ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔
دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار
(یہ تقریر ۱۹اپریل ۱۹۴۵ء کو سالانہ اجتماع منعقدہ دارالاسلام۔ پٹھان کوٹ میں کی گئی)
حمد و ثناء کے بعد فرمایا:۔
سب سے پہلے میں اس امر پر اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمیںایک نہایت خشک دعوت اور نہایت بے مزہ طریق کار کو بالآخر لوگو ں کے لیے دلچسپ وخوش ذائقہ بنانے میں توقع سے زیادہ کامیابی عطاکی۔ ہم جس دعوت کولے کر اُٹھے تھے۔اس سے زیادہ کاسد جنس آج دنیا کی دعوتوں کے بازارمیںاور کوئی نہ تھی اوراس کے لیے جوطریق کار ہم نے اختیار کیا اس کے اندران چیزوں میں کوئی چیز بھی نہ تھی جوآج کل دنیا کی دعوتو ں کے پھیلانے میں اور خلق کو اپنی طرف متوجہ کرنے میںاستعمال کی جاتی ہیں۔نہ جلسے نہ جلوس ،نہ نعرے ،نہ جھنڈے ،نہ مظاہرے، نہ نمائش نہ تقریریں،نہ واعظ۔ لیکن اس کے باوجودہم دیکھتے ہیں اور یہ دیکھ کر ہمارا دل شکروسپاس کے جذبے سے لبریز ہوجاتا ہے کہ بندگانِ خدا روزبروز زیادہ کثرت کے ساتھ ہماری اس دعوت کی طرف کھنچ رہے ہیںاور ہمارے بے لطف اجتماعات میں شرکت کیلئے دُوردُورسے بغیرکسی طلب کے آتے ہیں۔
ہمارے اس اجتماع کا اعلان صرف ایک مرتبہ اخبار’’کوثر‘‘میں شائع ہوا اور اس کے بعد کوئی پروپیگنڈا اور کسی قسم کی اشتہاربازی عام اصطلاح میں ’’جلسہ کوکامیاب بنانے کے لیے ‘‘نہیںکی گئی۔ پھربھی ایک ہزار اشخاص ہندوستان کے مختلف گوشوںسے یہاں جمع ہوگئے۔ یہ کشش بہرحال حق ہی کی کشش ہے کیونکہ ہمارے پاس حق کے سوا کوئی اور چیزکھنچنے والی سرے سے ہے ہی نہیں ۔
اجتماعات کا مقصد:
ہمارے ان اجتماعات کا مقصد کوئی مظاہرہ کرنا اور ہنگامہ برپاکرکے لوگوںکواپنی طرف متوجہ کرنا نہیں ہے۔ ہمار ی غرض ان سے صرف یہ ہے کہ ہمارے ارکان ایک دوسرے سے متعارف اور مربوط ہوں ،ان کے درمیان اجنبیت اور نا آشنا ئی باقی نہ رہے،وہ ایک دوسرے سے قریب ہوں اور باہمی مشورے سے تعاون کی صورتیں نکالیں اور اپنے کام کو آگے بڑھانے اور مشکلاتِ راہ اور پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کی تدبیریں سوچیں اور اس کے علاوہ ہمارے پیش نظر ان اجتماعات سے یہ فائدہ بھی ہے کہ ہمیں اپنے کام کا جائزہ لینے اور اس کی کمزوریوں کو سمجھنے اور انہیں دور کرنے کا وقتًافوقتًاموقع ملتا رہتا ہے نیزہمارے کام کے متعلق کچھ لوگ شکوک وشبہات رکھتے ہیں ان کو بھی یہ موقع مل جاتا ہے کہ بالمشافہ ہماری دعوت اور ہمارے کام کو سمجھیں…اور ان کا دل گواہی دے کہ ہم واقعی حق پرہیںتوہمارے ساتھ شریک ہوجائیں۔ بہت سی غلط فہمیاںایسی ہوتی ہیں کہ وہ صرف دوری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور بڑھتی رہتی ہیں۔محض قرب اور مشاہدہ ومعائنہ اور شخصی تعلق ہی ایسی غلط فہمیوں کورفع کردینے کے لیے کافی ہوتا ہے ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور ان حضرات کے بھی شکر گزار ہیں جو اپنا وقت اوراپنا مال صرف کرکے ہمارے ان اجتماعات میں محض ہماری بات کوسمجھنے کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ ہم ان کی جستجوئے حق کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ جہاں ان کی دلچسپی کاکوئی سامان نہیں ہے وہاں وہ محض اس وجہ سے آتے ہیں کہ اﷲکے کچھ بندے جواﷲکانام لے کر ایک کام کررہیںہیںان کے متعلق تحقیق کریں کہ واقعی ان کا کام کس حد تک اﷲکاہے۔ اور اﷲکے لیے ہے۔ یہ مخلصانہ حق جوئی اگر ذہن ودماغ کی صفائی کے ساتھ بھی ہو تو اللہ ان کی سعی وجستجوکوضائع نہ ہونے دے گا اور ضرور انہیں حق کے نشانات راہ دے گا۔
چونکہ ایک بڑی تعداد ایسے لوگو ں کی ہے جو یہ جانناچاہتے ہیں کہ ہماری دعوت اور ہمارا مقصدکیا ہے اور کس طریقے سے ہم اس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے میں انہی دوامور پرکچھ عرض کروں گا۔
ہماری دعوت کیا ہے ہماری دعوت کے متعلق عام طور پر جوبات کہی جاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم حکومت الٓـہٰیہ کے قیا م کی دعوت دیتے ہیںحکومت الٓہٰیہ کا لفظ کچھ تو خود غلط فہمی پیداکرتا ہے اور کچھ اسے غلط فہمی پیداکرنے کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔‘‘
لوگ یہ سمجھتے ہیں اور انہیںایسا سمجھایا بھی جاتا ہے کہ حکومت الٓہٰیہ سے مراد محض ایک سیاسی نظام ہے اور ہماری غرض اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ موجود نظام کی وہ مخصوص جگہ سیاسی نظام قائم ہوپھرچونکہ اس سیاسی نظام کے چلانے والے لامحالہ وہی مسلمان ہوں گے جو اس کے قیام کی تحریک میں حصّہ لے رہے ہوں اس لیے خود بخود اس تصورمیں سے یہ معنی نکل آتے ہیں یاہوشیاری کے ساتھ نکال لیے جاتے ہیں کہ ہم محض حکومت چاہتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دیندارانہ وعظ شروع ہوتا ہے اور ہم سے کہاںجاتا ہے کہ تمہارے پیش نظر محض دنیا ہے حالانکہ مسلمان کے پیش نظردین اور آخرت ہونی چاہیے اور یہ کہ حکومت طلب کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ ایک انعام ہے جو دیندارانہ زندگی کے صلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل جاتا ہے۔ یہ باتیں کہیں تونافہمی کے ساتھ کی جاتی ہیں اور کہیں ہوشمندی کے ساتھ اس غرض کے لیے کہ اگرہمیں نہیں تو کم سے کم خلق خدا کے بڑے حصّہ کو بدگمانیوں اور غلط فہمیوں میں مبتلاکیا جائے۔ حالانکہ اگر کوئی شخص ہمارے لٹریچرکو کھلے دل کے ساتھ پڑھے تو اس پرباآسانی یہ بات کھل سکتی ہے کہ ہمارے پیش نظرصرف ایک سیاسی نظام کا قیا م نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ پوری انسانی زندگی …انفرادی واجتماعی …میں وہ ہمہ گیرانقلاب رونماہو۔ جو اسلام رونما کرنا چاہتا ہے۔ جس کے لیے اللہ نے اپنے انبیا ء علیہم السلام کی امامت ورہنمائی میں اُمت مسلمہ کے نا م سے ایک گروہ بنتارہاہے
دعوت اسلامی کے تین نکات :
اگر ہم اپنی اس دعوت کومختصر طو ر پرصاف اور سیدھے الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تویہ تین نکات پرمشتمل ہوگی :۔
(۱) یہ کہ ہم بندگان خداکو بالعموم اور جو پہلے سے مسلمان ہیں ان کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
(۲)یہ کہ جو شخص بھی اسلام قبول کرنے یااس کوماننے کادعویٰ یا اظہار کرے اس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اورتناقض کو خارج کرے اور جب وہ مسلمان ہے یا بنا ہے تو مخلص مسلمان بنے اور اسلام کے رنگ میں رنگ کریک رنگ ہوجائے ۔
(۳)یہ کہ زندگی کا نظام جو آج باطل پرستو ں اور فساق وفجار کی رہنمائی اور قیادت وفرمانروائی میں چل رہا ہے اور معاملات دنیا کے انتظام کی زمام کار جو خدا کے باغیو ں کے ہاتھ میںآگئی ہے۔ ہم یہ دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور رہنمائی وامامت نظری اور عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین صالحین کے ہاتھ میں منتقل ہو۔یہ تینوں نکات اگرچہ اپنی جگہ بالکل صاف ہیں ایک مّدت دراز سے ان پر غفلتو ں اور غلط فہمیوں کے پردے پڑے رہے ہیں۔ اس لیے بدقسمتی سے آج غیرمسلموں کے سامنے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے سامنے بھی ان کی تشریح کرنے کی ضرورت پیش آگئی ہے۔
بندگی رب کا حقیقی مفہوم:
اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے ،کہ خدا کو خدا اور اپنے آپ کو خدا کا بندہ تو مان لیا جائے۔ مگر اس کے بعد اخلاقی وعملی اور اجتماعی زندگی ویسی کی ویسی ہی رہے جیسی خدا کو نہ ماننے اور اس کی بندگی کا اعتراف نہ کرنے کی صورت میں ہوتی ہے۔ اسی طرح خدا کی بندگی کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ خدا کو فوق الفطری طریقہ پر تو خالق اور رازق اور معبود تسلیم کر لیا جائے مگر عملی زندگی کی فرمانروائی وحکمرانی سے اس کو بے دخل کردیا جائے اسی طرح خدا کی بندگی کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ زندگی کو مذہبی اور دنیوی دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا جائے اور صرف مذہبی زندگی میںجس کا تعلق عقائد اور عبادت اور حرام وحلال کی چند محدود قیود سے سمجھا جاتا ہے ۔خدا کی بندگی کی جائے۔باقی رہے دنیوی معاملات جو تمدن ،معاشرت،سیاست ،معیشت ،علوم فنون اور ادب وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں تو ان میں انسان خدا کی بندگی سے بالکل آزاد رہے اور جس نظام کو چاہے خود وضع کرے یا دوسروں کے وضع کیے ہوئے کو اختیار کرلے۔بندگی رب کے ان سب مفہومات کو ہم سراسر غلط سمجھتے ہیں ،ان کو مٹانا چاہتے ہیں اور ہماری لڑائی جتنی شدت کے ساتھ نظام کفر کے ساتھ ہے اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ شدت کے ساتھ بندگی کے ان مفہومات کے خلاف ہے۔کیونکہ ان کی بدولت دین کا تصور ہی سرے سے مسخ ہو گیا ہے۔ہمارے نزدیک قرآن اور اس سے پہلے کی تمام آسمانی کتابیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے پہلے کے تمام پیغمبر جو دنیا کے مختلف گوشوں میں آئے ان کی بالاتفاق دعوت جس بندگی رب کی طرف تھی وہ یہ تھی کہ انسان خدا کو پورے معنی میں الٰہ اور رب معبود اور حاکم ،آقا اور مالک ،رہنما اور قانون ساز ،محاسب اور مجازی (جزادینے والا) تسلیم کرے اور اپنی پوری زندگی کو خواہ وہ شخصی ہو یا اجتماعی، اخلاقی ہو یا مذہبی ،تمدنی وسیاسی اور معاشی ہو یاعلمی ونظری ،اسی ایک خدا کی بندگی میں سپرد کردے۔یہی مطالبہ ہے جو قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے کہ :
اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً (تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جائو)
