انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل

ریڈ مودودی ؒ   کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل

(یہ مقالہ 30؍اکتوبر 1941ء کو ’’انجمن اسلامی تاریخ و تمدن‘‘، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی دعوت پر اسٹریچی ہال میں پڑھا گیا تھا۔ (مرتب)

موجودہ زمانے میں ملکوں اور قوموں کے ، اور بحیثیت مجموعی دنیا کے معاشی مسائل کو جو اہمیت دی جا رہی ہے، شاید اس سے پہلے، کم از کم نمایاں طور پر، ان کو اتنی اہمیت کبھی نہیں دی گئی۔ ’’نمایاں طور پر‘‘ کا لفظ میں اس لیے استعمال کر رہا ہو ں کہ حقیقت میں تو انسان کی زندگی میں اس کی معاش جس قدر اہمیت رکھتی ہے اس کے لحاظ سے ہر زمانے میں، افراد، جماعتوں، قوموں، ملکوں اور تمام انسانوں نے اس کی طرف بہرحال توجہ کی ہے، لیکن آج اس توجہ کو جس چیز نے زیادہ نمایاں کر دیا ہے ،وہ معاشیات کے نام سے ایک باقاعدہ علم کا بڑی بڑی کتابوں، بھاری بھر کم اصطلاحوں، اور پُر شوکت اداروں کے ساتھ موجود ہونا، اور ساتھ ہی ضروریاتِ زندگی کی پیدایش، فراہمی اور اکتساب کے طریقوں کا پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے چلے جانا ہے۔
ان اسباب سے آج معاشی مسائل پر بحث و گفتگو اور عالمانہ تحقیق کا وہ زور شور ہے کہ اس کے آگے انسانی زندگی کے سارے مسائل دب کر رہ گئے ہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جس چیز پر دنیا بھر کی توجہات اس طرح مرکوز ہوگئی ہیں، وہ بجائے سلجھنے اور صاف ہونے کے اور زیادہ الجھتی اور معمّا بنتی چلی جاتی ہے۔
علم المعیشت کی موٹی موٹی اصطلاحوں نے اور ماہرین معاشیات کی عالمانہ موشگافیوں نے عام لوگوں کو اس قدر دہشت زدہ کر دیا ہے کہ وہ غریب ان اعلیٰ درجے کی فنی بحثوں کو سن کر اس طرح اپنے معاشی مسئلہ کی ہولناکی سے مرعوب اور اس کے حل کی تمام توقعات سے مایوس ہو جاتے ہیں جس طرح ایک بیمار کسی ڈاکٹر کی زبان سے اپنی بیماری کا کوئی موٹا سالاطینی نام سن کر ہول کھا جاتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ جب مجھے ایسی سخت بیماری لاحق ہو گئی ہے تو میری جان کا اب اللہ ہی حافظ ہے۔ حالانکہ ان اصطلاحوں اور فنی بحثوں کا غلاف اتار کر سیدھے سادھے فطری طریقے سے دیکھا جائے تو انسان کا معاشی مسئلہ بڑی آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے، اور اس مسئلہ کے حل کی مختلف صورتیں جو دنیا میں اختیار کی گئی ہیں ان کے مفید اور مضر پہلو بھی بغیر کسی دقت کے دیکھے جاسکتے ہیں ، اور اس کے حل کی صحیح فطری صورت جو کچھ ہوسکتی ہے، اس کے سمجھنے میں بھی کوئی مشکل باقی نہیں رہتی۔

جُز پرستی کا فتنہ

اصطلاحات کے چکر اور فنی پیچیدگیوں کے طلسمات نے اس مسئلے کو جس قدر الجھایا ہے اس پر مزید الجھن اس وجہ سے بھی پیدا ہوگئی ہے کہ انسان کے معاشی مسئلے کو جو دراصل انسانی زندگی کے عظیم تر مسئلے کا ایک جز تھا، مجموعہ سے الگ کر کے بجائے خود ایک مستقل مسئلے کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا، اور رفتہ رفتہ یہ لَے اتنی بڑھی کہ معاشی مسئلے ہی کو پوری زندگی کامسئلہ سمجھ لیا گیا۔ یہ پہلی غلطی سے بھی زیادہ بڑی غلطی ہے جس کی وجہ سے اس گتھی کا سلجھنا محال ہوگیا ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی امراضِ جگر کا ماہر انسانی جسم کے مجموعی نظام سے الگ کر کے، اور اس نظام میں جگر کی جو حیثیت ہے اس کو نظر انداز کر کے جگر کو بس جگر ہونے کی حیثیت سے دیکھنا شروع کر دے ، اور پھر اس دیکھنے میں اتنا مستغرق ہو کہ آخر کار اسے پورا انسانی جسم بس ایک جگر ہی جگر نظر آنے لگے۔ آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اگر انسانی صحت کے سارے مسائل کو صرف جگریات سے حل کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ مسائل کس قدر ناقابلِ حل ہو جائیں گے اور آدمی بیچارے کی جان کس قدر شدید خطرے میں مبتلا ہو کر رہے گی۔ بس اسی پر قیاس کر لیجیے کہ جب معاشیات کو انسانیت کے مجموعے میں سے نکال کر الگ کر لیا جائے اور پھر اس کو عین انسانیت قرار دے کر سارے مسائل زندگی اسی سے حل کیے جانے لگیں تو بجز سرگشتگی و حیرانی کے اور کیا حاصل ہوسکتا ہے۔
دورِ جدید کے فتنوں میں سے یہ ماہرینِ خصوصی (specialists) کا فتنہ بھی ایک بڑا فتنہ ہے۔ زندگی اور اس کے مسائل پر مجموعی نظر کم سے کم تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ انسان مختلف علوم و فنون کے یک چشم ماہرین کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ گیا ہے۔ کوئی طبیعیات کا ماہر ہے تو وہ ساری کائنات کا معما صرف طبیعیات کے بل پر حل کرنے لگتا ہے۔ کسی کے دماغ پر نفسیات کا تسلط ہے تو وہ اپنے نفسیاتی تجربات و مشاہدات کے اعتماد پر پورا فلسفۂ حیات مرتب کرنا چاہتا ہے۔ کسی اللہ کے بندے کی نظر صنفیات پر جم کر رہ گئی ہے تو وہ کہتا ہے کہ پوری انسانی زندگی بس شہوانیت (sex) کے محور پر گھوم رہی ہے، حتیٰ کہ خدا کا خیال بھی انسان کے دماغ میں اسی رستے سے آیا ہے۔ اس طرح جو لوگ معاشیات میں مستغرق ہیں، وہ انسان کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ معاش تیری زندگی کا اصل مسئلہ ہے اور باقی سارے مسائل اسی جڑ کی شاخیں ہیں۔ حالانکہ اصل حقیقت جو کچھ ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب ایک کل کے مختلف پہلو ہیں۔ اس کل کے اندر ان سب کا ایک خاص مقام ہے اور اس مقام کے لحاظ ہی سے ان کی اہمیت بھی ہے۔
انسان ایک جسم رکھتا ہے جو قوانین طبیعی کے ماتحت ہے۔ اس لحاظ سے انسان طبیعیات کا موضوع بھی ہے۔ مگر وہ نرا جسم ہی نہیں ہے کہ صرف طبیعیات سے اس کے سارے مسائل حل کیے جاسکیں۔ انسان ایک ذی حیات ہستی ہے جس پر حیاتی قوانین جاری ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ علم الحیات (Biology) کا موضوع بھی ہے۔ مگر وہ نرا ذی حیات نہیں ہے کہ صرف حیاتیات یا حیوانیات (Zoology) ہی سے اس کی زندگی کا پورا قانون اخذ کیا جاسکے۔ انسان کو زندہ رہنے کے لیے غذا کی، پوشش کی اور مکان کی ضرورت بھی لاحق ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے معاشیات اس کی زندگی کے ایک اہم شعبے پر حاوی ہے، مگر وہ محض ایک کھانے، پہننے اور گھر بنا کر رہنے والا حیوان ہی نہیں ہے کہ تنہا معاشیات ہی پر اس کے فلسفۂ حیات کی بنا رکھ دی جائے ۔
انسان اپنی نوع کو باقی رکھنے کے لیے تناسل پر بھی مجبور ہے جس کے لیے اس کے اندر ایک زبردست صنفی میلان پایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے صنفیات کا علم بھی اس کی زندگی کے ایک اہم پہلو سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر وہ بالکل نسل کشی کا آلہ ہی نہیں ہے کہ بس صنفیات ہی کی عینک لگا کر اسے دیکھا جانے لگے۔ انسان ایک نفس رکھتا ہے جس میں شعور و ادراک کی مختلف قوتیں اور جذبات و خواہشات کی مختلف طاقتیں ہیں۔اس لحاظ سے نفسیات اس کے وجود کے ایک بڑے شعبے پر محیط ہے۔لیکن وہ از سرتاپا نفس ہی نفس نہیں ہے کہ نفسیات کے علم سے اس کی زندگی کی پوری اسکیم بنائی جاسکے۔
انسان ایک متمدن ہستی ہے جو عین اپنی فطرت کے لحاظ سے مجبور ہے کہ دوسرے انسانوں کے ساتھ مل کر رہے۔ اس لحاظ سے اس کی زندگی کے بہت سے پہلو عمرانیات کے تحت آتے ہیں، لیکن متمدن ہستی ہونا اس کا تمام وجود نہیں ہے کہ محض علومِ عمران کے ماہرین بیٹھ کر اس کے لیے مکمل نظامِ حیات وضع کرسکیں۔ انسان ایک ذی عقل ہستی ہے جس کے اندر محسوسات سے ماوراء معقولات کی طلب بھی پائی جاتی ہے اور وہ عقلی اطمینان چاہتا ہے۔ اس لحاظ سے علوم عقلیہ اس کے ایک خاص مطالبہ کو پورا کرتے ہیں۔ مگر وہ پورا کا پورا عقل ہی نہیں ہے کہ محض معقولات کے بل بوتے پر اس کے لیے ایک لائحہ زندگی بنایاجاسکے۔ انسان ایک اخلاقی و روحانی وجود ہے جس میں بھلے اور برے کا امتیاز اور محسوسات و معقولات دونوں سے ماوراء حقیقتوں تک پہنچنے کا داعیہ بھی پایا جاتا ہے ۔ اس لحاظ سے اخلاقیات و روحانیات اس کے ایک اور اہم مطالبہ کو پورا کرتے ہیں۔ مگر وہ از سر تاپا اخلاق اور روح ہی نہیں ہے کہ مجرد اخلاقیات و روحانیات سے اس کے لیے پورا نظامِ زندگی بنایا جاسکے۔
دراصل انسان بیک وقت یہ سب کچھ ہے، اور ان تمام حیثیتوں کے علاوہ اس کی ایک حیثیت یہ بھی ہے کہ اپنے تمام وجود اور اپنی زندگی کے سارے شعبوں سمیت وہ کائنات کے اس عظیم الشان نظام کا ایک جز ہے اور اس کی زندگی کا ضابطہ لازمی طور پر اس امر کا تعین چاہتا ہے کہ اس کائنات میں اس کی حیثیت کیا ہے اور اس کا جز ہونے کی حیثیت سے اس کو کس طرح کام کرنا چاہیے۔ نیز اس کے لیے یہ بھی ناگزیر ہے کہ وہ اپنے مقصدِ زندگی کا تعین کرے اور اسی کے لحاظ سے فیصلہ کرے کہ اسے کس لیے کام کرنا ہے۔ یہ آخری دونوں سوال انسانی زندگی کے بنیادی سوال ہیں۔ انھی پر ایک فلسفۂ حیات بنتا ہے، پھر اس فلسفہ حیات کے تحت تمام وہ علوم جو دنیا اور انسان سے تعلق رکھتے ہیں، اپنے اپنے دائرے کی معلومات فراہم کرتے ہیں اور کم و بیش ان سب سے مل کر ایک لائحہ عمل بنتا ہے جس پر انسانی زندگی کا پورا کارخانہ چلتا ہے۔
اب یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ اگر آپ اپنی زندگی کے کسی مسئلے کو سمجھنا چاہیں تو اس کے لیے یہ کوئی صحیح طریقہ نہیں ہے کہ آپ خوردبین لگا کر صرف اسی ایک مسئلہ پر نظر کو محدود کر کے دیکھیں، یا اس خاص شعبۂ حیات کے لیے جس سے وہ مسئلہ تعلق رکھتا ہے ایک قسم کا تعصب لیے ہوئے پورے مجموعۂ حیات پر نظر ڈالیں ۔ بلکہ صحیح فہم و ادراک کے لیے آپ کو پورے مجموعے کے اندر رکھ کر اسے دیکھنا ہوگا اور غیر متعصبانہ نگاہ سے دیکھنا ہوگا۔ اسی طرح اگر آپ زندگی کے توازن میں کوئی بگاڑ پائیں اور اس کو درست کرنا چاہیں تو یہ اور بھی زیادہ خطرناک ہے کہ آپ کسی ایک مسئلۂ زندگی کو کل مسئلۂ زندگی قرار دے کر سارے کارخانے کو اسی ایک پرزے کے گرد گھما دیں۔ اس حرکت سے تو آپ اور زیادہ عدمِ توازن پیدا کر دیں گے۔ صحیح طریقۂ اصلاح یہ ہے کہ غیر متعصبانہ نگاہ سے پورے نظامِ زندگی کو اس کے بنیادی فلسفے سے لے کر شاخوں کی تفصیلات تک دیکھیے اور تحقیق کیجیے کہ خرابی کس جگہ اور کس نوعیت کی ہے۔
انسان کے معاشی مسئلے کو سمجھنے اور صحیح طور پر حل کرنے میں جو مشکل پیش آ رہی ہے، اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اس مسئلے کو بعض لوگ صرف معاشیات کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بعض اس کی اہمیت میںمبالغہ کر کے اسے کل مسئلۂ زندگی قرار دے رہے ہیں۔ اور بعض اس سے بھی تجاوز کر کے زندگی کا بنیادی فلسفہ اور اخلاق اور تمدن و معاشرت کا سارا نظام معاشی بنیاد پر ہی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اگر معاشیات ہی کو اساس ٹھیرایا جائے تو انسان کا مقصدِ زندگی اس بیل کے مقصدِ زندگی سے کچھ بھی مختلف نہیں ٹھیرتا جس کی تمام سعی وجہد کی غایت یہ ہے کہ ہری ہری گھاس کھا کر خوش و خرم اور تنومند ہو جائے اور کائنات میں اس کی یہ حیثیت قرار پاتی ہے کہ وہ بس چراگاہِ عالم میں ایک آزاد چرندہ ہے۔ اسی طرح اخلاقیات، روحانیات، معقولات، عمرانیات، نفسیات اور تمام دوسرے علوم کے دائروں میں بھی معاشی نقطۂ نظر کے غالب آ جانے سے نہایت شدید عدمِ توازن کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ان شعبہ ہائے زندگی کے لیے معاشیات میں کوئی بنیاد اس کے سوا نہیں ہے کہ اخلاق و روحانیت ،نفس پرستی اور مادہ پرستی میں، اور معقولات ، ماکولات میں تبدیل ہو جائیں، عمرانیات کی ساری ترتیب حقائق عمرانی کے بجائے کاروباری اغراض پر قائم ہو او ر نفسیات میں انسان کا مطالعہ محض ایک معاشی حیوان کی حیثیت سے کیا جانے لگے۔ کیا اس سے بڑھ کر انسانیت پر کوئی اور ظلم ہوسکتا ہے؟

