بغاوت کا ظہور

ریڈ مودودی ؒ   کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

بغاوت کا ظہور

قوم دو طبقوں پر مشتمل ہوا کرتی ہے:
ایک: طبقہ عوام
دوسرا: طبقہ خواص۔
طبقۂ عوام اگرچہ کثیر التعداد ہوتا ہے‘ اور قوم کی عددی قوت اسی طبقے پر مبنی ہوتی ہے‘ لیکن سوچنے اور رہنمائی کرنے والے دماغ اس گروہ میں نہیں ہوتے۔ نہ یہ لوگ علم سے بہرہ ور ہوتے ہیں‘ نہ ان کے پاس مالی قوت ہوتی ہے‘ نہ یہ جاہ و منزلت(۲) رکھتے ہیں‘ نہ حکومت کا اقتدار ان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے قوم کو چلانا ان لوگوں کاکام نہیں ہوتا‘ بلکہ محض چلانے والوں کے پیچھے چلنا ان کاکام ہوتا ہے۔ یہ خود راہیں بنانے اور نکالنے والے نہیں ہوتے بلکہ جو راہیں ان کے لیے بنا دی جاتی ہیں انھی پر چل پڑتے ہیں۔ راہیں بنانے اور ان پر پوری قوم کے چلانے والے دراصل خواص ہوتے ہیں جن کی ہر بات اور ہر روش اپنی پشت پر دماغ‘ دولت‘ عزت اور حکمت کی طاقتیں رکھتی ہے اور قوم کو طوعاً و کرہاً(۳)انھی کی پیروی کرنی پڑتی ہے۔ پس یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ قوم کی اصلی طاقت اس کے عوام نہیں بلکہ خواص ہوتے ہیں۔ انھی پر قوم کے بننے اور بگڑنے کا مدار ہوتا ہے۔ ان کی راست روی پوری قوم کی راست روی پر اور ان کی گمراہی پوری قوم کی گمراہی پر منتج(۴) ہوتی ہے۔ جب کسی قوم کی بہتری کے دن آتے ہیں تو ان میں ایسے خواص پیدا ہوتے ہیں جو خود راہ راست پر چلتے اور پوری قوم کو اس پر چلاتے ہیں:
وَ جَعَلْنٰھُمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْھِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ الانبیا21:73
اور ہم نے ان کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے انھیں وحی کے ذریعے نیک کاموں کی ہدایت کی۔
اورجب کسی قوم کی تباہی کا زمانہ آتا ہے تو اس کے بگاڑ کی ابتدا اُس کے خواص سے ہوتی ہے جن کی گمراہی اور فساد اخلاق سے آخر کار ساری قوم ضلالت اور بدعملیوں میں مبتلا ہو جاتی ہے:
وَ اِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰھَا تَدْمِیْرًا بنی اسرائیل17:16
جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اُس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اُس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اُسے برباد کرکے رکھ دیتے ہیں۔(۲)
قرآن کی اصطلاح میں خواص قوم کو ’مترفین‘ کہا گیا ہے۔ یعنی وہ لوگ جن کو اللہ نے اپنی نعمتوں سے خوب سرفراز کیا ہو۔ خداوند کریم کی شہادت کے مطابق ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ پہلے یہ مترفین بستیوں میں فسق و فجور اور ظلم و عدوان(۳) اختیار کرتے ہیں‘ پھر ساری کی ساری بستیاں بدی کا شکار ہو جاتی ہیں۔
اس شہادت کے صادق ہونے میں کیا کلام ہے؟ ہماری اپنی قوم کا حال دیکھ لو۔ اس کا بگاڑ بھی ہمارے مترفین ہی سے ہوا ہے۔ ان لوگوں نے اُس طریقے کو جو احکام الٰہی کے مطابق ہدایت کرنے والے ائمہ کا طریقہ تھا چھوڑ دیا اور شیطانی طریقوں کی پیروی شروع کر دی۔ انھی نے نفس پرستی کے لیے شریعت کی بندشیں ڈھیلی کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ انھی نے فراعنہ اور قیاصرہ کی طرح خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرانی شروع کی اور اپنی قوم کو خدا پرستی کی جگہ بادشاہ پرستی اور امرا پرستی کا خوگر بنایا۔ انھی نے ان گردنوں کو بندوں کے آگے جھکنا سکھایا جنھیں صرف خدا کے آگے جھکنے کی تعلیم دی گئی تھی۔ انھی نے خوش نما لباسوں اور شان دار محلوں میں معاصی(۴) اور جرائم کا ارتکاب کرکے اپنی قوم کے لیے معاصی و جرائم کو خوش نما بنایا۔ انھی نے حرام کے مال کھا کر اپنی قوم کو حرام کھانے اور حرام کھلانے کی عادت ڈالی۔ انھی نے علم کو ضلالت کے لیے‘ عقل و فکر کو شرارت کے لیے‘ ذہانت کو مکر و فریب اور سازشوں کے لیے‘ دولت کو ایمان خریدنے کے لیے‘ حکومت کو ظلم و جور کے لیے اور طاقت کو استکبار کے لیے استعمال کیا۔ پھر یہی ہیں جنھوں نے حقوق اور منافع تک پہنچنے اور ترقی کرنے کے اکثر جائز راستے بند کر دیے اور لوگوں کو مجبور کر دیا کہ خوشامد‘ رشوت‘ جھوٹ‘ سازش اور ایسے ہی دوسرے ذلیل راستوں سے اپنے مقاصد کو پہنچیں۔ غرض اخلاق و اعمال کا کوئی فساد ایسا نہیں ہے جس کا آغاز ان مترفین سے نہ ہوا ہو۔ ان کو اللہ نے جو نعمتیں عطا کی تھیں ان کو انھوں نے غلط طریقوں سے استعمال کیا۔ خود بھی بگڑے اور اپنے ساتھ قوم کو بھی بگاڑا ، ضَلُّوْا فَاَضَلُّوْا۔
یہ سب کچھ صدیوں سے ہو رہا تھا اور اخلاقی فساد کا گھن مسلمانوں کی قومی طاقت کو اندر ہی اندر کھائے جارہا تھا، مگر اس کے باوجود دلوں میں کم از کم ایمان کی روشنی موجود تھی۔ احکام خدا اور رسولؐ کی پابندی چاہے نہ ہو مگر خدا اوررسولؐ کی عظمت دلوں میں باقی تھی‘ قانون اسلام کی خلاف ورزی چاہے کتنی ہی کی گئی ہو مگر قانون کے احترام سے دل خالی نہ ہوئے تھے‘ اسلام کی حکومت سے انحراف خواہ کتنا ہی بڑھ گیا ہو مگر اس کے مقابلے میں بغاوت کی جرأت کبھی نہ ہوئی تھی۔ جس کو اسلام نے حق کہا تھا‘ اس کو حق ہی مانا جاتا تھا اگرچہ اس کو چھوڑ کر باطل کی پیروی میں کتنا ہی غلو کیوں نہ کیا گیا ہو۔ یہ جسارت کسی میں نہ تھی کہ اسلام کے بتائے ہوئے حق کو باطل‘ باطل کو حق‘ فرض کو لغو و مہمل‘ جائز کو مکروہ‘ حرام کو حلال بلکہ مستحسن اور گناہ کو صواب کہا جاتا یا سمجھا جاتا۔ گناہوں کا ارتکاب بے شک ہوتا تھا۔ جرائم سے بلاشبہ دامن آلودہ ہوتے۔ شریعت کی حدود سے بہت کچھ تجاوز کیا جاتا۔ قوانین اسلام کی خلاف ورزی حد سے گزر جاتی، مگر دل ان پر شرم سار بھی ہوتے تھے‘ ندامت سے گردنیں جھک بھی جاتی تھیں‘ کم از کم دل اس کے معترف ہوتے تھے کہ وہ خدا اور رسولؐ کی نافرمانی کر رہے ہیں۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ عقائد کی کمزوری اور اعمال کی خرابی کے باوجود مسلمانوں کی تہذیب انھی قوائم(۲) و ارکان پر قائم تھی جو اسلام نے تعمیر کیے تھے۔ یونان و ایران کے افکار کی درآمد نے اگرچہ بہت کچھ گمراہی پھیلائی، لیکن انھیں کبھی اتنی کامیابی نہ ہوئی کہ مسلمانوں کے زاویۂ نگاہ ہی کو پھیر دیتے، ان کی ذہنیت کے سانچے کو اسلام سے بالکل ہی منحرف کر دیتے، اور اُن کی عقل و فکر و تمیز کی قوتوں کو یہاں تک متاثر کر دیتے کہ وہ مسلمان کی سی نظر سے دیکھنا اور مسلمان کے سے دماغ سے سوچنا بالکل چھوڑ ہی دیتے۔ اسی طرح تمدن و تہذیب کا ارتقا اگرچہ بیرونی اثرات کے تحت اسلام کی متعین کی ہوئی راہوں سے بہت کچھ منحرف ہوا لیکن جن اصولوں پر اس تہذیب و تمدن کی بنا رکھی گئی تھی وہ بدستور اس کی بنیاد میں موجود تھے‘ اور کسی دوسری مخالف تہذیب و تمدن کے اصولوں نے ان کی جگہ نہ لی تھی۔ مسلمانوں کی تعلیم کا نظام بہت کچھ بگڑا‘ مگر علوم دینی کو اس میں بہرحال ممتاز جگہ حاصل تھی اور کوئی تعلیم یافتہ مسلمان اسلامی عقائد اور احکام شریعت اور ملی روایات کے کم از کم ابتدائی علم سے بے بہرہ نہ ہوتا تھا۔ مسلمانوں کی عملی زندگی پر قانون اسلام کی بندشیں بہت کچھ ڈھیلی ہوئیں‘مگر پھر بھی مسلمانوں کے جملہ معاملات پر ایک ہی قانون نافذ تھا‘ اور وہ اسلام کا قانون تھا۔ غرض تمام خرابیوں کے باوجود مسلمانوں کے تخیلات‘ اخلاق‘ اور اعمال پر اسلام کا ایک گہرا اثر تھا‘ اس کے اصولوں پر وہ یکسوئی کے ساتھ ایمان رکھتے تھے‘ کم از کم ان کے ایمان کی سرحد میں مخالف اسلام اصولوں کو داخل ہونے کا موقع نہ ملا تھا‘ اور اخلاق و اعمال کی جو قدریں (values) اسلام نے متعین کی تھیں وہ اس حد تک متغیر نہ ہوئی تھیں کہ بالکل منقلب ہو جاتیں اور ان کے خلاف کچھ دوسری قدریں ان کی جگہ لے لیتیں،لیکن انیسویں صدی میں حکومت کو ہاتھ سے کھو دینے کے بعد، جب ہماری قوم کے مترفین نے دیکھا کہ حکومت کے ساتھ جاہ و منزلت‘(۲)عزت و حرمت‘ مال و منال(۳) سب ہی کچھ ہاتھ سے نکلے جارہے ہیں اور غلامی کی حالت میں ان کو محفوظ رکھنے اور مافات(۴) کی تلافی کرنے کا کوئی ذریعہ، بجز مغربی تہذیب اور علوم سے آراستہ ہونے کے نہیں ہے‘ تو ان کی روش میں ایک دوسرا تغیر ہوا جو صحیح معنوں میں محض تغیر ہی نہیں بلکہ ایک انقلاب تھا۔
تغیر کے معنی محض بدلنے کے ہیں‘ مگر انقلاب الٹ جانے کو کہتے ہیں، اور فی الواقع دوسری کروٹ میں وہ ایسے الٹ گئے کہ ان کا قبلۂ مقصود الٹ گیا‘ ان کی ذہنیت الٹ گئی‘ ان کی نظریں الٹ گئیں اور ان کا رخ اسلام سے فرنگیت کی طرف پھر گیا جو اسلام کے عین مخالف سمت میںواقع ہوئی ہے۔
یہ انقلاب جب شروع ہوا تو وہ شرمساری اور ندامت آہستہ آہستہ رخصت ہونے لگی جو قوانین اسلامی سے انحراف کرتے وقت پہلے محسوس کی جاتی تھی‘ بلکہ سرے سے یہ احساس ہی مٹنے لگا کہ شریعت کی حدود سے تجاوز کرکے وہ کسی گناہ اور کسی جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ شرمندگی و ندامت کی جگہ ڈھٹائی اور بے حیائی نے لے لی۔ علانیہ ہر قسم کی قانون شکنی کی جانے لگی اور شرم کے بجائے اس پر فخر کا اظہار ہونے لگا، مگر انقلاب کی رَو اس حد پر بھی جا کر نہ رکی۔ اب جو باتیں فرنگیت مآب لوگوں کی مجلسوں میں سنی اور دیکھی جارہی ہیں وہ بے حیائی سے گزر کر اسلام کے خلاف صریح بغاوت کے آثار ظاہر کرتی ہیں۔ اب یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے کہ ایک شخص جو اسلامی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ اپنے جرم پر نادم ہونے کے بجائے الٹا اس شخص کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس پرانے قانون کی اب تک پابندی کیے جارہا ہے۔ گویا اب مجرم اور گناہ گار وہ نہیں ہے جو اسلامی قانون کو توڑتا ہے‘ بلکہ وہ ہے جو اس کی پیروی کرتا ہے۔ اب صرف نماز روزے سے پرہیز ہی نہیں کیا جاتا‘ بلکہ اس پر فخر بھی کیا جاتا ہے‘ ترکِ صوم و صلوۃ کی تبلیغ کی جاتی ہے‘ روزے رکھنے اور نمازیں پڑھنے والوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ پابند صوم و صلوٰۃ لوگ (خصوصاً جب کہ وہ تعلیم یافتہ ہوں) اپنے فعل پر الٹے شرمندہ ہوں گے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ نماز روزے کو چھوڑنا نہیں بلکہ اس کی پابندی کرنا وہ عیب ہے جس پر کسی کو شرمندہ ہونا چاہیے۔ حد یہ ہے کہ اگر کسی نمازی کا کوئی عیب ظاہر ہوتا ہے تو بڑے طنزیہ لہجے میں کہا جاتا ہے کہ آخر وہ حضرت نمازی ہیں نا‘ یعنی اس شخص سے عیب کے سرزد ہونے کا اصلی سبب کچھ اور نہیں بلکہ صرف وہ عمل ہے جس کو اللہ نے مانعِ فحشاء و منکر قرار دیا ہے اور جسے رسول اللہ نے تمام اعمال سے افضل ٹھہرایا ہے۔
یہ بغاوت صرف نماز روزے تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ قریب قریب زندگی کے تمام معاملات میں پھیل گئی ہے۔ اب اسلامی احکام کی پابندی کو’ملائیت‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ’ملائیت‘ ہمارے نئے زمانے کی اصطلاح میں تنگ نظری‘ تاریک خیالی‘ جہالت‘ دقیانوسیت اور بے عقلی کے سب سے زیادہ شدید مرکب کا نام ہے۔ گویا یوں سمجھیے کہ راسخ العقیدہ اور متبع شریعت مسلمان کا نام مُلاَّ ہے‘ اور مُلاَّ وہ ہے جو تہذیب اور روشن خیالی سے کوسوں دور ہو‘ مہذب سوسائٹی میں کسی طرح کھپ ہی نہ سکتا ہو۔ یہ سوگالیوں کی ایک گالی ہے‘ اور اظہار نفرت کے لیے بہت سے الفاظ بولنے کے بجائے ہمارے کالے فرنگی اپنے تمام جذبات کو سمیٹ کر صرف ایک لفظ مُلاَّ میں بھر دیتے ہیں جو تمام عیوب کا جامع ہے۔
