اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟

ریڈ مودودی ؒ   کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟

(یہ مقالہ ۱۲۔ ستمبر ۱۹۴۰ء کو انجمن اسلامی تاریخ و تمدن کی دعوت پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں بمقام اسٹریچی ہال پڑھا گیا)

حضرات!
اس مقالہ میں مجھے آپ کے سامنے اس عمل (process) کی تشریح کرنی ہے جس سے ایک طبعی نتیجہ کے طور پر اسلامی حکومت وجود میں آتی ہے۔ آج کل میں دیکھ رہا ہوں کہ اسلامی حکومت کا نام بازیچۂ اطفال بنا ہوا ہے۔ مختلف حلقوں سے اس تصور اور اس مقصد کا اظہار ہو رہا ہے۔ مگر ایسے ایسے عجیب راستے اس منزل تک پہنچنے کے لیے تجویز کیے جارہے ہیں جن سے وہاں تک پہنچنا اتنا ہی محال ہے جتنا موٹر کار کے ذریعے امریکا تک پہنچنا۔ اس خام خیالی (loose thinking) کی تمام تروجہ یہ ہے کہ بعض سیاسی و تاریخی اسباب سے کسی ایسی چیز کی خواہش تو پیدا ہوگئی ہے جس کا نام ’’اسلامی حکومت‘‘ ہو مگر خالص علمی (scientific)طریقہ پر نہ تو یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس حکومت کی نوعیت کیا ہے اور نہ یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ کیوں کر قائم ہوا کرتی ہے۔ ایسی حالت میں یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ علمی طریقہ پر اس مسئلہ کی پوری تحقیق کی جائے۔

نظامِ حکومت کا طبعی اِرتقا

اہل علم کے اس مجمع میں مجھے اس حقیقت کی توضیح پر زیادہ وقت صرف کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ حکومت خواہ کسی نوعیت کی ہو، مصنوعی طریقہ سے نہیں بنا کرتی۔ وہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ کہیں وہ بن کر تیار ہو اور پھر ادھر سے لاکر اسے کسی جگہ جما دیا جائے۔ اس کی پیدائش تو ایک سوسائٹی کے اخلاقی، نفسیاتی تمدنی اور تاریخی اسباب کے تعامل سے طبعی طور پر ہوتی ہے۔ اس کے لیے کچھ ابتدائی لوازم (prerequisites) کچھ اجتماعی محرکات، کچھ فطری مقتضیات ہوتے ہیں جن کے فراہم ہونے اور زور کرنے سے وہ وجود میں آتی ہے۔ جس طرح منطق میں آپ دیکھتے ہیں کہ نتیجہ ہمیشہ مقدمات (premises)کی ترتیب ہی سے برآمد ہوتا ہے۔ جس طرح علم الکیمیا میں آپ دیکھتے ہیں کہ ایک کیمیائی مرکب ہمیشہ کیمیاوی کشش رکھنے والے اجزا کے مخصوص طریقہ پر ملنے ہی سے برآمد ہوا کرتا ہے، اسی طرح اجتماعیات میں بھی یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ ایک حکومت صرف ان حالات کے اقتضا کا نتیجہ ہوتی ہے جو کسی سوسائٹی میں بہم پہنچ گئے ہوں۔ پھر حکومت کی نوعیت کا تعین بھی بالکلیہ ان حالات کی کیفیت پر منحصر ہوتا ہے جو اس کی پیدائش کے مقتضی ہوتے ہیں۔ جس طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ مقدمات کسی نوعیت کے ہوں اور ان کی ترتیب سے نتیجہ کچھ اور نکل آئے، کیمیاوی اجزا کسی خاصیت کے ہوں اور انھیں ملانے سے مرکب کسی اور قسم کا بن جائے، درخت لیموں کا لگایا جائے اور نشوونما پاکر وہ پھل آم دینے لگے، اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ اسباب ایک خاص نوعیت کی حکومت کے فراہم ہوں، ان کے مل کر کام کرنے کا ڈھنگ بھی اسی نوعیت کی حکومت کی نشوونما کے لیے مناسب ہو، مگر ارتقائی مراحل سے گزر کر جب وہ تکمیل کے قریب پہنچے تو انھی اسباب اور اسی عمل کے نتیجے میں بالکل ایک دوسری ہی حکومت بن جائے۔
یہ گمان نہ کیجیے کہ میں یہاں جبریّت (determinism)کو دخل دے رہا ہوں اور انسانی ارادہ و اختیار کی نفی کر رہا ہوں۔ بلاشبہ حکومت کی نوعیّت متعین کرنے میں افراد اور جماعتوں کے ارادہ و عمل کا بہت بڑا حصہ ہے۔ مگر میں دراصل یہ ثابت کر رہا ہوں کہ جس نوعیت کا بھی نظام حکومت پیدا کرنا مقصود ہو اسی کے مزاج اور اسی کی فطرت کے مناسب اسباب فراہم کرنا اور اسی کی طرف لے جانے والا طرزِ عمل اختیار کرنا بہرحال ناگزیر ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ویسی ہی تحریک اٹھے، اسی قسم کے انفرادی کیریکٹر تیار ہوں، اسی طرح کا اجتماعی اخلاق بنے، اسی طرز کے کارکن تربیت کیے جائیں، اسی ڈھنگ کی لیڈر شپ ہو اور اسی کیفیت کا اجتماعی عمل ہو جس کا اقتضا اس خاص نظامِ حکومت کی نوعیت فطرتاً کرتی ہے جسے ہم بنانا چاہتے ہیں۔ یہ سارے اسباب و عوامل جب بہم ہوتے ہیں اور جب ایک طویل مدت تک جدوجہد سے ان کے اندر اتنی طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ ان کی تیار کی ہوئی سوسائٹی میں کسی دوسری نوعیت کے نظامِ حکومت کا جینا دشوار ہو جاتا ہے تب ایک طبیعی نتیجہ کے طور پر وہ خاص نظام حکومت ابھر آتا ہے جس کے لیے ان طاقت وَر اسباب نے جدوجہد کی ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ ایک بیج سے جب درخت پیدا ہوتا ہے، اور اپنے زور میں بڑھتا چلا جاتا ہے تو نشوونما کی ایک خاص حد پر پہنچ کر اس میں وہی پھل آنا شروع ہو جاتے ہیں جن کے لیے اس کی فطری ساخت زور کر رہی تھی۔ اس حقیقت پر جب آپ غور کریں گے تو آپ کو یہ تسلیم کرنے میں ذرا تامل نہ ہوگا کہ جہاں تحریک لیڈر شپ، انفرادی سیرت، اجتماعی اخلاق اور حکمتِ عملی، ہر ایک چیز ایک نوعیت کا نظامِ حکومت پیدا کرنے کے لیے مناسب و موزوں ہو اور امید یہ کی جائے کہ ان کے نتیجہ میں بالکل ہی ایک دوسری نوعیت کا نظام پیدا ہوگا، وہاں بے شعوری، خام خیالی اور خام کاری کے سوا اور کوئی چیز کام نہیں کر رہی ہے۔

