اسلامی دستور کی تدوین

ریڈ مودودی ؒ   کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اسلامی دستور کی تدوین

(یہ تقریر ۲۴ نومبر ۱۹۵۲ء؁ کو بار ایسوسی ایشن کراچی کے صدر جناب محمد محسن صاحب صدیقی کی دعوت پر وکلاء کے ایک اجتماع میں کی گئی تھی)
حضرات، میں بار ایسوسی ایشن کے محترم صدر اور سیکرٹری کا شکرگزار ہوں کہ انھوں نے ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ستھرے مجمع کے سامنے مجھے اپنے خیالات کے اظہار کا قیمتی موقع دیا۔ یہ ہماری قوم کا مکھن ہے اور اس کے کسی ایک فرد کو متفق کر لینا ہزاروں آدمیوں کے متفق کرنے کی بہ نسبت زیادہ قیمتی اور وزنی ہے۔ میں اس نادر موقع کی اہمیت کو اچھی طرح محسوس کرتا ہوں اور انشاءاللہ اس سے پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کروں گا۔
میرا ارادہ یہاں کوئی مفصل تقریر کرنے کا تو نہیں ہے کیونکہ دراصل یہ ایک مجلس مذاکرہ ہے جو اسلامی دستور کی بنیادوں پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے منعقد کی گئی ہے، لیکن چونکہ یہ موضوع ایسا ہے کہ اس کے بارے میں اگر ابتدائی بطورِ مقدمہ چند باتیں بیان کر دی جائیں تو اس امر کا اندیشہ ہے کہ مباحث کے دوران میں بہت سے ایسے مسائل چھڑ جائیں جن کو واضح کرنے کے لیے پھر ایک تقریر کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ اس لیے میں پہلے چند اصولی باتیں وضاحت کے ساتھ بیان کر دینا چاہتا ہوں، اس کے بعد جو سوالات کیے جائیں گے ان کے جواب عرض کروں گا۔

مسئلے کی نوعیت

ہمارے سامنے اس وقت جو مسئلہ درپیش ہے اس کی نوعیت کو پہلے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اس ملک کا دستور اسلامی ہونا چاہیے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اسلامی دستور کہیں لکھا لکھایا موجود ہے اور مطالبہ صرف اسے نافذ کر دینے کا ہے۔ بلکہ اصل مسئلہ جسے ہم کو حل کرنا ہے، یہ ہے کہ ہم ایک غیر تحریری دستور (Unwritten Constitution) کو ایک تحریری دستور (Written Constitution) میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ { یہاں تحریری دستور کی اصطلاح کواچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے۔ دراصل اس سے مراد ایسی دستاویز ہے جس میں نظمِ مملکت کے قواعد درج کیے گئے ہوں اور جسے مملکت میں مسلم قانونی حیثیت حاصل ہوجس مملکت کا دستور اس کی طرح کی کسی دستاویز کی صورت میں لکھا نہ گیا ہو۔ اس کے دستوری قواعد چاہے مختلف مآخذ میں لکھے ہوئے ہی موجود ہوں بہرحال ان کے مجموعے کو غیر تحریری دستور ہی کہا جائے گا۔
} جس چیز کو ہم اسلامی دستور کہتے ہیں وہ دراصل ایک غیر تحریری دستور ہے اور اس کے چند مآخذ (Sources) ہیں جن سے استفادہ کرکے ہمیں اپنے ملک کے حالات کے مطابق ایک تحریری دستور مرتّب کرنا ہے۔ غیر تحریری دستور دنیا میں کوئی انوکھی اور نرالی چیز نہیں ہے۔ اٹھارویں صدی تک دنیا کی ساری حکومتوں کے نظام غیر تحریری دستوروں پر چلتے رہے ہیں اور آج بھی دنیا کی ایک بہت بڑی سلطنت (سلطنت برطانیہ) بغیر کسی تحریری دستور کے چل رہی ہے۔ اگر کبھی انگلستان کو ضرورت پیش آئے کہ وہ اپنے دستور کو تحریری شکل میں مدوّن کرے تو لامحالہ اسے اپنے غیر تحریری دستور کے مختلف مآخذ سے مواد اکٹھا کرکے اپنے دستور کی دفعات مرتب کرنی پڑیں گی۔ ایسی ہی کچھ ضرورت اس وقت ہمیں درپیش ہے۔

اسلامی دستور کے مآخذ

اسلام کے غیر تحریری دستور کے مآخذ چار ہیں:۔
۱۔ قرآن مجید
اس کا سب سے پہلا مآخذ قرآن مجید ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کے فرامین موجود ہیں۔ یہ احکام و فرامین انسان کی پوری زندگی کے معاملات پر حاوی ہیں۔ صرف انفرادی کردار اور سیرت ہی کے بارے میں ہدایات نہیں دی گئی ہیں بلکہ اجتماعی زندگی (Socal Life) کے بھی ہر پہلو کو اصلاح و تنظیم کے لیے کچھ اصول اور کچھ تعلیمی احکام دیے گئے ہیں، اور اس سلسلے میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمان اپنی ریاست کن اصولوں اور کن مقاصد کے لیے قائم کریں۔
۲۔ سنت ِرسول ﷺ
دوسرا مآخذ سنتِ رسولؐ ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی ہدایات کو اور اس کے دیے ہوئے اصولوں کو عرب کی سرزمین میں کس طرح نافذ کیا، کس طرح اسلام کے تخیّل کوعمل کا جامہ پہنایا، کِس طرح اس تخیل پر ایک سوسائٹی کی تشکیل کی، اور اس اسٹیٹ کے مختلف شعبوں کو کس طرح چلا کر بتایا۔ یہ چیزیں سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ہمیں معلوم ہو سکتی ہیں اور انھی کی مدد سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ قرآن کا ٹھیک ٹھیک منشا کیا ہے۔ یہ قرآن کے دیے ہوئے اصولوں کا عملی حالات پر انطباق (Application) ہے جس سے ہم کو اسلامی دستور کے لیے نہایت قیمتی نظائر (Precedents) حاصل ہوتے ہیں‘ اور دستوری روایات (Constitutional Traditions) کا بڑا اہم مواد بہم پہنچتا ہے۔
۳۔ خلافت راشدہ کا تعامل
تیسرا مآخذ خلافتِ راشدہ کا تعامل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلامی سٹیٹ کو خلفائے راشدین نے جس طرح چلایا، اس کے نظائر اور اس کی روایات سے حدیث، تاریخ اور سیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور یہ سب چیزیں ہمارے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسلام میں یہ اصول شروع سے آج تک مسلّم رہا ہے کہ دینی احکام و ہدایات کی جو تعبیریں صحابۂ کرامؓ نے بالاتفاق کی ہیں (جسے اصطلاح میں اجماع کہا جاتا ہے) اور دستوری وقانونی مسائل کے جو فیصلے خلفائے راشدین نے صحابہ کے مشورے سے کر دیے ہیں وہ ہمارے لیے حجت ہیں، یعنی ان کو جوں کا توں تسلیم کرنا پڑے گا۔ کیونکہ صحابہؓکے کسی معاملے میں متفق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک مستند تعبیرِ قانون اور معتبر طریقِ عمل ہے۔ جہاں ان کے درمیان اختلافات ہوئے ہیں وہاں تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس مسئلے میں دو یا دو سے زیادہ تعبیروں کی گنجائش ہے اور ایسے معاملات میں دلیل سے ایک قول کو دوسرے قول پر ترجیح د ی جا سکتی ہے۔ مگر جہاں ان کے درمیان کامل اتفاق ہے۔ وہاں ان کا فیصلہ لازماً ایک ہی تعبیر اورایک ہی طرزِ عمل کو صحیح ومستند ثابت کر دیتا ہے، کیونکہ یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے براہِ راست شاگرد اور تربیت یافتہ تھے اوران سب کا متفق ہو کر دین کے معاملے میں غلطی کر جانا یا دین کے سمجھنے میں راہِ صواب سے ہٹ جانا قابلِ تسلیم نہیں ہے۔
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
چوتھا ماخذ مجتہدین امت کے وہ فیصلے ہیں جو انھوں نے مختلف دستوری مسائل پیش آنے پر اپنے علم وبصیرت کی روشنی میں کیے ہیں۔ یہ چاہے حجت نہ ہوں، مگر بہرحال اسلامی دستور کی روح اور اس کے اصولوں کو سمجھنے میں ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔
یہ ہیں ہمارے دستور کے چار مآخذ۔ ہم جب کبھی اسلامی حکومت کا دستور تحریری شکل میں لانا چاہیں، ہم کو انھی مآخذ سے اس کے قواعد جمع کرکے مرتب کرنے ہوں گے، بالکل اسی طرح جیسے انگلستان کے لوگ اگر آج اپنا دستور مدوّن کرنا چاہیں تو انھیں اپنے وضعی قانون (Statute LaW) اور عرفی قانون (Common Law) اور اپنے دستوری رواج (Constitutional Usage) سے ایک ایک جزیۂ اخذ کرکے صفحۂ کاغذ پر ثبت کرنا ہو گا اور بہت سے دستوری احکام وقواعد ان کو اپنی عدالتوں کے فیصلوں سے چن چن کر نکالنے ہوں گے۔

مشکلات

جہاں تک اسلامی دستور کے ان مآخذ کا تعلق ہے، یہ سب تحریری شکل میں موجود ہیں۔ قرآن لکھا ہوا ہے۔ سنت رسولؐ اور تعامل خلفائے راشدین کے متعلق سارا مواد کتابوں میں مل سکتا ہے۔ مجتہدین امت کی آراء بھی معتبر ہو۔ ان میں سے کوئی چیز بھی نہ مفقود ہے نہ نایاب۔ لیکن اس کے باوجود ان مآخذ سے اس غیر تحریری دستور کے قواعد اخذ کرکے ان کو تحریری دستور کی شکل دینے میں چند مشکلات اور چند دقتیں حائل ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آگے بڑھنے سے پہلے آپ ان کو اچھی طرح سمجھ لیں۔

۱۔ اصطلاحات کی اجنبیت

سب سے پہلی دقّت زبان کی ہے۔ قرآن، حدیث اور فقہ میں احکام کو بیان کرنے کے لیے جو اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں وہ اب بالعموم لوگوں کے لیے ناقابل فہم ہو گئی ہیں، کیونکہ ایک مدت دراز سے ہمارے ہاں اسلام کا سیاسی نظام معطّل ہو چکا ہے اور ان اصطلاحوں کا چلن نہیں رہا ہے۔ قرآن مجید میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کی ہم روزانہ تلاوت کرتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ یہ دستوری اصطلاحات ہیں، مثلاً سلطان، ملک، حکم، امر، ولایت وغیرہ۔ ان الفاظ کے صحیح دستوری مفہوم کو عربی میں بھی کم لوگ سمجھتے ہیں اور ترجموں میں منتقل ہو کر تو ان کا سارا مطلب خبط ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی قرآن کے دستوری احکام کا ذکر سن کر حیرت کے ساتھ پوچھنے لگتے ہیں کہ قرآن میں کون سی آیت دستور سے تعلق رکھتی ہے؟ فی الواقع ان بیچاروں کی حیرت بجا ہے۔ قرآن کی کوئی سورت ’’الدستور‘‘ کے نام سے نہیں ہے اور نہ بیسویں صدی کی اصطلاحات میں کوئی آیت نازل ہوئی ہے۔

۲۔ قدیم فقہی لٹریچر کی نامانوس ترتیب

دوسری دقّت یہ ہے کہ ہمارے فقہی لٹریچر میں دستوری مسائل کہیں الگ ابواب کے تحت یکجا بیان نہیں کیے گئے ہیں بلکہ دستور اور قوانین ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ قانون سے الگ دستور کا جداگانہ تصوّر بہت بعد کے زمانے کی پیداوار ہے، بلکہ خود لفظ دستور کا استعمال بھی اپنے جدید معنوں میں ابھی حال ہی میں شروع ہوا ہے۔ البتہ ان مسائل پر جنھیں ہم اب دستوری مسائل کہتے ہیں‘ تمام فقہائے اسلام نے بحث کی ہے، مگر ان کی بحثیں ہم کو فقہی کتابوں کے اندر مختلف قانونی ابواب میں بکھری ہوئی ملتی ہیں۔ ایک مسئلے پر کتاب القضاء میں بحث ہے تو دوسرے پر کتاب الامارت میں۔ ایک مسئلہ کتاب السیر (مسائل صلح و جنگ کی کتاب) میں بیان ہوا ہے تو دوسرا کتاب النکاح والطلاق میں‘ ایک مسئلہ کتاب الحدود (فوجداری قانون کی کتاب) میں آیا ہے تو دوسرا کتاب الفے (پبلک فینانس کی کتاب) میں۔ پھر ان کی زبان اور اصطلاحات آج کل کی رائج اصطلاحوں سے اس قدر مختلف ہیں کہ جب تک کوئی شخص قانون کے مختلف شعبوں اور ان کے مختلف مسائل پر کافی بصیرت نہ رکھتا ہواور پھر عربی زبان سے بھی بخوبی واقف نہ ہواس کو یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ کہاں قانونِ ملکی کے درمیان قانون بین الاقوام کا کوئی مسئلہ آ گیا ہے اور کہاں پرسنل لاء کے درمیان دستوری قانون کے کسی مسئلے پر روشنی ڈال دی گئی ہے۔ پچھلی صدیوں کے دوران میں ہمارے بہترین قانونی دماغوں نے غایت درجہ بیش قیمت ذخیرہ چھوڑا ہے، مگر آج کی چھوڑی ہوئی میراث کو چھان پھٹک کر ایک ایک قانونی شعبے کے مواد کو الگ الگ کرنا اور اسے منقح صورت میں سامنے لانا ایک بڑی دیدہ ریزی کا کام ہے جس کے لیے موجودہ نسلیں، جنھوں نے مدتوں سے دوسروں کے پس خوردہ پر قناعت کر لی ہے، مشکل ہی سے آمادہ ہو سکتی ہیں۔ بلکہ ستم یہ ہے کہ آج وہ اپنی اس آبائی میراث کو بے جانے بوجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھ رہی ہیں۔

۳۔ نظامِ تعلیم کا نقص

تیسری مشکل یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کافی مدت سے بڑی ناقص ہو رہی ہے۔ جو لوگ ہمارے ہاں علوم دینی پڑھتے ہیں وہ موجودہ زمانے کے علم السیاست اور اس کے مسائل اور دستوری قانون اور اس سے تعلق رکھنے والے معاملات سے بے گانہ ہیں، اس لیے وہ قرآن و حدیث اور فقہ کے پڑھنے پڑھانے اور سمجھنے سمجھانے میں تو عمریں گزار دیتے ہیں، مگر ان کے لیے اب وقت کے سیاسی ودستوری مسائل کو آج کل کی زبان اور اصطلاحوں میں سمجھنا اور پھر ان کے بارے میں اسلام کے اصول واحکام کو وضاحت کے ساتھ بیان کرنا سخت مشکل ہوتا ہے۔ وہ اس بات کے محتاج ہیں کہ ان کے سامنے یہ مسائل اس زبان اور ان اصطلاحوں میں پیش کیے جائیں جنھیں وہ سمجھتے ہیں۔ پھر وہ آسانی کے ساتھ بتا سکتے ہیں کہ ان کے بارے میں اسلام کے کیا احکام اور اصول ہیں اور کہاں کہاں بیان ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو عملاً ہمارے تمدّن وسیاست اور قانون وعدالت کا نظام سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ زندگی کے جدید مسائل سے تو واقف ہیں‘ مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کا دین ان مسائل کے بارے میں کیا رہنمائی دیتا ہے۔ وہ دستور اور سیاست اور قانون کے متعلق جو کچھ جانتے ہیں مغربی تعلیمات اور مغرب کے عملی نمونوں ہی کے ذریعے سے جانتے ہیں۔ قرآن اور سنت اور اسلامی روایات کے بارے میں ان کی معلومات بہت محدود ہیں۔ اس لیے ان میں سے جو لوگ واقعی نیک نیتی کے ساتھ اسلامی نظامِ زندگی کا از سر نو احیاء چاہتے ہیں وہ بھی اس کے محتاج ہیں کہ کوئی ان مسائل کے بارے میں اسلام کی ہدایات ان کے سامنے اس زبان میں پیش کرے، جسے وہ سمجھتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی پیچیدگی ہے جو ایک صحیح اسلامی دستور کی تدوین میں حارج ہو رہی ہے۔

۴۔ اجتہاد بلا علم کا دعویٰ

چوتھی مشکل ایک اور ہے وہ اب بڑھتے بڑھتے ایک لطیفے اور مذاق کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ حال ہی میں یہ ایک نرالا انداز فکر پیدا ہوا ہے کہ اسلام میں ’’پریسٹ ہڈ‘‘ (Priesthood) نہیں ہے، قرآن اور سنت اور شریعت پر کوئی ’’مُلَّا‘‘ کا اجارہ نہیں ہے کہ بس وہی ان کی تعبیر کرنے کا مجاز ہو، جس طرح وہ تعبیر احکام اور اجتہاد و استنباط کرنے کا حق رکھتا ہے اسی طرح ہم بھی یہی حق رکھتے ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ دین کے معاملے میں مُلَّاکی بات ہماری بات سے زیادہ وزنی ہو۔ یہ باتیں وہ لوگ کہتے ہیں جو نہ قرآن وسنت کی زبان سے واقف ہیں، نہ اسلامی روایات پر اُن کی نگاہ ہے، نہ اپنی زندگی کے چند روز بھی جنھوں نے اسلام کے تحقیقی مطالعے میں صرف کیے ہیں۔ وہ ایمانداری کے ساتھ اپنے علم کا نقص محسوس کرنے اور اسے دور کرنے کے بجائے سرے سے علم کی ضرورت ہی کا انکار کرنے پر تل گئے ہیں اور اس بات پر مُصر ہیں کہ انھیں علم کے بغیر اپنی تعبیروں سے اسلام کی صورت بگاڑ دینے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ اگر جہالت کی اس طغیانی کو یونہی بڑھنے دیا گیا تو بعید نہیں کہ کل کوئی اٹھ کر کہے کہ اسلام میں ’’وکیل ہڈ‘‘ نہیں ہے اس لیے ہر شخص قانون پر بولے گا، چاہے اس نے قانون کا لفظ نہ پڑھا ہو اور پرسوں کوئی دوسرے صاحب اٹھیں اور فرمائیں کہ اسلام میں انجینئر ہڈ نہیں ہے اس لیے ہم بھی انجینئرنگ پر کلام کریں گے۔ چاہے ہم اس فن کی الف بے سے بھی واقف نہ ہوں اور پھر کوئی تیسرے صاحب اسلام میں ڈاکٹر ہڈ کا انکار کرکے مریضوں کا علاج کرنے کھڑے ہو جائیں بغیر اس کے کہ ان کو علمِ طب کی ہوا بھی لگی ہو۔ میں سخت حیران ہوں کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور ذی عزت لوگ یہ کیسی اوچھی اور طفلانہ باتیں کرنے پر اتر آئے ہیں اور کیوں انھوں نے اپنی ساری قوم کو ایسا نادان فرض کر لیا ہے کہ وہ ان کی یہ باتیں سن کر آمَنَّا وَصَدَّقْنَا کہہ دے گی۔بیشک اسلام میں پریسٹ ہڈ نہیں ہے، مگر انھیں معلوم بھی ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اسلام میں نہ تو بنی اسرائیل کی طرح دین کا علم اور دینی خدمات کسی نسل اور قبیلے کی میراث ہیں‘ اور نہ عیسائیوں کی طرح دین و دنیا کے درمیان تفریق کی گئی ہے کہ دنیا قیصروں کے حوالے اوردین پادریوں کے حوالے کر دیا گیا ہو۔ بلاشبہ یہاں قرآن اور سنت اور شریعت پر کسی کا اجارہ نہیں ہے اور مُلّا ، کسی نسل یا خاندان کا نام نہیں ہے جس کو دین کی تعبیر کرنے کا آبائی حق ملا ہوا ہو۔ اس طرح ہر شخص قانون پڑھ کر وکیل بن سکتا ہے، اور ہر شخص انجینئرنگ پڑھ کر انجینئر اور طب پڑھ کر ڈاکٹر بن سکتا ہے۔ اسی طرح ہر شخص قرآن اور سنت کے علم پر وقت اور محنت صرف کرکے مسائل شریعت میں کلام کرنے کا مجاز ہو سکتا ہے۔ اسلام میں پریسٹ ہڈ نہ ہونے کا اگر کوئی معقول مطلب ہے تو وہ یہی ہے۔ نہ یہ کہ اسلام کوئی بازیچۂ اطفال بنا کر چھوڑ دیا گیا ہے کہ جس کا جی چاہے اٹھ کر اس کے احکام اور تعلیمات کے بارے میں ماہرانہ فیصلے صادر کرنے شروع کردے، خواہ اس نے قرآن اور سنت میں بصیرت پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہ کی ہو۔ علم کے بغیر اتھارٹی بننے کا دعویٰ اگر دنیا کے کسی دوسرے معاملے میں قابل قبول نہیں ہے تو آخر دین ہی کے معاملے میں کیوں قابل قبول ہو؟
یہ چوتھی پیچیدگی ہے جو اسلامی دستور کی تدوین کے معاملے میں اب ڈال دی گئی ہے، اور اس وقت درحقیقت یہی سب سے بڑی پیچیدگی ہے۔ پہلی تین مشکلات کو تو محنت اور کوشش سے رفع کیا جا سکتا تھا اور خدا کے فضل سے ایک حد تک رفع کر بھی دیا گیا ہے، لیکن اس نئی الجھن کا علاج سخت مشکل ہے خصوصاً جب کہ وہ اُن لوگوں کی طرف سے ہو جو بالفعل اقتدار کی کنجیوں پر قابض ہوں۔

