ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔
پیش لفظ: جدید اڈیشن
الحمد للہ! امام سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی بے مثال تصنیف ’’اسلام اور ضبطِ ولادت‘‘ کا جدید تحقیق شدہ اڈیشن شائع ہوگیا ہے جس میں درج ذیل خوبیاں سمونے کی کوشش کی گئی ہے:
1۔ حوالہ جات کی تکمیل /تصحیح کر دی گئی ہے۔
2۔ عربی عبارات اصل مآخذ کے ساتھ تقابل کرکے درست کر دی گئی ہیں۔
3۔ عربی عبارات پربطورِ خاص اور بعض اُردو الفاظ اور تراکیب پر بھی آسانی کی خاطر اِعراب لگا دیے گئے ہیں۔
4۔ پوری کتاب کی از سر ِنو پروف ریڈنگ کرکے غلطیوں کی تصحیح کر دی گئی ہے۔
5۔ قرانی آیات کے تراجم جو بعض مقامات پر چھوٹ گئے تھے، وہ کتاب کا حصہ بنا دیے گئے ہیں۔
6۔ جداول (tables) اوراعداد وشمار کی متعدد غلطیاں ماہ نامہ ترجمان القرآن کی فائل سے اولین شماروں کے ساتھ تقابل کرکے درست کردی گئیں ہیں۔کتاب کے جو حصے ترجمان القرآن میں شائع نہیں ہوئےتھے اور بعدمیں شامل کیے گئے تھے ،اُن کی تصحیح کے لیے قدیم نسخہ جو 1975ئ میں شائع ہوا تھا،سے استفادہ کیا گیا ہے۔
7۔ متعدد انگریزی مآخذ کی تفصیلات،اُن کی تصحیح اور تکمیل انٹرنیٹ کی مدد سے کی گئی ہے۔
8۔ چند ایک مقامات پر معلوماتی حواشی کا اضافہ کیا گیا ہے۔
9۔ کتاب کے آخر میں مشکل الفاظ کے معانی الف بائی ترتیب کے ساتھ شامل کر دیےگئے ہیں۔
10۔ کتاب کے آخر میں جدید اُسلوب کے مطابق مصادر ومراجع (Bibliography) کا اضافہ کیا گیا ہے۔
اُمید ہے کہ یہ بیش قیمت کتاب ان شاء اللہ اب زیادہ آسان اور نفع بخش ثابت ہوگی۔اس سلسلے میں قارئین کی قیمتی آراء کا خیر مقدم کیا جائے گا۔
دعاؤں کا طالب
ڈاکٹر نصیر خان
(naseerkhandr@gmail.com)
عرضِ ناشر
اِمام سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی کی ایسی نابغۂ روزگار شخصیت ہیں جنھوں نے ایک طرف اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے علمی وعملی رہنمائی فراہم کی تو دوسری طرف باطل نظریات کو روکنے کے لیے ٹھوس دلائل وبراہین کے بند باندھ کر مسلمانوں کو گمراہی کی تاریکیوں سے بچائے رکھا۔
مغربی دنیا اسلامی اساس کو کمزور کرنے اور مسلمانوں کو معاشی ترقی اور ماڈرن ازم کے گہرے سپنے دکھا کر ان کے عقائد کی دیواریں مسمار کرنے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے آزما رہی ہے ایسے ہی ہتھکنڈوں میں ایک ضبط ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی بھی ہے جس کے ذریعے وہ عالمِ اسلام کی عددی اکثریت کو کم کرنا چاہتی ہے۔
امام سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اس حوالے سے بھی اپنی مجددانہ ذمہ داری کو بخوبی نبھایا ہے اور ’’اسلام اور ضبط ولادت‘‘ میں ضبط ولادت کی تحریک کے اخلاقی، نفسیاتی، معاشرتی اور معاشی مضمرات کواجاگر کیا ہے اور مغربی تہذیب پر اس کے تباہ کن اثرات کا جائزہ بھی مغربی مفکرین کی تحریروں کی روشنی میں پیش کیا ہے۔
موجودہ حالات میں جب سرکاری وغیر سرکاری سطح پر ذرائع ابلاغ کو ضبط ولادت کی بھرپور ترغیب اور تشہیر کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اس کتاب کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے لہٰذا اسی ضرورت کے پیش نظر اس کتاب کو بڑے سائز میں نئے سر ورق ، نئے گیٹ اپ، کمپیوٹر کمپوزنگ اورتحقیق کے جدید معیار کے مطابق پیش کیا جا رہا ہے۔امید ہے قارئین اسے پسند کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے بھرپور استفادہ کریں گے۔ منیجنگ ڈائریکٹر
اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ
دیباچہ: طبع ہفتم
یہ کتاب ابتداء ً اب سےچھبیس سال پہلے لکھی گئی تھی۔ اس کے بعد میں اس فرصت کی تلاش ہی میں رہا کہ اس کے اندر جدید معلومات کا اضافہ کروں، لیکن یہ فرصت مجھے کبھی نہ ملی۔ آخر کار میں نے پروفیسر خورشید احمد صاحب کو یہ زحمت دی کہ وہ اس کام میں میرا ہاتھ بٹائیں۔ چنانچہ اب اس کتاب کا یہ نیا اڈیشن انھی کی مدد سے تیار ہوا ہے جس کے لیے میں ان کا بہت شکر گزار ہوں۔
کتاب کے آخر میں دو ضمیمے بھی شامل کر دیے گئے ہیں۔ پہلا ضمیمہ میرے ایک مقالے پر مشتمل ہے جو حکومت پاکستان کے محکمہ قومی تعمیر نو کی دعوت پر ایک مجلس مذاکرہ میں پیش کرنے کے لیے لکھا گیا تھا۔ دوسرا ضمیمہ پروفیسر خورشید احمد صاحب کا ایک مستقل مضمون ہے جو انھوں نے اس کتاب میں شامل کرنے کے لیے دیا ہے۔
مجھے امید ہے کہ اب یہ کتاب اس موضوع پر ایک نہایت مفید چیز ثابت ہو گی۔
ابو الاعلیٰ مودودی
22 اگست 1961ء ،لاہور
دیباچہ: طبع اول
یہ مضمون 1354ھ (1935ء) میں لکھا گیا تھا۔ اس کے بعد سے کبھی اس پر نظر ثانی کرنے کا موقع نہ ملا۔ اگرچہ بعد میں اس موضوع سے متعلق بہت سی معلومات فراہم کرنے کا اتفاق ہوا مگر اتنی فرصت نہ مل سکی کہ ان کو جمع اور مرتب کرکے اس رسالہ میں اضافہ کر دیا جاتا۔ اسی انتظار میں یہ رسالہ کئی سال تک پڑا رہا۔ آخر کار اب یہ اُسی طرح کتابی شکل میں شائع ہو رہا ہے۔
جس اخلاقی خطرے کو محسوس کرکے اب سے سات آٹھ برس پہلے میں نے یہ مضمون لکھا تھا وہ کم نہیں ہو رہا بلکہ روز بروز بڑھ رہا ہے اور غالباً موجودہ جنگ کے بعد اس میں اور زیادہ اضافہ ہو گا۔ اس لیے مغرب سے آئی ہوئی ہر وَبا کا استقبال کرنے والوں کو سیدھی راہ دکھانے کی ضرورت اب پہلے سے بھی زیادہ شدید ہے۔ اس جنگ میں ایک عظیم الشان قوم (یعنی فرانس) ان غلط اخلاقی وتمدنی نظریات کا نہایت، عبرت ناک انجام دیکھ چکی ہے جو اٹھارویں اور انیسویں صدی کی احمقانہ حریت فکر کے زیر اثر اختیار کیے گئے تھے۔ جو طاقت مدتہائے دراز تک دنیا کی اول درجہ کی طاقتوں میں شمار ہوتی رہی ہے، اب وہ ایک دوسرے بلکہ تیسرے درجہ کی طاقت بنتی نظر آتی ہے۔ اس کی وہ سلطنت جو چار براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی ہماری آنکھوں کے سامنے پارہ پارہ ہو رہی ہے۔ اس کے مدبر اعظم مارشل پیتاں (Marshall Petain) نے خود جون 1940ء کی شکست کے بعد علانیہ اس کا اعتراف کیا ہے کہ ہماری یہ ذلت ہماری اپنی نفس پرستیوں کا نتیجہ ہے اور دنیا کے اہل بصیرت نے بالاتفاق اس کی شکست کے اسباب میں سے اہم سبب اس کی شرح پیدائش کے مسلسل انحطاط کو قرار دیا ہے{ FR 7084 }۔اس کے بعد دنیا کی دوسری عظیم تر قوم (یعنی برطانیہ) کو بھی اب یہی خطرہ درپیش ہے۔ چنانچہ حال ہی میں مسٹر چرچل کے صاحبزادے مسٹر رینڈ ولف چرچل نے تقریر کرتے ہوئے کہا:
’’میں نہیں سمجھتا کہ ہماری قوم بالعموم اس خطرے سے آگاہ ہو چکی ہے کہ اگر ہماری شرح پیدائش اسی طرح گرتی رہی تو ایک صدی کے اندر جزائر برطانیہ کی آبادی صرف 40 لاکھ رہ جائے گی اور اتنی کم آبادی کے بل بوتے پر برطانیہ دنیا میں ایک بڑی طاقت نہ رہ سکے گا۔‘‘
پھر اس شرح پیدائش کی کمی کے اسباب پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’برطانوی لوگوں میں اپنے معاشرتی مرتبہ کا خیال بہت زیادہ ہے اوروہ نہایت مبالغہ کے ساتھ اپنے اس مرتبہ کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ہاں قصداً افراد خاندان کی تعداد کم تر رکھنے کی سعی کی جاتی ہے کیونکہ بچے ایک دو سے زیادہ ہو جانے کی صورت میں انھیں خوف ہوتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اس شان کے ساتھ مدرسے نہ بھیج سکیں گے جس کے ساتھ ان کے ہمسایوں کے بچے جاتے ہیں اور اس سے معاشرت میں ان کی حیثیت گر جائے گی۔‘‘
یورپ کے جن دوسرے ممالک کو پچھلے دنوں جنگ کے عفریت نے پامال کیا ہے ان میں سے اکثر انھی غلط تمدنی نظریات کی بھینٹ چڑھے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنی حماقت سے زندگی کے وہ طریقے اختیار کیے جنھوں نے اُن کی قومی طاقت کو گھن لگا دیا لیکن جن لوگوں کو دنیا میں آنکھیں بند کرکے چلنے کی عادت ہے وہ اِن واقعات سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتے اور ظاہر فریب سائنٹفک زبان میں جو نظریات کاغذ پر لکھے گئے ہیں انھی کی پیروی سے چلے جاتے ہیں حالانکہ تجربہ کی کسوٹی، جس نے آج تک کسی مُلّمٰع ساز کے ساتھ رعایت نہیں کی ہے، اس چمکدار کھوٹ کا راز کبھی کا فاش کر چکی ہے۔
میرے اس مختصر رسالہ کا موضوع اگرچہ ضبط ولادت اور اس کی فکری وعملی بنیادوں کا ابطال ہے، لیکن ضمناً اس میں تمدن وفلسفہ کے وسیع تر مسائل پر بھی اشارات آ گئے ہیں جن سے اہل نظرکو مسائل زندگی پر غور کرنے کے لیے مغرب کی پامال راہوں سے الگ ایک دوسری راہ مل سکتی ہے۔ میری کتاب ’’پردہ‘‘ اور ’’حقوق الزوجین‘‘ کے ساتھ مل کر یہ رسالہ اسلام کے نظام معاشرت اور اس کی نظری اساس کو سمجھنے میں غالباً اچھا مددگار ثابت ہو گا۔
ابوالاعلیٰ
دارالاسلام، نزد پٹھان کوٹ، 9 مارچ 1943ء
مقدمہ
برعظیم ہندو پاکستان میں گزشتہ ربع صدی سے ضبط ولادت (birth control) کی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔{ FR 7085 } اس کی تائید میں نشرواشاعت کرنے اور لوگوں کو اس کی طرف رغبت دلانے اور اس کے عملی طریقوں کے متعلق معلومات بہم پہنچانے کے لیے انجمنیں قائم ہو چکی ہیں اور رسالے شائع کیے جا رہے ہیں۔ پہلے لندن کے برتھ کنٹرول انٹرنیشنل انفارمیشن سنٹر کی ڈائریکٹر مسز ایڈتھ ہومارٹن (Mrs Edith How Martyn) نے اس تحریک کی نشروشاعت کے لیے اس برعظیم کا دورہ کیا۔ پھر 1931ء کی مردم شماری کے کمشنر ڈاکٹر ہٹن (Dr.Hutton) نے اپنی رپورٹ میں ہندوستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کو خطرناک ظاہر کرکے ضبط ِولادت کی ترویج پر زور دیا۔ اس کے بعد متحدہ ہندوستان کی کونسل آف اسٹیٹ کے ایک ’’مسلمان‘‘ ممبر نے حکومت کو توجہ دلائی کہ وہ ہندوستان میں آبادی کی افزائش کو روکنے کے لیے عملی تدابیر اختیار کرے۔ اگرچہ حکومت ہند نے اس وقت اس تجوید کو رد کر دیا تھا لیکن لکھنؤ میں عورتوں کی آل انڈیا انجمن نے اس کی حمایت میں ایک قرار داد پاس کر دی۔ کراچی اور بمبئی کی مجالس بلدیہ میں اس کی عملی تعلیم رائج کرنے پر بحث کی گئی۔ میسور اور مدراس اور بعض دوسرے مقامات پر اس کیلئے مُطِب (clinics) کھول دیے گئے اور صاف نظر آنے لگا کہ مغرب سے آئی ہوئی دوسری چیزوں کی طرح یہ تحریک بھی اس برعظیم میں پھیل کر رہے گی۔ اس کے بعد ہندوستان اور پاکستان دو آزاد ملک بن گئے اور کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ دونوں ملکوں کی حکومتوں نے اپنے اپنے حدود میں اس تحریک کو ایک قومی پالیسی کی حیثیت سے اختیار کر لیا۔
جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے وہ تو ایک ’’لادینی مملکت‘‘ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اس لیے اسے اپنی کسی سرکاری پالیسی کے لیے مذہب سے سند کی ضرورت نہیں۔ لیکن پاکستان ماشاء اللہ ایک اسلامی مملکت ہے، اس لیے یہاں یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ تحریک عین مطابق اسلام ہے۔ اس کے بعد اگر اسلامی قوانین کا علم رکھنے والے خاموش رہیں تو عام طور پر یہی سمجھ لیا جائے گا کہ اسلام فی الواقع اس تحریک کا حامی ہے، یا کم از کم اسے جائز رکھتا ہے۔
یہ کتاب اسی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے لکھی جا رہی ہے لیکن قبل اس کے کہ اس مسئلہ پر اسلامی نقطۂ نظر سے بحث کی جائے، یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ ضبط ولادت کی تحریک کیا ہے؟ کس طرح شروع ہوئی؟ کن اسباب سے اس نے ترقی کی؟ اور جن ممالک میں اس نے رواج پایا، وہاں اس کے کیا نتائج رونما ہوئے؟ جب تک یہ مقدمات اچھی طرح ذہن نشین نہ ہو جائیں گے، شرعِ اسلام کا فتویٰ ٹھیک ٹھیک سمجھ میں نہ آئے گا، نہ دل اس پرمطمئن ہو سکیں گے۔ اس لیے سب سے پہلے ہم انھی امور پر روشنی ڈالیں گے اور آخر میں اس کے متعلق اسلامی نقطۂ نظر کی توضیح کریں گے۔ اس سلسلے میں جو مواد اِن صفحات میں پیش کیا جا رہا ہے، ہم توقع رکھتے ہیں کہ ملک کے تعلیم یافتہ اصحاب بھی، اور ہمارے حکمران بھی سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کریں گے۔ اجتماعی زندگی کے مسائل اس قدر پیچیدہ ہوتے ہیں کہ کسی ایک ہی نقطہ نظر سے ان پر سوچنا اور ان کا ایک حل تجویز کر دینا کبھی مفید نہیں ہوتا۔ ایک اجتماعی مسئلے کو حل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے تمام متعلقہ پہلوئوں پر جامعیت کے ساتھ نگاہ ڈالی جائے اور کسی وقت بھی بحث وتحقیق کا دروازہ بند نہ کیا جائے۔ اگر کسی مسئلے کے متعلق ایک قومی پالیسی بنا بھی لی گئی ہو تو اسے غورِ مکرر اور نظر ثانی سے بالاتر نہ سمجھ لینا چاہیے۔
تحریک ضبط ولادت کا مقصد اور پس منظر
ضبط ولادت کا اصل مقصد نسل کی افزائش کو روکنا ہے۔ قدیم زمانے میں اس کے لیے عزل، اِسقاطِ حمل، قتل اولاد اور برہم چرج (یعنی ضبط نفس، خواہ وہ تجرد کی شکل میں ہو یا مقاربت سے پرہیز کی شکل میں) کے طریقے اختیار کیے جائے تھے۔ آج کل مؤخر الذکر دونوں طریقوں کو ترک کر دیا گیا ہے اور ان کے بجائے یہ طریقہ ایجاد ہوا ہے کہ مقاربت تو کی جائے مگر دوائوں یا آلات کے ذریعہ سے اِستقرار حمل کو روک دیا جائے۔ اسقاط حمل کا طریقہ بھی کثرت کے ساتھ یورپ اور امریکہ میں رائج ہے۔ لیکن برتھ کنٹرول کی تحریک صرف مانع حمل تدابیر پر زور دیتی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ ان تدابیر کا علم اس قدر عام کر دیا جائے اور ان کے ذرائع اس کثرت کے ساتھ فراہم کیے جائیں کہ ہر بالغ مرد وعورت ان سے فائدہ اٹھا سکے۔
تحریک کی اِبتدا
یورپ میں اس تحریک کی ابتدا اٹھارھویں صدی عیسوی کے اواخر میں ہوئی۔ اس کا پہلا محرک غالباً انگلستان کا مشہور ماہر معاشیات مالتھوس (Malthus) تھا۔ اس کے عہد میں انگریزی قوم کی روز افزوں خوشحالی کے سبب سے انگلستان کی آبادی تیزی کے ساتھ بڑھنی شروع ہوئی۔ آبادی کی اس توفیر کو دیکھ کر اس نے حساب لگایا کہ زمین پر قابل سکونت جگہ محدود ہے، اور اسی طرح معیشت کے وسائل بھی محدود ہیں، لیکن نسل کی افزائش غیر محدود ہے۔ اگر نسل اپنی فطری رفتار کیساتھ بڑھتی رہے تو زمین اس کے لیے تنگ ہو جائے گی، وسائل معاش کفایت نہ کر سکیں گے اور افزائش نسل کے ساتھ معیار زندگی پست ہوتا چلا جائے گا۔ لہٰذا نسلِ انسانی کی خوش حالی، آسائش اور فلاح وبہبود کے لیے ضروری ہے کہ اس کی افزائش، وسائل معاش کی وسعت کے ساتھ متناسب رہے اور اس سے آگے نہ بڑھنے پائے۔ اس غرض کے لیے اس نے برہم چرج کے قدیم طریقے کو رائج کرنے کا مشورہ دیا۔ یعنی بڑی عمر میں شادی کی جائے اور ازدواجی زندگی میں ضبط نفس سے کیا لیا جائے۔ یہ خیالات پہلی مرتبہ 1798ء میں اس نے اپنے ایک رسالہ ’’آبادی اور معاشرے کی آئندہ ترقی پر اس کے اثرات‘‘ (An Essay on Population as it Effects the Furure Improvement of Society) میں پیش کیے تھے۔
اس کے بعد فرانسس پلاس (Francis Place) نے فرانس میں افزائش نسل کو روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مگر اس نے اخلاقی ذرائع کو چھوڑ کر دوائوں اور آلات کے ذریعہ سے منع حمل کی تجویز پیش کی۔ اس رائے کی تائید میں امریکہ کے ایک مشہور ڈاکٹر چارلس نولٹن (Charles Knowlton) نے 1833ء میں آواز بلند کی۔ اس کی کتاب ’’ثمرات فلسفہ‘‘ (The Fruits of Philosophy) غالباً پہلی کتاب ہے جس میں منع حمل کے طبی طریقوں کی تشریح کی گئی تھی اور ان کے فوائد پر زور دیا گیا تھا۔
ابتدائی تحریک کی ناکامی اور اس کا سبب
ابتداء میں اہل مغرب نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی، اس لیے کہ نظریہ اصلاً غلط تھا۔ مالتھوس حساب لگا کر یہ تو دیکھ سکتا تھا کہ آبادی کس رفتار سے بڑھتی ہے، لیکن اس کے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا کہ وسائل معاش کس رفتار سے بڑھتے ہیں اور زمین میں قدرت کے کتنے خزانے پوشیدہ ہیں جو علم کی ترقی، عقل کی کارفرمائی اور عمل کی قوت سے نکلتے چلے آئے ہیں اور انسان کے وسائل معاش میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کا تصور معاشی ترقی کے ان امکانات تک پہنچ ہی نہ سکتا تھا جو اس کی نگاہ سے پوشیدہ تھے اور اس کے بعد قوت[Potential] سے فعل[Phenomenon] میں آئے۔ انیسویں صدی کے ربع آخر تک یورپ کی آبادی تیزی کے ساتھ بڑھتی رہی، یہاں تک کہ75 سال کے اندر قریب قریب دوگنی ہو گئی۔ خصوصاً انگلستان کی آبادی میں تو حیرت انگیز اضافہ ہوا جس کی مثال نسل انسانی کی پچھلی تاریخ میں نہیں ملتی۔ 1779ء میں اس ملک کی آبادی12 ملین تھی۔ 1890ء میں 38 ملین تک پہنچ گئی۔ لیکن اس اضافہ کے ساتھ معاشی وسائل میں بھی زبردست ترقی ہوئی۔ صنعت وتجارت میں یہ ممالک تمام دنیا کے اجارہ دار بن گئے۔ ان کی زندگی کا انحصار خود اپنی زمین کی پیداوار پر نہ رہا بلکہ وہ اپنی مصنوعات کے معاوضہ میں دوسرے ممالک سے سامان غذا حاصل کرنے لگے اور نسل کی زبردست افزائش کے باوجود ان کو کبھی یہ محسوس نہ ہوا کہ زمین ان کی بڑھتی ہوئی نسلوں کے لیے تنگ ہو گئی ہے، یا قدرت کے خزانے ان کی افزائش نسل کا ساتھ دینے سے انکار کر رہے ہیں۔
جدید تحریک
اُنیسویں صدی کے ربع آخرمیں ایک نئی تحریک اٹھی جو نومالتھوسی تحریک (Neo-Malthusian Movement) کہلاتی ہے۔ 1872ء مسز اینی بیسنٹ اور چارلیس بریڈ لانے ڈاکٹر نولٹن کی کتاب ’’ثمرات فلسفہ‘‘ کو انگلستان میں شائع کیا۔ حکومت نے اس پر مقدمہ چلا دیا۔ مقدمہ کی شہرت نے عوام کو اس تحریک کی طرف متوجہ کر دیا۔ 1877ء میں ڈاکٹر ڈریسڈیل (Drysdale) کے زیر صدارت ایک انجمن قائم ہو گئی جس نے ضبط ولادت کی تائید میں نشرواشاعت شروع کر دی۔ اس کے دو سال بعد مسز بیسنٹ کی کتاب قانون آبادی (Law Of Population) شائع ہوئی جس کے ایک لاکھ پچھتر ہزار نسخے پہلے ہی سال فروخت ہو گئے۔ 1881ء میں یہ تحریک ہالینڈ، بیلجئم، فرانس اور جرمنی میں پہنچی اور اس کے بعد رفتہ رفتہ یورپ اور امریکہ کے تمام متمدن ممالک میں پھیل گئی۔ باقاعدہ انجمنیں قائم ہوئیں جنہوں نے تحریروتقریر کے ذریعہ سے لوگوں کو ضبط ولادت کے فوائد اور اس کے عملی طریقوں سے آگاہ کیا۔ اس کو اخلاقی نقطۂ نظر سے جائز بلکہ مستحسن اور معاشی نقطۂ نظر سے مفید بلکہ قطعاً ناگزیر بتایا گیا۔ اس کے لیے دوائیں ایجاد کی گئیں۔ آلات بنائے گئے۔ عام لوگوں کی دست رس تک ان چیزوں کو پہنچانے کا انتظام کیا گیا۔ جگہ جگہ ضبط ولادت کے مطب (Brith Control Clinics) قائم کیے گئے جہاں عورتوں اور مردوں کو ضبط ولادت کے لیے ماہرانہ مشورے دیے جانے لگے۔ اس طرح اس نئی تحریک نے بہت جلدی فروغ پا لیا اور اب یہ روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
ترقی کے اسباب
دورِ جدید میں اس تحریک کے پھیلنے کی اصل وجہ وہ نہیں ہے جس کی بناء پر ابتداء میں مالتھوس نے افزائش نسل کو روکنے کا مشورہ دیا تھا۔ بلکہ دراصل یہ نتیجہ ہے مغرب کے جدید صنعتی انقلاب (Industrial Revolution) اور سرمایہ دارانہ نظام اور مادہ پرست تہذیب اور نفس پرست تمدن کا۔ آئیے اب ہم ان اسباب میں سے ایک ایک پر نظر ڈال کر دیکھیں کہ اس نے مغربی قوموں کو کس طرح ضبط ولادت پر مجبور کیا۔
1۔ صنعتی انقلاب
یورپ میں جب مشین ایجاد ہوئی اور مشترک سرمائے سے بڑے بڑے کارخانے قائم کرکے کثیر پیداواری (Mass Production) کا سلسلہ شروع ہوا تو دیہات کی آبادیاں کھیتی باڑی کو چھوڑ کر کارخانوں میں کام کرنے کے لیے شہروں کی طرف آنے لگیں یہاں تک کہ دیہات اجڑ گئے اور بڑے بڑے عظیم الشان شہر وجود میں آئے جہاں لکھوکھا آدمی ایک محدود جگہ میں مجتمع ہو گئے۔ اس چیز نے ابتداء میں یورپ کی خوش حالی کو خوب بڑھایا لیکن بعد میں اس نے بے شمار معاشی مشکلات پیدا کر دیں۔ زندگی کے لیے جدوجہد بڑھ گئی، مقابلہ سخت ہو گیا، معاشرت کا معیار بلند ہوا، ضروریات زندگی نے وسعت اختیار کی اور ان کی قیمتیں اتنی بڑھ گئیں کہ محدود آمدنی رکھنے والوں کے لیے اپنی خواہشات کے مطابق اپنی معاشرت کے بلند مرتبے کو قائم رکھنا مشکل ہو گیا۔ مکانات میں جگہ کم اور کرائے زیادہ ہو گئے۔ کمانے والوں کے لیے کھانے والوں کا وجود دو بھر ہونے لگا۔ باپوں کے لیے اولاد اور شوہروں کے لیے بیویوں تک کی پرورش ناقابل برداشت بار بن گئی۔ ہر شخص مجبور ہو گیا کہ اپنی آمدنی کو صرف اپنی ذات پر خرچ کرے اور دوسرے حصہ داروں کی تعداد جہاں تک ممکن ہو گھٹائے۔ { FR 7086 }
2۔ عورتوں کا معاشی استقلال
ان حالات میں عورتوں کو مجوراً اپنی کفالت آپ کرنا اور خاندان کے کمانے والے افراد میں شامل ہونا پڑا۔ معاشرت کی قدیم اور فطری تقسیم عمل، جس کی رو سے مرد کا کام کمانا اور عورت کا کام گھر کا کام کرنا تھا، باطل ہو گئی۔ عورتیں کارخانوں اور دفتروں میں خدمت کرنے کے لیے پہنچ گئیں اور جب کسب معیشت کا بار ان کو سنبھالنا پڑا تو ان کے لیے مشکل ہو گیا کہ افزائش نسل اور پرورش اطفال کی اس خدمت کو بھی ساتھ ساتھ ادا کر سکیں جو فطرت نے ان کے سپرد کی تھی۔ ایک عورت جس کو اپنی ضروریات فراہم کرنے یا گھر کے مشترک بجٹ میں اپنا حصہ ادا کرنے کے لیے روزانہ کام کرنا ضروری ہو، کس طرح اب بات پر آمادہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس حالت میں بچے بھی پیدا کرے۔ زمانۂ حمل کی تکالیف اکثر عورتوں کو اس قابل نہیں رکھتیں کہ وہ گھر کے باہر زیادہ جسمانی یا دماغی محنت کر سکیں۔ خصوصاً حمل کے آخری زمانے میں تو ان کے لیے چھٹی لینا ضروری ہے۔ پھر وضعِ حمل کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی کچھ مدت تک وہ کام کرنے کے قابل نہیں ہو سکتیں۔ اس کے بعد بچے کو دودھ پلانا اور کم از کم تین چار سال تک اس کی نگرانی، حفاظت اور تربیت کرنا ایسے حالات میں کسی طرح ممکن نہیں ہے جبکہ ماں کو باہر جا کر نوکری کرنی ہو۔ نہ تو ماں اپنے شیر خوار بچے کو دفتر یا کارخانے میں لے جا سکتی ہے، نہ اپنی قلیل معاش میں اتنی گنجائش نکال سکتی ہے کہ بچے کی نگہداشت کے لیے نوکر رکھ لے اور اگر وہ اپنے ان فطری وظائف کو انجام دینے کےلیے کافی عرصہ تک بے کار رہے تو بھوکی مر جائے یا شوہر کے لیے ناقابل برداشت بار بن جائے۔ اس کے علاوہ جس کی وہ ملازم ہے وہ بھی گوارا نہیں کر سکتا کہ وہ بار بار کئی کئی مہینے کے لیے رخصت لیتی رہے۔ غرض ان اسباب سے عورت اپنی فطری خدمت سے اعراض کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے اور پیٹ کی ضروریات اس کے ان زبردست جذبات کو سرد کر دیتی ہیں جو فطرت نے ماں بننے کے لیے اس کے سینے میں ودیعت کیے ہیں۔
3۔ جدید تہذیب وتمدن
جدید تہذیب وتمدن نے بھی ایسے اسباب فراہم کر دیے ہیں جو افزائش نسل سے عام نفرت پیدا کرنے والے ہیں۔
مادہ پرستی نے لوگوں میں انتہا درجے کی غود غرضی پیدا کر دی ہے۔ ہر شخص اپنی آسائش کے لیے زیادہ سے زیادہ اسباب فراہم کرنا چاہتا ہے اورپسند نہیں کرتا کہ اس کے رزق میں کوئی دوسرا حصہ لے، خواہ وہ اس کا باپ، بھائی، بہن، حتیٰ کہ اولاد ہی کیوں نہ ہو۔ امیروں اور دولت مندوں نے نفس پرستی کے لیے عیش وعشرت کے بے شمار طریقے اور سامان ایجاد کر دیے ہیں جن کو دیکھ دیکھ کر اوسط اور ادنیٰ درجہ کے لوگ بھی ان کی رِیس کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے اسباب عیش لوگوں کے لیے لوازم حیات بن گئے ہیں اور لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ان چیزوں کے بغیروہ کسی طرح جی ہی نہیں سکتے۔ اس چیز نے معاشرت کے معیار کو اتنا بلند کر دیا ہے کہ ایک قلیل المعاش آدمی کے لیے اپنے ہی نفس کے تمام مطالبات کو پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے کجا کہ وہ بیوی اور اولاد کی ضروریات کا بھی کفیل ہو سکے۔{ FR 7087 }
عورتوں میں تعلیم، آزادی اور مردوں کے ساتھ آزادانہ اختلاط نے ایک نئی ذہنیت پیدا کر دی ہے جو فطری وظائف سے ان کو روز بروز منحرف کرتی چلی جا رہی ہے۔ وہ گھر کی خدمت اور بچوں کی پرورش کو ایک گھنائونا کام سمجھتی اور اس سے جی چراتی ہیں۔ ان کو دنیا کی ہر چیز سے دلچسپی ہے مگر نہیں ہے تو گھر اور اس کے کام کاج اور بچوں کی نگہداشت سے۔ بیرون خانہ کے لطف چھوڑ کر اندرون خانہ کی کلفتیں برداشت کرنا وہ حماقت سمجھنے لگی ہیں۔ مردوں کے لیے جاذب نظر بننے کے لیے وہ لاغر انداز، نرم ونازک، حسین اور جوان بنی رہنا چاہتی ہیں۔ ان اغراض کے لیے وہ زہریلی دوائیں تک کھا کرجان دے سکتی ہیں۔{ FR 7088 } مگر بچے جن کر صحت خراب کرنا پسند نہیں کرتیں۔ کروڑہا روپیہ اپنے بنائو سنگھار اور اپنے لباس پر خرچ کر سکتی ہیں مگر بچوں کی پرورش کے لیے ان کے بجٹ میں گنجائش نہیں نکلتی۔
تہذیب وتمدن نے انتہا درجہ کی نفس پرستی پیدا کر دی ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لذت حاصل کریں مگر اس لذت کے ساتھ جو نتائج اور ذمہ داریاں فطرت نے مقرر کی ہیں ان سے بچے رہیں۔ زمانۂ حمل اور اس کے بعد بچوں کی پرورش سے اپنے عیش کو کَرکَرا کرنا انھیں ناگوار ہوتا ہے۔
بچوں کی تعلیم وتربیت اور آئندہ زندگی میں ان کے لیے کامیابی کے مواقع پیدا کرنے کی خاطر بہت سے لوگ (خصوصاً متوسط طبقے والے) ضروری سمجھتے ہیں کہ ایک دو بچوں سے زیادہ پیدا نہ کریں۔ ان کے معیار اور تخیلات اتنے بلند ہو گئے ہیں کہ ان کے وسائل معاش ان کے تخیلات کا ساتھ نہیں دے سکتے، اور ایسے بلند تخیلات کے مطابق زیادہ بچوں کو پرورش کرنا، تعلیم دلوانا اور زندگی میں اچھے آغاز (start) کے مواقع بہم پہنچانا ان کے لیے محال ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ تمدن نے ذرائع تعلیم وتربیت کو نہایت گراں قیمت بھی کر دیا ہے۔
دَہریت نے لوگوں کے دلوں سے خدا کا خیال ہی مٹا دیا ہے، کجا کہ وہ اس پر بھروسہ کریں اور اس کی رزَّاقی پر اعتماد رکھیں۔ وہ صرف اپنے موجودہ ذرائع ہی پر نظر رکھتے ہیں اور خود اپنے آپ کو اپنا اور اپنی اولاد کا رازق سمجھتے ہیں۔
یہ اسباب ہیں جن سے مغربی ممالک میں ضبط ولادت کی تحریک کو اس قدر تیزی اور وسعت کے ساتھ فروغ حاصل ہوا۔ اگر آپ ان اسباب پر غور کی نظر ڈالیں گے تو معلوم ہو گا کہ اہل مغرب نے پہلے خود ہی غلطی کی کہ اپنے تمدن ومعاشرت اور نظام معیشت کو سرمایہ داری، مادیت اور نفس رستی کی غلط بنیادوں پر تعمیر کیا۔ پھر جب یہ تعمیر اپنے کمال کو پہنچ کر اپنے برے نتائج ظاہر کرنے لگی تو انھوں نے اس پر دوسری حماقت یہ کی کہ اس ظاہر فریب نظام معیشت ومعاشرت اور طرز تہذیب وتمدن کو علیٰ حالہٖ برقرار رکھ کر اس کے ثمرات سے بچنے کی کوشش کی۔ اگر وہ عقل مند ہوتے تو ان اصل خرابیوں کو تلاش کرتے جن کی بدولت زندگی میں ان کے لیے یہ دشواریاں پیدا ہوئی تھیں اور اپنی زندگی میں ان کی اصلاح کے لیے کوشش کرتے لیکن انھوں نے اصلی خرابیوں کو سمجھا ہی نہیں اور اگرسمجھا بھی تو یہ ظاہر فریب تہذیب ومعاشرت ان کے لیے اس قدر خوشنما ہو چکی تھی کہ انھوں نے اس کو کسی صالح تر نظام حیات سے بدلنا پسند نہ کیا۔ برعکس اس کے انھوں نے چاہا کہ اس تہذیب وتمدن اور اس نظام معیشت ومعاشرت کو جوں کا توں قائم رکھ کر اپنی زندگی کی دشواریوں کو دوسرے طریقوں سے حل کریں۔ اس تلاش وتجسس میں ان کو سب سے زیادہ آسان طریقہ یہی نظر آیا کہ اپنی نسلوں کو بڑھنے سے روک دیں تاکہ اپنے وسائل معاش اور اسباب عیش سے بلاشرکت غیرے لطف اٹھانے کا موقع مل جائے اور آئندہ نسلیں ان کے ساتھ حصہ بَٹانے اور ان کی زندگی کو غیر مفید اور بے لطف ذمہ داریوں سے گرانبار کرنے کے لیے پیدا ہی نہ ہوں۔
\ \ \
نتائج
اب ایک نظر اس تحریک کے ان نتائج پر بھی ڈال لیجیے جو گزشتہ سو (100) سال میں عملی تجربہ سے ظاہر ہوئے ہیں۔ ایک صدی کی مدت ایک ایسی تحریک کے حسن وقبح کا اندازہ کرنے کے لیے بالکل کافی ہے جس کو مختلف ملکوں اورقوموں میں اس قدر کثرت کے ساتھ اشاعت نصیب ہوئی ہو اور جس کے نتائج کی بار بار تحقیق کی جا چکی ہو۔
برتھ کنٹرول کرنے والے ممالک میں انگلستان اور امریکہ کو نمونے کے ممالک کی حیثیت سے لیجیے، کیونکہ ہمارے پاس دوسرے ممالک کی بہ نسبت ان کے متعلق زیادہ ذرائع معلومات ہیں اور حالات کے اعتبار سے بھی انگلستان وامریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں کچھ زیادہ فرق بھی نہیں ہے۔
(1) طبقات کا عدم توازن
انگلستان کے رجسٹرار جنرل کی رپورٹوں اور نیشنل برتھ ریٹ کمیشن کی تحقیقات اور آبادی کے رائل کمیشن کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ برتھ کنٹرول کا رواج سب سے زیادہ اعلیٰ اور اوسط طبقہ میں ہے۔ زیادہ تر اچھی تنخواہیں پانے والے کارکن، اعلیٰ تعلیم یافتہ کاروباری لوگ، متوسط طبقہ کے ذی حیثیت لوگ اور دولت مند اُمراء، تُجّار اور کارخانہ دار اس تحریک پر عامل ہیں۔ رہے ادنیٰ طبقوں کے مزدور اورکام پیشہ، تو ان میں برتھ کنٹرول کا رواج، بمنزلہ صفر ہے۔ نہ اُن کے معیار زندگی زیادہ بلند ہوئے ہیں۔ نہ اُن کے دلوں میں اونچے حوصلے ہیں اور نہ اُن میں دولت مندوں کی شان دار معاشرت اختیار کرنے کی ہَوَس ہے۔ سب سے زیادہ یہ کہ ان کے ہاں ابھی تک وہی قدیم دستور جاری ہے کہ مرد کمائے اور عورت گھر کا انتظام کرے۔ یہی وجہ ہے کہ معاش کی قلت، وسائل زندگی کی گرانی اور مکانات کی تنگی کے باوجود وہ ضبط ولادت کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ ان میں شرح پیدائش چالیس فی ہزار کے قریب ہے۔ اس کے برعکس اعلیٰ اور اوسط طبقوں میں شرح پیدائش اتنی کم ہو گئی ہے کہ انگلستان کی مجموعی شرح پیدائش 1955ء میں صرف3. 5فی ہزار تھی۔ جسمانی محنت کرنے والوں کے خاندان بڑے بڑے ہیں اور تازہ ترین اعداد وشمار کی رو سے جن جوڑوں کی شادی 1900ءاور 1930ءکے درمیان ہوئی تھی ان میں اوسطاً مزدوروں کے خاندان کم از کم چالیس فیصدی بڑے ہیں۔{ FR 7089 }
امریکی ماہر آبادی پروفیسر وارن تھامپسن انگلستان، امریکہ، جرمنی، فرانس اور سویڈن کی آبادی کی طبقاتی تقسیم کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے:
’’اگر آبادی کی تقسیم جسمانی محنت کرنے والوں اور سفید کالر والے ملازموں کے درمیان کی جائے تو پہلے گروہ کی باروَری (fertility) زیادہ ہے۔ اگر جسمانی محنت کاروں کو بھی کسانوں اور باقی مزدوروں میں تقسیم کیا جائے تو کسانوں کی باروَری زیادہ ہے۔ غیر زرعی محنت کاروں میں اس مزدور کا خاندان بڑا ہے جو فنی مہارت نہیں رکھتا اور جس کا کام سخت اور گندہ ہے اور جس کا معیار زندگی پست تر ہے… اور جب تعلیم کومعیار بنایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کم تعلیم یافتہ لوگوں کے خاندان بڑے ہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے چھوٹے اور مختصر ہیں۔‘‘{ FR 7090 }
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ضبط ولادت پر عمل کرنے والی سوسائٹی میں جسمانی محنت کرنے والے طبقے بڑھ رہے ہیں اور ان لوگوں کی تعداد روز بروز گھٹتی چلی جا رہی ہے جو عقلی وذہنی مرتبے کے لحاظ سے بلند درجہ رکھتے ہیں، جن میں کارفرمائی ورہنمائی کی صلاحیت ہے۔ یہ چیز آخر کار ایک قوم کے زوال کی مُوجِب ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اس کا لازمی نتیجہ قحط الرجال ہے اور قحط الرجال کے بعد کوئی قوم دنیا میں سربلند نہیں رہ سکتی۔
باصلاحیت طبقات کی کمی، عام ذہنی اور عقلی معیار کی پستی، اور قحط الرجال، یہ وہ خطرات ہیں جن سے ضبط ولادت پر عمل کرنے والے ممالک آج دوچار ہو چکے ہیں اور اس صورت حال سے ان کے مفکرین بے حد پریشان ہیں۔ الڈس ہکسلے (Aldous Huxley) اپنی تازہ ترین کتاب (Brave New World Revisited) میں کہتا ہے کہ ہمارے اعمال کی بنا پر اب یہ اَمر بالکل یقینی ہوتا جا رہا ہے کہ ہماری تعداد میں جو اضافہ ہو وہ حیاتیاتی نقطۂ نظر سے پست معیار کا ہو۔{ FR 7091 } مستقبل کے بارے میں یہی مصنف کہتا ہے:
’’نئی دوائوں اور اعلیٰ تر طریق علاج کے باوجود (اور کچھ حالات میں تو انھی کی وجہ سے) عام آبادی کے عمومی معیار صحت میں نہ صرف یہ کہ کوئی اضافہ نہیں ہو گا بلکہ کمی ہی واقع ہو گی اور صحت کا معیار گرنے کے ساتھ عام ذہنی معیار کی پستی بھی واقع ہو گی۔‘‘{ FR 7092 }
ہکسلے ایک ماہر حیاتیات ڈاکٹر شیلڈن کی یہ رائے بھی نقل کرتا ہے:
’’بحالت موجودہ بہترین طبقہ کے مقابلہ میں کمتر اور ادنیٰ تر طبقہ زیادہ تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ تناسل انسانی کے سلسلہ میں یہ غلطی اور کجروی (delinquency) ایک حیاتیاتی اور بنیادی حقیقت ہے۔‘‘{ FR 8131 }
شیلڈن یہ بھی بتاتا ہے کہ امریکہ میں طبی تجربات سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی ہے کہ1916ء کے مقابلہ میں عام ذہانت کا معیار اب فروتر ہے۔
انگلستان کے مشہور مفکر برٹرینڈرسل (Bertrand Russel) نے بھی اس حالت پر بڑی تشویش کا اظہار کیا ہے (اور یہ ایک دلچسپ معاملہ ہے کہ رسل اور ہکسلے دونوں ضبط ولادت کے…خصوصیت سے مشرقی ممالک میں اس کی ترویج کے …بڑے پرزور حامی ہیں) رسل لکھتا ہے:
’’فرانس میں آج آبادی عملی طور پر بالکل ٹھیری ہوئی (stationary) ہے (یعنی ایک حالت پر قائم ہے) اور انگلستان میں بڑی تیزی کے ساتھ اس حالت میں آ رہی ہے۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ کچھ طبقات میں کمی آ رہی ہے اور کچھ دوسرے طبقات بڑھ رہے ہیں اور اب جب تک کوئی بنیادی تبدیلی واقع نہ ہو، ہو گا یہ کہ جو طبقے کم ہو رہے ہیں وہ عملاً معدوم ہو جائیں گے اور آبادی صرف ان طبقوں پر مشتمل رہ جائے گی جو بڑھ رہے ہیں۔ جو طبقے کم ہو رہے ہیں وہ ہنر مند کاریگروں اور متوسط لوگوں پر مشتمل ہیں اور جو بڑھ رہے ہیں وہ غریب، جمود زَدَہ، بدمست اور کند ذہن لوگ ہیں۔ جو طبقات روز بروز کم ہو رہے ہیں ان میں سب سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ معدوم ہونے والے وہی ہیں جو ذہنی اعتبار سے سب سے بلند ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری ہر نسل میں سے اس کا بہترین عنصر نکل جاتا ہے اور مصنوعی طور پر بانجھ کردیا جاتا ہے۔ کم از کم ان لوگوں کے مقابلہ میں جو باقی رہ جاتے ہیں۔‘‘{ FR 7093 }
رسل اس کے خطرناک اثرات کو وضاحت کرنے کے لیے مزید رقمطراز ہے کہ:
’’اگر انگلستان کی آبادی میں سے بچوں کا ایک عام نمونہ (sample){ FR 7094 } لیا جائے اور پھر ان کے والدین کے حالات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہو گا کہ فہم، قوت، عقل اور روشن خیالی میں وہ ملک کی عام آبادی کے معیار سے کم تر ہوں گے اور بے عملی، کند ذہنی، حماقت اور توہم پرستی میں اس سے بڑھ چڑھ کر۔ ہمیں اس سے یہ بھی معلوم ہو گا کہ جو سمجھدار، باعمل، ذہین اور روشن خیال ہیں وہ اپنی تعداد کے برابر تعداد تک کو جنم نہیں دے سکتے، یعنی دوسرے الفاظ میں بالعموم ان کے ہاں اوسطاً دو بچے بھی زندہ نہیں رہتے۔ اس کے مقابلہ میں وہ جو برعکس صفات سے متصف ہیں اور مندرجہ بالا اعلیٰ صفات کے عین ضد ہیں ان کے ہاں دو سے زیادہ بچے ہوتے ہیں اور وہ تناسل کے ذریعے اپنی تعداد برابر بڑھا رہے ہیں۔‘‘{ FR 7095 }
پھر اس تبدیلی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے رسل کہتا ہے کہ آبادی کے بہترین عناصر میں جو غیر معمولی کمی واقع ہو رہی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ:
(۱) انگریز، فرانسیسی اور جرمن افراد کی تعداد برابر کم ہو رہی ہے۔
(ب) اس کمی کی وجہ سے ان اقوام پر کم مہذب اقوام کی بالادستی قائم ہو رہی ہے اور ان کی اعلیٰ روایات معدوم ہوتی جا ری ہیں۔
(ج) خود ان اقوام میں اضافہ نچلے طبقے میں ہو رہا ہے اور جن عناصر کی تعداد بڑھ رہی ہے وہ دُور اندیشی اور ذہانت سے عاری ہیں۔