اصولی حکومت

اب ہمیں دیکھنا یہ چاہیے کہ وہ حکومت جسے ہم ’’اسلامی حکومت‘‘ کہتے ہیں اس کی نوعیت کیا ہے؟ اس سلسلہ میں سب سے پہلی خصوصیت جو اسلامی حکومت کو تمام دوسری حکومتوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ قومیت کا عنصر اس میں قطعی ناپید ہے۔ وہ مجرد ایک اصولی حکومت ہے۔ انگریزی میں اسے مَیں (ideological state)کہوں گا۔ یہ اصولی حکومت وہ چیز ہے جس سے دنیا ہمیشہ ناآشنا رہی ہے۔ قدیم زمانہ میںلوگ صرف خاندانوں یا طبقوں کی حکومت سے واقف تھے۔ بعد میں نسلی اور قومی حکومتوں سے واقف ہوئے۔ محض ایک اصولی حکومت اس بنیاد پر کہ جو اس اصول کو قبول کرے وہ بلا لحاظ قومیت اسٹیٹ کے چلانے میں حصہ دار ہوگا، دنیا کے تنگ ذہن میں کبھی نہ سما سکی۔ عیسائیت نے اس تخیل کا ایک بہت ہی دھندلا سا نقش پایا مگر اسے وہ مکمل نظامِ فکر نہ مل سکا جس کی بنیاد پر کوئی اسٹیٹ تعمیر ہوتی۔ انقلاب فرانس میں اصولی حکومت کے تخیل کی ایک ذرا سی جھلک انسان کی نظر کے سامنے آئی مگر نیشلزم کی تاریکی میں گم ہوگئی، اشتراکیت نے اس تخیل کا خاصا چرچا کیا، حتّٰی کہ ایک حکومت بھی اس کی بنیاد پر تعمیر کرنے کی کوشش کی اور اس کی وجہ سے دنیا کی سمجھ میں یہ تخیل کچھ کچھ آنے لگا تھا، مگر اس کے رگ و پے میں بھی آخر کار نیشلزم گھس گیا۔ ابتدا سے آج تک تمام دنیا میں صرف اسلام ہی وہ مسلک ہے جو قومیت کے ہر شائبہ سے پاک کرکے حکومت کا ایک نظام خالص آئیڈیالوجی کی بنیاد پر تعمیر کرتا ہے اور تمام انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ اس آئیڈیالوجی کو قبول کرکے غیر قومی حکومت بنائیں۔
یہ چیز چونکہ نرالی ہے، اور گرد و پیش کی تمام دنیا اس کے خلاف چل رہی ہے اس لیے نہ صرف غیر مسلم بلکہ خود مسلمان بھی اسے اور اس کے جملہ تضمنات (implications)کو سمجھنے سے قاصر ہو رہے ہیں۔ جو لوگ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں، مگر جن کے اجتماعی تصورات تمام تر یورپ کی تاریخ، اور یورپ ہی کے سیاسیات اور علوم عمران (social sciences) سے بنے ہیں ان کے ذہن کی گرفت میں یہ تصور کسی طرح نہیں آتا۔ بیرونِ ہند کے وہ ممالک جن کی بیش تر آبادی مسلمان اور سیاسی حیثیت سے آزاد ہے، وہاں اس قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں جب زمامِ کار آئی تو انھیں حکومت کا کوئی نقشہ قومی حکومت (national state) کے سوا نہ سوجھا۔ کیوں کہ وہ اسلام کے علمِ شعور اور اصولی حکومت کے تصور سے بالکل خالی الذہن تھے۔ ہندوستان میں جن لوگوں نے اس طرز کی دماغی تربیت پائی ہے وہ بھی اسی مشکل میں مبتلا ہیں۔ اسلامی حکومت کا نام لیتے ہیں مگر بے چارے اپنے ذہن کی ساخت سے مجبور ہیں کہ ہر پھر کر جو نقشہ بھی نظر کے سامنے آتا ہے، قومی حکومت ہی کا آتا ہے، قوم پرستانہ طرز فکر (nationalistic ideology) ہی میں دانستہ و نادانستہ پھنس جاتے ہیں اور جو پروگرام سوچتے ہیں وہ بنیادی طور پر قوم پرستانہ ہی ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک پیش نظر مسئلہ کی نوعیت بس یہ ہے کہ ’’مسلمان‘‘ کے نام سے جو ایک ’’قوم‘‘ بن گئی ہے اس کے ہاتھ میں حکومت آجائے یا کم از کم اسے سیاسی اقتدار نصیب ہو جائے۔ اس نصب العین تک پہنچنے کے لیے یہ جتنا بھی دماغ پر زور ڈالتے ہیں، اس کے سوا کوئی طریقہ کار انھیں نظر نہیں آتا کہ دنیا کی قومیں عموماً جو تدابیر اختیار کیا کرتی ہیں، وہی اس قوم کے لیے بھی اختیار کی جائیں جن اجزا سے یہ قوم مرکب ہے، انھیں جوڑ کر ایک ٹھوس مجموعہ بنایا جائے ان میں نیشلزم کا جوش پھونکا جائے، ان کے اندر مرکزی اقتدار ہو، ان کے نیشنل گارڈز منظم ہوں، ان کی ایک قومی ملیشیا تیار ہو، وہ جہاں اکثریت میں ہوں، وہاں اقتدار اکثریت (majority rule)کے مسلم جمہوری اصول پر ان کی قومی اسٹیٹ بن جائیں، اور جہاں ان کی تعداد کم ہو وہاں ان کے ’’حقوق‘‘ کا تحفظ ہو جائے، ان کی انفرادیت اسی طرح محفوظ ہو جس طرح دنیا کے ہر ملک میں ہر قومی اقلیت (national minority)اپنی انفرادیت محفوظ کرنا چاہتی ہے، ملازمتوں میں اور تعلیمی و انتخابی ادارات میں ان کا حصہ مقرر ہو، اپنے نمایندے یہ خود چنیں۔ وزارتوں میں یہ ایک قوم کی حیثیت سے شریک کیے جائیں، وغیر ذالک من القومیات۔ یہ سب باتیں کرتے ہوئے یہ لوگ امت، جماعت، ملت، ملیت، امیر، اطاعتِ امیر اور اسی قسم کے دوسرے الفاظ اسلامی اصطلاحات سے لے کر بولتے ہیں، مگر اساسی فکر کے اعتبار سے یہ سب ان کے لیے مذہب قوم پرستی کی اصطلاحوں کے مترادفات ہیں جو خوش قسمتی سے پرانے ذخیرے سے گھڑے گھڑائے مل گئے ہیں اور غیر اسلامی فکر کو چھپانے کے لیے اسلامی رنگ کے غلاف کا کام دینے لگے ہیں۔
اصولی حکومت کی نوعیت آپ سمجھ لیں تو آپ کو یہ بات سمجھنے میں ذرہ برابر بھی دقت پیش نہ آئے گی کہ اس کی بنا رکھنے کے لیے یہ طرز فکر، یہ اندازِ تحریک، یہ عملی پروگرام نقطۂ آغاز کا بھی کام نہیں دے سکتا، کجا کہ تعمیر کے انجام تک پہنچا سکے، بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ اس کا ہر جزو ایک تیشہ ہے جس سے اصولی حکومت کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ اصولی حکومت کے تخیل کی تو بنیادہی یہ ہے کہ ہمارے سامنے قومیں اور قومیتیں نہیں صرف انسان ہیں۔ ہم ان کے سامنے ایک اصول اس حیثیت سے پیش کرتے ہیں کہ اس پر تمدن کا نظام اور حکومت کا ڈھانچا تعمیر کرنے میں ان کی اپنی فلاح ہے اور جو اسے قبول کرلے وہ اس نظام کو چلانے میں برابر کا حصہ دار ہے۔ غور کیجیے اس تخیل کو لے کر وہ شخص کس طرح اٹھ سکتا ہے جس کے دماغ، زبان، افعال و حرکات، ہر چیز پر قومیت اور قوم پرستی کا ٹھپا لگا ہوا ہو؟ اس نے تو وسیع تر انسانیت کو اپیل کرنے کا دروازہ پہلے ہی بند کر دیا۔ پہلے ہی قدم پر اپنی پوزیشن کو آپ غلط کرکے رکھ دیا۔ قوم پرستی کے تعصب میں جو قومیں اندھی ہو رہی ہیں، جن کے لڑائی جھگڑوں کی ساری بنیاد ہی قوم پرستی اور قومی ریاستیں ہیں، انھیں انسانیت کے نام پر پکارنے اور انسانی فلاح کے اصول کی طرف دعوت دینے کا آخر یہ کون سا ڈھنگ ہے کہ ہم خود اپنے قومی حقوق کے جھگڑے اور اپنی قومی اسٹیٹ کے مطالبے سے اس دعوت کی ابتدا کریں؟ کس طرح آپ کی عقل یہ بات قبول کرتی ہے کہ مقدمہ بازی سے لوگوں کو روکنے کی تحریک خود ایک مقدمہ عدالت میں دائر کرنے سے شروع کی جاسکتی ہے۔

خلافتِ الٰہیہ

اسلامی حکومت کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کی پوری عمارت خدا کی حاکمیت کے تصور پر قائم کی گئی ہے۔ اس کا بنیادی نظریہ ۱؎ ہے کہ ملک خدا کا ہے اور وہی اس کا حاکم ہے۔ کسی شخص یا خاندان یا طبقہ یا قوم کو بلکہ پوری انسانیت کو بھی حاکمیت (sovereignty) کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ حکم دینے اور قانون بنانے کا حق صرف خدا کے لیے خاص ہے۔ حکومت کی صحیح شکل اس کے سوا کوئی نہیں کہ انسان خدا کے خلیفہ کی حیثیت سے کام کرے اور یہ حیثیت صحیح طور پر صرف دو صورتوں سے قائم ہوسکتی ہے۔ یا تو کسی انسان کے پاس براہ راست خدا کی طرف سے قانون اور دستورِ حکومت آیا ہو، یا وہ اس شخص کی پیروی اختیار کرے جس کے پاس خدا کی طرف سے قانون اور دستور آیا ہے۔ اس خلافت کے کام میں تمام وہ لوگ شریک ہوں گے جو اس قانون پر ایمان لائیں اور اس کی پیروی کرنے پر تیار ہوں۔ یہ کام اس احساس کے ساتھ چلایا جائے گا کہ ہم بحیثیت مجموعی اور ہم میں سے ہر ایک فردًافردًاخدا کے سامنے جواب دہ ہے، اس خدا کے سامنے جو ظاہر اور پوشیدہ ہر چیز کو جاننے والا ہے، جس کے علم سے کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی، اور جس کی گرفت سے مرکر بھی ہم نہیں چھوٹ سکتے۔ خلافت کی ذمہ داری جو ہمارے سپرد کی گئی ہے، یہ اس لیے نہیں ہے کہ ہم لوگوں پر اپنا حکم چلائیں، انھیں اپنا غلام بنائیں، ان کے سر اپنے آگے جھکوائیں، ان سے ٹیکس وصول کرکے اپنے محل تعمیر کریں، حاکمانہ اختیارات سے کام لے کر اپنے عیش اور اپنی نفس پرستی اور اپنی کبریائی کا سامان کریں، بلکہ یہ بار ہم پر اس لیے ڈالا گیا ہے کہ ہم خدا کے قانونِ عدل کو اس کے بندوں پر جاری کریں۔ اس قانون کی پابندی اور اس کے نفاذ میں ہم نے اگر ذرا سی کوتاہی بھی کی، اگر ہم نے اس کام میں ذرہ برابر بھی خود غرضی‘ نفس پرستی تعصُّب، جانبِ داری یا بددیانتی کو دخل دیا تو ہم خدا کی عدالت سے سزا پائیں گے‘ خواہ دنیا میں ہر سزا سے محفوظ رہ جائیں۔
اس نظریہ کی بنیادپر جو عمارت اٹھتی ہے وہ اپنی جڑ سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی شاخوں تک ہر چیز میں دنیوی حکومتوں (secular states)سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اس کی ترکیب اس کا مزاج، اس کی فطرت، کوئی چیز بھی ان سے نہیں ملتی اس کو بنانے اور چلانے کے لیے ایک خاص قسم کی ذہنیت، خاص طرز کی سیرت اور خاص نوعیت کے کردار کی ضرورت ہے۔ اس کی فوج، اس کی پولیس، اس کی عدالت اس کے مالیات، اس کے محاصل، اس کی انتظامی پالیسی، اس کی خارجی سیاست، اس کی صلح و جنگ کے معاملات، سب کے سب دنیوی ریاستوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان کی عدالتوں کے جج بلکہ چیف جسٹس، اس کی عدالت کے کلرک بلکہ چپراسی تک بننے کے اہل نہیں ہوسکتے۔ ان کی پولیس کے انسپکٹر جنرل وہاں کانسٹیبل کی جگہ کے لیے بھی موزوں نہیں ٹھہرتے۔ ان کے جنرل اور فیلڈ مارشل وہاں سپاہیوں میں بھرتی کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔ ان کے وزرائے خارجہ وہاں کسی منصب پر تو کیا مقرر ہوں گے، شاید اپنے جھوٹ، دغا اور بددیانتیوں کی بدولت جیل جانے سے بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔ غرض وہ تمام لوگ جو ان حکومتوں کے کاروبار چلانے کے لیے تیار کیے گئے ہوں، جن کی اخلاقی و ذہنی تربیت ان کے مزاج کے مناسب حال کی گئی ہو، اسلامی حکومت کے لیے قطعی ناکارہ ہیں۔ اسے اپنے شہری، اپنے ووٹر، اپنے کونسلر، اپنے اہل کار، اپنے جج اور مجسٹریٹ، اپنے محکموں سے ڈائریکٹر اپنی فوجوں کے قائد، اپنے خارجی سفرا، اپنے وزیر، غرض اپنی اجتماعی زندگی کے تمام اجزا اپنی انتظامی مشین کے تمام پرزے بالکل ایک نئی ساخت کے درکار ہیں۔ اسے ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جن کے دلوں میں خدا کا خوف ہو، جو خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری کا احساس رکھتے ہوں، جو دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والے ہوں، جن کی نگاہ میں اخلاقی نفع نقصان کا وزن دنیوی نفع نقصان سے زیادہ ہو، جوہر حال میں اس ضابطہ اور اس طرزِ عمل کے پابند ہوں جو ان کے لیے مستقل طور پر بنا دیا گیا ہے، جن کی تمام سعی و جہد کا ہدف مقصود خدا کی رضا ہو، جن پر شخصی یا قومی اغراض کی بندگی اور ہوائو ہوس کی غلامی مسلط نہ ہو، جو تنگ نظری و تعصب سے پاک ہوں، جو مال اور حکومت کے نشے میں بدمست ہو جانے والے نہ ہوں، جو دولت کے حریص اور اقتدار کے بھوکے نہ ہوں۔ جن کی سیرتوں میں یہ طاقت ہو کہ جب زمین کے خزانے ان کے دستِ قدرت میں آئیں تو وہ پکے امانت دار ہوں۔ جب بستیوں کی حکومت ان کے ہاتھ میں آئے تو وہ راتوں کی نیند سے محروم ہو جائیں اور لوگ ان کی حفاظت میں اپنی جان، مال، آبرو، ہر چیز کی طرف سے بے خوف رہیں۔ جب وہ فاتح کی حیثیت سے کسی ملک میں داخل ہوں تو لوگوں کو ان سے قتل و غارت گری، ظلم و ستم اور بدکاری و شہوت رانی کا کوئی اندیشہ نہ ہو بلکہ ان کے ہر سپاہی کو مفتوح ملک کے باشندے اپنے جان و مال اور اپنی عورتوں کی عصمت کا محافظ پائیں، جن کی دھاک بین الاقوامی سیاست میں اس درجہ کی ہو کہ ان کی راستی، انصاف پسندی، اصول و اخلاق کی پابندی اور عہد و پیمان پر تمام دنیا میں اعتماد کیا جائے۔ اس قسم کے اور صرف اسی قسم کے لوگوں سے اسلامی حکومت بن سکتی ہے اور یہی لوگ اسے چلا سکتے ہیں۔ رہے مادہ پرست افادی ذہنیت (utilitarian mentality) رکھنے والے لوگ جو دنیوی فائدوں اور شخصی یا قومی مصلحتوں کی خاطر ہمیشہ ایک نیا اصول بناتے ہوں، جن کے پیش نظر نہ خدا ہو نہ آخرت، بلکہ جن کی ساری کوششوں کا مرکز و محور اور ساری پالیسیوں کا مدار صرف دنیوی فائدہ و نقصان ہی کا خیال ہو، وہ ایسی حکومت بنانے یا چلانے کے قابل تو کیا ہوں گے، ان کا اس حکومت کے دائرے میں موجود ہونا ہی ایک عمارت میں دیمک کی موجودگی کا حکم رکھتا ہے۔