دستور کے بنیادی مسائل

اب میں دستور کے چند بڑے بڑے اور بنیادی مسائل کو لے کر مختصراً یہ بتائوں گا کہ اسلام کے اصلی مآخذ میں ان کے متعلق کیا قواعد ہمیں ملتے ہیں۔ اس سے آپ خود یہ اندازہ کر سکیں گے کہ اسلام دستوری مسائل میں کوئی راہ نمائی کرتا ہے یا نہیں، اور کرتا ہے تو آیا اس کی نوعیت محض سفارشات کی ہے یا ایسے قطعی احکام کی جنھیں ہم مسلمان ہوتے ہوئے ردّ نہیں کر سکتے۔ اس سلسلے میں طوالت سے بچنے کے لیے میں دستور کے صرف ۹بنیادی مسائل پر گفتگو کروں گا:۔
(۱) پہلا سوال یہ ہے کہ حاکمیت کس کی ہے؟ کسی بادشاہ کی؟ یا کسی طبقے کی؟ یا پوری قوم کی؟ یا خدا کی؟
(۲) دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیٹ کے حدودِ عمل کیا ہیں؟ کس حد تک وہ اطاعت کا مستحق ہے اور کہاں اس کی اطاعت کا حق ساقط ہو جاتا ہے؟
(۳)تیسرا بنیادی سوال دستور کے بارے میں ہے کہ ریاست کے مختلف اعضاء (Organs of the state) یعنی انتظامیہ (Executve) عدلیہ (Judiciary) اور مقننہ (Legislature) کے الگ الگ حدودِ عمل کیا ہیں؟ ان میں سے ہر ایک کیا فریضہ ادا کرے گا اور کن حدود کے اندر کرے گا؟ اورپھر ان کے درمیان تعلق کی کیا نوعیت ہو گی؟
(۴)چوتھا اہم سوال یہ ہے کہ اسٹیٹ کا مقصدِ وجود کیا ہے؟ کس غرض کے لیے سٹیٹ کام کرے گا اور اس کی پالیسی کے بنیادی اصول کیا ہیں؟
(۵)پانچواں سوال یہ ہے کہ ریاست کے نظام کو چلانے کے لیے حکومت کی تشکیل کیسے کی جائے گی؟
(۶) چھٹا سوال یہ ہے کہ حکومت کے نظام کو چلانے والوں کی صفات (Qualifications) کیا ہوں گی؟ کون لوگ اس کو چلانے کے لیے اہل قرار دیے جائیں گے؟
(۷)ساتواں سوال یہ ہے کہ دستور میں شہریت کی بنیادیں کیا ہوں گی؟ کیسے کوئی شخص اس ریاست کا شہری قرار پائے گا اور کیسے نہیں؟
(۸)آٹھواں سوال یہ ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کیا ہیں؟ اور پھر
(۹)نواں سوال یہ ہے کہ شہریوں پر اسٹیٹ کے حقوق کیا ہیں؟
ہر دستور کے معاملے میں یہ سوالات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور ہمیں دیکھنا ہے کہ اسلام ان سوالات کا کیا جواب دیتا ہے۔

حاکمیّت کس کی ہے؟

سب سے پہلے اس سوال کو لیجیے کہ اسلامی ریاست کا دستور ’’حاکمیّت‘‘ کا مقام کس کو دیتا ہے۔
اس کا قطعی اور ناطق جواب قرآن سے ہمیں یہ ملتا ہے کہ حاکمیّت ہر معنی میں اللہ تعالیٰ کی ہے اس لیے کہ وہی فی الواقع حاکمِ حقیقی ہے اور اسی کا یہ حق ہے کہ اس کو حاکمِ اعلیٰ مانا جائے۔ اس مسئلے کو اگر کوئی شخص اچھی طرح سمجھنا چاہے تو میں اسے مشورہ دوں گا کہ پہلے وہ ’’حاکمیّت‘‘ کے معنی اور تصوّر کو اچھی طرح ذہن نشین کر لے۔

حاکمیّت کامفہوم

علم سیاست کی اصطلاح میں یہ لفظ اقتدار اعلیٰ اوراقتدار مطلق کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ کسی شخص یا مجموعۂِ اشخاص یا ادارے کے صاحبِ حاکمیّت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا حکم قانون ہے۔ اسے افراد ریاست پر حکم چلانے کے غیر محدود اختیارات حاصل ہیں۔ افراد اس کی غیر مشروط اطاعت پر مجبور ہیں، خواہ بطوع ورغبت یا بکراہت۔ اس کے اختیارات حکمرانی کو اس کے اپنے ارادے کے سوا کوئی خارجی چیز محدود کرنے والی نہیں ہے۔ افراد کو اس کے مقابلے میں کوئی حق حاصل نہیں۔ جس کے جو کچھ بھی حقوق ہیں، اسی کے دیے ہوئے اور وہ جس حق کو بھی سلب کرے وہ آپ سے آپ معدوم ہو جاتا ہے۔ ایک قانونی حق پیدا ہی اس بنا پر ہوتا ہے کہ شارع (Law-Giver) نے اس حق کو پیدا کیاہے، اس لیے جب شارح نے اس کو سلب کر لیا تو سرے سے کوئی حق باقی ہی نہیں رہا کہ اس کا مطالبہ کیا جا سکے۔ قانون صاحبِ حاکمیّت کے ارادے سے وجود میں آتاہے اور افراد کو اطاعت کا پابند کرتا ہے، مگر خود صاحبِ حاکمیّت کو پابند کرنے والا کوئی قانون نہیں ہے۔ وہ اپنی ذات میں قادر مطلق ہے۔ اس کے احکام کے بارے میں خیر اور شر‘ صحیح اور غلط کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، جو کچھ وہ کرے وہی خیر ہے، اس کے کسی تابع کو اسے شر قرار دے کر رد کر دینے کا حق نہیں ہے، جو کچھ وہ کرے وہ صحیح ہے، کوئی تابع اس کو غلط قرار نہیں دے سکتا۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ اسے سُبُّوح و قُدُّوس اور منزّہ عن الخطا مانا جائے، قطع نظر اس سے کہ وہ ایسا ہو یا نہ ہو۔
یہ ہے قانونی حاکمیّت کا تصوّر جسے ایک قانون دان، (فقیہ یا Jurist) پیش کرتا ہے اور اس سے کم کسی چیز کا نام ’’حاکمیّت‘‘ نہیں ہے، مگر یہ حاکمیّت اس وقت تک بالکل ایک مفروضہ رہتی ہے جب تک کہ اس کی پشت پر کوئی واقعی حاکمیّت یا علم سیاست کی اصطلاح میں سیاسی حاکمیّت (Political Sovereignty) نہ ہو، یعنی عملاً اس اقتدار کی مالک جو اس قانونی حاکمیّت کو مسلّط کرے۔

حاکمیّت فی الواقع کس کی ہے؟

اب پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کوئی حاکمیّت فی الواقع انسانی دائرے میں موجود بھی ہے؟ اور ہے تو وہ کہاں ہے؟ کس کو اس حاکمیت کا حامل کہا جا سکتا ہے؟
کیا کسی شاہی نظام میں واقعی کوئی بادشاہ ایسی حاکمیّت کا حامل ہے یا کبھی پایا گیا ہے یا پایا جا سکتا ہے؟ آپ کسی بڑے سے بڑے مختارِ مطلق فرمانروا کو لے لیجیے۔ اس کے اقتدار کا آپ تجزیہ کریں گے تو معلوم ہو گا کہ اس کے اختیارات کو بہت سی خارجی چیزیں محدود کر رہی ہیں جو اس کے ارادے کی تابع نہیں ہیں۔
پھر کیا کسی جمہوری نظام میں کسی خاص جگہ انگلی رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ یہاں واقعی حاکمیّت موجود ہے؟ جس کو بھی آپ اس کا حامل قرار دیں گے، تجزیہ کرنے سے معلوم ہو گا کہ اس کے ظاہری اختیار مطلق کے پیچھے کچھ اور طاقتیں ہیں جن کے ہاتھ میں ا س کی باگیں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ علم سیاست کے ماہرین حاکمیّت کا واضح تصوّر لے کر انسانی سوسائٹی کے دائرے میں اس کا واقعی مصداق تلاش کرتے ہیں تو انھیں سخت پریشانی پیش آتی ہے۔ کوئی قامت ایسا نہیں ملتا جس پر یہ جامہ راست آتا ہو۔ ا س لیے کہ انسانیت کے دائرے میں، بلکہ درحقیقت مخلوقات کے دائرے میں اس قامت کی کوئی ہستی سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اسی حقیقت کو قرآن بار بار کہتا ہے کہ فی الواقع حاکمیّت کا حامل صرف ایک خدا ہے۔ وہی مختارِ مطلق ہے (فَعَّالُ لِّمَا یُرِیْدُ) وہی غیر مسئول اور غیر جواب دہ ہے (لَا یُسْئَلُ عَمَّایَفعَلُ) وہی تمام اقتدار کا مالک ہے (بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیءٍ) وہی ایک ہستی ہے جس کے اختیارات کو محدود کرنے والی کوئی طاقت نہیں ہے (وَھُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ) اور اسی کی ذات منزّہ عن الخطا ہے (اَلمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ)

حاکمیّت کس کا حق ہے؟

پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حقیقت نفس الامری سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر کسی غیر اللہ کو یہ حاکمانہ حیثیت دے بھی دی جائے تو کیا فی الواقع اس کا یہ حق ہے کہ اس کا حکم قانون ہو، اور اس کے مقابلے میں کسی کا کوئی حق نہ ہو اور اس کی غیر مشروط اطاعت کی جائے اور اس کے حکم کے بارے میں خیر و شر یا صحیح و غلط کا سوال نہ اٹھایا جا سکے؟ یہ حق خواہ کسی شخص کو دیا جائے، یا کسی ادارے کو یا باشندوں کی اکثریت کو، بہرحال یہ پوچھا جائے گا کہ اس کو آخر یہ حق کس بنیاد پر حاصل ہوا ہے؟ اور اس بات کی دلیل کیا ہے کہ اسے افراد پر اس طرح حاکم ہونے کا حق حاصل ہے؟ اور اس کا زیادہ سے زیادہ اگر کوئی جواب دیا جا سکتا ہے تو وہ صرف یہ کہ لوگو ں کی رضا مندی اس حاکمیّت کے برحق ہونے کی دلیل ہے؟ مگر کیا آپ یہ ماننے کے لیے تیار ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی رضا مندی سے اپنے آپ کو کسی دوسرے شخص کے ہاتھ فروخت کر دے تو اس خریدار کو اس شخص پر جائز حق مالکانہ حاصل ہو جاتا ہے؟ اگر یہ رضا مندی اس ملکیّت کو برحق نہیں بتاتی تو آخر کسی غلط فہمی کی بناء پر محض جمہور کا رضا مند ہو جانا کسی حاکمیّت کو برحق کیسے بنا سکتا ہے؟ قرآن اس گتھی کو بھی یہ کہہ کر سلجھا دیتا ہے کہ اللہ کی مخلوق پر کسی مخلوق کو بھی حکم چلانے کا حق نہیں ہے، یہ حق صرف اللہ کو حاصل ہے اور اس بنا پر حاصل ہے کہ وہی اپنی مخلوق کا خالق ہے۔ اَلَا لَہُ الْخَلقُ وَالْاَمْرُ۔ ’’خبردار خلق اسی کی ہے اور امر بھی اسی کے لیے ہے۔‘‘یہ ایک ایسی معقول بات ہے جسے کم از کم وہ لوگ تو رد نہیں کر سکتے جو خدا کو خالق تسلیم کرتے ہیں۔

حاکمیّت کس کی ہونی چاہیے؟

پھر تیسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بالفرض حق اور باطل کی بحث نظر انداز کرکے حاکمیّت کا منصب کسی انسانی اقتدار کو دے بھی دیا جائے تو کیا اس میں انسانیت کی بھلائی ہے؟ انسان خواہ وہ کوئی ایک شخص ہو، یا کوئی طبقہ، یا کسی قوم کا مجموعہ، بہرحال حاکمیّت کی اتنی بڑی خوراک ہضم نہیں کر سکتا کہ اس کو افراد پر حکم چلانے کے غیر محدود اختیارات حاصل ہوں اور اس کے مقابلے میں کسی کا کوئی حق نہ ہو اور اس کے فیصلے کو بے خطا مان لیا جائے۔ اس طرح کے اختیارات جب بھی کسی انسانی اقتدار کو حاصل ہوں گے، ظلم ضرور ہو گا، معاشرے کے اندر بھی ظلم ہو گا اور معاشرے کے باہر دوسرے ہمسایہ معاشروں پر بھی ہو گا۔ فساد اس بندوبست کی فطرت میں مضمر ہے اور جب کبھی انسانوں نے زندگی کا یہ ہنجار اختیار کیا ہے۔ فساد رونما ہوئے بغیر نہیں رہا ہے۔ اس لیے کہ اس کی فی الواقع حاکمیّت نہیں ہے، اور جس کو حاکمیّت کا حق بھی حاصل نہیں ہے، اسے اگر مصنوعی طور پر حاکمیت کا مقام حاصل ہو اہے تو وہ اس منصب کے اختیارات کبھی صحیح طریقے سے استعمال نہیں کر سکتا۔ یہی بات ہے جسے قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہِ فَاُؤلٰئِکَ ھُمُ الظاَّلِمُوْنَ۔ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی ظالم ہیں۔

اللہ کی قانونی حاکمیّت

ان وجوہ سے اسلام میں یہ قطعی طور پر طے کر دیا گیا ہے کہ قانونی حاکمیّت اسی کی مانی جائے جس کی واقعی حاکمیّت ساری کائنات پر قائم ہے اور جسے انسانوں پر بھی حاکمیّت کا لاشریک حق حاصل ہے۔ اس بات کو قرآن میں اتنی بار بیان کیا گیا ہے کہ اس کا شمار مشکل ہے اور اتنے زور کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اس سے زیادہ پُرزور الفاظ کسی بات کو بیان کرنے کے لیے ہو نہیں سکتے۔ مثال کے طور پر ایک جگہ فرمایا:۔
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمْرَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہُ ذَالِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ۔ (یوسف:۴۰)
حکم اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں‘ اس کا فرمان ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی واطاعت نہ کرو، یہی صحیح طریقہ ہے۔
دوسری جگہ فرمایا:۔
اِتَّبِعُوْا مَااُنزِلَ اِلَیْکُمْ مِنْ رَبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِن دُوْنِہٖ اَوْلِیَائَ (اعراف:۳)
پیروی کرو اس قانون کی جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اسے چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔
تیسری جگہ خدا کی اس قانونی حاکمیّت سے انحراف کرنے کو صریح کفر سے تعبیر کیا گیا ہے:۔
وَمَنْ لَّم یحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُونَ (المائدہ :۴۴)
اور جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی کافر ہیں۔
اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی قانونی حاکمیت تسلیم کرنے ہی کا نام ایمان و اسلام ہے اور اس سے انکار قطعی کفر ہے۔

رسول اللہ کی حیثیت

دنیا میں اللہ کی اس قانونی حاکمیّت کے نمائندے انبیاء علیہم السلام ہیں یعنی جس ذریعے سے ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے شارع (Law Giver) کا ہمارے لیے کیا حکم اور کیا قانون ہے؟ وہ ذریعہ انبیا ہیں اور اسی بنا پر اسلام میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت ان کی بے چون وچرا اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن میں آپ دیکھیں گے کہ خدا کی طرف سے جو نبی بھی آیا اس نے یہی اعلان کیا ہے کہ اِتَّقُوْا اللہَ وَاَطِیعُوْنِ ’’اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘ اور قرآن اس بات کو بطور ایک قطعی اصول کے بیان کرتا ہے:
وَمَا اَرْسَلنَا مِن رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ۔ (النساء: ۶۴)
ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے۔
وَمَنْ یُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ۔ (النساء۔۸۰)
اور جو رسول کی اطاعت کرے اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی۔
حتیٰ کہ قرآن کسی ایسے شخص کو مسلمان ماننے سے انکار کرتا ہے جو اختلافی امور میں رسول کو آخری فیصلہ دینے والی اتھارٹی تسلیم نہ کرے:۔
’’فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُم ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًامِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمَاً۔ (النساء:۶۵)
پس نہیں تیرے رب کی قسم وہ ہرگز مومن نہ ہوں گے جب تک کہ اپنے اختلاف میں تجھے فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو فیصلہ تو کرے اس پر اپنے دل میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں۔
پھر وہ کہتا ہے :
وَمَا کَانَ لِمُؤمِنِ وَّلَا مُؤمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُولُہٗ اَمْرًا اَن یَّکُوْنَ لَھُمْ الخِیرَۃُ مِن اَمرِھِمْ وَمَنْ یّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُولَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِیْنَا۔ (الاحزاب:۵)
اور کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ اللہ اور رسولؐ جب کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو ان کے لیے پھر خود اپنے معاملے میں فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہ جائے اور جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے وہ کھلی گمراہی میں پڑ گیا۔
اس کے بعد یہ شبہ کرنے کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی کہ اسلام میں قانونی حاکمیّت خالصۃً اور کلیۃً اللہ اور اس کے رسولؐ کی ہے۔

