اسلامی نظامِ تعلیم

ریڈ مودودی ؒ   کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اسلامی نظامِ تعلیم

(ذیل کا مقالہ دراصل وہ میمورینڈم ہے جو مولانا مودودیؒ نے اصلاح تعلیم کے سلسلے میں قومی تعلیمی کمیشن کو بھیجا تھا۔ چونکہ کمیشن کے جاری کردہ سوالنامے کا دائرہ اس قدر محدود تھا کہ اس کے حدود میں رہتے ہوئے بنیادی تبدیلیوں کے متعلق کوئی تجویز پیش نہیں کی جا سکتی تھی‘ اس لیے یہ مقالہ کمیشن کی اجازت سے اس سے آزاد ہو کر لکھا گیا ہے…)
اس ملک کے موجودہ نظامِ تعلیم میں اصلاحات تجویز کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم ان نقائص کو اچھی طرح سمجھ لیں جو ہماری تعلیم کے نظام میں اس وقت پائے جاتے ہیں۔ اس کے بغیر ہم یہ نہیں جان سکتے کہ اس میں اصلاح کِس طرح اور کِس شکل میں ہونی چاہیے۔ ہمارے ملک میں اس وقت دو طرح کے نظامِ تعلیم رائج ہیں۔ ایک وہ جس پر ہمارے پرانے طرز کے مدارس چل رہے ہیں اور ہماری مذہبی ضروریات پوری کرنے کیلئے علماء تیار کرتا ہے۔ دوسرا وہ جو ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوںمیں رائج ہے اور مذہبی دائرے سے باہر ہمارے پورے نظامِ زندگی کو چلانے کے لیے کارکن تیار کرتا ہے۔ ان دونوں کے نقائص کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر ہمیں ان کے بجائے ایک ہی ایسا نظامِ تعلیم تجویز کرنا ہو گا جو ہماری ساری قومی ضروریات کو بیک وقت پورا کر سکے۔ اور اس موجودہ تعلیمی ثنویت کو ختم کر دے جو دین ودنیا کی تفریق کے گمراہانہ نظرئیے پر مبنی ہے۔

قدیم نظامِ تعلیم

جہاں تک ہمارے پرانے نظامِ تعلیم کا تعلق ہے ‘اس کے متعلق یہ غلط فہمی ہے کہ یہ ہماری قدیم مذہبی تعلیم کا نظام تھا۔ دراصل یہ مذہبی تعلیم کا نہیں بلکہ سول سروس کا نظام تھا جو قدیم زمانے میں مسلمان حکومتوں کی ضروریات کے لیے تجویز کیا گیا تھا۔ اس نظامِ تعلیم کی افادیّت عملاً اسی روز ختم ہو گئی تھی جس روز انگریزی حکومت یہاں مسلّط ہوئی، کیونکہ اس کے تحت تعلیم پائے ہوئے لوگوں کے لیے نئی مملکت میں کوئی جگہ نہ رہی۔ لیکن چونکہ اس میں ہماری صدیوں کی تہذیبی میراث موجود تھی اور ہماری مذہبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی اس کے اندر کچھ نہ کچھ سامان پایا جاتا تھا (اگرچہ کافی نہ تھا)، اس لیے دَورِ غلامی کے آغاز میں ہماری قوم کے ایک اچھے خاصے بڑے عنصر نے یہ محسوس کیا کہ اس نظام کو جس طرح بھی ہو سکے قائم رکھا جائے تاکہ اپنی آبائی میراث سے بالکل منقطع ہو کر ہمارا قومی شیرازہ منتشر اور ہمارا قومی وجود بالکل ہی ختم نہ ہو جائے۔
اسی مصلحت سے انہوں نے کسی تغیر وتبّدل کے بغیر اس کو جوں کا توں برقرار رکھا، لیکن جتنے جتنے حالات بدلتے گئے اتنی ہی زیادہ اس کی افادیّت گھٹتی چلی گئی، کیونکہ اس نظام تعلیم کے تحت جو لوگ تعلیم پاکر کرنِکل رہے ہیں۔ ان کا کوئی مصرف اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ ہماری مسجدوں کو سنبھال کر بیٹھ جائیں یا کچھ مدرسے کھول لیں یا وعظ گوئی کا پیشہ اختیار کریں اور طرح طرح کے مذہبی جھگڑے چھیڑتے رہیں تاکہ ان جھگڑوں کی وجہ سے قوم کو ان کی ضرورت محسوس ہو۔ اس طرح ان کی ذات سے اگرچہ کچھ نہ کچھ فائدہ بھی ہمیں پہنچتا ہے، یعنی ان کی بدولت ہمارے اندر دین کا کچھ نہ کچھ علم پھیلتا ہے، دین کے متعلق کچھ نہ کچھ واقفیت لوگوں کو حاصل ہو جاتی ہے اور ہماری مذہبی زندگی میں کچھ نہ کچھ حرارت باقی رہ جاتی ہے۔ لیکن اس فائدے کے مقابلے میں جو نقصان ان سے ہم کو پہنچ رہا ہے، وہ بہت زیادہ ہے۔ وہ نہ تو اسلام کی صحیح نمائندگی کر سکتے ہیں‘ نہ ان کے اندر اب یہ صلاحیّت ہے کہ وہ دینی اصولوں پر قوم کی رہنمائی کر سکیں اور نہ وہ ہمارے اجتماعی مسائل میں سے کسی مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اب ان کی بدولت دین کی عزت میں اضافہ ہونے کے بجائے الٹی اس میں کچھ کمی ہو رہی ہے۔ دین کی جیسی نمائندگی آج ان کے ذریعہ سے ہو رہی ہے، اس کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں میں دین سے روز بروز بُعد بڑھتا جا رہا ہے اور دین کے وقار میں کمی آ رہی ہے۔ پھر ان کی بدولت ہمارے ہاں مذہبی جھگڑوں کا ایک سلسلہ ہے جو کسی طرح ٹوٹنے میں نہیں آتا کیونکہ ان حضرات کی ضروریاتِ زندگی انہیں مجبور کرتی ہیں کہ وہ ان جھگڑوں کو تازہ رکھیں اور بڑھاتے رہیں۔ یہ جھگڑے نہ ہوں تو قوم کو سرے سے ان کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو۔
یہ ہے ہمارے پرانے نظامِ تعلیم کی پوزیشن، اس میں دینی تعلیم بہت کم ہے اور علمائے دین اور مذہبی پیشوا تیار کرنے کا جو کام اس سے اس وقت لیا جا رہا ہے اس کے لیے وہ بنایا ہی نہیں گیا تھا۔ وہ تو دراصل جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، اب سے دو ڈھائی سو برس پہلے کی سول سروس کی تعلیم ہے جس میں زیادہ تر اس وجہ سے دینی تعلیم کا جوڑ لگایا گیا تھا کہ اس زمانے میں اسلامی فقہ ہی ملک کا قانون تھی اور اسے نافذ کرنے والوں کے لیے فقہ اور اس کی بنیادوں کا جاننا ضروری تھا۔ آج ہم غنیمت سمجھ کر اسی کو اپنی دینی تعلیم سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں اس کے اندر دینی تعلیم کا عنصر بہت کم ہے۔ اس میں جس قدر زور اس دور کے فلسفہ، منطق، ادب اور صَرف ونحو وغیرہ علوم پر دیا جاتا ہے، قرآن وحدیث اور دین کی اساسی تعلیمات پر نہیں دیا جاتا، آج بھی کوئی عربی مدرسہ ایسا نہیں ہے جس کے نصابِ تعلیم میں پورا قرآن مجید داخل ہو۔ صرف ایک یا دو سورتیں (سورۃ بقرہ یا سورۂ آل عمران) باقاعدہ درساً درساً پڑھائی جاتی ہیں۔ باقی سارا قرآن اگر کہیں شاملِ درس ہے بھی تو صرف اس کا ترجمہ پڑھا جاتا ہے۔ تحقیقی مطالعۂ قرآن جو آدمی کو مفسر بنا سکے، کسی مدرسے کے نصاب میں بھی شامل نہیں۔ یہی صورتِ حال تعلیمِ حدیث کی ہے۔ اس کی بھی باقاعدہ تعلیم جیسی کہ ہونی چاہیے، جیسی کہ محدّث بننے کے لیے درکار ہے، کہیں نہیں دی جاتی۔ درس وحدیث کا جو طریقہ ہمارے ہاں رائج ہے وہ یہ ہے کہ جب فقہی اور اعتقادی جھگڑوں سے متعلق کوئی حدیث آ جاتی ہے تو اس پر دو دو تین تین دن صَرف کر دئیے جاتے ہیں۔ باقی رہیں وہ حدیثیں جو دین کی حقیقت سمجھاتی ہیں ، یا جن میں اسلام کا معاشی اور سیاسی اور تمدنی اور اخلاقی نظام بیان کیا گیا ہے، یا جن میں دستورِ مملکت، نظامِ عدالت یا بین الاقوامی قانون پر روشنی پڑتی ہے ان پر سے استاد اور شاگرد سب اس طرح رواں دواں گزر جاتے ہیں کہ گویا ان میں کوئی بات قابل توجہ ہے ہی نہیں۔ حدیث اور قرآن کی بہ نسبت ان کی توجہ فقہ کی طرف زیادہ ہے لیکن اس میں زیادہ تر جزئیاتِ فقہ کی تفصیلات ہی توجہ کا مرکز رہتی ہیں۔ فقہ کی تاریخ، اس کا تدریجی ارتقاء، اس کے مختلف اسکولوں کی امتیازی خصوصیات، ان اسکولوں کے متفق علیہ اور مختلف فیہ اصول اور ائمہ مجتہدین کے طریقِ استنباط… جن کے جانے بغیر کوئی شخص حقیقت میں فقیہہ نہیں بن سکتا، ان کے درس میں سرے سے شامل ہی نہیں ہیں ، بلکہ ان چیزوں پر شاگرد تو درکنار استاد بھی کم ہی نگاہ رکھتے ہیں۔ رہیں اجتہادی صلاحیتیں، تو ان کا پیدا کرنا سرے سے اس نظامِ تعلیم میں مقصود ہی نہیں، بلکہ شاید گناہ بھی ہے۔ اس لیے مجتہد تیار ہونے کا یہاں کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
اس طرح یہ نظامِ تعلیم ہماری ان مذہبی ضروریات کے لیے بھی سخت ناکافی ہے جن کی خاطر اس کو باقی رکھا گیا تھا۔ رہی دنیوی ضروریات تو ان کے ساتھ جو کچھ بھی اس کو سروکار تھا وہ گزشتہ صدی کے آغاز ہی میں ختم ہو چکا تھا۔