اسلامی انقلاب کی سبیل

اسلامی حکومت کی اس نوعیت کو ذہن میں رکھ کر غور کیجیے کہ اس منزل تک پہنچنے کی کیا سبیل ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ میں ابتدا میں عرض کر چکا ہوں، کسی سوسائٹی میں جس قسم کے فکری، اخلاقی، تمدنی اسباب و محرکات فراہم ہوتے ہیں ان کے تعامل سے اسی قسم کی حکومت وجود میں آتی ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک درخت اپنی ابتدائی کونپل سے لے کر پورا درخت بننے تک تو لیموں کی حیثیت سے نشوونما پائے مگر بارآوری کے مرحلے پر پہنچ کر یکایک آم دینے لگے۔ اسلامی حکومت کسی معجزے کی شکل میں صادر نہیں ہوتی۔ اس کے پیدا ہونے کے لیے ناگزیر ہے کہ ابتدا میں ایک ایسی تحریک اٹھے جس کی بنیاد میں وہ نظریۂ حیات، وہ مقصدِ زندگی، وہ معیارِ اخلاق وہ سیرت و کردار ہو جو اسلام کے مزاج سے مناسبت رکھتا ہے۔ اس کے لیڈر اور کارکن صرف وہی لوگ ہوں جو اس خاص طرز کی انسانیت کے سانچے میں ڈھلنے کے لیے مستعد ہوں۔ پھر وہ اپنی جدوجہد سے سوسائٹی میں اسی ذہنیت اور اسی اخلاقی روح کو پھیلانے کی کوشش کریں۔ پھر اسی بنیاد پر تعلیم و تربیت کا ایک نیا نظام اٹھے جو اس مخصوص ٹائپ کے آدمی تیار کرے۔ اس سے مسلم سائنٹسٹ، مسلم فلسفی، مسلم مورخ، مسلم ماہرین مالیات و معاشیات، مسلم ماہرین قانون، مسلم ماہرین سیاست، غرض ہر شعبۂ علم و فن میںایسے آدمی پیدا ہوں جو اپنی نظر و فکر کے اعتبار سے مسلم ہوں، جن میں یہ قابلیت موجود ہو کہ افکار و نظریات کا ایک پورا نظام اور عملی زندگی کا ایک مکمل خاکہ اسلامی اصول پر مرتب کرسکیں اور جن میںاتنی طاقت ہو کہ دنیا کے ناخدا شناس ائمہ فکر کے مقابلہ میں اپنی عقلی و ذہنی سیادت (intellectual leadership)کا سکہ جما دیں۔ ۱؎ اس دماغی پس منظر کے ساتھ یہ تحریک عملاً اس غلط نظامِ زندگی کے خلاف جدوجد کرے جو گرد و پیش کی دنیا پر چھایا ہوا ہے۔ اس جدوجہد میں اس کے علم بردار مصیبتیں اٹھا کر، سختیاں جھیل کر، قربانیاں کرکے، مار کھا کر اور جانیں دے کر اپنے خلوص اور اپنے ارادے کی مضبوطی کا ثبوت دیں۔ آزمائشوں کی بھٹی میں تپائے جائیں اور ایسا سونا بن کر نکلیں جسے پرکھنے والا ہر طرح جانچ کر بے کھوٹ کامل العیار سونا ہی پائے۔ اپنی لڑائی کے دوران میں وہ اپنے ہر قول اور ہر فعل سے اپنی اس مخصوص آئیڈیالوجی کا مظاہرہ کریں جس کے علم بردار بن کر وہ اٹھے ہیں۔ ان کی ہر بات سے عیاں ہو کہ واقعی ایسے بے لوث، بے غرض، راست باز، پاک سیرت، ایثار پیشہ، با اصول خدا ترس لوگ انسانیت کی فلاح کے لیے جس اصولی حکومت کی طرف دعوت دے رہے ہیں، اس میں ضرور انسان کے لیے عدل اور امن ہوگا اس طرح کی جدوجہد سے سوسائٹی کے وہ تمام عناصر جن کی فطرت میں کچھ بھی نیکی اور راستی موجود ہے، اس تحریک میں کھنچ آئیں گے۔ پست سیرت لوگوں اور ادنیٰ درجہ کے طریقوں پر چلنے والوں کے اثرات اس تحریک کے مقابلہ میں دبتے چلے جائیں گے۔ عوام کی ذہنیت میں ایک انقلاب رونما ہوگا۔ اجتماعی زندگی میںاس مخصوص نظامِ حکومت کی پیاس پیدا ہو جائے گی جس کے لیے اس طور پر زمین تیار کی گئی ہوگی اور سوسائٹی کے اس بدلے ہوئے ماحول میں کسی دوسرے طرز کے نظامِ حکومت کا چلنا مشکل ہو جائے گا۔ پھر جوں ہی کہ وہ نظام قائم ہوگا اسے چلانے کے لیے ابتدائی اہل کاروں سے لے کر وزرا اور نظما تک ہر درجہ کے مناسب کل پرزے اس نظامِ تعلیم و تربیت کی بدولت موجود ہوں گے، جس کا ذکر میں ابھی کر چکا ہوں۔
حضرات! یہ ہے اس انقلاب کے ظہور اور اس حکومت کی پیدائش کا فطری طریقہ جسے اسلامی انقلاب اور اسلامی حکومت کہا جاتا ہے۔ آپ سب اہل علم لوگ ہیں۔ دنیا کے انقلابات کی تاریخ آپ کے سامنے ہے۔ آپ سے یہ بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی کہ ایک خاص نوعیت کا انقلاب اسی نوعیت کی تحریک اسی نوعیت کے لیڈر اور کارکن اور اسی نوعیت کا اجتماعی شعور اور تمدنی و اخلاقی ماحول چاہتا ہے۔ انقلابِ فرانس کو وہی خاص اخلاقی و ذہنی اساس درکار تھی جو روسو، والٹیر اور مانٹسکیو جیسے لیڈروں نے تیار کی۔ انقلاب روس صرف مارکس کے افکار، لینن اور ٹرائسکی کی لیڈر شپ اور ان ہزار ہا اشتراکی کارکنوں ہی کی بدولت رونما ہوسکتا تھا۔ جن کی زندگی اشتراکیت کے سانچے میں ڈھل چکی تھی۔ جرمنی کا نیشنل سوشلزم اس مخصوص اخلاقی، نفسیاتی اور تمدنی زمین ہی میں جڑ پکڑ سکتا تھا جسے ہیگل، فشتے، گوئتھے، نیتشے اور بہت سے مفکرین کے نظریات اور ہٹلر کی لیڈر شپ نے تیار کیا۔ اسی طرح سے اسلامی انقلاب بھی صرف اسی صورت میں برپا ہوسکتا ہے جب کہ ایک عمومی تحریک قرآنی نظریات و تصورات اور محمدی سیرت و کردار کی بنیاد پر اٹھے اور اجتماعی زندگی کی ساری ذہنی، اخلاقی، نفسیاتی اور تہذیبی بنیادوں کو طاقت وَر جدوجہد سے بدل ڈالے۔ یہ بات کم از کم میری سمجھ میں نہیں آتی کہ قوم پرستانہ نوعیت کی کوئی تحریک جس کا پس منظر یہ ناقص نظام تعلیم ہو جو اس وقت ہمارے ہاں پایا جاتا ہے اور جس کی بنیاد افادی اخلاقیات (utilitarian morals)اور مصلحت پرستی (pragmatism)پر ہو اسلامی انقلاب آخر کس طرح برپا کرسکتی ہے؟ میں اس قسم کے معجزات پر یقین نہیں رکھتا جس پر فرانس کے سابق وزیر موسیور نیویقین رکھتے ۱؎تھے۔ میں تو اس کا قائل ہوں کہ جیسی تدبیر کی جائے گی ویسے ہی نتائج برآمد ہوں گے۔