اصل معاشی مسئلہ

اب اگر ہم اصطلاحی اور فنی پیچیدگیوں سے بچ کر ایک سیدھے سادھے طریقے سے دیکھیں تو انسان کا معاشی مسئلہ ہم کو یہ نظر آتا ہے کہ تمدن کی رفتارِترقی کو قائم رکھتے ہوئے کس طرح تمام انسانوں کو ان کی ضروریاتِ زندگی بہم پہنچنے کا انتظام ہو، اور کس طرح سوسائٹی میں ہر شخص کو اپنی استعداد اور قابلیت کے مطابق ترقی کرنے اور اپنی شخصیت کو نشوونما دینے اور اپنے کمالِ لائق تک پہنچنے کے مواقع حاصل رہیں۔
قدیم ترین زمانے میں انسان کے لیے معاش کا مسئلہ قریب قریب اتنا ہی سہل تھا جتنا حیوانات کے لیے ہے ۔ خدا کی زمین پر بے شمار سامانِ زندگی پھیلا ہوا ہے۔ ہر مخلوق کے لیے جس قدر رزق کی ضرورت ہے ،وہ بافراط مہیا ہے۔ ہر ایک اپنا رزق تلاش کرنے کے لیے نکلتا ہے اور جا کر خزائن رزق میں سے حاصل کرلیتا ہے۔ کسی کو نہ اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور نہ اس کا رزق کسی دوسری مخلوق کے قبضے میں ہے۔ تقریباً یہی حالت انسان کی بھی تھی کہ گیا اور قدرتی رزق ، خواہ وہ پھلوں کی شکل میں ہو یا شکار کے جانوروں کی شکل میں ، حاصل کرلیا۔ قدرتی پیداوار سے بدن ڈھانکنے کا انتظام کرلیا۔ زمین میں جہاں موقع دیکھا ،سر چھپانے اور پڑ رہنے کی ایک جگہ بنالی۔
لیکن خدانے انسان کو اس لیے پیدا نہیں کیا تھا کہ وہ زیادہ مدت تک اسی حال میں رہے۔ اس نے انسان کے اندر ایسے فطری داعیات رکھے تھے کہ وہ انفرادیت چھوڑ کر اجتماعی زندگی اختیار کرے اور اپنی صنعت سے اپنے لیے ان ذرائع زندگی سے بہتر ذرائع پیدا کرلے جو قدرت نے مہیا کیے تھے۔ عورت اور مرد کے درمیان دائمی تعلق کی فطری خواہش، انسانی بچے کا طویل مدت تک ماں باپ کی پرورش کا محتاج ہونا، اپنی نسل کے ساتھ انسان کی گہری دلچسپی، اور خونی رشتوں کی محبت، یہ وہ چیزیں تھیں جو اسے اجتماعی زندگی پر مجبور کرنے کے لیے خود فطرت ہی نے اس کے اندر رکھ دی تھیں۔ اسی طرح انسان کا خود رو پیداوار پر قانع نہ ہونا اور زراعت سے اپنے لیے خود غلہ پیدا کرنا، پتوں سے جسم ڈھانکنے پر قانع نہ ہونا اور اپنی صنعت سے اپنے لیے لباس تیار کرنا، غاروں اور بھٹوں میں رہنے پر مطمئن نہ ہونا اور اپنے لیے خود مکان بنانا، اپنی ضروریات کے لیے جسمانی آلات پر اکتفا نہ کرنا اور پتھر، لکڑی، لوہے وغیرہ کے آلات ایجاد کرنا، یہ بھی فطرت ہی نے اس کے اندر ودیعت کیا تھا اور اس کا بھی لازمی نتیجہ یہی تھا کہ وہ رفتہ رفتہ متمدن ہو۔ پس اگر انسان متمدن ہوا تو اس نے کوئی جرم نہیں کیا۔ بلکہ عین اس کی فطرت کا تقاضا اور اس کے خالق کا منشا یہی تھا۔
تمدن کی پیدایش کے ساتھ چند چیزیں ناگزیر تھیں:
ایک یہ کہ انسان کی ضروریاتِ زندگی بڑھیں اور ہر شخص خود اپنی تمام ضروریات فراہم نہ کرسکے بلکہ اس کی کچھ ضرورتیں دوسروں سے اور دوسروں کی اس سے متعلق ہوں۔
دوسرے یہ کہ ضروریاتِ زندگی کا مبادلہ (exchange) عمل میں آئے اور رفتہ رفتہ مبادلۂ اشیا کا ایک واسطہ (medium of exchange) مقرر ہو جائے۔
تیسرے یہ کہ اشیائے ضروریات تیار کرنے کے آلات اور حمل و نقل کے وسائل میں اضافہ ہو اور جتنی نئی چیزیں انسان کے علم میں آئیں ان سب سے وہ فائدہ اٹھاتا چلا جائے۔
چوتھے یہ کہ آدمی کو اس امر کا اطمینان حاصل ہو کہ وہ چیزیں جن کو اس نے خود اپنی محنت سے حاصل کیا ہے، وہ آلات جن سے وہ کام کرتا ہے، وہ زمین جس پر اس نے گھر بنایا ہے، وہ جگہ جس میں وہ اپنے پیشے کا کام کرتا ہے، یہ سب اسی کے قبضے میں رہیں گی اور اس کے بعد ان لوگوں کی طرف منتقل ہوں گی جو دوسروں کی بہ نسبت اس سے قریب تر ہیں۔
اس طرح مختلف پیشوں کا پیدا ہونا، خرید و فروخت، اشیاکی قیمتوں کا تعین، روپے کا معیار قیمت کی حیثیت سے جاری ہونا، بین الاقوامی لین دین اور درآمد برآمد تک نوبت پہنچنا، نئے نئے آلات و وسائل پیدایش (means of production) کا استعمال میں آنا، یہ سب عین مقتضاے فطرت تھا اور ان میں سے کوئی چیز بھی گناہ نہ تھی کہ اب اس سے توبہ کرنے کی ضرورت ہو۔
مزید برآں تمدن کے نشوونما کے ساتھ یہ بھی ضروری تھا کہ:
۱۔ مختلف انسانوں کی قوتوں اور قابلیتوں کے درمیان جو فرق خود فطرت نے رکھا ہے، اس کی وجہ سے بعض انسانوں کو اپنی اصلی ضرورت سے زیادہ کمانے کا موقع مل جائے اور بعض اپنی ضرورت کے مطابق اور بعض اس سے کم کمائیں۔
۲۔ وراثت کے ذریعے سے بھی بعض کو زندگی کا آغاز کرنے کے لیے اچھے وسائل مل جائیں اور بعض کم وسائل کے ساتھ اور بعض بے وسیلہ کار زارِ حیات میں قدم رکھیں۔
۳۔ قدرتی اسباب سے ہر آبادی میں ایسے لوگ موجود رہیں جو کسبِ معاش کے کام میں حصہ لینے اور اسبابِ زندگی کے مبادلہ میں شریک ہونے کے قابل نہ ہوں، مثلاً بچے، بوڑھے، بیمار، معذور وغیرہ۔
۴۔ بعض انسان خدمت لینے والے اور بعض خدمت انجام دینے والے ہوں اور اس طرح آزادانہ صنعت و تجارت اور زراعت کے علاوہ نوکری اور مزدوری کی صورتیں بھی پیدا ہو جائیں۔
یہ سب بھی بجائے خود انسانی تمدن کے فطری مظاہر اور قدرتی پہلو ہیں۔ ان صورتوں کا رونما ہونا بھی اپنی جگہ کوئی برائی یا گناہ نہیں ہے کہ ا ن کے استیصال کی فکر کی جائے۔ تمدن کی خرابی کے دوسرے اسباب سے جو برائیاں پیدا ہوئی ہیں ان کے اصل سبب کو نہ پا کر بہت سے لوگ گھبرا اٹھتے ہیں اور کبھی شخصی ملکیت کو، کبھی روپے کو، کبھی مشین کو، کبھی انسانوں کی فطری نامساوات، اور کبھی خود تمدن ہی کو کوسنے لگتے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ غلط تشخیص اور غلط تجویزِ علاج ہے۔ انسانی فطرت کے تقاضے سے تمدن میں جو نشوونما ہوتا ہے اور اس نشوونما سے فطرتاً جو صورتیں رونما ہوتی ہیں، ان کو روکنے کی ہر کوشش نادانی ہے اور اس کے نتیجے میں فلاح کے بجائے تباہی و نقصان کا زیادہ امکان ہے۔ انسان کا اصل معاشی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ تمدن کی ترقی کو کس طرح روکا جائے ، یا اس کے قدرتی مظاہر کو کس طرح بدلا جائے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ تمدن کے نشوونما کی فطری رفتار کو برقرار رکھتے ہوئے اجتماعی ظلم و بے انصافی کو کیسے روکا جائے، اور فطرت کا یہ منشا کہ ہر مخلوق کو اس کا رزق پہنچے، کیوں کر پورا کیا جائے، اور ان رکاوٹوں کو کس طرح دور کیا جائے جن کی بدولت بہت سے انسانوں کی قوتیں اور قابلیتیں محض وسائل کے فقدان کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہیں۔