یعنی اپنی زندگی کے کسی پہلو اور کسی شعبہ کو بندگی رب سے محفوظ کر کے نہ رکھو۔اپنے تمام وجود کے ساتھ ،اپنی پور ی ہستی کے ساتھ خدا کی غلامی واطاعت میں آجائو۔زندگی کے کسی معاملے میں بھی تمہارا یہ طرز عمل نہ ہو کہ اپنے آپ کو خدا کی بندگی سے آزاد سمجھو۔اور اس کی رہنمائی و ہدایت سے مستغنی ہو کر اور اس کے مقابلہ میں خودمختار بن کر یا کسی خود مختاربنے ہوئے بندے کے پیرویا مطیع ہو کر وہ راہ چلنے لگو جس کی ہدایت خود خدا نے نہ دی ہو۔بندگی کا یہی وہ مفہوم ہے جس کی ہم تبلیغ کرتے ہیں اور جسے قبول کرنے کی سب لوگوں کو، مسلمانوں اور غیر مسلموں، سب کو دعوت دیتے ہیں۔
منافقت کی حقیقت
دوسری چیز جس کی دعوت دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام کی پیروی کا دعویٰ کرنے والے یا اسلام قبول کرنے والے سب لوگ منافقا نہ روّیہ کو بھی چھوڑ دیں۔اور اپنی زندگی کو تناقضات سے بھی پاک کریں۔منافقانہ روّیہ سے ہماری مراد یہ ہے کہ آدمی جس دین کی پیروی کادعویٰ کرے اس کے بالکل بر خلاف نظامِ زندگی کو اپنے اوپرحاوی و مسلط پاکر راضی اور مطمئن رہے اس کو بدل کر اپنے دین کواس کی جگہ قائم کرنے کی کوئی سعی نہ کرے بلکہ اس کے برعکس اسی فاسقانہ و باغیانہ نظام زندگی کو اپنے لیے ساز گار بنانے اور اس میں اپنے لیے آرام کی جگہ پیدا کرنے کی فکر کرتا رہے یا اگر اس کوبدلنے کی کوشش بھی کرے تو اس کی غرض یہ نہ ہو کہ اس فاسقانہ نظامِ زندگی کی جگہ دین حق قائم ہو بلکہ صرف یہ کوشش کرے کہ ایک فاسقانہ نظام ہٹ کر دوسرا فاسقانہ نظام اس کی جگہ قائم ہو جائے۔ہمارے نزدیک یہ طرز عمل سراسرمنافقانہ ہے ،اس لیے کہ ہمارا ایک نظامِ زندگی پر ایمان رکھنااور دوسرے نظام زندگی میں راضی رہنا بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔مخلصانہ ایمان کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ جس طریقِ زندگی پر ایمان رکھتے ہیں اسی کوہم اپنا قانون حیات دیکھنا چاہیں اور ہماری روح اپنی آخری گہرائیوں تک ہراس رکاوٹ کے پیش آجانے پر بے چین ومضطرب ہو جائے جو اس طریق زندگی کے مطابق جینے میں سدراہ بن رہی ہو۔ ایمان تو ایسی کسی چھوٹی رکاوٹ کو بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتاکجا کہ اس کا پورا کا پورا دین کسی دوسرے نظام زندگی کا تابع مہمل بن کے رہ گیا ہواس دین کے کچھ اجزا پر عمل درآمد ہوتا بھی ہو تو صرف اس وجہ سے کہ غالب نظام زندگی نے ان کو بے ضّررسمجھ کر رعایتہ باقی رکھا ہو اور ان رعایات کے ماسوا ساری زندگی کے معاملات دین کی بنیادوں سے ہٹ کر غالب نظام زندگی کی بنیادوں پر چل رہے ہوں اور پھر بھی ایمان اپنی جگہ نہ صرف خوش اور مطمئن ہو بلکہ جو کچھ بھی سوچے اسی غلبۂ کفر کو اصول موضوعہ کے طور پر تسلیم کر کے سوچے اس قسم کا ایمان چاہے فقہی اعتبار سے معتبر ہو لیکن دینی لحاظ سے تو اس میں اور نفاق میں کوئی فرق نہیں ہے اور قرآن کی متعددآیات اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ حقیقت میں نفاق ہی ہے ہم چاہتے ہیں کہ جو لوگ بھی اپنے آپ کو بندگی رب کے اس مفہوم کے مطابق جس کی ابھی میں نے تشریح کی ہے خدائے واحد کی بندگی میں دینے کا اقرار کریں۔ان کی زندگی اس نفاق سے پاک ہو۔بندگی حق کے اس مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سچے دل سے یہ چاہیں کہ جوطریق زندگی ،جو قانون حیات ،جواصول تمدن واخلاق ومعاشرت وسیاست،جو نظام فکروعمل اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا علیہم اسلام کے واسطے سے ہمیں دیاہے ،ہماری زندگی کا پورا کاروبار اسی کی پیروی میں چلے اور ہم ایک لمحہ کے لیے بھی اپنی زندگی کے کسی چھوٹے سے چھوٹے شعبہ کے اندر بھی اس نظام حق کے خلاف کسی دوسرے نظام کے تسلط کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔اب آپ خود سمجھ لیں کہ نظام باطل کے تسلط کو برداشت کرنا بھی جب کہ تقاضائے ایمان کے خلاف ہو تو اس پر راضی ومطمئن رہنا اور اس کے قیام وبقا کی سعی میں حصہ لینا یا ایک نظام باطل کی جگہ دوسرے نظام باطل کو سرفراز کرنے کی کوشش کرنا ایمان کے ساتھ کیسے میل کھا سکتا ہے۔
تناقض کی حقیقت:
اس نفاق کے بعد دوسری چیز جس کو ہم ہر پرانے اور نئے مسلمان کی زندگی سے خارج کرنا چاہتے ہیں اورجس کے خارج کرنے کی ہر مدعی ایمان کو دعوت دیتے ہیں اور تناقض سے ہماری مرادیہ ہے کہ آدمی جس چیز کا زبان سے دعویٰ کرے عمل سے اس کی خلاف ورزی کرے نیز یہ بھی تناقض ہے کہ آدمی کا اپنا عمل ایک معاملہ میں کچھ ہو اور دوسرے معاملہ میں کچھ اور اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اپنی پوری زندگی کو خدا کی بندگی میں دے دیا ہے تو اسے جان بوجھ کر کوئی حرکت بھی ایسی نہ کرنی چاہے جو بندگی ربّ کی ضدہو ،اور اگر بشری کمزوری کی بنا پر ایسی کوئی حرکت اس سے سرزد ہو جائے تو اسے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے پھر بندگی رب کی طرف پلٹنا چاہیے۔ایمان کے مقتضیات میں سے یہ بھی ایک اہم مقتضا ہے کہ پوری زندگی صبغتہ اللہ میں رنگی ہوئی ہو۔پچرنگی اور چورنگی زندگی تو درکنار دورنگی زندگی بھی دعوائے ایمان کے ساتھ میل نہیں کھاتی۔ہمارے نزدیک یہ بات بہروپئے پن سے کچھ کم نہیں ہے کہ ہم ایک طرف تو خدا اور آخرت اور وحی اور نبوت اور شریعت کو ماننے کا دعویٰ کریں اور دوسری طرف دنیا کی طلب میں لپکے ہوئے ان درس گاہوں کی طرف خود دوڑیں، جہاں پر انسان کو خدا سے دور کرنے والی،آخرت کو بھلادینے والی ،مادہ پرستی میں غرق کردینے والی تعلیم دی جاتی ہو۔ایک طرف ہم خدا کی شریعت پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کریں اور دوسری طرف ان عدالتوں کے وکیل اور جج بنیں اور انہی عدالتوں کے فیصلوں پر حق اور غیر حق کے فیصلے کا دارومدار رکھیں جو شریعت الٰہی کو ایوان عدالت سے بے دخل کر کے شریعت غیرالٰہی کی بنیاد پر قائم کی گئی ہوں ایک طرف ہم مسجد میں جا کر نمازیں پڑھیں اور دوسری طرف مسجد سے باہر نکلتے ہی اپنے گھر کی زندگی میں،اپنے لین دین میں،اپنی معاش کی فراہمی میں،اپنے شادی بیاہ میں، اپنی میراثوں کی تقسیم میں، اپنی سیاسی تحریکوں میں اور اپنے سارے دنیوی معاملات میں خدا اور اس کی شریعت کو بھول کر کہیں اپنے نفس کے قانون کی، کہیں اپنی برادری کے رواج کی، کہیں اپنی سوسائٹی کے طور طریقوں کی اور کہیں خدا سے پھرے ہوئے حکمرانوں کے قوانین کی پیروی میں کام کرنے لگیں۔ایک طرف ہم اپنے خدا کو بار بار یقین دلائیں کہ ہم تیرے ہی بندے ہیں اور تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔اور دوسری طرف ہر اس بت کی پوجا کریں جس کے ساتھ ہمارے مفاد ہماری دلچسپیاں اور ہماری محبتیں اور آسائشیں کچھ بھی وابستگی رکھتی ہوں۔یہ اور ایسے بے شمار تناقضات جو آج مسلمانوں کی زندگی میں پائے جاتے ہیں جن کے موجود ہونے سے کوئی ایسا شخص جو بینائی رکھتا ہو۔انکار نہیں کر سکتا۔ہمارے نزدیک وہ اصلی گُھن ہیں جو امت مسلمہ کی سیرت واخلاق کو اور اس کے دین وایمان کو اندر ہی اندر کھائے جاتے ہیں اور زندگی کے ہر پہلو میں مسلمانوں سے جن کمزوریوں کا اظہار ہو رہا ہے ان کی اصل جڑ یہی تناقضات ہیں۔ایک مدت تک مسلمانوں کو یہ اطمینان دلایا جاتا رہا ہے کہ تم شہادت توحید ورسالت زبان سے ادا کرنے اور روزہ ونماز وغیرہ چند مذہبی اعمال کر لینے کے بعد خواہ کتنے ہی غیر دینی اور غیرایمانی طرز عمل اختیار کر جائو۔بہر حال نہ تمہارے اسلام پر کوئی آنچ آسکتی ہے اور نہ تمہاری نجات کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے حتیٰ کہ اس ڈھیل کی حدوداس حد تک بڑھیں کہ نماز روزہ بھی مسلمان ہونے کے لیے شرط نہ رہا اور مسلمانوں میں عام طور پر یہ تخیل پیدا کر دیا گیا کہ اگر ایک طرف ایمان و اسلام کااقرار ہو اور دوسری طرف ساری زندگی اس کی ضد ہو تب بھی کچھ نہیں بگڑتا لَنْ تَمَــسَّـنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ۰۠(۱) اسی چیز کا نتیجہ آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اسلام کے نام کے ساتھ ہر فسق ، کفر،معصیت ونافرمانی اور ہر ظلم وسر کشی کا جوڑآسانی سے لگ جاتا ہے اور مسلمان مشکل ہی سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ جن راہوں میں وہ اپنے اوقات ،اپنی محنتیں،اپنے مال ،اپنی قوتیں اور قابلیتیں اور اپنی جانیں کھپارہے ہیں اور جن مقاصد کے پیچھے ان کی انفرادی اور اجتماعی کوششیں صرف ہو رہی ہیں وہ اکثر ان کے اس ایمان کی ضد ہیں جس کا وہ دعویٰ رکھتے ہیں۔یہ صورت حال جب تک جا ری رہے گی اسلام کے دائرہ میں نو مسلموں کا داخلہ بھی کوئی مفید نتیجہ پیدا نہ کر سکے گا۔کیونکہ جو منتشر افراد اس کان نمک میں آتے جائیں گے وہ اسی طرح نمک بنتے چلے جائیں گے۔پس ہماری دعوت کا ایک لازمی عنصر یہ ہے کہ ہم ہر مدعی ایمان کی زندگی کو ان تناقضات سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں۔ہمارا مطالبہ ہر مومن سے یہ ہے کہ وہ حنیف ہویکسویک رنگ مومن ومسلم ہو،ہر اس چیز سے کٹ جائے اور نہ کٹ سکتا ہو تو پیہم کٹنے کی جدوجہد کرتا رہے جو ایمان کی ضد اور مسلمانہ طریق زندگی کے منافی ہو،اور خوب اچھی طرح مقتضیاتِ ایمان میں سے ایک ایک ،تقاضے اسے پورا کرنے کی پیہم سعی کرتا رہے۔
امامت میں تغیرکی ضرورت :
