دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات

ریڈ مودودی ؒ   کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

عرض ناشر

اسلام کیا ہے‘ اس کی دعوت کیا ہے اور اس کے مخاطب کون ہیں؟ ماننے والوں سے اس کے مطالبات کیا ہیں؟ اس کو برپا کرنے کی کیا شرائط ہیں؟ اس کی راہ میں کامیابی اور ناکامی کا مفہوم کیا ہے؟ اس دعوت کو برپا کرنے کے لیے خواتین کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ ان اہم موضوعات پر اس کتاب میں سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اس موضوع پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں یہ ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ غیرت دینی اور ایمانی حرارت کو انگیخت کرنے اور جذبات اسلامی کو بیدار کرنے کے لیے یہ کتاب اپنا جواب نہیں رکھتی۔ ہمت و عزیمت اور علم و حکمت کا ایک اتھاہ خزانہ ہے جو اس میں سمود دیا گیا ہے۔ تربیت و اصلاح کے لیے ایک ایسا مجموعہ ہے جس سے کبھی بے نیاز نہیں ہوا جاسکتا۔
اس کتاب کا پہلا اڈیشن 1946 ء میں پیش کیا گیا تھا اس لیے جا بجا اس میں قبل تقسیم کے حالات و واقعات کی طرف اشارے ہیں اور ان پر تبصرہ ہے۔ لیکن اس کا بیشتر حصہ ایسے مضامین پر مشتمل ہے جو زمان و مکان کی قید سے بالا ہیں اور جن کی تازگی ہمیشہ برقرار رہے گی۔ اس کتاب کی اس علمی اور تاریخی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر ہم اس کا جدید ایڈیشن آفسٹ کی حسین طباعت پر نہایت آب و تاب کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔
ہمیں امید ہے کہ ہماری اس تازہ پیشکش کا اس میں گرمجوشی سے خیر مقدم کیا جائے گا جیسا کہ ہماری دوسری مطبوعات کے لیے کیا گیا ہے۔
/4 اپریل 1964 ء

’’میں نے دین کو حال یا ماضی کے اشخاص سے سمجھنے کے بجائے ہمیشہ قرآن اور سنت ہی سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے میں کبھی یہ معلوم کرنے کے لیے کہ خدا کا دین مجھ سے اور ہر مومن سے کیا چاہتا ہے‘ یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ فلاں بزرگ کیا کہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں بلکہ صرف یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ قرآن کیا کہتا ہے اور رسولؐ نے کیا کیا‘‘
’’ہم دراصل ایک ایسا گروہ تیار کرنا چاہتے ہیں جو ایک طرف زہد و تقویٰ میں اصطلاحی زاہدوں اور متقیوں سے بڑھ کر ہو اور دوسری طرف دنیا کے انتظام کو چلانے کی قابلیت و صلاحیت بھی عام دنیاداروں سے زیادہ اور بہتر رکھتا ہو۔ صالحین کی ایسی جماعت منظم کی جائے جو خدا ترس بھی ہو‘ راست باز اوردیانتدار بھی ہو‘ خدا کے پسندیدہ اخلاق و اوصاف سے آراستہ بھی ہو اور اس کے ساتھ دنیا کے معاملات کو دنیا داروں سے زیادہ اچھی طرح سمجھ سکے‘‘

دعوت اسلامی اور اس کے طریق کار

الحمد للہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نومن بہ و نتوکل علیہ و نعوذ باللہ من شرور انفسنا و ن سئیات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ھادی و نشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و نشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ۔
سب سے پہلے میں اس امر پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمیں ایک نہایت خشک دعوت اور نہایت بے مزہ طریق کار کو بالآخر لوگوں کے لیے دلچسپ و خوش ذائقہ بنانے میں توقع سے زیادہ کامیابی عطا کی۔ ہم جس دعوت کو لے کر اٹھے تھے اس سے زیادہ کاسد جنس آج دنیا کی دعوتوں کے بازار میں اور کوئی نہ تھی۔ اور اس کے لیے جو طریق کار ہم نے اختیار کیا اس کے اندر ان چیزوں میں سے کوئی چیز بھی نہ تھی جو آج کل دنیا کی دعوتوں کے پھیلانے میں اور خلق کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں استعمال کی جاتی ہیں۔
لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں اور یہ دیکھ کر ہمارا دل شکر و سپاس کے جذبے سے لبریز ہو جاتا ہے کہ بندگان خدا روز بروز کثرت کے ساتھ ہماری اس دعوت کی طرف کھنچ رہے ہیں اور ہماری بے لطف نشستوں میں شرکت کے لیے دور دور سے بغیر کسی طلب کے آتے ہیں۔ یہ کشش بہرحال حق کی کشش ہے کیونکہ ہمارے پاس حق کے سوا اور چیز کھینچنے والی سرے سے ہے ہی نہیں۔
ہماری ان نشستوں کا مقصد کوئی مظاہرہ کرنا اور ہنگامہ برپا کرکے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا نہیں ہے۔ ہماری غرض ان سے صرف یہ ہے کہ… ہم ایک دوسرے سے متعارف اور مربوط ہوں۔ ہمارے درمیان اجنبیت اور ناآشنائی باقی نہ رہے۔ ہم ایک دوسرے سے قریب ہوں اور باہمی مشورے سے تعاون کی صورتیں نکالیں اور اپنے کام کو آگے بڑھانے اور مشکلات راہ اور پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کی تدبیریں سوچیں۔ اس کے علاوہ ہمارے پیش نظر ان نشستوں سے یہ فائدہ بھی ہے کہ ہمیں اپنے کام کا جائزہ لینے اور اس کی کمزوریوں کو سمجھنے اور انہیں دور کرنے کا وقتاً فوقتاً موقع ملتا رہتا ہے۔ نیز جو لوگ ہم سے ہمدردی رکھتے ہیں یا ہمارے خیالات سے متاثر ہیں‘ یا ہمارے کام کے متعلق کچھ شکوک و شبہات رکھتے ہیں‘ ان کو بھی یہ موقع مل جاتا ہے کہ بالمشافہ ہماری دعوت اور ہمارے کام کو سمجھیں۔ اور اگر ان کا دل گواہی دے کہ ہم واقعی حق پر ہیں تو ہمارے ساتھ شریک ہو جائیں۔ بہت سی غلط فہمیاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ صرف دوری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور بڑھتی رہتی ہیں۔ محض قرب اور مشاہدہ اور معائنہ اور شخصی تعلق (Personal Contact) ہی ایسی غلط فہمیوں کو رفع کر دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور ان حضرات کے بھی شکر گزار ہیں جو اپنا وقت اور اپنا مال صرف کرکے ہماری ان نشستوں میں محض ہماری بات سمجھنے کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ ہم ان کی اس جستجوئے حق کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ جہاں ان کی دلچسپی کا کوئی سامان نہیں ہے وہاں وہ محض اس وجہ سے آتے ہیں کہ اللہ کے کچھ بندے جو اللہ کا نام لے کر ایک کام کر رہے ہیں‘ ان کے متعلق تحقیق کریں کہ واقعی ان کاکام کس حد تک اللہ کا ہے‘ اور اللہ کے لیے ہے۔ یہ مخلصانہ حق جوئی اگر ذہن و دماغ کی صفائی کے ساتھ بھی ہو تو اللہ ان کی سعی و جستجو کو ضائع نہ ہونے دے گا اور ضرور انہیں حق کے نشانات راہ دکھائے گا۔
چونکہ یہاں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہماری دعوت اور ہمارا مقصد کیا ہے اور کس طریقے سے ہم اس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اس لیے سب سے پہلے میں انہی دو امور پر کچھ عرض کروں گا۔

ہماری دعوت کیا ہے؟

ہماری دعوت کے متعلق عام طور پر جو بات کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم حکومت الٰہیہ کے قیام کی دعوت دیتے ہیں۔ حکومت الٰہیہ کا لفظ کچھ تو خود غلط فہمی پیدا کرتا ہے اور کچھ اسے غلط فہمی پیدا کرنے کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں اور انہیں ایسا سمجھایا بھی جاتا ہے کہ حکومت الٰہیہ سے مراد محض ایک سیاسی نظام ہے اور ہماری غرض اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ موجودہ نظام کی جگہ وہ مخصوص سیاسی نظام قائم ہو۔ پھر چونکہ اس سیاسی نظام کے چلانے والے لامحالہ ہی مسلمان ہوں گے جو اس کے قیام کی تحریک میں حصہ لے رہے ہوں‘ اس لیے خود بخود اس تصور میں سے یہ معنی نکل آتے ہیں یا ہوشیاری کے ساتھ نکال لیے جاتے ہیں کہ ہم محض حکومت چاہتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دیندارانہ وعظ شروع ہوتا ہے اور ہم سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پیش نظر محض دنیا ہے۔ حالانکہ مسلمان کے پیش نظر دین اور آخرت ہونی چاہئے اور یہ کہ حکومت طلب کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ ایک انعام ہے جو دیندارانہ زندگی کے صلے میں اللہ کی طرف سے مل جاتا ہے۔ یہ باتیں کہیں تو نافہمی کے ساتھ کی جاتی ہیں اور کہیں نہایت ہوشمندی کے ساتھ اس غرض کے لیے کہ اگر ہمیں نہیں تو کم سے کم خلق خدا کے ایک بڑے حصے کو بدگمانیوں اور غلط فہمیوں میں مبتلا کیا جائے‘ حالانکہ اگر کوئی شخص ہمارے لٹریچر کو کھلے دل کے ساتھ پڑھے تو اس پر بآسانی یہ بات کھل سکتی ہے کہ ہمارے پیش نظر صرف ایک سیاسی نظام کا قیام نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ پوری انسانی زندگی… انفرادی اور اجتماعی… میں وہ ہمہ گیر انقلاب رونما ہو جو اسلام رونما کرنا چاہتا ہے‘ جس کے لیے اللہ نے اپنے انبیاء کو مبعوث کیا تھا اور جس کی دعوت دینے اور جدوجہد کرنے کے لئے ہمیشہ انبیاء علیہم السلام کی امامت و رہنمائی میں امت مسلمہ کے نام سے ایک گروہ بنتا رہا ہے۔

دعوت اسلامی کے تین نکات

اگر ہم اپنی اس دعوت کو مختصر طور پر صاف اور سیدھے الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو یہ تین نکات (Points) پر مشتمل ہوگی:
(1)یہ کہ ہم بندگان خدا کو بالعموم اور جو پہلے سے مسلمان ہیں‘ ان کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
(2)یہ کہ جو شخص بھی اسلام قبول کرنے یا اس کو ماننے کا دعویٰ یا اظہار کرلے‘ اس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کر دے اور جب وہ مسلمان ہے‘ یا بنا ہے تو مخلص مسلمان بنے‘ اور اسلام کے رنگ میں رنگ کریک رنگ ہو جائے۔
(3)یہ کہ زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں اور فساق و فجار کی رہنمائی اور قیادت و فرمانروائی میں چل رہا ہے اور معاملات دنیا کے نظام کی زمام کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے‘ ہم یہ دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت نظری و عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین و صالحین کے ہاتھ میں ہو۔
یہ تینوں نکات اگرچہ اپنی جگہ بالکل صاف ہیں‘ لیکن ایک مدت دراز سے ان پر غفلتوں اور غلط فہمیوں کے پردے پڑے رہے ہیں۔ اس لیے بدقسمتی سے آج غیر مسلموں کے سامنے ہی نہیں‘ بلکہ مسلمانوں کے سامنے بھی ان کی تشریح کی ضرورت پیش آگئی ہے۔

بندگی رب کا مفہوم:

اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ خدا کو خدا اور اپنے آپ کو خدا کا بندہ تو مان لیا جائے مگر اس کے بعد اخلاقی و عملی اور اجتماعی زندگی ویسی کی ویسی ہی رہے جیسی خدا کو نہ ماننے اور اس کی زندگی کا اعتراف نہ کرنے کی صورت میں ہوتی ہے۔ اسی طرح خدا کی بندگی کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ خدا کو فوق الفطری طریقے پر خالق اور رازق اور معبود تسلیم کر لیا جائے مگر عملی زندگی کی فرمانروائی و حکمرانی سے اس کو بے دخل کر دیا جائے۔ اسی طرح خدا کی بندگی کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ زندگی کو مذہبی اور دنیوی دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا جائے اور صرف مذہبی زندگی میں جس کا تعلق عقائد اور عبادات اور حرام و حلال کی چند محدود و قیود سے سمجھا جاتا ہے‘ خدا کی بندگی کی جائے۔ باقی رہے دنیوی معاملات جو تمدن‘ معاشرت‘ سیاست‘ معیشت‘ علوم و فنون اور ادب وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں تو ان میں انسان خدا کی بندگی سے بالکل آزاد رہے اور جس نظام کو چاہے‘ خود وضع کرے یا دوسروں کے وضع کیے ہوئے کو اختیار کرے۔ بندگی رب کے ان سب مفہومات کو ہم سراسر غلط سمجھتے ہیں۔ ان کو مٹانا چاہتے ہیں اور ہماری لڑائی جتنی شدت کے ساتھ نظام کفر کے ساتھ ہے‘ اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ شدت کے ساتھ بندگی کے ان مفہومات کے خلاف ہے۔ کیوں کہ ان کی بدولت دین کا تصور ہی سرے سے مسخ ہوگیا ہے۔ ہمارے نزدیک قرآن اور اس سے پہلے کی تمام آسمانی کتابیں‘ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے پہلے کے تمام پیغمبر‘ جو دنیا کے مختلف گوشوں میں آئے‘ ان کی بالاتفاق دعوت جس بندگی رب کی طرف تھی‘ وہ یہ تھی کہ انسان خدا کو پورے معنی میں الہٰ اور رب‘ معبود اور حاکم‘ آقا اور مالک‘ رہنما اور قانون ساز‘ محاسب اور مجازی (جزا دینے والا) تسلیم کرے‘ اور اپنی پوری زندگی کو خواہ وہ شخصی (Private) ہو یا اجتماعی‘ اخلاقی ہو یا مذہبی‘ تمدنی و سیاسی اور معاشی ہو یا علمی اور نظری‘ اسی ایک خدا کی بندگی میں سپرد کر دے۔ یہی مطالبہ ہے جو قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے کہ ادخلوا فی السلم کافۃ تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جائو‘ یعنی اپنی زندگی کے کسی پہلو اور کسی شعبے کو بندگی رب سے محفوظ (Reserve) کرکے نہ رکھو۔ اپنے تمام وجود کے ساتھ‘ اپنی پوری ہستی کے ساتھ خدا کی غلامی و اطاعت میں آجائو۔ زندگی کے کسی معاملہ میں بھی تمہارا یہ طرز عمل نہ ہو کہ اپنے آپ کو خدا کی بندگی سے آزاد سمجھو اور اس کی رہنمائی اور ہدایت سے مستغنیٰ ہو کر اور اس کے مقابلے میں خود مختار بن کر یا کسی خود مختار بنے ہوئے بندے کے پیرو یا مطیع ہو کر وہ راہ چلنے لگو‘ جس کی ہدایت خود خدا نے نہ دی ہو۔ بندگی کا یہی وہ مفہوم ہے جس کی ہم تبلیغ کرتے ہیں اور جسے قبول کرنے کی سب لوگوں کو … مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کو… دعوت دیتے ہیں۔

منافقت کی حقیقت:

دوسری چیز جس کی ہم دعوت دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام کی پیروی کا دعویٰ کرنے والے یا اسلام قبول کرنے والے سب لوگ منافقانہ رویے کو بھی چھوڑیں اور اپنی زندگی کو تناقضات (Incensistancies)سے بھی پاک کریں۔ منافقانہ رویے سے ہماری مراد یہ ہے کہ آدمی جس دین کی پیروی کا دعویٰ کرے اس کے بالکل برخلاف نظام زندگی کو اپنے اوپر حاوی و مسلط پاکر راضی و مطمئن رہے۔ اس کوبدل کر اپنے دین کو اس کی جگہ قائم کرنے کی کوئی سعی نہ کرے بلکہ اس کے برعکس اسی فاسقانہ و باغیانہ نظام زندگی کو اپنے لیے سازگار بنانے اور اس میں اپنے لیے آرام کی جگہ پیدا کرنے کی فکر کرتا رہے‘ یا اگر اس کو بدلنے کی کوشش بھی کرے تو اس کی غرض یہ نہ ہو کہ اس فاسقانہ نظام زندگی کی جگہ دین حق قائم ہو‘ بلکہ صرف یہ کوشش کرے کہ ایک فاسقانہ نظام ہٹ کر‘ دوسرا فاسقانہ نظام اس کی جگہ قائم ہو جائے۔ ہمارے نزدیک یہ طرز عمل سراسر منافقانہ ہے۔ اس لیے کہ ہمارا ایک نظام زندگی پر ایمان رکھنا اور دوسرے نظام زندگی میں راضی رہنا بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں‘ مخلصانہ ایمان کا اولین تقاضا یہ ہے کہ جس طریق زندگی پر ہم ایمان رکھتے ہیں اسی کو ہم اپنا قانون حیات دیکھنا چاہیں اور ہماری روح اپنی آخری گہرائیوں تک ہر اس رکاوٹ کے پیش آجانے پر بے چین و مضطرب ہو جائے‘ جو اس طریق زندگی کے مطابق جینے میں سد راہ بن رہی ہو۔ ایمان تو ایسی کسی چھوٹی سے چھوٹی رکاوٹ کو بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا‘ کجا کہ اس کا پورا کا پورا دین کسی دوسرے نظام زندگی کا تابع مہمل بن کر رہ گیا ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ جو لوگ بھی اپنے آپ کو بندگی رب کے اس مفہوم کے مطابق جس کی ابھی میں نے تشریح کی ہے‘ خدائے واحد کی بندگی میں دینے کا اقرار کریں‘ ان کی زندگی اس نفاق سے پاک ہو۔ بندگی حق کے اس مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سچے دل سے یہ چاہیں کہ جو طریق زندگی‘ جو قانون حیات‘ جو اصول تمدن و اخلاق و معاشرت و سیاست جو نظام فکر و عمل اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے واسطے سے ہمیں دیا ہے ہماری زندگی کا پورا پورا کاروبار اسی کی پیروی میں چلے اور ہم ایک لمحے کے لیے بھی اپنی زندگی کے کسی چھوٹے سے چھوٹے شعبے کے اندر بھی اس نظام حق کے خلاف کسی دوسرے نظام کے تسلط کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہوں۔ اب آپ خود سمجھ لیں کہ نظام باطل کے تسلط کو برداشت کرنا بھی جبکہ تقاضائے ایمان کے خلاف ہو تو اس پر راضی و مطمئن رہنا اور اس کے قیام و بقاء کی سعی میں حصہ لینا‘ یا ایک نظام باطل کی جگہ دوسرے نظام باطل کو سرفراز کرنے کی کوشش کرنا ایمان کے ساتھ کیسے میل کھا سکتا ہے؟

تناقض کی حقیقت:

اس نفاق کے بعد دوسری چیز جس کو ہم پرانے اور نئے مسلمان کی زندگی سے خارج کرنا چاہتے ہیں‘ اور جس کے خارج کرنے کی ہر مدعی ایمان کو دعوت دیتے ہیں‘ وہ تناقض ہے۔ تناقض سے ہماری مراد یہ ہے کہ آدمی جس چیز کا زبان سے دعویٰ کرے‘ عمل سے اس کی خلاف ورزی کرے۔ نیز یہ بھی تناقض ہے کہ آدمی کا اپنا عمل ایک معاملے میں کچھ ہو اور دوسرے معاملے میں کچھ۔ اس لیے اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اپنی پوری زندگی کو خدا کی بندگی میں دے دیا ہے تو اسے جان بوجھ کر کوئی حرکت بھی ایسی نہ کرنی چاہئے جو بندگی رب کی ضد ہو اور اگر بشری کمزوری کی بنا پر ایسی کوئی حرکت اس سے سرزد ہو جائے تو اسے اپنی غلطی کا اعتراف کرکے پھر بند گئی رب کی طرف پلٹنا چاہئے۔ ایمان کے مقتضیات میں سے یہ بھی ایک اہم مقتضا ہے کہ پوری زندگی ضبغتہ اللہ میں رنگی ہوئی ہو۔ پچرنگی اور چورنگی تو درکنار دو رنگی زندگی بھی دعوائے ایمان کے ساتھ میل نہیں کھاتی۔ ہمارے نزدیک یہ بات بہروپئے پن سے کم نہیں ہے کہ ہم ایک طرف تو خدا اور آخرت اور وحی اور نبوت اور شریعت کو ماننے کا دعویٰ کریں اور دوسری طرف دنیا کی طلب میں لپکے ہوئے ان درس گاہوں کی طرف خود دوڑیں‘ دوسروں کو ان کا شوق دلائیں اور آپ خود اپنے اہتمام میں ایسی درس گاہیں چلائیں جن میں انسان کو خدا سے دور کرنے والی‘ آخرت کو بھلا دینے والی‘ مادہ پرستی میں غرق کر دینے والی تعلیم دی جاتی ہے۔ ایک طرف ہم خدا کی شریعت پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کریں‘ اور دوسری طرف ان عدالتوں کے وکیل اور جج بنیں اور انہی عدالتوں کے فیصلوں پر حق اور غیر حق کے فیصلہ کا دارومدار رکھیں جو شریعت الٰہی کو ایوان عدالت سے بے دخل کرکے شریعت غیر الٰہی کی بنیاد پر قائم کی گئی ہوں۔ ایک طرف ہم مسجد میں جاجا کر نمازیں پڑھیں اور دوسری طرف مسجد سے باہر نکلتے ہی اپنے گھر کی زندگی میں اپنے لین دین میں‘ اپنی معاش کی فراہمی میں‘ اپنی شادی بیاہ میں‘ اپنی میراثوں کی تقسیم میں‘ اپنی سیاسی تحریکوں میں اور اپنے سارے دنیوی معاملات میں خدا اور اس کی شریعت کو بھول کر‘ کہیں اپنے نفس کے قانون کی‘ کہیں اپنی برادری کے رواج کی‘ کہیں اپنی سوسائٹی کے طور طریقوں کی‘ اور کہیں خدا سے پھرے ہوئے حکمرانوں کے قوانین کی پیروی میں کام کرنے لگیں‘ ایک طرف ہم اپنے خدا کو بار بار یقین دلائیں کہ ہم تیرے ہی بندے ہیں اور تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور دوسری طرف ہر اس بت کی پوجا کریں جس کے ساتھ ہمارے مفاد‘ ہماری دلچسپیاں اور ہماری محبتیں اور آسائشیں کچھ بھی وابستگی رکھتی ہوں۔ یہ اور ایسے ہی بے شمار متناقضات جو آج مسلمانوں کی زندگی میں پائے جاتے ہیں جن کے موجود ہونے سے کوئی ایسا شخص جو بینائی رکھتا ہو‘ انکار نہیں کرسکتا۔ ہمارے نزدیک وہ اصلی گھن ہیں‘ جو امت مسلمہ کی سیرت و اخلاق کو اور اس کے دین و ایمان کو اندر ہی اندر کھائے جاتے ہیں‘ اور آج زندگی کے ہر پہلو میں مسلمانوں سے جن کمزوریوں کا اظہار ہو رہا ہے‘ ان کی اصل جڑ یہی تناقضات ہیں‘ ایک مدت تک مسلمانوں کو یہ اطمینان دلایا جاتا رہا ہے کہ تم شہادت توحید و رسالت زبان سے ادا کرنے اور روزہ و نماز وغیرہ چند مذہبی اعمال کرلینے کے بعد خواہ کتنے ہی غیر دینی اور غیر ایمانی طرز عمل اختیار کر جائو‘ بہرحال نہ تمہارے اسلام پر کوئی آنچ آسکتی ہے اور نہ تمہاری نجات کوکوئی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے‘ حتیٰ کہ اس ڈھیل (Allowance)کی حدود اس حد تک بڑھیں کہ نماز روزہ بھی مسلمان ہونے کے لیے شرط نہ رہا اور مسلمانوں میں عام طور پر یہ تخیل پیدا کر دیا گیا کہ ایک طرف ایمان اور اسلام کا اقرار ہو‘ اور دوسری طرف ساری زندگی اس کی ضد ہو‘ تب بھی کچھ نہیں بگڑتا۔ لن تمسنا النار الا ایاما معدودات۔اسی چیز کا نتیجہ آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اسلام کے نام کے ساتھ ہر فسق‘ ہر کفر‘ ہر معصیت و نافرمانی اور ہر ظلم و سرکشی کا جوڑ آسانی سے لگ جاتا ہے اور مسلمان مشکل ہی سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ جن راہوں میں وہ اپنے اوقات‘ اپنی محنتیں‘ اپنے مال‘ اپنی قوتیں اور اپنی قابلیتیں اور اپنی جانیں کھپا رہے ہیں اور جن مقاصد کے پیچھے ان کی انفرادی اور اجتماعی کوششیں صرف ہو رہی ہیں وہ اکثر ان کے ایمان کی ضد ہیں‘ جس کا وہ دعویٰ رکھتے ہیں۔ یہ صورت حال جب تک جاری رہے گی‘ اسلام کے دائرے میں نو مسلموں کا داخلہ بھی کوئی مفید نتیجہ پیدا نہ کرسکے گا کیونکہ جو منتشر افراد اس کان نمک میں آتے جائیں گے وہ اسی طرح نمک بنتے چلے جائیں گے۔ پس ہماری دعوت کا ایک لازمی عنصر یہ ہے کہ ہم ہر مدعی ایمان کی زندگی کو ان تناقضات سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہر مومن سے یہ ہے کہ وہ حنیف ہو‘ یکسو ہو۔ ایک رنگ مومن و مسلم ہو۔ ہر اس چیز سے کٹ جائے‘ اور نہ کٹ سکتا ہو تو پیہم کٹنے کی جدوجہد کرتا رہے‘ جو ایمان کی ضد اور مسلمانہ طریق زندگی کے منافی ہو۔ اور خوب اچھی طرح مقتضیات ایمان میں سے ایک ایک تقاضے کو سمجھے اور اسے پورا کرنے کی پیہم سعی کرتا رہے۔

امامت میں تغیر کی ضرورت:

اب ہماری دعوت کے تیسرے نکتہ کو لیجئے۔ ابھی جن دو نکات کی تشریح میں آپ کے سامنے کر چکا ہوں‘ یہ تیسرا نکتہ ان سے بالکل ایک منطقی نتیجے کے طور پر نکلتا ہے۔ ہمارا اپنے آپ کو بندگی رب کے حوالے کر دینا اور اس حوالگی و سپردگی میں ہمارا منافق نہ ہونا‘ بلکہ مخلص ہونا اور پھر ہمارا اپنی زندگی کو تناقضات سے پاک کرکے مسلم حنیف بننے کی کوشش کرنا‘ لازمی طور پر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس نظام زندگی میں انقلاب چاہیں جو آج کفر‘ دہریت‘ شرک‘ فسق و فجور اور بداخلاقی کی بنیادوں پر چل رہا ہے اور جس کے نقشے بنانے والے مفکرین اور جس کا عملی انتظام کرنے والے مدبرین سب کے سب خدا سے پھرے ہوئے اور اس کے شرائع کے قیود سے نکلے ہوئے لوگ ہیں۔ جب تک زمام کار ان لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی‘ اور جب تک علوم و فنون آرٹ اور ادب‘ تعلیم و تدریس‘ نشر و اشاعت‘ قانون سازی اور تنقید قانون‘ مالیات‘ صنعت و حرفت‘ تجارت اور انتظام ملکی اور تعلقات بین الاقوامی‘ ہر چیز کی باگ ڈور یہ لوگ سنبھالے ہوئے رہیں گے‘ کسی شخص کے لیے دنیا میں مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا اور خدا کی بندگی کو اپنا ضابطہ حیات بنا کر رہنا۔ صرف عملاً محال ہے بلکہ اپنی آئندہ نسلوں کو اعتقاداً بھی اسلام کا پیرو چھوڑ جانا غیر ممکن ہے۔ اس کے علاوہ صحیح معنوں میں جو شخص بندۂ رب ہو‘ اس پر منجملہ دوسرے فرائض کے ایک اہم ترین فرض یہ بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ خدا کی رضا کے مطابق دنیا کے انتظام کو فساد سے پاک کر دے اور اصلاح پر قائم کرے اور یہ ظاہر بات ہے کہ یہ مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک زمام کار صالحین کے ہاتھ میں نہ ہو‘ فساق و فجار اور خدا کے باغی اور شیطان کے مطیع‘ دنیا کے امام و پیشوا اور منتظم رہیں۔ اور پھر دنیا میں ظلم و فساد‘ بداخلاقی اور گمراہی کا دور دورہ نہ ہو۔ یہ عقل اور فطرت کے خلاف ہے اور آج تجربہ و مشاہدے سے کالشمس فی النہار ثابت ہو چکا ہے کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ پس ہمارا مسلم ہونا خود اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم دنیا کے ائمہ ضلالت کی پیشوائی ختم کر دینے اور غلبہ کفر و شرک کو مٹا کر دین حق کو اس جگہ قائم کرنے کی سعی کریں۔

امامت میں انقلاب کیسے ہوتا ہے؟

مگر یہ تغیر چاہنے سے نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت بہرحال دنیا کا انتظام چاہتی ہے اور دنیا کے انتظام کے لیے کچھ صلاحیتیں اور قوتیں اور صفات درکار ہیں‘ جن کے بغیر کوئی گروہ اس انتظام کو ہاتھ میں لینے اور چلانے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ اگر مومنین صالحین کا ایک منظم جتھا ایسا موجود نہ ہو جو انتظام دنیا کو چلانے کی اہلیت رکھتا ہو‘ تو پھر مشیت الٰہی غیر مومن اور غیر صالح لوگوں کو اپنی دنیا کا انتظام سونپ دیتی ہے۔ لیکن اگر کوئی گروہ ایسا موجود ہو جو ایمان بھی رکھتا ہو‘ صالح بھی ہو اور ان صفات اور صلاحیتوں اور قوتوں میں کفار سے بڑھ جائے‘ جو دنیا کا انتظام چلانے کے لئے ضروری ہیں تو مشیت الٰہی نہ ظالم ہے اور نہ فساد پسند کہ پھر بھی اپنی دنیا کا انتظام فساق و فجار اور کفار ہی کے ہاتھ میں رہنے دے۔ پس ہماری دعوت صرف اسی حد تک نہیں کہ دنیا کی زمام کار فساق و فجار کے ہاتھ سے نکل کر مومنین صالحین کے ہاتھ میں آئے بلکہ ایجاباً (Positively)ہماری دعوت یہ ہے کہ اہل ایمان و صلاح کا ایک ایسا گروہ منظم کیا جائے جو نہ صرف اپنے ایمان میں پختہ ہو‘ نہ صرف اپنے اسلام میں مخلص و یک رنگ اور نہ صرف اپنے اخلاق میں صالح و پاکیزہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ان تمام اوصاف اور قابلیتوں سے بھی آراستہ ہو‘ جو دنیا کی کارگاہ حیات کو بہترین طریقے پر چلانے کے لیے ضروری ہیں‘ اور صرف آراستہ ہی نہ ہو‘ بلکہ موجودہ کار فرمائوں اور کارکنوں سے ان اوصاف اور قابلیتوں میں اپنے آپ کو فائق تر ثابت کردے۔

مخالفت اور اس کے اسباب

یہ ہے ہماری دعوت کا خلاصہ۔ اب آپ تعجب کریں گے اگر میں آپ کو بتائوں کہ اس دعوت کی مزاحمت اور مخالفت سب سے پہلے جس گروہ کی طرف سے ہوئی ہے‘ وہ مسلمانوں کا گروہ ہے۔ اس وقت تک غیر مسلموں کی طرف سے ہمارے خلاف نہ کوئی آواز اٹھی ہے اور نہ عملاً کوئی مزاحمت و مخالفت ہوئی ہے۔۱؎ یہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ آئندہ بھی یہی صورت حال رہے گی‘ نہ یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کب تک یہ صورت حال رہے گی‘ مگر بہرحال یہ واقعہ اپنی جگہ نہایت دردناک اور افسوسناک ہے کہ اس دعوت کو سن کر ناک بھوں چڑھانے والے‘ اسے اپنے لیے خطرہ سمجھنے والے اور اس کی مزاحمت میں سب سے آگے بڑھ کر سعی کرنے والے غیر مسلم نہیں بلکہ مسلمان ہیں۔ شاید ایسی ہی کچھ صورت حال ہوگی جس میں اہل کتاب سے فرمایا گیا تھا ولا تکونوا اول کافر بہ ۲؎ ہمیں ہندوئوں‘ سکھوں اور انگریزوں تک سے تبادلہ خیال کا موقع ملا ہے مگر بہت کم ایسا اتفاق ہوا کہ ان لوگوں میں سے کسی نے ہمارے لٹریچر کو پڑھ کر یا ہمارے مدعا کو تفصیل کے ساتھ ہماری زبان سے سن کر یہ کہا ہو کہ یہ ’’حق‘‘ نہیں ہے یا یہ کہ اگر تم اس چیز کو قائم کرنے کی کوشش کرو گے تو ہم ایڑی سے چوٹی تک کا زور تمہاری مزاحمت میں لگا دیں گے‘‘ متعدد غیر مسلم ہم کو ایسے بھی ملے ہیں جنہوں نے بے اختیار ہو کر کہا کہ کاش یہی اسلام ہندوستان میں پیش کیا گیا ہوتا اور اسی کو قائم کرنے کے لیے باہر سے آنے والے اور اندر سے قبول کرنے والے مسلمانوں نے کوشش کی ہوتی تو آج ہندوستان کا یہ نقشہ نہ ہوتا اور اس ملک کی تاریخ کچھ اور ہی ہوتی۔ بعض غیر مسلموں نے ہم سے یہاں تک کہا کہ ’’اگر فی الواقعہ ایسی ایک سوسائٹی موجود ہو جو پوری دیانت کے ساتھ انہی اصولوں پر چلے اور جس کا مرنا اور جینا سب اسی ایک مقصد کے لیے ہو تو ہمیں اس کے اندر شامل ہونے میں کوئی تامل نہ ہوگا‘‘۔ لیکن اس کے برعکس ہماری مخالفت میں سرگرم اور ہمارے متعلق بدگمانیاں پھیلانے اور ہم پر ہر طرح کے الزام لگانے والے اگر کسی گروہ میں سب سے پہلے اٹھے تو وہ مسلمانوں کا گروہ ہے اور ان میں بھی سب سے زیادہ یہ شرف مذہبی طبقے کے حضرات کو حاصل ہوا ہے۔ پھر لطف یہ ہے کہ آج تک کسی کو یہ کہنے کی جرات نہیں ہوئی کہ جس چیز کی دعوت تم لوگ دیتے ہو وہ باطل ہے۔ شاید اس دعوت پر سامنے سے حملہ (Frontal Attack)ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لیے مجبوراً کبھی عقب سے اور کبھی دائیں پہلو سے اور کبھی بائیں جانب سے چھاپے مارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ اس کے حق ہونے میں تو کلام نہیں مگر اس زمانے میں یہ چلنے والی چیز نہیں ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ حق تو یہی ہے مگر اس کا علم بلند کرنے کے لیے صحابہ کرامؓ جیسے لوگ درکار ہیں‘ اور وہ بھلا اب کہاں آسکتے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ اس کے صداقت ہونے میں کوئی شبہ نہیں مگر مسلمان اپنی موجودہ سیاسی و معاشی پوزیشن میں اس دعوت کو اپنی واحد دعوت کیسے بنا سکتے ہیں۔ ایسا کریں تو ان کی دنیا تباہ ہو جائے گی اور تمام سیاسی اور معاشی زندگی پر غیر مسلم قابض ہو کر ان کے لیے سانس لینے تک کی جگہ نہ چھوڑیں۔ پھر جب اس مسلمان قوم میں سے کوئی اللہ کا بندہ ایسا نکل آتا ہے تو ہماری اس دعوت کو قبول کرکے اپنی زندگی کو واقعی نفاق و تناقض سے پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی زندگی کو بندگی رب میں دے ڈالنے کا تہیہ کر لیتا ہے تو سب سے پہلے اس کی مخالفت کرنے کے لیے اس کے اپنے بھائی بند‘ اس کے ماں باپ‘ اعزا اور اقرباء‘ برادری کے لوگ اور دوست آشنا کھڑے ہو جاتے ہیں‘ اچھے اچھے متقی اوردیندار آدمی بھی جن کی پیشانیوں پر نمازیں پڑھتے پڑھتے گٹے پڑ چکے ہیں اور جن کی زبانیں مذہبیت کی باتوں سے ہر وقت تر رہتی ہیں اس بات کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ ان کا بیٹا یا بھائی یا کوئی عزیز جس کا دنیوی مفاد انہیں کسی درجے میں بھی محبوب ہو‘ اپنے آپ کو اس خطرے میں ڈالے۔
یہ بات کہ اس دعوت کی مخالفت سب سے پہلے مسلمانوں نے کی اور ان میں سے بھی اہل دنیا نے نہیں بلکہ اہل دین نے کی‘ ایک بہت بڑی بیماری کا پتہ دیتی ہے جو مدتوں سے پرورش پا رہی تھی۔ مگر ظاہر فریب پردوں کے پیچھے چھپی ہوئی تھی۔ آج اگر ہم محض علمی رنگ میں اس دعوت کو پیش کرتے اور یہ نہ کہتے کہ آئو اس چیز کو عمل میں لانے اور بالفعل قائم کرنے کی کوشش کریں تو آپ دیکھتے کہ مخالفت کے بجائے ان مزیدار علمی باتوں پر ہر طرف سے تحسین و آفرین ہی کی صدائیں بلند ہوتیں۔ بھلا کوئی مسلمان ایسا بھی ہوسکتا ہے جو کہہ سکے کہ بندگی خدا کے سوائے کسی اور کی ہونی چاہئے‘ یا یہ کہ مسلمان کو نفاق کی حالت میں اور منافی ایمان اعمال میں مبتلا رہنا چاہئے‘ یا شریعت الٰہی کو نہیں‘ کفر ہی کے قوانین کو دنیا میں جاری رہنا چاہئے۔ میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اب تک جن چیزوں کی ہم نے دعوت دی ہے‘ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جسے ہم دعوت عمل کے بغیر صرف علمی حیثیت سے پیش کرتے تو مسلمانوں میں سے کوئی گروہ بلکہ کوئی فرد اس کے خلاف زبان کھولنے پر آمادہ ہوتا۔
لیکن جس چیز نے لوگوں کو مخالفت پر آمادہ کیا وہ صرف یہ ہے کہ ہم ان باتوں کو فقط علمی رنگ میں نہیں پیش کرتے بلکہ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ آئو جس چیز کو ازروئے ایمان حق جانتے ہو‘ اسے عملاً پہلے اپنی زندگی میں اور پھر اپنے گرد و پیش دنیا کی زندگی میں قائم و جاری کرنے کی کوشش کرو۔ یہ بعینہ وہی صورت حال ہے جو اس سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت پیش آچکی ہے۔ جو لوگ عرب جاہلیت کے لٹریچر پر نگاہ رکھتے ہیں‘ ان سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس توحید کی دعوت دی تھی اور جن اصول اخلاص کو آپس پیش فرماتے تھے۔ وہ عرب میں بالکل نئی چیز نہ تھی۔ اسی قسم کے موحدانہ خیالات زمانہ جاہلیت کے متعدد شعراء اور خطیب پیش کر چکے تھے اور اسی طرح اسلامی اخلاقیات میں سے بھی بیشتر وہ تھے جن کو اہل عرب کے حکماء اور خطاء اور شعراء بیان کرتے رہے تھے مگر فرق جو کچھ تھا‘ وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف تو باطل کی آمیزشوں سے الگ کرکے خالص حق کو ایک مکمل و مرتب نظام زندگی کی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کیا اور دوسری طرف آپ نے یہ بھی چاہا کہ جس توحید کو ہم حق کہتے ہیں‘ اس کے مخالف عناصر کو ہم اپنی زندگی سے خارج کردیں اور سارے نظام زندگی کو اسی توحید کی بنیاد پر تعمیر کریں۔ نیز یہ کہ جن اصول اخلاق کو ہم معیار تسلیم کرتے ہیں‘ ہماری پوری زندگی کا نظام بھی انہی اصولوں پر عملاً قائم ہو‘ یہی سبب تھا کہ جن باتوں کے کہنے پر زمانہ جاہلیت کے کسی خطیب‘ کسی شاعر اور کسی حکیم کی مخالفت نہیں کی گئی بلکہ الٹا انہیں سراہا گیا۔ انہی باتوں کو جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا تو ہر طرف سے مخالفتوں کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا‘ کیونکہ لوگ اس بات کے لیے تیار نہیں تھے کہ شرک پر جو نظام زندگی قائم تھا‘ اسے بالکل ادھیڑ کر از سر نو توحید کی بنیادوں پر قائم کیا جائے اور اس طرح ان تمام تعصبات اور آبائی رسموں کا‘ امتیازات اور ’’حقوق‘‘ اور مناصب کا‘ اور اعزازات و اکرامات اور معاشی مفادات کا یک لخت خاتمہ ہو جائے جو صدہا برس سے عہد جاہلیت میں زندگی کی بنیاد بنے ہوئے تھے اور جن سے بعض طبقوں اور خاندانوں کی اغراض وابستہ تھیں۔ اسی طرح لوگ اس بات کے لیے بھی تیار نہ تھے کہ اخلاق فاسدہ کے رواج سے جو آسائشیں اور لذتیں اور منفعتیں اور آزادیاں ان کو حاصل ہیں‘ ان سے دست بردار ہو جائیں اور اخلاق صالحہ کی بندشوں میں اپنے آپ کو خود کسوالیں۔ یہ معاملہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ پیش نہیں آیا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے نبی گزرے ہیں ان کی مخالفت بھی زیادہ تراسی مسئلے پر ہوئی ہے۔ اگر انبیاء صرف علمی اور ادبی حیثیت سے توحید اور آخرت اور اخلاق فاضلہ کا ذکر کرتے تو ان کے زمانے کی سوسائٹیاں اسی طرح ان کو برداشت کرتیں بلکہ سر آنکھوں پر بٹھاتیں جس طرح انہوں نے مختلف قسم کے شاعروں اور فلسفیوں اور ادیبوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔ لیکن نبی کا مطالبہ ان باتوں کے ساتھ یہ بھی تھا کہ: اتقوااللہ و اطیعون (اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو) لا تطیعوا امر المسرفین (حد سے گزر جانے والوں کی اطاعت نہ کرو) اتبعوا ما انزل الیکم من ربکم ولا تتبعوا من دونہ اولیاء (جو ہدایت تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو اور اپنے رب کے سوا دوسرے سر پرستوں کی پیروی نہ کرو)اور پھر انبیاء نے اس پر بھی اکتفاء نہ کیا بلکہ ایک مستقل تحریک اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے جاری کی اور اپنے پیروئوں کے جتھے منظم کرکے عملاً نظام تہذیب و تمدن و اخلاق کو اپنے نصب العین کے مطابق بدل ڈالنے کی جدوجہد شروع کردی۔ بس یہی وہ نقطہ تھا جہاں سے ان لوگوں کی مخالفت کا آغاز ہوا۔ جن کے مفاد نظام جاہلیت سے کلی یا جزئی طور پر وابستہ تھے۔ اور آج ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ٹھیک یہی نقطہ ہے جہاں سے ہماری مخالفت کی ابتداء ہوئی ہے۔ مسلمانوں نے ایک طویل مدت سے اپنی پوری زندگی کی عمارت ان بہت سی مصالحتوں (Compromises) پر قائم کر رکھی ہے جو نظام جاہلیت کے اور ان کے درمیان طے ہو چکے ہیں۔یہ مصالحتیں صرف دنیادارانہ ہی نہیں ہیں بلکہ انہوں نے اچھی خاصی مذہبی نوعیت بھی اختیارکرلی ہے۔ بڑے بڑے مقدس لوگ جن کے تقدس کی قسمیں کھائی جاسکتی ہیں‘ ان مصالحتوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ نظام باطل کی وابستگی کے ساتھ تقویٰ اور عبادت کے چند مظاہر‘ اس قدر کافی قرار دئیے جا چکے ہیں کہ بکثرت لوگ انہی پرہیز گاریوں اور عبادت گزاریوں پر اپنی نجات کی طرف سے مطمئن بیٹھے ہوئے ہیں۔ بہت سے ارباب فضل اور اصحاب مقامات عالیہ ایسے موجود ہیں جن کی بزرگی اور روحانیت‘ اور جن کے اونچے مراتب‘ نظام جاہلیت کے ساتھ مصالحت کرلینے کے باوجود قائم ہیں‘ زبان سے کفر و جاہلیت اور فسق و فجور اور بداعتقادیوں اور ضلالتوں کی مذمت کرلینا اور عہد صحابہ کے نقشے بڑی طلاقت لسانی کے ساتھ اپنے وعظوں اور اپنی تحریروں میں کھینچ دینا اسلام کا حق ادا کرنے کے لیے بالکل کافی ہو چکا ہے اور اس کے بعد ان حضرات کے لیے بالکل حلال ہے کہ خود اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اور اپنے متعلقین اور اپنے پیروئوں کو اسی نظام باطل کی خدمت میں لگا دیں جس کے لائے ہوئے سیلاب ضلالت و گمراہی اور طوفان فسق و فجور کی یہ دن رات مذمت کرتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں جب ہم دین حق اور اس کے مطالبات اور مقتضیات کو محض علمی حیثیت ہی سے پیش کرنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ یہ دعوت بھی دیتے ہیں کہ غلط نظام کے ساتھ وہ تمام مصالحتیں ختم کر دو جو تم نے کر رکھی ہیں اور کامل کیسوائی ویک رنگی کے ساتھ حق کی پیروی اختیار کرو اور پھر اس باطل کی جگہ اس حق کو قائم کرنے کے لیے جان و مال اور وقت و محنت کی قربانی دو جس پر تم ایمان لائے ہو تو ظاہر ہے کہ یہ قصور ایسا نہیں ہے جسے معاف کیا جاسکے۔ اگر سیدھی طرح یہ تسلیم کرلیا جائے کہ واقعی دین کے مطالبات اور مقتضیات یہی ہیں اور حقیقت میں حنفیت اسی کو کہتے ہیں اور اصل بات یہی ہے کہ نظام باطل کے ساتھ مومن کا تعلق مصالحت کا نہیں بلکہ نزاع و کشمکش کا ہونا چاہئے تو پھر دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے‘ یا تو اپنے مفاد کی قربانی گوارا کرکے اس جدوجہد میں حصہ لیا جائے اور ظاہر ہے کہ یہ بہت جاں گسل بات ہے‘ یا پھر اعتراف کرلیا جائے کہ حق تو یہی ہے مگر ہم اپنی کمزوری کی وجہ سے اس کا ساتھ نہیں دے سکتے لیکن یہ اعتراف بھی مشکل ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے صرف یہی نہیں کہ نجات کی وہ گارنٹی خطرے میں پڑ جاتی ہے جس کے اطمینان پر اب تک زندگی بسر کی جارہی تھی بلکہ اس طرح وہ مقام تقدس بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے جو مذہبی و روحانی حیثیت سے ان حضرات کو حاصل رہا ہے۔ اور یہ چیز بھی بہرحال ٹھنڈے پیٹوں گوارا نہیں کی جاسکتی۔ اس لئے ایک بڑے گروہ نے مجبوراً یہ تیسری راہ اختیار کی ہے کہ صاف صاف ہماری اس دعوت کو باطل تو نہ کہا جائے۔ کیونکہ باطل کہنے کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن صاف صاف اس کے حق ہونے کا بھی اعتراف نہ کیا جائے اور اگر کہیں اس کی حقانیت کا اقرار کرنا پڑ ہی جائے تو پھر اصول کو چھوڑ کر کسی شخص یا اشخاص کو بدگمانیوں اور الزامات کا ہدف بنایا جائے تا کہ خود اپنے ہی مانے ہوئے حق کا ساتھ نہ دینے کے لیے جواز پیدا ہو جائے۔ کاش یہ حضرات کبھی اس بات پر غور فرماتے کہ جو حجتیں آج بندوں کا منہ بند کرنے کے لیے وہ پیش کرتے ہیں کل قیامت کے روز کیا وہ خدا کا منہ بھی بند کر دیں گی؟

