اسلام اور جدید معاشی نظریات

یہ کتاب مولانا کی کتاب ’سود‘ کا ایک حصہ ہے۔ جسے بعد میں مولانا مودودیؒ خود ہی الگ کتابی شکل دے دی تھی۔ اس کتاب میں وہ حصہ شامل ہے جس کا براہِ راست تعلق سود سے نہیں ہے۔
اس کتاب میں عمرانی مسائل کا تاریخی پس منظر سمیت صنعتی انقلاب کے بعد دنیا میں ہونے والے تغیرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
سوشلزم اور کمیونزم نے جس طرح انسانیت کو تباہی سے دوچار کیا اور کررہی ہے اس کے نقصانات کا جائزہ لیا گیا۔
اسلامی نظام معیشت کے بنیادی ارکان
اکتساب مال کے ذرائع میں جائز ناجائز کی تفریق
مال جمع کرنے کی ممانعت
خرچ کرنے کا حکم
زکوٰة
قانونِ وراثت
کا ناصرف تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے وہیں قرآن وحدیث کی روشنی میں جدید معاشی پیچیدگیوں کا اسلامی حل بھی بتایا گیا ہے۔
سر مایہ دارانہ نظام کے ہمہ گیر اثرات کے پیش نظر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے جن کی زندگی کا مشن ہی غیر اسلامی نظریہ و نظام کو اُکھاڑ پھینکنا ہے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور اس کے ہر پہلو پر اس تفصیل کے ساتھ ایسی مدلل بحث کی ہے کہ کسی معقول آدمی کو اس کی خرابیوں کے بارے میں شبہ باقی نہ رہے۔ اس کتاب میں معاشی نقطہ نظر سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ مغرب کا دیا گیا معاشی نظام ہر پہلو سے انسانی معاشرے کے لیے مضرت رساں اور تباہ کن ہے۔ معاشیات کے طالب علموں سمیت کاروباری افراد کے لیے یہ کتاب نہایت اہم ہے اور انھیں اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

دیباچہ

 

یہ مختصر رسالہ میری کتاب ’’سود‘‘ کے ان ابواب کا مجموعہ ہے جو اس سے پہلے کتاب مذکورہ کے حصوہ اول و دوم میں شائع ہو چکے ہیں۔ جن حالات میں یہ دونوں حصے مرتب ہوئے تھے ان کی وجہ سے اس کی ترتیب ناظرین کے ذہن کے لیے اچھی خاصی پریشان کن بن گئی تھی۔ اب از سر نو ترتیب کے موقع پر یہ مناسب معلوم ہوا کہ اس کے جن حصوں کا تعلق براہ راست سود کے مسئلے سے نہیں ہے انہیں الگ کر کے ایک جداگانہ رسالے کی شکل میں شائع کیا جائے، اور ’سود‘ کے عنوان سے صرف ان ابواب کو جمع کر دیا جائے جن میں براہ راست مسئلہ سود پر بحث کی گئی ہے۔

ابوالاعلیٰ
20؍ ذی القعدہ 1377ھ (9؍ جون 1958ء)

 

موجودہ عمرانی مسائل کا تاریخی پس منظر

قریب کے زمانے میں دنیا کی فکری امامت اور عملی تدبیر، دونوں ہی کا سر رشتہ اہل مغرب کے ہاتھ میں رہا ہے۔ اس لیے بالکل ایک قدرتی نتیجے کے طور پر آج کی صورت حال یہ ہے کہ تمدن اور سیاست اور معیشت کے بارے میں ہمارے بیشتر مسائل اور ان مسائل میں ہماری الجھنیں ان حالات کی پیداوار ہیں جو مغربی زندگی میں انہی مسائل اور انہی الجھنوں کی پیدائش کے موجب ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی اس امامت ہی کا ایک فطری اثر ہے کہ ہمارے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کی اکثریت ان مسائل کے حل کی انہی صورتوں میں اپنے لیے رہنمائی تلاش کررہی ہے جو مغربی مدبرین و مفکرین نے پیش کی ہیں۔اس لیے ناگزیر ہے کہ ہم سب سے پہلے موجودہ عمرانی مسائل کے تاریخی پس منظر پر ایک نگاہ ڈال لیں اور یہ بھی دیکھتے چلیں کہ ان مسائل کے حل کی جو صورتیں آج تجویز یا اختیار کی جارہی ہیں ان کا شجرۂ نسب کیا ہے۔ اس تاریخی بیان کی روشنی میں وہ مباحث زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آ سکیں گے جن پر ہمیں اپنے موضوع کے سلسلے میں گفتگو کرنی ہے۔
نظامِ جاگیر داری
پانچویں صدی عیسوی میں جب مغربی رومن امپائر کا نظام درہم برہم ہوا تو یورپ کی تمدنی، سیاسی اور معاشی وحدت بالکل پارہ پارہ ہوگئی، جس رشتے نے مختلف قوموں اور ملکوں کو باہم مربوط کررکھا تھا وہ ٹوٹ گیا اور جس انتظام نے اس ربط وتعلق کو ممکن بنا رکھا تھا وہ بھی قائم نہ رہا۔ اگرچہ رومی قانون، رومی عالمگیریت اور رومیوں کے سیاسی افکار کا ایک نقش تو اہل مغرب کے ذہن پر ضرور باقی رہ گیا جو آج تک موجود ہے لیکن سلطنت کے ٹوٹنے سے سارا یورپ بیشمار چھوٹے چھوٹے اجزا میں بٹ گیا ایک ایک جغرافیائی خطے کے کئی کئی ٹکڑے ہوگئے۔ کہیں کسی ایک نسل کے لوگ اور ایک زبان بولنے والے لوگ بھی اپنی کوئی وحدت قائم نہ رکھ سکے۔ ساری مملکت تقسیم در تقسیم ہوکر ایسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں متفرق ہوگئی جن کا انتظام مقامی رئیس اور جاگیر دار سنبھال سکتے تھے۔ اس طرح یورپ میں اس نظام زندگی کا آغاز ہوا جس کو اصطلاحا ً ’’نظام جاگیرداری‘‘ (Feudal System) کہا جاتا ہے۔ اس نظام میں بتدریج جو جو خصوصیات پیدا ہوئیں اور آگے چل کر سختی کے ساتھ منجمد ہوتی چلی گئیں وہ یہ تھیں:
-1 بنائے اقتدار ملکیت ِ زمین قرار پائی۔ عزت، طاقت، بالادستی اور مستقل حقوق صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص ہوگئے جو کسی علاقے میں مالکان زمین ہوں۔ وہی اپنے علاقے میں امن قائم کرتے تھے۔ انہی سے رئیس یا جاگیر دار یا بادشاہ کا براہ راست تعلق ہوتا تھا۔ انہی کی سرپرستی میں علاقے کے وہ سب لوگ زندگی بسر کرتے تھے جو مالکان زمین کے طبقے سے تعلق نہ رکھتے ہوں، خواہ وہ مزارعین ہوں یا اہل حرفہ یا اہل تجارت۔ یہ سب گویا رعیت تھے۔ پھر خود اس رعیت میں بھی بہت سے طبقات تھے جن میں سے کوئی اونچا تھا اور کوئی نیچا۔ یہ طبقاتی تقسیم اور اس تقسیم کی بنا پر مراتب اور حیثیات اور حقوق کی تفریق اس سوسائٹی میں گہری جڑوں کے ساتھ جم گئی تھی۔ اس طرح نظام جاگیر داری کا معاشرہ ایک زینے کی سی شکل اختیار کر گیا تھا جس کی ہر سیڑھی پر بیٹھنے والا اپنے سے نیچے کا خدا اور اپنے سے اوپر والے کا بندہ بنا ہوا تھا۔ اس میں سب سے اوپر علاقے کے والئی ریاست کا خاندان ہوتا تھا اور سب سے نیچے وہ غریب خاندان ہوتے تھے جو کسی پر بھی اپنی خدائی کا زور نہ چلاسکتے تھے۔
-2 مسیحی کلیسا جو خدا کے نام پر لوگوں سے بات کرتا تھا، مگر جس کے پاس فی الحقیقت کوئی خدائی قانون اور کوئی اصولی ہدایت نامہ موجود نہ تھا، اس وقت یورپ میں نیا نیا قائم ہوا تھا۔ اس نے اس نوخیز نظام جاگیرداری سے موافقت کرلی اور وہ ان تمام روایتی اداروں اور حقوق اور امتیازات اور پابندیوں کو مذہبی سند عطا کرتا چلا گیا جو اس نظام کے ساتھ ساتھ معاشرے میں جڑ پکڑ رہے تھے۔ ہر خیال جو پرانا ہوگیا، کلیسا کا عقیدہ بن گیا اور اس کے خلاف کچھ سوچنا کفر قرار پایا۔ ہر رسم جو ایک دفعہ پڑ گئی، شریعت بن کر رہ گئی اور اس سے انحراف کے معنی خدا اور اس کے دین سے انحراف کے ہوگئے۔ ادب و فلسفہ ہو یا معاشرت اور سیاست اور معیشت، جس چیز کی بھی جو شکل نظام جاگیرداری میں قائم ہوگئی تھی کلیسا نے اس کو خدا کی دی ہوئی شکل ٹھیرا دیا اور اس بنا پر اس کو بدلنے کی کوشش جرم ہی نہیں، حرام بھی ہوگئی۔
-3 چونکہ کوئی ایسا مرکزی اقتدار اور انتظام موجود نہ تھا جو بڑی بڑی شاہراہوں کو تعمیر کرتا اور انہیں درست حالت میں رکھتا اور ان پرامن قائم کرتا، اس لیے دور دراز کے سفر اور بڑے پیمانے پر تجارت اور کثیر مقدار میں اشیاء ضرورت کی تیاری اور کھپت، غرض اس قسم کی ساری سرگرمیاں بند ہوگئیں اور تجارتیں، صنعتیں اور ذہنیتیں، سب ان چھوٹے چھوٹے جغرافی خطوں میں سکڑ کر رہ گئیں جن کے حدود اربعہ جاگیر داروں کے اقتدار نے کھینچ رکھے تھے۔
-4 صنعت اور تجارت کا ایک ایک شعبہ ایک ایک کاروباری اور پیشہ وربرادری کا اجارہ بن گیا نہ برادری کا کوئی آدمی اپنے پیشے سے نکل سکتا تھا اور نہ کوئی بیرونی آدمی کسی پیشے میں داخل ہوسکتا تھا۔ ہر برادری اپنے کام کو اپنے ہی حلقے میں محدود رکھنے پر مصر تھی۔ مال فوری اور مقامی ضروریات کے لیے تیار ہوتا، آس پاس کے علاقوں ہی میں کھپ جاتا، اور زیادہ تر اجناس کے بدلے اس کا تبادلہ ہو جاتا تھا۔ ان مختلف اسباب نے ترقی، توسیع، ایجاد، فنی اصلاح اور اجتماع سرمایہ کا دروازہ تقریباً بند کررکھا تھا۔
ان خرابیوں کو جو رومن امپائر کے زوال و سقوط سے پیدا ہوئی تھیں، ہولی رومن امپائر کے قیام نے کچھ بھی دور نہ کیا۔ پوپ اور قیصر نے چاہے روحانی و اخلاقی اور کسی حد تک سیاسی حیثیت سے پھر ایک رشتہ ٔ وحدت یورپ کو بہم پہنچا دیا ہو، لیکن جاگیر داری نظام میں تمدن و معاشرت اور معیشت کی جو صورت بن چکی تھی وہ نہ صرف یہ کہ بدلی نہیں بلکہ ایسی مضبوط بنیادوں پر قائم ہوگئی کہ اس کے سوا نظام زندگی کی کوئی دوسری صورت گویا سوچی ہی نہ جاسکتی تھی۔
نشا ٔۃِ ثانیہ
اس جمود کے ٹوٹنے کی ابتدا کس طرح، کن اسباب سے ہوئی اور کس طرح یورپ میں وہ ہمہ گیر تحریک اٹھی جو نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے نام سے مشہور ہے، یہ بحث ہمارے موضوع سے بہت ہٹی ہوئی ہے۔ مختصراً یوں سمجھئے کہ ایک طرف ہسپانیہ اور صقلیہ پر مسلمانوں کے قبضے نے اور دوسری طرف صلیبی لڑائیوں نے اہل مغرب کو دنیا کی ان قوموں سے دو چار کیا جو اس وقت تہذیب وتمدن کی علمبردار تھیں۔ اگرچہ تعصب کے اس پردے نے جو کلیسا کے اثر سے اہل مغرب کی آنکھوں پر پڑا ہوا تھا، ان لوگوں کو براہِ راست اسلام کی طرف متوجہ نہ ہونے دیا لیکن مسلمانوں سے جو سابقہ ان کو پیش آیا اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ خیالات، معلومات اور ترقی یافتہ طریقوں کے ایک وسیع دولت ان کے ہاتھ آئی اور وہی آخر کار ایک نئے دور کے آغاز کی موجب ہوئی۔
چودھویں صدی سے لے کر سولہویں صدی تک کا زمانہ یورپ کی تاریخ میں دور متوسط سے دور جدید کی طرف عبور کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں مغربی زندگی کا ہر پہلو ان اثرات کی وجہ سے حرکت میں آگیا جو بیرونی دنیا سے درآمد ہو رہے تھے، طبیعیات، طب، ریاضی، انجینئرنگ اور دوسرے شعبوں میں اہل مغرب کا علم بڑھنا شروع ہوا۔ پریس کی ایجاد نے اشاعتِ خیالاتِ اور اشاعتِ علم کی رفتار تیز کردی۔ علمی بیداری کے ساتھ لازماً ہر شعبۂ حیات میں تنقید و اصلاح کا سلسلہ چل پڑا۔ نئے فنون کی واقفیت نے صنعت، زراعت، تجارت اور عام طور پر پورے تمدن میں جان ڈال دی۔ پھر نئی جغرافی دریافتوں سے فکر و نظر میں بھی وسعت پیدا ہوگئی اور اس کے ساتھ اہل مغرب کے لیے دور دراز کے ملکوں میں ایسی منڈیاں بھی کھلنی شروع ہوگئیں جہاں وہ اپنے ملک کی مصنوعات اور خام پیداوار نکال سکیں اور دوسرے ملکوں کی مصنوعات اور خام پیداوار خرید سکیں۔ ان مواقع سے تجارت کا وہ بازار جو صدیوں سے سرد پڑا ہوا تھا، از سرِ نو گرم ہونے لگا۔ تمام رکاوٹوں کے باوجود یورپ کے اندر بھی اور باہر بھی سوداگروں کا کاروبار پھیلنا شروع ہوا۔ بڑے بڑے تجارتی چوراہوں پر شہر بستے اور بڑھتے چلے گئے۔ دولت، طاقت، ذہانت، تہذیب اورتمدن کا مرکز بتدریج جاگیروں اور ریاستوں کے قصباتی صدر مقامات سے ہٹ کر ان کے بڑے بڑے شہروں کی طرف سرکنے لگا جو تجارت اور صنعت اور جدید علمی و ادبی حرکت کے مرکز بن رہے تھے۔
اس نئی حرکت کے میرکارواں وہ ’’بورژوا‘‘ طبقہ کے لوگ (یعنی سوداگر، ساہوکار، اہل حرفہ اور بحری تجار وغیرہ) تھے جو ترقی کے ان مواقع سے مستفید ہورہے تھے، شہروں میں آباد تھے، باہر آمدورفت رکھتے تھے یا کم از کم باہر سے آنے والے اثرات کی زد میں تھے۔ ان کے اندر تغیر اور ترقی کی ایک لگن پیدا ہوچکی تھی۔ لیکن ان لوگوں کے ابھرنے اور آگے بڑھنے میں ہر طرف سے ان فکری، اخلاقی، مذہبی، معاشرتی اور سیاسی ومعاشی بندشوں نے سخت رکاوٹیں عائد کررکھی تھیں جو کلیسا اور جاگیرداری کے گٹھ جوڑ سے قائم ہوئی تھیں۔ زندگی کے جس شعبے میں بھی یہ لوگ صدیوں کے بنے اور جمے ہوئے دائرو ں سے قدم باہر نکالتے، پادری اور جاگیردار، دونوں مل کر ان کا راستہ روک لیتے تھے۔ اس بنا پر ان دونوں طاقتوں کے خلاف ایک ہمہ گیر کشمکش کا آغاز ہوا اور ایک چومکھی لڑائی ہر میدان میں چھڑ گئی۔ علم و ادب کے میدان میں کلیسا کے عائد کردہ ذہنی استبداد کو چیلنج کیا گیا اور آزادیِ فکر و تحقیق پر زور دیا گیا۔ معیشت اور معاشرت اور سیاست کے میدان میں جاگیر داروں کے اقتدار کو چیلنج کیا گیا اور ان سارے امتیازات کے خلاف آواز اٹھائی گئی جو نظام جاگیرداری کے تحت قائم تھے۔ آہستہ آہستہ یہ جنگ پرانے نظام کی پسپائی اور ان نوخیز طاقتوں کی پیش قدمی پر منتج ہوتی چلی گئی اور سولہویں صدی تک پہنچتے پہنچتے نوبت یہ آگئی کہ یورپ کے مختلف ملکوں میں چھوٹی چھوٹی جاگیرداریاں ٹوٹ ٹوٹ کر بڑی بڑی قومی ریاستوں میں جذب ہونے لگیں۔ یورپ کے روحانی تسلط کا طلسم ٹوٹ گیا۔ نئی قومی ریاستوں کے غیر مذہبی حکمرانوں نے کلیسا کی املاک ضبط کرنی شروع کردیں۔ ایک عالمگیر مذہبی نظام کو چھوڑ کر مختلف قوموں نے اپنے اپنے الگ قومی کلیسا بنانے شروع کردیئے جو قومی ریاستوں کے حریف یا شریک و سہیم ہونے کے بجائے ان کے دست نگر تھے اور اس طرح چرچ اور جاگیرداری کے مشترک غلبے کی بندشیں ٹوٹنے کے ساتھ ساتھ ’’بورژوا‘‘ طبقہ ان معاشرتی اور روایتی رکاوٹوں سے آزاد ہوتا چلا گیا جو اُس پرانے نظام نے اس کی راہ میں حائل کر رکھی تھیں۔

دور متوسط کا کالبرلزم

کلیسا اور جاگیرداری کے خلاف یہ جنگ جن نظریات کی بنا پر لڑی گئی ان کا سرعنوان تھا ’’لبرلزم‘‘ یعنی ’’وسیع المشربی‘‘۔ نئے دور کے علمبردار زندگی کے ہر شعبے اور فکروعمل کے ہر میدان میں وسعتِ مشرب، فیاضی، فراخ دلی اور کشادگی کا وعظ کہتے تھے، عام اس سے کہ وہ مذہب اور فلسفے اور علم و فن کے میدان ہوں یا معاشرت اور تمدن اور سیاست اور معیشت کے میدان۔ وہ ترقی پسند انسان کے راستے سے ہر طرف بندشوں اور رکاوٹوں اور تنگیوں اور سختیوں کو دور کردینا چاہتے تھے۔
اس کشمکش میں اگر اہل کلیسا اور جاگیرداروں کی تنگ خیالی ایک انتہا پر تھی تو ان بورژوا حضرات کی وسعت مشرب دوسری انتہا کی طرف چلی جارہی تھی۔ دونوں طرف خود غرضیاں کار فرما تھیں۔ حق اور انصاف اور علم صحیح اور فکر صالح سے دونوں کو کچھ واسطہ نہ تھا۔ ایک گروہ نے اگر بے اصل عقائد، نارواامتیازات اور زبردستی کے قائم کردہ حقوق کی مدافعت میں خدا اور دین اور اخلاق کا نام استعمال کیا تو دوسرے گروہ نے اس کی ضد میں آزاد خیالی اور وسیع المشربی کے نام سے مذہب و اخلاق کی ان صداقتوں کو بھی متزلزل کرنا شروع کردیا جو ہمیشہ سے مسلم چلی آرہی تھیں۔ یہی زمانہ تھا جس میں سیاست کا رشتہ اخلاق سے توڑا گیا اور میکیاویلی نے کھلم کھلا اس نظریے کی وکالت کی کہ سیاسی اغراض و مصالح کے معاملے میں اخلاقی اصولوں کا لحاظ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہی زمانہ تھا جس میں کلیسا اور جاگیرداری کے بالمقابل قومیت اور قوم پرستی اور قومی ریاست کے بت تراشے گئے اور اس فتنے کی بنا ڈالی گئی جس کی بدولت آج دنیا لڑائیوں اور قومی عداوتوں کا ایک کوہِ آتش فشاں بنی ہوئی ہے۔ اور یہی وہ زمانہ تھا جس میں پہلی مرتبہ سود کے جائز و مباح ہونے کا تخیل پیدا ہوا، حالانکہ قدیم ترین زمانے سے تمام دنیا کے اہل دین واخلاق اور علماء قانون اس چیز کی حرمت پر متفق تھے۔ صرف تورات اور قرآن ہی نے اس کو حرام نہیں ٹھیرایا تھابلکہ ارسطو اور افلاطون بھی اس کی حرمت کے قائل تھے۔ یونان اور روم کے قوانین میں بھی یہ چیز ممنوع تھی۔ لیکن نشاۃ ثانیہ کے دور میں جب بورژوا طبقے نے مسیحی کلیسا کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا تو پہلے سود کو ایک ناگزیر برائی کہنا شروع کیا گیا۔ یہاں تک کہ اس پر زور پروپیگنڈے سے مرعوب ہوکر مسیحی متجددین (Reformists) بھی اس کو انسانی کمزوری کے عذر کی بنا پر ’’اضطراراً‘‘ جائز ٹھیرانے لگے، پھر رفتہ رفتہ ساری اخلاقی گفتگو صرف شرح سود پر مرکوز ہوگئی اور ممتاز اہل فکر اپنا سارا زور اس بحث پر صرف کرنے لگے کہ سود کی شرح ’’معقول‘‘ ہونی چاہیے اور آخر کار یہ تخیل جڑ پکڑ گیا کہ مذہب و اخلاق کو کاروباری معاملات سے کیا غرض۔ معاشی حیثیت سے سود سراسر ایک فطری اور معقول چیز ہے جس طرح کرایۂ مکان کے خلاف کچھ نہیں کہا جاسکتا اسی طرح سود کے خلاف بھی کوئی عقلی دلیل موجود نہیں ہے۔
لطف یہ ہے کہ نشا ٔۃ ثانیہ ہی کے دور میں اس بورژوا طبقے نے اپنی اس وسیع المشربی کا صور پھونک پھونک کر پادریوں اور جاگیرداروں اور مالکان زمین کے قبضے سے جتنا میدان نکالا اس کے وہ تنہا خود ہی ’’حقدار‘‘ بنتے چلے گئے، ان کی وسیع المشربی نے ان کو یہ یاد نہ دلایا کہ ان سے فروتر ایک اور طبقہ عوام الناس کا بھی موجود ہے جو جاگیرداری نظام میں ان کی بہ نسبت زیادہ مظلوم تھا اور اب اس لبرل نظام کے فوائد میں سے وہ بھی حصہ پانے کا حق رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر جب انگلستان میں پارلیمینٹری طرز حکومت کی بنا پڑی اور پارلیمنٹ میں اصل اقتدار اُمراء (لارڈس) کے ہاتھ سے نکل کر ’’عوام‘‘ (کامنز) کے ہاتھ میں آیا تو اس سارے اقتدار کو ان وسیع المشرب بورژوا حضرات ہی نے اُچک لیا۔ جن دلائل سے انہوں نے اپنے لیے ووٹ کا حق حاصل کیا تھا وہ دلائل نچلے طبقے کے عوام کو ووٹ کا حق دینے سے انکار کرتے وقت ان کو یاد نہ آئے۔

صنعتی انقلاب

اٹھارویں صدی عیسوی میں مشین کی ایجاد نے اس انقلاب کی رفتار کو بدرجہا زیادہ تیز کردیا جس کی ابتدا نشاۃ ثانیہ کے دور میں ہوئی تھی۔ نئی سائنٹفک معلومات اور ایجادات کو جب صنعت و حرفت، زراعت اور وسائل آمدورفت کی ترقی میں استعمال کیا گیا تو اتنے بڑے پیمانے پر مصنوعات کی تیاری، خام پیداوار کی فراہمی اور دنیا کے گوشے گوشے میں تیار مال کی کھپت کا سلسلہ چل پڑا جس کا تصور بھی اس سے پہلے کبھی نہ کیا گیا تھا۔
اس عظیم الشان انقلاب نے ترقی، خوشحالی اور قوت و اقتدار کے جن مواقع کا دروازہ کھولا ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے قریب ترین گروہ اگر کوئی تھا تو وہی ’’بورژوا‘‘ گروہ تھا جو نشا ٔۃِ ثانیہ کے دور میں ابھر آیا تھا کیونکہ صنعت وتجارت اسی کے ہاتھ میں تھی، سرمایہ بھی اسی کے پاس تھا اور علم و ادب پر بھی وہی چھایا ہوا تھا۔ اس نے سرمایہ اور فنی قابلیت اور تنظیمی صلاحیت، تینوں کے اشتراک سے صنعت اور کاروبار کا ایک نیا نظام بنا کھڑا کیا جسے ’’جدید نظام سرمایہ داری‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس نظام کے تحت شہرو ں میں بڑے بڑے کارخانے اور تجارتی ادارے قائم ہوئے۔ پیشہ ور برادریوں کے پرانے حلقے ٹوٹ گئے۔ چھوٹے چھوٹے کارخانوں اور منفرد کاریگروں اور چھوٹی پونجی والے دکانداروں کے لیے دائرۂ زندگی تنگ ہوگیا۔ دیہات و قصبات کے پیشہ ور لوگ مجبور ہوگئے، شہروں میں آئیں اور ان بڑے کارخانہ داروں کے دروازے پر مزدور کی حیثیت سے جا کھڑے ہوں اور چھوٹے موٹے سوداگر اور کاروباری لوگ بھی مجبور ہوگئے کہ ان بڑے صناعوں اور تاجروں کی ملازمت یا ایجنسی قبول کرلیں۔ اسی طرح سائنس کی نئی دریافتوں سے جو طاقت آئی تھی اسے بورژوا طبقے نے اچک لیا اور اپنی فتوحات کا دائرہ پھیلانا شروع کردیا۔
اس دائرے کے پھیلائو میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ قومی ریاستیں تھیں جو نشأۃِ ثانیہ کی تحریک کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان ریاستوں کے مطلق العنان بادشاہ ’’خدا داد حق‘‘ کے مدعی تھے۔ سابق جاگیرداری نظام کے امراء ان بادشاہوں کی ’’پائیگاہ‘‘ بن گئے تھے اور قومی کلیسا ان کے لیے مذہبی و روحانی پشت پناہ تھے۔ سارا سیاسی اقتدار اسی ثلیث کے قبضے میں تھا اور بورژوا طبقے کے لیے اس تثلیث کی فرمانروائی طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کرتی تھی۔ اس کی ڈالی ہوئی رکاوٹیں نہ صرف صنعت اور تجارت کے میدان میں اس طبقے کی پیش قدمی کو روکتی تھیں بلکہ تمدن اور معاشرت میں بھی دور جاگیر داری کے وہ بہت سے باقیات ابھی موجود تھے جو اس نو خیز طبقے کو ناگوار تھے۔

جدید لبرلزم

اس دور میں وہی ’’لبرلزم‘‘ جس نے پچھلی لڑائی جیتی تھی، نئے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر اٹھا اور اس نے سیاسیات میں جمہوریت کا تمدن ومعاشرت ادب و اخلاق میں انفرادی آزادی کا اور معاشیات میں بے قیدی (Laissez Faire Policy) کا صور پھونکنا شروع کیا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ چرچ ہو یا اسٹیٹ یا سوسائٹی، کسی کو بھی فرد کو سعی ارتقاء اور سعی انتفاع میں رکاوٹیں عائد کرنے کا حق نہیں ہے۔ ہر شخص کو بالکل آزادی کے ساتھ یہ موقع حاصل ہونا چاہیے کہ اپنی قوتوں اور قابلیتوں کو اپنے رجحانات کے مطابق استعمال کرے اور جتنا آگے بڑھ سکتا ہے بڑھتا چلا جائے۔ خود سوسائٹی کے مفاد کی بھی بہترین خدمت اسی طرح ہوسکتی ہے کہ اس کے ہر فرد کو غیر محدود آزادی حاصل ہو ۔ ہر شعبہ حیات اور ہر راہ عمل میں مکمل آزادی، ہر خارجی رکاوٹ سے ہر رسمی قید سے، ہر مذہبی و اخلاقی بندش سے اور ہر قانونی یا اجتماعی مداخلت سے پوری آزادی۔
اس طرح اس نظریے کے حامیوں نے ہر طرف رواداری، بے قیدی، اباحیت، انفرادیت اور قصہ مختصر یہ کہ اپنی اصطلاح خاص میں ’’معقولیت‘‘ کو برسرکار لانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔
سیاسیات میں ان کا مطالبہ یہ تھا کہ حکومت کے اختیارات کم سے کم ہوں اور فرد کی آزادی کے حدود زیادہ سے زیادہ۔ حکومت صرف ایک عدل قائم کرنے والی ایجنسی ہو جو افراد کو ایک دوسرے کے حدود میں دخل انداز ہونے سے روکتی رہے اور انفرادی آزادی کی حفاظت کرے۔ باقی رہی تمدنی و معاشی زندگی، تو اس کا سارا کاروبار افراد کی آزادانہ سعی و عمل اور فکر و تدبیر کے بل پر چلنا چاہیے۔ اس میں حکومت کو نہ عامل کی حیثیت ہی سے دخل دینے کی کوئی ضرورت ہے اور نہ رہنما ہی کی حیثیت سے۔ اس کے ساتھ سیاسیات میں وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ حکمرانی کا اقتدار نہ تو کسی شاہی خاندان کی مِلک رہے اور نہ چند زمیندار گھرانوں کا اجارہ بن کر رہ جائے۔ ملک عام باشندوں کا ہے۔ حکومت کا سارا کاروبار انہی کے دیئے ہوئے ٹیکسوں سے چلتا ہے، لہٰذا انہی کی رائے سے حکومتیں بننی اور ٹوٹنی اور بدلنی چاہئیں اور انہی کی آواز کو قانون سازی اور نظم و نسق میں فیصلہ کن اثر حاصل ہونا چاہیے۔ یہی نظریات ان جدید جمہوریتوں کی بنیاد بنے جو اٹھارویں صدی کے آخر سے دنیا میں قائم ہونی شروع ہوئیں۔ معاشیات میں جس اصول پر انہوں نے زور دیا وہ یہ تھا کہ اگر فطری قوانین معیشت کو خارجی مداخلت اور خلل اندازی کے بغیر خود کام کرنے دیا جائے تو افراد کی انفرادی کوششوں سے آپ ہی آپ اجتماعی فلاح کی بڑی سے بڑی خدمت انجام پاتی چلی جائے گی۔ پیداوار زیادہ سے زیادہ ہوگی اور اس کی تقسیم بھی بہتر سے بہتر طریقے پر ہوتی رہے گی۔ بشرطیکہ لوگوں کو سعی و عمل کی آزادی حاصل رہے اور حکومت اس فطری عمل میں مصنوعی طور پر مداخلت نہ کرے۔ بے قید معیشت کا یہی اصول (Free enterprise) جدید نظام سرمایہ داری کا بنیادی فارمولا قرار پایا۔
اس میں شک نہیں کہ نشاۃ جدیدہ کے دور کی وسیع المشربی کی طرح یہ صنعتی انقلاب کے دور کی وسیع المشربی بھی اپنے اندر صداقت کے کچھ عناصر رکھتی تھی اور یہی عناصر آخرکار اس کی فتح یابی کے موجب ہوئے لیکن یہاں پھر مغربی ذہن کی وہی دو بنیادی کمزوریاں اس صداقت کے ساتھ لگی ہوئی تھیں جن کو پاپائی و جاگیرداری کے دور سے ہم برابر کارفرما دیکھتے چلے آرہے ہیں یعنی خود غرضی اور انتہا پسندی۔
خود غرضی کا کرشمہ یہ تھا کہ ان میں سے اکثر کے مطالبۂ حق و انصاف میں کوئی خلوص نہ تھا۔ جو صحیح اصول وہ پیش کرتے تھے ان کی اصل محرک حق پسندی نہ تھی بلکہ صرف یہ بات تھی کہ وہ ان کی اغراض کے لیے مفید تھے اور اس کا ثبوت یہ تھا کہ وہ جن حقوق کا خود اپنے لیے مطالبہ کرتے تھے وہی حقوق اپنے مزدوروں او رنادار عوام کو دینے کے لیے تیار نہ تھے۔
رہی انتہا پسندی، تو وہ ان کے مخلص اہلِ علم اور اہلِ قلم حضرات کی بات بات میں نمایاں تھی۔ چند صداقتوں کو انہوں نے لیا اور انہیں ان کی حد سے بہت زیادہ بڑھا دیا۔ چند دوسری صداقتوں کو انہوں نے نظر انداز کردیا۔ اور زندگی میں جو مقام ان کے لیے تھا اس میں بھی اپنی منظور نظر صداقتوں کو لا بٹھایا حالانکہ ہر صداقت اپنی حد سے نکل جانے کے بعد جھوٹ بن جاتی ہے اور الٹے نتائج دکھانے لگتی ہے۔ یہ افراط و تفریط اس نظام حیات کے سارے ہی گوشوں میں پائی جاتی ہے۔ جو ’’بے قیدی‘‘، ’’انفرادیت‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کے ان نظریات کے زیر اثر مرتب ہوا۔ لیکن اس وقت ہمارا موضوع چونکہ خاص طور پر معیشت کا گوشہ ہے اس لیے ہم دوسرے گوشوں کو چھوڑتے ہوئے صرف اسی گوشے کا جائزہ لے کر یہ دکھائیں گے کہ فطری قوانینِ معیشت کے ساتھ خود غرضی اور انتہا پسندی کی آمیزش سے کس قسم کا غیر متوازن نظامِ معاشی ان لوگوں نے بنایا اور اس سے کیا نتائج برآمد ہوئے۔

