اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر

ریڈ مودودی ؒ   کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

دیباچۂ طبع اوّل

جس موضوع پر اس رسالہ میں بحث کی گئی ہے، اس پر اس سے پہلے مَیں اپنے ’’خطبات‘‘ میں روشنی ڈال چکا ہوں، لیکن وہاں میرے مخاطب عوام تھے جو زیادہ گہرے معانی کا ادراک نہیں کرسکتے، اس لیے مجھے بہت سادہ مطالب تک گفتگو محدود رکھنا پڑتی تھی۔ اس کے بعد میں نے ضرورت محسوس کی کہ تعلیم یافتہ اور صاحب فکر و نظر اصحاب کے لیے اسی موضوع پر ایک مستقل مقالہ لکھوں تاکہ عبادات کی نسبت زیادہ عمیق معانی ان کے سامنے پیش کیے جائیں۔ اگرچہ ابھی اس میں بہت کچھ اضافہ کی گنجائش ہے اور تمام ان حقیقتوں کا اس میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے جو عبادات میں پوشیدہ ہیں لیکن مجھے اُمید ہے کہ جو کچھ اس میں عرض کیا گیا ہے وہ اکثر اہل علم کے عقلی اطمینان کے لیے کافی ہوگا۔
سرِدست صرف نماز روزہ کے متعلق میرے دومقالے شائع کیے جارہے ہیں۔ ابھی زکوٰۃ اور حج پر گفتگو باقی ہے، لیکن اس کے لیے فرصت کا انتظار ہے اور احباب کا تقاضا ہے کہ جو کچھ لکھا جاچکا ہے اسے، جو کچھ لکھا جانا ہے اس کے انتظار میں روک نہ رکھا جائے اس لیے یہ صفحات اس رسالے کے حصہ اول کی حیثیت سے نذر ناظرین ہیں۔

ابوالاعلیٰ مودُودی

 

عرض ناشر

اس کتاب کا یہ نیا ایڈیشن پیش ِ خدمت ہے۔ ہم نے اپنی روایات کے مطابق اس کتاب کے ظاہری حسن کو اس کے معنوی حسن سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کمپیوٹرائزڈ کتابت اور آفسٹ طباعت کو اختیار کیا ہے۔
اس ایڈیشن میں اُن آیات و احادیث کے حوالے بھی دیے گئے ہیں جو سابقہ ایڈیشنوں میں موجود نہ تھے۔ نیز ان کا مستند ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔ اس طرح اس کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔
جو حضرات اس کتاب سے مکمل استفادہ کرنا چاہتے ہیں اور اسلام کی دوسری عبادات زکوٰۃ، حج اور جہاد کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں انھیں اس کے ساتھ مولانا موصوف کی دوسری تالیف ’’خطبات‘‘ کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے۔

نیاز مند
منیجنگ ڈائریکٹر
اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ لاہور

حقیقت عبادت

قرآن کی رو سے عبادت وہ اصل مقصد ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِo الذّٰریٰت56:51
میں نے نہیں پیدا کیا جن و انس کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔
انبیاء علیہم السلام جس غرض کے لیے دنیا میں بھیجے گئے وہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ انسان کو خدا کی عبادت کی طرف دعوت دیں۔
اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۝۰ۚ النحل 36:16
یہ کہ بندگی کرو اللہ کی اور دُور رہو طاغوت سے۔
پس ہمارے لیے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ عبادت سے مراد کیا ہے اور اسلام میں جو عبادات ہم پر فرض کی گئی ہیں ان کی اصلی روح کیا ہے۔ اگر ان اُمور کو ہم نہ جانیں گے تو اس مقصد ہی کو پورا کرنے سے قاصر رہ جائیں گے، جس کے لیے ہمیں پیدا کیا گیا ہے۔
عبادات کا جاہلی تصور
اسلام میں عبادات کا مفہوم محض پوجا کا نہیں ہے، بلکہ بندگی (prayer)کا بھی ہے۔ عبادات کو محض پوجا کے معنی میں لینا دراصل جاہلیت کا تصور ہے۔ جاہل لوگ اپنے معبودوں کو انسانوں پر قیاس کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح بڑے آدمی، سردار یا بادشاہ، خوشامد سے خوش ہوتے ہیں، نذرانے پیش کرنے سے مہربان ہو جاتے ہیں، ذلت اور عاجزی کے ساتھ ہاتھ جوڑنے سے پسیج جاتے ہیں اور ان سے یوں ہی کام نکالا جاسکتا ہے، اسی طرح ان کا معبود بھی انسان سے خوشامد، نذر و نیاز اور اظہار عاجزی کا طالب ہے۔ انھی تدبیروں سے اسے اپنے حال پر مہربان کیا جاسکتا ہے اور اسے خوش کرکے کام نکالا جاسکتا ہے۔ اس تصور کی بنا پر جاہلی مذاہب چند مخصوص اوقات میں مخصوص مراسم ادا کرنے کو عبادت کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
عبادت کا جو گیا نہ تصور
اسی طرح اسلام میں عبادت کا یہ بھی تصور نہیں ہے کہ آدمی دنیا کی زندگی سے الگ ہو کر خدا سے لَو لگائے، مراقبہ (meditation)نفس کشی اور مجاہدات و ریاضت (spiritual exercises)کے ذریعہ سے اپنی اندرونی قوتوں کو نشوونما دے، کشف و کرامت کی قوتیں اپنے اندر پیدا کرے اور دنیوی زندگی کی ذمہ داریوں سے سبک دوشی حاصل کرکے اُخروی نجات حاصل کرے۔ عبادت کا یہ تصور ان مذاہب میں پایا جاتا ہے جن کی بنیاد زندگی کے راہبانہ تصور (ascetic View of Life) پر ہے، جو اس دنیا کو انسان کے لیے قید خانہ اور جسم کو روح کے لیے قفس سمجھتے ہیں، جن کے نزدیک دین داری اور دنیاداری ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جو دنیا کی زندگی‘ اس کی ذمہ داریوں اور اس کے تعلقات سے باہر نجات کا راستہ ڈھونڈتے ہیں۔ جن کے نزدیک روحانی ترقی کے لیے مادی انحطاط یا مادیات سے بے تعلقی ناگزیر ہے۔
عبادت کا اسلامی تصور
اسلام کا تصور ان دونوں سے مختلف ہے۔ اسلام کی نگاہ میں انسان خدائے واحد کا بندہ ہے۔ اس کا خالق، اس کا رازق، اس کا مالک، اس کا حاکم صرف خداوند عالم ہے۔ خدا نے اس زمین پر اسے اپنے خلیفہ کی حیثیت سے مامور کیا ہے۔ یہاں کچھ اختیارات اسے عطا کیے ہیں، کچھ ذمہ داریاں اور کچھ خدمتیں اس کے سپرد کی ہیں۔ اپنی مملکت اور اپنی رعیت کے ایک حصہ پر اسے کچھ اقتدار دیا ہے۔ اس کاکام اپنے مالک کے مقصد کو پورا کرنا ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا اور ادا کرنا ہے۔ آقا کی سپرد کی ہوئی خدمتوں کو انجام دینا ہے۔ اپنے اختیارات اور اپنی قوتوں کو حاکم اصلی کے قانون اور اس کی رضا کے مطابق استعمال کرنا ہے۔ جس قدر زیادہ سرگرمی و جاں فشانی کے ساتھ وہ زمین کی زندگی میں اپنی ذمہ داریوں اور اپنی متعلقہ خدمات کو بجا لائے گا اور جتنی زیادہ وفاداری اور فرماں برداری کے ساتھ اپنے اختیارات کے استعمال میں مالک کے قانون کی پیروی کرے گا، اتنا ہی زیادہ وہ کام یاب ہوگا۔ اس کی آیندہ ترقی کا انحصار اسی پر ہے کہ اپنی ماموریت کی مدت ختم کرنے کے بعد جب وہ مالک کے سامنے حساب کے لیے پیش ہو تو اس کے کارنامۂ زندگی سے یہ ثابت ہو کہ وہ ایک فرض شناس اور مطیع و فرماں بردار بندہ تھا، نہ یہ کہ سست، کام چور، نافرض شناس تھا، یا یہ کہ باغی و نافرمان تھا۔
اس نقطۂ نظر سے عبادت کے وہ دونوں تصور جو ابتدا میں بیان کیے گئے ہیں غلط اور قطعی غلط ہیں۔ جو شخص اپنے اوقات میں سے تھوڑا سا وقت خدا کو پوجنے کے لیے الگ کرتا ہے اور اس تھوڑے سے وقت میں عبادت کے چند مخصوص مراسم ادا کر دینے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ میں نے خدا کا حق ادا کر دیا ہے، اب میں آزاد ہوں کہ اپنی زندگی کے معاملات کو جس طرح چاہوں انجام دوں، اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی ملازم جسے آپ نے رات دن کے لیے نوکر رکھا ہو، اور جسے پوری تنخواہ دے کر آپ پرورش کر رہے ہوں، وہ بس صبح شام آکر آپ کو جھک جھک کر سلام کر دیا کرے، اور اس کے بعد آزادی کے ساتھ جہاں چاہے کھیلتا پھرے یا جس جس کی چاہے نوکری بجا لائے۔ اسی طرح جو شخص دنیا اور اس کے معاملات سے الگ ہو کر ایک گوشے میں جا بیٹھتا ہے اور اپنا سارا وقت نماز پڑھنے، روزے رکھنے، قرآن پڑھنے اور تسبیح پھیرنے میں صرف کر دیتا ہے، اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جسے آپ اپنے باغ کی رکھوالی کے لیے مقرر کریں، مگر وہ باغ اور اس کے کام کاج کو چھوڑ کر آپ کے سامنے ہر وقت ہاتھ باندھے کھڑا رہے، صبح سے شام اور شام سے صبح تک آقا آقا پکارتا رہے، اور باغ بانی کے متعلق جو ہدایات آپ نے اسے دی ہیں انھیں نہایت خوش الحانی اور ترتیل کے ساتھ بس پڑھتا ہی رہے ان کے مطابق باغ کی اصلاح و ترقی کے لیے کام ذرا نہ کرکے دے۔ ایسے ملازموں کے متعلق جو کچھ رائے آپ قائم کریں گے وہی رائے اسلام کی بھی ایسے عبادت گزاروں کے متعلق ہے۔ اور جو برتائو اس قسم کے ملازموں کے ساتھ آپ کریں گے، وہی برتائو ان غلط تصورات کے تحت عبادت کرنے والوں کے ساتھ خدا بھی کرے گا۔
اسلام کا تصورِ عبادت یہ ہے کہ آپ کی ساری زندگی خدا کی بندگی میں بسر ہو۔ آپ اپنے آپ کو دائمی اور ہمہ وقتی ملازم (whole time servant) سمجھیں۔ آپ کی زندگی کا ایک لمحہ بھی خدا کی عبادت سے خالی نہ ہو۔ اس دنیا میں آپ جو کچھ بھی کریں، خدا کی شریعت کے مطابق کریں۔ آپ کا سونا اور جاگنا، آپ کا کھانا اور پینا، آپ کا چلنا اور پھرنا، غرض سب کچھ خدا کے قانون({ FR 658 }) شرعی کی پابندی میں ہو۔ خدا نے جن تعلقات میں آپ کو باندھا ہے ان سب میں آپ بندھیں، اور انھیں اس طریقے سے جوڑیں یا توڑیں جس طریقے سے خدا نے انھیں جوڑنے یا توڑنے کا حکم دیا ہے۔ خدا نے جو خدمات آپ کے سپرد کی ہیں اور دنیوی زندگی میں جو فرائض آپ سے متعلق کیے ہیں، ان سب کا بار آپ نفس کی پوری رضامندی کے ساتھ سنبھالیں اور انھیں اس طریقے سے ادا کریں جس کی طرف خدا نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے آپ کی راہ نمائی کی ہے۔ آپ ہر وقت ہر کام میں خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری محسوس کریں، اور سمجھیں کہ آپ کو اپنی ایک ایک حرکت کا حساب دینا ہے۔ اپنے گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ، اپنے محلہ میں ہم سایوں کے ساتھ، اپنی سوسائٹی میں دوستوں کے ساتھ اور اپنے کاروبار میں اہل معاملہ کے ساتھ برتائو کرتے وقت ایک ایک بات اور ایک ایک کام میں خدا کی مقرر کردہ حدود کا آپ کو خیال رہے۔ جب آپ رات کے اندھیرے میں ہوں اور کوئی نافرمانی اس طرح کرسکتے ہوں کہ کوئی آپ کو دیکھنے والا نہ ہو، اس وقت بھی آپ کو یہ خیال رہے کہ خدا آپ کو دیکھ رہا ہے۔ جب آپ جنگل میں جارہے ہوں اور وہاں کوئی جرم اس طرح کرسکتے ہوں کہ کسی پکڑنے والے اور کسی گواہی دینے والے کا کھٹکا نہ ہو، اس وقت بھی آپ خدا کو یاد کرکے ڈر جائیں اور جرم سے باز رہیں۔ جب آپ جھوٹ، بے ایمانی اور ظلم سے بہت سا فائدہ حاصل کرسکتے ہوں اور کوئی آپ کو روکنے والا نہ ہو، اس وقت بھی آپ خدا سے ڈریں اور فائدے کو اس لیے چھوڑ دیں کہ خدا اس سے ناراض ہوگا۔ اور جب سچائی اور ایمان داری میں سراسر آپ کو نقصان پہنچتا ہو اس وقت بھی نقصان اٹھانا قبول کرلیں، صرف اس لیے کہ خدا اس سے خوش ہوگا۔
پس دنیا کو چھوڑ کر کونوں اورگوشوں میں جا بیٹھنا اور اللہ اللہ کرنا عبادت نہیں ہے، بلکہ دنیا کے دھندوں میں پھنس کر اور دنیوی زندگی کی ساری ذمہ داریوں کو سنبھال کر خدا کے قانون کی پابندی کرنا عبادت ہے۔ ذکر الٰہی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زبان پر اللہ اللہ جاری ہو، بلکہ اصلی ذکر الٰہی یہ ہے کہ جو چیزیں خدا سے غافل کرنے والی ہیں ان میں پھنسو اور پھر خدا سے غافل نہ ہو۔ دنیا کی زندگی میں جہاں قانون الٰہی کو توڑنے کے بے شمار مواقع، بڑے بڑے نقصانوں کا خوف لیے ہوئے سامنے آتے ہیں، وہاں خدا کو یاد کرو اور اس کے قانون کی پیروی پر قائم رہو۔ حکومت کی کرسی پر بیٹھو اور وہاں یاد رکھو کہ میں بندوں کا خدا نہیں ہوں بلکہ خدا کا بندہ ہوں۔ عدالت کے منصب پر متمکن ہو اور وہاں ظلم پر قادر ہونے کے باوجود خیال رکھو کہ خدا کی طرف سے مَیں عدل قائم کرنے پر مامور ہوں۔ زمین کے خزانوں پر قابض و متصرف ہو اور پھر یاد رکھو کہ میں ان خزانوں کا مالک نہیں ہوں بلکہ امین ہوں اور پائی پائی کا حساب مجھے اصل مالک کو دینا ہے۔ فوجوں کے کمانڈر بنو اور پھر خوف خدا تمھیں طاقت کے نشے میںمدہوش ہونے سے بچاتا رہے۔ سیاست و جہاں بانی کا کٹھن کام ہاتھ میں لو اور پھر سچائی، انصاف اور حق پسندی کے مستقل اصولوں پر عمل کرکے دکھائو۔ تجارت، مالیات اور صنعت کی باگیں سنبھالو اور پھر کام یابی کے ذرائع میں پاک اور ناپاک کا امتیاز کرتے ہوئے چلو۔ ایک ایک قدم پر حرام تمھارے سامنے ہزار خوش نمائیوں کے ساتھ آئے اور پھر تمھاری رفتار میں لغزش نہ آنے پائے۔ ہر طرف ظلم، جھوٹ، دغا، فریب اور بدکاری کے راستے تمھارے سامنے کھلے ہوئے ہوں اور دنیوی کام یابیاں اور مادی لذتیں ہر راستے کے سرے پر جگمگاتے ہوئے تاج پہنے کھڑی نظر آئیں اور پھر خدا کی یاد اور آخرت کی باز پرس کا خوف تمھارے لیے پابند پا بن جائے۔ حدود اللہ میں سے ایک ایک حد قائم کرنے میں ہزاروں مشکلیں دکھائی دیں، حق کا دامن تھامنے اور عدل و صداقت پر قائم رہنے میں جان و مال کا زیاں نظر آئے۔ اور خدا کے قانون کی پیروی کرنا زمین و آسمان کو دشمن بنالینے کا ہم معنی ہو جائے، پھر بھی تمھارا ارادہ متزلزل نہ ہو اور تمھاری جبین عزم پر شکن تک نہ آئے۔ یہ ہے اصلی عبادت۔ اس کا نام ہے یاد خدا۔ اسی کو ذکر الٰہی کہتے ہیں، اور یہی وہ ذکر ہے جس کی طرف قرآن میں اشارہ فرمایا گیا ہے کہ:
فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ وَاذْكُرُوا اللہَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَo الجمعہ 10:62
پس جب نماز ختم ہو جائے تو پھیل جائو زمین میں اور تلاش کرو اللہ کے فضل میں سے اور یاد کرو اللہ کو بہت تاکہ تم فلاح پائو۔
روحانی ارتقا اور خدا کی یافت کا راستہ
اسلام نے روحانی ترقی اور خدا کی یافت کا بھی یہی راستہ بتایا ہے۔ انسان خدا کو جنگلوں اور پہاڑوں میں یا عزلت کے گوشوں میں نہیں پاسکتا۔ خدا اسے انسانوں کے درمیان، دنیوی زندگی کے ہنگامۂ کار زار میں ملے گا اور اس قدر قریب ملے گا کہ گویا وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ جس کے سامنے حرام کے فائدے، ظلم کے مواقع اور بدکاری کے راستے قدم قدم پر آئے اور ہر قدم پر وہ خدا سے ڈر کر ان سے بچتا ہوا چلا۔ اسے خدا کی یافت ہوگئی۔ ہر قدم پر وہ اپنے خدا کو پاتا رہا، بلکہ آنکھوں سے دیکھتا رہا۔ نہ پاتا اور نہ دیکھتا تو اس دشوار گھاٹی سے بخیریت کیوں کر گزر سکتا تھا؟ جس نے گھر میں تفریح کے لمحوں میں اور کاروبارکے ہنگاموں میں ہر کام اس احساس کے ساتھ کیا کہ خدا مجھ سے دور نہیں ہے، اس نے خدا کو ہر لمحہ اپنے سے قریب اور بہت قریب پایا، جس نے سیاست، حکومت، صلح و جنگ، مالیات اور صنعت و تجارت جیسے ایمان کی سخت آزمایش کرنے والے کام کیے اور یہاں کام یابی کے شیطانی ذرائع سے بچ کر خدا کے مقرر کیے ہوئے حدود کا پابند رہا اس سے بڑھ کر مضبوط اور سچا ایمان اور کس کا ہوسکتا ہے؟ اس سے زیادہ خدا کی معرفت اور کسے حاصل ہوسکتی ہے؟ اگر وہ خدا کا ولی اور مقرب بندہ نہ ہوگا تو اور کون ہوگا؟
اسلامی نقطۂ نظر سے انسان کی روحانی قوتوں کی نشوونما کا راستہ یہی ہے۔ روحانی ارتقا اس کا نام نہیں ہے کہ آپ پہلوان کی طرح ورزشیں کرکے اپنی قوت ارادی (will power) کو بڑھالیں اور اس کے زور سے کشف و کرامت کے شعبدے دکھانے لگیں۔ بلکہ روحانی ارتقا اس کا نام ہے کہ آپ اپنے نفس کی خواہشات پر قابو پائیں، اپنے ذہن اور اپنے جسم کی تمام طاقتوں سے صحیح کام لیں، اپنے اخلاق میں خدا کے اخلاق سے قریب تر ہونے کی کوشش کریں۔ دنیوی زندگی میں جہاں قدم قدم پر آزمایش کے مواقع پیش آتے ہیں، اگر آپ حیوانی اور شیطانی طریق کار سے بچتے ہوئے چلیں اور پورے شعور اور صحیح تمیز کے ساتھ اس طریقے پر ثابت قدم رہیں جو انسان کے شایان شان ہے، تو آپ کی انسانیت یوماً فیوماً ترقی کرتی چلی جائے گی۔ اور آپ روز بروز خدا سے قریب تر ہوتے جائیں گے۔ اس کے سوا روحانی ترقی اور کسی چیز کا نام نہیں۔({ FR 659 })
اسلام میں مراسم عبادت کی حیثیت کیا ہے؟
یہ خلاصہ ہے اسلامی تصور عبادت کا۔ اسلام انسان کی پوری دنیوی زندگی کو عبادت میں تبدیل کر دینا چاہتا ہے، اس کا مطالبہ یہ ہے کہ آدمی کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی خدا کی عبادت سے خالی نہ ہو، لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرنے کے ساتھ ہی یہ بات لازم آجاتی ہے کہ جس اللہ کو آدمی نے اپنا معبود تسلیم کیا ہے، اس کا عبد یعنی بندہ بن کر رہے، اور بندہ بن کر رہنے ہی کا نام عبادت ہے۔ کہنے کو تو یہ چھوٹی سی بات ہے اور بڑی آسانی کے ساتھ اسے زبان سے ادا کر دیا جاسکتا ہے، مگر عملاً آدمی کی ساری زندگی کا اپنے تمام گوشوں کے ساتھ عبادت بن جانا آسان کام نہیں، اس کے لیے بڑی زبردست ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خاص طور پر ذہن کی تربیت کی جائے۔ مضبوط کیریکٹر پیدا کیا جائے۔ عادات اور خصائل کو ایک سانچے میں ڈھالا جائے، اور صرف انفرادی سیرت ہی کی تعمیر پر اکتفا نہ کر لیا جائے، بلکہ ایک ایسا اجتماعی نظام قائم کیا جائے جو بڑے پیمانہ پر افراد کو اس عبادت کے لیے تیار کرنے والا ہو، اور جس میں جماعت کی طاقت فرد کی پشت پناہ، اس کی مددگار اور اس کی کم زوریوں کی تلافی کرنے والی ہو۔ یہی غرض ہے جس کے لیے اسلام میں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی عبادتیں فرض کی گئی ہیں۔ انھیں عبادت کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بس یہی عبادت ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اس اصلی عبادت کے لیے آدمی کو تیار کرتی ہیں۔ یہ اس کے لیے لازمی ٹریننگ کورس ہیں۔ انھی سے وہ مخصوص ذہنیت بنتی ہے، اس خاص کیریکٹر کی تشکیل ہوتی ہے، منظم عادات و خصائل کا وہ پختہ سانچا بنتا ہے، اور اس اجتماعی نظام کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں جس کے بغیر انسان کی زندگی کسی طرح عبادت الٰہی میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔ ان چار چیزوں کے سوا اور کوئی ذریعہ ایسا نہیں ہے جس سے یہ مقصد حاصل ہوسکے۔ اسی بنا پر انھیں ارکان({ FR 660 }) اسلام قرار دیا گیا ہے۔ یعنی یہ وہ ستون ہیں جن پر اسلامی زندگی کی عمارت قائم ہوتی اور قائم رہتی ہے۔
آئیے، اب ہم دیکھیں کہ ان میں سے ایک ایک رکن اسلامی زندگی کی عمارت کو کس طرح قائم کرتا ہے، اور کس طرح انسان کو اس بڑی عبادت کے لیے تیار کرتا ہے جس کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے۔

نماز

یاد دہانی
انسان کی زندگی کو عبادت میں تبدیل کرنے کے لیے سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اس کے ذہن میں اس بات کا شعور ہر وقت تازہ، ہر وقت زندہ اور ہر وقت کارفرما رہے کہ وہ خدا کا بندہ ہے۔ اور اسے دنیا میں سب کچھ بندہ ہونے کی حیثیت ہی سے کرنا ہے۔ اس شعور کو بار بار ابھارنے اور تازہ کرنے کی ضرورت اس لیے لاحق ہوتی ہے کہ انسان درحقیقت جس کا بندہ ہے وہ تو اس کی آنکھوں سے اوجھل اور اس کے حواس سے دور ہے، لیکن اس کے برعکس ایک شیطان خود آدمی کے اپنے نفس میں موجود ہے جو ہر وقت کہتا رہتا ہے کہ تو میرا بندہ ہے اور لاکھوں کروڑوں شیطان ہر طرف دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں جن میں سے ہر ایک دعوٰی کرتا ہے کہ تو میرا بندہ ہے۔ یہ شیاطین آدمی کو محسوس ہوتے ہیں، نظر آتے ہیں اور ہر آن نت نئے طریقوں سے اپنی طاقت اسے محسوس کراتے رہتے ہیں۔ ان دو گونہ اسباب سے یہ شعور کہ میں خدا کا بندہ ہوں اور اس کے سوا مجھے کسی کی بندگی نہیں کرنی ہے، آدمی کے ذہن سے گم ہو جاتا ہے۔ اسے زندہ اور کارفرما رکھنے کے لیے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ انسان خدا کی خدائی کا زبان سے اقرار کرلے، یا محض ایک علمی فارمولا کی حیثیت سے اسے سمجھ لے، بلکہ اس کے لیے قطعاً ناگزیر ہے کہ اسے بار بار اُبھارا اور تازہ کیا جائے۔ یہی کام نماز کرتی ہے۔ صبح اٹھتے ہی سب کاموں سے پہلے وہ آپ کو یہی بات یاد دلاتی ہے۔ پھر جب آپ دن کو اپنے کام کاج میں مشغول ہوتے ہیں تو وہ ہنگامۂ سعی و عمل کے دوران میں دو دفعہ آپ کو تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے الگ کھینچ بلاتی ہے تاکہ احساس بندگی کا نقش اگر دھندلا ہو گیا ہو تو اسے تازہ کر دے۔ پھر شام کو جب تفریحوں اور دل چسپیوں کا وقت آتا ہے تو پھر یہ آپ کو آگاہ کرتی ہے کہ تم خدا کے بندے ہو شیطان نفس کے بندے نہیں ہو۔ اس کے بعد رات آتی ہے، وہ رات جسے اندر کا شیطان اور باہر کے شیاطین، سب مل کر معصیتوں سے سیاہ کر دینے کے لیے دن بھر منتظر رہتے ہیں۔ نماز پھر آپ کو خبردار کرتی ہے کہ تمھارا کام خدا کی بندگی کرنا ہے نہ کہ ان شیاطین کی۔
یہ نماز کا پہلا فائدہ ہے۔ اسی بنا پر اسے قرآن میں ذکر کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس کے معنی یاد دہانی کے ہیں۔ اگر نماز میں اس کے سوا اور کچھ نہ ہوتا، تب بھی صرف یہی ایک صفت اسے رکن اسلام قرار دینے کے لیے کافی تھی۔ کیوں کہ اس فائدے کی اہمیت پر جتنا زیادہ غور کیا جائے اتنا ہی زیادہ اس امر کا یقین حاصل ہوتا ہے کہ آدمی کا عملاً بندۂ خدا بن کر رہنا اس یاد دہانی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

