’’یہ تو ابنِ تیمیہؒ کا رنگ ہے۔‘‘
یہ الفاظ آج سے پندرہ سال قبل ایک محترم زبان سے میںنے سنے تھے۔ گہرے تاثر کا وہ عالم جس میں یہ الفاظ زبان پر جاری ہوئے تھے، ذہن میں بعینہٖ محفوظ اور آنکھوں میںسمایا ہوا ہے۔ گویا اس وقت بھی وہ اثر انگیز چہرہ دیکھ رہاہوں اور تاثر میں ڈوبی ہوئی وہ آواز سن رہاہوں۔
بہتر یہ ہے کہ پورا واقعہ بیان کر دوں۔
میں ۱۹۳۰ء سے ۱۹۳۴ء تک مدرسۂ عالیہ کلکتہ میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔ ۱۹۳۵ء میں دارالعلوم ندوۃ العلما (لکھنو) میںداخلہ لیا۔ یہیں پہلے پہل مجھے ترجمان القرآن کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ میرے ذہن نے … وضاحت کردوں کہ یہاں میں ذہن کا لفظ قلب و دماغ دونوں کے مجموعے کے لیے استعمال کر رہا ہوں… اس قدر شدید گہرائی پائی کہ ترجمان القرآن کا مطالعہ میرے لیے ایک فطری تقاضا بن گیا۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں جب میں اپنے گھر (موضع پہاڑپور، بازار، ڈاک خانہ بڑہریا، متصل سیواں، ضلع سارن) گیا، تو رسالہ ترجمان القرآن کے پرچے ساتھ لے گیا اور بڑے شوق، ذوق سے اپنی اس دریافت کا والد محترم سے ذکر کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان محترم نے غالباً اس خیال سے کہ ان کے نورنظر نے وقت کے عام مذاق کے…خصوصاً نوجوانوں کے پسندیدہ موضوعات کے خلاف… ایک ایسے رسالے سے اپنی دلچسپی وابستہ کی ہے جس کا نام ترجمان القرآن ہے، تحسین و آفرین سے نوازا اور خود بھی دیکھنے کا شوق ظاہر فرمایا۔
والد محترم جناب مولانا مفتی محمد جمیل انصاری رحمتہ اللہ علیہ، ایک حق پرست عالم دین تھے۔ ان کی عمر پڑھنے پڑھانے میں گزری تھی۔ صاحب درس ہونے کے ساتھ صاحب فتویٰ بھی تھے اور بیس برس (۱۹۱۷ء سے ۱۹۴۱ء) تک مدرسہ عالیہ کلکتہ میں مدرس اور اس کے دارالافتا کے مفتی رہے۔
میں نے ترجمان کے وہ تمام پرچے جو میرے ساتھ تھے، حضرت کی خدمت میں پیش کر دیے۔ ان کو دیکھ کر حضرت نے پہلی رائے جو ظاہر فرمائی وہ یہ تھی:
’’میاں یہ ساری چیزیں قرآن و سنت میں موجود ہیں۔ ضرورت عمل کی ہے۔ عام طور سے انگریزی داں حضرات اس قسم کی باتیں اپنے اخبارات و رسائل میں لکھا کرتے ہیں، لیکن عمل نہیں ہوتا ہے۔‘‘
پھر جب ۱۹۳۶ء کی چھٹیوں میں وطن آیا تو ترجمان القرآن کے تازہ پرچے والد (رحمتہ اللہ علیہ)کی خدمت میں پیش کیے۔ حضرت نے بالاستیعاب ان کا مطالعہ فرمایا۔ پھرایک دن نہایت دلدوز لہجے میں فرمانے لگے کہ:
’’مجھے سخت غلط فہمی تھی۔ یہ شخص (مودودی صاحب) نرا انگریزی داں ہی نہیں ہے، بلکہ عربی کا بھی بہت بڑا فاضل ہے ان کی عمر کیا ہو گی؟‘‘
میں نے عرض کیا: ’’غالباً تیس بتیس سال ہو گی۔‘‘
استعجاب سے فرمانے لگے:
’’اس عمر میں اتنی صلاحیت و قابلیت بہم پہنچائی ہے کہ ان کے رسالے کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔‘‘
