ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔
عرضِ ناشر
مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ ۲۱ ویں صدی میں متکلمِ اسلام کے طور پر نمودار ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں اسلام کی حقانیت اور اس کی تعلیمات کو عام فہم اور دل نشین انداز و پیرائے میں پیش کیا ہے۔
زیرِ نظر کتابچہ ’’بنائو اور بگاڑ‘‘ اصل میں مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی ایک تقریر ہے جو انھوں نے ۱۰مئی ۱۹۴۷ء کو دارالاسلام، نزد پٹھان کوٹ (مشرقی پنجاب) کے جلسہ عام میں کی تھی۔
سامعین میں مسلمانوں کے علاوہ، بہت سے ہندو اور سکھ حضرات بھی شریک تھے۔ پسِ منظر میں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھا جائے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب سارا مشرقی پنجاب ایک کوہِ آتش فشاں کی طرح پھٹنے کے لیے تیار تھا اور تین ہی مہینے بعد، وہاں فتنہ و فساد کی وہ آگ بھڑکنے والی تھی جس کی تباہ کاریاں، اب تاریخِ انسانی کا ایک درد ناک ترین باب بن چکی ہیں۔
اسلامک پبلی کیشنز نے اس تقریر کو ’’بنائو اور بگاڑ‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں پیش کیا ہے۔ خدائے بزرگ و برتر کی بارگاہ میں التجا ہے کہ وہ ہماری اس خدمت کو دنیا میں اشاعتِ دینِ حق اور آخرت میں اپنی رضا اور خوش نودی کا ذریعہ بنائے۔ (آمین)
منیجنگ ڈائریکٹر
اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمٹیڈ لاہور
وضاحت
زیرِ نظر کتابچے میں چند تراکیب اور کچھ مشکل الفاظ کی تفہیم کے لیے حاشیے میں، ان پر نوٹ لکھا گیا ہے۔ یا کھڑے بریکٹ [ ] میں ان کے معانی یا کہیں عبارت میں ربط پیدا کرنے کے لیے کسی لفظ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ مصنف کی طرف سے نہیں، بلکہ ادارے کی طرف سے ہے۔
اسلامی تعلیمات کو عام فہم اور دل نشین انداز میں پیش کرنے کے لیے ہم احباب و قارئین کے مشوروں اور تجاویز کا بھی خیر مقدم کریں گے۔
(ادارہ)
بنائو اور بگاڑ
تعریف اور شکر اس خدا کے لیے ہیں جس نے ہمیں پیدا کیا، عقل اور سمجھ بوجھ عطا کی، بُرے اور بھلے کی تمیز بخشی، اور ہماری ہدایت و راہ نمائی کے لیے اپنے بہترین بندوں کو بھیجا، اور سلام ہو خدا کے اُن نیک بندوں پر، جنھوں نے آدمؑ کی اولاد کو آدمیّت کی تعلیم دی، بھلے مانسوں کی طرح رہنا سکھایا، انسانی زندگی کے اصل مقصد سے آگاہ کیا اور وہ اُصول اُنھیں بتائے جن پر چل کر، وہ دُنیا میں سُکھ اور آخرت میں نجات پا سکتے ہیں۔
قوموں کے عروج وزوال کا خدائی قانون
حاضرین و حاضرات! یہ دُنیا جس خدا نے بنائی اور جس نے اِس زمین کا فرش بچھا کر اِس پر انسانوں کو بسایا ہے، وہ کوئی اندھا دُھند اور الل ٹپ کام کرنے والا خدا نہیں، وہ چوپٹ راجا نہیں ہے کہ اس کی نگری اندھیرنگری ہو، وہ اپنے مستقل قانون، پختہ ضابطے اور مضبوط قاعدے رکھتا ہے، جن کے مطابق وہ سارے جہاں پر خدائی کررہا ہے۔ اس کے قانون سے جس طرح سورج، چاند، زمین اور تارے بندھے ہوئے ہیں، جس طرح ہوا، پانی، درخت اور جانور بندھے ہوئے ہیں، اسی طرح ہم آپ سب انسان بھی بندھے ہوئے ہیں۔ اس کا قانون جس طرح ہماری پیدائش اور موت پر ہمارے بچپن اور جوانی اور بڑھاپے پر، ہمارے سانس کی آمد و رفت پر، ہمارے ہاضمے اور خون کی گردش پر، ہماری بیماری اور تن درستی پر بے لاگ اور اٹل طریقے سے چل رہا ہے، ٹھیک اسی طرح اس کا ایک اور قانون بھی ہے جو ہماری تاریخ کے اُتارچڑھائو پر، ہمارے گرنے اور اٹھنے پر، ہماری ترقی اور تنزل پر اور ہماری ذاتی، قومی اور ملکی تقدیروں پر حکومت کر رہا ہے اور یہ قانون بھی اتنا ہی بے لاگ اور اٹل ہے۔
اگر یہ ممکن نہیں ہے کہ آدمی ناک سے سانس لینے کے بجائے، آنکھوں سے سانس لینے لگے اور معدے میں کھانا ہضم کرنے کے بجائے، دل میں ہضم کرنے لگے، تو یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ خدا کے قانون کی رُو سے، جس راہ پر چل کر کسی قوم کو نیچے جانا چاہیے، وہ اُسے بلندی پر لے جائے۔ اگر آگ ایک کے لیے گرم اور دوسرے کے لیے ٹھنڈی نہیں ہے تو بُرے کرتوت بھی، جو خدا کے قانون کی رُو سے بُرے ہیں، ایک کو گرانے والے اور دُوسرے کو اٹھانے والے نہیں ہو سکتے۔ جو اصول بھی خدا نے انسان کی بھلی اور بُری تقدیر بنانے کے لیے مقرر کیے ہیں وہ نہ کسی کے بدلے بدل سکتے ہیں، نہ کسی کے ٹالے ٹل سکتے ہیں، اور نہ اُن میں کسی کے ساتھ دشمنی اور کسی کے ساتھ رعایت ہی پائی جاتی ہے۔خدا کے اس قانون کی پہلی اور سب سے اہم دفعہ یہ ہے کہ:
وہ بنائو کو پسند کرتا ہے اور بگاڑ کو پسند نہیں کرتا۔
خدا اپنی زمین کا انتظام کسے دیتا ہے؟
مالک ہونے کی حیثیت سے، اس کی خواہش یہ ہے کہ اُس کی دُنیا کا انتظام ٹھیک کیا جائے، اُسے زیادہ سے زیادہ سنوارا جائے، اس کے دیے ہوئے، ذرائع اور اُس کی بخشی ہوئی قوتوں اور قابلیتوں کو زیادہ سے زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ وہ اِس بات کو ہر گز پسند نہیں کرتا، اور اُس سے یہ توقع کی بھی نہیں کی جا سکتی کہ وہ کبھی اسے پسند کرے گا کہ اُس کی دنیا بگاڑی جائے، اُجاڑی جائے، اور اسے بد نظمی سے ، گندگیوں سے اور ظلم و ستم سے خراب کر ڈالا جائے۔ انسانوں میں سے جو لوگ بھی دنیا کے انتظام کے امید وار بن کر کھڑے ہوتے ہیں‘ جن کے اندر بنانے کی، زیادہ سے زیادہ صلاحیت ہوتی ہے، اُنھی کو وہ یہاں انتظام کے اختیارات سپرد کرتا ہے۔
زیادہ بگاڑنے والے پھینکے جاتے ہیں
پھر وہ دیکھتا رہتا ہے کہ یہ لوگ بناتے کتنا ہیں اور بگاڑتے کتنا ہیں۔ جب تک اُن کا بنائو، ان کے بگاڑ سے زیادہ ہوتا ہے اور کوئی دُوسرا امید وار اُن سے اچھا بنانے والا اور ان سے کم بگاڑنے والا میدان میں موجود نہیں ہوتا، اس وقت تک اُن کی ساری بُرائیوں اور اُن کے تمام قصوروں کے باوجود، دُنیا کا انتظام اُنھی کے سپرد رہتا ہے، مگر جب وہ کم بنانے اور زیادہ بگاڑنے لگتے ہیں تو خدا اُنھیں ہٹا کر پھینک دیتا ہے اور دوسرے امیدواروں کو اِسی لازمی شرط پر انتظام سونپ دیتا ہے۔
باغ کے مالک اور مالی کی مثال