اسی سلسلے میں برٹرینڈرسل موجودہ حالات کا مقابلہ تہذیب روما سے کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے زوال میں بھی کچھ ایسے ہی عوامل کا ہاتھ تھا۔
’’دوسری، تیسری اور چوتھی صدی عیسوی میں سلطنت روما کے اندر قوت کارکردگی اور ذہانت کا جو انحطاط رونما ہوا تھا وہ ہمیشہ ناقابل فہم رہا ہے لیکن یہ رائے قائم کر لینے کے لیے قوی بنیادیں موجود ہیں کہ اس زمانہ میں بھی وہی کچھ ہوا تھا جو آج خود ہماری تہذیب میں ہو رہا ہے، یعنی رومیوں کی ہر پشت (generation) میں ان کے بہترین عناصر اپنی مساوی تعداد کو جنم دینے میں ناکام ہوتے رہے اور آبادی کی افزائش ان عناصر کے ذریعہ سے ہوتی رہی جن کی قوت عمل کم تھی۔‘‘{ FR 7096 }
ان تمام مباحث کے بعد رسل جیسا مفکر بھی جو ضبط ولادت کا حامی ہے، اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ:
’’یہ ناقابل انکار ہے کہ اگر ہمارا موجودہ معاشی نظام اور ہمارے اخلاقی معیارات تبدیل نہیں ہوتے تو آئندہ دو تین پشتوں میں تمام مہذب ممالک کی آبادی کے کردارمیں خراب ترین تبدیلی بڑی تیزی کے ساتھ آئے گی اور مہذب ترین لوگوں کی تعداد میں مؤثر کمی واقع ہو گی… اگر ہم اس نتیجے سے بچنا چاہتے ہیں تو ہم کو شرح پیدائش میں اپنی مروجہ منحوس انتخابیت{ FR 7097 }(selectiveness) کو کسی نہ کسی طرح ختم کرنا ہو گا۔‘‘
اس طرح ضبط ولادت کی بدولت ایک طرف تو ملک کا طبقاتی توازن درہم برہم ہو جاتا ہے اور کار فرما عنصر آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتا ہے۔ دوسری طرف اس کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آبادی میں بچوں اور بوڑھوں کا تناسب بگڑ جاتا ہے اور اس کے معاشی وتمدنی اثرات بڑے دور رس اور بڑے پریشان کن ہوتے ہیں۔ بچوں کی تعداد اور کل آبادی میں ان کا تناسب کم اور بوڑھوں کی تعداد اور ان کا تناسب زیادہ ہوتے چلے جانے سے قوم میں نیا خون اپنی فطری رفتار سے نہیں آتا۔ بچوں کی کمی کی وجہ سے محض اشیائے صرف کی مانگ (demand) ہی متاثر نہیں ہوتی بلکہ پوری قوم میں حرکت اور عملیت کی جگہ جمود اور کاہلی راہ پانے لگتی ہے۔ خطرہ انگیز کرنے اور سردھڑ کی بازی لگا دینے کا جذبہ کم ہوتا جاتا ہے اور قوم کا بڑا حصہ لکیر کا فقیر بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ چیز رفتہ رفتہ ایک قوم کوعلم، معیشت، سائنس اور دوسرے میدانو ں میں ان قوموں سے بہت پیچھے کر دیتی ہے جن میں نئی نسل کی افزائش فطری رفتار سے ہوتی رہتی ہے اور نوجوانوں کی کثیر تعداد پوری قوم میں امنگوں کو بلند اور عزائم کو راسخ رکھتی ہے۔
مغربی ممالک میں ضبط ولادت کی بدولت جس رفتار سے بچوں اور نوجوانوں کا تناسب برابر کم ہو رہا ہے اور بوڑھوں کا تناسب بڑھ رہا ہے اس کے فطری اثرات ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں جنھیں آج ہر صاحب نظر بچشم سَر دیکھ سکتا ہے۔ گزشتہ70 سال میں جو رجحان سامنے آیا ہے وہ یہ ہے:{ FR 7576 }
آبادی میں عمر کا تناسب
ملک
سال
10 سال سے کم عمر کے بچے
10 سے19 سال
50 سے64 سال
64 سال سے زیادہ
انگلستان اور ویلز
1880ء
1950ء
%25.7
%15.5
%20.6
%12.4
%9.8
%16.8
%4.6
%10.9
جرمنی
1880ء٭
1950ء
%25.1
%14.5
%19.7٭٭
%16.3
%8.1
%16.4
%7.9
%9.3
فرانس
1881ء
1946ء
%18.3
%14.1
%17.1
%15.7
%14.5
%16.4
%8.0
%11.0
امریکہ
1880ء
1950ء
%26.7
%19.5
%21.4
%14.4
%8.4
%14.3
%3.4
%8.1
ان تمام ممالک میں بلا استثناء آبادی کی اندرونی تشکیل میں یہی تغیر واقع ہو رہا ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ نے آبادی کی پیرانہ سالی کے اس رجحان پر ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی ہے جس میں اس امر پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔{ FR 7098 } اس رپورٹ کے فراہم کردہ اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ آبادی میں 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کے تناسب میں 1900ء اور1950ء کے درمیان غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اگر 1900ئ کو 100فرض کرلیا جائے تو 1950ئ میں مختلف ممالک میں تناسب کا انڈکس یہ تھا:
ملک
تناسب
ملک
تناسب
نیوزی لینڈ
236
امریکہ
200
برطانیہ
231
جرمنی
190
آسٹریا
212
بیلجئم
173
فرانس
144
رپورٹ میں اس امر کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ تناسب کو تبدیل کرنے میں بڑا دخل باروری اور شرح پیدائش کی تبدیلی کو ہے۔ اس سلسلہ میں شرح اموات کی تبدیلی اتنی مؤثرنہیں رہی ہے جتنی شرح پیدائش کی تبدیلی۔{ FR 7107 }
مغربی ممالک میں بوڑھوں اور بچوں کا تناسب بگڑنے پر پروفیسر تھامپسن بڑی تشویش کااظہار کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے:
’’یہ حقیقت (یعنی بوڑھوں کی تعداد کا بڑھنا)بہت معنی خیز اور مؤثر ہے کیونکہ پیرانہ سال افراد کی زیادتی کے معنی یہ ہیں کہ شرح اموات بڑھے گی اور شرح پیدائش میں کمی ہو گی، نیز بوڑھے لوگ نوجوانوں کے مقابلہ میں معاشی حیثیت سے کم مفید اور پیدآور (productive) ہوتے ہیں۔{ FR 7108 }
معیشت کی صحت مند بنیادوں پر ترقی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بوڑھوں اور جوانوں میں ایک خاص تناسب قائم رہے تاکہ تمدن کی گاڑی کھینچنے والے مضبوط ہاتھ کبھی کمزور نہ پڑنے پائیں۔ قدرت نے اس کا پورا پورا بندوست کیا ہے۔ لیکن ضبط ولادت کی وجہ سے قدرت کے کام میں جو مداخلت کی جاتی ہے اس کی بدولت یہ فطری توازن بگڑ جاتا ہے۔ بوڑھوں کی تعداد تو برابر بڑھتی رہتی ہے لیکن بچوں میں مناسب رفتار سے اضافہ نہیں ہو سکتا اور تناسب برابر ناموافق ہوتا جاتا ہے۔ اس کا آخری نتیجہ کارکنوں کی قلت اور قومی طاقت کا زوال اور معاشی قوت کی کمی ہے۔ پھر جب نوجوانوں کے تناسب میں کمی کے ساتھ ساتھ کار فرما عناصر کی قلت اور قحط الرجال بھی شامل ہوجاتے ہیں تو آخر کار ایک قوم حاکم سے محکوم بن جاتی ہے اور سربلندی وسرفرازی کے مقام سے گر کر کمزوری اور باجگزاری کے درجہ پر پہنچ جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فطرت اپنے باغیوں کو کم ہی معاف کرتی ہے۔ خود اس کی بغاوت ہی کے اندر ایسے مضمرات موجود ہوتے ہیں جو بالآخر اس جرم کی سزا کا کام انجام دے ڈالتے ہیں اور دوسروں کے لیے عبرت کا سامان فراہم کر دیتے ہیں۔ فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَارِ۔
(2) زنا اور امراضِ خبیثہ کی کثرت
ضبطِ ولادت سے زنا اور امراض خبیثہ کو بڑا فروغ نصیب ہوا ہے۔ عورتوں کو خدا کے خوف کے علاوہ دو چیزیں اخلاق کے بلند معیار پر قائم رکھتی ہیں۔ ایک ان کی فطری حیا۔ دوسرے یہ خوف کہ حرامی بچہ کی پیدائش ان کو سوسائٹی میں ذلیل کر دے گی۔ان میں سے پہلی روک کو تو جدید تہذیب نے بڑی حد تک دور کر دیا۔ رقص وسرود، نائٹ کلبس اور شراب نوشی کی محفلوں میں مردوں کے ساتھ آزادانہ شرکت کے بعد حیا کہاں باقی رہ سکتی ہے۔ رہا حرامی اولاد کی پیدائش کا خوف، تو ضبط ولادت کے رواج عام نے اس کو بھی باقی نہ رکھا۔ اب عورتوں اور مردوں کو زنا کا عام لائسنس مل گیا ہے اور زنا کی کثرت کے ساتھ امراضِ خبیثہ کا ہونا ضروری ہے۔
انگلستان کا حال یہ ہے کہ ہر سال وہاں 80000 سے زیادہ ناجائز بچے پیدا ہوتے ہیں۔ ڈیوسیز ان کانفرنس (Diocesan Conference) { FR 7602 }کی رپورٹ کی رو سے 1946ء میں ہر آٹھ میں سے ایک بچہ ناجائز تھا اور ہر سال تقریباً ایک لاکھ عورتیں دائرہ نکاح کے باہر حاملہ ہوتی تھیں۔ ڈاکٹر آزوالڈ شوارز (Oswald Schwarz) لکھتا ہے:
’’ہر سال اوسطاً 80 ہزار عورتیں ناجائز اولاد کو جنم دیتی ہیں (یعنی تمام زچگیوں کا3/1 ) محتاط اندازے کے مطابق ہر دس میں سے ایک عورت شادی کے باہر تعلق قائم کرتی ہے۔ اس فہرست میں جو عورتیں شامل ہیں ان میں سے 40 فیصدی کی عمر ناجائز ولادت کے وقت 20 سال سے کم، 30 فیصدی کی 20 سال اور 20 فیصدی کی 21 سال تھی۔ یہ اعداد وشمار بجائے خود بڑے پریشان کن ہیں لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ صرف ان معاملات کے اعداد وشمار ہیں جن میں کچھ نہ کچھ خرابی پیدا ہو گئی تھی (یعنی ضبطِ ولادت کی ساری تدبیروں کے باوجود جن میں حمل ٹھہرنے کا حادثہ پیش آ گیا)اس کے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ دراصل ہو رہا ہے یہ اعداد اس کے صرف ایک چھوٹے سے حصے ہی کو پیش کرتے ہیں۔{ FR 7109 }
ڈاکٹر شوارز کے پیش کردہ اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر10 میں سے ایک عورت گناہ سے ملوث ہے لیکن تازہ ترین معلومات اس سے بھی گھنائونی صورت حال کو پیش کرتی ہیں۔ چیسر رپورٹ (Chesser Report) جو 1956ء میں شائع ہوئی ہے اور جسے 6000خواتین سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے۔ یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہر تین میں سے ایک خاتون نکاح سے پہلے ہی جوہر عصمت کھو چکی ہوتی ہے۔{ FR 7110 } اس کی توثیق ڈاکٹر چیسر اپنی حالیہ کتاب ’’کیا عِصمت از کار رفتہ ہے؟‘‘ میں بھی کرتا ہے۔{ FR 7111 }
امریکہ کے متعلق کنزے رپورٹ (Kinsey Report) سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں زنا اور دوسرے جنسی جرائم کی اتنی افراط ہے کہ معاشرہ کی بنیادیں ہل گئی ہیں۔ مردوں میں سے 47فیصدی اور عورتوں میں سے 50 فیصدی بلا تکلف ناجائز تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں۔ { FR 7112 }
مشہور مورٔخ اور ماہر عمرانیات ڈاکٹر سوروکن مندرجہ ذیل اعداد وشمار پیش کرتا ہے اور اس صورت حال پر خون کے آنسو بہاتا ہے۔:
نکاح سے قبل جنسی تعلق
عورتیں:7سے 50 فیصد
مرد:27 سے 87 فیصد
نکاح کے بعد ناجائز تعلقات
عورتیں: 5 سے26 فیصد
مرد:10 سے45 فیصد
ناجائز اولاد
1927ء ہر1000 میں 28
1947ء ہر1000 میں 38.7
اسقاط سالانہ
33300سے 1000000تک
’’اور اس کا مظہر یہ حقیقت ہے کہ مانعِ حمل دوائوں اور آلات (contraceptives) کی فروخت میں اضافہ آج آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔‘‘
اس کے بعد سوروکن کہتا ہے:
’’شاید اس کی ضرورت نہیں کہ ہم یہ بھی بتائیں کہ اس آزاد شہوت رانی کے کیا ہمہ گیر اثرات ونتائج فرد، سماج اور پوری قوم پر مترتب ہو رہے ہیں۔ خواہ اس کا نام ’’جنسی آزادی، رکھ دو یا جنسی انار کی‘‘ ’’یہ حقیقت تو نہیں بدل سکتی کہ اس روش کے نتائج ان تمام انقلابات کے نتائج سے بھی زیادہ دور رس ہیں جن کا مشاہدہ آج تک چشم تاریخ نے کیا ہے۔‘‘{ FR 7113 }
کنزے کے اندازے کے مطابق امریکہ میں ناجائز بچوں کا تناسب پانچ میں ایک ہے:۔ غیر بیاہی مائوں سے ہونے والی اولاد کا تناسب چار فیصد ہے۔ اس کے علاوہ اسقاط حمل کے متعلق کچھ قابلِ اعتماد اندازے یہ ہیں کہ ہر چار میں سے ایک حمل ضائع کر دیا جاتا ہے بلکہ سان فرانسسکو کے متعلق تو ٹائم میگزین کے بقول 1945ء میں 400،16 ولادتوں کے مقابلہ میں 18000 اسقاط ہوئے۔ { FR 7114 }
اسی طرح اگر جرائم… خصوصیت سے جنسی جرائم… کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ انگلستان میں پولیس کے نوٹس میں جو قابلِ دست اندازیِ پولیس جرم آئے ہیں ان میں مندرجہ ذیل رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ { FR 7115 }
1938ء
2,83,000
1955ء
4,38,000
اسی زمانے میں جنسی جرائم کا تناسب کل جرائم میں 7. فیصد سے بڑھ کر3. 6فیصد ہو گیا ہے۔{ FR 7116 } امریکہ کے متعلق فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن (F.B.I) کے فراہم کردہ اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ 39۔1937ء کی بہ نسبت 1955ء میں زناکاری ساٹھ فیصدی بڑھ گئی ہے۔ دوسرے جرائم میں بھی 5فیصدی سے 80 فیصدی تک اضافہ ہوا ہے۔{ FR 7117 } اگر تمام اہم اور بڑے جرائم کو لیا جائے تو 1958ء میں 23 لاکھ سے زیادہ واقعات پولیس کے نوٹس میں آئے جبکہ 1940ء میں یہ تعداد صرف15 لاکھ تھی۔{ FR 7118 } نوجوانوں کی آوارگی بھی روز افزوں ہے۔ امریکہ کے 1473 شہروں میں 1957ء میں جو2098000 افراد مختلف جرائم کے سلسلہ میں گرفتار ہوئے ان میں سے 2053000افراد اٹھارہ سال سے کم عمر کے تھے۔ { FR 7119 }
جنسی آزادی سے پیدا ہونے والی بیماریاں بھی برابر فروغ پا رہی ہیں اور علاج کے بہترین مواقع فراہم ہونے کے باوجود ان بیماریوں کا اثر قومی صحت پر بڑا تباہ کن ہے۔ اگر صرف آتشک (syphilis) ہی کو لیا جائے تو امریکہ کے سرجن جنرل آف پبلک ہیلتھ سروس مسٹر تھامس پیرن (Thomas Paran) کے بقول یہ خبیث مرض فالج اطفال کے مقابلہ میں سو گناہ زیادہ تباہی کا باعث ہے اور امریکہ میں اس وقت سرطان، تپ دق، اور نمونیہ کے برابر خطرناک ہے۔ ہر چار میں سے ایک موت بلاواسطہ یا بالواسطہ آتشک ہی کی بنا پر واقع ہو رہی ہے۔ پروفیسر پال لینڈس ڈاکٹر پیران کی رائے نقل کرنے کے ساتھ ہی ہم کو بتاتے ہیں :
’’1947ء کے بعد نئی دوائوں کے فروغ اور استعمال کی وجہ سے امراض خبیثہ میں کمی واقع ہو رہی تھی لیکن 1955ء سے پھر اُلٹی رَو چل پڑی ہے۔ امریکہ کے تمام بڑے شہروں میں آتشک اور سوزاک (gonorrhea) کے امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور ان بیماریوں کا سب سے زیادہ اضافہ نوجوانوں میں ہو رہا ہے جن کی عمر بیس سال سے کم ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بیماریوں کی نصف تعداد نوجوانوں کے اسی گروہ میں پائی جاتی ہے۔‘‘ { FR 7120 }
اگست 1961ء کے ریڈرز ڈائجسٹ میں جارج کینٹ (Kenneth) اور ولفرڈ گریٹوریکس (Wilfred Greatorex) کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ برطانیہ کے بڑے شہروں، مثلاً لندن، برمنگھم، لور پول وغیرہ میں امراض خبیثہ از سر نو بڑے زور سے پھیل رہے ہیں۔ نئی جراثیم کُش دوائوں کی بدولت کچھ مدت تک ان امراض کو دبانے میں جو کامیابی ہوئی تھی وہ ناکامی میں بدل چکی ہے۔ 1956ء سے1959ء تک چار برس کی مدت میں مختلف اقسام کے امرا ض خبیثہ کے اندر 20 فیصدی اضافہ ہو چکا ہے۔1959ء میں صرف سوزاک کے نئے مریض 31,000 تھے، یعنی 1955ء کے مقابلہ میں 70 فیصدی اضافہ اور یہ اعداد صرف ان بیماروں کے ہیں جو امراض خبیثہ کا علاج کرنے والے مخصوص مراکز میں آئے ہیں جو مریض عام پریکٹس کرنے والے ڈاکٹروں اور پرائیویٹ ماہرین کے پاس جاتے ہیں، یا جو سرے سے علاج کے لیے جاتے ہیں نہیں، وہ اس تعداد میں شامل نہیں ہیں۔ پھر وہ بتاتے ہیں کہ امراض خبیثہ کی یہ وبا بڑے پیمانے پر ساری قوم میں پھیل رہی ہے اور اس کا سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ20 سال سے کم عمر کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں اس کا زور بڑھ رہا ہے۔ حال ہی میں چند ڈاکٹروں نے 1948ء سے اب تک کے اعداد وشمار کامقابلہ کرکے یہ رپورٹ دی ہے کہ 18سے 19 سال تک کی عمر کے نوجوانوں میں ایک سال کے اندر لڑکوں کے سوزاک کی تعداد 36 فیصدی اور لڑکیوں کے سوزاک کی تعداد 28 فیصدی بڑھ گئی۔ برطانیہ کی مرکزی کونسل برائے تعلیم صحت کے ڈائریکٹر اے جے ڈیلزل وارڈ (Dalzell Ward) کا اندازہ ہے کہ20 سال سے کم عمرکے لوگوں میں امراض خبیثہ کی یہ کثرت اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ لندن کے صرف ایک ہسپتال میں بیک وقت اس عمر کے 490 مریض موجود تھے۔ لورپول میں امراض خبیثہ کے مریضوں کی نصف تعداد 14 سے 21 سال تک کی عمر کی تھی۔
کم وبیش یہی حالت دوسرے ملکوں کی بھی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک حالیہ کانفرنس میں سولہ ملکوں کی طرف سے یہ رپورٹ پیش کی گئی تھی کہ ان کے ہاں آتشک اور سوزاک ایک خوفناک وبا کی طرح پھیل رہے ہیں۔ اٹلی میں 1958ء اور1959ء کے درمیان آتشک کے مریض تین گنا زیادہ ہو گئے اور ڈنمارک میں دوگنے۔
یہ حالات صاف بتا رہے ہیں کہ ضبطِ ولادت نے جدید دنیا کی اجتماعی زندگی میں گناہ کا جو دروازہ کھولا ہے اس سے زنا، جنسی جرائم اور امراض خبیثہ کے عفریت دندناتے ہوئے داخل ہو رہے ہیں اور انھوں نے پورے سماج کو اپنی تباہ کاریوں کی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
(3) طلاق کی کثرت
ضبط ِ ولادت بھی ان اسباب میں سے ایک ہے جنھوں نے مغربی ممالک میں ازدواجی تعلقات کی بندشوں کو کمزور کر دیا ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان زوجی تعلق کو مضبوط کرنے میں اولاد کا بہت بڑا حصہ ہوتا ہے۔ جب اولاد نہ ہو گی تو زوجین کے لیے ایک دوسرے کو چھوڑ دینا بہت آسان ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں طلاق کا رواج کثرت سے پھیل رہا ہے اور طلاق حاصل کرنے والوں میں بڑی اکثریت ان جوڑوں کی پائی جاتی ہے جو بے اولاد ہیں۔ کچھ عرصہ قبل لندن کی ایک عدالت ِ طلاق میں ڈیڑھ منٹ کے اندر 15 نکاح فسخ کرائے گئے اور بلااستثناء وہ سب کے سب ایسے جوڑے تھے جن کے ہاں اولاد نہ ہوئی تھی۔
ماہرین عمرانیات بالعموم یہ کہہ رہے ہیں کہ کثرت طلاق میں بچوں کے نہ ہونے کا بہت بڑا دخل ہے بلکہ اس پران میں تقریباً اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ ٹالکوٹ پارسنز (Talcott Parsons) واضح اعداد وشمار دے کر اس رائے کا اظہار کرتا ہے کہ:
’’بہت بڑی حد تک طلاقیں شادی کے اولین سالوں میں بے اولاد جوڑوں میں ہوتی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ چاہے زَن وشو پہلے کے مُطلَّقہ ہی کیوں نہ ہوں، جب ایک بار لوگوں کے ہاں اولاد ہونے لگتی ہے تو پھر ان کے متحد رہنے کے امکانات بہت زیادہ ہو جاتے ہیں۔ { FR 7121 }
اس طرح بارنس اور ریوڈی (Barnes & Ruedi)اپنی تحقیقات کا نچوڑ اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’طلاق حاصل کرنے والے جوڑوں میں سے دو تہائی بے اولاد ہیں اور 5 / 1 کے صرف ایک بچہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طلاق اور بے اولاد شادی میں ایک واضح اور بَیّن تعلق ہے۔‘‘{ FR 7122 }
مشہور انگریزی رسالہ سائیکولوجسٹ کی جون 1961ء کی اشاعت میں اس امر کا اعتراف کیا گیا ہے کہ:
’’ایک عام شادی شدہ جوڑے کو صاحبِ اولاد ہونا چاہیے۔ جو لوگ اولاد کو موخر کرتے ہیں بعد میں انھیں اس پر نادم ہونا پڑتا ہے۔ لاولد شادیاں نت نئے مسائل کو جنم دیتی ہیں اور خواہ زوجین ایک دوسرے سے مطمئن ہی ہوں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان پر ایک شدید قسم کی بدمزگی اور بے کیفی مسلط ہو جاتی ہے۔ گویا کہ وہ اپنے سفر کے اختتام پر پہنچ گئے ہیں۔ ماہرین عمرانیات ہمیں برابر متنبہ کر رہے ہیں کہ شرح طلاق ان گھروں میں سے زیادہ ہے جو اولاد سے محروم ہیں۔ اس کی وجہ بہت واضح ہے۔ اس صورت میں ماں اور باپ بننے کی بنیادی فطری اور جبلی خواہش پوری نہیں ہوتی۔ یہ چیز عورت کے معاملہ میں خصوصیت سے بڑی اہم ہے۔ ضبط ِ ولادت سے اس کی مادری جبلت کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے، جس سے اس کا نظام اعصاب پراگندہ ہو سکتا ہے، اس کی صحت تباہ ہو سکتی ہے اور زندگی میں اس کی تمام خوشی اور دلچسپی خاک میں مل سکتی ہے۔‘‘{ FR 7123 }
ڈاکٹر فریڈ مین اور ان کے رفقاء کی تحقیقات بھی اسی نتیجہ کی نشان دہی کرتی ہیں۔ وہ اپنی اور دوسرے لوگوں کی تحقیقات کی بنیاد پر لکھتے ہیں:
’’طلاق کی شرح سب سے زیادہ ان خاندانوں میں ہے جن میں شادی کا نتیجہ اولاد سے محرومی اور بچوں کی تعداد کی کمی ہے۔‘‘{ FR 7124 }
ضبطِ ولادت پر عامل ممالک میں جس رفتار سے طلاق میں اضافہ ہو رہا ہے وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ انگلستان کے متعلق ڈاکٹر آزوالڈ شوارز لکھتا ہے:
’’گزشتہ نصف صدی میں طلاقوں کا سیلاب جس رفتار سے بڑھ رہا ہے اس میں وبا کی سی تیزی اور زہر ناکی پائی جاتی ہے۔ 1914ء میں اس ملک میں 856 طلاقیں واقع ہوئی تھیں۔ 1921ء میں ان کی تعداد3522 ہو گئی۔1928ء میں چار ہزار۔1946ء میں یہ تعداد بڑھ کر35874 تک پہنچ گئی۔ کیا یہ خطرے کی گھنٹی نہیں ہے جو اس امر کی خبر دیتی ہے کہ ہماری تہذیب اخلاقی ترقی کے نقطۂ عروج سے گزر چکی ہے۔‘‘{ FR 7125 }
اگر انگلستان کی عائلی عدالت کے فراہم کردہ اعداد وشمار کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ طلاق کی ڈگریوں کی رفتار یہ تھی۔
سال
تعداد
سال
تعداد
سال
تعداد
1936ء
4057
1939ئ
7955
1947ئ
60754
اس کے بعد طلاق کی رفتار میں کچھ کمی ہوئی جو 1951ء تک جاری رہی۔ 1952ء میں پھر اضافہ ہوا اور اس کے بعد سے نشیب وفراز کا سلسلہ برابر جاری ہے۔{ FR 7126 }
امریکہ کا حال یہ ہے کہ 1890ء میں اگر دس رشتہ ہائے ازدواج کا اِنقطاع موت سے ہوتا تھا تو صرف ایک کا طلاق سے۔ لیکن 1949ء میں یہ تناسب 10:1 سے کم ہو کر1. 58: 1 رہ گیا ہے۔ شادی اور طلاق کا تناسب بھی برابر بگڑ رہا ہے جس کا اندازہ مندرجہ ذیل اعداد وشمار سے ہو سکتا ہے:
سال
طلاق
نکاح
سال
طلاق
نکاح
1870ء
1
7.33
1915ء
1
12.10
1940ء
1
6
1942ء
1
5
1944ء
1
4
1945ء
1
3
1950ء
1
3.4
1958ء
1
7.3
اس کے معنی یہ ہیں کہ 1870ء میں اگر تقریباً 34 شادیاں ہوتی تھیں تو اس کے مقابلے میں ایک طلاق ہوتی تھی۔ مگر اب ہر چار شادیوں میں ایک طلاق ہوتی ہے۔ 1890ء میں 1000 عورتوں میں سے صرف تین مُطلقہ ہوتی تھیں۔ مگر1946ء میں ان کی تعداد17.8 تک پہنچ چکی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مطلقہ خواتین کی تعداد میں تقریبا چھ گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ اسی بنا پر پروفیسر سوروکن کہتا ہے شادی کی تقدیس ماضی کے مقابلہ میں آج بار بار اور پہلے سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ مجروح ہو رہی ہے اور گھر ایک مستقل قیام گاہ ہونے کے بجائے ’’صرف ایک گاڑی ٹھیرانے کی جگہ بن کر رہ گیا ہے جہاں محض ایک رات….. اور یہ بھی ضروری نہیں کہ پوری رات….. قیام کر لیا جائے۔‘‘{ FR 8132 }
طلاق کے ساتھ ساتھ بیویوں کو چھوڑ جانے (desertion) کا مرض بھی برابر بڑھتا جا رہا ہے اور امریکی روز مرہ میں اسے ’’غریب آدمی کا طریقِ طلاق‘‘ (poor-main’s divorce) کہتے ہیں۔ اس وقت امریکہ میں دس لاکھ سے زیادہ خاندان اس حالت میں مبتلا ہیں۔ مردم شماری کی رو سے امریکہ میں دس لاکھ چھیانوے ہزار ’’مفرور بیویاں‘‘ اور پندرہ لاکھ چھبیس ہزار ’’مفرور شوہر‘‘ہیں۔ سوروکن کے اندازہ کے مطابق کل شادی شدہ عورتوں کا تقریباً چار فیصد اس عالم میں ہے اور سرکاری خزانہ سے ان خاندانوں پر تقریباً 270000000 ڈالر سالانہ خرچ ہو رہے ہیں۔{ FR 7128 } طلاقوں اور فرار اور بے وفائیوں کی بنا پر امریکہ کے45000000 لاکھ بچوں میں سے ایک کروڑ 20 لاکھ (25 فیصد سے کچھ زیادہ) بچے والدین کے سائے سے محروم ہیں اور یہی وہ بچے ہیں جن کی وجہ سے نوجوانوں کی آوارگی (Jurenal delinquency) کا مسئلہ امریکہ کے اہم ترین مسائل میں سے ایک بن چکا ہے۔
(۴) شرحِ پیدائش کی کمی
سب سے زیادہ اہم نتیجہ یہ ہے کہ جتنی قومیں اس وقت ضبط ولادت پر عمل کر رہی ہیں ان سب کی شرح پیدائش خوفناک حد تک کم ہو گئی ہے۔ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ اس تحریک کی اشاعت ۱۸۷۶ء سے شروع ہوئی ہے۔ آگے صفحہ ۴۰ پر جو نقشہ دیا جا رہا ہے اس سے آپ کو معلوم ہو گا کہ اس وقت مختلف ممالک کی فی ہزار شرح پیدائش کیا تھی اور اس کے بعد سے کس طرح گھٹتی چلی گئی ہے۔
یہ نقشہ ضبط ِولادت کے نتائج صاف ظاہر کر رہاہے۔ اس تحریک کے آغاز کی تاریخ سے تمام ممالک میں بلا استثناء شرحِ پیدائش کا کم ہونا اور برابر کم ہوتے چلے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر ضبط ِ ولادت اس کی تنہا وجہ نہیں تو ایک بڑی وجہ تو ضرور ہے۔ خود انگلستان کے رجسٹرار جنرل نے تسلیم کیا ہے کہ شرح پیدائش کے کم ہونے کی 70 فیصدی ذمہ داری برتھ کنٹرول کے رواج پر ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ مغربی ممالک کی شرح پیدائش کو گھٹانے میں ضبط ِ ولادت کے مصنوعی ذرائع کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔
رائل کمیشن آف پاپولیشن (1949ء) کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کی شادیاں 1910ء سے پہلے ہوئی تھیں ان میں سے صرف 16 فیصدی ضبط ولادت پر عامل تھے لیکن 1940ء۔ 1942ء کے بعد 74 فیصدی شادی شدہ جوڑے اس طریقے پر عمل کر رہے ہیں۔اسی سلسلے میں رائل کمیشن یہ صراحت کرتا ہے:
’’اس ملک میں اور دوسرے ممالک میں بڑی قوی شہادت ایسی موجود ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ شرح پیدائش میں کمی ضبط ِ ولادت اور خاندان کی بالارادہ تحدید کا نتیجہ ہے۔ یہ انھی کا اثر ہے کہ شرح پیدائش اس سے کم تر ہے جتنی ان طریقوں کے استعمال نہ کرنے کی صورت میں ہوتی۔‘‘{ FR 7129 }
امریکہ میں وہلپٹن اور کیسر(Whelpton & Kiser ) کے تحقیقی جائزے کے مطابق 91.5فیصد جوڑے کسی نہ کسی صورت میں ضبط ِولادت کے طریقوں پر عامل ہیں۔{ FR 7651 }فریڈمین (Freedman) اور ان کے رفقاء کی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی امریکہ میں 70 فیصدی سے زیادہ جوڑے اس طریقے پر عمل کر رہے ہیں۔ یہ مصنّفین برطانیہ اور امریکہ کے حالات کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں بتاتے ہیں:
’’اس امر میں ذرہ برابر شبہ نہیں کہ خاندانوں کے مختصر ہونے کا بنیادی سبب حمل روکنے کی اختیاری کوششیں ہیں۔‘‘{ FR 7131 }
اس سے زیادہ واضح طور پر ضبط ولادت کے نتائج معلوم کرنے کے لیے ان ممالک کی شرح مناکحت اور شرح پیدائش کا مقابلہ کیجیے۔ انگلستان میں1876ء سے 1901ء تک شرحِ مناکحت میں 6.3 فیصدی کی کمی واقع ہوئی لیکن شرح پیدائش 21.5 فی صدی کم ہو گئی۔ 1901ء سے 1913ء تک شرح مناکحت بدستور قائم رہی مگر شرح پیدائش میں 16.5فیصد کمی واقع ہوئی۔1913ئ سے 1926ئ تک شرح مناکحت 10فی صدی اور شرح پیدائش 25 فی صدی کم ہوئی۔ یہی حال تمام یورپ کا رہا ہے۔ 1876ئ اور 1926ئ کے درمیان مختلف ممالک میں شرح مناکحت اور شرح پیدائش کا جو تناسب پایا گیا ہے اس کا حال ذیل کے نقشے سے معلوم ہو گا:
شرح مناکحت
شرح پیدائش
فرانس 7.6 فیصدی اضافہ
جرمنی 9.4 کمی
اٹلی 9.8 ” ”
ہالینڈ 10.3 ” ”
سویڈن 11.3 ” ”
ڈنمارک 12.3 ” ”
سوئٹزرلینڈ 9.12 ” ”
انگلستان اور ویلز 13.3 ” ”
ناروے 26.00 ” ”
28.2 کمی
49.4 ”
1.29 ”
35.6 ”
1.45 ”
6.35 ”
8.44 ”
0.51 ”
0.38 ”
اسی روش پر امریکہ بھی جا رہا ہے۔ وہاں انیسویں صدی کے اواخر میں شرح پیدائش 40 فی ہزار تھی۔ 1935ء میں گھٹ کر صرف 18.7 فی ہزار رہ گئی اور اس وقت23.6 فی ہزار ہے۔{ FR 7132 } اس کے مقابلہ میں شرح مناکحت1901ء میں9. 3 فی ہزار تھی۔ 1935ء میں10.4 فی ہزار ہوئی اور 1956ء میں 9.4 فی ہزار۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ضبط ولادت پر عمل کرنے والے ممالک میں عورت اور مرد کے زوجی تعلقات روز بروز کس قدر بے نتیجہ ہوتے جا رہے ہیں۔ شادیوں میں جتنی کمی ہو رہی ہے اس سے زیادہ کمی پیدائش میں ہو رہی ہے اور کچھ حالات میں تو شادیوں میں اضافہ ہوتا ہے لیکن پیدائش میں برابر کمی ہوتی رہتی ہے۔ برطانیہ کی ایک حالیہ سرکاری دستاویز میں بھی اس امر کا اعتراف کیا گیا ہے کہ:
’’بیسویں صدی میں شرح مناکحت میں اضافہ کے باوجود پیدائش میں کمی ہی واقع ہوئی ہے پھر اس زمانہ میں صرف شرح مناکحت ہی نہیں بڑھی ہے بلکہ شادی کی عمر میں بھی کمی ہوئی ہے۔‘‘{ FR 7133 }
شرح پیدائش ہی میں کمی کا ایک مظہر خاندانوں کے اوسط افراد کی کمی ہے۔ مغربی ممالک میں خاندان کا سائز برابر چھوٹا ہوتا جا رہا ہے اور اب بڑی تعداد ان خاندانوں کی ہے جن میں کوئی اولاد نہیں یا زیادہ سے زیادہ ایک دو بچے ہیں۔ تحریک ضبط ولادت سے قبل اور بعد کے اعداد وشمار میں بڑا نمایاں فرق نظر آتا ہے۔
انگلستان میں 1860ء اور 1925ء کے زمانے میں واقع ہونے والی شادیوں کے درمیان اولاد کے اعتبار سے فرق کا حال یہ تھا:{ FR 7134 }
بچوں کی تعداد
مناکحت
1860ء
1925ء
کوئی بچہ نہیں
1 یا2 بچے
3 یا4 بچے
5 سے9 بچے
10 یا اس سے زائد
9 فیصد
11 فیصد
17 فیصد
47 فیصد
16 فیصد
17 فیصد
50 فیصد
22 فیصد
11 فیصد
۔ ۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اوسط خاندان مختصر ہو رہا ہے۔ 79-1870ء میں شادی شدہ عورتوں کے ہاں اوسط فی کس8.5 بچے تھی۔ 1925ء میں یہ اوسط صرف 2.2 رہ گیا۔{ FR 8513 } اور تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ اوسط 2.2 سے کچھ ہی زیادہ ہے۔{ FR 8514 }
امریکہ میں اوسط اولاد فی کس 1910ء میں 4.7 بچے تھی، جو1955ء میں صرف 4.2 بچے رہ گئی۔ 1910ء میں بے اولاد عورتیں اور ایک یا دو بچوں والیاں کل شادی شدہ عورتوں کا 10 اور 22 فیصد تھیں، مگر 1955ء میں یہ تناسب علی الترتیب 16 فیصد اور 47 فیصد ہو گیا۔ اس کے برعکس 1910ء میں وہ عورتیں جن کے سات یا اس سے زیادہ بچے تھے کل شادی شدہ عورتوں کا39 فیصد تھیں مگر 1955ء میں یہ تناسب صرف چھے فیصد رہ گیا۔ { FR 7137 }
شرح پیدائش کی اس روز افزوں کمی کے باوجود ان ممالک کی آبادی میں جو تھوڑا بہت اضافہ ہو رہا ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ فنِ طب کی ترقی اور حفظانِ صحت کی وسیع تدابیر نے شرح اموات کو بھی بڑی حد تک گھٹا دیا ہے۔ لیکن اب شرح اموات اور شرح پیدائش میں تھوڑا ہی فرق رہ گیا ہے اور عام طور پرخوف کیا جا رہا ہے کہ عنقریب شرح پیدائش، شرح اموات سے کم ہو جائے گی، جس کے معنی یہ ہیں کہ ان قوموں میں جتنے آدمی پیدا ہوں گے ان سے زیادہ مر جائیں گے۔ فرانس ،بیلجئم اور آسٹریا ان ممالک میں سے ہیں جن میں آبادی تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد بڑھنے کے بجائے الٹی گھٹتی رہی ہے۔ یہ ممالک اپنے سابقہ معیار تک کو برقرار نہیں رکھ سکے ہیں۔ انگلستان کی آبادی بھی کم وبیش ٹھیری ہوئی ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے امریکہ بھی اس مصیبت میں گرفتار ہو گیا تھا۔ آسٹریا میں 1935ء اور 1938ء کے درمیان اموات کی تعداد پیدائش سے زیادہ رہی۔ فرانس میں بھی 1935ء اور 1939ء کے درمیان اموات پیدائش سے زیادہ تھیں۔ اگر اس زمانے میں کثرت سے بیرونی ممالک کے لوگ ہجرت کرکے فرانس میں آباد نہ ہوئے ہوتے تو اس ملک کی آبادی میں نمایاں کمی واقع ہو جاتی۔ چنانچہ 36-1934ء اور 39-1938ء میں فی الواقع آبادی کم ہو گئی تھی۔{ FR 8135 }
امریکہ کی شہری آبادی کے اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1950ء تک موجودہ نسل خود اپنی تعداد کے برابر نسل پیدا کرنے میں بھی ناکام رہی۔ اس وقت تک شرح پیدائش کا جو حال تھا اسے دیکھتے ہوئے اندازہ تھا کہ اگر یہ شرح نہ بڑھی تو ایک پشت کے بعد آبادی میں 25 فیصد کمی واقع ہو جائے گی۔
انگلستان میں آبادی کمیشن کی رپورٹ (1949ء) کے بقول 1945ء کے آخر میں یہ نوبت پہنچ گئی تھی کہ غیر جسمانی محنت کرنے والے اعلیٰ طبقات میں، جن کی شادی کو سولہ سے بیس سال تک ہو چکے تھے، فی خاندان بچوں کا اوسط 68.1 تھا۔ یہ صورتحال صاف خبر دے رہی تھی کہ یہ طبقات آہستہ آہستہ ختم ہو جانے والے ہیں۔ اس سلسلہ میں ماہرین کا اندازہ یہ ہے:
’’ایسی آبادی کے لیے جس میں دو بچوں کا رواج ہو یا جس میں بالآخر ہر شادی پر دو بچے زندہ رہیں، نیست ونابود ہو جانا مقدر ہے۔ ایسی آبادی نسلاً بعد نسلٍ کم ہوتی چلی جائے گی اور ہر تیس سال کے بعد وہ پہلے سے کم ہو جائے گی۔‘‘
’’مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھیے کہ ایسے ہزار افراد جن میں دو بچوں کا رواج ہو، پہلے تیس سال کے بعد صرف 631رہ جائیں گے۔ 60 سال بعد 386 اور ڈیڑھ سو برس بعد صرف 92۔‘‘{ FR 7138 }
ماہرین معاشیات وشماریات آبادی کے صحیح رجحانات کا اندازہ کرنے کے لیے صرف شرح پیدائش ہی کو نہیں دیکھتے بلکہ ان تمام عوامل کا مطالعہ کرکے جو آبادی میں اضافے یا کمی کے موجب ہوتے ہیں، خالص شرحِ افزائش آبادی (Net Reproduction Rate) نکال لیتے ہیں۔ ] ذیل کے جدول میں[ اگریہ شرح (1) ہے تو آبادی ٹھیری ہوئی ہے۔ اگر (1) سے زیادہ ہے تو آبادی بڑھ رہی ہے اور اگر (1) سے کم ہے تو گھٹ رہی ہے۔ ذیل میں ہم چند اہم مغربی ممالک کی خالص شرح افزائش دے رہے ہیں{ FR 8136 } جس سے ان کی صحیح حالت کا اندازہ ہو گا:
ملک
سال
آبادی
ملک
سال
آبادی
انگلستان
1933ء
0.747
1935ء
0.870
1937ء
0.775
1940ء
0.820
1940ء
0.782
1954ء
0.940
1949ء
0.909
ناروے
1935ء
0.746
بیلجیئم
1939ء
0.859
1940ء
0.858
1947ء
1.002
1945ء
1.075
فرانس
1930ء
0.930
یہ حالات اہل فکر ونظر کے لیے بڑے پریشان کن ثابت ہو رہے ہیں اور ان کے خطرناک اثرات دیکھ دیکھ کر بہت سے وہ مفکر بھی بوکھلا اٹھے ہیں جو بظاہر ضبط ولادت کے حامی ہیں۔ جب اپنے ہی لگائے ہوئے درختوں کے پھل ان کے سامنے آئے تو یہ حیران وششدر رہ گئے اوراب کم از کم اپنے ملکوں کی حد تک یہ حضرات پالیسی کو تبدیل کرنے کے داعی ہیں۔ مثلاً ایک ماہر عمرانیات ان حالات کی بنا پر یہ رائے ظاہر کرتا ہے:
’’اگر مالتھس آج زندہ ہوتا تو وہ غالباً اس بات کو اچھی طرح محسوس کر لیتا کہ مغربی انسان نے پیدائش کو روکنے میں کچھ ضرورت سے زیادہ ہی دُور اندیشی سے کام لیا ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اپنی تہذیب کے مستقبل کی فکر کرنے میں وہ بہت ہی کوتاہ نظر ثابت ہوا ہے۔‘‘{ FR 7672 }
’’فرانس اور بیلجیئم میں تو فی الواقع وقتاً فوقتاً آبادی کم ہو گئی ہے، کیونکہ اموات، پیدائش سے زیادہ تھیں لیکن مغربی، صنعتی، شہری، تہذیب کی باقی تمام ہی اقوام آبادی کم ہونے کے خطرہ سے دو چار ہیں۔ خود امریکہ میں ماہرین آبادی نے 40-1930ئ کے پیدائش واموات کے رجحانات کا مطالعہ کرکے یہ کہہ دیا تھا کہ ایک ہی نسل میں آبادی گھٹنے کا خطرہ حقیقت بن جائے گا۔‘‘{ FR 7147 }
معاشی نقطۂ نظر کو ایک مشہور ماہرمعاشیات کی زبان سے سنیے:
’’اگر ہم آبادی کی کمی کو قائم رکھنے کی حماقت کرتے ہیں تو ہم کو جان رکھنا چاہیے کہ تقلیل آبادی، جس سے ہم دو چار ہیں، بے روزگاری کے مسئلہ کا حل نہیں ہے اور نہ اس کی وجہ سے باقی ماندہ لوگوں کا معیارِ زندگی ہی بلند ہوتا ہے۔ اس کے معاشی اثرات لازماً ناخوشگوار ہوں گے۔ اس لیے کہ اس کی وجہ سے آبادی میں بوڑھے لوگوں کا تناسب بڑھ جائے گا اور پیدا کار (producers) ریٹائرڈ لوگوں کو برسرکار رکھنے پر مجبور ہوں گے۔ اور اگر خود پیداکاروں میں بھی ایک بڑا طبقہ بڑی عمرکے لوگوں پر مشتمل ہو تو نظامِ پیداوار میں وہ لچک باقی نہیں رہ سکتی جو بدلتے ہوئے حالات اور نت نئے تکنیک کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ہمیں آبادی کی کمی کو روکنے کے لیے ہر وہ طریقہ اختیارکرنا چاہیے جو ممکن ہو۔‘‘{ FR 7148 }
اور ایک مؤرخ کے افکار بھی اپنے اندر عبرت وموعظت کا بڑا سامان رکھتے ہیں:
’’ایک اور طریقہ جس سے ایک مُسرِف اور اوباش قوم کی زندگی کو کم کر دیا جاتا ہے، وہ شرحِ پیدائش کی کمی ہے۔ یہ قدرت کا قانون ہے کہ جو اقوام لذت پرستی اور جنسی آلودگی میں مبتلا ہوتی ہیں وہ افزائشِ اطفال سے غافل رہتی ہیں اور بچوں کو اپنی آبادی اور خوش فعلی کی راہ میں مانع تصور کرتی ہے۔ یہ رویہ پرستارانِ جنس کو مانعِ حمل ذرائع کے استعمال، اسقاطِ حمل اور اسی نوع کی دوسری تدابیر کے اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس قوم کی آبادی پہلے تو ساکن اور متغیر ہو جاتی ہے اور پھر کم ہونے لگتی ہے حتیٰ کہ وہ اس مقام پر پہنچ جاتی ہے جہاں وہ اپنی بنیادی ضرورتیں تک پوری کرنے کے اہل نہیں رہتی۔ یعنی نہ وہ اپنے جداگانہ تشخص کو قائم رکھ سکتی ہے اور نہ اپنے فطری (natural) اور انسانی دشمنوں سے اپنے آپ کو بچا سکتی ہے۔ یہ خود کشی ہے اور اسے اس بانجھ پن سے مزید مدد ملتی ہے جو آوارہ گردی اور بدفعلی کا فطری نتیجہ ہے۔ پھر ان دونوں کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسی قوم کا عرصہ حیات مختصر ہو جاتا ہے۔ خود کُشی کے اس طریقہ نے تاریخ انسانی میں بہت سے شاہی خاندانوں، دولت مند اوراونچے طبقوں اور اجتماعی گروہوں کو حیاتیاتی اور سماجی حیثیت سے نیست ونابود کر دیا ہے اور اسی کے ذریعہ سے بہت سی قومیں زوال وانحطاط کی شکار ہوئی ہیں۔‘‘{ FR 7149 }