آج کسی قول یا فعل کی تائید میں یہ دلیل کوئی دلیل ہی نہیں ہے کہ وہ قرآن و حدیث کے مطابق ہے۔ غیر مسلم نہیں بلکہ ایک مسلمان جو بدقسمتی سے ’’تعلیم یافتہ اور روشن خیال‘‘ ہوگیا ہے‘ بلا تکلف قرآن و حدیث کی سند کو رد کر دیتا ہے اور اس پر ذرا نہیں شرماتا، بلکہ توقع رکھتا ہے کہ اسلامی قانون کی سند لانے والے کو الٹا شرمندہ ہونا چاہیے۔ قرآن و حدیث کا مستند ہونا تو درکنار ہم نے تو یہ حال دیکھا ہے کہ جس بات کو اسلام کے نام سے پیش کیا جاتا ہے اس کے خلاف فوراً ایک تعصب سا پیدا ہو جاتا ہے۔ وہی بات اگر عقلی استدلال کے ساتھ پیش کی جائے‘ یا کسی مغربی مصنف کے حوالے سے بیان کی جائے تو آمَنَّا وَصَدَّقْنَا، لیکن اسلام کا نام آتے ہی ہمارے فرنگیت مآب مسلمانوں کے دماغوں میں اس کے خلاف طرح طرح کے شبہات پیدا ہونے لگتے ہیں اور انھیں شک ہو جاتا ہے کہ اس بات میں ضرور کوئی کمزوری ہو گی۔ گویا اب قرآن و حدیث کی سند ان لوگوںکی نظر میں کسی بات کو قوی نہیں کرتی بلکہ الٹا کمزور اور محتاج دلیل بنا دیتی ہے۔
چند سال پہلے یہ وبا صرف ہمارے مردوں میں پھیلی ہوئی تھی‘ اور ہماری عورتیں اس سے محفوظ تھیں۔ کم از کم اسلامی تہذیب کی حد تک ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’حرم‘ وہ آخری جائے پناہ ہے جہاں اسلام اپنے تمدن اور اپنی تہذیب کی حفاظت کرتا ہے۔ عورت کو جن مصلحتوں کی بنا پر اسلام نے حجابِ شرعی میں رکھا ہے ان میں سے ایک بڑی مصلحت یہ بھی ہے کہ کم از کم وہ سینہ تو نور ایمان سے منور رہے جس سے ایک مسلمان بچہ دودھ پیتا ہے‘ کم از کم وہ گود تو کفر و ضلالت اور فساد اخلاق و اعمال سے محفوظ رہے جس میں ایک بچہ پرورش پاتا ہے۔ کم از کم اس گہوارے کے اردگرد تو خالص اسلامی فضا چھائی رہے جس میں مسلمان کی نسل اپنی زندگی کی ابتدائی منزلوں سے گزرتی ہے۔ کم از کم وہ چار دیواری تو بیرونی اثرات سے محفوظ رہے جس میں مسلمان بچے کے سادہ دل و دماغ پر تعلیم و تربیت اور مشاہدات کے اولین نقوش ثبت ہوتے ہیں۔ پس ’حرم‘ دراصل اسلامی تہذیب کا سب سے زیادہ مستحکم قلعہ ہے جس کو اس لیے تعمیر کیا گیا تھا کہ یہ تہذیب اگر کبھی شکست کھا کر پسپا بھی ہو تو یہاں پناہ لے سکے، مگر افسوس کہ اب یہ قلعہ بھی ٹوٹ رہا ہے۔ فرنگیت کی وبا اب گھروں کے اندر بھی پہنچ رہی ہے۔ ہمارے فرنگیت مآب مترفین اب اپنی خواتین کو بھی کھینچ کھینچ کر باہر لا رہے ہیں تاکہ وہ بھی انھی زہریلے اثرات سے متاثر ہوں جن سے وہ خود مسموم ہوچکے ہیں۔ ہماری قوم کی لڑکیاں اب ان تعلیم گاہوں میں گمراہی اور بد اعتقادی اور فسادِ اخلاق اور فرنگی تہذیب کے سبق لینے کے لیے بھیجی جارہی ہیں جو اس سے پہلے ہمارے لڑکوں کو یہ سب کچھ سکھا کر اسلام سے باغی بنا چکی ہے۔
یہ آخری حرکت ہمارے نزدیک اس انقلاب کی تکمیل کر دینے والی ہوگی جس کا ابھی ذکر کیا جاچکا ہے۔ یہ ہمارا صرف قیاس ہی نہیں ہے بلکہ تکمیلِ انقلاب کے آثار کو یہ بدنصیب آنکھیں دیکھ چکی ہیں، اور یہ بدقسمت کان سن چکے ہیں۔ اب یہ نوبت آ پہنچی ہے کہ ایک مسلمان عورت قرآن و حدیث کے صریح احکام کی خلاف ورزی کر کے اپنی زینت کا اظہار کرتی ہوئی نکلتی ہے‘ انگریزی ہوٹلوں میں جاکر لنچ اور ڈنر کھاتی ہے‘ سنیما ہال میں جاکر مردوں کے درمیان بیٹھتی ہے‘ بازاروں میں پھر کر شاپنگ کرتی ہے‘ اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ قانون اسلامی کے خلاف یہ تمام افعال کرنے پر شرمندہ اور نادم ہونے کے بجائے فخر کے ساتھ اپنے ان کاموں کو بیان کرتی ہے اور الٹا اس بے چاری عفیفہ کو قابل ملامت ٹھہراتی ہے جس نے پہلے تو قانون اسلام کی پیروی میں حجاب شرعی کو چھوڑنے سے انکار کیا‘اور جب اس کا شوہر زبردستی باہر کھینچ ہی لایا تو اس کو مردوں کے درمیان بے حجابانہ تماش بینی کرتے ہوئے شرم آئی‘ اور اسے بازاروں کے چکر لگانا‘ تاج اور گرین کے مزے چکھنا‘ سیرگاہوں کی ہوائیں کھانا اس چار دیواری کی بے لطفیوں کے مقابلے میں پسند نہ آیا جس کی حدود میں رہنے کا اس کے خدا اور اس کے رسول ﷺ نے حکم دیا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام کے خلاف بغاوت کی اسپرٹ مردوں سے گزر کر عورتوں تک میں بھی پہنچتی جا رہی ہے، اور وہ بھی اسلام کے قوانین کی خلاف ورزی کو نہیں بلکہ اس کی پیروی کو اس قابل سمجھنے لگی ہیں کہ ایک مسلمان عورت اس پر شرمندہ و نادم ہو۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَo البقرہ 156:2
خدارا، بتائو کہ پرانی دین دار خاتونوں کی گود میں پرورش پانے کے باوجود جب تمھارا یہ حال ہوا ہے تو جب تمھاری عورتیں بھی غیرتِ ایمانی سے بیگانہ اور اطاعت خدا اوررسولؐ کی حدود سے باہر ہو جائیں گی تو ان نسلوں کا کیا حشر ہوگا جو ان نئی فرنگیت مآب خواتین کی گودوں میں پرورش پاکر نکلیں گی؟ جو بچے آنکھ کھولتے ہی اپنے گرد و پیش فرنگیت ہی فرنگیت کے آثار دیکھیں گے‘ جن کی معصوم نگاہیں اسلامی تہذیب و تمدن کی کسی علامت سے آشنا ہی نہ ہوں گی‘ جن کے کانوں میں کبھی خدا اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں پڑیں گی ہی نہیں‘ جن کے دل و دماغ کی لوحِ سادہ پر ابتدا ہی سے فرنگیت کے نقوش ثبت ہو جائیں گے‘ کیا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے جذبات‘ خیالات‘ اخلاق‘ اعمال‘ غرض کسی حیثیت سے بھی مسلمان ہوں گے؟
٭ جرم کا پہلا مرتبہ یہ ہے کہ انسان جرم کرے مگر اس کو جرم سمجھے اور اس پر شرمندہ ہو۔ اس قسم کا جرم محض اپنی حیثیت کے لحاظ سے سزا کا مستوجب ہوتا ہے بلکہ توبہ اور اظہارِ ندامت سے معاف بھی کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ایسا جرم صرف انسان کی کمزوری پر محمول(۲) کیا جائے گا۔
٭ جرم کا دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ انسان جرم کرے اور اس کو عیب کے بجائے خوبی سمجھے اور فخر کے ساتھ اس کا علانیہ اظہار کرے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس شخص کے دل میں اس قانون کا کوئی احترام نہیں ہے جو اس فعل کو جرم قرار دیتا ہے۔
٭ جرم کا آخری مرتبہ یہ ہے کہ انسان نہ صرف ایک قانون کے خلاف جرم کا ارتکاب کرے، بلکہ اس کے مقابلے میں ایک دوسرے قانون کے لحاظ سے اس جرم کو جائز اور عین ثواب سمجھے‘ اور جو قانون اس فعل کو جرم ٹھہراتا ہے اُس کا مذاق اڑائے اور اس کی پیروی کرنے والوں کو خطا کار سمجھے۔ ایسا شخص صرف قانون کی خلاف ورزی ہی نہیں کرتا‘ بلکہ اس کی تحقیر کرتا ہے اور اس کے خلاف بغاوت کا مرتکب ہوتا ہے۔