یہ قانون بالکل ایک فطری قانون ہے اور آپ کی عقل گواہی دے گی کہ اِسے ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اگر آپ میں سے کسی شخص کا کوئی باغ ہو، اور وہ اُسے ایک مالی کے سپرد کر دے تو آپ خود بتائیے کہ وہ اُس مالی سے اوّلین بات کیا چاہے گا؟ باغ کا مالک اپنے مالی سے اس کے سوا اور کیا چاہ سکتا ہے کہ وہ اس کے باغ کو بنائے نہ کہ خراب کرکے رکھ دے، تو وہ لازماً یہی چاہے گا کہ اس کے باغ کو زیادہ سے زیادہ بہتر حالت میں رکھا جائے، زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے، اس کے حُسن میں، اس کی صفائی میں، اس کی پیدا وار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو۔ جس مالی کو وہ دیکھے گا کہ وہ خوب محنت سے جی لگا کر، سلیقے اور قابلیت کے ساتھ اُس کے باغ کی خدمت کر رہا ہے، اس کی روشوں کو سنوار رہا ہے، اس کے اچھے درختوں کی پرورش کر رہا ہے، اس کو بُری ذات کے درختوں اور جھاڑ جھنکاڑ سے صاف کر رہا ہے اور اس میں جِدّت اور جودت سے عمدہ پھلوں اور پھولوں کی نئی نئی قسموں کا اضافہ کر رہا ہے، تو ضرور ہے کہ وہ اس سے خوش ہو، اسے ترقی دے اور ایسے لائق، فرض شناس اور خدمت گزار مالی کو نکالنا کبھی پسند نہ کرے۔ لیکن اس کے برعکس اگر وہ دیکھے کہ مالی نالائق بھی ہے، کام چور بھی ہے، اور جان بوجھ کر، یا بے جانے بوجھے، اس باغ کے ساتھ بد خواہی کر رہا ہے، سارا باغ گندگیوں سے اَٹا پڑا ہے، روشیں ٹوٹ پُھوٹ رہی ہیں، پانی کہیں بِلاضرورت بہہ رہا ہے اور کہیں قطعے کے قطعے سوکھتے چلے جا رہے ہیں، گھاس پھونس اور جھاڑ جھنکاڑ بڑھتے جاتے ہیں اور پھولوں اور پھل دار درختوں کو بے دردی کے ساتھ کاٹ کاٹ کر اور توڑ توڑ کر پھینکا جا رہا ہے‘ اچھے درخت مرجھا رہے ہیں اور خاردار جھاڑیاں بڑھ رہی ہیں، تو آپ خود ہی سوچیے کہ باغ کا مالک ایسے مالی کو کیسے پسند کر سکتا ہے۔ کون سی سفارش، کون سی عرض و معروض اور دست بستہ التجائیں، اور کون سے آبائی حقوق یا دُوسرے خود ساختہ حقوق کا لحاظ، اسے اپنا باغ ایسے مالی کے حوالے کیے رکھنے پر آمادہ کر سکتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ رعایت، وہ بس اتنی ہی تو کرے گا کہ اسے تنبیہ کرکے پھر ایک موقع دے دے، مگر جو مالی تنبیہ پر بھی ہوش میں نہ آئے، اور باغ کو اُجاڑے ہی چلا جائے، اس کا علاج اس کے سوا اور کیا ہے کہ باغ کا مالک، کان پکڑ کر اسے نکال باہر کرے اور دوسرا مالی، اُس کی جگہ رکھ لے۔
اب غور کیجیے کہ اپنے ایک ذرا سے باغ کے انتظام میں، جب آپ یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں تو خدا جس نے اپنی اتنی بڑی زمین، اتنے سروسامان کے ساتھ انسانوں کے حوالے کی ہے، اور اتنے وسیع اختیارات انھیں اپنی دُنیا اور اس کی چیزوں پر دیے ہیں، وہ آخر اس سوال کو نظر انداز کیسے کر سکتا ہے کہ آپ اس کی دنیا بنا رہے ہیں یا اُجاڑ رہے ہیں۔آپ بنا رہے ہوں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ آپ کو خواہ مخواہ ہٹادے۔ لیکن اگر آپ بنائیں کچھ نہیں اور اُس کے عظیم الشان باغ کو بگاڑتے اور اُجاڑتے ہی چلے جائیں تو آپ نے اپنے دعوے، اپنی دانست میں، خواہ کیسی ہی زبردست من مانی بنیادوں پر قائم کر رکھے ہوں، وہ اپنے باغ پر آپ کے حق کو تسلیم نہیں کرے گا۔ کچھ تنبیہات کر کے ، سنبھلنے کے دو چار مواقع دے کر، آخر کار وہ آپ کو انتظام سے بے دخل کر کے ہی چھوڑے گا۔
مالِک وملازم کے نقطۂ نظر کا فرق
اس معاملے میں خدا کا نقطۂ نظر، انسانوں کے نقطۂ نظر سے، اسی طرح مختلف ہے جس طرح خود انسانوں میں، ایک باغ کے مالک کا نقطۂ نظر، اس کے مالی کے نقطۂ نظر سے مختلف ہوا کرتا ہے۔ فرض کیجیے کہ مالیوں کا ایک خاندان، دو چار پشت سے ایک شخص کے باغ میں کام کرتا چلا آ رہا ہے۔ ان کا کوئی دادا پر دادا، اپنی لیاقت و قابلیت کی وجہ سے یہاں رکھا گیا تھا۔ پھر اُس کی اولاد نے بھی اچھا کام کیا۔ مالک نے سوچا کہ خواہ مخواہ انھیں ہٹانے اور نئے آدمی رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ جب کام یہ بھی اچھا ہی کر رہے ہیں تو ان کا حق ہے کہ انھیں برقرار رکھ لیتے ہیں۔
اس کے برعکس اگر وہ سِرے سے نہایت نالائق، بے سلیقہ، کام چور اور نافرض شناس ثابت ہوئے ہیں، باغ بانی کی کوئی صلاحیت ان کے اندر نہیں ہے، سارے باغ کا ستیاناس کیے ڈالتے ہیں اور اس پر ان کا دعوٰی ہے کہ ہم باپ دادا کے وقتوں سے اس باغ میں رہتے چلے آتے ہیں، ہمارے پردادا ہی کے ہاتھوں، اوّل اوّل یہ باغ آباد ہوا تھا، لہٰذا، ہمارے اس پر پیدائشی حقوق ہیں، اور اب کسی طرح یہ جائز نہیں کہ ہمیں بے دخل کر کے، کسی دوسرے کو یہاں کا مالی بنا دیا جائے۔ یہ ان نالائق مالیوں کا نقطۂ نظر ہے، مگر کیا باغ کے مالک کا نقطۂ نظر بھی یہی ہو سکتا ہے؟ کیا وہ یہ نہ کہے گا کہ میرے نزدیک تو سب سے مقدم چیز میرے باغ کا حسنِ انتظام ہے۔ مَیں نے یہ باغ تمھارے پردادا کے لیے نہیں لگایا تھا، بلکہ تمھارے پردادا کو اس باغ کے لیے نوکر رکھا تھا۔ تمھارے، اس باغ پر جو حقوق بھی ہیں، خدمت اور قابلیت کے ساتھ مشروط ہیں۔ باغ کو بنائو گے تو تمھارے سب حقوق کا لحاظ کیا جائے گا۔ اپنے پرانے مالیوں سے آخر مجھے کیا دشمنی ہو سکتی ہے کہ وہ کام اچھا کریں، تب بھی انھیں خواہ مخواہ نکال ہی دوں اور نئے امیدواروں کا بِلا ضرورت تجربہ کروں۔ لیکن اگر اس باغ ہی کو تم بگاڑتے اور اجاڑتے رہو، جس کے انتظام کی خاطر تمھیں رکھا گیا ہے تو پھر تمھارا کوئی حق مجھے تسلیم نہیں ہے۔ دوسرے امیدوار موجود ہیں، باغ کا انتظام ان کے حوالے کر دوں گا اور تمھیں، اُن کے ما تحت پیشِ خدمت بن کر رہنا ہو گا۔ اس پر بھی اگر تم درست نہ ہوئے اور ثابت ہوا کہ ماتحت کی حیثیت سے بھی، تم کسی کام کے نہیں ہو، بلکہ کچھ بگاڑنے ہی والے ہو، تو تمھیں یہاں سے نکال باہر کیا جائے گا اور تمھاری جگہ، خدمت گار بھی دُوسرے ہی لا کر بسائے جائیں گے۔
خدا اور بندوں کے نقطۂ نظر کا فرق