کولن کلارک (Colin Clark) اس کے سیاسی اور تمدنی پہلوئوں کی طرف ہماری توجہ منعطف کراتا ہے:
’’مستقبل کا مؤرخ، گزری ہوئی صدیوں کے جھروکے سے دیکھ کر، اہل فرانس کے انیسویں صدی کے اوائل اور اہل برطانیہ کے انیسویں صدی کے اواخر کے اس فیصلے کو کہ وہ اپنی آبادی کے اضافہ کی رفتار کو روک لیں گے اور اس کے اس نتیجے کو کہ بحیثیت ایک عالمی طاقت کے ان ممالک کے سیاسی اثر ونفوذ میں انحطاط رونما ہو گا، ہمارے دور کے اہم ترین واقعات میں شمار کرے گا۔‘‘{ FR 7151 }
یہ ایک مختصر سا جائزہ ہے ان نتائج کا جو ضبطِ ولادت کو ایک قومی پالیسی اور ایک اجتماعی تحریک کی حیثیت سے اختیار کرنے کی بدولت دنیا کے مختلف ملکوں میں رونما ہو چکے ہیں۔ یہ نتائج آج ایک کھلی کتاب کی طرح ہر صاحب نظر کے سامنے ہیں۔ جن قوموں کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، وہ تواپنی بہار دیکھ چکی ہیں۔ اپنے پورے عروج کو پہنچ جانے کے بعد اب وہ سُنت اللہ کے مطابق تنزل کی طرف جا رہی ہیں، اور ان کے تنزل کا انتظام خود ان کے اپنے ہاتھوں کرایا جا رہا ہے۔ مگر کوئی قوم جو ابھی ابھی نکبت کی حالت سے نکل کر ترقی کرنے کی خواہشمند ہو، کیا اس کے لیے یہ کوئی دانش مندانہ طرز عمل ہو گا کہ ترقی کیلئے اپنی سعی وجہد کا آغاز ہی وہ ان حماقتوں سے کرے جو دوسری قوموں نے بامِ عروج پر پہنچ کر کی ہیں؟
ردِّ عمل
ان حالات نے تمام مغربی قوموں کے دور اندیش لوگوں میں اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ مفکرین ان پر بے چینی اور بے اطمینانی کا اظہارکر رہے ہیں اور مدبرین اور اہل سیاست اس روش کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہر ملک میں آبادی کے مسئلہ پر کچھ نئے رجحانات ابھر رہے ہیں، کچھ نئی تحریکات رونما ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں اور عملی مسلک بھی آہستہ آہستہ تبدیل ہونے لگا ہے۔ یہاں ہم مختصراً یہ بتائیں گے کہ مختلف ممالک میں ان حالات کا رد عمل کیا ہوا ہے۔
انگلستان
پہلی جنگ ِ عظیم کے زمانہ (1916ء) میں ایک نیشنل برتھ ریٹ کمیشن مقرر کیا گیا جس میں طب، معاشیات، سائنس، شماریات (Statistics) تعلیم اور دینیات کے 23 ماہرین وغیرہ شریک کیے گئے۔ حکومت کی جانب سے ڈاکٹر اسٹیونسن (Stevenson) مہتمم اور سر آرتھر نیوز ہوم (Newshome) پرنسپل میڈیکل آفیسر اس میں شریک ہوئے۔ اس کمیشن کی طرف سے متعدد رپورٹیں شائع ہوئیں جن میں سے ایک رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ:
’’برطانیہ کو اپنی شرح پیدائش کی روز افزوں کمی پر نہایت درجہ تشویش کی نظر کرنی چاہیے اور اس کمی کو روکنے اور حتی الوسع زیادتی کی طرف لے جانے کے لیے ایسی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں جو اس کے امکان میں ہوں۔‘‘
سرجارج نیومن (انگلستان کی وزارتِ صحت کے چیف میڈیکل آفیسر) شرح پیدائش کی کمی پر اظہار رائے کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اگر اس کمی کو نہ روکا گیا تو برطانیہ ایک چوتھے درجہ کی طاقت ہو جائے گی۔‘‘
سرولیم بیورج (Beveridge) لندن اسکول آف اکنامکس کے ڈائریکٹر نے اپنی ایک نشری تقریر میں کہا کہ اموات اور پیدائش کا تناسب اگر اسی رفتار سے بگڑتا رہا تو آئندہ دس سال میں انگلستان کی آبادی گھٹنی شروع ہو جائے گی اور 30 سال کے اندر 20 لاکھ کی کمی واقع ہو گی۔ قریب قریب یہی رائے لِوَر پُول یونیورسٹی کے پروفیسر کارسانڈرس کی تھی۔ اس خطرے کو دُور کرنے کے لیے ضبط ِ ولادت کے خلاف تحریک شروع ہوئی اور جمعیت حیاتِ قومی (League of National Life) کے نام سے ایک انجمن قائم کی گئی جس میں ممتاز مرد اور خواتین نے شرکت کی۔
دوسری جنگ ِ عظیم میں برطانوی مدبرین نے پھر آبادی کی کمی کے نقصانات کو شدت کے ساتھ محسوس کیا۔ چنانچہ 1943ء میں برطانیہ کے وزیر داخلہ (Home Secretary) برطانیہ کو اپنا موجودہ معیار قائم رکھنا ہے اور آئندہ ترقی کی راہ استوار رکھنی ہے تو ہر گھر میں 25 فیصدی کا اضافہ ہونا چاہیے۔ اس وقت ملک کے عام اہل فکر کا یہ احساس تھا کہ اگر انگلستان کو زندہ رہنا ہے تو اسے اپنے تحفظ کے لیے آبادی کے معاملہ میں ایک نئی اور موثر پالیسی اختیار کرنی ہو گی اور شرح پیدائش کی کمی کو فوراً روکنا پڑے گا۔ اس مقصد کے لیے مارچ 1944ء میں ایک رائل کمیشن قائم کیا گیا تاکہ ’’وہ مسئلہ کے تمام پہلوئوں کا مطالعہ کرکے تجویز کرے کہ مستقبل میں قومی مفاد کی خاطر آبادی کے رُجحان کو متاثر کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں۔‘‘ اس کمیشن نے مارچ 1949ء میں اپنی رپورٹ پیش کی اور اس میں واشگاف یہ حقیقت بیان کر دی کہ:
’’خاندان کے سائز میں کمی کا سب سے اہم….. بلکہ بڑی حد تک واحد سبب خاندان کو مختصر اور محدود رکھنے کی دانستہ کوشش ہے۔‘‘
اس رپورٹ میں کمیشن نے پوری تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ انیسویں اور بیسویں صدی کے معاشی، سماجی اور تمدنی حالات نے بڑے خاندان کو معاشی بار بنا دیا اور فیکٹری ایکٹ اور تعلیمی قوانین کی بنا پر بچوں کی محنت کے استعمال کے امکانات محدود ہو گئے۔ کچھ دوسرے عوامل نے بھی ان کے ساتھ مل کر گھر میں زیادہ بچوں کے وجود کو مالی خسارہ کا باعث بنا دیا اور لوگوں نے ضبط ِ تولید کے ذریعہ سے خاندان کو مختصر رکھنے کی پالیسی اختیار کر لی۔ اس کے بعد کمیشن نے اس غرض کے لیے تفصیلی سفارشات پیش کی ہیں کہ گھر میں بچے معاشی بوجھ نہ بنیں اور باپ بننا ایک مالی مصیبت مول لینے کا ہم معنی نہ بن جائے۔ کمیشن کی سفارشات یہ ہیں:
[1] ہر خاندان کو بچوں کی تعداد کی مناسبت سے الائونس دیا جائے۔
[2] انکم ٹیکس کے قانون کو تبدیل کیا جائے۔ صاحبِ اولاد لوگوں پر کم ٹیکس عائد کیا جائے اور غیر شادی شدہ لوگوں سے زیادہ ٹیکس لیا جائے۔
[3] وسیع پیمانے پر ایسے گھر تعمیر کیے جائیں جن میں تین سے زیادہ سونے کے کمرے ہوں۔
[4] صحت اور سماجی فلاح کی اسکیمیں] شروع کیے جائیں[ جن کے ذریعہ بڑے خاندان کے فروغ میں مدد ملے۔
[5] آبادی کے مسئلہ پر مستقل تحقیقات اور تعلیم۔] کا اہتمام کیا جائے۔[
[6] اس سلسلے میں کمیشن یہاں تک بڑھ گیا کہ اس نے آبادی بڑھانے کے لیے مصنوعی ذرائع تولید (Artificial Insemination)جیسے مکروہ اور شنیع طریقے اختیار کرنے کی بھی سفارش کر دی۔
ان سفارشات پر غور کرنے کے بعد انگلستان کے قوانین اور معاشرتی پالیسی میں اہم تبدیلیاں کی گئیں۔ اب وہاں بچوں کے لیے الائونس، زچگی کے زمانے کے لیے چھٹی اور خصوصی الائونس اور تعلیم، صحت، مکان وغیرہ کی سہولتیں دی جا رہی ہیں تاکہ لوگ زیادہ بچے پیدا کرنے سے نہ گھبرائیں۔ چنانچہ اس کے اثرات ظاہر ہونے لگے ہیں۔ تازہ ترین اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ اب شرح پیدائش اور آبادی میں اضافہ کی رفتار بتدریج بڑھ رہی ہے۔ 1931ء اور 1941ء کے درمیان اوسط شرح پیدائش 14.8 فی ہزار تھی۔ 1941ء اور 1951ء کے درمیان 4.17 ہو گئی۔ سالانہ اضافہ آبادی41-1931ء کے درمیان اوسطاً 107000 تھا۔ 60-1951ء کے درمیان یہ 250000 ہو گیا۔ حالیہ مردم شماری کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ برطانیہ کی آبادی میں پچھلے دس سال کے اندر جو اضافہ ہوا ہے وہ گزشتہ نصف صدی میں سب سے زیادہ تیز رفتار ہے۔{ FR 7152 }
فرانس
حکومت کو اس خطرے کا احساس ہو گیا ہے کہ شرح پیدائش کا زوال فرانسیسی قوم کا زوال ہے۔ فرانس کے اہل بصیرت محسوس کر رہے ہیں کہ اگر اسی رفتار سے ان کی آبادی گھٹتی رہی تو ایک روز فزانسیسی قوم صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔ مردم شماری کی رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ 1911ء کے مقابلہ میں 1921ء میں فرانس کی آبادی اکیس لاکھ کم ہو گئی۔ 1926ء میں پندرہ لاکھ کا اضافہ ہوا لیکن وہ زیادہ تر غیر ملکی لوگوں کی درآمد کا نتیجہ تھا۔ فرانس میں اجنبی قوموں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے یہاں تک کہ آبادی کا 2.7 فیصدی حصہ اجنبی ہے۔ یہ فرانسیسی قوم کے لیے اور بھی زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ قوم پرستی کے موجودہ دور میں اجنبی آبادی کا بڑھنا اور وطنی آبادی کا گھٹنا قومی زندگی کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ فرانس میں ایک زبردست تحریک قومی اتحاد برائے افزائش آبادی (National Alliance for the Increase of Population) کے نام سے اس خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لیے شروع ہو گئی ہے۔ حکومت نے ضبط ِ ولادت کی تعلیم اور نشرواشاعت کو قانوناً ممنوع قرار دیا ہے۔ ضبط ِ ولادت کے حق میں خفیہ یا اعلانیہ کوئی تقریر، تحریر، یا مشورہ نہیں ہو سکتا حتی کہ ڈاکٹروں تک کے لیے پابندی ہے کہ وہ کوئی ایسا کام کھلے یا چھپے نہ کریں جو ضبط ولادت پر منتج ہو سکتا ہو۔ آبادی بڑھانے کے لیے تقریباً ایک درجن قوانین نافذ کیے گئے ہیں جن کی رو سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے خاندانوں کو مالی امداد دی جاتی ہے، ٹیکس میں کمی کی جاتی ہے، تنخواہیں، مزدوریاں اور پنشنیں زیادہ دی جاتی ہیں، ان کے لیے ریل کے کرائے کم کیے جاتے ہیں، حتیٰ کہ انھیں تمغے تک دئیے جاتے ہیں۔ دوسری طرف شادی نہ کرنے والوں یا بچے نہ رکھنے والے جوڑوں پر (surtax) لگایا جاتا ہے۔ گویا بعد از خرابی بِسیار اب فرانسیسی قوم کی آنکھ کھلی ہے اور وہ اس گناہ کا کفارہ ادا کر رہی ہے جو اس نے قوانینِ فطرت سے انحراف کرکے ضبط ِ ولادت کی صورت میں کیا تھا۔
فرانس کی شرح پیدائش پر اس نئی پالیسی کا اثر پڑنا شروع ہو گیا ہے۔ اس کا اندازہ حسب ِ ذیل اعدا دوشمار سے ہوتا ہے:
سال
شرح پیدائش فی ہزار
40-1936ئ
14.5
45-1941ئ
15.1
1946ئ
20.1
1947ئ
21.0
1958ئ
18.2
یہی اسی کا نتیجہ ہے کہ 54-1938ء کے درمیان فرانس کی آبادی میں 26 فیصدی کا اضافہ ہوا ہے۔
جرمنی
نازی جماعت نے برسر اقتدار آنے کے بعد آبادی کے بڑھتے ہوئے زوال کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیا اور اس کے تدارک کی کوشش کی۔ ایک نازی اخبارنے لکھا ہے کہ:
’’اگر ہماری شرح پیدائش اسی طرح گھٹی رہی تو خوف ہے کہ ایک وقت ہماری قوم بالکل بانجھ ہو جائے گی اور موجودہ نسل کے کاموں کو سنبھالنے کے لیے نئی نسلیں اٹھنی بند ہو جائیں گی۔‘‘
اس حالت کی اصلاح کےلیے حکومت نے ضبط ِ ولادت کی تعلیم وترویج کو قانوناً روک دیا، عورتوں کو کارخانوں اور دفتروں سے خارج کرنا شروع کر دیا، نوجوانوں کو نکاح کی طرف رغبت دلانے کے لیے قرضہ شادی (Marrage Loan) کے نام سے رقمیں دیں، بن بیاہوں اور بے اولادوں پر ٹیکس لگائے، اور زیادہ بچے پیدا کرنے والوں پر ٹیکس کم کر دیے۔ 1934ء میں ایک کروڑ پونڈ کے قرضہ ہائے شادی دیے گئے جن سےچھے لاکھ مردوں اور عورتوں نے فائدہ اٹھایا۔1935ء کے نئے قانون کی رو سے طے کیا گیا کہ ایک بچہ پیدا ہونے پرانکم ٹیکس میں 15 فیصدی، 2 بچوں پر 35 فیصدی، 3 پر 55 فیصدی، 4 پر 75 فیصدی، 5 پر 95 فی صدی کمی کی جائے اور جب 6 بچے ہو جائیں تو پورا انکم ٹیکس معاف کر دیا جائے۔ ان تدابیر کی وجہ سے نازی جرمنی میں شرح پیدائش فوراً بڑھنی شروع ہو گئی۔ 35-1931ء میں شرح6.16 فی ہزار تھی۔ 40-1936ئ میں بڑھ کر6.19 فی ہزار ہو گئی۔
اٹلی
مسولینی کی حکومت نے 1933ء کے بعد سے آبادی بڑھانے کی طرف خاص توجہ شروع کر دی۔ ضبط ِ ولادت کی نشرواشاعت قانوناً ممنوع کر دی گئی۔ نکاح اور تناسل کی ترغیب کے لیے وہ تمام تدابیر اختیار کی گئیں جو جرمنی اور فرانس کے حالات میں بیان کی گئی ہیں۔ اٹلی کے قانون میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ ہر وہ فعل یا تقریر یا پروپیگنڈا جو ضبط ِ ولادت کے حق میں ہو جرم قابل ِ دست اندازیِ پولیس ہے اور اس کے مرتکب کو ایک سال کی قید اور جرمانہ یا دونوں کی سزا دی جا سکتی ہے۔ عام حالت میں یہ قانون ڈاکٹروں پر بھی نافذ ہوتا ہے۔
سویڈن
کچھ عرصہ پہلے سویڈن کے ایک سابق وزیر ٹرائی گر (Trygger)نے پارلیمنٹ (ricksdag) میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ’’سویڈش قوم خودکشی نہیں کرنا چاہتی تو شرحِ پیدائش کی روز افزوں کمی کو روکنے کے لیے فوری تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ 1921ء سے شرح پیدائش کی کمی خوفناک ہو گئی ہے اور آبادی میں اضافہ بند ہو گیا ہے۔‘‘ اس تنبیہہ کا یہ اثر ہوا کہ سویڈش پارلیمنٹ نے مئی 1935ء میں ایک کمیشن مقرر کیا جس نے اپنی ضخیم رپورٹوں کے ذریعہ ایک نئی پالیسی تجویز کی۔ کمیشن نے خاندان کے سائز کو بڑھانے کا مشورہ دیا اور ہر خاندان کے لیے تین یا چار بچوں کی تعداد تجویز کی۔ اس کمیشن کی سفارشات پر جو اہم اقدامات کیے گئے وہ یہ ہیں:
1۔ مانع حمل دوائوں کی فروخت پر نیشنل ہیلتھ بورڈ کی نگرانی
2۔ 18 سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے والدین کو ٹیکس کی رعایت
3۔ کم کرائے کے مکانوں کی تعمیر
4۔تین یا تین سے زیادہ بچوں کی صورت میں تدریجی سالانہ ری بیٹ (rebate)
5۔تحفظ صحت….. خصوصاً بچوں کی صحت کے لیے مفت دوائوں کی فراہمی{ FR 7153 }
سال
شرح پیدائش فی ہزار
1935ء۔1931ء
14.1
1940ئ۔1936ئ
18.7
1944ء۔1941ء
19.7
جنگ کے بعد کے زمانہ میں سویڈن کی شرح پیدائش پھر کم ہو گئی ہے۔
اب آپ برتھ کنٹرول سے کافی روشناس ہو چکے ہیں۔ آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ اس تحریک کی حقیقت کیا ہے؟ کن وجوہ سے پیدا ہوئی؟ کن اسباب سے اس نے ترقی کی؟ جن ممالک میں یہ رائج ہوئی وہاں اس کے کیا نتائج رونما ہوئے؟ اور جنھوں نے اس کا اچھی طرح تجربہ کر لیا ہے اور وہ اب اس کو کس نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ اس کے بعد ہمیں امید ہے کہ برتھ کنٹرول کے متعلق اسلام کا موقف زیادہ آسانی کے ساتھ آپ کی سمجھ میں آ جائے گا، زیادہ گہرائی کے ساتھ ذہن نشین ہو گا اور اس کی مصلحتیں زیادہ روشنی کے ساتھ آپ پر واضح ہوں گی۔
اُصولِ اسلام
صفحات گزشتہ میں تحریکِ ضبط ولادت کی ترقی کے اسباب اور اس کے نتائج کا جو تفصیلی بیان پیش کیا گیا ہے اس کو بنظرِ غائر ملاحظہ کرنے سے دو اہم حقیقتیں منکشف ہوتی ہیں۔
ایک یہ کہ اہلِ مغرب میں ضبط ِ ولادت کی خواہش کا پیدا ہونا اور اس تحریک کا اس کثرت سے ان کے افراد میں رائج ہو جانا کچھ اس وجہ سے نہیں ہے کہ ان کی فطرت ہی توالد وتناسل سے پرہیز کا اِقتضا کرتی ہے بلکہ اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ دو صدیوں سے ان کے ہاں تمدن وتہذیب اور معیشت ومعاشرت کا جو نظام رائج ہے اس نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں جن میں وہ اولاد سے بچنے اور توالد وتناسل سے نفرت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اگر یہ حالات نہ ہوتے تو وہ اب بھی اسی طرح ضبطِ ولادت سے بیگانہ رہتے جس طرح انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں تھے۔ کیونکہ ان کی جو فطرت اس زمانے میں اولاد کی محبت اور توالد وتناسل کی جانب رغبت کا اقتضا کرتی تھی، وہی فطرت اب بھی موجود ہے۔ اس صدی کے اندر اس میں کوئی انقلاب رونما نہیں ہوا ہے۔
دوسرے یہ کہ ضبط ِ ولادت کے رواج سے مغربی قومیں جن خطرات ومشکلات میں گھر گئی ہیں، انھوں نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ یہ تحریک قوانینِ فطرت میں جو ترمیم کرنا چاہتی ہے وہ انسان کے لیے سخت نقصان دہ ہے، اور درحقیقت فطرت کے قوانین لائق ترمیم نہیں ہیں بلکہ وہ نظامِ تمدن وتہذیب اور نظام معیشت ومعاشرت بدل دینے کے لائق ہے جو انسان کو قونین فطرت کی خلاف ورزی پر مجبور کرکے ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے۔
بنیادی اُصول
مغربی تجربہ کے یہ دو سبق ہم کو اصولِ اسلام سے بہت قریب لے آتے ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے اور اس نے شخصی واجتماعی طرز عمل کے لیے جتنے طریقے مقرر کیے ہیں وہ سب اسی قاعدۂ کلیہ پر مبنی ہیں کہ انسان ان قوانین قدرت کی پیروی کرے جن پر کائنات کا یہ سارا نظام چل رہا ہے اور کوئی ایسا طرزِ زندگی اختیار نہ کرے جو قوانینِ فطرت کی خلاف ورزی پر اس کو مجبور کرتا ہو۔ قرآن مجید ہم کو بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کرکے اس کی جِبِلّت میں اس طریقہ کی تعلیم بھی ودیعت فرما دی ہے جس پر چل کر وہ چیز نظام وجود میں اپنے حصہ کا کام ٹھیک ٹھیک انجام دے سکتی ہے:
﴿رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰىo ﴾ ( طٰہٰ 50:20)
ہمارا رب وہ ہے جس نے ہرشے کو اس کی خاص بناوٹ عطا کی پھر اس کو ان اغراض کے پورا کرنے کی راہ بھی بتا دی جن کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے۔
کائنات کی تمام چیزیں بے چون وچرا اس ہدایت کی پیروی کر رہی ہے، اس لیے کہ اللہ نے ان کے لیے جو راستہ مقرر فرما دیا ہے اس سے ہٹنے کی ان میں قدرت ہی نہیں ہے۔ البتہ انسان کو یہ قدرت دی گئی ہے کہ وہ اس راستہ سے ہٹ سکتا ہے، اس پر چلنے سے انکار کر سکتا ہے، اپنی عقل اور ذہانت سے غلط کام لے کر اس کے خلاف دوسرے راستے نکال سکتا ہے اور کوشش کرکے ان پر چل بھی سکتا ہے لیکن ہر وہ راستہ جسے انسان خدا کے بنائے ہوئے راستہ کو چھوڑ کر اپنی ہوائے نفس کے اتباع میں ایجاد واختیار کرتا ہے، ٹیڑھا راستہ ہے اور اس کی پیروی گمراہی ہے:
﴿وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَيْرِ ہُدًى مِّنَ اللہِ۰ۭ﴾ ( القصص 50:28)
اس سے زیادہ گمراہ کون ہو گا جس نے اللہ کی رہنمائی کے بغیر اپنی خواہش نفس کی پیروی کی۔
یہ گمراہی خواہ ظاہر میں کتنی ہی مفید نظر آئے لیکن درحقیقت جو انسان اللہ کے بنائے ہوئے راستہ کو چھوڑتا ہے اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرتا ہے‘ وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتا ہے کیونکہ انجام کار میں اس کی غلط کاری خود اسی کے لیے نقصان دہ اور موجب ہلاکت ثابت ہوتی ہے۔
﴿وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ۰ۭ﴾ ( الطلاق 1:65)
اور جس کسی نے اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کیا اس نے خود اپنے اوپر ظلم کیا۔
قرآن کہتا ہے کہ خدا کی بنائی ہوئی ساخت کو بدلنا اور ان قوانینِ فطرت کو توڑنا جنھیں اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں جاری کیا ہے دراصل ایک شیطانی فعل ہے اور شیطان ہی اس فعل کی تعلیم دیتا ہے۔
﴿ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ۰ۭ ﴾ ( النسائ 119:4)
شیطان نے کہا کہ میں اولاد آدم کو حکم دوں گا تو وہ اللہ کی بناوٹ کو بدل ڈالیں گے۔
اور شیطان کون ہے؟ جو ازل سے انسان کا کھلا دشمن ہے:
﴿وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌo اِنَّمَا يَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْۗءِ وَالْفَحْشَاۗءِ ﴾ ( البقرہ 168-169:2)
اور تم شیطان کی پیروی نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، وہ تم کو بدی اور بے حیائی کے کام کرنے کا حکم دیتا ہے۔
پس اسلام نے جس قاعدے پر اپنے نظامِ تمدن وتہذیب اور نظامِ معیشت ومعاشرت کی بنیاد رکھی ہے، وہ یہ ہے کہ انسان انفرادی اور مجموعی حیثیت سے اپنی فطرت کے تمام مقتضیات کو ٹھیک ٹھیک قوانینِ فطرت کے مطابق پورا کرے اور اللہ کی دی ہوئی تمام قوتوں سے اس طریقہ پر کام لے جس کی ہدایت خود اللہ نے دی ہے۔ نہ کسی قوت کو معطل و بے کار بنائے، نہ کسی قوت کے استعمال میں اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت سے انحراف کرے اور نہ شیطانی تحریص وترغیب سے گمراہ ہو کر اپنی فلاح وبہبود اُن طریقوں میں تلاش کرے جو فطرت کی سیدھی راہ سے ہٹ کر نکلتے ہیں۔
تمدنِ اسلام اور ضبط ِ ولادت
اس قاعدے کو پیش ِ نظر رکھ کر جب آپ اسلام پر نگاہ ڈالیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ اسلامی نظام تمدن نے سرے سے ان اسباب ودواعی کا ہی استیصال کر دیا ہے جن کی وجہ سے انسان اپنی فطرت کے اس اہم اِقتضا یعنی توالد وتناسل سے پرہیز کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے برتھ کنٹرول کی ضرورت نہیں ہوتی، اور نہ اس کی فطری سرشت ہی اس کا اقتضا کرتی ہے، بلکہ ایک خاص طرز کا نظام تمدن جب کسی انسانی جماعت میں مخصوص قسم کے حالات پیدا کر دیتا ہے تب انسان مجبور ہو جاتا ہے کہ اپنی آسائش اور اپنی فلاح وبہبود کی خاطر اپنی آئندہ نسل کا سلسلہ منقطع کر دے، یا اس کو بڑی حد تک گھٹانے کی کوشش کرے۔ اس سے آپ خود نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اگر کوئی تمدن اس خاص طرز پر قائم ہو اور اس میں وہ مخصوص قسم کے حالات پیدا ہی نہ ہوں تو سرے سے وہ مشکلات اور وہ دواعی وجود ہی میں نہ آئیں گے جو انسان کو اللہ کی بناوٹ کے بدلنے اور اس کی حدود سے تجاوز کرنے اور قوانینِ فطرت کے مقتضیات سے انحراف کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔
اس کے نظام معاشی نے سرمایہ داری کی جڑ کاٹ دی ہے۔ وہ سود کو حرام کرتا ہے، اجارہ داری کو روکتا ہے، جوئے اور سٹے کو ناجائز قرار دیتا ہے، مال جمع کرنے سے منع کرتا ہے اور زکوٰۃ وراثت کے طریقے جاری کرتا ہے۔ یہ احکام ان بہت سی خرابیوں کا استیصال کر دیتے ہیں جنھوں نے مغرب کی معاشی زندگی کو سرمایہ داروں کے سوا اور سب کے لیے ایک مستقل عذاب بنا دیا ہے۔{ FR 7154 }
اسلام کے نظامِ معاشرت نے عورت کو وراثت کے حقوق دیے ہیں، مرد کی کمائی میں اس کا حق مقرر کیا ہے، مرد وعورت کے دائرہ عمل کو فطری حدود میں تقسیم کیا ہے، عورتوں اور مردوں کے آزادانہ اختلاط کو حجابِ شرعی کے ذریعہ سے روک دیا ہے اور اس طرح معیشت ومعاشرت کی ان بہت سی خرابیوں کو دور کر دیا جن کی وجہ سے عورت اپنے فطری فرض افزائشِ نسل وتربیتِ اولاد سے انحراف کرنے پر آمادہ یا مجبور ہوتی ہے۔{ FR 7155 }
اسلام کی اخلاقی تعلیمات انسان کو سادہ اور پرہیز گارانہ زندگی بسر کرنا سکھاتی ہیں۔ وہ زناکاری اور شراب خوری کو حرام کرتا ہے، بہت سے ان تفریحی مشاغل اور عیش پسندانہ تفریحات کے اسباب میں کفایت شعاری برتنے کی تاکید کرتا ہے اور اس بد اخلاقی، اسراف اور حد سے بڑھی ہوئی لذت پرستی کا استیصال کر دیتا ہے جو مغربی ممالک میں برتھ کنٹرول کی ترویج کے اہم اسباب میں سے ہے۔ اس کے ساتھ اسلام آپس کی ہمدردی اور امدادِ باہمی کی تعلیم دیتا ہے، صلہ رحمی کی تاکید کرتا ہے، ہمسایوں کی مدد اور غریب ونادار ابنائے نوع پر انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیتا ہے اور خود غرضی ونفس پرستی سے روکتا ہے۔ یہ سب چیزیں ایک طرف ہر شخص میں منفرد اور دوسری طرف سوسائٹی میں مجتمعاً ایک ایسا اخلاقی ماحول پیدا کر دیتی ہیں جس میں ضبط ِ ولادت کے داعیات پیدا ہی نہیں ہو سکتے۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اسلام نے خدا پرستی کی تعلیم دی ہے۔ وہ خدا پر بھروسہ کرنا سکھاتا ہے اور یہ حقیقت انسان کے ذہن نشین کر دیتا ہے کہ اس کا اور ہر جاندار کا اصلی رازق حق تعالیٰ ہے۔ یہ چیز انسان میں وہ ذہنیت پیدا ہی نہیں ہونے دیتی جس سے وہ اپنی زندگی میں صرف اپنے ذرائع اور اپنی ہی کوشش پر بھروسا کرنے لگتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اسلام کے اجتماعی قوانین اور اس کی اخلاقی تعلیمات اور روحانی تربیت نے ان اسباب وداعی میں سے ہر سبب کو اور ہر داعیہ کو مٹا دیا ہے جو مغربی تمدن وتہذیب میں ضبط ِ ولادت کے لیے باعثِ تحریک ہوئے ہیں۔ اگر انسان ذہنی وعملی حیثیت سے ایک سچا مسلمان ہو تو نہ کبھی اس کے نفس میں ضبط ِ ولادت کی خواہش پیدا ہو سکتی ہے اور نہ اس کی زندگی میں ایسے حالات پیش آ سکتے ہیں جو اس کو فطرت کے سیدھے راستے سے منحرف ہونے پر مجبور کر دیں۔
ضبط ِولادت کے متعلق اسلام کا فتویٰ
یہ تو مسئلہ کا سلبی (negative) پہلو تھا۔ اب ہم کو ایجابی (positive) پہلو سے دیکھنا چاہیے کہ ضبط ِ ولادت کے متعلق اسلام کا فتویٰ کیا ہے۔
قرآن مجید میں ایک جگہ یہ قاعدہـ کلیہ بیان کیا گیا ہے کہ تغییر خلق اللہ (اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو بدلنا) شیطانی فعل ہے۔
﴿ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ۰ۭ﴾ (النساء119:4)
اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں ردّ و بدل کریں گے۔
اس آیت میں تغییر خلق اللہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو جس غرض کے لیے بنایا ہے اس کو اس غرض اصلی سے پھیر کر کسی دوسری غرض کے لیے استعمال کیا جائے، یا اس طور پر اس سے کام لیا جائے کہ غرض اصلی فوت ہو جائے۔ اس قاعدۂ کلیہ کے تحت ہم کو دیکھنا چاہیے کہ عورت اور مرد کے زوجی تعلق میں ’’خلق اللہ‘‘ (یعنی اس تعلق کی فطری غرض) کیا ہے اور ضبطِ ولادت سے تغییر خلق اللہ لازم آتی ہے یا نہیں۔ خود قرآن مجید اس سوال کے حل میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ وہ عورت اور مرد کے زوجی تعلق کی دو غرضیں بتاتا ہے:
ایک یہ کہ:
﴿نِسَاۗؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ۰۠ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ۰ۡوَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ۰ۭ ﴾ (البقرہ 223:2)
تمھاری عورتیں تمھارے لیے کھیتیاں ہیں۔ پس تم جس طرح چاہو اپنی کھیتیوں میں جائو اور اپنے لیے آئندہ کا بندوبست کرو۔
اور دوسری یہ ہے:
﴿وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْہَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً۰ۭ ﴾ (الروم 21:30)
اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمھارے درمیان محبت ورحمت پیدا کی۔
پہلی آیت میں عورتوں کو ’’کھیتی‘‘ کہہ کر ایک حیاتی حقیقت (Biological Fact) کا اظہار کیا گیا ہے۔ حیاتیات کے نقطۂ نظر سے مرد کی حیثیت کاشت کار کی ہے اور عورت کی حیثیت کھیتی کی، اور ان دونوں کے تعلق سے فطرت کی اولین غرض بقائے نوع ہے۔ اس غرض میں انسان اور حیوان اور نباتات سب مشترک ہیں۔ { FR 7156 }
دوسری آیت میں اس تعلق کی ایک اور غرض بھی بیان کی گئی ہے اور وہ قیام تمدن ہے، جس کی بنیاد شوہر اور بیوی کے باہم مل کر رہنے سے پڑتی ہے۔ یہ غرض انسان کے لیے مخصوص ہے اور انسان کی مخصوص بناوٹ ہی میں ایسے داعیات پیدا کر دیے گئے ہیں جو اس غرض کی تکمیل کے لیے اسے ابھارتے ہیں۔
خلقُ اللہ کی تشریح
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے کارخانے کو چلانے کے لیے منجملہ بہت سے انتظامات کے دو زبردست انتظام کیے ہیں۔ ایک تغذیہ، دوسرے تولید۔ تغذیہ کا مقصود یہ ہے کہ جو انواع اس وقت موجود ہیں وہ ایک مدتِ معینہ تک زندہ رہ کر اس کارخانہ کو چلاتی رہیں۔ اس کے لیے رب العالمین نے غذا کا وافر سامان مہیا کیا، اجسام نامیہ (organic bodies) میں غذا کو جذب کرنے اور اس کو اپنا جُز بنانے کی قابلیت پیدا کی اور ان میں غذا کی طرف ایک طبیعی خواہش پیدا کر دی جو ان کو غذا حاصل کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو تمام اجسام نامیہ (خواہ نباتات ہوں یا حیوانات یا انسان) ہلاک ہو جائیں اور اس کارخانۂ عالم میں کوئی رونق باقی نہ رہے۔ لیکن فطرت الٰہیہ کے نزدیک اشخاص وافراد کے بقا کی بہ نسبت انواع واجناس کا بقاء زیادہ اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ اشخاص کے لیے زندگی کی ایک بہت ہی قلیل مدت ہے اور اس کارخانہ کو چلانے کے لیے ضروری ہے کہ اشخاص کے مرنے سے پہلے دوسرے اشخاص ان کی جگہ لینے کے لیے پیدا ہو جائیں۔ اس دوسری اعلیٰ اور اشرف ضرورت کو پورا کرنے کے لیے فطرت نے تولید کا انتظام کیا ہے۔ انواع میں نر اور مادہ کی تقسیم، نر ومادہ کے اجسام کی جداگانہ ساخت، دونوں میں ایک دوسرے کی جانب میلان اور زوجی تعلق کے لیے دونوں میں ایک زبردست خواہش کا موجود ہونا یہ سب کچھ اسی غرض کے لیے ہے کہ دونوں مل کر اپنی موت سے پہلے اپنے جیسے افراد اللہ تعالیٰ کے اس کارخانہ کو چلانے کے لیے مہیا کر دیں۔ اگر یہ غرض نہ ہوتی تو سرے سے نر ومادہ یا مرد وعورت کی علیحدہ علیحدہ اصناف پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔
پھر دیکھیے کہ جو انواع کثیر الاولاد ہوتی ہیں ان میں فطرت نے اولاد کی محبت کا کوئی خاص جذبہ پیدا نہیں کیا کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی اور حفاظت کریں۔ اس لیے یہ انواع محض اپنی کثرتِ تناسل کے بل پر قائم رہتی ہیں لیکن جن انواع کی اولاد کم ہوتی ہے ان میں اولاد کی محبت زیادہ پیدا کی گئی ہے اور ماں باپ کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ ایک کافی عرصہ تک اپنی اولاد کی نگرانی وحفاظت کریں۔ یہاں تک کہ وہ خود اپنی حفاظت کے قابل ہو جائیں۔ اس معاملہ میں انسان کا بچہ سب سے زیادہ کمزور ہوتا ہے اور زیادہ مدت تک ماں باپ کی نگرانی کا محتاج رہتا ہے۔ دوسری طرف انواعِ حیوانی میں شہوت کا جذبہ یا تو موسمی ہوتا ہے، یا جبلی مطالبات کے تحت محدود ہوتا ہے لیکن انسان میں یہ جذبہ نہ تو موسمی ہے اور نہ جبلت نے اس کو محدود کیا ہے۔ اس لیے نوعِ انسانی میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے ساتھ دائمی تعلق رکھنے پر مجبور ہیں۔ یہ دونوں چیزیں انسان کو مدنی الطبع بناتی ہیں، یہیں سے گھر کی بنیاد پڑتی ہے اور گھر سے خاندان اور خاندان سے قبیلے بنتے ہیں اور آخر کار اسی بنیاد پر تمدن کی عمارت قائم ہوتی ہے۔
اس کے بعد انسانی ساخت پر غور کیجیے۔ حیاتیات کے مطالعہ سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے جسم کی بناوٹ میں شخصی مفاد پر نوعی مفاد کو ترجیح دی گئی ہے اور انسان کو جو کچھ دیا گیا ہے وہ اس کی ذات سے زیادہ اس کی نوع کے مفاد کے لیے ہے۔ انسان کے جسم میں اس کے صنفی غدود (Sexual Glands) سب سے زیادہ اہم خدمات انجام دیتے ہیں۔ یہ غدے ایک طرف انسان کے جسم کو وہ ماء الحیات (hormon) بہم پہنچاتے ہیں جو اس میں حسن وجمال، رونق وتازگی، ذہانت اور تیزی، توانائی اور قوتِ عمل پیدا کرتے ہیں اور دوسری طرف یہی غدے انسان میں تولید کی قوت پیدا کرتے ہیں جو عورت اور مرد کو تناسل کے لیے باہم ملنے پرمجبور کرتی ہے۔ جس عمر میں انسان نوعی خدمت کے لیے مستعد ہوتا ہے، وہ زمانہ اس کے شباب اور حسن اور عمل کا بھی ہوتا ہے اور جب وہ نوعی خدمت کے قابل نہیں رہتا، وہی زمانہ اس کے ضعف اور بڑھاپے کا ہوتا ہے۔ زوجی فعلیت کا کمزور ہونا ہی دراصل آدمی کے لیے موت کا پیغام ہے۔ اگر انسان کے جسم سے اس کے صنفی غدود نکال دیے جائیں تو جس طرح وہ نوعی خدمت کے قابل نہیں رہتا اسی طرح شخصی خدمت کے لیے بھی اس کی قابلیت بہت کم ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ ان غدوں کے بغیر اس کی دماغی اور جسمانی قوتیں نہایت کمزور ہوتی ہیں۔
عورت کے جسم میں نوعی مفاد کی خدمت کومرد سے بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ عورت کے جسم کی ساری مشین ہی اس غرض کے لیے بنائی گئی ہے کہ وہ بقائے نوع کی خدمت انجام دے۔ وہ جب اپنے شباب کو پہنچتی ہے تو ایامِ ماہواری کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ جو ہر مہینے اس کو استقرارِ حمل کے لیے تیار کرتا رہتا ہے۔ پھر جب نطفہ قرار پاتا ہے تو اس کے پورے نظامِ جسمانی میں ایک انقلاب پیدا ہوتا ہے۔ بچے کا مفاد اس کے تمام جسم پر حکمرانی کرنے لگتا ہے۔ اس کی قوت کا اتنا حصہ اس کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے جتنا اس کی زندگی کے لیے ناگزیر ہے، باقی ساری قوت بچے کی نشوونما میں صرف ہوتی ہے۔ یہی چیز ہے جو عورت کی فطرت میں محبت، قربانی اور ایثار (altruism) پیدا کرتی ہے اور اسی لیے پدریت کا رابطہ اتنا گہرا نہیں ہے جتنا مادریت کا رابطہ ہے۔ وضع حمل کے بعد عورت کے جسم میں ایک دوسرا انقلاب رونما ہوتا ہے جو اسے رضاعت کے لیے تیارکرتا ہے۔ اس زمانہ میں غدودِ رضاعت ماں کے خون سے بہترین اجزاء جذب کرکے بچے کے لیے دودھ مہیا کرتے ہیں اور یہاں فطرتِ الٰہیہ پھر عورت کو نوعی مفاد کے لیے قربانی پر مجبور کرتی ہے۔ رضاعت کے بعد عورت کا جسم از سرِ نو ایک دوسرے استقرارِحمل کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک وہ اس نوعی خدمت کے لیے مستعد رہتی ہے۔ جہاں اس کی یہ استعداد ختم ہوئی، اس کا قدم موت کی طرف بڑھا۔ سنِ یاس شروع ہوتے ہی اس کا حسن وجمال رخصت ہو جاتا ہے، اس کی شگفتگی، اس کی جولانیِ طبع، اس کی جاذبیت کافور ہو جاتی ہے اور اس کے لیے جسمانی تکالیف اور نفسانی افسردگی کے ایک ایسے دور کا آغاز ہوتا ہے جو صرف موت ہی کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے لیے بہترین زمانہ وہ ہے جب وہ نوع کی خدمت کے لیے جیتی ہے اور جب وہ صرف اپنے لیے جیتی ہے تو بُری طرح جیتی ہے۔
اس موضوع پرایک روسی مصنف آنتن نیمی لاف (Anton Nemilov) نے ایک بہترین کتاب لکھی ہے جس کا نام (Biological Tragady of Woman) ہے۔ 1932ء میں اس کا انگریزی ترجمہ لندن سے شائع ہوا ہے۔ اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی پیدائش ہی بقائے نوع کی خدمت کے لیے ہوئی ہے۔ یہی حقیقت دوسرے محققین وماہرین نے بھی بیان کی ہے۔ مثلاً نوبل انعام یافتہ مصنف ڈاکٹر الیکزس کارل(Dr. Alixis Carrel) اپنی کتاب “Man The Unknown” میں اسی نقطۂ نظر کو پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
’’عورت کے لیے وظائف تولید جو اہمیت رکھتے ہیں ان کا ابھی تک پورا شعور پیدا نہیں ہوا ہے۔ اس وظیفہ کی انجام دہی عورت کی معیاری تکمیل کے لیے ناگزیر ہے۔ پس یہ ایک احمقانہ فعل ہے کہ عورتوں کو تولید اور زچگی سے برگشتہ کیا جائے۔‘‘
ایک مشہور ماہر جنسیات ڈاکٹر آزوالڈ شواز (Oswald Schwarz) اپنی کتاب ’’نفسیات جنس‘‘ (The Psychology of Sex) میں لکھتا ہے:
’’جذبۂ جنسی آخر کس چیز کا غماز ہے اور کس مقصد کے حصول کے لیے ہے؟ یہ بات کہ اس کا تعلق افزائشِ نسل سے ہے بالکل واضح ہے۔ حیاتیات (Biology) کا علم اس معاملے کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حیاتیاتی قانون ہے کہ جسم کا ہر عضو اپنا خاص وظیفہ انجام دینا چاہتا ہے اور اس کام کو پورا کرنا چاہتا ہے جو فطرت نے اس کے سپرد کیا ہے، نیز یہ کہ اگر اسے اپنا کام کرنے سے روک دیا جائے تو لازماً الجھنیں اور مشکلات پیدا ہو کر رہتی ہیں۔ عورت کے جسم کا بڑا حصہ بنایا ہی گیا ہے استقرارِ حمل اور تولید کے لیے۔ اگر ایک عورت کو اپنے جسمانی اور ذہنی نظام کا یہ اقتضا پورا کرنے سے روکا جائے گا تو وہ اِضمحلال اور شکستگی کا شکار ہو جائے گی۔ اس کے برعکس ماں بننے میں وہ ایک نیا حسن …..ایک روحانی بالیدگی…..پا لیتی ہے جو اس جسمانی اِضمحلال پرغالب آ جاتی ہے جس سے زچگی کے باعث عورت دو چار ہوتی ہے۔‘‘{ FR 7157 }
یہی مصنف مزید لکھتا ہے:
’’ہمارے جسم کا ہر عضوکام کرنا چاہتا ہے اور کسی عضو کو بھی اپنے وظیفہ کی انجام دہی سے روکا جائے گا تو پورے نظام کا توازن درہم برہم ہو جائے گا۔ ایک عورت کو اولاد کی ضرورت صرف اسی بنا پر نہیں ہے کہ یہ اس کی جبلتِ مادریت کا تقاضا ہے یا یہ کہ اس خدمت کی انجام دہی کو وہ اوپر سے عائد کردہ ایک اخلاقی ضابطے کی بنا پر اپنا فرض سمجھتی ہے، بلکہ دراصل اسے اس کی ضرورت اس لیے ہے کہ اس کا سارا نظام جسمانی بنا ہی اس کام کے لیے ہے۔ اگر اسے اپنے جسم کے اس مقصدِ تخلیق ہی کو پورا کرنے سے محروم رکھا جائے گا تو اس کی پوری شخصیت بے کیفی اور محرومی اور شکست سے متاثر ہو گی۔‘‘
اس بحث سے قرآن مجید کے اس ارشاد کی حقیقت اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان زوجی تعلق پیدا کرنے سے فطرت کا اصل مقصد بقائے نوع ہے اور اس کے ساتھ دوسرا مقصد یہ ہے کہ انسان عائلی زندگی (family life)اختیار کرکے تمدن کی بنیاد رکھے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت اور مرد کے درمیان جو کشش رکھی ہے اور ان دونوں کے زوجی تعلق میں جو لذت پیدا کی ہے وہ صرف اس لیے کہ انسان اپنی طبیعی رغبت سے ان مقاصد کو پورا کرے۔ اب جو شخص محض اس لذت کو حاصل کرنا چاہتا ہے مگر ان مقاصد کی خدمت بجا لانے سے انکار کر دیتا ہے، یہ یقینا خلق اللہ کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ان اعضا اور ان قوتوں کو جو اللہ تعالیٰ نے بقائے نوع کے لیے عطا کیے ہیں ان کی غرض اصلی کے خلاف محض اپنی نفسانی غرض کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو محض زبان کی لذت حاصل کرنے کے لیے عمدہ عمدہ غذائوں کے نوالے منہ میں چبائے مگر حلق کے نیچے اتارنے کے بجائے ان کو تھوک دے۔ جس طرح ایسا شخص خود کشی کا ارتکاب کرتا ہے اسی طرح وہ شخص جو زوجی تعلق سے محض لذت حاصل کرتا ہے اور بقائے نسل کے مقصد کو پورا نہیں ہونے دیتا، نسل کشی کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ وہ فطرت کے ساتھ دغا بازی کر رہا ہے۔ فطرت نے اس فعل میں جو لذت رکھی ہے وہ دراصل معاوضہ ہے اس خدمت کا جو فطرت کے ایک مقصد کو پورا کرنے کے لیے وہ بجا لاتا ہے لیکن یہ شخص معاوضہ تو پورا لے لیتا ہے اور خدمت بجا لانے سے انکار کر دیتا ہے۔ کیا یہ دغا بازی نہیں؟
نقصانات
آئیے اب ہم دیکھیں کہ جو لوگ فطرت کے ساتھ یہ دغا بازی کرتے ہیں، کیا فطرت ان کو سزا دیے بغیر چھوڑ دیتی ہے یا اس کی کچھ سزا بھی دیتی ہے؟ قرآن مجید کہتا ہے کہ اس کی سزا ضرور دی جاتی ہے اوروہ سزا یہ ہے کہ ایسے لوگ خود ہی اپنے آپ کو نقصان میں مبتلا کرتے ہیں۔
﴿قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَہُمْ سَفَہًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّحَرَّمُوْا مَا رَزَقَہُمُ اللہُ افْتِرَاۗءً عَلَي اللہِ۰ۭ ﴾ ( الانعام 140:6)
وہ لوگ ٹوٹے میں پڑ گئے جنھوں نے اپنی اولاد کو نادانی سے بغیر سمجھے بوجھے قتل کیا اور اس نعمت کو جو اللہ نے ان کو عطا کی تھی اللہ پر افترا باندھ کر اپنے اوپر حرام کر لیا۔{ FR 7158 }
اس آیت میں قتل اولاد کے ساتھ نعمتِ تناسل کو اپنے لیے حرام کر لینے کا نتیجہ بھی خُسران بتایا گیا ہے۔ دیکھنا چاہیے کہ یہ خسران کن کن صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے۔
1۔ جسم ونفس کا نقصان
توالد وتناسل کا معاملہ چونکہ براہِ راست انسان کے جسم اور نفس سے تعلق رکھتا ہے اس لیے ہم کو سب سے پہلے ضبط ِ ولادت کے ان اثرات کی تحقیق کرنی چاہیے جو انسان کے نفس اور جسم پر مترتب ہوتے ہیں۔
ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ انواع میں نر ومادہ کی دو الگ الگ صنفیں بنانے سے فطرت کا اصل مقصد ہی توالد وتناسل اور بقائے انواع ہے۔ یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ نر ومادہ کی عین فطرت اس کا اقتضا کرتی ہے کہ وہ اولاد پیدا کریں اور خصوصاً نوعِ انسانی میں تو عورت کے اندر طبعاً اولاد کی خواہش اور محبت کا ایک زبردست داعیہ پیدا کیا گیا ہے۔ نیز یہ بھی آ پ کو معلوم ہو چکا ہے کہ انسان کے جسم میں اس کے صنفی غدود کا کتنا قوی اور گہرا اثرہے اور کس طرح یہ غدے انسان کو نوع کی خدمت پرابھارنے اور اس میں حسن، توانائی، عملی سرگرمی اور ذہنی قوت پیدا کرنے کے دوہرے فرائض انجام دیتے ہیں۔ خصوصاً عورت کے متعلق آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ اس کے جسم کی پوری مشین ہی خدمت بقائے نوع کے لیے بنائی گئی ہے، اس کی تخلیق کا اہم ترین مقصد یہی ہے، اور اس لیے اس کی عین فطرت اس سے اس خدمت کا مطالبہ کرتی ہے۔ ان سب امور کو پیش نظر رکھ کر آپ کی عقل خود اس نتیجہ پر پہنچ سکتی ہے کہ جب انسان زوجی تعلق سے محض لذت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تو اس مقصد کو پورا کرنے سے انکار کر دے گا جس کی طلب اس کے جسم کے ریشہ ریشہ میں اس قدر گہرائی کے ساتھ پیوست کر دی گئی ہے، تو ممکن نہیں ہے کہ اس کے نظامِ عصبی اوراس کے صنفی غدود کی فعلیت پر اس حرکت کے بُرے اثرات مترتب نہ ہوں اور ان اثرات سے اس کا نفس محفوظ رہ سکے۔
تجربہ اس عقلی نتیجہ کی تائید کرتا ہے۔ 1927ء میں برطانیہ عظمیٰ کے نیشنل برتھ ریٹ کمیشن (National Birth Rate Commission) نے ضبط ِولادت کے مسئلہ پر طبی نقطۂ نظر سے جورپورٹ شائع کی تھی اس میں لکھا ہے:
’’مانع ِ حمل وسائل کے استعمال سے مردوں کے نظامِ جسمانی میں برہمی پیدا ہو سکتی ہے، عارضی طور پر ان میں مردانہ کمزوری یا نامردی بھی پیدا ہو سکتی ہے ، لیکن مجموعی حیثیت سے کہا جا سکتا ہے کہ ان وسائل کا کوئی زیادہ بُرا اثر مرد کی صحت پر نہیں پڑتا۔ البتہ اس بات کا ہمیشہ خطرہ ہے کہ مانعِ حمل وسائل کے استعمال سے جب مرد کو زوجی تعلق میں اپنی خواہشات کی تسکین حاصل نہ ہو گی تو اس کی عائلی زندگی کی مسرتیں غارت ہو جائیں گی اور دوسرے ذرائع سے تسکین حاصل کرنے کی کوشش کرے گا جو اس کی صحت کو برباد کر دیں گے اور ممکن ہے کہ اسے امراض خبیثہ میں مبتلا کر دیں۔‘‘
پھر عورتوں کے متعلق کمیشن یہ رائے ظاہر کرتا ہے:
’’جہاں طبی لحاظ سے منعِ حمل ناگزیر ہو، جہاں بچوں کی پیدائش حد سے زیادہ ہو، وہاں تو منعِ حمل کی تدابیر عورت کی صحت پر بلاشبہ اچھا اثر ڈالتی ہیں لیکن جہاں ان میں سے کوئی ضرورت داعی نہ ہو، وہاں منعِ حمل تدابیر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عورت کے نظامِ عصبی میں سخت برہمی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس میں بدمزاجی اور چڑچڑاپن پیدا ہو جاتا ہے۔ جب اس کے جذبات کی تسکین نہیں ہوتی تو شوہر کے ساتھ اس کے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ یہ نتائج ان لوگوں میں زیادہ نمایاں دیکھے گئے ہیں۔ جو عَزُل{ FR 7159 } (coitus interruptus) کا طریقہ اختیارکرتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر میری شارلیب ( Dr.Mary Scharlieb) اپنے چالیس سالہ تجربات کے نتائج ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں:
’’ضبط ِ ولادت کے طریقے خواہ فرزجے (pessaries) ہوں، یا جراثیم کش دوائیں، یاربر کی ٹوپیاں اور لفافے، بہرحال ان کے استعمال سے کوئی فوری نمایاں نقصان تو نہیں ہوتا لیکن ایک عرصہ تک ان کو استعمال کرتے رہنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ادھیڑ عمر تک پہنچتے پہنچتے عورت میں عصبی ناہمواری (Nervous Instability)پیدا ہو جاتی ہے۔ پژمردگی، شگفتگی کا فقدان، افسردہ دلی، طبیعت کا چڑچڑا پن اور اشتعال پذیری، غمگین خیالات کا ہجوم، بے خوابی، پریشان خیالی، دل ودماغ کی کمزوری، دورانِ خون کی کمی، ہاتھ پائوں کا سن ہو جانا، جسم میں کہیں کہیں ٹیسیں اٹھنا، ایامِ ماہواری کی بے قاعدگی، یہ ان طریقوں کے لازمی اثرات ہیں۔‘‘
بعض دوسرے ڈاکٹروں نے بیان کیا ہے کہ اِعوجاجِ رحم (Falling of the Womb) حافظہ کی خرابی اور بسا اوقات مراق، خفقان اور جنون جیسے عوارض بھی ان طریقوں کے استعمال سے پیدا ہو جاتے ہیں۔ نیز یہ کہ زیادہ عرصہ تک جس عورت کے ہاں بچہ نہیں ہوتا اس کے اعضائے تناسل میں ایسے تغیرات واقع ہوتے ہیں جن سے اس کی قابلیت ِ تولید متاثر ہو جاتی ہے اور اگر کبھی وہ حاملہ ہو جائے تو اس کو زمانہ حمل اور وضع حمل میں سخت تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔{ FR 7160 }
پروفیسر لیونارڈہل، ایم۔ بی۔ اپنے مضمون میں لکھتا ہے:
’’بلوغ کے وقت عورت کے جسم میں جتنے تغیرات ہوتے ہیں سب تناسل کے مقصد ہی کے لیے ہوتے ہیں۔ ایام ماہواری کے دورے اسی غرض کے لیے ہوتے ہیں کہ بار بار عورت کو استقرارِ حمل کے لیے تیار کریں۔ ایک کنواری عورت میں، جو اپنے آپ کو استقرارِ حمل سے روکتی ہے، ایام کا ہر دورہ ان تمام اعضا کی ناامیدی کے ساتھ ختم ہوتا ہے جو اس دورہ میں حمل کے لیے تیار کیے گئے تھے۔ اس اقتضائے طبیعی کے پورا نہ ہونے اور تناسلی اعضا کے معطل رہنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تناسلی اعضا کی فعلیت میں برہمی وبدنظمی پیدا ہو، ایام ماہواری تکلیف اور بے قاعدگی کے ساتھ آنے لگیں، چھاتیاں ڈھلک جائیں۔ چہرے کی رونق اور خوبصورتی رخصت ہو جائے اور مزاج میں اشتعال پذیری یا افسردگی پیدا ہو جائے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کی زندگی میں اس کے صنفی غدود کا بڑا اثر ہے۔ جو غدے زوجی قوت پیدا کرتے ہیں، وہی انسان میں توانائی، حسن اور چستی بھی پیدا کرتے ہیں۔ انھی سے انسان میں کیرکٹر کی بہت سے خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔ زمانہ بلوغ کے قریب جب ان غدوں کا عمل تیز ہو جاتا ہے تو جس طرح انسان میں تناسل کی استعداد پیدا ہوتی ہے، اسی طرح اس میں خوبصورتی، شگفتگی، ذہنی قوت، جسمانی قوت، جوانی اور عملی سرگرمی بھی پیدا ہوتی ہے۔ اگر ان غدوں کے فطری مقصد کو پورا نہ کیا جائے گا تو یہ اپنے ضمنی فعل یعنی تقویت کو بھی چھوڑ دیں گے۔ خصوصاً عورت کو استقرارِ حمل سے روکنا دراصل اس کی پوری مشین کو معطل اور بے مقصد بنانا ہے۔‘‘
ڈاکٹر آزوالڈ شوارز کی رائے ہم اس سے پہلے نقل کر چکے ہیں جس میں وہ کہتا ہے:
’’یہ ایک ثابت شدہ حیاتیاتی قانون ہے کہ جسم کا ہر عضو اپنا خاص وظیفہ انجام دینا چاہتا ہے اور اس کام کو پورا کرنا چاہتا ہے جو فطرت نے اس کے سپرد کیا ہے۔ نیز یہ کہ اگر اسے اپنا کام کرنے سے روکا جائے گا تو لازماً الجھنیں اور مشکلات پیدا ہوں گی۔ عورت کا جسم استقرارِ حمل اور تولید ہی کے لیے بنایا گیا ہے۔ اگر ایک عورت کو اپنے جسمانی اور ذہنی نظام کے اس اقتضا کو پورا کرنے سے روکا جائے گا تو وہ اضمحلال اور شکستگی کا شکار ہو جائے گی۔ اس کے برعکس مادریت میں وہ ایک نیا حسن….. ایک روحانی بالیدگی….. پا لیتی ہے جو اس جسمانی فرسودگی پر غالب آ جاتی ہے جس سے (زچگی کے باعث) عورت دو چار ہوتی ہے۔‘‘{ FR 7161 }
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ ضبط ِ ولادت عورت پر ایک صریح ظلم ہے۔ یہ اسے اپنی فطرت سے برسرپیکار کر دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کا پورا جسمانی اور اعصابی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔
اول تو ضبط ِ ولادت فی نفسہٖ انسان کے فطری نظام کے خلاف ایک بغاوت ہے اور اس کی مضرتیں بے پناہ ہیں۔ پھر ضبط ِ ولادت کے جو طریقے اختیارکیے جاتے ہیں وہ مرد اور عورت دونوں پر اور خصوصیت سے عورت پر ایسے اثرات چھوڑتے ہیں جو اس کی پوری زندگی کو متاثر کر دیتے ہیں اور اس کی شخصیت کی چولیں ہلا دیتے ہیں۔
ضبط ِ ولادت کا بہت پرانا اور بڑا اہم ذریعہ اسقاطِ حمل (abortion) ہے۔ مانع حمل ذرائع (contraceptives) کے فروغ کے باوجود آج بھی دنیا میں اس پر بکثرت عمل ہو رہا ہے اور بعض ممالک میں صرف اسقاطِ حمل ہی کے لیے باقاعدہ کلب اور مطب قائم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مانعِ حمل ذرائع میں سے کوئی بھی سو فیصدی موثر نہیں ہے۔ ان کے استعمال کے باوجود بسا اوقات حمل قرار پا جاتا ہے، اور اپنی نسل سے بیزار لوگ اس کا علاج یہ کرتے ہیں کہ پیدا ہونے سے پہلے ہی اس بچے کو قتل کر ڈالتے ہیں جو ان کی مرضی کے خلاف دنیا میں آنا چاہتا ہے۔ ضبط ِ ولادت کے حامی بالعموم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’خاندانی منصوبہ بندی‘‘ کی وجہ سے اسقاطِ حمل میں بڑی کمی آ جاتی ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ امریکہ میں تازہ ترین اعداد وشمار کی رو سے بقول پروفیسر پال گیب ہارڈ (Paul H Gebhard) آج بھی آٹھ فیصدی عورتیں شادی سے پہلے اور 20 سے 25 فیصدی شادی کے بعد اسقاط حمل کا طریقہ اختیار کرتی ہیں۔{ FR 7162 } جاپان میں دوسری جنگ کے بعد امریکی سپریم کمانڈر کے زیر نگرانی ضبط ِ تولید کی تحریک کو بڑے زور وشور کے ساتھ فروغ دیا گیا لیکن حالات کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اس تحریک کی بدولت اسقاطِ حمل میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا۔ 1950ء میں اس کا رواج 29½ فیصدی آبادی میں تھا۔ 1955ء میں بڑھ کر 52 فیصد تک پہنچ گیا۔ پروفیسرسووے (Sauvy)کے اندازے کے مطابق جاپان میں ہر سال بارہ لاکھ اسقاط ہوتے ہیں، اور اگر غیر قانونی اسقاط کو بھی لے لیا جائے (جو بیس لاکھ سے کم نہیں) تو تعداد کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔ { FR 7163 }
جاپان کے مشہور روزنامہ مینی چی (Mainichi) کے منعقد کردہ سروے کی رو سے جن خاندانوں میں ضبط ِ ولادت پر عمل ہوتا ہے ان میں اسقاط حمل کا طریقہ غیر عامل خاندانوں کے مقابلہ میں چھ گنا زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔ { FR 7164 }
انگلستان کے متعلق رائل کمیشن بھی اسی نتیجہ پرپہنچا تھا کہ ضبط ِ ولادت پر عامل خاندانوں میں اسقاطِ حمل کا رواج 8.27 گنا زیادہ ہے۔ امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر ایرین ٹوئیبر (Irene B Taeuber) کی وسیع تحقیقات بھی اسی نتیجہ پر منتج ہوئیں کہ مانعِ حمل ذرائع کی آمد کے ساتھ اسقاطِ حمل میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اب اس کا رواج صرف شادی شدہ خواتین ہی تک محدود نہیں بلکہ بیس سال سے کم عمر کی لڑکیوں میں بھی یہ عام ہے۔{ FR 7165 }
اور اس امر پر بیشتر ماہرین علوم طبیہ کا اتفاق ہے کہ اسقاطِ حمل عورت کی صحت اور اس کے نظامِ اعصاب کے لیے مہلک ہے۔ ہم یہاں صرف ڈاکٹر فریڈرک ٹاسگ کی رائے نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جنھوں نے اس موضوع پر طبی معلومات کا نچوڑ پیش کر دیا ہے:
’’جب حمل کو اس کی تکمیل سے پہلے ہی خارج کر دیا جاتا ہے…جسے اصطلاح میں اسقاطِ حمل (abortion) کہا جاتا ہے…تو نسلِ انسانی کو اس کی وجہ سے تین طرح کے نقصان برداشت کرنے پڑتے ہیں۔
اولاً، انسانوں کی ایک نامعلوم تعداد کو دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے ہی ہلاک کر دیا جاتا ہے۔
ثانیاً، اسقاطِ حمل کے ساتھ ساتھ ہونے والی مائوں کی بڑی تعداد لقمۂ اجل ہو جاتی ہے۔
ثالثاً، اسقاط کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں ایسے مریضانہ (pathological) اثرات مترتب ہوتے ہیں جو آئندہ تولید کے امکانات کو بری طرح مجروح کر دیتے ہیں۔‘‘{ FR 7166 }
اسقاط کے علاوہ ضبط ِ تولید کے دوسرے ذرائع وہ ہیں جن کو مانع حمل (contraceptives) کہا جاتا ہے لیکن ان کے متعلق بھی ماہرین کی رائے یہی ہے کہ:
(۱) ان میں سے کوئی بھی یقینی اور حتمی نہیں اور
(ب) کوئی ایک ذریعہ بھی ایسا نہیں ہے جو بُرے طبی اور اعصابی اثرات نہ چھوڑتا ہو۔ ڈاکٹر کلیرای فولسم (Clair E.Folsome) کے الفاظ میں:
’’ہمارے پاس آج بھی کوئی ایسا معلوم، آسان، کم خرچ اور غیر مضرت رساں طریقہ نہیں ہے جس کے ذریعہ ضبط ِ تولید پر عمل کیا جا سکے۔‘‘{ FR 7167 }
ہر مانعِ حمل طریقہ کے نفسیاتی اثرات بھی بڑے پیچیدہ ہیں اور ان کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ ذہنی الجھنیں پیدا ہو رہی ہیں بلکہ جنسی فعل کی اس لذت کو بھی وہ خاک میں ملا دیتے ہیں جو فطرت نے افزائش نسل کی اس خدمت کے صلے میں اس کے اندر ودیعت کردی ہے۔{ FR 7168 }
ڈاکٹر ستیاوتی اپنی کتاب فیملی پلاننگ (Family Planning) میں اس حقیقت کو یوں بیان کرتی ہیں:
’’بعض صورتوں میں ضبط ِ ولادت کے نتائج خطرناک نکلتے ہیں۔ سکونِ قلب جاتا رہتا ہے۔ نفسیاتی ہیجان پیدا ہو جاتا ہے۔ اعصابی بے چینی رہنے لگتی ہے۔ نیند غائب ہو جاتی ہے۔ انسان مراق اور ہسٹیریا کا شکار رہنے لگتا ہے، دماغی توازن بگڑ جاتا ہے۔ عورتیں بانجھ ہو جاتی ہیں اور مردوں کی قوت مردمی زائل ہو جاتی ہے۔‘‘{ FR 7673 }
آج کل ضبط ِ ولادت کی گولی (contraceptive pill) کا بڑا شور ہے۔ لیکن اس کے مضر اثرات بھی اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں اور اسے بالکل غیر مضرت رساں بتانا علمی بد دیانتی ہے۔ میک کارمک کے الفاظ ہیں:
’’گو یہ ابھی کچھ قبل از وقت ہے کہ اس گولی کے متعلق بالکل مستند طبی رائے دی جائے، لیکن یہ بہرحال واضح ہے کہ یہ منعِ حمل کا ایک قطعی اور یقینی ذریعہ نہیں ہو سکتی اور یہ کہ بعد میں اس کے بُرے اثرات عورت کی زندگی پر مترتب ہو سکتے ہیں۔ یہ گولی افزائش بیضہ (ovulation) کو روک کر اپنا عمل کرتی ہے اور اس طرح ناگزیر ہو کہ یہ عورت کے ایام ماہواری (menstrual cycle) میں مخل ہے۔ جب صورت یہ ہے تو یہ بات کسی طرح نہیں مانی جا سکتی کہ عورت کے اتنے اہم غدودی نظام میں تبدیلی بلا کسی دوسرے ناخوشگوار اثرکے ممکن ہے۔‘‘{ FR 7169 }
ان گولیوں کے متعلق برٹش انسائیکلوپیڈیا آف میڈیکل پریکٹس کے ضمیمہ میں ہم کو ایک اور مستند رائے ملتی ہے۔ ڈاکٹر جی۔ آئی۔ سوئیر(G.I.Swyer) اس بات کا اظہارکرتا ہے کہ:
’’طویل المدت نقصان دہ اثرات کے امکان سے ہم اس وقت انکار نہیں کر سکتے۔ اس طریقہ کی بڑی خرابیاں یہ ہیں کہ اس میں بیسیوں گولیاں کامل تسلسل کے ساتھ اور مجوزہ پلان کے مطابق استعمال کرنی ہوتی ہیں، نیز گولیوں کی اونچی قیمت{ FR 7172 }اور ناموافق اثرات کی بہتات مریض کے لیے اس طریق علاج کی مقبولیت کو بہت کم کر دیتی ہے۔‘‘{ FR 7173 }
تازہ اخباری اطلاع یہ ہے کہ لندن کے مشہور ڈاکٹر رینیل ڈیوکس کی رائے میں ضبط ِ ولادت کی یہ گولیاں خطرناک نتائج کی حامل ہیں۔ ان سے دورانِ سر اور اعصابی تکالیف ہی نہیں، سرطان (Cancer) جیسے موذی مرض کے پیدا ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ { FR 7174 }
یہ تو ہے ان طریقوں کی مضرت انگیزی کا عالم لیکن یہ خطرات انگیز کرنے کے بعد بھی یہ یقین نہیں ہے کہ یہ فی الحقیقت مانعِ حمل ثابت ہوں گے۔ اس لیے کہ انگلش کمیشن آن اسٹیریلائزیشن (Commission of Sterilisation)کی رپورٹ کے الفاظ میں ’’مانع حمل ذرائع پریشان کن حد تک غیر یقینی ہیں۔‘‘ سویڈن میں ڈاکٹر ایم ایکبالڈ (Dr.M.Ekbald) کے تجربات سے بھی یہی معلوم ہوا ہے کہ 479 خواتین میں سے38 فیصدی کو مانعِ حمل ذرائع استعمال کرنے کے باوجود حمل ٹھہر گیا۔{ FR 7175 } یعنی ہر قسم کی مضرتیں برداشت کرنے کے بعد بھی آپ پورے یقین کے ساتھ اولاد کے ’’خطرے‘‘ سے محفوظ نہیں ہو سکتے۔
ان مضرتوں کے علاوہ ایک بڑی مضرت یہ بھی ہے کہ ضبط ِ ولادت کے طریقے استعمال کرکے جب استقرار حمل کی طرف سے بے فکری ہو جاتی ہے تو شہوانی جذبات قابو میں نہیں رہتے۔ عورت پر مرد کے شہوانی مطالبات حدِ اعتدال سے بڑھ جاتے ہیں اور زوجین کے درمیان ایک خالص بہیمی تعلق باقی رہ جاتا ہے جس میں تمام تر شہوانی میلانات ہی کا غلبہ ہوتا ہے۔ یہ چیز صحت اور اخلاق دونوں کے لیے غایت درجہ نقصان دہ ہے۔ ڈاکٹر فورسٹر(Foerster) لکھتا ہے:
’’مرد کی زوجیت کا رخ اگر کلیۃً خواہشاتِ نفس کی بندگی کی طرف پھر جائے اور اس کو قابو میں رکھنے کے لیے کوئی قوت ضابطہ نہ رہے تو اس سے جو حالت پیدا ہو گی وہ اپنی نجاست ودنائت اور زہریلے نتائج میں ہر اس نقصان سے کہیں زیادہ ہو گی جو بے حد وحساب بچے پیدا کرنے سے رونما ہو سکتی ہے۔‘‘
2۔ معاشرتی نقصان
عائلی زندگی میں ضبط ِ ولادت کے جو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کی طرف اوپر ضمناً اشارہ کیا جا چکا ہے۔ شوہر اور بیوی کے تعلقات پر اس کا پہلا اور فوری اثر یہ ہوتا ہے کہ جب دونوں کے داعیاتِ فطرت کی تکمیل نہیں ہوتی تو ایک غیر محسوس طریقہ پر دونوں میں ایک طرح کی اجنبیت پیدا ہونے لگتی ہے جو بعد میں مودت ورحمت کی کمی، سرد مہری اور آخر کار نفرت وبے زاری تک پہنچ جاتی ہے۔ خصوصاً عورت میں ان طریقوں کی مداومت سے جو عصبی ہیجان اور چڑچڑا پن پیدا ہوتا ہے وہ خانگی زندگی کی ساری مسرتوں کو غارت کر دیتا ہے۔
لیکن اس کے علاوہ ایک اور بڑا نقصان بھی ہے جو مادی اسباب سے زیادہ روحانی اسباب کی بدولت رونما ہوتا ہے۔ جسمانی حیثیت سے تو عورت اور مرد کا تعلق محض ایک بہیمی تعلق ہے جیسا جانوروں میں ہوتا ہے۔ مگر جو چیز اس تعلق کو ایک اعلیٰ درجہ کا روحانی تعلق بناتی ہے اور اس کو مودت ورحمت کے ایک گہرے رابطہ میں تبدیل کر دیتی ہے وہ اولاد کی تربیت میں دونوں کی شرکت اور معاونت ہے۔ ضبط ِولادت اس مضبوط روحانی رابطہ کو وجود میں آنے سے روکتا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان کوئی گہرا اور مستحکم تعلق پیدا نہیں ہوتا اور ان کے تعلقاتِ بہیمیت کے درجہ سے آگے بڑھنے نہیں پاتے۔ اس بہیمیت کا خاصہ یہ ہے کہ کچھ مدت تک ایک دوسرے سے لطف اندوز ہونے کے بعد دونوں کا دل ایک دوسرے سے بھر جاتا ہے۔ پھر اس بہیمیت کے تعلق میں ہر مرد وعورت کے لیے ہر مرد وعورت یکساں ہے۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ ایک جوڑا ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کا ہو کر رہ جائے۔ وہ اولاد ہی ہے جو زوجین کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ کے لیے وابستہ رہنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ جب وہ نہ ہو تو ان کا باہم جڑ کر رہنا سخت مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں زوجی تعلقات نہایت ضعیف ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ضبط ِولادت کی تحریک کے ساتھ ساتھ طلاق کا رواج اس تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے کہ درحقیقت وہاں عائلی زندگی اور خاندانی نظام کا سارا تاروپود بکھر تا نظر آتا ہے۔
3۔ اخلاقی نقصان
اخلاق پر ضبط ِولادت کے مضر اثرات متعدد وجوہ سے مترتب ہوتے ہیں:
(ا) عورت اور مرد کو زنا کا لائسنس مل جاتا ہے۔ حرامی اولاد کی پیدائش سے سیرت پر بدنامی وذلت کا بدنما داغ لگ جانے کا کوئی خوف باقی نہیں رہتا۔ اس لیے ناجائز تعلقات پیدا کرنے میں دونوں کی ہمت افزائی ہوتی ہے۔{ FR 7176 }
(ب) لذت پرستی اور بندگیِ نفس حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے اور اس سے ایک عام اخلاقی انحطاط وبائی مرض کی طرح پھیل جاتا ہے۔
(ج) جن زوجین کے ہاں اولاد نہیں ہوتی ان میں بہت سے وہ اخلاقی خصائص پیدا ہی نہیں ہوتے جو صرف تربیت ِ اطفال ہی سے پیدا ہوا کرتے ہیں۔ یہ ایک حقیت ہے کہ جس طرح ماں باپ بچوں کی تربیت کرتے ہیں اسی طرح بچے بھی ماں باپ کی تربیت کرتے ہیں۔ بچوں کی پرورش سے ماں باپ میں محبت، ایثار اور قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ عاقبت اندیشی، صبروتحمل اورضبط ِنفس کی مشق بہم پہنچاتے ہیں۔ سادہ معاشرت اختیار کرنے پرمجبور ہوتے ہیں اور محض اپنی ذاتی آسائش کے پیچھے اندھے نہیں ہو سکتے۔ ضبط ِ ولادت ان تمام اخلاقی فوائد کا دروازہ بند کر دیتا ہے۔ توالد وتناسل کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنی صفتِ تخلیق وربوبیت کا ایک حصہ انسان کو عطا کرتا ہے اور اس طرح یہ انسان کے لیے متخلق باخلاق اللہ ہونے کا ایک بڑا وسیلہ ہے۔ ضبط ِولادت پر عمل کرنے سے انسان اس بڑی نعمت کو بھی کھو دیتا ہے۔
(د) ضبط ِولادت سے بچوں کی اخلاقی تربیت نامکمل رہ جاتی ہے۔ جس بچے کو چھوٹے اور بڑے بھائی بہنوں کے ساتھ رہنے سہنے، کھیلنے کُودنے اور معاملت کرنے کا موقع نہیں ملتا وہ بہت سے اعلیٰ اخلاقی خصائص سے محروم رہ جاتا ہے۔ بچوں کی تربیت صرف ماں باپ ہی نہیں کرتے بلکہ وہ خود بھی ایک دوسرے کی تربیت کرتے ہیں۔ ان کا آپس میں رہنا ان کے اندر ملنساری، محبت وایثار، تعاون ورفاقت اور ایسے ہی بہت سے اوصاف پیدا کرتا ہے اور وہ ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرکے خود ہی اپنے بہت سے اخلاقی عیوب کو دور کر لیتے ہیں۔ جو لوگ ضبط ِولادت پر عمل کرکے اپنی اولاد کو صرف ایک بچے تک محدود کر لیتے ہیں یا دو بچے اس طرح پیدا کرتے ہیں کہ ان میں عمر کا بہت زیادہ تفاوت ہوتا ہے وہ دراصل اپنی اولاد کو ایک بہتر اخلاقی تربیت سے محروم کر دیتے ہیں۔{ FR 7177 }
4۔ نسلی وقومی نقصانات
یہ تو وہ نقصانات تھے جو محض افراد کو ان کی انفرادی حیثیت میں اٹھانے پڑتے ہیں۔ اب دیکھیے کہ اس تحریک کے رواجِ عام سے نسلوں اور قوموں کو بحیثیت مجموعی کس قدر شدید نقصان پہنچتا ہے۔
(ا)قحط الرجال
تخلیق ِ انسان کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو زبردست انتظام کیا ہے اس میں خود انسان کا حصہ صرف اس قدر ہے کہ مرد اپنا نطفہ عورت کے جسم میں پہنچا دے۔ اس کے بعد کوئی چیز انسان کے اختیارمیں نہیں ہے، سب کچھ اللہ تعالیٰ کی حکمت ومَصلحت اور اس کے ارادے پر منحصر ہے۔ ہر مرتبہ جب مرد عورت سے ملتا ہے تو مرد کے جسم سے تیس سے چالیس کروڑ جراثیم حیات (sperm) عورت کے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور عورت کے بیضی خلیے (Egg Cell)سے ملنے کے لیے دوڑ لگاتے ہیں۔ ان جراثیم میں سے ہر ایک جداگانہ موروثی اور شخصی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔ انھی میں کند ذہن اور احمق بھی ہوتے ہیں اور عقلا وحکما بھی۔ ان میں ارسطو اور ابن سینا بھی ہوتے ہیں اور چنگیز اور نپولین بھی، شیکسپیئر اور حافظ بھی، میر جعفر اور میر صادق بھی اور اخلاق ووفا کے پتلے بھی۔ یہ بات انسان کے اختیار میں نہیں ہے کہ کسی خصوصیت کے جرثومہ کو کسی ایک خصوصیت رکھنے والے بیضی خلیہ سے ملا کر اپنے انتخاب سے ایک خاص قسم کا انسان پیدا کر دے۔ یہاں صرف اللہ تعالیٰ کا ارادہ وانتخاب ہی کام کرتا ہے اور وہی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کس وقت کس قوم میں کس قسم کے آدمی بھیجے۔ انسان جو اپنے عمل کے نتائج سے بالکل بے خبر ہے اگر اللہ تعالیٰ کے اس انتظام میں دخل دے گا تو اس کی مثال ایسی ہو گی جیسے کوئی شخص اندھیرے میں لکڑی گھمائے۔ وہ نہیں جانتا کہ اس کی لکڑی کسی سانپ یا بچھو کو مارے گی یا کسی انسان کا سر پھوڑے گی، یا کسی قیمتی شے کو توڑ پھینکے گی۔ بہت ممکن ہے کہ ضبط ِ ولادت پر عمل کرنے والا انسان اپنی قوم ایک بہترین جنرل یا مدبر یا حکیم کی پیدائش کو روک دینے کا سبب بن جائے اور اپنی حد سے گزر کر اللہ تعالیٰ کے فعل میں دخل دینے کی سزا اس کو اس صورت میں ملے کہ اس کی نسل میں احمق یا بے ایمان اور غدار پیدا ہوں۔ خصوصاً جس قوم میں یہ مداخلت عام ہو جائے وہ تو بالیقین اپنے آپ کو قحط الرجال کے خطرے میں مبتلا کرتی ہے۔
پھر تجربہ یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ خاندان زیادہ کامیاب ہیں جو کثیر الاولاد ہیں۔ کم اولاد رکھنے والے خاندان ان کے مقابلہ میں نسبتاً ناکام پائے گئے ہیں۔ پروفیسر کولن کلارک لکھتا ہے:
’’اگرچہ ایک بڑے خاندان کو تعلیم دینے کے مسائل بلاشبہ خاصے گراں بار ہیں، لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ایک نئے بچے کا اضافہ کرکے ماں باپ اپنے موجود بچوں کے مفاد کو مجروح کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب خود والدین بھی وجدانی طور پر اس حقیقت کو محسوس کرنے لگے ہیں جو فرانس کے مسٹر بریسارڈ نے بڑی تحقیق کے بعد دریافت کی ہے۔ موصوف نے تُجّار اور دوسرے اعلیٰ پیشوں والے بے شمار کثیر الاولاد خاندانوں کے نشووارتقاء اور ذرائع معاش (careers) کا مطالعہ کیا اور ان کے حالات کا موازنہ ایسے خاندانوں کے بچوں کی زندگی اور معاش سے کیا جن میں اولاد کم تھی تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ کثیر الاولاد خاندانوں کے بچے مختصر خاندان والے بچوں کے مقابلے میں آخر کار زندگی کے میدان میں کہیں زیادہ کامیاب رہے ہیں۔‘‘{ FR 7178 }
(ب)شخصی اغراض پر قوم کی قربانی
ضبط ِ ولادت کی عام تحریک میں ہر شخص اپنے ذاتی حالات اور خواہشات وضروریات پر نظر رکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ کتنی اولاد پیدا کرے، بلکہ سرے سے پیدا کرے بھی یا نہیں۔ اس فیصلہ میں اس کے پیش نظر یہ سوال ہی نہیں ہوتا کہ قوم کواپنی آبادی برقرار رکھنے کے لیے کم از کم کتنے بچوں کی ضرورت ہے۔ اشخاص نہ اس کا صحیح اندازہ کر سکتے ہیں اور نہ شخصی ضروریات کے ساتھ وہ قومی ضروریات کا لحاظ کرنے پر قادر ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جدید نسل کی پیدائش سراسر افراد قوم کی خود غرضی پر منحصر ہو جاتی ہے اور شرح پیدائش اس طرح گھٹتی چلی جاتی ہے کہ اس کو کسی حد پرروکنا قوم کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ اگر افراد میں خود غرضی بڑھتی رہے اور وہ خراب حالات جو ان کو ضبط ِولادت پر ابھارتے ہیں خراب تر ہوتے رہیں تو یقینا ایسے افراد اپنی اغراض پر قوم کی زندگی کو قربان کر دیں گے، حتیٰ کہ ایک روز قوم کا خاتمہ ہی ہوجائے گا۔
(ج) قومی خودکشی
ضبط ِ ولادت کی عام تحریک سے جس قوم کی آبادی گھٹنے لگتی ہے وہ ہر وقت تباہی کے سرے پر ہوتی ہے۔ اگر کوئی عام وبا پھیل جائے، یا کوئی بڑی جنگ چھڑ جائے جس میں کثرت سے آدمی مرنے لگیں تو ایسی قوم میں دفعتاً آدمیوں کا کال رونما ہو جائے گا اور وہ کسی ذریعہ سے بھی اتنے آدمی فراہم نہ کر سکے گی جو مرنے والوں کی جگہ لے سکیں۔{ FR 7179 } یہی چیز اب سے دو ہزار سال پہلے یونان کو تباہ کرچکی ہے۔ یونان میں اسقاط حمل اور قتل اولاد کا رواج جڑ پکڑ گیا تھا۔ آبادی گھٹتی چلی جا رہی تھی۔ اسی زمانہ میں خانہ جنگیاں برپا ہو گئیں جنھوں نے قوم کے بکثرت افراد کو ہلاک کر دیا۔ اس دوہرے نقصان نے یونانی قوم کا ایسا زور توڑا کہ پھر وہ نہ سنبھل سکی اور آخر کار اپنے گھر میں دوسروں کی غلام بن کر رہی۔ ٹھیک ٹھیک اسی خطرہ میں آج مغربی ممالک اپنے آپ کو مبتلا کر رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشا یہی ہو کہ ان سے خود کشی کرائے۔ مگر ہم کیوں ان کی اندھی تقلید کرکے اپنی شامت کو اپنے ہاتھوں دعوت دیں؟
5۔ معاشی نقصان
تجربے اور تحقیق سے یہ خیال غلط ثابت ہو چکا ہے کہ ضبط ِولادت معاشی حیثیت سے مفید ہے۔ اب معاشیات کے ماہرین میں یہ خیال روز بروز ترقی کرتا جا رہا ہے کہ آبادی کی تقلیل معاشی انحطاط (Economic Depression)کے نہایت قوی اسباب میں سے ہے۔ اس لیے کہ شرح پیدائش کے گھٹنے سے پیدآور آبادی (Producing Population)کم ہو جاتی ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ پید آور آبادی میں بے کاری بڑھتی چلی جائے۔ پیدآور آبادی صرف جوانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ برعکس اس کے خرچ کرنے والی آبادی میں بوڑھے، بچے اور معذور لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جن کا پیدآوری میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اگر ان کی تعداد گھٹ جائے تو مجموعی طور پر خرچ کرنے والوں میں بھی کمی واقع ہو گی۔ مال کے خریدار کم ہو جائیں گے تو اسی نسبت سے مال تیار کرنے والوں کو کم کام ملے گا۔ اسی وجہ سے جرمنی اور اٹلی کے ماہرین ِمعاشیات کا ایک موثر گروہ خاص طور پر توفیر آبادی کے لیے زور دیتا رہا ہے۔
اور اب برطانوی اور امریکی ماہرین میں سے بھی ایک طبقہ اس رائے کو پیش کر رہا ہے۔ اس سلسلہ میں لارڈ کینز (Lord Keynes) اور پروفیسرایچ ہینسن (Alvin H Hansen) پروفیسر کولن کلارک اور پروفیسر جی۔ ڈی۔ ایچ۔ کول (G.D.H.Cole) کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
کینس ہینس مکتب فکر کے نقطہ نظر کو پروفیسر جوزف اسپینگلر (Joseph Spengler) اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’پس معلوم ہوا کہ آبادی میں تیز رفتار اضافہ (upsurge) معاشی سرگرمی کو تیز تر کر دیتا ہے، خصوصیت سے اس حالت میں جب کہ وسعت اختیار کرنے والی قوتیں (expansive forces) سکڑنے والی قوتوں (contractive forces) کے مقابلہ میں زیادہ قوی ہوں، نیز یہی چیز برعکس حالت میں بھی ہو گی…… ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کینس اور ہینسن کی یہ دلیل (thesis) کہ نیم بے روزگاری میں اضافہ رفتارِ شرحِ اضافہ آبادی میں مسلسل کمی کا نتیجہ ہے اب کافی قبولیت عامہ حاصل کر چکی ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ اضافۂ آبادی کے حجم میں مستقل کمی{ FR 7180 } ایک طرف اس سرمایہ کاری (investment) کی ضرورت میں کمی کی موجب ہو گی جو اضافۂ آبادی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہوتی ہے اور دوسری طرف اور بھی متعدد سرمایہ کارانہ سرگرمیوں پر برا اثر ڈالے گی۔ جیسے جیسے شرح اضافۂ آبادی گرتا ہے۔ اُس شرح سے سرمایہ کاری میں بھی کمی واقع ہوتی چلی جاتی ہے جو معیاری روزگار (full employment)سے وابستہ ہے۔‘‘{ FR 7184 }
کولن کلارک لکھتا ہے:
’’جدید معاشرہ میں بیشتر صنعتیں غالباً اضافۂ آبادی سے ہی مستفید ہوں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ معاشی ادارے کچھ اس طرح کام کر رہے ہیں کہ اگر آبادی میں اضافہ ہو اور مارکیٹ کا سائز بڑھ جائے تو تنظیم کچھ زیادہ کفایت شعارانہ ہو جائے گی اور فی کس پیداوار بڑھ جائے گی، کم نہیں ہو گی۔ اگر شمالی امریکہ اور مغربی یورپ کی کثیر اور گنجان آبادی نہ ہوتی تو جدید صنعتوں کا ایک بڑا حصہ سخت مشکلات سے دوچار ہوتا اور مصارفِ پیداوار بہت بڑھ جاتے… بلکہ یہ بھی محل نظر ہے کہ ان حالات میں یہ صنعتیں وجود میں بھی آتیں۔‘‘{ FR 7200 }
ضبط ولادت کے نقصانات کی یہ تفصیل جو سراسر حقائق پر مشتمل ہے، اس آیت پاک کی ایک جزئی تفسیر ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ:
﴿قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَہُمْ سَفَہًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ ﴾ ( الانعام20: 140)
وہ لوگ ٹوٹے میں پڑ گئے جنہوں نے اپنی اولاد کو نادانی سے بغیر سمجھے بوجھے ہلاک کر دیا اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو حرام کر لیا۔
نیز اس آیت کا مفہوم بھی اچھی طرح سمجھ میں آ جاتا ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ:
﴿وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْہَا وَيُہْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ۰ۭ﴾
(البقرہ 205:2)
اور جب وہ صاحب اختیار ہوا تو اس نے زمین میں فساد پھیلانے اور کھیتی اور نسل کو ہلاک کرنے کی تدبیریں کیں۔
مباحثِ مذکورہ بالا کو پیش ِنظر رکھ کر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حرث (کھیتی) اور نسل کی بربادی کو فساد فی الارض سے کیوں تعبیر فرمایا ہے۔ پھر اس بحث سے آپ اس آیت کا مفہوم بھی خوب سمجھ سکتے ہیں کہ جس میں ارشاد ہوا ہے کہ:
﴿وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَۃَ اِمْلَاقٍ۰ۭ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَاِيَّاكُمْ۰ۭ اِنَّ قَتْلَہُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًاo ﴾ (بنی اسرائیل 31:17)
اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ ان کو رزق دینے والے بھی ہم ہی ہیں اور تم کو بھی۔ ان کو قتل کرنا ایک بڑی خطا ہے۔
یہ آیت صاف بتلا رہی ہے کہ معاشی مشکلات کے خوف سے اولاد کی تعداد گھٹانا محض ایک حماقت ہے۔