معاشی انتظام کی خرابی کا اصل سبب

اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ خرابی کے اصل اسباب کیا ہیں، اور خرابی کی نوعیت کیا ہے۔
نظامِ معیشت کی خرابی کا نقطۂ آغاز خود غرضی کا حدِّ اعتدال سے بڑھ جانا ہے۔ پھر دوسرے رذائل اخلاق اور ایک فاسد نظامِ سیاست کی مدد سے یہ چیز بڑھتی اور پھیلتی ہے، یہاں تک کہ پورے معاشی نظام کو خراب کر کے زندگی کے باقی شعبوں میں بھی اپنا زہریلا اثر پھیلا دیتی ہے۔ ابھی میں بیان کر چکا ہوں کہ شخصی ملکیت اور بعض انسانوں کا بعض کی بہ نسبت بہتر معاشی حالت میں ہونا، یہ دونوں عین فطرت کے مقتضیات تھے اور بجائے خود ان میں کوئی خرابی نہ تھی۔ اگر انسان کی تمام اخلاقی صفات کو توازن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا اور خارج میں بھی ایک ایسا نظام سیاست موجود ہوتا جو زور و قوت کے ساتھ عدل قائم رکھتا، تو ان سے کوئی خرابی پیدا نہ ہوسکتی تھی۔ لیکن جس چیز نے انھیں خرابیوں کی پیدایش کا ذریعہ بنا دیا ،وہ یہ تھی کہ جو لوگ فطری اسباب سے بہتر معاشی حیثیت رکھتے تھے وہ خود غرضی، تنگ نظری، بد اندیشی، بخل، حرص، بددیانتی اور نفس پرستی میں مبتلا ہو گئے۔ شیطان نے انھیں یہ سمجھایا کہ تمھاری اصلی ضرورت سے زائد جو وسائلِ معیشت تمھیں ملتے ہیں، اور جن پرتمھیں حقوقِ مالکانہ حاصل ہیں، ان کے صحیح و معقول مصرف صرف دو ہیں۔ ایک یہ کہ ان کو اپنی آسایش، آرایش، لطف، تفریح اور خوش باشی میں صرف کرو ۔ دوسرے یہ کہ ان کو مزید وسائل معیشت پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کرو، اور بن پڑے تو انھی کے ذریعے سے انسانوں کے خدا اور اَن داتا بھی بن جائو۔

نفس پرستی اور تعیش

پہلی شیطانی تعلیم کا نتیجہ یہ ہوا کہ دولت مندوں نے جماعت کے ان افراد کا حق ماننے سے انکار کر دیا جو دولت کی تقسیم میں حصہ پانے سے محروم رہ جاتے ہیں یا اپنی اصلی ضرورت سے کم حصہ پاتے ہیں۔ انھوں نے یہ بالکل جائز سمجھا کہ ان لوگوں کو فاقہ کشی اور خستہ حالی میں چھوڑ دیا جائے۔ ان کی تنگ نظری نے یہ نہ دیکھا کہ اس رویّے کی وجہ سے انسانی جماعت کے بہت سے افراد جرائم پیشہ بنتے ہیں، جہالت اور دنائت اخلاق میں مبتلا ہوتے ہیں، جسمانی کمزوری اور امراض کا شکار ہوتے ہیں، ان کی ذہنی و جسمانی قوتیں نشوونما پانے اور انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقا میں اپنا حصہ ادا کرنے سے رہ جاتی ہیں، اور اس سے وہ سوسائٹی بحیثیت مجموعی نقصان اٹھاتی ہے جس کے وہ خود بھی ایک جز ہیں۔
اسی پر بس نہیں بلکہ ان دولت مندوں نے اپنی اصلی ضروریات پر بے شمار اور ضروریات کا اضافہ کیا اور بہت سے انسانوں کو، جن کی قابلیتیں تمدن و تہذیب کی بہتر خدمات کے لیے استعمال ہوسکتی تھیں، اپنے نفسِ شریر کی خود ساختہ ضرورتوں کے پورا کرنے میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔
ان کے لیے زنا ایک ضرورت تھی جس کی خاطر فاحشہ عورتوں اور قرمساقوں اور دیّوثوں کا ایک لشکر فراہم ہوا۔ ان کے لیے غنا بھی ایک ضرورت تھی جس کی خاطر گویوں، نچنیوں، سازندوں، اور آلاتِ موسیقی تیار کرنے والوں کی ایک اور فوج تیار کی گئی۔
ان کے لیے بے شمار قسم کی تفریحات بھی ضروری تھیں جن کی خاطر مسخروں، نقالوں، ایکٹروں اور ایکٹرسوں، داستان گوئوں، مصوروں اور نقاشوں اور بہت سے فضول پیشہ وروں کا ایک اور گروہ کثیر مہیا کیا گیا۔
ان کے لیے شکار بھی ضروری تھا جس کی خاطر بہت سے انسان کوئی بھلا کام کرنے کے بجائے اس کام پر لگائے گئے کہ جنگلوں میں جانوروں کو ہانکتے پھریں۔
ان کے لیے سرور و نشاط اور خود رفتگی بھی ایک ضرورت تھی جس کی خاطر بہت سے انسان شراب، کوکین، افیون اور دوسرے مسکّرات کی فراہمی میں مشغول کیے گئے۔ غرض اس طرح ان شیطان کے بھائیوں نے صرف اتنے ہی پر اکتفا نہ کیا کہ بے رحمی کے ساتھ سوسائٹی کے ایک بڑے حصے کو اخلاقی و روحانی اور جسمانی تباہی میں مبتلا ہونے کے لیے چھوڑ دیا ہو، بلکہ مزید ظلم یہ کیا کہ ایک اور بڑے حصے کو صحیح اور مفید کاموں سے ہٹا کر بےہودہ، ذلیل اور نقصان دِہ کاموں میں لگا دیا، اور تمدن کی رفتار کو راہ راست سے ہٹا کر ایسے راستوں کی طرف پھیر دیا جو انسان کو تباہی کی طرف لے جانے والے ہیں۔ پھر معاملہ اسی پر ختم نہیں ہوگیا ۔ انسانی سرمائے (human capital) کو ضائع کرنے کے ساتھ انہوں نے مادی سرمایہ کو بھی غلط طریقے سے استعمال کیا۔
ان کو محلات، کوٹھیوں، گلستانوں، تفریح گاہوں، ناچ گھروں وغیرہ کی ضرورت لاحق ہوئی، حتیٰ کہ مرنے کے بعد زمین میں لیٹنے کے لیے بھی ان کم بختوں کو ایکڑوں زمین اور عالی شان عمارتوں کی حاجت درپیش ہوئی، اور اس طرح وہ زمین،وہ سامان تعمیر اور وہ انسانی محنت، جو بہت سے بندگانِ خدا کے لیے سکونت اور معیشت کا انتظام کرنے کے لیے کافی ہوسکتی تھی، ایک ایک عیاش آدمی کے مستقر اور مستودع پر صرف ہو گئی۔ ان کو زیوروں، نفیس لباسوں، اعلیٰ درجے کے آلات و ظروف، زینت و آرایش کے سامانوں، شان دار سواریوں اور نہ معلوم کن کن چیزوں کی ضرورت پیش آئی۔ حتیٰ کہ ان ظالموں کے دروازے بھی قیمتی پردوں کے بغیر ننگے رہے جاتے تھے، ان کی دیواریں بھی سیکڑوں اور ہزاروں روپے کی تصویروں سے مزین ہوئے بغیر نہ رہ سکتی تھیں، ان کے کمروں کی زمین بھی ہزاروں روپے کے قالین اوڑھنا چاہتی تھی، ان کے کتوں کو بھی مخمل کے گدے اور سونے کے پٹے درکار تھے۔ اس طرح وہ بہت سا مواد اور وہ کثیر انسانی عمل جو ہزارہا انسانوں کا تن ڈھانکنے اور پیٹ بھرنے کے کام آسکتا تھا، ایک ایک شخص کی نفس پرستی کے لیے وقف ہوگیا۔