اللہ ہی کی سیاسی حاکمیّت

اس اہم ترین دستوری مسئلے کا فیصلہ ہو جانے کے بعد یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ پھر سیاسی حاکمیت (Political Sovereignty) کس کی ہے؟ اس کا جواب لامحالہ یہی ہے اور یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ کی ہے، کیونکہ انسانوں میں جو ایجنسی بھی سیاسی طاقت سے اللہ تعالیٰ کی قانونی حاکمیّت کو نافذ (Enforce) کرنے کے لیے قائم ہو گی اس کو کسی طرح بھی قانون اور سیاست کی اصطلاح میں صاحبِ حاکمیّت (Sovereign) نہیں کہا جا سکتا۔ ظاہر ہے کہ جو طاقت قانونی حاکمیّت نہ رکھتی ہو اور جس کے اختیارات کو پہلے ہی ایک بالا تر قانون نے محدود اور پابند کر دیا ہو، اسے بدلنے کا اسے اختیار نہ ہو، وہ حاکمیّت کی حامل تو نہیں ہو سکتی۔ اب اس کی صحیح پوزیشن کس لفظ سے ادا کی جائے؟ اس سوال کو قرآن ہی نے حل کر دیا ہے۔ وہ اسے لفظ خلافت سے تعبیرکرتا ہے۔ یعنی وہ بجائے خود حاکمِ اعلیٰ نہیں ہے بلکہ حاکمِ اعلیٰ کا نائب ہے۔

جمہوری خلافت

اس نیابت کے لفظ سے آپ کا ذہن ظل اللہ اور پاپائیت اور بادشاہوں کے خدائی حقوق (Divine Rights of the king) کی طرف منتقل نہ ہو جائے۔ قرآن کا فیصلہ یہ ہے کہ اللہ کی نیابت کا مقام کسی فردِ واحد، یا کسی خاندان یا کسی مخصوص طبقے کا حق نہیں ہے بلکہ تمام ان لوگوں کا حق ہے جو اللہ کی حاکمیّت کو تسلیم کریں اور رسولؐ کے ذریعے سے پہنچے ہوئے قانونِ الٰہی کو بالاتر قانون مان لیں۔
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنکُمْ وَعَمِلُو الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ (النور:۵)
اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جنھوں نے تم میں سے ایمان قبول کیا اور عمل صالح کیا کہ وہ ان کو زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا۔
یہ چیز اسلامی خلافت کو قیصریت اور پاپائیت اور مغربی تصور والی مذہبی ریاست (Theocracy) کے برعکس ایک جمہوریت بنا دیتی ہے، اس فرق کے ساتھ اہل مغرب جس چیز کو لفظ جمہوریت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس میں جمہور کو حاکمیّت کا حامل قرار دیا جاتا ہے اور ہم مسلمان جسے جمہوریت کہتے ہیں، اس میں جمہورصرف خلافت کے حامل ٹھیرائے جاتے ہیں۔ ریاست کے نظام کو چلانے کے لیے ان کی جمہوریت میں بھی عام رائے دہندوں کی رائے سے حکومت بنتی اور بدلتی ہے اور ہماری جمہوریت بھی اسی کی متقاضی ہے، مگر فرق یہ ہے کہ ان کے تصوّر کے مطابق جمہوری ریاست مطلق العنان اور مختار مطلق ہے اور ہمارے تصوّرکے مطابق جمہوری خلافت اللہ کے قانون کی پابند۔

ریاست کے حدودِ عمل

خلافت کی اس تشریح سے یہ مسئلہ خود بخود حل ہو جاتا ہے کہ اسلامی دستور میں ریاست کے حدودِ عمل کیا ہیں۔ جب یہ ریاست اللہ کی خلافت ہے اور اللہ کی قانونی حاکمیّت تسلیم کرتی ہے تو لامحالہ اس کا دائرہِ اختیار ان حدود کے اندر ہی محدود رہے گا جو اللہ نے مقرر کی ہیں۔ ریاست جو کچھ کر سکتی ہے ان حدود کے اندر ہی کر سکتی ہے‘ ان سے تجاوز کرنے کی وہ ازروئے دستور مجاز نہیں ہے۔ یہ بات صرف منطقی طور پر ہی خدا کی قانونی حاکمیّت کے اصول سے نہیں نکلتی بلکہ خود قرآن اس کو صاف صاف بیان کرتا ہے۔ وہ جگہ جگہ احکام دے کر متنبہ کرتا ہے تِلْکَ حُدُودُ اللّٰہِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا۔ ’’یہ اللہ کی حدیں ہیں ان سے تجاوز نہ کرو۔‘‘ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُودَ اللّٰہِ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُونَ۔ ’’اور جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں۔‘‘ پھر وہ بطور ایک قاعدہ کلیہ کے یہ حکم دیتا ہے :
یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَاَطِیْعُو الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمرِ مِنکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُم فِی شَییٍٔ فَرُدُّوْہُ اِلٰی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنتُمْ تُؤمِنُوْنَ بِااللّٰہِ وَالیَرْمِ الْاٰخِرِ۔ (النساء: ۵۹)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں۔ پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑو تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ اور آخرت کے دن پر۔
اس آیت کی رُو سے ریاست کی اطاعت لازماً خدا اور رسول کی اطاعت کے تحت ہے، نہ کہ اس سے آزاد، اور اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ احکامِ خدا اور رسولؐ کی پابندی سے آزاد ہو کر ریاست کو سرے سے اطاعت کے مطالبے کا حق ہی باقی نہیں رہتا۔ اس نکتے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں واضح فرمایا: لَا طَاعَۃَ لِمَنْ عَصَی اللّٰہِ ’’کوئی اطاعت اس شخص کے لیے نہیں ہے جو اللہ کی نافرمانی کرے۔‘‘ وَلَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِق، خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کے لیے اطاعت نہیں ہے۔
اس اصول کے ساتھ دوسرا اصول جو یہ آیت مقرر کرتی ہے، یہ ہے کہ مسلم سوسائٹی میں جو اختلاف بھی رونما ہو، خواہ وہ افراد اورافراد کے درمیان ہو، یا گروہوں اور گروہوں کے درمیان، یا رعیّت اور ریاست کے درمیان، یا ریاست کے مختلف شعبوں اور اجزاء کے درمیان، بہرحال اس کا فیصلہ کرنے کے لیے رجوع اس بنیادی قانون ہی کی طرف کیا جائے گا جو اللہ اور اس کے رسول نے ہم کو دیا ہے۔ یہ اصول اپنی عین نوعیت ہی کے اعتبار سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ریاست میں لازماً کوئی ادارہ ایسا ہونا چاہیے جو اختلافی معاملات کا فیصلہ کتاب اللہ و سنت رسولؐ کے مطابق کرے۔
٭ ٭ ٭

اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق

یہیں سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ ریاست کے مخلف اعضاء (Organs of the State) کے اختیارات اور حدودِ عمل کیا ہیں۔

مجالسِ قانون ساز کے حدود

مقننہ (Legislature) وہی چیز ہے جسے ہمارے ہاں کی قدیم اصطلاح میں ’’اہل الحل والعقد‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے معاملے میں یہ بات بالکل صاف ہے کہ جو ریاست اللہ اور رسولﷺ کی قانونی حاکمیّت مان کر بنائی گئی ہو، اس کی مقننہ کتاب اللہ وسنت رسولؐ اللہ کی ہدایات کے خلاف اپنے اجماع سے بھی کوئی قانون سازی کرنے کی مجاز نہیں ہو سکتی۔ ابھی میں آپ کو قرآن کا یہ فیصلہ سنا چکا ہوں کہ ’’کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اللہ اور رسولؐ جس معاملے کا فیصلہ کر چکے ہوں اس میں ان کو پھر خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہے۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔‘‘ ان احکام کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اللہ اور رسولؐ کے خلاف کوئی قانون سازی کرنا مجلسِ قانون ساز کے حدودِ اختیار سے باہر ہو، اور ہر ایسا قانون اگر وہ لیجسلیچر پاس بھی کر دے‘ تو لازماً حدودِ دستور سے متجاوز(Ultra Vires of the Constitution) قرار پائے۔
اس سلسلے میں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ پھر اسلامی ریاست میں مقننہ کا کام ہی کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں مقننہ کے کئی کام ہیں:۔
(۱) جن معاملات میں اللہ اور رسولؐ کے واضح اور قطعی احکام موجود ہیں ان میں اگرچہ مقننہ کوئی ردوبدل نہیں کر سکتی، مگر یہ کام مقننہ ہی کا ہے کہ ان کے نفاذ کے لیے ضروری قواعد و ضوابط (Rules and Regulations) مقرر کرے۔
(۲) جن معاملات میں کتاب و سنت کے احکام ایک سے زیادہ تعبیرات کے متحمل ہوں۔ ان میں مقننہ ہی یہ طے کرے گی کہ کون سی تعبیر کو قانونی شکل دی جائے اس غرض کے لیے ناگزیر ہے کہ مقننہ ایسے اہل علم پر مشتمل ہو جو تعبیر احکام کی اہلیت رکھتے ہوں، ورنہ ان کے غلط فیصلے شریعت کو مسخ کر ڈالیں گے۔ لیکن یہ سوال رائے دہندوں کی صلاحیت انتخاب سے تعلق رکھتا ہے، اصولاً یہ ماننا پڑے گا کہ قانون سازی کی اغراض کے لیے مقننہ ہی مختلف تعبیرات میں سے ایک کو ترجیح دینے کی مجاز ہے اور اسی کی تعبیر قانون بنے گی، بشرطیکہ وہ تعبیر کی حد سے گزر کر تحریف کی حد تک نہ پہنچ جائے۔
(۳) جن معاملات میں احکام موجود ہوں ان میں مقننہ کا کام یہ ہے کہ اسلام کے اصول عامہ کو پیش نظر رکھ کر نئے قوانین وضع کرے، یا اگر ان کے بارے میں پہلے سے مدّون کیے ہوئے قوانین کتبِ فقہ میں موجود ہوں تو ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرے۔
(۴) جن معاملات میں کوئی اصولی رہنمائی بھی نہ ملتی ہو ان میں یہ سمجھا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قانون سازی میں آزاد چھوڑ دیا ہے۔ اس لیے ایسے معاملات میں مقننہ ہر طرح کے مناسب قوانین بنا سکتی ہے، بشرطیکہ وہ کسی شرعی حکم یا اصول سے متصادم نہ ہوتے ہوں۔ اس معاملے میں اصول یہ ہے کہ جو کچھ ممنوع نہیں ہے وہ مباح ہے۔
یہ چاروں قاعدے ہم کو سنت رسولؐ اور تعامل خلفائے راشدینؓ اور مجتہدینِ امت کی آراء سے معلوم ہوتے ہیں، اور اگر ضرورت ہو تو میں ان میں سے ہر ایک کا ماخذ بتا سکتا ہوں، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ جو شخص اسلامی ریاست کے بنیادی اصول سمجھ لے اسے خود عقل عام Common-Sense بھی یہ بتا سکتی ہے کہ اس طرز کی ریاست میں مقننہ کے یہی حدودِ عمل ہونے چاہییں۔

انتظامیہ کے حدودِ عمل

اب انتظامیہ کو لیجیے۔ ایک اسلامی ریاست میں انتظامیہ (Executive) کا اصل کام احکامِ الٰہی کو نافذ کرنا اور ان کے نفاذ کے لیے ملک اور معاشرے میں مناسب حالات پیدا کرنا ہے۔ یہی امتیازی خصوصیّت اس کو ایک غیر مسلم ریاست کی انتظامیہ سے ممیز کرتی ہے، ورنہ ایک کافر حکومت اور مسلم حکومت میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ انتظامیہ وہی چیز ہے جس کے لیے قرآن میں ’’اولی الامر‘‘ اورحدیث میں امرا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں،اور قرآن وحدیث دونوں میں ان کے لیے سمع وطاعت (Obedience) کا جو حکم دیا گیا ہے وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ احکامِ خدا اور رسولؐ کے تابع رہیں، ان سے آزاد ہو کر معصیّت اور بدعت اور احداث فی الدین کی راہ پر نہ چل پڑیں۔ قرآن اس باب میں صاف کہتا ہے کہ:
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوٰہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا۔ (الکہف:۲۸)
اور کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہو اور اس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہو۔ اور جس کا امر حدود آشنا نہ ہو
وَلَا تُطِیْعُوْا اَمْرَالمُسْرِفِیْنَ الَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِی الاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ۔ (الشعراء: ۱۵۲)
اور ان سے گزر جانے والوں کے امر کی اطاعت نہ کرو جو زمین میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔
اورنبیﷺ اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ اس معاملے کو یوں بیان فرماتے ہیں:
اِنْ اُمِّرَ علیکم عبدٌ مجدّع یقودکم بکتاب اللّٰہ فاسمعوا واطیعوا۔ (مسلم)
اگر تم پر کوئی نکٹا غلام بھی امیر بنا دیا جائے جو کتاب اللہ کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو اس کی سنو اور اطاعت کرو۔
السمع والطاعۃ علی المرء المسلم فی ما احب وکرہ مالم امر بمعصیۃ فازا امربمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ (متفق علیہ)
ایک مرد مسلمان پر سمع وطاعت لازم ہے خواہ برضا ورغبت، خواہ بکراہت، تاوقتیکہ اس کو معصیّت کا حکم نہ دیا جائے، پھر اگرمعصیت کا حکم دیا جائے تو نہ سمع ہے نہ طاعت۔
لاطاعۃ فی معصیۃانما الطاعۃ فی المعروف ۔ (متفق علیہ)
معصیّت میں کوئی اطاعت نہیں ہے۔ طاعت صرف معروف میں ہے۔
من احدث فی امرنا ھٰذا مالیس منہ فھو رد۔ (متفق علیہ)
جس نے ہمارے اس کام (یعنی اسلامی نظامِ زندگی) میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو اس کے مزاج سے بیگانہ ہو تو وہ مردُود ہے۔
من وقر صاحب بدعۃ فقد اعان علی ھدم الاسلام۔ (البیہقی فی شعب الایمان)
جس نے کسی صاحبِ بدعت (یعنی اسلامی زندگی میں غیر اسلامی طریقے رائج کرنے والے) کی توقیر کی اس نے اسلام کو منہدم کرنے میں مدد دی۔
ان توضیحات کے بعد ا س معاملے میں کوئی اشتباہ باقی نہیں رہ جاتا کہ اسلام میں انتظامی حکومت اور اس کے نظم و نسق کے لیے کیا حدودِ عمل مقرر کیے گئے ہیں۔

عدلیہ کے حدودِ عمل

رہی عدلیہ (Judiciary) جو ہماری قدیم اصطلاح ’’قضا‘‘ کی ہم معنی ہے اور اس کا دائرہِ عمل بھی خدا کی قانونی حاکمیّت کا اصول آپ سے آپ معین کر دیتا ہے۔ اسلام جب کبھی اپنے اصولوں پر ریاست قائم کرتا ہے، اس کے اولین جج ہوتے ہیں! اور ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے معاملات کا فیصلہ قانون الٰہی کے مطابق کریں۔ پھر جو لوگ انبیاؑء کے بعد اس کرسی پر بیٹھیں ان کے لیے بھی اس کے سِوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کہ اپنے فیصلوں کی بنیاد اس قانون پر رکھیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے ان کو ملا ہے۔ قرآن مجید میں سورۂ مائدہ کے دو رکوع خاص اسی موضوع پر ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔اور بنی اسرائیل کے سارے نبی، اور ربّانی اور احبار اسی کے مطابق یہودیوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، پھر ہم نے ان کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور ان کوانجیل عطا کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ اہل انجیل کو چاہیے کہ وہ بھی اس ہدایت پر فیصلے کریں جو اللہ نے انجیل میں نازل کیے ہیں۔ اس تاریخ کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے فرماتا ہے کہ ہم نے یہ کتاب (قرآن) تمہاری طرف ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ نازل کی ہے۔
فَاَحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَا اَنزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَائَ ھُمْ عَمَّا جَائَ کَ مِنَ الْحَقِّ۔ (المائدہ)
پس تم لوگوں کے درمیان اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے کرو اور اس حق کو چھوڑ کر جو تمہارے پاس آیا ہے، لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔
آگے چل کر اللہ تعالیٰ اس تقریر کو اس فقرے پر ختم فرماتا ہے کہ:
اَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْماً لِّقَوْمِ یُّوْقِنُونَ۔ (المائدہ)
پھر کیا لوگ جاہلیت کے فیصلے چاہتے ہیں؟ یقین رکھنے والوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟
اس تقریر کے دوران میں اللہ تعالیٰ تین مرتبہ فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون پر فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں، وہی ظالم ہیں، وہی فاسق ہیں۔ اس کے بعد یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ ایک اسلامی ریاست کی عدالتیں قانونِ الٰہی کو نافذ کرنے کے لیے بنتی ہیں نہ کہ اس کے خلاف فیصلے کرنے کے لیے۔رہی عدلیہ (Judiciary) جو ہماری قدیم اصطلاح ’’قضا‘‘ کی ہم معنی ہے اور اس کا دائرہِ عمل بھی خدا کی قانونی حاکمیّت کا اصول آپ سے آپ معین کر دیتا ہے۔ اسلام جب کبھی اپنے اصولوں پر ریاست قائم کرتا ہے، اس کے اولین جج ہوتے ہیں! اور ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے معاملات کا فیصلہ قانون الٰہی کے مطابق کریں۔ پھر جو لوگ انبیاؑء کے بعد اس کرسی پر بیٹھیں ان کے لیے بھی اس کے سِوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کہ اپنے فیصلوں کی بنیاد اس قانون پر رکھیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے ان کو ملا ہے۔ قرآن مجید میں سورۂ مائدہ کے دو رکوع خاص اسی موضوع پر ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔اور بنی اسرائیل کے سارے نبی، اور ربّانی اور احبار اسی کے مطابق یہودیوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، پھر ہم نے ان کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور ان کوانجیل عطا کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ اہل انجیل کو چاہیے کہ وہ بھی اس ہدایت پر فیصلے کریں جو اللہ نے انجیل میں نازل کیے ہیں۔ اس تاریخ کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے فرماتا ہے کہ ہم نے یہ کتاب (قرآن) تمہاری طرف ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ نازل کی ہے۔
فَاَحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَا اَنزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَائَ ھُمْ عَمَّا جَائَ کَ مِنَ الْحَقِّ۔ (المائدہ)
پس تم لوگوں کے درمیان اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے کرو اور اس حق کو چھوڑ کر جو تمہارے پاس آیا ہے، لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔
آگے چل کر اللہ تعالیٰ اس تقریر کو اس فقرے پر ختم فرماتا ہے کہ:
اَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْماً لِّقَوْمِ یُّوْقِنُونَ۔ (المائدہ)
پھر کیا لوگ جاہلیت کے فیصلے چاہتے ہیں؟ یقین رکھنے والوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟
اس تقریر کے دوران میں اللہ تعالیٰ تین مرتبہ فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون پر فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں، وہی ظالم ہیں، وہی فاسق ہیں۔ اس کے بعد یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ ایک اسلامی ریاست کی عدالتیں قانونِ الٰہی کو نافذ کرنے کے لیے بنتی ہیں نہ کہ اس کے خلاف فیصلے کرنے کے لیے۔