ہمارا طریق کار

اب میں آپ کے سامنے مختصر طور پر اس ’’طریق کار‘‘ کو پیش کروں گا جو ہم نے اپنی اس دعوت کے لیے اختیار کیا ہے۔ ہماری دعوت کی طرح ہمارا یہ طریق کار بھی دراصل قرآن اور انبیاء علیہم السلام کے طریقے سے ماخوذ ہے۔ جو لوگ ہماری دعوت کو قبول کرتے ہیں‘ ان سے ہمارا اولین مطالبہ یہی ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو عملاً اور بالکلیہ بندگی رب میں دے دو۔ اور اپنے عمل سے اپنے اخلاص اور اپنی یکسوئی کا ثبوت دو اور ان تمام چیزوں سے اپنی زندگی کو پاک کرنے کی کوشش کرو جو تمہارے ایمان کی ضد ہیں۔ یہیں سے ان کے اخلاق و سیرت کی تعمیر اور ان کی آزمائش کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جن لوگوں نے بڑی بڑی امنگوں (Ambitions)کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی‘ انہیں اپنے اونچے اونچے خوابوں کی عمارتیں اپنے ہاتھ سے ڈھا دینی پڑتی ہیں اور اس زندگی میں قدم رکھنا پڑتا ہے جس میں جاہ و منصب اور معاشی خوش حالیوں کے امکانات انہیں اپنی زندگی میں تو درکنار اپنی دوسری تیسری پشت میں بھی دور دور نظر نہیں آتے۔ جن لوگوں کی معاشی خوشحالی کسی مرہونہ زمین یا کسی مغصوبہ جائداد یا کسی ایسی میراث پر قائم تھی جس میں حق داروں کے حقوق مارے گئے تھے‘ انہیں بسا اوقات دامن جھاڑ کر اس خوشحالی سے کنارہ کش ہو جانا پڑتا ہے۔ صرف اس لیے کہ جس خدا کو انہوں نے اپنا آقا تسلیم کیا ہے اس کے منشاء کے خلاف کسی مال کا کھانا‘ ان کے ایمان کے منافی ہے۔ جن لوگوں کے وسائل زندگی غیر شرعی تھے یا نظام باطل سے وابستہ تھے۔ ان کو ترقیوں کے خواب دیکھا تو درکنار موجودہ وسائل سے حاصل کی ہوئی روٹی کا بھی ایک ٹکڑا حلق سے اتارنا ناگوار ہونے لگتا ہے اور وہ ان وسائل کو پاک تر وسائل سے خواہ وہ حقیر ترین ہی کیوں نہ ہوں‘ بدلنے کے لئے ہاتھ پائوں مارنے لگتے ہیں۔ پھر جیسا کہ ابھی میں آپ کے سامنے بیان کر چکا ہوں‘ اس مسلک کو عملاً اختیار کرتے ہیں آدمی کا قریب ترین ماحول اس کا دشمن بن جاتا ہے۔ اس کے اپنے والدین‘ اس کے بھائی بند‘ اس کی بیوی اور بچے اور اس کے جگری دوست سب سے پہلے اس کے ایمان کے ساتھ قوت آزمائی شروع کر دیتے ہیں اور بسا اوقات اس مسلک کا پہلا اثر ظاہر ہوتے ہی آدمی کا اپنا گہوارہ جس میں وہ نازوں سے پالا گیا تھا‘ اس کے لیے زنبور خانہ بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ ہے وہ ابتدائی تربیت گاہ جو صالح و مخلص اور قابل اعتماد و سیرت کے کارکن فراہم کرنے کے لیے وقت الٰہی نے ہمارے لیے خود بخود پیدا کر دی ہے۔ ان ابتدائی آزمائشوں میں جو لوگ ناکام ہو جاتے ہیں وہ آپ سے آپ چھٹ کر الگ ہو جاتے ہیں اور ہمیں ان کو چھانٹ پھینکنے کی زحمت گوارا نہیں کرنی پڑتی۔ اور جو لوگ ان میں پورے اترتے ہیں‘ وہ ثابت کر دیتے ہیں کہ ان کے اندر کم از کم اتنا اخلاص‘ اتنی یکسوئی‘ اتنا صبر اور اتنا…… اتنی محبت حق اور اتنی مضبوطی سیرت ضرور موجود ہے جو خدا کی راہ میں قدم رکھنے اور پہلے مرحلہ امتحان سے کامیاب گزر جانے کے لیے ضروری ہے۔ اس مرحلے کے کامیاب لوگوں کو ہم نسبتاً زیادہ بھروسے اور اطمینان کے ساتھ لے کر دوسرے مرحلے کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں جو آنے والا ہے‘ اور جس میں اس سے زیادہ آزمائشیں پیش آنے والی ہیں۔ وہ آزمائشیں پھر ایک دوسری بھٹی تیار کریں گی جو اسی طرح کھوٹے سکوں کو چھانٹ کر پھینک دے گی اور زر خالص کو اپنی گود میں رکھ لے گی۔ جہاں تک ہمارا علم ساتھ دیتا ہے ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی معاون سے کار آمد عناصر کو چھانٹنے اور ان کو زیادہ کار آمد بنانے کے لیے یہی طریقہ پہلے بھی اختیار کیا جاتا رہا ہے اور جو تقویٰ ان بھٹیوں میں تیار ہوتا ہے‘ چاہے وہ فقہی ناپ تول میں پورا نہ اترے اور خانقاہی معیاروں پر بھی ناقص نکلے‘ مگر صرف اسی طرز سے تیار کیے ہوئے تقویٰ میں یہ طاقت ہوسکتی ہے کہ انتظام دنیا کی بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ سنبھال سکے اور ان عظیم الشان امانتوں کا بار اٹھا سکے جن کے ایک قلیل سے قلیل جز کا وزن بھی خانقاہی تقویٰ کی برداشت سے باہر ہے۔
اس کے ساتھ دوسری چیز جو ہم لازم رکھتے ہیں یہ ہے کہ جس حق کی روشنی ہم نے پائی ہے‘ اس سے وہ اپنے قریبی ماحول اور ان سب لوگوں کو جن سے ان کا قرابت یا دوستی یا ہمسائیگی یا لین دین کا تعلق ہے‘ روشناس کرانے کی کوشش کریں اور انہیں اس کی طرف آنے کی دعوت دیں۔ یہاں پھر آزمائشوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
سب سے پہلے تو اس تبلیغ کی وجہ سے مبلغ کی اپنی زندگی درست ہوتی ہے کیونکہ یہ کام شروع کرتے ہی بے شمار خوربین اور دیدبان (Serch-light) اس کی ذات کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور مبلغ کی زندگی میں اگر کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس کے ایمان اور اس کی دعوت کے منافی موجود ہو تو یہ مفت کے محتسب اسے نمایاں کر کے مبلغ کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور تازیانے لگا لگا کر اسے مجبور کرتے ہیں کہ اپنی زندگی کو اس سے پاک کرے۔ اگر مبلغ فی الواقع اس دعوت پر سچے دل سے ایمان لایا ہو تو وہ ان تنقیدوں پر جھنجھلانے اور تاویلوں سے اپنے عمل کی غلطی کو چھپانے کی کوشش نہ کرے گا بلکہ ان لوگوں کی خدمات سے فائدہ اٹھائے گا جو مخالفت کی نیت ہی سے سہی مگر بہرحال اس کی اصلاح میں بغیر کسی معاوضے کے سعی و محنت کرتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس برتن کو بیسیوں ہاتھ مانجنے میں لگ جائیں اور مانجھتے ہی چلے جائیں وہ چاہے کتنا ہی کثیف ہو‘ آخر کار مجلا و مصفا ہو کر رہے گا۔
پھر اس تبلیغ سے ان لوگوں میں بہت سے اوصاف کو بالیدگی حاصل ہوتی ہے جنہیں آگے چل کر دوسرے میدانوں میں کسی اور شکل سے استعمال کرنا ہے۔ جب مبلغ کو طرح طرح کے دل شکن حالات سے گزرنا پڑتا ہے‘ کہیں اس کی ہنسی اڑائی جاتی ہے‘ کہیں اس پر طعنے اور آوازے کسے جاتے ہیں‘ کہیں گالیوں اور دوسری جہالتوں سے اس کی تواضع کی جاتی ہے‘ کہیں اس پر الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے‘ کہیں اس کو فتنوں میں الجھانے کی نت نئی تدبیریں کی جاتی ہیں۔ کہیں اسے گھر سے نکال دیا جاتا ہے‘ میراث سے محروم کر دیا جاتا ہے‘ دوستیاں اور رشتہ داریاں اس سے منقطع کرلی جاتی ہیں اور اس کے لیے اپنے ماحول میں سانس تک لینا دشوار کردیا جاتا ہے۔ تو ان حالات میں جو کارکن نہ ہمت ہارے‘ نہ حق سے پھرے‘ نہ باطل پرستوں کے آگے سپر ڈالے‘ نہ مشتعل ہو کر اپنے دماغ کا توازن کھوئے‘ بلکہ اس کے برعکس حکمت اور تدبر اور ثابت قدمی اور راست بازی اور پرہیزگاری اور ایک سچے حق پرست کی سی ہمدردی و خیر خواہی کے ساتھ اپنے مسلک پر قائم اور اپنے ماحول کی اصلاح میں پیہم کوشاں رہے۔ اس کے اندر ان اوصاف عالیہ کا پیدا ہونا اور نشوونما پانا یقینی ہے جو آگے چل کر…… اس جدوجہد کے دوسرے مرحلوں میں اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر درکار ہوں گے۔
اس تبلیغ کے سلسلے میں ہم نے وہی طریق کار اپنانے کی کوشش کی ہے جو قرآن مجید میں تعلیم فرمایا گیا ہے‘ یعنی یہ کہ حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ خدا کے راستے کی طرف دعوت دیں‘ تدریج اور فطری ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے لوگوں کے سامنے دین کے اولین بنیادی اصولوں کو اور پھر رفتہ رفتہ ان کے مقتضیات اور لوازم کو پیش کریں‘ کسی کو اس کی قوت ہضم سے بڑھ کر خوراک دینے کی کوشش نہ کریں‘ فروع کو اصول پر اور جزئیات کو کلیات پر مقدم نہ کریں‘ بنیادی خرابیوں کو رفع کیے بغیر ظاہری برائیوں اور بیرونی شاخوں کو چھانٹنے اور کاٹنے میں اپنا وقت ضائع نہ کریں‘ غفلت اور اعتقادی و عملی گمراہیوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کے ساتھ نفرت و کراہیت کا برتائو کرنے کے بجائے ایک طبیب کی سی ہمدردی و خیر خواہی کے ساتھ ان کے علاج کی فکر کریں‘ گالیوں اور پتھروں کے جواب میں دعائے خیر کرنا سکھیں‘ ظلم اور ایذا رسانی پر صبر کریں‘ جاہلوں سے بحثوں اور مناظروں اور نفسانی مجادلوں میں نہ الجھیں‘ لغو اور بیہودہ باتوں سے عالی ظرف اور شریف لوگوں کی طرح درگزر کریں‘ جو لوگ حق سے مستغنی بنے ہوئے ہوں‘ ان کے پیچھے پڑنے کے بجائے ان لوگوں کی طرف توجہ کریں جن کے اندر کچھ طلب حق پائی جاتی ہو‘ خواہ وہ دنیوی اعتبار سے کتنے ہی ناقابل توجہ سمجھے جاتے ہوں‘ اور اپنی اس تمام سعی و جہد میں ریاء اور نمود و نمائش سے بچیں‘ اپنے کارناموں کو گنانے اور فخر کے ساتھ ان کا مظاہرہ کرنے اور لوگوں کی توجہات اپنی طرف کھینچنے کی ذرہ برابر کوشش نہ کریں‘ بلکہ جو کچھ کریں‘ اس نیت اور اس یقین و اطمینان کے ساتھ کریں کہ ان کا سارا عمل خدا کے لیے ہے اور خدا بہرحال ان کی خدمات سے بھی واقف ہے اور ان کی خدمات کی قدر بھی اسی کے ہاں ہونی ہے خواہ خلق اس سے واقف ہو یا نہ ہو‘ اور خلق کی طرف سے سزا ملے یا جزاء۔ یہ طریقہ کار غیر معمولی صبر اور حلم اور لگاتار محنت چاہتا ہے۔ اس میں ایک مدت دراز تک مسلسل کام کرنے کے بعد بھی شاندار، نتائج کی وہ ہری بھری فصل لہلہاتی نظر نہیں آتی جو سطحی اور نمائشی کام شروع کرتے ہی دوسرے دن سے تماشائیوں اور مداریوں کا دل لبھانا شروع کر دیتی ہے‘ اس میں ایک طرف اس شخص کے اندر وہ گہری بصیرت‘ وہ سنجیدگی‘ وہ پختہ کاری اور وہ معاملہ فہمی پیدا ہوتی ہے جو اس تحریک کے زیادہ صبر آزما اور زیادہ محنت و حکمت چاہنے والے مراحل میں درکار ہونے والی ہے‘ اور دوسری طرف اس سے تحریک اگرچہ آہستہ رفتار سے چلتی ہے‘ مگر اس کا ایک ایک قدم مستحکم ہوتا چلا جاتا ہے۔ صرف ایسے ہی طریق تبلیغ سے سوسائٹی کا مکھن نکال کر تحریک میں جذب کیا جاسکتا ہے۔ اوچھے اور سطحی لوگوں کی بھیڑ جمع کرنے کے بجائے اس طریق تبلیغ سے سوسائٹی کے صالح ترین عناصر تحریک کی طرف کھینچتے ہیں اور وہ سنجیدہ کارکن تحریک کو میسر آتے ہیں جن میں سے ایک ایک آدمی کی شرکت ابو الفضولوں کے انبوہ سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔
ہمارے طریق کار کا ایک بڑا اہم جزء یہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو نظام باطل کی قانونی اور عدالتی حفاظت سے خود بخود محروم کرلیا ہے اور علی الاعلان دنیا کو بتا دیا ہے کہ ہم اپنے انسانی حقوق‘ اپنے مال و جان اور عزت و آبرو کسی چیز کی عصمت بھی قائم رکھنے کے لیے اس نظام کی مدد حاصل کرنا نہیں چاہتے جس کو ہم باطل سمجھتے ہیں لیکن اس چیز کو ہم نے لازم نہیں کیا ہے بلکہ ان کے سامنے ایک بلند معیار رکھ دینے کے بعد ان کو اختیار دے دیا ہے کہ چاہیں تو اس معیار کی انتہائی بلندیوں تک پہنچ جائیں ورنہ حالات کی مجبوریوں سے شکست کھا کھا کر جس قدر پستی میں گرنا چاہیں‘ گرتے چلے جائیں۔ البتہ پستی کی ایک حد ہم نے مقرر کر دی ہے کہ اس سے گر جانے والے کے لیے ہمارے یہاں کوئی جگہ نہیں۔ یعنی ایسا شخص جو جھوٹا مقدمہ بنائے‘ یا جھوٹی شہادت دے‘ یا ایسی مقدمہ بازی میں الجھے جس کے لیے کسی مجبوری کا عذر نہ پیش کیا جاسکے بلکہ وہ سراسر منفعت طلبی یا نفسانیت کی تسکین یا دوستی اور رشتہ داری کی عصبیت ہی پر مبنی ہو۔
بظاہر لوگ ہمارے اس طریق کار کی حکمتوں کو جو ہم نے قانون و عدالت کے معاملے میں اختیار کیا ہے پوری طرح نہیں سمجھتے۔ اس لیے وہ طرح طرح کے سوالات ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مگر فی الحقیقت اس کے بے شمار فائدے ہیں۔ اس کا اولین فائدہ یہ ہے کہ ہم اپنا بااصول ہونا اپنے عمل سے اور ایسے عمل سے ثابت کر دیتے ہیں جو محض تفریحی نوعیت ہی نہیں رکھتا بلکہ صریح طور پر نہایت تلخ اور انتہائی کڑی آزمائشیں اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا کے سوا کسی کو انسانی زندگی کے لیے قانون بنانے کا حق نہیں ہے‘ اور جب ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ حاکمیت (Sovereignty)صرف خدا کا حق ہے اور خدا کی اطاعت اور اس کے قانون کی پابندی کے بغیر کوئی زمین میں حکم چلانے کا مجاز نہیں ہے‘ اور جب ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جو قانون الٰہی کی سند کے بغیر معاملات انسانی کا فیصلہ کرے وہ کافر اور فاسق اور ظالم ہے تو ہمارے اس عقیدے اور ہمارے اس دعویٰ سے خود بخود یہ بات لازم آ جاتی ہے کہ ہم اپنے حقوق کی بنیاد کسی غیر الٰہی قانون پر نہ رکھیں‘ اور حق اور غیر حق کا فیصلہ کسی ایسے حاکم کی حکومت پر نہ چھوڑیں‘ جس کو ہم باطل سمجھتے ہیں اپنے عقیدے کے اس تقاضے کو اگر ہم سخت سے سخت نقصانات اور انتہائی خطرات کے مقابلے میں بھی پورا کرکے دکھا دیں تو یہ ہماری راستی اور ہماری مضبوطی سیرت اور ہمارے عقیدے اور عمل کی مطابقت کا ایسا بین ثبوت ہوگا جس سے بڑھ کر کسی دوسرے ثبوت کی حاجت نہیں رہتی۔ اور اگر کسی نفع کی امید یا کسی نقصان کا خطرہ یا کسی ظلم و ستم کی چوٹ ہم کو مجبور کر دے کہ ہم اپنے عقیدے کے خلاف کام کر گزریں تو یہ ہماری کمزوری کا اور ہماری سیرۃ کے بودے پن کا ایک نمایاں ترین ثبوت ہوگا جس کے بعد کسی دوسرے ثبوت کی ضرورت نہ رہے گی۔
اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ افراد کی پختگی اور ان کے قابل اعتماد یا ناقابل اعتماد ہونے کا اندازہ کرنے کے لیے ہمارے پاس یہ ایک ایسی کسوٹی ہوگی جس سے ہم باآسانی یہ معلوم کرتے رہیں گے کہ ہم میں سے کون لوگ کتنے پختہ ہیں اور کس سے کس قسم کی آزمائشوں میں ثابت قدم رہنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
اس کا تیسرا اور عظیم الشان فائدہ یہ ہے کہ ایسے افراد یہ مسلک اختیار کرنے کے بعد آپ سے آپ اس بات پر مجبور ہو جائیں گے کہ سوسائٹی کے ساتھ اپنے تعلقات کو قانون کی بنیاد پر قائم کرنے کے بجائے اخلاق کی بنیادوں پر قائم کریں۔ ان کو اپنا اخلاقی معیار اتنا بلند کرنا پڑے گا‘ اپنے آپ کو اپنے ماحول میں اس قدر راست باز‘ اتنا متدین‘ اتنا خدا ترس اور اس قدر خیر مجسم بنانا پڑے گا کہ لوگ خود بخود ان کے حقوق‘ ان کی عزت اور ان کی جان و مال کا احترام کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ کیونکہ اس اخلاقی تحفظ کے سوا ان کے لیے دنیا میں اور کوئی تحفظ نہ ہوگا اور قانونی تحفظ سے محروم ہونے اور پھر اخلاقی تحفظ بھی حاصل نہ کرنے کی صورت میں ان کی حیثیت دنیا میں بالکل ایسی ہو کر رہ جائے گی جیسے جنگل میں ایک بکری بھیڑیوں کے درمیان رہتی ہو۔
اس کا چوتھا فائدہ یہ ہے اور یہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے کہ ہم اس طرح اپنے آپ کو اور اپنے مفاد اور حقوق کو خطرے میں ڈال کر موجودہ سوسائٹی کی اخلاقی حالت کو بالکل برہنہ کرکے دنیا کے سامنے رکھ دیں گے۔ جب لوگ یہ جاننے کے بعد کہ ہم پولیس اور عدالت سے اپنی حفاظت کے لیے کوئی مدد لینے والے نہیں ہیں۔ ہمارے حقوق پر علی الاعلان ڈاکے ماریں گے۔ تو یہ اس بات کا نمایاں ترین ثبوت ہوگا کہ ہمارے ملک کی اور ہماری سوسائٹی کی اخلاقی حالت کس قدر کھوکھلی ہے۔ کتنے آدمی ہیں جو صرف اس وجہ سے شریف بنے ہوئے ہیں کہ قانون نے ان کو شریف بنا رہنے پر مجبور کر رکھا ہے‘ کتنے آدمی ہیں جو ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی کرنے پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔ بشرطیکہ ان کو اطمینان ہو جائے کہ دنیا میں کوئی ان پر گرفت کرنے والا نہیں ہے‘ کتنے آدمی ہیں جنہوں نے مذہب اور اخلاق اور انسانیت کے جھوٹے لبادے اوڑھ رکھے ہیں‘ حالانکہ اگر موقع میسر آجائے اور کوئی رکاوٹ موجود نہ ہو تو ان سے بدترین اخلاقی گراوٹ اور لامذہبیت اور حیوانیت کا صدور نہایت آسانی سے ہوسکتا ہے۔ یہ اخلاقی ناسور جو چھپا ہوا ہے اور اندر ہی اندر قومی سیرت کو گلا اور سڑا رہا ہے۔ ہم اس کو علیٰ روس الاشہاد بے پردہ کرکے رکھ دیں گے تاکہ ہمارے ملک کا اجتماعی ضمیر چونک پڑے اور اسے ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو کہ جس مرض سے وہ اب تک غفلت برت رہا ہے‘ وہ کتنی دور پہنچ چکا ہے۔
صاحبو! اپنی دعوت اور اپنے طریق کار کی یہ مختصر تشریح میں نے آپ کے سامنے پیش کر دی ہے۔ اس کو جانچیں اور پرکھیں اور اس پر کڑی سے کڑی تنقید کریں اور دیکھیں کہ ہم کس چیز کی طرف بلا رہے ہیں اور بلانے کے لیے ہم نے جو ڈھنگ اختیار کیا ہے وہ کہاں تک صحیح ہے‘ کس حد تک خدا اور رسولؐ کی تعلیمات کے مطابق ہے‘ کس حد تک موجودہ انفرادی و اجتماعی امراض کا صحیح علاج ہے‘ اور کس حد تک اس سے توقع کی جاسکتی ہے کہ ہم اپنے آخری مقصود یعنی کلمۃ اللہ کے بلند اور کلمات باطلہ کے پست ہو جانے کو حاصل کرسکتے ہیں۔ اب میں ان شہادت و اعتراضات پر کچھ عرض کروں گا جو اس موقع کے دوران میں بعض حضرات کے ذریعے سے مجھ تک پہنچائے گئے ہیں۔

علماء اور مشائخ کی آڑ

ایک اعتراض جو پہلے بھی بار بار سن چکا ہوں اور آج بھی وہ میرے پاس تحریری شکل میں آیا ہے‘ یہ ہے کہ ایسے بڑے بڑے علماء اور پیشوایان دین (جن کے کچھ نام بھی گنائے گئے ہیں) کیا دین سے اس قدر ناواقف تھے کہ نہ صرف یہ کہ خود انہوں نے دین کے ان تقاضوں کو جو تم بیان کرتے ہو‘ نہیں سمجھا اور پورا کرنے کی طرف توجہ نہیں کی‘ بلکہ تمہارے بیان کرنے کے بعد بھی انہوں نے اسے تسلیم نہیں کیا اور نہ تمہارے ساتھ تعاون کرنا قبول کیا؟ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سب دین سے ناواقف ہیں؟ یا اس بات کا کہ تم نے خود دین کے نام سے ایک ایسی چیز پیش کی ہے جو مقتضیات دین میں سے نہیں ہے؟ اس سوال کا بہتر مختصر جواب میرے پاس یہ ہے کہ میں نے دین کو حال یا ماضی کے اشخاص سے سمجھنے کے بجائے ہمیشہ قرآن اور سنت ہی سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے میں کبھی یہ معلوم کرنے کے لئے کہ خدا کا دین مجھ سے اور ہر مومن سے کیا چاہتا ہے‘ یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ فلاں اور فلاں بزرگ کیا کرتے ہیں اور کیا کرتے ہیں‘ بلکہ صرف یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ قرآن کیا کہتا ہے اور رسولؐ نے کیا کہا؟ اسی ذریعہ معلومات کی طرف میں آپ لوگوں کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ آپ یہ دیکھئے کہ جس چیز کی طرف میں آپ کو دعوت دے رہا ہوں‘ اور جو طریق کار اس کے لیے پیش کر رہا ہوں‘ آیا قرآن کی دعوت وہی ہے‘ اور انبیاء علیہم السلام کا طریق کار وہی رہا ہے یا نہیں‘ اگر قرآن و سنت سے یہ بات ثابت ہو جائے اور آپ کے نزدیک قرآن و سنت ہی اصل ذریعہ ہدایت ہوں تو میری بات مانئے اور میرے ساتھ آجائیے اور اگر اس دعوت اور طریق کار میں کوئی چیز قرآن و سنت سے ہٹی ہوئی ہو تو بے تکلف اسے ظاہر کر دیجئے۔ جس وقت مجھ پر اور میرے رفقاء پر یہ منکشف ہو جائے گا کہ ہم کہیں بال بھر بھی قرآن اور سنت سے ہٹے ہوئے ہیں تو آپ انشاء اللہ دیکھ لیں گے کہ ہم حق کی طرف رجوع کرنے میں ایک لمحے کے لیے بھی تامل کرنے والے نہیں ہیں۔ لیکن اگر آپ حق و باطل کا فیصلہ خدائی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت کی بجائے اشخاص پر رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو پورا اختیار ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے مستقبل کو اشخاص ہی کے حوالے کر دیجئے اور خدا کے ہاں بھی یہی جواب دیجئے گا کہ ہم نے اپنا دین تیری کتاب اور تیرے رسولؐ کی سنت کے بجائے فلاں اور فلاں لوگوں کے حوالے کر دیا تھا۔ یہ جوابدہی اگر آپ کو خدا کے ہاں بچا سکتی ہے تو اسی پر اطمینان سے کام کرتے رہئے۔

زہد کا طعنہ:

ایک اور اعتراض جس کے متعلق مجھے لکھا گیا ہے کہ ایک مخلص ہمدرد نے اسے پیش کیا ہے‘ یہ ہے کہ ’’آپ کا یہ طریق کار چند زہاد اور تارکین دنیا کی ایک جماعت کے لیے موزوں ہے جو دنیا کے معاملات سے بے تعلق ہو کر ایک طرف بیٹھ گئی ہو اور جسے سیاسیات حاضرہ سے کوئی بحث نہ ہو‘‘۔ درآں حالیکہ مسلمانوں کو حالات نے مجبور کر دیا ہے کہ بغیر ایک لمحہ ضائع کیے ان مسائل سیاسی کو حل کریں جن کے حل پر پوری قوم کے مستقبل کا انصار ہے‘ اور صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی مجبور ہیں کہ سب سے پہلے اپنے ملک کے سیاسی مستقبل کی فکر کریں کیونکہ اسی پر ان کی فلاح کا مدار ہے۔ لہٰذا اس ملک میں جو لوگ بھی زندگی کے عملی مسائل سے دلچسپی اور تعلق رکھتے ہیں وہ تو تمہاری طرف توجہ نہیں کرسکتے۔ البتہ کچھ گوشہ نشین و زاویہ پسند لوگ جو مذہبی ذہنیت رکھتے ہوں‘ تمہیں ضرور مل جائیں گے‘‘
یہ اعتراض دراصل اس سطح بینی کا نتیجہ ہے جس سے ہمارے آج کل کے سیاست کار حضرات معاملات کے رد و بدل کو دیکھتے ہیں اور انہی میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ لیکن سیاست کی عمارت جن بنیادوں پر قائم ہوتی ہے‘ ان تک ان کی نگاہ نہیں پہنچتی۔ آپ کے موجودہ سیاسی مسائل جن کی فکر میں آپ لوگ آج کل الجھے ہوئے ہیں‘ کس چیز کے پیدا کردہ ہیں‘ صرف اس چیز کے کہ جن اخلاقی اور اعتقادی و فکری اور تہذیبی و تمدنی بنیادوں پر اس ملک کی سوسائٹی قائم تھی وہ اتنی کمزور ثابت ہوئیں کہ ایک دوسری قوم اگرچہ وہ نہایت ہی گمراہ اور نہایت ہی غلط کار تھی مگر بہرحال اپنے اخلاقی اوصاف‘ اپنی تہذیبی و تمدنی طاقت اور اپنی عملی قابلیتوں کے لحاظ سے وہ آپ سے اتنی زیادہ برتر ثابت ہوئی کہ ہزاروں میل دور سے آکر اس نے اپنے آپ کو اپنا محکوم بنا لیا۔ پھر آپ اپنی مدت ہائے دراز کی غفلتوں اور کمزوریوں کی وجہ سے اس حد تک گرے کہ خود اس محکومی کے اندر بھی آپ کی ہمسایہ قومیں آپ کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہوگئیں اور آپ کے لیے یہ سوال پیدا ہوگیا کہ اپنے آپ کو پہلے کس سے بچائیں۔ گھر والوں سے یا باہر والے سے؟ یہ ہے آپ کے تمام موجودہ سیاسی مسائل کا خلاصہ‘ اور ان مسائل کو آپ بھی اور آپ کی ہمسایہ دوسری ہندوستانی قومیں بھی صرف اس طرح حل کرنا چاہتی ہیں کہ ملک کا سیاسی نظام جس شکل پر قائم ہے اس میں بس کچھ اوپری رد و بدل ہو جائے۔ میں اس سیاست کو اور اس سیاسی طریق کار کو بالکل مہمل سمجھتا ہوں اور اس میں اپنا وقت ضائع کرنے کا کچھ حاصل نہیں پاتا۔ پھر صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں جو سیاسی مسائل اس وقت دروپیش ہیں‘ ان کا خلاصہ بھی میرے نزدیک صرف یہ ہے کہ انسان کو جو حیثیت دنیا میں فی الواقع حاصل نہیں تھی‘ اسے خواہ مخواہ اپنی حیثیت بنا لینے پر اس نے اصرار کیا اور اپنے اخلاق‘ اپنی تہذیب‘ اپنے تمدن‘ اپنی معیشت اور اپنی سیاست کی بنیاد خدا سے خود مختاری پر رکھ دی جس کا انجام آج ایک عظیم الشان فساد اور ایک زبردست طوفان فسق و فجور کی شکل میں رونما ہو رہا ہے‘ اس انجام کو انتظام دنیا کی محض ظاہری شکلوں کے رد و بدل سے دور کرنے کے لیے جو کوششیں آج کی جارہی ہیں‘ انہی کا نام آج ’’سیاست‘‘ ہے اور میرے نزدیک بلکہ فی الحقیقت اسلام کے نزدیک یہ ساری سیاست سراسر لغو ہے اور بے حاصل ہے۔ میں نے اسلام سے جن حقیقتوں کو سمجھا ہے‘ ان کی بنا پر میرے نزدیک ہندوستان کے مسلمانوں کی اور ہندوستان کے سارے باشندوں کی اور دنیائے مسلمین اور دنیائے غیر مسلمین کی سیاست کا حل صرف یہ ہے کہ ہم سب خدا کی بندگی اختیار کریں‘ اس کے قانون کو اپنا قانون حیات تسلیم کریں اور انتظام دنیا کی زمام اختیار فساق و فجار کے بجائے عباد اللہ الصالحین کے ہاتھ میں ہو۔ یہ سیاست اگر آپ کو اپیل نہیں کرتی اور آپ کچھ دوسری سیاست بازیوں سے اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کا راستہ الگ ہے اور میرا راستہ الگ۔ جائیے اور جن جن طریقوں سے اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں‘ حل کرکے دیکھ لیجئے۔ مگر میں اور میرے رفقاء علیٰ وجہ البصیرت جس چیز میں اپنی‘ اپنی قوم کی‘ اپنے ملک کی اور ساری دنیا کی فلاح دیکھتے ہیں‘ اسی پر ہم اپنی ساری کوششیں صرف کرتے رہیں گے۔ اگر دنیا کے لوگ ہماری باتوں کی طرف توجہ کریں گے تو ان کے اپنے لیے بھلا ہے اور نہ کریں گے تو اپنا کچھ بگاڑیں گے ہمارا کچھ نقصان نہ کریں گے۔
رہی یہ غلط فہمی کہ ہم زاہدوں اور گوشہ نشینوں کا ایک گروہ بنا رہے ہیں تو اگر یہ عمداً واقعہ کی غلط تعبیر نہیں ہے اور واقعی غلط فہمی ہی ہے تو اسے ہم صاف صاف رفع کر دینا چاہتے ہیں۔ ہم دراصل ایک ایسا گروہ تیار کرنا چاہتے ہیں جو ایک طرف زہد و تقویٰ میں اصطلاحی زاہدوں اور متقیوں سے بڑھ کر ہو‘ اور دوسری طرف دنیا کے انتظام کو چلانے کی قابلیت و صلاحیت بھی عام دنیا داروں سے زیادہ اور بہتر رکھتا ہو۔ ہمارے نزدیک دنیا کی تمام خرابیوں کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ لوگ نیکی کے صحیح مفہوم سے ناآشنا ہونے کی بنا پر گوشہ گیر ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور پرہیزگاری اس کو سمجھتے ہیں کہ دنیا کے معاملات ہی سے پرہیز کریں اور دوسری طرف ساری دنیا کے کاروبار بدوں کے ہاتھ میں آجاتے ہیں جن کی زبان پر نیکی کاکام اگر کبھی آتا بھی ہے تو صرف خلق خدا کو دھوکہ دینے کے لیے۔ اس خرابی کا علاج صرف یہی ہوسکتا ہے کہ صالحین کی ایک جماعت منظم کی جائے جو خدا ترس بھی ہو‘ راست باز اور دیانت دار بھی ہو‘ خدا کے پسندیدہ اخلاق اور اوصاف سے آراستہ بھی ہو‘ اور اس کے ساتھ دنیا کے معاملات کو دنیا داروں سے زیادہ اچھی طرح سمجھے اور خود دنیاداری ہی میں اپنی مہارت و قابلیت سے ان کو شکست دے سکے۔ ہمارے نزدیک اس سے بڑا اور کوئی سیاسی کام نہیں ہوسکتا اور نہ اس سے زیادہ کامیاب سیاسی تحریک اور کوئی ہوسکتی ہے کہ ایسے صالح گروہ کو منظم کرلیا جائے‘ بداخلاق اور بے اصول لوگوں کے لیے دنیا کی چراگاہ میں بس اسی وقت تک چرنے چگنے کی مہلت ہے جب تک ایسا گروہ تیار نہیں ہو جاتا‘ اور جب ایسا گروہ تیار ہو جائے گا آپ یقین رکھئے کہ نہ صرف آپ کے اس ملک کی بلکہ بتدریج ساری دنیا کی سیاست اور معیشت اور مالیات اور علوم و آداب اور عدل و انصاف کی باگیں اسی گروہ کے ہاتھ آجائیں گی اور فساق و فجار کا چراغ ان کے آگے نہ جل سکے گا۔ یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ انقلاب کس طرح رونما ہوگا لیکن جتنا مجھے کل سورج کے طلوع ہونے کا یقین ہے اتنا ہی مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ یہ انقلاب بہرحال رونما ہو کر رہے گا۔ بشرطیکہ ہمیں صالحین کے ایسے گروہ کو منظم کرنے میں کامیابی حاصل ہو جائے۔

رفقاء سے خطاب

اب میں آپ لوگوں سے اجازت چاہوں گا کہ تھوڑی دیر کے لیے عام خطاب کو چھوڑ کر خاص طور پر کچھ باتیں اپنے رفقاء سے عرض کروں:
رفقاء محترم! سب سے پہلے میں اسی بات کو دہرانا ضروری سمجھتا ہوں‘ جسے ہمیشہ اور ہر موقع پر دھراتا رہتا ہوں کہ اپنی اس عظیم الشان ذمہ داری کو محسوس کیجئے جس کو آپ نے شعوری طور پر اپنے خدا سے عہد و میثاق مضبوط کرکے اپنے اوپر خود عائد کر لیا ہے۔ آپ کے اس عہد کا تقاضا صری یہی نہیں ہے کہ آپ قانون الٰہی کے زیادہ سے زیادہ پابند ہوں اور آپ کے عقیدے اور قول و عمل میں کامل مطابقت ہو اور آپ کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ رہ جائے جس میں آپ کے افکار و اعمال اس اسلام سے مختلف ہوں جس پر آپ ایمان لائے ہیں‘ بلکہ اس کے ساتھ آپ کے اسی عہد کا تقاضا اور نہایت شدید تقاضا یہ بھی ہے کہ جس اسلام پر آپ ایمان لائے ہیں اور جسے آپ اپنے بادشاہ کا دین سمجھتے ہیں اور جسے آپ تمام نوع انسانی کے لیے حق جانتے ہیں اور واحد ذریعہ فلاح بھی سمجھتے ہیں اس کو تمام دوسرے دینوں اور مسلکوں اور نظاموں کے مقابلے میں سربلند کرنے کے لیے اور نوع انسانی کو ادیان باطلہ کی فساد انگیز تباہ کاریوں سے بچا کر دین حق کی سعادتوں سے بہرہ ور کرنے کے لیے آپ میں کم از کم اتنی بے چینی پائی جائے جتنی ادیان باطلہ کے پیرو اپنے اپنے جھوٹے اور غارت گردینوں کی حمایت و برتری کے لیے دکھا رہے ہیں۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے ان لوگوں کی مثالیں موجود ہیں جو سخت سے سخت خطرات‘ شدید سے شدید نقصانات‘ جان و مال کے زیان‘ ملکوں کی تباہی‘ اور اپنی اور اپنی اولاد اور اپنے عزیزوں اور جگر گوشوں کی قربانی صرف اس لیے گوارا کر رہے ہیں کہ جس طریق زندگی کو وہ صحیح سمجھتے ہیں اور جس نظام میں اپنے لیے فلاح کا امکان انہیں نظر آتا ہے اسے نہ صرف اپنے ملک پر بلکہ ساری دنیا پر غالب کرکے چھوڑیں۔ ان کے صبر اور ان کی قربانیوں اور محنتوں اور ان کے تحمل مصائب اور اپنے مقصد کے ساتھ ان کے عشق کا موازنہ آپ اپنے عمل سے کرکے دیکھئے اور محسوس کیجئے کہ آپ اس معاملہ میں ان کے ساتھ کیا نسبت رکھتے ہیں۔ اگر فی الواقع آپ کبھی ان کے مقابلے میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو صرف اسی وقت جبکہ ان حیثیات میں آپ ان سے بڑھ جائیں‘ ورنہ آپ کے مالی ایثار‘ آپ کے وقت اور محنت کے ایثار‘ اور اپنے مقصد کے ساتھ آپ کی محبت اور اس کے لیے آپ کی قربانی کا جو حال اس وقت ہے‘ اس کو دیکھتے ہوئے تو آپ یہ حق بھی نہیں رکھتے کہ اپنے دل میں اس تمنا کو پرورش کریں کہ آپ کے ہاتھوں یہ جھنڈا کبھی بلند ہو۔
دوسری چیز جس کی طرف مجھے آپ کو توجہ دلانے کی بار بار ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ لوگ دین کے اصولی اور بنیادی امور کی اہمیت کو سمجھیں اور فروع کے ساتھ جو اہتمام اب تک کرتے رہے ہیں اور جس اہتمام کی بیماری آپ کے سارے مذہبی ماحول کو لگی ہوئی ہے‘ اس سے بچنے کی کوشش کریں۔ میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں میں ابھی تک ان جزئیات کے ساتھ اچھا خاصہ انہماک بلکہ غلو پایا جاتا ہے جن پر ایک مدت سے فرقہ بندیاں اور گروہی کشمکشیں ہوتی رہی ہیں‘ اور یہ کیفیت بسا اوقات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ہماری تفہیم سے اس طریقے کو چھوڑنے کے بجائے ہمارے بعض احباب الٹا ہمیں کو ان بحثوں میں الجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ جن جزئیات پر آپ لوگ بحثیں کرتے ہیں وہ خواہ کتنی ہی اہمیت رکھتی ہوں مگر بہرحال یہ وہ چیزیں نہیں ہیں جن کو قائم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو مبعوث کیا ہو اور اپنی کتابوں کو نازل کیا ہو۔ انبیاء کی بعثت اور کتب الٰہی کی تنزیل کا مقصد ان جزئیات کو قائم کرنا نہیں ہے بلکہ دین حق کو قائم کرنا ہے۔ ان کا اصل مقصد یہ رہا ہے کہ خلق خدا اپنے مالک حقیقی کے سوا کسی کے تابع فرمان نہ رہے۔ قانون صرف خدا کا قانون ہو‘ تقویٰ صرف خدا سے ہوا‘ امر صرف خدا کا مانا جائے‘ حق اور باطل کا فرق اور زندگی میں راہ راست کی ہدایت صرف وہی مسلم ہو جسے خدا نے واضح کیا ہے اور دنیا میں ان خرابیوں کا استحصال کیا جائے جو اللہ کو ناپسند ہیں اور ان خیرات و حسنات کو قائم کیا جائے جو اللہ کو محبوب ہیں۔ یہ ہے دین اور اسی کی اقامت ہمارا مقصد ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسی کام پر مامور ہیں۔ اس کام کی اہمیت اگر آپ پوری طرح محسوس کرلیں اور اگر آپ کو اس بات کا بھی احساس ہو کہ اس کام کے معطل ہو جانے اور باطل نظاموں کے دنیا پر غالب ہو جانے سے دنیا کی موجودہ حالت کس قدر شدت سے غضب الٰہی کی مستحق ہو چکی ہے‘ اور اگر آپ یہ بھی جان لیں کہ اس حالت میں ہمارے لیے غضب الٰہی کی مستحق ہو چکی ہے‘ اور اگر آپ یہ بھی جان لیں کہ اس حالت میں ہمارے لیے غضب الٰہی سے بچنے اور رضائے الٰہی سے سرفراز ہونے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ ہم اپنی تمام قوت خواہ وہ مال کی ہو یا جان کی‘ دماغ کی ہو یا زبان کی‘ صرف اقامت دین کی سعی میں صرف کردیں تو آپ سے کبھی ان فضول بحثوں اور ان لایعنی افکار کا صدور نہ ہوسکے جن میں اب تک آپ میں بہت سے لوگ مشغول ہیں۔ میرے نزدیک یہ تمام مشاغل صرف اس ایک چیز کا نتیجہ ہیں کہ لوگوں نے ابھی تک اس بات کو پوری طرح سمجھا نہیں ہے کہ دین حقیقت میں کس چیز کا نام ہے اور اس کے واقعی مطالبات اپنے پیروئوں سے کیا ہیں۔
ایک اور خامی جو بعض لوگوں میں پائی جاتی ہے اور جو اکثر ہمارے لیے سبب پریشانی بنتی رہتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ یہ حضرات اصول اور مقصد اور نظریے کی حد تک تو ہمارے مسلک کو سمجھ گئے ہیں لیکن طریق کار کو اچھی طرح نہیں سمجھے۔ اس لیے بار بار ان کی توجہات دوسرے مختلف طریقوں کی طرف پھر جاتی ہیں اور وہ کسی نہ کسی طرح کھنچ تان کرکے بطور خود ہمارے نصب الین اور دوسروں کے طریق کار کی ایک معجون مرکب بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب انہیں اس سے روکا جاتا ہے تو وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم خواہ مخواہ چلتے ہوئے زود اثر طریق کار کو محض اس تعصب کی بنا پر اختیار نہیں کرنا چاہتے کہ وہ ہمارا نہیں بلکہ دوسروں کا ایجاد کردہ طریقہ ہے۔ بعض حضرات نے تو ستم ہی کر دیا کہ جب ہماری طرف سے ان کو ٹوکا گیا تو انہوں نے ہمیں یہ اطمینان دلانے کی کوشش کی کہ نام آپ ہی کا لیا جائے گا‘ دوسروں کا نہ لیا جائے گا۔ گویا ان کے نزدیک ہماری تگ و دو صرف اپنا رجسٹرڈ ٹریڈ مارک چلانے کے لیے ہے‘ اور لطف یہ ہے کہ یہ سمجھتے ہوئے بھی ہمارے ساتھ اس کام میں شریک ہیں۔ بعض مقامات پر لوگ اس وبا سے خاص طور پر بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن جہاں تاثر اتنا زیادہ نہیں ہے‘ وہاں بھی مختلف طریقوں سے اس بات کا اظہار ہوتا رہتا ہے کہ کوئی تیز رفتار طریق کار اختیار کرکے جلدی سے کچھ چلتا پھرتا کام دنیا کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ یہ سب ’’عمل بلا فکر‘‘ کی اس پرانی بیماری کے نتائج ہیں جو مسلمانوں میں بہت دنوں سے پرورش پا رہی ہے اور ’’فکر بلا عمل‘‘ سے کچھ کم خطرناک نہیں ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر ان مذہبی اور سیاسی تحریکوں میں سے کسی میں بھی فی الواقع کوئی جان ہوتی جو اس وقت مسلمانوں میں چل رہی ہیں تو شاید ہم اس تحریک کی ابتداء میں ابھی کچھ تامل سے کام لیتے اور اپنی پوری قوت ان نسخوں کو آزمالینے میں صرف کر دیتے۔ مگر جو تھوڑی بہت نظر و بصیرت اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے‘ اس کی بنا پر ہم خوب اچھی طرح یہ سمجھ چکے ہیں کہ وقت کی چلتی ہوئی تحریکوں اور ان کی قیادتوں میں سے ایک بھی مسلمانوں کے مرض کا صحیح علاج نہیں ہے‘ اور نہ اسلام کے اصل منشاء کو پورا کرنے والی ہے۔ محض جزوی طور پر مسلمانوں کے امراض کی ناکافی اور سطحی تشخیص کی گئی ہے اور اسلام کے اصل تقاضوں کا بھی صحیح طور پر ادراک نہیں کیا گیا ہے۔ پھر یہ بھی اچھی طرح نہیں سمجھا گیا کہ کفر و فسق کا یہ غلبہ اور دین کی یہ بے بسی اور مغلوبی جو آج موجود ہے‘ فی الحقیقت کن اسباب کا نتیجہ ہے۔ اور اب اس حالت کو بدلنے کے لیے کس ترتیب و تدریج سے کن کن میدانوں میں کیا کیا کام کرنا ہے۔ ان سب چیزوں کو سوچے اور سمجھے بغیر جو سطحی اور جزئی تحریکیں جاری کی گئیں اور ان کو چلانے کے لیے جو زور اثر اور فی الفور نتیجہ منظر عام پر لے آنے والے طریقے اختیار کیے گئے‘ وہ سب ہمارے نزدیک چاہے غلط نہ ہوں‘ چاہے ان کی مذمت ہم نہ کریں‘ چاہے ان کی اور ان کے پیچھے کام کرنے والے اخلاص کی ہم دل سے قدر کریں مگر بہرحال ہم ان کو لاحاصل سمجھتے ہیں اور ہمیں پوری طرح یقین ہے کہ اس قسم کی تحریکیں اگر صدیوں تک بھی پوری کامیابی اور ہنگامہ خیزی کے ساتھ چلتی رہیں تب بھی نظام زندگی میں کوئی حقیقی انقلاب رونما نہیں ہوسکتا۔ حقیقی انقلاب اگر کسی تحریک سے رونما ہوسکتا ہے تو وہ صرف ہماری تحریک ہے اور اس کے لیے فطرتاً یہی ایک طریق کار ہے جو ہم نے خوب سوچ سمجھ کر اور اس دین کے مزاج اور اس کی تاریخ کا گہرا جائزہ لے کر اختیار کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارا طریق کار نہایت صبر آزما ہے‘ سست رفتار ہے‘ جلدی سے کوئی محسوس نتیجہ اس سے رونما نہیں ہوسکتا اور اس میں برسوں لگاتار ایسی محنت کرنی پڑتی ہے جس کے اثرات اور جس کی عملی نمود کو بسا اوقات خود محنت کرنے والا بھی محسوس نہیں کرسکتا۔ لیکن اس راہ میں کامیابی کا راستہ یہی ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا طریق کار اس مقصد کے لیے ممکن نہیں ہے۔ جن لوگوں کو ہمارے مسلک اور طریق کار یا ان دونوں میں سے کسی ایک پر بھی اطمینان حاصل نہ ہو‘ ان کے لیے یہ راست تو کھلا ہوا ہے کہ ہم سے باہر جاکر اپنی صوابدید سے جس طرح چاہیں کام کریں لیکن یہ اختیار کسی طرح نہیں دیا جاسکتا کہ بطور خود وہ ان دونوں میں یا ان میں سے کسی ایک چیز میں جو ترمیم چاہیں‘ کرلیں۔ ہمارے ساتھ جس کو چلنا چاہئے اور جو شخص کچھ بھی میلان دوسری تحریکوں اور جماعتوں کی طرف رکھتا ہو‘ اسے پہلے ان راستوں کو آزما کر دیکھ لینا چاہئے‘ پھر اگر اس کا ذہن اسی فیصلے پر پہنچے جس پر ہم پہنچے ہوئے ہیں تو وہ اطمینان قلب کے ساتھ ہمارے ساتھ آجائے۔
سطحیت اور مظاہرہ پسندی اور جلد بازی کی جو کمزوری مسلمانوں میں بالعموم پیدا ہو گئی ہے۔ اس کا ایک ثبوت مجھے حال میں یہ ملا ہے کہ عوام میں تعلیم بالغاں کے ذریعے کام کرنے کا جو طریقہ چند ماہ پیشتر میں نے پیش کیا تھا‘ اس نے تو بہت کم لوگوں کو اپیل کیا مگر گروہ بنا بنا کر بستیوں میں گشت لگانے اور فوری نتیجہ دکھانے والے طریق کار کے لیے (خواہ اس کا اثر کتنا ہی ناپائیدار ہو) مختلف مقامات سے ہمارے احباب کے تقاضے برابر چلے آرہے ہیں اور کسی فہمائش پر بھی ان کا سلسلہ ٹوٹنے میں نہیں آتا۔ حالانکہ ایک طرف یہ طریق کار ہے کہ ایک سال یا اس سے زیادہ مدت تک ناخواندہ عوام میں سے چند آدمیوں کو پیہم تعلیم و تربیت دے کر خوب پختہ کرلیا جائے اور ان کے عقائد‘ اخلاق‘ اعمال‘ مقصد زندگی‘ معیار قدر و قیمت‘ ہر چیز کو پوری طرح بدل ڈالا جائے اور پھر ان کو مستقل کارکن بنا کر‘ مزدوروں‘ کسانوں اور دوسرے عامی طبقوں میں کام کرنے کے لیے استعمال کیا جائے‘ اور دوسری طرف یہ طریق کار ہے کہ ایک قلیل مدت میں ہزار ہا آدمیوں کو بیک وقت چند ابتدائی امور دین کی حد تک مخاطب کیا جائے اور فوری طور پر ان میں ایک حرکت پیدا کرکے چھوڑ دیا جائے‘ چاہے دوسرے چکر کے وقت پہلی حرکت کا کوئی اثر ڈھونڈے بھی نہ مل سکے۔ ان دونوں طریقوں میں سے جب میں دیکھتا ہوں کہ لوگ پختہ نتائج پیدا کرنے والے دیر طلب اور محنت طلب اور صبر آزما طریقے کو سنتے ہیں اور اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اور دوسرے طریقے کی طرف بار بار دوڑ چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو میرے سامنے مسلمانوں کی وہ کمزوریاں بالکل بے نقاب ہو جاتی ہیں جن کی وجہ سے اب تک وہ خام کاریوں ہی میں اپنی قوتیں اور محنتیں اور اپنے مال اور اوقات ضائع کرتے رہے ہیں۔ میں اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ جب تک اس تحریک کی باگیں میرے ہاتھ میں ہیں‘ میں اپنے رفقاء کو صحیح اور حقیقی نتیجہ خیز کاموں ہی پر لگانے کی کوشش کروں گا۔ اور بے حاصل کوششوں میں جانتے بوجھتے ان کو مشغول نہ ہونے دوں گا۔
اپنی تقریر کو ختم کرنے سے پہلے ایک آخری بات کی طرف میں آپ لوگوں کی توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہمارے احباب میں ایک اچھا خاصا گروہ پایا جاتا ہے جس نے تبلیغ و اصلاح کے کام میں تشدد اور سخت گیری کا رنگ اختیار کرلیا ہے جو سوالات ان کی طرف سے اکثر میرے پاس آتے رہتے ہیں‘ ان سے میں محسوس کرتا ہوں کہ ان کے اندر بگڑے ہوئے لوگوں کو سنوارنے کی بیتابی اتنی زیادہ نہیں ہے جتنی انہیں اپنے سے کاٹ پھینکنے کی بیتابی ہے۔ دینی حرارت نے ان میں ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ اتنا نہیں ابھارا جتنا نفرت اور غصے کا جذبہ ابھار دیا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اکثر یہ تو پوچھتے ہیں کہ جو لوگ ایسے اور ایسے ہیں ان سے ہم تعلقات کیوں نہ منقطع کرلیں اور ان کے ساتھ نمازیں کیوں پڑھیں اور ان کو کافر و مشرک کیوں نہ کہیں۔ لیکن یہ پوچھنے کا ان کو بہت کم خیال آتا ہے کہ ہم اپنے ان بھٹکے ہوئے بھائیوں کو سیدھی راہ پر کیسے لائیں‘ ان کی غفلت و بے خبری کو کس طرح دور کریں۔ ان کی کج روی کو راست سے کیسے بدلیں اور ان کو نور ہدایت سے مستفید ہونے پر کیونکر آمادہ کریں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے فضل سے اور اپنی خوش قسمتی سے حق کو پا لیا ہے ان کے اندر اس وجدان حق نے شکر کے بجائے کبر کا جذبہ پیدا کر دیا ہے اور اسی کا اظہار ان شکلوں میں ہو رہا ہے۔ خدا نہ کرے کہ میرا یہ گمان صحیح ہو لیکن میں اسے صاف صاف اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ ہمارے رفیقوں میں ہر شخص پوری خدا ترسی کے ساتھ اپنے نفس کا جائزہ لے کر تحقیق کرنے کی کوشش کرے کہ کہیں شیطان نے یہ مرض تو ان کو نہیں لگا دیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بگڑی ہوئی سوسائٹی کے درمیان علم صحیح اور عمل صالح رکھنے والوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک وبائے عام میں مبتلا ہو جانے والی بستی کے درمیان چند تندرست لوگ موجود ہوں جو کچھ طب کا علم بھی رکھتے ہوں اور کچھ دوائوں کا ذخیرہ بھی ان کے پاس ہو‘ مجھے بتائیے کہ اس وبا زدہ بستی میں ایسے چند لوگوں کا حقیقی فرض کیا ہے؟ کیا یہ کہ مریضوں سے اور ان کی لگی ہوئی آلائشوں سے نفرت کریں یا انہیں اپنے سے دور بھگائیں اور انہیں چھوڑ کر نکل جانے کی کوشش کریں یا یہ کہ اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر ان کا علاج اور ان کی تیمارداری کرنے کی فکر کریں اور اس سعی میں اگر کچھ نجاستیں ان کے جسم و لباس کو لگ بھی جائیں تو انہیں برداشت کرلیں۔ شاید میں پورے وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ اگر یہ لوگ پہلی صورت اختیار کریں تو خدا کے ہاں الٹے مجرم قرار پائیں گے۔ اور ان کی اپنی تندرستی اور ان کا علم طب سے واقف ہونا اور ان کے پاس دوائوں کا ذخیرہ موجود ہونا نافع ہونے کے بجائے الٹا ان کے جرم کو اور زیادہ سخت بنا دے گا۔ اسی پر آپ قیاس کرلیں کہ جن لوگوں کو دینی تندرستی حاصل ہے اور جو دین کا علم اور اصلاح کے ذرائع بھی رکھتے ہیں۔ ان کے لیے کون سا طریقہ رضائے الٰہی کے مطابق ہے۔
واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

مولانا امین احسن اصلاحی

’’اگر ہم نے اس جدوجہد میں بازی پالی تو فہو المراد‘ اور اگر دوسری بات ہوئی تب بھی تمام راستوں میں ایک حق ہی کا راستہ ایسا ہے جس میں ناکامیابی کا کوئی سوال نہیں۔ اس میں اول قدم بھی منزل ہے اور آخر بھی! ناکامی کا اس کوچہ میں گذر نہیں ہے۔ اس کو مان لینے اور اس پر چلنے کا عزم راسخ کرلینے کی ضرورت ہے۔ پھر اگر تیز سواری مل گئی تو فبہا! یہ نہ سہی تو چھکڑے مل جائیں گے۔ انہی سے سفر ہوگا۔ یہ بھی نہیں تو دو پائوں موجود ہیں ان سے چلیں گے! پائوں بھی نہ رہے تو آنکھیں تو ہیں‘ ان سے نشان منزل دیکھیں گے! آنکھیں بھی بے نور ہو جائیں تو دل کی آنکھ تو ہے جس کی بصارت کو کوئی سلب نہیں کرسکتا بشرطیکہ ایمان موجود ہو‘‘