اب ہماری دعوت کے تیسرے نکتے کو لیجئے۔ابھی جن دونکات کی تشریح میں آپ کے سامنے کر چکا ہوں،یہ تیسرا نکتہ ان سے بالکل ایک منطقی نتیجے کے طور پر نکلتا ہے۔ہمارا اپنے آپ کو بندگی رب کے حوالے کردینا اور اس حوا لگی وسپردگی میں ہمارا منافق نہ ہونا اور پھر ہمارا اپنی زندگی کو تناقضات سے پاک کر کے مسلم حنیف بننے کی کوشش کرنا لازمی طور پر اس بات کا تقاضا کرتاہے کہ ہم اس نظامزندگی میں انقلاب چاہیں جو آج کفر، دہریت، شرک ،فسق وفجور،اور بداخلاقی کی بنیادوں پر چل رہا ہے اور جس کے نقشے بنانے والے مفکرین اور جس کا عملی انتظام کرنے والے مدبّرین سب کے سب خدا سے پھرے ہوئے اور اس کی شرائع کے قیود سے نکلے ہوئے لوگ ہیں۔جب تک زمامِ کار ان لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی اور جب تک علوم و فنون، مالیات،صنعت وحرفت وتجارت، نشرواشاعت، قانون سازی اور تنقید قانون، انتظام ملکی اور تعلقات بین الا قوامی، ہر چیز کی باگ ڈور یہ لوگ سنبھالے ہوئے رہیں گے کسی شخص کے لیے دنیا میں مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا اور خدا کی بندگی کو اپنا ضابطہ حیات بنا کر رہنا نہ صرف عملاً محال ہے بلکہ اپنی آئیندہ نسلوں کو اعتقاداً اسلام کا پیرو چھوڑ جانا غیر ممکن ہے اس کے علاوہ صحیح معنوں میں جو شخص بندۂ رب ہو اس پر منجملہ دوسرے فرائض کے ایک اہم ترین فرض یہ بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ خدا کی رضا کے مطابق دنیا کے انتظام کو فساد سے پاک کرے اور صلاح پر قائم کرے۔اور یہ ظاہر بات ہے کہ یہ مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک کہ زمام کار صالحین کے ہاتھ میں نہ ہو۔فساق وفجار اور خدا کے باغی اور شیطان کے مطیع دنیا کے امام وپیشوا اور منتظم رہیں اور پھر دنیا میں ظلم،فساد،بداخلاقی اور گمراہی کا دور دورہ نہ ہو،یہ عقل اور فطرت کے خلاف ہے اور آج تجربہ ومشاہدہ سے کالشمس فی النہار ثابت ہو چکا ہے کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔پس ہمارا مسلم ہونا خود اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم دنیا کے آئمہ ضلالت کی پیشوائی ختم کر دینے اور غلبۂ کفروشرک کو مٹا کردین حق کو اس کی جگہ قائم کرنے کی سعی کریں۔
امامت میں انقلاب کیسے آتا ہے؟
مگر یہ تغیر محض چاہنے سے نہیں ہوسکتا۔اللہ تعالیٰ کی مشیت بہر حال دنیا کا انتظام چاہتی ہے اور دنیا کے انتظام کے لیے کچھ صلاحیتیں اور قوتیں اور صفات درکار ہیں۔جن کے بغیر کوئی گروہ اس انتظام کو ہاتھ میں لینے اور چلانے کے قابل نہیں ہوسکتا۔اگر مومنین،صالحین کا ایک منظم حبتھا ایسا موجود نہ ہو جو انتظام دنیا کو چلانے کی اہلیت رکھتاہو تو پھر مشیتِ الٰہی غیر مومن اور غیر صالح لوگوں کو اپنی دنیا کا انتظام سونپ دیتی ہے۔لیکن اگر کوئی گروہ ایسا موجود ہو جائے جو ایمان بھی رکھتا ہو، صالح بھی ہو اور ان صفات اور صلاحیتوں اور قوتوں میں بھی کفار سے بڑھ جائے جو دنیا کا انتظام چلانے کے لیے ضروری ہیں تو مشیت الٰہی نہ ظالم ہے اور نہ فسا د پسند کہ پھر بھی اپنی دنیا کا انتظام فساق وفجار اور کفار ہی کے ہاتھ میںرہنے دے۔پس ہماری دعوت صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ دنیا کی زمام کار فساق وفجار کے ہاتھ سے نکل کر مومنین صالحین کے ہاتھ میں آئے بلکہ ایجاباًہماری دعوت یہ ہے کہ اہل صلاح کا ایک ایسا گروہ منظم کیا جائے جو نہ صرف اپنے ایمان میں پختہ،نہ صرف اپنے اسلام میں مخلص یک رنگ اورنہ صرف اپنے اخلاق میں صالح وپاکیزہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ان تمام اوصاف اور قابلیتوں سے بھی آراستہ ہو جو دنیا کی کار گاہِ حیات کو بہترین طریقے پر چلانے کے لیے ضروری ہیں،اور صرف آراستہ ہی نہ ہو بلکہ موجودہ کار فرمائوں اور کار کنوں سے ان اوصاف اور قابلیتوں میں اپنے آپ کو فائق ثابت کردے۔
مخالفت اور اس کے اسباب :
یہ ہے ہماری دعوت کا خلاصہ۔اب آپ تعجب کریں گے اگر میں آپ کو بتائوں کہ اس دعوت کی مزاحمت اور مخالفت سب سے پہلے جس گروہ کی طرف سے ہوئی ہے وہ مسلمانوں کا گروہ ہے۔اس وقت تک غیر مسلموں کی طرف سے ہمارے خلاف نہ کوئی آواز اٹھی ہے اور نہ عملاً کوئی مزاحمت و مخالفت ہوئی ہے یہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کب تک یہ صورت حال رہے گی،مگر بہر حال یہ واقعہ اپنی جگہ نہایت درد ناک اور افسوسناک ہے کہ اس دعوت کو سن کر ناک بھوں چڑھانے والے،اسے اپنے لیے خطرہ سمجھنے والے اور اس کی مزاحمت میں سب سے آگے بڑھ کر سعی کرنے والے غیر مسلم نہیں بلکہ مسلمان ہیں شاید ایسی ہی کچھ صورت حال ہوگی جس میں اہل کتاب سے فرمایاگیاتھا۔
وَلَا تَكُوْنُوْٓا اَوَّلَ كَافِرٍؚ بِہٖ۰۠ البقرہ 41:2
سب سے پہلے انکار کرنے والے نہ بنو۔
ہمیں ہندوئوں سکھوں اور انگریزوں تک سے تبادلۂ خیال کا موقع ملا ہے۔مگر بہت کم ایسا اتفاق ہوا کہ ان لوگوں میں سے کسی نے ہمارے لٹریچرکو پڑھ کر یا ہمارے مدعا کو تفصیل کے ساتھ ہماری زبان سے سن کر یہ کہا ہو کہ: ’’ یہ حق نہیں ہے۔‘‘یا یہ کہ اگر تم اس چیز کو قائم کرنے کی کوشش کرو گے تو ہم ایڑی سے چوٹی تک کا زور تمہاری مزاحمت میں لگا دیں گے۔متعدد غیرمسلم ہم کو ایسے بھی ملے ہیں جنہوں نے بے اختیار ہو کر کہا کہ کاش یہی اسلام ہندوستان میں پیش کیا گیا ہوتا اسی کو قائم کرنے کے لئے باہر سے آنے والے اور اندر سے قبول کرنے والے مسلمانوں نے کوشش کی ہوتی تو آج ہندوستان کا نقشہ یہ نہ ہوتا اس ملک کی تاریخ کچھ اور ہی ہوتی۔بعض غیر مسلموں نے ہم سے یہاں تک کہا کہ اگر فی الواقع ایسی ایک سوسائٹی موجود ہو جو پوری دیانت کے ساتھ ان ہی اصولوں پر چلے اور جس کا مرنا اور جینا سب اسی ایک مقصد کے لیے ہو تو ہمیں اس کے اندر شامل ہونے میں کوئی تامل نہ ہوگا۔لیکن اس کے برعکس ہماری مخالفت میں سر گرم اور ہمارے متعلق بد گمانیاں پھیلانے اور ہم پر ہر طرح کے الزام لگانے والے اگر کسی گروہ میں سب سے پہلے اٹھے تو وہ مسلمانوں کا گروہ ہے اور ان میں بھی سب سے زیادہ یہ شرف مذہبی طبقے کے حضرات کو حاصل ہوا ہے۔پھر لطف یہ ہے کہ آج تک کسی کویہ کہنے کی جرأت نہیں ہوئی کہ جس چیز کی دعوت تم لوگ دیتے ہو وہ باطل ہے۔شاید اس دعوت پر سامنے سے حملہ ممکن ہی نہیں ہے اس لیے مجبوراًکبھی عقب سے اور کبھی دائیں پہلو سے اور کبھی بائیں جانب سے چھاپے مارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔کبھی کہا جاتا ہے کہ بات تو حق ہے مگر اس کی طرف دعوت دینے والا ایسا اور ایسا ہے کبھی کہا جاتا ہے کہ اس کے حق ہونے میں تو کلام نہیں مگر اس زمانے میں یہ چلنے والی چیز نہیں ہے۔کبھی کہا جاتاہے کہ حق تویہی ہے مگر اس کا عَلم بلند کرنے کے لیے صحابہ کرام جیسے لوگ درکار ہیں اور وہ بھلا اب کہاں آ سکتے ہیں۔کبھی کہا جاتا ہے کہ اس کے صداقت ہونے میں کوئی شبہ نہیں مگر مسلمان اپنی موجودہ سیاسی ومعاشی پوزیشن میں اس دعوت کو اپنی واحد دعوت کیسے بنا سکتے ہیں،ایسا کریں تو ان کی دنیا تباہ ہو جائے اور تمام سیاسی اور معاشی زندگی پر غیر مسلم قابض ہو کر ان کے لیے سانس لینے تک کی جگہ نہ چھوڑیں پھر جب اس مسلمان قوم میں سے کوئی اللہ کا بندہ ایسا نکل آتا ہے جو ہماری اس دعوت کو قبول کر کے اپنی زندگی کو واقعی نفاق وتنا قض سے پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی پوری زندگی کو بندگی رب میں دے ڈالنے کا تہیہ کر لیتا ہے تو سب سے پہلے اس کی مخالفت کرنے کے لیے اس کے اپنے بھائی بند،اس کے ماں باپ،اعزاء اور اقرباء برادری کے لوگ اوردوست آشناء کھڑے ہو جاتے ہیں۔اچھے اچھے متقی اور دیندار آدمی بھی جن کی پیشانیوں پر نمازیں پڑھتے پڑھتے گِٹّے پڑ چکے ہیں اور جن کی زبانیں مذہبیت کی باتوں سے ہر وقت تر رہتی ہیں اس بات کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ ان کا بیٹا یا بھائی یا کوئی عزیز جس کا دنیوی مفاد انہیں کسی درجہ میںبھی محبوب ہو اپنے آپ کو اس خطرہ میں ڈالے۔
یہ بات کہ اس دعوت کی مخالفت سب سے پہلے مسلمانوں نے کی اور ان کے اہل دنیا نے نہیں بلکہ اہل دین نے کی،ایک بہت بڑی بیماری کا پتہ دیتی ہے جو مدتوں سے پرورش پا رہی تھی مگر ظاہر فریب کے پردوں کے پیچھے چھپی ہوئی تھی۔ آج اگر ہم محض علمی رنگ میں اس دعوت کو پیش کرتے اور یہ نہ کہتے کہ آئو اس چیز کو عمل میں لانے اور بالفعل قائم کرنے کی کوشش کریں تو آپ دیکھتے کہ مخالفت کے بجائے ان مزے دار علمی باتوں پر ہر طرف سے تحسین و آفرین ہی کی صدائیں بلند ہوتیں۔بھلا کوئی مسلمان ایسا بھی ہو سکتا ہے جو یہ کہہ سکے کہ بندگی خدا کے سوا اور کسی کی ہونی چاہیے، یا یہ کہ زمامِ کا ر مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ کفار ہی کے ہاتھ میں رہنی چائیے۔میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اب تک جن چیزوں کی ہم نے دعوتِ دی ہے ان میں سے کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جسے ہم دعوت عمل کے بغیر صرف علمی حیثیت سے پیش کرتے تو مسلمانوں میں سے کوئی گروہ بلکہ کوئی فرد اس کے خلاف زبان کھولنے پر آمادہ ہوتا۔ لیکن جس چیز نے لوگوں کو مخالفت پر آمادہ کیا وہ صرف یہ ہے کہ ہم ان باتوں کو فقط علمی رنگ میں ہی نہیں پیش کرتے بلکہ ہمار مطالبہ یہ ہے کہ آئو جس چیز کو ازروئے حق جانتے ہو اسے عملاً پہلے اپنی زندگی میں اور پھر اپنے گردوپیش دنیا کی زندگی میں قائم وجاری کرنے کی کوشش کرو۔یہ بعینہٖ وہی صورت حال ہے جو اس سے پہلے نبی کریم ﷺ کے ظہور کے وقت پیش آچکی ہے۔جو لوگ عرب جاہلیت کے لٹریچر پر نگاہ رکھتے ہیں۔ان سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ نبی کریم ﷺنے جس توحید کی دعوت دی تھی اور جن اصول اخلاق کو آپ پیش فرماتے تھے وہ عرب میں بالکل کوئی نئی چیز نہ تھے۔اسی قسم کے مواحدانہ خیالات زمانہ جاہلیت کے متعدد شعراء اور خطیب پیش کر چکے تھے اور اسی طرح اسلامی اخلاقیات میں سے بھی پیشتر وہ تھے جن کو اہل عرب کے حکما اور خطباء اور شعراء بیان کرتے رہے تھے۔