مختلف اعضائے ریاست کا باہمی تعلق

اس سلسلے میں یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اسلام میں ریاست کے ان تینوں اعضاء کا باہمی تعلق کیا ہے؟ اس باب میں احکام تو موجود نہیں ہیں، مگر عہد نبویؐ اور خلافتِ راشدہ کے تعامل (Convention) میں ہم کو پوری روشنی ملتی ہے۔ اس تعامل سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک صدر ریاست کا تعلق ہے وہ صدر ہونے کی حیثیت سے ریاست کے ان تینوں شعبوں کا صدر ہے۔ یہی حیثیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھی اور یہی خلفائے راشدین کو حاصل رہی۔ مگر صدر سے نیچے اتر کر ہم تینوں شعبوں کو اس دور میں ایک دوسرے سے الگ پاتے ہیں۔ اس زمانے میں اہل الحل والعقد الگ تھے، جن کے مشورے سے خلافت راشدہ کے دورمیں انتظامی معاملات بھی چلائے جاتے تھے اور قانونی مسائل کے فیصلے بھی کیے جاتے تھے۔ نظم و نسق کے ذمہ دار امراء الگ تھے جن کا قضاء (عدالت) میں کوئی دخل نہ تھااور قاضی (جج اور مجسٹریٹ) الگ تھے جن پر انتظامی ذمہ داریوں کا کوئی بار نہ تھا۔
مملکت کے اہم معاملات میں پالیسی بنانے، یا انتظامی اور قانونی مسائل کو حل کرنے کی جب کبھی ضرورت پیش آتی، خلفائے راشدین ہمیشہ اہل الحل والعقد کو بلا کر مشورہ کرتے تھے، اور مشورے سے جب کوئی فیصلہ ہو جاتا، تو اہل الحل والعقد کا کام ختم ہو جاتا۔
انتظامی عہدے دار خلیفہ کے ماتحت تھے، وہی ان کو مقرر کرتا تھا اور اسی کے احکام کے مطابق وہ نظم و نسق چلاتے تھے۔
قاضیوں کا تقرر بھی اگرچہ خلیفہ کرتا تھا، مگر ایک مرتبہ قاضی مقرر ہو جانے کے بعد پھر خلیفہ کو بھی یہ حق نہ تھا کہ ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہو۔ بلکہ اپنی ذاتی حیثیت میں، یا منتظمہ کے صدر ہونے کی حیثیت میں، اگر کسی شخص کا ان کے خلاف کوئی دعویٰ ہوتا تھا، تو ان کو بھی قاضیوں کے سامنے ٹھیک اسی طرح جواب دہی کرنی ہوتی تھی جس طرح رعیّت کے کسی معمولی فرد کو کرنی ہوتی تھی۔
اس زمانے میں ہم کو ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کوئی ایک شخص بیک وقت کسی علاقے کا عامل بھی ہو اور قاضی بھی، یا کوئی عامل یا گورنر، یا خود صدر ریاست کسی قاضی کے عدالتی فیصلوں میں دخل دینے کا مجاز ہو۔ یا کوئی بڑے سے بڑا آدمی بھی دیوانی یا فوجداری دعوئوں کی جواب دہی سے یا عدالتوں کی حاضری سے مستثنیٰ ہو۔
اس نقشے کی تفصیلات میں ہم اپنی موجودہ ضرورتوں کے مطابق ردوبدل کر سکتے ہیں۔ مگر اس کے اصول جوں کے توں قائم رہنے چاہییں جس قسم کے ضروری ردّوبدل اس میں کیے جا سکتے ہیں وہ اس طرح کے ہیں کہ مثلاً ہم صدر ریاست کے انتظامی وعدالتی اختیارات خلفائے راشدین کی بہ نسبت محدود کر سکتے ہیں، کیونکہ اب اس درجے کے قابل اعتماد صدر ریاست ہمیں نہیں مل سکتے، جیسے خلفائے راشدین تھے۔ اس لیے ہم اپنے صدر کے انتظامی اختیارات پر بھی پابندیاں عائد کرسکتے ہیں تاکہ وہ ڈکٹیٹر نہ بن جائے، اور اس کو مقدمات کی براہِ راست خود سماعت کرنے اور ان کے فیصلے کرنے سے روک سکتے ہیں تاکہ وہ بے انصافی نہ کرنے لگے۔
(اس موقع پر ایک صاحب نے اٹھ کر سوال کیا کہ آپ کی اس رائے کا ماخذ کیا ہے؟) مقرر نے اس کے جواب میں کہا:۔
اس قول کے لیے میری دلیل یہ ہے کہ خلافتِ راشدہ میں انتظامیہ اور عدلیہ کے شعبے بالکل الگ الگ تھے۔ رہا صدر ریاست تو اس کی ذات میں ان دونوں امتیازات کو کسی حکم شرعی کی بنا پر جمع نہیں رکھا گیا تھا۔ بلکہ اس اعتماد پر جمع کیا گیا تھا کہ وہ جج کی حیثیت سے انصاف کی مسند پر بیٹھ کر اپنی انتظامی مصلحتوں کو دخیل نہ ہونے دیں گے۔ بلکہ خلفائے راشدین کی ذات پر تو لوگوں کو اس درجہ اعتماد تھا کہ وہ خود یہ چاہتے تھے کہ آخری عدالتِ انصاف وہی ہوں تاکہ اگر کہیں انصاف نہ ملے تو ان کے پاس ضرور مل جائے۔ اس اعتماد کی مستحق اگر کوئی شخصیت ہم نہ پا سکیں تو اسلامی دستور کے کسی قاعدے نے ہمیں اس بات پر مجبور نہیں کر دیا ہے کہ ہم صدر کی ذات میں چیف جسٹس اور انتظامیہ کے رئیس اعلیٰ کی حیثیتیں لازماً جمع رکھیں۔
اس طرح اس نقشے میں جو تبدیلیاں ہم کر سکتے ہیں وہ یہ ہیں کہ مثلاً ہم اہل الحل والعقد کے انتخاب کے طریقے اور ان کی مجلس کے ضابطے حسبِ ضرورت بنا سکتے ہیں ہم عدالتوں کے مختلف درجے مخصوص اختیارات، حدودِ سماعت اور حدودِ عمل کے ساتھ مقرر کر سکتے ہیں وغیر ذالک۔
یہاں دو سوالات اور پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔ اول یہ کہ آیا اسلام میں اس امر کی گنجائش ہے کہ قضاء (عدلیہ) اہل الحل والعقدکے طے کیے ہوئے کسی قانونی مسئلے کو خلافِ کتاب و سنت ہونے کی بنا پر رد کر دے؟ اس باب میں کوئی حکم میرے علم میں نہیں ہے۔ خلافت راشدہ کا تعامل بے شک یہی تھا کہ قضاء کو یہ اختیارات حاصل نہیں تھے۔ کم از کم اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی قاضی نے ایسا کیا ہو۔ مگر اس کی وجہ میرے نزدیک یہ تھی کہ اس وقت اہل الحل والعقد کتاب و سنت میں گہری بصیرت رکھنے والے لوگ تھے اور سب سے بڑھ کر خود خلفائے راشدین اس معاملے میں قابل اعتماد تھے کہ ان کی صدارت میں کوئی مسئلہ خلافِ کتاب و سنت طے نہ ہو سکتا تھا۔ آج اگر ہم اپنے دستورمیں اس امر کا کوئی قابل اطمینان انتظام کر سکیں کہ کسی مجلس قانون ساز سے کوئی قانون خلاف کتابِ و سنت پاس نہ ہو سکے، تو عدلیہ کو مقننہ کے فیصلوں کا پابند کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر اس کا کوئی قابلِ اطمینان انتظام نہ کیا جاسکے تو پھر آخری چارۂ کار یہی ہے کہ عدلیہ کو خلافِ کتاب و سنت قوانین ردّ کرنے کا اختیار دیا جائے۔
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام میں مقننہ (اہل الحل والعقد) کی صحیح حیثیت کیا ہے؟ کیا وہ محض صدر ریاست کی مشیر ہے جس کے مشوروں کو ردّ یا قبول کرنے کا صدرِ ریاست کو اختیار ہے؟ یا صدرِ ریاست اس کی اکثریت یا اس کے اجماع کے فیصلوں کا پابند ہے؟اس باب میں قرآن جو کچھ کہتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات باہمی مشورے سے انجام پانے چاہییں (وَاَمْرُ ھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ) اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بحیثیت صدرِ ریاست کے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے:۔
وَشَاوِرْھُمْ فِیْ الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلٰی اللّٰہِ ۔ (آل عمران:۱۷)
اور اُن سے معاملات میں مشورہ کرو، پھر (مشورے کے بعد) جب تم عزم کر لو تواللہ کے بھروسے پر عمل کرو۔
یہ دونوں آیتیں مشورے کو لازم کرتی ہیں، اور صدرِ ریاست کو ہدایت کرتی ہیں کہ جب وہ مشورے کے بعد کسی فیصلے پر پہنچ جائے تو اللہ کے بھروسے پراسے نافذ کردے۔ لیکن یہ اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں دیتیں جو ہمارے سامنے پیش ہے۔ حدیث میں بھی اس کے متعلق کوئی قطعی حکم مجھے نہیں ملا۔ البتہ خلافتِ راشدہ کے تعامل سے علمائے اسلام نے بالعموم یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نظم ریاست کا اصل ذمہ دار صدر ریاست ہے اور وہ اہل الحل والعقد سے مشورہ کرنے کا پابند ضرور ہے مگر اس بات کا پابند نہیں ہے کہ ان کی اکثریت یا ان کی متفقہ رائے پر ہی عمل کرے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو ’’ویٹو‘‘ کے اختیارات حاصل ہیں۔
لیکن یہ رائے اس مجمل صورت میں بڑی غلط فہمیوں کی موجب ہوتی ہے، کیونکہ اسے لوگ موجودہ ماحول میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ ماحول ان کے سامنے نہیں ہوتا، جس کے تعامل سے یہ رائے اخذ کی گئی ہے۔ خلافتِ راشدہ کے ماحول میں جن لوگوں کو اہل الحل والعقد قرار دیا گیا تھا وہ جدا جدا پارٹیوں کی شکل میں منظم نہ تھے۔ وہ ان پارلیمنٹری ضابطوں سے بھی کسے ہوئے نہ تھے جن سے موجودہ رائے کی مجالس قانون ساز کسی ہوئی ہوتی ہیں۔ وہ مجلس شوریٰ میں پہلے سے الگ الگ اپنی کچھ پالیسیاں وضع کرکے، پروگرام بنا کر، اور پارٹی میٹنگز میں فیصلے کرکے بھی نہیں آتے تھے۔ انھیں جب مشورے کے لیے بلایا جاتا تووہ کھلے دل کے ساتھ آکر بیٹھتے، خلیفہ خود ان کی مجلس میں موجود ہوتا، مسئلہ پیش کیا جاتا، مخالف اورموافق ہر پہلو پر آزادانہ بحث ہوتی، پھر دونوں طرف کے دلائل کاموازنہ کرکے خلیفہ اپنے دلائل کے ساتھ اپنی رائے بیان کرتا۔ یہ رائے بالعموم ایسی ہوتی تھی کہ پوری مجلس اسے تسلیم کر لیتی تھی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ چند لوگ اس سے متفق نہ ہوتے تھے، مگر اسے بالکل غلط اور ناقابل تسلیم نہیں بلکہ صرف مرجوح سمجھتے تھے اور فیصلہ ہو جانے کے بعد کم از کم عمل کے لیے اسی کو مان لیتے تھے۔ پوری خلافت راشدہ کی تاریخ میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ اہل الحل والعقد کی مجلس میں ایسی تفریق رونما ہوئی ہو کہ رائے شماری کی نوبت آئے۔ اور پوری خلافت راشدہ کی تاریخ میں صرف دو مثالیں اس امر کی ملتی ہیں کہ خلیفۂ وقت نے اہل الحل والعقد کی قریب قریب متفقہ رائے کے خلاف کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک جیشِ اسامہؓ کا معاملہ ۔ دوسرے مرتدین کے خلاف جہاد کا معاملہ۔ لیکن ان دونوں معاملات میں صحابہؓ نے جس بنا پر خلیفہ کے فیصلے کومانا وہ یہ نہیں تھی کہ دستور اسلامی نے خلیفہ کوویٹو کے اختیارات دے رکھے ہیں اور دستوری طور پر وہ بادل ناخواستہ اس کا فیصلہ ماننے کے لیے مجبور ہیں‘ بلکہ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ صحابۂ کرام کو حضرت ابو بکرؓ کے فہم و فراست اور دینی بصیرت پر پورا اعتماد تھا۔ انھوں نے جب دیکھا کہ ابوبکرؓ اس رائے کی صحت پر اتنا یقین رکھتے ہیں اور دینی مصالح کے لیے اس کو اتنی اہمیت دے رہے ہیں ،تو انھوںنے کھلے دل سے ان کی رائے کے مقابلے میں اپنی رائے واپس لے لی۔ بلکہ بعد میں ان کی اصابت رائے کو کھلم کھلا سراہا اور اعتراف کیا کہ اگر ان مواقع پرابوبکرؓ استقامت نہ دکھاتے تو اسلام ہی کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ چنانچہ مرتدین کے معاملے میں حضرت عمرؓ نے‘ جو سب سے بڑھ کر حضرت ابوبکرؓ کی رائے سے اختلاف کر چکے تھے، علیٰ لاعلان کہا کہ اللہ نے ابوبکرؓ کا سینہ اس کام کے لیے کھول دیا اور مجھے معلوم ہو گیا کہ حق وہی ہے جس کا فیصلہ انھوں نے کیا ہے۔
اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اسلام میں ویٹو کا یہ تصور دراصل کس ماحول کی نظیروں سے پیدا ہوا ہے۔ اگر شوریٰ کا طرز اور اس کی روح اور اہل شوریٰ کی ذہنیت اور سیرت وہی ہو جو خلافت راشدہ کے اس نمونے میں ہم دیکھتے ہیں تو پھر اس سے بہتر کوئی طریق کار نہیں ہے جو وہاں اختیار کیا گیا۔ اس طریق کار کو اگر ہم اس کے آخری منطقی نتائج تک لے آئیں تو زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس طرز کی مجلس شوریٰ میں اگر صدرِ ریاست اور ارکانِ مجلس اپنی اپنی رائے پر اڑ جائیں۔ اور ان میں سے کوئی دوسرے کے مقابلے میں اپنی رائے واپس نہ لے تو استصواب عام Referendumکرا لیا جائے، پھر جس کی رائے کو بھی عوام رد کر دے وہ مستعفی ہو جائے۔ لیکن جب تک ہمارے لیے اپنے ملک میں اس روح اور ذہنیت اور اس طرز کی مجلسِ شوریٰ بنانا ممکن نہیں ہے، اس کے سوا چارہ نہیں کہ ہم انتظامیہ کو مقننہ کی اکثریت کے فیصلوں کا پابند کر دیں۔

۴۔ ریاست کا مقصد وجود

ا ب اس مسئلے کو لیجیے کہ اسلام وہ کون سے بنیادی مقاصد (Objectives) پیش کرتا ہے جن کے لیے ایک اسلامی ریاست کو کام کرنا چاہیے۔ قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ان مقاصد کی جو توضیح کی گئی ہے وہ یہ ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتَابَ وَالمِیزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْط۔ (الحدید:۲۵)
ہم نے اپنے رسول روشن دلائل کے ساتھ بھیجے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان اتاری تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
اور دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:۔
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَاَتَوُالزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنکَرِ۔ (الحج:۴۱)
(یہ مسلمان جن کو جنگ کی اجازت دی جا رہی ہے وہ لوگ ہیں) جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار عطا کریں تو یہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بدی سے روکیں گے۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:۔
اِنَّ اللّٰہَ لَیَزَعُ بِالسُّلْطَانِ مَالَا یَزَعُ بِالْقُرْآن۔ (تفسیر ابن کثیر)
اللہ حکومت کے ذریعے سے ان چیزوں کا سدِّباب کرتا ہے جن کا سدِّباب قرآن کے ذریعے سے نہیں کرتا۔
یعنی جو برائیاں قرآن کی نصیحت اور فہمائش سے نہ دور ہوں ان کو مٹانے اور دبانے کے لیے حکومت کی طاقت درکار ہے۔
ا س سے معلوم ہوا کہ ایک اسلامی ریاست کے قیام کا اصل مقصد اس پروگرام کو مملکت کے تمام ذرائع سے عمل میں لانا ہے جو اسلام نے انسانیت کی بہتری کے لیے پیش کیا ہے محض امن کا قیام، محض قومی سرحدوں کی حفاظت، محض عوام کے معیارِ زندگی کو بلند کرنا اس کا آخری اور انتہائی مقصد نہیں ہے۔ اس کی امتیازی خصوصیّت جو اسے غیر مسلم ریاستوں سے ممتاز کرتی ہے، یہ ہے کہ وہ ان بھلائیوں کو فروغ دینے کی کوشش کرے جن سے اسلام انسانیت کو آراستہ کرنا چاہتا ہے اور ان برائیوں کو مٹانے اور دبانے میں اپنی ساری طاقت خرچ کر دے جن سے اسلام انسانیت کو پاک کرنا چاہتا ہے۔

۵۔ حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟

ان بنیادی امور کی توضیح کے بعد ہمارے سامنے پانچواں سوال آتا ہے۔ یہ کہ جو ریاست ان بنیادوں پر تعمیر ہو اس کا نظام چلانے کے لیے حکومت کی تشکیل کیسے کی جائے؟ اس معاملے میں سب سے اہم مسئلہ رئیسِ مملکت Head of the State کے تقرر کاہے جس کو اسلام میں امام‘ امیر اور خلیفہ کی مختلف اصطلاحوں سے یاد کیا جاتا ہے۔ اور اس باب میں اسلام کے مسلک کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام کی ابتدائی تاریخ کی طرف رجوع کریں۔