ان صلٰوتی و نسکی و محیای و ممانی للہ رب العلمین۔

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سیدنا محمد والہ و اصحابہ اجمعین۔
حاضرین! میں یہاں مسلسل مشغولیت اور انہماک کی وجہ سے اب اتنا تھک چکا ہوں کہ اس وقت کوئی اچھی خدمت سر انجام نہیں دے سکتا۔ لیکن موقع مل جانے کے بعد فرصت کی ناقدری ہوگی۔ اگر چند اور ضروری باتیں آپ کے کانوں تک نہ پہنچا دوں۔ ان کے پہنچانے کا مقصد ایک تو یہ ہے کہ آپ خود غور فرمائیں‘ اور دوسرا یہ کہ اگر آپ اس سے متفق ہوں تو ان کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ میں اس وقت تحریک اسلامی کی نسبت چند حرف کہوں گا‘ اور یہ امر واضح کروں گا کہ یہ تحریک کن اساسات پر قائم ہے۔ میں اس تحریک سے تعلق رکھتا ہوں اور میں نے اس بنیاد پر اس کا تعلق قبول کیا ہے کہ میں نے پورے یقین کے ساتھ جہاں تک میری علمی بصیرت ہے‘ محسوس کیا ہے کہ یہ چند ایسے مسلم اساسات پر قائم ہے جن کے بارے میں مسلمانوں کی رائیں دو نہیں ہیں۔ ہم سب کا ان پر اتفاق ہے ان چیزوں میں سے کسی چیز کے بارے میں بھی مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
آپ کو خوب معلوم ہے کہ ہم کو اور آپ کو اسلام سے جو نسبت حاصل ہے۔ وہ رشتے کی بنا پر ہے جو ہمارا اللہ اور اس کے آخری رسولؐ سے ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو احکام اور قوانین دئیے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کو دنیا کی دعوت دی ہے اس کا تعلق ہے جس کی وجہ سے ہم اپنے آپ کو مسلم اور مسلمان کہتے ہیں۔ اگر ان چیزوں میں سے کسی چیز کے ساتھ ہمارا رشتہ ضعیف ہو جائے تو اسلام کے ساتھ ہماری نسبت بھی ضعیف ہو جائے گی‘ اور اگر منقطع ہو جائے تو اسلام سے ہمارا رشتہ بھی منقطع ہو جائے گا۔ اس زنجیر کے ٹوٹنے کے بعد دنیا کے کارخانوں کی بنی ہوئی کتنی ہی سنہری اور رو پہلی زنجیر بن لائی جائیں‘ لیکن اسلام کے ساتھ ہمارا رشتہ کسی طرح بندھ نہیں سکتا۔ آج کل قوموں اور جماعتوں کی اجتماعی شیرازہ بندی میں جن چیزوں کو اصلی دخل ہے‘ وہ قومیت اور وطینت ہے‘ ملک کا اشتراک ہے‘ نسل ہے‘ خون ہے‘ رنگ ہے‘ جن لوگوں نے تمدنی مسائل پر غور کیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ انہی اساسات پر حلقے بنتے ہیں‘ قومیں بنتی ہیں‘ تہذیب کے خد و خال نمایاں ہوتے ہیں۔ ایک انگریز کی انگریزیت‘ ایک جرمن کی جرمنیت اور ایک جاپانی کی جاپانیت‘ اس کے نسب‘ نسل اور ملک کی بنا پر قائم ہے۔ لیکن ایک مسلمان خواہ وہ کتنا ہی غبی ہو (حالانکہ مسلمان کبھی غبی نہیں ہوتا) کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتا کہ یہ چیزیں اسلامی اجتماعیت کی تشکیل میں بھی چونے اور گارے کاکام دے سکتی ہیں۔ اسے خوب معلوم ہے کہ مسلمان کا اسلام سے رشتہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے تعلق کی بنیاد پر قائم ہے اور یہی اللہ اور اس کے رسولؐ کا رشتہ ایک مسلمان کو مسلمان سے جوڑتا ہے۔ جو اللہ اور اس سے علیحدگی اختیار کرلی‘ اس نے اسلامی ہئیت اجتماعیہ میں اپنی جگہ کھودی۔ آپ کی ان سڑکوں پر چلتا پھرتا ایک معمولی چمار جس کو پشتہا پشت سے اسلام سے کوئی نسبت حاصل نہ رہی ہو‘ اگر ابھی ان اساسات کا اقرار کرے جن کی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی ہے‘ تو وہ معاً اسلام میں داخل ہو جائے گا اور آپ کی مسجد میں حق دار ہوگا کہ اگلی صفوں میں جگہ پائے۔ لیکن ایک شخص جس کا خاندان پشت ہا پشت سے مسلمان ہے اور شیخ الاسلامی کے عہدے پر متمکن چلا آیا ہے‘ اس کا کوئی ناخلف فرزند اگر اصول اسلام میں سے ایک اصل کا بھی انکار کرتا ہے تو کوئی نہیں ہے جو اسے ہماری صف پائین میں بھی جگہ دلا سکے۔ اگرچہ اس کے خاندان کو خاندان رسالت ہی سے نبت کیوں نہ حاصل ہو۔ نسل‘ نسب‘ خاندان اور وطن‘ اسلامی تصور میں بالکل بے معنی ہیں۔

اسلام کے اساسی معتقدات اور ان کا مفہوم

اب آئیے غور کیجئے کہ اسلام جس کی نسبت ہی سے ہماری تمام کائنات ہے۔ اس کے وہ اساسی معتقدات کیا ہیں جن پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ اور جن کو صدق دل سے مانے بغیر نہ آدمی اسلام میں داخل ہوتا ہے اور نہ ان پر قائم رہے بغیر اسلام پر قائم رہتا ہے۔
آپ کو خوب معلوم ہے کہ پہلی چیز ایمان باللہ ہے۔ لیکن ایمان باللہ کا مطلب صرف زبان سے امنت باللہ کہہ دینا نہیں ہے۔ اتنے کا اقرار تو ابوجہل اور ابولہب کو بھی تھا۔ پس یہاں تک آپ ان سے کچھ آگے نہیں ہیں۔ بلکہ اس حد تک دنیا کے اکثر افراد آپ کے برابر ہیں۔ دنیا کی پچھلی تاریخ خدا کے انکار مطلق سے بالکل خالی ہے۔ دنیا کو ہمیشہ خدا کا اقرار رہا ہے۔ یہ صرف موجودہ عہد روشن کی خصوصیات میں سے ہے کہ اس میں کچھ ایسے بے بصیرت بھی پیدا ہو رہے ہیں جو خدا کے منکر ہیں۔ پس ظاہر ہے کہ اللہ پر ایمان لانے کا مفہوم صرف یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ اقرار کی حد تک اللہ کا اقرار کرلیں۔

ایمان باللہ:

بلکہ ایمان باللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ پر‘ اس کی تمام صفات و اسمائے حسنیٰ کے ساتھ جو شان الوہیت کے لیے موزوں ہیں اور جن کی انبیاء علیہم السلام نے تعلیم دی ہے‘ ایمان لایا جائے۔ یعنی یہ کہ ہم اس کے بندے ہیں‘ غلام ہیں‘ ہماری مرضی اور ہماری خواہش اس کے حکم کے آگے کچھ نہیں‘ صرف وہی حاکم علی الاطلاق ہے۔ خالق و مالک وہی ہے۔ قانون دینے والا‘ شریعت بنانے والا وہی ہے۔ نفع و ضرر پہنچانے والا اور مدبر کل وہی ہے‘ ان صفات کا مستحق اور کوئی نہیں‘ اگر اس کی صفات میں سے کسی صفت میں دوسرے کی حصہ داری مان لی جائے یا خدا کے اختیارات میں کسی کو شریک کر دیا جائے تو تمام ایمان ہی غارت ہو جائے‘ اس میں کسی مسلمان کو اختلاف نہیں ہے۔
پھر ہم خدا کے متعلق یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ ہم کو پیدا کرکے اس نے ہمیں اندھے بھینسے کی طرح چھوڑ دیا ہے کہ جدھر چاہیں‘ بھٹکتے پھریں یا یہ کہ وہ ہندوئوں کے مہادیو کی طرح محض ڈنڈوت کرلینے سے راضی ہو جاتا ہے بلکہ خدائے تعالیٰ نے جس طرح ہماری مادی زندگی کے اسباب فراہم کیے ہیں‘ ٹھیک اسی طرح اس نے ہماری ہدایت کے لیے انبیاء و رسل بھیجے ہیں اور جس طرح اس نے اپنی پرستش کا مطالبہ کیا ہے۔ صرف یہ چیز کافی نہیں ہے کہ ہم زبان سے اس کی تعریف کر دیں یا صرف پانچ وقت نماز پڑھ لیں‘ بلکہ اس کی فرمانبرداری و اطاعت بھی لازمی ہے۔ اور یہ اطاعت زندگی کے کسی ایک ہی گوشے میں نہیں ہے بلکہ ہر گوشے میں ہے۔ مسلمان صرف مسجد کے اندر ہی اللہ کا بندہ نہیں ہوتا بلکہ اسے ہر جگہ اللہ کے قانون اور اس کے احکام کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ ہندو اور غیر مسلم کا دین‘ صرف مندر اور معبد میں اس سے چپک جاتا ہے۔ لیکن مسلمان کا دین ہر وقت اس کے ساتھ ہے۔ مسجد میں‘ گھر میں‘ بازار میں‘ دکان میں‘ کھیتی باڑی میں‘ لین دین میں‘ سیاست میں‘ حکومت میں‘ معیشت میں اور تہذیب و تمدن میں‘ غرض کوئی جگہ نہیں ہے جہاں خدا کا دین سانس کی طرح مسلمان کے ساتھ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کی یہ اطاعت اس کے انبیاء کی اطاعت کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔ چنانچہ جس طرح اللہ کو ماننے کا مطلب محض ’’امنت باللہ‘‘ کہنا نہیں ہے بلکہ اللہ کو شارع‘ مالک‘ قانون ساز مدبر ماننا ہے۔ اسی طرح رسول کو ماننے کا مطلب محض یہ نہیں ہے کہ ہم اس کے رسول ہونے کا اقرار کرلیں‘ اگر ہم صرف اقرار کی حد تک رسول کو مانتے ہیں تو مدینہ کے منافقین اس معاملہ میں ہم سے پیچھے نہ تھے۔ وہ اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ مگر اللہ نے انہیں صادق القول تسلیم نہیں کیا بلکہ فرمایا واللہ یشھد ان المنافقین لکذبون اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں۔ آپ اللہ کے رسول ہیں مگر یہ اپنے قول کے سچے نہیں ہیں۔

ایمان بالرسات :

کیونکہ رسول کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اسے واجب الاطاعت مانیں‘ زندگی کے ہر گوشے میں خدا کے نائب اور رسول ہونے کی حیثیت سے اس کی رہبری تسلیم کرلیں‘ اس کے خلاف جو کچھ ہے اسے غیر فطری اور خدا سے انحراف یقین کریں اور اس سے فطری دشمنی رکھیں اور جو اس کے مطابق ہے۔ اس سے فطری محبت ہو۔ ’’وما ارسلنا من رسول الالیطاع باذن اللہ‘‘،’’ ہم نے نہیں بھیجا کسی رسول کو مگر اس لیے کہ اس کی اطاعت کی جائے‘‘۔رسول کی رسالت کے اقرار کا حق اس سے نہیں ادا ہو جاتا کہ اس کا نام آتے ہی انگلیوں کو چوم کر آنکھوں سے لگالیں‘ یا میلاد کی مجلسیں قائم کردیں‘ یا رسول کے نام پر جھنڈا لے کر سڑکوں اور گلیوں کا طواف کرتے پھریں‘ رسول درحقیقت واجب الاطاعت بن کر آتا ہے‘ کسی شعبے میں اس کے سوا کسی اور کی اطاعت کو اپنی رضا سے تسلیم کرنا اللہ اور اس کے رسول سب کا انکار ہے۔ زندگی کے ہر مرحلے میں اسے مطاع مانئے‘ اس کے بغیر ہزاروں میلادیں کرکے اور لاکھوں جھنڈے اٹھا کر اگر آپ یہ سمجھیں کہ آپ نے رسول کو ماننے کا حق ادا کر دیا اور آپ اس کی شفاعت کے حقدار ہوگئے‘ یا اس کی تعلیمات کا مذاق اڑا کر اور پوری زندگی میں اس کے خلاف چل کر اگر آپ امید رکھتے ہیں کہ ٹھنڈے ٹھنڈے جنت کو چلے جائیں گے تو میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس سے زیادہ جھوٹا وہم اور کوئی نہیں۔ آپ کو مجبور کرکے اسوۂ رسولؐ سے ہٹایا جاسکتا ہے لیکن رسولؐ کے اسوہ سے اگر آپ خود بھاگ کھڑے ہوں‘ اس کو آپ خود مطاع نہ مانیں تو رسول کو رسول ماننے سے کوئی فائدہ نہیں۔ یاد رکھئے کہ رسول کی تعلیم کے خلاف شک نفاق ہے اور اس کی مخالفت کفر ہے۔
اللہ نے جو دین آپ کو دیا ہے اس کا نام اسلام رکھا ہے‘ اسلام کے معنی ہیں اپنے آپ کو بالکلیہ اللہ کے حوالے کر دینا‘ اس کی تشریح قرآن نے اس طرح کی ہے: ’’ادخلوا فی السلم کافۃ‘‘ ’’اللہ کی اطاعت میں پورے کے پورے داخل ہو جائو‘‘یعنی آپ اپنی زندگی کا تجزیہ نہیں کرسکتے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں اس دین کی پیروی کرنی پڑے گی۔ کاروبار کریں‘ ملازمت کریں‘ تعلیم دیں‘ کمپنی کھولیں‘ گھر میں ہوں یا سوسائٹی میں‘ بین الاقوامی امور ہوں یا ملکی معاملات‘ سب میں اللہ کے دین کی پوری پیروی کرنا‘ اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دینا اسلام ہے۔ اور مسلم وہی ہے جو اس مفہوم میں اسلام کا حامل ہو۔ اسلامی زندگی سے انحراف مجبوراً ہوسکتا ہے یا نفس کے غلبے کی بنا پر‘ یا جہالت کی وجہ سے۔ مثلاً کوئی مضطر مجبوراً خنزیر کھالے‘ یا کوئی شخص ہیجان نفس کی وجہ سے کوئی ناجائز حرکت کر بیٹھے‘ یا غفلت کی وجہ سے کسی کام پائوں غلاظت کے ڈھیر پر پڑ جائے۔ پہلی صورت میں انسان کا فرض ہے کہ اس حالت سے نکلنے کی جدوجہد کرے‘ دوسری صورت میں اس کو چاہئے کہ جلد سے جلد اپنے آپ کو پاک کرے۔ لیکن اگر وہ غلاظت کے ڈھیر پر اپنا بستر بچھائے‘ وہیں اولاد پیدا کرنا شروع کر دے‘ وہیں اپنی نسل کو پروان چڑھائے اور اس پر فخر بھی کرے کہ ہم نے شیش محل بنوا لیا ہے۔ اور آپ بھی اسے قابل رشک مسلمان سمجھنے لگیں تو یہ ایک غلط فہمی ہے‘ جس سے دماغ کو پاک کیجئے‘ اس کا غلط ہونا مُسّلم ہے۔ کوئی غبی ہی ہوگا جو اس میں شک کرے۔

ایمان بالکتب:

رسولؐ کے علاوہ خدائے تعالیٰ نے کتاب بھی بھیجی ہے۔ وہ جنتر منتر کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ غیر مسلم بھی مانتے ہیں کہ یہ آسمان کے نیچے ان کتابوں میں سے ہے جن سے دنیا میں انقلاب عظیم برپا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نے سب سے بڑا اور سب سے زیادہ صالح انقلاب برپا کیا۔ یہ قوموں کے لیے عروج و زوال کا پیمانہ بن کر نازل ہوئی ہے۔ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے عرب کی گئی گذری قوم کو دنیا کی قوموں کا امام بنا دیا‘ اور دوسری تمام بڑی بڑی قوموں کے فاسد تمدنوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ اس نے اونٹ چرانے والو ں کے ہاتھوں سے اونٹوں کی نکیل لے لی اور قوموں کی قیادت کی باگ ان کے ہاتھوں میں دے دی اور انہی اونٹ چرانے والوں میں اس کے فیض سے ایسے ایسے لوگ پیدا ہوئے کہ پوری انسانیت کی تاریخ ان کے ناموں سے روشن ہے۔ یہ کتاب ہماری زندگی کے ہر گوشے کے لیے ہدایت بنا کر بھیجی گئی ہے۔ یہ فرمان الٰہی ہے‘ واجب الاطاعت ہے‘ اس میں شک اور تفریق کی گنجائش نہیں۔ کوئی مسلمان جان بوجھ کر اور ٹھنڈے دل سے اس سے منحرف ہو کر اپنے تئیں مسلمان نہیں باقی رکھ سکتا۔ جب تک اس کے دم میں دم ہے‘ وہ اس پر جما رہے گا۔ اگر جہالت کی وجہ سے اس سے بھٹک جائے گا تو ہوش آنے کے بعد اس کی طرف لوٹے گا۔ اور اگر اس سے زبردستی اس کو دور کر دیا جائے گا تو یہ دوری ایسی ہوگی جیسی ایک مچھلی کی دوری تالاب سے۔ وہ بہرصورت اس سے علیحدگی پر کبھی راضی نہیں ہوسکتا۔ اگرچہ اس کا سرتن سے جدا ہو جائے‘ اگرچہ اس میں اسے سب کچھ کھو دینا پڑے۔
اس کتاب عزیز کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت صرف یہ نہیں ہے کہ اگر وہ کبھی زمین پر گر جائے تو اس کے برابر گہیوں تول کر صدقہ کر دیا جائے‘ اس کا جزو دان نہایت عمدہ مخمل کا ہو‘ ستھری الماری میں اسے رکھا جائے اور ہرگز ہرگز یہ بھی نہیں کہ کوئی مرنے لگے تو اس پر سورۂ یٰسین پڑھ کر دم کر دیجئے۔ وہ جان نکالنے کے لیے سہولت کا نسخہ ہی بن کر نہیں آئی ہے بلکہ انسان کے لیے ہدایت اور حیات کا سرچشمہ بن کر آئی ہے۔ سورج تاریک ہو جائے تو جہاں تاریک نہ ہوگا۔ چاند بے نور ہو جائے تو دنیا اندھیری نہ ہوگی۔ ستارے جھڑ جائیں تو کوئی انقلاب برپا نہ ہوگا لیکن اگر قرآن جہان سے غائب ہو جائے تو پھر دنیا کو کہیں سے روشنی نہیں مل سکتی۔ من لم یجعل اللہ لہ نوراً فما لہ من نور۔
یہ کتاب عزیز وہ ہے جو تہذیب و تمدن اور نیکی و سعادت کا سرچشمہ ہے۔ اس ظالم انسان کے جواب میں جس نے کہا تھا کہ ’’جب تک یہ کتاب باقی ہے دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا‘‘ میں یہ کہتا ہوں کہ دنیا کی بڑی سے بڑی تباہی بھی دنیا سے نیکی اور امن و عدل کے آثار نہیں مٹا سکتی۔ اگر یہ کتاب صفحہ عالم پر موجود ہے‘ اسے جاننا‘ اس پر ایمان لانا‘ اس کے مطابق عمل کرنا‘ اس کے علم و عمل کو وراثت میں منتقل کرنا‘ اس کے لیے گردن کٹانا ہمارے فرائض اور اس کتاب کے حقوق میں سے ہے۔ یہ ہمارے دین کے مسلمات میں ہے۔ میں کہہ چکا ہوں کہ ہمارا رشتہ خون کی بنا پر نہیں ہے‘ اس کتاب کی بنا پر ہے‘ جو اس کو مانتا ہے۔ وہ ہمارا ہے اور ہم اس کے ہیں‘ اور جو اس سے منحرف ہے‘ نہ وہ ہمارا ہے نہ ہم اس کے ہیں۔ نخلع و نترک من یجفرک۔
ہمارے مدرسوں کے امتحان میں کچھ سوالات اختیاری بھی ہوتے ہیں لیکن قرآن میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اختیاری ہو۔ ہم کو پورا قرآن ماننا پڑے گا۔ اس کی ایک چیز کا انکار سب کا انکار ہے۔ خواہ وہ چھوٹی سی چھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ خداوند تعالیٰ ہمارا محتاج نہیں ہے کہ ہم جتنی بھی اس کی اطاعت کریں اتنے ہی پر راضی ہو جائے کہ چلو اگر یہ سو فیصدی مطیع نہیں ہیں تو ان سے 50 فی صدی ہی قبول کرلو‘ نہیں‘ بلکہ رسولؐ کو حکم ملا ہے کہ پورے کا پورا قرآن پیش کریں‘ جسے لینا ہے اسے پورا لے ورنہ پورا چھوڑ دے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اہل ردہ نے کس چیز کا انکار کیا تھا؟ صرف زکوٰۃ ہی کا تو کیا تھا۔ صحابہؓ کی مجلس میں معاملہ پیش ہوا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ اگر انہوں نے ایک بکری کا بچہ بھی دینے سے انکار کیا تو میں ان سے جہاں کروں گا۔ اور اگر اور کوئی تیار نہ ہوگا تو میں تن تنہا تلوار لے کر نکلوں گا۔ سب صحابہؓ نے اس سے اتفاق کیا۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ احکام دین میں ہم کسی قسم کی تفریق و تقسیم نہیں کرسکتے۔

حق و باطل کے معرکے میں ہمارا فرض

اسلام کے ساتھ ہماری نسبت ان مسلمات ہی کے تسلیم کرنے سے قائم ہے۔ یہ بنیادی اصول ہیں جن پر ہم سب مسلمان متفق ہیں۔ ان پر قائم رہنا کچھ آسان کام نہیں ہے۔ شیطان کاکام ہی یہ ہے کہ ترغیب سے ترہیب اور دلوں میں وسوسہ اندازی کرکے خدا سے غاوت کی راہ پر لائے۔ لیکن ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم کم سے کم اتنی ہمت تو دکھائیں کہ شیطان کو دانتوں پسینہ آجائے۔ یہ کیا ہے کہ اپنے آپ کو بزدلانہ طاغوت کے حوالے بھی کردیں اور دینداری کا دعویٰ بھی کرتے رہیں۔ خدا سے بھی تعلق رکھیں۔ اور اہرمن سے بھی۔ اس پر ایک لطیفہ یاد آیا۔ کہئے تو عرض کردوں۔ کوئی مسلمان ہوا۔ لیکن اس کے باوجود جب وہ کسی مندر کے سامنے سے گزرا تو مورتیوں کے آگے ڈنڈوت بھی کرلیتا۔ کسی نے کہا کہ مسلمان ہونے کے بعد یہ حرکت اچھی نہیں ہے۔ اس نے کہا ’’بھئی بگاڑ کسی سے اچھا نہیں ہے‘‘۔ دین حق میں معاف کیجئے۔ اس رواداری کی گنجائش نہیں ہے۔ مسیح علیہ السلام نے کہا ہے ’’جو ہمارے ساتھ نہیں‘ وہ ہمارا دشمن ہے‘‘
حق و باطل کی لڑائی قدیمی ہے جو باوا آدم کے وقت سے چلی آرہی ہے‘ یہ جنگ عقلی بھی ہے‘ اخلاقی بھی ہے اور مادی بھی۔ ہم ایک ہی ساتھ اللہ اور اہرمن دونوں کو خوش نہیں کرسکتے۔
میں آپ سے یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ دین کے مسلم مسائل ہیں۔ کیا مسلمان موجودہ حالات میں اسلام کے ان مقتضیات کو پورا کر رہے ہیں؟ ہم تو ٹھنڈی سڑک سے جنت تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ’’حفت الجنۃ بالمکارہ‘‘ ،’’جنت ناگوار شدائد سے گھیر دی گئی ہے‘‘۔ یہ حضورؐ نے فرمایا ہے۔ ہمیں لامحالہ جان و مال کی بازی کھیلنی پڑے گی۔ اس طرح کی ’’سہل پسند‘‘ قسم کی زندگی صرف ایک شکل میں اختیار کی جاسکتی ہے کہ آدمی کا کوئی اصول نہ ہو‘ لیکن جب کوئی اصول اختیار کیا جائے گا تو زندگی کی راہ کانٹوں سے بھر جائے گی‘ یا تو ہر تیز رو کے پیچھے بھاگے یا ایک اصول اختیار کرنے کے بعد اس کے لیے تن من اور دھن کی قربانی کیجئے۔ دو اور دو مل کر چار ہوتے ہیں۔ اگر آپ اتنی سی بات بھی مان لیتے ہیں تو حساب درست کرنے کے لیے راتوں کو کتنی نیند خراب کرنی پڑتی ہے اور کتنا تیل جلانا پڑتا ہے۔ لیکن اگر آپ کا خیال ہو کہ دو اور دو مل کر چار بھی ہوتے ہیں اور چھ بھی‘ آٹھ بھی ہوتے ہیں اور سولہ بھی۔ تو پھر درد سری کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ غور تو کیجئے‘ جب مسلمان اتنے مسلمات مانتا ہے تو اسے کتنا خون جلانا پڑے گا۔

مسلمانوں کی اقسام

اس وقت کے مسلمانوں کا جائزہ لیجئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کی اقسام بے شمار ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ سانپوں کی قسمیں گن سکتے ہیں‘ لیکن مسلمانوں کی اقسام شمار نہیں کی جاسکتیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمان کی اتنی قسمیں نہیں ہوسکتی ہیں۔ مسلمان صرف ایک ہی قسم کا ہوسکتا ہے‘ اللہ اور اس کی شریعت کا پابند! رسول اور اس کی تعلیمات کا فرمانبردار! ان مسلمات کا اعتراف اور پھر ان سے بغاوت دو متضاد باتیں ہیں جن کا افسوس ہے اس زمانہ میں کم لوگوں کو شعور ہے۔
دنیا کی کوئی قوم بھی اتنے سچے اور پکے اصولوں کو نہیں مانتی جتنے کہ آپ مانتے ہیں۔ پھر بھی آپ اتنی میٹھی نیند سو رہے ہیں کہ آپ کے دشمنوں کو بھی حیرت ہے‘ جس نے بھی کوئی اصول اپنایا‘ اسے قربانیاں لازمی طور پر کرنی پڑیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ موجودہ حالات پر نظر ڈالیے جس نے کہا جمہوریت ہمارا مسلک ہے۔ دیکھئے اس کو یہ سودا کتنا مہنگا پڑا۔ بعض نے کہا کہ ہم ڈکٹیٹر شپ کے قائل ہیں اور ساتھ ہی انہیں جان و مال کی بازی لگا دینی پڑی۔ روس نے نہ جانے کس عالم میں کہہ دیا تھا کہ فلاح عالم اشتراکیت میں ہے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ پورے کا پورا ملک تہس نہس ہوگیا۔ نازی ازم اتنی جاں نثاری کا مطالبہ کرے۔ اشتراکیت کے سربکف جاں فروشوں کی تعداد اس قدر عظیم الشان ہو‘ جمہوریت کی حمایت کے لیے اتنے سرفروش تن من دھن کی بازی لگا رہے ہوں۔ مگر آپ خدا اور اس کے دین کو مان کر کتب قدیمہ کی زبان میں پہاڑی کا چراغ اور زمین کا نمک ہو کر اور قرآن سے خیر الامم کا خطاب پا کر آپ کے بستر میں ایک کانٹے کی خلش بھی نہ ہو اور پھر بھی سب حقوق ادا ہوتے رہیں۔ جس راہ پر چاہیں‘ چلیں اور پھر بھی کوئی اصول نہ ٹوٹے۔ کس قدر اچنبھے کی بات ہے۔ موجودہ پڑھے لکھے انسان جو دائرہ اسلام سے باہر ہیں‘ اور خود کسی اصول کو مانتے ہیں‘ حیرت میں ہیں کہ آپ لوگ کیسے سکھ کی نیند سو رہے ہیں‘ جس کی حفاظت میں اتنا بڑا خزانہ ہو‘ اس کی یہ بے فکری تعجب انگیز ہے۔
یہ اگر مسلم مقاصد ہیں اور آپ نے ان کو مانا ہے تو ان کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے پہلے خود انہیں اختیار کیجئے‘ پھر اللہ کے بندوں میں ان کو پھیلائیے۔ ان کے لیے گھر سے لے کر باہر تک اور شہر سے لے کر ملک تک آپ کو ہر جگہ جان جوکھم کاکام کرنا ہوگا۔ موجودہ زمانے میں لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں ایسے انسان موجود ہیں جنہوں نے اپنے باطل اصولوں کی خاطر گھر چھوڑا‘ وطن چھوڑا‘ اعزہ‘ خاندان اور قوم سب کو قربان کیا‘ ایسے انسان ہزار ہا موجود ہیں جو عین دشمن کے ملک میں ہزاروں فٹ کی بلندی سے جست لگاتے ہیں۔ دنیا باطل کے لیے اس جوش و ولولہ کا اظہار کرے مگر صرف حق ہی ایک ایسا مظلوم ہے جس کے لیے چوٹ کھانے والے سینے نہیں ہیں‘ جن کے لیے رگوں کا خون خشک ہوگیا ہے جس کے لیے جیبوں میں مال موجود نہیں ہے۔ اللہ اکبر‘ کیسا عجیب ماجرا ہے؟ کیا حق کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتا اور کیا وہ کسی چیز کا بھی مستحق نہیں ہے؟ آج وہ مسلمان جو خدا اور رسول کے اصولوں کو اپنا اصول تسلیم کیے ہوئے ہیں‘ کہاں سوئے ہوئے ہیں؟ یا تو یہ کہئے کہ یہ مقصد گھٹیا ہے اور اگر گھٹیا نہیں ہے بلکہ تمام مقصدوں میں سب سے ارفع یہی ہے تو بتائیے کہ قیامت کے دن آپ کا کیا جواب ہوگا جب کہ اس آسمان کے نیچے کوئی جماعت آج ایسی نہیں ہے جو اس حق کو اپنا مقصد حیات بنائے ہوئے ہو‘ صرف کسی جزئی حق کو نہیں بلکہ پورے کے پورے حق کو‘ کیوں کہ ویسے تو دنیا میں کوئی جماعت ایسی نہیں ہوسکتی جس کے مقاصد میں کچھ نہ کچھ حق کے اجزاء شامل نہ ہوں‘ اس کے بغیر تو کوئی جماعت وجود ہی میں نہیں آسکتی‘ دنیا میں مجرد باطل کا وجود ناممکن ہے‘ ایسا ہونا اس کائنات کے مزاج کے خلاف ہے۔ ہمارا سوال ایسی جماعت کے لئے ہے جو حق کو بہ حیثیت مجموعی لے کر اٹھے‘ اس طرح جس طرح صحابہؓ لے کر اٹھے تھے۔

تحریک اسلامی کا قیام اور اس کی غرض

تحریک اسلامی کا قیام اسی مقصد حق کے لیے ہے۔ ہم ان مسلمانوں کو چھانٹ چھانٹ کر جمع کر رہے ہیں جو اس پورے حق کو لے کر اٹھنے کا عزم رکھتے ہیں اور اس طرح ہم اسلام کے ان مقاصد کو ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ جو صرف اجتماعی زندگی میں پورے ہوسکتے ہیں‘ ابھی یہ تحریک کمزور اور ضعیف ہے۔ لیکن اگر کچھ ذرے اکٹھے ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے ان ذروں میں کبھی گرمی اور حرارت پیدا کی اور ان میں کچھ صلاحیت پیدا ہوگئی‘ تو کیا عجب ہے کہ اس کمزور گروہ کے ہاتھوں دین کی وہ خدمت انجام پائے جو اللہ کو‘ اس کے رسولؐ کو اور تمام مومنین کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ ہمیں اس کام کے لیے سچا خادم بنا دے۔
ان امور میں کسی کے لیے اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ یوں تو بحث کرنے کے لیے سب کے منہ میں زبان ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلم مسائل ہیں۔ کوئی جماعت نہ تھی جو اس مقاصد خالص کے لیے جدوجہد کر رہی ہو‘ باطل سے باطل مقاصد کے لیے جماعتیں ہوں‘ ان کے لیے بڑی بڑی قربانیاں کرنے والے ہوں‘ لیکن اس آسمان کے نیچے جو سب سے بڑا مقصد ہو‘ اسی کے لیے کچھ نہ ہو‘ کس قدر غم انگیز بات ہے۔ اس مقصد کے لیے کچھ خدا کے بندے اکٹھے ہوگئے‘ سمجھانے اور سمجھنے میں ذرا دیر لگے گی مگر دنیا سمجھے گی ضرور اور اگر نیتوں میں خلوص ہے تو جس وقت شیطان اپنی فوج لے کر نکلے گا تو ہم اس مبارک ذات کے اسوہ کی پیروی کریں گے جس نے ہزاروں غرق آہن جنگجوئوں کے سامنے تین سو تیرہ بے سروسامان لاکھڑے کیے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہی کے ذریعہ سے حق کا بول بالا کیا تھا۔
پھر اگر ہم نے اس جدوجہد میں بازی پالی تو فھو المراد‘ اور اگر دوسری بات ہوئی تب بھی تمام راستوں میں ایک حق ہی کا راستہ ایسا راستہ ہے جس میں ناکامیابی کا کوئی سوال نہیں۔ اس میں اول قدم بھی منزل ہے۔ اور آخر بھی‘ ناکامی کا اس کوچہ میں گزر ہی نہیں ہے۔ اس کو مان لینے اور اس پر چلنے کا عزم راسخ کرلینے کی ضرورت ہے۔ پھر اگر تیز سواری مل گئی تو فبہا‘ یہ نہ سہی تو چھکڑے ملیں گے‘ انہی سے سفر ہوگا۔ یہ بھی نہیں تو دو پائوں موجود ہیں‘ ان میچلیں گے‘ پائوں بھی نہ رہیں تو آنکھیں تو ہیں‘ ان سے نشان منزل دیکھیں گے۔ آنکھیں بھی اگر بے نور ہو جائیں تو دل کی آنکھ تو ہے‘ جس کی بصارت کو کوئی سلب نہیں کرسکتا بشرطیکہ ایمان موجود ہو۔ ان صلٰو تی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین ’’میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘۔ پس وسائل کار اور اسباب راہ کا سوال ہمارے یہاں بالکل ایک ضمنی شے ہے۔

کامیابی کا معیار:

دوسری راہوں میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کہاں تک پہنچے‘ زاد راہ کیا ہے اور منزل کتنی باقی ہے۔ کامیابی کے امکانات کا حساب ہوتا ہے۔ لیکن ہماری کامیابی کا معیار یہ ہے کہ حسن نیت اور اخلاص کس قدر تھا۔ یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ کتنے قدم چلے۔ پہلے قدم پر موت آگئی تب بھی کامرانی ہے‘ اور منزل تک پہنچ گئے تو پھر کہنا ہی کیا ہے۔ ایمان خالص اس سفر میں زاد راہ ہے‘ اور عزم صادق راحلہ ہے۔ جو اپنی جانیں اللہ کی نذر کر چکے وہ کامیاب ہو چکے‘ جو باقی ہیں وہ جس دن نذر گذران دیں گے‘ کامیاب ہو جائیں گے۔ رجال صدقوا ما عاھدوا واللہ علیہ فمنھم من قضیٰ نحیہ و منھم من ینتظر و ما بدلوا تبدیداً ۔ (الاحزاب: ۲۳)
کامیابی و ناکامی کا حساب نہ لگائیے۔ مجھے فیصد کے لفظ سے سخت نفرت ہے‘ یہ کام بہرحال ہمیں کرنا ہے‘ حالات نامساعد ہیں تو ہوا کریں‘ دنیا میں کب حق کا خیر مقدم کیا گیا ہے؟ کب ایسا ہوا کہ اہل حق چلے ہوں اور چوبداروں نے ان کے آگے ’’ہٹو بچو‘‘ کی صدائیں بلند کی ہوں۔ حق کی راہ میں طائف اور غار ثور‘ خندق اور احزاب کا ہونا ضروری ہے۔ حق کی خاطر رسولؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے‘ دندان مبارک شہید کیے گئے‘ سر پر اوجھ ڈالی گئی‘ ہر طرح کی اذیت پہنچائی گئی۔ بدقسمت ہیں ہمارے وجود اگر ہماری ایک ہڈی بھی نہ ٹوٹے۔ حق پرستی کی راہ میں کب مشکلات حائل نہ تھیں‘ تاریخ کا جو ورق حق کے لیے مشکلات سے خالی ہوا‘ اسے اٹھا کر لائیے۔ میں اس کو چوم لوں۔
مشکلات تو اس راہ میں اعوان و انصار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ خوب سمجھ لیجئے کہ یہاں ناکامیابی کا وجود ہی نہیں‘ نہ صرف یہ کہ ایک قدم بھی اٹھ جائے تو کامیابی ہے بلکہ جس راستے پر آپ گامزن ہیں اگر اس سے آپ پیچھے ہٹ جائیں جب بھی کامیابی ہے بشرطیکہ آپ خود پیچھے نہ بھاگے ہوں۔ اہل حق نے شکستیں بھی کھائی ہیں لیکن ان شکستوں پر ہزار فتح مندیاں قربان۔ یہ کس قدر مضحکہ انگیز بات ہے کہ شیطان سے پورا تعاون کیا جائے اور پھر ربنا ثبت اقدامنا کی دعا مانگی جائے۔اس دعا کے اثرات کو تو وہ قلب مومن ہی جان سکتا ہے جس کے سر پر حق کی راہ میں اوجھ ڈالی گئی‘ جس کے دندان مبارک زخمی ہوئے۔ طائف کی پتھریلی زمین میں جس کے پائوں لہولہان ہوئے۔ جب یہ کہتا ہے ربنا ثبت اقدامنا تب زمین سے آسمان تک لرزہ پڑ جاتا ہے‘ خدا نے اپنی کتاب میں کوئی بے معنی بات نہیں فرمائی ہے۔ سوچئے تو سہی اگر کوئی آدمی حق کو پیٹھ دکھا دے‘ اور پھر دا کرے کہ اے پروردگار! مجھے ثابت رکھ‘ تو اس کی یہ دعا کتنی بے معنی ہوگی‘ بہرحال ہماری پکار اسی راستہ کے لیے ہے‘ بدگمانیوں کا ہمارے پاس کوئی مداوا نہیں ہے۔ لیکن خوب سن لیجئے کہ اللہ کے پیغام کے علاوہ ہمارا کوئی پیغام نہیں۔ رسولؐ کی سنت کے سوا ہمارے لیے کوئی سنت نہیں۔ کتاب موجود ہے‘ غلطی دیکھیں‘ ٹوک دیجئے۔ صاف الفاظ میں کہہ دو‘ کافر ہو جو انکار کرے۔ ہم پر ہر شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیم سے حجت قائم کرسکتا ہے۔ باقی سارے قبل وقال کو ہم نے تج دیا ہے۔ ہم اپنا راستہ اپنی دونوں آنکھو ں سے دیکھ رہے ہیں‘ آپ اگر چلنے کے لیے راضی ہیں تو آپ کے لیے مبارک ہے‘ کیونکہ یہ آپ کا فرض ہے‘ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں‘ درخواست نہیں کرتے۔ یہ ہماری دلی تمنا ہے‘ اور یہ بڑی سے بڑی چیز ہے جو ہم چاہ سکتے ہیں۔
ہم اسلام کے راستے میں خود بڑا حجاب بن گئے ہیں‘ وہ قوم اسلام کی وارث بنی ہے جو حق کو خود ذبح کرتی ہے‘ دوسروں کو جھٹکا نہیں کرنے دیتی۔ حالانکہ آپ کا تعلق کسی قوم سے نہیں ہے جو کلمہ کا دوست ہے‘ آپ کا دوست ہے‘ جو حق کا باغی ہے‘ آ پ کا باغی ہے۔ آپ کا تعلق اللہ کے دین ہی سے ہے۔ جس دن دنیا پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ آپ خدا کے دین کی سربلندی کے سوا اور کچھ نہیں چاہتے۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ کے لیے دنیا بالکل بدل گئی ہے۔ آپ کے لیے پتھروں کے دل موم ہو جائیں گے اور بہرے کانوں میں بھی سماعت حق کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی۔ حق کے ساتھ فطرت انسانی کو ازلی محبت ہے‘ بشرطیکہ حق اس کے سامنے بے حجاب ہو کر آئے۔

نصرت حق کب آتی ہے؟

حضرات! اس حقیقت کو فراموش نہ کیجئے کہ سنت اللہ یہ نہیں ہے کہ ہم دین کو چاہیں یا نہ چاہیں‘ اللہ تعالیٰ اپنے زور سے اس کو زمین میں جاری و قائم کر دے۔ اقامت دین تو بندگی کے کاموں میں سے ہے‘ اور بندگی بندوں کاکام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کام نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ ہماری طرف سے نماز پڑھے گا‘ نہ روزہ رکھے گا‘ نہ زکوٰۃ دے گا‘ نہ حج کرے گا اور نہ کوئی حکم بجا لائے گا۔ یہ سارے کام ہمارے کرنے کے ہیں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اگر ہم ان کاموں کے کرنے کا عزم بالجزم کرلیں گے اور ان کی اقامت کی راہ میں اپنی عزیز سے عزیز چیزوں کو قربان کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے تو خدا اور اس کے فرشتوں کی مدد ہمارے ساتھ ہوگی۔ پس آپ اس بات کا ہرگز انتظار نہ کیجئے کہ اللہ تعالیٰ خود توحید کا پرچم سارے عالم میں لہرا دے گا۔ اس کے لیے تو بہرحال ہم ہی کو سردھڑ کی بازی لگانی پڑے گی اور اپنے سرو سینہ کو زخمی کرانا ہو گا۔ ہاں جب اس راہ میں ہم وہ سب کچھ کھودیں گے جو ہمارے پاس ہے تو ہمیں وہ سب کچھ مل جائے گا جو اس راہ کے خطرات برداشت کرنے والوں کے لیے اللہ کے پاس ہے اور وہ بڑی چیز ہے۔
اقامت حق کی راہ کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اپنے آپ سے لڑ کر پہلے اپنے اوپر اللہ کی اطاعت کو لازم کیجے اور اپنے نفس کو اللہ کا فرماں بردار بنائیے‘ اللہ کی راہ میں وہی لوگ لڑ سکتے ہیں جو اس راہ میں اپنے نفس کو شکست دے چکے ہیں۔ یہ کام فارموں کے پر کر دینے سے نہیں ہوسکتا‘ اس کے لیے بڑی ریاضت اور نفس کشی کی ضرورت ہوگی۔ اپنی زندگی کا احتساب کرنا اور اپنے اوپر اللہ کے دین کو قائم کرنا کوئی سہل کام نہیں ہے‘ سب سے زیادہ انسان خود اپنے نفس سے شکست کھاتا ہے‘ اپنے اندر کا حریف آدمی کو بہت جلد چت کرلیتا ہے۔ اس وجہ سے سب سے پہلے اس محاذ پر فتح پالینا ضروری ہے۔
جو نجاستیں آپ نے از خود اپنے اوپر لادلی ہیں‘ ان کو فوراً دور کر دیجئے اور جو چیزیں آپ کی مرضی کے خلاف مسلط ہوگئی ہیں‘ ان کو دور کرنے کے لیے اجتماعی جدوجہد کا سامان کیجئے۔ اگر آپ کی زندگی صحیح نہج پر آگئی اور آپ نے اپنے اوپر دین کو قائم کرلیا تو آپ کی آنکھوں کے اشاروں سے وہ کام ہوں گے جو بڑے بڑے مقالوں سے نہیں ہوسکتے۔ آپ کو جو کچھ کہنا ہے‘ عمل کی زبان سے کہنا ہے‘ منہ کی زبان سے بہت کم کہنا ہے‘ آپ اپنے مقصد کے عملی داعی اور ترجمان بنیں۔
اس بات کو خوف یاد رکھئے کہ ہمارے لیے یہ ذرا بھی فخر کی بات نہیں ہے کہ ہم اس مقصد کے لیے اٹھے ہیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمارے دلوں میں اپنی بندگی کا نیک ارادہ ڈالا اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی۔ فخر و غرور سے بہت ڈرنا چاہئے اور ہر وقت اپنے رب سے چمٹے رہنا چاہئے۔ ہر عزم‘ خواہ حق ہو یا باطل امتحان کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ دیر یا سویر آپ کے ارادے کی پختگی بھی آزمائی جائے گی جس کام کو آپ لے کر اٹھے ہیں اس آسمان کے نیچے سب سے مشکل کام یہی ہے۔ اس کام میں کج دلے اور خام آدمیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس راہ میں کامیابیوں سے پہلے صعوبتوں کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ اور تحسین و آفرین سے زیادہ ملامت کے تیروں کے لیے سینہ سپر رہنا چاہئے۔ تحسین اس راہ میں صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے‘ اور مبارک ہیں وہ جو اللہ تعالیٰ کی تحسین کے سزاوار ٹھیریں۔
اس امر سے واقعی بھی کبھی غفلت نہ ہو کہ ہمارے اور دوسرے بھائیوں کے درمیان فرق کفر و اسلام کا نہیں بلکہ پورے اور جزئی حق اور طریق کار کا فرق ہے۔ یہ فرق کچھ عرصے تک باقی رہے گا۔ بہت ممکن ہے کہ اس کے سبب سے کچھ غلط فہمیاں اور بدگمانیاں بھی پیدا ہوتی رہیں۔ لیکن اگر ہم مضبوطی کے ساتھ اپنے مقصد کے ساتھ اپنے مقصد پر قائم رہے اور ضمنی بحثوں میں نہ الجھے تو یہ بدگمانیاں آپ سے آپ رفع ہو جائیں گی۔ نفس انسانی کی یہ بہت بڑی کمزوری ہے کہ وہ اپنا صحیح جائزہ لینے میں ہمیشہ مداہنت کرتا ہے اور اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ الائونس کا مستحق سمجھتا ہے۔ اس وجہ سے ہمارا احتساب اور بے لاگ تبصرہ لوگوں کو کھلتا ہے‘ لیکن سچائی بہرحال سچائی ہے۔ اگر صبح طلوع ہو چکی ہے تو سب کا پردہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ آنکھیں کھلیں گی اور حقائق نظر آنے لگیں گے اور جو لوگ بدگمانیوں کی بیماری میں مبتلا رہنے کے خواہش مند نہیں ہیں۔ وہ انشاء اللہ ہمارے رفیق کار بنیں گے۔ اتنے قلیل عرصہ میں بھی جو کچھ ہو چکا ہے اس میں ہمارے لیے مایوسی اور دل گرفتگی کی کوئی وجہ نہیں ہیں۔ ہم نے اپنے خلوص کی نہایت حقیر متاع اس راہ میں پیش کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے صلے میں کام کی بہت سی راہیں کھول دیں۔ ہم کو جو استعداد آج حاصل ہے اگر ہم نے اس کو صحیح طور پر استعمال کیا تو انشاء اللہ اس سے بڑے کاموں کی راہیں کھلیں گی۔ جو ایک پیسے میں اپنے آپ کو امین ثابت کر دیتا ہے وہ مستحق ٹھیرتا ہے کہ اس کو ایک لاکھ کی امانت سونپی جائے۔

میاں طفیل محمد

’’حیرت ہے کہ ریت کے ذرے بھی اتنی تعداد میں کسی خطہ ارض میں جمع ہو جائیں تو اسے ریگستان بنا دیتے ہیں۔ اور پانی کے قطرے بھی اس تعداد میں کہیں جمع ہو جائیں تو وہ سیلاب بن کر بہہ نکلتے ہیں۔ لیکن دنیا میں اتنے مسلمان موجود ہوتے ہوئے بھی نظام اسلامی کہیں قائم نہیں۔ خدا کے لیے خواب غفلت سے بیدار ہو کر اپنے اعمال پر تنقیدی نگاہ ڈالیے۔ یہود کے نقش قدم پر چلتے رہو گے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہود کا سا برتائو آپ کے ساتھ نہ کیا جائے‘‘

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(یہ مضمون ابتداًء محرم 1364 ھ میں ایک پیغام کی صورت میں شائع ہوا تھا۔ پھر کچھ اضافے کے ساتھ اسے اس مجموعے (دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات) میں شامل کردیا گیا۔ اور اب جولائی 1976 ء میں مکمل نظر ثانی کے بعد شائع کیا جارہا ہے)
صاحبو‘ وقت بڑی تیزی سے گزرتا چلا جارہا ہے۔ زندگی کی مہلت لحظہ بہ لحظہ گھٹتی چلی جارہی ہے۔ اس دنیا میں جینے کی جو مدت ہمارے لئے مقرر کی گئی تھی‘ وہ ایک سال اور کم ہوگئی ہے اور حساب کا دن ایک برس اور قریب آگیا ہے۔ لیکن کتنے لوگ ہیں جن کو اس امر کا احساس ہوا اور جو اپنی زندگی کے اصل مقصد کو سمجھنے اور اسے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوئے؟ انسان کی اس غفلت اور ناعاقبت اندیشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اقترب للناس حسابھم وھم فی غفلۃ معرضون۔ (الانبیاء: 1 )
’’لوگوں کے حساب کا وقت ان کے سر پر آگیا ہے‘ مگر وہ ہیں کہ غفلت میں پڑے بہے جارہے ہیں اور انہیں چرنے چگنے سے آگے کسی بات کی فکر ہی نہیں ہے‘‘

گزری ہوئی زندگی کا محاسبہ:

برادران محترم‘ ابھی وقت ہے کہ ہم ذرا دور اندیشی سے کام لیں اور اپنی گزری ہوئی زندگی کا جائزہ لیں‘ اپنے نفع و نقصان کا حساب لگائیں اور یہ دیکھیں کہ جس جنس زندگی اور اس کے سازو سامان کو امانتاً لے کر اس دنیا کے بازار میں کچھ کمانے کے لیے آئے تھے‘ ان کے ساتھ ہم نے کیا کیا؟ ان کا کس قدر حصہ نفع بخش کاموں میں لگایا‘ کس قدر اپنی نادانی سے بے کار کھو دیا‘ اور کس قدر…… دانستہ و نادانستہ…… اس صاحب امانت کے منشاء‘ بلکہ اس کے صریح احکام و ہدایات کے خلاف دوسرے کاموں میں خرچ کر ڈالا۔ ہاں‘ اب بھی وقت ہے کہ یہ سوچیں کہ جس قدر سرمایہ ہم سے کھو گیا یا ہم نے کھو دیا‘ کیا اس کے لیے ہمارے پاس کوئی ایسے معقول وجوہ موجود ہیں کہ اس سفر دنیا سے واپسی پر‘ جب ہم اپنے اس علیم و خبیر خالق و مالک اور صاحب امانت کے سامنے حساب کے لیے بلائے جائیں تو درجات و مراتب پانے والے نہ سہی‘ قابل درگزر ہی قرار پا جائیں؟ اس لیے ان تمام لوگوں کو جو اللہ‘ اس کی کتاب اور اس کے رسولؐ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جزاء و سزا کے قائل ہیں‘ عموماً اور ان حضرات کو جو خیبر امۃ اور شھدآء علی الناس ۱؎ میں شمار ہونے کی تمنا اور لہ الخلق والامر۔ کا عملی پروگرام لے کر اٹھے ہیں خصوصاً اپنی گزشتہ زندگی اور اپنے اب تک کے کارناموں کا محاسبہ کرکے اندازہ کرنا چاہئے کہ اپنی زندگی کا جو سرمایہ وہ ختم کر چکے ہیں اس کا کس قدر حصہ صاحب امانت کے منشاء کے مطابق اس مقصد کے لیے صرف ہوا۔ جس کے لیے یہ امانت انہیں عطا کی گئی تھی اور اس کا کس قدر حصہ انہوں نے اپنی نادانی یا سرکشی سے اس کے منشاء کے خلاف خرچ کر ڈالا ہے اور اب تک کیے جارہے ہیں۔
ان امور کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرنے ے لیے ہر شخص کو پوری جز رسی کے ساتھ جائزہ لینا چاہئے کہ ہماری جسمانی و دماغی قوتیں اور قابلیتیں‘ ہماری انفرادی اور اجتماعی جدوجہد اور کوششیں‘ ہمارے کاروبار اور تجارتیں‘ ہماری محبتیں اور عداوتیں‘ ہمارے زیر تربیت آئندہ نسلیں‘ ہمارے مال و دولت اور جائدادیں مختصر یہ کہ زندگی کے وہ تمام ذرائع و وسائل جو اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی عبادت و بندگی اور فریضہ خلافت کی انجام دہی کے لیے ہمیں عطا فرمائے تھے‘ اب تک کن کاموں اور کن مقاصد کے لیے صرف ہوتے رہے؟ کیا وہ تمام تر یا بیشتر نظام باطل کے قیام‘ خدا سے بے نیاز و سرکش اقتدار کے استحکام اور خدا کی زمین پر فتنہ و فساد پھیلانے ہی کے لیے وقف رہے یا ان کا کوئی حصہ خدا اور اس کے دین کے لیے بھی صرف ہوا۔ اور اگر کچھ صرف ہوا تو باطل نظامہائے زندگی اور خود اپنے نفس کے لیے صرف ہونے والے حصہ سے اس کا تناسب کیا ہے؟ اگر آخرت کی کچھ بھی فکر ہے تو ہمیں سنجیدگی سے حساب لگا کر دیکھنا چاہئے کہ ہماری جملہ مادی‘ جسمانی اور دماغی قوتیں اور قابلیتیں خدا سے بے نیازی و بغاوت پر مبنی نظام زندگی ۱؎ کے نظام کو خدا کی بندگی پر قائم اور دنیا کو اس کی نافرمانی اور شرو فساد سے پاک کرنے میں کتنا حصہ لیتی اور لے رہی ہیں؟ ہماری انفرادی اور اجتماعی کاوشیں کس حد تک مصنوعی اور خود ساختہ زندہ وہ مردہ خدائوں کی خدائی کو قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے وقف ہیں اور کس حد تک اللہ کی حاکمیت اور اس کے مشروع نظام زندگی کے قیام کے لیے صرف ہو رہی ہیں؟ ہمارے کاروبار اور تجارتیں‘ کہاں تک اللہ کے حدود حرام و حلال کے مطابق چل رہے ہیں‘ اور کہاں تک ان سے آزاد اور بے پرواہ ہو کر؟ ہماری ساری دوڑ دھوپ اور مصروفیتیں‘ مرغوبات نفس اور قرب طاغوت کے لیے ہیں یا رضائے الٰہی کے حصول کے لیے؟ اپنی آئندہ نسلوں کو ہم اللہ کی پسندیدہ راہ پر چلنے اور اس کی خوشنودی کی خاطر جینے اور مرنے کے لیے تیار کر رہے ہیں یا اپنی اس عزیز ترین متاع کو ’’مغضوب‘‘ اور ’’ضالین‘‘ کے قدم بقدم چلنے کے قابل بنانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں؟ ہمارے مال و دولت اور دوسرے وسائل زندگی کا کتنا حصہ طاغوت کے لیے ہے‘ کتنا خود اپنے نفس کے لیے اور کتنا دین حق کی جدوجہد کو پروان چڑھانے کی لیے؟ اور پھر مسلمانوں نے اپنا کتنا خون جس کی قیمت ایک مسلمان اپنے رب سے عہد وفاداری استوار کرتے ہی وصول کرلیتا ہے‘ طاغوت کی وفاداری میں بہایا اور بے دریغ بہائے چلے جارہے ہیں اور اس کی حاکمیت و اقتدار کی حمایت میں کتنے بچوں کو یتیم‘ سہاگنوں کو بیوہ‘ مائوں کو بے سہارا‘ بھائیوں کو بے بازو اور خلق خدا کو تباہ و برباد ۱؎ کر دیا۔ذرا سوچئے‘ ضد میں مبتلا ہو کر نہیں‘ ٹھنڈے دل سے اور آخرت کے نقطہ نظر سے سوچئے کہ کیا اس کی تلافی کی کوئی صورت ممکن ہے؟ یہی نہیں اس وقت بھی آپ بتائیے کہ ہماری روزانہ زندگی کے چوبیس گھنٹوں اور خدا کے عطا کردہ مال میں سے کتنا وقت اور مال غیر اللہ کے لیے وقف ہے اور کتنا قیام دین کی جدوجہد کے لیے اور اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے کے لیے؟ اللہ تعالیٰ نے تو ہمارا کام یہ بتایا تھا کہ
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر۔
(آل عمران: ۱۱۰)
’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو‘‘
اگر ایک مسلمان ان پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ذرا ٹھنڈے دل سے چند منٹ کے لیے بھی اپنی زندگی پر نگاہ ڈالے تو وہ خود ہی فیصلہ کرلے گا کہ اس نے اس امانت کا حق جو اس کے خالق اور مالک نے اس کے سپرد کی تھی کہاں سے ادا کیا ہے۔ اللہ کے ہاں اسے کس سلوک کا مستحق ہونا چاہئے اور جس دین اور عقیدے کا وہ دعوے دار ہے‘ اس میں کس قدر صادق اور کس قدر منافق ہے؟ اور وہ:
ومن الناس من یقول امنا باللہ وبالیوم الآخر وماھم بمومنین ۔ (البقرہ:۸)
’’لوگوں میں بعض ایسے ہیں جو کہتے تو ہیں کہ وہ اللہ اور یوم آخرت کو مانتے ہیں لیکن (ان کی عملی زندگی گواہ ہے کہ) وہ مومن ہیں نہیں‘‘
اور
اولئک الذین اشتر وا الضلالۃ بالھدیٰ فما ربحت تجارتھم۔ (البقرہ: ۱۶)
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی مگر یہ سود ان کے لیے نفع بخش نہیں ہے‘‘
کے زمرے سے بچا ہوا یا ان میں شامل ہے؟

خدا کے دین کا صحیح تصور:

برادران مکرم‘ اللہ کو اپنا خالق و مالک اور پروردگار مان لینے کا لازمی تقاضا ہی نہیں اللہ تعالیٰ کا واضح حکم بھی یہی ہے کہ:
یایھا الذین امنوا ادخلوا فی السلم کافۃ ولا تتبعوا خطوات الشیطن۔
(البقرہ: ۲۰۸)
’’اے اللہ پر ایمان لانے کے دعوے دارو‘ اگر تم نے فی الواقع اس کی بندگی کی راہ یعنی اسلام کو قبول کیا ہے تو پھر پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو‘‘
یہ صورت کہ کچھ معاملات میں خدا کی بات مانو اور دوسرے معاملات میں من مانی کرو یا کسی دوسرے کے پیچھے چلو‘ خدا کے ہاں قابل قبول نہیں ہے بلکہ یہ اس کے غضب اور غصہ کو اس درجہ بھڑکانے والی ہے کہ اس روش پر عامل امت کو مخاطب کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
افتومنون ببعض الکتب و تکفرون ببعض فما جزآء من یفعل ذالک منکم الاخزی فی الحیوۃ الدنیا و یوم القیمۃ یردون الٰی اشد العذاب۔ وما اللہ بغافل عما تعملون۔ (البقرہ: ۸۵)
’’کیا تم خدا کی کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور اس کے دوسرے حصے کا انکار کرتے ہو‘ خود ہی بتائو کہ دعوائے ایمان کے ساتھ جو لوگ (خدا کی کتاب کے بارے میں) یہ روش اختیار کریں‘ ان کی سزا ان کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں بھی وہ ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور قیامت کے روز شدید ترین عذاب سے دو چار کیے جائیں؟ یاد رکھو‘ اللہ تمہاری حرکات سے بے خبر نہیں ہے‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
یا یھا الذین امنوا لم تقولون مالا تفعلون؟ کبر مقتاعند اللہ ان تقولوا مالا تفعلون۔ ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کانھم بنیان موصوص۔
(الصف۔ ۲۔۴)
’’اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو‘ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ اللہ کے نزدیک یہ ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں ہو۔ اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بند ہو کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘
وما کان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ ورسولہ امراً ان یکون لھم الخیرۃ من اھرھم ومن یعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلالاً مبیناً۔ (الاحزاب:۳۶)
’’کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا‘‘
یعنی ایسے شخص کے گم کردہ راہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ قرآن مجید میں صاف صاف اعلان فرما دیا گیا ہے:
فلا وربک لا یومنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجاً مما قضیت و یسلموا تسلیماً۔ (النساء: ۶۵)
’’اے محمدؐ ‘ تیرے رب کی قسم‘ یہ مومن ہو ہی نہیں سکتے جب تک کہ اپنے تمام باہمی اختلافات میں تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو‘ اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں‘ بلکہ سربسر تسلیم کر لیں‘‘
اللہ تعالیٰ کے انہی ارشادات کی صراحت فرماتے ہوئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا یومن احد کم حتٰی یکون ھواہ تبعاً لما جئت بہ۔
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنی خواہش نفس کو بھی اس چیز کے تابع نہ کر دے جو میں لے کر آیا ہوں‘‘
قرآن اور حدیث کی ان تصریحات سے یہ امر صاف واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام کو قبول کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ خدا کی کتاب کو بنیادی ضابطہ زندگی کو بنا کر اپنی پوری زندگی اس کے رسولؐ کی رہنمائی میں بسر کی جائے‘ ورنہ خدا اور رسول کی عملی اطاعت اور پیروی کے بغیر توحید کا محض اقرار ایک دعویٰ بلادلیل ہے۔ کلمہ توحید کے اقرار کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ اس کے بعد اب اس آدمی کو پوری زندگی اور اس کے سارے معاملات (عقائد و افکار‘ اخلاق و اطوار‘ تہذیب و تمدن‘ معیشت اور معاشرت‘ سیاست اور عدالت‘ انفرادی اور اجتماعی روابط‘ سب) کا مرکز و محور اور مبداء و مرجع قرآن و سنت ہوں گے اور اس کی تمام سعی و جہد رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر ہوگی۔
لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ دوسرے نظام ہائے زندگی کے بارے میں تو سبھی لوگ یہ خوب سمجھتے ہیں بلکہ پوری شرح صدر کے ساتھ اس پر عمل بھی کرتے ہیں کہ جس نظام زندگی اور رواج زمانہ کو اختیار کیا جائے اس کے فوائد و برکات سے پوری طرح فیض یاب ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنے دل و دماغ اور فکر و نظر سے لے کر لب و لہجہ اور شکل و شباہت تک سب کچھ اس کے مطابق ڈھال لینا چاہئے۔ لیکن اسلام اور اسلامی نظام زندگی کے بارے میں ان کا دستور یہ ہے کہ ان کی تمام برکات و حسنات صرف ان کا نام لے دینے اور زندہ باد‘ کا نعرہ بلند کر دینے سے حاصل ہو جانی چاہئیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صاف صاف بتا دیا ہے کہ وہ نہ صرف واحد معبود (الٰہ الناس) ہے‘ بلکہ وہی اپنی مخلوق کا پالنے والا (رب الناس) اور ان کا فرمانروائے حقیقی (ملک الناس) ہے۔ اس کے ساتھ نہ کوئی الوہیت میں شریک ہے‘ نہ ربوبیت میں اور نہ بادشاہی میں اور اس نے اپنے بندوں کو ایک پورا نظام زندگی دے کر انہیں حکم دیا ہے کہ:
یا یھا الذین امنوا ادخلوا فی السلم کافۃ ولا تتبعوا اخطوات الشیطن۔
(البقرہ: ۲۰۸)
’’اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے (اپنے سب کچھ سمیت) اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو‘‘
ظاہر بات یہ ہے کہ جس معاملے میں بھی آدمی اسلام کی راہ اختیار نہیں کرتا اس میں شیطان ہی کی پیروی کرتا ہے۔ اس حکم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح فرما دیا ہے کہ:
ان الحکم الا للہ۔ (یوسف:۴۰)
’’یعنی فیصلہ کرنے اور حکم دینے کے سارے اختیارات اللہ کو ہیں‘‘
لیکن اس کے باوجود اس وقت مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بھی مندر کے بت کی حیثیت دے کر مسجد کی چار دیواری کے اندر محدود رکھنے پر مصر ہیں کہ اسے بس پوجا کے وقت سجدہ کرلیا جائے لیکن زندگی کے باقی امور و معاملات میں اسے کوئی دخل نہ ہوگا‘ یا پھر زیادہ سے زیادہ یہ کہ جو اختیارات ان کے خود ساختہ فرمانروا ان کے رب کو بخوشی دینے پر رضامند ہوں‘ اس حد تک یہ اپنے رب کے احکام پر بھی عمل کرلیں مگر باقی تمام معاملات زندگی شریعت الٰہی سے قطع نظر خدا سے سرکشی و بے نیازی پر مبنی نظام زندگی کی اطاعت اور بندگی میں ہی چلتے اور طے پاتے رہیں۔
اس طرز فکر کے مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اپنے رب کی مکمل اور غیر مشروط اطاعت کی راہ اختیار کرنے کے بجائے اس سے سودے بازی کرتا ہے۔ اور اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے کہ وہ کن کن معاملات میں اور کس حد تک اطاعت کرے گا‘ اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ چنانچہ کہیں تو:
لا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا۔ (البقرہ: ۲۸۶)
’’اللہ کسی متنفس پر اس کی طاقت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا‘‘
کو حجت بنا کر ہر اس شے کو اپنی وسعت سے باہر قرار دے لیتا ہے جس میں مال و جان کا کچھ بھی نقصان نظر آتا ہے یا جو نفس کو غیر مرغوب اور جسم و جان کے لیے کچھ تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے۔ کہیں:
ولا تلقوا بایدیکم الٰی التھلکۃ۔ (البقرہ: ۱۹۵)
’’اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘
کو من گھڑت معنی پہنا کر نہ صرف اپنے لیے اقامت دین کی جدوجہد سے فرار اور نظام باطل سے سازگاری اور اس کی پشتیبانی تک کے لیے جواز نکال لیتا ہے۔ بلکہ ان میں سے بعض حضرات یہ بھول کر کہ:
یصدون عن سبیل اللہ۔ (الانفال: ۴۷‘ التوبہ: ۳۴‘ ھود:۱۹)
’’وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں‘‘
قرآن نے ان کفار و مشرکین کی صفت بیان کی تھی جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند کردہ دعوت شہادت حق کی راہ روکنے کے لیے اٹھے تھے‘ اپنے ملک میں اٹھنے والی اقامت دین حق کی دعوت سے عام لوگوں کو متنفر منحرف کرنے اور باطل کی قوتوں سے مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ یہ خدا سے بے خوف لوگ پورے قرآن کی دعوت کو نظر انداز کرکے سیدنا حضرت یوسف علیہ السلام پر طاغوت کی چاکری کا الزام دھر کر‘ ہر نظام باطل کی ہر نوع کی خدمت گزاری کو مسلمانوں کے لیے جائز ہی نہیں ضروری قرار دیتے ہیں۔ ۱؎ اور احکام رجم اور دوسری حدود اللہ کی مثال دے کر اقامت دین کی جدوجہد میں عدم شرکت کے لیے یہ عذر کرتے ہیں کہ بلاشبہ اسلام کا نصب العین بھی وہی ہے اور اس کے حصول کے لیے طریق کار بھی وہی ہے جو تحریک اسلامی نے اختیار کیا ہے‘ لیکن جس طرح رجم کا حکم حق اور فرض ہونے کے باوجود غلبہ کفر کی وجہ سے اب قابل عمل نہیں ہے۔ اسی طرح اسلامی نظام اور اس کے قیام کی جدوجہد بھی فرض و واجب اور صحیح و برحق ہونے کے باوجود اب ممکن العمل نہیں ہے۔ حالانکہ
لایکلف اللہ نفساً الا وسعھا میں مذکور وسعت کا فیصلہ وہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اور حشر کے روز وہ انہی لوگوں کی زندگیوں سے ایک ایک واقعہ کو سامنے لاکر بتائے گا کہ کس طرح ان کے اپنے محبوب مقاصد اور مرغوب نفسی مشاغل کے لیے تو ساری ہی وسعتیں ان کے اندر موجود تھیں اور یہ عذرات اور بہانے صرف اس کے دین کی اقامت کی جدوجہد کی حد تک ہی ان کی راہ میں حائل تھے۔ مزید برآں: لا یکلف اللہ نفسًا الا وسعھا اور ولا تلقوا باید یکم الی التھلکۃ کی تفسیر مکہ کی گلیوں میں‘ طائف کے بازاروں میں اور بدروحنین کے میدانوں میں خون کی روشنائی سے لکھی ہوئی ان کے سامنے موجود ہے۔۱؎ جہاں تک سیدنا یوسف علیہ السلام پر طاغوت کی جاگیری کے الزام کا تعلق ہے‘ اس کی حقیقت خود قرآن مجید میں ’’وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ‘‘۲؎ کے کلیہ کے ذریعے واضح کر دی گئی ہے کہ ہر نبی واجب الاطاعت بن کر آتا ہے نہ کہ اس لیے کہ وہ کسی دوسرے کی اطاعت اور چاکری کرے۔ اور ہر ممکن التصور نظام باطل کے اندر اسلامی نظام کا ممکن القیام اور اس کے طریق کار کا ممکن العمل ہونا‘ آدم علیہ السلام سے لیکر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ہزارہا انبیاء ہر دور اور ہر قسم کے حالات میں کام کرکے ثابت کر چکے ہیں اور پھر یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ انہی حضرات کے لیے جب اپنے محبوب مفادات و مقاصد اور اعزازات کے حصول کا سوال ہوتا ہے تو اس راہ میں نہ ’’وسعت کی کوئی کمی‘‘ حائل ہوتی ہے‘ نہ اپنے ہاتھوں ہلاکت میں پڑنے کا کوئی اندیشہ رکاوٹ بنتا ہے۔ اور نہ قرآن مجید کے کسی حکم کی کوئی ادنیٰ خلاف ورزی ہوتی ہوئی ان کو نظر آتی ہے۔ صرف اللہ کے دین کے قیام کی جدوجہد کے مطالبہ پر اللہ کے کلام کی یہ تاویلات ان کو سوجھنے لگتی ہیں۔
قل اعوذ برب الناس۔ ملک الناس الٰہ الناس۔ من شرالوسواس الخناس۔ الذی یوسوس فی صدور الناس۔ من الجنۃ والناس۔ (الناس)
’’دعا کیا کرو کہ میں اس اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جو نوع انسانی کا خالق و پروردگار بھی ہے‘ مالک و فرمانروا بھی ہے اور خدا بھی‘ چھپ چھپ کر وسوسہ اندازی کرنے والے ہر شیطان سے جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے‘ خواہ شیاطین جن میں سے ہو یا شیاطین انس میں سے‘‘
میں تمام برادران اسلام کو اور ان حضرات کو بالخصوص جو اللہ کے دین کی اقامت اور سربلندی کی تحریک میں عملاً شریک ہو چکے ہیں‘ توجہ دلاتا ہوں کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کا جو عہد کلمہ شہادت کے ذریعے کیا ہے‘ اسے ہر آن اور ہر معاملے میں ملحوظ رکھیں اور اپنی پوری زندگی اور اس کے سارے معاملات کی عمارت اسی عہد کی بنیاد پر تعمیر اور استوار کریں‘ یہاں تک کہ ہماری زبان سے نکلنے والا کوئی کلمہ‘ ہمارے دماغ میں آنے والا کوئی خیال‘ ہمارے ہاتھ پائوں اور دوسری قویٰ سے سرزد ہونے والا کوئی فعل اور ہماری روزانہ زندگی میں پیش آنے والے معاملات میں سے کوئی معاملہ بھی ہمارے اس عہد کے منافی نہ ہو بلکہ ہمارے سب معاملات و مشاغل مثبت طور پر اللہ کے نازل کردہ نظام حیات کا عملی نمونہ اور اس کے آئینہ دار ہوں اور ہماری پوری زندگی اور اس کی مصروفیتیں شریعت الٰہی کی رسی سے اطاعت الٰہی کے کھونٹے سے بندھی عقیدۂ توحید کے گرد اس طرح گھوم رہی ہوں کہ دنیا
وما خلقت الجن و الانس الا لیبعدون۔ (الذاریات: ۵۶)
’’میں(اللہ) نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی اس کام کے لیے کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں یعنی میری مقررہ کردہ راہ حیات سے سرمو ادھر ادھر نہ ہوں‘‘
کی عملی تفسیر دیکھ لے۔ یہی اصل دین اور سچی خدا پرستی ہے‘ اسی کا نام تقویٰ اور پرہیزگاری ہے اور اسی کا حکم
’’وما امر واالا لیبعدواللہ مخلصین لہ الدین۔ (الینہ: ۵)
’’ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین (پورے نظام اطاعت) کو اس کے لیے خالص کرکے اور بالکل یکسو ہو کر‘‘
میں دیا گیا ہے۔ اس کے سوا کوئی اور طرز عمل نہ مسلمانوں کے شایان شان ہے اور نہ صحیح نہ جائز۔ کیونکہ ’’اسلام‘‘ کے معنی ہیں: الانقیار لامر اللہ و نھیہ بلا اعتراض۔ یعنی اللہ کے امر و نہی کے سامنے بلا چون و چرا سر تسلیم خم کردینا۔
قرآن و سنت کی صریح تعلیمات‘ عقیدۂ توحید کے واضح تقاضوں اور انبیاء علیہم السلام کی زندگی کے عملی نمونے کو نظر انداز کرکے اگر کوئی خیال کرتا ہے کہ محض چلوں‘ مراقبوں اور مجالس وعظ و میلاد کے انعقاد یا اصلاح رسوم کاکام کرکے‘ یا کوئی مدرسہ یا یتیم خانہ قائم کرکے خدمت دین کا حق ادا کر دی گا اور خدا کے مومن و مسلم کی حیثیت سے مسلمانوں پر اقامت دین کی جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘ اس سے وہ سبکدوش ہو جائے گا تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۱؎ ۔یہ بات سمجھنے کے لیے عقل عام کافی ہے کہ جہاں کروڑوں مسلمانوں کے سامنے اللہ کا دین مغلوب ہو رہا ہو‘ پوری زمین فتنہ و فساد کی آماجگاہ بن رہی ہو‘ ہر طرف ظلم و ستم کا دور دورہ ہو‘ اور اللہ کا کلمہ نیچا اور غیر اللہ کا کلمہ بلند ہو رہا ہو‘ وہاں خدا سے سرکشی اور بغاوت کی اس حالت کو اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی حالت سے بدلنے کے لیے جان لڑائے بغیر اللہ کا قرب اور اس کی خوشنودی کیسے حاصل ہوسکتے ہیں؟
دین حق کا یہی وہ اساسی تصور ہے جسے بار بار ذہن نشین کرانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پنج وقتہ نماز فرض کرکے یہ انتظام فرمایا تھا کہ نہ صرف دین کی بنیادی حقیقتیں اور اقرار توحید کے مقتضیات و مطالب دن میں کئی کئی مرتبہ بندۂ مومن کے سامنے لائے جاتے رہیں بلکہ ان سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا عہد بھی کم سے کم بتیس مرتبہ روزانہ دست بستہ کھڑا کرکے اس سے لیا جائے تاکہ دوسرے مشاغل زندگی میں مستغرق ہو کر وہ غفلت کا شکار نہ ہو جائے اور نہ اپنے رب کی بندگی سے انحراف و سرکشی کے لیے کسی عذر کی کوئی گنجائش‘ لاعلمی کا کوئی بہانہ یا اتمام حجت میں کوئی کسر باقی رہ جائے…… بلکہ جب خدا کے روبرو حساب کے لیے وہ پیش ہو تو بجز اقبال جرم کے اس کے لیے کوئی اور چارۂ کار نہ ہو۔ غالباً یہی وہ منظر ہے جسے قرآن نے ان الفاظ میں پیش کیا ہے:
یا معشر الجن والانس الم یاتکم رسول منکم یقصون علیکم ایتی و ینذرو نکم لقاء یومکم ھذا قالوا شھدنا علیٰ انفسنا وغیرتھم الحیوۃ الدنیا و شھدوا علٰی انفسھم انھم کانوا کافرین۔ (الانعام: ۱۳۰)
’’اے جنو‘ اور انسانوں‘ کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تمہیں ہمارے احکام سے آگاہ کرتے تھے اور ہماری اس دن کی ملاقات سے خبردار کرتے تھے؟ وہ (جن اور انسان سب) جواب دیں گے: ہاں‘ ہم خود اپنے خلاف اس کی گواہی دیتے ہیں۔ آج دنیا کی زندگی نے ان لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے مگر اس وقت وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ (خدا کے احکام اور اس کے رسولؐ کی تعلیم کے باوجود) وہ خدا کی نافرمانی کی روش پر چلتے رہے‘‘

نماز کا عملی مقصود

برادران عزیز! ابھی وقت ہے کہ ہر بھائی اپنی روز مرہ کی زندگی اور اس کے مشاغل کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے اور اندازہ کرے کہ ہم اپنے اس عہد و پیمان کو جو نماز میں روزانہ پانچ وقت اللہ تعالیٰ سے استوار کرتے ہیں‘ کہاں تک پورا کر رہے ہیں۔ ہماری زندگی کی عملی شہادت اس بارے میں کیا ہے؟ خدا کی بندگی کا حق ادا کرنا تو درکنار‘ کیا ہم نے اس کی بندگی میں داخل ہونے کا کوئی تقاضا بھی پورا کیا ہے اور کیا ہے تو کس حد تک؟ نماز کا عملی مقصود اسی جائزے کی طرف آدمی کو بار بار متوجہ کرنا ہے۔

نماز کا سب سے پہلا کلمہ:

اب دیکھئے‘ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہی سب سے پہلا کلمہ جو ہمارے منہ سے نکلتا ہے‘ وہ یہ اقرار ہے کہ:
انی وجھت للذی فطر السموات و الارض جنیفا وما انا من المشرکین۔
(الانعام: ۷۹)
’’یہ کہ میں نے فی الحقیقت ہر طرف سے منہ موڑ کر‘ دوسرے ہر ایک سے تعلق توڑ کر اور اطاعت اور نیازمندی کے دوسرے سب مراکز کو چھوڑ کر پوری یکسوئی کے ساتھ زمین و آسمان کے بنانے والے (ایک خدا) سے رشتہ جوڑ لیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے ہرگز نہیں‘‘
نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہی سب سے پہلے یہ اقرار کرائے جانے سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تقرب و مقبولیت تو درکنار اس کے حضور حاضری کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ انسان غیر اللہ سے تمام عقیدتیں اور نیاز مندیاں ترک کر کے اور بالکل یکسو ہو کر اس کی طرف آئے اور اپنے آپ کو سرتاپا اور غیر مشروط طور پر اس کی بندگی میں دے دے۔ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لے کر دیکھنا چاہئے کہ کیا خدا کے ساتھ ہمارا تعلق فی الواقع اسی طرح کا ہے اور اب ہم اس کی ذات‘ اس کی صفات‘ اس کے حقوق اور اس کے اختیارات میں کسی اور کو شریک نہیں گردانتے؟ اگر اب تک یہ پہلا قدم بھی درست نہیں ہوا تو ظاہر ہے کہ ہم ایک ایسی عمارت کی تعمیر میں جان کھپا رہے ہیں جس کی بنیاد ہی غائب ہے۔ ان حالات میں اس ریاضت سے جسمانی مشقت اور تکان کے سوا اور کیا حاصل ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
فویل اللمصلین الذین ھم عن صلاتھم ساھون۔ (الماعون: ۴)
’’تباہی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز سے غافل ہیں‘‘
یہی وجہ ہے کہ آپ بعض لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ نماز پڑھتے ہیں لیکن یہ ان کے اخلاق و کردار اور معاملات پر کوئی اثر نہیں ڈالتی۔

تکبیر تحریمہ:

نماز میں انسان تکبیر تحریمہ یعنی ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر داخل ہوتا ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر یہ کلمہ ادا نہ ہو تو نماز میں آدمی داخل ہی نہیں ہوتا اور اس کے بغیر قیام و قعود‘ رکوع و سجود اور تسبیح و درود سب کچھ ادا کرنے کے باوجود نماز ادا نہیں ہوگی۔ صحت فکر و عمل کے لیے یہ اقرار اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ اس کی تجدید اور تکرار روزانہ کم از کم ایک سو اٹھتر مرتبہ کرائی جاتی ہے۔ لیکن اپنی زندگی پر نگاہ ڈالیے اور بتائیے کہ کیا آپ اپنی زندگی اور اس کے معاملات میں اللہ کو واقعی سب سے بڑا مانتے ہیں اور ہر کام میں اسی کی مرضی اور پسند کو ہر شے پر مقدم رکھتے ہیں۔ اگر اللہ کی کبریائی کے بار بار اعلان و اقرار کے باوجود عملاً اطاعت و بندگی خدا کے بجائے اس کے سرکش بندوں یا اپنے نفس ہی کی‘ جارہی ہے تو اس اقرار کو سچا کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟
یہ بات کہ ’’اللہ اکبر‘‘ کا اقرار کیے بغیر انسان نماز میں داخل ہی نہیں ہوسکتا۔ اس امر کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی کبریائی یا بڑائی کو دل میں جگہ دینے والا شخص اللہ کے دربار میں قدم بھی نہیں رکھ سکتا‘ چہ جائیکہ قبولیت حاصل کرسکے۔
ثناء:
تکبیر تحریمہ کے بعد آدمی درج ذیل الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی ثناء کرتا ہے:
سبحانک اللھم و بحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الٰہ غیرک۔
’’اے میرے اللہ‘ ہر عیب اور کمزوری سے پاک ہے تیری ذات‘ خدائی کی تمام صفات کے ساتھ‘ برکت والا ہے تیرا نام اور بلند ہے تیری شان‘ تیرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں‘‘
اب اپنے دل و دماغ اور فکر و عمل پر ایک بے لاگ نگاہ ڈال کر خود ہی اپنا جائزہ لیجئے کہ:
(1)کا سبحانک اللھم کے اقرار کے مطابق آپ فی الواقع اللہ سے ہر حال میں راضی‘ اس کے سب فیصلوں پر قانع و مطمئن اور زندگی کے سارے نشیب و فراز میں اس کے صابر و شاکر بندے ہی بنے رہتے ہیں۔ اور زندگی میں جیسے بھی حالات سے سابقہ پیش آئے‘ کوئی حروف شکایت زباں پر لائے بغیر اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کو واقعی ’’سبحان‘‘ اور بے عیب سمجھتے ہوئے اس کی فرمانبرداری کی راہ پر مضبوطی سے قائم رہتے ہیں۔ ۱؎ اگر یہ صورت نہیں تو اسے اپنے اندر پیدا کرنے کی فکر کیجئے۔
(2 ) کیا و بحمدک کے بار بار اقرار سے آپ کے دل و دماغ کی کیفیت یہ ہوگئی ہے کہ اب جہاں بھی کوئی حسن و خوبی‘ شوکت و قوت‘ قابلیت و کاری گری یا کوئی دوسرا کمال دیکھتے ہیں تو اس حسن و کمال کے مادی مظہر پر فریفتہ اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے بجائے ان خوبیوں کے خالق اور عطا کرنے والے ہی کے آگے شکر و گرویدگی کے ساتھ آپ کی گردن اور جھک جاتی ہے؟ اگر اس اقرار کے بعد بھی کوئی شخص صانع کے بجائے صنعت ہی کے سامنے سربسجود ہوتا ہے تو اس کا یہ عمل اس کے اقرار کی نفی کر دیتا ہے۔
(3 ) کیا و تبارک اسمک کے اقرار کے بعد آپ نے اللہ کے سوا ہر دوسرے آستانہ عقیدت سے برکات طلب کرنا یا ان کو ذریعہ برکات سمجھنا چھوڑ دیا ہے اور اب صرف اللہ ہی کو تمام خیر و برکت کا واحد سرچشمہ سمجھتے اور ہر خیر و برکت کے لیے اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اگر آپ کا عمل آپ کے قول کی تصدیق نہیں کرتا تو اس جھوٹی خوشامد سے کھلی اور چھپی سب باتوں کو جاننے والے خداوند عالم پر اس کا کیا اثر ہوسکتا ہے۔
(4 ) کیا و تعالیٰ جدک کے روزانہ اقرار نے آپ کو اللہ کے سوا خدائی کے ہر دوسرے دعوے دار سے اتنا بے خوف اور بے نیاز بنا دیا ہے کہ اب کسی اور کا کوئی تزک و احتشام‘ جاہ و جلال یا مظاہرہ قوت و عظمت آپ کی آنکھوں کو خیرہ‘ دل کو خوفزدہ اور ذہن کو مرعوب نہیں کرسکتا۔ اور آپ کے اندر اتنی ہمت و جرات اور دلیری پیدا ہوگئی ہے کہ راہ حق پر چلتے اور اپنی منزل کی طرف بڑھتے ہوئے کسی مخالف قوت کو خاطر میں نہ لائیں بلکہ دوسروں ہی کو اپنے عزم و استقامت سے مرعوب و مسخر کرتے ہوئے دیوانہ وار آگے بڑھتے چلے جائیں کہ ہمارا خدا وہ ہے جس کی شان سب سے بلند و بالا ہے۔
(5 ) کیا ولا الٰہ غیرک کا عقیدہ جو اسلام کی جان اور اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور جس کا آپ روزانہ کم از کم گیارہ مرتبہ اعلان و اقرار کرتے ہیں‘ اس پر اپنی زندگی اور اس کی دلچسپیوں کو پرکھئے اور جائزہ لیجئے کہ وہ کہاں تک اس عقیدے کے مطابق اور اس کی آئینہ دار ہیں؟ آپ بے لاگ نظر سے دیکھیں گے تو خود تسلیم کریں گے کہ عملاً صورت یہ نہیں ہے۔ بلکہ ہم نے اپنی زندگی کے مختلف شعبوں کی باگ ڈور مختلف خدائوں کے ہاتھوں میں دے رکھی ہے۔ ہم کہتے کچھ ہیں‘ کرتے کچھ اور ہیں۔ ہم کلمہ خدا اور رسولؐ کا پڑھتے ہیں لیکن ان کی شریعت کو اپنا ضابطہ حیات بنانے کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ حضور نبی کریمؐ نے مومنانہ زندگی کی مثال اس گھوڑے سے دی ہے‘ جو (شریعت الٰہی) کی رسی سے اطاعت الٰہی کے کھونٹے سے بندھا ہوا اور اس کی ساری اچھل کود اس حد کے اندر ہو‘ جہاں تک اس کے گلے کی رسی اسے جانے کی اجازت دیتی ہو۔۱؎

تعویذ:

اب تعویذ کو لیجئے۔ ہم اپنی نمازوں میں کم از کم گیارہ مرتبہ روزانہ اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم کی اللہ سے دعا کے ذریعے شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ لیکن کیا اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم کے الفاظ میں بار بار کی جانے والی اس دعا کے تقاضے کے مطابق ہم اپنی زندگی کو شیطان کی پیروی اور خدا کی نافرمانی سے پاک کرنے کی کوئی عملی کوشش بھی کر رہے ہیں یا ہمارا حال اس کسان کا سا ہے جو نہ کھیت میں ہل جوتتا ہے اور نہ بیج ڈالتا ہے بلکہ صرف یہ دعا مانگتا چلا جاتا ہے کہ یااللہ میرے کھیت میں بہت سی گندم پیدا کر دے۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ انسان ہر اس کام میں جو وہ اپنے رب کے احکام و حدود سے قطع نظر کرکے اور کسی اور طریقے پر انجام دیتا ہے‘ شیطان ہی کا آلہ کار اور ایجنٹ بنتا ہے‘ کیونکہ وہ خدا کی فرمانبرداری کے بجائے اس کی نافرمانی کے طریقے کو دنیا میں رائج کرنے اور معاشرے میں اسے پھیلانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ جب تک کسی شخص کے نیک یا بداعمال کے اثرات دنیا میں موجود و مترتب ہوتے رہتے ہیں‘ اس وقت تک برابر اس کے اعمال نامہ میں یہ نیکی یا بدی لکھی جاتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ دنیا میں جو قتل بھی ہوتا ہے‘ اس کا گناہ آدم علیہ السلام کے اس بیٹے کے اعمال نامے میں بھی درج ہوتا ہے۔ جس نے دنیا کا سب سے پہلا قتل کیا تھا۔

سورۂ فاتحہ:

ثناء اور تعوذ کے بعد آدمی بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر سورۂ فاتحہ پڑھتا ہے‘ جو درج ذیل ہے:
الحمد للہ رب العلمین۔ الرحمن الرحیم۔ ملک یوم الدین۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین۔ اھدنا الصراط المستقیم۔ صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضآلین۔ (آمین)
’’تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا خالق و پروردگار‘ مالک و فرمانروا اور نگہبان ہے۔ رحمن اور رحیم ہے۔ روز جزا کا مالک ہے‘ اے خدا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا‘ جو معتوب نہیں ہوئے‘ جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔ (اے خدا‘ ہماری اس دعا کو قبول فرما)‘‘
اب اس سورہ کی ایک آیت کے ذریعے دن میں کم از کم بتیس مرتبہ روزانہ کیے جانے والے عہد پر اپنی زندگی اور اپنے طرز عمل کا جائزہ لیجئے اور دیکھئے کہ آپ اس کو کہاں تک وفا کر رہے ہیں۔
الحمد للہ کے ذریعے آپ اعلان کرتے ہیں کہ ہر قسم کی حمد و ثناء اور تعریف و ستائش صرف اللہ کے لیے ہے۔ کیونکہ ساری کائنات اور اس کی ہر شے کا خالق وہی ہے اور جس کے اندر جو حسن و خوبی بھی ہے‘ ان کا عطا کرنے والا اللہ ہی ہے۔ اس لیے اس اعلان و اعتراف کا تقاضا یہ ہے کہ ہر جلوۂ جمال و کمال آپ کا سرنیاز خالق کل کے سامنے پہلے سے زیادہ عقیدت و اطاعت کے ساتھ جھکا دے اور آپ کو اپنے رب کی بندگی و غلامی میں اور زیادہ پختہ کر دے۔ ورنہ اس اعلان و اقرار کا بار بار اعادہ محض زبانی جمع خرچ سے زائد کیا ہے؟
(2)الحمد للہ کے ساتھ دوسرا اقرار ہم یہ کرتے ہیں کہ وہ رب العالمین ہے لیکن کیا اللہ کو رب العالمین ماننے کے اقرار نے ہمارے دلوں اور دماغوں میں ایک زندہ عقیدے کی شکل اختیار کرلی ہے اور یہ عقیدہ واقعی ہمارے ہر قول و عمل اور تمام تعلقات و معاملات میں ہماری زندگی کا رہنما اصول بن گیا ہے کہ اپنے رزق و روزگار کے بارے میں نہ کوئی خوف و خطرہ ہمیں راہ حق سے ہٹا سکتا ہو اور نہ کوئی طمع و لالچ ہمیں اس راہ سے منحرف کرسکتا ہو۔ بلکہ ہماری زندگی قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا (حم السجدہ: ۳۰)کا مظہر بن گئی ہو اور اللہ ہی کے رب ہونے کے عقیدے پر ہم مردانہ وار ڈٹ گئے ہوں کہ جب اللہ ہی رب العالمین اور ہم سب کا رب ہے‘ رزق کے سارے خزانے اس کے ہاتھ میں ہیں۔ اسی نے سب کو پیدا کیا‘ وہی پرورش کر رہا ہے‘ وہی نفع اور نقصان کا مالک ہے‘ تو اسے چھوڑ کر کسی دوسرے سے کیوں ڈریں؟ کسی اور کی نیاز مندی اور غلامی کس لیے کریں۔
اغیر اللہ اتخذ و لینا فاطر السموات والارض وھو یطعم ولا یطعم ۔
(الانعام: ۱۴)
’’کیا میں زمین و آسمان کے خالق خدا کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا ولی و سرپرست بنالوں؟ حالانکہ وہی (ایک ایسا الٰہ) ہے جو روزی دیتا ہے‘ روزی لیتا ہے‘‘
قل اغیر اللہ بغی ربا وھو رب کل شئی۔ (الانعام: ۱۶۵)
’’کہو‘ کیا میں اس کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں‘ حالانکہ وہی ہر چیز کا رب ہے‘‘
ایشرکون مالا یخلق شیئاً و ھم یخلقون ولا یستطیعون لھم نصراً ولا انفسھم ینصرون۔ (الاعراف: ۱۹۱۔۱۲۹)
’’کیسے نادان ہیں وہ لوگ جو ان کو خدا کا شریک ٹھیراتے ہیں جو کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں اور جو اپنے پرستاروں کی مدد تو کیا کریں گے‘ خود اپنی مدد پر بھی قادر نہیں ہیں‘‘
ظاہر ہے کہ اللہ رب العالمین کے سوا جو بھی اپنی خدائی و فرمانروائی اورتقدس و حاکمیت کے دعوے دار ہیں اور اللہ کے سوا انسانوں نے جن کو بھی اپنا خدا اور مطاع و معبود بنا رکھا ہے‘ وہ سب اپنے بندوں کو رزق دینے کے بجائے الٹا ان سے رزق وصول کرتے ہیں‘ کوئی بادشاہ اور حکمران خواہ وہ فرعون اور نمرود ہی کا سا دبدبہ اور اقتدار کیوں نہ رکھتا ہو‘ اپنی خدائی اور حاکمیت کا ٹھاٹھ جما نہیں سکتا جب تک کہ اس کے بندے اپنے ٹیکسوں اور نذرانوں سے اس کے خزانے نہ بھریں‘ اور وقت پڑنے پر اس کف وج بن کر اسے اس کے دشمنوں سے نہ بچائیں۔ کسی صاحب قبر کی شان معبودیت قائم نہیں ہوسکتی بغیر اس کے کہ اس کے پرستار خود اس کا مقبرہ تعمیر کرکے نذریں اور نیازیں چڑھانا اور منتیں ماننا نہ شروع کریں۔ کسی دیوی‘ دیوتا کا دربار سج نہیں سکتا جب تک اس کے پجاری اس کا مجسمہ بنا کر کسی عالی شان مندر میں نصب نہ کر دیں اور ہر قسم کے قصے اور کہانیاں گھڑ کر جاہل لوگوں میں نہ پھیلا دیں۔ سارے بناوٹی خدا بے چارے خود اپنے بندوں کے محتاج ہیں۔ صرف ایک خداوند عالم ہی وہ حقیقی خدا ہے جس کی خدائی آپ اپنے بل بوتے پر قائم ہے اور جو کسی کی مدد کا محتاج نہیں بلکہ اس کے محتاج ہیں۔
(3) اللہ تعالیٰ کے رب العالمین ہونے کے اقرار کے بعد ہم اس کے الرحمن الرحیم ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔ اپنے قول و عمل پر نگاہ ڈال کر بتائیے کہ اللہ رب العالمین کے ارلرحمن الرحیم ہونے کے مضمرات کا ہم نے واقعی ادراک کرلیا ہے کہ ہمارے رب کی رحمت و ربوربیت‘ اس کی شفقت و فیاضی اور مہربانی کس قدر ہمہ گیر‘ کس قدر وسیع‘ کتنی مسلسل اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہے؟ اور اس نے کس کمال تسلسل کے ساتھ ہماری اور اس کائنات کی دوسری بے حد و حساب مخلوق کی تمام محسوس و غیر محسوس ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام کر دیا ہے اور بے دریغ کیے چلا جارہا ہے‘ قطع نظر اس کے کہ کوئی اس کی اطاعت کرے یا نافرمانی کرے یا اس کے وجود تک کا انکار کرتا ہو؟ کیا ہماری زندگی اور اس کے مشاغل‘ ہمارے اس احساس کی ٹھوس شہادت دیتے ہیں اور ہماری زندگی کماحقہ‘ نہ سہی بحیثیت مجموعی اپنے رب کی اطاعت و بندگی اور اس کی ملازمت میں گزر ری ہے؟ ظاہر بات ہے کہ جب رحمت و ربوبیت ہمہ گیر اور مسلسل ہے تو بندوں کی بندگی کسی جگہ‘ وقت اور معاملے تک محدود اور وقتی ہونے کے کیا معنی؟ اس کی تمام مخلوق کے ساتھ ہمارا طرز عمل اور ہمارے تعلقات ٹھیک وہی اور اس نہج پر ہونے چاہئیں جو اور جیسے الرحم الراحمین نے مقرر کیے ہیں۔ خدا اور خلق ہر ایک کے خلاف ہر نوع کے ظلم و طغیان اور سرکشی اور ہر قسم کے فواحش و منکرات سے ہماری زندگی پاک ہو جانی چاہئے۔ کیوں کہ اس رب رحمن و رحیم کی بے پایاں رحمت کبھی یہ گوارا نہیں کرسکتی کہ اس کی مخلوق میں سے کسی کی کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ حق تلفی کرے۔ اور اس کی زمین پر ظلم و تعدی کا ارتکاب کرے۔ اور اگر کوئی ایسا کرے تو اللہ کی رحمت و شفقت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے درمیان عدل کا بندوبست فرمائے۔اور مظلوموں کی داد رسی کے لیے بے لاگ انصاف کا ایک دن مقرر کرے جہاں ہر شخص اپنی ہر نیکی اور ہر بدی کا پورا پورا اور ٹھیک ٹھیک بدلہ پائے۔ نہ صرف رحمت کا تقاضا ہے بلکہ عقل کا فیصلہ اور اخلاق کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ ابراہیم اور نمرود‘ موسیٰ اور فرعون‘ ابوبکر اور ابوجہل اور ظالم و مظلوم کا انجام ایک نہیں ہونا چاہئے۔
(4)چنانچہ اسی تقاضے کے جواب میں (ملک یوم الدین) کے الفاظ کے ذریعے اطمینان دلایا گیا۔ اسی امر کی وضاحت لا یستوی اصحاب النار و اصحب الجنۃ سے کی گئی کہ اہل دوزخ اور اہل جنت کسی طرح برابر نہیں کیے جاسکتے اور اسی امر کی صراحت دوسری جگہ درج ذیل آیات میں فرمائی گئی۔
ام نجعل الذین امنوا و عملوا الصحلت کالمفسدین فی الارض ام نجعل المتقین کالفجار۔ (ص: ۲۸)
’’کیا ہم ایمان لانے والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انہی جیسا بنا دیں گے جو زمین میں فساد کرتے ہیں؟ کیا ہم متقیوں اور فاجروں کو یکساں کر دیں گے؟‘‘
ام حسب الذین اجتر حوا السیئات ان نجعلھم کالذین امنوا و عملو الصلحت سواء محیاھم و مماتھم ساء مایحکمون۔ (الجاثیہ:)
’’کیا بدکاریاں کرنے والے یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کو ایمان لانے والوں اور نیک کام کرنے والوں کے برابر کر دیں گے اور ان کی زندگی اور موت یکساں ہوگی؟ یہ کیسی بری بات ہے جس کا وہ حکم لگاتے ہیں‘‘
بلکہ: ولکل درجات مما عملوا۔ (الانعام: ۱۳۳)
’’ہر ایک کے لیے ویسے ہی درجات ہوں گے جیسے انہوں نے عمل کیے‘‘
لہٰذا ملک یوم الدین کے اقرار کے بعد ہمارے تمام امور زندگی اور سارے معاملات (انفرادی‘ اجتماعی‘ معاشی‘ معاشرتی اور تمدنی‘ ملی اور سیاسی سب کے سب) اسی اقرار اور عقیدے کے مطابق انجام پانے چاہئیں کہ ایک روز ہمیں ایک ایک پائی‘ ایک ایک حرکت اور ایک ایک لمحہ کا اپنے عالم الغیب و الشھادۃ اور علیم بذات الصدور خدا کو حساب دینا ہے۔ اب ذرا ملک یوم الدین کے منظر کو اپنے ذہن کے سامنے لاکر جائزہ لیجئے کہ کیا خدا کے حقوق‘ والدین‘ بھائی‘ بہنوں‘ بیوی اور اولاد کے حقوق‘ پڑوسن‘ سوسائٹی اور دوسری مخلوق خدا کے حقوق ٹھیک ٹھیک اور اسی طرح ادا کیے جارہے ہیں۔ جس طرح اللہ اور اس کے رسولؐ نے مقرر کیے ہیں۔ کیا آپ کے سارے معاملات ایسے ہیں کہ ملک یوم الدین کے روبرو ’’فوز عظیم‘‘ پانے والے نہ سہی‘ کم سے کم اس کی سزا اور اس کے عتاب ہی سے بچ جائیں۔
یہاں یہ یاد رہے کہ اپنی مخلوق پر خالق کے حقوق باقی سب حقوق سے بڑھ کر ہیں اور اس کا حق یہ ہے کہ ہم اپنی پوری زندگی اس کی اطاعت میں غیر مشروط طور پر دے دیں اور اس کا کلمہ بلند کرنے اور زمین پر اس کے منشاء اور مرضی کو عملاً نافذ کرنے کے لیے انا سب کچھ لگا دیں۔ حق یہ ہے کہ خدا کے سوا کسی اور کا بذاتہ کسی پر کوئی حق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود دوسرے لوگوں کے کچھ حقوق ہمارے ذمے لگا دئیے ہیں جن کو اس نے ہماری پیدائش‘ پرورش اور اجتماعی زندگی کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے اور ان حقوق کی ادائیگی دراصل اللہ ہی کی اطاعت میں داخل ہے۔ اسی لیے اگر وہ کسی ایسی چیز کا حکم دیں جو شریعت الٰہی کے خلاف ہو تو اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ہدایت فرمائی ہے کہ اس حکم کی تعمیل نہ کی جائے۔ اگر اس کی تعمیل کی جائے گی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں گرفت ہوگی اور سزا دی جائے گی۔ لہٰذا بندوں کا جو مطالبہ خدا کے حق یا اس کے کسی حکم سے ٹکرائے گا‘ رد کر دیا جائے گا‘ خواہ وہ مطالبہ ماں باپ کا ہو‘ برادری کا ہو‘ یا کسی دوسری بڑی سے بڑی طاقت کا۔
(5 ) ایاک نعبد و ایاک نستعین کے الفاظ میں ہم اللہ تعالیٰ کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہماری عبادت و غلامی اور اطاعت و فرمانبرداری بس تیرے ہی لیے ہے۔ ہماری تمنائوں‘ امیدوں اور آرزوئوں کا سہارا بس تو یہی ہے اور ان مشکلات و مصائب میں جو تیری اطاعت و غلامی کی راہ میں پیش آتی ہیں ان میں ہم تیری ہی امداد واعانت طلب کرتے ہیں۔ اس عہد و اقرار پر اپنے آپ کو انچ کر فیصلہ کیجئے کہ کیا اس کا عملی ثبوت ہماری روزانہ زندگی‘ اس کے معاملات‘ ہمارے طرز عمل اور ہماری روزانہ کی دوڑ دھوپ سے ملتا ہے؟ یا پھر اطاعت و فرمانبرداری اور غلامی و بندگی تمام تر نہیں تو بیشتر کسی اور کی ہو رہی ہے اور اس بندگی میں غیر اللہ میں امداد و اعانت اللہ سے طلب کی جارہی ہے۔ گویا کہ وہ اپنی قدرت کاملہ سے اپنے خلاف بغاوت و سرکشی اور کفر و طغیان کے اور زیادہ مواقع اور سہولتیں عطا فرمائے۔ نعوذ باللہ من ذالک۔
(6)کیا جب آپ روزانہ بار بار اھدنا الصراط المستقیم کی التجا اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں تو آپ کے دل میں صراط مستقیم پر چلنے کا واقعی کوئی ارادہ و خیال یہ کوئی سنجیدہ تمنا موجود ہوتی ہے؟ کیا آپ کی زندگی اور اس کے مشاغل میں اس کا کوئی ثبوت موجود ہے کہ آپ حقیقتاً اس راہ کے متلاشی ہیں؟ کیا آپ کی قوت و قابلیت‘ فکر و خیال‘ جان و مال اور وقت کا کوئی حصہ اس کی تلاش میں صرف ہو رہا ہے؟ جو تھوڑی بہت اور جس قدر معلومات اس بارے میں آپ کو حاصل ہیں‘ کیا ان کے مطابق کوئی قدم اٹھا رہے ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے بلکہ اپنے تمام ذرائع و وسائل اور ساری قوتوں کو صراط النفس میں لگا رکھا ہے‘ ایک کافرانہ یا غیر مومنانہ نظام کی گاڑی میں پوری خوش دلی اور اطمینان سے سوار ہیں‘ اس گاڑی کا بیل بننا آپ کی نظر میں دنیا جہاں کی سعادتوں کے حصول کا ہم معنی ہے اور اپنے عقل و دماغ کو اسی گاڑی کو چلانے اور اس کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے وقف کر رکھا ہے تو کیا اھدنا الصراط المستقیم کے ذریعے اللہ سے اب یہ چاہا جارہا ہے کہ اپنے سب ضابطوں کو توڑ کر‘ آپ کو ارادہ و انتخاب کی قوتوں سے محروم کرکے اور اینٹ پتھر کی طرح مجبور محض بنا کر اپنی راہ پر ڈال دے؟
اس بارے میں یہ اچھی طرح سے جان لینا چاہئے کہ حق و باطل کی پیروی کے بارے میں اللہ کا قانون جبر و اکراہ سے کام لینا نہیں ہے۔ لا اکراہ فی الدین (البقرہ: ۲۵۶) اس نے انسان کو دونوں راستے دکھا دئیے ہیں۔ وھدینہ النجدین(البلد: ۱۰)اور اسے پورا اختیار دیدیا ہے کہ اپنے لیے ہدایت اور فلاح کے راستے کو پسند کرے یا گمراہی اور بغاوت کی راہ اختیار کرے۔ فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر (الکہف: ۳۹) اور اگر وہ اس معاملے میں سخت کوشی سے کام لے اور اس کے لیے کوئی چوٹ کھانے کے لیے تیار ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے صراط مستقیم کھول دیتا ہے۔ والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا۔ (العنکبوت: ۶۹)
ظاہر ہے کہ کراچی کا کوئی مسافر لاہور سے پشاور کی طرف جانے والی گاڑی میں سوار ہو کر خواہ لاکھوں سجدے کرے‘ دن رات مراقبے میں گزار دے اور جتنی چاہے کراچی کی دعائیں اور التجائیں کرتا رہے۔ بہرحال پشاور ہی پہنچ کر رہے گا اور اگر راستے میں گرد و پیش اور ملک کے جغرافیہ سے ناواقفیت کی بنا پر وہ کسی غلط فہمی میں مبتلا تھا تو منزل پر پہنچتے ہی اسے معلوم ہو جائے گا کہ وہ تو اپنے مطلوب مقام کے بجائے کہیں اور پہنچ گیا ہے اور یہ غلطی خواہ اس نے کتنی نیک نیتی اور دیانت داری سے کی ہو‘ نتیجے لے لحاظ سے بہرحال کوئی فرق نہیں ہوگا۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی بالکل برعکس ہے کہ غیر اللہ کی گاڑی کو غیر اللہ کی گاڑی جانتے ہوئے اور زبانوں سے اس کا اقرار کرتے ہوئے اس میں سوار ہیں‘ اس کے بیل بنے ہیں اور اس کے کل پرزے بنانے میں مصروف ہیں اور اس کے لیے تیل مہیا کرنے کے لیے خون پسینہ ایک کیے ہوئے ہیں اور ساتھ ساتھ زبان سے اھدنا الصراط المستقیم کا ورد بھی جاری ہے۔ حماقت اور بے عقلی کی اس سے آگے بھی کوئی انتہا ہے؟ اگر فی الواقع صراط مستقیم پر چلنے کی کوئی تمنا ہے تو اس گاڑی سے اترئیے‘ اس کو چلانے کے بجائے اس پر بریک لگانے کی فکر کیجئے۔ اس کے چلانے والوں کو سیدھی راہ کی طرف بلائیے۔ وہ نہ مانیں تو دوسری سواریوں کو اس گاڑی کی غلط سمت سے آگاہ کرکے ان کو اپنے ساتھ بلائیے تاکہ سب کی اجتماعی قوت اور کوشش سے گاڑی کو صحیح سمت میں موڑا اور چلایا جاسکے اور اگر اس کا امکان نظر نہیں آتا تو پھر جو اور جتنے ساتھی بھی آپ کو ملیں ان کو ساتھ لے کر اس گاڑی سے الگ ہو جائیے تاکہ اگر اپنی منزل کی طرف بڑھنے کی صورت اور وسائل میسر نہیں ہیں تو کم سے کم اس منزل سے اور دور تو نہ ہوتے چلے جالیں۔۱؎ اس راہ کو اختیار کرکے اپنے رب سے راہ راست کی ہدایت اور اس پر چلنے کی توفیق مانگی جائے تو انشاء اللہ وہ یہ راہ دکھا بھی دے گا اور اس پر چلنے کی توفیق بھی عطا فرما دے گا۔
(7)صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضآلین کے ذریعے اس امر کی وضاحت کی جاتی ہے کہ صراط مستقیم سے ہماری مراد کیا ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی ’’مغضوب‘‘ اور ’’ضالین‘‘ کی روش کو فی الواقع چھوڑ کر ان لوگوں کی راہ پر عملاً چلنے اور بڑھنے کی کوشش کرے جن پر اللہ نے انعام فرمایا اور جو نہ معتوب ہوئے اور نہ بھٹکے۔ لیکن اگر حال یہ ہو کہ آدمی عملاً خدا کی نافرمانی کے راستے پر چل رہا ہو اور اس بات کی پرواہ ہی نہ کرے کہ اللہ نے کیا حلال اور کیا حرام کیا ہے‘ بلکہ اس کے دین کو فرسودہ اور ناممکن العمل قرار دے اور اپنے دل و دماغ‘ ہاتھ پائوں اور جان و مال کی قوتیں خدا کے دین کو غالب و نافذ کرنے کی جدوجہد کے لیے وقف کرنے کے بجائے اس کے نافرمانوں کے ہاتھ بیچے اور کرایہ پر چڑھائے ہوئے ہو تو بتائیے کہ ان کلمات کو اپنے رب کے روبرو بار بار دست بستہ دہرا کر اس کے ساتھ تمسخر نہیں تو اور کیا کیا جارہا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ سے یہ کہا جارہا ہے کہ اگر تیرا زور چلتا ہے تو زبردستی ہمیں اپنی بغاوت و نافرمانی کی راہ سے ہٹا کر ان لوگوں کی راہ پر چلا دے جو تجھے پسند اور تیرے انعام کے مستحق ہیں؟

