اسلام کا نظریۂ سیاسی

ریڈ مودودی ؒ   کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اسلام کا نظریۂ سیاسی

(یہ مقالہ اکتوبر ۱۹۳۹ء؁ میں انٹر کالجیٹ مسلم برادر ہڈ، لاہور کے ایک جلسہ میں پڑھا گیا)
اِسلام کے متعلق یہ فقرہ آپ اکثر سنتے رہتے ہیں کہ یہ ایک ’’جمہوری نظام ہے‘‘ پچھلی صدی کے آخری دَور سے اس فقرے کا بار بار اعادہ کیا جا رہا ہے، مگر جو لوگ اسے زبان سے نکالتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ اُن میں سے ایک فی ہزار بھی ایسے نہیں ہیں جنھوں نے اس دین کا باقاعدہ مطالعہ کیا ہو اور یہ سمجھنے کی کوشش کی ہو کہ اِسلام میں جمہوریت کس حیثیت سے ہے اور کس نوعیت کی ہے۔ ان میں سے بعض لوگ تو اِسلامی نظامِ جماعت کی چند ظاہری شکلوں کو دیکھ کر اس پر جمہوریت کا نام چسپاں کر دیتے ہیں اور اکثر ایسے ہیں جن کی ذہنیت کچھ اس طور پر بنی ہے کہ دُنیا میں (اور خصوصًا ان کے حکم رانوں میں) جو چیز مقبولِ عام ہو اُسے کسی نہ کسی طرح اِسلام میں موجود و ثابت کر دینا ان کے نزدیک اس مذہب کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ شاید وُہ اِسلام کو اس یتیم بچے کی طرح سمجھتے ہیں جو ہلاکت سے بس اس طرح بچ سکتا ہے کہ کسی بااثر شخص کی سرپرستی اُسے حاصل ہو جائے۔ یا پھر غالباً ان کا خیال یہ ہے کہ ہماری عزت محض مسلمان ہونے کی حیثیت سے قائم نہیں ہو سکتی، بلکہ صرف اسی طرح قائم ہو سکتی ہے کہ ہم اپنے مسلک میں دُنیا کے کسی چلتے ہوئے مسلک کے اُصولوں کی جھلک دکھا دیں۔ اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ جب دُنیا میں اشتراکیت کا غلغلہ بلند ہوا تو مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں نے پکارنا شروع کیا کہ اشتراکیت تو محض اِسلام ہی کا ایک جدید ایڈیشن ہے، اور جب ڈکٹیٹر شپ کا آوازہ اُٹھا تو کچھ دُوسرے لوگوں نے اطاعتِ امیر، اطاعتِ امیر کی صدائیں بلند کرنا شروع کر دیں اور کہنے لگے کہ یہاں سارا نظامِ جماعت ڈکٹیٹر شپ ہی پر قائم ہے، غرض اِسلام کا نظریۂ سیاسی اس زمانہ میں ایک چیستان، ایک چُوں چُوں کا مُربّا بن کر رَہ گیا ہے، جس میں سے ہر وُہ چیز نکال کر دکھا دی جاتی ہے جس کا بازار میں چلن ہو۔ ضرورت ہے کہ باقاعدہ علمی طریقہ سے اس امر کی تحقیق کی جائے کہ فی الواقع اِسلام کا سیاسی نظریہ ہے کیا؟ اس طرح نہ صرف ان پراگندہ خیالوں کا خاتمہ ہو جائے گا جو ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں اور نہ صرف ان لوگوں کا منہ بند ہو جائے گا جنھوں نے حال میں علی الاعلان یہ لکھ کر اپنی جہالت کا ثبوت دیا تھا کہ ’’اِسلام سرے سے کوئی سیاسی و تمدنی نظام تجویز ہی نہیں کرتا۔‘‘ بلکہ درحقیقت تاریکیوں میں بھٹکنے والی دُنیا کے سامنے ایک ایسی روشنی نمودار ہو جائے گی جس کی وُہ سخت حاجت مند ہے، اگرچہ وُہ اپنی اس حاجت مندی کا شعور نہیں رکھتی۔

تمام اِسلامی نظریات کی اساس

سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ اِسلام محض چند منتشر خیالات اور منتشر طریق ہائے عمل کا مجموعہ نہیں ہے جس میں اِدھر اُدھر سے مختلف چیزیں لا کر جمع کر دی گئی ہوں، بلکہ یہ ایک باضابطہ نظام ہے جس کی بنیاد چند مضبوط اُصولوں پر رکھی گئی ہے، اس کے بڑے بڑے ارکان سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے جزئیات تک ہر چیز اس کے بنیادی اُصولوں کے ساتھ ایک منطقی ربط رکھتی ہے۔ انسانی زندگی کے تمام مختلف شعبوں کے متعلق اس نے جتنے قاعدے اور ضابطے مقرر کیے ہیں ان سب کی رُوح اور ان کا جوہر اس کے اصول ادِلّہ ہی سے ماخوذ ہے، ا ن اُصول ادِلّہ سے پوری اِسلامی زندگی اپنی مختلف شاخوں کے ساتھ بالکل اُسی طرح نکلتی ہے جس طرح درخت میں آپ دیکھتے ہیں کہ بیج سے جڑیں اور جڑوں سے تنا اور تنے سے شاخیں اور شاخوں سے پتّیاں پھوٹتی ہیں اور خوب پھیل جانے کے باوجود اس کی ایک ایک پتی اپنی جڑ کے ساتھ مربوط رہتی ہے۔ پس آپ اِسلامی زندگی کے جس شعبے کو بھی سمجھنا چاہیں آپ کے لیے ناگزیر ہے کہ اس کی جڑ کی طرف رجوع کریں، کیوں کہ اس کے بغیر آپ اس کی رُوح کو نہیں پا سکتے۔

انبیا علیہم السلا م کا مشن

اِسلام کے متعلق یہ بات تو آپ مجملًا جانتے ہی ہیں کہ یہ تمام انبیا علیہم السلام کا مشن ہے۔ یہ صرف محمد بن عبد اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا مشن نہیں ہے بلکہ انسانی تاریخ کے قدیم ترین دَور سے جتنے انبیا بھی خدا کی طرف سے آئے ہیں، ان سب کا یہی مشن تھا۔ اس کے ساتھ اجمالی طور پر یہ بھی آپ کو معلوم ہے کہ یہ سب نبی ایک خدا کی خدائی منوانے اور اُسی کی عبادت کرانے آئے تھے۔ لیکن مَیں چاہتا ہوں کہ اس اجمال کا پردہ اُٹھا کر ذرا آپ گہرائی میں اُتریں۔ سب کچھ اسی پردے کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ تجسس کی نگاہ ڈال کر اچھی طرح دیکھیے کہ ایک خدا کی خدائی منوانے سے مقصد کیا تھا اور صرف اُسی کی عبادت کرانے کا مطلب کیا تھا؟ اور آخر اس میں ایسی کون سی بات تھی؟ کہ جہاں کسی اللّٰہ کے بندے نے مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۝۰ۭ (الاعراف 7:65) کا اعلان کیا اور ساری طاغوتی طاقتیں جھاڑ کا کانٹا بن کر اُسے چمٹ گئیں اگر بات صرف اتنی ہی تھی جتنی آج کل سمجھی جاتی ہے کہ مسجد میں خدائے واحد کے سامنے سجدہ کر لو اور پھر باہر نکل کر حکومتِ وقت (جو بھی وقت کی حکومت ہو) کی وفاداری اور اطاعت میں لگ جائو تو کس کا سر پھرا تھا کہ اتنی سی بات کے لیے خواہ مخواہ اپنی وفادار رعایا کی مذہبی آزادی میں مداخلت کرتا؟
آئیے ہم تحقیق کرکے دیکھیں کہ خدا کے بارے میں انبیا علیہم السلام کا اور دُنیا کی دوسری طاقتوں کا اصل جھگڑا کس بات پر تھا؟
قرآن میں ایک جگہ نہیں بکثرت مقامات پر یہ بات صاف کر دی گئی ہے کہ کفار و مشرکین، جن سے انبیاکی لڑائی تھی، اللّٰہ کی ہستی کے منکر نہ تھے ان سب کو تسلیم تھا کہ اللّٰہ ہے اور وہی زمین و آسمان کا خالق اور خود ان کفار و مشرکین کا خالق بھی ہے۔ کائنات کا سارا انتظام اُسی کے اشارے سے ہو رہا ہے، وہی پانی برساتا ہے، وہی ہوائوں کو گردش دیتا ہے، اُسی کے ہاتھ میں سورج اور چاند اور زمین سب کچھ ہے:
قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھَآ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ ط قُلْ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَo قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِo سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ ط قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَo قُلْ مَنْ م بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْئٍ وَّھُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَoسَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ ط قُلْ فَاَنّٰی تُسْحَرُوْنَo المومنون 84-89:23
ان سے پوچھو کہ زمین اور جو کچھ زمین میں ہے وُہ کس کا ہے، بتائو اگر تم جانتے ہو؟ وُہ کہیں گے اللّٰہ کا ہے۔ کہو پھر تم غور نہیں کرتے؟ ان سے پوچھو، ساتوں آسمانوں کا رب اور عرشِ عظیم کا رب کون ہے؟ کہیں گے اللّٰہ۔ کہو پھر تم اس سے ڈرتے نہیں؟ ان سے پوچھو وُہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے اور وُہ سب کو پناہ دیتا ہے مگر کوئی اس کے مقابلے میں کسی کو پناہ نہیں دے سکتا؟ بتائو اگر تم جانتے ہو؟ وُہ کہیں گے کہ اللّٰہ۔ کہو پھر تم کس دھوکے میں ڈال دیے گئے ہو؟
وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ ج فَاَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ… وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ مِنْ م بَعْدِ مَوْتِھَا لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ العنکبوت 29:63-61
اگر تم ان سے پوچھو کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ اور کس نے سورج اور چاند کو تابع فرمان بنا رکھا ہے؟ وُہ ضرور کہیں گے کہ اللّٰہ نے۔ پھر یہ آخر کدھر بھٹکائے جا رہے ہیں؟… اور اگر تم ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی اُتارا اور کس نے مَری ہوئی زمین کو روئیدگی بخشی؟ وُہ ضرور کہیں گے اللّٰہ نے۔
وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ فَاَنّٰی یُؤْفَکُوْنَo الزخرف 43:87
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ تمھیں کس نے پیدا کیا ہے؟ وُہ ضرور کہیں گے کہ اللّٰہ نے پھر آخر یہ کدھر بھٹکائے جا رہے ہیں؟
ان آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللّٰہ کے ہونے میں اور اس کے خالق ہونے اور مالک ارض و سما ہونے میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ لوگ ان باتوں کو خود ہی مانتے تھے۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ انھی باتوں کو منوانے کے لیے تو انبیا کے آنے کی ضرورت تھی ہی نہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ انبیاؑ کی آمد کس لیے تھی اور جھگڑا کس چیز کا تھا؟
قرآن کہتا ہے کہ سارا جھگڑا اس بات پر تھا کہ انبیا کہتے تھے، جو تمھارا اور زمین و آسمان کا خالق ہے وُہ تمھارا رب اور الٰہ بھی ہے، اس کے سوا کسی کو الٰہ اور رب نہ مانو مگر دُنیا اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہ تھی۔
آئیے ذرا پھر تجسس کریں کہ اس جھگڑے کی تَہ میں کیا ہے؟ الٰہ سے کیا مراد ہے؟ رب کسے کہتے ہیں؟ انبیا کو کیوں اصرار تھا کہ صرف اللّٰہ ہی کو الٰہ اور رب مانو؟ اور دُنیا کیوں اس بات پر لڑنے کھڑی ہو جاتی تھی؟

الٰہ کے معنی

الٰہ کے معنی آپ سب جانتے ہیں کہ معبود کے ہیں، مگر معاف کیجیے گا معبود کے معنی آپ بھول گئے ہیں۔ معبود کا مادہ عبد ہے، عبد بندے اور غلام کو کہتے ہیں۔ عبادت کے معنی محض پوجا کے نہیں ہیں، بلکہ بندہ اور غلام جو زندگی غلامی اور بندگی کی حالت میں بسر کرتا ہے، وہ پوری کی پوری سراسر عبادت ہے۔ خدمت کے لیے کھڑا ہونا، احترام میں ہاتھ باندھنا، اعترافِ بندگی میں سر جھکانا، جذبۂ وفاداری سے سرشار ہونا، فرماں برداری میں دوڑ دھوپ اور سعی و جہد کرنا، جس کام کا اشارہ ہو اُسے بجا لانا، جو کچھ آقا طلب کرے اُسے پیش کر دینا، اس کی طاقت و جبروت کے آگے ذلت اور عاجزی اختیار کرنا، جو قانون وُہ بنائے اس کی اطاعت کرنا، جس کے خلاف وُہ حکم دے اس پر چڑھ دوڑنا، جہاں اس کا فرمان ہو سر تک کٹوا دینا، یہ عبادت کا اصل مفہوم ہے اور آدمی کا معبود حقیقت میں وہی ہے جس کی عبادت وُہ اس طرح کرتا ہے۔

