انسان کے بنیادی حقوق

ریڈ مودودی ؒ   کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

بنیادی حقوق کوئی نیا تصوّر نہیں

جہاں تک ہم مسلمانوں کا تعلق ہے، انسان کے بنیادی حقوق کا تصوّر ہمارے لیے کوئی نیا تصوّر نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دوسرے لوگوں کی نگاہ میں ان حقوق کی تاریخ یو، این، او کے چارٹر سے شروع ہوتی ہو، یا انگلستان کے میگنا کارٹا (Magna Carta) سے اس کا آغاز ہوا ہو۔ لیکن ہمارے لیے اس تصوّر کا آغاز بہت پہلے سے ہے۔ اس موقع پر میں انسان کے بنیادی حقوق پر روشنی ڈالنے سے پہلے مختصر طور پر یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ انسانی حقوق کے تصوّر کا آغاز کیوں کر ہوا ہے۔

بنیادی حقوق کا سوال کیوں؟

درحقیقت یہ کچھ عجیب سی بات ہے کہ دنیا میں ایک انسان ہی ایسا ہے جس کے بارے میں خود انسانوں ہی کے درمیان بار بار یہ سوال پیدا ہوتا رہا ہے کہ اس کے بنیادی حقوق کیا ہیں۔ انسان کے سوا دوسری مخلوقات جو اس کائنات میں بس رہی ہیں، ان کے حقوق خود فطرت نے دئیے ہیں اور آپ سے آپ انھیں مل رہے ہیں، بغیر اس کے کہ وہ اس کے لیے سوچ بچار کریں۔ لیکن صرف انسان وہ مخلوق ہے جس کے بارے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے حقوق کیا ہیں اور اس کی ضرورت پیش آتی ہے کہ اس کے حقوق متعین کیے جائیں۔
اتنی ہی عجیب بات یہ بھی ہے کہ اس کائنات کی کوئی جنس ایسی نہیں ہے جو اپنی جنس کے افراد سے وہ معاملہ کر رہی ہو جو انسان اپنے ہم جنس افراد سے کر رہا ہے۔ بلکہ ہم تو دیکھتے ہیں کہ حیوانات کی کوئی نوع ایسی نہیں جو کسی دوسری نوع کے حیوانات پر بھی محض لطف ولذت کے لیے یا ان پر حکمران بننے کے لیے حملہ آور ہوتی ہو۔
قانونِ فطرت نے ایک حیوان کو دوسرے حیوان کے لیے اگر غذا بنایا ہے تو وہ صرف غذا کی حد تک ہی اس پر دست درازی کرتا ہے۔ کوئی درندہ ایسا نہیں ہے جو غذائی ضرورت کے بغیر یا اس ضرورت کے پورا ہو جانے کے بعد بلا وجہ جانوروں کو مارتا چلا جاتا ہو۔ خود اپنے ہم جنسوں کے ساتھ نوعِ حیوانی کا وہ سلوک نہیں ہے جو انسان کا اپنے افراد کے ساتھ ہے۔ یہ غالباً اس فضل وشرف کا نتیجہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ذہانت اور قوتِ ایجاد کا کرشمہ ہے کہ انسان نے دنیا میں یہ غیر معمولی روش اختیار کر رکھی ہے۔
شیروں نے آج تک کوئی فوج تیار نہیں کی۔ کسی کُتّے نے آج تک دوسرے کتّوں کو غلام نہیں بنایا۔ کسی مینڈک نے دوسرے مینڈکوں کی زبان بندی نہ کی۔ یہ انسان ہی ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات سے بے نیاز ہو کر جب اس کی دی ہوئی قوتوں سے کام لینا شروع کیا تو اپنی ہی جنس پر ظلم ڈھانے شروع کردئیے۔ جب سے انسان زمین پر موجود ہے اس وقت سے آج تک تمام حیوانات نے اتنے انسانوں کی جان نہیں لی ہے جتنی انسانوں نے صرف دوسری جنگ عظیم میں انسان کی جان لی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو فی الواقع دوسرے انسانوں کے بنیادی حقوق کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ صرف اللہ ہی ہے جس نے انسان کی راہ نمائی اس باب میں کی ہے اور اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسانی حقوق کی واقفیت بہم پہنچائی ہے۔ درحقیقت انسانی حقوق متعین کرنے والا انسان کا خالق ہی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس خالق نے انسان کے حقوق نہایت تفصیل سے بتائے ہیں۔