اس کے بعد ہم کو ان دلائل سے بحث کرنی ہے جو ضبط ِ ولادت کی تائید میں پیش کیے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں ہم اُن احادیث کی صحیح تفسیر بھی بیان کریں گے جن سے ضبط ِولادت کے موافقت میں استدلال کیا جا سکتا ہے۔
ضبط ِولادت کی تائید میں جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں ان میں سے اکثر وبیشتر ان حالات پرمبنی ہیں جو مغربی تہذیب وتمدن نے پیدا کیے ہیں۔ حامیان ضبط ِولادت کا طریق فکر یہ ہے کہ تمدن ومعاشرت کے یہ اطوار اور تہذیب کے یہ طریقے، اور معیشت کے یہ اصول تو ناقابلِ تغیر ہیں، البتہ ان سے جو مشکلات پیدا ہوتی ہیں ان کو ضرور حل کرنا چاہیے، اور ان کا آسان حل یہی ہے کہ افزائشِ نسل کو روک دیا جائے لیکن ہم کہتے ہیں کہ تم تمدن وتہذیب کے اسلامی اصول اورمعیشت ومعاشرت کے اسلامی قوانین اختیار کرکے ان مشکلات ہی کو پیش آنے سے روک دو جنھیں حل کرنے کے لیے تم کو قوانینِ فطرت کے خلاف جنگ کرنی پڑتی ہے۔
اس مسئلہ پر گزشتہ صفحات میں کافی بحث کی جا چکی ہے۔ لہٰذا اب ہم صرف ان دلائل سے بحث کریں گے جو مخصوص حالات پر نہیں بلکہ عام انسانی حالات پر نظر کرکے حامیانِ ضبطِ ولادت نے اپنی کتابوں اور تقریروں میں بیان کیے ہیں۔
\ \ \
حامیانِ ضبط ِولادت کے دلائل اور اُن کا جواب : وسائل ِ معاش کی قلت کا خطرہ
سب سے بڑی دلیل جس نے لوگوں کو زیادہ دھوکے میں ڈالا ہے یہ ہے کہ
’’زمین میں قابل ِ سکونت جگہ محدود ہے، انسان کے لیے وسائل معاش بھی محدود ہیں، لیکن انسانی نسلوں میں افزائش کی قابلیت غیر محدود ہے۔ زمین میں ایک اچھے معیار زندگی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار ملین آدمی سما سکتے ہیں۔ اس وقت زمین کی آبادی تقریباً تین ہزار ملین تک پہنچ چکی ہے اور اگر حالات مناسب ہوں تو تیس سال کے اندر یہ آبادی دگنی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا یہ اندیشہ بالکل بجا ہے کہ پچاس سال کے اندر زمین آدمیوں سے بھر جائے گی اور اس کے بعد نسلوں میں جو اضافہ ہو گا وہ اولاد آدمی کے معیار زندگی کو گراتا چلا جائے گا، یہاں تک کہ ان کے لیے بھلے آدمیوں کی طرح زندگی گزارنا مشکل ہو جائے گا۔ پس انسانیت کو اس خطرہ سے بچانے کے لیے تحدید نسل (Birth Limitation) کے طریقے اختیار کرکے نسلوں کی افزائش کو ایک حد مناسب کے اندر محدود کر دیا جائے۔‘‘
یہ دراصل خدا کے انتظام پر نکتہ چینی ہے۔ جس بات کو یہ لوگ خود حساب لگا کر اس قدر آسانی کے ساتھ معلوم کر سکتے ہیں، ان کا گمان ہے کہ خدا اس سے بے خبر ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ اس کی زمین میں کس قدر گنجائش ہے اور اسے یہاں کتنے انسان پیدا کرنے چاہئیں جو اس میں سما سکتے ہوں۔ ﴿يَظُنُّوْنَ بِاللہِ غَيْرَ الْحَـقِّ ظَنَّ الْجَاہِلِيَّۃِ۰ۭ﴾ (آل عمران 154:3 ) (اللہ کے متعلق طرح طرح کے جاہلانہ گمان کرنے لگا جو سراسر خلافِ حق تھے) ان نادانوں کو معلوم نہیں کہ اللہ نے ہر چیز کو ایک اندازے سے پیدا کیا ہے۔ ﴿اِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍo ﴾ (القمر 49:54 ) (ہم نے ہر چیز ایک تقدیر کے ساتھ پیدا کی ہے)اس کے خزانوں سے جو چیز بھی صادر ہوتی ہے ایک جچے تلے اندازے پر صادر ہوتی ہے۔ ﴿وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗىِٕنُہٗ۰ۡوَمَا نُنَزِّلُہٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍo ﴾ (الحجر 21:15 ) (کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرّر مقدار میں نازل کرتے ہیں۔) ان کا گمان خواہ کچھ ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ جس ہستی نے اس عالم کو پیدا کیا ہے وہ تخلیق وآفرینش کے فن میں اناڑی نہیں ہے۔ ﴿وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِيْنَo ﴾(المومنون 17:23 ) (تخلیق کے کام سے ہم کچھ نابلد نہ تھے۔) اگر یہ اس کے کاموں کو بصیرت کی آنکھوں سے دیکھتے اور اس کے انتظام پر غور کرتے تو ان پر خود ہی روشن ہو جاتا کہ وہ اپنے حساب اور اندازے میں ان سے زیادہ کامل ہے۔ اس نے اسی محدود رقبہ زمین پراپنی مخلوق کی بے شمار انواع پیدا کی ہیں جن میں سے ہر ایک کے اندر توالد وتناسل کی ایسی زبردست قوت ہے کہ اگر صرف ایک ہی نوع، بلکہ بعض انواع کے صرف ایک جوڑے کی نسل کو وہ پوری قوت کے ساتھ بڑھنے دے تو ایک قلیل مدت میں تمام روئے زمین صرف اسی نسل سے پَٹ جائے اور کسی دوسری نسل کے لیے ذرہ برابر جگہ باقی نہ رہے۔
مثال کے طور پر نباتات کی ایک قسم ہے جس کو نباتیات میں (Sisymbrium Sophia) کہتے ہیں۔ اس نوع کے ہر فرد میں عموماً ساڑھے سات لاکھ بیج ہوتے ہیں۔ اگر اس کے صرف ایک پودے کے سب بیج زمین میں اُگ جائیں اور تین سال تک اس کی نسل بڑھتی رہے تو زمین میں دوسری چیزوں کے لیے ایک چپہ بھی باقی نہ رہے۔ ایک قسم کی مچھلی (Star Fish) بیس کروڑ انڈے دیتی ہے۔ اگر اس کے صرف ایک فرد کو اپنی پوری نسل بڑھانے کا موقع مل جائے تو تیسری چوتھی پشت تک پہنچتے پہنچتے تمام دنیا کے سمندر اسی سے لبالب بھر جائیں اور ان میں پانی کے ایک قطرے کی بھی گنجائش نہ رہے۔ دور کیوں جائیے۔ خود انسان ہی کی قوتِ تناسل کو دیکھ لیجیے۔ ایک مرد کے جسم سے ایک وقت میں جو مادہ خارج ہوتا ہے اس سے بیک وقت تیس چالیس کروڑ عورتیں حاملہ ہو سکتی ہیں۔ اگر صرف ایک ہی مرد کی پوری استعدادِ تناسل کو قوت سے فعل میں آنے کا موقع مل جائے توچند سال میں پوری زمین اس کی اولاد سے کھچا کھچ بھر جائے۔ مگر وہ کون ہے جو ہزاروں لاکھوں سال سے کرۂ زمین پران بے شمار انواع کو اس زبردست قوتِ تناسل کے ساتھ پیدا کر رہا ہے اور کسی نوع کو بھی اس کی مقرر ومقدر حد سے آگے نہیں بڑھنے دیتا؟ کیا وہ تمھاری سائنٹفک تدبیریں ہیں یا خدا کی حکمت؟ خود تمہارے اپنے سائنٹفک مشاہدات گواہ ہیں کہ مادۂ ذی حیات میں نشوونما کی قوت بے اندازہ ہے، حتیٰ کہ ایک واحد الخلیہ جرم نامی (Uni-Cellular Organism) میں نمو کی اتنی قوت ہوتی ہے کہ اگر اس کو پیہم غذا ملتی رہے اور تقسیم در تقسیم کا موقع مل جائے تو پانچ سال کے اندر وہ اتنا ذی حیات مادہ پیدا کر سکتا ہے جو زمین کی جسامت سے دس ہزار گنا زیادہ ہو گا۔ مگر وہ کون ہے جس نے قوتِ حیات کے اس خزانے پر کنٹرولر مقرر کر رکھے ہیں؟ وہ کون ہے جو اس خزانے میں میں سے قسم قسم کی مخلوقات نکال رہا ہے اور ایسے ٹھیک حساب سے نکال رہا ہے کہ اس میں نہ کبھی افراط ہوتی ہے اور نہ تفریط؟
اگر انسان اپنے خالق کی ان نشانیوں پر غور کرے تو وہ کبھی اس کے انتظام میں دخل دینے کی جرأت نہ کرے۔ یہ سب جاہلانہ اوہام ہیں جو محض اس وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ لوگ آفاق اور خود اپنے انفس میں اپنے رب کی آیات کو نہیں دیکھتے۔ ان کو ابھی تک یہ بھی معلوم نہں ہوا کہ انسانی سعی وعمل کی حد کہاں تک ہے اور کس حد پر پہنچ کر خالص خدائی انتظامات شروع ہو جاتے ہیں جن میں دخل دینا تو درکنار، سمجھنے پر بھی انسان قادر نہیں ہے۔ جب انسان اپنی حد جائز سے بڑھ کر خدا کے حدود انتظام میں دخل دینے کی کوشش کرتا ہے تو خدا کے انتظامات میں تو ذرہ برابر بھی خلل انداز نہیں ہو سکتا، البتہ خود اپنے لیے دماغی کاوشیں اور ذہنی الجھنیں ضرور پیدا کر لیتا ہے۔ وہ بیٹھ کر حساب لگاتا ہے کہ دس سال کے اندر ملک کی آبادی ڈیڑھ کروڑ بڑھ گئی۔ آئندہ دس سال میں دو کروڑ اور بڑھ جائے گی۔بیس سال میں سولہ کروڑ ہو جائے گی اور100 سال میں چار گنی بڑھ جائے گی۔ پھر سوچتا ہے کہ اتنے آدمی آخر کہاں سمائیں گے؟ کیا کھائیں گے؟ کیوں کر جئیں گے؟ اسی فکر میں وہ الجھتا ہے، مضامین لکھتا ہے، تقریریں کرتا ہے، کمیٹیاں بناتا ہے، عقلا قوم کو اس مسئلے کا حل دریافت کرنے کے لیے توجہ دلاتا ہے۔ مگر وہ بندۂ خدا نہیں سوچتا کہ جس خدا نے ہزارہا سال سے انسانوں کی بستی اس سر زمین میں بسا رکھی ہے وہ خود اس مسئلہ کو حل کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا اور جب وہ انھیں ہلاک کرنا چاہے گا تو ہلاک بھی کر دے گا۔ آبادیوں کی پیدائش اور ان کے گھٹائو بڑھائو اور ان کے لیے زمین میں گنجائش نکالنے کا انتظام اسی سے تعلق رکھتا ہے۔
﴿وَمَامِنْ دَاۗبَّۃٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللہِ رِزْقُہَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّہَا وَمُسْـتَوْدَعَہَا۰ۭ كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍo ﴾ ( ہود 6:11)
زمین میں چلنے پھرنے والی کوئی ہستی ایسی نہیں جس کے رزق کا انتظام خدا کے ذمہ نہ ہو اور وہی زمین میں ان کے ٹھکانے اور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو جانتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک کتابِ روشن میں لکھا ہوا موجود ہے۔
یہ انتظام ہماری عقل ونظر کی رسائی سے بہت دور کسی پوشیدہ مقام سے ہو رہا ہے اٹھارہویں صدی کے خاتمہ سے انیسویں صدی کے وسط تک انگلستان کی آبادی میں جس تیز رفتاری کے ساتھ اضافہ ہوا اس کو دیکھ کر عقلائے فرنگ ابتداء میں حیران تھے کہ یہ بڑھتی ہوئی آبادی کہاں سمائے گی اور کیا کھائے گی۔ مگر دنیا نے دیکھ لیا کہ انگلستان کی آبادی جس رفتار سے بڑھی، اس سے بدرجہا زیادہ تیز رفتاری سے اس کے وسائل رزق بڑھے اور انگریز قوم کو پھیلنے کے لیے زمین کے بڑے بڑے رقبے ملتے چلے گئے۔
دنیا کے معاشی وسائل اورآبادی
1898ء میں برٹش ایسوسی ایشن کے صدر سرولیم کروکس (Sir William Crookes) نے خطرے کا الارم بجایا تھا اور تحدی کے ساتھ کہا تھا کہ انگلستان اور باقی تمام مہذب اقوام گندم کی قلت اور قحط کے خطرہ سے دوچار ہیں اور دنیا کے وسائل اب تیس سال سے زیادہ ہماری ضرورتوں کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ لیکن تیس سال بعد دیکھنے والوں نے دیکھا کہ نہ صرف یہ کہ ایسی کوئی اُفتاد نہ پڑی بلکہ گندم کی پیداوار اتنی زیادہ تھی کہ منڈیوں میں افراط کی وجہ سے کساد بازاری شروع ہو گئی، حتیٰ کہ ارجنٹائنا اورامریکہ میں فاضل گندم کو نذر آتش تک کر دیا گیا۔
انسان اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے بار بار خطرے کی گھنٹیاں بجاتا ہے لیکن ہر بار تاریخ یہ ثابت کر دیتی ہے کہ مستقبل کے متعلق انسان کا علم بڑا محدود ہے اور قدرت نے ترقی کے جو امکانات دنیا میں ودیعت کر دیے ہیں وہ بے حساب ہیں۔ آئیے ذرا اپنے معلوم ذرائع کی حد تک اس کا اندازہ کریں کہ آج پھر پوری دنیا میں جو واویلا کیا جا رہا ہے وہ کہاں تک صحیح ہے۔
1۔ سب سے پہلے زمین پر رہنے کی جگہ کو لیجیے۔ زمین کا کل رقبہ 5,71,68000 مربع میل ہے اور کل آبادی 1959ء کے تخمینہ کے مطابق 2,85,0000000 اس طرح فی مربع میل گنجانی (denisty) 54 افراد آتی ہے اور پروفیسر ڈڈلے اسٹامپ کے تخمینے کے مطابق فی کس 12½ ایکڑ زمین پڑتی ہے۔{ FR 7201 } ایک عامی کی حیثیت سے اگراندازہ قائم کیا جائے تو یوں سمجھیے کہ فٹ بال کا ایک میدان تقریباً 2½ ایکڑ کا ہوتا ہے۔ ایسے ایسے آٹھ میدان ایک ایک آدمی کے حصہ میں آ سکتے ہیں۔
زمین کتنے آدمیوں کے لیے سکونت فراہم کر سکتی ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ہالینڈ میں اس وقت ایک مربع میل پر تقریباً ایک ہزار افراد، انگلستان میں 852 افراد اور نیویارک میں 22,000 افراد بڑے آرام سے رہتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر علاقوں میں بہت سی زمین فاضل اور بیمار پڑی ہے۔ چین میں زمین کا صرف 10 فیصدی استعمال ہو رہا ہے۔ مغربی افریقہ میں قابل ِ استعمال زمین کا 62 فیصد (تقریباً ایک ارب 15 کروڑ ایکڑ) بیکار پڑا ہے۔ { FR 7202 }
برازیل اپنی دو ارب ایکڑ زمین میں سے صرف 2.25 فیصد کو کاشت کر رہا ہے اور کینیڈا اپنی دو ارب اکتیس کروڑ ایکڑ زمین میں سے صرف آٹھ فیصد پر زراعت کر رہا ہے۔ { FR 7203 } ان حالات میں یہ کہنا کہ زمین کم ہے حقیقت کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔
پھر دنیا میں مختلف ممالک میں گنجانی (density) کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ترقی کا کتنا میدان خالی ہے۔ چند منتخب علاقوں کی گنجانی ذیل میں درج کی جاتی ہے:
ملک گنجانی فی مربع کلو میٹر { FR 8148 } ملک گنجانی فی مربع کلومیٹر
ہالینڈ
بلیجیئم
پاکستان
متحدہ عرب جمہوریہ
امریکہ
ایران
345
397
91
23
19
12
انگلستان
جرمنی
جنوبی افریقہ
نیوزی لینڈ
کینیڈا
آسٹریلیا
213
210
12
8
2
1
اسی طرح اگر براعظموں کو لیا جائے تو گنجانی یہ ہے:
یورپ
85 افراد فی مربع کلومیٹر
ایشیا
59 افراد فی مربع کلومیٹر
امریکہ
9 افراد فی مربع کلومیٹر
افریقہ
8 افراد فی مربع کلومیٹر
اوشیانا
2 افراد فی مربع کلومیٹر
کل دنیا
(اوسط) 21 افراد فی مربع کلومیٹر
اس سے معلوم ہوا کہ ترقی اور آبادی میں اضافے کے کتنے امکانات ہیں۔ بلکہ افریقہ اور آسٹریلیا میں توآبادی کی قلت کی وجہ سے معاشی ترقی رکی ہوئی ہے۔ { FR 7204 }
ان زمینوں کے علاوہ ریگستان اور دلدل زدہ علاقے ایسے موجود ہیں جنہیں سائنس کی قوتوں سے کام لے کر قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے اور ان میں صرف جنوبی امریکہ کے دریائے امیزون کے طاس (Amazon Basin) ہی میں یورپ کی پوری آبادی کے برابر لوگ آباد کیے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں پارکر ہینسن (Parker Hanson) کی کتاب ’’نیو ورلڈ ز ایمرجنسی‘‘ (New World’s Emergency) بڑی پُراَز معلومات ہے اور ایک نئی دنیا کا دروازہ کھولتی ہے۔ پھر رچر کالڈر (Riche Calder) کی تصنیف ’’مین اگینسٹ دی ڈیزرٹ‘‘(Man Against the Desert) بھی کچھ نئے امکانات ہمارے سامنے لاتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ریگستانوں کو انسان کس طرح اپنا مطیع کر سکتا ہے۔ { FR 7207 }
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جگہ کی قلت کا نہ کوئی مسئلہ ہے اور نہ اس کے پیدا ہونے کا امکان ہے۔ یہ انسان کی کم ہمتی اور کام چوری ہے جو اسے محنت ومشقت کے بجائے نسل کُشی کا درس دیتی ہے۔
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے
2۔ دوسرا مسئلہ خوراک کی پیداوار کا ہے۔ دنیا کے کل رقبہ کا صرف دس فیصد اس وقت زیر کاشت ہے اور باقی 90 فیصد میں سے اگر جنگلات اور چراگاہوں وغیرہ کو نکال دیا جائے تب بھی کل زمین کا 70 فیصدی ابھی بیکار پڑا ہے۔ نیز جو 10 فیصدی زیر کاشت ہے اس میں سے بھی عمیق کاشت کا علاقہ بہت تھوڑا ہے۔ زیر کاشت رقبے کو کتنا اور کس طرح بڑھایا جا سکتا ہے اس کا اندازہ اس جدول سے کیجیے۔
ان اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ:
دنیا کے کل رقبہ کا صرف10 فیصدی زیر کاشت ہے حالانکہ 70 فیصدی قابل کاشت ہے۔ یعنی 60 فیصدی مزید زمین ابھی زیرکاشت لائی جا سکتی ہے۔
اس وقت زیر کاشت رقبہ13.2 ملین کلو میٹر کو موجودہ ذرائع کاشت ہی کے استعمال سے زیر کاشت لایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد نیا سرمایہ اور وہ مشینری جو آج دریافت ہو چکی ہے اور مغربی ممالک میں استعمال ہو رہی ہے، استعمال کرکے مزید 28.2 ملین کلومیٹر کو (جو کل زمین کا 21 فیصد ہوتا ہے) زیر کاشت لایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد جو زمین بچ جائے گی اس میں سے بھی 4.38 ملین کلومیٹر کو (جو کل زمین کا28 فیصدی ہوتا ہے) نئے طریقے دریافت کرکے زیر کاشت لایا جا سکتا ہے۔
اس سے آپ اندازہ لگائیے کہ پیداوار کوکتنا بڑھانا ممکن ہے۔
3۔ اِضافۂ پیداوار کے سلسلہ میں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت دنیا کے سب ممالک کی زمینوں کی پیداآوری برابر نہیں ہے۔ جن ممالک میں فی ایکڑ پیداوار کم ہے وہ بہتر ذرائع اور بہتر کھاد کے استعمال سے پیداوار بہت بڑھا سکتے ہیں۔ جاپان میں پاکستان سے فی ایکڑ پیداوار اوسطاً تین گناہ زیادہ ہے اور ہالینڈ میں چار گناہ زیادہ۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایک ہی زمین سے سال میں دو دو اور تین تین فصیلیں حاصل کی جا رہی ہیں۔ نیز دوسرے ذرائع سے بھی پیداوار کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ فی ایکڑ پیداوار کا اندازہ اس نقشہ سے کیجیے:
گندم کی پیداوار{ FR 7208 }
ملک
فی ایکٹر پیداوار (میٹرک ٹن)
1938ئ
1956ئ
ڈنمارک
1.23
1.63
ہالینڈ
1.23
1.45
انگلستان
.94
1.26
مصر
.81
.95
جاپان
.76
.85
پاکستان
.34
.30
ہندوستان
.24
.29
اس جدول سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرقی ممالک اپنی فی ایکڑ پیداوار کو تین چار گنا بڑھا سکتے ہیں اور خود مغربی ممالک نے پچھلے تیس سالوں میں فی ایکڑ پیداوار بہت بڑھا لی ہے۔ انگلستان میں تو اضافہ تیس فیصدی کے قریب ہے۔
4۔ خوراک کی پیداوار کا اگر پچھلی ربع صدی میں مطالعہ کیا جائے توصاف معلوم ہوتا ہے کہ آبادی کے اضافہ کے مقابلہ میں پیداوار کا اضافہ کہیں زیادہ ہے۔ ڈڈلے اسٹامپ کے تخمینے کے مطابق آبادی اور پیداوار کا انڈکس پچھلی ربع صدی میں یہ ہے:{ FR 7213 }
مدت
1934-38ئ
1948-52ئ
1957-58ئ
خوراک
85
100
117
آبادی
90
100
112.2
(1935ئ)
(1950ء)
(1957ئ)
یعنی خوراک میں اضافہ آبادی کے اضافہ سے زیادہ رہا ہے۔ اسٹامپ کے الفاظ میں ’’اگر ہم کل زرعی پیداوار کے اشاریہ پر اعتماد کر سکتے ہیں تو یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں خوراک کی پیداوار کا اضافہ آبادی کے اضافے سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ہو رہا ہے۔‘‘
اس کا ثبوت یو۔ این۔ او کی فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کی حالیہ رپورٹ سے بھی ملتا ہے۔ کل غذائی پیداوار کا اشاریہ 1952-53ء میں 94 تھا جو1958-59ء میں بڑھ کر113 ہو گیا اور اگر آبادی کے اضافہ کو بھی لے لیا جائے تو فی کس پیداوار کا انڈکس یہ ہے۔ { FR 7214 }
فی کس پیداوار
مدت
1952-53ء
1958-59ء
خوراک
97
106
کل زرعی پیداوار
97
105
اسی طرح اگر الگ الگ ممالک میں پیداوار کا مطالعہ کیا جائے تو اضافہ کی رفتار یہ تھی:
خوراک کی پیداوار کا انڈکس{ FR 7215 }
ملک
1952-53ء
1958-59ء
آسٹریا
91
121
یونان
81
120
انگلستان
95
105
امریکہ
98
112
برازیل
89
119
میکسیکو
87
123
ہندوستان
90
105
جاپان
97
119
اسرائیل
82
130
تیونس
95
137
متحدہ عرب جمہوریہ
86
111
آسٹریلیا
98
120
ان تمام ہی ممالک میں پیداوار کا اضافہ آبادی سے کہیں زیادہ رہا ہے اور دنیا کا عمومی رجحان یہی ہے۔
5۔ ان تمام حقائق کو سامنے رکھ کر غیر متعصب ماہرین کا اندازہ ہے کہ قلت ِپیداوار یا معاشی تنگی کے مسئلہ کے پیدا ہونے کا کوئی امکان مستقبل قریب یا مستقبل بعید میں نہیں ہے۔ جے۔ڈی۔برنل لکھتا ہے:
’’اب سے ایک صدی بعد آبادی دوگنی یا تین گنی ہو جائے گی، یعنی اندازہ یہ ہے کہ اکیسویں صدی کے نصف آخر میں آبادی سولہ ارب سے بارہ ارب کے درمیان ہو گی۔ اب تخمینہ یہ ہے کہ موجودہ زرعی طریقوں پر کوئی غیر معمولی بوجھ ڈالے بغیر، یعنی تمام دنیا میں ان طریقوں کو اختیار کرکے جو وہاں کے لیے موزوں ہوں اور جو فنی اعتبار سے اس معیار کے ہوں جو آج نیم صنعتی ممالک میں استعمال ہو رہے ہیں، اس آبادی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مناسب خوراک پیدا کی جا سکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگلے سو سالوں میں قلت خوراک کے لیے ہرگز کوئی بنیاد موجود نہیں ہے اور اگر کوئی قحط آئے تو وہ انسان کی اپنی حماقت یا اس کی خودغرضی کی وجہ سے ہو گا۔‘‘{ FR 7216 }
ایف۔ اے ۔او(F.A.O) کی دس سالہ رپورٹ (1945-55ء) تمام دنیا کے حالات کا جائزہ پیش کرنے کے بعد نتیجہ نکالتی ہے کہ:
’’یہ تمام چیزیں اس یقین کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں کہ اگلے سو سال کے اندر دنیا کے باقی دو تہائی حصے میں بھی وہی زرعی انقلاب واقع ہو جائے گا جو ابھی تک صرف ایک تہائی حصے میں رونما ہوا ہے۔‘‘
پیداوار میں اضافہ کے متعلق اسی رپورٹ کے مصنف ڈاکٹر لامیرٹائن ایٹس (Dr.Lamartine Yates) لکھتے ہیں:
’’یہ قطعی ممکن نظر آتا ہے کہ اس پروگرام کے مجموعی اثرات بالآخر ان تمام امید افزا اندازوں سے بھی کہیں زیادہ ہوں جو شدید ترین رجائیت پسندوں نے قائم کیے ہیں۔‘‘{ FR 7217 }
ایف۔ اے۔ او (F.A.O) ہی کی ایک دوسری رپورٹ میں کہا گیا ہے:
’’آبادی اور خوراک اور زراعت وصنعت کے متعلق بحث ومباحثہ میں جو انتشارِ فکری (confusion) ہے اس کا سبب موجودہ اور آئندہ وسائل کے بارے میں ہماری معلومات کی کمی ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زرعی زمین کی پیداآوری کو ختم ہونے والا (ex-haustible) سمجھ لیا گیا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح کہ ایک کوئلہ کی کان ختم ہونے والی ہے۔ بلاشبہ دور اندیشی کی کمی اور غلط طریقے پر کام کرکے انھیں ختم کیا جا سکتا ہے۔ مگر زمینوں کی پیدا آوری کو بحال بھی کیا جا سکتا ہے اور بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔ یاس زدہ خیالات آج بڑے عام ہیں اور ان کی ٹِیپ کا بند یہ ہے کہ قابل کاشت زمین اپنی اتنہا کو پہنچ چکی ہے لیکن جدید ماہرین اس مایوسانہ نقطۂ نظر سے قطعاً اتفاق نہیں کرتے۔‘‘{ FR 7218 }
مشہور ماہر معاشیات ڈاکٹر کولن کلارک (Colin Clark) تو ناقابلِ انکار حقائق کی بنا پر دعویٰ کرتا ہے کہ اگر دنیا کی زمین کا ٹھیک ٹھیک استعمال کیا جائے (جس طرح کہ ہالینڈ کے کسان کر رہے ہیں) تو موجودہ معلوم طریقوں کو استعمال کرکے موجودہ آبادی سے دس گنی زیادہ آبادی کو (یعنی 28 ارب افراد کو) مغربی ممالک کی خوراک کے اعلیٰ معیار پر قائم رکھا جا سکتا ہے اورکثرتِ آبادی کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو گا۔ { FR 7219 }
پاکستان کے معاشی وسائل اور آبادی
جہاں تک پاکستان کا سوال ہے یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہاں کا معاشی مسئلہ ہماری اپنی غلط کاریوں اور کوتاہ اندیشیوں کا پیدا کردہ ہے اور خالص معاشی نقطۂ نظر سے بھی ہماری آبادی اور اس کی افزائش ہمارے لیے باعث رحمت ہے نہ کہ باعث زحمت۔ اس سلسلہ میں مختصراً چند ضروری باتیں عرض کی جاتی ہیں:
(1) معاشی حیثیت سے ترقی یافتہ (developed) اور ترقی پذیر (developing) معیشتوں کے درمیان امتیاز ضروری ہے۔ پچھلے 200 سال کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام صنعتی ممالک کے تشکیلی دور میں آبادی کے اندر غیر معمولی اضافہ ہوا اور یہ اضافہ ان ممالک کی معاشی اور سیاسی طاقت بنانے میں بہت مددگار ثابت ہوا۔ آبادی میں ٹھیرائو اور کمی معاشی تعمیر کے بعد واقع ہوئی ہے، اس سے پہلے نہیں۔ پروفیسر اور گانسکی (F.K.Organski) اپنے ایک تازہ مضمون میں لکھتے ہیں:
’’آبادی میں عظیم اضافہ … ایسا اضافہ جو بے ضبط وبے لگام تھا… یورپ کی آبادی کے اس دھماکہ کے ساتھ پھٹ پڑنے (population explosion) کا نتیجہ تھا کہ ملک میں نئی صنعتی معیشت کو چلانے کے لیے کارندے بھی مل گئے اور دوسری طرف یورپ سے باہر دنیا بھر میں پھیل جانے کے لیے مہاجر اور ایسے سپاہی اور کارفرما بھی نکلتے چلے آئے جو دور دراز کے علاقوں میں پھیلی ہوئی اس سلطنت کی سربراہی کر سکیں جس کے دائرہ میں دنیا کے رقبہ کا نصف اور آبادی کا ایک تہائی حصہ آ گیا تھا۔‘‘{ FR 7220 }
اور کولن کلارک اس رائے کا اظہار کرتا ہے کہ:
’’غالباً جدید معاشرہ میں صنعتوں کی اکثریت ایسی ہے جو بڑھتی ہوئی آبادی سے خاص طور پر مستفید ہوتی ہے۔‘‘{ FR 7221 }
اور پروفیسر تھامپسن یہ تاریخی حقیقت بیان کرتا ہے کہ:
’’انسان کی پیدآوری قوت میں اضافہ کا پہلا اثر آبادی پر یہ پڑا کہ مغربی الاصل آبادی بڑی تیز رفتاری کے ساتھ بڑھی… تقریباً ایک صدی تک یہ اضافہ بلا کسی انقطاع کے (un-interrupted) جاری رہا۔‘‘{ FR 7222 }
اس لیے ضروری ہے کہ ترقی پذیر معیشت کے مسائل کو ترقی یافتہ معیشت کے حالات کی روشنی میں نہ سوچا جائے۔ ترقی پذیر معیشت کے لیے ناگزیر ہے کہ اس میں آبادی تیز رفتاری کے ساتھ بڑھے۔ ایسی معیشت میں پیداوار کا اضافہ آبادی کے اضافہ سے کئی گناہ زیادہ تیزرفتاری کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ دنیا کے تجربات اس پر شاہد ہیں۔
ترقی یافتہ معیشت کے لیے بڑھتی ہوئی آبادی متعدد حیثیتوں سے مفید ہے، لیکن ترقی پذیر معیشت کے لیے تویہ چیز نہ صرف یہ کہ کبھی ایک معاشی بار (Economic Burden) نہیں ہو سکتی بلکہ بڑی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
(ب) ایک زرعی معیشت کے اندر خاندان میں افراد کا اضافہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ جو افراد محض کتابی علم رکھتے ہیں اور ہندسوں کے کھیل سے گھبرا اٹھتے ہیں ان کے لیے اس بات کو سمجھنا مشکل ہے۔ مگر جن کو حالات کا علم ہے وہ جانتے ہیں کہ ایک زرعی خاندان میں اضافہ معاشی حیثیت سے بہت بڑی نعمت ثابت ہوتا ہے۔ زراعت پیشہ خاندان کے لیے اس سے بڑی مصیبت کوئی نہیں ہو سکتی کہ ان کے بچے کم ہوں اور انھیں باہر سے محنت فراہم کرنی پڑے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے اب ماہرین ِعمرانیات بھی اچھی طرح محسوس کر رہے ہیں۔ مثلاً پروفیسر برگیل (Egon Ernest Bergel)اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ:
’’اولاد کسان کے لیے ایک معاشی اثاثہ (asset) ہے اور اہل شہر کے لیے ایک معاشی ذمہ داری (liability)… کسان جتنا غریب ہو گا اتنا ہی بے اولاد ہونا اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گا۔ (زرعی سوسائٹی میں) ننھے بچہ کے لیے جگہ اور خوراک فراہم کرنے میں قطعاً کوئی دشواری نہیں ہے اور بچے کی پرورش میں بھی قطعاً کوئی پریشانی اور مشکل نہیں۔ اس لیے کہ کھیت ہی ایک ایسا مقام ہے جہاں ایک عورت بچے کی دیکھ بھال کے ساتھ اپنا کام کاج بھی بآسانی کر سکتی ہے۔‘‘{ FR 7223 }
پروفیسر آرنلڈ گرین بھی اسی رائے کا اظہار ایک دوسرے طریقے سے کرتا ہے:
’’پرانے دیہی، خاندانی نظام میں اولاد باپ کی تین طرح سے خدمت کرتی تھی:
اولاً بچہ بہت جلد کھیت پر کام میں لگ جاتا تھا اور اس طرح باپ کے لیے ایک معاشی وسیلہ (Economic Asset) بن جاتا تھا۔‘‘
ثانیاً وہ باپ کے بڑھاپے میں اسے معاشی تحفظ (Economic Security)عطا کرتا تھا، اور
ثالثاً، وہ اسے ایک نفسیاتی اطمینان بھی بہم پہنچاتا تھا کہ وہ اس کے نام ونسب کو محفوظ کرے گا۔‘‘{ FR 7224 }
پاکستان جس کی آبادی کا75 فیصد زراعت سے وابستہ ہے اس بات کو گوارا ہی نہیں کر سکتا کہ اس کی زرعی محنت میں کمی ہو۔ مغربی ممالک کے شہری حالات پر اس ملک کے مسائل کو قیاس کرنا ہمارے لیے کبھی صحت مندانہ طرز فکر نہیں ہو سکتا۔
(ج) ملک کی آبادی تازہ ترین اعداد وشمار کی رو سے 9,38,01,556 ہے اور پورے ملک میں گنجانی کا اوسط 256 افراد فی مربع میل آتا ہے لیکن چونکہ مشرقی پاکستان میں آبادی کا دبائو زیادہ ہے اس لیے دونوں حصوں کی گنجانی میں بڑا فرق ہے۔ مشرقی پاکستان میں فی مربع میل 992 افراد آتے ہیں اور مغربی پاکستان میں صرف 138… اس حالت کا دنیا کے دوسرے ممالک سے موازنہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ مغربی پاکستان میں تو آبادی کی قلت ہے اور پورے پاکستان میں بھی کوئی غیر معمولی صورت حال نہیں ہے۔ اس لیے کہ انگلستان میں 853 افراد فی مربع میل آباد ہیں۔ ہالینڈ میں تقریباً ایک ہزار فی میل زمین پر بڑے اعلیٰ معیار کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور جاپان کا اگر صرف قابلِ استعمال رقبہ لیا جائے (جاپان میں کل زمین کا صرف ۱۷ فیصد قابل استعمال ہے) تو فی مربع میل تین ہزار افراد سے زیادہ آتے ہیں۔
دنیا کے چند ممالک میں صرف قابل ِ کاشت رقبے کی مناسبت سے فی مربع میل گنجانی کا حال یہ ہے:
ملک
فی مربع میل آبادی
ملک
فی مربع میل آبادی
امریکہ
293
بیلجئم
2155
سویڈن
489
ہالینڈ
2395
فرانس
511
سوئیٹزرلینڈ
2406
انڈیا
786
جاپان
3575
اٹلی
936
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں مزید آبادی کے لیے جگہ کے امکانات کتنے ہیں۔ اگر ہالینڈ ہم سے فی مربع میل چار گنا زیادہ افراد اور جاپان پانچ گنا زیادہ افراد رکھ کر بھی ضرورت سے زیادہ آبادی (over populated) نہیں ہے تو ہمارے لیے یہ مسئلہ کہاں سے پیدا ہو گیا؟ اس مسئلے کا وجود ذہنوں میں ہو تو ہو بہرحال ہمارے ملک کی زمین پر تو ہرگز نہیں ہے!
(د) ہمارے ملک کے کل رقبہ کا صرف26 فیصدی زیر کاشت ہے۔ 13 فیصدی مزید زمین ایسی پڑی ہوئی ہے جو موجودہ ذرائع کاشت کے استعمال ہی سے زیر کاشت لائی جا سکتی ہے، اور 24فیصدی ایسی ہے جسے ابھی تک سروے ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اندازہ یہ ہے کہ اس میں سے بیشتر کو تھوڑی سی محنت سے زیر کاشت لایا جا سکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ موجودہ زیر کاشت رقبے میں تقریباً 150 فیصدی کا اضافہ مستقبل قریب میں کیا جا سکتا ہے۔ کیا اسی کا نام زمین کی قلت ہے؟
(ہ) فی ایکڑ پیداوار کو اگر لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم ابھی دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ اگر ہم اپنے کاشت کے ذرائع کو بہتر بنائیں تو پیداوار کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ گندم کی فی ایکڑ پیداوار ڈنمارک اور ہالینڈ میں ہمارے ملک سے پانچ گنا زیادہ، انگلستان اور جرمنی میں چار گنا زیادہ اور جاپان اور مصر میں تین گنا زیادہ ہے۔{ FR 7225 } کیا وجہ ہے کہ ہم اپنی پیداوار کو اس معیار پر نہ لا سکیں جس پر دنیا کے دوسرے ملک لا چکے ہیں اورمزید آگے بڑھنے کی وہ کوشش کر رہے ہیں؟
ملک کی پیداآوری کو ناپنے کا ایک بین الاقوامی طریقہ ایس۔ این۔ یو (S.N.U) ہے۔ ڈڈلے اسٹامپ اس طریقے سے دنیا کے ممالک کا موازنہ کرکے کہتا ہے:
’’اگر جاپانی فی ایکڑ چھے سے سات تک ایس۔ این۔ یو (S.N.U) حاصل کر لیتے ہیں جو 4000 ایس۔ این۔ یو فی مربع میل کے برابر ہوتے ہیں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مزروعہ زمین سے فی مربع میل 4000 افراد کی کفالت کی جاسکتی ہے۔‘‘{ FR 7262 }
(د) اس کے بعد پھر صنعت اور تجارت کے شعبے میں جن کے ذریعہ خوشحالی کی اعلیٰ ترین بلندیوں تک پہنچا جا سکتا ہے اور ترقی کے امکانات غیر محدود ہیں۔ انسان یہ بھول جاتا ہے کہ جو شخص بھی دنیا میں آتا ہے اسے ہم نہیں کھلاتے ہیں، اس کا رازق خدا ہے اور وہ شخص اپنی محنت سے اپنا حصہ وصول کرتا ہے۔ معاشی وسائل وحقائق کی حد تک جس قدر بھی آپ کھلے دماغ سے غورکریں گے آپ محسوس کریں گے کہ کوئی معقول وجہ ایک انسان کُش پالیسی کے لیے موجود نہیں ہے۔ مالتھس کے پیروتصویر کا صرف ایک رخ پیش کرتے ہیں اور معاشیات کے نام سے وہ چیزیں سامنے لاتے ہیں جن کے لیے خود معاشیات کا علم کوئی وجہ جواز فراہم نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ پروفیسر کولن کلارک مالتھوسی حضرات کو معاشیات سے نابلد قرار دیتا ہے اور ان کی اس کمزوری کو بڑی صفائی اور بے باکی کے ساتھ ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
’’یہ حضرات کہتے ہیں کہ ان کا نقطہ ٔ نظر خالص سائنٹفک ہے۔ اگر یہ ایسا ہی ہے تو پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ صفحہ ہستی پر سائنس دانوں کا ایسا کوئی اور گروہ موجود نہیں ہے جو ان حقائق کے بارے میں جن سے وہ بحث کرتا ہے اتنی غلط معلومات رکھتا ہے۔ مالتھوسیوں کا حال یہ ہے کہ ان کو آبادی کے بنیادی اور معمولی حقائق تک کا علم نہیں ہے اور ان میں سے جوعلمِ آبادی کے متعلق کچھ معلومات رکھتے بھی ہیں وہ معاشیات کے معاملہ میں تو تقریباً کلی طور پر جہل کے شکار ہیں۔‘‘ { FR 7263 }
مذکورہ بالا حقائق ودلائل کامطالعہ کرنے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اس فکر میں غلطاں ہے کہ یہ روز افزوں آبادی کہاں رہے گی اور کیا کھائے گی، تو یہ اس کی اپنی غلطی ہے۔ انسان کا کام تو صرف انسانی دائرہ عمل میں رہ کر سوچنا اور عمل کرنا ہے۔ اس دائرہ سے نکل کر جب خالص خدائی انتظامات کے دائرہ میں آدمی قدم رکھنے کی کوشش کرے گا تو اپنے لیے ایسی مشکلات پیدا کر لے گا جن کا درحقیقت کوئی حل اس کے پاس نہیں ہے۔
موت کا بدل
حامیانِ ضبط ِ ولادت تسلیم کرتے ہیں کہ انواع کی تعداد کوایک حد ِمناست کے اندر محدود رکھنے کا انتظام خود فطرت نے کیا ہے اور یہ انتظام نوعِ انسانی پر بھی حاوی ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ فطرت اس کام کو موت کے ذریعہ سے انجام دیتی ہے جس میں انسان کے لیے سخت روحانی اور جسمانی اذیتیں ہیں۔ کیوں نہ ہم اس کے بجائے خود اپنی احتیاطی تدبیروں سے اپنی آبادی کو محدود رکھنے کا انتظام کر لیں؟ زندہ انسانوں کے لقمہ ٔاجل ہونے، طرح طرح کی تکلیفوں سے جان دینے، اور پسماندوں کے تڑپ تڑپ کر رہ جانے سے تو بدرجہا بہتر یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ انسان پیدا ہی نہ ہوں۔
یہاں پھر یہ لوگ خدائی انتظام میں مداخلتِ بے جا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہم پوچھتے ہیں کہ تمھاری احتیاطی تدبیروں سے کیا جنگ، وبائیں، امراض، سیلاب، زلزلے، طوفان، ریلوں اور موٹروں اور بحری اور ہوائی جہازوں کے حادثے سب بند ہو جائیں گے؟ کیا تم نے خدا (یا بزعم خود ’’فطرت‘‘) سے کوئی ایسا معاہدہ کر لیا ہے کہ جب تم ضبط ِولادت پر عمل شروع کرو گے تو فرشتۂ موت کو برطرف کر دیا جائے گا؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو بتائو کہ ضبط ِولادت اور فرشتۂ موت دونوں کی کارگزاری کا تختۂ مشق بن کر نوعِ انسانی کا کیا حشر ہو گا؟ ایک طرف تم خود اپنے ہاتھوں سے اپنی آبادیوں کو گھٹا رہے ہو۔ دوسری طرف زلزلے ہزاروں آدمیوں کو بیک وقت نذرِ اجل کرتے رہیں گے، سیلابوں اور طوفانوں میں بستیوں کی بستیاں اُجڑتی رہیں گی، حادثوں میں لاکھوں آدمی مرتے رہیں گے، وبائیں آ کر آبادیوں پرجھاڑو پھیرتی رہیں گی، لڑائیوں میں تمھارے اپنے سائنٹفک آلات لاکھوں بلکہ کروڑوں آدمیوں کوموت کے گھاٹ اتار دیں گے اور موت کا فرشتہ فرداً فرداً بھی آدمیوں کی روحیں قبض کرتا رہے گا۔ کیا تم حساب لگا کر اتنا بھی معلوم نہیں کرسکتے کہ جس خزانے میں آمد گھٹتی چلی جائے اور خرچ بدستور رہے وہ کب تک بھرپور رہے گا۔{ FR 7264 }
اس سوال کو بھی جانے دو کیا تمھارے پاس اپنی آبادیوں کے لیے ’’حدِ مناسب‘‘ مقرر کرنے کا کوئی معیار ہے؟ اگر بالفرض ہے، تو کیا تم اس معیار کے مطابق حسب ضرورت بچے پیدا کرنے اور صرف ضرورت سے زیادہ بچوں کی پیدائش روک دینے پر قادر ہو؟ جب عوام الناس میں خود غرضانہ ذہنیت پیدا ہو جائے اور وہ اپنے شخصی حالات اورنفسانی رجحانات کی بناء پر بچوں کی ضرورت وعدم ضرورت کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں، اور ضبط ِولادت کے عملی طریقے اور وسائل بھی آسانی کے ساتھ ان کو بہم پہنچ جائیں، تو کیا یہ ممکن ہے کہ ملکوں اور قوموں کی آبادی کو کس مناسب حد تک ہی گھٹایا جائے اور اس حد سے زیادہ نہ گھٹنے دیا جائے؟ قیاس کی ضرورت نہیں، تجربہ شہادت دے رہا ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک بھی ایسی کوئی حدِ مناسب مقرر کرنے اور افراد کے عمل کو اس حد کے اندر محدود رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ پھر وہ کیا سامان ہے جس کو لے کر تم اس خدائی تدبیر میں داخل دینے چلے ہو جس کے تحت وہ خود انسانی بستیوں کے لیے ’’حدِ مناسب‘‘ مقرر کرتا اور ایک اندازے کے ساتھ ان کو گھٹاتا بڑھاتا ہے؟
معاشی حیلہ