سورۂ اخلاص:

سورۂ فاتحہ کے بعد نماز میں قرآن مجید کی کوئی دوسری سورہ یا اس کا کوئی حصہ پڑھا جاتا ہے جن آیات کو بھی آدمی پڑھے‘ ان کو سامنے رکھ کر اسے غور کرنا چاہئے کہ آیا اس کا طرز عمل ان آیات کے مطالب سے مطابقت رکھتا ہے؟ اگر ان کے مطابق نہیں اور ان سے ہٹا ہوا ہے تو اسے اپنے طرز عمل کو ان کے مطابق کرنے کی فکر کرنی چاہئے ورنہ قیامت کے روز اس کی تلاوت کردہ یہی آیات اس کے خلاف حجت بن کر آکھڑی ہوں گی۔
لیکن چونکہ عام مسلمان زیادہ تر سورۂ اخلاص ہی سے کام چلاتے ہیں۔ اس لیے یہاں تفصیلی تذکرہ صرف اسی کا کیا جاتا ہے‘ فرمایا:
قل ھو اللہ احد۔ اللہ الصمد۔ لم یلد ولم یولد۔ ولم یکن لہ کفواً احد۔
(سورۂ اخلاص)
’’اے (محمدؐ) کہو کہ وہ اللہ (جس کی طرف تمہیں بلایا جارہا ہے) ایک ہے اسے کسی کی حاجت نہیں‘ دوسرے سب اس کے محتاج ہیں۔ وہ نہ کسی کا باپ ہے اور نہ بیٹا۔ اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے‘‘
اب اس تصور باری تعالیٰ کو سامنے رکھیے اور سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی اور اس کے معاملات کا جائزہ لیجئے کہ یہ سب کہاں تک اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان آیات میں مذکور عقیدے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ان آیات میں غیر مبہم الفاظ میں بتا دیا گیا ہے کہ ایک اللہ کے سوا نہ کوئی دوسرا خدا ہے کہ اس سے بھاگ کر اس دوسرے خدا کی مملکت میں جا پناہ لو۔ نہ اسے تم سے یا کسی دوسرے سے کوئی حاجت ہے کہ وہ دبنے یا اس کا لحاظ کرنے پر مجبور ہو۔ نہ اس کا کوئی بیٹا یا باپ ہے جو مچل کر یا اپنی پدرانہ بزرگی اور زور سے اپن بات منوالے۔ اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہی ہے جس کی مروت میں آکر وہ کسی کی ناجائز رعایت پر مجبور ہو جائے۔ لہٰذا خوب جان لو کہ اس کے ہاں بالکل بے لاگ انصاف ہوگا۔
فمن یعمل مثقال ذرہ خیراً یرہ۔ ومن یعمل مثقال ذرہ شراً یرہ۔(الزلزال: ۷۔۸)
’’جو ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا وہ اسے پالے گا اور جو ذرہ برابر برائی کرے گا‘ اسے پالے گا‘‘

رکوع‘ قومہ اور سجدہ:

اس کے بعد آدمی رکوع میں جاتا ہے اور بار بار سبحان ربی العظیم کا ورد کرتا ہے۔ پھر سمع اللہ لمن حمدہکہتا ہوا کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور ربنالک الحمد کہہ کر سجدہ میں جا گرتا ہے۔ اور سبحان ربی الاعلیٰ کا ورد شروع کر دیتا ہے۔
کیا سبحان ربی العظیم اور سبحان ربی الاعلیٰ (ہر عیب سے پاک ہے میرا صاحب عظمت اور بلند و برتر رب) کے اقرار کے مطابق آپ اپنے رب کی تقسیم رزق اور اس کی مقررہ کردہ تقدیر پر ہر حال میں راضی و مطمئن رہتے ہیں اور نہ کسی تنگی و تکلیف کے موقع پر مایوس و کفور اور نہ نعمت و قوت پا کر مترف و متکبر بن جاتے ہیں۔ بلکہ جو صورت بھی پیش آئے‘ راہ حق پر مضبوطی سے قدم جمائے۔ صبر و استقلال کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے رب نے جو اور جس قدر مناسب سمجھا‘ وسائل زندگی میں سے عطا فرما دیا۔ اب اسی میں ہماری امانت و دیانت‘ وفاداری اور احسان مندی اور اہلیت کار کا امتحان ہے۔ رکوع اور سجدے میں کیے جانے والے اس اقرار کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے بعد آپ اپنے اس رب عظیم و برتر کے علاوہ کسی اور کو ایسا نہ سمجھیں کہ وہ بھی اگر چاہے تو ہماری تقدیر یا رزق میں کوئی کمی بیشی کرسکتا ہے اور نہ کبھی اپنے رب عظیم و اعلیٰ کی حدود پھاند کر اپنے رزق میں اضافہ کی کسی کوشش کا خیال تک اپنے دل میں لائیں‘ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کی تقسیم اور تقدیر میں کوئی سرمو بھی دخل اندازی کرسکے۔
پھر کیا سمع اللہ لمن حمدہ کے اعتراف و اقرار کے بعد ہمیں فی الواقع اس بات کا علم اور یقین ہوگیا ہے کہ اپنے سچے رب اور اللہ واحد سے ہمارا تعلق کتنا قریبی اور براہ راست ہے اور ہم جب چاہیں کسی درمیانی واسطے‘ وسیلے یا سفارشی کے بغیر بلا روک ٹوک اس سے براہ راست مخاطب ہو سکتے ہیں۔ اور اپنی ہر قسم کی معروضات اور حمد و ثناء اس کے حضور پیش کرسکتے ہیں۔ اس کے ہاں کوئی حاجب کا دربان کسی وقت بھی کسی سائل کو روکنے والا نہیں ہے۔
کیا ربنا لک الحمد کہنے کے بعد اب فی الواقع کسی اور کی ربوبیت اور حمد و ثناء کے لیے آپ کے دل میں جگہ نہیں رہی اور اپنے رب کے ہمہ گیر ربوبیت اور نگہبانی کا آپ کو پورا پورا احساس ہوگیا ہے کہ ’’حمد‘‘ فی الحقیقت ہمارے عظیم اور بالا و برتر رب ہی کے لیے ہے۔

التحیات:

اب التحیات کو لیجئے جو آدمی اپنے رب کے حضور دو زانوں بیٹھ کر گزارش کرتا ہے:
التحیات للہ و الصلوۃ والطیبات السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ و برکاتہ السلام علینا و علیٰ عباد اللہ الصالحین۔ اشھد ان لا الٰہ الا اللہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ۔
’’ہماری سلامیاں‘ ہماری نمازیں اور ہماری ساری پاکیزہ چیزیں (مالی‘ بدنی اور مالی عبادتیں) اللہ کے لیے ہیں۔ اے نبیؐ ‘ اللہ کی طرف سے آپؐ پر سلام و رحمت ہو اور اللہ کے تمام نیک بندوں پر اس کی سلامتی ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں‘‘
اپنے اس اقرار کو سامنے رکھ کر ذرا بتائیے کہ:
کیا التحیات للہ و الصلوات و الطیبات کا یہ بیان و اقرار جو آپ بار بار کرتے ہیں‘ یہ واقعی صحیح اور سچا ہے؟ اور آپ کی زبان اور جان و مال کی سب قوتیں اللہ کے لیے وقف ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے اور سب کچھ نہیں تو بہت کچھ نہ صرف یہ کہ اللہ کے لیے نہیں بلکہ اس کے برعکس کلمہ کفر کی سربلندی اور خدا کے نافرمانوں کی خوشنودی کے لیے وقف ہے تو پھر اس عالم الغیب و الشھادۃ سے بار بار یہ جھوٹا اقرار یہ غلط بیانی اور اسے دھوکا دینے کی کوشش آخر کیا گل کھلائے گی؟ اور اس طرز عمل کے ساتھ اپنے علیم و خبیر خدا کو یہ جھوٹا یقین دلانے کی کوشش کرنا کہ دراصل تو ہمارا سب کچھ تیری ہی خدمت و خوشنودی کے لیے وقف ہے۔ اس کے غضب اور غصہ کو کس قدر بھڑکائے گا؟ اور پھر اللہ اور اس کے دین کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہوئے ہمارے السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ کے خطاب سے محبوب خدا سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مقدس کو کوئی مسرت ہوتی ہوگی یا کوفت و بیزاری؟ کیا ایسا سلام اس شخص کے سلام کا سا نہیں ہے جو اپنی قوتیں اور وسائل تو اپنے آقا کے مقابلے میں لگا دیتا ہے‘ اس کے خلاف کھڑی ہونے والی طاقتوں کا ممدو معاون بن جاتا ہے اور اس سے سرکشی و بغاوت کرنے والوں کے ہر کام آنے کے لیے تیار رہتا ہے مگر جب آقا کے روبر جاتا ہے تو نہایت بزدلی اور مکاری سے دست بستہ عرض کرنا شروع کر دیتا ہے ’’حضور! غلام آداب بجا لاتا ہے‘ خادم تو حضور کی عزت و اقبال مندی کے لیے ہر آن دعا گو ہے۔ نمک خوار کے پاس تو سب کچھ حضور ہی کا عطیہ اور حضور ہی پر نثار ہے‘‘ کیا ایسے سلام کا زخم بھی کبھی مندمل ہوسکتا ہے‘ چہ جائیکہ مالک کے ہاں سے کسی انعام و تقرب کی امید کی جائے یا السلام علینا و علیٰ عباد اللہ الصالحین کی دعا اس کے دریائے رحمت میں ذرا سا تموج بھی پیدا کر دے؟ یہی نہیں‘ بہت سے مسلمانوں کا تو حال یہ ہے کہ جن کے لیے مسجد میں اور مصلے پر سلامتی کی دعا کرتے ہیں‘ مسجد سے باہر ان کی جڑیں کاٹنے اور جان و مال اور آبرو کے درپے رہتے ہیں۔
پھر کیا اشھد ان لا الٰہ الا اللہ کے روزانہ کئی کئی بار کے عہد و شہادت کے کے بعد اب واقعی زندگی کے کسی گوشہ اور کسی معاملہ میں بھی کسی اور کو اپنا ہادی و معبود تسلیم نہیں کیا جاتا؟ اور اللہ ہی کی حدود اب آپ کی زندگی کی رہبر و رہنما ہیں کہ بس اسی کا حکم آپ کے لیے اصل حکم‘ اسی کا حلال آپ کے لیے حلال‘ اسی کا احرام آپ کے لیے حرام‘ اسی کا قانون آپ کے لیے قانون‘ اسی کی پسند آپ کی پسند‘ اسی کی خوشی آپ کی خوشی اور اسی کی مقرر کردہ راہ حیات آپ کے لیے ضابطہ زندگی ہو‘ حتٰی کہ اس کادوست آپ کا دوست اور اس کا دشمن آپ کا دشمن ہو‘ قطع نظر اس کے کہ خون و نسل سے وہ آپ کا بھائی‘ باپ‘ بیٹا یا کوئی دوسرا عزیز ہو۔
اور کیا اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ کے بار بار کے عہد و اقرار اور شہادت کے بعد اب آپ نے فی الواقع خدا اور رسول سے آزاد ہر دوسری ہدایت و رہنمائی اور قیادت کو چھوڑ کر اپنی زندگی کے ہر گوشے اور ہر مرحلے اور ہر معاملے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی و قیادت‘ اور تعلیمات کو عملاً اختیار کرلیا ہے۔ اور اب آپ کی پوری کی پوری زندگی انہیں کی تعلیمات اور رہنمائی کے مطابق بسر ہو رہی ہے؟ یا پھر زبان سے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت قبول کرنے کا دعویٰ ہے لیکن عملاً اصطلاحی عبادت کی ظاہری شکل کے سوا باقی زندگی کے بیشتر معاملات میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ کوئی دخل حاصل نہیں؟
اور پھر کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ نے اپنا عقیدہ اور عمل میں فی الواقع ٹھیک اسی مرتبہ اور مقام پر رکھا ہے جس کا اپنی ہر نماز میں بار بار اعلان اور اقرار کرتے ہیں کہ نہ تو نعوذ باللہ آپؐ کو مقام نبوت سے نیچے اتار کر ایک عام دنیوی لیڈر‘ کمانڈر یا مصلح کی حیثیت دے دی ہو‘ جسے ہر شخص چاہے تو اپنی کوشش اور کسب و ریاضت سے حاصل کرسکتا ہو۔ اور نہ آپؐ کو مقام نبوت سے اوپر لے جاکر خدا کا ہم پلہ بنا دیا ہو کہ عام آدمی آپؐ کے عملی اتباع کو اپنے لیے اس وجہ سے ناممکن العمل اور غیر ضروری سمجھنے لگ جائے کہ چہ نسبت خاک رابہ عالم پاک۔ خوب جانچ کر دیکھئے کہ کیا آپ نے اپنے عقیدہ اور عمل میں فی الواقع حضورؐ کی ’’عبد‘‘ اور ’’رسول‘‘ ہونے کی دونوں حیثیتوں میں ٹھیک توازن قائم رکھا ہے؟

درود شریف پڑھنے کا تقاضا:

’’التحیات‘‘ کے بعد نماز کو سلام پر ختم کرنے سے پہلے ہم یہ درود شریف پڑھتے ہیں:
اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ ال محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم و علیٰ ابراھیم انک حمید مجید۔
اللھم بارک علٰی محمد و علیٰ آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم و علیٰ ابراھیم انک حمید مجید۔
’’اے اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ماننے والوں پر رحمت فرما۔ جس طرح کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ماننے والوں پر رحمت فرمائی۔ بے شک تو بہت ہی قابل تعریف اور بزرگ و برتر ہے۔
اے اللہ‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ماننے والوں کو برکت و اقبال عطا فرما جس طرح کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ماننے والوں کو برکت و اقبال سے نوازا۔ بے شک تو بہت ہی قابل تعریف اور بزرگ و برتر ہے‘‘
اب اپنے اس درود و سلام کو سامنے رکھ کر بتائیے کہ جس رسولؐ اور جس رسولؐ کے نام لیوائوں تک کے لیے زبان سے آپ اس قدر محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں کہ رات دن ان کے لیے خیر و برکت اور ترقی و سربلندی کی۔ اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ الہ محمد اور اللھم بارک علٰی محمد و علیٰ ال محمد پڑھ پڑھ کر دعائیں کرتے ہیں کیا ان کے اس مقصد زندگی اور مشن کے لیے جس میں انہوں نے اپنی جان کھپا دی‘ ان کی سربلندی کے لیے کوئی کام بھی کر رہے ہیں؟ کیا آپ کا دل حقیقت میں ان دعائوں کے ساتھ ہے؟ کیا آپ روزانہ زندگی اور اس کے مشاغل‘ آپ کی مصروفیتیں اور سعی و جہد اور آپ کے جان و مال کا صرفہ ان ہی دعائوں اور اسی مقصد کی تکمیل کے لیے ہے؟ یا اصل صورت حال یہ ہے کہ بغل میں چھری اور منہ سے رام رام کہتے جارہے ہیں کہ اپنی سب نہیں تو بیشتر قوتیں اور وسائل تو دین محمدیؐ کو ملک بدر اور دین طاغوت کو سربلند کرنے میں لگا رکھے ہیں اور زبان پر دعا اور درود جاری ہے؟ صاحبو! خود بھی اپنے قول و عمل کا موازنہ کیجئے اور اپنی قوم کو بھی اس طرز عمل کی طرف توجہ دلائیے کہ سوچ سمجھ کر چلیں کہ معاملہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے ہے۔ آخر اس دوغلے کردار کے ساتھ بھیجا ہوا درود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے روحانی خوشی اور مسرت کا موجب ہو رہا ہوگا یا اذیت کا؟ عملی زندگی اور دوڑ دھوپ سے قطع نظر چند منتروں کا جاپ یا کچھ اوراد کی تکرار اینٹ‘ پتھر سے گھڑے ہوئے دیوتائوں کو تو ممکن ہے‘ خوش کر دے مگر اس علیم و خبیر خدا اور اس کے رسولؐ کے ہاں تو اس سے رسائی نہیں ہوسکتی۔
اور پھر:

دعاء قنوت کی روشنی میں جائزہ لیجئے:

دن بھر کے مشاغل سے فارغ ہو کر‘ رات کی تنہائی میں اللہ کے حضور دست بستہ کھڑے ہو کر نماز وتر کی قنوت میں جو عہد روزانہ انتہائی واضح الفاظ میں اپنے رب سے کرتے ہیں‘ اب ذرا اس کی روشنی میں بھی اپنے کردار و اعمال کا جائزہ لے لیجئے اور دیکھیے کہ اس عہد کی روشنی میں آپ کی زندگی اور اس کے مشاغل و معاملات کا کیا حال ہے۔ یہ غلط فہمی بہرحال دور ہو جانی چاہئے کہ عملی زندگی سے قطع نظر چند الفاظ کا محض ’’تلفظ‘‘ کر دینے سے اس خدا کو چکمہ دے سکیں گے جو دلوں میں پوشیدہ رازوں کو بھی جانتا ہے۔ اس لیے اپنے روزانہ مشاغل کو دعائے قنوت کے ایک ایک جملے کی روشنی میں رکھ کر دیکھئے اور اس دعا میں کیے جانے والے عہد سے لازم آنے والی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی فکر کیجئے۔

دعاء قنوت:

اللھم انا نستعینک و نستغفرک و نومن بک و نتوکل علیک و نثنی علیک الخیر۔ و نشکرک ولا نکفرک و نخلع و نترک من یفجرک۔ اللھم ایاک نعبد و لک نصلی و نسجد الیک نسعی ونحفد و نرجوا رحمتک و نخشٰی عذابک۔ ان عذابک بالکفار ملحق۔
’’اے اللہ! ہم تیری مدد چاہتے ہیں۔ تیری بخشش کے طلبگار ہیں۔ صدق دل سے تجھے اپنا خدا تسلیم کرتے ہیں۔ تو ہی ہمارا سہارا اور تجھی پر ہمارا بھروسہ ہے۔ ہم تیری بہترین ثناء کرتے ہیں (تیری نافرمانی تو درکنار) تیرے نافرمانوں سے ہم دور بھاگتے اور ان سے قطع تعلق کرلیتے ہیں۔ اے اللہ ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تیرے ہی آگے جھکتے اور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ ہماری تمام سعی و جہد تیرے لیے ہے۔ ہم تیری خدمت کے لیے حاضر اور اسی میں سرگرم مل ہیں۔ ہم تیری رحمت کے امیدوار اور تیری گرفت سے لرزاں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تیرا عذاب تیرے نافرمانوں پر لٹک رہا ہے‘‘
اب اس دعا کے پہلے جملے کو لیجئے اور بتائیے کہ:
(1 ) اللھم انا نستعینک کہتے ہیں تو اس استدعا کے وقت کون سے امور‘ کیا تمنائیں اور آرزوئیں اور کیا مقاصدپیش نظر ہوتے ہیں جن کے حصول کے لیے اللہ سے مدد مانگتے ہیں؟ کیا اللہ کی اطاعت؟ اس کے رسول کا اتباع؟ اس کے دین کی سربلندی؟ اس کی راہ میں استقامت؟ اس کے باغیوں سے کشمکش؟ دین حق کا غلبہ اور دین طاغوت کا استیصال؟ یا صرف خواہشات نفس کا حصول‘ نظام باطل میں روز افزوں پذیرائی‘ اس کے علمبرداروں کا تقرب اور اہل دنیا کے ہاں اعزاز اور ناموری؟ کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے کہ اکثر و بیشتر دعائوں میں یہ دوسری ہی چیزیں مقصود و مطلوب ہوتی ہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو سوچنا چاہئے کہ کیا ایسے لوگ اللہ کی گرفت اور اس کے غضب سے اس قدر بے خوف و بے پرواہ ہوگئے ہیں کہ اس کی نافرمانی کے کاموں میں کامیابی کے لیے اسی سے دعائیں مانگنے لگے ہیں؟ ایسے لوگوں کو خوب جان لینا چاہئے کہ وہ نہایت غیور اور سخت انتقام لینے والا ہے۔ جب اس کی گرفت کا وقت آگیا تو ایک سانس کی بھی مہلت نہیں دی جائے گی۔
ولکل امۃ اجل فاذا جآء اجلھم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون۔
(الاعراف: ۳۴)
’’ہر گروہ کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر ہے۔ پھر جب کسی قوم کی مدت آن پوری ہوتی ہے تو ایک لمحہ کی تاخیر و تقدیم نہیں ہوتی‘‘
ہاں اس وقت معین تک کھلی چھٹی ہے کہ جو کچھ کوئی چاہے‘ کرتا رہے۔
(2) کیا آپ کی و نستغفرک کی دعا فی الواقع
اذا فعلوا فاحشۃ او ظلموا انفسھم ذکروا اللہ فاستغفروا لذنوبھم… ولم یصروا علی مافعلوا وھم یعلمون۔ (آل عمران: ۱۳۵)
’’اگر کبھی کوئی برا کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں… اور وہ جان بوجھ کر اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے‘‘
میں مذکور شرائط عفو و درگزر پر پوری اترتی ہے؟ کہ اصلاً تو آپ نے اللہ کی اطاعت اور اس کے رسولؐ کے اتباع کو اپنی پوری زندگی کا شیوہ بنا لیا ہے اور زندگی کے تمام معاملات و مراحل اور نشیب و فراز میں اسی کے احکام اور حدود کی پابندی کا اہتمام کرتے ہیں‘ اس کی نافرمانی سے بچنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اگر کبھی بشری کمزوری یا غلبہ نفس کی بنا پر کوئی لغزش سرزد ہوجاتی ہے تو احساس ہوتے ہی فوراً ندامت سے سرجھکا دیتے ہیں اور اپنے رب کے حضور گڑگڑاتے ہیں‘ معافی اور درگزر کی درخواستیں کرتے ہیں اور آئندہ لغزشوں سے بچنے کی پہلے سے بڑھ کر کوشش کرتے ہیں؟ لیکن اگر صورت یہ ہے کہ پوری بے پروائی اور تسلی کے ساتھ اس کی حدود کو توڑا‘ اس کی شریعت کو ٹھکرایا اور اس کی آیات کو قدم قدم پر عملاً جھٹلایا جاتا ہے‘ کہیں رسم و رواج کی پابندی ہے‘ کہیں شریعت برطانوی کا اتباع ہے‘ اور کہیں کسی دوسرے ازم یا خود اپنے نفس کی پیروی ہے‘ اور پھر یہ سب کچھ سہو و نادانی سے نہیں‘ پورے اطمینان‘ شعور اور ذوق و شوق کے ساتھ دن رات کیا جارہا ہے تو اس کے بعد و نستغفرک کی یہ درخواست اپنے رب سے مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟
یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ’’توبہ و استغفار‘‘ کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کہ اپنی منزل کی طرف صحیح راہ سے بڑھتے ہوئے کسی ایسے شخص کا پائوں جو نہیں چاہتا کہ گندگی و غلاظت کی ایک چھینٹ بھی اس پر پڑے‘ کبھی پوری احتیاط کے باوجود کسی گندی نالی میں پڑ جاتا ہے تو وہ اس آلودگی کا علم ہوتے ہی بے چین ہو کر پانی کی تلاش میں بھاگتا ہے اور جلد از جلد اس گندگی کو اپنے جسم سے دور کرکے پھر اپنے راستے پر اور زیادہ احتیاط سے روانہ ہو جاتا ہے۔ یہی حال اللہ کے ایک مومن و مسلم بندے کا ہے کہ وہ دین کی راہ پر پوری احتیاط سے چلتا ہے۔ مگر کہیں اتفاق سے اس کا پائوں راہ حق سے بھٹک کر گناہ کی غلاظت میں پڑ جاتا ہے تو وہ اس کا علم ہوتے ہی بے تاب ہو جاتا ہے۔ اللہ کے حضور روتا ہے‘ معافی مانگتا ہے‘ توبہ و استغفار اور صدقہ و خیرات تک کرتا ہے اور آئندہ زندگی میں پہلے سے زیادہ محتاط ہو جاتا ہے۔
لیکن جن لوگوںنے گناہ اور اللہ کی نافرمانی اور اس کے دین سے انحراف کو اپنا پیشہ اور معمول ہی بنا لیا ہو‘ ان کی زندگی اور وسائل قیام کفر‘ خدمت طاغوت اور اطاعت نفس میں لگے ہوں‘ ان کا خون تک خدا سے سرکشی کی راہ میں بہنے کے لیے بے تاب رہتا ہو‘ وہ اپنی اولاد کو بھی اسی راہ پر چلنے اور بڑھنے کے لیے پرورش کر رہے ہوں اور ان کی زندگی کا انتہائی مقصود اسی سمت میں بڑھنا ہو ااسی میں فلاح و ترقی بھی سمجھتے ہوں اور ضمیر کی کھجلی مٹانے کے لیے یا تقلید آباء کی بنا پر کچھ اسلامی رسوم و عبادات اور معاشرت کے طریقے بھی اختیار کیے ہوئے ہوں‘ ایسے حضرات کا و نستغفرک کا وظیفہ زبانی جمع خرچ سے زائد کیا حیثیت رکھتا ہے اور اللہ ہی جانتا ہے کہ یہ عفو و درگزر کا موجب ہوگا یا الٹا قذوقوا فلن نزید کم الا عذاباً (۷۸۔۳۰) ۱؎ کا باعث بنے گا۔
(3)کیا ’’ونومن بک‘‘ کے اقرار اور عہد کے بعد اب دوسرے سب زندہ و مردہ خدائوں سے فی الواقع کٹ کر صرف اللہ واحد سے اپنا رشتہ جوڑ لیا ہے کہ اب اپنا الٰہ‘ رب اور فرمانروا اسی کو مانتے ہیں‘ اسی کے دین پر چلتے ہیں‘ اسی کے قانون و شریعت کی پیروی کرتے ہیں‘ سب سے بڑھ کر اسی کے عذاب سے ڈرتے ہیں‘ سب سے زیادہ اسی کے انعام کا لالچ رکھتے ہیں‘ اسی کا کلمہ بلند کرنے کی فکر میں رہتے ہیں‘ اسی کی رحمت کی آس ہے‘ اسی کے عہد کا پاس ہے‘ اسی کی سرپرستی کی طلب ہے اور اسی سے ساری تمنائیں وابستہ ہیں؟ یا خدانخواستہ حقیقت اس کے خلاف یہ ہے کہ اللہ سے بیشتر معاملہ زبانی زبانی ہے اور عمل اکثر و بیشتر اپنے نفس اور دوسروں کی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ ایمان کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں ہے۔ اس لیے اگر اپنے ایمان میں کوئی کمزوری محسوس ہو تو اس کی سمت اور درستی کی سب سے پہلے فکر کرنی چاہئے۔
(4)’’ونتوکل علیک‘‘اللہ پر توکل ومن و مسلم ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔
قرآن مجید میں آیا ہے:
قال موسیٰ یقوم ان کنتم امنتم باللہ فعلیہ توکلوا ان کنتم مسلمین۔
(۱۱:۱۸۴)
’’موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ لوگو‘ اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘ تو اس پر بھروسہ کرو اگر مسلمان ہو‘‘
اللہ پر توکل کے معنی یہ ہیں کہ ہر حالت اور تمام معاملات میں ہدایت‘ امداد و اعانت اور دستگیری کے لیے اللہ ہی پر بھروسہ رکھا جائے اور پورا پورا بھروسہ کیا جائے۔ اس کی بات کے مقابلے میں کسی کی بات کی‘ اس کے خوف کے مقابلے میں کسی کے خوف کی اور اس کے انعام کے مقابلے میں کسی کے انعام کی پراہ نہ کی جائے۔ یہاں تک کہ خدا کے رسولوں اور ان کے ساتھیوں کی مانند خدا کے کلمے کو سربلند اور خدا کے دین کو برپا کرنے کی جدوجہد میں کسی دوسرے کے خوف و لالچ‘ تکلیف و راحت‘ رعب و دبدبہ اور جاہ و جلال کو خاطر میں نہ لایا جائے۔ آپ اپنا اور اپنے دل و دماغ اور جملہ معاملات کا جائزہ لے کر دیکھئے کہ کیا وہ اللہ پر توکل کی میزان پر پورے اترتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ حال یہ ہو کہ معمولی مالی و جانی نقصان کا خطرہ‘ بعض اعزہ و اقربا کی خفگی اور کچھ آسائشوں سے محروم ہو جانے کے اندیشے جیسی چیزیں بھی آپ کو خدا کی طرف بڑھنے سے روکنے کی کی قوت رکھتی ہیں تو بتائیے کہ یہ ’’ونتوکل علیک‘‘ کی خدا کے روبرو تکرار ایک جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے؟ آخر آپ نے اللہ پر بھروسہ کیا کس چیز میں ہے؟
(5)پھر وثنی علیک الخیر میں اللہ سے جس اخلاص اور وابستگی اور اس کے دین کے ساتھ جس شیفتگی کا اظہار کیا جاتا ہے‘ کیا اس کی کوئی شہادت آپ کی عملی زندگی اور روز مرہ کی دوڑ دھوپ میں پائی جاتی ہے؟ یا پھر اس عالم الغیب کے بارے میں بھی یہ سمجھ رکھا ہے کہ اسے بھی زبانی خوشامد اور کنی چپڑی باتوں سے بہلا کر کام نکال لیں گے۔ اللہ سے چال بازی کرنے والوں کو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ وہ بھی خیر الماکرین ہے اور دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے۔ اس لیے اس کے مقابلے میں جن جن کی حاکمیت‘ عقیدت‘ محبت‘ اطاعت وابستگی اور کارسازی کا عقیدہ دل میں لے کر لوگ اس کے ساتھ محض زبانی تعریف و ستائش کا طرز عمل اختیار کریں گے‘ ایک دن وہ ان سب کو حقیقت کھول کر سامنے رکھ دے گا اور پھر اس وقت اس کے سوا نہ کوئی ولی یا سرپرست دکھائی دے گا‘ نہ کسی طرف سے کوئی مدد آسکے گی‘ اور جن فساق و فجار کی خدمت سرپرستی اور توقیر و تقرب پر آج ناز ہے‘ انہی کی قیادت میں اللہ کے عذاب کی طرف ہانکے جائیں گے۔
(6)اب و نشکرک ولا نکفرک و نخع و نترک من یفجرک کے الفاظ میں کیے جانے والے عہد کے آئینے میں بھی اپنی صورت دیکھیے اور خود ہی فیصلہ فرمائیے کہ اس عہد کو کہاں تک پورا کیا جارہا ہے۔ کیا آپ نے فی الواقع اپنی زندگی کو ناشکری سے پاک کرکے شکر گزاری اور فرمانبرداری کی راہ اختیار کرلی ہے اور اللہ کے نافرمانوں اور سرکش لوگوں سے اب کوئی واسطہ نہیں رکھتے؟ اور ہر ایک سے آپ کے تعلقات کی نوعیت اللہ اور اس کے دین کے بارے میں ان کی روش پر منحصر رہتی ہے‘ خواہ وہ آپ کا عزیز ترین دوست‘ بھائی‘ باپ‘ بیٹے‘ قومی قائدین یا پیرو مرشد ہی کیوں نہ ہوں‘ کیا اب آپ کے سارے وسائل اور آپ کی تمام قوتیں اور قابلیتیں اللہ کے شکر کی راہ میں صرف ہو رہی ہیں؟ دور نہ جائیے صرف انہی قوتوں اور چیزوں ہی کو لیجئے جن کو اللہ نے براہ راست آپ کے قبضہ قدرت اور تصرف میں دے رکھا ہے۔ کیا اب آپ کی آنکھیں وہی کچھ دیکھتی ہیں‘ کان وہی کچھ سنتے ہیں‘ زبان وہی کچھ بولتی ہے‘ دماغ وہی کچھ سوچتا ہے‘ دل اسی پر ریجھتا ہے‘ معدہ صرف وہی کچھ قبول کرتا ہے اور ہاتھ پائوں صرف اسی طرف حرکت کرتے ہیں جو اللہ کے نزدیک آپ کے لیے جائز ہے؟ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے تابع کر دیا ہے مثلاً اولاد‘ شاگرد‘ ماتحت ملازمین اور دوسرے خادمین اور زبردست لوگ‘ کیا آپ ان لوگوں کو اس راہ پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پسند کی ہے؟ اور کیا آپ کی سب قوتیں اور سارے وسائل اس غرض کے لیے استعمال ہوتے ہیں جس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں مرحمت فرمایا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقین نہیں ہے بلکہ ’’شکر‘‘ کے بجائے جان و مال اور دل و دماغ کی بہت سی قوتیں اللہ سے سرکشی میں تعاون اور اس کی زمین پر فتنہ و فساد کو فروغ دینے میں معاونت کر رہی ہیں اور باپ بیٹے سے‘ بھائی بھائی سے‘ بیوی شوہر سے‘ ملازم مالک سے اور مرید مرشد سے‘ اغراض نفس اور نفع دنیا کی خاطر بے شک ایک دوسرے سے ناراض و بیزاری کا اظہار بھی کر دیتے ہوں اور باہم قطع تعلق بھی کردیتے ہوں‘ لیکن اللہ اور اس کے دین کے معاملے میں ایک دوسرے سے علیحدگی کی نوبت تو درکنار‘ برہمی بیزاری کے اظہار کی ضرورت بھی کسی کو شاید ہی محسوس ہوتی ہے تو اس بے حسی کے ساتھ بار بار کی اس غلط بیانی کے انجام پر غور کرلینا چاہئے۔ یا تو اپنے کو اپنے اس عہد و اقرار کے مطابق تبدیل کیا جائے ورنہ اگر آدمی اپنے عمل سے نعوذ باللہ یہ شہادت دے رہا ہو کہ و نکفرک ولا نشکرک و نحب من یفجرک کہ ہم تیری ناشکری اور نافرمانی کرتے ہیں‘ تیرا شکر نہیں ادا کرتے اور تیرے نافرمانوں کو محبوب رکھتے ہیں (نعوذ باللہ من ذلک) تو زبانی دعویٰ شکر گزاری و فرمانبرداری سے کیا حاصل ہوگا۔
اللہ کا شکر محض ’’ش ک ر‘‘ سے مرکب لفظ کے تلفظ اور اس کی رٹ لگا دینے کا نام نہیں بلکہ اللہ کی کامل اطاعت و بندگی اور اس کی دی ہوئی ہر شے اور ہر قوت کو اسی کی مرضی کے مطابق اس کی بندگی اور اطاعت کے لیے خاص کر دینے کا نام ہے اور اسی کا اقرار و نشکرک ولا نکفرک و نخلع و نترک من یفجرک کے ذریعے کرایا جاتا ہے۔
(7) اور کیا اللھم ایاک نعبدو لک نصلی و نسجد کے اقرار کے مطابق اب آپ کی اطاعت و بندگی‘ تمام مراسم عبودیت‘ نماز اور سجدے سب فی الواقع صرف اللہ ہی کے لیے مخصوص ہو چکے ہیں‘ یا آپ نے اپنے ایمان و ضمیر‘ دل و دماغ اور جسم و جان کی جملہ قوتوں کی ایک دکان لگا رکھی ہے کہ ان میں سے جو چیز جس غرض کے لیے کوئی چاہے‘ خرید کر لے جائے۔ آپ کو ان کی قیمت مل جائے تو آپ کو اس سے کوئی بحث نہیں کہ ان کے عوض آپ کو کہاں اور کس کام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اگر آپ کے دل و دماغ اور ہاتھ پائوں کی قوتوں کا کرایہ آپ کو پیش کر دیا جائے تو آپ سود و قمار اور شراب و جوئے جیسے قبیح کاموں کا انتظام بھی بے دریغ کر سکتے ہیں۔ شریعت الٰہی کے صریحًا خلاف قوانین کے نفاذ و تشہیر کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ نظام کفر کی پوری گاڑی گھسیٹنے کی خدمت انجام دے سکتے ہیں اور حد یہ ہے کہ غلبہ کفر اور تسخیر حق کے لیے اپنا اور دوسروں کا خون تک بہا سکتے ہیں۔ اور عجیب تر بات یہ ہے کہ اس پر عوام ہی نہیں‘ بہت سے دیندار بھی مجبوری اور اضطرار کا عذر کرتے ہیں۔ لیکن وہ خدا کو گواہ کرکے بتائیں (کہ اصل معاملہ تو اسی سے ہے) کیا جو کچھ وہ حرام و ناجائز ذرائع سے حاصل کرتے ہیں وہ صرف اضطرار کی حالت میں اور قوت لایموت کے لیے رزق حاصل کرنے کی حد تک ہی ہوتا ہے یا آئندہ نسلوں تک کے لیے مال حرام سے تجوریاں بھر بھر کر رکھ رہے ہیں کہ بیٹے اور پوتے بھی اسی پر پلیں اور پروان چڑھیں اور ان کے جسم کی بھی ایک ایک بوٹی اسی مال سے بنے؟ کیا اس طریق پر حاصل کیا ہوا رزق کھاتے وقت اسی طرح کراہت اور بیزاری محسوس ہوتی ہے۔ جس طرح ایک فاقوں مرتا آدمی بھی اگر اپنی جان بچانے کے لیے کوئی غلیظ و ناپاک شے کھانے پر مجبور ہو جاتا ہے تو بھی لازمی طور پر فطرتاً محسوس کرتا ہے اور اسے محسوس ہونی چاہئے۔ کیا جو شخص حلال رزق نہ پاکر اضطراراً مردار کھانے پر مجبور ہو جاتا ہے وہ اسی طرح مزے لے لے کر کھاتا ہے جس طرح خادمیں طاغوت کے ہاں ہو رہا ہے۔ کیا کوئی مضطر مسلمان اس طرح اطمینان کے ساتھ مردار پر ڈیرا ڈال کر بیٹھ سکتا ہے جس طرح اب قوم کی کثیر تعداد اطمینان کے ساتھ حرام ذرائع رزق پر جم کر بیٹھ گئی ہے اور اسے ان کو حلال ذرائع سے بدلنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کی ساری دوڑ دھوپ اسی کافرانہ نظام معیشت اور اجائز و حرام ذرائع رزق کو بڑھانے اور ترقی دینے کے لیے ہے۔
برادران عزیز‘ ابھی موقع ہے کہ ہم اپنے ایمان اور آخرت کی فکر کرلیں کہ اللہ کے ہاں فیصلہ مردم شماری کے رجسٹر کو دیکھ کر نہیں کیا جائے گا بلکہ اس پر کیا جائے گا کہ ہمارا کارنامہ حیات ایک نعبد و لک نصلی و نسجد کے اقرار اور والیک نسعیٰ و نحفد و نرجو رحمتک و نخشٰی عذابک کے عہد پر کہاں تک پورا اترتا ہے۔وہاں یہ دیکھا جائے گا کہ اس کی راہ میں جدوجہد کا حق ادا کیا یا نہیں‘ اس کے دین کی خدمت اور علم برداری کے لیے کہاں تک جان لڑائی‘ اور کیا آپ نے اپنے عہد کے مطابق واقعتاً اس کی نظر رحمت کے سوا کسی کی پرواہ نہ کی‘ اس کے عذاب کے سوا کسی کے عذاب کا ڈر نہ رکھا اور ان عذابک بالکفار ملحق پر کامل یقین کے ساتھ ساری زندگی اس طرح گزار دی کہ اللہ کی نافرمانی اور اس کے عذاب کے درمیان اتنا وقفہ بھی حائل نہیں ہے جتنا آگ میں ہاتھ ڈالنے اور اس کے جل جانے کے درمیان ہوتا ہے۔ آخر ایک حرکت قلب اور ایک سانس کے سوا دونوں کے درمیان اور کیا چیز حائل ہے؟ ادھر حرکت قلب اور سانس بند ہوئی اور خدا کا عذاب سامنے موجود ہے۔
ذرا سوچئے کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کے جو حقوق ہیں‘ کیا انہیں ادا کرنے کی کوئی سعی آپ کر رہے ہیں؟ کیا اس کے لیے کبھی کوئی تردد کیا ہے‘ اس کی راہ میں کوئی چوٹ کھانا یا نقصان اٹھانا تو درکنار اس کی تمنا بھی کبھی آپ کے دل میں پیدا ہوئی ہے؟ یا پھر الٹا دین ہی کو اپنی اغراض کے لیے استعمال کرنے کے لیے اپنے ساتھ لگا رکھا ہے کہ کوئی برا وقت پڑے یا کوئی مصیبت آئے تو اسلام اسلام پکارنا شروع کر دیا۔ کچھ جلسے کیے‘ کچھ جلوس نکالے‘ کچھ نعرے لگائے‘ کچھ لوگوں کو الو بنایا‘ اپنے مخالفین کو مرعوب کرکے اپنا سکہ جمایا اور اپنا کام نکال کر اللہ کے دین کو پھر میان میں بند کرکے کسی تہ خانہ میں رکھ دیا۔ کیا اس وقت ’’مسلمانوں‘‘ کے ہاں دین کا مصرف یہی نہیں رہ گیا ہے کہ طاغوت کی چاکری ۱؎ کے مناصب‘ اس کی کونسلوں کی ممبری‘ اس کی عنایت سے استفادہ‘ مادی مفادات کے حصول و تحفظات اور ایسے ہی دوسرے حقیر و مادی فائدے اٹھانے کے لیے اسے استعمال کیا جائے؟ اور کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ اللہ کا دین عام طور پر اسی حد تک قابل قبول ہے جہاں تک خواہشات نفس‘ خوشنودی طاغوت اور جاہ دنیا کے حصول میں کام آسکے؟ گویا اب ’’فرزندان توحید‘‘ کا مطالبہ یہ ہے کہ ان کو خدا کے دین کے خادم نہیں بلکہ خدا کے دین کو ان کا خادم ہونا چاہئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اگر آپ دعائے مذکور کے بجائے وتر کی قنوت میں یہ دعا پڑھتے ہیں:
اللھم اھدنی فیمن ھدیت و عافنی فی من عافیتت و نولنی فی من نولیت و بارک لی فیما اعطیت وقنی شرما قضیت فانک نقضی ولا یقضٰی علیک انہ لا یذل من والیت تبارکت ربنا و تعالیت۔
’’اے میرے اللہ‘ اپنی ہدایت کی طرف میری رہنمائی فرما‘ اپنے دامن عافیت میں مجھے عافیت عطا فرما‘ تو خود میری سرپرستی فرما‘ جو کچھ تو نے مجھے عطا فرمایا ہے‘ اسی میں برکت عطا فرما۔ جس شرکا تو نے فیصلہ کرلیا ہے‘ اس سے مجھے محفوظ رکھ‘ کیونکہ تیرا فیصلہ سب پر نافذ ہوتا ہے کسی دوسرے کا فیصلہ تجھ پر نافذ نہیں ہوسکتا۔ جس کی تو سرپرستی فرمائے اسے کوئی ذلیل نہیں کرسکتا۔ اے ہمارے رب‘ تو بہت ہی برکت والا اور بلند مرتبہ ہے‘‘
تو یہ بتائیے کہ آپ اللہ کی ہدایت‘ عافیت‘ برکت اور سرپرستی حاصل کرنے کے لیے کیا کوشش کر رہے ہیں؟ یا پھر انک قضی تقضی ولا یقضیٰ علیک کے اس اقرار کے بعد اللہ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اپنے ارادے اور اختیار سے تو ہم اس پر چلنے والے نہیں ہیں ہاں اگر تو چاہتا ہے تو اپنی غیبی طاقت سے ان چیزوں کو زبردستی ہم پر نافذ کردے۔

آخری دعا اور سلام:

اب اپنی اس استدعا کی روشنی میں بھی اپنے اعمال اور مشاغل زندگی کا جائزہ لیجئے جو اللہ کی بارگاہ سے رخصت ہوتے وقت اس کے حضور پیش کی جاتی ہے یعنی:
رب اجعلنی مقیم الصلوٰۃ و من ذریتی ربنا و تقبل دعآء ربنا اغفرلی ولوالدی وللمومنین یوم یقوم الحساب۔
’’اے میرے رب‘ مجھے اور میری اولاد کو بھی اقامت صلوٰۃ کی توفیق عطا فرما‘ آقا‘ میری اس دعا کو قبول فرما لے اور حساب کے دن مجھے‘ میرے ماں باپ کو اور اپنے سب بندوں کو بخش دے‘‘
اس دعا کے الفاظ کو سامنے رکھئے اور ٹھنڈے دل سے سوچئے کہ اقامت صلوٰۃ اور اس کے محافظ نظام زندگی کو برپا کرنے کے لیے کماحقہ جدوجہد کرنا تو درکنار‘ اس کے دل میں کوئی تڑپ اور جذبہ بھی پایا جاتا ہے؟ یا پھر اقامت صلوٰۃ کے معنی قیام‘ رکوع اور سجدے کی حالت میں چند رٹی ہوئی عبارتوں کو محض دہرا لینا ہی کافی سمجھ رکھا ہے؟ اور اس خیال میں ہیں کہ جو ذمہ داریاں اور جو کام یہ نماز آپ کے ذمہ لگاتی ہے اور جن کے انجام دینے کا عہد یہ آپ سے بار بار لیتی ہے‘ وہ سب محض اس کے الفاظ دہرا دینے کی برکت سے طلسماتی طور پر خود بخود انجام پا جائیں گے؟ یا آپ کے نزدیک یہ نماز صرف ایک ذہنی اور جسمانی ورزش ہے جس سے کوئی ذمہ داری آپ پر عائد نہیں ہوتی؟
برادران مکرم‘ نماز اسلام کا ستون ہے۔ ’’الصلوٰۃ عماد الدین ‘‘ یہ وہ چیز ہے جسے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر اور اسلام کے درمیان حد فاصل بتایا ہے۔ یعن اس کے بغیر اسلام کسی شخص کو اپنے دائرے کے اندر ٹکنے کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے لازم ہے کہ اقامت صلوٰۃ کی حقیقت کو جاننے اور اس کی ذمہ داریوں کو سمجھ کر ادا کرنے کی پوری کوشش کی جائے۔
نماز کے آخر میں ہم دائیں اور بائیں دونوں طرف تمام مخلوق خدا کے لیے السلام علیکم و رحمۃ اللہ (’’تم سب پر اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو‘‘) کی دعا کرتے ہوئے نماز کو ختم کرتے ہیں۔
یہاں بھی ذرا اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھئے کہ کیا گرد و پیش کی مخلوق اور بندگان خدا کے لیے فی الواقع آپ کا دل سلام و رحمت کے جذبات سے لبریز ہے؟ اگر ایسا نہیں تو یہ سلام منافقت کا سلام ہے اور یہ اس محبت اور اخوت کا ذریعہ نہیں بن سکتا جو مسلمانوں کے درمیان ہونی چاہئے اور جس کے لیے سلام مقرر کیا گیا ہے۔