مگر فرق جو کچھ تھا وہ یہ کہ نبی ﷺنے ایک طرف تو باطل کی آمیزشوں سے الگ کر کے خالص حق کو ایک مکمل ومرتب نظام زندگی کی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کیا اور دوسری طرف آپ نے یہ بھی چاہا کہ جس توحید کو ہم حق کہتے ہیں اس کے مخالف عناصر کو ہم اپنی زندگی سے خارج کر دیں اور سارے نظام زندگی کو توحید کی بنیاد پر تعمیر کریں نیز جن اصول و اخلاق کو ہم معیار تسلیم کرتے ہیں ہماری پوری زندگی کا نظام بھی انہی اصولوں پر عملاً قائم ہو۔یہی سبب تھا کہ جن باتوں کے کہنے پر زمانہ جاہلیت کے کسی خطیب کسی شاعر اور کسی حکیم کی مخالفت نہیں کی گئی بلکہ الٹا انہیں سراہا گیا۔ان ہی باتوں کو جب نبی ﷺ نے پیش کیا تو ہرطرف سے مخالفتوں کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا کیونکہ لوگ اس بات کے لیے تیار نہیں تھے، کہ شرک پر جو نظام زندگی قائم تھا اسے بالکل ادھیڑ کر از سرِ نو توحید کی بنیادوں پر قائم کیا جائے اور اس طرح ان تمام تعصبات اور آبائی رسموں کا، امتیازات اور حقوق،،اور مناصب کا اور اعزازات و کرامات اور معاشی مفادات کا یکلخت خاتمہ ہو جائے جو صدہا برس سے عہد جاہلیت میں زندگی کی بنیادبنے ہوئے تھے اور جن سے بعض طبقوں اور خاندانوں کی اغراض وابستہ تھیں۔اسی طرح لوگ اس بات کے لیے بھی تیار نہیں تھے، کہ اخلاق فاسدہ کے رواج سے جو آسائشیں اور لذیتں اور منفعتیں اور آزادیاں ان کو حاصل ہیں ان سے دست بردار ہو جائیں اور اخلاق صالح کی بندشوں میں اپنے آپ کو خود کسوالیں۔یہ معاملہ صرف نبی ﷺہی کے ساتھ پیش نہیں آیا بلکہ حضور ﷺ سے پہلے جتنے نبی گزرے ہیں ان کی مخالفت بھی زیادہ تر اسی بات پر ہوئی ہے۔اگر انبیاء صرف علمی اور ادبی حیثیت سے توحید اور آخرت اور اخلاق فاضلہ کا ذکر کرتے تو ان کے زمانے کی سوسائٹیاں اسی طرح ان کو برداشت کرتیں بلکہ سر آنکھوں بٹھاتیں جس طرح انہوں نے مختلف قسم کے شاعروں اور فلسفیوں اور ادیبوں کو سر آنکھوں پربٹھایا۔لیکن ہر نبی کا مطالبہ ان باتوں کے ساتھ یہ بھی تھا کہ اتَّقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِo الشعراء 150:26 (اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو) اورلَا تُطِيْعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِيْنَo الشعراء151:26 حد سے گزرنے والوں کی اطاعت نہ کرو، اور اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۰ۭالاعراف3:7 (جو ہدایت تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو اور اپنے رب کے سوادوسرے سرپر ستو ں کی پیروی نہ کرو)اور پھرانبیاء نے اس پر بھی اکتفانہ کیا بلکہ ایک مستقل تحریک اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے جاری کی اور اپنے پیروئوں کے حبتھے منظم کر کے عملاًنظام تہذیب وتمدن واخلاق کو اپنے نصب العین کے مطابق بدل ڈالنے کی جدوجہد شروع کردی۔ بس یہی وہ نقطہ تھا جہاں سے ان لوگوں کی مخالفت کا آغازہوا جن کے مفاد نظا م جاہلیت سے کلی یا جزئی طور پر وابستہ تھے۔اور آج ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ٹھیک یہی نقطہ ہے جہاں سے ہماری مخالفت کی ابتداء ہوئی ہے۔مسلمانوں نے ایک طویل مدت سے اپنی زندگی کی عمارت ان بہت سی مصالحتوں پر قائم رکھی ہے جو نظام جاہلیت کے اور ان کے درمیان طے ہو چکے ہیں۔یہ مصالحتیں صرف دنیا دارانہ ہی نہیں ہیںبلکہ انہوں نے اچھی خاصی مذہبی نوعیت بھی اختیار کرلی ہے۔بڑے بڑے مقدس لوگ جن کے تقدس کی قسمیں کھائی جا سکتی ہیں۔ان مصالحتوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔نظامِ باطل کی وابستگی کے ساتھ تقویٰ اورعبادت کے چند مظاہر اس قدر کافی قرار دئیے جاچکے ہیں کہ بکثرت لوگ انہی محدودپرہیز گاریوں اور عبادت گذاریوں پر اپنی نجات کی طرف سے مطمئن بیٹھے ہوئے ہیں۔بہت سے ارباب فضل اور مقامات عالیہ ایسے موجود ہیں جن کی بزرگی اور روحانیت، اور جن کے اونچے مراتب، نظام جاہلیت اور فسق وفجور اور بد اعتقادیوں اور ضلالتوں کی مذمت کر لینا اور عہد صحابہ کے نقشے بڑی طلاقت لسانی کے ساتھ اپنے وعظوں اور اپنی تحریروں میں کھینچ دینا اسلام کا حق ادا کرنے کے لیے بالکل کافی ہو چکا ہے اور اس کے بعد ان حضرات کے لیے بالکل حلال ہے کہ خود اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اپنے متعلقین اور اپنے پیروئوں کو اسی نظام باطل کی خدمت میں لگا دیں جس کے لائے ہوئے سیلاب ضلالت وگمراہی اور طوفان فسق وفجور کی یہ دن رات مذمت کرتے رہتے ہیں۔ان حالات میں جب ہم دین حق اور اس کے مطالبات اور مقتضیات کو محض علمی حیثیت ہی سے پیش کرنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ یہ دعوت بھی دیتے ہیں کہ غلط نظام کے ساتھ وہ تمام مصالحتیں ختم کردو جو تم نے کر رکھی ہیں اور کامل یکسوئی ویکرنگی کے ساتھ حق کی پیروی اختیار کرو اور پھر اس باطل کی جگہ ا س حق کو قائم کرنے کے لیے جان ومال اور وقت ومحنت کی قربانی دو جس پر تم ایمان لائے ہو۔تو ظاہر ہے کہ یہ قصور ایسا نہیں ہے جسے معاف کیا جاسکے۔اگر سیدھی طرح یہ تسلیم کرلیا جائے کہ واقعی دین کے مطالبات اور مقتضیات یہی ہیں اور حقیقت میں حنیفیت اسی کو کہتے ہیں۔اور اصل بات یہی ہے کہ نظامِ باطل کے ساتھ مومن کا تعلق مصالحت کا نہیں بلکہ نزاع وکشمکش کا ہونا چاہیے،تو پھر دوصورتوں سے ایک صورت کا اختیار کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے،یا تو اپنے مفاد کی قربانی گوارا کرکے ا س جدوجہد میں حصہ لیا جائے۔اور ظاہر ہے کہ یہ بہت جان گسل بات ہے،یاپھر اعتراف کرلیا جائے کہ حق تو یہی ہے مگر ہم اپنی کمزوری کی وجہ سے اس کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ لیکن یہ اعتراف بھی مشکل ہے کیونکہ ایسا کرنے سے صرف یہی نہیں کہ نجات کی وہ گارنٹی خطرہ میں پڑ جاتی ہے ۔جس کے اطمینان پر اب تک زندگی بسر کی جارہی تھی بلکہ اس طرح وہ مقام تقدس بھی خطرہ میں پڑ جاتا ہے جو مذہبی و روحانی حیثیت سے ان حضرات کو حاصل رہا ہے اور یہ چیز بھی بہر حال ٹھنڈے پیٹوں گوارا نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے ایک بڑے گروہ نے مجبوراً یہ تیسری راہ اختیار کی ہے کہ صاف صاف ہماری اس دعوت کو باطل تو نہ کہا جائے کیونکہ باطل کہنے کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن صاف صاف اس کے حق ہونے کا بھی اعتراف نہ کیا جائے۔ اور اگر کہیں اس کی حقانیت کا اقرار کرنا پڑہی جائے تو پھر اصول کو چھوڑ کر کسی شخص یا اشخاص کو بد گمانیوں اور الزامات کا ہدف بنایا جائے تاکہ خود اپنے ہی مانے ہوئے حق کا ساتھ نہ دینے کے لیے وجہ جواز پیدا ہو جائے … کاش یہ حضرات کبھی اس بات پر غور فرماتے کہ جو حجتیں آج بندوں کا منہ بند کرنے کے لیے وہ پیش کرتے ہیں کل قیامت کے روز کیا وہ خدا کا منہ بھی بند کر دیں گی؟
ہمارا طریقِ کار
اب میں آپ کے سامنے مختصر طور پر اس ’’طریقِ کار ‘‘کو پیش کروں گا جو ہم نے اپنی اس دعوت کے لیے اختیار کیا ہے۔ ہماری دعوت کی طرح ہمارا یہ طریقِ کار بھی دراصل قرآن اور انبیا ء علیہم السلام کے طریقے سے ماخوذ ہے۔ جو لوگ ہماری دعوت کو قبول کرتے ہیں ان سے ہمارا اوّلین مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو عملاً اور بالکلیہ بندگی رب میں دے دو اور اپنے عمل سے اپنے اخلاص اور اپنی یکسوئی کا ثبوت دو اور ان تمام چیزوں سے اپنی زندگی کو پاک کرنے کی کوشش کرو جو تمہارے ایمان کی ضدہیں۔ یہیں سے ان کے اخلاق وسیرت کی تعمیر اور ان کی آزمائش کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جن لوگوں نے بڑی بڑی اُمنگوں کے ساتھ اعلٰی تعلیم حاصل کی تھی انہیں اپنے اونچے اونچے خوابوں کی عمارتیں اپنے ہاتھ سے ڈھادینی پڑتی ہیں اور اس زندگی میں تو درکنار اپنی دوسری تیسری پشت میں بھی دُور دُور نظر نہیں آتے۔ جن لوگوں کی معاشی خوشحالی کسی مرہونہ زمین یا کسی مغصوبہ جائداد یا کسی ایسی میراث پر قائم تھی جس میں حقداروں کے حقوق مارے گئے تھے۔ انہیں بسا اوقات دامن جھاڑ کر اس خوشحالی سے کنارہ کش ہو جانا پڑتا ہے صرف اس لیے کہ جس خدا کو انہوں نے اپنا آقا تسلیم کیا ہے اس کے منشاء کے خلاف کسی کا مال کھانا ان کے ایمان کے منافی ہے۔ جن لوگوں کے وسائلِ زندگی غیر شرعی تھے یا نظام ِباطل سے وابستہ تھے ان کو ترقیوں کے خواب دیکھنا تو درکنار موجود ہ وسائل سے حاصل کی ہوئی روٹی کا بھی ایک ایک ٹکڑا حلق میں اُتارنا ناگوار ہونے لگتا ہے۔ اور وہ ان وسائل کو پاک تروسائل سے خواہ وہ حقیر ترین ہی کیوں نہ ہوں، بدلنے کے لیے ہاتھ پائوں مارنے لگتے ہیں۔ پھر جیسا کہ ابھی میں آپ کے سامنے بیان کر چکاہوں، اس مسلک کو عملاً اختیار کرتے ہی آدمی کا قریب ترین ماحول اس کا دشمن بن جاتا ہے۔ اس کے اپنے والدین، اس کے بھائی بند، اس کی بیوی اور بچے اور اس کے جگری دوست سب سے پہلے اس کے ایمان سے قوت آزمائی کرتے ہیں۔ اور بسا اوقات اس مسلک کا پہلا اثر ظاہر ہوتے ہی آدمی کا اپنا گہوارہ جس میں وہ نازوں سے پالا گیا تھا اس کے لئے زبنور خانہ بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ ہے وہ ابتدائی تربیت گاہ جو صالح و مخلص اور قابلِ اعتماد سیرۃ کے کارکن فراہم کرنے کے لیے قدرتِ الٰہی نے ہمارے لیے خود بخود پیدا کر دی ہے۔ ان ابتدائی آزمائشوں میں جو لوگ ناکام ہوجاتے ہیں وہ آپ سے چھٹ کر الگ ہوجاتے ہیں اور ہمیں ان کا چھانٹ پھینکنے کی زحمت گوارا نہیں کرنی پڑتی۔ اور جو لوگ ان میں پورے اترتے ہیں وہ ثابت کردیتے ہیں کہ ان کے اندر کم از کم اتنا اخلاص، اتنی یکسوئی، اتنا صبر اور عزم اتنی محبت ِحق اور اتنی مضبوط، سیرت ضرور موجود ہے جو خدا کی راہ میں قدم رکھنے اور پہلے مرحلہ امتحان سے کامیاب گذر جانے کے لیے ضروری ہے۔ اس مرحلے کے کامیاب لوگوں کو ہم نسبتاً زیادہ بھروسے اور اطمینان کے ساتھ لے کر دوسرے مرحلے کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں جو آگے آنے والا ہے اور جس میں اس سے زیادہ آزمائشیں پیش آنے والی ہیں۔ وہ آزمائشیں پھر ایک دوسری بھٹی تیار کریں گی جو اسی طرح کھوٹے سکوں کو چھانٹ کر پھینک دے گی اورزر خالص کو اپنی گود میں رکھ لے گی۔ جہاں تک ہمارا علم ساتھ دیتا ہے ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی معاون سے کارآمد عناصر کو چھانٹنے اور ان کو زیادہ کار آمد بنانے کے لیے یہی طریقہ پہلے بھی اختیار کیا جاتا رہا ہے اور جو تقویٰ ان بھٹیوں میں تیار ہوتا ہے، چاہے وہ فقہی ناپ تول میں پورا نہ اترے، اور خانقاہی معیاروں پر بھی ناقص نکلے، مگر صرف اسی طرز سے تیار کیے ہوئے تقویٰ میں یہ طاقت ہوسکتی ہے۔ کہ انتظام ِدنیا کی بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ سنبھال سکے اور ان عظیم الشان امانتوں کا بار اُٹھاسکے جن کے ایک قلیل سے قلیل جز کا وزن بھی خانقاہی تقویٰ کی برداشت سے باہر ہے۔