سرمایہ پرستی

یہ تو شیطانی رہنمائی کے ایک حصے کا نتیجہ تھا۔دوسری رہنمائی کے نتائج اس سے بھی زیادہ خراب نکلے۔ یہ اصول کہ اپنی اصلی ضرورت سے زائد جو وسائل معیشت کسی انسان کے قبضے میں آگئے ہوں، ان کو وہ جمع کرتا چلا جائے اور پھر مزید وسائل معیشت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرے، اول تو بداہتاً غلط ہے۔ ظاہر ہے کہ خدا نے معیشت کے اسباب جو زمین پر پیدا کیے ہیں یہ مخلوق کی حقیقی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے پیدا کیے ہیں۔ تمھارے پاس خوش قسمتی سے اگر کچھ زیادہ اسباب آگئے ہیں تو یہ دوسروں کا حصہ تھا جو تم تک پہنچ گیا۔ اسے جمع کرنے کہاں چلے ہو؟ اپنے گرد و پیش دیکھو۔ جو لوگ سامانِ زیست میں سے اپنا حصہ حاصل کرنے کے قابل نظر نہیں آتے، یا اسے حاصل کرنے میں ناکام رہ گئے ہیں، یا جنھوں نے اپنی ضرورت سے کم پایا ہے، سمجھ لو کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کا حصہ تمھارے پاس پہنچا ہے۔ وہ حاصل نہیں کرسکتے تو تم ان تک پہنچا دو ۔ یہ صحیح کام کرنے کے بجائے اگر تم ان اسباب کو اور زیادہ اسبابِ معاش حاصل کرنے کے لیے استعمال کرو گے تو یہ غلط کام ہو گا، کیوں کہ بہرحال وہ مزید اسباب جو تم حاصل کرو گےتمھاری ضرورت سے اور بھی زیادہ ہوں گے۔ پھر ان کے حصول کی کوشش بجز اس کے کہ تمھاری حرص و ہوس کی تسکین کا ذریعہ ہو اور کیا مفید پہلو رکھتی ہے؟ حصولِ معاش کی سعی میں تم اپنے وقت، محنت اور قابلیت کا جتنا حصہ اپنی ضروریات زندگی فراہم کرنے کے لیے صرف کرتے ہو وہ تو صحیح اور معقول مصرف میں صرف ہوتا ہے ، مگر اس واقعی ضرورت سے زائد ان چیزوں کو اس کام میں صرف کرنے کے معنی یہ ہیں کہ تم معاشی حیوان بلکہ دولت پیدا کرنے کی مشین بن رہے ہو۔ حالانکہ تمھارے وقت و محنت اور ذہنی و جسمانی قوتوں کے لیے کسبِ معاش کے سوا اور زیادہ بہتر مصرف بھی ہیں۔ پس عقل اور فطرت کے لحاظ سے یہ اصول ہی سرے سے غلط ہے جو شیطان نے اپنے شاگردوں کو سکھایا ہے ۔ لیکن اس اصول پر جو عملی طریقے بنے ہیں، وہ تو اس قدر قابلِ لعنت اور ان کے نتائج اتنے ہولناک ہیں کہ ان کا صحیح تخمینہ بھی مشکل ہے۔
زائد از ضرورت وسائل معیشت کو مزید وسائل قبضے میں لانے کے لیے استعمال کرنے کی دو صورتیں ہیں:
ایک یہ کہ ان وسائل کو سود پر قرض دیا جائے۔
دوسرے یہ کہ انھیں تجارتی اور صنعتی کاموں میں لگایا جائے۔
یہ دونوں طریقے اپنی نوعیت میں کچھ ایک دوسرے سے مختلف ضرور ہیں، لیکن دونوں کے مشترک عمل کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سوسائٹی دو طبقوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ ایک وہ قلیل طبقہ جو اپنی ضرورت سے زیادہ وسائلِ معاش رکھتا ہے اور اپنے وسائل کو مزید وسائل کھینچنے کے لیے وقف کر دیتا ہے۔ دوسرا وہ کثیر طبقہ جو اپنی ضرورت کے مطابق یا اس سے کم وسائل رکھتا ہے یا بالکل نہیں رکھتا۔ ان دونوں طبقوں کے مفاد نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کے خلاف ہوتے ہیں بلکہ لامحالہ ان کے درمیان کش مکش اور نزاع برپا ہوتی ہے، اور یوں انسان کا معاشی انتظام جس کو فطرت نے مبادلہ پر مبنی کیا تھا، محاربہ (antagomistic competition) پر قائم ہو کر رہ جاتا ہے۔

نظامِ محاربہ

پھر یہ محاربہ جتنا جتنا بڑھتا جاتا ہے، مال دار طبقہ تعداد میں کم اور نادار طبقہ زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ کیوں کہ اس محاربے کی نوعیت ہی کچھ اس قسم کی ہے کہ جو زیادہ مال دار ہے وہ اپنے مال کے زور سے کم مال دار لوگوں کے وسائل بھی کھینچ لیتا ہے اور اسے نادار طبقے میں دھکیل دیتا ہے۔ اس طرح زمین کے اسبابِ معاش روز بروز کم اور کم تر حصہ آبادی کے پاس سمٹتے چلے جاتے ہیں اور روز بروز زیادہ اور زیادہ حصۂ آبادی مفلس یا مال داروں کا دستِ نگر ہوتا جاتا ہے۔
ابتدائً یہ محاربہ چھوٹے پیمانے پر شروع ہوتا ہے۔ پھر بڑھتے بڑھتے یہ ملکوں اور قوموں تک پھیلتا ہے۔ یہاں تک کہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر بھی ہَلْ مِنْ مَزِیْد ہی کی صدا لگاتا ہے ۔ اس کی صورت یہ ہے کہ جب ایک ملک کا عام دستور یہ ہو جاتا ہے کہ جن لوگوں کے پاس اپنی ضرورت سے زائد مال ہو، وہ اپنے فاضل مال کو نفع آور کاموں میں لگا دیں اور یہ دولت اشیاے ضرورت کی تیاری پر صرف ہو ، تو ان کی لگائی ہوئی پوری رقم کا فائدے سمیت وصول ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ جس قدر اشیا ملک میں تیار ہوتی ہیں، وہ سب کی سب اسی ملک میں خرید لی جائیں، مگر عملاً ایسا نہیں ہوتا اور درحقیقت ہو نہیں سکتا، کیونکہ ضرورت سے کم مال رکھنے والوں کی قوت خریداری کم ہوتی ہے، اس لیے وہ ضرورت مند ہونے کے باوجود ان چیزوں کو خرید نہیں سکتے اور ضرورت سے زیادہ مال رکھنے والے اس فکر میں ہوتے ہیں کہ جتنی آمدنی ہو اس میں سے ایک حصہ پس انداز کر کے مزید نفع آور کاموں میں لگائیں، اس لیے وہ اپنا سب مال خریداری پر صرف نہیں کرتے۔ اس طرح لازمی طور پر تیار کردہ مال کا ایک حصہ فروخت ہوئے بغیر رہ جاتا ہے، جس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ مال داروں کی لگائی ہوئی رقم کا ایک حصہ بازیافت ہونے سے رہ گیا اور یہ رقم ملک کی حرفت (industry) کے ذمے قرض رہی ۔ یہ صرف ایک چکر کا حال ہے۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ایسے جتنے چکر ہوں گے ان میں سے ہر ایک میں مال دار طبقہ اپنی حاصل شدہ آمدنی کا ایک حصہ پھر نفع آور کاموں پر لگاتا چلا جائے گا، اور جو رقمیں بازیافت ہونے سے رہ جاتی ہیں ان کی مقدار ہر چکر میں بڑھتی چلی جائے گی، اور ملک کی حرفت پر ایسے قرض کا باردوگنا، چوگنا، ہزار گنا ہوتا چلا جائے گا، جس کو خود وہ ملک کبھی ادا نہیں کرسکتا۔ اس طرح ایک ملک کو دیوالیہ پن کا جو خطرہ لاحق ہوتا ہے اس سے بچنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ جتنا مال ملک میں فروخت ہونے سے رہ جائے، اسے دوسرے ملکوں میں لے جا کر فروخت کیا جائے، یعنی ایسے ملک تلاش کیے جائیں جن کی طرف یہ ملک اپنے دیوالیہ پن کو منتقل کر دے۔
یوں یہ محاربہ ملکی حدود سے گزر کر بین الاقوامی دائرے میں قدم رکھتا ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ کوئی ایک ملک ہی ایسا نہیں ہے جو اس شیطانی نظامِ معیشت پر چل رہا ہو، بلکہ دنیا کے اکثر ممالک کا یہی حال ہے کہ وہ اپنے آپ کو دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے ، یا بالفاظ دیگر اپنے دیوالے کو کسی اور ملک پر ڈال دینے کے لیے مجبور ہوگئے ہیں۔ اس طرح بین الاقوامی مسابقت شروع ہو جاتی ہے اور وہ چند صورتیں اختیار کرتی ہے۔
اولاً، ہر ملک بین الاقوامی بازار میں اپنا مال بیچنے کے لیے کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم لاگت پر زیادہ سے زیادہ مال تیار کرے۔ اس غرض سے کارکنوں کے معاوضے بہت کم رکھے جاتے ہیں اور اس معاشی کاروبار میں ملک کی عام آبادی اتنا کم حصہ پاتی ہے کہ اس کی اصلی ضروریات بھی پوری نہیں ہوتیں۔
ثانیاً، ہر ملک اپنے حدود میں اور اپنے حلقۂ اثر میں دوسرے ملک کا مال آنے پر بندشیں عائد کرتا ہے، اور خام پیداوار کے جتنے وسائل اس کے زیر اختیار ہیں ان پر بھی پہرے بٹھاتا ہے، تا کہ دوسرا ملک ان سے فائدہ نہ اٹھا سکے ۔ اس سے بین الاقوامی کش مکش پیدا ہوتی ہے جس کا انجام جنگ پر ہوتا ہے۔
ثالثا ً، ایسے ملک جو اس دیوالیہ پن کی مصیبت کو اپنے سر چپکے جانے سے روک نہیں سکتے، ان پر یہ لٹیرے ٹوٹ پڑتے ہیں اور صرف اپنے ملک کے بچے کھچے مال ہی کو ان میں فروخت کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ جس دولت کو خود اپنے ہاں نفع آور کاموں پر لگانے کی گنجایش نہیں ہوتی اسے بھی ان ممالک میں لے جا کر لگاتے ہیں۔ اس طرح آخر کار ان ممالک میں بھی وہی مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے جو ابتداءــ ً ـخود روپیہ لگانے والے ملکوں میں پیدا ہوا تھا ۔ یعنی جس قدر روپیہ وہاں لگایا جاتا ہے وہ سارے کا سارا وصول نہیں ہوسکتا، اور اس روپے سے جتنی بھی آمدنی ہوتی ہے، اس کا ایک بڑا حصہ پھر مزید نفع آور کاموں میں لگا دیا جاتا ہے، حتیٰ کہ ان ملکوں پر قرض کا بار اتنا بڑھتا چلا جاتا ہے کہ اگر خود ان ملکوں کوبیچ ڈالا جائے تب بھی کل لگائی ہوئی رقم بازیافت نہیں ہوسکتی ۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ چکر یونہی چلتا رہے تو بالآخر تمام دنیا دیوالیہ ہو جائے گی اور رُوے زمین پر کوئی خطہ ایسا باقی نہ رہے گا جس کی طرف اس دیوالیہ پن کی مصیبت کو منتقل کیا جاسکے، حتیٰ کہ پھر ضرورت پیش آئے گی، کہ مشتری اور مریخ اور عطارد میں روپیہ لگانے اور زائد مال کو کھپانے کے لیے مارکیٹ تلاش کیے جائیں۔

