ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔
اسلامی نظمِ معیشت کے اُصول اور مقاصد(۱)
[یہ ایک تقریر ہے جو ۱۷دسمبر۱۹۶۵ء کو پنجاب یونیورسٹی کیے شعبہء انتظامیات کی مجلس مذاکرہ میں کی گئی تھی]
حضرات، مجھے چند خاص سوالات پر اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی ہے جنہیں میں سب سے پہلے آپ کو پڑھ کر سنا دیتا ہوں تا کہ آپ کو دائرۂ بحث کے حدود معلوم ہو جائیں۔
سوالات
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا اسلام نے کوئی معاشی نظام تجویز کیا ہے؟ اگر کیا ہے تو اس نظام کا کیا خاکہ ہے؟ اور اس خاکے میں زمین، محنت، سرمایہ اور تنظیم کا کیا مقام ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا زکوٰۃ اور صدقے کو معاشی بہبود کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم بلاسُود معاشی نظام رائج کرسکتے ہیں؟
اور چوتھا سوال یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک معاشی، سیاسی، معاشرتی اور مذہبی نظام کا آپس میں کیا تعلق ہے؟
پہلے سوال کا جواب
ان میں سے ایک ایک سوال ایسا ہے کہ اگر آدمی اس کی تفصیلات میں جائے تو ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے ۔ لیکن میں اس خیال سے کہ میرے مخاطب اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہیں جن کے لیے صرف اشارات کافی ہوسکتے ہیں، ان میں سے ہر سوال پر مختصر گفتگو کروں گا۔
اسلام کس معنی میں ہم کو ایک معاشی نظام دیتا ہے؟
پہلے سوال کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ آیا اسلام نے کوئی معاشی نظام تجویزکیا ہے اور اگر کیا ہے تو اس نظام کا خاکہ کیا ہے؟ اور دوسرا حصہ یہ کہ اس خاکے میں زمین، محنت، سرمائے اور تنظیم کا کیا مقام ہے؟ سوال کے پہلے حصے کا جواب یہ ہے کہ اسلام نے یقیناً ایک معاشی نظام تجویز کیا ہے ۔ مگر اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ایک مفصل معاشی نظام اس نے ہر زمانے کے لیے بنا کر رکھ دیا ہے جس میں معاشی زندگی کے متعلق تمام تفصیلات طے کر دی گئی ہیں، بلکہ دراصل اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس نے ہمیں ایسے بنیادی اصول دیئے ہیں جن کی بنا پر ہم ہر زمانے کے لیے ایک معاشی نظام خود بنا سکتے ہیں۔ اسلام کا قاعدہ یہ ہے، اور قرآن و حدیث کو بغور پڑھنے سے وہ اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے، کہ زندگی کے ہر شعبے کے متعلق وہ ایک طرح سے حدود اربعہ (four corners) مقرر کر دیتا ہے اور ہمیں بتا دیتا ہے کہ یہ حدود ہیں جن میں تم اپنی زندگی کے اس شعبہ کی تشکیل کرو۔ ان حدود سے باہر تم نہیں جاسکتے، البتہ ان کے اندر تم اپنے حالات، ضروریات اور تجربات کے مطابق تفصیلات طے کرسکتے ہو۔ نجی زندگی کے معاملات سے لے کر تہذیب و تمدن کے تمام شعبوں تک اسلام نے انسان کی رہنمائی اسی طریقے پر کی ہے، اور یہی اس کا طریقِ رہنمائی ہمارے نظامِ معیشت کے بارے میں بھی ہے۔ یہاں بھی اس نے کچھ اصول ہم کو دے دیئے ہیں اور کچھ حدودِ اربعہ مقرر کر دیے ہیں تا کہ ان کے اندر ہم اپنے معاشی نظام کی صورت گری کریں۔ تفصیلات طے کرنے کا کام ہر زمانے کے لحاظ سے ہونا چاہیے اور ہوتا رہا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ انہی حدود اربعہ کے اندر ہمارے فقہاء نے اپنے زمانے میں معاشی نظام کے احکام بڑی تفصیل سے مرتب کیے تھے جو فقہ کی کتابوں میں ہمیں ملتے ہیں۔ فقہاء نے جو کچھ مرتب کیا ہے وہ ان اصولوں سے ماخوذ ہے جو اسلام نے دیئے ہیں اور ان حدود سے محدود ہے جو اس نے مقرر کر دی ہیں۔ ان تفصیلات میں سے جو چیزیں آج بھی ہماری ضروریات کے مطابق ہیں ان کو ہم جوں کا توں لے لیں گے، اور جو نئی ضروریات اب ہمیں لاحق ہیں ان کے لیے ہم مزید احکام کا استخراج کرسکتے ہیں۔ لیکن وہ لازماً اسلام کے دیئے ہوئے اصولوں سے ماخوذ ہونے چاہئیں اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں کے اندر رہنے چاہئیں۔
اسلام نظامِ معیشت کے بنیادی مقاصد
اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام کا ایک معاشی نظام ہے تو اس کا مفہوم کیا ہوتا ہے۔ اب جو اصول اسلام نے ہم کو دیے ہیں ان کے بیان کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ آپ ان مقاصد (objectives) کو اچھی طرح سمجھ لیں جنہیں اسلام کے معاشی نظام میں ملحوظ رکھا گیا ہے، کیوں کہ اس کے بغیر ان اصولوں کو نہ بخوبی سمجھا جاسکتا ہے، نہ حالات و ضروریات پر ان کا انطباق کیا جاسکتا ہے، اور نہ تفصیلی احکام کا استخراج ان کی حقیقی روح کے مطابق ہوسکتا ہے۔
شخصی آزادی کی حفاظت
اولین چیز جو معیشت کے معاملے میں اسلام کے پیش نظر ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی آزادی کو محفوظ رکھا جائے اور صرف اس حد تک اس پر پابندی عائد کی جائے جس حد تک نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے ناگزیر ہے ۔ اسلام انسان کی آزادی کو بہت بڑی اہمیت دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں ہر ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ یہ جواب دہی مشترک نہیں ہے، بلکہ ہر شخص فرداً فرداً ذمہ دار ہے اور اس کو فرداً فرداً اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اس جوابدہی کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو اپنی شخصیت کا ارتقاء خود اپنے میلانات کے مطابق اپنی صلاحیتوں کے مطابق اور اپنے انتخاب کے مطابق کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع دیا جائے۔ اس لیے اسلام افراد کے لیے اخلاقی اور سیاسی آزادی کے ساتھ ان کی معاشی آزادی کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ اگر افراد کو معاشی آزادی حاصل نہ ہو تو ان کی اخلاقی اور سیاسی آزادی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ جو آدمی اپنی معاش کے معاملے میں کسی دوسرے شخص یا ادارے یا حکومت کا دستِ نگر ہو وہ اگر اپنی کوئی آزادانہ رائے رکھتا بھی ہو تو وہ اپنی اس رائے پر عمل کرنے میں آزاد نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اسلام معاشی نظام کے لیے ہم کو ایسے اصول دیتا ہے جن سے فرد کے لیے اپنی روزی کمانے کے معاملے میں زیادہ سے زیادہ آزادی موجود رہے اور اس پر صرف اتنی پابندی عائد کی جائے جتنی حقیقت میں انسانی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے۔ اسی لیے اسلام سیاسی نظام بھی ایسا چاہتا ہے جس میں حکومت لوگوں کی آزاد مرضی سے بنے، لوگ اپنی مرضی سے اس کو بدلنے پر قادر ہوں، لوگوں کے، یا ان کے معتمد علیہ نمائندوں کے مشورے سے اس کا نظام چلایا جائے، لوگوں کو اس میں تنقید اور اظہار رائے کی پوری آزادی حاصل ہو، اور حکومت کو غیر محدود اختیارات حاصل نہ ہوں بلکہ وہ ان کے حدود کے اندر ہی رہ کر کام کرنے کی مجاز ہو جو قرآن اور سنت کے بالاتر قانون نے اس کے لیے مقرر کر دیے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام میں خدا کی طرف سے لوگوں کے بنیادی حقوق مستقل طور پر مقرر کر دیے گئے ہیں جنہیں سلب کرنے کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ افراد کی آزادی محفوظ رہے اور کوئی ایسا جابرانہ نظام مسلط نہ ہونے پائے جس میں انسانی شخصیت کا ارتقاء ٹھٹھر کر رہ جائے۔
اخلاقی اصلاح پر زور اور جبر کا کم سے کم استعمال
دوسری بات یہ ہے کہ اسلام انسان کے اخلاقی نشوونما کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اور اس مقصد کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاشرے کے اجتماعی نظام میں فرد کو اختیاری حسنِ عمل کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل رہیں تا کہ انسانی زندگی میں فیاضی، ہمدردی، احسان اور دوسرے اخلاقی فضائل رو بعمل آسکیں۔ اسی بنا پر معاشی انصاف قائم کرنے کے لیے اسلام صرف قانون پر انحصار نہیں کرتا بلکہ اس معاملہ میں وہ سب سے بڑھ کر جس چیز کو اہمیت دیتا ہے وہ یہ ہے کہ ایمان، عبادات، تعلیم اور اخلاقی تربیت کے ذریعہ سے انسان کی داخلی اصلاح کی جائے، اس کے ذوق کو بدلا جائے، اس کے سوچنے کے انداز کو تبدیل کیا جائے اور اس کے اندر ایک مضبوط اخلاقی حِس (moral sence) پیدا کی جائے۔ جس سے وہ خود انصاف پر قائم رہے۔ ان ساری تدبیروں سے جب کام نہ چلے تو مسلمانوں کے معاشرے میں اتنی جان ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اجتماعی دبائو سے آدمی کو حدود کا پابند رکھے۔ اس سے بھی جب کام نہ چلے تب اسلام قانون کی طاقت استعمال کرتا ہے تا کہ بزور انصاف قائم کیا جائے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے ہر وہ اجتماعی نظام غلط ہے جو انصاف کے قیام کے لیے صرف قانون کی طاقت پر انحصار کرے اور انسان کو اس طرح باندھ کر رکھ دے کہ وہ اپنے اختیار سے بھلائی کرنے پر سرے سے قادر ہی نہ رہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اسلام انسانی وحدت و اخوت کا علمبردار اور تفرقہ و تصادم کا مخالف ہے، اس لیے وہ انسانی معاشرے کو طبقات میں تقسیم نہیں کرتا، اور فطری طور پر جو طبقات موجود ہیں ان کو طبقاتی نزاع (class struggle) کے بجائے ہمدردی اور تعاون کی راہ دکھاتا ہے۔ انسانی معاشرے کا آپ تجزیہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہاں دو قسم کے طبقات پائے جاتے ہیں۔ ایک قسم کے طبقات وہ جو مصنوعی طور پر ایک ظالمانہ سیاسی، معاشرتی اور معاشی نظام ناروا طریقے سے پیدا کر دیتے ہیں اور پھر زبردستی ان کو قائم رکھتے ہیں۔ مثلاً وہ طبقات جو برہمنیت نے پیدا کیے، یا وہ جو جاگیرداری نظام (feudal system) نے پیدا کیے، یا وہ جو مغرب کے سرمایہ داری نظام (western captalist system) نے پیدا کیے۔ اسلام نہ خود ایسے طبقات کو پیدا کرتا ہے اور نہ ان کو باقی رکھنا چاہتا ہے، بلکہ اپنی اصلاحی اور قانونی تدابیر سے ان کو ختم کر دیتا ہے۔ دوسری قسم کے طبقات وہ ہیں جو انسانی قابلیتوں کے فرق اور انسانی حالات کے فرق کی بنا پر فطرتاً پیدا ہوتے ہیں اور فطری طریقے پر ہی بدلتے رہتے ہیں۔ اسلام ایسے طبقات کو نہ زبردستی مٹاتا ہے، نہ ان کو مستقل طبقات میں تبدیل کرتا ہے ، اور نہ انہیں آپس میں لڑاتا ہے۔ بلکہ وہ اپنے اخلاقی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی نظام کے ذریعے سے ان کے درمیان منصفانہ تعاون پیدا کرتا ہے، ان کو ایک دوسرے کا ہمدرد اور مددگار بناتا ہے، اور تمام لوگوں کے لیے مواقع کی یکسانی (equality of opportunities) بہم پہنچا کر ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے جن میں یہ طبقات فطری طریقے سے تحلیل اور تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
اسلام نظام معیشت کے بنیادی اصول
یہ تین چیزیں ہیں جن کو آپ نگاہ میں رکھیں تب اس معاشی نظام کے اصول اپنی صحیح روح کے ساتھ آپ کی سمجھ میں آسکیں گے۔ اب اس معاشی نظام کے جو بڑے بڑے اصول ہیں وہ میں مختصر طور پر آپ سے بیان کرتا ہوں:
شخصی ملکیت محدود حق