جدید نظامِ تعلیم

اس کے بعد اس نظامِ تعلیم کو لیجئے جو انگریزوں نے یہاں قائم کیا۔ دنیا میں جو بھی نظامِ تعلیم قائم کیا جائے، اس میں اوّلین بنیادی سوال یہ ہوتا ہے کہ آپ کس قسم کے آدمی تیار کرنا چاہتے ہیں اور آدمیّت کا وہ کیا نقشہ آپ کے سامنے ہے جس کے مطابق آپ لوگوں کو تعلیم وتربیّت دے کر ڈھالنا چاہتے ہیں؟ اس بنیادی سوال کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یقینا انگریز کے سامنے انسانیّت کا وہ نقشہ ہرگز نہیں تھا جو مسلمانوں کے سامنے ہونا چاہیے۔ انگریز نے یہ نظامِ تعلیم یہاں اس لیے قائم نہیں کیا تھا کہ مسلمانوں کی تہذیب کو زندہ رکھنے اور ترقی دینے کے لیے کارکن تیار کرے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ چیز اس کے پیشِ نظر نہیں ہو سکتی تھی۔ پھر اس کے پیش نظر انسانیّت کا وہ نقشہ بھی نہیں تھا جو خود اپنے ملک انگلستان میں اس کے پیش نظر تھا۔ وہ اس مقصد کے لیے یہاں آدمی تیار کرنا نہیں چاہتا تھا جس کے لیے وہ اپنے ملک میں اپنی قوم کے لیے تیار کرتا تھا۔ وہ یہاں ایسے لوگ تیار کرنا نہیں چاہتا تھا جو ایک آزاد قومی حکومت کو چلانے کے لیے موزوں ہوں۔ یہ جنس تو اسے اپنے ملک میں مطلوب تھی، نہ کہ ہمارے ملک میں۔ یہاں جس قسم کے آدمی تیار کرنا اس کے پیشِ نظر تھا ان کے اندر اولیں صلاحیت وہ یہ دیکھنی چاہتا تھا کہ وہ باہر سے آ کر حکومت کرنے والی ایک قوم کے بہتر سے بہترآلہ کار بن سکیں۔ اس کو یہاں ایسے آدمی درکار تھے جو اس کی زبان سمجھتے ہوں، جن سے وہ ربط اور تعلق رکھ سکے اور کام لے سکے، جو اس کے ان اصولوں کو جانتے اور سمجھتے ہوں، جن پر وہ ملک کا نظام چلانا چاہتا تھا، اور جن میں یہ صلاحیّت ہو کہ وہ اس سرزمین میں انگریز کے منشا کو خود انگریز کی طرح پورا کر سکیں۔ یہی مقصد تھا جس کے لیے اس نے موجودہ نظامِ تعلیم قائم کیا تھا۔
اس نظامِ تعلیم میں اس نے جتنے علوم پڑھائے، ان میں اسلام کا کوئی شائبہ نہ تھا اور نہ ہو سکتا تھا۔ خود یورپ میں ان سارے علوم کا جو ارتقاء ہوا تھا وہ تمام تر خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کی رہنمائی میں ہوا تھا۔ جو مذہبی طبقہ وہاں موجود تھا، وہ پہلے ہی فکر وعمل کے میدان سے بے دخل کیا جا چکا تھا۔ اس لیے تمام علوم کا ارتقاء خواہ وہ سائنس میں ہو یا فلسفہ، تاریخ ہو یا عمرانیات، ایسے لوگوں کے ہاتھوں ہوا۔ جو اگر خدا کے منکر نہ تھے تو کم از کم اپنی دنیوی زندگی میں خدا کی رہنمائی کی کوئی ضرورت بھی محسوس نہ کرتے تھے۔ انگریز نے اپنے انہی علوم کو لا کر، انہی کتابوں کے ساتھ اس ملک میں رائج کیا، اور آج تک انہی علوم کو اسی طرز پر یہاں پڑھایا جا رہا ہے۔ اس نظام تعلیم کے تحت جو لوگ پڑھتے رہے ان کا ذہن قدرتی طور پر بغیر اپنے کسی قصور اور اپنے کسی ارادے کے آپ سے آپ اس طرح بنتا چلا گیا کہ وہ دین سے اور دینی نقطۂِ نظر سے اور دینی طرزِ فکر سے روز بروز بعید تر ہوتے چلے گئے۔ ظاہرہے کہ جو شخص اپنی تعلیم کے نقطۂ آغاز سے لے کر اپنی انتہائی تعلیم تک دنیا کے متعلق جتنی معلومات بھی حاصل کرے وہ ساری کی ساری خدا پرستی کے نقطۂ نظر سے خالی ہوں، اس کے ذہن میں آخر خدا کا اعتقاد کیسے جڑ پکڑ سکتا ہے۔ اس کی درسی کتابوں میں خدا کا کہیں ذکر ہی نہ ہو، وہ تاریخ پڑھے تو اس میں پوری انسانی زندگی اپنی قسمت آپ ہی بناتی اور بگاڑتی نظر آئے، وہ فلسفہ پڑھے تو اس میں کائنات کی گتھی خالقِ کائنات کے بغیر ہی سلجھانے کی کوشش ہو رہی ہو۔ وہ سائنس پڑھے تو اس میں سارا خانۂ ہستی کسی صانع حکیم اور ناظم ومدبّر کے بغیر چلتا ہوا دیکھا جائے، وہ قانون، سیاست، معیشت اور دوسرے علوم پڑھے تو ان میں سرے سے یہ امر زیر بحث ہی نہ ہو کہ انسانوں کا خالق ان کے لیے زندگی کے کیا اصول اور احکام دیتا ہے، بلکہ ان سب کا بنیادی نظریہ ہی یہ ہو کہ انسان آپ ہی اپنی زندگی کے اصول بنانے کا حق رکھتا ہے، ایسی تعلیم پانے والے سے کبھی یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ تو خدا کا انکار کر، وہ آپ سے آپ خدا سے بے نیاز اور خدا سے بے فکر ہوتا چلا جائے گا۔
یہ تعلیم خدا پرستی اور اسلامی اخلاق سے تو خیر خالی ہے ہی، غضب یہ ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوانوں میں وہ بنیادی اخلاقیات بھی پیدا نہیں کرتی جن کے بغیر کسی قوم کا دنیا میں ترقی کرنا تو درکنار، زندہ رہنا بھی مشکل ہے۔ اس کے زیر اثر پرورش پا کر جو نسلیں اٹھ رہی ہیں وہ مغربی قوموں کے عیوب سے تو ماشاء اللہ پوری طرح آراستہ ہیں مگر ان کی خوبیوں کی چھینٹ تک ان پر نہیں پڑی ہے۔ ان میں نہ فرض شناسی ہے، نہ مستعدی وجفاکشی، نہ ضبطِ اوقات، نہ صبر وثبات، نہ عزم واستقلال، نہ باقاعدگی وباضابطگی، نہ ضبطِ نفس، نہ اپنی ذات سے بالا کسی چیز کی وفاداری، وہ بالکل خود رو درختوں کی طرح ہیں جنہیں دیکھ کر یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ان کا کوئی قومی کریکٹر بھی ہے، ان کو معزز سے معزز پوزیشن میں ہو کر بھی کسی ذلیل سے ذلیل بددیانتی اور بدکرداری کے ارتکاب میں دریغ نہیں ہوتا۔ ان میں بدترین قسم کے رشوت خور، خویش پرور، سفارشیں کرنے اور سننے والے، بلیک مارکٹنگ کرنے اورکرانے والے، ناجائز درآمد برآمد کرنے اور کرانے والے، انصاف اور قانون اور ضابطے کا خون کرنے والے، فرض سے جی چرانے اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکے مارنے والے، اور اپنے ذرا سے مفاد پر اپنی پوری قوم کے مفاد اور فلاح کو قربان کر دینے والے، ایک دو نہیں ہزاروں کی تعداد میں، ہر شعبۂ زندگی میں، ہر جگہ آپ کو کام کرتے نظر آتے ہیں۔ انگریز کے ہٹ جانے کے بعد مملکت کو چلانے کی ذمّہ داری کا بار اسی تعلیم کے تیار کیے ہوئے لوگوں نے سنبھالا ہے اور چند سال کے اندر ان بے سیرت کارکنوں کے ہاتھوں ملک کا جو حال ہوا ہے، وہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اور جونسل اب اس نظامِ تعلیم کی درس گاہوں میں زیر تربیّت ہے اس کے اخلاق وکردار کا حال آپ چاہیں تو درس گاہوں میں، ہوسٹلوں میں، تفریح گاہوں میں اور قومی تقریبات کے موقع پر بازاروں میں دیکھ سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ تعلیم میں خدا پرستی اور اسلامی اخلاق نہ سہی، آخر وہ اخلاق کیوں نہیں پیدا ہوتے جو انگریزوں میں، جرمنوں میں، امریکیوں میں اور دوسری ترقی یافتہ مغربی قوموں میں پیدا ہوتے ہیں؟ ان کے اندر کم از کم بنیادی انسانی اخلاقیات تو پائے جاتے ہیں، یہاں وہ بھی مفقود ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ بنیادی انسانی اخلاقیات پیدا کرنے کی فکر وہ نظامِ تعلیم کرتا ہے جو ایک آزاد قوم اپنے نظامِ زندگی کو چلانے کے لیے بناتی ہے۔ اس کو لامحالہ اپنے تمدن کی بقا اور ارتقاء کی خاطر ایسے کارکن تیار کرنے کی فکر ہوتی ہے جو مضبوط اور قابل اعتماد سیرت کے مالک ہوں۔ انگریز کوایسے کارکنوں کی ضرورت اپنے ملک میں تھی نہ کہ ہمارے ملک میں۔ اس ملک میں تو انگلستان کے برعکس اسے وہ اخلاق پیدا کرنا مطلوب تھے جو بھاڑے کے ٹٹوئوں (Mercenaries)کے ہونے چاہئیں کہ اپنے ہاتھوں میں اپنے ہی ملک کو فتح کرکے اپنی قوم کے دشمنوں کے حوالے کر دیں اور پھر اپنے ملک کا نظم ونسق اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے چلاتے رہیں۔ اس کام کے لیے جیسے اخلاقیات کی ضرورت تھی، ویسے ہی اخلاقیات انگریزوں نے یہاں پیدا کرنے کی کوشش کی اور انہی کو پیدا کرنے کے لیے وہ تعلیمی مشینری بنائی جو آج تک جوں کی توں اسی شان سے چل رہی ہے۔ اس مشین سے ایک آزاد ملک کے لیے قابل اعتماد پرزے ڈھلنے کی اگر کوئی شخص توقع رکھتا ہے تو اسے پہلے اپنی عقل کے ناخن لینے کی فکر کرنی چاہیے۔

ایک انقلابی قدم کی ضرورت

اگر ہمیں اپنے موجودہ نظامِ تعلیم کی اصلاح کرنی ہے تو پھر ہم کو ایک انقلابی قدم اٹھانا ہو گا۔ درحقیت اب یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ وہ دونوں نظامِ تعلیم ختم کر دئیے جائیں، جو اب تک ہمارے ہاں رائج رہے ہیں۔ پرانا مذہبی نظامِ تعلیم بھی ختم کیا جائے اور یہ موجودہ نظامِ تعلیم بھی جو انگریز کی رہنمائی میں قائم ہوا تھا۔ ان دونوں کی جگہ ہمیں ایک نیام نظام تعلیم بنانا چاہیے جو ان کے نقائص سے پاک ہو اور ہماری ان ضرورتوں کو پورا کر سکے جو ہمیں ایک مسلمان قوم، اور ایک آزاد قوم، اور ایک ترقی کی خواہش مند قوم کی حیثیت سے اس وقت لاحق ہیں۔ اسی نظامِ تعلیم کا نقشہ اور اس کے قائم کرنے کا طریقہ میں یہاں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