جدید نظام سرمایہ داری

جیسا کہ ہم ابھی اشارہ کر چکے ہیں، بے قید معیشت کے ’’وسیع المشرب‘‘ نظریے پر جس معاشی نظام کی عمارت اٹھی اس کا نام اصطلاح میں جدید نظام سرمایہ داری (Modern Capitalism) ہے۔
بے قید معیشت کے اصول
اس نظام کے بنیادی اصول حسب ذیل ہیں:

1۔ شخصی ملکیت کا حق

صرف انہی اشیاء کی ملکیت کا حق نہیں جنہیں آدمی خود استعمال کرتا ہے مثلاً کپڑے، برتن، فرنیچر، مکان، سواری، مویشی وغیرہ بلکہ ان اشیاء کی ملکیت کا حق بھی جن سے آدمی مختلف قسم کی اشیاء ضرورت پیدا کرتا ہے تاکہ انہیں دوسروں کے ہاتھ فروخت کرے مثلاً مشین، آلات، زمین، خام مواد وغیرہ۔ پہلی قسم کی چیزوں پر تو بلا نزاع ہر نظام میں انفرادی حقوق ملکیت تسلیم کئے جاتے ہیں لیکن بحث دوسری قسم کی اشیاء یعنی ذرائع پیداوار کے معاملہ میں اٹھ کھڑی ہوئی ہے کہ آیا ان پر بھی انفرادی ملکیت کا حق جائز ہے یا نہیں۔ نظام سرمایہ داری کی اولین امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اس حق کو تسلیم کرتا ہے بلکہ در حقیقت یہی حق اس نظام کا سنگ بنیاد ہے۔

2 ۔آزادیِ سعی کا حق

یعنی افراد کا یہ حق وہ فرداً فرداً یا چھوٹے بڑے گروہوں کی شکل میں مل کر اپنے ذرائع کو جس میدان عمل میں چاہیں استعمال کریں۔ اس کوشش کے نتیجے میں جو فوائد حاصل ہوں، یا جو نقصانات پہنچیں دونوں انہی کے لیے ہیں۔ نقصان کا خطرہ بھی وہ خود ہی برداشت کریں گے اور ان کے فائدے پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔ ان کو پوری آزادی ہے کہ اپنی پیداوار اور اشیاء کی تیاری کو جس قدر چاہیں بڑھائیں یا گھٹائیں، اپنے مال کی جو قیمت چاہیں رکھیں، جتنے آدمیوں سے چاہیں، اجرت پر یا تنخواہ پر کام لیں اپنے کاروبار کے سلسلے میں جو شرائط اور ذمہ داریاں چاہیں قبول کریں اور جو ضابطے چاہیں بنائیں۔ بائع اور مشتری، اجیر اور مستاجر، مالک اور نوکر کے درمیان کاروبار کی حد تک سارے معاملات آزادانہ طے ہونے چاہئیں اور جن شرائط پر بھی ان کی باہمی قرارداد ہو جائے اسے نافذ ہونا چاہیے۔

3۔ ذاتی نفع کا محرکِ عمل ہونا

نظام سرمایہ داری اشیاء ضرورت کی پیداوار اور ترقی کے لیے جس چیز پر انحصار کرتا ہے وہ فائدے کی طمع اور نفع کی امید ہے جو ہر انسان کے اندر فطرۃً موجود ہے اور اس کو سعی و عمل پر ابھارتی ہے۔ نظام سرمایہ داری کے حامی کہتے ہیں کہ انسانی زندگی میں اس سے بہتر بلکہ اس کے سوا کوئی دوسرا محرک عمل فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ آپ نفع کے امکانات کھلے رکھئے اور ہر شخص کو موقع دیجیے کہ اپنی محنت و قابلیت سے جتنا کما سکتا ہے کمائے، ہر شخص خود زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر کام کرنے کی کوشش کرنے لگے گا۔ اس طرح آپ سے آپ پیداوار بڑھے گی، اس کا معیار بھی بلند ہوتا چلا جائے گا، تمام ممکن ذرائع و وسائل استعمال میں آتے چلے جائیں گے، اشیاء ضرورت کی بہم رسانی کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جائے گا اور ذاتی نفع کا لالچ افراد سے اجتماعی مفاد کی وہ خدمت خود ہی لے لے گا جو کسی دوسری طرح ان سے نہیں لی جاسکتی۔

4۔ مقابلہ اور مسابقت

نظام سرمایہ داری کے وکلاء کہتے ہیں کہ یہی وہ چیز ہے جو بے قید معیشت میں افراد کی خود غرضی کو بے جا حد تک بڑھنے سے روکتی ہے اور ان کے درمیان اعتدال و توازن قائم کرتی رہتی ہے۔ یہ انتظام فطرت نے خود ہی کر دیا ہے۔ کھلے بازار میں جب ایک ہی جنس کے بہت سے تیار کرنے والے، بہت سے سوداگر اور بہت سے خریدار ہوتے ہیں تو مقابلے میں آکر کسرو انکسار سے خود ہی قیمتوں کا ایک ہی مناسب معیار قائم ہوجاتا ہے اور نفع اندوزی نہ مستقل طور پر حد سے بڑھنے پاتی ہے نہ حد سے گھٹ سکتی ہے۔ اتفاقی اتار چڑھائو کی بات دوسری ہے۔ علیٰ ہذا القیاس کام کرنے والے اور کام لینے والے بھی اپنی اپنی جگہ مقابلہ کی بدولت خود ہی اجرتوں اور تنخواہوں کے متوازن معیار قائم کرتے رہتے ہیں بشرطیکہ مقابلہ کھلا اور آزادانہ ہو، کسی قسم کی اجارہ داریوں سے اس کو تنگ نہ کردیا جائے۔

5۔اجیر اورمستاجر کے حقوق کا فرق

نظام سرمایہ داری میں ہر کاروباری ادارے کے کارکن دو فریقوں پر منقسم ہوتے ہیں۔ ایک مالک، جو اپنی ذمہ داری پر کسی تجارت یا صنعت کو شروع کرتے ہیں اور چلاتے ہیں اور آخر تک اس کے نفع و نقصان کے ذمہ دار رہتے ہیں۔ دوسرے مزدور یا ملازم جن کو نفع و نقصان سے کچھ سروکار نہیں ہوتا، وہ بس اپنا وقت اور اپنی محنت و قابلیت اس کاروبار میں صرف کرتے ہیں اور اس کی ایک طے شدہ اُجرت لے لیتے ہیں۔ بسا اوقات کاروبار میں مسلسل نقصان آتا رہتا ہے مگر اجیر اپنی اجرت لیے جاتا ہے۔ بسا اوقات کاروبار بالکل بیٹھ جاتا ہے جس میں مالک تو بالکل برباد ہوجاتا ہے مگر اجیر کے لیے بس اتنا فرق پڑتا ہے کہ آج اس دکان یا کارخانے میں کام کر رہا تھا تو کل دوسری جگہ جا کھڑا ہوا۔ نظام سرمایہ داری کے حامی کہتے ہیں کہ معاملے کی یہ نوعیت آپ ہی یہ بات طے کردیتی ہے کہ ازروئے انصاف کاروبار کا منافع اس کا حصہ ہے جس کے حصے میں کاروبار کا نقصان آتا ہے اور جو کاروبار کا خطرہ مول لیتا ہے۔ رہا اجیر، تو وہ اپنی مناسب اجرت لینے کا حق دار ہے جو معروف طریقے پر اس کے کام کی نوعیت اور مقدار کے لحاظ سے مارکیٹ کی شرح کے مطابق طے ہوجائے۔ اس اجرت کو نہ تو اس دلیل کی بنا پر بڑھنا ہی چاہیے کہ کاروبار میں منافع ہورہا ہے اور نہ اس دلیل سے گھٹنا چاہیے کہ کاروبار میں نقصان آرہا ہے۔ اجیر کا کام اس کو طے شدہ اجرت کا بہرحال مستحق بناتا ہے اور بس طے شدہ اجرت ہی کا مستحق بناتا ہے۔ ان اجرتوں میں کمی بیشی اگر ہوگی تو اس فطری قانون کے تحت ہوتی رہے گی جس کے تحت دوسری تمام اشیاء کی قیمتیں گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں۔ کام لینے والے کم اور کام کے خواہشمند زیادہ ہوں گے تو اجرتیں آپ سے آپ کم ہوں گی۔ کام کرنے والے کم اور کام لینے والے زیادہ ہوں گے تو اجرتیں خود بڑھ جائیں گی۔ اچھے اور ہوشیار کارکن کا کام آپ سے آپ زیادہ اجرت لائے گا اور کاروبار کا مالک خود اپنے ہی فائدے کی خاطر اس کو انعام اور ترقی دے دے کر خوش کرتا رہے گا۔ خود کارکن بھی جیسی کچھ اجرت پائے گا ویسی ہی وہ کاروبار کی ترقی و بہتری میں جان لڑائے گا۔ مالکوں کی خواہش فطرۃً یہ ہوگی کہ لاگت کم سے کم اور منافع زیادہ سے زیادہ ہو، اس لیے وہ اجرتیں کم رکھنے پر مائل ہوں گے۔ کارکن فطرۃً یہ چاہیں گے کہ ان کی ضروریات زیادہ سے زیادہ فراغت کے ساتھ پوری ہوں اور ان کا معیار زندگی بھی کچھ نہ کچھ بلند ہوتا رہے، اس لیے وہ ہمیشہ اجرتیں بڑھوانے کے خواہشمند رہیں گے۔ اس تضاد سے ایک گونہ کشمکش پیدا ہونی ایک قدرتی بات ہے لیکن جس طرح دنیا کے ہر معاملے میں ہوا کرتا ہے اس معاملے میں بھی فطری طور پر کسرو انکسار سے ایسی اجرتیں طے ہوتی رہیں گی جو فریقین کے لیے قابل قبول ہوں۔

6۔ ارتقاء کے فطری اسباب پر اعتماد

نظام سرمایہ داری کے وکیل کہتے ہیں کہ جب کاروبار میں منافع کا سارا انحصار ہی اس پر ہے کہ لاگت کم اور پیداوار زیادہ ہو، تو کاروباری آدمی کو اس کا اپنا ہی مفاد اس بات پر مجبور کرتا رہتا ہے کہ پیداوار بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ بہتر سائنٹیفک طریقے اختیار کرے، اپنی مشینوں اور آلات کو زیادہ سے زیادہ اچھی حالت میں رکھے، خام مواد بڑی مقدار میں کم قیمت پر حاصل کرے اور اپنے کاروبار کے طریقوں کو اور اپنی تنظیمات کو ترقی دینے میں ہر وقت دماغ لڑاتا رہے۔ یہ سب کچھ کسی بیرونی مداخلت اور مصنوعی تدبیر کے بغیر، بے قید معیشت کی اندرونی منطق خود ہی کراتی چلی جاتی ہے۔ فطرت کے قوانین کثیر التعداد منتشر افراد اور گروہوں کی انفرادی سعی و عمل سے اجتماعی ترقی اور خوشحالی کا وہ کام آپ ہی آپ لیتے رہتے ہیں جو کسی اجتماعی منصوبہ بندی سے اتنی خوبی کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔ یہ فطرت کی منصوبہ بندی ہے جو غیر محسوس طور پر عمل میں آتی ہے۔

7 ۔ریاست کی عدم مداخلت

اس نظام کے حامیوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا اصولوں پر سوسائٹی کی فلاح و بہبود کا بہترین کام اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب کہ افراد کو بلا کسی قید و بند کے آزادانہ کام کرنے کا موقع حاصل ہو۔ فطرت نے معاشی قوانین میں ایک ایسی ہم آہنگی رکھ دی ہے کہ جب وہ سب مل جل کر کام کرتے ہیں تو نتیجے میں سب کی بھلائی حاصل ہوتی ہے حالانکہ ایک فرد اپنے ہی ذاتی نفع کے لیے سعی کر رہا ہوتا ہے جیسا کہ اوپر دکھایا جاچکا ہے، جب افراد کو اپنی سعی کا صلہ غیر محدود منافع کی شکل میں ملتا نظر آتا ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ دولت پیدا کرنے کے لیے اپنی ساری قوت و قابلیت صرف کر دیتے ہیں۔ اس سے لامحالہ سب لوگوں کے لیے اچھے سے اچھا مال وافر سے وافر مقدار میں تیار ہوتا ہے، کھلے بازار میں جب تاجروں اور صناعوں اور خام پیداوار بہم پہنچانے والوں کا مقابلہ ہوتا ہے تو قیمتوں کا اعتدال آپ سے آپ قائم ہوتا ہے، اشیاء کا معیار آپ سے آپ بلند ہوتا جاتا ہے اور خود ہی معلوم ہوتا رہتا ہے کہ سوسائٹی کو کن چیزوں کی کتنی ضرورت ہے۔ اس سارے کاروبار میں ریاست کا کام یہ نہیں ہے کہ پیدائش دولت کے فطری عمل میں خواہ مخواہ مداخلت کرکے اس کا توازن بگاڑے، بلکہ اس کا کام صرف یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا کرے جن میں انفرادی آزادی عمل زیادہ سے زیادہ محفوظ ہوسکے۔ اسے امن اور نظم قائم کرنا چاہیے، حقوق ملکیت کی حفاظت کرنی چاہیے، معاہدوں کو قانون کے زور سے پورا کرنا چاہیے اور بیرونی حملوں، مزاحمتوں اور خطروں سے ملک کو اور ملک کے کاروبار کو بچانا چاہیے۔ ریاست کا منصب یہ ہے کہ منصف اور نگران اور محافظ کی خدمت انجام دے، نہ یہ کہ خود تاجر اور صناع اور زمیندار بن بیٹھے، یا تاجروں اور صناعوں اور زمینداروں کو اپنی بار بار کی خلل اندازی سے کام نہ کرنے دے۔

خرابی کے اسباب

یہ تھے وہ اصول جن کو پورے زور شور کے ساتھ جدید سرمایہ داری کی پیدائش کے زمانے میں پیش کیا گیا اور چونکہ ان کے اندر کسی حد تک مبالغہ کے باوجود صداقت پائی جاتی تھی، اس لیے ان کو بالعموم دنیا بھر سے تسلیم کرا لیا گیا۔ در حقیقت ان میں نئی بات کوئی بھی نہ تھی۔ ساری باتیں وہی تھیں جن پر غیر معلوم زمانے سے انسانی معیشت کا کاروبار انجام پاتا چلا آرہا تھا۔ جدت اگر تھی تو اس مبالغہ آمیز شدت میں تھی جو بعض اصولوں کو صنعتی انقلاب کے دور کی معیشت پر چسپاں کرنے میں بورژوا حضرات نے اختیار کی۔ مزید برآں انہوں نے اپنا سارا نظام صرف ان فطری اصولوں ہی پر نہیں اٹھایا جن کا اوپر ذکر ہوا ہے بلکہ ان کے ساتھ کچھ غلط اصولوں کی آمیزش بھی کردی۔ پھر انہوں نے بعض دوسرے ایسے اصولوںکو نظرانداز بھی کردیا جو ایک فطری نظام معیشت کے لیے اتنے ہی اہم ہیں جتنے آزاد معیشت کے مذکورہ بالا اصول۔ اس کے ساتھ انہوں نے اپنی خود غرضیوں سے خود اپنے ہی پیش کردہ بعض اصولوں کی نفی بھی کردی۔ یہی چاروں چیزیں مِل جل کر ان خرابیوں کی موجب ہوئیں جو بالآخر جدید سرمایہ داری میں پیدا ہوتی چلی گئیں اور اس حد تک بڑھیں کہ دنیا میں اس کے خلاف ایک عام شورش برپا ہوگئی۔
مختصراً ہمیں ان اسباب خرابی کا بھی جائزہ لے لینا چاہیے:
-1 بے قید معیشت کی حمایت میں جن ’’فطری قوانین‘‘ کا یہ لوگ بار بار حوالہ دیتے رہے ہیں وہ اس مبالغہ کی حد تک صحیح نہیں ہیں جو ان لوگوں نے نہ صرف اپنے بیان میں بلکہ اپنے عمل میں برتنا چاہا۔ لارڈ کنیز نے بالکل سچ کہا ہے کہ ’’دنیا پر اخلاقی و فطری قوانین کی ایسی مضبوط حکومت قائم نہیں ہے جس کے زور سے افراد کے ذاتی مفاد اور سوسائٹی کے اجتماعی مفاد میں ضرور آپ ہی آپ موافقت ہوتی رہے۔ معاشیات کے اصولوں سے یہ استنباط کوئی صحیح استنباط نہیں کہ روشن خیال خود غرضی ہمیشہ اجتماعی فلاح و بہبود ہی کے لیے کوشش کیا کرتی ہے اور یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ خود غرضی ہمیشہ روشن خیال ہی ہوا کرتی ہے۔ اکثر تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو لوگ انفرادی طور پر اپنی اغراض کے لیے جدوجہد کرتے ہیں وہ اس قدر نادان یا کمزور ہوتے ہیں کہ وہ خود اپنی اغراض کو بھی پورا نہیں کرسکتے کجا کہ ان کے ہاتھوں اجتماعی مفاد کی خدمت ضرور اور ہمیشہ انجام پاتی رہے۔‘‘
صرف یہی نہیں کہ یہ مبالغہ آمیز باتیں عقلاً صحیح نہ تھیں بلکہ تجربہ سے خود بورژوا سرمایہ داروں کے اپنے عمل نے ثابت کردیا کہ ان کی خود غرضی روشن خیال نہیں تھی۔ انہوں نے خریدار پبلک، اجرت پیشہ کارکن اور پرامن حالات پیدا کرنے والی حکومت، تینوں کے مفاد کے خلاف جتھہ بندی کی اور باہم یہ سازش کرلی کہ صنعتی انقلاب کے سارے فوائد خود لوٹ لیں گے۔ ان کی اس باہمی ساز بار نے ان کی اس سب سے بڑی دلیل کو خود ہی توڑ دیا جو وہ آزاد معیشت کے حق میں پیش کرتے تھے، یعنی یہ کہ فطرۃً کسر و انکسار سے خود ہی سب لوگوں کے درمیان منفعت کا توازن قائم ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آخر کار آدم سمتھ جیسے شخص کو بھی، جو آزاد معیشت کا سب سے بڑا وکیل تھا یہ کہنا پڑا کہ:
’’کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ جب کاروباری لوگ کہیں باہم جمع ہوں اور ان کی صحبت پبلک کے خلاف کسی سازش پر اور قیمتیں چڑھانے کے لیے کسی قرارداد پر ختم نہ ہو۔ حد یہ ہے کہ تقریبات تک میں مل بیٹھنے کا جو موقع مل جاتا ہے اس کو بھی یہ حضرات اس جرم سے خالی نہیں جانے دیتے۔‘‘
اسی طرح شخصی ملکیت اور آزادی سعی کے بارے میں ان کے یہ دعوے بھی بالکل مبالغہ آمیز تھے کہ ان عنوانات کے تحت افراد کو کچھ ایسے حقوق حاصل ہیں جن پر کوئی حد عائد نہ ہونی چاہیے۔ ایک شخص اپنی ملکیت میں اگر ایسے طریقے سے تصرف کرتا ہے جس سے ہزار ہا آدمیوں کی معیشت متاثر ہوجاتی ہے یا ایک آدمی اگر اپنے ذاتی نفع کے لیے سعی وعمل کی کوئی ایسی راہ نکالتا ہے جس سے پوری سوسائٹی کی صحت یا اخلاق یا عافیت پر برا اثر پڑتا ہے توآخر کیا وجہ ہے کہ اس کو ان کاموں کے لیے کھلی چھٹی دے دی جائے اور قانون ایسے حدود عائد نہ کرے جن سے اس کے انفرادی حقوق کا استعمال اجتماعی مفاد کے لیے مضر نہ ہونے پائے۔ حکومت کی عدم مداخلت کے مضمون کو ان لوگوں نے اس کی جائز حد سے اتنا زیادہ بڑھا دیا کہ وہ برے نتائج پیدا کئے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ جب طاقتور افراد جتھہ بندی کرکے کثیر التعداد لوگوں سے ناجائز فائدے اٹھانے لگیں اور حکومت یا تو تماشہ دیکھتی رہے یا خود ان طاقتورافراد ہی کے مفاد کی حفاظت کرنے لگے، تو اس کا لازمی نتیجہ شورش ہے اور شورش جب برپا ہوجاتی ہے تو ہمیشہ اپنے ظہور کے لیے معقول راستوں ہی کی پابندی نہیں کیا کرتی۔
-2 خصوصیت کے ساتھ صنعتی انقلاب کے دور میں بے قید معیشت کے اصولوں کا اتنا سخت مبالغہ اور بھی زیادہ غلط تھا۔ صنعتی انقلاب کی وجہ سے طریق پیداوار میں جو بنیادی تغیر واقع ہوگیا تھا وہ یہ تھا کہ پہلے جو کام انسانی اور حیوانی طاقت سے کئے جاتے تھے اب ان کے لیے مشین کی طاقت استعمال کی جانے لگی۔ ایک مشین لگا لینے کے معنی یہ ہوگئے کہ دس آدمی وہ کام کرنے لگیں جو پہلے ہزار آدمی کرتے تھے۔ اس طریق پیداوار کی عین فطرت میں یہ چیز شامل ہے کہ وہ چند انسانوں کو کام پر لگا کر ہزاروں انسانوں کو بے کار کردیتا ہے۔ ایسے ایک طریقے کے متعلق ملکیت اور آزادی سعی کے مطلق حقوق کا دعویٰ اور حکومت کی عدم مداخلت کا مطالبہ اصولاً بالکل بے جا تھا۔ آخر یہ کس طرح جائز ہوسکتا تھا کہ ایک شخص یا گروہ محض اس وجہ سے کہ وہ ایسا کرنے کے ذرائع رکھتا ہے ایک خاص قسم کا مال تیار کرنے کے لیے اچانک ایک بڑا کارخانہ قائم کردے اور اس کی کچھ پروا نہ کرکے کہ اس کی اس حرکت سے پورے علاقے کے ان ہزار ہا آدمیوں کے روزگار پر کیا اثر پڑتا ہے جو پہلے اپنے گھروں اور دکانوں میں یا دستی کاریگری کی چھوٹی چھوٹی فیکٹریوں میں بیٹھے وہی مال تیار کررہے تھے؟ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مشین کی طاقت کو صنعت میں استعمال نہ ہونا چاہیے تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اس طاقت کے استعمال کی اندھا دھند اجازت نہ ہونا چاہیے تھی اور حکومت کو اول روز ہی سے یہ فکر کرنی چاہیے تھی کہ ساتھ ساتھ ان لوگوں کے روزگار کا بندوبست بھی ہوتا جائے جن کو یہ نئی صنعتی طاقت بیکار کررہی تھی۔ چونکہ ایسا نہیں ہوا اسی وجہ سے مشینی طریق پیداوار کے وجود میں آتے ہی انسانی سوسائٹی میں بےروزگاری کا ایک مستقل مسئلہ اتنے بڑے پیمانے پر پیدا ہوگیا جس سے تاریخ پہلے کبھی آشنا نہ ہوئی تھی۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ بیروز گاری کسی ایک مسئلے کا نام نہیں ہے بلکہ وہ انسان کی مادی، روحانی، اخلاقی اور تمدنی زندگی کے بے شمار پیچیدہ مسائل کا مورث اعلیٰ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک فرد یا چند افراد کو کیا حق ہے کہ اپنی ملکیت میںایسے طریقہ سے تصریف کریں جس سے اجتماعی زندگی میں اتنی زبردست پیچیدگیاں پیدا ہوجائیں؟ اور اس طرح کے تصرف کے بارے میں کوئی مرد عاقل یہ کیسے دعویٰ کرسکتا ہے کہ یہ افراد کی وہ روشن خیال خود غرضی ہے جو آپ سے آپ اجتماعی مفاد کی خدمت کرتی رہتی ہے؟ اور ایسے انفرادی تصرفات کے معاملہ میں یہ خیال کرنا کتنی بڑی حماقت ہے کہ ان کا کھلا لائسنس دے کر قومی حکومت کو خاموش بیٹھ جانا چاہیے اور ان کے اثرات کی طرف سے آنکھیں بند کرلینی چاہییں جو ایک قلیل التعداد گروہ کی کارروائیوں سے پوری قوم کی زندگی پر پڑ رہے ہوں؟
-3 پھر اس طریق پیداوار نے جب ہزار ہا بلکہ لکھوکھا آدمیوں کو بیروزگار کردیا اور وہ مجبور ہوگئے کہ اپنے دیہات اور قصبات سے اور اپنے محلوں اور گلیوں سے نکل کل کر ان بڑے کارخانہ داروں اور تاجروں کے پاس مزدوری یا نوکری تلاش کرتے ہوئے آئیں تو لامحالہ اس کا نتیجہ یہی ہونا چاہیے تھا اور یہی ہوا کہ یہ بھوکے مرتے ہوئے طالبین روزگار ان کم سے کم اجرتوں پر کام کرنے کے لیے مجبور ہوگئے جو سرمایہداروں نے ان کے سامنے پیش کیں۔ کام ان سب کو نہ ملا، بلکہ قابل کار آدمیوں کا ایک حصہ مستقلاً بے کار رہا۔ پھر جنہیں کام ملا وہ بھی اس اپوزیشن میں نہ تھے کہ سرمایہ دار سے سودا چکا کر بہتر شرائط منوا سکتے کیونکہ وہ تو خود طالب روزگار ہو کر آئے تھے، سرمایہ دار کی پیش کردہ شرائط قبول نہ کرتے تو شام کی روٹی تک کا بندوبست ان کے پاس نہ تھا اور اس پر بھی کچھ اکڑ دکھاتے تو دوسرے ہزاروں بھوکے جھپٹ کر انہی شرائط پر یہ روزگار اچک لینے کے لیے تیار تھے۔ اس طرح بورژوا حضرات کا وہ سارا استدلال غلط ثابت ہوگیا جو وہ اس اصول کے حق میں پیش کرتے تھے کہ کھلے مقابلے میں اجیر اور مستاجر کے درمیان کسر و انکسار سے مناسب اور منصفانہ اجرتیںآپ ہی آپ طے ہوتی رہتی ہیں۔ اس لیے کہ یہاں حقیقت میں مقابلے کے ساتھ اس کے ’’کھلے ہوئے‘‘ کی شرط مفقود تھی۔ یہاں یہ صورت تھی کہ ایک آدمی نے ہزاروں آدمیوں کا رزق چھین کر پہلے اپنے قابو میں کرلیا اور جب وہ بھوک سے تڑپ کر اس کے پاس آئے تو وہ ان سب کو نہیں بلکہ اس کے صرف دسویں یا بیسویں حصہ کو کام دینے پر راضی ہوا۔ ایسے حالات میں ظاہر ہے کہ سودا چکانے کی ساری طاقت اس ایک شخص کے پاس جمع ہوگئی اور ان ہزاروں طالبین روزگار میں سے کوئی بھی اپنی شرائط منوانے کے قابل نہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اس صنعتی انقلاب کے دور میں جدید سرمایہ داری جیسی جیسی بڑھتی گئی، سوسائٹی میں بے روزگاری کے علاوہ افلاس اور خستہ حالی کی مصیبت بھی بڑھتی چلی گئی۔ بڑے بڑے صنعتی و تجارتی مرکزوں میں جو لوگ محنت مزدوری اور نوکری کے لیے جمع ہوئے انہیں بہت کم اجرتوں پر بہت زیادہ وقت اور محنت کرنے پر راضی ہونا پڑا۔ وہ جانوروں کی طرح کام کرنے لگے۔ جانوروں سے بدتر حالت میں شہروں کے تنگ و تاریک مکانات میں رہنے لگے۔ ان کی صحتیں برباد ہونے لگیں، ان کی ذہنیتیں پست ہونے لگیں۔ ان کے اخلاق بری طرح بگڑنے شروع ہوگئے۔ نفسی نفسی کے عالم میں باپ بیٹے اور بھائی بھائی تک کے درمیان ہمدردی باقی نہ رہی۔ والدین کے لیے اولاد اور شوہروں کے لیے بیویاں تک وبال جان بن گئیں۔ عرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہ رہا جو اس غلط اور یک رُخی قسم کی آزاد معیشت کے برے اثرات سے بچا رہ گیا ہو۔
-4 اس پر مزید لطف یہ ہے کہ وہی بورژوا حضرات جو وسیع المشربی اور جمہوریت کے زبردست داعی تھے اور جنہوں نے لڑ بھڑ کر مالکان زمین کے مقابلہ میں اپنا ووٹ کا حق تسلیم کرایا تھا اس بات کے لیے تیار نہ تھے کہ یہی ووٹ کا حق ان لاکھوں کروڑوں عوام کو بھی حاصل ہو جن کی روزی کے یہ مالک بن گئے تھے۔ وہ اپنے لیے تو یہ حق سمجھتے تھے کہ ایک ایک پیشے کے مالکان کاروبار اپنی اپنی انجمنیں بنائیںاور باہمی قرارداد سے اشیاء کی قیمتیں، نوکروں کی تنخواہیں اور مزدوروں کی اجرتیں تجویز کریں لیکن وہ نوکروں اور مزدوروں کا یہ حق ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ وہ بھی منظم ہوں اور اجتماعی قوت سے اجرتوں اور تنخواہوں کے لیے سودا چکائیں۔ حد یہ ہے کہ ان حضرات کو اپنے اس حق پر بھی اصرار تھا کہ وہ جب چاہیں کارخانہ بند کرکے ہزار ہا ملازموں اور مزدوروں کو بیک وقت بے کار کردیں اور اس طرح انہیں بھوکار مار کر کم اجرتوں پر راضی ہونے کے لیے مجبور کریں۔ مگر وہ نوکروں اور مزدوروں کا یہ حق تسلیم کرنے کے لیے بالکل تیار نہ تھے کہ وہ بھی ہڑتال کرکے اپنی اجرتیں بڑھوانے کی کوشش کریں۔ اس کے ساتھ یہ حضرات اس بات کو سراسر جائز سمجھتے تھے کہ جو شخص انہی کے کارخانے یا تجارتی ادارے میں خدمت کرتے کرتے بوڑھا یا بیمار یا کسی طور پر ازکار رفتہ ہوگیا ہو اسے وہ رخصت کردیں، مگر وہ شخص جو رخصت کیا جارہا ہو اس کی یہ گزارش ان کے نزدیک بالکل ناروا تھی کہ حضور! صحت، طاقت، جوانی سب کچھ تو آپ کے کاروبار کی ترقی میں کھپا بیٹھا، اب اس جان ناتواں کو کہاں لے جائوں اور ہاتھ پائوں کی قوت کھو دینے کے بعد جو پیٹ بچا رہ گیا ہے اسے کس طرح بھروں؟ یہاں پہنچ کر بورژوا حضرات اپنے اس استدلال کوبھی بالکل بھول گئے جو وہ ذاتی مفاد کو ایک ہی صحیح محرک عمل قرار دینے کے حق میں پیش کرتے تھے۔ انہیں اپنے متعلق تو یہ یاد رہا کہ اگر ان کے لیے نفع کے امکانات غیر محدود ہوں گے تو وہ خوب کام کریں گے اور اس طرح اجتماعی ترقی و خوشحالی کی خدمت آپ سے آپ انجام پائے گی لیکن اپنے نوکروں اور مزدوروں کے معاملے میں وہ بھول گئے کہ جس کا نفع محدود ہی نہیں بلکہ تنگ ہو اور جس کا حال خراب اور مستقبل تاریک ہو وہ آخر کیوں دل لگا کر اور جان لڑا کو کام کرے اور کس بنا پر اپنے کام میں دلچسپی لے؟
5 علاوہ بریں ان لوگوں نے کاروبار کے فطری اور معقول طریقوں سے ہٹ کر اپنے ذاتی مفاد کے لیے ایسے طریقے اختیار کرنے شروع کر دیئے جو صریحاً اجتماعی مفاد کے خلاف ہیں اور جن سے مصنوعی طور پر قیمتیں چڑھتی ہیں اور جن سے دولت کی پیداوار رکتی اور ترقی کی رفتار سست ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر:
یہ طریقہ کہ اپنے سرمائے کے زور سے اشیاء ضرروت کو خرید خرید کر ان کے کھتے بھرتے چلے جائیں یہاں تک کہ بازار میں ان کی رسد کم اور مانگ بڑھ جائے اور اس طرح قیمتیں مصنوعی طور پر گراں کی جاسکیں۔
اور یہ طریقہ کہ مال پیدا کرنے والے اور اصل استعمال کرنے والے کے درمیان سینکڑوں آدمی محض اپنے بینک کے روپے اور ٹیلیفون کے بل پر اس کو غائبانہ بیچتے اور خریدتے چلے جائیںاور اس طرح زبردستی ان کا منافع لگ لگ کر اس کی قیمت بڑھتی رہے بغیر اس کے کہ ان بیچ والوں نے اس مال کے پیدا کرنے یا ڈھونے یا اسے کارآمد بنانے کی کوئی خدمت انجام دی ہوجس کی بنا پر وہ منافع میں حصہ لینے کے لیے جائز حقدار ہوں۔
اور یہ طریقہ کہ پیدا شدہ مال کو صرف اس اندیشہ سے جلا یا جائے یا سمندر میں پھینک دیا جائے کہ اتنی بڑی مقدار مال کے منڈی میں پہنچ جانے سے قیمتیں گر جائیں گی۔
اور یہ طریقہ کہ وافر سرمایہ کے بل پر ایک چیز از قسم سامان تعیش تیار کی جائے اور پھر اشتہار سے، ترغیب سے، مفت بانٹ بانٹ کر، طرح طرح کی سخن سازیاں کرکر کے زبردستی اس کی مانگ پیدا کی جائے اور اسے ان غریب اور متوسط الحال لوگوں کی ضروریات زندگی میں خواہ مخواہ ٹھونس دیا جائے جو بیچارے اپنے فرائض حیات بھی پوری طرح بجا لانے کے قابل نہیں ہیں۔
اور یہ طریقہ کہ عامتہ الناس کو حقیقتاً جن چیزوں کی ضرورت اور شدید ضرورت ہے ان کی فراہمی پر تو سرمایہ اور محنت صرف نہ ہو اور ان کاموں پر وہ بے دریغ صرف کیا جائے جو بالکل غیر ضروری ہیں صرف اس لیے کہ پہلی قسم کے کاموں کی بہ نسبت دوسرے کام زیادہ نفع آور ہیں۔
اور یہ طریقہ کہ ایک شخص یا گروہ نہایت مضر صحت اور مخرب اخلاق اور مفسد تہذیب و تمدن چیزوں کو اپنے سرمائے کے زور سے خوشنما اور دلفریب بنا بنا کر لائے اور علانیہ پبلک کے سفلی جذبات کو اپیل کرکر کے انہیں اپنے اس کاروبار کی طرف کھینچے اور ان کو دیوانہ بنا بنا کر ان کی قلیل آمدنیوں کا بھی ایک معتدبہ حصہ بٹور لے در آنحالیکہ ان غریبوں کی آمدنیاں ان کا اور ان کے بال بچوں کا پیٹ بھرنے تک کے لیے کافی نہ ہوں۔
اور سب سے بڑھ کر خطرناک اور تباہ کن یہ طریقہ کہ اپنے تجارتی اور مالی مفاد کے لیے کمزور قوموں کے حقوق پر ڈاکے ڈالے جائیں اور دنیا کو مختلف حلقہ ہائے اثر میں تقسیم کیا جائے اور ہرقوم کے بڑے بڑے ساہوکار اور صناع اور تاجر اپنی اپنی قوموں کو اپنی حد سے بڑھی ہوئی اغراض کا آلہ کار بنا کر ایک دوسرے کے خلاف ایسی دائمی کشمکش میں الجھا دیں جو نہ میدان جنگ میں سلجھنے پائے نہ ایوان صلح میں۔
کیا یہ سب واقعی اس بات کے ثبوت ہیں کہ اگر افراد کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے بے روک ٹوک کام کرنے دیا جائے تو ان کے ہاتھوں اجتماعی مفاد کی خدمت خود بخود انجام پاتی رہتی ہے؟ اس طرح تو دراصل انہوں نے اپنے عمل سے خود یہ ثابت کر دکھایا کہ بے قید خودغرضی بہت ہی کم روشن خیال ہوتی ہے، خصوصاً جب کہ معاشی و سیاسی طاقت بھی اسی کے ہاتھ میں مرتکز ہوجائے اور قانون ساز بھی وہ خود ہی ہو۔ ایسے حالات میں تو اس کی بیشتر کوششیں اجتماعی مفاد کی خدمت میں نہیں بلکہ جماعت کے مفاد کو اپنے ذاتی مفاد پر بھینٹ چڑھانے میں صرف ہونے لگتی ہیں۔
-6 ان سب حرکات پر مزید غضب انہوں نے یہ کیا کہ افراد کے لیے اس بات کو بالکل جائز اور معقول اور برحق ٹھیرایا کہ وہ سرمایہ کو جمع کرکے اسے سود پر چلائیں۔ سود ایک قابل نفرت برائی کی حیثیت سے تو دنیا کے اکثر معاشروں میں ہمیشہ موجود رہا ہے اور دنیا کے قوانین نے بھی بسا اوقات اس کو بکراہت گوارا کیا ہے لیکن قدیم جاہلیت عرب کے بعد یہ فخر صرف جدید جاہلیت غرب کے بورژوا مفکرین کو حاصل ہوا کہ انہوں نے اسے کاروبار کی ایک ہی معقول صورت اور پورے نظام مالیات کی ایک ہی صحیح بنیاد بنا کر رکھ دیا اور ملکی قوانین کو اس طرز پر ڈھالا کہ وہ قرض دار کے بجائے سودخوار کے مفاد کی پشت پناہ بن گئے۔ اس عظیم الشان غلطی پر اور اس کے نتائج پر تو ہم نے اپنی کتاب ’’سود‘‘ میںمفصل بحث کی ہے مگر یہاں اس سلسلۂ کلام میں مختصراً صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ سود کو قرض و استقراض اور مالی لین دین کی بنیاد بنا دینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ بے روک ٹوک صنعتی انقلاب کی وجہ سے طاقت، دولت، رسوخ و اثر اور تمام فوائد و منافع کا جو بہائو پہلے ہی ایک رخ پر چل پڑا تھا وہ اس کارروائی کی وجہ سے اور زیادہ یک رخا ہوگیا اور اس کی بدولت اجتماعی زندگی کا عدم توازن اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ اب سوسائٹی میں سب سے زیادہ خوش قسمت وہ لوگ ہوگئے جو کسی نہ کسی ترکیب سے کچھ سرمایہ اکٹھا کرکے بیٹھ گئے ہوں۔ دماغی قابلیت رکھنے والے، محنت کرنے والے، کاروباری اسکیمیں سوچنے اور ان کی تنظیم کرنے والے اپنی جان کھپا کر کاروبار کو ہر مرحلے پر چلانے والے اور اشیاء ضرورت کی تیاری و فراہمی کے سلسلے کی ساری خدمات انجام دینے والے غرض سب کے سب اس ایک آدمی کے سامنے ہیچ ہوگئے جو کاروبار میں روپیہ قرض دے کر اطمینان سے گھر بیٹھا ہوا ہو۔ ان سب کا نفع غیر معین اور غیر یقینی ہے اور اس کا نفع معین اور یقینی۔ ان سب کے لیے نقصان کا خطرہ بھی ہے مگر اس کے لیے خالص منافع کی گارنٹی۔ یہ سب کاروبار کے بھلے اور برے میں دلچسپی لینے پر مجبور ہیں اور وہ ہر چیز سے بے پروا صرف اپنے سود سے غرض رکھتا ہے۔ کاروبار فروغ پاتا نظر آئے تو وہ بے تحاشا اس میں سرمایہ لگانا شروع کردیتا ہے یہاں تک کہ نفع کے امکانات ختم ہونے لگتے ہیں۔ کاروبار سرد پڑتا نظر آئے تو وہ مدد کے لیے ہاتھ نہیں بڑھاتا بلکہ پہلے کا لگا ہوا سرمایہ بھی کھینچنے لگتا ہے یہاں تک کہ ساری دنیا پر سخت کساد بازاری کا دورہ پڑ جاتا ہے۔ ہر حال میں نقصان، زحمت، خطرے، سب کچھ دوسروں کے لیے ہیں اور اس کے لیے حد سے حد اگر کوئی اتار چڑھائو ہے تو وہ صرف نفع کی کمی بیشی کا۔ تاجر اور صناع اور زمیندار ہی نہیں حکومتیں تک اس کی مزدور بنی ہوئی ہیں۔ اس کے دیئے ہوئے روپے سے وہ سڑکیں، ریلیں، نہریں اور دوسری چیزیں بناتی ہیں اور برسوں نہیں، صدیوں ایک ایک شخص سے ٹیکس وصول کرکے اس کا سود اس کے گھر پہنچاتی رہتی ہیں۔ حد یہ ہے کہ قوم کو اگر کوئی لڑائی پیش آجاتی ہے تو جس کی جان جائے یا جس کے ہاتھ پائوں کٹیں یا جس کا گھر برباد ہو یا جو اپنے باپ بیٹے یا شوہر سے محروم ہوں، ان سب کے بار سے تو قومی خزانہ بآسانی سبکدوش ہوجاتا ہے لیکن قوم ہی کے جن چند افراد نے لڑائی کے لیے سرمایہ قرض دے دیا ہو ان کا سود سو سو اور دو دو سو برس تک ادا کیا جاتا رہتا ہے اور اس سود کی ادائیگی میں ان لوگوں تک کو ’’چندہ‘‘ دینا پڑتا ہے جنہوں نے اسی جنگ میں جانیں قربان کی تھیں۔ اس طرح یہ سودی نظام مالیات سوسائٹی کی دولت پیدا کرنے والے اصل عاملین کے ساتھ ہر طرح ہر جہت میں ایک ہمہ گیر بے انصافی کرتا ہے۔ اس نے ساری اجتماعی معیشت کی باگیں چند خود غرض سرمایہ داروں کے ہاتھ میں دے دی ہیں جو نہ تو اجتماع کی فلاح و بہبود سے کوئی دلچسپی رکھتے ہیں نہ فی الواقع اجتماع کی کوئی خدمت ہی انجام دیتے ہیں مگر چونکہ پورے معاشی کاروبار کی جان، یعنی سرمایہ ان کے قبضہ میں ہے اور قانون نے ان کو اسے روک رکھنے اور سود پر چلانے کے اختیارات دے رکھے ہیں، اس لیے وہ صرف یہی نہیں کہ اجتماع کی مجموعی محنت سے پیدا ہونے والی دولت کے شریک غالب بن گئے ہیں، بلکہ ان کو یہ طاقت حاصل ہو گئی ہے کہ پورے اجتماع کو اپنے مفاد کا خادم بنالیں اور قوموں اور ملکوں کی قسمتوں سے کھیلتے رہیں۔
-7 جدید سرمایہ داری کی ان بنیادوں پر جو نیا معاشرہ وجود میں آیا وہ ہمدردی، تعاون، رحم، شفقت اور اس نوع کے تمام جذبات سے عاری اور اس کے برعکس صفات سے لبریز تھا۔ اس نظام میں غیر تو غیر، بھائی پر بھائی کا یہ حق نہ رہا کہ وہ اسے سہارا دے۔ ایک طرف ہر نئی مشین کی ایجاد سینکڑوں اور ہزاروں کو بہ یک وقت بیکار کئے دے رہی تھی اور دوسری طرف حکومت، سوسائٹی، کارخانہ دار یا ساہو کار، کسی کی بھی یہ ذمہ داری نہ تھی کہ جو لوگ بے روزگار ہوجائیں یا کام کرنے کے قابل نہ ہوں، یا ناکارہ ہوجائیں، ان کی بسر اوقات کا کوئی بندوبست کرے۔ یہی نہیں بلکہ اس نئے نظام نے ایسے حالات پیدا کر دیئے اور ایسے اخلاقیات بھی عام لوگوں کے اندر ابھار دیئے کہ کسی گرے ہوئے یا گرتے ہوئے انسان کو سنبھالنا کسی کا فرض نہ رہا۔ حوادث بیماری، موت اور تمام دوسرے ناموافق حالات کے لیے اس نظام نے جتنے علاج بھی تجویز کئے، ان لوگوں کے لیے جو فی الوقت کما رہے ہوں اور اپنی موجودہ ضروریات سے اتنا زیادہ کما رہے ہوں کہ کچھ پس انداز کرسکیں۔ لیکن جو کما ہی نہ رہا ہو یا بس بہ قدر سدر مق کما رہا ہو وہ اپنے برے وقت پر کہاں سے مدد پائے؟ اس کا کوئی جواب جدید سرمایہ داری کے پاس اس کے سوا نہیں ہے کہ ایسا شخص مہاجن کے پاس جائے اور اپنے پہننے کے کپڑے یا گھر کے برتن، یا جورو کا زیور رہن رکھ کر تین تین سو فی صد سالانہ سود پر قرض لے اور جب یہ قرض مع سود ادا نہ ہو سکے تو پھر اسی مہاجن سے اسی کا قرض و سود ادا کرنے کے لیے مزید سودی قرض لے لے۔
-8 ظاہر ہے کہ جب سوسائٹی میں لاکھوں آدمی بے روزگار ہوں اور کروڑوں اس قدر قلیل المعاش ہوں کہ سخت حاجت مند ہونے کے باوجود وہ مال نہ خرید سکیں جو دکانوں میں بھرا پڑا ہو تو صنعت اور تجارت کو پورا پورا ممکن فروغ کس طرح ہوسکتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم یہ عجیب و غریب صورت حال دیکھ رہے ہیں کہ اگرچہ ابھی دنیا میں بے حدو حساب قابل استعمال ذرائع موجود ہیں اور کروڑوں آدمی کام کرنے کے قابل بھی موجود ہیں اور وہ انسان بھی کروڑہا کروڑ کی تعداد میں موجود ہیں جو اشیاء ضرورت کے محتاج اوراشیاء عیش و رفاہیت خریدنے کے خواہشمند ہیں مگر یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دنیا کے کارخانے اپنی استعداد کارسے بہت گھٹ کر جو مال تیار کرتے ہیں وہ بھی منڈیوں میں اس لیے پڑا رہ جاتا ہے کہ لوگوں کے پاس خریدنے کو روپیہ موجود نہیں اور لاکھوں بے روزگار آدمیوں کو کام پر اس لیے نہیں لگایا جاسکتا کہ جو تھوڑا مال بنتا ہے وہی بازار میں نہیں نکلتا، اور سرمایہ اور قدرتی ذرائع بھی پوری طرح زیر استعمال اس لیے نہیں آنے پاتے کہ جس قلیل پیمانے پر وہ استعمال میں آرہے ہیں اسی کا بار آور ہونا مشکل ہو رہا ہے کجا کہ مزید ذرائع کی ترقی پر مزید سرمایہ لگانے کی کوئی ہمت کرسکے۔ یہ صورت حال بورژوا مفکرین کے اس استدلال کی جڑ کاٹ دیتی ہے جو وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں پیش کرتے تھے کہ بے قید معیشت میں اپنے انفرادی نفع کے لیے افراد کی تگ و دو خود بخود ذرائع و وسائل کی ترقی اور پیداوار کی افزائش کا سامان کرتی رہتی ہے۔ ترقی اور افزائش تو در کنار، یہاں تو تجربے سے یہ ثابت ہوا کہ انہوں نے اپنی نادانی سے خود اپنے منافع کے راستے میں بھی رکاوٹیں پیدا کرلی۔