فرض شناسی

پھر چونکہ آپ کو اس زندگی میں ہر قدم پر خدا کے احکام بجا لانا ہیں، خدا کی سپرد کی ہوئی خدمات اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کی نگاہ داشت کے ساتھ انجام دینی ہیں، اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ میں فرض شناسی پیدا ہو اور فرض کو مستعدی اور فرماں برداری کے ساتھ انجام دینے کی عادت آپ کی فطرت ثانیہ بن جائے۔ جو شخص یہ جانتا ہی نہ ہو کہ فرض کیا بلا ہوتی ہے اور اس کا فرض ہونا کیا معنی رکھتا ہے، ظاہر ہے کہ وہ کبھی ادا ئے فرض کے قابل نہیں ہوسکتا، اسی طرح جو شخص فرض کے معنی تو جانتا ہو مگر اس کی تربیت اتنی خراب ہو کہ فرض کو فرض جاننے کے باوجود اسے ادا کرنے کی پروا نہ کرے، اس کے کیریکٹر پر کوئی اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اور نہ وہ کسی عملی خدمت (active service)کا اہل ہوسکتا ہے، پس یہ بالکل ناگزیر ہے کہ جن لوگوں کو کسی ذمہ دارانہ خدمت پر مامور کیا جائے، ان کے لیے فرض شناس اور اطاعت امر کی تربیت کا بھی انتظام کیا جائے۔ اس کا فائدہ صرف یہی نہیں ہے کہ کام کے آدمی تیار ہوتے رہتے ہیں بلکہ اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ روزانہ کار آمد اور ناکارہ آدمیوں کے درمیان تمیز ہوتی رہتی ہے۔ روز یہ فرق کھلتا رہتا ہے کہ جو لوگ خدمت کے امیدوار ہیں ان میں کون قابل اعتماد ہے اور کون نہیں ہے۔ تمام عملی خدمات کے لیے یہ قطعاً ضروری ہے کہ ہمیشہ بالالتزام عملی آزمایش (practical test)پر آدمیوں کو پرکھا جاتا رہے تاکہ ناقابل اعتماد آدمی ملازمت میں نہ رہنے پائیں۔
فوج کو دیکھیے، کن کن طریقوں سے وہاں ڈیوٹی کو سمجھنے اور اسے ادا کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔ رات دن میں کئی کئی باربگل بجایا جاتا ہے۔ سپاہیوں کو ایک جگہ حاضر ہونے کا حکم دیا جاتا ہے، ان سے قواعد کرائے جاتے ہیں۔ یہ سب کس لیے؟ اس کا پہلا مقصد یہ ہے کہ سپاہیوں کو حکم بجالانے کی عادت ہو۔ ان میں فرض شناسی کا مادہ پیدا ہو۔ ان میں ایک نظام اور تربیت کے ساتھ کام کرنے کی خصلت پیدا ہو۔ اور اس کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ روزانہ سپاہیوں کی آزمایش کی جاتی رہے، روز یہ فرق کھلتا رہے کہ جو لوگ فوج میں بھرتی ہوئے ہیںان میں سے کون کام کے آدمی ہیں اور کون ناکارہ ہیں۔ جو سست اور نالائق لوگ بگل کی آواز سن کر گھر بیٹھے رہیں یا قواعد میں حکم کے مطابق حرکت نہ کریں انھیں پہلے ہی فوج سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ ان پر یہ بھروسا نہیں کیا جاسکتا کہ جب کام کا وقت آئے گا تو وہ فرض کی پکار پر لبیک کہیں گے۔
دنیوی فوجوں کے لیے تو کام کا وقت کبھی برسوں میں آتا ہے، اور اس کے لیے یہ اہتمام ہے کہ روزانہ سپاہیوں کی تربیت اور ان کی آزمایش کی جاتی ہے مگر اسلام جو فوج بھرتی کرتا ہے اس کے لیے ہر وقت کام کا وقت ہے۔ وہ ہر وقت برسرکار (on duty) ہے۔ اس کے لیے ہر وقت معرکۂ کار زار گرم ہے۔ اسے زندگی میں ہر آن ہر لمحہ فرائض ادا کرنا ہیں، خدمات بجا لانی ہیں، شیطانی قوتوں سے لڑنا ہے، حدود اللہ کی حفاظت کرنی ہے، اور احکام شاہی کو نافذ کرنا ہے۔ اسلام محض ایک اعتقادی مسلک نہیں ہے بلکہ عملی خدمت ہے اور عملی خدمت بھی ایسی جس میں رخصت، تعطیل اور آرام کا کوئی وقت نہیں۔ رات دن کے چوبیس گھنٹے پیہم اور مسلسل خدمت ہی خدمت ہے۔ اب فوج کی مثال کو سامنے رکھ کر اندازہ کیجیے کہ ایسی سخت عملی خدمت کے لیے کتنے سخت ڈسپلن ، کیسی زبردست تربیت اور کتنی شدید آزمایش کی ضرورت ہے۔ محض عقیدہ (creed)کا زبانی اقرار اس کے لیے کیوں کر کافی ہوسکتا ہے کہ ایک شخص اس فوج میں رکھ لیا جائے جسے اتنی اہم خدمت انجام دینا ہے۔ عقیدے کا اقرار تو صرف اس ملازمت میں داخل ہونے کے لیے امیدواری کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کے بعد یہ قطعاً ناگزیر ہے کہ اسے ڈسپلن کے شکنجہ میں کسا جائے۔ اس ڈسپلن میں رہ کر ہی وہ اسلام کے کام کا بن سکتا ہے۔ اور اگر وہ اپنے آپ کو اس شکنجہ کی گرفت میں دینے پر تیار نہیں، اگر وہ فرض کی پکار پر نہیں آتا، اگر وہ احکام کی اطاعت کے لیے کوئی مستعدی اپنے اندر نہیں رکھتا تو وہ اسلام کے لیے قطعی ناکارہ ہے۔ خدا اور اس کے دین کو ایسے فضول آدمی کی کوئی حاجت نہیں۔
یہی دو گونہ اغراض ہیں جن کے لیے نماز رات دن میں پانچ وقت فرض کی گئی ہے۔ یہ روزانہ پانچ باربگل بجاتی ہے تاکہ اللہ کے سپاہی اسے سن کر ہر طرف سے دوڑے چلے آئیں اور ثابت کریں کہ وہ فرض کو پہچانتے ہیں۔ اللہ کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہیں، اور اس کے احکام بجا لانے کے لیے مستعد ہیں۔ اس طریقہ سے ایک طرف سپاہیوں کی تربیت ہوتی ہے اور دوسری طرف مومن اور منافق کا فرق کھلتا رہتا ہے۔ جو لوگ اس آواز پر پابندی کے ساتھ آتے ہیں اور ضابطہ کے مطابق حرکت کرتے ہیں، ان میں فرض شناسی، مستعدی، انضباط اور اطاعت امر کا مادہ نشوونما پاتا ہے۔ بخلاف اس کے جو لوگ اس آواز کو سن کر اپنی جگہ سے نہیں ہلتے وہ اپنے عمل سے ثابت کر دیتے ہیں کہ یا تو وہ فرض کو پہچانتے نہیں، یا پہچانتے ہیں تو اسے ادا کرنے کے لیے مستعد نہیں ہیں۔ یا تو وہ اس اقتدار (authority)ہی کو تسلیم نہیں کرتے جس نے اسے فرض قرار دیا ہے، یا پھر ان کی ذہنی حالت اتنی ناقص ہے کہ جسے اپنا الٰہ اور رب مانتے ہیں اس کے پہلے اور اہم ترین حکم کو بجا لانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اگر ایمان رکھتے بھی ہیں تو صادق الایمان (true to their conviction) نہیں ہیں۔ ان میں یہ صفت اور صلاحیت موجود نہیں ہے کہ جس چیز کو حق جانیں اس کے مطابق عمل کرنے کی زحمت بھی اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ پہلی صورت میں وہ مسلمان نہیں ہیں اور دوسری صورت میں وہ اتنے نالائق اور ناکارہ ہیں کہ اسلامی جماعت میں رہنے کے قابل نہیں۔
اسی بنا پر قرآن میں نماز کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ
وَاِنَّہَا لَكَبِيْرَۃٌ اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْنَo البقرہ 45:2
بے شک یہ (نماز) ایک مشکل کام ہے، مگر فرماں برداروں کے لیے مشکل نہیں۔
یعنی جو لوگ خدا کی اطاعت و بندگی کے لیے تیار نہیں ہیں صرف انھی پر نماز گراں گزرتی ہے۔ بالفاظ دیگر جس پر نماز گراں گزرے وہ خود اس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ خدا کی بندگی و اطاعت کے لیے تیار نہیں ہے۔
اسی بنا پر ارشاد ہوا کہ:
فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ۝۰ۭ التوبہ 11:9
اگر وہ کفر و شرک سے توبہ کریں اور نماز کے پابند ہوں اور زکوٰۃ دیں تب وہ تمھارے دینی بھائی ہیں۔
یعنی نماز کے بغیر آدمی اسلام کی دینی برادری میں شامل ہی نہیں ہوسکتا۔ اس بنا پر قرآن کے بارے میں فرمایا کہ:
ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَo الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَo البقرہ 2-3:2
یہ کتاب صرف ان خدا ترس لوگوں کے لیے ہدایت ہے جو ان دیکھی حقیقت پر ایمان لائیں اور نماز کے پابند بنیں اورجو رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے راہ خدا میں دیں۔
اسی بنا پر منافقین کی یہ صفت بیان کی گئی کہ:
وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى۝۰ۙ النسائ 142:4
یعنی وہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو اس طرح کسمساتے ہوئے بادل ناخواستہ اٹھتے ہیں کہ گویا ان کی جان پر بن رہی ہے۔
اور
الَّذِيْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَo الماعون 5:107
یعنی وہ اپنی نمازوں سے غافل ہوتے ہیں۔
اسی بنا پر حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ:
بین العبد وبین الکفر ترک الصلوٰۃ۔ (مسلم، کتاب الصلوٰۃ)
بندے اور کفر کے درمیان ترک صلوٰۃ واسطہ ہے۔
یعنی ترکِ صلوٰۃ وہ پل ہے جسے عبور کرکے آدمی ایمان سے کفر کی طرف جاتا ہے۔
اسی بنا پر رحمۃً للعالمینؐ نے فرمایا کہ ’’جو لوگ اذان کی آواز سن کر گھروں سے نہیں نکلتے، میرا جی چاہتا ہے کہ جاکر اُن کے گھروں میں آگ لگادوں۔‘‘
اور اسی بنا پر فرمایا کہ:
العھد بیننا و بینھم الصلوٰۃ فمن ترکہا فقد کفر۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
ہمارے اور عرب کے بدوئوں کے درمیان تعلق کی بنا نماز ہے۔جس نے اسے چھوڑ دیا وہ کافر قرار پائے گا اور اس سے ہمارا تعلق ٹوٹ جائے گا۔
آج دین سے قطعی ناواقفیت کا نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ نماز نہیں پڑھتے، جو اذان کی آواز سن کر ٹس سے مس نہیں ہوتے، جنھیں یہ محسوس تک نہیں ہوتا کہ مؤذِ ن کسے بلا رہا ہے اور کس کام کے لیے بلا رہا ہے، وہ مسلمان سمجھے جاتے ہیں، اور یہ خیال عام ہوگیا ہے کہ نماز کی کوئی اہمیت اسلام میں نہیں ہے، اس کے بغیر بھی آدمی مسلمان ہوسکتا ہے بلکہ مسلمانوں کا امام اور ملت کا قائد بھی ہوسکتا ہے۔ مگر جب اسلام ایک تحریک کی حیثیت سے زندہ تھا، اس وقت یہ حال نہ تھا۔ مستند روایت ہے کہ:
کان اصحاب النبی صلعم لایرون شیئًا من الاعمال ترکہ کفر غیر الصلوٰۃ۔
(ترمذی)
یعنی نبی ﷺ کے صحابہ میں یہ بات متفق علیہ تھی کہ اسلامی اعمال میں سے صرف نماز ہی وہ عمل ہے جسے چھوڑ دینا کُفر ہے۔