اسلام چند خاص حدود کے اندر شخصی ملکیت کا اثبات کرتا ہے اور شخصی ملکیت کے معاملہ میں وہ ذرائعِ پیداوار (Means of production) اور اشیائے صرف (consumer goods) کے درمیان،یا محنت سے کمائی ہوئی آمدنی (earned income) اور محنت کے بغیر کمائی ہوئی آمدنی (un earned income) کے درمیان فرق نہیں کرتا ۔ وہ انسان کو ملکیت کا عام حق دیتا ہے، البتہ اس کو کچھ حدود سے محدود کر دیتا ہے ۔ اسلام میں یہ تصور موجود نہیں ہے کہ ذرائع پیداوار اور اشیائے صرف کے درمیان فرق کر کے ذرائع پیداوار کو شخصی ملکیت سے ساقط کر دیا جائے اور محض اشیائے صرف کی حد تک اس کو محدود کر دیا جائے۔ اسلامی نقطہ نظر سے ایک شخص جس طرح کپڑے اور برتن اور گھر کا فرنیچر رکھنے کا مجاز ہے اسی طرح وہ زمین اور مشین اور کارخانہ رکھنے کا بھی مجاز ہے۔ اسی طرح ایک شخص جس طرح اپنی براہِ راست محنت سے کمائی ہوئی دولت کا جائز مالک ہوسکتا ہے اسی طرح وہ اپنے باپ یا ماں یا بیوی یا شوہر کی چھوڑی ہوئی دولت کا بھی مالک ہوسکتا ہے، اور وہ مضاربت یا شرکت کے اصول پر ایک ایسی کمائی میں حصہ دار بھی بن سکتا ہے جو اس کے دیے ہوئے سرمائے پر کام کر کے ایک دوسرے شخص نے اپنی محنت سے حاصل کی ہو۔ اسلام ایک طرح کی ملکیت اور دوسری طرح کی ملکیت کے درمیان اس لحاظ سے فرق نہیں کرتا کہ یہ ذرائع پیداوار کی ملکیت ہے یا اشیائے صرف کی ملکیت، یا یہ محنت سے کمائی ہوئی دولت ہے یا بے محنت حاصل کی ہوئی دولت۔ بلکہ وہ اس لحاظ سے فرق کرتا ہے کہ یہ جائز ذرائع سے آئی ہے یا ناجائز ذرائع سے، اور اس کا استعمال آپ صحیح طریقے سے کرتے ہیں یا غلط طریقے سے۔ اسلام میں پوری معاشی زندگی کا نقشہ اس طرز پر بنایا گیا ہے کہ انسان کچھ حدود کے اندر اپنی معاش کمانے کے لیے آزاد رہے۔ ابھی ابھی میں آپ سے عرض کر چکا ہوں کہ اسلام کی نگاہ میں انسان کی آزادی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے اور اس آزادی پر ہی وہ آدمیت کے نشوونما کی ساری عمارت تعمیر کرتا ہے۔ معاش کے ذرائع و وسائل میں شخصی ملکیت کا حق دینا انسان کو اسی آزادی کو محفوظ کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اگر شخصی ملکیت کا حق اس سے چھین لیا جائے اور تمام وسائلِ معاش پر اجتماعی ملکیت قائم کر دی جائے تو انفرادی آزادی لازماً ختم ہو جاتی ہے، کیوں کہ اس کے بعد تو معاشرے کے تمام افراد اس ادارے کے ملازم بن جاتے ہیں جس کے ہاتھ میں پوری مملکت کے وسائلِ معاش کا کنٹرول ہو۔
مساوی تقسیم کے بجائے منصفانہ تقسیم ِ دولت
اسلامی نظامِ معیشت کا ایک اور اہم اصول یہ ہے کہ وہ دولت کی مساوی (equal) تقسیم کے بجائے منصفانہ (equitable) تقسیم چاہتا ہے۔ اس کے پیش نظر ہرگز یہ نہیں ہے کہ تمام انسانوں کے درمیان ذرائع زندگی کو برابر تقسیم کیا جائے۔ قرآن مجید کو جو شخص بھی پڑھے گا اس کو صاف معلوم ہو جائے گا کہ خدا کی اس کائنات میں کہیں بھی مساوی تقسیم نہیں پائی جاتی ۔ مساوی تقسیم ہے ہی غیر فطری چیز… کیا تمام انسانوں کو یکساں صحت دی گئی ہے؟ کیا تمام انسانوں کو یکساں ذہانت دی گئی ہے؟ کیا تمام انسانوں کا حافظہ یکساں ہیں؟ کیا تمام انسان حسن میں، طاقت میں، قابلیت میں برابر ہیں؟ کیا تمام انسان ایک ہی طرح کے حالاتِ پیدائش میں آنکھیں کھولتے ہیں اور دنیا میں کام کرنے کے لیے بھی سب کو ایک ہی طرح کے حالات ملتے ہیں؟ اگر ان ساری چیزوں میں مساوات نہیں ہے تو ذرائع پیداوار یا تقسیم دولت میں مساوات کے کیا معنی؟ یہ عملاً ممکن ہی نہیں ہے اور جہاں بھی مصنوعی طور پر اس کی کوشش کی جائے گی وہ لازماً ناکام بھی ہوگی اور غلط نتائج بھی پیدا کرے گی۔اسی لیے اسلام یہ نہیں کہتا کہ وسائلِ معیشت اور ثمراتِ معیشت کی مساوی تقسیم ہونی چاہیے بلکہ وہ کہتا ہے کہ منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے اور اس انصاف کے لیے وہ چند قاعدے مقرر کرتا ہے۔
کمائی کے ذرائع میں حلال وحرام کی تمیز
ان قواعد میں سب سے پہلا قاعدہ یہ ہے کہ دولت حاصل کرنے کے ذرائع میں اسلام نے حرام اور حلال کی تمیز قائم کی ہے ۔ ایک طرف وہ فرد کو یہ حق دیتا ہے کہ آزادانہ طریقے سے سعی وجہد کر کے اپنی معاش حاصل کرے اور جو کچھ کمائے وہ اس کی ملکیت ہے۔ دوسری طرف سعی وجہد کرنے کے طریقوں میں اس نے حرام اور حلال کی حدیں مقرر کر دی ہیں۔ اس کے ضابطہ کی رو سے ایک شخص حلال ذرائع سے اپنی روزی کمانے میں پوری طرح آزاد ہے، جس طرح چاہے کمائے اور جتنا چاہے کمائے۔ اس کمائی ہوئی دولت کا وہ جائز مالک ہے۔ کوئی اس کی جائز ملکیت کو محدود کرنے کا یا اس سے چھین لینے کا حق نہیں رکھتا۔ البتہ حرام ذرائع سے ایک حبہ حاصل کرنے کا بھی وہ مجاز نہیں ہے۔ اس کمائی سے اس کو بجبر روکا جائے گا۔ ایسی کمائی سے حاصل کی ہوئی دولت کا وہ جائز مالک نہیں ہے۔ اس کے جرم کی نوعیت کے لحاظ سے اس کو قید، جرمانے یا ضبطی ٔ مال کی سزا بھی دی جائے گی، اور ارتکابِ جرم سے اس کو روکنے کی تدابیر بھی اختیار کی جائیں گی۔
جن ذرائع کو اسلام میں حرام کر دیا گیا ہے وہ یہ ہیں: خیانت، رشوت، غصب، بیت المال میں غبن، سرقہ، ناپ تول میں کمی، فحش پھیلانے والے کاروبار، قحبہ گری (prostitution)، شراب اور دوسرے مسکرات کی صنعت و تجارت، سود، جوا، سٹہ، بیع کے وہ تمام طریقے جو دھوکے یا دبائو پر مبنی ہوں، یا جن سے جھگڑے اور فساد کو راہ ملتی ہو، یا جو انصاف اور مفادِ عامہ کے خلاف ہوں۔ ان ذرائع کو اسلام اَز رُوئے قانون روک دیتا ہے۔ ان کے علاوہ وہ احتکار (hoarding) کو ممنوع ٹھیراتا ہے اور ایسی اجارہ داریوں کو روکتا ہے جو کسی معقول وجہ کے بغیر دولت اور اسی کی پیدائش کے وسائل سے عام لوگوں کو استفادہ کے مواقع سے محروم کرتی ہوں۔