رَبّ کا مفہوم

اور ’’ربّ‘‘ کا مفہوم کیا ہے؟ عربی زبان میں ربّ کے اصلی معنی پرورش کرنے والے کے ہیں اور چوں کہ دنیا میں پرورش کرنے والے ہی کی اطاعت و فرماں برداری کی جاتی ہے، لہٰذا ربّ کے معنی مالِک اور آقا کے بھی ہوئے، چنانچہ عربی محاورہ میں مال کے مالک کو ربُّ المال اور صاحبِ خانہ کو ربّ الدار کہتے ہیں۔ آدمی جسے اپنا رازق اور مرَبیّ سمجھے، جس سے نوازش اور سرفرازی کی اُمید رکھے، جس سے عزت اور ترقی اور امن کا متوقع ہو، جس کی نگاہِ لطف کے پھر جانے سے اپنی زندگی برباد ہو جانے کا خوف کرے، جسے اپنا آقا اور مالک قرار دے اور جس کی فرماں برداری اور اطاعت کرے وہی اس کا رب ان دونوں اصطلاحوں کی مفصل تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ مطبوعہ اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ لاہور
ہے۔
ان دونوں لفظوں کے معنی پر نگاہ رکھیے اور پھر غور سے دیکھیے، انسان کے مقابلہ میں یہ دعوٰی لے کر کون کھڑا ہو سکتا ہے کہ مَیں تیرا الٰہ ہوں اور مَیں تیرا رب ہوں، میری بندگی و عبادت کر، کیا درخت؟پتھر؟ دریا؟ جانور؟ سورج؟ چاند؟ تارے؟ کسی میں بھی یہ یارا ہے کہ وُہ انسان کے سامنے آ کر یہ دعوٰی پیش کر سکے؟ نہیں ہرگز نہیں، وُہ صرف انسان ہی ہے جو انسان کے مقابلہ میں خدائی کا دعوٰی لے کر اُٹھتا ہے اور اُٹھ سکتا ہے۔ خدائی کی ہوس انسان ہی کے سر میں سما سکتی ہے، انسان ہی کی حد سے بڑھی خواہش اقتدار یا خواہش انتفاع اسے اس بات پر ابھارتی ہے کہ وُہ دوسرے انسانوں کا خدا بنے، ان سے اپنی بندگی کرائے، ان کے سر اپنے آگے جھکوائے، ان پر اپنا حکم چلائے، اُنھیں اپنی خواہشات کے حصول کا آلہ بنائے۔ یہ خدا بننے کی لذت ایسی ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی لذیذ چیز انسان آج تک دریافت نہیں کر سکا ہے، جسے کچھ طاقت یا دولت، یا چالاکی یا ہوشیاری یا کسی نوع کا کچھ زور حاصل ہے وُہ یہی چاہتا ہے کہ اپنی فطری اور جائز حدود سے آگے بڑھے، پھیل جائے اور آس پاس کے انسانوں پر ’’جو اس کے مقابلہ میں ضعیف یا مفلس یا بے وقوف یا کسی حیثیت سے بھی کم زور ہوں‘‘ اپنی خدائی کا سکہ جما دے۔
اس قسم کی ہوسِ خداوندی رکھنے والے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں اور دو مختلف راستے اختیار کرتے ہیں۔
ایک قسم اُن لوگوں کی ہے جن میں زیادہ جرأت ہوتی ہے، یا جن کے پاس خدائی کے ٹھاٹھ جمانے کے لیے کیا ذرائع ہوتے ہیں وُہ براہِ راست اپنی خدائی کا دعوٰی پیش کر دیتے ہیں۔ مثلاً ایک وُہ فرعون تھا جس نے اپنی بادشاہی اور اپنے لشکروں کے بل بوتے پر مصر کے باشندوں سے کَہ دیا کہ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی (النازعات79:24) (مَیں تمھارا سب سے اُونچا رب ہوں)، اورمَاعَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ (القصص 28:38)(مَیں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمھارا اور بھی کوئی الٰہ ہے)
جب حضرت مُوسٰیؑ نے اس کے سامنے اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ پیش کیا اور اس سے کہا کہ تُو خود بھی الٰہ العالمین کی بندگی اختیار کر، تو اُس نے کہا کہ ’’مَیں تمھیں جیل بھیج دینے کی قدرت رکھتا ہوں لہٰذا تم مجھے الٰہ تسلیم کرو‘‘:
لَىِٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰــہًا غَيْرِيْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِيْنَo الشعرائ 26:29
اسی طرح ایک وُہ بادشاہ تھا جس سے حضرت ابراہیم ؑ کی بحث ہوئی تھی، قرآن میں اس کا ذکر جن الفاظ کے ساتھ آیا ہے اُنھیں ذرا غور سے پڑھیے:
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ حَاۗجَّ اِبْرٰھٖمَ فِيْ رَبِّہٖٓ اَنْ اٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْكَ۝۰ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّيَ الَّذِيْ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ۝۰ۙ قَالَ اَنَا اُحْيٖ وَاُمِيْتُ۝۰ۭ قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللہَ يَاْتِيْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِيْ كَفَرَ۝۰ۭ البقرہ 258:2
تُو نے نہیں دیکھا اس شخص کو جس نے ابراہیم ؑسے حجت کی اس بارے میں کہ ابراہیم ؑکا رب کون ہے اور یہ بحث اس نے اس لیے کی کہ اللّٰہ نے اُسے حکومت دے رکھی تھی۔ جب ابراہیم ؑنے کہا کہ میرا رب وُہ ہے جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے تو اس نے جواب دیا کہ زندگی اور موت میرے ہاتھ میں ہے۔ ابراہیم ؑ نے کہا، اچھا اللّٰہ تو سورج کو مشرق کی طرف سے لاتا ہے تُو ذرا مغرب کی طرف سے نکال لا، یہ کافر ہکّا بکّا رہ گیا۔
غور کیجیے! وُہ کافر ہکّا بکّا کیوں رَہ گیا؟ اس لیے کہ وُہ اللّٰہ کے وجود کا منکر نہ تھا۔ وُہ اس بات کا بھی قائل تھا کہ کائنات کا فرماں روا اللّٰہ ہی ہے۔ سورج کو وہی نکالتا اور وہی غروب کرتا ہے۔ جھگڑا اس بات میں نہ تھا کہ کائنات کا مالک کون ہے بلکہ اس بات میں تھا کہ انسانوں کا اور خصوصًا سرزمین عراق کے باشندوں کا مالک کون ہے؟ وُہ اللّٰہ ہونے کا دعوٰی نہیں رکھتا تھا، بلکہ اس بات کا دعوٰی رکھتا تھا کہ سلطنتِ عراق کے باشندوں کا رَب مَیں ہوں۔ اور یہ دعوٰی اس بِنا پر تھا کہ حکومت اس کے ہاتھ میں تھی، لوگوں کی جانوں پر وُہ قابض و متصرف تھا، اپنے آپ میں یہ قدرت پاتا تھا کہ جسے چاہے پھانسی پر لٹکا دے اور جس کی چاہے جان بخشی کر دے۔ یہ سمجھتا تھا کہ میری زبان قانون ہے اور میرا حکم ساری رعایا پر چلتا ہے۔ اس لیے حضرت ابراہیم ؑسے اس کا مطالبہ یہ تھا کہ تم مجھے رب تسلیم کرو، میری بندگی اور عبادت کرو۔ مگر جب حضرت ابراہیم ؑنے کہا کہ مَیں تو اُسی کو رب مانوں گا اور اُسی کی بندگی و عبادت بھی کروں گا جو زمین و آسمان کا رب ہے اور جس کی عبادت یہ سورج کر رہا ہے تو وُہ حیران رَہ گیا اور اس لیے حیران رَہ گیا کہ ایسے شخص کو کیوں کر قابو میں لائوں۔ واضح رہے کہ یہ مقالہ اکتوبر ۱۹۳۹ء؁ میں لکھا گیا تھ
یہ خدائی جس کا دعوٰی فرعون اور نمرود نے کیا تھا کچھ انھی دو آدمیوں تک محدود نہ تھی۔ دُنیا میں ہر جگہ فرماں روائوں کا یہی دعوٰی تھا۔ ایران میں بادشاہ کے لیے خدا اور خداوند کے الفاظ مستعمل تھے اور ان کے سامنے پورے مراسمِ عبودیت بجا لائے جاتے تھے، حالانکہ کوئی ایرانی انھیں خدائے خدائگاں (یعنی اللّٰہ) نہیں سمجھتا تھا اور نہ وُہ خود اس کے مدعی تھے۔ اسی طرح ہندوستان میں فرماں روا خاندان اپنا نسب دیوتائوں سے ملاتے تھے… چنانچہ سورج بنسی اور چندر بنسی آج تک مشہور ہیں… راجا کو اَن داتا یعنی رازق کہا جاتا تھا اور اس کے سامنے سجدے کیے جاتے تھے، حالانکہ پرمیشور ہونے کا دعوٰی نہ کسی راجا کو تھا اور نہ پرجا ہی ایسا سمجھتی تھی۔ ایسا ہی حال دُنیا کے دوسرے ممالک کا بھی تھا اور آج بھی ہے۔ بعض جگہ فرماں روائوں کے لیے الٰہ اور رب کے ہم معنی الفاظ اب بھی صریحًا بولے جاتے ہیں۔ مگر جہاں یہ نہیں بولے جاتے وہاں اسپرٹ وہی ہے جو ان الفاظ کے مفہوم میں پوشیدہ ہے۔ اس نوع کے دعوائے خداوندی کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ آدمی صاف الفاظ میں الٰہ اور رب ہونے ہی کا دعوٰی کرے۔ نہیں وُہ سب لوگ جو انسانوں پر اس اقتدار، اس فرماں روائی و حکم رانی، اس آقائی و خداوندی کو قائم کرتے ہیں جسے فرعون اور نمرود نے قائم کیا تھا، دراصل وُہ الٰہ اور رب کے معنی و مفہوم کا دعوٰی کرتے ہیں، چاہے الفاظ کا دعوٰی نہ کریں اور وُہ سب لوگ جو ان کی اطاعت و بندگی کرتے ہیں وُہ بہرحال ان کے الٰہ و ربّ ہونے کو تسلیم کرتے ہیں، چاہے زبان سے یہ الفاظ نہ کہیں۔
غرض ایک قسم تو انسانوں کی وُہ ہے جو براہِ راست اپنی الٰہیت اور ربوبیت کا دعوٰی کرتی ہے۔ دُوسری قسم وُہ ہے جس کے پاس اتنی طاقت نہیں ہوتی، اتنے ذرائع نہیں ہوتے کہ خود ایسا دعوٰی لے کر اُٹھیں اور اسے منوا لیں، البتہ چالاکی اور فریب کاری کے ہتھیار ہوتے ہیں جن سے وُہ عام انسانوں کے دل ودماغ پر جادُو کر سکتے ہیں۔ سو ان ذرائع سے کام لے کر وُہ کسی رُوح، کسی دیوتا، کسی بُت، کسی قبر، کسی سیارے یا کسی درخت کو الٰہ بنا دیتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ تمھیں نفع اور ضرر پہنچانے پر قادر ہیں۔ یہ تمھاری حاجت روائی کر سکتے ہیں۔ یہ تمھارے ولی اور محافظ اور مددگار ہیں۔ انھیں خوش نہ کرو گے تو یہ تمھیں قحط اور بیماریوں اور مصیبتوں میں مبتلا کر دیں گے، انھیں خوش کرکے حاجتیں طلب کرو گے تو یہ تمھاری مدد کو پہنچیں گے۔ مگر انھیں خوش کرنے اور انھیں تمھارے حال پر متوجہ کرنے کے طریقے ہمیں معلوم ہیں، ان تک پہنچنے کا ذریعہ ہم ہی بَن سکتے ہیں۔ لہٰذا ہماری بزرگی تسلیم کرو، ہمیں خوش کرو اور ہمارے ہاتھ میں اپنی جان، مال، آبرو سب کچھ دے دو۔ بہت سے بے وقوف انسان اس جال میں پھنس جاتے ہیں اور یوں جھوٹے خدائوں کی آڑ میں ان پروہتوں اور پجاریوں اور مجاوروں کی خداوندی قائم ہوتی ہے۔
اسی نوع میں کچھ دوسرے لوگ ہیں جو کہانت اور نجوم اور فال گیری اور تعویذ گنڈوں اور منتروں کے وسیلے اختیار کرتے ہیں۔ کچھ اور لوگ ہیں جو اللّٰہ کی بندگی کا اقرار تو کرتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ تم براہِ راست اللّٰہ تک نہیں پہنچ سکتے، اس کی بارگاہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہم ہیں۔ عبادت کے مراسم ہمارے ہی واسطے سے اَدا ہوں گے اور تمھاری پیدائش سے لے کر موت تک ہر مذہبی رسم ہمارے ہاتھوں سے انجام پائے گی۔ کچھ دوسرے لوگ ہیں جو اللّٰہ کی کتاب کے حامل بن جاتے ہیں، عام لوگوںں کو اس کے علم سے محروم کر دیتے ہیں اور خود اپنے زُعم میں خدا کی زبان بن کر حلال و حرام کے احکام دینا شروع کر دیتے ہیں یوں اُن کی زبان قانون بن جاتی ہے اور وُہ انسانوں کو خدا کے بجائے خود اپنے حکم کا تابع بنا لیتے ہیں۔ یہی اصل ہے اس برہمنیت اور پاپائیت کی جو مختلف ناموں اور مختلف صورتوں سے قدیم ترین زمانہ سے آج تک دُنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلی ہوئی ہے، اور جس کی بدولت بعض خاندانوں، نسلوں یا طبقوں نے عام انسانوں پر اپنی سیادت کا سکہ جما رکھا ہے۔