کہا جاتا ہے کہ محدود آمدنی رکھنے والے ماں باپ بچوں کو زیادہ تعداد کے لیے اچھی تعلیم وتربیت، عمدہ معاشرت، اور ایک بہتر آغازِ حیات کے وسائل بہم پہنچانے پر قادر نہیں ہو سکتے۔ جب بچوں کی تعداد والدین کی حدِ استطاعت سے بڑھ جاتی ہے یا مفلس والدین کے ہاں اولاد پیدا ہو جاتی ہے تو ان کا معیارِ حیات گر جاتا ہے۔ تعلیم خراب، تربیت ناقص، غذا، مکان، لباس، ہر چیز بدتر اور آئندہ ترقی کے راستے مسدود۔ ایسے حالات میں بیکار آبادی بڑھانے سے بہتر ہے کہ ضبط ِولادت کے ذریعہ سے بچوں کی تعداد کو اسی حد تک محدود رکھا جائے جس حد تک والدین کے وسائل ساتھ دے سکیں اور ناموافق حالات میں افزائشِ نسل کا سلسلہ موقوف رہے۔ اجتماعی فلاح وبہبود کے لیے اس سے بہتر کوئی تدبیر نہیں ہو سکتی۔
یہ دلیل آج تک لوگوں کو بہت اپیل کر رہی ہے اور بظاہر بڑی خوشنما معلوم ہوتی ہے۔ لیکن درحقیقت یہ بھی اتنی ہی کمزور ہے جتنی پہلی دونوں ہیں۔ اول تو ’’اچھی تعلیم وتربیت‘‘، ’’عمدہ معاشرت‘‘ اور ’’بہتر آغاز‘‘ ہی مبہم الفاظ ہیں جن کا کوئی واضح اورمتعین مفہوم نہیں ہے۔ ہر شخص اپنے ذہن میں ان کا الگ مفہوم رکھتا ہے اور ان کے لیے ایسے معیار مقرر کرتا ہے جو اس کے اپنے حالات اور وسائل وذرائع کی صحیح تشخیص پر نہیں بلکہ اپنے سے بہتر لوگوں کے معیار پر پہنچنے کی حریصانہ خواہش پر مبنی ہوا کرتے ہیں۔ ایسے غلط معیار پر جو شخص اپنی اولاد کے لیے ’’اچھی تعلیم وتربیت‘‘ اور ’’عمدہ معاشرت‘‘ اور ’’بہتر آغاز‘‘ کا خواہش مند ہو گا وہ یقینا یہی فیصلہ کرے گا کہ اس کے ہاں ایک دو بچوں سے زیادہ نہ ہوں بلکہ بعض حالات میں تو وہ سرے سے بے اولاد ہی رہنا پسند کرے گا کیونکہ لوگوں کی خواہشات کا دائرہ عموماً ان کے وسائل کے دائرہ سے زیادہ وسیع ہوتا ہے اور جن امور کو وہ خواہشات کے حصول پر موقوف رکھتے ہیں وہ سرے سے ظہور ہی میں نہیں آتے۔ یہ محض نظریہ ہی نظریہ نہیں بلکہ ایک واقعی حقیقت ہے۔ یورپ میں اس وقت لاکھوں جوڑے ایسے موجود ہیں جو محض اس لیے بے اولاد رہنا پسند کرتے ہیں کہ ان کے پیش نظر اولاد کی تعلیم وتربیت اور عمدہ معاشرت اور بہتر آغاز کا معیار اتنا بلند ہے کہ وہ بالفعل اس تک پہنچنے کی قدرت ہی نہیں رکھتے۔
علاوہ بریں یہ دلیل اُصولی حیثیت سے بھی غلط ہے۔ قوموں کی ترقی کے لیے یہ بات مفید نہیں بلکہ سخت مضرت رساں ہے کہ ان کی نسلیں تمام تر راحت اور آسائش کے ماحول میں پرورش پائیں اور ان کو مصائب، مشکلات، ناداری اور جدوجہد سے دو چار ہی نہ ہونا پڑے۔ یہ چیز تو اس سب سے بڑی درس گاہ کو بند کر دے گی جس میں انسان کی تعلیم وتربیت تمھارے مدرسوں اور کالجوں سے زیادہ بہتر طریقہ پر ہوتی ہے۔ وہ درس گاہ زمانے کی درس گاہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے تاکہ انسان کے صبر، استقامت، ہمت اور حوصلوں کی آزمائش کرے اور انھیں کو پاس کرے جو آزمائش میں پورے اتریں۔
﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۰ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَo ﴾ ( البقرہ 155:2 )
اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اُن کو خوش خبری دیجیے۔
یہ ایک بھٹی ہے جو ناقص کو خالص سے ممیز کرتی ہے اور تپا تپا کر کھوٹ نکالتی ہے۔ یہاںمصائب اس لیے ڈالے جاتے ہیں کہ ان کے مقابلے کی قوت پیدا ہو، مشکلات اس لیے پیدا کی جاتی ہیں کہ انسان ان پر غالب آنے کی جدوجہد کرے، سختیاں اس لیے عائد کی جاتی ہیں کہ آدمی کی کمزوریاں دور ہوں اور اس کی چھپی ہوئی قوتیں عمل کے میدان میں نمایاں ہوں۔ جو لوگ اس درس گاہ سے فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں وہی دنیا میں کچھ کرکے دکھاتے ہیں اور دنیا میں آج تک جتنے بڑے بڑے کام کیے ہیں وہ اسی درس گاہ کے سندیافتوں نے کیے ہیں۔ تم اس درس گاہ کو بند کرکے دنیا کو راحت کدے میں تبدیل کرنا چاہتے ہو تاکہ تمھاری نسلیں عیش پسند، پست حوصلہ، کام چور، اور بزدل بن کر اٹھیں۔ تم چاہتے ہو کہ تمھاری اولاد آسائش کے گہوارے میں آنکھ کھولے۔ اونچے مدرسوں اور شاندار اقامت خانوں[hostels] میں رہ کر تعلیم حاصل کرے، اور جو ان ہو کر زندگی کے میدان میں قدم رکھے تو اس طرح کہ اس کے پاس ایک ’’بہتر آغاز‘‘ کے لیے کافی سرمایہ موجود ہو۔ تم امید رکھتے ہو کہ اس صورت میں وہ دنیا میں کامیاب ہوں گے اور ترقی کے آسمانوں پر چمکیں گے۔ مگر تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایسی تعلیم وتربیت کے ساتھ تم صرف تیسرے درجہ کے حیوانات پیدا کر سکتے ہو، یا زیادہ سے زیادہ دوسرے درجہ کے۔ درجہ اول کے انسان تمھاری نسلوں میں کبھی نہ اٹھیں گے۔ یقین نہ آئے تو دنیا کی تاریخ اور اکابر رجال کے سوانح اٹھا کر دیکھ لو۔ تم کو درجہ اول کے جتنے آدمی ملیں گے ان میں سے کم از کم 90 فیصد ایسے ہوں گے جو مفلس ونادار ماں باپ کے ہاں پیدا ہوئے، مصیبت کی آغوش میں پرورش پا کراٹھے، تمنائوں کے خون اور خواہشات کی قربانی کے ساتھ جوانی بسر کی، زندگی کے سمندر میں بغیر کسی ساز وسامان کے پھینک دیے گئے، موجوں سے تیرنا سیکھا، تھپیڑوں سے بڑھنے کا سبق حاصل کیا، اور آخر کار ساحلِ کامرانی پر اپنی برتری کا جھنڈا نصب کرکے ہی چھوڑا۔
چند اور دلیلیں
یہ تین بڑی دلیلیں تھیں۔ ان کے بعد تین چھوٹی دلیلیں اور بھی ہیں جن کو ہم اختصارکے ساتھ بیان کرکے اختصار ہی کے ساتھ جواب بھی دیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ ضبط ِ ولادت کے ذریعہ سے اچھی قسم کی نسلیں پیدا کی جا سکتی ہیں جن کی تندرستی اچھی ہو، قویٰ مضبوط ہوں، اور جن میں کام کرنے کی عمدہ صلاحیتیں ہوں۔ اس خیال کی بنیاد اس مفروضہ پر ہے کہ انسان کے ہاں جب کبھی ایک دو بچے ہوں گے، قوی وتندرست ذہین اور طباع ہوں گے۔ جب زیادہ بچے ہوں گے تو سب کے سب کمزور، بیمار، بیکار اور کُند ذہن ہوں گے لیکن اس مفروضہ کی تائید میں نہ کوئی علمی دلیل ہے اور نہ باضابطہ مشاہدات وتجربات کے نتائج، محض ایک گمان ہی گمان ہے جس کے خلاف ہزاروں شہادتیں عالم واقعہ میں موجود ہیں۔ درحقیقت انسان کی پیدائش کے متعلق کوئی ضابطہ بنایا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ چیز کلیۃً خدا کے ہاتھ میں ہے اور خدا جس طرح چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔
﴿ھُوَالَّذِيْ يُصَوِّرُكُمْ فِي الْاَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاۗءُ۰ۭ ﴾ (آل عمران 6:3)
وہی تو ہے جو تمھاری مائوں کے پیٹ میں تمھاری صورتیں، جیسی چاہتا ہے، بناتا ہے۔
قوی اور تندرست اور ذہین اولاد پیدا کرنا اور کمزور، مریض اور بلید الذہن اولاد نہ ہونے دینا انسان کے اختیار سے باہر ہے۔اسی سے قریب الماخذ دلیل یہ ہے کہ ضبط ِولادت انسان کو ایسے بچوں کی بیکار پیدائش اور پرورش کی مشقت سے بچا دیتا ہے جن کی دنیا کو ضرورت نہیں ہے، جو کبھی کار آمد بننے والے نہیں ہیں، یا بلوغ سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ یہ خیال اس وقت صحیح ہوتا جب انسان کے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ ہوتا کہ کون سا بچہ کن خصوصیات کا حامل ہو گا؟ لائق ہو گا یا نالائق؟ زندہ رہے گا یا مر جائے گا؟ اس کا وجود کار آمد ہو گا یا بے کار؟ جب یہ چیز انسانی نظر سے قطعاً پوشیدہ ہے تو محض رجماً بالغیب کوئی رائے قائم کرنا صریح حماقت ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زیادہ بچوں کی پیدائش سے عورت کی صحت خراب ہو جاتی ہے اور اس کے حسن وجمال میں بھی فرق آ جاتا ہے لیکن صفحات گزشتہ میں ہم بیان کر چکے ہیں کہ ضبط ِولادت کے مصنوعی طریقے بھی صحت وجمال کے لیے بے ضرر نہیں ہیں۔ ان سے بھی صحت کو اتنا ہی نقصان پہنچتا ہے جتنا کثرتِ اولاد سے پہنچ سکتا ہے۔ طبی حیثیت سے کوئی ایسا قاعدہ عام مقرر نہیں کیا جا سکتا کہ عورت کتنے بچوں کی ولادت کا بار اٹھا سکتی ہے۔ یہ بات ہر عورت کے شخصی حالات پر منحصر ہے۔ اگر طبیب کسی عورت کے خاص حالات کو پیش نظر رکھ کر یہ رائے قائم کرے کہ حمل اور وضعِ حمل کی تکلیف اس کی زندگی کے لیے خطرناک ہو گی تو ایسی حالت میں بلاشبہ طبیب کے مشورے سے ضبطِ ولادت کا کوئی مناسب طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے بلکہ اگر ماں کی جان بچانے کے لیے ضروری ہو تو اسقاطِ حمل کرانا بھی ناجائز نہیں ہے۔ لیکن صحت کو محض ایک بہانہ بنا کرضبط ِولادت کو ایک عام طرزِ عمل بنا لینا اور دائماً اس پر عمل کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔
اُصولِ اسلام سے کلی منافات
حامیانِ ضبط ولادت کے مذکورہ بالا دلائل پرنظر ڈالنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ تحریک دراصل دہریت والحاد کے شجر خبیث کی پیداوار ہے۔ جن لوگوں کے دماغوں سے خدا کا تصور نکل چکا ہے اور جو دنیا کے معاملات میں اس نقطہ ٔنظر سے غور وفکر اور تدبیر وتصرف کرتے ہیں کہ خدا سرے سے موجود ہی نہیں ہے یا اگر ہے تو محض ایک معطل ہستی ہے اور انسان آپ ہی اپنی قسمت کا بنانے والا اور اپنے تمام معاملات کی تدبیر کرنے والا ہے۔ وہی اس تحریک کو وجود میں لائے ہیں اور انھی کے دماغوں کو اس تحریک کے دلائل اپیل کرتے ہیں۔ اس حقیقت کے واضح ہو جانے کے بعد یہ امر کسی تشریح کا محتاج نہیں رہتا کہ یہ تحریک اصلاً اسلام کے خلاف ہے، اس کے اصول کلیۃً اصول اسلام کی ضد ہیں اور اسلام کا عین مقصد ہی اس ذہنیت کو مٹانا ہے جس سے ضبط ِولادت جیسی تحریکات وجود میں آتی ہیں۔
احادیث سے غلط استدلال
مسلمانوں میں جو حضرات ضبط ِولادت کے مؤیّد ہیں ان کو اپنی تائید میں قرآن مجید سے ایک لفظ بھی نہیں مل سکتا،{ FR 7265 } اس لیے وہ حدیث کی طرف رجوع کرتے ہیں اور بعض ایسی احادیث سے استدلال کرتے ہیں جن میں عَزُل کی اجازت دی گئی ہے لیکن حدیث سے استدلال کرنے میں چند امور کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے جن کو نظر انداز کرکے کسی فقہی مسئلہ کا استنباط نہیں کیا جا سکتا۔
اولاً: مسئلہ متعلقہ کے باب میں تمام احادیث کااستقصا کیا جائے۔
ثانیاً: ارشاد نبویؐ کے موقع ومحل کو پیش نظر رکھا جائے۔
ثالثاً: اس وقت عرب کے جو حالات تھے ان کو ملحوظ رکھا جائے۔
لہٰذا ہم ان تینوں امور کو ملحوظ رکھ کر ان احادیث پر نظر ڈالیں گے جو اس باب میں وارد ہوئی ہیں۔
یہ سب کو معلوم ہے کہ عرب جاہلیت میں برتھ کنٹرول کے لیے قتل کا طریقہ رائج تھا جس کی دو وجوہ تھیں۔ ایک معاشی حالات کی خرابی جن کی وجہ سے ماں باپ اپنی اولاد کو مار ڈالتے تھے تاکہ ان کے رزق میں کوئی شریک پیدا نہ ہو۔ دوسرے غیرت کا حد سے بڑھا ہوا جذبہ جو لڑکیوں کے قتل کا محرک ہوتا تھا۔ اسلام نے آ کر اس کو سختی کے ساتھ منع کیا اور اس باب میں عربوں کی ذہنیت ہی بدل دی۔
اس کے بعد مسلمانوں کا رجحان عَزُل،[Cotus Interruptus]یعنی مباشرت بلا انزال فی الفرج کی طرف راغب ہوا۔ لیکن یہ رجحان عام نہ تھا، نہ برتھ کنٹرول کی کوئی تحریک جاری ہوئی تھی، نہ اس کو قومی پالیسی بنانا مقصود تھا، نہ اس کے محرک وہ عہد جاہلیت کے جذبات وخیالات تھے جن کی وجہ سے قتل ِاولاد کے ظالمانہ طریقہ پر عمل کیا جاتا تھا بلکہ دراصل اس کے تین وجوہ تھے جو احادیث کے تتبع سے ہم کو معلوم ہوتے ہیں:
ایک یہ خیال کہ لونڈی سے اولاد نہ ہو۔
دوسرے یہ کہ لونڈی کے اُمِّ ولدبن جانے سے یہ خوف تھا کہ اس کوپھر ہمیشہ اپنے پاس رکھنا ہو گا۔
تیسرے یہ کہ زمانہ رضاعت میں حمل ٹھیر جانے سے شیر خوار بچہ کو نقصان پہنچنے کا خوف تھا۔
ان وجوہ سے مخصوص حالات میں بعض صحابہ نے عَزُل کی ضرورت محسوس کی اور یہ دیکھ کر کہ اس فعل کے عدم جواز کا کوئی صریح حکم کتاب وسنت میں نہیں آیا ہے اس پر عمل کیا، مثلاً ابن عباسؓ، سعد بن ابی وقاصؓ اور ابو ایوب انصاریؓ۔ انھی بزرگوں میں سے ایک حضرت جابر ؓ بھی ہیں جنھوں نے شارع کے سکوت کو رضا پر محمول کیا ہے۔ چنانچہ ان سے جو احادیث مروی ہیں ان کے الفاظ یہ ہیں:
کُنَّا نَعْزِلْ عَلٰی عَھَدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ۔ { FR 8151 }
ہم رسول اللہ a کے زمانہ میں عزل کیا کرتے تھے۔
کُنَّا نَعْزِلُ وَالْقُرْآنِ ینزل۔ { FR 8152 }
ہم عزل کرتے تھے اس حال میں کہ قرآن نازل ہو رہا تھا۔
ان احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت جابرؓ اور ان کے ہم خیال صحابہؓ نے عزل کے باب میں کوئی صریح حکم نہ ہونے کو جواز کی دلیل سمجھا ایک اور حدیث میں جو انہی صحابی سے امام مسلم نے نقل کی ہے یہ ہے کہ ’’ہم عہد رسالت میں عَزْل کرتے تھے، اس کی خبر حضورؐ کو پہنچتی اور آپؐ نے ہم کو منع نہ فرمایا۔{ FR 8153 }
دوسری احادیث یہ بتاتی ہیں کہ اس مسئلے میں حضورa سے سوال کیا گیا تھا۔ چنانچہ حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ ہمارے ہاتھ لونڈیاں آئیں اور ہم نے عزل کیا، پھر اس بارے میں رسول اللہ a سے پوچھا تو آپؐ نے فرمایا:
’’کیا تم ایسا کرتے ہو؟
کیا تم ایسا کرتے ہو؟؟
کیا تم ایسا کرتے ہو؟؟؟
قیامت تک جو بچے پیدا ہونے ہیں وہ تو ہو کر ہی رہیں گے۔‘‘ { FR 8154 }
امام مالکؒ نے مؤطا میں انھی ابو سعید رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ غزوۂ بنی المصطلق میں ہمارے ہاتھ لونڈیاں آئیں۔ اہل وعیال سے دوری ہم پر شاق گزر رہی تھی۔ ہم نے چاہا کہ ان عورتوں سے استمتاع کریں۔ مگر اس کے ساتھ ہماری خواہش یہ بھی تھی کہ ان کو فروخت کریں۔ اس لیے ہم نے خیال کیا کہ ان سے عَزْل کرنا چاہیے تاکہ اولاد پیدا نہ ہو۔ ہم نے حضورؐ سے سوال کیا۔ آپؐ نے فرمایا:
مَاعَلَیْکُمْ اَنْ لَا تَفْعَلُوا ۔ مَامِنْ نَسَمَۃٍ کَائِنَۃٍ اِلاَّ وَھِیَ کَائِنَۃٌ۔{ FR 8155 }
کیا بگڑ جائے گا اگر تم ایسا نہ کرو۔ قیامت تک جو بچے پیدا ہونے والے ہیں وہ تو ہو کر ہی رہیں گے۔
مسلم کی حدیث ہے کہ جب عزل کے بارے میں آنحضرتؐ سے سوال کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا:
لَا عَلَیْکُمْ اَنْ لَاتَفْعَلُوا ذَا کُمْ۔ { FR 8156 }
اگر تم ایسا نہ کرو تو کچھ نقصان نہ ہو جائے گا۔
ایک دوسری حدیث میں ہے:
وَلِمَ یَفْعَلُ ذَالِکَ اَحَدُکُمْ۔{ FR 8157 }
تم میں سے کوئی یہ فعل کیوں کرے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آ کر عرض کیا میرے پاس ایک لونڈی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ اس سے اولاد ہو۔ اس پر حضورa نے فرمایا:
اِعزِلْ عَنْھَا اِنْ شِئْتَ فَاِنَّہُ سَیَأتِیْھَا مَا قُدِّرَ لَھَا۔ { FR 8158 }
تو چاہے تو عزل کر لے، مگر جو اولاد اس کی تقدیر میں لکھی ہے۔ وہ تو ہو کر رہے گی۔
ان کے علاوہ حضرت ابو سعید خدریؓ سے ترمذی نے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ صحابہ میں سے جو اہل علم تھے وہ عموماً عزل کو مکروہ سمجھتے تھے۔{ FR 8159 }
موطا میں امام مالکؒ نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عمرؓ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو عَزْل کو ناپسند کرتے تھے۔{ FR 8160 }
ان سب روایات کو پیش نظر رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ a نے اس فعل کی اجازت نہ دی تھی بلکہ آپؐ اس کو عبث اور ناپسندیدہ فعل سمجھتے تھے اور آپؐ کے جن اصحاب کو تفقہ فی الدین کا مرتبہ حاصل تھا وہ بھی اس کو اچھی نظر نہ دیکھتے تھے لیکن چونکہ عزل کی کوئی عام تحریک قوم میں جاری نہیں ہوئی تھی، اور اس کو ایک عام قومی طرز عمل نہیں بنایا جا رہا تھا بلکہ محض چند افراد اپنی مجبوریوں اور ضرورتوں کی بنا پر اس فعل کا ارتکاب کرتے تھے، اس لیے آپؐ نے اس کی ممانعت کا کوئی قطعی اعلان بھی نہ فرمایا۔ اگر اس وقت برتھ کنٹرول کی کوئی عام تحریک شروع ہوتی تو یقینا حضورaنہایت سختی کے ساتھ روکتے۔
عَزْل پر ضبط ِ ولادت کے دوسرے طریقوں کو بھی قیاس کرکے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان طریقوں کو شارع نے صرف اس وجہ سے حرام نہیں کیا کہ بعض حالات میں انسان فی الواقع ان کو اختیار کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور احتیاط کا متقضیٰ یہی ہے کہ ان کو ایسا کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ مثلاً حمل ٹھیرنے سے عورت کی جان کا خطرے میں پڑ جانا، یا اس کی صحت کو غیر معمولی نقصان پہنچنے کا خوف، یا زمانۂ رضاعت میں شیر خوار بچے کو مضرت پہنچنے کا اندیشہ، یا اور ایسے ہی دوسرے وجوہ۔ ایسے حالات میں اگر طبی مشورے سے ضبط ِولادت کا کوئی طریقہ اختیار کیا جائے تو یہ جائز ہے، جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں۔ لیکن بلا ضرورت اس کو ایک عام طرز عمل اور قومی پالیسی بنانا احکامِ اسلام کے قطعاً خلاف ہے اور وہ تمام خیالات جن کی بنا پر ایسا طرزِ عمل اختیار کرنے کی طرف رجحان پیدا ہوتا ہے، اُصول اسلام کے بالکل منافی ہیں۔
خ خ خ
ضمیمہ (1) : اسلام اور خاندانی منصوبہ بندی
اس مقالے کے لیے جوموضوع تجویز کیا گیا ہے وہ ہے ’’اسلام اور خاندانی منصوبہ بندی۔‘‘ بظاہر اس موضوع پر اظہار خیال کے لیے یہ بات بالکل کافی سمجھتی جا سکتی ہے کہ اولاد کی پیدائش کو کسی مطلوبہ حد کے اندر رکھنے کی خواہش اور کوشش، اور اس کی عملی تدابیر کے متعلق اسلام کے احکام نقل کر دیے جائیں، اور پھر یہ بتا دیا جائے کہ صاحب ِمقالہ کے نزدیک ان احکام کی روشنی میں یہ چیزیں جائز یا ناجائز لیکن درحقیقت اس طرح کے ایک تنگ دائرے میں موضوع اور بحث کو مقید کرکے گفتگو کرنا نہ تو تحقیق کا حق ادا کرنے کے لیے کافی ہے اور نہ اس طریقے سے اسلام کا نقطۂ نظر ہی ٹھیک سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ’’خاندانی منصوبہ بندی‘‘ کا مسئلہ بجائے خود کیا ہے، کیوں پیدا ہوا ہے، ہماری زندگی کے کن کن پہلوئوں سے اس کا کیا تعلق ہے، اس کے عملی اقدامات سے زندگی کے ان مختلف پہلوئوں پرکیا اثرات پڑتے ہیں، اور یہ کہ اس کی انفرادی خواہش وکوشش اور قومی پیمانے پر اس کے لیے ایک اجتماعی تحریک برپا کرنے کے درمیان کوئی فرق بھی ہے یا نہیں، اور اگر فرق ہے تو وہ کیا ہے اور اس کے لحاظ سے دونوں کے احکام میں کیا فرق ہونا چاہیے۔ ان امور کو اچھی طرح جان لینے کے بعد ہی یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم اس مسئلے میں دین ِ فطرت کی ہدایات کے مغز تک پہنچ سکیں اور ان کا پورا پورا مدعا سمجھ سکیں۔ اس لیے میں پہلے انھی امور کے متعلق چند ضروری باتیں عرض کروں گا۔
نوعیت ِمسئلہ
’’خاندانی منصوبہ بندی‘‘ دراصل کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ ایک قدیم تخیل کا صرف ایک نیا نام ہے۔ انسان کو اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں وقتاً فوقتاً یہ اندیشہ لاحق ہوتا رہا ہے کہ اس کی نسل بڑھنے کے امکانات بے پایاں ہیں اور زمین کے وسائل محدود ہیں، اگر وہ بے تحاشا نسل بڑھاتا چلا جائے تو یہ آبادی کہاں سمائے گی اور کیا کھائے گی۔ اس اندیشہ کو قدیم زمانے کا آدمی بڑے سادہ طریقے سے بیان کیا کرتا تھا۔ مگر جدید زمانے کے آدمی نے باقاعدہ حساب لگا کر بتا دیا کہ ہماری آبادی ہندسی سلسلے (Geometric Progression) سے بڑھتی ہے اور اس کے برعکس ہمارے وسائل رزق خواہ کتنے ہی عمدہ طریقوں سے بڑھائے جائیں بہرحال وہ زیادہ سے زیادہ صرف حسابی سلسلے (Arithmetic Progression) ہی سے بڑھ سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں انسانی آبادی 1-2-4-8-16-32-64-128-256 کی نسبت سے بڑھتی ہے، اور وسائل رزق صرف1- 2-3-4-5-6-7-8-9 کی نسبت ہی سے بڑھنے ممکن ہیں۔ لہٰذا اگر انسانی آبادی کسی رکاوٹ کے بغیر بڑھتی چلی جائے تو وہ ہر 25 سال میں دوگنی ہوتی چلی جائے گی اور دو صدی کے اندر ایک سے شروع ہو کر 256 تک جا پہنچے گی، لیکن وسائل رزق اس مدت میں ایک سے چل کر صرف نَو تک پہنچیں گے۔ تین صدی میں یہ نسبت 4096 بمقابلہ تیرہ ہو گی اور دو ہزار برس میں آبادی اور اس کے وسائل معیشت کے درمیان سرے سے کوئی نسبت ہی نہ رہ جائے گی۔ یہ سیدھا سا حساب لگا کر عالمگیر پیمانے پر سوچنے والے لوگ روئے زمین کے بارے میں، اور علاقائی طرز پر سوچنے والے اصحاب محدود علاقوں کے بارے میں، اس پریشانی کا اظہار کرتے ہیں کہ دنیا میں، یا فلاں علاقے میں، آبادی اگر یونہی بڑھتی رہی تو خواہ وسائل معیشت کو بڑھانے کے لیے کتنے ہی ہاتھ پائوں مارے جائیں، ترقی تو درکنار ہمیں زندگی بسر کرنے کے لیے بھی پورے ذرائع میسر نہ آ سکیں گے۔ حتیٰ کہ ایک وقت وہ آ جائے گا جب زمین میں سب آدمیوں کے لیے کھڑے رہنے کی جگہ بھی باقی نہ رہے گی۔
یہ ہے مسئلے کی نوعیت۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قدیم زمانے کا آدمی قتلِ اولاد، اسقاطِ حمل اور منع حمل کے ذرائع استعمال کرتا تھا۔ جدید زمانے کا آدمی اگرچہ اب بھی پہلے دونوں ذرائع استعمال کرنے سے چوک تو نہیں رہا ہے، لیکن اس سائنٹفک ترقی کی بنا پر اس کا زیادہ تر زور تیسرے ذریعہ پر ہے۔ وہ اس غرض کے لیے ایسی دوائوں اور آلات سے بھی کام لینا چاہتا ہے جن سے قوتِ تولید برقرار رکھتے ہوئے آدمی جب اور جتنی مدت تک چاہے اولاد کی پیدائش کو روک سکے اور ایسے ذرائع بھی استعمال کرنے کے درپے ہے جن سے مرد، یا عورت، یا دونوں مستقل طور پر بانجھ ہو جائیں۔ اس کا نام کبھی ضبط ِولادت (Birth Control) رکھا جاتا ہے، کبھی اسے تحدید ِنسل (Birth Limitation) سے موسوم کیا جاتا ہے اور کبھی اس کے لیے خاندانی منصوبہ بندی (Family Planning) یا ایسی ہی اور کوئی خوب صورت اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
کیا اِضافۂ آبادی سے تنگی ِ معیشت کا خطرہ صحیح ہے؟
اب ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اندیشہ بجائے خود کہاں تک صحیح ہے جس کی بنا پر یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے۔
اس سوال پر جب ہم غور کرتے ہیں تو پہلی ہی نظر میں یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں آج تک کبھی انسانی نسل اُس ہندسی طریقے پر نہیں بڑھی ہے جو مالتھوس اور فزانسس پلاس کے پیرو بڑے حسابی انداز میں بیان کرتے ہیں۔ اور کوئی دور ایسا نہیں گزرا ہے جب آبادی اور وسائل رزق کے درمیان وہ نسبت رہی ہو جس کا ان لوگوں نے دعویٰ کیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو انسان کی نسل کبھی کی اس دنیا سے مٹ چکی ہوتی اور آج ہم اس مسئلے پر بحث کرنے کے لیے موجود ہی نہ ہوتے۔
یہ ایک پیش پا افتادہ حقیقت ہے، اور غالباً پیش پا اُفتادہ ہونے ہی کی وجہ سے اس کو چنداں قابل غور نہیں سمجھا جاتا، کہ یہ زمین جس پرانسان آباد ہے، انسان کے آنے سے بہت پہلے موجود تھی اور پہلے ہی اس میں وہ تمام سروسامان مہیا کردیا گیا تھا جو انسانی زندگی کی بقا اور اس کے تمدنی وتہذیبی نشوونما کے لیے درکار تھا۔ انسان نے یہاں آ کر کوئی چیز پیدا نہیں کی ہے، بلکہ جو کچھ یہاں موجود تھا، صرف اسے اپنی ذہانت ومحنت سے دریافت کیا ہے اور اس سے کام لیا ہے۔ اولین انسانی آبادکاروں کی ضروریات سے لے کر آج اس بیسویں صدی کے انسان کی ضروریات تک کوئی ضرورت ایسی نہیں ہے جسے پورا کرنے کے ذرائع ووسائل یہاں پہلے سے موجود نہ پائے گئے ہوں اور شاید کسی کو اس سے انکار نہ ہو گا کہ آگے بھی جو ضرورتیں انسان کو پیش آنے والی ہیں ان کے لیے موزوں اشیاء کہیں نہ کہیں فضا میں، یا سطح زمین پر یا زمین کی تہوں میں، یا سمندر کی گہرائیوں میں موجود ہیں۔ انسان نہ ان اشیاء کا بنانے والا ہے، نہ ان کا مقام، اور ان کی مقدار، اور ان کا وقتِ ظہور متعین کرنے میں اس کا ذرہ برابر کوئی دخل ہے۔ کوئی خدا کا قائل ہو یا فطرت نامی کسی اندھی طاقت کا، بہرحال اس امرِ واقعہ کو ماننا ہی پڑے گا کہ جو بھی اس دنیا میں انسان کو لانے کا ذمہ دار ہے۔ اسی نے انسان کو پیش آنے والی تمام ضروریات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرکے ان کے مطابق ہر قسم کا سروسامان یہاں پہلے سے فراہم کر دیا ہے۔
یہ سارے وسائل ہمیشہ سے انسان کے سامنے نہیں رہے ہیں۔ جب آدمی اول اول یہاں آیا ہے تو پانی، مٹی ، پتھر، قدرتی نباتات اور جنگلی جانوروں کے سوا کوئی وسیلۂ معیشت اس کو نظر نہ آتا تھا، لیکن جوں جوں اس کی آبادی بڑھی ہے اور وہ یہاں جینے کے لیے کام کرتا گیا ہے، وسائل کے بے حد وحساب خزانے اس کے لیے کھلتے چلے گئے ہیں۔ اس نے نئے نئے وسائل دریافت بھی کیے ہیں اور پرانے وسائل کے نئے استعمالات معلوم بھی کیے ہیں۔ آج تک کی انسانی تاریخ میں کبھی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا ہے کہ کبھی انسانی آبادی تو پھیلی ہو مگر اس کے ساتھ ساتھ معیشت کے اسباب وذرائع نہ پھیلے ہوں۔ آدمی بارہا اس غلط فہمی میں مبتلا ہوا ہے کہ اس زمین پر جتنے کچھ بھی رزق کے خزانے تھے وہ سب اس کے سامنے آ چکے ہیں اور اب انسانی آبادی کو اسی سروسامان پر گزر بسر کرنا ہے جو آنکھوں سے نظر آتا ہے لیکن ایک بار نہیں سینکڑوں بار نوعِ انسانی کو یہ تجربہ ہو چکا ہے کہ آبادی کی افزائش کے ساتھ ساتھ قدرت ایسی ایسی جگہوں سے رزق کے اتھاہ خزانے نکالتی چلی گئی ہے جہاں ان کی موجودگی کا آدمی تصور تک نہ کر سکتا تھا۔
ہزارہا برس قبل مسیح سے آدمی اپنے چولہے پر رکھی ہوئی ہنڈیا سے بھاپ نکلتی دیکھ رہا تھا، مگر مسیح کے سترہسو برس بعد تک بھی کسی کو یہ اندازہ نہ تھا کہ اٹھارہویں صدی کے نصف آخر میں یہی بھاپ رزق کے کتنے نئے دروازے کھولنے والی ہے۔ سمیری تہذیب{ FR 7714 } کے زمانے سے آدمی روغن نفطا اور اس کی آتش پذیری سے واقف تھا، مگر انیسویں صدی کے نصف آخر تک بھی کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ عنقریب زمین کے پیٹ سے پٹرول کے چشمے ابلنے والے ہیں اور اس کے ساتھ ہی موٹروں اور ہوائی جہازوں کی صنعت ابھر کر معیشت کی ایک دنیا برپا کر دینے والی ہے۔ نامعلوم زمانے سے انسان رگڑ سے شرارے پیدا ہوتے دیکھ رہا تھا، لیکن بجلی کا راز ہزاروں برس بعد جا کر تاریخ کے ایک خاص مرحلے میں اس پر کھلا اور طاقت کا ایک بالکل نیا خزانہ اس کے ہاتھ آ گیا جس سے آج انسانی معیشت میں وہ کام لیے جا رہے ہیں جن کا اب سے ڈیڑھ سو برس پہلے بھی کوئی بندۂ خدا تصور تک نہ کر سکتا تھا۔ پھر یہ جوہرِ فرد (atom) جس کے قابل تجزیہ ہونے اور نہ ہونے کی بحث ولادتِ مسیح سے بھی سالہا سال پہلے سے فلسفیوں کے مدارس میں ہو رہی تھی، اس کے خول سے برآمد ہو گا جس کے سامنے انسان کے سارے معلوم وسائل قوت ہیچ ہو کر رہ جائیں گے۔ یہ وہ تغیرات ہیں جو معیشت اور اس کے وسائل میں پچھلے دو سو برس کے اندر اندر رونما ہوئے ہیں اور انھوں نے انسان کو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے وہ کچھ سروسامان دیا ہے اور اس کے وسائل حیات میں وہ اضافہ کیا ہے جس کا خواب بھی اٹھارھویں صدی میں نہ دیکھا جا سکتا تھا۔ اس کے ظہور میں آنے سے پہلے اگر کوئی شخص صرف اپنے زمانے کے وسائل معاش ہی کو دیکھ کر یہ حساب لگا تاکہ انسانی آبادی کے اضافے کا یہ وسائل کہاں تک ساتھ دے سکیں گے تو اندازہ کیجیے کہ وہ کس قدر نادان ہوتا۔
اس طرح کے حساب لگانے والے صرف یہی غلطی نہیں کرتے کہ اپنے زمانے کے محدود علم کو مستقبل کے لیے بھی کافی سمجھ بیٹھتے ہیں، بلکہ وہ اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ آبادی کی افزائش صرف کھانے والوں کی افزائش ہی نہیں ہوتی، کمانے والوں کی افزائش بھی ہوتی ہے۔ معاشیات کی رو سے پیداوار کے تین عامل مانے جاتے ہیں۔ زمین، سرمایہ اور آدمی۔ ان میں سے اصل اور سب سے بڑا عامل آدمی ہے، لیکن کثرتِ آبادی کے غم میں گھلنے والے حضرات اس کو پیداوار (production) کے بجائے محض صرف (consumption) کا عامل سمجھ لیتے ہیں اور پیداوار کے عامل کی حیثیت سے اس کے کردار کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ انھیں یہ خیال نہیں رہتا کہ آج تک انسان نے جتنی ترقی کی ہے، اضافۂ آبادی کے ساتھ بلکہ اس کی بدولت کی ہے۔ اضافۂ آبادی نہ صرف نئے عامل فراہم کرتا ہے، بلکہ عمل کے لیے مزید محرکات بھی پیدا کرتا ہے۔ ہر روز مزید انسانوں کے لیے غذا، لباس، مکان اور دوسری ضروریات بہم پہنچانے کی ناگزیر حاجت کا پیش آنا ہی وہ اصل محرک ہے جو انسان کو موجود وسائل کی توسیع، نئے وسائل کی تلاش، اور ہر شعبۂ حیات میں اِکتشاف وایجاد پرمجبور کرتا ہے۔ اسی کی وجہ سے بنجر اراضی زیر کاشت آتی ہیں، دلدلوں اور جھاڑیوں اور سمندروں کے نیچے سے زمین نکالی جاتی ہے، کاشت کے نئے طریقے دریافت کیے جاتے ہیں، کانیں کھو دی جاتی ہیں، زمین، فضا اور سمندر میں ہر طرف انسان ہاتھ پائوں مارتا ہے، اور وسائل حیات کی تلاش میں ہر سمت بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ محرک نہ ہو تو سستی وبے عملی اور حاضر وموجود پر قناعت کے سوا اور کیا حاصل ہو گا۔ یہی محرک تو ہے جو ایک طرف آدمی کو زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر ابھارتا ہے، اور دوسری طرف روز نئے نئے کام کرنے والے بھی میدان میں لاتا چلا جاتا ہے۔
کیا آبادی کی افزائش سے فی الواقع معیشت تنگ ہوئی ہے؟
ہمارے زمانے کی قریب ترین تاریخ ان لوگوں کے حساب کو جھٹلانے کے لیے کافی ہے جو کہتے ہیں کہ وسائلِ حیات کی افزائش آبادی کی افزائش کا ساتھ نہیں دے سکتی۔
1880ء میں جرمنی کی آبادی 45 ملین تھی۔ اس وقت وہاں کے باشندے بھوکوں مر رہے تھے اور ایک مدت سے ہزاروں کی تعداد میں جرمن لوگ اپنے ملک سے نکل نکل کر باہر چلے جا رہے تھے لیکن اس کے بعد 34 سال کے اندر جرمنی کی آبادی68 ملین تک پہنچ گئی اور اس مدت میں بجائے اس کے کہ آبادی کی افزائش سے جرمنوں کے وسائل حیات کم ہو جاتے، ان کے وسائل میں اضافۂ آبادی کی بہ نسبت کئی سو گنا زیادہ اضافہ ہو گیا حتی کہ انھیں اپنی معاشی مشین کو چلانے کے لیے باہر سے آدمی درآمد کرنے پڑے۔ 1900ء میں جو غیر ملکی جرمنی میں کام کر رہے تھے ان کی تعداد آٹھ لاکھ تھی۔ 1910ء میں یہ تعدادتیرہ لاکھ قریب پہنچ گئی۔
اس سے بھی زیادہ عجیب صورتِ حال وہ ہے جو جنگ عظیم دوم کے بعد سے مغربی جرمنی میں دیکھی جا رہی ہے۔ وہاں قدرتی اضافۂ آبادی کے علاوہ مشرقی جرمنی، پولینڈ، چیکو سلواکیہ اور دوسرے اشتراکی مقبوضات سے جرمن نسل کے تقریباً ایک کروڑ پچیس لاکھ مہاجرین منتقل ہوئے ہیں اور اب تک ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں چلے آ رہے ہیں۔ اس ملک کا رقبہ صرف 95,000 مربع میل ہے اور آبادی پانچ کروڑ بیس لاکھ سے اوپر پہنچ چکی ہے جس کے ہر پانچ آدمیوں میں سے ایک مہاجر ہے۔ پھر اس آبادی میں پینسٹھ لاکھ آدمی ناقابل کار ہونے کے باعث پنشن پارہے ہیں لیکن اس کے باوجود مغربی جرمنی کی معاشی حالت روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ اس کی دولت جنگ سے پہلے کے متحدہ جرمنی کی دولت سے بھی زیادہ ہے۔ اس کو اضافہ آبادی کی نہیں قلت آبادی کی شکایت ہے اور کام کرنے کے لیے جتنے ہاتھ موجود ہیں ان سب کو استعمال کرنے کے بعد وہ مزید ہاتھوں کا طلب گار ہے۔
ہالینڈ کو دیکھیے۔ اٹھارہویں صدی میں اس کی آبادی مشکل سے دس لاکھ تھی۔ ڈیڑھ سو برس کے اندر وہ ترقی کرتے کرتے 1950ء میں ایک کروڑ سے اوپر پہنچ گئی۔ یہ آبادی صرف 12850 مربع میل کے رقبہ میں بس رہی ہے، جہاں فی کس پوری ایک ایکڑ قابلِ زراعت زمین بھی میسر نہیں ہے لیکن آج یہ آبادی نہ صرف اپنی ضروریات پوری کر رہی ہے بلکہ بہت سا غذائی سامان باہر برآمد کر رہی ہے۔ اس نے سمندر کو دھکیل کر اور دلدلوں کو صاف کرکے دو لاکھ ایکڑ زمین نکال لی ہے اور مزید تین لاکھ ایکڑ نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کی آج کی دولت سے اس دولت کو کوئی نسبت ہی نہیں ہے جو ڈیڑھ سو برس پہلے اس کی دس لاکھ آبادی کو حاصل تھی۔
انگلستان کو دیکھیے۔ 1789ء میں برطانیہ وآئرلینڈ کی مجموعی آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ ہو گئی اور آج جنوبی آئرلینڈ نکل جانے کے باوجود پانچ کروڑچار لاکھ ہے تو کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ اس پانچ گنا اضافہ نے برطانیہ کی آبادی کو پہلے سے زیادہ مفلس کر دیا ہے؟
بحیثیت ِمجموعی ساری دنیا کو دیکھیے۔ اٹھارہویں صدی کے آخر سے اس کی آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہونا شروع ہوا ہے لیکن اس وقت سے آج تک دنیا کی آبادی جتنی بڑھی ہے اس سے بدرجہا زیادہ پیدائش دولت کے ذرائع بڑھے ہیں۔ آج متوسط درجے کے لوگوں کو وہ کچھ میسر ہے جو دو سو سال پہلے بادشاہوں کو بھی نصیب نہ تھا۔ آج کے معیار زندگی سے دو سو برس پہلے کے معیارِ زندگی کو آخر کیا نسبت ہے؟
اِضافۂ آبادی کا صحیح علاج
ان مثالوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آبادی اور وسائل حیات کے درمیان توازن برقرار رکھنے کا یہ نسخہ کہ آبادی کو گھٹایا جائے، یا اسے بڑھنے سے روک دیا جائے، سرے سے بالکل ہی غلط ہے۔ اس سے تو توازن برقرار رہنے کے بجائے اور زیادہ بگڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ اس کے بجائے اِضافۂ آبادی کا صحیح علاج یہ ہے کہ وسائل حیات کو بڑھانے اور نئے وسائل تلاش کرنے کی مزید کوشش کی جائے۔ یہ نسخہ جہاں بھی آزمایا گیا ہے وہاں آبادی اور وسائل کے درمیان محض توازن ہی برقرار نہیں رہا ہے بلکہ آبادی کے اضافے کی بہ نسبت وسائل اور معیار زندگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
یہاں تک جو کچھ میں نے عرض کیا ہے وہ صرف معاش اور اس کے ان بے اندازہ وسائل کے بارے میں تھا جو انسان کے خالق نے…یا منکرین ِخدا کی زبان میں فطرت نے…اپنی زمین میں اس کے لیے مہیا کر رکھے ہیں۔ اب میں مختصر طور پر خود انسانی آبادی اور اس کی افزائش کے بارے میں بھی کچھ عرض کروں گا تاکہ اس مسئلے کا یہ پہلو بھی ہمارے سامنے آ جائے کہ آیا واقعی ہم اس کی کوئی صحیح منصوبہ بندی کر بھی سکتے ہیں یا نہیں۔
انسانی آبادی کی حقیقی منصوبہ بندی کرنے والا کون ہے؟
غالباً کوئی انسان بھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو گا کہ وہ خود اپنے ارادے اور انتخاب سے اس دنیا میں آیا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ اس کے آنے میں اس کے اپنے ارادہ وانتخاب کا کوئی دخل نہیں، بلکہ اس کے ماں باپ کا دخل بھی اس معاملہ میں محض برائے نام ہے۔ موجودہ زمانے کے علمی مشاہدات سے جو حقائق روشنی میں آئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مواصلت کے موقع پر مرد کے جسم سے جو مادہ خارج ہوتا ہے اس میں بائیس کروڑ تک حومینات منویہ (supermatozoa) موجود ہوتے ہیں بلکہ بعض ماہرین نے تو ان کا اندازہ پچاس کروڑ لگایا ہے۔ ان کروڑوں جرثوموں میں سے ہر ایک اپنے اندر ایک انسان بن جانے کی پوری استعداد رکھتا ہے، بشرطیکہ اسے کسی عورت کے بیضی خلیے (Egg Cell Oxum) میں داخل ہو جانے کا موقع مل جائے۔ ان میں سے ہر جرثومہ آبائی خصوصیات اور انفرادی اوصاف کے ایک جداگانہ امتزاج کا حامل ہوتا ہے جس سے ایک منفرد شخصیت بن سکتی ہے۔
دوسری طرف ہر بالغ عورت کے خصیتین (ovaries) میں تقریباً چار لاکھ ناپختہ انڈے موجود رہتے ہیں۔ مگر ان میں سے ایک طہر کی مدت میں صرف ایک انڈا پختہ ہو کرکسی وقت (بالعموم حیض کی آمد سےچودہ دن پہلے) برآمد ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ چوبیس گھنٹے تک اس کے لیے تیار رہتا ہے کہ اگر مرد کا کوئی جرثومہ آ کر اس میں داخل ہو جائے تو استقرار حمل واقع ہو جائے۔ بارہ برس کی عمر سےاڑتالیس برس کی عمر تک چھتیس سال کی مدت میں ایک عورت کے خصیتین اوسطاً 430 پختہ انڈے خارج کرتے ہیں جو بارور ہو سکتے ہیں۔ ان انڈوں میں سے بھی ہر ایک کے اندر سلسلہ مادری کی موروثی خصوصیات اور انفرادی اوصاف کا ایک جداگانہ امتزاج ہوتا ہے جس سے ایک منفرد شخصیت وجود میں آ سکتی ہے۔