ان طریقوں کو چھوڑ کر جائز ذرائع سے جو دولت آدمی کمائے وہ اس کی حلال کمائی ہے۔ اس حلال دولت سے وہ خود بھی استفادہ کرسکتا ہے، ہبہ اور بخشش سے دوسروں کی طرف منتقل بھی کرسکتا ہے، مزید دولت کمانے کے لیے بھی استعمال کرسکتا ہے، اور اپنے وارثوں کے لیے میراث بھی چھوڑ سکتا ہے۔ اس جائز کمائی پر کوئی پابندی ایسی نہیں ہے جو اسے کسی حد پر جا کر مزید کمانے سے روک دیتی ہو۔ ایک شخص حلال ذرائع سے کروڑ پتی بن سکتا ہے تو اسلام اس کے راستے میں حائل نہیں ہے۔ جتنی ترقی بھی وہ معاشی حیثیت سے کرسکتا ہے، کرے، مگر جائز ذرائع سے کرے۔ اگرچہ جائز ذرائع سے کروڑ پتی بننا آسان کام نہیں ہے۔ غیر معمولی ہی کسی شخص پر اللہ کا فضل ہو جائے تو ہو جائے۔ ورنہ جائز ذرائع سے کروڑ پتی بن جانے کی گنجائش کم ہی ہوتی ہے۔ لیکن اسلام کسی کو باندھ کر نہیں رکھتا۔ حلال ذرائع سے وہ جتنا بھی کما سکتا ہو اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، کیوں کہ بے جا رکاوٹوں اور حد بندیوں سے انسان کے لیے محنت کرنے کا کوئی محرک (Incentive) باقی نہیں رہتا۔
استعمالِ دولت کے طریقوں میں حلال و حرام کی تمیز
اس کے بعد جو دولت آدمی کو حاصل ہوتی ہے اس کے استعمال پر پھر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں:
اس کے استعمال کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی اسے اپنی ذات پر خرچ کرے۔ اس خرچ پر اسلام ایسی پابندیاں عائد کرتا ہے جن سے وہ آدمی نے اپنے اخلاق اور معاشرے کے لیے کسی طرح نقصان دہ نہ ہوسکے۔وہ شراب نہیں پی سکتا۔ زنا نہیں کرسکتا۔ جوئے بازی میں اپنی دولت نہیں اڑا سکتا۔ عیاشی کی کوئی خلافِ اخلاق صورت اختیار نہیں کرسکتا۔ سونے چاندی کے برتن استعمال نہیں کرسکتا۔ حتیٰ کہ اگر رہن سہن میں وہ بہت زیادہ شان و شوکت اختیار کرے تو اس پر بھی پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اس کا کم و بیش کوئی حصہ بچالے اور اس کو روک رکھے۔ اسلام اس کو پسند نہیں کرتا۔ وہ چاہتا ہے کہ جو دولت بھی کسی کے پاس پہنچ گئی ہے وہ رک کر نہ رہ جائے بلکہ جائز طریقوں سے گردش میں آتی رہے۔ رکی ہوئی دولت پر ایک خاص قانون کے مطابق اسلام زکوٰۃ عائد کرتا ہے تا کہ اس کا ایک حصہ لازماً محروم طبقات اور اجتماعی خدمات کے لیے استعمال ہو۔ قرآن مجید میں آپ دیکھیں گے کہ جن افعال کی اس میں سخت مذمت کی گئی ہے ان میں سے ایک یہ کہ آدمی خزانے جمع کرنے کی کوشش کرے۔ وہ کہتا ہے کہ جو لوگ سونے اور چاندی کے ذخیرے جمع کرتے ہیں ان کا جمع کیا ہوا سونا اور چاندی جہنم میں ان کو داغنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دولت خدا نے نوعِ انسانی کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ اسے بند کر کے رکھ لینے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ آپ جائز ذرائع سے کمایئے، اپنی ضروریات پر خرچ کیجئے اور پھر جو کچھ بچے اسے کسی نہ کسی طرح جائز طریقے سے گردش میں لایئے۔
اسی لیے اسلام احتکار کو بھی منع کرتا ہے۔احتکار کے معنی یہ ہیں کہ آپ اشیائے ضرورت کو قصداً روک کر رکھیں تا کہ بازار میں ان کی رسد کم ہو اور قیمتیں چڑھ جائیں۔ یہ حرکت اسلامی قانون میں حرام ہے۔ آدمی کو سیدھی طرح تجارت کرنی چاہیے۔ اگر آپ کے پاس کوئی مال بیچنے کے لیے موجود ہے اور بازار میں اس کی مانگ ہے تو کوئی معقول وجہ نہیں کہ آپ اسے فروخت کرنے سے انکار کریں۔ جان بوجھ کر اشیائے ضرورت کی قلت پیدا کرنے کے لیے فروخت سے انکار کر دینا آدمی کو تاجر کے بجائے لٹیرا بنا دیتا ہے۔
اسی بناء پر اسلام بے جا نوعیت کی اجارہ داریوں کا بھی مخالف ہے، کیوں کہ وہ وسائل معاش سے عام لوگوں کے استفادے میں مانع ہوتی ہیں۔ اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا کہ کسبِ معیشت کے کچھ مواقع اور ذرائع بعض خاص اشخاص یا خاندانوں یا طبقوں کے لیے مخصوص کر دیئے جائیں اور دوسرے اگر اس میدان میں آنا چاہیں تو ان کے راستے میں رکاوٹ ڈال دی جائے۔ اجارہ داری اگر کسی نوعیت کی جائز ہے تو صرف وہ جو اجتماعی مفاد کے لیے بالکل ناگزیر ہو، ورنہ اصولاً اسلام یہ چاہتا ہے کہ جدوجہد کا میدان سب کے لیے کھلا رہے اور ہر شخص کو اس میں ہاتھ پائوں مارنے کے مواقع حاصل رہیں۔
بچی ہوئی دولت کو اگر کوئی شخص مزید دولت کمانے میں استعمال کرنا چاہے تو یہ استعمال صرف ان طریقوں سے ہوسکتا ہے جو کسبِ معیشت کے لیے اسلام میں حلال قرار دیئے گئے ہیں۔ حرام طریقے، جن کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں، اس غرض کے لیے استعمال نہیں کیے جاسکتے۔
افراد کی دولت پر معاشرے کے حقوق
پھر اسلام انفرادی دولت پر جماعت کے حقوق عائد کرتا ہے اور مختلف طریقوں سے کرتا ہے۔ قرآن مجید میں آپ دیکھیں گے کہ ذوی القُربیٰ کے حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک آدمی کی کمائی پر اس کی اپنی ذات کے سوا اس کے رشتے داروں کا حق بھی ہے۔ معاشرے کے اندر ایک ایک آدمی کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر وہ اپنی ضرورت سے زائد دولت رکھتا ہے اور اس کے اپنے رشتہ داروں میں ایسے لوگ ہیں جن کو ضرورت سے کم دولت مل رہی ہے تو اس شخص کے اوپر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنی استطاعت کی حد تک ان کی مدد کرے۔ کسی قوم میں ایک ایک خاندان کے لوگ اپنی اس ذمے داری کو محسوس کریں تو بحیثیت مجموعی قوم کے بیشتر خاندانوں کو سنبھالنے کا انتظام ہوسکتا ہے اور کم ہی خاندان ایسے باقی رہ سکتے ہیں جو بیرونی امداد کے محتاج ہوں۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ قرآن مجید حقوق العباد میں سب سے پہلے ماں، باپ اور رشتے داروں کے حق کا ذکر کرتا ہے۔