مقصد کا تعین

اس نئے نظامِ تعلیم کی تشکیل میں اولین چیز جسے ہم کو سب سے پہلے طے کرنا چاہیے یہ ہے کہ ہمارے پیشِ نظر تعلیم کا مقصد کیا ہے؟ بعض لوگوں کے نزدیک تعلیم کا مقصد بس علم حاصل کرنا ہے، وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو بالکل غیر جانب دار تعلیم دی جانی چاہیے تاکہ وہ زندگی کے مسائل اور معاملات اور حقائق کا بالکل معروضی مطالعہ (Objective Study) کریں اور آزادانہ نتائج اخذ کر سکیں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ اس طرح کا معروضی مطالعہ صرف فوٹو کے کیمرے کیا کرتے ہیں، انسان نہیں کر سکتے۔ انسان ان آنکھوں کے پیچھے ایک دماغ بھی رکھتا ہے جو بہرحال اپنا ایک نقطۂ نظر رکھتا ہے، اور جو کچھ بھی دیکھتا ہے، جو کچھ بھی سنتا ہے، جو کچھ بھی معلومات حاصل کرتا ہے، اسے اپنی اس فکر کے سانچے میں ڈھالتا جاتا ہے جو اس کے اندر بنیادی طور پر موجود ہوتی ہے۔ پھر اسی فکر کی بنیاد پر اس کا وہ نظامِ زندگی قائم ہوتا ہے جس کو ہم اس کی کلچر کہتے ہیں۔ اب اگر ہم ایک کلچر رکھتے ہیں اور ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کے اپنے کچھ عقائد ہیں، جس کا اپنا ایک نظریۂ زندگی ہے، جس کا اپنا ایک نصب العین ہے، جو اپنی زندگی کے کچھ اصول رکھتی ہے، تو لازماً ہمیں اپنی نئی نسلوں کو اس غرض کے لیے تیار کرنا چاہیے کہ وہ ہماری اس کلچر کو سمجھیں، اس کی قدر کریں، اس کو زندہ رکھیں اور آگے اسے اس کی اصل بنیادوں پر ترقی دیں۔ دنیا کی ہر قوم اس غرض کے لیے اپنا مستقل نظامِ تعلیم قائم کیا کرتی ہے۔ مجھے کوئی قوم ایسی معلوم نہیں ہے جس نے اپنا نظامِ تعلیم خالص معروضی بنیادوں پر قائم کیا ہو، جو اپنی نسلوں کو بے رنگ تعلیم دیتی ہو اور اپنے ہاں ایسے غیرجانب دار نوجوان پرورش کرتی ہو جو تعلیم سے فارغ ہو کر آزادی کے ساتھ یہ فیصلہ کریں کہ انہیں اپنی قومی تہذیب کی پیروی کرنی ہے یا کسی دوسری تہذیب کی؟ اسی طرح مجھے ایسی بھی کوئی آزاد قوم معلوم نہیں ہے جو دوسروں سے ان کا نظامِ تعلیم جوں کا توں لے لیتی ہو اور اپنی تہذیب کا کوئی رنگ اس میں شامل کیے بغیر اسی کے سانچے میں اپنی نئی نسلوں کو ڈھالتی چلی جاتی ہو۔ رہی یہ بات کہ کوئی قوم اپنے لیے دوسروں کا تجویز کردہ ایک ایسا نظام اختیار کرے جو اس کے نوجوانوں کی نگاہ میں اپنی قوم اور اس کے مذہب، اس کی تہذیب، اس کی تاریخ، ہر چیز کو ذلیل وخوار کرکے رکھ دے اور ان کے دل ودماغ پر انہی لوگوں کے تصوّرات ونظریات کا پھٹہ لگا دے جنہوں نے اس کے لیے یہ نظام تجویز کیا ہے تو میرے نزدیک یہ بدترین خود کشی ہے جس کا ارتکاب کوئی صاحبِ عقل قوم بحالت ہوش وحواس نہیں کر سکتی۔ یہ حماقت اگر پہلے ہم کمزوری اور بے بسی کی وجہ سے کر رہے تھے تو اب آزاد ہونے کے بعد اسے حسبِ سابق جاری رکھنے کے کوئی معنیٰ نہیں۔ اب تو ہمارا نظامِ زندگی ہمارے اختیار میں ہے۔ اب لازماً ہمارے پیشِ نظر تعلیم کا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ ہم ایسے افراد تیار کریں جو ہماری قومی تہذیب کو سمجھتے ہوں اور ہماری قومی تہذیب ہمارے دین کے سِوا اور کیا ہے؟ لہٰذا ہمارے دین کو اچھی طرح سمجھتے ہوں، اس پر سچے دل سے ایمان رکھتے ہوں، اس کے اصولوں کو خوب جانتے ہوں اور ان کے برحق ہونے کا یقین رکھتے ہوں، اس کے مطابق مضبوط سیرت اور قابلِ اعتماداخلاق رکھتے ہوں، اور اس قابلیت کے مالک ہوں کہ ہماری اجتماعی زندگی کے پورے کارخانے کو ہماری اس تہذیب کے اصولوں پر چلا سکیں اور مزید ترقی دے سکیں۔

دین ودنیا کی تفریق مٹا دی جائے

دوسری چیز جو ہمیں اپنے نظامِ تعلیم میں بطور اصول کے پیش نظر رکھنی چاہیے اور اس کی بنیاد پر ہمارا سارا نظامِ تعلیم بننا چاہیے، وہ یہ ہے کہ ہم دین اور دنیا کی اس تفریق کو ختم کر دیں، دین اور دنیا کی تفریق کا یہ تخیل ایک عیسائی تخیل ہے یا بدھ مذہب یا ہندوئوں اور جوگیوں کا ہے۔ اسلام کا تخیل اس کے برعکس ہے۔ ہمارے لیے اس سے بڑی کوئی غلطی نہیں ہو سکتی کہ ہم اپنے نظامِ تعلیم میں، اپنے نظامِ تمدن میں اور اپنے نظامِ مملکت میں دین اور دنیا کی تفریق کے اس تخیل کو قبول کر لیں۔ ہم اس کے بالکل قائل نہیں ہیں کہ ہماری ایک تعلیم دنیوی ہو اور ایک تعلیم دینی۔ اس کے برعکس ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ ہماری پوری کی پوری تعلیم بیک وقت دینی بھی ہو اوردنیوی بھی۔ دنیوی اس لحاظ سے کہ ہم دنیا کو سمجھیں اور دنیا کے سارے کام چلانے کے قابل ہوں اور دینی اس لحاظ سے کہ ہم دنیا کو دین ہی کے نقطۂ نظر سے سمجھیں اور دین کی ہدایت کے مطابق اس کا سارا کام چلائیں۔ اسلام وہ مذہب نہیں ہے جو آپ سے یہ کہتا ہو کہ دنیا کے کام آپ جس طرح چاہیں چلاتے رہیں اور بس اس کے ساتھ چند عقائد اور عبادات کا ضمیمہ لگائے رہیں۔ اسلام زندگی کی محض ضمیمہ بننے پر کبھی قانع تھا اور نہ آج ہے۔ وہ تو پوری زندگی میں آپ کا رہنما اور پوری زندگی کے لیے آپ کا طریقِ عمل بننا چاہتا ہے۔ وہ دنیا سے الگ محض عالمِ بالا کی باتیں نہیں کرتا بلکہ پوری طرح دنیا کے مسئلے پر بحث کرتا ہے۔ وہ آپ کو بتاتا ہے کہ اس دنیا کی حقیقت کیا ہے؟ اس دنیا میں آپ کس غرض کے لیے آئے ہیں۔ آپ کا مقصد زندگی کیا ہے؟ کائنات میں آپ کی اصلی پوزیشن کیا ہے اور اس دنیا میں آپ کو کس طریقے سے ، کِن اصولوں پر کام کرنا چاہیے وہ کہتا ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، آخرت میں جو کچھ بھی آپ کو ملنے والے ہیں وہ اس بات پر منحصر ہیں کہ دنیا کی اس کھیتی میں آپ کیا بوتے ہیں۔ اس کھیتی کے اندر زراعت کرنا آپ کو سکھاتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں آپ کا سارا طرز عمل کیا ہو؟ جس کے نتیجے میں آپ کو آخرت کا پھل ملے۔ اس قسم کا ایک دین کیسے یہ بات گوارا کر سکتا ہے کہ آپ کے ہاں ایک تعلیم دنیوی ہو اور دوسری دینی، یا ایک دنیوی تعلیم کے ساتھ محض ایک مذہبی ضمیمہ لگا دیا جائے۔ وہ تو یہ چاہتا ہے کہ آپ کی پوری تعلیم دینی نقطۂ نظر سے ہو۔ اگر آپ فلسفہ پڑھیں تاکہ آپ ایک مسلمان مؤرخ بن سکیں۔ آپ معاشیات پڑھیں تو اس قابل بنیں کہ اپنے ملک کے پورے معاشی نظام کو اسلام کے سانچے میں ڈھال سکیں۔ آپ سیاسیات پڑھیں تو اس لائق بنیں کہ اپنے ملک کا نظامِ حکومت اسلام کے اصولوں پر چلا سکیں۔ آپ قانون پڑھیں تو اسلام کے معیارِ عدل وانصاف پر معاملات کے فیصلے کرنے کے لائق ہوں۔ اس طرح دین ودنیا کی تفریق مٹا کر پوری کی پوری تعلیم کو دینی بنا دینا چاہتا ہے۔ اس کے بعد کسی جداگانہ مذہبی نظام تعلیم کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ آپ کے یہی کالج، آپ کے لیے امام اور مفتی اور علمائے دین بھی تیار کریں گے اور آپ کی قومی حکومت کا نظم ونسق چلانے کے لیے سیکرٹری اور ڈائریکٹر بھی۔

تشکیلِ سیرت

تیسری بنیادی چیز جو نئے نظام تعلیم میں ملحوظ رہنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ اس میں تشکیلِ سیرت کو کتابی علم سے زیادہ اہمیت دی جائے۔ محض کتابیں پڑھانے اور محض علوم وفنون سکھا دینے سے ہمارا کام نہیں چل سکتا۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے کہ ہمارے ایک ایک نوجوان کے اندر اسلامی کریکٹر پیدا ہو، اسلامی طرزِ فکر اور اسلامی ذہنیت پیدا ہو، خواہ وہ سائنٹسٹ ہو، خواہ وہ علوم عمران کا ماہر ہو، خواہ وہ ہماری سول سروس کے لیے تیار ہو رہا ہو، جو بھی ہو اس کے اندر اسلامی ذہنیّت اور اسلامی کریکٹر ضرور ہونا چاہیے۔ یہ چیز ہماری تعلیمی پالیسی کے بنیادی مقاصد میں شامل ہونی چاہیے۔ جس آدمی میں اسلامی اخلاق نہیں وہ چاہے جوکچھ بھی ہو، بہرحال ہمارے کسی کام کا نہیں ہے۔