یہ فرق جو مالک اور مالیوں کے نقطۂ نظر میں ہے، ٹھیک یہی فرق، دُنیا کے مالک اور دنیا والوں کے نقطۂ نظر میں بھی ہے۔ دُنیا کی مختلف قومیں، زمین کے جس جس خطے میں بستی ہیں، اُن کا دعویٰ یہی ہے کہ یہ خطہ ہمارا قومی وطن ہے، پشت ہا پشت سے ہم اور ہمارے باپ دادا یہاں رہتے چلے آئے ہیں، اس ملک پر ہمارے پیدائشی حقوق ہیں، لہٰذا یہاں انتظام ہمارا اپنا ہی ہونا چاہیے، کسی دوسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ باہر سے آ کر یہاں کا انتظام کرے، مگر زمین کے اصلی مالک خدا کا نقطہ نظر، یہ نہیں ہے۔ اُس نے کبھی اُن قومی حقوق کو تسلیم نہیں کیا ہے، وہ نہیں مانتا کہ ہر ملک پر اُس کے باشندوں کا پیدائشی حق ہے، جس سے اُنھیں کسی حال میں بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ کوئی قوم اپنے وطن میں کیا کام کر رہی ہے۔ اگر وہ بنائو اور سنوار کے کام کرتی ہو، اگر وہ اپنی قوتیں زمین کی اصلاح و ترقی میں استعمال کرتی ہو، اگر وہ برائیوں کی پیدا وار روکنے اور بھلائیوںکی کھیتی سینچنے میں لگی ہوئی ہو تو مالکِ کائنات کہتا ہے کہ بے شک تم اس کے مستحق ہو کہ یہاں کا انتظام تمھارے ہاتھ میں رہنے دیا جائے۔ تم پہلے سے یہاں آباد بھی ہو اور اہل بھی ہو، لہٰذا تمھارا ہی حق دوسروں کی بہ نسبت مقدم ہے۔ لیکن اگر معاملہ برعکس ہو، بنائو کچھ نہ ہو اور سب بگاڑ ہی کے کام ہوئے جا رہے ہوں، بھلائیاں کچھ نہ ہوں اور بُرائیوں ہی سے خدا کی زمین بھری جا رہی ہو، جو کچھ خدا نے زمین پر پیدا کیا ہے، اُسے بے دردی کے ساتھ تباہ کیا جا رہا ہو اور کوئی بہتر کام اُس سے لیا ہی نہ جاتا ہو، تو پھر خدا کی طرف سے، پہلے کچھ ہلکی اور کچھ سخت چوٹیں لگائی جاتی ہیں، تاکہ یہ لوگ ہوش میں آئیں اور اپنا رویہ درست کر لیں۔ پھر جب وہ قوم اِس پر درست نہیں ہوتی تو اسے ملک کے انتظام سے بے دخل کر دیا جاتا ہے اور کسی دوسری قوم کو، جو کم از کم اس کی بہ نسبت اہل تر ہو، وہاں کی حکومت دے دی جاتی ہے۔
بات اس پر بھی ختم نہیں ہوتی، اگر ماتحت بننے کے بعد بھی، باشندگانِ ملک کسی لیاقت و اہلیت کا ثبوت نہیں دیتے اور اپنے عمل سے یہی ظاہر کرتے ہیں کہ اُن سے کچھ بھی بن نہ آئے گا، بلکہ کچھ بگڑ ہی جائے گا، تو خدا پھر ایسی قوم کو مٹا دیتا ہے اور دوسروں کولے آتا ہے جو اس کی جگہ بستے ہیں۔ اس معاملے میں خدا کا نقطۂ نظر، ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو مالک کا ہونا چاہیے۔ وہ اپنی زمین کے انتظام میں دعوے داروں اور امید واروں کے آبائی یا پیدائشی حقوق نہیں دیکھتا۔ وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ ان میں کون بنائو کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت اور بگاڑ کی طرف کم از کم میلان رکھتا ہے۔ ایک وقت کے امیدواروں میں سے، جو اس لحاظ سے اہل تر نظر آتے ہیں، انتخاب انھی کا ہوتا ہے اور جب تک اُن کے بگاڑ سے اُن کا بنائو زیادہ رہتا ہے، یا جب تک ان کی بہ نسبت زیادہ اچھا بنانے والا اور کم بگاڑنے والا کوئی میدان میں نہیں آ جاتا، اُس وقت تک انتظام انھی کے سپرد رہتا ہے۔
تاریخ کی شہادت
یہ جو کچھ عرض کر رہا ہوں، تاریخ گواہ ہے کہ خدا نے ہمیشہ اپنی زمین کا انتظام اسی اصول پر کیا ہے۔ دُو رکیوں جائیے، خود اپنے ہی ملک کی تاریخ دیکھ لیجیے۔ یہاں جو قومیں پہلے آباد تھیں ان کی تعمیری صلاحیتیں جب ختم ہو گئیں تو خدا نے آریوں۱؎ کو یہاں کے انتظام کا موقع دیا، جو اپنے وقت کی قوموں میں سب سے زیادہ اچھی صلاحیتیں رکھتے تھے۔ اُنھوں نے یہاں آ کر ایک بڑے شان دار تمدن کی بِنا رکھی، بہت سے علوم و فنون ایجاد کیے، زمین کے خزانوں کو نکالا اور انھیں بہتری میں استعمال کیا، بگاڑ سے زیادہ بنائو کے کام کر کے دکھائے۔ یہ قابلیتیں جب تک اُن میں رہیں، تاریخ کے سارے نشیبوں اور فرازوں کے باوجود، یہی اِس ملک کے منتظم رہے۔ دوسرے امید وار بڑھ بڑھ کر آگے آئے مگر دھکیل دیے گئے، کیوں کہ ان کے ہوتے، دوسرے منتظم کی ضرورت نہ تھی۔ ان کے حملے زیادہ سے زیادہ بس یہ حیثیت رکھتے تھے کہ جب کبھی یہ ذرا بگڑنے لگتے تو کسی کو بھیج دیا جاتا، تاکہ انھیں متنبہ کر دے، مگر جب یہ بگڑتے ہی چلے گئے اور انھوں نے بنائو کے کام کم اور بگاڑنے کے کام زیادہ کرنے شروع کر دیے، جب انھوں نے اخلاق میں وہ پستی اختیار کی جس کے آثار بام مارگی تحریک۲؎ میں آپ، اب بھی دیکھ سکتے ہیں۔ جب انھوں نے انسانیت کی تقسیم کرکے، خود اپنی ہی سوسائٹی کو ورنوں (فرقوں) اور ذاتوں میں پھاڑ ڈالا، اپنی اجتماعی زندگی کو ایک زینے کی شکل میں ترتیب دیا، جس کی ہر سیڑھی کا بیٹھنے والا، اپنے سے اُوپر کی سیڑھی والے کا بندہ اور نیچے کی سیڑھی والے کا خدا بن گیا، جب انھوں نے خدا کے لاکھوں کروڑوں بندوں پر، وہ ظلم ڈھایا جو آج تک اچھوت پن کی شکل میں موجود ہے، جب انھوں نے علم کے دروازے عام انسانوں پر بند کر دیے، اور اُن کے پنڈت، علم کے خزانوں پر سانپ بن کر بیٹھ گئے، اور جب ان کے کارفرما طبقوں کے پاس، اپنے زبردستی جمائے ہوئے حقوق وصول کرنے اور دوسروں کی محنتوں پر دادِ عیش دینے کے سوا کوئی کام نہ رہا، تو خدا نے آخر کار، اُن سے ملک کا انتظام چھین لیا اور وسطِ ایشیا کی اُن قوموں کو یہاں کام کرنے کا موقع دیا، جو اُس وقت اسلامی تحریک سے متاثر ہو کر، زندگی کی بہتر صلاحیتوں سے آراستہ ہو گئی تھیں۔
ہندستان پر مسلمانوں کا اقتدار
یہ لوگ سیکڑوں برس تک یہاں کے انتظام پر سرفراز رہے، اور ان کے ساتھ خود اس ملک کے بھی بہت سے لوگ، اسلام قبول کر کے شامل ہو گئے۔ اس میں شک نہیں کہ ان لوگوں نے بہت کچھ بگاڑا بھی، مگر جتنا بگاڑا، اس سے زیادہ بنایا۔ کئی سو برس تک ہندستان میں بنائو کا جو کام بھی ہوا، انھی کے ہاتھوں ہوا، یا پھر ان کے اثر سے ہوا۔ انھوں نے علم کی روشنی پھیلائی، خیالات کی اصلاح کی، تمدن و معاشرت کو بہت کچھ درست کیا، ملک کے ذرائع و وسائل کو اپنے عہد کے معیار کے لحاظ سے، بہتری میں استعمال کیا اور امن و انصاف کا وہ عمدہ نظام قائم کیا جو اگرچہ اسلام کے اصلی معیار سے بہت کم تھا، مگر پہلے کی حالت اور گردوپیش کے دوسرے ملکوں کی حالت سے، مقابلہ کرتے ہوئے کافی بلند تھا۔
اس کے بعد وہ بھی اپنے پیش روئوں کی طرح بگڑنے لگے۔ ان کے اندر بھی بنائو کی صلاحیتیں گھٹنا شروع ہوئیں اور بگاڑ کے میلانات بڑھتے چلے گئے۔ انھوں نے بھی اُونچ نیچ اور نسلی امتیازات اور طبقاتی تفریقیں کر کے، خود اپنی سوسائٹی کو پھاڑ لیا، جس کے بے شمار اخلاقی، سیاسی اور تمدنی نقصانات ہوئے۔انھوں نے بھی انصاف کم اور ظلم زیادہ کرنا شروع کر دیا۔ وہ بھی حکومت کی ذمہ داریوں کو بھول کر، صرف اس کے فائدوں اور زیادہ تر نا جائز فائدوں پر نظر رکھنے لگے۔ انھوں نے بھی ترقی اور اصلاح کے کام چھوڑ کر، خدا کی دی ہوئی قوتوں اور ذرائع کو ضائع کرنا شروع کیا، اور اگر استعمال کیا بھی تو زیادہ تر زندگی کو بگاڑنے والے کاموں میں کیا۔ تن آسانی و عیش پرستی میں وہ اتنے کھوئے گئے کہ جب آخری شکست کھا کر، اُن کے فرماں روائوں کو دلی کے لال قلعے سے نکلنا پڑا تو ان کے شاہ زادے ____ وہی جو کل تک حکومت کے امیدوار تھے____ جان بچانے کے لیے بھاگ بھی نہ سکتے تھے، کیوں کہ زمین پر چلنا انھوں نے چھوڑ رکھا تھا۔