چند سری نظام

اس عالمگیر محاربے میں بینکروں، آڑھتیوں اور صنعت و تجارت کے رئیسوں کی ایک مٹھی بھر جماعت تمام دنیا کے معاشی اسباب و وسائل پر اس طرح حاوی ہو گئی ہے کہ ساری نوعِ انسانی ان کے مقابلے میں بالکل بے بس ہے۔ اب کسی شخص کے لیے یہ قریب قریب ناممکن ہوگیا ہے کہ اپنے ہاتھ پائوں کی محنت سے اور اپنے دماغ کی قابلیت سے کوئی آزادانہ کام کرسکے اور خدا کی زمین پر جو اسبابِ زندگی موجود ہیں، ان میں سے خود کوئی حصہ حاصل کرسکے۔ چھوٹے تاجر، چھوٹے صنّاع، چھوٹے زراعت پیشہ کے لیے آج دنیا کے عرصۂ حیات میں ہاتھ پائوں مارنے کی گنجایش باقی نہیں رہی ہے۔ سب کے سب مجبور ہیں کہ معاشی کاروبار کے ان بادشاہوں کے غلام اور نوکر اور مزدور بن کر رہیں، اور یہ لوگ کم سے کم سامانِ زیست کے معاوضے میں ان کے جسم و دماغ کی ساری قوتیں اور ان کا سارا وقت لے لیتے ہیں، جس کی وجہ سے پوری نوع انسانی بس ایک معاشی حیوان بن کر رہ گئی ہے۔ بہت کم خوش قسمت انسانوں کو اس معاشی کشمکش میں اتنی فرصت نصیب ہوتی ہے کہ اپنے اخلاقی، عقلی، روحانی ارتقا کے لیے بھی کچھ کرسکیں، اور پیٹ بھرنے سے بالاتر بھی کسی مقصد کی طرف توجہ کرسکیں، اور اپنی شخصیت کے ان عناصر کو بھی نشوونما دے سکیں جو تلاشِ معاش کے سوا دوسری پاکیزہ تر اغراض کے لیے خدا نے ان کے اندر ودیعت کیے تھے۔ درحقیقت اس شیطانی نظام کی بدولت معاشی کشمکش اس قدر سخت ہو جاتی ہے کہ زندگی کے تمام دوسرے شعبے اس سے مائوف و معطل ہو جاتے ہیں۔
انسان کی مزید بدنصیبی یہ ہے کہ دنیا کے اخلاقی فلسفے، سیاسی نظامات اور قانونی اصول بھی اس شیطانی نظامِ معیشت سے متاثر ہوگئے ۔مشرق سے مغرب تک ہر طرف اخلاقی معلمین کفایت شعاری پر زور دے رہے ہیں۔ جتنا کمانا اتنا ہی خرچ کر دینا ایک حماقت اور اخلاقی عیب سمجھا جاتا ہے، اور ہر شخص کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ اپنی آمدنی میں سے کچھ نہ کچھ پس انداز کر کے بینک میں ڈیپازٹ رکھے، یا انشورنس پالیسی خریدے، یا کمپنیوں کے شیئرز حاصل کرے۔ گویا جو چیز انسانیت کو تباہ کرنے والی ہے وہی اخلاق کی نظر میں معیارِ خوبی بن گئی ہے ۔ رہی سیاسی طاقت تو وہ عملاً بالکل ہی ایک شیطانی نظام کے قبضے میں آ چکی ہے۔ وہ بجائے اس کے کہ اس ظلم سے انسان کو بچائے، ظلم کی آلۂ کار بنی ہوئی ہے اور ہر طرف حکومت کی گدیوں پر شیطان کے ایجنٹ بیٹھے نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح دنیا کے قوانین بھی اسی نظام کے زیر اثر مرتب ہو رہے ہیں ۔ ان قوانین نے عملاً افراد کو پوری آزادی دے رکھی ہے کہ جس طرح چاہیں جماعت کے مفاد کے خلاف اپنی معاشی اغراض کے لیے جدوجہد کریں۔
روپیہ کمانے کے طریقوں میں جائز اور ناجائز کا امتیاز قریب قریب مفقود ہے۔ ہر وہ طریقہ جس سے کوئی شخص دوسروں کو لوٹ کر یا تباہ کر کے مال دار بن سکتا ہو، قانون کی نظر میں جائز ہے۔ شراب بنایئے اور بیچیے، بداخلاقی کے اڈے قائم کیجیے، شہوانی فلم بنایئے، فحش مضامین لکھیے، جذبات کو بھڑکانے والی تصویریں شائع کیجیے، سٹّے کا کاروبار پھیلایئے، سودخوری کے ادارے قائم کیجئے، قمار بازی کی نئی نئی صورتیں نکالیے، غرض جو چاہیے کیجئے، قانون نہ صرف آپ کو اس کی اجازت دے گا، بلکہ الٹی آپ کے حقوق کی حفاظت کرے گا۔ پھر جو دولت اس طریقے سے سمٹ کر ایک شخص کے پاس جمع ہو گئی ہو، قانون یہ چاہتا ہے کہ وہ اس کے مرنے کے بعد بھی ایک ہی جگہ سمٹی رہے۔ چنانچہ اولادِ اکبر کے وارث ہونے کا طریقہ (rule of primogeniture)، اور بعض قوانین میں متبنیٰ بنانے کا طریقہ، اور مشترک خاندان کا طریقہ (joint family system)، ان سب کی غرض یہی ہے کہ خزانے کا ایک سانپ جب مرے تو دوسرا سانپ اس پر بٹھا دیا جائے، اور اگر بدقسمتی سے اس سانپ نے کوئی سپولیا نہ چھوڑا ہو تو کہیں اور سے ایک سپولیا حاصل کیا جائے تاکہ دولت کے اس سمٹائو میں فرق نہ آنے پائے۔
یہ اسباب ہیں جن سے نوعِ انسانی کے لیے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے کہ خدا کی اس زمین پر ہر شخص کو سامانِ زیست بہم پہنچنے کا انتظام کس طرح کیا جائے اور ہر شخص کو اپنی استعداد کے مطابق ترقی کرنے اور اپنی شخصیت کو نشوونما دینے کے مواقع کیسے ملیں۔

اِشتراکیت کا تجویز کردہ حل

اس مسئلے کے حل کی ایک صورت اشتراکیت نے تجویز کی ہے، اور وہ یہ ہے کہ پیدایش دولت کے وسائل افراد کی ملکیت سے نکال کر جماعتی ملکیت بنا دیے جائیں، اور ضروریات زندگی کو افراد پر تقسیم کرنے کا انتظام بھی جماعت ہی کے سپرد ہو۔ بظاہر یہ حل نہایت معقول نظر آتا ہے، لیکن اس کے عملی پہلوئوں پر آپ جس قدر غور کریں گے، اسی قدر آپ پر اس کے نقائص کھلتے چلے جائیں گے، یہاں تک کہ آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ آخرکار اس کے نتائج بھی اتنے ہی خراب ہیں جتنے اس بیماری کے نتائج ہیں جس کا علاج کرنے کے لیے اسے اختیار کیا گیا ہے۔

نیا طبقہ

یہ بالکل ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ وسائل پیدایش سے کام لینے اور پیداوار کو تقسیم کرنے کا انتظام خواہ نظری طور پر (theoratically) پوری جماعت کے حوالے کر دیا جائے، مگر عملاً یہ کام ایک مختصر سی ہیئتِ انتظامیہ (executive) ہی کے سپرد کرنا ہوگا۔ یہ مختصر گروہ ابتداء ً جماعت (community) ہی کا منتخب کردہ سہی، لیکن جب تمام ذرائع معاش اس کے قبضے میں ہوں گے اور اسی کے ہاتھوں سے لوگوں تک پہنچ سکیں گے ، تو تمام آبادی اس کی مٹھی میں بے بس ہو جائے گی۔ اس کی رضا کے خلاف ملک میں کوئی دم تک نہ مار سکے گا۔ اس کے مقابلے میں کوئی ایسی منظم طاقت ابھر ہی نہ سکے گی جو اس کو منصبِ اقتدار سے ہٹا سکے ۔ اس کی نظر کسی سے پھر جانے کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ قصور وار بندہ اس سرزمین میں زندگی بسر کرنے کے تمام وسائل سے محروم ہو جائے ، کیوں کہ سارے وسائل پر اس مختصر گروہ کا تسلط ہوگا۔ مزدور میں اتنا یارانہ ہوگا کہ اس کے انتظام سے ناراض ہو تو اسٹرائک کر دے، کیوں کہ وہاں بہت سے کارخانہ دار نہ ہوں گے کہ ایک کے در سے اٹھے تو دوسرے کے دروازے پر چلا جائے، بلکہ سارے ملک میں ایک ہی کارخانہ دار ہوگا، اور وہی حکمران بھی ہوگا ، اور اس کے خلاف کسی رائے عام کی ہمدردی بھی حاصل نہ کی جاسکے گی۔ اس طرح یہ صورت جس نتیجے پر جا کر ختم ہوگی وہ یہ ہے کہ تمام سرمایہ داروں کو کھا کر ایک بڑا سرمایہ دار، تمام کارخانہ داروں اور زمینداروں کو کھا کر ایک بڑا کارخانہ دار اور زمیندار لوگوں پر مسلط ہو جائے، اور وہی بیک وقت زار اور قیصر بھی ہو۔