۱۔ صدرِ ریاست کاانتخاب

جیسا کہ آپ سب حضرات جانتے ہیں، ہمارے موجودہ اسلامی معاشرے کا آغاز مکے میں کفر کے ماحول میں ہوا تھا اور اس ماحول سے لڑ کر اسلامی معاشرے کی ابتداء کرنے والے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ یہ اسلامی معاشرہ جب اپنے نظم اور سیاسی خود مختاری میں ترقی کرکے ایک اسٹیٹ بننے کی منزل پر پہنچا تو اس کے اولین رئیس بھی آنحضورؐ ہی تھے، اور آپ کسی کے منتخب کردہ نہ تھے بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے معمور کیے ہوئے تھے۔
دس سال تک آپؐ اس ریاست کی امارت کا فریضہ انجام دینے کے بعد رفیق اعلیٰ سے جا ملے۔ بغیر اس کے کہ اپنی جانشینی کے متعلق کوئی صریح اور قطعی ہدایت دے کر تشریف لے جاتے۔ آپ کے اس سکوت سے، اور قرآن مجید کے اس ارشاد سے کہ وَاَمرُھُمْ شُوریٰ بَیْنَھُمْ (مسلمانوں کے معاملات آپس کے مشورے سے انجام پاتے ہیں) صحابہ کرامؓ نے یہ سمجھا کہ نبی کے بعد رئیسِ مملکت کا تقرر مسلمانوں کے اپنے انتخاب پر چھوڑا گیا ہے اور یہ انتخاب مسلمانوں کے باہمی مشورے سے ہونا چاہیے۔ { اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں میں سے حضرات شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ نبی کی طرح امامت کا منصب بھی توفیقی ہے، یعنی امام بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے مامور ہوتا ہے لیکن یہ اختلاف اب عملاً یوں ختم ہو گیا ہے کہ شیعہ حضرات کے نزدیک بھی بارھویں امام کی غیبت کے بعد چونکہ منصب امامت ان کے ظہور ثانی تک موقوف ہے، اس لیے مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کی سربراہ کاری اب بہرحال کسی غیر مامور من اللہ ہی کے سپرد ہونی چاہیے۔
} چنانچہ خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرؓ کا انتخاب مجمع عام میں ہوا۔
پھر جب ان کا آخری وقت آیا تو اگرچہ ان کی رائے میں خلافت کے لیے موزوں ترین شخص حضرت عمرؓ تھے، لیکن انھوں نے اپنے جانشین کو نامزد نہ کیا بلکہ اکابرِ صحابہؓ کو الگ الگ بلا کر ان کی رائے معلوم کی، پھر حضرت عمرؓ کے حق میں اپنی وصیّت اِملاکرائی، پھر حالتِ مرض ہی میں اپنے حجرے کے دروازے سے مسلمانوں کے مجمع عام کو خطاب کرکے فرمایا:۔
اترضون بمن استخلفُ علیکم؟ فانی واللّٰہ ما الوت من جھد الرائی ولا ولیت ذاقرابۃ۔ وانی استخلفت عمر بن الخطاب، فاسمعوا لہ واطیعوا۔
کیا تم راضی ہو اس شخص سے جس کو میں تم پر اپنا جانشین بنائوں؟ خدا کی قسم میں نے غوروفکر کرکے رائے قائم کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے اور اپنے کسی رشتہ دار کومقرر نہیں کیا ہے۔ میں نے عمر بن الخطاب کو جانشین بنایا ہے۔ پس تم ان کی سنو اور اطاعت کرو۔
مجمع سے آوازیں آئیں:۔
سمعنا واطعنا ۔ ’’ہم نے سنا اور مانا۔‘‘ (طبری جلد۲ ص۶۱۸ طبعۃ الاستقامہ، مصر)
ا س طرح مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ کا تقرر بھی نامزدگی سے نہیں ہوابلکہ خلیفۂ وقت نے مشورے سے ایک شخص کو تجویز کیااور پھر مجمع عام میں اس کو پیش کرکے منظور کرایا۔
اس کے بعد حضرت عمرؓ کے دنیا سے رخصت ہونے کی باری آئی۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معتمد ترین رفیقوں میں سے چھ اصحاب ایسے موجود تھے جن پر خلافت کے لیے مسلمانوں کی نگاہ پڑ سکتی تھی۔ حضرت عمرؓ نے انھی چھ اصحاب کی ایک مجلس شوریٰ بنا دی اور ان کے سپرد یہ کام کیا کہ باہمی مشورے سے ایک شخص کو خلیفہ تجویز کریں اور اعلان کر دیا کہ
من تامر منکم علیٰ غیر مشورۃ من المسلمین فاضربواعنقہ۔
(الفاروق عمرؓ از محمد حسین ہیکل ۔ج۲۔ص۳۲۳)
تم میں سے جو کوئی مسلمانوں کے مشورے کے بغیر زبردستی امیر بنے ا س کی گردن مار دو۔
اس مجلس نے بالآخر انتخاب کا کام حضرت عبدالرحمن ؓبن عوف کے سپرد کیا اورانھوں نے مدینے میں چل پھر کر عام لوگوں کی رائے معلوم کی۔ گھر گھر جا کر عورتوں تک سے پوچھا۔ مدرسوں میں جا کر طلبہ تک سے دریافت کیا۔ مملکت کے مختلف حصوں کے جو لوگ حج سے اپنے اپنے علاقوں کی طرف واپس جاتے ہوئے مدینے ٹھہرے تھے، ان سے استصواب کیا۔ اور اس تحقیقات سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ُا مّت میں سب سے زیادہ معتمد علیہ دو شخص ہیں، عثمانؓ اور علیؓ اور ان میں سے عثمانؓ کی طرف زیادہ لوگوں کا میلان ہے۔ اسی رائے پر آخرکار حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے حق میں فیصلہ ہوا اورمجمع عام میں ان کے ہاتھ پر بیعت کی گئی۔
پھر حضرت عثمانؓ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا اور امّت میں سخت افراتفری برپا ہوگئی۔ اس موقع پر چند صحابہ حضرت علیؓ کے مکان پر جمع ہوئے اور ان سے عرض کیا کہ آج آپ سے زیادہ امارت کا حق دار کوئی نہیں۔ آپ اس بار کو سنبھالیں۔ حضرت علیؓ نے انکار کیا، مگر وہ اصرار کرتے رہے۔ آخر کار حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اگر آپ لوگ یہی چاہتے ہیں تو مسجد میں چلیے۔
فان بیعتی لا تکون خفیا ولا تکون الاعن رضا من المسلمین۔ (طبری، ج۲، ص۴۵۰)
کیونکہ میری بیعت خفیہ طور پر نہیں ہو سکتی، اور مسلمانوں کی عام رضا مندی کے بغیر اس کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔
چنانچہ آپ مسجد نبوی میں تشریف لے گئے اور مہاجرین و انصار جمع ہوئے اور سب کی نہیں تو کم از کم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اکثریت کی مرضی سے آپ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی۔
پھر جب حضرت علیؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے بعد ہم آپ کے صاحبزادے حسنؓ سے بیعت کر لیں؟ اس پر انھوں نے جواب دیا وہ یہ تھا کہ:۔
ما امرکم ولاانـھا لم، انتم البصر۔ (طبری۔ج۴ ص۱۱۲)
میں نہ تم کو اس کا حکم دیتا ہوں نہ اس سے منع کرتا ہوں، تم لوگ خود اچھی طرح دیکھ سکتے ہو۔
یہ ہے رئیس مملکت کے تقرر کے معاملے میں خلافت راشدہ کا تعامل اور صحابۂ کرامؓ کا اجماعی طرزِ عمل جس کی بنیاد خلافت کے باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سکوت اور تمام اجتماعی معاملات کے باب میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد وَاَمْرُھُمْ شُوَریٰ بَیْنَھُمْ پر رکھی گئی تھی۔ اس مستند دستوری رواج سے جو بات قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی مملکت میں صدر کاانتخاب عام لوگوں کی رضا مندی پرمنحصر ہے۔ کوئی شخص خودزبردستی امیر بن جانے کا حق نہیں رکھتا { بعض لوگ یہ شبہ پیدا کرتے ہیں کہ اگر اسلام کا اصول یہی ہے تو پھر دورِ بادشاہی کے نامور علماء نے زبردستی مسلّط ہو جانے والے لوگوں کی خلافت و امارت کیسے تسلیم کر لی؟ لیکن یہ شبہ دراصل دو مختلف مسائل کو خلط ملط کردینے سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ اسلام میں خلیفہ یاامیر کے تقرر کا صحیح و معتبر طریقہ کیا ہے۔ اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کبھی کسی وجہ سے غلط طریقے پر کوئی شخص مسلّط ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے۔ پہلے مسئلے کا جواب تمام علمائے امت نے بالا تفاق یہی دیا ہے کہ صحیح طریقِ کارانتخاب ہے جو مسلمانوں کی رضا مندی سے ہو۔ رہا دوسرامسئلہ تو اس میں زیادہ سے زیادہ نرم رویہ جن لوگوں نے اختیار کیا ہے وہ بھی اس سے آگے نہیں جاتے کہ ایسی امارت صرف نظم اور اجتماعِ کلمۂ مسلمین کی خاطر برداشت کر لینی چاہیے بشرطیکہ اس طرح جبراً مسلّط ہونے والا امیر نظامِ دین کو خراب نہ کرے۔ بالفاظ دیگر یہ لوگ اس شرط کے متحقق ہونے کی صورت میں جابرانہ امارت کے خلاف بغاوت کرنا درست نہیں سمجھتے تاکہ کہیں نظم کی جگہ بد نظمی نہ لے لے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ جو لوگ یہ رائے رکھتے ہیں ان کے نزدیک جبری تسلّط انعقادِ خلافت کی کوئی صحیح صورت ہے۔
} ۔ کسی خاندان یا طبقے کا اس منصب پر اجارہ نہیں ہے۔{ اس معاملے میں بھی بعض لوگ یہ شبہ پیش کرتے ہیں کہ پھر ان احادیث کی کیا توجہیہ ہے جن میں خلافت کے لیے قبیلۂِ قریش کوحق ٹھیرایاگیا ہے۔ مگر اس کا جواب ہم اپنی کتاب رسائل و مسائل حصہ سوم میں دے چکے ہیں۔
} اورانتخاب کسی جبرکے بغیر مسلمانوں کی آزادانہ رضا مندی سے ہونا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ مسلمانوں کی پسند کیسے معلوم کی جائے، تو اس کے لیے اسلام میں کوئی خاص طریقِ کار مقرر نہیں کروایا گیا ہے۔ حالات اور ضروریات کے لحاظ سے مختلف طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں، بشرطیکہ ان سے معقول طور پر یہ معلوم کیا جا سکتا ہو کہ جمہور قوم کااعتماد کس شخص کو حاصل ہے۔

۲۔مجلسِ شوریٰ کی تشکیل

انتخاب امیر کے بعددوسرا اہم مسئلہ اہل الحل والعقد (یعنی مجلسِ شوریٰ کے ارکان) کا ہے کہ وہ کیسے چنے جائیں گے اور کون کون ان کوچنے گا۔ سرسری مطالعے کی بنا پر لوگوں نے یہ گمان کیا ہے کہ خلافت راشدہ میں چونکہ عام انتخابات (General Elections) کے ذریعے سے ارکانِ شوریٰ منتخب نہیں ہوتے تھے۔ اس لیے اسلام میں سرے سے مشورے کا کوئی قاعدہ ہی نہیں ہے، بلکہ یہ بات بالکل خلیفۂ وقت کی صوابدید پر چھوڑ دی گئی ہے کہ وہ جس سے چاہے مشورہ لے۔ لیکن یہ گمان دراصل اس زمانے کی باتوں کو اس زمانے کے ماحول میں رکھ کر دیکھنے سے پیدا ہوا ہے، حالانکہ ان کو اسی وقت کے ماحول میں رکھ کر دیکھنا چاہیے اور عملی تفصیلات کے اندر وہ اصول سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ان میں ملحوظ رکھے گئے تھے۔
اسلام مکہ معظمہ میں ایک تحریک کی حیثیت سے اٹھا تھا۔ تحریکوں کے مزاج کا یہ خاصہ ہوتا ہے کہ جو لوگ سب سے پہلے آگے بڑھ کر ان کو لبیک کہتے ہیں وہی لیڈر کے رفیق ودست وبازو اور مشیر ہوا کرتے ہیں۔ چنانچہ اسلام میں بھی جو سابقین اولین تھے، وہ بالکل ایک فطری طریقے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق اور مشیر قرار پائے جن سے آپ ہر ایسے معاملے میں مشورہ کرتے تھے جس میں خدا کی طرف سے کوئی صریح حکم آیا ہوا نہ ہوتا تھا۔ پھر جب اس تحریک میں نئے نئے آدمیوں کا اضافہ ہونے لگا اور مخالف طاقتوں سے اس کی کشمکش بڑھتی گئی۔ تو ایسے لوگ خود بخود نمایاں ہوتے چلے گئے جو اپنی خدمات‘ قربانیوں اور بصیرت وفراست کی بنا پر جماعت میں ممتاز تھے۔ ان کا انتخاب ووٹوں سے نہیں بلکہ تجربات اور آزمائشوں سے ہوا تھا جوالیکشن کی بہ نسبت زیادہ صحیح اور فطری طریق انتخاب ہے۔ اس طرح مکہ چھوڑنے سے پہلے ہی دو قسم کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس شوریٰ کے رکن بن چکے تھے۔ ایک سابقین اولین۔ دوسرے وہ آزمودہ کار اصحاب جو بعد میں جماعت کے اندر نمایاں ہوئے۔ یہ دونوں گروہ ایسے تھے جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تمام مسلمانوں کا اعتماد بھی حاصل تھا۔
اس کے بعد ہجرت کا اہم واقعہ پیش آیا، اور اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ ڈیڑھ دو سال پہلے مدینے کے چند بااثر لوگ اسلام قبول کر چکے تھے اور ان کے اثر سے اَوس اور خزرج کے قبیلوں میں گھر گھر اسلام پہنچ گیا تھا۔ انھی لوگوں کی دعوت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے مہاجرین اپنے اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینے منتقل ہوئے اور وہاں اسلام کی اس تحریک نے ایک سیاسی نظام اور ایک ریاست کی شکل اختیار کی۔ اب یہ بالکل ایک قدرتی بات تھی کہ مدینے میں جن لوگوں کے اثر سے اسلام پھیلا اور پھیلتا گیا وہی اس جدیدمعاشرے اور سیاسی نظام میں مقامی لیڈروں کی پوزیشن پر فائز ہوئے اور انھی کا یہ مرتبہ و مقام تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسِ شوریٰ میں سابقین اوّلین، اور آزمودہ کار مہاجرین کے ساتھ ایک تیسرے عنصر (انصار) کی حیثیّت سے شامل ہوں۔ یہ لوگ بھی فطری طریقِ انتخاب سے منتخب ہوئے تھے اور مسلمان قبیلوں کے ایسے معتمد علیہ تھے کہ اگر موجودہ زمانے کے طریقے پر انتخابات منعقد ہوتے تب بھی یہی لوگ منتخب ہو کر آتے۔
پھر مدنی معاشرے میں دو قسم کے لوگ اور ابھرنے شروع ہوئے۔ ایک وہ جنھوں نے آٹھ دس برس کی سیاسی، فوجی اور تبلیغی مہمات میں کارہائے نمایاں انجام دیے، حتی کہ ہر اہم معاملے میں انھی کی طرف لوگوں کی نگاہیں اٹھنے لگیں۔ دوسرے وہ لوگ جنھوں نے قرآن کے علم و فہم اور دین میں فقاہت کے اعتبار سے ناموری حاصل کی حتیٰ کہ عوام الناس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علم دین میں انھی کو سب سے زیادہ معتبر سمجھنے لگے اور خود آنحضور ﷺ نے بھی یہ فرما کر ان کو سندِ اعتبار عطا کی کہ قرآن فلاں شخص سے سیکھو، اور فلاں نوعیّت کے مسائل میں فلاں شخص کی طرف رجوع کرو۔ یہ دونوں عناصر بھی مجلس شوریٰ میں بالکل ایک فطری انتخاب سے شامل ہوتے چلے گئے اور ان میں بھی کسی کے لیے ووٹ لینے کی حاجت پیش نہ آئی۔ ووٹ اگر لیے بھی جاتے تو اس معاشرے میں ان کے سوا کوئی ایسا نہ تھا جس پر مسلمانوں کی نگاہِ انتخاب پڑتی۔
اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانے میں وہ مجلس شوریٰ بن چکی تھی جو بعد میں خلفائے راشدین کی مشیر قرار پائی، اور وہ دستوری روایات بھی مستحکم ہو چکی تھیں جن کے مطابق آگے چل کر ایسے نئے لوگ اس مجلس میں شامل ہوتے گئے جنھوں نے اپنی خدمات اور اعلیٰ درجے کی ذہنی صلاحیتوں کے ذریعے سے قبول عام حاصل کرکے اس مجلس میں اپنی جگہ پیدا کی۔ یہی وہ لوگ تھے جن کو اہل الحل والعقد (باندھنے اور کھولنے والے) کہا جاتا تھا اور جن کے مشورے کے بغیر خلفائے راشدین کسی اہم معاملے کا فیصلہ نہ کرتے تھے۔ ان کی آئینی حیثیت کا صحیح اندازہ اس واقعے سے ہو سکتا ہے کہ جب حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد چند اصحاب نے حضرت علیؓ کے پاس حاضر ہو کر خلافت قبول کرنے کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا:
لیس ذالک الیکم انما ھو لاھل الشوریٰ واھل بدر فمن رضی بہٖ اھل الشوریٰ واھل بدر فھو اخلیفۃ فنجتمع وننظرفی ھذا الامر۔
(الامامہ دالسیاسہ لا بن قتیبہ مطبعۃ الفتوح مصر ص ۴۱)
یہ معاملہ تمہارے فیصلہ کرنے کا نہیں۔ یہ تو اہل شوریٰ اور اہل بدر کا کام ہے۔ جس کو اہلِ شوریٰ اور اہل بدر پسند کریں گے وہی خلیفہ ہو گا۔ پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اہل الحل والعقد اس وقت کچھ متعین لوگ تھے جو پہلے سے اس پوزیشن پر فائز چلے آ رہے تھے اور وہی ملّت کے اہم معاملات کا فیصلہ کرنے کے مجاز تھے۔ لہٰذا یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ خلیفۂ وقت من مانے طریقے پر جس وقت جس کو چاہتا تھا مشورے کے لیے بلا لیتا تھا اور کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ مستقل اہلِ شوریٰ یا اہل الحل و العقد کون ہیں جو قوم کے مسائل مہمّہ کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ { یہاں ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ اہل حلّ و عقد صرف مدینے ہی کے لوگ کیوں ہوتے تھے؟ ملک کے دوسرے حصوں سے معتمد علیہ نمایندے کیوں نہیں بلائے جاتے تھے؟ جواب یہ ہے کہ اس کے دو نہایت معقول وجوہ تھے۔ اوّل یہ کہ اسلامی ریاست ایک قومی ریاست نہ تھی بلکہ اس طرح وجود میں آئی تھی کہ پہلے ایک نظریے کی تبلیغ نے لوگوں میں ذہنی واخلاقی انقلاب برپا کیا، پھر اس انقلاب کے نتیجے میں ایک اصولی معاشرہ پیدا ہوا اور اس معاشرے نے ایک اصولی ریاست کی شکل اختیار کی۔ اس قسم کی ریاست میں فطرۃً مرکز اعتماد وہ شخص واحد تھا جس نے ا نقلاب کی بنا ڈالی۔ اور اس کے بعد وہ لوگ اس پوری انقلابی سوسائٹی کے اندر مرکز ِاعتماد بنے جو بانیٔ انقلاب کے دستِ راست تھے۔ ان کی لیڈر شپ ایک فطری لیڈر شپ تھی اور ان کے سوا کوئی بھی اس سوسائٹی میں لوگوں کا معتمد علیہ نہ ہو سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تنقید کی مکمل آزادی کے باوجود اس دور میں کبھی عرب کے کسی گوشے سے یہ آواز نہ اٹھی کہ صرف مدینے ہی کے لوگ آخر ’’باندھنے اور کھولنے‘‘ کے اجارہ دار کیوں بن بیٹھے ہیں۔دوم یہ کہ اس زمانے کے تمدنی حالات میں یہ ممکن بھی نہیں تھا کہ افغانستان سے لے کر شمالی افریقہ تک پھیلی ہوئی مملکت میں عام انتخابات منعقد ہوا کرتے اورپھر مجلس شوریٰ کے معمولی اور غیر معمولی اجلاسوں میں مملکت کے ہر حصے سے ارکان مجلس آ آ کر شریک ہوا کرتے۔} خلافت راشدہ کے اس تعامل، بلکہ خود اسوۂ نبی سے جو قاعدۂ کلیہ مستنبط ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ امیر کو مشورہ ہر کس و ناکس سے‘ یا اپنی مرضی کے چنے ہوئے لوگوں سے نہیں بلکہ ان لوگوں سے کرنا چاہیے جو عامۂ مسلمین کے معتمد ہوں، جن کے اخلاص وخیر خواہی اور اہلیّت پر لوگ مطمئن ہوں اور حکومت کے فیصلوں میں جن کی شرکت اس امر کی ضامن ہو کہ ان فیصلوں کے نفاذ میں جمہور قوم کا دلی تعاون شریک ہو گا۔ رہا یہ سوال کہ عوام کے معتمد لوگ کیسے معلوم کیے جائیں، تو ظاہر ہے کہ اس چیز کے معلوم ہونے کی جو صورت آغازِ اسلام کے مخصوص حالات میں تھی۔ آج وہ صورت نہیں ہے، اور اس زمانے کے تمدنی حالات میں جو مواقع موجود تھے وہ بھی آج موجود نہیں ہیں۔ اس لیے ہم آج کے حالات اور ضرورت کے لحاظ سے وہ تمام ممکن اور مباح طریقے اختیار کر سکتے ہیں۔ جن سے یہ معلوم کیا جا سکے کہ جمہور قوم کا اعتماد کن لوگوں کو حاصل ہے۔ آج کل کے انتخابات بھی اس کے جائز طریقوں میں سے ایک ہیں، بشرطیکہ ان میں وہ ذلیل ہتھکنڈے استعمال نہ ہوں جنھوں نے جمہوریت کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔

حکومت کی شکل اور نوعیّت

ا س کے بعد تیسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ اسلام میں حکومت کی شکل اور نوعیت کیا ہے۔ اس باب میں ہم خلافتِ راشدہ کے دور پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں امیر المومنین اصل وہ شخص تھا جس سے سمع و طاعت کی بیعت کی جاتی تھی اور جسے بھروسے کا آدمی سمجھ کر لوگ اپنی اجتماعی زندگی کے اہم ترین معاملے، یعنی حکومت کی باگ ڈور سپرد کرتے تھے۔اس کی حیثیّت انگلستان کے بادشاہ ،فرانس کے صدر، برطانیہ کے وزیر اعظم، امریکہ کے صدر اور روس کے سٹالن، سب سے مختلف تھی۔ وہ محض صدرِ ریاست ہی نہ تھا بلکہ اپنا رئیس الوزراء بھی آپ ہی تھا۔ وہ پارلیمنٹ میں براہ راست خود شریک ہوتا تھا۔ وہ آپ ہی پارلیمنٹ کی صدارت بھی کرتا تھا۔ پھر وہ مباحثوں میں بھی پورا حصہ لیتا تھا، وہ اپنی حکومت کے سارے کاموں کی جواب دہی کرتا اور اپنا حساب آپ دیتا تھا۔ اس کی پارلیمنٹ میں نہ کوئی گورنمنٹ پارٹی تھی، نہ اپوزیشن پارٹی، ساری پارلیمنٹ اس کی پارٹی تھی، اگر وہ حق کے مطابق چلے اور ساری پارلیمنٹ اپوزیشن تھی اگر وہ باطل کی طرف جاتا نظر آئے، ہر ممبر آزاد تھا کہ جس معاملے میں اس سے اتفاق رکھتا ہواتفاق کرے اور جس میں اس سے اختلاف رکھتا ہو، اختلاف کرے۔ خلیفہ صرف پارلیمنٹ ہی کے سامنے جواب دہ نہ تھا بلکہ پوری قوم کے سامنے اپنے ہر کام، حتیٰ کہ اپنی شخصی زندگی کے معاملات تک میں جواب دہ تھا، وہ پانچوں وقت مسجد میں پبلک کا سامنا کرتا، ہر جمعے کو پبلک سے خطاب کرتا، اور پبلک اپنے شہر کے گلی کوچوں میں ہر روز چلتے پھرتے اس کو پا سکتی تھی اور ٹوک سکتی تھی۔ ہر شخص ہر وقت اس کا دامن پکڑ کر اپنا حق مانگ سکتا تھا، اور ہر شخص مجمع عام میں اس سے باز پرس بھی کر سکتا تھا۔ اس کے ہاں یہ قاعدہ نہ تھا کہ حکومت سے کوئی سوال کرنا ہو تو پارلیمنٹ کا کوئی ممبر ہی نوٹس دے کر لگے بندھے قواعد کے مطابق پوچھ سکتا ہے۔ اس کا اعلان عام تھا کہ:۔
اِنْ اَحَسَنْتُ فَاعِینُوْنِیْ وَاِن اَسَاتُ وَفَقُوْمُوْنِی وَاَطِیْعُوْنِیْ مَااَطَعْتُ اللّٰہِ وَرَسُولَہٗ فَاِنْ عَصَیْتُ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَلَا طَاعَۃَلِیْ عَلَیْکُم (الصدیق از محمد حسین ہیکل ص :۶۷)
اگر میں ٹھیک کام کروں تو میری مدد کرو اور اگر بُرا رویّہ اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دو۔ جب تک میں اللہ اور رسولؐ کا مطیع رہوں میری اطاعت کرو اوراگر میں اللہ اور رسول کی نافرمانی کروں تومیری کوئی اطاعت تمہارے ذمے نہیں ہے۔
یہ طرزِ حکومت جس پر موجودہ زمانے کی اصطلاحوں میں سے کسی اصطلاح کا بھی اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اسلام کے مزاج سے پوری مناسبت رکھتا ہے اورہمارا آئیڈیل یہی ہے۔ لیکن یہ صرف اسی صورت میں نبھ سکتا ہے جب کہ سوسائٹی اسلام کے انقلابی نظریات کے مطابق پوری طرح تیار ہو چکی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی سوسائٹی میں انحطاط رونما ہوا۔ اس کا نبھنا مشکل ہو گیا۔ اب اگر ہم اس آئیڈیل کی طرف پھر پلٹنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم ابتدائے کار کے لیے اس سے چار بنیادی اصول لے لیں اور پھر انھیں اپنے حالات وضروریات کے مطابق عملی جامہ پہنائیں۔
ایک یہ کہ حکومت کی اصل ذمہ داری جس کے بھی سپرد کی جائے وہ نہ صرف پبلک کے نمایندوں کا بلکہ خود پبلک کا بھی سامنا کرے اور اپنا کام نہ صرف مشورے سے انجام دے بلکہ اپنے اعمال کے لیے جواب دہ بھی ہو۔
دوسرے یہ کہ پارٹی سسٹم سے نجات حاصل کی جائے جو نظامِ حکومت کو بے جا عصبیتوں سے آلودہ کرتا ہے اور جس میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ ایک جاہ پسند ٹولا برسرِ اقتدار آ کر پبلک کے خرچ پر اپنے مستقل حمایتی پیدا کر لے اور پھر لوگ خواہ کتنا ہی شور مچائیں وہ ان حمایتیوں کے بل پر اپنی من مانی کرتا رہے۔
تیسرے یہ کہ نظامِ حکومت ایسے پیچ دار ضابطوں پر قائم نہ کیا جائے جس سے کام کرنے والے کے لیے کام کرنا اور حساب لینے والوں کے لیے حساب لینا اور خرابی کے اصل ذمہ دار کو مشخص کرنا مشکل ہوجائے۔ اور سب سے آخری مگر سب سے اہم اصول یہ ہے کہ صاحب امر اور اہل شوریٰ ایسے لوگوں کو بنایا جائے جن کے اندر اسلام کی بتائی ہوئی صفات زیادہ سے زیادہ پائی جاتی ہوں۔

۶۔ اولی الامر کے اوصاف

ان اوصاف (Qualifications) کا سوال اسلامی نقطۂ نظر سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اسلامی دستور کے چلنے یا نہ چلنے کا سارا انحصار ہی اس پر ہے۔
امارت اور مجلسِ شوریٰ کی رکنیت کے لیے ایک اہلیت تو قانونی نوعیّت کی ہوتی ہے اس پر ایک ناظمِ انتخاب اور ایک جج جانچ اور پرکھ کر انتخاب کے لیے ایک شخص کے اہل (Eligible) ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اور دوسری ایک اور قسم کی اہلیّت بھی ہوتی ہے جس کا لحاظ کرکے اشخاص کو چھانٹنے اور تجویز کرنے اور ووٹ دینے والے اپنا فیصلہ صادر کرتے ہیں۔ پہلی قسم کی اہلیّت ایک ملک کے کروڑوں باشندوں میں سے ہر ایک میں ہوتی ہے‘ مگر یہ دوسری قسم کی اہلیّت ہی ہے جو عملاً ان میں سے چند ہی آدمیوں کو ابھار کر اوپر لاتی ہے۔ پہلی قسم کی اہلیّت کے معیارات صرف دستور کی چند عملی دفعات (Operative Clauses) میں درج کرنے کے لیے ہوتے ہیں، لیکن یہ دوسری قسم کی اہلیّت وہ ہے ، جس کے معیارات پورے دستور کی روح میں موجود ہونے چاہییں اور ایک دستور کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ جمہور کے ذہن کو تربیت دے کر صحیح انتخاب کے لیے تیار کیا جائے تاکہ وہ ایسے ہی لوگوں کو منتخب کریں جو دستور کی روح کے مطابق اہلیّت رکھتے ہوں۔
قرآن اورحدیث ان دونوں قسم کی اہلیتوں سے بحث کرتے ہیں۔ پہلی قسم کی اہلیت کے لیے انھوں نے چار معیار بتائے ہیں:۔
(۱) مسلم ہونا، چنانچہ قرآن کا ارشاد ہے:۔
یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیعُوْا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْالرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔ (النساء:۵۹)
اے ایمان لانے والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان کی جو تم میں سے اولی الامر ہوں۔
(۲) مرد ہونا ، چنانچہ قرآن کہتا ہے:۔
اَلرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلیٰ النِّسَآء۔ (النساء:۳۴)
مرد عورتوں پر قوامّ ہیں۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:۔
لَنْ تُفْلِحَ قَومٌ وَلَّوا اَمرَھُمْ اِمْرَاۃً۔ (بخاری)
وہ قوم ہرگز فلاح نہ پائے گی جس نے اپنی زمامِ کار ایک عورت کے سپرد کی ہو۔
(۳) عاقل و بالغ ہونا۔ چنانچہ قرآن میں فرمایا گیا ہے:۔
وَلَا تُوْتُوا السُّفَھَائَٓ اَ اَموَلَکُمْ اَلَّتِی جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ قِیٰماً (النساء:۵)
اوراپنے مال جنھیں اللہ نے تمہارے لیے ہستی کا سہارا بنایا ہے نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو۔
(۴) دارالاسلام کا باشندہ ہونا، چنانچہ قرآن تصریح کرتا ہے:۔
وَالَّذِینَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یُھَاجِرُوْا مَا لَکُم مِنْ وَّلَا یَتِھِمْ مِنْ شَیٍٔ حَتّٰـی یُھَاجِرُوْا(الانفال:۷۳)
اور جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کرکے (دارالاسلام میں) نہ آ گئے تمہارا اُن کی ولایت میں کوئی حصہ نہیں جب تک کہ ہجرت نہ کریں۔
یہ ہیں وہ چار قانونی صفات جن کے لحاظ سے ہر شخص امارت اور رکنیتِ شوریٰ کا اہل ہو سکتا ہے مگر اس طرح کے بے شمارقانونی اہل اشخاص میں سے کن لوگوں کو ہمیں ان مناصب کے لیے چننا چاہیے اور کن کو نہ چننا چاہیے، اس سوال کا واضح جواب ہمیں قرآن اور حدیث میں یہ ملتا ہے:۔
اِنَّ اللّٰہَ یَامُرُکُمْ اَن تُؤَدُّو الْاَمَانَاتِ وَاِلٰٓی اَھْلِھَا۔(النساء:۵۸)
اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں (یعنی ذمّہ داری کے مناصب) اہل امانت (یعنی امین لوگوں) کے سپرد کر دو۔
اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۝۰ۭ (الحجرات:۱۳)
تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔
قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہُ عَلَیکُمْ وَزَادَہُ بَسطَۃً فِی الْعِلْمِ وَلْجِسْمِ۔ (البقرہ:۲۴۷)
نبیؐ نے کہا کہ اللہ نے حکمرانی کے لیے اس کو (یعنی طالوت کو) تم پر ترجیح دی ہے، اوراس کو علم اور جسم میں فراوانی عطا کی ہے۔
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَكَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا (الکہف :۲۸)
کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس کا کام حدود آشنا نہیں ہے۔
مَنْ وَقَّرَ صَاحِبَ بِدْعَۃٍفَقَدْ اَعَانَ عَلٰی ھَدْمِ الْاِسْلَامِ۔ (البیہقی)
جس نے کسی صاحبِ بدعت کی توقیر کی ا س نے اسلام کو منہدم کرنے میں مدد دی۔
اِنَّا وَاللّٰہِ لَا نولّی علیٰ عملِنَا ھذا احداً سَألہ اوحرص علیہ ۔ (بخاری و مسلم)
بخدا ہم کسی ایسے شخص کو اپنی حکومت کے کسی منصب پر مقرر نہیں کرتے جس نے اس کی درخواست کی ہو یا جو اس کاحریص ہو۔
اِنَّ اَخْوَ نَکُمْ عِندَنَا مَنْ طَلَبَہٗ۔ (ابودائود)
ہمارے نزدیک تم میں سب سے بڑا خائن وہ ہے جو خود اس کا طالب ہو۔
ان اوصاف میں سے بعض کو تو ہم بآسانی اپنے دستور کی عملی دفعات میں لکھ سکتے ہیں، مثلاً یہ کہ طالبِ منصب کو انتخاب کے لیے نااہل قرار دیا جائے۔ رہے دوسرے اوصاف جن کے لیے کوئی قانونی حد متعیّن نہیں کی جا سکتی، تو ان کو ہمارے دستور کی اصولی ہدایات میں شامل ہونا چاہیے، اور ناظمِ انتخابات کے فرائض میں یہ بات داخل ہونی چاہیے کہ وہ ہر انتخاب کے موقع پر عوام کو ان صفات سے باخبر کرنے کی کوشش کرے، جواسلام میں اولی الامر کے لیے مطلوب ہیں۔

شہریت اور اس کی بنیادیں

ا ب شہریت کے مسئلے کو لیجیے ۔ اسلام چونکہ ایک نظام فکر و عمل ہے اور اسی نظام کی بنیاد پر وہ ایک ریاست قائم کرتا ہے، اس لیے وہ اپنی ریاست میں شہریت کی دو قسمیں قرار دیتا ہے۔ پھر چونکہ راست بازی وحق گوئی اسلام کی اصل روح ہے اس لیے وہ بغیر کسی مکر و فریب کے صاف صاف شہریت کی اس تقسیم کو بیان بھی کر دیتا ہے، دنیا کو دھوکا دینے کے لیے یہ طریقہ اختیار نہیں کرتا کہ زبان سے اپنے سب شہریوں کو یکساں قرار دے اور عمل میں ان کے درمیان نہ صرف تمیز کرے بلکہ ان کے ایک عنصر کوانسانی حقوق تک دینے میں بے انصافی سے کام لے۔ جیسا کہ امریکہ میں حبشیوں کا روس میں غیر اشتراکیوں کا اور تمام دنیا کی لادینی جمہوریتوں میں قومی اقلیتوں کا حال ہے۔
شہریت کی دو قسمیں جو اسلام نے کی ہیں، یہ ہیں:۔
ایک مسلم، دوسرے ذمّی۔
(ا) مسلم شہریوں کے باب میں قرآن کہتا ہے:۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھَاجَرُوْا وَجَاھَدُوْا بِاَموَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اَوَواوَّنَصَرُوْا اُوْلٰئِکَ بَعَضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَلَمْ یُھَاجِرُوْا مَالَکُمْ مِنْ وَّلَا تِیْھِمْ مِنْ شَییٍٔ حَتّٰی یُھَاجِرُوا۔ (الانفال:۷۲)
جو لوگ ایمان لائے اورجنھوں نے ہجرت کی اور اپنی جان و مال سے راہِ خدا میں جہاد کیا، اور جن لوگوں نے ان کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہ ایک دوسرے کے ولی ہیں، اور جو لوگ ایمان لائے مگر ہجرت کرکے (دارالاسلام) میں نہ آئے تمہارے لیے ان کی ولایت میں سے کچھ نہیں ہے، جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں۔
اس آیت میں شہریّت کی دو بنیادیں بیان کی گئی ہیں ایک ایمان، دوسرے دارالاسلام کی رعایا ہونا یا بن جانا۔ اگر کوئی شخص ایمان رکھتا ہو، مگر دارالکفر کی بیعت ترک کرکے (جسے لفظ ہجرت سے تعبیر کیا گیا ہے) دارالاسلام میں نہ آ بسے، تو وہ دارالاسلام کا شہری نہیں ہے۔ اس کے برعکس تمام ایسے اہل ایمان جو دارالاسلام کے باشندے ہوں، قطع نظر اس سے کہ وہ دارالاسلام ہی میں پیدا ہوئے ہوں یا کسی دارالکفر سے ہجرت کرکے آئے ہوں{ ہجرت کرکے آنے والوں کے معاملے میں ایک احتیاطی تدبیر قرآن میں یہ بتائی گئی ہے کہ ان کو ’’امتحان‘‘ (Examine) کرکے لیا جائے (ملاحظہ ہو سورۂ ممتحنہ رکوع ۲) یہ تدبیراگرچہ مہاجر عورتوں کے معاملے میں بیان کی گئی ہے، لیکن اس سے ایک عام اصول یہ معلوم ہوتا ہے کہ باہر سے آنے والے ایک مدعی ہجرت کو دارالاسلام میں قبول کرنے سے پہلے اس کے واقعی مسلم اور مہاجر ہونے کا اطمینان کر لیا جائے تاکہ ہجرت کے بہانے کچھ دوسری نیّت رکھنے والے لوگ نہ گھس آئیں۔ اگرچہ کسی شخص کے حقیقی ایمان کا حال سوائے خدا کے اور کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا۔ لیکن ظاہری تحقیقات سے جہاں تک جانچ پڑتال کی جاسکتی ہو کر لینی چاہیے۔
}، دارالاسلام کے یکساں شہری اور ایک دوسرے کے ولی (حامی و مددگار) ہیں۔
ان مسلم شہریوں پر اسلام نے اپنے پورے نظام کو اٹھانے کی ذمہ داری ڈالی ہے۔ کیونکہ وہی اصولاً اس نظام کو حق مانتے ہیں۔ ان پر وہ اپنا قانون نافذ کرتا ہے۔ان کو اپنے تمام مذہبی، اخلاقی، تمدنی اور سیاسی احکام کا پابند کرتا ہے۔ ان کے ذمّے اپنے سارے واجبات وفرائض عائد کرتا ہے۔ ان سے اپنی ریاست کی مدافعت کے لیے ہر قربانی کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور پھر انھی کو یہ حق بھی دیتا ہے کہ اس ریاست کے اولی الامر کا انتخاب کریں،اس کو چلانے والی پارلیمنٹ (مجلسِ شوریٰ) میں شریک ہوں۔ اور اس کے کلیدی مناصب پر مقرر کیے جائیں تاکہ اس اصولی ریاست کی پالیسی ٹھیک اس کے بنیادی اصولوں کے مطابق چل سکے۔ اس قاعدے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ عہدِ نبوی اور عہدِ خلافت راشدہ میں ایک مثال بھی اس امر کی نہیں مل سکتی کہ کسی ذمّی کو مجلسِ شوریٰ کا رکن یا کسی علاقے کا گورنر، یا کہیں کا قاضی، یا کسی شعبۂ حکومت کا وزیر یا ناظم، یا فوج کا کمانڈر بنایا گیا ہو، یا خلیفہ کے انتخاب میں حصہ لینے کا موقع دیا گیا ہو۔ حالانکہ ذمّی خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں موجود تھے اورخلافت راشدہ کے دور میں تو ان کی آبادی کروڑوں تک پہنچی ہوئی تھی۔ اگر فی الواقع ان امور میں حصہ لینا ان کا حق ہوتا تو ہم نہیں سمجھ سکتے کہ اللہ کا نبیؐ ان کی حق تلفی کیسے کرسکتا تھا اورنبی کے براہِ راست تربیّت یافتہ لوگ مسلسل ۳۰ برس اس حق کوادا کرنے سے کس طرح باز رہ سکتے تھے۔
(۲) ذمّی شہریوں سے مراد وہ تمام غیر مسلم ہیں جو اسلامی ریاست کے حدود میں رہ کر اس کی اطاعت وو فاداری کا اقرار کریں۔ قطع نظر اس سے کہ وہ دارالاسلام میں پیدا ہوئے ہوں یا باہر سے آ کر ذمّی بننے کی درخواست کریں۔ اس طرح کے شہریوں کو اسلام ان کے مذہب اورکلچر کے تحفظ اور جان ومال وآبروکے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ ان پر صرف اپنے ملکی قوانین نافذ کرتا ہے۔ ان کوملکی قوانین میں مسلمانوں کے ساتھ برابر کے حقوق دیتا ہے، ان کے لیے کلیدی مناصب کے سوا ہر قسم کی ملازمتوں کے دروازے کھلے رکھتا ہے، ان کو شہری آزادیوں میں مسلمانوں کے ساتھ برابر کا شریک کرتا ہے۔ ان کے ساتھ معاشی معاملات میں مسلمانوں سے الگ کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھتا، اور مملکت کے دفاع کی ذمّہ داری سے انھیں مستثنیٰ کرکے اس کا پورا بار صرف مسلمانوں پر ڈالتا ہے۔
ان دو قسم کی شہریتوں پر اور ان کی الگ الگ حیثیتوں پر اگر کسی کو اعتراض ہو تو وہ پہلے اس سلوک پر ایک نگاہ ڈال لے جو دنیا کی دوسری اصولی ریاستیں اپنے اصول کے نہ ماننے والوں سے‘ اور قومی ریاستیں اپنے حدود میں رہنے والی قومی اقلیتوں سے کر رہی ہیں۔ درحقیقت یہ بات پورے چیلنج کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ایک ریاست کے اندر اس کی بنیاد سے مختلف بنیادِ وجود رکھنے والوں کی موجودگی جوپیچیدگی پیدا کرتی ہے اس کواسلام سے زیادہ انصاف، رواداری اورفیاضی کے ساتھ کسی دوسرے نظام نے حل نہیں کیا ہے۔ دوسروں نے اس پیچیدگی کو زیادہ تردو ہی طریقوں سے حل کیا ہے۔ یا توانھیں مٹا دینے کی کوشش کی ہے یا شودر بنا کر رکھا ہے۔ اسلام اس کے بجائے یہ طریقہ اختیار کرتا ہے کہ انصاف کے ساتھ اپنے اصول کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے درمیان ایک حد قائم کر دیتا ہے۔ جو ماننے والے ہیں ان کو پوری طرح اپنے اصولوں کا پابند کرتا ہے اور ان اصولوں کے مطابق ریاست کا نظام چلانے کی ذمہ داری ان پر ڈال دیتا ہے۔ اور جو ان اصولوں کو قبول نہیں کرتے ان کو صرف اسی حد تک پابند کرتا ہے جو ملک کے نظم کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے اورانھیں ریاست کا نظام چلانے کی ذمہ داری سے سبکدوش کرنے کے بعد ان کے تمام تمدّنی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔

۸۔ حقوقِ شہریت

اس کے بعد مجھے یہ بتانا ہے کہ اسلام میں شہریوں کے بنیادی حقوق (Fundamental Rights) کیا قرار دیے گئے ہیں۔
شہریوں کا اوّلین حق اسلام میں یہ ہے کہ ان کی جان‘ مال اور آبرو کی حفاظت کی جائے اور جائز قانونی وجوہ کے سِوا اور کسی وجہ سے ان پرہاتھ نہ ڈالا جائے۔ اس چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت احادیث میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے اپنا وہ مشہور خطبہ دیا تھا جس میں اسلامی نظامِ زندگی کے قواعد بیان فرمائے تھے۔ اس میں آپؐ نے فرمایا:۔
ان دماء کم واموالکم واعراضکم حرام کحرمۃ یومکم ھذا ۔
تمہاری جانیں اور تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں ایسی ہی حرمت رکھتی ہیں جیسی حج کے اس دن کی حرمت ہے۔
اس حرمت میں استثناء صرف ایک ہے اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک اور حدیث میں اِلَّا بِحَقِّ الْاِسْلَامِ کے لفظ سے ادا فرماتے ہیں، یعنی اسلام کے قانون کی رو سے اگر کسی شخص پر جان یا مال یا آبرو کا کوئی حق واجب ہوتا ہو تو اس سے قانون کے مقرر کردہ طریقے کے مطابق وصول کیا جائے گا۔
دوسرا اہم حق شخصی آزادی کی حفاظت ہے۔ اسلام میں کسی شخص کی آزادی معروف قانونی طریقے پر اس کا جرم ثابت کیے بغیر اور اسے صفائی کا موقع دیے بغیر سلب نہیں کی جا سکتی۔ ابودائود میں یہ روایت بیان کی گئی ہے کہ مدینے میں کچھ لوگ شبہے کی بنا پر گرفتار کیے گئے تھے۔ ایک صحابیؓ نے عین خطبے کے دوران میں اٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میرے ہمسایوں کو کس قصور میں پکڑا گیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ ان کے اس سوال کو سن کر سکوت فرمایا تاکہ کوتوال شہر اگر گرفتاری کے لیے کوئی معقول وجوہ رکھتا ہے تو اٹھ کر بیان کرے لیکن جب تیسری مرتبہ صحابیؓ نے اپنے سوال کا اعادہ کیا اورکوتوال نے کوئی وجہ بیان نہ کی تو آپ نے حکم صادر فرمایا کہ خَلُّوْا لَہٗ جِیْرَانَہ { ابوداؤد۔ کتاب القضاء }(اس کے ہمسایوں کو رہا کر دو)۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب تک کسی شخص پر ایک متعین الزام لگا کر اس کو ثابت نہ کر دیا جائے اسے قید نہیں کیا جا سکتا۔ امام خطابی اپنی معالم السنن میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اسلام میں حبس دو ہی قسم کا ہے۔ ایک حبسِ عقوبت، یعنی یہ کہ عدالت سے سزا پا کر کوئی شخص قید کیا جائے، دوسرے حبسِ استظہار، یعنی ملزم کو بغرضِ تفتیش روک رکھنا۔اس کے سِوا حبس کی کوئی صورت اسلام میں نہیں ہے۔{ معالم السنن، کتاب القضاء }
یہی بات امام ابو یوسف نے بھی اپنی کتاب الخراج میں لکھی ہے کہ کسی شخص کومحض تہمت کی بنا پر قید نہیں کیا جا سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو مجرّد الزام پر قید نہیں کر دیا کرتے تھے۔ ضروری ہے کہ مدعی اورمدعا علیہ عدالت میں حاضر ہوں۔ مدعی اپنا ثبوت پیش کرے اور اگر وہ اپنا الزام ثابت نہ کرسکے تو مدعا علیہ کو چھوڑ دیا { کتاب الخراج ص ۱۰۷ } جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے بھی ایک مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ الفاظ ارشاد فرمائے تھے کہ لَا یُوْسَر رَجَلٌ فِی الْاِسلَامِ بِغَیرِ عَدْل{ اسلام میں کوئی شخص بغیر عدل نہ پکڑا جائے گا۔ (موطا ، باب شرط الشاہد)۔ } تیسرا اہم حق رائے اور مسلک کی آزادی کا ہے۔ اس باب میں اسلامی قانون کی سب سے بہتر وضاحت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کی ہے۔ ان کے زمانے میں خوارج کاگروہ پیدا ہوا تھا جو آج کل کے انارکسٹ اور نہلسٹ (Nihillist) گروہوں سے ملتا جلتا تھا۔ حضرت علیؓ کے زمانے میں وہ علانیہ اسٹیٹ کے وجود کی نفی کرتے تھے اور بزورِ شمشیر اس کو مٹانے پر تلے ہوئے تھے۔ حضرت علیؓ نے ان کو پیغام بھیجا:۔
کونوا حیث شئتم وبیننا وبینکم ان لاتسفکوا دما ولا تقطعوا سبیلا ولا تظلموا احدًا۔ (نیل الاوطار جلد ۷ص۱۳۹)
تم جہاں چاہو رہو اور ہمارے اور تمہارے درمیان شرط یہ ہے کہ تم خونریزی اور رہزنی نہ اختیار کرو اور ظلم سے باز رہو۔
ایک دوسرے موقع پر حضرت علیؓ نے ان کو پیغام دیا :۔
لَا نبْدءُ بقتالٍ مالم تحدثوا فساداً ۔ (نیل الاوطار جلد ۷۔ ص ۱۳۳)
جب تک تم فساد نہ کرو گے ہم تمہارے خلاف لڑائی کی ابتداء نہیں کریں گے۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ کوئی گروہ خیالات جو چاہے رکھے اور پُرامن طریقے سے جس طرح چاہے اپنے خیالات کا اظہار کرے، اسلامی مملکت اس کو نہ روکے گی۔ البتہ اگر وہ اپنے خیالات زبردستی (By violent means) مسلّط کرنے اور نظامِ ملکی کو درہم برہم کرنے کی کوشش کرے تواس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
ایک اور حق جس پر اسلام میں بہت زوردیا گیا ہے یہ ہے کہ اسٹیٹ اپنے حدود میں کسی شہری کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہنے دے۔ اسی غرض کے لیے اسلام میں زکوٰۃ فرض کی گئی ہے جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:۔
توخذ من اغنیاء ھم فترد علٰی فقراء ھم۔ (بخاری و مسلم)
ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے محتاجوں میں تقسیم کر دی جائے گی۔
پھر ایک حدیث میں حضورؐ یہ اصول بیان فرماتے ہیں:۔
السلطان ولّی من لا ولّی لَہٗ۔
حکومت ہر اس شخص کی ولی (دست گیر و مددگار) ہے جس کا کوئی ولی نہ ہو۔
من ترک کلًّا فالینا۔ (بخاری و مسلم)
جس مرنے والے نے ذمہ داریوں کا کوئی بار (مثلاً قرض یا بے سہارا کنبہ) چھوڑا ہو وہ ہمارے ذمّے ہے۔
اس معاملے میں اسلام نے ذمّی شہریوں اور مسلم شہریوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ وہ مسلمان کی طرح ذمّی کو بھی اس امر کی ضمانت دیتا ہے کہ اسٹیٹ اس کوبھوکا، ننگا اور بے ٹھکانا نہ رہنے دے گا۔ حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ ایک ذمّی کو بھیک مانگتے دیکھا تو آپ نے فوراً اس کا جزیہ معاف کرکے اس کا وظیفہ مقرر کیا اور اپنے افسر خزانہ کو لکھا:۔
واللہ ما انصفناہ ان اکلنا شبیبتہٗ ثم نخذ لہ عند الھرم۔
خدا کی قسم ہم نے اس سے انصاف نہ کیا اگر جوانی میں اس سے فائدہ اٹھایا اور بڑھاپے میں اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دیا۔
حضرت خالدؓ نے حیرہ کے غیر مسلموں کو جو وثیقہ لکھ کر دیا تھا اُس میں یہ صراحت تھی کہ جو شخص بوڑھا ہو جائے گا یا جوکسی آفت کا شکار ہو گا یا جو مفلس ہو جائے گا اس سے جزیہ وصول کرنے کے بجائے مسلمانوں کے بیت المال سے اس کی اور اُس کے کنبے کی کفالت کی جائے گی۔
(کتاب الخراج۔س۸۵)

۹۔ شہریوں پر حکومت کے حقوق

ان حقوق کے مقابلے میں شہریوں پر ریاست کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں سے پہلا حق اطاعت کا ہے جس کے لیے اسلام میں سمع و طاعت کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ نبیﷺ نے اس کے متعلق یہ صراحت فرمائی ہے کہ السمع والطاعۃ فی العسر والیسر والمنشط والمکرہ (سننا اور ماننا پڑے گا، تنگی اور فراخی اور خوشگواری اورناخوشگواری میں)یعنی خواہ کوئی حکم آدمی کو گوارا ہو یا ناگوار اورخواہ کوئی شخص اس کو بآسانی بجا لا سکے یا دشواری سے‘ بہرحال اسے اطاعت کرنی پڑے گی۔ اسلامی حکومت کا دوسرا اہم حق اس کے شہریوں پر یہ ہے کہ وہ اس کے وفادار اور خیر خواہ رہیں۔ قرآن اور حدیث میں اس کے لیے نصح کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جس کا مفہوم عربی زبان میں(Loyalty) اور (Allegiance) سے زیادہ وسیع ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ایک آدمی سچے دل سے اپنی حکومت کی بھلائی چاہے۔ اس کو نقصان پہنچانے والی کسی چیز کو گوارا نہ کرے اور اس کی فلاح و بہبود سے قلبی وابستگی رکھے۔
یہی نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اسلام میں شہریوں پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے کہ وہ اسلامی حکومت کے ساتھ پورا تعاون کریں اور اس کے لیے کسی جانی و مالی قربانی سے دریغ نہ کریں، حتیٰ کہ اگر دارالاسلام کو کوئی خطرہ پیش آ جائے تو قرآن مجید صاف الفاظ میں اس شخص کو منافق قرار دیتا ہے جو قدرت رکھنے کے باوجود دارلاسلام کی مدافعت میں جان ومال کی قربانی سے دریغ کرے۔
حضرات، یہ ہیں اس حکومت کے خدوخال جس کو ہم اسلامی حکومت کہتے ہیں۔ اس طرز کی حکومت کو آپ موجودہ زمانے کی اصطلاحوں میں سے جس نام سے چاہیں یاد کریں۔ آپ کا جی چاہے اسے سیکولر کہیے، ڈیموکریٹک کہیے یا تھیوکریٹک۔ ہمیں کسی اصطلاح پر اصرار نہیں ہے۔ ہمیں جس چیز پر اصرار ہے وہ صرف یہ ہے کہ جس اسلام کے ماننے کا ہم دعویٰ کرتے ہیں۔ ہمارا نظامِ زندگی اور نظامِ حکومت اسی کے بتائے ہوئے اور مقرر کیے ہوئے اصولوں پر قائم ہو۔

سوالات و جوابات

تقریر کے بعد حاضرین کی طرف سے جو سوالات کیے گئے اور ان کے جو جوابات دیے گئے ان میں سے خاص خاص سوالات وجوابات حسبِ ذیل ہیں:

سوال نمبر۱: خلافت راشدہ کے بعد مسلمانوں کی جو حکومتیں مختلف زمانوں میں قائم ہوئیں، وہ اسلامی حکومتیں تھیں یا غیر اسلامی؟

جواب: درحقیقت نہ وہ پوری اسلامی تھیں نہ پوری غیر اسلامی‘ ان میں اسلامی دستور کی دو اہم چیزوں کو بدل دیا گیا تھا۔ ایک یہ کہ امارت انتخابی ہو۔ دوسرے یہ کہ حکومت کا نظام مشورے سے چلایا جائے۔باقی ماندہ اسلامی دستور چاہے اپنی صحیح اسپرٹ میں برقرار نہ رکھا گیا ہو، لیکن اسے منسوخ یا تبدیل نہیں کیا گیا تھا۔ ان حکومتوں میں قرآن وسنت کو ہی ماخذِ قانون مانا جاتا تھا‘ عدالتوں میں اسلامی قانون ہی نافذ ہوتا تھا اور مسلمان حکمرانوں نے کبھی یہ جرأت نہیں کی کہ قانونِ اسلام کومنسوخ کرکے اس کی جگہ انسانی ساخت کے قوانین جاری کر دیں۔ اور اگر کبھی کسی حکمران نے اس کی جرأت کی تو تاریخِ اسلام گواہ ہے کہ کسی نہ کسی اللہ کے بندے نے اٹھ کر اس کے خلاف جہادِ عظیم کیا، یہاں تک کہ اس فسق کا سدّ باب ہوکر رہا۔ ابنِ تیمیہؒ اور مجدّد الفؒ ثانی نے اس طرح کی کوششوں کے مقابلے میں جو کچھ کیا اس پر تاریخ گواہ ہے۔

سوال نمبر۲ : کیا اَمْرُھُم شُوْریٰ بَیْنَھُمْ کے حکم میں ھُمْ کی ضمیر صرف مردوں کی طرف پھرتی ہے، عورتیں اس میں شامل قرار نہیں پا سکتیں؟

جواب:۔ قرآن مجید کی ایک آیت دوسری آیت سے ٹکراتی نہیں ہے، بلکہ اس کی تشریح کرتی ہے۔ جس قرآن میں اَمْرُھُمْ شُوریٰ بَیْنَھُمْ فرمایا گیا ہے اسی میں اَلرّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسآئِ بھی فرمایا گیا ہے۔ اس لیے مجلس شوریٰ میں جو ساری مملکت کی قوّام ہے، عورتوں کی شمولیت کا دروازہ قرآن نے بند کر دیا ہے۔ مزید برآں ہمارے سامنے عہدِ نبوی وخلافت راشدہ کا تعامل موجود ہے، جو قرآن کے منشاء کی تعبیر کے لیے مستند ترین ذریعہ ہے۔ ہمیں تاریخ اورحدیث میں کوئی نظیر بھی ایسی نہیں ملتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفائے راشدین نے کبھی عورتوں کو مجلس شوریٰ میں شامل کیا ہو۔{ اس مسئلے کی مزید توضیح ایک اور مضمون میں کی گئی ہے جسے اس کتاب کے آخر میں بطور ضمیمہ لگا دیا گیا ہے۔ }

سوال نمبر۳: اسلامی حکومت کے ذرائع آمدنی کیا ہیں؟ مشہور یہ ہے کہ اسلام میں زکوٰۃ، جزیے اور خراج کے سِوا کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ اگر یہ بات ہے تو موجودہ زمانے میں اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے موجودہ زمانے کی ایک حکومت کے مصارف کیسے پورے ہو سکتے ہیں؟

جواب: یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام میں حکومت کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوئی ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا اور یہ کہنا بھی غلط ہے کہ زکوٰۃ کوئی ٹیکس ہے جو حکومت کی ضروریات پوری کرنے کے لیے لگایا جاتا ہے، زکوٰۃ تو صرف سوشل انشورنش کا ایک فنڈ ہے جو مخصوص مستحقین میں صرف کرنے کے لیے لیا جاتا ہے۔ رہیں حکومت کی ضروریات تو وہ درحقیقت پبلک کی ضروریات ہیں۔ پبلک اپنے جن جن کاموں کے لیے مطالبہ کرے اُس کا فرض ہے کہ ان کاموں کی انجام دہی کے لیے حکومت کو فنڈ فراہم کرکے دے۔ جس طرح دوسرے اجتماعی کاموں کے لیے چندہ لیا جاتا ہے۔ اُسی طرح پبلک اپنی جو ضرورتیں حکومت کے ہاتھوں پوری کرانا چاہے ان کے لیے بھی اُس کو چندہ دینا چاہیے۔ ٹیکس اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک چندہ ہی تو ہے۔ ہماری قدیم فقہی کتابوں میں ’’مُکُوس‘‘ کے نام سے جن ٹیکسوں کی مذمّت کی گئی ہے ان میں اور موجودہ زمانے کے ٹیکسوں میں بہت بڑا اصولی فرق ہے۔ اُس زمانے میں ٹیکس کی حیثیّت دراصل پبلک فنڈ کی نہیں تھی، بلکہ وہ ایک باج تھا جو شاہی حکومتیں رعایا سے وصول کرتی تھیں اور بادشاہوں کی مرضی کے مطابق خرچ کرتی تھیں۔ اُن میں اس امر کی کوئی ذمّہ داری نہیں تھی کہ پبلک سے وصول کی ہوئی ان رقوم کو پبلک ہی کے کاموں پر خرچ کریں اور پبلک کو اس کا حساب دیں۔اسی وجہ سے اسلام میں ان ٹیکسوں کو حرام اورناجائز قرار دیا گیا تھا۔ ا ب جبکہ ٹیکس کی حقیقت بدل چکی ہے اُس کا حکم بھی بدل گیا ہے۔

سوال نمبر۴: کیا خلافت کا مسئلہ اس وقت آسانی سے طے ہو سکتا ہے جبکہ اسلام میں بہتّر فرقے موجود ہیں؟

جواب: میں یہاں تمام دنیائے اسلام کی خلافت کے مسئلے سے بحث نہیں کر رہا ہوں، بلکہ صرف پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام تک میری گفتگو محدود ہے، اگر مختلف مسلمان ملکوں میں اُن اصولوں پر جو میں نے ابھی بیان کیے ہیں اسلامی حکومتیں قائم ہو جائیں تو البتہ ممکن ہے کہ ایک وقت ایسا آئے جب اُن سب کی ایک فیڈریشن بن سکے اور تمام دنیائے اسلام کا ایک خلیفہ منتخب کیا جا سکے۔ رہے بہتّر فرقے تو وہ صرف علمِ کلام کی کتابوں کے صفحات میں پائے جاتے ہیں۔ عملاً پاکستان میں تو اس وقت تین ہی فرقے موجود ہیں۔ ایک حنفی، دوسرے اہل حدیث، تیسرے شیعہ۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ ان تینوں فرقوں کے علماء پہلے ہی اسلامی حکومت کے بنیادی اصولوں پر اتفاق کر چکے ہیں۔ لہٰذا اب اس اندیشے کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہی ہے کہ فرقوں کی موجودگی اسلامی حکومت کے قیام میں مانع ہو گی۔