فتنے کی جڑ

اس نظر سے جب آپ دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ دنیا میں فتنہ کی اصل جڑ اور فساد کا اصل سرچشمہ انسان پر انسان کی خدائی ہے۔ خواہ وُہ بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ۔ اسی سے خرابی کی ابتدا ہوئی اور اسی سے آج بھی بِس کے زہریلے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ تو خیر انسان کی فطرت کے سارے راز ہی جانتا ہے، مگر اب تو ہزارہا برس کے تجربے سے خود ہم پر بھی یہ حقیقت پوری طرح منکشف ہو چکی ہے کہ انسان کسی نہ کسی کو الٰہ اور رب مانے بغیر رَہ ہی نہیں سکتا گویا اس کی زندگی محال ہے اگر کوئی اس کا الٰہ اور رب نہ ہو۔ اگر اللّٰہ کو نہ مانے گا تب بھی اسے الٰہ اور رب سے چھٹکارا نہیں ہے بلکہ اس صورت میں بہت سے الٰہ اور اَرباب اس کی گردن پر مسلّط ہو جائیں گے۔
غور سے دیکھیے۔ کیا روس میں کمیونسٹ پارٹی کی سیاسی مجلس (Political Bureau)کے ارکان باشندگانِ روس کے ارباب و الٰہ نہیں ہیں؟ اور کیا اسٹالین ان کا رب الارباب نہیں؟ روس کا کون سا گائوں اور کون سا زرعی فارم ایسا ہے جہاں اس خدائے روسیاں کی تصویر موجود نہیں؟ ابھی پولینڈ کے جس حصہ پر روس نے قبضہ کیا ہے واضح رہے کہ یہ مقالہ اکتوبر ۱۹۳۹ء؁ میں لکھا گیا تھا۔
اس میں سویٹ سسٹم کی بسم اللّٰہ آپ کو معلوم ہے کس طرح ہوئی؟ اسٹالین کی تصویریں ہزاروں کی تعداد میں درآمد کی گئیں، گائوں گائوں میں پہنچائی گئیں تاکہ سب سے پہلے وُہ اپنے الٰہ العظیم اور ربِّ کبیر سے واقف ہو لیں، تب انھیں دین بالشویکی میں داخل کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایک انسان کو یہ اہمیت کیوں؟ کیا وجہ ہے کہ ایک آدمی کو، خواہ وُہ جماعت (Community) کی نمایندگی ہی کر رہا ہو، کروڑوں انسانوں کے دماغوں اور ان کی رُوحوں پر اس طرح مسلّط کر دیا جائے کہ اس کی شخصیت کا جبروت اور اس کی کبریائی ان کے رگ و ریشہ میں پیوست ہو جائے؟ اسی طریقہ سے تو شخصی اقتدار دُنیا میں قائم ہوتا ہے۔ یوں ہی تو انسان انسانوں کا خدا بنتا ہے۔ یہی تو وُہ ڈھنگ ہیں جن سے فرعونیت اور نمرودیت اور زاریت و قیصریت کی جڑیں ہر زمانہ میں مستحکم ہوئی ہیں۔
اسی طرح اٹلی کو دیکھیے وہاں فاشست گرانڈ کونسل الٰہوں کا مجمع ہے اور مسولینی ان کا سب سے بڑا الٰہ، جرمنی میں نازی پارٹی کے لیڈر الٰہ ہیں اور ہٹلر ان کا الٰہ کبیر۔ انگلستان بھی اپنی ڈیمو کریسی کے باوجود بینک آف انگلینڈ کے ڈائریکٹروں اور چند اُونچے طبقے کے امرا و مدبّرین میں اپنے الٰہ رکھتا ہے۔ امریکا میں حال اسٹریٹ کے چند مٹھی بھر سرمایہ دار تمام ملک کے ارباب و الٰہ بنے ہوئے ہیں۔
آج بھی آپ جدھر نظر ڈالیں گے یہی نظر آئے گا کہ کہیں ایک قوم دوسری قوم کی الٰہ ہے، کہیں ایک طبقہ دوسرے طبقوں کا الٰہ ہے، کہیں ایک پارٹی نے الٰہیت و ربوبیت کے مقام پر قبضہ کر رکھا ہے، کہیں قومی ریاست خدائی کے مقام پر براجمان ہے اور کہیں کوئی ڈکٹیٹر مَاعَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ کی منادی کر رہا ہے۔ انسان کسی ایک جگہ بھی الٰہ کے بغیر نہ رہا۔
پھر انسان پر انسان کی خدائی قائم ہونے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ وہی جو ایک کم ظرف آدمی کو پولیس کمشنر بنا دینے، یا ایک جاہل تنگ نظر کو وزیر اعظم بنا دینے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اوّل تو خدائی کا نشہ ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اس شراب کو پی کر کبھی اپنے قابو میں نہیں رَہ سکتا اور بالفرض اگر وُہ قابو میں رَہ بھی جائے تو خدائی کے فرائض انجام دینے کے لیے جس علم کی ضرورت ہے اور جس بے لوثی و بے غرضی اور بے نیازی کی حاجت ہے وُہ انسان کہاں سے لائے گا؟ یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں انسانوں پر انسانوں کی الٰہیّت و ربوبیت قائم ہوئی وہاں ظلم، طغیان، ناجائز انتفاع بے اعتدالی اور ناہمواری نے کسی نہ کسی صورت سے راہ پا ہی لی۔ وہاں انسانی روح اپنی فطری آزادی سے محروم ہو کر ہی رہی، وہاں انسان کے دل و دماغ پر اس کی پیدائشی قوتوں اور صلاحیتوں پر ایسی بندشیں عائد ہو کر رہیں جنھوں نے انسانی شخصیت کے نشو و ارتقا کو روک دیا۔ کس قدر سچ فرمایا اس صادق و مصدوق علیہ و علیٰ آلہ الصلوٰۃ والسلام نے:
قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِنِّیْ خَلَقْتُ عِبَادِیْ حُنَفَآئَ فَجَائَ تْھُمُ الشَّیٰطِیْنُ فَاجْتَالَتْھُمْ مِنْ دِیْنِھِمْ وَحَرَّمَتْ عَلَیْھِمْ مَا اَحْلَلْتُ لَھُمْ۔ (حدیثِ قدسی)
اللّٰہ عزوجل فرماتا ہے کہ مَیں نے اپنے بندوں کو صحیح فطرت پر پیدا کیا تھا پھر شیطانوں نے انھیں آن گھیرا، انھیں فطرت کی راہِ راست سے بھٹکا لے گئے اورجو کچھ مَیں نے ان کے لیے حلال کیا تھا شیطانوں نے انھیں اس سے محروم کرکے رَکھ دیا۔
جیسا کہ اُوپر عرض کر چکا ہوں، یہ ہے وُہ چیز جو انسان کے سارے مصائب، اس کی ساری تباہیوں، اس کی تمام محرومیوں کی اصل جڑ ہے۔ یہ اس کی ترقی میں اصلی رُکاوٹ ہے۔ یہ وُہ روگ ہے جو اس کے اخلاق اور اس کی روحانیت کو اس کی علمی و فکری قوتوں کو، اس کے تمدن اور اس کی معاشرت کو، اس کی سیاست اور اس کی معیشت کو، اور قصہ مختصر اس کی انسانیت کو تپ دق کی طرح کھا گیا ہے، قدیم ترین زمانہ سے کھا رہا ہے اور آج تک کھائے چلا جاتا ہے۔ اس روگ کا علاج بجز اس کے کچھ ہے ہی نہیں کہ انسان سارے ارباب اور تمام الٰہوں کا انکار کرکے صرف اللّٰہ کو اپنا الٰہ اور صرف رب العالمین کو اپنا رب قرار دے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ اس کی نجات کے لیے نہیں ہے۔ کیوں کہ ملحد اور دہریہ بَن کر بھی تو وُہ الٰہوں اور ارباب سے چھٹکارا نہیں پاسکتا۔

انبیاؑ کا اصل اصلاحی کام

یہی وُہ بنیادی اصلاح تھی جو انبیا علیہم السلام نے انسانی زندگی میں کی۔ وُہ دراصل انسان پر انسان کی خدائی تھی جسے مٹانے کے لیے یہ لوگ آئے۔ ان کا اصلی مشن یہ تھا کہ انسان کو اس ظلم سے، ان جھوٹے خدائوں کی بندگی سے، اس طغیان اور ناجائز انتفاع سے نجات دلائیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ جو انسان انسانیت کی حد سے آگے بڑھ گئے ہیں انھیں دھکیل کر پھر اس حد میں واپس پہنچائیں، جو اس حد سے نیچے گرا دیے گئے ہیں، انھیں اُبھار کر اس حد تک اُٹھا لائیں، اور سب کو ایک ایسے عادلانہ نظامِ زندگی کا پابند بنا دیں جس میں کوئی انسان نہ کسی دُوسرے انسان کا عبد ہو نہ معبود، بلکہ سب ایک اللّٰہ کے بندے بن جائیں۔ ابتدا سے جتنے نبی دُنیا میں آئے ان سب کا ایک ہی پیغام تھا کہ یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ’’لوگو! اللّٰہ کی بندگی کرو، اس کے سوا کوئی تمھارا الٰہ نہیں ہے۔‘‘ یہی حضرت نوح ؑ نے کہا، یہی حضرت ہودؑ نے کہا۔ یہی حضرت صالح ؑ نے کہا۔ یہی حضرت شعیبؑ ( ملاحظہ ہو سورۂ ہود، رکوع ۴۔۵۔۶۔۸۔)نے کہا اور اسی کا اعلان محمد عربی ﷺ نے کیا ہے:
اِنَّمَا اَنَا مُنْذِرٌ وَّمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّا اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُo رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَابَیْنَھُمَا۔ ص38:65-66
مَیں تمھیں متنبہ کرنے والا ہوں۔ کوئی الٰہ نہیں ہے بجز اُس ایک اللّٰہ کے جو سب پر غالب ہے جو رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور ہر اس چیز کا جو آسمان و زمین کے درمیان ہے۔
اِنَّ رَبَّكُمُ اللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ………وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍؚبِاَمْرِہٖ۝۰ۭ اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۝۰ۭ الاعراف 54:7
یقینا تمھارا رب وہی اللّٰہ ہے جس نے پیدا کیا ہے آسمانوں اور زمین کو… اور سورج اور چاند اور تاروں کو۔ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ خبردار! خلق بھی اسی کی ہے اور حکومت بھی اسی کی۔
ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ۝۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۚ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوْہُ۝۰ۚ وَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌo الانعام 6:102
وہی ایک اللّٰہ تمھارا رب ہے، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے، وُہ ہر چیز کا خالق ہے۔ لہٰذا تم اسی کی بندگی کرو اور وُہ ہر چیز پر نگاہِ بان ہے۔
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ البینہ 98:5
لوگوں کو کوئی حکم نہیں دیا گیا بجز اس کے کہ اللّٰہ کی بندگی کریں، اپنے دین کو اسی کے لیے خالص کرکے یک سُو ہو کر۔
تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍؚبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۭ آل عمران 64:3
آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے، یہ کہ اللّٰہ کے سوا کسی کی ہم بندگی نہ کریں، اور خدائی میں کسی کو اس کا شریک نہ قرار دیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا رب نہ بنا لے۔
یہی وُہ منادی تھی جس نے انسان کی رُوح اور اس کی عقل و فکر اور اس کی ذہنی و مادی قوتوں کو غلامی کی ان بندشوں سے رہا کر دیا جن میں وُہ جکڑے ہوئے تھے، اور وُہ بوجھ اُن پر سے اُتارے جن کے نیچے وُہ دبے ہوئے تھے، یہ انسان کے لیے حقیقی آزادی کا چارٹر تھا۔ محمد رسولؐ اللّٰہ کے اسی کارنامے کے متعلق قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ وَيَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ الاعراف 7:157یعنی یہ نبی ان پر سے وُہ بوجھ اُتارتا ہے جو ان پرلدے ہوئے تھے اور اُن بندھنوں کو کاٹتا ہے جن میں وُہ کَسے ہوئے تھے۔