اقامت صلوٰۃ حقیقت

اقامت صلوٰۃ کا منتہائے مقصود ایک ایسے معاشرے کو وجود میں لانا ور مضبوطی سے قائم رکھنا ہے‘ جس کے اندر ہر فرد انفرادی طور پر اور پوری ملت اسلامیہ بحیثیت وعی خدا کی یاد پر مبنی سوسائٹی کا عملی نمونہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اننی انا اللہ لا الٰہ الا انا فاعبدنی و اقم الصلوٰۃ لذکری۔ (۲۰:۱۴)
’’میں ہی اللہ ہوں‘ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ پس تم میری بندگی کرو اور نماز قائم کرو میری یاد کے لیے‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں نماز کی اصل غرض بیان فرما دی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان خدا کی یاد سے غافل نہ ہو جائے۔ نماز دن میں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد بار بار یاد دلاتی ہے کہ تم آزاد و خود مختار اور شتر بے مہار نہیں ہو بلکہ خدا کی مخلوق اور اس کے بندے ہو اور اپنی ایک ایک حرکت اور اپنے ایک ایک عمل کے لیے اپنے علیم و خبیر خدا کے سامنے جوابدہ ہو۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ نماز کا مقصود ایک ایسے معاشرے کی تعمیر اور قیام ہے جو اس مقصد کے لیے سرگرم عمل ہو کہ:
(1 ) حتی الامکان معاشرے کا کوئی فردخدا سے غافل اور اس کی سامنے جواب دہی کے شعور و احساس سے خالی نہ ہو۔ بلکہ اس کے اندر ہر شخص اس یقین محکم کے ساتھ زندگی بسر کرے کہ وہ خدا کی مخلوق‘ اس کا پروردہ اور اس کا پیدائشی بندہ ہے‘ جو کچھ بھی اس کے قبضہ و تصرت میں ہے‘ سب خدا کا عطیہ و امانت اور اسی کی فرمانبرداری میں صرف کرنے کے لیے ہے‘ اور ایک روز اسے اپنے رب کے روبرو حاضر ہو کر ایک ایک ذرے اور اپنی ایک ایک بات کا حساب دینا ہوگا۔
(2 ) جس ے ہر فرد کی زندگی کا متہائے مقصود یہ ہو کہ وہ جس قیمت پر بھی ہوسکے اپنے علیم و خبیر خدا اور رب عظیم و اعلیٰ کی خوشنودی اور اس کے حضور سرخروئی حاصل کرلے اور اس کے عتاب سے بچ جائے۔ اور اس دنیا میں اسے خواہ کتنی بھی بڑی سے بڑی تکلیف اٹھانی پڑے اور بڑے بڑے فائدے سے محروم ہونا پڑے لیکن وہ کسی کی حق تلفی یا ایذا رسانی کا سبب بن کر مالک یوم الدین کے روبرو جواب دہی کا خطرہ مول نہ لے۔
(3)جس کے افراد اپنے کسی بھائی پر خدا کا فضل دیکھ کر اس سے حسد و عناد میں مبتلا ہونے اور اسے اس سے محروم کرنے کے منصوبے اور بہانے سوچنے کے بجائے زمین و آسمان کے سارے خزانوں کے مالک رب العالمین سے خیر و برکت کی دعا کریں‘ تنگی میں صابر اور فراخی میں خدا کے شکر گزار بندے بن کر رہیں۔ و نشکرک ولا نکفرک۔
(4 ) جس کا ہر فرد اپنے حقوق سے پہلے اور ا سے بڑھ کر اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا خیال کرے اور ان کی ادائیگی کی فکر کرے۔ کیونکہ اسے خدا کے حضور جواب دہی اپنے حقوق کی نہیں‘ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کی کرنی ہے۔
ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم۔ (۱۰۲:۸)
’’پھر ضرور اس روز تم سے ان نعمتوں کے بارے میں باز پرس کی جائے گی‘‘
(5)جس میں ہر فرد اور پورا معاشرہ ہدایت و رہنمائی کے لیے بھی اور امداد و استعانت کے لیے بھی اپنے رب سے رجوع کریں۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین اور خدا کے نافرمان و سرکش اور مغضوب (زیر عتاب) اور اس کی راہ سے بھٹک جانے والے لوگوں یا ان کے طور طریقوں کے قریب بھی پھٹکنے سے لرزاں و ترساں ہیں۔
(6 ) ایسا معاشرہ جس کے افراد کی زبان و قلم‘ جسم و جان اور جملہ وسائل اور تمام طاقتیں خدا کی نافرمانی اور اس کی ناپسندیدہ چیزوں کو مٹانے اور اس کی اطاعت و بندگی اور پسندیدہ چیزوں کو فروغ دینے کے لیے وقف ہوں۔ التحیات للہ و الصلواۃ و الطیبات نیز و الیک نسعیٰ و نحفد۔
(7) جس میں ہر شخص دوسرے کا بلکہ پوری انسانیت اور مخلوق خدا کا بہی خواہ اور دل و جان سے اس کی سلامتی کا طالب اور اس کے لیے دن رات دعا گو رہتا ہو۔
(8)ایسا معاشرہ جس کا ہر فرد ایسا خوددار‘ جری اور بہادر ہو کہ وہ خدائے بزرگ و برتر کے سوا کسی کے جلال و عظمت سے خائف و مرعوب نہ ہو۔ نہ کسی دوسرے کی غلامی قبول کرنے کے لیے تیار ہو۔ اس کے دل میں ڈر ہو تو صرف خدائے بزرگ و برتر کا اور اسے کسی چیز کا لالچ ہو تو اپنے خالق و پروردگار کی خوشنودی اور انعام کا۔
(9)جس کے افراد کو دین و دنیا کے مختلف پہلوئوں سے کم از کم اتنا روشناس کرا دیا جائے کہ وہ دین حق اور اس کے تعلیم کردہ طرز حیات کو اجمالی طور پر اور روز مرہ کی ضروریات کی حد تک اچھی طرح سمجھ لیں اور ان ے اندر ان سے اس درجہ مناسبت‘ محبت اور یگانگت پیدا ہو جائے اور وہ ان سے حاصل ہونے والی برکات و حسنات کو اس طرح محسوس کرنے لگیں کہ اس طریق زندگی کی طرف رہنمائی کرنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان کے دل سے بے ساختہ درود و سلام کی صدائیں نکلنے لگیں۔ السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ اور اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ آل محمد‘ اللھم بارک علیٰ محمد و علیٰ ال محمد کی دعائیں اس منظر کی تصویر کشی کرتی ہیں۔
مختصر یہ کہ ایک مسلم معاشرے کی انفرادی اور اجتماعی پوری کی پوری زندگی اور جملہ سرگرمیاں ان مقاصد نماز کی عکاس و ترجمان اور عملی تصویر ہونی چاہئیں۔ اور نماز کو اس کے تمام مشاغل‘ مصروفیتوں‘ عزائم اور آرزوئوں کے لیے روشنی کا مینار ہونا چاہئے۔ اگر یہ صورت نہیں ہے اور نہ اس صورت حال کو پیدا کرنے کے لیے کوئی فکر اور جدوجہد کی جارہی ہے تو ایسا نہ ہو کہ اس حالت کے ذمہ دار لوگوں کو نمازیوں کے اس گروہ میں شامل کر دیا جائے‘ جو اپنی نماز سے غافل‘ اور اس کے تقاضوں سے بے پرواہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو فویل للمصلین الذین ھم عن صلاتھم ساھون۔ (۱۰۷:۴۔۵) ’’تباہی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں سے غافل اور بے پرواہ ہیں‘‘ کے زمرے میں شامل ہونے سے اپنی پناہ میں رکھے۔
آپ جانتے ہیں کہ پورے قرآن میں کسی ایک جگہ بھی نماز پڑھ لینے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ ہر جگہ اقامت صلوٰۃ ہی کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اقامت صلوٰۃ کی یہی وہ حقیقت ہے جس کی بنا پر اسے دین کا ستون قرار دیا گیا ہے۔ (الصلوٰۃ عماد الدین) جسے گرا دینے کے بعد دین قائم نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ نماز کو مومن اور کافر میں فرق کرنے والی چیز بتایا گیا ہے۔ ورنہ جہاں تک نماز کو محض ’’پڑھ لینے‘‘ کا تعلق ہے‘ یہ کام تو سب منافقین بھی کرتے تھے اور نہ صرف یہ کہ نماز مومنین کے ساتھ باجماعت پڑھتے تھے بلکہ دوسری اصلاحی عبادات اور ظاہری دیندارانہ افعال میں بھی مومنین سے پیچھے نہیں رہتے تھے لیکن جی چیز نے انہیں مسلمانوں کے زمرے سے خارج کرکے منافقین کے گروہ میں شامل کر دیا وہ یہی اقامت صلوٰۃ یعنی اللہ سے اپنے قول و قرار میں مخلص و صادق نہ ہونا اور ان کے مطابق جدوجہد میں یکسوئی اور دل کی گہرائیوں سے شریک نہ ہونا تھا۔
ان سب امور کو سامنے رکھ کر ٹھنڈے دل سے اپنے ایمان و اسلام‘ اپنی نماز اور اس کے مقتضیات اپنی سرگرمیوں اور مصروفیتوں اور اپنے عزائم اور آرزوئوں کا باہم موازنہ کیجئے اور پھر اسلام میں اپنے مقام‘ میدان حشر میں خدا اور رسولؐ کے سامنے اپنی حالت اور آخرت میں اپنا ٹھکانا معلوم کرنے کی کوشش کیجئے۔

اذان کا مقصد اور اس کی حقیقت:

نماز کے سلسلے میں ایک اور چیز جو ہر مسلمان کے لیے نہایت سنجیدگی کے ساتھ سوچنے اور سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہر بستی میں روزانہ پانچ مرتبہ ان کے رب کی طرف سے یہ اعلان ہوتا ہے:
لوگو‘ اللہ سب سے بڑا ہے۔
لوگو‘ اللہ کے سوا کوئی اطاعت و بندگی کے لائق نہیں ہے۔
لوگو‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں (اللہ نے انہیں تمہاری ہدایت و رہنمائی کے لیے بھیجا ہے‘ اس لیے زندگی کی راہ انہیں سے پوچھو اور انہی کے طریقے کی پیروی کرو)
لوگو‘ اللہ کی بندگی (نماز) کے لئے آئو۔
لوگو‘ (بھٹکتے نہ پھرو) فلاح اور نجات کی طرف آئو۔
لوگو‘ پھر سن لو کہ بڑائی اور بزرگی صرف اللہ کے لیے ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا اطاعت و بندگی کے لائق نہیں۔
ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ یہ اعلان ان لوگوں کے سامنے کیا جاتا ہے جو خود اس ایمان کے دعوے دار ہیں کہ:
(1)اللہ ہی فی الواقع واحد الہ‘ رب‘ مالک اور حقیقی حاکم و فرماں روا ہے‘ سب بڑائی اور بزرگی اسی کے لیے ہے‘ ہماری اطاعت و بندگی کا حقدار وہی ہے اور مسلمان کے معنی کسی نسل‘ رنگ‘ زبان یا وطن سے تعلق کے نہیں بلکہ اللہ کی اطاعت اور غلامی کی راہ اختیار کرنے کے ہیں۔
(2)محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور ہمارے ایسے واجب الاطاعت رہبر اور رہنما ہیں کہ ان کے کسی ایک حکم کو بھی عمداً جھٹلانے والے شخص کے لیے دائرہ اسلام کے اندر کوئی جگہ نہیں ہے۔
(3)نماز دین کا ستون اور مومن اور کافر میں فرق کرنے والی چیز ہے اور یہ کہ
(4)دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح صرف اللہ اور رسولؐ کی فرمانبرداری کی راہ اختیار کرنے اور اس پر چلنے پر موقوف ہے۔
اب ذرا غور کیجئے کہ مسلمانوں کا روزانہ پانچ مرتبہ مہینوں اور سالہا سال اس اعلان خداوندی (اذان) کو اس طرح بے پروائی سے سنتے رہنا گویا کہ ان کی زندگی سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے‘ خدا کی طرف سے بلاوے کو سن کر ان کا ذرا ٹس سے مس نہ ہونا جو پانچ دس آدمی اذان سن کر نماز کے لیے آبھی گئے‘ ان کا بے سمجھے بوجھے نماز کی مخصوص عبارتیں دہرا کر چل دینا اور اقامت صلوٰۃ کی حقیقت اور اس سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کی کوئی پرواہ نہ کرنا‘ بلکہ باصرار خدا سے بے نیازی اور نافرمانی کی راہ پر چلتے رہنا‘ خدا کے غصہ و غصب کو کس قدر بھڑکا دینے والی چیز ہے؟ اللہ کی طرف سے تو حجت تمام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی ہے۔ کیا ہمارے اس طرز عمل کے لیے خدا کے روبرو پیش کرنے کے لیے کوئی جواب موجود ہے؟ اس بات کو سوچئے اور ٹھنڈے دل سے سوچئے۔
اللہ سے بار بار عہد اور اقرار کو استوار کرکے اسے پس پشت ڈال دینے اور دن میں کئی کئی مرتبہ یاد دہانی کرائے جانے کے باوجود اپنے ’’حلف وفاداری‘‘ کو بھول جانے والے لوگوں کو اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ عنقریب ایک دن ان کے کانوں میں یہ صدا گونجنے والی ہے:
الیوم ننسکم کما نسیتم لقاء یومکم ھذا وما وکم النار ومالکم من نصرین۔ ذالکم بانکم اتخذتم ایت اللہ ھزواً و غرتکم الحیوۃ الدنیا فالیوم لا یخرجون منھا ولا ھم یستعتبون۔ (جاثیہ: ۳۴۔۳۵)
’’آج ہم تمہیں اسی طرح بھول جائیں گے جس طرح تم نے ہماری آج کے دن کی ملاقات کو بھلا رکھا تھا۔ اب تمہارا ٹھکانا آگ ہے اور کوئی نہیں جو تمہیں اس سے بچا سکے‘ یہ اس لیے کہ دنیا کی زندگی کے غرے میں تم نے اللہ کے احکام اور اس کی وعیدوں کو مذاق بنا رکھا تھا۔ اب نہ تو انہیں اس سے نکالا جائے گا اور نہ ان کا کوئی عذر قبول کیا جائے گا‘‘

دین پوری زندگی پر حاوی ہے:

برادران مکرم‘ اللہ کا دین پوری انسانی زندگی پر حاوی ہے اور پورے کا پورا واجب الاطاعت ہے۔ ان کا کوئی حصہ اختیاری نہیں اور نہ ہی یہ قابل تقسیم ہے کہ کوئی یہ کہے کہ میں اتنا تو مانوں گا اور اتنا نہیں مانوں گا۔ ان ان معاملات کی حد تک تو اس کی پیروی کروں گا لیکن ان کے سوا دوسرے معاملات میں اپنی یا کسی اور کی مرضی پر چلوں گا۔ خدا کے دین میں سودے بازی یا کمی بیشی پر کسی لین دین کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ تو دنیا میں زندگی بسر کرنے کا ایک متعین طریقہ ہے اور ہر شعبہ زندگی کے لیے واضح احکام اور ہدایات دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یا اس طریقے اور ان احکام و ہدایات پر چلا جائے گا یا ان کو چھوڑ کر کسی اور کے طریقے اور احکام و ہدایت پر چلا جائے گا۔ اللہ کے ہاں یہ بات کسی درجے میں قابل قبول تو درکنار قابل برداشت بھی نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ذات و صفات میں یا حقوق و اختیارات میں یا امر و نہی میں کسی جگہ کسی دوسرے کو شریک کیا جائے۔ دو ٹوک فرما دیا گیا ہے کہ:
ان اللہ لا یغفرک ان یشرک بہ و یغفر مادون ذلک لمن یشاء ومن یشرک باللہ فقد افتریٰ اثماً عظیماً۔ (۴:۴۸)
’’اللہ اس بات کو ہرگز معاف نہیں فرمائے گا کہ کسی دوسرے کو کسی حیثیت سے بھی اللہ کا شریک ٹھیرایا جائے۔ اس گناہ کے مرتکب کے سوا وہ جسے چاہے گا‘ معاف فرما دے گا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیراتا ہے وہ بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے‘‘
پس شرک وہ جرم عظیم ہے کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے معافی و درگزر کی کوئی گنجائش نہیں رکھی۔ چنانچہ مومنین (اپنے ماننے والوں) سے اللہ کا مطالبہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو میری غیر مشروط بندگی اور میرے رسولؐ کی اطاعت میں دے دو۔ وہ اس سے کمتر وہ کسی شے پر راضی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں تک اللہ تعالیٰ کو زبان سے خالق اور مالک ماننے اور زندگی میں اس کی رسمی پرستش و عبادت کا تعلق ہے‘ یہ تو دنیا میں کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ ہوتی رہی ہے اور اب بھی دنیا میں بیشتر اقوام میں کسی نہ کسی شکل میں ہو رہی ہے لیکن یہ صورت کہ ایک اللہ ہی کو الٰہ واحد مان کر پوری زندگی کو اس کی بندگی اور اطاعت میں دے دیا جائے اور اس کی ذات ہی نہیں‘ اس کی صفات‘ حقوق اور اختیارات میں کہیں بھی کسی دوسرے کو شریک نہ گردانا جائے‘ اسی سے انسان جی چراتا رہا ہے۔ اس بارے میں انسان کی مثال ریل گاڑی کے اس بے وقوف ڈرائیور کی ہے جو ریل کی پٹڑی کو صحیح راہ کے بجائے اپنی آزادی پر خواہ مخواہ کی قدغن اور راہ کی رکاوٹ سمجھنے لگے اور کسی کھلے میدان‘ خوشنما پارک یا کسی پہاڑ کے دلکش مناظر سے مسحور ہو کر ریل گاڑی کو پٹڑی سے اتار کر اس کا رخ ان کی طرف موڑ دے اور اسے تباہی سے دو چار کردے۔ اسی طرح قافلہ انسانیت بار بار خواہشات نفس اور فریب شیطان میں مبتلا ہو کر اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ شاہ راہ حیات اور اس میں جگہ جگہ حدود اللہ کی شکل میں نصب کردہ نشانات عافیت (Cautions) کو اپنے فہم اور آزادی عمل پر خواہ مخواہ کی رکاوٹ سمجھ کر انسانی زندگی کی ریل گاڑی کو اطاعت الٰہی کی پٹڑی سے اتار کر اسے بار بار تباہی و بربادی سے دو چار کرتا رہا ہے۔ اور بار بار خدا کے رسولؐ خدا کی خالص اور بے آمیزبندگی کی دعوت کے ذریعے اس گاڑی کو پٹڑی پر ڈالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
یا قوم اعبدوااللہ مالکم من الٰہ غیر۔
(۷:۵۹‘۶۵‘۷۳‘ ۸۵۔ نیز ۱۱:۵‘۶۱ اور ۸۴)
یعنی ہر رسول نے آکر کہا ’’اے میری قوم کے لوگو! ایک اللہ کی بندگی اختیار کرو کیونکہ اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے‘‘ مگر انبیاء علیہم السلام کی اس تعلیم اور اپنی نمازوں میں روزانہ کئی کئی مرتبہ کیے جانے والے قول و قرار کے باوجود ہمارا کیا حال ہے؟ اس کا اندازہ اپنی پوری زندگی اس کے مشاغل و معاملات اور اپنی مصروفیتوں کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر کیجئے اور سوچئے کہ ہم اب تک کیا کرتے رہے ہیں اور ہمیں کرنا کیا چاہئے تھا؟ اپنی زبان سے ہم اللہ تعالیٰ سے کیا عہد و پیمان کرتے ہیں اور ہمارا عمل اس کی تصدیق کرتا ہے یا تکذیب؟ کیا ہم گراموفون یا کسی نشرگاہ کا مائیکرو فون بن کر تو نہیں رہ گئے‘ کہ کہنے کو تو سب کچھ کہتے رہتے ہیں مگر عملاً جوں کے توں اور ایک بے جان آلہ کی مانند بالکل غیر متاثر ہیں۔ یہاں تک بھی معاملہ رہتا تو کہہ سکتے تھے کہ غفلت و بے عملی میں مبتلا ہیں۔ اور پھر اپنے اس طرز عمل پر اصرار ہے کہ حصول دنیا کی دوڑ میں انجام سے بے پرواہ ہو کر ہر دوسرے پر بازی لے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں:
الھکم التکاثر۔ حتی زرتم المقابر۔ (۱۰۲:۱۔۲)
’’تم لوگ دنیا طلبی کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں منہمک رہو گے یہاں تک کہ قبروں میں جا پڑو‘‘
اور
فویل للمصلین الذین ھم عن صلاتھم ساھون۔ (۱۰۷:۴۔۵)
’’تباہی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں سے غافل اور بے پرواہ ہیں‘‘
کے مصداق ہونے سے اپنی پناہ میں رکھے۔
مگر اس دنیا میں کوئی چیز بھی محض آدمی کے چاہنے سے نہیں ہو جاتی۔ ورنہ کون سا انسان ہے جس کے اندر امن و سلامتی اور بھلائی کی خواہشات موجود نہ ہوں۔ اگر صرف چاہنے سے کچھ ہو جایا کرتا تو دنیا میں کسی خرابی‘ کسی برائی اور کسی تکلیف کا وجود تک نہ ہوتا‘ یہی نہیں‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنایا ہے اور اسے ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر یہ کام اس کے سپرد کیا ہے کہ انسانی معاشرے کو خدا کی بندگی اور اطاعت پر قائم اور اس کے اندر سے خدا کی نافرمانی کو ختم کرے۔ اس حیثیت سے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی پوری زندگی میں اللہ کی اطاعت اور اس کے رسولؐ کی رہنمائی کو عملاً اختیار کریں‘ جو ان سے جڑے اس سے ہم بھی جڑ جائیں‘ جو ان سے کٹے‘ اس سے ہم بھی کٹ جائیں‘ اپنی نماز اور دوسری عبادات کو اپنی زندگی کی اساس بنائیں‘ ان میں کیے جانے والے عہد و پیمان کی ذمہ داریوں اور مقتضیات کو پورا کرنے کی فکر کریں‘ ان تمام مشاغل اور مصروفیتوں کو ترک کر دیں جو ہمارے منصب نیابت کے منافی اور اللہ کے بنائے ہوئے مقصود حیات کے خلاف یا ان سے متعارض ہوں۔ اور اس سے منزل اور مقصود حیات کے حصول کی جدوجہد کرنے والے ساتھیوں کی تلاش کی جائے تاکہ ان کی اجتماعی قوت سے ان رکاوٹوں کو دور کیا جائے جو دین حق اور بالخصوص اس کے اجتماعی نظام کی راہ میں حائل ہوگئی ہیں۔ کیونکہ اللہ اور اس کے رسولؐ اور کتاب الٰہی نے محض غسل اور طہارت‘ نکاح اور طلاق اور نماز اور روزے کے احکام ہی نہیں دئیے ہیں کہ نظام دین کو ان تک محدود رکھا جائے بلکہ ہماری انفرادی معاشرتی اور تمدنی زندگی سے آگے‘ ملی‘ اجتماعی‘ سیاسی‘ اقتصادی اور معاشی زندگی اور ان کے ایک ایک شعبے کے لیے اصول و احکام اور ہدایات دی ہیں۔ انہوں نے اپنا نظام سیاست‘ اپنا نظام قانون و عدالت‘ اپنا نظام معیشت اور لین دین کے اپنے اصول دئیے ہیں اور ان سے بھی آگے انہوں نے اپنا بین الاقوامی قانون اور صلح و جنگ کے اپنے ضابطے دیے ہیں اور مطالبہ کیا ہے کہ قبول کرنا ہے تو ان سب کو بحیثیت مجموعی قبول کرو۔ اور رد و انکار کی صورت میں حبط اعمال‘ سراسر ہلاکت اور ابدی خسران کی خبر دی ہے‘ لہٰذا اللہ اور رسولؐ کا مطلوب مسلمان بننے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے اس مطالبے (جس کا دوسرا نام دین اسلام ہے) کو پورے کا پورا اور من و عن تسلیم کیا جائے۔ اور اگر ایسا کرنے میں کوئی رکاوٹ حائل ہو یا حالات ناسازگار ہوں تو دل و جان سے اس رکاوٹ کو دور کرنے اور ان حالات کو بدلنے کی جدوجہد کریں اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک کہ اللہ اور رسول کا پسندیدہ نظام زندگی اور اس کے احکام و ہدایت زمین کے چپے چپے پر بالفعل قائم اور کار فرما نہ ہو جائیں اور خدا کی مرضی اس کی زمین پر بھی اسی طرح نہ پوری ہونے لگے جس طرح آسمانوں پر پوری ہو رہی ہے۔ اقامت دین اسی کا نام ہے۔ اسی کو نظام اسلامی کا قیام کہتے ہیں اور اسی کا نام حکومت الہیہ ہے (جس کے لیے پاکستان قائم کیا گیا تھا)
حیرت ہے کہ ریت کے ذرے بھی اتنی تعداد میں کسی خطہ ارض میں جمع ہو جائیں تو اسے ریگستان بنا دیتے ہیں اور پانی کے قطرے بھی اس تعداد میں کہیں جمع ہو جائیں تو وہ سیلاب بن کر بہہ نکلتے ہیں لیکن دنیا میں اتنے مسلمان موجود ہوتے ہوئے بھی اسلامی نظام کہیں قائم نہیں۔ خدا کے لیے خواب غفلت سے بیدار ہو کر اپنے اعمال پر تنقیدی نگاہ ڈالیے۔ یہود (خدا کی نافرمانی و سرکش قوموں) کے نقش قدم پر چلتے رہو گے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کا سابر تائو آپ کے ساتھ نہ کیا جائے۔

آج دنیا میں کروڑوں مسلمان موجود ہیں مگر نظام اسلام کا وجود نہیں!

ملت اسلامیہ میں سے جن حضرات کو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس ہو چکا ہے‘ انہیں غور کرنا چاہئے کہ دنیا میں اس وقت مسلمان کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں مگر اس کے باوجود وہ اسلامی نظام زندگی جس پر وہ ایمان رکھتے ہیں وہ کہیں بھی موجود نہیں۔ آخر اس سانحہ عظیم کی وجہ کیا ہے؟ یہ امر واقعہ ہے کہ ہر مہذب اور باشعور قوم کا نظام زندگی اس کے بنیادی عقائد و تصورات اور نظریہ حیات کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اس لیے اگر مسلمانوں میں اسلامی نظام حیات رائج نہیں ہے تو ماننا پڑے گا کہ زبانی دعوئوں اور اسلام کے نعروں کے باوجود انہوں نے اسلام کو ایک دھرم اور مذہب کی حیثیت سے قبول کیا ہو تو کیا ہو؟ لیکن ایک دین اور نظام حیات کی حیثیت سے اپنے دل و دماغ میں اسے جگہ نہیں دی ہے۔ اس حیثیت سے جو کچھ اس کے بجائے انہوں نے اختیار کیا ہے‘ وہ ان کے اجتماعی نظام (معاشرت و معیشت اور قوانین و سیاست وغیرہ) سے ظاہر ہے اور اسے جو نام چاہے دے لیجئے‘ مگر یہ اسلامی نظام زندگی تو ہرگز نہیں ہے۔ اور اگر یہ قرآن کا تعین کردہ نظام حق نہیں تو خود ہی بتائیے کہ:
فما ذا بعد الحق الا الضلال۔ (۱۰۔۳۲)
’’نظام حق کو چھوڑ دینے کے بعد گمراہی اور ذلالت کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے‘‘
مگر اس کے باوجود قوم کی قوم یہود کی سی خوش فہمیوں اور فریب نفس میں مبتلا ہے اور گمراہی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس کی آخری حد تک یہ نہ جا پہنچی ہو‘ لیکن اس کے باوجود ’’مسلم‘‘ کا وہ عظیم منصب جس کو جد انبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے شدید ترین آزمائشوں سے گزر کر…… دین آباء اور پوری قوم سے بغاوت کرکے‘ آتش نمرود کا انتہائی خوفناک و مہیب اور لق و دق چتا کا ایندھن بن کر مدتوں بے یارو بے دیار دیس دیس کی خاک چھان کر اور پھر اس غریب الوطنی اور صحرا نوردی کی زندگی میں عین بڑھاپے کے وقت دنیا کے آخری سہارے‘ جو ان لخت جگر سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلا کر اور ہوش سنبھالنے سے آخری دم تک ان صلوٰتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین کا عملی نمونہ پیش کرکے حاصل کیا تھا‘ یہ لقب ہم مسلمانوں کے خیال سے ہم سے کچھ اس طرح چیک گیا ہے کہ ہم جو جی میں آئے‘ کرتے رہیں لیکن اس مقدس منصب سے کسی حالت میں محروم نہیں ہوسکتے‘ اور اس منصب کے حصول کے لیے بھی اب ہمارے نزدیک صرف کسی مسلمان نامی گھرانے میں پیدا ہو جانا کافی ہے۔ اس کے بعد ہمارے لیے فساق و فجار کی ساری راہیں کھلی ہیں۔ جیسی چاہیں فاسقانہ زندگی بسر کریں‘ انکار خدا تک نوبت آجائے‘ پوری کی پوری زندگی غیر اللہ کی اطاعت میں دے دیں‘ اللہ کی دی ہوئی ہر شے راہ کفر میں نثار کر دیں۔ لیکن نہ جنت کے حاصل ہونے میں کوئی شک‘ نہ شفاعت رسولؐ کے استحقاق میں کوئی شبہ اور نہ ہمارے اسلام میں کوئی رخنہ پیدا ہوتا ہے۔ بس زیادہ سے زیادہ یہ کہ چند دن سزا بھگت کر پھر جنت میں چلے جائیں گے۔ گویا کہ مسلمانوں کی نسل میں پیدا ہو جانے سے ہم خدا کے چہیتوں میں شامل ہوگئے ہیں۔
ذرا سنجیدگی سے سوچئے کہ آخر یہود کا کیا قصور تھا؟ وہ عقل کے اندھے بھی تو یہی کہتے تھے کہ جنت ان کے لیے بہرحال مخصوص ہے اور اگر سرکشی اور طغیان کی وجہ سے آگ میں ڈالے بھی گئے تو بس چند دن کے لیے:
لن تمسنا النار الا ایامًا معدودۃ۔ (البقرہ: ۸۰)
’’بفرض محال اگر ہم آگ میں ڈالے بھی گئے تو بس گنتی کے چند روز کے لیے‘‘
لیکن اسی کی بنا پر نہایت غضبناک ہو کر ان سے پوچھا گیا:
اتخذتم عند اللہ عھداً……ام تقولون علی اللہ مالا تعلمون۔(البقرہ: ۸۰)
’’کیا تم نے اللہ سے (جنت کی) کوئی گارنٹی لے رکھی ہے…… یااللہ کے بارے میں یوں ہی من گھڑت باتیں کہہ رہے ہو؟‘‘
یہ لوگ شریعت خداوندی کے مطابق عبادت بھی کرتے تھے‘ بہت سے معاملات میں شریعت الٰہی کا اتباع بھی کرتے تھے اور دین حق کی کچھ باتیں ہی چھوڑ کر کفر سے مصالحت کر بیٹھے تھے اور اغراض نفسانی کے حصول کے لیے ان کی تاویلیں وغیرہ کرلیتے تھے۔ مگر ان کو سخت تنبیہہ کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ڈانٹ پلاتے ہوئے فرمایا:
افتومنون الکتب وتکفرون ببعض فما جزآء من یفعل ذلکم منکم الاخزی فی الحیوۃ الدنیا و یوم القیامۃ یردون الٰی اشد العذاب۔ (البقرہ:۸۵)
’’کیا کتاب الٰہی کی کچھ باتیں مانتے ہو اور کچھ نہیں مانتے؟ یاد رکھو کہ اللہ کے دین کے ساتھ ایسا طرز عمل اختیار کرنے والوں کے لیے دنیا میں ذلت اور آخرت میں بدترین عذاب کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘
برادران عزیز‘ اللہ سے معاملہ کسی نسل‘ قوم‘ ملک یا خاندان کی بنا پر نہیں بلکہ صرف اس کی بندگی اور اس کے رسولؐ کے اتباع کی بنا پر ہے۔ قرآن کریم نے صاف الفاظ میں اعلان کر دیا ہے:
فمن یعمل مثقال ذرۃ خیراً یرہ۔ ومن یعمل مثقال ذرۃ شراً یرہ۔ (الزلزال: ۷۔۸)
’’جس نے وہ ذرہ برابر بھلائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا‘‘
اور پھر پوری نوع انسانی کو کھلے لفظوں میں نوٹس دے دیا ہے:
یوم تقوم الروح و الملئکۃ صفاً۔ لا یتکلمون الا من اذن لہ الرحمن وقال صواباً۔ ذلک الیوم الحق فمن شاء اتخذ الٰی ربہ مآبا۔ انا انذرنکم عذاباً قریباً۔ یوم ینظر المرء ماقدمت یدام۔ (النباء: ۳۸۔۴۰)
’’اس روز جبرئیل اور فرشتے صفیں باندھے دم بخود کھڑے ہوں گے۔ کسی کی مجال نہ ہوگی کہ رحمن کے اذن کے بغیر زبان بھی ہلا سکے اور اگر اس کی اجازت ملے گی بھی تو وہ صرف مناسب اور واجبی بات ہی عرض کرسکے گا (اب خوب کان کھول کر سن لو) یہ دن آکے رہے گا۔ اب جس کا جی چاہے اپنے رب کے ہاں اچھا ٹھکانہ بنانے ک فکر کرلے (ہم نے حجت پوری کر دی اور) تمہیں اس عذاب سے آگاہ کر دیا جو بالکل تمہارے سر پر کھڑا ہے۔ پھر اس دن ہر شخص اپنے کرتوتوں اور اس کی کمائی کو دیکھ لے گا جو وہ دنیا میں کرتا رہا‘‘
شفاعت رسولؐ اور مسلمان کہلانے کے باوجود کافرانہ نظام حیات اور فاسقانہ قیادتیں قبول کرنے والوں کی کیفیت یوں بیان فرما دی۔
ویوم یعض الظالم علٰی یدیہ یقول یلیتنی اتخذت مع الرسول سبیلاً۔ یویلتی لیتنی لم اتخذ فلاتاً خلیلاً۔ لقد اضلنی عن الذکر بعد اذ جاء فی دکان الشیطان للانسان خذوالاً۔ وقال الرسول یارب ان قوم اختذوا وھذا القرآن مہجوراً۔ (الفرقان: ۲۷۔۳۰)
’’جس دن ہر ظالم اور گنہگار حسرت کے ساتھ کہے گا‘ اے کاش‘ میں نے رسولؐ (جس کی رسالت کا زبانی اقرار بھی کرتا تھا) کی بتائی ہوئی راہ (اس کی رہنمائی اور قیادت) کو عملاً بھی اختیار کرلیا ہوتا۔ اے کاش میں نے فلاں فاسق و فاجر کی دوستی اور رفاقت اختیار نہ کی ہوتی‘ اس کم بخت نے تو راہ راست میرے سامنے آجانے کے بعد پھر مجھے گمراہی میں ڈال دیا۔ شیطان تو ہے ہی انسان کو عین وقت پر دغا دینے والا۔ اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایسے لوگوں کی شفاعت کرنے کے بجائے قرآن مجید کو ہاتھ میں لے کر) اللہ سے فریاد کریں گے کہ اے میرے رب‘ یہ ہیںمیری قوم کے وہ لوگ جنہوں نے تیرے اس قرآن کو پس پشت ڈال رکھا تھا (اور مجھے اور تیرے دین کو دنیا میں رسوا کرتے رہے)‘‘
غور کیجئے کہ اگر مسلمان بھی اللہ کے دین کو چھوڑ کر دوسرے طریقہ ہائے زندگی کی پیروی شروع کر دیں۔ احکام الٰہی کو دنیا کی متاع قلیل اور ذلیل دنیوی فوائد کی خاطر قربان کرنے لگ جائیں‘ نظام حق کو نظام باطل کی ہر آلائش سے پاک و منزہ رکھنے کی کوشش کرنے لگ جائیں‘ نظام حق کو نظام باطل کی ہر آلائش سے پاک و منزہ رکھنے کی کوشش کرنے کے بجائے الٹا ان کا باہم جوڑ ملانے ہی کو اپنے علم و فضل اور قرآن دانی کا کمال سمجھنے لگ جائیں‘ خدا کی خدائی اور حاکمیت کا زبانی اقرار کرنے کے باوجود اس کے سامنے عملاً سر تسلیم خم کرنے کو عار سمجھنے لگ جائیں‘ دنیا جہان کو اسلام اور اس کی برکات کے وعظ کہتے پھریں اور خود اپنی ذات کو اس کے تابع کرنے کے لیے تیار نہ ہوں اور اقامت صلوٰۃ کے مقتضیات پورا کرنا تو درکنار نماز کو محض رسماً پڑھ لینا بھی ان کے لیے بار خاطر بن جائے‘ آخر کس بنا پر وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کا انجام خدا کی تعلیم کردہ راہ سے منحرف دوسری قوموں کے انجام سے مختلف ہو؟ خدا کے لیے خواب غفلت سے بیدار ہو کر اپنے اعمال و کردار پر نگاہ ڈالیے اور انصاف کے ساتھ بتائیے کہ مغضوب و ضال لوگوں کی راہ پر چلتے ہوئے ہمیں وہ عزت و سربلندی کیسے حاصل ہو جائے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے ایک سچی مومن و مسلم امت سے کیا ہے۔ خدا کا قانون بالکل بے لاگ ہے۔ نبی کا بیٹا بھی سرکشی کرے گا تو ڈبو دیا جائے گا۔ وہاں تو صرف اعمال کی بنا پر فیصلہ ہوگا نہ کہ نسل اور نسب کی بنیاد پر۔ اپنی حیثیت پہچانئے‘ اپنے فراض کو جانئے اور دین حق کی جو امانت خدا کے رسولؐ نے آپ کے سپرد کی تھی‘ اس کی ذمہ داریوں کا احساس کیجئے‘ فریضہ نبوت کی ادائیگی اب قیامت تک آپ (امتیوں) ہی کی ذمہ داری ہے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے آخری رسولؐ کی تعلیمات آپ کے پاس محفوظ ہیں اور ان کے ذریعے دوسرے بندگان خدا پر دین کی حجت تمام کرنا آپ کا فرض ہے۔ چنانچہ فرمایا:
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر۔
(آل عمران: ۱۱۰)
’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو‘ جسے بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تمہارا کام یہ ہے کہ نیکی اور بھلائی کا حکم دیتے رہو‘ اور برائی سے منع کرتے رہو‘‘
اور
وکذلک جعلنکم امۃ وسطًا لتکونوا شھداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیداً۔ (البقرہ: ۱۴۲)
’’ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم (ہمارے روبرو) دوسرے لوگوں پر اس امر کی شہادت دے سکو کہ دین حق کی جو امانت ہمارے رسولؐ نے تمہارے سپرد کی تھی وہ تم نے ان تک پہنچا دی اور ہمارا رسولؐ تم پر شہادت دے گا کہ ہم نے اپنے دین کی جو امانت اس کے سپرد کی تھی وہ اس نے تمہیں پہنچا دی‘‘
خدا کی اس امانت کو امت کے سپرد کرنے کے بعد اس کے متعلق حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(حدیث) والذی نفسی بیدہ لتامرن بالمعروف و لتنھون عن المنکر و لتاخذن علٰی ید المسی و لتاطرنہ علی الحق اطراً او لیضربن اللہ قلوب بعضکم علٰی بعض لو لیلعنکم کما لعنھم۔ (ابن کثیر‘ جلد نمبر۲‘ صفحہ ۸۳‘ تفسیر المائدہ آیت ۷۸۔۷۹)
’’اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے‘ تمہارے لیے لازم ہے کہ معروف کا حکم دو اور برائی سے لوگوں کو منع کرو اور بدکار کا ہاتھ پکڑو اور اسے حق کی طرف موڑ دو‘ ورنہ اللہ تعالیٰ بدکاروں کے دلوں کا زنگ معصیت حق پرستی کے دعوے داروں کے دلوں پر بھی چڑھا دے گا یا تم پر اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح یہود پر کی‘‘

دین میں دعوت اسلامی کی اہمیت:

ابتداء سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک انبیائے کرام کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان سب کی بعثت کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا:
رسلاً مبشرین و منذرین لئلا یکون الناس علی اللہ۔ حقہ بعد الرسل و کان اللہ عزیزاً حکیماً۔ (۴:۱۶۵)
’’یہ سارے رسولؐ خوشخبری دینے والے اورڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان کے مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت نہ رہے اور اللہ بہرحال غالب رہنے والا اور حکیم و دانا ہے‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی پر حجت تمام کرنے کے لیے اس سے عہد فطرت لینے اور نیک و بد کے امتیاز کی اہلیت انسان کو ودیعت کر دینے کے علاوہ یہ انتظام بھی فرمایا ہے کہ اپنے حضور جواب دہی کے لیے پیشی سے پہلے اپنے رسولوں کے ذریعے بھی اسے اصل حقیقت سے آگاہ اور اس کے خلاف رویہ اختیار کرنے کے برے نتائج سے متنبہ کر دیا جائے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی غلط راہ حیات اختیار کرتا ہے تو اس کی کوئی ذمہ داری خدا پر یا اس کے رسولوں پر عائد نہیں ہوتی‘ بلکہ یا تو خود اس شخص پر ہے کہ اس نے رسولوں کا پیغام اسے پہنچنے کے باوجود اس کو قبول نہیں کیا یا ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جن کو راہ راست معلوم تھی لیکن انہوں نے خدا کے بندوں کو ادھر ادھر بھٹکتے دیکھا لیکن انہیں آگاہ نہ کیا۔
برادران گرامی! داشمندی کی راہ یہ ہے کہ قبل اس کے کہ خدائے ذوالجلال کے روبرو پیشی اور جواب دہی کا وقت کسی لمحہ اچانک سامنے آجائے‘ اپنی کتاب زندگی اور کارنامہ حیات پر قرآن کی روشنی میں نظر ڈال کر دیکھ لینا چاہئے کہ جس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نازل اور اپنے آخری رسولؐ کو مبعوث فرمایا اور اپنے اس رسولؐ کے بعد اس نے جو کام ہم مسلمانوں کو ’’امت وسط‘‘ اور ’’خیر امت‘‘ بنا کر ہمارے سپرد کیا تھا‘ اس کو انجام دینے کی ہم نے کیا اور کہاں تک فکر کی ہے۔ قرآن و سنت سے یہ بات بہرحال روز روشن کی طرح واضح ہے کہ خدا اپنے بندوں سے صرف زبانی اقرار یا انفرادی تقویٰ و دینداری ہی کا مطالبہ نہیں کرتا‘ بلکہ جیسا کہ ابھی اوپر کے صفحات میں قرآن اور صاحب قرآن کے ارشادات کے ذریعے اختصار کے ساتھ واضح کیا گیا ہے‘ اپنی قوم‘ بلکہ جہاں تک پہنچنا ممکن ہو‘ تمام لوگوں کی اصلاح و ہدایت اب ہم پیروان خاتم النبیین کے ذمے ہے اور اگر ہم نے یہ کام نہ کیا یا اس میں کوتاہی برتی تو اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں غفلت برتنے کے ذمہ دار ہم خود ہوں گے۔ اس کام کے بارے میں غفلت کے لیے بھی ہمیں خدا کے روبرو اسی طرح جواب دہی کرنی ہوگی ج طرح کہ نماز‘ روزے اور دوسرے فرائض میں کوتاہی کے لیے کرنی ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی اس دنیا کی زندگی کی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو قوم اپنے نصب العین اور مقصد زندگی کو پس پشت ڈال دیتی ہے‘ اس کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق طرز عمل اختیار نہیں کرتی اور ان کے حصول کے لیے مسلسل ایثار و قربانی اور جدوجہد کرنے کے لیے کمربستہ نہیں رہتی تو اس کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا اسی طرح سے یقینی ہے جس طرح سے کہ تیل ختم ہو جانے کے بعد چراغ کا گل ہو جانا یقینی ہوتا ہے۔

دعوت کی راہ کا پہلا قدم:

ان حالات میں جب کہ اسلام کا باغ ویران ہو چکا‘ اس کے باغبان بھی اسے اپنے حال پر چھوڑ کر حصول دنیا کی دوڑ میں شریک ہو چکے‘ اور دنیا کی چکا چوند نے انہیں اس درجہ مرعوب اور اس کی متاع قلیل نے انہیں اس قدر موہ لیا ہے کہ کوئی مغربی ازموں کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور کوئی مشرقی ازموں کے لیے دیوانہ ہو رہا ہے اور ان کے سحر سے مسحور ہو کر دونوں گروہ اپنے ہاتھوں اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے اور ڈھانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں‘ تو اصلاح احوال کی راہ کا سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ اللہ کے دین اور اس کے مقتضیات اور اس سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو سمجھ کر اسے ایک مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے شعوری طور پر قبول کیا جائے اور اس عزم کے ساتھ قبول کیا جائے کہ اب آئندہ جب تک دم میں دم ہے‘ رگوں میں خون ہے اور حواس قائم ہیں‘ جانتے بوجھتے کوئی حرکت بھی ایسی نہیں کریں گے جو اسلامی طرز حیات و تصورات کے منافی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ:
قل انی امرت ان اکون اول من اسلم۔ (۶:۱۴)
’’یعنی ان سے کہو کہ اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ سب سے پہلے میں اس کے سامنے سر تسلیم خم کردوں‘‘
قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین لا شریک لہ و بذالک امرت و انا اول المسلمین۔ (۶:۱۶۲۔۱۶۳)
’’کہو‘ میری نماز (جسم و جان کی سب طاقتیں) میری قربانی (میرے سب مال و متال) میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہیں‘ جس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں‘‘

دعوت کی راہ کا دوسرا قدم:

اس راہ کا دوسرا قدم یہ ہے کہ گرد و پیش ہر طرف جو لاتعداد مسلمان دین حق سے غافل اور اس سے اپنی ناواقفیت اور ناسمجھی کی وجہ سے خلاف اسلام زندگی بسر کر رہے ہیں‘ انہیں بھی وہی کچھ کرنے کی دعوت دی جائے جو کچھ آپ نے سمجھا ہے۔ یعنی انہیں سمجھایا جائے کہ صحیح اور سچا مسلمان بننے اور بنے رہنے کے لیے ضروری ہے کہ دین اسلام کو صرف نظری اور اعتقادی حد تک ہی نہیں اپنے نظام حیات اور طرز زندگی کے طور پر اختیار کیا جائے‘ اسلام کا صرف زبانی اقرار جس کی تائید اعمال و افعال سے نہ ہو‘ خدا کے ہاں برات کے لیے کافی نہیں ہے اور نہ اس سے اللہ اور اس کے رسولؐ کا منشا پورا ہوتا ہے۔ نیز ان کو بتانا چاہئے کہ مسلم سوسائٹی کے جمود اور اس کے تعطل کو توڑنے اور مسلمانوں کو اسلامی نظام زندگی قائم کرنے کے فریضہ کا احساس دلانے اور لوگوں کو اسلامی عقیدے اور نصب العین کی طرف بلانے کی ذمہ داری ہر صاحب ایمان پر ہے۔ مسلمانوں میں کوئی برہمن یا پادری طبقہ باقی ملت اسلامیہ سے الگ کرکے مذہبی امور کے لیے مخصوص نہیں کر دیا گیا ہے۔ ہر مسلمان مبلغ ہے اور اپنی استعداد کے مطابق تبلیغ اسلام کا ذمہ دار ہے۔ جو لوگ ان باتوں کو سمجھ لیں‘ ان پر ایک طرف یہ واضح کیا جائے کہ خدا سے بے نیاز اور اس سے منحرف نظام کے اندر رہتے ہوئے مسلمانوں کی سی زندگی بسر کرنا کیوں اور کس قدر دشوار ہے‘ اور اس نظام میں اسلام کا کتنا حصہ عملاً معطل ہوگیا ہے اور باطل نظام ہائے زندگی کی بدولت دنیا میں کتنا فساد برپا ہے اور دوسری طرف توحید و رسالت پر ایمان لانے کی برکات اور اس کے تقاضے ایک ایک کرکے ان کے سامنے لائے جائیں‘ اور یہ کہ ان برکات کے حصول اور اپنے آپ نیز نوع انسانی کو موجودہ ظلم و فساد سے نجات دلا کر بے لاگ عدل و انصاف مہیا کرنے کے لیے بھی اسلامی نظام حیات کا قیام ضروری ہے اور یہ ایک بنیادی دینی فریضہ ہے اور دوسرے اجتماعی کاموں کی طرح یہ کام بھی منظم جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

اس راہ کا تیسرا قدم:

مسلمانوں میں جب اسلامی نظام قائم کرنے کا احساس پیدا ہو تو انہیں خود اس کی فکر ہوگی کہ ہمیں منظم ہو کر کام کرنا چاہئے۔ اس وقت ان کے سامنے تحریک اسلامی کے نصب العین اور طریق کار اور اس کے کام کو پیش کرکے ان سے متعارف کرا دیا جائے اور انہیں بتا دیا جائے کہ ہم یہ کام کر رہے ہیں اگر ہمارے اس کام اور طریق کار سے اطمینان و اتفاق ہے تو ہمارے ساتھ شریک ہو جائیے‘ اگر یہ نہیں اور کسی دوسری جگہ بھی آپ کے علم میں یہ کام ہو رہا ہے‘ اور وہاں آپ کو اطمینان ہے تو وہاں شریک ہو جائیے اور اگر یہ بھی نہیں تو پھر اپنے جیسے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر اس کام کے لیے اپنے آپ کو منظم کیجئے۔ بہرحال اقامت دین کے لیے جماعتی طریق پر منظم جدوجہد کے بغیر نہ دین کو برپا کیا جاسکتا ہے‘ نہ اس کا منشاء پورا ہوتا ہے اور نہ خدا کے حضور کوئی مسلمان اپنے اس دینی فریضہ سے بری الذمہ ہوسکتا ہے۔
ظاہر بات ہے کہ اس وقت جب کہ پوری دنیا پر باطل کا غلبہ اور کافرانہ نظام زندگی قاہرانہ قوت کے ساتھ چھایا ہوا ہے‘ اس کو ہٹا کر اس کی جگہ دین حق (نظام اطاعت الٰہی) کو قائم کرنا کوئی کھیل نہیں ہے۔ یہ انتہائی مشکل اور جان جوکھوں کاکام ہے۔ اس میں جان و مال بلکہ ہر چیز کے نقصان کا خطرہ ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان نقصانات ہی کو اس منزل کے نشانات راہ بتایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
ولنبلونکم بشئی من الخوف والجوع و نقص من الاموال والانفس و الثمرات ویشرالصبرین۔ (البقرہ: ۱۵۵)
’’ہم ضرور ہی تمہیں خوف و خطر‘ فقر و فاقہ‘ جان و مال کے اور پھلوں کے نقصانات میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے‘ جو لوگ اس کے باوجود ثابت قدم رہیں‘ ان کے لیے (ان کے رب کی طرف سے عنایات اور رحمت کی) بشارت ہے‘‘
اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ:
ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ ولما یعلم اللہ الذین جاھدوا منکم و یعلم الصبرین۔ (ال عمران:۱۴۳)
’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت میں چلے جائو گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جو فی الواقع اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں‘‘
نیز یہ کہ:
احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا وھم لا یفتنون و لقد فتنا الذین من قبلھم فلیسلعلمن اللہ الذین صدقوا ولیعلمن الکذبین۔ (العنکبوت: ۲۔۳)
’’کیا لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ محض (زبان سے) کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لے آئے‘ چھوڑ دئیے جائیں گے اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا؟ حالانکہ ان سے پہلے (سب) لوگوں کی آزمائش کی گئی؟ یقینا اللہ یہ معلوم کر کے رہے گا کہ کون اس سے اپنے عہد میں صادق ہیں اور کون محض زبانی جمع خرچ کرنے والے ہیں‘‘
ام حسبتم ان تترکوا ولما یعلم اللہ الذین جاھدوا منکم ولم یتخذوا من دون اللہ ولا رسولہ ولا المومنین ولیجۃ۔ (التوبہ: ۱۶)
’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس یوں ہی چھوڑ دئیے جائو گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون لوگ واقعی اللہ کی راہ میں لڑ جانے والے ہیں اور انہوں نے فی الواقع اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کے علاوہ کسی اور کو اپنا جگری دوست نہیں بنا رکھا ہے‘‘
اس لیے اگر دین حق اور اطاعت الٰہی کو رسماً نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے کہ فی الواقع اللہ کے سوا کسی اور کا الٰہ نہ ہونا ایک حقیقت ہے اور محمدؐ کے دامن کے سوا کہیں عافیت کی جگہ نہیں ہے‘ اور ہلاکت و بربادی اور حزن و خسران سے بچنے اور دنیا و آخرت میں کامیابی کی بس یہی ایک راہ ہے تو خوب جان لو کہ پھر تو یہ مکہ کی گلیوں‘ طائف کے بازاروں‘ غار ثور اور بدر و حنین کے میدانوں ہی میں سے گزر کر منزل تک پہنچتی ہے۔ اس لیے اس راہ کے مسافروں کو ان منازل میں سے گزرنے کی تیاری کرنی چاہئے۔ کتاب و سنت میں مومنین‘ صالحین‘ صدیقین‘ شہداء اور اس راہ کے مسافروں کی جو صفات بتائی گئی ہیں‘ ان کو اپنے اندر پرورش کرنا چاہئے‘ جو صفات منافقین‘ فاسقین اور ظالمین کی اور راہ حق میں روک بننے والی بتائی گئی ہیں‘ ان کو اپنے اندر سے دور کرنا چاہئے‘ اپنے کردار‘ اعمال‘ اخلاق‘ معاملات اور عبادات ہر چیز کو خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کی کسوٹی پر کس کو ان کی حقیقی قدر و قیمت معلوم کرتے رہنا چاہئے اور اللہ کی راہ میں جان و مال کی ساری قوتوں کے ساتھ جہاد کرنے کے جذبے‘ شوق اور ہمت و حوصلے کو بار بار ناپ کر اپنے ایمان اور اللہ سے اپنے تعلق کی گہرائی کا اندازہ کرتے رہنا چاہئے۔ آپ کا قلب خود بتاتا چلا جائے گا کہ آپ ایمان کے کس مقام پر ہیں؟