خام خیالیاں

ہمارے ہاں یہ سمجھا جارہا ہے کہ بس مسلمانوں کی تنظیم تمام دردوں کی دوا ہے۔ ’’اسلامی حکومت‘‘ یا ’’آزاد ہندوستان میں آزاد اسلام‘‘ کے مقصد تک پہنچنے کی سبیل یہ سمجھی جارہی ہے کہ مسلمان قوم جن افراد سے مرکب ہے وہ سب ایک مرکز پر جمع ہوں، متحد ہوں، اور ایک مرکزی قیادت کی اطاعت میں کام کریں۔ لیکن دراصل یہ قوم پرستانہ پروگرام ہے۔ جو قوم بھی اپنا بول بالا کرنے کے لیے جدوجہد کرنا چاہے گی وہ یہی طریقِ کار اختیار کرے گی۔ خواہ وہ ہندو قوم ہو، یا سکھ، یا جرمن یا اطالوی قوم کے عشق میں ڈوبا ہوا ایک لیڈر جو موقع و محل کے لحاظ سے مناسب چالیں چلنے میں ماہر ہو اور جس میں حکم چلانے کی خاص قابلیت موجود ہو۔ ہر قوم کی سربلندی کے لیے مفید ہوتا ہے خواہ وہ مونجے یا ساور کر ہو یا ہٹلر یا مسولینی۔ ایسے ہزاروں لاکھوں نوجوان جو قومی عزائم کے لیے اپنے لیڈر کی اطاعت میں منظم حرکت کرسکتے ہوں، ہر قوم کا جھنڈا بلند کرسکتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ وہ جاپانیت پر ایمان رکھتے ہوں یا چینیت پر۔ پس اگر مسلمان ایک نسلی و تاریخی قومیت کا نام ہے، اور پیشِ نظر مقصد صرف اس کا بول بالا کرنا ہے تو اس کے لیے واقعی یہی سبیل ہے جو تجویز کی جارہی ہے۔ اس کے نتیجہ میں ایک قومی حکومت بھی میسر آسکتی ہے اور بدرجہ اقل وطنی حکومت میں اچھا خاصا حصہ بھی مل سکتا ہے لیکن اسلامی انقلاب اور اسلامی حکومت کے مقصد تک پہنچنے کے لیے یہ پہلا قدم بھی نہیں بلکہ الٹا قدم ہے۔
یہاں جس قوم کا نام مسلمان ہے وہ ہر قسم کے رطب و یا بس لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ کیریکٹر کے اعتبار سے جتنے ٹائپ کافر قوموں میں پائے جاتے ہیں، اتنے ہی اس قوم میں موجود ہیں۔ عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں دینے والے جس قدر کافر قومیں فراہم کرتی ہیں غالبًا اسی تناسب سے یہ بھی فراہم کرتی ہے۔ رشوت، چوری، زنا، جھوٹ اور دوسرے تمام ذمائم اخلاق میں یہ کفار سے کچھ کم نہیں ہے۔ پیٹ بھرنے اور دولت کمانے کے لیے جو تدبیریں کفار کرتے ہیں وہی اس قوم کے لوگ بھی کرتے ہیں۔ ایک مسلمان وکیل جان بوجھ کر حق کے خلاف اپنے موکل کی پیروی کرتے وقت اتنا ہی خدا کے خوف سے خالی ہوتا ہے جتنا ایک غیر مسلم وکیل ہوتا ہے۔ ایک مسلمان رئیس دولت پاکر یا ایک مسلمان عہدہ دار حکومت پاکر وہی سب کچھ کرتا ہے جو غیر مسلم کرتا ہے یہ اخلاقی حالت، جس قوم کی ہو اس کی تمام کالی اور سفید بھیڑوں کو جمع کرکے ایک منظم گلہ بنا دینا اور سیاسی تربیت سے انھیں لومڑی کی ہوشیاری سکھانا یا فوجی تربیت سے ان میں بھیڑیے کی درندگی پیدا کرنا، جنگل کی فرماںروائی حاصل کرنے کے لیے تو ضرور مفید ہوسکتا ہے، مگر میں نہیں سمجھتا کہ اس سے اعلائے کلمۃ اللّٰہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ کون ان کی اخلاقی برتری تسلیم کرے گا؟ کس کی نگاہیں ان کے سامنے عزت سے جھکیں گی؟ کس کے دل میں انھیں دیکھ کر اسلام کے لیے عقیدت کا جذبہ پیدا ہوگا؟ کہاں ان کے انفاسِ قدسیہ سے یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًاOط
کا منظر دکھائی دے سکے گا؟ کس جگہ ان کی روحانی امامت کا سکہ جمے گا؟ اور زمین پر بسنے والے کہاں ان کا خیر مقدم اپنے نجات دہندوں کی حیثیت سے کریں گے؟ اعلائے کلمۃ اللّٰہ جس چیز کا نام ہے اس کے لیے تو صرف ان کارکنوں کی ضرورت ہے جو خدا سے ڈرنے والے اور خدا کے قانون پر فائدہ و نقصان کی پروا کیے بغیر جمنے والے ہوں، خواہ وہ اس نسلی قوم میں سے ملیں یا کسی دوسری قوم سے بھرتی ہو کر آئیں ایسے دس آدمی اس مقصد کے لیے زیادہ قیمتی ہیں بہ نسبت اس کے کہ وہ انبوہ جس کا میں اوپر ذکر کر آیا ہوں، ۲۵ لاکھ یا ۵۰ لاکھ کی تعداد میں بھرتی ہو جائے۔ اسلام کو تانبے کے ان سکوں کا خزانہ مطلوب نہیں جن پر اشرفی کا ٹھپّا لگایا گیا ہو۔ وہ سکہ کے نقوش دیکھنے سے پہلے یہ دریافت کرتا ہے کہ ان نقوش کے نیچے خالص سونے کا جوہر بھی ہے یا نہیں ایسا ایک سکہ ان جعلی اشرفیوں کے ڈھیرسے اس کے نزدیک زیادہ قیمتی ہے۔ پھر جس لیڈر شپ کی اعلائے کلمۃ اللّٰہ کے لیے ضرورت ہے وہ ایسی لیڈر شپ ہے جو ان اصولوں سے ایک انچ بھی ہٹنے کے لیے تیار نہ ہو۔ جن کا بول بالا کرنے کے لیے اسلام اٹھا ہے، خواہ اس ہٹ کی بدولت تمام مسلمان بھوکے ہی کیوں نہ مر جائیں، بلکہ تہِ تیغ ہی کیوں نہ کر دیے جائیں۔ ہر معاملہ میں اپنی قوم کا فائدہ تلاش کرنے والی اور اصول سے بے نیاز ہو کر ہر اس تدبیر کو جس میں قوم کی دنیوی فلاح نظر آئے، اختیار کرلینے والی لیڈر شپ اور وہ لیڈر شپ جس میں تقوٰی اور خدا ترسی کا رنگ مفقود ہو اس مقصد کے لیے قطعی ناکارہ ہے جس پر اسلام نے اپنی نظیر جما رکھی ہے۔
پھر وہ نظامِ تعلیم و تربیت جس کی بنیاد اس مشہور مقولہ پر رکھی گئی ہے کہ: ’’چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘ اس اسلام کی خدمت کے لیے کس طرح موزوں ہوسکتا ہے جس کا قطعی ناقابلِ ترمیم فیصلہ یہ ہے کہ ہوا خواہ کسی طرف کی ہو تم بہرحال اس راستہ پر چلو جو خدا نے تمھارے لیے متعین کر دیا ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آج اگر آپ کو ایک خطۂ زمین حکومت کرنے کے لیے دے بھی دیا جائے تو آپ اسلامی اصول پر اس کا انتظام ایک دن بھی نہ چلا سکیں گے۔ اسلامی حکومت کو پولیس، عدالت، فوج، مال گزاری، فنانس، تعلیمات اور خارجی پالیسی کو چلانے کے لیے جس ذہنیت اور جس اخلاقی روح رکھنے والے آدمیوں کی ضرورت ہے انھیںفراہم کرنے کا کوئی بندوبست آپ نے نہیں کیا ہے، یہ تعلیم جو آپ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جاری ہے، غیر اسلامی حکومت کے لیے تو سیکرٹری اور وزرا تک فراہم کرسکتی ہے مگر برا نہ مانیے اسلامی عدالتوں کے لیے چپراسی اور اسلامی پولیس کے لیے کانسٹیبل تک فراہم نہیں کرسکتی، اور یہ بات آپ ہی کے اس نظامِ تعلیم تک محدود نہیں ہے۔ ہمارا وہ پرانا نظامِ تعلیم جو حرکتِ زمین کا سرے سے قائل ہی نہیں ہے۔ وہ بھی اس معاملہ میں اتنا ناکارہ ہے کہ اس دور جدید میں اسلامی حکومت کے لیے ایک قاضی، ایک وزیر مال، ایک وزیر جنگ، ایک ناظم تعلیمات اور ایک سفیر بھی مہیا نہیں کرسکتا۔ اس تیاری پر اسلامی حکومت کا حوصلہ سوائے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ جو لوگ یہ نام زبان پر لاتے ہیں ان کے ذہن اسلامی حکومت کے صحیح تصور سے خالی ہیں۔
بعض لوگ یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ غیر اسلامی طرز ہی کی سہی مسلمانوں کی قومی اسٹیٹ قائم تو ہو جائے پھر رفتہ رفتہ تعلیم و تربیت اور اخلاقی اصلاح کے ذریعہ سے اسے اسلامی اسٹیٹ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ مگر میں نے تاریخ، سیاسیات اور اجتماعیات کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے اس کی بناپر میں اسے سخت مشکل سمجھتا ہوں اور اگر یہ منصوبہ کام یاب ہو جائے تو میں اسے ایک معجزہ سمجھوں گا جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں، حکومت کا نظام اجتماعی زندگی میں بڑی گہری جڑیں رکھتا ہے۔ جب تک اجتماعی زندگی میں تغیر واقع نہ ہو کسی مصنوعی تدبیر سے نظامِ حکومت میں کوئی مستقل تغیر نہیں کیا جاسکتا، عمر بن عبدالعزیز جیسا زبردست فرماں روا جس کی پشت پر تابعین و تبع تابعین کی ایک بڑی جماعت بھی تھی، اس معاملہ میں قطعی ناکام ہو چکا ہے۔ کیوں کہ سوسائٹی بحیثیت مجموعی اس اصلاح کے لیے تیار نہ تھی۔ محمد تغلق اور عالَم گیر جیسے طاقت وَر بادشاہ اپنی شخصی دین داری کے باوجود نظام حکومت میں کوئی تغیر نہ کرسکے۔ مامون الرشید جیسا باجبروت حکم ران نظامِ حکومت میں نہیں صرف اس کی اوپری شکل میں تبدیلی پیدا کرنا چاہتا تھا، اور اس میں بھی ناکام ہوا۔ یہ اس وقت کا حال ہے جب کہ ایک شخص کی طاقت بہت کچھ کرسکتی تھی۔ اب میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو قومی اسٹیٹ جمہوری طرز پر تعمیر ہوگی وہ اس بنیادی اصلاح میں آخر کس طرح مدد گار ہوسکتی ہے؟ جمہوری حکومت میں اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں آتا ہے جنھیں ووٹروں کی پسندیدگی حاصل ہو۔ ووٹروں میں اگر اسلامی ذہنیت اور اسلامی فکر نہیں ہے، اگر وہ صحیح اسلامی کیریکٹر کے عاشق نہیں ہیں، اگر وہ اس بے لاگ عدل اور ان بے لچک اصولوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جن پر اسلامی حکومت چلائی جاتی ہے، تو ان کے ووٹوں سے کبھی ’’مسلمان‘‘ قسم کے آدمی منتخب ہو کر پارلیمنٹ یا اسمبلی میں نہیں آسکتے۔ اس ذریعہ سے تو اقتدار انھی لوگوں کو ملے گا جو مردم شماری کے رجسٹر میں تو چاہے مسلمان ہوں مگر اپنے نظریات اور طریقِ کار کے اعتبار سے جنھیں اسلام کی ہوا بھی نہ لگی ہو۔ اس قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار آنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اسی مقام پر کھڑے ہیں جس مقام پر غیر مسلم حکومت میں تھے۔ بلکہ اس سے بھی بدتر مقام پر۔ کیوں کہ وہ ’’قومی حکومت‘‘ جس پر اسلام کا نمائشی لیبل لگا ہوگا، اسلامی انقلاب کا راستہ روکنے میں اس سے بھی زیادہ جری و بے باک ہوگی، جتنی غیر مسلم حکومت ہوتی ہے۔ غیر مسلم حکومت جن کاموں پر قید کی سزا دیتی ہے، مسلم ’’قومی حکومت‘‘ ان کی سزا پھانسی اور جلاوطنی کی صورت میں دے گی اور پھر بھی اس حکومت کے لیڈر جیتے جی غازی اور مرنے کے بعد رحمۃ اللّٰہ علیہ ہی رہیں گے۔ پس یہ سمجھنا قطعی غلط ہے کہ اس قسم کی ’’قومی حکومت‘‘ کسی معنی میں بھی اسلامی انقلاب لانے میں مددگار ہوسکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ہمیں اس حکومت میں بھی اجتماعی زندگی کی بنیادیں بدلنے ہی کی کوشش کرنا پڑے گی اور اگر ہمیں یہ کام حکومت کی مدد کے بغیر بلکہ اس کی مزاحمت کے باوجود اپنی قربانیوں ہی سے کرنا ہوگا، تو ہم آج ہی سے یہ راہِ عمل کیوں نہ اختیار کریں؟ اس نام نہاد ’’قومی حکومت‘‘ کے انتظار میں اپنا وقت یا اس کے قیام کی کوشش میں اپنی قوت ضائع کرنے کی حماقت آخر ہم کیوں کریں جب کہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ وہ ہمارے مقصد کے لیے نہ صرف غیر مفید ہوگی بلکہ کچھ زیادہ ہی سدِراہ ثابت ہوگی۔