تعمیر سیرت

نماز کا تیسرا اہم کام یہ ہے کہ وہ انسان کی سیرت کو اس خاص ڈھنگ پر تیار کرتی ہے جو اسلامی زندگی بسر کرنے، یا بالفاظ دیگر زندگی کو خدا کی عبادت بنا دینے کے لیے ضروری ہے۔
دنیا میں ہر جگہ آپ دیکھتے ہیں کہ جیسا کام کسی جماعت کو کرنا ہوتا ہے، جیسے مقاصد اس کے پیش نظر ہوتے ہیں انھی کے لحاظ سے سیرت بنانے کے لیے ایک نظام تربیت وضع کیا جاتا ہے۔ مثلاً: سلطنتوں کی سول سروس کا مقصد وفاداری کے ساتھ ملک کا انتظام کرنا ہوتا ہے، اس لیے سول سروس کی ٹریننگ میں تمام تر زور حکومت مقتدرہ کی وفاداری اور نظم مملکت (administration) کی صلاحیتیں پیدا کرنے ہی پر صرف کیا جاتا ہے۔تقوٰی اور طہارت کا وہاں کوئی سوال نہیں ہوتا۔ پرائیویٹ زندگی خواہ کتنی ہی گندی کیوں نہ ہو، ایک شخص اس کے باوجود سول سروس میں داخل ہوسکتا اور ترقی کرسکتا ہے۔ کیوں کہ حکومت میں راستی اور حق کے اصولوں کی پابندی کرنا اور اخلاق کو سیاست کی بنیاد بنانا سرے سے پیش نظر ہی نہیں ہے۔ اسی طرح فوجوں کی تنظیم کا مقصد جنگ کی قابلیت بہم پہنچانا ہوتا ہے۔ اس لیے سپاہیوں کی تربیت محض اس نقطۂ نظر سے کی جاتی ہے کہ انھیں مار دھاڑ کے لیے تیار ہونا ہے۔ انھیں پریڈ کرائی جاتی ہے تاکہ وہ منظم صورت میں کام کر سکیں۔ انھیں اسلحہ کا استعمال سکھایا جاتا ہے تاکہ کشت و خون کے فن میں ماہر ہو جائیں۔ انھیں اطاعت امر کا خوگر بنایا جاتا ہے تاکہ حکومت جہاں اور جس غرض کے لیے بھی ان کے دست و بازو سے کام لینا چاہے وہاں وہ بے تامل کام کریں۔ اس کے ماسوا کوئی بلند تر اخلاقی مقصد چونکہ پیش نظر نہیں ہوتا اس لیے فوجوں کی سیرت میں تقوٰی پیدا کرنے کا خیال تک کسی کو نہیں آتا۔ سپاہی اگر ڈسپلن کے پابند ہیں تو حکومت کے مقصد کے لیے بس یہی کافی ہے۔ اس کے بعد کچھ پروا نہیں اگر وہ زانی، شرابی، جھوٹے، بددیانت اور ظالم ہوں۔
اسلام اس کے برعکس ایک ایسی جماعت تیار کرنا چاہتا ہے جس کا مقصد اول نیکی کو قائم کرنا اور بدی کو مٹانا ہے، جسے سیاست، عدالت، تجارت، صنعت، صلح و جنگ، بین الاقوامی تعلقات، غرض تمدن کے ہر شعبے میں اخلاق کے مستقل اصولوں کی پابندی کرنی ہے، جسے زمین پر خدا کے قانون کو نافذ کرنا ہے۔ اس لیے وہ اپنے اہل کار، سپاہی اور افسر ایک دوسرے نظام تربیت کے تحت تیار کرتا ہے تاکہ ان کے اندر وہ سیرت پیدا ہو جو اس خاص نوعیت کی خدمت سے مناسبت رکھتی ہے۔ اس سیرت کی بنیاد اسلام کے ایمانیات ہیں۔ خدا کا خوف، اس کی محبت، اس کا عشق، اس کی خوشنودی کو مقصد زندگی قرار دینا، اسے حاکم اصلی سمجھنا، اس کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ خیال کرنا، اور یہ جاننا کہ ایک روز وہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے، یہی وہ اساسی تصورات ہیں جن پر اسلامی سیرت کی بنا قائم ہوتی ہے۔ مسلمان اسلام کے طریقہ پر ایک قدم نہیں چل سکتا جب تک کہ اسے یہ یقین نہ ہو کہ خدا ہر وقت ہر جگہ ہر حال میں اسے دیکھ رہا ہے، اس کی ہر ہر حرکت سے باخبر ہے، اندھیرے میں بھی اسے دیکھتا ہے، تنہائی میں بھی اس کے دل میں جو نیت چھپی ہوئی ہے اسے بھی وہ جانتا ہے، اس کے دماغ میں جو خیالات اور ارادے پیدا ہوتے ہیں ان سے بھی وہ ناواقف نہیں، تمام دنیا سے چھپ جانا ممکن ہے مگر خدا سے چھپنا غیر ممکن، تمام دنیا کی سزائوں سے آدمی بچ سکتا ہے مگر خدا کی سزا سے نہیں بچ سکتا، دنیا میں نیکی ضائع ہوسکتی ہے بلکہ نیکی کا بدلہ بدی کی صورت میں مل سکتا ہے مگر خدا کے ہاں یہ ممکن نہیں، دنیا کی نعمتیں محدود ہیں مگر خدا کی نعمتیں بے حد و حساب ہیں دنیا کا نفع و نقصان فانی و آنی ہے مگر خدا کے ہاں جو نفع یا نقصان ہے وہ پائدار ہے۔ یہی یقین آدمی کو خدا کے احکام کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی کے لیے تیار کرتا ہے۔ اسی اعتقاد کے زور سے وہ حلال و حرام کی ان حدود کا لحاظ رکھنے پر آمادہ ہوتا ہے جو خدا نے زندگی کے معاملات میں قائم کی ہیں۔ یہی چیز اسے خواہشات کی بندگی سے، ناجائز منفعتوں اور لذتوں کے لالچ سے اور بداخلاقی کے مفید مطلب ذرائع اختیار کرنے سے روکتی ہے۔ اسی عقیدے میں یہ طاقت ہے کہ آدمی کو عدل، صداقت، حق شناسی و حق پرستی اور مکارم اخلاق کی صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے، اور اسے دنیا کی اصلاح کے اس کٹھن کام پر اٹھنے کے لیے آمادہ کرے جس کی دُشواریوں اور ذمہ داریوں کا تصور بھی کوئی غیر مومن انسان برداشت نہیں کرسکتا۔
نماز وہ چیز ہے جو ان تصورات کو بار بار تازہ کرتی اور ذہن میں گہری جڑوں کے ساتھ بٹھاتی رہتی ہے۔ اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو کہ نماز کا ارادہ کرنے کے ساتھ ہی اسلامی سیرت کی تعمیر کا عمل شروع ہو جاتا ہے، اور پھر ایک ایک حرکت، ایک ایک فعل، اور ایک ایک قول جو نماز سے متعلق ہے، کچھ اس طور پر رکھا گیا ہے کہ اس سے خود بخود آدمی کی سیرت اسلام کے سانچے میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔
دیکھیے! نماز کا ارادہ کرتے ہی سب سے پہلے آپ اپنا جائزہ لیتے ہیں کہ ناپاک تو نہیں ہوں؟ کپڑے تو نجس نہیں ہیں؟ وضو ہے یا نہیں؟ غور کیجیے یہ خیال آپ کو کیوں آتا ہے؟ اگر آپ نجس حالت میں نماز کے لیے کھڑے ہوں، یا بے وضو کھڑے ہوجائیں تو کون آپ کو پکڑ سکتا ہے، کسے آپ کے حال کی خبر ہوسکتی ہے؟ پھر آپ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ اس کی وجہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ آپ کو خدا کا خوف ہے، اس بات کا یقین ہے کہ اس سے کوئی راز نہیں چھپ سکتا اور اس پر ایمان ہے کہ آخرت میں اس فعل کا جواب دینا پڑے گا۔ یہی چیز آپ سے طہارت اور وضو کے ان تمام قواعد و ضوابط کی پابندی کراتی ہے جو نماز کے لیے مقرر کیے گئے ہیں، ورنہ کوئی دنیوی طاقت ایسی موجود نہیں ہے جو آپ سے ان کی پابندی کرانے والی ہو۔
اس کے بعد آپ نماز شروع کرتے ہیں۔ یہاں آپ کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ قیام وقعود اور رکوع و سجود کی حالتوں میں قرآن کی آیات یا دعائیں یا تسبیحیں جس جس طرح پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح انھیں پڑھیں، آخر یہ پابندی آپ کیوں کرتے ہیں؟ یہ ساری چیزیں تو آہستہ پڑھی جاتی ہیں۔ اگر آپ انھیں نہ پڑھیں یا ان کی جگہ کچھ اور پڑھ دیں، یا ان میں اپنی طرف سے کچھ الٹی سیدھی باتیں ملا دیں تو کسی کو بھی آپ کے اس فعل کی خبر نہیں ہوسکتی۔ پھر بتائیے کس کا خوف کس کے واقف اسرار ہونے کا یقین اور کس کی جزا و سزا پر ایمان آپ کو ٹھیک ٹھیک نماز ادا کرنے پر مجبور کرتا ہے؟
نماز کے اوقات آپ پر مختلف حالتوں میں آتے ہیں۔ کبھی آپ جنگل میں ہوتے ہیں، کبھی رات کے اندھیرے میں، کبھی گھر کی تنہائی میں کبھی اپنی دل چسپ تفریحوں میں مشغول ہوتے ہیں اور کبھی اپنے کاروبار میں منہمک، کبھی سردی کی شدت لحاف سے سرنکالنے کی اجازت تک نہیں دیتی اور کبھی چلچلاتی دھوپ گھر سے قدم نکالتے ہی بھون ڈالنے پر آمادہ ہوتی ہے۔ غرض اسی طرح بے شمار مختلف حالتیں آپ پر رات دن میں آتی رہتی ہیں۔ ان سب حالتوں میں کون سی طاقت آپ کو نماز کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہے؟ اگر وہ خدا پر ایمان، اس کے سمیع و علیم ہونے کا یقین، اس کی ناراضی کا خوف اور اس کی رضا کی طلب نہیں تو اور کیا ہے؟ ضروری نہیں کہ یہ سب تصورات آپ کے شعور جلی ہی میں تازہ رہیں۔ سیرت دراصل ان تصورات سے بنتی ہے جو شعورِ خفی میں پیوستہ ہوتے ہیں۔ شعُور کی گہرائی میں جو تصور اتر جاتا ہے وہی حقیقت میں مستحکم ہوتا ہے اور اسی سے مستقل خصائل اور اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔
اب ذرا ان چیزوں پر نظر ڈالیے جو نماز میں پڑھی جاتی ہیں۔ ان میں اول سے لے کر آخر تک ایک ایک لفظ ایسا ہے جو اسلام کے بنیادی تصورات اور اس کی اسپرٹ سے لبریز ہے۔ ان مضامین کو بار بار پڑھنے سے وہ تمام ایمانیات بار بار تازہ اور بار بار ذہن نشین ہوتے رہتے ہیں جن پر اسلامی سیرت کی عمارت کھڑی کی گئی ہے:
سب سے پہلے اذان کو لیجیے۔ روزانہ پانچ وقت آپ کو کن الفاظ میں نماز کی اطلاع دی جاتی ہے؟
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔
اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔
اَشْھَدُ اَنْ لاَّ ٓ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ کوئی اس لائق نہیں کہ اس کی بندگی کی جائے۔
اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔
حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃِ۔
آئو نماز کے لیے۔
حَیَّ عَلَی الْفَلاَ حِ۔
آئو اس کام کے لیے جس میں فلاح اور بہبودگی ہے۔
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔
اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔
لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ۔
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
دیکھو! یہ کیسی زبردست پکار ہے۔ ہر روز پانچ مرتبہ یہ آواز کس طرح تمھیں یاد دلاتی ہے کہ زمین میں جتنے خدائی کے دعوے دار پھر رہے ہیں، یہ سب جھوٹے ہیں۔ زمین و آسمان میں صرف ایک ہی ہستی ہے جس کے لیے بڑائی ہے۔ اور وہی عبادت کے لائق ہے، آئو اس کی عبادت کرو، اسی کی عبادت میں تمھارے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔ کون ہے جو اس آواز کو سن کر ہل نہ جائے گا! کیوں کر ممکن ہے کہ جس کے دل میں ایمان ہو، وہ اتنی بڑی بات کی گواہی اور ایسی زبردست پکار کو سن کر اپنی جگہ بیٹھا رہ جائے اور اپنے مالک کے آگے سر جھکانے کے لیے دوڑ نہ پڑے۔
اس کے بعد تم نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہو۔ منہ قبلہ کے سامنے ہے۔ پاک صاف ہو کر بادشاہِ عالم کے دربار میں حاضر ہو۔ سب سے پہلے تم کانوں تک ہاتھ اُٹھاتے ہو، گویا دنیا و مافیہا سے دست بردار ہو رہے ہو،({ FR 661 }) پھر اللہ اکبر کہ کر ہاتھ باندھ لیتے ہو،({ FR 662 }) گویا اب بالکل اپنے بادشاہ کے سامنے مؤدب دست بستہ کھڑے ہو۔ اب تمھاری زبان سے یہ الفاظ نکلتے ہیں:
اِنِّىْ وَجَّہْتُ وَجْہِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَo الانعام 79:6
میں نے یک سُو ہو کر اپنا رُخ اس ذات کی طرف پھیر دیا جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا ہے۔ اور میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو خدائی میں کسی کو اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔
اس دو ٹوک بات کا اقرار کرکے تم کیا عرض و معروض کرتے ہو؟
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَآ اِلٰہَ غَیْرُکَ ط
پاک({ FR 663 }) ہے تو اے خدا۔ تعریف و ستائش ہے تیرے لیے۔ برکت والا ہے۔ تیرا نام سب سے بلند و بالا ہے تیری بزرگی۔ اور کوئی معبود نہیں تیرے سوا۔
اَعْوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِo
خدا کی پناہ مانگتا ہوں میں شیطان مردود کی دراندازی و شرارت سے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِo
شروع کرتا ہوں میں اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo
تعریف خدا کے لیے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ o
نہایت رحمت والا اور بڑا مہربان ہے۔
مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِo
روز جزا کا حاکم ہے۔
اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُo
مالک! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَo
ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔
صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ
اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے فضل و انعام فرمایا ہے۔
غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّيْنَo
جن سے تو ناراض نہیں ہے اور جو راہ راست سے بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔
اٰمِیْن۔
خدایا ایسا ہی ہو، مالک ہماری اس دعا کو قبول کر۔
اس کے بعد تم قرآن کی کچھ آیتیں پڑھتے ہو جن میں سے ہر ایک میں اسلام کے اساسی اصول، اس کی اخلاقی تعلیمات، اس کی عملی ہدایات بیان کی گئی ہیں۔ اور اس راہِ راست کے نشانات دکھائے گئے ہیں جس کی طرف راہ نُمائی کی درخواست ابھی اس سے پہلے تم نے کی ہے۔ مثلاً:
وَالْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍo
زمانہ کی قسم (یعنی زمانہ اس بات پر گواہ ہے) کہ آدمی نقصان میں ہے۔
اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اورجنھوں نے نیک عمل کیے۔
وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ۝۰ۥۙ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o العصر103:3-1
اور جو ایک دوسرے کو حق پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے رہے۔
ان مختصر جملوں میں انسان کو بتایا گیا ہے کہ تو بربادی و نامرادی سے بچ نہیں سکتا، جب تک کہ خدا پرستی و نیک عملی اختیار نہ کرے، اور صرف انفرادی نیکی ہی کافی نہیں ہے، بلکہ تیری فلاح کے لیے ناگزیر ہے کہ تیری سوسائٹی ایسی ہو جس میں حق پرستی کی روح کار فرما ہو۔ تیری اپنی تاریخ اس حقیقت پر گواہی دے رہی ہے۔ یا مثلاً:
اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِo فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَo وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِo فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَo الَّذِيْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَo الَّذِيْنَ ہُمْ يُرَاۗءُوْنَo وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَo الماعون 1-7:107
تو نے دیکھا اس شخص کو جو روز جزا کو نہیں مانتا (وہ کیسا آدمی ہوتا ہے)ایسا ہی آدمی یتیم کو دھتکارتا ہے۔اور مسکین کو آپ کھانا کھلانا تو درکنار دوسروں سے بھی یہ کہنا پسند نہیں کرتا کہ غریب کو کھانا کھلائو۔’’پھر افسوس ہے ان نمازیوں پر جو (آخرت کو نہ ماننے ہی کی وجہ سے) نماز سے غفلت کرتے ہیں اور پڑھتے بھی ہیں تو محض لوگوں کو دکھانے کے لیے اور ان کے دل ایسے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ذرا ذرا سی چیزیں حاجت مندوں کو دیتے ہوئے بھی ان کا دل دکھتا ہے۔
ان چھوٹے چھوٹے پر اثر فقروں میں یہ بات ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ آخرت کا اعتقاد آدمی کی اخلاقی زندگی میں کیا اثر رکھتا ہے، اور اس عقیدے پر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے آدمی کا اجتماعی برتائو اور انفرادی رویہ کس طرح خلوص اور ہم دردی سے خالی ہو جاتا ہے۔
یا مثلاً:
وَيْلٌ لِّكُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۨo الَّذِيْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗo يَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗٓ اَخْلَدَہٗo كَلَّا لَيُنْۢبَذَنَّ فِي الْحُطَمَۃِo وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْحُطَمَۃُo نَارُ اللہِ الْمُوْقَدَۃُo الَّتِيْ تَطَّلِعُ عَلَي الْاَفْــِٕدَۃِo اِنَّہَا عَلَيْہِمْ مُّؤْصَدَۃٌo فِيْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍo الہمزہ 1-9:104
افسوس ہے ہر اس شخص کے حال پر جو دوسروں کی عیب چینی کرتا ہے اور آوازے کستا پھرتا ہے۔ روپیہ جمع کرتا اور گن گن کر رکھتا ہے۔سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ اس کا ساتھ دے گا۔ہرگز نہیں! ایک دن آنے والا ہے جب وہ یقینا حطمہ میں ڈالا جائے گا۔اور تجھے کیا خبر حطمہ کیا چیز ہے۔اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ، جس کی لپٹیں دلوں پر چھا جائیں گی۔وہ اونچے اونچے ستون جیسے شعلوں کی صورت میں انھیں گھیر لے گی۔
یہ محض دو تین نمونے ہیں جن سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہر نماز میں قرآن کا کوئی نہ کوئی حصہ پڑھنا کس لیے لازم کیا گیا ہے۔ اس سے غرض یہی ہے کہ روزانہ کئی کئی وقت خدا کے احکام، اس کی ہدایات اور اس کی تعلیمات بار بار آدمی کو یاد دلائی جاتی رہیں۔ یہ دنیا ’’یہ دارُالعمل‘‘ جس میں کام کرنے کے لیے انسان بھیجا گیا ہے، اسی طرح درست رہ سکتی ہے کہ اس کے اندر کام کرنے کے دوران میں آدمی کو تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد الگ بلایا جاتا رہے تاکہ یہاں جس قانون اورجس ہدایت نامے (instrument of instructions)کے مطابق اسے کام کرنا ہے اس کی دفعات اس کی یاد میں تازہ ہوتی رہیں۔
ان ہدایتوں کے پڑھنے کے بعد تم اللہ اکبرکہتے ہوئے رکوع میں جاتے ہو۔ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے بادشاہ کے آگے جھکتے ({ FR 664 }) ہو اور بار بار کہتے ہو۔
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ۔
پاک ہے میرا رب جو بڑا بزرگ ہے۔
پھر سیدھے کھڑے ہو جاتے ہو اور کہتے ہو۔
سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘۔
اللہ نے سن لی اس شخص کی بات جس نے اس کی تعریف بیان کی۔
پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدہ میں گر({ FR 665 }) جاتے ہو اور بار بار کہتے ہو۔
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی۔
پاک ہے میرا مالک جو سب سے بالا و برتر ہے۔
پھر اللہ اکبر کہ کر سراٹھاتے ہو، ادب سے بیٹھ جاتے ہو اور یہ الفاظ زبان سے ادا کرتے ہو:
اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبَاتُ۔
ہماری سلامیاں، ہماری نمازیں اور ہمارے تمام اچھے کام اللہ کے لیے ہیں۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ‘۔
سلام ہو آپ پر اے نبیؐ، اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں آپ پر نازل ہوں۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِیْنَ۔
سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے سب نیک بندوں پر۔
اَشْھَدُاَنْ لاَّ ٓاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ‘ وَرَسُوْلُہ‘۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
یہ شہادت دیتے وقت سیدھے ہاتھ کی انگلی اٹھائی جاتی ہے، کیوں کہ یہ نماز میں مسلمان کے عقیدے کا اعلان (declaration)ہے اور اسے زبان سے ادا کرتے وقت خاص طور پر توجہ اور زور دینے کی ضرورت ہے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
خدایا رحمت فرما محمدؐ اور آلِ محمدؐ پر جس طرح تو نے رحمت فرمائی ابراہیم ؑ اور آلِ ابراہیم ؑ پر، تو قابل تعریف اور صاحب عظمت ہے۔
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
خدایا برکت عطا فرما محمدؐ اور آلِ محمدؐ کو جس طرح تو نے برکت دی ابراہیم ؑ اور آلِ ابراہیم ؑ کو تو قابل تعریف اور صاحب عظمت ہے۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ جَھَنَّمَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْمَاثِمِ وَالْمَغْرِمِ۔
خدایا تیری پناہ مانگتا ہوں دوزخ کے عذاب سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں دجال کے فتنہ سے، اور تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنہ سے، اور تیری پناہ مانگتا ہوں، برے اعمال سے، اور دوسروں کے حقوق کی ذمہ داری ہے۔
یہ ہیں وہ عبارتیں جو رات دن کی پانچوں نمازوں میں بہ تکرار دہرائی جاتی ہیں۔ مگر رات کو سونے سے پہلے سب سے آخری نماز کی سب سے آخری رکعت میں ایک اور دعا پڑھی جاتی ہے جس کا نام دعائے قنوت ہے۔ یہ ایک عظیم الشان اقرار نامہ ہے جو سکون کے لمحوں میں بندہ اپنے خدا کے سامنے پیش کرتا ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ الْخَیْرَ وَنَشْکُرُکَ وَلَانَکْفُرُکَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ ط۔ اَللّٰھُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنَسْجُدُ وَاِلَیْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ وَنَخْشٰی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقٌ۔
خدایا ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں۔ تجھ سے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں۔ تجھ پر ایمان لاتے ہیں، تیرے ہی اوپر بھروسا کرتے ہیں۔ اور تیری بہترین تعریف کرتے ہیں۔ ہم تیرا شکر ادا کریں گے، ناشکری نہیں کریں گے۔ جو تیری نافرمانی کرے گا ، ہم اُسے چھوڑ دیں گے اور اس سے تعلق توڑ دیں گے۔ خدایا ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں، تیرے ہی لیے نماز پڑھتے اورسجدہ کرتے ہیں۔ ہماری ساری کوششوں اور ساری دوڑ دھوپ کا مقصود تو ہے۔ ہم تیری رحمت کے امیدوار ہیں۔ اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں کہ یقینا تیرا عذاب کفران نعمت کرنے والوں کو آلے گا۔
یہ عبارتیں کسی شرح و بیان کی محتاج نہیں ہیں۔ ہر شخص ان کے اندر خود دیکھ سکتا ہے کہ اسلام اپنی سول سروس، اپنی فوج اور اپنی سوسائٹی کے ہر فرد کو کن جذبات، کن ارادوں اور کن نیتوں کے ساتھ تربیت کرتا ہے، کیا چیزیں ان کے دل میں بٹھاتا ہے۔ اور کس قسم کی خصلتیں ا ن کے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے۔ محض پریڈ سے تیار کی ہوئی فوج اسلام کے کسی کام کی نہیں۔ محض انتظامی قابلیت رکھنے والی سروس کی بھی اسے حاجت نہیں۔ اسے تو ان سپاہیوں اور ان کارکنوں کی حاجت ہے جن کے اندر باضابطگی کے ساتھ تقوٰی بھی ہو، جو سر کاٹنے اور سر کٹوانے کے ساتھ دل بدلنے اور اخلاق کو ڈھالنے کی طاقت بھی رکھتے ہوں، جو صرف زمین کا انتظام کرنے والے ہی نہ ہوں بلکہ اہل زمین کی اصلاح کرنے والے بھی ہوں۔ اس نقطۂ نظر سے آپ دیکھیے تو آپ کا دل گواہی دے گا کہ اسلامی مقاصد کے لیے نماز کے سوا یا نماز سے بہتر کوئی دوسرا نظام تربیت ممکن نہیں ہے۔ جو شخص اس نظام کے تحت ٹھیک ٹھیک تربیت پائے، اسی سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ امانتوں، ذمہ داریوں اور حقوق اللہ و حقوق العباد کا جو بار دنیوی زندگی میں اس پر ڈالا جائے گا اسے وہ خدا ترسی کے ساتھ سنبھالے گا اور قعر دریا میں رہ کر بھی کبھی دامن تر نہ ہونے دے گا۔
اسی بنا پر قرآن میں دعوٰی کیا گیا ہے کہ:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ۝۰ۭ العنکبوت 45:29
یقینا نماز بے حیائی اور بدی سے روکتی ہے۔
اسی بنا پر قدیم ترین زمانہ سے نماز اسلامی تحریک کا لازمی جز رہی ہے جس قدر انبیا خدا کی طرف سے آئے ہیں ان سب کی شریعت میں نماز اولین رکن اسلام تھی۔ کیوں کہ اسلام کی تحریک میں جب کبھی زوال آیا، نماز کا نظام تربیت ٹوٹ جانے کی وجہ ہی سے آیا۔
فَخَــلَفَ مِنْۢ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّـبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّاo مریم 59:19
پھر ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ آئے جنھوں نے نماز کو ضائع کر دیا اور خواہشات نفس کے پیچھے پڑ گئے، سو عنقریب وہ کج راہی میں مبتلا ہوں گے۔
اس کی وجہ ظاہر ہے۔ اسلام کے طریقے پر چلنے کے لیے اسلامی سیرت ضروری ہے، اور اسلامی سیرت نماز کے نظام تربیت ہی سے بنتی ہے۔ جب یہ نظام ٹوٹے گا تو سیرتیں بگڑ جائیں گی اور اس کا لازمی نتیجہ زوال و انحطاط (degeneration)ہے۔

ضبط ِ نفس

تعمیر سیرت کے ساتھ ساتھ نماز انسان میں ضبط نفس (control)کی طاقت بھی پیدا کرتی ہے جس کے بغیر سیرت کا مدعا حاصل نہیں ہوسکتا۔ تعمیر سیرت کاکام بجائے خود اتنا ہے کہ یہ انسانی خودی (human ego)کو تربیت دے کر مہذب بنا دیتی ہے۔ لیکن اس تربیت یافتہ خودی کو ان جسمانی اور نفسانی قوتوں پر، جو اس کے لیے آلہ کی حیثیت رکھتی ہیں، عملاً پورا قابو حاصل نہ ہو تو اس کی تربیت و تہذیب کا مقصود، یعنی صحیح برتائو اور ٹھیک چلن (right conduct)حاصل نہیں ہوسکتا۔ ایک مثال کے پیرایہ میں اسے یوں سمجھیے کہ انسان ایک موٹر اور ایک ڈرائیور کے مجموعہ کا نام ہے۔ یہ مجموعہ ٹھیک کام اسی حالت میں کرسکتا ہے جب کہ موٹر کے تمام آلات اور اس کی تمام طاقتیں ڈرائیور کے قابو میں ہوں، اور ڈرائیور مہذب، تربیت یافتہ اور واقف راہ ہو۔ اگر آپ نے ڈرائیور کو تربیت دے کر تیار کر دیا، مگر اسٹیرنگ، بریک اور ایکسلریٹر پوری طرح اس کے قابو میں نہ آئے، یا آئے تو سہی مگر ڈھیلے رہے تو اس صورت میں ڈرائیور موٹر کو نہ چلائے گا بلکہ موٹر ڈرائیور کو چلائے گی، اور چونکہ موٹر صرف چلنا جانتی ہے، بینائی، تمیز اور راستہ کی واقفیت نہیں رکھتی، اس لیے جب وہ ڈرائیور کو لے کر چلے گی تو اوندھے سیدھے راستوں پر جدھر چاہے گی اسے کھینچے کھینچے پھرے گی۔اس مثال کے مطابق انسان کی جسمانی طاقتیں، اس کی نفسانی خواہشات اور ذہنی قوتیں موٹر کے حکم میں ہیں، اور اس کی خودی ڈرائیور کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ موٹر ویسی ہی جاہل ہے جیسی لوہے والی موٹر ہوتی ہے، مگر وہ بے جان ہے اور یہ جان دار۔ یہ خواہشات، جذبات اور داعیات بھی رکھتی ہے اور ہر وقت کوشش کرتی رہتی ہے کہ ڈرائیور اسے نہ چلائے، یہ ڈرائیور کو چلائے۔ تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا مقصود ڈرائیور کو اس طرح تیار کرنا ہے کہ وہ اس موٹر کو اپنے اوپر سوار نہ ہونے دے بلکہ خود اس پر سوار ہو اور اسے اپنے اختیار سے چلا کر اس سیدھی شاہ راہ پر سفر کرے جو منزل مقصود کی طرف جاتی ہے۔ اس غرض کے لیے صرف یہی بات کافی نہیں ہے کہ ڈرائیور کو راستہ کا علم، موٹر کا طریق استعمال، مقصد استعمال، اور فی الجملہ ڈرائیوری کے آداب سکھا کر ایک مہذب اور تربیت یافتہ ڈرائیور بنا دیا جائے، بلکہ اس کی بھی ضرورت ہے کہ اسٹیرنگ، بریک اور ایکسلریٹر ہر وقت مضبوطی کے ساتھ کسے ہوئے رکھے جائیں اور ڈرائیور کی گرفت ان پر ڈھیلی نہ ہونے پائے، کیوں کہ یہ منہ زور موٹر ہر وقت بے راہ روی کے لیے زور لگا رہی ہے۔
نماز میں دعائوں اور تسبیحوں کے ساتھ اوقات کی پابندی، طہارت وغیرہ کی شرائط اورجسمانی حرکات کا جوڑ اسی لیے لگایا گیا ہے کہ ڈرائیور اپنی موٹر پر پوری طرح قابو یافتہ رہے اور اسے اپنے ارادے کے تحت چلانے میں مشاق ہو جائے۔ اس طریقہ سے موٹر کی منہ زوری روزانہ پانچ وقت توڑی جاتی ہے، بریک کسے جاتے ہیں، ایکسلریٹر اور اسٹیرنگ مضبوط کیے جاتے ہیں، اور ڈرائیور کی گرفت مستحکم کی جاتی ہے، صبح کا وقت ہے، نیند مزے سے آرہی ہے، آرام طلب نفس کہتا ہے پڑے رہو، اب کہاں اٹھ کر جائو گے۔ نماز کہتی ہے کہ وقت آچکا ہے، سیدھی طرح اٹھو، غسل کی حاجت ہے تو نہائو، ورنہ وضو کرو، جاڑے کا موسم ہے تو ہوا کرے، پانی گرم نہیں ہے، نہ سہی، ٹھنڈے پانی ہی سے طہارت حاصل کرو، اور چلو مسجد کی طرف۔ ان دو متضاد مطالبوں میں سے اگر آپ نے نفس کے مطالبے کو پورا کر دیا تو موٹر آپ پر سوار ہوگئی۔ اگر نماز کے مطالبہ کو پورا کیا تو آپ موٹر پر سوار ہوگئے۔ اسی طرح ظہر، عصر، مغرب، عشا ہر وقت نفس کسی نہ کسی مشغولیت، فائدے، نقصان، لطف، لذت، مشکلات وغیرہ کے بہانے نکالتا ہے، موقع ڈھونڈتا رہتا ہے کہ ذرا آپ کے اندر کم زوری پیدا ہو اور یہ آپ پر سوار ہو جائے۔ مگر نماز ہر موقع پر آپ کے لیے تازیانہ بن کر آتی ہے، آپ کی اونگھتی ہوئی قوت ارادی کو جگاتی ہے، اور آپ سے مطالبہ کرتی ہے کہ اپنی موٹر کو اپنے حکم کا تابع بنائو، اس کے غلام بن کر نہ رہ جائو۔ یہ معرکہ روز پیش آتا ہے۔ مختلف اوقات، مختلف حالتوں اور مختلف صورتوں میں پیش آتا ہے۔ کبھی سفر میں اور کبھی حضر میں، کبھی گرمی میں اور کبھی جاڑے میں۔ کبھی آرام کے وقت اور کبھی کاروبار کے وقت۔ کبھی تفریح کے موقع پر اور کبھی رنج و غم اور مصیبت کے موقع پر۔ ان بے شمار مختلف النوع حالتوں میں نفس کی طلب اور نماز کی پکار کے مابین کش مکش ہوتی ہے، اور آپ آزمایش میں ڈالے جاتے ہیں۔ نفس کی بات آپ نے مانی تو شکست کھا گئے۔ خادم آپ کا آقا بن گیا۔ اندھی، جاہل موٹر کے قابو میں آپ نے اپنے آپ کو دے دیا۔ اب یہ ٹیڑھے بینگے راستوں پر آپ کو لیے لیے پھرے گی اور آپ بے بسی کے عالم میں اس کے ساتھ ساتھ پھرتے رہیں گے۔ بخلاف اس کے اگر آپ نماز کا مطالبہ پورا کرتے رہے تو آپ اس موٹر کا باغیانہ زور توڑ دیں گے۔ اس پر حکم ران بن جائیں گے اور آپ میں یہ طاقت پیدا ہو جائے گی کہ اپنے علم و اذعان اور اپنے ارادے کے مطابق اس کے کل پرزوں اور اس کی قوتوں سے کام لیں۔
اسی بنا پر قرآن نے نماز کے ضائع کرنے کا فوری اور لازمی نتیجہ یہ بیان کیا ہے کہ آدمی شہوات اور خواہشات کا تابع بن جاتا ہے اور سیدھے راستے سے ہٹ کر ٹیڑھے راستوں میں بھٹکتا چلا جاتا ہے۔
فَخَــلَفَ مِنْۢ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّـبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّاo مریم 59:19
پھر ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ آئے جنھوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشات کے پیچھے پڑ گئے۔ لہٰذا عنقریب وہ کج راہی میں مبتلا ہوں گے۔

افراد کی تیاری کا پروگرام

یہاں تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے، یہ نماز کے فوائد و منافع کا صرف ایک پہلو ہے۔ یعنی یہ کہ نماز افراد کس طرح تیار کرتی ہے۔ اب دوسرے پہلو کی طرف توجہ کرنے سے پہلے فرد کی تیاری کے اس پروگرام پر مجموعی نظر ڈال لیجیے۔ اس پروگرام کے پانچ حصے ہیں:
(۱) آدمی کے ذہن میں اس حقیقت کے ادراک کو تازہ رکھنا کہ وہ دنیا میں ایک خود مختار وجود نہیں ہے بلکہ رب العالمین کا بندہ ہے اور یہاں اسی حیثیت سے اسے کام کرنا ہے۔
(۲) بندہ کی حیثیت سے اسے فرض شناس بنانا اور اس میں ادائے فرض کی عادت پیدا کرنا۔
(۳) فرض شناس اور نافرض شناس میں تمیز کرنا اور نافرض شناس افراد کو چھانٹ کر الگ کر دینا۔
(۴) خیالات کا ایک پورا نظام، ایک پوری آئیڈیالوجی آدمی کے ذہن میں اتار دینا اور اسے ایسا مستحکم کرنا کہ ایک پختہ سیرت بن جائے۔
(۵) آدمی میں یہ قوت پیدا کرنا کہ اپنے عقیدے اور اپنے علم و بصیرت کے مطابق جس طرز عمل کو صحیح سمجھتا ہو اس پر عمل کرسکے، اور اپنے جسم و نفس کی تمام طاقتوں سے اس راہ میں کام لے سکے۔ اس کے کیریکٹر میں اس قسم کا ڈھیلا پن نہ رہ جائے کہ صحیح تو سمجھتا ہو ایک طریقہ کو، مگر اپنے نفس کی خواہش سے مجبور ہو کر چلے دوسرے طریقہ پر۔
اسلام جو سوسائٹی بناتا ہے اس کے ایک ایک فرد کو وہ اس طرح نماز کے ذریعہ سے تیار کرتا ہے۔ دس برس کی عمر کے بعد اس سوسائٹی کے ہر لڑکے اور لڑکی پر نماز فرض کر دی گئی ہے۔ اور یہ فرض کسی حال میں اس سے ساقط نہیں ہوتا، اِلاَّیہ کہ وہ اپنے ہوش و حواس میں نہ ہو یا عورت حیض و نفاس کی حالت میں ہو۔ بیماری میں، سفر میں، جنگ کے معرکے تک میں، یہ فرض اسے ادا کرنا پڑے گا۔ اٹھ نہ سکے تو بیٹھ کر پڑھے، بیٹھنا ممکن نہ ہو، لیٹ کر پڑھے، ہاتھ پائوں حرکت نہ کرسکتے ہوں، اشارے سے پڑھے، پانی نہ ملتا ہو مٹی سے تیمم کرکے پڑھے۔ قبلے کی سمت نہ معلوم ہو، جدھر گمان ہو اسی طرف منہ کرکے پڑھے۔ غرض کوئی عذر اس معاملہ میں مسموع نہیں ہے۔ نماز کا وقت جب آجائے تو ہرحال میں مسلمان مامور ہے کہ اس فرض کو ادا کرے۔
بلاخوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کے سوا دنیا میں کوئی دوسرا اجتماعی نظام ایسا نہیں ہے جس نے اپنے اجزائے ترکیبی، یعنی اپنے افراد کو فردًا فردًا تیار کرنے کا ایسا مکمل انتظام کیا ہو۔ دنیا کے اجتماعی نظامات میں جماعت (community) کی ہیئت ترکیبی بنانے اور افراد کو بیرونی بندشوں سے جکڑنے ہی پر تمام زوردیا جاتا ہے، مگر جماعت کے ایک ایک جز کو اندر سے تیار کرنے اور جماعتی اصولوں کے مطابق بنانے کی کوشش کم کی جاتی ہے۔ حالانکہ جماعت کی حیثیت ایک دیوار کی سی ہے، جو اینٹوں سے بنتی ہے، ایک ایک اینٹ اگر مضبوط نہ ہو تو دیوار بحیثیت مجموعی کم زور ہوگی۔ اسی طرح افراد کی سیرت میں اگر کم زوری ہو، اگر ان کے خیالات جماعتی اصولوں کے مطابق نہ ہوں، اور اگر عملاً وہ جماعتی راہ کے خلاف چلنے کے لیے میلانات رکھتے ہوں تو محض بیرونی بندشیں جماعت کے نظام کو زیادہ عرصے تک قائم نہیں رکھ سکتیں۔ آخر کار بغاوت رونما ہوگی اور نظام ٹوٹ جائے گا۔