نظریّۂ سیاسی کے اوّلیں اُصُول

انبیا علیہم السلام نے انسانی زندگی کے لیے جو نظام مرتّب کیا اُس کا مرکز و محور، اس کی رُوح اور اس کا جوہر یہی عقیدہ ہے اور اسی پر اِسلام کے نظریۂ سیاسی کی بنیاد بھی قائم ہے۔ اِسلامی سیاست کا سنگِ بنیاد یہ قاعدہ ہے کہ حکم دینے اور قانون بنانے کے اختیارات تمام انسانوں سے فردًا فردًا اور مجتمعًاسلب کر لیے جائیں، کسی شخص کا یہ حق تسلیم نہ کیا جائے کہ وُہ حکم دے اور دُوسرے اُس کی اِطاعت کریں… وُہ قانون بنائے اور دوسرے اس کی پابندی کریں۔ یہ اختیار صرف اللّٰہ کو ہے۔
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہُ، ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ۔ یوسف 12:40
حکم سوائے اللّٰہ کے کسی اور کا نہیں۔ اس کا فرمان ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو۔ یہی صحیح دین ہے۔
یَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْ ئٍ ط قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ کُلَّہٗ لِلّٰہِ ط آل عمران 3:154
وُہ پوچھتے ہیں کہ اختیارات میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہے؟ کہو کہ اختیارات تو سارے اللّٰہ کے ہاتھ میں ہیں۔
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰالٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ۔ النحل 16:116
اپنی زبانوں سے یُوں ہی غلط سلط نہ کَہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام۔
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ۔ المائدہ 5:44
جو خدا کی نازل کی ہوئی شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی دراصل کافر ہیں۔
اس نظریّہ کے مطابق حاکمیت (Sovereignty) صرف خدا کی ہے۔ قانون ساز (Law Giver) صرف خدا(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ’’اسلامی ریاست‘‘ باب چہارم، مطبوعہ اسلامک پبلی کیشنز لمٹیڈ لاہور)ہے۔ کوئی انسان، خواہ وُہ نبی ہی کیوں نہ ہو، بذاتِ خود حکم دینے اور منع کنے کا حق دار نہیں۔ نبی خود بھی اللّٰہ کے حکم ہی کا پیرو ہے۔ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰی اِلَیَّ (الانعام 6:50) ’’مَیں تو صرف اس حکم کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی کیا جاتا ہے۔‘‘ عام انسان نبی کی اطاعت پر صرف اس لیے مامور ہیں کہ وُہ اپنا حکم نہیں بلکہ خدا کا حکم بیان کرتا ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط النسا4:64
ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اس لیے بھیجا ہے کہ اللّٰہ کے اذن (Sanction) کے تحت اس کی اطاعت کی جائے۔
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ۔ الانعام6:90
یہ نبی وُہ لوگ ہیں جنھیں ہم نے اپنی کتاب دی۔ حکم (Authority) سے سرفراز کیا اور نبوت عطا کی۔
مَاکَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَۃُ اللّٰہُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِ کُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلٰکِنْ کُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ۔ آل عمران3:79
کسی بشر کا یہ کام نہیں ہے کہ اللّٰہ تو اسے کتاب اور حکم اور نبوت سے سرفراز کرے اور وُہ لوگوں سے یہ کہے کہ تم خدا کے بجائے میرے بندے بن جائو بلکہ وُہ تو یہی کہے گا کہ تم ربّانی بنو۔
پس اِسلامی سٹیٹ کی ابتدائی خصوصیات جو قرآن کی مذکورہ بالا تصریحات سے نکلتی ہیں، یہ ہیں:
۱۔ کوئی شخص، خاندان، طبقہ یا گروہ بلکہ اسٹیٹ کی ساری آبادی مل کر بھی حاکمیت کی مالک نہیں ہے۔ حاکم اصلی صرف خدا ہے اور باقی سب محض رعیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
۲۔ قانون سازی کے اختیارات بھی خدا کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہیں سارے مسلمان مل کر بھی نہ اپنے لیے کوئی قانون بنا سکتے ہیں اور نہ خدا کے بنائے ہوئے کسی قانون میں ترمیم کر سکتے ہیں۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ’’اسلامی ریاست‘‘ باب پنجم، مطبوعہ اسلامک پبلی کیشنز لمٹیڈ لاہور۔
۳۔ اِسلامی اسٹیٹ بہرحال اس قانون پر قائم ہو گا جو خدا کی طرف سے اس کے نبی نے دیا ہے اور اس اسٹیٹ کو چلانے والی گورنمنٹ صرف اس حال میں اور اس حیثیت سے اطاعت کی مستحق ہو گی کہ وُہ خدا کے قانون کو نافذ کرنے والی ہو۔

اِسلامی اسٹیٹ کی نوعیت

ایک شخص بیک نظر ان خصوصیات کو دیکھ کر سمجھ سکتا ہے کہ اِسلامی ریاست مغربی طرز کی لادینی جمہوریّت (Secular Democracy) نہیں ہے، اس لیے کہ جمہوریت تو فلسفیانہ نقطۂ نظر سے نام ہی اُس طرزِ حکومت کا ہے جس میں ملک کے عام باشندوں کو حاکمیت اعلیٰ حاصل ہو۔ انھی کی رائے سے قوانین بنیں اور انھی کی رائے سے قوانین میں تغیّر و تبدّل ہو۔ جس قانون کو وُہ چاہیں نافذ ہو اور جسے وُہ نہ چاہیں وُہ کتابِ آئین میں سے محو کر دیا جائے۔ یہ بات اِسلام میں نہیں ہے یہاں ایک بالاتر بنیادی قانون خود اللّٰہ تعالیٰ اپنے رسول کے ذریعہ سے دیتا ہے جس کی اطاعت ریاست اور قوم کو کرنا پڑتی ہے۔ لہٰذا اس معنی میں اسے جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے لیے زیادہ صحیح نام ’’الٰہی حکومت‘‘ ہے۔ جسے انگریزی میں (Theocracy) کہتے ہیں۔ مگر یورپ جس تھیاکریسی سے واقف ہے اِسلامی تھیاکریسی اس سے بالکل مختلف ہے۔ یورپ اس تھیاکریسی سے واقف ہے جس میں ایک مخصوص مذہبی طبقہ خدا کے نام سے خود اپنے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرتا( عیسائی پاپائوں اور پادریوں کے پاس مسیح علیہ السلام کی چند اخلاقی تعلیمات کے سوا کوئی شریعت سرے سے تھی ہی نہیں۔ لہٰذا وہ اپنی مرضی سے اپنی خواہشاتِ نفس کے مطابق قوانین بناتے تھے اور یہ کَہ کر انھیں نافذ کرتے تھے کہ یہ خدا کی طرف سے ہیں۔ فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ يَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَيْدِيْہِمْ۝۰ۤ ثُمَّ يَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللہِ البقرہ2:79)ہے اور عملاً اپنی خدائی عام باشندوں پر مسلّط کر دیتا ہے۔ ایسی حکومت کو تو الٰہی حکومت کے بجائے شیطانی حکومت کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔ بخلاف اس کے اِسلام جس تھیاکریسی کو پیش کرتا ہے وُہ کسی مخصوص مذہبی طبقہ کے ہاتھ میں نہیں ہوتی بلکہ عام مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور یہ عام مسلمان اُسے خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کے مطابق چلاتے ہیں۔ اگر مجھے ایک نئی اصطلاح وضع کرنے کی اجازت دی جائے تو مَیں اس طرزِ حکومت کو (Theo-Democracy) یعنی ’’الٰہی جمہوری حکومت‘‘ کے نام سے موسوم کروں گا کیوں کہ اس میں خدا کے اقتدار اعلیٰ (Paramountcy) کے تحت مسلمانوں کو ایک محدود عمومی حاکمیت (Limited Popular Sovereignty) عطا کی گئی ہے۔ اس میں عاملہ (Executive) اور مقننہ مسلمانوں کی رائے سے بنے گی۔ مسلمان ہی اسے معزول کرنے کے مختار ہوں گے۔ سارے انتظامی معاملات اور تمام وُہ مسائل جن کے متعلق خدا کی شریعت میں کوئی صریح حکم موجود نہیں ہے، مسلمانوں کے اجماع ہی سے طے ہوں گے اور الٰہی قانون جہاں تعبیر طلب ہو گا وہاں کوئی مخصوص طبقہ یا نسل نہیں بلکہ عام مسلمانوں میں سے ہر وُہ شخص اس کی تعبیر کا مستحق ہو گا جس نے اجتہاد کی قابلیت بہم پہنچائی ہو۔ اس لحاظ سے یہ ڈیمو کریسی ہے۔ مگر جیسا کہ اُوپر عرض کیا جا چکا ہے، جہاں خدا اور اس کے رسول کا حکم موجود ہو وہاں مسلمانوں کے کسی امیر کو، کسی لیجسلیچر کو، کسی مجتہد اور عالمِ دین کو بلکہ ساری دُنیا کے مسلمانوں کو مل کر بھی اس حکم میں یک سرِ مُوترمیم کرنے کا حق حاصل نہیں ہے اس لحاظ سے یہ تھیاکریسی ہے۔