نظامِ جبر

اول تو یہ اقتدار، اور ایسا مطلق اقتدار وہ چیز ہے جس کے نشے میں بہک کر ظالم و جابر بننے سے رک جانا انسان کے لیے بہت مشکل ہے، خصوصاً جبکہ وہ اپنے اوپر کسی خدا کا اور اس کے سامنے جواب دہی کا اعتقاد بھی نہ رکھتا ہو۔ تاہم اگر یہ مان لیا جائے کہ ایسے اقتدارِ مطلق پر قابض ہونے کے بعد بھی یہ مختصر گروہ آپے سے باہر نہ ہوگا اور عدل و انصاف ہی کے ساتھ کام کرے گا، تب بھی ایسے ایک نظام میں افراد کے لیے اپنی شخصیت کو نشوونما دینے کا کوئی موقع نہیں ہوسکتا ۔ انسانی شخصیت اپنے ارتقا کے لیے سب سے بڑھ کر جس چیز کی محتاج ہے وہ یہ ہے کہ اسے آزدی حاصل ہو، کچھ وسائلِ کار اس کے اپنے ہاتھ میں ہوں جنھیں وہ اپنے اختیار سے استعمال کرسکے، اور ان وسائل پر اپنے رجحان کے مطابق کام کر کے اپنی مخفی قوتوں کو ابھارے اور چمکائے۔ مگر اشتراکی نظام میں اس کا کوئی امکان نہیں۔ اس میں وسائل افراد کے اختیار میں نہیں رہتے بلکہ جماعت کی ہیئت انتظامیہ کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں، اور وہ ہیئت انتظامیہ جماعتی مفاد کا جو تصور رکھتی ہے اسی کے مطابق ان وسائل کو استعمال کرتی ہے۔ افراد کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ اگر وہ ان وسائل سے استفادہ کرنا چاہیں تو اس نقشے کے مطابق کام کریں، بلکہ اسی نقشے کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالے جانے کے لیے ان منتظمین کے سپرد کر دیں، جوانھوں نے جماعتی مفاد کے لیے تجویز کیا ہے۔ یہ چیز عملاً سوسائٹی کے تمام افراد کو چند انسانوں کے قبضے میں اس طرح دے دیتی ہے کہ گویا وہ سب بے روح موادِ خام ہیں۔ اور جیسے چمڑے کے جوتے اور لوہے کے پرزے بنائے جاتے ہیں اس طرح وہ چند انسان مختار ہیں کہ ان سب سے انسانوں کو اپنے نقشے کے مطابق ڈھالیں اور بنائیں۔

شخصیت کا قتل

انسانی تمدن و تہذیب کے لیے اس کا نقصان اس قدر زیادہ ہے کہ اگر بالفرض اس نظام کے تحت ضروریاتِ زندگی انصاف کے ساتھ تقسیم بھی ہوں تو اس کا فائدہ اس کے نقصان کے مقابلے میں ہیچ ہو جاتا ہے، تمدن و تہذیب کی ساری ترقی منحصر ہے اس پر کہ مختلف انسان جو مختلف قسم کی قوتیں اور قابلیتیں لے کر پیدا ہوتے ہیں، ان کو پوری طرح نشوونما پانے اور پھر اپنا اپنا حصہ اس مشترک زندگی میں ادا کرنے کا موقع ملے۔ یہ بات ایسے نظام میں حاصل نہیں ہوسکتی جس کے اندر انسانوں کا پلاننگ (planning) کیا جاتا ہو۔ چند انسان، خواہ وہ کتنے ہی لائق اور کتنے ہی نیک اندیش ہوں، بہرحال اتنے علیم و خبیر نہیں ہوسکتے کہ لاکھوں اور کروڑوں آدمیوں کی خلقی قابلیتوں اور ان کے فطری رجحانات کا صحیح اندازہ کرسکیں اور پھر ان کے نشوونما کا ٹھیک ٹھیک راستہ معین کرسکیں۔ وہ اس میں علم کے اعتبار سے بھی غلطی کریں گے، اور جماعتی مفاد یا جماعتی ضروریات کے متعلق جو تخمینہ ان کے ذہن میں ہوگا، اس کے لحاظ سے بھی یہ چاہیں گے کہ ان کے زیر اثر انسانوں کی جتنی آبادی ہو وہ ان کے نقشہ پر ڈھال دی جائے۔ اس سے تمدن کی گونا گونی ختم ہو کر ایک بے روح یکسانی میں تبدیل ہو جائے گی۔ اس سے تمدن کا فطری ارتقا بند اور ایک طرح کا مصنوعی اور جعلی ارتقا شروع ہو جائے گا۔ اس سے انسانی قوتیں ٹھٹھرتی چلی جائیں گی اور بالآخر ایک شدید ذہنی و اخلاقی انحطاط رونما ہوگا۔ انسان بہرحال چمن کی گھاس اور بیل بوٹے نہیں ہیں کہ ایک مالی انہیں کاٹ چھانٹ کر مرتب کرے اور وہ اسی کے نقشے پر بڑھتے اورگھٹتے رہیں۔ ہر آدمی اپنا ایک تشخص رکھتا ہے جو اپنی فطری رفتار پر بڑھنا چاہتا ہے۔ تم اس کی یہ آزادی سلب کرو گے تو وہ تمہارے نقشے پر نہیں بڑھے گا بلکہ بغاوت کرے گا یا مرجھا کر رہ جائے گا۔
اشتراکیت کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ معاش کے مسئلے کو مرکزی مسئلہ قرار دے کر پوری انسانی زندگی کو اس کے گرد گھما دیتی ہے۔ زندگی کے کسی مسئلے پر بھی اس کی نظر مجرد تحقیقی نظر نہیں ہے۔ بلکہ سارے مسائل کو وہ ایک گہرے معاشی تعصب کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ما بعد الطبیعیات، اخلاق، تاریخ، سائنس، علوم عمران، غرض ہر چیز اس کے دائرے میں معاشی نقطۂ نظر سے مغلوب و متاثر ہے اور اس یک رُخے پن کی وجہ سے زندگی کا پورا توازن بگڑ جاتا ہے۔

فاشزم کا حل

پس درحقیقت اشتراکی نظریہ انسان کے معاشی مسئلے کا کوئی صحیح فطری حل نہیں ہے بلکہ ایک غیر فطری مصنوعی حل ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرا حل فاشزم اور نیشنل سوشلزم نے پیش کیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ وسائلِ معیشت پر شخصی تصرف تو باقی رہے، مگر جماعتی مفاد کی خاطر اس تصرف کو ریاست کے مضبوط کنٹرول میں رکھا جائے۔ لیکن عملاً اس کے نتائج بھی اشتراکی نظریے کے نتائج سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتے ۔ اشتراکیت کی طرح یہ نظریہ بھی فرد کو جماعت میں گم کر دیتا ہے، اور اس کی شخصیت کے آزادانہ نشوونما کا کوئی موقع باقی نہیں چھوڑتا۔ مزید برآں جو ریاست اس شخصی تصرف کو قابو میں رکھتی ہے، وہ اتنی ہی مستبد اور جابر و قاہر ہوتی ہے جتنی اشتراکی ریاست۔ ایک بڑے ملک کی تمام حرفت کو اپنے پنجۂ اقتدار میں رکھنے اور اپنے دیے ہوئے نقشے پر کام کرنے کے لیے مجبور کرنا بڑی زبردست قوتِ قاہرہ چاہتا ہے، اور جس ریاست کے ہاتھ میں ایسی قاہرانہ طاقت ہو، اس کے ہاتھ میں ملک کی آبادی کا بے بس ہو جانا اور حکمرانوں کا غلام بن کر رہ جانا بالکل یقینی ہے۔

اسلام کا حل

اب میں یہ بتائوں گا کہ اسلام کس طرح اس مسئلے کو حل کرتا ہے۔

بنیادی اصول

اسلام نے تمام مسائل حیات میں اس قاعدے کو ملحوظ رکھا ہے کہ زندگی کے جو اصول فطری ہیں ان کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے ، اور فطرت کے راستے سے جہاں انحراف ہوا ہے وہیں سے اس کو موڑ کر فطرت کے راستے پر ڈال دیا جائے۔ دوسرا اہم قاعدہ جس پر اسلام کی تمام اجتماعی اصلاحات مبنی ہیں وہ یہ ہے کہ صرف خارجی طور پر نظامِ تمدن میں چند ضابطے جاری کرنے ہی پر اکتفا نہ کیا جائے، بلکہ سب سے زیادہ زور اخلاق اور ذہنیت کی اصلاح پر صرف کیا جائے، تا کہ نفسِ انسانی میں خرابی کی جڑ کٹ جائے۔ تیسرا اساسی قاعدہ جس کا نشان آپ کو تمام اسلامی نظامِ شریعت میں ملے گا، یہ ہے کہ حکومت کے جبر اور قانون کے زور سے صرف وہیں کام لیا جائے جہاں ایسا کرنا ناگزیر ہو۔
ان تین قاعدوں کو ملحوظ رکھ کر اسلام زندگی کے معاشی شعبے میں ان تمام غیر فطری طریقوں کو زیادہ سے زیادہ اخلاقی اصلاح اور کم سے کم حکومتی مداخلت کے ذریعے سے مٹاتا ہے جو شیطانی اثر سے انسان نے اختیار کیے ہیں۔ یہ امر کہ انسان اپنی معاش کے لیے جدوجہد کرنے میں آزاد ہو، یہ بات کہ آدمی اپنی محنت سے جو کچھ حاصل کرے اس پر اسے حقوقِ مالکانہ حاصل ہوں، اور یہ کہ انسانوں کے درمیان ان کی قابلیتوں اور ان کے حالات کے لحاظ سے فرق و تفاوت ہو، ان سب چیزوں کو اسلام اس حد تک تسلیم کرتا ہے جس حد تک یہ منشاے فطرت کے مطابق ہیں۔ پھر وہ ان پر ایسی پابندیاں عائد کرتا ہے جو انھیں حدِ فطرت سے متجاوز اور ظلم ونا انصافی کا موجب نہ بننے دیں۔