ہر شخص جس میں تھوڑی سی عقل سلیم بھی ہوگی‘ یہ تسلیم کرے گا کہ جب انسان اس آخری مرتبے پر پہنچ جائے تو وہ اس قانون کی حدود میں نہیں رہ سکتا جس کے خلاف اس نے علانیہ بغاوت کی ہے، مگر کس قدر مردود ہے وہ شیطان جو تم کو یقین دلاتا ہے کہ تم اسلامی قانون کی تحقیر کرکے‘ اس کا مذاق اڑا کر، اس کی پیروی کو عیب ٹھہرا کر‘ اور اس کی خلاف ورزی کو ثواب قرار دے کر بھی مسلمان رہ سکتے ہو۔ ایک طرف تو تمھارا یہ حال ہے کہ خدا اور رسولؐ جس کو اچھا کہیں اس کو تم برا کہو‘ وہ جس کو برا کہیں اس کو تم اچھا کہو‘ وہ جس کو گناہ ٹھہرائیں اس کو تم ثواب قرار دو‘ وہ جس کو ثواب ٹھہرائیں اس کو تم گناہ سمجھو‘ وہ جو حکم دیں اس کا تم مذاق اڑائو، وہ جو قانون بنائیں اس کی خلاف ورزی پر شرمانے کے بجائے تم الٹا اس شخص کو شرمانے کی کوشش کرو جو ان کے قانون کی پیروی کرتا ہے۔ دوسری طرف تمھارا یہ دعویٰ کہ تم خدا اور رسول پر ایمان رکھتے ہو‘ اور ان کی عظمت تمھارے دل میں ہے‘ اور ان کے پسندیدہ دین یعنی اسلام کے تم پیرو ہو۔ کیا کوئی صاحب عقل انسان تسلیم کرسکتا ہے کہ اس طرز عمل کے ساتھ یہ دعویٰ صحیح ہے؟ اگر ایمان کے ساتھ انکار جمع ہو سکتا ہے‘ اگر تعظیم کے ساتھ تحقیر جمع ہوسکتی ہے‘ اگر یہ ممکن ہے کہ کسی کا احترام بھی دل میں ہو، اور اُس کا مذاق بھی اڑایا جائے۔ اگر یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ خلاف ورزی پر فخر کرنے والا اور پیروی کوملامت کے قابل سمجھنے والا بھی پیرو اور مطیع ہو‘ تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ بغاوت ہی عین اطاعت ہے‘ اور تحقیر ہی عین تعظیم ہے‘ اور انکار ہی کا نام ایمان ہے۔ جو تمھیں ٹھوکر مارتا ہے وہی دراصل تمھاری تعظیم کرتا ہے‘ جو تمھارا مذاق اڑاتا ہے وہی دراصل تمھارا احترام کرتا ہے‘ اور جو تمھیں جھوٹا کہتا ہے وہی دراصل تمھاری تصدیق کرنے والا ہے۔
اسلام بجز اطاعت کے اور کسی چیز کا نام نہیں ہے‘ اور حقیقی اطاعت ایمان کے بغیر متحقق نہیں ہوتی اور ایمان کا اولین اقتضا یہ ہے کہ آدمی کو جب خدا اور رسول کا حکم پہنچے تو اس کی گردن جھک جائے اور وہ اس کے مقابلے میں سر نہ اٹھا سکے:
اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَہُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo النور 51:24
مومنوں کا کام تو یہ ہے کہ جب ان کو بلایا جائے اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف، تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
پھر یہ گردن جھکانا بھی بکراہت نہیں بطوع و رغبت ہونا چاہیے‘ حتیٰ کہ حکمِ خدا و رسولؐ کے خلاف دل میں بھی کوئی تنگی اور ناراضی چھپی ہوئی نہ ہو۔ جس شخص کی گردن محض ظاہر میں جھک جائے، مگر دل میں اس کے خلاف تنگی محسوس کر رہا ہو وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے:
وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا۔۔۔۔۔فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا النسائ4: 61,65
اور جب ان سے کہا گیا کہ آئو اس حکم کی طرف جو اللہ نے اتارا ہے اور آئو رسولؐ کی طرف تو تم دیکھتے ہو کہ منافقین تمھاری طرف آتے ہوئے جی چراتے ہیں۔ پس قسم ہے تیرے پروردگار کی! وہ ہرگز مومن نہ ہوں گے، جب تک کہ وہ اپنے اختلافات میں تجھ کو فیصلہ کرنے والا تسلیم نہ کرلیں‘ پھر جو کچھ تو فیصلہ کرے اس پر اپنے دلوں میں تنگی بھی نہ پائیں بلکہ سر تسلیم خم کر دیں۔
لیکن جو شخص علانیہ حکم ماننے سے انکار کر دے اور خدا اور رسولؐ کے قانون کو چھوڑ کر دوسرے قوانین کی پیروی کرے اور انھی قوانین کو درست اور حق سمجھے اور ان کی پیروی کرتے ہوئے خدا اور رسولؐ کے قانون کا مذاق اڑائے اور اس کی اطاعت کو عیب ٹھہرائے وہ تو کسی طرح بھی مومن نہیں ہوسکتا‘ خواہ وہ زبان سے اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو اور مسلمانوں کے سے نام سے موسوم ہو، اور مردم شماری میں اس کو مسلمان لکھا گیا ہو۔ انسان گناہ کرکے مومن رہ سکتا ہے بشرطیکہ گناہ کو گناہ سمجھے اور اس پر نادم ہو، اور اس قانون کو تسلیم کرے جس کے خلاف محض اپنی فطری کمزوری سے اس نے ایک فعل کا ارتکاب کیا ہے، لیکن جب گناہ کے ساتھ بے شرمی اور ڈھٹائی بھی ہو‘ اور اس پر فخر بھی کیا جائے‘ اور اس کو ثواب ٹھہرا کر اس شخص کو ملامت بھی کی جائے جو اس کا ارتکاب نہیں کرتا‘ تو خدا کی قسم ایسے گناہ کے ساتھ ایمان کبھی باقی نہیں رہ سکتا۔ اس مرتبے میں داخل ہونے سے پہلے ہی آدمی کو فیصلہ کرلینا چاہیے کہ آیاوہ مسلمان رہنا چاہتا ہے، یا اسلام سے نکل کر اس قانون کی اطاعت میں داخل ہو جانا پسند کرتا ہے جس کی پیروی میں اس کو شرح صدر حاصل ہو رہا ہے۔
خدا کے فضل سے ابھی تک مسلمانوں کے عوام اس فرنگیت اور ملحدانہ بغاوت کی رَو سے محفوظ ہیں۔ ابھی تک ان کے دلوں میں خدا اور رسولؐ کے احکام کا احترام باقی ہے اور قوانینِ اسلامی کی پابندی تھوڑی بہت انھی میں نظر آتی ہے، لیکن خواص کی روش جس طرح پہلے ان کے اخلاق اور معاملات پر اثر انداز ہو چکی ہے اسی طرح اندیشہ ہے کہ نئی روش کہیں ان کے ایمان پر بھی رفتہ رفتہ اپنا مہلک اثر نہ ڈال دے۔ عامۃ مسلمین میں جس رفتار کے ساتھ ترکِ صوم و صلوۃ‘ منکرات و منہیات(۲) کا ارتکاب(۳) فرنگی اطوار کی تقلید کا شوق اور فرنگی تہذیب کو خوش نما بنا کر دکھانے والے کھیل تماشوں کی طرف میلان بڑھ رہا ہے وہ دراصل اس آنے والے خطرے کا الارم ہے۔ اگر ہمارے مترفین کے خیالات کی اصلاح نہ ہوئی اور اسلام کی صراط مستقیم سے ان کا انحراف اسی طرح جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب ساری قوم اس ضلالت میں مبتلا ہو جائے گی اور اللہ کی یہ سنت پوری ہو کر رہے گی:
وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّہْلِكَ قَرْيَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْہَا فَفَسَقُوْا فِيْہَا فَحَـــقَّ عَلَيْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰہَا تَدْمِيْرًاo بنی اسرائیل 16:17
جب ہم کسی بستی کو ہلاک کر دینے کا ارادہ کرتے ہیں تو اُس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اُس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اُسے برباد کرکے رکھ دیتے ہیں ۔

(ترجمان القرآن، ذی القعدہ ۱۳۵۳ھ۔ فروری ۱۹۳۵ء)

اِجتماعی فساد

قرآن مجید میں ایک قاعدہ کلیہ یہ بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے کہ کسی قوم کو خواہ مخواہ برباد کردے، دراں حالیکہ وہ نیکوکار ہو:
وَ مَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّ اَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ ھود11:117
اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ظلم سے تباہ کر دے حالانکہ اس کے باشندے نیک عمل کرنے والے ہوں۔
ہلاک و برباد کر دینے سے مراد صرف یہی نہیں کہ بستیوں کے طبقے الٹ دیے جائیں‘ اور آبادیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے بلکہ اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ قوموں کا شیرازہ بکھیر دیا جائے‘ ان کی اجتماعی قوت توڑ دی جائے‘ ان کو محکوم و مغلوب اور ذلیل و خوار کر دیا جائے۔ قائدہ مذکورہ کی بنا پر بربادی اور ہلاکت کی جملہ اقسام میں سے کوئی قسم بھی کسی قوم پر نازل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ خیر و صلاح کے راستے کو چھوڑ کر شر و فساد اور سرکشی و نافرمانی کے طریقوں پر نہ چلنے لگے اور اس طرح خود اپنے اوپر ظلم نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قاعدے کو ملحوظ رکھ کر جہاں کہیں کسی قوم کو مبتلائے عذاب کرنے کا ذکر فرمایا ہے‘ وہاں اس کا جرم بھی ساتھ ساتھ بیان کر دیا ہے تاکہ لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہو جائے کہ وہ ان کی اپنی ہی شامتِ اعمال ہے جو اُن کی دنیا اور آخرت دونوں کو خراب کرتی ہے:
فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِہٖ۝۰ۚ ۔۔۔۔ وَمَا كَانَ اللہُ لِيَظْلِمَہُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ يَظْلِمُوْنَo العنکبوت 40:29
ہر ایک کو ہم نے اس کے قصور ہی پر پکڑا…… اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہیں تھا بلکہ وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔
دوسری بات جو اس قاعدے سے نکلتی ہے‘ یہ ہے کہ ہلاکت و بربادی کا سبب انفرادی شروفساد نہیں ہے بلکہ اجتماعی اور قومی شر و فساد ہے۔ یعنی اعتقاد اور عمل کی خرابیاں اگر متفرق طور پر افراد میں پائی جاتی ہوں لیکن مجموعی طور پر قوم کا دینی و اخلاقی معیار اتنا بلند ہو کہ افراد کی برائیاں اس کے اثر سے دبی رہیں تو خواہ افراد علیحدہ علیحدہ کتنے ہی خراب ہوں‘ قوم بحیثیت مجموعی سنبھلی رہتی ہے اور کوئی فتنہ عام برپا نہیں ہوتا جو پوری قوم کی بربادی کا موجب ہو، مگر جب اعتقاد اور عمل کی خرابیاں افراد سے گزر کر پوری قوم میں پھیل جاتی ہیں اور قوم کا دینی احساس اور اخلاقی شعور اس درجہ مائوف ہو جاتا ہے کہ اس میں خیر و صلاح کے بجائے شر و فساد کوپھلنے اور پھولنے کا موقع ملنے لگے‘ تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت ایسی قوم سے پھر جاتی ہے اور وہ عزت کے مقام سے ذلت کی طرف گرنے لگتی ہے‘ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اللہ کا غضب اس پر بھڑک اٹھتا ہے‘ اور اس کو بالکل تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں اس کی بکثرت مثالیں بیان کی گئی ہیں۔
قوم نوح علیہ السلام کو اس وقت برباد کیا گیا جب اعتقاد و عمل کی خرابیاں اُن کے اندر جڑ پکڑ گئیں اور زمین میں پھیلنے لگیں‘ اور یہ اُمید ہی باقی نہ رہی کہ اس شجرِ خبیث سے کبھی کوئی اچھا پھل بھی پیدا ہوگا۔ آخر کار مجبور ہو کر حضرت نوح علیہ السلام نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا کہ:
رَّبِّ لاَ تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا o اِنَّکَ اِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلاَ یَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا نوح71:26-27
میرے پروردگار! زمین پر ان کافروں میں سے ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑ۔ اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو پیدا ہوگا بدکار اور سخت کافر پیدا ہوگا۔
قوم عاد کو اس وقت تباہ کیا گیا جب شر اور فساد نے ان کے دلوں میں یہاں تک گھر کرلیا کہ شریر اور مفسد اور ظالم ان کی قوم کے لیڈر اور حاکم بن گئے، اور اہل خیر و صلاح کے لیے نظام اجتماعی میں کوئی گنجائش باقی نہ رہی:
وَ تِلْکَ عَادٌ جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَ عَصَوْا رُسُلَہٗ وَ اتَّبَعُوْٓا اَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ
ھود11: 59
اور یہ عاد ہیں جنھوں نے اپنے رب کے حکم سے انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر جبار دشمنِ حق کا اتباع کیا۔
قومِ لوط کو اس وقت ہلاک کیا گیا جب ان کا اخلاقی شعور اتنا کند ہوگیا اور ان میں بے حیائی یہاں تک بڑھ گئی کہ علانیہ مجلسوں اور بازاروں میں فواحش کا ارتکاب کیا جانے لگا‘ اور فواحش کے فواحش ہونے کا احساس ہی باقی نہ رہا:
اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ۝۰ۥۙ وَتَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ۝۰ۭ
العنکبوت 29:29
(لوط ؑنے کہا کہ) تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس جاتے ہو اور راستوں میں لوگوں کو چھیڑتے اور ستاتے ہو اور اپنی محفلوں میں بدکاریاں کرتے ہو۔