اِسلامی تحریک کا مخصوص طریقِ کار

حضرات! اب میں ایک مختصر تاریخی بیان کے ذریعہ سے آپ کے سامنے اس امر کی تشریح کرنا چاہتا ہوں کہ اسلامی انقلاب کے لیے اجتماعی زندگی کی بنیادیں بدلنے اور از سر نو تیار کرنے کی صورت کیا ہوتی ہے، اور اس جدوجہد کا وہ مخصوص طریق کار (technique) کیا ہے جس سے یہ کام یابی کی منزل تک پہنچتی ہے۔
اسلام دراصل اس تحریک کا نام ہے جو خدائے واحد کی حاکمیت کے نظریہ پر انسانی زندگی کی پوری عمارت تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ یہ تحریک قدیم ترین زمانے سے ایک ہی بنیاد اور ایک ہی ڈھنگ پر چلی آرہی ہے۔ اس کے لیڈر وہ لوگ تھے جنھیں کو رُسُل اللّٰہ (اللّٰہ کے فرستادے) کہا جاتا ہے۔ ہمیں اگر تحریک کو چلانا ہے تو لامحالہ انھی لیڈروں کے طرز عمل کی پیروی کرنا ہوگی کیوں کہ اس کے سوا کوئی اور طرز عمل اس خاص نوعیت کی تحریک کے لیے نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ اس سلسلہ میں جب ہم انبیا علیہم السلام کے نقشِ قدم کا سراغ لگانے کے لیے نکلتے ہیں تو ہمیں ایک بڑی دقت کا سامنا ہوتا ہے۔ قدیم زمانے میں جو انبیا گزرے ہیں ان کے کام کے متعلق کچھ زیادہ معلومات نہیں ملتیں قرآن میں کچھ مختصر اشارات ملتے ہیں۔ مگر ان سے مکمل اسکیم نہیں بن سکتی۔ بائیبل کے عہدنامۂ جدید (new testament) سیدنا مسیح علیہ السلام کے کچھ غیر مستند اقوال ملتے ہیں۔ جن سے کسی حد تک اس پہلو پر کچھ روشنی پڑتی ہے کہ اسلامی تحریک اپنے بالکل ابتدائی مرحلہ میں کس طرح چلائی جاتی ہے اور کن مسائل سے اسے سابقہ پیش آتا ہے۔ لیکن بعد کے مراحل حضرت مسیح ؑکو پیش ہی نہیں آئے کہ ان کے متعلق کوئی اشارہ وہاں سے مل سکے۔ اس معاملہ میں ہمیں صرف ایک ہی جگہ سے صاف اور مکمل راہ نمائی ملتی ہے، اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے۔ اس طرف ہمارے رجوع کرنے کی وجہ نری عقیدت مندی ہی نہیں ہے بلکہ دراصل اس راہ کے نشیب و فراز معلوم کرنے کے لیے ہم اسی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہیں۔ اسلامی تحریک کے تمام لیڈروں میں صرف ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ تنہا لیڈر ہیں جن کی زندگی میں ہمیں اس تحریک کی ابتدائی دعوت سے لے کر اسلامی اسٹیٹ کے قیام تک اور پھر قیام کے بعد اس اسٹیٹ کی شکل، دستور، داخلی و خارجی پالیسی اور نظم مملکت کے نہج تک ایک ایک مرحلے اور ایک ایک پہلو کی پوری تفصیلات اور نہایت مستند تفصیلات ملتی ہیں۔ لہٰذا میں اسی ماخذ سے اس تحریک کے طریق کار کا ایک مختصر نقشہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اسلام کی دعوت پر مامور ہوئے تو آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں بہت سے اخلاقی، تمدنی، معاشی، اور سیاسی مسائل حل طلب تھے۔ رومی اور ایرانی امپیریلزم بھی موجود تھا، طبقاتی امتیازات بھی تھے، ناجائز معاشی انتفاع (economic exploitation) بھی ہو رہا تھا۔ اخلاقی ذمائم بھی پھیلے ہوئے تھے۔ خود آپ کے اپنے ملک میں ایسے پیچیدہ مسائل موجود تھے جو ایک لیڈر کے ناخنِ تدبیر کا انتظار کر رہے تھے۔ ساری قوم جہالت، اخلاقی پستی، افلاس، طوائف الملوکی اور خانہ جنگی میں مبتلا تھی۔ بحرین سے یمن تک عرب کے تمام ساحلی علاقے عراق کے زرخیز صوبے سمیت ایرانی تسلط میں تھے۔ شمال میں عین حجاز کی سرحد تک رومی تسلط پہنچ چکا تھا۔ خود حجاز میں یہودی سرمایہ داروں کے بڑے بڑے گڑھ بنے ہوئے تھے اور انھوں نے عربوں کو اپنی سود خواری کے جال میں پھانس رکھا تھا۔ مشرقی ساحل کے عین مقابل افریقہ میں حبش کی عیسائی حکومت موجود تھی جو چند ہی سال پہلے مکہ پر چڑھائی کر چکی تھی۔ اس کے ہم مذہبوں اور اس سے یک گونہ معاشی و سیاسی تعلق رکھنے والوں کا ایک جتھا خود حجاز اور یمن کے درمیان نجران کے مقام پر موجود تھا۔ یہ سب کچھ تھا مگر جس لیڈر کو اللّٰہ نے راہ نمائی کے لیے مقرر کیا تھا اس نے دنیا کے اور خود اپنے ملک کے ان بہت سے مسائل میں سے کسی ایک مسئلہ کی طرف بھی توجہ نہ کی، بلکہ دعوت اس چیز کی طرف دی کہ خدا کے سوا تمام الہٰوں کو چھوڑ دو اور صرف اسی ایک اِلٰہ کی بندگی قبول کرو۔
اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ اس راہ نُما کی نگاہ میں دوسرے مسائل کوئی اہمیت نہ رکھتے تھے یا وہ کسی توجہ کے لائق ہی نہ تھے۔ آپ کو معلوم ہے کہ آگے چل کر اس نے ان سب مسئلوں کی طرف توجہ کی اور سب کو ایک ایک کرکے حل کیا۔ مگر ابتدا میں ہر طرف سے نظر پھیر کر اسی ایک چیز پر تمام زور صرف کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اسلامی تحریک کے نقطۂ نظر سے انسان کی اخلاقی و تمدنی زندگی میں جتنی خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں، ان سب کی بنیادی علت انسان کا اپنے آپ کو خود مختار (independent) اور غیر ذمہ دار (irresponsible) سمجھنا بالفاظ دیگر آپ اپنا الٰہ بننا ہے۔ یا پھر یہ ہے کہ وہ الٰہ العالمین کے سوا کسی دوسرے کو صاحبِ امرتسلیم کرے خواہ دوسرا کوئی انسان ہو یا غیر انسان۔ یہ چیز جب تک جڑ میں موجود ہے اسلامی نظریہ کی رو سے کوئی اوپری اصلاح انفرادی بگاڑ یا اجتماعی خرابیوں کو دور کرنے میں کام یاب نہیں ہوسکتی۔ ایک طرف سے خرابی کو دور کیا جائے گا اور کسی دوسری طرف سے وہ سر نکال لے گی۔ لہٰذا اصلاح کا آغاز اگر ہوسکتا ہے تو صرف اسی چیز سے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو انسان کے دماغ سے خود مختاری کی ہوا کو نکالا جائے اور اسے بتایا جائے کہ تو جس دنیا میں رہتا ہے وہ درحقیقت بے بادشاہ کی سلطنت نہیں ہے، بلکہ فی الحقیقت اس کا ایک بادشاہ موجود ہے اور اس کی بادشاہی نہ تیرے تسلیم کرنے کی محتاج ہے، نہ تیرے مٹائے سے مٹ سکتی ہے اور نہ تو اس کے حدود سلطنت سے نکل کر کہیں جاسکتا ہے۔ اس اَن مٹ اور اٹل واقعہ کی موجودگی میں تیرا خود مختاری کا زعم ایک احمقانہ غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے جس کا نقصان لا محالہ تیرے ہی اوپر عائد ہوگا۔ عقل اور حقیقت پسندی (realism) کا تقاضا یہ ہے کہ سیدھی طرح اس کے آگے سر جھکا دے اور مطیع بندہ بن کر رہ۔ دوسری طرف اسے کو واقعہ کا یہ پہلو بھی دکھا دیا جائے کہ اس پوری کائنات میں صرف ایک ہی بادشاہ، ایک ہی مالک اور ایک ہی مختار ہے۔ کسی دوسرے کو نہ یہاں حکم چلانے کا حق ہے اور نہ واقع میں کسی کا حکم چلتا ہے۔ اس لیے تو اس کے سوا کسی کا بندہ نہ بن، کسی کا حکم نہ مان، کسی کے آگے سر نہ جھکا۔ یہاں کوئی ہزمیجسٹی نہیں ہے، میجسٹی اسی ایک کے لیے مختص ہے‘ یہاں کوئی ہزہائی نس نہیں ہے، ہائی نس ساری کی ساری اسی کے لیے خاص ہے، ہائی نس صرف اسی ایک کو زیبا ہے، یہاں کوئی ہزلارڈشپ نہیں ہے۔ لارڈشپ بالکلیہ اسی ایک کا حصہ ہے، یہاں کوئی قانون ساز نہیں ہے، قانون اسی کا ہے اور وہی قانون بنانے کا حق دار و سزاوار ہے۔ یہاں کوئی سرکار، کوئی ان داتا، کوئی راجا مہاراجا، کوئی ولی یا کارساز کوئی دعائیں سننے والا اور فریاد رس نہیں ہے۔ کسی کے پاس اقتدار کی کنجیاں نہیں ہیں۔ کسی کو برتری و فوقیت حاصل نہیں۔ زمین سے آسمان تک سب بندے ہی بندے ہیں، رب اور مولیٰ صرف ایک ہے۔ لہٰذا تو ہر غلامی، ہر اطاعت، ہر پابندی سے انکار کر دے اور اسی ایک کا غلام، مطیع اور پابندِ حکم بن جا۔ یہ تمام اصلاحات کی جڑ اور بنیاد ہے۔ اسی بنیاد پر انفرادی سیرت اور اجتماعی نظام کی پوری عمارت ادھیڑ کر از سر نو ایک نقشہ پر بنتی ہے، اور سارے مسائل جو انسانی زندگی میں آدم سے لے کر اب تک پیدا ہوئے اور اب سے قیامت تک پیدا ہوں گے، اسی بنیاد پر ایک نئے طریقے سے حل ہوتے ہیں۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بنیادی اصلاح کی دعوت کو بغیر کسی سابق تیاری اور بغیر کسی تمہیدی کارروائی کے براہ راست پیش کر دیا۔ انھوں نے اس دعوت کی منزل تک پہنچنے کے لیے کوئی ہیر پھیر کا راستہ اختیار نہیں کیا کہ پہلے کچھ سیاسی، اور سوشل طرز کاکام کرکے لوگوں میں اثر پیدا کیا جائے، پھر اس اثر سے کام لے کر رفتہ رفتہ کچھ حاکمانہ اختیارات حاصل کرلیے جائیں، پھر ان اختیارات سے کام لے کر رفتہ رفتہ لوگوں کو چلاتے ہوئے اس مقام تک بڑھا لائیں، یہ سب کچھ، کچھ نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک شخص اٹھا اور اٹھتے ہی اس نے لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کا اعلان کر دیا۔ اس سے کم کسی چیز پر اس کی نظر ایک لمحہ کے لیے بھی نہ ٹھہری۔ اس کی وجہ پیغمبرانہ جرأت اور تبلیغی جوش ہی نہیں ہے دراصل اسلامی تحریک کا طریق کار یہی ہے۔ وہ اثر یا وہ نفوذ و اقتدار جو دوسرے ذرائع سے پیدا کیا جائے، اس اصلاح کے کام میں کچھ بھی مددگار نہیں ہوتا۔ جو لوگ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کے سوا کسی اور بنیاد پر آپ کا ساتھ دیتے رہے ہوں وہ اس بنیاد پر تعمیرِ جدید کرنے میں آپ کے کسی کام نہیں آسکتے۔