حصولِ دولت

سب سے پہلے دولت کمانے کے سوال کو لیجیے۔ اسلام نے انسان کے اس حق کو تسلیم کیا ہے کہ خدا کی زمین میں وہ اپنی طبیعت کے رجحان اور اپنی استعداد و قابلیت کے مطابق خود اپنی زندگی کا سامان تلاش کرے۔ لیکن وہ اس کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اپنی معاش حاصل کرنے کے لیے اخلاق کو خراب کرنے والے یا تمدن کے نظام کو بگاڑنے والے ذرائع اختیار کرے۔ وہ کسبِ معاش کے ذرائع میں حرام اور حلال کی تمیز قائم کرتا ہے اور نہایت تفصیل کے ساتھ چن چن کر ایک ایک نقصان رساں طریقے کو حرام کر دیتا ہے۔ اس کے قانون میں شراب اور دوسری نشہ آور چیزیں نہ صرف بجائے خود حرام ہیں، بلکہ ان کا بنانا، بیچنا، خریدنا، رکھنا سب حرام ہے ۔ وہ زنا اور رقص و سرود اور اسی قسم کے دوسرے ذرائع کو بھی جائز ذرائع کسبِ معاش تسلیم نہیں کرتا ۔ وہ ایسے تمام وسائلِ معیشت کو بھی ناجائز ٹھیراتا ہے جن میں ایک شخص کا فائدہ دوسرے لوگوں کے یا سوسائٹی کے نقصان پر مبنی ہے۔ رشوت، چوری، جوا، اور سٹہ، دھوکے اور فریب کے کاروبار، اشیاے ضرورت کو اس غرض سے روک رکھنا کہ قیمتیں گراں ہوں، معاشی وسائل کو کسی ایک شخص یا چند اشخاص کا اجارہ قرار دینا کہ دوسروں کے لیے جدوجہد کا دائرہ تنگ ہو، ان سب طریقوں کو اس نے حرام ٹھیرایاہے۔ نیز کاروبار کی ایسی تمام شکلوں کو اس نے چھانٹ چھانٹ کر ناجائز قرار دیا ہے جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے نزاع (litigation) پیدا کرنے والی ہوں، یا جن میں نفع و نقصان بالکل بخت و اتفاق پر مبنی ہو، یا جن میں فریقین کے درمیان حقوق کا تعین نہ ہو۔ اگر آپ اسلام کے اس تجارتی قانون کا تفصیلی مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آج جن طریقوں سے لوگ کروڑ پتی اور ارب پتی بنتے ہیں، ان میں سے بیشتر طریقے وہ ہیں جن پر اسلام نے سخت قانونی بندشیں عائد کر دی ہیں ۔ وہ جن وسائل کسبِ معاش کو جائز ٹھیراتا ہے، ان کے دائرے میں محدود رہ کر کام کیا جائے تو اشخاص کے لیے بے اندازہ دولت سمیٹتے چلے جانے کا بہت کم امکان ہے۔

حقوقِ ملکیت

اب دیکھیے۔ جائز ذرائع سے جو کچھ انسان حاصل کرے، اس پر اسلام اس شخص کے حقوقِ ملکیت تو تسلیم کرتا ہے، مگر اس کے استعمال میں اسے بالکل آزاد نہیں چھوڑتا، بلکہ اس پر بھی متعدد طریقوں سے پابندیاں عائد کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کمائی ہوئی دولت کے استعمال کی تین ہی صورتیں ممکن ہیں۔ یا اس کو خرچ کیا جائے یا اسے مزید نفع آور کاموں پر لگایا جائے۔ یا اسے جمع کیا جائے۔ ان میں سے ایک ایک پر اسلام نے جو پابندیاں عائد کی ہیں، ان کی مختصر کیفیت میں یہاں بیان کرتا ہوں۔

اصولِ صَرف

خرچ کرنے کے جتنے طریقے اخلاق کو نقصان پہنچانے والے ہیں یا جن سے سوسائٹی کو نقصان پہنچتا ہے، وہ سب ممنوع ہیں۔ آپ جُوئے میں اپنی دولت نہیں اڑا سکتے۔ آپ شراب نہیں پی سکتے۔ آپ زنا نہیں کر سکتے، آپ گانے بجانے اورناچ رنگ اور عیاشی کی دوسری صورتوں میں اپنا روپیہ نہیں بہا سکتے۔ آپ ریشمی لباس نہیں پہن سکتے۔ آپ سونے اور جواہر کے زیورات یا برتن استعمال نہیں کرسکتے۔ آپ تصویروں سے اپنی دیواروں کو مزین نہیں کرسکتے۔ غرض یہ کہ اسلام نے ان تمام دروازوں کو بند کر دیا ہے جن سے انسان کی دولت کا بیشتر حصہ اس کی اپنی نفس پرستی پر صرف ہو جاتا ہے۔ وہ خرچ کی جن صورتوں کو جائز رکھتا ہے وہ اس قسم کی ہیں کہ آدمی بس ایک اوسط درجے کی شستہ اور پاکیزہ زندگی بسر کرلے۔ اس سے زائد اگر کچھ بچتا ہو تو اسے خرچ کرنے کا راستہ اس نے یہ تجویز کیا ہے کہ اسے نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ، رفاہِ عام میں، اور ان لوگوں کی امداد میں صرف کیا جائے جو معاشی دولت میں سے اپنی ضرورت کے مطابق حصہ پانے سے محروم رہ گئے ہیں۔
اسلام کے نزدیک بہترین طرزِ عمل یہ ہے کہ آدمی جو کچھ کمائے اسے اپنی جائز اور معقول ضرورتوں پر خرچ کرے اور پھر بھی جو بچ رہے ،اسے دوسروں کو دے دے تا کہ وہ اپنی ضرورتوں پر خرچ کریں، اس صفت کو اسلام نے بلند ترین اخلاق کے معیاروں میں داخل کیا ہے اور ایک آئیڈیل کی حیثیت سے اس کو اتنے زور کے ساتھ پیش کیا ہے کہ جب کبھی سوسائٹی پر اسلامی اخلاقیات کا اثر غالب ہوگا، اجتماعی زندگی میں وہ لوگ زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے جو کمائیں اور خرچ کر دیں، اور ان لوگوں کو اچھی نگاہ سے نہ دیکھا جائے گا جو دولت کو سمیٹ سمیٹ کر رکھنے کی کوشش کریں، یا کمائی ہوئی دولت کے بچے ہوئے حصے کو پھر کمانے کے کام میں لگانا شروع کر دیں۔

سرمایہ پرستی کا استیصال

تاہم مجرد اخلاقی تعلیم کے ذریعے سے، اور سوسائٹی کے اخلاقی اثر اور دبائو سے غیر معمولی حرص و طمع رکھنے والے لوگوں کی کمزوریوں کا بالکل استیصال نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود پھر بھی بہت سے ایسے لوگ باقی رہیں گے جو اپنی ضرورت سے زیادہ کمائی ہوئی دولت کو پھر مزید زائد از ضرورت دولت کمانے میں لگانا چاہیں گے۔ اس لیے اسلام نے اس کے استعمال کے طریقوں پر چند قانونی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس بچی ہوئی دولت کے استعمال کا یہ طریقہ کہ اسے سود پر چلایا جائے اسلامی قانون میں قطعی حرام ہے۔ اگر آپ کسی کو اپنا مال قرض دیتے ہیں تو خواہ اس نے وہ قرض اپنی ضرورتوں پر خرچ کرنے کے لیے لیا ہو، یا وسیلہ معاش پیدا کرنے کے لیے، بہرحال آپ اس سے صرف اپنا اصل مال ہی واپس لینے کے حق دار ہیں ۔ اس طرح اسلام ظالمانہ سرمایہ داری کی کمر توڑ دیتا ہے، اور اس سب سے بڑے ہتھیار کو کند کر دیتا ہے جس کے ذریعے سے سرمایہ دار محض اپنے سرمایہ کے بل پر آس پاس کی معاشی دولت سمیٹتا چلا جاتا ہے۔ رہا فاضل دولت کے استعمال کا یہ طریقہ کہ اسے انسان خود اپنی تجارت یا صنعت و حرفت یا دوسرے کاروبار میں لگائے ، یا دوسروں کے ساتھ نفع و نقصان کا شریک ہو کر سرمایہ فراہم کرے، تو اسلام اسے جائز رکھتا ہے، اور اس سے جو زائد از ضرورت دولت اشخاص کے پاس سمٹ جاتی ہے اس کا علاج دوسرے طریقوں سے کرتا ہے۔