تنظیمِ جماعت

اب ہمیں نماز کے دوسرے پہلو پر نظر ڈالنی چاہیے۔ یہ ظاہر ہے کہ انفرادی سیرت تنہا کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرسکتی جب تک کہ جماعت (community)میں بھی وہی سیرت موجود نہ ہو۔ فرد اپنے نصب العین (ideal) کو پا ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ لوگ جن کے درمیان وہ زندگی بسر کر رہا ہے، اس نصب العین تک پہنچنے میں اس کے ساتھ تعاون نہ کریں۔ فرد جن اصولوں پر ایمان رکھتا ہے، ان کے مطابق تنہا عمل کرنا اس کے لیے ناممکن ہے، تاوقتیکہ پوری جماعتی زندگی انھی اصولوں پر قائم نہ ہو جائے۔ آدمی دنیا میں اکیلا پیدا نہیں ہوا ہے، نہ اکیلا رہ کر کوئی کام کرسکتا ہے، اس کی ساری زندگی اپنے بھائی بندوں، دوستوں اور ہم سایوں، معاملہ داروں اور زندگی کے بے شمار ساتھیوں کے ساتھ ہزاروں قسم کے تعلقات میں جکڑی ہوئی ہے۔ دنیا میں وہ خدا کی طرف سے مامور اسی پر کیا گیا ہے کہ اس اجتماعی زندگی اور ان اجتماعی تعلقات میں خدا کے قانون کو جاری کرے۔ اس قانون پر عمل کرنے اور اسے نافذ کرنے کا نام ہی عبادت ہے۔ اگر آدمی ایسے لوگوں کے درمیان گھرا ہوا ہو جو اس قانون کو مانتے ہی نہ ہوں، یا سب کے سب اس کی نافرمانی پر تلے ہوئے ہوں، یا ان کے باہمی تعلقات اس طرح کے ہوں کہ اسے جاری کرنے میں وہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو اکیلے آدمی کے لیے خود اپنی زندگی میں بھی اس پر عمل کرنا غیر ممکن ہے۔ کجا کہ وہ جماعتی زندگی میں اسے نافذ کرسکے۔
علاوہ بریں مسلمان کے لیے یہ دنیا سخت جدوجہد، مقابلہ اور کش مکش کا معرکۂ کارزار ہے۔ یہاں خدا سے بغاوت کرنے والوں کے بڑے بڑے جتھے بنے ہوئے ہیںجو انسانی زندگی میں خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کو پوری قوت کے ساتھ جاری کر رہے ہیں اور ان کے مقابلہ میں مسلمان پر یہ ذمہ داری، بھاری، کمر توڑنے والی ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ یہاں خدا کے قانون کو پھیلائے اور جاری کرے، انسان کے بنائے ہوئے قوانین جہاں جہاں چل رہے ہیں انھیں مٹائے اور ان کی جگہ اللہ وحدہ‘ لاشریک لہ‘ کے قانون کی حکومت قائم کرے۔ یہ زبردست خدمت جو مسلمان کے سپرد کی گئی ہے، اسے باغی جتھوں کے مقابلہ میں کوئی اکیلا مسلمان انجام نہیں دے سکتا۔ اگر کروڑوں مسلمان بھی دنیا میں موجود ہوں، مگر الگ الگ رہ کر انفرادی کوشش کریں، تب بھی وہ مخالفین کی منظم طاقت کے مقابلہ میں کام یاب نہیں ہوسکتے۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ سارے بندے جو خدا کی عبادت کرنا چاہتے ہیں، ایک جتھا بنیں، ایک دوسرے کے مدد گار ہوں، ایک دوسرے کی پشت پناہ بن جائیں اور مل کر اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کریں۔
ان دونوں اغراض کے لیے مسلمانوں کا صرف مل جانا ہی کافی نہیں، بلکہ یہ ملنا صحیح طریق پر ہونا چاہیے۔ صرف اجتماعی نظام پیدا ہو جانا کافی نہیں بلکہ ایک صالح اجتماعی نظام درکار ہے جس میں مسلمان اور مسلمان کا تعلق ٹھیک ٹھیک ویسا ہی ہو جیسا کہ اسلام چاہتا ہے۔ ان کے درمیان مساوات ہو، محبت اور ہم دردی ہو یک جہتی اور وحدت فی العمل (unity in action)ہو، سب کے اندر خدا کی بندگی کرنے کا مشترک ارادہ نہ صرف موجود ہو، بلکہ پیہم متحرک رہے اور اجتماعی حرکت کرنے کی عادت ان کی طبیعت ثانیہ بن جائے۔ ان میں سے ہر ایک یہ جانتا ہو کہ جب وہ لیڈر بنے تو جماعت میں اس کا رویہ کیا ہونا چاہیے اور جب کوئی دوسرا ان کا لیڈر ہو تو وہ کس طرح ان کی اطاعت کریں۔ کس طرح اس کے حکم پر حرکت کریں، کہاں تک اس کی فرماں برداری ان پر واجب ہے، کہاں انھیں اسے ٹوکنا چاہیے، اور کس حد پر پہنچ کر وہ ان کی اطاعت کا مستحق نہیں رہتا۔

نماز باجماعت

نماز انفرادی سیرت کی تعمیر کے ساتھ یہ کام بھی کرتی ہے۔ وہ اس اجتماعی نظام کا پورا ڈھانچا بناتی ہے، اسے قائم کرتی اور قائم رکھتی ہے، اور اسے روزانہ پانچ مرتبہ حرکت میں لاتی ہے تاکہ وہ ایک مشین کی طرح چلتا رہے۔ اسی لیے پنج وقتہ نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ شریعت کی رو سے ایک ایک شخص الگ الگ نماز پڑھ کر فرض سے سبک دوش تو ہوسکتا ہے، مگر وہ گناہ گار ہوگا اگر قصدًابلا عذر مسجد میں حاضر ہو کر جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھے۔
جماعت کی اس تاکید کا مقصد یہی ہے کہ مسلمانوں کا نظام اجتماعی اپنی صحیح صورت پر قائم اور متحرک رہے۔ مسجد کا پنج وقتہ اجتماع مسلمانوں کے نظام اجتماعی کی بنیاد ہے۔ اس بنیاد کی مضبوطی پر اس پورے نظام کی مضبوطی منحصر ہے۔ ادھر یہ کم زور ہوئی اور ادھر سارا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا ہے۔
اذان
حکم ہے کہ اذان کی آواز سنتے ہی اُٹھ جائو اور اپنے اپنے کام چھوڑ کر مسجد کی طرف رخ کرو۔ اس طلبی کی پکار سن کر ہر طرف سے مسلمانوں کا ایک مرکز کی طرف دوڑنا وہی کیفیت اپنے اندر رکھتا ہے جو فوج کی ہوتی ہے۔ فوج کے سپاہی جہاں جہاں بھی ہوں، بگل کی آواز سنتے ہی سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارا کمانڈر ہمیں بلا رہا ہے۔ اس طلبی پر سب کے دل میں ایک ہی کیفیت پیدا ہوتی ہے یعنی کمانڈر کے حکم کی پیروی کا خیال، اور اس خیال کے آتے ہی سب ایک ہی کام کرتے ہیں۔ یعنی اپنے اپنے کام چھوڑ کر اٹھنا اور ہر طرف سے سمٹ کر ایک ہی جگہ جمع ہو جانا۔ فوج میں یہ طریقہ کس لیے رکھا گیا ہے؟ اس لیے کہ اول تو ہر ہر سپاہی میں فردًا فردًاحکم ماننے اور اس مستعدی کے ساتھ عمل کرنے کی خصلت و عادَت پیدا ہو، اور اس کے ساتھ ہی ایسے تمام فرماں بردار سپاہی مل کر ایک گروہ، ایک جتھا، ایک ٹیم بن جائیںاور ان میں یہ عادت پیدا ہو جائے کہ کمانڈر کا حکم پاتے ہی ایک وقت میں ایک جگہ سب مجتمع ہو جایا کریں تاکہ جب کوئی مہم پیش آئے تو ساری فوج ایک آواز میں ایک مقصد کے لیے اکٹھے ہو کر کام کر سکے۔ فوجی اصطلاح میں اسے سرعتِ اجتماع (mobility)کہتے ہیں اور یہ فوجی زندگی کی جان ہے۔ اگر کسی فوج میں اس طرح مجتمع ہونے کی صلاحیت نہ ہو، اور اس کے سپاہی ایسے خود سرہو ں کہ جس کا جدھر منہ اٹھتا ہو ادھر چلا جاتا ہو، تو خواہ ایسی فوج کا ایک ایک سپاہی تیس مار خاں ہی کیوں نہ ہو وہ کسی مہم کو سر نہیں کرسکتی۔ اس قسم کے ایک ہزار بہادر سپاہیوں کو دشمن کے پچاس سپاہیوں کا ایک منظم دستہ الگ الگ پکڑ کر ختم کر سکتا ہے۔ ٹھیک اسی مصلحت کی بنا پر مسلمانوں کے لیے بھی یہ قاعدہ مقرر کر دیا گیا ہے کہ جو مسلمان جہاں بھی اذان کی آواز سنے، سب کام چھوڑ کر اپنے قریب کی مسجد کا رخ کرے۔ اس اجتماع کی مشق انھیں روزانہ پانچ وقت کرائی جاتی ہے، کیوں کہ اس خدائی فوج کی ڈیوٹی دنیا کی ساری فوجوں سے زیادہ سخت ہے جیسا کہ اُوپر اشارہ کیا جاچکا ہے۔ دُوسری فوجوں کے لیے تو مدتوں میں کبھی ایک مہم پیش آتی ہے اور اس کی خاطر انھیں یہ ساری فوجی مشقیں کرائی جاتی ہیں، مگر اس خدائی فوج کو تو ہر وقت ایک مہم درپیش ہے۔ اس لیے اس کے ساتھ یہ بھی بہت بڑی رعایت ہے کہ اسے دن رات میں صرف پانچ مرتبہ ہی خدائی بگل کی آواز پر دوڑنے اور خدائی چھائونی یعنی مسجد میں جمع ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔

مسجد میں اجتماع

یہ محض اذان کا فائدہ تھا۔ اب آپ مسجد میں جمع ہوتے ہیں اور صرف جمع ہونے ہی میں بے شمار فائدے ہیں۔ یہاں جو آپ نے ایک دوسرے کو دیکھا، پہچانا، ایک دوسرے سے واقف ہوئے، یہ دیکھنا، پہچاننا، واقف ہونا کس حیثیت سے ہے؟ اس حیثیت سے کہ آپ سب خدا کے بندے ہیں، ایک رسولؐ کے پیرو ہیں ایک کتاب کے ماننے والے ہیں، ایک ہی مقصد سب کی زندگی کا ہے، اسی مقصد کے لیے آپ مسجد میں جمع ہوئے ہیں اور اسی مقصد کے لیے مسجد سے باہر جاکر بھی آپ کو عمل کرنا ہے۔ اس قسم کا تعارف آپ میں خود بخود یہ خیال پیدا کر دیتا ہے کہ آپ سب ایک قوم ہیں، ایک ہی فوج کے سپاہی ہیں، ایک دوسرے کے بھائی اور رفیق ہیں، دنیا میں آپ کی اغراض، آپ کے مقاصد، آپ کے نقصانات اور آپ کے فوائد سب مشترک ہیں، آپ کی زندگیاں ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے۔ اٹھیں گے تو ایک ساتھ اور گریں تو ایک ساتھ۔
پھر آپ جو ایک دوسرے کو دیکھیں گے تو ظاہر ہے کہ آنکھیں کھول کر دیکھیں گے اور یہ دیکھنا بھی دشمن کو دیکھنا نہیں بلکہ دوست کا دوست کو اور بھائی کا بھائی کو دیکھنا ہوگا۔ اس نظر سے جب آپ دیکھیں گے کہ میرا کوئی بھائی پھٹے پرانے کپڑوں میں ہے، کوئی پریشان صورت ہے، کوئی فاقہ زدہ چہرہ لیے ہوئے آیا ہے، کوئی معذور، لنگڑا، لولا، اندھا ہے تو خواہ مخواہ آپ کے دل میں ہم دردی کا جذبہ پیدا ہوگا۔ آپ میں سے جو خوش حال ہیں، وہ غریبوں اور بے کسوں پر رحم کھائیں گے۔ جو بدحال ہیں انھیں امیروں تک پہنچنے اور اپنا حال کہنے کی ہمت ہوگی۔ کسی کے متعلق معلوم ہوگا کہ بیمار ہے یا کسی مصیبت میں پھنس گیا ہے اس لیے مسجد میں نہیں آیا تو آپ اس کی عیادت کو جائیں گے۔ کسی کے مرنے کی خبر ملی تو آپ اس کے جنازے میں شریک ہوں گے اور غم زدہ عزیزوں کو تسلی دیں گے۔ یہ سب باتیں آپس کی محبت کو بڑھانے والی آپ کو ایک دوسرے کے قریب کرنے والی اور ایک دوسرے کا مدد گار بنانے والی ہیں۔
اور ذرا غور کیجیے، یہاں جو آپ جمع ہوئے ہیں تو ایک جگہ پاک مقصد کے لیے جمع ہوئے ہیں، آپ کو کسی فلم سٹار کا عشق یہاں کھینچ کر نہیں لایا ہے۔ آپ شراب خوری یا جوئے بازی کے لیے جمع نہیں ہوئے ہیں۔ یہ بدکاروں کا اجتماع نہیں ہے کہ سب کے دل میں ناپاک خواہشیں اورنیتیں بھری ہوئی ہوں۔ یہ تو اللہ کے بندوں کا اجتماع ہے، اللہ کی عبادت کے لیے اللہ کے گھر میں سب اپنے خدا کے سامنے بندگی کا اقرار کرنے حاضر ہوئے ہیں۔ ایسے موقع پر اول تو ایمان دار آدمی کے دل میں خود ہی اپنے گناہوں پر شرمندگی کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس نے کوئی گناہ اپنے دوسرے بھائی کے سامنے کیا تھا۔ اور وہ بھی یہاں مسجد میں موجود ہے، تو محض اس کی نگاہوں کا سامنا ہو جانا ہی کافی ہے کہ گناہ گار اپنے دل میں کٹ کٹ جائے اور اگر کہیں مسلمانوں میں ایک دوسرے کو نصیحت کرنے کا جذبہ بھی موجود ہو اور وہ جانتے ہوں کہ ہم دردی و محبت کے ساتھ ایک دوسرے کی اصلاح کس طرح کرنی چاہیے تو یقین جانیے کہ یہ اجتماع انتہائی رحمت و برکت کا موجب ہوگا۔ اس طرح سب مسلمان مل کر ایک دوسرے کی خرابیوں کو دور کریں گے، ایک دوسرے کے نقائص کی اصلاح کریں گے اور پوری جماعت صالحین کی جماعت بنتی چلی جائے گی۔

صف بندی

یہ صرف مسجد میں جمع ہونے کی برکتیں ہیں۔ اب دیکھیے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں کتنی برکات پوشیدہ ہیں۔
سب مسلمان مسجد میں مساوی الحیثیت ہیں۔ ایک چمار اگر پہلے آیا ہو تو وہ اگلی صف میں ہوگا، اور ایک رئیس اگر بعد میں آئے تو وہ پچھلی صفوں میں رہے گا، کوئی بڑے سے بڑا آدمی مسجد میں اپنی سیٹ ریزرو نہیں کرا سکتا۔ کسی شخص کو یہ حق نہیں کہ دوسرے مسلمان کو مسجد میں کسی جگہ کھڑے ہونے سے روک دے یا جہاں وہ پہلے سے موجود ہو وہاں سے اسے ہٹا دے۔ کوئی اس کا مجاز نہیں کہ آدمیوں پر سے پھاند کر یا صفوں کو چیر کر آگے پہنچنے کی کوشش کرے۔ سب مسلمان ایک صف میں ایک دوسرے کے برابر کھڑے ہوں گے، وہاں نہ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا، نہ کوئی اونچ ہے نہ نیچ۔ نہ کسی کے چھو جانے سے کوئی ناپاک ہو جاتا ہے، نہ کسی کے برابر کھڑا ہونے سے کسی کی عزت کو بٹّا لگتا ہے۔ بازار کا جارُوب کش آئے گا اور گورنر کے برابر کھڑا ہو جائے گا۔ یہ وہ اجتماعی جمہوریت (social democracy)ہے۔ جسے قائم کرنے میں اسلام کے سوا کوئی کام یاب نہیں ہوسکا۔ یہاں روزانہ پانچ وقت سوسائٹی کے افراد کی اونچ نیچ برابر کی جاتی ہے، بڑوں کے دماغ سے کبریائی کا غرور نکالا جاتا ہے۔ چھوٹوں کے ذہن سے پستی کا احساس دور کیا جاتا ہے اور سب کو یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ خدا کی نگاہ میں تم سب انسان یکساں ہو۔
یہ صف بندی جس طرح طبقاتی امتیازات کو مٹاتی ہے اسی طرح نسل، قبیلہ، وطن اور رنگ وغیرہ کی عصبیتوں کو بھی مٹاتی ہے۔ مسجد میں کسی امتیازی نشان کے لحاظ سے مختلف انسانی گروہوں کے بلاک الگ نہیں ہوتے۔ تمام مسلمان جو مسجد میں آئیں، خواہ وہ کالے ہوں یا گورے، ایشیائی ہوں یا فرنگی، سامی ہوں یا آرین اور ان کے قبیلوں اور ان کی زبانوں میں خواہ کتنے ہی اختلافات ہوں، بہرحال سب کے سب ایک صف میں کھڑے ہو کر نماز ادا کرتے ہیں۔ روزانہ پانچ وقت اس نوع کا اجتماع ان تعصبات کی بیخ کنی کرتا رہتا ہے جو انسانی جماعت میں خارجی اختلافات کی وجہ سے پیدا ہوگئے ہیں۔ یہ انسانی وحدت قائم کرتا ہے، بین الاقوامیت کی جڑیں مضبوط کرتا ہے اور اس خیال کو دماغوں میں پیوست کر دیتا ہے کہ حسب وعدہ نسب اور برادریوں کی ساری عصبیتیںجھوٹی ہیں، تمام انسان خدا کے بندے ہیں، اور اگر خدا کی بندگی و عبادت پر وہ سب متفق ہو جائیں تو پھر وہ سب ایک اُمت ہیں۔
پھر جب یہ ایک صف میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں اور ایک ساتھ رکوع و سجدہ کرتے ہیں تو ان کے اندر منظم اجتماعی حرکت کرنے کی وہ صلاحیتیں پرورش پاتی ہیں جنھیں پیدا کرنے کے لیے فوج کو پریڈ کرائی جاتی ہے، اس کا مدعا ہی یہ ہے کہ مسلمانوں میں یک جہتی اور وحدت فی العمل پیدا ہو اور خدا کی بندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر تن واحد کی طرح ہو جائیں۔

اجتماعی دُعائیں

صف بندی کے ان تمام فائدوں کو وہ دعائیں دو آتشہ کر دیتی ہیں، جو نماز میں خدا سے مانگی جاتی ہیں۔ سب یک زبان ہو کر اپنے مالک سے عرض کرتے ہیں کہ:
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
ہم سب تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔
ہم سب کو سیدھے راستے کی ہدایت دے۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِیْنَ۔
ہم پر سلامتی ہو اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی۔
نماز کی دعائوں میں کہیں آپ کو واحد کا صیغہ نہ ملے گا۔ جہاں آپ دیکھیں گے جمع ہی کا صیغہ پائیں گے۔ اجتماعی عبادت اور اجتماعی حرکات کے ساتھ مل کر یہ اجتماعی دُعائیں ہر مسلمان کے ذہن میں یہ نقش ثبت کر دیتی ہیں اور روزانہ ثبت کرتی رہتی ہیں کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔ اسے سب کچھ تنہا اپنے ہی لیے چاہنا اور مانگنا نہیں ہے، بلکہ اس کی زندگی جماعت کے ساتھ مربوط ہے، جماعت کی بھلائی میں اس کی بھلائی ہے۔ جماعت ہی کے راہ راست پر چلنے میں اس کی خیر ہے۔ خدا کی طرف سے فضل اور سلامتی جماعت پر نازل ہوگی، تب ہی وہ خود بھی اس سے متمتّع ہو سکے گا۔ یہ چیز دماغوں سے انفرادیت (individualism)کو نکالتی ہے، اجتماعی ذہنیت (social mindedness)پیدا کرتی ہے، افراد جماعت میں خیر خواہی کے جذبات اور مخلصانہ محبت کے روابط کو نشوونما دیتی ہے، اور روزانہ پانچ مرتبہ اس طریقہ سے مسلمانوں کے احساس اجتماعیت کو اکسایا جاتا ہے تاکہ مسجد کے باہر زندگی کے وسیع میدان میں ان کا برتائو درست رہے۔