دور حاضر میں انسانی حقوق کے شعور کا اِرتقا

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حقوق انسانی کے اسلامی منشور کے نکات پر گفتگو کرنے سے قبل دورِ حاضر میں انسانی حقوق کے شعور کی ارتقائی تاریخ پر اجمالی نظر ڈال لی جائے۔
(۱) انگلستان میں کنگ جان نے ۱۲۱۵ء میں جو میگنا کارٹا جاری کیا تھا، وہ دراصل اس کے اُمرا (Baron) کے دبائو کا نتیجہ تھا۔ اس کی حیثیت بادشاہ اور امرا کے درمیان ایک قرارداد کی سی تھی اور زیادہ تر امرا ہی کے مفاد میں وہ مرتب کیا گیا تھا۔ عوام الناس کے حقوق کا اس میں کوئی سوال نہ تھا۔ بعد کے لوگوں نے اس کے اندر وہ معنی پڑھے جو اس کے اصل لکھنے والوں کے سامنے بیان ہوتے تو وہ حیران رہ جاتے۔ سترھویں صدی کے قانون پیشہ لوگوں نے اس میں یہ پڑھا کہ تحقیقِ جرم رو بروئے مجلس قضا (Trial By Jury) حبس بے جا کے خلاف داد رسی (Right of Habeas Corpus) اور ٹیکس لگانے کے اختیارات پر کنٹرول کے حقوق انگلینڈ کے باشندوں کو اس میں دئیے گئے ہیں۔
(۲) ٹام پین (Tom Paine) ۱۷۳۷ئ تا ۱۸۰۹ء کے پمفلٹ ’’حقوق انسانی‘‘ (Rights of Man) نے اہلِ مغرب کے خیالات پر بہت بڑا انقلابی اثر ڈالا۔ اور اسی کے پمفلٹ (۱۷۹۱ء) نے مغربی ممالک میں حقوق انسانی کے تصوّر کی عام اشاعت کی۔ یہ شخص الہامی مذہب کا قائل نہ تھا اور ویسے بھی وہ دور الہامی مذہب سے بغاوت کا دور تھا۔ اس لیے مغربی عوام نے یہ سمجھا کہ الہامی مذہب حقوقِ انسانی کے تصوّر سے خالی ہے۔
(۳) انقلاب فرانس کی داستان کا اہم ترین ورق ’’منشور حقوقِ انسانی‘‘ (Declaration of the Rights of Man) ہے جو ۱۷۸۹ء میں نمودار ہوا۔ یہ اٹھارہویں صدی کے اجتماعی فلسفے اور خصوصاً رُو سو کے نظریۂ معاہدۂ عمرانی (Social Contract Theory) کا ثمرہ تھا۔ اس میں قوم کی حاکمیّت، آزادی، مساوات اور ملکیّت کے فطری حقوق کا اثبات کیا گیا تھا۔ اس میں ووٹ کے حق، قانون سازی اور ٹیکس عائد کرنے کے اختیارات پر رائے عامّہ کے کنٹرول، تحقیقِ جرم رو بروئے مجلس قضا (Trial By Jury) وغیرہ کا اثبات کیا گیا۔
اس منشورِ حقوقِ انسانی کو فرانس کی دستور ساز اسمبلی نے انقلاب فرانس کے عہد میں اس غرض کے لیے مرتب کیا تھا کہ جب دستور بنایا جائے تو اس وقت اسے اس کے آغاز میں درج کیا جائے اوردستور میں اس کی سپرٹ کو ملحوظ رکھا جائے۔
(۴) امریکا (U.S.A) کی دس ترامیم میں بڑی حد تک وہ تمام حقوق گنوائے گئے ہیں جو برطانوی فلسفۂِ جمہوریت پر مبنی ہو سکتے تھے۔
(۵) انسانی حقوق وفرائض کا و ہ منشور بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے جسے بگوٹا کانفرنس میں امریکی ریاستوں نے ۱۹۴۸ء میں منظور کیا۔
(۶) پھر جمہوری فلسفہ کے تحت یو، این، او نے تدریجاً بہت سے مثبت اور بہت سے تحفظاتی حقوق کے متعلق قرار دادیں پاس کیں اور بالآخر ’’عالمی منشور حقوقِ انسانی‘‘ منظر عام پر آیا۔
دسمبر ۱۹۴۶ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک ریزولیشن پاس کیا جس میں انسانوں کی نسل کُشی (Genocide) کو بین الاقوامی قانون کے خلاف ایک جرم قرار دیا گیا۔
پھر دسمبر ۱۹۴۸ء میں نسل کُشی کے انسداد اور سزا دہی کے لیے ایک قرار داد پاس کی گئی اور ۱۲۔ جنوری ۱۹۵۱ء کو اس کا نفاذ ہوا۔ اس میں نسل کشی کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا کہ حسبِ ذیل افعال میں سے کوئی فعل اس غرض سے کرنا کہ کسی قومی، نسلی یا اخلاقی (Ethtcal) گروہ (Group) یا اس کے ایک حصے کو فنا کرایا جائے۔
(۱) ایسے کسی گروہ کے افراد کو قتل کرنا۔
(۲) انھیں شدید نوعیّت کا جسمانی یا ذہنی ضرر پہنچانا۔
(۳) اس گروہ پر بالارادہ زندگی کے ایسے احوال کو مسلّط کرنا جو اس کی جسمانی بقا کے لیے کلاًیا جزاً تباہ کن ہوں۔
(۴) اس گروہ میں سلسلۂ تولید کو روکنے کے لیے جبری اقدامات کرنا۔
(۵) جبری طور پر اس گروہ کی اولادوں کو کسی دوسرے گروہ کی طرف منتقل کرنا۔
۱۰۔ دسمبر ۱۹۴۸ء کو جو ’’عالمی منشور حقوقِ انسانی‘‘ پاس کیا گیا تھا، اس کے دیباچے میں من جملہ دوسرے عزائم کے ایک یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ:
’’بنیادی انسانی حقوق میں، فرد انسانی کی عزت واہمیت میں مردوں اور عورتوں کے مساویانہ حقوق میں اعتقاد کو موثق بنانے کے لیے۔‘‘
نیز اس میں اقوام متحدہ کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی بیان کیا گیا تھا کہ :
’’انسانی حقوق کا احترام قائم کرنے، اور نسل وصنف یا زبان ومذہب کا امتیاز کیے بغیر تمام انسانوں کو بنیادی آزادیاں دلوانے کے کام میں بین الاقوامی تعاون کا حصول۔‘‘

اسی طرح دفعہ ۵۵ میں اقوام متحدہ کا یہ منشور کہتا ہے:

’’مجلس اقوامِ متحدہ انسانی حقوق اور سب کے لیے اساسی آزادیوں کے عالم گیر احترام اور ان کی نگہداشت میں اضافہ کرے گی۔‘‘
اس پورے منشور کے کسی جز سے کوئی اختلاف کسی بھی قوم کے نمایندوں نے نہیں کیا۔ اختلاف نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ صرف عام اصولوں کا اعلان واظہار تھا، کسی نوعیت کی پابندی کسی پر بھی عائد نہ ہوتی تھی۔ یہ کوئی معاہدہ نہیں ہے جس کی بنا پر دستخط کرنے والی تمام حکومتیں اس کی پابندی پر مجبور ہوں اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ان پر قانونی وجوب عائد ہوتا ہو۔ اس میں واضح طور پر یہ بتا دیا گیا ہے کہ یہ ایک معیار ہے جس تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پھر بھی بعض ملکوں نے اس کے حق میں یا اس کے خلاف ووٹ دینے سے اجتناب کیا۔
اب دیکھ لیجیے کہ اس منشور کے عین سائے میں انسانیت کے بالکل ابتدائی حقوق کا قتل عام دنیا میں ہو رہا ہے اور خود مہذب ترین اور سرکردہ ممالک کے اپنے ہاں ہو رہا ہے جو اسے پاس کرنے والے تھے۔
اس مختصر بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اوّل تو مغربی دنیا میں انسانی حقوق کا تصوّر ہی دو تین صدیوں سے پہلے اپنی کوئی تاریخ نہیں رکھتا۔ دوسرے اگر آج ان حقوق کا ذکر کیا بھی جا رہا ہے تو ان کے پیچھے کوئی سند (Authority) اور کوئی قوتِ نافذہ (Sanction) نہیں ہے، بلکہ یہ صرف خوش نُما خواہشات ہیں۔ اس کے مقابلہ میں اسلام نے حقوقِ انسان کا جو منشور قرآن میں دیا اور جس کا خلاصہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر نشر فرمایا، وہ اس سے قدیم تر بھی ہے اور ملتِ اسلام کے لیے اعتقاد، اخلاق اور مذہب کی حیثیت سے واجب الاتباع بھی۔ پھر ان حقوق کو عملاً قائم کرنے کی بے مثل نظیریں بھی حضور پاک a اور خلفائے راشدینؓ نے چھوڑی ہیں۔
اب میں ان حقوق کا مختصر تذکرہ کرتا ہوں جو اسلام نے انسان کو دئیے ہیں۔

حُرمتِ جان یا جینے کا حق

قرآن مجید میں دنیا کے سب سے پہلے واقعۂ قتل کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا اولین سانحہ تھا جس میں ایک انسان نے دوسرے انسان کی جان لی۔ اس وقت پہلی مرتبہ یہ ضرورت پیش آئی کہ انسان کو انسانی جان کا احترام سکھایا جائے اور اسے بتایا جائے کہ ہر انسان جینے کا حق رکھتا ہے۔ اس واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد قرآن کہتا ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا۝۰ۭ وَمَنْ اَحْيَاہَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا۝۰ۭ [المائدہ 5:32]
جس نے کسی متنفس کو بغیر اس کے کہ اس نے قتلِ نفس کا ارتکاب کیا ہو، یا زمین میں فساد انگیزی کی ہو، قتل کر دیا، اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے اسے زندہ رکھا، تو اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا۔
اس آیت میں قرآن کریم نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانی دنیا کا قتل بتایا ہے۔ اور اس کے مقابلے میں ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیّت کی جان بچانے کے مترادف ٹھہرایا ہے۔ ’’احیا‘‘ کے معنی ہیں زندہ کرنا۔ دوسرے الفاظ میں اگر کسی شخص نے انسانی زندگی کو بچانے کے لیے کوشش کی، اس نے انسان کو زندہ کرنے کا کام کیا۔ یہ کوشش اتنی بڑی نیکی ہے کہ اسے ساری انسانیّت کے زندہ کرنے کے برابر ٹھہرایا گیا ہے۔ اس اصول سے صرف دو حالتیں مستثنیٰ ہیں۔
ایک یہ کہ کوئی شخص قتل کا مرتکب ہو‘ اور اسے قصاص کے طور پر قتل کیا جائے۔
دوسری یہ کہ کوئی شخص زمین میں فساد برپا کرے تو اسے قتل کیا جائے۔
ان دو حالتوں کے ماسِوا انسانی جان کو ضائع نہیں کیا جا سکتا۔{ مزید ملاحظہ ہو آیت:وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ۝۰ۭ [بنی اسرائیل17:33]
قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ۔
}
انسانی جان کے تحفظ کا یہ اصول اللہ تعالیٰ نے تاریخ انسانی کے ابتدائی دور میں واضح کر دیا تھا۔ انسان کے بارے میں یہ خیال کرنا غلط ہے کہ وہ تاریکی میں پیدا ہوا ہے اور اپنے ہم جنسوں کو قتل کرتے کرتے کسی مرحلہ پر اس نے یہ سوچا کہ انسان کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔ یہ خیال سراسر غلط ہے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانی پر مبنی ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شروع سے انسان کی راہ نمائی کی ہے اور اسی راہ نمائی میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ اس نے انسان کو انسان کے حقوق سے آشنا کیا۔