سوشلزم اور کمیونزم

یہ تھے وہ اصل اسباب جن کی وجہ سے صنعتی انقلاب کے پیدا کئے ہوئے نظام تمدن و معیشت میں خرابیاں رونما ہوئیں۔ پچھلے صفات میں ہم نے ان کا جو تجزیہ کیا ہے اس پر غور کرنے سے یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ در حقیقت ان خرابیوں کے موجب وہ فطری اصول نہیں تھے جن کو بورژوا حضرات بے قید معیشت کی تائید میں پیش کرتے تھے بلکہ ان کی اصلی موجب وہ غلطیاں تھیں جو ان صحیح اصولوں کے ساتھ انہوں نے ملا دی تھیں۔
اگر بروقت ان غلطیوں کو سمجھ لیا جاتا اور اہل مغرب کو وہ حکیمانہ رہنمائی مل جاتی جن سے وہ اس نئے انقلابی دور میں ایک متوازن اور معتدل معیشت کی تعمیر کرلیتے تو ان کے لیے بھی اور ساری دنیا کے لیے بھی صنعتی انقلاب ایک نعمت اور برکت ہوتا۔ مگر افسوس یہ ہے کہ مغربی ذہن اور کریکٹر نے اس دور میں بھی اپنی انہی کمزوریوں کا اظہار کیا جو اس سے پہلے کے زمانوں میں اس سے ظاہر ہوچکی تھیں اور اسی بے اعتدالی کی ڈگر پر بعد کی تاریخ بھی آگے بڑھی جس پر وہ پہلے سے بھٹک کر جا پڑی تھی۔ پہلے جس مقام پر مالکان زمین اور ارباب کلیسا اور شاہی خاندان تھے، اب اسی ہٹ دھرمی اور ظلم و زیادتی کی جگہ بورژوا طبقے نے سنبھال لی اور پہلے حق طلبی اور شکوہ و شکایت اور غصہ و احتجاج کے جس مقام پر بورژوا حضرات کھڑے تھے، اب اس جگہ محنت پیشہ عوام آکھڑے ہوئے۔ پہلے جس طرح جاگیرداری نظام کے مطمئن طبقے نے اپنے بے جا امتیازات اور اپنے ناروا ’’حقوق‘‘ اور اپنی ظالمانہ قیود کی حمایت میں دین اور اخلاق اور قوانین فطرت کی چند صداقتوں کو غلط طریقے سے استعمال کرکے محروم طبقوں کا منہ بند کرنے کی کوشش کی تھی، اب بعینہ وہی حرکت سرمایہ داری نظام کے مطمئن طبقوں نے شروع کردی۔ اور پہلے جس طرح غصے اور ضد اور جھنجھلاہٹ میں آکر بورژوا لوگوں نے جاگیرداروں اور پادریوں کی اصل غلطیوں کو سمجھنے اور ان کا ٹھیک ٹھیک تدارک کرنے کے بجائے اپنی نبردآزمائی کا بہت سا زور ان صداقتوں کے خلاف صرف کر دیا جن کا سہارا ان کے حریف لیا کرتے تھے، اسی طرح اب محنت پیشہ عوام اور ان کے لیڈروں نے بھی غیظ و غضب میں نظر و فکر کا توازن کھو دیا اور بورژوا تمدن کی اصل خرابیوں اور غلطیوں پر حملہ کرنے کے بجائے ان فطری اصولوں پر ہلہ بول دیا جن پر ابتدائے آفرینش سے انسانی تمدن و معیشت کی تعمیر ہوتی چلی آرہی تھی۔ متوسط طبقوں کے لوگ تو اپنی کمزوریوں اور برائیوں کے باوجود پھر کچھ ذہین اور تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اس لیے انہوں نے شکایت اور ضد کے جوش میں بھی تھوڑا بہت ذہنی توازن برقرار رکھا تھا لیکن صدیوں کے پسے اور دبے ہوئے عوام جن کے اندر علم، ذہانت، تجربہ ہر چیز کی کمی تھی جب تکلیفوں سے بے قرار اور شکایات سے لبریز ہو کر بپھر گئے تو کسی بات کو قبول کرنے سے پہلے عقل و حکمت کے ترازو میں تول کر اسے دیکھ لینے کا کوئی سوال ان کے سامنے نہ رہا۔ ان کو سب سے بڑھ کر اپیل اس مسلک نے کیا جس نے سب سے زیادہ شدت کے ساتھ ان کی نفرت اور ان کے غصے اور ان کے انتقام کے تقاضے پورے کئے۔
یہی تھا وہ غریبوں کی جھنجھلاہٹ کا فرزندِ ارجمند جسے ’’سوشلزم‘‘ (۱) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جدید سرمایہ داری کو پیدا ہوئے نصف صدی سے کچھ ہی زیادہ مدت نہ گزری تھی جب وہ تولد ہوا اور اس کی ولادت پر نصف صدی سے کچھ بہت زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ اس کے ہنگاموں سے دنیا لبریز ہوگئی۔

سوشلزم اور اس کے اصول

اس نئے مسلک کے مصنفوں نے اپنے حملے کی ابتدا ’’حقوق ملکیت ‘‘ سے کی۔ انہوں نے کہا کہ اصل خرابی کی جڑ یہی بلا ہے۔ پہننے کے کپڑے، استعمال کے برتن، گھر کا فرنیچر اور اس طرح کی دوسری چیزیں انفرادی ملکیت میں رہیں تو مضائقہ نہیں، مگر یہ زمین اور مشین اور آلات اور دوسری ایسی چیزیں جن سے دولت کی پیداوار ہوتی ہے ان پر تو افراد کے مالکانہ حقوق ہر گز قائم نہ رہنے چاہئیں۔ اس لیے کہ جب ایک شخص ان میں سے کسی چیز کا مالک ہوگا تو دولت پیدا کرے گا، دولت پیدا کرے گا تو جمع کرے گا، جمع کرے گا تو پھر کچھ اور زمین یا مشین خرید کر پیدائش دولت کے ذرائع میں اضافہ کرے گا۔ اضافہ کرے گا تو دوسرے آدمیوں سے تنخواہ، یا مزدوری یا لگان کا معاملہ طے کرکے ان سے کام لے گا اور جب یہ کرے گا تو لامحالہ پھر وہ سب کچھ کر لے گا جو بورژوا سرمایہ دار کررہا ہے۔ لہٰذا سرے سے اس جڑ ہی کو کاٹ دو جس سے یہ بلا پیدا ہوتی ہے۔ پروانے کی جان بچانی ہے تو مگس کو باغ میں جانے نہ دو۔
سوال پیدا ہوا کہ شاید استعمال کے حقوق ملکیت کی طرح ذرائع پیداوار کے حقوق ملکیت بھی کوئی آج کی نئی چیز تو نہیں ہیں جنہیں بورژوا سرمایہ داروں نے تصنیف کر لیا ہو۔ یہ تو وہ بنیادیں ہیں جن پر قدیم ترین زمانہ سے انسانی معیشت و تمدن کی عمارت تعمیر ہوتی چلی آرہی ہے۔ ایسی چیز کے اکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ آخر یوں سرسری طور پر کیسے کر ڈالا جائے!… جواب میں فی البدیہہ ایک پوری تاریخ گھڑ دی گئی کہ انسانیت کے آغاز میں ذرائع پیداوار پر انفرادی ملکیت کے حقوق تھے ہی نہیں، یہ تو بعد میں طاقت ور طبقوں نے اپنی خود غرضی سے قائم کر لیے۔
کہا گیا ان حقوق کو سارے مذاہب، تمام اخلاقی نظام، دنیا بھر کے قوانین ہمیشہ سے مانتے رہے ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی یہ نظریہ اختیار نہیں کیا کہ معیشت و تمدن کی وہ صورت بجائے خود غلط ہے جو ذرائع پیداوار کی انفرادی ملکیت سے بنتی ہے… جواب میں ایک لمحہ کے تامل کے بغیر دعویٰ کر دیا گیا کہ مذہب، اخلاق اور قانون تو ہر زمانے کے غالب طبقوں کے آلہ کار رہے ہیں۔ پیدائش دولت کے ذرائع پر جن طبقات کا اجارہ قائم ہوگیا انہیں اپنے اس اجارے کو محفوظ اور مضبوط کرنے کے لیے کچھ نظریات، کچھ اصولوں اور کچھ رسموں اور ضابطوں کی حاجت لاحق ہوئی اور جن لوگوں نے یہ چیزیں ان کی اغراض کے مطابق بنا کر پیش کردیں وہ پیغمبر اور رشی اور معلمین اخلاق اور شارع و مقنن قرار دے لیے گئے۔ محنت پیشہ طبقے بہت مدت تک اس طلسم فریب کے شکار رہے، اب وہ اسے توڑ کر رہیں گے۔
اعتراض ہوا کہ ان حقوق کو مٹانے اور ختم کرنے کے لیے تو ایک ایسی سخت نزاع برپا کرنی پڑے گی جس میں ہر قوم کے مختلف عناصر آپ ہی میں گتھ جائیں گے اور قریہ قریہ اور بستی بستی میں طبقاتی جنگ کی آگ بھڑک اٹھے گی۔ جواب میں کچھ دیر نہ گزری تھی کہ ایک پورا فلسفۂ تاریخ گھڑ کر رکھ دیا گیا جس میں ثابت کیا گیا کہ انسانی تمدن کا تو سارا ارتقاء ہی طبقاتی جنگ کے ذریعے سے ہوا ہے۔ اس راستے کے سوا ارتقاء کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
پھر اعتراض ہوا کہ اپنے ذاتی نفع کے لیے کام کرنا تو انسان کی فطرت اور جبلت میں پیوست ہے اور ہر انسان ماں کے پیٹ سے یہی میلان لیے ہوئے پیدا ہوتا ہے۔ تم جب افراد سے ذرائع پیداوار کی ملکیت چھین لو گے اور ان کے لیے یہ موقع باقی نہ رہنے دو گے کہ وہ جتنی کوشش کریں اتنا نفع حاصل کرتے چلے جائیں تو ان کے اندر کوشش کرنے کا جذبہ ہی نہ پیدا ہوگا اور یہ چیز بالآخر انسانی تہذیب و تمدن کے لیے برباد کن ثابت ہوگی۔ اس پر چھوٹتے ہی برملا جوا ب دیا گیا فطرت؟ جبلت؟ موروثی میلانات؟ یہ کیا بورژوا پن کی باتیں کرتے ہو۔ انسان کے اندر ان ناموں کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اس کے تو سارے رجحانات صرف اجتماعی ماحول کی پیداوار ہیں۔ ایک ماحول کو بدل کر دوسرا ماحول پیدا کردو، اس کا دماغ دوسری طرح سوچنے لگے گا، اس کا دل دوسری قسم کے جذبات کی آماجگاہ بن جائے گا، اس کے نفس سے کچھ اور ہی میلانات کی تراوش شروع ہوجائے گی۔ جب تک انفرادی ملکیت کا نظام قائم ہے، لوگ ’’انفرادی الذہن‘‘ ہیں۔ جب اجتماعی ملکیت کا نظام قائم ہوجائے گا یہی سب لوگ ’’اجتماعی الذہن‘‘ ہو جائیں گے۔
پوچھا گیا انفرادی ملکیت ختم کرکے آخر سارا معاشی نظام چلایا کیسے جائے گا؟… جواب ملا تمام ذرائع پیداوار (زمین، کارخانے اور ہر قسم کے تجارتی و صنعتی ادارے) افراد کے قبضے سے نکال کر قومی ملکیت بنا دیئے جائیں گے۔ اور ان کارکنوں کے ووٹوں سے ہی وہ منتظمین منتخب ہوا کریں گے جن کے ہاتھ میں اس ساری معیشت کا انتظام ہوگا۔
سوال اٹھا جو لوگ اس وقت زمینوں اور کارخانوں اور دوسرے ذرائع پیداوار کے مالک ہیں ان کی ملکیت ختم کرنے اور اجتماعی ملکیت قائم کرنے کی صورت کیا ہوگی؟ اس سوال کے دو مختلف جواب دیئے گئے۔
ایک مسلک والوں نے جواب دیا اس تغیر کے لیے جمہوری طریقے اختیار کئے جائیں گے، رائے عامہ کو ہموار کرکے سیاسی اقتدار پر قبضہ کیا جائے گا اور قانون سازی کے ذریعے سے بتدریج زرعی جائیدادوں اور صنعتوں اور تجارتوں کو (بعض حالات میں بلا معاوضہ اور بعض حالات میں معاوضے ادا کرکے) اجتماعی ملکیت بنا لیا جائے گا۔یہی لوگ ہیں جن کے لیے اب بالعموم ’’سوشلسٹ‘‘ کا لفظ مخصوص ہوگیا ہے اور کبھی کبھار ان کے مسلک کو ’’ارتقائی سوشلزم‘‘ بھی کہتے ہیں۔
دوسرے مسلک والوں نے کہا جمہوری طریقوں سے یہ تغیر نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے تو انقلابی طریق کار ناگزیر ہے۔ نادار اور محنت پیشہ عوام کو منظم کیا جائے گا۔ ملکیت رکھنے والے طبقوں کے خلاف ہر ممکن طریقے سے جنگ کی جائے گی۔ بورژوا حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے گا۔ مزدوروں کی ڈکٹیٹر شپ قائم کی جائے گی۔ مالکان زمین سے ان کی زمینیں اور کارخانہ داروں سے ان کے کارخانے اور تاجروں سے ان کی تجارتیں زبردستی چھین لی جائیں گی۔ جو مزاحمت کرے گا اسے فنا کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ سارے طبقات کو ختم کرکے تمام آباد ی کو ایک طبقہ (یعنی اپنے ہاتھ سے کام کرکے روٹی کمانے والا طبقہ) بنا دیا جائے گا اور اَزرُوئے قانون یہ چیز حرام کر دی جائے گی کہ ایک شخص دوسرے شخص یا اشخاص سے اجرت پر کام لے اور اس کام کا نفع(۱) کھائے۔ پھر جب یہ انقلاب مکمل ہو جائے گا اور سرمایہ دار طبقات کے از سر نو جی اٹھنے کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے گا تو یہ ڈکٹیٹر شپ آپ سے آپ (خدا جانے کس طرح) سوکھ کر جھڑ جائے گی اور خود بخود (نہ معلوم کیسے) ایک ایسا نظم اس کی جگہ لے لے گا جس میں حکومت اور جبر کے بغیر زندگی کے سارے شعبے لوگوں کی باہمی رضامندی، مشاورت اور تعاون سے چلتے رہیں گے۔ اس دوسرے مسلک کا نام ’’انقلابی سوشلزم‘‘ ہے۔ اسی کو ’’بولشوزم‘‘ کے نام بھی یاد کیا جاتا رہا ہے۔ اسی کو ’’مارکسزم‘‘ بھی کہتے ہیں۔ مگر اب دنیا اس کو زیادہ تر ’’کمیونزم‘‘ کے مشہور و معروف نام سے جانتی ہے۔
ستر اسی سال تک سوشلزم کا یہ نیا مسلک اپنی بے شمار شاخوں اور اپنے مختلف الاقسام مذاہب فکر کے ساتھ یورپ اور اس کے زیر اثر ملکوں میں پھیلتا رہا۔ ابتداً یہ چند سر پھروں کی ایک نرالی اپج تھی جس کے مقدمات اور دلائل اور نتائج، سب قطعی مہمل تھے اور صرف غضب ناک مزدوروں ہی میں اس کو علم و عقل کی بنا پر نہیں بلکہ بھڑکے ہوئے جذبات کی بنا پر مقبولیت حاصل ہورہی تھی۔ لیکن مغربی ذہن کی دلچسپ کمزوریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپج کو بہت پسند کرتا ہے، خصوصاً جب کہ وہ نہایت لغو ہو اور اس کا پیش کرنے والا بے دھڑک اور بے جھجک ہو کر بڑے سے بڑے مسلمات کو کاٹتا چلا جائے اور اپنے دعاوی کو ذرا سائنٹفک طریقے سے اتنا مرتب کرلے کہ ان کے اندر ایک ’’سسٹم‘‘ پیدا ہوجائے۔(۲) یہ خصوصیات اس ’’سائنٹفک سوشلزم‘‘ میں بدرجۂ اتم پائی جاتی تھیں۔ اسی وجہ سے نچلے متوسط طبقے کے بہت سے ذہین لوگ اور خود بورژوا طبقے میں سے بعض خبطی اور بعض ہوشیار لوگ اس مسلک کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اس کی شرح و تفسیر اور دعوت وتبلیغ میں کتابوں، رسالوں اور اخباروں کے ڈھیر لگنے شروع ہوگئے، دنیا بھر کے ملکوں میں مختلف سوشلسٹ نظریات کی حامی پارٹیاں منظم ہوگئیں اور آخرکار انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد سنجیدگی کے ساتھ یہ سمجھنے لگی کہ ان نظریات پر ایک نظام تمدن و معیشت تعمیر ہوسکتا ہے۔

