائو، اور خدا کی رعیّت میں اس کی فرماں روائی اس اَخلاق اور اس برتائو کے عین مطابق ہو جو اس سلطنت کا اصل مالک اپنے ملک اور اپنی رعیّت میں اختیار کر رہا ہے، کیوں کہ نائبانہ حیثیت کا فطری اقتضا یہی ہے کہ نائبِ سلطان کی پالیسی خود سلطان کی پالیسی سے اور نائبِ سلطان کے اَخلاق خود سلطان کے اَخلاق سے منافی نہ ہوں۔ نیز اس تصوّر سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ جو قوتیں اللہ نے انسان کو عطا کی ہیں اور جو ذرائع ا ور وسائل اسے دُنیا میں بخشے ہیں ان سب کو استعمال کرنے اور منشائِ الٰہی کے مطابق استعمال کرنے پر انسان مامور ہو، یعنی دوسرے الفاظ میں وہ نائبِ سلطان بھی سخت مجرم ہو جس نے سلطان کے منشا کے خلاف اس کی مِلک اور اس کی رعیّت میں تصرف کیا، اور وہ نائب بھی بڑا مجرم قرار پائے جس نے سلطان کے دیے ہوئے اختیارات میں سے کسی اختیار کو سرے سے استعمال ہی نہ کیا بلکہ اس کی بخشی ہوئی قوتوں میں سے کسی قوت کو بلاوجہ ضائع کر دیا، اس کے بنائے ہوئے ذرائع ووسائل سے کام لینے میں جان بوجھ کر کوتاہی کی اور اس ڈیوٹی سے منہ موڑ کر کھڑا ہو گیا جس پر سلطان نے اسے مامور کیا تھا۔ نیز اس تصوّر سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ پوری نوعِ انسانی کی اجتماعی زندگی ایسے ڈھنگ پر قائم ہو کہ سارے انسان، یعنی خدا کے سب خلیفہ، ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں جو خدا نے ان پر عائد کی ہیں، ایک دوسرے کے معاون ومددگار ہوں، اور نظامِ تمدن وعمران میں ایسی کوئی چیز کار فرما نہ رہے جس کی وجہ سے ایک انسان دوسرے انسان کی، یا انسانوں کا ایک گروہ دوسرے گروہ کی خلافت کو عملاً سلب کر لے یا اس کے اجرا میں مانع و مزاحم ہو، بجز اس صورت کے جبکہ کوئی انسان یا گروہ انسانی خلافت سے محروم ہو کر اپنے حقیقی سلطان سے بغاوت کا مرتکب ہو رہا ہو۔
یہ تو ہے وہ اَخلاقی منہاج جو تصوّرِ خلافت سے ایک لازمی نتیجے کے طور پر انسان کے لیے بنتی ہے۔ رہا انسان کی اَخلاقی زندگی کا مقصد اور اس کی تمام سعی وعمل کا نصب العین تو وہ بھی اسی تصوّر سے بالکل ایک منطقی لزوم کے ساتھ متعین ہوتا ہے۔ نائب سلطان کی حیثیت سے انسان کا زمین پر مامور ہونا خود بخود اس بات کا مقتضی ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد زمین پر خدا کی مرضی پوری کرنے کے سوا اورکچھ نہ ہو۔ خدا نے زمین کے انتظام کا جتنا حصہ انسان سے متعلق کیا ہے اس حصے میں خدا کے قانون کو جاری کرنا، خدا کے منشا کے مطابق امن اور عدل اور صلاح کا نظام قائم کرنا اور قائم رکھنا، اس نظام میں شروفساد کی جو صورتیں شیاطین جِنّ واِنس پیدا کریں انھیں دبانا اور مٹانا، اور ان بھلائیوں کو زیادہ سے زیادہ نشوونما دینا جو خدا کو محبوب ہیں اور جن سے خداوند عالم اپنی زمین اور اپنی رعیّت کو آراستہ دیکھنا چاہتا ہے، یہ ہے وہ مقصد جس پر ہر وہ انسان اپنی تمام مساعی کو مرکوز کر دے گا جس کے اندر خلیفۂ اِلٰہی ہونے کا شعور پیدا ہو چکا ہو۔ یہ مقصد صرف یہی نہیں کہ ان تمام مقاصد کی نفی کر دیتا ہے جو لذّت پرستوں اور مادہ پرستوں اور قوم پرستوں اور دوسرے مہملات کے پرستاروں نے اپنی زندگی کے لیے مقرر کیے ہیں، بلکہ یہ ان لایعنی مقاصد کی بھی اتنی ہی شدت کے ساتھ نفی کرتا ہے جو روحانیت کے ایک غلط تصوّر کے تحت اہلِ مذاہب نے متعین کیے ہیں۔ ان دونوں غلَط انتہائوں کے درمیان خلافتِ الٰہیہ کا تصوّر انسان کے سامنے ایک ایسا بلند ترین اور پاکیزہ ترین مقصد حیات رکھ دیتا ہے جو اس کی ساری قوتوں اور قابلیتوں کو زندگی کے ہر میدان میں برسرِ کار لاتا ہے اور انھیں ایک صالح ترین نظامِ تہذیب وتمدن کے قیام وارتقا کی خدمت میں استعمال کرتا ہے۔
یہ ہیں وہ بنیادیں جو اَخلاقِ انسانی کی تعمیر کے لیے اِسلام نے ہم کو دی ہیں۔ اِسلام کسی ایک قوم کی جائداد نہیں بلکہ تمام انسانیّت کی مشترک میراث ہے اور سارے انسانوں کی فلاح اس کے پیشِ نظر ہے۔ اس لیے ہر اُس شخص کو جواپنی اور انسانیت کی فلاح کا خواہش مند ہو، یہ سوچنا چاہیے کہ آیا انسانی اَخلاق کی تعمیر کے لیے یہ بنیادیں بہتر ہیں جو اِسلام ہمیں دے رہا ہے یا وہ جو روحانی مذاہب یا فلسفیانہ مسالک ہمیں دیتے ہیں؟ اگر کسی کا دل گواہی دے کہ اَخلاق کے لیے یہی بنیادیں صحیح ہیں تو پھر کوئی جاہلانہ تعصّب اسے ان بنیادوں کے قبول کر لینے میں مانع نہ ہونا چاہیے۔
٭…٭…٭…٭…٭
تحریکِ اِسلامی کی اَخلاقی بُنیادیں
(یہ تقریر۲۱؍ اپریل ۱۹۴۵ء کو دارالاسلام، نزد پٹھان کوٹ (مشرقی پنجاب) میں جماعتِ اِسلامی کے
کل ہند اجتماع کے آخری اجلاس میں کی گئی تھی)
رفقاوحاضرین! جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، ہماری جدوجہد کا آخری مقصود ’’انقلابِ امامت‘‘ ہے۔ یعنی دُنیا میں ہم جس انتہائی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ فُسّاق وفجّار کی امامت وقیادت ختم ہو کر امامتِ صالحہ کا نظام قائم ہو۔ اسی مقصدِ عظیم کے لیے سعی وجہد کو ہم دُنیا وآخرت میں رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
یہ چیز جسے ہم نے اپنا مقصد قرار دیا ہے افسوس ہے کہ آج اس کی اہمیت سے مسلم اور غیر مسلم سبھی غافل ہیں۔ مسلمان اسے محض سیاسی مقصد سمجھتے ہیں اور انھیں کچھ احساس نہیں ہے کہ دین میں اس کی کیا اہمیت ہے۔ غیر مسلم کچھ تعصب کی بنا پر اورکچھ ناواقفیت کی وجہ سے اس حقیقت کو جانتے ہی نہیں کہ دراصل فُسّاق وفجّار کی قیادت ہی نوعِ انسانی کے مصائب کی جڑ ہے اور انسان کی بھلائی کا سارا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ دُنیا کے معاملات کی سربراہ کاری صالح لوگوں کے ہاتھوں میں ہو۔ آج دُنیا میں جو فسادِ عظیم برپا ہے ، جو ظلم اور طغیان ہو رہا ہے، انسانی اَخلاق میں جو عالم گیر بگاڑ رُونما ہے، انسانی تمدن ومعیشت وسیاست کی رگ رگ میں جو زہر سرایت کر گئے ہیں، زمین کے تمام وسائل اور انسانی علوم کی دریافت کردہ ساری قوتیں جس طرح انسان کی فلاح وبہبود کے بجائے اُس کی تباہی کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، ان سب کی ذمہ داری اگر کسی چیز پر ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ دُنیا میں چاہے نیک لوگوں اور شریف انسانوں کی کمی نہ ہو، مگر دُنیا کے معاملات اُن کے ہاتھ میں نہیں ہیں، بلکہ خدا سے پھرے ہوئے اور مادّہ پرستی وبداَخلاقی میں ڈوبے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ اب اگر کوئی شخص دُنیا کی اصلاح چاہتا ہو اورفساد کو صلاح سے، اضطراب کو امن سے، بداَخلاقیوں کو اَخلاقِ صالحہ سے اور برائیوں کو بھلائیوں سے بدلنے کا خواہش مند ہو تو اس کے لیے محض نیکیوں کا وعظ اور خدا پرستی کی تلقین اور حُسنِ اَخلاق کی ترغیب ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس کا فرض ہے کہ نوعِ انسانی میں جتنے صالح عناصر اسے مل سکیں انھیں ملا کر وہ اجتماعی قوت بہم پہنچائے جس سے تمدّن کی زمام کار فاسقوں سے چھینی جا سکے اورامامت کے نظام میں تغیر کیا جا سکے۔
زمامِ کار کی اہمیت
انسانی زندگی کے مسائل میں جس کو تھوڑی سی بصیرت حاصل ہو، وہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں رہ سکتا کہ انسانی معاملات کے بنائو اور بگاڑ کا آخری فیصلہ جس مسئلے پر منحصر ہے وہ یہ سوال ہے کہ معاملات انسانی کی زمامِ کار کس کے ہاتھ میں ہے۔ جس طرح گاڑی ہمیشہ اس طرف چلا کرتی ہے، جس سمت پر ڈرائیور اسے لے جانا چاہتا ہے اور دوسرے لوگ جو گاڑی میں بیٹھے ہوں، خواستہ وناخواستہ اُسی سمت پر سفر کرنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں، اِسی طرح انسانی تمدن کی گاڑی بھی اسی سمت پر سفر کیا کرتی ہے جس سمت پر وہ لوگ جانا چاہتے ہیں جن کے ہاتھ میں تمدن کی باگیں ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ زمین کے سارے ذرائع جن کے قابو میں ہوں، قوت واقتدار کی باگیں جن کے ہاتھ میں ہوں، عام انسانوں کی زندگی جن کے دامن سے وابستہ ہو، خیالات وافکار ونظریات کو بنانے اور ڈھالنے کے وسائل جن کے قبضے میں ہوں، انفرادی سیرتوں کی تعمیر اور اجتماعی نظام کی تشکیل اور اَخلاقی قدروں کی تعیین جن کے اختیار میں ہو، ان کی راہ نمائی وفرماں روائی کے تحت رہتے ہوئے انسانیت بحیثیت مجموعی اس راہ پر چلنے سے کسی طرح باز نہیں رہ سکتی جس پر وہ اسے چلانا چاہتے ہیں۔ یہ راہ نما وفرماں روا اگر خدا پرست اور صالح لوگ ہوں تو لامحالہ زندگی کا سارا نظام خدا پرستی اور خیر وصلاح پر چلے گا، بُرے لوگ بھی اچھے بننے پر مجبور ہوں گے، بھلائیوں کو نشوونما نصیب ہو گی اور برائیاں اگر مٹیں گی نہیں تو کم از کم پروان بھی نہ چڑھ سکیں گی لیکن اگر راہ نمائی وقیادت اور فرمانروائی کا یہ اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو خدا سے برگشتہ اور فسق وفجور میں سرگشتہ ہوں تو آپ سے آپ سارا نظامِ زندگی خدا سے بغاوت اورظلم وبد اَخلاقی پر چلے گا، خیالات ونظریات، علوم وآداب، سیاست ومعیشت، تہذیب ومعاشرت، اَخلاق ومعاملات، عدل وقانون، سب کے سب بحیثیت مجموعی بگڑ جائیں گے۔ برائیاں خوب نشوونما پائیں گی۔ بھلائیوں کو زمین اپنے اندر جگہ دینے سے اور ہوا اور پانی انھیں غذا دینے سے انکار کر دیں گے اور خدا کی زمین ظلم وجور سے لبریز ہو کر رہے گی، ایسے نظام میں برائی کی راہ چلنا آسان اور بھلائی کی راہ پر چلنا کیا معنی، قائم رہنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ جس طرح آپ نے کسی بڑے مجمع میں دیکھا ہو گا کہ سارا مجمع جس طرف جا رہا ہو اس طرف چلنے کے لیے تو آدمی کو کچھ قوت لگانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ مجمع کی قوت سے خود بخود اسی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے، لیکن اگر اس کی مخالف سمت میں کوئی چلنا چاہے تو وہ بہت زور مار کر بھی بہ مشکل ایک آدھ قدم چل سکتا ہے، اور جتنے قدم وہ چلتا ہے جمع کا ایک ہی ریلا اس سے کئی گنے زیادہ قدم اُسے پیچھے دھکیل دیتا ہے، اسی طرح اجتماعی نظام بھی جب غیر صالح لوگوں کی قیادت میں کفر وفسق کی راہوں پر چل پڑتا ہے تو افراد اورگروہوں کے لیے غلَط راہ پر چلنا تو اتنا آسان ہوجاتا ہے کہ انھیں بطور خود اس پر چلنے کے لیے کچھ زورلگانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ لیکن اگر وہ اس کے خلاف چلنا چاہیں تو اپنے جسم وجاں کا سارا زور لگانے پر بھی ایک آدھ قدم ہی راہِ راست پر بڑھ سکتے ہیں اور اجتماعی رو اُن کی مزاحمت کے باوجود انھیں دھکیل کر میلوں پیچھے ہٹا لے جاتی ہے۔
یہ بات جو میں عرض کر رہا ہوں، یہ اب کوئی ایسی نظری حقیقت نہیں رہی ہے جسے ثابت کرنے کے لیے دلائل کی ضرورت ہو، بلکہ واقعات نے اسے ایک بدیہی حقیقت بنا دیا ہے جس سے کوئی صاحبِ دیدۂ بینا انکار نہیں کر سکتا۔ آپ خود ہی دیکھ لیں کہ پچھلے سو برس کے اندر آپ کے اپنے ملک میں کس طرح خیالات ونظریات بدلے ہیں، مذاق اور مزاج بدلے ہیں، سوچنے کے انداز اور دیکھنے کے زاویے بدلے ہیں، تہذیب واَخلاق کے معیار اور قدروقیمت کے پیمانے بدلے ہیں، اور کون سی چیز رہ گئی ہے جو بدل نہ گئی ہو۔ یہ سارا تغیر جو دیکھتے دیکھتے آپ کی اسی سرزمین میں ہوا اس کی اصلی وجہ آخر کیا ہے؟ کیا آپ اس کی وجہ اس کے سوا کچھ اور بتا سکتے ہیں کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں زمامِ کار تھی، اور راہ نمائی و فرمانروائی کی باگوں پر جن کا قبضہ تھا، انھوں نے پورے ملک کے اَخلاق، اذہان، نفسیات، معاملات اور نظامِ تمدّن کو اُس سانچے میں ڈال کر رکھ دیا جو اُن کی اپنی پسند کے مطابق تھا؟ پھر جن طاقتوں نے اس تغیر کی مزاحمت کی ذرا ناپ کردیکھیے کہ انھیں کامیابی کتنی ہوئی اور ناکامی کتنی۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ کل جو مزاحمت کی تحریک کے پیشوا تھے، آج اُن کی اولاد وقت کی رَو میں بہی چلی جا رہی ہے اور ان کے گھروں تک میں بھی وہی سب کچھ پہنچ گیا ہے جو گھروں سے باہر پھیل چکا تھا؟ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ مقدس ترین مذہبی پیشوائوں تک کی نسل سے وہ لوگ اٹھ رہے ہیں جنھیں خدا کے وجود اور وحی ورسالت کے امکان میں بھی شک ہے؟ اس مشاہدے اور تجربے کے بعد بھی کیا کسی کو اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں تامل ہو سکتا ہے کہ انسانی زندگی کے مسائل میں اصل فیصلہ کُن مسئلہ زمامِ کار کا مسئلہ ہے؟ اور یہ اہمیت اس مسئلے نے کچھ آج ہی اختیار نہیں کی ہے بلکہ ہمیشہ سے اس کی یہی اہمیت رہی ہے۔ اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ بہت پرانا مقولہ ہے۔ اور اسی بنا پر حدیث میں قوموں کے بنائو اور بگاڑ کا ذمہ دار ان کے علما اور اُمرا کو قرار دیا گیا ہے، کیوں کہ لیڈر شپ اور زمامِ کار انھی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
امامتِ صالحہ کا قیام دین کا حقیقی مقصود ہے
اس تشریح کے بعد یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے کہ دین میں اس مسئلے کی کیا اہمیت ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ کا دین اوّل تو یہ چاہتا ہے کہ لوگ بالکلیہ بندۂ حق بن کر رہیں اور اُن کی گردن میں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کا حلقہ نہ ہو۔ پھر وہ چاہتا ہے کہ اللہ ہی کا قانون لوگوں کی زندگی کا قانون بن کر رہے۔ پھر اس کا مطالبہ یہ ہے کہ زمین سے فساد مٹے، اُن منکرات کا استیصال کیا جائے جو اہلِ زمین پر اللہ کے غضب کے موجب ہوتے ہیں اور اُن خیرات وحسنات کو فروغ دیا جائے جوا للہ کو پسند ہیں۔ ان تمام مقاصدمیں سے کوئی مقصد بھی اس طرح پورا نہیں ہو سکتا کہ نوعِ انسانی کی راہ نمائی وقیادت اور معاملاتِ انسانی کی سربراہ کاری ائمہ کفر وضلال کے ہاتھوں میں ہو اور دینِ حق کے پیرو محض اُن کے ماتحت رہ کر اُن کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائشوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یاد خدا کرتے رہیں۔ یہ مقاصد تو لازمی طور پر اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام اہلِ خیر وصلاح جو اللہ کی رضا کے طالب ہوں اجتماعی قوت پیدا کریں اور سردھڑ کی بازی لگا کر ایک ایسا نظامِ حق قائم کرنے کی سعی کریں جس میں امامت وراہ نمائی اور قیادت وفرماں روائی کا منصب مومنین صالحین کے ہاتھوں میں ہو۔ اس چیز کے بغیر وہ مدّعا حاصل نہیں ہو سکتا جو دین کا اصل مدّعا ہے۔
اسی لیے دین میں امامتِ صالحہ کے قیام اور نظامِ حق کی اقامت کو مقصدی اہمیت حاصل ہے اور اس چیز سے غفلت برتنے کے بعد کوئی عمل ایسا نہیں ہو سکتا جس سے انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کو پہنچ سکے۔ غور کیجیے، آخر قرآن وحدیث میں التزامِ جماعت اور سمع واطاعت پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص جماعت سے خروج اختیار کر لے تواس سے قتال واجب ہے خواہ وہ کلمۂ توحید کا قائل اور نماز روزے کا پابند ہی کیوں نہ ہو؟ کیا اس کی وجہ یہ اور صرف یہی نہیں ہے کہ امامتِ صالحہ اور نظامِ حق کا قیام وبقا دین کا حقیقی مقصود ہے اور اس مقصد کا حصول اجتماعی طاقت پر موقوف ہے، لہٰذا جو شخص اجتماعی طاقت کو نقصان پہنچاتا ہے وہ اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرتا ہے جس کی تلافی نہ نماز سے ہو سکتی ہے اور نہ اقرارِ توحید سے؟ پھر دیکھیے کہ آخر اس دین میں جہاد کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی ہے کہ اس سے جی چرانے اور منہ موڑنے والوں پرقرآن مجید نفاق کا حکم لگاتا ہے؟ جہاد، نظامِ حق کی سعی کا ہی تو دوسرا نام ہے، اور قرآن اسی جہاد کو وہ کسوٹی قرار دیتا ہے جس پر آدمی کا ایمان پرکھا جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر جس کے دل میں ایمان ہو گا وہ نہ تو نظامِ باطل کے تسلُّط پر راضی ہو سکتا ہے اور نہ نظامِ حق کے قیام کی جدوجہد میں جان و مال سے دریغ کرسکتا ہے ۔اس معاملے میں جو شخص کم زوری دکھائے اس کا ایمان ہی مشتبہ ہے، پھر بھلا کوئی دوسرا عمل اسے کیا نفع پہنچا سکتا ہے؟
اس وقت اتنا موقع نہیں ہے کہ میں آپ کے سامنے اس مسئلے کی پوری تفصیل بیان کروں مگر جو کچھ میں نے عرض کیا ہے وہ اس حقیقت کو ذہن نشین کرنے کے لیے بالکل کافی ہے کہ اِسلام کے نقطۂـ نظر سے امامتِ صالحہ کا قیام مرکزی اور مقصدی اہمیت رکھتا ہے۔ جو شخص اس دین پر ایمان لایا ہو اُس کا کام صرف اتنے ہی پر ختم نہیں ہو جاتا کہ اپنی زندگی کو حتی الامکان اِسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے بلکہ عین اس کے ایمان ہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی تمام سعی وجہد کو اس مقصد پر مرکوز کر دے کہ زمامِ کار کفار وفساق کے ہاتھ سے نکل کر صالحین کے ہاتھ میں آئے اور وہ نظامِ حق قائم ہو جو اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق دُنیا کے انتظام کو درست کرے اور درست رکھے۔ پھر چوں کہ یہ مقصد اعلیٰ اجتماعی کوشش کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا اس لیے ایک ایسی جماعتِ صالحہ کا وجود ضروری ہے جو خود اصولِ حق کی پابند ہو اور نظامِ حق کو قائم کرنے، باقی رکھنے اور ٹھیک ٹھیک چلانے کے سوا دُنیا میں کوئی دوسری غرض پیشِ نظر نہ رکھے۔ روئے زمین پر اگر صرف ایک ہی آدمی مومن ہو تب بھی اس کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ اپنے آپ کو اکیلا پاکر اور ذرائع مفقود دیکھ کر نظامِ باطل کے تسلّط پر راضی ہو جائے یا اہون البلیّتین کے شرعی حیلے تلاش کرکے غلبۂ کفر وفسق کے ماتحت کچھ آدھی پَونی مذہبی زندگی کا سودا چکانا شروع کر دے۔ بلکہ اس کے لیے سیدھا اور صاف راستہ یہی ایک ہے کہ بندگانِ خدا کو اس طریقِ زندگی کی طرف بلائے جو خدا کو پسند ہے۔ پھر اگر کوئی اس کی بات سن کر نہ دے تو اُس کا ساری عمر صراطِ مستقیم پر کھڑے ہو کر لوگوں کوپکارتے رہنا اور پکارتے پکارتے مر جانا اس سے لاکھ درجے بہتر ہے کہ وہ اپنی زبان سے وہ صدائیں بلند کرنے لگے جو ضلالت میں بھٹکی ہوئی دُنیا کو مرغوب ہوں، اور اُن راہوں پر چل پڑے جن پر کفار کی امامت میں دُنیا چل رہی ہو۔ اور اگر کچھ اللہ کے بندے اس کی بات سننے پر آمادہ ہو جائیں تو اس کے لیے لازم ہے کہ ان کے ساتھ مل کر ایک جتھا بنائے اور یہ جتھا اپنی تمام اجتماعی قوت اُس مقصد عظیم کے لیے جدوجہد کرنے میں صرف کر دے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں۔
حضرات! مجھے خدا نے دین کا جو تھوڑا بہت علم دیا ہے اور قرآن وحدیث کے مطالعے سے جو کچھ بصیرت مجھے حاصل ہوئی ہے اس سے میں دین کا تقاضا یہی کچھ سمجھا ہوں۔ یہی میرے نزدیک کتاب اِلٰہی کا مطالبہ ہے۔ یہی انبیا کی سنت ہے اور میں اپنی اس رائے سے ہٹ نہیں سکتا جب تک کوئی خدا کی کتاب اور رسولؐ کی سنت ہی سے مجھ پر ثابت نہ کر دے کہ دین کا یہ تقاضا نہیں ہے۔
امامت کے باب میں خدا کی سُنّت
اپنی سعی کے اس مقصد ومنتہا کو سمجھ لینے کے بعد اب ہمیں اُس سُنّت اللہ کو سمجھتے کی کوشش کرنی چاہیے جس کے ماتحت ہم اپنے اس مقصود کو پا سکتے ہیں۔ یہ کائنات جس میں ہم رہتے ہیں، اسے اللہ تعالیٰ نے ایک قانون پر بنایا ہے اور اس کی ہر چیز ایک لگے بندھے ضابطے پر چل رہی ہے۔ یہاں کوئی سعی محض پاکیزہ خواہشات اور اچھی نیتوں کی بنا پر کام یاب نہیں ہو سکتی اور نہ محض نفوسِ قدسیہ کی برکتیں ہی اسے بار آور کر سکتی ہیں، بلکہ اس کے لیے اُن شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے جو ایسی مساعی کی بار آور کر سکتی ہیں، بلکہ اس کے لیے اُن شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے جو ایسی مساعی کی بار آوری کے لیے قانونِ الٰہی میں مقرر ہیں۔ آپ اگر زراعت کریں تو خواہ آپ کتنے ہی بزرگ صفت انسان ہوں اور تسبیح وتہلیل میں کتنا ہی مبالغہ کرتے ہوں، بہرحال آپ کا پھینکا ہوا کوئی بیج بھی برگ وبار نہیں لا سکتا جب تک آپ اپنی سعیٔ کاشتکاری میں اُس قانون کی پوری پوری پابندی ملحوظ نہ رکھیں جو اللہ تعالیٰ نے کھیتوں کی بار آوری کے لیے مقرر کر دیا ہے۔ اسی طرح نظامِ امامت کا وہ انقلاب بھی جو آپ کے پیش نظر ہے، کبھی محض دعائوں اور پاک تمنائوں سے رُونمانہ ہو سکے گا بلکہ اس کے لیے بھی ناگزیر ہے کہ آپ اُس قانون کو سمجھیں اور اُس کی ساری شرطیں پوری کریں جس کے تحت دُنیا میں امامت قائم ہوتی ہے، کسی کو ملتی ہے اور کسی سے چھنتی ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی میں اس مضمون کو اپنی تحریروں اور تقریروں میں اشارۃً بیان کرتا رہا ہوں، لیکن آج میں اسے مزید تفصیل وتشریح کے ساتھ پیش کرنا چاہتا ہوں، کیوں کہ یہ وہ مضمون ہے جسے پوری طرح سمجھے بغیر ہمارے سامنے اپنی راہِ عمل واضح نہیں ہو سکتی۔
انسان کی ہستی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر دو مختلف حیثیتیں پائی جاتی ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں اور باہم ملی جلی بھی۔
اس کی ایک حیثیت تو یہ ہے کہ وہ اپنا ایک طبعی وحیوانی وجود رکھتا ہے جس پر وہی قوانین جاری ہوتے ہیں جو تمام طبیعیات وحیوانات پر فرماں روائی کر رہے ہیں۔ اس وجود کی کارکردگی منحصر ہے اُن آلات ووسائل پر، اُن مادی ذرائع پر، اور اُن طبعی حالات پر جن پر دوسری تمام طبعی اور حیوانی موجودات کی کارکردگی کا انحصار ہے۔ یہ وجود جو کچھ کر سکتا ہے قوانین طبعی کے تحت، آلات ووسائل کے ذریعے سے اور طبعی حالات کے اندر ہی رہتے ہوئے کر سکتا ہے اور اس کے کام پر عالمِ اسباب کی تمام قوتیں مخالف یا موافق اثر ڈالتی ہیں۔
دوسری حیثیت جو انسان کے اندر نمایاں نظر آتی ہے وہ اس کے انسان ہونے یا بالفاظِ دیگر ایک اَخلاقی وجود ہونے کی حیثیت ہے۔ یہ اَخلاقی وجود طبیعیات کا تابع نہیں ہے بلکہ اُن پر ایک طرح سے حُکُومت کرتا ہے۔ یہ خود انسان کے طبعی وحیوانی وجود کو بھی آلے کے طور پر استعمال کرتا ہے اور خارجی دُنیا کے اسباب کو بھی اپنا تابع بنانے اور اُن سے کام لینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی کارکن قوتیں وہ اَخلاقی اوصاف ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ نے انسان میں ودیعت فرمائے ہیں اور اس پر فرمانروائی بھی طبعی قوانین کی نہیں بلکہ اَخلاقی قوانین کی ہے۔
انسانی عروج وزوال کا مدار اَخلاق پر ہے
یہ دونوں حیثیتیں انسان کے اندر ملی جلی کام کر رہی ہیں اور مجموعی طور پر اس کی کامیابی وناکامی اور اس کے عروج وزوال کا مدار مادّی اور اَخلاقی دونوں قسم کی قوتوں پر ہے۔ وہ بے نیاز تو نہ مادّی قوت ہی سے ہو سکتا ہے اور نہ اَخلاقی قوت ہی سے۔ اسے عروج ہوتا ہے تو دونوں کے بل پر ہوتا ہے۔ اور وہ گرتا ہے تو اُسی وقت گرتا ہے جب یہ دونوں طاقتیں اس کے ہاتھ سے جاتی رہتی ہیں یا اُن میں وہ دوسروں کی بہ نسبت کم زور ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر غائر نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی زندگی میں اصل فیصلہ کن اہمیت اَخلاقی طاقت کی ہے نہ کہ مادّی طاقت کی۔ اس میں شک نہیں کہ مادّی وسائل کا حصول، طبعی ذرائع کا استعمال، اور اسبابِ خارجی کی موافقت بھی کامیابی کے لیے شرطِ لازم ہے اور جب تک انسان اس عالمِ طبعی میں رہتا ہے یہ شرط کسی طرح ساقط نہیں ہو سکتی مگر وہ اصل چیز جو انسان کو گراتی اور اٹھاتی ہے اور جسے اس کی قسمت کے بنانے اور بگاڑنے میں سب سے بڑھ کر دخل حاصل ہے وہ اَخلاقی طاقت ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم جس چیز کی وجہ سے انسان کو انسان کہتے ہیں وہ اُس کی جسمانیت یا حیوانیت نہیں بلکہ اس کی اَخلاقیت ہے۔ آدمی دوسری موجودات سے جس خصوصیت کی بنا پر ممیز ہوتا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ وہ جگہ گھیرتا ہے یا سانس لیتا ہے یا نسل کشی کرتا ہے بلکہ اس کی وہ امتیازی خصوصیت جو اسے ایک مستقل نوع ہی نہیں خلیفۃ اللہ فی الارض بناتی ہے وہ اس کا اَخلاقی اختیار اور اَخلاقی ذمہ داری کا حامل ہونا ہے۔ پس جب اصل جوہر انسانیت اَخلاق ہے تو لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ اَخلاقیات ہی کو انسانی زندگی کے بنائو اور بگاڑ میں فیصلہ کن مقام حاصل ہے اور اَخلاقی قوانین ہی انسان کے عروج وزوال پر فرماں روا ہیں۔
اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد جب ہم اَخلاقیات کا تجزیہ کرتے ہیں تو و ہ اصولی طور پر ہمیں دو بڑے شعبوں میں منقسم نظر آتے ہیں:
ایک بنیادی انسانی اَخلاقیات، دوسرے اِسلامی اَخلاقیات۔
بنیادی انسانی اَخلاقیات
بنیادی انسانی اَخلاقیات سے مراد وہ اوصاف ہیں جن پر انسان کے اَخلاقی وجود کی اساس قائم ہے۔ ان میں وہ تمام صفات شامل ہیں جو دُنیا میں انسان کی کامیابی کے لیے بہرحال شرطِ لازم ہیں، خواہ وہ صحیح مقصد کے لیے کام کر رہا ہو یا غلَط مقصد کے لیے۔ ان اَخلاقیات میں سوال کا کوئی دخل نہیں ہے کہ آدمی خدا اور وحی اور آخرت کو مانتا ہے یا نہیں، طہارتِ نفس اور نیت خیر اور عمل صالح سے آراستہ ہے یا نہیں، اچھے مقصد کے لیے کام کر رہا ہے یا بُرے مقصد کے لیے۔ قطع نظر اس سے کہ کسی میں ایمان ہو یا نہ ہو، اور اس کی زندگی پاک ہو یا ناپاک، اس کی سعی کا مقصد اچھا ہو یا برا، جو شخص اور جو گروہ بھی اپنے اندر وہ اوصاف رکھتا ہو گا، جو دُنیا میں کامیابی کے لیے ناگزیر ہیں وہ یقینا کام یاب ہو گا، اور اُن لوگوں سے بازی لے جائے گا جو ان اوصاف کے لحاظ سے اس کے مقابلے میں ناقص ہوں گے۔
مومن ہو یا کافر، نیک ہو یا بد، مصلح ہو یا مفسد، غرض جو بھی ہو وہ اگر کارگر انسان ہو سکتا ہے تو صرف اسی صورت میں جب کہ اس کے اندر ارادے کی طاقت اور فیصلے کی قوت ہو، عزم اور حوصلہ، صبر وثبات اور استقلال ہو، تحمل اور برداشت ہو، ہمت اور شجاعت ہو، مستعدی اور جفاکشی ہو، اپنے مقصد کا عشق اور اس کے لیے ہر چیز قربان کر دینے کا بل بوتا ہو، حزم واحتیاط اور معاملہ فہمی وتدبرہو، حالات کو سمجھنے اور ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے اور مناسب تدبیر کرنے کی قابلیت ہو، اپنے جذبات وخواہشات اور ہیجانات پر قابو ہو، اور دوسرے انسانوں کو موہنے اور ان کے دل میں جگہ پیدا کرنے اور ان سے کام لینے کی صلاحیت ہو۔
پھر ناگزیر ہے کہ اس کے اندر وہ شریفانہ خصائل بھی کچھ نہ کچھ موجود ہوں، جو فی الحقیقت جوہرِ آدمیت ہیں اور جن کی بدولت آدمی کا وقار واعتباردُنیا میں قائم ہوتا ہے۔ مثلاً خودداری، فیاضی، رحم، ہم دردی، انصاف، وسعتِ قلب ونظر، سچائی، امانت، راست بازی، پاسِ عہد، معقولیت، اعتدال، شائستگی، طہارت ونظافت، اور ذہن ونفس کا انضباط۔
یہ اوصاف اگر کسی قوم یا گروہ کے بیش تر افراد میں موجود ہوں توگویا یوں سمجھیے کہ اس کے پاس وہ سرمایۂ انسانیت موجود ہے، جس سے ایک طاقتور اجتماعیت وجود میں آ سکتی ہے لیکن یہ سرمایہ مجتمع ہو کر بالفعل ایک مضبوط ومستحکم اور کارگر اجتماعی طاقت نہیں بن سکتا جب تک کچھ دوسرے اَخلاقی اوصاف بھی اس کی مدد پر نہ آئیں۔ مثلاً تمام یا بیشترا فراد کسی اجتماعی نصب العین پر متفق ہوں اور اس نصب العین کواپنی انفرادی اغراض، بلکہ اپنی جان، مال اور اولاد سے بھی عزیز تر رکھیں۔ ان کے اندر آپس کی مَحبّت اور ہم دردی ہو، انھیں مل کر کام کرنا آتا ہو۔ وہ اپنی خودی ونفسانیت کو کم از کم اس حد تک قربان کر سکیں جو منظم سعی کے لیے ناگزیر ہے۔ وہ صحیح و غلَط راہ نما میں تمیز کر سکتے ہوں اور موزوں آدمیوں ہی کو اپنا راہ نما بنائیں۔ ان کے راہ نمائوں میں اخلاص اور حُسنِ تدبیر اور راہ نمائی کی دوسری ضروری صفات موجود ہوں، اور خود قوم یا جماعت بھی اپنے راہ نمائوں کی اطاعت کرنا جانتی ہو، ان پر اعتماد رکھتی ہو اور اپنے تمام ذہنی، جسمانی اور مادّی ذرائع اُن کے تصرّف میں دے دینے پر تیار ہو۔ نیز پوری قوم کے اندر ایسی زندہ اور حسّاس رائے عام پائی جاتی ہو جو کسی ایسی چیز کو اپنے اندر پنپنے نہ دے جو اجتماعی فلاح کے لیے نقصان دہ ہو۔
یہ ہیں وہ اَخلاقیات جنھیں میں ’’بنیادی اَخلاقیات‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہوں کیوں کہ فی الواقع یہی اَخلاقی اوصاف انسان کی اَخلاقی طاقت کا اصل منبع ہیں اور انسان کسی مقصد کے لیے بھی دُنیا میں کام یاب سعی نہیں کر سکتا، جب تک ان اوصاف کا زور اس کے اندر موجود نہ ہو۔ ان اَخلاقیات کی مثال ایسی ہے جیسے فولاد کہ وہ اپنی ذات میں مضبوطی واستحکام رکھتا ہے اور اگر کوئی کارگر ہتھیار بن سکتا ہے تو اسی سے بن سکتا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ غلَط مقصد کے لیے استعمال ہو یا صحیح مقصد کے لیے۔ آپ کے پیش نظر صحیح مقصد ہو تب بھی آپ کے لیے مفید ہتھیار وہی ہو سکتا ہے جو فولاد سے بنا ہو نہ کہ سڑی گلی پھُس پھُسی لکڑی جو ایک ذرا سے بوجھ اور معمولی سی چوٹ کی بھی تاب نہ لا سکتی ہو۔ یہی وہ بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ خیارکم فی الجاھلیۃ خیارکم فی الاسلام۔’’تم میں جو لوگ جاہلیت میں اچھے تھے وہی اِسلام میں بھی اچھے ہیں۔‘‘ یعنی زمانۂ جاہلیت میں جو لوگ اپنے اندر جوہرِ قابل رکھتے تھے، وہی زمانۂ اِسلام میں مردانِ کار ثابت ہوئے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کی قابلیتیں پہلے غلَط راہوں میں صرف ہو رہی تھیں اور اِسلام نے آ کر انھیں صحیح راہ پر لگا دیا۔ مگر بہرحال ناکارہ انسان نہ جاہلیت کے کسی کام کے تھے نہ اِسلام کے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں جو زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور جس کے اثرات تھوڑی ہی مدت گزرنے کے بعد دریائے سندھ سے لے کر اٹلانٹک کے ساحل تک دُنیا کے ایک بڑے حصے نے محسوس کر لیے، اس کی وجہ یہی تو تھی کہ آپ کو عرب میں بہترین انسانی مواد مل گیا تھا، جس کے اندر کیرکٹر کی زبردست طاقت موجود تھی۔ اگر خدانخواستہ آپ کو بودے، کم ہمت، ضعیف الارادہ اور ناقابلِ اعتماد لوگوں کی بھیڑ مل جاتی تو کیا پھر بھی وہ نتائج نکل سکتے تھے؟
اِسلامی اَخلاقیات
اب اَخلاقیات کے دُوسرے شعبے کو لیجیے، جسے میں ’’اِسلامی اَخلاقیات‘‘ کے لفظ سے تعبیرکر رہا ہوں۔ یہ بنیادی انسانی اَخلاقیات سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اسی کی تصحیح اور تکمیل ہے۔
اِسلام کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ بنیادی انسانی اَخلاقیات کو ایک صحیح مرکز ومحور مہیا کر دیتا ہے جس سے وابستہ ہو کر وہ سراپاخیر بن جاتے ہیں۔ اپنی ابتدائی صورت میں تو یہ اَخلاقیات مجرّد ایک قوت ہیں جو خیر بھی ہو سکتی ہے اور شر بھی۔ جس طرح تلوار کا حال ہے کہ وہ بس ایک کاٹ ہے جو ڈاکو کے ہاتھ میں جا کر آلۂ ظلم بھی بن سکتی ہے اور مجاہد فی سبیل اللہ کے ہاتھ میں جا کر وسیلۂ خیر بھی، اُسی طرح ان اَخلاقیات کا بھی کسی شخص یا گروہ میں ہونا بجائے خود خیر نہیں ہے، بلکہ اس کا خیر ہونا موقوف ہے اس امر پر کہ یہ قوت صحیح راہ میں صرف ہو اور اسے صحیح راہ پر لگانے کی خدمت اِسلام انجام دیتا ہے۔ اِسلام کی دعوتِ توحید کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ دُنیا کی زندگی میں انسان کی تمام کوششوں اور محنتوں کا اور اس کی دوڑ دھوپ کا مقصدِ توحید اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو وَاِلَیْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ۔({ FR 1278 }) اور اس کا پورا دائرۂ فکرو عمل ان حدود سے محدود ہو جائے جو اللّٰہ نے اس کے لیے مقرر کر دی ہیں۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنَسْجُدُ۔({ FR 1279 }) اس اساسی اصلاح کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ تمام بنیادی اَخلاقیات جن کا ابھی میں نے آپ سے ذکر کیا ہے صحیح راہ پر لگ جاتے ہیں اور وہ قوت جو ان اَخلاقیات کی موجودگی سے پیدا ہوتی ہے، بجائے اس کے کہ نفس یا خاندان یا قوم یا ملک کی سربلندی پر ہر ممکن طریقے سے صرف ہو، خالص حق کی سربلندی پر صرف جائز طریقوں ہی سے صرف ہونے لگتی ہے۔ یہی چیز اس کوایک مجرّد قوت کے مرتبے سے اٹھا کر ایجاباً ایک بھلائی اور دُنیا کے لیے ایک رحمت بنا دیتی ہے۔
دوسرا کام جواَخلاق کے باب میں اِسلام کرتاہے، وہ یہ ہے کہ وہ بنیادی انسانی اَخلاقیات کو مستحکم بھی کرتا ہے اور پھر ان کے اِطلاق کو انتہائی حدود تک وسیع بھی کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر صبر کو لیجیے۔ بڑے سے بڑے صابر آدمی میں بھی جو صبر دُنیوی اغراض کے لیے ہو، اس کی برداشت اور اس کے ثبات وقرار کی بس ایک حد ہوتی ہے جس کے بعد وہ گھبرا اُٹھتا ہے لیکن جس صبر کو توحید کی جڑ سے غذا ملے اور جودُنیا کے لیے نہیں بلکہ اللہ ربّ العالمین کے لیے ہو، وہ تحمل وبرداشت اور پامردی کا ایک اتھاہ خزانہ ہوتا ہے جسے دُنیا کی تمام ممکن مشکلات مل کر بھی لوٹ نہیں سکتیں۔ پھر غیر مسلم کا صبر نہایت محدود نوعیت کا ہوتا ہے۔ اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ ابھی تو گولوں اور گولیوں کی بوچھاڑ میں نہایت استقلال کے ساتھ ڈٹا ہوا تھا اور ابھی جو جذباتِ شہوانی کی تسکین کا کوئی موقع سامنے آیا تو نفسِ امّارہ کی ایک معمولی تحریک کے مقابلے میں بھی نہ ٹھیر سکا۔ لیکن اِسلام صبر کو انسان کی پوری زندگی میں پھیلا دیتا ہے اور اسے صرف چند مخصوص قسم کے خطرات، مصائب اور مشکلات ہی کے مقابلے میں نہیں بلکہ ہر اُس لالچ، ہر اُس خوف، ہر اُس اندیشے اور ہر اُس خواہش کے مقابلے میں ٹھیرائو کی ایک زبردست طاقت بنا دیتا ہے جو آدمی کو راہِ راست سے ہٹانے کی کوشش کرے۔ دَرحقیقت اِسلام مومن کی پوری زندگی کوایک صابرانہ زندگی بناتا ہے جس کا بنیادی اُصول یہ ہے کہ عمر بھر صحیح طرزِ عمل پر قائم رہو خواہ اس میں کتنے ہی خطرات ونقصانات اور مشکلات ہوں اور اس دُنیا کی زندگی میں اس کا کوئی مفید نتیجہ نکلتا نظر نہ آئے، اور کبھی فکر وعمل کی بُرائی اختیار نہ کرو خواہ فائدوں اور امیدوں کا کیسا ہی خوشنما سبز باغ تمھارے سامنے لہلہا رہا ہو۔ یہ آخرت کے قطعی نتائج کی توقع پر دُنیا کی ساری زندگی میں بدی سے رُکنا اور خیر کی راہ پر جم کر چلنا اِسلامی صبر ہے اور اس کا ظہور لازماً ان شکلوں میں بھی ہوتا ہے جو بہت محدود پیمانے پر کفار کی زندگی میں نظر آتی ہیں۔ اسی مثال پر دوسرے تمام بنیادی اَخلاقیات کو بھی آپ قیاس کر سکتے ہیں۔ کفار کی زندگی میں صحیح فکری بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ ضعیف اورمحدود ہوتے ہیں اور اِسلام ان سب کو ایک صحیح بنیاد دے کر محکم بھی کرتا ہے اور وسیع بھی کر دیتا ہے۔
اِسلام کا تیسرا کام یہ ہے کہ وہ بنیادی اَخلاقیات کی ابتدائی منزل پراَخلاقِ فاضلہ کی ایک نہایت شان دار بالائی منزل تعمیر کرتا ہے جس کی بدولت انسان اپنے شرف کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔ وہ اس کے نفس کو خود غرضی سے، نفسانیت سے، ظلم سے، بے حیائی اور خلاعت و بے قیدی سے پاک کر دیتا ہے۔ اس میں خدا پرستی، تقوٰی وپرہیز گاری اور حق پرستی پیدا کرتا ہے۔ اس کے اندر اَخلاقی ذمہ داریوں کا شعور واحساس ابھارتا ہے، اس کو ضبطِ نفس کا خوگر بناتا ہے۔ اسے تمام مخلوقات کے لیے کریم، فیاض، رحیم، ہم درد، امین، بے غرض خیر خواہ، بے لوث منصف اور ہر حال میں صادق وراست باز بنا دیتا ہے، اور اس میں ایک ایسی بلند پایہ سیرت پرورش کرتا ہے جس سے ہمیشہ صرف بھلائی کی توقع ہو اور برائی کا کوئی اندیشہ نہ ہو۔ پھر اِسلام آدمی کومحض نیک ہی بنانے پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ حدیثِ رسولؐ کے الفاظ میں وہ اُسے مِفْتَاحٌ لِّلْخَیْرِ مِغْلَاقٌ لِّلشَّرِ (بھلائی کا دروازہ کھولنے والا، اور برائی کا دروازہ بند کرنے والا) بناتا ہے، یعنی وہ ایجاباً یہ مشن اس کے سپرد کرتا ہے کہ دُنیا میں بھلائی پھیلائے اور برائی کو روکے۔ اس سیرت واَخلاق میں فطرتاً وہ حسن ہے، وہ کشش ہے وہ بلا کی قوتِ تسخیر ہے کہ اگر کوئی منظم جماعت اس سیرت کی حامل ہو اور عملاً اپنے اس مشن کے لیے کام بھی کرے جو اِسلام نے اس کے سپرد کیا ہے تو اس کی جہانگیری کا مقابلہ کرنا دُنیا کی کسی قوت کے بس کا کام نہیں۔
سُنّتُ اللہ دربابِ امامت کا خلاصہ
اب میں چند الفاظ میں اس سنت اللّٰہ کو بیان کیے دیتا ہوں جو امامت کے باب میں ابتدائے آفرینش سے جاری ہے اور جب تک نوعِ انسانی اپنی موجودہ فطرت پر زندہ ہے اس وقت تک برابر جاری رہے گی، اور وہ یہ ہے:
اگر دُنیا میں کوئی منظم انسانی گروہ ایسا موجود نہ ہو جو اِسلامی اَخلاقیات اور بنیادی انسانی اَخلاقیات دونوں سے آراستہ ہو اور پھر مادی اسباب ووسائل بھی استعمال کرے، تو دُنیا کی امامت وقیادت لازماً کسی ایسے گروہ کے قبضے میں دے دی جاتی ہے جو اِسلامی اَخلاقیات سے چاہے بالکل ہی عاری ہو لیکن بنیادی انسانی اَخلاقیات اور مادی اسباب ووسائل کے اعتبار سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ بڑھا ہوا ہو۔ کیوں کہ اللّٰہ تعالیٰ بہرحال اپنی دُنیا کا انتظام چاہتا ہے، اور یہ انتظام اسی گروہ کے سپرد کیا جاتا ہے، جو موجود الوقت گروہوں میں اہل تر ہو۔
لیکن اگر کوئی منظم گروہ ایسا موجود ہو جو اِسلامی اَخلاقیات اور بنیادی انسانی اَخلاقیات دونوں میں باقی ماندہ انسانی دُنیا پر فضیلت رکھتا ہو اور وہ مادّی اسباب ووسائل کے استعمال میں بھی کوتاہی نہ کرے، تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا گروہ دُنیا کی امامت وقیادت پر قابض رہ سکے۔ ایسا ہونا فطرت کے خلاف ہے، اللّٰہ کی اس سنت کے خلاف ہے جو انسانوں کے معاملے میں اس نے مقرر کر رکھی ہے، ان وعدوں کے خلاف ہے جو اللّٰہ نے اپنی کتاب میں مومنین صالحین سے کیے ہیں اور اللّٰہ ہرگز فساد پسند نہیں کرتا کہ اس کی دُنیا میں ایک صالح گروہ انتظامِ عالم کو ٹھیک ٹھیک اُس کی رضا کے مطابق درست رکھنے والا موجود ہو اور پھر بھی وہ مفسدوں ہی کے ہاتھ میں اس انتظام کی باگ ڈور رہنے دے۔
مگر یہ خیال رہے کہ اس نتیجے کا ظہور صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ ایک جماعتِ صالحہ ان اوصاف کی موجود ہو۔ کسی ایک صالح فرد، یا متفرق طور پر بہت سے صالح افراد کے موجود ہونے سے استخلاف فی الارض کا نظام تبدیل نہیں ہو سکتا خواہ وہ افراد اپنی جگہ کیسے ہی زبردست اولیائ اللہ بلکہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ نے استخلاف کے متعلق جتنے وعدے بھی کیے ہیں، منتشر و متفرق افراد سے نہیں، بلکہ ایک جماعت سے کیے ہیں جو دُنیا میں اپنے آپ کو عملاً ’’خیر امت‘‘ اور ’’اُمتِ وَسط‘‘ ثابت کر دے۔
نیز یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ایسے ایک گروہ کے محض وجود میں آ جانے ہی سے نظامِ امامت میں تغیر واقع نہ ہو جائے گا کہ ادھر وہ بنے اور ادھر اچانک آسمان سے کچھ فرشتے اتریں اور فساق وفجار کی گدّی سے ہٹا کر انھیں مسند نشین کر دیں۔ بلکہ اس جماعت کو کفر وفسق کی طاقتوں سے زندگی کے ہر میدان میں، ہر ہر قدم پر کش مکش اور مجاہدہ کرنا ہو گا اور اقامتِ حق کی راہ میں ہر قسم کی قربانیاں دے کر اپنی محبتِ حق اور اپنی اہلیت کا ثبوت دینا پڑے گا۔ یہ ایسی شرط ہے جس سے انبیا تک مستثنیٰ نہ رکھے گئے، کجا کہ آج کوئی اس سے مستثنیٰ ہونے کی توقع کرے۔
بنیادی اَخلاقیات اور اِسلامی اَخلاقیات کی طاقت کا فرق
مادی طاقت اور اَخلاقی طاقت کے تناسب کے باب میں قرآن اور تاریخ کے غائر مطالعے سے جو سنت اللہ میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ جہاں اَخلاقی طاقت کا سارا انحصار صرف بنیادی انسانی اَخلاقیات پر ہو، وہاں مادی وسائل بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس امرکا بھی امکان ہے کہ اگر ایک گروہ کے پاس مادی وسائل کی طاقت بہت زیادہ ہو تو وہ تھوڑی اَخلاقی طاقت سے بھی دُنیا پر چھا جاتا ہے۔ اور دوسرے گروہ اَخلاقی طاقت میں فائق تر ہونے کے باوجود محض وسائل کی کمی کے باعث دبے رہتے ہیں۔ لیکن جہاں اَخلاقی طاقت اِسلامی اور بنیادی دونوں قسم کے اَخلاقیات کا پورا زور شامل ہو، وہاں مادی وسائل کی انتہائی کمی کے باوجود اَخلاق کو آخر کار ان تمام طاقتوں پر غلبہ حاصل ہو کر رہتا ہے جو مجرّدبنیادی اَخلاقیات اور مادّی سروسامان کے بل بوتے پر اٹھی ہوں۔ اس نسبت کو یوں سمجھیے کہ بنیادی اَخلاقیات کے ساتھ اگر سو درجے مادی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے تو اِسلامی بنیادی اَخلاقیات کی مجموعی قوت کے ساتھ صرف ۲۵ درجے مادی طاقت کافی ہو جاتی ہے، باقی ۷۵ فی صدی قوت کی کمی کو محض اِسلامی اَخلاق کا زور پورا کر دیتا ہے۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کا تجربہ تو یہ بتاتا ہے کہ اِسلامی اَخلاق اگر اس پیمانے کا ہو جو حضورؐ اور آپ کے صحابہؓ کا تھا تو صرف پانچ فی صدی مادی طاقت سے بھی کام چل جاتا ہے۔ یہی حقیقت ہے کہ جس کی طرف آیت اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ۰ۚ({ FR 1281 }) میں اشارہ کیا گیا ہے۔
یہ آخری بات جو میں نے عرض کی ہے اسے محض خوش عقیدگی پر محمول نہ کیجیے، اور نہ گمان کیجیے کہ میں کسی معجزے اور کرامت کا آپ سے ذکر کر رہا ہوں۔ نہیں، یہ بالکل فطری حقیقت ہے جو اسی عالمِ اسباب میں قانونِ علت ومعلول کے تحت پیش آتی ہے اور ہر وقت رونما ہو سکتی ہے اگر اس کی علت موجود ہو۔ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آگے بڑھنے سے پہلے چند الفاظ میں اس کی تشریح کر دوں کہ اِسلامی اَخلاقیات سے، جن میں بنیادی اَخلاقیات خود بخود شامل ہیں، مادی اسباب کی ۷۵ فیصدی بلکہ ۹۵ فی صدی کمی کس طرح پوری ہو جاتی ہے۔
اس چیز کو سمجھنے کے لیے آپ ذرا خود اپنے زمانے ہی کی بین الاقوامی صورتِ حال پر ایک نگاہ ڈال کر دیکھیے۔ ابھی آپ کے سامنے وہ فسادِ عظیم جو آج سے ساڑھے پانچ سال پہلے شروع ہوا تھا، جرمنی کی شکست پر ختم ہوا ہے اور جاپان کی شکست بھی قریب نظر آ رہی ہے۔ جہاں تک بنیادی اَخلاقیات کا تعلق ہے اور ان کے اعتبار سے اس فساد کے دونوں فریق تقریباً مساوی ہیں، بلکہ بعض پہلوئوں سے جرمنی اور جاپان نے اپنے حریفوں کے مقابلے میں زیادہ زبردست اَخلاقی طاقت کا ثبوت دیا ہے۔ جہاں تک علومِ طبیعی اور ان کے عملی استعمال کا تعلق ہے اس میں بھی دونوں فریق برابر ہیں، بلکہ اس معاملے میں کم از کم جرمنی کی فوقیت تو کسی سے مخفی نہیں ہے۔ مگر صرف ایک چیز ہے جس میں ایک فریق دوسرے فریق سے بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے، اور وہ ہے مادی اسباب کی موافقت۔ اس کے پاس آدمی اپنے دونوں حریفوں (جرمنی وجاپان) سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ اسے مادّی وسائل ان کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ حاصل ہیں۔ اس کی جغرافی پوزیشن ان سے بہتر ہے اور اسے تاریخی اسباب نے ان کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر حالات فراہم کر دیے ہیں۔ اسی وجہ سے اسے فتح نصیب ہوئی ہے اور اسی وجہ سے آج کسی ایسی قوم کے لیے بھی جس کی تعداد کم ہو اور جس کی دسترس میں مادّی وسائل کم ہوں، اس امر کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ وہ کثیر التعداد، کثیر الوسائل قوموں کے مقابلے میں سر اٹھا سکے، خواہ وہ بنیادی اَخلاقیات میں اور طبعی علوم کے استعمال میں ان سے کچھ بڑھ ہی کیوں نہ جائے، اس لیے کہ بنیادی اَخلاقیات اور طبیعی علوم کے بل پر اٹھنے والی قوم کا معاملہ دوحال سے خالی نہیں ہو سکتا، یا تو وہ خود اپنی قومیت کی پرستار ہو گی اور دُنیا کو اپنے لیے مسخر کرنا چاہے گی، یا پھروہ کچھ عالم گیر اصولوں کی حامی بن کر اٹھے گی اور دوسری قوموں کو ان کی طرف دعوت دے گی۔ پہلی صورت میں تو اس کے لیے کامیابی کی کوئی شکل بجُز اس کے ہے ہی نہیں کہ وہ مادی طاقت اور وسائل میں دوسروں سے فائق تر ہو۔ کیوں کہ وہ تمام قومیں جن پر اس کی اس حرصِ اقتدار کی زد پڑ رہی ہو گی، انتہائی غصہ ونفرت کے ساتھ اس کی مزاحمت کریں گی اور اس کا راستہ روکنے میں اپنی حد تک کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گی۔ رہی دوسری صورت تو اس میں بلاشبہ اس کا امکان تو ضرور ہے کہ قوموں کے دل ودماغ خود بخود اس کی اصولی دعوت سے مسخر ہوتے چلے جائیں اور اسے مزاحمتوں کو راستے سے ہٹانے میں بہت تھوڑی قوت استعمال کرنی پڑے لیکن یہ یاد رہنا چاہیے کہ دل صرف چند خوش آئند اصولوں ہی سے مسخر نہیں ہو جایا کرتے بلکہ انھیں مسخر کرنے کے لیے وہ حقیقی خیر خواہی، نیک نیتی، راست بازی، بے غرضی، فراخ دلی، فیاضی، ہم دردی اور شرافت وعدالت درکار ہے جو جنگ اور صلح، فتح اور شکست، دوستی اور دشمنی، تمام حالات کی کڑی آزمائشوں میں کھری اور بے لوث ثابت ہو، اور یہ چیز اَخلاقِ فاضلہ کی اس بلند منزل سے تعلق رکھتی ہے جس کا مقام بنیادی اَخلاقیات سے بہت برتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجرد بنیادی اَخلاقیات اور مادی طاقت کے بل پر اٹھنے والے خواہ کھلے قوم پرست ہوں یا پوشیدہ قوم پرستی کے ساتھ کچھ عالم گیر اصولوں کی دعوت وحمایت کا ڈھونگ رچائیں، آخر کار ان کی ساری جدوجہد اور کش مکش خالص شخصی یا طبقاتی یا قومی خود غرضی ہی پر آ ٹھیرتی ہے، جیسا کہ آج آپ امریکہ، برطانیہ اور روس کی سیاستِ خارجیہ میں نمایاں طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ ایسی کش مکش میں یہ ایک بالکل فطری امر ہے کہ ہر قوم دوسری قوم کے مقابلے میں ایک مضبوط چٹان بن کر کھڑی ہو جائے، اپنی پوری اَخلاقی ومادی طاقت اس کی مزاحمت میں صرف کر دے اور اپنے حدود میں اسے ہرگز راہ دینے کے لیے تیار نہ ہو جب تک کہ مخالف کی برتر مادی قوت اس کو پیس کر نہ رکھ دے۔
اچھا، اب ذرا تصوّر کیجیے کہ اسی ماحول میں ایک ایسا گروہ (خواہ وہ ابتدائً ایک ہی قوم میں سے اٹھا ہومگر ’’قوم‘‘ کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ایک ’’جماعت‘‘ کی حیثیت سے اٹھا ہو) پایا جاتا ہے جو شخصی، طبقاتی، اور قومی خود غرضیوں سے بالکل پاک ہے۔ اس کی سعی وجہد کی کوئی غرض اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ نوعِ انسانی کی فلاح چند اصولوں کی پیروی میں دیکھتا ہے اور انسانی زندگی کا نظام ان پر قائم کرنا چاہتا ہے۔ ان اصولوں پر جو سوسائٹی وہ بناتا ہے اس میں قومی ووطنی اور طبقاتی ونسلی امتیازات بالکل مفقود ہیں۔ تمام انسان اس میں یکساں حقوق اور مساوی حیثیت سے شامل ہو سکتے ہیں۔ اس میں راہ نمائی وقیادت کا منصب ہر اس شخص یا مجموعۂ اشخاص کو حاصل ہو سکتا ہے جو ان اصولوں کی پیروی میں سب پر فوقیت لے جائے قطع نظر اس سے کہ اس کی نسلی ووطنی قومیت کچھ ہی ہو۔ حتّٰی کہ اس میں اس امر کا بھی امکان ہے کہ اگر مفتوح ایمان لا کر اپنے آپ کو صالح ثابت کر دے تو فاتح اپنی سرفروشیوں اور جانفشانیوں کے سارے ثمرات اس کے قدموں میں لا کر رکھ دے اور اس کو امام مان کر خود مقتدی بننا قبول کر لے۔ یہ گروہ جب اپنی دعوت لے کر اٹھتا ہے تو وہ لوگ جو اس کے اصولوں کو چلنے دینا نہیں چاہتے، اس کی مزاحمت کرتے ہیں اور اس طرح فریقین میں کش مکش شروع ہو جاتی ہے۔ مگر اس کش مکش میں جتنی شدت بڑھتی جاتی ہے یہ گروہ اپنے مخالفوں کے مقابلے میں اتنے ہی زیادہ افضل واشرف اَخلاق کا ثبوت دیتا چلا جاتا ہے۔ وہ اپنے ہی طرزِ عمل سے ثابت کر دیتا ہے کہ واقعی وہ خلق اللّٰہ کی بھلائی کے سوا کوئی دوسری غرض پیشِ نظر نہیں رکھتا۔ اس کی دشمنی اپنے مخالفوں کی ذات یا قومیت سے نہیں بلکہ صرف ان کی ضلالت وگمراہی سے ہے جسے وہ چھوڑ دیں تو وہ اپنے خون کے پیاسے دشمن کو بھی سینے سے لگا سکتا ہے۔ اسے لالچ ان کے مال ودولت یا اُن کی تجارت وصنعت کا نہیں بلکہ خود انھی کی اَخلاقی اور روحانی فلاح کا ہے جو حاصل ہو جائے تو اِن کی دولت انھی کو مبارک رہے۔ وہ سخت سے سخت آزمائش کے موقعوں پر بھی جھوٹ، دغا اور مکر وفریب سے کام نہیں لیتا۔ ٹیڑھی چالوں کا جواب بھی سیدھی تدبیروں سے دیتا ہے۔ انتقام کے جوش میں ظلم وزیادتی پر آمادہ نہیں ہوتا۔ جنگ کے سخت لمحوں میں بھی اپنے اصولوں کی پیروی نہیں چھوڑتا، جن کی دعوت دینے کے لیے وہ اٹھا ہے۔ سچائی، وفائے عہد اور حسنِ معاملت پر ہر حال میں قائم رہتا ہے۔ بے لاگ انصاف کرتا ہے اور امانت ودیانت کے اس معیار پر پورا اترتا ہے، جسے ابتدائً اس نے دُنیا کے سامنے معیار کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔ مخالفین کی زانی، شرابی، جواری اور سنگ دل و بے رحم فوجوں سے جب اس گروہ کے خدا ترس، پاکباز، عبادت گزار، نیک دل اور رحیم وکریم مجاہدوں کا مقابلہ پیش آتا ہے توفردًا فردًا ان کی انسانیت ان کی درندگی وحیوانیت پر فائق نظر آتی ہے۔ وہ ان کے پاس زخمی یا قیدی ہو کر آتے ہیں تو یہاں ہر طرف نیکی، شرافت اور پاکیزگیٔ اَخلاق کا ماحول دیکھ کر ان کی آلودۂ نجاست روحیں بھی پاک ہونے لگتی ہیں اور یہ وہاں گرفتار ہو کر جاتے ہیں تو ان کا جوہرِ انسانیت اس تاریک ماحول میں اور زیادہ چمک اٹھتا ہے۔ انھیں کسی علاقے پر غلبہ حاصل ہوتا ہے تو مفتوح آبادی کو انتقام کی جگہ عفو، ظلم وجور کی جگہ رحم وانصاف، شقاوت کی جگہ ہم دردی، تکبر ونخوت کی جگہ حلم وتواضع، گالیوں کی جگہ دعوتِ خیر، جھوٹے پروپیگنڈوں کی جگہ اصولِ حق کی تبلیغ کا تجربہ ہوتا ہے، اور وہ یہ دیکھ کر عش عش کرنے لگتے ہیں کہ فاتح سپاہی نہ ان سے عورتیں مانگتے ہیں، نہ دبے پائوں مال ٹٹولتے پھرتے ہیں، نہ ان کی معاشی طاقت کو کچلنے کی فکر ہوتی ہے، نہ ان کی قومی عزت کو ٹھوکر مارتے ہیں، بلکہ انھیں اگر کچھ فکر ہے تو یہ کہ جو ملک اب ان کے چارج میں ہے اس کے باشندوں میں سے کسی کی عصمت خراب نہ ہو، کسی کے مال کو نقصان نہ پہنچے، کوئی اپنے جائز حقوق سے محروم نہ ہو، کوئی بد اَخلاقی ان کے درمیان پرورش نہ پا سکے اور اجتماعی ظلم وجور کسی شکل میں بھی وہاں باقی نہ رہے۔ بخلاف اس کے جب فریقِ مخالف کسی علاقے میں گھس آتا ہے تو ساری آبادی اس کی زیادتیوں اور بے رحمیوں سے چیخ اٹھتی ہے۔ اب آپ خود ہی اندازہ کر لیں کہ ایسی لڑائی میں قوم پرستارانہ لڑائیوں کی بہ نسبت کتنا بڑا فرق واقعہ ہو جائے گا۔ظاہر ہے کہ ایسے مقابلے میں بالاتر انسانیت کمتر مادی سروسامان کے باوجود اپنے مخالفوں کی آہن پوش حیوانیت کو آخر کار شکست دے کر رہے گی۔ اَخلاقِ فاضلہ کے ہتھیار توپ وتفنگ سے زیادہ دُور مار ثابت ہوں گے۔ عین حالتِ جنگ میں دشمن دوستوں میں تبدیل ہوں گے، جسموں سے پہلے دل مسخر ہوں گے، آبادیوں کی آبادیاں لڑے بھڑے بغیر مفتوح ہو جائیں گی اور یہ صالح گروہ جب ایک مرتبہ مٹھی بھر جمعیت اور تھوڑے سے سروسامان کے ساتھ اپنا کام شروع کر دے گا تو رفتہ رفتہ خود مخالف کیمپ ہی سے اس کو جنرل، سپاہی، ماہرینِ فنون، اسلحہ، رسد، سامانِ جنگ سب کچھ حاصل ہوتے چلے جائیں گے۔