اہلِ مدین پر اُس وقت عذاب نازل ہوا جب پوری قوم خائن اور بد معاملہ اور بے ایمان ہوگئی۔ کم تولنا اور زیادہ لینا کوئی عیب نہ رہا اور قوم کا اخلاقی احساس یہاں تک فنا ہوگیا کہ جب ان کو اس عیب پر ملامت کی جاتی تو شرم سے سر جھکا لینے کے بجائے وہ الٹا اس ملامت کرنے والے کو ملامت کرتے‘ اور ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ ان میںکوئی ایسا عیب بھی ہے جو ملامت کے قابل ہو۔ وہ بدکاریوں کو برا نہ سمجھتے بلکہ جو ان حرکات کو برا کہتا اسی کو برسرِ غلط اور لائق ِسرزنش خیال کرتے:
وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَ ھُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ…… قَالُوْا یٰشُعَیْبُ مَا نَفْقَہُ کَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَ اِنَّا لَنَرٰکَ فِیْنَا ضَعِیْفًا وَ لَوْ لَا رَھْطُکَ لَرَجَمْنٰکَ ھود11:85-91
(شعیبؑ نے کہا) اور اے میری قوم کے لوگو! انصاف کے ساتھ ناپو اور تولو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلائو۔ انھوں نے جواب دیا: اے شعیب! تو جو باتیں کہتا ہے ان میں سے تو اکثر ہماری سمجھ ہی میںنہیں آتیں، اور ہم تو تجھے اپنی قوم میں کمزور پاتے ہیں اور اگر تیرا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم تجھے سنگ سار کر دیتے۔
بنی اسرائیل کو ذلت و مسکنت اور غضب و لعنت الٰہی میں مبتلا کرنے کا فیصلہ اس وقت صادر ہوا جب انھوںنے بدی اور ظلم اور حرام خوری کی طرف لپکنا شروع کیا‘ ان کی قوم کے پیشوا مصلحت پرستی کے مرض میں مبتلا ہوگئے‘ ان میں گناہوں کے ساتھ رواداری پیدا ہوگئی‘ اور ان میں کوئی گروہ ایسا نہ رہا جو عیب کو عیب کہنے والا اور اس سے روکنے والا ہوتا:
۱۔ وَتَرٰى كَثِيْرًا مِّنْہُمْ يُسَارِعُوْنَ فِي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاَكْلِہِمُ السُّحْتَ۝۰ۭ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَo لَوْلَا يَنْھٰىہُمُ الرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِہِمُ الْاِثْمَ وَاَكْلِہِمُ السُّحْتَ۝۰ۭ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَo المائدہ 62-63:5
تو ان میں سے اکثر کو دیکھتا ہے کہ گناہ اور حدودِ الٰہی سے تجاوز اور حرام خوری کی طرف لپکتے ہیں۔ یہ کیسی بری حرکتیں تھیں جو وہ کرتے تھے۔ کیوں نہ ان کے مشائخ اور علما نے ان کو بری باتیں کہنے اور حرام کے مال کھانے سے منع کیا؟ یہ بہت برا تھا جو وہ کرتے ہیں۔
۲۔ لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَلٰي لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ۝۰ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَo كَانُوْا لَا يَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْہُ۝۰ۭ
المائدہ 78-79:5
بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر دائود اور عیسیٰ بن مریم علیہم السلام کی زبان سے لعنت کرائی گئی اس لیے کہ انھوں نے سرکشی کی اور وہ حد سے گزر جاتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو بُرے افعال سے نہ روکتے تھے۔
اس آخری آیت کی تفسیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو احادیث منقول ہیں وہ قرآن کریم کے مقصد کو اور زیادہ واضح کر دیتی ہیں۔ سب روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:
بنی اسرائیل میں جب بدکاری پھیلنی شروع ہوئی تو حال یہ تھا کہ ایک شخص اپنے بھائی یا دوست یا ہمسایہ کو برا کام کرتے دیکھتا تو اس کو منع کرتا اور کہتا کہ اے شخص خدا کاخوف کر، مگر اس کے بعد وہ اسی شخص کے ساتھ گھل مل کر بیٹھتا اور یہ بدی کا مشاہدہ اس کو اس بدکار شخص کے ساتھ میل جول اور کھانے پینے میں شرکت کرنے سے نہ روکتا۔ جب ان کا یہ حال ہوگیا تو ان کے دلوں پر ایک دوسرے کا اثر پڑ گیا اور اللہ نے سب کو ایک رنگ میں رنگ دیا اور ان کے نبی دائود اور عیسیٰ بن مریم علیہم السلام کی زبان سے اُن پر لعنت کی۔
راوی کہتا ہے کہ جب حضورؐ سلسلہ تقریر میں اس مقام پر پہنچے تو جوش میں آکر اٹھ بیٹھے اور فرمایا:
قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم پرلازم ہے کہ نیکی کا حکم کرو اور بدی سے روکو اور جس کو برا فعل کرتے دیکھو اس کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے راہِ راست کی طرف موڑ دو اور اس معاملے میں ہرگز رواداری نہ برتو ورنہ اللہ تمھارے دلوں پر بھی ایک دوسرے کا اثر ڈال دے گا اور تم پر بھی اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح بنی اسرائیل پر کی۔
اعتقاد اور عمل کے فساد کا حال وبائی امراض کا سا ہے۔ ایک وبائی مرض ابتدا میں چند کمزور افراد پر حملہ کرتا ہے۔ اگر آب و ہوا اچھی ہو‘ حفظانِ صحت کی تدابیر درست ہوں‘ نجاستوں اور کثافتوں کو دور کرنے کا کافی انتظام ہو‘ اور مرض سے متاثر ہونے والے مریضوں کا بروقت علاج کر دیا جائے تو مرض وبائے عام کی صورت اختیار کرنے نہیںپاتا اور عام لوگ اس سے محفوظ رہتے ہیں، لیکن اگر طبیب غافل ہو‘ حفظانِ صحت کا محکمہ بے پروا ہو۔ صفائی کے منتظم نجاستوں اور کثافتوں کے روا دار ہو جائیں‘ تو رفتہ رفتہ مرض کے جراثیم فضا میں پھیلنے لگتے ہیںاور آب و ہوا میں سرایت کرکے اس کو اتنا خراب کر دیتے ہیں کہ وہ صحت کے بجائے مرض کے لیے سازگار ہو جاتی ہے۔ آخر کار جب بستی کے عام افراد کو ہوا‘ پانی غذا‘ لباس‘ مکان غرض کوئی چیز بھی گندگی اور سُمِیَّت سے پاک نہیں ملتی تو ان کی قوت حیات جواب دینے لگتی ہے اور ساری کی ساری آبادی وبائے عام میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ پھر قوی سے قوی افراد کے لیے بھی اپنے آپ کو مرض سے بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ خود طبیب اور صفائی کے منتظم اورصحت عامہ کے محافظ تک بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور وہ لوگ بھی ہلاکت سے محفوظ نہیں رہتے جو اپنی حد تک حفظان صحت کی جملہ تدبیریں اختیار کرتے اور دوائیں استعمال کرتے رہتے ہیں کیونکہ ہوا کی سُمِیَّت‘ پانی کی گندگی‘ وسائل غذا کی خرابی‘ اور زمین کی کثافت کا ان کے پاس کیا علاج ہوسکتا ہے۔