امامت

یہ اجتماعی عبادت ایک امام (leader) کے بغیر انجام نہیں پاتی۔ دو آدمی بھی اگر فر ض نماز پڑھیں تو لازم ہے کہ ان میں سے ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی (follower) جماعت جب کھڑی ہو جائے تو اس سے الگ نماز پڑھنا سخت ممنوع ہے۔ بلکہ ایسی نماز ہوتی ہی نہیں۔ حکم ہے کہ جو آتا جائے اسی امام کے پیچھے جماعت میں شامل ہوتا جائے۔ امامت کا منصب کسی طبقہ یا کسی نسل یا گروہ کے ساتھ مخصوص نہیں نہ اس کے لیے کوئی ڈگری یا سند درکار ہے۔ ہر مسلمان امام بن سکتا ہے۔ البتہ شریعت یہ سفارش کرتی ہے کہ امام بنانے میں آدمی کی چند صفات کا لحاظ کیا جائے جن کا ذکر آگے آتا ہے۔
جماعت میں امام اور مقتدیوں کا تعلق جس طور پر قائم کیا گیا ہے۔ اس میں ایک ایک چیز انتہا درجہ کی معنٰی خیز ہے۔ اس میں دراصل ہر مسلمان کو قیادت (leadership)اور اتباع قیادت (followership)کی مکمل ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اس میں بتایا جاتا ہے کہ اس چھوٹی مسجد سے باہر اس وسیع مسجد میں جس کا نام زمین ہے، مسلمانوں کا جماعتی نظام کیسا ہونا چاہیے، جماعت میں امام کی کیا حیثیت ہے، اس کے فرائض کیا ہیں، اس کے حقوق کیا ہیں اور امام بننے کی صورت میں اس کا طرز عمل کیسا ہونا چاہیے۔ دوسری طرف جماعت کو اس کی اطاعت کس طرح اور کن باتوں میں کرنی چاہیے۔ اگر وہ غلطی کرے تو مسلمان کیا کریں، کہاں تک غلطی میں بھی اس کی پیروی کریں، کہاں وہ اسے ٹوکنے کے مجاز ہیں، کہاں انھیں اس سے یہ مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے کہ اپنی غلطی کی اصلاح کرے۔ اور کس موقع پر وہ اسے امامت سے ہٹا سکتے ہیں۔ یہ سب گویا چھوٹے پیمانہ پر ایک بڑی سلطنت کو چلانے کی مشق ہے۔ جو ہر روز پانچ مرتبہ ہر چھوٹی سے چھوٹی مسجد میں کرائی جاتی ہے۔
ہدایت کی گئی کہ امام ایسے شخص کو منتخب کیا جائے، جو پرہیز گار ہو، نیک سیرت ہو، دین کا علم رکھتا ہو اور سن رسیدہ ہو۔ حدیث میں ترتیب بھی بتا دی گئی ہے کہ ان صفات میں سے کون سی صفت کس صفت پر مقدم ہے۔ یہیں سے یہ تعلیم بھی دی گئی کہ سردار قوم کے انتخاب میں کن چیزوں کا لحاظ کرنا چاہیے۔
حکم ہے کہ امام ایسے شخص کو نہ بنایا جائے جس سے جماعت کی اکثریت ناراض ہو۔ یوں تھوڑے بہت مخالف کس کے نہیں ہوتے۔ لیکن اگر جماعت میں زیادہ تر آدمی کسی شخص کی اقتدا کرنے سے کراہت کرتے ہوں تو اسے امام نہ بنایا جائے۔ یہاں بھی سردار قوم کے انتخاب کا ایک قاعدہ بتا دیا گیا۔ ایک بری شہرت کا آدمی جس کی بدسیرتی و بدکرداری سے عام لوگ نفرت کرتے ہوں، اس قابل نہیں ہوسکتا کہ مسلمانوں کا امیر بنایا جائے۔
حکم ہے کہ جو شخص امام بنے وہ نماز پڑھانے میں جماعت کے ضعیف لوگوں کا بھی لحاظ رکھے۔ محض جوان، مضبوط، تن دُرست اور فرصت والے آدمیوں ہی کو پیش نظر رکھ کر لمبی لمبی قرأت اور لمبے لمبے رکوع اور سجدے نہ کرنے لگے، بلکہ یہ بھی خیال رکھے کہ جماعت میں بوڑھے بھی ہیں، بیمار بھی ہیں، کم زور بھی ہیں اور ایسے مشغول آدمی بھی ہیں، جو اپنا کام چھوڑ کر نماز کے لیے آئے ہیں اور جنھیں نماز سے پھر اپنے کام کی طرف واپس جانا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں یہاں تک رحم اور شفقت کا نمونہ پیش فرمایا ہے کہ نماز پڑھانے میں اگر کسی بچے کے رونے کی آواز آجاتی تو آپؐ نماز مختصر کر دیتے تھے۔تاکہ اگر بچے کی ماں جماعت میں شامل ہو تو اسے تکلیف نہ ہو۔ یہ گویا سردار قوم کو تعلیم دی گئی ہے کہ جب وہ سردار بنایا جائے تو جماعت میں اس کا طرزِ عمل کیسا ہونا چاہیے۔
حکم ہے کہ اگر نماز پڑھانے کے دوران میں امام کو کوئی حادثہ پیش آجائے جس کی وجہ سے وہ نماز پڑھانے کے قابل نہ رہے تو فورًا ہٹ جائے اور اپنی جگہ پیچھے کے آدمی کو کھڑا کر دے۔ یہاں پھر سردار قوم کے لیے ایک ہدایت ہے۔ اس کا بھی یہی فرض ہے کہ جب وہ اپنے آپ کو سرداری کے قابل نہ پائے تو خود ہٹ جائے اور دوسرے اہل آدمی کے لیے جگہ خالی کردے۔ اس میں نہ شرم کا کچھ کام ہے اور نہ خود غرضی کا۔
حکم ہے کہ امام کے فعل کی سختی کے ساتھ پابندی کرنی چاہیے۔ اس کی حرکت سے پہلے حرکت کرنا سخت ممنوع ہے، حتّٰی کہ جو شخص امام سے پہلے رکوع یا سجدے میں جائے اس کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے روز وہ گدھے کی صورت میں اٹھایا جائے گا۔ یہاں قوم کو سبق دیا گیا ہے کہ اسے سردار کی اطاعت کس طرح کرنی چاہیے۔
امام اگر نماز میں غلطی کرے، مثلاً: جہاں اسے بیٹھنا چاہیے تھا وہاں کھڑا ہو جائے یا جہاں کھڑا ہونا چاہیے تھا وہاں بیٹھ جائے تو حکم ہے سبحان اللہ کَہ کر اسے غلطی سے متنبہ کرو۔ سبحان اللہ کے معنی ہیں ’’اللہ پاک ہے ‘‘ امام کی غلطی پر سبحان اللہ کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ خطا سے پاک تو بس اللہ ہی کی ذات ہے‘ تم انسان ہو، تم سے بھول چوک ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ یہ طریقہ ہے امام کو ٹوکنے کا۔
اور جب اس طرح امام کو ٹوکا جائے تو اسے لازم ہے کہ بلا کسی شرم و لحاظ کے اپنی غلطی کی اصلاح کرے اور صرف اصلاح ہی نہ کرے بلکہ نمازختم کرنے سے پہلے اللہ کے سامنے اپنے قصور کے اعتراف میں دو مرتبہ سجدہ بھی کرے۔ البتہ اگر ٹوکے جانے کے باوجود امام کو اس امر پر پورا یقین ہو کہ اس مقام پر اسے کھڑا ہی ہونا چاہیے تھا، یا بیٹھنا چاہیے تھا، تو وہ اپنے وثوق کے مطابق عمل کرسکتا ہے۔ اس صورت میں جماعت کاکام یہ ہے کہ وہ امام کا ساتھ دے، اگرچہ وہ اپنی جگہ اس امر کا یقین واثق ہی کیوں نہ رکھتی ہو کہ امام غلطی کر رہا ہے۔ نماز ختم ہو جانے کے بعد مقتدیوں کو حق ہے کہ امام پر اس کی غلطی ثابت کریں اور اس سے مطالبہ کریں کہ دوبارہ نماز پڑھائے۔
امام کے ساتھ جماعت کا یہ طرز عمل صرف ان غلطیوں کے بارے میں ہے جو معمولی جزئیات سے تعلق رکھتی ہوں۔ لیکن اگر امام سنت نبوی کے خلاف نماز کی ہیئت اور ترکیب بدل دے، یا قرآن کو تحریف کرکے پڑھے، یا نماز پڑھانے کے دوران میں کفر و شرک یا صریح معصیت کا ارتکاب کرے، یا کوئی ایسا فعل کرے جس سے معلوم ہو کہ یا تو وہ قانون الٰہی کی پیروی سے منحرف ہوگیا ہے، یا اس کی عقل میں فتور آگیا ہے تو جماعت کا فرض ہے کہ نماز توڑ کر اس سے الگ ہو جائے اور اسے ہٹا کر کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ قائم کرے۔ پہلی صورت میں امام کی پیروی نہ کرنا جتنا بڑا گناہ ہے، دوسری صورت میں اس کی پیروی کرنا اس سے بھی بڑا گناہ ہے۔
بعینہٖ یہی صورت بڑے پیمانہ پر قوم اور اس کے سردار کے تعلق کی بھی ہے۔ جب تک سردار اسلامی کانسٹی ٹیوشن کے اندر کام کر رہا ہے اس کی اطاعت مسلمانوں پر واجب ہے۔ نافرمانی کریں گے تو گناہ گار ہوں گے۔ زیادہ سے زیادہ اسے ٹوک سکتے ہیں۔ لیکن اگر ان کے ٹوکنے پر بھی وہ فروعی معاملات میں غلطیاں کرے تو انھیں اس کی اطاعت پر قائم رہنا چاہیے۔ مگر جب وہ اسلامی کانسٹی ٹیوشن کی حدود سے نکل رہا ہو تو پھر وہ مسلمانوں کی جماعت کا امیر نہیں رہ سکتا۔
یہاں تک نماز کے مقاصد اور اس کے اثرات کی جو تشریح کی گئی ہے اگرچہ وہ اس کے تمام پہلوئوں پر حاوی نہیں ہے تاہم اس سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ اسے اسلام کا رکن اعظم کیوں قرار دیا گیا ہے۔ رکن ستون کو کہتے ہیں جس کے سہارے پر عمارت قائم ہوتی ہے۔ اسلامی زندگی کی عمارت کو قائم ہونے اور قائم رہنے کے لیے جن سہاروں کی ضرورت ہے، ان میں سب سے مقدم سہارا یہ ہے کہ مسلمانوں کے افراد میں فردًا فردًا اور ان کی جماعت میں بحیثیت مجموعی وہ اوصاف پیدا ہوںجو خدا کی بندگی کا حق ادا کرنے اور دنیا میں خلافت الٰہی کا بار سنبھالنے کے لیے ضروری ہیں۔ وہ غیب پر سچا اور زندہ ایمان رکھنے والے ہوں، وہ اللہ کو اپنا واحد فرماں روا تسلیم کریں اور اس کے فرض شناس اور اطاعت کیش بندے ہوں، اسلام کا نظام فکر و نظریۂ حیات ان کی رگ رگ میں ایسا پیوستہ ہو جائے کہ اسی کی بنیاد پر ان میں ایک پختہ سیرت پیدا ہو۔ اور ان کا عملی کردار اسی کے مطابق ڈھل جائے۔ اپنی جسمانی اور نفسانی قوتوں پر وہ اتنے قابو یافتہ ہوں کہ اپنے ایمان و اعتقاد کے مطابق ان سے کام لے سکیں۔ ان کے اندر منافقین کی جماعت اگر پیدا ہوگئی ہو یا باہر سے گھس آئی ہو تو وہ اہل ایمان سے الگ ہو جائے۔ ان کی جماعت کا نظام اسلام کے اجتماعی اصولوں پر قائم ہو، اور ایک مشین کی طرح پیہم متحرک رہے۔ ان میں اجتماعی ذہنیت کار فرما ہو۔ ان کے درمیان محبت ہو، ہم دردی ہو، تعاون ہو، مساوات ہو، وحدت روح اور وحدت عمل ہو، وہ قیادت اور اقتدا کے حدود کو جانتے اور سمجھتے ہوں اور پورے نظم و ضبط کے ساتھ کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ یہ تمام مقاصد چونکہ نماز کی اقامت سے حاصل ہوتے ہیں لہٰذا اسے دین اسلام کا ستون قرار دیا گیا۔ یہ ستون اگر منہدم ہو جائے تو مسلمانوں کی انفرادی سیرت اور اجتماعی ہیئت دونوں مسخ ہو کر رہ جائیں اور وہ اس مقصد عظیم کے لیے کام کرنے کے اہل ہی نہ رہیں جس کی خاطر جماعت وجود میں آئی ہے۔ اسی بنا پر فرمایا گیا کہ نماز عماد الدین ہے۔ یعنی دین کا سہارا ہے۔ جس نے اسے گرایا اس نے دین کو گرا دیا۔

روزہ

ان مقاصد کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ انھیں حاصل کرنے کے لیے صرف نماز کو کافی نہ سمجھا گیا اس رکن کو مزید تقویت پہنچانے کے لیے ایک دوسرے رکن ’’روزہ‘‘ کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے، نماز کی طرح یہ روزہ بھی قدیم ترین زمانہ سے اسلام کا رکن رہا ہے۔ اگرچہ تفصیلی احکام کے لحاظ سے اس کی شکلیں مختلف رہی ہیں مگر جہاںتک نفس روزہ کا تعلق ہے وہ ہمیشہ الٰہی شریعتوں کا جزو لاینفک ہی رہا۔ تمام انبیاء علیہم السلام کے مذہب میں یہ فرض کی حیثیت سے شامل تھا۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ البقرہ 183:2
تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروئوں پر فرض کیے گئے تھے۔
اس سے یہ بات خود بخود مترشح ہوتی ہے کہ اسلام کی فطرت کے ساتھ اس طریق تربیت کو ضرور کوئی مناسبت ہے۔
زکوٰۃ اور حج کی طرح روزہ ایک مستقل جداگانہ نوعیت رکھنے والا رکن نہیں ہے بلکہ دراصل اس کا مزاج قریب قریب وہی ہے جو رکن صلوٰۃ کا ہے اور اسے رکنِ صلوٰۃ کے مددگار اور معاون ہی کی حیثیت سے لگایا گیا ہے۔ اس کاکام انھی اثرات کو زیادہ تیز اور زیادہ مستحکم کرنا ہے جو نماز سے انسانی زندگی پر مترتب ہوتے ہیں۔ نماز روزمرہ کا معمولی نظام تربیت ہے جو روز پانچ وقت تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے آدمی کو اپنے اثر میں لیتا ہے۔ اور تعلیم و تربیت کی ہلکی ہلکی خوراکیں دے کر چھوڑ دیتا ہے اور روزہ سال بھر میں ایک مہینا کا غیر معمولی نظام تربیت (special training course) ہے جو آدمی کو تقریباً ۷۲۰ گھنٹا تک مسلسل اپنے مضبوط ڈسپلن کے شکنجہ میں کسے رکھتا ہے تاکہ روزانہ کی معمولی تربیت میں جو اثرات خفیف تھے وہ شدید ہو جائیں۔ یہ غیر معمولی نظام تربیت کس طرح اپنا کام کرتا ہے، اور کس کس ڈھنگ سے نفس انسانی پر مطلوب اثر ڈالتا ہے، اس کا تفصیلی جائزہ ہم ان صفحات میں لینا چاہتے ہیں۔

روزے کے اثرات

روزے کا قانون یہ ہے کہ آخر شب طلوع سحر کی پہلی علامات ظاہر ہوتے ہی آدمی پر یکایک کھانا پینا اور مباشرت کرنا حرام ہو جاتا ہے اور غروب آفتاب تک پورا دن حرام رہتا ہے۔ اس دوران میں پانی کا ایک قطرہ اور خوراک کا ایک ریزہ تک قصدًاحلق سے اُتارنے کی اجازت نہیں ہوتی اور زوجین کے لیے ایک دوسرے سے قضائے شہوت کرنا بھی حرام ہوتا ہے۔ پھر شام کو ایک خاص وقت آتے ہی اچانک حرمت کا بند ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ سب چیزیں جو ایک لمحہ پہلے تک حرام تھیں یکایک حلال ہو جاتی ہیں اور رات بھر حلال رہتی ہیں، یہاں تک کہ دوسرے روز کی مقررہ ساعت آتے ہی پھر حرمت کا قفل لگ جاتا ہے۔ ماہ رمضان کی پہلی تاریخ سے یہ عمل شروع ہوتا ہے اور ایک مہینا تک مسلسل اس کی تکرار جاری رہتی ہے۔ گویا پورے تیس دن آدمی ایک شدید ڈسپلن کے ماتحت رکھا جاتا ہے۔ مقرر وقت تک سحری کرے، مقرر وقت پر افطار کرے، جب تک اجازت ہے، اپنی خواہشات نفس پوری کرتا رہے اور جب اجازت سلب کر لی جائے تو ہر اس چیز سے رک جائے جس سے منع کیا گیا ہے۔

اِحساس بندگی

اس نظام تربیت پر غور کرنے سے جو بات سب سے پہلے نظر میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام اس طریقہ سے انسان کے شعور میں اللہ کی حاکمیت کے اقرار و اعتراف کو مستحکم کرنا چاہتا ہے، اور اس شعور کو اتنا طاقت ور بنا دینا چاہتا ہے کہ انسان اپنی آزادی اور خود مختاری کو اللہ کے آگے بالفعل تسلیم (surrender)کر دے۔ یہ اعتراف و تسلیم ہی اسلام کی جان ہے۔ اور اسی پر آدمی کے مسلم ہونے یا نہ ہونے کا مدار ہے۔ دین اسلام کا مطالبہ انسان سے صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ بس وہ خداوند عالم کے وجود کو مان لے، یا محض ایک مابعد الطبیعی نظریہ کی حیثیت سے اس بات کا اعتراف کرلے کہ اس کائنات کے نظام کو بنانے اور چلانے والا صرف اللہ واحد قہار ہے بلکہ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی اس امر واقعی کو ماننے کے ساتھ ہی اس کے منطقی اور فطری نتیجہ کو بھی قبول کرے۔ یعنی جب وہ یہ مانتا ہے کہ اس کا اور تمام دنیا کا خالق، پروردگار، قیام بخش اور مدبر امر صرف اللہ تعالیٰ ہے اور جب وہ تسلیم کرتا ہے کہ نہ تخلیق میں کوئی اللہ کا شریک ہے، نہ پرورش میں، نہ قیام بخشی میں اور نہ تدبیر امر میں، تو اس تسلیم و اعتراف کے ساتھ ہی اسے اللہ کی حاکمیت و فرماں روائی کے آگے سپر ڈال دینی چاہیے، اپنی آزادی و خود مختاری کے غلط ادعا سے خیال اور عمل دونوں میں دست بردار ہو جانا چاہیے، اور اللہ کے مقابلہ میں وہی رویہ اختیار کرلینا چاہیے جو ایک بندے کا اپنے مالک کے مقابلہ میں ہونا لازم ہے۔ یہی چیز دراصل کفر اور اسلام کے درمیان فارق ہے۔ کفر کی حالت اس کے سوا کچھ نہیں کہ آدمی اپنے آپ کو اللہ کے مقابلہ میں خود مختار اور غیر جواب دہ سمجھے اور یہی سمجھ کر اپنے لیے زندگی کا راستہ اختیار کرے اور اسلام کی حالت اس کے سوا کسی اور چیز کا نام نہیں کہ انسان اپنے آپ کو اللہ کا بندہ اور اس کے سامنے جواب دہ سمجھے اور اسی احساس بندگی و ذمہ داری کے ساتھ دنیا میں زندگی بسر کرے۔ پس حالت کفر سے نکل کر حالت اسلام میں آنے کے لیے جس طرح اللہ کی حاکمیت کا سچا اور قلبی اقرار ضروری ہے اسی طرح اسلام میں رہنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی کے دل میں بندگی کا احساس و شعور ہر دم تازہ، ہر وقت زندہ اور ہر آن کار فرما رہے۔ کیوں کہ اس احساس شعور کے دل سے دور ہوتے ہی خود مختاری و غیر ذمہ داری کا رویہ عود کر آتا ہے، اور کفر کی وہ حالت پیدا ہو جاتی ہے جس میں آدمی یہ سمجھتے ہوئے کام کرتا ہے کہ نہ اللہ اس کا حاکم ہے اور نہ اسے اللہ کو اپنے عمل کا حساب دینا ہے۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے، نماز کا اوّلین مقصد انسان کے اندر ’’اسلام‘‘ کی اسی حالت کو پے درپے تازہ کرتے رہنا ہے، اور یہی روزے کا مقصد بھی ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ نماز روزانہ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے اسے تازہ کرتی ہے، اور رمضان کے روزے سال بھر میں ایک مرتبہ پورے ۷۲۰ گھنٹوں تک پیہم اس حالت کو آدمی پر طاری رکھتے ہیں تاکہ وہ پوری قوت کے ساتھ دل و دماغ میں بیٹھ جائے اور سال کے باقی گیارہ مہینوں تک اس کے اثرات قائم رہیں۔ اول تو روزے کے سخت ضابطے کو اپنے اوپر نافذ کرنے کے لیے کوئی شخص اس وقت تک آمادہ ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اللہ کو اپنا حاکم اعلیٰ نہ سمجھتا ہو اور اس کے مقابلہ میں اپنی آزادی و خود مختاری سے دست بردار نہ ہو چکا ہو۔ پھر جب وہ دن کے وقت مسلسل بارہ بارہ تیرہ تیرہ گھنٹے کھانے پینے اور مباشرت کرنے سے رکا رہتا ہے، اور جب سحری کا وقت ختم ہوتے ہی نفس کے مطالبات سے یکایک ہاتھ کھینچ لیتا ہے، اور جب افطار کا وقت آتے ہی نفس کے مطلوبات کی طرف اس طرح لپکتا ہے کہ گویا فی الواقع اس کے ہاتھوں، اس کے منہ اور حلق پر کسی اور کی حکومت ہے، جس کے بند کرنے سے وہ بند ہوتے اور جس کے کھولنے سے وہ کھلتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس دوران میں اللہ کی حاکمیت اور اپنی بندگی کا احساس اس پر ہر وقت طاری ہے، اس پورے ایک مہینا کی طویل مدت میں یہ احساس اس شعور یا تحت الشعور سے ایک لمحہ کے لیے بھی غائب نہیں ہوا۔ کیوں کہ اگر غائب ہو جاتا تو ممکن ہی نہ تھا کہ وہ ضابطہ کو توڑنے سے باز رہ جاتا۔