اسی طرح قرآن آدمی کی دولت پر اس کے ہمسایوں کا حق بھی عائد کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر محلے، ہر گلی اور ہر کوچے میں جو لوگ نسبتاً خوش حال ہوں وہ ان لوگوں کو سنبھالیں جو اسی محلے اور گلی اور کوچے میں نسبتاً بدحال اور دست گیری کے محتاج پائے جاتے ہوں۔
ان دو ذمہ داریوں کے بعد قرآن ہر کھاتے پیتے آدمی پر یہ ذمے داری بھی ڈالتا ہے کہ وہ اپنی حدِ وسع تک ہر اس شخص کی مدد کرے جو مدد مانگے یا مدد کا محتاج ہو۔ وَفِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ للِّسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ، (لوگوں کے مالوں میں حق ہے سائل کا اور محروم کا)۔ سائل وہ ہے جو آپ کے پاس مدد مانگنے کے لیے آتا ہے۔ اس سے مراد یہ پیشہ ور بھیک منگے نہیں ہیں جنھوں نے بھیک کو ہی وسیلۂ معاش بنا رکھا ہے، بلکہ اس سے مراد ایسا شخص ہے جو واقعی حاجت مند ہو اور آپ سے آکر درخواست کرے کہ آپ اس کی مدد کریں۔ آپ یہ اطمینان ضرور کرلیں کہ یہ واقعی حاجت مند ہے۔ لیکن اگر معلوم ہوجائے کہ وہ حاجت مند ہے، اور آپ اپنی ضرورت سے زائد روپیہ بھی رکھتے ہیں جس سے اس کی مدد کرنا آپ کے لیے ممکن ہے، تو پھر آپ کو جاننا چاہیے کہ آپ کے مال میں اس کا بھی حق ہے۔ رہا محروم تو اس سے مراد وہ شخص ہے جو آپ کے پاس مدد مانگنے کے لیے تو نہیں آتا مگر آپ کو معلوم ہے کہ وہ اپنا رزق پانے سے یا پوری طرح پانے سے محروم رہ گیا ہے۔ یہ شخص بھی آپ کے مال میں حقدار ہے۔
ان حقوق کے علاوہ اسلام نے مسلمانوں کو انفاق فی سبیل اللہ کا عام حکم دے کر پورے معاشرے اور ریاست کا حق بھی ان کے مالوں میں قائم کر دیا ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان کو ایک فیاض، فراخ دل، حساس اور ہمدردِ خلائق ہستی ہونا چاہیے، اور اس کو کسی خود غرضانہ جذبے سے نہیں بلکہ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے بھلائی کے ہر کام میں، دین اور معاشرے کی ہر ضرورت کو پورا کرنے میں کھلے دل سے اپنی دولت خرچ کرنی چاہیے۔ یہ ایک زبردست اخلاقی روح ہے جسے اسلام اپنی تعلیم اور تربیت سے اور اسلامی معاشرے کے اجتماعی ماحول سے ہر فرد مسلم میں پیدا کرتا ہے تا کہ وہ کسی جبر سے نہیں بلکہ اپنے دل کی رضا سے اجتماعی فلاح میں مددگار ہو۔
زکوٰۃ
اس رضاکارانہ انفاق کے بعد ایک چیز اور ہے جسے اسلام میں لازم کر دیا گیا ہے اور وہ ہے زکوٰۃ جو جمع شدہ سرمایوں پر، تجارتی اموال پر، کاروبار کی مختلف صورتوں پر، زرعی پیداوار پر ، اور مواشی پر اس غرض سے عائد کی جاتی ہے کہ اس سے ان لوگوں کو سہارا دیا جائے جو معاشی حیثیت سے پسماندہ رہ گئے ہوں۔ ان دونوں قسم کے انفاقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک نماز نفل ہے اور ایک فرض۔ نفل نماز آپ کو اختیار ہے جتنی چاہیں پڑھیں۔ جتنی زیادہ روحانی ترقی آپ کرنا چاہتے ہیں، جتنا کچھ اللہ سے قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں، اتنے ہی نوافل آپ اپنی مرضی سے ادا کیجئے۔ لیکن فرض نماز لازماً آپ کو پڑھنی ہی ہوگی۔ ایسا ہی معاملہ انفاق فی سبیل اللہ کا ہے کہ ایک قسم کا انفاق نفل ہے جو آپ اپنی خوشی سے کریں گے، دوسری قسم کا انفاق وہ ہے جو آپ پر فرض کر دیاگیا ہے اور وہ آپ کو لازماً کرنا ہوگا جب کہ آپ کی دولت ایک حدِّ مقرر سے زائد ہو۔
زکوٰۃ اور ٹیکس کا فرق
زکوٰۃ کے متعلق یہ غلط فہمی آپ کے ذہن میں نہیں رہنی چاہیے کہ یہ کوئی ٹیکس ہے۔ دراصل یہ ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبادت ہے اور نماز کی طرح اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔ زکوٰۃ اور ٹیکس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ٹیکس وہ ہوتا ہے جو زبردستی کسی انسان پر عائد کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ بخوشی اس کو قبول کرے۔ اس کے عائد کرنے والوں کا کوئی شخص معتقد نہیں ہوتا۔ ان کے برحق ہونے پر ایمان نہیں لاتا۔ ان کے ڈالے ہوئے اس بار کو زبردستی کی چٹی سمجھتا ہے۔ اس پر ناک بھوں چڑھاتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے ہزار حیلے کرتا ہے ۔ اس کو ادا نہ کرنے کی تدبیریں نکالتا ہے اور اس سے اس کے ایمان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر ان دونوں میں اصولی فرق یہ ہے کہ ٹیکس دراصل ان خدمات کے مصارف پورے کرنے کے لیے عائد کیا جاتا ہے جن کا فائدہ خود ٹیکس ادا کرنے والے کی طرف پلٹتا ہے۔ اس کے پیچھے بنیادی تصور یہ کار فرما ہے کہ آپ جن سہولتوں کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت کے ذریعہ سے وہ سہولتیں آپ کو بہم پہنچائی جائیں، ان کے لیے آپ اپنی دولت کے لحاظ سے متناسب چندہ دیں۔ یہ ٹیکس درحقیقت ایک طرح کا چندہ ہی ہے جو قانونی جبر کے تحت ان اجتماعی خدمات کے لیے آپ سے لیا جاتا ہے جن کے فوائد سے متمتع ہونے والوں میں آپ خود بھی شامل ہیں۔ زکوٰۃ اس کے برعکس ایک عبادت ہے بالکل اسی طرح جیسے نماز ایک عبادت ہے۔ کوئی پارلیمنٹ یا قانون ساز اسمبلی اس کی عائد کرنے والی نہیں ہے، بلکہ اسے خدا نے عائد کیا ہے جسے ایک مسلمان اپنا معبودِ برحق مانتا ہے۔ کوئی شخص اگر اپنے ایمان کو محفوظ رکھنا چاہتا ہو تو وہ زکوٰۃ سے بچنے یا اس میں خورد برد کرنے کی کبھی کوشش نہیں کرسکتا۔ بلکہ اگر کوئی خارجی طاقت اس سے حساب لینے اور زکوٰۃ وصول کرنے والی نہ بھی ہو تو ایک مومن اپنی زکوٰۃ کا حساب خود کر کے اپنی مرضی سے نکالے گا۔ پھر یہ زکوٰۃ سرے سے اس غرض کے لیے ہے ہی نہیں کہ ان اجتماعی ضروریات کو پورا کیا جائے جن سے متمتع ہونے میں آپ خود بھی شامل ہیں، بلکہ یہ صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص کی گئی ہے جو کسی نہ کسی طرح سے دولت کی تقسیم میں اپنا حصہ پانے سے، یا پورا حصہ پانے سے محروم رہ گئے ہیں، اور کسی وجہ سے مدد کے محتاج ہیں، خواہ عارضی طور پر یا مستقل طور پر۔ اس طرح زکوٰۃ اپنی حقیقت، اپنے بنیادی اصول اور اپنی روح اور شکل کے اعتبار سے ٹیکس سے بالکل ایک مختلف چیز ہے۔ یہ آپ کے لیے سڑکیں اور ریلیں اور نہریں بنانے اور ملک کا نظم و نسق چلانے کے لیے نہیں ہے بلکہ چند مخصوص حق داروں کے حقوق ادا کرنے کے لیے خدا کی طرف سے ایک عبادت کے طور پر فرض کی گئی ہے، اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے، اور اس کا کوئی فائدہ اللہ کی خوشنودی اور آخرت کے اجر کے سوا آپ کی ذات کی طرف پلٹ کر نہیں آتا۔
ٹیکس لگانے کے اختیارات
بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی بھی ہے کہ اسلام میں زکوٰۃ اور خراج کے سوا کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ اِنَّ فِی الْمَالِ حقًّا سِویٰ الزَّکٰوۃِ۔ ’’لوگوں کے مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی ایک حق ہے۔‘‘ دراصل جن ٹیکسوں کو شریعت میں ناروا قرار دیا گیا ہے وہ قیصروں اور کسرائوں اور ان کے امراء کے لگائے ہوئے وہ ٹیکس تھے جنھیں بادشاہ اور امیر کی ذاتی ملک بنا لیا جاتا تھا اور جن کی آمد و خرچ کا حساب دینے کے وہ ذمہ دار نہ تھے ۔ رہے وہ ٹیکس جو شوریٰ کے طریقے پر چلنے والی حکومت لوگوں کی مرضی اور مشورے سے لگائے، جن کی آمدنی پبلک کے خزانے میں جمع ہو، جن کو خرچ بھی لوگوں کے مشورے سے کیا جائے، اور جن کا حساب دینے کی حکومت ذمہ دار ہو ۔ تو ایسے ٹیکس عائد کرنے پر شریعت میں قطعاً کوئی پابندی نہیں ہے۔ اگر معاشرے میں اسلامی حکومت کے قیام سے پہلے کوئی بے جا اونچ نیچ پیدا ہو چکی ہو، یا حرام طریقوں سے کمائی ہوئی دولت بعض طبقوں نے بے تحاشا فراہم کرلی ہو، تو ایک اسلامی حکومت ضبطی جائیداد کے طریقے اختیار کرنے کے بجائے ٹیکس عائد کر کے اس بیماری کا مداوا کرسکتی ہے اور دوسرے اسلامی قوانین کی مدد سے دولت کے اس ارتکاز کو ختم کرسکتی ہے۔ ضبطی جائیداد کا طریقہ استعمال کرنے کے لیے حکمرانوں کو ایسے جابرانہ اختیارات دینا ناگزیر ہو جاتا ہے جنھیں پا کر وہ کسی حد پر روکے نہیں جاسکتے اور ایک ظلم کی جگہ اس سے بدتر ظلم قائم ہو جاتا ہے۔
قانونِ وراثت
اس کے علاوہ اسلام نے ایک قانونِ میراث بھی بنا دیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ایک شخص کم یا زیادہ، جو کچھ بھی چھوڑ کر مرے اسے ایک مقرر ضابطہ کے مطابق زیادہ سے زیادہ وسیع دائرے میں پھیلا دیا جائے۔ سب سے پہلے ماں، باپ، اور بیوی بچے اس دولت کے حق دار ہیں۔ پھر بھائی بہن۔ پھر قریب کے رشتے دار اور اگر کوئی شخص بالکل ہی لاوارث ہو تو پھر پوری قوم اس کی وارث ہے۔ بیت المال میں اس کا روپیہ داخل کر دیا جائے گا۔
اسلامی نظامِ معیشت کی خصوصیات
یہ ہیں وہ اصول اور حدود جو اسلام نے ہماری معاشی زندگی کے لیے مقرر کر دیئے ہیں۔ ان حدود کے اندر آپ اپنا جو معاشی نظام بھی بنانا چاہیں بنالیں۔ تفصیلات طے کرنا ہر زمانے میں اپنی ضرورت کے مطابق ہمارا اپنا کام ہے ۔ ہمیں جس چیز کی پابندی کرنی ہوگی وہ یہ ہے کہ ہم نہ تو نظامِ سرمایہ داری کی طرح بے قید معیشت کی راہ اختیار کرسکتے ہیں اور نہ اشتراکیت کی طرح پورے وسائلِ معیشت کو اجتماعی کنٹرول میں لے سکتے ہیں ۔ ہمیں ایک پابندِ حدود آزاد معیشت کا نظام بنانا ہوگا جس میں انسان کے اخلاقی ارتقاء کا راستہ کھلا رہے۔ جس میں آدمی کو اجتماعی فلاح کی خدمت کے لیے ازروئے قانون مجبور کرنے کی کم سے کم ضرورت پیش آئے۔ جس میں غلط طریقوں سے غیر فطری طبقات نہ پیدا کیے جائیں اور فطری طبقات کے درمیان نزاع کے بجائے تعاون پیدا کیا جائے۔ اس معاشی نظام میں دولت کمانے کے وہ تمام ذرائع حرام رہیں گے جن کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔ کمائی کے وہ تمام ذرائع جائز رہیں گے جنھیں اسلام جائز رکھتا ہے ۔ جائز طریقوں سے حاصل کی ہوئی دولت پر ملکیت اور تصرف کے وہ تمام حقوق تسلیم کیے جائیں گے جو اسلام نے دیے ہیں۔ زکوٰۃ لازماً عائد کی جائے گی اور ان تمام لوگوں کو اسے ادا کرنا ہوگا جو بقدر نصاب دولت رکھتے ہوں۔ میراث قانونِ میراث کے مطابق تقسیم ہوگی اور ان حدود کے اندر افراد کو معاشی سعی و عمل کی پوری آزادی دی جائے گی۔ کوئی ایسا نظام نہیں بنایا جائے گا جو افراد کو کس کر رکھ دے اور ان کی انفرادی آزادی کو ختم کر دے۔ اس آزادانہ سعی و عمل میں اگر لوگ خود انصاف اور راست بازی پر قائم رہیں تو قانون خواہ مخواہ مداخلت نہ کرے گا۔ لیکن اگر وہ انصاف نہ کریں، یا جائز حدود سے تجاوز کرنے لگیں، یا بے جا نوعیت کی اجارہ داریاں قائم کرنے کی کوشش کریں تو قانون ان کی بنیادی آزادی کو سلب کرنے کے لیے نہیں بلکہ انہیں انصاف پر قائم رکھنے اور حدود سے تجاوز کو روکنے کے لیے یقیناً مداخلت کرے گا۔
معاشی عوامل اور ان کا تناسب
یہاں تک میں نے پہلے حصے کا جواب دیا ہے۔ اب اسی سوال کے دوسرے حصے کو لیجیے جس میں یہ پوچھا گیا ہے کہ اس خاکے میں زمین ، محنت، سرمائے اور تنظیم کا کیا مقام ہے۔