مسلمانوں کی عام اخلاقی پستی اس حد کو پہنچ گئی کہ ان کے عوام سے لے کر، بڑے بڑے ذمہ دار لوگوں تک، کسی میں بھی اپنی ذات کے سوا دُوسری کسی چیز کی وفاداری باقی نہ رہی، جو انھیں دین فروشی، قوم فروشی اور ملک فروشی سے روکتی۔ ان میں ہزاروں لاکھوں پیشہ ور سپاہی پیدا ہونے لگے جن کی اخلاقی حالت، پالتو کتوں کی سی تھی کہ جو چاہے روٹی دے کر، انھیں پال لے اور پھر جس کا دل چاہے اُن سے شکار کرالے۔ان میں یہ احساس بھی باقی نہ رہا کہ یہ ذلیل ترین پیشہ جس کی بدولت، اُن کے دشمن، خود ان ہی کے ہاتھوں، اُن کا ملک فتح کر رہے تھے، اپنے اندر کوئی ذلت کا پہلو بھی رکھتا ہے۔ غالبؔ جیسا شخص فخریہ کہتا ہے کہ:
سو پشت سے ہے پیشۂ آبا ، سپہ گری
یہ بات کہتے ہوئے، اتنے بڑے شاعر کو ذرا خیال تک نہ گزرا کہ پیشہ ورانہ سپہ گری کوئی فخر کی بات نہیں، ڈوب مرنے کی بات ہے۔
اقتدار سے مسلمانوں کی معزولی
جب اُن کی حالت یہ ہو گئی تو خدا نے اُن کی معزولی کا بھی فیصلہ کر لیا اور ہندستان کے انتظام کا منصب، پھر نئے امیدواروں کے لیے کھل گیا۔ اس موقع پر چار اُمیدوار میدان میں تھے:
۱۔ مرہٹے ۲۔ سکھ ۳۔ انگریز ۴۔ بعض مسلمان رئیس
آپ خود انصاف کے ساتھ، قومی تعصب کی عینک اُتار کر، اس دَور کی تاریخ اور بعد کے حالات کو دیکھیں گے تو آپ کا دل گواہی دے گا کہ دوسرے امیدواروں میں سے، کسی میں بھی بنائو کی وہ صلاحیتیں نہ تھیں جو انگریزوں میں تھیں اور جتنا بگاڑ انگریزوں میں تھا، اُس سے کہیں زیادہ بگاڑ مرہٹوں، سکھوں اور مسلمان امیدواروں میں تھا۔ جو کچھ انگریزوں نے بنایا، وہ ان میں سے کوئی نہ بناتا اور جو کچھ انھوں نے بگاڑا اُس سے بہت زیادہ یہ امید وار بگاڑ کر رکھ دیتے۔
مطلقاً دیکھیے تو انگریزوں میں، بہت سے پہلوؤں سے، بے شمار برائیاں آپ کو نظر آئیں گی، مگر مقابلتاً دیکھیے تو اپنے ہم عصر حریفوں سے، ان کی برائیاں بہت کم اور اُن کی خوبیاں بہت زیادہ نکلیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے قانون نے، پھر ایک مرتبہ انسانوں کے اُس من مانے اُصول کو توڑ دیا ،جو انھوں نے بغیر کسی حق کے بنا رکھا ہے کہ: ہر ملک خود ملکیوں کے لیے ہے، خواہ وہ اسے بنائیں یا بگاڑیں۔
اُس نے تاریخ کے اٹل فیصلے سے ثابت کیا کہ نہیں،مالک تو خدا ہے۔ وہی یہ طے کرنے کا حق رکھتا ہے کہ اُس کا انتظام کس کے سپرد کرے اور کس سے چھین لے۔ اُس کا فیصلہ کسی نسلی، قومی یا آبائی حق کی بِنا پر نہیں ہوتا، بلکہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ مجموعی بھلائی کون سے انتظام میں ہے۔(چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہوا:)
قُلِ الّٰلھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَ تُعِزُّمَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ آل عمران3:26
کہو: خدایا! ملک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے، عزت بخشے اور جسے چاہے، ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تُو ہر چیز پر قادر ہے۔
اس طرح اللہ تعالی ہزاروں میل کے فاصلے سے، ایک ایسی قوم کو لے آیا، جو کبھی یہاں تین چار لاکھ کی تعداد سے زیادہ نہیں رہی اور اس نے یہیں کے ذرائع اور یہیں کے آدمیوں سے یہاں کی ہندو، مسلم، سکھ سب طاقتوں کو زیر کرکے، اس ملک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ یہاں کے کروڑوں باشندے، اُن مٹھی بھر انگریزوں کے تابع فرمان بن کر رہے۔ ایک ایک انگریز نے تن تنہا، ایک ایک ضلعے پر حکومت کی، بغیر اس کے کہ اس کی قوم کا کوئی دُوسرا فرد، اس کا ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے، اس کے پاس موجود ہوتا۔ اس تمام دوران میں ہندستانیوں نے، جو کچھ کیا، پیشِ خدمت کی حیثیت سے کیا، نہ کہ کار فرما کی حیثیت سے۔
ہم سب کو یہ ماننا پڑے گا، اور نہ مانیں گے تو حقیقت کو جھٹلائیں گے کہ اس ساری مدت میں، جب کہ انگریز یہاں رہے، بنائو کا جو کچھ بھی کام ہوا، انگریزوں کے ہاتھوں سے اور ان کے اثر سے ہوا۔ جس حالت میں انھوں نے ہندستان کو پایا تھا، اس کے مقابلے میں آج کی حالت دیکھیے تو آپ اس بات سے انکار نہ کرسکیں گے کہ بگاڑ کے باوجود، بنائو کا بہت سا کام ہوا، جس کے خود اہلِ ملک کے ہاتھوں انجام پانے کی ہر گز توقع نہ کی جا سکتی تھی۔ اس لیے تقدیرِ الٰہی کا وہ فیصلہ غلط نہ تھا، جو اُس نے اٹھارہویں صدی کے وسط میں کر دیا تھا۔
انگریزوں کا اِخراج
اب دیکھیے کہ جو کچھ انگریز بنا سکتے تھے، وہ بنا چکے ہیں۔ اُن کے بنائو کے حساب میں، اب کوئی خاص اضافہ نہیں ہو سکتا۔ اِس حساب میں جو اضافہ وہ کرسکتے ہیں، وہ دوسروں کے ہاتھوں بھی ہو سکتا ہے، مگر دوسری طرف ان کے بگاڑ کا حساب بہت بڑھ چکا ہے اور جتنی مدت بھی وہ یہاں رہیں گے، بنائو کی بہ نسبت بگاڑ ہی زیادہ بڑھائیں گے۔ ان کی فردِ جرم اتنی لمبی ہے کہ اسے ایک صحبت میں بیان کرنا مشکل ہے اور اس کے بیان کی کوئی حاجت بھی نہیں ہے، کیوں کہ وہ سب کے سامنے ہے۔ اب تقدیرِ الٰہی کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ یہاں کے انتظام سے بے دخل کر دیے جائیں۔ انھوں نے بہت عقل مندی سے کام لیا کہ خود سیدھی طرح رخصت ہونے کے لیے تیار ہو گئے۔ سیدھی طرح نہ جاتے تو ٹیڑھی طرح نکالے جاتے، کیوں کہ خدا کے اٹل قوانین، اب ان کے ہاتھ میں، یہاں کا انتظام رکھنے کے روادار نہیں ہیں۔
آزادی: ہندستان کے باشندوں کا امتحان
یہ موقع جس کے عین سرے پر ہم آپ کھڑے ہیں، تاریخ کے اُن اہم مواقع میں سے ہے جب زمین کا اصلی مالک، کسی ملک میں ایک انتظام کو ختم کردیتا ہے اور دوسرے انتظام کا فیصلہ کرتا ہے۔ بظاہر، جس طرح یہاں انتقالِ اختیارات کا معاملہ طے ہوتا نظر آ رہا ہے اس سے یہ دھوکا نہ کھایا جائے کہ یہ قطعی فیصلہ ہے جو ملک کا انتظام، خود اہلِ ملک کے حوالے کیے جانے کے حق میں ہو رہا ہے۔ آپ شاید معاملے کی سادہ سی صورت سمجھتے ہوں گے کہ اجنبی لوگ جو باہر سے آ کر حکومت کر رہے تھے، واپس جارہے ہیں، اس لیے اب یہ آپ سے آپ ہونا ہی چاہیے کہ ملک کا انتظام، خود ملکیوں کے ہاتھ آئے۔ نہیں! خدا کے فیصلے اس طرح کے نہیں ہوتے۔ وہ ان اجنبیوں کو نہ پہلے بلاوجہ لایا تھا، نہ اب بلاوجہ لے جارہا ہے۔ نہ پہلے الل ٹپ، اس نے آپ سے انتظام چھینا تھا اور نہ اب الل ٹپ، وہ اُسے آپ کے حوالے کر دے گا۔ دراصل اس وقت ہندستان کے باشندے، امیدوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہندو، مسلم، سکھ سب امیدوار ہیں۔ چوں کہ یہ پہلے سے یہاں آباد چلے آ رہے ہیں‘ اس لیے پہلا موقع انھی کو دیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ مستقل تقرر نہیں ہے، بلکہ محض امتحانی موقع ہے۔ اگر فی الواقع انھوں نے ثابت کیا کہ ان کے اندر بگاڑ سے بڑھ کر، بنائو کی صلاحیتیں ہیں، تب تو ان کا تقرر مستقل ہو جائے گا، ورنہ اپنے بنائو سے بڑھ کر اپنا بگاڑ پیش کرکے، یہ بہت جلدی دیکھ لیں گے کہ انھیں پھر اس ملک کے انتظام سے بے دخل کر دیا جائے گا اور دور و نزدیک کی قوموں میں سے، کسی ایک کو اس خدمت کے لیے منتخب کر لیا جائے گا۔ پھر اس فیصلے کے خلاف یہ کوئی فریاد تک نہ کر سکیں گے۔ دنیا بھر کے سامنے، اپنی نالائقی کا کھلا ثبوت دے چکنے کے بعد، ان کا منہ کیا ہو گا کہ کوئی فریاد کریں۔ ڈھیٹ بن کر فریاد کریں گے بھی، تو انھیں داد کون دے گا۔