میں نے ان تفصیلات سے مولانا مودودی صاحب کو مطلع کیا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب مولانا پٹھان کوٹ آ چکے تھے۔ مولانا نے جواب کے ساتھ سیاسی کش مکش رسالہ دینیات اور دستور العمل دارالاسلام بھی روانہ فرمایا۔ والد رحمتہ اللہ علیہ نے ان چیزوں کو اوّل تا آخر بڑے شغف سے پڑھا اور نہایت دلگیری سے بار بار فرماتے رہے کہ:
’’مجھے اس شخص کے متعلق غلط فہمی تھی۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے۔ یہ تو علامہ ابن تیمیہؒ کا رنگ ہے۔ تعجب ہے کہ اس قحط الرجال کے زمانے میں اور وہ بھی ہندستان میں، ایسا شخص پیدا کیوں کر ہوا، یہ شخص عملاً جب اس کام کو کرے گا، تواس کی مخالفت بھی بڑے شدومد سے کی جائے گی، کیوںکہ دنیا میں اہل حق کے ساتھ ہمیشہ یہی برتائو ہوا ہے اور بہت ممکن ہے کہ لوگ ان کو قتل بھی کر دیں۔‘‘
چنانچہ واقعتہً حکومتِ پاکستان نے پھانسی کی سزا تجویز کر کے یہ بات پوری بھی کر دی تھی۔ وہ تو یہ کہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلِ خاص سے محفوظ رکھا، لیکن مولانا کی عزیمت نے شہادت کے مرتبۂ عالیہ کو حاصل کر لیا۔
اب پٹھان کوٹ سے براہِ راست ترجمان کے رسالے پہاڑ پور بازار، کتب خانہ انصاریہ کے پتے پر آنے لگے تھے۔والدؒ تعطیلات میں جب کلکتے سے مکان تشریف لاتے تو فرصت کے دنوں میں ذوق شوق سے ان کا مطالعہ فرمایا کرتے۔ بالآخر جب ایک صالح جماعت کی ضرورت پر ترجمان میں اشارات شائع ہوئے، تو والد صاحب نے پرعزم لہجے میں فرمایا:
’’اگر یہ جماعت وجود میں آئی، تو میں اس کاپہلا ممبر بنوں گا۔‘‘
لیکن افسوس کہ تشکیلِ جماعت سے دس دن قبل (۱۰؍اگست ۱۹۴۱ء کو) حضرت اپنی راہ چلے گئے۔ (رحمتہ اللہ علیہ)
اسی زمانے میں مولانا مودودی کی عظیم شخصیت پر علامہ سید سلیمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ نے بھرے جلسے میں مہر تصدیق ثبت فرمائی۔
دسمبر ۱۹۴۰ء کی آخری تاریخوں میں دارالعلوم کے قدیم طلبہ کی ’’ندوی کانفرنس‘‘ تھی۔ میں نے ۱۹۳۹ء میں دارالعلوم ندوہ سے سند فراغ حاصل کیا تھا۔ اس لیے میں بھی کانفرنس میں شریک ہونے کی غرض سے لکھنو گیا۔ ایک خاص محرک اس کانفرنس میںشرکت کا یہ تھا کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی اس زمانے میں لکھنو تشریف لانے والے تھے، اور میری طرح ندوہ کے بہت سے فراغت یافتہ طلبہ کو مولانا سے ملاقات و تبادلۂ خیالات کا شوق تھا، چنانچہ مولانا مودودی صاحب کانفرنس کے اختتام کے بعد ندوہ کے مہمان خانے میں تشریف لائے۔ تمام اساتذہ اور ندوہ کے فارغ التحصیل حضرات نے مولانا سے تبادلۂ خیالات کیے۔ مختلف نشستیں مہمان خانے اور مسجد میں ہوئیں۔ بعض نشستوں میں مجھے بھی تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔ اربابِ ندوہ نے مولانا سے اصحابِ تعلیم و طلبہ کوخطاب کرنے کی خواہش کی۔ لکھنؤ کی انجمن اتحادِ طلبہ کی جانب سے، جس میں ندوہ اور لکھنؤ یونیورسٹی کے طلبہ شامل تھے، جلسے کا انتظام کیا گیا اور مولانا مودودی صاحب نے اپنا مقالہ نیا نظامِ تعلیم اپنے خاص طرز اور اسلوب میںارشاد فرمایا۔ صدر جلسہ ہمارے محترم مولانا عبدالماجد صاحب دریا بادی تھے۔ فریضہ تعارف حضرت علامہ سید سلیمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ نے ادا کیا۔ حضرت سید صاحب قبلہ نے مولانا مودودی صاحب کا تعارف جن الفاظ میں کیا تھا، اب تک میرے کان ان صدائوں سے گونج رہے ہیں اور وہ نقشہ میری آنکھوں میں سمایا ہوا ہے۔
علامہ محترم نے فرمایا:
’’میں اس وقت ایک نوجوان، لیکن ایک بحرذِ خار کا تعارف آپ حضرات کے سامنے کرنے کے لیے کھڑا ہوا ہوں۔ مولانا مودودی صاحب سے علمی دنیا پورے طور پر واقف ہو چکی ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ آپ اس دور کے ’’متکلم اسلام‘‘ اور ایک بلند پایہ عالمِ دین ہیں۔ یورپ سے الحادودہریت کا سیلاب جو ہندستان میں آیا تھا، قدرت نے اس کے بند باندھنے کا انتظام بھی ایسے ہی مقدس اور پاک طینت ہاتھوں سے کرایا ہے جو خود یورپ کے جدید و قدیم خیالات سے نہایت ہی اعلیٰ طور پر کماحقہ واقفیت رکھتا ہے، پھر اس کے ساتھ ہی وہ قرآن و سنت کا اتنا گہرا اور واضح علم رکھتا ہے کہ موجودہ دور کے تمام مسائل پر اس کی روشنی میں تشفی بخش طور پر گفتگو کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے ملحدوں اور دہریوں نے اس شخص کے دلائل کے سامنے ڈگیں ڈال دی ہیں۔ اور یہ بات واضح طور پرکہی جا سکتی ہے کہ مودودی صاحب سے ہندستان اور عالمِ اسلام کے مسلمانوں کی بہت سی توقعاتِ دینی وابستہ ہیں۔‘‘
حضرت سید صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا اشارہ خاص کر اس فتنے کی طرف تھا جو نیاز فتح پوری نے دینی عقائد اور وحی و قرآن کے متعلق برپا کیا تھا اور نوجوان طبقہ اس کی طرف بہتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ مولانا مودودی نے اس سلسلے میں متعدد مضامین سپردِ قلم فرمائے، ازاں جملہ ’’تجدد کا پائے چوبیں‘‘ ہے جو ہماری ندوی جماعت میں بہت پسند کیا گیا تھا۔
لیکن دنیا کے عجائبات میں سے یہ بات بھی بڑی عجیب ہے کہ جب دین کا کام کرنے کے لیے کچھ لوگ کھڑے ہوتے ہیں اور اس کو تمام ادیانِ باطل پر غالب کرنے کے لیے تمام ممکن ذرائع اور وسائل کو اپنے قبضے اور تصرف میں لانا چاہتے ہیں، تو اُن پر آج بھی انھی حلقوں، بلکہ انھی زبانوں سے ’’خارجیت‘‘ کے الزام تراشے جاتے ہیں، طرح طرح کے فتوے برستے ہیں اور اقامتِ دین کی تحریک میں خلل ڈالنے، بلکہ مٹا دینے کی انتہائی نامحمود کوشش کی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ان بزرگوں کے حال پر رحم فرمائے اور ہم کو اور ان کو عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
…٭…
ڈاکٹر محمد عطا الرحمن ندویؔ