ایک اعتراض

آگے بڑھنے سے پہلے مَیں اس امر کی تھوڑی سی تشریح کر دینا چاہتا ہوں کہ اِسلام میں ڈیمو کریسی پر یہ حُدُود و قُیُود کیوں عائِد کیے گئے ہیں اور ان حدود و قیود کی نوعیت کیا ہے؟ اعتراض کرنے والا اعتراض کر سکتا ہے کہ اس طرح تو خدا نے انسانی عقل و رُوح کی آزادی سلب کر لی، حالانکہ ابھی تم یہ ثابت کر رہے تھے کہ خدا کی الٰہیت انسان کو عقل و فکر اور جسم و جان کی آزادی عطا کرتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قانون سازی کا اختیار اللّٰہ نے اپنے ہاتھ میں انسان کی فطری آزادی سلب کرنے کے لیے نہیں بلکہ اسے محفوظ کرنے کے لیے لیا ہے۔ اس کا مقصد انسان کو بے راہ ہونے اور اپنے پائوں پر آپ کلہاڑی مارنے سے بچانا ہے۔
یہ مغرب کی نام نہاد ڈیمو کریسی، جس کے متعلق یہ دعوٰی کیا جاتا ہے کہ اس میں عمومی حاکمیت (Popular Sovereignty) ہوتی ہے، اس کا ذرا تجزیہ کرکے دیکھیے۔ جن لوگوں سے مل کر کوئی اسٹیٹ بنتا ہے وُہ سب کے سب نہ تو خود قانُون بناتے ہیں اور نہ خود اسے نافذ کرتے ہیں۔ انھیں اپنی حاکمیت چند مخصوص لوگوں کے سپرد کرنا پڑتی ہے تاکہ ان کی طرف سے وُہ قانون بنائیں اور اسے نافذ کریں۔ اسی غرض سے انتخاب کا ایک نظام مقرر کیا جاتا ہے لیکن اس انتخاب میں زیادہ تر وُہ لوگ کام یاب ہوتے ہیں جو عوام کو اپنی دولت، اپنے علم، اپنی چالاکی اور اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کے زور سے بے وقوف بنا سکتے ہیں۔ پھر یہ خود عوام کے ووٹ ہی سے ان کے الٰہ بن جاتے ہیں۔ عوام کے فائدے کے لیے نہیں بلکہ اپنے شخصی اور طبقاتی فائدے کے لیے قوانین بناتے ہیں اور اسی طاقت سے جو عوام نے انھیں دی ہے۔ ان قوانین کو عوام پر نافذ کرتے ہیں۔ یہی مصیبت امریکا میں ہے۔ یہی انگلستان میں ہے اور یہی ان سب ممالک میں ہے جنھیں جمہوریت کی جنت ہونے کا دعوٰی ہے۔
پھر اس پہلو کو نظر انداز کرکے اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ وہاں عام لوگوں ہی کی مرضی سے قانون بنتے ہیں تب بھی تجربہ سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ عام لوگ خود بھی اپنے مفاد کو نہیں سمجھ سکتے۔ انسان کی یہ فطری کم زوری ہے کہ یہ اپنی زندگی کے اکثر معاملات میں حقیقت کے بعض پہلوئوں کو دیکھتا ہے اور بعض کو نہیں دیکھتا۔ اس کا فیصلہ (Judgment) عمومًا یک طرفہ ہوتا ہے اس پر جذبات اور خواہشات کا اتنا غلبہ ہوتا ہے کہ خالص عقلی اور علمی حیثیت سے بے لاگ رائے بہت کم قائم کر سکتا ہے۔ بعض اوقات عقلی اور علمی حیثیت سے جو بات اس پر روشن ہو جاتی ہے اسے بھی یہ جذبات و خواہشات کے مقابلہ میں رَد کر دیتا ہے۔ اس کے ثبوت میں بہت سی مثالیں میرے سامنے ہیں۔ مگر طوالت سے بچنے کے لیے مَیں صرف امریکا کے قانون منع شراب (Prohibition Law) کی مثال پیش کروں گا۔ علمی اور عقلی حیثیت سے یہ بات ثابت ہو چکی تھی کہ شراب صحت کے لیے مُضر ہے، عقلی و ذہنی قوتوں پر بُرا اثر ڈالتی ہے اور انسانی تمدن میں فساد پیدا کرتی ہے۔ انھی حقائق کو تسلیم کرکے امریکا کی رائے عام اس بات کے لیے راضی ہوئی تھی کہ منع شراب کا قانون پاس کیا جائے۔ چنانچہ عوام کے ووٹ ہی سے یہ قانون پاس ہوا تھا۔(یہ قانون ۱۹۱۸؁ء میں امریکی کانگریس نے پاس کیا تھا۔ ) مگر جب وُہ نافذ کیا گیا تو انھی عوام نے ’’جن کے ووٹ سے وُہ پاس ہوا تھا‘‘ اس کے خلاف بغاوت کی۔ بد سے بدتر قسم کی شراب ناجائز طور پر بنائی اور پی گئی، پہلے سے کئی گناہ زیادہ شراب کا استعمال ہوا۔ جرائم میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا۔ آخر کار انھی عوام کے ووٹوں سے وُہ شراب ’’جو حرام کی گئی تھی‘‘ حلال کر دی گئی۔(یہ تنسیخ دسمبر ۱۹۳۳ء؁ میں واقع ہوئی۔ ) یہ حرمت کا فتوٰی حِلّت سے بدلا گیا۔ اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ علمی و عقلی حیثیت سے اب شراب کا استعمال مفید ثابت ہو گیا تھا بلکہ صرف یہ وجہ تھی کہ عوام اپنی جاہلانہ خواہشات کے بندے بنے ہوئے تھے، انھوں نے اپنی حاکمیت اپنے نفس کے شیطان کی طرف منتقل کر دی تھی، اپنی خواہش کو اپنا الٰہ بنا لیا تھا اور اس الٰہ کی بندگی میں وُہ اس قانون کو بدلنے پر مُصر تھے جسے اُنھوں نے خود ہی علمی اور عقلی حیثیت سے صحیح تسلیم کرکے پاس کیا تھا۔ اس قسم کے اور بہت سے تجربات ہیں۔ جن سے یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ انسان خود اپنا واضح قانون (Legislature) بننے کی پوری اہلیت نہیں رکھتا۔ اگر اسے دوسرے الٰہوں کی بندگی سے رہائی مل بھی جائے تو وُہ اپنی جاہلانہ خواہشات کا بندہ بن جائے گا۔ اپنے نفس کے شیطان کو الٰہ بنا لے گا۔ لہٰذا وُہ اس کا محتاج ہے کہ اس کی آزادی پر خود اس کے اپنے مفاد میں مناسب حدیں لگا دی جائیں۔
اسی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ نے وُہ قیود عائد کی ہیں جنھیں اِسلام کی اصطلاح میں ’’حدُودُ اللّٰہ‘‘ (Devine Laws) کہا جاتا ہے۔ یہ حدود زندگی کے ہر شعبہ میں چند اُصول، چند ضوابط اور چند قطعی احکام پر مشتمل ہیں جو اس شعبہ کے اعتدال و توازن کو برقرار رکھنے کے لیے لگائی گئی ہیں۔ ان کا منشا یہ ہے کہ یہ تمھاری آزادی کی آخری حدیں ہیں۔ ان کے اندر رَہ کر تم اپنے برتائو کے لیے ضمنی اور فروعی قاعدے (Regulations) بنا سکتے ہو۔ مگر ان حدود سے تجاوز کرنے کی تمھیں اجازت نہیں ہے۔ ان سے تجاوز کرو گے تو تمھاری اپنی زندگی کا نظام فاسد و مختل ہو جائے گا۔

حُدودُ اللّٰہ کا مقصد

مثال کے طور پر انسان کی معاشی زندگی کو لیجیے۔ اس میں اللّٰہ تعالیٰ نے شخصی ملکیت کا حق، زکوٰۃ کی فرضیت، سُود کی حرمت، جُوئے اور سٹے کی ممانعت، وراثت کا قانون اور دولت کمانے، جمع کرنے اور خرچ کرنے پر پابندیاں عائد کرکے چند سرحدی نشانات لگا دیے ہیں۔ اگر انسان ان نشانات کو برقرار رکھے اور ان کے اندر رَہ کر اپنے معاملات کی تنظیم کر لے تو ایک طرف شخصی آزادی (Personal Liberty) بھی محفوظ رہتی ہے اور دوسری طرف طبقاتی جنگ (Class-war) اور ایک طبقہ پر دوسرے طبقہ کے تسلّط کی وُہ حالت بھی پیدا نہیں ہو سکتی جو ظالمانہ سرمایہ داری سے شروع ہو کر مزدُوروں کی ڈکٹیٹر شپ پر منتہی ہوتی ہے۔
اسی طرح عائلی زندگی (Family Life) میں اللّٰہ نے حجابِ شرعی، مرد کی قوامیت، شوہر، بیوی، بچوں اور والدین کے حقوق و فرائض، طلاق اور خلع کے احکام، تعدّدِ ازواج کی مشروط اجازت، زنا اور قذف کی سزائیں مقرر کرکے ایسی حدیں کھڑی کر دی ہیں کہ اگر انسان ان کی ٹھیک ٹھیک نگاہِ داشت کرے اور ان کے اندر رَہ کر اپنی خانگی زندگی کو منضبط کر لے تو نہ گھر ظلم و ستم کا دوزخ بن سکتے ہیں اور نہ ان گھروں سے عورتوں کی شیطانی آزادی کا وُہ طوفان اُٹھ سکتا ہے جو آج پوری انسانی تہذیب کو غارت کر دینے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔
اسی طرح انسانی تمدن و معاشرت کی حفاظت کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے قصاص کا قانون، چوری کے لیے ہاتھ کاٹنے کی سزا، شراب کی حرمت، جسمانی ستر کے حدود اور ایسے چند مستقل قاعدے مقرر کرکے فساد کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیے ہیں۔
میرے لیے اتنا موقع نہیں ہے کہ مَیں حدودُ اللّٰہ کی ایک مکمل فہرست آپ کے سامنے پیش کرکے تفصیل کے ساتھ بتائوں کہ انسانی زندگی میں توازن و اعتدال قائم کرنے کے لیے ان میں سے ایک ایک حد کس قدر ضروری ہے۔ یہاں مَیں صرف یہ بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس طریقہ سے ایک ایسا مستقل ناقابلِ تغیر و تبدّل دستور (Constitution) بنا کر انسان کو دے دیا ہے جو اس کی رُوحِ آزادی کو سلب اور اس کی عقل و فکر کو معطل نہیں کرتا، بلکہ اس کے لیے ایک صاف، واضح اور سیدھا راستہ مقرر کر دیتا ہے تاکہ وُہ اپنی جہالت اور اپنی کم زوریوں کے سبب سے تباہی کی بھول بھلیوں میں بھٹک نہ جائے، اس کی قوتیں غلط راستوں میں ضائع نہ ہوں اور وُہ اپنی حقیقی فلاح و ترقی کی راہ پر بڑھتا چلا جائے۔ اگر آپ کو کسی پہاڑی مقام پر جانے کا اتفاق ہوا ہے تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ پُرپیچ پہاڑی راستوں میں جن کے ایک طرف عمیق غار اور دُوسری طرف بلند چٹانیں ہوتی ہیں۔ سڑک کے کناروں کو ایسی رُکاوٹوں سے محفوظ کر دیا جاتا ہے کہ مسافر غلطی سے کھڈ کی طرف نہ چلا جائے۔ کیا ان رُکاوٹوں کا مقصد راہ رو کی آزادی سلب کرنا ہے؟ نہیں! دراصل ان سے مقصد یہ ہے کہ اسے ہلاکت سے محفوظ رکھا جائے اور ہر پیچ، ہر موڑ اور ہر امکانی خطرے کے موقع پر اُسے بتایا جائے کہ تیرا راستہ اُدھر نہیں اِدھر ہے۔ تجھے اس رُخ پر نہیں اس رُخ پر مڑنا چاہیے تاکہ تُو بسلامت اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ سکے۔ بس یہی مقصد ان حدود کا بھی ہے جو خدا نے اپنے دستور میں مقرر کی ہیں۔ یہ حدیں انسان کے لیے زندگی کے سفرکا صحیح رُخ معین کرتی ہیں اور ہر پُرپیچ مقام، ہر موڑ اور ہر دوراہے پر اسے بتاتی ہیں کہ سلامتی کا راستہ اس طرف ہے۔ تجھے ان سمتوں پر نہیں بلکہ اس سمت پر پیش قدمی کرنی چاہیے۔
جیسا کہ عرض کر چکا ہوں خدا کا مقرر کیا ہوا یہ دستور ناقابلِ تغیر و تبدّل ہے۔ اگر آپ چاہیں تو بعض مغربیت زدہ مسلمان ملکوں کی طرح اس دستور کے خلاف بغاوت کر سکتے ہیں مگر اسے بدل نہیں سکتے۔ یہ قیامت تک کے لیے اٹل دستور ہے۔ اِسلامی اسٹیٹ جب بنے گا اسی دستور پر بنے گا۔ جب تک قرآن اور سنتِ رسولؐ دنیا میں باقی ہے اُس دستور کی ایک دفعہ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹائی جا سکتی، جسے مسلمان رہنا ہو وُہ اس کی پابندی پر مجبور ہے۔

اِسلامی اسٹیٹ کا مقصد

اس دستور کی حدود کے اندر جو اسٹیٹ بنے اس کے لیے ایک مقصد بھی خدا نے متعین کر دیا ہے اور اس کی تشریح قرآن میں متعدد مقامات پر کی گئی ہے۔ مثلاً فرمایا:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۝۰ۚ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْہِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ الحدید 25:57
ہم نے اپنے رسولوں کو واضح ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان اُتاری تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور ہم نے لوہا اُتارا جس میں زبردست طاقت ہے اور لوگوں کے لیے فائدے ہیں۔
اس آیت میں لوہے سے مراد سیاسی قوت( یاقوت قاہرہ (Coercive Power) ہے اور رسولوں کا کام یہ بتایا گیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی واضح ہدایات اور اپنی کتاب میں جو میزان اُنھیں دی ہے، یعنی جس ٹھیک ٹھیک متوازن (Well-Balanced) نظامِ زندگی کی طرف ان کی راہ نمائی فرمائی ہے، اس کے مطابق اجتماعی عدل (Social Justice) قائم کریں۔ دُوسری جگہ فرمایا:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۝۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِo الحج 41:22
یہ وُہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں تمکن و حکومت عطا کریں تو یہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم کریں گے اور بدی سے روکیں گے۔
ایک اور جگہ فرمایا:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ آل عمران 3:110
تم وُہ بہترین جماعت ہو جسے نوعِ انسانی کے لیے نکالا گیا ہے، تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللّٰہ پر ایمان رکھتے ہو۔