ہماری اَخلاقی حالت
اب ذرا آپ جائزہ لے کر دیکھیں کہ ہندستان کے لوگ: ہندو، مسلمان، سکھ____اس امتحان کے موقع پر، اپنے خدا کے سامنے، اپنی کیا صلاحیتیں اور قابلیتیں اور اپنے کیا اوصاف اور کارنامے پیش کر رہے ہیں جن کی بنا پر یہ اُمید کر سکتے ہیں کہ خدا اپنے ملک کا انتظام پھر اِن کے سپرد کر دے گا۔ اِس موقع پر اگر میں بے لاگ طریقے سے کھلم کھلا، وہ فردِ جرم سنا دوں جو اخلاق کی عدالت میں____ہندوئوں، مسلمانوںاور سکھوں____سب پر لگتی ہے، تو میں امید کرتا ہوں کہ آپ بُرا نہ مانیں گے۔ اپنی قوم اور اپنے وطنی بھائیوں کے عیوب بیان کر کے، خوشی تو مجھے بھی نہیں ہوتی، کیوں کہ مَیں گویا اپنی آنکھوں سے انجام کو دیکھ رہا ہوں، جو اِن عیوب کی بِنا پر کل انھیں دیکھنا ہی نہیں، بھگتنا بھی پڑے گا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ عیوب انھیں لے ڈوبیںگے۔ ہم، آپ، کوئی بھی ان کے انجامِ بَد سے نہ بچے گا، اس لیے میں، انھیں دلی رنج کے ساتھ بیان کرتا ہوں، تاکہ جن کے کان ہوں، وہ سنیں اور اصلاح کی کچھ فکر کریں۔
ہمارے افراد کی عام اخلاقی حالت جیسی کچھ ہے، آپ اس کا اندازہ، خود اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کی بِنا پر کیجیے۔ ہم میں کتنے فی صد آدمی ایسے پائے جاتے ہیں جو کسی کا حق تلف کرنے میں‘ کوئی ناجائزہ فائدہ اُٹھانے میں‘ کوئی ’’مفید‘‘ جھوٹ بولنے اور کوئی ’’نفع بخش‘‘ بے ایمانی کرنے میں، صرف اس بِنا پر تامل کرتے ہوں کہ ایسا کرنا اخلاقاً بُرا ہے؟ جہاں قانون گرفت نہ کرتا ہو، یا جہاں قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کی امید ہو، وہاں کتنے فی صدی اشخاص، محض اپنے اخلاقی احساس کی بِنا پر، کسی جرم اور کسی برائی کا ارتکاب کرنے سے باز رہ جاتے ہیں؟ جہاں اپنے کسی ذاتی فائدے کی توقع نہ ہو، وہاں کتنے آدمی دوسروں کے ساتھ بھلائی،ہم دردی، ایثار، حق رسانی اور حُسنِ سلوک کا برتائو کرتے ہیں؟ ہمارے تجارت پیشہ لوگوں میں ایسے تاجروں کا اوسط کیا ہے، جو دھوکے اور فریب اور جھوٹ اور نا جائز نفع اندوزی سے پرہیز کرتے ہوں؟ ہمارے صنعت پیشہ لوگوں میں، ایسے افراد کا تناسب کیا ہے جو اپنے فائدے کے ساتھ، کچھ اپنے خریداروں کے مفاد اور اپنی قوم اور اپنے ملک کی مصلحت کا بھی خیال رکھتے ہیں؟ ہمارے زمین داروں میں کتنے ہیں جو غلہ روکتے ہوئے اور بے حد گراں قیمتوں پر بیچتے ہوئے، یہ سوچتے ہوں کہ اپنی اس نفع اندوزی سے، وہ کتنے لاکھ، بلکہ کتنے کروڑ انسانوں کو فاقہ کشی کا عذاب دے رہے ہیں؟
ہمارے مال داروں میں کتنے ہیں جن کی دولت مندی میں کسی ظلم، کسی حق تلفی، کسی بددیانتی کا دخل نہیں ہے؟ ہمارے محنت پیشہ لوگوں میں کتنے ہیں جو فرض شناسی کے ساتھ اپنی اُجرت اور اپنی تنخواہ کا حق ادا کرتے ہیں؟ ہمارے سرکاری ملازموں میں کتنے ہیں جو رشوت اور خیانت سے، ظلم اور مردم آزاری سے، کام چوری اور حرام خوری سے، اور اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال سے بچے ہوئے ہیں؟ ہمارے وکیلوں میں، ہمارے ڈاکٹروں اور حکیموں میں، ہمارے اخبار نویسوں میں، ہمارے ناشرین و مصنّفین میں، ہمارے قومی ’’خدمت گزاروں‘‘ میں کتنے ہیں جو اپنے فائدے کی خاطر، ناپاک طریقے اختیار کرنے اور خلقِ خدا کو ذہنی، اخلاقی، مالی اور جسمانی نقصان پہنچانے میں کچھ بھی شرم محسوس کرتے ہوں؟
شاید میں مبالغہ نہ کروں گا اگر یہ کہوں کہ ہماری آبادی میں، بمشکل ۵ فی صدی لوگ اس اخلاقی عذاب سے بچے رہ گئے ہیں، ورنہ ۹۵ فی صدی کو، یہ چھوت بُری طرح لگ چکی ہے۔ اس معاملے میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور ہریجن کے درمیان کوئی امتیاز نہیں۔ سب کے سب یکساں بیمار ہیں۔ سب کی اخلاقی حالت خوف ناک حد تک گری ہوئی ہے، اور کسی گروہ کا حال، دوسرے سے بہتر نہیں ہے۔
اخلاقی تنزل کے ثمرات
اخلاقی تنزل کی یہ وبا، جب افراد کی ایک بہت بڑی اکثریت کو، اپنی لپیٹ میں لے چکی، تو قدرتی بات تھی کہ وسیع پیمانے پر، اجتماعی شکل میں اس کا ظہور شروع ہو جائے۔ اس آنے والے طوفان کی پہلی علامت، ہمیں اس وقت نظر آئی جب جنگ کی وجہ سے ریلوں میں، مسافروں کا ہجوم ہونے لگا۔ وہاں ایک قوم اور ایک ہی ملک کے لوگوں نے، ایک دوسرے کے ساتھ جس خودغرضی، بے دردی اور سنگ دلی کا سلوک کیا، وہ پتا دے رہا تھا کہ ہمارے عام اخلاق کس تیز رفتاری کے ساتھ گر رہے ہیں۔ پھر اشیا کی کم یابی و گرانی کے ساتھ، ذخیرہ اندوزی اور چوربازاری بڑے وسیع پیمانے پر شروع ہوئی۔ پھر بنگال کا وہ ہول ناک مصنوعی قحط رُونما ہوا، جس میں ہمارے ایک طبقے نے، اپنے ہی ملک کے لاکھوں انسانوں کو، اپنے نفعے کی خاطر بُھوک سے تڑپا تڑپا کر مار دیا۔
یہ سب ابتدائی علامات تھیں۔ اس کے بعد خباثت، کمینہ پن، درندگی اور وحشت کا وہ لاوا، یکایک پھوٹ پڑا، جو ہمارے اندر مدتوں سے پک رہا ہے اور اب وہ فرقہ وارانہ فساد کی شکل میں، ہندستان کو ایک کونے سے لے کر، دُوسرے کونے تک بھسم کررہا ہے۔ کلکتہ کے فساد کے بعد سے ہندوئوں، مسلمانوں اور سکھوں کی قومی کش مکش کا جو نیا باب شروع ہوا ہے، اس میں یہ تینوں قومیں، اپنی ذلیل ترین صفات کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ جن افعال کا تصوّر تک نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کوئی انسان اُن کا مرتکب ہو سکتا ہے، آج ہماری بستیوں کے رہنے والے، علانیہ اُن کا ارتکاب کررہے ہیں۔ بڑے بڑے علاقوں کی پوری پوری آبادیاں غنڈا بن گئی ہیں اور وہ کام کر رہی ہیں جو کسی غنڈے کے خواب و خیال میں بھی کبھی نہ آئے تھے۔ شیر خوار بچوں کو مائوں کے سینوں پر رکھ کر ذبح کیا گیا ہے۔ زندہ انسانوں کو آگ میں بھونا گیا ہے۔ شریف عورتوں کو برسرِعام ننگا کیا گیا ہے اور ہزاروں کے مجمعے میں ان کے ساتھ بدکاری کی گئی ہے۔ باپوں، شوہروں اور بھائیوں کے سامنے، ان کی بیٹیوں، بیویوں اور بہنوں کو بے عزت کیا گیا ہے۔ عبادت گاہوں اور مذہبی کتابوں پر غصہ نکالنے کی ناپاک ترین شکلیں اختیار کی گئی ہیں۔ بیماروں، زخمیوں اور بوڑھوں کو انتہائی بے رحمی کے ساتھ مارا گیا ہے۔ مسافروں کو چلتی ریل پر سے پھینکا گیا ہے۔ زندہ انسانوں کے اعضا کاٹے گئے ہیں۔ نہتے اور بے بس انسانوں کا جانوروں کی طرح شکار کیا گیا ہے۔ ہم سایوں نے ہم سایوں کو لُوٹا ہے۔ دوستوں نے دوستوں سے دغا کی ہے۔ پناہ دینے والوں نے خود اپنی ہی دی ہوئی پناہ کو توڑا ہے۔ امن و امان کے محافظوں (پولیس ، فوج اور مجسٹریٹوں) نے علانیہ فساد میں حصہ لیا ہے، بلکہ خود فساد کیا ہے، اپنی حمایت و نگرانی میں فساد کرایا ہے۔غرض! ظلم و ستم و سنگ دلی وبے رحمی و کمینگی اور بدمعاشی کی کوئی قسم ایسی نہیں رہ گئی ہے جس کا اِرتکاب ان چند مہینوں میں، ہمارے ملک کے رہنے والوں نے اجتماعی طور پر نہ کیا ہو، اور ابھی دلوں کا غبار پوری طرح نکلا نہیں ہے۔ آثار بتارہے ہیں کہ یہ سب کچھ اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر اور بدرجہا تر صورت میں ابھی ہونے والا ہے۔
کیا یہ نتائج اتفاقی ہیں؟
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ محض کسی اتفاقی ہیجان کا نتیجہ ہے؟ اگر یہ آپ کا گمان ہے تو آپ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ ابھی مَیں آپ کو بتا چکا ہوں کہ اس ملک کی آبادی کے ۹۵ فی صد افراد اخلاقی حیثیت سے بیمار ہو چکے ہیں۔ جب افراد کی اتنی بڑی اکثریت، بداخلاق ہو جائے تو قوموں کا اجتماعی رویہ، آخر کیسے درست رہ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو‘ مسلمان اور سکھ، تینوں قوموں میں سچائی، انصاف اور حق پسندی کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہی ہے۔ راست باز، دیانت دار اور شریف انسان اِن کے اندر نِکّو بن کر رہ گئے ہیں۔ بُرائی سے روکنا اور بھلائی کی نصیحت کرنا، ان کی سوسائٹی میں ایک ناقابلِ برداشت جرم ہو گیا ہے۔ حق اور انصاف کی بات سننے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک قوم کو، وہی لوگ پسند ہیں جو اُس کی حد سے بڑھی ہوئی خواہشات اور اغراض کی وکالت کریں، دوسروں کے خلاف اس کے تعصبات کو بھڑکائیں اور اس کے جائز و نا جائز مقاصد کے لیے لڑنے کو تیار ہوں۔ اسی بِنا پر، ان قوموں نے چھانٹ چھانٹ کر، اپنے اندر سے بد ترین آدمیوں کو چنا، اور اُنھیں اپنا نمایندہ بنا لیا۔ انھوں نے اپنے اکابر مجرمین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا اور اُنھیں اپنا سربراہِ کار بنا لیا۔ ان کی سوسائٹی میں جو لوگ سب سے زیادہ پست اَخلاق، بے ضمیر اور بے اُصول تھے، وہ ان کی ترجمانی کے لیے اُٹھے اور اخبار نویسی کے میدان میں وہی سب سے بڑھ کر مقبول ہوئے۔
پھر یہ سب لوگ بگاڑ کی راہ پر، اپنی اپنی بگڑی ہوئی قوموں کو سرپٹ لے چلے۔ انھوں نے متضاد قومی خواہشات کو، کسی نقطۂ انصاف پر جمع کرنے کے بجائے، اتنا بڑھایا کہ وہ آخر کار نقطۂ تصادم پر پہنچ گئیں۔ انھوں نے معاشی و سیاسی اغراض کی کش مکش میں غصے اور نفرت اور عداوت کا زہر ملایا اور اُسے روز بروز بڑھاتے چلے گئے۔ انھوں نے برسوں اپنی زیرِ اثر قوموں کو اشتعال انگیز تقریروں اور تحریروں کے انجکشن دے دے کر، یہاں تک بھڑکایا کہ وہ جوش میں آ کر کتّوں اور بھیڑیوں کی طرح لڑنے کھڑی ہو گئیں۔ انھوں نے عوام و خواص کے دلوں کو ناپاک جذبات کی سنڈاس (گندگی کے ڈھیر) اور اندھی دشمنی کا تنور بنا کر رکھ دیا۔ اب جو طوفان آپ کی نگاہوں کے سامنے برپا ہے یہ کوئی وقتی اور ہنگامی چیز نہیں ہے، جو اچانک رُونما ہو گئی ہو۔ یہ تو قدرتی نتیجہ ہے، بگاڑ کے اُن بے شمار اسباب کا، جو مدتوں سے ہمارے اندر کام کررہے تھے اور یہ نتیجہ بس ایک ہی دفعہ ظاہر ہو کر نہیں رہ جائے گا‘ بلکہ جب تک وہ اسباب اپنا کام کیے جا رہے ہیں، یہ روز افزوں ترقی کے ساتھ ظاہر ہوتا چلا جائے گا۔ یہ ایک بِس بھری (زہریلی) فصل ہے جو برسوں کی تخم ریزی و آبیاری کے بعد، اب پک کر تیار ہوئی ہے اور اسے آپ کو اور آپ کی نسلوں کو، نہ معلوم کب تک کاٹنا پڑے گا۔
اپنے اعمال کا جائزہ لیجیے
حضرات! آپ ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ عین اس وقت جب کہ قانونِ قدرت کے مطابق، اس ملک کی قسمت کا نظام انتظام درپیش ہے، ہم مالکِ زمین کے سامنے، اپنی اہلیت و قابلیت کا کیا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔ موقع تو یہ تھا کہ ہم اپنے طرزِعمل سے یہ ثابت کرتے کہ اگر وہ اپنی زمین کا انتظام ہمارے حوالے کرے گا تو ہم اسے خوب بنا سنوار کر گُل زار بنا دیں گے، ہم اس میں انصاف کریں گے، اسے ہم دردی اورتعاون اور رحمت کا گہوارہ بنائیں گے، اس کے وسائل کو اپنی اور انسانیت کی فلاح میں استعمال کریں گے، اس میں بھلائیوں کو پروان چڑھائیں گے اور برائیوں کو دبائیں گے۔ لیکن ہم اُسے بتا رہے ہیں کہ ہم ایسے غارت گر، اس قدر مفسد اور اتنے ظالم ہیں کہ اگر تُو نے یہ زمین ہمارے حوالے کی، تو ہم اس کی بستیوں کو اُجاڑ دیں گے، محلے کے محلے اور گائوں کے گائوں پُھونک دیں گے، انسانی جان کو مکھی اور مچھر سے زیادہ بے قیمت کردیں گے، عورتوں کو بے عزت کریں گے، چھوٹے بچوں کو شکار کریں گے، بوڑھوں اور بیماروں اور زخمیوں پر بھی ترس نہیں کھائیں گے، عبادت گاہوں اور مذہبی کتابوں تک کو، اپنے نفس کی گندگی سے لیس کر دیں گے، اور جس زمین کو تُو نے انسانوں سے آباد کیا ہے، اس کی رونق ہم لاشوں اور جلی ہوئی عمارتوں سے بڑھائیں گے۔ کیا واقعی آپ کا ضمیر یہ گواہی دیتا ہے کہ اپنی یہ خدمات ، یہ اوصاف، یہ کارنامے پیش کر کے، آپ خدا کی نگاہ میں، اس کی زمین کے انتظام کے لیے، اہل ترین بندے قرار پائیں گے؟ کیا یہ کرتوت دیکھ کر وہ آپ سے کہے گا :
شاباش! اے میرے پرانے مالیوں کی اولاد! تم ہی سب سے بڑھ کر، میرے اس باغ کی رکھوالی کے قابل ہو۔ اسی اکھاڑ پچھاڑ، اسی اُجاڑ اور بگاڑ، اسی تباہی و بربادی اور گندگی و غلاظت کے لیے تو میں نے یہ باغ لگایا تھا۔ لو !اب اسے اپنے ہاتھ میں لے کر خوب خراب کرو۔
اِصلاح کی فکر کیجیے