کمیونزم اور اس کا میزانیہ ٔ نفع و نقصان

جہاں تک ارتقائی سوشلزم کا تعلق ہے اس نے ابھی دنیا میں اپنا کوئی نمونہ پیش نہیں کیا ہے جس کو دیکھ کر ہم پورے طور پر معلوم کرسکیں کہ اس کا طریق کار کس طرح انفرادی سرمایہ داری کے نظام کو اجتماعیت میں تبدیل کرے گا اور اس سے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ اس لیے ہم اس کو چھوڑ کر یہاں انقلابی اشتراکیت یعنی کمیونزم کے کارنامے کا جائزہ لیں گے، جس نے 1914-18ء کی جنگ عظیم اول سے فائدہ اٹھا کر روس میں فی الواقع ایک انقلاب برپا کردیا اور اپنے نظریات کے مطابق ایک پورا نظام تمدن قائم کرڈالا۔(۱)
روسی اشتراکیت چونکہ پچھلے کئی سال سے سخت مباحثوں اور مناظروں کا موضوع بنی رہی ہے، اس لیے اس کی میزان نفع و نقصان بنانے میں اس کے حامیوں اور مخالفوں دونوں کی طرف سے بڑی کھینچ تان ہوتی رہتی ہے۔ اس کے حامی اس کے نفع کے پہلو میں بہت سی ایسی چیزوں کو داخل کر دیتے ہیں جو دراصل اشتراکیت کے منافع نہیں ہیں بلکہ قابل اور مستعد لوگوں کے ہاتھ میں انتظام ہونے کے ثمرات ہیں۔ دوسری طرف اس کے مخالف اس کے نقصانات کے پہلو میں بہت سی ان خرابیوں کو رکھ دیتے ہیں جو بجائے خود اشتراکیت کے نقصانات نہیں بلکہ ظالم اور تنگ ظرف افراد کے برسر اقتدار آنے کے نتائج ہیں۔ اشتراکی روس کے حامیوں کا یہ طریقہ کہ وہ عہد زار کے روس کی خستہ حالی، جہالت اور پس ماندگی سے موجودہ روس کی علمی، ذہنی، صنعتی اور تمدنی حالت کا مقابلہ کرتے ہیں اور حاصلِ جمع و تفریق میں جتنی ترقی نکلتی ہے اس سب کو اشتراکیت کی برکات کے خانے میں درج کر دیتے ہیں، اصولاً کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ تیس بتیس سال کی مدت میں جتنی کچھ بھی ترقی روس نے کی ہے اس کا مقابلہ اگر امریکہ، جاپان یا جرمنی کے ایسے ہی تیس بتیس سال سے کیا جائے تو شاید تناسب کچھ زیادہ ہی نکلے گا۔ مثلا 1868ء میں جاپان تعلیم اور صنعت و حرفت اور قدرتی وسائل کے استعمال اور پیداوار دولت کے لحاظ سے کیا کچھ تھا اور 1904ء میں جب اس نے روس کو شکست دی تو وہ ان حیثیات سے کس مرتبے پر پہنچ گیا تھا۔ یا 1870ء میں جرمنی کی کیا حالت تھی اور بیسویں صدی کے آغاز تک پہنچتے پہنچتے اس کے باشندے علمی اور ذہنی حیثیت سے اور اس کے معاشی وسائل اپنی پیداوار کے لحاظ سے کہاں تک جا پہنچے تھے۔ اگر ان ترقیات کا اتنی ہی مدت کی روسی ترقیات سے موازنہ کرکے دیکھا جائے تو روس کے حساب میں آخر کتنا سرمایۂ افتخار نکلے گا؟ پھر کیا یہ اصول مان لیا جائے کہ ایک ملک نے ایک خاص زمانے میں اگر کچھ غیر معمولی ترقی کی ہو تو اس کی ساری تعریف ان اصولوں کے حق میں لکھ دی جائے جن پر اس ملک کا نظام تمدن و معیشت و سیاست قائم ہو؟ حالانکہ بسا اوقات اجتماعی زندگی کا سارا کارخانہ غلط اصولوں پر چل رہا ہوتا ہے، مگر رہنمائوں کی انفرادی خوبیاں اور ان کے مددگاروں کی عمدہ صلاحیتیں بڑے شاندار نتائج پیدا کر دکھاتی ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس اشتراکی روس کی جن خرابیوں کا حوالہ اس کے مخالفین دیتے ہیں ان میں بھی بہت سی خرابیاں وہ ہیں جو کم و بیش اسی طریقے پر غیر اشتراکی جبّاروں کی فرمانروائی میں بھی پائی جاتی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ان سب کو برے افراد کے حساب میں سے نکال کر اس اصول کے حساب میں ڈال دیں جس پر ان کا نظام تمدن و معیشت قائم ہوا ہے؟
فوائد
غیر متعلق چیزوں کو الگ کرکے جب ہم اصل اشتراکیت کے اس کارنامے پر نگاہ ڈالتے ہیں جو روسی تجربے کی بدولت ہمارے سامنے آیا ہے تو نفع کے خانے میں ہم کو یہ چیزیں ملتی ہیں:
-1 افراد کے قبضے سے زمین، کارخانے اور تمام کاروبار نکال لینے کا یہ فائدہ ہوا کہ اشیاء کی لاگت اور ان کی بازاری قیمت کے درمیان جو منافع پہلے زمیندار، کارخانہ دار اور تاجر لیتے تھے وہ اب حکومت کے خزانے میں آنے لگا اور یہ ممکن ہوگیا کہ اس منافع کو اجتماعی فلاح کے کاموں پر صرف کیا جاسکے۔
-2 تمام ملک کے ذرائع پیداوار ایک ہی نظم و نسق کے قبضہ میں آجانے سے یہ ممکن ہوگیا کہ ایک طرف ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ان سب کو زیادہ سے زیادہ ترقی دینے اور زیادہ سے مفید طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کی جائے اور دوسری طرف سارے ملک کی ضروریات کو سامنے رکھ کر انہیں پورا کرنے کی منظم تدابیر عمل میں لائی جائیں۔
-3 سارے وسائل دولت پر قابض ہو کر جب حکومت ایک جامع منصوبہ بندی کے مطابق ان کو چلانے لگی تو اس کے لیے یہ بھی ممکن ہوگیا کہ ملک کے تمام قابل کار آدمیوں کو کام پر لگائے اور یہ بھی کہ وہ ان کو ایک سوچی سمجھی اسکیم کے مطابق تعلیم و تربیت دے کر اس طرح تیار کرے کہ اجتماعی معیشت کے لیے جن پیشوں اور خدمات کے لیے جتنے آدمی درکار ہیں اتنے ہی وہ تیار کئے جاتے رہیں۔
-4 اوپر نمبر ایک میں زراعت، صنعت اور تجارت کے جس منافع کا ذکر کیا گیا ہے وہ جب حکومت کے ہاتھ میں آگیا تو وہ اس قابل ہوگئی کہ اس منافع کا ایک حصہ ’’سوشل انشورنس‘‘ کے انتظام پر صرف کرے۔ سوشل انشورنس کا مطلب یہ ہے کہ تمام ملک میں جو لوگ کام کرنے کے قابل نہ ہوں، یاعارضی یا مستقل طور پر ناقابل کار ہوجائیں، یا بیماری، زچگی، اور دوسرے مختلف حالات کی وجہ سے جن کو مدد کی ضرورت پیش آئے ان کو ایک مشترک فنڈ سے مدد دی جائے۔
نقصانات
کوئی شک نہیں کہ بے قید معیشت سے جو بیماریاں پیدا ہوئی تھیں، اس آپریشن نے ان کا خوب ہی علاج کیا مگر روس کو اس کی قیمت کیا دینی پڑی؟ اور پچھلی بیماریوں کو دور کرنے کے لیے دوسری کیا بیماریاں اس نے مول لیں؟ اب ذرا اس کا جائزہ بھی لے لیں۔
-1 افراد کے قبضے سے زمینوں، کارخانوں اور دوسرے ذرائع پیداوار کو نکالنا اور ان ساری چیزوں کو اجتماعی ملک بنا دینا بہرحال کوئی کھیل نہ تھا کہ بس ہنسی خوشی انجام پاگیا ہو، یہ ایک بڑا ہی سخت کام تھا جو برسوں تک مسلسل نہایت ہولناک ظلم و ستم کرنے سے پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ ہر شخص خود ہی قیاس کرسکتا ہے کہ آپ لاکھوں آدمیوں کو ان کی چھوٹی بڑی املاک سے زبردستی بے دخل کرنے پر تل جائیں تو وہ بآسانی آپ کے اس فیصلے کے آگے سرتسلیم خم نہ کردیں گے۔ یہ کام جب اور جہاں بھی ہوگا سخت کشت و خون ہی سے ہوگا۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ اس اسکیم کو عمل میں لانے کے لیے تقریباً 19 لاکھ آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، 20 لاکھ آدمیوں کو مختلف قسم کی سزائیں دی گئیں اور چالیس پچاس لاکھ آدمیوں کو ملک چھوڑ کر دنیا بھر میں تتربتر ہوجانا پڑا۔ صرف ایک اجتماعی زراعت کی اسکیم نافذ کرنے کے لیے لاکھوں چھوٹے چھوٹے اور متوسط زمینداروں (Kulaks) کو جس بے دریغ طریقے سے فنا کیا گیا اس پر تو خود روس کے پُرجوش حامی بھی چیخ اٹھے۔
-2 جو لوگ تمام دنیا کے مسلّم مذہبی، اخلاقی اور قانونی اصولوں کے مطابق اپنی املاک کے جائز مالک ہوں انہیں اگر آپ اپنی ایک خود ساختہ اور نرالی اسکیم نافذ کرنے کے لیے زبردستی ان کی ملکیتوں سے بے دخل کرنا چاہیں گے تو لامحالہ آپ کو نہ صرف ان تمام مذہبوں اور اخلاقی اصولوں کا جو آپ کے نظریہ کے خلاف ہیں، انکار کرنا پڑے گا، بلکہ ملکیتوں کے ساتھ ان کی بھی بیخ کنی پر اپنی ساری قوت لگا دینی ہوگی۔ مزید برآں اس اسکیم کو ہر قسم کی بے دردی، شقاوت، ظلم ، جھوٹ اور فریب سے نافذ کرنے کے لیے آپ مجبور ہوں گے کہ سرے سے ایک نیا ہی نظریۂ اخلاق وضع کریں جس کے تحت ہر ظلم و جبر اور ہر بے دردی اور سنگدلی کا ارتکاب جائز ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اشتراکی لیڈروں اور کارکنوں نے اپنے پیش نظر انقلاب کو عمل میں لانے کے لیے خدا اور مذہب کے خلاف سخت پروپیگنڈا کیا اور بورژوا طبقے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مذہبی طبقوں کو بھی بڑی سختی سے کچلا اور اخلاق کا ایک نیا نظریہ پیدا کیا جو لینن کے الفاظ میں یہ ہے:
’’ہم ہر اس اخلاق کو رد کرتے ہیں جو عالم بالا کے کسی تصور پر مبنی ہو۔ یا ایسے خیالات سے ماخوذ ہو جو طبقاتی تصورات سے ماوراء ہیں۔ ہمارے نزدیک اخلاق قطعی اور کلی طور پر طبقاتی جنگ کا تابع ہے۔ ہر وہ چیز اخلاقاً بالکل جائز ہے جو پرانے نفع اندوز اجتماعی نظام کو مٹانے کے لیے اور محنت پیشہ طبقوں کو متحد کرنے کے لیے ضروری ہو۔ ہمارا اخلاق بس یہ ہے کہ ہم خوب مضبوط اور منظم ہوں اور نفع گیر طبقوں کے خلاف پورے شعور کے ساتھ جنگ کریں۔ ہم یہ مانتے ہی نہیں کہ اخلاق کے کچھ ازلی و ابدی اصول بھی ہیں۔ ہم اس فریب کا پردہ چاک کرکے رہیں گے۔ اشتراکی اخلاق اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مزدوروں کی مطلق العنان حکومت کو مضبوطی کے ساتھ قائم کرنے کے لیے جنگ کی جائے۔‘‘
’’ناگزیر ہے کہ اس کام میں ہر چال، فریب، غیر قانونی تدبیر، حیلے بہانے اور جھوٹ سے کام لیا جائے۔‘‘
یہ دوسری بھاری قیمت تھی جو سرزمین روس کو اشتراکی نظام کے لیے دینی پڑی۔ یعنی صرف ایک کروڑ آدمیوں کی زندگی ہی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ دین، ایمان، اخلاق، انسانیت، شرافت اور وہ سب کچھ جو ایک انوکھی اسکیم کو جبرو ظلم سے نافذ کرنے میں مانع تھا۔
-3 ہم خود اپنے ملک میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں کہ جب ایک طرف عالم اخلاقیات کے بند ڈھیلے ہوجاتے ہیںاور دوسری طرف مختلف ضروریات زندگی پر سرکاری کنٹرول نافذ کردیا جاتا ہے تو رشوت، خیانت اور غبن کا سلسلہ بے تحاشہ چل پڑتا ہے۔ زندگی کی جو ضرورت بھی پرمٹ، لائسنس، راشن کارڈ یا کوٹا ملنے پر موقوف ہوجاتی ہے اسی کے معاملے میں پبلک کو ہر طرح تنگ ہونا پڑتا ہے اور سرکاری آدمیوں کے وارے نیارے ہونے لگتے ہیں۔ اب خود اندازہ کر لیجئے کہ جہاں ایک طرف سارے ہی اخلاقی مسلمات کی جڑیں ہلا ڈالی گئی ہوں اور اخلاق کا یہ اصول لوگوں کے ذہن نشین کر دیا گیا ہو کہ جو کچھ مفید مطلب ہے وہی حق اور صدق ہے اور ملک کے رہنمائوں نے خود بدترین ظلم و ستم کرکے اس نئے اخلاق کے شاندار نمونے دکھا دئیے ہوں … دوسری طرف جہاں ضرورت کی صرف چند چیزیں نہیں بلکہ ملک کی پوری معاشی دولت اور سارے وسائل زندگی سرکاری کنٹرول میں ہوں، وہاں رشوت، خیانت، غبن اور مردم آزاری کی کیسی کچھ گرم بازاری ہوگی۔ یہ معاملہ صرف قیاس کی حد تک نہیں ہے۔ روس کے ’’آہنی پردے‘‘ سے چھن چھن کر جو خبریں وقتاً فوقتاً باہر آجاتی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہاں عمال حکومت اور مختلف معاشی اداروں کے ارباب انتظام نے ’’بدکرداری‘‘ (Corruption) کا ایک اچھا خاصا سخت مسئلہ پیدا کردیا ہے۔ درحقیقت وہاں اس مسئلے کا پیدا ہونا قابل تعجب نہیں ہے بلکہ نہ ہونا تعجب کے قابل ہوتا۔ ایک نظام کو تم بد اخلاقی کے زور سے توڑ بھی سکتے ہو، اور دوسرا نظام بد اخلاقی کے زور سے قائم بھی کرسکتے ہو لیکن کسی نئے نظام کو بد اخلاقی کے بل بوتے پر چلالے جانا سخت مشکل ہے۔ اسے ٹھیک ٹھیک چلانے کے لیے بہرحال عمدہ اور مضبوط سیرت کے آدمیوں کی ضرورت ہے اور اس کا سانچہ تم خود پہلے ہی توڑ چکے ہو۔
-4 انفرادی ملکیتوں کو ختم کرکے اجتماعی ملکیت کے اصول پر ملک کے معاشی نظام کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے سب سے بڑھ کر جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کے اندر سے خود غرضی اور ذاتی نفع کی طلب نکال دی جائے۔ اور ان صفات کے بجائے ان کے ذہن پر مجموعی بھلائی کے لیے کام کرنے کا جذبہ اتنا غالب کردیا جائے کہ وہی ان کے اندر اصل محرک عمل بن جائے۔ اشتراکیوں کا دعویٰ یہ تھا کہ انسانی فطرت اور جبلت اور موروثی میلانات محض بورژوا فلسفہ و سائنس کے ڈھکوسلے ہیں۔ اس نام کی کوئی چیز انسان کے اندر موجود نہیں ہے۔ ہم ذاتی نفع طلبی اور خود غرضی کے میلانات لوگوں کے اندر سے نکال ڈالیں گے اور ماحول کے تغیر سے اجتماعی ذہنیت ان میں پیدا کر دیں گے۔ لیکن اس بے بنیاد دعوے کو عملی جامہ پہنانے میں اشتراکی حضرات قطعی ناکام ہوچکے ہیں۔ وہ اپنے ملک کے عوام اور اپنے نظام معیشت و تمدن کے کارفرمائوں اور کارکنوں میں حقیقی اجتماعی ذہنیت اس مقدار سے ایک ماشہ بھر بھی زیادہ نہیں بڑھا سکے جتنی ہر سوسائٹی کے لوگوں میں فطرۃً موجود رہتی ہے۔ وہ ان کے اندر سے خود غرضی و نفع طلبی کو نکال دینا تو درکنار اسے کم بھی نہ کرسکے، بلکہ انہیں تھک ہار کر آخر کار اسے سیدھی طرح تسلیم کرنا پڑا اور لوگوں سے کام لینے کے لیے ان کی خود غرضی ہی کو اپیل کرنا پڑا۔ اس حد تک تو خیر وہ بورژوا نظام زندگی کے برابر رہے مگر جس چیز نے ان کو بورژوا نظام سے بھی زیادہ خرابی میں مبتلا کیا وہ یہ ہے کہ جب انہوں نے افراد کی نفع طلبی کے لیے زراعت، صنعت، تجارت اور دوسرے فائدہ مند کاروبار کے فطری راستے بند کر دیئے اور مصنوعی پروپیگنڈہ کے ذریعے سے اس نفع طلبی کے صاف اور سیدھے اور معقول مظاہر کو خواہ مخواہ معیوب ٹھیرا دیا۔ تو یہ جذبہ اندر دب گیا اور انسان کے تمام دوسرے دبے ہوئے جذبات کی طرح اس نے بھی منحرف (Pervert) ہو کر اپنے ظہور کے لیے ایسی غلط راہیں نکال لیں جو سوسائٹی کی جڑیں اندر ہی اندر کھوکھلی کررہی ہیں۔ اشتراکی معاشرے میں رشوت، خیانت، چوری، غبن اور اسی طرح کی دوسری برائیوں کے بڑھنے میں اس چیز کا بڑا دخل ہے۔ وہاں اگر کوئی چیز ممنوع ہے تو صرف یہ کہ ایک آدمی اپنی کمائی ہوئی دولت کو مزید دولت پیدا کرنے والے کسی کاروبار میں لگائے۔ اس کے سوا دولت کے سارے مصرف اسی طرح کھلے ہوئے ہیں جس طرح ہماری سوسائٹی میں ہیں۔ ایک آدمی اپنے لباس، خوراک، مکان، سواری، فرنیچر اور سامان عیش و عشرت پر جتنا چاہے روپیہ خرچ کرسکتا ہے، اپنا معیار زندگی جتنا چاہے بلند کرسکتا ہے، عیاشی و خوش باشی کی وہ ساری ہی صورتیں دل کھول کر اختیار کرسکتا ہے جو مغربی سوسائٹی میں مباح ہیں۔ اس سے جو روپیہ بچے اسے جمع کرسکتا ہے، اس جمع کردہ دولت کو (براہ راست خود تو نہیں مگر) حکومت کے ذریعہ سے کاروبار میں لگا سکتا ہے اور اس پر آٹھ دس فی صدی سالانہ تک سود پاسکتا ہے، اور جب مرنے لگے تو اس جمع شدہ دولت کو اپنے وارثوں کے لیے چھوڑ سکتا ہے۔
-5 اس قدر کشت و خون اور اکھیڑ پچھاڑ اور اتنے بڑے پیمانے پر دین و اخلاق اور انسانیت کی بربادی جس غرض کے لیے برداشت کی گئی تھی وہ یہ تھی کہ اشیاء کی لاگت اور ان کی بازاری قیمت کے درمیان جو منافع صرف زمیندار اور کارخانہ دار اور تاجر طبقے کھا جاتے ہیں وہ چند مخصوص طبقوں کی جیب میں جانے کے بجائے پوری سوسائٹی کے خزانے میں آئے اور سب پر برابری کے ساتھ یا کم از کم انصاف کے ساتھ تقسیم ہو۔ یہی انفرادی ملکیتوں کو ختم کرنے کی اصل غرض تھی اور یہی اگر حاصل ہوتی تو اسے اجتماعی ملکیت کا اصلی فائدہ کہا جاسکتا تھا مگر کیا واقعی یہ مقصد پورا ہوا؟ ذرا تجربہ کر کے دیکھئے کہ انفرادی ملکیتوں کو ختم کرنے سے زراعت، صنعت اور تجارت کے جو منافع اجتماعی خزانے میں آرہے ہیں وہ تقسیم کس طرح ہوتے ہیں؟
حکومت کے تمام شعبوں اور معاشی کاروبار کے تمام اداروں میں ادنیٰ ملازمین اور اعلیٰ عہدہ داروں کے درمیان معاوضوں میں اتنا ہی فرق ہے جتنا کسی بورژوا سوسائٹی میں پایا جاتا ہے۔ ایک عام کارکن کی تنخواہ اور اس کی زندگی کا معیار امریکہ و انگلستان کے مزدوروں کی بہ نسبت بہت پست ہے اور ہندوستان و پاکستان کے معیار سے اگر کچھ اونچا ہے تو کچھ بہت زیادہ نہیں۔ دوسری طرف ڈائریکٹروں اور مینجروں اور حکومت کے عہدہ داروں اور فوجی افسروں اور ایکٹروں اور ایکٹرسوں اور مصنفین و مولفین وغیرہ کی آمدنیاں بڑھتے بڑھتے کئی کئی لاکھ روبل سالانہ تک پہنچ گئی ہیں ۔گویا اگر پوری طرح نہیں تو ایک بڑی حد تک یہ تجارتی و صنعتی منافع اونچے اور نیچے طبقوں کے درمیان اسی نامساوی طریقے سے تقسیم ہورہا ہے جس طرح پہلے محنت پیشہ مزدوروں اور بورژوا لوگوں کے درمیان ہوتا تھا۔
پھر اشتراکی انقلاب برپا کرنے کے لیے محنت پیشہ عوام اور بورژوا لوگوں کے درمیان نفرت اور بغض اور انتقام کی جو عالمگیر آگ بھڑکائی گئی اس نے تمام دنیا کے غیر اشتراکی معاشروں کو روس کا مخالف بنا دیا اور اس بنا پر روس مجبور ہوگیا کہ انفرادی ملکیتوں کو ختم کرکے جو تجارتی و صنعتی منافع اس نے بورژوا طبقوں کے ہاتھوں میں جانے سے بچایا تھا اس کا ایک بڑا حصہ جنگی تیاریوں پر صرف کردے۔
ان دو بڑی بڑی مدوں میں کھپ جانے کے بعد اس منافع کا جتنا حصہ محنت پیشہ عوام کے نصیب میں آیا ہے وہ بس وہی ہے جو ’’سوشل انشورنس‘‘ کے کام میں صرف ہوتا ہے اور کل منافع کے مقابلے میں اس کا تناسب کیا ہے؟ انتہائی مبالغہ کے ساتھ بمشکل ایک یا دو فیصدی۔ (۱)
سوال یہ ہے کہ اگر اتنا ہی کچھ بلکہ اس سے زیادہ اچھی طرح کسی اور طریقے سے سوشل انشورنس کے لیے ملنے لگے تو پھر اس مار دھاڑ اور ظلم و ستم اور اس قربانیِ دین و اخلاق کے ساتھ انفرادی ملکیتیں ختم کرنے اور خواہ مخواہ اجتماعی ملکیت کا ایک مصنوعی نظام انسانی زندگی پر ٹھونسنے کی آخر حاجت ہی کیا ہے؟
-6 اجتماعی ملکیت، اجتماعی نظم و نسق اور اجتماعی منصوبہ بندی کو رائج کرنے کے لیے جان و مال اور مذہب و اخلاق اور انسانیت کی جو اکٹھی بربادی روس کو برداشت کرنی پڑی وہ تو گویا اس تجربے کے آغاز کی لاگت تھی۔ مگر اب روبعمل آجانے کے بعد روزمرہ کی زندگی میں وہ اہل روس کو دے کیا رہا ہے اور ان سے لے کیا رہا ہے؟ اس کا بھی ذرا موازنہ کر دیکھئے۔ وہ جو کچھ انہیں دیتا ہے وہ یہ ہے کہ:
ہر شخص کے لیے کم از کم اتنے روزگار کا انتظام ہوگیا ہے جس سے وہ دو وقت کی روٹی اور تن ڈھانکنے کو کپڑا اور سر چھپانے کو جگہ پاسکے اور اجتماعی طور پر اس امر کا بھی انتظام ہوگیا ہے کہ برے وقت پر آدمی کو سہارا مل سکے۔
بس یہی دو اصل فائدے ہیں جو اس نئے نظام نے باشندگان ملک کو دیئے۔ اب دیکھئے کہ اس نے لیا کیا؟
انفرادی ملکیت کے بجائے اجتماعی ملکیت کا نظام قائم کرنے کے لیے ناگزیر تھا کہ یہ کام وہی پارٹی اپنے ہاتھ میں لے جو اس نظریے کو لے کر اٹھی تھی، یعنی کمیونسٹ پارٹی۔ اس پارٹی کا نظریہ خود بھی یہ تھا اور خود اس کام کا تقاضا بھی یہی تھا کہ ایک زبردست ڈکٹیٹر شپ قائم ہو جو پورے زور کے ساتھ انفرادی ملکیت کے نظام کو توڑ دے اور سخت ہاتھوں سے نئے نظام کو رائج کردے۔ چنانچہ یہ ڈکٹیٹر شپ قائم ہوگئی اور اس کو کارکنوں کی ڈکٹیٹر شپ کا نام دیا گیا۔ لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ روس کے مزدوروں اور کاشت کاروں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے کارکنوں کی ساری آبادی کمیونسٹ پارٹی میں شامل نہیں ہے۔ شاید اس آبادی کے 5 فی صد لوگ بھی پارٹی کے ممبر نہ ہوں گے۔ پس ظاہر میں تو نام یہ ہے کہ یہ مزدوروں کی ڈکٹیٹر شپ ہے مگر حقیقت میں یہ مزدوروں پر کمیونسٹ پارٹی کی ڈکٹیٹر شپ ہے۔
اور یہ ڈکٹیٹر شپ بھی کچھ ہلکی پھلکی سی نہیں، اجتماعی ملکیت کے معنی یہ ہیں کہ ملک کے تمام زمیندار ختم کر دیئے گئے اور ایک وحدہ لاشریک زمیندار سارے ملک کی زمین کا مالک ہوگیا۔ سارے کارخانہ دار اور تجار اور مستاجر بھی ختم ہوگئے اور ان سب کی جگہ ایسے سرمایہ دار نے لے لی جو ذرائع پیداوار کی ہر قسم اور ہر صورت پر قابض ہوگیا۔اور پھر اسی کے ہاتھ میں سارے ملک کی سیاسی طاقت بھی مرکوز ہوگئی۔ یہ ہے کمیونسٹ پارٹی کی ڈکٹیٹر شپ۔ اب اگر روس میں بظاہر آپ یہ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ اس پوری معاشی، تمدنی اور سیاسی طاقت کو استعمال کررہے ہیں وہ عام آبادی کے ووٹوں ہی سے منتخب ہوا کرتے ہیں تو کیا فی الواقع اس کے معنی جمہوریت کے ہیں؟ سارے روس میں کس کی ہمت ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کے مقابلے میں ووٹ مانگنے کے لیے اٹھ سکے؟ اور اگر کوئی جرأت کرے بھی تو وہ سرزمین روس میں کھائے گا کہاں سے؟ اوراپنی آواز اٹھائے گا کس پریس سے؟ اور اپنی بات سنانے کے لیے ملک میں سفر کن ذرائع سے کرے گا؟ بلکہ یہ سب کچھ کرنے سے پہلے اس کو زندگی اور موت کا درمیانی فاصلہ طے کرنے میں دیر کتنی لگے گی؟ حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی ملکیت کے نظام میں حکومت کے پاس اتنی طاقت جمع ہوجاتی ہے جو تاریخ انسانی میں کبھی کسی چنگیز اور ہلاکو اور زار اور قیصر کے پاس بھی جمع نہیں ہوئی تھی۔ جو گروہ ایک دفعہ اس طاقت پر قابض ہوجائے پھر اس کے مقابلے میں اہل ملک بالکل بے بس ہوجاتے ہیں۔ کسی قسم کی بگڑی ہوئی حکومت کو بدل دینا اس قدر مشکل نہیں ہے جس قدر ایک بگڑی ہوئی اشتراکی حکومت کو بدلنا مشکل ہے۔
اس نظام حکومت میں برسراقتدار پارٹی ملک کی مجموعی زندگی کے لیے جو منصوبہ (Plan) بناتی ہے اسے کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے وہ پریس کو، ریڈیو کو، سینما کو، مدرسے کو پوری انتظامی مشینری کو اور پورے ملک کے معاشی کاروبار کو ایک خاص نقشے کے مطابق استعمال کرتی ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی کا انحصار ہی اس پر ہے کہ تمام ملک میں سوچنے اور رائے قائم کرنے اور فیصلہ کرنے والے دماغ صرف وہ چند ہوں جو مرکز میں بیٹھے منصوبہ بنا رہے ہیں۔ باقی سارا ملک صرف عملدرآمد کرنے والے دست و پا پر مشتمل ہو جو ’’تعمیل ارشاد‘‘ میں چون و چرا تک نہ کریں۔ تنقید اور نکتہ چینی اور رائے زنی کرنے والوں کے لیے اس نظام میں جیل اور تختۂ دار کے سوا اور کوئی جگہ نہیں ہے اور اگر ایسے دخل در معقولات دینے والے کو ملک بدر کر دیا جائے تو یہ گویا اس کے ساتھ بڑی رعایت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس میں خود کمیونسٹ پارٹی کے بڑے بڑے سربر آوردہ کارکنوں اور لیڈروں تک کو جن کی محنتوں اور قابلیتوں ہی کی بدولت اشتراکی تجربہ کامیابی کی منزل تک پہنچا، موت اور حبس دوام اور جلاوطنی کی سزائیں دے ڈالی گئیں صرف اس لیے کہ انہوں نے برسر اقتدار گروہ سے اختلاف کی جرأت کی تھی۔ پھر یہ اشتراکی اخلاقیات کا طرفہ تماشا ہے کہ جس کو بھی اختلاف کے جرم میں پکڑا گیا اس پر طرح طرح کے ہولناک الزامات بے تجاشا لگا دیئے گئے اور اشتراکی عدالتوں میں بھی یہ ایک حیرت انگیز کرامت پائی جاتی ہے کہ برسرِاقتدار پارٹی جس کو بھی ان کے سامنے ملزموں کے کٹہرے میں لاکھڑا کرتی ہے وہ استغاثے کے عین منشا کے مطابق اپنے جرائم کی فہرست خود ہی فرفر سناتا چلا جاتا ہے اور کچھ دبی زبان سے نہیں بلکہ پورے زور و شور کے ساتھ اعتراف کرتا ہے کہ وہ بڑا غدار اور سرمایہ داروں کا ایجنٹ او ر روس کی آستین کا سانپ ہے۔
پھر چونکہ یہ نظام انفرادی ملکیتوں اور مذہبی طبقوں کو زبردستی کچل کر قائم کیا گیا ہے اور ابھی وہ سب لوگ دنیا سے اور خود روس کی سرزمین سے مٹ نہیں گئے ہیں جن کے جذبات و حسیات اور حقوق کی قبر پر یہ قصر تعمیر ہوا ہے اس لیے کمیونسٹ پارٹی کی ڈکٹیٹر شپ کو ہر وقت روس میں جوابی انقلاب کاخطرہ لگا رہتا ہے۔ علاوہ بریں اشتراکی حضرات یہ بھی خوب جانتے ہیں کہ ان کے انکار کے باوجود انسانی فطرت نام کی ایک چیز موجود ہے جو انفرادی نفع طلبی کا جذبہ رکھتی ہے اور وہ ہر وقت زور لگا رہی ہے کہ پھر انفرادی ملکیت کا نظام واپس آجائے۔ انہی وجوہ سے ایک طرف کمیونسٹ پارٹی خود اپنے نظام کو آئے دن ’’جلاب‘‘ دیتی رہتی ہے تاکہ جن لوگوں میں ’’رجعت‘‘ کی ذرا سی بو بھی پائی جائے انہیں صاف کیا جاتا رہے(۱) اور دوسری طرف پارٹی کی حکومت سارے ملک میں جوابی انقلاب کے خطرات، امکانات بلکہ شبہات اور وہم و گمان تک کو مٹا دینے کے لیے ہر وقت تلی رہتی ہے۔ اس نے جاسوسی کا ایک وسیع نظام قائم کر رکھا ہے جس کے بے شمار کارکن ہر ادارے، ہر گھر اور ہر مجمع میں ’’رجعت پسندوں‘‘ کو سونگھتے پھرتے ہیں۔ اس جاسوسی کے پر اسرار جال نے شوہروں اور بیویوں تک کے درمیان شک و شبہ کی دیوار حائل کردی ہے حتیٰ کہ ماں باپ کے خلاف خود ان کی اولاد تک سے جاسوسی کی خدمت لینے میں دریغ نہیں کیا گیا ہے۔ روس کی پولیس اور سی آئی ڈی کا ’’محتاط‘‘ نظریہ یہ ہے کہ اگر بھول چوک سے چند سو یا چند ہزار بے گناہ آدمی پکڑے اور مار ڈالے جائیں تو یہ اس سے بہتر ہے کہ چند گنہگار چھوٹ جائیں اور ان کے ہاتھوں سے جوابی انقلاب برپا ہوجائے۔ اسی لیے وہ ہر فیکٹری، ہر کان، ہر دفتر اور ہر ادارے میں دیکھتے رہتے ہیں کہ کون سا مزدور یا کارکن ملک کے یا خود اپنے ادارے کے انتظام پر ناک بھوں چڑھاتا ہے یا کسی قسم کی بے اطمینانی کا اظہار کرتا ہے۔ اس طرح کا کوئی فعل کرنا تو درکنار، جس پر شبہ ہوجائے کہ وہ ایسے جراثیم رکھتا ہے وہ بھی اچانک گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ آئے دن کا معمول ہے اس لیے جب کوئی کارکن رات کو اپنے گھر نہیں پہنچتا تو اس کی بیوی خود ہی سمجھتی ہے کہ پکڑا گیا۔ دوسرے دن وہ اس کی ضرورت کی چیزیں آپ ہی آپ پولیس کے دفتر میں پہنچانی شروع کر دیتی ہے اور ان کا قبول کرلیا جانا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس کا قیاس صحیح تھا۔ وہ کوئی سوال کرے تو دفتر کی طرف سے اسے کوئی جواب نہیں ملتا۔ ایک روز یکایک ایسا ہوتا ہے کہ اس کا بھیجا ہوا پارسل واپس آجاتا ہے، بس یہی اس امر کی اطلاع ہے کہ اس کا خاوند لینن کو پیارا ہوا۔ اب اگر وہ نیک بخت خود بھی اسی انجام سے دو چار ہونا نہ چاہتی ہو تو اس کا فرض ہے کہ ایک اچھی کامریڈنی کی طرح اس معاملے کی بھاپ تک منہ سے نہ نکالے اور دوسرا کوئی ایسا خاوند ڈھونڈے جو ’’رجعت پسندی‘‘ کے شبہ سے بالاتر ہو۔
یہ ہے وہ قیمت جو دو وقت کی روٹی اور برے وقت کی دستگیری کے لیے اشتراکی روس کے باشندوں کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ کیا واقعی اس قیمت پر یہ سودا سستا ہے؟ بلاشبہ ایک فاقہ کش آدمی بسا اوقات بھوک کی شدت سے اتنا مغلوب ہوجاتا ہے کہ وہ جیل کی زندگی کو اپنی مصیبت بھری آزادی پر ترجیح دینے لگتا ہے۔ صرف اس لیے کہ وہاں کم از کم دو وقت کی روٹی، تن ڈھانکنے کو کپڑا اور سر چھپانے کو جگہ تو نصیب ہوگی۔ مگر کیا اب پوری نوع انسانی کے لیے فی الواقع یہ مسئلہ پیدا ہوگیا ہے کہ اسے روٹی اور آزادی دونوں ایک ساتھ نہیں مل سکتیں؟ کیا روٹی ملنے کی اب یہی ایک صورت باقی رہ گئی ہے کہ ساری روئے زمین ایک جیل خانہ ہو اور چند کامریڈز اس کے جیلر اور وارڈر ہوں؟