عملی نقشہ

ا ن اصولی باتوں کی وضاحت کے بعد اب میں تفصیل کے ساتھ بتائوں گاکہ وہ اسلامی نظام تعلیم جس کو ہم یہاں قائم کرنا چاہتے ہیں اس کا عملی نقشہ کیا ہے؟

ابتدائی تعلیم

سب سے پہلے ابتدائی تعلیم کو لیجئے جو اس عمارت کی بیناد ہے۔ اس تعلیم میں وہ سب مضامین پڑھائیے جو آج آپ کے پرائمری اسکولوں میں پڑھائے جاتے ہیں اور دنیا میں ابتدائی تعلیم کے متعلق جتنے تجربات کیے گئے ہیں اور آئندہ کیے جائیں گے، ان سب سے فائدہ اٹھائیے لیکن چار چیزیں ایسی ہیں جو اس کے ہر مضمون میں پیوست ہونی چاہئیں۔
اوّل یہ کہ بچے کے ذہن میں ہر پہلو سے یہ بات بٹھائی جائے کہ یہ دنیا خدا کی سلطنت اور ایک خدا کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ یہاں ہم خدا کے خلیفہ کی حیثیت سے مامور ہیں۔ یہاں جو کچھ بھی ہے خدا کی امانت ہے جو ہمارے حوالے کی گئی ہے۔ اس امانت کے معاملے میں ہم خدا کے سامنے جوابدہ ہیں۔ یہاں ہر طرف، جدھر بھی نگاہ ڈالی جائے، آیاتِ الٰہی پھیلی ہوئی ہیں جو اس بات کا پتہ دے رہی ہیں کہ ایک حکمران ہے جو ان سب پر حکومت کر رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ابتدائی تعلیم کے لیے جس وقت بچہ داخل ہو، اس وقت سے پرائمری اسکول کے آخری مرحلہ تک دنیا سے اس کو آشنا اور روشناس ہی اسی طرز پر کیا جاتا رہے کہ ہر سبق کے اندر یہ تصوّرات شامل ہوں۔ حتیٰ کہ وہ الف سے آٹا یا ایٹم بم نہ سیکھے بلکہ اللہ سیکھے۔ یہ وہ چیز ہے جو بچوں میں اوّل روز سے اسلامی ذہنیت پیدا کرنی شروع کر دے گی اور ان کو اس طرح سے تیار کرے گی کہ آخری مراحلِ تعلیم تک، جب کہ وہ ڈاکٹر بنیں گے یہی بنیاد اور یہی جڑ کام دیتی رہے گی۔
دوم یہ کہ اسلام جن اخلاقی تصوّرات اور اخلاقی اقدار کو پیش کرتا ہے، انہیں ہر مضمون کے اسباق میں حتیٰ کہ حساب کے سوالات تک میں، طرح طرح سے بچوں کے ذہن نشین کیا جائے۔ وہ جن چیزوں کو نیکی اور بھلائی کہتا ہے، ان کی قدر اور ان کے لیے رغبت اور شوق بچوں کے دل میں پیدا کیا جائے۔اور جن کو برائی قرار دیتا ہے، ان کے لیے ہر پہلو سے بچوں کے دل میں نفرت بڑھائی جائے۔ آج ہماری قوم میں جو لوگ رشوتیں کھا رہے ہیں اور طرح طرح کی بددیانتیاں اور خیانتیں کر رہے، وہ سب ان درس گاہوں سے پڑھ کر نکلے ہیں جہاں طوطے مینا اور گائے بیل کے سبق تو پڑھائے جاتے ہیں مگر اخلاقی سبق نہیں پڑھائے جاتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہر طالبِ علم کو جو تعلیم دی جائے اس کی رگ وپے میں اخلاقی مضامین پیوست ہوں۔ اس کے اندر رشوت خوری کے خلاف شدید جذبہ ِنفرت ابھارا جائے۔ اس کے اندر حرام طریقوں سے مال کمانے اور کھانے والوں پر سخت تنقید کی جائے اور اس کے بُرے نتائج بچوں کے ذہن نشین کیے جائیں۔ اس کے اندر جھوٹ سے، دھوکے اور فریب سے، خود غرضی اور نفس پرستی سے، چوری اورجعل سازی سے، بد عہدی اور خیانت سے، شراب اور سود اور قمار بازی سے، ظلم اور بے انصافی اور لوگوں کے حق مارنے سے سخت نفرت دلوں میں بٹھائی جائے اور بچوں کے اندر ایک ایسی رائے عام پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کہ جس شخص میں بھی وہ اخلاقی برائیوں کا اثر پائیں، اس کو بری نگاہ سے دیکھیں اور اس کے متعلق برے خیالات کا اظہار کریں ۔یہاں تک کہ انہی درس گاہوں سے فارغ ہو کر آگے کوئی شخص ایسا نکلے جو ان برائیوں میں مبتلا ہو تو اس کے اپنے ساتھی اس کو لعنت ملامت کرنے والے ہوں، نہ کہ داد دینے اور ساتھ دینے والے۔ اسی طرح ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ نیکیاں جن کو اسلام انسان کے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے، ان کو درسیات میں بیان کیا جائے، ان کی طرف رغبت دلائی جائے، ان کی تعریف کی جائے، ان کے اچھے نتائج تاریخ سے نکال نکال کر بتائے جائیں اور عقل سے ان کے فائدے سمجھائے جائیں کہ یہ نیکیاں حقیقت میں انسانیّت کے لیے مطلوب ہیں اور انسانیّت کی بھلائی انہی کے اندر ہے۔ بچوں کو دل نشین طریقے سے بتایا جائے کہ وہ اصلی خوبیاں کیا ہیں جو ایک انسان کے اندر ہونی چاہئیں اورایک بھلا آدمی کیسا ہو کرتا ہے۔ اس میں ان کو صداقت اور دیانت کا، امانت اور پاسِ عہد کا، عدل وانصاف اور حق شناسی کا، ہمدردی اور اخوت کا، ایثار اور قربانی کا، فرض شناسی اور پابندیٔ حدود کا، اکلِ حلال اور ترکِ حرام کا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کھلے اور چھپے ہر حال میں خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرنے کا سبق دیا جائے اور عملی تربیت سے بھی اس امر کی کوشش کی جائے کہ بچوں میں یہ اوصاف نشوونما پائیں۔
سوم یہ کہ ابتدائی تعلیم میں ہی اسلام کے بنیادی حقائق اور ایمانیات بچوں کے ذہن نشین کرا دئیے جائیں۔ اس کے لیے اگر دینیات کے ایک الگ کورس کی ضرورت محسوس ہو تو بنایا جا سکتا ہے، لیکن بہرحال صرف اسی ایک کورس پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ ان ایمانیات کو دوسرے تمام مضامین میں بھی روحِ تعلیم کی حیثیت سے پھیلا دیا جائے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہر مسلمان بچے کے دل میں توحید کا عقیدہ، رسالت کا عقیدہ، آخرت کا عقیدہ، قرآن کے برحق ہونے کا عقیدہ، شرک اور کفر اور دہریت کے باطل ہونے کا عقیدہ پوری قوت کے ساتھ بٹھا دیا جائے۔ اور یہ تلقین ایسے طریقے سے ہونی چاہیے کہ بچہ یہ نہ محسوس کرے کہ یہ کچھ دعوے اور کچھ تحکمات ہیں جو ان سے منوائے جا رہے ہیں، بلکہ اسے یہ محسوس ہو کہ یہی کائنات کی معقول ترین حقیقتیں ہیں‘ ان کا جاننا اور ماننا انسان کے لیے ضروری ہے، اور ان کو مانے بغیر آدمی کی زندگی درست نہیں ہو سکتی۔
چہارم یہ کہ بچے کو اسلامی زندگی بسر کرنے کے طریقے بتائے جائیں اور اس سلسلے میں وہ تمام فقہی مسائل بیان کر دئیے جائیں جو ایک دس برس کے لڑکے اور لڑکی کو معلوم ہونے چاہئیں۔ طہارت وپاکیزگی کے احکام، وضو کے مسائل، نماز اور روزے کے طریقے، حرام اور حلال کے ابتدائی حدود، معاشرتی زندگی کے پسندیدہ اطوار، یہ وہ چیزیں ہیں جو ہر مسلمان بچے کو معلوم ہونی چاہئیں۔ ان کو صرف بیان ہی نہ کیا جائے بلکہ ایسے طریقے سے ذہن نشین کیا جائے جس سے بچے یہ سمجھیں کہ ہمارے لیے یہی احکام ہونے چاہئیں، یہ احکام بالکل برحق ہیں اور ہم کو ایک ستھری اور پاکیزہ زندگی بسر کرنے کے لیے ان احکام کا پابند ہونا چاہیے۔