معذوروں اور کمزوروں کا تحفظ

دوسری بات جو قرآن سے معلوم ہوتی ہے اور نبی a کے ارشادات سے واضح ہے، یہ ہے کہ عورت، بچے، بوڑھے، زخمی اوربیمار کے اوپر کسی حال میں بھی دست اندازی جائز نہیں ہے… خواہ وہ اپنی قوم سے تعلق رکھتے ہوں یا دشمن قوم سے… اِلَّا یہ کہ جنگ کی صورت میں یہ افراد خود برسرِ پیکار ہوں۔ ورنہ دوسری ہر صورت میں ان پر دست اندازی کی ممانعت ہے۔ یہ اصول اپنی قوم کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ پوری انسانیت کے ساتھ یہی اصول برتا جائے گا۔ حضورa نے اس معاملہ میں بڑی واضح ہدایات دی ہیں۔ خلفائے راشدین کا یہ حال تھا کہ جب دشمنوں سے مقابلہ کے لیے فوجیں روانہ کرتے تھے تو وہ پوری فوج کو یہ صاف ہدایات دیتے تھے کہ دشمن پر حملہ کی صورت میں کسی عورت، بچے، بوڑھے، زخمی اور بیمار پر ہاتھ نہ ڈالا جائے۔

تحفظِ ناموس خواتین

ایک اور اصولی حق جو ہمیں قرآن سے معلوم ہوتا ہے اور حدیث میں بھی اس کی تفصیلات موجود ہیں، یہ ہے کہ عورت کی عصمت ہر حال میں واجب الاحترام ہے، یعنی جنگ کے اندر دشمنوں کی عورتوں سے بھی اگر سابقہ پیش آئے تو کسی مسلمان سپاہی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ان پر ہاتھ ڈالے۔ قرآن کی رُو سے بدکاری مطلقاً حرام ہے خواہ وہ کسی عورت سے کی جائے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ عورت مسلمان ہو یا غیر مسلم، اپنی قوم کی ہو یا غیر قوم کی، دوست ملک کی ہو یا دشمن ملک کی۔

معاشی تحفظ

ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ بھوکا آدمی ہر حالت میں اس کا مستحق ہے کہ اسے روٹی دی جائے، ننگا ہر حالت میں اس کا مستحق ہے کہ اسے کپڑا دیا جائے، زخمی اور بیمار آدمی ہر حالت میں اس کا مستحق ہے کہ اسے علاج کی سہولت فراہم کی جائے، قطع نظر اس سے کہ وہ بھوکا، ننگا، زخمی یا مریض شخص دشمن ہو یا دوست۔ یہ عمومی (Universal) حقوق میں سے ہے، دشمن کے ساتھ بھی ہم یہی سلوک کریں گے۔ اگر دشمن قوم کا کوئی فرد ہمارے پاس آ جائے تو ہمارا فرض ہو گا کہ اسے بھوکا ننگا نہ رہنے دیں اور زخمی یا بیمار ہو تو اس کا علاج کرائیں۔{ وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ o [51:19]
اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محروم دونوں کا حق ہے۔
نیز آیت: وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا o [76:8]
اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔
}

عادلانہ طرز معاملہ

قرآن کریم کا یہ اٹل اصول ہے کہ انسان کے ساتھ عدل وانصاف کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۝۰ۭ اِعْدِلُوْا۝۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۝۰ۡ
[المائدہ5:8]
کسی گروہ کی دشمنی تمھیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو۔ یہ خدا ترسی سے زیادہ قریب ہے۔
اس آیت میں اسلام نے یہ اصول متعین کر دیا کہ انسان کے ساتھ… ایک فرد کے ساتھ بھی اور ایک قوم کے ساتھ بھی… بہرحال انصاف کو ملحوظ رکھنا پڑے گا۔ اسلام کے نزدیک یہ قطعاً درست نہیں ہے کہ دوستوں کے ساتھ توہم عدل و انصاف برتیں اور دشمنوں کے ساتھ اس اصول کو نظر انداز کر دیں۔

نیکی میں تعاون اور بدی میں عدم تعاون

ایک اور اصول جو قرآن معین کرتا ہے، یہ ہے کہ نیکی اور حق رسانی کے معاملے میں ہر ایک کے ساتھ تعاون کیا جائے اور برائی اور ظلم کے معاملہ میں کسی کے ساتھ تعاون نہ کیا جائے۔ برائی خواہ بھائی کر رہا ہو تو بھی ہم اس کے ساتھ تعاون نہ کریں اور نیکی اگر دشمن بھی کر رہا ہو تو اس کی جانب دستِ تعاون بڑھائیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۝۰۠ [المائدہ5:2]
جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں‘ ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔
بِرّ کے معنی صرف نیکی ہی نہیں‘ بلکہ عربی زبان میں یہ لفظ حق رسانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی دوسروں کو حقوق دلوانے میں اور تقویٰ، پرہیز گاری میں ہم ہر ایک کی مدد کریں۔ قرآن کا یہ مستقل اوردائمی اُصول ہے۔