اِطاعت امر

احساس بندگی کے ساتھ خود بخود جو چیز لازمی نتیجہ کے طور پر پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو جس کا بندہ سمجھ رہا ہے اس کے حکم کی اطاعت کرے۔
ان دونوں چیزوں میں ایسا فطری اور منطقی تعلق ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو ہی نہیں سکتے، نہ ان کے درمیان کبھی تناقض (inconsistency)کے لیے گنجائش نکل سکتی ہے۔ اس لیے کہ اطاعت دراصل نتیجہ ہی اعتراف خداوندی کا ہے۔ آپ کسی کی اطاعت کر ہی نہیں سکتے جب تک کہ اس کی خداوندی({ FR 666 }) نہ مان لیں، اور جب حقیقت میں کسی کی خداوندی آپ مان چکے ہیں تو اس کی بندگی و اطاعت سے کسی طرح باز نہیں رہ سکتے۔ انسان نہ اتنا احمق ہے کہ خواہ مخواہ کسی کا حکم مانتا چلا جائے درآں حالیکہ اس کے حق حکم رانی کو تسلیم نہ کرتا ہو۔ اور نہ انسان میں اتنی جرأت موجود ہے کہ وہ فی الواقع اپنے قلب و روح میں جسے حاکم ذی اقتدار سمجھتا ہو، اور جسے نافع و ضار اور پروردگار مانتا ہو اس کی اطاعت سے منہ موڑ جائے۔ بس درحقیقت خداوندی کے اعتراف اور بندگی و طاعت کے عمل میں لازم و ملزوم کا تعلق ہے اور یہ عین عقل و منطق کا تقاضا ہے کہ ان دونوں کے درمیان ہر پہلو سے کامل توافق ہو۔
آقائی و خداوندی میں توحید لامحالہ بندگی و طاعت میں توحید پر منتج ہوگی، اور آقائی و خداوندی میں شرک کا نتیجہ لازماً بندگی و اطاعت میں شرک ہوگا۔ آپ ایک کو خدا سمجھیں گے تو ایک ہی کی بندگی بھی کریں گے۔دس کی خداوندی تسلیم کریں گے تو بندگی و طاعت کا رخ بھی ان دسوں کی طرف پھرے گا۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ آپ خداوندی دس کی تسلیم کر رہے ہوں اور اطاعت ایک کی کریں۔
ذات خداوندی کا تعین لامحالہ سمت بندگی کے تعین پر منتج ہوگا۔ آپ جس کی خداوندی کا اعتراف کریں گے لازماً اطاعت بھی اسی کی کریں گے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ خداوند ایک کو مانیں اور اطاعت دوسرے کی کریں۔ تعارض کا امکان زبانی اعتراف اور واقعی بندگی میں تو ضرور ممکن ہے، مگر قلب و روح کے حقیقی احساس و شعور اور جوارح کے عمل میں ہرگز ممکن نہیں۔ کوئی عقل اس چیز کا تصور نہیں کرسکتی کہ آپ فی الحقیقت اپنے آپ کو جس کا بندہ سمجھ رہے ہیں اس کی بجائے آپ کی بندگی کا رخ کسی ایسی ہستی کی طرف پھر سکتا ہے جس کا بندہ آپ فی الحقیقت اپنے آپ کو نہ سمجھتے ہوں۔ بخلاف اس کے عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ جس طرف بھی آپ کی بندگی کا رخ پھر رہا ہے اسی کی خداوندی کا نقش دراصل آپ کے ذہن پر مرتسم ہے، خواہ زبان سے آپ اس کے سوا کسی اور کی خداوندی کا اظہار کر رہے ہوں۔
خداوندی کے اعتراف اور بندگی کے احساس میں کمی بیشی لازماً اطاعت امر کی کمی بیشی پر منتج ہوگی۔ کسی کے خدا ہونے اور اپنے بندہ ہونے کا احساس آپ کے دل میں جتنا زیادہ شدید ہوگا اسی قدر زیادہ شدت کے ساتھ آپ اس کی اطاعت کریں گے، اور اس احساس میں جتنی کم زوری ہوگی اتنی اطاعت میں کمی واقع ہو جائے گی، حتّٰی کہ اگر یہ احساس بالکل نہ ہو تو اطاعت بھی بالکل نہ ہوگی۔
ان مقدمات کو ذہن نشین کرنے کے بعد یہ بات بالکل صاف واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کا مدعا اللہ کی خداوندی کا اقرار کرانے اور اس کے سوا ہر ایک کی خداوندی کا انکار کرا دینے سے اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی بندگی و اطاعت نہ کرے جب وہ اَلا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ({ FR 667 }) کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اطاعت خالصًا و مخلصًا صرف اللہ کے لیے ہے، کسی دوسری مستقل بالذات اطاعت کی آمیزش اس کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔ جب وہ کہتا ہے کہ:
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ البینہ 5:98
اور نہیں حکم دئیے گئے سوائے اس کے کہ اللہ کی بندگی کریں خالص کرتے ہوئے اس کے لیے دین۔
تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صرف اللہ ہی کی بندگی کرنے پر انسان مامور ہے اور اس کی بندگی کرنے کی شرط یہ ہے کہ انسان اس کی اطاعت کے ساتھ کسی دوسرے کی اطاعت مخلوط نہ کرے جب وہ کہتا ہے کہ:
وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ۝۰ۚ الانفال 39:8
لڑتے رہو ان سے یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے۔
تو اس کا صاف اور صریح مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسلمان کی اطاعت پوری کی پوری اللہ ہی کے لیے وقف ہے اور ہر اس طاقت سے مسلمان کی جنگ ہے جو اس اطاعت میں حصہ بٹانا چاہتی ہو۔ جس کا مطالبہ یہ ہو کہ مسلمان خداوند عالم کے ساتھ اس کی اطاعت بھی کرے، یا خداوند عالم کے بجائے صرف اسی کی اطاعت کرے۔ پھر جب وہ کہتا ہے کہ:
ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝۰ۭ الفتح 28:48
وہی ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ وہ غالب کر دے اسے سارے دین پر۔
تو اس کا صاف اور صریح مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی اطاعت تمام اطاعتوں پر غالب ہو، اطاعت اور بندگی کا پورا نظام اپنے تمام شعبوں اور سارے پہلوئوں کے ساتھ اطاعت الٰہی کے نیچے آجائے، جس کی فرماں برداری بھی ہو خداوند عالم کی اجازت کے تحت ہو، اور جس فرماں برداری کے لیے وہاں سے حکم یا سند جواز نہ ملے اس کا بند کاٹ ڈالا جائے، یہ اس دین حق اور اس ہدایت کا تقاضا ہے جو اللہ اپنے رسولؐ کے ذریعہ سے بھیجتا ہے۔ اس تقاضے کے مطابق خواہ انسان کے ماں باپ ہوں، خواہ خاندان اور سوسائٹی ہو، خواہ قوم اور حکومت ہو، خواہ امیر یا لیڈر ہو، خواہ علما اور مشائخ ہوں، خواہ وہ شخص یا ادارہ ہو جس کی انسان ملازمت کر کے پیٹ پالتا ہے، اور خواہ انسان کا اپنا نفس اور اس کی خواہشات ہوں، کسی کی اطاعت بھی خداوند عالم کی اصلی اور بنیادی اطاعت کی قید سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتی۔ اصل مطاع اللہ تعالیٰ ہے۔ جو اس کی خداوندی کا اقرار کر چکا اور جس نے اس کے لیے اپنی زندگی کو خالص کرلیا، وہ جس کی اطاعت بھی کرے گا، اللہ ہی کی اطاعت کے تحت رہ کر کرے گا۔ جس حد تک جس کی بات ماننے کی وہاں سے اجازت ہوگی اُسی حد تک مانے گا۔ اور جہاں اجازت کی حد ختم ہو جائے گی وہاں وہ ہر ایک کا باغی اور صرف اللہ کا فرماں بردار نکلے گا۔
روزے کا مقصد آدمی کو اسی اطاعت کی تربیت دینا ہے۔ وہ مہینا بھر تک روزانہ کئی کئی گھنٹا آدمی کو اس حالت میں رکھتا ہے کہ اپنی بالکل ابتدائی (elementary) ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی اسے خداوند عالم کے اذن و اجازت کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ غذا کا ایک لقمہ اور پانی کا ایک قطرہ تک وہ حلق سے گزار نہیں سکتا۔ جب تک کہ وہاں سے اجازت نہ ملے۔ ایک ایک چیز کے استعمال کے لیے وہ شریعت خداوندی کی طرف دیکھتا ہے۔ جو کچھ وہاں حلال ہے وہ اس کے لیے حلال ہے، خواہ تمام دنیا اسے حرام کرنے پر متفق ہو جائے، اور جو کچھ وہاں حرام ہے وہ اس کے لیے حرام ہے، خواہ ساری دنیا مل کر اسے حلال کر دے۔ اس حالت میں خدائے واحد کے سوا کسی کا اذن اس کے لیے اذن نہیں، کسی کا حکم اس کے لیے حکم نہیں، اور کسی کی نہی اس کے لیے نہی نہیں۔ خود اپنے نفس کی خواہش سے لے کر دنیا کے ہر انسان اور ہر ادارے تک کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جس کے حکم سے مسلمان رمضان میں روزہ چھوڑ سکتا ہو یا توڑ سکتا ہو۔ اس معاملہ میں نہ بیٹے پر باپ کی اطاعت ہے، نہ بیوی پر شوہر کی، نہ ملازم پر آقا کی، نہ رعیت پر حکومت کی، نہ پیر پر لیڈر یا امام کی، بالفاظ دیگر اللہ کی بڑی اور اصلی اطاعت تمام اطاعتوں کو کھا جاتی ہے اور۷۲۰ گھنٹا کی طویل مشق و تمرین سے روزہ دار کے دل پر کالنقش فی الحجر یہ سکہ بیٹھ جاتا ہے کہ ایک ہی مالک کا وہ بندہ ہے، ایک ہی قانون کا وہ پیرو ہے اور ایک ہی اطاعت کا حلقہ اس کی گردن میں پڑا ہے۔
اس طرح یہ روزہ انسان کی فرماں برداریوں اور اطاعتوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر ایک مرکزی اقتدار کی جانب پھیر دیتا ہے اور تیس دن تک روزانہ بارہ بارہ چودہ چودہ گھنٹا تک اسی سمت میں جمائے رکھتا ہے تاکہ اپنی بندگی کے مرجع اور اپنی اطاعت کے مرکز کو وہ اچھی طرح متحقق کرے اور رمضان کے بعد جب اس ڈسپلن کے بند کھول دیے جائیں تو اس کی اطاعتیں اور فرماں برداریاں بکھر کر مختلف مرجعوں کی طرف بھٹک نہ جائیں۔ اطاعت امر کی اس تربیت کے لیے بظاہر انسان کی صرف دو خواہشوں (یعنی غذا لینے کی خواہش اور صنفی خواہش) کو چھانٹ لیا گیا ہے اور ڈسپلن کی ساری پابندیاں صرف انھی دو پر لگائی گئی ہیں۔ لیکن روزے کی اصل روح یہ ہے کہ آدمی پر اس حالت میں خدا کی خداوندی اور بندگی و غلامی کا احساس پوری طرح طاری ہو جائے اور وہ ایسا مطیع امر ہو کر یہ ساعتیں گزارے کہ ہر اس چیز سے رکے جس سے خدا نے روکا ہے، اور ہر اس کام کی طرف دوڑے جس کا حکم خدا نے دیا ہے۔ روزے کی فرضیت کا اصل مقصد اسی کیفیت کو پیدا کرنا اور نشوونما دینا ہے نہ کہ محض کھانے پینے اور مباشرت سے روکنا۔ یہ کیفیت جتنی زیادہ ہو روزہ اتنا ہی مکمل ہے۔ اور جتنی اس میں کمی ہو اتنا ہی وہ ناقص ہے۔ اگر کسی آدمی نے اس احمقانہ طریقہ سے روزہ رکھا کہ جن جن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ہے ان سے تو پرہیز کرتا رہا اور باقی تمام ان افعال کا ارتکاب کیے چلا گیا جنھیں خدا نے حرام کیا ہے تو اس کے روزہ کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک مردہ لاش کہ اس میں اعضا تو سب کے سب موجود ہیں، جن سے صورت انسانی بنتی ہے مگر جان نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان انسان ہے۔ جس طرح اس بے جان لاش کو کوئی شخص انسان نہیں کہ سکتا اسی طرح اس بے روح روزے کو بھی کوئی روزہ نہیںکہ سکتا۔ یہی بات ہے جو نبی ﷺ نے فرمائی کہ:
من لم یدع قول الزور و العمل بہٖ فلیس للہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ و شرابہ۔ (بخاری، کتاب الصوم)
جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا۔ تو خدا کو اس کی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑ دے۔
جھوٹ بولنے کے ساتھ ’’جھوٹ پر عمل کرنے‘‘ کا جو ارشاد فرمایا گیا ہے یہ بڑا ہی معنی خیز ہے۔ دراصل یہ لفظ تمام نافرمانیوں کا جامع ہے۔ جو شخص خدا کو خدا کہتا ہے اور پھر اس کی نافرمانی کرتا ہے وہ حقیقت میں خود اپنے اقرار کی تکذیب کرتا ہے۔ روزے کا اصل مقصد تو عمل سے اقرار کی تصدیق ہی کرنا تھا، مگر جب وہ روزے کے دوران میں اس کی تکذیب کرتا رہا تو پھر روزے میں بھوک پیاس کے سوا اور کیا باقی رہ گیا؟ حالانکہ خدا کو اس کے خلوئے معدہ کی کوئی حاجت نہ تھی۔ اسی بات کو دوسرے انداز میں حضورؐ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
کم من صائم لیس لہ من صیامہ الاالظمأوکم من قائم لیس لہ من قیامہ الااسھر۔ (سنن الدار)
کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا اور کتنے ہی راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں۔ جنھیں اس قیام سے رت جگے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
یہی بات ہے جسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح تر الفاظ میں ظاہر فرما دیا کہ:
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَo
البقرہ 183:2
تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔ توقع ہے کہ اس ذریعہ سے تم تقوٰی کرنے لگو گے۔
یعنی روزے فرض کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان میں تقوٰی کی صفت پیدا ہو، تقوٰی کے اصل معنی حذر اور خوف کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں اس سے مراد خدا سے ڈرنا اور اس کی نافرمانی سے بچنا ہے۔ اس لفظ کی بہترین تفسیر جو میری نظر سے گزری ہے، وہ ہے جو حضرت ابی ابن کعبؓ نے بیان کی۔ حضرت عمر ؓ نے ان سے پوچھا ’’تقوٰی کسے کہتے ہیں؟‘‘ انھوں نے عرض کیا ’’امیرالمومنینؓ آپ کو کبھی کسی ایسے رستے سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے جس کے دونوں طرف خار دار جھاڑیاں ہوں اور راستہ تنگ ہو؟‘‘ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’میں دامن سمیٹ لیتا ہوں اور بچتا ہوا چلتا ہوں کہ دامن کانٹوں میں نہ الجھ جائے‘‘۔ حضرت ابی نے کہا ’’بس اسی کا نام تقوٰی ہے‘‘۔ زندگی کا یہ راستہ جس پر انسان سفر کر رہا ہے، دونوں طرف افراط و تفریط، خواہشات، میلانات نفس، وساوس، ترغیبات (temptations) گم راہیوں اور نافرمانیوں کی خار دار جھاڑیوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس راستے پر کانٹوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے چلنا اور اطاعت حق کی راہ سے ہٹ کر بد اندیشی و بدکرداری کی جھاڑیوں میں نہ الجھنا، یہی تقوٰی ہے، اور یہی تقوٰی پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کیے ہیں۔ یہ ایک مقوی دوا ہے جس کے اندر خدا ترسی وراست روی کو قوت بخشنے کی خاصیت ہے۔ مگر فی الواقع اس سے یہ قوت حاصل کرنا انسان کی اپنی استعداد پر موقوف ہے۔ اگر آدمی روزے کے مقصد کو سمجھے، اورجو قوت روزہ دیتا ہے اسے لینے کے لیے تیار ہو، اور روزہ کی مدد سے اپنے اندر خوف خدا اور اطاعت امر کی صفت کو نشوونما دینے کی کوشش کرے تو یہ چیز اس میں اتنا تقوٰی پیدا کرسکتی ہے کہ صرف رمضان ہی میں نہیں بلکہ اس کے بعد بھی سال کے باقی گیارہ مہینوں میں وہ زندگی کی سیدھی شاہ راہ پر دونوں طرف کی خار دار جھاڑیوں سے دامن بچائے ہوئے چل سکتا ہے۔ اس صورت میں اس کے لیے روزے کے نتائج (ثواب) اور منافع (اجر) کی کوئی حد نہیں ۔ لیکن اگر وہ اصل مقصد سے غافل ہو کر محض روزہ نہ توڑنے ہی کو روزہ رکھنا سمجھے اور تقوٰی کی صفت حاصل کرنے کی طرف توجہ ہی نہ کرے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے نامۂ اعمال میں بھوک پیاس اور رت جگے کے سوا اور کچھ نہیں پاسکتا۔ اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا:
کل عمل ابن اٰدم یضاعف الحسنہ بعشرا مثالہا الٰی سبع مائۃ ضعف قال اللہ تعالیٰ الا الصوم فانہ لی وانا اجزی بہ۔ (متفق علیہ)
آدمی کا ہر عمل خدا کے ہاں کچھ نہ کچھ بڑھتا ہے۔ ایک نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک پھیلتی پھولتی ہے۔ مگر اللہ فرماتا ہے کہ روزہ مستثنیٰ ہے، وہ میری مرضی پر موقوف ہے جتنا چاہوں اس کا بدلہ دوں۔
یعنی روزے کے معاملے میں بالیدگی و افزونی کا امکان بے حد و حساب ہے۔ آدمی اس سے تقوٰی حاصل کرنے کی جتنی کوشش کرے اتنا ہی وہ بڑھ سکتا ہے۔ صفر کے درجہ سے لے کر اوپر لاکھوں، کروڑوں، اربوں گنا تک وہ جاسکتا ہے بلکہ بلا نہایت ترقی کرسکتا ہے۔ پس یہ معاملہ چونکہ آدمی کی اپنی استعداد اخذ و قبول پر منحصر ہے کہ روزہ سے تقوٰی حاصل کرے یا نہ کرے، اور کرے تو کس حد تک کرے، اس وجہ سے آیت مذکورہ بالا میں یہ نہیں فرمایا کہ روزے رکھنے سے تم یقینا متقی ہو جائو گے، بلکہ لَعَلَّکُمْ({ FR 668 }) کا لفظ فرمایا جس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ توقع کی جاتی ہے، یا ممکن ہے کہ اس ذریعہ سے تم تقوٰی کرنے لگو گے۔

تعمیر سیرت

یہ تقوٰی ہی دراصل اسلامی سیرت کی جان ہے۔ جس نوعیت کا کیریکٹر اسلام ہر مسلمان فرد میں پیدا کرنا چاہتا ہے اس کا اسلامی تصور اس تقوٰی کے لفظ میں پوشیدہ ہے۔ افسوس ہے کہ آج کل اس لفظ کا مفہوم بہت محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک خاص طرز کی شکل ووضع بنا لینا، چند مشہور ونمایاں گناہوں سے بچنا اور بعض ایسے مکروہات سے پرہیز کرنا جنھوں نے عوام کی نگاہ میں بہت اہمیت اختیار کرلی ہے بس اسی کا نام تقوٰی ہے۔ حالانکہ دراصل یہ ایک نہایت وسیع اصطلاح ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ قرآن مجید انسانی طرزِ خیال و طرز عمل کو اصولی حیثیت سے دو بڑی قسموں پر تقسیم کرتا ہے:
ایک قسم وہ ہے جس میں انسان:
۱۔ دنیوی طاقتوں کے ماسوا کسی بالاتر اقتدار کو اپنے اوپر نگران نہیں سمجھتا اور یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے کہ اسے کسی فوق البشر حاکم کے سامنے جواب دہی نہیں کرنی ہے۔
۲۔ دنیوی زندگی ہی کو زندگی، دنیوی فائدے ہی کو فائدہ اور دنیوی نقصان ہی کو نقصان سمجھتا ہے اور اس بنا پر کسی طریقہ کو اختیار کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ صرف دنیوی فائدے اور نقصان ہی کے لحاظ سے کرتا ہے۔
۳۔ مادی فائدوں کے مقابلہ میں اخلاقی و روحانی فضائل کو بے وقعت سمجھتا ہے اور مادی نقصانات کے مقابلہ میں اخلاقی و روحانی نقصانات کو ہلکا خیال کرتا ہے۔
۴۔ کسی مستقل اخلاقی دستور کی پابندی نہیں کرتا بلکہ موقع و محل کے لحاظ سے خود ہی اخلاقی اصول وضع کرتا ہے اور دوسرے موقع پر خود ہی انھیں بدل دیتا ہے۔
دوسری قسم وہ ہے جس میں انسان:
۱۔ اپنے آپ کو ایک ایسے بالاتر حکم ران کا تابع اور اس کے سامنے جواب دہ سمجھتا ہے جو عالم الغیب و الشہادت ہے۔ اور یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے کہ اسے ایک روز اپنی دنیوی زندگی کے پورے کارنامے کا حساب دینا ہوگا۔
۲۔ دنیوی زندگی کو اصل حیات انسانی کا صرف ایک ابتدائی مرحلہ سمجھتا ہے اور ان فوائد و نقصانات کو جو اس مرحلہ میں ظاہر ہوتے ہیں عارضی اور دھوکا دینے والے نتائج خیال کرتا ہے اور اپنے طرز عمل کا فیصلہ ان مستقل فائدوں اور نقصانات کی بنیاد پر کرتا ہے جو آخرت کی پائدار زندگی میں ظاہر ہوں گے۔
۳۔ مادی فائدوں کے مقابلہ میں اخلاقی و روحانی فضائل کو زیادہ قیمتی سمجھتا ہے اور مادی نقصانات کی بہ نسبت اخلاقی و روحانی نقصانات کو شدید تر خیال کرتا ہے۔
۴۔ ایک ایسے مستقل اخلاقی دستور کی پابندی کرتا ہے جس میں اپنی اغراض و مصالح کے لحاظ سے اسے ترمیم و تنسیخ کرنے کی آزادی حاصل نہیں ہے۔
ان میں سے پہلی قسم کے طرز خیال و طرز عمل کا جامع نام قرآن نے فجور({ FR 669 }) رکھا ہے۔ اور دوسرے طرز خیال و عمل کو وہ تقوٰی({ FR 670 }) کے نام سے یاد کرتا ہے۔یہ دراصل زندگی کے دو مختلف راستے ہیں جو بالکل ایک دوسرے کی ضد واقع ہوئے ہیں اور اپنے نقطۂ آغاز سے لے کر نقطۂ انجام تک کہیں ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ فجور کے راستے کو اختیار کرکے آدمی کی پوری زندگی اپنے تمام اجزا اور تمام شعبوں کے ساتھ ایک خاص ڈھنگ پر لگ جاتی ہے جس میںتقوٰی کی ظاہری اشکال توکہیں نظر آسکتی ہیں۔ مگر تقوٰی کی اسپرٹ کا شائبہ تک نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ فجور کے تمام فکری اجزا ایک دوسرے کے ساتھ منطقی ربط رکھتے ہیں اور تقوٰی کے فکری اجزا میں سے کسی جز کو بھی ان کے مربوط نظام میں راہ نہیں مل سکتی۔ برعکس اس کے تقوٰی کا راستہ اختیار کرکے انسان کی پوری زندگی کا ڈھنگ کچھ اور ہوتا ہے، وہ ایک دوسرے ہی طرز پر سوچتا ہے، دنیا کے ہر معاملہ اور ہر مسئلہ کو ایک دوسری ہی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور ہر موقع و محل پر ایک دوسرا ہی طرز اختیار کرتا ہے۔ ان دونوں راستوں کا فرق صرف انفرادی زندگی ہی سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اجتماعی زندگی سے بھی اس کا اتنا ہی تعلق ہے۔ جو جماعت فاجر افراد پر مشتمل ہوگی یا جس میں فاجرین کی اکثریت ہوگی اور اہل فجور کے ہاتھ میں جس کی قیادت ہوگی اس کا پورا تمدن فاجرانہ ہوگا۔ اس کی معاشرت میں اس کے اخلاقیات میں، اس کی معاشیات میں، اس کے نظام تعلیم و تربیت میں اس کی سیاست میں، اس کے بین الاقوامی رویہ میں، غرض اس کی ہر چیز میں فجور کی روح کار فرما ہوگی۔ یہ بہت ممکن ہے کہ اس کے اکثر یا بعض افراد ذاتی خود غرضیوں اور منفعت پرستیوں سے بالاتر نظر آئیں، مگر زیادہ سے زیادہ جس بلندی پر وہ چڑھ سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کو اس قوم کے مفاد میں گم کر دیں۔ جس کی ترقی سے ان کی اپنی ترقی اور جس کے تنزل سے ان کا اپنا تنزل وابستہ ہے۔ لہٰذا اگر کسی شخصی سیرت میں فجور کا رنگ کم بھی ہو تو اس سے کوئی فرق واقع نہ ہوگا۔ قومی رویہ بہرحال افادیت، ابن الوقتی، مصلحت پرستی اور مادہ پرستی ہی کے اصول پر چلے گا۔ اسی طرح تقوٰی بھی محض انفرادی چیز نہیں ہے۔ جب کوئی جماعت متقین پر مشتمل ہوتی ہے یا اس میں اہل تقوٰی کی کثرت ہوتی ہے، اور متقی ہی اس کے راہ نُما ہوتے ہیں تو اس کے پورے اجتماعی رویہ میں ہر حیثیت سے خدا ترسی کا رنگ ہوتا ہے۔ وہ وقتی اور ہنگامی مصلحتوں کے لحاظ سے اپنا طرز عمل مقرر نہیں کرتی بلکہ ایک مستقل دستور کی پیروی کرتی ہے اور ایک اٹل نصب العین کے لیے اپنی تمام مساعی وقف کر دیتی ہے، قطع نظر اس سے کہ دنیوی لحاظ سے قوم کو کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے یا کیا نقصان پہنچتا ہے۔ وہ مادی فائدوں کے پیچھے نہیں دوڑتی بلکہ پائدار اخلاقی و روحانی منافع کو اپنا مطمح نظر بناتی ہے۔ وہ مواقع کے لحاظ سے اصول توڑتی اور بناتی نہیں ہے بلکہ ہر حال میں اصول حق کا اتباع کرتی ہے۔ کیوں کہ اسے اس کی پروا نہیں ہوتی کہ اس کے مد مقابل قوموں کی طاقت کم ہے یا زیادہ بلکہ اوپر جو خدا موجود ہے وہ اس سے ڈرتی ہے اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر جواب دہی کرنے کا جو وقت بہرحال آنا ہے اس کی فکر اسے کھائے جاتی ہے۔
اسلام کے نزدیک دنیا میں فساد کی جڑ اور انسانیت کی تباہی و بربادی کا اصلی سبب ’’فجور‘‘ ہے۔ وہ اس فجور کے سانپ ہلاک کر دینا چاہتا ہے یا کم از کم اس کے زہریلے دانت توڑ دینا چاہتا ہے تاکہ اگر یہ سانپ جیتا رہے تب بھی انسانیت کو ڈسنے کی طاقت اس میں باقی نہ رہے۔ اس کام کے لیے وہ نوع انسانی میں سے ان لوگوں کو چن چن کر نکالنا اور اپنی پارٹی میں بھرتی کرنا چاہتا ہے جو متقیانہ رجحان طبع رکھتے ہوں۔ فجور کی جانب ذہنی رُجحان bent of mind رکھنے والے لوگ اس کے کسی کام کے نہیں، خواہ وہ اتفاق سے مسلمانوں کے گھر میں پیدا کیے گئے ہوں اور مسلم قوم کے درد میں کتنے ہی تڑپتے ہوں۔ اسے دراصل ضرورت ان لوگوں کی ہے جن میں خود اپنی ذمہ داری کا احساس ہو جو آپ اپنا حساب لینے والے ہوں، جو خود اپنے دل کی نیتوں اور ارادوں پر نظر رکھیں، جنھیں قانون کی پابندی کے لیے کسی خارجی دبائو کی حاجت نہ ہو بلکہ خود ان کے اپنے باطن میں ایک محاسب اور آمر بیٹھا ہو جو انھیں اندر سے قانون کا پابند بناتا ہو اور ایسی قانون شکنی پر بھی ٹوکتا ہو جس کا علم کسی پولیس کسی عدالت اور رائے عامہ کو نہیں ہوسکتا۔ وہ ایسے افراد چاہتا ہے جنھیں یقین ہو کہ ایک آنکھ ہر حال میں انھیں دیکھ رہی ہے، جو دنیوی منافع کے بندے ہنگامی مصالح کے غلام اور شخصی یا قومی اغراض کے پرستار نہ ہوں۔ جن کی نظر آخرت کے اصلی و حقیقی نتائج پر جمی ہوئی ہو، جنھیں دنیا کے بڑے سے بڑے فائدے کا لالچ یا سخت سے سخت نقصان کا خوف بھی خداوند عالم کے دئیے ہوئے نصب العین اور اس کے بتائے ہوئے اصول اخلاق سے نہ ہٹا سکتا ہو جن کی تمام سعی و کوشش صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو، جنھیں اس امر کا پختہ یقین ہو کہ پایان کاربندگی حق ہی کا نتیجہ بہتر اور بندگیٔ باطل ہی کا انجام بُرا ہوگا، چاہے اس دنیا میںمعاملہ برعکس ہو۔ پھر اسے جن آدمیوں کی تلاش ہے وہ ایسے آدمی ہیں جن کے اندر اتنا صبر موجود ہو کہ ایک صحیح اور بلند نصب العین کے لیے برسوں بلکہ ساری عمر لگاتار سعیِ لا حاصل کرسکتے ہوں، جن میں اتنی ثابت قدمی ہو کہ غلط راستوں کی آسانیاں، فائدے اور لطف و لذت کوئی چیز بھی انھیں اپنی طرف نہ کھینچ سکتی ہو، جن میں اتنا تحمل ہو کہ حق کے راستے پر چلنے میں خواہ کس قدر ناکامیوں، مشکلات، خطرات، مصائب اور شدائد کا سامنا ہو، ان کا قدم نہ ڈگمگائے، جن میں اتنی یک سوئی ہو کہ ہر قسم کی عارضی اور ہنگامی مصلحتوں سے نگاہ پھیر کر اپنے نصب العین کی طرف بڑھے چلے جائیں، جن میں اتنا تو کل موجود ہو کہ حق پرستی و حق کوشی کے زیر طلب اور دور رس نتائج کے لیے خداوند عالم پر بھروسا کرسکیں۔ خواہ دنیا کی زندگی میں اس کام کے نتائج سرے سے برآمد ہوتے نظر ہی نہ آئیں۔ ایسے ہی لوگوں کی سیرت پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ اور جو کام اسلام اپنی پارٹی سے لینا چاہتا ہے اس کے لیے ایسے ہی قابل اعتماد کارکنوں کی ضرورت ہے۔
تقوٰی کی اس صفت کا ہیولیٰ (ابتدائی جوہر) جن لوگوں میں موجود ہو ان کے اندر اس صفت کو نشوونما دینے اور اسے مستحکم کرنے کے لیے روزے سے زیادہ طاقت وَر اور کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ روزے کے ضابطے پر ایک نگاہ ڈالیے، آپ پر خود منکشف ہونے لگے گا کہ یہ چیز کس مکمل طریقے سے ان صفات کو بالیدگی اور پائداری بخشتی ہے۔ ایک شخص سے کہا جاتا ہے کہ روزہ خدا نے تم پر فرض کیا ہے۔ صبح سے شام تک کچھ نہ کھائو پیو۔ کوئی چیز حلق سے اُتارو گے تو تمھارا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ لوگوں کے سامنے کھانے پینے سے اگر تم نے پرہیز کیا اور درپردہ کھاتے پیتے رہے تو خواہ لوگوں کے نزدیک تمھارا شمار روزہ داروں میں ہو مگر خدا کے نزدیک نہ ہوگا۔ تمھارا روزہ صحیح اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ خدا کے لیے رکھو، ورنہ دوسری کسی غرض مثلاً: صحت کی درستی یا نیک نامی کے لیے رکھو گے تو خدا کی نگاہ میں اس کی کوئی قیمت نہیں۔ خدا کے لیے اپنا روزہ پورا کرو گے تو اس دنیا میں کوئی انعام نہ ملے گا اور توڑو گے یا نہ رکھو گے تو یہاں کوئی سزا نہ دی جائے گی۔ مرنے کے بعد جب خدا کے سامنے پیش ہوگے اسی وقت انعام بھی ملے گا اور اسی وقت سزا بھی دی جائے گی۔ یہ چند ہدایات دے کر آدمی کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کوئی سپاہی، کوئی ہرکارہ، کوئی سی۔ آئی۔ ڈی کا آدمی اس پر مقرر نہیں کیا جاتا کہ ہر وقت اس کی نگرانی کرے۔ زیادہ سے زیادہ رائے عامہ اپنے دبائو سے اسے اس حد تک مجبور کرسکتی ہے کہ دوسروں کے سامنے کچھ نہ کھائے پیے، مگر چوری چھپے کھانے پینے سے اسے روکنے والا کوئی نہیں اور اس بات کا حساب لینا تو کسی رائے عامہ یا کسی حکومت کے بس ہی میں نہیں کہ وہ رضائے الٰہی کی نیت سے روزہ رکھ رہا ہے یا کسی اور نیت سے۔ ایسی حالت میں جو شخص روزے کی تمام شرائط پوری کرتا ہے، غور کیجیے کہ اس کے نفس میں کس قسم کی کیفیات اُبھرتی ہیں:
۱۔ اسے خداوند عالم کی ہستی کا، اس کے عالم الغیب ہونے کا، اس کے قادر مطلق ہونے کا، اور اس کے سامنے اپنے محکوم اور جواب دہ ہونے کا کامل یقین ہے۔ اور اس پوری مدت میں جب کہ وہ روزے سے رہا ہے۔ اس کے یقین میں ذرا تزلزل نہیں آیا۔
۲۔ اسے آخرت پر، اس کے حساب کتاب پر اور اس کی جزا اور سزا پر پورا یقین ہے۔ اور یہ یقین بھی کم از کم ان بارہ چودہ گھنٹوں میں برابر غیر متزلزل رہا ہے، جب کہ وہ اپنے روزے کی شرائط پر قائم رہا۔
۳۔ اس کے اندر خود اپنے فرض کا احساس ہے۔ وہ آپ اپنی ذمہ داری کو سمجھتا ہے، وہ اپنی نیت کا خود محتسب ہے، اپنے دل کے حال پر خود نگرانی کرتا ہے۔ خارج میں قانون شکنی یا گناہ کا صدور ہونے سے پہلے جب نفس کی اندرونی تہوں میں اس کی خواہش پیدا ہوتی ہے اسی وقت وہ اپنی قوت ارادی سے اس کا استیصال کر دیتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ پابندیٔ قانون کے لیے خارج میں کسی دبائو کا وہ محتاج نہیں ہے۔
۴۔ مادیت اور اخلاق و روحانیت کے درمیان انتخاب کا جب اسے موقع دیا گیا تو اس نے اخلاق و روحانیت کو انتخاب کیا۔ دنیا اور آخرت کے درمیان ترجیح کا سوال جب اس کے سامنے آیا تو اس نے آخرت کو ترجیح دی۔ اس کے اندر اتنی طاقت تھی کہ اخلاقی فائدے کی خاطر مادی نقصان و تکلیف کو اس نے گوارا کیا، اور آخرت کے نفع کی خاطر دنیوی مضرت کو قبول کرلیا۔
۵۔ وہ اپنے آپ کو اس معاملہ میں آزاد نہیں سمجھتا کہ اپنی سہولت دیکھ کر اچھے موسم، مناسب وقت اور فرصت کے زمانہ میں روزہ رکھے، بلکہ جو وقت قانون میں مقرر کر دیا گیا ہے اسی وقت روزہ رکھنے پر وہ اپنے آپ کو مجبور سمجھتا ہے خواہ موسم کیسا ہی سخت ہو، حالات کیسے ہی ناساز گار ہوں اور اس کی ذاتی مصلحتوں کے لحاظ سے اس وقت روزہ رکھنا کتنا ہی نقصان دہ ہو۔
۶۔ اس میں صبر، استقامت، تحمل، یک سوئی، توکل اور دنیوی ترغیبات و تحریصات کے مقابلہ کی طاقت کم از کم اس حد تک موجود ہے کہ رضائے الٰہی کے بلند نصب العین کی خاطر وہ ایک ایسا کام کرتا ہے جس کا نتیجہ مرنے کے بعد دوسری زندگی پر ملتوی کیا گیا ہے۔ اس کام کے دوران میں وہ رضا کارانہ اپنی خواہشات نفس کو روکتا ہے۔ سخت گرمی کی حالت میں پیاس سے حلق چٹخا جارہا ہے، برفاب سامنے موجود ہے، آسانی سے پی سکتا ہے۔ مگر نہیں پیتا۔ بھوک کے مارے جان پر بن رہی ہے، کھانا حاضر ہے، چاہے تو کھا سکتا ہے، مگر نہیں کھاتا۔ جوان میاں بیوی ہیں، خواہش نفس زور کرتی ہے، چاہیں تو اس طرح قضائے شہوت کرسکتے ہیں کہ کسی کو پتا نہ چلے، مگر نہیں کرتے۔ ممکن الحصول فائدوں سے یہ صرف نظر، اور ممکن الاحتراز نقصانات کی یہ پزیرائی اور خود اپنے منتخب کیے ہوئے طریق حق پر ثابت قدمی کسی ایسے نفع کی امید پر نہیں ہے جو اس دنیا کی زندگی میں حاصل ہونے والا ہو بلکہ ایسے مقصد کے لیے ہے جس کے متعلق پہلے ہی نوٹس دے دیا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے اس کے حاصل ہونے کی اُمید ہی نہ رکھو۔
یہ کیفیات ہیں جو پہلے روزے کا ارادہ کرتے ہی انسان کے نفس میں ابھرنا شروع ہوتی ہیں جب وہ عملاً روزہ رکھتا ہے تو یہ بالفعل ایک طاقت بن جاتی ہیں۔ جب تیس دن تک مسلسل وہ اسی فعل کی تکرار کرتا ہے تو یہ طاقت راسخ ہوتی چلی جاتی ہے اور بالغ ہونے کے بعد سے مرتے دم تک تمام عمر ایسے ہی تیس تیس روزے ہر سال رکھنے سے وہ آدمی کی جبلت میں پیوست ہو کر رہ جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے نہیں ہے کہ یہ صفات صرف روزے ہی رکھنے میں اور صرف رمضان ہی کے مہینے میں کام آئیں، بلکہ اس لیے ہے کہ انھی اجزا سے انسان کی سیرت کا خمیر بنے۔ وہ فجور سے یک سر خالی ہو اور اس کی ساری زندگی تقوٰی کے راستے پڑ جائے۔ کیا کوئی کہ سکتا ہے کہ اس مقصد کے لیے روزے سے بہتر کوئی طریق تربیت ممکن ہے؟ کیا اس کی بجائے اسلامی طرز کی سیرت بنانے کے لیے کوئی دوسرا کورس تجویز کیا جاسکتا ہے؟