یہ جو کچھ میں عرض کر رہا ہوں یہ نرا قیاس اور اندازہ نہیں ہے بلکہ اگر آپ کے سامنے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ کے دورِ مبارک کی تاریخی مثال موجود ہو تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ فی الواقع اس سے پہلے یہی کچھ ہو چکا ہے اور آج بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے، بشرطیکہ کسی میں یہ تجربہ کرنے کی ہمت ہو۔
حضرات! مجھے توقع ہے کہ اس تقریر سے یہ حقیقت آپ کے ذہن نشین ہو گئی ہو گی کہ طاقت کا اصل منبع اَخلاقی طاقت ہے۔ اگر دُنیا میں کوئی منظم گروہ ایسا موجود ہو جو بنیادی اَخلاقیات کے ساتھ اِسلامی اَخلاقیات کا زور بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور مادی وسائل سے بھی کام لے تو یہ بات عقلاً محال اورفطرتاً غیر ممکن ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی دوسرا گروہ دُنیا کی امامت وقیادت پر قابض رہ سکے۔ اس کے ساتھ مجھے امید ہے کہ آپ نے یہ بھی اچھی طرح سمجھ لیا ہو گا کہ مسلمانوں کی موجودہ پست حالی کا اصل سبب کیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جو لوگ نہ مادی وسائل سے کام لیں، نہ بنیادی اَخلاقیات سے آراستہ ہوں اور نہ اجتماعی طور پر ان کے اندر اِسلامی اَخلاقیات ہی پائے جائیں وہ کسی طرح بھی امامت کے منصب پر فائز نہیں رہ سکتے۔ خدا کی اٹل بے لاگ سنت کا تقاضا یہی ہے کہ ان پر ایسے کافروں کو ترجیح دی جائے جو اِسلامی اَخلاقیات سے عاری سہی مگر کم از کم بنیادی اَخلاقیات اور مادّی وسائل کے استعمال میں تو اُن سے بڑھے ہوئے ہیں، اور اپنے آپ کو ان کی بہ نسبت انتظامِ دُنیا کے لیے اہل تر ثابت کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں اگر آپ کو کوئی شکایت ہو تو سنت اللّٰہ سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے ہونی چاہیے اور اس شکایت کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ آپ اب اس خامی کو دُور کرنے کی فکر کریں جس نے آپ کو امام سے مقتدی اور پیش رَو سے پس روبنا کر چھوڑا ہے۔
اس کے بعد ضرورت ہے کہ میں صاف اور واضح طریقے سے آپ کے سامنے اِسلامی اَخلاقیات کی بنیادوں کو بھی پیش کر دوں، کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ اس معاملے میں عام طور پر مسلمانوں کے تصوّرات بُری طرح الجھے ہوئے ہیں۔ اس الجھن کی وجہ سے بہت ہی کم آدمی یہ جانتے ہیں کہ اِسلامی اَخلاقیات فی الواقع کس چیز کا نام ہے اور اس پہلو سے انسان کی تربیت وتکمیل کے لیے کیا چیزیں کس ترتیب وتدریج کے ساتھ اس کے اندر پرورش کی جانی چاہئیں۔
اِسلامی اَخلاقیات کے چار مراتب
جس چیز کو ہم اِسلامی اَخلاقیات سے تعبیر کرتے ہیں، وہ قرآن وحدیث کی رُو سے دراصل چار مراتب پر مشتمل ہے: ۱۔ ایمان، ۲۔اسلام، ۳۔تقوی، اور ۴۔ احسان۔ یہ چاروں مراتب یکے بعد دیگرے اس فطری ترتیب پر واقع ہیں کہ ہر بعد کا مرتبہ پہلے مرتبہ سے پیدا ہوا اور لازماً اسی پر قائم ہوتا ہے اور جب تک نیچے والی منزل پختہ ومحکم نہ ہو جائے دوسری منزل کی تعمیر کا تصوّر تک نہیں کیا جا سکتا۔ اس پوری عمارت میں ایمان کو بنیاد کی حیثیت حاصل ہے۔ اس بنیاد پر اِسلام کی منزل تعمیر ہوتی ہے۔ پھر اس کے اوپر تقوٰی اور سب سے اوپر احسان کی منزلیں اٹھتی ہیں۔ ایمان نہ ہو تو اِسلام وتقوٰی یا احسان کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں۔ ایمان کم زور ہو تو اس پر کسی بالائی منزل کا بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا، یا ایسی کوئی منزل تعمیر کر بھی دی جائے تو وہ بودی اور متزلزل ہو گی۔ ایمان محدود ہو تو جتنے حدود میں وہ محدود ہو گا، اسلام، تقوٰی اور احسان بھی بس انھی حدود تک محدود رہیں گے۔ پس جب تک ایمان پوری طرح صحیح، پختہ اور وسیع نہ ہو، کوئی مرد عاقل جو دین کا فہم رکھتا ہو اِسلام تقوٰی یا احسان کی تعمیر کا خیال نہیں کر سکتا۔ اسی طرح تقوٰی سے پہلے اِسلام اور احسان سے پہلے تقوٰی کی تصحیح، پختگی اور توسیع ضروری ہے۔ لیکن اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اس فطری واصولی ترتیب کو نظر انداز کرکے ایمان واِسلام کی تکمیل کے بغیر تقوٰی واحسان کی باتیں شروع کر دیتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک یہ ہے کہ بالعموم لوگوں کے ذہنوں میں ایمان واِسلام کا ایک نہایت محدود تصوّر جاگزیں ہے۔ اسی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ محض وضع قطع، لباس، نشست وبرخاست، اکل وشرب اور ایسی ہی چند ظاہری چیزوں کو ایک مقررہ نقشے پر ڈھال لینے سے تقوٰی کی تکمیل ہو جاتی ہے، اور پھر عبادات میں نوافل واذکار، اورادووظائف اور اپنے ہی بعض اعمال اختیار کر لینے سے احسان کا بلند مقام حاصل ہو جاتا ہے۔ حالانکہ بسا اوقات اسی ’’تقویٰ‘‘ اور ’’احسان‘‘ کے ساتھ ساتھ لوگوں کی زندگیوں میں ایسی صریح علامات بھی نظر آتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی ان کا ایمان ہی سرے سے درست اور پختہ نہیں ہوا ہے۔ یہ غلطیاں جب تک موجود ہیں کسی طرح یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ ہم اِسلامی اَخلاقیات کا نصاب پورا کرنے میں کبھی کام یاب ہو سکیں گے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہمیں ایمان، اسلام، تقوٰی اور احسان کے ان چاروں مراتب کا پورا پورا تصوّر بھی حاصل ہو اور اس کے ساتھ ہم ان کی فطری ترتیب کو بھی اچھی طرح سمجھ لیں۔
۱۔ ایمان
اس سلسلے میں سب سے پہلے ایمان کو لیجیے جو اِسلامی زندگی کی بنیاد ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ توحید ورسالت کے اقرار کا نام ایمان ہے۔ اگر کوئی شخص اس کا اقرار کر لے تو اس سے وہ قانونی شرط پوری ہو جاتی ہے جو دائرۂ اِسلام میں داخل ہونے کے لیے رکھی گئی ہے اور وہ اس کا مستحق ہو جاتا ہے کہ اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کیا جائے۔ مگر کیا یہی سادہ اقرار، جو ایک قانونی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی ہے، اس غرض کے لیے بھی کافی ہو سکتا ہے کہ اِسلامی زندگی کی ساری سہ منزلہ عمارت صرف اسی بنیاد پر قائم ہو سکے؟ لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں اور اسی لیے جہاں یہ اقرار موجود ہوتا ہے وہاں عملی اِسلام اور تقوٰی اور احسان کی تعمیر شروع کر دی جاتی ہے، جو اکثر ہوائی قلعے سے زیادہ پائیدار ثابت نہیں ہوتی لیکن فی الواقع ایک مکمل اِسلامی زندگی کی تعمیر کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ایمان اپنی تفصیلات میں پوری طرح وسیع اور اپنی گہرائی میں اچھی طرح مستحکم ہو۔ ایمان کی تفصیلات میں سے جو شعبہ بھی چھوٹ جائے گا، اِسلامی زندگی کا وہی شعبہ تعمیر ہونے سے رہ جائے گا، اور اس کی گہرائی میں جہاں بھی کسر رہ جائے گی اِسلامی زندگی کی عمارت اسی مقام پر بودی ثابت ہو گی۔
مثال کے طور پر ایمان باللہ کو دیکھیے جو دین کی اوّلین بنیاد ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ خدا کا اقرار اپنی سادہ صورت سے گزر کر جب تفصیلات میں پہنچتا ہے، تو لوگوں کے ذہن میں اس کی بے شمار صورتیں بن جاتی ہیں۔ کہیں وہ صرف اس حد پر ختم ہو جاتا ہے کہ بے شک خدا موجود ہے اور دُنیا کا خالق ہے اور اپنی ذات میں اکیلا ہے، کہیں اس کی انتہائی وسعت بس اتنی ہوتی ہے کہ خدا ہمارا معبود ہے اور ہمیں اس کی پرستش کرنی چاہیے۔ کہیں خدا کی صفات اور اس کے حقوق واختیارات کا تصوّر کچھ زیادہ وسیع ہو کر بھی اس سے آگے نہیں بڑھتا کہ عالم الغیب، سمیع وبصیر، سمیع الدعوات وقاضی الحاجات اور ’’پرستش‘‘ کی تمام جزوی شکلوں کا مستحق ہونے میں خدا کا کوئی شریک نہیں، اور یہ کہ ’’مذہبی معاملات‘‘ میں آخری سند خدا ہی کی کتاب ہے۔ ظاہر ہے کہ ان مختلف تصوّرات سے ایک ہی طرز کی زندگی نہیں بن سکتی، بلکہ جو تصوّر جتنا محدود ہے عملی زندگی اور اَخلاق میں بھی لازماً اِسلامی رنگ اتنا ہی محدود ہو گا، حتّٰی کہ جہاں عام مذہبی تصوّرات کے مطابق ایمان باللّٰہ اپنی انتہائی وسعت پر پہنچ جائے گا وہاں بھی اِسلامی زندگی اس سے آگے نہ بڑھ سکے گی کہ خدا کے باغیوں کی وفاداری اور خدا کی وفاداری ایک ساتھ کی جائے، یا نظامِ کفر اور نظامِ اِسلام کو سمو کر ایک مرکب بنا لیا جائے۔
اسی طرح ایمان باللہ کی گہرائی کا پیمانہ بھی مختلف ہے۔ کوئی خدا کا اقرار کرنے کے باوجود اپنی کسی معمولی سے معمولی چیز کو بھی خدا پر قربان کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ کوئی بعض چیزوں سے خدا کو عزیز تر رکھتا ہے مگر بعض چیزیں اسے خدا سے عزیز تر ہوتی ہیں۔ کوئی اپنی جان مال تک خدا پر قربان کر دیتا ہے مگر اپنے رجحاناتِ نفس اور اپنے نظریات و افکار کی قربانی یا اپنی شہرت کی قربانی اسے گوارا نہیں ہوتی۔ ٹھیک ٹھیک اسی تناسب سے اِسلامی زندگی کی پائیداری وناپائیداری بھی متعین ہوتی ہے اور انسان کا اِسلامی اَخلاق ٹھیک اسی مقام پر دغا دے جاتا ہے جہاں اس کے نیچے ایمان کی بنیاد کم زور رہ جاتی ہے۔
ایک مکمل اِسلامی زندگی کی عمارت اگر اٹھ سکتی ہے تو صرف اسی اقرارِ توحید پراٹھ سکتی ہے جوانسان کی پوری انفرادی واجتماعی زندگی پر وسیع ہو، جس کے مطابق انسان اپنے آپ کو اپنی ہر چیز کو خدا کی ملک سمجھے، اسے اپنا اور تمام دُنیا کا ایک ہی جائز مالک، معبود، مطاع اور صاحب امر ونہی تسلیم کرے۔ اسی کو ہدایت کا سرچشمہ مانے اور پورے شعور کے ساتھ اس حقیقت پر مطمئن ہو جائے کہ خدا کی اطاعت سے انحراف، یا اس کی ہدایت سے بے نیازی، یا اس کی ذات وصفات اور حقوق واختیارات میں غیر کی شرکت جس پہلو اور جس رنگ میں بھی ہے سراسر ضلالت ہے۔ پھر اس عمارت میں اگر استحکام پیدا ہو سکتا ہے تو صرف اسی وقت جبکہ آدمی پورے شعور اور پورے ارادے کے ساتھ یہ فیصلہ کرے کہ وہ اوراس کا سب کچھ اللّٰہ کا ہے اور اللّٰہ ہی کے لیے ہے۔ اپنے معیار پسند وناپسند کو ختم کرکے اللّٰہ کی پسند وناپسند کے تابع کر دے، اپنی خود سری کو مٹا کر اپنے نظریات وخیالات، خواہشات وجذبات اور اندازِ فکر کو اس علم کے مطابق ڈھال لے جو خدا نے اپنی کتاب میں دیا ہے۔ اپنی اُن وفاداریوں کو دریا بُرد کر دے جو خدا کی وفاداری کے تابع نہ ہوں بلکہ اس کے مدِّ مقابل بنی ہوئی ہوں یا بن سکتی ہوں۔ اپنے دل میں سب سے بلند مقام پر خدا کی مَحبّت کو بٹھائے اور ہر اس بت کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے نہاں خانۂ دل سے نکال پھینکے جو خدا کے مقابلے میں عزیز تر ہونے کا مطالبہ کرتا ہو۔ اپنی مَحبّت اور نفرت، اپنی دوستی اور دشمنی، اپنی رغبت اور کراہیت، اپنی صلح اور جنگ، ہر چیز کو خدا کی مرضی میں اس طرح گم کردے کہ اس کا نفس وہی چاہنے لگے جو خدا چاہتا ہے اور اسی سے بھاگنے لگے جو خدا کو ناپسند ہے۔ یہ ہے ایمان باللّٰہ کا حقیقی مرتبہ اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں ایمان ہی ان حیثیات سے اپنی وسعت و ہمہ گیری اور اپنی پختگی ومضبوطی میں ناقص ہو وہاں تقوٰی یا احسان کا کیا امکان ہو سکتا ہے۔ کیا اس نقص کی کسر ڈاڑھیوں کے طول اور لباس کی تراش خراش یا سبحہ گردانی یا تہجد خوانی سے پوری کی جا سکتی ہے؟
اسی پر دوسرے ایمانیات کو بھی قیاس کر لیجیے۔ نبوت پرایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک انسان کا نفس زندگی کے سارے معاملات میں نبیؐ کواپنا راہ نُما نہ مان لے اور اس کی راہ نمائی کے خلاف یا اس سے آزاد جتنی راہ نمائیاں ہوں انھیں رد نہ کر دے۔ کتاب پر ایمان اس وقت تک ناقص ہی رہتا ہے جب تک نفس میں کتاب اللّٰہ کے بتائے ہوئے اصول زندگی کے سوا کسی دوسری چیز کے تسلّط پر رضا مندی کا شائبہ بھی باقی ہو یا اتباع ماانزل اللّٰہ کو اپنی اور ساری دُنیا کی زندگی کا قانون دیکھنے کے لیے قلب وروح کی بے چینی میں کچھ بھی کسر ہو۔ اسی طرح آخرت پر ایمان بھی مکمل نہیں کہا جا سکتا جب تک نفس پوری طرح آخرت کو دُنیا پر ترجیح دینے اور اُخروی قدروں کے مقابلے میں دنیوی قدروں کو ٹھکرا دینے پرآمادہ نہ ہو جائے اور آخرت کی جواب دہی کا خیال اُسے زندگی کی ہر راہ پر چلتے ہوئے قدم قدم پر کھٹکنے نہ لگے۔ یہ بنیادیں ہی جہاں پوری نہ ہوں آخر وہاں اِسلامی زندگی کی عالیشان عمارت کس شے پر تعمیر ہو گی؟ جب لوگوں نے ان بنیادوں کی توسیع وتکمیل اور پختگی کے بغیر تعمیرِ اَخلاق اِسلامی کو ممکن سمجھا، تب ہی تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ کتاب اللّٰہ کے خلاف فیصلہ کرنے والے جج، غیر شرعی قوانین کی بنیاد پر مقدمے لڑنے والے وکیل، نظامِ کفر کے مطابق معاملاتِ زندگی کا انتظام کرنے والے کارکن، کافرانہ اصولِ تمدّن وریاست پر زندگی کی تشکیل وتاسیس کے لیے لڑانے والے لیڈر اور پیرو، غرض سب کے لیے تقوٰی واحسان کے مراتبِ عالیہ کا دروازہ کھل گیا، بشرطیکہ وہ اپنی زندگی کے ظاہری انداز واطوار کو ایک خاص نقشے پر ڈھال لیں، اور کچھ نوافل واذکار کی عادت ڈال لیں۔
۲۔ اسلام
ایمان کی یہ بنیادیں جن کا میں نے ابھی آپ سے ذکر کیا ہے، جب مکمل اور گہری ہو جاتی ہیں، تب ان پر اِسلام کی منزل شروع ہوتی ہے۔ اِسلام دراصل ایمان کے عملی ظہور کا دوسرا نام ہے۔ ایمان اور اِسلام کا باہمی تعلق ویسا ہی ہے جیسا بیج اور درخت کا تعلق ہوتا ہے۔ وہی درخت کی شکل میں ظاہر ہوجاتا ہے۔ حتّٰی کہ درخت کا امتحان کرکے بآسانی یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ بیج میں کیا تھا اور کیا نہ تھا۔ آپ نہ یہ تصوّر کر سکتے ہیں کہ بیج اس میں موجود بھی ہو پھر بھی درخت پیدا نہ ہو ایسا ہی معاملہ ایمان اور اِسلام کا ہے۔ جہاں ایمان موجود ہو گا، لازماً اس کا ظہور آدمی کی عملی زندگی میں، اَخلاق میں، برتائو میں، تعلقات میں، کٹنے اور جُڑنے میں، دوڑ دھوپ کے رخ میں، مذاق ومزاج کی افتاد میں، سعی وجہد کے راستوں میں، اوقات اور قوتوں اور قابلیتوں کے مصرف میں، غرض مظاہر زندگی کے ہر ہر جزو میں ہو کر رہے گا۔ ان میں سے جس پہلو میں بھی اِسلام کے بجائے غیر اِسلام ظاہر ہو رہا ہو یقین کر لیجیے کہ اس پہلو میں ایمان موجود نہیں ہے یا ہے تو بالکل بودا اور بے جان ہے اور اگر عملی زندگی ساری ہی غیر مسلمانہ شان سے بسر ہو رہی ہو، تو جان لیجیے کہ دل ایمان سے خالی ہے یا زمین اتنی بنجر ہے کہ ایمان کا بیج برگ وبار نہیں لا رہا ہے۔ بہرحال میں نے جہاں تک قرآن وحدیث کو سمجھا ہے یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ دل میں ایمان ہو اور عمل میں اِسلام نہ ہو۔
(اس موقع پر ایک صاحب نے اٹھ کر پوچھا کہ ایمان اور عمل کو آپ ایک ہی چیز سمجھتے ہیں یا ان دونوں میں کچھ فرق ہے؟ اس کے جواب میں کہا:)
آپ تھوڑی دیر کے لیے اپنے ذہن سے ان بحثوں کو نکال دیں جو فقہا اور متکلمین نے اس مسئلے میں کی ہیں اور قرآن سے اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ قرآن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اعتقادی ایمان اور عملی اِسلام لازم وملزوم ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ جگہ جگہ ایمان اور عملِ صالح کا ساتھ ساتھ ذکر کرتا ہے اور تمام اچھے وعدے جو اُس نے اپنے بندوں سے کیے ہیں انھی لوگوں سے متعلق ہیں جو اعتقادًا مومن اور عملاً مسلم ہوں۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے جہاں جہاں منافقین کو پکڑا ہے وہاں ان کے عمل ہی کی خرابیوں سے ان کے ایمان کے نقص پر دلیل قائم کی ہے اور عملی اِسلام ہی کو حقیقی ایمان کی علامت ٹھیرایا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قانونی لحاظ سے کسی شخص کو کافر ٹھیرانے اور امت سے اس کا رشتہ کاٹ دینے کا معاملہ دوسرا ہے اور اس میں انتہائی احتیاط ملحوظ رکھنی چاہیے مگر میں یہاں اس ایمان واِسلام کا ذکر نہیں کر رہا ہوں جس پر دُنیا میں فقہی احکام مرتب ہوتے ہیں بلکہ یہاں ذکر اس ایمان واِسلام کا ہے جو خدا کے ہاں معتبر ہے اور جس پر اُخروی نتائج مترتب ہونے والے ہیں۔ قانونی نقطۂ نظر کو چھوڑ کر حقیقتِ نفس الامری کے لحاظ سے اگر آپ دیکھیں گے تو یقینا یہی پائیں گے کہ جہاں عملاً خدا کے آگے سپراندازی اور سپردگی وحوالگی میں کمی ہے، جہاں نفس کی پسند خدا کی پسند سے مختلف ہے، جہاں خدا کی وفاداری کے ساتھ غیر کی وفاداری نبھ رہی ہے، جہاں خدا کا دین قائم کرنے کی سعی کے بجائے دوسرے مشاغل میں انہماک ہے، جہاں کوششیں اور محنتیں راہ خدا کے بجائے دوسری راہوں میں صرف ہو رہی ہیں وہاں ضرور ایمان میں نقص ہے اور ظاہر ہے کہ ناقص ایمان پر تقوٰی اور احسان کی تعمیر نہیں ہو سکتی، خواہ ظاہر کے اعتبار سے متقیوں کی سی وضع بنانے اور محسنین کے سے بعض اعمال کی نقل اتارنے کی کتنی ہی کوشش کی جائے۔ ظاہر فریب شکلیں اگر حقیقت کی رُوح سے خالی ہوں تو ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسی ایک نہایت خوبصورت آدمی کی لاش بہترین وضع وہیئت میں موجود ہو مگر اس میں جان نہ ہو۔ اس خوبصورت لاش کی ظاہری شان سے دھوکا کھا کر آپ اگر کچھ توقعات اس سے وابستہ کر لیں گے تو واقعات کی دُنیا اپنے پہلے ہی امتحان میں اس کا ناکارہ ہو نا ثابت کر دے گی اور تجربے سے آپ کو خود ہی معلوم ہو جائے گا، کہ ایک بدصورت مگر زندہ انسان ایک خوبصورت مگر بے روح لاش سے بہرحال زیادہ کارگر ہوتا ہے۔ ظاہر فریبیوں سے آپ اپنے نفس کو تو ضرور دھوکا دے سکتے ہیں لیکن عالمِ واقعہ پر کچھ بھی اثر نہیں ڈال سکتے اور نہ خدا کی میزان ہی میں کوئی وزن حاصل کر سکتے ہیں۔ پس اگر آپ کو ظاہری نہیں بلکہ وہ حقیقی تقوٰی اور احسان مطلوب ہو جو دُنیا میں دین کا بول بالا کرنے اور آخرت میں خیر کا پلڑا جھکانے کے لیے درکار ہے تو میری اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے کہ اوپر کی یہ دونوں منزلیں کبھی نہیں اٹھ سکتیں جب تک ایمان کی بنیاد مضبوط نہ ہوجائے اور اس کی مضبوطی کا ثبوت عملی اِسلام یعنی بالفعل اطاعت وفرمانبرداری سے نہ مل جائے۔
۳۔ تقوٰی
تقوٰی کی بات کرنے سے پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ تقوٰی ہے کیا چیز؟ تقوٰی حقیقت میں کسی وضع و ہیئت اور کسی خاص طرزِ معاشرت کا نام نہیں ہے، بلکہ دراصل وہ نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جو خدا ترسی اور احساسِ ذمہ داری سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں ظہور کرتی ہے۔ حقیقی تقوٰی یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو، عبدیت کا شعور ہو، خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری وجواب دہی کا احساس ہو، اور اس بات کا زندہ ادراک موجودہو کہ دُنیا ایک امتحان گاہ ہے جہاں خدا نے ایک مہلتِ عمر دے کر مجھے بھیجا ہے اور آخرت میں میرے مستقبل کا فیصلہ بالکل اس چیز پر منحصر ہے کہ میں اس دیے ہوئے وقت کے اندر اس امتحان گاہ میں اپنی قوتوں اور قابلیتوں کو کس طرح استعمال کرتا ہوں، اس سروسامان میں کس طرح تصرّف کرتا ہوں جو مشیّتِ الٰہی کے تحت مجھے دیا گیا ہےاور ان انسانوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہوں جن سے قضائے الٰہی نے مختلف حیثیتوں سے میری زندگی متعلق کر دی ہے۔ یہ احساس وشعور جس شخص کے اندر پیدا ہو جائے اس کا ضمیر بیدار ہوتا ہے۔ اس کی دینی حِس تیز ہو جاتی ہے۔ اس کو وہ ہر چیز کھٹکنے لگتی ہے جو خدا کی رضا کے خلاف ہو۔ اس کے مذاق کو ہر وہ شے ناگوار ہونے لگتی ہے جو خدا کی پسند سے مختلف ہو، وہ اپنے نفس کا آپ جائزہ لینے لگتا ہے کہ میرے اندر کس قسم کے رجحانات ومیلانات پرورش پا رہے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کا خود محاسبہ کرنے لگتا ہے کہ میں کن کاموں میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں صرف کر رہا ہوں۔ وہ صریح ممنوعات تو درکنار مشتبہ امور میں بھی مبتلا ہوتے ہوئے خود بخود جھجکنے لگتا ہے۔ اس کا احساسِ فرض اسے مجبور کر دیتا ہے کہ تمام اوامر کو پوری فرماں برداری کے ساتھ بجا لائے۔ اس کی خدا ترسی ہر اس موقع پر اس کے قدم میں لرزش پیدا کر دیتی ہے جہاں حدوداللّٰہ سے تجاوز کا اندیشہ ہو، حقوق اللّٰہ اور حقوق العباد کی نگہداشت آپ سے آپ اس کا وطیرہ بن جاتی ہے اور اس خیال سے بھی اس کا ضمیر کانپ اٹھتا ہے کہ کہیں اس سے کوئی بات حق کے خلاف سرزد نہ ہو جائے۔ یہ کیفیت کسی ایک شکل یا کسی مخصوص دائرے میں ہی ظاہر نہیں ہوتی بلکہ آدمی کے پورے طرزِ فکر اور اس کے تمام کارنامۂ زندگی میں اس کا ظہور ہوتا ہے، اور اس کے اثر سے ایک ایسی ہموار ویک رنگ سیرت پیدا ہوتی ہے جس میںآپ ہر پہلو سے ایک ہی طرز کی پاکیزگی وصفائی پائیں گے۔ بخلاف اس کے جہاں تقوٰی بس اس چیز کا نام رکھ لیا گیا ہے، کہ آدمی چند مخصوص شکلوں کی پابندی اور مخصوص طریقوں کی پیروی اختیار کرے اور مصنوعی طور پر اپنے آپ کو ایک ایسے سانچے میں ڈھال لے جس کی پیمائش کی جا سکتی ہو، وہاں آپ دیکھیں گے کہ وہ چند اشکال تقوٰی جو سکھا دی گئی ہیں، ان کی پابندی تو انتہائی اہتمام کے ساتھ ہو رہی ہے، مگر اس کے ساتھ زندگی کے دوسرے پہلوئوں میں وہ اَخلاق، وہ طرزِ فکر اور وہ طرزِ عمل بھی ظاہر ہو رہے ہیں جو مقامِ تقوٰی تو درکنار، ایمان کے ابتدائی مقتضیات سے بھی مناسبت نہیں رکھتے،یعنی حضرت مسیحؑ کی تمثیلی زبان میں مچھر چھانے جا رہے ہیں اور اونٹ بے تکلفی کے ساتھ نگلے جا رہے ہیں۔
حقیقی تقوٰی اور مصنوعی تقوٰی کے اس فرق کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص تو وہ ہے جس کے اندر طہارت ونظافت کی حس موجود ہے اور پاکیزگی کا ذوق پایا جاتا ہے۔ ایسا شخص گندگی سے فی نفسہٖ نفرت کرے گا خواہ وہ جس شکل میں بھی ہو، اور طہارت کو بجائے خود اختیار کر لے گا خواہ اس کے مظاہر کا احاطہ نہ ہوسکتا ہو، بخلاف اس کے ایک دوسرا شخص ہے جس کے اندر طہارت کی حس موجود نہیں ہے مگر وہ گندگیوں اور طہارتوں کی ایک فہرست لیے پھرتا ہے جو کہیں سے اس نے نقل کر لی ہیں۔ یہ شخص ان گندگیوں سے تو سخت اجتناب کرے گا جو اس نے فہرست میں لکھی ہوئی پائی ہیں، مگر بے شمار ایسی گھنائونی چیزوں میں آلودہ پایا جائے گا جو اُن گندگیوں سے بدرجہا زیادہ ناپاک ہوں گی جن سے وہ بچ رہا ہے، صرف اس وجہ سے کہ وہ اس فہرست میں درج ہونے سے رہ گئیں۔ یہ فرق جو میں آپ سے عرض کر رہا ہوں، یہ محض ایک نظری فرق نہیں ہے بلکہ آپ اس کواپنی آنکھوں سے ان حضرات کی زندگیوں میں دیکھ سکتے ہیں جن کے تقوٰی کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ ایک طرف ان کے ہاں جزئیات شرع کا یہ اہتمام ہے کہ ڈاڑھی ایک خاص مقدار سے کچھ بھی کم ہو تو فسق کا فیصلہ نافذ کر دیا جاتا ہے۔ پائنچہ ٹخنے سے ذرا نیچے ہو جائے تو جہنم کی وعید سنا دی جاتی ہے۔ اپنے مسلکِ فقہی کے فروعی احکام سے ہٹنا ان کے نزدیک گویا دین سے نکل جانا ہے لیکن دوسری طرف دین کے اصول وکلیات سے ان کی غفلت اس حد کو پہنچی ہوئی ہے کہ مسلمانوں کی پوری زندگی کا مدار انھوں نے رخصتوں اور سیاسی مصلحتوں پر رکھ دیا ہے۔ اقامت دین کی سعی سے گریز کی بے شمار راہیں انھوں نے نکال رکھی ہیں۔ غلبۂ کفر کے تحت ’’اِسلامی زندگی‘‘ کے نقشے بنانے ہی میں اُن کی ساری محنتیں اور کوششیں صرف ہو رہی ہیں اور انھی کی غلَط راہ نمائی نے مسلمانوں کو اس چیز پر مطمئن کیا ہے کہ ایک غیر اِسلامی نظام کے اندر رہتے ہوئے، بلکہ اس کی خدمت کرتے ہوئے بھی ایک محدود دائرے میں مذہبی زندگی بسر کرکے وہ دین کے سارے تقاضے پورے کر سکتے ہیں۔ اس سے آگے کچھ مطلوب نہیں ہے جس کے لیے وہ سعی کریں۔ پھر اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اگر کوئی ان کے سامنے دین کے اصلی مطالبے پیش کرے اور سعیٔ اقامتِ دین کی طرف توجہ دلائے تو صرف یہی نہیں کہ وہ اس کی بات سُنی اَن سُنی کر دیتے ہیں، بلکہ کوئی حیلہ، کوئی بہانہ اور کوئی چال ایسی نہیں چھوڑتے، جو اس کام سے خود بچنے اور مسلمانوں کو بچانے کے لیے استعمال نہ کریں۔ اس پر بھی ان کے تقوٰی پر کوئی آنچ نہیں آتی اور نہ مذہبی ذہنیت رکھنے والوں میں سے کسی کو یہ شک ہوتا ہے کہ ان کے تقوٰی میں کوئی کسر ہے۔ اسی طرح حقیقی اور مصنوعی تقوٰی کا فرق بیشمار شکلوں میں ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ مگر آپ اسے تب ہی محسوس کر سکتے ہیں کہ تقوٰی کا اصلی تصوّر آپ کے ذہن میں واضح طور پر موجود ہو۔
میری ان باتوں کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وضع قطع، لباس اور معاشرت کے ظاہری پہلوئوں کے متعلق جو آداب واحکام حدیث سے ثابت ہیں میں ان کا استخفاف کرنا چاہتا ہوں یا انھیں غیر ضروری قرار دیتا ہوں۔ خدا کی پناہ اس سے کہ میرے دل میں ایسا کوئی خیال ہو۔ دراصل جو کچھ میں آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اصل شَے حقیقتِ تقوٰی ہے نہ کہ مظاہر۔ حقیقتِ تقوٰی جس کے اندر پیدا ہو گی اس کی پوری زندگی ہمواری ویک رنگی کے ساتھ اِسلامی زندگی بنے گی۔اِسلام اپنی پوری ہمہ گیری کے ساتھ اس کے خیالات میں، اس کے جذبات ورجحانات میں، اس کے مذاقِ طبیعت میں، اس کے اوقات کی تقسیم اور اس کی قوتوں کے مصارف میں اس کی سعی کی راہوں میں، اس کے طرزِ زندگی اور معاشرت میں، اس کی کمائی اور خرچ میں، غرض اس کی حیاتِ دنیوی کے سارے ہی پہلوئوں میں رفتہ رفتہ نمایاں ہوتا چلا جائے گا۔ بخلاف اس کے اگر مظاہر کو حقیقت پر مقدم رکھا جائے گا اور ان پر بے جا زور دیا جائے گا اور حقیقی تقوٰی کی تخم ریزی اور آبیاری کے بغیر مصنوعی طور پر چند ظاہری احکام کی تعمیل کرا دی جائے گی، تو نتائج وہی کچھ ہوں گے جن کا میں نے ابھی آپ سے ذکر کیا ہے۔ پہلی چیز دیر طلب اور صبر آزما ہے بتدریج نشوونما پاتی اور ایک مدت کے بعد برگ وبار لاتی ہے، جس طرح بیج سے درخت کے پیدا ہونے اور پھل پھول لانے میں کافی دیر لگا کرتی ہے۔ اسی لیے سطحی مزاج کے لوگ اس سے اُپراتے ہیں۔ بخلاف اس کے دوسری چیز جلدی اور آسانی سے پیدا کر لی جاتی ہے جیسے ایک لکڑی میں پتے اور پھل اور پھول باندھ کر درخت کی سی شکل بنا دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ تقوٰی کی پیداوار کا یہی ڈھنگ آج مقبول ہے لیکن ظاہر ہے کہ جو توقعات ایک فطری درخت سے پوری ہوتی ہیں وہ اس قسم کے مصنوعی درختوں سے تو کبھی پوری نہیں ہو سکتیں۔
۴۔ احسان
اب احسان کو لیجیے جو اِسلام کی بلند ترین منزل ہے۔ احسان دراصل اللّٰہ اور اس کے رسولؐ اور اس کے دین کے ساتھ قلبی لگائو، اس کی گہری مَحبّت، اس سچی وفاداری اور فدویت وجاں نثاری کا نام ہے جو مسلمان کو فنا فی الاِسلام کر دے۔ تقوٰی کا اساسی تصوّرخدا کا خوف ہے جو انسان کو اس کی ناراضی سے بچنے پر آمادہ کرے اور احسان کا اساسی تصوّر خدا کی مَحبّت ہے، جو آدمی کو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ابھارے۔ ان دونوں چیزوں کے فرق کو ایک مثال سے یوں سمجھیے کہ حُکُومت کے ملازموں میں سے ایک تو وہ لوگ ہیں جو نہایت فرض شناسی وتن دہی سے وہ تمام خدمات ٹھیک ٹھیک بجا لاتے ہیں جو اُن کے سپردکی گئی ہوں۔ تمام ضابطوں اور قاعدوں کی پوری پوری پابندی کرتے ہیں اور کوئی کام ایسا نہیں کرتے جوحُکُومت کے لیے قابلِ اعتراض ہو۔ دوسرا طبقہ اُن مخلص وفاداروں اور جاں نثاروں کا ہوتا ہے جو دل وجان سے حُکُومت کے ہوا خواہ ہوتے ہیں۔ صرف وہی خدمات انجام نہیں دیتے جو ان کے سپرد کی گئی ہوں، بلکہ ان کے دل کو ہمیشہ یہ فکر لگی رہتی ہے کہ سلطنت کے مفاد کوزیادہ سے زیادہ کس طرح ترقی دی جائے۔ اس دُھن میں وہ فرض اور مطالبہ سے زائد کام کرتے ہیں۔ سلطنت پر کوئی آنچ آئے تو وہ جان ومال اوراولاد سب کچھ قربان کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ قانون کی کہیں خلاف ورزی ہو تو ان کے دل کو چوٹ لگتی ہے۔ کہیں بغاوت کے آثار پائے جائیں تو وہ بے چین ہو جاتے ہیں اور اسے فرو کرنے میں جان لڑا دیتے ہیں۔ جان بوجھ کر خود سلطنت کو نقصان پہنچانا تو درکنار اس کے مفاد کو کسی طرح نقصان پہنچتے دیکھنا بھی ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتا ہے اور اس خرابی کو رفع کرنے میں وہ اپنی حد تک کوشش کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے۔ اُن کی دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ دُنیا میں بس ان کی سلطنت ہی کا بول بالا ہواور زمین کا کوئی چپہ ایسا باقی نہ رہے جہاں اس کا پھریرا نہ اُڑے۔ ان دونوں میں سے پہلی قسم کے لوگ اس حُکُومت کے متقی ہوتے ہیں اور دوسری قسم کے لوگ اس کے محسن۔ اگرچہ ترقیاں متقین کو بھی ملتی ہیں اور بہرحال اُن کے نام اچھے ہی ملازموں کی فہرست میں لکھے جاتے ہیں مگر جو سرفرازیاں محسنین کے لیے ہیں ان میں کوئی دوسرا ان کا شریک نہیں ہوتا۔ بس اس مثال پر اِسلام کے متّقیوں اور محسنوں کو بھی قیاس کر لیجیے۔ اگرچہ متقین بھی قابل قدر اور قابل اعتماد لوگ ہیں، مگر اِسلام کی اصلی طاقت محسنین کا گروہ ہے۔ اصلی کام جو اِسلام چاہتا ہے کہ دُنیا میں ہو وہ اسی گروہ سے بن آ سکتا ہے۔
احسان کی اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد آپ خود ہی اندازہ کر لیں کہ جو لوگ اپنی آنکھوں سے خدا کے دین کو کفر سے مغلوب دیکھیں، جن کے سامنے حدود اللّٰہ پامال ہی نہیں بلکہ کالعدم کر دی جائیں، خدا کا قانون عملاً ہی نہیں بلکہ باضابطہ منسوخ کر دیا جائے، خدا کی زمین پر خدا کا نہیں بلکہ اس کے باغیوں کا بول بالا ہو رہا ہو، نظامِ کفر کے تسلّط سے نہ صرف عام انسانی سوسائٹی میں اَخلاقی وتمدنی فساد برپا ہو بلکہ خود امتِ مسلمہ بھی نہایت سرعت کے ساتھ اَخلاقی وعملی گمراہیوں میں مبتلا ہو رہی ہو،اور یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اُن کے دلوں میں نہ کوئی بے چینی پیدا ہو، نہ اس حالت کو بدلنے کے لیے کوئی جذبہ بھڑکے، بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے نفس کو اور عام مسلمانوں کو غیر اِسلامی نظام کے غلبے پر اصولاً وعملاً مطمئن کر دیں، ان کا شمار آخر محسنین میں کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس جرمِ عظیم کے ساتھ محض یہ بات انھیں احسان کے مقامِ عالی پر کیسے سرفراز کر سکتی ہے کہ وہ چاشت اور اشراق اور تہجد کے نوافل پڑھتے رہے، جزئیاتِ فقہ کی پابندی اور چھوٹی چھوٹی سنتوں کے اتباع کا سخت اہتمام فرماتے رہے اور تزکیۂ نفس کی خانقاہوں میں دین داری کا وہ فن سکھاتے رہے جس میں حدیث وفقہ اور تصوف کی باریکیاں تو ساری موجود تھیں، مگر ایک نہ تھی تو وہ حقیقی دین داری جو ’’سرداد نہ دادست در ددست یزید‘‘ کی کیفیت پیدا کرے اور ’’بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا‘‘ کے مقامِ وفاداری پر پہنچا دے، آپ دنیوی ریاستوں اور قوموں میں بھی وفادار اور غیر وفادار کی اتنی تمیز ضرور نمایاں پائیں گے کہ اگر ملک میں بغاوت ہو جائے یا ملک کے کسی حصّے پر دشمن کا قبضہ ہو جائے تو باغیوں اور دشمنوں کے تسلّط کو جو لوگ جائز تسلیم کر لیں یا ان کے تسلّط پر راضی ہو جائیں اور ان کے ساتھ مغلوبانہ مصالحت کر لیں، یا ان کی سرپرستی میں کوئی ایسا نظام بنائیں جس میں اصلی اقتدار کی باگیں انھی کے ہاتھ میں رہیں اور کچھ ضمنی حقوق اور اختیارات انھیں بھی مل جائیں، تو ایسے لوگوں کو کوئی ریاست اور کوئی قوم اپنا وفادار ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ خواہ وہ قومی فیشن کے کیسے ہی سخت پابند اور جزئی معاملات میں قومی قانون کے کتنے ہی شدید پیرو ہوں۔ آج آپ کے سامنے زندہ مثالیں موجود ہیں کہ جو ملک جرمنی کے تسلط سے نکلے ہیں وہاں ان لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ ہو رہا ہے جنھوں نے جرمن قبضے کے زمانے میں تعاون ومصالحت کی راہیں اختیار کی تھیں۔ ان سب ریاستوں اور قوموں کے پاس وفاداری کو جانچنے کا ایک ہی معیار ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی شخص نے دشمن کے تسلّط کی مزاحمت کس حد تک کی، اسے مٹانے کے لیے کیا کام کیا اور اس اقتدار کو واپس لانے کی کیا کوششیں کیںجس کی وفاداری کا وہ مدعی تھا۔ پھر کیا معاذ اللّٰہ خدا کے متعلق آپ کا یہ گمان ہے کہ وہ اپنے وفاداروں کو پہچاننے کی اتنی تمیز بھی نہیں رکھتا جتنی دُنیا کے اُن کم عقل انسانوں میں پائی جاتی ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ بس ڈاڑھیوں کا طول، ٹخنوں اور پائنچوں کا فاصلہ، تسبیحوں کی گردش اورادووظائف اور نوافل اور مراقبے کے مشاغل اور ایسی ہی چند اور چیزیں دیکھ کر ہی دھوکا کھا جائے گا کہ آپ اس کے سچے وفاداراور جاں نثار ہیں؟
غلَط فہمیاں
حضرات! اب میں ایک آخری بات کہہ کر اپنی تقریر ختم کروں گا۔ عام مسلمانوں کے ذہن پر مدتوں کے غلَط تصوّرات کی وجہ سے جزئیات وظواہر کی اہمیت کچھ اس طرح چھا گئی ہے کہ دین کے اصول وکلیات اور دین داری واَخلاق اِسلامی کے حقیقی جوہر کی طرف خواہ کتنی ہی توجہ دلائی جائے، مگر لوگوں کے دماغ ہِر پھِر کر انھی چھوٹے چھوٹے مسائل اور ذرا ذرا سی ظاہری چیزوں میں اٹک کر رہ جاتے ہیں جنھیں اصل دین بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ اس وبائے عام کے اثرات خود ہمارے بہت سے رفقا اور ہم دردوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ میں اپنا پورا زور یہ سمجھانے میں صَرف کرتا رہا ہوں کہ دین کی حقیقت کیا ہے۔ اس میں اصل اہمیت کن چیزوں کی ہے اور اس میں مقدم کیا ہے اور مؤخر کیا ہے۔ لیکن ان ساری کوششوں کے بعد جب دیکھتا ہوں یہی دیکھتاہوں کہ وہی ظاہر پرستی اور وہی اصول سے بڑھ کر فروع کی اہمیت دماغوں پر مسلّط ہے۔ آج تین روز سے میرے پاس پرچوں کی بھرمار ہو رہی ہے جن میں سارا مطالبہ بس اس کا ہے کہ جماعت کے لوگوں کی ڈاڑھیاں بڑھوائی جائیں، پائنچے ٹخنوں سے اونچے کرائے جائیں اور ایسے ہی دوسرے جزئیات کا اہتمام کرایا جائے۔ اس کے علاوہ بعض لوگوں کے اس خیال کا بھی مجھے علم ہوا کہ انھیں جماعت میں اس چیز کی بڑی کمی محسوس ہوتی ہے جس کو وہ ’’روحانیت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ مگر شاید وہ خود نہیں بتا سکتے کہ یہ روحانیت فی الواقع ہے کیا شے؟ اسی بِنا پر ان کی رائے یہ ہے کہ نصب العین اور طریقِ کار تو اس جماعت کا اختیار کیا جائے اور تزکیۂ نفس اور تربیتِ روحانی کے لیے خانقاہوں کی طرف رجوع کیا جائے۔ یہ ساری باتیں صاف بتاتی ہیں کہ ابھی تک ہماری تمام کوششوں کے باوجود لوگوں میں دین کا فہم پیدا نہیں ہوا ہے۔ میں ابھی آپ کے سامنے ایمان ‘ اسلام، تقوٰی اور احسان کی جو تشریح کر چکا ہوں، اس میں اگر کوئی چیز قرآن وحدیث کی تعلیم سے تجاوز کرکے میں نے خود وضع کر دی ہو تو آپ بے تکلف اس کی نشان دہی فرمادیں۔ لیکن اگر آپ تسلیم کرتے ہیں کہ کتاب اللّٰہ وسُنّتِ رسولؐ اللّٰہ کی رُو سے یہی ان چار چیزوں کی حقیقت ہے تو پھر خود ہی سوچیے کہ جہاں تقوٰی اور احسان کی جڑ ہی نہ پائی جاتی ہو وہاں آخر کون سی روحانیت پائی جا سکتی ہے جسے آپ تلاش کرنے جا رہے ہیں۔ رہے وہ جزئیاتِ شرع جنھیں آپ نے دین کے اولین مطالبات میں شمار کر رکھا ہے تو ان کا حقیقی مقام میں آپ کے سامنے پھرایک مرتبہ صاف صاف واضح کیے دیتا ہوں تاکہ میں اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہو جائوں۔
سب سے پہلے ٹھنڈے دل سے اس سوال پر غور کیجیے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے رسول دُنیا میں کس غرض کے لیے بھیجے ہیں؟ دُنیا میں آخر کس چیز کی کمی تھی؟ کیا خرابی پائی جاتی تھی جسے رفع کرنے کے لیے انبیا مبعوث کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ کیا وہ یہ تھی کہ لوگ ڈاڑھیاں نہ رکھتے تھے اور انھی کے رکھوانے کے لیے رسول بھیجے گئے؟ یا یہ کہ لوگ ٹخنے ڈھانکے رہتے تھے اورانبیا کے ذریعے انھیں کھلوانا مقصود تھا؟ یا وہ چند سنتیں، جن کے اہتمام کا آپ لوگوں میں بہت چرچا ہے، دُنیا میں جاری کرنے کے لیے انبیا کی ضرورت تھی؟ ان سوالات پر آپ غور کریں گے تو خود ہی کہہ دیں گے کہ نہ اصل خرابیاں یہ تھیں اور نہ انبیا کی بعثت کا اصل مقصود یہ تھا۔ پھر سوال یہ ہے کہ وہ اصلی خرابیاں کیا تھیں جنھیں دُور کرنا مطلوب تھا اور وہ حقیقی بھلائیاں کیا تھیں جنھیں قائم کرنے کی ضرورت تھی؟ اس کا جواب آپ اس کے سوا اور کیا دے سکتے ہیں کہ خدائے واحد کی اطاعت وبندگی سے انحراف، خود ساختہ اصول وقوانین کی پیروی اور خدا کے سامنے ذمہ داری وجواب دہی کا عدم احساس، یہ تھیں وہ اصل خرابیاں جو دُنیا میں رونما ہو گئی تھیں، انھی کی بدولت اَخلاقِ فاسدہ پیدا ہوئے، غلَط اصولِ زندگی رائج ہوئے اور زمین میں فساد برپا ہوا۔ پھر انبیا علیہم السلام اس غرض کے لیے بھیجے گئے کہ انسانوں میں خدا کی بندگی ووفاداری اور اس کے سامنے اپنی جواب دہی کا احساس پیدا کیا جائے۔ اَخلاقِ فاضلہ کو نشوونما دیا جائے اور انسانی زندگی کا نظام اُن اصولوں پر قائم کیا جائے جن سے خیروصلاح ابھرے اور شر وفساد دبے۔ یہی ایک مقصد تمام انبیا کی بعثت کا تھا اور آخر کار اسی مقصد کے لیے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔
اب دیکھیے کہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے کس ترتیب وتدریج کے ساتھ کام کیا۔ سب سے پہلے آپؐ نے ایمان کی دعوت دی اور اسے وسیع ترین بنیادوں پر پختہ ومستحکم فرمایا۔ پھر اس ایمان کے مقتضیات کے مطابق بتدریج اپنی تعلیم وتربیت کے ذریعے سے اہلِ ایمان میں عملی اطاعت وفرماں برداری (یعنی اسلام) اَخلاقی طہارت (یعنی تقویٰ) اور خدا کی گہری مَحبّت ووفاداری (یعنی احسان) کے اوصاف پیدا کیے۔ پھر ان مخلص مومنوں کی منظم سعی وجہد سے قدیم جاہلیت کے فاسد نظام کو مٹایا اور اس کی جگہ قانونِ خداوندی کے اَخلاقی وتمدنی اصولوں پر ایک نظامِ صالح قائم کر دیا۔ اس طرح جب یہ لوگ اپنے دل ودماغ ، نفس واَخلاق، افکار واعمال، غرض جملہ حیثیات سے واقعی مسلم، متقی اور محسن بن گئے، اور اس کام میں لگ گئے جو اللّٰہ تعالیٰ کے وفاداروں کو کرنا چاہیے تھا تب آپ نے انھیں بتانا شروع کیا کہ وضع قطع، لباس، کھانے پینے، رہنے سہنے، اٹھنے بیٹھنے اور دوسرے ظاہری برتائو میں وہ مہذب آداب واطوار کون سے ہیں جو متقیوں کو زیب دیتے ہیں۔ گویا پہلے مسِ خام کوکندن بنایا پھر اس پر اشرفی کا ٹھپہ لگایا۔ پہلے سپاہی تیار کیے پھر انھیں وردی پہنائی۔ یہی اس کام کی صحیح ترتیب ہے جو قرآن وحدیث کے غائر مطالعے سے صاف نظر آتی ہے۔ اگر اتباعِ سنت نام ہے اس طرزِ عمل کا جو نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی پوری کرنے کے لیے ہدایتِ الٰہی کے تحت اختیار کیا تھا، تو یقینا یہ سنت کی پیروی نہیں بلکہ اس کی خلاف ورزی ہے کہ حقیقی مومن، مسلم، متقی، اور محسن بنائے بغیر لوگوں کو متقیوں کے ظاہری سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے اور اُن سے محسنین کے چند مشہور ومقبولِ عام افعال کی نقل اتروائی جائے۔ یہ سیسے اور تانبے کے ٹکڑوں پر اشرفی کا ٹھپہ لگا کر بازار میں انھیں چلا دینا، اور سپاہیت، وفاداری، اور جاں نثاری پیدا کیے بغیر نرے وردی پوش نمائشی سپاہیوں کو میدان میں لاکھڑا کرنا میرے نزدیک تو ایک کھلی ہوئی جعل سازی ہے اور اسی جعل سازی کا نتیجہ ہے کہ نہ بازار میں آپ کی ان جعلی اشرفیوں کی کوئی قیمت اٹھتی ہے اور نہ میدان میں آپ کے ان نمائشی سپاہیوں کی بھیڑ سے کوئی معرکہ سر ہوتا ہے۔
پھر آپ کیا سمجھتے ہیں کہ خدا کے ہاں اصلی قدر کس چیز کی ہے؟ فرض کیجیے کہ ایک شخص سچا ایمان رکھتا ہے، فرض شناس ہے، اَخلاقِ صالحہ سے متصف ہے، حدودُ اللّٰہ کا پابند ہے اور خدا کی وفاداری اور جاں نثاری کا حق ادا کر دیتا ہے، مگر ظاہری فیشن کے اعتبار سے ناقص اور ظاہری تہذیب کے معیار سے گرا ہوا ہے۔ اس کی حیثیت زیادہ سے زیادہ بَس یہی تو ہو گی کہ ایک اچھا ملازم ہے مگر ذرا بدتمیز ہے۔ ممکن ہے کہ اس بدتمیزی کی وجہ سے انھیں مراتبِ عالیہ نصیب نہ ہو سکیں، مگر کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس قصور میں اس کی وفاداری کا اجر بھی مارا جائے گا اور اس کا مالک صرف اس لیے اسے جہنم میں جھونک دے گا کہ وہ خوش وضع اور خوش اطوار نہ تھا؟ فرض کیجیے کہ ایک دوسرا شخص ہے جو بہترین شرعی فیشن میں رہتا ہے اور آدابِ تہذیب کے التزام میں کمال درجہ محتاط ہے۔ مگر اس کی وفاداری میں نقص ہے۔ اس کی فرض شناسی میں کمی ہے، اس کی غیرتِ ایمانی میں خامی ہے۔ آپ کیا اندازہ کرتے ہیں کہ اس نقص کے ساتھ اس ظاہری کمال کی حد سے حد کتنی قدر خدا کے ہاں ہو گی؟ یہ مسئلہ تو کوئی گہرا اور پیچیدہ قانونی مسئلہ نہیں ہے جسے سمجھنے کے لیے کتابیں کھنگالنے کی ضرورت ہو۔ محض عقلِ عام سے ہی ہر آدمی جان سکتا ہے کہ ان دونوں چیزوں میں سے اصلی قدر کی مستحق کون سی چیز ہے۔ دُنیا کے کم عقل لوگ بھی اتنی تمیز ضرور رکھتے ہیں کہ حقیقت میں جو چیز قابلِ قدر ہے اس میں اور ضمنی خوبیوں میں فرق کر سکیں۔ یہ انگریزی حُکُومت آپ کے سامنے موجود ہے۔ یہ لوگ جیسے کچھ فیشن پرست ہیں اور ظاہری آداب واطوار پر جس طرح جان دیتے ہیں اس کا آپ کو معلوم ہے لیکن آپ جانتے ہیں ان کے ہاں اصلی قدر کس چیز کی ہے؟ جو فوجی افسراُن کی سلطنت کا جھنڈا بلند کرنے میں اپنے دل ودماغ اور جسم وجان کی ساری قوتیں صرف کر دے، اور فیصلے کے وقت پر کوئی قربانی دینے میں دریغ نہ کرے، وہ ان کے نقطۂ نظر سے خواہ کتنا ہی اجڈ اور گنوار ہو، کئی کئی دن شیو نہ کرتا ہو، بے ڈھنگا لباس پہنتا ہو، کھانے پینے کی ذرا تمیز نہ رکھتا ہو، رقص کے فن سے نابلد ہو، مگر ان سارے عیوب کے باوجود وہ اسے سر آنکھوں پر بٹھائیں گے اور اسے ترقی کے بلند ترین مرتبے دیں گے۔ بخلاف اس کے جو شخص فیشن، تہذیب، خوش تمیزی اور سوسائٹی کے مقبولِ عام اطوار کا معیاری مجسمہ ہو، لیکن وفاداری وجان نثاری میں ناقص ہو اور کام کے وقت اپنے مصالح کا زیادہ لحاظ کر جائے اسے وہ کوئی عزت کا مقام دینا تو درکنار شاید اس کا کورٹ مارشل کرنے میں بھی دریغ نہ کریں۔ یہ جب دُنیا کے کم عقل انسانوں کی معرفت کا حال ہے تو اپنے خدا کے متعلق آپ کا کیا گمان ہے،، کیا وہ سونے اور تانبے میں تمیز کرنے کے بجائے محض سطح پر اشرفی کا ٹھپہ دیکھ کر اشرفی کی قیمت اور پیسہ کا ٹھپہ دیکھ کر پیسے کی قیمت لگا دے گا؟
میری اس گزارش کو یہ معنی نہ پہنایے کہ میں ظاہری محاسن کی نفی کرنا چاہتا ہوں یا ان احکام کی تعمیل کو غیر ضروری قرار دے رہا ہوں جو زندگی کے ظاہری پہلوئوں کی اصلاح ودرستی کے متعلق دیے گئے ہیں، درحقیقت میں تو اس کا قائل ہوں کہ بندۂ مومن کو ہر اُس حکم کی تعمیل کرنی چاہیے جو خدا اور رسولؐ نے دیا ہو اور یہ بھی مانتا ہوں کہ دین انسان کے باطن اور ظاہر دونوں کو درست کرنا چاہتا ہے لیکن جو چیز میں آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مقدم چیز ہے باطن نہ کہ ظاہر۔ پہلے باطن میں حقیقت کا جوہر پیدا کرنے کی فکر کیجیے، پھر ظاہر کو حقیقت کے مطابق ڈھالیے۔ آپ کو سب سے بڑھ کر اور سب سے پہلے اُن اوصاف کی طرف توجہ کرنی چاہیے جو اللّٰہ کے ہاں اصلی قدر کے مستحق ہیں اور جنھیں نشوونما دینا انبیا علیہم السلام کی بعثت کا اصلی مقصود تھا۔ ظاہر کی آراستگی اوّل تو ان اوصاف کے نتیجے میں فطرۃً خود ہی ہوتی چلی جائے گی اور اگر اس میں کچھ کسر رہ جائے تو تکمیلی مراحل میں اس کا اہتمام بھی کیا جا سکتا ہے۔
دوستو اور رفیقو! میں نے بیماری اورکم زوری کے باوجود آج یہ طویل تقریر آپ کے سامنے صرف اس لیے کی ہے کہ میں امرِ حق کو پوری وضاحت کے ساتھ آپ تک پہنچا کر خدا کے حضورؐ بری الذمہ ہونا چاہتا ہوں۔ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب اس کی مہلتِ عمرآن پوری ہو۔ اس لیے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ حق پہنچانے کی جو ذمے داری مجھ پر عائد ہوتی ہے اس سے سبک دوش ہو جائوں۔ اگر کوئی امر وضاحت طلب ہو تو پوچھ لیجیے۔ اگر میں نے ٹھیک ٹھیک حق آپ تک پہنچا دیا ہے، تو آپ بھی اس کے گواہ رہیں اور خدا بھی گواہ ہو۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللّٰہ مجھے اور آپ کو، سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
٭…٭…٭…٭…٭
بنائو اور بگاڑ
(یہ تقریر ۱۰ /مئی ۱۹۴۷ء کو دارالاسلام، نزد پٹھان کوٹ (مشرقی پنجاب) کے جلسۂ عام میں کی گئی تھی۔)({ FR 6485 })
حمد وثنا
تعریف اور شکر اس خدا کے لیے ہے جس نے ہمیں پیدا کیا، عقل اور سمجھ بوجھ عطا کی، بُرے اور بھلے کی تمیز بخشی، اور ہماری ہدایت وراہ نمائی کے لیے اپنے بہترین بندوں کو بھیجا، اور سلام ہو خدا کے ان نیک بندوں پر جنھوں نے آدم کی اولاد کو آدمیت کی تعلیم دی، بھلے مانسوں کی طرح رہنا سکھایا، انسانی زندگی کے اصل مقصد سے آگاہ کیا اور وہ اصول اُن کو بتائے جن پر چل کر وہ دُنیا میں سکھ اور آخرت میں نجات پا سکتے ہیں۔
حاضرین وحاضرات! یہ دُنیا جس خدا نے بنائی اور جس نے اس زمین کا فرش بچھا کر اس پر انسانوں کو بسایا ہے وہ کوئی اندھا دھند اور الل ٹپ کام کرنے والا خدا نہیں۔ وہ چوپٹ راجہ نہیں ہے کہ اس کی نگری اندھیر نگری ہو۔ وہ اپنے مستقل قانون، پختہ ضابطے اور مضبوط قاعدے رکھتا ہے جن کے مطابق وہ سارے جہان پر خدائی کر رہا ہے۔ اس کے قانون سے جس طرح سورج، چاند، زمین اور تارے بندھے ہوئے ہیں، اس کا قانون جس طرح ہماری پیدائش اور موت پر ہمارے بچپن اور جوانی اور بڑھاپے پر، ہمارے سانس کی آمدورفت پر ہمارے ہاضمے اور خون کی گردش پر، اور ہماری بیماری اور تندرستی پر بے لاگ اور اٹل طریقے سے چل رہا ہے، ٹھیک اسی طرح اس کا ایک اور قانون بھی ہے جو ہماری تاریخ کے اتار چڑھائو پر، ہمارے گرنے اور اٹھنے پر، ہماری ترقی اور تنزل پر، اور ہماری ذاتی، قومی اور ملکی تقدیروں پر حُکُومت کر رہا ہے اور یہ قانون بھی اتنا ہی بے لاگ اور اٹل ہے۔ اگر یہ ممکن نہیں ہے کہ آدمی ناک سے سانس لینے کے بجائے آنکھوں سے سانس لینے لگے اور معدے میں کھانا ہضم کرنے کے بجائے دل میں ہضم کرنے لگے، تو یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ خدا کے قانون کی رُو سے جس راہ پر چل کر کسی قوم کو نیچے جانا چاہیے وہ اسے بلندی پر لے جائے۔ اگر آگ ایک کے لیے گرم اور دوسرے کے لیے ٹھنڈی نہیں ہے تو بُرے کرتوت بھی، جو خدا کے قانون کی رُو سے بُرے ہیں، ایک کو گرانے والے اور دوسرے کو اٹھانے والے نہیں ہو سکتے۔ جو اصول بھی خدا نے انسان کی بھلی اور بُری تقدیر بنانے کے لیے مقرر کیے ہیں، وہ نہ کسی کے بدلے بدل سکتے ہیں، نہ کسی کے ٹالے ٹل سکتے ہیں، اور نہ ان میں کسی کے ساتھ دشمنی اورکسی کے ساتھ رعایت ہی پائی جاتی ہے۔
(۱) خدا کے اس قانون کی پہلی اور سب سے اہم دفعہ یہ ہے کہ:
’’وہ بنائو کو پسند کرتا ہے اور بگاڑ کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
خدا اپنی زمین کا انتظام کسے دیتا ہے؟
مالک ہونے کی حیثیت سے اس کی خواہش یہ ہے کہ اس کی دُنیا کا انتظام ٹھیک کیا جائے۔ اسے زیادہ سے زیادہ سنوارا جائے۔ اسے دیے ہوئے ذرائع اور اس کی بخشی ہوئی قوتوں اور قابلیتوں کو زیادہ سے زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ وہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا… اور اس سے یہ توقع کی بھی نہیں جا سکتی کہ وہ کبھی اسے پسند کرے گا… کہ اس کی دُنیا بگاڑی جائے، اُجاڑی جائے، اور اسے بدنظمی سے، گندگیوں سے اور ظلم وستم سے خراب کر ڈالا جائے۔ انسانوں میں سے جو لوگ بھی دُنیا کے انتظام کے امیدوار بن کر کھڑے ہوتے ہیں، جن کے اندر بنانے کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت ہوتی ہے، انھی کو وہ یہاں انتظام کے اختیارات سپرد کرتا ہے۔
زیادہ بگاڑنے والے پھینک دیے جاتے ہیں
پھر وہ دیکھتا رہتا ہے کہ یہ لوگ بناتے کتنا ہیں اور بگاڑتے کتنا ہیں۔ جب تک ان کا بنائو ان کے بگاڑ سے زیادہ ہوتا ہے اور کوئی دوسرا اُمیدوار ان سے اچھا بنانے والا اور ان سے کم بگاڑنے والا میدان میں موجود نہیں ہوتا، اس وقت تک ان کی ساری بُرائیوں اور ان کے تمام قصوروں کے باوجود دُنیا کا انتظام انھی کے سپرد رہتا ہے۔ مگر جب وہ کم بنانے اور زیادہ بگاڑنے لگتے ہیں تو خدا انھیں ہٹا کر پھینک دیتا ہے اور دوسرے امیدواروں کو اسی لازمی شرط پر انتظام سونپ دیتا ہے۔
باغ کے مالک اور مالی کی مثال