ایجابی اسٹیٹ

ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن جس اسٹیٹ کا تخیل پیش کر رہا ہے اس کا مقصد سلبی (Negative) نہیں ہے بلکہ وُہ ایک ایجابی (Positive) مقصد اپنے سامنے رکھتا ہے اس کا مدّعا صرف یہی نہیں ہے کہ لوگوں کو ایک دُوسرے پر زیادتی کرنے سے روکے، ان کی آزادی کی حفاظت کرے اور مملکت کو بیرونی حملوں سے بچائے بلکہ اس کا مدعا اجتماعی عدل کے اس متوازن نظام کو رائج کرنا ہے جو خدا کی کتاب پیش کرتی ہے۔ اس کا مقصد بدی کی ان تمام صورتوں کو مٹانا اور نیکی کی ان تمام شکلوں کو قائم کرنا ہے جنھیں خدا نے اپنی واضح ہدایات میں بیان کیا ہے۔ اس کام میں حسبِ موقع و محل سیاسی طاقت بھی استعمال کی جائے گی۔ تبلیغ و تلقین سے بھی کام لیا جائے گا تعلیم و تربیت کے ذرائع بھی کام میں لائے جائیں گے اور جماعتی اثر اور رائے عام کے دبائو کو بھی استعمال کیا جائے گا۔
ہمہ گیر اسٹیٹ
اس نوعیت کا اسٹیٹ ظاہر ہے کہ اپنے عمل کے دائرے کو محدود نہیں کر سکتا۔ یہ ہمہ گیر اسٹیٹ ہے۔ اس کا دائرۂ عمل پوری انسانی زندگی پر محیط ہے۔ یہ تمدن کے ہر شعبہ کو اپنے مخصوص اخلاقی نظریہ اور اصلاحی پروگرام کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے اس کے مقابلہ میں کوئی شخص اپنے کسی معاملہ کو پرائیویٹ اور شخصی نہیں کَہ سکتا۔ اس لحاظ سے یہ اسٹیٹ فاشستی اور اشتراکی حکومتوں سے یک گو نہ مماثلت رکھتا ہے، مگر آگے چل کر آپ دیکھیں گے اس ہمہ گیریت کے باوجود اس میں موجودہ زمانے کی کلّی (Totalitarian)اور استبدادی (Authoritarian) حکومتوں کا سارنگ نہیں ہے۔ اس میں شخصی آزادی سلب نہیں کی جاتی اور نہ اس میں آمریت (Dictatorship) پائی جاتی ہے۔ اس معاملہ میں جو کمال درجہ کا اعتدال اِسلامی نظامِ حکومت میں قائم کیا گیا ہے اور حق و باطل کے درمیان جیسی نازک اور باریک سرحدیں قائم کی گئی ہیں، انھیں دیکھ کر ایک صاحبِ بصیرت آدمی کا دل گواہی دینے لگتا ہے کہ ایسا متوازن نظام حقیقت میں خدائے حکیم و خبیر ہی وضع کر سکتا ہے۔

جماعتی اور اُصولی اسٹیٹ

دُوسری بات جو اِسلامی اسٹیٹ کے دستور اور اس کے مقصد اور اس کی اصلاحی نوعیت پر غور کرنے سے خود بخود واضح ہو جاتی ہے۔ وُہ یہ ہے کہ ایسے اسٹیٹ کو صرف وہی لوگ چلا سکتے ہیں جو اس کے دستور پر ایمان رکھتے ہوں، جنھوں نے اس کے مقصد کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہو، جو اس کے اصلاحی پروگرام سے نہ صرف پوری طرح متفق ہوں، نہ صرف اس میں کامل عقیدہ رکھتے ہوں، بلکہ اس کی اسپرٹ کو اچھی طرح سمجھتے بھی ہوں اور اس کی تفصیلات سے بھی واقف ہوں۔ اِسلام نے اس باب میں کوئی جغرافیائی لَونی یا لسانی قید نہیں رکھی ہے۔ وُہ تمام انسانوں کے سامنے اپنے دستور، اپنے مقصد اور اپنے اصلاحی پروگرام کو پیش کرتا ہے جو شخص بھی اسے قبول کر لے خواہ وُہ کسی نسل، کسی ملک اور کسی قوم سے تعلق رکھتا ہو وُہ اس جماعت میں شریک ہو سکتا ہے جو اس اسٹیٹ کو چلانے کے لیے بنائی گئی ہے اور جو اسے قبول نہ کرے اسے اسٹیٹ کے کام میں دخیل نہیں کیا جا سکتا۔ وُہ اسٹیٹ کے حدود میں ذمی (Protected Citizen) کی حیثیت سے رَہ سکتا ہے۔ اس کے لیے اِسلام کے قانون میں معین حقوق اور مراعات موجود ہیں۔ اس کی جان و مال اور عزت کی پوری حفاظت کی جائے گی۔ لیکن بہرحال اسے حکومت میں شریک کی حیثیت نہ دی جائے گی کیوں کہ یہ ایک اُصولی ریاست ہے جس کے نظم و نسق کو وہی لوگ چلا سکتے ہیں جو اس کے اصولوں کو مانتے ہوں۔(مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو ’’اسلامی ریاست‘‘ بابِ ہشتم، مطبوعہ اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ لاہور)
یہاں بھی اِسلامی اسٹیٹ اور کمیونسٹ اسٹیٹ میں یک گونہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ لیکن دوسرے مسلکوں پر اعتقاد رکھنے والوں کے ساتھ جو برتائو اشتراکی جماعت کا اسٹیٹ کرتا ہے اسے اس برتائو سے کوئی نسبت نہیں جو اِسلامی اسٹیٹ کرتا ہے۔ اِسلام میں وُہ صورت نہیں جو کمیونسٹ حکومت میں ہے کہ غلبہ و اقتدار حاصل کرتے ہی اپنے تمدنی اُصولوں کو دُوسروں پر بجبر مسلّط کر دیا جائے، جائدادیں ضبط کی جائیں، قتل و خون کا بازار گرم ہو اور ہزاروں لاکھوں آدمیوں کو پکڑ کر زمین کے جہنم، سائبیریا کی طرف پیک کر دیا جائے۔ اِسلام نے غیر مسلموں کے لیے جو فیاضانہ برتائو اپنے اسٹیٹ میں اختیار کیا ہے اور اس بارے میں عدل و ظلم اور راستی و ناراستی کے درمیان جو ایک خطِ امتیاز کھینچا ہے، اسے دیکھ کر ہر انصاف پسند آدمی بیک نظر معلوم کر سکتا ہے کہ خدا کی طرف سے جو مصلح آتے ہیں وُہ کس طرح کام کرتے ہیں اور زمین میں جو مصنوعی اور جعلی مصلحین اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں ان کا طریقِ کار کیا ہوتا ہے؟
٭…٭…٭

نظریہ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات

اب مَیں آپ کے سامنے اِسلامی اسٹیٹ کی ترکیب اور اس کے طرزِ عمل کی تھوڑی سی تشریح کروں گا۔ یہ بات مَیں آپ سے عرض کر چکا ہوں کہ اِسلام میں اصلی حاکم اللّٰہ ہے۔ اس اصل الاصول کو پیشِ نظر رکھ کر جب آپ اس سوال پر غور کریں گے کہ زمین میں جو لوگ خدا کے قانون کو نافذ کرنے کے لیے اُٹھیں، ان کی حیثیت کیا ہونی چاہیے؟ تو آپ کا ذہن خود بخود پکارے گا کہ وُہ اصلی حاکم کے نائب ہونے چاہئیں۔ ٹھیک ٹھیک یہی حیثیت اِسلام نے بھی انھیں دی ہے۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے:
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰۠ النور 24:55
اللّٰہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں کے ساتھ جو تم میں سے ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ انھیں زمین میں خلیفہ بنائے گا اسی طرح جس طرح ان سے پہلے اس نے دُوسروں کو خلیفہ بنایا تھا۔
یہ آیت اِسلام کے نظریۂ ریاست (Theory of State) پر نہایت صاف روشنی ڈالتی ہے اس میں دو بنیادی نکات بیان کیے ہیں:
پہلا نکتہ یہ ہے کہ اِسلام حاکمیت کے بجائے خلافت (Vicegerency) کی اصطلاح استعمال کرتا ہے چوں کہ اس کے نظریہ کے مطابق حاکمیت خدا کی ہے لہٰذا جو کوئی اِسلامی دستور کے تحت زمین پر حکم ران ہو اسے لامحالہ حاکم اصلی کا خلیفہ (Vicegerent) ہونا چاہیے جو محض تفویض کردہ اختیارات (Delegated Power) استعمال کرنے کا مجاز ہو گا۔
دُوسری کانٹے کی بات اس آیت میں یہ ہے کہ خلیفہ بنانے کا وعدہ تمام مومنوں سے کیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہا کہ ان میں سے کسی کو خلیفہ بنائوں گا۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ سب مومن خلافت کے حامل ہیں۔ خدا کی طرف سے جو خلافت مومنوں کو عطا ہوتی ہے وُہ عمومی خلافت (Popular Vicegereny) ہے۔ کسی شخص یا خاندان یا نسل یا طبقہ کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ ہر مومن اپنی جگہ خدا کا خلیفہ ہے۔ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے فردًا فردًا ہر ایک خدا کے سامنے جواب دِہ ہے (کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ)( مشہور حدیث ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور تم سب خدا کے سامنے اپنی رعیت کے بارے میں جواب دِہ ہو۔) اور ایک خلیفہ دوسرے خلیفہ کے مقابلہ میں کسی حیثیت سے فِروتر نہیں ہے۔