ردعمل

روس میں اشتراکیت نے اپنا نظام قائم کرنے کے لیے جتنے بڑے پیمانے پر، جیسے سخت ہولناک ظلم کئے اور پھر اس انقلاب کی کامیابی نے دنیا کے ہر ملک میں طبقاتی جنگ کی سلگتی ہوئی آگ پر جو تیل چھڑکا، اس نے تمام غیر اشتراکی ممالک کے اہل فکر کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ وہ بے قید معیشت کے اصولوں اور طریقوں میں کیا ترمیم کریں جس سے محنت پیشہ طبقوں کی شکایات رفع ہوں اور ان کا ملک اشتراکی انقلاب کے خطرے میں پڑنے سے بچ جائے۔ اگرچہ بے قید معیشت کی برائیاں اسی وقت سے نمایاں ہونی شروع ہوگئی تھیں جب سے جدید سرمایہ داری کا نظام قائم ہوا۔ اس پر تنقید برابر ہوتی رہی۔ اس میں سطحی اور جزوی اصلاحات بھی کچھ نہ کچھ ہوتی رہیں۔ لیکن تغیر، ترمیم اور اصلاح کی ضرورت کا حقیقی احساس روسی اشتراکیت کے عمل، اثرات اور نتائج کو دیکھ کر ہی پیدا ہوا اور اس رد عمل نے نظام سرمایہ داری کے دو بڑے بڑے علاقوں میں دو مختلف صورتیں اختیار کیں۔
جن قوموں کے نظام زندگی کو جنگ عظیم اول نے بری طرح درہم برہم کردیا تھا اور جنہیں اشتراکیت کی بھڑکائی ہوئی طبقاتی جنگ سے کامل تباہی کا خطرہ لاحق ہوگیا تھا اور جن کی سرزمین میں جمہوریت کی جڑیں کچھ مضبوط بھی نہ تھیں، ان کے ہاں فاشزم اور نازی ازم نے جنم لیا۔
جن قوموں میں جمہوریت مضبوط بنیادوں پر قائم تھی اور جن کے نظام زندگی میں جنگ نے کچھ بہت زیادہ خلل بھی نہیں ڈالا تھا انہوں نے اپنی پرانی وسیع المشرب جمہوری سرمایہ داری کو اس کی نظری بنیادوں پر قائم رکھتے ہوئے صرف اس کی ’’بے قیدی‘‘ میں ایسی اصلاحات کرنے کی کوشش کی جس سے اس کے نقصانات دور ہوجائیں۔

فاشزم اور نازی ازم

اشتراکی حضرات بالعموم اٹلی کی فاشی اور جرمنی کی نازی تحریک کو سرمایہ داری کی رجعت قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں اور الزام رکھتے ہیں کہ بورژوا سرمایہ داروں نے اپنی بازی ہرتی دیکھ کر ہٹلر اور مسولینی کو کھڑا کردیا تھا لیکن یہ اصل حقیقت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ کسی طبقے یا کسی مخصوص مفاد کے بدنیت ایجنٹ نہیں تھے۔ مارکس اور لینن ہی کی طرح کے لوگ تھے ۔ ویسے ہی مخلص، ویسے ہی ذہین، اور ویسے ہی کج فہم۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف جنگ کی زبردست چوٹ نے ان کی قوم کو اس قدر بدحال کردیا ہے کہ صدیوں کا قومی فخروناز خاک میں ملا جاتا ہے۔ دوسری طرف بے قید معیشت کی اندرونی خرابیاں اور اشتراکیت کی اوپری انگیخت قوم کے مختلف عناصر کو آپس ہی میں ایک سخت خونریز اور غارتگر کشمکش میں مبتلا کئے دے رہی ہیں۔ اس لیے انہوں نے ایسی تدبیریں سوچنی شروع کیں جن سے وہ طبقاتی اغراض کی اندرونی نزاع کو دور کرکے اپنی قومی وحدت کو پارہ پارہ ہونے سے بھی بچالیں اور اپنی قوم کی معاشی، تمدنی اور سیاسی طاقت کو مضبوط کرکے از تر نو اس کی عظمت کا سکہ بھی دنیا میں بٹھا دیں۔ لیکن وہ اور ان کے حامی اور پیرو سب کے سب مغربی ذہن کی ان ساری کمزوریوں کے وارث تھے جنہیں ہم تاریخ میں مسلسل کارفرما دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ اپنے پیش رو مفکرین و مدبرین کی طرح انہوں نے بھی یہی کیا کہ چند صداقتوں کو لے کر ان کے اندر بہت سے مبالغے کی آمیزش کی، چند صداقتوں کو ساقط کرکے ان کی جگہ چند حماقتیں رکھ دیں اوراس ترکیب سے ایک نیا غیرمتوازن نظام زندگی بنا کھڑا کیا۔
آئیے اب ذرا اس مرکب کا بھی جائزہ لے کر دیکھیں کہ اس میں صحیح اور غلط کی آمیزش کس طرح کس تناسب سے تھی اور اس کے نفع و نقصان کی میزان کیا رہی۔ اگرچہ جنگ عظیم دوم میں شکست کھا کر یہ دونوں توام بھائی بظاہر مر چکے ہیں لیکن ان کی پھیلائی ہوئی بہت سی بدعتیں بدلے ہوئے ناموں سے مختلف ملکوں میں اب بھی موجود ہیں اور خود ہمارا ملک بھی ان بلائوں سے محفوظ نہیں ہے۔ اس لیے فاشیت اور نازیت کے اجزاء صالح اور اجزاء فاسد کی نشاندہی اب بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی جنگ سے پہلے تھی۔

صحیح اور مفید کام

فاشی اور نازی حضرات اشتراکیوں کے اس خیال کو رد کر دینے میں بالکل حق بجانب تھے کہ ایک معاشرے اور ایک قوم کے زمیندار و سرمایہ دار طبقات اور محنت پیشہ طبقات کے درمیان صحیح اور فطری تعلق صرف نفرت، عناد اور جنگ ہی کا تعلق ہے۔ ان کا یہ خیال بالکل صحیح تھا کہ اصل چیز طبقہ نہیں بلکہ معاشرہ اور قوم ہے جس کے مختلف اجزاء و اعضاء اپنے مجموعہ کے لیے مختلف خدمات انجام دیتے ہیں۔ ان کے درمیان حقیقی تعلق دشمنی اور جنگ اور پیکار کانہیں بلکہ موافقت اور تعاون اور تعامل کا ہے۔ ان کا کام یہ ہے کہ سب مل کر سب کے لیے اشیاء ضرورت پیدا کریں اور اجتماعی پیداوار کو بڑھا کر قومی دولت اور طاقت میں اضافہ کریں۔ اس موافقت اور تعاون میں اگر کوئی کمی یا خلل ہو تو اسے دور ہونا چاہیے۔ نزاع و اختلاف ہو تو اسے رفع ہونا چاہیے۔ نہ یہ کہ وہ بڑھے اور ایک ہی معاشرے کے اجزاء ایک دوسرے کو فنا کر دینے پر تل جائیں۔
انہوں نے اشتراکیت کے اس نظریے کو بھی بجا طور پر رد کر دیا کہ اجتماعی مفاد کے لیے انفرادی ملکیت اور ذاتی نفع طلبی بجائے خود کوئی نقصان دہ چیز ہے جسے ختم ہوجانا چاہیے۔ ان کا یہ خیال بالکل صحیح تھا کہ یہ دونوں چیزیں خود اجتماعی مفاد ہی کے لیے مفید اور ضروری ہیں۔ بشرطیکہ یہ بے قید معیشت کی طرح غیر محدود نہ ہوں بلکہ کچھ حدود کے ساتھ محدود کر دی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ افراد کو اپنے نفع کے لیے جدوجہد کرنے کا حق تو ضرور ہے مگر اس حق کا استعمال اجتماعی مفاد کے تحت اور اس کے مطابق ہونا چاہیے نہ کہ اس کے خلاف مرکزی مالیات (High Finance) معدنیات، جہاز سازی و جہاز رانی، سامان جنگ کی صنعت اور ایسے ہی دوسرے بڑے کاروبار (Big Business) انفرادی ملکیت میں نہ رہنے چاہییں۔ ایسے اجاروں کو بھی ختم ہونا چاہیے جن میں اجتماعی مفاد کو شخصی مفاد پر قربان کیا گیا ہو۔ تجارت میں سے سٹے کو قطعی بند ہونا چاہیے۔ قرض و استقراض کے نظام میں سے سود کو بالکل ساقط ہوجانا چاہیے(۱) اور کاروبار کو ایسے قواعد و ضوابط کا پابند ہونا چاہیے جو اس سے تعلق رکھنے والے سب لوگوں کے مفاد سے مطابقت رکھتے ہوں نہ کہ صرف ایک گروہ کے مفاد سے۔ اس کے بعد اگر ایک کارخانہ دار قیمتیں مناسب رکھتا ہے، مال اچھا تیار کرتا ہے، اپنے مزدوروں کو خوشحال اور خوشدل رکھتا ہے، اپنی صنعت کو ترقی دینے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اپنی ان خدمات کے معاوضے میں جائز حدود کے اندر رہ کر منافع لیتا ہے تو وہ آخر کس جرم کا مرتکب ہے کہ خواہ مخواہ اسے دشمنِ جماعت قرار دیا جائے؟
انہوں نے اپنی وسیع المشربی کے اس نظریے کو بھی بالکل بجا طور پر رد کر دیا کہ حکومت صرف پولیس اور عدالت کے فرائض انجام دے اور معاشی زندگی کے کاروبار سے کچھ غرض نہ رکھے۔ انہوں نے کہا کہ قومی معیشت کے مختلف عناصر کے درمیان ہم آہنگی اور توافق اور تعاون پیدا کرنا اور نزاع و کشمکش کے اسباب کو دور کرنا قومی ریاست کے فرائض میں سے ہے۔ انہوں نے ایک طرف ہڑتال کو اور دوسری طرف کارخانے بند کرنے کو ازروئے قانون ممنوع ٹھیرایا۔ اجیروں اور مستاجروں کی مشترک کونسلیں بنائیں، ان کے درمیان حقوق و فرائض انصاف کے ساتھ مقرر کرنے کی کوشش کی اور ان کے جھگڑوں کو چکانے کے لیے باہمی گفت و شنید، پھر پنچایت اور بالآخر عدالتی فیصلے کا ایک باقاعدہ نظام مقرر کردیا۔
انہوں نے سرمایہ داری نظام کی اس خرابی کو دور کرنے کی کوشش کی کہ جو لوگ بیکار ہوتے ہیں یا ناکارہ ہو جاتے ہیں ان کی خبرگیری کا کوئی ذمہ دار نہیں ہوتا۔ اس طرح بے وسیلہ لوگوں کو بے سہارا چھوڑ دینے کے جو نقصانات ہوسکتے ہیں نازیوں اور فاشیوں نے ان کو محسوس کیا اور بہت وسیع پیمانے پر سوشل انشورنس کااہتمام کیا جس کے ذریعے سے بیماری، بڑھاپے، بیکاری اور حادثات کی صورت میں کارکنوں کو مدد دی جاتی تھی۔ نیز انہوں نے مائوں اور بچوں کی نگہداشت، فلاح اطفال، اپاہجوں اور معذروں کی خبرگیری، جنگ میں ناکارہ ہوجانے والوں کی امداد، لاوارث بوڑھوں کی دیکھ بھال اور ایسے ہی دوسرے امور خیریہ کے لیے عظیم الشان ادارے قائم کئے۔ جنگ سے پہلے جرمنی میں اس طرح کا جو ادارہ قائم تھا اس نے تقریباً 50 لاکھ افراد کو سنبھال رکھا تھا۔
انہوں نے بے قید معیشت کے اس عیب کو دور کرنے کی طرف بھی توجہ کی کہ سارا معاشی کاروبار بغیر کسی نقشے اور منصوبے اور ہم آہنگی کے چلتا رہتا ہے اور اس کی وجہ سے معاشی و سائل پوری طرح سے استعمال نہیں ہوتے اور جتنے کچھ استعمال ہوتے ہیں ان میں توازن نہیں ہوتا۔ اس خرابی کو دور کرنے کے لیے انہوں نے قومی معیشت کی رہنمائی اورتنظیم و توفیق (Co-ordination) کا کام ریاست کے ہاتھ میں لے لیا، معاشی زندگی کے تمام شعبوں کی کونسلیں بنائیں، اور ایک منضبط اور منظم طریقے سے پیداوار کے وسائل اور قوتوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح انہوں نے بے روزگاری کا خاتمہ کردیا۔(۱) پیداوار میں حیرت انگیز اضافہ کیا اور مختلف شعبوں میں ہموار ترقی کی۔

حماقتیں اور نقصانات

یہ تھیں فاشیت اور نازیت کی برکات، مگر ان برکات کے لیے اٹلی اور جرمنی کو قیمت کیا دینی پڑی؟
نازی اور فاشی حضرات نے طبقاتی منافرت کے افتراق انگیز اثرات کا مداوا قوم پرستی کی شراب سے نسلی فخروغرور کے جنون سے، دوسری قوموں کے خلاف نفرت اور غیظ و غضب کے اشتعال سے اور عالمگیری و جہاں کشائی کے جذبات سے کیا جس کا انجام کبھی کسی قوم کے حق میں بھی اچھا نہیں ہوا ہے۔ قوموں کا صحیح نشوونما اور اٹھان اگر ہوسکتا ہے تو صرف تعمیری اخلاقیات اور ایک صالح نصب العین ہی کے بل پر ہوسکتا ہے۔ جو لیڈر اس طریقے کو چھوڑ کر قومیت کے استحکام و ترقی کے لیے نفرت اور خطرے اور اشتعال ہی کو مستقل وسائل کے طور پر استعمال کرنے لگتے ہیں وہ اپنی قوم کا مزاج بگاڑ دیتے ہیں اور ایسے ذرائع سے اٹھی ہوئی قوم ایک نہ ایک دن بری طرح ٹھوکر کھا کر گرتی ہے۔
انہوں نے اپنی قوم کی بھلائی کے لیے معاشی و تمدنی اصلاح کا جو پروگرام بنایا اس کو سیدھے سیدھے معقول طریقے سے نافذ کرنے کے بجائے ایک نہایت لغو اجتماعی و سیاسی فلسفہ گھڑا جو بے شمار مبالغہ آفرینیوں اور عملی حماقتوں کا مرکب تھا۔ انہوں نے پہلے یہ مقدمہ قائم کیا کہ ’’فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں۔‘‘ پھر اس پر یہ ردا چڑھایا کہ ربط ملت میں جو فرد شامل نہیں ہوتا یا اس ربط کے قیام میں مانع ہوتا ہے اسے واقعی کچھ نہ رہنا چاہیے۔ اس کے بعد استدلال کی عمارت یوں کھڑی کی کہ ربط ملت کا اصل مظہر ہے قومی ریاست اور قومی ریاست کے ضبط واستحکام کاانحصار ہے اس پارٹی پر جو قومی وحدت اور ترقی کا یہ پروگرام لے کر اٹھی ہے لہٰذا ’’جرمن ہے تو نازی پارٹی میں آ‘‘ اور ’’اٹالین ہے تو فاشست ہوجا۔‘‘ اس طرح قوم اور ریاست اور حکومت اور حکمران پارٹی کو ایک ہی چیز بناڈالا گیا۔ ہر اس شخص کو قوم اور قومی ریاست کا دشمن قرار دے دیا گیا جس نے برسراقتدار پارٹی سے کسی معاملے میں اختلاف کی جرأت کی۔ تنقید اور بحث اور آزادی رائے کو ایک خطرناک چیز بنادیا گیا۔ ایک پارٹی کے سوا ملک میں کوئی دوسری پارٹی زندہ نہ رہنے دی گئی۔ انتخابات محض ایک کھیل بن کر رہ گئے۔ قوم کے دماغ پر ہر طرف سے مکمل احاطہ کرنے کے لیے پریس، ریڈیو، درسگاہ، آرٹ، لٹریچر اور تھیٹر کو بالکل حکمران پارٹی کے قبضے میں لے لیا گیا تاکہ قوم کے کانوں میں ایک آواز کے سوا کوئی دوسری آواز پہنچنے ہی نہ پائے۔ یہی نہیں بلکہ ایسی تدبیریں اختیار کی گئیں کہ اول تو غالب پارٹی کی رائے کے سوا کوئی رائے دماغوں میں پیدا ہی نہ ہو اور اگر کچھ نالائق دماغ ایسے نکل آئیں جو خداوندان ملت کے خیالات سے مختلف خیالات رکھتے ہوں تو یا تو ان کے خیالات ان کے دماغ ہی میں دفن رہیں یا پھر ان کے دماغ زمین میں دفن ہوجائیں۔
انہوں نے بظاہر یہ بڑا ہی معقول سا نظریہ اختیار کیا کہ اجتماعی زندگی میں کوئی مرکزی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے انتشار، بد نظمی اور باہمی کشمکش بھی پیدا ہوتی ہے اور مجموعی طور پر طاقت اور ذرائع کا ضیاع بھی بہت بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔ لہٰذا پوری قومی زندگی کو منظم ہونا چاہیے اور ایک مرکزی حکم کے تحت ایک مرکزی طاقت کے مقرر کئے ہوئے نقشے پر تمام افراد کو بالکل ایک مشین کے پرزوں کی طرح باقاعدہ کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے خیال کیا کہ پیداوار اور ترقی اور خوشحالی کو تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھانے کی یہی ایک صورت ہے۔ چنانچہ اس نظریے کے مطابق انہوں نے سارے ملک کی زندگی کو اس کے تمام معاشی، تمدنی، مذہبی، تہذیبی اور سیاسی پہلوئوں سمیت ایک ضابطے میں کس ڈالا اور ایک لگے بندھے منصوبے پر چلانا شروع کردیا۔ ان کے نظام زندگی میں سب کچھ مقرر تھا۔ ہر شخص اور ہر ادارے کا کام مقرر، اجرتیں مقرر، قیمتیں مقرر، حقوق اور فرائض مقرر، قوتوں اور قابلیتوں کے استعمال کی صورتیں مقرر، سرمائے اور وسائل و ذرائع کے مصرف مقرر، حتیٰ کہ فکر و خیال اور جذبات و رجحانات کی راہیں تک مقرر اور ان سب کے لیے کئی کئی سال کے پروگرام مقرر۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جن لوگوں نے محض قوم کی خاطر اتنی تکلیفیں اٹھا کر اور اتنی مغززنی کرکے پوری قومی زندگی کی اتنے بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کی ہو، وہ بھلا کیسے برداشت کرلیتے کہ ایک شخص اٹھے اور ان پر تنقید کرکے دماغوں میں انتشار پھیلائے۔ جن کارکنوں کو کام میں منہمک ہونا چاہیے انہیں بحث میں الجھا دے، اور اتنی محنت سے بنائے ہوئے منصوبے پر سے عوام الناس کا اطمینان اور اعتماد ختم کردے، پس یہ ’’منصوبہ بند‘‘ زندگی کی اندرونی منطق ہی کا تضاضا تھا جس کی بنا پر وہ تنقید اور رائے زنی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے اور اس بات پر مصر تھے کہ جس کو بولنا ہو وہ ہمارے پروگرام کی موافقت میں بولے ورنہ اپنا منہ بند رکھے۔ منصوبہ بندی ہوگی تو زبان بندی اور خیال بندی بھی ضرور ہوگی۔ اختلاف رائے بند، بحث بند، تنقید بند، مواخذہ اور احتساب بند، بلکہ چند خاص دماغوں کے سوا ساری قوم کے دماغوں کا سوچنا بھی بند۔
یہاں پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ نازی اور فاشی مسلک جو کچھ دیتے ہیں کیا وہ اس قیمت پر لینے کے قابل ہے؟ ساری قوم میں چند انسان تو ہوں انسان، اور باقی سب بن کر رہیں مویشی، بلکہ ایک مشین کے بے جان پرزے۔ اس قیمت پر یہ اطمینان ہوتا ہے کہ سب کو چارہ برابر ملتا رہے گا۔

 

نظام سرمایہ داری کی اندرونی اصلاحات

اب ہمیں ایک نظریہ یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ جن ممالک میں وسیع المشرب جمہوریت کی جڑیں مضبوط تھیں انہوں نے نظام سرمایہ داری کو اس کی اصل بنیادوں پر قائم رکھتے ہوئے اس کے اندر کس قسم کی اصلاحات کیں اور اس سے کیا نتائج برآمد ہوئے۔
جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں، اٹھارویں صدی میں بورژوا طبقہ ایک طرف اپنے معاشی مفاد کے لیے بے قید معیشت کے اصول پیش کررہا تھا اور دوسری طرف یہی طبقہ اپنے سیاسی مفاد کے لیے جمہوریت، مساوات اور حاکمیت عوام کا صور پھونک رہا تھا، آزادی رائے، آزادی ضمیر، آزادی تحریر و تقریر اور آزادی اجتماع کے حقوق کا مطالبہ کررہا تھا۔ حتیٰ کہ اس بات پر بھی زور دے رہا تھا کہ ناقابل برداشت جبر کے مقابلہ میں رعایا کو حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کا حق ہے۔ ابتداء میں جب یہ لوگ ان نظریات کو پیش کررہے تھے تو ان کے پیش نظر شاہی خاندان، مالک زمین اور ارباب کلیسا تھے۔ سامنے وہ ان کو دیکھتے تھے اور مقابل میں صرف اپنے آپ کو پاتے تھے۔ اس لیے ان کو بالکل یہ محسوس نہ ہوا کہ وہ ایک طرف جس بے قید انفرادیت پر معاشی نظام کی عمارت جس جمہوریت اور تمدنی مساوات پر تعمیر کررہے ہیں، یہ دونوں کبھی ایک دوسرے کی ضد ثابت ہوں گی اور آپس میں ایک دوسرے سے متصادم ہوجائیں گی۔
جب ان کی جدوجہد سے نئے جمہوری نظام نے مختلف ممالک میں جنم لینا شروع کیا اور ووٹ کا حق مالکان زمین سے گزر کر تاجروں، کارخانہ داروں اور ساہو کاروں تک وسیع ہوا تو پھر یہ ممکن نہ رہا کہ کسی دلیل سے اس کو مزدوروں اور کاشتکاروں اور محنت پیشہ عوام تک پہنچنے سے روکا جاسکے۔ بورژوا حضرات نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کی اپنی ہی منطق ان کے خلاف کام کرنے لگی۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ ان کو اسی طرح عوام کا حق رائے دہی تسلیم کرنا پڑا جس طرح پہلے مالکانِ زمین کو خود ان کا حق ماننا پڑا تھا۔ پھر کسی دلیل سے یہ بات بھی معقول ثابت نہ کی جاسکتی تھی کہ مستاجروں کے لیے تو اپنی تنظیم جائز ہو اور اجیروں کے لیے جائز نہ ہو، یا مستاجر تو اپنی شرائط اپنی متحدہ طاقت سے اجیروں پر عائد کریں مگر اجیر اپنی جماعت کے زور سے اپنی شرائط منوانے کے مجاز نہ ہوں۔ اس طرح رفتہ رفتہ مزدوروں اور ملازموں کا یہ حق بھی تسلیم کرلیا گیا کہ وہ اپنی انجمنیں بنائیں، اکیلے اکیلے نہیں بلکہ مجموعی طاقت سے اجرتوں اور تنخواہوں اور شرائط کار کے لیے سود اچکائیں، اپنی شکایات رفع کرانے کے لیے ہڑتال کا حربہ استعمال کریں اور ہڑتال کو کامیاب بنانے کے لیے پہرہ لگائیں۔
انیسویں صدی کے خاتمہ کے ساتھ سیاست کا یہ پرانا نظریہ بھی ختم ہونے لگا کہ ریاست کا کام فقط شخصی آزادیوں کی حفاظت ہے اور قومی زندگی میں ریاست کے ایجابی فرائض کچھ بھی نہیں ہیں۔ اب اس کی جگہ یہ احساس خود بخود ابھرنا شروع ہوا کہ ایک جمہوری ریاست تو خود باشندگان ملک ہی کی متفقہ مرضی کی مظہر ہوتی ہے اور جمہور اپنی ہی سیاسی طاقت کو ریاست کی شکل میں مرتکز اور منظم کرتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ پرانی شاہی حکومتوں کی طرح اب جمہوری حکومت کے دائرہ عمل کو بھی محدود رکھنے پر اصرار کیا جائے۔ جمہوری حکومت کے فرائض محض سلبی نہ ہونے چاہئیں بلکہ اسے ایجابی طور پر اجتماعی مفاد کے لیے کام کرنا چاہیے اور اگر معاشرے میں بے انصافیاں پائی جاتی ہوں تو قانون سازی اور انتظامی مداخلت، دونوں کے ذریعے سے اس کو ان کا تدارک کرنا چاہیے۔
حالات یہاں تک پہنچ چکے تھے کہ یکایک جنگ عظیم اول پیش آگئی، پھر روس میں وہ اشتراکی انقلاب برپا ہوا جس نے بورژوا طبقے کے زن بچے تک کو کولہو میں پیل دیا، پھر جرمنی اور اٹلی میں اس کا ردعمل فاشیت اور نازیت کی شکل میں رونما ہوا جس نے بورژوا اور محنت پیشہ عوام، سب کو ایک سخت جابرانہ نظام میں کس دیا۔ ان واقعات نے سرمایہ داری کو اچھا خاصا ’’روشن خیال‘‘ بنادیا اور وہ کچھ تو عوام کی بڑھتی ہوئی طاقت کے دباؤ سے اور کچھ اپنی مرضی سے پرانی بے قید معیشت کے نظام میں حسب ذیل تغیرات قبول کرتی چلی گئی:
-1 ہر شعبۂ معیشت میں مزدوروں اور ملازموں کی ایسی تنظیمات کو باقاعدہ تسلیم کرلیا گیا ہے جو ان کی طرف سے بات کرنے کی مجاز ہیں۔ اس کے ساتھ ایک حد تک رسمی یا قانونی طور پر بعض ایسی عملی تدبیروں کو بھی جائز و معقول مان لیا گیا ہے جنہیں مزدروں اور ملازموں کی انجمنیں اپنے مطالبات منوانے اور ان کی خاطر دبائو ڈالنے کے لیے استعمال کرسکتی ہیں۔ اس طرح اگرچہ سرمایہ و محنت کی کشمکش ختم تو نہیں ہوئی لیکن محنت اب سرمایہ کے مقابلے میں اتنی بے بس بھی نہیں رہی ہے جتنی بے قید معیشت کے دور میں تھی۔
-2 اجرتوں میں اضافہ، اوقات کار میں کمی، کام کرنے کے حالات میں نرمی، عورتوں اور بچوں سے محنت لینے پر پابندی، مزدور کی جان اور صحت کی نسبتاً زیادہ پروا، اس کے گھر اور ماحول کو پہلے سے بہتر بنانے کی کوشش، جسمانی نقصان پہنچ جانے کی صورت میں اس کی کچھ نہ کچھ تلافی اور پھر سوشل انشورنس کی بھی بعض اسکیموں کی ترویج، یہ سب کچھ اگرچہ اس حد تک نہیں ہوا جتنا ہونا چاہیے تھا لیکن بہرحال اب مزدوروں اور نچلے طبقے کے ملازموں کا حال اتنا خراب بھی نہیں ہے جتنا پہلے تھا۔
-3 حکومت کی یہ حیثیت تسلیم کر لی گئی ہے کہ وہ محنت اور سرمایہ کے درمیان حکم بنے، نیز ان کی باہمی کشمکش کو دور کرنے اور ان کے جھگڑے چکانے کی مختلف قانونی صورتیں بھی مقرر کردی گئی ہیں۔ یہ چیز اگرچہ اس حد تک نہیں پہنچی ہے کہ ہر شعبہ معیشت میں اجیر اور مستاجر کے درمیان حقوق و فرائض کا منصفانہ تعین کردیا جائے اور ابھی معاشی نزاعات میں عدالتی فیصلہ دینے کا کام بھی حکومت نے پوری طرح سے اپنے ہاتھ میں نہیں لیا ہے لیکن اصولاً حکومت کا یہ منصب تسلیم کرلیا گیا ہے۔
-4 یہ اصول بھی مان لیا گیا ہے کہ انفرادی نفع اندوزی پر ایسی پابندیاں عائد ہونی چاہئیں جن سے وہ اجتماعی مفاد کے خلاف نہ ہونے پائے اور یہ کہ ایسی پابندیاں عائد کرنا حکومت ہی کے فرائض میں سے ہے۔
5 بعض ایسی معاشی خدمات کو اکثر حکومت نے خود اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے جو یا تو انفرادی کاروبار کے بس کی نہیں ہیں یا جنہیں افراد کے قبضہ میں دینا مجموعی مفاد کے خلاف ہے۔ مثلاً ڈاک اور تار اور وسائل حمل و نقل کا انتظام، سڑکوں اور شاہراہوں کی تعمیر اور ان کو درست حالت میں رکھنا، جنگلات کی پرداخت اور ان کا نظم و نسق، آب رسانی اور آب پاشی۔ برق آبی کی پیدائش اور تقسیم، روپے کا کنٹرول، اس کے علاوہ حکومتوں نے عموماً معدنیات کو بھی اپنے اجارے میں لے لیا ہے اور بعض بڑی بڑی صنعتوں کو اپنے انتظام میں چلانا شروع کردیا ہے۔
-6 تھوڑی تھوڑی آمدنیاں رکھنے والے ملازموں اور مزدوروں کے لیے ایسے مواقع پیدا کر دیئے گئے ہیں کہ وہ تھوڑا تھوڑا پس انداز کرکے تجارتی اور صنعتی کمپنیوں میں کم قیمت کے حصے خرید لیں اور بعض جگہ ایسی صورتیں بھی اختیار کی گئی ہے کہ خاص خاص قواعد کے مطابق ملازموں اور مزدوروں کی اجرتوں کا ایک حصہ ان کو نقد ملتا جاتا ہے اور ایک حصہ ان کی طرف سے کمپنی کے سرمایہ میں شریک ہوتا جاتا ہے۔ اس طرح بکثرت محنت پیشہ کارکن اس کمپنی یا کارپوریشن کی ملکیت میں حصے دار بھی ہوگئے ہیں جن کے اندر وہ مزدوری یا ملازمت کررہے ہیں۔ بعض بڑے بڑے مشہور کارخانوں میں 80 فی صدی اور 90 فی صدی مزدور اور ملازم شریک ملکیت ہو چکے ہیں اور اقساط پر حصے خریدنے کی آسانیاں حاصل ہونے کی وجہ سے کارخانوں میں ان کی حصہ داری کا تناسب برابر بڑھتا جارہا ہے۔