مرد اور عورت کی ہر مواصلت کے موقع پرمرد کے جسم سے کروڑوں جرثومے نکل کر عورت کے انڈے کی تلاش میں دوڑ لگاتے ہیں، مگر یا تو وہاں انڈا موجود نہیں ہوتا یا وہ سب اس تک پہنچنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح عورت کے ہر طہر میں ایک وقتِ خاص پر ایک انڈا نکلتا ہے اور ایک شب وروز تک مردانہ جرثومے کا منتظر رہتا ہے۔ مگر اس دوران میں یا تو مواصلت ہی نہیں ہوتی، یا ہوتی ہے تو کسی جرثومے کی رسائی اس انڈے تک نہیں ہوتی۔ یوں بیسیوں مواصلتیں، بلکہ بعض جوڑوں کی عمر بھر کی مواصلتیں بے نتیجہ گزر جاتی ہیں۔ مرد کے اربوں جرثومے ضائع ہوتے رہتے ہیں جب مرد کے ایک جرثومے کو عورت کے ایک انڈے کے اندر داخل ہونے کا موقع مل جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں استقرار حمل واقع ہوتا ہے۔
یہ ہے وہ نظام جس کے تحت انسان پیدا ہوتا ہے۔ اس نظام پر ایک سرسری نگاہ ڈال کر ہی آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے اندر ہماری منصوبہ بندی کے لیے کتنی گنجائش ہے۔ کسی ماں، کسی باپ، کسی ڈاکٹر اور کسی حکومت کا اس امر کے فیصلے میں ذرہ برابر بھی کوئی دخل نہیں ہے کہ ایک جوڑے کی بہت سی مواصلتوں میں سے کس مواصلت میں استقرار حمل واقع ہو۔ مرد کے اربوں جرثوموں میں سے کس خاص جرثومے کو عورت کے سینکڑوں انڈوں میں سے کس انڈے کے ساتھ لے جا کر ملایا جائے اور ان دونوں کے ملاپ سے کس قسم کی شخصیت پیدا کی جائے۔ فیصلہ کرنا تودرکنار کسی کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ فی الواقع کب عورت کے تاریک رحم میں استقرارِ حمل ہوا ہے اور اس میں کن اوصاف اور کس قابلیت کے انسان کی بنا ڈالی گئی ہے۔
یہ سب کچھ اس مدبر کے اشارے سے ہوتا ہے جو انسانی ارادوں سے بالاتر ہے اور اس کارخانۂ خلق و ایجاد کا سارا منصوبہ بلاشرکتِ غیرے بنا اور چلا رہا ہے۔ وہی استقرار حمل کی ساعت مقرر کرتا ہے۔ وہی اس خاص جرثومے اور اس کے خاص انڈے کا انتخاب کرتا ہے جنھیں ایک دوسرے سے ملانا ہے۔ اور وہی یہ طے کرتا ہے کہ ان کے اِمتزاج سے لڑکا پیدا کیا جائے یا لڑکی، صحیح وسالم انسان پیدا ہو یا ناقص الاعضاء، خوبصورت پیدا ہو یا بدصورت، ذہین پیدا ہو یا بلید، لائق پیدا ہو یا نالائق، اس سارے منصوبے میں جو کام انسان کے سپرد کیا گیا ہے وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ مرد اور عورت اپنی فطرت کی مانگ پوری کرنے کے لیے باہم ملیں اور تناسل کی مشین کو بس حرکت دے دیں۔ اس کے بعد سب کچھ خالق کے اختیار میں ہے۔
انسانی آبادی کی حقیقی منصوبہ بندی دراصل تخلیق کا یہی نظام کر رہا ہے۔ آپ ذرا غور فرمائیں، ایک طرف آدمی کی قوتِ توالد وتناسل کا یہ حال ہے کہ ایک مرد کے جسم سے صرف ایک وقت میں جو نطفہ خارج ہوتا ہے وہ پاکستان کی آبادی سے کئی گنا زیادہ آبادی پیدا کر سکتا ہے، لیکن دوسری طرف اس زبردست قوتِ پیداوار کو کسی بالاتر اقتدار نے اتنا محدود کر رکھا ہے کہ ابتدائے آفرینش سے آج تک ہزارہا سال کی مدت میں انسانی نسل صرف تین ارب کی تعداد تک پہنچ سکی ہے۔ آپ خود حساب لگا کر دیکھیں لیں۔ تین ہزار برس قبل مسیح سے اگر صرف ایک مرد وعورت کی اولاد کو طبیعی رفتار پر بڑھنے کا موقع مل جاتا اور وہ ہرتیس سال یاپنتیس سال میں دوگنی ہوتی چلی جاتی، تو آج صرف اسی ایک جوڑے کی اولاد اتنی بڑی تعداد میں ہوتی کہ اسے لکھنے کے لیے چھبیس ہندسے درکار ہوتے۔
سوال یہ ہے کہ نوع انسانی کی جو آبادی اس رفتار سے بڑھ سکتی تھی آخر خالق کے اپنے منصوبے کے سوا اور کس کے منصوبے نے آج تک اس کو قابو میں رکھا ہے؟ درحقیقت اس کا غالب منصوبہ انسان کو دنیا میں لایا ہے۔ وہی یہ طے کرتا ہے کہ کس وقت کتنے آدمی پیدا کرے اور کس رفتار سے آدم کی اولاد کو بڑھائے یا گھٹائے۔ وہی ایک ایک شخص، ایک ایک مرد اور ایک ایک عورت کے متعلق یہ طے کرتا ہے کہ وہ کس شکل میں کن قوتوں اور استعدادوں کے ساتھ پیدا ہو، کن حالات میں پرورش پائے، اور کتنا کچھ کام کرنے کا موقع اس کو دیا جائے۔ وہی یہ طے کرتا ہے کہ کس وقت کس قوم میں کیسے آدمی پیدا کیے جائیں اور کیسے نہ کیے جائیں، کس قوم کو کتنا بڑھنے دیا جائے اور کہاں جا کر اسے روک دیا جائے یا پیچھے پھینک دیا جائے۔ اس کی اس منصوبہ بندی کو نہ ہم سمجھ سکتے ہیں، نہ ہم میں اسے معطل کر دینے کی طاقت ہے۔ ہم اس میں دخل انداز ہونے کی کوشش کریں گے بھی تو یہ اندھیرے میں تیر چلانے کا ہم معنی ہو گا، کیونکہ اس کارخانے کو جس عظیم حکمت کے ساتھ چلایا جا رہا ہے اس کے ظاہر کو بھی ہم پوری طرح نہیں دیکھ رہے ہیں، کجا کہ اس کے باطن تک ہماری نگاہ پہنچ سکے اور ہم سارے متعلقہ حقائق کو جان کر کوئی منصوبہ بنا سکیں۔
ممکن ہے کوئی صاحب میری اس بات کو مذہبیت کی ایک ترنگ قرار دے کر نظر انداز کر دینے کی کوشش فرمائیں، اور پورے زور کے ساتھ یہ سوال پیش کر دیں کہ اپنی آبادی کو اپنی معیشت کی چادر کا طول وعرض دیکھ کر آخر ہم کیوں نہ خود متعین کریں، خصوصاً جب کہ خدا نے ہم کو ایسے علمی اور فنی ذرائع دے دیے ہیں جن سے ہم آبادی بڑھانے اور گھٹانے پر قادر ہو گئے ہیں؟ اس لیے اب میں ذرا وضاحت کے ساتھ یہ بتائوں گا کہ آبادی کی پیدائش اور افزائش کے فطری انتظام میں ہماری مداخلت کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں اور عملاً جہاں یہ مداخلت کی گئی ہے وہاں کیا نتائج فی الواقع برآمد ہوئے ہیں۔
آبادی کی منصوبہ بندی کے بجائے خاندانی منصوبہ بندی کیوں؟
اس سلسلے میں پہلی بات جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے، یہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے حق میں معاشیات کی بنیاد پر جتنے دلائل دئیے جاتے ہیں وہ درحقیقت خاندانی منصوبہ بندی (Family Planning) کا نہیں بلکہ آبادی کی منصوبہ بندی (Population Planning) کا تقاضا کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، ان دلائل کا اقتضا یہ ہے کہ ہم ایک طرف اپنے ملک کے وسائل ِ معیشت کا ٹھیک ٹھیک حساب لگائیں اور دوسری طرف یہ طے کریں کہ ان وسائل کے تناسب سے اس ملک کی آبادی اتنی ہونی چاہیے اور اس رفتار سے اس میں مرنے والوں کی جگہ نئے آدمی آنے چاہئیں۔ لیکن فی الواقع اس طرح کی منصوبہ بندی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک نکاح اور خاندان کے اداروں کو بالکل ختم کرکے تمام مردوں اور تمام عورتوں کو حکومت کا ’’مزدور‘‘ نہ بنا لیا جائے، اور ایسا انتظام نہ کر دیا جائے کہ دونوں صنفوں کے ان مزدوروں کو ایک مقرر منصوبے کے تحت صرف پیداآوری(production) کے لیے سرکاری ڈیوٹی کے طور پر ایک دوسرے سے ملایا جاتا رہے اور مطلوبہ تعداد میں عورتوں کے حاملہ ہو جانے کے بعد ان کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا جایا کرے۔ یا پھر یہ منصوبہ بندی اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ عورتوں اور مردوں کی براہِ راست مواصلت بالکل ممنوع ٹھیرا دی جائے، خون کے بینکوں کی طرح ’’منی بینک‘‘ قائم کر دیے جائیں، اور پچکاریوں کے ذریعہ سے گائے بھینسوں اور گھوڑیوں کی طرح عورتوں کو بھی ایک مخصوص طے شدہ تعداد میں گیا بھن کیا جاتا رہے۔ ان دو صورتوں کے سوا کوئی تیسری صورت ایسی نہیں ہو سکتی جس سے ایک منصوبے کے مطابق ملک کے وسائلِ معیشت اور اس کی آبادی کے درمیان توازن قائم کیا جا سکے۔
چونکہ انسان ابھی تک اس تنزل کے لیے تیار نہیں ہے، اس لیے مجبوراً آبادی کی منصوبہ بندی کی بجائے خاندانی منصوبہ بندی کا طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یعنی یہ کہ آدمی کے بچے پیدا تو اُنھی چھوٹے چھوٹے آزاد کارخانوں میں ہوں جن کا نام ’’گھر‘‘ ہے اور ان کی پیدائش کا انتظام بھی صرف ایک ایک ماں اور ایک ایک باپ کے ہاتھوں ہی میں رہے، لیکن ان آزاد ’’کارخانہ داروں‘‘ کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ بطور خود پیداوار کم کر دیں۔
خاندانی منصوبہ بندی کے ذرائع
اس مقصد کو عملاً حاصل کرنے کے لیے دو ہی طریقِ کار اختیار کرنے ممکن ہیں اور وہی اختیار کیے جا رہے ہیں:
ایک یہ کہ افراد سے ان کے ذاتی مفاد کے نام پر اپیل کی جائے اور پیہم تبلیغ کے ذریعہ سے ان میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ زیادہ بچے پیدا کرکے وہ اپنا معیار زندگی گرا لیں گے، اس لیے انھیں اپنی آسائش اور خوشحالی کی خاطر اور اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کی خاطر کم بچے پیدا کرنے چاہئیں۔ اپیل کی یہ نوعیت لازماً اس وجہ سے اختیار کرنی پڑتی ہے کہ آزاد افراد کو اپنے ذاتی معاملات میں خود بخود اپنے عمل پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے خالص اجتماعی مفاد کے نام پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس غرض کے لیے ان کے ذاتی مفاد سے اپیل کرنا بالکل ناگزیر ہے۔
دوسرا طریق کار یہ اختیار کرنا پڑتا ہے کہ وسیع پیمانے پر ایسے طریقوں کا علم لوگوں میں پھیلایا جائے، اور ایسے آلات یا دوائوں کو عام لوگوں کی دسترس تک پہنچا دیا جائے جن سے مرد اور عورتیں باہم لذت اندوز تو برابر ہوتے رہیں مگر استقرارحمل نہ ہونے دیں۔
اس منصوبہ بندی کے نتائج
ان دونوں تدبیروں کے استعمال سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں ان کو میں نمبروار آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں:
آبادی کی کمی
ان طریقوں سے جوخاندانی منصوبہ بندی کی جاتی ہے وہ کبھی ان مقاصد کو پورا نہیں کر سکتی جن کے لیے آبادی کی منصوبہ بندی پر زور دیا جاتا ہے۔ آبادی کی منصوبہ بندی کے لیے تو یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک کے ذرائع ووسائل کو دیکھ کر یہ طے کریں کہ یہاں اتنے باشندے ہونے چاہئیں، اور ان کے اندر نئے انسانوں کی پیدائش اس تناسب سے ہوتی رہنی چاہیے تاکہ ملک کی آبادی اس معیارِ مطلوب پر قائم رہے، لیکن جب یہ طے کرنا ایک ایک شادی شدہ جوڑے کے اختیار میں ہو کہ وہ کتنے بچے پیدا کریں اور کتنے نہ کریں، اور اس چیز کا فیصلہ وہ ملک کی ضروریات کے لحاظ سے نہیں بلکہ اپنی آسائش اوراپنے معیارِ زندگی کی بہتری کے لحاظ سے کرنے لگیں، تو اس امر کی کوئی ضمانت نہیں کہ وہ لازماً اتنے بچے پیدا کرتے رہیں گے جتنے ان کی قوم اور ان کے ملک کو اپنی آبادی کا معیار برقرار رکھنے کے لیے درکار ہیں۔ اس صورت میں بہت زیادہ متوقع یہی ہے کہ جتنا جتنا ان کے اندر ذاتی آسائش اور معیار زندگی کی بلندی کا چسکا بڑھتا جائے گا، وہ اولاد کی پیدائش کم کرتے چلے جائیں گے، یہاں تک کہ قوم کی آبادی بڑھنے کے بجائے گھٹنی شروع ہو جائے گی۔
یہ نتیجہ محض متوقع ہی نہیں ہے، بلکہ عملاً فرانس میں رونما ہو چکا ہے۔ دنیا میں پہلا ملک جس نے ضبط ولادت کے طریقوں کو وسیع پیمانے پرآزمایا ہے، یہی فرانس ہے۔ وہاں انیسویں صدی کے آغاز سے ہی یہ تحریک مقبول ہونی شروع ہو گئی تھی۔ ایک صدی کے اندر اندر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فرانس کے بیشتر اضلاع میں شرح پیدائش، شرح اموات سے کم تر ہوتی چلی گئی۔ 1890ء سے 1911ء کے مقابلے میں 1921ء میں فرانس کی آبادی اکیس لاکھ کم نکلی۔ 1932ء میں فرانس کے 90 اضلاع میں سے صرف 12 ایسے تھے جن کی شرح پیدائش شرح اموات سے کچھ زیادہ تھی۔ 1933ء میں ایسے اضلاع کی تعداد صرف6 رہ گئی یعنی 84 اضلاع وہ تھے جن میں مرنے والوں کی تعداد پیدا ہونے والوں سے زیادہ تھی اور صرف6اضلاع وہ جن میں پیدا ہونے والے مرنے والوں سے زیادہ تھے۔ اس حماقت کا نتیجہ فرانس کو دو عالمگیر لڑائیوں میں ایسی سخت شکستوں کی شکل میں دیکھنا پڑا جنھوں نے اس کی عظمت کا خاتمہ کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ خطرہ وہ ملک مول لے سکتا ہے جس کے دس کروڑ باشندے ایک ارب اٹھائیس کروڑ کی آبادی رکھنے والے چار ایسے ملکوں سے گھرے ہوئے ہیں جن کے مقابلے میں اپنی آزادی کو محفوظ رکھنے کا سوال کسی وقت بھی ان کے لیے نازک صورت اختیار کر سکتا ہے؟
2۔ اخلاق کی تباہی
ذاتی مفاد کے نام پر جو اپیل بچے کم پیدا کرنے کے لیے کی جائے گی اس کا اثر صرف بچے ہی کم پیدا کرنے تک محدود نہ رہے گا۔ ایک مرتبہ آپ لوگوں کے سوچنے کا انداز بدل کر اس رخ پر ڈال دیجیے کہ ان کی کمائی کا زیادہ سے زیادہ حصہ ان کی اپنی آسائش ہی پر صرف ہونا چاہیے، اور ان کے اندر یہ احساس پیدا کر دیجیے کہ خاندان کے جو افراد کمانے کے بجائے صرف خرچ کرنے والے ہیں ان کی شرکت سے کمانے والے کا معیارِ زندگی گر جاتا ہے جسے برداشت نہ کرنا چاہیے۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ لوگوں کو صرف نئی پیدا ہونے والی اولاد ہی نہ کھِلے گی، بلکہ ان کواپنے بوڑھے ماں باپ بھی کھلیں گے، اپنے یتیم بہن بھائی بھی کھِلیں گے، ایسے مُزْمِن مریض بھی کھلیں گے جن کے شفایاب ہونے کی توقع باقی نہ رہی ہو، ایسے عزیز بھی کھلیں گے جو اپاہج اور ناکارہ ہو چکے ہیں، غرض ہر اس شخص کا وجود ان کی نگاہ میں ناقابلِ برداشت بوجھ بن جائے گا جو ان کی کمائی میں حصہ بنا کران کا معیارِ زندگی گراتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص اپنی اولاد تک کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہ ہو اور اسی بنا پر آنے والوں کا راستہ روک کر کھڑا ہو جائے، وہ آخر ان لوگوں کا بوجھ کیسے اٹھائے گا جو پہلے سے آئے بیٹھے ہیں اور اولاد سے کم تر ہی عزیز ومحبوب ہو سکتے ہیں۔ اس طرح یہ تحریک ہمارے اخلاق کا دیوالہ نکال دے گی، ہمارے افراد کو خود غرض بنا دے گی اور ان کے دلوں میں ایثار وقربانی اور ہمدردی ومواسات کے سُوتے خشک کرکے رکھ دے گی۔
یہ نتیجہ بھی محض قیاس وگمان پر مبنی نہیں ہے بلکہ جن معاشروں میں یہ طرزِ فکر پیدا کیا گیا ہے وہاں یہ سارے حالات آج رونما ہو رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں آج بوڑھے والدین کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اور بھائی بہنوں اور قریب ترین رشتہ داروں کی مصیبت میں ان کی جیسی کچھ خبر گیری کی جاتی ہے اس سے کون ناواقف ہے؟
3۔ زنا کی کثرت
اس تحریک کو عملاً کامیاب کرنے کے لیے جب ضبط ِولادت کے طریقوں کا علم عام طور پر پھیلایا جائے گا، اور اس کے ذرائع وسائل عام لوگوں کی دسترس تک پہنچا دیے جائیں گے تو کسی کے پاس بھی اس امر کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اس علم سے اور ان ذرائع سے صرف شادی شدہ جوڑے ہی استفادہ کریں گے بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ شادی شدہ زوجین اس سے اتنا فائدہ نہ اٹھائیں گے جتنا بن بیاہے ’’دوست‘‘ اٹھائیں گے، اور اس سے زنا کو وہ فروغ نصیب ہو گا جو ہمارے معاشرے کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا ہے۔ جہاں تعلیم وتربیت میں دین واخلاق کا عنصر روز بروز کمزور ہوتا چلا جا رہا ہو، جہاں سینما، فحش تصاویر، فحش لٹریچر اور فحش گانے، جنسی محرکات میں روز بروز اضافے کیے جا رہے ہوں، جہاں پردے کے حدود وقیود ٹوٹ رہے ہوں اور مردوں اور عورتوں کے لیے آزادانہ میل جول کے مواقع روز بروز زیادہ سے زیادہ پیدا ہو رہے ہوں، جہاں جوان لڑکوں اور جوان لڑکیوں کو ایک ساتھ تعلیم دی جا رہی ہو، جہاں عورتوں کے لباس میں عریانی اور زینت اور نمائش حسن روز افزوں ہو، جہاں تعددِ ازواج کے راستے میں قانونی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہوں مگر ناجائز تعلقات کے راستے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہ ہو، اور جہاں سولہ برس سے کم عمر کی لڑکی کا نکاح قانوناً ممنوع ہو، وہاں بداخلاقیوں کے راستے میں بس ایک ہی آخری رکاوٹ باقی رہ جاتی ہے اور وہ ہے ناجائز حمل کا خوف۔ ایک دفعہ یہ رکاوٹ بھی دور کر دیجیے اور برے رجحانات رکھنے والی عورتوں کو یہ اطمینان دلا دیجیے کہ وہ استقرارِ رحمل کا کوئی خطرہ انگیز کیے بغیر اپنے آپ کو اپنے دوستوں کے حوالے کر سکتی ہیں، اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ زنا کے سیلاب کو امنڈ آنے سے کوئی طاقت نہ روک سکے گی۔
یہ نتیجہ بھی محض قیاس نہیں ہے، بلکہ دنیا میں جہاں بھی ضبط ِولادت کا عام رواج ہوا ہے وہاں زنا کی وہ کثرت ہوئی ہے جس کی کوئی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
انفرادی ضبط ِولادت اور اس کی اجتماعی تحریک
خاندانی منصوبہ بندی کو ایک عمومی تحریک کی حیثیت سے رائج کرنے کے یہ تین نتائج ایسے ہیں جن سے بچنا کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ اگر ضبط ِولادت صرف مخصوص انفرادی معاملات تک محدود رہے جن میں کوئی شادی شدہ جوڑا اپنے ذاتی حالات کی بنا پر اس کی ضرورت محسوس کرتا ہو اور ایک خدا ترس عالم ِ دین اس کی ضرورت کو جائز تسلیم کرکے احتیاط کے ساتھ اسے جواز کا فتویٰ دے دے، اور صرف ایک ڈاکٹر ہی کے ذریعہ سے اس کو ضبطِ ولادت کے وسائل بہم پہنچ سکیں، تو اس سے وہ اجتماعی نقصانات کبھی رونما نہیں ہو سکتے جن کا میں نے ابھی ابھی ذکر کیا ہے لیکن اس محدود انفرادی ضبط ِولادت کی نوعیت اس تحریک سے بالکل ہی مختلف ہے جو تحدیدِ نسل کے لیے وسیع پیمانے پر عام لوگوں میں پھیلائی جائے اور جس کے ساتھ مانع حمل ذرائع بھی ہر ہر شخص کی دسترس تک پہنچا دیے جائیں۔ اس صورت میں مذکورہ بالا نتائج کو رونما ہونے سے روک دینا کسی کے بس میں نہیں ہے۔
اسلام کا نقطۂ نظر
اس بحث کے بعد میرے لیے یہ بتانا بہت آسان ہو گیا ہے کہ جس دین ِفطرت کے ہم پیرو ہیں وہ اس مسئلے میں ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے۔ عام طور پر ضبطِ ولادت کے حامی حضرات جن احادیث سے ’’عَزْل‘‘ (Coitus Interruptus)کا جواز نکال کر دکھاتے ہیں وہ اس امرِ واقعہ کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ احادیث کے پس منظر میں تحدیدِ نسل کی کوئی عام تحریک موجود نہ تھی۔ اس زمانے میں سرکارِ رسالت مآب a کے سامنے کوئی شخص یہ فتویٰ پوچھنے کے لیے نہیں گیا تھا کہ حضورa ہم ایسی کوئی تحریک چلا سکتے ہیں یا نہیں بلکہ وہاں تو مختلف اوقات میں بعض افراد نے محض اپنے انفرادی حالات پیش کرکے یہ دریافت کیا تھا کہ اس صورتِ حال میں ایک مسلمان کے لیے عَزْل کرنا جائز ہے یا نہیں۔ ان متفرق سائلوں کو حضورa نے جو جوابات دئیے تھے ان میں سے بعض میں آپؐ نے اس سے منع فرمایا، بعض میں اسے ایک فضول حرکت قرار دیا، اور آپؐ کے بعض جوابات سے یا آپؐ کے سکوت سے جواز کا پہلو بھی نکلتا ہے۔ ان مختلف جوابات میں سے اگر صرف انھی جوابات کو چھانٹ لیا جائے جو جواز پر دلالت کرتے ہیں، تب بھی ان کو بس انفرادی ضبط ِولادت ہی کے لیے دلیل بنایا جا سکتا ہے۔ اس کی بنیاد پر ایک عمومی تحریک جاری کر دینے کا جواز ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات میں ابھی آپ سے عرض کر چکا ہوں کہ یہ انفرادی ضبط ِولادت ہی کے لیے دلیل بنایا جا سکتا ہے۔ اس کی بنیاد پر ایک عمومی تحریک جاری کر دینے کا جواز ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات میں ابھی آپ سے عرض کر چکا ہوں کہ انفرادی ضبطِ ولادت اور اس کی اجتماعی تحریک میں کتنا عظیم فرق ہے۔ اس فرق کو فراموش کرکے ایک کے جواز کو دوسرے کے جواز کی دلیل بنانا قیاس مع الفارق ہے۔
رہی تحدیدِ نسل کی اجتماعی تحریک، تو اس کی بنیادی فکر سے لے کر اس کے طریقِ کار تک اور اس کے عملی نتائج تک، ہر چیز اسلام سے قطعی طور پر متصادم ہے۔ اس کی بنیادی فکر آخر اس کے سوا کیا ہے کہ آبادی بڑھے گی تو رزق کم ہو جائے گا اور جینے کے لالے پڑ جائیں گے۔ لیکن قرآن سرے سے اس اندازِ فکر ہی کو غلط قرار دیتا ہے۔ وہ بار بار مختلف طریقوں سے یہ بات انسان کے ذہن نشین کرتا ہے کہ رزق دینا اسی کی ذمہ داری ہے جس نے پیدا کیا ہے۔ وہ تخلیق کا کام اندھا دھند طریقے سے نہیں کر رہا ہے کہ آنکھیں بند کرکے بس پیدا کرتا چلا جائے اور یہ نہ دیکھے کہ جس زمین میں وہ اس مخلوق کو لا لا کر ڈال رہا ہے یہاں اس کی روزی کا سامان بھی ہے یا نہیں۔ یہ کام اس نے کسی اور پر نہیں چھوڑا ہے کہ پیدا تو وہ کر دے اور رزق رسانی کی فکر کوئی دوسرا کرے۔ وہ محض خالق ہی نہیں، رازق بھی ہے اور اپنے کام کو وہ خود زیادہ جانتا ہے۔ اس مضمون کو اس کثرت سے قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر میں اس سلسلے کی ساری آیات آپ کو سنائوں تو بات لمبی ہو جائے گی۔ میں یہاں صرف نمونے کی چند آیات پیش کرتا ہوں:
﴿وَكَاَيِّنْ مِّنْ دَاۗبَّۃٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَہَا۰ۖۤ اَللہُ يَرْزُقُہَا وَاِيَّاكُمْ﴾(العنکبوت 60:29)
اور کتنے ہی جاندار ہیں کہ اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے۔ اللہ ہی ان کو رزق دیتا ہے۔ وہی تم کو بھی رزق دے گا۔
﴿وَمَامِنْ دَاۗبَّۃٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللہِ رِزْقُہَا ﴾ ( ہود 6:11)
زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔
﴿اِنَّ اللہَ ہُوَالرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِيْنُo ﴾ (الذاریات 58:51)
درحقیقت اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ بڑی قوت والا اور زبردست۔
﴿لَہٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۚ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَقْدِرُ۰ۭ﴾
(الشوریٰ 12:42)
آسمانوں اور زمین کے خزانے اسی کے اختیار میں ہیں، جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔
﴿وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْہَا مَعَايِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَہٗ بِرٰزِقِيْنَo وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗىِٕنُہٗ۰ۡوَمَا نُنَزِّلُہٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍo ﴾ (الحجر 20-21:15)
اور ہم نے زمین میں تمھارے لیے بھی معیشت کا سامان فراہم کیا ہے اور ان دوسروں کے لیے بھی جن کے رازق تم نہیں ہو۔ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں۔ اور ہم (ان خزانوں میں سے) جو چیز بھی نازل کرتے ہیں ایک سوچے سمجھے اندازے سے نازل کرتے ہیں۔
ان حقائق کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ انسان کے ذمے جو کام ڈالتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے ان خزانوں سے وہ اپنا رزق تلاش کرنے کی سعی کرے۔ بالفاظِ دیگر رزق دینا اللہ کا کام ہے اور ڈھونڈنا انسان کاکام:
﴿ فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللہِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوْہُ وَاشْكُرُوْا لَہٗ۰ۭ ﴾ ( العنکبوت 17:29)
پس اللہ ہی کے پاس رزق تلاش کرو، اور اسی کی بندگی بجا لائو اور اسی کے شکر گزار ہو۔
اسی بنیاد پر قرآن متعدد مقامات پر ان لوگوں کو ملامت کرتا ہے جو زمانۂ جاہلیت میں رزق کی کمی کے اندیشے سے اپنی اولاد کو قتل کر دیتے تھے:
﴿وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ۰ۭ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاہُمْ۰ۚ﴾
(الانعام 151:6)
اور قتل نہ کرو اپنی اولاد کو مفلسی کی وجہ سے۔ ہم ان کو بھی رزق دیں گے اور تم کو بھی۔
﴿وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَۃَ اِمْلَاقٍ۰ۭ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَاِيَّاكُمْ۰ۭ﴾
(بنی اسرائیل 31:17)
اور قتل نہ کرو اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے۔ ہم ان کو بھی رزق دیں گے اور تم کو بھی۔
ان آیات میں ملامت ایک ہی غلطی پر نہیں ہے بلکہ دو غلطیوں پر ہے۔ ایک غلطی یہ کہ وہ اپنی اولاد کو قتل کر دیتے تھے اور دوسری غلطی یہ کہ وہ اولاد کی پیدائش کو اپنے لیے مفلسی کا سبب سمجھتے تھے۔ اس لیے دوسری غلطی کی اصلاح یہ کہہ کر فرمائی گئی کہ آنے والے انسانوں کی رزق رسانی کا ذمہ دار تم نے اپنے آپ کو کیوں سمجھ لیا ہے، تم کو بھی ہم رزق دیتے ہیں، ان کا رزق بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔ اب اگر افزائش نسل کو روکنے کے لیے بچوں کو قتل نہ کیا جائے بلکہ ایسے ذرائع استعمال کیے جانے لگیں جن سے استقرارِ حمل ہی نہ ہونے پائے، تو یہ صرف پہلی غلطی سے اجتناب ہو گا۔ دوسری غلطی پھر بھی باقی رہ جائے گی جبکہ معیشت کے تنگ ہو جانے کا خطرہ ہی اولاد کی پیدائش روکنے کا اصل محرک ہو۔
یہ تو ہے قرآن کا نقطۂ نظر اس اندازِ فکر کے بارے میں جس کی بنا پر تحدیدِ نسل کا خیال دنیا میں پہلے بھی پیدا ہوتا رہا ہے اور آج بھی پیدا ہو رہا ہے۔ اب ان نتائج پر ایک نگاہ ڈالیے جو اس تخیل کو ایک اجتماعی تحریک کی شکل دینے سے لازماً رونما ہوتے ہیں اور خود غور کیجیے کہ کیا دین اسلام ان میں سے کسی نتیجے کو بھی گوارا کر سکتا ہے۔ جو دین زنا کو بدترین اخلاقی جرم سمجھتا ہو اور اس کے لیے نہایت سخت سزا مقرر کر تا ہو، کیا آپ توقع رکھتے ہیں کہ وہ کسی ایسی تحریک کو برداشت کرے گا جس کے پھیلنے سے معاشرے میں اس فعل شنیع کی وبا پھوٹ پڑنے کا خطرہ ہو؟ جو دین انسانی معاشرے میں صلہ رحمی اورایثار وہمدردی کے اوصاف کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا ہے، کیا آپ امید رکھتے ہیں کہ وہ اس خود غرضانہ ذہنیت کے نشوونما کو برداشت کرے گا جو تحدیدِ نسل کی تبلیغ سے لازماً پیدا ہوتی ہے؟ پھر جس دین کو اُمت ِ مسلمہ کی سلامتی سب سے بڑھ کر عزیز ہے، کیا آپ یہ گمان کر سکتے ہیں کہ وہ کسی ایسی تحریک کو برداشت کر لے گا جس کی بدولت کثیر التعداد دشمنوں کے درمیان گھرے ہوئے مٹھی بھر مسلمانوں کی تعداد اور بھی کم ہو جائے اور ان کا دفاع خطرے میں پڑ جائے۔{ FR 7274 } یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب عقلِ عام (common sense) خود دے سکتی ہے۔ ان کے لیے آیات اور احادیث لانے کی حاجت نہیں ہے۔
\ \ \
ضمیمہ (2) : تحریکِ ضبطِ ولادت کا علمی جائزہ (پروفیسر خورشید احمد)
آج مشرقی ممالک میں اور خصوصیت سے عالمِ اسلام میں ضبط ِولادت کی تحریک کو بڑی تیزی کے ساتھ فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مذہبی اور عقلی دونوں حیثیتوں سے اس پر زور وشور کے ساتھ بحث ہو رہی ہے اور فکر ونظر کے مختلف پہلو سامنے آ رہے ہیں۔ بحث کے مختلف پہلوئوں سے کسی کو اتفاق ہو یا اختلاف، لیکن یہ حقیقت تو ناقابلِ انکار ہے کہ بحث ومباحثہ کے ذریعہ تلاشِ حق کا راستہ آسان ہو جاتا ہے اور دلائل کے ٹکرائو سے صحیح بات تک پہنچنے کے غالب مواقع پیدا ہو جاتے ہیں۔ علمی مباحث کی سب سے بڑی افادیت ہی یہ ہے کہ وہ تلاش وجستجو کی راہوں کو منور کرکے فکرِانسانی کے ارتقا کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ سچا انسان وہ ہے جو اندھی تقلید کی پٹی ہوئی ڈگر اختیار کرنے کے بجائے خدا کی دی ہوئی صلاحیتوں سے کام لے کر ایمانداری اور اخلاص کے ساتھ اپنا راستہ نکالتا ہے، دلیل کی زبان سے بات کرتا ہے اور تجربہ سے سبق سیکھتا ہے۔
بدقسمتی سے عالمِ اسلام میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جس نے اپنی ذہنی اورفکری آزادی کو مغرب کی غلامی کے آستانہ پر قربان کر دیا ہے۔ جو اجتہاد کے بجائے یورپ کی اندھی تقلید اور نقالی کی روش اختیار کرتا ہے اور اپنے دماغ سے سوچنے کے بجائے مغرب کے روز مرہ پر آنکھیں بند کرکے عامل ہونا چاہتا ہے۔ تعصب، کورانہ تقلید اور اندھی نقالی محض اہل مذہب ہی کے ایک مخصوص طبقے میں نہیں پائے جاتے، یہ اوصاف جدید تعلیم وتہذیب پر فخر کرنے والے اصحاب میں بھی موجود ہیں اورمقدم الذکر گروہ سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہ لوگ اجتہاد کا نام تو بڑے زور سے لیتے ہیں۔ مگر اس سے ان کا مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ اسلام کو کسی طرح مغرب کے سانچے میں ڈھالا جائے۔ حقیقی اجتہاد جس چیز کا نام ہے اس کی انھیں ہوا بھی نہیں لگی۔ یہ اپنے ذہن سے سوچنے کے بجائے مغرب کے ذہن سے سوچتے ہیں۔ مغرب کی زبان سے بولتے ہیں اور مغرب کے نقشِ قدم پر بے سوچے سمجھے رواں دواں ہیں۔ مغرب سے ہمیں کوئی عناد نہیں ہے۔ وہاں اچھی چیزیں بھی ہیں اور بری بھی۔ اپنی آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہیے اور اپنے ذہنوں سے کام لیتے ہوئے مجتہدانہ بصیرت کے ساتھ اپنا راستہ خود نکالنا چاہیے۔ نقالی اور کورانہ تقلید کی روش ایک قوم کی ذہنی موت اور تمدنی ارتداد پر منتج ہوتی ہے۔
اقبال مرحوم اپنی ساری عمر اس ذہنیت کی مخالفت کرتے رہے۔ انھیں اس عنصر سے یہی گلہ تھا کہ ؎
تقلید پہ یورپ کی رضا مند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں
وہ افسوس کے ساتھ کہتے ہیں:
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو!
اور ان کی دعوت اپنی قوم کے لیے یہ تھی:
دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے
خورشید کرے کسبِ ضیا تیرے شرر سے
ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے
دریا متلاطمِ ہوں تری موجِ گہر سے
شرمندہ ہو فطرت ترے اعجازِ ہنر سے
اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی!
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟
ضبط ِولادت کے مسئلہ پر بھی بدقسمتی سے عالمِ اسلامی میں اس مقلدانہ اور مغرب زدہ ذہنیت کے ساتھ غور کیا جا رہا ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم مغرب کے رنگین شیشوں سے اپنی دنیا کو دیکھنے کے بجائے اسے اس کے حقیقی رنگ میں دیکھیں اور آزاد خیالی اور وسعتِ نظر کا ثبوت دیں۔ دلیل کے لیے ہمارا دل ہمیشہ کھلا ہو اور محض تعصب اور نقالی کے آگے ہم کسی قیمت پر بھی سپر نہ ڈالیں۔ اس لیے کہ ’’وہ جو نہ دلیل کو سنتا ہے اور نہ دلیل سے بات کرنا چاہتا ہے، متعصب اور کٹ حجتی ہے، اور جو دلیل کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا دراصل غلام ہے، اور جودلیل دینے کی صلاحیت ہی سے محروم ہے وہ غبی اور احمق ہے۔‘‘
ہماری خواہش ہے کہ مسلمان اس مسئلہ پر غلام ذہنیت کے بجائے آزادانہ طور پر غور کریں۔ ہماری موجودہ پیشکش اسی سلسلہ کی ایک کوشش ہے۔
(1) کیا ضبط ِ ولادت کی بنیاد معاشی ہے؟
تحدیدِ نسل کے مؤید آج کل اپنے استدلال کی بنیاد معاشی امور پر رکھتے ہیں اور آبادی کی کثرت سے پیدا ہونے والی معاشی دِقَّتوں کے مقابلے کے لیے ضبط ِولادت کی پالیسی تجویز کرتے ہیں۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی جدید دنیا میں اس تحریک کا فروغ معاشی اسباب ہی سے ہوا ہے؟ تاریخ کے مطالعہ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسبابِ معیشت اور تحدیدِ نسل میں قطعاً کوئی تعلق نہیں رہا۔
مالتھس (Malthus) نے آبادی کے مسئلہ کے معاشی پہلو کو ضرور پیش کیا تھا اور آبادی کے اضافہ کو روکنے کا مشورہ بھی اس نے ضرور دیا تھا (واضح رہے کہ ضبط ِ ولادت کا مالتھس شدید مخالف تھا۔ وہ توتحدیدِ نسل کے لیے تجرد اور ازدواجی زندگی میں اخلاقی ضبط اختیار کرنے پر زور دیتا) مگر اس کی زندگی میں اور اس کے بعد جو معاشی اور صنعتی انقلاب مغربی دنیا میں رونما ہوا اس نے حالات کو یکسر بدل دیا اور اس کی وجہ سے زندگی کا وہ رخ سامنے آیا جو مالتھس کی نگاہ سے اوجھل تھا۔ یعنی افزائش پیداوار کے لامحدود امکانات!
1798ء میں مالتھس نے وسائل کی قلت کا شوشہ اٹھایا تھا لیکن انیسویں صدی کی معاشی ترقیات کی روشنی میں اس کے بیان کیے ہوئے تمام خطرات پادرِ ہوا ثابت ہوئے۔
1898ء میں پور سے سو سال بعد سرولیم کروکس، صدر برٹش ایسوسی ایشن نے پھر خطرے کی گھنٹی بجائی اور کہا کہ 1931ء تک پیداوار کی کمی خطرناک ترین صورت اختیار کر لے گی اور انسانیت وسیع پیمانے پر قحط اور موت سے دو چار ہو گی لیکن 1931ء میں دنیا قلت پیداوار کے بجائے کثرتِ پیداوار (over production) کے مسائل سے دوچار تھی۔ آبادی اور وسائلِ معاش کے متعلق آج تک جو بھی پیشین گوئیاں کی گئی ہیں ان کے بارے میں ایک ہی بات یقین سے کہی جا سکتی ہے…اور وہ یہ کہ یہ ہمیشہ غلط ہی ثابت ہوئی ہیں۔
پروفیسر جیڈ اور رسٹ (Charles Gide & Charles Rist) تو یہاں تک کہتے ہیں کہ:
’’بلاشبہ تاریخ اس (یعنی مالتھس) کے پیش کردہ اندیشوں کی توثیق کرنے سے انکاری ہے۔ دنیا کے کسی ایک ملک میں بھی ایسے حالات پیش نہیں آئے جن کی بنا پر اسے کثرتِ آبادی (Over Population) میں مبتلا سمجھا جا سکے۔ بلکہ کچھ حالتوں میں تو…مثلاً جیسے فرانس میں… آبادی کا اضافہ بہت ہی سست رفتار سے ہوا ہے۔ دوسرے ممالک میں اضافہ قابل ذکر ہے لیکن کہیں بھی یہ دولت کے اضافہ سے زیادہ تیز رفتار نہیں ہے۔‘‘{ FR 7275 }
ایرک رول (Erich Roll) بھی یہی کہتا ہے:
’’معاشی ترقی کے حقائق نے مالتھس کے نظریہ کی اچھی طرح تردید وتکذیب کر دی ہے۔‘‘{ FR 7276 }
تاریخ کا بے لاگ مطالعہ اس تاقابلِ انکار حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ کسی بھی مغربی ملک میں ضبطِ ولادت کی پالیسی کو اس لیے اختیار نہیں کیا گیا کہ اس ملک میں معاشی وسائل کی قلت تھی اور ملکی پیداوار آبادی کی روز افزوں ضرورتوں کے لیے ناکافی تھی۔ اس تحریک کی ترویج کا زمانہ (انیسویں صدی کے نصف آخر سے بیسویں صدی کے اولین تیس سال تک) یورپ اور امریکہ کی معاشی ترقی اور اقتصادی خوشحالی کا زمانہ ہے۔ جو حضرات اس تحریک کو معاشی اسباب کی پیداوار سمجھتے ہیں وہ معاشی تاریخ سے اپنی ناواقفیت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ مثلاً مندرجہ ذیل اعداد وشمار اس افسانے کے طلسم کو اچھی طرح چاک کر دیتے ہیں کہ اس تحریک کی بنیاد معاشی ہے:
ملک
زمانہ
فی کس قومی پیداوار میں اضافہ
انگلستان
1860ء تا1938ء
+231%
امریکہ
1869ء تا1938ء
+381%
فرانس
1850ء تا1938ء
+135%
سویڈن
1861ء تا1938ء
+661%
یہ اضافہ آبادی کے اضافہ کے ساتھ اور اس کے باوجود ہوا ہے۔ اسی طرح اگرآبادی کے اضافہ کو لینے کے بعد ان ممالک کی سالانہ رفتار ترقی دیکھی جائے تو وہ یہ تھی:{ FR 8161 }
ملک
رفتار پیداوار میں سالانہ اضافہ
انگلستان
+2.9%
امریکہ
+4.8%
سویڈن
+8.5%
فرانس
+1.5%
اس سے معلوم ہوا کہ ضبط ِولادت پر یورپ میں اس زمانہ میں عمل ہوا جبکہ وہاں کا معیار زندگی بلند تھا اور اس میں اضافہ ہو رہا تھا اور ملکی پیداوار ہر سال تیزی کے ساتھ بڑھ رہی تھی۔ دوسرے الفاظ میں اس زمانے میں کوئی معاشی خطرہ موجود نہ تھا اور اس تحریک کی کوئی حقیقی معاشی بنیاد نہیں پائی جاتی تھی۔ خود آج بھی دنیا کی صورت حال یہی ہے۔1948ء سے اب تک اوسطاً غذائی پیداوار میں7.2 فیصدی سالانہ کا اضافہ ہو رہا ہے جو آبادی کے اضافہ کی رفتار سے دوگنا ہے۔ نیز اس زمانہ میں صنعتی پیداوار میں تقریباً پانچ فیصدی سالانہ کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ آبادی سے تین گنے سے بھی زیادہ ہے۔{ FR 7279 }
اگر اس تحریک کی کوئی معاشی بنیاد نہ تھی تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے فروغ کی اصل وجہ کیا تھی؟ ہمارے خیال میں اصل وجہ معاشرتی اور تمدنی تھی۔ مغرب میں عورت اور مرد کی مساوات اور آزادانہ اختلاط کی بنیاد پر جو معاشرت قائم ہوئی تھی اس کا فطری اور منطقی تقاضا یہ تھا کہ ضبط ِولادت کو فروغ دیا جائے تاکہ انسان حظِ نفس کی روش اختیار کرنے کے باوجود ان ذمہ داریوں سے بچ سکے جو فطرت نے مقرر کی ہیں۔ اقبال نے اسی نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے جب وہ کہتا ہے:
کیا یہی ہے معاشرت کا کمال؟
مرد بے کار و زن تہی آغوش!