اسی پر اخلاق و اعمال کے فساد اور اعتقاد کی گمراہیوں کو بھی قیاس کر لیجیے۔ علما قوم کے طبیب ہیں۔ حکام اور اہلِ دولت‘ صفائی اور حفظان صحت کے ذمہ دار ہیں۔ قوم کی غیرت ایمانی اور جماعت کا حاسّہ اخلاقی بمنزلہ قوتِ حیات (vitality) ہے۔ اجتماعی ماحول کی حیثیت وہی ہے جو ہوا‘ پانی‘ غذا اور لباس و مکان کی ہے، اور حیات قومی میں دین و اخلاق کے اعتبار سے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کاوہی مقام ہے جو صحت جسمانی کے اعتبار سے صفائی و حفظانِ صحت کی تدابیر کا ہے۔ جب علما اور اولی الامر اپنے اصلی فرض یعنی امربالمعروف و نہی عن المنکر کو چھوڑ دیتے ہیں اور شر و فساد کے ساتھ رواداری برتنے لگتے ہیں تو گمراہی اور بداخلاقی قوم کے افراد میں پھیلنی شروع ہو جاتی ہے اور قوم کی غیرتِ ایمانی ضعیف ہوتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ سارا اجتماعی ماحول فاسد ہو جاتا ہے‘ قومی زندگی کی فضا خیر و صلاح کے لیے نامساعد اور شر و فساد کے لیے سازگار ہو جاتی ہے‘ لوگ نیکی سے بھاگتے ہیں اور بدی سے نفرت کرنے کے بجائے اس کی طرف کھنچنے لگتے ہیں‘ اخلاقی قدریں الٹ جاتی ہیں، عیب ہنر بن جاتے ہیں اور ہنر عیب۔ اس وقت گمراہیاں اور بداخلاقیاں خوب پھلتی پھولتی ہیں اور بھلائی کا کوئی بیج برگ و بار لانے کے قابل نہیں رہتا۔ زمین‘ ہوا اور پانی سب اس کو پرورش کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ ان کی ساری قوتیں اشجار خبیثہ کو نشوونما دینے کی طرف مائل ہو جاتی ہیں۔ جب کسی قوم کا یہ حال ہو جاتا ہے تو پھر وہ عذابِ الٰہی کی مستحق ہو جاتی ہے اور اس پر ایسی عام تباہی نازل ہوتی ہے جس سے کوئی نہیں بچتا خواہ وہ خانقاہوں میں بیٹھا ہوا رات دن عبادت کررہا ہو۔
اس کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
وَ اتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً الانفال8:25
بچو اس فتنے سے جو صرف انھی لوگوں کو مبتلائے مصیبت نہ کرے گا جنھوں نے تم میں سے ظلم کیا ہے۔
ابن عباسؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا منشا اس سے یہ ہے کہ بدی کو اپنے سامنے نہ ٹھہرنے دو‘ کیونکہ اگر تم بدی سے رواداری برتو گے اور اس کو پھیلنے دو گے تو اللہ کی طرف سے عذاب عام نازل ہوگا اور اس کی لپیٹ میں اچھے اور برے سب آجائیں گے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تشریح اس طرح فرمائی ہے کہ:
اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَا یُعَذِّبُ الْعَامَّۃَ بِعَمَلِ الْخَاصَّۃِ حَتّٰی یَرَوَ الْمُنْکَرَ بَیْنَ ظَھْرَا نِیْھِمْ وَھُمْ قَادِرُوْنَ عَلٰی اَنْ یُّنْکِرُوْہُ فَلاَ یُنْکِرُوْہُ فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَذَّبَ اللّٰہُ الْخَاصَّۃَ وَالْعَامَّۃَ۔
( تفہیم الاحادیث،سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ، ج ۶، ص۳۱۱بحوالہ مسند احمد ج۴ص311بحوالہ مسند احمد ج 4 ص 192)
اللہ خاص لوگوں کے عمل پر عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا، مگر جب وہ اپنے سامنے بدی کو دیکھیں اور اس کو روکنے پر قدرت رکھنے کے باوجود اس کو نہ روکیں تو اللہ خاص اور عام سب کو مبتلائے عذاب کر دیتا ہے۔
قوم کی اخلاقی اور دینی صحت کو برقرار رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ اس کے ہر فرد میں غیرت ایمانی اور حاسّہ اخلاقی موجود ہو جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جامع لفظ ’حیا‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ حیا دراصل ایمان کا ایک جز ہے، جیسا کہ حضورؐ نے فرمایا ہے: اَلْحَیَائُ مِنَ الْاِیْمَانِ (مشکوۃ، ۴۸۴۷) بلکہ ایک موقع پر جب حضورؐ سے عرض کیا گیا کہ حیا دین کا ایک جز ہے۔ تو آپ نے فرمایا: بَلْ ھُوَ الذِّیْنُ کُلَّہ‘ یعنی وہ پورا ایمان ہے۔
حیا سے مراد یہ ہے کہ بدی اور معصیت سے نفس میں طبیعی طور پر انقباض پیدا ہو، اور دل اس سے نفرت کرے۔ جس شخص میں یہ صفت موجود ہوگی وہ نہ صرف قبائح(۲) سے اجتناب کرے گا بلکہ دوسروں میں بھی اس کو برداشت نہ کرسکے گا۔ وہ برائیوں کو دیکھنے کا روادار نہ ہوگا۔ ظلم اور معصیت سے مصالحت کرنا اس کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ جب اس کے سامنے قبائح کا ارتکاب کیا جائے گا تو اس کی غیرتِ ایمانی جوش میں آجائے گی اور وہ اس کو ہاتھ سے یا زبان سے مٹانے کی کوشش کرے گا، یاکم از کم اس کا دل اس خواہش سے بے چین ہو جائے گا کہ اس برائی کو مٹا دے:
مَنْ رَاٰیٰ مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذَالِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ۔ (تفہیم الاحادیث، ج۶، ص ۴۰۸، بحوالہ مسلم کتاب البیان باب۲۰ترمذی، ابواب الفتن باب۱۲ ابودائود اور کتاب الملاحم باب ۱۷)
تم میں سے جو کوئی بدی کو دیکھے وہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دے اور اگر ایسا نہ کرسکتا ہو تو زبان سے اور اگر یہ بھی نہ کرسکتا ہو تو دل سے اور یہ ضعیف ترین ایمان ہے۔
جس قوم کے افراد میں عام طور پر یہ صفت موجود ہوگی اس کا دین محفوظ رہے گا اور اس کا اخلاقی معیار کبھی نہ گر سکے گا‘ کیونکہ اس کا ہر فرد دوسرے کے لیے محتسب اور نگراں ہوگا اور عقیدہ و عمل کے فساد کو اس میں داخل ہونے کے لیے کوئی راہ نہ مل سکے گی۔
قرآن مجید کا مقصد دراصل ایسی ہی ایک آئیڈیل سوسائٹی بنانا ہے جس کا ہر فرد اپنے قلبی رجحان اور اپنی فطری غیرت و حیا اور خالص اپنے ضمیر کی تحریک پر احتساب اور نگرانی کا فرض انجام دے اور کسی اجرت کے بغیر خدائی فوج دار بن کر رہے:
وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا البقرہ2:143
اور اسی طرح تو ہم نے تمھیں ایک ’امتِ وسط‘  بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو، اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔
اسی لیے بار بار مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ نیکی کا حکم دینا اور بدی سے روکنا تمھارا قومی خاصہ ہے جو ہر مومن مرد اور عورت میں متحقق ہونا چاہیے:
۱۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ آل عمران3:110
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم کرتے ہو، بدی سے روکتے ہو ،اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
۲۔ وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ التوبہ9:71
مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں۔ نیکی کا حکم کرتے اور بدی سے روکتے ہیں۔
۳۔ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ
التوبہ9: 112
وہ نیکی کا حکم کرنے والے اور بدی سے روکنے والے اور حدود الٰہی کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
۴۔ اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ الحج22:41
یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں حکومت بخشیں گے تو یہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم کریں گے اور بدی سے روکیں گے۔
اگر مسلمانوں کا یہ حال ہو تو ان کی مثال اس بستی کی سی ہوگی جس کے ہر باشندے میں صفائی اور حفظانِ صحت کا احساس ہو۔ وہ نہ صرف اپنے جسم اور اپنے گھر کو پاک صاف رکھے‘ بلکہ بستی میں جہاں کہیں غلاظت اور نجاست دیکھے اس کو دور کر دے‘ اور کسی جگہ گندگی و کثافت کے رہنے کا روادار نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسی بستی کی آب و ہوا پاک صاف رہے گی۔ اس میں امراض کے جراثیم پرورش نہ پا سکیں گے اور اگر شاذ و نادر کوئی شخص کمزور اور مریض الطبع ہوگا بھی تو اس کا بروقت علاج ہو جائے گا‘ یا کم از کم اس کی بیماری محض شخصی بیماری ہوگی‘ دوسروں تک متعدی ہو کر وبائے عام کی صورت نہ اختیار کرسکے گی،لیکن اگر مسلمانوں کی قوم اس بلند درجے پر نہ رہ سکے تو سوسائٹی کی دینی و اخلاقی صحت کوبرقرار رکھنے کے لیے، کم از کم ایک ایسا گروہ تو ان میں ضرور موجود رہنا چاہیے جو ہروقت اس خدمت پر مستعد رہے اور اعتقاد کی گندگیوں اور اخلاق و اعمال کی نجاستوں کو دور کرتا رہے۔
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ آل عمران3:104
تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلانے والی ہو‘ نیکی کا حکم دے اور بدی سے روکے۔
یہ جماعت علما اور اولوالامر کی جماعت ہے جس کا امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں منہمک رہنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا شہر کے محکمہ صفائی و حفظانِ صحت کا اپنے فرائض میں مستعد رہنا ضروری ہے۔ اگر یہ لوگ اپنے فرض سے غافل ہو جائیں اور قوم میں ایک جماعت بھی ایسی باقی نہ رہے جو خیر و صلاح کی طرف دعوت دینے والی اور منکرات سے روکنے والی ہو تو دین و اخلاق کے اعتبار سے قوم کی تباہی اسی طرح یقینی ہے جس طرح جسم و جان کے اعتبار سے اس بستی کی ہلاکت یقینی ہے جس میں صفائی و حفظانِ صحت کا کوئی انتظام نہ ہو۔ اگلی قوموں پر جو تباہیاں نازل ہوئی ہیں وہ اسی لیے ہوئی ہیں کہ ان میں کوئی گروہ بھی ایسا باقی نہ رہا تھا جو اُن کو برائیوں سے روکتا اور خیر و صلاح پر قائم رکھنے کی کوشش کرتا:
۱۔ فَلَوْ لَا کَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِکُمْ اُولُوْا بَقِیَّۃٍ یَّنْھَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّنْ اَنْجَیْنَا مِنْھُمْ ھود11:116
پھر کیوں نہ اُن قوموں میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں ایسے اہلِ خیر موجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم، جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچا لیا۔
۲۔ لَوْ لَا یَنْھٰھُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِھِمُ الْاِثْمَ وَ اَکْلِھِمُ السُّحْتَ
المائدہ5:63
کیوں نہ ان کے علما اور مشائخ نے ان کو بری باتیں کہنے اور حرام خوری کرنے سے باز رکھا؟
پس قوم کے علما و مشائخ اور اولوالامر کی ذمہ داری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ وہ صرف اپنے ہی اعمال کے جواب دہ نہیں بلکہ پوری قوم کے اعمال کی جواب دہی بھی ایک بڑی حد تک ان پر عائد ہوتی ہے۔ ظالم‘جفا کار اور عیش پسند امرا اور ایسے امرا کی خوشامدیں کرنے والے علما و مشائخ کا تو خیر کہنا ہی کیا ہے‘ ان کا جو کچھ حشر خدا کے ہاں ہوگا اس کے ذکر کی حاجت نہیں، لیکن جو امرا، اور علما و مشائخ اپنے محلوں اور اپنے گھروں اور اپنی خانقاہوں میں بیٹھے ہوئے زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت کی داد دے رہے ہیں وہ بھی خدا کے ہاں جواب دہی سے بچ نہیں سکتے کیونکہ جب ان کی قوم پر ہر طرف سے گمراہی اور بداخلاقی کے طوفان امڈے چلے آرہے ہوں تو ان کا کام یہ نہیں ہے کہ گوشوں میں سر جھکائے بیٹھے رہیں‘ بلکہ ان کاکام یہ ہے کہ مرد میدان بن کر نکلیں اور جو کچھ زور اور اثر اللہ نے ان کو عطا کیا ہے اس کو کام میں لا کر اس طوفان کا مقابلہ کریں۔ طوفان کو دور کرنے کی ذمہ داری بلاشبہ ان پر نہیں‘ مگر اس کے مقابلے میں اپنی پوری امکانی قوت صَرف کر دینے کی ذمہ داری تو یقیناً ان پرہے۔ اگر وہ اس میں دریغ کریں گے تو ان کی عبادت و ریاضت اور شخصی پرہیز گاری ان کو یوم الفصل کی جواب دہی سے بری نہ کر دے گی۔ آپ محکمہ صفائی کے اس افسر کو کبھی بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے جس کا حال یہ ہو کہ شہر میں وبا پھیل رہی ہو‘ اور ہزاروں آدمی ہلاک ہو رہے ہوں‘ مگر وہ اپنے گھر میں بیٹھا خود اپنی اور اپنے بال بچوں کی جان بچانے کی تدبیر کر رہا ہو۔ عام شہری اگر ایسا کریں تو چنداں قابلِ اعتراض نہیں لیکن محکمہ صفائی کا افسر ایسا کرے تو اس کے مجرم ہونے میں شک نہیں کیا جاسکتا۔

(ترجمان القرآن، ذی الحجہ ۱۳۵۳ھ۔ فروری ۱۹۳۵ء)