اس کام میں تو وہی لوگ مفید ہوسکتے ہیں جو آپ کی طرف لآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کی آواز سن کر ہی آئیں، اسی چیز میں ان کے لیے کشش ہو، اسی حقیقت کو وہ زندگی کی بنیاد بنائیں، اور اسی اساس پر وہ کام کرنے کے لیے اٹھیں۔ لہٰذا اسلامی تحریک چلانے کے لیے جس خاص قسم کے تدبر اور حکمتِ عملی کی ضرورت ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ کسی تمہید کے بغیر کام کا آغاز توحید کی دعوت ہی سے کیا جائے۔
توحید کا یہ تصور محض ایک مذہبی عقیدہ نہیں ہے۔ جیسا کہ میں ابھی عرض کر چکا ہوں اس سے اجتماعی زندگی کا وہ پورا نظام جو انسان کی خود مختاری یا غیر اللّٰہ کی حاکمیت و الوہیت کی بنیاد پر بنا ہو، جڑ بنیاد سے اکھڑ جاتا ہے اور ایک دوسری اساس پر ایک نئی عمارت تیار ہوتی ہے۔ آج دنیا آپ کے مؤذنوں کو اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہ کی صدا بلند کرتے ہوئے اس لیے ٹھنڈے پیٹوں سن لیتی ہے کہ نہ پکارنے والا جانتا ہے کہ کیا پکار رہا ہوں، نہ سننے والوں کو اس میں کوئی معنی اور کوئی مقصد نظر آتا ہے۔ لیکن اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اس اعلان کا مقصد یہ ہے، اور اعلان کرنے والا جان بوجھ کر اس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ میرا کوئی بادشاہ یا فرماں روا نہیں ہے، کوئی حکومت میں تسلیم نہیں کرتا، کسی قانون کو نہیں مانتا، کسی عدالت کے حدودِ اختیارات (jurisdiction)مجھ تک نہیں پہنچتے، کسی کا حکم میرے لیے حکم نہیں ہے، کوئی رواج اور کوئی رسم مجھے تسلیم نہیں، کسی کے امتیازی حقوق، کسی کی ریاست، کسی کا تقدس، کسی کے اختیارات میں نہیں مانتا، ایک اللّٰہ کے سوا میں سب سے باغی اور سب سے منحرف ہوں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس صدا کو کہیں بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ آپ خواہ کسی سے لڑنے جائیں یا نہ جائیں، دنیا خود آپ سے لڑنے آجائے گی۔ یہ آواز بلند کرتے ہی آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ یکایک زمین و آسمان آپ کے دشمن ہوگئے ہیں، اور ہر طرف آپ کے لیے سانپ، بچھو اور درندے ہی درندے ہیں۔
یہی صورت اس وقت پیش آئی جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آواز بلند کی۔ پکارنے والے نے جان کر پکار اتھا، اور سننے والے سمجھتے تھے کہ کیا پکار رہا ہے، اس لیے جس جس پر جس پہلو سے بھی اس پکار کی ضرب پڑتی تھی وہ اس آواز کو دبانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ پجاریوں کو اپنی برہمنیت و پاپائیت کا خطرہ اس میں نظر آیا۔ رئیسوں کو اپنی ریاست کا ساہوکاروں کو اپنی ساہوکاری کا، نسل پرستوں کو اپنے نسلی تفوق (racial superiority) کا، قوم پرستوں کو اپنی قومیت کا، اجداد پرستوں کو اپنے باپ دادا کے موروثی طریقہ کا، غرض ہر بت کے پرستار کو اپنے بت کے ٹوٹنے کا خطرہ اسی ایک آواز میں محسوس ہوا۔ اس لیے الکفر ملۃ واحد کے مصداق وہ سب جو آپس میں لڑا کرتے تھے اس نئی تحریک سے لڑنے کے لیے ایک ہوگئے۔ اس حالت میں صرف وہی لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آئے جن کا ذہن صاف تھا، جو حقیقت کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کی استعداد رکھتے تھے، جن کے اندر اتنی صداقت پسندی موجود تھی کہ جب ایک چیز کے متعلق جان لیں کہ حق یہ ہے تو اس کی خاطر آگ میں کودنے اور موت سے کھیلنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ ایسے ہی لوگوں کی اس تحریک کے لیے ضرورت تھی۔ وہ ایک ایک، دو دو، چار چار کرکے آتے رہے اور کش مکش بڑھتی رہی۔ کسی کا روز گار چھوٹا، کسی کو گھر والوں نے نکال دیا، کسی کے عزیز، دوست آشنا سب چھوٹ گئے، کسی کو قید میں ڈالا گیا، کسی کوتپتی ہوئی ریت پر گھسیٹا گیا، کسی کی سربازار پتھروں اور گالیوں سے تواضع کی گئی، کسی کی آنکھ پھوڑ دی گئی، کسی کا سر پھاڑ دیا گیا، کسی کو عورت، مال، حکومت و ریاست اور ہر ممکن چیز کا لالچ دے کر خریدنے کی کوشش کی گئی۔ یہ سب چیزیں آئیں، ان کا آنا ضروری تھا۔ ان کے بغیر اسلامی تحریک نہ مستحکم ہوسکتی تھی اور نہ بڑھ سکتی تھی۔
ان کا پہلا فائدہ یہ تھا کہ گھٹیا قسم کے کچے کیریکٹر اور ضعیف ارادہ رکھنے والے لوگ اس طرف آہی نہ سکتے تھے۔ جو بھی آیا وہ نسل آدم کا بہترین جوہر تھا جس کی دراصل ضرورت تھی۔ کوئی دوسری صورت کام کے آدمیوں کو ناکارہ آدمیوں سے چھانٹ کر الگ نکال لینے کی اس کے سوا نہ تھی کہ جو بھی آئے وہ اس بھٹی میں سے گزر کر آئے۔
پھر جو لوگ آئے انھیں اپنی کسی ذاتی غرض کے لیے یا کسی خاندانی یا قومی مقصد کے لیے مصائب کا مقابلہ نہیں کرنا پڑا بلکہ صرف حق اور صداقت کے لیے خدا اور اس کی رضا کے لیے۔ اسی کے لیے وہ پٹے، اسی کے لیے بھوکے مرے‘ اسی کے لیے دنیا بھر کی جفا کاریوں کا تختۂ مشق بنے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں وہ صحیح اسلامی ذہنیت پیدا ہوتی چلی گئی جس کی ضرورت تھی۔ ان کے اندر خالص اسلامی کیریکٹر پیدا ہوا۔ ان کی خدا پرستی میں خلوص آتا اور بڑھتا چلا گیا۔ مصائب کی اس زبردست تربیت گاہ میںکیفیت اسلامی کا طاری ہونا ایک طبعی امر تھا جب کوئی شخص کسی مقصد کے لیے اٹھتا ہے اور اس کی کش مکش، جدوجہد، مصیبت ، تکلیف، پریشانی، مار، قید، فاقہ، جلاوطنی وغیرہ کے مرحلوں سے گزرتا ہے تو اس ذاتی تجربہ کی بدولت اس مقصد کی تمام کیفیات اس کے قلب و روح پر چھا جاتی ہیں اور اس کی پوری شخصیت اس مقصد میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس چیز کی تکمیل میں مدد دینے کے لیے نماز ان پر فرض کی گئی تاکہ نظر کی پراگندگی کا ہر امکان دُور ہو جائے۔ اپنے نصب العین پر ان کی نگاہ جمی رہے، جسے وہ حاکم مان رہے ہیں اس کی حاکمیت کا بار بار اقرار کرکے اپنے عقیدے میں مضبوط ہو جائیں، جس کے حکم کے مطابق انھیں اب دنیا میں کام کرنا ہے۔ اس کا عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہادَۃ ہونا، اس کا مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن ہونا، اس کا قاہر فوق عبادہ ہونا پوری طرح ان کے ذہن نشین ہو جائے اور کسی حال میں اس کی اطاعت کے سوا دوسرے کی اطاعت کا خیال تک ان کے دلوں میں نہ آنے پائے۔