مغرب کی تاریخ میں ضبط ولادت کا مسئلہ سر تاسر معاشرتی اور تمدنی حیثیت رکھتا ہے اور معیشت سے اگر اس کا کچھ تعلق ہے تو ’’بنائو‘‘ کی نہیں ’’بگاڑ‘‘ ہی کی سمت میں ہے۔ اس لیے کہ عورت کی ’’تہی آغوشی‘‘ اور مرد کی ’’بیکاری‘‘ (un-employment) کا بڑا قریبی تعلق ہے جسے لارڈ کینس، پروفیسر ہینسن اور پروفیسر کول جیسے محققین نے جدید معاشی مباحث میں واضح کیا ہے۔
(2) ضبطِ ولادت اور عالمی سیاست
جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے ضبطِ ولادت کی نہ کوئی معاشی بنیاد پہلے تھی اور نہ آج ہے۔ مغرب میں اس کا فروغ معاشرتی اور تمدنی وجوہ سے ہوا اور آج مغرب جن مقاصد کے لیے اس کی ترویج کر رہا ہے وہ اصلاً سیاسی ہیں۔
تاریخ کا ہر طالب علم اس امر سے واقف ہے کہ کثرتِ آبادی کی سیاسی اہمیت بڑی بنیادی ہے۔ ہر تہذیب اور ہر عالمی قوت نے اپنے تعمیری اور تشکیلی دور میں آبادی بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ مشہور مؤرخ وِل ڈورانٹ (Will Durant) اسے تہذیبی ترقی کا ایک اہم سبب قرار دیتا ہے۔ آرنلڈ ٹائن بی (Amold Toynbee) بھی کثرتِ آبادی کو ان اساسی چیلنجوں (challengers) میں سے ایک قرار دیتا ہے جن کے جواب میں ایک تہذیب کا نشووارتقاء بروئے کار آتا ہے۔ تاریخ کی ان تمام اقوام نے جنھوں نے کوئی عظیم کارنامہ انجام دیا ہے، ہمیشہ تکثیر آبادی کی روش اختیار کی ہے۔ اس کے برعکس زوال پذیر تہذیبوں میں آبادی کی قلت کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ آبادی کی قلت بالآخر سیاسی اور اجتماعی قوت کے اضمحلال پر منتج ہوتی ہے اور وہ قوم جو اس حالت میں گرفتار ہو جائے آہستہ آہستہ گمنامی کے غار میں جا گرتی ہے۔ تہذیب کے جتنے بھی قدیم مراکز ہیں ان سب کی تاریخ اس حقیقت پر گواہی دیتی ہے۔
جدید یورپ کی سیاسی اور معاشی عظمت کا راز بھی آبادی کے اضافہ میں مضمر ہے۔ پروفیسر اور گانسکی (Albrano F.K.Organski) کے الفاظ ہیں:
’’آبادی میں عظیم اضافہ …ایسا اضافہ جو بے ضبط وبے لگام تھا… یورپ کی آبادی کے اس دھماکہ خیز اور غیر معمولی اضافے (Population Explosion) کی وجہ سے ملک میں نئی صنعتی معیشت کو چلانے کے لیے کارندے مل جانے کے لیے مہاجر (emmigrants) اور ایسے سپاہی اور کار فرما ملے جو دور دراز کے علاقوں میں پھیلی ہوئی اس سلطنت کی سربراہی کر سکیں جس کے دائرہ میں دنیا کے کل رقبہ کا نصف اور کل آبادی کا ایک تہائی تھا۔‘‘{ FR 7280 }
پروفیسر اورگانسکی کا خیال ہے کہ دنیا کے تمام ہی ممالک میں سب سے اچھی حالت اس ملک کی رہی ہے جس میں آبادی زیادہ ہو اور اس دور میں رہی ہے جب آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہو۔
پروفیسر کولن کلارک کہتا ہے کہ:
’’اہل برطانیہ نے بلند ہمتی کے ساتھ مالتھس کی باتوں کو سننے سے انکار کر دیا۔ اگر وہ مالتھس کے آگے جھک جاتے تو آج برطانیہ بس اٹھارویں صدی کی طرز کی ایک چھوٹی سی زرعی قوم ہوتا۔ امریکہ اور برطانوی دولت مشترکہ کے نشووارتقاء کا توکوئی سوال ہی نہ تھا۔ پیمانہ کبیر کی صنعت کے فطری معاشی تقاضے وسیع طلب، بڑی منڈی اور نقل وحرکت کا ایک مؤثر نظام ہیں جو ایک عظیم اور بڑھتی ہوئی آبادی ہی کی صورت میں قابلِ حصول ہیں۔‘‘{ FR 7281 }
آبادی کی یہ اہمیت بڑے مؤثر سیاسی اور معاشی پہلو رکھتی ہے اور ان میں سے چند کی طرف اشارہ ضروری ہے۔
اس وقت دنیا میں آبادی کی تقسیم کچھ اس طرح ہے ایشیااور عالم اسلام آبادی کے سب سے بڑے مراکز ہیں۔ ان حصوں کے مقابلے میں مغربی ممالک کی آبادی کم ہے اور آبادی کے رجحانات صاف بتا رہے ہیں کہ مستقبل میں ان کے تناسب میں مزید کمی واقع ہوئی۔ گزشتہ پانچ سو سال سے مغرب کی سیاسی قیادت وبالادستی کی بنیاد وہ سائنس اور میکانکی برتری تھی جو اسے مشرقی ممالک پر حاصل تھی اور جس کی وجہ سے اس نے آبادی کی کمی کے باوجود اپنی سیاسی نگرانی قائم کر لی بلکہ استعمار کے اولین دور نے اس غلط فہمی کو جنم دیا کہ کم آبادی کے باوجود مغرب مستقلاً اپنا تسلط قائم رکھ سکتا ہے لیکن نئے حالات اور نئے حقائق نے اس غلط فہمی کے طلسم کو چاک کر دیا ہے۔
مغربی اقوام کی آبادی کے مسلسل کم ہونے سے ان کی سیاسی طاقت میں بھی انحطاط آنا شروع ہوا اور پہلی جنگ کے بعد یہ احساس عام ہو گیا کہ تحدیدِ نسل کا مسلک سیاسی اور اجتماعی حیثیت سے بڑا مہنگا پڑ رہا ہے۔ فرانس نے اپنی عالمی پوزیشن آہستہ آہستہ کھو دی اور مارشل پیتاں نے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر کھلم کھلا اس امر کا اعتراف کیا کہ فرانس کے زوال کا ایک بنیادی بڑا سبب بچوں کی کمی (too few children) اور آبادی کی قلت ہے۔ انگلستان اور دوسرے ممالک پر بھی اس کے اثرات پڑنے شروع ہوئے اور ان نتائج کو دیکھ کر سویڈن، جرمنی، فرانس، انگلستان اور اٹلی، ان تمام ہی ممالک نے اپنی پالیسی پر نظر ثانی شروع کی۔ اب حالت یہ ہے کہ ان تمام ممالک میں آبادی کو کم کرنے کے بجائے آبادی بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ہر ممکن کوشش کے باوجود مغرب یہ توقع نہیں رکھتا کہ وہ اپنی آبادی کو اتنا بڑھا سکے گا کہ وہ اپنے سیاسی وقار کو قائم رکھ سکے اور عالمی سیادت کا تاج بدستور پہنے رہے۔ اسے صاف نظر آ رہا ہے کہ آبادی کو بڑھا کر بھی وہ مستقبل میں مشرق اور عالمِ اسلام کا مقابلہ نہ کر سکے گا۔
پھر وہ فنی، سائنسی اور تکنیکی معلومات بھی جو آج تک مشرق پر مغرب کی بالادستی کو قائم رکھے ہوئے تھیں اور جن سے مشرقی ممالک کو بڑی کوشش سے محروم رکھا گیا تھا آج ان ممالک میں تیزی کے ساتھ پھیلنے لگی ہیں اور چونکہ ان ممالک کی آبادی بھی مغربی اقوام کے مقابلہ میں بدرجہا زیادہ ہے اس لیے نئے مشینی آلات سے آراستہ ہونے کے بعد ان اقوام کے محکوم رہنے کا کوئی امکان نہیں رہتا بلکہ فطری قوانین کی وجہ سے اس انقلاب کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ مغرب کی سیاسی قیادت کے دن گنتی کے رہ جائیں گے اور نئی عالمی قیادت ان مقامات سے ابھرے گی جہاں آبادی بھی زیادہ ہے اور جوفنی، تکنیکی اور حربی مہارت بھی رکھتے ہیں۔ ان حالات میں مغرب اپنی سیادت کو قائم رکھنے کے لیے جو کھیل کھیل رہا ہے وہ بڑا خطرناک ہے۔ یعنی مشرقی ممالک میں تحدیدِ نسل اور ضبط ِولادت کے ذریعہ آبادی کو کم کرنے کی کوشش، اور فنی معلومات کی ترویج میں رخنہ اندازی۔ ہم یہ بات کسی تعصب کی بنا پر نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ ہم خود مغربی ذرائع ہی سے اسے ثابت کر سکتے ہیں۔ آبادی کے مسئلہ پر بیسیوں کتابیں ایسی موجود ہیں جن میں مشرق کے اس نئے خطرہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے اور اس کا علاج یہ بتایا گیا ہے کہ ان ممالک میں ضبط ِولادت کو رواج دیا جائے۔ یہ سارا لٹریچر موجود ہے اور مغربی ذہن اور مغربی حکومتوں کو متاثر کر رہا ہے اور استعماری طاقتوں کا عملی مسلک بھی اس کی توثیق کر رہا ہے۔ اپنے دعوے کی تائید میں ہم چند شہادتیں پیش کرتے ہیں۔ فرینک نو ٹینسٹین مشہور امریکی رسالہ فارن افیئرس (Foreign Affairs) میں ( Politics & Power in Post-war Europe) کے عنوان سے لکھتا ہے:
’’اب اس کا کوئی امکان نہیں کہ شمالی، مغربی یا وسطی یورپ کی کوئی قوم دنیا کو پھر چیلنج کر سکے۔ جرمنی دوسری یورپی اقوام کی طرح اس دور سے گزر چکا ہے جب وہ دنیا کی غالب طاقت بن سکے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اب فنی اور تکنیکی تہذیب ان ممالک میں بھی پہنچ رہی ہے جن کی آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔‘‘{ FR 7282 }
دراصل یورپ کی سیاسی قیادت کو بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ایشیا اور عالم اسلام کی بڑھتی ہوئی آبادیوں سے شدید سیاسی خطرہ ہے۔ امریکی رسالہ ٹائم(Time) اپنی 11 جنوری 1960ء کی اشاعت میں لکھتا ہے:
’’کثرت آبادی (over population) امریکہ اور یورپی اقوام کی تمام بوکھلاہٹ اور ان کے سارے وعظ ونصیحت دراصل بڑی حد تک نتیجہ ہیں ان سیاسی نتائج واثرات کے احساس کا جو نئے حالات اور ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکہ کی آبادی کے بڑھنے اور غالب اکثریت حاصل کر لینے کی بنا پر متوقع ہیں۔‘‘ { FR 7283 }
آرنلڈ گرین (Arnold H Green) لکھتا ہے کہ:
’’گذشتہ پچاس سال میں دنیا کی آبادی دوگنی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے تمام دنیا کے معاشی اور عسکری توازن (Balance of Economic and Military Power) پرایک شدید بار (strain) پڑ رہا ہے۔‘‘{ FR 7284 }
آرتھر میک کارمک (Arther McCormack) بڑے کھلے الفاظ میں اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ:
’’ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کے لیے اس بات میں ایک فطری پسندیدگی ہے کہ کم ترقی یافتہ ممالک میں انسانوں کی تعداد کم ہو جائے اور یہ اس لیے ہے کہ وہ ان کی بڑھتی ہوئی تعداد میں اپنے اعلیٰ معیار زندگی اور پھر خود اپنی سیاسی سلامتی (Security) کے لیے مستقل خطرہ دیکھتے ہیں۔‘‘{ FR 7285 }
میک کارمک مغرب کی اس روش پر شدید نکتہ چینی کرتا ہے اور صاف صاف کہتا ہے کہ اہل مشرق جلد اس ناپاک کھیل کو دیکھ لیں گے اور پھر وہ مغرب کو کبھی معاف نہیں کریں گے اس لیے کہ یہ:
’’ایک نئے قسم کا سامراج ہے جس کا مقصد غیر ترقی یافتہ اقوام کو پست تر کرنا ہے… خصوصیت سے سیاہ فام نسلوں کو…تاکہ سفید فام نسلوں کی بالادستی قائم رہے۔‘‘{ FR 7286 }
ہم مغربی مفکرین کی ایسی بے شمار تحریرات پیش کر سکتے ہیں، مگر آنکھیں کھولنے کے لیے یہی چند شہادتیں کافی ہیں۔ اس پوری بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مستقبل میں غالب قوت ان ممالک کو حاصل ہو گی جن کی آبادی زیادہ ہے اور جو نئی تکنیک سے بھی آراستہ ہیں۔ اب اس کا تو کوئی امکان نہیں کہ نئی تکنیک سے ان ممالک کو محروم رکھا جائے۔ اس لیے مغربی سیادت وقیادت کو قائم رکھنے والی صرف ایک ہی چیز ہو سکتی ہے اور وہ ہے ان ممالک میں ضبطِ ولات اور تحدیدِ نسل۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک خود تو آبادی بڑھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، مگر مشرقی ممالک میں یہی اقوام پراپیگنڈے کی بہترین قوتوں کو استعمال کرکے ضبطِ ولادت کا پرچار کر رہی ہیں۔{ FR 7287 } اور بہت سے سادہ لوح مسلمان ہیں جو خود پیش قدمی کرکے اس جال میں پھنس رہے ہیں۔
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
لیکن اب بلی تھیلے سے باہر آ چکی ہے! اگر اب بھی ہم نے دھوکا کھایا تو نتائج کی ذمہ داری خود ہم پر ہو گی اور ہمارے وہی ’’ہمدرد‘‘ جو آج پوری شفقت کے ساتھ ہمیں خاندانی منصوبہ بندی کا درس دے رہے ہیں کل ہماری کمزوری سے فائدہ اٹھا کر ہم پر اپنا کامل تسلط قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس خطرے کو علامہ اقبالؒ نے بہت پہلے محسوس کر لیا تھا اور ملتِ اسلامیہ کو تنبیہہ کی تھی کہ اس سے ہوشیار رہے۔ ان کے یہ الفاظ آج بھی ہمیں دعوتِ فکر وعمل دے رہے ہیں:
’’عام طور پر اب ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے یا ہونے والا ہے وہ یورپ کے پروپیگنڈے کے اثرات ہیں۔ اس قسم کے لٹریچر کا ایک سیلاب ہے جو ہمارے ملک میں بہہ نکلا ہے۔ بعض دوسرے وسائل بھی ان کی تشویش وترویج کے لیے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ ان کے اپنے ممالک میں آبادی کو گھٹانے کے بجائے بڑھانے کی تدبیریں کی جا رہی ہیں۔ اس تحریک کی ایک بڑی غرض میرے نزدیک یہ ہے کہ یورپ کی اپنی آبادی اس کے اپنے پیدا کردہ حالات کی بنا پر، جو اس کے اختیار واقتدار سے باہر ہیں، بہت کم ہو رہی ہے اور اس کے مقابلے میں مشرق کی آبادی روز بروز بڑھ رہی ہے اور اس چیز کو یورپ اپنی سیاسی ہستی کے لیے خطرہ عظیم سمجھتا ہے۔‘‘{ FR 7288 }
یہ ہے اس مسئلہ کی اصل حقیقت اور اس تحریک کا اصل سیاسی پس منظر۔ جب تک ہم اس تحریک کا اس کے اصل پس منظر میں مطالعہ نہیں کریں گے ہم نہ اس کی حقیقت کو سمجھ سکیں گے اور نہ کوئی صحیح لائحہ عمل ہی تیار کرسکیں گے۔
(3) مسئلہ آبادی اور دفاع
آبادی کی دفاعی اہمیت کے متعلق ہم مختصر اشارات کر چکے ہیں۔ پروفیسر اور گانسکی نے بڑی سچی بات کہی ہے کہ ’’طاقت زیادہ اسی بلاک کے پاس ہو گی جس کے پاس افراد زیادہ ہوں۔‘‘ جن لوگوں کی نگاہ حربی ترقیات پر ہے وہ اس امر سے واقف ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں کے بعد کثرتِ افواج اور کثرتِ آبادی کی دفاعی اہمیت پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جنگ میں آلات کے مقابلے میں انسان کی اہمیت کم ہو رہی ہے اور انسانی قوت غیر موثر بنتی جا رہی ہے۔ لیکن اب اس خیال کی صحت پر کم ہی لوگ اعتماد کرتے ہیں۔ آخر کوریا کی جنگ میں چین نے محض عددی کثرت ہی کی وجہ سے امریکہ کے بہترین ہتھیاروں کو بے اثر کر دیا تھا۔ خود امریکہ کی نئی فوجی تنظیم میں بری فوج اور گوریلا فوج کو از سر نو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس لیے آبادی کے مسئلہ پر دفاعی نقطۂ نظر سے بھی غور بے محل نہ ہو گا۔
خالص دفاعی نقطۂ نظر سے پاکستان کی حیثیت بتیس دانتوں کے درمیان ایک زبان کی سی ہے۔ ہمارے ملک کے ایک طرف ہندوستان ہے۔ جس کی آبادی ہم سے پانچ گنا زیادہ ہے اور جس سے ہمارے تعلقات مختلف وجوہ کی بناء پر بڑی نازک حالت میں ہیں۔ دوسری طرف روس ہے جو عالمی اشتراکیت کے فروغ کے لیے اپنی سیاسی اور فوجی قوت برابر استعمال کر رہا ہے، نیز جس کی آبادی ہم سے تین گنا زیادہ ہے۔ تیسری طرف چین ہے جو ایشیا میں برابر اپنے دائرے کو وسیع کر رہا ہے اور جس کی آبادی ہم سے آٹھ گنا زیادہ ہے۔ ان تینوں کی نگاہیں ہمارے اوپر لگی ہوئی ہیں اور جس نظر سے یہ ہمیں دیکھ رہے ہیں اسے اچھی نظر نہیں کہا جا سکتا۔ ایسے حالات میں ہمارے دفاع کا حقیقی تقاضا کیا ہے؟ آیا یہ کہ ہم آبادی کو کم کرکے اپنی قوت کو اور بھی مضمحل کر لیں یا یہ کہ ہر ممکن ذریعے سے اپنے کو اتنا قوی اور موثر بنا لیں کہ دوسرا ہماری طرف بری نگاہ ڈالنے کی ہمت بھی نہ کر سکے؟
اسی طرح اگر پورے عالمِ اسلام کے نقطۂ نظر سے غور کیا جائے تو یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ ہمیں تین بڑے خطرے درپیش ہیں۔ اولاً ابھی ہماری جنگ مغربی استعمار سے ختم نہیں ہوئی ہے، یہ لڑائی صرف ایک نئے دور (phase) میں داخل ہو گئی ہے۔ سوئیز اور بزرٹا کے واقعات اس بات کی یاددہانی کراتے ہیں کہ اس دنیا میں کمزور کے لیے کوئی مقام نہیں اور عالمِ اسلام کے اہم مقامات ابھی پوری طرح محفوظ نہیں ہیں۔ اگر ہم اپنا سربلند رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی سیاسی اور حربی قوت کو بہت بلند معیار پر رکھنا ہو گا۔
ثانیاً ہمارا بہت بڑا مسئلہ اسرائیلی استعمار ہے۔ اسرائیل اپنی آبادی کی کثرتِ اولاد اور انتقال آبادی کے ذریعہ برابر بڑھانے کی پالیسی پر عامل ہے۔ پوری دنیا کا یہودی سرمایہ اس کی پشت پر ہے اور فوجی اور عسکری حیثیت سے وہ ہر دم اپنی طاقت کو بڑھا رہا ہے۔ اس کے مقابلے کے لیے بھی پورے عالمِ اسلام کے مسلمانوں کو ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔
ثالثاً، اشتراکی استعمار ہے جو متعدد مقامات پر عالمِ اسلام سے ٹکر لینے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایران، پاکستان، عراق اور ترکی کی سرحدوں پر خصوصیت سے اس کا دبائو بہت زیادہ ہے اور اگر اس طرف سے ذرا بھی آنکھیں بند کی گئیں تو خدانخواستہ ہمیں وہ نقصان اٹھانا پڑے گا جس کی تلافی ممکن نہ رہے گی۔
ان حالات میں ہمارے لیے آبادی کی دفاعی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے اور عالم اسلام کو محض مغرب کی اندھی نقالی میں کوئی ایسی روش اختیار نہ کرنی چاہیے جو اس کے لیے ملی خودکشی کے مترادف ہو۔
پھر خود مغربی اقوام کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ مشرقی فرنٹ پر عالم اسلام اس کے اور اشتراکیت کے درمیان حائل ہے۔ پورا اشتراکی بلاک آبادی کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ روس اور چین دونوں خصوصیت کے ساتھ تکثیر آبادی کی پالیسی پر عامل ہیں اور اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اپنی موجودہ آبادی سے کئی گنی آبادی کو بھی وہ بخوبی پروان چڑھا سکتے ہیں۔ یہی نہیں ان کا دعویٰ تو یہ بھی ہے کہ دنیا کے سارے اشتراکی نظام کے ذریعہ آبادی کو کم کیے بغیر اپنی ضرورتیں پوری کر سکتے ہیں۔ تحدیدِ آبادی کی ضرورت صرف نظامِ سرمایہ داری میں ہے، اشتراکیت میں نہیں۔
اسی طرح اگر یورپ کے دفاعی نظام پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یورپ میں (روس سمیت) اشتراکی بلاک کی آبادی بتیس کروڑ چالیس لاکھ ہے اور غیر اشتراکی بلاک کی تیس کروڑ بیس لاکھ۔ اگر پوری دنیا کو لیا جائے تو اشتراکی بلاک کی آبادی تقریباً ایک ارب اور باقی دنیا کی تقریباً پونے دو ارب ہے (جس میں غیر جانب دار بھی شامل ہیں) یہ توازن بہت جلد بگڑ جائے گا اور مغربی ممالک کی دفاعی لائن بڑی کمزور ہو جائے گی۔ خود مغرب کو اس مسئلہ پر نفع عاجلہ کی روشنی میں غور نہیں کرنا چاہیے بلکہ دور اندیشی سے کام لے کر طویل المدت اثرات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی پوری پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
(4) چند معاشی حقائق
ضبط ِتولید کا مسئلہ اپنی اصل کے اعتبار سے معاشی نہیں ہے لیکن اس کے چند پہلو ایسے ضرور ہیں جن پر معاشی نقطۂ نظر سے غور کیا جا سکتا ہے۔
اس سلسلہ میں سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ آبادی کی کثرت معاشی حیثیت سے بالعموم مفید ہوتی ہے۔ ہر وہ انسان جو دنیا میں آتا ہے وہ اپنے پاس صرف ایک پیٹ ہی نہیں رکھتا، دو ہاتھ، دو پائوں اور ایک دماغ بھی رکھتا ہے۔ پیٹ اگر احتیاجات پیش کرتا ہے تو یہ پانچوں مل کر انھیں پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور معاشی مفکرین کا ایک بڑا موثر گروہ اس رائے کا حامی ہے کہ غیر ترقی یافتہ ممالک میں ابتدائی معاشی انقلاب کے لیے بڑھتی ہوئی آبادی بڑی مفید ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے وافر محنت (labour) اور موثر طلب (Effective Demand) فراہم ہوتی ہے اور ایک ترقی یافتہ معیشت میں ترقی کو قائم رکھنے اور مانگ کو وسعت دینے کے لیے (تاکہ کساد بازاری رونما نہ ہو) آبادی میں مسلسل اضافہ بے حد ضروری ہے۔ لارڈ کینز (J.M.Keynes)، پروفیسر ہینس(A.L.Hansen)، ڈاکٹر کولن کلارک (Colin Clark)، پروفیسر جی۔ڈی۔ایچ کول (G.D.H.Cole) اور متعدد دوسرے مفکر یہی نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں اور معاشی تاریخ ان کے نظریات کی تائید کرتی ہے۔
دوسری چیز یہ ہے کہ پوری دنیا کے وسائل موجودہ آبادی ہی نہیں بلکہ ہر ممکن التصور آبادی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ وسائل ضرورت سے کہیں زیادہ ہیں اور بے کار پڑے ہیں۔ کولن کلارک اس رائے کا اظہار ٹھوس حقائق کی بنیاد پر کرتا ہے کہ موجودہ آبادی سے دس گنا زیادہ آبادی کو دنیا کے صرف معلوم وسائل کے صحیح استعمال سے مغربی یورپ کے اعلیٰ معیار زندگی پر برقرار رکھا جا سکتا ہے۔{ FR 7289 } پروفیسر جے۔ ڈی۔ برنال (J.D Bernal) بھی اپنی آزاد اور سائنٹیفک تحقیقات کے بعد یہی رائے ظاہر کرتا ہے۔{ FR 7290 }
تیسری بنیادی چیز یہ ہے کہ موجودہ آبادی کے جو اعداد وشمار پیش کیے جاتے ہیں وہ تو بڑی حد تک ضرور قابل اعتماد ہیں لیکن ماضی اور مستقبل کے رجحانات کے متعلق جو اندازے ان کی بنیاد پر قائم کیے جاتے ہیں ان پر گفتگو کی بڑی گنجائش ہے۔ ڈیمو گرافی (demography) کا علم ابھی بہت نیا ہے اور اس کی تحقیقات اس مقام پر نہیں پہنچی ہیں جہاں بھروسہ اور اعتماد کے ساتھ مستقبل کے متعلق کوئی اندازہ قائم کیا جا سکے۔ ہم بہت سے بہت مستقبل قریب کے متعلق کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن صدیوں بعد کی آبادی کی کیفیت کے متعلق کوئی قابلِ اعتماد اندازہ قائم نہیں کر سکتے۔
ابھی تک ہمارے پاس وہ ذرائع معلومات نہیں ہیں جن کی بنیاد پر یقینی تخمینے پیش کیے جا سکیں۔ پھر آبادی کے رجحانات کے بہت سے اسباب ابھی تک نامعلوم ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر آرنلڈ ٹائن بی (Dr. Arnold Toynbee) ہمیں بتاتا ہے کہ تیئس میں سے اِکیس تہذیبوں میں عروج پر پہنچ کر آپ سے آپ آبادی کے اضافہ کی رفتار میں کمی ہو جاتی ہے۔ اس کی توثیق آبادی کے فطری اضافے کی تاریخ سے بھی ہوتی ہے۔ مثلاً رے مونڈ پرل (Raymond Pearl) اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ:
’’صنعتی ترقی، شہروں کے فروغ (urbansation) اور ان کے نتیجہ میں رونما ہونے والی آبادی کی گنجانی ایک ملک میں جتنی زیادہ ہو گی اتنی ہی اس ملک میں باروری(fertility) اور شرح اضافہ آبادی کم ہو گی…… چند واضح مستثنیات کو چھوڑ کر ایسا ہی ہوا ہے۔‘‘{ FR 7291 }
ڈاکٹر میڈ اور ایف۔ آر۔ایس اپنے1959ء کے ریتھ لیکچرز میں علم آبادی کے اندازوں کی مشکلات تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔{ FR 7292 } اقوام متحدہ کی ایک سرکاری رپورٹ میں بھی اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ سمجھنا درست نہیں ہو گا کہ آئندہ صدی میں بھی اضافہ اسی رفتار سے ہو گا جس سے ماضی میں ہوا ہے۔ اس رپورٹ کی رو سے: ’’یہ بات بالکل احمقانہ ہو گی کہ ہم اس وقت اپنے اندازوں کو مستقبل بعید کی دور درازیوں تک لے جائیں۔‘‘{ FR 7293 }
اس رپورٹ کے مطابق معقول اندازے اس صدی کے اخیر تک کے لیے قائم کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ نہیں۔ لیکن کچھ دوسرے ماہرین کا خیال ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ آئندہ دس پندرہ سال تک کا اندازہ قائم کر سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ کرنا احتیاط کے منافی ہے{ FR 7294 } اور ایک سوشیولوجسٹ پوری بحث کو اس طرح سمیٹتا ہے کہ:
’’آبادی کے متعلق تخمینوں اور پشین گوئیوں میں دلچسپی بڑی کم ہو گئی ہے اور اس کی وجہ اعتماد کی کمی ہے۔ تھوڑے عرصہ قبل تک غیر ماہرین آبادی (non-demographers) میں یہ خیال عام تھا کہ علم آبادی ایک ایسا علم ہے جس میں مستقبل کے واقعات کے بارے میں پشین گوئی غیر معمولی طور پر درست ہوتی ہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا، ناامیدی بڑھتی گئی اور اب بے اعتمادی عام ہے۔‘‘{ FR 7295 }
اس سے معلوم ہوا کہ معاشی حیثیت سے خود آبادی کے اندازے اور اس کے رجحانات پر بھی بڑی احتیاط سے غور ہونا چاہیے اور عام صحافیانہ انداز میں یہ کہہ دینا کہ 600 سال کے بعد دنیا میں کھڑے ہونے کی جگہ بھی باقی نہ رہے گی، بے حد قابل اعتراض ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ معاشی نقطۂ نظر سے اگر آبادی کے مسئلہ پر غور کیا جائے تو اس کا بڑا قریبی تعلق معیشت کی تنظیمی ہیئت (Structure of the Economy) سے ہے۔ مغرب نے اپنے حالات کی مناسبت سے ایک خاص ہیئت بنائی جوپیمانہ کبیر اور سرمایہ کی مرکزیت پر مبنی تھی اور جس میں ساری کوشش محنت کے حصہ کو کم کرنے اور سرمائے کے حصہ کو بڑھانے پر صرف ہوئی۔ ایسی صنعت کو معاشیات کی اصطلاح میں کیپیٹل ان ٹینسو انڈسٹری (Capital Intensive Industry) کہتے ہیں۔ اس قسم کی معاشی ہیئت میں محنت کی ضرورت برابر کم ہوتی جاتی ہے اور آبادی کے بڑھنے سے بیروزگاری کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے لیکن اگر معیشت کا ڈھانچہ کسی اور بنیاد پر تعمیر کیا جائے اور اسے کوئی دوسری ہیئت دی جائے تو آبادی کا مسئلہ اس میں پیدا نہ ہو گا۔ اس کی مثال جاپان میں ملتی ہے۔ جاپان نے اس بات کو محسوس کر لیا تھا کہ کیپیٹل ان ٹینسو (Capital Intensive) صنعتی ہیئت اس کے لیے موزوں نہیں ہے۔ وہاں سرمایہ کی کمی اور محنت کی فراوانی تھی۔ اس لیے اس نے چھوٹے پیمانے کی صنعت کو بے مرکزیت (de-centralisation) کے ساتھ فروغ دیا اور اس کی کارکردگی کو اعلیٰ ترین معیار پر پہنچانے کی کوشش کی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ اس کی صنعت (Labour Intensive) ہو گئی اور اس میں آبادی کے غیر معمولی اضافے کے باوجود بے روزگاری یا کثرتِ آبادی کا مسئلہ پیدا نہ ہوا۔
جاپان کا رقبہ پاکستان کے رقبے کا تقریباً نصف ہے۔ پھر ملک کے پورے رقبے کا صرف 17 فیصد قابل استعمال ہے۔ باقی تمام آتش فشاں پہاڑوں کے سلسلہ کی وجہ سے بیکار ہے۔ اس طرح اس کا قابل استعمال رقبہ ہمارے رقبہ کا تقریباً بارہواں حصہ (1/12)ہے۔ لیکن اس ملک نے ہماری آبادی سے بڑی آبادی کو بڑے اچھے معیار پر قائم رکھا اور اپنی معاشی قوت کو وہ ایسے مقام پر لے گیا کہ اس کی مصنوعات نے برطانیہ اور امریکہ کی منڈیوں پر قبضہ کر لیا، حتیٰ کہ یورپ کی ساری ترقی یافتہ اقوام مل کر بھی معاشی میدان میں اس کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کی طاقت ایک ایسے مقام تک پہنچ گئی جہاں سے اس نے خود سیاسی میدان میں بھی ساری مغربی دنیا کو چیلنج کر دیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ آبادی کے مسئلہ کا مطالعہ محض سطحی انداز سے نہیں ہونا چاہیے۔ اگر معیشت کی تنظیمی ہیئت کو آبادی کے مناسب حال ترقی دے دی جائے تو معاشی حیثیت سے آبادی کا کوئی مسئلہ پیدا ہو جانے کا کوئی سوال نہیں۔ آج کی دنیا میں فی الواقع اگر آبادی کے لیے غربت، افلاس اور بدحالی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی وجہ ہماری اپنی غلطیاں ہیں فطری وسائل اور اسباب اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اس سلسلہ میں بھی چند بنیادی باتیں ہم عرض کرنا چاہتے ہیں۔
(۱) ہم اپنے وسائل کو ٹھیک ٹھیک استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ وسائل موجود ہیں اور بہ افراط موجود ہیں لیکن انسان اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے ان سے فائدہ نہیں اٹھا رہا ہے۔ دنیا میں غربت کا سب سے بنیادی سبب یہی ہے۔
(ب) فطرت نے پوری دنیا میں وہ تمام وسائل ودیعت کر دیے ہیں جو انسانیت کے لیے ضروری ہیں۔ وسائل کی تقسیم اس طرح ہے کہ پوری دنیا ایک وحدت اور اکائی کی حیثیت رکھتی ہے۔ کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں ہے جو اپنی ضرورت کی تمام چیزیں صرف اپنے وسائل سے حاصل کرلے۔ البتہ پوری دنیا کے تمام وسائل سب انسانوں کے لیے کافی ہیں۔ انسان کو اپنی تنگ نظری کو چھوڑ کرایسے مسائل پر عالمی بنیادوں پر غور کرنا ہو گا۔ ہم ایک ملک میں یہ ضروری نہیں سمجھتے کہ ہر ہر شہر میں اس کی ضرورت کی تمام چیزیں پیدا ہوں۔ یہی نقطۂ نظر پوری دنیا کے لیے بھی اختیار کرنا ہو گا۔ تب ہی دنیا کے سارے وسائل انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے استعمال ہو سکیں گے۔
(ج) اسی غلط نقطۂ نظر کا نتیجہ ہے کہ اس وقت دولت کی تقسیم نہایت غلط ہے۔ جن حصوں میں پیداوار کی افراط ہے وہ وہیں ضائع ہو رہی ہے اور باقی انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال نہیں ہو رہی۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کی پیداوار کم ہے وہ نہیں جانتے کہ مغربی دنیا کے لیے اور خصوصیت سے امریکہ کے لیے اصل مسئلہ کثرت پیداوار (over-production) کا ہے۔ اس کے لیے زائد پیداوار کو ٹھکانے لگانے کا مسئلہ درد سر کا باعث بنا ہوا ہے۔ امریکہ کی حکومت کوبیس کروڑ سےچالیس کروڑ ڈالر (تقریباً ایک ارب روپیہ) تک محض فاضل آلوئوں کو ضائع کرنے یا کم قیمت پر بیچنے پر صرف کرنے پڑتے ہیں۔ کیلیفورنیا کی کروڑوں روپے کی کشمش اور منقیٰ سؤروں کو کھلا دی جاتی ہے۔ امریکہ کی کریڈٹ کارپوریشن (U.S Commodity Credit Corporation) کے پاس بیس ارب ڈالر (تقریباً 90 ارب روپے) کا فاضل مال بے کار پڑا ہوا ہے۔ اس میں سے چند چیزیں یہ ہیں:{ FR 8163 }
روئی
50 لاکھ گانٹھ تقریباً
مالیت: 75 کروڑ ڈالر
گندم
40 کروڑ بشل(2)
مالیت: 90کروڑ ڈالر
مکئی
60کروڑ بشل تقریباً
مالیت: 90کروڑ ڈالر
انڈے (سوکھے ہوئے)
7کروڑ پونڈ تقریباً
مالیت: 10کروڑ ڈالر
مکھن
10 کروڑ پونڈ تقریباً
مالیت: 6کروڑ ڈالر
دودھ (سوکھا ہوا)
25کروڑ پونڈ تقریباً
مالیت: 3کروڑ ڈالر
اسی طرح (F.A.O) کے اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر استعمال شدہ اسٹاک برابر بڑھ رہے ہیں، اربوں من غذائی اور دوسری اشیاء دنیا کے کچھ حصوں میں بے کار پڑی سڑ رہی ہیں اور ان کی حفاظت پر کروڑوں روپیہ صرف کیا جا رہا ہے، جب کہ دنیا کے دوسرے حصوں میں فقر وفاقہ کی حکمرانی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب صورت حال یہ ہے تو پھر ہم قلت کے لیے اللہ میاں اور معاشی وسائل کا رونا کیوں روئیں۔ بقول شیکسپیئر:
(The fault, dear Brutus, is not in our stars but in ourselves that we are underlings.)
جناب پروٹس:
’’خرابی زمین وآسمان میں نہیں خود ہم میں ہے اور ہمیں خود اپنی آنکھ کے شہتیر کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔‘‘
یہ مغربی انسان کی خود غرضی ہے جو دنیا میں معاشی بدحالی کی باعث ہے۔ مہذب انسان ایک طرف اپنی فاضل پیداوار کو مصنوعی قیمتوں کے قیام کی خاطر ضائع کر رہا ہے اورانسانیت کو اس سے مستفید نہیں ہونے دیتا۔ دوسری طرف وہ اپنے سارے وسائل کو پیداوار کے لیے استعمال نہیں کرتا بلکہ انھیں تعیش اور ضیاع کی نذر کر دیتا ہے۔ بقول پروفیسر لینڈس:
’’انانیت زدہ مغربی انسان ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں وہ اپنی ساری قوتیں خوراک کی رسد کو بڑھانے کے لیے استعمال کرنے پر تیار نہیں ہے۔‘‘{ FR 7298 }
(د) مشرقی ممالک میں کاہلی اور سست رفتاری ضرور ہے لیکن ان کے وسائل سے مغرب جس طرح فائدہ اٹھا رہا ہے وہ بھی ان کے لیے ایک بہت بڑا بار ہے جس کے نتیجہ کے طور پر ان کی غربت اور معاشی پریشانی کچھ اور بھی سوا ہو گئی ہے۔ استعمار نے جس طرح ان ممالک کے وسائل کو لوٹا کھسوٹا ہے اور افریقہ میں آج بھی لوٹ رہا ہے وہ بڑی تلخ داستان ہے۔ آزادی کے بعد بھی سو طریقوں سے ان ممالک کا انتفاع جاری ہے۔ اس کی صرف ایک مثال قیمتوں میں عدم استحکام (instability) ہے۔ مغربی ممالک جو ان ممالک کی اشیاء کے خریدار ہیں، قیمتوں میں استحکام نہیں آنے دیتے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان ممالک کو بڑے عظیم مالی نقصان پر اپنا مال بیچنا پڑتا ہے۔ مثلاً صرف کوکو کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی کی بنا پر مغربی افریقہ کے ممالک کو صرف ایک سال (1965ء) میں 62 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا۔ (1954ء میں قیمت 57 سینٹ فی پونڈ تھی جو 1956ء میں 26 سینٹ پر آ گئی) یا ربڑ کی قیمتوں میں عدم استحکام کی وجہ سے ایک سال میں جنوب مشرقی ایشیا کو ایک ارب بتیس کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا۔ (1951ء میں قیمت 56 سینٹ فی پونڈ تھی جو 1954ء میں 23 سینٹ رہ گئی۔){ FR 7299 }
اگر سارے حقائق کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی پریشانیاں خود حضرت انسان ہی کی پیداکردہ ہیں۔ جو دو مثالیں ہم نے اوپر دی ہیں ان سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اگر قیمتوں کو مستحکم کیا جاتا اور ان ممالک کی مجبوری سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جاتا تو یہ سارا سرمایہ ان کی معاشی ترقی کے لیے استعمال ہو سکتا تھا۔ غیر ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ کی کمی ضرور ہے اور یہ کمی معاشی ترقی کی راہ میں مانع بھی ہے لیکن خود اس کمی کے اسباب کیا ہیں؟ ان کا سررشتہ خود انھی عناصر کی کرم فرمائیوں سے جا ملتا ہے جو سرمایہ کی قلت کا راگ صبح وشام الاپتے ہیں اور مشرقی لوگوں کو بچے کم پیدا کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
(ھ) اسی طرح دنیا کے وسائل کا جو حصہ جنگ کی تیاری پر صرف ہو رہا ہے اگر اسے یا اس کے بڑے حصہ کو معاشی تعمیر کیلئے استعمال کیا جا سکے تو دنیا کی غربت ایک محدود عرصہ میں ختم ہو سکتی ہے۔ ۵۷۔۱۹۵۰ء کے اعداد وشمار کی بنیاد پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس زمانہ میں کم از کمنوّے ارب ڈالر سالانہ (تقریباً چار سو ارب روپے سالانہ) جنگی تیاری پر خرچ ہوا ہے۔{ FR 7300 }
برنال تفصیلی بحث کے بعد یہ ثابت کرتا ہے کہ:
’’یہ رقم اس رقم سے کہیں زیادہ ہے جو دنیا کے تمام غیر ترقی یافتہ ممالک میں تیز رفتار عملی ترقی کے حصول کے لیے ضروری ہے۔‘‘{ FR 7301 }
منجملہ اور اسباب کے یہ وہ موٹے موٹے اسباب ہیں جو دنیا میں غربت اور معاشی مفلوک الحالی کے ذمہ دار ہیں۔ آبادی کے مسئلہ کا اصلی حل ان موانع کو دور کرنے میں ہے، انسانوں کی پیدائش روکنے میں نہیں ہے۔
(5) کیا ضبط ِ ولادت کوئی حل ہو سکتا ہے؟
ضبط ِ ولادت کے متعلق دینی اور عقلی حیثیت سے جو بحثیں گزر چکی ہیں ان کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شریعت میں اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ اگر ضبط ِولادت کی کوئی گنجائش ہے تو وہ ان حقیقی انفرادی ضرورتوں کے لیے ہے جن میں شریعت نے کسی اعلیٰ تر مصلحت کی خاطر ایک کم تر برائی کو گوارا کیا ہے۔ اور وہاں بھی یہ فرد کا انفرادی معاملہ ہے کہ وہ حقیقی مشکلات اور مسائل کو سامنے رکھ کر، خدا کے سامنے جوابدہی کے پورے احساس کے ساتھ اور مناسب طبی مشورہ کی بنا پر ایسا کرے۔ اگر یہ فعل محض لذت نفس کے لیے کیا جائے تو شریعت کی نگاہ میں یہ ناجائز ہے۔ اس لیے دینی حیثیت سے تو کسی ملک گیر مہم کے لیے قطعاً کوئی گنجائش ہی نہیں ہو سکتی۔
پھر اس تحریک کے جو نفسیاتی، اخلاقی، معاشرتی، سیاسی اور معاشی نقصانات رونما ہوتے ہیں وہ بھی تباہ کن ہیں اور خود عقل اس تحریک کو ملک کے لیے منفعت بخش نہیں سمجھتی۔
یہ تمام چیزیں درست! لیکن ہم تو یہ محسوس کرتے ہیں کہ عالمِ اسلام اور مشرقی ممالک میں واضح حقائق اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ یہ تحریک یہاں ایک لمبے عرصے تک کامیاب ہی نہیں ہو سکتی۔ خالص مادی بنیادوں پر بھی اس کی کامیابی کے امکانات موہوم ہیں اور بالآخر اس کی حیثیت ’’گناہ بے لذت‘‘ سے زیادہ نہ ہو گی۔ ہم اس سلسلہ میں بھی غور وفکر کے لیے چند معروضات پیش کرتے ہیں۔
اولاً، ضبط ِولادت کوئی مثبت چیز نہیں ہے۔ اس کے ذریعے حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے ان کے آگے سپر ڈال دینے کی روش اختیار کی جاتی ہے۔ یہ ایک منفی چیز ہے اور اس کے ذریعہ کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ دنیا کی ضرورت روٹی ہے، مانع حمل گولی نہیں۔ یہ پوری تحریک ایک منفی تحریک ہے اور معاشی مسئلہ کا کوئی مثبت حل پیش نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اگر کامیاب ہو بھی جائے تب بھی معاشی حیثیت سے ملک کو کچھ حاصل نہیں ہوتا اور ہم وہیں رہتے ہیں جہاں تھے، بلکہ نئی پیچیدگیوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس تحریک کا نتیجہ …… اگر اس پر بڑی سختی سے عمل ہو تب بھی کم از کم صدی نصف صدی کے بعد رونما ہو گا۔ خود یورپ میں اس کے نتائج خاصی مدت کے بعد رونما ہوئے تھے۔ اس لیے کوئی فوری اثر ہماری معیشت پر اس کا نہیں پڑ سکتا۔ لمبے عرصے میں شاید یہ کچھ نتائج نکالے لیکن لمبے عرصے کے متعلق، جیسا کہ لارڈ کینس (Keyns)نے کہا ہے کہ ہم صرف ایک ہی چیز جانتے ہیں اور وہ یہ کہ ’’لمبے عرصے میں ہم سب مر جائیں گے۔‘‘
“In the long run we all shall be dead.”
تیسری چیز یہ ہے کہ ضبط ِولادت محض ایک طبی یا معاشی اسکیم نہیں ہے جسے دنیا کے ہر ملک میں جب چاہے متعارف کرا دیا جائے۔ اس کی کامیابی کے لیے ایک خاص تمدنی ماحول اور کچھ خاص اخلاقی اور معاشرتی رویے (attitudes) ضروری ہیںاور ان کی عدم موجودگی میں یہ چل ہی نہیں سکتی۔ ہوراس بیل شا (Horace Belshaw)کہتا ہے کہ:
’’ضبط ِولادت کے پروپیگنڈے سے اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ عام لوگوں میں بیسیوں سال (many decades) کے بعد شرح پیدائش کم ہو گی۔ یہ پروپیگنڈا آہستہ آہستہ رائے عامہ کی تعمیر کرے گا۔ لیکن ترتیب امور سے پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کے پروپیگنڈے کے اس وقت تک موثر ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی جب تک دوسری معاشرتی اور معاشی تبدیلیوں کے ذریعہ اس کے لیے زمین ہموار نہ کی جائے۔‘‘{ FR 7302 }
یہی مصنف مزید کہتا ہے:
’’متعدد قسم کی مزاحمتیں اور معاشی اور فنی مشکلات اتنی مضبوط اور موثر ہیں کہ تحدیدِ خاندان کے لیے تعلیم اور پروپیگنڈے کے بالواسطہ طریقے جلد نتائج نہ دے سکیں گے، جس طرح خود مغرب میں بھی وہ فوری نتائج نہ دے سکے تھے۔‘‘{ FR 7303 }
بیلشا اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ:
’’نتیجتاً ہم توازن کے ساتھ جو بات کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ لمبے عرصے میں لوگوں کے رویہ کی تبدیلی کے امکانات کے سلسلہ میں ہم بجا طور پر بڑی حد تک پر امید (Qualified Optimism)ہو سکتے ہیں۔ نیز آئندہ شرح پیدائش کی بیس تیس سال میں ایسی کمی کے سلسلہ میں جو شرح اموات کی کمی کی تلافی کر دے، ہم بڑی حد تک مایوس (Qualified Pessimism) ہیں۔‘‘{ FR 7304 }
اس لیے یہ مصنف مشورہ دیتا ہے کہ اصل توجہ آبادی سے ہٹ کر دوسرے ذرائع پر دینی چاہیے۔ سرچارلس ڈارون جو ضبط ِولادت کا متشدد حامی ہے اپنے حالیہ مضمون دی پریشر آف پاپولیشن (The Pressure of Population) میں لکھتا ہے کہ:
’’خواہ کتنی ہی تیزی کے ساتھ یہ (یعنی تحریکِ ضبط ولادت) پھیلائی جائے۔ یہ بات بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ ایک ارب لوگوں کی عادات میں اتنا مکمل انقلاب پچاس سال کے اندر بھی آ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلہ کے حالیہ تجربات تو بہت ہی مایوس کن ہیں… گو یہ کام اس لائق ہے کہ اس کی ضرور حوصلہ افزائی کی جائے لیکن یہ ہرگز متوقع نہیں کہ پچاس سال بعد بھی یہ دنیا کی آبادی کے ایک معمولی حصہ سے زیادہ کو متاثر کر سکے گا۔‘‘{ FR 7305 }
میک کارمک اس رائے کا اظہار کرتا ہے کہ:
’’ان ممالک میں جہاں طبی خدمات بہت ہی کمیاب ہیں اور بڑے بڑے علاقوں میں بالکل ہی مفقود ہیں ضبطِ ولادت ناقابلِ عمل ہے اور نہ اس کی کامیابی کے امکانات ہیں۔‘‘{ FR 7306 }
ہندوستان میں تحریک ضبط ولادت کا ایک اولین علمبردار ڈاکٹر چندر سیکھر اپنی ایک جدید تصنیف میں لکھتا ہے کہ ؎
’’جہاں تک ضبط ِ ولادت کے پیغام کو دیہات کے لکھوکھا افراد تک پہنچانے کا سوال ہے یہ بات کہی تو آسانی سے جا سکتی ہے لیکن عملاً اسے انجام دینا محال ہے۔ حالات یہ ہیں کہ آج ایشیا کے دیہات میں طبی سہولتوں کا قحط ہے۔ لاکھوں گھروں میں پانی کا نل اور غسل خانہ تک نہیں ہے اور نہ تخلیہ ہی کا کوئی بندوست ہے۔ دیہات شفاخانوں اور مطبوں (clinics) سے بہت دور دور ہیں اور جن مقامات پر کچھ سہولتیں موجود ہیں وہاں بھی غربت، جہالت، کمزور صحت اور جمود وعدم حرکت کے مشکل اور پریشان کن مسائل موجود ہیں (جو انھیں غیر مؤثر بنا دیتے ہیں۔)
’’یہ تو ہوئیں عام مشکلات۔ جہاں تک خصوصی ضروریات کا سوال ہے وہ ہر ہر قوم میں مختلف ہو سکتی ہیں۔ معاشرتی اور اخلاقی زاویے، مذہبی عقائد، خاندانی تنظیم، جنسی رویہ کے ضابطے، گھریلو حالات اور دوسرے بے شمار حقائق ہیں جو ضبط ِتولید کے لیے آمادگی یا عدم آمادگی پر اثر انداز ہوں گے۔ اور ہمیں صاف صاف اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ دنیا کے گنجان علاقوں کی قوموں اور نسلوں کے بارے میں ان امور کے متعلق ہمیں بہت کم معلومات حاصل ہیں۔ اس لیے اس کا امکان ہے کہ ہندوستان کے ایک جھونپڑے، چین کے ایک چھپر اور جاپان یا برما کے ایک دیہی مکان سے عملِ جراحی، ذرائع وادویہ ضبط تولید اور ان کے استعمال کی آمادگی ابھی صدیوں دور ہیں۔‘‘{ FR 7307 }
امریکی ماہر معاشیات پروفیسررچرڈ میئر (Richard Meier) اس رائے کا اظہار کرتا ہے کہ غیر ترقی یافتہ ممالک میں ضبط ِولادت کے ذرائع کا فروغ ایک معاشی عجوبہ ہو گا۔ وہ اس کے فوری اثرات کا بالکل منکر ہے اور ایسے سات اسباب بیان کرنے کے بعد جو اس تحریک کی راہ میں مانع ہیں اور جن کو دور کیے بغیر اسے فروغ نہیں ہو سکتا، لکھتا ہے:
’’یہ وہ حالات ہیں جو کسی معاشرہ میں اسی وقت موجود ہو سکتے ہیں جب وہاں معاشی ترقی واقع ہو چکی ہو۔ دنیا میں ابھی تک کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ہے جو بتاتی ہو کہ ایک ایسی دیہی آبادی نے جس کا معیار خواندگی پست ہو اور جو کفالت کے معیار پر زندگی گزار رہی ہو، اپنی رضا مندی سے ضبطِ تولید کو اختیار کیا ہو اور اسے کامیاب بھی کر لیا ہو۔‘‘{ FR 7310 }
جدید تجربہ بھی ماہرین کی مندرجہ بالا آراء کی تائید تُوثیق کرتا ہے۔ جاپان اور پیورٹوریکو (Puerto Rico) میں دوسری جنگ کے بعد کروڑوں روپے کے صرف پر ضبط ِ ولادت کی تحریک کو فروغ دیا گیا اور مانع حمل ادویہ کو پھیلایا گیا۔ لیکن دونوں جگہ یہ تحریک ناکام رہی۔ بالآخر جاپان میں اسقاطِ حمل (abortion)کو اختیار کیا گیا اور پیور ٹوریکومیں آپریشن کے ذریعہ سے بانجھ کر دینے کا طریقہ اپنا لیا گیا ہے۔‘‘{ FR 7309 }
اس سے معلوم ہوا کہ ضبطِ ولادت
……مشرقی ممالک میں ناقابل عمل ہے۔
……اس کے تجربات ناکام رہے ہیں۔
……اور اگر یہ کامیاب ہو بھی جائے تب بھی اس کے اثرات پچاس سال سے ایک صدی بعد تک رونما ہوں گے اور ؎
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
اس تحریک کے ناقابلِ عمل ہونے کے سلسلہ میں ایک پہلو اور بھی قابل غور ہے۔ ضبطِ تولید کے جو ذرائع بھی آج تک دریافت ہوئے ہیں وہ سب بے حد گراں خرچ اور مسرفانہ ہیں۔
پچھلے دنوں انگلستان کے دارالامراء (House of Lords) میں ضبط ِولادت پر بڑی دلچسپ بحث ہوئی۔ اس بحث کے دوران ایک مقرر نے بتایا کہ ہندوستان کے تجربات اس بات پر شاہد ہیں کہ مانع حمل ذرائع کا استعمال بے حد گراں خرچ ہے اور ایک ڈاکٹر کے الفاظ میں ’’خواہ یہ کتنا ہی حیرت انگیز کیوں نہ معلوم ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ دیہی علاقے میں ایک بچے کی پیدائش پراتنا خرچ نہیں آتا جتنا مانع حمل ذرائع کے حصول پر آتا ہے۔‘‘ اسی بحث میں لارڈ کیسی (Lord Casey) نے ڈاکٹر اے۔ ایس پارکس کے حوالہ سے کہا کہ:
’’نئی دریافت شدہ گولی کے لیے ضروری ہے کہ مہینہ میں بیس گولیاں استعمال کی جائیں۔ ایشیائی دیہات کی ایک ان پڑھ خاتون کے لیے یہ کھکھیڑ بڑی پریشان کن اور ناقابل برداشت ہے۔ باقی تمام ذرائع (منع حمل) بھی بے کار ہیں، کیونکہ کچھ تو موثر نہیں، کچھ بہت مہنگے ہیں اور کچھ بہت تکلیف دہ۔‘‘{ FR 7311 }
منع حمل کے نئے ذرائع کی گرانی کا اندازہ صرف ایک مثال سے کیجیے:
آج کل ضبط ِولادت کی جن گولیوں کا بڑا چرچا ہے وہ صرف اسی صورت میں کارآمد ہو سکتی ہیں جب ہر مہینے ان کا پورا کورس استعمال کیا جائے یعنی بیس گولیاں۔ اگر ایک بھی دن چھوٹ جاتا ہے تو پوری دوا بے اثر ہو جاتی ہے۔ اس طرح ہر عورت کو سال میں 240 گولیاں کھانی پڑیں گی تب وہ اولاد کے ’’خطرے‘‘ سے محفوظ ہو سکے گی۔ ایک گولی کی قیمت 50 سینٹ ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر سال ایک عورت کو ۱20 ڈالر یا تقریباً 540 روپے صرف ان گولیوں پر خرچ کرنے ہوں گے۔{ FR 7312 } اب ذرا سوچئے کہ پاکستان میں جہاں کے ایک شہری کی اوسط سالانہ آمدنی (1960-61ء کے تازہ ترین اندازے کے مطابق) 244 روپے ہے۔{ FR 7313 } ہر عورت 540 روپے فی سال صرف ان گولیوں پرکیسے خرچ کر سکے گی؟
اس مسئلہ کو ایک دوسرے پہلو سے لیجے۔ ہماری کل آبادی نَوکروڑ ہے۔ اس میں سے اگربوڑھوں اور بچوں کی تعداد کو نکال دیا جائے تو ان عورتوں کی تعداد جو ماں بننے کے لائق ہیں تقریباً دو کروڑ ہو گی۔ اگر ان کا نصف بھی ان گولیوں کو استعمال کرے تو اس پر سالانہ خرچہ پانچ اربچالیس کروڑ روپے ہو گا۔ واضح رہے کہ پاکستان کے پورے مرکزی بجٹ(1960-61ئ) کی سالانہ آمدنی (revenue) ایک ارب چھیانوے کروڑ روپے ہے۔{ FR 7314 } اس طرح اگر ملک میں کل ترقیاتی خرچ (Development Expenditure) کو لیا جائے تو وہ 1960-61ء کے نظر ثانی شدہ تخمینہ کے مطابق ایک ارب اکہتر کروڑ تھا۔ اپنے وسائل اور اپنے ترقیاتی خرچہ کی روشنی میں ذرا غور فرمائیے کہ کیا فی الحقیقت ہم ان گولیوں کو ہضم کر سکتے ہیں؟ اور آخر یہی رقم اپنے ذرائع پیداوار کو بڑھانے اور ترقی دینے پر کیوں نہ صرف کریں؟
(6) اصل حل
اس پوری بحث کے بعد فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اصل حل کیا ہے؟ اس سلسلہ میں ہمارا نقطۂ نظریہ ہے کہ اصل حل پیداوار کو بڑھانا اور معاشی تمدنی وسائل کو ترقی دینا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشی ترقی اور پیداوار کے اضافے کو ’’حل‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ ورنہ ضبط ولادت کے لیے ’’حل‘‘ کا لفظ استعمال کرنا خود اس لفظ کی توہین ہے۔
اگر آپ تھوڑا سا بھی غور کریں گے تومحسوس کر لیں گے کہ ضبط ولادت کی پالیسی کو اختیار کرنا دراصل اپنی شکست کا اعتراف کرنا ہے۔ اس کے معنی تو یہ ہیں کہ ہم انسان کی صلاحیتوں اور سائنس کی قوتوں سے مایوس ہو جائیں اور وسائل اور پیداوار کو بڑھانے کے بجائے انسانوں ہی کو کم کرنے لگیں۔ اگر کپڑا جسم پر راست نہیں آتا تو کیا اس کا سائز بڑھانے کی بجائے انسانی جسم ہی کی تراش خراش شروع کر دی جائے تاکہ لباس ٹھیک آ جائے۔
اگر اس نقطۂ نظر کی پشت پر کار فرما ذہنیت کا تجزیہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں انسان کی حیثیت اصل مقصد (end) کی نہیں بلکہ صرف ایک ذریعہ کی سی ہے۔ جس طرح اور مصنوعات کی پیداوار کو طلب کے مطابق بڑھایا اور گھٹایا جاتا ہے، اسی طرح انسانوں کی پیداوار کو بھی بڑھایا اور گھٹایا جائے۔ جس طرح گیندیں، بلے اور جوتے ضرورت کے مطابق تیار کیے جاتے ہیں اسی طرح انسان بھی پیمائش کے مطابق تیار کیے جائیں۔ گویا انسان کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ ہر چیز اس کی ضرورت کے مطابق درست کی جائے بلکہ صحیح چیز یہ ہے کہ معاشی حالات کے مطابق خود حضرت انسان ہی کو درست کر لیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں انسان بھی بس منجملہ دوسری اشیاء کے ایک شے (commodity) ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
یہ ذہنیت بڑی ہی غلط ذہنیت ہے اور اس پستی پر انسان اسی وقت اتر سکتا ہے جب وہ تمام روحانی اور اخلاقی اقدار کا پاس چھوڑ دے۔ انسان اصل مقصد ہے اور باقی تمام چیزیں اس کی ضرورت کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ اگر آپ اس ترتیب کو الٹ دیں گے تو انسان اپنے اصل مقام سے گر جائے گا اور اگر انسانیت کے مقام سے گر کر اس نے مادی خوش حالی پا بھی لی تو اس کا کیا حاصل؟ اسی ذہنیت پر تنقید کرتے ہوئے پروفیسر کولن کلارک اپنی اس رپورٹ میں جو اس نے پاکستان کی معیشت پر پیش کی تھی، لکھتا ہے:
’’کچھ لوگ کہتے ہیں معاشی وجوہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ آبادی کے اضافے کی رفتار کو کم کیا جائے یا یہ کہ ایک قائم (stationary) یا زوال پذیر آبادی اصل مطلوب ہے۔ مجھے ان میں سے کسی تجویز سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں۔ میرے خیال میں معاشی مفکرین کا کام یہ ہے کہ وہ بتائیں کہ معیشت کو آبادی کی ضرورتوں کے مطابق کیونکر ڈھالا جائے، نہ یہ کہ آبادی کو معیشت کے مطابق کس طرح تراشا خراشا جائے۔ والدین اپنے ضمیرا ور اپنی پسند کے مطابق بچے پیدا کرتے ہیں اور انھیں مستقبل میں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ کسی معاشی مفکر کو خواہ وہ کتنا ہی عالم وفاضل کیوں نہ ہو، اور کسی وزیر اعظم کو خواہ وہ کتنا ہی طاقتور ہو، یہ حق نہیں ہے کہ وہ والدین سے یہ کہے کہ ایسا نہ کرو۔ ہرگز نہیں! سارے حقوق دوسرے ہی پلڑے میں ہیں۔ ہر باپ کو ضرور یہ حق ہے کہ وہ معاشین اور وزرائے اعظم سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ معیشت کو اس طرح منظم کریں کہ تمام لوگوں کو ان کی بنیادی ضروریات فراہم ہو جائیں۔‘‘{ FR 7315 }
ہماری نگاہ میں مسئلہ کا اصل حل پیداوار کو بڑھانے اور معیشت کو ترقی دینے میں ہے اور اس کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہمت، قابلیت، صحیح منصوبہ بندی اور عملی جدوجہد ہے۔ اگر ہم جھوٹے آسروں کو چھوڑ کر اپنی قوتیں تعمیر و تشکیل کے لیے وقف کر دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے بہتر معیار قائم نہ کرلیں۔ اصل خرابی ہماری اپنی پست ہمتی اور بے جا مرعوبیت میں مضمر ہے ورنہ فطرت نے ہمیں بھی وہ کچھ دے رکھا ہے جس کے بل بوتے پر ہم ایک بار پھر دُنیا سے اپنا لوہا منوا سکتے ہیں ؎
تُو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیٔ داماں بھی ہے
\ \ \
زبان: اُردو
صفحات: 328
اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، منصورہ ملتان روڈ، لاہور۔