عبادت کا اصل مفہوم اور اس کی روح:

برادران عزیز! عبادت کے بارے میں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے کہ ’’عمل و عبادت‘‘ حقیقت میں نام ہے ان تمام افعال انسانی کا جو احکام الٰہی کے مطابق اور رضائے الٰہی کے لیے اخلاص و شعور کے ساتھ کیے جائیں۔ عمل و عبادت اس کے علاوہ کسی اور شے کا نام نہیں۔ نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اور دوسری اصطلاحی عبادات بھی صرف اسی صورت میں بادت میں شمار ہوں گی جب کہ انہیں احکام الٰہی کے مطابق ٹھیک وقت پر‘ مقرر طریقے سے اور مطلوب نیت کے ساتھ ادا کیا جائے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک کڑی بھی موجود نہ ہوگی تو قانون اور قاضی ممکن ہے ان کی صحت اور عبادت ہونے کا فتویٰ دے دیں مگر اللہ کے ہاں ان کا کوئی وزن نہ ہوگا۔۱؎
اس بات کو آپ مندرجہ ذیل مثالوں سے اچھی طرح سمجھ لیں گے:
(1)دیکھیے نماز کتنی اہم عبادت ہے۔ مگر اس کی رکعتوں میں ایک کی بھی کمی یا کسی جز میں اختصار تو درکنار ذرا دو کے بجائے تین‘ تین کے بجائے چار یا چار کے بجائے پانچ رکعت ادا کریں‘ الحمد کی چھوٹی سی سورہ کے بجائے کوئی بڑی سے بڑی سورہ یا باقی پورا قرآن بھی پڑھ دیں‘ اللہ اکبر کے بجائے کوئی اور کلمہ کہہ دیں‘ بلا طہارت یا زوال کے وقت نماز ادا کریں یا کسی اور شرط کی خلاف ورزی کردیں تو کیا یہ نماز عبادت میں شمار ہوگی؟ ہرگز نہیں۔ اگرچہ آپ نے دس منٹ کے بجائے آدھ پون گھنٹہ اس میں صرف کر دیا ہو۔
(2)روزہ کتنی بڑی عبادت ہے لیکن اگر اختتام سحری کے کچھ بعد تک کھاتے رہیں‘ افطار کے وقت بالارادہ تاخیر کر دیں‘ عید کے روز روزہ رکھ لیں‘ رمضان کی بجائے باقی سارا سال بھی روزے رکھتے چلے جائیں‘ تو کیا یہ فریضہ رمضان کا بدل بن سکیں گے؟ ہرگز نہیں۔ روزہ اسی صورت میں عبادت بنے گا جب کہ اسے ٹھیک خدا کے حکم کے مطابق رکھا جائے۔
(3)زکوٰۃ اہم دینی فریضہ ہے کہ اس کا انکار کرنے والوں کو مرتد قرار دے کر ان کے خلاف اعلان جہاد کر دیا گیا مگر بلا حساب کسی غلط جگہ اور کسی خلاف شریعت مصرف میں کوئی بڑی سے بڑی رقم دے دینا بھی‘ کیا زکوٰۃ کی ادائیگی کا قائم مقام ہو جائے گا؟ ہرگز نہیں‘ اگرچہ اس طرح زکوٰۃ کی واجب الادا رقم سے دس گنا زیادہ خرچ کر دیا جائے۔
(4 ) حج کس قدر عظیم عبادت ہے‘ مگر کسی کا مقرر ایام‘ مقرر طریق یا مقرر مناسک کی پابندی کیے بغیر مکہ و مدینہ کا چکر کاٹ آنا یا مقرر ایام کے سوا اس کا سارا سال بھی ان تمام چیزوں کو ادا کرتے رہنا جو حج کے مناسک ہیں‘ کیا حج کے فرض سے اسے سبکدوش کر دے گا؟ ہرگز نہیں۔
یہ سب اس لیے کہ ہمارے اعمال و افعال اور مراسم عبادات میں وہ اصل شے اور روح جو ان کو مقبول بناتی ہے۔ وہ صرف اللہ کی اطاعت کا جذبہ‘ اس کے احکام کی پابندی‘ اس کی حدود کا پاس اور اس کی رضا جوئی کی تڑپ ہے‘ نہ کہ کسی خاص نوع کی مراسم کو انجام دے دینا۔ چنانچہ اگر تندرست اور توانا آدمی کے لیے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا اور رمضان میں روزے رکھنا عبادت ہے تو اس کے مقابلے میں ایک بیمار آدمی کے لیے بیٹھ کر یا لیٹ کر نماز پڑھنا اور رمضان کے روزوں کے بعد کے لیے چھوڑ رکھنا عبادت ہے‘ اگر ایک دولت مند اور صاحب ثروت آدمی کے لیے زکوٰۃ ادا کرنا عبادت ہے تو ایک ضرورت مند اور مستحق زکوٰۃ مسلمان کے لیے اس کا وصول کرنا عبادت ہے۔ اگر ایک وقت کافی پانی موجود ہونے کی صورت میں وضو کرکے نماز ادا کرنا عبادت ہے‘ تو دوسرے وقت جب کہ پانی صرف پینے ہی کے لیے کافی ہوسکتا ہو اور کہیں قریب میں ملنے کی بھی توقع نہ ہو تو اس کی موجودگی کے باوجود تیمم کرکے نماز پڑھنا عبادت ہے۔ جیسے حضر (اپنے گھر پر ہونے کی صورت) میں پوری نماز پڑھنا عبادت ہے‘ ویسے ہی سفر کی حالت میں نماز قصر کرنا عبادت ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فی الحقیقت عبادت نام ہے اللہ کی اطاعت‘ اس کے احکام کی پابندی اور اس کی حدود کی پاسداری کا۔ پس انسانی زندگی کے جن جن کاموں میں اللہ کی اطاعت‘ اس کے احکام کی پابندی‘ اور اس کی حدود کی پاس داری شروع کر دی جائے‘ وہ سب عبادت الٰہی میں داخل ہوتے جائیں گے‘ حتیٰ کہ ایک کسان اگر دن بھر اللہ کے حدود کے اندر رہ کر سب کام کرتا ہے‘ وقت پر اٹھتا ہے‘ وقت پر نماز ادا کرتا ہے‘ وقت پر ہل چلاتا ہے‘ وقت پر بیج ڈالتا ہے‘ وقت پر کھیتی کو کھاد اور پانی دیتا ہے‘ وقت پر بیلوں کو چارہ ڈالتا ہے‘ اپنے بچوں سے پیار اور ان کے حقوق ادا کرتا ہے‘ ان کی صحیح طریق پر پرورش اور تربیت کرتا ہے‘ خدا کے خوف سے کسی سے خیانت اور کسی کی حق تلفی نہیں کرتا بلکہ اللہ اور اس کی مخلوق کے حقوق جو اس پر عائد ہوتے ہیں‘ ان سب کو اپنی حد تک ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ تو اس کی پوری زندگی عبادت ہے۔ حتیٰ کہ بقاء نسل انسانی کے فریضہ کے سلسلے میں حقوق زوجیت کی ادائیگی اور اپنے بیوی بچوں کی محبت و شفقت کے ساتھ نگہداشت بھی عبادت الٰہی میں داخل ہے‘ ایسا ہی شخص دراصل اللہ کے ذکر میں ہر وقت مشغول ہے اور کسی دم اللہ سے غافل نہیں ہوتا‘ اس کی زندگی وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون کا عملی نمونہ ہے‘ نہ کہ اس شخص کی زندگی جو صبح سے شام تک چند الفاظ کا بے جانے بوجھے ورد کرتا رہتا ہے اور پوری دنیا پر غلبہ کفر کو نہایت اطمینان سے دیکھ رہا ہے‘ بلکہ اسی کے اندر ترقی درجات کا خواہاں اور اس کے لیے کوشاں ہے‘ ایسے شخص کو تو خدا کے رسولؐ نے ایمان سے خالی قرار دیا ہے۔ چہ جائیکہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ وہ بڑا صاحب عمل اور خدا کا عبادت گزار بندہ ہے۔۱؎

روحانیت کیا ہے؟

’’عمل و عبادت‘‘ کے علاوہ ’’روحانیت‘‘ کا بھی ایسا غلط اور گمراہ کن تصور عام مسلمانوں میں رائج ہوگیا ہے کہ اس نے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو گمراہی میں ڈال رکھا ہے۔ اول تو حقیقت یہ ہے کہ کتاب الٰہی اور حدیث رسولؐ اس لفظ کے وجود ہی سے خالی ہیں۔ یہ کہیں بعد کی پیداوار ہے۔ وہاں تو صرف ایمان‘ اسلام‘ احسان‘ اطاعت‘ تقویٰ‘ اتباع رسول اور خشیت الٰہی کی اصطلااحات ملتی ہیں۔ بہرحال روحانیت کا اگر کوئی مفہوم ہے تو اس کے سوا کچھ نہیں اور نہ ہوسکتا ہے کہ انسان کی ’’روح‘‘ اس کی ’’حیوانیت‘‘ پر اس طرح قابو پالے کہ پھر زندگی کے کسی گوشے میں بھی اس کی حیوانی خواہشات اور نفسانی جذبات کسی حال میں اس کی ’’روح‘‘ پر غالب نہ آسکیں‘ بلکہ اس کی ’’روح‘‘ اس کی ان خواہشات اور جذبات کو اس قدر زیر کرلے کہ کوئی بڑے سے بڑا خوف و لالچ یا نفع و نقصان بھی اسے اطاعت الٰہی اور حدود اللہ کی پابندی و احترام سے نہ ہٹا سکے اور وہ دنیا کی سب چیزوں سے بے نیاز ہو کر اپنے جان و مال سب اللہ کی بندگی اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے وقف کر دے۔ یہی کمال انسانیت ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسی کو انسان کے لیے فوز عظیم قرار دیا ہے۔
ومن یطع اللہ و رسولہ فقد فاز فوراً عظیماً۔ (الاحزاب: ۷۱)
’’جس شخص نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کی راہ اختیار کرلی اس نے عظیم کامیابی حاصل کرلی‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
یا یھا الذین امنوا ھل ادلکم علیٰ تجارۃ تنجیکم من عذاب الیم۔ تومنون باللہ و رسولہ و تجاھدون فی سبیل اللہ باموالکم و انفسکم ذالکم خیر لکم ان کنتم تعلمون۔ یغفرلکم ذنوبکم و یدخلکم جنت تجری من تحتھا الانھرومساکن طیبۃ فی جنت عدن۔ ذلک الفوز العظیم۔ (الصف: ۱۱۔۱۲)
’’اے وہ لوگو‘ جو ایمان لائے ہو‘ کیا میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچا دے؟ اللہ اور اس کے رسول پر (سچے دل سے) ایمان لائو‘ اور اللہ کی راہ میں اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کرو۔ اگر تم جانو تو تمہاری بھلائی اسی میں ہے۔ ایساکرو گے تو اللہ تمہاری لغزشوں کو معاف کر دے گا اور تمہیں نعمت کے ایسے سدا بہار باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور ان میں تمہارے لیے صاف ستھرے رہنے کے گھر ہوں گے‘ (اس راہ پر چلنا اور ان چیزوں کو پالینا) یہ ہے سب سے بڑی کامیابی‘‘
اگر آپ کے رب کے نزدیک فوز و فلاح یہ ہے تو آپ اپنی کسی خود ساختہ تصور روحانیت کے ذریعے اور کس شے کی تلاش میں ہیں‘ اس کا حکم تو یہ ہے کہ:
و اذکروہ کما ھدلکم۔
’’اللہ کو اسی طرح یاد کرو جس طرح اس نے بتایا ہے‘‘
لہٰذا روحانیت حاصل ہوسکتی ہے تو اس کی ہدایت اور اس کے رسولؐ کی بتائی ہوئی راہ پر چل کر ہی حاصل ہوسکتی ہے۔
جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں‘ موجودہ زمانے کے بعض لوگ جس روحانیت کے پیچھے سرگرداں ہیں‘ وہ یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی طرف بلا ارادہ کھنچتا چلا جائے اور یہ دراصل نتیجہ ہوتا ہے طبیعتوں کی باہم مناسبت کا‘ اور اتحاد مقصد اور اتحاد عمل کا۔ جتنا زیادہ کوئی شخص دوسرے سے ان تینوں میں اشتراک رکھتا ہوگا اسی قدر زیادہ اس کی طرف کھنچتا چلا جائے گا‘ ورنہ کیا بات تھی کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت علیؓ وہی بات سن کر فوراً کھچ آتے ہیں‘ اور ابوجہل ابولہب وہی بات عمر بھر سنتے ہیں مگر مخالفت ہی میں شدید تر ہوتے چلے جاتے ہیں؟ اور اس وقت بھی کتنے کروڑ انسان ہیں جو گاندھی کے اشارے پر کٹ مرنے کو تیار ہیں‘ کتنے کروڑ ہیں جو ہٹلر اور سٹالن پر جان قربان کر رہے ہیں‘ کتنے کروڑ ہیں جنہوں نے سب کچھ چرچل اور روز ویلٹ پر نثار کر دیا ہے؟ کیا یہی کفار اس وقت دنیا میں صاحب روحانیت رہ گئے ہیں؟ اور پھر کیا وجہ ہے کہ ایک پیر صاحب کے مریدوں اور ایک گروہ کے لوگوں کو اپنے ہی پیر و مرشد میں روحانیت کے جلوے نظر آتے ہیں اور اسی کی طرف کشش محسوس ہوتی ہے؟ اور پھر کیا نوح ؑ‘ مسیح ؑ‘ اور بعض دوسرے انبیاء علیہم السلام میں بھی نعوذ باللہ روحانیت کی کمی تھی کہ چند انسانوں کے سوا وہ کسی کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب نہ ہوسکے؟
اس سلسلے میں حضرت جنیدؒ کی زندگی کا ایک واقعہ بیان کر دینا اصل مدعا کو واضح کرنے میں مدد گار ہوگا۔ روایت ہے کہ ایک شخص حضرت جنیدؒ کی ولایت اور بزرگی کا شہرہ سن کر شاید اسی قسم کی روحانیت کی تلاش میں ان کے پاس آیا۔ کچھ عرصہ ان کی صحبت میں رہا لیکن نہ تو کبھی اس نے اپنے آنے کی کوئی غرض بیان کی اور نہ ہی کوئی سوال کیا۔ آخر جب وہ رخصت کی اجازت کے لیے حاضر ہوا تو آپؒ نے پوچھا آپ کس کام کے لیے آئے تھے اور اب کیسے واپس جارہے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ ’’میں یہ سن کر آیا تھا کہ آپ بہت بڑے صاحب روحانیت اور ولی اللہ ہیں مگر میں نے اتنے دنوں میں کوئی خاص بات نہیں دیکھی‘‘ حضرت جنیدؒ نے پوچھا کہ ’’کیا آپ نے میری کوئی بات کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کے خلاف پای ہے؟‘‘ اس شخص نے جواب دیا کہ ’’نہیں‘ کوئی ایسی بات تو میں نے نہیں پائی‘‘۔ آپؒ نے فرمایا ’’تو بس جنیدؒ کے پاس تو یہی کچھ ہے۔
پس معلوم ہوا کہ قرآن و سنت کے کامل اتباع کے سوا ’’روحانیت‘‘ کا مفہوم کچھ اور لینا ہی سرے سے غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا پورا دین قرآن کریم میں بتا دیا اور اس کے رسولؐ نے اس کی عملی تشریح اپنی سنت اور اسوۂ حسنہ میں فرما دی۔ اور ان کے ساتھ ان کو سمجھنے کے لیے آدمی کو عقل سلیم اور اچھے اور برے کی تمیز دے دی گئی۔ اب جس کا جی چاہے‘ یکسو ہو کر اس راہ پر چل پڑے اور دنیا و آخرت کی بھلائی اور خدا کی خوشنودی حاصل کرے اور جس کا جی چاہے‘ کوئی اور راہ اختیار کرے۔ لیکن اگر کوئی شخص اللہ کی اطاعت و بندگی کے بغیر اس کے نفاذ کے لیے جدوجہد سے قطع نظر کرکے‘ محض کسی اور ریاضت یا ذہنی ورزش سے اللہ کی رضا جوئی اور اس کے ہاں فوز عظیم حاصل کرلینے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے‘ تو اسے جان لینا چاہئے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے ہاں اس کے لیے کوئی سند موجود نہیں۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ کے رسولؐ نے کچھ خاص باتیں یا نجات کا کوئی قریبی راستہ (Short Cut)اپنے کسی خاص عزیز یا مخصوص گروہ کے چند لوگوں کو بتایا جو قرآن و حدیث کے علاوہ ہے تو یہ ایک ایسا اتہام ہے جس کے بعد خدا کے رسولؐ پر اس شخص کے ایمان کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا۔ کیونکہ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ نعوذ باللہ رسولؐ نے اپنے اس کام میں کوتاہی کی جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے منصب نبوت عطا فرمایا تھا۔
یایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسلۃ۔
(۵:۶۷)
’’اے رسولؐ ‘ تیرے رب نے جو کچھ تیری طرف نازل کیا ہے‘ اسے (دوسروں تک) پہنچا دے اور اگر تو یہ نہ کرے تو تو نے گویا فرض رسالت ہی ادا نہیں کیا‘‘
جو لوگ انبیاء تک کے بارے میں اتنی بڑی جسارت کر ڈالیں ان کے رحمن کے بجائے شیطان کے بندے اور ایجنٹ ہونے میں کیا شبہ ہے؟ ہر شخص کے تقویٰ و بزرگی اور عمل و روحانیت کو صرف کتاب و سنت پر پرکھنے کی عادت ڈالیے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر وقت دوسروں ہی کو جانچتے پرکھتے رہنے کے بجائے خود اپنے آپ کو بار بار جانچتے اور پرکھتے رہئے اور اپنے فرائض انجام دینے کی فکر میں لگے رہیے۔ کیوں کہ ہر شخص کو دوسروں کے اعمال کی نہیں بلکہ اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔
لاتکسب کل نفس الاعلیھا ولا تزر و ازرۃ وزراً اخریٰ۔ (الانعام: ۱۶۵)
’’ہر شخص جو کچھ کرتا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہی ہے۔ کوئی بھی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘‘
لمن شآء منکم ان یتقدم اویتاخر کل نفس بما کسبت رھینۃ۔(المدثر: ۳۷۔۳۸)
’’تم میں سے جس کا جی چاہے آگے بھی کچھ بھیجے اور جس کا جی چاہے سب کچھ یہیں دنیا میں چھوڑ جائے‘ بہرحال ہر شخص اپنے کیے کے بدلے میں رہن ہے۔ کوئی شخص اپنے عمل کا حساب چکائے بغیر نہیں چھوٹے گا‘‘
اسلام میں عزت و سربلندی کا مفہوم:
’’عمل و عبادت‘‘ اور ’’روحانیت‘‘ ہی کا نہیں ’’عزت و ذلت‘‘ اور ’’سربلندی و پستی‘‘ کا مفہوم بھی اس زمانے میں سراسر الٹ گیا ہے۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں عزت و احترام اور عزاز و سربلندی کا واحد ذریعہ مال و دولت اور مادی وسائل کی کثرت رہ گیا ہے۔ بلندی اخلاق‘ پختگی کردار اور شرافت نفس اور تقویٰ و طہارت کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہی۔ حد یہ ہے کہ ایک بدتر سے بدتر انسان جو شرابی‘ زانی‘ جوئے باز‘ مفسد و رشوت خور‘ بددیانت‘ مکار اور حدود اخلاق کا اعلانیہ توڑنے والا ہے‘ اگر مال و دولت اور کچھ وسائل زندگی رکھتا ہے تو وہی سوسائٹی میں معزز و محترم اور ممتاز مانا جاتا ہے۔ اور ایک دوسرا شخص خواہ وہ کتنا ہی شریف النفس‘ صاحب اخلاق‘ بلند کردار‘ متقی اور خدا ترس ہو لیکن صرف اس لیے کہ مال و دولت میں دوسروں سے کمتر ہے‘ سوسائٹی میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ تہذیب و تمدن کے اپنے سارے دعووں کے باوجود ساری دنیا اس وقت ’’لکشمی پوجا‘‘ میں بری طرح مبتلا ہے۔ اب آپ کو اس بگڑی ہوئی سوسائٹی کو از سر نو صحیح بنیادوں پر قائم کرنا ہے اور اس کے لیے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اسلام میں شرف و بزرگی اور عزت و سربلندی نہ مال و دولت میں ہے‘ نہ قوت و غلبہ میں‘ نہ محلات و باغات میں اور نہ وردی و تمغات میں‘ بلکہ صرف اس امر میں ہے کہ کوئی شخص کتنا کریم النفس‘ بلند اخلاق‘ صاحب کردار‘ امانت دار اور خدا ترس ہے اور اللہ کی اطاعت و بندگی میں کس قدر بڑھا ہوا ہے۔
ان اکرمکم عند اللہ اتقکم۔ (۴۹:۱۳)
’’اللہ کے ہاں معزز وہ ہے جو تقویٰ اور خدا ترسی میں بڑھا ہوا ہو‘‘
ہاں ان کے ساتھ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے اسباب دنیا اور وسائل زندگی سے بھی نوازا ہو تو وہ اس کے لیے مزید عزت و شرف کا موجب ہے۔ لیکن انسانی اوصاف سے قطع نظر کرکے ہر دو ٹنگے جانور یا انسان نما درندے کو محض اس لیے احترام کا مستحق قرار دے لینا کہ وہ ریشم و حریر میں ملبوس ہے یا شال و پرنیاں کا جھول اس پر کسا ہوا ہے تو یہ کام عقل کے اندھوں اور انسان نما جانوروں ہی سے ہوسکتا ہے کیونکہ وہ بے چارے تو قوت و طاقت اور سامان خورد و نوش سے متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن اگر انسان بھی انہی کو عزت و بزرگی کا معیار بنا لیں تو ان کو چاہئے کہ جنگل کے جانوروں سے جاملیں۔ دراصل یہ صورت حال کا غیر شعوری نتیجہ ہے۔ اس ذہنیت کا جس کے تحت جدید فلاسفہ کے ایک گروہ نے اپنا سلسلہ نسب بھی حضرت آدم ؑ کے بجائے جنگل کے جانوروں ہی سے ملانے کی کوشش کی ہے۔ ایسے لوگوں کو انسان شمار کرنا تو کجا اللہ تعالیٰ نے انہیں جانوروں سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔
لھم قلوب لا یفقھون بھا ولھم اعین لا یبصرون بھا ولھم اذان لا یسمعون بھا اولئک کالا نعام بل ھم اضل۔ (اعراف: ۱۷۹)
’’ان کے پاس دل تو ہیں لیکن ان سے سمجھنے کاکام نہیں لیتے‘ ان کے پاس آنکھیں ہیں لیکن ان سے دیکھنے کاکام نہیں لیتے۔ ان کے پاس کان (بھی) ہیں لیکن ان سے سننے کی خدمت نہیں لیتے۔ یہ تو نرے جانور ہیں‘ بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں‘‘
انسان کے لیے شرمناک بات یہ نہیں کہ وہ مزدوری کرتا ہے‘ ٹوکری اٹھاتا ہے‘ دکان لگاتا ہے‘ جوتے بناتا ہے‘ کپڑا بنتا ہے‘ چھابڑی لگاتا ہے‘ بوجھ ڈھوتا ہے یا کسی ایسی ہی چھوٹی موٹی صنعت سے روٹی کماتا ہے‘ بلکہ اس کے لیے شرمناک بات یہ ہے کہ خواہشات نفس کا بندہ بن کر اپنا دل و دماغ اور ایمان و ضمیر دوسروں کے ہاتھ فروخت کر دے اور حرص دنیا سے اس درجہ مغلوب ہو جائے کہ جو پیشانی اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے ہی سامنے جھکنے کے لیے بنائی تھی اسے وہ جانوروں سے بدتر انسانوں کے سامنے جھکائے‘ جو زبان اس نے اپنی حمد و ثناء کے لیے دی تھی اس سے وہ غیر اللہ کی مدح سرائی اور خوشامد کرے اورجو قوتیں اللہ نے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلانے اور اپنی زمین کو امن و انصاف کا گھربنانے کے لیے دی تھیں‘ ان کو وہ نظام باطل کے قیام اور کفر و ضلالت کے فروغ کے لیے استعمال کرے اور پھر اسی کے معاوضے کو اپنا ذریعہ معاش بنائے۔ جھوٹ بولے‘ چوری اور خیانت کرے‘ رشوت کھائے‘ دوسروں کے حق مارے‘ ظلم و زیادتی کرے اور خدا کی نافرمانی کے دوسرے کام کرے۔ غالباً ایسے ہی لوگوں کی تمثیل اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت میں بیان فرمائی ہے:
ولکنہ اخلد الی الارض و اتبع ھواہ فمثلہ کمثل الکلب ان تحمل علیہ یلھت اوتترکہ یلھث‘ ذالک مثل القوم الذین کذبوا بایتنا فاقصص القصص لعلھم یتفکرون۔ (الاعراف: ۱۷۶)
’’لیکن وہ تو زمین (نفع دنیا) ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہشات نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا‘ حتیٰ کہ اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔ یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں‘ (ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں)۔ مگر تم یہ حکایات ان کو سناتے رہو‘ شاید کچھ غور و فکر سے کام لیں‘‘
پس س شرف و بزرگی اور سارے فخر و امتیازات اس شخص کے لیے ہیں جو اللہ کی نظر میں بڑا ہے‘ اور اللہ کے نزدیک بڑا وہی ہے‘ جو اس کی راہ ہدایت کو اختیار کرے‘ اسی سے ڈرے‘ اور جس نے اللہ کی دی ہوئی ساری قوتوں اور قابلیتوں کو اسی کی راہ میں لگا دیا ہو۔ یہی فی الحقیقت معراج انسانی اور انسان کے لیے فلاح و سلامتی کی راہ ہے۔
قرآن کریم نے اسی بات کو اس طرح بیان کیا ہے:
ان الحکم الا للہ امر الا تعبدوا الا ایاہ ذالک الدین القیم ولکن الناس لا یعلمون۔ (یوسف:۴۰)
’’حکم دینے کے سارے اختیارات تو اللہ ہی کے لیے ہیں۔ بندوں کو تو اس نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو۔ کیونکہ بندوں کے لیے صحیح طریق زندگی یہی ہے مگر بہت سے لوگ اس بات کو نہیں جانتے (اور فلاح و سلامتی کی اس راہ کو چھوڑ کر دوسرے راستوں پر چل رہے ہیں‘‘)
من اسلم وجھہ للہ و ھو محسن فلہ اجرہ عنہ ربہ ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ (البقرہ: ۱۱۲)
’’جو شخص اپنے آپ کو سر تاپا اللہ کی اطاعت میں دے دے اور پھر اس میں احساس کی روش اختیار کرے یعنی اس اخلاص و جانفشانی کے ساتھ خدا کی اطاعت کرے‘ گویا کہ اللہ سامنے موجود ہر آن اسے دیکھ رہا ہے‘ اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور ایسے لوگوں کے لیے کسی خوف یا رنج کا کوئی اندیشہ نہیں‘‘

دین اسلام صرف مسلمانوں کا دین نہیں یہ پوری نوع انسانی کا دین ہے:

برادران گرامی! اسلام کسی قوم یا ملک کا دین نہیں ہے کہ یہ اس خاص قوم یا ملک تک محدود ہے۔ یہ اللہ کا دین ہے‘ اس لیے یہ اس کی ہوا اور اس کے پانی کی طرح اس کی ساری مخلوق کے لیے ہے۔ جس طرح اس کی ربو بیت‘ اس کی رحمت اوردوسرے وسائل زندگی بلا تفریق رنگ و نسل سب انسانوں کے لیے یکساں ہیں‘ اسی طرح سے اس کی طرف سے آئی ہوئی راہ ہدایت اور اس کا دین بھی بلا تفریق رنگ و نسل تمام بنی نوع انسان کے لیے یکساں ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے پوری نوع انسانی کو ایک ساتھ خطاب فرمایا ہے اور سب کے سامنے ایک ہی جیسے دلائل رکھے ہیں کہ اپنے خالق اور رب کی بے آمیزبندگی (اسلام) کے سوا تمہارے لیے کوئی اور راہ عمل جائز اور درست نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کا سب سے پہلا خطاب ملاحظہ ہو:
یایھا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم والذین من قبلکم لعلکم تتقون۔ الذی جعل لکم الارض فراشاً و السمآء بناء و انزل من السمآء ماء فاخرج بہ منالثمرات رزقاً لکم فلا تجعلوا اللہ انداداً و انتم تعلمون۔ و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ وادعوا شھدآء کم من دون اللہ ان کنتم صدقین۔ (البقرہ: ۲۱۔۲۳)
’’لوگو‘ بندگی اختیار کرو اپنے اس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں ان سب کا خالق اور پروردگار ہے۔ تمہارے یہی روش اختیار کرنے سے اس دنیا میں تمہاری غلط روی سے اور آخرت میں اس کے عذاب سے بچنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا‘ آسمان کی چھت بنائی‘ اوپر سے پانی برسایا اور ا س کے ذریعے سے طرح طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق کا سامان کیا۔ ان سب باتوں کو جانتے بوجھتے تو دوسروں کو اللہ کے مدمقابل نہ ٹھیرائو۔ اور اگر تمہیں اس چیز (قرآن) کے خدا کی طرف سے ہونے میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے‘ تو اس کی مانند تم کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے‘ تو اس کی مانند تم کوئی ایک سورت ہی بنا کر دکھا دو‘ اور اس کام کے لیے تم ایک اللہ کو چھوڑ کر اپنے سارے حمائیتیوں کو اپنی مدد کے لیے بلالو‘‘
پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بھی کسی ایک قوم‘ ملک یا قطعہ زمین کے بسنے والوں کی رہنمائی کے لیے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لیے رحمت (رحمۃ اللعالمین) اور پوری نوع انسانی کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے اور اسے حکم دیا ہے کہ وہ اس حقیقت سے سب لوگوں کو آگاہ کر دے۔
قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً۔ الذی لہ‘ ملک السموات والارض لا الٰہ الا ھو یحی و یمیت فامنوا باللہ و رسولہ النبی الامی الذی یومن باللہ و کلمتہ و اتبعوہ لعلکم تھتدون۔ (الاعراف: ۱۵۸)
’’اے محمدؐ ‘ نوع انسانی سے کہہ دو کہ ’’اے انسانو‘ میں تم سب کی طرف اس خدا کے ہاں سے رسولؐ بنا کر بھیجا گیا ہوں جو زمین اور آسمان کی بادشاہی کا مالک ہے‘ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے‘ وہی زندگی بخشتا ہے‘ وہی موت دیتا ہے‘ پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی امی پر جو خود بھی اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے اور پیروی اختیار کرو اس کی‘ اس طرح امید ہے کہ تم راہ راست پالوگے‘‘
اور پھر اپنی کتاب کو بھی اس نے سب انسانوں کے لیے یکساں نصیحت اور ہدایت بنا کر بھیجا اور فرمایا:
ان ھو الا ذکر للعالمین لمن شاء منکم ان یستقیم۔ (التکویر: ۲۸)
’’(یہ قرآن) ساری دنیا کے لیے ایک نصیحت (حقیقت حال کی یاد دہانی ہے) اب تم میں سے جو چاہے سیدھی راہ اختیار کرلے (اور جو نہ چاہے نہ کرے)‘‘
تبرک الذی نزل الفرقان علٰی عبدہ لیکون للعالمین نذیراً۔ (الفرقان:۱)
’’بہت بابرکت ہے وہ اللہ‘ جس نے حق اور باطل میں فرق کر دینے والی یہ کتاب اپنے بندے (محمدؐ) پر اتاری تاکہ وہ دنیا والوں کو (حق و باطل) سے آگاہ کرے‘‘
شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس و بینت من الھدیٰ و الفرقان۔ (البقرہ: ۱۸۵)
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن جیسی کتاب نازل کی گئی جو تمام انسانوں کے لیے سر تاسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو صاف صاف راہ راست کی طرف رہنمائی کرنے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘

دین اسلام کو صرف مان لینا کافی نہیں ہے‘ اس کی تبلیغ اور اقامت بھی لازم ہے:

یہ واضح کر دینے کے بعد کہ خدا کے دین اور اس کے رسولؐ اور اس کی کتاب کی دعوت تمام انسانوں کی طرف عام ہے اور وہ سب اس کے یکساں مخاطب ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو بھی بالکل واضح فرما دیا ہے کہ اس کے دین کو صرف اپنی ذات کی حد تک مان لینا کافی نہیں ہے۔ بلکہ جو لوگ اس کے حق اور انسان کے لیے واحد صحیح راہ عمل ہونے کو تسلیم کریں‘ ان کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ اسے اپنے علاوہ اپنے گرد و پیش کی دنیا میں بھی جاری اور برپا کرنے کی انتہائی جدوجہد کریں‘ اور اگر ضرورت پیش آئے تو اس راہ میں حائل ہونے والی قوتوں سے جہاد بھی کریں۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے فرمایا کہ تم ’’مسلم‘‘ (خدا کے تابع فرمان) ہو۔ تمہیں ہم نے اپنے کام کے لیے منتخب کیا ہے اور تمہارا کام یہ ہے کہ اسلام کا جو عملی نمونہ ہمارے رسولؐ نے اپنی زندگی میں تمہارے سامنے پیش کیا‘ اسے تم اپنے دور کے لوگوں کے سامنے پیش کرو‘ چنانچہ رکوع و سجود اور نیکی اور بھلائی کے کاموں کی تاکید کرنے کے بعد فرمایا:
وجاھدوا فی اللہ حق جہادہ ھوا جتبکم وما جعل علیکم فی الدین من حرج ملۃ ابیکم ابراھیم ھو سمائکم المسلمین۔ من قبل و فی ھذا لیکون الرسول شھیداً علیکم و تکونوا شھدآء علی الناس۔ (الحج:۷۸)
’’اللہ کی بندگی اور اس کی رضا جوئی کی راہ میں جو قوتیں مزاحم ہوں‘ ان کے خلاف جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ یہ تمہارے باپ ابراہیم ؑ کا راستہ ہے۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام ’’مسلم‘‘ رکھا تھا اور اب اس (قرآن) میں بھی تمہارا یہی نام ہے تاکہ رسولؐ تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو (کہ جس طرح سے رسولؐ نے دین تمہیں پہنچایا اسی طرح سے تم اسے اپنے اپنے دور کے لوگوں تک پہنچائو‘‘
یہاں یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہئے کہ خدا کے دین کے سلسلے میں جو ذمہ داری رسولؐ پر تھی‘ وہی ذمہ داری اب قیام تک کے لیے حضورؐ کی امت پر ہے۔ جس طرح سے قیامت کے روز رسولؐ کو اس امر کا ثبوت پیش کرنا ہوگا کہ انہوںنے نہ صرف قولاً اس دین کی پوری تعلیمات کو ٹھیک ٹھیک امت تک پہنچا دیا بلکہ عملاً دکھا دیا کہ اسلام کے عقائد یہ ہیں‘ اس کے اخلاق‘ اطوار‘ تہذیب اور تمدن یہ ہیں۔ اس کی معاشرت‘ معیشت‘ سیست اور عدالت کے ڈھنگ یہ ہیں‘ اسی طرح سے امت کو بھی خدا کے حضور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس نے بھی ان چیزوں کو اپنے اپنے زمانے میں اپنی ہم عصر دنیا کے سامنے پوری طرح پیش کر دیا تھا۔ اس کے بغیر چھٹکارا نہیں ہوسکے گا۔ یہ کام اس قدر ضروری‘ اہم اور بنیادی ہے کہ فرمایا:
ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف وینھنون عن المنکر واوئک ھم المفلحون۔ (آل عمران: ۱۰۴)
’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرو ر رہنے چاہئیںجو نیکی کی طرف بلائیں‘ بھلائی کا حکم دیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے‘ وہی فلاح پائیں گے‘‘
مطلب یہ ہے کہ اصلاً تو ساری امت کی دوڑ دھوپ کا محور دعوت الی الخیر‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہونا چاہئے۔ لیکن کچھ لوگ تو لازماً ایسے مقرر ہونے چاہئیں جو اسی کام کے لیے وقف ہوں۔ باقی لوگ ان کے پشتیبان اور معاون و مددگار ہوں اور ضروری رسائل و ذرائع اس کام کے لیے فراہم کریں۔
اس کام کی اہمیت اور اس کے لزوم کا اندازہ اس امر سے باآسانی کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بعثت کی غرض یہ بتائی ہے کہ:
ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔
(الصف:۹)
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے رسولؐ کو دین حق اور ہدایت دے کر اس مقصد کے لیے بھیجا ہے کہ وہ اسے دوسرے تمام ادیان اور نظامہائے زندگی پر غالب کردے‘‘
یہی نہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو دنیا میں جاری اور برپا اور دوسرے تمام نظامہائے زندگی پر غالب کرنے کے لیے بھیجا تھا‘ بلکہ اللہ کا ہر رسول اسی مشن کو لے کر دنیا میں آیا۔ چنانچہ فرمایا:
شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحاً و الذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراھیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموا الدین۔ (الشوریٰ: ۱۳)
’’تمہارے لیے بھی وہی دین (نظام زندگی) مقرر کیا گیا ہے جو نوح ؑ کو دیا گیا تھا۔ (یہی نہیں بلکہ) جو دین تمہاری طرف وحی کیا گیا ہے‘ یہی ابراہیم ؑ ‘ موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ کو دیا گیا تھا (سب کو اسی بات پر مامور کیا گیا تھا کہ اس دین کو قائم اور برپا کرو‘‘
اگر خدا کا دین قائم نہ ہو اور اس پر کوئی دوسرا نظام زندگی یا نظریہ حیات غالب ہو تو خدا کے نزدیک یہ فتنہ و فساد کی صورت ہے جسے دور کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ جو لوگ اس فرض کو انجام نہیں دیتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ آخر ار ملیا میٹ کر دیتا ہے۔ فرمایا:
وقتلوھم حتیٰ لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ۔ (البقرہ: ۱۹۳)
’’تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے‘‘
صاف واضح ہے کہ اگر اللہ کے دین کے بجائے کسی دوسرے نظام زندگی کا غلبہ ہو تو خدا کے نزدیک یہ فتنے کی حالت ہے جسے ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا ضروری ہے۔ پچھلی امتوں کی اس فرض میں کوتاہی اور اس کی پاداش میں ان کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
فلولا کان میں القرون من قبلکم اولوا بقیۃ ینھون عن الفساد فی الارض الا قلیلاً ممن انجینا منھم واتبع الذین ظلموا ما اتر فوافیہ و کانوا مجرمین۔ وما کان ربک لیھلک القریٰ بظلم و اھلھا مصلحون۔ (ھود: ۱۱۶۔۱۱۷)
’’پھر کیوں نہ ان قوموں میں جو تم سے پہلے ہو گزری ہیں‘ ایسے اہل خیر موجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے۔ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت تھوڑے جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچا لیا۔ ورنہ ظالم انہی مزوں کے پیچھے پڑے رہے جن کے سامان ان کو فراوانی کے ساتھ دئیے گئے تھے اور وہ مجرم بن کر رہے۔ تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح میں لگے ہوں‘‘
پس اہل ایمان کے لیے لازم ہے کہ خدا کے دین کو جہاں وہ غالب اور حکمران نہیں ہے‘ اسے غالب اور حکمران بنانے کی امکانی کوشش کریں۔ اور اگر اس کے لیے کوئی کوشش ان کے گرد و پیش ہو رہی ہو تو دل و جان کے ساتھ اس میں شریک ہوں۔ اگر ایسی کوئی کوشش نہ رہی ہو یا ہو تو رہی ہے لیکن وہ اس سے مطمئن نہیں تو خود اس کام کے لیے اٹھیں اور اس فریضہ کو بہتر طریق پر انجام دے کر دوسروں کی رہنمائی کریں۔ بہرحال اس سے پہلو تہی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی کا جو انجام ہے اس سے ڈراتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
و اتقوا فتنۃ لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃ واعلموا ان اللہ شدید العقاب۔ (الانفال: ۲۵)
’’بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے‘‘
اور یہ صورت رونما کب ہوتی ہے‘ اس بارے میں فرمایا کہ:
فلما نسوا ماذکرو ابہ اجینا الذین ینھون عن السوء و اخذنا الذین ظلموا بعذاب بئیس بما کانوا یفسقون۔ (الاعراف: ۱۶۵)
’’آخر کار جب انہوں نے ان ہدایات کو بھلا دیا جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا‘‘
یعنی بچایا صرف ان لوگوں کو گیا جو اصلاح کی کوشش کرتے رہے۔ دوسرے سب کے سب عذاب میں پکڑ لیے گئے‘ وہ بھی جو بالفعل برائیوں میں مبتلا تھے اور وہ بھی جو گرچہ خود برائیوں میں مبتلا نہ تھے‘ لیکن دوسروں کو برائی سے روکتے نہیں تھے۔ اسی بات کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت کے ساتھ اس طرح فرمایا:
ان اللہ لا یعذب العامۃ بعمل الخاصۃ حتٰی یروا المنکر بین ظھر انیھم وھم قاددون علٰی ان ینکروہ فلا ینکروہ فاذا فعلوا ذالک عذب اللہ الخاصۃ والعامۃ۔
’’اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے جرائم پر عام لوگو ں کو عذاب نہیں دیتا جب تک کہ لوگوں کی یہ حالت نہ ہو جائے کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے برے کام ہوتے دیکھیں اور وہ ان کو منع کرنے اور ان کے خلاف اظہار ناراضی کرنے کی قدرت رکھتے ہوں اور پھر بھی نہ ان کو روکیں اور نہ ان پر اظہار ناراضی کریں۔ جب لوگوں کا یہ حال ہوتا ہے تو اللہ بلاتمیز خاص و عام سب کو عذاب میں پکڑ لیتا ہے‘‘
اللھم نعوذ بک من ذالک۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات سے یہ بات روز روشن کی طرح سے واضح ہو جاتی ہے کہ دین اسلام کو صرف ذاتی طور پر مان لینا کافی نہیں ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو اور ان کی امت ہونے کی حیثیت سے ہم پر واجب ہے کہ نہ صرف اس کی تبلیغ و اشاعت کریں بلکہ اس کی اقامت کی جدوجہد میں جان و مال کی بازی لگا دیں۔ کیونکہ اس کے بغیر دین حق پر ایمان لانے کا دعویٰ ایک دعویٰ بلا دلیل ہے۔

غیر مسلموں کے لیے اسلام کا پیغام:

آخر میں چند گزارشات اپنے غیر مسلم بھائیوں کی خدمت میں بھی پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ حق و صداقت کی اس دعوت کو اپنے غیر مسلم بھائیوں کے سامنے بھی پیش کریں اور پوری دل سوزی اور برادرانہ ہمدردی سے انہیں سمجھائیں کہ بھائی یہ ’’اسلام‘‘ ہمار یا کسی کی بھی ذاتی میراث نہیں ہے۔ یہ تمام اولاد آدم کی مشترک متاع ہے۔ یہ بنی نوع انسان کی فلاح کے لیے ہم سب کے خالق و مالک اور رب کے بتائے ہوئے وہ اصول ہیں جنہیں اختیار کرکے انسان دنیا و آخرت دونوں جگہ و نجات سے ہم کنار ہوسکتا ہے۔ اس لیے انہیں قبول کرنا آپ کی اپنی بھلائی ہے۔ اور اگر انہیں قبول نہیں کرتے تو ان اصولوں کا یا کسی اور کا تو کچھ نہیں بگڑتا‘ خود اپنے آپ ہی کو خسران میں ڈالتے ہو۔ اپنے سامنے پھیلی ہوئی خدا کی اس کائنات کا کھلی آنکھوں اور کھلے دل سے مشاہدہ کیجئے۔ ہر شے اصل حقیقت کی نشان دہی کرتی چلی جائے گی۔
چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ یہ سورج‘ چاند اور ستارے‘ یہ آگ‘ پانی اور ہوا‘ یہ پھل پھول اور نباتات‘ یہ لوہا‘ تانبا‘ سونا اور ساری کی ساری جمادات اور اس زمین و آسمان کی ایک ایک چیز ایک اٹل اور بے لچک قانون میں جکڑی ہیں‘ جس کے خلاف وہ بال برابر بھی جنبش نہیں کرسکتیں۔ چنانچہ آپ کے یہ دن رات اور ماہ و سال اور موسموں کی آمد و رفت اسی پر تو موقوف ہے کہ سورج‘ چاند اور زمین ایک قطعی اور اٹل قانون کے ماتحت بلا چون و چرا اپنے اپنے مقرر راستوں پر اپنی مقرر رفتار کے ساتھ مسلسل چلے جارہے ہیں‘ آپ کے پھل پھول اور باغات کی ساری رونق اسی کی تو مرہون منت ہے کہ زمین کی ہر پیداوار مختلف موسموں‘ اقسام زمین اور آب و ہوا کی اس طرح پابند بنا دی گئی ہے کہ ہر شے اپنے موسم‘ اپنے لیے مقرر قسم کی زمین اور آب و ہوا میں بے چون و چرا پیدا ہوتی‘ نشوونما پاتی اور پروان چڑھتی چلی جاتی ہے۔ آپ کی یہ ساری صنعتی ترقیاں اور کارخانے اسی وجہ سے توممکن ہوئے کہ ساری جمادات‘ آگ‘ پانی‘ بجلی اور دوسری سب اشیاء اور قوتیں جو اس کام کے لیے درکار ہیں‘ اٹل اور بالکل معین قوانین طبیعی اور کیمیاوی کی بے عذر اطاعت پر مجبور کر دی گئی ہیں‘ اور آپ کے سائنس کالج‘ ریسرچ سنٹر اور ہسپتال اسی یقین پر تو قائم ہوئے ہیں کہ اس کائنات کی ساری چیزیں کچھ قطعی اصولوں اور قوانین کی پابند ہیں‘ جن کے مطابق کام کرکے ہر شخص اور ہر قوم ان سے یکساں خدمت لے سکتے ہیں۔ جو لوگ معقولات اور سائنسی علوم سے کچھ بھی واقفیت رکھتے ہیں وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ انسان کے یہ سارے مایہ ناز علوم خواہ وہ علم الطبیعیات (Physics)ہو یا علم الکیمیا (Chemistry)‘ حیوانات (Zoology) ہو یا حیاتیات (Biology)‘ علم الابدان (Physiology) ہویا علم الادویہ (Medicine)‘ فلکیات (Astronomy)ہو یا ارضیات (Geology)‘ زراعت ہو یا انجینئرنگ یا کوئی اور شعبہ علم‘ سب خالق کائنات (Nature)کے ان اٹل اور قطعی قوانین و ضوابط کے مجموعوں پر مشتمل ہیں جو اس نے اپنی اس کائنات میں اپنی قوت قاہرہ کے ذریعے نافذ کر رکھے ہیں اور اب تک انسان کے علم میں آسکے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک اصول یا قانون و ضابطہ بلکہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا جز بھی کسی سائنس دان‘ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ بڑے سے بڑے کاریگر یا ماہر فن کا بنایا ہوا یا مقرر کردہ نہیں ہے۔ سائنس دان اور دوسرے سارے ماہرین فن ان اصولوں اور قوانین کو بناتے یا وضع نہیں کرتے‘ بلکہ مشاہدات و تجربات کے ذریعے صرف معلوم (Discover)کرتے ہیں کہ فلاں معاملے میں قانون طبعی (Law of Nature)یہ اور یہ ہے۔ نیوٹن (Newton)‘ گیلیلیو (Galileo)‘ کوپر نیکس (Copernicus)‘ رتھرفورڈ (Ruther Ford)یا آئن سٹائن (Einstein)اور دوسرے سائنس دان سب اس کائنات میں جاری بعض قوانین قدرت کو معلوم ہی کرنے والے تھے۔ کوئی بھی اپنے معلوم کردہ قوانین کو مقرر اور وضع کرنے والا نہیں تھا۔ اسی طرح سے یہ کیمسٹ اور دوا ساز‘ دوا سازی اور مرکبات تیار کرنے کے طریقے وض اور ان کی تاثیریں متعین نہیں بلکہ صرف تحقیق کرتے ہیں۔ ڈاکٹر لوگ بھی بیماری دور کرنے کے طریقے اور حفظان صحت کے اصول بناتے اور مقرر نہیں صرف معلوم ہی کرسکتے ہیں۔ آپ کے انجینئر بھی میکنکس (Mechanics)اور مشین سازی کے اصول و قواعد بناتے نہیں‘ معلوم کرکے ان کا اطلاق (Apply)ہی کرتے ہیں اور پھر فلکیات و ارضیات‘ حیوانیات اور حیاتیات وغیرہ کے ماہرین بھی کائنات کے ان مختلف گوشوں کے لیے ضابطے اور قوانین بناتے نہیں بلکہ ان کا علم حاصل کرکے ان کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ چونکہ ہر شے سے متعلق ان قوانین کو خالق کائنات نے اس کی فطرت میں اس طرح سے پیوست کر دیا ہے کہ وہ کسی حال میں اس سے الگ نہیں ہوسکتے‘ اس وجہ سے ان کو قوانین قدرت (Law of Nature)کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔
پھر اس بات سے بھی مجال انکار نہیں کہ ان سب قوانین و ضوابط کی تعین و ترتیب‘ وضع و تنقیذ یا باہمی تعلق میں کسی عام انسان کو تو کیا دخل ہوگا‘ کسی بڑے سے بڑے بادشاہ‘ ڈکٹیٹر‘ صدر جمہوریہ یا کسی پیر‘ پادری‘ پنڈت‘ پروہت یا سارے بنی نوع انسان کو اپنے سازوسامان سمیت بھی کوئی دخل نہیں۔ اور یہ سارے قوانین قدرت سورج سے لے کر ریت کے ذروں تک‘ بڑے سے بڑے بادشاہ اور ڈکٹیٹر سے لے کر ایک حقیر چیونٹی تک اور انبیاء و صلحاء سے لے کر فساق و فجار تک سب کے لیے اور سب پر یکساں طور پر نافذ العمل اور اٹل ہیں۔
اور پھر آپ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں ان قوانین سے انحراف اور ان کی خلاف ورزی ہی کا دوسرا نام بگاڑ ہے۔ مثلاً آپ ذرا مشینی ضوابط (Laws of Mechanies)کی خلاف ورزی کیجئے وہیں آپ کی مشین میں اس انحراف کے تناسب سے نقص پیدا ہو جائے گا‘ حفظان صحت کے اصولوں کو توڑئیے‘ آپ کی صحت و تندرستی رخصت ہو جائے گی۔ قوانین زراعت کی پابندی میں کوتاہی برتئے‘ آپ کے سب پھل پھول اور پودے برباد ہو جائیں گے‘ حتیٰ کہ زندگی کے کسی گوشے میں بھی قوانین فطرت کو نظر انداز کرکے دیکھئے وہیں خرابی و بگاڑ کی کوئی شکل سامنے آجائے گی۔ یہی نہیں بلکہ ہر مشین کی کارگزاری (Efficiency)صحت کی درستی‘ فصل کی افزونی اور دنیا کی ہر چیز کی ترقی اسی پر موقوف ہے کہ اس قانون قدرت کی زیادہ سے زیادہ پابندی کی جائے جو اس کے لیے خالق کی طرف سے مقرر کردیا گیا ہے۔ جو جس قدر زیادہ ان قوانین ضوابط اور اصولوں کو جانے اور برتے گا اسی قدر اس کو اس دنیا میں کامیابی اور ترقی اور اس کے ذرائع و وسائل پر تسلط و تصرف حاصل ہوتا چلا جائے گا۔ اس صورت حال سے کم سے کم طبعی زندگی کی حد تک تو یہ بات تجربے سے ثابت ہو جاتی ہے کہ ترقی و ارتقاء اور کامیابی اور غلبہ کا حصول قوانین قدرت کو ٹھیک ٹھیک جاننے اور ان پر عمل پیرا ہونے ہی کی صورت میں ہوتا اور ہوسکتا ہے۔ اور یہ قوانین و ضوابط سب اس خدا کے بنائے ہوئے اور جاری کردہ ہیں‘ جس نے اس کائنات کو بنایا ہے۔
حضرات گرامی قدر! جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی باقی کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کے لیے اور خود انسان کی طبیعی اور تکوینی زندگی کے لیے اٹل قوانین فطرت (Laws of Nature)بنا دئیے ہیں جن کی پابندی اور پیروی ہی میں انسان کے لیے امن و فلاح اور ترقی و ارتقاء ہے‘ عین اسی طرح سے انسان کی اخلاقی‘ سماجی اور اجتماعی زندگی کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اٹل اور قطعی قوانین اور اصول و ضوابط موجود ہیں جن کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرنے سے ہی انسانوں کو اس دنیا میں مکمل امن اور سکون کی زندگی اور مرنے کے بعد نجات اور سرخروئی حاصل ہوسکتی ہے مگر اس دنیا میں طبیعات و تکوین اور انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین قدرت (Laws of Nature)میں فرق یہ ہے کہ طبعی و تکوینی دائرے میں ان قوانین کو اللہ نے اپنی قوت قاہرہ سے بجبر نافذ کر دیا ہے اور انسانیت (اخلاق‘ معاشرت‘ معیشت و سیاست وغیرہ) کے دائرے میں ان کو بجبر نافذ کرنے کے بجائے اولاد آدم کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے کہ چاہے تو ان پر چلے اور نہ چاہے تو نہ چلے۔ چونکہ اس کائنات کا پورا طبعی نظام خدا کے طبعی قوانین (Laws of Nature)کے تابع ہے۔ اس لیے ان قوانین کی خلاف ورزی کا نتیجہ تو فوراً سامنے آجاتا ہے۔ لیکن اخلاقی اور اجتماعی زندگی سے متعلق قوانین الٰہی کے خلاف ورزی کا برا انجام فوراً ظاہر نہیں ہوتا اور بعض اوقات برسوں اور صدیوں تک اور کبھی اس دنیا میں سرے سے ہی ظاہر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں تک قوانین طبعی (سائنسی علوم) کا تعلق ہے‘ ان کو معلوم کرنے کاکام خود انسان ہی پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ مشاہدہ و تحقیق اور تجربات کے ذریعے ان کا علم خود حاصل کرے۔ لیکن اخلاقی اور اجتماعی زندگی سے متعلق قوانین الٰہی کی تعلیم اور تبلیغ کے لیے اللہ تعالیٰ نے کمال مہربانی سے کام لیتے ہوئے ہر ملک اور ہر قوم میں اپنے نبی اور رسول مقرر فرمائے‘ جنہوں نے نہ صرف یہ کہ خدا کی ساری کی ساری تعلیمات من و عن اور بلا کم و کاست اپنی اپنی قوم تک پہنچا دیں‘ بلکہ ان میں سے ایک ایک چیز پر عمل کرکے بھی دکھا دیا۔ اور تاریخ عالم گواہ ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں نظام زندگی ’’انبیاء کے بتائے ہوئے اصولوں پر قائم ہوا‘ یہ زمین جنت کا نمونہ اور امن و سلامتی کا گہوارہ بن گئی۔ چنانچہ کم و بیش ہر قوم اور ہر ملک کے لوگوں میں جس گزشتہ‘ ’’سنہری زمانے‘‘کے قصے اور کہانیاں اب تک مشہور چلے آتے ہیں‘ یہ سب دراصل اسی زمانے سے متعلق ہیں جب کہ اس قوم یا ملک کی زمام کار اور انتظام ملکی اللہ کے ان برگزیدہ بندوں یا ان کے ماننے والو ں کے ہاتھ میں تھے‘ یا پھر ان کے بتائے ہوئے اصولوں کے بیشتر حصہ کو لوگ عملاً اختیار کیے ہوئے تھے۔
اللہ کے ان سب نمائندوں نے اپنے اپنے وقت میں ہر جگہ لوگوں کو غیر اللہ کی بندگی سے نکال کر ایک ہی دین (خالق کل اور معبود حقیقی کی اطاعت و بندگی کے طریقے) پر جمع کیا اور انہیں بتایا کہ ایک اللہ کو چھوڑ کر جن جن کی بھی تم اطاعت و بندگی کرتے ہو‘ وہ سب تمہاری طرح اس کے بندے اور غلام ہیں۔ زمان و مکان اور انسانی زندگی کے مختلف ادوار میں تمدن کے فرق کی بنا پر بعض تفصیلات کے سوا ان سب کی ایک ہی تعلیم تھی اور وہ یہ کہ‘ یہ چاند‘ یہ تارے‘ یہ زمین و آسمان کی ساری قوتیں ایک خدا کی مخلوق ہیں۔ وہی تمہارا پیدا کرنے والا ہے‘ وہی رزق دینے والا ہے‘ وہی مارنے والا اور جلانے والا ہے۔ سب کو چھوڑ کر اسی کو پوجو‘ سب کو چھوڑ کر اسی سے اپنی حاجتیں طلب کرو‘ یہ چوری‘ یہ لوٹ مار‘ یہ شراب خوری‘ یہ جوا‘ یہ بدکاریاں جو تم کرتے ہو‘ سب گناہ ہیں‘ انہیں چھوڑ دو۔ خدا انہیں پسند نہیں کرتا‘ سچ بولو‘ انصاف کرو‘ نہ کسی کی جان لو‘ نہ کسی کا مال چھینو‘ جو کچھ لو حق کے ساتھ لو‘ جو کچھ دو‘ حق کے ساتھ دو‘ تم سب انسان ہو‘ انسان اور انسان سب برابر ہیں۔ بزرگی اور شرافت انسان کی نسل اور نسب میں نہیں‘ رنگ و روپ اور مال دولت میں نہیں‘ خدا پرستی‘ نیکی اور پاکیزگی میں ہے۔ جو شخص خدا سے ڈرتا ہے اور نیک و پاک ہے وہی اعلیٰ درجہ کا انسان ہے اور جو ایسا نہیں وہ کچھ بھی نہیں۔ مرنے کے بعد تم سب کو اپنے خدا کے پاس حاضر ہونا ہے۔ اس عادل حقیقی کے ہاں نہ کوئی سفارش کام آئے گی‘ نہ رشوت چلے گی‘ نہ کسی کا نسب پوچھا جائے گا‘ وہاں صرف ایمان اور نیک عمل کی پوچھ ہوگی‘ جس کے پاس یہ سامان ہوگا‘ وہ جنت میں جائے گا اور جس کے پاس ان میں سے کچھ نہ ہوگا‘ وہ نامراد دوزخ میں ڈالا جائے گا۔۱؎
اللہ کے سب نبیوں نے اپنے اپنے زمانے کے لوگوں کو دین کی یہی تعلیم دی۔ دین کے جو اختلافات انبیاء علیہم السلام کو ماننے والوں میں آپ پا رہے ہیں‘ یہ درحقیقت ان انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کی پیروی و اتباع کی وجہ سے نہیں بلکہ ان سے انحراف و غفلت اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی اور طلب دنیا کی دوڑ میں مجنونانہ مسابقت کی پیداوار ہیں۔ اس بات کی صحت کا اندازہ اس امر سے باآسانی کیا جاسکتا ہے کہ مختلف زمانوں اور اقوام میں آنے والے انبیاء علیہم السلام کے نام لیوا تو رہے ایک طرف‘ خود اپنی اس وقت موجودہ امت مسلمہ کا حال دیکھ لیجئے کہ خدا کی شریعت (قرآن و سنت)‘ جن کے وہ ہر معاملے میں آخری سند ہونے پر متفق اور ایمان رکھتے ہیں وہ دونوں ان کے درمیان اپنی اصل صورت میں موجود اور مکمل طور پر محفوظ ہیں‘ مگر اس کے باوجود مسلمان محض تاویل و تعبیر کے اختلافات کو طول دے کر مختلف فرقوں میں اس طرح بٹ گئے ہیں گویا کہ وہ مختلف مذاہب ہی نہیں‘ مختلف ادیان کے پیرو ہیں۔
پھر یہ بات بھی ساری دنیا کے مسلم و کافر تمام انسانوں کے سامنے بطور حقیقت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی مختلف انواع و اجناس (خواہ وہ جاندار ہوں یا بے جان) کے لیے اپنی طرف سے جو قوانین (Laws of Nature)مقرر فرمائے ہیں وہ ہر نوع اور ہر جنس کے تمام افراد و اجزا کے لیے بھی اور ان کے اجتماعی وجود و بقاء اور نشوونما کے لیے بھی ایک ہی ہیں۔ مکان و زمان کے اختلاف کی بنا پر کسی نوع یا جنس کے افراد اجزاء کے درمیان ان کے متعلق قوانین قدرت میں یا ان کے ان پر اطلاق میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ یعنی ہر نوع اور ہر جنس کے لیے جو ’’دین‘‘ اور ضابطہ حیات اللہ تعالیٰ نے اول روز تجویز اور مقرر فرما دیا وہی تاابد اس کا دین ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تمام انسان گورے ہوں یا کالے اور گندمی ہوں یا زرد اور شرقی ہوں یا غربی‘ سب ایک ہی نوع سے تعلق رکھتے ہوں‘ ایک ہی فطرت کے مالک ہیں۔ تو ان کے لیے ان کے خالق کی طرف سے زمان و مکان کے فرق کی بنا پر مختلف دین میں کیسے آسکتے تھے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء علیہم السلام کا ایک ہی دین لے کر آنا عقل کا تقاضا اور نقل سے ثابت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت ہم انسانوں پر واضح کرنے کے لیے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید میں فرمایا کہ تمہیں کوئی نیا دین دے کرنہیں بھیجا گیا بلکہ یہ وہی دین ہے جسے پہلے انبیاء علیہم السلام لے کر آتے رہے ہیں:
شرع لکم من الدین ما وصیٰ بہ نوحًا والذی او حینا الیک وما وصینا بہ ابراھیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموالدین ولا تتفرقوا فیہ۔ (الشوریٰ: ۱۳)
’’اس (اللہ) نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح علیہ السلام کو دیا تھا اور جسے (اے محمدؐ) اب تمہارے طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ابراہیم ؑ اور موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ کو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جائو‘‘
ان الدین عنہ اللہ الاسلام وما اختلف الذین اوتوا الکتب الا من بعد ماجاء ھم العلم بغیا بینھم۔ (آل عمران: ۱۹)
’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کیے جن کو کتاب دی گئی تھی‘ ان کے اس طرز عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آجانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا‘‘
آسمانی مذاہب کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی اصل وجہ کو مذکورہ بالا آیت میں صاف طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔
یہ امر بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ آسمانی کتب میں سے صرف قرآن کریم اور اللہ تعالیٰ کے نمائندگان فی الارض (انبیاء و رسل علیہم السلام) میں سے صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک ایسی ہستی ہیں جن کی سیرت و رہنمائی اس وقت دنیا میں بلا کم و کاست محفوظ ہے۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ جہاں گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے اسوہ اور ان کی تعلیمات کا اس وقت صحیح صحیح موجود ہونا تو درکنار‘ ان کے دو چار سو سال بعد بھی ان کے ٹھیک ٹھیک دنیا میں موجود ہونے کا ثبوت نہیں ملتا‘ وہاں گزشتہ تیرہ چودہ سو سال کے نشیب و فراز اور ’’مسلمان قوم‘‘ کی ساری نالایقیوں اور گراوٹوں کے باوجود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت آئی ہوئی پوری کی پوری تعلیمات آج بھی اسی طرح موجود و محفوظ ہیں جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوڑا تھا اور یہ کوئی اتفاق زمانہ کی بات نہیں‘ قرآن کریم نے بتا دیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسولؐ ‘ قرآن اللہ کی آخرت کتاب اور یہ دونوں آئندہ ہمیشہ کے لیے ہدایت کا واحد ذریعہ ہیں اور اس نور ہدایت کو متلاشیان حق کے لیے قیامت تک محفوظ رکھنے کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لے لیا ہے۔ فرمایا:
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون۔ (الحجر: ۹)
’’اس ذکر (قرآن کریم) کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے محافظ ہیں‘‘
اس بات کا ثبوت کہ یہ بات برحق ہے‘ کہیں باہر سے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں‘ کتاب و سنت کا ایک ایک شوشہ آپ کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ’’طالبان حق‘‘ کے لیے اب اس کے سوا چارہ نہیں کہ دوسرے تمام سرچشمہ ہائے ہدایت (جنہیں لوگوں نے اپنی تحریف و تصرف سے گدلا کر دیا ہے) کو چھوڑ کر صرف قرآن کریم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرف رجوع کریں‘ اور انہی سے رہنمائی حاصل کریں‘ ان اختلافات مذہب کو دور کرنے کے لیے ہی تو اللہ تعالیٰ نے سابقہ تعلیمات کو جو مختلف اقوام اور مختلف ممالک میں ابتداء سے وقتاً فوقتاً نازل کی جاتی رہی تھیں‘ یکجا کرکے قرآن کریم اور خاتم النبیین ؐ کی سیرت مقدمہ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا‘ اور بتا دیا کہ اللہ کی طرف سے آنے والے سب ہادیوں کی یہی تعلیم تھی‘ وہ سب اللہ کے سچے پیغامبر اور برگزیدہ بندے تھے‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان سب کو سچا تسلیم کرنا اور ان پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لیے لازمی شرط ہے‘ اور ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار انسان کو دائرۂ حق پرستی (دین اسلام) سے خارج کر دیتا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا:
قولو ا امنا باللہ وما انزل علینا وما انزل علیٰ ابراھیم و اسماعیل واسحاق ویعقوب والاسباط ومااوتی موسیٰ و عیسیٰ و النبیون من ربھم لا نفرق بین احد منھم و نحن لہ مسلمون۔ ومن یبتخ غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منہ و ھو فی الاخرۃ من الخسرین۔ (۳:۸۴۔۸۵)
’’اے محمدؐ ‘ کہو‘ ہم اللہ کو مانتے ہیں‘ اس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے‘ ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم ؑ ‘ اسماعیل ؑ ‘ اسحاق ؑ‘ یعقوب ؑ اور اولاد یعقوب علیہ السلام پر نازل ہوئی تھیں اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑاور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئیں۔ ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے فرمانبردار (مسلم) ہیں۔ اس فرمانبرداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا‘‘
پس ہم لوگ جو قرآن مجید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ان کے عمل کو اب واحد سرچشمہ ہدایت کے طور پر پیش کرتے ہیں تو اس کی وجہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم خوانخواستہ خدا کی طرف سے بھیجے جانے والے پہلے رسولوں کے خلاف کسی تعصب یا ضد میں مبتلا ہیں۔ ایسی کسی بات کا ادنیٰ ارتکاب بھی خود اسلام کی رو سے کفر میں مبتلا ہونا ہے۔ ہم یہ بات اس لیے کہتے ہیں کہ مذکورہ چشمہ ہدایت کے سوا کسی اور نبی اور رسول کی تعلیم اپنی اصل اور بے آمیز صورت میں کہیں موجود نہیں ہے۔ خدا کے دین اور اس کے تعلیم کردہ ضابطہ حیات کو معلوم کرنے کی اب ایک ہی ممکن صورت ہے اور وہ یہ کہ قرآن مجید اور سنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جائے۔ جو لوگ اپنے گرد و پیش کائنات میں پھیلے ہوئے کھلے ہوئے حقائق سے آنکھیں بند کرکے قیاس‘ فلسفوں اور تقلید آباء کی راہ پر چل رہے ہیں‘ ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ خدا کے رسول تو انسانوں کو بہت سے خدائوں سے چھڑا کر ایک خدا کی بندگی اور حق پرستی‘ عدل و انصاف‘ سچائی‘ امانت و دیانت‘ پاکیزہ عائلی زندگی اور امن و سلامتی کی راہ دکھانے اور ان کی تعلیم دینے آتے ہیں‘ وہ بتائیں کہ کیا ایک خالق کائنات کے بجائے بہت سے رب‘ خالص حق پرستی کے بجائے یہ تعصبات و تنگ نظری‘ سچائی کے بجائے مکر و فریب‘ عدل و انصاف کے بجائے ظلم و ستم‘ امانت و دیانت کے بجائے خیانت و بے ایمانی‘ نکاح و پاکیزگی اخلاق کے بجائے روز افزوں جنسی آوارگیذ امن اور سلامتی اور صلہ رحمی کے بجائے مردم آزاری اور برادر کشی‘ مختصراً یہ کہ کیا خدا اور اس کے رسولوں کی تعلیمات اور آخرت کی جواب دہی سے بے نیاز زندگی کو کسی طرح سے بھی مذہبی تو درکنار شریفانہ زندگی بھی قرار دیا جا سکتا ہے‘ اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو کم سے کم ’’دین حق‘‘ اور اس کے لانے والے کی سیرت سے واقف ہونے کی تو تکلیف فرمائیے۔ کسی بات یا طریقے کو قبول یا رد کرنے کا سوال تو بعد میں پیدا ہوتا ہے لیکن اس طرز عمل کو آپ کیسے صحیح کہہ سکتے ہیں کہ آدمی دوسرے سے ضد کی بنا پر اپنی آخرت کو خطرے میں ڈال دے اور بھلائی کو صرف اس لیے جاننے کی بھی کوشش نہ کرے کہ وہ دوسرا شخص بھی (جس سے اسے کسی بنا پر نفرت ہوگئی ہے) اسے اختیار کیے ہوئے ہے؟ کیا آپ اس تعصب کی وجہ سے جو آپ کو اپنے ملک کی ’’مسلم قوم‘‘ سے مادی مفادات کے لیے مدتوں کی کشمکش کے نتیجے ہی سے پیدا ہوگیا ہے‘ ان سب سچائیوں اور بھلائیوں کو چھوڑ دیں گے جنہیں ان مسلمانوں نے اختیار کر رکھا ہے یا جن کی نسبت انہوں نے اپنی طرف کر رکھی ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کو تو کوئی دانشمند آدمی عاقلانہ رویہ نہیں کہہ سکتا۔ نیکی اور بھلائی اور فلاح کی راہ تو انسان کو دوست دشمن جہاں سے ملے‘ حاصل کرلینی چاہئے اور پھر جب مسلمانوں سے تعصب کی بنا پر آپ نے وہ پانی پینا نہیں چھوڑا جو مسلمان پیتے ہیں‘ وہ رزق کھانا نہیں چھوڑا جو مسلمان کھاتے ہیں۔ زراعت‘ حفظان صحت‘ سائنس اور دوسرے قوانین طبعی اور وہ کاروبار کے اصول نہیں چھوڑے جو مسلمان بھی استعمال کرتے ہیں تو آخر انسانی فلاح کے لیے ان اصولوں کی جن کا نام عربی زبان میں ’’اسلام‘‘ یعنی اللہ کی اطاعت و بندگی کی راہ ہے‘ صرف اس بنا پر کیوں چھوڑ رہے ہو کہ مسلمان بھی اسے اپنے دین کہتے ہیں اور وہ بھی اسے اختیار کیے ہوئے ہیں؟
’’اسلام‘‘ کسی کی آبائی جائداد نہیں‘ یہ تو اسی کا ہے جو اس پر چلے‘ پاکستان یا ہندوستان کے لوگ اس پر چلیں تو ان کا ہے‘ عرب والے اس پر چلیں تو ان کا ہے‘ اور یورپ کے لوگ اسے اختیار کرلیں تو ان کا ہے۔ عبداللہ‘ رام داس‘ یا کرتارسنگھ کسی سے بھی ملک‘ قوم یا خاندان کی بنا پر اسے کوئی تعلق یا نفرت نہیں‘ اسے تو بس ان لوگوں کی ضرورت ہے جو اس راہ پر چلنے والے ہوں۔ خواہ ان کا کوئی ملک‘ قوم‘ رنگ یا خاندان ہو‘ حد یہ ہے کہ کسی بت گر کافر کا بیٹا اسے اختیار کرلے تو خلیل اللہ اور خدا کا دوست بن جائے گا اور نبی کا بیٹا اس پر چلنا چھوڑ دے تو وہ کفار و مشرکین میں شمار ہوگا‘ اور طوفان نوح میں غرق ہونے والے کے ساتھ ڈبو دیا جائے گا۔ اور پھر یہ دانشمندی تو نہیں ہے کہ انسانی فلاح کا ایک مکمل نظام جو خود خالق کل نے اپنے آخری رسولؐ کے ذریعے دیا‘ چودہ سو برس سے اپنی اصل صورت میں سرتاپا محفوظ ہے‘ اور تاریخ گواہ ہے کہ اس پر عملاً قائم ہونے والا نظام زندگی امن و سلامتی اور عدل و انصاف میں بس آپ ہی اپنی مثال تھا۔ اس نظام کا مطالعہ اور اس پر غور تک کرنے سے آدمی اس وجہ سے اجتناب کرے کہ اسے ایک ایسی قوم نے اپنی طرف منسوب کر رکھا ہے جس سے اس کی قوم کی سیاسی اور معاشی کشمکش ہے۔ حالانکہ اگر اس ملک کے مسلمانوں نے اس نظام زندگی کو فی الحقیقت اپنایا ہوتا اور اپنا طریق زندگی بنایا ہوتا تو یہاں کی پوری آبادی حق و صداقت اور فلاح انسانیت کی اس راہ پر متحد ہو کر شیر و شکر ہوگئی ہوتی۔ جن مسلمانوں سے ناراضی کی بنا پر آپ (ہمارے غیر مسلم بھائی) اسلام سے تعصب برت رہے ہیں‘ ان کا بحیثیت مجموعی اسلام سے اس سے زائد کیا واسطہ ہے کہ اپنے جلسوں جلوسوں میں ’’نعرہ تکبیر…… اللہ اکبر… اور ’’اسلام زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا لیتے ہیں اور جمعہ اور عیدین کے موقعوں پر کچھ لوگ رکوع و سجود کر لیتے ہیں‘ باقی معاملات زندگی ان کے کاروبار‘ لین دین‘ تجارتیں‘ سیاست‘ معیشت‘ قانون‘ حکومت اور دوسرے قومی اور اجتماعی امور اور طور طریقے سب اسلام سے آزاد و بے نیاز اور اسی ڈگر پر چل رہے ہیں جو دوسری اقوام کی ہے اور ہمارے اور آپ کے مشترک غیر ملکی آقائوں نے اس ملک میں رائج کی ہے۔ اس لیے مسلمانوں سے ضد میں اس خدا کے مقرر کردہ نظام سے تعصب برتنا‘ جو صرف مسلمانوں کا خدا نہیں ہے بلکہ رب الناس‘ ملک الناس اور الٰہ الناس ہے‘ کسی اور کا نہیں‘ اپنا ہی سب کچھ بگاڑنا ہے۔
پھر جب آپ پانی تک اسی خداوند عالم کا پیتے ہیں‘ رزق اس کا کھاتے ہیں‘ سانس اس کی ہوا میں لیتے ہیں‘ اپنے کھیت‘ کارخانے اور ورکشاپ میں اسی کے قوانین قدرت (Laws of Nature)کے مطابق عمل کرتے ہیں‘ صحت و تندرستی دیکھتے‘ سننے‘ سونگھنے‘ چھونے‘ گرمی و سردی سے استفادہ کرنے اور اپنے دل و دماغ اور اپنے گرد و پیش پھیلے ہوئے وسائل اور قوتوں کے سلسلے میں خدا ہی کے قوانین اور ضوابط قدرت پر چلتے ہیں اور یہ امر واقعہ بھی آپ کے سامنے ہے کہ طبعی و تکوینی دائرہ زندگی میں انسانی کامیابی و ترقی کا سارا انحصار خالق کائنات کے مقرر کردہ قوانین قدرت کو جاننے اور ٹھیک ٹھیک ان کے مطابق کام کرنے پر ہے‘ تو یہ بات سمجھنے میں کیا اور کیوں دشواری پیش آرہی ہے کہ انسانی زندگی کے اخلاقی‘ معاشرتی‘ اقتصادی و سیاسی یعنی اختیاری و نشریعی دائرے میں بھی انسانی فلاح و عافیت اور حقیقی و پائیدار ترقی و کامیابی کی راہ خدا کے مقرر کردہ قوانین قدرت (شریعت الٰہی) پر چلنے پر ہی منحصر ہے۔ لہٰذا طبعی و تکوینی زندگی کی طرح اپنے اختیار دائرہ زندگی میں بھی سرکشی اور دوسروں کی غلامی اور نقالی چھوڑ کر اس کے مقرر کردہ قوانین حیات پر چل کر ذرا دیکھ تو لو۔
خدا کے لیے ان بے اصل تعصبات اور عصبیتوں کو بالائے طاق رکھ کر کھلے دل سے خدا کی آخری کتاب اور اس کے آخری رسولؐ کی تعلیمات کا مطالعہ کیجئے۔ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور زندگی گھڑی کی چابی کی طرح سے ختم ہوتی چلی جارہی ہے۔ کیا عجب ہے کہ اللہ کے دین کا پرچم از سر نو بلند کرنے کاکام اب اسی ملک کے بسنے والوں سے لیا جائے اورپوری انسانیت جو اس وقت انسان نما درندوں کے ہاتھوں جان بلب ہو رہی ہے‘ اس تک اب انہی کے ہاتھوں یہ آب حیات پہنچایا جانا مقدر ہو چکا ہو۔ دعوت حق کا اس منزہ شکل میں اس دیار سے اٹھنا اور حضور کا پونے چودہ سو برس پہلے یہ مژدہ سنانا کہ مشرق سے مجھے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے‘ کیا عجب کہ اس کے رنگ لانے کا وقت آگیا ہو اور یہ سعادت اللہ اسی دور کے لوگوں کو عطا فرما دے۔
انسانی تاریخ کے اس نازک ترین مرحلے پر اب مسلمانوں کو بھی متنبہ ہو جانا چاہئے کہ یا تو وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھ کر اور شاہراہ اسلام پر سیدھی طرح قائم ہو کہ اس کی طرف دنیا کی رہنمائی کریں اور انبیاء علیہم السلام کے صحیح جانشین بن کر اپنے سپرد خدائی مشن کو سرانجام دینے کے لیے تیار ہو جائیں یا پھر اپنے اعمال و اخلاق سے اسلام کے لیے بدنامی کا موجب نہ بنیں کہ دنیا ان کے اخلاق اور طرز عمل کو اسلامی اخلاق اور اسلامی طرز عمل کا نمونہ سمجھ کر اسلام سے بدظن ہو رہی ہے‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا کے دین کی اس غلط نمائندگی پر غضب الٰہی بھڑک اٹھے۔
اللھم مصرف القلوب صرف قلوبنا علٰی طاعتک یا مقلب القلوب ثبت قلبی (و قلوب قومنا) علٰی دینک۔
’’اے اللہ دلوں کے پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔ اے دلوں کے بدلنے والے! میرے (اور میری قوم کے) دل کو اپنے دین پر جما دے‘‘
ربنا لا تزع قلوبنا بعد اذھدیتنا وھب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب۔ (آل عمران: ۸)
’’اے پروردگار! ہمیں راہ ہدایت دکھانے کے بعد ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ ہونے دے‘ ہمیں اپنی رحمت سے نواز‘ تو ہی فیاض حقیقی ہے‘‘

اور اس میں خواتین کا حصہ

’’ہم صرف ایک ہاتھ سے دین حق کی عمارت قائم نہیں کرسکتے۔ اس میں دوسرے ہاتھ یعنی عورت کا تعاون ضروری ہے۔ ہماری نسلوں کی پہلی تربیت گاہ ماں کی آغوش ہے۔ ماں کی چھاتی کے ایک ایک قطرۂ شیر کے ساتھ بچہ جذبات و حسیات اور اخلاق بھی اپنے اندر جذب کرتا ہے اور اس کی ایک ایک ادا سے عمل کے طریقے سیکھتا ہے۔ ماں اگر مومنہ و مسلمہ ہے تو بچے بھی مومن و مسلم ہوں گے۔ ماں اگر روح ایمان و اسلام سے خالی ہے تو بچے بھی روح و ایمان و اسلام سے محروم ہوں گے۔ ہم اپنی نسلوں کے تمام اثرات سے حفاظت کر بھی لیں تو بھی یہ بالکل ناممکن ہے کہ مائوں کے نیک و بد اثرات سے بچا سکیں‘‘
’’خیال تو کیجئے کبھی گنتی کے چند نفوس تھے لیکن زمین ان کے وجود سے تھرا اٹھی تھی۔ لیکن آج مردم شماری کے اعتبار سے مسلمانوں کی تعداد کس قدر زیادہ ہے مگر صفحہ گیتی کو خبر تک نہیں کہ کوئی اس کی پشت پر ہے۔ ہمیں خود بتانے کی ضرورت پڑتی ہے کہ ہم موجود ہیں۔ اگر عورتیں حضرت اسماءؓ کے نمونے پر چلیں گی تب ہی ان فرزندان اسلام کو پیدا کرسکیں گی جن کی موجودگی زمین کو محسوس ہوگی اور وہ پکار کر کہے گی کہ اس کے سینے پر کوئی اللہ کے راستے کا سوار ہے اور اگر انہوں نے یہ روش اختیار نہ کی تو وہ یونہی پیدا ہوتی اور مرتی رہیں گی مگر وہ لوگ نہ پیدا ہوں گے جن سے اسلام کا بول بالا ہو‘‘

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العلمین و الصلوٰۃ و السلام علیٰ رسولہ الکریم محمد و علیٰ الہ و اصحابہ اجمعین۔
محترم خواتین و حضرات! مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ اس شہر میں آکر مجھے مائوں اور بہنوں سے بھی کچھ کہنے کا موقع مل رہا ہے۔ ہمارے اس وقت میں غلط تعلیم و تربیت اور غلط روایات کے پھیلنے کی وجہ سے یہ حالت ہوگئی ہے کہ عورتیں جس طرح اپنی روٹی کپڑے کی ذمہ داری مردوں پر سمجھتی ہیں‘ اسی طرح دین کی ساری ذمہ داریاں بھی مردوں ہی پر خیال کرتی ہیں۔ حالانکہ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء کرام جو دین لے کر آئے ہیں۔ اس دین کی مخاطب عورتیں بھی اسی طرح ہیں جس طرح مرد ہیں۔ فرائض کے حدود ضرور مختلف ہیں لیکن دین کو اختیار کرنے‘ دین کو قائم کرنے‘ حق کی راہ میں جدوجہد کرنے‘ عنداللہ جوابدہ اور مسئول ہونے میں دونوں یکساں ہیں اور ایسے یکساں کہ اگر کوئی عورت ان حقوق و فرائض میں جو اللہ کی طرف سے اس پر عائد ہوتے ہیں‘ کوتاہی کرے گی تو خدا کے ہاں‘ اس سے اسی طرح پرسش ہوگی‘ جس طرح مرد سے اس کی کوتاہیوں پر ہوگی۔ وہ مسئولیت سے ہرگز نہیں بچ سکتی۔ اگر آپ اپنی تاریخ کو پڑھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کس طرح اقامت دین کی جدوجہد میں عورتوں نے مردوں کی برابر حصہ لیا ہے۔ یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دین کی دعوت دی تو سب سے پہلے جن لوگوں نے اس دعوت کو قبول کیا‘ ان میں ایک خاتون حضرت خدیجۃ الکبریٰ بھی ہیں۔ حالانکہ اس وقت اسلام کو قبول کرنا کوئی سہل کام نہ تھا۔ بلکہ دنیا جہان کی مصیبتوں کو مول لینا تھا۔ انہوں نے نہ صرف اسلام کو قبول کرنے میں سبقت کی بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھارس بندھانے والی غیبی تائید اور حق کی امداد کا یقین دلانے والی توکل اور بھروسہ کی تلقین کرنے والی بنیں۔ انہوں نے سب سے پہلے تسلی دی‘ سب سے پہلے دین حق کے اس علم کو اٹھایا اور ایسی وفاداریاں اور عشق و شوق کے ساتھ کہ ان کی وفاداری نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں اور تمام نسل انسان کے لیے قابل فخر ہے۔
ان کا مال اور ان کا دل و دماغ سب اسلام پر نثار ہوا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وفات کا سب سے زیادہ غم ہوا۔ اس لیے نہیں کہ آپ کی عزیز بیوی آپ سے جدا ہوگئیں بلکہ اس لیے کہ دین کا سب سے بڑا جان نثار دنیا سے اٹھ گیا۔
اہل حق پر سخت سے سخت دور آئے‘ کون سی مصیبتیں ہیں جو ان پر نہیں توڑی گئیں‘ کانٹوں میں گھسیٹے گئے‘ تپتی ہوئی ریت پر لٹائے گئے‘ گرم سلاخوں سے داغے گئے‘ بری طرح زود و کوب کیے گئے۔ ان مصیبتوں کو مردوں کی طرح عورتوں نے بھی سہا۔ بلکہ تکلیفیں جھیلنے اور شدائد و مصائب کو برداشت کرنے کی ان سے بہتر مثالیں مرد بھی پیش نہیں کرسکتے۔ لیکن یہ وہ حق پرست خواتین تھیں جنہیں کسی تدبیر سے بھی رام نہ کیا جاسکا۔ پھر جب وہ وقت آیا کہ مکہ کی فضا اہل حق کے لیے بالکل ہی ناساز گار ہوگئی‘ قریش نے مسلمانوں پر خدا کی زمین تنگ کر دی اور مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو اس میں بھی خواتین شریک تھیں۔ اس کے بعد ہجرت مدینہ کا مرحلہ پیش آیا تو جس طرح مردوں نے اپنے وطن اور اپنے اعزاء اور اپنے املاک و اموال کو خیر باد کہا اسی طرح عورتوں نے بھی سارے علائق کو ترک کرکے حق کا ساتھ دیا اور تاریخ اسلام کے بعد کے صبر آزما مرحلوں میں بھی عورتوں کی قربانی‘ ان کے استقلال و برداشت‘ ان کے اسلام سے تعلق کی ایسی شاندار مثالیں ملتی ہیں کہ اگر ان کو بیان کیا جائے تو داستان بہت طویل ہو جائے گی۔ میرے کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جب تک عورتیں اپنے درجہ کو ٹھیک ٹھیک سمجھتی تھیں اور جب تک یہ یقین دلوں میں جاگزیں تھا کہ اسلام کی دعوت کے مخاطب مرد و عورت دونوں ہی ہیں۔ اور اقامت دین کی ذمہ داری میں دونوں برابر کے شریک ہیں۔ عورتیں راہ حق کے جانباز سپاہیوں میں تھیں‘ اس راہ کی پتھر نہیں بنی تھیں۔ عرب کی معاشرت میں یوں بھی عورت کی منزلت بہت پست تھی۔ اس لیے مخالفین کو ان پر مظالم توڑنے کی اور بھی زیادہ سہولتیں حاصل تھیں۔ عورتوں نے ان تمام تلخیوں کو گوارا کیا اورعشق حق اور محبت رسولؐ کی ایسی روایتیں قائم کیں کہ ان کو سن کر آج بھی دلوں میں گرمی اور ایمان میں تازگی پیدا ہو جاتی ہے۔ احد کے معرکہ میں میں نبی کریمؐ اور آپ کے بہت سے رفقاء و اصحاب کو سخت حالات سے دو چار ہونا پڑا۔ اس معرکے میں بعض دوسری ناگوار افواہوں کے ساتھ یہ خبر بھی پھیل گئی کہ حضورؐ شہید ہوگئے۔ اس خبر کا مدینہ پہنچنا تھا کہ ایک انصاریہ خاتون گھر سے نکل پڑیں کہ جو وجود پاک دین حق جاننے کا واحد ذریعہ تھا کیا واقعی وہ بھی دست ستم کا نشانہ بن گیا؟ وہ مدینہ سے نکل کر سیدھے میدان جنگ کی طرف روانہ ہوگئیں۔ احد سے واپس آنے والا جو شخص ملتا اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حال دریافت کرتیں۔ بعض آدمیوں نے ان سے کہا کہ نہایت غم و افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ تمہارا نوجوان بیٹا‘ تمہارے والد اور تمہارے شوہر جنگ میں شہید ہوگئے۔ یہ خبر کس قدر صبر آزما تھی! ایک عورت کا کلیجہ پھاڑ دینے کے لیے ان میں سے کوئی ایک خبر بھی کافی تھی‘ ان کے عزیز ترین سہارے ایک ایک کرکے اس طرح رخصت ہوگئے تھے لیکن ان کا اسلام سے جو تعلق تھا‘ اس کا ذرا اثر دیکھئے! فرماتی ہیں…… ’’میں باپ‘ بیٹے اور شوہر کا ماجرا نہیں پوچھ رہی ہوں‘ یہ بتائو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ انہوں نے بشارت دی کہ الحمد للہ آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچا۔ بولیں کہ میں اس کو اس وقت تک باور نہیں کرسکتی جب تک روئے مبارک کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں۔ اس کے بعد حضورؐ کو صحیح و سالم دیکھ کر فرمایا: کل مصیبۃ بعزک جلیل اے رسول پاکؐ آپ کے ہوتے ہوئے ساری مصیبتیں ہیچ ہیں۔
یہ ایک واقعہ ہے جو بطور مثال کے میں نے پیش کیا ہے۔ عورتوں کی تاریخ بہت روشن ہے اور اسلام کا ہر دور ایسے بہت سے کارناموں سے معمور ہے۔ تاریخ اسلام کے اس دور میں بھی جب کہ مردوں کی ایمانی قوت کمزور ہوگئی تھی۔ ایسی عورتیں مل جائیں گی جن پر مسلمان فخر کرسکتے ہیں۔
اسلام نے اپنے روشن زمانے میں جس قدر جنگیں لڑیں۔ ان میں مردوں نے اگر تیر و خنجر چلائے اور زخم پر زخم کھائے‘ تو عورتوں نے پائنچے چڑھا کر زخمیوں کو پانی پلایا‘ ان کی مرہم پٹی کی‘ ان کی ڈھارس بندھائی‘ اپنے مال سے اپنے زیورات سے دین حق کی امداد کی۔ چھوٹی چھوٹی بچیوں نے جبکہ آپؐ کے نام لینے والے کم تھے۔ آپؐ کا خیر مقدم کیا۔ آپؐ کی تعریف کے گیت گائے اور آپؐ نے ان سے دریافت فرمایا کہ ’’اے بچیو! کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا‘ ہاں۔ ارشاد ہوا ’’میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں‘‘۔ مردوں میں سے کس گروہ کو یہ شرف حاصل ہوسکا۔
یہ اس دور کا حال تھا جب عورتیں جانتی تھیں کہ مرد عورت دونوں دین حنیف کے یکساں حامل اور یکساں مخاطب ہیں۔ اس وقت تک ہر وہ چیز جو راہ حق میں عائق بنی خواہ وہ کتنی ہی عزیز و محبوب کیوں نہ ہو‘ اس کو انہوں نے ٹھکرا دیا۔ محبوب سے محبوب شوہر جس کا رشتہ دین حق سے استوار نہ ہوتا‘ ان کی نگاہ میں مبغوض ہو جاتا۔ غریب سے غریب اور مفلس سے مفلس شوہر کو محض حق پرستی کی بنا پر انہوں نے محبوب بنایا۔ عورتوں نے اس چیز میں کبھی پست ہمتی نہیں دکھائی۔ شوہر نے اگر دین حق سے اعراض کیا تو عورت نے اس سے دامن چھڑا لیا۔ بیٹیوں تک کے رشتے انہوں نے دین کی خاطر توڑ ڈالے۔
اسلام کا اثر ان کے قلوب پر اس حد تک تھا کہ ان کی ساری نفرت و محبت للّٰہ و فی اللّٰہ تھی۔ مائوں کے لیے ان کے بیٹیوں کا دولت مند ہونا قابل ذکر چیز نہ تھی۔ اگر وہ خدا کی فرمانبرداری کے جذبے سے سرشار نہ ہوں‘ کسی شوہر کا بڑے سے بڑا ایثار ان کی نظر میں کوئی وقعت نہ رکھتا تھا۔ اگر وہ مومن نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں ہے۔ یہ اس روشن دور کی روداد ہے جبکہ عورتوں کو یہ احساس تھا کہ وہ بھی دین حق کے قائم کرنے کی ذمہ دار ہیں۔
اب دیکھئے کیسی کایا پلٹ گئی ہے۔ آج سمجھ لیا گیا ہے کہ جس طرح نان و نفقہ کی ذمہ داری مرد پر ہے اسی طرح دین کے لیے جدوجہد کرنا بھی مرد ہی کا فریضہ ہے۔ ان کی پہلی غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو شریعت الٰہی کا مخاطب نہیں سمجھتیں۔ حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت مردوں اور عورتوں کو یکساں دی ہے۔ اس غلط تصور نے ہماری اسلامی زندگی تہس نہس کر ڈالی ہے۔ اب حالات یہ ہے کہ عورتیں در حقیقت سوسائٹی کے تمام معائب و خرافات اپنے اندر اور اپنے بال بچوں اور شوہروں کے اندر پھیلانے کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ اور اگر انہیں ناگوار نہ ہو تو ذرا صاف الفاظ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ طاغوتی دور میں عورتوں نے شیطان کی ایجنسی لے رکھی ہے۔ تمام وہ وبائیں جو سوسائٹی میں پھیلتی ہیں‘ انہیں بری طرح متاثر کرتی ہیں اور ان سے ان کی نسلوں اور ان کی اولادوں میں پھیلتی ہیں۔ دیہاتوں میں حالات کچھ مختلف ہیں‘ مگر شہروں کے حالات بالعموم یہی ہیں۔
عورت کے بگڑنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تمام نسل کی ذہنی و اخلاقی حالت مسموم ہو جاتی ہے۔ کوی ماں اپنے بچہ کے منہ میں صرف دودھ ہی نہیں ڈالتی بلکہ اس کے ساتھ اپنے اخلاق کی روح بھی اس کی رگ رگ کے اندر اتارتی ہے۔ اگر اس کے اندر روح دین کمزور ہے‘ اخلاق انسانی اور حس ایمانی مردہ ہے تو اس سے زیادہ زہریلے جراثیم بچے میں سرایت کر جائیں گے جتنے ایک مدقوق ماں کا دودھ پینے سے ایک بچہ کے اندر پہنچ جاتے ہیں۔
صحیح اسلامی تربیت کا اصلی سرچشمہ اور بہترین ذریعہ ہماری مائیں ہیں۔ جب تک ہماری مائیں حضرت اسماء ؓ کے نمونہ کی تقلید نہ کریں گے کس طرح عبداللہ بن زبیر جیسے جانباز پیدا ہوسکیں گے؟ جب تک وہ راہ حق میں سولی پر چڑھ جانے والے بیٹے کو دیکھ کر نہ کہیں کہ اچھا ابھی مرکب سے یہ سوار اترا نہیں۔ اس وقت تک دارو رسن کا کھیل کھیلنے والے فرزند کن کی کوکھوں سے جنم لیں گے؟ انہی محترم خاتون سے جبکہ یہ اپنی بینائی کھو چکی ہیں‘ بیٹے نے آکر آزمائش کے طور پر ماں سے پوچھا ’’ماں میں اپنے آپ کو اعداء کے حوالے کر دوں یا معافی مانگ لوں‘‘۔ انہوں نے اپنے کمزور ہاتھوں سے آپ کو پکڑا‘ اور بدن کو چھو کر پوچھا کہ ’’یہ کیا پہن رکھا ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ’’زرہ‘‘ فرمایا ’’راہ حق کے مجاہدوں کو اس قسم کے پردوں کی ضرورت نہیں‘ اسے اتار دو اور راہ حق میں سینہ سپر ہو کر لڑو کہ کل کو تمہارے دشمنوں کو تم پر ہنسنے کا کوئی موقع نہ ملے‘‘
ہم صرف ایک ہاتھ سے دین حق کی عمارت قائم نہیں کرسکتے۔ اس میں دوسرے ہاتھ یعنی عورت کا تعاون ضروری ہے۔ ہماری نسلوں کی پہلی تربیت گاہ ماں کی آغوش ہے۔ ماں کی چھاتی کے ایک ایک قطرۂ شیر کے ساتھ بچہ جذبات و حسیات اور اخلاق بھی اپنے اندر جذب کرتا ہے اور اس کی ایک ایک ادا سے عمل کے طریقے سیکھتا ہے۔ ماں اگر مومنہ و مسلمہ ہے تو بچے بھی مومن و مسلم ہوں گے۔ ہاں اگر روح ایمان و اسلام سے خالی ہے تو بچے بھی اسی طرح ایمان و اسلام سے محروم ہوں گے۔ ہم اپنی نسلوں کی تمام اثرات سے حفاظت کر بھی لیں تو یہ بالکل ناممکن ہے کہ مائوں کے نیک و بد اثرات سے ان کو بچا سکیں۔
مردوں کی خرابی کے اثرات بھی مہلک ہیں مگر ان کی خرابی سے ممکن ہے کہ بچنے کی شکلیں پیدا ہو جائیں لیکن عورتوں کے بگاڑ کے خراب نتائج سے بچنا ناممکن ہے۔ ان کی پیدا کی ہوئی خرابی جڑ کی خرابی ہے‘ شاخوں اور تنے کی خرابی نہیں ہے‘ اس کا علاج ممکن ہے۔ اسی وجہ سے ان پر ذمہ داری بہت سخت ہے۔ یہ جو بیماریاں بچوں کو پلا دیں گی‘ کوئی ماہر سے ماہر طبیب بھی ان کا علاج نہیں کرسکتا۔ جو درخت اپنی نشوونما کے ابتدائی دور ہی میں آفت رسیدہ ہو جائے۔ پھر اس کا تن آور ہونا مشکل ہی ہوتا ہے۔ پس عورت کا فرض ہے کہ آج ہم دین کو تازہ کرنے کا جو عزم لے کر اٹھے ہیں‘ اس کام میں ہمارا ہاتھ بٹائیں ہم ان کی شرکت عمل کے سخت محتاج ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم عورتوں کو اب تک براہ راست مخاطب کرنے کے وسائل پیدا نہ کر سکے۔ میں مائوں اور بہنوں سے خدا کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں کہ وہ اپنی غفلت دور کر دیں‘ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں۔ یہ چیز ان کے فرائض میں سے ہے کہ وہ سمجھیں کہ اللہ کا دین کیا ہے‘ خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے؟ ہر ماں‘ ہر لڑکی اور ہر بہن کا یہ فریضہ ہے۔ پھر ان کے فرائض میں یہ بھی ہے کہ ان کے بطن سے جو بچے پیدا ہوں‘ ان کے اندر صرف دودھ ہی نہ اتاریں بلکہ اپنے عمل سے اپنے اخلاق سے اور روز کی زندگی سے ان میں ان تمام اساسات دین کو راسخ کر دیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا لب لباب ہیں‘ انہیں اپنی جدوجہد کے نتائج کی طرف سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ ان کا مرتبہ بہت اونچا ہے۔ ان کی باتیں بے اثر نہیں رہ سکتی ہیں‘ اپنے بچوں کو باقاعدہ حکم دے سکتی ہیں اور ہر سعید بیٹے کا فرض ہے کہ وہ اپنی ماں کے حکم کی تعمیل کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ کس کی خدمت کروں؟ آپؐ نے فرمایا‘ ماں کی۔ پھر یہی سوال کیا‘ فرمایا ماں کی‘ پھر یہی پوچھا‘ جواب دیا‘ ماں کی۔ چوتھی دفعہ پوچھنے پر فرمایا‘ باپ کی۔ لیکن شوہر کے ساتھ بیوی کا تعلق تعاون کا تعلق ہے۔ اور یہ تعاون دین و دنیا دونوں میں ہے۔ جس طرح گھریلو زندگی میں ایک بیوی کا فرض ہے کہ وہ شوہر کی وفادار‘ امانت دار اور خیر خواہ رہے‘ اسی طرح دینی معاملات میں بھی اس کا فرض ہے کہ وہ شوہر کو نیکی اور بھلائی کے مشورے دے اور اس کی گمراہیوں پر اس سے زیادہ بے چین ہو‘ جتنا دنیوی معاملات میں اس کی غلطیوںپر ہوتا ہے اور اس کام میں اسے جو دکھ بھی اٹھانے پڑیں‘ انہیں صبر کے ساتھ برداشت کرے‘ لیکن کبھی ٹھنڈے دل سے شوہر کی گمراہیوں کو گوارا نہ کرے۔ اگر کوئی شوہر نیک ارادہ کرے تو ہرگز ہرگز کوئی عورت محض رسم و رواج کی پابندی کی وجہ سے اس کے ارادۂ حق میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ وہ یہ ضرور معلوم کرے کہ دین حق کی تعلیم کیا ہے؟ اور جب معلوم ہو جائے کہ شوہر صحیح راستہ پر گامزن ہے تو اس سے تعاون کرے‘ اس کی ڈھارس بندھائے‘ اس کی حوصلہ افزائی کرے۔ عسرویسر ہرحال میں اس کی رفاقت و غمگساری کا یقین دلائے۔ حقیقت یہ ہے کہ بغیر اس کی رفاقت کے مرد کے لیے راہ حق کا سفر بہت دشوار ہے۔ یہی ایک کوچہ ہے جس میں میاں بیوی کی رفاقت سب سے زیادہ مطلوب اور اللہ کو پسند ہے۔ جو عورت دین حق کی اقامت کی راہ میں مرد کا دست و بازو بنتی ہے۔ اس مقصد کی خاطر مصیبتیں جھیلتی ہے اور فاقے کرتی ہے‘ وہی عورت امہات المومنین ؓ اور صحابیاتؓ کے مبارک نمونے پر ہے اور جو عورت اس راہ میں پتھر بنتی ہے تو وہ عورت وہ ہے جس نے شیطان کی ایجنسی لے رکھی ہے۔
ہماری اصلی دولت عورتوں ہی کے پاس ہے۔ نسلیں انہی کی تحویل میں ہیں۔ ان کا بٹھایا ہوا نقش قبر تک کھرچنے کے باوجود نہیں مٹتا‘ خواہ وہ نقش باطل بٹھائیں یا نقش حق۔ وہ چاہیں تو ان کے فیض تربیت سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو ہماری تاریخ کو از سر نو روشن کر دیں اور چاہیں تو اسی طرح کے لوگوں کو جنم دیں جیسے کہ آج کل کے مسلمان ہیں۔ خیال تو کیجئے کبھی گنتی کے چند نفوس تھے‘ لیکن زمین ان کے وجود سے تھرا اٹھی تھی۔ لیکن آج مردم شماری کے اعتبار سے مسلمانوں کی تعداد کس قدر زیادہ ہے‘ مگر صفحہ گیتی کو خبر تک نہیں کہ کوئی اس کی پشت پر ہے۔ ہمیں خود بتانے کی ضرورت پڑتی ہے کہ ہم موجود ہیں۔ اگر عورتیں حضرت اسماءؓ کے نمونہ پر چلیں گی تب ہی ان فرزندان اسلام کو پیدا کرسکیں گی جن کی موجودگی زمین کو محسوس ہوگی‘ اور وہ پکار کر کہے گی کہ اس کے سینے پر کوئی اللہ کے راستے کا سوار ہے۔ اگر انہوں نے یہ روش اختیار نہ کی تو دنیا یونہی پیدا ہوتی اور مرتی رہے گی۔ مگر وہ لوگ پیدا نہ ہوں گے جن سے اسلام کا بول بالا ہو۔
میں پھر اپنی مائوں اور بہنوں سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنی روشن تاریخ کو یاد کریں اور اس راہ پر چلنے کی کوشش کریں۔ ہم نے اپنے خدا سے جو مبارک عہد کیا ہے کہ ہم دین حق کو اپنے اوپر اور دوسروں پر قائم کریں گی اس میں وہ ہماری مدد کریں۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مردوں کو توفیق عمل دے اور عورتوں کو اس راہ میں ان کا رفیق سفر بنا دے۔ آمین!