وہ خرابیاں جو اَب تک نظام سرمایہ داری میں باقی ہیں

لیکن ان تمام تغیرات، ترمیمات اور اصلاحات کے باوجود ابھی تک نظام سرمایہ داری کے بنیادی عیوب جوں کے توں باقی ہیں۔
ابھی تک بیروزگاری کا استیصال نہیں ہوسکا ہے بلکہ زمانۂ جنگ کے سوا دوسرے تمام حالات میں یہ ایک مستقل مرض ہے جو نظام سرمایہ داری کے تحت سوسائٹی کو لگا رہتا ہے۔ امریکہ جیسے ملک میں جس کی صنعت و حرفت اور پیداوارِ دولت آسمانِ عروج کو پہنچی ہوئی ہے، جنگی مشاغل کم ہوتے ہی 32 لاکھ سے زیادہ آدمی بیکار ہوگئے۔ اپریل و مئی 1949ء کے درمیان ان کی تعداد بڑھتے بڑھتے 35 لاکھ سے اوپر ہوگئی اور جون میں 40 لاکھ تک جا پہنچی۔ تجارت و صنعت کی گرم بازاری کا زمانہ ہو یا سرد بازاری کا زمانہ، بے روزگاری کم و بیش ہر حال میں نظام سرمایہ داری کی جزولاینفک بنی رہتی ہے۔
ابھی تک وہ عجیب و غریب معما جوں کا توں بے حل پڑا ہوا ہے جس کی طرف ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں کہ ایک طرف تو کروڑہا انسان ضروریات زندگی کے حاجت مند اور اسباب عیش کے خواہش مند موجود ہیں بے حد و حساب قدرتی وسائل موجود ہیں جنہیں استعمال کرکے مزید اشیاء تیار کی جاسکتی ہیں اور لکھوکھا آدمی ایسے موجود ہیں جنہیں کام پر لگایا جاسکتا ہے لیکن دوسری نظام سرمایہ داری دنیا کی ضرورت اور امکانی کھپت سے بہت کم جو مال تیار کرتا ہے وہ بھی بازار میں پڑا رہ جاتا ہے کیونکہ لوگوں کے پاس اس کو خریدنے کے لیے روپیہ نہیں ہے اور جب تھوڑا مال ہی نہیں نکلتا تو مزید آدمیوں کو کام پر لگانے اور قدرتی وسائل کو استعمال کرنے کی ہمت نہیں کی جاسکتی اور جب آدمی کام پر ہی نہیں لگائے جاتے تو ان میں قوت خریداری پیدا ہونے کی کوئی صورت نہیں۔
یہی نہیں بلکہ ابھی تک نظام سرمایہ داری کا یہ عیب بھی علیٰ حالہ قائم ہے کہ ہر سال بہت بڑی مقدار میں تیار کیا ہوا مال اور پیدا کیا ہوا غلہ اور پھل اور دوسرا سامان بازار میں لانے کے بجائے قصداً برباد کردیا جاتا ہے۔ درآنحالیکہ کروڑوں آدمی ان اشیاء کے طالب موجود ہوتے ہیں۔ سرمایہ دار ان چیزوں کو غارت کردینا اور اس غارت گری پر لاکھوں روپے صرف کر دینا زیادہ پسند کرتا ہے بہ نسبت اس کے کہ انہیں بازارمیں لاکر ان کی قیمتیں گھٹائے اور انہیں سستے داموں حاجت مند انسانوں تک پہنچا دے۔
ابھی تک نظام سرمایہ داری کا یہ عیب بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ ریاست، سوسائٹی، مالدار طبقہ، غرض کوئی بھی اپنے آپ کو ان لاکھوں کروڑوں آدمیوں کی کفالت اور دستگیری کا ذمہ دار نہیں سمجھتا جو قابل کار ہونے کے باوجود بیکار ہوں یا ابھی قابل کار نہ ہوئے ہوں یا مستقل یا عارضی طور پر ناکارہ ہوگئے ہوں۔ اب بھی علاج کا مستحق وہی بیمار ہے جس کی جیب میں پیسہ ہو۔ اب بھی تعلیم و تربیت کا مستحق وہی یتیم ہے جس کا باپ انشورنس پالیسی چھوڑ کر مڑا ہو۔ اب بھی حوادث میں گر کر وہی شخص اٹھ سکتا ہے جو پہلے اچھے دن دیکھ چکا ہو اور ان دنوں میں اس نے خود ہی برے وقت کے لیے سہارے کا سامان کر رکھا ہو۔ غرض ابھی تک مصیبت زدہ، حاجت مند، بے وسیلہ آدمی بجائے خود کسی کی بھی ذمہ داری میں نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کہیں اتفاقاً کسی کو کچھ مدد مل جائے۔
ابھی تک نظام سرمایہ داری کا یہ عیب بھی دور نہیں ہوا کہ مصنوعی طور پر قیمتیں چڑھائی جاتی ہیں اور باقاعدہ منصوبے بنا بنا کر بعض اشیاء کا قحط پیدا کیا جاتا ہے۔ غائب سودے اور تجارتی قمار بازی کے مختلف طریقے اب بھی اجتماعی معیشت کے مزاج کو شب و روز درہم برہم کرتے رہتے ہیں۔ لوگوں کو اب بھی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے کہ اگر وہ ایک بڑا سرمایہ فراہم کرسکتے ہیں تو اپنے ذاتی نفع کے لیے جو مال چاہیں اور جتنا چاہیں تیار کرلیں اور معاشرے پر اس کو ٹھونسنے کی جس طرح چاہیں کوشش کریں خواہ معاشرے کو اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو، بلکہ اس کے لیے وہ چیز مضر ہی کیوں نہ ہو۔ اب بھی یہ عجیب صورت حال رات دن مشاہدے میں آرہی ہے کہ معاشرے کی نہایت اہم اور سخت ضرورتیں تو رکی پڑی ہیں مگر محنت اور سرمایہ عیش و عشرت کے سامانوں پر، شہوات نفس کے کھلونوں پر اور خوشحالی کے چونچلوں پر بے تحاشا صرف ہورہا ہے۔ اب بھی صنعت اور تجارت کے بادشاہ اور مالیات کے شہنشاہ اپنی اغراض کے لیے وہ کھلی اور چھپی ریشہ دوانیاں کئے جارہے ہیں جو بین الاقوامی کشمکش، رقابت اور جنگ کی موجب ہوتی رہتی ہیں۔
ابھی تک نظام سرمایہ داری میں معاشرے اور ریاست کی تکمیل ساہوکار (بینکر) کے ہاتھ میں ہے اور وہ ساری اجتماعی قدروں کو شرح سود کے معیار پر جانچ رہا ہے اور اسی محور پر ان کو گھما رہا ہے۔ یہ فیصلہ وہ کرتا ہے کہ سرمایے کو کن کاموں پر خرچ ہونا چاہیے اور کن پر نہ ہونا چاہیے اور اس فیصلے کے لیے اس کے پاس معیار یہ نہیں ہے کہ معاشرے کے لیے ضروری اور مفید کون سے کام ہیں بلکہ یہ ہے کہ بازار کی شرح سود کے برابر یا اس سے زائد نفع کن کاموں میں ہے۔ اس معیار کے لحاظ سے اگر آب رسانی کی بہ نسبت شراب رسانی زیادہ نفع آور ہوگی تو وہ بلا تامل عوام الناس کو صاف پانی کے لیے ترستا چھوڑ کر عیاشوں کو شراب پلانے کی فکر میں لگ جائے گا۔
ابھی تک نظام سرمایہ داری کو وہ بیماری بھی لگی ہوئی ہے جسے کاروبار کا چکر (Cycle Trade) کہتے ہیں، جس میں ہر چند سال کی گرم بازاری کے بعد دنیا کی معیشت پر کساد بازاری کے دورے پڑتے رہتے ہیں۔ کاروبار کی دنیا پوری تیز رفتاری کے ساتھ مزے سے چل رہی ہوتی ہے کہ یکایک تجار محسوس کرتے ہیں کہ جو مال ان کے گوداموں میں آرہا ہے وہ مناسب رفتار سے نکل نہیں رہا۔ وہ ذرا فرمائشیں روکتے ہیں۔ صناع یہ حال دیکھ کر ذرا مال کی تیاری سے ہاتھ کھینچتے ہیں۔ سرمایہ دار خطرے کی اس علامت کو بھانپتے ہی قرض سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور پہلے کا دیا ہوا بھی واپس مانگنے لگتا ہے۔ کارخانے بند ہونے شروع ہوتے ہیں، بے روزگاری بڑھتی ہے۔ قیمتیں گرنی شروع ہوتی ہیں۔ تاجر اور گاہک مزید قیمتیں گرنے کی امید پر فرمائش اور خریداری سے ہاتھ روکتے ہیں۔ چلتے ہوئے کارخانے بھی پیداوار کم کردیتے ہیں۔ بے روزگاری اورزیادہ بڑھ جاتی ہے۔ حکومتیں آمدنی گھٹتی دیکھ کر مصارف میں تخفیف کرنے لگتی ہیں۔ کساد بازاری میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح ہر قدم جو پیچھے ہٹتا ہے کئی قدم اور پیچھے ہٹنے کا سبب بنتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب قطعی اور کلی دیوالہ کی سرحد قریب آ جاتی ہے تو یکایک رخ بدلتا ہے، آہستہ آہستہ چڑھائو شروع ہو جاتا ہے اور پھر گرم بازاری کا دور آ جاتا ہے۔ یہ چکر نظام سرمایہ داری کے لیے ایک مستقل مرض بن چکا ہے جس کا ابھی تک کوئی علاج شروع نہیں ہوا۔
یہ اور دوسرے بہت سے چھوٹے بڑے عیوب آج کی مقید اور اصلاح یافتہ سرمایہ داری میں بھی اسی طرح موجود ہیں جس طرح انیسویں صدی کی بے قید اور بداطوار سرمایہ داری میں پائے جاتے تھے۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ جمہوریت نے اس نظام کے اصل اسباب خرابی کو سمجھ کر حکمت کے ساتھ انہیں دور کرنے کی کوئی تدبیر نہیں کی ہے بلکہ جو کچھ ہوا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جتنا جتنا محنت پیشہ عوام کا دبائو پڑتا گیا ہے یا اشتراکیت کا خطرہ بڑھتا گیا ہے بورژوا طبقے اپنے طریقوں میں ایسی ترمیمات کرتے چلے گئے ہیں جن سے عوام کی شکایات اس حد تک ہلکی پڑ جائیں کہ اشتراکی لوگ ان سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔

تاریخ کا سبق

پچھلے صفحات میں جو تاریخی بیان پیش کیا گیا ہے اس پر مجموعی نگاہ ڈالنے سے ایک عام ناظر کے سامنے کئی باتیں بالکل وضاحت کے ساتھ روشن ہوجائیں گی۔ سب سے پہلے تو وہ ان مسائل اور ان پیچیدگیوں کو صاف پہچان جائے گا جو مغرب کی تاریخ اور ہماری موجودہ اجتماعی زندگی میں مشترک ہیں۔ وہ دیکھے گا کہ یہاں نظام جاگیرداری بھی اپنی بہت سی خصوصیات کے ساتھ موجود ہے۔ کچھ بیماریاں ہم نے اپنے دور انحطاط سے میراث میں پائی ہیں اور کچھ مغرب کے صنعتی انقلاب اور نظام سرمایہ داری کے جلو میں ہم تک پہنچی ہیں۔ البتہ فرق یہ ہے کہ یہاں کوئی پاپائیت اور کوئی کلیسائی نظام موجود نہیں ہے۔ نہ کوئی ایسا مذہبی طبقہ (Priest Class) موجود ہے جس کا صاحبِ فضل طبقوں سے گٹھ جوڑ ہو اور وہ خدا اور مذہب کا نام لے کر بے جا امتیازات اور زبردستی جمائے ہوئے حقوق کی حمایت کرے۔
پھر اس تاریخی مطالعے سے ناظر کو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ ہمارے ہاں کے بوجھ بجھکڑ اپنی سوسائٹی کے مسائل اور پیچیدگیوں کو حل کرنے کے لیے آئے دن جو طرفہ تجویزیں پیش کرتے رہتے ہیں ان کا شجرۂ نسب کیا ہے؟ یہ جو ہم سنا کرتے ہیں کہ کوئی صاحب ’’اجتماعی منصوبہ بندی‘‘ کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں اور کوئی دوسرے صاحب ملک کے معاشی نظام میں ’’انقلابی تبدیلیاں‘‘ چاہتے ہیں اور کوئی تیسرے بزرگ فرماتے ہیں کہ زمین کو انفرادی ملکیت سے نکال کر ’’قوما‘‘ دیا جائے(۱) اور کسی طرف سے آواز آتی ہے کہ ساری کلیدی صنعتیں بھی ’’قومائی جائیں‘‘۔ اور کوئی عطائیوں کی مجلس بڑے غوروخوض کے بعد یہ نسخۂ کیمیا لے کر آتی ہے کہ زمین کی شخصی ملکیت کو ختم کردیا جائے ۔ یہ سب وہ نوادر حکمت ہیں جو مغرب کے اناڑیوں کی بیاض سے اڑائے گئے ہیں اور اب یہاں وہ سب تجربات ہوا چاہتے ہیں جو روس میں، جرمنی و اٹلی میں اور امریکہ وانگلستان میں ہو چکے ہیں۔ مگر اس معاملے میں بھی ہماری اور ان کی مماثلت ایک فرق کے ساتھ ہے۔ وہاں کے اناڑی کم از کم مجتہد تو ہیں۔ لیکن یہاں جو حضرات مطب کھول بیٹھے ہیں وہ اناڑی پن کے ساتھ مقلد بھی ہیں۔ مغرب کے اناڑی نقصان ہوتے دیکھیں گے تو نسخے میں کچھ ردوبدل کر لیں گے۔ مگر یہاں مغرب سے ہی کسی ردوبدل کی اطلاع آجائے تو بات دوسری ہے ورنہ ڈاکٹر مریض کی آخری ہچکی تک ان شاء اللہ ایک ہی نسخہ پلاتا رہے گا۔
ایک اور بات جو مغربی ممالک کی تاریخ تمدن و تہذیب اور داستان افکار و اعمال میں آدمی کو نمایاں طور پر نظر آتی ہے وہ پیہم کش مکش، نزاع اور جدال ہے۔ ایک گروہ زندگی کے میدان پر قابض ہو کر اخلاق کو، مذہب کو، قانون کو، رسم و رواج کو، اور تمدن کے سارے نظام کو ایک رخ پر کھینچ لے جاتا ہے یہاں تک کہ دوسرے گروہوں کے ساتھ بے انصافی کی انتہا ہو جاتی ہے۔ پھر ان مظلوم گروہوں میں سے کوئی ایک اٹھ کر اس ظالم گروہ سے گتھ جاتا ہے اور اس کے غلط کے ساتھ اس کے صحیح پر بھی خط تنسیخ پھیر دیتا ہے اور فکرو عمل کے پورے نظام کو پہلی انتہا سے کھینچ کر دوسری انتہا کی طرف لے جاتا ہے یہاں تک کہ پھر بے انصافی حدکو پہنچ جاتی ہے۔ اس کے بعد شکوہ و شکایت سے گزر کر نوبت ایک تیسری بغاوت تک پہنچتی ہے اور ضد اور ہٹ دھرمی کا طوفان پھر جھوٹ کے ساتھ سچ کو بھی بہا لے جاتا ہے اور اگلوں سے بھی بڑھ کر ایک اور انتہا پسندانہ نظام قائم ہو جاتا ہے۔ اس طوفان کی تباہ کاریاں دیکھ کر اس کے مقابلے میں ایک جوابی طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور وہ بھی اپنے حریف سے کچھ کم انتہا پسند نہیں ہوتا۔ اس کھینچ تان کی وجہ سے مغرب کی تاریخ آدمی کو کچھ اس طرح سفر کرتی نظر آتی ہے جیسے ایک شرابی لڑکھڑاتا ہوا بخط منحنی چل رہا ہو، نہ کہ ایک ہوشمند انسان سویًا علیٰ صراط مستقیم چلا جارہا ہو۔ ہیگل اور مارکس بیچارے اس منظر کو دیکھ کر یہ سمجھ بیٹھے کہ انسانی تمدن کے ارتقاء کی فطری چال یہی ہے۔ لیکن در حقیقت یہ سب کچھ نتائج ہیں صرف ایک چیز کے اور وہ یہ ہے کہ اہل مغرب مدتہائے دراز سے بغیر ھدی والا کتاب منیر زندگی بسر کررہے ہیں۔ سینٹ پال کے توسط سے جو عیسائیت ان کو پہنچی تھی اس کا رشتہ شریعت سے پہلے ہی توڑا جاچکا تھا۔ اس کے پاس مسیح علیہ السلام کے چند اخلاقی مواعظ کے سوا کوئی ایسی خدائی ہدایت سرے سے موجود ہی نہ تھی جس پر تمدن و سیاست اور معیشت کا ایک وسیع نظام تعمیر کیا جاسکتا۔ بائبل کا پرانا عہد نامہ خود بھی 2 فی صدی خدائی ہدایت کے ساتھ 98 فی صدی انسانی کلام کی آمیزش اپنے اندر لیے ہوئے تھا۔ اس لیے اگر بعد میں انہوں نے نیم عقیدت اور نیم بے عقیدگی کے ساتھ اس کی طرف رجوع کیا بھی تو اس سے کچھ بہت زیادہ رہنمائی نہ مل سکی۔ اسلام عین اس زمانے میں یورپ کے سامنے آچکا تھا جبکہ مغربی رومن امپائر کا نظام درہم برہم ہوئے تھوڑی ہی مدت گزری تھی اور دور متوسط کی تاریکی کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا۔ لیکن جس یورپ نے دین مسیحی کو اس شرط پر قبول کیا تھا کہ شریعت اس کے ساتھ نہ ہو، وہ بھلا اس اسلام کی طرف حصول ہدایت کے لیے کیسے توجہ کرتا جو شریعت کے بغیر نرا دین و ایمان پیش کرنے کے لیے کسی طرح تیار ہی نہ تھا۔ کچھ تو اس وجہ سے اور کچھ پادریوں کے پھیلائے ہوئے تعصبات کی وجہ سے یورپ نے اسلام سے بھی کوئی روشنی حاصل نہ کی۔ اب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا تھا کہ اہل مغرب خود ہی اپنی عقل سے اپنے لیے نظام زندگی بناتے۔ چنانچہ یہی انہوں نے کیا۔ مگر یہ ظاہر ہے کہ انسان خالص عقلی فیصلے نہیں کرسکتا۔ اس کی عقل کے ساتھ خواہش کا گمراہ کن شیطان بھی لگا ہوا ہے۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ سارے انسان ایک ساتھ مل کرکوئی نظام زندگی وضع نہیں کیا کرتے۔ کچھ بیدار مغز لوگ ہی ایک نظام تجویز کرتے ہیں جن کی وجہ سے ان کا نظام انہی لوگوں کو اپیل کرتا ہے جو ان کے ساتھ ان کے تعصبات میں شریک ہوں۔ یہی اسباب ہیں جن کی بنا پر یورپ میں وقتاً فوقتاً جتنے نظام زندگی بنتے رہے وہ سب غیر متوازن تھے، اوراس عدم توازن کا لازمی نتیجہ یہی ہونا تھا کہ وہاں ایک پیہم کش مکش اور کھینچ تان جاری رہتی۔
سوال یہ ہے کہ کیا فی الواقع ہم بھی اس دنیا میں بغیر ھدًی ولاکتاب منیر ہی ہیں؟ کیا ہمارے لیے بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ قدیم ہندوانہ جاہلیت، اور دور متوسط کے مغل نظام اور دور حاضر کے فرنگی تمدن نے مل جل کر جن مسائل سے ہم کو دو چار کردیا ہے ان کے حل کی وہی صورتیں اختیار کریں جو اشتراکیت، نازیت، فاشیت اور سرمایہ داری نے مغرب میں اختیار کی ہیں؟ کیا ہمارے پاس بھی کوئی ایسی روشنی موجود نہیں ہے جس کی مدد سے ایک متوازن نظام بنایا جاسکتا ہو؟ جو شخص اسلام کو جانتا ہو وہ ان سوالات کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا۔

اصلی اُلجھن

اسلام کے اصول پر ہم ان مسائل کو کس طرح حل کرسکتے ہیں؟ اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ایک مرتبہ واضح طور پر اس اصل الجھن کو سمجھ لیا جائے جس سے اس وقت دنیا دو چار ہے اور ہم کو بھی دو چار ہونا پڑ رہا ہے۔
مختصر الفاظ میں وہ الجھن یہ ہے:
اگر ہم بے قید معیشت کے اصول اختیار کرتے ہیں جن کی رُو سے ہر شخص کو بے روک ٹوک یہ موقع حاصل رہتا ہے کہ جس قدر ذرائع پیداوار کو چاہیے اپنے قبضے میں لائے اور جس طرح چاہے اپنے نفع کے لیے سعی و جہد کرے، نیز جن کی رو سے سوسائٹی میں عدل و توازن قائم کرنے کے لیے صرف مقابلہ و مسابقت اور کسر و انکسار کے خود رو قوانین ہی پر اعتماد کرلیا جاتا ہے، تو اس سے سرمایہ داری نظام کی وہ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور ہماری سوسائٹی کی حد تک جاگیرداری نظام کی بھی وہ بہت سی خرابیاں باقی رہ جاتی ہیں جن کا ذکر اس سے پہلے ہم ’’نظام جاگیرداری‘‘ اور ’’جدید نظام سرمایہ داری‘‘ کے زیر عنوان کرچکے ہیں۔
اور اگر ہم انفرادی ملکیت کے طریقے کو ختم کرکے تمام ذرائع پیداوار پر اجتماعی قبضہ و تصرف قائم کردیتے ہیں، تو بلاشبہ مذکورہ بالا خرابیوں کا تو بڑی حد تک تدارک ہوجاتا ہے مگر اول تو یہ بنیادی تغیر ہی جان و مال کی اس بے دریغ بربادی اور مذہب و اخلاق سے اس کھلی بغاوت کے بغیر نہیں ہوسکتا جس کی مثال روس کے اشتراکی انقلاب میں ہم کو ملتی ہے۔ دوسرے اگر بالفرض یہ تغیر پر امن جمہوری طریقوں سے ہو بھی جائے تو اجتماعی ملکیت کا نظام بہرحال انفرادی آزادی کو قطعی ختم کردیتا ہے۔ جمہوری طریقوں سے سوشلزم قائم کرنا درحقیقت جمہوریت کے ذریعے سے جمہوریت کو ختم کرنا ہے۔ اس لیے کہ جمہوریت تو اس کے بغیر چل ہی نہیں سکتی کہ سوسائٹی میں کم از ک ایک بہت بڑی اکثریت آزاد پیشہ ور لوگوں کی موجود رہے۔ لیکن سوشلزم اس کے برعکس آزاد پیشوں کو ختم کردیتا ہے۔ معیشت کا جو شعبہ بھی اجتماعی نظام میں لیا جائے گا، اس کے تمام کارکن ایسے ہی ہو جائیں گے جیسے سرکاری ملازم۔ ملازمت پیشہ طبقہ میں جتنی کچھ آزادی رائے اور آزادی عمل پائی جاتی ہے ہر شخص اس کو جانتا ہے۔ یہ طریقِ کار جتنا جتنا معیشت میں پھیلتا چلا جائے گا، آزادیِ فکر، آزادیِ گفتار، آزادیِ اجتماع، آزادی تحریر اور آزادی کار کی سرحدیں سکڑتی چلی جائیں گی، یہاں تک کہ جس روز پوری معیشت پورے اجتماعی انتظام میں چلی جائے گی اسی روز ملک کی پوری آبادی سرکاری ملازمین میں تبدیل ہوجائے گی۔ اس طرح کے نظام کی عین فطرت یہی ہے کہ جو گروہ ایک مرتبہ برسر اقتدار آجائے گا وہ پھر ہٹایا نہ جاسکے گا۔
اور اگر ہم انفرادی ملکیت کے نظام کو مٹانے کے بجائے صرف اس پر ایک مضبوط سرکاری تسلط (Government Control) قائم کردیتے ہیں اور پوری قومی معیشت کو ایک مرکزی منصوبہ بندی کے مطابق چلاتے ہیں ، جیسا کہ فاشیت اور نازیت نے کیا، تب بھی نظام سرمایہ داری کی بہت سی خرابیوں کا مداوا تو ہوجاتا ہے۔ مگر انفرادی آزادی کے لیے اتنی ضابطہ بندی بھی مہلک ثابت ہوتی ہے۔ اس کے نتائج عملاً وہی کچھ ہیں جو سوشلزم کے نتائج ہیں۔
اور اگر ہم نظام سرمایہ داری کو اس کی اصل بنیادوں پر قائم رکھتے ہوئے اس کے اندر اس طرح کی اصلاحات کرتے ہیں جیسی اب تک امریکہ اور انگلستان وغیرہ ممالک میں ہوئی ہیں تو ان سے جمہوریت اور انفرادی آزادی تو برقرار رہتی ہے مگر ان بڑی اور اصل خرابیوں میں سے کوئی ایک بھی دور نہیں ہوتی جن کی بدولت نظام سرمایہ داری دنیا کے لیے ایک لعنت اور مصیبت بن چکا ہے۔
گویا ایک طرف کنواں ہے تو دوسری طرف کھائی، اجتماعی فلاح کا انتظام کیا جاتا ہے تو افراد کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔ افراد کی آزادی کو بچایا جاتا ہے تو اجتماعی فلاح غارت ہوجاتی ہے۔ ایسا کوئی نظام زندگی دنیا نہیں پا سکی ہے جس میں صنعتی انقلاب تو اپنی تمام برکات کے ساتھ جوں کا توں چلتا اور بڑھتا رہے اور پھر انفرادی آزادی اور اجتماعی فلاح دونوں بہ یک وقت پورے اعتدال کے ساتھ نبھ جائیں۔ اس قسم کے ایک نظام کی دریافت پر دنیا کا مستقبل معلق ہے۔ اگر وہ نہ ملا تو صنعتی انقلاب ہی کے پستول سے انسان خود کشی کرلے گا اور اگر وہ مل گیا تو جو ملک بھی اس کا ایک کامیاب نمونہ دنیا کے سامنے پیش کردے گا وہی دنیا کا امام بن جائے گا۔