اس مقام کو سمجھنے کے لیے میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ اسلامی فقہ میں مزارعت اور مضاربت کا جو قانون بیان کیاگیا ہے اس کا مطالعہ کریں۔ موجودہ زمانے کے علم المعیشت میں زمین اور محنت اور سرمائے اور تنظیم کو جس طرح معاشی عوامل کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے، ہمارے متقدمین کی کتابوں میں اس انداز سے اس کو بیان نہیں کیا گیا، ورنہ اس موضوع پر الگ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ہمارے ہاں یہ سب مسائل فقہ کے مختلف ابواب میں بیان کیے گئے ہیں اور ان کی زبان علم المعیشت کی موجودہ اصطلاحوں سے مختلف ہے۔ لیکن جو شخص بھی اصطلاحوں کا غلام نہیں بلکہ معاشیات کے اصل موضوع اور مسائل کا فہم رکھتا ہے وہ بآسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس فقہی زبان میں جو کچھ کہاگیا ہے اس کے اندر معاشی تصورات کیا ہیں۔ ہماری فقہ میں مزارعت اور مضاربت کا جو قانون بیان کیا گیا ہے وہ زمین، محنت، سرمائے اور تنظیم کے بارے میں اسلام کے طرزِ فکر کو پوری طرح واضح کر دیتا ہے۔ مزارعت یہ ہے کہ زمین ایک شخص کی ہے اور اس پر کاشت دوسرا شخص کرتا ہے ، اور یہ دونوں اس کے فوائد میں حصہ دار ہوتے ہیں۔ مضاربت یہ ہے کہ ایک آدمی کا روپیہ ہے اور دوسرا آدمی اس روپے سے کاروبار کرتاہے، اور یہ دونوں اس کے منافع میں حصہ دار ہیں۔ معاملات کی ان شکلوں میں جس طرح اسلام نے زمین اور سرمائے والے، اور اس پر کام کرنے والے کے حقوق تسلیم کئے ہیں اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے نقطۂ نظر سے زمین بھی ایک معاشی عامل ہے اور انسان کی محنت بھی۔ سرمایہ بھی ایک معاشی عامل ہے اور اس پر انسان کی محنت اور تنظیمی قابلیت بھی۔ یہ سب عوامل منافع میں حصہ داری کا استحقاق پیدا کرتے ہیں ۔ اسلام ابتدائی طور پر ان مختلف عوامل کے درمیان حصہ داری کا تعین عرف عا م پر چھوڑتا ہے تا کہ اگر معروف طریقے پر لوگ خود باہم انصاف کر رہے ہوں تو قانون مداخلت نہ کرے۔ لیکن اگر کسی معاملے میں انصاف نہ ہو رہا ہو تو یقیناً یہ قانون کا فریضہ ہے کہ اس میں انصاف کے حدود مقرر کرے۔ مثلاً اگر میں زمین کا مالک ہوں اور ایک شخص کو اپنی زمین بٹائی پر دیتا ہوں، یا کسی شخص سے مزدوری پر کاشت کا کام لیتا ہوں، یا کسی کو ٹھیکے پر دے دیتا ہوں ، اور اس کے ساتھ میری شرائط معروف طریقے پر انصا ف کے ساتھ طے ہوتی ہیں تو قانون کو مداخلت کرنے کا حق پہنچتا ہے۔ قانون اس کے لیے ضوابط مقرر کرسکتا ہے کہ مزارعت ان اصولوں پر ان قواعد کے مطابق ہونی چاہیے، تا کہ نہ زمین والے کا حق مارا جائے اور نہ محنت کرنے والے کا حق۔ اسی طرح کاروبار میں سرمایہ لگانے والوں اور محنت اور تنظیم کرنے والوں کے درمیان بھی جب تک انصاف کے ساتھ خود معاملات طے ہو رہے ہوں اور کوئی کسی کا حق نہ مار رہا ہو ، نہ کسی پر زیادتی کر رہا ہو، تو قانون مداخلت نہیں کرے گا۔ ہاں جب ان معاملا ت میں کسی طرح کی بھی بے انصافی آ جائے گی تو قانون کو نہ صرف یہ کہ دخل دینے کا حق ہے بلکہ یہ اس کا فریضہ ہے کہ ان کے لیے ایسے منصفانہ قواعد مقرر کرے جن کے مطابق سرمایہ، محنت اور تنظیم، سب کاروبار کے منافع میں انصاف کے ساتھ حصہ دار بن جائیں۔
دوسرے سوال کا جواب
اب دوسرا سوال لیجئے ۔ پوچھا گیا ہے کہ کیا زکوٰۃ اور صدقے کو معاشی بہبود کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ زکوٰۃ اور صدقہ تو ہے ہی معاشی بہبود کے لیے۔ لیکن اس بات کو خوب سمجھ لیجئے کہ معاشی بہبود کا اگر تصور یہ ہو کہ بحیثیت مجموعی پورے ملک کی معاشی ترقی کے لیے زکوٰۃ کو استعمال کیا جائے تو یہ جائز نہیں ہے ۔ زکوٰۃ جیسا کہ میں پہلے آپ سے عرض کر چکا ہوں، دراصل اس غرض کے لیے ہے کہ معاشرے میں کوئی شخص اپنی لازمی ضروریاتِ زندگی… غذا، لباس، مکان، علاج اور بچوں کی تعلیم… سے محروم نہ رہنے پائے اور ہم اپنے معاشرے کے ان تمام لوگوں کی معاشی ضروریات فراہم کریں جو یا تو اپنی معاش کے لیے جدوجہد کرنے کے قابل ہی نہ ہوں، مثلاً یتیم بچے، بوڑھے اور معذور لوگ، یا عارضی طور پر بے روزگار ہو گئے ہوں، یا ذرائع کی کمی کے باعث اپنی روزی کمانے کی کوشش نہ کرسکتے ہوں اور کچھ مدد پا کر اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں، یا کسی نقصان کے چکر میں آگئے ہوں۔ زکوٰۃ اس طرح کے لوگوں کی دست گیری کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ عام معاشی ترقی کے لیے آپ کو دوسرے ذرائع تلاش کرنے ہوں گے۔
تیسرے سوال کا جواب
تیسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ کیا ہم بلا سود معاشی نظام قائم کرسکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یقیناً کرسکتے ہیں۔ پہلے صدیوں تک ایسا نظام قائم رہا ہے اور آج بھی اگر آپ اسے قائم کرنا چاہیں اور دوسروں کی اندھی پیروی سے نکل آئیں تو اس کا قائم کرنا مشکل نہیں ہے۔ اسلام کے آنے سے پہلے دنیا کا معاشی نظام اسی طرح سود پر چل رہا تھا جس طرح آج چل رہا ہے۔ اسلام نے اس کو بدلا اور سود کو حرام کر دیا۔ پہلے وہ عرب میں حرام ہوا۔ پھر جہاں جہاں اسلام کی حکومت پہنچتی گئی وہاں سود ممنوع ہوتا چلا گیا اور پورا معاشی نظام اس کے بغیر چلتا رہا۔ یہ نظام صدیوں چلا ہے۔ اب کوئی وجہ نہیں کہ وہ نہ چل سکے۔ اگر ہم میں اجتہاد کی قوت ہو اور ہم ایمانی طاقت بھی رکھتے ہوں اور یہ ارادہ بھی رکھتے ہوں کہ جس چیز کو خدا نے حرام کیا ہے اس کو ختم کریں تو یقیناً آج بھی ہم اسے ختم کر کے تمام مالی اور معاشی معاملات چلا سکتے ہیں۔ میں اپنی کتاب ’’سود‘‘ میں وضاحت کے ساتھ بتا چکا ہوں کہ درحقیقت اس میں کوئی بہت بڑی پیچیدگی نہیں ہے۔ مسئلے کی نوعیت بالکل صاف اور سادہ ہے۔ سرمائے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قرض کی شکل میں آئے اور ایک متعین منافع لے، قطع نظر اس سے کہ اس روپے پر محنت کرنے والوں اور تنظیم کی خدمت انجام دینے والوں کو منافع حاصل ہو یا نہ ہو۔ سود میں اصل خرابی یہی ہے کہ ایک شخص یا ایک ادارہ اپنا سرمایہ صنعت یا تجارت یا زراعت کو قرض کی شکل میں دیتا ہے اور اس سے پیشگی اپنا ایک خاص منافع طے کرلیتا ہے۔ اس کو اس سے کوئی بحث نہیں کہ مدت مقررہ کے اندر اس کاروبار میں نقصان ہو رہا ہے یا نفع، اور نفع ہو رہا ہے تو کتنا ہو رہا ہے۔ وہ سال بسال یا ماہ بماہ اپنا طے شدہ منافع وصول کرتا چلا جاتا ہے اور اصل کی واپسی کا بھی حق دار رہتا ہے۔ اس کے لیے کوئی وجہ جواز پیش نہیں کی جاسکتی ۔ اس کے برعکس اسلام جو اصول پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ قرض دیتے ہیں تو پھر قرض کی طرح دیجئے۔ صرف اپنا قرض واپس لینے کا حق رکھتے ہیں۔ اور اگر آپ منافع حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر سیدھی طرح شریک یا حصہ دار بن کر معاملہ کیجئے۔ اپنا روپیہ زراعت میں یا تجارت میں یا صنعت میں، جس میں بھی آپ لگانا چاہتے ہیں اس شرط پر لگایئے کہ اس میں جتنا بھی منافع ہوگا وہ ایک خاص تناسب سے آپ کے اور کام کرنے والوں کے درمیان تقسیم ہو جائے گا۔ یہ انصاف کا تقاضا بھی ہے اور اس طرح سے معاشی زندگی بھی پھل پھول سکتی ہے۔ کون سی دقت ہے سود کے طریقے کو ختم کر کے اس دوسرے طریقے کو رائج کرنے میں ؟ جو روپیہ اب قرض کے طور پر لگایا جاتا ہے وہ آئندہ سے شرکت کے اصول پر لگایا جائے۔ حساب جس طرح سود کا ہوسکتا ہے اسی طرح منافع کا بھی ہوسکتا ہے ۔ کوئی خاص مشکل اس میں نہیں ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہمارے اندر اجتہاد کی صلاحیت نہیں ہے بلکہ ہمیں اندھی تقلید کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ جو پہلے سے ہوتا چلا آ رہا ہے وہی ہم آنکھیں بند کر کے چلائے جائیں گے۔ اجتہاد سے اپنے لیے کوئی راستہ نہ نکالیں گے۔ مولوی غریب کو طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ اندھی تقلید کرتا ہے اور اجتہاد سے کام نہیں لیتا، حالانکہ خود اندھے مقلد ہیں اور اجتہاد کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ بیماری لگی ہوئی نہ ہوتی تو اب تک یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔
چوتھے سوال کا جواب
آخری سوال یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک معاشی، سیاسی، معاشرتی اور مذہبی نظام کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ جواب یہ ہے کہ بالکل ویسا ہی تعلق ہے جیسا جڑ سے تنے کا اور تنے سے شاخوں کا اور شاخوں سے پتوں کا ہوتا ہے۔ ایک ہی نظام ہے جو خداکی توحید اور رسولوں کی رسالت پر ایمان سے پیدا ہوتا ہے۔ اسی سے اخلاقی نظام بنتا ہے۔اسی سے عبادات کا نظام بنتا ہے جس کو آپ مذہبی نظام سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسی سے معاشرتی نظام نکلتا ہے۔ اسی سے معاشی نظام نکلتا ہے۔ اسی سے سیاسی نظام نکلتا ہے ۔ یہ ساری چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان رکھتے ہیں اور قرآن کو خدا کی کتاب مانتے ہیں تو آپ کو لامحالہ وہی اخلاقی اصول اختیار کرنے پڑیں گے جو اسلام نے سکھائے ہیں اور وہی سیاسی اصول اختیار کرنے پڑیں گے جو اسلام نے آپ کو دیئے ہیں۔ اسی کے اصولوں پر آپ کو اپنی معاشرت کی تشکیل کرنی ہوگی اور اسی کے اصولوں پر اپنی معیشت کا سارا کاروبار چلانا ہوگا۔ جس عقیدے کی بنا پر آپ نماز پڑھتے ہیں اسی عقیدے کی بنا پر آپ کو تجارت کرنی پڑے گی۔ جس دین کا ضابطہ آپ کے روزے اور حج کو منضبط کرتا ہے اسی دین کے ضابطے کی پابندی آپ کو اپنی عدالت میں بھی کرنی ہو گی اور اپنی منڈی میں بھی۔ اسلام میں مذہبی نظام، سیاسی نظام، معاشی نظام اور معاشرتی نظام الگ الگ نہیں ہیں بلکہ ایک ہی نظام کے مختلف شعبے اور اجزا ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ بھی ہیں اور ایک دوسرے سے طاقت بھی حاصل کرتے ہیں۔ اگر توحید و رسالت اور آخرت کا عقیدہ موجود نہ ہو اور اس سے پیدا ہونے والے اخلاق موجود نہ ہوں تو اسلام کا معاشی نظام کبھی قائم نہیں ہوسکتا اور قائم کیا بھی جائے تو چل نہیں سکتا۔ اس طرح اسلام کا سیاسی نظام بھی نہ قائم ہوسکتا ہے نہ چل سکتا ہے۔ اگر خدا اور رسولؐ اور آخرت پر عقیدہ اور قرآن پر ایمان نہ ہو، کیونکہ اسلام جو سیاسی نظام دیتا ہے اس کی بنا ہی اس عقیدے پر رکھی گئی ہے کہ خدا حاکمِ اعلیٰ ہے، رسول اس کا نمائندہ ہے، قرآن اس کا واجب الاطاعت فرمان ہے اور ہم کو آخر کار اپنے اعمال کی جواب دہی خدا کے سامنے کرنی ہے۔ پس یہ خیال کرنا ہی سرے سے غلط ہے کہ اسلام میں کوئی سیاسی یا معاشی نظام مذہبی اور اخلاقی نظام سے الگ اور بے تعلق بھی ہوسکتا ہے۔ جو شخص اسلام کو جانتا ہو اور جان کر اسے مانتا ہو وہ کبھی اس بات کا تصور تک نہیں کرسکتا کہ مسلمان ہوتے ہوئے اس کی سیاست اور معیشت ، یا اس کی زندگی کا کوئی شعبہ اس کے مذہب سے جدا ہوسکتا ہے، یا سیاست و معیشت اور عدالت و قانون میں اسلام سے آزاد ہو کر، یا اسلام کے سوا کوئی دوسرا نظام اختیار کر کے، صرف ’’مذہبی‘‘ امور میں اس کی پیروی کرنے کا نام بھی اسلامی زندگی ہے۔
ززز
زبان: اُردو
صفحات: 24
اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، منصورہ ملتان روڈ، لاہور۔