اس کے ساتھ دوسری چیز جو ہم اپنے ارکان پر لازم کرتے ہیں یہ ہے کہ جس حق کی روشنی انہوں نے پائی ہے اس سے وہ اپنے قریبی ماحول کو اور ان سب لوگوں کو جن سے ان کا قرابت یا دوستی یا ہمسائیگی یا لین دین کا تعلق ہے، روشناس کرانے کی کوشش کریں اور انہیں اس کی طرف آنے کی دعوت دیں۔ یہاں پھر آزمائشوں کااایک سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو اس تبلیغ کی وجہ سے مبلغ کی اپنی زندگی درست ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ کام شروع کرتے ہی بے شمار خوردبین اور دیدبان اس کی ذات کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور مبلّغ کی زندگی میں اگر کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس کے ایمان اور اس کی دعوت کے منافی موجود ہوتو یہ مفت کے محتسب اسے نمایاں کرکے مبلغ کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور تازیانے لگا لگا کر اسے مجبور کرتے ہیں کہ اپنی زندگی کو اس سے پاک کرے۔ اگر مبلغ فی الوقع اس دعوت پر سچے دل سے ایمان لایا ہو تو وہ ان تنقیدوں پر جھنجلانے اور تاویلوں سے اپنے عمل کی غلطی کو چھپانے کی کوشش نہ کرے گا بلکہ ان لوگوں کی خدمات سے فائدہ اُٹھائے گا جو مخالفت کی نیت ہی سے سہی مگر بہرحال اس کی اصلاح میں بغیر کسی معاوضے کے سعی ومحنت صرف کرتے رہتے ہیں ظاہر ہے کہ جس برتن کو بیسیوں ہاتھ مانجھنے میں لگ جائیں اور مانجھتے ہی چلے جائیں وہ چاہے کتنا ہی کثیف ہو آخرکار مجلا و مصفّاہو کر رہے گا۔
پھر اس تبلیغ سے ہمارے کارکنوں میں بہت سے ان اوصاف کو بالید گی حاصل ہوتی ہے جنہیں آگے چل کر دوسرے میدانوں میں کسی اور شکل سے ہم کو استعمال کرنا ہے۔ جب مبلغ کو طرح طرح کے دل شکن حالات سے گذرنا پڑتا ہے۔ کہیں اس کی ہنسی اڑائی جاتی ہے، کہیں اس پر طعنے اور آواز ے کسے جاتے ہیں۔ کہیں گالیوں اور دوسری جہالتوں سے اس کی تواضع کی جاتی ہے،کہیں اس پر الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے، کہیں اس کو فتنوں میں اُلجھانے کی نت نئی تدبیریں کی جاتی ہیں۔ کہیں اُسے گھر سے نکال دیا جاتا ہے، میراث سے محروم کیا جاتا ہے دوستیاں اور رشتہ داریاں اس سے منقطع کرلی جاتی ہیں اور اس کے لیے اپنے ماحول میں سانس لینا تک دشوار کردیا جاتا ہے، تو ان حالات میں جو کارکن نہ ہمت ہارے نہ حق سے پھرے، نہ باطل پرستوں کے آگے سپر ڈالے نہ مشتعل ہوکر اپنے دماغ کا توازن کھوئے۔ بلکہ اس کے برعکس حکمت اور تدبر اور ثابت قدمی اور راست بازی اور پرہیز گاری اور ایک سچے حق پرست کی سی ہمدردی وخیر خواہی کے ساتھ اپنے مسلک پر قائم اور اپنے ماحول کی اصلاح میں پیہم کوشاں رہے۔ اس کے اندر ان اوصاف عالیہ کا پیدا ہونا اور نشوونما پانا یقینی ہے جو آگے چل کر ہماری اس جدوجہد کے دوسرے مرحلوں میں اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر درکار ہوں گے۔
اس تبلیغ کے سلسلہ میں ہم نے وہی طریقِ کار اپنے کارکنوں کو سکھانے کی کوشش کی ہے جو قرآن مجید میں تعلیم فرمایا گیاہے، یعنی یہ کہ حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ خدا کے راستے کی طرف دعوت دیں۔ تدریج اور فطری ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے لوگو ں کے سامنے دین کے اوّلین بنیادی اصولو ں کو اور پھر،رفتہ رفتہ ان کے مقتضیات اور لوازم کو پیش کریں ،کسی کو اس کی قوتِ ہضم سے بڑھ کر خوراک دینے کی کوشش نہ کریں ،بنیادی خرابیوں کو رفع کیے بغیرظاہری برائیوں اور بیرونی شاخوں کو چھانٹنے پر اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ غفلت اور اعتقادی وعملی گمراہیوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کے ساتھ نفرت وکراہیّت کا برتائوکرنے کے بجائے ایک طبیب کی سی ہمدردی وخیرخواہی کے ساتھ ان کے علاج کی فکر کریں ،گالیوں اور پتھروں کے جواب میں دعائے خیر کرنا سیکھیں ،ظلم اور ایذاء رسانی پرصبر کریں ،جاہلوں سے بحثوں اور مناظروں اور نفسانی مجادلوں میں نہ اُلجھیں ،لغو اور بیہودہ باتوں سے عالی ظرف اور شریف لوگو ں کی طرح درگزر کریں ،جولوگ حق سے مستغنی بنے ہوئے ہوں ان کے پیچھے پڑنے کے بجائے ان لوگو ں کی طرف توجہ کریں جن کے اندر کچھ طلب حق پائی جاتی ہو خواہ وہ دُنیوی اعتبار سے کتنے ہی ناقابل توجہ سمجھے جاتے ہوں اور اپنی تمام سعی وجہد میں ریا اور نمودونمائش سے بچیں ،اپنے کارناموں کوگنانے اور فخرکے ساتھ ان کا مظاہرہ کرنے اور لوگوں کی توجہات اپنی طرف کھینچنے کی ذرا برابرکوشش نہ کریں بلکہ جو کچھ کریں اس نیّت اور اس یقین واطمینان کے لیے ہے اور خدا بہرحال ان کی خدمات سے واقف ہے اور ان خدمات کی قدر بھی اسی کے ہاں ہونی ہے خواہ خلق اس سے واقف ہویا نہ ہو اور خلق کی طرف سے سزا ملے یاجزا۔ یہ طریق کار غیر معمولی صبر اور حلم اور لگاتارمحنت چاہتا ہے۔ اس میں ایک مدت دراز تک مسلسل کام کرنے کے بعد بھی شاندار نتائج کی وہ ہری بھری فصل لہلہاتی نظر نہیں آتی جو سطحی اور نمائشی کام شروع کرتے ہی دوسرے دن سے تماشائیوں اور مداریوں کادل لبھانا شروع کردیتی ہے۔ اس میں ایک طرف خودکارکن کے اندر وہ گہری بصیرت، وہ سنجیدگی ، وہ پختہ کاری اور وہ معاملہ فہمی پیدا ہوتی ہے جو اس تحریک کے زیادہ صبر آزمااور زیادہ محنت و حکمت چاہنے والے مراحل میں درکار ہونے والی ہے۔ اور دوسری طرف اس سے تحریک اگرچہ آہستہ رفتار سے چلتی ہے مگر اس کا ایک ایک قدم مستحکم ہوتا چلا جاتا ہے صرف ایسے ہی طریق تبلیغ سے سوسائٹی کا مکھن نکال کر تحریک میں جذب کیا جاسکتا ہے۔ اوچھے اور سطحی لوگوں کی بھیڑجمع کرنے کے بجائے اس طریق تبلیغ سے سوسائٹی کے صالح ترین عناصر تحریک کی طرف کھنچتے ہیں اور سنجیدہ کارکن تحریک کو میسر آتے ہیں جن میں سے ایک ایک آدمی کی شرکت ہزار بوالفضولوں کے انبوہ سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔
ہمارے طریقِ کار کا ایک بڑا اہم جزیہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو نظام ِباطل کی قانونی اور عدالتی حفاظت سے خود بخود محروم کرلیا(۱) ہے اور علی الاعلان دنیا کو بتادیا ہے کہ ہم اپنے انسانی حقوق، اپنے مال وجان اور عزت وآبرو، کسی چیز کی عصمت بھی قائم رکھنے کے لیے اس نظام کی مدد حاصل کرنا نہیں چاہتے جس کو ہم باطل سمجھتے ہیں۔ لیکن اس چیز کو ہم نے تمام ارکان پر لازم نہیں کیا ہے۔ بلکہ ان کے سامنے ایک بلند معیار رکھ دینے کے بعد ان کو اختیار دے دیا ہے کہ چاہیں تو اس معیار کی انتہائی بلندیوں تک پہنچ جائیں ورنہ حالات کی مجبوریوں سے شکست کھا کھا کر جس قدر پستی میں گرنا چاہیں گرتے چلے جاہیں البتہ پستی کی ایک حد ہم نے مقرر کر دی ہے کہ اس سے گر جانے والے کو ہم اپنی جماعت میں نہ رکھیں گے۔ یعنی ایسا شخص جو جھوٹا مقدمہ بنائے، یا جھوٹی شہادت دے، یا ایسی مقدمہ بازی میں الجھے جس کے لیے کسی مجبوری کا عذہ نہ پیش کیا جا سکے۔ بلکہ وہ سراسر منفعت طلبی یا نفسانیت کی تسکین یا دوستی اور رشتہ داری کی عصبیت ہی پر مبنی ہو ، ہماری جماعت میں جگہ نہیں پاسکتا۔
بظاہر لوگ ہمارے اس طریقِ کار کی حکمتوں کو جو ہم نے قانون وعدالت کے معاملے میں اختیار کیا ہے پوری طرح نہیں سمجھتے اس لیے وہ طرح طرح کے سوالات ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مگر فی الحقیقت اس کے بے شمار فائدے ہیں۔ اسکااوّلین فائدہ یہ ہے کہ ہم اپنا ایک بااصول جماعت ہونا اپنے عمل سے اور ایسے عمل سے ثابت کردیتے ہیں جو محض تفریحی نوعیت ہی نہیں رکھتا بلکہ صریح طور پر نہایت تلخ اور انتہائی کڑی آزمائشیں اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا کے سواکسی کو انسانی زندگی کے لیے قانون بنانے کا حق نہیں ہے، اور جب ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ حاکمیت صرف خدا کا حق ہے اور خدا کی اطاعت اور اس کے قانون کی پابندی کے بغیر کوئی زمین میں حکم چلانے کا مجاز نہیں ہے اور جب ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جو قانونِ الٰہی کی سند کے بغیر معلاماتِ انسانی کا فیصلہ کرے وہ کافر اور فاسق اور ظالم ہے تو ہمارے اس عقیدے اور ہمارے اس دعوے سے خود بخود یہ بات لازم آجاتی ہے کہ ہم اپنے حقوق کی بنیاد کسی غیر الہٰی قانون پر نہ رکھیں اور حق اور غیر حق کا فیصلہ کسی ایسے حاکم کی حکومت پر نہ چھوڑیں جس کو ہم باطل سمجھتے ہیں۔ اپنے عقیدے کے اس تقاضے کو اگر ہم سخت سے سخت نقصانات اور انتہائی خطرات کے مقابلے میں بھی پورا کرکے دکھادیں تو یہ ہماری راستی اور ہماری مضبوطی سیرت اور ہمارے عقیدے اور عمل کی مطابقت کا ایسا بین ثبوت ہوگا جس سے بڑھ کر کسی دوسرے ثبوت کی حاجت نہیں رہتی۔ اور اگر کسی نفع کی امید یا کسی نقصان کا خطرہ یا کسی ظلم و ستم کی چوٹ ہم کو مجبور کردے کہ ہم اپنے عقیدے کے خلاف کام کر گذریں تو یہ ہماری کمزوری کا اور ہماری سیرۃ کے بودے پن کا بھی ایک نمایا ں ترین ثبوت ہوگا جس کے بعد کسی دوسرے ثبوت کی ضرورت نہ رہے گی۔
اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اپنے ارکان کی پختگی اور ان کے قابل اعتمادیا نا قابل اعتماد ہونے کا اندازہ کرنے کے لیے ہمارے پاس یہ ایک ایسی کسوٹی ہوگی جس سے ہم بآسانی یہ معلوم کرتیں رہیں گے کہ ہم میں سے کون لوگ کتنے پختہ ہیں اور کس سے کس قسم کی آزمائش میں ثابت قدم رہنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
اس کا تیسرا اور عظیم الشان فائدہ یہ ہے کہ ہمارے ارکا ن یہ مسلک اختیار کرنے کے بعد آپ سے آپ اس بات پرمجبور ہوجائیں گے کہ سوسائٹی کے ساتھ اپنے تعلقات کو قانون کی بنیادوں پرقائم کرنے کے بجائے اخلاق کی بنیادوں پرقائم کریں۔ ان کواپنا اخلاقی معیار کو اتنا بلند کرنا پڑے گا ،اپنے آپ کواپنے ماحول میں اس قدرراست باز ،اتنا متدین ،اتنا امین ،اتنا خدا ترس اور اس قدر خیر مجسم بناناپڑے گا کہ لو گ خود بخود ان کے حقوق ،ان کی عزت اور ان کی جان ومال کا احترام کرنے پرمجبور ہوجائیں گے کیونکہ اس اخلاقی تحفظ کے سواان کے لیے دنیا میں اور کوئی تحفظ نہ ہوگا اور قانونی تحفظ سے محروم ہونے اور پھر اخلاقی تحفظ بھی حاصل نہ کرنے کی صورت میں ان کی حیثیت دنیا میں بالکل ایسی ہوکررہ جائے گی۔ جیسے جنگل میں ایک بکری بھیڑیوں کے درمیان رہتی ہو۔
اس کا چوتھا فائدہ یہ ہے اور یہ بھی کچھ اہم نہیں ہے کہ ہم اس طرح اپنے آپ کو اور اپنے مفاد اور حقوق کوخطرے میں ڈال کر موجودہ سوسائٹی کی اخلاقی حالت کو بالکل برہنہ کر کے دنیا کے سامنے رکھ دیں گے۔جب یہ لوگ جاننے کے بعد کہ ہم پولیس اور عدالت سے اپنی حفاظت کے لیے کوئی مدد لینے والے نہیں ہیں، ہمارے حقوق پر علی الا علان ڈاکے ماریں گے تو یہ اس بات کا نمایاں ترین ثبوت ہو گاکہ ہمارے ملک کی اور ہماری سوسائٹی کی اخلاقی حالت کس قدر کھو کھلی ہے، کتنے آدمی ہیں جو صرف اس وجہ سے شریف بنے ہوئے ہیں کہ قانون نے ان کو شریف بنا رہنے پر مجبور کر رکھا ہے، کتنے آدمی ہیں جو ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں، بشر طیکہ ان کو اطمینان ہو جائے کہ دنیا میں کوئی ان پر گرفت کرنے والانہیں ہے۔ کتنے آدمی ہیں جنہوں نے مذہب اور اخلاق اور انسانیت کے جھوٹے لبادے اوڑھ رکھے ہیں حالانکہ اگر موقع میسر آجائے اور کوئی رکاوٹ موجود نہ ہو تو ان سے بدترین بداخلاقی اور لامذہبیت اور حیوانیت کا صدور نہایت آسانی کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ یہ اخلاقی ناسُور جو چھپا ہوا ہے اور اندر ہی اندر ہماری قومی سیرت کو گلا اور سٹر رہا ہے ہم اس کو علیٰ رئوس الاشہاد بے پردہ کر کے رکھ دیں گے تاکہ ہمارے ملک کا اجتماعی ضمیر چونک پڑے اور اسے ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو کہ جس مرض سے وہ اب تک غفلت برت رہا ہے وہ کتنی دور پہنچ چکا ہے۔
صاحبو!اپنی دعوت اور اپنے طریق کار کی مختصر تشریح میں نے آپ کے سامنے پیش کر دی ہے۔آپ اس کو جانچیں اور پر کھیں اور اس پر کڑی سے کڑی تنقید کریںاور دیکھیں کہ ہم کس چیز کی طرف بلا رہے ہیں، اوربلانے کے لیے ہم نے جو ڈھنگ اختیار کیا ہے وہ کہاں تک صحیح ہے، کس حد تک خدا اور رسول ؐکی تعلیمات کے مطابق ہے، کس حد تک موجود ہ انفرادی واجتماعی امراض کا صحیح علاج ہے اور کس حد تک اس سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ہم اپنے آخری مقصود یعنی کلمۃاللہ کے بلند اورکلمات با طلہ کے پست ہو جانے کو حاصل کر سکتے ہیں۔اب میں ان شبہات واعتراضات پر کچھ عرض کردوں گا جو اسی اجتماع کے دوران میں بعض رفقاء اور ہمدردوں کے ذریعے سے مجھ تک پہنچائے گئے ہیں۔
علماء اور مشائخ کی آڑ :
ایک اعتراض جو پہلے بھی بار بار سن چکا ہوں اور آج بھی وہ میرے پاس تحریری شکل میں آیا ہے، یہ ہے کہ ایسے بڑے بڑے علماء اور پیشوایانِ دین (جن کے کچھ نام بھی گنائے گئے ہیں)کیا دین سے اس قدر نا واقف تھے کہ نہ صرف یہ کہ خود انہوں نے دین کے ان تقاضوں کو جوتم بیان کرتے ہو نہیں سمجھا اور پورا کرنے کی طرف توجہ نہیں کی بلکہ تمہارے بیان کرنے کے بعد بھی انہوں نے اسے تسلیم نہیں کیا اور نہ تمہارے ساتھ تعاون کرنا قبول کیا؟کیا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سب دین سے ناواقف ہیں ؟یا اس بات کا کہ تم نے خود دین کے نام سے ایک ایسی چیز پیش کی ہے جو مقتضیاتِ دین میں سے نہیں ہے‘‘؟اس سوال کا بہت مختصر جواب میرے پاس یہ ہے کہ میں نے دین کو حال یا ماضی کے اشخاص سے سمجھنے کے بجائے ہمیشہ قرآن اورسنت ہی سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اس لیے میں کبھی یہ معلوم کرنے کے لیے کہ خدا کا دین مجھ سے اور ہر مومن سے کیا چاہتا ہے، یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ فلاں اور فلاں بزرگ کیا کہتے ہیں بندہ صرف یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہو کہ قرآن مجید کیا کہتا ہے؟اور رسول ﷺنے کیا کیا؟اسی ذریعہ معلوما ت کی طرف میں آپ لوگوں کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔آپ یہ دیکھیے کہ جس چیز کی طرف میں آپ کو دعوت دے رہا ہوں اورجو طریق کا ر اس کے لیے پیش کررہا ہوں آیا قرآن کی دعوت وہی ہے اور انبیائہ علیہم السلام کا طریق کا ر وہی رہا ہے یا نہیں۔اگر قرآن وسنت سے یہ بات ثابت ہوجائے اور آپ کے نزدیک قرآن وسنت ہی اصل ذریعہ ہدایت ہوں تو میری بات مانئے اور میر ے ساتھ آجائیے اور اگر اس دعوت اور اس طریق کار میں کوئی چیز قرآن وسنت سے ہٹی ہوئی ہوتو بے تکلّف اسے ظاہر کر دیجئے ،جس وقت مجھ پر اور میرے رفقاء پر یہ منکشف ہو گا کہ ہم کہیں بال برابر بھی قرآن اور سنت سے ہٹے ہیں تو آپ انشاء اللہ دیکھ لیں گے کہ ہم حق کی طرف رجوع کرنے میں ایک لمحے کے لیے بھی تامّل کرنے والے نہیں ہیں لیکن اگر آپ حق وباطل کا فیصلہ خدا کی کتا ب اور اس کے رسول ﷺکی سنت کی بجائے اشخاص پررکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو پورا اختیار ہے کہ آپ اپنے آپ کو اور مستقبل کو اشخاص ہی کے حوالے کر دیجیے اور خدا کے ہاں بھی یہی جواب دیجیے گا کہ ہم نے اپنا دین تیری کتا ب اور تیرے رسولﷺکی سنت کے بجائے فلاں اورفلاںلوگوں کے حوالے کردیا تھا۔ یہ جواب دہی اگر آپ کو خداکے ہاں بچاسکتی ہے تو اسی پراطمینان سے کام کرتے رہیے۔
زہد کا طعنہ:
ایک اور اعتراض جس کے متعلق مجھے لکھا گیا ہے کہ ایک مخلص ہمدرد نے اسے پیش کیاہے کہ تمہاری جماعت محض چندزہا داور تارکین دنیا کی ایک جماعت ہے جودنیا کے معاملات سے بے تعلق ہوکر ایک طرف بیٹھ گئی ہے اور جسے سیاسیات حاضرہ سے کوئی بحث نہیں ہے ،درانحالیکہ مسلمانوں کو حالات نے مجبور کردیا ہے کہ بغیر ایک لمحہ ضائع کیے ان سیاسی مسائل کو حل کریں جن کے حل پرپوری قوم کے مستقبل کا انحصار ہے اور صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی مجبور ہیں کہ سب سے پہلے اپنے ملک کے سیاسی مستقبل کی فکر کریں کیونکہ اسی پر ان کی فلاح کا مدار ہے ،لہذا اس ملک میں جو لوگ بھی زندگی کے عملی مسائل سے دلچسپی وتعلق رکھتے ہوںوہ تو تمہاری طرف توجہ نہیں کر سکتے البتہ کچھ گوشہ نشین و زاویہ پسند لوگ جو مذہبی ذہنیت رکھتے ہوں تمہیں ضرور مل جائیں گے۔ ،،یہ اعتراض دراصل اس سطح بینی کا نتیجہ ہے جس سے ہمارے آج کل کے سیاست کار حضرات معاملات کو دیکھنے اور سمجھنے میں کام لے رہے ہیں۔ یہ لوگ محض سیاسی اشکال اور صورتوں کے ردّو بدل کو دیکھتے ہیں اور ان ہی میں مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں لیکن سیاست کی عمارت جن بنیادوں پرقائم ہوتی ہے ان تک ان کی نگاہ نہیں پہنچتی۔
آپ کے موجودہ سیاسی مسائل جن کی فکر میں آپ لوگ آج کل اُلجھے ہوئے ہیں کس چیز کے پیداکردہ ہیں ؟صرف اس چیز کے کہ جن اخلاقی اور اعتقادی وفکری اور تہذیبی وتّمدنی بنیادوں پر اس ملک کی سوسائٹی قائم تھی وہ اتنی کمزورثابت ہوئیں کہ ایک دوسری قوم اگرچہ وہ نہایت ہی گمراہ اور نہایت ہی غلط کار تھی۔ مگر بہرحال اپنے اخلاقی اوصاف اپنی تہذیبی وتمدنی طاقت اور اپنی عملی قابلتیوں کے لحاظ سے وہ آپ سے اتنی زیادہ برترثابت ہوئی کہ ہزاروں میل دور سے آکر اس نے آپ کو اپنا محکوم بنا لیا۔پھر آپ اپنی مدت ہائے دراز کی غفلتوں اور کمزوریوں کی وجہ سے اس حد تک گرے کہ خود اس محکومی کے اندر بھی آپ کی ہمسایہ قومیں آپ کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہو گئیں اور آپ کے لیے یہ سوال پیدا ہو گیا کہ اپنے آپ کو پہلے کس سے بچائیں، گھر والے سے یا باہر والے سے ؟یہ ہے آپ کے تمام موجودہ سیاسی مسائل کا خلاصہ، اور ان مسائل کو آپ بھی اور آپ کی ہمسایہ دوسری ہندوستانی قومیں بھی صرف اس طرح حل کرنا چاہتی ہیں کہ ملک کا سیاسی نظام جس شکل پر قائم ہے اس میں بس کچھ اوپری ردّو بدل ہو جائے میں اس سیاست کو اور اس سیاسی طریقِ کار کو بالکل مہمل سمجھتا ہوں اور اس میں اپنا وقت ضائع کرنے کا کچھ حاصل نہیں پاتا پھر صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دُنیا میں جو سیاسی مسائل اس وقت درپیش ہیں ان کا خلاصہ بھی میرے نزدیک صرف یہ ہے کہ انسان کو جوحیثیت دنیا میں فی الواقع حاصل نہیں تھی۔ اسے خواہ مخواہ اپنی حیثیت بنا لینے پر اس نے اصرار کیا اور اپنے اخلاق، اپنی تہذیب، اپنے تمدن،اپنی معیشت اور اپنی سیاست کی بنیاد خدا سے خود مختاری پر رکھ دی جس کا انجام آج ایک عظیم الشان فساد اور ایک زبردست طوفان فسق وفجور کی شکل میں رونما ہو رہا ہے۔اس انجام کو انتظام دنیا کی محض ظاہری شکلوں کے ردّو بدل سے دور کرنے کے لیے جو کو ششیں آج کی جارہی ہیں انہی کا نام آج ’’سیاست ‘‘ہے اورمیرے نزدیک بلکہ فی الحقیقت اسلام سے جن حقیقوں کو سمجھا ہے ان کی بنا پر میرے نزدیک ہندوستان کے مسلمانوں کی اور ہندوستان کے سارے باشندوں کی اور تمام دنیائے مسلمین اور دنیائے غیر مسلمین کی سیاست کا حل صرف یہ ہے کہ ہم سب خدا کی بندگی اختیار کریں،اس کے قانون کو اپنا قانونِ حیات تسلیم کریں اور انتظام دنیا کی زمامِ اختیار فساق وفجار کے بجائے عباداللہ الصالحین کے ہاتھ میں ہو۔یہ سیاست اگر آپ کو اپیل نہیں کرتی اور آپ کچھ دوسری سیاست بازیوں سے اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کا راستہ الگ ہے اور میرا راستہ الگ۔جائیے اور جن جن طریقوں سے اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں حل کر کے دیکھ لیجیے۔مگر میں اور میرے رفقاء علیٰ وجہ البصیرت جس چیز میں اپنی قوم کی، اپنے ملک کی اور ساری دنیا کی فلاح دیکھتے ہیں۔ اسی پر ہم اپنی ساری کوششیں صرف کرتے رہیں گے۔اگر دنیا کے لوگ ہماری باتوں کی طرف توجہ کریں گے تو ان کے اپنے لیے بھلا ہے اور نہ کریں گے تو اپنا کچھ بگاڑیں گے۔ ہمارا کچھ نقصان نہ کر سکیں گے۔
رہی یہ غلط فہمی کہ ہم زاہدوں اور گوشہ نشینوں کا ایک گروہ بنا رہے ہیں تو اگر یہ عمداً واقعہ کی غلط تعبیر نہیں ہے اور واقعی غلط فہمی ہی ہے تو اسے ہم صاف صاف رفع کردینا چاہتے ہیں۔ہم دراصل ایسا گروہ تیار کرنا چاہتے ہیں جو ایک طرف زہدو تقویٰ میں اصطلاحی زاہدوں اور متقیوں سے بڑھ کر ہو اور دوسری طرف دنیا کے انتظام کو چلانے کی قابلیت وصلاحیت بھی عام دنیا داروں سے زیادہ اور بہتر رکھتا ہو۔ہمارے نزدیک دنیا کی تمام خرابیوں کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ نیک لوگ نیکی کے صحیح مفہوم سے نا آشنا ہونے کی بنا پر گوشہ گیر ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور پرہیزگاری اس کو سمجھتے ہیں کہ دنیا کے معاملات ہی سے پر ہیز کریں،اور دوسری طرف ساری دنیا کے کاروبار بدوں کے ہاتھ میں آجاتے ہیں جن کی زبان پر نیکی کا نام اگر آتا بھی ہے تو صرف خلق خدا کو دھوکا دینے کے لیے۔اس خرابی کا علاج صرف یہی ہو سکتا ہے کہ صالحین کی ایک جماعت منظم کی جائے جو خدا ترس بھی ہو،راست باز اور دیانت داربھی ہو،خدا کے پسندیدہ اخلاق اور اوصاف سے آراستہ بھی ہو اور اس کے ساتھ دنیا کے معاملات کو دنیا داروں سے زیادہ اچھی طرح سمجھے اور خود دنیا داری ہی میں اپنی مہارت و قابلیت سے ان کو شکست دے سکے۔ہمارے نزدیک اس سے بڑا اور کوئی سیاسی کام نہیں ہوسکتا اور نہ اس سے زیادہ کامیاب سیاسی تحریک اور کوئی ہوسکتی ہے کہ ایسے ایک صالح گروہ کو منظم کر لیا جائے۔بد اخلاق اور بے اصول لوگوں کے لیے دنیا کی چراگاہ میں بس اسی وقت تک چرنے چگنے کی مہلت ہے جب تک ایسا گروہ نہیں تیار ہو جاتا اور جب ایسا گروہ تیار ہو جائے گا تو آپ یقین رکھیے کہ نہ صرف آپ کے اس ملک کی بلکہ بتدریج ساری دنیا کی سیاست اور معیشت اور مالیات اور علوم و آداب اور عدل وانصاف کی باگیں اسی گروہ کے ہاتھ میں آجا ئیں گی اور فساق وفجار کا چراغ ان کے آگے نہ جل سکے گا یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ انقلاب کس طرح رونما ہوگا لیکن جتنا مجھے کل سورج کے طلوع ہونے کا یقین ہے اتنا ہی مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ یہ انقلاب بہرحال رونما ہو کر رہے گا بشر طیکہ ہمیں صالحین کے ایسے گروہ کو منظم کرنے میں کامیابی حاصل ہو جائے۔
رفقاء جماعت سے خطاب :
اب میں آپ لوگوں سے اجازت چاہوں گا کہ تھوڑی دیر کے لیے عام خطاب کو چھوڑ کر خاص طور پر کچھ باتیں اپنے رفقاء سے عرض کروں:۔
رفقاء محترم!سب سے پہلے آپ سے خطاب کرتے ہوئے میں اسی بات کو دہرانا ضروری سمجھتا ہوں جسے ہر اجتماع کے موقعہ پر دہراتا رہا ہوں کہ اپنی اس عظیم الشان ذمہ داری کو محسوس کیجیے جس کو آپ نے شعوری طور پر اپنے خدا سے عہدو میثاق مضبوط کر کے اپنے اوپر خود عائد کرلیا ہے۔آپ کے اس عہد کا تقاضا صرف یہی نہیں ہے کہ آپ قانون الٰہی کے زیادہ سے زیادہ پابندہوں اور آپ کے عقیدے اور قول وعمل میں کامل مطابقت ہو اور آپ کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ رہ جائے جس میں آپ کے افکارواعمال اس اسلام سے مختلف ہوں، جس پر آپ ایمان لائے ہیں،بلکہ اس کے ساتھ آپ کے اسی عہد کا تقاضا اور نہایت شدید تقاضا یہ بھی ہے کہ جس اسلام پر آپ ایمان لائے ہیں اور جسے آپ اپنے بادشاہ کا دین سمجھتے ہیں اور جسے آپ تمام نوع انسانی کے لیے حق جانتے ہیں اور واحد ذریعہ فلاح بھی سمجھتے ہیں اس کوتمام دوسرے دینوں اور مسلکوں اور نظاموں کے مقابلے میں سر بلند کرنے کے لیے ، اورنوع انسانی کو ادیان باطلہ کی فساد انگیز تباہ کاریوں سے بچا کر دین حق کی سعادتوں سے بہرہ ور کرنے کے لیے آپ میں کم از کم اتنی بے چینی پائی جائے جتنی آج ادیانِ باطلہ کے پیرو اپنے اپنے جھوٹے اور غازتگر دینوں کی حمایت وبرتری کے لیے دکھا رہے ہیں۔آپ کی آنکھوں کے سامنے ان لوگوں کی مثالیں موجود ہیں جو سخت سے سخت خطرات، شدید سے شدید نقصانات، جان ومال کے زیاں، ملکوں کی تباہی اور اپنی اولاد اور اپنے عزیزوں اور جگر گوشوں کی قربانی صرف اس لیے گوارا کر رہے ہیں کہ جس طریقِ زندگی کو وہ صحیح سمجھتے ہیں اور جس نظام میں اپنے لیے فلاح کا امکان انہیں نظر آتا ہے اسے نہ صرف اپنے ملک پر بلکہ ساری دنیا پر غالب کر کے چھوڑیں۔ ان کے صبر اور ان کی قربانیوں اور محنتوں اور ان کے تحمل مصائب اور اپنے مقصد کے ساتھ ان کے عشق کا موازنہ آپ اپنے عمل سے کر کے دیکھیے اور محسوس کیجیے کہ آپ اس معاملے میں ا ن کے ساتھ کیا نسبت رکھتے ہیں۔اگر فی الواقع آپ کبھی ان کے مقابلے میں کامیاب ہو سکتے ہیں تو صرف اسی وقت جب کہ ان حیثیات میں آپ ان سے بڑھ جائیں، ورنہ آپ کے مالی ایثار، آپ کے وقت اور محنت کے ایثار، اور اپنے مقصد کے ساتھ آپ کی محبت اور اس کے لیے آپ کی قربانی کا جو حال اس وقت ہے اس کو دیکھتے ہوئے تو آپ یہ حق بھی نہیں رکھتے کہ اپنے دل میں اس تمنا کو پرورش کریں کہ آپ کے ہاتھوں یہ جھنڈا کبھی بلند ہو۔
دُوسری چیز جس کی طرف مجھے آپ کو توجہ دلانے کی بار بار ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ لوگ دین کے اصولی اور بنیادی امور کی اہمیت کو سمجھیں اور فروع کے ساتھ جو اہتما م اب تک کرتے رہے ہیں اور جس اہتمام کی بیماری آپ کے سارے مذہبی ماحول کو لگی ہوئی ہے اس سے بچنے کی کوشش کریں۔میں دیکھتا ہوں کہ میری اور جماعت کے چند دوسرے صاحب علم ونظر رفقاء کی کوششوں کے باوجود ہمار ی جماعت میں ابھی تک ان جزئیات کے ساتھ اچھا خاصہ انہماک بلکہ غلو پایا جاتاہے جن پر ایک مدت سے فرقہ بندیاں اور گروہی کشمکشیںہوتی رہی ہیں، اوریہ کیفیت بسا اوقات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ہماری تفہیم سے اس طریقے کو چھوڑنے کے بجائے ہمارے بعض رفقاء الٹا ہمیں کو ان بحثوں میں اُلجھانے کی کوشش کرتے ہیں وہ کتنی ہی اہمیت رکھتی ہوں مگر بہر حال یہ وہ چیزیں نہیں ہیں جن کو قائم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو مبعوث کیا ہو اور اپنی کتابوں کو نازل کیاہو۔انبیاء کی بعثت اورکتب الٰہی کی تنزیل کا مقصد یہ رہا ہے کہ خلق خدا اپنے مالک حقیقی کے سوا کسی کے تابع فرمان نہ رہے ،قانون صرف خدا کا قانون ہو،تقویٰ صرف خدا سے ہو،امر صرف خدا کامانا جائے ،حق اورباطل کافرق اور زندگی میں راہِ راست کی ہدایت صرف وہی مسّلم ہو جسے خدا نے واضح کیا ہے اوردنیا میں ان خرابیوں کا استیصال کیا جائے جواللہ کو نہ پسند ہیں اور ان خیرات وحسنات کو قائم کیا جائے جو اللہ کو محبوب ہیں۔ یہ ہے دین اور اسی کی اقامت ہمارا مقصد ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسی کام پر ہم مامور ہیں۔ اس کام کی اہمیت اگر آپ پوری طرح محسوس کر لیں اور اگر آپ کو اس بات کا بھی احساس ہو کہ اس کام کے معطل ہو جانے اور باطل نظاموں کے دنیا پر غالب ہو جانے سے دنیا کی موجودہ حالت کس قدر شدت سے غضب الٰہی سے بچنے اور رضائے الٰہی سے سرفراز ہونے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ ہم اپنی تمام قوت خواہ وہ مال کی ہو یا جان کی، دماغ کی ہو یا زبان کی صرف اقامت دین کی سعی میں صرف کر دیں تو آپ تو آپ سے کبھی ان فضول بحثوں اور ان لا یعنی افکار کا صدورنہ ہو سکے جن میں اب تک آپ میں سے بہت سے لوگ مشغول ہیں میرے نزدیک یہ تمام مشاغل صرف اس ایک چیز کا نتیجہ ہیں کہ لوگوںنے ابھی تک اس بات کو پوری طرح سمجھا نہیں ہے کہ دین حقیقت میں کس چیز کا نام ہے اور اس کے واقعی مطالبات اپنے پیروئوں سے کیا ہیں۔