اسلامی نظم معیشت کے بنیادی ارکان

اسلام نے اشتراکیت اور سرمایہ داری کے درمیان جو متوسط معاشی نظریہ اختیار کیا ہے اس پر ایک نظام کی عمارت اٹھانے کے لیے وہ سب سے پہلے فرد اور معاشرے میں چند ایسی اخلاقی اور عملی بنیادیں قائم کرتا ہے جو اس عمارت کو مضبوطی کے ساتھ سنبھال سکیں۔ اس غرض کے لیے وہ ہر فرد کی ذہنیت کو درست کرکے اس میں ٹھیک وہ کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس متوازن نظام کے چلانے والے افراد میں درکار ہے۔ وہ انفرادی آزادی پر چند حدود عائد کرتا ہے تاکہ وہ اجتماعی مفاد کے لیے مضر ہونے کے بجائے مثبت طور پر مفید و معاون ہوجائے۔ وہ معاشرے میں کچھ ایسے قواعد مقرر کرتا ہے جو معاشی زندگی کو خراب کرنے والے اسباب کا سدباب کردیتے ہیں۔ یہ اسلامی نظم معیشت کے بنیادی ارکان ہیں جنہیں سمجھ لینا جدید معاشی پیچیدگیوں کے اسلامی حل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔
-1 اکتساب مال کے ذرائع میں جائز اور ناجائز کی تفریق
سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ اسلام اپنے پیروئوں کو دولت کمانے کا عام لائسنس نہیں دیتا بلکہ کمائی کے طریقوں میں اجتماعی مفاد کے لحاظ سے جائز اور ناجائز کا امتیاز قائم کرتا ہے۔ یہ امتیاز اس قاعدہ کلیہ پر مبنی ہے کہ دولت حاصل کرنے کے تمام وہ طریقے ناجائز ہیں جن میں ایک شخص کا فائدہ دوسرے شخص یا اشخاص کے نقصان پر ہو، اور ہر وہ طریقہ جائز ہے جس میں فوائد کا مبادلہ اشخاص متعلقہ کے درمیان منصفانہ طور پر ہو۔ قرآن مجید میں اس قاعدہ کلیہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ۝۰ۣ وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا۝۲۹ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيْہِ نَارًا۝۰ۭ النساء 29,30:4
’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقوں سے نہ کھایا کرو بجز اس کے کہ لین دین آپس کی رضامندی سے ہو اور تم خود اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔ اللہ تمہارے حال پر مہربان ہے اور جو کوئی اپنی حد سے تجاوز کرکے ظلم کے ساتھ ایسا کرے گا اس کو ہم آگ میں جھونک دیں گے۔‘‘
اس آیت میں لین دین کے لیے جواز کی دو شرطیں بتائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ لین دین باہمی رضامندی سے ہو۔ دوسرے یہ کہ ایک کا فائدہ دوسرے کا نقصان نہ ہو۔ اس معنی میں ولا تقتلوا انفسکم کا فقرہ نہایت بلیغ ہے۔ اس کے دو مفہوم ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد لیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک نہ کرو۔ دوسرے یہ کہ تم خود اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔ مطلب یہ ہے جو شخص اپنے فائدے کے لیے دوسرے کا نقصان کرتا ہے وہ گویا اس کا خون پیتا ہے اور مآل کار میں خود اپنی تباہی کا بھی راستہ کھولتا ہے۔ چوری، رشوت، قمار، دغا و فریب، سود اور تمام ان تجارتی طریقوں میں جن کو اسلام نے ناجائز قرار دیا ہے عدم جواز کے یہ دونوں اسباب پائے جاتے ہیں اور اگر بعض میں باہمی رضامندی کے وہم کی گنجائش بھی ہے تو لا تقتلوا انفسکم کی دوسری اہم شرط مفقود ہے۔
2- مال جمع کرنے کی ممانعت
دوسرا اہم حکم یہ ہے کہ جائز طریقوں سے جو دولت کمائی جائے اس کو جمع نہ کیا جائے، کیونکہ اس سے دولت کی گردش رک جاتی ہے اور تقسیم دولت میں توازن برقرار نہیں رہتا۔ دولت سمیٹ کر جمع کرنے والا نہ صرف خود بدترین اخلاقی امراض میں مبتلا ہوتا ہے بلکہ درحقیقت وہ پوری جماعت کے خلاف ایک شدید جرم کا ارتکاب کرتا ہے، اوراس کا نتیجہ آخرکار خود اس کے اپنے لیے بھی برا ہے۔ اسی لیے قرآن مجید بخل اور قارونیت کا سخت مخالف ہے۔ وہ کہتا ہے:
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَخَيْرًا لَّھُمْ۝۰ۭ بَلْ ھُوَشَرٌّ لَّھُمْ۝۰ۭ آل عمران 180:3
’’جو لوگ اللہ کے دیئے ہوئے فضل میں بخل کرتے ہیں وہ یہ گمان نہ کریں کہ یہ فعل ان کے لیے اچھا ہے، بلکہ در حقیقت یہ ان کے لیے برا ہے۔‘‘
وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا يُنْفِقُوْنَہَا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۙ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ۝۳۴ۙ التوبہ 34:9
’’اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو عذاب الیم کی خبر دے دو۔‘‘
یہ چیز سرمایہ داری کی بنیاد پر ضرب لگاتی ہے۔ بچت کو جمع کرنا اور جمع شدہ دولت کو مزید دولت پیدا کرنے میں لگانا یہی دراصل سرمایہ داری کی جڑ ہے مگر اسلام سرے سے اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی اپنی ضرورت سے زائد دولت کو جمع کرکے رکھے۔
-3 خرچ کرنے کا حکم
جمع کرنے کے بجائے اسلام خرچ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ مگر خرچ کرنے سے اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے عیش و آرام اور گلچھرّے اڑانے میں دولت لٹائیں بلکہ وہ خرچ کرنے کا حکم فی سبیل اللہ کی قید کے ساتھ دیتا ہے یعنی آپ کے پاس اپنی ضرورت سے جو کچھ بچ جائے اس کو جماعت کی بھلائی کے کاموں میں خرچ کر دیں کہ یہی سبیل اللہ ہے۔
وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۝۰ۥۭ قُلِ الْعَفْوَ۝۰ۭ البقرہ219:2
’’اور وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں۔ کہو کہ جو ضرورت سے بچ رہے۔‘‘
وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝۰ۙ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ۝۰ۭ النساء 36:4
’’اور نیک سلوک کرو اپنے ماں باپ کے ساتھ اور اپنے رشتہ داروں اور یتیموں اور نادار مسکینوں اور قرابت دار پڑوسیوں اور اجنبی ہمسایوں اور اپنے ملنے جلنے والے دوستوں اور مسافروں اور لونڈی غلاموں کے ساتھ۔‘‘
وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۝۱۹ الذاریات 19:51
’’اور ان کے مالوں میں سائل اور نادار کا حق ہے۔ ‘‘
یہاں پہنچ کر اسلام کا نقطہ نظر سرمایہ داری کے نقطۂ نظر سے بالکل مختلف ہوجاتا ہے۔
سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ خرچ کرنے سے مفلس ہوجائوں گا اور جمع کرنے سے مالدار بنوں گا۔ اسلام کہتا ہے خرچ کرنے سے برکت ہوگی، تیری دولت گھٹے گی نہیں بلکہ اور بڑھے گی۔
اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاۗءِ۝۰ۚ وَاللہُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَفَضْلًا۝۰ۭ البقرہ 268:2
’’شیطان تم کو ناداری کا خوف دلاتا ہے اور (بخل جیسی) شرمناک بات کا حکم دیتا ہے مگر اللہ تم سے بخشش اور مزید عطا کا وعدہ کرتا ہے۔‘‘
سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ جو کچھ خرچ کردیا وہ کھویا گیا۔ اسلام کہتا ہے کہ نہیں وہ کھویا نہیں گیا بلکہ اس کا بہتر فائدہ تمہاری طرف پھر پلٹ کر آئے گا۔
وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ يُّوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ۝۲۷۲ البقرہ 272:2
’’اور تم نیک کاموں میں جو کچھ خرچ کرو گے وہ تم کو پورا ملے گا اور تم پر ہر گز ظلم نہ ہوگا۔‘‘
وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَۃً يَّرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَـبُوْرَ۝۲۹ۙ لِيُوَفِّيَہُمْ اُجُوْرَہُمْ وَيَزِيْدَہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ۝۰ۭ فاطر 29,30:35
’’اور جن لوگوں نے ہمارے بخشے ہوئے رزق میں سے کھلے اور چھپے طریقے سے خرچ کیا وہ ایک ایسی تجارت کی امید رکھتے ہیں جس میں گھاٹا ہر گز نہیں ہے۔ اللہ ان کے بدلے ان کو پورے پورے اجر دے گا بلکہ اپنے فضل سے کچھ زیادہ ہی عنایت کرے گا۔‘‘
سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ دولت کو جمع کرکے اس کو سود پر چلانے سے دولت بڑھتی ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ نہیں، سود سے تو دولت گھٹ جاتی ہے۔ دولت بڑھانے کا ذریعہ نیک کاموں میں اسے خرچ کرنا ہے۔
يَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ۝۰ۭ البقرہ 276:2
’’اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے۔‘‘
وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللہِ۝۰ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوۃٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْہَ اللہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ۝۳۹ الروم 39:30
’’اور یہ جو تم سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہو تو اللہ کے نزدیک وہ ہر گز نہیں بڑھتا، بڑھوتری تو ان اموال کو نصیب ہوتی ہے جو تم اللہ کے لیے زکوٰۃ میں دیتے ہو۔‘‘
یہ ایک نیا نظریہ ہے جو سرمایہ داری کے نظریے کی بالکل ضد ہے۔ خرچ کرنے سے دولت کا بڑھنا اور خرچ کئے ہوئے مال کا ضائع نہ ہونا بلکہ اس کا پورا پورا بدل کچھ زائد فائدے کے ساتھ واپس آنا، زکوٰۃ و صدقات سے دولت میں کمی واقع ہونے کے بجائے اضافہ ہونا، یہ ایسے نظریات ہیں جو بظاہر عجیب معلوم ہوتے ہیں۔ سننے والا سمجھتا ہے کہ شاید ان سب باتوں کا تعلق محض ثواب آخرت سے ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ ان باتوں کا تعلق ثواب آخرت سے بھی ہے اور اسلام کی نگاہ میں اصلی اہمیت اسی کی ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس دنیا میں بھی معاشی حیثیت سے یہ نظریات ایک نہایت مضبوط بنیاد پر قائم ہیں۔ دولت کو جمع کرنے اور اس کو سود پر چلانے کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ دولت سمٹ سمٹ کر چند افراد کے پاس اکٹھی ہوجائے۔ جمہور کی قوت خرید (Purchasing Power) روز بروز گھٹتی چلی جائے۔ صنعت اور تجارت اور زراعت میں کساد بازاری رونما ہو، قوم کی معاشی زندگی تباہی کے سرے پر جا پہنچے اور آخر کار خود سرمایہ دار افراد کے لیے بھی اپنی جمع شدہ دولت کو افزائش دولت کے کاموں میں لگانے کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔(۱)
بخلافت اس کے خرچ کرنے اور زکوٰۃ و صدقات دینے کا حال یہ ہے کہ قوم کے تمام افراد تک دولت پھیل جائے، ہر ہر شخص کو کافی قوت خرید حاصل ہو، صنعتیں پرورش پائیں، کھیتیاں سرسبز ہوں، تجارت کو خوب فروغ ہو، اور چاہے کوئی لکھ پتی اور کروڑ پتی نہ ہو، مگر سب خوشحال و فارغ البال ہوں۔ اس مآل اندیشانہ معاشی نظریے کی صداقت اگر دیکھنی ہو تو سرمایہ داری نظام کے تحت دنیا کے موجودہ معاشی حالات کو دیکھئے کہ جہاں سود ہی کی وجہ سے تقسیم ثروت کا توازن بگڑ گیا ہے، اور صنعت و تجارت کی کساد بازاری نے عوام کی معاشی زندگی کو تباہی کے سرے پر پہنچا دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں ابتدائے عہد اسلامی کی حالت کو دیکھئے کہ جب اس معاشی نظریے کو پوری شان کے ساتھ عملی جامہ پہنایا گیا تو چند سال کے اندر عوام کی خوشحالی اس مرتبہ کو پہنچ گئی کہ لوگ زکوٰۃ کے مستحقین کو ڈھونڈتے پھرتے تھے اور مشکل ہی سے کوئی ایسا شخص ملتا تھا جو خود صاحب نصاب نہ ہو۔ ان دونوں حالتوں کا موازنہ کرنے سے معلوم ہوجائے گا کہ اللہ کس طرح سود کا مٹھ مارتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے۔
پھر اسلام جو ذہنیت پیدا کرتا ہے وہ بھی سرمایہ دارانہ ذہنیت سے بالکل مختلف ہے۔ سرمایہ دار کے ذہن میں کسی طرح یہ تصور سما ہی نہیں سکتا کہ ایک شخص اپنا روپیہ دوسرے کو سود کے بغیر کیسے دے سکتا ہے۔ وہ قرض پر نہ صرف سود لیتا ہے بلکہ اپنے رائس المال اور سود کی بازیافت کے لیے قرض دار کے کپڑے اور گھر کے برتن تک قرق کرالیتا ہے۔ مگر اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ حاجت مند کو صرف قرض ہی نہ دو بلکہ اگر وہ تنگ دست ہو تو اس پر تقاضے میں سختی بھی نہ کرو، حتیٰ کہ اگر اس میں دینے کی استطاعت نہ ہو تو معاف کردو۔
وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰى مَيْسَرَۃٍ۝۰ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۲۸۰ البقرہ 280:2
’’اگر قرضدار تنگ دست ہو تو اس کی حالت درست ہونے تک اسے مہلت دے دو، اور اگر معاف کردو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اس کا فائدہ تم سمجھ سکتے ہو اگر کچھ علم رکھتے ہو۔‘‘
سرمایہ داری میں امداد باہمی کے معنی یہ ہیں کہ آپ انجمن امداد باہمی کو پہلے روپیہ دے کر اس کے رکن بنئے، پھر اگر کوئی ضرورت آپ کو پیش آئے گی تو انجمن آپ کو عام بازاری شرح سود سے کچھ کم پر قرض دے دے گی۔ اگر آپ کے پاس روپیہ نہیں ہے تو ’’امداد باہمی‘‘ سے آپ کچھ بھی امداد حاصل نہیں کرسکتے۔ برعکس اس کے اسلام کے ذہن میں امداد باہمی کا تصور یہ ہے کہ جو لوگ ذی استطاعت ہوں وہ ضرورت کے وقت اپنے کم استطاعت بھائیوں کو نہ صرف قرض دیں بلکہ قرض ادا کرنے میں بھی خسبۃً للہ ان کی مدد کریں، چنانچہ زکوٰۃ کے مصارف میں سے ایک مصرف و الغارمین بھی ہے یعنی قرضداروں کے قرض ادا کرنا۔
سرمایہ دار اگر نیک کاموں میں خرچ کرتا ہے تو محض نمائش کے لیے کیونکہ اس کم نظر کے نزدیک اس خرچ کا کم سے کم یہ معاوضہ تو اس کو حاصل ہونا ہی چاہیے کہ اس کا نام ہوجائے۔ اس کو مقبولیت عام حاصل ہو، اس کی دھاک اور ساکھ بیٹھ جائے۔ مگر اسلام کہتا ہے کہ خرچ کرنے میں نمائش ہر گز نہ ہونی چاہیے۔ خفیہ یا علانیہ جو کچھ بھی خرچ کرو، اس میں یہ مقصد پیش نظر ہی نہ رکھو کہ فوراً اس کا بدل تم کو کسی نہ کسی شکل میں مل جائے بلکہ مآل کار پر نگاہ رکھو۔ اس دنیا سے لے کر آخرت تک جتنی دور تمہاری نظر جائے گی تم کو یہ خرچ پھلتا پھولتا اور منافع پر منافع پیدا کرتا ہی دکھائی دے گا۔ ’’جو شخص اپنے مال کو نمائش کے لیے خرچ کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان پر مٹی پڑی تھی، اس نے مٹی پر بیج بویا مگر پانی کا ایک ریلہ آیا اور مٹی کو بہا لے گیا۔ اور جو شخص اپنی نیت کو درست رکھ کر اللہ کی خوشنودی کے لیے خرچ کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے اس نے ایک عمدہ زمین میں باغ لگایا، اگر بارش ہوگئی تو دوگنا پھل لایا اور اگر بارش نہ ہوئی تو محض ہلکی سی پھوار اس کے لیے کافی ہے۔‘‘
(سورہ بقرہ 264,265:2)
اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِىَ۝۰ۚ وَاِنْ تُخْفُوْھَا وَتُؤْتُوْھَا الْفُقَرَاۗءَ فَھُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۝۰ۭ
البقرہ 271:2
’’اگر صدقات علانیہ دو تو یہ بھی اچھا ہے لیکن اگر چھپا کر دو اور غریب لوگوں تک پہنچائو تو یہ زیادہ بہتر ہے۔‘‘
سرمایہ دار اگر نیک کام میں کچھ صرف بھی کرتا ہے تو بادل نخواستہ بدتر سے بدتر مال دیتا ہے اور پھر جس کو دیتا ہے اس کی آدھی جان اپنی زبان کے نشتروں سے نکال لیتا ہے۔ اسلام اس کے بالکل برعکس یہ سکھاتا ہے کہ اچھا مال خرچ کرو اور خرچ کے احسان نہ جتائو، بلکہ اس کی خواہش بھی نہ رکھو کہ کوئی تمہارے سامنے احسان مندی کا اظہار کرے۔
اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۝۰۠ وَلَا تَـيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ البقرہ 267:2
’’تم نے جو کچھ کمایا ہے اور جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے اس میں سے عمدہ اموال کو راہ خدا میں صرف کرو نہ یہ کہ بدترمال چھانٹ کر اس میں سے دینے لگو۔‘‘
لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى۝۰ۙ البقرہ 264:2
’’اپنے صدقات کو احسان جتا کر اوراذیت پہنچا کر ملیامیٹ نہ کردو۔‘‘
وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا۝۸ اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًا۝۹ الدھر 8,9:76
’’اور وہ اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ کے لیے تم کو کھلاتے ہیں۔ ہم تم سے کسی جزا اور شکریے کے خواہش مند نہیں ہیں۔‘‘
چھوڑیئے اس سوال کو کہ اخلاقی نقطۂ نظر سے ان دنوں ذہنیتوں میں کتنا عظیم تفاوت ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ خالص معاشی نقطہ نظر ہی سے دیکھ لیجئے کہ فائدے اور نقصان کے ان دونوں نظریوں میں سے کون سا نظریہ زیادہ محکم اور دُور رس نتائج کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے۔ پھر جب کہ منفعت و مضرت کے باب میں اسلام کا نظریہ وہ ہے جو آپ دیکھ چکے ہیں تو کیونکر ممکن ہے کہ اسلام کسی شکل میں بھی سودی کاروبار کو جائز رکھے؟
-4زکوٰۃ
اسلام کامقصد جیسا کہ اوپر بیان ہوا یہ ہے کہ دولت کسی جگہ جمع نہ ہونے پائے۔ وہ چاہتا ہے کہ جماعت کے جن افراد کو اپنی بہتر قابلیت یا خوش قسمتی کی بنا پر ان کی ضرورت سے زیادہ دولت میسر آگئی ہو وہ اس کو سمیٹ کر نہ رکھیں بلکہ خرچ کریں اور ایسے مصارف میں خرچ کریں جن سے دولت کی گردش میں سوسائٹی کے کم نصیب افراد کو بھی کافی حصہ مل جائے۔ اس غرض کے لیے اسلام ایک طرف اپنی بلند اخلاقی تعلیم اور ترغیب و ترہیب کے نہایت موثر طریقوں سے فیاضی اور حقیقی امداد باہمی کی اسپرٹ پیدا کرتا ہے تاکہ لوگ خود اپنے میلان طبع ہی سے دولت جمع کرنے کو برا سمجھیں اور اسے خرچ کر دینے کی طرف راغب ہوں۔ دوسری طرف وہ ایسا قانون بناتا ہے کہ جولوگ فیاضی کی اس تعلیم کے باوجود اپنی افتاد طبع کی وجہ سے روپیہ جوڑنے اور مال سمیٹنے کے خوگر ہوں، یا جن کے پاس کسی نہ کسی طور پر مال جمع ہو جائے، ان کے مال میں سے بھی کم از کم ایک حصہ سوسائٹی کی فلاح و بہبود کے لیے ضرور نکلوایا جائے۔ اسی چیز کا نام زکوٰۃ ہے۔ اور اسلام کے معاشی نظام میں اس کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اس کو ارکان اسلام میں شامل کر دیا گیا ہے۔ نماز کے بعد سب سے زیادہ اسی کی تاکید کی گئی ہے اور صاف صاف کہہ دیا گیا ہے کہ جو شخص دولت جمع کرتا ہے اس کی دولت اس کے لیے حلال ہی نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ وہ زکوٰۃ نہ ادا کرے۔
خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَـۃً تُطَہِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْہِمْ بِہَا التوبہ 103:9
’’ان کے اموال میں سے زکوٰۃ وصول کرو اور اس کے ذریعے سے ان کو پاک اور طاہر کردو۔‘‘
لفظ زکوٰۃ خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مالدار آدمی کے پاس جو دولت جمع ہوتی ہے وہ اسلام کی نگاہ میں ایک نجاست ہے، ایک ناپاکی ہے اور وہ پاک نہیں ہوسکتی۔ جب تک کہ اس کا مالک اس میں سے ہر سال کم از کم ڈھائی فی صدی راہ خدا میں خرچ نہ کردے۔ ’’راہ خدا‘‘ کیا ہے؟ خدا کی ذات تو بے نیاز ہے، اس کو نہ تمہارا مال پہنچتا ہے نہ وہ اس کا حاجت مند ہے۔ اس کی راہ بس یہی ہے کہ تم خود اپنی قوم کے تنگ حال لوگوں کو خوشحال بنانے کی کوشش کرو اور ایسے مفید کاموں کو ترقی دو جن کا فائدہ ساری قوم کو حاصل ہوتا ہے۔
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝۰ۭ التوبہ 60:9
’’صدقات تو دراصل فقراء اور مساکین کے لیے ہیں اور ان کارکنوں کے لیے جو صدقات کی تحصیل پر مقرر ہوں اور ان لوگوں کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو، اور لوگوں کی گردنیں بند اسیری سے چھڑانے کے لیے اور قرضداروں کے لیے اور فی سبیل اللہ خرچ کرنے کے لیے اور مسافروں کے لیے۔‘‘
یہ مسلمانوں کی کوآپریٹو سوسائٹی ہے۔ یہ ان کی انشورنس کمپنی ہے۔ یہ ان کا پراویڈنٹ فنڈ ہے۔ یہ ان کے لیے بے کاروں کا سرمایۂ اعانت ہے۔ یہ ان کے معذوروں، اپاہجوں، بیماروں، یتیموں، بیوائوں کا ذریعۂ پرورش ہے۔ اور ان سب سے بڑھ کر یہ وہ چیز ہے جو مسلمانوں کو فکر فردا سے بالکل بے نیاز کردیتی ہے۔ اس کا سیدھا سادا اصول یہ ہے کہ آج تم مالدار ہو تو دوسروں کی مدد کرو۔ کل تم نادار ہوگئے تو دوسرے تمہاری مدد کریں گے۔ تمہیں یہ فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ مفلس ہوگئے تو کیا بنے گا؟ مر گئے تو بیوی بچوں کا کیا حشر ہوگا؟ کوئی آفت ناگہانی آپڑی، بیمار ہوگئے، گھر میں آگ لگ گئی، سیلاب آگیا، دیوالیہ نکل گیا تو ان مصیبتوں سے مخلصی کی کیا سبیل ہوگی؟ سفر میں پیسہ پاس نہ رہا تو کیونکر گزر بسر ہوگی؟ ان سب فکروں سے صرف زکوٰۃ تم کو ہمیشہ کے لیے بے فکر کردیتی ہے۔ تمہارا کام بس اتنا ہے کہ اپنی پس انداز کی ہوئی دولت میں سے اڑھائی فی صدی دے کر اللہ کی انشورنس کمپنی میں اپنا بیمہ کروا لو۔ اس وقت تم کو اس دولت کی ضرورت نہیں ہے، یہ ان کے کام آئے گی جو اس کے ضرورت مند ہیں۔ کل جب تم ضرورت مند ہوگے یا تمہاری اولاد ضرورت مند ہوگی تو نہ صرف تمہارا اپنا دیا ہوا مال بلکہ اس سے بھی زیادہ تم کو واپس مل جائے گا۔
یہاں پھر سرمایہ داری اور اسلام کے اصول و مناہج میں کلی تضاد نظر آتا ہے۔ سرمایہ داری کا اقتضاء یہ ہے کہ روپیہ جمع کیا جائے اور اس کو بڑھانے کے لیے سود لیا جائے تاکہ ان نالیوں کے ذریعے سے آس پاس کے لوگوں کا روپیہ بھی سمٹ کر اس جھیل میں جمع ہوجائے۔ اسلام اس کے بالکل خلاف یہ حکم دیتا ہے کہ روپیہ اول تو جمع ہی نہ ہو، اور اگر ہو بھی تو اس تالاب میں سے زکوٰۃ کی نہریں نکال دی جائیں تاکہ جو کھیت سوکھے ہیں ان کو پانی پہنچے اور گردوپیش کی ساری زمین شاداب ہوجائے۔ سرمایہ داری کے نظام میں دولت کا مبادلہ مقید ہے اور اسلام میں آزاد۔ سرمایہ داری کے تالاب سے پانی لینے کے لیے ناگزیر ہے کہ خاص آپ کا پانی پہلے سے وہاں موجود ہو ورنہ آپ ایک قطرۂ آب بھی وہاں سے نہیں لے سکتے۔ اس کے مقابلے میں اسلام کے خزانۂ آب کا قاعدہ یہ ہے کہ جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہو وہ اس میں لاکر ڈال دے اور جس کو پانی کی ضرورت ہو وہ اس میں سے لے لے۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں طریقے اپنی اصل اور طبیعت کے لحاظ سے ایک دوسرے کی پوری پوری ضد ہیں اور ایک ہی نظم معیشت میں دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔

-5 قانون وراثت
اپنی ضرورت پر خرچ کرنے اور راہ خدا میں دینے اور زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی جو دولت کسی ایک جگہ سمٹ کر رہ گئی ہو، اس کو پھیلانے کے لیے پھر ایک تدبیر اسلام نے اختیار کی ہے اور وہ اس کا قانون وراثت ہے۔ اس قانون کا منشا یہ ہے کہ جو شخص مال چھوڑ کر مر جائے، خواہ وہ زیادہ ہو یا کم، اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے نزدیک و دور کے تمام رشتہ داروں میں درجہ بدرجہ پھیلا دیا جائے اور اگر کسی کا کوئی وارث بھی نہ ہو یا نہ ملے تو بجائے اس کے کہ اسے متبنیٰ بنانے کا حق دیا جائے اس کے مال کو مسلمانوں کے بیت المال میں داخل کر دینا چاہیے تاکہ اس سے پوری قوم فائدہ اٹھائے۔ تقسیم وراثت کا یہ قانون جیسا اسلام میں پایا جاتا ہے کسی اور معاشی نظام میں نہیں پایا جاتا۔ دوسرے معاشی نظاموں کا میلان اس طرف ہے کہ جو دولت ایک شخص نے سمیٹ کر جمع کی ہے وہ اس کے بعد بھی ایک یا چند اشخاص کے پاس سمٹی رہے۔(۱) مگر اسلام دولت کے سمٹنے کو پسند ہی نہیں کرتا۔ وہ اس کو پھیلانا چاہتا ہے تاکہ دولت کی گردش میں آسانی ہو۔
-6 غنائم جنگ اور اموال مفتوحہ کی تقسیم
اس معاملے میں بھی اسلام نے وہی مقصد پیش نظر رکھا ہے۔ جنگ میں جو مال غنیمت فوجوں کے ہاتھ آئے اس کے متعلق یہ قانون بنایا گیا ہے کہ اس کے پانچ حصے کئے جائیں، چار حصے فوج میں تقسیم کردیئے جائیں اور ایک حصہ اس غرض کے لیے رکھ لیا جائے کہ عام قومی مصالح میں صرف ہو۔
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝۰ۙ الانفال 41:8
’’جان لو کہ جو کچھ تم کو غنیمت میں ہاتھ آئے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول اور رسول کے رشتہ داروں اور یتامی اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے۔
اللہ اور رسول کے حصے سے مراد ان اجتماعی اغراض و مصالح کا حصہ ہے جن کی نگرانی اللہ اور رسول کے تحت حکم اسلامی حکومت کے سپرد کی گئی ہے۔
رسول کے رشتہ داروں کا حصہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ زکوٰۃ میں ان کا حصہ نہیں ہے۔
اس کے بعد خمس میں تین طبقوں کا حصہ خصوصیت کے ساتھ رکھا گیا ہے۔
قوم کے یتیم بچے تاکہ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام ہو اور ان کو زندگی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے قابل بنایا جائے۔
مساکین جن میں بیوہ عورتیں، اپاہج، معذور، بیمار اور نادار سب شامل ہیں۔
ابن السبیل یعنی مسافر، اسلام نے اپنی اخلاقی تعلیم سے لوگوں میں مسافر نوازی کا میلان خاص طور پر پیدا کیا ہے اور اس کے ساتھ زکوٰۃ و صدقات اور غنائم جنگ میں بھی مسافروں کا حق رکھا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے اسلامی ممالک میں تجارت، سیاحت، تعلیم اور مطالعہ و مشاہدۂ آثار و احوال کے لیے لوگوں کی نقل و حرکت میں بڑی آسانیاں پیدا کردیں۔
جنگ کے نتیجے میں جو اراضی اور اموال اسلامی حکومت کے ہاتھ آئیں ان کے لیے یہ قانون بنایا گیا کہ ان کو بالکلیہ حکومت کے قبضے میں رکھا جائے۔
مَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝۰ۙ كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَۃًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ۝۰ۭ ……
…… لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُہٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ ……
……. وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ ……. وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِہِمْ الحشر 7-10:59
’’جو کچھ مال و جائیداد اللہ نے اپنے رسولؐ کو بستیوں کے باشندوں سے فے میں دلوایا ہے وہ اللہ اور اس کے رسولؐ اور رسولؐ کے رشتہ داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ یہ مال صرف تمہارے دولت مندوں ہی کے درمیان چکر نہ لگاتا رہے اور اس میں ان نادار مہاجرین کا بھی حصہ ہے جو اپنے گھر بار اور جائیدادوں سے بے دخل کرکے نکال دیئے گئے ہیں اور ان لوگوں کا بھی حصہ ہے جو مہاجرین کی آمد سے پہلے مدینہ میں ایمان لے آئے تھے اور ان آئندہ نسلوں کا بھی حصہ ہے جو بعد میں آنے والی ہیں۔‘‘
اس آیت میں نہ صرف ان مصارف کی توضیح کی گئی ہے جن میں اموال فے کو صرف کیا جائے گا بلکہ صاف طور پر اس مقصد کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے جس کو اسلام نے نہ صرف اموال فے کی تقسیم میں، بلکہ اپنے پورے معاشی نظام میں پیش نظر رکھا ہے یعنی کی کَی لَای کون دولۃً بین الاغنیائ منکم (مال تمہارے مالداروں ہی میں چکر نہ لگاتا رہے) یہ مضمون جس کو قرآن مجید نے ایک چھوٹے سے جامع فقرے میں بیان کردیا ہے، اسلامی معاشیات کا سنگ بنیاد ہے۔
-7 اقتصاد کا حکم
ایک طرف اسلام نے دولت کو تمام افراد قوم میں گردش دینے اور مالداروں کے مال میں ناداروں کا حصہ دار بنانے کا انتظام کیا ہے، جیسا کہ آپ اوپر دیکھ چکے ہیں۔ دوسری طرف وہ ہر شخص کو اپنے خرچ میں اقتصاد اور کفایت شعاری ملحوظ رکھنے کا حکم دیتا ہے تاکہ افراد اپنے معاشی وسائل سے کام لینے میں افراط یا تفریط کی روش اختیار کرکے تقسیم ثروت کے توازن کو نہ بگاڑ دیں۔ قرآن مجید کی جامع تعلیم اس باب میں یہ ہے کہ:
وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْہَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا۝۲۹ بنی اسرائیل 29:17
’’نہ اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے باندھے رکھ (کہ کھلے ہی نہیں) اور نہ اس کو بالکل ہی کھول دے کہ بعد میں حسرت زندہ بن کر بیٹھا رہے۔‘‘
وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا۝۶۷
الفرقان 67:25
’’اللہ کے نیک بندے وہ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل برتتے ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل رہتے ہیں۔‘‘
اس تعلیم کا منشاء یہ ہے کہ ہر شخص جو کچھ خرچ کرے اپنے معاشی وسائل کی حد میں رہ کر خرچ کرے۔ نہ اس قدر حد سے تجاوز کر جائے کہ اس کا خرچ اس کی آمدنی سے بڑھ جائے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی فضول خرچیوں کے لیے ایک ایک کے آگے ہاتھ پھیلاتا پھرے۔ دوسروں کی کمائی پر ڈاکے مارے۔ حقیقی ضرورت کے بغیر لوگوں سے قرض لے اور پھر یا تو ان کے قرض مار کھائے یا قرضوں کا بھگتان بھگتنے میں اپنے تمام معاشی وسائل کو صرف کرکے اپنے آپ کو خود اپنے کئے کرتوتوں سے فقراء و مساکین کے زمرہ میں شامل کردے، نہ ایسا بخیل بن جائے کہ اس کے معاشی و مسائل جس قدر خرچ کرنے کی اس کو اجازت دیتے ہوں، اتنا بھی نہ خرچ کرے۔ پھر اپنی حد کے اندر رہ کر خرچ کرنے کے بھی یہ معنی نہیں ہیں کہ اگر وہ اچھی آمدنی رکھتا ہے تو اپنی ساری کمائی صرف اپنے عیش و آرام اور تزک و احتشام پر صرف کردے، درآں حالیکہ اس کے عزیز، غریب دوست، ہمسائے مصیبت کی زندگی بسر کررہے ہوں۔ اس قسم کے خود غرضانہ خرچ کو بھی اسلام فضول خرچی ہی شمار کرتا ہے:
وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا۝۲۶ اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ۝۰ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّہٖ كَفُوْرًا۝۲۷
بنی اسرائیل 27:17-26
’’اور اپنے رشتہ داروں کو اس کا حق دے اور مسکین اور مسافر کو۔ فضول خرچی نہ کر، فضول خرچ شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔
اسلام نے اس باب میں صرف اخلاقی تعلیم ہی دینے پر اکتفانہیں کیا ہے بلکہ اس نے بخل اور فضول خرچی کی انتہائی صورتوں کو روکنے کے لیے قوانین بھی بنائے ہیں۔ اور ایسے تمام طریقوں کا سدباب کرنے کی کوشش کی ہے جو تقسیم ثروت کے توازن کو بگاڑنے والے ہیں۔ وہ جُوئے کو حرام قرار دیتا ہے۔ شراب اور زنا سے روکتا ہے۔ لہوولعب کی بہت سی مسرفانہ عادتوں کو جن کا لازمی نتیجہ ضیاع وقت اور ضیاع مال ہے ممنوع قرار دیتا ہے۔ موسیقی کے فطری ذوق کو اس حد تک پہنچنے سے باز رکھتا ہے جہاں انسان کا انہماک دوسری اخلاقی و روحانی خرابیاں پیدا کرنے کے ساتھ معاشی زندگی میں بھی بدنظمی پیدا کرنے کا موجب ہوسکتا ہے اور فی الواقع ہوجاتا ہے۔ جمالیات کے طبعی رجحان کو بھی وہ حدود کا پابند بناتا ہے۔ قیمتی ملبوسات، زر و جواہر کے زیورات، سونے چاندی کے ظروف اور تصاویر اور مجسموں کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جو احکام مروی ہیں ان سب میں دوسری مصالح کے ساتھ ایک بڑی مصلحت یہ بھی پیش نظر ہے کہ جو دولت تمہارے بہت سے غریب بھائیوں کی ناگزیر ضرورتیں پوری کرسکتی ہے ان کو زندگی کے مایحتاج فراہم کرکے دے سکتی ہے، اسے محض اپنے جسم اور اپنے گھر کی تزئین اور آرائش پر صرف کردینا جمالیت نہیں، شقاوت اور بدترین خود غرضی ہے۔ غرض اخلاقی تعلیم اور قانونی احکام دونوں طریقوں سے اسلام نے انسان کو جس قسم کی زندگی بسر کرنے کی ہدایت کی ہے وہ ایسی سادہ زندگی ہے کہ اس میں انسان کی ضرورت اور خواہشات کا دائرہ اتنا وسیع ہی نہیں ہوسکتا کہ وہ ایک اوسط درجے کی آمدنی میں گزربسر نہ کرسکتا ہو، اور اسے اپنے دائرہ سے پائوں نکال کر دوسروں کی کمائیوں میں حصہ لڑانے کی ضرورت پیش آئے۔ یا اگر وہ اوسط سے زیادہ آمدنی رکھتا ہو تو اپنا تمام مال خود اپنی ذات پر خرچ کردے اور اپنی ان بھائیوں کی مدد نہ کرسکے جو اوسط سے کم آمدنی رکھتے ہوں۔

 

جدید معاشی پیچیدگیوں کا اسلامی حل

آئیے اب ہم دیکھیں کہ اسلام کے دیئے ہوئے اصولوں کی بنیاد پر وہ پیچیدگی کس طرح حل ہوسکتی ہے جسے ہم نے ’’تاریخ کا سبق‘‘ پیش کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے چند بنیادی حقیقتوں کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے۔
چند بنیادی حقیقتیں
اولین بات جس کو جان لینا اسلامی نظام تمدن کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے، یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے اصل اہمیت فرد کی ہے نہ کہ جماعت یا قوم یا معاشرے کی، فرد جماعت کے لیے نہیں ہے بلکہ جماعت فرد کے لیے ہے۔ خدا کے سامنے جماعت یا قوم یا معاشرہ اپنی مجموعی حیثیت میں جواب دہ نہیں ہے بلکہ ایک ایک شخص فرداً فرداً اپنی ذاتی حیثیت میں ذمہ دار و جواب دہ ہے۔ اور اس ذاتی ذمہ داری و جواب دہی پر ہی انسان کی ساری اخلاقی قدروقیمت کا مدار ہے۔ اجتماعی زندگی سے اصل مقصود مجموعی خوشحالی نہیں بلکہ ایک ایک فرد انسانی کی فلاح و بہبود ہے۔ ایک نظام اجتماعی کے صالح یا فاسد ہونے کا حقیقی معیار یہ ہے کہ وہ اپنے افراد کی شخصیتوں کے پھلنے پھولنے میں اور ان کی ذاتی صلاحیتوں کے بروئے کار آنے میں کس حد تک معاون و مددگار یا مانع و مزاحم ہوتا ہے۔ اس بنا پر اسلام اجتماعی تنظیم کی کسی ایسی صورت کو اور جماعتی فلاح کے نام سے کسی ایسی اسکیم یا تدبیر کو پسند نہیں کرتا جس سے افراد جماعتی شکنجے میں اس طرح کس جاتے ہوں کہ ان کی مستقل شخصیت ہی دب جائے اور بہت سے آدمی چند آدمیوں کے ہاتھوں میں بے روح اوزار بن کر رہ جائیں۔
انسان کی انفرادیت کا صحیح نشوونما اور اس کی شخصیت کا پورا ابھار اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ اسے فکروعمل کی آزادی حاصل ہو۔ اس غرض کے لیے صرف آزادی رائے، آزادی تحریر و تقریر، آزادی سعی و عمل، اور آزادی اجتماع ہی ضروری نہیں ہے، بلکہ آزادی معاش بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ یہ ایک فطری حقیقت ہے جسے ثابت کرنے کے لیے کسی لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں۔ صرف عقل عام ہی اس کا ادراک کرنے کے لیے کافی ہے۔ ایک راہ چلتا آدمی بھی اس بات کو خوب جانتا ہے کہ جس شخص کی معاش آزاد نہیں ہے اسے درحقیقت کوئی آزادی بھی حاصل نہیں ہے۔ نہ رائے کی، نہ زبان اور قلم کی اور نہ سعی و عمل کی، لہٰذا انسانیت کے لیے اگر معاشرے کی کوئی حالت سب سے بہتر ہوسکتی ہے تو صرف وہ جس میں ایک بندۂ خدا کے لیے اس امر کے کافی مواقع موجود ہوں کہ اپنے ضمیر کو فروخت کئے بغیر، اپنے ہاتھ پائوں کی محنت، سے دو وقت کی روٹی پیدا کرسکے۔ اگرچہ صنعتی انقلاب کے دور میں اس کے مواقع بہت کم رہ گئے ہیں۔ بڑے صنعتی اور تجارتی اداروں نے اور بڑے پیمانے کی کاشت نے منفرد دست کاروں اور کاریگروں کے لیے اور چھوٹے چھوٹے سوداگروں اور کاشت کاروں کے لیے زندگی کا میدان اس قدر تنگ کردیا ہے کہ وہ ان کے مقابلے میں اپنے آزاد پیشے کامیابی کے ساتھ نہیں چلا سکتے۔ تاہم جس نظام میں ذرائع پیداوار کی انفرادی ملکیت برقرار ہو اس میں باوسیلہ اشخاص کے لیے اس امر کا اچھا خاصا موقع باقی رہتا ہے کہ خود اپنے آزاد صنعتی یا تجارتی یا زراعتی ادارے قائم کرے اور بے وسیلہ کارکنوں کے لیے بھی کم از کم اتنی گنجائش تو ضرور ہی باقی رہ جاتی ہے کہ ایک شخص یا ادارے کی نوکری و مزدوری ان کے ضمیر پر بار ہو تو دوسرے دروازے پر جا کھڑے ہوں۔ مگر جہاں تمام یا بیشتر ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت بنا دیا جائے یا جہاں شخصی ملکیتوں کو باقی رکھا جائے مگر نازی و فاشی طریقے پر سارے معاشی کاروبار کو ریاست کے مکمل تسلط میں ایک ہمہ گیر منصوبہ بندی کے تحت چلایا جائے، ایسی جگہ تو افراد کی معاشی آزادی کسی طرح باقی رہ ہی نہیں سکتی اور اس کے خاتمے کے ساتھ ذہنی، معاشرتی اور سیاسی آزادی کا جنازہ آپ سے آپ نکل جاتا ہے۔ لہٰذا جو نظام زندگی انسان کی انفرادیت کو عزیز رکھتا ہو اور انسانی شخصیت کے ابھار کو مقصدی اہمیت دیتا ہو اس کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ اجتماعی فلاح کی ایسی تمام اسکیموں کو اصولی طور پر اور قطعی و حتمی طور پر رد کردے جن میں یہ تجویز کیا گیا ہو کہ زمینوں اور کارخانوں اور تجارتوں کو قومی ملکیت بنالیا جائے، یا ان پر ریاست کا نازیانہ تسلط قائم کرکے ایک مرکزی منصوبہ بندی کے تحت ساری معیشت کی مشین گھمانی شروع کردی جائے۔
یہی پوزیشن اس معاملے میں اسلام نے اختیار کی ہے۔ وہ کمیونزم کا تو ایک اور وجہ سے بھی مخالف ہے اور وہ یہ ہے کہ کمیونسٹ حضرات ذرائع پیداوار کو انفرادی ملکیت سے نکال کر قومی ملکیت بنانے کے لیے مار دھاڑ اور زبردستی سے کام لیتے ہیں۔ لیکن اگر اس سکیم کو نافذ کرنے کے لیے یہ غاصبانہ ظلم و ستم اور ظالمانہ سلب و نہب کا طریقہ نہ بھی اختیار کیا جائے اور اس کے بجائے ارتقائی سوشلزم کے وہ طریقے استعمال کئے جائیں جن سے زمینوں اور صنعتوں اور تجارتوں کو قوانین کے ذریعے سے بتدریج قومی ملکیت میں تبدیل کیا جاتا ہے، تب بھی اسلام کا مزاج اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، کیونکہ اس طرح کا نظام اپنی عین فطرت ہی کے لحاظ سے انسانیت کش واقع ہوا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس نازی اور فاشی طرز کی ضابطہ بندیاں اور منصوبہ بندیاں بھی اسلام کی طبیعت کے بالکل مخالف ہیں۔ اس لیے کہ ان کے اجتماعی فوائد خواہ کچھ بھی ہوں، لیکن انسانی تشخص کے ظہور اور نشو و ارتقاء اور تکمیل میں وہ بہرحال مانع ہیں۔
اس معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے، اسلام جو ذہنیت اور اخلاقی نقطۂ نظر انسان کے اندر پیدا کرتا ہے اس کا سنگ بنیاد ہے خدا کا خوف، اور خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری کا احساس، یہ دونوں اوصاف جس شخص یا گروہ میں موجود ہوں اس پر اگر اجتماعی معاملات کی سربراہی کا بار ڈال دیا جائے تو وہ ایسا ایک نظام قائم کرنے اور چلانے کے لیے خود ہی تیار نہیں ہوسکتا جس میں اپنے ذاتی بوجھ کے ساتھ ساتھ لاکھوں کروڑوں انسانوں کی انفرادی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی وہ ان کے سر سے اتار کر خود اپنے سر پر لاد لے۔ یہی وہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مدینے میں ایک قحط کے موقع پر فرمائی تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا گیا کہ قیمتیں بہت چڑھ رہی ہیں، آپؐ سرکاری طور پر اشیاء کے نرخ مقرر فرما دیجئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایسا کرنے سے انکار فرما دیا اور عذر یہ بیان کیا کہ انی ارید ان القی اللہ و لیس لا حد عندی مظلمۃ یطلبنی بھا۔’’میں اپنے خدا سے اس طرح ملنا چاہتا ہوں کہ میرے خلاف کوئی ایک شخص بھی ظلم کی شکایت کرنے والا نہ ہو۔(۱)
مزید برآں اسلام ہر معاملے میں انسان کو فطری حالت سے قریب تر رکھنا چاہتا ہے اور زندگی کے کسی پہلو میں بھی مصنوعی پن کو پسند نہیں کرتا۔ انسانی معیشت کے لیے فطری حالت یہی ہے کہ خدا نے رزق کے جو ذرائع اس زمین پر پیدا کئے ہیں ان کو افراد اپنے قبضے میں لائیں، فرد فرد اور گروہ گروہ بن کر ان پر تصرف اور ان سے استفادہ کریں اور اپنے آپس میں اشیاء اور خدمات کا آزادانہ لین دین کرتے رہیں۔ غیر معلوم مدت سے اسی طرز پر انسانی معیشت کا کارخانہ چلتا رہا ہے اور یہ گنجائش کچھ اس فطری نظام ہی میں نکل سکتی ہے کہ ایک آدمی معاشرے کے اندر رہتے ہوئے بھی اپنی معیشت میں آزاد اور اپنی زندگی میں مستقل ہوسکے۔ رہے وہ بے شمار چھوٹے بڑے ’’ازم‘‘ جو نیم پختہ ذہن کے لوگ آئے دن تصنیف کرتے رہتے ہیں، تو وہ سب ایک نہ ایک طرح کا مصنوعی نظام تجویز کرتے ہیں جس میں آدمی ایک مستقل ذی روح انسان ایک ذی شعور شخصیت اور ایک مقصدی اہمیت رکھنے والی ہستی کے بجائے محض اجتماعی مشین کا ایک پرزہ بن کر رہ جاتا ہے۔
مصنوعی طریقوں کی طرح اسلام انقلابی طریقوں کو بھی پسند نہیں کرتا۔ زمانۂ جاہلیت میں اہلِ عرب کسب معاش کے بکثرت ایسے ذرائع استعمال کرتے تھے جن کو اسلام نے بعد میں آکر حرام اور سخت قابل نفرت ٹھیرایا۔ مگر پہلے کی جو املاک چلی آرہی تھیں ان کے متعلق اسلام نے یہ جھگڑا نہیں اٹھایا کہ جن جن لوگوں نے حرام خوری کے ذریعہ سے دولت کمائی تھی اب ان کی املاک ضبط ہونی چاہئیں۔ حتیٰ کہ سود خواروں اور قحبہ گری کا پیشہ کرنے والوں اور ڈاکے مارنے والوں تک کے پچھلے اعمال پر گرفت نہ کی گئی جس کے قبضے میں جو کچھ تھا اسلام کے دیوانی قانون نے اس پر اس کے حقوق ملکیت تسلیم کرلیے، آئندہ کے لیے حرام طریقوں کو بند کردیا اور سابقہ املاک کو اسلام کا قانون میراث بتدریج تحلیل کرتا چلا گیا۔