اِسلامی جمہوریت کی حیثیت

یہ ہے اِسلام میں ڈیمو کریسی کی اصل بنیاد۔ عمومی خلافت کے اس تصور کا تجزیہ کرنے سے حسبِ ذیل نتائج نکلتے ہیں:
(۱) ایسی سوسائٹی جس میں ہر شخص خلیفہ ہو اور خلافت میں برابر کا شریک ہو، طبقات کی تقسیم اور پیدائشی یا معاشرتی امتیازات کو اپنے اندر راہ نہیں دے سکتی۔ اس میں تمام افراد مساوی الحیثیت اور مساوی المرتبہ ہوں گے۔فضیلت جو کچھ بھی ہو گی شخصی قابلیت اور سیرت کے اعتبار سے ہو گی یہی بات ہے جسے نبیؐ نے باربار بتصریح بیان فرمایا ہے:
لَیْسَ لِاَحَدٍ فَضْلٌ عَلٰی اَحَدٍ اِلاَّ بِدِیْنٍ وَّتَقْوٰی اَلنَّاسُ کُلُّھُمْ بَنُوْادَمَ وَاٰدَمَ مِنْ تُرَابٍ لَا فَضْلَ لِعَرَبِیِّ عَلٰی عَجَمِیٍّ وَّلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَّلَا لِاَبْیَضَ عَلٰی اَسْوَدَ وَلَا لِاَ سْوَدَعَلٰی اَبْیَضَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی۔ (الخطبتہ الوداع)
کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ہے اگر ہے تو دین کے علم وعمل اور تقوٰی کے اعتبار سے ہے۔ سب لوگ آدم کی اولاد سے ہیں اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ نہ کسی عربی کو عجمی پر فضیلت ہے نہ عجمی کو عربی پر، نہ گورے کوکالے پر اور نہ کالے کو گورے پر، فضیلت ہے تو تقوٰی کی بنا پر ہے۔
فتحِ مکہ کے بعد جب تمام عرب اِسلامی اسٹیٹ کے دائرے میں آ گیا تو رسول اللّٰہﷺ نے خود اپنے خاندان والوں کو ،جو عرب میں برہمنوں کی سی حیثیت رکھتے تھے، خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
یَامَعْشَرَقُرَیْشٍ اِنَّ اللّٰہَ قَدْاَذْھَبَ عَنْکُمْ نَخْوَۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ وَتَعَظُّمَھَا الْاٰبَآئَ اَیُّھَاالنَّاسُ کُلُّکُمْ مِنْ اٰدَمَ اٰدَمَ مِنْ تُرَابٍ۔لَافَخْرَ لِلْاَنْسَابِ۔ لَافَضْلَ لِلْعَرَبِیِّ عَلَی الْعَجَمِیِّ وَلَا لِلْعَجَمِیِّ عَلَی الْعَرَبِیِّ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقَاکُمْ۔
قریش والو! اللّٰہ نے تمھاری جاہلیت کی نخوت اور باپ دادا پر فخر وناز کو دُور کر دیا۔ لوگو! تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے، نسب کا فخر ہیچ ہے۔ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فخر نہیں۔ تم میں بزرگ وُہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔
(۲) ایسی سوسائٹی میں کسی فرد یا کسی گروہِ افراد کے لیے اس کے پیدائش یا اس کے معاشرتی مرتبے (Social Status) یا اس کے پیشے کے اعتبار سے اس قسم کی رُکاوٹیں (Dissbilities) نہیںہو سکتیں جو اس کی ذاتی قابلیتوں کے نشوونما اور اس کی شخصیت کے اِرتقا میں کسی طرح بھی مانع ہوں، اسے سوسائٹی کے تمام دوسرے افراد کی طرح ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہونے چاہییں۔ اس کے لیے راستہ کھلا ہوا ہونا چاہیے کہ اپنی قوت واِستعداد کے لحاظ سے جہاں تک بڑھ سکتا ہے بڑھتا چلا جائے بغیر اس کے کہ دُوسروں کے اسی طور پر بڑھنے میں مانع ہو، یہ چیز اِسلام میں بدرجۂ اَتم پائی جاتی ہے۔ غلام اور غلام زادے فوجوں کے سپہ سالار اور صوبوں کے گورنر بنائے گئے اور بڑے بڑے اونچے گھرانوں کے شیوخ نے ان کی ماتحتی کی۔ چمار جوتیاں گانٹھتے گانٹھتے اُٹھے اور امامت کی مسند پر بیٹھ گئے۔ جولاہے اور بزاز مفتی اور قاضی اور فقیہ بنے اور آج ان کے نام اِسلام کے بزرگوں کی فہرست میں ہیں۔ حدیث میں اِرشاد ہوا :
اِسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَلَوْاُسْتُعْمِلَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبَشِیٌّ۔
سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تمھارا سردار ایک حبشی ہی کیوں نہ بنا دیا جائے۔
(۳) ایسی سوسائٹی میں کسی شخص یا گروہ (Group) کی ڈکٹیٹر شپ کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ اس لئے کہ یہاں ہر شخص خلیفہ ہے کسی شخص یا گروہ کو حق نہیں ہے کہ عام مسلمانوں سے ان کی خلافت کو سلب کر کے خود حاکمِ مطلق بن جائے۔ یہاں جو شخص حکم ران بنایا جاتا ہے اس کی اصلی حیثیت یہ ہے کہ تمام مسلمان یا اصطلاحی الفاظ میں تمام خلفا اپنی رضامندی سے اپنی خلافت کو انتظامی اغراض کے لیے اس کی ذات میں مرکوز (Concentrate)کر دیتے ہیں۔ وُہ ایک طرف خدا کے سامنے جواب دہ ہے اور دوسری طرف ان عام خلفا کے سامنے جنھوں نے اپنی خلافت اسے تفویض کی ہے۔ اب اگر وُہ غیر ذمہ دار مطاع مطلق یعنی ڈکٹیٹر بنتا ہے تو خلیفہ کے بجائے غاصب کی حیثیت اختیار کرتا ہے کیوں کہ ڈکٹیٹر شپ دراصل عمومی خلافت کی نفی ہے اس میں شک نہیںکہ اِسلامی اسٹیٹ ایک ہمہ گیر اسٹیٹ ہے اور زندگی کے تمام شعبوں پر اس کا دائرہ وسیع ہے مگر اس کلیت اور ہمہ گیری کی بنیادیہ ہے کہ خدا کا وُہ قانون ہمہ گیر ہے جسے اِسلامی حکم ران کو نافذ کرنا ہے۔ خدا نے زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق جو ہدایات دی ہیں وُہ یقینا پوری ہمہ گیری کے ساتھ نافذ کی جائیں گی۔ مگر ان ہدایات سے ہٹ کر اِسلامی حکم ران خود ضابطہ بندی (Regimentation) کی پالیسی اختیار نہیں کر سکتا۔ وُہ لوگوں کو مجبور نہیں کر سکتا کہ فلاں پیشہ کریں اور فلاں پیشہ نہ کریں، فلاں فن سیکھیں اور فلاں نہ سیکھیں، اپنے بچوں کو فلاں قسم کی تعلیم دلوائیں اور فلاں قسم کی نہ دلوائیں ۔اپنے سرپرفلاں قسم کی ٹوپی پہنیں، اپنی زبان کے لیے فلاں رسم الخط، اختیار کریں۔ اپنی عورتوں کو فلاں قسم کا لباس پہنائیں۔ یہ خداوندانہ اختیارات جو روس اور جرمنی اور اٹلی میں ڈکٹیٹروں نے اپنے ہاتھ میں لے لئے اور یا جنھیں اتاترک نے ترکی میں استعمال کیا، اِسلام نے وُہ اختیارات امیر کو عطا نہیں کیے۔ علاوہ بریں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اِسلام میں ہر فرد شخصی طور پر خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ یہ شخصی جواب دہی (Personal Responaibility) ایسی ہے جس میں کوئی دوسرا شخص اس کے ساتھ شریک نہیں۔ لہٰذا اسے قانون کی حدود کے اندر پوری آزادی ہونی چاہیے کہ اپنے لیے جو راستہ چاہے اختیار کرے اور جدھر اس کا میلان ہو اپنی قوتوں کو اسی طرف بڑھنے کے لیے استعمال کرے۔ اگر امیر اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالے گا تو وُہ خود اس ظلم کے لیے اللّٰہ کے ہاں پکڑا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ نبیؐ یا آپ کے خلفائے راشدین کی حکومت میں ضابطہ بندی کا نام ونشان تک نہیں ملتا۔
(۴) ایسی سوسائٹی میں ہر عاقل وبالغ مسلمان کو، خواہ وُہ مرد ہو یا عورت، رائے دہی کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ وُہ خلافت کا حامل ہے۔ خدا نے اس خلافت کو کسی خاص معیار لیاقت یا کسی معیار ثروت سے مشروط نہیں کیا ہے، بلکہ صرف ایمان وعمل صالح سے مشروط کیا ہے۔ لہٰذا رائے دہی میں ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ مساوی حیثیت رکھتا ہے۔

انفرادیت اور اجتماعیت کا توازن

ایک طرف اِسلام نے یہ کمال درجہ کی جمہوریت قائم کی ہے۔ دُوسری طرف ایسی انفرادیت (Individualism)کا سدِّباب کر دیا ہے جو اجتماعیت (Socialiam) نفی کرتی ہو۔ یہاں افراد وجماعت کا تعلق اس طرح قائم کیا گیا ہے کہ نہ فرد کی شخصیت جماعت میں گم ہو جائے ’’جس طرح کمیونزم اور فاشزم کے نظام اجتماعی میں ہو جاتی ہے‘‘ اور نہ فرد اپنی حد سے اتنا بڑھ جائے کہ جماعت کے لیے نقصان دہ ہو جیسا کہ مغربی جمہوریتوں کا حال ہے ۔اِسلام میں فرد کا مقصدِ حیات وہی ہے جو جماعت کا مقصدِ حیات ہے۔ یعنی قانون الٰہی کا نفاز اور رضائے الٰہی کا حصول۔ مزید برآں اِسلام میں فرد کے حقوق پوری طرح تسلیم کرنے کے بعد اس پر جماعت کے لیے مخصوص فرائض بھی عائد کر دیے گئے ہیں۔ اس طرح انفرادیت اور اجتماعیت میں ایسی موافقت پیدا ہو گئی ہے کہ فرد کو اپنی قوتوں کے نشوونما کا پورا موقع بھی ملتا ہے اور پھر وُہ اپنی ان ترقی یافتہ قوتوں کے ساتھ اجتماعی فلاح وبہبود میں مددگار بھی بن جاتا ہے یہ ایک مستقل بحث ہے جس پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کا یہاں موقع نہیں۔ اس کی طرف اشارہ کرنے سے میرامقصد صرف ان غلط فہمیوں کا سدباب کرنا تھا جو اِسلامی جمہوریت کی مذکورہ بالا تشریح سے پیدا ہو سکتی تھیں۔