مَیں یہ باتیں آپ سے اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ اپنے آپ سے اور اپنے مستقبل سے مایوس ہو جائیں۔ مَیں نہ تو خود مایُوس ہوں، نہ کسی کو مایُوس کرنا چاہتا ہوں۔ دراصل میرا مدعا آپ کو یہ بتانا ہے کہ ہندستان کے لوگ اپنی حماقت اور جہالت سے، اس زرّیں موقعے کو کھونے پر تُلے ہوئے ہیں جو کسی ملک کی قسمت بدلتے وقت، صدیوں کے بعد خدا وندِ عالم، اس کے باشندوں کو دیا کرتا ہے۔ یہ وقت تھا کہ وہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر، اپنے اعلیٰ اوصاف اور اپنی بہتر صلاحیتوں کا ثبوت پیش کرتے، تاکہ خدا کی نگاہ میں انتظامِ زمین کے اہل قرار پاتے، مگر آج ان کے درمیان مقابلہ، اس چیز میں ہو رہا ہے کہ کون زیادہ غارت گر، زیادہ سفاک اور زیادہ ظالم ہے، تاکہ سب سے بڑھ کر خدا کی لعنت کا وہی مستحق قرار پائے۔ یہ لچھن آزادی اور ترقی اور سرفرازی کے نہیں ہیں۔ ان سے تو اندیشہ ہے کہ کہیں پھرایک مدّتِ دراز کے لیے، ہمارے حق میں غلامی اور ذلت کا فیصلہ نہ لکھ دیا جائے۔ لہٰذا جو لوگ عقل و ہوش رکھتے ہیں، انھیں ان حالات کی اصلاح کے لیے کچھ فکر کرنی چاہیے۔
اصلاح کیسے ہو؟
اس مرحلے پر آپ کے دل میں، یہ سوال خود بخود پیدا ہو گا کہ اصلاح کی صورت کیا ہے؟ میں اس کا جواب دینے کے لیے حاضر ہوں۔
اُمید کی کرن
اس تاریکی میں، ہمارے لیے امید کی ایک ہی شعاع ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہماری پوری آبادی بگڑ کر نہیں رہ گئی ہے، بلکہ اس میں کم از کم چار پانچ فی صد لوگ، ایسے ضرور موجود ہیں جو اِس عام بد اخلاقی سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ وہ سرمایہ ہے جس کو اصلاح کی ابتدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
پہلا قدم: صالح عنصر کی تنظیم
اصلاح کی راہ میں یہ پہلا قدم ہے کہ اس صالح عنصر کو چھانٹ کر منظم کیا جائے۔ ہماری بدقسمی کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں بدی تو منظم ہے، اور پوری باقاعدگی کے ساتھ اپنا کام کر رہی ہے، لیکن نیکی منظم نہیں ہے۔ نیک لوگ موجود ضرور ہیں، مگر منتشر ہیں، ان کے اندر کوئی رابطہ اور تعلق نہیں ہے، کوئی تعاون اور اشتراکِ عمل نہیں ہے، کوئی لائحہ عمل اور کوئی مشترک آواز نہیں ہے۔ اسی چیز نے اُنھیں بالکل بے اثر بنا دیا ہے۔ کبھی کوئی اللّٰہ کا بندہ، اپنے گرد وپیش کی برائیوں کو دیکھ کر چیخ اٹھتا ہے، مگر جب کسی طرف سے کوئی آواز اس کی تائید میں نہیں اٹھتی تو مایُوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ کبھی کوئی شخص حق اور انصاف کی بات علانیہ کہہ بیٹھتا ہے، مگر منظم بدی، زبردستی اس کا منہ بند کر دیتی ہے اور حق پسند لوگ، بس اپنی جگہ چپکے سے اسے داد دے کر رہ جاتے ہیں۔ کبھی کوئی شخص انسانیت کا خون ہوتے دیکھ کر، صبر نہیں کر سکتا اور اس پر احتجاج کرگزرتا ہے، مگر ظالم لوگ ہجوم کر کے اسے دبا لیتے ہیں اور اس کا حشر دیکھ کر، بہت سے ان لوگوں کی ہمتیں پست ہو جاتی ہیں، جن کے ضمیر میں ابھی کچھ زندگی باقی ہے۔
یہ حالت اب ختم ہونی چاہیے۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک خدا کے عذاب میں مبتلا ہو اور اس عذاب میں نیک و بد سب گرفتار ہو جائیں تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے اندر جو صالح عناصر، اس اخلاقی وبا سے بچے رہ گئے ہیں، وہ اب مجتمع اور منظم ہوں اور اجتماعی طاقت سے اس بڑھتے ہوئے فتنے کا مقابلہ کریں جو تیزی کے ساتھ، ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔
آپ اس سے نہ گھبرائیں کہ یہ صالح عنصر اس وقت بظاہر بہت ہی مایُوس کن اقلیت میں ہے۔ یہی تھوڑے سے لوگ، اگر منظم ہو جائیں، اگر ان کا اپنا ذاتی اور اجتماعی رویہ خالص راستی، انصاف، حق پسندی اور خلوص و دیانت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو، اور اگر وہ مسائلِ زندگی کا بہتر حل اور دنیا کے معاملات کو درست طریقے پر چلانے کے لیے، ایک اچھا پروگرام بھی رکھتے ہوں، تو یقین جانیے کہ اس منظم نیکی کے مقابلے میں، منظم بدی اپنے لشکروں کی کثرت اور اپنے گندے ہتھیاروں کی تیزی کے باوجود، شکست کھا کر رہے گی۔ انسانی فطرت شرپسند نہیں ہے، اسے دھوکا ضرور دیا جاسکتا ہے، اور ایک بڑی حد تک مسخ بھی کیا جا سکتا ہے، مگر اس کے اندر بھلائی کی قدر کا جو مادّہ خالق نے ودیعت کر دیا ہے، اسے بالکل معدوم نہیں کیا جا سکتا، انسانوں میں ایسے لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں جو بدی ہی سے دل چسپی رکھتے ہوں اور اس کے علم بردار بن کر کھڑے ہوں، اور ایسے لوگ بھی کم ہوتے ہیں جنھیں نیکی سے عشق ہو اور اسے قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔
ان دونوں گروہوں کے درمیان، عام انسان نیکی اور بدی کے ملے جلے رجحانات رکھتے ہیں۔ وہ نہ بدی کے گرویدہ ہوتے ہیں اور نہ نیکی ہی سے انھیں غیرمعمولی دل چسپی ہوتی ہے۔ ان کے کسی ایک طرف جھک جانے کا انحصار تمام تر اس پر ہوتا ہے کہ خیر اور شر کے علم برداروں میں سے، کون آگے بڑھ کر، انھیں اپنے راستے کی طرف کھینچتا ہے۔ اگر خیر کے علم بردار، سرے سے میدان ہی میں نہ آئیں اور ان کی طرف سے عوام الناس کو بھلائی کی راہ پر چلانے کی کوشش ہی نہ ہو، تو لا محالہ میدان علم بردارانِ شرہی کے ہاتھ رہے گا اور وہ عام انسانوں کو اپنی راہ پر کھینچ لے جائیں گے۔ لیکن اگر خیر کے علم بردار بھی میدان میں موجود ہوں، اور وہ اصلاح کی کوشش کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کریں تو عوام الناس پر علم بردارانِ شرکا اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا، کیوں کہ ان دونوں کا مقابلہ، آخر کار اخلاق کے میدان میں ہوگا، اور اس میدان میں نیک انسانوں کو، بُرے انسان کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ سچائی کے مقابلے میں جھوٹ، ایمان داری کے مقابلے میں بے ایمانی، اور پاک بازی کے مقابلے میں بدکرداری خواہ کتنا ہی زور لگائے، آخری جیت بہرحال سچائی، پاک بازی اور ایمان داری کی ہوگی۔ دُنیا اس قدر بے حس نہیں ہے کہ اچھے اخلاق کی مٹھاس اور بُرے اخلاق کی تلخی کو چکھ لینے کے بعد، آخر کار اس کا فیصلہ یہی ہو کہ مٹھاس سے تلخی زیادہ بہتر ہے۔
بنائو، بگاڑ کی شناخت دُوسرا قدم: بنائو، بگاڑ کا واضح تصور
اِصلاح کے لیے نیک انسانوں کی تنظیم کے ساتھ دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ ہمارے سامنے بنائو اور بگاڑ کا ایک واضح تصور موجود ہو۔ ہم اچھی طرح یہ سمجھ لیں کہ بگاڑ کیا ہے، تاکہ اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے اور بنائو کیا ہے، تاکہ اسے عمل میں لانے پر سارا زور لگا دیا جائے۔ تفصیلات میں جانے کا اس وقت موقع نہیں ہے۔ میں بڑے اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے ان دونوں چیزوں کی ایک تصویر پیش کروں گا۔