تشخیصِ مرض

مذکورہ بالا حقائق کو ذہن نشین کرنے کے بعد اب ذرا پیچھے پلٹ کر ایک نظر پھر ان مباحث پر ڈال لیجئے جو اس کتاب کے ابتدائی ابواب میں گزر چلے ہیں،۔ ان میں ہم نے یہ بتایا ہے کہ صنعتی انقلاب کے دور میں سرمایہ داری کا جدید نظام اگرچہ اٹھا تو تھا معیشت کے انہی اصولوں پر جن پر غیر معلوم زمانے سے انسانی معاش کا کاروبار چلتا چلا آرہا تھا، لیکن اس کے اندر خرابی پیدا ہونے کے چار بنیادی سبب پائے جاتے تھے جو آگے چل کر سخت ردعمل کے موجب ہوئے۔
اول یہ کہ اس نظام کے قائم کرنے والوں اور چلانے والوں نے ان اصولوں کے معاملے میں وہ مبالغہ برتا جو نئے صنعتی دور کے لیے کسی طرح موزوں نہ تھا۔
دوم یہ کہ انہوں نے ان فطری اصولوں کے ساتھ کچھ غلط اصولوں کی آمیزش بھی کردی۔
سوم یہ کہ انہی نے بعض ایسے اصولوں کو نظر انداز کردیا جو ایک فطری نظام معیشت کے لیے اتنے ہی اہم ہیں جتنے وہ سات اصول جو نظام سرمایہ داری کی بنیاد کہے جاتے ہیں۔
اس کے بعد ہم نے تفصیل کے ساتھ انہی ابواب میں یہ بھی بتایا ہے کہ ایک طرف سوشلزم، کمیونزم، فاشزم اور نازی ازم نے اور دوسری طرف نظام سرمایہ داری کے موجودہ وارثوں نے اس نظام کی پیدا کردہ خرابیوں کا علاج کرنے کی جو کوششیں کی ہیں وہ اس وجہ سے ناکام ہوئی ہیں کہ ان میں سے کسی نے بھی مرض کے بنیادی اسباب کو سرے سے نہیں سمجھا۔ ایک گروہ نے معیشت کے ان فطری اصولوں ہی کو اصل سبب مرض سمجھ لیا جو قدیم ترین زمانے سے معمول بہ چلے آرہے تھے اور ان کا ازالہ کرنے کے ساتھ ساتھ انفرادی آزادی کا بھی ازالہ کرڈالا۔ دوسرے گروہ نے اپنی ساری توجہ صرف شکایات رفع کرنے پر صرف کردی اور ان بیشتر اسباب کو جوں کا توں باقی رہنے دیا جو دراصل خرابی کے موجب تھے، اس لیے ان کے نظام میں انفرادی آزادی تو باقی رہی مگر اس طرح کہ وہ اجتماعی مفاد کے لیے قریب قریب اتنی ہی نقصان دہ ہے جتنی نظام سرمایہ داری کے کسی تاریک سے تاریک دور میں تھی۔
اب جو شخص بھی اس تشخیص مرض پر غور کرے گا وہ بآسانی اس نتیجے پر پہنچ جائے گا کہ انسانیت کو دراصل ایک ایسے حکیمانہ متوازن نظام کی ضرورت ہے جو:
اولاً: معیشت کے فطری اصولوں کو تو برقرار رکھے کیونکہ وہ انفرادی آزادی کے لیے ضروری ہیں مگر ان کے برتنے میں مبالغہ کرنے کے بجائے افراد کی آزادی سعی و عمل پر ایسی پابندیاں لگائے جن سے وہ اجتماعی مفاد کی نہ صرف یہ کہ دشمن نہ رہے بلکہ عملاً خادم بن جائے۔
ثانیاً:ان فطری اصولوں کے ساتھ غلط اصولوں کی ہر آمیزش کو نظامِ معیشت سے خارج کردے۔
ثالثا ً: ان اصولوں کے ساتھ فطری نظام معیشت کے دوسرے بنیادی اصولوں کو بھی بروئے کار لائے اور
رابعاً: افراد کو ان فطری اصولوں کے حقیقی تقاضوں سے ہٹنے نہ دے۔

اسلامی علاج

ٹھیک یہی طریق کار ہے جو اسلام نے اختیار کیا ہے۔ وہ ’’بے قید معیشت‘‘ کو ’’آزاد معیشت‘‘ میں تبدیل کردیتا ہے اور اس آزادی کو اس طرح چند حدود کا پابند بناتا ہے جس طرح تمدن و معاشرت کے تمام دوسرے شعبوں میں انسانی آزادی کو محدود کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ وہ ایسے تمام دروازے بند کردیتا ہے جن سے آزاد معیشت میں فاسد و مفسد نظام سرمایہ داری کی خصوصیات اور اثرات و نتائج پیدا ہونے کا امکان ہو۔ آئیے اب ہم ذرا تفصیل کے ساتھ دیکھیں کہ اسلام کے اصولوں پر معیشت کا کیا نقشہ بنتا ہے۔

1۔ زمین کی ملکیت

اسلام تمام دوسری ملکیتوں کی طرح زمین پر انسان کی شخصی ملکیت تسلیم کرتا ہے جتنی قانونی شکلیں ایک چیز پر کسی شخص کی ملکیت قائم و ثابت ہونے کے لیے مقرر ہیں ان ساری شکلوں کے مطابق زمین بھی اسی طرح ایک آدمی کی ملکیت ہو سکتی ہے جس طرح کوئی دوسری چیز، اس کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ ایک گز مربع سے لے کر ہزار ہا ایکڑ تک خواہ کتنی ہی زمین ہو، اگر کسی قانونی صورت سے آدمی کی ملک میں آئی ہے تو بہرحال وہ اس کی جائز ملک ہے۔ اس کے لیے خود کاشت کرنے کی قید بھی نہیں ہے جس طرح مکان اور فرنیچر کرائے پر دیا جاسکتا ہے اور تجارت میں شرکت کی جاسکتی ہے، اسی طرح زمین بھی کرائے پر دی جاسکتی ہے اور اس میں بھی شرکت کے اصول پر زراعت ہوسکتی ہے۔ بلاکرایہ کوئی شخص کسی کو دے، یا بٹائی لیے بغیر کسی کو اپنی زمین میں کاشت کرلینے دے تو یہ صدقہ ہے، مگر کرایہ و لگان(۱) یا بٹائی پر معاملہ طے کرنا ویسا ہی ایک جائز فعل ہے جیسے تجارت میں حصہ داری یا کسی دوسری چیز کو کرایہ پر دینا۔ رہیں ’’نظام جاگیرداری‘‘ کی وہ خرابیاں جو ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں تو نہ وہ خالص زمینداری کی پیداوار ہیں اور نہ ان کا علاج یہ ہے کہ سرے سے زمین کی شخصی ملکیت ہی اڑا دی جائے، یا اس پر مصنوعی حد بندیاں عائد کی جائیں جو ’’زرعی اصلاحات‘‘ کے نام سے آج کل کے نیم حکیم تجویز کررہے ہیں بلکہ اسلامی اصول پر ان کا علاج یہ ہے:
-1 زمین کی خریدوفروخت پر سے تمام پابندیاں اٹھا دی جائیں اور اس کا لین دین بالکل اسی طرح کھلے طور پر ہو جس طرح دنیا کی دوسری چیزوں کا ہوتا ہے۔
-2 زراعت پیشہ اور غیر زراعت پیشہ طبقوں کی مستقل تفریق ہر شکل اور ہر حیثیت سے قطعی ختم کر دی جائے۔
-3 وہ مخصوص امتیازی حقوق بھی ازروئے قانون منسوخ کر دیئے جائیں تو ہماری زندگی میں مالکان زمین کو حاصل ہیں۔
-4 مالک زمین اور کاشتکار کے درمیان حقوق و فرائض اَزرُوئے قانون مقرر کر دیئے جائیں اور ان مقرر حقوق کے ماسوا کسی دوسری قسم کے حقوق مالکان زمین کو اپنے مزارعین پر حاصل نہ ہوں۔
-5 زمینداری کی واحد صورت صرف یہ باقی رہنے دی جائے کہ مالک زمین اور مزارع کے درمیان تجارت کے شریکوں جیسا تعلق ہو۔ اس سے گزر کر جو زمینداری آلۂ ظلم بن جائے، یا ریاست کے اندر ایک ریاست کی شکل اختیار کر جائے یا جسے ناجائز طریقوں سے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ بنالیا جائے وہ چونکہ جائز زمینداری کی تعریف سے خارج ہے اس لیے اسے شخصی ملکیت کا وہ تحفظ حاصل نہ ہو جو صرف جائز زمینداری کا حق ہے۔
-6 میراث کے معاملے میں تمام رسومِ جاہلیت کا خاتمہ کر دیا جائے۔ زمینداروں کی موجودہ املاک شرعی طریقے پر ان کے زندہ وارثوں کے درمیان تقسیم کر دی جائیں اور آئندہ کے لیے زرعی جائیدادوں کے معاملے میں اسلام کا قانون میراث ٹھیک ٹھیک نافذ کیا جائے۔
-7 زمین بے کار ڈال رکھنے پر پابندی عائد کردی جائے۔ مثلاً یہ کہ جو زمینیں حکومت نے کسی کو بلامعاوضہ دی ہوں وہ اگر تین سال سے زیادہ مدت تک بے کار ڈال رکھی جائیں گی تو عطیہ منسوخ ہوجائے گا اور جو زر خرید زمینیں افتادہ چھوڑ رکھی جائیں گی ان پر ایک خاص مدت کے بعد ٹیکس لگا دیا جائے گا۔
-8 زمینداروں اور کاشت کاروں سے ان کی پیداوار کا ایک مخصوص حصہ ان مقاصد کے لیے الگ لے لیا جائے جن کا ذکر آگے زکوٰۃ کے زیر عنوان آرہا ہے۔
-9 نئے سائنٹفک طریقوں سے اگر بڑے پیمانے کی کاشت کرنی ہو تو اس کے لیے امداد باہمی کے ایسے ادارے قائم کئے جائیں جن میں چھوٹے چھوٹے مالکان زمین اپنے مالکانہ حقوق قائم رکھتے ہوئے آپ کی رضامندی سے اپنی املاک کو ایک بڑے کھیت میں تبدیل کرلیں اور مل جل کر ایک انجمن کی طرح اس کے کاروبار چلائیں۔
کیا ان اصلاحات کے بعد زمینداری میں کوئی ایسی خرابی باقی رہ جاتی ہے جس کی معقولیت کے ساتھ نشاندہی کی جاسکتی ہو۔(۱)

2۔ دوسرے ذرائع پیداوار

اسلام اشیاء استعمال اور ذرائع پیداوار کے درمیان ان طرح کا کوئی فرق تسلیم نہیں کرتا کہ ایک پر شخصی ملکیت جائز ہو اور دوسرے پر نہ ہو۔ اس کے نزدیک یہ بات بالکل جائز ہے کہ ایک آدمی دوسرے لوگوں کے لیے ان کی ضروریات زندگی میں سے کوئی چیز تیار یا فراہم کرے اور اسے ان کے ہاتھ فروخت کرے۔ یہ کام وہ خود اپنے ہاتھ سے بھی کرسکتا ہے اور دوسروں سے اجرت پر لے بھی سکتا ہے۔ ایسے سامان کی تیاری یا فراہمی میں وہ جس مواد خام کو، جن آلات کو اور جس کارگاہ کو استعمال کرے، ان سب کا وہ مالک ہوسکتا ہے۔ یہ سب کچھ جس طرح صنعتی انقلاب کے دور سے پہلے جائز تھا اسی طرح اس دور میں بھی جائز ہے۔ مگر بے قید صنعت و تجارت نہ پہلے صحیح تھی اور نہ اب صحیح ہے۔ اسلامی اصول پر اسے حسب ذیل قواعد کا پابند بنانا ضروری تھا اور ہے:
-1 کسی ایسی فنی ایجاد کو، جو انسانی طاقت کی جگہ مشینی طاقت سے کام لیتی ہو، صنعت و حرفت اور کاروبار میں استعمال کرنے کی اس وقت تک اجازت نہ دی جائے جب تک اس امر کا اچھی طرح جائزہ نہ لیا جائے کہ وہ کتنے انسانوں کی روزی پر اثر ڈالے گی اور یہ اطمینان نہ کرلیا جائے کہ ان متاثر ہونے والے لوگوں کی معیشت کا کیا بندوبست ہوگا۔
-2 اجیروں اور مستاجروں کے درمیان حقوق اور فرائض اور شرائط کار کا تفصیلی تعین تو بہرحال فریقین ہی کی باہمی قرارداد پر چھوڑا جائے گا مگر ریاست اس معاملے میں انصاف کے چند اصول لازماً طے کردے۔ مثلاً ایک کارکن کے لیے کم سے کم تنخواہ یا مزدوری کا معیار، زیادہ سے زیادہ اوقات کار کی حد، بیماری کی حالت میں علاج کے اور جسمانی نقصان کی صورت میں تلافی کے اور ناقابل کار ہوجانے کی حالت میں پنشن کے کم از کم حقوق اور ایسے ہی دوسرے امور۔
-3 اجیرو مستاجر کی نزاعات کا تصفیہ حکومت اپنے ذمے لے اور اس کے لیے باہمی مفاہمت، ثالثی اور عدالت کا ایک ایسا ضابطہ مقرر کردے جس کی وجہ سے ہڑتالوں اور دربندیوں (Lock Out) کی نوبت ہی نہ آنے پائے۔
-4 کاروبار میں احتکار(۱) (Hoarding) سٹے (Speculation) تجارتی قمار بازی اور غائب سودوں کی قطعی ممانعت کردی جائے اور ان تمام طریقوں کو از روئے قانون بند کیا جائے جن سے قیمتوں پر ایک مصنوعی آماس چڑھتا ہے۔(۲)
-5 پیداوار کو قصداً برباد کرنا جرم قرار دیا جائے۔
-6 صنعت اور تجارت کا ہر شعبہ حتی الامکان مسابقت کے لیے کھلا رہے اور اجارہ داریوں سے کسی شخص یا گروہ کو ایسے امتیازی حقوق نہ مل جائیں جو دوسرے لوگوں کو حاصل نہ ہوں۔
-7 ایسی صنعتوں اور تجارتوں کی اجازت نہ ہو جو عامتہ الناس کے اخلاق یا صحت پر برا اثر ڈالتی ہوں۔ اس طرح کی کوئی چیز اگر کسی پہلو سے ضروری ہو تو اس کی صنعت و تجارت پر تابحدّ ضرورت پابندیاں عائد کی جائیں۔
-8 حکومت نازی طریقے پر صنعت و تجارت کو بالکل اپنے تسلط (Control) میں تو نہ لے، مگر رہنمائی اور توفیق (Co-ordination) کی خدمت لازماً انجام دیتی رہے تاکہ ملک کی صنعت و تجارت غلط راستوں پر بھی نہ جانے پائے، اور معاشی زندگی کے مختلف شعبوں میں ہم آہنگی بھی پیدا ہوسکے۔
-9 اسلامی قانون میراث کے ذریعے سے زمینداروں کی طرح صناعوں اور کاروباری لوگوں کی سمیٹی ہوئی دولت بھی پیہم تقسیم ہوتی رہے تاکہ مستقل دولت مند طبقے نہ بننے پائیں۔
-10 اہل زراعت کی طرح تاجروں اور صناعوں اور کاروباری لوگوں سے بھی ان کی آمدنیوں کا ایک حصہ ان مقاصد کے لیے لازماً لے لیا جائے جن کا ذکر آگے زکوٰۃ کے زیر عنوان آرہا ہے۔

3۔ مالیات

مالیات میں اسلام افراد کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے کہ ان کی آمدنیوں کا جو حصہ ان کی ضروریات سے بچ رہے، اسے جمع کریں یا دوسروں کو قرض دیں یا خود کسی کاروبار میں لگائیں یا کسی صنعت و تجارت میں اپنا سرمایہ دے کر اس کے نفع و نقصان میں حصہ دار بن جائیں۔ اگرچہ اسلام کی نگاہ میں پسندیدہ تو یہی ہے کہ لوگ اپنی فاضل آمدنیوں کو نیک کاموں میں خرچ کردیا کریں۔ لیکن وہ مذکورہ بالا طریقوں کو بھی جائز رکھتا ہے بشرطیکہ وہ حسب ذیل قواعد کے پابند ہوں۔
-1 جمع کرنے کی صورت میں وہ اس جمع شدہ دولت کا اڑھائی فی صد سالانہ حصہ لازماً ان کاموں کے لیے دیتے رہیں جن کا ذکر آگے زکوٰۃ کے زیر عنوان آرہا ہے، اور جب وہ مریں تو ان کا پورا سرمایہ اسلامی قانون میراث کے مطابق ان کے وارثوں میں تقسیم ہوجائے۔
-2 قرض دینے کی صورت میں وہ صرف اپنا دیا ہوا سرمایہ ہی واپس لے سکتے ہیں۔ کسی حالت میں سود کے مستحق وہ نہیں ہیں، خواہ قرض لینے والے نے اپنے ذاتی مصارف میں صرف کرنے کے لیے قرض لیا ہو یا کسی صنعت و تجارت میں لگانے کے لیے۔ اسی طرح وہ اس امر کا حق بھی نہیں رکھتے کہ اگر اپنے دیئے ہوئے مال کی واپسی کا اطمینان کرنے کے لیے انہوں نے مدیون سے کوئی زمین یا جائیداد رہن کے طور پر لی ہو تو وہ اس سے کسی قسم کا فائدہ اٹھائیں۔ قرض پر فائدہ بہرحال سود ہے اور وہ کسی شکل میں بھی نہیں لیا جاسکتا۔ علیٰ ہذا القیاس یہ بھی جائز نہیں ہے کہ نقد خریداری کی صورت میں ایک مال کی قیمت کچھ ہو اور قرض پر خریدنے کی صورت میں اس سے زیادہ ہو۔
-3 صنعت و تجارت یا زراعت میں براہ راست خود سرمایہ لگانے کی صورت میں ان کو ان قواعد کا پابند ہونا پڑے گا جو اوپر زمین اور دوسرے ذرائع پیداوار کے سلسلے میں ہم بیان کرچکے ہیں۔
-4 حصے داری کی صورت میں ان کو لازماً نفع اور نقصان میں یکساں شریک ہونا پڑے گا، اور وہ ایک طے شدہ تناسب کے مطابق دونوں میں حصہ دار ہوں گے۔ شرکت کی کوئی ایسی صورت قانوناً جائز نہ ہوگی جس کی رُو سے سرمایہ دینے والا صرف نفع میں شریک ہو، اور مقرر شرح منافع کا لازماً حق دار قرار پائے۔

4۔ زکوٰۃ

اسلام معاشرے اور ریاست کے ذمّے یہ فرض عائد نہیں کرتا کہ وہ اپنے افراد کو روزگار فراہم کرے۔ اس لیے کہ فراہمی روزگار کی ذمہ داری بغیر اس کے نہیں لی جاسکتی کہ ذرائع پیداوار پر اجتماعی قبضہ یا کم از کم نازی طرز کا تسلط ہو، اور اس کی غلطی و مضرت پہلے بتائی جاچکی ہے۔ لیکن اسلام اس کو بھی صحیح نہیں سمجھتا کہ اجتماعی زندگی میں افراد کو بالکل ان کے اپنے ہی ذرائع اور اپنے ہی حالات پر چھوڑ دیا جائے اور آفت رسیدہ لوگوں کی خبر گیری کا کوئی بھی ذمہ دار نہ ہو۔ وہ ایک طرف ہر انسان پر فرداً فرداً یہ اخلاقی فریضہ عائد کرتا ہے کہ وہ اپنے اور پرائے جس فرد بشر کو بھی مدد کامحتاج پائے اس کی مدد اپنی حد استطاعت تک ضرور کرے۔ دوسری طرف صناعوں، تاجروں اور زمینداروں سے بھی یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اپنے کاروبار کے سلسلے میں جن لوگوں سے وہ کام لیتے ہیں ان کے حقوق ٹھیک ٹھیک ادا کریں۔ اور اس سب پر مزید یہ کہ وہ پورے معاشرے اور ریاست پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ اس کے حدود عمل کے اندر رہنے والا کوئی شخص کم سے کم ضروریات زندگی سے محروم نہ رہنے پائے۔ معاشرے کے اندر جو لوگ بے روزگار ہوجائیں، یا کسی عارضی سبب سے ناقابل کار ہوں یا کسی مستقل وجہ سے ناکارہ ہوجائیں یا کسی حادثے اور آفت کے شکار ہوں ان سب کو سہارا دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ وہ بچے جن کا کوئی سرپرست نہیں، ان کی سرپرستی کرنا ریاست کا فرض ہے۔ حد یہ ہے کہ جو شخص قرضدار ہو اور اپنا قرض ادا نہ کرسکے اس کا قرض بھی بالآخر ریاست پر جا پڑتا ہے۔ یہ سوشل انشورنس کی ایک وسیع ترین اسکیم ہے جو براہ راست ریاست کے انتظام میں روبعمل آنی چاہیے، اس کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کا انتظام اسلام حسب ذیل طریقہ پر تجویز کرتا ہے:
-1 ہر شخص جس نے ایک مقرر نصاب سے زائد سرمایہ جمع کر رکھا ہو، اپنے سرمایہ کا اڑھائی فی صدی حصہ سالانہ زکوٰۃ میں دے۔
-2 ہر زمیندار و کاشت کار اپنی بارانی زمینوں کی پیداوار کا 10 فی صدی اور چاہی و نہری زمینوں کی پیداوار کا 5 فی صدی حصہ اس مد میں ادا کرے۔
-3 ہر صناع اور تاجر ہر سال کے اختتام پر اپنے اموال تجارت کی مالیت کا اڑھائی فی صدی حصہ دے۔
-4 ہر گلہ بان جو ایک خاص مقصدار نصاب سے زیادہ مویشی رکھتا ہو، ایک خاص تناسب کے مطابق اپنی حیوانی دولت کا ایک حصہ ہر سال حکومت کے حوالہ کردے۔
-5 معدنیات اور دفینوں میں سے بھی خمس لیا جائے۔
-6 اور کوئی جنگ پیش آئے تو اموال غنیمت میں سے 20 فیصدی حصہ ان اغراض کے لیے الگ کرلینا چاہیے۔
یہ پوری دولت ان مصارف کے لیے وقف ہوگی جو قرآن مجید میں زکوٰۃ اور خمس کے لیے مقرر کئے گئے ہیں جن ایک جزو اعظم سوشل انشورنس کی وہ اسکیم ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ (۱)

5۔حکومت کی محدود مداخلت

اسلام اس بات کو اصولاً پسند نہیں کرتا کہ حکومت خود ضائع یا تاجر یا زمیندار بنے ۔اس کے نزدیک حکومت کا کام رہنمائی ہے، قیام عدل ہے، مفاسد کی روک تھام ہے، اور اجتماعی فلاح کی خدمت ہے۔ مگر سیاسی طاقت کے ساتھ سوداگری کو جمع کرنے کی قباحتیں اتنی زیادہ ہیں کہ وہ اس کے چند ظاہری فوائد کی خاطر ان کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ صرف ایسی صنعتوں اور ایسے کاروبار کو حکومت کے انتظام میں چلانا جائز رکھتا ہے جو قومی زندگی کے لیے ضروری تو ہوں مگر یا تو افراد انہیں چلانے کے لیے خود تیار نہ ہوں، یا انفرادی ہاتھوں میں ان کا رہنا فی الواقع اجتماعی مفاد کے لیے نقصان دہ ہو۔ اس قسم کے کاموں کے ماسوا دوسرے صنعتی و تجارتی کام اگر ملک کی ترقی و بہبود کی خاطر حکومت خود شروع کرے بھی تو اس کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ایک خاص حد تک کامیابی کے ساتھ چلانے کے بعد وہ اس کاروبار کو انفرادی ہاتھوں میں منتقل کردے۔

متوازن معیشت کے چار بنیادی اصول

یہ حدود و ضوابط اور یہ اصلاحی تدبیریں اگر معیشت کے ان سات فطری اصولوں کے ساتھ جمع کردی جائیں جو ’’جدید نظام سرمایہ داری‘‘ کے باب میں ہم بیان کرچکے ہیں تو اس سے جاگیرداری و سرمایہ داری کی تمام خرابیوں کا سدباب ہوجاتا ہے اور ایک ایسا متوازن نظام معیشت بن جاتا ہے جس میں انفرادی آزادی اور اجتماعی فلاح، دونوں ٹھیک ٹھیک عدل کے ساتھ سموئے جاسکتے ہیں، بغیر اس کے کہ موجودہ صنعتی انقلاب کی رفتارِ ترقی میں ذرہ بھر بھی خلل آنے پائے۔
اس متوازن معیشت کے بنیادی ارکان چار ہیں:
-1 آزاد معیشت چند قانونی اور انتظامی حدود و قیود کے اندر
-2 زکوٰۃ کی فرضیت
-3 قانون میراث
-4 سود کی حرمت
ان میں سے پہلے رکن کو کم از کم اصولی طور پر وہ سب لوگ اب درست تسلیم کرنے لگے ہیں جن کے سامنے بے قید سرمایہ داری کی قباحتیں اور اشتراکیت و فاشیت کی شناعتیں بے نقاب ہوچکی ہیں۔ اس کی تفصیلات کے بارے میں کچھ الجھنیں ذہنوں میں ضرور پائی جاتی ہیں مگر ہمیں امید ہے کہ جو کچھ اس باب میں ہم نے زمین اور دوسرے ذرائع پیداوار کے زیر عنوان بیان کیا ہے اس کے مطالعہ سے وہ الجھنیں بھی دور ہوجائیں گی اور ہماری کتاب ’’مسئلہ ملکیت زمین‘‘ بھی انہیں دور کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوگی۔
دوسرے رکن کی اہمیت اب بڑی حد تک دنیا کے سامنے واضح ہوچکی ہے۔ کسی صاحب نظر سے یہ بات مخفی نہیں رہی ہے کہ اشتراکیت، فاشزم اور سرمایہ دارانہ جمہوریت، تینوں نے اب تک سوشل انشورنس کا جو وسیع نظام سوچا ہے، زکوٰۃ اس سے بہت زیادہ وسیع پیمانے پر اجتماعی انشورنس کا انتظام کرتی ہے۔ لیکن یہاں بھی کچھ الجھنیں زکوٰۃ کے تفصیلی احکام معلوم نہ ہونے کی وجہ سے پیش آتی ہیں۔ اور لوگوں کے لیے یہ بات سمجھنی بھی مشکل ہورہی ہے کہ ایک جدید ریاست کے مالیات میں زکوٰۃ و خمس کو کس طرح نصب کیا جاسکتا ہے۔ اس معاملے میں ہم توقع رکھتے ہیں کہ ’’احکام زکوٰۃ‘‘ پر ہمارا مختصر رسالہ تشفی بخش ثابت ہوگا۔
تیسرے رکن کے بارے میں اسلام نے تمام دنیا کے قوانین وراثت سے ہٹ کر جو مسلک اختیار کیا ہے، پہلے اس کی حکمتوں سے بکثرت لوگ ناواقف تھے اور طرح طرح کے اعتراضات اس پر کرتے تھے، لیکن اب بتدریج ساری دنیا اس کی طرف رجوع کرتی جارہی ہے۔ حتیٰ کہ روسی اشتراکیت کو بھی اس کی خوشہ چینی کرنی پڑی ہے۔ (۱)
مگر اس نقشے کے چوتھے رکن کو سمجھنے میں موجودہ زمانے کے لوگوں کو سخت مشکل پیش آرہی ہے۔ بورژوا علم معیشت نے پچھلی صدیوں میں یہ تخیل بڑی گہری جڑوں کے ساتھ جما دیا ہے کہ سود کی حرمت محض ایک جذباتی چیز ہے اور یہ کہ بلا سود کسی شخص کو قرض دینا محض ایک اخلاقی رعایت ہے جس کا مطالبہ مذہب نے خواہ مخواہ اس قدر مبالغہ کے ساتھ کردیا ہے ورنہ منطقی حیثیت سے سود سراسر ایک معقول چیز ہے اور معاشی حیثیت سے وہ صرف ناقابل اعتراض ہی نہیں بلکہ عملاً مفید اور ضروری بھی ہے۔ اس غلط نظریے اور اس کی اس پر زور تبلیغ کا اثر یہ ہے کہ جدید نظام سرمایہ داری کے تمام عیوب پر تو دنیا بھر کے ناقدین کی نگاہ پڑتی ہے مگر اس سب سے بڑے بنیادی عیب پر کسی کی نگاہ نہیں پڑتی۔ حتیٰ کہ روس کے اشتراکی بھی اپنی مملکت میں سرمایہ داری نظام کی اس ام الخبائث کو برطانیہ اور امریکہ ہی کی طرح پرورش کررہے ہیں اور حد یہ ہے کہ خود مسلمان بھی، جن کو دنیا میں سود کا سب سے بڑا دشمن ہونا چاہیے، مغرب کے اس گمراہ کن پروپیگنڈے سے بری طرح متاثر ہوچکے ہیں۔ ہمارے شکست خوردہ اہل مذہب میں یہ عام غلط فہمی پھیل گئی ہے کہ سود کوئی قابل اعتراض چیز اگر ہے بھی تو صرف اس صورت میں جبکہ وہ ان لوگوں سے وصول کیا جائے جواپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے کے لیے قرض لیتے ہیں، رہے وہ قرضے جو کاروبار میں لگانے کے لیے حاصل کئے گئے ہوں، تو ان پر سود کا لین دین سراسر جائز و معقول اور حلال و طیب ہے، اور اس میں دین، اخلاق، عقل اور اصول علم معیشت، کسی چیز کے اعتبار سے بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس پر مزید وہ خوش فہمیاں ہیں جن کی بنا پر قدیم طرز کے بنیوں اور ساہوکاروں کی سود خوری سے موجودہ زمانے کے بینکنگ کو ایک مختلف چیز سمجھا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ ان بینکوں کا ’’ستھرا‘‘ کاروبار تو بالکل ایک پاکیزہ چیز ہے جس سے ہر قسم کا تعلق رکھا جاسکتا ہے۔ ان تمام مغالطوں کے چکر سے جو لوگ نکل گئے ہیں وہ بھی یہ سمجھنے میں مشکل محسوس کررہے ہیں کہ سود کو قانوناً بند کردینے کے بعد موجودہ زمانے میں مالیات کا نظم کس طرح قائم ہو سکتا ہے۔
ان مسائل پر ایک مستقل بحث کی ضرورت ہے جس کے لیے اس رسالے میں گنجائش نہیں ہے، میری کتاب ’’سود‘‘ انہی مسائل کے لیے مختص ہے، اس لیے جو اصحاب ان کے متعلق تشفی چاہتے ہیں وہ اس کا مطالعہ فرمائیں۔
———–