ایک طرف آنے والوں کی تربیت اس طرح ہو رہی تھی اور دوسری طرف اس کش مکش کی وجہ سے اسلامی تحریک پھیل بھی رہی تھی۔ جب لوگ دیکھتے تھے کہ چند لوگ پیٹے جارہے ہیں، قید کیے جارہے ہیں، گھروں سے نکالے جارہے ہیں تو خواہ مخواہ ان کے اندر یہ معلوم کرنے کا شوق پیدا ہوتا تھا کہ آخر یہ سارا ہنگامہ ہے کس لیے؟ اور جب انھیں یہ معلوم ہوتا تھا کہ زن، زر، زمین کسی چیز کے لیے بھی نہیں ہے، کوئی ان کی ذاتی غرض نہیں ہے، یہ اللّٰہ کے بندے صرف اس لیے پٹ رہے ہیں کہ ایک چیز کی صداقت ان پر منکشف ہوتی ہے، تو ان کے دلوں میں آپ سے آپ یہ جذبہ پیدا ہوتا تھا کہ اس چیز کو معلوم کریں۔ آخر ایسی کیا چیز ہے جس کے لیے یہ لوگ ایسے ایسے مصائب برداشت کر رہے ہیں؟ پھر جب انھیں معلوم ہوتا تھا کہ وہ چیز ہے لَآ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہ، اور اس سے انسانی زندگی میں اس نوعیت کا انقلاب رونما ہوتا ہے، اور اس دعوت کو لے کر ایسے لوگ اٹھے ہیں جو محض صداقت و حقیقت کی خاطر دنیا کے سارے فائدوں کو ٹھکرا رہے ہیں اور جان، مال، اولاد ہر چیز کو قربان کر رہے ہیں، تو ان کی آنکھیں کھل جاتی تھیں، ان کے دلوں پر جتنے پردے پڑے ہوئے تھے وہ چاک ہونے لگتے تھے۔ اس پس منظر کے ساتھ یہ سچائی تیر کی طرح نشانے پر جاکر بیٹھتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بجز ان لوگوں کے ’’جنھیں ذاتی وجاہت کے تکبر یا اجداد پرستی کی جہالت یا اغراض دنیوی کی محبت نے اندھا بنا رکھا تھا‘‘ اور سب لوگ اس تحریک کی طرف کھنچتے چلے گئے۔ کوئی جلدی کھنچا اور کوئی زیادہ دیر تک اس کشش کی مزاحمت کرتا رہا۔ مگر دیر یا سویر ہر صداقت پسند بے لوث آدمی کو اس کی طرف کھنچنا ہی پڑا۔
اس دوران میں تحریک کے لیڈر نے اپنی شخصی زندگی سے اپنی تحریک کے اصولوں کا اور ہر اس چیز کا جس کے لیے یہ تحریک اٹھی تھی، پورا پورا مظاہرہ کیا۔ ان کی ہر بات، ہر فعل اور ہر حرکت سے اسلام کی حقیقی رُوح ٹپکتی تھی اور آدمی کی سمجھ میں آتا تھا کہ اسلام کسے کہتے ہیں۔ یہ ایک بڑی تفصیل طلب بحث ہے جس کی تشریح کا یہاں موقع نہیں مگر مختصرًا چند نمایاں باتوں کا میں یہاں ذکر کروں گا۔
اُن کی بیوی حضرت خدیجہؓ حجاز کی سب سے زیادہ مال دار عورت تھیں، اور وہ ان کے مال سے تجارت کرتے تھے۔ جب اسلام کی دعوت شروع ہوئی تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سارا تجارتی کاروبار بیٹھ گیا۔ کیوں کہ ہمہ تن اپنی دعوت میں مصروف ہو جانے اور تمام عرب کو اپنا دشمن بنا لینے کے بعد یہ کام نہ چل سکتا تھا۔ جو کچھ پچھلا اندوختہ تھا اسے میاں اور بیوی دونوں نے اس تحریک کے پھیلانے پر چند سال میں لٹا دیا۔ آخر کار نوبت یہاں تک آئی کہ جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تبلیغ کے سلسلہ میں طائف تشریف لے گئے تو وہ شخص جو کبھی حجاز کا مَلِکُ التُّجَّار کہلاتا تھا اس کی سواری کے ایک گدھا تک میسر نہ ہوا۔
قریش کے لوگوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حجاز کی حکومت کا تخت پیش کیا۔ کہا کہ ہم آپ کو بادشاہ بنالیں گے، عرب کی حسین ترین عورت آپ کے نکاح میں دیں گے، دولت کے ڈھیر آپ کے قدموں میں لگا دیں گے۔ بشرطیکہ آپ اس تحریک سے باز آجائیں۔ مگر وہ شخص جو انسان کی فلاح کے لیے اٹھا تھا۔ اس نے ان سب پیش کشوں کو ٹھکرا دیا اور گالیاں اور پتھر کھانے پر راضی ہوگیا۔
قریش کے اور عرب کے سرداروں نے کہا کہ محمدؐ! ہم تمھارے پاس کیسے آکر بیٹھیں اور تمھاری باتیں کیسے سنیں جب کہ تمھاری مجلس میں ہر وقت غلام، مفلس معاذ اللّٰہ کمین لوگ بیٹھے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو سب سے نچلے طبقے کے لوگ ہیں انھیں تم نے اپنے گرد و پیش جمع کر رکھا ہے، انھیں ہٹائو تو ہم تم سے ملیں مگر وہ شخص جو انسانوں کی اونچ نیچ برابر کرنے آیا تھا، اس نے رئیسوں کی خاطر غریبوں کو دھتکارنے سے انکار کر دیا۔
اپنی تحریک کے سلسلہ میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ملک اپنی قوم اپنے قبیلے اپنے خاندان، کسی کے مفاد کی کبھی پروا نہیں کی۔ اسی چیز نے دنیا کو یقین دلایا کہ آپؐ انسان بحیثیت انسان کی فلاح کے لیے اٹھے ہیں، اور اسی چیز نے آپ کی دعوت کی طرف ہر قوم کے انسانوں کو کھینچا۔ اگر آپ اپنے خاندانوں کی فکر کرتے تو غیر ہاشمیوں کو اس فکر سے کیا دل چسپی ہوسکتی تھی؟ اگر آپ اس بات کے لیے بے چین ہوتے کہ قریش کے اقتدار کو تو کسی طرح بچالوں، تو غیر قریشی عربوں کو کیا پڑی تھی کہ اس کام میں شریک ہوتے؟ اگر آپؐ عرب کی برتری کے لیے اٹھتے تو حبش کے بلالؓ، روم کے صہیبؓ اور فارس کے سلمانؓ کو کیا پڑی تھی کہ اس کام میں آپ کا ساتھ دیتے؟ دراصل جس چیز نے سب کو کھینچا وہ خالص خدا پرستی تھی، ہر ذاتی، خاندانی قومی، وطنی غرض سے مکمل بے لوثی تھی۔
مکہ سے جب آپ کو ہجرت کرنا پڑی تو وہ تمام امانتیں جو دشمنوں نے آپ کے پاس رکھوائی تھیں، حضرت علیؓ کے سپرد کرکے نکلے کہ میرے بعد ہر ایک کی امانت اسے پہنچا دینا۔ دنیا پرست ایسے موقع پر جو کچھ ہاتھ لگتا ہے، لے کر چل دیتے ہیں۔ مگر خدا پرست نے اپنی جان کے دشمنوں اور اپنے خون کے پیاسوں کا مال بھی انھیں واپس پہنچانے کی کوشش کی، اور اس وقت کی جب کہ وہ اس کے قتل کا فیصلہ کرچکے تھے۔ یہ وہ اخلاق تھا جسے دیکھ کر عرب کے لوگ دنگ رہ گئے ہوں گے، اور مجھے یقین ہے کہ جب وہ دو سال کے بعد میدان بدر میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑنے کھڑے ہوئے ہوں گے تو ان کے دل اندر سے کہ رہے ہوں گے کہ یہ تم کس سے لڑ رہے ہو؟ اس فرشتہ خصلت انسان سے جو قتل گاہ سے رخصت ہوتے وقت بھی انسانوں کے حقوق اور امانت کی ذمہ داری کو نہیں بھولتا؟ اس وقت ان کے ہاتھ ضد کی بنا پر لڑتے ہوں گے مگر ان کے دل اندر سے بھنچ رہے ہوں گے۔ عجب نہیں کہ بدر میں کفار کی شکست کے اخلاقی اسباب میں سے یہ بھی ایک سبب ہو۔
تیرہ برس کی شدید جدوجہد کے بعد وہ وقت آیا جب مدینہ میں اسلام کی ایک چھوٹی سی اسٹیٹ قائم کرنے کی نوبت آئی۔ اس وقت ڈھائی تین سو کی تعداد میں ایسے کارکن فراہم ہو چکے تھے جن میں سے ایک ایک اسلام کی پوری تربیت پا کر اس قابل ہو چکا تھا کہ جس حیثیت میں بھی اسے کام کرنے کا موقع ملے، مسلمان کی حیثیت سے انجام دے سکے۔ اب یہ لوگ ایک اسلامی اسٹیٹ کو چلانے کے لیے تیار تھے۔ چنانچہ وہ قائم کر دی گئی۔ دس برس تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اسٹیٹ کی راہ نُمائی کی اور اس مختصر سی مدت میں ہر شعبہ حکومت کو اسلامی طرز پر چلانے کی پوری مشق ان لوگوں کو کرا دی۔ یہ دور اسلامی آئیڈیالوجی کے ایک مجرد تخیل (abstract idea) سے ترقی کرکے ایک مکمل نظامِ تمدن بننے کا دور ہے جس میں اسلام کی انتظامی، تعلیمی، عدالتی، معاشی، معاشرتی، مالی، جنگی، بین الاقوامی پالیسی کا ایک ایک پہلو واضح ہوا۔ ہر شعبہ زندگی کے لیے اصول بنے، ان اصولوں کو عملی حالات پر منطبق کیا گیا۔ اس خاص طرز پر کام کرنے والے کارکن تعلیم اور تربیت اور عملی تجربہ سے تیار کیے گیے، اور ان لوگوں نے اسلام کی حکم رانی کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ آٹھ سال کی مختصر مدت میں مدینہ جیسے ایک چھوٹے سے قصبہ کی اسٹیٹ پورے عرب کی سلطنت میں تبدیل ہوگئی۔ جوں جوں لوگ اسلام کو اس کی عملی صورت میں اور اس کے نتائج کو محسوس شکل میں دیکھتے تھے، خود بخود اس بات کے قائل ہوتے جاتے تھے کہ فی الحقیقت انسانیت اس کا نام ہے اور انسانی فلاح اسی چیز میں ہے۔ بدترین دشمنوں کو بھی آخر قائل ہو کر اسی مسلک کو قبول کرنا پڑا جس کے خلاف وہ برسوں تک لڑتے رہے۔ خالد بن ولید قائل ہوئے۔ ابوجہل کے بیٹے عکرمہ قائل ہوئے، ابو سفیان قائل ہوئے، قاتلِ حمزہ وحشی قائل ہوئے۔ ہند جگر خوار تک کو آخر کار اس شخص کی صداقت کے آگے سرتسلیم خم کر دینا پڑا جس سے بڑھ کر اس کی نگاہ میں کوئی مبغوض نہ تھا۔