ثانوی تعلیم

اس کے بعد اب ہائی سکول کی تعلیم کو لیجئے۔ اس مرحلے میں سب سے پہلی چیز جسے میں ضروری سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ عربی زبان کو بطور لازمی زبان پڑھایا جائے۔ اسلام کے اصل مآخذ سارے عربی زبان میں ہیں۔ قرآن عربی میں ہے، حدیث عربی میں ہے۔ ابتدائی صدیوں کے فقہاء اور علماء نے جتنا کام کیا ہے وہ سب عربی میں ہے۔ اسلامی تاریخ کے اصل مآخذ بھی عربی زبان ہی میں ہیں۔ کوئی شخص اسلام کی اسپرٹ پوری طرح سے نہیں سمجھ سکتا اور نہ اس میں اسلامی ذہنیت اچھی طرح پیوست ہو سکتی ہے جب تک وہ قرآن کو براہِ راست اس کی اپنی زبان میں نہ پڑھے۔
محض ترجموں سے کام نہیں چلتا۔ اگرچہ ہم چاہتے ہیں کہ ترجمے بھی پھیلیں تاکہ ہمارے عوام الناس کم از کم یہ جان لیں کہ ہمارا خدا ہمیں کیا حکم دیتا ہے۔ لیکن ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں میں کوئی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو عربی زبان سے ناواقف ہو۔ اس لیے ہم عربی کو بطور ایک لازمی مضمون کے شامل کرنا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ایک شخص جب ہائی اسکول سے فارغ ہو کر نکلے تو اس کو اتنی عربی آتی ہو کہ وہ ایک سادہ عربی عبارت کو صحیح پڑھ اور سمجھ سکے۔
ثانوی تعلیم کا دوسرا مضمون قرآن مجید ہونا چاہیے جس کے کم از کم دو پارے ہر میٹرک پاس طالب علم اچھی طرح سمجھ کر پڑھ چکا ہو۔ وقت بچانے کے لیے ایسا کیا جا سکتا ہے کہ ہائی اسکول کے آخری مرحلوں میں عربی زبان قرآن ہی کے ذریعہ پڑھائی جائے۔
تیسرا لازمی مضمون اسلامی عقائد کا ہونا چاہیے جس میں طلبہ کو نہ صرف ایمانیات کی تفصیل سے آگاہ کیا جائے بلکہ انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ ہمارے پاس ان عقائد کے دلائل کیا ہیں؟ انسان کو ان کی ضرورت کیا ہے؟ انسان کی عملی زندگی سے ان کا ربط کیا ہے؟ ان کے ماننے یا نہ ماننے کے کیا اثرات انسانی زندگی پر مترتب ہوتے ہیں؟ اور ان عقائد پر ایمان لانے کے اخلاقی اور عملی تقاضے کیا ہیں؟ یہ امورایسے طریقے سے طلبہ کے ذہن نشین کیے جائیں کہ وہ محض باپ دادا کے مذہبی عقائد ہونے کی حیثیت سے ان کو نہ مانیں بلکہ یہ ان کی اپنی رائے بن جائیں۔
اسلامی عقائد کے ساتھ ساتھ اسلامی اخلاقیات کو بھی ابتدائی تعلیم کی بہ نسبت ثانوی تعلیم میں زیادہ تفصیل اور تشریح کے ساتھ بیان کیا جائے اور تاریخ سے نظیریں پیش کرکے یہ بات ذہن نشین کی جائے کہ اسلام کے یہ اخلاقیات محض خیالی اصول اور کتابی نظرئیے نہیں ہیں بلکہ عمل میں لانے کے لیے ہیں اور فی الواقع اس سیرت وکردار کی ایک ایسی رائے عام پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کہ اسلام جن اوصاف کی مذمّت کرتا ہے، طلبہ خود ان اوصاف کو بُرا سمجھیں، ان سے بچیں اور اپنی سوسائٹی میں ان صفات کے لوگوں کو ابھرنے نہ دیں۔ اور اسلام جن اوصاف کو محمود اور مطلوب قرار دیتا ہے، ان کو وہ خود پسند کریں، انہیں اپنے اندر نشوونما دیں اور ان کی سوسائٹی میں انہی اوصاف کے لوگوں کی ہمت افزائی ہو۔
میٹرک کے معیار تک پہنچتے پہنچتے ایک بچہ جوان ہو چکا ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں اس کو اسلامی زندگی کے متعلق ابتدائی تعلیم وتربیت کی بہ نسبت زیادہ تفصیلی احکام جاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں اس کو شخصی اور ذاتی زندگی، خاندانی زندگی اور تمدن ومعاشرت اور لین دین وغیرہ کے متعلق ان تمام ضروری احکام سے واقف ہونا چاہیے جو ایک جوان آدمی کے لیے درکار ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ احکام کو اتنی تفصیل کے ساتھ جانے کہ مفتی بن جائے۔ لیکن اس کی معلومات اتنی ضرور ہونی چاہئیں کہ وہ اس معیار کی زندگی بسر کر سکے جو ایک مسلمان کا معیار ہونا چاہیے۔ یہ کیفیّت تو نہ ہو کہ ہمارے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی نکاح، طلاق، رضاعت اور وراثت کے متعلق کوئی سرسری علم بھی نہیں ہوتا اور اس ناواقفیت کی وجہ سے بسا اوقات وہ شدید غلطیاں کر جاتے ہیں جن سے سخت قانونی پیچیدگیاں واقع ہو جاتی ہیں۔
تاریخ کی تعلیم میں ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہائی اسکول کے طلبہ (جن غریبوں کو آج تک تاریخ انگلستان پڑھائی جا رہی ہے) نہ صرف اپنے ملک کی تاریخ پڑھیں بلکہ اس کے ساتھ اسلام کی تاریخ سے بھی واقف ہوں۔ ان کو تاریخِ انبیاء سے واقف ہونا چاہئے تاکہ یہ جان لیں کہ اسلام ایک ازلی وابدی تحریک ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں یکایک شروع نہیں ہوئی تھی۔ ان کو سیرتِ نبویؐ اور سیرت خلفائے راشدینؓ سے بھی واقف ہونا چاہیے تاکہ وہ ان مثالی شخصیتوں سے روشناس ہو جائیں جو ان کے لیے معیارِ انسانیت کا درجہ رکھتی ہیں۔ خلافتِ راشدہ کے بعد سے اب تک کی تاریخ کا ایک مجمل خاکہ بھی ان کے سامنے آ جانا چاہیے تاکہ وہ یہ جان لیں کہ مسلمان قوم کن کن مراحل سے گزرتی ہوئی موجودہ دور تک پہنچی ہے۔ یہ تاریخی معلومات نہایت ضروری ہیں۔ جس قوم کے نوجوانوں کو خود اپنے ماضی کا علم نہ ہو اس کے اندر اپنی قومی تہذیب کا احترام کبھی پیدا نہیں ہو سکتا۔
اس تعلیم کے ساتھ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہائی اسکول کے مرحلے میں طلبہ کی عملی تربیّت کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے۔ مثلاً ہائی اسکول میں کوئی مسلمان طالب علم ایسا نہیں ہونا چاہیے جو نماز کا پابند نہ ہو۔ طلبہ کے اندر ایسی رائے عام پیدا کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے درمیان ایسے طالب علموں کو برداشت نہ کریں اور ازروئے قاعدہ بھی کوئی ایسا طالب علم مدرسے میں نہ رہنا چاہیے جو مدرسے کے اوقات میں نماز نہ پڑھتا ہو۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ نماز ہی وہ بنیاد ہے جس پر عملاً اسلامی زندگی قائم ہوتی ہے۔ یہ بنیاد منہدم ہو جانے کے بعد اسلامی زندگی ہرگز قائم نہیں رہ سکتی۔ اس لحاظ سے بھی آپ کو سوچنا چاہیے کہ ایک طرف تو آپ ایک طالب علم کو بتاتے ہیں کہ نماز فرض ہے اور تیرے خدا نے یہ تجھ پر فرض کی ہے۔ دوسری طرف آپ اپنے عملی برتائو سے روز یہ بات اس کے ذہن نشین کرتے ہیں کہ اس فرض کو فرض جانتے اورمانتے ہوئے بھی اگر توادا نہ کرے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ آپ اسے روزانہ منافقت کی اور ڈیوٹی سے فرار کی اور بودی سیرت کی مشق کرا رہے ہیں۔ کیا آپ امید رکھتے ہیں کہ یہ تعلیم وتربیت پا کر جب وہ باہر نکلے گا تو آپ کے تمدن اور آپ کی ریاست کا ایک فرض شناس کارکن ثابت ہو گا؟ اپنے سب سے بڑے فرض کی چوری میں مشاق ہو جانے کے بعد تو وہ ہر فرض میں سے چوری کرے گا، خواہ وہ سوسائٹی کا فرض ہو یا ریاست کا یا انسانیت کا۔ اس صورت میں آپ کو اسے ملامت نہ کرنی چاہیے بلکہ اس نظامِ تعلیم کو ملامت کرنی چاہیے جس نے اوّل روز سے اس کو یہ سکھایا تھا کہ فرض ایک ایسی چیز ہے جس کو فرض جاننے کے بعد بھی چھوڑا جا سکتا ہے۔ اپنے نوجوانوں کو خدا سے بے وفائی سکھانے کے بعد آپ یہ ہرگز امید نہ رکھیں کہ وہ قوم‘ ملک، ریاست، کسی چیز کے بھی مخلص اور وفادار ہوں گے۔ تعلیم کے کورس میں بلند خیالات اور معیاری اوصاف بیان کرنے کا آخر فائدہ ہی کیا ہے۔ اگر سیرت وکردار کو ان خیالات اور معیارات پر قائم کرنے کی عملاً کوشش نہ کی جائے۔ دل میں اونچے خیالات رکھنے اور عمل ان کے خلاف کرنے سے رفتہ رفتہ سیرت کی جڑیں بالکل کھوکھلی ہو جاتی ہیں اور ظاہر ہے کہ جن لوگوں کی سیرت ہی بودی اور کھوکھلی ہو وہ مجرد اپنی ذہنی اور علمی قابلیتوں سے کوئی کارنامہ کرکے نہیں دکھا سکتے۔ اس لیے ہمیں ثانوی تعلیم کے مرحلے میں، جب کہ نئی نسلیں بچپن سے جوانی کی سرحد میں داخل ہوتی ہیں، اس امر کی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ایک ایک لڑکے اور لڑکی کے اندر مضبوط سیرت پیدا کریں اور انہیں یہ سکھائیں کہ تمہارا عمل تمہارے علم کے مطابق ہونا چاہیے۔ جس چیز کو حق جانو اس کی پیروی کرو۔ جسے فرض جانو اسے ادا کرو۔ جسے بھلائی جانو اسے اختیار کرو اور جسے برا جانو اسے ترک کر دو۔
جہاں تک ثانوی مرحلے کے عام مضامین کا تعلق ہے وہ اپنی جگہ جاری رہیں گے۔ البتہ ان کے نصاب کی کتابیں اسلامی تصوّرات کی روشنی میں اور ان کے پس منظر کے ساتھ از سرِ نو تیار کرنی پڑیں گی۔