سوال نمبر۵: پاکستان ہی کی خلافت سہی، کیا ہم میں اس وقت کوئی ایسا شخص موجود ہے، جس کو اس کام کے لیے چُنا جا سکے؟

جواب: اس کا فیصلہ کرنا ووٹروں کا کام ہے اور میں اُن میں سے صرف ایک ووٹر ہوں۔ جب انتخاب کی نوبت آئے گی تو ہم سب سوچیں گے کہ کون اس کے لیے موزوں ہے۔

سوال نمبر۶: آج تک آپ لوگ اسلامی دستور کے صرف اصول ہی بیان کرتے رہے ہیں، ایسا کیوں نہیں کیا گیا کہ ایک دستور کا مسوّدہ تیار کرکے پیش کر دیا جاتا؟ ایسا کیا جاتا تو آپ کے مدعا کے لیے زیادہ مفید ہوتا اور لوگوں کو ٹھیک ٹھیک معلوم ہو جاتا کہ آپ کس قسم کا نظام چاہتے ہیں؟

جواب: میرے نزدیک اُس شخص اور اس جماعت سے بڑھ کر نادان کوئی نہیں جو اختیارات کے بغیر دستور بنانے کی حماقت کرے۔ دستور بنانا صرف اس جماعت کا کام ہے جس کی پشت پر نافذ کرنے کی طاقت موجود ہو۔ قوّتِ نفاذ کے بغیر دستور بنا کر پیش کر دینے کی حماقت نہرو رپورٹ کے مصنّفین کر چکے ہیں اور اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ اُس کے بعد پھر ہندوئوں اور مسلمانوں میں موافقت کا کوئی امکان باقی نہ رہا اور آخر کار ملک تقسیم ہو کر رہا۔ اب کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم بھی اس حماقت کا ارتکاب کریں؟ ہمارا کام صرف اصول پیش کرنا ہے۔ دستور بنانا اُس ادارے کا کام ہے جس کی پشت پر قوتِ تنفیذ موجود ہے۔
٭ ٭ ٭

مجالسِ قانون ساز میں عورتوں کی شرکت کا مسئلہ

ہم سے پوچھا گیا ہے کہ آخر وہ کون سے اسلامی اصول یا احکام ہیں جو عورتوں کی رکنیتِ مجالسِ قانون ساز میں مانع ہیں؟ اور قرآن و حدیث کے وہ کون سے ارشادات ہیں جو اِن مجالس کو صرف مردوں کے لیے مخصوص قرار دیتے ہیں؟
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اُن مجالس کی صحیح نوعیت اچھی طرح واضح کر دیں جن کی رکنیت کے لیے عورتوں کے استحقاق پر گفتگو کی جا رہی ہے۔ ان مجالس کا نام مجالسِ قانون ساز رکھنے سے یہ غلط فہمی ذہن میں رکھ کر جب آدمی دیکھتا ہے کہ عہدِ صحابہ میں خواتین بھی قانونی مسائل پر بحث، گفتگو، اظہار رائے، سب کچھ کرتی تھیں اور بسا اوقات خود خلفاء ان سے رائے لیتے اور اس رائے کا لحاظ کرتے تھے، تو اُسے حیرت ہوتی ہے کہ آج اسلامی اصولوں کا نام لے کر اُس قسم کی مجالس میں عورتوں کی شرکت کو غلط کیسے کہا جا سکتا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے۔کہ موجودہ زمانے میں جو مجالس اس نام سے موسوم کی جاتی ہیں ان کا کام محض قانون سازی کرنا نہیں ہے بلکہ عملاً یہی پوری ملکی سیاست کو کنٹرول کرتی ہیں، وہی وزارتیں بناتی اور توڑتی ہیں، وہی نظم و نسق کی پالیسی طے کرتی ہیں، وہی مالیات اور معاشیات کے مسائل طے کرتی ہیں اور انھی کے ہاتھ میں صلح و جنگ کی زمام کار ہوتی ہے۔ اس حیثیت سے ان مجالس کامقام محض ایک فقیہ اورمفتی کا مقام نہیں ہے بلکہ پوری مملکت کے ’’قوّام‘‘ کا مقام ہے۔
اب ذرا دیکھیے، قرآن اجتماعی زندگی میں یہ مقام کس کو دیتا ہے اورکسے نہیں دیتا۔ سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
اَلْرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُم عَلٰی بَعْضٍ وَبِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ ، فَالصَّالِحَاتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ۔ (النساء:۳۴)
مرد عورتوں پر قوّام ہیں، بوجہ اس فضیلت کے جو اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر دی ہے، اور بوجہ اس کے کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ پس صالح عورتیں اطاعت شعار اور غیبت میں ان کی حفاظت کرنے والیاں ہوتی ہیں اللہ کی حفاظت کے تحت۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ صاف الفاظ میں قوامیّت کا مقام مردوں کو دے رہا ہے اور صالح عورتوں کی دو خصوصیات بیان کرتا ہے، ایک یہ کہ وہ اطاعت شعار ہوں، دوسرے یہ کہ وہ مردوں کی غیر موجودگی میں ان چیزوں کی حفاظت کریں جن کی حفاظت اللہ تعالیٰ کرانا چاہتا ہے۔
آپ کہیں گے کہ یہ حکم تو خانگی معاشرت کے لیے ہے نہ کہ ملکی سیاست کے لیے ۔ مگر یہاں اوّل تو مطلقاً اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَآئِ کہا گیا ہے، فی البیوتِ کے الفاظ ارشاد نہیں ہوئے جن کو بڑھائے بغیر اس حکم کو خانگی معاشرت تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ پھر اگر آپ کی یہ بات مان بھی لی جائے تو ہم پوچھتے ہیں کہ جسے اللہ نے گھر میں قوّام نہ بنایا بلکہ قنوت (اطاعت شعاری) کے مقام پر رکھا ، آپ اسے تمام گھروں کے مجموعے، یعنی پوری مملکت میں قنوت کے مقام سے اٹھا کر قوامیّت کے مقام پر لانا چاہتے ہیں؟ گھر کی قوامیّت سے مملکت کی قوامیّت توزیادہ بڑی اوراونچے درجے کی ذمّہ داری ہے۔ اب کیا اللہ کے متعلق آپ کا یہ گمان ہے کہ وہ ایک گھر میں تو عورت کو قوّام نہ بنائے گا۔ مگر کئی لاکھ گھروں کے مجموعے پر اسے قوّام بنا دے گا۔
اور دیکھیے ۔ قرآن صاف الفاظ میں عورت کا دائرہ عمل یہ کہہ کر معیّن کر دیتا ہے کہ:
وَقَرْنَ فِی بُیُوْتِکُنَّ وَاَتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الجَاھْلِیَّۃِ الْاُوْلٰی۔ (الاحزاب:۴)
اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ ٹھیری رہو اور پچھلی جاہلیّت کے تبُّرج { تبُّرج کے معنی ہیں بن سنور کر نازوادا کے ساتھ چلنا۔ }کا ارتکاب نہ کرو۔
آپ پھر فرمائیں گے کہ یہ حکم تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خواتین کو دیا گیا تھا۔ مگر ہم پوچھتے ہیں کہ آپ کے خیال میں کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی خواتین کے اندر کوئی نقص تھا جس کی وجہ سے وہ بیرون خانہ کی ذمہ داریوں کے لیے نااہل تھیں؟ اور کیا دوسری خواتین کو اس لحاظ سے ان پر کوئی فوقیت حاصل ہے؟ پھر اگر اس سلسلے کی ساری آیات صرف اہل بیتِ نبوّت کے لیے مخصوص ہیں تو کیا دوسری مسلمان عورتوں کو تبرُّج جاہلیت کی اجازت ہے؟ اور کیا انھیں غیر مردوں سے اس طرح باتیں کرنے کی بھی اجازت ہے کہ اُن کے دل میں طمع پیدا ہو؟ اور کیا اللہ اپنے نبی ﷺ کے گھر کے سِوا ہرمسلمان کے گھر کو ’’رِجس‘‘ میں دیکھنا چاہتا ہے؟
اس کے بعد حدیث کی طرف آئیے۔ یہاں ہم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ واضح ارشادات ملتے ہیں:۔
اِذَا کَانَ اُمَرَائُ کُمْ وَاَغْنِیَآئُ کُم بُخَلَاکُمْ وَاُمُوْرُکُمْ اِلٰی نِسَآئِ کُمْ فَبَطنُ الْاَرضِ خَیرٌ مِنْ ظَھْرِھَا۔ (ترمذی)
جب تمہارے امراء تمہارے بدترین لوگ ہوں، اور جب تمہارے دولت مند بخیل ہوں اور جب تمھارے معاملات تمھاری عورتوں کے ہاتھ میں ہوں تو زمین کا پیٹ تمھارے لیے اس کی پیٹھ سے بہتر ہے۔
عَنْ ابی بکرۃ لمَّا بلغ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم انَّ اھل فارِس ملکوا علیکم بِنتَ کسریٰ قال لن یفلح قوم ولوا امرھم امرأۃ۔ (بخاری، احمد، نسائی، ترمذی)
ابوبکرۃؓسے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچی کہ ایران والوں نے کسریٰ کی بیٹی کواپنا بادشاہ بنا لیا ہے تو آپؐ نے فرمایا وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جس نے اپنے معاملات ایک عورت کے سپرد کیے ہوں۔
یہ دونوں حدیثیں اللہ تعالیٰ کے ارشاد اَلرَّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِسَآئِ کی ٹھیک ٹھیک تفسیر بیان کرتی ہیں اور ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سیاست و ملک داری عورت کے دائرۂ عمل سے خارج ہے۔ رہا یہ سوال کہ عورت کا دائرۂِ عمل ہے کیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ارشادات اُس کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں:۔
والمراۃ راعیۃٌ عَلی بیت اھلھا ووُلدِہٖ وھی مسئولۃ عنھم۔ (ابودائود)
اور عورت اپنے شوہر کے گھر اوراس کی اولاد کی راعیہ ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دِہ ہے۔
یہ ہے آیت وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ کی صحیح تفسیر‘ اور اس کی مزید تفسیر وہ احادیث ہیں جن میں عورت کو سیاست و ملک داری سے کم تر درجہ کے خارج از بیت فرائض و واجبات سے بھی مستثنیٰ کیا گیا ہے۔
الجمعۃ حق واجب علیٰ کل مسلم فی جماعۃٍاِلَّا اربعہ عبد مملوک، او امرأۃ اوصبیّ او مریضٌ۔ (ابودائود)
جمعہ ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ ادا کرنا حق اور واجب ہے بجز چار کے غلام، عورت، بچہ اور مریض۔‘‘
عَنْ ام عطیۃَ قَالت نُھیِنَا عَنْ اتباع الجنائِز۔ (بخاری)
ام عطیہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا ہم کو جنازوں کے ساتھ جانے سے روک دیا گیا تھا۔
اگرچہ ہمارے پاس نقطۂِ نظر کی تائید میں مضبوط عقلی دلائل بھی ہیں، اور کوئی چیلنج کرے تو ہم انھیں پیش کر سکتے ہیں، مگر اوّل تو ان کے بارے میں سوال نہیں کیا گیا، دوسرے ہم کسی مسلمان کا یہ حق ماننے کے لیے تیار بھی نہیں ہیں کہ وہ خدا اور رسول کے واضح احکام سننے کے بعد ان کی تعمیل کرنے سے پہلے، اور تعمیل کے لیے شرط کے طور پر، عقلی دلائل کا مطالبہ کرے۔ مسلمان کو، اگر وہ واقعی مسلمان ہے، پہلے حکم کی تعمیل کرنی چاہیے، پھر وہ اپنے دماغی اطمینان کے لیے عقلی دلائل مانگ سکتا ہے لیکن اگر وہ کہتا ہے کہ مجھے پہلے عقلی حیثیّت سے مطمئن کرو، ورنہ میں خدا اور رسولؐ کا حکم نہ مانوں گا تو ہم اسے سرے سے مسلمان ہی نہیں مانتے، کجا کہ اس کو ایک اسلامی ریاست کے لیے دستور بنانے کا مجاز تسلیم کریں۔ تعمیل حکم کے لیے عقلی دلیل مانگنے والے کا مقام اسلام کی سرحد سے باہر ہے نہ کہ اس کے اندر۔
سیاست و ملک داری میں عورت کے دخل کو جائز ٹھیرانے والے اگر کوئی دلیل رکھتے ہیں تو وہ بس یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت عثمانؓ کے خون کا دعویٰ لے کر اٹھیں اور حضرت علیؓ کے خلاف جنگ جمل میں نبرد آزما ہوئیں۔ مگر اوّل تو یہ دلیل اصولاً ہی غلط ہے۔ اس لیے کہ جس مسئلے میں اللہ اور اُس کے رسولؐ کی واضح ہدایت موجود ہو اُس میں کسی صحابیؓ کا کوئی ایسا انفرادی فعل جو اس ہدایت کے خلاف نظر آتا ہو، ہرگز حجت نہیں بن سکتا۔ صحابہؓ کی پاکیزہ زندگیاں بلاشبہ ہمارے لیے مشعلِ ہدایت ہیں، مگر اس غرض کے لیے کہ ہم ان کی روشنی میں اللہ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں، نہ اس غرض کے لیے کہ ہم اللہ اور رسول کی ہدایت چھوڑ کر ان میں سے کسی کی انفرادی لغزشوں کا اتباع کریں، پھر جس فعل کو اُسی زمانے میں جلیل القدر صحابہؓ نے غلط قرار دیا تھا، اور اس پر بعد میں خود ام المومنینؓ بھی نادم ہوئیں، اسے آخر کس طرح اسلام میں ایک نئی بدعت کا آغاز کرنے کے لیے دلیل قرار دیا جا سکتا ہے؟
حضرت عائشہ کے اس اقدام کی اطلاع پاتے ہی ام المومنین حضرت ام سلمہؓ نے ان کو جو خط لکھا تھا وہ پورا کا پورا ابن قُتیبہ نے الامامۃ والسیاسۃ میں اور ابن عبدِربّہِ نے عقدالفرید میں نقل کیا ہے۔ اسے ملاحظہ فرمائیے کتنے پُر زور الفاظ میں وہ فرماتی ہیں کہ:
’’آپ کے دامن کو قرآن نے سمیٹ دیا ہے، آپ اسے پھیلائیے نہیں۔‘‘اور کیا آپ کو ڈر نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دین میں افراط برتنے سے روکا ہے؟ اور یہ کہ آپ رسول اللہ کو کیا جواب دیتیں، اگروہ آپ کو اس طرح کسی صحرا میں ایک گھاٹ سے دوسرے گھاٹ کی طرف اونٹ دوڑاتے ہوئے دیکھ لیتے؟‘‘
پھر حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے اس قول کو یاد کیجیے کہ عائشہؓ کے لیے ان کا گھر ان کے ہَودے سے بہتر ہے۔‘‘
اور حضرت ابوبکرہؓ کا یہ قول بخاری میں ملاحظہ فرما لیجیے کہ میں جنگ جمل کے فتنے میں مبتلا ہونے سے صرف اس لیے بچ گیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد آ گیا کہ ’’وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جس نے اپنے معاملات ایک عورت کے سپرد کر دیے ہوں۔‘‘
حضرت علیؓ سے بڑھ کر اُس زمانے میں کون شریعت کا جاننے والا تھا؟ انھوں نے صاف الفاظ میں حضرت عائشہؓ کو لکھا کہ آپ کا یہ اقدام حدودِ شریعت سے متجاوز ہے، اور حضرت عائشہؓ اپنی کمال درجے کی ذہانت وفقاہت کے باوجود اس کے جواب میں کوئی دلیل نہ پیش کر سکیں۔ حضرت علیؓ کے الفاظ یہ تھے کہ بلاشبہ آپ اللہ اور اس کے رسول ہی کی خاطر غضبناک ہو کر نکلی ہیں، مگر آپ ایک ایسے کام کے پیچھے پڑی ہیں جس کی ذمّہ داری آپ پر نہیں ڈالی گئی۔ عورتوں کو آخر جنگ اور اصلاحِ بین الناس سے کیا تعلق؟ آپ عثمانؓ کے خون کا دعویٰ لے کر اٹھی ہیں، مگر میں سچ کہتا ہوں کہ جس شخص نے آپ کو اس بلا میں ڈالا اور اس معصیّت پر آمادہ کیا وہ آپ کے حق میں عثمانؓ کے قاتلوں سے زیادہ گناہ گار ہے۔
دیکھیے اس خط میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ حضرت عائشہؓ کے فعل کو صریحاً خلافِ شرع قرار دے رہے ہیں۔ مگر حضرت عائشہؓ اس کا کوئی جواب اس کے سوا نہ دے سکیں کہ جل الامر عن العتاب۔ ’’معاملہ اب اس حد سے گزر چکا ہے کہ عتاب و ملامت سے کام چل سکے۔‘‘پھر جنگ جمل کے خاتمے پرجب حضرت علیؓ ام المومنینؓ سے ملنے تشریف لے گئے تو انھوں نے کہا:۔
یاصاحبۃَ الھودجِ قد اَمَرَکِ اللّٰہ اَنْ تقعد فی بیتکِ ثم خرجتِ تقاتلین؟
اے ہودے والی، اللہ نے آپ کو گھر بیٹھنے کا حکم دیاتھا اور آپ لڑنے کے لیے نکل پڑیں۔
مگر اس وقت بھی حضرت عائشہؓ یہ نہ کہہ سکیں کہ اللہ نے ہم عورتوں کو گھر بیٹھنے کا حکم نہیں دیا ہے اور ہمیں سیاست اورجنگ میں حصہ لینے کا حق ہے۔
پھر یہ بھی ثابت ہے کہ آخر کار حضرت عائشہؓ خود اپنے اس فعل پر پچھتاتی رہیں۔ چنانچہ علامہ ابن عبدالبر استیعاب میں یہ روایت لائے ہیں کہ ام المومنینؓ نے عبداللہ بن عمرؓ سے شکایتہ فرمایا: ’’اے ابو عبدالرحمن تم نے کیوں نہ مجھے اس کام پر جانے سے منع کیا؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: ’’میں نے دیکھا کہ ایک شخص (یعنی عبداللہ ؓ بن زبیر) آپ کی رائے پر حاوی ہو گیا اور مجھے امید نہ تھی کہ آپ اس کے خلاف چل سکیں گی۔‘‘ اس پر ام المومنینؓ نے فرمایا: کاش! تم مجھے منع کر دیتے تو میں نہ نکلتی۔
اس کے بعد جناب صدیقہؓ کے عمل میں آخر کیا دلیل باقی رہ جاتی ہے جس کے بل بوتے پر کوئی صاحبِ علم یہ دعویٰ کر سکتا ہو کہ اسلام میں عورتیں بھی سیاست اور نظم مملکت کی ذمہ داری میں شریک قرار دی گئی ہیں؟ رہے وہ لوگ جن کے لیے اصل معیارِ حق صرف دُنیا کی غالب قوموں کا طرز عمل ہے، اور جنھیں بہرحال چلنا اُسی طرف ہے جس طرف انبوہ جا رہا ہو، تو انھیں کس نے کہا ہے کہ اسلام کو اپنے ساتھ ضرور لے چلیں؟ ان کا جدھر جی چاہے شوق سے جائیں، مگر کم از کم اتنی راستبازی تو ان میں ہونی چاہیے کہ جس مقتدا کے دراصل وہ پیرو ہیں اُسی کا نام لیں، بلا دلیل اسلام کی طرف وہ باتیں منسوب نہ کریں جن سے خدا کی کتاب، اور اس کے رسول کی سنت، اور قرونِ مشہود لہا بالخیر کی تاریخ صاف صاف انکار کر رہی ہے۔
(ترجمان القرآن۔ ذی الحجہ ۷۱ھ؁ ۔ستمبر ۵۲ء؁)
……٭٭٭……