غلطی سے تاریخ نگاروں نے غزوات کو اتنا زیادہ نمایاں کر دیا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ عرب کا یہ انقلاب لڑائیوں سے ہوا۔ حالانکہ پانچ سال کی تمام لڑائیوں میں جن سے عرب جیسی جنگ جُو قوم مسخر ہوئی، طرفین کے جانی نقصانات کی تعداد ہزار بارہ سو سے زیادہ نہیں ہے۔ انقلاب کی تاریخ اگر آپ کے پیش نظر ہے تو آپ کو تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ انقلاب غیر خونیں انقلاب (bloodless revolution)کہے جانے کا مستحق ہے۔ پھر اس انقلاب میں فقط ملک کا طریق انتظام ہی تبدیل نہیں ہوا‘ بلکہ ذہنیتیں بدل گئیں۔ نگاہ کاز اویہ بدل گیا۔ سوچنے کا طریقہ بدل گیا، زندگی کا طرز بدل گیا، اخلاق کی دنیا بدل گئی، عادات اور خصائل بدل گئے، غرض ایک پوری قوم کی کایا پلٹ کر رہ گئی۔ جو زانی تھے وہ عورتوں کی عصمت کے محافظ بن گئے جو شرابی تھے وہ منعِ شراب کی تحریک کے علَم بردار بن گئے۔ جو چور اور اُچکے تھے ان کا احساسِ دیانت اتنا نازک ہوگیا کہ دوستوں کے گھر کھانا کھانے میں بھی انھیں اس بنا پر تامل تھا کہ مبادا ناجائز طریقہ پر مال کھانے کا اطلاق اس فعل پر بھی ہو جائے، حتّٰی کہ قرآن میں خود اللہ تعالیٰ کو انھیں اطمینان دلانا پڑا کہ اس طرح کے کھانے میں کوئی مُضایقہ نہیں۔ جو ڈاکو اور لٹیرے تھے وہ اتنے متدین بن گئے کہ ان کے ایک معمولی سپاہی کو پایہ تخت ایران کی فتح کے موقع پر کروڑوں کی قیمت کا تاج شاہی ہاتھ لگا اور وہ رات کی تاریکی میں اپنے پیوند لگے ہوئے کمبل میں اسے چھپا کر سپہ سالار کے حوالے کرنے کے لیے پہنچاتاکہ اس غیر معمولی واقعہ سے اس کی دیانت کی شہرت نہ ہو جائے اور اس کے خلوص پر ریاکاری کا میل نہ آجائے۔ وہ جن کی نگاہ میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہ تھی، جو اپنی بیٹیوں کو آپ اپنے ہاتھ سے زندہ دفن کرتے تھے ان کے اندر جان کا اتنا احترام پیدا ہوگیا کہ کسی مرغ کو بھی بے رحمی سے قتل ہوتے نہ دیکھ سکتے تھے۔ وہ جنھیں راست بازی اور انصاف کی ہوا تک نہ لگی تھی ان کے عدل اور راستی کا یہ حال ہوگیا کہ خیبر کی صلح کے بعد جب ان کا تحصیل دار یہودیوں سے سرکاری معاملہ وصول کرنے گیا تو یہودیوں نے اسے بیش قرار رقم اس غرض کے لیے پیش کی کہ وہ سرکاری معاملہ میں کچھ کمی کر دے، مگر اس نے رشوت لینے سے انکار کر دیا اور یہودیوں کے درمیان پیداوار کا آدھا حصہ اس طرح تقسیم کیا کہ دو برابر کے ڈھیر آمنے سامنے لگا دیے، اور یہودیوں کو اختیار دیا کہ دونوں میں سے جس ڈھیر کو چاہیں اٹھالیں۔ اس نرالی قسم کے تحصیل دار کا یہ طرزِ عمل دیکھ کر یہودی انگشت بدنداں رہ گئے اور بے اختیار ان کی زبان سے نکلا کہ اسی عدل پر زمین و آسمان قائم ہیں۔ ان کے اندر وہ گورنر پیدا ہوئے جو گورنمنٹ ہائوسوں میں نہیں بلکہ رعایا کے درمیان انھی جیسے گھروں میں رہتے تھے، بازاروں میں پیدل پھرتے تھے، دروازوں پر دربان تک نہ رکھتے تھے رات دن میں ہر وقت جو چاہتا تھا ان سے انٹرویو کرسکتا تھا۔ ان کے اندر وہ قاضی پیدا ہوئے جن میں سے ایک نے ایک یہودی کے خلاف خود خلیفہ وقت کا دعوٰی اس بنا پر خارج کر دیا کہ خلیفہ اپنے غلام اور اپنے بیٹے کے سوا کوئی گواہ پیش نہ کرسکا ان کے اندر وہ سپہ سالار پیدا ہوئے جن میں سے ایک نے دورانِ جنگ میں ایک شہر خالی کرتے وقت پورا جزیہ یہ کہ کر واپس دے دیا کہ ہم اب تمھاری حفاظت سے قاصر ہیں، لہٰذا جو ٹیکس ہم نے حفاظت کے معاوضہ میں وصول کیا تھا اسے رکھنے کا ہمیں کوئی حق نہیں۔ ان میں وہ ایلچی پیدا ہوئے جن میں سے ایک نے سپہ سالارانِ ایران کے بھرے دربار میں اسلام کے اصول مساواتِ انسانی کا ایسا مظاہرہ کیا اور ایران کے طبقاتی امتیازات پر ایسی برمحل تنقید کی کہ خدا جانے کتنے ایرانی سپاہیوں کے دلوں میں اس مذہب انسانیت کی عزت و وقعت کا بیج اس وقت پڑ گیا ہوگا۔ ان میں وہ شہری پیدا ہوئے جن کے اندر اخلاقی ذمہ داری کا احساس اتنا زبردست تھا کہ جن جرائم کی سزا ہاتھ کاٹنے اور پتھر مار مار کر ہلاک کر دینے کی صورت میں دی جاتی تھی، ان کا اقبال خود آکر کرتے تھے اور تقاضا کرتے تھے کہ سزا دے کر انھیں گناہ سے پاک کر دیا جائے تاکہ وہ چور یا زانی کی حیثیت سے خدا کے سامنے پیش نہ ہوں۔ ان میںوہ سپاہی پیدا ہوئے جو تنخواہ لے کر نہیں لڑتے تھے بلکہ اس مسلک کی خاطر جس پروہ ایمان لائے تھے اپنے خرچ سے میدان جنگ میں جاتے اور پھر جو مال غنیمت ہاتھ لگتا وہ سارا کا سارا سپہ سالار کے سامنے لاکر رکھ دیتے تھے۔ کیا اجتماعی اخلاق اور اجتماعی ذہنیت کا اتنا زبردست تغیر محض لڑائیوں کے زور سے ہوسکتا تھا، تاریخ آپ کے سامنے موجود ہے، کہیں آپ کو کوئی ایسی مثال ملتی ہے کہ تلوار نے انسانوں کو اس طرح پر بدل ڈالا۔؟
درحقیقت یہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ تیرہ برس کی مدت میں تو کُل ڈھائی تین سو مسلمان پیدا ہوئے مگر بعد کے دس سال میں سارا ملک مسلمان ہوگیا۔ اس معمے کو لوگ حل نہیں کرسکتے، اس لیے عجیب عجیب تو جیہیں کرتے ہیں۔ حالانکہ بات بالکل صاف ہے، جب تک اس نئی آئیڈیالوجی پر زندگی کا نقشہ نہیں بنا تھا لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ نرالی قسم کا لیڈر آخر کیا بنانا چاہتا ہے۔ طرح طرح کے شبہات دلوں میں پیدا ہوتے تھے۔ کوئی کہتا یہ نری شاعرانہ باتیں ہیں، کوئی کہتا کہ یہ شخص مجنون ہوگیا اور کوئی اسے محض ایک خیالی آدمی (visionary) قرار دے کر گویا اپنے نزدیک رائے زنی کا حق ادا کردیتا۔ اس وقت صرف غیر معمولی ذہانت اور سمجھ رکھنے والے لوگ ہی ایمان لائے جن کی نگاہِ حقیقت بِیں اس نئے مسلک میں انسانی فلاح کی صورت صاف دیکھ سکتی تھی۔ مگر جب اس نظامِ فکر پر ایک مکمل نظامِ حیات بن گیا اور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے اسے کام کرتے دیکھ لیا اور اس کے نتائج ان کے سامنے عیاناً آگئے، تب ان کی سمجھ میں آیا کہ یہ وہ چیز تھی جسے بنانے کے لیے وہ اللّٰہ کا نیک بندہ دنیا بھر کے ظلم سَہ رہا تھا۔ اس کے بعد ضد اور ہٹ دھرمی کے پائوں جمانے کا کوئی موقع باقی نہ رہا، جس کی پیشانی پر دو آنکھیں تھیں اور ان آنکھوں میں نور تھا۔ اس کے لیے آنکھوں دیکھی حقیقت سے انکار کرنا غیر ممکن تھا۔
حضرات! یہ ہے اس اجتماعی انقلاب کے لانے کا طریقہ جسے اسلام برپا کرنا چاہتا ہے۔ یہی اس کا راستہ ہے، اسی ڈھنگ پر وہ شروع ہوتا ہے اور اسی تدریج سے وہ آگے بڑھتا ہے، لوگ اسے معجزہ کی قسم کا واقعہ سمجھ کر کَہ دیتے ہیں، اب یہ کہاں ہوسکتا ہے نبی ہی آئے تو یہ کام ہو مگر تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہ بالکل ایک طبعی قسم کا واقعہ ہے۔ اس میں علت اور معلول کا پورا منطقی اور سائنٹیفک ربط ہمیں نظر آتا ہے۔ آج ہم اس ڈھنگ پر کام کریں تو وہی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ البتہ صحیح یہ ہے کہ اس کام کے لیے ایمان، شعورِ اسلامی، ذہن کی یک سُوئی، مضبوط قوتِ فیصلہ، شخصی جذبات اور ذاتی امنگوں کی سخت قربانی درکار ہے۔ اس کے لیے جواں ہمت لوگوں کی ضرورت ہے جو حق پر ایمان لانے کے بعد اس پر پوری طرح نظر جما دیں، کسی دوسری چیز کی طرف توجہ نہ کریں۔ دنیا میں خواہ کچھ ہوا کرے وہ اپنے نصب العین کے راستے سے ایک انچ نہ ہٹیں، دنیوی زندگی میں اپنی ذاتی ترقی کے سارے امکانات کو قربان کر دیں، اپنی امیدوں کا اور اپنے والدین کی تمنائوں کا خون کرتے ہوئے نہ جھجکیں، عزیزوں اور دوستوں کے چھوٹ جانے کا غم نہ کریں۔ سوسائٹی اور حکومت، قانون، قوم، وطن جو چیز بھی ان کے نصب العین کی راہ میں حائل ہو اس سے لڑ جائیں۔ ایسے ہی لوگوں نے پہلے بھی اللّٰہ کا کلمہ بلند کیا تھا ایسے ہی لوگ آج بھی کریں گے اور یہ کام ایسے ہی لوگوں کے کیے سے ہوسکتا ہے۔
اب مجھے صرف چند کلمے اور عرض کرنا ہیں جن کے بعد میںاس سمع خراشی کو ختم کروں گا۔ تقدیر الٰہی نے آپ کے اس علی گڑھ کو ہندوستانی مسلمانوں کا مرکز اعصاب (nerve centre) بنا دیا ہے۔ میں اس امر واقعی کا پورا ادراک رکھتا ہوں اسی وجہ سے میں نے آج سے چار پانچ سال پہلے علی گڑھ کو مخاطب کرکے اس نئے نظام تعلیم کا ایک نقشہ پیش کیا تھا جس کی میرے نزدیک اسلام کی نَشاطِ جدیدہ کے لیے ضرورت ہے اور آج پھر اسی ادراک کی بنا پر میں علی گڑھ ہی کو مخاطب کرکے اس تحریک کا نقشہ پیش کر رہا ہوں جو اسلامی طرز کا اجتماعی انقلاب برپا کرنے کے لیے ایک ہی ممکن تحریک ہے۔ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ جو کچھ پہنچانا تھا اور جس مناسب جگہ پہنچانا تھا۔ میں پہنچا چکا ہوں۔ اب اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہے کہ میں آپ کے دل بھی بدل دوں۔
٭……٭……٭