مساوات کا حق

ایک اور اُصول جسے قرآن کریم نے بڑے زورشور کے ساتھ بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ تمام انسان یکساں ہیں۔ اگر کسی کو فضیلت حاصل ہے تو وہ اخلاق کے اعتبار سے ہے۔ اس معاملے میں قرآن کا ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۝۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۝۰ۭ [الحجرات49:13]
اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھیں گروہوں اور قبیلوں میں اس لیے بانٹا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک تم میں سے زیادہ معزز وہ ہے جو زیادہ متقی ہے۔
اس میں پہلی بات یہ بتائی گئی کہ تمام انسان ایک ہی اصل سے ہیں۔ یہ مختلف نسلیں، مختلف رنگ، مختلف زبانیں درحقیقت انسانی دنیا کے لیے کوئی معقول وجہ تقسیم نہیں ہیں۔
دوسری بات یہ بتائی کہ ہم نے قوموں کی یہ تقسیم صرف تعارف کے لیے کی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک برادری، ایک قوم اور ایک قبیلہ کو دوسرے پر کوئی فخر وفضیلت نہیں ہے کہ وہ اپنے حقوق تو بڑھا چڑھا کر رکھے اور دوسروں کے کم۔اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی یہ تفریقیں کی ہیں، شکلیں ایک دوسرے سے مختلف بنائی ہیں یا زبانیں ایک دوسرے سے الگ رکھی ہیں، تو یہ سب چیزیں فخر کے لیے نہیں ہیں بلکہ صرف اس لیے ہیں کہ باہم تمیز پیدا کر سکیں۔ اگر تمام انسان یکساں ہوتے تو تمیز نہ کی جا سکتی۔ اس لحاظ سے یہ تقسیم فطری ہے، لیکن دوسروں کے حقوق مارنے اور بے جا امتیاز برتنے کے لیے نہیں ہے۔ عزت وافتخار کی بنیاد اخلاقی حالت پر ہے۔ اس بات کو نبیa نے ایک دوسرے طریقہ سے بیان فرمایا ہے۔ آپ نے فتح مکہ کے بعد جو تقریر ارشاد فرمائی، اس میں فرمایا:
لا فضل لعربی علی اعجمی ولا لاعجمی علی عربی ولا لاحمر علی اسود ولا لاسود علی احمر الا بالتقویٰ ولا فضل للانساب
کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کسی گورے کو کالے پر اور نہ کالے کو گورے پر… ماسوا تقویٰ کے اور نسبی بنیادوں پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔
یعنی فضیلت، دیانت اور تقویٰ پر ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی شخص چاندی سے پیدا کیا گیا ہو اور کوئی پتھر سے اور کوئی مٹی سے، بلکہ سب انسان یکساں ہیں۔{ نظام فرعونی کو قرآن نے جن وجوہ سے باطل قرار دیا ہے ان میں سے ایک یہ تھی کہ:
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَۃً مِّنْہُمْ [القصص28:4]
بے شک فرعون ملک میں بڑا مغرور ہو گیا تھا اوروہاں کے باشندوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اور ان میں سے ایک گروہ (بنی اسرائیل) کو اس قدر کمزور کر دیا تھا کہ… الخ
یعنی اسلام اس کا روادار نہیں کہ کسی معاشرہ میں انسانوں کو فوقانی اور تحتانی یا حکمران اور محکوم طبقوں میں بانٹا جائے۔ }

معصیت سے اجتناب کا حق

ایک اور اصول یہ ہے کہ کسی شخص کو معصیت کا حکم نہیں دیا جا سکتا اور نہ کسی پر یہ واجب یا اس کے لیے یہ جائز ہے کہ اسے اگر معصیت کا حکم دیا جائے تو وہ اطاعت کرے۔ قانونِ قرآن کی رُو سے اگر کوئی افسر اپنے ماتحت کو ناجائز کارروائیوں کا حکم دیتا ہے یا کسی پر بے جا دست درازی کا حکم دیتا ہے تو ماتحت کے لیے اس معاملے میں اپنے افسر کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ نبیa کا ارشاد مبارک ہے لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق ۔ ’’جن چیزوں کو خالق نے ناجائز ٹھہرایا ہے اور معصیت بتایا ہے کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ ان کے ارتکاب کا کسی کو حکم دے‘‘۔ نہ حکم دینے والے کے لیے معصیت کا حکم دینا جائز ہے اور نہ کسی دوسرے شخص کے لیے ایسے حکم کی تعمیل جائز ہے۔

ظالم کی اطاعت سے انکار کا حق

اسلام کا ایک عظیم الشان اصول یہ ہے کہ کسی ظالم کو اطاعت کا حق نہیں ہے۔ قرآن کریم میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو امام مقرر کیا اور فرمایا کہ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۝۰ۭ ]البقرہ2:124 [ تو حضرت ابراہیم ؑنے اللہ سے سوال کیا کہ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ۝۰ۤۖ (کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے)۔ تو اللہ نے جواب میں ارشاد فرمایا: لَا يَنَالُ عَہْدِي الظّٰلِــمِيْنَo [البقرہ2:124] (میرا وعدہ ظالموں کے متعلق نہیں ہے)عہد کا لفظ یہاں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ انگریزی زبان میں ’’لیٹر آف اپوائنٹمنٹ‘‘ (Letter of Appointment) کا مفہوم ہے۔ اردو میں پروانۂ امر کہیں گے۔
اس آیت میں اللہ نے صاف بتا دیا کہ ظالموں کو اللہ کی طرف سے کوئی ایسا پروانۂ امر نہیں کہ وہ دوسرے سے اطاعت کا مطالبہ کریں۔{ نظام فرعونی کو قرآن نے جن وجوہ سے باطل قرار دیا ہے ان میں سے ایک یہ تھی کہ:
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَۃً مِّنْہُمْ [القصص28:4]
بے شک فرعون ملک میں بڑا مغرور ہو گیا تھا اوروہاں کے باشندوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اور ان میں سے ایک گروہ (بنی اسرائیل) کو اس قدر کمزور کر دیا تھا کہ… الخ
یعنی اسلام اس کا روادار نہیں کہ کسی معاشرہ میں انسانوں کو فوقانی اور تحتانی یا حکمران اور محکوم طبقوں میں بانٹا جائے۔ }چنانچہ امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ کوئی ظالم اس امر کا مستحق نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کا امام ہو۔ اگر ایسا شخص امام بن جائے تو اس کی اطاعت واجب نہیں ہے۔ اسے صرف برداشت کیا جائے گا۔