اِسلامی اسٹیٹ کی ہیئتِ ترکیبی

خلافتِ عمومی کے تصور کا جو تجزیہ میں نے کیا ہے اُسے نظر میں رکھنے کے بعد آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اِسلامی اسٹیٹ میں امام یا امیر یا صدر حکومت کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں کہ عام مسلمانوں کو جو خلافت حاصل ہے۔ اس کے اختیارات وُہ اپنے میں سے ایک بہترین شخص کا انتخاب کر کے امانت کے طور پر اس کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اس کے لیے ’’خلیفہ‘‘ کا لفظ جو استعمال کیا جاتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ بس وہی اکیلا خلیفہ ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام مسلمانوں کی خلافت اس کی ذات میں مرتکز (Concentrate) ہو گئی ہے۔
اب مَیں مختصر طور پر اس طرزِ حکومت کی چند خاص خاص تفصیلات بیان کروں گا تاکہ ایک واضح خاکہ آپ کے سامنے آ جائے۔
(۱) امیر کا انتخاب… اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۝۰ۭ الحجرات 49:13 کے اُصول پر ہو گا یعنی عام مسلمان جس کے کیرکٹر پر پوری طرح اعتماد رکھتے ہوں وہی اس منصب کے لیے چنا جائے گا(یعنی کسی شخص کو خلیفہ منتخب کرنے کے لیے صرف یہی بات نہ دیکھی جائے گی کہ اس کی علمی وذہنی قابلیت اور تدبیر وتنظیم کی صلاحیت کیسی ہے بلکہ سب سے زیادہ جس چیز کا لحاظ کیا جائے گا۔ وہ یہ ہے کہ اس کے تقوٰی پر اعتماد کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟)اور جب وُہ چن لیا جائے گا ،اس پر پورا بھروسا کیا جائے گا۔ جب تک وُہ خدا اور رسول ؐکے قانون کی پیروی کرے گا اس کی کامل اطاعت کی جائے گی۔
(۲) امیر تنقید سے بالاترنہ ہو گا…ہر عامی مسلمان اس کے پبلک کاموں ہی پر نہیں بلکہ پرائیویٹ زندگی پر بھی نکتہ چینی کرنے کا مجاز ہو گا، وُہ قابل عزل ہو گا۔ قانون کی نگاہ میں اس کی حیثیت عام شہریوں کے برابر ہو گی۔ اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا جا سکے گا اور وُہ عدالت میں کسی امتیازی برتائو کا مستحق نہ ہو گا۔
(۳) امیر کو مشورہ کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔ مجلسِ شورٰی ایسی ہو گی جسے عام مسلمانوں کا اعتماد حاصل ہو۔ اس امر میں بھی کوئی امر شرعی مانع نہیں ہے کہ اس مجلس کو مسلمانوں کے ووٹوں سے منتخب کیا جائے۔
(۴) عموماً مجلس کے فیصلے کثرتِ رائے سے ہوں گے۔ مگر اِسلام تعداد کی کثرت کو حق کا معیار تسلیم نہیں کرتا ۔
قُلْ لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَۃُ الْخَبِيْثِ۝۰ۚ المائدہ 100:5
اِسلام کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ ایک اکیلے شخص کی رائے پوری مجلس کی رائے کے مقابلہ میں برحق ہو، اور اگر ایسا ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ حق کو اس لیے چھوڑ دیا جائے کہ اس کی تائید میں ایک جمِ غفیر نہیں ہے۔ لہٰذا امیر کو حق ہے کہ اکثریت کے ساتھ اتفاق کرے یا اقلیت کے ساتھ اور امیر کو یہ بھی حق( نظریہ سیاسی کے اس مقام پر اور اسی طرح سے ’’اِسلام کا نظام حیات‘‘ میں امیر کے حق استرداد (Veto) کا ذکر جس مجمل طریقے پر آیا ہے اس سے غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے۔ مصنف نے اپنی دوسری کتاب ’’اِسلامی ریاست‘‘ (ص ۲۰۸ تا ص ۲۱۱) میں اس مسئلے کی پوری تشریح کر دی ہے۔ یہاں اس کا اقتباس درج کیا جاتا ہے تا کہ ویٹو کے متعلق اِسلامی نقطۂ نظر واضح ہو جائے۔
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِسلام میں مقننہ( اہل الحل والعقد) کی صحیح حیثیت کیا ہے؟ کیا وُہ محض صدر ریاست کی مشیر ہے جس کے مشوروں کو رد یا قبول کرنے کا صدر ریاست کو اختیار ہے؟ یا صدر ریاست اس کی اکثریت یا اس کے اجماع کے فیصلوں کا پابند ہے؟ اس باب میں قرآن جو کچھ کہتا ہے وُہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات باہمی مشورے سے انجام پانے چاہییں (وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ) اور نبی اکو بحیثیت صدر ریاست کے خطاب کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ حکم دیتا ہے:
وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۝۰ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝۰ۭ آل عمران3:159
اور ان سے معاملات میں مشورہ کرو، پھر مشورے کے بعد جب تم عزم کر لو تو اللّٰہ کے بھروسے پر عمل کرو۔
یہ دونوں آیتیں مشورے کو لازم کرتی ہیں اور صدرِ ریاست کو ہدایت کرتی ہیں کہ جب وُہ مشورے کے بعد کسی فیصلے پر پہنچ جائے تو اللّٰہ کے بھروسے پراسے نافذ کر دے۔
لیکن یہ اُس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں دیتیں جو ہمارے سامنے پیش ہے۔ حدیث میں بھی اس کے متعلق کوئی قطعی حکم مجھے نہیں ملا ہے، البتہ خلافتِ راشدہ کے تعامل سے علمائے اِسلام نے بالعموم یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نظمِ ریاست کا اصل ذمہ دار صدرِ ریاست ہے اور اہل الحل و العقد سے مشورہ کرنے کا پابند ضرور ہے مگر اس بات کا پابند نہیں ہے کہ ان کی اکثریت یا ان کی متفقہ رائے ہی پر عمل کرے۔ دُوسرے الفاظ میں اُسے ’’ویٹو‘‘ کے اختیارات حاصل ہیں۔
لیکن یہ رائے اس مجمل صورت میںبڑی غلط فہمیوں کی موجب ہے کیوں کہ اسے لوگ موجودہ ماحول میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور وُہ ماحول ان کے سامنے نہیں ہوتا جس کے تعامل سے یہ رائے اخذ کی گئی ہے۔ خلافتِ راشدہ کے ماحول میں جن لوگوں کو اہل الحل والعقد قرار دیا گیا تھا وُہ جدا جدا پارٹیوں کی شکل میں منظم نہ تھے۔ (باقی حاشیہ اگلے صفحے پر)ہے کہ پوری مجلس سے اختلاف کر کے اپنی رائے پر فیصلہ کرے مگر ہر صورت میں عامہ مسلمین اس بات پر نظر رکھیں گے کہ امیر اپنے ان وسیع اختیارات کو تقوٰی اور خوفِ خدا کے ساتھ استعمال کرتا ہے یا نفسانیت کے ساتھ۔ بصورتِ دیگر رائے عام اس امیر کو مسند امارت سے نیچے بھی اُتار لا سکتی ہے۔
(۵) امارت، یا مجلسِ شورٰی کی رُکنیت یا کسی ذمہ داری کے منصب کے لیے کوئی ایسا شخص منتخب نہ کیا جائے گا جو خود اس کا امیدوار ہو، یا کسی طور پر اس کے لیے کوشش کرے۔ اِسلام میں امیدواری (Candidature) اور انتخابی پروپیگنڈا کے لیے قطعًا کوئی گنجائش نہیں۔ یہ نبیؐ کی صاف ہدایت ہے کہ امیدوار کو کوئی منصب نہ دیا جائے۔ اِسلامی ذہنیت اس بات کے خیال تک سے نفرت کرتی ہے کہ ایک منصب کے لیے دو تین چار امیدوار کھڑے ہوں۔ ایک دوسرے کے خلاف اشتہاربازی، جلسہ بازی اور اخباری پروپیگنڈا کریں، ووٹروں کو طرح طرح سے بے وقوف بنائیں، کھانوں کی دیگیں چڑھائی جائیں، موٹریں دوڑائیں اور ان میں سے وُہ امیدوار بازی لے جائے جو جھوٹ، فریب اور زَرپاشی میں سب سے بڑھا ہوا ہو۔ یہ شیطانی ڈیموکریسی کے ملعون طریقے ہیں جن کا عُشرِ عشیر بھی اِسلامی حکومت میں برسرِ کار آئے تو خلافت کی مجلسِ شُورٰی میں منتخب ہو کر جانا تو درکنار، ایسے لوگوں کو قاضی کی عدالت میں پیش کرکے سزا دلوا دی جائے۔
(۶) اِسلامی مجلس شورٰی میں پارٹی بندی نہیں ہو سکتی، فرد فرد علیحدہ ہو گا اور حق کے مطابق رائے دے گا۔ اِسلام میں اس کا کوئی موقع نہیں کہ آپ ہر حال میں اپنی پارٹی کا ساتھ دیں خواہ وُہ حق پر ہو یا باطل پر۔ بلکہ اِسلامی اسپرٹ کا یہ تقاضا ہے کہ آج کسی کی رائے کو آپ حق پر پائیں تو اس کا ساتھ دیں، اور کل کسی دوسرے مسئلے میں اگر اسی شخص کی رائے آپ کے نزدیک خلاف حق ہو تو اس سے اختلاف کر دیں۔
(۷) اِسلام میں عدالت کے شعبہ کو انتظامی شعبہ کے اثر سے کلیۃً آزاد رکھا گیاہے قاضی کا کام خدا کے قانون کو اس کے بندوں پر نافذ کرنا ہے۔ وہ عدالت کی کرسی پر امیر یا خلیفہ کے نائب کی حیثیت سے نہیں بلکہ اللّٰہ عزوجل کے نائب کی حیثیت سے بیٹھتا ہے لہٰذا عدالت میں اس کے سامنے خود خلیفہ کی بھی کوئی وقعت نہیں۔ کسی کو اپنی شخصیت یا اپنے خاندان یا اپنے عہدے کی وجہ سے یہ حق حاصل نہیں کہ قاضی کے سامنے حاضر ہونے سے مستثنیٰ قرار دیا جائے ۔ایک ادنیٰ مزدُور، ایک غریب کاشت کار ،ایک فقیر بے نوا بھی اس کا حق رکھتا ہے کہ بڑے سے بڑے شخص، حتّٰی کہ خود خلیفہ کے خلاف قاضی کی عدالت میں دعوٰی دائر کر دے اور قاضی کو پورے اختیارات حاصل ہیں کہ اگر مدعی کا حق ثابت ہو جائے تو خدا کا قانون خلیفہ پر بھی ٹھیک اسی طرح نافذ کر دے جس طرح ایک عامی مسلمان پر کرتا ہے۔ اسی طرح اگر خود خلیفہ کو اپنی ذاتی حیثیت میں کسی کے خلاف شکایت ہو تو وُہ اپنے حاکمانہ اختیارات استعمال کر کے خود اس شکایت کو رفع کر لینے کا حق نہیں رکھتا بلکہ ازروئے آئین وُہ مجبور ہے کہ ایک عام شہری کی طرح عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے۔
اس مختصر خطبہ میں میرے لیے یہ موقع نہیں ہے کہ اِسلامی اسٹیٹ کی تفصیلی صورت آپ کے سامنے پیش کر سکوں۔ اس کی اسپرٹ اور اس کے طرزِ کارروائی کو پوری طرح سمجھنے کے لیے نبیؐ اور خلفائے راشدین کے دَورِ حکومت کی نظیریں پیش کرنا ضروری ہے اور اس کی گنجائش یہاں نہیں ہے۔ تا ہم مجھے توقع ہے کہ جو کچھ مَیں نے بیان کیا ہے۔ وُہ اِسلامی طرزِ حکومت کا ایک واضح تصوُّر پیش کرنے کے لیے کافی ہے۔((باقی حاشیہ )وُہ ان پارلیمنٹری ضابطوں سے بھی کسے ہوئے نہ تھے جن سے موجودہ زمانے کی مجالس قانون ساز کَسی ہوئی ہوتی ہیں۔ وُہ مجلسِ شُورٰی میں پہلے سے الگ الگ اپنی کچھ پالیسیاں وضع کرکے، پروگرام بنا کر اور پارٹی میٹنگز میں فیصلے کرکے بھی نہیں آتے تھے۔ اُنھیں جب مشورے کے لیے بلایا جاتا تو وُہ کھلے دل کے ساتھ آ کر بیٹھتے خلیفہ خود ان کی مجلس میں موجود ہوتا، مسئلہ پیش کیا جاتا، مخالف اور موافق ہر پہلو پر آزادانہ بحث ہوتی، پھر دونوں طرف کے دلائل کا موازنہ کرکے خلیفہ اپنے دلائل کے ساتھ اپنی رائے بیان کرتا۔ یہ رائے بالعموم ایسی ہوتی تھی کہ پوری مجلس اسے تسلیم کر لیتی تھی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ چند لوگ اس سے متفق نہ ہوتے تھے۔ مگر اسے بالکل غلط اور ناقابلِ تسلیم نہیں بلکہ صرف مرجوع سمجھتے تھے اور فیصلہ ہو جانے کے بعد کم از کم عمل کے لیے اُسی کو مان لیتے تھے۔ پوری خلافتِ راشدہ کی تاریخ میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ اہل الحل و العقد کی مجلس میں ایسی تفریق رونما ہوئی ہو کہ رائے شماری کی نوبت آئے اور پوری خلافتِ راشدہ کی تاریخ میں صرف دو مثالیں اس امر کی ملتی ہیں کہ خلیفہ وقت نے اہل الحل والعقد کی قریب قریب متفقہ رائے کے خلاف کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک جیشِ اُسامہ کا معاملہ، دوسرے مرتدین کے خلاف جہاد کا معاملہ۔ لیکن ان دونوں معاملات میں صحابہؓ نے جس بِنا پر خلیفہ کے فیصلے کو مانا وُہ یہ نہیں تھی کہ دستورِ اِسلامی نے خلیفہ کو ویٹو کے اختیارات دے رکھے ہیں اور دستوری طور پر وُہ بادلِ نخواستہ اس کا فیصلہ ماننے کے لیے مجبور ہیں بلکہ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ صحابۂ کرامؓ کو حضرت ابوبکرؓ کے فہم و فراست اور دینی بصیرت پر پورا اعتماد تھا۔ انھوں نے جب دیکھا کہ ابوبکرؓ اس رائے کی صحت پر اتنا یقین رکھتے ہیں اور دینی مصالح کے لیے اسے اتنی زیادہ اہمیت دے رہے ہیں، تو انھوں نے کھلے دل سے ان کی رائے کے مقابلے میں اپنی رائے واپس لے لی بلکہ بعد میں ان کی اصابتِ رائے کو کھلم کھلا سراہا اور اعتراف کیا کہ اگر ان مواقع پر ابوبکرؓ استقامت نہ دکھاتے تو اِسلام ہی کا خاتمہ ہو گیا ہوتا۔ چنانچہ مرتدین کے معاملے میں حضرت عمرؓ نے جو سب سے بڑھ کر حضرت ابوبکرؓ کی رائے سے اختلاف کر چکے تھے، علی الاعلان کہا کہ اللّٰہ نے ابوبکرؓ کا سینہ اس کام کے لیے کھول دیا اور مجھے معلوم ہو گیا کہ حق وہی ہے جس کا فیصلہ انھوں نے کیا ہے۔
اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اِسلام میں ویٹو کا یہ تصور دراصل کس ماحول کی نظیروں سے پیدا ہوا ہے۔ اگر شورٰی کا طرز اور اس کی روح اور اہلِ شورٰی کی ذہنیت اور سیرت وہی ہو جو خلافتِ راشدہ کے اس نمونے میں ہم دیکھتے ہیں، تو پھر اس سے بہتر کوئی طریقِ کار نہیں ہے جو وہاں اختیار کیا گیا۔ اس طریقِ کار کو اگر ہم اس کے آخری منطقی نتائج تک لے جائیں تو زیادہ سے زیادہ یہ کَہ سکتے ہیں کہ اس طرز کی مجلسِ شورٰی میں اگر صدرِ ریاست اور ارکانِ مجلس اپنی اپنی رائے پر اَڑ جائیں اور ان میں سے کوئی دوسرے کے مقابلے میں اپنی رائے واپس نہ لے تو استصوابِ عام (Referendum)کرا لیا جائے، پھر جس کی رائے کو بھی رائے عام رَدکر دے وُہ مستعفی ہو جائے لیکن جب تک ہمارے لیے اپنے ملک میں اُس روح اور اس ذہنیت اور اس طرز کی مجلس شورٰی بنانا ممکن نہیں ہے، اس کے سوا چارہ نہیں کہ ہم انتظامیہ کو مقنّنہ کی اکثریت کے فیصلوں کا پابند کر دیں۔ )
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔
٭…٭…٭