یہ قانون بالکل ایک فطری قانون ہے اور آپ کی عقل گواہی دے گی، کہ اسے ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اگر آ پ میں سے کسی شخص کا کوئی باغ ہو اور وہ اسے ایک مالی کے سپرد کر دے تو آپ خود بتایے کہ وہ اس مالی سے اولین بات کیا چاہے گا؟ باغ کا مالک اپنے مالی سے اس کے سوا اور کیا چاہ سکتا ہے کہ وہ اس کے باغ کو بنائے نہ کہ خراب کرکے رکھ دے۔ تو وہ لازماً یہی چاہے گا کہ اس کے باغ کو زیادہ سے زیادہ بہتر حالت میں رکھا جائے۔ زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے۔ اس کے حُسن میں، اس کی صفائی میں، اس کی پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو۔ جس مالی کو وہ دیکھے گا کہ وہ خوب محنت سے، جی لگا کر سلیقے اور قابلیت کے ساتھ اس کے باغ کی خدمت کر رہا ہے اس کی روشوں کو سنوار رہا ہے، اس کے اچھے درختوں کی پرورش کر رہا ہے، اس کو بُری ذات کے درختوں اور جھاڑ جھنکاڑ سے صاف کر رہا ہے اور اس میں اپنی جدت اور جودت سے عمدہ پھلوں اور پھولوں کی نئی نئی قسموں کا اضافہ کر رہا ہے، تو ضرور ہے کہ وہ اس سے خوش ہو، اسے ترقی دے اور ایسے لائق، فرض شناس، اور خدمت گزار مالی کو نکالنا کبھی پسند نہ کرے۔ لیکن اس کے برعکس اگر وہ دیکھے کہ مالی نالائق بھی ہے، کام چور بھی ہے، اور جان بوجھ کر یا بے جانے بوجھے اس باغ کے ساتھ بدخواہی کر رہا ہے، سارا باغ گندگیوں سے اٹا پڑا ہے۔ روشیں ٹوٹ پھوٹ رہی ہیں، پانی کہیں بلاضرورت بہہ رہا ہے اور کہیں قطعے کے قطعے سوکھتے چلے جا رہے ہیں، گھاس پھونس اور جھاڑ جھنکاڑ بڑھتے جاتے ہیں اور پھولوں اور پھل دار درختوں کو بے دردی کے ساتھ کاٹ کاٹ کر اور توڑ توڑ کر پھینکا جا رہا ہے، اچھے درخت مرجھا رہے ہیں اور خاردار جھاڑیاں بڑھ رہی ہیں، تو آپ خود ہی سوچیے کہ باغ کا مالک ایسے مالی کو کیسے پسند کر سکتا ہے۔ کون سی سفارش، کون سی عرض ومعروض اور دست بستہ التجائیں، اور کون سے آبائی حقوق یا دوسرے خود ساختہ حقوق کا لحاظ اسے اپنا باغ ایسے مالی کے حوالے کیے رہنے پرآمادہ کر سکتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ رعایت وہ بس اتنی ہی تو کرے گا کہ اسے تنبیہ کرکے پھر ایک موقع دے دے۔ مگر جو مالی تنبیہ پر بھی ہوش میں نہ آئے، اور باغ کواجاڑے ہی چلا جائے اس کا علاج اس کے سوا اور کیا ہے کہ باغ کا مالک کان پکڑ کر اُسے نکال باہر کرے اور دوسرا مالی اس کی جگہ رکھ لے۔
اب غور کیجیے کہ اپنے ایک ذرا سے باغ کے انتظام میں جب آپ یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں تو خدا، جس نے اپنی اتنی بڑی زمین اتنے سروسامان کے ساتھ انسانوں کے حوالے کی ہے، اور اتنے وسیع اختیارات انھیں اپنی دُنیا اور اس کی چیزوں پر دیے ہیں، وہ آخر اس سوال کو نظر انداز کیسے کر سکتا ہے کہ آپ اس کی دُنیا بنا رہے ہیں یا اجاڑ رہے ہیں۔ آپ بنا رہے ہوں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ آپ کو خواہ مخواہ ہٹا دے لیکن اگر آپ بنائیں کچھ نہیں اور اس کے عظیم الشان باغ کو بگاڑتے اور اجاڑتے ہی چلے جائیں تو آپ نے اپنے دعوے اپنی دانست میں خواہ کیسی ہی زبردست من مانی بنیادوں پر قائم کر رکھے ہوں، وہ اپنے باغ پر آپ کے حق کو تسلیم نہیں کرے گا۔ کچھ تنبیہات کرکے، سنبھلنے کے دوچار مواقع دے کر، آخر کار وہ آپ کو انتظام سے بے دخل کرکے ہی چھوڑے گا۔
خدائی اور انسانی نقطۂ نظر کا فرق
اس معاملے میں خدا کا نقطۂ نظر انسانوں کے نقطۂ نظر سے اسی طرح مختلف ہے جس طرح خود انسانوں میں ایک باغ کے مالک کا نقطۂ نظر اس کے مالی کے نقطۂ نظر سے مختلف ہوا کرتا ہے۔ فرض کیجیے کہ مالیوں کا ایک خاندان دو چار پُشت سے ایک شخص کے باغ میں کام کرتا چلا آ رہا ہے۔ ان کا کوئی دادا پردادا اپنی لیاقت وقابلیت کی وجہ سے یہاں رکھا گیا تھا۔ پھر اس کی اولاد نے بھی اچھا کام کیا۔ مالک نے سوچا کہ خواہ مخواہ انھیں ہٹانے اور نئے آدمی رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ جب کام یہ بھی اچھا ہی کر رہے ہیں تو ان کا حق دوسرے سے زیادہ ہے۔ اس طرح یہ خاندان باغ میں جم گیا لیکن اب اس خاندان کے لوگ نہایت نالائق، بے سلیقہ، کام چور اور نافرض شناس اٹھے ہیں۔ باغبانی کی کوئی صلاحیت ان کے اندر نہیں ہے۔ سارے باغ کا ستیاناس کیے ڈالتے ہیں اور اس پر ان کا دعوٰی ہے کہ ہم باپ دادا کے وقتوں سے اس باغ میں رہتے چلے آتے ہیں، ہمارے پردادا ہی کے ہاتھوں اوّل اوّل یہ باغ آباد ہوا تھا، لہٰذا ہمارے اس پر پیدائشی حقوق ہیں، اور اب کسی طرح یہ جائز نہیں کہ ہمیں بے دخل کرکے کسی دوسرے کو یہاں کا مالی بنا دیا جائے۔ یہ ان نالائق مالیوں کا نقطۂ نظر ہے مگر کیا باغ کے مالک کا نقطۂ نظر بھی یہی ہو سکتا ہے؟ کیا وہ یہ نہ کہے گا کہ میرے نزدیک تو سب سے مقدم چیز میرے باغ کا حسنِ انتظام ہے۔ میں نے یہ باغ تمھارے پردادا کے لیے نہیں لگایا تھا بلکہ تمھارے پردادا کو اس باغ کے لیے نوکر رکھا تھا۔ تمھارے اس باغ پر جو حقوق بھی ہیں، خدمت اور قابلیت کے ساتھ مشروط ہیں۔ باغ کو بنائو گے تو تمھارے سب حقوق کا لحاظ کیا جائے گا۔ اپنے پرانے مالیوں سے آخر مجھے کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟ کہ وہ کام اچھا کریں تب بھی انھیں خواہ مخواہ نکال ہی دوں اور نئے امیدواروں کا بلا ضرورت تجربہ کروں لیکن اگر اس باغ ہی کو تم بگاڑتے اور اجاڑتے رہو جس کے انتظام کی خاطر تمھیں رکھا گیا ہے تو پھر تمھارا کوئی حق مجھے تسلیم نہیں ہے دوسرے امیدوار موجود ہیں، باغ کا انتظام ان کے حوالے کر دوں گا اور تمھیں ان کے ماتحت پیش خدمت بن کر رہنا ہو گا۔ اس پر بھی اگر تم درست نہ ہوئے اور ثابت ہوا کہ ماتحت کی حیثیت سے بھی تم کسی کام کے نہیں ہو، بلکہ کچھ بگاڑنے ہی والے ہو تو تمھیں یہاں سے نکال باہر کیا جائے گا اور تمھاری جگہ خدمت گار بھی دوسرے ہی لا کر بسائے جائیں گے۔
یہ فرق جومالک اور مالیوں کے نقطۂ نظر میں ہے، ٹھیک یہی فرق دُنیا کے مالک اور دُنیا والوں کے نقطۂ نظر میں بھی ہے۔ دُنیا کی مختلف قومیں زمین کے جس جس خطے میں بستی ہیں، اُن کا دعوٰی یہی ہے کہ یہ خطہ ہمارا قومی وطن ہے۔ پُشت ہا پُشت سے ہم اور ہمارے باپ دادا یہاں رہتے چلے آئے ہیں۔ اس ملک پر ہمارے پیدائشی حقوق ہیں۔ لہٰذا یہاں انتظام ہمارا اپنا ہی ہونا چاہیے، کسی دوسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ باہر سے آ کر یہاں کا انتظام کرے مگر زمین کے اصلی مالک خدا کا نقطۂ نظر یہ نہیں ہے۔ اس نے کبھی ان قومی حقوق کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ وہ نہیں مانتا کہ ہر ملک پر اس کے باشندوں کا پیدائشی حق ہے، جس سے اسے کسی حال میں بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ کوئی قوم اپنے وطن میں کیا کام کر رہی ہے۔ اگر وہ بنائو اور سنوار کے کام کرتی ہو، اگر وہ اپنی قوتیں زمین کی اصلاح وترقی میں استعمال کرتی ہو، اگر وہ برائیوں کی پیداوار روکنے اور بھلائیوں کی کھیتی سینچنے میں لگی ہوئی ہو تو مالکِ کائنات کہتا ہے کہ بے شک تم اس کے مستحق ہو کہ یہاں کا انتظام تمھارے ہاتھ میں رہنے دیا جائے، تم پہلے سے یہاں آباد بھی ہو اور اہل بھی ہو۔ لہٰذا تمھارا ہی حق دوسروں کی بہ نسبت مقدم ہے لیکن اگر معاملہ برعکس ہو، بنائو کچھ نہ ہو اور سب بگاڑ ہی کے کام ہوئے جا رہے ہوں، بھلائیاں کچھ نہ ہوں اور برائیوں ہی سے خدا کی زمین بھری جا رہی ہو، جو کچھ خدا نے زمین پر پیدا کیا ہے، اسے بے دردی کے ساتھ تباہ کیا جا رہا ہو اور کوئی بہتر کام اس سے لیا ہی نہ جاتا ہو تو پھر خدا کی طرف سے پہلے کچھ ہلکی اورکچھ سخت چوٹیں لگائی جاتی ہیں، تاکہ یہ لوگ ہوش میں آئیں اور اپنا رویّہ درست کر لیں، پھر جب وہ قوم اس پر درست نہیں ہوتی تو اسے ملک کے انتظام سے بے دخل کر دیا جاتا ہے اور کسی دوسری قوم کو، جو کم ازکم اس کی بہ نسبت اہل تر ہو، وہاں کی حُکُومت دے دی جاتی ہے اور بات اس پر بھی ختم نہیں ہوتی۔ اگر ماتحت بننے کے بعد بھی باشندگانِ ملک کسی لیاقت واہلیت کا ثبوت نہیں دیتے اور اپنے عمل سے یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ان سے کچھ بھی بن نہ آئے گا بلکہ کچھ بگڑ ہی جائے گا، تو خدا پھر ایسی قوم کو مٹا دیتا ہے اور دوسروں کو لے آتا ہے جو اس کی جگہ بستے ہیں۔ اس معاملے میں خدا کا نقطۂ نظر ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو مالک کا ہونا چاہیے۔ وہ اپنی زمین کے انتظام میں دعویداروں اور امیدواروں کے آبائی یا پیدائشی حقوق نہیں دیکھتا۔ وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ ان میں کون بنائو کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت اور بگاڑ کی طرف کم سے کم میلان رکھتا ہے۔ ایک وقت کے امیدواروں میں سے جو اس لحاظ سے اہل تر نظر آتے ہیں انتخاب انھی کا ہوتا ہے اور جب تک ان کے بگاڑ سے ان کا بنائو زیادہ رہتا ہے، یا جب تک ان کی بہ نسبت زیادہ اچھا بنانے والا اور کم بگاڑنے والا کوئی میدان میں نہیں آ جاتا، اس وقت تک انتظام انھی کے سپرد رہتا ہے۔
تاریخی شہادتیں
یہ جو کچھ عرض کر رہا ہوں، تاریخ گواہ ہے کہ خدا نے ہمیشہ اپنی زمین کا انتظام اسی اصول پر کیا ہے۔ دور کیوں جائیے، خود اپنے اسی ملک کی تاریخ دیکھ لیجیے۔ یہاں جو قومیں پہلے آباد تھیں ان کی تعمیری صلاحیتیں جب ختم ہو گئیں تو خدا نے آریوں کو یہاں کے انتظام کا موقع دیا جو اپنے وقت کی قوموں میں سب سے زیادہ اچھی صلاحیتیں رکھتے تھے۔ انھوں نے یہاں آ کر ایک بڑے شان دار تمدن کی بنارکھی، بہت سے علوم وفنون ایجاد کیے، زمین کے خزانوں کو نکالا اور انھیں بہتری میں استعمال کیا، بگاڑ سے زیادہ بنائو کے کام کرکے دکھائے۔ یہ قابلیتیں جب تک ان میں رہیں، تاریخ کے سارے نشیبوں اور فرازوں کے باوجود یہی اس ملک کے منتظم رہے۔ دوسرے امیدوار بڑھ بڑھ کر آگے آئے مگر دھکیل دیے گئے، کیوں کہ ان کے ہوتے دوسرے منتظم کی ضرورت نہ تھی۔ ان کے حملے زیادہ سے زیادہ بس یہ حیثیت رکھتے تھے کہ جب کبھی یہ ذرا بگڑتے ہی چلے گئے اور انھوں نے بنائو کے کام کم اور بگاڑنے کے کام زیادہ کرنے شروع کر دئیے، جب انھوں نے اَخلاق میں وہ پستی اختیار کی جس کے آثار بام مارگی تحریک میں آپ اب بھی دیکھ سکتے ہیں، جب انھوں نے انسانیت کی تقسیم کرکے خود اپنی ہی سوسائٹی کو ورنوں اور ذاتوں میں پھاڑ ڈالا، اپنی اجتماعی زندگی کو ایک زینے کی شکل میں ترتیب دیا، جس کی ہر سیڑھی کا بیٹھنے والا اپنے سے اوپر کی سیڑھی والے کا بندہ اور نیچے کی سیڑھی والے کا خدا بن گیا، جب انھوں نے خدا کے لاکھوں کروڑوں بندوں پر وہ ظلم ڈھایا جو آج تک اچھوت پن کی شکل میں موجود ہے، جب انھوں نے علم کے دروازے عام انسانوں پر بند کر دئیے، اور ان کے پنڈت علم کے خزانوں پر سانپ بن کر بیٹھ گئے، اور جب ان کے کار فرما طبقوں کے پاس اپنے زبردستی جمائے ہوئے حقوق وصول کرنے اور دوسروں کی محنتوں پر داد عیش دینے کے سوا کوئی کام نہ رہا، تو خدا نے آخر کار ان سے ملک کا انتظام چھین لیا اور وسط ایشیا کی ان قوموں کو یہاں کام کرنے کا موقع دیا جو اس وقت اِسلامی تحریک سے متاثر ہو کر زندگی کی بہتر صلاحیتوں سے آراستہ ہو گئی تھیں۔
یہ لوگ سیکڑوں برس تک یہاں کے انتظام پر سرفراز رہے، اور ان کے ساتھ خود اس ملک کے بھی بہت سے لوگ اِسلام قبول کرکے شامل ہو گئے۔ اس میں شک نہیں کہ ان لوگوں نے بہت کچھ بگاڑا بھی، مگر جتنا بگاڑا اس سے زیادہ بنایا۔ کئی سو برس تک ہندوستان میں بنائو کا جو کام بھی ہوا، انھی کے ہاتھوں ہوا یا پھر ان کے اثر سے ہوا، انھوں نے علم کی روشنی پھیلائی۔ خیالات کی اصلاح کی، تمدن ومعاشرت کو بہت کچھ درست کیا۔ ملک کے ذرائع ووسائل کو اپنے عہد کے معیار کے لحاظ سے بہتری میں استعمال کیا اور امن وانصاف کا وہ عمدہ نظام قائم کیا جو اگرچہ اِسلام کے اصلی معیار سے بہت کم تھا مگر پہلے کی حالت اور گرد وپیش کے دوسرے ملکوں کی حالت سے مقابلہ کرتے ہوئے کافی بلند تھا۔ اس کے بعد وہ بھی اپنے پیش روئوں کی طرح بگڑنے لگے۔ ان کے اندر بھی بنائو کی صلاحیتیں گھٹنی شروع ہوئیں اور بگاڑ کے میلانات بڑھتے چلے گئے۔ انھوں نے بھی اونچ نیچ اور نسلی امتیازات اور طبقاتی تفریقیں کرکے خود اپنی سوسائٹی کو پھاڑ لیا، جس کے بے شمار اَخلاقی، سیاسی اور تمدنی نقصانات ہوئے۔ انھوں نے بھی انصاف کم اور ظلم زیادہ کرنا شروع کر دیا۔ وہ بھی حُکُومت کی ذمہ داریوں کو بھول کر صرف اس کے فائدوں اور زیادہ تر ناجائز فائدوں پر نظر رکھنے لگے۔ انھوں نے بھی ترقی اور اصلاح کے کام چھوڑ کر خدا کی دی ہوئی قوتوں اور ذرائع کو ضائع کرنا شروع کیا اور اگر استعمال کیا بھی تو زیادہ تر زندگی کو بگاڑنے والے کاموں میں کیا۔ تن آسانی وعیش پرستی میں وہ اتنے کھوئے گئے کہ جب آخری شکست کھا کر ان کے فرماں روائوں کو دلّی کے لال قلعہ سے نکلنا پڑا تو ان کے شاہزادے… وہی جو کل تک حُکُومت کے امیدوار تھے… جان بچانے کے لیے بھاگ بھی نہ سکتے تھے۔ کیوں کہ زمین پر چلنا انھوں نے چھوڑ رکھا تھا۔ مسلمانوں کی عام اَخلاقی پستی اس حد کو پہنچ گئی کہ ان کے عوام سے لے کر بڑے بڑے ذمہ دار لوگوں تک کسی میں بھی اپنی ذات کے سوا دوسری کسی چیز کی وفاداری باقی نہ رہی جو انھیں دین فروشی، قوم فروشی اور ملک فروشی سے روکتی۔ ان میں ہزاروں لاکھوں پیشہ ور سپاہی پیدا ہونے لگے جن کی اَخلاقی حالت پالتو کُتّوں کے سی تھی کہ جو چاہے روٹی دے کر انھیں پال لے اور پھر جس کا دل چاہے ان سے شکار کر الے۔ ان میں یہ احساس بھی باقی نہ رہا کہ یہ ذلیل ترین پیشہ، جس کی بدولت ان کے دشمن خود انھی کے ہاتھوں میں ایک ملک فتح کر رہے تھے، اپنے اندر کوئی ذلت کا پہلو بھی رکھتا ہے۔ غالبؔ جیسا شخص فخریہ کہتا ہے کہ:
سو پُشت سے ہے پیشۂ آبائ سپہ گری
یہ بات کہتے ہوئے اتنے بڑے شاعر کو ذرا خیال تک نہ گزرا کہ پیشہ ورانہ سپہ گری کوئی فخر کی بات نہیں، ڈوب مرنے کی بات ہے۔
جب یہ ان کی حالت ہو گئی تو خدا نے ان کی معزولی کا بھی فیصلہ کر لیا۔ اور ہندوستان کے انتظام کا منصب پھر نئے امیدواروں کے لیے کھل گیا۔ اس موقع پر چار امیدوار میدان میں تھے۔ مرہٹے، سکھ، انگریز اور بعض مسلمان رئیس۔ آپ خود انصاف کے ساتھ، قومی تعصب کی عینک اُتار کر اس دَور کی تاریخ اور بعد کے حالات کو دیکھیں گے تو آپ کا دل گواہی دے گا کہ دوسرے امیدواروں میں سے کسی میں بھی بنائو کی وہ صلاحیتیں نہ تھیں جو انگریزوں میں تھیں اور جتنا بگاڑ انگریزوں میں تھا اس سے کہیں زیادہ بگاڑ، مرہٹوں، سکھوں اور مسلمان امیدواروں میں تھا۔ جو کچھ انگریزوں نے بنایا وہ ان میں سے کوئی نہ بناتا اور جو کچھ انھوں نے بگاڑا اس سے بہت زیادہ یہ امیدوار بگاڑ کر رکھ دیتے۔ مطلقاً دیکھیے تو انگریزوں میں بہت سے پہلوئوں سے بے شمار برائیاں آپ کو نظر آئیں گی۔ مگر مقابلتاً دیکھیے تو اپنے ہم عصر حریفوں سے ان کی برائیاں بہت کم اور اُن کی خوبیاں بہت نکلیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے قانون نے پھر ایک مرتبہ انسانوں کے اس من مانے اصول کو توڑ دیا۔ جو انھوں نے بغیر کسی حق کے بنا رکھا ہے کہ ’’ہر ملک خود ملکیوں کے لیے ہے خواہ وہ اسے بنائیں یا بگاڑیں‘‘۔ اس نے تاریخ کے اٹل فیصلے سے ثابت کیا کہ نہیں۔ مالک تو خدا ہے، وہی یہ طے کرنے کا حق رکھتا ہے کہ اس کا انتظام کس کے سپرد کرے اور کس سے چھین لے۔ اس کا فیصلہ کسی نسلی، قومی یا آبائی حق کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ مجموعی بھلائی کون سے انتظام میں ہے۔
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۰ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo آل عمران26:3
’’کہو کہ خدایا، ملک کے مالک! تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے۔ بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے اور تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘۔
اس طرح اللہ تعالیٰ ہزاروں میل کے فاصلے سے ایک ایسی قوم کو لے آیا جو کبھی یہاں تین چار لاکھ کی تعداد سے زیادہ نہیں رہی اور اس نے یہیں کے ذرائع اور یہیں کے آدمیوں سے یہاں کی ہندو، مسلم، سکھ سب طاقتوں کو زیر کرکے اس ملک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ یہاں کے کروڑوں باشندے اُن مٹھی بھر انگریزوں کے تابع فرمان بن کر رہے۔ ایک ایک انگریز نے تنِ تنہا ایک ایک ضلع پر حُکُومت کی، بغیر اس کے کہ اس کی قوم کا کوئی دوسرا فرد اس کا ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے اس کے پاس موجود ہوتا۔ اس تمام دوران میں ہندوستانیوں نے جو کچھ کیا پیش خدمت کی حیثیت سے کیا نہ کہ کارفرما کی حیثیت سے، ہم سب کو یہ ماننا پڑے گا، اور نہ مانیں گے تو حقیقت کو جھٹلائیں گے کہ اس ساری مدت میں، جب کہ انگریز یہاں رہے، بنائو کا جو کچھ بھی کام ہوا، انگریزوں کے ہاتھوں سے اور ان کے اثرسے ہوا۔ جس حالت میں انھوں نے ہندوستان کو پایا تھا اس کے مقابلے میں آج کی حالت دیکھیے تو آپ اس بات سے انکار نہ کر سکیں گے کہ بگاڑ کے باوجود بنائو کا بہت سا کام ہوا ہے جس کے خود اہلِ ملک کے ہاتھوں انجام پانے کی ہرگز توقع نہ کی جا سکتی تھی۔ اس لیے تقدیر الٰہی کا وہ فیصلہ غلَط نہ تھا جو اس نے اٹھارویں صدی کے وسط میں کر دیا تھا۔
اب دیکھیے کہ جو کچھ انگریز بنا سکتے تھے وہ بنا چکے ہیں۔ ان کے بنائو کے حساب میں اب کوئی خاص اضافہ نہیں ہو سکتا۔ اس حساب میں جواضافہ وہ کر سکتے ہیں وہ دوسروں کے ہاتھوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ مگر دوسری طرف ان کے بگاڑ کا حساب بہت بڑھ چکا ہے اور جتنی مدت بھی وہ یہاں رہیں گے بنائو کی بہ نسبت بگاڑ ہی زیادہ بڑھائیں گے… ان کی فرد جرم اتنی لمبی ہے کہ اسے ایک صحبت میں بیان کرنا مشکل ہے اور ا س کے بیان کی کوئی حاجت بھی نہیں ہے، کیوں کہ وہ سب کے سامنے ہے… اب تقدیر الٰہی کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ یہاں کے انتظام سے بے دخل کر دیے جائیں۔ انھوں نے بہت عقل مندی سے کام لیا کہ خود سیدھی طرح رخصت ہونے کے لیے تیار ہو گئے۔ سیدھی طرح نہ جاتے تو ٹیڑھی طرح نکالے جاتے، کیوں کہ خدا کے اصل قوانین اب ان کے ہاتھ میں یہاں کا انتظام رکھنے کے روادار نہیں ہیں۔
ہندوستان کی آزادی
یہ موقع جس کے عین سرے پر ہم آپ کھڑے ہیں، تاریخ کے اُن اہم مواقع میں سے ہے جب زمین کا اصلی مالک کسی ملک میں ایک انتظام کو ختم کر دیتا ہے اور دوسرے انتظام کا فیصلہ کرتا ہے۔ بظاہر جس طرح یہاں انتقالِ اختیارات کا معاملہ طے ہوتا نظر آ رہا ہے اس سے یہ دھوکا نہ کھا جائیے کہ یہ قطعی فیصلہ ہے جو ملک کا انتظام خود اہلِ ملک کے حوالے کیے جانے کے حق میں ہو رہا ہے۔ آپ شاید معاملے کی سادہ سی صورت سمجھتے ہوں گے کہ اجنبی لوگ جو باہر سے آ کر حُکُومت کر رہے تھے واپس جا رہے ہیں، اس لیے اب یہ آپ سے آپ ہونا ہی چاہیے کہ ملک کا انتظام خود ملکیوں کے ہاتھ آئے، نہیں، خدا کے فیصلے اس طرح کے نہیں ہوتے، وہ ان اجنبیوں کو نہ پہلے بلا وجہ لایا تھا نہ اب بلاوجہ لے جا رہا ہے۔ نہ پہلے الَل ٹپ اس نے آپ سے انتظام چھینا تھا اور نہ اب الل ٹپ وہ اسے آپ کے حوالے کر دے گا۔ دراصل اس وقت ہندوستان کے باشندے امیدوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہندو، مسلم، سکھ سب امیدوار ہیں۔ چوں کہ یہ پہلے سے یہاں آباد چلے آ رہے ہیں اس لیے پہلا موقع انھی کو دیا جا رہا ہے لیکن یہ مستقل تقرر نہیں ہے بلکہ محض امتحانی موقع ہے۔ اگر فی الواقع انھوں نے ثابت کیا کہ ان کے اندر بگاڑ سے بڑھ کر بنائو کی صلاحیتیں ہیں تب تو ان کا تقرر مستقل ہو جائے گا ورنہ اپنے بنائو سے بڑھ کر اپنا بگاڑ پیش کرکے یہ بہت جلدی دیکھ لیں گے کہ انھیں پھر اس ملک کے انتظام سے بے دخل کر دیا جائے گا اور دو رونزدیک کی قوموں میں سے کسی ایک کو اس خدمت کے لیے منتخب کر لیا جائے گا۔ پھر اس فیصلے کے خلاف یہ کوئی فریاد تک نہ کر سکیں گے۔ دُنیا بھر کے سامنے اپنی نالائقی کا کھلا ثبوت دے چکنے کے بعد ان کا منہ کیا ہو گا کہ کوئی فریاد کریں اور ڈھیٹ بن کر فریاد کریں گے بھی تو اس کی داد کون دے گا۔
اب ذرا آپ جائزہ لے کردیکھیں کہ ہندوستان کے لوگ… ہندو ،مسلمان، سکھ… اس امتحان کے موقع پر اپنے خدا کے سامنے اپنی کیا صلاحیتیں اور قابلیتیں اور اپنے کیا اوصاف اور کارنامے پیش کر رہے ہیں جن کی بنا پر یہ امید کر سکتے ہیں کہ خدا اپنے ملک کا انتظام پھر ان کے سپرد کر دے گا۔ اس موقع پر اگر میں بے لاگ طریقے سے کھلم کھلا وہ فردِ جرم سنا دوں جو اَخلاق کی عدالت میں ہندوئوں، مسلمانوں اور سکھوں سب پر لگتی ہے، تو میں امید کرتا ہوں کہ آپ بُرا نہ مانیں گے۔ اپنی قوم اور اپنے وطنی بھائیوں کے عیوب بیان کرکے خوشی تو مجھے بھی نہیں ہوتی۔ حقیقت میں میرا دل روتا ہے مگر میں ضروری سمجھتا ہوں کہ خواہ وہ راضی ہوں یا ناراض بہرحال سچی بات ان سے کہہ دوں کیوں کہ میں گویا اپنی آنکھوں سے انجام کو دیکھ رہا ہوں جو ان عیوب کی بنا پر کل انھیں دیکھنا ہی نہیں، بھگتنا بھی پڑے گا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ عیوب انھیں لے ڈوبیں گے۔ ہم، آپ، کوئی بھی ان کے انجام بد سے نہ بچے گا۔ اس لیے میں انھیں دلی رنج کے ساتھ بیان کرتا ہوں تاکہ جن کے کان ہوں وہ سنیں اور اصلاح کی کچھ فکر کریں۔
ہماری اَخلاقی حالت
ہمارے افراد کی عام اَخلاقی حالت جیسی کچھ ہے، آپ اس کا اندازہ خود اپنے ذاتی تجربات ومشاہدات کی بِنا پر کیجیے۔ ہم میں کتنے فی صد آدمی ایسے پائے جاتے ہیں جو کسی کا حق تلف کرنے میں کوئی ناجائز فائدہ اٹھانے میں کوئی ’’مفید‘‘ جھوٹ بولنے اور کوئی ’’نفع بخش‘‘ بے ایمانی کرنے میں صرف اس بنا پر تامل کرتے ہوں کہ ایسا کرنا اَخلاقاً بُرا ہے؟ جہاں قانون گرفت نہ کرتا ہو، یا جہاں قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کی امید ہو، وہاں کتنے فی صدی اشخاص محض اپنے اَخلاقی احساس کی بنا پر کسی جرم اور کسی برائی کا ارتکاب کرنے سے باز رہ جاتے ہیں؟ جہاں اپنے کسی ذاتی فائدے کی توقع نہ ہو، وہاں کتنے آدمی دوسروں کے ساتھ بھلائی، ہم دردی، ایثار، حق رسانی اور حُسنِ سلوک کا برتائو کرتے ہیں؟ ہمارے تجارت پیشہ لوگوں میں ایسے تاجروں کا اوسط کیا ہے، جو دھوکے اور فریب اور جھوٹ اور ناجائز نفع اندوزی سے پرہیز کرتے ہوں؟ ہمارے صنعت پیشہ لوگوں میں ایسے افراد کا تناسب کیا ہے جو اپنے فائدے کے ساتھ کچھ اپنے خریداروں کے مفاداور اپنی قوم اور اپنے ملک کی مصلحت کا بھی خیال رکھتے ہیں؟ ہمارے زمینداروں میں کتنے ہیں جو غلّہ روکتے ہوئے اور بے حد گراں قیمتوں پر بیچتے ہوئے یہ سوچتے ہوں کہ اپنی اس نفع اندوزی سے وہ کتنے لاکھ بلکہ کتنے کروڑ انسانوں کو فاقہ کشی کا عذاب دے رہے ہیں؟ ہمارے مال داروں میں کتنے ہیں جن کی دولت مندی میں کسی ظلم، کسی حق تلفی، کسی بددیانتی کا دخل نہیں ہے؟ ہمارے محنت پیشہ لوگوں میں کتنے ہیں جو فرض شناسی کے ساتھ اپنی اجرت اور اپنی تنخواہ کا حق ادا کرتے ہیں؟ ہمارے سرکاری ملازموں میں کتنے ہیں جو رشوت اور خیانت سے ظلم اور مردم آزاری سے، کام چوری اور حرام خوری سے، اور اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال سے بچے ہوئے ہیں؟ ہمارے وکیلوں میں، ہمارے ڈاکٹروں اور حکیموں میں، ہمارے اخبار نویسوں میں، ہمارے ناشرین ومصنّفین میں، ہمارے قومی ’’خدمت گزاروں‘‘ میں کتنے ہیں جو اپنے فائدے کی خاطر ناپاک طریقے اختیار کرنے اور خلقِ خدا کو ذہنی، اَخلاقی، مالی اور جسمانی نقصان پہنچانے میں کچھ بھی شرم محسوس کرتے ہوں؟ شاید میں مبالغہ نہ کروں گا اگر یہ کہوں کہ ہماری آبادی میں بمشکل ۵ فی صدی لوگ اس اَخلاقی جذام سے بچے رہ گئے ہیں، ورنہ ۹۵ فی صدی کو یہ چھوت بُری طرح لگ چکی ہے۔ اس معاملے میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور ہریجن کے درمیان کوئی امتیاز نہیں، سب کے سب یکساں بیمار ہیں، سب کی اَخلاقی حالت خوفناک حد تک گری ہوئی ہے، اور کسی گروہ کا حال دوسرے سے بہتر نہیں ہے۔ اَخلاقی تنزّل کی یہ وبا جب افراد کی ایک بہت بڑی اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تو قدرتی بات تھی کہ وسیع پیمانے پراجتماعی شکل میں اس کا ظہور شروع ہوجائے۔ اس آنے والے طوفان کی پہلی علامت ہمیں اس وقت نظر آئی جب جنگ کی وجہ سے ریلوں میں مسافروں کا ہجوم ہونے لگا، وہاں ایک ہی قوم اور ایک ہی ملک کے لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جس خود غرضی، بے دردی، اور سنگ دلی کا سلوک کیا، وہ پتہ دے رہا تھا کہ ہمارے عام اَخلاق کس تیز رفتاری کے ساتھ گِر رہے ہیں۔ پھراشیا کی کمیابی وگرانی کے ساتھ ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری بڑے وسیع پیمانے پر شروع ہوئی۔ پھربنگال کا وہ ہولناک مصنوعی قحط رونما ہوا جس میں ہمارے ایک طبقے نے اپنے ہی ملک کے لاکھوں انسانوں کو اپنے نفع کی خاطر بھوک سے تڑپا تڑپا کر مار دیا۔ یہ سب ابتدائی علامات تھیں۔ اس کے بعد خباثت، کمینہ پن، درندگی اور وحشت کا وہ لاوا یکایک پھوٹ پڑا، جو ہمارے اندرمدتوں سے پک رہا تھا اور اب وہ فرقہ ورانہ فساد کی شکل میں ہندوستان کو ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک بھسم کر رہا ہے کلکتہ کے فساد کے بعد سے ہندوئوں، مسلمانوں اور سکھوں کی قومی کش مکش کا جو نیا باب شروع ہوا ہے اس میں یہ تینوں قومیں اپنی ذلیل ترین صفات کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ جن افعال کا تصوّر تک نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کوئی انسان ان کا مرتکب ہو سکتا ہے، آج ہماری بستیوں کے رہنے والے علانیہ ان کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے علاقوں کی پوری پوری آبادیاں غنڈہ بن گئی ہیں اور وہ کام کر رہی ہیں جو کسی غنڈے کے خواب وخیال میں بھی کبھی نہ آئے تھے۔ شیر خوار بچوں کومائوں کے سینوں پر رکھ کر ذبح کیا گیا ہے۔ زندہ انسانوں کو آگ میں بھونا گیا ہے۔ شریف عورتوں کو برسر عام ننگا کیا گیا ہے۔ اور ہزاروں کے مجمع میں ان کے ساتھ بدکاری کی گئی ہے۔ باپوں، شوہروں اوربھائیوں کے سامنے ان کی بیٹیوں، بیویوں، اور بہنوں کو بے عزت کیا گیا ہے۔ عبادت گاہوں اور مذہبی کتابوں پر غصہ نکالنے کی ناپاک ترین شکلیں اختیار کی گئی ہیں۔ بیماروںاور زخمیوں، اور بوڑھوں کو انتہائی بے رحمی کے ساتھ مارا گیا ہے۔ مسافروں کو چلتی ریل پر سے پھینکا گیا ہے۔ زندہ انسانوں کے اعضا کاٹے گئے ہیں، نہتے اور بے بس انسانوں کا جانوروں کی طرح شکار کیا گیا ہے۔ ہمسایوں نے ہمسایوں کو لوٹا ہے۔ دوستوں نے دوستوں سے دغا کیا ہے۔ پناہ دینے والوں نے خود اپنی ہی دی ہوئی پناہ کو توڑا ہے۔ امن وامان کے محافظوں (پولیس اور فوج مجسٹریٹوں) نے علانیہ فساد میں حصہ لیا ہے، بلکہ خود فساد کیا ہے۔ اپنی حمایت ونگرانی میں فساد کرایا ہے۔ غرض ظلم وستم وسنگ دلی و بے رحمی وکمینگی بدمعاشی کی کوئی قسم ایسی نہیں رہ گئی ہے جس کا ارتکاب ان چند مہینوں میں ہمارے ملک کے رہنے والوں نے اجتماعی طور پر نہ کیا ہو اور ابھی دلوں کا غبارپوری طرح نکلا نہیں ہے۔ آثار بتا رہے ہیں کہ یہ سب کچھ اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر اور بدرجہا بدتر صورت میں ابھی ہونے والا ہے۔
اَخلاقی تنزل کے اسباب
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ محض کسی اتفاقی ہیجان کا نتیجہ ہے؟ اگر یہ آپ کا گمان ہے تو آپ سخت غلَط فہمی میں مبتلا ہیں۔ ابھی میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ اس ملک کی آبادی کے ۹۵ فی صد افراد اَخلاقی حیثیت سے بیمار ہو چکے ہیں۔ جب افراد کی اتنی بڑی اکثریت بد اَخلاق ہو جائے تو قوموں کا اجتماعی رویّہ آخر کیسے درست رہ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو، مسلمان اور سکھ تینوں قوموں میں سچائی، انصاف اور حق پسندی کی کوئی قدر وقیمت باقی نہیں رہی ہے۔ راست باز، دیانت دار اور شریف انسان ان کے اندر نکّو بن کر رہ گئے ہیں۔ برائی سے روکنا اور بھلائی کی نصیحت کرنا ان کی سوسائٹی میں ایک ناقابلِ برداشت جرم ہو گیا ہے۔ حق اور انصاف کی بات سننے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک قوم کو وہی لوگ پسند ہیں جو اس کی حد سے بڑھی ہوئی خواہشات اور اغراض کی وکالت کریں، دوسروں کے خلاف اس کے تعصبات کو بھڑکائیں اور اس کے جائز وناجائز مقاصد کے لیے لڑنے کے لیے تیار ہوں۔ اسی بنا پر ان قوموں نے چھانٹ چھانٹ کر اپنے اندر سے بدترین آدمیوں کو چنا، اور انھیں اپنا نمایندہ بنا لیا۔ انھوں نے اپنے اکابر مجرمین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا اور انھیں اپنا سربراہِ کار بنا لیا۔ ان کی سوسائٹی میں جو لوگ سب سے زیادہ پست اَخلاق، بے ضمیر اور بے اصول تھے وہ ان کی ترجمانی کے لیے اٹھے اور اخبار نویسی کے میدان میں وہی سب سے بڑھ کر مقبول ہوئے پھر یہ سب لوگ بگاڑ کی راہ پر اپنی اپنی بگڑی ہوئی قوموں کو سرپٹ لے کر چلے۔ انھوں نے متضاد قومی خواہشات کو کسی نقطۂ انصاف پر جمع کرنے کے بجائے اتنا بڑھایا کہ وہ آخر کار نقطۂ تصادم پر پہنچ گئیں۔ انھوں نے معاشی وسیاسی اغراض کی کش مکش میں غصے اور نفرت اور عداوت کا زہر ملایا اور اسے روز بروز بڑھاتے چلے گئے۔ انھوں نے برسوں اپنی زیر اثر قوموں کو اشتعال انگیز تقریروں اور تحریروں کے انجکشن دے دے کر یہاں تک بھڑکایا کہ وہ جوش میں آ کرکتوں اور بھیڑیوں کی طرح لڑنے کھڑی ہو گئیں۔ انھوں نے عوام وخواص کے دلوں کو ناپاک جذبات کی سنڈاس اور اندھی دشمنی کا تنور بنا کر رکھ دیا۔ اب جو طوفان آپ کی نگاہوں کے سامنے برپا ہے یہ کوئی وقتی اور ہنگامی چیز نہیں ہے جواچانک رونما ہو گئی ہو۔ یہ تو قدرتی نتیجہ ہے بگاڑ کے اُن بے شمار اسباب کا جو مدتوں سے ہمارے اندر کام کر رہے تھے اور یہ نتیجہ بس ایک ہی دفعہ ظاہر ہو کر نہیں رہ جائے گا، بلکہ جب تک وہ اسباب اپنا کام کیے جا رہے ہیں یہ روز افزوں ترقی کے ساتھ ظاہر ہوتا چلا جائے گا۔ یہ ایک بِس بھری فصل ہے جو برسوں کی تخم ریزی وآبیاری کے بعد اب پک کر تیار ہوئی ہے اور اسے آپ کو اور آپ کی نسلوں کو نہ معلوم کب تک کاٹنا پڑے گا۔
حضرات! آپ ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ عین اس وقت جب کہ قانونِ قدرت کے مطابق اس ملک کی قسمت کا نیا انتظام درپیش ہے، ہم مالکِ زمین کے سامنے اپنی اہلیت وقابلیت کا کیا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔ موقع تو یہ تھا کہ ہم اپنے طرزِ عمل سے یہ ثابت کرتے کہ اگروہ اپنی زمین کا انتظام ہمارے حوالے کرے گا تو ہم اسے خوب بنا سنوار کر گلزار بنا دیں گے۔ ہم اس میں انصاف کریں گے۔ اسے ہم دردی اور تعاون اور رحمت کا گہوارہ بنائیں گے۔ اس کے وسائل کو اپنی اور انسانیت کی فلاح میں استعمال کریں گے۔ اس میں بھلائیوں کو پروان چڑھائیں گے اور برائیوں کو دبائیں گے۔ لیکن ہم اسے بتا رہے ہیں کہ ہم ایسے غارت گر، اس قدر مفسد اور اتنے ظالم ہیں کہ اگر تو نے یہ زمین ہمارے حوالے کی تو ہم اس کی بستیوں کو اجاڑ دیں گے، محلے کے محلے اور گائوں کے گائوں پھونک دیں گے۔ انسانی جان کو مکھی اور مچھر سے زیادہ بے قیمت کر دیں گے، عورتوں کو بے عزت کریں گے۔ چھوٹے بچوں کو شکار کریں گے، بوڑھوں ،بیماروں اور زخمیوں پر بھی ترس نہ کھائیں گے۔ عبادت گاہوں اور مذہبی کتابوں تک کو اپنے نفس کی گندگی سے لیس دیں گے اور جس زمین کو تو نے انسانوں سے آباد کیا ہے اس کی رونق ہم لاشوں اور جلی ہوئی عمارتوں سے بڑھائیں گے۔ کیا واقعی آپ کا ضمیر یہ گواہی دیتا ہے کہ اپنی یہ خدمات، یہ اوصاف، یہ کارنامے پیش کرکے آپ خدا کی نگاہ میں اس کی زمین کے انتظام کے لیے اہل ترین بندے قرار پائیں گے؟ کیا یہ کرتوت دیکھ کر وہ آپ سے کہے گا کہ ’’شاباش! اے میرے پرانے مالیوں کی اولاد! تم ہی سب سے بڑھ کر میرے اس باغ کی رکھوالی کے قابل ہو۔ اسی اکھیڑ پچھاڑ، اسی اجاڑ اور بگاڑ، اسی تباہی وبربادی اور گندگی وغلاظت کے لیے تو مَیں نے یہ باغ لگایا تھا۔ لو اب اِسے اپنے ہاتھ میں لے کر خوب خراب کرو۔‘‘
میں یہ باتیں آپ سے اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ اپنے آپ سے اور اپنے مستقبل سے مایوس ہو جائیں۔ میں نہ تو خود مایوس ہوں، نہ کسی کومایوس کرنا چاہتا ہوں۔ دراصل میرا مدعا آپ کو یہ بتانا ہے کہ ہندوستان کے لوگ اپنی حماقت اور جہالت سے اس زرّیں موقع کو کھونے پر تُلے ہوئے ہیں جو کسی ملک کی قسمت بدلتے وقت صدیوں کے بعد خداوند عالم اس کے باشندوں کو دیا کرتا ہے۔ یہ وقت تھا کہ وہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر، اپنے اعلیٰ اوصاف اور اپنی بہتر صلاحیتوں کا ثبوت پیش کرتے تاکہ خدا کی نگاہ میں انتظامِ زمین کے اہل قرار پاتے۔ مگر آج ان کے درمیان مقابلہ اس چیز میں ہو رہا ہے کہ کون زیادہ غارت گر، زیادہ سفّاک اور زیادہ ظالم ہے تاکہ سب سے بڑھ کر خدا کی لعنت کا وہی مستحق قرار پائے۔ یہ لچھن آزادی اور ترقی، اور سرفرازی کے نہیں ہیں۔ ان سے تو اندیشہ ہے کہ کہیں پھرایک مدت دراز کے لیے ہمارے حق میں غلامی اور ذلت کا فیصلہ نہ لکھ دیا جائے۔ لہٰذا جو لوگ عقل وہوش رکھتے ہیں انھیں ان حالات کی اصلاح کے لیے کچھ فکر کرنی چاہیے۔ اس مرحلے پر آپ کے دل میں یہ سوال خود بخود پیدا ہو گا کہ اصلاح کی صورت کیا ہے؟ میں اس کا جواب دینے کے لیے حاضر ہوں۔
اُمید کی کرن
اس تاریکی میں ہمارے لیے امید کی ایک ہی شعاع ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہماری پوری آبادی بگڑ کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ اس میں کم از کم چار پانچ فی صد لوگ ایسے ضرور موجود ہیں جو اس عام بداَخلاقی سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ وہ سرمایہ ہے جس کو اصلاح کی ابتدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اصلاح کی راہ میں یہ پہلا قدم ہے کہ اس صالح عنصر کو چھانٹ کرمنظم کیا جائے۔ ہماری بدقسمتی کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں بدی تو منظم ہے اور پوری باقاعدگی سے اپنا کام کر رہی ہے لیکن نیکی منظم نہیں ہے۔ نیک لوگ موجود ضرور ہیں مگر منتشر ہیں۔ ان کے اندر کوئی ربط اور تعلق نہیں ہے، کوئی تعاون اور اشتراکِ عمل نہیں ہے، کوئی لائحہ عمل اور کوئی مشترک آواز نہیں ہے۔ اسی چیز نے انھیں بالکل بے اثر بنا دیا ہے۔ کبھی کوئی اللہ کا بندہ اپنے گردوپیش کی برائیوں کو دیکھ کر چیخ اٹھتا ہے، مگر جب کسی طرف سے کوئی آواز اس کی تائید میں نہیں اٹھتی تو مایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ کبھی کوئی شخص حق اور انصاف کی بات علانیہ کہہ بیٹھتا ہے۔ مگر منظم بدی زبردستی اس کا منہ بند کر دیتی ہے اور حق پسند لوگ بس اپنی جگہ چپکے سے اسے داد دے کر رہ جاتے ہیں۔ کبھی کوئی شخص انسانیت کا خون ہوتے دیکھ کر صبر نہیں کر سکتا اور اس پر احتجاج کرگزرتا ہے، مگر ظالم لوگ ہجوم کرکے اسے دبا لیتے ہیں اور اس کا حشر دیکھ کر بہت سے ان لوگوں کی ہمتیں پست ہو جاتی ہیں جن کے ضمیر میں ابھی کچھ زندگی باقی ہے۔ یہ حالت اب ختم ہونی چاہیے۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک خدا کے عذاب میں مبتلا ہو اور اس عذاب میں نیک وبد سب گرفتار ہو جائیں تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے اندر جو صالح عناصر اس اَخلاقی وبا سے بچے رہ گئے ہیں وہ اب مجتمع اور منظم ہوں اور اجتماعی طاقت سے اس بڑھتے ہوئے فتنے کا مقابلہ کریں جو تیزی کے ساتھ ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔
اِصلاح کی صورت
آ پ اس سے نہ گھبرائیں کہ یہ صالح عنصر اس وقت بظاہر بہت ہی مایوس کن اقلیت میں ہے، یہی تھوڑے سے لوگ اگر منظم ہوجائیں، اگر ان کا اپنا ذاتی اور اجتماعی رویّہ خالص راستی، انصاف، حق پسندی اور خلوص ودیانت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو، اور اگر وہ مسائلِ زندگی کا بہتر حل اور دُنیا کے معاملات کو درست طریقے پر چلانے کے لیے ایک اچھا پروگرام بھی رکھتے ہوں، تو یقین جانیے کہ اس منظم نیکی کے مقابلے میں منظم بدی اپنے لشکروں کی کثرت اور اپنے گندے ہتھیاروں کی تیزی کے باوجود شکست کھا کر رہے گی۔ انسانی فطرت شرپسند نہیں ہے۔ اسے دھوکا ضرور دیا جا سکتا ہے، اور ایک بڑی حد تک مسخ بھی کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے اندر بھلائی کی قدر کا جو مادّہ خالق نے ودیعت کر دیا ہے، اسے بالکل معدوم نہیں کیا جا سکتا۔ انسانوں میں ایسے لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں جو بدی ہی سے دل چسپی رکھتے ہوں اور اس کے علم بردار بن کرکھڑے ہوں اور ایسے لوگ بھی کم ہوتے ہیں جنھیں نیکی سے عشق ہو اور اسے قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان عام انسان نیکی اور بدی کے ملے جلے رجحانات رکھتے ہیں۔ وہ نہ بدی کے گرویدہ ہوتے ہیں اور نہ نیکی ہی سے انھیں غیر معمولی دل چسپی ہوتی ہے۔ ان کے کسی ایک طرف جھک جانے کا انحصار تمام تر اس پر ہوتا ہے کہ خیر اور شر کے علم برداروں میں سے کون آگے بڑھ کر انھیں اپنے راستے کی طرف کھینچتا ہے۔ اگر خیر کے علم بردار سرے سے میدان میں آئیں ہی نہیں اور ان کی طرف سے عوام الناس کو بھلائی کی راہ پر چلانے کی کوئی کوشش ہی نہ ہو تو لامحالہ میدان علم بردارانِ شرہی کے ہاتھ رہے گا اور وہ عام انسانوں کو اپنی راہ پر کھینچ لے جائیں گے۔ لیکن اگر خیر کے علم بردار بھی میدان میں موجود ہوں اور وہ اصلاح کی کوشش کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کریں تو عوام الناس پر علم بردارانِ شرکا اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ کیوں کہ ان دونوں کا مقابلہ آخر کار اَخلاق کے میدان میں ہو گا، اور اس میدان میں نیک انسانوں کو بُرے انسان کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ سچائی کے مقابلے میں جھوٹ، ایمان داری کے مقابلے میں بے ایمانی، اور پاک بازی کے مقابلے میںبدکرداری خواہ کتنا ہی زور لگائے، آخری جیت بہرحال سچائی، پاک بازی اور ایمان داری کی ہو گی۔ دُنیا اس قدر بے حس نہیں ہے کہ اچھے اَخلاق کی مٹھاس اور بُرے اَخلاق کی تلخی کو چکھ لینے کے بعد آخر کار اس کا فیصلہ یہی ہو کہ مٹھاس سے تلخی زیادہ بہتر ہے۔
اصلاح کے لیے نیک انسانوں کی تنظیم کے ساتھ دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ ہمارے سامنے بنائو اور بگاڑ کا ایک واضح تصوّر موجود ہو۔ ہم اچھی طرح یہ سمجھ لیں کہ بگاڑ کیا ہے تاکہ اسے دُور کرنے کی کوشش کی جائے اور بنائو کیا ہے تاکہ اسے عمل میں لانے پر سارا زور لگا دیا جائے۔ تفصیلات میں جانے کا اس وقت موقع نہیں ہے۔ میں بڑے اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے ان دونوں چیزوں کی ایک تصویر پیش کروں گا۔
انسانی زندگی میں بگاڑ جن چیزوں سے پیدا ہوتا ہے انھیں ہم چار بڑے بڑے عنوانات کے تحت جمع کر سکتے ہیں:
(۱) خدا سے بے خوفی، جو دُنیا میں بے انصافی، بے رحمی، خیانت اور ساری اَخلاقی برائیوں کی جڑ ہے۔
(۲) خدا کی ہدایت سے بے نیازی، جس نے انسان کے لیے کسی معاملے میں بھی ایسے مستقل اَخلاقی اصول باقی نہیں رہنے دیے ہیں جن کی پابندی کی جائے۔ اسی چیز کی بدولت اشخاص اور گروہوں اور قوموں کا سارا طرزِ عمل مفاد پرستی اور خواہشات کی غلامی پر قائم ہو گیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ نہ اپنے مقاصد میں جائز وناجائز کی تمیز کرتے ہیں اورنہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی قسم کے بُرے سے بُرے ذرائع اختیار کرنے میں انھیں ذرا سا تامل ہوتا ہے۔
(۳) خود غرضی، جو صرف افراد ہی کو ایک دوسرے کی حق تلفی پر آمادہ نہیں کرتی بلکہ بڑے پیمانے پر نسل پرستی، قوم پرستی اور طبقاتی امتیازات کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور اس سے فساد کی بے شمار صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔
(۴) جمود، یا بے راہ روی، جس کی وجہ سے انسان یا تو خدا کی دی ہوئی قوتوں کو استعمال ہی نہیں کرتا یا غلَط استعمال کرتا ہے، یا تو خدا کے بخشے ہوئے ذرائع سے کام نہیں لیتا، یا غلَط کام لیتا ہے۔ پہلی صورت میں اللّٰہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ کاہل اور نکمے لوگوں کو زیادہ دیر تک اپنی زمین پر قابض نہیں رہنے دیتا بلکہ ان کی جگہ ایسے لوگوں کو لے آتا ہے جو کچھ نہ کچھ بنانے والے ہوں۔ دوسری صورت میں جب غلَط کار قوموں کی تخریب ان کی تعمیر سے بڑھ جاتی ہے تو وہ ہٹا کر پھینک دی جاتی ہیں اور بسا اوقات خود اپنی ہی تخریبی کارروائیوں کا لقمہ بنا دی جاتی ہیں۔
اس کے مقابلے میں وہ چیزیں بھی، جن کی بدولت انسانی زندگی بنتی اور سنورتی ہے، چار ہی عنوانات کے تحت تقسیم ہوتی ہے:
(۱) خدا کا خوف، جو آدمی کوبرائیوں سے روکنے اور سیدھا چلانے کے لیے ایک ہی قابلِ اعتماد ضمانت ہے۔ راست بازی، انصاف، امانت، حق شناسی، ضبطِ نفس اور وہ تمام دوسری خوبیاں جن پر ایک پرامن اور ترقی پذیر تمدن وتہذیب کی پیدائش کا انحصار ہے، اسی ایک تخم سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگرچہ بعض دوسرے عقیدوں کے ذریعے سے بھی کسی نہ کسی حد تک انھیں پیدا کیا جا سکتا ہے، جس طرح مغربی قوموں نے کچھ نہ کچھ اپنے اندر پیدا کیا ہے لیکن ان ذرائع سے پیدا کی ہوئی خوبیوں کا نشوونما بس ایک حد پر جا کر رک جاتا ہے اور اس حد میں بھی ان کی بنیاد متزلزل ہی رہتی ہے۔ صرف خدا ترسی ہی وہ پائدار بنیاد ہے جس پر انسان کے اندر بُرائی سے رُکنے اور بھلائی پر چلنے کی صفت مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتی ہے اور محدود پیمانے پر نہیں بلکہ نہایت وسیع پیمانے پر تمام انسانی معاملات میں اپنا اثر دکھاتی ہے۔
(۲) خدائی ہدایت کی پیروی، جوانسان کے شخصی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی رویّے کو اَخلاق کے مستقل اصولوں کا پابند کرنے کی ایک ہی صورت ہے۔
جب تک انسان اپنے اَخلاقی اصولوں کا خود واضع اور مصنّف رہتا ہے اس کے پاس باتیں بنانے کے لیے کچھ اور اصول ہوتے ہیں اور عمل میں لانے کے لیے کچھ اور۔ کتابوں میں آبِ زر سے وہ ایک قسم کے اصول لکھتا ہے اور معاملات میں اپنے مطلب کے مطابق بالکل دوسری ہی قسم کے اصول برتتا ہے۔ دُوسروں سے مطالبہ کرتے وقت کچھ۔ موقع اور مصلحت اور خواہش اور ضرورت کے دبائو سے اس کے اصول ہر آن بدلتے ہیں۔ وہ اَخلاق کا اصل محور’’حق‘‘ کو نہیں بلکہ ’’اپنے مفاد‘‘ کو بناتا ہے۔ وہ اس بات کو مانتا ہی نہیں کہ اس کے عمل کو حق کے مطابق ڈھلنا چاہیے۔ اس کے بجائے وہ چاہتا ہے کہ حق اس کے مفاد کے مطابق ڈھلے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی بدولت افراد سے لے کر قوموں تک سب کا رویّہ غلَط ہو جاتا ہے اور اِسی سے دُنیا میں فساد پھیلتا ہے۔ اس کے برعکس جو چیز انسان کو امن، خوش حالی اور فلاح وسعادت بخش سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ اَخلاق کے کچھ ایسے اصول ہوں جو کسی کے مفاد کے لحاظ سے نہیں بلکہ حق کے لحاظ سے بنے ہوئے ہوں اور انھیں اٹل مان کر تمام معاملات میں ان کی پابندی کی جائے۔ خواہ وہ معاملات شخصی ہوں یا قومی، خواہ وہ تجارت سے تعلق رکھتے ہوں یا سیاست اور صلح وجنگ سے۔ ظاہر ہے کہ ایسے اُصول صرف خدائی ہدایت ہی میں ہمیں مل سکتے ہیں، اور ان پر عمل درآمد کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ انسان ان کے اندر ردّوبدل کے اختیار سے دست بردار ہو کر انھیں واجب الاتباع تسلیم کر لے۔
(۳) نظامِ انسانیت، جو شخصی، قومی، نسلی اور طبقاتی خود غرضیوں کے بجائے تمام انسانوں کے مساوی مرتبے اور مساوی حقوق پر مبنی ہو، جس میں بے جا امتیازات نہ ہوں، جس میں اونچ نیچ، چھوت چھات اور مصنوعی تعصبات نہ ہوں، جس میں بعض کے لیے مخصوص حقوق اور بعض کے لیے بناوٹی پابندیاں اور رکاوٹیں نہ ہوں، جس میں سب کو یکساں پھولنے پھلنے کا موقع ملے۔ جس میں اتنی وسعت ہو کہ روئے زمین کے سارے انسان اس میں برابری کے ساتھ شریک ہو سکتے ہوں۔
(۴) عمل صالح، یعنی خدا کی دی ہوئی قوتوں اور اس کے بخشے ہوئے ذرائع کو پوری طرح استعمال کرنا اور صحیح استعمال کرنا۔
حضرات! یہ چار چیزیں ہیں جن کے مجموعے کا نام ’’بنائو‘‘ اور ’’صلاح‘‘ ہے اور ہم سب کی بہتری اس میں ہے کہ ہمارے اندر نیک انسانوں کی ایک ایسی تنظیم موجود ہو جو بگاڑ کے اسباب کو روکنے اور بنائو کی ان صورتوں کو عمل میں لانے کے لیے پیہم جدوجہد کرے۔ یہ جدوجہد اس ملک کے باشندوں کو راہِ راست پر لانے میں کام یاب ہو گئی تو خدا ایسا بے انصاف نہیں ہے کہ وہ خواہ مخواہ اپنی زمین کا انتظام اس کے اصلی باشندوں سے چھین کر کسی اور کودے دے۔ لیکن اگر خدانخواستہ یہ ناکام ہوئی تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا، آپ کا اور اس سرزمین کے رہنے والوں کاکیا انجام ہو گا۔
٭…٭…٭…٭…٭
جہاد فی سبیل اللہ
عموماً لفظ ’’جہاد‘‘ کا ترجمہ انگریزی زبان میں (Holy War) ’’مقدس جنگ‘‘ کیا جاتا ہے‘ اور اس کی تشریح و تفسیر مدتہائے دراز سے کچھ اس انداز میں کی جاتی رہی ہے کہ اب یہ لفظ ’’جوشِ جنون‘‘ کا ہم معنی ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کو سنتے ہی آدمی کی آنکھوں میں کچھ اس طرح کا نقشہ پھرنے لگتا ہے کہ مذہبی دیوانوں کا ایک گروہ ننگی تلواریں ہاتھ میں لیے‘ داڑھیاں چڑھائے‘ خونخوار آنکھوں کے ساتھ اللہ اکبر کے نعرے لگاتا ہوا چلاآرہا ہے۔ جہاں کسی کافر کو دیکھ پاتا ہے پکڑلیتا ہے اور تلوار اس کی گردن پر رکھ کر کہتا ہے کہ بول لا الہ الا اللہ‘ ورنہ ابھی سرتن سے جدا کردیا جاتا ہے۔ ماہرین نے ہماری یہ تصویر بڑی قلمکاریوں کے ساتھ بنائی ہے اور اس کے نیچے موٹے حرفوں میں لکھ دیا ہے کہ ۔۔۔
بُوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے
لطف یہ ہے کہ اس تصویر کے بنانے والے ہمارے وہ مہربان ہیں‘ جو خود کئی صدیوں سے انتہا درجہ کی غیر مقدس جنگ (Un-Holy War) میں مشغول ہیں۔ ان کی اپنی تصویر یہ ہے کہ دولت اور اقتدار کے بھوکے ہر قسم کے اسلحہ سے مسلح ہوکر قزاقوں کی طرح ساری دنیا پر پل پڑے ہیں اور ہر طرف تجارت کی منڈیاں‘ خام پیداوار کے ذخیرے‘ نوآبادیاں‘ بسانے کے قابل زمینیں اور معدنیات کی کانیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں تاکہ اپنی حرص کی کبھی نہ بجھنے والی آگ کے لیے ایندھن فراہم کریں۔ ان کی جنگ خدا کی راہ میں نہیں‘ بلکہ پیٹ کی راہ میں ہے‘ ہوس اور نفسِ امارہ کی راہ میں ہے۔ ان کے نزدیک کسی قوم پر حملہ کرنے کے لیے بس یہ کافی وجۂ جواز ہے کہ اس کی زمین میں کانیں ہیں‘ یا اجناس کافی پیدا ہوتی ہیں‘ یا وہاں تیل نکل آیا ہے‘ یا ان کے کارخانوں کا مال وہاں اچھی طرح کھپایا جاسکتا ہے‘ یا اپنی زائد آبادی کو وہاں آسانی کے ساتھ بسایا جاسکتا ہے۔ کچھ اور نہیں تو اس قوم کا یہ گناہ بھی کوئی معمولی گناہ نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے ملک کے راستے میں رہتی ہے جس پر یہ پہلے قبضہ کرچکے ہیں‘ یا اب قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے تو جو کچھ کیا‘ وہ زمانۂ ماضی کا قصہ ہے اور ان کے کارنامے حال کے واقعات ہیں‘ جو شب و روز دنیا کی آنکھوں کے سامنے گزرے ہیں۔ ایشیاء‘ افریقہ‘ یورپ‘ امریکا‘ غرض کرۂ زمین کا کون سا حصہ بچا رہ گیا ہے جو ان کی اس غیر مقدس جنگ سے لالہ زار نہیں ہو چکا؟ مگر ان کی مہارت قابلِ داد ہے۔ انھوں نے ہماری تصویر اتنی بھیانک اور اتنی بری بنائی کہ خود ان کی تصویر اس کے پیچھے چھپ گئی‘ اور ہماری سادہ لوحی بھی قابلِ داد ہے۔ جب ہم نے غیروں کی بنائی ہوئی اپنی یہ تصویر دیکھی تو ایسے دہشت زدہ ہوئے کہ ہمیں اس تصویر کے پیچھے جھانک کر خود مصوّروں کی صورت دیکھنے کا ہوش ہی نہ آیا اور لگے معذرت کرنے کہ حضور! بھلا ہم جنگ و قتال کیا جانیں۔ ہم تو بھکشوؤں اور پادریوں کی طرح ’’پرامن مبلغ لوگ‘‘ ہیں۔ چند مذہبی عقائد کی تردید کرنا اور ان کی جگہ کچھ دوسرے عقائد لوگوں سے تسلیم کرالینا۔۔۔ بس یہ ہمارا کام ہے۔ ہمیں تلوار سے کیا واسطہ؟ البتہ اتنا قصور کبھی کبھار ہم سے ضرور ہوا ہے کہ جب کوئی ہمیں مارنے آیا تو ہم نے بھی جواب میں ہاتھ اٹھایا۔ سو اب تو ہم اس سے بھی توبہ کرچکے ہیں۔ حضور کی طمانیت کے لیے تلوار والے جہاد کو سرکاری طور پرمنسوخ کردیا گیا ہے۔ اب تو جہاد فقط زبان و قلم کی کوشش کا نام ہے۔ توپ اور بندوق چلانا سرکار کا کام ہے اور زبان و قلم چلانا ہمارا کام۔
جہاد کے متعلق غلط فہمی کے اسباب:
خیر‘ یہ تو سیاسی چالوں کی بات ہے۔ مگر خالص علمی حیثیت سے جب ہم ان اسباب کا تجزیہ کرتے ہیں‘ جن کی وجہ سے ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کی حقیقت کو سمجھنا غیر مسلموں ہی کے لیے نہیں‘ خود مسلمانوں کے لیے بھی دشوار ہوگیا ہے‘ تو ہمیں دو بڑی اور بنیادی غلط فہمیوں کا سراغ ملتا ہے۔
پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ اسلام کو ان معنوں میں ایک ’’مذہب‘‘ سمجھ لیا گیا ہے‘ جن میں یہ لفظ عموماً بولا جاتا ہے۔۔۔ دوسری غلط فہمی یہ کہ مسلمانوں کو ان معنوں میں محض ایک ’’قوم‘‘ سمجھ لیاگیا ہے‘ جن میں یہ لفظ عموماً مستعمل ہے۔
ان دو غلط فہمیوں نے صرف ایک جہاد ہی کے مسئلہ کو نہیں بلکہ مجموعی حیثیت سے پورے اسلام کے نقشہ کو بدل ڈالا ہے اور مسلمانوں کی پوزیشن کلی طور پر غلط کرکے رکھ دی ہے۔
’’مذہب‘‘ کے معنی عام اصطلاح کے اعتبار سے بجز اس کے اور کیا ہیں کہ وہ چند عقائد اور عبادات اور مراسم کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے مذہب کو واقعی ایک پرائیویٹ معاملہ ہی ہونا چاہیے۔ آپ کو اختیار ہے کہ جو عقیدہ چاہیں رکھیں‘ اور آپ کا ضمیر جس کی عبادت کرنے پر راضی ہو اس کو جس طرح چاہیں پکاریں۔ زیادہ سے زیادہ اگر کوئی جوش اور سرگرمی آپ کے اندر اس مذہب کے لیے موجود ہے تو آپ دنیا بھر میں اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے پھریے اور دوسرے عقائد والوں سے مناظرے کیجیے۔ اس کے لیے تلوار ہاتھ میں پکڑنے کا کون سا موقع ہے؟ کیا آپ لوگوں کو مار مار کر اپنا ہم عقیدہ بنانا چاہتے ہیں؟ یہ سوال لازمی طور پر پیدا ہوتا ہے جب کہ آپ اسلام کو عام اصطلاح کی رو سے ایک ’’مذہب‘‘ قرار دے لیں۔۔۔ اور یہ پوزیشن اگر واقعی اسلام کی ہو تو جہاد کے لیے حقیقت میں کوئی وجۂ جواز ثابت نہیں کی جاسکتی۔