تقسیم ِ دولت اور کفالتِ عامہ

اسلام نے زائد از ضرورت دولت کے جمع کرنے کو معیوب قرا ر دیا ہے۔ جیسا کہ ابھی میں کہہ چکا ہوں، اس کا مطالبہ یہ ہے کہ جو کچھ مال تمھارے پاس ہے یا تو اسے اپنی ضروریات خریدنے پر صرف کرو، یا کسی جائز کاروبار میں لگائو، یا دوسروں کو دو کہ وہ اس سے اپنی ضروریات خریدیں اور اس طرح پوری دولت برابر گردش میں آتی رہے۔ لیکن اگر تم ایسا نہیں کرتے اور جمع کرنے ہی پر اصرار کرتے ہو تو تمھاری اس جمع کردہ دولت میں سے ازروئے قانون ڈھائی(5.2) فیصدی سالانہ رقم نکلوالی جائے گی اور اسے ان لوگوں کی اعانت پر صرف کیا جائے گا جو معاشی جدوجہد میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہیں، یا سعی وجہد کرنے کے باوجود اپنا پورا حصہ پانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اسی چیز کا نام زکوٰۃ ہے اور اس کے انتظام کی صورت جو اسلام نے تجویز کی ہے، وہ یہ ہے کہ اسے جماعت کے مشترک خزانےمیں جمع کیا جائے، اور خزانہ ان تمام لوگوں کی ضروریات کا کفیل بن جائے جو مدد کے حاجت مند ہیں، یہ دراصل سوسائٹی کے لیے انشورنس کی بہترین صورت ہے، اور ان تمام خرابیوں کا استیصال کرتی ہے جو اجتماعی امداد و معاونت کا کوئی باقاعدہ انتظام نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔
سرمایہ داری نظام میں جو چیز انسان کو دولت جمع کرنے اور اسے نفع آور کاموں میں لگانے پر مجبور کرتی ہے، اور جس کی وجہ سے لائف انشورنس وغیرہ کی ضرورت پیش آتی ہے ، وہ یہ ہے کہ ہر شخص کی زندگی اس نظام میں اپنے ہی ذرائع پرمنحصر ہے۔ بوڑھا ہو جائے اور کچھ بچا کر نہ رکھا ہو تو بھوکا مر جائے۔ بال بچوں کے لیے کچھ چھوڑے بغیر مرے تو وہ دَربدر مارے مارے پھریں اور بھیک کا ٹکڑا تک نہ پاسکیں۔ بیمار ہو جائے اور کچھ بچا بچایا نہ رکھا ہو تو علاج تک نہ کراسکے۔ گھر جل جائے یا کاروبار میں نقصان ہو، یا کوئی اور آفت ناگہانی آجائے تو کسی طرف سے اس کو سہارا ملنے کی امید نہیں۔
اسی طرح سرمایہ داری نظام میں جو چیز محنت پیشہ لوگوں کو سرمایہ داروں کا زر خرید غلام بن جانے اور ان کی شرائط پر کام کرنے کے لیے مجبور کرتی ہے وہ بھی یہی ہے کہ جو کچھ اس کی محنت کا معاوضہ سرمایہ دار دیتا ہے اسے لینا اگر غریب آدمی قبول نہ کرے تو فاقہ کرے اور ننگا پھرے۔ سرمایہ دار کی بخشیش سے منہ موڑ کر اسے دو وقت کی روٹی میسر آنی مشکل ہے۔ پھر یہ لعنتِ کُبریٰ جو آج سرمایہ داری نظام کی بدولت دنیا پر مسلط ہے کہ ایک طرف لاکھوں کروڑوں انسان حاجت مند موجود ہیں اور دوسری طرف زمین کی پیداوار اور کارخانوں کی مصنوعات کے انبار لگے ہوئے ہیں مگر خریدے نہیں جاسکتے، حتیٰ کہ لاکھوں من گیہوں سمندر میں پھینکا جاتا ہے اور بھوکے انسانوں کے پیٹ تک نہیں پہنچتا، اس کا سبب بھی یہی ہے کہ حاجت مند انسانوں تک وسائل معیشت پہنچانے کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ ان سب کے اندر قوتِ خریداری پیدا کر دی جائے اور وہ اپنے حسبِ حاجت اشیا خریدنے کے قابل ہو جائیں، تو صنعت، تجارت، زراعت، غرض ہر انسانی حرفت پھلتی پھولتی چلی جائے۔
اسلام زکوٰۃ اور بیت المال کے ذریعے سے ان ساری خرابیوں کا استیصال کرتا ہے۔ بیت المال ہر وقت آپ کی پشت پر ایک مددگار کی حیثیت سے موجود ہے۔ آپ کو فکرِ فردا کی ضرورت نہیں۔ جب آپ حاجت مند ہوں، بیت المال میں جایئے اور اپنا حق لے آیئے، پھر بنک ڈیپازٹ اور انشورنس پالیسی کی کیا ضرورت؟ آپ اپنے بال بچوں کو چھوڑ کر باطمینانِ تمام دنیا سے رخصت ہوسکتے ہیں۔ آپ کے پیچھے جماعت کا خزانہ ان کا کفیل ہے۔ بیماری، بڑھاپے، آفاتِ ارضی و سماوی، ہر صورت حال میں بیت المال وہ دائمی مددگار ہے جس کی طرف آپ رجوع کرسکتے ہیں۔ سرمایہ دار آپ کو مجبور نہیں کرسکتا کہ آپ اسی کی شرائط پر کام کرنا قبول کریں۔ بیت المال کی موجودگی میں آپ کے لیے فاقے اور برہنگی اور بے سائیگی کا کوئی خطرہ نہیں۔ پھر یہ بیت المال سوسائٹی کے تمام ان لوگوں کو اشیاے ضرورت خریدنے کے قابل بنا دیتا ہے جو دولت پیدا کرنے کے بالکل ناقابل ہوں یا کم پیدا کر رہے ہوں۔ اس طرح مال کی تیاری اور اس کی کھپت کا توازن پیہم قائم رہتا ہے اور اس کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ آپ اپنے دیوالیہ پن کو دنیا بھر کے سر چپکنیے کے لیے دوڑتے پھریں اور آخر کار دوسرے سیاروں تک پہنچنے کی ضرورت پیش آئے۔
زکوٰۃ کے علاوہ دوسری تدبیر جو ایک سمٹی ہوئی دولت کو پھیلانے کے لیے اسلام نے اختیار کی ہے ،وہ قانونِ وراثت ہے۔ اسلام کے سوا دوسرے قوانین کا رجحان اس طرف ہے کہ جو دولت ایک شخص نے زندگی بھر سمیٹی ہے وہ اس کے مرنے کے بعد بھی سمٹی رہے۔ مگر اس کے برعکس اسلام یہ طریقہ اختیار کرتا ہے کہ جس دولت کو ایک شخص سمیٹ سمیٹ کر قید کرتا رہا ہے، اس کے مرتے ہی وہ پھیلا دی جائے۔ اسلامی قانون میں بیٹے، بیٹیاں، باپ، ماں، بیوی، بھائی، بہن سب ایک شخص کے وارث ہیں اور ایک ضابطے کے مطابق سب پر میراث تقسیم ہونی ضروری ہے۔ قریبی رشتے دار موجود نہ ہوں تو دور پرے کے رشتے دار تلاش کیے جائیں گے اور ان میں یہ دولت پھیلائی جائے گی۔ کوئی رشتے دار سرے سے موجود ہی نہ ہو، تب بھی آدمی کو متبنٰی بنانے کا حق نہیں ہے۔ اس صورت میں اس کی وارث پوری جماعت ہے۔ اس کی سمیٹی ہوئی تمام دولت بیت المال میں داخل کر دی جائے گی۔ اس طرح خواہ کوئی شخص کروڑوں اور اربوں کی دولت جمع کرلے، اس کے مرنے کے بعد دو تین پشتوں کے اندر وہ سب کی سب چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر پھیل جائے گی اور دولت کا ہر سمٹائو بتدریج پھیلائو میں تبدیل ہو کر رہے گا۔

سوچنے کی بات

یہ نظامِ معیشت جس کا نہایت مختصر سا نقشہ میں نے پیش کیا ہے، اس پر غور کیجیے ۔ کیا یہ شخصی ملکیت کے ان تمام نقصانات کو دور نہیں کر دیتا جو شیطان کی غلط تعلیم کے سبب سے رونما ہوتے ہیں؟ پھر آخر اس کی کیا حاجت ہے کہ ہم اشتراکی نظریہ یا فاشزم اور نیشنل سوشلزم کے نظریات کو اختیار کر کے معاشی انتظام کے وہ مصنوعی طریقے استعمال کریں جو ایک خرابی کو دور نہیں کرتے بلکہ اس کی جگہ دوسری خرابی پیدا کر دیتے ہیں؟ یہاں میں نے اسلام کے پورے نظامِ معاشی کو بیان نہیں کیا ہے۔ زمین کے انتظام اور کاروباری نزاعات (trade disputes) کے تصفیہ اور صنعت و حرفت کے لیے سرمایہ کی فراہمی ،کی جو صورتیں اسلام کے اصول پر اختیار کی جاسکتی ہیں اور جن کے لیے قانونِ اسلام میں پوری گنجایش رکھی گئی ہے، انھیں اس مختصر مقالے میں پیش کرنا مشکل ہے۔ نیز اسلام نے جس طرح درآمد برآمد کے محصولات اور اندرونِ ملک میں اموالِ تجارت کی نقل و حرکت پر چنگی کی پابندیوں کو اڑا کر اشیائے ضرورت کے آزاد مبادلہ کا راستہ کھولا ہے ،اس کا ذکر بھی میں نہیں کرسکا ہوں۔ ان سب سے بڑھ کر مجھے یہ بیان کرنے کا موقع بھی نہیں ملا ہے کہ ملکی انتظام اور سول سروس اور فوج کے مصارف کو انتہائی ممکن حد تک گھٹا کر اور عدالت سے اسٹامپ ڈیوٹی کو قطعی طور پر ہٹا کر اسلام نے سوسائٹی پر سے جس عظیم الشان معاشی بوجھ کو ہلکا کیا ہے، اور ٹیکسوں کو انتظام کے حد سے بڑھے ہوئے مصارف میں کھپا دینے کے بجائے سوسائٹی کی آسائش اور بہتری پر صرف کرنے کے جو مواقع اس نے پیدا کیے ہیں، ان کی بدولت اسلام کا معاشی نظام انسان کے لیے کتنی بڑی رحمت بن جاتا ہے ۔
اگر تعصب کو چھوڑ دیا جائے اور آبا ؤ اجداد سے جو جاہلانہ تنگ نظری وراثت میں ملی ہے، یا غیر اسلامی نظامات کے دنیا پر غالب آجانے سے جو مرعوبیت دماغوں پر چھا گئی ہے، اسے دور کر کے آزاد تحقیق کی نگاہ سے اس نظام کا مطالعہ کیا جائے تو میں توقع کرتا ہوں کہ ایک بھی معقول و منصف مزاج آدمی ایسا نہ ملے گا جو انسان کی معاشی فلاح کے لیے اس نظام کو سب سے زیادہ مفید، صحیح اور معقول تسلیم نہ کرے۔ لیکن اگر کسی شخص کے ذہن میں یہ غلط فہمی ہو کہ اسلام کے پورے اعتقادی، اخلاقی، تمدنی مجموعہ میں سے صرف اس کے معاشی نظام کو لے کر کامیابی کے ساتھ چلایا جاسکتا ہے تو میں عرض کروں گا کہ براہِ کرم وہ اس غلط فہمی کو دل سے نکال دے۔
اس معاشی نظام کا گہرا ربط اسلام کے سیاسی، عدالتی و قانونی اور تمدنی و معاشرتی نظام کے ساتھ ہے۔ پھر ان سب چیزوں کی بنیاد اسلام کے نظامِ اخلاق پر قائم ہے اور وہ نظامِ اخلاق بھی اپنے آپ پر قائم نہیں ہے بلکہ اس کے قیام کا پورا انحصار اس پر ہے کہ آپ ایک عالم الغیب قادرِمطلق خدا پر ایمان لائیں اور اپنے آپ کو اس کے سامنے جواب دہ سمجھیں، موت کے بعد آخرت کی زندگی کو مانیں، اور آخرت میں عدالتِ الٰہی کے سامنے اپنے پورے کارنامۂ حیات کے جانچے جانے اور اس جانچ کے مطابق جزا و سزا پانے کا یقین رکھیں ، اور یہ تسلیم کریں کہ خدا کی طرف سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ضابطۂ اخلاق و قانون آپ تک پہنچایا ہے، جس کا ایک جز یہ معاشی نظام بھی ہے، وہ بے کم و کاست خدا ہی کی ہدایت پر مبنی ہے۔ اگر اس عقیدے اور نظامِ اخلاق اور اس پورے ضابطۂ حیات کو آپ جوں کا توں نہ لیں گے تو نرا اسلامی نظامِ معاشی ایک دن بھی اپنی صحیح اسپرٹ کے ساتھ نہ چل سکے گا اور نہ اس سے آپ کوئی معتدبہ فائدہ اٹھا سکیں گے۔