سیاسی کار فرمائی میں شرکت کا حق

انسان کے بنیادی حقوق میں سے ایک بڑا حق اسلام نے یہ مقرر کیا ہے کہ معاشرے کے تمام افراد حکومت میں حصہ دار ہیں۔ تمام افراد کے مشورے سے حکومت ہونی چاہیے۔ قرآن نے فرمایا…لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ [النور24:55] (اللہ تعالیٰ انھیں …یعنی اہل ایمان کو… زمین میں خلافت دے گا)۔ یہاں جمع کا لفظ استعمال کیا اور فرمایا کہ ہم بعض افراد کو نہیں بلکہ پوری قوم کو خلافت دیں گے۔ حکومت ایک فرد کی یا ایک خاندان کی یا ایک طبقے کی نہیں، بلکہ پوری ملت کی ہو گی اور تمام افراد کے مشورے سے وجود میں آئے گی۔ قرآن کا ارشاد ہے: وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ۝۰۠[شوریٰ42:38]{ مزید یہ صریح آیات سامنے رہیں: وَلَا تُطِيْعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِيْنَo [الشعرآئ26:151]۲۔ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِكْرِنَا [الکہف18:28] ۳۔ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۝۰ۚ [النحل16:36]
۴۔وَتِلْكَ عَادٌ۝۰ۣۙ جَحَدُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّہِمْ وَعَصَوْا رُسُلَہٗ وَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍo [ھود11:59] } یعنی یہ حکومت آپس کے مشورے سے چلے گی۔ اس معاملے میں حضرت عمرؓ کے صاف الفاظ موجود ہیں کہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مسلمانوں کے مشورے کے بغیر ان پر حکومت کرے۔ مسلمان راضی ہوں تو ان پر حکومت کی جا سکتی ہے اور راضی نہ ہوں تو نہیں کی جا سکتی۔ اس حکم کی رُو سے اسلام ایک جمہوری وشورائی حکومت کا اُصول قائم کرتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہماری بدقسمتی سے تاریخ کے ادوار میں ہمارے اُوپر بادشاہیاں مسلّط رہی ہیں۔ اسلام نے ہمیں ایسی بادشاہیوں کی اجازت نہیں دی بلکہ یہ ہماری اپنی حماقتوں کا نتیجہ ہیں۔

آزادی کا تحفظ

ایک اور اصول یہ ہے کہ کسی انسان کی آزادی عدل کے بغیر سلب نہیں کی جا سکتی۔ حضرت عمرؓ نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ : لایوسر رجل فی الاسلام الا بحق۔{ نیز آیت وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۝۰ۚ [آل عمران3:159] اوراپنے کاموں میں ان (لوگوں) سے مشورہ لیا کرو۔
} اس کی رو سے عدل کا وہ تصوّر قائم ہوتا ہے جسے موجودہ اصطلاح میں باضابطہ عدالتی کارروائی (Judicial Process) کہتے ہیں۔ یعنی کسی کی آزادی سلب کرنے کے لیے اس پر متعین الزام لگانا، کھلی عدالت میں اس پر مقدمہ چلانا اور اسے دفاع کا پورا پورا موقع دینا۔ اس کے بغیر کسی کارروائی پر عدل کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ یہ بالکل معمولی عقل (Common Sense) کا تقاضا ہے کہ ملزم کو صفائی کا موقع دئیے بغیر انصاف نہیں ہو سکتا۔ اسلام میں اس امر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ایک شخص کو پکڑا جائے اور اسے صفائی کا موقع دئیے بغیر بند کر دیا جائے۔ اسلامی حکومت اور عدلیہ کے لیے انصاف کے تقاضے پورے کرنا قرآن نے واجب ٹھہرایا ہے

نجی زندگی کا تحفظ

اسلام کے بنیادی حقوق کی رو سے۔ آدمی کو (Privacy)یعنی نجی زندگی کو محفوظ رکھنے کا حق حاصل ہے۔ اس معاملے میں سورۂ نور میں وضاحت کر دی گئی کہ لَاتَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا [النور24:27]اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو، جب تک کہ ان سے اجازت نہ لے لو۔ سورہ حجرات میں فرما دیا گیا:لَا تَجَسَّسُوْا [الحجرات49:12] (تجسس نہ کرو)۔ نبیa کا ارشاد مبارک ہے کہ ایک آدمی کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنے گھر سے دوسرے آدمی کے گھر جھانکے۔ ایک شخص کو پورا پورا آئینی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے گھر میںدوسروں کے شور و شغب سے، دوسروں کی تاک جھانک سے اور دوسروں کی مداخلت سے محفوظ ومامون رہے۔ اس کی گھریلو بے تکلفی اور پردہ داری برقرار رہنی چاہیے۔ مزید برآں یہ کہ کسی شخص کو دوسرے کا خط اوپر سے نگاہ ڈال کر دیکھنے کا حق بھی نہیں ہے۔ کجا کہ اسے پڑھا جائے۔ اسلام انسان کی پرائیویسی کا پورا پورا تحفظ کرتا ہے اور صاف ممانعت کرتا ہے کہ، گھروں میں تاک جھانک نہ کی جائے اور کسی کی ڈاک نہ دیکھی جائے۔ الّا یہ کہ کسی شخص کے متعلق معتبر ذریعہ سے یہ اطلاع مل جائے کہ وہ کوئی خطرناک کام کر رہا ہے۔ ورنہ خواہ مخواہ کسی کے حالات کا تجسس کرنا شریعتِ اسلامی میں جائز نہیں ہے۔