اسی طرح ’’قوم‘‘ کے معنی اس کے سوا کیا ہیںکہ وہ ایک متجانس گروہِ اشخاص (Homogenous Group of Men) کا نام ہے۔ جو چند بنیادی امور میں مشترک ہونے کی وجہ سے باہم مجتمع اور دوسرے گروہوں سے ممتاز ہوگیا ہو۔ اس معنی میں جو گروہ ایک قوم ہو‘ وہ دو ہی وجوہ سے تلوار اٹھاتا ہے اور اٹھاسکتا ہے۔ یا تو اس کے جائز حقوق چھیننے کے لیے کوئی اس پر حملہ کرے‘ یا وہ خود دوسروں کے جائز حقوق چھیننے کے لیے حملہ آور ہو۔ پہلی صورت میں تو خیر تلوار اٹھانے کے لیے کچھ نہ کچھ اخلاقی جواز بھی موجود ہے (اگرچہ بعض دھرماتماؤں کے نزدیک یہ بھی ناجائز ہے)۔ لیکن دوسری صورت کو تو بعض ڈکٹیٹروں کے سوا کوئی بھی جائز نہیں کہہ سکتا‘ حتیٰ کہ برطانیہ اور فرانس جیسی وسیع سلطنتوں کے مدبّرین بھی آج اس کو جائز کہنے کی جرأت نہیں رکھتے۔
جِہاد کی حقیقت:
پس اگر اسلام ایک ’’مذہب‘‘ اور مسلمان ایک ’’قوم‘‘ ہے تو جہاد کی ساری معنویت‘ جس کی بنا پر اسلام میں اسے افضل العبادات کہا گیا ہے‘ سرے سے ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کسی ’’مذہب‘‘ کا اور ’’مسلمان‘‘ کسی ’’قوم‘‘ کا نام نہیں ہے۔ بلکہ اسلام ایک انقلابی نظریہ و مسلک ہے‘ جو تمام دنیا کے اجتماعی نظم (Social Order) کو بدل کر اپنے نظریہ و مسلک کے مطابق اسے تعمیر کرنا چاہتا ہے۔۔۔ اور مسلمان اس بین الاقوامی انقلابی جماعت (International Revolutionary Party) کا نام ہے جسے اسلام اپنے مطلوبہ انقلابی پروگرام کو عمل میں لانے کے لیے منظم کرتا ہے۔۔۔ اور جہاد اس انقلابی جدوجہد (Revolutionary Struggle) کا اور اس انتہائی صرفِ طاقت کا نام ہے جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسلامی جماعت عمل میں لاتی ہے۔
تمام انقلابی مسلکوں کی طرح اسلام بھی عام مروج الفاظ کو چھوڑ کر اپنی ایک خاص اصطلاحی زبان (Terminology) اختیار کرتا ہے‘ تاکہ اس کے انقلابی تصورات عام تصورات سے ممتاز ہو سکیں۔ لفظ ’’جہاد‘‘ بھی اسی مخصوص اصطلاحی زبان سے تعلق رکھتا ہے۔ اسلام نے حرب اور اسی نوعیت کے دوسرے عربی الفاظ جو جنگ (War) کے مفہوم کوادا کرتے ہیں قصداً ترک کر دیے اور ان کی جگہ ’’جہاد‘‘ کا لفظ استعمال کیا جو (Struggle) کا ہم معنی ہے‘ بلکہ اس سے زیادہ مبالغہ رکھتا ہے۔ انگریزی میں اس کا صحیح مفہوم یوں ادا کیا جاسکتا ہے۔
[english]To Exert One`s Utmost Endeavour in Furthering a Cause.[/english]
یعنی ’’اپنی تمام طاقتیں کسی مقصد کی تحصیل میں صرف کردینا‘‘۔
سوال یہ ہے کہ پرانے الفاظ کو چھوڑ کر یہ نیا لفظ کیوں اختیار کیا گیا؟ اس کا جواب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ ’’جنگ‘‘ کا لفظ قوموں اور سلطنتوں کی ان لڑائیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا اور آج تک ہورہا ہے جو اشخاص یا جماعتوں کی نفسانی اغراض کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ ان لڑائیوں کے محرک محض ایسے شخصی یااجتماعی مقاصد ہوتے ہیںجن کے اندر کسی نظریے اور کسی اصول کی حمایت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اسلام کی لڑائی چونکہ اس نوعیت کی نہیں ہے‘ اس لیے وہ سرے سے اس لفظ ہی کو ترک کردیتا ہے۔ اس کے پیشِ نظر ایک قوم کا مفاد یا دوسری قوم کا نقصان نہیں ہے۔ وہ اس سے کوئی دلچسپی نہیںرکھتاکہ زمین پر ایک سلطنت کا قبضہ رہے یا دوسری سلطنت کا۔ اس کی دلچسپی جس سے ہے‘ وہ انسانیت کی فلاح ہے۔ اس فلاح کے لیے وہ اپنا ایک خاص نظریہ اور ایک عملی مسلک رکھتا ہے۔ اس نظریے اور مسلک کے خلاف جہاں جس کی حکومت بھی ہے‘ اسلام اسے مٹانا چاہتا ہے‘ قطع نظر اس سے کہ وہ کوئی قوم ہو یا کوئی ملک ہو۔ اس کا مدعا اور مقصود اپنے نظریے اور مسلک کی حکومت قائم کرنا ہے‘ بلالحاظ اس کے کہ کون اس کا جھنڈا لے کر اٹھتا ہے اور کس کی حکمرانی پر اس کی ضرب پڑتی ہے۔ وہ زمین مانگتا ہے۔۔۔ زمین کا ایک حصہ نہیں بلکہ پورا کرۂ زمین۔۔۔ اس لیے نہیں کہ ایک قوم یا بہت سی قوموں کے ہاتھ سے نکل کر زمین کی حکومت کسی خاص قوم کے ہاتھ میں آجائے۔ بلکہ صرف اس لیے کہ انسانیت کی فلاح کا جو نظریہ اور پروگرام اسلام کے پاس ہے۔۔۔ یا بالفاظِ صحیح تر یوں کہئے کہ فلاحِ انسانیت کے جس پروگرام کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔۔۔ اس سے تمام نوعِ انسانی متمتع ہو۔ اس غرض کے لیے وہ تمام ان طاقتوں سے کام لینا چاہتا ہے‘ جو انقلاب برپا کرنے کے لیے کارگر ہوسکتی ہیں۔۔۔ اور ان سب طاقتوں کے استعمال کا ایک جامع نام ’’جہاد‘‘ رکھتا ہے۔ زبان و قلم کے زور سے لوگوں کے نقطۂ نظر کو بدلنا اور ان کے اندر ذہنی انقلاب پیدا کرنا بھی جہاد ہے۔ تلوار کے زور سے پرانے ظالمانہ نظامِ زندگی کو بدل دینا اور نیا عادلانہ نظام مرتب کرنا بھی جہاد ہے اور اس راہ میں مال صرف کرنا اور جسم سے دوڑ دھوپ کرنا بھی جہاد ہے۔
’’فی سبیل اﷲ‘‘ کی لازمی قید:
لیکن اسلام کا جہاد نِرا ’’جہاد‘‘ نہیں ہے۔۔۔ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے۔ ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی قید اس کے ساتھ ایک لازمی قید ہے۔ یہ لفظ بھی اسلام کی اسی مخصوص اصطلاحی زبان سے تعلق رکھتا ہے جس طرف ابھی میں اشارہ کرچکا ہوں۔ اس کا لفظی ترجمہ ہے ’’راہِ خدا میں‘‘ اس ترجمے سے لوگ غلط فہمی میں پڑگئے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ زبردستی لوگوں کو اسلام کے مذہبی عقائد کا پیرو بنانا‘ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔۔۔ کیونکہ لوگوں کے تنگ دماغوں میں ’’راہِ خدا‘‘ کا کوئی مفہوم اس کے سوا نہیں سما سکتا۔ مگر اسلام کی زبان میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ہر وہ کام جو اجتماعی فلاح بہبود کے لیے کیا جائے اور جس کے کرنے والے کا مقصد اس سے خود کوئی دنیوی فائدہ اٹھانا نہ ہو‘ بلکہ محض خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ہو۔۔۔ اسلام ایسے کام کو ’’فی سبیل اللہ‘‘ قرار دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ خیرات دیتے ہیں اس نیت سے کہ اسی دنیا میں مادی یا اخلاقی طور پر اس خیرات کا کوئی فائدہ آپ کی طرف پلٹ کر آئے‘ تو یہ ’’فی سبیل اللہ‘‘ نہیں ہے۔۔۔ اور اگر خیرات سے آپ کی نیت یہ ہے کہ ایک غریب انسان کی مدد کرکے آپ خدا کی خوشنودی حاصل کریں‘ تو یہ ’’فی سبیل اللہ‘‘ ہے۔ پس یہ اصطلاح مخصوص ہے ایسے کاموں کے لیے جو کامل خلوص کے ساتھ‘ ہر قسم کی نفسانی اغراض سے پاک ہوکر‘ اس نظریے پر کیے جائیں کہ انسان کا دوسرے انسانوں کی فلاح کے لیے کام کرنا خدا کی خوشنودی کا موجب ہے اور انسان کی زندگی کا نصب العین مالکِ کائنات کی خوشنودی حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
’’جہاد‘‘ کے لیے بھی ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی قید اسی غرض کے لیے لگائی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ جب نظامِ زندگی میں انقلاب برپا کرنے اور اسلامی نظریے کے مطابق نیا نظام مرتب کرنے کے لیے اٹھے‘ تو اس قیام اور اس سربازی و جاں نثاری میں اس کی اپنی کوئی نفسانی غرض نہ ہو۔ اس کا یہ مقصد ہرگز نہ ہوکہ قیصر کو ہٹا کر‘ وہ خود قیصر بن جائے۔ اپنی ذات کے لیے مال و دولت‘ یا شہرت و ناموری‘ یا عزت و جاہ حاصل کرنے کا شائبہ تک اس کی جدوجہد کے مقاصد میں شامل نہ ہو۔ اس کی تمام قربانیوں اور ساری محنتوں کا مدعا صرف یہ ہو کہ بندگانِ خدا کے درمیان ایک عادلانہ نظامِ زندگی قائم کیا جائے۔ اس کے معاوضہ میں اسے خدا کی خوشنودی کے سوا کچھ بھی مطلوب نہ ہو۔
اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سِبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ۔۔۔ (النساء:۷۶)
’’جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے‘ وہ اﷲ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے‘ وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں‘‘۔
’’طاغوت‘‘ کا مصدر ’’طغیان‘‘ ہے جس کے معنی ’’حد سے گزرجانے‘‘ کے ہیں۔ دریا جب اپنی حد سے گزرجاتا ہے تو آپ کہتے ہیں طغیانی آگئی ہے۔ اسی طرح جب آدمی اپنی جائز حد سے گزرکر اس غرض کے لیے اپنی طاقت استعمال کرتا ہے کہ انسانوں کا خدا بن جائے یا اپنے مناسب حصہ سے زائد فوائد حاصل کرے‘ تو یہ طاغوت کی راہ میں لڑنا ہے۔۔۔ اور اس کے مقابلہ میں راہِ خدا کی جنگ وہ ہے‘ جس کا مقصد صرف یہ ہو کہ خدا کا قانونِ عدل دنیا میں قائم ہو‘ لڑنے والا خود بھی اس کی پابندی کرے اور دوسروں سے بھی اس کی پابندی کرائے۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے:
تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لاَیُرِیْدُوْنَ عُلُوًا فِیْ الْاَرْضِ وَلَافَسَادًاط وَالْعَاقِبَۃُ لَّلْمُتَّقِیْنَ (القصص:۸۳)
’’آخرت میں عزت کا مقام تو ہم نے صرف ان لوگوں کے لیے رکھا ہے جو زمین میں اپنی بڑائی قائم کرنا اور فساد کرنا نہیں چاہتے۔ عاقبت کی کامیابی صرف خدا ترس لوگوں کے لیے ہے‘‘۔
حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا۔۔۔ ’’راہِ خدا کی جنگ سے کیا مراد ہے؟ ایک شخص مال کے لیے جنگ کرتا ہے‘ دوسرا شخص بہادری کی شہرت حاصل کرنے کے لیے جنگ کرتا ہے‘ تیسرے شخص کو کسی سے عداوت ہوتی ہے یا قومی حمیت کا جوش ہوتا ہے‘ اس لیے جنگ کرتا ہے۔ ان میں سے کس کی جنگ فی سبیل اللہ ہے‘‘؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔۔۔ ’’کسی کی بھی نہیں۔ فی سبیل اللہ تو صرف اس شخص کی جنگ ہے‘ جو خدا کا بول بالا کرنے کے سوا کوئی مقصد نہیں رکھتا‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ’’اگر کسی شخص نے جنگ کی اور اس کے دل میں اونٹ باندھنے کی ایک رسی حاصل کرنے کی بھی نیت ہوئی تو اس کا اجر ضائع ہوگیا‘‘۔ اللہ صرف اس عمل کو قبول کرتا ہے جو محض اس کی خوشنودی کے لیے ہو اور کوئی شخصی یا جماعتی غرض پیشِ نظر نہ ہو۔ پس جہاد کے لیے ’’فی سبیل اﷲ‘‘ کی قید اسلامی نقطۂ نظر سے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ مجرد جہاد تو دنیا میں سب ہی جان دار کرتے ہیں۔ ہر ایک اپنے مقصد کی تحصیل کے لیے اپنا پورا زور صرف کررہا ہے‘ لیکن ’’مسلمان‘‘ جس انقلابی جماعت کا نام ہے اس کے انقلابی نظریات میں سے ایک اہم ترین نظریہ‘ بلکہ بنیادی نظریہ یہ ہے کہ اپنی جان و مال کھپاؤ‘ دنیا کی ساری سرکش طاقتوں سے لڑو‘ اپنے جسم و روح کی ساری طاقتیں خرچ کردو۔۔۔ نہ اس لیے کہ دوسرے سرکشوں کو ہٹا کر تم ان کی جگہ لے لو۔۔۔ بلکہ صرف اس لیے کہ دنیا سے سرکشی و طُغیان مٹ جائے اور خدا کا قانون دنیا میں نافذ ہو۔
جہاد کے اس مفہوم اور فی سبیل اللہ کی اس معنویت کو مختصراً بیان کردینے کے بعد‘ میں اس دعوتِ انقلاب کی تھوڑی سی تشریح کرنا چاہتا ہوں جو اسلام لے کر آیا ہے‘ تاکہ آسانی کے ساتھ یہ سمجھا جاسکے کہ اس دعوت کے لیے جہاد کی حاجت کیا ہے؟ اور اس کی غایت (Objective) کیا ہے؟
اسلام کی دعوتِ انقلاب:
اسلام کی دعوتِ انقلاب کا خلاصہ یہ ہے:
یَاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ۔۔۔ (البقرہ:۲۱)
’’لوگو! صرف اپنے اُس رب کی بندگی کرو‘ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے‘‘۔
اسلام مزدوروں یا زمینداروں یا کاشت کاروں یا کارخانہ داروں کو نہیں پکارتا‘ بلکہ تمام انسانوں کو پکارتا ہے۔ اس کا خطاب انسان سے بحیثیت انسان ہے اور وہ کہتا ہے کہ اگر تم خدا کے سوا کسی کی بندگی و اطاعت اور فرماں برداری کرتے ہو‘ تو اسے چھوڑ دو۔ اگر خود تمہارے اندر خدائی کا داعیہ ہے‘ تو اسے بھی دماغ سے نکال دو‘ کیونکہ دوسروں سے اپنی بندگی کرانے اور دوسروں کا سر اپنے آگے جھکوانے کا حق تم میں سے کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ تم سب کو ایک خدا کی بندگی قبول کرنی چاہیے اور اس بندگی میں سب کو ایک سطح پر آجانا چاہیے۔
تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍم بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَانُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ۔۔۔ (آل عمران:۶۴)
’’آؤ ہم اور تم ایک ایسی بات پر جمع ہوجائیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ وہ یہ کہ ہم اﷲ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور خداوندی میں کسی کو اس کا شریک بھی نہ ٹھہرائیں‘ اور ہم میں سے کوئی اﷲ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے‘‘۔
یہ عالمگیر اور کلی انقلاب کی دعوت تھی۔ اس نے پکار کر کہا کہ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلَّہِ۔۔۔ ’’حکومت‘ سوائے خدا کے اور کسی کی نہیں ہے‘‘۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ بذاتِ خود انسانوں کا حکمران بن جائے اور اپنے اختیار سے جس چیز کا چاہے‘ حکم دے اور جس چیز سے چاہے‘ روک دے۔ کسی انسان کو بالذات اَمرونَہی کا مالک سمجھنا دراصل خدائی میں اسے شریک کرنا ہے اور دنیا میں یہی اصل بِنائے فساد ہے۔ اللہ نے انسان کوجس صحیح فطرت پر پیدا کیا ہے اور زندگی بسر کرنے کا جو سیدھا راستہ اسے بتایا ہے‘ اس سے انسان کے ہٹنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ لوگ خدا کو بھول جاتے ہیں۔۔۔ اور نتیجتاً خود اپنی حقیقت کو بھی فراموش کردیتے ہیں۔ اس کا انجام پھر لازمی طور پر یہی ہوتا ہے کہ ایک طرف بعض اشخاص یا خاندان یا طبقے خدائی کا کھلا یا چھپا داعیہ لے کر اٹھتے ہیں اور اپنی طاقت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر لوگوں کو اپنا بندہ بنالیتے ہیں۔۔۔ اور دوسری طرف اسی خدا فراموشی و خود فراموشی کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کا ایک حصہ طاقتوروں کی خداوندی مان لیتا ہے اور ان کے اس حق کو تسلیم کرلیتا ہے کہ وہ حکم کریں اور یہ اس حکم کے آگے سرجھکادیں۔ یہی دنیا میں ظلم و فساد اور ناجائز اِنتفاع (Exploitation) کی بنیاد ہے اور اسلام پہلی ضرب اسی پر لگاتا ہے۔ وہ ہانکے پکارے کہتا ہے:
وَلَا تُطِیْعُوْا اَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَ o الَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِیْ الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَo (الشعراء: ۱۵۱و۱۵۲)
’’اور ان لوگوں کا حکم ہرگز نہ مانو‘ جو اپنی جائز حد سے گزرگئے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے‘‘۔
وَلَاتُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوٰہُ وَکَانَ اَمْرُہُ فُرُطًا (الکہف:۲۸)
’’اور اس شخص کی اطاعت ہرگز مت کرو‘ جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہشاتِ نفس کا بندہ بن گیا ہے اور جس کا کام افراط و تفریط پر مبنی ہے‘‘۔
۔۔۔اَلَالَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ o الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَیَبْغُوْنَھَا عِوَجًا۔۔۔ (ھود:۱۹)
’’خدا کی لعنت ان ظالموں پر‘ جو خدا کے بنائے ہوئے زندگی کے سیدھے راستے سے لوگوں کو روکتے ہیں اور اس کو ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
وہ لوگوں سے پوچھتا ہے کہ
ئَاَرْبَابٌ مُّتََفرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ؟ (یوسف:۳۹)
’’بہت سے چھوٹے بڑے خدا‘ جن کی بندگی میں تم پسے جارہے ہو‘ ان کی بندگی قبول ہے‘ یا اس ایک خدا کی جو سب سے زبردست ہے‘‘؟
اگر اس خدائے واحد کی بندگی قبول نہ کروگے تو ان چھوٹے اور جھوٹے خداؤں کی آقائی سے تمہیں کبھی نجات نہ مل سکے گی۔ یہ کسی نہ کسی طور سے تم پر تسلط پائیں گے‘ اور فساد برپا کرکے رہیں گے:
۔۔۔اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا وَجَعَلُوْا اَعِزَّۃَ اَھْلِھَآ اَذِلَّۃً وَکَذٰالِکَ یَفْعَلُوْنَo (النمل:۳۴)
’’یہ بادشاہ جب کسی بستی میں گھستے ہیں‘ تو اس کے نظامِ حیات کو تہ و بالا کرڈالتے ہیں اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں اور ان کا یہی وطیرہ ہے‘‘۔
وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْھَا وَیُھْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَط وَاللَّہُ لَایُحِبُّ الْفَسَادَo (بقرہ:۲۰۵)
’’اور جب اسے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے‘ تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے‘ کھیتوں کو غارت کرے اور نسلِ انسانی کو تباہ کرے۔۔۔ اور اﷲ فساد کو پسند نہیں کرتا‘‘۔
یہاں پوری تفصیل کا موقع نہیں۔ مختصراً میں یہ بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام کی دعوتِ توحید و خدا پرستی محض اس معنی میں ایک مذہبی عقیدے کی دعوت نہ تھی‘ جس میںعام طور پر مذہبی عقائد کی دعوت ہوا کرتی ہے۔۔۔ بلکہ حقیقت میں یہ ایک اجتماعی انقلاب (Social Revolution) کی دعوت تھی۔ اس کی ضرب بلاواسطہ ان طبقوں پر پڑتی تھی‘ جنہوں نے مذہبی رنگ میں پروہت بن کر‘ یاسیاسی رنگ میں بادشاہ اور رئیس اور حکمراں گروہ بن کر‘ یا معاشی رنگ میں مہاجَن اور زمیندار اور اِجارہ دار بن کر عامۃ الناس کو اپنا بندہ بنا لیا تھا۔ یہ کہیں علانیہ اَرْبَابُ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ بنے ہوئے تھے‘ دنیا سے اپنے پیدائشی یا طبقاتی حقوق کی بنا پر اطاعت و بندگی کا مطالبہ کرتے تھے اور صاف کہتے تھے کہ:
مَاعَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ الٰہٍ غَیْرِیْ۔۔۔ ’’میں تو اپنے سوا تمہارے کسی خدا کو نہیں جانتا‘‘۔
اور۔۔۔ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَ عْلٰی۔۔۔ ’’میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں‘‘۔
اور۔۔۔ اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیْت۔۔۔ ’’میں جِلاتا ہوں اور مارتا ہوں‘‘۔
اور کسی جگہ انھوں نے عامۃ الناس کی جہالت کو استعمال (Exploit) کرنے کے لیے بتوں اور ہیکلوں کی شکل میں مصنوعی خدا بنارکھے تھے‘ جن کی آڑ پکڑ کر یہ اپنے خداوندی حقوق بندگانِ خدا سے تسلیم کراتے تھے۔ پس کفر و شرک اور بت پرستی کے خلاف اسلام کی دعوت۔۔۔ اور خدائے واحد کی بندگی و عبودیت کے لیے اسلام کی تبلیغ۔۔۔ براہِ راست حکومت اور اس کو سہارا دینے والے یا اس کے سہارے چلنے والے طبقوں کی اغراض سے متصادم ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے جب کبھی کسی نبی نے یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہُ کی صدا بلند کی‘ حکومتِ وقت فوراً اس کے مقابلے میں آن کھڑی ہوئی اور تمام ناجائز انتفاع کرنے والے طبقے اس کی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے۔۔۔ کیونکہ یہ محض ایک مابعد الطبیعی قضیہ (Metaphysical Proposition) کا بیان نہ تھا‘ بلکہ ایک اجتماعی انقلاب کا اعلان تھا۔۔۔ اور اس میں پہلی آواز سنتے ہی سیاسی شورش کی بو سونگھ لی جاتی تھی۔
اسلامی دعوتِ انقلاب کی خصوصیت:
اس میں شک نہیں کہ انبیاء علیہم السلام سب کے سب انقلابی لیڈر تھے۔۔۔ اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے بڑے انقلابی لیڈر ہیں۔ لیکن جوچیز دنیا کے عام انقلابیوں اور ان خدا پرست انقلابی لیڈروں کے درمیان واضح خطِ امتیاز کھینچتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ دوسرے انقلابی لوگ خواہ کتنے ہی نیک نیت کیوں نہ ہوں‘ عدل اور توسط کے صحیح مقام کو نہیں پاسکتے۔ وہ یا تو خود مظلوم طبقوں میں سے اٹھتے ہیں یا ان کی حمایت کا جذبہ لے کر اٹھتے ہیں اور پھر سارے معاملات کو انہی طبقوں کے نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی نظر غیر جانبدارانہ اور خالص انسانیت کی نظر نہیں ہوتی‘ بلکہ ایک طبقے کی طرف حمایت کا جذبہ لیے ہوئے ہوتی ہے۔ وہ ظلم کا ایسا علاج سوچتے ہیں جو نتیجتاً ایک جوابی ظلم ہوتا ہے۔ ان کے لیے انتقام‘ حسد اور عداوت کے جذبات سے پاک ہوکر‘ ایک ایسا معتدل اور متوازن اجتماعی نظام تجویز کرنا‘ ممکن نہیں ہوتا جس میں مجموعی طور پر تمام انسانوں کی فلاح ہو۔ بخلاف اس کے انبیاء علیہم السلام خواہ کتنے ہی ستائے گئے ہوں اور کتنا ہی ان پر اور ان کے ساتھیوں پر ظلم کیا گیا ہو‘ ان کی انقلابی تحریک میں کبھی ان کے شخصی جذبات کا اثر نہیں پایا گیا۔ وہ براہِ راست خدا کی ہدایت کے تحت کام کرتے تھے۔۔۔ اور خدا چونکہ انسانی جذبات سے منزّہ ہے‘ کسی انسانی طبقے سے اس کا مخصوص رشتہ نہیں‘ نہ کسی دوسرے انسانی طبقے سے اس کو کوئی شکایت یا عداوت ہے۔۔۔ اس لیے خدا کی ہدایت کے تحت انبیاء علیہم السلام تمام معاملات کو بے لاگ انصاف کے ساتھ اس نظر سے دیکھتے تھے کہ تمام انسانوں کی مجموعی فلاح و بہبود کس چیز میں ہے۔۔۔ کس طرح ایک ایسا نظام بنایا جائے جس میں ہر شخص اپنی جائز حدود کے اندر رہ سکے۔۔۔ اپنے جائز حقوق سے متمتع ہوسکے اور افراد کے باہمی روابط‘ نیز فرد اور جماعت کے باہمی تعلق میںکامل توازن قائم ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی انقلابی تحریک کبھی طبقاتی نزاع (Class War) میں تبدیل نہ ہونے پائی۔ سماجی تعمیرِ نو (Social Reconstruction) اس طرز پر نہیں کی کہ ایک طبقے کو دوسرے طبقے پر مسلط کر دیں۔ بلکہ اس کے لیے عدل کا ایسا طریقہ اختیار کیا‘ جس میں تمام انسانوں کے لیے ترقی اور مادی و روحانی سعادت کے یکساں امکانات رکھے گئے تھے۔
جِہاد کی ضرورت اور اس کی غایت:
اس مختصر مقالہ میں میرے لیے اس اجتماعی نظام (Social Order) کی تفصیلات پیش کرنا مشکل ہے‘ جو اسلام نے تجویز کیا ہے۔ تفصیل کا موقع ان شاء اللہ عنقریب آئے گا۔ یہاں اپنے موضوع کی حد میں رہتے ہوئے جس بات کو مجھے واضح کرنا تھا‘ وہ صرف یہ تھی کہ اسلام محض ایک مذہبی عقیدہ اور چند عبادات کا مجموعہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک سسٹم ہے جو دنیا سے زندگی کے تمام ظالمانہ اور مفسدانہ نظامات کو مٹانا چاہتا ہے اور ان کی جگہ اپنا ایک اصلاحی پروگرام نافذ کرنا چاہتا ہے‘ جس کو وہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے سب سے بہتر سمجھتا تھا۔
اس تخریب و تعمیراور انقلاب و اصلاح کے لیے وہ کسی ایک قوم یاگروہ کو نہیں‘ بلکہ تمام انسانوں کو دعوت دیتا ہے۔ وہ خود ان ظالم طبقوں اور ناجائز انتفاع کرنے والے گروہوں ‘ حتیٰ کہ بادشاہوں اور رئیسوں کو بھی پکارتا ہے کہ آؤ! اس جائز حد کے اندر رہنا قبول کرلو‘ جو تمہارے خالق نے تمہارے لیے مقرر کی ہے۔ اگر تم عدل اور حق کے نظام کو قبول کرلوگے‘ تو تمہارے لیے امن اور سلامتی ہے۔ یہاں کسی انسان سے دشمنی نہیں ہے۔ دشمنی جو کچھ بھی ہے ظلم سے ہے‘ فساد سے ہے‘ بداخلاقی سے ہے‘ اس بات سے ہے کہ کوئی شخص اپنی فطری حد سے تجاوز کرکے وہ کچھ حاصل کرنا چاہے جو فطرتُ اللہ کے لحاظ سے اس کا نہیں ہے۔
یہ دعوت جولوگ بھی قبول کرلیں وہ خوا ہ کسی طبقے‘ کسی نسل‘ کسی قوم اور کسی ملک کے ہوں‘ یکساں حقوق اور مساویانہ حیثیت سے اسلامی جماعت کے رکن بن جاتے ہیں۔۔۔ اور اس طرح وہ ’’بین الاقوامی انقلابی پارٹی‘‘ تیار ہوتی ہے‘ جسے قرآن ’’حزب اللہ‘‘ کے نام سے یاد کرتا ہے اور جس کادوسرا نام ’’اسلامی جماعت‘‘ یا ’’امت مسلمہ‘‘ ہے۔
یہ پارٹی وجود میں آتے ہی اپنے مقصدِ وجود کی تحصیل کے لیے جہاد شروع کردیتی ہے۔ اس کے عین وجود کا اقتضاء یہی ہے کہ یہ غیر اسلامی نظام کی حکمرانی کو مٹانے کی کوشش کرے اور اس کے مقابلہ میں تمدن و اجتماع کے اس معتدل و متوازن ضابطہ کی حکومت قائم کرے۔ جسے قرآن ایک جامع لفظ ’’کلمۃ اللّٰہ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ اگر یہ پارٹی حکومت کو بدلنے اور اسلامی نظامِ حکومت قائم کرنے کی کوشش نہ کرے تو اس کے وجود میں آنے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔۔۔ کیونکہ یہ کسی اور مقصد کے لیے بنائی ہی نہیں گئی ہے۔۔۔ اور اس جہاد کے سوا اس کی ہستی کا اور کوئی مصرف نہیں۔ قرآن اس کی پیدائش کا ایک ہی مقصد بیان کرتا ہے اور وہ یہ ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ۔۔۔ (آل عمران:۱۱۰)
’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو‘ جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔
یہ مذہبی تبلیغ کرنے والے واعظین (Preachers) اور مبشرین (Missionaries) کی جماعت نہیں ہے‘ بلکہ خدائی فوجداروں کی جماعت ہے۔۔۔ لِتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ۔۔۔ اور اس کا کام یہ ہے کہ دنیا سے ظلم‘ فتنہ‘ فساد ‘ بداخلاقی‘ طُغیان اور ناجائز انتفاع کو بزور مٹا دے۔ ارباب من دون اللہ کی خداوندی کو ختم کر دے‘ بدی کی جگہ نیکی قائم کرے۔
وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَاتَکُوْنَ فِتْنَۃُ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ ۔۔۔ (البقرۃ:۱۹۳)
’’تم ان سے لڑتے رہو‘ یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اﷲکے لیے ہو جائے‘‘۔
اِلاَّ تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْاَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیْرٌ۔۔۔ (الانفال:۷۳)
’’اگر تم ایک دوسرے کی حمایت نہ کرو گے‘ تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو گا‘‘۔
ھُوَ الَّذِیٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ۔۔۔ (التوبہ:۳۳)
’’وہ اﷲہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے‘ تاکہ تمام اطاعتوں کو مٹا کر اسی ایک اطاعت کو سب پر غالب کر دے‘ خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔
لہٰذا اس پارٹی کے لیے حکومت کے اقتدار پرقبضہ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ مفسدانہ نظامِ تمدن ایک فاسد حکومت کے بل پر قائم ہوتا ہے اور ایک صالح نظامِ تمدن اس وقت تک کسی طرح قائم نہیں ہوسکتا‘ جب تک کہ حکومت‘ مفسدین سے مسلوب ہوکر (چِھن کر) مصلحین کے ہاتھ میں نہ آجائے۔
دنیا کی اصلاح سے قطع نظر اس جماعت کے لیے خود اپنے مسلک پر عامل ہونا بھی غیر ممکن ہے اگر حکومت کا نظام کسی دوسرے مسلک پر قائم ہو۔ کوئی پارٹی جو کسی سسٹم کو برحق سمجھتی ہو‘ کسی دوسرے سسٹم کی حکومت میں اپنے مسلک کے مطابق زندگی بسر نہیں کرسکتی۔ ایک اشتراکی مسلک کاآدمی اگر انگلستان یاامریکا میں رہ کر اشتراکیت کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہے‘ تو کسی طرح اپنے اس ارادے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔۔۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کا ضابطۂ حیات حکومت کی طاقت سے بجبر اس پر مسلط ہوگا اور وہ اس کی قہرمانی سے کسی طرح بچ نہ سکے گا۔ اسی طور پر ایک مسلمان بھی اگر کسی غیر اسلامی نظامِ حکومت میں رہ کر اسلامی اصول پر زندگی بسر کرنا چاہے تو اس کا کامیاب ہونا محال ہے۔ جن قوانین کو وہ باطل سمجھتا ہے‘ جن ٹیکسوں کو وہ حرام سمجھتا ہے‘ جن معاملات کو وہ ناجائز سمجھتا ہے‘ جس تہذیب اور جس طرزِ زندگی کو وہ فاسد سمجھتا ہے‘ جس طریقِ تعلیم کو وہ مہلک سمجھتا ہے‘ وہ سب کے سب اس پر‘ اس کے گھر بار پر‘ اس کی اولاد پر اس طرح مسلط ہوجائیں گے کہ وہ کسی طرح ان کی گرفت سے بچ کر نہ نکل سکے گا۔ لہذا جو شخص یا گروہ کسی مسلک پر اعتقاد رکھتا ہو وہ اپنے اعتقاد کے فطری اقتضا ہی سے اس امر پر مجبور ہوتا ہے کہ مسلکِ مخالف کی حکومت کو مٹانے اور اپنے مسلک کی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرے۔۔۔ کیونکہ مخالف نظریے کی حکومت مسلط ہو تو اس صورت میں وہ خود اپنے مسلک پرعمل نہیں کرسکتا۔ اگر وہ اس کوشش سے غفلت برتتا ہے تو اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ وہ درحقیقت اپنے عقائد ہی میں جھوٹا ہے۔
عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَتَعَلَمَ الْکٰذِبِیْنَo لَایَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ یُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاَخِرِاَنْ یُّجِاھِدُوْا بِاَمْوِالِھِمْ وِاَنْفُسِھِمْط وَاﷲُ عَلِیْمٌم بِالْمُتَّقِیْنَ o اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ لَایُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُھُمْ فَھُمْ فِیْ رَیْبِھِمْ یَتَرَدَّدُوْنَo (التوبہ:۴۳تا۴۵)
’’اے نبیؐ! اﷲ تمہیں معاف کرے‘ تم نے کیوں ان لوگوں کو جہاد میں شرکت سے رخصت دے دی؟ تمہیں اجازت نہ دینی چاہیے تھی‘ تاکہ یہ بات تم پر کھل جاتی کہ اپنے ایمان میں سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔ جو لوگ اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتے ہیں‘ وہ تو کبھی تم سے یہ درخواست نہیں کرسکتے کہ انھیں اپنے مال و جان کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے۔۔۔ اﷲ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔۔۔ ایسی درخواست تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو نہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یومِ آخر پر‘ اور جن لوگوں کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے شک ہی میں متردد ہو رہے ہیں‘‘۔
ان الفاظ میں قرآن نے صاف اور صریح فتویٰ دے دیا ہے کہ اپنے اعتقاد (Conviction) میں کسی جماعت کے صادق ہونے کا واحد معیار یہی ہے کہ وہ جس مسلک پر اعتقاد رکھتی ہو‘ اس کو حکمران بنانے کے لیے جان و مال سے جہاد کرے۔ اگر تم مسلکِ مخالف کی حکومت کو گوارا کرتے ہو تو یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ تم اپنے اعتقاد میں جھوٹے ہو۔۔۔ اور اس کا فطری نتیجہ یہی ہے اور یہی ہوسکتا ہے کہ آخر کار اسلام کے مسلک پرتمہارا نام نہاد عقیدہ بھی باقی نہ رہے گا۔ ابتدا میں تم مسلکِ مخالف کی حکومت بکراہت گوارہ کرو گے‘ پھر رفتہ رفتہ تمہارے دل اس سے مانوس ہوتے چلے جائیں گے‘ یہاں تک کہ کراہت رغبت سے بدل جائے گی۔۔۔ اور آخر میں نوبت اس حد تک پہنچے گی کہ مسلکِ مخالف کی حکومت قائم ہونے اور قائم رہنے میں تم خود مددگار بنو گے۔۔۔ اپنی جان و مال سے جہاد اس لیے کرو گے کہ مسلکِ اسلام کے بجائے مسلکِ غیر اسلام قائم ہو یا قائم رہے۔۔۔ تمہاری اپنی طاقتیں مسلکِ اسلام کے قیام کی مزاحمت میں صرف ہونے لگیں گی اور یہاں پہنچ کر تم میں اور کافروں میں اسلام کے منافقانہ دعویٰ ‘ ایک بدترین جھوٹ‘ ایک پُرفریب نام کے سوا کوئی فرق نہ رہے گا۔ حدیث میںنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نتیجہ کو صاف صاف بیان فرمادیا ہے۔
والذی نفسی بیدہ لتامرون بالمعروف ولتنھن عن المنکر ولتاخذن ید المسی ولتطرنہ علی الحق اطراء ولنضربن اللہ قلوب بعضکم علی بعض اولیلعنکم کما لعنھم۔
’’اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔۔۔ یا تو تمہیں نیکی کا حکم دینا اور بدی سے روکنا ہو گا۔۔۔ اور بدکار کا ہاتھ پکڑنا اور اسے حق کی طرف بزور موڑنا ہو گا۔۔۔ یا پھر اللہ کے قانونِ فطرت کا یہ نتیجہ ظاہر ہوکر رہے گا کہ بدکاروں کے دلوں کا اثر تمہارے دلوں پر بھی پڑجائے اور ان کی طرح تم بھی ملعون ہوکر رہو‘‘۔
عالمگیر انقلاب:
اس بحث سے آپ پر یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ اسلامی جہاد کا مقصود (Objective) غیراسلامی نظام کی حکومت کو مٹا کر اسلامی حکومت قائم کرنا ہے۔ اسلام یہ انقلاب صرف ایک ملک یا چند ملکوں میں نہیں بلکہ تمام دنیا میں برپا کرنا چاہتا ہے۔ اگرچہ ابتدا مسلم پارٹی کے ارکان کا فرض یہی ہے کہ جہاں جہاں وہ رہتے ہوں‘ وہاں کے نظامِ حکومت میں انقلاب پیدا کریں لیکن ان کی آخری منزلِ مقصود ایک عالمگیر انقلاب (World Revolution) کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کوئی انقلابی مسلک جو قومیت کے بجائے انسانیت کی فلاح کے اصول لے کر اٹھا ہو‘ اپنے انقلابی مطمع نظر کو کبھی ایک ملک یا ایک قوم کے دائرے میں محدود نہیں کرسکتا۔ بلکہ وہ اپنی فطرت کے عین اقتضاء ہی سے مجبور ہے کہ عالمگیر انقلاب کو اپنا مطمع نظر بنائے۔ حق‘ جغرافی حدود کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے اس کا مطالبہ یہ ہے کہ میں اگر کسی پہاڑ یا دریا کے اس پار حق ہوں تو اس پار بھی حق ہوں۔ نوعِ انسانی کے کسی حصہ کو بھی مجھ سے محروم نہ رہنا چاہیے۔ انسان جہاں بھی ظلم و ستم کا اور افراط و تفریط کا تختہ مشق بنا ہوا ہے وہاں اس کی مدد کے لیے پہنچنا میرا فرض ہے۔ اسی تخیل کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
وَمَالَکُمْ لَاْتُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرَّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِالْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِھِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُہَا۔۔۔ (النساء:۷۵)
’’تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خدا کی راہ میں ان مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے‘ جنہیں کمزور پاکر دبالیا گیا ہے اور جو دعائیں مانگتے ہیں کہ خدایا! ہمیں اس بستی سے نکال‘ جس کے باشندے ظالم ہیں‘‘۔
علاوہ بریں قومی اور ملکی تقسیمات کے باوجود انسانی تعلقات و روابط کچھ ایسی عالمگیری اپنے اندر رکھتے ہیں کہ کوئی ایک مملکت اپنے اصول و مسلک کے مطابق پوری طرح عمل نہیں کرسکتی‘ جب تک کہ ہمسایہ ممالک میں بھی وہی اصول و مسلک رائج نہ ہوجائے۔ لہٰذا مسلم پارٹی کے لیے اصلاحِ عمومی اور تحفظِ خودی‘ دونوں کی خاطر یہ ناگزیر ہے کہ کسی ایک خطہ میںاسلامی نظام کی حکومت قائم کرنے پر اکتفا نہ کرے۔۔۔ بلکہ جہاں تک اس کی قوتیں ساتھ دیں‘ اس نظام کو تمام اطراف میں وسیع کرنے کی کوشش کرے۔ وہ ایک طرف اپنے افکار و نظریات کو دنیا میں پھیلائے گی اور تمام ممالک کے باشندوں کو دعوت دے گی کہ اس مسلک کو قبول کریں‘ جس میں ان کے لیے حقیقی فلاح مضمر ہے۔ دوسری طرف اگر اس میں طاقت ہو گی تو وہ لڑکر غیراسلامی حکومتوں کو مٹادے گی اور ان کی جگہ اسلامی حکومت قائم کرے گی۔
یہی پالیسی تھی‘ جس پر رسول اللہﷺ نے اور آپ کے بعد خلفائے راشدین نے عمل کیا۔ عرب۔۔۔ جہاں مسلم پارٹی پیدا ہوئی تھی۔۔۔ سب سے پہلے اُسی کو اسلامی حکومت کے زیر نگیں کیا گیا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے اطراف کے ممالک کو اپنے اصول و مسلک کی طرف دعوت دی۔ پھر جب ان کے برسرِاقتدار لوگوں نے اس دعوتِ اصلاح کو رد کر دیا تو آپؐ نے ان کے خلاف جنگی کارروائی کا تہیہ کرلیا۔ غزوہ تبوک اسی سلسلہ کی ابتداء تھی۔ آنحضرﷺت کے بعد جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس ’’انقلابی پارٹی‘‘ کے لیڈر ہوئے تو انھوں نے روم اور ایران‘ دونوں کی غیر اسلامی حکومتوں پر حملہ کیا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حملے کو کامیابی کے آخری مراحل تک پہنچادیا۔ مصر و شام اور روم و ایران کے عوام اول اول اس کو عرب قوم کی استعماری (Imperialist) پالیسی سمجھے۔ انھوں نے خیال کیا کہ جس طرح پہلے ایک قوم دوسری قوم کو غلام بنانے کے لیے نکلا کرتی تھی‘ اسی طرح اب بھی ایک قوم اسی غرض کے لیے نکلی ہے۔ اس غلط فہمی کی بنا پر یہ لوگ قیصر وکسریٰ کے جھنڈے تلے مسلمانوں سے لڑنے کے لیے نکلے۔ مگر جب ان پر مسلم پارٹی کے انقلابی مسلک کا حال کھلا۔۔۔ اور جب انھیںمعلوم ہوا کہ یہ جفاکارانہ قوم پرستی (Aggressive Nationalism) کے علمبردار نہیں ہیں‘ بلکہ قومی اغراض سے پاک ہیں اور محض ایک عادلانہ نظام قائم کرنے آئے ہیں۔۔۔ اور ان کا مقصد درحقیقت ان ظالم طبقوں کی خداوندی کو ختم کرنا ہے‘ جو قیصریت و کِسرویت کی پناہ میں ہم کو تباہ و برباد کررہے ہیں۔۔۔ تو ان کی اخلاقی ہمدردیاں مسلم پارٹی کی طرف ہو گئیں۔ وہ قیصر و کِسریٰ کے جھنڈے سے الگ ہوتے چلے گئے اور اگرمارے باندھے سے فوج میں بھرتی ہوکر لڑنے آئے بھی‘ تو بے دلی سے لڑے۔ یہی سبب ہے اُن حیرت انگیز فتوحات کا‘ جو ابتدائی دور میں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں۔۔۔ اور یہی سبب ہے اس کا کہ اسلامی حکومت قائم ہونے کے بعد جب ان ممالک کے باشندوں نے اسلامی نظامِ اجتماعی کو عملاً کام کرتے ہوئے دیکھا‘ تو وہ خود اس ’’بین الاقوامی پارٹی‘‘ میں شریک ہوتے چلے گئے اور خود اس مسلک کے علمبردار بن کر آگے بڑھے تاکہ دوسرے ملکوں میں بھی اس کو پھیلادیں۔
جارحانہ اور مدافعانہ کی تقسیم غیر متعلق ہے:
یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے‘ اس پر جب آپ غور کریں گے تو یہ بات بآسانی آپ کی سمجھ میں آجائے گی کہ جنگ کی جوتقسیم جارحانہ (Aggressive) اور مدافعانہ (Defensive) کی اصطلاحوں میں کی گئی ہے‘ اس کا اطلاق سرے سے ’’اسلامی جہاد‘‘ پر ہوتا ہی نہیں۔ یہ تقسیم صرف قومی اور ملکی لڑائیوں پر ہی منطبق ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اصطلاحاً ’’حملہ‘‘ اور ’’مدافعت‘‘ کے الفاظ ‘ایک ملک یا ایک قوم کی نسبت سے ہی بولے جاتے ہیں۔ مگر جب ایک بین الاقوامی پارٹی‘ ایک جہانی نظریہ و مسلک کو لے کر اٹھے۔۔۔ اور تمام قوموں کو انسانی حیثیت سے اس مسلک کی طرف بلائے۔۔۔ اور ہر قوم کے آدمیوں کو مساویانہ حیثیت سے پارٹی میں شریک کرے۔۔۔ اور محض مسلکِ مخالف کی حکومت کو مٹاکر اپنے مسلک کی حکومت قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرے‘ تو ایسی حالت میں اصطلاحی ’’حملہ‘‘ اور اصطلاحی ’’مدافعت‘‘ کا قطعاً کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ اگر اصطلاح سے قطع نظر کرلی جائے‘ تب بھی ’’اسلامی جہاد‘‘ پر جارحانہ اور مدافعانہ کی تقسیم منطبق نہیں ہوتی۔ ’’اسلامی جہاد‘‘ بیک وقت جارحانہ بھی ہے اور مدافعانہ بھی۔ جارحانہ اس لیے‘ کہ مسلم پارٹی مسلکِ مخالف کی حکمرانی پر حملہ کرتی ہے۔۔۔ اور مدافعانہ اس لیے کہ خود اپنے مسلک پر عامل ہونے کے لیے حکومت کی طاقت حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ ’’پارٹی‘‘ ہونے کی حیثیت سے اس کا کوئی گھر نہیں ہے‘ کہ وہ اسکی مدافعت کرے۔ اس کے پاس محض اپنے اصول ہیں‘ جنکی وہ حمایت کرتی ہے۔ اسی طرح وہ مخالف پارٹی کے گھر پر بھی حملہ نہیں کرتی‘ بلکہ اس کے اصولوں پر حملہ آور ہوتی ہے۔۔۔ اور اس حملہ کا مدعا یہ نہیں ہے کہ اس سے زبردستی اس کے اصول چھڑائے جائیں‘ بلکہ مدعا صرف یہ ہے کہ اس کے اصولوں سے حکومت کی طاقت چھین لی جائے۔
ذمیوں کی حیثیت:
یہیں سے یہ سوال بھی حل ہوجاتا ہے کہ کسی ملک پر اسلامی نظام کی حکومت قائم ہوجانے کی صورت میں ان لوگوں کی کیا حیثیت ہو گی‘ جو کسی دوسرے عقیدہ و مسلک کے متبع ہوں؟ اسلام کا جہاد لوگوں کے عقیدہ و مسلک‘ ان کے طریقِ عبادت اور قوانینِ معاشرت سے تعرض نہیں کرتا۔ وہ ان کو پوری آزادی دیتا ہے کہ جس عقیدہ پر چاہیں‘ قائم رہیں۔۔۔ اور جس مسلک پر چاہیں‘ چلیں۔ البتہ وہ ان کے اس حق کوتسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کہ ان کی خاطر کسی ایسے طریقے پر حکومت کا نظام چلایا جائے‘ جو اسلام کی نگاہ میں فاسد ہے۔ نیز وہ ان کے اس حق کو بھی نہیں مانتا کہ وہ معاملات کے اُن طریقوں کو اسلامی نظامِ حکومت میں جاری رکھیں‘ جو اسلام کے نزدیک اجتماعی فلاح کے لیے مہلک ہیں۔ مثلاً وہ حکومت کا نظام ہاتھ میں لیتے ہی سودی کاروبار کی تمام صورتوں کو مسدود کر دے گا۔۔۔ جوئے کی ہرگز اجازت نہ دے گا۔۔۔ خرید و فروخت اور مالی لین دین کی ان تمام شکلوں کو روک دے گا‘ جو اسلامی قانون میں حرام ہیں۔۔۔ قحبہ خانوں اور فواحش کے اڈوں کو کلیتہً بند کردے گا۔۔۔ غیر مسلم عورتوں کو ستر کے کم سے کم حدود کی پابندی پر مجبور کرے گا اور انھیں تَبَرُّجِ جاہلیہ کے ساتھ پھرنے سے روک دے گا۔۔۔ سینما پر احتساب قائم کرے گا۔ اس قسم کے اور بہت سے امور ہیں‘ جن میںایک اسلامی نظامِ حکومت نہ صرف اجتماعی فلاح و بہبود کی خاطر‘ بلکہ خود اپنے تحفظ (Self-Defence) کی خاطر بھی‘ اُن تمدنی معاملات کی اجازت نہ دے گا‘ جوغیرمسلموں کے مسلک میں چاہے جائز ہوں‘ مگر اسلام کی نگاہ میں موجبِ فساد و ہلاکت ہیں۔
اس باب میں اگر کوئی شخص اسلام پر ناروا داری کا الزام عائد کرے تو اسے دیکھنا چاہیے کہ دنیا کے کسی انقلابی اور اصلاحی مسلک نے بھی دوسرے مسلک والوں کے ساتھ اتنی رواداری نہیں برتی ہے‘ جتنی اسلام برتتا ہے۔ دوسری جگہ تو آپ دیکھیں گے کہ غیر مسلک والوں کے لیے زندگی دوبھر کردی جاتی ہے۔۔۔ حتیٰ کہ وہ وطن چھوڑ کر نکل جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن اسلام غیر مسلک والوں کو پورے امن کے ساتھ ہر قسم کی ترقی کرنے کا موقع دیتا ہے۔۔۔ اور ان کے ساتھ ایسی فیاضی کا برتاؤ کرتا ہے‘ جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔
سامراجیت (IMPERIALISM) کا شبہ:
یہاں پہنچ کر مجھے پھر اس بات کا اعادہ کرنا چاہیے کہ اسلام کی نظر میں ’’جہاد‘‘ صرف وہی ہے جو محض فی سبیل اللہ ہو۔۔۔ اور اس جہاد کے نتیجہ میں جب اسلامی حکومت قائم ہو‘ تو مسلمانوں کے لیے یہ ہرگز جائز نہیں ہے کہ وہ قیصر و کِسریٰ کو ہٹا کر خود قیصر و کِسریٰ بن جائیں۔ مسلمان اس لیے نہیں لڑتا اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے نہیں لڑسکتا‘ کہ اس کی ذاتی حکومت قائم ہوجائے۔۔۔ اور وہ خدا کے بندوں کو اپنا بندہ بنالے۔۔۔ اور ناجائز طور پر لوگوں کی گاڑھی محنتوں کا روپیہ وصول کرکے اپنے لیے زمین میں جنتیں بنانے لگے۔ یہ جہاد فی سبیل اللہ نہیں‘ بلکہ جہاد فی سبیل الطاغوت ہے اور ایسی حکومت کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ اسلام کا ’’جہاد‘‘ تو ایک خشک اور بے مُزد محنت ہے‘ جس میں جان و مال اور خواہشاتِ نفسانی کی قربانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اگر یہ جہاد کامیاب ہو اور نتیجہ میں حکومت مل جائے‘ تو سچے مسلمان حکمراں پر ذمہ داریوں کا اس قدر بھاری بوجھ عائد ہوجاتا ہے کہ اس غریب کے لیے راتوں کی نیند اور دن کی آسائش تک حرام ہوجاتی ہے۔ مگر اس کے معاوضہ میں وہ حکومت و اقتدار کی ان لذتوں میںسے کوئی لذت حاصل نہیں کرسکتا‘ جن کی خاطر دنیا میںعموماً حکومت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسلام کا فرماں روا نہ تو رعیت کے عام افراد سے ممتاز کوئی بالاتر ہستی ہے۔۔۔ نہ عظمت و رفعت کے تخت پر وہ بیٹھ سکتا ہے۔۔۔ نہ اپنے آگے کسی سے گردن جھکوا سکتا ہے۔۔۔ نہ قانونِ شریعت کے خلاف ایک پتہ ہلاسکتا ہے۔۔۔ نہ اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ اپنے کسی عزیز یا دوست یا خود اپنی ذات کو کسی ادنیٰ سے ادنیٰ ہستی کے جائز مطالبہ سے بچاسکے۔۔۔ نہ وہ حق کے خلاف ایک حَبّہ لے سکتا ہے اور نہ چپّہ بھر زمین پر قبضہ کرسکتا ہے۔۔۔ ایک متوسط درجہ کے مسلمان کو زندگی بسر کرنے کے لیے جتنی تنخواہ کافی ہوسکتی ہے‘ اس سے زیادہ بیت المال سے ایک پائی لینا بھی اس کے لیے حرام ہے۔ وہ غریب‘ نہ عالیشان قصر بنواسکتا ہے‘ نہ خدم و حشم رکھ سکتا ہے‘ نہ عیش و عشرت کے سامان فراہم کرسکتا ہے۔ اس پر ہروقت یہ خوف غالب رہتا ہے کہ ایک دن اس کے اعمال کا سخت حساب لیا جائے گا اور اگر حرام کا ایک پیسہ‘ جبر سے لی ہوئی زمین کا ایک چپّہ‘ تکبر و فرعونیت کا ایک شمّہ‘ ظلم و بے انصافی کا ایک دھبہ اور خواہشاتِ نفسانی کی بندگی کا ایک شائبہ بھی اس کے حساب میں نکل آیا‘ تو اسے سخت سزا بھگتنی پڑے گی۔ اگر کوئی شخص حقیقت میں دنیا کا لالچی ہو تو اس سے بڑا کوئی بے وقوف نہ ہوگا اگر وہ اسلامی قانون کے مطابق حکومت کا بار سنبھالنے پر آمادہ ہو۔ کیونکہ اسلامی حکومت کے فرماں روا سے تو بازار کے ایک معمولی دکاندار کی پوزیشن زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ وہ دن کو خلیفہ سے زیادہ کماتا ہے اور رات کو آرام سے پاؤں پھیلاکر سوتا ہے۔ خلیفہ بے چارے کونہ اس کے برابر آمدنی نصیب اور نہ رات کو چین سے سونا ہی نصیب۔
یہ بنیادی فرق ہے‘ اسلامی حکومت اور غیر اسلامی حکومت کا۔ غیر اسلامی حکومت میں حکمران گروہ اپنی خداوندی قائم کرتا ہے اور اپنی ذات کے لیے ملک کے وسائل و ذرائع استعمال کرتا ہے۔ بخلاف اس کے اسلامی حکومت میں حکمراں گروہ مجرد خدمت کرتا ہے اور عام باشندوں سے بڑھ کر اپنی ذات کے لیے کچھ حاصل نہیں کرتا۔ اسلامی حکومت کی سول سروس کو جو تنخواہیں ملتی تھیں‘ ان کا تقابل آج کل یا خود اس دور کی امپیریلسٹ طاقتوں کی سول سروس کے مشاہروں سے کرکے دیکھئے۔۔۔ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اسلام کی جہاں کشائی اور امپیریل ازم کی عالمگیری میں روحی و جوہری فرق ہے۔ اسلامی حکومت میں خراسان‘ عراق‘ شام اور مصر کے گورنروں کی تنخواہیں‘ آپ کے معمولی انسپکٹروں کی تنخواہوں سے بھی کم تھیں۔ خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ صرف سو روپے مہینہ کی تنخواہ پر اتنی بڑی سلطنت کا انتظام کرتے تھے اور حضرت عمرؓ کی تنخواہ ڈیڑھ سو روپے سے زیادہ نہ تھی‘ دراں حالے کہ بیت المال دنیا کی دو عظیم الشان سلطنتوں کے خزانوں سے بھرپور ہورہا تھا۔ اگرچہ ظاہر میں امپیریل ازم بھی ملک فتح کرتا ہے اور اسلام بھی۔۔۔ مگر دونوں کے جوہر میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کَرگَس کا جہاں اور ہے‘ شاہیں کا جہاں اور
یہ ہے اُس جہاد کی حقیقت‘ جس کے متعلق آپ بہت کچھ سنتے رہے ہیں۔ اب اگر آپ مجھ سے دریافت کریں کہ آج ’’اسلام‘‘ اور ’’مسلم جماعت‘‘ اور ’’جہاد‘‘کا وہ تصور‘ جو تم پیش کررہے ہو‘ کہاں غائب ہو گیا؟ اور کیوں دنیا بھر کے مسلمانوں میں کہیں بھی اس کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا؟۔۔۔ تو میں عرض کروں گا کہ یہ سوال مجھ سے نہ کیجیے‘ بلکہ ان لوگوں سے کیجیے جنہوں نے مسلمانوں کی توجہ ان کے اصلی مشن سے ہٹا کر تعویذ‘ گنڈوں اور عملیات اور مراقبوں اور ریاضتوں کی طرف پھیر دی۔۔۔ جنہوں نے نجات‘ فلاح اور حصولِ مقاصد کے لیے شارٹ کٹ تجویز کیے‘ تاکہ مجاہدے اور جانفشانی کے بغیر سب کچھ تسبیح پھرانے یا کسی صاحبِ قبر کی عنایات حاصل کرلینے سے ہی میسر آجائے۔۔۔ جنہوں نے اسلام کے کلیات اور اصول و مقاصد کو لپیٹ کر تاریک گوشوں میں پھینک دیا اور مسلمانوں کے ذہن کو آمین بالجہر اور رَفع یَدین اور ایصالِ ثواب و زیارتِ قبور اور اسی قسم کے بے شمار جزئیات کی بحثوں میں ایسا پھنسایا کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے مقصدِ تخلیق کو اور اسلام کی حقیقت کو قطعی بھول گئے۔ اگر اس سے بھی آپ کی تشفی نہ ہو‘ تو پھر یہ سوال ان امراء اور احکام اور اصحابِ اقتدار کے سامنے پیش کیجیے‘ جو قرآن اور محمدﷺ پر ایمان لانے کا دعویٰ تو کرتے ہیں‘ مگر قرآن کے قانون اور محمد رسول اللہﷺ کی ہدایت کا اس سے زیادہ کوئی حق اپنے اوپر تسلیم نہیں کرتے کہ کبھی ختم قرآن کرا دیں۔۔۔ اور کبھی عید میلاد کے جلسے کروا دیں۔۔۔ اور کبھی اللہ میاں کو نعوذ بااللہ ان کی شاعری کی داد دے دیا کریں۔ رہا اس قانون اور ہدایت کو عملاً نافذ کرنا‘ تو یہ حضرات اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ سمجھتے ہیں۔۔۔ کیونکہ درحقیقت اِن کا نفس اُن پابندیوں کو قبول کرنے اور اُن ذمہ داریوں کا بوجھ سنبھالنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے‘ جو اسلام اِن پر عائد کرتا ہے۔ یہ بڑی سستی نجات کے طالب ہیں۔
(از رسالہ ترجمان القرآن ۔ ربیع الاول ۱۳۵۸ھ ۔ ۱۹۳۹ء)
شہادتِ حق
(یہ تقریر ۳۰ دسمبر ۱۹۴۶ء کو جماعت اسلامی لاہور کمشنری کے اجتماع میں بمقام مراد پور متصل سیال کوٹ کی گئی)
امتِ مسلمہ کا فرض اور مقصدِ وجود
ساری تعریف اس خدا کے لیے ہے جو کائنات کا تنہا خالق، مالک اور حاکم ہے۔ جو کمال درجے کی حکمت، قدرت اور رحمت کے ساتھ اس میں فرماں روائی کر رہا ہے جس نے انسان کو پیدا کیا، اس کو علم وعقل کی قوتیں بخشیں، اسے زمین میں اپنی خلافت سے سرفراز کیا اور اس کی راہ نمائی کے لیے کتابیں اتاریں اور پیغمبر بھیجے۔ پھر خدا کی رحمتیں ہوں اس کے ان نیک اور برگزیدہ بندوں پر جو انسان کو انسانیت سکھانے آئے جنھوں نے آدمی کو ان کے مقصدِ زندگی سے خبردار کیا اور اسے دنیا میں جینے کا صحیح طریقہ بتایا۔ آج دنیا میں ہدایت کی روشنی، اخلاق کی پاکیزگی، اور نیکی وپرہیز گاری جو کچھ بھی پائی جاتی ہے وہ سب خدا کے انھی برگزیدہ بندوں کی راہ نمائی کی بدولت ہے اور انسان کبھی ان کے بارِ احسان سے سبک دوش نہیں ہو سکتا۔
عزیزو اور دوستو! ہم اپنے اجتماعات کودو حصوں میں تقسیم کیا کرتے ہیں: ایک حصہ اس غرض کے لیے ہوتا ہے کہ ہم خود آپس میں بیٹھ کر اپنے کام کا جائزہ لیں اور اسے آگے بڑھانے کے لیے باہم مشورہ کریں۔ دوسرا حصہ اس مقصد کے لیے خاص ہوتا ہے، کہ جس مقام پر ہمارا اجتماع ہو، وہاں کے عام باشندوں کے لیے ہم اپنی دعوت کو پیش کریں۔ اس وقت کا یہ اجتماع اسی دوسری غرض کے لیے ہے۔ ہم نے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے کہ آپ کو بتائیں کہ ہماری دعوت کیا ہے اور کس چیز کی طرف ہم بلاتے ہیں۔
ہماری دعوت کا خطاب ایک تو ان لوگوں سے ہے جو پہلے سے مسلمان ہیں دوسرے ان عام بندگانِ خدا سے جو مسلمان نہیں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے لیے ہمارے پاس ایک پیغام ہے۔ مگر افسوس ہے کہ یہاں دوسرے گروہ کے لوگ مجھے نظر نہیں آتے۔ یہ ہماری پچھلی غلطیوں اور آج کی بے تدبیریوں کا نتیجہ ہے کہ خدا کے بندوں کا ایک بہت بڑا حصہ ہم سے دُور ہو گیا ہے اور مشکل ہی سے کبھی ہم یہ موقع پاتے ہیں کہ ان کو اپنے پاس بلا کر یا خود ان کے قریب جا کر وہ پیغام اُن کو سنائیں جو اُن کے اور ہمارے خدا نے ہم سب کی راہ نمائی کے لیے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بھیجا ہے۔ بہرحال اب کہ وہ موجود نہیں ہیں۔ میں دعوت کے صرف اس حصے کو پیش کروں گا جو مسلمانوں کے لیے خاص ہے۔