ایک اور خامی جو ہمارے بعض رفقاء میں پائی جاتی ہے اور جو اکثر ہمارے لئے سبب پر یشانی بنتی رہتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ حضرات اصول اور نظریئے کی حد تک تو اس جماعت کے مسلک کو سمجھ گئے ہیں لیکن طریق کار کو اچھی طرح نہیں سمجھے اس لئے بار بار ان کی توجہات دُوسری مختلف جماعتوں کے طریقوں کی طرف پھر جاتی ہیں اور وہ کسی نہ کسی طرح کھینچ تان کر کے بطور خود ہمارے نصب العین اور دوسروں کے طریق کار کی ایک معجون مرکب بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب انہیں اس سے روکا جاتا ہے تو وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم خواہ مخواہ ایک اچھے چلتے ہوئے زور اثر طریق کار کو محض اس تعصب کی بنا پر اختیار نہیں کرنا چاہتے کہ وہ ہمارا نہیں بلکہ دوسروں کا ایجاد کردہ طریقہ ہے بعض حضرات نے تو ستم ہی کر دیا کہ جب ہماری طرف سے ان کو ٹوکا گیا تو انہوں نے ہمیں یہ اطمینان دلانے کی کوشش کی کہ نام آپ ہی کالیا جائے گا دوسروں کا نہ لیا جائے گا گویا ان کے نزدیک ہماری ساری تگ و دو صرف اپنا رجسٹرڈ ٹریڈ مارک چلانے کے لئے ہے اور لطف یہ ہے کہ یہ سمجھتے ہوئے بھی وہ ہمارے ساتھ اس جماعت میں شریک ہیں ہماری جماعت کی بعض مقامی شاخیں اس دبا سے خاص طور پر بہت زیادہ متاثر ہوئی ہیں لیکن جہاں تاثر اتنا زیادہ نہیں ہے وہاں بھی مختلف طریقوں سے اس بات کا اظہار ہوتا رہتا ہے کہ کوئی تیز رفتار طریقِ کار اختیار کر کے جلدی سے کچھ چلتا پھرتا کام دنیا کے سامنے پیش کر دیا جائے یہ سب عمل بلا فکر کی اس پرانی بیماری کے نتائج ہیں جو مسلمانوں میں بہت دنوں سے پرورش پا رہی ہے اور فکر بلا عمل سے کچھ کم خطرناک نہیں ہے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر ان مذہبی اور سیاسی تحریکوں میں سے کسی میں بھی فی الواقع کوئی جان ہوتی جو اس وقت مسلمانوں میں چل رہی ہیں تو شاید ہم اس جماعت کی تاسیس میں ابھی کچھ تامل سے کام لیتے اور اپنی پوری قوت ان نسخوں کو آزما لینے میں صرف کر دیتے مگر جو تھوڑی بہت نظر و بصیرت اللہ تعالٰی نے ہمیں عطا کی ہے اس کی بنا پر ہم خوب اچھی طرح یہ سمجھ چکے ہیں کہ وقت کی چلتی ہوئی تحریکوں اور ان کی قیادتوں میں سے ایک بھی مسلمانوں کے مرض کا صحیح علاج نہیں ہے اور نہ اسلام کے اصل منشاء کو پورا کرنے والی ہے محض جزوی طور پر مسلمانوں کے امراض کی نا کافی اور سطحی تشخیص کی گئی ہے اور اسلام کے اصل تقاضوں کا بھی صحیح طور پر ادراک نہیں کیا گیا ہے پھر یہ بھی اچھی طرح نہیں سمجھا گیا کہ کفرو فسق کا یہ غلبہ اور دین کی یہ بے بسی اور مغلوبی جو آج موجود ہے فی الحقیقت کن اسباب کا نتیجہ ہے اور اب اس حالت کو بدلنے کے لئے کس ترتیب و تدریج سے کن کن میدانوں میں کیا کیا کام کرنا ہے ان سب چیزوں کو سوچے اور سمجھے بغیر جو سطحی اور جزئی تحریکیں جاری کی گئیں اور ان کو چلانے کے لئے جو زود اثر اور فی الفور نتیجہ منظر عام پر لے آنے والے طریقے اختیار کئے گئے وہ سب ہمارے نزدیک چاہے غلط نہ ہوں چاہے ان کی مذمت ہم نہ کریں چاہے ان کی اور ان کے پیچھے کام کرنے والے اخلاص کی ہم دل سے قدر کریں مگر ہم ان کو لا حاصل سمجھتے ہیں اور ہمیں پوری طرح یقین ہے کہ اس قسم کی تحریکیں اگر صدیوں تک بھی پوری کامیابی اور ہنگامہ خیزی کے ساتھ چلتی رہی ہیں تب بھی نظام زندگی میں کوئی حقیقی انقلاب رونما نہیں ہو سکتا حقیقی انقلاب اگر کسی تحریک سے رونما ہو سکتا ہے تو وہ صرف ہماری یہ تحریک ہے اور ان کے لئے فطرتاً یہی ایک طریق کار ہے جو ہم نے خوب سوچ سمجھ کر اور اس دین کے مزاج اور اس کی تاریخ کا گہرا جائزہ لے کر اختیار کیا ہے اس میں شک نہیں کہ ہمارا طریق کار نہایت صبر آزما ہے سست رفتار ہے جلدی سے کوئی محسوس نتیجہ اس سے رونما نہیں ہو سکتا اور اس میں برسوں تک لگاتارا یسی محنت کرنی پڑتی ہے جس کے اثرات اور جس کی عملی نمود کو بسا اوقات خود محنت کرنے والا بھی محسوس نہیں کر سکتا لیکن اس راہ میں کامیابی کا راستہ یہی ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا طریق کار اس مقصد کے لئے ممکن نہیں ہے جن لوگوں کو ہمارے مسلک اور طریق کار یا ان دونو ں میں سے کسی ایک پر بھی اطمینان حاصل نہ ہوں ان کے لئے یہ راستہ تو کھلا ہوا ہے کہ جماعت سے باہر جا کر اپنی صوابدید سے جس طرح چاہیں کام کریں لیکن یہ اختیار انہیں کسی طرح نہیں دیا جا سکتا کہ بطور خود وہ ان دونوں میں یا ان میں سے کسی ایک چیز میں جو ترمیم چاہیںکرلیں۔ ہمارے ساتھ جس کو چلنا ہے اسے پورے اطمینان کے ساتھ ہمارے مسلک اور طریق کار کو ٹھیک سمجھ کر چلنا چاہئے اور جو شخص کچھ بھی میلان دوسری تحریکوں اور جماعتوں کی طرف رکھتا ہوا اسے پہلے ان راستوں کو آزما کر دیکھ لینا چاہئے پھر اگر اس کا ذہن اسی فیصلے پر پہنچے جس پر ہم پہنچے ہوئے ہیں تو وہ اطمینانِ قلب کے ساتھ ہمارے ساتھ آجائے۔
سطحیت اور مظاہرہ پسندی اور جلد بازی کی جو کمزوری مسلمانوں میں بالعموم پیدا ہو گئی ہے اس کا ایک ثبوت مجھے حال میں یہ ملا ہے کہ عوام میں تعلیم بالغان کے ذریعے سے کام کرنے کا جو طریقہ چند ماہ پیشتر میں نے پیش کیا تھا اس نے بہت کم لوگوں کو اپیل کیا مگر گروہ بنا بنا کر بستیوں میں گشت لگانے اور فوری نتیجہ دکھانے والے طریق کار کے لئے (خواہ اس کا اثر کتنا ہی ناپائیدار ہو) مختلف مقامات سے ہمارے رفقاء کے تقاضے برابر چلے آرہے ہیں اور کسی فہمائش پر بھی ان کا سلسلہ ٹوٹنے میں نہیں آتا حالانکہ ایک طرف یہ طریق کار ہے کہ ایک سال یا اس سے زیادہ مدت تک ناخواندہ عوام میں سے چند آدمیوں کو پیہم تعلیم و تربیت دے کر پختہ کر لیا جائے اور ان کے عقائد،اخلاق، اعمال ، مقصد زندگی ، معیار قدرو قیمت ، ہر چیز کو پوری طرح بدل ڈالا جائے اور پھر ان کو اپنی جماعت کا مستقل کارکن بنا کر مزدوروں کسانوں اور دوسرے عام طبقوں میں کام کرنے کے لئے استعمال کیا جائے اور دوسری طرف یہ طریق کار ہے کہ ایک قلیل مدت میں ہزار ہا آدمیوں کو بیک وقت چند ابتدائی امور دین کی حد تک مخاطب کیا جائے اور فوری طور پر ان میں ایک حرکت پیدا کر کے چھوڑدیا جائے چاہے دوسرے چکر کے وقت پہلی حرکت کا کوئی اثر ڈھونڈے بھی نہ مل سکے ان دونوں طریقوں میں سے جب میں دیکھتا ہوں کہ لوگ پختہ نتائج پیدا کرنے والے دیر طلب، محنت طلب اور صبر آزما طریقے کو سنتے ہیں اور اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اور دوسرے طریقے کی طرف بار بار دوڑ چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو میرے سامنے مسلمانوں کی وہ کمزوریاں بالکل بے نقاب ہو جاتی ہیں جن کی وجہ سے اب تک وہ خام کاریوں ہی میں اپنی قوتیں اور محنتیں اور اپنے مال اور اوقات ضائع کرتے رہے ہیں میں اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ جب تک اس جماعت کی باگیں میرے ہاتھ میں ہیں میں اپنے رفقاء کو صحیح اور حقیقی نتیجہ خیز کاموں ہی پر لگانے کی کوشش کروں گا اور بے حاصل کوششوں میں جانتے بوجھتے ان کو مشغول نہ ہونے دوں گا۔
اپنی تقریر کو ختم کرنے سے پہلے ایک آخری بات کی طرف میں آپ لوگوں کو توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں ہمارے حلقہ رفقاء میں ایک اچھا خاصا گروہ ایسا پایا جاتا ہے جس نے تبلیغ و اصلاح کے کام میں تشدد اور سخت گیری کا رنگ اختیار کر لیا ہے جو سوالات ان کی طرف سے اکثر میرے پاس آتے رہتے ہیں ان سے میں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ ان کے اندر بگڑے ہوئے لوگوں کو سنوارنے کی بے تابی اتنی زیادہ نہیں ہے جتنی انہیں اپنے سے کاٹ پھینکنے کی بے تابی ہے دینی حرارت نے ان میں ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ اتنا نہیں ابھار ا جتنا نفرت اور غصے کا جذبہ ابھار دیا ہے اسی وجہ سے وہ اکثر یہ تو پوچھتے ہیں کہ جو لوگ ایسے اور ایسے ہیں ان سے ہم تعلقات کیوں نہ منقطع کر لیں اور ان کے ساتھ نمازیں کیوں پڑھیں اور ان کو کافرو مشرک کیوں نہ کہیں لیکن یہ پوچھنے کا ان کو بہت کم خیال آتا ہے کہ ہم اپنے ان بھٹکے ہوئے بھائیوں کو سیدھی راہ پر کیسے لائیں ان کی غفلت وبے خبری کو کس طرح دور کریں ان کی کجروی کو راست روی سے کیسے بدلیں اور ان کو نور ہدایت سے مستفید ہونے پر کیونکر آمادہ کریں مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے فضل سے اور اپنی خوش قسمتی سے حق کو پالیا ہے ان کے اندر اس وجدان حق نے شکر کی بجائے کبر کا جذبہ پیدا کر دیا ہے اور اسی کا اظہار ان شکلوں میں ہو رہا ہے خدانہ کرے کہ میرا یہ گمان صحیح ہو لیکن میں اسے صاف صاف اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ ہمارے رفیقوں میں سے ہر شخص پوری خدا ترسی کے ساتھ اپنے نفس کا جائزہ لے کر تحقیق کرنے کی کوشش کرے کہ کہیں شیطان نے یہ مرض تو ان کو نہیں لگا دیا ہے واقعہ یہ ہے کہ بگڑی ہوئی سوسائٹی کے درمیان علم صحیح اور عملِ صالح رکھنے والوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک وبائے عام میں مبتلا ہو جانے والی بستی کے درمیان چند تندرست لوگ موجود ہوں جو کچھ طب کا علم بھی رکھتے ہوں اور کچھ دوائوں کا ذخیرہ بھی ان کے پاس ہو مجھے بتایئے کہ اس وباء ز دہ بستی میں ایسے چند لوگوں کا حقیقی فرض کیا ہے؟ کیا یہ مریضوں سے اور ان کی لگی ہوئی آلائشوں سے نفرت کریں یا انہیں اپنے سے دور بھگائیں اور انہیں چھوڑ کر نکل جانے کی کوشش کریں یا یہ کہ اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر ان کا علاج اور ان کی تیمار داری کرنے کی فکر کریں اور اس سعی میں اگر کچھ نجاستیں ان کے جسم و لباس کو لگ بھی جائیں تو انہیں برداشت کر لیں شاید میں پورے وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ اگر یہ لوگ پہلی صورت اختیار کریں تو خدا کے ہاں الٹے مجرم قرار پائیں گے اور ان کی اپنی تندرستی اور ان کا علم طب سے واقف ہونا اور ان کے پاس دوائوں کا ذخیرہ موجود ہونا نافع ہونے کے بجائے الٹا ان کے جرم کو اور زیادہ سخت بنا دے گا اسی پر آپ قیاس کر لیں کہ جن لوگوں کو دینی تندرستی حاصل ہے اور جو دین کا علم اور اصلاح کے ذرائع بھی رکھتے ہیں ان کے لئے کون سا طریقہ رضائے الٰہی کے مطابق ہے۔
وَاٰخِرُدَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ھ
زبان: اُردو
صفحات: 32
اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، منصورہ ملتان روڈ، لاہور۔