ضبط نفس

اس تربیت کے ضابطہ میں کسنے کے لیے صرف دو خواہشوں کو منتخب کیا گیا ہے یعنی شہوت شکم اور شہوتِ فرج۔ اور ان کے ساتھ ایک تیسری خواہش… آرام لینے کی خواہش بھی زد میںآگئی ہے کیوں کہ تراویح کے قیام اور سحری کے لیے آخر شب میں مزے کی نیند توڑ کر اٹھنے کی وجہ سے اس پر بھی اچھی خاصی ضرب پڑتی ہے۔
حیوانی زندگی کے مطالبات میں یہ تین مطالبے اصل و بنیاد کا حکم رکھتے ہیں:
بقائے نفس کے لیے غذا کا مطالبہ۔
بقائے نوع کے لیے صنف مقابل سے اتصال کا مطالبہ۔
اپنی کھوئی ہوئی طاقتوں کو بحال کرنے کے لیے آرام کا مطالبہ۔
انھی تین ضرورتوں کا تقاضا تمام حیوانی خواہشات کا مبدا اور تمام حیوانی اعمال کا محرک ہے اور یہ تقاضا اتنا طاقت وَر ہے کہ حیوان جو کچھ کرتا ہے اسی کے زور سے مجبور ہو کر کرتا ہے۔
انسان کو خدمت گار اور آلۂ کار کی حیثیت سے جو بہترین ساخت کا حیوان (جسم) دیا گیا ہے، اس کے بنیادی مطالبات بھی یہی تین ہیں اور چونکہ وہ تمام حیوانات سے اونچی قسم کا حیوان ہے اس لیے اس کے مطالبات بھی ان سب سے بڑھے ہوئے ہیں۔ وہ صرف زندہ رہنے کے لیے غذا ہی نہیں مانگتا بلکہ اچھی غذا مانگتا ہے۔ طرح طرح کی مزے دار غذائیں مانگتا ہے، غذائی مواد کی ترکیبوں کا مطالبہ کرتا ہے اور اس کے اس مطالبہ میں سے اتنی شاخیں نکلتی چلی جاتی ہیں کہ اسے پورا کرنے کے لیے ایک دنیا کی دنیا درکار ہوتی ہے۔ وہ صرف بقائے نوع کے لیے صنف مقابل سے اتصال ہی کا مطالبہ نہیں کرتا، بلکہ اس مطالبہ میں ہزار نزاکتیں اور ہزار باریکیاں پیدا کرتا ہے۔ تنوع چاہتا ہے، حسن چاہتا ہے، آرائش کے بے شمار سامان چاہتا ہے، طرب انگیز سماں اور لذت انگیز ماحول چاہتا ہے، غرض اس سلسلہ میں بھی اس کے مطالبات اتنی شاخیں نکالتے ہیں کہ کہیں جاکر ان کا سلسلہ رکتا ہی نہیں۔ اسی طرح اس کی آرام طلبی بھی عام حیوانات کے مثل صرف کھوئی ہوئی قوتوں کو بحال کرنے کی حد تک نہیں رہتی، بلکہ وہ بھی بے شمار شاخیں نکالتی ہے جن کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ وہ صرف کھوئی ہوئی طاقتوں کو بحال ہی نہیں کرنا چاہتا بلکہ چاہتا ہے کہ حتی الامکان قوتیں کھونے کی نوبت ہی نہ آنے پائے، مشقت سے جی چراتا ہے، محنت کے بغیر کام نکالنے کی کوشش کرتا ہے، طرح طرح کی تدبیریں اس غرض کے لیے نکالتا ہے کہ بِلامحنت یا کم از کم محنت سے مقصد برآری ہو جائے، اور خصوصًاایسے مقاصد کے لیے محنت کرنے میں تو اس کی جان پر بنتی ہے جو اس کے حیوانی مقاصد سے بالاتر ہوں۔
اس طرح ان تین ابتدائی خواہشوں سے خواہشات کا ایک لامتناہی جال بن جاتا ہے جو انسان کی پوری زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لینا چاہتا ہے۔ پس دراصل انسان کے اس خادم، اس منہ زور حیوان کے پاس یہی تین ہتھیار وہ سب سے بڑے ہتھیار ہیں جن کی طاقت سے وہ انسان کا خادم بننے کے بجائے خود انسان کو اپنا خادم بنانے کی کوشش کرتا ہے اور ہمیشہ زور لگاتا رہتا ہے کہ اس کے اور انسان کے تعلق کی نوعیت صحیح فطری نوعیت کے برعکس ہو جائے یعنی بجائے اس کے کہ انسان اس پر سوار ہو، الٹا وہ انسان پر سوار ہو کر اسے اپنی خواہشات کے مطابق کھینچے کھینچے پھرے۔ اگر انسان پوری قوت سے اس پر اپنا اقتدار مسلط نہ کرے اور تمیز دار ارادہ کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دے تو بالآخر وہ اس پر غالب آجاتا ہے۔ پھر وہ اپنے خدمت گار کا غلام اور اس کا خدمت گار اس کا آقا ہوتا ہے۔ علم اسما کی جو نعمت اللہ نے اسے دی ہے فکر و استدلال اور تسخیر و ایجاد کی جو قابلیتیں اسے عطا کی ہیں وہ سب کی سب اس اندھے جاہل، نادان جانور کی خدمت میں لگ جاتی ہیں، بلندیوں پر اڑنے کے بجائے پستیوں پر اترنے کے کام آتی ہیں، اعلیٰ درجہ کے انسانی مقاصد کی جگہ ذلیل حیوانی مقاصد حاصل کرنے کا آلہ بن جاتی ہیں، ان کا کوئی مصرف اس کے سوا باقی نہیں رہتا کہ رات دن بس اسی حیوان کی خواہشات پوری کرنے کے لیے نئے نئے وسائل تلاش کرتی رہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ حیوان شر الدواب……تمام حیوانات سے بدتر قسم کا حیوان… بن کر رہ جاتا ہے۔ بھلا جس حیوان کو اپنی خواہشات پوری کرنے کے لیے انسان جیسا خادم مل جائے اس کے شر کی بھی کوئی حد ہو سکتی ہے! جس بیل کو بحری بیڑا بنانے کی قابلیت میسر آجائے، زمین کی کس چراگاہ میں اتنا بل بوتا ہوتا ہے کہ اس کے معاشی مفاد کی لپیٹ میں آجانے سے بچ جائے؟ جس کتے کی حرص کو ٹینک اور ہوائی جہاز بنانے کی قوت مل جائے، کس بوٹی اور کس ہڈی کا یارا ہے کہ اس کی کُچلیوں کی گرفت میں آنے سے انکار کر دے؟ جس بھیڑیے کو اپنے جنگل کے بھیڑیوں کی قومیت بنانے کا سلیقہ ہو اور جو پریس اور پروپیگنڈے سے لے کر لمبی مار کی توپوں تک سے کام لے سکتا ہو، زمین میں کہاں اتنی گنجائش ہے کہ اس کے لیے کافی شکار (lebensraum) فراہم کرسکے؟ جس بکرے کی شہوت ناول، ڈراما، تصویر، موسیقی، رقص، ایکٹنگ اور حسن افزائی کے وسائل ایجاد کرسکتی ہو، جس میں بکریوں کی تربیت کے لیے کالج، کلب اور فلمستان تک پیدا کرنے کی لیاقت ہو، اس کی داد عیش کے لیے کون حد و انتہا مقرر کرنے کا ذمہ لے سکتا ہے؟
ان پستیوں میں گرنے سے انسان کو بچانے کے لیے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ اس کے سامنے انسانی زندگی کا نصب العین پیش کیا جائے، اور اسے انسانی قوتوں کا صحیح مصرف بتایا جائے، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس حیوان کے ساتھ اس کے تعلق کی جو فطری نوعیت ہے اسے عملاً قائم کیا جائے اور مشق و تمرین کے ذریعہ سے سوار کو اتنا چست کر دیا جائے کہ وہ اپنی سواری پر جم کر بیٹھے، اور ارادے کی باگیں مضبوطی کے ساتھ تھامے، اور اس پر اتنا قابو یافتہ ہو کہ اس کی خواہشات کے پیچھے خود نہ چلے بلکہ اپنے ارادے کے مطابق اسے سیدھا سیدھا چلائے۔ اس حیوان کو خدا نے اس لیے ہمارے سپرد کیا ہے کہ ہم اس سے کام لیں اور اسے اپنی زندگی کے مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ بنائیں۔ اس کا دماغ ہمارے لیے فکر کرنے کا وسیلہ ہے، اس کے آلات حواس ہمارے لیے علم حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اس کے ہاتھ اور پائوں ہمارے لیے سعی و عمل کرنے کے آلات ہیں۔ جتنی چیزیں خدا نے اس دنیا میں ہمارے لیے مسخر کی ہیں ان میں سب سے زیادہ کار آمد چیز یہی حیوانی جسم ہے۔ اس کے اندر جتنی فطری خواہشات ہیں وہ سب اس کی حقیقی ضرورتوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ جنھیں پورا کرنا ہمارا فرض ہے۔ ہم پر اس کا حق ہے کہ اسے آرام سے رکھیں۔ اسے قوت بخش غذا دیں، بقائے نوع کے لیے اس کی طلب کو پورا کریں، اور اسے خواہ مخواہ ضائع نہ کر دیں۔ لیکن بہرحال یہ ہماری اور ہمارے مقصد زندگی کی خدمت کے لیے ہے نہ کہ ہم اس کی اور اس کے مقصد زندگی کی خدمت کے لیے۔ اسے ہمارے ارادے کا تابع ہونا چاہیے، نہ کہ ہمیں اس کی خواہشات کا تابع۔ اس کا یہ مرتبہ نہیں ہے کہ ایک فرماں روا کی طرح اپنی خواہشات ہم سے پوری کرائے بلکہ اس کا صحیح مرتبہ یہ ہے کہ ایک غلام کی طرح ہمارے سامنے اپنی خواہشات پیش کرے اور یہ ہماری تمیز اور تربیت یافتہ خودی کاکام ہے کہ اس کی جس درخواست کو جب اور جس طرح مناسب سمجھیں، پورا کریں یا رَد کردیں۔
روزے کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد انسان کو اس کے حیوانی جسم پر یہی اقتدار بخشتا ہے۔ جو تین خواہشیں تمام حیوانی خواہشات کا مبدا ہیں، جو تین ہتھیار اس حیوان کے پاس ایسے طاقت وَر ہیں کہ ان کے زور سے یہ ہمیں اپنا مطیع بنانے کے لیے اٹھتا ہے، روزہ انھی تینوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور اس کے منہ میں مضبوط لگام دے کر اس کی راسیں ہماری اس خودی کے ہاتھ میں دے دیتا ہے جو خدا پر ایمان لائی ہے اور اس کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کا عزم کر چکی ہے۔ اس وقت اس جانور کی بے بسی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ صبح سے شام تک یہ دانہ پانی مانگتا رہتا ہے اور ہم اسے کچھ نہیں دیتے۔ یہ پانی کی طرف لپکنا چاہتا ہے مگر ہم باگیں کھینچ لیتے ہیں۔ یہ کھانا دیکھ کر اس پر منہ مارنا چاہتا ہے مگر ہم اسے جنبش نہیں کرنے دیتے۔ یہ کہتا ہے کہ اچھا سگریٹ، حقہ، پان کسی چیز سے تو مجھے اپنی آگ بجھا لینے دو مگر ہم اس کی درخواست کو رد کر دیتے ہیں۔ یہ اپنے جوڑے کو دیکھ کر اس کی طرف دوڑتا ہے اور ملاعبت شروع کر دیتا ہے۔ مگر جہاں تسکین نفس کا سوال بیچ میں آیا اور ہم نے لگام کھینچ لی۔ اس طرح دن بھر اس کی خواہشوں کو ٹھکرانے کے بعد ہم اپنے مالک کے مقرر کیے ہوئے وقت پر اسے چارا پانی دیتے ہیں۔ اب یہ تھکا ہارا چاہتا ہے کہ ذرا آرام لے مگر عشا کی اذان سنتے ہی ہم کان پکڑ کر اسے سیدھا اٹھا کھڑا کرتے ہیں اور مسجد کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ دوسرے دنوں میں تو اسے عشا کے وقت تھوڑا ہی قیام کرنا پڑتا تھا۔ رمضان میں معمولی نماز کے علاوہ تراویح کی غیر معمولی رکعتوں کے لیے بھی ہم اسے کھڑا رکھتے ہیں۔ اس رگید سے نکل کر بے چارہ سونے کے لیے دوڑتا ہے اور چاہتا ہے کہ بس صبح کی خبر لائے۔ مگر رات کے پچھلے پہر میں جب کہ اس کا روآں روآں میٹھی نیند میں سرشار ہوتا ہے۔ ہم ایک ایسا چابک رسید کرتے ہیں کہ سارا نشہ ہرن ہو جاتا ہے، پھر ہم کہتے ہیں کہ ہمارے مالک کا حکم دن کی بجائے اس وقت دانہ پانی دینے کا ہے لہٰذا جو کچھ کھانا چاہتا ہے اب کھالے۔
یہ مشق ہے جو ہمیں ہر سال تیس دن تک کرائی جاتی ہے تاکہ اپنے اس خادم پر ہمیں پورا اقتدار حاصل ہو جائے، اس سے ہم اپنے جسم اور جسمانی قوتوں کے بااختیار حاکم بن جاتے ہیں۔ حیوانی خواہشات کی جابرانہ قہرمانی ختم ہو جاتی ہے۔ ہم میں اتنی طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ اپنی جس خواہش کو جس حد پر چاہیں روک دیں، اور اپنی جس قوت سے جس طرح چاہیں کام لے سکیں۔ وہ شخص جسے اپنی خواہشات کا مقابلہ کرنے کی کبھی عادت ہی نہ رہی ہو، جو نفس کے ہر مطالبہ پر بے چون و چرا سر جھکا دینے کاخوگر رہا ہو، اور جس کے لیے حیوانی جبلت کا داعیہ ایک فرمان واجب الاذعان کا حکم رکھتا ہو، دنیا میں کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ بڑے درجہ کے کام انجام دینے کے لیے بہرحال آدمی کی خودی میں اتنا بل بوتا ہونا چاہیے کہ وہ نفس کی خواہشات کو اپنے قابو میں رکھ سکے اور ان قوتوں کو جو اللہ نے اس کے نفس و جسم کو ودیعت کی ہیں اپنے ارادے کے مطابق استعمال کرسکے۔ اسی لیے رمضان کے فرض روزوں کے علاوہ سال کے دوران میں کبھی کبھی نفل روزے بھی رکھنے کو پسندیدہ قرار دیا گیا ہے تاکہ اس اقتدار کی گرفت مضبوط ہوتی رہے۔
لیکن بہت فرق … اصولی اور جوہری فرق…… ہے اس اقتدار میں جو اسلامی روزہ انسان کی خودی کو اس کے نفس و جسم پر دیتا ہے، اور اس اقتدار میں جو غیراسلامی طور پر نفس کشی کی مشقتوں یا قوت ارادی کو نشو ونما دینے کی ورزشوں سے حاصل کیا جاتا ہے، یا جو فطری طورپر بڑے آدمیوںکو خود بخود حاصل ہوتا ہے۔ یہ دوسری قسم کا اقتدار تو دراصل ایک ایسی جاہل، مطلق العنان خودی کا استبداد ہے جو اپنے سے بالاتر کسی حاکم کی مطیع، کسی ضابطہ و قانون کی پابند اور کسی علم صحیح کی متبع نہیں ہے۔ اسے اپنی جسمانی اور نفسانی قوتوں پر جو فرماں روائی حاصل ہوتی ہے، لازم نہیں، بلکہ ممکن نہیں کہ وہ اسے صحیح مقصد کے لیے اور صحیح طریقہ پر استعمال کرے۔ دنیا میں سنیاس، رہبانیت اور ترک لذات کی بیماریاں اسی نوعیت کے اقتدار سے پیدا ہوئی ہیں۔ اسی اقتدار کی بدولت نفس اور جسم کے جائز حقوق چھینے گئے ہیں۔ اسی اقتدار کے بل پر انسان خود اپنی فطرت سے لڑا ہے۔ اسی اقتدار کی بدولت انسان نے اپنی قابلیتوں کو تہذیب و تمدن کے ارتقا میں صرف کرنے کے بجائے تنزل و انحطاط کی کوششوں میں صرف کیا ہے۔ اسی اقتدار کی بدولت دنیا کے بہت سے بڑے آدمیوں نے خدا کے بندوں پر اپنی خدائی مسلط کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنی طاقتوں کو حق کے بجائے ظلم کی راہ استعمال کیا ہے، برعکس اس کے اسلامی روزہ جس خودی کو نفس و جسم پر اقتدار دیتا ہے وہ مطلق العنان خودی نہیں ہے۔ بلکہ خدا اور اس کے قانون کی اطاعت کرنے والی خودی ہے۔ وہ جاہل خودی نہیں ہے، ایسی خودی نہیں ہے جو آپ اپنی راہ نُما ہو‘ بلکہ ایسی خودی ہے جو خدا کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت، العلم، کتاب منیر کی راہ نُمائی میں چلنے والی ہے۔ وہ خدا کے دئیے ہوئے نفس و جسم کو اپنی ملکیت نہیں سمجھتی کہ اس پر قابو پاکر اپنی صوابدید کے مطابق جس طرح چاہے حکم رانی کرے، بلکہ وہ اسے خدا کی امانت سمجھتی ہے اور اس امانت پر خدا کے منشا کے مطابق حکومت کرتی ہے۔ ایک مومن و متقی انسان، جس کی خودی اللہ تعالیٰ کی رضا کے آگے سپر ڈال چکی ہو، دنیا کی کسی چیز پر بھی ظلم نہیں کرسکتا، کجا کہ خود اپنے جسم حیوانی کا حق مارے اور اپنے اس رفیق پر ظلم کرے جسے اللہ نے مدۃ العمر کے لیے اس کا بہترین مدد گار بنایا ہے۔ وہ اسے اچھے سے اچھا کھلائے گا، اچھے سے اچھا پہنائے گا، بہتر سے بہتر مکان میں رکھے گا، زیادہ سے زیادہ آرام دے گا۔ اس کے ہر فطری جذبہ کی تسکین کا سامان فراہم کرے گا، نہ اس لیے کہ اس کا نفس یہ چاہتا ہے کہ ایسا کیا جائے، بلکہ اس لیے کہ خدا نے اس کا حق مقرر کیا ہے اور اس حق کو ادا کرنا خدا کی خوشنودی کا موجب({ FR 671 }) ہے۔البتہ وہی نفس جب اچھا کھانے کے لیے حرام غذا یا حرام کی کمائی کا تقاضا کرے گا، جب اچھے لباس، اچھی سواری، اچھے مکان کے لیے ایسی تدبیریں اختیار کرنے کا مطالبہ کرے گا۔ جنھیں اللہ نے پسند نہیں کیا ہے، جب وہ اپنے جذبات شہوانی کی تسکین کے لیے ایسے دروازے کھولنا چاہے گا جنھیں اللہ نے بند کیا ہے، جب وہ اپنی آرام طلبی کے لیے ان فریضوں اور ان خدمتوں کو ادا کرنے سے جی چرائے گا جو اللہ نے اس پر عائد کیے ہیں، اور جب وہ اس جگہ اپنی خواہشات اور خود اپنی قربانی دینے سے رکنا چاہے گا، جہاں اللہ کی رضا ہے کہ اسے اور اس کی خواہشوں کو قربان کر دیا جائے، وہاں مومن کی خودی اپنے حاکمانہ اختیارات کو پوری شدت کے ساتھ استعمال کرے گی اور بجز اسے سرکشی و نافرمانی کے راستہ سے ہٹا کر فرماں برداری کے سیدھے راستہ پر لے جائے گی۔ اسی چیز کی مشق مومن سے رمضان میں کرائی جاتی ہے تاکہ دنیا کی اس امتحان گاہ میں نازک مواقع جب پیش آئیں ’’اور وہ روز ہر وقت پیش آتے ہیں‘‘ تو اس کے ارادے کی باگیں اس منہ زور حیوان کو قابو میں رکھنے سے عاجز نہ آجائیں۔