مسلمانوں کو ہم جس چیز کی طرف بلاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ادا کریں جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان پر عائد ہوتی ہیں۔ آپ صرف اتنا کہہ کر نہیں چھوٹ سکتے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم نے خدا کو اور اس کے دین کو مان لیا۔ بلکہ جب آپ نے خدا کو اپنا خدا اور اس کے دین کو اپنا دین مانا ہے تو اس کے ساتھ آپ پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جن کا آپ کو شعور ہونا چاہیے۔ جن کے ادا کرنے کی آپ کو فکر ہونی چاہیے۔ اگر آپ انہیں ادا نہ کریںگے تو اس کے وبال سے نہ دنیا میں چھوٹ سکیں گے نہ آخرت میں۔
وہ ذمہ داریاں کیا ہیں؟ وہ صرف یہی نہیں ہیں کہ آپ خدا پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائیں۔ وہ صر ف اتنی بھی نہیں ہیں کہ آپ نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ معاملات میں اسلام کے مقرر کیے ہوئے ضابطے پر عمل کریں، بلکہ ان سب کے علاوہ ایک بڑی اور بہت بھاری ذمہ داری آپ پر یہ عائد ہوتی ہے کہ آپ تمام دنیا کے سامنے اس حق کے گواہ بن کر کھڑے ہوں، جس پر ایمان لائے ہیں۔ ’’مسلمان‘‘ کے نام سے آپ کو ایک مستقل امت بنانے کی واحد غرض جو قرآن میں بیان کی گئی ہے، وہ یہی ہے کہ آپ تمام بندگانِ خدا پر شہادتِ حق کی حجت پوری کریں۔
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۰ۭ البقرہ 143:2
’’جس طرح ہم نے تمہیں ایک بیچ کی امت بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ رہو اور رسولؐ تم پرگواہ ہو۔‘‘
یہ آپ کی امت کا عین مقصد وجود ہے جسے آپ نے پورا نہ کیا تو گویا اپنی زندگی ہی اکارت گنوا دی۔ یہ آپ پر خدا کا عائد کیا ہوا فرض ہے کیوں کہ خدا کا حکم ہے کہ:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ۰ۡ المائدہ 8:5
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا کی خاطر اٹھنے والے اور ٹھیک ٹھیک راستی کی گواہی دینے والے بنو۔‘‘
اور یہ نرا حکم ہی نہیں بلکہ تاکیدی حکم ہے کیوں کہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللہِ۰ۭ البقرہ 140:2
’’اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جس کے پاس اللّٰہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اُسے چھپائے۔ ‘‘
پھر اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس فرض کو انجام نہ دینے کا نتیجہ کیا ہے۔ آپ سے پہلے اس گواہی کے کٹہرے میں یہودی کھڑے کیے گئے تھے مگر انھوں نے کچھ تو حق کو چھپایا اور کچھ حق کے خلاف گواہی دی اور فی الجملہ حق کے نہیں بلکہ باطل کے گواہ بن کے رہ گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے انھیں دھتکار دیا اور ان پر وہ پھٹکار پڑی کہ:
وَضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْكَنَۃُ۰ۤ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ۰ۭ البقرہ 61:2
’’ذلت وخواری اور پستی وبدحالی اُن پر مسلط ہو گئی اور وہ اللّٰہ کے غضب میں گھِر گئے‘‘۔
یہ شہادت جس کی ذمہ داری آپ پر ڈالی گئی ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ جو حق آپ کے پاس آیا ہے، جو صداقت آپ پر منکشف کی گئی ہے، آپ دنیا کے سامنے اس کے حق اورصداقت ہونے پر اور اس کے راہِ راست ہونے پر گواہی دیں۔ ایسی گواہی جو اس کے حق اور راستی ہونے کو مبرہن کر دے اور دنیا کے لوگوں پر دین کی حجت پوری کر دے۔ اسی شہادت کے لیے انبیا علیہم السلام دنیا میں بھیجے گئے تھے اور اس کا ادا کرنا اُن پر فرض تھا۔ پھر یہی شہادت تمام انبیا کے بعد ان کی امتوں پر فرض ہوتی رہی۔ اور اب خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد یہ فرض امتِ مسلّمہ پر بحیثیت مجموعی اسی طرح عائد ہوتا ہے جس طرح حضورؐ پر آپؐ کی زندگی میں شخصی حیثیت سے عائد تھا۔
اس گواہی کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ نوع انسانی کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے باز پُرس اور جزا وسزا کا جو قانون مقرر کیا ہے اس کی ساری بنیاد اس گواہی پر ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ حکیم ورحیم اور قائم بالقسط ہے۔ اس کی حکمت ورحمت اور اس کے انصاف سے یہ بعید ہے کہ لوگوں کو اس کی مرضی نہ معلوم ہو اور وہ انھیں اس بات پر پکڑے کہ وہ اس کی مرضی کے خلاف چلے۔ لوگ نہ جانتے ہوں کہ راہِ راست کیا ہے اور وہ ان کی کج روی پر ان سے مواخذہ کرے۔ لوگ اس سے بے خبر ہوں کہ ان سے کس چیز کی باز پرس ہوتی ہے اور وہ انجانی چیز کی ان سے باز پرس کرے۔ اس لیے اللّٰہ تعالیٰ نے آفرینش کی ابتدا ہی ایک پیغمبر سے کی اورپھر وقتاً فوقتاً بے شمار پیغمبر بھیجے تاکہ وہ نوعِ انسانی کو خبردار کریں کہ تمہارے معاملے میں تمہارے خالق کی مرضی یہ ہے، تمہارے لیے دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے، یہ رویہ ہے جس سے تم اپنے مالک کی رضا کو پہنچ سکتے ہو، یہ کام ہیں جن سے تم کو بچنا چاہیے۔ اور یہ امور ہیں جن کی تم سے باز پُرس کی جائے گی۔
یہ شہادت جو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں سے دلوائی، اس کی غرض قرآن مجید میں صاف صاف یہی بتائی گئی ہے کہ لوگوں کو اللّٰہ پر یہ حجت قائم کرنے کا موقع باقی نہ رہے کہ ہم بے خبر تھے۔ اورآپ ہمیں اس چیز پر پکڑتے ہیں، جس سے ہم کو خبردار نہ کیا گیا تھا۔
رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللہِ حُجَّــۃٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ۰ۭ وَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِــيْمًاo النسائ 165:4
’’رسولؐ خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تاکہ ان کو مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللّٰہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے۔‘‘
اس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے لوگوں کی حجت اپنے اوپر سے اتار کر پیغمبروں پر ڈال دی اور پیغمبرؐ اس اہم ذمہ داری کے منصب پر کھڑے کر دیے گئے کہ اگر وہ شہادتِ حق کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کر دیں تو لوگ اپنے اعمال پر خود باز پُرس کے مستحق ہوں، اورا گر ان کی طرف سے ادائے شہادت میں کوتاہی ہو تو لوگوں کی گمراہی وکج روی کا مواخذہ پیغمبروں سے کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں پیغمبروں کے منصب کی نزاکت یہ تھی کہ یا تو وہ حق کی شہادت ٹھیک ٹھیک ادا کرکے لوگوں پر حجت قائم کریں ورنہ لوگوں کی حجت الٹی اُن پر قائم ہوئی جاتی تھی کہ خدا نے حقیقت کا جو علم آپ حضرات کو دیا تھا وہ آپ نے ہمیں نہ پہنچایا۔ اور جو صحیح طریقِ زندگی اس نے آپ کو بتایا تھا وہ آپ نے ہمیں نہ بتایا۔ یہی وجہ ہے کہ انبیا علیہم السلام اپنے اوپر اس ذمہ داری کے بار کو شدت کے ساتھ محسوس کرتے تھے اور اسی بنا پر انھوں نے اپنی طرف سے حق کی شہادت ادا کرنے اور لوگوں پر حجت تمام کر دینے کی جان توڑ کوششیں کیں۔
پھر انبیا کے ذریعے سے جن لوگوں نے حق کا علم اور ہدایت کا راستہ پایا وہ ایک امت بنائے گئے اور وہی منصبِ شہادت کی ذمہ داری، جس کا بار انبیا پر ڈالا گیا تھا، اب اس امت کے حصہ میں آئی۔ انبیا کی قائم مقام ہونے کی حیثیت سے اس کا یہ مقام قرارپایا کہ اگر یہ امت شہادت کا حق ادا کر دے اور لوگ درست نہ ہوں تو یہ اجر پائے گی اور لوگ پکڑے جائیں گے۔ اور یہ حق کی شہادت دینے میں کوتاہی کرے، یا حق کے بجائے الٹی باطل کی شہادت دینے لگے تو لوگوں سے پہلے یہ پکڑی جائے گی۔ اس سے خود اس کے اعمال کی بازپرس بھی ہو گی اور ان لوگوں کے اعمال کی بھی جو اس کے صحیح شہادت نہ دینے یا غلط شہادت دینے کی وجہ سے گمراہ اور مفسد اور غلط کار رہے۔
حضرات! یہ ہے شہادتِ حق کی وہ نازک ذمہ داری جو مجھ پر، آپ پر اور ان سب لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو اپنے کوامتِ مسلمہ کہتے ہیں اور جن کے پاس خدا کی کتاب اور ان کے انبیا کی ہدایت پہنچ چکی ہے۔ اب دیکھیے کہ اس شہادت کے ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے۔
شہادتیں دو طرح کی ہوتی ہیں ایک قولی شہادت، دوسرے عملی شہادت۔
قولی شہادت کی صورت یہ ہے کہ ہم زبان اور قلم سے دنیا پر اس حق کو واضح کریں، جو انبیا کے ذریعے سے ہمیں پہنچا ہے۔ سمجھانے اور دل نشیں کرنے کے جتنے طریقے ممکن ہیں ان سب سے کام لے کر تبلیغ ودعوت اور نشرواشاعت کے جتنے ذرائع ممکن ہیں ان سب کو استعمال کرکے، علوم وفنون نے جس قدر مواد فراہم کیا ہے وہ سب اپنے ہاتھ میں لے کر ہم دنیا کو اس دین کی تعلیم سے روشناس کریں جو خدا نے انسان کے لیے مقرر کیا ہے۔ فکر واعتقاد میں، اخلاق وسیرت میں ، تمدن ومعاشرت میں، کسب معاش اور لین دین میں، قانون اور نظمِ عدالت میں، سیاست اور تدبیر مملکت میں بین الانسانی معاملات کے تمام دوسرے پہلوئوں میں، اس دین نے انسان کی راہ نمائی کے لیے جو کچھ پیش کیا ہے اسے ہم خوب کھول کھول کر بیان کریں۔ دلائل اور شواہد سے اس کا حق ہونا ثابت کریں اور جو کچھ اس کے خلاف ہے اس پر معقول تنقیدکرکے بتائیں کہ اس میں کیا خرابی ہے۔ اس قولی شہادت کا حق ادا نہیں ہو سکتا جب تک کہ امت مجموعی طور پر ہدایتِ خلق کے لیے اسی طرح فکر مند نہ ہو جس طرح انبیا علیہم السلام انفرادی طور اس کے لیے فکر مند رہا کرتے تھے۔ یہ حق ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ کام ہماری تمام اجتماعی کوششوں اور قومی سعی وجہد کا مرکزی نقطہ ہو۔ ہم اپنے دل ودماغ کی ساری قوتیں ، اور اپنے سارے وسائل وذرائع اس پر لگا دیں۔ ہمارے تمام کاموں میں یہ مقصد لازماً ملحوظ رہے اور اپنے درمیان سے کسی ایسی آواز کے اٹھنے کو تو کسی حال میں ہم برداشت ہی نہ کریں جو حق کے خلاف شہادت دینے والی ہو۔
رہی عملی شہادت تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ان اصولوں کا عملاً مظاہرہ کریں جن کو ہم حق کہتے ہیں۔ دنیا صرف ہماری زبان ہی سے ان کی صداقت کا ذکر نہ سنے بلکہ خود اپنی آنکھوں سے ہماری زندگی میں ان کی خوبیوں اور برکتوں کا مشاہدہ کر لے۔ وہ ہمارے برتائو میں اس شیرینی کا ذائقہ چکھ لے جو ایمان کی حلاوت سے انسان کے اخلاق ومعاملات میں پیدا ہوتی ہے۔ وہ خود دیکھ لے کہ اس دین کی راہ نمائی کے لیے کیسے اچھے انسان بنتے ہیں۔ کیسی عادل سوسائٹی تیار ہوتی ہے۔ کیسی صالح معاشرت وجود میں آتی ہے۔ کس قدر ستھرا اور پاکیزہ تمدن پیدا ہوتا ہے۔ کیسے صالح معاشرت وجود میں آتی ہے۔ کس قدر ستھرا اور پاکیزہ تمدن پیدا ہوتا ہے۔ کیسے صحیح خطوط پر علوم وآداب اور فنون کا نشوونما ہوتا ہے۔ کیسا منصفانہ ، ہمدردانہ اور بے نزاع معاشی تعاون رونما ہوتا ہے۔ انفرادی واجتماعی زندگی کا ہر پہلو کس طرح سدھر جاتا ہے، سنور جاتا ہے اور بھلائیوں سے مالا مال ہو جاتا ہے۔ اس شہادت کا حق صرف اس طرح ادا ہو سکتا ہے کہ ہم فردًا فردًا بھی اور قومی حیثیت سے بھی اپنے دین کی حقانیت پر مجسم شہادت بن جائیں، ہمارے افراد کا کردار اس کی صداقت کا ثبوت دے۔ ہمارے گھر اس کی خوشبو سے مہکیں۔ ہماری دکانیں اور ہمارے کارخانے اس کی روشنی سے جگمگائیں۔ ہمارے ادارے اور ہمارے مدرسے اس کے نور سے منور ہوں۔ ہمارا لٹریچر اور ہماری صحافت اس کی خوبیوں کی سند پیش کرے۔ ہماری قومی پالیسی اور اجتماعی سعی وجہد اس کے برحق ہونے کی روشن دلیل ہو۔
غرض ہم سے جہاں اور جس حیثیت میں بھی کسی شخص یا قوم کو سابقہ پیش آئے۔ وہ ہمارے شخصی اور قومی کردار میں اس بات کا ثبوت پا لے کہ جن اصولوں کو ہم کہتے ہیں وہ واقعی حق ہیں اور ان سے فی الواقع انسانی زندگی اصلح اور اعلیٰ وارفع ہو جاتی ہے۔ پھر یہ بھی عرض کروں کہ اس شہادت کی تکمیل اگر ہو سکتی ہے تو صرف اُس وقت جبکہ ایک اسٹیٹ انھی اصولوں پر قائم ہو جائے اور وہ پورے دین کو عمل میں لا کر اپنے عدل وانصاف سے، اپنے اصلاحی پروگرام سے، اپنے حسنِ انتظام سے، اپنے امن سے، اپنے باشندوں کی فلاح وبہبود سے، اپنے حکم رانوں کی نیک سیرت سے، اپنی صالح داخلی سیاست سے، اپنی راستبازانہ خارجی پالیسی سے، اپنی شریفانہ جنگ سے اور اپنی وفادارانہ صلح سے ساری دنیا کے سامنے اس بات کی شہادت دے کہ جس دین نے اس اسٹیٹ کو جنم دیا ہے وہ درحقیقت انسانی فلاح کا ضامن ہے اور اس کی پیروی میں نوعِ انسانی کی بھلائی ہے۔ یہ شہادت جب قولی شہادت کے ساتھ مل جائے تب وہ ذمہ داری پوری طرح ادا ہو جاتی ہے جو امت مسلمہ پر ڈالی گئی ہے۔ تب نوعِ انسانی پر بالکل اتمامِ حجت ہو جاتا ہے۔ تب ہی ہماری امت اس قابل ہو سکتی ہے کہ آخرت کی عدالت میں نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد کھڑی ہو کر شہادت دے سکے کہ جو کچھ حضورؐ نے ہم کو پہنچایا تھا، وہ ہم نے لوگوں تک پہنچا دیا اور اس پر بھی جو لوگ راہ راست پر نہ آئے وہ اپنی کج روی کے خود ذمہ دار ہیں۔
حضرات! یہ تو وہ شہادت ہے جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں قول وعمل میں دینی چاہیے تھی۔ مگر اب دیکھیے کہ آج ہم فی الواقع شہادت دے کیا رہے ہیں۔
پہلے قولی شہادت کا جائزہ لیجئے۔ ہمارے اندر ایک بہت ہی قلیل گروہ ایسا ہے جو کہیں انفرادی طور پر زبان وقلم سے اسلام کی شہادت دیتا ہے، اور اس میں بھی ایسے لوگ شاید انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جو اس شہادت کو اس طرح ادا کر رہے ہیں، جیسا اس کے ادا کرنے کا حق ہے۔ اس قلیل گروہ کو اگر آپ الگ کر لیں تو آپ دیکھیں گے کہ مسلمانوں کی عام شہادت اسلام کے حق میں نہیں بلکہ اس کے خلاف جا رہی ہے۔ ہمارے زمیندار شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام کا قانون وراثت غلط ہے اور جاہلیت کے رواج صحیح ہیں۔ ہمارے وکیل اور جج اور مجسٹریٹ شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام کے سارے ہی قوانین غلط ہیں بلکہ اسلامی قانون کا بنیادی نظریہ ہی قابل قبول نہیں ہے۔ صحیح صرف وہ قوانین ہیں جو انسانوں نے وضع کیے ہیں اور انگریزوں کی معرفت ہمیں پہنچے ہیں۔ ہمارے معلم اور پروفیسر اور تعلیمی ادارے شہادت دے رہے ہیں کہ ان کے پاس بھی ادب کا وہی پیغام ہے جو امریکہ، انگلستان، فرانس اور روس کے دہری ادیبوں کے پاس ہے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان کے ادب کی سرے سے کوئی مستقل روح ہی نہیں ہے۔ ہمارا پریس شہادت دے رہا ہے کہ اس کے پاس بھی وہی مباحث اور مسائل اور پروپیگنڈا کے وہی انداز ہیں جو غیر مسلموں کے پاس ہیں۔ ہمارے تاجر اور اہل صنعت شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام نے لین دین پر جو حدود قائم کیے ہیں وہ ناقابلِ عمل ہیں اور کاروبار صرف انھی طریقوں پر ہو سکتا ہے جن پر کفار عامل ہیں۔ ہمارے لیڈر شہادت دے رہے ہیں کہ ان کے پاس بھی قومیت اور وطنیت کے وہی نعرے ہیں، وہی قومی مقاصد ہیں، قومی مسائل کو حل کرنے کے وہی ڈھنگ ہیں، سیاست اور دستور کے وہی اصول ہیں جو کفار کے پاس ہیں۔ اسلام نے اس بارے میں کوئی راہ نمائی نہیں کی ہے جس کی طرف رجوع کیا جائے۔ ہمارے عوام شہادت دے رہے ہیں کہ ان کے پاس زبان کا کوئی مصرف دنیا اور اس کے معاملات کے سوا نہیں ہے اور وہ کوئی ایسا دین رکھتے ہی نہیں، جس کا وہ چرچا کریں یا جس کی باتوں میں وہ اپنا کچھ وقت صرف کریں۔ یہ ہے وہ قولی شہادت جو مجموعی طور پر ہماری پوری امت اس ملک ہی میں نہیں، ساری دنیا میں دے رہی ہے۔
اب عملی شہادت کی طرف آئیے، اس کا حال قولی شہادت سے بدتر ہے، بلاشبہ کہیں کہیں کچھ صالح افراد ہمارے اندر ایسے پائے جاتے ہیں جو اپنی زندگی میں اسلام کا مظاہرہ کر رہے ہیں مگر سوادِ اعظم کا حال کیا ہے؟ انفرادی طور پر عام مسلمان اپنے عمل میں اسلام کی جو نمائندگی کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام کے زیرِ اثر پرورش پانے والے افراد کسی حیثیت سے بھی کفر کے تیار کیے ہوئے افراد سے بلند یا مختلف نہیں ہیں۔ بلکہ بہت سی حیثیتوں سے ان کی بہ نسبت فروتر ہیں۔ وہ جھوٹ بول سکتے ہیں، وہ خیانت کر سکتے ہیں۔ وہ ظلم کر سکتے ہیں، وہ دھوکا دے سکتے ہیں۔ وہ قول وقرار سے پھر سکتے ہیں۔ وہ چوری اور ڈاکہ زنی کر سکتے ہیں۔ وہ دنگا فساد کر سکتے ہیں وہ بے غیرتی اور بے حیائی کے سارے کام کر سکتے ہیں۔ ان سب بداخلاقیوں میں ان کا اوسط کسی کافر قوم سے کم نہیں ہے۔
پھر ہماری معاشرت، ہمارا رہن سہن، ہمارے رسم ورواج،ہماری تقریبات، ہمارے میلے اور عرس، ہمارے جلسے اور جلوس، غرض ہماری اجتماعی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس میں ہم اسلام کی کسی حد تک بھی صحیح نمائندگی کرتے ہوں۔ یہ چیز گویا اس بات کی زندہ شہادت ہے کہ اسلام کے پیروخود ہی اپنے لیے اسلام کے بجائے جاہلیت کو زیادہ قابلِ ترجیح سمجھتے ہیں۔
ہم مدرسے بناتے ہیں تو علم اور نظامِ تعلیم اور روحِ تعلیم سب کچھ کفار سے لیتے ہیں۔ ہم انجمنیں قائم کرتے ہیں تو مقصد، نظام اور طریقِ کار سب کچھ وہی رکھتے ہیں جو کفار کی کسی انجمن کا ہو سکتا ہے۔ ہماری پوری قوم بحیثیت مجموعی کوئی جدوجہد کرنے اٹھتی ہے تو اس کا مطالبہ، اس کی جدوجہد کا طریقہ، اس کی جمعیت کا دستور ونظام، اس کی تجویزیں، تقریریں اور بیانات سب کچھ ہو بہو کافر قوموں کی جدوجہد کا چربہ ہوتا ہے۔ حد یہ ہے کہ جہاں ہماری آزاد یا نیم آزاد حکومتیں موجود ہیں وہاں بھی ہم نے اساسِ حکومت، نظامِ حکومت اور مجموعۂ قوانین کفار سے لے لیا ہے۔ اسلام کا قانون بعض حکومتوں میں صرف پرسنل لا کی حد تک رہ گیا ہے اور بعض نے اس کو بھی ترمیم کیے بغیر نہیں چھوڑا۔ حال میں ایک انگریز مصنف lawrence bron نے اپنی کتاب (the prospects of islam) میں طعنہ دیا ہے کہ:
’’ہم نے جب ہندوستان میں اسلام کے دیوانی اور فوجداری قوانین کو دقیانوسی اور ناقابلِ عمل سمجھ کر منسوخ کیا تھا اور مسلمانوں کے لیے صرف ان کے پرسنل لا کو رہنے دیا تھا تو مسلمانوں کو یہ سخت ناگوار ہوا تھا کیوں کہ اس طرح ان کی پوزیشن وہی ہوئی جاتی تھی جو کبھی اسلام کی حکومت میں ذمّیوں کی تھی۔ لیکن اب صرف یہی نہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے اسے پسند کر لیا ہے بلکہ خود مسلمان حکومتوں نے بھی اس معاملے میں ہماری تقلید کی ہے۔ ترکی اورالبانیہ نے تواس سے تجاوز کرکے قوانین نکاح وطلاق ووراثت تک میں بھی ہمارے معیارات کے مطابق ’’اصلاحات‘‘ کر دی ہیں۔ اب یہ بات کھل گئی ہے کہ مسلمانوں کا یہ تصور کہ قانون کا ماخذ ارادۂ الٰہی ہے ایک مقدس افسانے (pious fiction) سے زیادہ کچھ نہ تھا۔‘‘
یہ ہے وہ عملی شہادت جو تمام دنیا کے مسلمان تقریباً متفق ہو کر اسلام کے خلاف دے رہے ہیں۔ ہم زبان سے خواہ کچھ کہیں مگر ہمارا اجتماعی عمل گواہی دے رہا ہے کہ اس دین کا کوئی طریقہ ہمیں پسند نہیں اور اس کے کسی قانون میں ہم اپنی فلاح ونجات نہیں پاتے۔
یہ کتمانِ حق اور یہ شہادتِ زُور جس کا ارتکاب ہم کر رہے ہیں، اس کا انجام بھی ہمیں وہی کچھ دیکھنا پڑا ہے جو ایسے سخت جرم کے لیے قانونِ الٰہی میں مقرر ہے۔ جب کوئی قوم خدا کی نعمت کو ٹھکراتی ہے اور اپنے خالق سے غدّاری کرتی ہے تو خدا دنیا میں اس کو عذاب دیتا ہے اور آخرت میں بھی۔ یہودیوں کے معاملے میں خدا کی یہ سُنّت پوری ہو چکی ہے اور اب ہم مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ خدا کو یہود سے کوئی ذاتی پرخاش تھی کہ وہ صرف انھی کو اس جرم کی سزا دیتا اور ہمارے ساتھ اس کی کوئی رشتے داری نہیں کہ ہم اسی جرم کا ارتکاب کریں اور سزا سے بچ جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم حق کی شہادت دینے میں جتنی جتنی کوتاہی کرتے گئے ہیں اور باطل کی شہادت ادا کرنے میں ہمارا قدم جس رفتار سے آگے بڑھا ہے ٹھیک اسی رفتار سے ہم گرتے چلے گئے ہیں۔ پچھلی ایک ہی صدی کے اندر مراکش سے لے کر شرق الہند تک ملک کے ملک ہمارے ہاتھ سے نکل گئے۔ مسلمان قومیں ایک ایک کرکے مغلوب اور محکوم ہوتی چلی گئیں۔ مسلمان کا نام فخر وعزت کا نام نہ رہا بلکہ ذلت ومسکنت اور پسماندگی کا نشان بن گیا۔ دنیا میں ہماری کوئی آبرو باقی نہ رہی۔ کہیں ہمارا قتلِ عام ہوا، کہیں ہم گھر سے بے گھر کیے گئے۔ کہیں ہم کو سُوء العذاب کا مزہ چکھایا گیا اورکہیں ہم کو چاکری اور خدمت گاری کے لیے زندہ رکھا گیا۔ جہاں مسلمانوں کی اپنی حکومتیں باقی رہ گئیں وہاں بھی انھوں نے شکستوں پر شکستیں کھائیں اور آج اُن کا حال یہ ہے کہ بیرونی طاقتوں کے خوف سے لرز رہے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اسلام کی قولی وعملی شہادت دینے والے ہوتے تو کفر کے علم بردار اُن کے خوف سے کانپ رہے ہوتے۔
دُور کیوں جائیے، خود ہندوستان میں اپنی حالت دیکھ لیجئے۔ ادائے شہادت میں جو کوتاہی آپ نے کی بلکہ الٹی خلافِ حق شہادت جو آپ اپنے قول وعمل سے دیتے رہے اسی کا تو نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کا ملک آپ کے ہاتھ سے نکل گیا۔ پہلے مرہٹوں اور سکھوں کے ہاتھوں آپ پامال ہوئے۔ پھر انگریز کی غلامی آپ کو نصیب ہوئی اوراب پچھلی پامالیوں سے بڑھ کر پامالیاں آپ کے سامنے آ رہی ہیں۔ آج آپ کے سامنے سب سے بڑا سوال اکثریت واقلیت کا ہے اور آپ اس اندیشے سے کانپ رہے ہیں کہ ہندو اکثریت آپ کو اپنا محکوم نہ بنا لے اور آپ وہ انجام نہ دیکھیں جو شودر قومیں دیکھ چکی ہیں۔ مگر خدارا بتائیے کہ اگر آپ اسلام کے سچے گواہ ہوتے تو یہاں کوئی اکثریت ایسی ہو سکتی تھی جس سے آپ کو کوئی خطرہ ہوتا؟ یا آج بھی اگر آپ قول وعمل سے اسلام کی گواہی دینے والے بن جائیں تو کیا یہ اقلیت واکثریت کا سوال چند سال کے اندر ہی ختم نہ ہو جائے؟ عرب میں ایک فی لاکھ کی اقلیت کو نہایت متعصّب اور ظالم اکثریت نے دنیا سے نیست ونابود کر دینے کی ٹھانی تھی مگر اسلام کی سچی گواہی نے دس سال کے اندر اُسی اقلیت کو سو فی صدی اکثریت میں تبدیل کر دیا۔ پھر جب یہ اسلام کے گواہ عرب سے باہر نکلے تو پچیس سال کے اندر ترکستان سے لے کر مراکش تک قومیں کی قومیں ان کی شہادت پر ایمان لاتی چلی گئیں۔ جہاں سو فی صدی مجوسی، بُت پرست، اور عیسائی رہتے تھے، وہاں سو فی صدی مسلمان بسنے لگے۔ کوئی ہٹ دھرمی، قومی عصبیت، اور کوئی مذہبی تنگ نظری اتنی سخت ثابت نہ ہوئی کہ حق کی زندہ اور سچی شہادت کے آگے قدم جما سکتی۔ اب آپ اگر پامال ہو رہے ہیں اور اپنے آپ کو اس سے شدید پامالی کے خطرے میں مبتلا پاتے ہیں تو یہ کتمانِ حق اور شہادتِ زُور کی سزا کے سوا اور کیا ہے؟
یہ تو اس جرم کی وہ سزا ہے جو آپ کو دنیا میں مل رہی ہے۔ آخرت میں اس سے سخت تر سزا کا اندیشہ ہے۔ جب تک آپ حق کے گواہ ہونے کی حیثیت سے اپنا فرض انجام نہیں دیتے اس وقت تک دنیا میں جو گمراہی پھیلے گی، جو ظلم وفساد اور طغیان بھی برپا ہو گا، جو بداخلاقیاں اور بدکرداریاں بھی رواج پائیں گی ان کی ذمہ داری سے آپ بری نہیں ہو سکتے۔ آپ اگر ان برائیوں کے پیدا کرنے کے ذمہ دار نہیں ہیں تو ان کی پیدائش کے اسباب باقی رکھنے اور انہیں پھیلنے کی اجازت دینے کے ذمہ دار ضرور ہیں۔
حضرات! یہ جو کچھ میں نے عرض کیا ہے اس سے آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں کرنا کیا چاہیے تھا اور ہم کیا کر رہے ہیں۔ اور جو کچھ ہم کر رہے ہیں اس کا خمیازہ ہم کیا بھگت رہے ہیں۔ اس پہلو سے اگر آپ حقیقت ِمعاملہ پر نگاہ ڈالیں گے تو یہ بات خود ہی آپ پر کھل جائے گی کہ مسلمانوں نے اس ملک میں اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں جن مسائل کو اپنی قومی زندگی کے اصل مسائل سمجھ رکھا ہے اور جنھیں حل کرنے کے لیے وہ کچھ اپنے ذہن سے گھڑی ہوئی اور زیادہ تر دوسروں سے سیکھی ہوئی تدبیروں پر اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، فی الواقع ان میں سے کوئی بھی ان کا اصل مسئلہ نہیں ہے اور اس کے حل کی تدبیر میں وقت، قوت اور مال کا یہ سارا صرفہ محض ایک زیاں کاری ہے۔ یہ سوالات کہ کوئی اقلیت ایک غالب اکثریت کے درمیان رہتے ہوئے اپنے وجود اورمفاد اور حقوق کو کیسے محفوظ رکھے، اور کوئی اکثریت اپنے حدود میں وہ اقتدار کیسے حاصل کرے جو اکثریت میں ہونے کی بنا پر اُسے ملنا چاہیے اور ایک محکوم قوم کسی غالب قوم کے تسلط سے کس طرح آزاد ہو، اور ایک کم زور قوم کسی طاقتور قوم کی دست برد سے اپنے آپ کو کس طرح بچائے اور ایک پسماندہ قوم وہ ترقی وخوش حالی، اور طاقت کیسے حاصل کرے جو دنیا کی زور آور قوموں کو حاصل ہے، یہ اور ایسے ہی دوسرے مسائل غیر مسلموں کے لیے تو ضرور اہم ترین اور مقدم ترین مسائل ہو سکتے ہیں مگر ہم مسلمانوں کے لیے یہ بجائے خود مستقل مسائل نہیں ہیں بلکہ محض اس غفلت کے شاخسانے ہیں جو ہم اپنے اصل کام سے برتتے رہے ہیں اور آج تک برتے جا رہے ہیں۔ اگر ہم نے وہ کام کیا ہوتا تو آج اتنے بہت سے پیچیدہ اور پریشان کن مسائل کا یہ جنگل ہمارے لیے پیدا ہی نہ ہوتا۔ اور اگر اب بھی اس جنگل کو کاٹنے میں اپنی قوتیں صرف کرنے کے بجائے ہم اس کام پر اپنی ساری توجہ اور سعی مبذول کر دیں تو دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف ہمارے لیے بلکہ ساری دنیا کے لیے پریشان کن مسائل کا یہ جنگل خود بخود صاف ہو جائے۔ کیوں کہ دنیا کی صفائی واصلاح کے ذمہ دار ہم تھے۔ ہم نے اپنا فرض منصبی ادا کرنا چھوڑا تو دنیا خاردار جنگلوں سے بھر گئی اور ان کا سب سے زیادہ پُرخار حصہ ہمارے نصیب میں لکھا گیا۔
افسوس ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی پیشوا اور سیاسی راہ نما اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور ہر جگہ ان کو یہی باور کرائے جا رہے ہیں کہ تمہارے اصل مسائل وہی اقلیت واکثریت اور آزادیِ وطن اور تحفظ قوم اور مادی ترقی کے مسائل ہیں۔ نیز یہ حضرات ان مسائل کے حل کی تدبیریں بھی مسلمانوں کو وہی کچھ بتا رہے ہیں جو انھوں نے غیر مسلموں سے سیکھی ہیں۔ لیکن میں جتنا خدا کی ہستی پر یقین رکھتا ہوں، اتنا ہی مجھے اس بات پر بھی یقین ہے کہ یہ آپ کی بالکل غلط راہ نمائی کی جا رہی ہے اور ان راہوں پر چل کر آپ کبھی اپنی فلاح کی منزل کو نہ پہنچ سکیں گے۔ میں آپ کا سخت بدخواہ ہوں گا اگر لاگ لپیٹ کے بغیر آپ کو صاف صاف نہ بتا دوں کہ آپ کی زندگی کا اصل مسئلہ کیا ہے۔ میرے علم میں آپ کا حال اور آپ کا مستقبل معلق ہے اس سوال پر کہ آپ اس ہدایت کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں جو آپ کو خدا کے رسول کی معرفت پہنچی ہے جس کی نسبت سے آپ کو مسلمان کہا جاتا ہے اور جس کے تعلق سے آپ … خواہ چاہیں یا نہ چاہیں بہرحال دنیا میں اسلام کے نمائندے قرار پائے ہیں۔
اگر آپ اُس کی صحیح پیروی کریں اور اپنے قول اور عمل سے اس کی سچی شہادت دیں اور آپ کے اجتماعی کردار میں پورے اسلام کا ٹھیک ٹھیک مظاہرہ ہونے لگے تو آپ دنیا میں سربلند اور آخرت میں سرخ رُو ہو کر رہیں گے۔ خوف اور حُزن، ذلت اور مسکنت، مغلوبی اور محکومی کے یہ سیاہ بادل جوآپ پر چھائے ہوئے ہیں، چند سال کے اندر چھٹ جائیں گے ۔ آپ کی دعوتِ حق اور سیرتِ صالحہ دلوں کو اور دماغوں کو متاثر کرتی چلی جائے گی۔ آپ کی ساکھ اور دھاک دنیا پر بیٹھتی جائے گی۔ انصاف کی امیدیں آپ سے وابستہ کی جائیں گی۔ بھروسا آپ کی امانت ودیانت پر کیا جائے گا۔ سند آپ کے قول کی لائی جائے گی۔ بھلائی کی توقعات آپ سے باندھی جائیں گی۔ ائمہ کفر کی کوئی ساکھ آپ کے مقابلے میں باقی نہ رہ جائے گی۔ ان کے تمام فلسفے اور سیاسی و معاشی نظرئیے آپ کی سچائی اور راست روی کے مقابلے میں جھوٹے ملمع ثابت ہوں گے۔ جو طاقتیں آج ان کے کیمپ میں نظر آ رہی ہیں ٹوٹ ٹوٹ کر اسلام کے کیمپ میں آتی چلی جائیں گی حتیٰ کہ ایک وقت وہ آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچائو کے لیے پریشان ہو گا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیو یارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہو گی۔ مادہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونیورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہو گا۔ نسل پرستی اور قوم پرستی خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد نہ پا سکے گی۔ اور یہ آج کا دَور صرف تاریخ میں ایک داستانِ عبرت کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا کہ اسلام جیسی عالمگیر وجہاں کشا طاقت کے نام لیوا کبھی اتنے بیوقوف ہو گئے تھے کہ عصائے موسیٰ بغل میں تھا اورلاٹھیوں اور رسیوں کو دیکھ دیکھ کرکانپ رہے تھے۔ یہ مستقبل تو آپ کا اس صورت میں ہے جبکہ آپ اسلام کے مخلص پیرو اور سچے گواہ ہوں لیکن اس کے برعکس اگر آپ کا رویہ یہی رہا کہ خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت پر بار بنے بیٹھے ہیں، نہ خود اس سے مستفید ہوتے ہیں نہ دوسروں کو اس کا فائدہ پہنچنے دیتے ہیں۔ اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر نمائندے تو اسلام کے بنے ہوئے ہیں مگر اپنے مجموعی قول وعمل سے شہادت زیادہ تر جاہلیت، شرک، دنیا پرستی اور اخلاقی بے قیدی کی دے رہے ہیں۔ خدا کی کتاب طاق پر رکھی ہے اور راہ نمائی کے لیے ہر امام کفر اور ہر منبع ضلالت کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے۔ دعویٰ خدا کی بندگی کا ہے اور بندگی ہر شیطان اور طاغوت کی کی جا رہی ہے۔ دوستی اور دشمنی نفس کے لیے ہے اور فریق دونوں صورتوں میں اسلام کو بنایا جا رہا ہے اور اسی طرح اپنی زندگی کو بھی اسلام کی برکتوں سے محروم کر رکھا ہے اور دنیا کو بھی اس کی طرف راغب کرنے کے بجائے الٹا متنفر کر رہے ہیں اور بعید نہیں کہ مستقبل اس حال سے بھی بدتر ہو۔ اسلام کا لیبل اتار کر کھلم کھلا کفر اختیار کر لیجیے تو کم از کم آپ کی دنیا تو ویسی ہی بن جائے گی جیسی امریکہ، روس اور برطانیہ کی ہے۔ لیکن مسلمان ہو کر نامسلمان بنے رہنا اور خدا کے دین کی جھوٹی نمائندگی کرکے دنیا کے لیے بھی ہدایت کا دروازہ بند کردینا وہ جرم ہے جو آپ کو دنیا میں بھی پنپنے نہ دے گا۔ اس جرم کی سزا جو قرآن میں لکھی ہوئی ہے جس کا زندہ ثبوت یہودی قوم آپ کے سامنے موجود ہے اس کو آپ ٹال نہیں سکتے خواہ متحدہ قومیت کے ’’اہون البلیتین‘‘ کو اختیار کریں یا اپنی الگ قومیت منوا کر وہ سب کچھ حاصل کر لیں جو مسلم قوم پرستی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کے ٹلنے کی صورت صرف یہی ہے کہ اس جرم سے باز آ جائیے۔
اب میں چند الفاظ میں آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ ہم کس غرض کے لیے اٹھے ہیں۔ ہم سب ان لوگوں کو جو اسلام کو اپنا دین مانتے ہیں یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس دین کو واقعی اپنا دین بنائیں۔ اس کو انفرادی طور پر ہر ہر مسلمان اپنی ذاتی زندگی میں بھی قائم کرے اور اجتماعی طور پر پوری قوم اپنی قومی زندگی میں بھی نافذ کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ آپ اپنے گھروں میں، اپنے خاندان میں، اپنی سوسائٹی میں، اپنی تعلیم گاہوں میں، اپنے ادب اور صحافت میں، اپنے کاروبار اور معاشی معاملات میں، اپنی انجمنوں اور قومی اداروں میں اور بحیثیت مجموعی اپنی قومی پالیسی میں عملاً اسے قائم کریں اور اپنے قول وعمل سے دنیا کے سامنے اس کی سچی گواہی دیں۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے تمہاری زندگی کا اصل مقصد اقامتِ دین اور شہادتِ حق ہے۔ اس لیے تمہاری تمام سعی وعمل کا مرکز ومحور اسی چیز کو ہونا چاہیے۔ ہر اس بات اورکام سے دست کش ہو جائو جو اس کی ضد ہو اور جس سے اسلام کی غلط نمائندگی ہوتی ہو۔ اسلام کو سامنے رکھ کر اپنے پورے قولی اور عملی رویے پرنظر ثانی کرو اور اپنی تمام کوششیں اس راہ میں لگا دو کہ دین پورا کا پورا عملاً قائم ہو جائے۔ اس کی شہادت تمام ممکن طریقوں سے ٹھیک ٹھیک ادا کر دی جائے، اور اس کی طرف دنیا کو ایسی دعوت دی جائے جواتمامِ حجت کے لیے کافی ہو۔
٭…٭…٭…٭…٭
مسلمانوں کا ماضی وحال اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل
(یہ وہ تقریر ہے جو ۱۱؍نومبر ۱۹۵۱ء کو جماعت اسلامی کے اجتماعِ عام منعقدہ کراچی میں کی گئی تھی)
حمد وثنا کے بعد!
حاضرین وحضرات! میں اس سے پہلے اپنی تقریروں میں مسلمانوں کی اجتماعی حالت کا تفصیلی جائزہ لے کر یہ بتا چکا ہوں کہ اس وقت ہماری زندگی کے ایک ایک شعبے میں کیا خرابیاں پائی جاتی ہیں اور ان کے اسباب کیا ہیں۔ آج کی تقریر میں مجھے یہ بتانا ہے کہ ہمارے پاس وہ کیا پروگرام ہے جس سے ہم خود یہ توقع رکھتے ہیں اور آپ کو بھی یہ توقع دلا سکتے ہیں کہ وہ خرابیوں کی اصلاح کا مفید اور کارگر ذریعہ بن سکتا ہے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ
لیکن اس پروگرام کو بیان کرنے سے پہلے میں ایک غلط فہمی کو رفع کر دینا چاہتا ہوں جو اس سلسلے میں پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر میں موجود الوقت خرابیوں کو اور ان کے موجودہ اسباب کو بیان کرنے کے بعد اپنا پروگرام پیش کروں اور اس کے ذریعے سے آپ کو اصلاح کی امید دلائوں، تو اس سے آپ یہ گمان نہ کریں کہ یہ لوگ شاید کچھ اسی قسم کی وقتی خرابیوں کی اصلاح کے لیے جمع ہوئے ہوں گے اور پرانی عمارتوں میں ایسی ہی کچھ مرمتیں کرتے رہنا ان کا مقصد ہو گا ایسا گمان آپ کریں گے تو وہ حقیقت سے بعید ہو گا۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم اپنا ایک مستقل اور عالم گیر مقصد رکھتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ:
’’ہر اس نظام زندگی کو مٹایا جائے جس کی بنیاد خدا سے خود مختاری اور آخرت سے بے پروائی اور انبیا علیہم السلام کی ہدایت سے بے نیازی پر ہو۔ کیوں کہ وہ انسانیت کے لیے تباہ کن ہے اور اس کی جگہ وہ نظامِ زندگی عملاً قائم کیا جائے جو خدا کی اطاعت، آخرت کے یقین اور انبیا کے اتباع پر مبنی ہو، کیوں کہ اسی میں انسانیت کی فلاح ہے۔‘‘
ہماری تمام مساعی کا اصل مقصود یہی ہے اور ہمارا ہر پروگرام خواہ وہ کسی محدود وقت اور مقام ہی کے لیے کیوں نہ ہو، اسی راہ کے کسی نہ کسی مرحلے کو طے کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ ہم سب سے پہلے یہ انقلاب خود اپنے وطن پاکستان میں لانا چاہتے ہیں تاکہ پھر یہی ملک دنیا کی اصلاح کا ذریعہ بنے اور پاکستان کی موجودہ خرابیوں سے اگر ہم بحث کرتے ہیں تو صرف اس لیے کہ یہ اس مقصد کی راہ میں حائل ہیں۔ لہٰذا آپ یہ گمان نہ کریں کہ ہمارے لیے ان خرابیوں کی اصلاح بجائے خود کوئی مقصد ہے،یا یہ کہ ہم ایک بگڑے ہوئے نظام کی محض مرمت کر دینے پر اکتفا کرنا چاہتے ہیں۔ نہیں، میں کہتا ہوں کہ اگر یہ خرابیاں موجود نہ ہوتیں، تب بھی ہم اپنے اسی مقصد کے لیے کام کرتے جس کو اوّل روز سے ہم نے اپنے سامنے رکھا ہے۔ ہمارا وہ مقصد ایک دائمی اور ابدی اور عالم گیر مقصد ہے اور ہر حالت میں ہمیں اس کے لیے کام کرنا ہے، خواہ کسی گوشۂ زمین میں وقتی طور پر ایک نوعیت کے مسائل درپیش ہوں یا دوسری نوعیت کے۔
پچھلی تاریخ کا جائزہ
اس توضیح کے بعد ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ جس طرح آپ نے وضاحت کے ساتھ اپنی قوم کی موجودہ خرابیوں کا جائزہ لیا ہے، اسی طرح آپ ذرا اپنی پچھلی تاریخ کا بھی جائزہ لے لیں تاکہ اچھی طرح تحقیق ہو جائے کہ آیا یہ خرابیاں اچانک ایک حادثۂ اتفاقی کے طور پر آپ کی سوسائٹی میں رونما ہو گئی ہیں، یا ان کی کوئی گہری جڑ ہے اور اُن کے پیچھے اسباب کا کوئی طویل سلسلہ ہے۔ اس پہلو سے جب تک آپ معاملے کی نوعیت اچھی طرح نہ سمجھ لیں، نہ تو موجودہ خرابیوں کی شدت ووسعت اور گہرائی آپ پر واضح ہو گی، نہ اصلاح کی ضرورت ہی کا احساس پوری طرح ہو سکے گا اور نہ یہی بات سمجھ میں آ سکے گی کہ ہم یہاں جُزوی اصلاح کی کوششوں کو لاحاصل کیوں سمجھتے ہیں اور کس بِنا پر ہماری یہ رائے ہے کہ ایک اَن تھک سعی اور ایک ہمہ گیر اصلاحی پروگرام اور ایک صالح ومنظم جماعت کے ذریعے سے جب تک یہاں نظامِ زندگی میں اساسی تبدیلیاں نہ کی جائیں گی، کوئی مفید نتیجہ چھوٹی موٹی تدبیروں سے برآمد نہ ہو سکے گا۔ہماری تاریخ کا ایک اہم اور نتیجہ خیز واقعہ ہے کہ ہمارے ملک پر انیسویں صدی میں… اسی پچھلی صدی میں جو موجودہ صدی سے پہلے گزر چکی ہے، ہزاروں میل دور سے آئی ہوئی ایک غیر مسلم قوم مسلط ہو گئی تھی اور ابھی تین چار ہی برس ہوئے ہیں کہ اس کی غلامی سے ہمارا پیچھا چھوٹا ہے۔ یہ واقعہ ہمارے لیے کئی لحاظ سے قابلِ غور ہے۔
پہلا سوال جس کی ہمیں تحقیق کرنی چاہیے، یہ ہے کہ آخر یہ واقعہ پیش کیسے آ گیا، کیا وہ کوئی اتفاقی سانحہ تھا جو یونہی بے سبب ہم پر ٹوٹ پڑا؟ کیا وہ قدرت کا کوئی ظلم تھا جو اس نے بے قصور ہم پر کر ڈالا؟ کیا ہم بالکل ٹھیک چل رہے تھے، کوئی کم زوری اور کوئی خرابی ہم میں نہ تھی؟ یا فی الواقع ہم اپنے اندر مدتوںسے کچھ کم زوریاں اور کچھ خرابیاں پال رہے تھے جس کی سزا آخر کار ہمیں ایک بیرونی قوم کی غلامی کی شکل میں ملی؟ اگر حقیقت یہی ہے کہ ہم میں کچھ خرابیاں اور کم زوریاں تھیں جو ہماری تباہی کی موجب ہوئیں تو وہ کیا تھیں؟ اور آیا اب وہ ہم میں سے نکل چکی ہیں یا ابھی تک ان کا سلسلہ برابر چلا آ رہا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ بلا جو باہر سے آکر ہم پر مسلط ہوئی، آیا یہ صرف ایک غلامی ہی کی بلا تھی یا وہ اپنے جلو میں اخلاق، افکار، تہذیب، مذہب، تمدن، معیشت اور سیاست کی دوسری بلائیں بھی ساتھ لائی تھی؟ اگر لائی تھی اور یقیناً لائی تھی، تودیکھنا چاہیے کہ وہ کس کس نوعیت کی بلائیں تھیں؟ کس کس حیثیت سے انھوں نے ہمیں کتنا متاثر کیا؟ اور آج اس کے جانے کے بعد بھی ان کے کیا کچھ اثرات ہمارے اندر موجود ہیں؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ ان بلائوں کے مقابلے میں ہمارا اپنا ردِّ عمل کیا تھا؟ آیا وہ ایک ہی ردِّعمل تھا یا مختلف گروہوں کے رد عمل مختلف تھے؟ اگر مختلف تھے تو ان میں سے ہر ایک کے اچھے اور برے کیا اثرات ہیں جو آج ہماری قومی زندگی میں پائے جاتے ہیں۔
میں ان تینوں سوالات پر وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالوں گا تاکہ ہماری موجودہ خرابیوں میں سے ہرخرابی کا پورہ شجرہ نسب آپ کے سامنے آ جائے اور آپ دیکھ لیں کہ ہر خرابی کی اصل کیا ہے اور اس کی جڑیں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں اور کن اسباب سے اپنی غذا حاصل کر رہی ہیں۔ اس کے بعد ہی آپ اُس پوری اسکیم کو سمجھ سکیں گے جو علاج واصلاح کے لیے ہمارے پیشِ نظر ہے۔
ہماری غلامی کے اسباب
پچھلی صدی میں جو غلامی ہم پر مسلّط ہوئی تھی وہ درحقیقت ہمارے صدیوں کے مسلسل مذہبی، اخلاقی، ذہنی انحطاط کا نتیجہ تھی۔ مختلف حیثیتوں سے ہم روز بروز پستی کی طرف چلے جا رہے تھے یہاں تک کہ گرتے گرتے ہم اس مقام پر پہنچ گئے تھے جہاں اپنے بل بوتے پرکھڑا رہنا ہمارے لیے ممکن نہ تھا۔ اس حالت میں کسی نہ کسی بلا کو ہم پر مسلط ہونا ہی تھا، اور ٹھیک قانونِ قدرت کے مطابق وہ بلا ہم پر مسلّط ہوئی۔
دینی حالت
اس کی تحقیق کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنی اُس وقت کی دینی حالت کا جائزہ لینا چاہیے کیوں کہ ہمارے لیے سب سے زیادہ اہمیت اپنے دین ہی کی ہے۔ وہی ہماری زندگی کا قوام ہے۔ اسی نے ہم کو ایک قوم اور ایک ملت بنایا ہے۔ اسی کے بل پر ہم دنیا میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔
ہماری پچھلی تاریخ اس امرکی شاہد ہے کہ اس ملک میں اسلام کسی منظم کوشش کے نتیجے میں نہیں پھیلا ہے۔ سندھ کی ابتدائی اسلامی فتح اور اس کے بعد کی ایک صدی کو مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے۔ اس کو چھوڑ کر بعد کے کسی دَور میں کوئی ایسی منظم طاقت نہیں رہی جو یہاں ایک طرف اسلام کو پھیلاتی اور جہاں جہاں وہ پھیلتا جاتا وہاں اس کو جمانے اور مضبوط ومستحکم کرنے کی کوشش بھی ساتھ ساتھ کرتی جاتی۔ بالکل ایک غیر منظم طریقے سے کہیں کوئی صاحبِ علم آ گیا جس کے اثر سے کچھ لوگ مسلمان ہو گئے، کہیں کوئی تاجر پہنچ گیا جس کے ساتھ ربط ضبط رکھنے کی وجہ سے کچھ لوگوں نے کلمہ پڑھ لیا اورکہیں کوئی نیک نفس اور خدا رسیدہ بزرگ تشریف لے آئے جن کے بلند اخلاق اور پاکیزہ زندگی کو دیکھ کر بہت سے لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے مگر نہ تو ان متفرق افراد کے پاس ایسے ذرائع تھے کہ جن لوگوں کو وہ مسلمان کرتے جاتے ان کی تعلیم وتربیت کا انتظام بھی ساتھ ساتھ کرتے چلے جاتے اور نہ وقت کی حکومتوں ہی کو اس کی کچھ فکر تھی کہ دوسرے اللّٰہ کے بندوں کی کوششوں سے جہاں جہاں اسلام پھیل رہا تھا، وہاں لوگوں کی اسلامی تعلیم وتربیت کا کوئی انتظام کر دیتیں۔
اس غفلت کی وجہ سے ہمارے عوام ابتدا سے جہالت اور جاہلیت میں مبتلا رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں سے اگر فائدہ اٹھایا ہے، تو زیادہ تر متوسط طبقوں نے اٹھایا ہے یا پھراونچے طبقوں نے۔ عوام الناس اسلام کی تعلیمات سے بے خبر اور اس کے اصلاحی اثرات سے بڑی حد تک محروم ہی رہے۔ اسی کا نتیجہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ قبیلے کے قبیلے غیر مسلم قوموں سے نکل کر اسلام میں آئے مگر آج تک ان میں جاہلیت کی وہ بہت سی رسمیں موجود ہیں جو اسلام قبول کرنے سے پہلے ان میں پائی جاتی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کے خیالات تک پوری طرح نہ بدل سکے۔ ان کے اندر آج بھی وہ بہت سے مشرکانہ عقائد اور مشرکانہ اوہام موجود ہیں جو اپنے غیر مسلم آبائو اجداد کے مذہب سے انھیں وراثت میں ملے تھے۔ بڑے سے بڑا فرق جو مسلمان ہونے کے بعد ان کے اندر واقع ہوا، وہ بس یہ تھا کہ انھوں نے اپنے پچھلے معبودوں کی جگہ کچھ نئے معبود خود اسلام کی تاریخ میں سے ڈھونڈ نکالے اور پرانے اعمال کے نام بدل کر اسلامی اصطلاحات میں سے کچھ نئے نام اختیار کر لیے۔ عمل جوں کا توں رہا، صرف اس کا ظاہری روپ بدل گیا۔
اس کا ثبوت اگر آپ چاہیں تو کسی علاقے میں جا کر عوام کی مذہبی حالت کا جائزہ لیجئے اور پھر تاریخ میں تلاش کیجیے کہ اسلام کے آنے سے پہلے اس علاقے میں کون سا مذہب رائج تھا۔ آپ دیکھیں گے کہ آج بھی وہاں اس سابق مذہب سے ملتے جلتے عقائد واعمال ایک دوسری شکل میں رائج ہیں۔ مثلاً جہاں پہلے بدھ مذہب پایا جاتا تھا وہاں کسی زمانے میں بودھ کے آثار پوجے جاتے تھے۔ کہیں اس کا کوئی دانت رکھا ہوا تھا، کہیں اس کی کوئی ہڈی محفوظ تھی۔ کہیں اس کے دوسرے تبرکات کو مرکز توجہات بنا کر رکھا گیا تھا۔ آج آپ دیکھیں گے کہ اس علاقے میں وہی معاملہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مُوئے مبارک، یا آپؐ کے نقشِ قدم یا دوسرے بزرگانِ دین کے آثار متبرکہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اسی طرح آپ پرانے مسلم قبیلوں کے موجودہ رسم ورواج کا جائزہ لیں اور پھر تحقیق کریں کہ ان ہی قبیلوں کی غیر مسلم شاخوں میں کیا رسمیں رائج ہیں۔ دونوں میں آپ بہت کم فرق پائیں گے۔ یہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ پچھلی صدیوں میں جو لوگ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے سربراہ کار رہے ہیں انھوں نے بالعموم اپنا فرض انجام دینے میں سخت کوتاہی کی ہے۔ انھوں نے اسلام پھیلانے والے بزرگوں کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا۔ کروڑوں آدمی اسلام کی کشش سے کھچ کھچ کر اس کے دائرے میں آئے مگر جو اسلام کے گھر کے منتظم اور متولی تھے، انھوں نے ان بندگانِ خدا کی تعلیم، تربیت، ذہنی اصلاح اور زندگی کے تزکیے کا کوئی انتظام نہ کیا۔ اس وجہ سے یہ قوم مسلمان ہو جانے کے باوجود اسلام کی برکات اور توحید کی نعمتوں سے پوری طرح بہرہ مند نہ ہو سکی اور ان نقصانات سے نہ بچ سکی، جو شرک وجاہلیت کے لازمی نتیجے ہیں۔
پھر دیکھیے کہ ان پچھلی صدیوں میں ہمارے علما کا کیا حال ہے۔ چند مقدس بزرگوں نے تو فی الواقع اس دین کی غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ جن کے اثرات پہلے بھی نافع ہوئے اور آج تک نفع بخش ثابت ہو رہے ہیں مگر عام طور پر علمائے دین جن مشاغل میں مشغول رہے وہ یہ تھے کہ چھوٹے چھوٹے مسائل پر مناظرہ بازیاں کریں۔ چھوٹے مسائل کو بڑے مسائل بنایا اور بڑے مسائل کو مسلمانوں کی نظروں سے اوجھل کر دیا۔ اختلافات کو مستقل فرقوں کی بنیاد بنایا اور فرقہ بندی کو جھگڑوں اور لڑائیوں کا اکھاڑہ بنا کر رکھ دیا۔ معقولات کے پڑھنے پڑھانے میں عمریں گزار دیں اور قرآن وحدیث سے نہ خود ذوق رکھا نہ لوگوں میں پیدا کیا۔ فقہ میں اگر کوئی دل چسپی لی تو موشگافیوں اور جزئیات کی بحثوں کی حد تک لی۔ تفقّہ فی الدین پیدا کرنے کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ ان کے اثرات جہاں جہاں بھی پہنچے لوگوں کی نگاہیں خوردبین بن کر رہ گئیں۔ دور بین وجہاں بین نہ بن سکیں۔ آج یہ پوری میراث جھگڑوں اور مناظروں، اور فرقہ بندیوں اور روز افزوں فتنوں کی لہلہاتی ہوئی فصل کے ساتھ ہمارے حصے میں آئی ہے۔
صوفیا کا حال دیکھیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ چند پاکیزہ ہستیوں کے سوا جنھو ںنے اسلام کے حقیقی تصوف پر خود عمل کیا اور دوسروں کو اس کی تعلیم دی،باقی سب ایک ایسے تصوف کے معلم ومبلغ تھے جس میں اشراقی اور ویدانتی اور مانوی اور زردشتی فلسفوں کی آمیزش ہو چکی تھی اور جس کے طریقوں میں جوگیوں اور راہبوں اور اشراقیوں اور رواقیوں کے طریقے اس اس طرح مل جل گئے تھے کہ اسلام کے خالص عقائد واعمال سے ان کو مشکل ہی سے کوئی مناسبت رہ گئی تھی۔ خلقِ خدا ان کی طرف خدا کا راستہ پانے کے لیے رجوع کرتی تھی اور وہ ان کو دوسرے راستے بتاتے تھے۔ پھر جب اگلوں کے بعد پچھلے ان کے سجادوں پر بیٹھے تو انھوں نے میراث میں دوسری املاک کے ساتھ اپنے بزرگوں کے مرید بھی پائے اور ان سے تربیت وارشاد کے بجائے صرف نذرانوں کا تعلق باقی رکھا۔ ان حلقوں کی تمام تر کوشش پہلے بھی یہ رہی ہے اور آج بھی ہے کہ جہاں جہاں بھی ان کی پیری وپیرزادگی کا اثر پھیلا ہوا ہے وہاں دین کا صحیح علم کسی طرح نہ پہنچنے پائے۔ کیوں کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ عوام الناس پر ان کی خداوندی کا طلسم اسی وقت تک قائم رہ سکتا ہے جب تک وہ اپنے دین سے جاہل رہیں۔
اخلاقی حالت
یہ تھی ہماری مذہبی حالت جس نے انیسویں صدی میں ہم کو غلامی کی منزل تک پہنچانے میں بہت بڑا حصہ لیا تھا اور آج اس آزادی کی صبح آغاز کے میں بھی یہی حالت اپنی پوری قباحتوں کے ساتھ ہماری دامن گیر ہے۔
اب اخلاقی حیثیت سے دیکھیے توآپ کو معلوم ہو گا کہ عام طور پر اُس زمانے میں ہمارا طبقۂ متوسط، جوہر قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے، مسلسل اخلاقی انحطاط کی بدولت بالکل بھاڑے کاٹٹو(Mercenary) بن کر رہ گیا تھا۔ اس کا اصول یہ تھا کہ جو بھی آ جائے، اجرت پر اس کی خدمات حاصل کر لے اور پھر جس مقصد کے لیے چاہے اس سے کام لے لے۔ ہزاروں لاکھوں آدمی ہمارے ہاں کرائے کے سپاہی بننے کے لیے تیار تھے جنھیں ہر ایک نوکر رکھ کر جس کے خلاف چاہتا لڑوا سکتا تھا اور ہزاروں، لاکھوں ایسے لوگ بھی موجود تھے جن کے ہاتھ اور دماغ کی طاقتوں کو کم یا زیادہ اجرت پر لے کر ہر فاتح اپنا نظم ونسق چلوا سکتا تھا؟ بلکہ اپنی سیاسی چالبازیوں تک میں استعمال کر سکتا تھا۔ ہماری اس اخلاقی کم زوری سے ہمارے ہر دشمن نے فائدہ اٹھایا ہے۔ خواہ وہ مرہٹے ہوں، فرانسیسی ہوں یا ولندیزی اور آخر کار انگریز نے آ کر خود ہمارے ہی سپاہیوں کی تلوار سے ہم کو فتح کیا اور ہمارے ہی ہاتھوں اور دماغوں کی مدد سے ہم پر حکومت کی، ہماری اخلاقی حس اس درجہ کند ہو چکی تھی کہ اس روش کی قباحت سمجھنا تو درکنار، ہمیں الٹا اس پر فخر تھا۔ چنانچہ ہمارا شاعر اسے اپنے خاندانی مفاخر میں شمار کرتا ہے کہ ؎
سو پُشت سے ہے پیشۂ آبائ سپاہ گری
حالانکہ کسی شخص کا پیشہ ور سپاہی ہونا حقیقت میں اس کے اور اس سے تعلق رکھنے والوں کے لیے باعثِ ننگ ہے نہ کہ باعثِ عزت، وہ آدمی ہی کیا ہوا جو نہ حق اور باطل کی تمیز رکھتا ہو نہ اپنے اور پرائے کا امتیاز۔ جو بھی اس کے پیٹ کو روٹی اور تن کو کپڑا دے دے وہ اس کے لیے شکار مارنے پر آمادہ ہو جائے اور کچھ نہ دیکھے کہ میں کس کے لیے کس پر جھپٹ رہا ہوں۔ یہ اخلاقی حالت جن لوگوں کی تھی ان میں کسی دیانت وامانت اور کسی مستقل وفاداری کا پایا جانا مستبعد تھا اور ہونا چاہیے۔ جب وہ اپنی قوم کے دشمنوں کے ہاتھ خود اپنے آپ کو بیچ سکتے تھے تو ان کے اندر کسی پاکیزہ اور طاقت ور ضمیر کے موجود ہونے کی آخر وجہ ہی کیا ہو سکتی تھی؟ کیوں وہ رشوت اور غبن کا نام ’’دستِ غیب‘‘ اور ’’خدا کا فضل‘‘ نہ رکھتے؟ کیوں وہ ابن الوقت اور چڑھتے سورج کے پرستار نہ ہوتے؟ اور کیوں ان میں یہ وصف پیدا نہ ہوتا کہ جس کے ہاتھ سے انھیں تنخواہ ملتی ہو اس کے لیے اپنے ایمان وضمیر کے خلاف سب کچھ کرنے پر آمادہ ہوجائیں؟…اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے ملازمت پیشہ طبقے کی اکثریت آج جن اوصاف کا اظہار کر رہی ہے وہ کوئی اتفاقی کم زوری نہیں جو اچانک ان میں پیدا ہو گئی ہو، بلکہ اس کی جڑیں ہماری روایات میں گہری جمی ہوئی ہیں البتہ افسوس اگر ہے تو اس بات کا ہے کہ کل ان سے ہمارے دشمن ناجائز فائدہ اٹھا رہے تھے اور آج ان کو ہماری قوم کے وہ راہ نما استعمال کر رہے ہیں جنھیں درحقیقت قوم کے امراض کا معالج ہونا چاہیے تھا نہ کہ ان امراض سے فائدہ اٹھانے والا!