اعلیٰ تعلیم

اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کو لیجئے۔ اس مرحلے میں ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی تعلیم کے لیے ایک عام نصاب ہو جو تمام طلبہ اور طالبات کو پڑھایا جائے خواہ وہ کسی شعبۂ علم کی تعلیم حاصل کر رہے ہوں، اور ایک نصاب خاص ہو جو ہر شعبۂ علم کے طلبہ وطالبات کو ان کے مخصوص شعبے کی مناسبت سے پڑھایا جائے۔
عام نصاب میں میرے نزدیک تین چیزیں شامل ہونی چاہئیں:
۱۔ قرآن مجید، اس طرح پڑھایا جائے کہ ایک طرف طلبہ قرآن کی تعلیمات سے بخوبی واقف ہو جائیں اور دوسری طرف ان کی عربی اس حد تک ترقی کر جائے کہ وہ قرآن کو ترجمے کے بغیر اچھی طرح سمجھنے لگیں۔
۲۔ حدیث کا ایک مختصر مجموعہ جس میں وہ احادیث جمع کی جائیں جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر، اس کی اخلاقی تعلیمات پر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کے اہم پہلوئوں پر روشنی ڈالتی ہوں۔ یہ مجموعہ بھی ترجمے کے بغیر ہونا چاہیے تاکہ طلبہ اس کے ذریعے سے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عربی زبان دانی میں بھی ترقی کر سکیں۔
۳۔ اسلامی نظامِ زندگی کا ایک جامع نقشہ، جس میں اسلام کی اعتقادی بنیادوں سے لے کر عبادات، اخلاق، معاشرت، تہذیب وتمدن، معیشت، سیاست اور صلح وجنگ تک ہر پہلو کو وضاحت کے ساتھ معقول اور مدلل طریقے سے بیان کیا جائے، تاکہ ہمارا ہر تعلیم یافتہ نوجوان اپنے دین کو اچھی طرح سمجھ لے اور جس شعبۂ زندگی میں بھی وہ آگے کام کرے، اس میں وہ اسلام کی اسپرٹ، اس کے اصول اور اس کے احکام کو ملحوظ رکھ سکیں۔
خاص نصاب ہر مضمون کی کلاسوں کے لیے اسلامی تصورات کی روشنی میں اور ان کے پس منظر کے ساتھ الگ پڑھایا جائے اور وہ صرف اسی مضمون کے طلبہ کے لیے ہو مثلاً:۔
جو فلسفہ لیں ان کو دوسرے فلسفیانہ نظاموں کے ساتھ اسلامی فلسفہ بھی پڑھایا جائے مگر یہ ملحوظِ خاطر رہے کہ اسلامی فلسفے سے مراد وہ فلسفہ نہیں ہے جو مسلمانوں نے ارسطو اور افلاطون اور فلاطینوس وغیرہ سے لیا اور پھر اس کو انہی خطوط پر آگے بڑھایا۔ اور اس سے مراد وہ علم کلام بھی نہیں ہے جسے یونانی منطق وفلسفہ سے متاثر ہو کر ہمارے متکلمین نے اس غرض کے لیے مرتب کیا تھا کہ اسلامی حقائق کو اپنے وقت کے فلسفیانہ نظریات کی روشنی میں اورمنطق کی زبان میں بیان کریں۔ یہ دونوں چیزیں اب صرف اپنی ایک تاریخی قدر وقیمت رکھتی ہیں۔ انہیں پڑھایا ضرور جائے، مگر اس حیثیت سے کہ یہ تاریخ فلسفہ کے دو اہم ابواب ہیں جن کو مغربی مصنفین بالعموم نظر انداز کرکے طالبانِ علم کے ذہن پر یہ اثر جماتے ہیں کہ دنیا کے عقلی ارتقاء میں قدیم یونانی فلاسفہ سے لے کر آج تک جو کچھ بھی کام کیا ہے صرف یورپ کے لوگوں نے کیا ہے۔ لیکن مسلمان فلسفہ اور متکلمین کا یہ کام نہ ’’اسلامی فلسفہ‘‘ تھا اور نہ اسے اس نام سے آج ہمیں اپنے طلبہ کو پڑھانا چاہیے، ورنہ یہ سخت غلط فہمی کا، بلکہ گمراہی کا موجب ہو گا۔ ’’اسلامی فلسفہ‘‘ دراصل کہیں مرتب شدہ نہیں ہے بلکہ اب اسے نئے سرے سے ان بنیادوں پر مرتب کرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں قرآن میں ملتی ہیں۔ قرآن مجید ایک طرف انسانی علم وعقل کے حدود بتاتا ہے۔ دوسری طرف وہ محسوسات کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقت کو تلاش کرنے کا صحیح راستہ بتاتا ہے۔ تیسری طرف وہ منطق کے ناقص طرز استدلال کو چھوڑ کر عقلِ عام کے مطابق ایک سیدھا سادا طرز استدلال بتاتا ہے۔ اور ان سب کے ساتھ وہ ایک پورا نظریۂ کائنات وانسان پیش کرتا ہے جس کے اندر ذہن میں پیدا ہونے والے ہر سوال کا جواب موجود ہے۔ ان بنیادوں پر ایک نیا فنِ استدلال، ایک نیا طریقِ تفلسف، ایک نیا فلسفہ مابعد الطبیعت، ایک نیا فلسفہِ اخلاق اور ایک نیا علم النفس مرتب کیا جا سکتا ہے جسے اب مرتب کرانے کی سخت ضرورت ہے تاکہ ہمارے فلسفے کے طلبہ فلسفہ کی قدیم وجدیدبھول بھلیوں میں داخل ہو کر پھنسے کے پھنسے نہ رہ جائیں بلکہ اس سے نکلنے کا راستہ بھی پا لیں اور دنیا کو ایک نئی روشنی دکھانے کے قابل بن سکیں۔
اسی طرح تاریخ کے طلبہ کو دنیا بھر کی تاریخ پڑھانے کے ساتھ اسلامی تاریخ بھی پڑھائی جائے اور فلسفہِ تاریخ کے دوسرے نظریات کے ساتھ اسلام کے فلسفہ تاریخ سے بھی روشناس کیا جائے۔ یہ دونوں مضمون بھی تشریح طلب ہیں، ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ ان کے بارے میں جو عام غلط فہمیاں موجود ہیں، ان کی وجہ سے میرا مدعا آپ کے سامنے واضح نہ ہو گا۔ اسلامی تاریخ کا مطلب بالعموم مسلمان قوموں اور ریاستوں کی تاریخ، یا ان کے تمدن اور علوم وآداب کی تاریخ سمجھا جاتا ہے اور اسلامی فلسفہِ تاریخ کا نام سن کر معاً ایک طالب علم ابنِ خلدون، کی طرف دیکھنے لگتا ہے۔ میں علم تاریخ کے نقطۂ نظر سے ان دونوں چیزوں کی قدر وقیمت کا انکار نہیں کرتا، نہ یہ کہتا ہوں کہ یہ چیزیں پڑھائی نہ جائیں۔ مگر یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کی تاریخ دو الگ چیزیں ہیں، اور ابن خلدون کے فلسفۂ تاریخ کو اسلام کے فلسفۂ تاریخ سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ کا اطلاق دراصل جس چیز پر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ تاریخ کے دوران میں اسلام کے ان اثرات کا جائزہ لیا جائے جو مسلمان ہونے والی قوموں کے خیالات، علوم، آداب، اخلاق، تمدن، سیاست ، اور فی الجملہ پورے اجتماعی طرزِ عمل پر مترتب ہوئے۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی دیکھا جائے کہ ان اثرات کے ساتھ دوسرے غیر اسلامی اثرات کی آمیزش کس کس طرح ہوتی رہتی ہے اور اس آمیزش کے کیا نتائج رونما ہوئے ہیں۔ اسی طرح اسلامی فلسفہِ تاریخ سے مراد درحقیقت قرآن کا فلسفۂِ تاریخ ہے جس میں وہ ہمیں انسانی تاریخ کو دیکھنے کے لیے ایک خاص زاویۂ نگاہ دیتا ہے۔ اس سے نتائج اخذ کرنے کا ایک خاص ڈھنگ بتاتا ہے اور قوموں کے بننے اور بگڑنے کے اسباب پر مفصّل روشنی ڈالتا ہے۔ افسوس ہے کہ اسلامی فلسفے کی طرح اسلامی تاریخ اور اسلامی فلسفہِ تاریخ پر بھی اس وقت تک کوئی کتاب نہیں لکھی گئی ہے جو نصاب کے طور پر پڑھائی جا سکے۔ ان دونوں موضوعات پر اب کتابیں لکھنے اور لکھوانے کی ضرورت ہے کہ اس خلا کو بھرا جا سکے جو ان کے بغیر ہماری تعلیمی تاریخ میں رہ جائے گا۔
جہاں تک علومِ عمرانی (Social Sciences) کا تعلق ہے، ان میں سے ہر ایک میں اسلام کا ایک مخصوص نقطۂ نظر ہے، اور ہر ایک میں وہ اپنے اصول رکھتا ہے‘ لہٰذا ان میں سے ہر ایک کی تعلیم میں اس علم سے متعلق اسلامی تعلیمات کو بھی لازماً شامل ہونا چاہیے۔ مثلاً معاشیات میں اسلامی اصولِ معیشت اور سیاسیات میں اسلام کا سیاسی نظریہ اور نظام وغیرہ۔ رہے فنی علوم، مثلاً انجینئرنگ، طب اور سائنس کے مختلف شعبے، تو ان سے اسلام بحث نہیں کرتا، اس لیے ان میں کسی خاص اسلامی نصاب کی حاجت نہیں ہے۔ ان کے لیے وہی عام نصاب اور اخلاقی تربیّت کافی ہے جس کا ابھی اس سے پہلے میں ذکر کر چکا ہوں۔

اختصاصی تعلیم

اعلیٰ تعلیم کے بعد اختصاصی تعلیم کو لیجئے جس کا مقصود کسی ایک شعبۂ علم میں کمال پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اس معاملے میں جس طرح ہمارے ہاں دوسرے علوم وفنون کی اختصاصی تعلیم کا انتظام کیاجاتا ہے ،اسی طرح اب قرآن، حدیث، فقہ اور دوسرے علومِ اسلامیہ کی تعلیم کا بھی ہونا چاہیے۔ تاکہ ہمارے ہاں اعلیٰ درجہ کے مفسر، محدث اور فقیہہ اورعلمائے دین پیدا ہو سکیں۔ جہاں تک فقہ کا تعلق ہے، اس کی تعلیم تو ہمارے لاء کالجوں میں ہونی چاہیے۔ اس کے لیے ہم کو تعلیم کا کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے، اس مسئلے پر اس سے پہلے میں اپنے دو لیکچروں میں مفصل بحث کر چکا ہوں جو ۱۹۴۸ء میں لاء کالج لاہور میں ہوئے تھے۔ یہ دونوں لیکچر ’’اسلامی قانون‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں‘ اس لیے یہاں اس بحث کا اعادہ غیر ضروری ہے۔ رہے قرآن وحدیث اور دوسرے علوم اسلامیہ، تو ان کی اختصاصی تعلیم کے لیے ہماری یونیورسٹیوں کو خاص انتظامات کرنے چاہئیں جن کا مختصر خاکہ میں یہاں پیش کرتا ہوں۔
میرے خیال میں اس مقصد کے لیے ہمیں مخصوص کالج یا یونیورسٹیوں کے تحت الگ شعبے قائم کرنے ہوں گے جن میں صرف گریجویٹ یا انڈر گریجویٹ داخل ہو سکیں۔ ان اداروں میں حسبِ ذیل مضامین کی تعلیم ہونی چاہیے۔
۱۔ عربی ادب، تاکہ طلبہ میں اعلیٰ درجے کی علمی کتابیں پڑھنے اور سمجھنے کی استعداد پیدا ہو سکے اور اس کے ساتھ وہ عربی زبان لکھنے اور بولنے پر بھی قادر ہوں۔
۲۔ علومِ قرآن، جن میں پہلے اصول تفسیر، تاریخ علمِ تفسیر اور فنِ تفسیر کے مختلف اسکولوں کی خصوصیات سے طلبہ کو آشنا کیا جائے، اور پھر قرآن مجید کا تحقیقی مطالعہ کرایا جائے۔
۳۔ علومِ حدیث، جن میں اصولِ حدیث، تاریخِ علمِ حدیث اور فنِ جرح وتعدیل پڑھانے کے بعد حدیث کی اصل کتابیں ایسے طریقے سے پڑھائی جائیں کہ طلبہ ایک طرف خود احادیث کو پرکھنے اور ان کی صحت وسقم کے متعلق رائے قائم کرنے کے قابل ہو جائیں اور دوسری طرف حدیث کے بیشتر ذخیرے پر ان کو نظر حاصل ہو جائے۔
۴۔ فقہ، جس کی تعلیم لاء کالجوں کی تعلیمِ فقہ سے ذرا مختلف ہو۔ یہاں صرف اتنا کافی ہے کہ طلبہ کو اصولِ فقہ، تاریخ علمِ فقہ، مذاہب فقہ کی امتیازی خصوصیات اور قرآن وحدیث کے نصوص سے استنباط احکام کے طریقے اچھی طرح سمجھا دئیے جائیں۔
۵۔ علم العقائد، علمِ کلام اور تاریخ علمِ کلام، جسے اس طریقے سے پڑھایا جائے کہ طلبہ اس علم کی حیثیت سے واقف ہو جائیں اور متکلمینِ اسلام کے پورے کام پر ان کو جامع نظر حاصل ہوجائے۔
۶۔ تقابلِ ادیان، جس میں دنیا کے تمام بڑے بڑے مذاہب کی تعلیمات سے ان کی امتیازی خصوصیات سے، اور ان کی تاریخ سے طلبہ کو آشنا کیا جائے۔
اس تعلیم سے جو لوگ فارغ ہوں، مجھے اس سے کوئی بحث نہیں کہ آپ ان کی ڈگری کا نام کیا رکھیں مگر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاں آئندہ انہی لوگوں کو ’’علمائے دین‘‘ کہا جانا چاہیے جو اس ڈگری کو حاصل کریں اور ان کے لیے ان تمام اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے کھلے ہونے چاہئیں جو دوسرے مضامین کے ایم اے اور پی ایچ ڈی حضرات کو مل سکتی ہیں۔