ظلم کے خلاف احتجاج کا حق

اسلام کے بنیادی حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَايُحِبُّ اللہُ الْجَــہْرَ بِالسُّوْۗءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ۝۰ۭ [النسائ4:148]
اللہ اسے پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے، اِلَّا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو۔
یعنی مظلوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ظالم کے خلاف آواز اٹھائے۔
آزادیٔ اظہار رائے
ایک اور اہم چیز جسے آج کے زمانہ میں آزادیٔ اظہار (Freedom of Expression) کہا جاتا ہے قرآن اسے دوسری زبان میں بیان کرتا ہے۔ مگر دیکھیے مقابلتاً قرآن کا کتنا بلند تصوّر ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ ’’امر بالمعروف‘‘{ ملاحظہ ہو آیت:كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [آل عمران3:110]
} اور ’’نہی عن المنکر‘‘ نہ صرف انسان کا حق ہے بلکہ یہ اس کا فرض بھی ہے۔ قرآن کی رُو سے بھی اور حدیث کی ہدایات کے مطابق بھی۔انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ بھلائی کے لیے لوگوں سے کہے اور بُرائی سے روکے۔ اگر کوئی برائی ہو رہی ہو تو صرف یہی نہیں کہ بس اس کے خلاف آواز اٹھائے بلکہ اس کے انسداد کی کوشش بھی فرض ہے۔ اور اگر اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی جاتی اور اس کے انسداد کی فکر نہیں کی جاتی تو الٹا گناہ ہو گا۔ مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اسلامی معاشرے کو پاکیزہ رکھے۔ اگر اس معاملے میں مسلمان کی آواز بند کی جائے تو اس سے بڑا کوئی ظلم نہیں ہو سکتا۔ اگر کسی نے بھلائی کے فروغ سے روکا تواس نے نہ صرف ایک بنیادی حق سلب کیا بلکہ ایک فرض کی ادائیگی سے روکا۔ معاشرے کی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو ہر حال میں یہ حق حاصل رہے۔ قرآن نے بنی اسرائیل کے تنزل کے اسباب بیان کیے ہیں۔ ان میں سے ایک سبب یہ بیان کیا ہے کہ كَانُوْا لَا يَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْہُ۝۰ۭ [المائدہ5:79] (وہ برائیوں سے ایک دوسرے کو باز نہ رکھتے تھے)یعنی کسی قوم میں اگر یہ حالات پیدا ہو جائیں کہ برائی کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہ ہو تو آخرکار رفتہ رفتہ برائی پوری قوم میں پھیل جاتی ہے اور وہ پھلوں کے سڑے ہوئے ٹوکرے کے مانند ہو جاتی ہے جسے اٹھا کر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس قوم کے عذابِ الٰہی کے مستحق ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہتی۔

ضمیر واعتقاد کی آزادی کا حق

اسلام نے لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۝۰ۣۙ [البقرہ2:256] کا اصول انسانیّت کو دیا اور اس کے تحت ہر شخص کو آزادی عطا کی کہ وہ کفر وایمان میں سے جو راہ چاہے اختیار کرے۔ قوت کا استعمال اسلام میں اگر ہے تو دو ضروریات کے لیے ہے۔ ایک یہ کہ اسلامی ریاست کے وجود اور اس کے استقلال کی سلامتی کے لیے میدان جہاد میں دشمنوں کا مقابلہ کیا جائے اور دوسرے یہ کہ نظم ونسق اور امن وامان کے تحفظ کے لیے جرائم اور فتنوں کا سدّ باب کرنے کے لیے عدالتی اور انتظامی اقدامات کیے جائیں۔
ضمیر واعتقاد کی آزادی ہی کا قیمتی حق تھا جسے حاصل کرنے کے لیے مکہ کے سیز دہ سالہ دورِ ابتلا میں مسلمانوں نے ماریں کھا کھا کر کلمہِ حق کہا اور بالآخر یہ حق ثابت ہو کے رہا۔ مسلمانوں نے یہ حق جس طرح اپنے لیے حاصل کیا تھا، اسی طرح دوسروں کے لیے بھی اس کا پورا پورا اعتراف کیا۔ اسلامی تاریخ اس بات سے خالی ہے کہ مسلمانوں نے کبھی اپنی غیر مسلم رعایا کو اسلام قبول کرنے پرمجبور کیا ہو‘ یا کسی قوم کو مار مار کر کلمہ پڑھوایا ہو۔

مذہبی دِل آزاری سے تحفظ کا حق

اسلام اس امر کا روادار نہیں کہ مختلف مذہبی گروہ ایک دوسرے کے خلاف دریدہ د ہنی سے کام لیں اور ایک دوسرے کے پیشوائوں پر کیچڑ اچھالا کریں۔ قرآن میں ہر شخص کے مذہبی معتقدات اور اس کے پیشوایانِ مذہب کا احترام کرنا سکھایا گیا ہے۔ ہدایت یہ ہے کہ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ [الانعام6:108] (ان کو بُرا بھلا نہ کہو جنھیں یہ لوگ اللہ کے ماسوا معبود بنا کر پکارتے ہیں) یعنی مختلف مذاہب اور معتقدات پر دلیل سے گفتگو کرنا اور معقول طریق سے تنقید کرنا یا اظہارِ اختلاف کرنا تو آزادیٔ اظہار کے حق میں شامل ہے مگر دل آزاری کے لیے بدگوئی کرنا روا نہیں۔