ہمارے طبقۂ متوسط کی ان کم زوریوں میں ہمارے علما بھی شریک تھے۔ اگرچہ ایک قلیل تعداد جس طرح طبقۂ متوسط میں بلند اخلاق اور مضبوط سیرت لوگوں کی موجود تھی، اسی طرح علما میں بھی کچھ ایسی مقدس شخصیتیں موجود رہیں، جنھوں نے اپنے فرض کو ٹھیک ٹھیک پہچانا اور اپنی جانیں لڑا کر اسے ادا کیا اور دنیا کی کوئی دولت ان کو نہ خرید سکی۔ مگر عام طور پر جو اخلاقی حالت طبقۂ متوسط کی تھی وہی علما کی بھی تھی۔ ان میں بیشتر وظیفہ خوار تھے۔ کسی نہ کسی بادشاہ یا امیر یا درباری سے وابستہ ہو جانا، اس کے وظیفے کھا کر اس کے منشا کے مطابق دین اور دینی قوانین کی تعبیریں کرنا، اپنے ذاتی مفاد کو دین کے تقاضوں پر مقدم رکھنا، اپنے مخدوموں کی خاطر علمائے حق کو دبانے کے لیے مذہب کے ہتھیاراستعمال کرنا، بس یہی کچھ ان کا شعار رہا۔ یہ مچھر کو چھانتے اور اونٹ نگلتے رہے ہیں۔ بے اثر اور بے دولت لوگوں کے معاملے میں تو ان کی دینی حس اتنی تیز رہی ہے کہ مستحبات اور مکروہات اور چھوٹے سے چھوٹے جزئیات تک میں یہ ان کو معاف کرنے پر کبھی تیار نہ ہوئے اور ان امور کی خاطر انھوں نے بڑے بڑے جھگڑے برپا کر دیے۔ مگر اہلِ دولت اور اربابِ اقتدار کے معاملے میں خواہ وہ مسلم ہوں یا کافر، یہ ہمہ تن مصالحت بنے رہے اور جزئیات چھوڑ کر کلیات تک میں انھوں نے ان کے لیے رخصتیں نکالیں۔
رہے ہمارے امرا تو ان کے لیے دنیا میں صرف دو ہی چیزیں دل چسپی کا مرکز رہ گئی تھیں۔ ایک پیٹ، دوسرے شرمگاہ، ان کے سوا کسی دوسری چیز کی ان کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہ رہی تھی۔ ساری کوششیں اور ساری محنتیں بس ان ہی کی خدمت کے لیے وقف تھیں اور قوم کی دولت سے ان ہی پیشوں اور صنعتوں اور حرفتوں کو پروان چڑھایا جا رہا تھا، جوان دو چیزوں کی خدمت کریں۔ اس سے ہٹ کر اگر کسی امیر نے اپنی دولت وطاقت کو کسی بڑے مقصد کے لیے استعما ل کیا تو سارے امیروں نے مل کر اسے گرانے کی کوشش کی اور اپنی قوم کے دشمنوں سے اس کے خلاف ساز باز کرنے میں بھی تامل نہ کیا۔
ذہنی حالت
اس کے بعد جب ذہنی حیثیت سے ہم اپنی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کئی صدیوں سے ہمارے ہاں علمی تحقیقات کا کام قریب قریب بند تھا۔ ہمارا سارا پڑھنا پڑھانا بس علومِ اوائل تک محدود تھا۔ ہمارے نظامِ تعلیم میں یہ تصور گہری جڑوں کے ساتھ جم گیا تھا کہ اسلاف جو کام کر گئے ہیں وہ علم وتحقیق کا حرفِ آخر ہے۔ اس پر کوئی اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔ بڑی سے بڑی علمی خدمت بس یہی ہو سکتی تھی کہ اگلوں کی لکھی ہوئی کتابوں پر شرحوں اور حاشیوں کے ردّے چڑھائے جائیں۔ ان ہی چیزوں کے لکھنے میں ہمارے مصنفین، اور ان کے پڑھنے پڑھانے میں ہمارے مدرّسین مشغول رہے۔ کسی نئی فکر ، کسی نئی تحقیق، کسی نئی دریافت کا مشکل ہی سے قریب کی ان صدیوں میں ہمارے ہاں کہیں پتہ چلتا ہے؟ اس کی وجہ سے ایک مکمل جمود کی سی کیفیت ہماری ذہنی فضا پر طاری ہو چکی تھی۔
ظاہر ہے کہ جو قوم اس حالت میں مبتلا ہو چکی ہو وہ زیادہ دیر تک آزاد نہیں رہ سکتی تھی، اس کو لامحالہ کسی نہ کسی ایسی قوم سے مغلوب ہو ہی جانا تھا، جو حرکت کرنے والی اور آگے بڑھنے والی ہو، جس نے اپنے عام لوگوں میں بیداری پیدا کر لی ہو، جس کے افراد میں اپنے فرائض کا، جو کچھ بھی وہ اپنے فرائض سمجھتے ہوں احساس پایا جاتا ہو، جس کے کارکنوں اور کارفرمائوں میں کوئی مستقل اور مخلصانہ وفاداری موجود ہو، جس کے اہل علم تحقیقات کرنے والے اور نئی نئی طاقتیں دریافت کرنے والے ہوں، جس سے اہلِ تدبیران نئی دریافت شدہ طاقتوں کو زندگی کے کاموں میں استعمال کرنے والے ہوں اور جس کا قدم تمدن وتہذیب کے مختلف شعبوں میں ترقی کی طرف مسلسل بڑھا چلا جا رہا ہو، ایسی کسی قوم کی موجودگی میں ایک جامد اور ایک ضعیف الاخلاق اورایک جاہلیت زدہ قوم آخر کتنی دیر زمین پر قابض رہ سکتی تھی؟ پس یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہ تھا بلکہ قانونِ فطرت کا تقاضا تھا کہ ہم مغرب کی ترقی یافتہ قوموں میں سے ایک کے غلام ہو کر رہے۔
مغربی تہذیب کی بنیادیں
اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ قوم جو مغرب سے آ کر ہم پر مسلّط ہوئی، جس کی طاقت سے ہم مغلوب ہوئے اور جس کی غلامی کا جُوا ہماری گردن پر رکھا گیا، وہ اپنے ساتھ کیا کچھ لائی تھی، اس کے نظریات کیا تھے؟ اس کا مذہب اور اس کا فلسفہ کیا تھا؟ اس کے اخلاقی اصول کیا تھے؟ اس کے تمدنی وتہذیبی رنگ ڈھنگ کیا تھے؟ اس کی سیاست کن بنیادوں پر مبنی تھی؟ اور اس کی ان سب چیزوں نے ہمیں کس کس طرح کتنا کتنا متاثر کیا؟
مذہب
جن صدیوں میں ہم مسلسل انحطاط کی طرف جا رہے تھے، ٹھیک وہی صدیاں تھیں، جن میں یورپ نشاۃ جدیدہ کی ایک نئی تحریک کے سہارے ابھر رہا تھا۔ اس تحریک کا آغاز ہی میں دور متوسط کے عیسائی مذہب سے تصادم ہو گیا اور یہ تصادم ایک ایسے افسوسناک نتیجے پر ختم ہوا جو نہ صرف یورپ کے لیے بلکہ ساری دنیا کے لیے غارت گر ثابت ہوا۔ پرانے زمانے کے عیسائی متکلمین نے اپنے مذہبی عقائد کی اور بائیبل کے تصور کائنات وانسان کی پوری عمارت یونانی فلسفہ وسائنس کے نظریات، دلائل اور معلومات پر تعمیر کر رکھی تھی اور اُن کا گمان یہ تھا کہ ان بنیادوں میں سے کسی کو اگر ذرا سی ٹھیس بھی لگ گئی تو یہ پوری عمارت دھڑام سے زمین پرآ رہے گی اور اس کے ساتھ مذہب بھی ختم ہو جائے گا۔ اس لیے وہ نہ کسی ایسی تنقید وتحقیق کو گوارا کرنے کے لیے تیار تھے جو یونانی فلسفہ وسائنس کے مسلمان کو مشتبہ بناتی ہو، نہ کسی ایسے فلسفیانہ تفکر کو برداشت کر سکتے تھے، جو ان مسلمات سے ہٹ کر کوئی دوسری ایسی فکر پیش کرتی ہو، جس کی وجہ سے اہل کلیسا کو اپنے علمِ کلام پرنظر ثانی کرنی پڑ جائے اور نہ کسی ایسی علمی تحقیقات کی اجازت دے سکتے تھے جس سے کائنات وانسان کے بارے میں بائیبل کی دی ہوئی اور متکلمین کی مانی ہوئی تصویر کا کوئی جز غلط ثابت ہوجائے اس طرح کی ہر چیز کو وہ مذہب کے لیے اور مذہب پر بنے ہوئے پورے نظامِ تمدن وسیاست ومعیشت کے لیے براہ راست خطرہ سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس جو لوگ نشاۃ جدیدہ کی تحریک اور اس کے محرکات کے زیر اثر تنقید، تحقیق اور دریافت کا کام کر رہے تھے، انھیں قدم قدم پر اس فلسفہ وسائنس کی کم زوریاں معلوم ہو رہی تھیں جن کے سہارے عقائد وکلام کا یہ پورا نظام کھڑا ہوا تھا۔ مگر وہ جوں جوں اس میدان میں آگے بڑھتے تھے، اہل کلیسا اپنے مذہبی اور سیاسی اقتدار کے بل بوتے پر روز بروز زیادہ سختی کے ساتھ ان کی راہ روکنے کی کوشش کرتے تھے۔ آنکھوں کو پچھلے زمانے کی مانی ہوئی حقیقتوں کے خلاف بہت سی چیزیں روز روشن میں نظر آ رہی تھیں۔ مگر اہلِ کلیسا کو اصرار تھا کہ ان مسلمات پر نظر ثانی کرنے کے بجائے دیکھنے والی آنکھیں پھوڑ دی جائیں۔ دماغوں کو بہت سے ان نظریات میں جھول محسوس ہو رہا تھا جن کو پہلے بعض عقائد کی اٹل دلیل سمجھا گیا تھا مگر اہلِ کلیسا کہتے تھے کہ ان دلائل پر غور مکرّر کرنے کے بجائے ان دماغوں کو پاش پاش کر دینا چاہیے جو ایسی باتیں سوچتے ہیں۔
اس کش مکش کا پہلا نتیجہ یہ ہوا کہ جدید علمی بیداری میں اول روز ہی سے مذھب اور اہلِ مذھب کے خلاف ایک ضد سی پیدا ہو گئی اور جُوں جُوں اہل مذھب کی سختیاں بڑھتی گئیں، یہ ضد بھی بڑھتی اور پھیلتی چلی گئی۔ یہ ضد صرف مسیحیت اور اس کے کلیسا ہی تک محدود نہ رہی بلکہ مذھب فی نفسہٖ اس کا ہدف بن گیا۔ علومِ جدیدہ اور تہذیب جدید کے علم برداروں نے یہ سمجھ لیا کہ مذھب بجائے خود ایک ڈھونگ ہے۔ وہ کسی عقلی امتحان کی ضرب نہیں سہہ سکتا، اس کے عقائد دلیل پرنہیں بلکہ اندھے اذہان پر مبنی ہیں۔ علم کی روشنی بڑھنے سے وہ ڈرتا ہے کہ کہیں اس کا پول نہ کھل جائے۔
پھر جب علم کے میدان سے آگے بڑھ کر سیاست اور معیشت اورنظام اجتماعی کے مختلف میدانویں میں یہ کش مکش پھیلی اوراہلِ کلیسا کی حتمی شکست کے بعد تہذیب جدید کے علم برداروں کی قیادت میں ایک نئے نظامِ زندگی کی عمارت اٹھی، تو اس سے دواور نتیجے برآمد ہوئے جنھوں نے آنے والے دَور کی پوری انسانی تاریخ پر گہرا اثرڈالا۔
ایک یہ کہ نئے نظامِ زندگی کے ہر شعبے سے’’مذہب‘‘کو عملاً بے دخل کردیا گیا اور اس کا دائرہ صرف شخصی عقیدہ وعمل تک محدود کرکے رکھ دیا گیا۔ یہ بات تہذیبِ جدید کے بنیادی اصولوں میں داخل ہو گئی کہ مذہب کو سیاست، معیشت، اخلاق، قانون، علم وفن غرض اجتماعی زندگی کے کسی شعبے میں بھی دخل دینے کا حق نہیں ہے۔ وہ محض افراد کا شخصی معاملہ ہے۔ کوئی شخص اپنی انفرادی زندگی میں خدا اور پیغمبروں کو ماننا چاہے تو مانے اوران کی دی ہوئی ہدایات کی پیروی کرنا چاہے توکرتا رہے۔ مگر اجتماعی زندگی کی ساری اسکیم اس سوال سے قطع نظر کرکے بننی اور چلنی چاہیے کہ مذھب اس کے بارے میں کیا ہدایت دیتا ہے اور کیا ہدایت نہیں دیتا۔
دوسرے یہ کہ تہذیب جدید کی رگ رگ میں خدا بیزاری اور لامذہبیت کی ذہنیت پیوست ہو گئی، علوم وفنون اور ادب کا جو کچھ بھی ارتقا ہوا، اس کی جڑ میں وہ ضد برابر موجود رہی جو علمی بیداری کے آغاز میں مذہب اور اس سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کے خلاف پیدا ہو چکی تھی۔ اس فکری غذا سے پرورش پائی ہوئی تہذیب جہاں جہاں پہنچی وہاں اندازِ فکر یہ ہو گیا کہ مذہب جو چیز بھی پیش کرتا ہے، خواہ وہ خدا، اور آخرت اور وحی اور رسالت کا عقیدہ ہو یا کوئی اخلاقی وتمدنی اصول، بہرحال وہ شک کا مستحق ہے۔ اس کی صحت کا کوئی ثبوت ملنا چاہیے اور نہ ملے تو اس سے انکار کیا جانا چاہیے۔ اس کے برعکس ہر وہ چیز جو دنیوی علوم وفنون کے اساتذہ کی طرف سے آئے وہ مان لینے کی مستحق ہے ا لّا یہ کہ اس کے غلط ہونے کا کوئی ثبوت مل جائے۔ یہ اندازِ خیال مغرب کے پورے نظامِ فکر پر اثر انداز ہوا ہے اور اس نے صرف علم و ادب ہی کو مذہبی نقطۂ نظر سے منحرف نہیں کر دیا ہے بلکہ تمام وہ اجتماعی فلسفے اور اجتماعی نظام جو اس نظامِ فکر کی بنیاد پر بنے ہیں عملاً خدا پرستی کے تخیل سے خالی اور آخرت کے تصور سے عاری ہیں۔
فلسفۂ حیات
یہ تو تھا مذہب کے بارے میں اس آنے والی فاتح تہذیب کا رویہ، اب دیکھیے کہ اس کا اپنا فلسفۂ حیات کیا تھا جسے مذہب کی نفی کرکے اس نے اختیار کیا تھا۔
یہ سراسر ایک مادہ پرستانہ فلسفہ تھا۔ مغرب کے فکری راہ نما محسوسات سے ماورا کسی غیبی حقیقت کو ماننے کے لیے نہ تو تیار ہی تھے اور نہ وحی والہام کے سوا… جس کے وہ منکر تھے… حقائقِ غیب کو جاننے اور ٹھیک ٹھیک سمجھنے کا اور کوئی ذریعہ ہی ہو سکتا تھا۔ پھر سائنٹفک اسپرٹ اس امر میں بھی مانع تھی کہ وہ مجرد قیاسات پر غیبی طاقتوں کے متعلق کسی تصور کی عمارت کھڑی کر دیں۔ اس کی کوشش اگر کی بھی گئی تو علمی تنقید کے معاملے میں وہ نہ ٹھیر سکی۔ اس لیے غیب کے بارے میں جب وہ شک اور لاادریّت کے مقام سے آگے نہ بڑھ سکے تو ان کے لیے اس کے سوا چارہ نہ رہا کہ دُنیا اور اس کی زندگی کے متعلق وہ جو رائے بھی قائم کریں، صرف حواس کے اعتماد پر کریں۔اس چیز نے ان کے پورے فلسفۂ زندگی کو ظاہر پرست بنا کر رکھ دیا۔ انھوں نے سمجھا کہ انسان ایک قسم کا حیوان ہے جو اس زمین میں پایا جاتا ہے۔ وہ نہ کسی کا تابع ہے، نہ کسی کے آگے جواب دہ۔ اس کو کہیں اوپر سے ہدایت بھی نہیں ملتی۔ اپنی ہدایت اسے خود لینی ہے اور اس ہدایت کا ماخذ اگر کوئی ہے تو وہ قوانین طبیعی ہیں، یا حیوانی زندگی کی معلومات، یا پھر خود پچھلی انسانی تاریخ کے تجربات۔ انھوں نے سمجھا کہ زندگی جو کچھ ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے، اس کی کام یابی اور خوش حالی عین مطلوب ہے اور اسی کے اچھے اور برے نتائج مدارِ فیصلہ ہیں۔ انھوں نے سمجھا کہ انسان کی زندگی کا کوئی مقصد اپنی طبیعت کے تقاضوں کو پورا کرنے اور اپنے نفس کی خواہشوں کو حاصل کرنے سوا نہیں ہے۔ انھوں نے سمجھا کہ حقیقت جو کچھ بھی ہے، ان ہی چیزوں کی ہے جن کو ناپا یا تولا جا سکے، یا جن کا وزن وقدر کسی طرح کی پیمائش قبول کر سکے۔ جو چیزیں اس نوعیت کی نہیں ہیں وہ بے حقیقت اور بے قدر ہیں۔ ان کے پیچھے پڑنا وقت ضائع کرنا ہے۔
میں یہاں ان فلسفیانہ نظاموں کا ذکر نہیں کر رہا ہوں جو مغرب میں بنے، کتابوں میں لکھے گئے اور یونی ورسٹیوں میں پڑھے پڑھائے جاتے رہے۔ میں اس تصورِ کائنات وانسان اور اس تصور حیات ودنیا کا ذکر کر رہا ہوں جسے مغربی تہذیب وتمدن نے اپنے اندر جذب کیا اور جو ایک عام مغربی کے ذہن میں، اور اس سے اثر لینے والے ایک عام انسان کے ذہن میں پیوست ہوا۔ اس کا خلاصہ وہی کچھ ہے جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیا ہے۔
اس کے علاوہ تین بڑے فلسفیانہ نظرئیے ایسے ہیں جو اٹھارویں اور انیسویں صدی میں… اسی زمانے میں جبکہ ہم مغرب کے غلام رہے تھے… اٹھے اور اپنی تفصیلات سے قطع نظر، اپنی روح کے اعتبار سے پوری تہذیب پر چھا گئے۔ میں یہاں خاص طور پر ان کا ذکر کروں گا کیوں کہ انسانی زندگی پر جتنا ہمہ گیر اثر ان کا پڑا ہے، شاید کسی اورچیز کا نہیں پڑا۔
ہیگل کا فلسفۂ تاریخ
ان میں سے پہلا نظریہ وہ ہے جو ہیگل نے تاریخ انسانی کی تعبیر کے سلسلے میں پیش کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تاریخ کے ایک دَورمیں انسانی تہذیب وتمدن کا جو نظام بھی ہوتا ہے وہ اپنے تمام شعبوں اور اپنی تمام شکلوں سمیت دراصل چند مخصوص تخیلات پر مبنی ہوتا ہے جو اسے ایک دورِ تہذیب بناتے ہیں۔ یہ دور تہذیب جب پختہ ہو چکتا ہے تو اس کی کم زوریاں واضح ہونی شروع ہوتی ہیں اور اس کے مقابلے میں کچھ دوسرے تخیلات ابھرنے شروع ہوتے ہیں جو اس سے جنگ شروع کر دیتے ہیں۔ اس نزاع وکش مکش سے ایک نیا دور تہذیب جنم پاتا ہے جس میں پچھلے دورِ تہذیب کے باقیاتِ صالحات بھی رہ جاتے ہیں اور کچھ نئی خوبیاں بھی ان تخیلات کے اثر سے پیدا ہو جاتی ہیں۔ جن کی یلغار سے مجبور ہو کر پچھلے دور کے غالب تخیلات بالآخر مصالحت پر مجبور ہوئے تھے۔ پھر یہ دورِ تہذیب بھی پختگی کو پہنچ کر اپنے ہی بطن سے اپنے چند مخالف تخیلات کو جنم دیتا ہے، اور پھر نزاع وکش مکش برپا ہوتی ہے اور پھر دونوں کی مصالحت سے ایک تیسرا دَور وجود میں آتا ہے، جو پچھلے دَور کی خوبیاں اپنے اندر باقی رکھتا ہے اور ان کے ساتھ نئے تخیلات کی لائی ہوئی خوبیاں بھی جذب کر لیتا ہے۔
اس طرح ہیگل نے انسانی تہذیب کے ارتقا کی جو تشریح کی اس سے عام طور پر ذہنوں نے یہ اثر قبول کر لیا کہ پچھلا ہر دَورِ تہذیب اپنے اپنے وقت پر اپنی خامیوں اور کم زوریوں کی وجہ سے ختم ہوا ہے اور اپنی خوبیاں ہر بعد کے دورِ تہذیب میں چھوڑ گیا ہے۔ بالفاظ دیگر اب جس دور تہذیب سے آپ گزر رہے ہیں، وہ گویا خلاصہ ہے ان تمام اجزائے صالحہ کا جو پہلے گزرے ہوئے ادوارِ تہذیب میں پائے جاتے تھے۔ آگے اگر کسی ترقی کا امکان ہے تو ان نئے تخیلات میں ہے جو اس دَورِ تہذیب کے بنیادی تخیلات سے جنگ کرنے کے لیے اٹھیں۔ پچھلے ادوار میں کوئی چیز ایسی موجود نہیں ہے جس سے ہدایت وراہ نمائی حاصل کرنے کے لیے اب پیچھے پلٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہو۔ کیوں کہ ان کے جو اجزا بعد کے ادوارِ تہذیب میں جذب نہیں ہوئے ان کو آزما کر اور ناقص پا کر انسانی تاریخ پہلے ہی ٹھکرا چکی ہے۔ ہمارا تاریخی ذوق ان کی کسی چیز کی اگر کوئی قدر کر سکتا ہے تو اس حیثیت سے کر سکتا ہے کہ وہ اپنے وقت میں ایک قابلِ قدر چیز رہ چکی ہے اورانسانی تہذیب کے ارتقا میں اپنے حصے کا کام انجام دے چکی ہے، مگر وہ آج اس دَور کے لیے نہ قابلِ قدر ہے نہ کسی طرح مطمح نظر بننے کی مستحق۔ اس لیے کہ تاریخ اس کے بارے میں پہلے ہی اپنا فیصلہ دے چکی۔
آپ ذرا غور کریں کہ درحقیقت یہ کیسا خطرناک فلسفہ ہے۔ تہذیب انسانی کی تاریخ کا یہ تصور جس شخص کے ذہن میں اتر جائے، کیا آپ توقع کر سکتے ہیں، کہ اس کے دل میں پھر ان ادوارِ تہذیب کی کچھ بھی قدروقیمت باقی رہ سکتی ہے جن میں ابراہیم ؑ اور موسیٰ ؑ اور محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم گزرے ہیں؟ کیا وہ کبھی دَورِ نبوت اور خلافتِ راشدہ کی طرف بھی ہدایت وراہ نمائی کے لیے رجوع کر سکتا ہے؟ دراصل یہ ایک ایسا مدلل اور منظم فکری حملہ ہے جس کی ضرب اگر کسی ذہن پرکاری لگ جائے تو اس میں سے دینی تخیل کی جڑ ہی کٹ کر رہ جاتی ہے۔({ FR 6493 })
ڈارون کا نظریۂ ارتقا
دوسرا فلسفہ جو انیسویں صدی میں ابھرا اور انسانی ذہنوں پر چھایا وہ ڈارون کے نظریۂ ارتقا کا پیدا کردہ تھا۔ مجھے یہاں ان کے حیاتیاتی (biological)پہلو سے بحث نہیں ہے۔ میں اس کے صرف ان فلسفیانہ اثرات سے بحث کر رہا ہوں جو ڈارون کے طرزِ استدلال اور اس کے اخذ کردہ نتائج سے نکل کر وسیع تر اجتماعی فکر میں جذب ہوئے۔ عام انسانی ذہن نے ڈارون کے بیان سے متاثر ہو کر کائنات کا جو تصور قائم کیا تھا وہ یہ تھا کہ یہ کائنات ایک رزم گاہ ہے جہاں ہر آن ہر طرف زندگی وبقا کے لیے ایک ابدی جنگ برپا ہے۔ نظامِ فطرت ہے ہی کچھ ایسا کہ جسے زندہ اور باقی رہنا ہو، اُسے نزاع اور کش مکش اور مزاحمت کرنی پڑتی ہے اور مزاجِ فطرت واقع ہی کچھ اس طرح ہوا ہے کہ اس کی نگاہ میں وہی بقا کا مستحق ہے جو قوتِ بقا کا ثبوت دے دے۔ اس بے رحم نظام میں جو فنا ہوتا ہے وہ اس لیے فنا ہوتا ہے کہ وہ کم زور ہے اور اسے فنا ہونا ہی چاہیے اور جو باقی رہتا ہے وہ اس لیے باقی رہتا ہے کہ وہ طاقت ور ہے اور اسے باقی ہی رہنا چاہیے۔ زمین اور اس کا ماحول اور اس کے وسائلِ زندگی غرض یہاں جو کچھ بھی ہے طاقتور کا حق ہے، جس نے زندہ رہنے کی قابلیت کا ثبوت دے دیا ہو، کم زور کا ان چیزوں پر کوئی حق نہیں ہے۔ اسے طاقت ور کے لیے جگہ خالی کرنی چاہیے، اور طاقت وَر سراسر برسرِ حق ہے اگر وہ اسے مٹا کر یا ہٹا کر اس کی جگہ لیتا ہے۔
غور کیجیے، یہ تصور ِکائنات جب دماغوں میں بیٹھ جائے اورنظامِ فطرت کواس نگاہ سے دیکھا جانے لگے توانسان انسان کے لیے کیا کچھ بن کر رہے گا؟ اس فلسفۂ زندگی میں ہم دردی، مَحبّت، رحم، ایثار اور اس طرح کے دوسرے شریفانہ انسانی جذبات کے لیے کیا جگہ ہو سکتی ہے؟ اس میں عدل وانصاف، امانت ودیانت اور صداقت وراست بازی کا کیا کام؟ اس میں حق کا وہ مفہوم کہاں باقی رہتا ہے جو کبھی کم زور کو بھی پہنچ سکتا ہو، اور ظلم کے وہ معنی کب ہو سکتے ہیں جن سے کبھی طاقتور بھی گناہ گار ٹھیرایا جا سکتا ہو؟ لڑنے جھگڑنے کا کام اگرچہ پہلے بھی انسان کرتا رہا ہے مگر اسے فساد سمجھا جاتا تھا اور اب وہ عین تقاضائے فطرت ہے۔ کیوں کہ کائنات تو ہے ہی ایک میدانِ جنگ، ظلم پہلے بھی دنیا میں ہوتا تھا، مگر پہلے وہ ظلم تھا اور اب اسے ایک ایسی منطق مل گئی جس سے وہ طاقتور کا حق بن گیا۔ اس فلسفے کے بعد یورپ والوں کو ان تمام مظالم کے لیے جو انھوں نے دوسری قوموں پر ڈھائے، ایک محکم دلیل ہاتھ آ گئی۔ انھوں نے اگر امریکہ اور آسٹریلیا اور افریقہ کی پرانی نسلوں کو مٹایا اور کم زور قوموں کو اپنا غلام بنایا تو یہ گویا ان کا حق تھا جو انھوں نے عین قانونِ فطرت کے مطابق حاصل کیا، مٹنے والے مٹنے ہی کے مستحق تھے اور ان کی جگہ لینے والوں کا حق یہی تھا کہ وہ ان کی جگہ لیں۔ اس بارے میں اگر اہل مغرب کے ضمیر میں پہلے کوئی خلش تھی بھی تو ڈارون کی منطق نے اسے دلائل وشواہد سے دور کر دیا۔ سائنس میں اس نظرئیے کی حیثیت جیسی کچھ بھی ہو({ FR 6494 }) معاشرت، تمدن اور سیاست میں آ کر تو اس نے انسان کو انسان کے لیے بھیڑیا بنا کر رکھ دیا۔
مارکس کی مادی تعبیرِ تاریخ
اسی کا ہم جنس ایک اور فلسفہ تھا جو ڈارون ہی کے زمانے میں مارکس کی مادی تعبیر تاریخ کے بطن سے نکلا۔ اس کی تفصیلات اور اس کے دلائل سے میں یہاں کوئی بحث نہیں کروں گا اور نہ اس کی علمی حیثیت پر کوئی تنقید ہی کروں ({ FR 6495 }) گا۔ میں یہاں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انسانی ذہن کو اس نے بھی حیاتِ دنیا کا وہی تصور دیا جو پہلے ہیگل نے فکر کی دنیا کو رزم گاہ بنا کر پیش کیا تھا۔ ڈارون نے کائنات اور نظامِ فطرت کو میدانِ جنگ بنا کر دکھایا اور مارکس نے وہی تصویر انسانی معاشرے کی بنا کر دکھا دی۔ اس تصویر میں انسان ہم کو شروع سے لڑتا جھگڑتا نظر آتا ہے۔ اس کی فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ اپنی اغراض اور اپنے مفاد کے لیے اپنے ہم جنسوں سے لڑے۔ وہ سراسر خود غرضی کی بنیاد پر ان طبقوں میں کش مکش اور نزاع برپا کر رہی ہے اور انسانی تاریخ کا سارا ارتقا اسی خود غرضانہ طبقاتی کش مکش کی بدولت ہوا ہے۔ قوموں اور قوموں کی لڑائی تو درکنار خود ایک ہی قوم کے مختلف طبقوں کی لڑائی بھی اس تصور میں ہم کو سراسر ایک تقاضائے فطرت نظر آتی ہے۔ اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسان اور انسان کے درمیان اگر کوئی رشتہ ہے تو وہ صرف اغراض ومفاد کے اشتراک کا رشتہ ہے۔ ان رشتہ داروں سے ملنا اور متفق ہو کر ان سب لوگوں سے لڑنا جن سے آدمی کی معاشی اغراض متصادم ہوں… خواہ وہ اپنے ہی ہم قوم اور ہم مذہب کیوں نہ ہوں… سراسر حق ہے اور اس حرکت کا ارتکاب نہیں، بلکہ اس سے اجتناب خلافِ فطرت ہے۔
اَخلاق
یہ تھے وہ فلسفے اور وہ عقائد وافکار جو فاتح تہذیب کے ساتھ آئے اور ہم پر مسلط ہوئے۔ اب دیکھیے کہ اخلاق کے معاملے میں ان آنے والوں کے ساتھ کس قسم کے نظریات اور عملیات یہاں درآمد ہوئے۔
خدا اور آخرت کو نظر انداز کر دینے کے بعد ظاہر ہے کہ اخلاق کے لیے مادی قدروں کے سوا کوئی قدر، اورتجربی بنیادوں کے سوا کوئی بنیاد باقی نہیں رہتی۔ اس معاملے میں اگر کوئی شخص چاہے کہ وہ قدریں جو مذہب نے دی تھیں، مذہب کے سوا کسی دوسری بنیاد پر قائم رہیں، تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے اہل مغرب میں سے جن لوگوں نے اس کی کوشش کی وہ ناکام ہوئے۔ بے دینی اور انکارِ آخرت کی فضا میں فی الواقع جس فلسفۂ اخلاق کو فروغ نصیب ہوا، اور عملاً اہل مغرب کی زندگی میں جس نے رواج پایا، وہ تھا خالص افادیت (utilitarianism) کا فلسفہ جس کے ساتھ لذتیت (epicureanism) کے ایک سادہ سے مادہ پرستانہ خلاصے کی آمیزش ہو گئی تھی۔ اسی پر مغرب کے پورے تمدن اور مغربی زندگی کے پورے طرزِ عمل کی بِنا رکھی گئی۔ کتابوں میں افادیّت اور لذتیت کی جو تشریحات لکھی گئی ہیں، وہ چاہے جو کچھ بھی ہوں، مگر مغربی تہذیب اور سیرت وکردار میں اس کا جو جوہر جذب ہو اور وہ یہ تھا کہ قابلِ قدر اگر کوئی چیز ہے تو صرف وہ جس کا کوئی فائدہ میری ذات کو پہنچتا ہو، یا ’’میری ذات‘‘ کے تصور میں کچھ وسعت پیدا ہو جائے تو میری قوم کو پہنچتا ہو اور فائدے سے مراد ہے دنیوی فائدہ… کوئی راحت، کوئی لذت یا کوئی مادی منفعت۔ جس چیز سے اس طرح کا کوئی فائدہ میری طرف آئے یا میری قوم کی طرف آئے وہ نیکی ہے، قابل قدر ہے، مطلوب ومقصود ہے، اور وہی اس لائق ہے کہ اس کے پیچھے ساری کوششیں صرف کی جائیں اور جو ایسی نہیں ہے جس کا کوئی محسوس یا قابلِ پیمائش فائدہ اس دنیا میں مجھے یا میری قوم کو حاصل نہیں ہوتا وہ کسی توجہ کے لائق نہیں ہے اور اس کے برعکس جو چیز دنیوی حیثیت سے نقصان دہ ہے وہ دنیوی فائدوں اور لذتوں سے محروم کرنے والی ہے، وہی بدی اور وہی گناہ ہے۔ اس سے اجتناب لازم ہے۔
اس اخلاق میں خیروشر کا کوئی مستقل معیار نہیں ہے۔ کردار کے حسن وقبح کے لیے کوئی مستقل اصول نہیں ہے۔ ہر چیز اضافی اورعارضی ہے۔ ذاتی یا قومی منفعت کے لیے ہر اصول بنایا اور توڑا جا سکتا ہے۔ فائدوں اور لذتوں کو ہر طریقے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ آج جو کچھ خیر ہے وہ کل شر ہو سکتا ہے، اور آج جو خیر ہے وہ کل شر قرار پا سکتا ہے۔ ایک کے لیے حق وباطل کا معیار اور ہے اور دوسرے کے لیے اور۔ حلال اور حرام کی کوئی مستقل تمیز جس کا ہر حال میں لحاظ رکھا جائے اور حق وباطل کا کوئی ابدی فرق جو کسی حال میں نہ بدلے ایک دقیانوسی تصور ہے جسے ترقی کے قدم بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔
سیاست
یہ تھے وہ اخلاقیات جو فاتحانہ رعب داب کے ساتھ آئے اور ہم پر حکم ران ہوئے۔ اب اس سیاسی نظام کو لیجئے جو یہاں قائم کیا گیا اور مغربی آقائوں کی راہ نمائی میں پروان چڑھا۔ اس کی بنیاد تین اصولوں پر قائم کی گئی تھی۔ ایک سیکولرزم یعنی لادینی۔ دوسرے نیشنلزم، یعنی قوم پرستی، تیسرے ڈیموکریسی، یعنی حاکمیتِ جمہور۔
پہلے اصول کا مطلب یہ تھا کہ مذہب اور اس کے خدا اور اس کی تعلیمات کا کوئی تعلق سیاسی واجتماعی معاملات سے نہیں ہے۔ اہلِ دنیا اپنی دنیا کے معاملات خود اپنی صواب دید کے مطابق چلانے کے مختار ہیں۔ جس طرح چاہیں چلائیں اور انھیں چلانے کے لیے جو اصول، قوانین، نظرئیے اور طریقے چاہیں بنائیں۔ خدا کو نہ ان معاملات میں بولنے کا کوئی حق، اور نہ ہمیں، اس سے یہ پوچھنے کی ضرورت کہ وہ کیا پسند کرتا ہے اورکیا پسند نہیں کرتا۔ البتہ اگر کوئی بڑی مصیبت کبھی ہم پر ٹوٹ پڑے تو یہ بات سیکولرزم کے خلاف نہیں ہے کہ ایسے وقت میں خد ا کو مدد کے لیے پکارا جائے اوراس صورت میں خدا پر فرض عاید ہو جاتا ہے کہ ہماری مدد کو آئے۔
دوسرے اصول کا مطلب یہ تھا کہ جس مقام سے خدا کو ہٹایا گیا ہے وہاں قوم کو لا بٹھایا جائے۔ قوم ہی معبود ہو، قوم ہی کا مفاد معیار خیر وشر ہو، قوم ہی کی ترقی اور اس کا وقار اور دوسروں پر اس کا غلبہ مطلوب ومقصود ہو اور افراد کی ہر قربانی قوم کے لیے جائز بھی ہو اور واجب بھی، اس کے ساتھ ’’قومیت‘‘ کا جو تصور ہمارے بیرونی آقائوں نے یہاں درآمد کیا وہ غیر مذہبی، وطنی قومیت کا تصور تھا جس کے ساتھ مل کر قوم پرستی کا مسلک کم از کم ہمارے لیے تو کریلا اور نیم چڑھا ہو گیا۔ کیوں کہ جس ملک کی آبادی کا ۴/۳ حصہ غیر مسلم ہو اس میں ’’وطنی قومیت‘‘ کی بنیاد پر مذہب ِ قوم پرستی کا رواج صریح طور پر یہ معنی رکھتا تھا کہ یا تو ہم سیدھی طرح ہی نہیں بلکہ پُرجوش طریقے سے نامسلمان بنیں، یا پھر مذہب قوم پرستی کی رُو سے کافر (یعنی غدار وطن) قرار پائیں۔
تیسرے اصول کا مطلب یہ تھا کہ قومی ریاست میں جس مقام سے مذہب کو بے دخل کیا گیا ہے وہاں جمہورِ قوم، یعنی اکثریت کی رائے کو اس کا جانشین بنایا جائے۔ اکثریت مذہب سے قطع نظر کرتے ہوئے جسے حق کہے وہ حق اور جسے باطل کہے وہ باطل۔ اکثریت ہی کے بنائے ہوئے اصول اور قوانین اور ضوابط قوم کا دین ہوں اور اکثریت ہی اس دین میں ردوبدل کی مختار ہو۔
فاتح تہذیب کے اثرات
یہ سیاست تھی، یہ اخلاقیات تھے، یہ فلسفے تھے اور مذہب کے بارے میں یہ خیالات تھے ان لوگوں کے جو ہماری تاریخ کے منحوس مرحلے میں باہر سے آ کر ہم پر غالب ہوئے۔ ہم اس وقت جن کم زوریوں میں مبتلا تھے وہ آپ پہلے سن چکے ہیں اور یہ لوگ جو تہذیب لائے تھے وہ یہ تھی جس کی تصویر ابھی آپ نے ملاحظہ فرما لی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تہذیب یہاں اس حیثیت سے نہیں آئی تھی کہ کچھ مسافر یا کچھ سیاح اسے لائے تھے۔ یہ ان لوگوں کی تہذیب تھی جو یہاں حکم ران بن کر آئے تھے۔ جن کو یہاں کی پوری زندگی پر وہ تسلط حاصل ہوا تھا جو اُن سے پہلے کبھی اس ملک کی کسی حکومت کو نصیب نہ ہوا تھا۔ جن کا وہ رعب… ذہنی اورمادی دونوں طرح کا رعب… یہاں کی آبادی پر پڑا تھا جو شاید پہلے کسی حکم ران گروہ کا نہ پڑا تھا۔ جن کے قبضے میں نشرواشاعت اور تعلیم کے وسیع ذرائع بھی تھے۔ قانون اور عدالت کے کارگر ہتھیار بھی تھے اور اس کے ساتھ معاش کے وسائل کو بھی ان کے اقتدار نے پوری طرح گرفت میں لے رکھا تھا۔ اس لیے ان کی تہذیب نے ہم پر ایسا ہمہ گیر اثر ڈالا جس کی گہرائی سے ہماری زندگی کا کوئی شعبہ نہ بچا۔
تعلیم کا اثر
انھوں نے اپنی تعلیم ہم پر مسلط کی، اور اس طرح مسلط کی کہ رزق کی کنجیاں ہی لے کر اپنی تعلیم گاہوں کے دروازوں پر لٹکا دیں، جس کے معنی یہ تھے کہ اب یہاں رزق وہی پائے گا جو یہ تعلیم حاصل کرے گا۔ اس دبائو میں آ کر ہماری ہر نسل کے بعد دوسری نسل پہلے سے بڑھ چڑھ کر ان تعلیم گاہوں کی طرف گئی اور وہاں وہ سارے ہی نظریات اور عملیات سیکھے، جن کی روح اور شکل بالکل ہماری تہذیب کی ضد تھی۔ اگرچہ کھلا کافر تو وہ ہم میں سے ایک فی لاکھ کو بھی نہ بنا سکے مگر فکر ونظر اور ذوق ووجدان اور سیرت وکردار میں ٹھیٹھ مسلمان انھوں نے شاید ۲ فیصدی کو بھی نہ رہنے دیا۔ یہ سب سے بڑا نقصان تھا جو انھوں نے ہم کو پہنچایا کیوں کہ اس نے ہمارے دلوں اور دماغوں میں ہماری تہذیب کی جڑوں ہی کو خشک کر دیا اور ایک دوسری مخالف تہذیب کی جڑیں ان میں پیوست کر دیں۔
معاشی نظام کا اثر
انھوں نے اپنا معاشی نظام اپنے معاشی فلسفے اورنظریات سمیت ہم پر مسلّط کیا اور اس طرح مسلّط کیا کہ رزق کے دروازے بس اسی شخص کے لیے کھل سکتے تھے جو اس معاشی نظام کے اصول اختیار کرے۔ اس چیز نے پہلے ہم کو حرام خور بنایا۔ پھر رفتہ رفتہ ہمارے ذہنوں سے حرام وحلال کی تمیز مٹائی اور پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہم میں سے ایک کثیر تعداد کو اسلام کی ان تعلیمات پر اعتقاد نہ رہا جو اُن بہت سے طریقوں کو حرام قرار دیتی تھیں۔ جنھیں مغرب کے قائم کیے ہوئے معاشی نظام نے حلال ٹھیرا رکھا ہے۔
قانون کا اثر
انھوں نے اپنے قوانین ہم پر مسلّط کیے اور ان سے صرف عملاً ہی ہمارے نظام تمدن و معاشرت کی شکل وصورت کو تبدیل نہ کیا بلکہ ہمارے اجتماعی تصورات اور ہمارے قانونی نظریات کو بھی بہت کچھ بدل ڈالا۔ جو شخص قانون کے متعلق کچھ بھی واقفیت رکھتا ہے وہ اس بات کو جانتا ہے کہ اخلاق اور معاشرے سے اس کا نہایت گہرا تعلق ہے۔ انسان جب کبھی کوئی قانون بناتا ہے اس کے پیچھے لازماً اخلاق اور معاشرت اور تمدن کا کوئی خاص نقشہ ہوتا ہے جس پر وہ انسانی زندگی کو ڈھالنا چاہتا ہے۔ اسی طرح جب وہ کسی قانون کو منسوخ کرتا ہے تو گویا اس اخلاقی نظرئیے اور اس تمدنی فلسفے کو منسوخ کرتا ہے، جس پر پچھلا قانون مبنی تھا اور زندگی کے اس نقشے کو بدلتا ہے جو اس قانون سے بنا تھا۔ پس جب ہمارے انگریز حکم رانوں نے یہاں آ کر ان تمام شرعی قوانین کو منسوخ کیا جو اس ملک میں رائج تھے اور ان کی جگہ اپنے قوانین نافذ کیے، تو اس کے معنی صرف اسی قدر نہ تھے کہ ایک قانون کی جگہ دوسرا قانون جاری ہوا بلکہ اس کے معنی یہ تھے کہ نظامِ اخلاق اور نظامِ تمدن پر خط نسخ پھیرا گیا اور اس کی جگہ دوسرے نظامِ اخلاق وتمدن کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس تغیّر وتبدّ ل کو مستحکم کرنے کے لیے انھوں نے یہاں کے لا کالجوں میں اپنی قانونی تعلیم رائج کی جس نے دماغوں میں یہ خیال بٹھا دیا کہ پچھلا قانون ایک دقیانوسی قانون تھا، جو زمانۂ جدید کی ایک سوسائٹی کے لیے کسی طرح موزوں نہیں، اور یہ نیا طرزِ قانون سازی اپنے اصول ونظریات سمیت، زیادہ صحیح اور زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انھوں نے ہمارے اس بنیادی عقیدے تک کو متزلزل کر دیا کہ قانون سازی کے اختیارات اللّٰہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں۔ اس کے بجائے انھوں نے یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کی کہ اللّٰہ کو اس معاملے سے کچھ سروکار نہیں، یہ لیجسلیچر (پارلیمنٹ) کا کام ہے کہ جو کچھ چاہے، فرض، واجب یا حلال ٹھیرائے، اور جو کچھ چاہے، جرم یا حرام کر دے۔ پھر ان نئے قوانین نے جس طرح ہمارے اخلاق وتمدن پر اثر ڈالا، اس کا اندازہ کرنے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ یہی قوانین تھے جنھوں نے زنا اور قمار اور شراب اور بہت سے بیوعِ فاسدہ کو حلال کیا، جن کی حمایت وحفاظت میں طرح طرح کے فواحش اور معاصی نے یہاں رواج پایا اور جن کی حمایت سے محروم ہو کر بہت سی وہ بھلائیاں بھی مٹتی چلی گئیں جو دورِ انحطاط تک میں ہمارے اندر بچی رہ گئی تھیں۔ مگر حالات نے ہماری دینی حس کو ایسا کُند کرکے رکھ دیا کہ ہمارے بڑے بڑے صلحا واتقیا تک کو اس قانونی نظام کے تحت کسی مسلمان کے وکیل اور جج بننے میں مضائقہ نظر نہ آیا بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جنھوں نے اس کے مقابلے میں الحکم للہ کے اصول کوتازہ کرنا چاہا وہ ہمارے ہاں خارجی قرار پائے۔
اخلاق ومعاشرت کا اثر
انھوں نے اپنے اخلاقی مفاسد اور معاشرتی طور طریقے ہم پر مسلط کیے اور اس طرح مسلّط کیے کہ ان کے ہاں تقرب کا مقام اور تقدم کا شرف ان لوگوں کے لیے مخصوص رہا جواخلاق میں ان سے قریب تر اور معاشرت میں ان کے ہم رنگ ہوں۔ یہی چیز اثر ورسوخ اور معاشی خوش حالی اور مادی ترقی کی ضامن تھی۔ اس لیے رفتہ رفتہ ہمارے اونچے طبقے، اور ان کے پیچھے متوسط طبقے اس رنگ میں رنگتے چلے گئے اور آخر میں تصاویر، سینما ، ریڈیو، اور سربرآوردہ لوگوں کی زندہ مثالوں نے یہ وبا عوام تک بھی پھیلانی شروع کر دی۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک صدی کے اندر ہم پھسلتے پھسلتے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ہمارے ہاں مخلوط تعلیم کا رواج گوارا کیا جا رہا ہے۔ اچھے اچھے گھرانوں کی خواتین رقص اور مے نوشی میں مبتلا ہو رہی ہیں، شریف زادیاں ایکٹرسیں بن کر وہ بے حیائی دکھا رہی ہیں جس کے لیے کبھی ہمارے ہاں کی طوائف بھی تیار نہ تھی اور ہزاروں کے مجمعے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو پریڈیں کرتے دیکھتے ہیں اور ان کو دادِ تحسین دیتے ہیں۔ اب وہ منزل کچھ دور نہیں ہے جہاں پہنچ کر اہل مغرب کی طرح ہمارے ہاں بھی یہ سوال اٹھے گا کہ کنواری ماں اور حرامی بچے میں آخر عیب کیا ہے؟ کیوں نہ معاشرے میں انھیں بھی مادرِ منکوحہ اور بچۂ حلال کی طرح عزت کا مقام دیا جائے؟ مغرب بھی اس مقام پر ایک دن میں نہ پہنچا تھا۔ ان ہی منازل سے گزرتا ہوا پہنچا تھا جن سے اب ہم گزر رہے ہیں۔
سیاسی نظام کا اثر
پھر انھوں نے اپنے سیاسی نظرئیے اور سیاسی ادارے بھی ہم پر مسلّط کیے جو ہمارے دین اور ہماری دنیاکے لیے کسی دوسری چیز سے کم غارت گر ثابت نہ ہوئے۔ ان کے سیکولرزم نے ہمارے دینی تصورات کی جڑیں کھوکھلی کیں اور ان کے نیشنلزم اوران کی ڈیموکریسی نے ہم کو مسلسل ایک صدی تک اتنا پِیسا کہ آخر کار ہمیں اپنی آدھی قوم کو دے کر اور اپنی لاکھوں جانیں اور بے شمار عورتوں کی عصمتیں قربان کرکے صرف اپنی آدھی قوم کو اس چکی کے پاٹوں سے بچا لینے پرآمادہ ہونا پڑا۔ ان بے درد احمقوں نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہ سوچا کہ ہندوستان کے ہندو اور مسلمان اور سکھ اور اچھوت مل کر جدید سیاسی معنوں میں ایک قوم کیسے قرار پا سکتے ہیں جس میں ڈیموکریسی کا یہ اصول چل سکے کہ قوم کی اکثریت قانون ساز اور حکم ران ہو اور اقلیت رائے عامہ کو ہموار کرکے اکثریت بننے کی کوشش کرتی رہے؟ انھوں نے کبھی یہ سمجھنے کی کوشش نہ کی کہ یہاں اقلیتیں اور اکثریتیں، قومی اقلیتیں اور اکثریتیں ہیں، نہ کہ محض سیاسی۔ انھوں نے جن پر ۳۵ کروڑ انسانوں کے حال ومستقبل کی بھاری ذمہ داری تھی، اپنا ایک منٹ بھی اس معاملے کو سمجھنے پر صرف نہ کیا کہ اِن مختلف قوموں کے مجموعے کو ایک قوم فرض کرکے یہاں سیکولرڈیموکریسی قائم کرنے کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتے کہ ان میں سے ایک کثیر التعداد قوم باقی سب قوموں کے مذہب، تہذیب اور قومی انفرادیت کو زبردستی مٹا کر رکھ دے۔ وہ اندھا دُھند اپنے گھرکے اصول اور نظریات اور عملی طریقے ایک بالکل مختلف ماحول پر ٹھونستے چلے گئے۔ ہندوستان کا چپہ چپہ برسوں منافرت کا زہر اور مظلوموں کا خون اور جاں گسل کش مکش کا دھواں اگل اگل کر خبر دیتا رہا کہ یہ بالکل ایک غلط نظام ہے جو اس آبادی کے مزاج کے خلاف اس پر مسلّط کیا جا رہا ہے۔ مگر انھوں نے اس کانوٹس تک نہ لیا۔ ایک دیوار بیچ کے ہمسائے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے مگر انھوں نے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ پھر جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ تقسیم کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہا تو وہ ایسے طریقے سے تقسیم کرکے رخصت ہوئے جس کی بدولت خون کے دریااور لاشوں کے پہاڑ ہندوستان وپاکستان کی سرحد بنے اور یہ تقسیم پچھلے جھگڑوں کے تصفیے کی ایک شکل بننے کے بجائے بہت سے نئے جھگڑوں کی بنیاد بن گئی جو نہ معلوم کتنی مدت تک اس برعظیم کے لوگوں کو آپس کی دشمنی اور کش مکش میں مبتلا رکھیں گے۔
میں مانتا ہوں کہ ان بیرونی حاکموں نے یہاں کچھ اچھے کام بھی کیے۔ ان کی بدولت جو مادی ترقیات یہاں ہوئیں اور علومِ جدیدہ کے مفید پہلوئوں سے جو فائدہ ہمیں پہنچا، ان کی قدر وقیمت سے مجھے انکار نہیں ہے۔ مگر کیا نسبت ہے ان فائدوں کو ان بے شمار اخلاقی، روحانی اور مادی نقصانات سے جو ہمیں بالادستی سے پہنچ گئے؟
ہمارا ردِّعمل
اس کے بعد ہمیں جائزہ لے کر دیکھنا ہے کہ اس غالب تہذیب کے ہجوم کا ردِّ عمل ہمارے ہاں کس کس شکل میں ہوا اور آج اس کے کیا اچھے اور برے اثرات ہم اپنی قومی زندگی میں پاتے ہیں۔
مجموعی طور پر یہاں اس کے مقابلے میں دو بالکل مختلف قسم کے ردِّ عمل ہوئے ہیں جن میں سے ہرایک کے نہایت وسیع اور عمیق اثرات مترتب ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ میں پہلے ان دونوں کا الگ الگ حساب آپ کے سامنے پیش کروں گا، اور پھر ان کا حاصل ضرب بھی آپ کے سامنے رکھ دوں گا۔
انفعالی ردِّ عمل
ہم میں سے ایک گروہ کا ردِّعمل یہ تھا کہ یہ طاقت اور ترقی یافتہ قوم جو ہم پرحکم ران بن کر آئی ہے، اس سے وہ سب کچھ لے لو جو یہ دے رہی ہے اور اس کے وہ سارے اثرات قبول کرتے چلے جائو جو یہ ڈال رہی ہے۔ جو تعلیم یہ دیتی ہے اسے حاصل کرو۔ جو معاشی نظام یہ قائم کر رہی ہے اسے اپنا لو۔ جو قوانین یہ نافذ کر رہی ہے انھیں مان لو۔ جو معاشرت یہ لائی ہے اس کے رنگ میں رنگ جائو اور جو سیاسی نظام یہ قائم کر رہی ہے اسے بھی تسلیم کر لو۔
اس ردِّ عمل میں مرعوبیت اورشکست خوردگی کی رُوح تو ابتدا ہی سے تھی تاہم اوّل اوّل اس کا محرک یہ خیال تھا کہ مغلوب ومحکوم ہو جانے کے بعد اب مزاحمت ہمارے لیے ممکن نہیںہے۔ مزاحمت کریں گے تو ہر حیثیت سے نقصان میں رہیں گے۔ لہٰذا ہمارے لیے اس کے سوا اب کوئی چارۂ کار نہیں ہے کہ زندگی اور ترقی کے جو مواقع اس نئے نظام میں حاصل ہو سکتے ہیں ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔ لیکن اس دلیل… اور اپنی جگہ اچھی خاصی باوزن دلیل … سے متاثر ہو کر ہمارے جو عناصر اس راہ پر گئے ان کی پہلی ہی نسل میں وہ نقصانات نمایاں ہونے شروع ہو گئے جو ایک مخالف تہذیب کے مقابلے میں قبولیت وانفعال کا رویہ اختیار کرنے سے کسی قوم کو پہنچ سکتے ہیں۔ اور پھر ہر نسل کے بعد دوسری نسل ان نقصانات میں زیادہ سے زیادہ مبتلا ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ ایک قدر قلیل کے سوا ہمارا پورا طبقۂ متوسط اس وبا سے مائوف ہو گیا اور اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی عوام تک اس کا زہر پھیلتا چلا گیا۔
مذہب کے متعلق اہلِ مغرب کا جونقطۂ نظر تھا، ہمارے نئے تعلیم یافتہ لوگوں کی بڑی اکثریت نے اسے قریب قریب جوں کا توں قبول کیا اور یہ تک محسوس نہ کیا کہ مغرب نے مذہب کو جو کچھ سمجھا تھا، وہ مسیحیت اور کلیسا کو دیکھ کر سمجھا تھا نہ کہ اسلام کو۔ وہ اس پورے اندازِ فکر کو اخذ کر بیٹھے جو اہل کلیسا کی ضد میں مذہب اور اس سے تعلق رکھنے والے مسائل ومعاملات کے متعلق مغرب میں پیدا ہوا تھا۔ انھوں نے سمجھا کہ اسلام اور اس کی ہر چیز ہر شک کی مستحق ہے اور دلیل وثبوت کی ضرورت اگر ہے تو اس کی کسی بات کے لیے ہے نہ کہ ان نظریات کے لیے جو ’’علم‘‘ کے نام سے کوئی مغربی فلسفی یا سائنس دان یا ماہر علومِ عمران پیش کر دے۔انھوں نے اس خیال کو بھی بلا تنقید مان لیا کہ مذہب فی الواقع ایک پرائیویٹ معاملہ ہے اور اجتماعی زندگی سے اس کو سروکار نہ ہونا چاہیے۔ یہ خیال ان کے ذہن میں کچھ اس طرح اتر گیا کہ آج جو لوگ بے سوچے سمجھے اس چلتے ہوئے فقرے کو بار بار دہراتے ہیں کہ ’’اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے‘‘ وہ بھی ہر وقت اپنے ہر طرزِ عمل سے یہ ثابت کرتے رہتے ہیں کہ اسلام صرف ایک ’’پرائیویٹ مذہب‘‘ہے جس سے پبلک معاملات میں کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان میں سے اکثر وبیشتر لوگوں کے لیے اسلام ایک پرائیویٹ مذہب بھی نہیں، کیوں کہ ان کی اپنی شخصی زندگی بجز اقرار اسلام اور ختنہ ونکاح کے اسلام کی پیروی کا کوئی اخلاقی یا عملی نشان اپنے اندر نہیں رکھتی۔ ان میں سے جن لوگوں میں مذہبیت کی طرف میلان باقی رہا یا بعد میں پیدا ہوا، ان کے اندر بھی زیادہ تر اس نے یہ شکل اختیار کی کہ مغرب اور اس کے فلسفوں اور نظریات اور عملیات کو معیارِ حق مان کر اس کے عقائد اور اس کے نظامِ زندگی اور اس کی تاریخ کی مرمت کر دی گئی، اور کوشش کی گئی کہ اسلام کی ہر چیز کو اس معیار پر ڈھال لیا جائے، اور جو نہ ڈھل سکے اس کو ریکارڈ سے محو کر دیا جائے، اور جو محو بھی نہ ہو سکے اس کے لیے دنیا کے سامنے معذرتیں پیش کی جائیں۔
ان کی عظیم اکثریت نے مغرب کے فلسفۂ زندگی اور مغربی تہذیب کی فلسفیانہ بنیادوں کو بھی بجنسہٖ اخذ کیا اور اس پر کسی تنقید کی ضرورت محسوس نہ کی۔ یہ لازمی نتیجہ تھا اس تعلیم کا جو انھیں ابتدائی مدارج سے لے کر آخری مراتب تک مدرسوں اور کالجوں میں دی گئی۔ تاریخ، فلسفہ، معاشیات، سیاسیات، قانون، اور دوسرے علوم کو جس طرز پر انھوں نے پڑھا اس سے وہی ذہنیت بن سکتی تھی جو خود ان کے مغربی استادوں کی تھی، اور دنیا اور اس کی زندگی کے متعلق ان کا نقطۂ نظر وہی کچھ ہو سکتا تھا جواہل مغرب کا تھا۔ خدا اورآخرت کا علانیہ انکار تو کم ہی لوگوں نے کیا مگر ہمارے ہاں اس تعلیم سے متاثر ہونے والوں میں ایسے لوگ بھی آخرکتنے پائے جاتے ہیں جو مادہ پرستانہ ذہنیت اور فکر آخرت سے بے نیاز نظریۂ حیات نہیں رکھتے؟ جو اَن دیکھی غیر محسوس حقیقتوں کی بھی کچھ حقیقت نہیں سمجھتے ہیں؟ جن کی نگاہ میں مادی قدروں سے بلند تر روحانی قدروں کی بھی کچھ وقعت ہے؟ جو دنیا کو اغراضِ نفسانی کی ایک بے دردانہ کش مکش کا میدانِ جنگ نہیں سمجھ رہے ہیں؟
اخلاق کے معاملے میں اس انفعالی ردِّ عمل کا نتیجہ اس سے بھی بدتر ہوا۔ اپنے دورِ انحطاط میں ہمارے اخلاق کی جڑیں بوسیدہ تو پہلے ہی ہو چکی تھیں۔ ہمارے امرا اور اہل دولت پہلے سے عیش کوش تھے۔ ہمارے متوسط طبقے کرائے کے سپاہی اور بھاڑے کے ٹٹو پہلے ہی سے بنے ہوئے تھے۔ ہمارے اندر کوئی مستقل اور مخلصانہ وفاداری پہلے ہی موجود نہ تھی۔ پھر جب اس کے ساتھ مغرب کے فلسفۂ اخلاق کا جوڑ لگا تو یہاں وہ سیرتیں پیدا ہونی شروع ہو گئیں جو مغربی سیرت کے تمام برے پہلوئوں کی جامع اوراس کے اکثر روشن پہلوئوں سے خالی ہیں۔ افادیت اورلذت پرستی اور بے اصولی میں تو ہمارے ہاں کی مغرب زندہ سیرت اسی سطح پر ہے جس پر خود اہل مغرب کی سیرت پہنچی ہوتی ہے۔ مگر وہاں کوئی مقصد زندگی ہے جس کے لیے سخت کوشی وجانفشانی کی جاتی ہے اور یہاں کسی مقصدزندگی کا پتہ نہیں۔ وہاں کوئی نہ کوئی ایسی وفاداری موجود ہے جس میں اخلاص پایا جاتا ہے، جسے بیچا اور خریدا نہیں جا سکتا، مگر یہاں سب کچھ قابل فروخت ہے اور ہر شے کا تبادلہ روپے یا ذاتی مفاد سے کیا جا سکتا ہے۔ وہاں کچھ بداخلاقیاں صرف غیر قوموں کے مقابلے میں برتنے کے لیے مخصوص ہیں جن کا ارتکاب اپنی قوم کے خلاف کرنا گناہِ عظیم سمجھا جاتا ہے، مگر یہاں جھوٹ، مکر، دھوکے، بدعہدی، خود غرضی، سازش اور تحریص وتخویف کے ہاتھ خود اپنی قوم کے خلاف استعمال کر ڈالنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ امریکہ یا انگلستان میں کوئی یہ اخلاق برتے تو اس کا جینا مشکل ہو جائے مگر یہاں بڑی بڑی جماعتیں ان اخلاقیات کے بل پر اٹھتی اور فروغ پاتی ہیں، اور جو لوگ ان اوصاف میں اپنی مہارت ثابت کر دیتے ہیں، ان کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ قیادتِ ملّی کے لیے یہی موزوں ترین اشخاص ہیں۔
معاشرت اور معیشت اور قانون کے بارے میں مغربی تسلط کے جن اثرات کا ابھی ابھی میں آپ سے ذکر کر چکا ہوں، ان سب کو قبول کرنے والے اورانھیں لے کر اپنی قوم میں پھیلانے والے بھی وہی لوگ تھے اور ہیں جنھوں نے اس انفعالی ردِّ عمل کی راہ اختیار کی۔ تاہم ان میں سے کوئی چیز بھی اس قدر حیرت انگیز نہیں ہے جس قدر انگریزوں کے قائم کیے ہوئے سیاسی نظام کے معاملے میں ان کا ردِّ عمل حیرت انگیز ہے۔ اس گروہ کو سب سے زیادہ ناز اپنی سیاسی سوجھ بوجھ پر ہے، مگر انھوں نے سب سے بڑھ کر اپنی نااہلی کا ثبوت اسی معاملے میں دیا ہے۔ جس سیکولرزم، نیشنلزم، اور ڈیموکریسی پر ہندوستان کے سیاسی نظام کی بنا رکھی گئی تھی اور جس پر انیسویں صدی کے نصف آخر سے مسلسل اس کا ارتقا ہو رہا تھا، اس کو اگر ہندوئوں نے تسلیم کیا تو یہ ایک امر طبیعی تھا، کیوں کہ اس کا ہر جُز ان کے لیے مفید تھا لیکن مسلمان، جن کے لیے اس کا ہر جز تباہ کن تھا، اس کا اس سیاسی نظام کے بنیادی اصولوں کو چیلنج نہ کرنا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ان کے نئے تعلیم یافتہ لوگوں نے سیاست پڑھی چاہے کتنی ہی ہو، اسے سمجھا کبھی نہیں۔ وہ مغرب سے اتنے مرعوب تھے کہ جو کچھ وہاں سے آتا، اسے وحی آسمانی سمجھ کر قبول کر لیتے تھے اور کسی چیز کو تنقید کی کسوٹی پر کَس کر دیکھنے کی انھیں ہمت نہ ہوتی تھی۔ اسی شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ انھوں نے سیاست پڑھی اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے تمام نظریات کو بھی آنکھیں بند کرکے مانتے چلے گئے۔ ان کے اندر نہ اتنی عقل تھی کہ اس سیاسی نظام کی بنیادوں کو جانچ کر دیکھتے اور نہ اتنی جرأت تھی کہ علمی حیثیت سے ان بنیادوں کو چیلنج کر سکتے اوراپنے آقائوں سے یہ کہہ سکتے کہ تمہارے یہ اصول اس ملک میں نہیں چل سکیں گے۔ انھوں نے آدھی جنگ تو اسی روز ہار دی تھی جب سیکولرزم، نیشنلزم اور ڈیموکریسی کے ان اصولوں کو اصولِ برحق مان لیا۔ اس کے بعد نہ ان کی یہ پالیسی چل سکی کہ سیاسی ارتقا کی رفتار اور اہل ملک کی طرف اختیارات کے انتقال کو روکا جائے، اور نہ یہی پالیسی کام یاب ہوئی کہ سراسر غلط سیاسی نظام میں مسلمانوں کو ایسے تحفظات حاصل ہو جائیں جو اس کے تباہ کن اثرات سے انھیں بچا سکیں۔ آخر کار جب وہ سیاسی نظام پختہ ہو کر اپنے تکمیلی مرحلے میں پہنچ گیا تو ہمیں چاروناچار اس پر راضی ہونا پڑا کہ ہم میں سے آدھے قبر میں جائیں اور آدھے بچ نکلیں! اس پر بھی ہمارے سیاسی راہ نمائوں کی سمجھ میں اب تک یہ نہیں آیا ہے کہ جس سیاسی نظام نے ہم کو قبرتک پہنچا دیا اس کی بنیادوں میں کیا نقائص ہیں۔ چنانچہ وہ آج بھی اس نظام کو ان ہی بنیادوں کے ساتھ جُوں کا تُوں باقی رکھے ہوئے ہیں اور اس کو بدلنے کی ضرورت کا کوئی احساس ان کے اندر نہیں پایا جاتا۔ اب ایک کُند ذہن آدمی کے سوا کون یہ باور کر سکتا ہے کہ سیاست کے مطالعے اور تجربے نے کوئی سیاسی بصیرت اُن لوگوں میں پیدا کی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ یہ انفعالی ردِّ عمل سراسر نقصان ہی نہ تھا اس میں فائدے کے پہلو بھی کچھ تھے۔ اس سے ہمارا پچھلا جمود ٹوٹا۔ ہم موجودہ زمانے کی ترقیات سے آشنا ہوئے۔ ہمارے نقطۂ نظر میں وسعت پیدا ہوئی۔ ہم اس شدید نقصان سے بچ گئے جو صرف غیر مسلموں کے جدید تعلیم پانے اور حکومت کے نظم ونسق میں دخیل ہو جانے سے پہنچ سکتے تھے۔ ہمارے بہت سے آدمیوں کو حکومت کے مختلف شعبوں کا تجربہ حاصل ہوا۔ ان فائدوں میں سے کسی کا بھی میں منکر نہیں ہوں مگر اس کے ساتھ یہ بھی تو واقعہ ہے کہ اس کی بدولت ہمارا تصورِ دین بدلا، تصورِ اخلاق بدلا، فلسفۂ زندگی بدلا، ہماری قدریں متغیر ہوئیں، ہماری انفرادی سیرت اور اجتماعی تہذیب کی بنیادیں متزلزل ہو گئیں۔ ہم اسلاف کی اندھی تقلید سے نکل کر اغیار… اور گمراہ وبدکردار اغیار… کی اندھی تقلید میں مبتلا ہو کر رہ گئے جس نے ہمیں دینی حیثیت سے بھی تباہ کیا اور دنیوی حیثیت سے بھی۔
جمودی ردِّ عمل
ہمارے ہاں ایک دوسرے گروہ کا ردِّ عمل اس کے بالکل برعکس تھا۔ پہلا گروہ اگر آنے والے سیلاب میں بہہ نکلا تو یہ دوسراگروہ اس کے آگے جمود کی چٹان بن کر بیٹھ گیا۔ اس نے کوشش کی کہ علم اور مذہب اور اخلاق اور معاشرت اور روایات کی اس پوری میراث کو جو اٹھارویں صدی کے لوگوں نے چھوڑی اور انیسویں صدی کے لوگوں نے پائی تھی… اس کے تمام صحیح وغلط اجزا سمیت… جوں کا توں باقی رکھا جائے اور نئی فاتح تہذیب کا نہ کوئی اثر قبول کیا جائے، نہ اس کے سمجھنے ہی میں اپنا وقت ضائع کیا جائے۔ اس گروہ کے لوگوں نے آثارِ قدیمہ کے تحفظ کا جو رویہ مغربی تہذیب سے پہلا تصادم پیش آنے کی ساعت میں اختیار کیا تھا،اس پر وہ آج تک بلا کسی ترمیم ونظرثانی کے قائم ہیں۔ انھوں نے اپنا ایک لمحہ بھی سنجیدگی کے ساتھ اس کام میں صرف نہ کیا کہ اگلوں کی میراث کا تجزیہ کرکے دیکھیں کہ اس میں کیا باقی رکھنے اور کیا بدلنے کے لائق ہے۔ نہ انھوں نے کبھی سنجیدگی کے ساتھ اسی سوال پر غور کیا کہ آنے والی تہذیب کیا کچھ لینے کے قابل لائی ہے اور انھوں نے کبھی یہ سمجھنے کی کوئی معقول کوشش نہ کی کہ ہمارے نظامِ فکر وعمل میں وہ کیا خامیاں تھیں جو ہماری شکست کی موجب ہوئیں اور ہزارہا میل کے فاصلے سے آئی ہوئی ایک قوم کے پاس علم وعمل کی وہ کیا طاقت ہے جو اس کے غلبے کا سبب بن گئی۔ ان اُمور کی طرف توجہ کرنے کے بجائے انھوں نے اپنا سارا زور حالتِ سابقہ کو برقرار رکھنے پر صرف کیا اورآج تک کیے جا رہے ہیں۔ ان کا نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم وہی ہے جو انیسویں صدی کے آغاز میں تھا۔ ان کے مشاغل وہی ہیں، ان کے مسائل وہی ہیں، ان کا اندازِ فکر وہی ہے، ان کا طریق کار وہی ہے اور ان کے ماحول کی خصوصیات وہی ہیں۔ جو کچھ اس میں اچھائیاں تھیں وہ بھی محفوظ ہیں، اور جو کچھ اس میں خامیاں تھیں وہ بھی محفوظ ہیں۔