لازمی تدابیر

یہ ہے میرے نزدیک اس نظامِ تعلیم کا نقشہ جو موجودہ مذہبی تعلیم اور دنیوی تعلیم کے نظام کو ختم کرکے اس ملک میں قائم ہونا چاہیے۔ مگر اصلاحِ حال کی ساری کوشش لاحاصل رہے گی جب تک کہ مذکورہ بالااصلاحات کے ساتھ ساتھ حسبِ ذیل اقدامات بھی نہ کیے جائیں۔
سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی تعلیمی پالیسی کی باگیں ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیں جو اسلامی فکر رکھتے ہوں‘ اسلامی نظامِ تعلیم کو جانتے ہوں اور اسے قائم کرنا چاہتے بھی ہوں۔ یہ کام اگر ہو سکتا ہے تو ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہو سکتا ہے نہ کہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں جو نہ اسلام کو جانتے ہیں، نہ اس کے نظامِ تعلیم کو، اور نہ اس کے قیام کی کوئی خواہش ہی دل میں رکھتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ اگر زمامِ کار پر قابض رہیں اور پھر ہم رات دن کی چیخ پکار سے دبائو ڈال ڈال کر ان سے یہ کام زبردستی کراتے رہیں تو بادلِ نخواستہ وہ کچھ اسی طرح کی ضمنی اور سطحی ’’اصلاحات‘‘ کرتے رہیںجیسی اب تک ہوتی رہی ہیں، اور ان سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو گا۔
اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے مدرسوں اور کالجوں کے لیے معلمین اور معلمات کے انتخاب میں ان کی سیرت واخلاق اور دینی حالت کو ان کی تعلیمی قابلیت کے برابر، بلکہ اس سے زیادہ اہمیت دین اور آئندہ کے لیے معلمین کی ٹریننگ میں بھی اسی مقصد کے مطابق اصلاحات کریں۔ جو شخص تعلیم کے معاملہ میں کچھ بھی بصیرت رکھتا ہے ،وہ اس حقیقت سے ناواقف نہیں ہو سکتا کہ نظامِ تعلیم میں نصاب اور اس کی کتابوں سے بڑھ کر استاد اور اس کا کریکٹر اور کردار اہمیت رکھتا ہے۔ فاسد العقیدہ اور فاسد الاخلاق استاد اپنے شاگردوں کو ہرگز وہ ذہنی اور اخلاقی تربیّت نہیں دے سکتے جو ہمیں اپنے نئے نظام میں مطلوب ہے۔ دوسرے تمام شعبہ ہائے زندگی میں تو بگڑے ہوئے کارکن زیادہ تر موجودہ نسل ہی کو بگاڑتے ہیں مگر نظامِ تعلیم اگر بگڑے ہوئے لوگوں کے ہاتھ میں ہو تو وہ آئندہ نسل کا بھی ناس کر دیتے ہیں جس کے بعد مستقبل میں بھی کسی صلاح وفلاح کی امید باقی نہیں رہتی۔آخری چیز اس سلسلہ میں یہ ہے کہ ہمیں اپنی تعلیم گاہوں کا پورا ماحول بدل کر اسلام کے اصول اسپرٹ کے مطابق بنانا ہو گا۔ یہ مخلوط تعلیم، یہ فرنگیت کے مظاہر، یہ ازفرق تا بقدم مغربی تہذیب وتمدن کا غلبہ، یہ کالجوں کے مباحثے اور انتخابات کے طریقے، اگر یہ سب کچھ آپ کے ہاںیوں ہی جاری رہے اور ان میں سے کسی چیز کو بھی آپ بدلنے کے لیے تیار نہ ہوں تو پھر ختم کیجئے اصلاحِ تعلیم کی ساری اس گفتگو کو، اس لیے کہ اس ذہنی وتہذیبی غلامی کے ماحول میں ایک آزاد مسلم مملکت کے وہ باعزت شہری اور کارکن و کار فرما کبھی پروان نہیں چڑھ سکتے جنہیں اپنی قومی تہذیب پر فخر ہو‘ اور اس بے سیرتی کی آب وہوا میں کبھی اس مضبوط کردار کے لوگ پرورش نہیں پا سکتے جو اصول اور ضمیر کے معاملے میں کوئی لچک کھانے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہ ماحول برقرار رکھنا ہو تو پھر ہمیں سرے سے یہ خیال ہی چھوڑ دینا چاہیے کہ یہاں ہمیں ایک ایمان دار اور باضمیر قوم تیار کرنی ہے۔ آخر یہ کیا مذاق ہے کہ ایک طرف آپ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح احکام کی خلاف ورزی کرکے جو ان لڑکیوں اور جوان لڑکوں کو ایک ساتھ بٹھاتے ہیں اور دوسری طرف آپ چاہتے ہیں کہ انہی لڑکوں اور لڑکیوں میں خدا کا خوف اور اخلاقی قوانین کا احترام پیدا ہو۔ ایک طرف آپ اپنی تمام حرکات وسکنات اور اپنے پورے ماحول سے اپنی نئی نسلوں کے ذہن پر فرنگی تہذیب اور فرنگی طرز زندگی کا رعب بٹھاتے ہیں اور دوسری طرف آپ چاہتے ہیں کہ زبانی باتوں سے ان کے دلوں میں قومی تہذیب کی قدر پیدا ہو جائے۔ ایک طرف آپ اپنے مباحثوں میں روز اپنے نوجوانوں کو زبان اور ضمیر کا تعلق توڑنے اور ضمیر کے خلاف بولنے کی مشق کراتے ہیں، اور دوسری طرف آپ چاہتے ہیں کہ ان کے اندر راست بازی اور حق پرستی پیدا ہو۔ ایک طرف آپ ان کو وہ سارے انتخابی ہتھکنڈے اپنے کالجوں ہی میں برتنے کا خوگر بنا دیتے ہیں جنہوں نے ہماری پوری سیاسی زندگی کو گندہ کرکے رکھ دیا ہے اور دوسری طرف آپ یہ امید رکھتے ہیں کہ یہاں سے نکل کر وہ بڑے ایمان دار اور کھرے ثابت ہوں گے۔ ایسے معجزات کا ظہور صریحاً محال ہے۔ اگر ہم اپنی قومی زندگی کو خرابیوں سے پاک کرنے کے واقعی خواہش مند ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ماحول کی تطہیر سے اس کا آغاز کرنا ہو گا۔

عورتوں کی تعلیم

جہاں تک عورتوں کی تعلیم کا تعلق ہے یہ اسی قدر ضروری ہے جتنی مردوں کی تعلیم۔ کوئی قوم اپنی عورتوں کو جاہل اور پسماندہ رکھ کر دنیا میں آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس لیے ہمیں عورتوں کی تعلیم کے لیے بھی اسی طرح بہتر سے بہتر انتظام کرنا ہے جیسا کہ مردوں کی تعلیم کے لیے۔ یہاں تک کہ ہمیں ان کی فوجی تربیّت کا بھی بندوبست کرنا ہے کیونکہ ہمارا سابقہ ایسی ظالم قوموں سے ہے جنہیں انسانیّت کی کسی حد کو بھی پھاندنے میں تامّل نہیں ہے۔ کل اگر خدانخواستہ کوئی جنگ پیش آ جائے تو نہ معلوم کیا کیا بربریّت ان سے صادر ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو مدافعت کے لیے بھی تیار کریں۔ لیکن ہم اوّل وآخر مسلمان ہیں اور کچھ کرنا ہے… ان اخلاقی قیود اور تہذیبی حدود کے اندر رہتے ہوئے کرنا ہے جن پر ہم ایمان رکھتے ہیں اور جن کی علمبرداری پر ہم مامور ہیں۔
ہمیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری تہذیب مغربی تہذیب سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ دونوں میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ مغربی تہذیب عورت کو اس وقت تک کوئی عزت اور کسی قسم کے حقوق نہیں دیتی جب تک کہ وہ ایک مصنوعی مرد بن کر مردوں کی ذمہ داریاں بھی اٹھانے کے لیے تیار نہ ہو جائے۔ مگر ہماری تہذیب عورت کو ساری عزتیں اورتمام حقوق اسے عورت رکھ کر ہی دیتی ہے اور تمدن کی انہی ذمّہ داریوں کا بار اس پر ڈالتی ہے جو فطرت نے اس کے سپرد کی ہیں۔ اس لیے ہمارے ہاں عورتوں کی تعلیم کا انتظام ان کے فطری وظائف وضروریات کے مطابق اور مردوں سے بالکل الگ ہونا چاہیے۔ یہاں اوپر سے لے کر نیچے تک کسی سطح پر بھی مخلوط تعلیم کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔
جہاں تک عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں عملی تدابیر واصلاحات کا تعلق ہے جو اصلاحات اوپر پرائمری سے اختصاصی درجوں تک بیان کی گئی ہیں، وہ عورتوں کی تعلیم میں بھی اسی طرح سے شامل ہونی چاہئیں جیسی کہ مردوں کی تعلیم میں۔ اس کے علاوہ عورتوں کی تعلیم میں اس بات کو بھی خاص طور پر ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ان کی اصل اور فطری ذمہ داری زراعتی فارم اورکارخانے اور دفاتر چلانے کے بجائے گھر چلانے اور انسان سازی کی ہے۔ ہمارے نظام تعلیم کو ان کے اندر ایک ایسی مسلمان قوم وجود میں لانے کی قابلیّت پیدا کرنی چاہیے جو دنیا کے سامنے اس فطری نظامِ زندگی کا عملی مظاہرہ کر سکے جو خود خالقِ کائنات نے بنی نوعِ انسان کے لیے مقرر فرمایا ہے۔