انفرادی تربیت کا اجمالی نقشہ

یہاں تک جو کچھ کہا گیا ہے اس کا تعلق افراد کی تربیت سے تھا۔ اب روزے کے اجتماعی پہلو کی طرف توجہ کرنے سے پہلے ایک مجموعی نظر انفرادی تربیت کے اس پروگرام پر ڈال لیجیے۔
جیسا کہ پہلے بیان کر چکا ہوں، اسلام کا اصل مقصد صالحین کی ایسی جماعت بنانا ہے جو انسانی تمدن کو خیر و صلاح کی بنیادوں پر تعمیر کرے۔ مگر اس غرض کے لیے وہ صرف اجتماعی اصول وضع کرنے اور ان اصولوں کی بنیاد پر ایک نظام تمدن بنا دینے پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ ساتھ ساتھ اپنے جماعتی نظام کے لیے افراد کو تیار کرنے کا بھی انتظام کرتا ہے تاکہ جماعت (سوسائٹی) جن افراد پر مشتمل ہو ان میںکا ایک ایک شخص اپنے خیالات، اپنی سیرت اور اپنے کردار کے لحاظ سے اس نظام کے ساتھ بیش از بیش موافقت رکھتا ہو، اور باغیانہ میلانات کے ساتھ مجبورانہ اطاعت کرنے کے بجائے اپنے نفس و روح کی پوری آمادگی ، اپنے دل و دماغ کے مخلصانہ عقیدے، اور اپنی سیرت کی ذاتی قوت کے ساتھ اس کی پیروی کرے۔ اس اسکیم میں روزے کے رکن سے جو کام لیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ:
۱۔ اس تربیت کے ذریعہ سے جماعت کے ہر فرد کو خداوند عالم کی حاکمیت کے مقابلہ میں خود مختاری سے عمدًادست بردار ہو جانے کے لیے تیار کیا جائے، تاآں کہ وہ اپنی پوری زندگی کو الٰہی قانون کے تابع کردے۔
۲۔ ہر فرد کے ذہن میں خدا کے عالم الغیب و الشہادہ ہونے کا اور آخرت کی باز پرس کا عقیدہ عملی مشق و تمرین کے ذریعہ سے اس طرح جاگزیں کر دیا جائے کہ وہ خود اپنی شخصی ذمہ داری کے احساس کی بنا پر، نہ کہ کسی خارجی دبائو کی وجہ سے قانون الٰہی کی خفیہ اورعلانیہ اطاعت کرنے لگے۔
۳۔ ہر فرد کے اندر یہ روح پھونک دی جائے کہ وہ ماسوا اللہ کی بندگی و اطاعت کے اعتقادًا و عملاً منکر ہو جائے اور اس کی بندگی اللہ کے لیے اس طرح خالص ہو جائے کہ جس حکم یا جس قانون یا جس اقتدار کے لیے اس کی طرف سے کوئی سند نہ ہو، اس کی اطاعت کے لیے فرد مومن کے نفس میں کوئی آمادگی بھی نہ ہو۔
۴۔ ہر فرد کی اخلاقی تربیت اس طور پر کی جائے کہ اسے اپنی خواہشات پر عملاً پورا اقتدار حاصل ہو، وہ اپنے نفس و جسم کی تمام قوتوں پر اتنا قابو رکھتا ہو کہ اپنے عقیدے اور علم و بصیرت کے مطابق ان سے کام لے سکے۔ اس میں صبر، تحمل، جفا کشی، توکل علی اللہ اور ثابت قدمی و یک سوئی کی صفات پیدا ہو جائیں اور اس کے کیریکٹر میں اتنی قوت آجائے کہ وہ خارجی ترغیبات اور اپنے نفس کے ناجائز میلانات کا مقابلہ کرسکے۔
یہی وہ مقاصد ہیں جن کے لیے اسلام نے رمضان کے روزے ہر اس شخص پر فرض کیے ہیں جو اسلامی جماعت کا رکن ہو۔ کوئی عاقل و بالغ فرد، خواہ وہ عورت ہو یا مرد، اس فریضہ سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ بیماری، سفر اور بعض دوسرے شرعی عذرات کی بنا پر کوئی شخص اس فرض کو ادا نہ کرسکتا ہو تو اس پر قضا یا فدیہ لازم ہے۔ بہرحال اسلام کے دائرے میں رہ کر کوئی انسان روزے کی فرضیت سے چھوٹتا نہیں ہے۔
اگرچہ یہ لازم نہیں کہ روزے کی تربیت سے تمام افراد کے اندر وہ خصوصیات بدرجہ اتم پیدا ہو جائیں جو اس سے پیدا کرنا مطلوب ہیں، کیوں کہ ان کی پیدائش اور تکمیل کے لیے خود تربیت لینے والے میں ذاتی استعداد بھی ضروری ہے، لیکن بجائے خود اس نظام تربیت کی فطرت میں یہ خاصہ موجود ہے کہ اس سے یہ خصوصیات انسان میں پیدا ہوں اور ان خصوصیات کو پیدا کرنے کے لیے اس سے بہتر، بلکہ اس کے سوا کوئی دوسرا نظام تربیت تجویز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی شخص صداقت پسندی کی نظر سے دیکھے تو اسے اعتراف کرنا پڑے گا کہ دنیا میں اسلام کے سوا کوئی اجتماعی نظام ایسا نہیں ہے جس نے افراد کو تیار کرنے کا اتنا وسیع و ہمہ گیر انتظام کیا ہو کہ پوری کی پوری آبادیاں اس کے دائرے میں آکر خود بخود اخلاقی تربیت پاتی چلی جائیں۔
پھر اس کا مزید کمال یہ ہے کہ سوسائٹی کے حدود میں اگر کوئی فرد ایسا ناقص نکل آئے کہ اس اجتماعی نظام کا جزو بن کر نہ رہ سکتا ہو، تو خودبخود الگ ممتاز ہو جاتا ہے۔ جہاں اس نے بغیر عذر شرعی کے روزہ ترک کیا اور فورًاہی یہ بات سوسائٹی میں آشکارا ہوگئی کہ اس کے درمیان ایک منافق موجود ہے جو خدا کی حاکمیت تسلیم نہیں کرتا اور اپنی حیوانی جبلت کا بندہ بن کر رہنا چاہتا ہے۔ اس صریح علامت سے سوسائٹی کو اپنے جسم میں ایک سڑے ہوئے عضو کی موجودگی کا بروقت علم ہو جاتا ہے، اور اسے موقع مل جاتا ہے کہ اپنے آپ کو اس کے زہر سے محفوظ کرے۔ کم از کم اسلام نے اپنی حد تک منافقین کی نشان دہی کا پورا انتظام کر دیا ہے اور ہر مسلم سوسائٹی کے لیے اس بات کا موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ عین وقت پر ان کے وجود سے آگاہ ہو کر یا تو ان کی اصلاح کرے یا انھیں اپنے دائرے سے خارج کردے۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ کوئی بے حس نام نہاد مسلم سوسائٹی اس موقع سے فائدہ اٹھائے اور ایسے لوگوں کو نہ صرف اپنی گود میں پرورش کرے بلکہ انھیں اپنے سر پر بٹھائے اور زندہ باد کے نعرے لگائے۔

روزے کا اجتماعی پہلو

نماز کی طرح روزہ بھی بجائے خود ایک انفرادی فعل ہے، لیکن جس طرح نماز کے ساتھ جماعت کی شرط لگا کر اسے انفرادی سے اجتماعی فعل میں تبدیل کر دیا گیا ہے، اسی طرح روزے کو بھی ایک ذرا سی حکیمانہ تدبیر نے انفرادی عمل کے بجائے اجتماعی عمل بنا کر اس کے فوائد و منافع کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ ان کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ وہ تدبیر بس اتنی سی ہے کہ روزے رکھنے کے لیے ایک خاص مہینا مقرر کر دیا گیا۔ اگر شارع کے پیش نظر محض افراد کی اخلاقی تربیت ہوتی تو اس کے لیے یہ حکم دینا کا فی تھا کہ ہر مسلمان سال بھر کے دوران میں کبھی تیس دن کے روزے رکھ لیا کرے۔ اس طرح وہ تمام مقاصد پورے ہوسکتے تھے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، بلکہ ضبط نفس کی مشق کے لیے یہ صورت زیادہ مناسب تھی۔ کیوں کہ اجتماعی عمل سے روزہ رکھنے میں جو آسانی افراد کے لیے پیدا ہو جاتی ہے وہ انفرادی عمل کی صورت میں نہ ہوتی اور ہر شخص کو اپنا فرض ادا کرنے میں نسبتاً زیادہ شدت کے ساتھ اپنی قوت ارادی استعمال کرنا پڑتی۔ لیکن اسلام کا قانون جس حکیم نے بنایا ہے اس کی نگاہ میں افراد کی ایسی تیاری کسی کام کی نہیں ہے جس کے نتیجہ میں ایک جماعت صالحہ وجود میں نہ آئے، اس لیے اس نے روزے کو محض ایک انفرادی عمل بنانا پسند نہیں کیا، بلکہ سال بھر میں ایک مہینا روزے کے لیے مخصوص کر دیا تاکہ سب مسلمان بہ یک وقت روزہ رکھیں اور وہی نظام تربیت جس سے افراد تیار ہوں، ایک صالح اجتماعی نظام بنانے میں بھی مدد گار ہو جائے۔
اس حکیمانہ تدبیر سے روزے کے اخلاقی و روحانی منافع میں جو اضافہ ہوا ہے اس کی طرف یہاں چند مختصر اشارات کیے جاتے ہیں۔

تقوٰی کی فضا

اجتماعی عمل کی اولین خصوصیت یہ ہے کہ اس سے ایک خاص قسم کی نفسیاتی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک شخص انفرادی طور پر کسی ذہنی کیفیت کے تحت کوئی کام کر رہا ہو اور اس کے گرد و پیش دوسرے لوگوں میں نہ وہ ذہنی کیفیت ہو اور نہ وہ اس کام میں اس کے شریک ہوں، تو وہ اپنے آپ کو اس ماحول میں بالکل اجنبی پائے گا۔ اس کی کیفیت ذہنی صرف اسی کی ذات تک محدود اور صرف اسی کی نفسی قوتوں پر منحصر رہے گی، اسے نشوو نما پانے کے لیے ماحول سے کوئی مدد نہ ملے گی، بلکہ ماحول کے مختلف اثرات اس کیفیت کو بڑھانے کے بجائے الٹا گھٹا دیں گے۔ لیکن اگر وہی کیفیت پورے ماحول پر طاری ہو۔ اگر تمام لوگ ایک ہی خیال اور ایک ہی ذہنیت کے ماتحت ایک ہی عمل کر رہے ہوں تو معاملہ برعکس ہوگا۔ اس وقت ایک ایسی اجتماعی فضا بن جائے گی جس میں پوری جماعت پر وہی ایک کیفیت چھائی ہوئی ہوگی اور ہر فرد کی اندرونی کیفیت ماحول کی خارجی اعانت سے غذا لے کر بے حد و حساب بڑھتی چلی جائے گی۔ ایک شخص اکیلا برہنہ ہو اور گرد و پیش سب لوگ کپڑے پہنے ہوئے ہوں تو وہ کس قدر شرمائے گا؟ بے حیائی کی کتنی بڑی مقدار اسے برہنہ ہونے کے لیے درکار ہوگی اور پھر ماحول کے مختلف اثرات سے اس کی شدید بے حیائی بھی کس طرح بار بار شکست کھائے گی؟ لیکن جہاں ایک حمام میں سب ننگے ہوں وہاں شرم بے چاری کو پھٹکنے کا موقع بھی نہ ملے گا۔ اور ہر شخص کی بے شرمی دوسروں کی بے شرمی سے مدد پاکر افزوںدر افزوں ہوتی چلی جائے گی۔ ایک ایک سپاہی کا الگ الگ جنگ کرنا اور مہالک جنگ برداشت کرنا کس قدر مشکل ہے؟ مگر جہاں فوج کی فوج ایک ساتھ مارچ کر رہی ہو وہاں جذبات شہامت و حماست کا ایک طوفان اُمنڈ آتا ہے جس میں ہر سپاہی مستانہ وار بہتا چلا جاتا ہے۔ نیکی ہو یا بدی، دونوں کی ترقی میں اجتماعی نفسیات کو غیرمعمولی دخل حاصل ہے۔ جماعت مل کر بدی کر رہی ہو تو فحش، بے حیائی اور بدکاری کے جذبات ابل پڑتے ہیں اور جماعت مل کر نیکی کر رہی ہو تو پاکیزہ خیالات اور نیک جذبات کا سیلاب آجاتا ہے جس میں بد بھی نیک بن جاتے ہیں، خواہ تھوڑی دیر کے لیے سہی۔
اجتماعی روزے کا مہینا قرار دے کر رمضان سے شارع نے یہی کام لیا ہے۔ جس طرح آپ دیکھتے ہیں کہ ہر غلہ اپنا موسم آنے پر خوب پھلتا پھولتا ہے اور ہر طرف کھیتوں پر چھایا ہوا نظر آتا ہے، اسی طرح رمضان کا مہینا گویا خیر و صلاح اور تقوٰی و طہارت کا موسم ہے۔ جس میں برائیاں دبتی ہیں، نیکیاں پھلتی ہیں، پوری پوری آبادیوں پر خوف خدا اور حب خیر کی روح چھا جاتی ہے، اور ہر طرف پرہیزگاری کی کھیتی سرسبز نظر آنے لگتی ہے۔ اس زمانہ میں گناہ کرتے ہوئے آدمی کو شرم آتی ہے، ہر شخص خود گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے کسی دوسرے بھائی کو گناہ کرتے دیکھ کر اسے شرم دلاتا ہے، ہر ایک کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ کچھ بھلائی کاکام کرے، کسی غریب کو کھانا کھلائے، کسی ننگے کو کپڑا پہنائے، کسی مصیبت زدہ کی مدد کرے، کہیں کوئی نیک کام کر رہا ہو تو اس میں حصہ لے، کہیں کوئی بدی ہو رہی ہو تو اسے روکے۔ اس وقت لوگوں کے دل نرم ہو جاتے ہیں، ظلم سے ہاتھ رک جاتے ہیں، برائی سے نفرت اور بھلائی سے رغبت پیدا ہو جاتی ہے، توبہ اور خشیت و انابت کی طرف طبیعتیں مائل ہوتی ہیں، نیک بہت نیک ہو جاتے ہیں اور بد کی بدی اگر نیکی میں تبدیل نہیں ہوتی تب بھی اس جلاب سے اس کا اچھا خاصا تنقیہ ضرور ہو جاتا ہے۔ غرض اس زبردست حکیمانہ تدبیر سے شارع نے ایسا انتظام کر دیا ہے کہ ہر سال ایک مہینا کے لیے پوری اسلامی آبادی کی صفائی ہوتی رہے، اسے اوور ہال کیا جاتا رہے، اس کی کایا پلٹی جائے۔ اور اس میں مجموعی حیثیت سے رُوح اسلامی کو ازسر نو زندہ کر دیا جائے۔ اسی بنا پر نبیﷺ نے فرمایا:
اذا دخل رمضان فتحت ابواب الجنہ و غلقت ابواب جہنم و سلسلت الشیاطین۔
جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین باندھ دئیے جاتے ہیں۔
اور ایک دوسری حدیث میں ہے:
اذا کان اول لیلۃ من شہر رمضان صفدت الشیاطین و مردۃ الجن وغلقت ابواب النار فلم یفتح منہا باب و فتحت ابواب الجنۃ فلم یغلق منہا باب وینادی منا دیا باغی الخیرا قبل ویا باغی الشرا قصر۔
جب رمضان کی پہلی تاریخ آتی ہے تو شیاطین اور سرکش جن باندھ دئیے جاتے ہیں۔ دوزخ کی طرف جانے کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا۔ اور جنت کی طرف جانے کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں رہتا۔ اس وقت پکارنے والا پکارتا ہے’’اے بھلائی کے طالب آگے بڑھ اور اے برائی کے خواہش مند ٹھہر جا۔
سکتہ کے مریض کا آخری امتحان اس طرح کیا جاتا ہے کہ اس کی ناک کے پاس آئینہ رکھتے ہیں۔ اگر آئینہ پر کچھ دھندلاہٹ سی پیدا ہوتو سمجھتے ہیں کہ ابھی جان باقی ہے، ورنہ اس کی زندگی کی آخری امید بھی منقطع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی کسی بستی کا تمھیں امتحان لینا ہو تو اسے رمضان کے مہینا میں دیکھو۔ اگر اس مہینا میں اس کے اندر کچھ تقوٰی، کچھ خوف خدا، کچھ نیکی کے جذبہ کا ابھار نظر آئے تو سمجھو ابھی زندہ ہے۔ اور اگر اس مہینا میں بھی نیکی کا بازار سرد ہو، فسق و فجور کے آثار نمایاں ہوں، اور حس مردہ نظر آئے تو اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ پڑھ لو۔ اس کے بعد زندگی کا کوئی سانس ’’مسلمان‘‘ کے لیے مقدر نہیں ہے۔({ FR 672 })

جماعتی احساس:

اجتماعی عمل کا دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ اس سے لوگوں میں فطری اور اصلی وحدت پیدا ہوتی ہے۔ نسل یا زبان یا مرزبوم یا معاشی اغراض کا اشتراک فطری قومیت پیدا نہیں کرتا۔ آدمی کا دل صرف اسی سے ملتا ہے، جو خیالات اور عمل میں اس سے ملتا ہو۔ یہ اصلی رشتہ ہے جو دو آدمیوں کو ایک دوسرے سے باندھتا ہے۔ اور جس کے ساتھ خیالات اور عمل میں اتفاق نہ ہو اس سے کبھی دل نہیں ملتا، خواہ دونوں ایک ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہوں۔ جب کوئی شخص اپنے گرد و پیش کے لوگوں کو ذہنیت اورعمل میں اپنے سے مختلف پاتا ہے۔ تو صریح طور پر آپ کو ان کے درمیان اجنبی محسوس کرتا ہے۔ مگر جب بہت سے لوگ مل کر ایک ہی ذہنی کیفیت کے ساتھ ایک ہی عمل کرتے ہیں تو ان میں باہم یگانگت رفاقت، یک جہتی اور برادری کے گہرے تعلقات پیدا ہو جاتے ہیں، ان کے درمیان کوئی اجنبیت باقی نہیں رہتی، قلب و روح کا اشتراک اور عمل کا اتفاق انھیں آپس میں جوڑ کر ایک کر دیتا ہے۔
خواہ نیکی ہو یا بدی، دونوں صورتوں میں اجتماعی نفسیات اسی طرح کام کرتی ہیں۔ چوروں میں چوری کا اشتراک اور شرابیوں میں شراب نوشی کا اشتراک بھی یوں ہی برادری پیدا کرتا ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ بدی کے راستہ میں افراد کی نفسانیت کا دخل رہتا ہے۔ جس کا فطری میلان فرد فرد کو پھاڑ کر الگ کر دینے کی طرف ہے، اس لیے ایسے راستوں میں برادری کبھی بے آلائش اور مستحکم نہیں ہوتی۔ بخلاف اس کے نیکی کے راستے میں نفسانیت دبتی ہے، انسانی روح کو حقیقی تسکین ملتی ہے، اور پاک جذبات کے ساتھ آدمی اس راستہ پر چلتا ہے۔ اس لیے نیک خیالات اور نیک عمل کا اشتراک وہ بہترین رشتہ اخوت پیدا کرتا ہے۔ جس سے زیادہ مستحکم اجتماعی رابطہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
نماز باجماعت کی طرح رمضان کے اجتماعی روزے مسلمانوں میں اسی نوع کی برادری پیدا کرتے ہیں۔ تمام لوگوں کا مل کر ایک خدا کی رضا چاہنا، اسی کی رضا کے لیے بھوک پیاس کی تکلیف اٹھانا۔ اسی کے خوف سے برائیوں کو چھوڑنا اور ایک دوسرے کو برائیوں سے روکنا، اسی کی محبت میں بھلائی کی طرف دوڑنا اور ایک دوسرے کو بھلائی پر اکسانا، یہ چیز ان میں بہترین قسم کی وحدت، صحیح ترین فطری قومیت، پاکیزہ ترین اجتماعی ذہنیت، اور ایسی ہم دردی و رفاقت پیدا کرتی ہے جوہر کھوٹ سے خالی ہے۔

امداد باہمی کی روح

اس اجتماعی عبادت کا تیسرا زبردست کام یہ ہے کہ یہ عارضی طور پر تمام لوگوں کو ایک سطح پر لے آتی ہے۔ اگرچہ امیر امیر ہی رہتا ہے اور غریب غریب، لیکن روزہ چند گھنٹوں کے لیے امیر پر بھی وہ کیفیت طاری کر دیتا ہے جو اس کے فاقہ کش بھائی پر گزرتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کی مصیبت حقیقی طور پر محسوس کرتا ہے، اور خدا کی رضا چاہنے کا جذبہ اسے غریب بھائیوں کی مدد کرنے پر اکساتا ہے۔ بظاہر یہ ایک بڑی چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے۔ مگر اس کے اخلاقی و تمدنی فوائد بے شمار ہیں۔ جس قوم کے امیروں میں غریبوں کی تکالیف کا احساس اور ان کی عملی ہم دردی کا جذبہ ہو، اور جہاں صرف اداروں ہی کو خیرات نہ دی جاتی ہو، بلکہ فردًا فردًا بھی حاجت مندوں کو تلاش کرکے مدد پہنچائی جاتی ہو وہاں نہ صرف یہ کہ قوم کے کم زور حصے تباہ ہونے سے محفوظ رہتے ہیں، نہ صرف یہ کہ اجتماعی فلاح برقرار رہتی ہے۔ بلکہ غربت اور امارت میں حسد کے بجائے محبت ، شکر گزاری اور احسان مندی کا تعلق قائم ہوتا ہے اور وہ طبقاتی جنگ کبھی رونما نہیں ہوسکتی، جو ان قوموں میں ہوتی ہے جن کے مال دار لوگ جانتے ہی نہیں کہ فقر و فاقہ کیا چیز ہوتی ہے، جو قحط کے زمانہ میں تعجب سے پوچھتے ہیں کہ لوگ بھوکے کیوں مر رہے ہیں۔ انھیں روٹی نہیں ملتی تو یہ کیک کیوں نہیں کھاتے؟
یہ اسلام کا دوسرا عملی رکن ہے جس کے ذریعہ اسلام اپنے افراد کو فردًا فردًا ایک خاص قسم کی اخلاقی تربیت دے کر تیار کرتا ہے اور پھر انھیں جوڑ کر ایک خاص طرز کی جماعت بناتا ہے۔ اسلام کا آخری مقصد جس مدنیت صالحہ اور الٰہیہ کو وجود میں لانا ہے اس کے اجزائے ترکیبی اس طرح نماز اور روزے کے ذریعہ سے چھیل بنا کر تیار کیے جاتے ہیں۔ اس کے اہل کار، عہدہ دار اور وُزرا، اس کے معلم اور پروفیسر، اس کے قاضی اور مفتی، اس کے تاجر، مزدور، کارخانہ دار اور کسان، اس کے رائے دہندے، نمایندے اور شہری، سب اس تربیت کے بعد کہیں اس قابل ہوتے ہیں کہ ان کے اجتماع سے وہ صالح، تمدنی و سیاسی نظام بن سکے جسے ’’خلافت علی منہاج النبوۃ‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ محض ان گھڑ افراد کو لے کر خلافت الٰہیہ قائم کرنے کے لیے دوڑ جانا ایسی خام خیالی و خام کاری ہے جس سے اللہ اور اس کا رسولؐ بری ہیں۔
ابھی اس انفرادی اور اجتماعی تربیت کا پروگرام ختم نہیں ہوا اس کے ساتھ ایک تیسرا عملی رکن زکوٰۃ بھی ہے جسے ہم آگے بیان کریں گے۔
٭ … ٭ … ٭… ٭… ٭