بگاڑ پیدا کرنے والے عناصر
انسانی زندگی میں بگاڑ، جن چیزوں سے پیدا ہوتا ہے، اُنھیں ہم چار بڑے بڑے عنوانات کے تحت جمع کر سکتے ہیں:
۱۔ خدا سے بے خوفی، جو دُنیا میں بے انصافی، بے رحمی، خیانت اور ساری اخلاقی بُرائیوں کی جڑ ہے۔
۲۔ خدا کی ہدایت سے بے نیازی‘ جس نے انسان کے لیے کسی معاملے میں بھی، ایسے مستقل اخلاقی اصول باقی نہیں رہنے دیے ہیں جن کی پابندی کی جائے۔ اسی چیز کی بدولت اشخاص اور گروہوں اور قوموں کا سارا طرزِعمل مفاد پرستی اور خواہشات کی غلامی پر قائم ہو گیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ نہ اپنے مقاصد میں جائز و ناجائز کی تمیز کرتے ہیں اور نہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے، کسی قسم کے بُرے سے بُرے ذرائع اختیار کرنے میں انھیں ذرا سا تامّل ہوتا ہے۔
۳۔ خود غرضی، جو صرف افراد ہی کو ایک دُوسرے کی حق تلفی پر آمادہ نہیں کرتی، بلکہ بڑے پیمانے پر نسل پرستی، قوم پرستی اور طبقاتی امتیازات کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور اس سے فساد کی بے شمار صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔
۴۔ جمود، یا بے راہ روی، جس کی وجہ سے انسان یا تو خدا کی دی ہوئی قوتوں کو استعمال ہی نہیں کرتا، یا غلط استعمال کرتا ہے، یا تو خدا کے بخشے ہوئے ذرائع سے کام نہیں لیتا، یا غلط کام لیتا ہے۔ پہلی صورت میں اللّٰہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ کاہل اور نکمے لوگوں کو زیادہ دیر تک، اپنی زمین پر قابض نہیں رہنے دیتا، بلکہ ان کی جگہ ایسے لوگوں کو لے آتا ہے جو کچھ نہ کچھ بنانے والے ہوں۔ دُوسری صورت میں جب غلط کار قوموں کی تخریب، اُن کی تعمیر سے بڑھ جاتی ہے تو وہ ہٹا کر پھینک دی جاتی ہیں اور بسااوقات خود اپنی ہی تخریبی کاروائیوں کا لقمہ بنا دی جاتی ہیں۔
اصلاح کرنے والے عناصر
اس کے مقابلے میں وہ چیزیں بھی، جن کی بدولت انسانی زندگی بنتی اور سنورتی ہے، چار ہی عنوانات کے تحت تقسیم ہوتی ہے:
۱۔ خدا کا خوف، جو آدمی کو بُرائیوں سے روکنے اور سیدھا چلانے کے لیے ایک ہی قابلِ اعتماد ضمانت ہے۔ راست بازی، انصاف، امانت، حق شناسی، ضبطِ نفس اور وہ تمام دُوسری خوبیاں جن پر ایک پُر امن اور ترقی پذیر تمدن و تہذیب کی پیدائش کا انحصار ہے، اسی ایک تخم سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگرچہ بعض دوسرے عقیدوں کے ذریعے سے بھی، کسی نہ کسی حد تک انھیں پیدا کیا جا سکتا ہے، جس طرح مغربی قوموں نے، کچھ نہ کچھ اپنے اندر پیدا کیا ہے۔ لیکن ان ذرائع سے پیدا کی ہوئی خوبیوں کا نشوونما، بس ایک حد پر جا کر رُک جاتا ہے اور اس حد میں بھی ان کی بنیاد متزلزل رہتی ہے۔ صرف خدا ترسی ہی وہ پائدار بنیاد ہے جس پر انسان کے اندر، بُرائی سے رُکنے اور بھلائی پر چلنے کی صفت مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتی ہے اور محدود پیمانے پر نہیں، بلکہ نہایت وسیع پیمانے پر، تمام انسانی معاملات میں اپنا اثر دکھاتی ہے۔
۲۔ خدائی ہدایت کی پیروی، جو انسان کے شخصی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی رویے کو اخلاق کے مستقل اُصولوں کا پابند کرنے کی ایک ہی صورت ہے۔ جب تک انسان اپنے اخلاقی اصولوں کا خود واضع اور منصف رہتا ہے، اس کے پاس باتیں بنانے کے لیے کچھ اور اُصول ہوتے ہیں اور عمل میں لانے کے لیے کچھ اور۔ کتابوں میں آبِ زر سے وہ ایک قسم کے اصول لکھتا ہے اور معاملات میں اپنے مطلب کے مطابق، بالکل دوسری ہی قسم کے اصول برتتا ہے۔ دوسروں سے مطالبہ کرتے وقت کچھ موقع اور مصلحت اور خواہش اور ضرورت کے دبائو سے، اُس کے اصول ہر آن بدلتے ہیں۔ وہ اخلاق کا اصل محور ’’حق‘‘ کو نہیں بلکہ ’’اپنے مفاد‘‘ کو بناتا ہے۔ وہ اس بات کو مانتا ہی نہیں کہ اس کے عمل کو حق کے مطابق ڈھلنا چاہیے۔ اس کے بجائے وہ چاہتا ہے کہ حق اس کے مفاد کے مطابق ڈھلے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی بدولت افراد سے لے کر قوموں تک سب کا رویہ غلط ہو جاتا ہے اور اسی سے دُنیا میں فساد پھیلتا ہے۔
اس کے برعکس جو چیز انسان کو امن، خوش حالی اور فلاح و سعادت بخش سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ اخلاق کے کچھ ایسے اصول ہوں جو کسی کے مفاد کے لحاظ سے نہیں، بلکہ حق کے لحاظ سے بنے ہوئے ہوں اور انھیں اٹل مان کر، تمام معاملات میں ان کی پابندی کی جائے، خواہ وہ معاملات شخصی ہوں، یا قومی، خواہ وہ تجارت سے تعلق رکھتے ہوں، یا سیاست اور صلح و جنگ سے۔ ظاہر ہے کہ ایسے اصول صرف خدائی ہدایت ہی میں ہمیں مل سکتے ہیں، اور ان پر عمل درآمد کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ انسان، ان کے اندر ردّ و بدل کے اختیار سے دست بردار ہو کر، انھیں واجب الاتباع تسلیم کر لے۔
۳۔ نظامِ انسانیت، جو شخصی، قومی، نسلی اور طبقاتی خودغرضیوں کے بجائے، تمام انسانوں کے مساوی مرتبے اور مساوی حقوق پر مبنی ہو، جس میں بے جا امتیازات نہ ہوں جس میں اُونچ نیچ، چُھوت چھات اور مصنوعی تعصبات نہ ہوں، جس میں بعض کے لیے مخصوص حقوق اور بعض کے لیے بناوٹی پابندیاں اور رکاوٹیں نہ ہوں، جس میں سب کو یکساں پھولنے پھلنے کا موقع ملے، جس میں اتنی وسعت ہو کہ رُوئے زمین کے سارے انسان، اس میں برابری کے ساتھ شریک ہو سکتے ہوں۔
۴۔ عملِ صالح، یعنی خدا کی دی ہوئی قوتوں اور اس کے بخشے ہوئے ذرائع کو پوری طرح استعمال کرنا اور صحیح استعمال کرنا۔
حضرات! یہ چار چیزیں ہیں جن کے مجموعے کا نام ’’بنائو‘‘ اور ’’اصلاح‘‘ ہے۔ ہم سب کی بہتری اس میں ہے کہ ہمارے اندر، نیک انسانوں کی ایک ایسی تنظیم موجود ہو جو بگاڑ کے اسباب کو روکنے اور بنائو کی ان صورتوں کو عمل میں لانے کے لیے، پیہم جدوجہد کرے۔ یہ جدوجہد اس ملک کے باشندوں کو راہِ راست پر لانے میں کام یاب ہو گئی تو خدا ایسا بے انصاف نہیں ہے کہ وہ خواہ مخواہ اپنی زمین کا انتظام، اس کے اصلی باشندوں سے چھین کر کسی اور کو دے دے۔ لیکن اگر خدانخواستہ یہ ناکام ہوئی تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا، آپ کا اور اس سر زمین کے رہنے والوں کا کیا انجام ہو گا!
٭…٭…٭…٭…٭
زبان: اُردو
صفحات: 16
اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، منصورہ ملتان روڈ، لاہور۔