رسم الخط

ہمارے ملک میں یہ عجیب صورت حال ہے کہ ایک طرف تو قومی اتحاد کی ضرورت کا بار بار اظہار کیا جاتا ہے اور دوسری طرف طے شدہ مسائل کو نئے سرے سے نزاعی بنانے پر ہی پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ ایسے ایسے نزاعی مسائل بھی پیدا کیے جاتے ہیں جن کے متعلق کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ ان کے بارے میں بھی ہمارے ہاں کوئی اختلاف موجود ہے۔ اسی قبیل سے یہ جدید مبحث ہے جو اردو اور بنگالی کے لیے رومن رسم الخط اختیار کرنے کے سلسلے میں چھیڑ دیا گیا ہے۔
جہاں تک بنگالی زبان کا تعلق ہے میرے لیے اس کے متعلق کچھ کہنا مشکل ہے۔ اس بارے میں اہل بنگال ہی کچھ کہہ سکتے ہیں۔ مگر یہ واقعہ ہے کہ اہل بنگال پچھلی صدی تک عربی رسم الخط میں ہی بنگلہ زبان لکھتے رہے، کتابیں تصنیف کرتے رہے اور اسی رسم الخط سے مانوس رہے۔ یہ دراصل انگریزوں اور ہندوئوں کا ساز باز تھا۔ جس نے عربی رسم الخط کی جگہ ہندو رسم الخط بنگالی میں رائج کرایا۔ ان کی پالیسی یہ تھی کہ مسلمانوں کو ان کی تاریخ اور ان کے مذہبی لٹریچر سے بیگانہ کیا جائے اور ان کو ہندوئوں کے زیر اثر لایا جائے۔ اس غرض کے لیے انہوں نے ابتدائی مدارس کے قیام کے لیے سرکاری امداد (گرانٹ) دینے میں یہ شرط عاید کی کہ یہ امداد صرف اسی گائوں کے پرائمری اسکول کو دی جائے گی جو عربی رسم الخط پڑھانے والا مکتب بند کر دے گا۔ اسی طرح بنگالہ زبان کا موجودہ رسم الخط مسلمانوں پر زبردستی ٹھونسا گیا اور مشرقی پاکستان کے مسلمان تقریباً ایک صدی تک اس ظلم کا شکار رہنے کے بعد اب اس رسم الخط سے اس قدر مانوس ہو چکے ہیں کہ شاید وہ مشکل ہی سے اس کی تبدیلی پر راضی ہو سکیں۔ تاہم اس معاملے میں کچھ کہنا کسی غیر بنگالی کے لیے مناسب نہیں۔ یہ فیصلہ کرنا ہمارے بنگالی بھائیوں ہی کا کام ہے کہ وہ کس رسم الخط کو پسند کرتے ہیں۔
جہاں تک اردو کا تعلق ہے اس کا رسم الخط اگر عربی میں تبدیل کیا جائے تو چنداں قابل اعتراض نہیں ہے۔ نئے ٹائپ کو ترقی دے کر اس حد تک موزوں بنایا جا سکتا ہے کہ اردو پڑھنے والے جلدی اور بآسانی اس سے مانوس ہو جائیں۔ لیکن رومن رسم الخط اختیار کرنا ممکن ہے کہ ہماری فوج والوں کے لیے قابل قبول ہو کیونکہ انگریزی حکومت اسے پہلے ہی ان کو اس سے مانوس کر چکی ہے، مگر ہماری قوم کے لیے متعدد حیثیات سے ایک نہایت مہلک قدم ہے جس کے نتائج بہت دور رس ہوں گے۔
اس کا پہلا نتیجہ تو یہ ہو گا کہ ہمارا آج تک کا اردو لٹریچر ہماری نئی نسلوں کے لیے بالکل بے کار ہو جائے گا۔ یا تو ہمیں بے شمار دولت اور محنت اور وقت صَرف کر کے اپنے بزرگوں کی ساری میراث کو جو اردو، فارسی اور عربی زبانوں میں ہے۔ رومن رسم الخط میں از سرِ نو چھاپنا پڑے گا، یا پھر ہماری نئی نسلیں اپنے ماضی سے بالکل بیگانہ ہو کر ایک دُم کٹی قوم کی حیثیت سے اٹھیں گی جن کی کوئی روایات نہ ہوں گی، جن کی کوئی تہذیب نہ ہو گی، جن کے پاس کوئی قابلِ فخر چیز نہیں ہو گی جس کی طرف وہ پلٹ کر دیکھیں۔ اس طرح ہم اپنے صدیوں کے سرمایہ علم وتہذیب سے عاری ہو کر بالکل نو دولتے بن کر رہ جائیں گے۔ یہ بُرے نتائج ٹرکی دیکھ چکا ہے۔ ٹرکی قوم کے علماء اور اہل قلم نے صدہا برس کی محنتوں سے جو علمی ذخیرہ چھوڑا تھا وہ آج ان لائبریریوں میں آثار قدیمہ کے طور پر پڑا ہوا ہے اور نئی نسلوں کے لیے اس کا سمجھنا اور اس سے فائدہ اٹھانا تو درکنار اسے پڑھنا بھی ممکن نہیں رہا ہے۔ قریب کے زمانے میں جب وہاں مذہبی تعلیم کی ضرورت از سر نو محسوس کی گئی اور اماموں اور خطیبوں کی تیاری کے لیے مدارس قائم کیے گئے تو ترک نوجوانوں کو پرانی ترکی زبان جو ۳۰،۳۵ سال پہلے تک ملک میں رائج تھی بالکل ایک غیر ملکی زبان کی طرح از سرِ نو سیکھنی پڑی۔ یہ تجربہ آخر ہمارے ملک میں دہرانے کی کیا حاجت ہے؟ جو قوم ابھی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد ایک مدت دراز تک نئے تعمیری کام کرنے کی محتاج ہے آخر اس کو اس وقت اس تجربے کا کیوں تختۂ مشق بنایا جائے؟
اس کا دوسرا عظیم الشان نقصان یہ ہو گا کہ ہماری علمی ترقی کی رفتار یک لخت رک جائے گی اور رسم الخط کی کشمکش میں اچھا خاصا زمانہ صرف ہو جائے گا۔ ہمارے باشندے نسلاً بعد نسل ایک رسم الخط سے مانوس چلے آ رہے ہیں۔ یہ کسی طر ح ممکن نہ ہو گا کہ حکومت ایک حکم دے دے اور بس وہ یکایک نئے رسم الخط کے عادی ہو جائیں۔ ایک مدت تک وہ نئے رسم الخط سے مانوس نہیں ہوں گے اور پرانا رسم الخط جس سے وہ مانوس ہیں خواہ مخواہ زبردستی متروک بن جائے گا اور اور اس طرح جو وقت تعلیم اور خواندگی کی ترقی میں صَرف ہونا چاہیے محض ایک رسم الخط کی فضول کشمکش میں ضائع ہو گا۔ نئے لوگوں کو خواندہ بنانے کے بجائے یہ حرکت کرکے تو ہم پڑھے، لکھے لوگوں کو بھی ایک مدت کے لیے اَن پڑھ بنا دیں گے۔ ہمارے اہل قلم اور مصنفین بھی کئی سال تک کوئی علمی کام نہ کر سکیں گے کیونکہ نئے رسم الخط پر اس قدر قدرت حاصل کرنے میں انہیں کئی برس لگیں گے کہ وہ اس میں روانی کے ساتھ لکھ سکیں۔
اس کا تیسرا نقصان یہ ہے کہ ہم اپنے گردوپیش سے بیگانہ ہو جائیں گے۔ انڈونیشیا اور افغانستان سے لے کر مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ اور الغرب کی عام مسلمان قومیں عربی رسم الخط میں لکھتی پڑھتی ہیں۔ ہمارا اردو رسم الخط ان کے لیے ایک مانوس اور معروف رسم الخط ہے جس کی وجہ سے ہمارا اور ان کا تہذیبی رشتہ بہت مضبوط رہتا ہے۔ رومن رسم الخط اختیار کرنے سے ہم ان کے لیے اسی طرح اجنبی ہو جائیں گے جس طرح سے ترک ہو گئے ہیں۔ ترکوں نے رومن رسم الخط اختیار کرکے ہمسایہ مسلمان قوموں سے اپنا رشتہ کمزور کر لیا اور مغربی قوموں سے ان کا رشتہ نہ جڑ سکا۔ تاہم ان کا کوئی جغرافیائی اتصال تو مغربی قوموں سے ہے۔ مگر ہم مسلمان قوموں میں رہتے ہوئے جب رومن رسم الخط اختیار کریں گے تو ہماری حیثیت مغربی آبادکاروں کے ایک جزیرے کی سی ہو کر رہ جائے گی۔
ان نقصانات کے مقابلہ میں آخر کیا فوائد ہیں جو رومن رسم الخط اختیار کرنے میں نظر آتے ہیں کہ ان کی خاطر ان نقصانات کو انگیز کر لیا جائے؟ اگر صرف یہ مقصود ہے کہ بنگلہ اور اردو دونوں ایک رسم الخط ہو جائے تو یہ عربی رسم الخط اختیار کرنے سے اچھی طرح حاصل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کو قرآن کی خاطر یہ رسم الخط تو بہرحال سیکھنا ہی پڑتا ہے۔ اگر طباعت کی آسانیوں کی خاطر اس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے تو یہ مقصد بھی خط نسخ سے بآسانی حاصل ہو سکتا ہے۔ ایران، مصر، شام وغیرہ میں خط نسخ کی طباعت انتہائی ترقی پر پہنچ چکی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ہاں وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے ماسوا اگر کوئی فوائد ہیں تو وہ سامنے لائے جائیں‘ ورنہ بہتر ہے کہ یہ بحث لپیٹ کر رکھ دی جائے۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر ملک میں کوئی استصوابِ عام کرایا جائے تو اردو خواں لوگوں کی آبادی میں ایک فی ہزار بھی مشکل سے ملیں گے جو رومن رسم الخط کے حق میں رائے دیں۔ یہ تبدیلی عوام کی مرضی سے کبھی نہیں ہو سکتی۔ ہاں زبردستی کی جا سکتی ہے جواپنے اچھے اثرات کبھی نہیں چھوڑ کر جا سکتی۔

انگریزی کا مقام

جہاں تک انگریزی زبان کی تعلیم کا تعلق ہے جدید علوم کے حصول کے لیے اس کی ضرورت اور اہمیت کا کوئی شخص بھی انصاف کے ساتھ انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ بات بہرحال غلط ہی نہیں سخت نقصان دہ ہے کہ یہ ہمارے ہاں ذریعہ تعلیم کے طور پر جاری رہے۔ کوئی باشعور اور بامقصد قوم اس کے لیے تیارنہیں ہو سکتی اور نہ ہمیں کوئی چھوٹی یا بڑی آزاد قوم ایسی معلوم ہے جس نے غیر ملکی زبان کو اپنے ہاں ذریعۂِ تعلیم بنایا ہو۔ اگر اپنی قومی زبان کو ذریعۂِ تعلیم بنانے میں کوئی مشکلات حائل ہیں تو ان کا حل تلاش کرنا چاہیے اور بِلا کسی ناگزیر تاخیر کے پرائمری سے آخری درجوں تک اپنی قومی زبان کو ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے اختیارکرنا چاہیے۔ انگریزی کو ایک اہم زبان کی حیثیت سے شاملِ نصاب ضرور رکھنا چاہیے اور جو لوگ سائنس اور دوسرے جدید علوم حاصل کرنا چاہیں ان کیلئے اس زبان کو سیکھنا لازم بھی کیا جا سکتا ہے، مگر اسے ذریعۂ تعلیم بنائے رکھنا انتہائی غلط فعل ہے۔

٭٭٭