آزادیِ ٔاجتماع کا حق

آزادیٔ اظہار کے عین منطقی نتیجے کے طور پر آزادیِ اجتماع کا حق نمودار ہوتا ہے۔ جب اختلاف آرا کو انسانی زندگی کی ایک اٹل حقیقت کے طور پر قرآن نے بار بار پیش کیا ہے تو پھر اس امر کی روک تھام کہاں ممکن ہے کہ ایک طرح کی رائے رکھنے والے لوگ آپس میں مربوط ہوں۔ ایک اصول اور نظرئیے پر مجتمع ہونے والی ملت کے اندر بھی مختلف مدارسِ فکر ہو سکتے ہیں اوران کے متوسلین بہرحال باہم دگر قریب تر ہوں گے۔ قرآن کہتا ہے:
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ[آل عمران3:104]
اور تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو بھلائی کی طرف بلائیں‘ معروف کا حکم دیں اور منکر سے روکیں۔
عملی زندگی میں جب ’’خیر‘‘ ’’معروف‘‘ اور ’’منکر‘‘ کے تفصیلی تصورات میں فرق واقع ہوتا ہے تو ملّت کی اصولی وحدت کے قائم رہتے ہوئے بھی اس کے اندر مختلف مدارسِ فکر تشکیل پاتے ہیں اور… یہ بات معیارِ مطلوب سے کتنی بھی فروتر ہو، گروہوں اور پارٹیوں کا ظہور ہوتا ہی ہے۔ چنانچہ ہمارے ہاں کلام میں بھی، فقہ وقانون میں بھی اور سیاسی نظریات میں بھی اختلافِ آرا ہوا اور اس کے ساتھ مختلف گروہ وجود میں آئے۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی دستور اور منشورِ حقوق کے لحاظ سے کیا مختلف اختلافی آرا رکھنے والوں کے لیے آزادیِ اجتماع کا حق ہے؟ یہ سوال سب سے پہلے حضرت علیؓ کے سامنے خوارج کے ظہور پر پیش آیا اور آں جنابؐ نے ان کے لیے آزادیٔ اجتماع کے حق کو تسلیم کر لیا۔ انھوں نے خارجیوں سے فرمایا۔ ’’جب تک تم تلوار اٹھا کر زبردستی اپنا نظریہ دوسروں پر مسلّط کرنے کی کوشش نہ کرو گے، تمھیں پوری آزادی حاصل رہے گی۔‘‘

عملِ غیر کی ذمہ داری سے بریّت

اسلام میں آدمی صرف اپنے اعمال اور اپنے جرائم کے لیے جواب دہ ہے۔ دوسروں کے اعمال اور دوسروں کے جرائم میں اسے پکڑا نہیں جا سکتا۔ قرآن نے اُصول یہ قرار دیا ہے کہ:
وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰي۝۰ۚ [الانعام6:164]
اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ اٹھانے پر مکلف نہیں ہے۔
اسلامی قانون میں اس کی گنجائش نہیں کہ کرے ڈاڑھی والا اور پکڑا جائے مونچھوں والا۔

شبہات پر کارروائی نہیں کی جائے گی

اسلام میں ہر شخص کو یہ تحفظ حاصل ہے کہ تحقیق کے بغیر اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے گی۔ اس سلسلے میں قرآن کی واضح ہدایت ہے کہ کسی کے خلاف اطلاع ملنے پر تحقیقات کر لو، تاکہ ایسا نہ ہو کہ کسی گروہ کے خلاف لاعلمی میں کوئی کارروائی کر بیٹھو۔{ملاحظہ ہو آیت: اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ [الحجرات49:6] } علاوہ بریں قرآن نے یہ ہدایت بھی دی ہے: اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ۝۰ۡ [الحجرات49:12]
اجمالاً یہ ہیں وہ بنیادی حقوق جو اسلام نے انسان کو عطا کیے ہیں۔ ان کا تصوّر بالکل واضح اور مکمل ہے جو انسانی زندگی کے آغاز ہی سے انسان کوبتا دیا گیا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس وقت بھی دنیا میں انسانی حقوق کا جو اعلان (Declaration of Human Rights) ہوا ہے اسے کسی قسم کی سند اور قوتِ نافذہ حاصل نہیں ہے۔ بس ایک بلند معیار پیش کر دیا گیا ہے۔ اس معیار پر عمل درآمد کی کوئی قوم پابند نہیں ہے۔ نہ اور کوئی ایسا مؤثر معاہدہ ہے جو ان حقوق کو ساری قوموں سے منوا سکے۔ لیکن مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی ہدایت کے پابند ہیں۔ خدا اور رسولؐ نے بنیادی حقوق کی پوری وضاحت کر دی ہے۔ جو مملکت اسلامی ریاست بننا چاہے گی اسے یہ حقوق لازماً دینا ہوں گے۔ مسلمانوں کو بھی یہ حقوق دئیے جائیں گے اور دوسری اقوام کو بھی۔ اس معاملہ میں کسی ایسے معاہدے کی حاجت نہیں ہو گی کہ فلاں قوم اگر ہمیں یہ حق دے گی تو ہم اسے دیں گے بلکہ مسلمانوں کو بہرحال یہ حقوق دینا ہوں گے۔ دوستوں کو بھی اور دشمنوں کو بھی۔
٭٭ خ ٭٭