میں مانتا ہوں کہ اس دوسرے ردِّ عمل کے اندر فائدے کا ایک قیمتی پہلو تھا اور ہے۔ وہ جتنا قابلِ قدر ہے، اس کی اتنی ہی قدر میرے دل میں ہے۔ ہمارے ہاں جو کچھ بھی قرآن وحدیث اور فقہ کا علم بچا رہ گیا ہے اسی کی بدولت بچا ہے۔ ہمارے بزرگوں نے دین واخلاق کی جو میراث چھوڑی تھی بسا غنیمت ہے کہ کچھ لوگ اس کو سنبھال کر بیٹھ گئے اور آئندہ نسلوں کی طرف اس کو منتقل کرتے رہے۔ ہماری تہذیب کی جو اہم خصوصیات تھیں نہایت قیمتی خدمت ہے کہ کسی نے اُن کی حفاظت کی کوشش کی اور سخت مخالف ماحول میں ان کو تھوڑا یا بہت برقرار رکھا۔
میں یہ بھی مانتا ہوں کہ جن لوگوں نے اس ردِّ عمل کی ابتدا کی وہ بڑی حد تک معذور تھے۔ جس وقت تہذیب مخالف کے سیلاب سے ان کو اچانک تصادم پیش آیا،اس وقت شاید وہ اس سے زیادہ کچھ نہ کر سکتے تھے کہ اپنے گھر کی جتنی چیزیں بھی بچا سکتے ہیں بچا لیں۔ اس معاملے میں اُن کی معذوری پہلے رد عمل کے بانیوں کی معذوری سے کچھ کم وزنی نہیں ہے۔ ہم پہلے گروہ کے ابتدائی لیڈروں کو بھی یہ الائونس دیتے ہیں کہ اجنبی اقتدار کے سیلاب سے پہلا تصادم پیش آنے پر وہ اس کے سوا کچھ نہ سوچ سکتے تھے کہ اپنی قوم کو کامل تباہی سے اور شُودروں میں تبدیل ہو جانے سے بچانے کے لیے وہ راہ اختیار کریں جو انھوں نے کی۔ ایسے ہی الائونس کے مستحق دوسرے گروہ کے ابتدائی لیڈر بھی ہیں جنھوں نے آغاز تصادم میں اپنے مذہب اور تہذیب کے باقیات کو مٹنے سے بچانے کی فکر کی۔ مگر قانون قدرت میں معذرتیں (apologise) اور رخصتیں (allowances) نہیں چلا کرتیں۔ کوئی کام خواہ کسی وجہ سے کیا گیا ہو، اس میں اگر نقصان کا کوئی سبب موجود ہو تو وہ نقصان پہنچ کر ہی رہتا ہے اور واقعہ میں جو نقصان پہنچا ہو اُسے نقصان ماننا ہی پڑتا ہے۔
اس کا پہلا نقصان یہ تھا کہ حالت سابقہ کے تحفظ کی کوششوں نے دین اور اس سے تعلق رکھنے والی قابل قدر چیزوں کے ساتھ ساتھ ا ن تمام کم زوریوں اور خرابیوں کا بھی پورا تحفظ کیا جو ہمارے دورِ انحطاط کے مذہبی تصورات اور مذہبی گروہوں میں موجود تھیں۔ یہ ملی جلی میراث جوں کی توں ہمارے حصے میں آئی ہے اور اب یہ ایک صحیح اسلامی انقلاب کے راستے میں ویسی ہی سخت رکاوٹ بن رہی ہے جیسی ہمارے مغربیت زدہ طبقوں کی ذہنیت بن رہی ہے۔
اس کا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے دین اور اخلاق اور تہذیب کے اصلی جوہر کی حفاظت جیسی ہونی چاہیے تھی، اس کے ذریعے سے نہ ہو سکی بلکہ وہ روز افزوں زوال میں مبتلا ہوتا چلا گیا۔ ظاہر ہے کہ سیلابوں کا مقابلہ سیلاب ہی کر سکتے ہیں، چٹانیں نہیں کر سکتیں۔ یہاں کوئی طاقت ایسی نہ تھی جو مغربی تہذیب کے سیلاب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کا کوئی سیلاب اٹھا سکتی۔ یہاں صرف ’’قدیم کی محافظت‘‘ پر اکتفا کیا گیا، اور اس ’’قدیم‘‘ میں اصل قابلِ حفاظت چیزوں کے ساتھ بہت سی ایسی چیزیں بھی شامل رکھی گئیں جو نہ زندگی کی طاقت رکھتی تھیں، نہ اس لائق تھیں کہ ان کی حفاظت کی جاتی اور نہ ان کے شمول سے یہ امید ہی کی جا سکتی تھی کہ ایک مخالف تہذیب کے مقابلے میں اس سے اسلام کی عزت قائم رہ سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ساٹھ ستر سال کی تاریخ پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو اس دوران میں ہم کو اسلام اور اس کی تہذیب آگے بڑھتی ہوئی نہیں بلکہ مسلسل پسپا ہوتی نظر آتی ہے۔ ہر سال اور ہر مہینے اور ہر دن کے حساب سے وہ دبتی اور سکڑتی رہی ہے، اور مغربی تہذیب بڑھتی اور پھیلتی گئی ہے۔ ہر دن جو ہم پر طلوع ہوا، اس طرح طلوع ہوا کہ مغرب کی ذہنی گمراہیوں اور اخلاقی گندگیوں اور عملی بدراہیوں نے ہماری زندگی کے کچھ مزید رقبے پر قبضہ کر لیا اور ہمارے دین اور اخلاق اور تہذیب نے کچھ مزید رقبہ کھو دیا۔ اس رفتار کو ہمارے مخافظین ِ طرزِ قدیم ایک لمحہ کے لیے بھی نہ روک سکے۔
اس کا تیسرا نقصان یہ ہوا کہ ہمارا مذہبی گروہ اسلام اور غیر اسلامی قدامت کے جس مرکب کی حفاظت کر رہا تھا اس کے اندر فکری اور عملی، دونوں حیثیتوں سے ہمارے اہلِ دولت اور اہلِ دماغ طبقوں کے لیے بہت کم کشش باقی رہ گئی ہے، بلکہ اس کی کشش روز بروز کم ہوتی چلی گئی۔ ایک طرف مخالف تہذیب دماغوں کو مسخر کرنے والے، دلوں کو موہ لینے والے اور نگاہوں کو خیرہ کر دینے والے ساز وسامان کے ساتھ بڑھی چلی آ رہی تھی۔ دوسری طرف اسلام کی نمائندگی ایسے مباحث، مسائل، مشاغل اور مظاہر کے ذریعے سے کی جا رہی تھی جو نہ دماغوں کو مطمئن کرتے تھے، نہ دلوں کواپیل کرتے تھے، نہ نگاہوں کو بھلے لگتے تھے۔ اس وجہ سے مادی وسائل اوردماغی صلاحیتیں رکھنے والے گروہ دین سے اپنی رہی سہی دل چسپی بھی کھوتے اور مغربی تہذیب میں جذب ہوتے چلے گئے اور مذہبیت کی میراث سنبھالنے کا کام بتدریج ہمارے اُن طبقوں کے لیے مخصوص ہوتا چلا گیا جو مادی، ذہنی اور معاشرتی حیثیت سے پست تر تھے۔ اس کا نقصان صرف اتنا ہی نہ ہوا کہ مذہبیت کا محاذ کم زور سے کم زور تر اورمغربیت کا محاذ قوی تر ہوتا رہا، بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر یہ نقصان ہوا کہ اسلام کی نمائندگی کا معیار علم وعقل اور زبان واخلاق، ہر اعتبار سے گرتا ہی چلا گیا یہاں تک کہ دین داری کی آبرو بچنی مشکل ہو گئی۔
آخری اور سب سے بڑا نقصان اس پالیسی سے یہ ہوا کہ مسلمانوں کی قیادت وراہ نمائی سے اہلِ دین بے دخل ہو گئے اور تعلیم، تمدن، معیشت اور سیاست ہر معاملے میں مسلمانوں کو راستہ دکھانا اور اپنے پیچھے لے کرچلنا اِن لوگوں کا کام ہو گیا جو نہ دین کو جانتے ہی ہیں اور نہ کوئی قدم دین سے پوچھ کر اٹھانے کی ضرورت ہی محسوس کرتے ہیں۔ انھوں نے ساری تعلیم مغربی طرز پر پائی ہے۔ ان کی زندگیاں مغربی نظامِ معیشت سے بنی ہیں۔ ان کی معاشرت مغربی سانچوں میں ڈھلی ہے، ان کے اخلاق مغربی قدروں اور اصولوں پرتعمیر ہوئے ہیں۔ انھوں نے شریعت مغرب کے لا کالجوں سے لی ہے اور اسی کی پریکٹس کی ہے۔ انھوں نے سیاست کے سارے اصول، اور رنگ ڈھنگ اور جوڑ توڑ مغرب سے سیکھے ہیں۔ اس سرچشمۂ ضلالت سے جو راہ نمائی انھوں نے پائی اسی پر وہ چلے اور ساری قوم کو اس پر چلایا، اور قوم پورے اعتماد سے ان کے پیچھے چلی۔ اہلِ دین کا اس سارے کاروبار میں اگر کوئی کام رہا تو یہ کہ یا تو گوشہ نشین ہو کر درس وتدریس اور ذکر وتسبیح میں مشغول رہیں، یا قومی قیادت پر جو بھی فائز ہو، اس کے دعاگو بن کر رہیں یا پھر سیاست کے میدان میں آئیں توکسی نہ کسی آگے چلنے والے کے پیچھے بے اثر خیمہ بردار کی حیثیت سے چلیں۔ کانگریس ہو یا مسلم لیگ، جس کی طرف بھی وہ گئے پیرو بن کر گئے۔ کسی پالیسی کے بنانے میں ان کا کوئی حصہ نہ رہا۔ کسی بڑی سے بڑی گمراہی کو بھی وہ نہ روک سکے نہ اس پر ٹوک ہی سکے۔ ان کا کام اس کے سوا کچھ نہ رہا کہ جو پالیسی بھی دین سے بے نیاز یا دین کے مخالف لیڈر بنا دیں اس کو یہ برکت دیں اور مسلمانوں کو اطمینان دلائیں کہ یہی قرآن وحدیث میں بھی لکھا ہے یا کم ازکم یہ کہ اس میں ان کے دین کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ بیماری بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ سیکولرزم تک کو ہماری بہت سی مقدس مذہبی بارگاہوں سے برکت مل گئی۔ بے اثر لوگوں کے معاملے میں تو ان کی دینی حس اتنی تیز ہے کہ ان کی ساری دین داری پر ایک ڈاڑھی کے طول کی کمی پانی پھیر دیتی ہے، اور چند غیر منصوص فقہی جزئیات میں ان سے ذرا سا اختلاف بھی ہو جائے تو وہ ہادمِ دین قرار پاتے ہیں۔ مگر جن کے پیچھے ایک دفعہ ساری قوم مل کر زندہ باد کا نعرہ لگا دے، یا جن کو سیاسی طاقت نصیب ہو جائے ان کو یہ تمام رخصتوں کا مستحق سمجھتے ہیں چاہے ان کے ہاتھوں پورے دین کی عمارت ہی متزلزل ہو رہی ہو۔
ہم کیا چاہتے ہیں؟
حضرات! یہ ہے تفصیلی جائزہ ہماری پچھلی تاریخ کا اور ہماری موجودہ حالت کا۔ یہ جائزہ میں نے کسی کو مطعون کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے پیش کیا ہے کہ آپ موجودہ صورت حال اور اس کے تاریخی اسباب کی اچھی طرح تشخیص کر لیں اور اس لائحہ عمل کو ٹھیک ٹھیک جانچ سکیں جو ہم نے محض اللّٰہ کی توفیق وتائید کے اعتماد پر ان حالات میں پاکستان کی اصلاح کے لیے، اور اس کو بالآخر اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا علم بردار بنانے کے لیے اختیار کیا ہے۔
میری ان گزارشات سے آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ خرابی کا دائرہ کتنا وسیع ہے اور کس طرح ہماری قومی زندگی کے ہرشعبے میں پھیلا ہوا ہے اور اب میری اس تقریر سے آپ یہ بھی معلوم کر چکے ہیں کہ جو خرابیاں بھی آج پائی جاتی ہیں ان میں سے ہر ایک کن کن اسباب سے نشوونما پاتی ہوئی بتدریج اس حالت تک پہنچی ہے، اور اس کی جڑ ہماری تاریخ اور روایات اور نظامِ تعلیم وتمدن وسیاست میں کتنی گہری ہے اور مختلف شعبوں کی یہ ساری خرابیاں کس طرح مل جل کر ایک دوسرے کو سہارا دے رہی ہیں۔ اس کے بعد میں نہیں سمجھتا کہ کسی صاحبِ بصیرت آدمی کو یہ تسلیم کرنے میں کچھ بھی تامل ہو گا کہ ان حالات میں جزوی اصلاح کی کوئی تدبیر نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔ آپ دینی مدارس کھول کر یا کلمہ ونماز کی تبلیغ کرکے، یا فسق و فجور کے خلاف وعظ وتلقین کرکے، یا گمراہ فرقوں کے خلاف مورچے لگا کرزیادہ سے زیادہ اگرچہ کچھ حاصل کر سکتے ہیں تو بس یہ کہ دین جس رفتار سے مٹ رہا ہے اس میں کچھ سستی پیدا کر دیں اور دینی زندگی کو سانس لینے کے لیے کچھ دن زیادہ مل جائیں۔ لیکن یہ امید آپ ان تدبیروں سے نہیں کر سکتے کہ اللّٰہ کا کلمہ بلند ہو جائے اور اس کے مقابلے میں جاہلیت کے کلمے پست ہو کر رہ جائیں، اس لیے کہ جو اسباب اس وقت تک اللّٰہ کے کلمے کو پست اور جاہلیت کے کلموں کوبلند کرتے رہے ہیں وہ سب بدستور موجود رہیں گے۔ اسی طرح اگر آپ چاہیں کہ موجودہ نظام تو ان ہی بنیادوں پر قائم رہے مگر اخلاق، یا معاشرت، یا معیشت،یا نظم ونسق، یا سیاست کی موجودہ خرابیوں میں سے کسی کی اصلاح ہو جائے، تو یہ بھی کسی تدبیر سے ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ ان میں سے ہر چیز موجودہ نظامِ زندگی کی بنیادی خرابیوں کی آفریدہ اور پروردہ ہے اور ہر خرابی کو دوسری بہت سی خرابیوں سے سہارا مل رہا ہے۔ ایسے حالات میں ایک جامع فساد کو رفع کرنے کے لیے ایک جامع پروگرام ناگزیر ہے جو جڑ سے لے کر شاخوں تک پورے توازن کے ساتھ اصلاح کا عمل جاری کرے۔
وہ پروگرام کیا ہو؟ اور ہمارے نزدیک وہ کیا ہے؟ اسی پراب میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں مگر اس پر گفتگو شروع کرنے سے پہلے ایک سوال کا جواب ملنا ضروری ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ آپ فی الواقع چاہتے کیا ہیں؟ یا زیادہ صحیح الفاظ میں آپ میں سے کون کیا چاہتا ہے؟
یَک سُوئی کی ضرورت
حقیقت یہ ہے کہ ہم اب ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جہاں مسلسل تجربے نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ اسلام اور جاہلیت کا یہ ملا جلا مرکب، جواَب تک ہمارا نظامِ حیات بنا رہا ہے، زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ یہ اگر چلتا رہا تو دنیا میں بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہو گا اور آخرت میں بھی، اس لیے کہ اس کی وجہ سے ہم اس حالت میں مبتلا ہیں کہ
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
نہ ہم امریکہ اور روس اور انگلستان کی طرح پوری یک سوئی کے ساتھ اپنی دنیا ہی بنا سکتے ہیں، کیوں کہ ایمان واسلام سے ہمارا جو تعلق قائم ہے وہ ہمیں اس راستے پر بے محابا نہیں چلنے دیتا اور نہ ہم ایک سچی مسلمان قوم کی طرح اپنی آخرت ہی بنا سکتے ہیں، کیوں کہ یہ کام ہمیں وہ جاہلیت نہیں کرنے دیتی جس کے بے شمار فتنے ہم نے اپنے اندر پال رکھے ہیں۔ اس دودلی کی وجہ سے ہم کسی چیز کا حق بھی پوری طرح ادا نہیں کرسکتے نہ دنیا پرستی کا، نہ خدا پرستی کا۔ اس کی وجہ سے ہمارا ہر کام، خواہ دینی ہو یا دنیوی، دو متضاد افکار اور رجحانات کی رزم گاہ بنا رہتا ہے، جن میں سے ہر ایک دوسرے کا توڑ کرتا ہے اور کسی فکر ورجحان کے مطالبے بھی کماحقہٗ پورے نہیں ہونے پاتے۔ یہ حالت بہت جلد ختم کر دینے کے لائق ہے اگر ہم اپنے دشمن نہیں ہیں تو ہمیں بہرحال یکسو ہوجانا چاہیے۔
اس یک سُوئی کی صرف دو ہی صورتیں ممکن ہیں اور ہم کو دیکھنا ہے کہ ہم میں سے کون کس صورت کو پسند کرتا ہے۔
اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ہمارے سابق حکم رانوں نے اور ان کی غالب تہذیب نے جس راستے پر اس ملک کو ڈالا تھا، اسی کو اختیار کر لیا جائے اورپھر خدا اورآخرت اور دین اور دینی تہذیب واخلاق کا خیال چھوڑ کر ایک خالص مادہ پرستانہ تہذیب کو نشوونما دیا جائے تاکہ یہ ملک بھی ایک دوسرا روس یا امریکہ بن سکے۔ مگر علاوہ اس کے کہ یہ راہ غلط ہے، خلافِ حق ہے اور تباہ کُن ہے، میں کہوں گا کہ پاکستان میں اس کا کام یاب ہونا ممکن بھی نہیں ہے اس لیے کہ یہاں کے نفسیات اور روایات میں اسلام کی مَحبّت اور عقیدت اتنی گہری جڑیں رکھتی ہے کہ انھیں اکھاڑ پھینکنا کسی انسانی طاقت کے بس کا کام نہیں ہے۔ تاہم جو لوگ اس راستے پرجانا چاہتے ہیں وہ میری اس گفتگو کے مخاطب نہیں ہیں۔ ان کے سامنے ہم اپنا پروگرام نہیں بلکہ جنگ کا الٹی میٹم پیش کرنا چاہتے ہیں۔
یَک سُوئی کی دوسری صورت یہ ہے کہ ہم انفرادی اور قومی زندگی کے لیے اس راہ کوانتخاب کر لیں جو قرآن اور سنتِ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ہم کو دکھائی ہے۔ یہی ہم چاہتے ہیں، اور یہی ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی مسلم آبادی کے کم از کم ۹۹۹ فی ہزار باشندے چاہتے ہیں اور یہی ہراس شخص کو چاہنا چاہیے جو خدا اور رسولؐ کو مانتا ہو اور موت کے بعد کی زندگی کا قائل ہو، مگر جو لوگ بھی اس راہ کے پسند کرنے والے ہوں انھیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جن حالات سے ہم گزرتے ہوئے آ رہے ہیں، اور جن میں اس وقت ہم گھرے ہوئے ہیں ان میں تنہا اسلام اور خالص اسلام کو پاکستان کا راہ نما فلسفۂ حیات اور غالب نظامِ زندگی بنانا کوئی آسان کام نہیں۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام اور غیر اسلامی قدامت کی اُس آمیزش کو جسے صدیوں کی روایات نے پختہ کر رکھا ہے، تحلیل کریں اورقدامت کے اجزا کو الگ کرکے خاص اسلام کے اس جوہر کو لے لیں جو قرآن اور سنت کے معیار پر جوہر اسلام ثابت ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ کام ہمارے ان گروہوں کی مزاحمت اور سخت مزاحمت کے بغیر نہیں ہو سکتا جو قدامت کے کسی نہ کسی جز کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے ہیں۔
اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم مغرب کی حقیقی تمدنی وعلمی ترقیات کو اس کے فلسفۂ حیات اور اندازِ فکر اور اخلاق ومعاشرت کی گمراہیوں سے الگ کریں اور پہلی چیز کو لے کر دوسری چیز کو بالکلیہ اپنے ہاں سے خارج کردیں۔ ظاہر ہے کہ اسے ہمارے وہ گروہ برداشت نہیں کر سکتے جنھوں نے خالص مغربیت کو، یا اسلام کے کسی نہ کسی مغربی ایڈیشن کو اپنا دین بنا رکھا ہے۔
اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے لوگ فراہم ہوں اور منظم طریقے سے کام کریں جو اسلامی ذہنیت کے ساتھ تعمیری صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں اور پھر مضبوط سیرت اور صالح اخلاق اور مستحکم ارادے کے مالک بھی ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہ جنس ہمارے ہاں ویسے ہی کمیاب ہے، پھر اس دل گردے کے لوگ آخر کہاں آسانی سے ملا کرتے ہیں جو سیاسی اور معاشی چوٹ بھی سہیں، فتووں کی مار بھی برداشت کریں، اور جھوٹے الزامات کی چوطرفہ بارش کا بھی مقابلہ پورے صبر وسکون کے ساتھ کرتے چلے جائیں۔
ان سب شرطوں کے بعد بھی یہ ضروری ہے کہ اسلام کو نظامِ غالب بنانے کی تحریک اسی طرح ایک ہمہ گیر سیلاب کے مانند اٹھے جس طرح مغربی تہذیب یہاں سیلاب کے مانند آئی اور زندگی کے ہر شعبے پر چھا گئی۔ اس ہمہ گیری اور سیلابیت کے بغیر نہ یہ ممکن ہے کہ مغربی تہذیب کو غلبہ و اقتدار سے بے دخل کیا جاسکے، اور نہ ہی یہی ممکن ہے کہ نظامِ تعلیم، نظامِ قانون، نظامِ معیشت اور نظامِ سیاست کو بدل کر ایک دوسرا تمدن خالص اسلامی بنیادوں پر تعمیر کیا جا سکے۔
یہی کچھ ہم چاہتے ہیں۔ ہمارے پیش نظر برِ عظیم ہندو پاکستان کے مسلمانوں کی پرانی تہذیب کا احیا نہیں بلکہ اسلام کا احیا ہے۔ ہم علومِ جدیدہ اور ان کی پیدا کی ہوئی ترقیات کے مخالف نہیں بلکہ اس نظامِ تہذیب وتمدن کے باغی ہیں جو مغربی فلسفۂ زندگی اور فلسفۂ اخلاق کا پیدا کردہ ہے۔ ہم دو دو اور چار چار آنے والے ممبر بھرتی کرکے کوئی سیاسی کھیل کھیلنا نہیں چاہتے بلکہ اپنی قوم میں سے چھانٹ چھانٹ کر ایسے لوگوں کو منظم کرنا چاہتے ہیں جو قرآن وسنت کے حقیقی اسلام کو یہاں کا غالب نظامِ زندگی بنانے کے لیے قدامت اور جدت دونوں سے لڑنے پر تیار ہوں، ہم زندگی کے کسی ایک جز یا بعض اجزا میں کچھ اسلامی رنگ پیدا کر دینے کے قائل نہیں بلکہ اس بات کے درپے ہیں کہ پورا اسلام پوری زندگی پر حکم ران ہو… انفرادی سیرتوں اور گھر کی معاشرت پر حکمران ہو۔ تعلیم کے اداروں پر حکمران ہو، قانون کی عدالتوں پر حکمران ہو، سیاست کے ایوانوں پر حکمران ہو نظم ونسق کے محکموں پر حکم ران ہو اور معاشی دولت کی پیداوار اور تقسیم پر حکمران ہوں۔ اسلام کے اس ہمہ گیر تسلط ہی سے یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ پاکستان یک سُو ہو کر ان روحانی، اخلاقی اور مادّی فوائد سے پوری طرح متمتع ہو جو رب العالمین کی دی ہوئی ہدایت پر چلنے کا لازمی اور فطری نتیجہ ہیں اور پھر اسی سے یہ اُمید کی جا سکتی ہے کہ یہ ملک تمام مسلم ممالک کے لیے دعوت الی الخیر کا اور تمام دنیا کے لیے ہدایت کا مرکز بن جائے۔
ہمارا لائحۂ عمل
ہمارے اس مقصد کو سمجھ لینے کے بعد کسی کو ہمارے لائحۂ عمل کے سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آ سکتی۔ اس کے چار بڑے بڑے اجزا ہیں جنھیں میں الگ الگ بیان کروں گا۔
۱۔ اس کا پہلا جز تطہیر افکار وتعمیر افکار ہے۔ یہ تطہیر وتعمیر اس مقصد کو سامنے رکھ کر ہونی چاہیے کہ ایک طرف غیر اسلامی قدامت کے جنگل کو صاف کرکے اصلی اور حقیقی اسلام کی شاہراہِ مستقیم کو نمایاں کیا جائے، دوسری طرف مغربی علوم وفنون اور نظامِ تہذیب وتمدن پر تنقید کرکے بتایا جائے کہ اس میں کیا کچھ غلط اور قابلِ ترک ہے اور کیا کچھ صحیح اور قابلِ اخذ، اور تیسری طرف وضاحت کے ساتھ یہ دکھایا جائے کہ اسلام کے اصولوں کو زمانۂ حال کے مسائل ومعاملات پر منطبق کرکے ایک صالح تمدن کی تعمیر کس طرح ہو سکتی ہے اور اس میں ایک ایک شعبۂ زندگی کا نقشہ کیا ہو گا۔ اس طریقے سے خیالات بدلیں گے اور ان کی تبدیلی سے زندگیوں کا رُخ پھرنا شروع ہو گا اور ذہنوں کو تعمیرِ نو کے لیے فکری غذا بہم پہنچے گی۔
۲۔ اس کا دوسرا جز صالح افراد کی تلاش، تنظیم اور تربیت ہے۔ اس غرض کے لیے ضروری ہے کہ ان آبادیوں میں سے اُن مردوں اور عورتوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا جائے جو پُرانی اور نئی خرابیوں سے پاک ہوں یا اب پاک ہونے کے لیے تیار ہوں۔ جن کے اندر اصلاح کا جذبہ موجود ہو۔ جو حق کو حق مان کر اس کے لیے وقت، مال اور محنت کی کچھ قربانی کرنے پر بھی آمادہ ہوں۔ خواہ وہ نئے تعلیم یافتہ ہوں یا پرانے، خواہ وہ عوام میں سے ہوں یا خواص میں سے، خواہ وہ غریب ہوں یا امیر یا متوسط، ایسے لوگ جہاں کہیں بھی ہوں انھیں گوشۂ عافیت سے نکال کر میدانِ سعی وعمل میں لانا چاہیے تاکہ ہمارے معاشرے میں جو ایک صالح عنصر بچا کھچا موجود ہے، مگر منتشر ہونے کی وجہ سے، یا جزوی اصلاح کی پراگندہ کوششیں کرنے کی وجہ سے کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر رہا ہے، وہ ایک مرکز پر جمع ہو اور ایک حکیمانہ پروگرام کے مطابق اصلاح وتعمیر کے لیے منظم کوشش کر سکے۔
پھر ضرورت ہے کہ اس طرح کا ایک گروہ بنانے پر ہی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ ساتھ ساتھ ان لوگوں کی ذہنی واخلاقی تربیت بھی کی جائے تاکہ ان کی فکر زیادہ سے زیادہ سلجھی ہوئی ہو اور ان کی سیرت زیادہ سے زیادہ پاکیزہ، مضبوط اور قابلِ اعتماد ہو۔ ہمیں یہ حقیقت کبھی نہ بھولنی چاہیے کہ اسلامی نظام محض کاغذی نقشوں اور زبانی دعوئوں کے بل پر قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کے قیام اور نفاذ کا سارا انحصار اس پر ہے کہ آیا اس کی پشت پر تعمیری صلاحیتیں اورصالح انفرادی سیرتیں موجود ہیں یا نہیں۔ کاغذی نقشوں کی خامی تو اللّٰہ کی توفیق سے علم اور تجربہ ہر وقت رفع کر سکتا ہے لیکن صلاحیت اورصالحیت کا فقدان سرے سے کوئی عمارت اٹھا ہی نہیں سکتا اور اٹھا بھی لے تو سہار نہیں سکتا۔
۳۔ اس کا تیسرا جز ہے اجتماعی اصلاح کی سعی۔ اس میں سوسائٹی کے ہر طبقے کی اس کے حالات کے لحاظ سے اصلاح شامل ہے، اور اس کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہو سکتا ہے جتنے کام کرنے والوں کے ذرائع وسیع ہوں۔ اس غرض کے لیے کارکنوں کو ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے مختلف حلقوں میں تقسیم کرنا چاہیے اور ہر ایک کے سپرد وہ کام کرنا چاہیے جس کے لیے وہ اہل تر ہو۔ ان میں سے کوئی شہری عوام میں کام کرے اور کوئی دیہاتی عوام میں۔ کوئی کسانوں کی طرف متوجہ ہو اور کوئی مزدوروں کی طرف۔ کوئی متوسط طبقے کو خطاب کرے اور کوئی اونچے طبقے کو۔ کوئی ملازمین کی اصلاح کے لیے کوشاں ہو اور کوئی تجارت پیشہ اور صنعت پیشہ لوگوں کی اصلاح کے لیے۔ کسی کی توجہ پرانی درس گاہوں کی طرف ہو اور کسی کی نئے کالجوں کی طرف۔ کوئی جمود کے قلعوں کو توڑنے میں لگ جائے اور کوئی الحاد وفسق کے سیلاب کو روکنے میں، کوئی شعر وادب کے میدان میں کام کرے اورکوئی علم وتحقیق کے میدان میں۔ اگرچہ ان سب کے حلقہ ہائے کار الگ ہوں، مگر سب کے سامنے ایک ہی مقصد اور ایک ہی اسکیم ہو جس کی طرف وہ قوم کے سارے طبقوں کو گھیر کر لانے کی کوشش کریں۔ ان کا متعین نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ اس ذہنی، اخلاقی اور عملی انارکی کو ختم کیا جائے جو پرانے جمودی اور نئے انفعالی رجحانات کی وجہ سے ساری قوم میں پھیلی ہوئی ہے، اور عوام سے لے کر خواص تک، سب میں صحیح اسلامی فکر، اسلامی سیرت، اور سچے مسلمانوں کی سی عملی زندگی پیدا کی جائے۔
یہ کام صرف وعظ وتلقین اور نشرواشاعت اور شخصی ربط ومکالمہ ہی سے نہیں ہونا چاہیے، بلکہ مختلف سمتوں میں باقاعدہ تعمیری پروگرام بنا کر پیش قدمی کرنی چاہیے۔ مثلاً یہ عاملینِ اصلاح جہاں کہیں اپنی تبلیغ سے چند آدمیوں کو ہم خیال بنانے میں کام یاب ہوجائیں وہاں وہ انھیں ملا کر ایک مقامی تنظیم قائم کر دیں اور پھر ان کی مدد سے ایک پروگرام کو عمل میں لانے کی کوشش شروع کر دیں جس کے چند اجزا یہ ہیں:
بستی کی مسجدوں کی اصلاحِ حال، عام باشندوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کرانا۔ تعلیمِ بالغاں کا انتظام۔ کم از کم ایک دارالمطالعہ کا قیام۔ لوگوں کو ظلم وستم سے بچانے کے لیے اجتماعی جدوجہد۔ باشندوں کے تعاون سے صفائی اور حفظانِ صحت کی کوشش۔ بستی کے یتیموں، بیوائوں، معذوروں اور غریب طالب علموں کی فہرستیں مرتب کرنا اور جن جن طریقوں سے ممکن ہو ان کی مدد کا انتظام کرنا۔ اور اگر ذرائع فراہم ہو جائیں تو کوئی پرائمری اسکول، یا ہائی اسکول یا مذہبی تعلیم کا ایسا مدرسہ قائم کرنا جس میں تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت کا بھی انتظام ہو۔
اسی طرح مثلاً جو لوگ مزدوروں میں کام کریں وہ ان کو اشتراکیت کے زہر سے بچانے کے لیے صرف تبلیغ ہی پر اکتفا نہ کریں، بلکہ عملاً ان کے مسائل کو حل کرنے کی سعی بھی کریں۔ انھیں ایسی مزدور تنظیمات قائم کرنی چاہئیں جن کا مقصد انصاف کا قیام ہو نہ کہ ذرائعِ پیداوار کو قومی ملکیت بنانا۔ ان کا مسلک جائز اورمعقول حقوق کے حصول کی جدوجہد ہو نہ کہ طبقاتی کشمکش… ان کا طریقِ کار اخلاقی اور آئینی ہو نہ کہ توڑ پھوڑ اور تخریب۔ ان کے پیشِ نظر صرف اپنے حقوق ہی نہ ہوں بلکہ اپنے فرائض بھی ہوں۔ جو مزدود یا کارکن بھی ان میں شامل ہوں ان پر یہ شرط عائد ہونی چاہیے کہ وہ ایمانداری کے ساتھ اپنے حصے کا فرض ضرورادا کریں گے۔ پھر ان کا دائرۂ عمل صرف اپنے طبقے کے مفاد تک ہی محدود نہ ہونا چاہیے بلکہ یہ تنظیمات جس طبقے سے بھی تعلق رکھتی ہوں اس کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی حالت کو بھی درست کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔
اس عمومی اصلاح کے پورے لائحۂ عمل کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو شخص جس حلقے اور طبقے میں بھی کام کرے مسلسل اورمنظم طریقے سے کرے اور اپنی سعی کو ایک نتیجے تک پہنچائے بغیرنہ چھوڑے۔ ہمارا طریقہ یہ نہ ہونا چاہیے کہ ہوا کے پرندوں اور آندھی کے جھکڑوں کی طرح بیج پھینکتے چلے جائیں۔ اس کے برعکس ہمیں کسان کی طرح کام کرنا چاہیے جو ایک متعین رقبے کو لیتا ہے، پھر زمین کی تیاری سے لے کر فصل کی کٹائی تک مسلسل کام کرکے اپنی محنتوں کو ایک نتیجے تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔ پہلے طریقے سے جنگل پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے طریقے سے باقاعدہ کھیتیاں تیار ہوا کرتی ہیں۔
۴۔ اس لائحۂ عمل کا چوتھا جز نظامِ حکومت کی اصلاح ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کے موجودہ بگاڑ کو دُور کرنے کی کوئی تدبیر بھی کام یاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ اصلاح کی دوسری کوششوں کے ساتھ ساتھ نظامِ حکومت کو درست کرنے کی کوشش بھی نہ کی جائے۔ اس لیے کہ تعلیم اور قانون اور نظم ونسق اور تقسیمِ رزق کی طاقتوں کے بل پر جو بگاڑ اپنے اپنے اثرات پھیلا رہا ہو اس کے مقابلے میں بنائو اور سنوار کی وہ تدبیریں جو صرف وعظ اور تلقین اور تبلیغ کے ذرائع پر منحصر ہوں، کبھی کارگر نہیں ہو سکتیں۔ لہٰذا اگر ہم فی الواقع اپنے ملک کے نظامِ زندگی کو فسق وضلالت کی راہ سے ہٹا کر دینِ حق کی صراطِ مستقیم چلانا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ مسندِ اقتدار سے ہٹانے اور بنائو کو اس کی جگہ متمکن کرنے کی براہِ راست کوشش کریں۔ ظاہر ہے کہ اگر اہلِ خیر وصلاح کے ہاتھ میں اقتدار ہو تو وہ تعلیم اور قانون اور نظم ونسق کی پالیسی کو تبدیل کرکے چند سال کے اندر وہ کچھ کر ڈالیں گے جو غیر سیاسی تدبیروں سے ایک صدی میں بھی نہیں ہو سکتا۔
یہ تبدیلی کس طرح ہو سکتی ہے؟ ایک جمہوری نظام میں اس کا راستہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے انتخابات کا راستہ۔ رائے عام کی تربیت کی جائے، عوام کے معیار انتخابات کو بدلا جائے، انتخاب کے طریقوں کی اصلاح کی جائے، اور پھر ایسے صالح لوگوں کو اقتدار کے مقام پر پہنچایا جائے جو ملک کے نظام کو خالص اسلام کی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں اور قابلیت بھی۔
ہماری تشخیص یہ ہے کہ اس ملک کے سیاسی نظام کی خرابیوں کا بنیادی سبب یہاں کے طریقِ انتخاب کی خرابی ہے۔ جب انتخاب کا موسم آتا ہے تو منصب وجاہ کے خواہشمند لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور دوڑ دھوپ کرکے یا تو کسی پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرتے ہیں یا آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے اپنے لیے کوشش شروع کر دیتے ہیں۔ اس کوشش میں وہ کسی اخلاق اور کسی ضابطے کے پابند نہیں ہوتے۔ کسی جھوٹ، کسی فریب، کسی چال، کسی دبائو اور کسی ناجائز سے ناجائز ہتھکنڈے کے استعمال میں بھی ان کو دریغ نہیں ہوتا۔ جسے لالچ دیا جا سکتا ہو اس کا ووٹ لالچ سے خریدتے ہیں جسے دھمکی سے مرعوب کیا جا سکتا ہے اسے مرعوب کرکے ووٹ حاصل کرتے ہیں۔ جسے دھوکا دیا جا سکتا ہے اس کا ووٹ دھوکے سے لیتے ہیں اور جس کو کسی تعصب کی بنا پر اپیل کیا جا سکتا ہے اس کا ووٹ تعصب کے نام پرمانگتے ہیں۔ اس گندے کھیل کے میدان میں قوم کے شریف عناصر اوّل تو اترتے ہی نہیں، اور بھولے بھٹکے اگر وہ کبھی اتر آتے ہیں تو پہلے ہی قدم پر انھیں میدان چھوڑ دینا پڑتا ہے۔ مقابلہ صرف ان لوگوں کے درمیان رہ جاتا ہے جنھیں نہ خدا کا خوف ہو نہ خلق کی شرم، اور نہ کوئی بازی کھیل جانے میں کسی طرح کا باک۔ پھر ان میں سے کام یاب ہو کر وہ نکلتا ہے جو سب جھوٹوں کو جھوٹ میں اور سب چال بازوں کو چال بازی میں شکست دے دے۔ رائے دینے والی پبلک جس کے ووٹوں سے یہ لوگ کام یاب ہوتے ہیں، نہ اصولوں کو جانچتی ہے، نہ پروگراموں کو پرکھتی ہے، نہ سیرتوں اورصلاحیتوں کودیکھتی ہے۔ اس سے جو بھی زیادہ ووٹ جھپٹ لے جائے وہ بازی جیت لیتا ہے۔ بلکہ اب تو اس کے حقیقی ووٹوں کی اکثریت بھی کوئی چیز نہیں رہی ہے۔ کرائے پر ووٹ دینے والے جعلی ووٹر، اور بد دیانت پولنگ افسر اپنے ہاتھوں کے کرتب سے بارہا ان لوگوں کو شکست دے دیتے ہیں جن کو اصلی رائے دہندوں کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ بسا اوقات انتخاب کی نوبت بھی نہیں آنے پاتی۔ ایک بے ضمیر مجسٹریٹ کسی ذاتی دل چسپی کی بِنا پر یا کسی کا اشارہ پا کر تمام امیدواروں کو بیک جنبشِ قلم میدان سے ہٹا دیتا ہے اور منظورِ نظر آدمی بلا مقابلہ پورے حلقۂ انتخاب کا نمائندہ بن جاتا ہے خواہ وہ واقعی نمائندہ ہو یا نہ ہو۔
ہر شخص جو کچھ بھی عقل رکھتا ہے، ان حالات کو دیکھ کر خود یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ جب تک یہ طریقِ انتخاب جاری ہے، کبھی قوم کے شریف اور نیک اور ایمان دار آدمیوں کے ابھرنے کا امکان ہی نہیں ہے۔ اس طریقے کا تو مزاج ہی ایسا ہے کہ قوم کے بدتر سے بدتر عناصر چھٹ کر سطح پر آئیں اورجس بداخلاقی وبدکرداری سے وہ انتخاب جیتتے ہیں اسی کی بنیاد پر وہ ملک کا انتظام چلائیں۔
یہ طریقے یکسر بدل دینے کے لائق ہیں۔ ان کے بجائے دوسرے کیا طریقے ہو سکتے ہیں جن کے ذریعے سے بہتر آدمی اوپر آ سکیں؟ ان کی ایک مختصر سی تشریح میں آپ کے سامنے کرتا ہوں۔ آپ خود دیکھ لیں کہ آیا ان طریقوں سے نظامِ حکومت کی اصلاح کی توقع کی جا سکتی ہے یا نہیں؟
اوّل یہ کہ انتخابات اصولوں کی بنیاد پر ہوں نہ کہ شخصی یا علاقائی یا قبائلی مفادات کی بنیاد پر۔
دوم یہ کہ لوگوں کو ایسی تربیت دی جائے جس سے وہ یہ سمجھنے کے قابل ہو سکیں کہ ایک اصلاحی پروگرام کو نافذ کرنے کے لیے کس قسم کے آدمی موزوں ہو سکتے ہیں اور ان میں کیا اخلاقی صفات اور ذہنی صلاحیتیں ہونی چاہئیں۔
سوم یہ کہ لوگوں کے خود امیدوار بن کرکھڑے ہونے اور خود روپیہ صرف کرکے ووٹ حاصل کرنے کا طریقہ بند ہونا چاہیے کیوں کہ اس طرح بالعموم صرف خود غرض لوگ ہی منتخب ہو کر آئیں گے۔ اس کے بجائے کوئی ایسا طریقہ ہونا چاہیے جس سے ہر حلقۂ انتخاب کے شریف ومعقول لوگ سرجوڑ کر بیٹھیں۔ کسی موزوں آدمی کو تلاش کرکے اس سے درخواست کریں کہ وہ ان کی نمائندگی کے لیے تیارہو اور پھر خود دوڑ دھوپ کرکے اور اپنا مال صرف کرکے اسے کام یاب کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح جو لوگ منتخب ہوں گے وہی بے غرض ہو کر اپنے نفس کے لیے نہیں بلکہ ملک کی بہتری کے لیے کام کریں گے۔
چہارم یہ کہ جس شخص کو اس طرح کی کوئی پنچایت اپنے علاقے کی نمائندگی کے لیے تجویز کرے اس سے برسرِ عام یہ عہد لیا جائے کہ وہ پنچایت کے منظور کیے ہوئے منشور کا پابند رہے گا، پارلیمنٹ میں پہنچ کر ان لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرے گا، جو اسی منشور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اسی طریقے پر کام یاب ہو کر دوسرے علاقوں سے وہاں پہنچیں اور جب کبھی پنچایت اس پراظہارِ بے اعتمادی کرے، وہ مستعفی ہو کر واپس آ جائے گا۔
پنجم یہ کہ پنچایت کے جو کارکن اس شخص کو کام یاب کرانے کی جدوجہد کریں ان سے قسم لی جائے کہ وہ اخلاق کے حدود اور انتخابی ضوابط کی پوری پابندی کریں گے۔ کسی تعصب کے نام پر اپیل نہ کریں گے۔ کسی کے جواب میں بھی جھوٹ اور بہتان تراشی اور چال بازیوں سے کام نہ لیں گے۔ کوئی جعلی ووٹ نہ بھگتائیں گے۔ خواہ جیتیں یا ہاریں، بہرحال شروع سے آخر تک پوری انتخابی جنگ صداقت اور دیانت کے ساتھ بالکل بااصول طریقے سے لڑیں گے۔
میرا خیال یہ ہے کہ اگر اس ملک کے انتخابات میں ان پانچ طریقوں کو آزمایا جائے تو جمہوریت کو قریب قریب بالکل پاک کیا جا سکتا ہے اور بدکردار لوگوں کے لیے برسرِ اقتدار آنے کے دروازے بند کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کے بہتر نتائج پہلے ہی قدم پر ظاہر ہو جائیں لیکن اگر اس رُخ پرایک دفعہ انتخابات کو ڈال دیا جائے تو جمہوریت کا مزاج یکسر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ ان طریقوں سے نظامِ حکومت کی واقعی تبدیلی میں پچیس تیس سال صرف ہو جائیں، یا اس سے بھی زیادہ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ تبدیلی کا صحیح راستہ یہی ہے اور جو تبدیلی اس طریقے سے ہو گی وہ ان شاء اللّٰہ پائیدار ومستحکم ہو گی۔
حضرات! میں نے ا س تقریر میں مرض اور اسبابِ مرض کی پوری تشخیص وتشریح آپ کے سامنے رکھ دی ہے، طریقِ علاج بھی بیان کر دیا ہے، اوروہ مقصد بھی پیش کر دیا ہے جس کے لیے ہم علاج کی یہ کوششیں کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد یہ رائے قائم کرنا آپ کا اپنا کام ہے کہ میری باتیں کہاں تک قابلِ قبول ہیں۔
٭…٭…٭…٭…٭
اِسلام کا نظامِ حیات
(۱) اِسلام کا اَخلاقی نظام
(یہ تقریر ۶ /جنوری ۱۹۴۸ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)
انسان کے اندر اَخلاقی حِس ایک فطری حِس ہے جو بعض صفات کو پسند اور بعض دوسری صفات کو نا پسند کرتی ہے۔ یہ حِس انفرادی طور پر اشخاص میں چاہے کم و بیش ہو مگر مجموعی طور پر انسانیت کے شعور نے اَخلاق کے بعض اوصاف پر خوبی کا اور بعض پر بُرائی کا ہمیشہ یکساں حکم لگایا ہے۔ سچائی، انصاف، پاسِ عہد اور امانت کو ہمیشہ سے انسانی اَخلاقیات میں تعریف کا مستحق سمجھا گیا ہے اور کبھی کوئی ایسا دَور نہیں گزرا جب جھوٹ، ظلم، بدعہدی اورخیانت کو پسند کیا گیا ہو۔ ہم دردی، رحم، فیاضی اور فراخ دلی کی ہمیشہ قدر کی گئی ہے، اور خود غرضی، سنگ دلی، بخل اور تنگ نظری کو کبھی عزت کا مقام حاصل نہیں ہوا۔ صبر و تحمل، اَخلاق و بُردباری، اولواالعزمی و شجاعت ہمیشہ سے وہ اوصاف رہے ہیں‘ جو داد کے مستحق سمجھے گئے اور بے صبری، چھچھورپن، تلوّن مزاجی‘ پست حوصلگی اور بزدلی پر کبھی تحسین و آفرین کے پھول نہیں برسائے گئے۔ ضبطِ نفس، خود داری، شائستگی اور ملنساری کا شمار ہمیشہ سے خوبیوں ہی میں ہوتا رہا ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بندگیِ نفس، کم ظرفی، بدتمیزی اور کج خلقی نے اَخلاقی محاسن کی فہرست میں جگہ پائی ہو۔ فرض شناسی، وفا شعاری‘ مستعدی اور احساسِ ذمہ داری کی ہمیشہ عزت کی گئی ہے اور فرض ناشناس، بے وفا، کام چور اور غیر ذمہ دار لوگوں کو کبھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ اسی طرح اجتماعی زندگی کے اچھے اور بُرے اوصاف کے معاملے میں بھی انسانیت کا معاملہ تقریباً متفق علیہ ہی رہا ہے۔ قدر کی مستحق ہمیشہ وہی سوسائٹی رہی ہے جس میں نظم و انضباط ہو‘ تعاون اور امدادِ باہمی ہو، آپس کی مَحبّت اور خیر خواہی ہو‘ اجتماعی انصاف اور معاشرتی مساوات ہو۔ تفرقہ، انتشار، بدنظمی، بے ضابطگی، نااتفاقی، آپس کی بدخواہی، ظلم اور ناہمواری کو اجتماعی زندگی کے محاسن میں کبھی شمار نہیں کیا گیا۔ ایسا ہی معاملہ کردار کی نیکی و بدی کا بھی ہے۔ چوری، زنا، قتل، ڈاکہ، جعل سازی اور رشوت خوری کبھی اچھے افعال نہیں سمجھے گئے۔ بد زبانی، مردم آزاری، غیبت، چغل خوری، حسد، بہتان تراشی اور فساد انگیزی کو کبھی نیکی نہیں سمجھا گیا۔ مکار، متکبر، ریا کار، منافق، ہٹ دھرم اور حریص لوگ کبھی بھلے آدمیوں میں شمار نہیں کیے گئے۔ اس کے برعکس والدین کی خدمت، رشتہ داروں کی مدد، ہم سایوں سے حُسنِ سلوک، دوستوں سے رفاقت، یتیموں اور بے کسوں کی خبرگیری، مریضوں کی تیمار داری اور مصیبت زدہ لوگوں کی اعانت ہمیشہ نیکی سمجھی گئی ہے۔ پاک دامن، خوش گفتار، نرم مزاج اور خیر اندیش لوگ ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھے گئے ہیں۔ انسانیت اپنا اچھا عنصر انھی لوگوں کو سمجھتی رہی ہے جو راست باز اور کھرے ہوں۔ جن پر ہر معاملے میں اعتبار کیا جا سکے۔ جن کا ظاہر و باطن یکساں اور قول و فعل میں مطابقت ہو۔ جو اپنے حق پر قانع اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں فراخ دل ہوں، جو امن سے رہیں اور دوسروں کو امن دیں، جن کی ذات سے ہر ایک کو خیر کی امید ہو اور کسی کو برائی کا اندیشہ نہ ہو۔
اس سے معلوم ہوا کہ انسانی اَخلاقیات دراصل وہ عالم گیر حقیقتیں ہیں، جن کو سب انسان جانتے چلے آ رہے ہیں۔ نیکی اور بدی کوئی چھ ہوئی چیزیں نہیں ہیں کہ انھیں کہیں سے ڈھونڈ کر نکالنے کی ضرورت ہو۔ وہ تو انسان کی جانی پہچانی چیزیں ہیں، جن کاشعور آدمی کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اپنی زبان میں نیکی کو معروف اور بدی کو منکر کہتا ہے۔ یعنی نیکی وہ چیز ہے جسے سب انسان بَھلا جانتے ہیں، اور منکر وہ ہے جسے کوئی خوبی اور بھلائی کی حیثیت سے نہیں جانتا۔ اسی حقیقت کو قرآن مجید دوسرے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے: فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَاo الشمس91:8 یعنی نفسِ انسان کو خدا نے برائی اور بھلائی کی واقفیت الہامی طور پر عطا کر رکھی ہے۔
اَخلاقی نظاموں میں اختلاف کیوں؟
اب سوال یہ ہے کہ اگر اَخلاق کی برائی اور بھلائی جانی اور پہچانی چیزیں ہیں اور دنیا ہمیشہ سے بعض صفات کے نیک اور بعض کے بد ہونے پر متفق رہی ہے، تو پھر دنیا میں یہ مختلف اَخلاقی نظام کیسے ہیں؟ ان کے درمیان فرق کس بنا پر ہے؟ کیا چیز ہے جس کے باعث ہم کہتے ہیں کہ اِسلام اپنا ایک مستقل اَخلاقی نظام رکھتا ہے؟ اور اَخلاق کے معاملے میں آخر اِسلام کا وہ خاص عطیہ (contribution) کیا ہے جسے اس کی امتیازی خصوصیت کہا جا سکے۔
اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے جب ہم دُنیا کے مختلف اَخلاقی نظاموں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو پہلی نظر میں جو فرق ہمارے سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ مختلف اَخلاقی صفات کو زندگی کے مجموعی نظام میں سمونے اور ان کی حد، ان کا مقام اور ان کا مصرف تجویز کرنے اور ان کے درمیان تناسب قائم کرنے میں یہ سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ پھر زیادہ گہری نگاہ سے دیکھنے پر اس فرق کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ دراصل وہ اَخلاقی حسن و قبح کا معیار تجویز کرنے اور خیر و شر کے علم کا ذریعہ متعین کرنے میں مختلف ہیں اور ان کے درمیان اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ قانون کے پیچھے قوتِ نافذہ (sanction) کون سی ہے جس کے زور سے وہ جاری ہو اور وہ کیا محرکات ہیں، جو انسان کو اس قانون کی پابندی پر آمادہ کریں۔ لیکن جب ہم اس اختلاف کا کھوج لگاتے ہیں تو آخر کار یہ حقیقت ہم پر کھلتی ہے کہ وہ اصلی چیز جس نے ان سب اَخلاقی نظاموں کے راستے الگ کر دیے ہیں، یہ ہے کہ ان کے درمیان کائنات کے تصور، کائنات کے اندر انسان کی حیثیت، اور انسانی زندگی کے مقصد میں اختلاف ہے اور اسی اختلاف نے جڑ سے لے کر شاخوں تک ان کی روح، ان کے مزاج اور ان کی شکل کو ایک دوسرے سے مختلف کر دیا ہے۔ انسان کی زندگی میں اصل فیصلہ کن سوالات یہ ہیں کہ اس کائنات کا کوئی خدا ہے یا نہیں؟ ہے تو وہ ایک ہے یا بہت سے ہیں؟ جس کی خدائی مانی جائے اس کی صفات کیا ہیں؟ ہمارے ساتھ اس کا تعلق کیا ہے؟ اس نے ہماری راہ نمائی کا کوئی انتظام کیا ہے یا نہیں؟ ہم اس کے سامنے جواب دہ ہیں یا نہیں؟ جواب دہ ہیں تو کس چیز کی جواب دہی ہمیں کرنی ہے؟ اور ہماری زندگی کا مقصد اور انجام کیا ہے جسے پیشِ نظر رکھ کر ہم کام کریں؟ ان سوالات کا جواب جس نوعیت کا ہو گا اسی کے مطابق نظام زندگی بنے گا اور اسی کے مناسبِ حال نظامِ اَخلاق ہو گا۔
اس مختصر گفتگو میں میرے لیے یہ مشکل ہے کہ میں دُنیا کے نظام ہائے حیات کا جائزہ لے کر یہ بتا سکوں کہ ان میں سے کس کس نے ان سوالات کا کیا جواب اختیار کیا ہے اور اس جواب نے اس کی شکل اور راستے کے تعین پر کیا اثر ڈالا ہے۔ میں صرف اِسلام کے متعلق عرض کروں گا کہ وہ ان سوالات کا کیا جواب اختیار کرتا ہے اور اس کی بنا پر کس مخصوص قسم کا نظامِ اَخلاق وجود میں آیا ہے۔
اِسلام کا نظریۂ زندگی و اَخلاق
اِسلام کا جواب یہ ہے کہ اس کائنات کا خدا ہے اور وہ ایک ہی خدا ہے۔ اُسی نے اسے پیدا کیا ہے، وہی اس کا لاشریک مالک، حاکم اور پروردگار ہے۔ اُسی کی اطاعت پر یہ سارا نظام چل رہا ہے۔ وہ حکیم ہے، قادرِ مطلق ہے، کھلے اور چھپے کا جاننے والا ہے، سبُّوح و قدُّوس ہے (یعنی عیب، خطا، کم زوری اور نقص سے پاک ہے) اور اس کی خدائی ایسے طریقے پر قائم ہے جس میں لاگ لپیٹ اور ٹیڑھ نہیں ہے۔ انسان اس کا پیدائشی بندہ ہے، اس کا کام یہی ہے کہ اپنے خالق کی بندگی و اطاعت کرے۔ اس کی زندگی کے لیے کوئی صورت بجز اس کے صحیح نہیں ہے کہ وہ سراسر خدا کی بندگی ہو۔ اس کی بندگی کا طریقہ تجویز کرنا انسان کا اپنا کام نہیں ہے بلکہ یہ اس خدا کا کام ہے جس کا وہ بندہ ہے۔ خدا نے اس کی راہ نمائی کے لیے پیغمبر بھیجے ہیں اور کتابیں نازل کی ہیں۔ انسان کا فرض ہے کہ اپنی زندگی کا نظام اسی سرچشمۂ ہدایت سے اخذ کرے۔ انسان اپنی زندگی کے پورے کارنامے کے لیے خدا کے سامنے جوابدہ ہے۔ اور یہ جوابدہی اسے اس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں کرنی ہے۔ دنیا کی موجودہ زندگی دراصل امتحان کی مہلت ہے اور یہاں انسان کی تمام سعی و کوشش اس مقصد پر مرکوز ہونی چاہیے کہ وہ آخرت کی جواب دہی میں اپنے خدا کے حضور کام یاب ہو۔ اس امتحان میں انسان اپنے پورے وجود کے ساتھ شریک ہے۔ اس کی تمام قوتوں اور قابلیتوں کا امتحان ہے، زندگی کے ہر پہلو کا امتحان ہے، پوری کائنات میں جس جس چیز سے جیسا کچھ بھی اس کو سابقہ پیش آتا ہے اس کی بے لاگ جانچ ہونی ہے کہ انسان نے اس کے ساتھ کیسا معاملہ کیا اور یہ جانچ وہ ہستی کرنے والی ہے جس نے زمین کے ذرّوں پر، ہوا پر اور پانی پر، کائناتی لہروں پر اور خود انسان کے اپنے دل و دماغ اور دست و پا پر اس کی حرکات و سکنات ہی کا نہیں‘ اس کے خیالات اور ارادوں تک کا ٹھیک ٹھیک ریکارڈ تیار کر رکھا ہے۔
اَخلاقی جدوجہد کا مقصود
یہ ہے وہ جواب جو اِسلام نے زندگی کے بنیادی سوالات کا دیا ہے۔ یہ تصور کائنات و انسان اس اصلی اور انتہائی بھلائی کو متعین کر دیتا ہے جس کو پہچاننا انسانی سعی و عمل کا مقصود ہونا چاہیے اور وہ ہے خدا کی رضا۔ یہی وہ معیار ہے جس پر اِسلام کے اَخلاقی نظام میں کسی طرزِ عمل کو پرکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ وہ خیر ہے یا شر۔ اس کے تعین سے اَخلاق کو وہ محور مل جاتا ہے جس کے گرد پُوری اَخلاقی زندگی گھومتی ہے۔ اور اس کی حالت بے لنگر کے جہاز کی سی نہیں رہتی کہ ہوا کے جھونکے اور موجوں کے تھپیڑے اسے ہر طرف دوڑاتے پھریں۔ یہ تعین ایک مرکزی مقصد سامنے رکھ دیتا ہے جس کے لحاظ سے زندگی میں تمام اَخلاقی صفات کی مناسب حدیں، مناسب جگہیں اور مناسب عملی صورتیں مقرر ہو جاتی ہیں اور ہمیں وہ مستقل اَخلاقی قدریں ہاتھ لگ جاتی ہیں جو تمام بدلتے ہوئے حالات میں اپنی جگہ ثابت و قائم رہ سکیں۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ رضائے الٰہی کے مقصود قرار پا جانے سے اَخلاق کو ایک بلند ترین غایت مل جاتی ہے جس کی بدولت اَخلاقی ارتقا کے امکانات لا متناہی ہو سکتے ہیں اور کسی مرحلے پر بھی اغراض پرستیوں کی آلائشیں اس کو ملوث نہیں کر سکتیں۔
اَخلاق کی پُشت پر قُوتِ نافذہ
پھر اِسلام کے اِسی تصورِ کائنات و انسان میں وہ قوتِ نافذہ بھی موجود ہے جس کا قانونِ اَخلاق کی پشت پر ہونا ضروری ہے اور وہ ہے خدا کا خوف، آخرت کی باز پُرس کا اندیشہ اور ابدی مستقبل کی خرابی کا خطرہ۔ اگرچہ اِسلام ایک ایسی طاقت وَر رائے عام بھی تیار کرنا چاہتا ہے جو اجتماعی زندگی میں اشخاص اور گروہوں کو اصولِ اَخلاق کی پابندی پر مجبور کرنے والی ہو اورایک ایسا سیاسی نظام بھی بنانا چاہتا ہے جس کا اِقتدار اَخلاقی قانون کو بزور نافذ کرے لیکن اس کا اصل اعتماد اس خارجی دبائو پر نہیں ہے بلکہ اس اندرونی دبائو پر ہے جو خدا اور آخرت کے عقیدے میں مضمر ہے۔ اَخلاقی احکام دینے سے پہلے اِسلام آدمی کے دل میں یہ بات بٹھاتا ہے کہ تیرا معاملہ دراصل اس خدا کے ساتھ ہے جو ہر وقت ہر جگہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ تو دنیا بھر سے چھپ سکتا ہے مگر اس سے نہیں چھپ سکتا۔ دنیا بھر کو دھوکا دے سکتا ہے مگر اسے نہیں دے سکتا۔ دنیا بھر سے بھاگ سکتا ہے مگر اس کی گرفت سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتا۔ دنیا محض تیرے ظاہر کو دیکھتی ہے مگر وہ تیری نیتوں اور ارادوں تک کودیکھ لیتا ہے۔ دُنیا کی تھوڑی سی زندگی میں تو چاہے جو کچھ کرے، بہرحال ایک دن تجھے مرنا ہے اور اس عدالت میں حاضر ہونا ہے‘ جہاں وکالت، رشوت، سفارش، جھوٹی شہادت، دھوکا اور فریب کچھ نہ چل سکے گا، اور تیرے مستقبل کا بے لاگ فیصلہ ہو جائے گا۔ یہ عقیدہ بٹھا کر اِسلام گویا ہر آدمی کے دل میں پولیس کی ایک چوکی بٹھا دیتا ہے جو اندر سے اس کو حکم کی تعمیل پر مجبور کرتی ہے، خواہ باہر ان احکام کی پابندی کرانے والی کوئی پولیس، عدالت اور جیل موجود ہو یا نہ ہو۔ اِسلام کے قانونِ اَخلاق کی پُشت پر اصل زور یہی ہے جو اسے نافذ کراتا ہے۔ رائے عام اور حکومت کی طاقت اس کی تائید میں موجود ہو تو نورٌ علیٰ نور، ورنہ تنہا یہی ایمان مسلمان افراد، اور مسلمان قوم کو سیدھا چلا سکتا ہے، بشرطیکہ واقعی ایمان دلوں میں جاگزیںہو۔
اِسلام کا یہ تصورِ کائنات و انسان وہ محرکات بھی فراہم کرتا ہے جو انسان کو قانونِ اَخلاق کے مطابق عمل کرنے کے لیے ابھارتے ہیں۔ انسان کا اس بات پر راضی ہو جانا کہ وہ خدا کو اپنا خدا مانے اور اس کی بندگی کو اپنی زندگی کا طریقہ بنائے اور اس کی رضا کو اپنا مقصدِ زندگی ٹھیرائے، یہ اس بات کے لیے کافی محرک ہے کہ جو شخص احکامِ الٰہی کی اطاعت کرے گا اس کے لیے ابدی زندگی میں ایک شاندار مستقبل یقینی ہے۔ خواہ دُنیا کی اس عارضی زندگی میں اسے کتنی ہی مشکلات، نقصانات اور تکلیفوں سے دو چار ہونا پڑے اور اس کے برعکس جو یہاں سے خدا کی نافرمانیاں کرتا ہوا جائے گا اسے ابدی سزا بھگتنی پڑے گی، چاہے دُنیا کی چند روزہ زندگی میں وہ کیسے ہی مزے لوٹ لے۔ یہ اُمید اور یہ خوف اگر کسی کے دل میں جاگزیں ہو تو اس کے دل میں اتنی زبردست قوت محرکہ موجود ہے کہ وہ ایسے مواقع پر بھی اسے نیکی پر ابھار سکتی ہے جہاں نیکی کا نتیجہ دنیا میں سخت نقصان دہ نکلتا نظر آتا ہو اور ان مواقع پر بھی بدی سے دُور رکھ سکتی ہے جہاں بدی نہایت پُرلطف اور نفع بخش ہو۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اِسلام اپنا تصورِ کائنات، اپنا معیارِ خیر و شر، اپنا مأخذِ علم اَخلاق، اپنی قوتِ نافذہ اور اپنی قوتِ محرکہ الگ رکھتا ہے اور انھی چیزوں کے ذریعے سے معروف اَخلاقیات کے مواد کو اپنی قدروں کے مطابق ترتیب دے کر زندگی کے تمام شعبوں میں جاری کرتا ہے۔ اسی بنا پر یہ کہنا صحیح ہے کہ اِسلام اپنا ایک مکمل اور مستقل بالذات اَخلاقی نظام رکھتا ہے۔
اس نظام کی امتیازی خصوصیات یوں تو بہت سی ہیں مگر ان میں تین سب سے نمایاں ہیں جنھیں اس کا خاص عطیہ کہا جا سکتا ہے۔
پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ رضائے الٰہی کو مقصود بنا کر اَخلاق کے لیے ایک ایسا بلند معیار فراہم کرتا ہے جس کی وجہ سے اَخلاقی ارتقا کے امکانات کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ ایک ماخذ علم مقرر کر کے اَخلاق کو وہ پائیداری اور استقلال بخشتا ہے جس میں ترقی کی گنجائش تو ہے مگر تلون اور نیرنگی کی گنجائش نہیں ہے۔ خوفِ خدا کے ذریعے سے اَخلاق کو وہ قوت نافذہ دیتا ہے جو خارجی دبائو کے بغیر انسان کے اندر خود بخود قانونِ اَخلاق پر عمل کرنے کی رَغبت اور آمادگی پیدا کرتی ہے۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ خواہ مخواہ کی اُپج سے کام لے کر کچھ نرالے اَخلاقیات نہیں پیش کرتا اور نہ انسان کے معروف اَخلاقیات میں سے بعض کو گھٹانے اور بعض کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ انھی اَخلاقیات کو لیتا ہے جو معروف ہیں اور ان میں سے چند کو نہیں بلکہ سب کو لیتا ہے۔ پھر زندگی میں پورے توازن اور تناسب کے ساتھ ایک ایک کا محل، مقام اور مصرف تجویز کرتا ہے اور ان کے انطباق کو اتنی وسعت دیتا ہے کہ انفرادی کردار، خانگی معاشرت، شہری زندگی ،ملکی سیاست، معاشی کاروبار، بازار، مدرسہ، عدالت، پولیس لائن، چھائونی، میدانِ جنگ، صلح کانفرنس، غرض زندگی کا کوئی پہلو اور شعبہ ایسا نہیں رہ جاتا جو اَخلاق کے ہمہ گیر اثر سے بچ جائے۔ ہر جگہ، ہر شعبۂ زندگی میں وہ اَخلاق کو حکم ران بناتا ہے اور اس کی کوشش یہ ہے کہ معاملات زندگی کی باگیں خواہشات، اغراض اور مصلحتوں کے بجائے اَخلاق کے ہاتھوں میں ہوں۔
تیسری خصوصیت یہ ہے کہ انسانیت سے ایک ایسے نظامِ زندگی کے قیام کا مطالبہ کرتا ہے جو معروف پر قائم اور منکر سے پاک ہو۔ اس کی دعوت یہ ہے کہ جن بھلائیوں کو انسانیت کے ضمیر نے ہمیشہ بھلا جانا ہے، آئو انھیں قائم کریں اور پروان چڑھائیں اور جن برائیوں کو انسانیت ہمیشہ سے برا سمجھتی چلی آئی ہے آئو انھیں دبائیں اور مٹائیں۔ اس دعوت پر جنھوں نے لبیک کہا انھی کو جمع کر کے اس نے ایک امت بنائی جس کا نام ’’مُسلم‘‘ تھا اور ان کے ایک امت بنانے سے اس کی واحد غرض یہی تھی کہ وہ معروف کو جاری و قائم کرنے اور منکر کو دبانے اور مٹانے کے لیے منظم سعی کرے۔ اب اگر اسی اُمت کے ہاتھوں معروف دبے اور منکر قائم ہونے لگے تو یہ ماتم کی جگہ ہے، خود اس امت کے لیے بھی اور دُنیا کے لیے بھی۔
(۲) اِسلام کا سیاسی نظام
(یہ تقریر ۲۰ /جنوری ۱۹۴۸ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)
اِسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد تین اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ توحید، رسالت اور خلافت۔ ان اصولوں کو اچھی طرح سمجھے بغیر اسلامی سیاست کے تفصیلی نظام کو سمجھنا مشکل ہے۔ اس لیے سب سے پہلے میں انھی کی مختصر تشریح کروں گا۔
توحید کے معنی یہ ہیں کہ خدا اس دنیا اور اس کے سب رہنے والوں کا خالق، پروردگار اور مالک ہے، حکومت و فرماں روائی اُسی کی ہے، وہی حکم دینے اور منع کرنے کا حق رکھتا ہے اور بندگی و طاعت بلاشرکت غیرے اسی کے لیے ہے۔ ہماری یہ ہستی جس کی بدولت ہم موجود ہیں، ہمارے یہ جسمانی آلات اور طاقتیں جن سے ہم کام لیتے ہیں اور ہمارے وہ اختیارات جو ہمیں دنیا کی موجودات پر حاصل ہیں اور خود یہ موجودات جن پر ہم اپنے اختیارات استعمال کرتے ہیں‘ ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ہماری پیدا کردہ یا حاصل کردہ ہے اور نہ اس کی بخشش میں خدا کے ساتھ کوئی شریک ہے، اس لیے اپنی ہستی کا مقصد اور اپنی قوتوں کا مصرف اور اپنے اختیارات کے حدود متعین کرنا نہ تو ہمارا اپنا کام ہے نہ کسی دوسرے کو اس معاملے میں دخل دینے کا حق ہے۔ یہ صرف اس خدا کا کام ہے جس نے ہم کو ان قوتوں اور اختیارات کے ساتھ پیدا کیا ہے اور دنیا کی یہ بہت سی چیزیں ہمارے تصرف میں دی ہیں۔ توحید کا یہ اصولِ انسانی حاکمیت کی سرے سے نفی کر دیتا ہے۔ ایک انسان ہو یا ایک خاندان یا ایک طبقہ یا ایک گروہ یا ایک پوری قوم، یا مجموعی طور پر تمام دنیا کے انسان حاکمیت کا حق بہرحال کسی کو بھی نہیں پہنچتا۔ حاکم صرف خدا ہے اور اسی کا حکم ’’قانون‘‘ ہے۔
خدا کا قانون جس ذریعے سے بندوں تک پہنچتا ہے اس کا نام ’’رسالت ‘‘ ہے۔ اس ذریعے سے ہمیں دو چیزیں ملتی ہیں: ایک ’’کتاب‘‘ جس میں خود خدا نے اپنا قانون بیان کیا ہے۔ دوسری کتاب کی مستند تشریح جو رسول ؐ نے خدا کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اپنے قول و عمل میں پیش کی ہے۔ خدا کی کتاب میں وہ تمام اصول بیان کر دیے گئے ہیں جن پر انسانی زندگی کا نظام قائم ہونا چاہیے اور رسولؐ نے کتاب کے اس منشا کے مطابق عملاً ایک نظامِ زندگی بنا کر، چلا کر، اور اس کی ضروری تفصیلات بتا کر ہمارے لیے ایک نمونہ قائم کر دیا ہے۔ انھی دو چیزوں کے مجموعے کا نام اسلامی اصطلاح میں شریعت ہے اور یہی وہ اساسی دستور ہے جس پر اسلامی ریاست قائم ہوتی ہے۔
اب خلافت کو لیجئے۔ یہ لفظ عربی زبان میں نیابت کے لیے بولا جاتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے دُنیا میں انسان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ زمین پر خدا کا نائب ہے یعنی اس کے ملک میں اس کے دیے ہوئے اختیارات استعمال کرتا ہے۔ آپ جب کسی شخص کو اپنی جائیداد کا انتظام سپرد کرتے ہیں تو لازماً آپ کے پیش نظر چار باتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ جائیداد کے اصل مالک آپ خود ہیں نہ کہ وہ شخص۔ دوسرے یہ کہ آپ کی جائیداد میں اس شخص کو آپ کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ تیسرے یہ کہ اسے اپنے اختیارات کو ان حدود کے اندر استعمال کرنا چاہیے جو آپ نے اس کے لیے مقرر کر دی ہیں۔ چوتھے یہ کہ آپ کی جائیداد میں اسے آپ کا منشا پورا کرنا ہو گا نہ کہ اپنا۔ یہ چار شرطیں نیابت کے تصور میں اس طرح شامل ہیں کہ نائب کا لفظ بولتے ہی خود بخود انسان کے ذہن میں آ جاتی ہیں۔ اگر کوئی نائب ان چاروں شرطوں کو پورا نہ کرے تو آپ کہیں گے کہ وہ نیابت کے حدود سے تجاوز کر گیا اور اس نے وہ معاہدہ توڑ دیا جو نیابت کے عین مفہوم میں شامل تھا۔ ٹھیک یہی معنی ہیں جن میں اِسلام انسان کو خدا کا خلیفہ قرار دیتا ہے اور اس خلافت کے تصوّر میں یہی چاروں شرطیں شامل ہیں۔ اسلامی نظریۂ سیاسی کی رُو سے جو ریاست قائم ہو گی وہ دراصل خدا کی حاکمیت کے تحت انسانی خلافت ہو گی‘ جسے خدا کے ملک میں اس کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق اس کی مقرر کی ہوئی حدود کے اندر کام کر کے اس کا منشا پورا کرنا ہو گا۔
خلافت کی اس تشریح کے سلسلے میں اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ اس معنی میں اسلامی نظریۂ سیاسی کسی ایک شخص یا خاندان یا طبقے کو خلیفہ قرار نہیں دیتا بلکہ اس پوری سوسائٹی کو خلافت کا منصب سونپتا ہے جو توحید اور رسالت کے بنیادی اُصولوں کو تسلیم کر کے نیابت کی شرطیں پوری کرنے پر آمادہ ہو۔ ایسی سوسائٹی بحیثیت مجموعی خلافت کی مثال ہے اور یہ خلافت اس کے ہر فرد کو پہنچتی ہے۔ یہ وہ نقطہ ہے جہاں اِسلام میں ’’جمہوریت‘‘ کی ابتدا ہوتی ہے۔ اسلامی معاشرے کا ہر فرد خلافت کے حقوق اور اختیارات رکھتا ہے۔ ان حقوق و اختیارات میں تمام افراد بالکل برابر کے حصے دار ہیں۔ کسی کو کسی پر نہ ترجیح حاصل ہے اور نہ یہی حق پہنچتا ہے کہ اسے ان حقوق و اختیارات سے محروم کر سکے۔ ریاست کا نظم و نسق چلانے کے لیے جو حکومت بنائی جائے گی وہ انھی افراد کی مرضی سے بنے گی۔ یہی لوگ اپنے اختیاراتِ خلافت کا ایک حصہ اسے سونپیں گے۔ اس کے بننے میں ان کی رائے شامل ہو گی اور ان کے مشورے ہی سے وہ چلے گی۔ جو ان کا اعتماد حاصل کرے گا وہ ان کی طرف سے خلافت کے فرائض انجام دے گا اور جو ان کا اعتماد کھو دے گا اسے حکومت کے منصب سے ہٹنا پڑے گا۔ اس لحاظ سے اسلامی جمہوریت ایک مکمل جمہوریت ہے، اتنی مکمل جتنی کوئی جمہوریت مکمل ہو سکتی ہے، البتہ جو چیز اسلامی جمہوریت کو مغربی جمہوریت سے الگ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مغرب کا نظریہ سیاسی ’’جمہوری حاکمیت‘‘کا قائل ہے اور اِسلام ’’جمہوری خلافت‘‘ کا۔ وہاں اپنی شریعت جمہور آپ بناتے ہیں۔ یہاں ان کو اس شریعت کی پابندی کرنی ہوتی ہے جو خدا نے اپنے رسولؐ کے ذریعے سے دی ہے۔ وہاں حکومت کا کام جمہور کا منشا پورا کرنا ہوتا ہے، یہاں حکومت اور اس کے بنانے والے جمہور سب کا کام خدا کا منشا پورا کرنا ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ مغربی جمہوریت ایک مطلق العنان خدائی ہے جو اپنے اختیات کو آزادانہ استعمال کرتی ہے۔ اس کے برعکس اسلامی جمہوریت ایک پابندِ آئین بندگی ہے جو اپنے اختیارات کو خدا کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرتی ہے۔
اب میں آپ کے سامنے اس ریاست کا ایک مختصر مگر واضح نقشہ پیش کروں گا جو توحید، رسالت اور خلافت کی ان بنیادوں پر بنتی ہے۔
اس ریاست کا مقصد قرآن میں صاف طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ان بھلائیوں کو قائم کرے، فروغ دے اور پروان چڑھائے جن سے خدا وندِ عالم انسانی زندگی کو آراستہ دیکھنا چاہتا ہے اور ان برائیوں کو روکے، دبائے اور مٹائے جن کا وجود انسانی زندگی میں خداوندِ عالم کو پسند نہیں ہے۔ اِسلام میں ریاست کا مقصد نہ محض انتظامِ ملکی ہے اور نہ یہ کہ وہ کسی خاص قوم کی اجتماعی خواہشات کو پورا کرے۔ اس کے بجائے اِسلام اس کے سامنے ایک بلند نصب العین رکھ دیتا ہے جس کے حصول میں اس کو اپنے تمام وسائل و ذرائع اور اپنی تمام طاقتیں صرف کرنی چاہئیں‘ اور وہ یہ ہے کہ خدا اپنی زمین میں اور اپنے بندوں کی زندگی میں جو پاکیزگی، جو حُسن، جو خیروصلاح، جو ترقی و فلاح دیکھنا چاہتا ہے وہ رُونما ہو، اور بگاڑ کی ان تمام صورتوں کا سدِّباب ہو جو خدا کے نزدیک اس کی زمین کو اجاڑنے والی اور اس کے بندوں کی زندگی کو خراب کرنے والی ہیں۔ اس نصب العین کو پیش کرنے کے ساتھ اِسلام ہمارے سامنے خیروشر دونوں کی ایک واضح تصویر رکھتا ہے جس میں مطلوبہ بھلائیوں اور ناپسندیدہ برائیوں کو صاف صاف نمایاں کر دیا گیا ہے۔ اس تصویر کو نگاہ میں رکھ کر ہر زمانے اور ہرماحول میں اسلامی ریاست اپنا اصلاحی پروگرام بنا سکتی ہے۔
اِسلام کا مستقل تقاضا یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں اَخلاقی اصولوں کی پابندی کی جائے۔ اس لیے وہ اپنی ریاست کے لیے بھی یہ قطعی پالیسی متعین کر دیتا ہے کہ اس کی سیاست بے لاگ انصاف ، بے لوث سچائی اور کھری ایمان داری پر قائم ہو، وہ ملکی یا انتظامی یا قومی مصلحتوں کی خاطر جھوٹ، فریب اور بے انصافی کو کسی حال میں گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ملک کے اندر راعی اور رعیّت کے باہمی تعلقات ہوں یا ملک کے باہر دوسری قوموں کے ساتھ تعلقات، دونوں میں وہ صداقت، دیانت اور انصاف کو اغراض و مصالح پر مقدم رکھنا چاہتا ہے۔ مسلمان افراد کی طرح مسلم ریاست پر بھی وہ یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ عہد کرو تو اسے وفا کرو، لینے اور دینے کے پیمانے یکساں رکھو، جو کچھ کہتے ہو وہی کرو اور جو کچھ کرتے ہو، وہی کہو، اپنے حق کے ساتھ اپنے فرض کو بھی یاد رکھو اور دوسرے کے فرض کے ساتھ اس کے حق کو بھی نہ بھولو، طاقت کو ظلم کے بجائے انصاف کے قیام کا ذریعہ بنائو۔ حق کو بہرحال حق سمجھو اور اسے ادا کرو، اقتدار کو خدا کی امانت سمجھو اور اس یقین کے ساتھ اسے استعمال کرو کہ اس امانت کا پورا حساب تمھیں اپنے خدا کو دینا ہے۔
اسلامی ریاست اگرچہ زمین کے کسی خاص خطے ہی میں قائم ہوتی ہے مگر وہ نہ انسانی حقوق کو ایک جغرافی حد میں محدود رکھتی ہے اور نہ شہریت کے حقوق کو۔ جہاں تک انسانیت کا تعلق ہے اِسلام ہر انسان کے لیے چند بنیادی حقوق مقرر کرتا ہے اور ہر حال میں ان کے احترام کا حکم دیتا ہے، خواہ وہ انسان اسلامی ریاست کے حدود میں رہتا ہو یا اس سے باہر، خواہ دوست ہو یا دشمن، خواہ صلح رکھتا ہو یا برسر جنگ ہو۔ انسانی خون ہرحالت میں محترم ہے اور حق کے بغیر اسے نہیں بہایا جا سکتا۔ عورت، بچے، بوڑھے، بیمار اور زخمی پر دست درازی کرنا کسی حال میں جائز نہیں۔ عورت کی عصمت بہرحال احترام کی مستحق ہے اور اسے بے آبرو نہیں کیا جا سکتا۔ بھوکا آدمی روٹی کا، ننگا آدمی کپڑے کا‘ زخمی یا بیمار آدمی علاج اور تیمار داری کا بہرحال مستحق ہے خواہ دشمن قوم ہی سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ اور ایسے ہی چند دوسرے حقوق اِسلام نے انسان کو بحیثیت انسان ہونے کے عطا کیے ہیں اور اسلامی ریاست کے دستور میں ان کو بنیادی حقوق کی جگہ حاصل ہے۔ رہے شہریت کے حقوق تو وہ بھی اِسلام صرف انھی لوگوں کونہیں دیتا جو اس کی ریاست کی حدود میںپیدا ہوئے ہوں بلکہ ہر مسلمان خواہ وہ دنیا کے کسی گوشے میںپیدا ہوا ہو، اسلامی ریاست کے حدود میں داخل ہوتے ہی آپ سے آپ اس کا شہری بن جاتا ہے({ FR 6496 }) اور پیدائشی شہریوں کے برابر حقوق کا مستحق قرار پاتا ہے۔ دنیا میں جتنی اسلامی ریاستیں بھی ہوں گی ان سب کے درمیان شہریت مشترک ہو گی۔ مسلمان کو کسی اسلامی ریاست کے حدود میں داخل ہونے کے لیے پاسپورٹ کی ضرورت نہ ہو گی۔ مسلمان کسی نسلی، قومی یا طبقاتی امتیاز کے بغیر ہر اسلامی ریاست میں کسی بڑے سے بڑے ذمہ داری کے منصب کا اہل ہو سکتا ہے۔
غیر مسلمانوں کے لیے، جو کسی اسلامی ریاست کے حدود میں رہتے ہوں، اِسلام نے چند حقوق معین کر دیے ہیں اور وہ لازماً دستورِ اسلامی کا جزو ہوں گے۔ اسلامی اصطلاح میں ایسے غیر مسلم کو ’’ذمّی‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی جس کی حفاظت کا اسلامی ریاست نے ذمہ لے لیا ہے۔ ذمّی کی جان و مال اور آبرو بالکل مسلمان کی جان و مال و آبرو کی طرح محترم ہے۔ فوج داری اور دیوانی قوانین میں مسلم اور ذمی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ ذمّیوں کے پرسنل لا میں اسلامی ریاست کوئی مداخلت نہ کرے گی۔ ذمّیوں کو ضمیر و اعتقاد اور مذہبی رسوم و عبادات میں پور ی آزادی حاصل ہو گی۔ ذمّی اپنے مذہب کی تبلیغ ہی نہیں بلکہ قانون کی حد میں رہتے ہوئے اِسلام پر بھی تنقید کر سکتا ہے۔ یہ اور ایسے ہی بہت سے حقوق اسلامی دستور میں غیر مسلم رعایا کو دیے گئے ہیں اور یہ مستقل حقوق ہیں جنھیں اس وقت تک سلب نہیں کیا جا سکتا جب تک وہ ہمارے ذمے سے خارج نہ ہو جائیں۔ کوئی غیر مسلم اپنی مسلم رعایا پر چاہے کتنے ہی ظلم ڈھائے، ایک اسلامی ریاست کے لیے اس کے جواب میں اپنی غیر مسلم رعایا پر شریعت کے خلاف ذرا سی دست درازی کرنا بھی جائز نہیں۔ حتیٰ کہ ہماری سرحد کے باہر اگر سارے مسلمان قتل کر دیے جائیں تب بھی ہم اپنی حد کے اندر ایک ذِمّی کا خون بھی حق کے بغیر نہیں بہا سکتے۔
اسلامی ریاست کے انتظام کی ذمہ داری ایک امیر کے سپرد کی جائے گی جسے صدر جمہوریہ کے مماثل سمجھنا چاہیے۔ امیر کے انتخاب میں ان تمام بالغ مردوں اور عورتوں کو رائے دینے کا حق ہو گا جو دستور کے اصولوں کو تسلیم کرتے ہوں۔ انتخاب کی بنیاد یہ ہو گی کہ روحِ اِسلام کی واقفیت، اسلامی سیرت، خدا ترسی اور تدبر کے اعتبار سے کون شخص سوسائٹی کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کا اعتماد رکھتا ہے۔ ایسے شخص کو امارت کے لیے منتخب کیا جائے گا۔ پھر اس کی مدد کے لیے ایک مجلسِ شوریٰ بنائی جائے گی اور وہ بھی لوگوں کو منتخب کردہ ہو گی۔ امیر کے لیے لازم ہو گا کہ ملک کا انتظام اہل شوریٰ کے مشورے سے کرے۔ ایک امیر اسی وقت تک حکم ران رہ سکتا ہے جب تک اسے لوگوں کا اعتماد حاصل رہے۔ عدمِ اعتماد کی صورت میں اُسے جگہ خالی کرنی ہو گی مگر جب تک وہ لوگوں کا اعتماد رکھتا ہے اسے حکومت کے پورے اختیارات حاصل رہیں گے۔
امیر اور اس کی حکومت پر عام شہریوں کو نکتہ چینی کا پورا حق حاصل ہو گا۔ اسلامی ریاست میں قانون سازی ان حدود کے اندر ہو گی جو شریعت میں مقرر کی گئی ہیں۔ خدا اور رسولؐ کے واضح احکام صرف اطاعت کے لیے ہیں۔ کوئی مجلسِ قانون سازان میں ردّ و بدل نہیں کر سکتی۔ رہے وہ احکام جن میں دو یا زیادہ تعبیریں ممکن ہیں تو ان میں شریعت کا منشا معلوم کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو شریعت کا علم رکھتے ہیں۔ اس لیے ایسے معاملات مجلسِ شوریٰ کی اس سب کمیٹی کے سپرد کیے جائیں گے جو علما پر مشتمل ہو گی۔ اس کے بعد ایک وسیع میدان ان معاملات کا ہے جن میں شریعت نے کوئی حکم نہیں دیا ہے۔ ایسے تمام معاملات میں مجلسِ شوریٰ قوانین بنانے کے لیے آزاد ہے۔
اِسلام میں عدالت انتظامی حکومت کے ماتحت نہیں ہے بلکہ براہِ ِراست خدا کی نمائندہ اور اس کو جواب دہ ہے۔ حاکمانِ عدالت کو مقرر تو انتظامی حکومت ہی کرے گی، مگر جب ایک شخص عدالت کی کرسی پر بیٹھ جائے گا تو خدا کے قانون کے مطابق لوگوں کے درمیان بے لاگ انصاف کرے گا اور اس کے انصاف کی زد میں خود حکومت بھی نہ بچ سکے گی، حتیٰ کہ خود حکومت کے رئیس اعلیٰ کو بھی مدعی یا مدعا علیہ کی حیثیت سے اس کے سامنے اسی طرح حاضر ہونا پڑے گا جیسے ایک عام شہری حاضر ہوتا ہے۔
(۳) اِسلام کا معاشرتی نظام
(یہ تقریر۱۰ /فروری ۱۹۴۸ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)
اِسلام کے معاشرتی نظام کا سنگِ بنیاد یہ نظریہ ہے کہ دنیا کے سب انسان ایک نسل سے ہیں۔ خدا نے سب سے پہلے ایک انسانی جوڑا پیدا کیا تھا ،پھر اسی جوڑے سے وہ سارے لوگ پیدا ہوئے جو دنیا میں آباد ہیں۔ابتدا میں ایک مدت تک اس جوڑے کی اولاد ایک ہی امت بنی رہی‘ایک ہی اس کا دین تھا،ایک ہی اس کی زبان تھی۔ کوئی اختلاف اس کے درمیان نہ تھا مگر جُوں جُوں ان کی تعداد بڑھتی گئی،وہ زمین پر پھیلتے گئے اور اس پھیلائو کی وجہ سے قدرتی طور پر مختلف نسلوں،قوموںاور قبیلوں میں تقسیم ہو گئے ۔ان کی زبانیں الگ ہو گئیں ،ان کے لباس الگ ہوگئے،رہن سہن کے طریقے الگ ہو گئے اور جگہ جگہ کی آب و ہوا نے ان کے رنگ روپ اور خدو خال تک بدل دیے ۔یہ سب اختلافات فطرتی اختلافات ہیں ۔واقعات کی دنیا میں موجود ہیں۔ اس لیے اِسلام ان کو بطور ایک واقعے کے تسلیم کرتا ہے۔وہ ان کو مٹانا نہیں چاہتا ،بلکہ ان کا یہ فائدہ مانتا ہے کہ انسان کا باہمی تعارف اور تعاون اسی صورت سے ممکن ہے لیکن اختلافات کی بنا پر انسانوں میں نسل ،رنگ ،زبان ،قومیت اور وطینت کے جو تعصبات پیدا ہو گئے ہیں ،ان سب کو اِسلام غلط قرار دیتا ہے۔ انسان اور انسان کے درمیان اُونچ نیچ، شریف اور کمین،اپنے اور غیر کے جتنے فرق پیدائش کی بنیاد پر کر لیے گئے ہیں اِسلام کے نزدیک یہ سب جاہلیت کی باتیں ہیں ۔وہ تمام دنیا کے انسانوں سے کہتا ہے کہ تم سب ایک ماں اور ایک باپ کی اولاد ہو، لہٰذا ایک دوسرے کے بھائی ہو اور انسان ہونے کی حیثیت سے برابر ہو ۔
انسانیت کا یہ تصوّر اختیار کرنے کے بعد اسلا م کہتا ہے کہ اِنسان اور اِنسان کے درمیان اصلی فرق اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ نسل ،رنگ، وطن اور زبان کا نہیں بلکہ خیالات،اَخلاق اور اصولوں کا ہو سکتا ہے۔ایک ماں کے د و بچے اپنے نسب کے لحاظ سے چاہے ایک ہو ںلیکن اگر اُن کے خیالات اور اَخلاق ایک دوسرے سے مختلف ہیں تو زندگی میں دونوں کی راہیں الگ ہو جائیںگی۔ اس کے برعکس مشرق اور مغرب کے انتہائی فاصلے پر رہنے والے دو انسان اگرچہ ظاہر میں کتنے ہی ایک دوسرے سے دور ہوں ،لیکن اگر ان کے خیالات متفق ہیں اور اَخلاق ملتے جلتے ہیں تو ان کی زندگی کا راستہ ایک ہوگا۔ اس نظریے کی بنیاد پر اِسلام دنیاکے تمام نسلی،وطنی اور قومی معاشروں کے برعکس ایک فکری ،اَخلاقی اور اصولی معاشرہ تعمیر کرتا ہے ،جس میں انسان اور انسان کے ملنے کی بنیاد اس کی پیدائش نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور ایک اَخلاقی ضابطہ ہے اور ہر وہ شخص جو ایک خدا کو اپنا مالک و معبود مانے اور پیغمبروں کی لائی ہوئی ہدایت کو اپنا قانونِ زندگی تسلیم کرے، اس معاشرے میں شامل ہو سکتا ہے ۔خواہ وہ افریقہ کا رہنے والاہو یا امریکہ کا ،خواہ وہ سامی نسل کا ہو یا آریہ نسل کا، خواہ وہ کالا ہو یا گورا، خواہ وہ ہندی بولتا ہو یا عربی۔جو انسان بھی اس معاشرے میں شامل ہوں گے ،ان سب کے حقوق اور معاشرتی مرتبے یکساں ہوں گے۔کسی قسم کے نسلی‘ قومی یا طبقاتی امتیازات ان کے درمیان نہ ہوں گے ۔کوئی اونچا اور کوئی نیچا نہ ہو گا، کوئی چُھوت چھات ان میں نہ ہو گی۔ کسی کا ہاتھ لگنے سے کوئی ناپاک نہ ہو گا۔ شادی بیاہ اور کھانے پینے اور مجلسی میل جول میں ان کے درمیان کسی قسم کی رکاوٹیںنہ ہوں گی۔کوئی اپنی پیدائش یا اپنے پیشے کے لحاظ سے ذلیل یا کمین نہ ہو گا ۔کسی کو اپنی ذات برادری یا حسب نسب کی بنا پر کوئی مخصوص حقوق حاصل نہ ہو سکیں گے ۔آدمی کی بزرگی اس کے خاندان یا اس کے مال کی وجہ سے نہ ہو گی بلکہ صرف اس وجہ سے ہو گی کہ اس کے اَخلاق زیادہ اچھے ہیں اور وہ خدا ترسی میں دوسروں سے بڑھا ہوا ہے۔
یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو نسل و رنگ اور زبان کی حد بندیوں ،اور جغرافی سرحدوں کو توڑ کر رُوئے زمین کے تمام خطوں پر پھیل سکتا ہے اور اس کی بنیاد پر انسانوں کی ایک عالم گیر برادری قائم ہو سکتی ہے ۔نسلی اور وطنی معاشروں میں تو صرف وہ لوگ شامل ہو سکتے ہیں جو کسی نسل یا وطن میں پیداہوئے ہوں ،اس سے باہر کے لوگوں پر ایسے معاشرے کا دروازہ بند ہوتا ہے مگر اس فکری اور اصولی معاشرے میں ہر وہ شخص برابر کے حقوق کے ساتھ شامل ہو سکتا ہے جو ایک عقیدے اور ایک اخلاقی ضابطے کو تسلیم کرے۔رہے وہ لوگ جو اس عقیدے اور ضابطے کو نہ مانیں تو یہ معاشرہ انھیں اپنے دائرے میں تو نہیں لیتا،مگر انسانی برادری کا تعلق ان کے ساتھ قائم کرنے اور انسانیت کے حقوق انھیں دینے کے لیے تیار ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ایک ماں کے دو بچے اگر خیالات میں مختلف ہیں تو ان کے طریقِ زندگی بہر حال مختلف ہوں گے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے بھائی نہیں رہے۔بلکہ اسی طرح نسلِ انسانی کے دو گروہ یا ایک ملک میں رہنے والے لوگوں کے دو گروہ بھی اگر عقیدے اور اصول میں اختلاف رکھتے ہیں تو ان کے معاشرے یقینا الگ ہوں گے ،مگر انسانیت بہر حال ان میں مشترک رہے گی ۔اس مشترک انسانیت کی بنا پر زیادہ سے زیادہ جن حقوق کا تصور کیا جا سکتا ہے وہ سب اسلامی معاشرے نے غیر اسلامی معاشروں کے لیے تسلیم کیے ہیں ۔
ا سلامی نظامِ معاشرت کی ان بنیادوں کو سمجھ لینے کے بعد آئیے اب ہم دیکھیں کہ وہ کیا اصول اور طریقے ہیں جو اِسلام نے انسانی میل یا ملاپ کی مختلف صورتوں کے لیے مقرر کیے ہیں۔
انسانی معاشرت کا اوّلین اور بنیادی ادارہ خاندان ہے۔ خاندان کی بنا ایک مرد اور ایک عورت کے ملنے سے پڑتی ہے ۔اس ملاپ سے ایک نئی نسل وجود میں آتی ہے۔ پھر اس سے رشتے اور کنبے اور برادری کے دوسرے تعلقات پیدا ہوتے ہیں اور بالآخر یہی چیز پھیلتے پھیلتے ایک وسیع معاشرے تک جا پہنچتی ہے۔ پھر خاندان ہی وہ ادارہ ہے جس میں ایک نسل اپنے بعد آنے والی نسل کو انسانی تمدن کی وسیع خدمات سنبھالنے کے لیے نہایت مَحبّت،ایثار ،دل سوزی اور خیر خواہی کے ساتھ تیار کرتی ہے ۔یہ ادارہ تمدنِ انسانی کے بقا اور نشوونما کے لیے صرف رنگروٹ ہی بھرتی نہیں کرتا، بلکہ اس کے کارکن دل سے اس بات کے خواہشمند ہوتے ہیں کہ ان کی جگہ لینے والے خود ان سے بہتر ہوں ۔اس بِنا پر یہ ایک حقیقت ہے کہ خاندان ہی انسانی تمدن کی جڑ ہے اور اس جڑ کی صحت و طاقت پر خود تمدن کی صحت اور طاقت کا مدار ہے ۔اسی لیے اِسلام معاشرتی مسائل میں سب سے پہلے اس امر کی طرف توجہ کرتا ہے کہ خاندان کے ادارے کو صحیح ترین بنیادوں پر قائم کیا جائے ۔
اِسلام کے نزدیک مرد اور عورت کے تعلق کی صحیح صورت صرف وہ ہے جس کے ساتھ معاشرتی ذمہ داریاں قبول کی گئی ہوں اور جس کے نتیجے میں ایک خاندان کی بنا پڑے۔ آزادانہ اور غیر ذمہ دارانہ تعلق کو وہ محض ایک معصوم سی تفریح یا ایک معمولی سی بے راہ روی سمجھ کر ٹال نہیں دیتا بلکہ اس کی نگاہ میں یہ انسانی تمدن کی جڑ کاٹ دینے والا فعل ہے ۔اس لیے ایسے تعلق کو وہ حرام اور قانونی جرم قرار دیتا ہے۔ اس کے لیے سخت سزا تجویز کرتا ہے تاکہ سوسائٹی میں ایسے تمدن کُش تعلقات رائج ہونے نہ پائیں اور معاشرت کو ان اسباب سے پاک کر دینا چاہتا ہے جو اس غیر ذمہ دارانہ تعلق کے لیے محرک ہوتے ہوں یا اس کے مواقع پیدا کرتے ہوں۔ پردے کے احکام،مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول کی ممانعت ،موسیقی اور تصاویر پر پابندیاں اور فواحش کی اشاعت کے خلاف رکاوٹیں سب اسی کی روک تھام کے لیے ہیں اور ان کا مرکزی مقصد خاندان کے ادارے کو محفوظ اور مضبوط کرنا ہے۔ دوسری طرف ذمہ دارانہ تعلق یعنی نکاح کو اِسلام محض جائز ہی نہیں بلکہ اسے ایک نیکی،ایک کارِ ثواب‘ ایک عباد ت قرار دیتا ہے۔ سنِ بلوغ کے بعد مرد اور عورت کے مجرد رہنے کو نا پسند کرتا ہے ۔ہر نوجوان کو اس بات پر اُکساتا ہے کہ تمدن کی جن ذمہ داریوں کا بار اس کے ماں باپ نے اُٹھایا تھا، اپنی باری آنے پر وہ بھی انھیں اُٹھائے۔ اِسلام رہبانیت کو نیکی نہیں سمجھتا بلکہ اسے فطرت اللّٰہ کے خلاف ایک بدعت ٹھیراتا ہے ۔وہ ان تمام رسموں اور رواجوں کو بھی سخت نا پسند کرتا ہے جن کی وجہ سے نکاح ایک مشکل اور بھاری کام بن جاتا ہے ۔اس کا منشا یہ ہے کہ معاشرے میں نکاح کو آسان ترین اور زنا کو مشکل ترین فعل ہونا چاہیے،نہ یہ کہ نکاح مشکل اور زنا آسان ہو۔ اسی لیے اس نے چند مخصوص رشتوں کو حرام ٹھیرانے کے بعد تمام دُور و نزدیک کے رشتے داروں میں ازدواجی تعلق کو جائز کر دیا ہے، ذات اور برادری کی تفریقیں اُڑا کر تمام مسلمانوں میں آپس کے شادی بیاہ کی کھلی اجازت دے دی ہے۔مہر اور جہیز اس قدر ہلکے رکھنے کا حکم دیا ہے جنھیں فریقین آسانی سے برداشت کر سکیں اور رسمِ نکاح ادا کرنے کے لیے کسی قاضی، پنڈت، پروہت یادفتر ورجسٹرکی کوئی ضرورت نہیںرکھی،اسلامی معاشرے کا نکاح ایک ایسی سادہ سی رسم ہے جوہر کہیں دو گواہوں کے سامنے بالغ زوجین کے ایجاب وقبول سے انجام پاسکتی ہے مگرلازم ہے کہ یہ ایجاب وقبول خفیہ نہ ہوں بلکہ بستی میں اعلان کے ساتھ ہو۔
خاندان کے اندر اِسلام نے مرد کوناظم کی حیثیت دی ہے تا کہ وہ اپنے گھر میں ضبط قائم رکھے۔ بیوی کو شوہر کی اور اولاد کو ماں اور باپ دونوں کی اطاعت و خدمت کا حکم دیا ہے۔ ایسے ڈھیلے ڈھالے خاندانی نظام کو اِسلام پسند نہیں کرتا جس میںکوئی انضباط نہ ہو اور گھر والوں کے اَخلاق و معاملات درست رکھنے کا کوئی بھی ذمہ دار نہ ہو۔ نظم بہر حال ایک ذمہ دار ناظم ہی سے قائم ہو سکتا ہے اور اِسلام کے نزدیک اس ذمہ داری کے لیے خاندان کا باپ ہی فطرۃً موزوں ہے مگر اس کے معنی یہ نہیںہیں کہ مرد کو گھر کا ایک جابرو قاہر فرماں روا بنا دیا گیا ہے اور عورت ایک بے بس لونڈی کی حیثیت سے اس کے حوالے کر دی گئی ہے ۔اسلا م کے نزدیک ازدواجی زندگی کی اصل روح مَحبّت ورحمت ہے ۔عورت کا فرض اگر شوہر کی اطاعت ہے تو مرد کا بھی یہ فرض ہے کہ اپنے اختیارات کو اصلاح کے لیے استعمال کرے نہ کہ زیادتی کے لیے۔اِسلام ایک ازدواجی تعلق کو اس وقت تک باقی رکھنا چاہتا ہے جب تک اس میں مَحبّت کی شیرینی یا کم از کم رفاقت کا امکان باقی ہو۔ جہاں یہ امکان باقی نہ رہے وہاں وہ مرد کو طلاق اور عورت کو خلع کا حق دیتا ہے اور بعض صورتوں میں اسلامی عدالت کو یہ اختیارات عطا کرتا ہے کہ وہ ایسے نکاح کو توڑ دے جو رحمت کے بجائے زحمت بن گیا ہو۔
خاندان کے محدود دائرے سے باہر قریب ترین سرحد رشتے داری کی ہے جس کا دائرہ کافی وسیع ہوتا ہے۔ جو لوگ ماں اور باپ کے تعلق سے یا بھائی اور بہنوں کے تعلق سے یا سسر الی تعلق سے ایک دوسرے کے رشتے دار ہوں، اِسلام ان سب کو ایک دوسرے کا ہم درد ،مددگار اور غمگسار دیکھنا چاہتا ہے ۔قرآن میں جگہ جگہ ذوی القربیٰ یعنی رشتے داروں سے نیک سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ حدیث میں صلۂ رحمی کی بار بار تاکید کی گئی ہے اور اسے بڑی نیکی شمار کیا گیا ہے ۔وہ شخص اِسلام کی نگاہ میں سخت نا پسندیدہ ہے جو اپنے رشتے داروں سے سرد مُہری اور طوطا چشمی کا معاملہ کرے ۔مگر اس کے معنی یہ بھی نہیں کہ رشتے داروں کی بے جا طرف داری کوئی اسلامی کام ہے۔ اپنے کنبے قبیلے کی ایسی حمایت جو حق کے خلاف ہو، اِسلام کے نزدیک جاہلیت ہے ۔اسی طرح اگر حکومت کا کوئی افسر پبلک کے خرچ پر اقر با پروری کرنے لگے یا اپنے فیصلوں میں اپنے عزیزوں کے ساتھ بے جارعایت کرنے لگے تو یہ بھی کوئی اسلامی کام نہیں ہے بلکہ ایک شیطانی حرکت ہے۔ اِسلام جس صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے وہ اپنی ذات سے ہونی چاہیے اور حق و انصاف کی حد کے اندر ہونی چاہیے۔
رشتہ داری کے تعلق کے بعد دوسرا قریب ترین تعلق ہمسائیگی کا ہے۔ قرآن کی رُو سے ہمسایوں کی تین قسمیں ہیں ،ایک رشتہ دار ہمسایہ ،دوسرا اجنبی ہمسایہ، تیسرا وہ عارضی ہمسایہ جس کے پاس بیٹھنے یا ساتھ چلنے کا آدمی کو اتفاق ہو۔ یہ سب اسلامی احکام کی رُو سے رفاقت، ہم دردی اور نیک سلوک کے مستحق ہیں۔ نبی ؐ فرماتے ہیں کہ مجھے ہمسائے کے حقوق کی اتنی تاکید کی گئی ہے کہ میں خیال کرنے لگا کہ شاید اب اسے وراثت میں حصہ دار بنایا جائے گا ۔ایک اور حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا وہ شخص مومن نہیں ہے جس کا ہمسایہ اس کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو۔ایک دوسری حدیث میںآپؐ کا ارشادہے کہ وہ شخص ایمان نہیں رکھتا جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھا لے اور اس کاہمسایہ اس کے پہلو میں بھوکا رہ جائے ۔ایک مرتبہ آنحضرت ؐ سے عرض کیا گیا کہ ایک عورت بہت نمازیں پڑھتی ہے، اکثر روزے رکھتی ہے، خوب خیرات کرتی ہے مگر اس کی بدزبانی سے اس کے پڑوسی عاجز ہیں۔ آپؐ نے فرمایا وہ دوزخی ہے ۔لوگوں نے عرض کیا کہ ایک دوسری عورت ہے جس میں یہ خوبیاں تو نہیں ہیں مگر وہ پڑوسیوں کو تکلیف بھی نہیں دیتی۔ فرمایا وہ جنتی ہے ۔آنحضرت ؐنے لوگوں کویہاں تک تاکید فرمائی تھی کہ اپنے بچوں کے لیے اگر پھل لائو تو یا تو ہم سائے کے گھر بھی بھیجو ورنہ چھلکے باہر نہ پھینکو تاکہ غریب ہم سائے کا دل نہ دکھے ۔ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا کہ اگر تیرے ہمسائے تجھے اچھا کہتے ہیں تو واقعی تو اچھا ہے ،اور اگر ہمسائے کی رائے تیرے بارے میں خراب ہے تو تو ایک بُرا آدمی ہے۔ مختصر یہ کہ اِسلام ان سب لوگوں کو جو ایک دوسرے کے پڑوسی ہوں آپس میں ہم درد ،مدد گار اور شریکِ رنج و راحت دیکھنا چاہتا ہے۔ ان کے درمیان ایسے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے کہ وہ سب ایک دوسرے پر بھروسا کریں اور ایک دوسرے کے پہلو میں اپنی جان، مال اور آبُرو کو محفوظ سمجھیں، رہی وہ معاشرت جس میں ایک دیوار بیچ ر ہنے والے دو آدمی برسوں ایک دوسرے سے نا آشنا رہیں اور جس میں ایک محلے کے رہنے والے باہم کوئی دل چسپی ،کوئی ہم دردی اور کوئی اعتماد نہ رکھتے ہوں تو ایسی معاشرت ہر گز اسلامی معاشرت نہیں ہو سکتی۔
ان قریبی رابطوں کے بعد تعلقات کا وہ وسیع دائرہ سامنے آتا ہے جو پورے معاشرے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس دائرے میں اِسلام ہماری اجتماعی زندگی کو جن بڑے بڑے اصولوں پر قائم کرتا ہے وہ مختصرًا یہ ہیں :
٭ نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں تعاون کرو اور بدی و زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔(قرآن)
٭ تمہاری دوستی اور دشمنی خدا کی خاطر ہونی چاہیے، جو کچھ دو اُس لیے دو کہ خُدا اس کا دینا پسند کرتا ہے ، اور جو کچھ رو کو اس لیے روکو کہ خدا کو اس کا دینا پسند نہیں ہے۔(حدیث)
٭ تم تو وہ بہترین امت ہو جسے دنیا والوں کی بھلائی کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ تمہارا کام نیکی کا حکم دینا اور بدی کو روکنا ہے۔ (قرآن)
٭ آپس میں بد گمانی نہ کرو، ایک دوسرے کے معاملات کا تجسس نہ کرو، ایک کے خلاف دوسرے کو نہ اُکسائو، آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ (حدیث)
٭ کسی ظالم کو ظالم جانتے ہوئے اُس کا ساتھ نہ دو۔ (حدیث)
٭ غیر حق میں اپنی قوم کی حمایت کرنا ایسا ہے جیسے تمہارا اونٹ کنویں میں گرنے لگا تو تم بھی اُس کی دُم پکڑ کر اُس کے ساتھ ہی جا گرے ۔(حدیث)
٭ دوسروں کے لیے وہی کچھ پسند کرو جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔(حدیث)
(۴) اِسلام کا اقتصادی نظام
(یہ تقریر ۲؍ مارچ ۱۹۴۸ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)
انسان کی معاشی زندگی کو انصاف اور راستی پر قائم رکھنے کے لیے اِسلام نے چند اُصول اور چند حدود مقرر کر دیے ہیں تا کہ دولت کی پیدائش ،استعمال اور گردش کا سارا نظام انھی خطوط کے اندر چلے جو اس کے لیے کھینچ دیے گئے ہیں۔ دولت کی پیداوار کے طریقے اور اس کی گردش کی صورتیں کیا ہوں؟ اِسلام کو اس سوال سے کوئی بحث نہیں ہے۔ یہ چیزیں تو مختلف زمانوں میں تمدن کے نشوونما کے ساتھ ساتھ بنتی اور بدلتی رہتی ہیں۔ ان کا تعین انسانی حالات و ضروریات کے لحاظ سے خود بخود ہو جاتا ہے۔ اِسلام جو کچھ چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ تمام زمانوں اور حالات میں انسان کے معاشی معاملات جو شکلیں بھی اختیار کریں ان میں یہ اصول مستقل طور پر قائم رہیں اور ان حدود کی لازماً پابندی کی جائے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے زمین اور اس کی سب چیزیں خدا نے نوع انسانی کے لیے بنائی ہیں، اس لیے ہر انسان کا یہ پیدائشی حق ہے کہ زمین سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔اس حق میں تمام انسان برابر کے شریک ہیں، کسی کو اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ نہ کسی کو اس معاملے میں دوسروں پر ترجیح ہی حاصل ہو سکتی ہے ۔کسی شخص یا نسل یا طبقے پر ایسی کوئی پابندی ازروئے شرع عاید نہیں ہو سکتی کہ وہ رزق کے وسائل میں سے بعض کو استعمال کرنے کا حق دار ہی نہ رہے، یا بعض پیشوں کا دروازہ اس کے لیے بند کر دیا جائے۔ اسی طرح ایسے امتیازات بھی شرعاً قائم نہیں ہو سکتے جن کی بنا پر کوئی ذریعہ معاش یا وسیلۂ رزق کسی مخصوص طبقے یا نسل یا خاندان کا اجارہ بن کر رہ جائے۔ خدا کی بنائی ہوئی زمین پر اس کے پیدا کیے ہوئے وسائلِ رزق میں سے اپنا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا سب انسانوں کا یکساں حق ہے اور اس کوشش کے مواقع سب کے لیے یکساں کھلے ہونے چاہییں۔
قدرت کی جن نعمتوں کو تیار کرنے یا کار آمد بنانے میں کسی کی محنت و قابلیت کا کوئی دخل نہ ہو وہ سب انسانوں کے لیے مباح عام ہیں۔ ہر شخص کو حق ہے کہ اپنی ضرورت بھر ان سے فائدہ اٹھائے ۔دریائوں اور چشموں کا پانی ،جنگل کی لکڑی ،قدرتی درختوں کے پھل ،خود رُوگھاس اور چارہ، ہَوا اور پانی اور صحرا کے جانور ،سطح زمین پرکھلی ہوئی کانیں ،اس قسم کی چیزوں پر نہ توکسی کی اجارہ داری قائم ہو سکتی ہے اور نہ ایسی پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں کہ بند گانِ خدا کچھ دیے بغیر ان سے اپنی ضرورتیں پوری نہ کر سکیں ۔ہاں جو لوگ تجارتی اغراض کے لیے بڑے پیمانے پر ان میں سے کسی چیز کو استعمال کرنا چاہیں ان پر ٹیکس لگایا جا سکتا ہے۔
خدا نے جو چیزیں انسان کے فائدے کے لیے بنائی ہیں انھیں لے کر بیکار ڈال رکھنا صحیح نہیں ہے۔ یا تو اُن سے خود فائدہ اٹھائو ،ورنہ چھوڑ دو تا کہ دوسرے ان سے متمتع ہوں۔ اسی اصول کی بِنا پر اسلامی قانون یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کوئی شخص اپنی زمین کو تین سال سے زیادہ مدت تک افتادہ حالت میں نہیں رکھ سکتا۔ اگر وہ اس کو زراعت یا عمارت یا کسی دوسرے کام میں استعمال نہ کرے تو تین سال گزر جانے کے بعد وہ متروکہ زمین سمجھی جائے گی، کوئی دوسرا شخص اسے کام میں لے آئے تو اس پر دعویٰ نہ کیا جا سکے گا ،اور اسلامی حکومت کو بھی یہ اختیار ہو گا کہ اس زمین کو کسی کے حوالے کر دے۔
جو شخص براہِ راست قدرت کے خزانے میں سے کوئی چیز لے اور اپنی محنت و قابلیت سے اس کو کار آمد بنائے وہ اس چیز کا مالک ہے ۔مثلاً کسی افتادہ زمین کوجس پر کسی کے حقوق ملکیت ثابت نہ ہوں، اگر کوئی شخص اپنے قبضے میں لے لے اور کسی مفید کام میں استعمال کرنا شروع کردے تو اس کو بے دخل نہیں کیا جا سکتا ۔اسلامی نظریئے کے مطابق دنیا میں تمام مالکانہ حقوق کی ابتدا اسی طرح ہوئی ہے۔ پہلے پہل جب زمین پر انسانی آبادی شروع ہوئی تو سب چیزیں سب انسانوں کے لیے مباحِ عام تھیں ۔پھر جس جس شخص نے جس مباح چیز کو اپنے قبضے میں لے کر کسی طور پر کار آمد بنا لیا وہ اس کا مالک ہو گیا ۔یعنی اسے یہ حق حاصل ہو گیا کہ اس کا استعمال اپنے لیے مخصوص کر لے اور دوسرے اسے استعمال کرنا چاہیں تو ان سے اس کا معاوضہ لے ۔یہ چیز انسان کے سارے معاشی معاملات کی فطری بنیاد ہے اور اس بنیاد کو اپنی جگہ پر قائم رہنا چاہیے۔
جائز شرعی طریقوں سے جو مالکانہ حقوق کسی کو دنیا میں حاصل ہوں وہ بہر حال احترا م کے مستحق ہیں۔کلام اگر ہو سکتا ہے تو اس امر میں ہو سکتاہے کہ کوئی ملکیت شرعاً صحیح ہے یا نہیں۔ جو ملکیتیں ازرُوئے شرع ناجائز ہوں انھیں بے شک ختم ہو جانا چاہیے ،مگر جو ملکیتیں شرعاً صحیح ہوں، کسی حکومت اور کسی مجلسِ قانون ساز کو یہ حق نہیں ہے کہ انھیں سلب کرلے یا ان کے مالکوں کے شرعی حقوق میں کسی قسم کی کمی بیشی کرے۔ اجتماعی بہتری کا نام لے کر کوئی ایسا نظام قائم نہیں کیا جا سکتا جو شریعت کے دیے ہوئے حقوق کو پامال کرنے والاہو۔جماعت کے مفاد کے لیے افراد کی ملکیتوں پر جو پابندیاں شریعت نے خود لگا دی ہیں ان میںکمی کرنا جتنا بڑا ظلم ہے اتنا ہی بڑا ظلم ان پر اضافہ کرنا بھی ہے ۔یہ بات اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ہے کہ افراد کے شرعی حقوق کی حفاظت کرے اور ان سے جماعت کے وہ حقوق وصول کرے جو شریعت نے ان پر عائد کیے ہیں۔
خدا نے اپنی نعمتوں کی تقسیم میں مساوات ملحوظ نہیں رکھی ہے بلکہ اپنی حکمت کی بنا پر بعض انسانوں کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ حُسن،خوش آوازی، تندرستی، جسمانی طاقتیں، دماغی قابلیتیں، پیدائشی ماحول، اور اسی طرح کی دوسری چیزیںسب انسانوں کویکساں نہیں ملیں۔ ایسا ہی معاملہ رزق کا بھی ہے ۔خدا کی بنائی ہوئی فطرت خود اس بات کی متقاضی ہے کہ انسانوں کے درمیان رزق میں تفاوت ہو، لہٰذا وہ تمام تدبیریں اسلامی نقطۂ نظر سے، مقصد اور اصول میں غلط ہیں جو انسانوںکے درمیان ایک مصنوعی معاشی مساوات قائم کرنے کے لیے اختیار کی جائیں۔ اِسلام جس مساوات کا قائل ہے وہ رزق میں مساوات نہیں بلکہ حصولِ رزق کی جدوجہد کے مواقع میں مساوات ہے، وہ چاہتا ہے کہ سوسائٹی میں ایسی قانونی اور رواجی رکاوٹیں باقی نہ رہیں جن کی بنا پر کوئی شخص اپنی قوت و استعداد کے مطابق معاشی جدوجہدنہ کر سکتا ہو اور ایسے امتیازات بھی قائم نہ رہیں جو بعض طبقوں ،نسلوں اور خاندانوں کی پیدائشی خوش نصیبی کو مستقل قانونی تحفظات میں تبدیل کر دیتے ہوں ۔یہ دونوںطریقے فطری نا مساوات کی جگہ زبردستی ایک مصنوعی نا مساوات قائم کرتے ہیں۔ اس لیے اِسلام انھیں مٹا کر سوسائٹی کے معاشی نظام کو ایسی فطری حالت پر لے آنا چاہتا ہے جس میں ہر شخص کے لیے کوشش کے مواقع کھلے ہوں ۔مگر جو لوگ چاہتے ہیں کہ کوشش کے ذرائع اور نتائج میں بھی سب لوگوں کو زبردستی برابر کر دیا جائے، اِسلام اُن سے متفق نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ فطری نا مساوات کو مصنوعی مساوات میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ فطرت سے قریب تر نظام صرف وہی ہو سکتا ہے جس میں ہر شخص معیشت کے میدان میں اپنی دوڑ کی ابتدا اسی مقام اور اسی حالت سے کرے جس پر خدا نے اسے پیدا کیا ہے۔ جو موٹر لیے ہوئے آیا ہے وہ موٹر ہی پر چلے ،جو صرف دو پائوں لایا ہے وہ پیدل ہی چلے ،اور جو لنگڑا پیدا ہوا ہے وہ لنگڑا کر ہی چلنا شروع کردے ۔سوسائٹی کا قانون نہ تو ایسا ہونا چاہیے کہ وہ موٹر والے کا مستقل اجارہ موٹر پر قائم کردے اور لنگڑے کے لیے موٹر کا حصول نا ممکن بنا دے، اور نہ ایسا ہی ہونا چاہیے کہ سب کی دوڑزبردستی ایک ہی مقام اور ایک ہی حالت سے شروع ہو اور آگے تک انھیں لازماً ایک دوسرے کے ساتھ باندھ رکھا جائے ۔برعکس اس کے قوانین ایسے ہونے چاہئیں جن میں اس امر کا کھلا امکان موجود رہے کہ جس نے اپنی دوڑ لنگڑا کر شروع کی تھی وہ اپنی محنت و قابلیت سے موٹر پا سکتا ہو تو ضرور پائے، اور جو ابتدا میں موٹر پر چلا تھا وہ بعد میں اپنی نا اہلی سے لنگڑا ہو کر رہ جائے تو رہ جائے۔
اِسلام صرف اتنا ہی نہیں چاہتا کہ اجتماعی زندگی میں ہی معاشی دوڑ کھلی اور بے لاگ ہو، بلکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس میدان میںدوڑنے والے ایک دوسرے کے لیے بے رحم اور بے دردنہ ہوںبلکہ ہم درد اور مدد گار ہوں۔ وہ ایک طرف اپنی اَخلاقی تعلیم سے لوگوں میں یہ ذہنیت پیدا کرتا ہے کہ اپنے درماندہ اور پسماندہ بھائیوں کو سہارا دیں ۔دوسری طرف وہ تقاضا کرتا ہے کہ سوسائٹی میں ایک مستقل ادارہ موجود رہے جو معذور اور بے وسیلہ لوگوں کی مدد کا ضامن ہو ۔جو لوگ معاشی دوڑ میں حصہ لینے کے قابل نہ ہوں وہ اس ادارے سے اپنا حصہ پائیں، جو لوگ اتفاقاتِ زمانہ سے اس دوڑ میں گر پڑے ہوں انھیں یہ ادارہ اٹھا کر پھر چلنے کے قابل بنا دے اور جن لوگوں کوجدوجہد کے میدان میں اُترنے کے لیے سہارے کی ضرورت ہوانھیں اس ادارے سے سہارا ملے ۔اس مقصد کے لیے اِسلام نے ازرُوئے قانون یہ طے کیا ہے کہ ملک کی تمام جمع شدہ دولت پر ڈھائی فی صدی سالانہ اور اسی طرح پورے تجارتی سرمائے پر بھی ڈھائی فی صدی سالانہ زکوٰۃ وصول کی جائے۔ تمام عُشری زمینوں کی زرعی پیداوار کا دس فی صدی یا پانچ فی صدی حصہ لیا جائے۔ بعض معدنیات کی پیداوار کا بیس فی صدی حصہ لیا جائے۔ مویشیوں کی ایک خاص تناسب سے سالانہ زکوٰۃلگائی جائے اور یہ تمام سرمایہ غریبوں، یتیموں اور محتاجوں کی مدد کے لیے استعمال کیا جائے ۔یہ ایک ایسا اجتماعی انشورنس ہے جس کی موجودگی میں اسلامی سوسائٹی کے اندر کوئی شخص زندگی کی ناگزیر ضروریات سے کبھی محروم نہیں رہ سکتا ،کوئی محنت کش آدمی کبھی اتنا مجبور نہیں ہو سکتا کہ فاقے کے ڈر سے خدمت کی وہی شرائط منظور کر لے جو کار خانہ دار یا زمین دار پیش کر رہا ہو،کسی شخص کی طاقت اُس کم سے کم معیار سے کبھی نیچے نہیں گر سکتی جو معاشی جدوجہد میں حصہ لینے کے لیے ضروری ہے۔
فرد اور جماعت کے درمیان اِسلام ایسا توازن قائم کرنا چاہتا ہے جس میں فردکی شخصیت اور اس کی آزادی بھی بر قرار رہے اور اجتماعی مفاد کے لیے اس کی آزادی نقصان دہ بھی نہ ہو، بلکہ لازمی طور پر مفید ہو۔ اِسلام کسی ایسی سیاسی یا معاشی تنظیم کو پسند نہیں کرتا جو فرد کو جماعت میں گم کردے اور اس کے لیے وہ آزادی باقی نہ چھوڑے جو اس کی شخصیت کے صحیح نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ کسی ملک کے تمام ذرائع پیداوار کو قومی ملکیت بنا دینے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ملک کے تمام افرادجماعتی شکنجے میں جکڑ جائیں ۔اس حالت میں ان کی انفرادیت کی بقا وارتقا سخت مشکل بلکہ غیر ممکن ہے ۔انفرادیت کے لیے جس طرح سیاسی اور معاشرتی آزادی ضروری ہے‘ اسی طرح معاشی آزادی بھی بہت بڑی حد تک ضروری ہے ۔اگر ہم آدمیت کا بالکل استیصال نہیں کر دینا چاہتے تو ہماری اجتماعی زندگی میں اتنی گنجایش ضروری رہنی چاہیے کہ ایک بندئہ خدا اپنی روزی آزادانہ پیدا کر کے اپنے ضمیر کا استقلال برقراررکھ سکے اور اپنی ذہنی و اَخلاقی قوتوںکو اپنے رُجحانات کے مطابق نشوونما دے سکے ۔راتب بندی کارزق جس کی کنجیاں دوسروں کے ہاتھ میں ہوں اگر فراواںبھی ہو تو خوش گوار نہیں،کیوں کہ اس سے پرواز میں جو کوتاہی آتی ہے محض جسم کی فربہی اس کی تلافی نہیں کر سکتی۔
جس طرح اِسلام ایسے نظام کو نا پسند کرتا ہے اسی طرح وہ ایسے اجتماعی نظام کو بھی پسند نہیں کرتا جو افراد کو معاشرت اور معیشت میں بے لگام آزادی دیتا ہے اور انھیں کھلی چھٹی دے دیتا ہے کہ اپنی خواہشات یا اپنے مفاد کی خاطر جماعت کو جس طرح چاہیں نقصان پہنچائیں ۔ان دونوں انتہائوں کے درمیان اِسلام نے جو متوسط راہ اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے فرد کو جماعت کی خاطر چند حدود اور ذمہ داریوں کا پابند بنایا جائے ،پھر اُسے اپنے معاملات میں آزادانہ چھوڑ دیا جائے۔ ان حدود اور ذمہ داریوں کی ساری تفصیل بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں،میں ان کا صرف ایک مختصر سا نقشہ آپ کے سامنے پیش کروں گا۔
پہلے کسبِ معاش کو لیجیے۔ دولت کمانے کے ذرائع میں اِسلام نے جتنی باریک بینی کے ساتھ جائز و ناجائز کی تفریق کی ہے دنیا کے کسی قانون نے نہیں کی۔ وہ چُن چُن کر ان تمام ذرائع کو حرام قرار دیتا ہے جن سے ایک شخص دوسرے اشخاص کو یا بحیثیت مجموعی پُوری سوسائٹی کو اَخلاقی یا مادی نقصان پہنچا کر اپنی روزی حاصل کرتا ہے ۔شراب اور نشہ آور چیزوں کا بنانا اور بیچنا ،فحش کاری اور رقص و سرود کا پیشہ ،جوا‘ سٹہ ،لاٹری ،سود ،قیاس اور دھوکے اور جھگڑے کے سودے ،ایسے تجارتی طریقے جن میں ایک فریق کا فائدہ یقینی اور دوسرے کا مشتبہ ہو ،ضرورت کی چیزوں کو روک کر ان کی قیمتیں چڑھانا ،اور اسی طرح کے بہت سے وہ کاروبار جو اجتماعی طور پر ضرر رساں ہیں اسلامی قانون میں قطعی طور پر حرام کر دیے گئے ہیں۔ اس معاملے میں اگر آپ اِسلام کے معاشی قانون کا جائزہ لیں تو حرام طریقوں کی ایک طویل فہرست آپ کے سامنے آئے گی اور ان میں بہت سے وہ طریقے آپ کو ملیں گے جنھیں استعمال کر کے ہی موجودہ سرمایہ داری نظام میں لوگ کروڑ پتی بنتے ہیں۔ اِسلام ان سب طریقوں کو از رُوئے قانون بند کرتا ہے اور آدمی کو صرف ان طریقوں سے دولت کمانے کی آزادی دیتا ہے جن سے وہ دوسروں کی کوئی حقیقی اور مفید خدمت انجام دے کر انصاف کے ساتھ اس کا معاوضہ حاصل کرے۔
حلال ذرائع سے کمائی ہوئی دولت پر اِسلام آدمی کے حقوقِ ملکیت تسلیم کرتا ہےمگر یہ حقوق بھی غیر محدود نہیں ہیں ۔وہ آدمی کو پابند کرتا ہے کہ اپنی حلال کمائی کو خرچ بھی جائز ذرائع سے جائز راستوں ہی میں کرے۔ خرچ پر اس نے ایسی قیود لگا دی ہیں جن سے آدمی ایک ستھری اور پاکیزہ زندگی تو بسر کر سکتا ہے مگر عیاشیوں میں دولت اڑا نہیں سکتا ،نہ شان و شوکت کے اظہار میں اس قدر حد سے گزر سکتا ہے کہ دوسروں پر اس کی خدائی کا سکہ جمنے لگے۔ بے جا خرچ کی بعض صورتوں کو تو اسلامی قانون میں صراحتاً ممنوع ٹھیرایا گیا ہے اور بعض دوسری صورتوں کی اگرچہ صراحت نہیں ہے لیکن اسلامی حکومت کو یہ اختیارات حاصل ہیں کہ اپنی دولت میں نارواتصرفات کرنے سے لوگوں کو حُکماً روک دے۔
جائز اور معقول اخراجات سے جو دولت آدمی کے پاس بچے اسے وہ جمع بھی کر سکتا ہے اور مزید دولت پیدا کرنے میں بھی لگا سکتا ہے ۔مگر ان دونوں حقوق پر پابندیاں ہیں۔ جمع کرنے کی صورت میں اسے نصاب سے زائد دولت پر ڈھائی فی صدی سالانہ زکوٰۃدینی ہو گی۔ کاروبار میں لگانا چاہے تو صرف جائز کاروبار ہی میں لگا سکتا ہے۔جائز کاروبار خواہ آدمی خود کرے یا کسی دوسرے کو اپنا سرمایہ روپے ،زمین یا آلات و اسباب کی صورت میں دے کر نفع و نقصان کا شریک ہو جائے ،یہ دونوں صورتیں جائز ہیں۔ ان حدود کے اندر کام کر کے اگر کوئی شخص کروڑ پتی بھی بن جائے تو اِسلام کی نگاہ میں یہ کوئی قابلِ اعتراض چیز نہیں ہے، بلکہ خدا کا انعام ہے ۔لیکن جماعتی مفاد کے لیے وہ اس پر دو شرطیں عاید کرتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اپنے تجارتی مال پر زکوٰۃ اورزرعی پیداوار پر عُشر ادا کرے ۔دوسرے یہ کہ وہ اپنی تجارت یا صنعت یا زراعت میں جن لوگوں کے ساتھ شرکت یا اُجرت کا معاملہ کرے ان سے انصاف کرے۔یہ انصاف اگر وہ خود نہ کرے گا تو اسلامی حکومت اسے انصاف پر مجبور کرے گی۔
پھر جو دولت ان جائز حدود کے اندر فراہم ہو اس کو بھی اِسلام زیادہ دیر تک سمٹا نہیں رہنے دیتا بلکہ اپنے قانونِ وراثت کے ذریعے سے ہر پُشت کے بعد دوسری پُشت میں اسے پھیلا دیتا ہے۔ اس معاملے میں اسلامی قانون کا رُجحان دنیا کے تما م دوسرے قوانین کے رُجحانات سے مختلف ہے۔ دوسرے قوانین کوشش کرتے ہیں کہ جو دولت ایک دفعہ سمٹ چکی ہے وہ پُشت در پُشت سمٹی رہے۔ برعکس اس کے اِسلام ایسا قانون بناتا ہے کہ جو دولت ایک شخص نے اپنی زندگی میں فراہم کی ہو وہ اس کے مرتے ہی اس کے قریبی عزیزوں میںبانٹ دی جائے۔قریبی عزیز نہ ہوں تو دور کے رشتہ دار بحصۂ رسدی اس کے وارث ہوں اور اگر کوئی دُور پرے کا رشتے دار بھی نہ ہو تو پھر پوری مسلم سوسائٹی اس کی حق دار ہے۔ یہ قانون کسی بڑی سرمایہ داری و زمین داری کو مستقل اور دائم نہیں رہنے دیتا۔ پچھلی ساری پابندیوں کے باوجود اگر دولت کے سمٹائو سے کوئی خرابی پیدا ہو بھی جائے تو یہ آخری ضرب اس کا ازالہ کر دیتی ہے۔
(۵) اِسلام کا رُوحانی نظام
(یہ تقریر ۱۶؍ مارچ ۱۹۴۸ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)
اِسلام کا رُوحانی نظام کیا ہے،اورزندگی کے پُورے نظام سے اس کا کیا تعلق ہے؟اس سوال کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم اُس فرق کو اچھی طرح سمجھ لیں جو رُوحانیت کے اسلامی تصور اور دوسرے مذہبی اور فلسفیانہ نظاموں کے تصورات میں پایا جاتا ہے ۔یہ فرق ذہن نشین نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اِسلام کے رُوحانی ن